فہرست مضامین
پھول کھلنے دو
از قلم
واجدہ تبسم
جمع و ترتیب
اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
پھول کھلنے دو
واجدہ تبسم
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
رات کے اندھیرے میں دور ہی سے ایک بورڈ چمک چمک کر اپنی اہمیت کا اعلان کرتا نظر آتا تھا۔
’’شانتی ڈاملے میٹرنٹی ہوم۔‘‘
سیاہ، مہیب سناٹے کو چیرتی ہوئی ایک آواز دور سے اب قریب سنائی دینے لگی۔۔۔ یہ بیل گاڑی کی چرخ چوں چرخ چوں کی آواز تھی۔ شاید کوئی حاملہ اس میں تڑپ رہی تھی، کیونکہ گاڑی کی چرخ چوں سے ہٹ کر کبھی کبھی ایک تیز نسوانی چیخ بھی سناٹے میں گونج گونج اٹھتی تھی۔
گاڑی پھاٹک میں داخل ہوئی اور آواز سنتے ہی لیڈی ڈاکٹر شانتی ڈاملے برآمدے میں نکل آئی۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ آج نرس بھی چھٹی پر تھی اور دایا بھی۔ جو کچھ کرنا تھا ڈاکٹر ہی کو اکیلے کرنا تھا۔ ساتھ میں کوئی مرد نہیں تھا۔ حاملہ عورت کو سہارا دے کر ایک بوڑھی سی ملگجی عورت نے بمشکل اتارا۔ انسانی ہمدردی کے جذبے سے چور ڈاکٹر لپک کر سیڑھیاں اتری اور ایک طرف سے سہارا دے کر دونوں حاملہ کو لیبر روم تک لے آئیں۔
’’مائی تم باہر ہی بیٹھو۔ میں تمہاری بیٹی کو ابھی دیکھتی ہوں۔‘‘
’’میں اس کی پڑوسن ہوں۔‘‘ بڑھیا نے غیر ضروری سا جواب دیا۔
’’کوئی بات نہیں۔ تم باہر ہی بیٹھو۔‘‘
حاملہ کو ٹیبل پر لٹا کر لیڈی ڈاکٹر نے صابن سے ہاتھ دھوئے اور دستانے چڑھا رہی تھی کہ حاملہ نے عجیب لجاجت آمیز لہجے میں، اتنے درد اور کرب کی حالت میں بھی اسے مخاطب کیا، ’’میم صاحب۔ مجھے بیٹا چاہیے۔‘‘ ڈاکٹر پہلے تو متعجب ہوئی، پھر ذرا مسکرائی، ’’بائی۔۔۔ یہ تو بھگوان کے ہاتھ ہے۔ میں تو صرف تمہاری تکلیف ہی دور کر سکتی ہوں۔‘‘
حاملہ چیخ کر اٹھ بیٹھی، ’’نہیں۔۔۔ نہیں۔ مجھے بیٹا ہی دینا میم صاحب۔ آگے ہی میری دو دو بیٹیاں موجود ہیں اور ان کے باپ نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر اب کے بیٹی ہوئی تو وہ ہم سبھوں کو مار ڈالے گا۔۔۔ میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں میم صاحب۔۔۔ دیکھو نا، اسی لیے تو ساتھ میں آیا بھی نہیں۔۔۔‘‘
لیڈی ڈاکٹر نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے لٹا دیا۔ تیز درد کی ایک ا ور لہر نے حاملہ کو پھر سے بے حال کر دیا تھا لیکن وہ اس درد کو بھول کر کہے جا رہی تھی، ’’میم صاحب۔۔۔ اگر قسمت سے بیٹی ہی ہو جائے تو تم اسے مار ڈالنا مگر مجھے اب اور بیٹی کی ماں مت بنانا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر اس کی بک بک کو بھول کر اپنے پیشے کے روایتی انہماک میں جٹ گئی تھی۔
’’تم یہ کیوں سوچتی ہو کہ تمہیں بیٹی ہی ہو گی۔ بھگوان بیٹا بھی تو دے سکتا ہے۔‘‘ وہ اس کے پیٹ پر اسٹیتھسکوپ لگائے، کان کے قریب بچے کی دھڑکن بھی سنتی جا رہی تھی۔
’’بھگوان ہم غریبوں پر اتنی دیا کیوں کرنے لگا؟ بیٹے تو وہ بڑے لوگوں کو دیتا ہے۔ ہمیں تو غریبی بڑھانے کے لیے بیٹیاں ہی ملتیں۔۔۔‘‘ درد کی ایک تیز لہر نے پھر سے اس کی زبان روک دی۔
’’اچھا اب تم چپ چاپ پڑی رہو۔ زیادہ باتیں کرو گی تو زچگی میں مشکل ہو جائے گی۔ سانس روکو گی تو بچہ جلدی پیدا ہو گا۔۔۔‘‘
اس وقت تک درد کی لہر آ کر جا چکی تھی اور حاملہ پھر سے اپنی ضد پر مستعد تھی۔
’’میم صاحب اگر بیٹی ہو ہی گئی تو تم ہاسپٹل کے کسی بیٹے سے میری بیٹی بدل دینا۔ سارا کام تو تم کرتی ہو، کسی کو کیا پتہ چلے گا کہ کس کو بیٹا ہوا تھا اور کس کو بیٹی۔۔۔‘‘
ابھی ڈاکٹر نے اسے غصہ سے گھورا ہی تھا کہ باہر سے کار کے ہارن کی تیز آواز سنائی دی۔ شاید کسی بڑے آدمی کے گھر کا کیس آگیا تھا، کیونکہ اطراف و اکناف میں ساری غریب آبادی تھی۔ کسی کسی کے پاس ہی گاڑی تھی۔
’’یا مصیبت۔‘‘ ڈاکٹر نے دل ہی دل میں سوچا۔ آج اسٹاف چھٹی پر ہے اور دو دو کیس۔ خیر بھگوان مالک ہے۔‘‘
ڈاکٹر پہلے کیس کو چھوڑ کر دوسرے کیس کی طرف لپکی۔ بہو کو ساس لے کر آئی تھیں۔ کپڑوں اور زیوروں سے ہی اعلیٰ رکھ رکھاؤ کا پتہ چل رہا تھا۔ آتے ہی ساس نے سنا دیا یوں جیسے ڈاکٹر پر احسان کر رہی ہوں، ’’بہو کا کیس تو شہر کے ہاسپٹل میں تھا مگر رائے بہادر اتفاق سے کسی کام سے شہر گئے ہوئے ہیں، درد اٹھا تو بھاگم بھاگ ہم یہیں لے آئے۔‘‘
ڈاکٹر اس قسم کے نخروں کی عادی تھی۔ مسکرا کر بولی، ’’کوئی بات نہیں۔ میں ابھی انہیں بھی دیکھتی ہوں۔‘‘
ڈاکٹر نے باہر جھانکا کہ پہلی حاملہ کے ساتھ والی پڑوسن کو چائے کافی کے لیے کہے مگر وہ پڑوس کا حق نبھا کر واپس جا چکی تھی۔ باہر گاڑی میں ڈرائیور اور ایک دو نوکر بیٹھے بیڑی سگریٹ پی رہے تھے۔
’’کیا مصیبت ہے۔‘‘ اس نے ذرا جھلا کر سوچا، ’’اب کافی بھی مجھے ہی بنا کر دینی پڑے گی۔‘‘
وہ کافی کے لیے دودھ گرم کرنے مڑی ہی تھی کہ پہلی والی حاملہ کی تیز چیخوں کو سن کر تیزی سے دوڑی آئی۔ بچہ پیدا ہونے ہی کو تھا۔ سارا سامان تو تیار تھا ہی، کمرے میں دوسری طرف ایک اور ٹیبل تھا جس پر رائے صاحب کی بیوی لیٹی ہوئی تھی، بیچ میں پردہ پڑا ہوا تھا۔
دو حاملہ عورتیں ایک ہی کمرے میں ہوں، تو ڈاکٹری کے اصول سے بیچ میں پردہ تان دیا جاتا ہے کہ ایک دوسری کو دیکھ کر وحشت زدہ نہ ہوں۔
٭
بڑی مایوسی سے لیڈی ڈاکٹر نے دیکھا۔ پہلی حاملہ کو پھر سے لڑکی ہی پیدا ہوئی تھی!
’’لیکن مجھے ابھی سے اسے اطلاع نہیں دینی چاہیے۔ زچہ کے لیے غم کی یا خوشی کی غیر متوقع خبر کبھی کبھی جان لیوا بھی ثابت ہو جاتی ہے۔‘‘ وہ سَٹر پَٹر کرتی رہی، بیچ بیچ میں پہلی عورت کی آوازیں ابھرتی رہیں۔
’’میم صاحب مجھے کیا پیدا ہوا ہے؟‘‘
’’میم صاحب لڑکا ہی ہے نا؟‘‘
’’میم صاحب لڑکا۔۔۔‘‘
ڈاکٹر نے ذرا خوش دلی سے کہا، ’’اتاؤلی کیوں ہوئی جا رہی ہو۔ ابھی بتا دیں گے اور تم سے مٹھائی بھی کھائیں گے۔‘‘ وہ اداسی سے بولی، ’’مٹھائی ہم غریب کہاں سے کھلائیں گے میم صاحب۔ یہاں تو روٹی کے ہی لالے پڑے رہتے ہیں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ہنس کر بولی، ’’تو اچھا ہے ہم تمہیں کھلا دیں گے۔‘‘ بچی بچی چلا چلا کے روئے جا رہی تھی۔
’’تھینک گاڈ۔ چھوٹے بچے کی آواز سے پتہ نہیں چل سکتا کہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ ورنہ یہ عورت اپنا کیا حشر کر ڈالتی‘‘
اسی وقت دوسری حاملہ نے بے چینی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ ڈاکٹر تیزی سے اس کے قریب پہنچی۔ کبھی کبھی حاملہ کی تکلیف کم کرنے کے لیے اسے باتوں میں بہلانا بھی بہت سودمند ثابت ہوتا ہے۔
’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر مسکرا کر بولی۔
’’ریکھا۔‘‘ ریکھا اپنے آپ کو سنبھال کر بولی۔
پھر اس نے ذرا غور سے ڈاکٹر کو دیکھا اور اتنی تکلیف کے باوجود ذرا سا ہنس کر بولی، ’’آپ بڑی سندر ہیں ڈاکٹر۔‘‘
ڈاکٹر ذرا دکھ سے مسکرائی، ’’ہاں مگر اتنی بھی نہیں کہ کسی کی بھاگ کی ریکھا بن پاتی۔‘‘
’’آپ نے شادی نہیں کی ڈاکٹر۔۔۔‘‘ ریکھا نے اپنی بات کے جواب سے پہلے پیٹ پکڑ لیا، ’’مر گئی۔‘‘
ڈاکٹر ہنسی، ’’آپ کا پہلا بے بی تو نہیں ہے نا یہ۔ پھر ذرا دھیرج سے کام لیجیے نا؟‘‘
’’دوسرا ہے۔‘‘ ریکھا ہانپ کر بولی، ’’پہلا بیٹا ہے۔ اب مجھے تو بیٹی کی چاہت ہے مگر۔۔۔‘‘ اتنے درد کے باوجود بھی وہ ہنسی، ‘‘ ماں جی کو بیٹا ہی چاہیے۔ انہیں پوتوں کی فوج چاہیے۔۔۔‘‘
درد کی ایک اور لہر آ کر گزر گئی تھی، جو تڑپتی ہوئی عورت کو پھر واپس حواسوں میں لے آتی ہے۔
’’میم صاحب۔ مجھے میرے بیٹے کی صورت تو بتا دو۔‘‘ پہلی زچہ نے پھر پکارا۔
ڈاکٹر ہنس کر اس کے قریب آئی۔ اس کا گال تھپکایا۔
’’بیٹے کا نام کیا رکھو گی؟‘‘
’’بندو۔‘‘ عورت خوشی اور کچھ فخر سے بولی۔
ڈاکٹر نے سہم کر اسے دیکھا اور کچھ رک رک کر پوچھا، ’’ہریجن ہو؟‘‘
عورت نے اداسی سے سر ہلا دیا۔ نہ بھی ہلاتی تو ڈاکٹر نام سے ہی سمجھ گئی تھی۔ بڑے لوگ ایسے چیپ نام نہیں رکھتے۔ بندو۔ کلو۔ ڈھیپو۔ یہ اور ایسے سارے نام اس کی اپنی زندگی کی ساری داستان اسے یاد دلاتے تھے۔ وہ خود بھی تو ایک نیچ ذات سے تھی!
اچانک اس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ اگر اس عورت کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے پھر سے ایک لڑکی کو جنم دیا ہے تو شاید۔۔۔ شاید وہ خود اپنی اور اس بچی کا خاتمہ کر ڈالے۔ یا شاید اس کا شوہر سبھوں کو ختم کر دے یا گھر سے نکال دے۔ یا گھر چھوڑ کر خود کہیں چلا جائے۔ غریبی میں لڑکیاں ہی لڑکیاں ہونا کتنے دکھ کی بات ہے۔ انہیں عذابوں سے پالنا، بھوکی نگاہوں سے جوانی میں بچانا۔۔۔ پھر شادی! جو سراسر تھیلی بھر روپوں کا سوال تھی۔
’’کیا میں یہ گناہ مول لے لوں؟ بچے بدل دوں؟ لیکن یہ کیا ضرور ہے کہ رائے صاحب کی بیوی کو بیٹا ہی ہو۔‘‘
وہ تیزی سے اٹھی۔ مذہب، ذات پات، بھگوان خدا، اس کے لیے سب چیزیں بے معنی تھیں۔ زندگی نے اس کے ساتھ جو بھیانک سلوک کیا تھا تو وہ ہر چیز سے دستبردار ہو گئی تھی۔ اسی لیے نہ اس کے گھر میں مندر کا استھان تھا نہ کہیں بھگوان کی مورتی۔ ہاسپٹل میں بھی وہ یوں رہتی کہ کسی کو اس کے مذہب اور ذات پات کا اندازہ نہ ہوتا۔ لیکن اچانک ان دیکھی قوت کے آگے، اس کا سر جھکا دینے کو جی چاہا۔
وہ اپنے کمرے میں گئی۔ کلینڈر پر کسی دیوتا کی فوٹو تھی۔ پتہ نہیں وشنو بھگوان تھے یا کرشن یا ہنومان جی۔ اس نے برسوں بعد پرارتھنا کے انداز میں ہاتھ جوڑ کر آنکھیں بند کیں اور سر جھکا کر دل ہی دل میں بولی، ’’اگر تو دلوں کی تڑپتی دعا واقعی سنتا ہے تو آج میں اپنے لیے نہیں، کسی اور کے لیے ایک دعا مانگتی ہوں۔ بھگوان ریکھا کو بیٹا دے دے۔‘‘
’’ڈاکٹر!‘‘ باہر سے بوڑھی ساس کی تیز آواز سنائی دی اور وہ لپک کر لیبر روم میں پہنچی۔ ایک اور ہستی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے، اپنی قسمت میں لکھی تمام تر برائیوں اور اچھائیوں، تمام تر سکھ اور دکھ جھیلنے کے لیے کمربستہ ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر تیزی سے واش بیسن کی طرف بڑھ گئی۔
چند منٹوں کی جدوجہد نے ایک عورت کو پرسکون کر دیا اور دوسری عورت، جو لیڈی ڈاکٹر تھی، کا سکون لوٹ لیا۔ ریکھا کو بیٹا پیدا ہو گیا تھا۔ چند لمحے پیشتر ڈاکٹر جس مستعدی سے کام کر رہی تھی، وہ مفقود ہو چکی تھی۔ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں ہزاروں خیالات اس کے ذہن سے آ آ کر نکل جاتے تھے۔
’’نہیں نہیں، میں یہ گناہ مول نہیں لوں گی۔ مجھے کیا، جس کے نصیب میں جو لکھا ہے وہ بھگتے گا۔‘‘ پھر دل اسے کچوکتا، ’’شانتی ڈاملے! ذرا سوچو کس لجاجت سے وہ ہریجن عورت تم سے بیٹے کی بھیک مانگ رہی تھی۔ اگر اس کے شوہر نے ایک ساتھ سبھوں کو مار ڈالا تو چار جانوں کا خون تمہاری گردن پر ہو گا۔‘‘
’’مگر یہ ظلم کیسے کروں۔ بچے کیسے بدل دوں۔ ممکن ہے بھگوان نے ان لوگوں کی زندگی ہی اتنی لکھی ہو!‘‘
’’ارے ذرا سوچو امیر گھر میں لڑکا کیا۔۔۔ لڑکی کیا۔ ٹھاٹ سے ہی رہیں گے۔ ویسے ریکھا خود لڑکی چاہ رہی تھی۔ اور۔۔۔‘‘ اس نے گھبرا کر اپنے آپ کو دیکھا۔ پسینہ نہ صرف قطرہ قطرہ، بلکہ موجیں بن کر اس کے وجود کو ڈبوئے دینے پر تلا ہوا تھا۔ اس نے ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے کی خاطر کھڑکی کا پردہ ہٹا دیا۔ اور باہر کا منظر دیکھتے ہی اس کا خون اس کی رگوں میں منجمد ہو کر رہ گیا۔
باہر رائے صاحب کھڑے تھے۔
رائے صاحب اشوک چکرورتی!
اس کا اپنا اشوک! جو اسے وقت کی بے رحم موجوں کے حوالے کر گیا تھا اور پھر کبھی پلٹ کر خبر نہ لی تھی۔ جس کے ہاتھوں اس نے اپنی زندگی، خوبصورتی اور جوانی کا ہر ہر لمحہ سونپ دیا تھا اور جب اس کے پیٹ میں ننھی سی جان کلبلانے لگی تھی اور اس نے شادی کے لیے کہا تھا تو اس نے وہی امیروں کی روایتی بے رحمی کے ساتھ کہا تھا، ’’ہم سے ہنسی دل لگی میں ایک بے وقوفی ہو گئی تھی۔ کیا تم ابارشن نہیں کروا سکتیں؟‘‘
’’ابارشن؟‘‘ اس نے گھبرا کر پوچھا تھا۔
’’ہاں ہاں ابارشن۔ آخر کالج میں پڑھنے والی ایک لڑکی اس لفظ کے معنی تو جانتی ہی ہو گی۔۔۔ یا پھر ڈکشنری میں دیکھ لو!‘‘
’’اشوک۔‘‘ وہ جیسے ڈوبتے ڈوبتے بولی۔
’’لیکن اگر ہم شادی کر لیں تو اپنا بچہ محفوظ بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
’’شادی۔۔۔؟‘‘ وہ بے حد اجنبی بن کر بولا۔
’’شادی کیسے ممکن ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے تم ہریجن لڑکی ہو۔۔۔ اور ڈیڈی؟ کیا تم سمجھتی ہو ڈیڈی مجھے اس کی اجازت دے دیں گے؟‘‘
اور پھر وہ اس کی مرضی کے بغیر اپنے ایک ڈاکٹر دوست کے یہاں لے گیا اور زبردستی الٹی سیدھی دوائیں پلا کر اسے اس جنت سے محروم کر دیا جو ماں بننے پر ہی قدرت کسی بھی عورت کے قدموں تلے تعمیر کرتی ہے۔
اس نے تیزی سے پردہ کھینچ دیا۔ وہ ایسے زاویے سے رائے صاحب کو دیکھ رہی تھی کہ وہ اسے دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس نے بمشکل خود کو کرسی پر گرا دیا۔
’’رائے صاحب۔ زندگی بھر کبھی بھگوان کو نہیں مانا۔ آج مان گئی، کیونکہ بھگوان نہ ہوتا تو کون سی طاقت تھی جو مجھے تم جیسے نیچ سے بدلہ لینے کا موقع عطا کرتی؟ اب تمہارا بچہ۔ تمہارے جگر کا ٹکڑا ہریجن بستی میں پلے گا۔ بیگار میں گھسیٹا جائے گا۔ زمینداروں کے جوتے کھائے گا۔ امیروں کی گالیاں سمیٹے گا اور میں قہقہے لگاؤں گی!‘‘
’’ڈاکٹر!‘‘ ریکھا کی کانپتی آواز آئی۔
’’بیٹا یا بیٹی؟‘‘
ڈاکٹر اٹھ کر اس کے قریب گئی۔ ایک بار پھر اس کا دل ڈگمگا گیا۔ اب بھی وقت ہے۔ اب بھی وقت ہے۔ گناہوں سے بچنے کا۔ نیکیاں سمیٹنے کا۔ پھر اچانک اسے اپنی زندگی بھر کی محرومیاں اور دکھ یاد آئے۔ عجیب مخمصے میں جان تھی۔
’’اتنی جلدی کیا ہے۔ ابھی دیکھ ہی لینا نا۔‘‘ وہ بظاہر مسکرائی مگر دل میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔
اچانک دروازہ کھلا اور نرس داخل ہوئی۔
’’ارے سسٹر۔۔۔ تم۔۔۔‘‘ ڈاکٹر بے حد حیرت زدہ ہو کر بولی، ’’تم تو دو دن کی چھٹی لے کر گئی تھیں نا؟‘‘
’’جی ہاں۔ لیکن شہر جانے والی آخری بس بھی نکل گئی تھی، جب میں اسٹاپ پر پہنچی تو میں نے سوچا کہ چل کر آپ کو ہیلپ ہی کر دوں۔ اگلے ہفتہ چلی جاؤں گی۔‘‘ پھر وہ مسکرا کر ادھر ادھر دیکھتی ہوئی بولی، ’’ارے میرے جاتے ہی آپ کو دو دو کیس نپٹانے پڑے! پھر وہ ہنس کر آگے بڑھی۔ سامنے ہی ٹیبل پر دو ننھی منی جانیں اپنے حال اور مستقبل سے بے خبر ٹھٹھرتی پڑی تھیں۔ نرس نے کپڑے اٹھا کر دیکھا اور ہنسی، ’’ایک لڑکا۔ ایک لڑکی۔‘‘ پھر مڑ کر ڈاکٹر سے بولی، ’’بیٹا کس کا ہے اور بیٹی کس کی ہے؟‘‘
لیڈی ڈاکٹر شانتی ڈاملے نے اپنے دھڑ دھڑ دھڑکتے دل کو قابو میں کیا اور بمشکل بولی، ’’بیٹا اس ہریجن عورت کا ہے اور بیٹی رائے بہادر اشوک چکرورتی کی۔‘‘
ریکھا کی آنکھ لگ چکی تھی، ورنہ وہ پوچھتی ضرور کہ میرے شوہر کا نام تمہیں کیسے معلوم ہوا، جب کہ ابھی میں نے بتایا تک نہیں!
٭٭
دوسرے دن اس شدید خلفشار سے بچنے کی خاطر لیڈی ڈاکٹر ایک ہفتہ کے آرام کے لیے شہر چلی گئی۔ وہ اشوک کا کسی حال سامنا کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ ویسے بھی نرس اس کی غیر موجودگی میں ہر کیس اچھی طرح سنبھال لیتی تھی۔
جب وہ ہاسپٹل سے گھر جا رہی تھی تو نرس دونوں بچوں کو تب تک نہلا چکی تھی۔ بیٹی کو اس کی ماں کے پاس سلا کر اب وہ لڑکے کو گود میں اٹھائے ہوئے تھی۔
’’ڈاکٹر دیکھیے کتنا پیارا گل گوتھنا سا بچہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر سن رہ گئی مگر نرس سنائے گئی، ’’ہمارے یہاں ایسے تو کتنے بچے پیدا ہوتے ہیں مگر پتہ نہیں کیا بات ہے، مجھے اتنا سویٹ کبھی کوئی بچہ نہ لگا۔ اور ڈاکٹر ایک چیز نوٹ کی آپ نے۔ اس کے سیدھے بازو پر ایک چاند کی طرح کا پیدائشی نشان ہے۔ میری ماں کہتی ہیں کہ ایسے نشان کو پدم کہتے ہیں جو بہت ہی دھن وان اور بڑے آدمی ہونے کی نشانی ہوتا ہے۔‘‘ اور اس نے اس کا چھوٹا سا ننھا منا بازو کھول کر بتایا جہاں پر ایک چاند اس کے نصیبوں کی سیاہی پر مسکرا رہا تھا۔
لیڈی ڈاکٹر اپنے جذبات چھپاتے ہوئے لاپروائی سے کہا، ’’اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ ہریجن کے ہاں جنم تو لیا ہے پر کیا پتہ بھگوان واقعی اسے بڑا آدمی بنا دے۔‘‘ ویسے یہ بات کہتے کہتے خود اسے بھی بچے کے نصیب پر بے حد ترس آیا اور اس نے اپنے آپ میں سوچا کہ زندگی کے گھور اندھیروں میں اب تو تمہارے لیے روشنی کی ایک ہلکی سی رمق تک نہیں، سوائے اس نام نہاد چاند کے جو قدرت نے تمہارے بازو پر طلوع کر دیا ہے۔
٭٭
وقت کے نقارے پر ایک ایک کر کے بارہ چوٹیں اور پڑیں۔ قدرت کے مہربان اور نامہربان ہاتھوں نے جو اولاد بدلی کر دی تھی، اس کے صلے میں سلیکھا خوشیوں اور عیش کے جھولوں میں جھول رہی تھی اور بندو جوانی سے پہلے ہی بڑھاپے کی منزلیں طے کر رہا تھا۔
’’جا۔ باپ کو یہ کھانا دے آ۔‘‘ ماں نے اسے آواز دی جو گلی کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیل رہا تھا۔
’’اور سن۔‘‘ ماں نے جاتے جاتے اسے چیتاؤنی دی، ’’زمیندار کی حویلی میں زیادہ دیر مت ٹھہرنا۔ کوئی بھی ایسی ویسی شرارت کر دی تو پٹائی ہو گی۔‘‘
آج اس کی بارہ سالہ زندگی کا پہلا واقعہ تھا کہ زمیندار کی حویلی کے درشن کرنے جا رہا تھا۔ ماں اس لیے بھی اسے بچا بچا کر رکھتی تھی کہ کسی کی نظر نہ پڑ جائے اور اوپر کے کام کے بہانے ابھی سے اسے چھین لیا جائے۔ بندو اس کی جان تھا۔ ایمان تھا۔۔۔ اور بندو بھی ماں کا دیوانہ۔
باپ کا کھانا لے کر جب وہ حویلی میں پہنچا تو اس نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ حویلی کے ساتھ ملے ہوئے میدان میں باپ جھاڑو دے رہا تھا لیکن عجیب و غریب بات یہ نہیں تھی کہ باپ جھاڑو دے رہا تھا، عجیب و غریب بات یہ تھی کہ باپ کی پیٹھ کے پیچھے سے ہو کر ایک جھاڑو بندھی ہوئی تھی۔ وہ جہاں بھی قدم رکھتا وہ جھاڑو اس کے پیچھے پیچھے جاتی۔ جب جھاڑو دے چکا اور کیاریوں کی صفائی کرنے لگا، تب بھی وہ جھاڑو یونہی بندھی لٹکی تھی۔
’’باپو۔۔۔‘‘ وہ کھانے کی پوٹلی رکھ کر حیرت سے بولا، ’’یہ تمہارے پیچھے جھاڑو کیوں لٹک رہی ہے؟‘‘ باپ نے بے حد لاپروائی سے جواب دیا، ’’جہاں جہاں بھی میرے پاؤں، اس پوتر دھرتی پر پڑتے ہیں، پیروں کا نقش چھوڑ جاتے ہیں، انہیں ناپاک نشانوں کو مٹانے کے لیے مجھے یہ جھاڑو ہمیشہ باندھے رکھنی پڑتی ہے۔‘‘ پھر وہ جھلا کر بولا، ’’مگر تجھے ان تمام باتوں سے کیا غرض۔۔۔؟ پاٹھ شالا گیا تھا یا نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ بندو جھلا کر بولا، ’’پنسل ختم ہو گئی تھی، گرو جی نے اسکول سے باہر بھگا دیا۔‘‘
باپ جل کر بولا، ’’تو گھر جا کر مر۔ یہاں کیوں آیا مجھ سے سوال جواب کرنے!‘‘ بندو نے دوسری ہی بات کی، ’’باپو جو حویلی والوں کے پاؤں کے نشان پڑتے ہیں تو وہ سب بھی جھاڑو باندھ کر گھومتے ہیں کیا؟‘‘ باپ نے گھبرا کر ادھر ادھر نظر ڈالی اور پھر اس خطرناک چھوکرے کی طرف گھور کر بولا، ’’حرام زادے الٹا لٹکوائے گا کیا۔ نکل یہاں سے۔‘‘
بندو ذرا ڈر کر تھوڑی دور گیا، پھر کھڑا ہو گیا۔ وہیں سے بولا، ’’باپو۔ میں بڑا ہو جاؤں گا تو زمیندار کی کمر سے جھاڑو بندھوا دوں گا۔‘‘
’’باپ رے۔۔۔ حرام زادے۔ ٹھہر تو سہی۔‘‘ باپ نے ایک پتھر اٹھا کر زور سے بیٹے کی طرف اچھالا۔ بندو تو ہٹ گیا، قسمت سے اسی وقت زمیندار کا بڑا بیٹا وہاں آ نکلا اور پتھر سیدھا اس کے ماتھے سے جا لگا۔
’’مر گیا۔‘‘ کہتے ہی وہ دوہرا ہو گیا۔ پورے باڑے میں ہلڑ مچ گئی۔ مرد عورتیں، مالک، نوکر سبھی نکل آئے۔ ایک جھاڑ کے پیچھے بندو کھڑا سارا تماشا دیکھتا رہا۔
’’کیوں بے کلو۔۔۔‘‘ ایک با رعب آدمی نے بندو کے باپ کو مخاطب کیا۔
’’یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ اور ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی زور سے اس کے ماری۔
کلو تڑپ کر بولا، ’’سرکار مائی باپ۔ غلطی ہو گئی۔ میں اصل میں اپنے چھوکرے کو مار رہا تھا کہ۔۔۔‘‘
’’تیرا چھوکرا مر بھی جائے تو ہمارا کیا بگڑ جائے گا۔ سوال تو ہمارے بیٹے کا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے گردن گھما کر آواز دی، ’’اس کو اپنے بیٹے اور ہمارے بیٹے میں فرق نہیں دکھتا۔ ذرا اس کی آنکھوں میں لال سرمہ تو لگاؤ تاکہ آنکھیں روشن ہو جائیں۔‘‘
ایک نوکر جھٹ پٹ دوڑ کر پڑیا میں کچھ لے آیا۔ دو نوکروں نے پکڑ کر کلو کو لٹایا اور اس کی آنکھوں میں چٹکی چٹکی بھر پسی ہوئی لال مرچ جھونک دی۔ کلو ہائے ہائے کر کے کٹے ہوئے مرغ کی طرح اچھلنے لگا اور سب تماشہ دیکھ دیکھ کر ہنسنے لگے۔ بندو تڑپ کر سامنے نکلا اور سیدھا زمیندار کے سامنے آ کر بے باکی سے بولا، ’’چھوٹے سرکار کو پتھر لگا ضرور تھا مگر خون تھوڑی نکلا۔‘‘
’’اچھا۔۔۔‘‘ زمیندار نے اسے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھتے ہوئے کہا، ’’تو آپ عدالت لگانے آئے ہیں۔۔۔؟‘‘
ابھی وہ کچھ حکم دینے ہی والے تھے کہ کلو اپنی آنسو برساتی آنکھیں، آدھی کھلی، آدھی بند، بے حد زور سے چیختا گالیاں بکتا اٹھا اور گالیوں کے ساتھ ساتھ لاتوں اور گھونسوں سے بندو کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔
’’حرام زادے۔ سور کے جنے۔ قصور تو قصور۔۔۔ اوپر سے زبان کھولتا ہے۔ آج تیری ہڈیوں کو چورا نہ کر دوں تو کلو نام نہیں۔‘‘
زمیندار بیٹے کا ہاتھ تھام کر حویلی میں چلے گئے۔ دوسرے لوگوں نے کلو کو روکا، ’’ارے ناحق مر جائے گا۔ بس کر دے بچہ ہی تو ہے۔‘‘
رات کو نمک ملے گرم پانی سے، شوہر کی آنکھوں پر ٹکور کرتے کرتے بندو کی ماں بولی، ’’ایسے زمیندار کی نوکری ہی کیوں کرتے ہو جی، جو راکشس ہے۔ بھلا یوں آنکھوں میں کوئی مرچی بھرواتا ہے۔‘‘ کلو پھر بندو پر لپکا، ’’یہ اس حرام زادے نے تجھ سے سب کہا ہو گا نا؟ اس سے آگے ہزار بار میں نے جوتے کھائے۔ گالیاں کھائیں، الٹا لٹکوایا گیا۔ آنکھوں میں مرچیں پہنیں۔ کبھی تجھ سے کچھ کہا۔ یہ آج اس حرام زادے نے پہلی بار آتے ہی اتنا ہنگامہ کیا۔ اس کو سالے کو نہ زندہ چھوڑوں گا۔‘‘
دونوں لڑکیاں دبک کر کونوں میں ہو گئیں۔ ماں ہاں ہاں کرتی رہی مگر کلو پھر بندو پر جٹ گیا۔ بندو مار کھاتا رہا۔ جب باپ خود ہی تھک گیا تو بندو بدتمیزی سے بولا، ’’بڑے بہادر بنتے ہو تو ایک آدھ بار ایسی ٹھکائی زمیندار کی بھی کرو نا۔‘‘
رائے زادہ اشوک چکرورتی، شہر کے پلے بڑھے، کالج کے پڑھے لکھے، جوانی پوری شہر میں گزری لیکن باپ نے جب زمینداری سنبھالنے کو کہا تو انہیں بھی ایسی کوئی بری بات نہ لگی۔ اچھی خاصی ترقی یافتہ زمینداری تھی۔ جدید سامان سے آراستہ۔ کھیتی باڑی کا کام ہل بیل سے بھی چلتا اور اب نیا نیا ٹریکٹر بھی آیا ہوا تھا۔ گھر کی کار تھی، گھوڑے تھے، بڑی سی حویلی تھی۔ شہر کی پڑھی لکھی برابری کی حیثیت والی لڑکی سے باپ نے شادی بھی کرا دی تھی۔ سبھی کچھ میسر تھا۔ گاؤں میں رہے تو کیا۔ پھر فاصلہ بھی کون بڑا تھا۔ اور گھر کی کار میسر تھی تو جب جی چاہے آ جا سکتے تھے۔ سو باپ کی کہے کو پورا کیا اور پوری زمین داری باپ کے جیتے جی ہی سنبھال لی۔
اونچی حیثیت کے اور بھی کئی گھرانے گاؤں میں تھے مگر ان کی حیثیت مانی ہوئی تھی۔ اسی طرح گاؤں غریبوں اور خاص طور سے ہریجنوں سے بھی بھرا پڑا تھا مگر آزادی مل جانے کے باوجود بھی ان کا حال وہی پہلے جیسا تھا بلکہ پہلے سے بھی بدتر۔ کیونکہ پہلے تو یہ بات تھی کہ انگریز سبھی کو ایک لاٹھی سے ہانکتا تھا، اس کے لیے سبھی ہریجن تھے اور وہ سب کا آقا۔ لیکن آزادی کے بعد اپنے ہی لوگ حاکم بن بیٹھے اور بات بن بات آنکھیں نکالنے لگے۔
ایسے ہی سیکڑوں گھرانوں میں سے ایک کلو کا بھی تھا۔ کئی ہریجن دوسرے اونچی ذات والوں کے گھروں اور کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ کلو خوش نصیبی یا بدنصیبی سے اشوک رائے زادہ کی جاگیر تھا۔ وہ ان کے گھر بار، بڑی سی حویلی کے بھی متعدد کام کرتا اور کھیتوں پر بھی جاتا۔ قاعدے کے مطابق اس کی اولاد کو بھی اسی جگہ بعد میں کام ملنا چاہیے تھا جہاں وہ کرتا رہا تھا، اور اس نے اپنے طور پر سوچ رکھا تھا کہ بندو کو دھیرے دھیرے سارے کاموں سے واقف کرواتا جائے گا لیکن پہلے ہی دن ا کر اس نے جس ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا تھا، اس نے اندر ہی اندر اسے سہما دیا تھا۔
اس دن کام پر جاتے ہوئے اس نے اپنی بیوی کو جتا دیا، ’’دیکھ آگے سے اب اس حرام زادے کو میرے پاس نہ حویلی پر بھجوانا، نہ کھیت پر۔ بن ناحق کو مصیبت!‘‘
’’پاٹھ شالا سے ا کر کوئی کام بھی تو نہیں رہتا اسے۔ کسی چھوٹے موٹے دھندے سے کیوں نہیں لگا دیتے۔ چار پیسے آئیں گے تو کچھ ہاتھ بھی کھلے گا۔ یہاں تو وہی، کسی دن بھر پیٹ، کسی دن آدھا پیٹ اور کسی دن فاقہ!‘‘
کلو جھلا کر بولا، ’’آج ہی سارے جھگڑے نمٹانے ہیں کیا۔ بعد میں سوچیں گے۔‘‘
لیکن رکمنی نے اسی وقت ایک چھوٹا موٹا دھندہ سوچ لیا تھا۔ اس نے مارے شوق کے یونہی اپنے جھونپڑے کے پچھواڑے پھولوں کے پودے لگا رکھے تھے۔ کوئی کوئی عورت بڑی بھاگ بھری ہوتی ہے کہ اس کے ہاتھ کے لگائے پھل پھول خوب پھلتے ہیں۔ تھوڑے ہی ہفتوں میں پچھواڑا مہکنے لگا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ پھولوں کے گجرے بنا کر بندو کے ہاتھ بکوا دیا کرے گی۔ مندر پر پھول چڑھانے والوں کی بہتات ہوتی ہے، سنیچر اور منگل کو تو خوب ہی پھول بکیں گے۔
٭
پہلے ہی دن ایک ہنگامہ ہو گیا۔ ایک پنڈت جی نے بندو سے ایک گجرا خرید کر بھگوان کے چرنوں میں ارپت کر دیا۔ ایک پنڈت نے ایک مالا بھگوان کے گلے میں ڈال دی۔ باقی ہار پھول بھی جلد ہی بک گئے۔ جب جلدی جلدی پیسے سمیٹ کر خوشی سے باولا اتاولا بندو چلنے ہی کو تھا کہ ایک کرخت صورت والے آدمی نے اسے گردن سے پکڑ لیا۔
’’کیوں بے۔ ہمارا دھرم بھرشٹ کرے گا۔‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ٹھٹ لگ گیا۔ جس آدمی نے اسے گلے سے پکڑا تھا، وہ حویلی میں زمیندار کا گرگا تھا اور جس دن پتھر والی واردات ہوئی تھی، وہ بندو کو اکڑ کر بات کرتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔
’’یہ لونڈا آگے چل کر بہت حرام زادہ ثابت ہو گا، کیوں نہ اسے ابھی سے کچل دیا جائے؟‘‘
’’اوں ہوں۔‘‘ ایک نے بیچ میں دخل دیا، ’’جس کا بیج ہے، اس سے نمٹا جائے اس کا کیا ہے۔‘‘ تیسرا بولا، ’’سالا ہریجن نیچ ذات کا ہو کر پھول بیچتا ہے۔ بھگوان کی مورتی ناپاک نہ ہو گئی ہو گی۔ اس کی بلی ہی کیوں نہ دے دی جائے کہ بھگوان خوش ہو جائیں۔‘‘ ذرا پڑھے لکھے ایک صاحب بولے، ’’مگر اس کو پھول بیچنے کا آئیڈیا آیا کیسے؟‘‘
’’کیوں بے۔ تجھے پھول بیچنے کا کون بولا؟‘‘
ایک نے بندو کی گردن دبائی جو آگے ہی چوہا بنا کھڑا ہر ایک کی رنگ رنگ کی بولی سن رہا تھا۔ وہ کچھ نہ بولا تو ایک نے پیچھے سے دھموکا جڑا، ’’ابے بول۔‘‘
اس نے اپنے خالی پیٹ کو تھپتھپایا۔
’’سالا ہیرو بنتا ہے۔‘‘ کوئی بولا، ’’پیٹ بجا کر بتا رہا ہے۔ منھ سے نہیں بول سکتا۔‘‘
٭
مقدمہ زمیندار کی عدالت میں پیش ہوا۔ بڑا نرم فیصلہ سنایا گیا، ’’جب تک باپ کا دباؤ اولاد پر نہ پڑے، اولاد نہیں سدھر سکتی۔ اس لیے باپ کی ہی تنبیہ ہونی چاہیے۔ پہلوان۔۔۔‘‘ زمیندار نے اپنے ایک مسٹنڈے کی طرف اشارہ کیا، ’’کلو کو اپنی چار پائی کے نیچے ایک گھنٹے کے لیے سلا دو۔‘‘
’’بہتر ہے سرکار۔‘‘ پہلوان سعادت مندی سے بولا۔ پھر سب کے سامنے ایک مضبوط پایوں والی چارپائی لائی گئی۔ کلو کو زمین پر چت لٹا کر دو پائے ہتھیلیوں پر اور دو پاؤں پر رکھے گئے اور دھم سے پہلوان چار پائی پر جا کودا۔
’’ارے مر گیا۔ ارے مر گیا۔‘‘ چاروں پائے پہلوان کے وزن سے، اس کی ہتھیلیوں اور پاؤں کو پیسنے لگے اور کلو دہائیاں دینے لگا۔ بندو نے اپنا غصہ اور ابال روکنے کو اتنی زور سے اپنی مٹھیاں بھینچیں کہ اس کے ناخن ہتھیلیوں سے گڑ گئے اور باپ بیٹے دونوں کی ہتھیلیاں مہندی سے رنگ گئیں۔
کئی دنوں تک دونوں کے ہاتھوں کے زخم ہرے رہے۔ کلو پھر بھی کام پر جاتا رہا۔ بندو کا دل رفتہ رفتہ زندگی اور اس ماحول سے اچاٹ ہوتا جا رہا تھا۔ ماں سے وہ عجیب عجیب انہونی باتیں کرتا۔ ایسی باتیں جنہیں سن کر ماں اس کا منھ اپنے ہاتھوں بند کر دیتی۔ پاٹھ شالہ سے آ کر وہ یونہی ادھر ادھر بھٹکتا رہتا۔ ایک دن وہ تالاب کے پاس والے رامو چاچا کے ہاں جا نکلا۔ وہ بھی ہریجن ہی تھے۔ بڑی محبت والے۔ یا کم سے کم بندو یہی سمجھتا تھا۔ وہ گیا تو دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ چاچی تو کسی کام سے باہر گئی ہوئی تھیں اور رامو کاکا اپنی چھوٹی بیٹی کو گود میں لیے اس کے پاؤں ٹیڑھے کرتا بیٹھا تھا اور بچی تھی کہ چیخ چیخ کر روئے جاتی تھی۔
’’کاکا۔ یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ بندو کچھ سہم کر بولا۔
’’کچھ نہیں بیٹا۔ ذرا بس اس کے پاؤں ہی تو ٹیڑھے کر رہا ہوں۔‘‘ وہ مزید پٹیاں کستے ہوئے بولا، ’’دیکھ اتنے دن کی کوشش اب ذرا کچھ کامیاب ہو رہی ہے۔‘‘
’’مگر کیوں کاکا؟‘‘ اب کے ذرا غصے سے بولا۔
’’ارے بیٹا۔ بڑی ہوک ر بھی کیا کرے گی۔ پہلے تو بیگار پھرے گی۔ تیرے میرے گھر کام کرے گی۔‘‘ پھر اس سے بے خبر کہ سننے والا بارہ تیرہ برس کا چھوکرا ہے، کہے گیا، ’’پھر اس کے بستر سے اس کے بستر میں۔ اور آخر میں وہی کیڑے مکوڑوں کی زندگی۔ تو بیٹا اس سے اچھا ہے کہ معذور کر کے ڈال دو کہ کوئی بھی ترس کھا کر ایک دو سکے پھینک دے۔‘‘ بندو رامو کاکا کے چہرے کو دیکھے گیا۔ دیکھے گیا۔ پھر دھیرے دھیرے بولا، ’’یہ دنیا میں امیر لوگ کہاں سے پیدا ہو گئے۔۔۔‘‘
وہ ہنسا، ’’ارے بیٹا جتنے امیر لوگ ہیں نا۔ یہ سب غریبوں کا پیسہ چھین چھین کر امیر ہو گئے ہیں۔‘‘
’’مگر کاکا اپن لوگوں کے پاس تو پیسہ تھا ہی نہیں۔ پھر چھیننے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ ہو نہ ہو یہ خرابی بھگوان کی ہے۔‘‘
لڑکی بری طرح روئے جا رہی تھی۔ کا کا زور سے آخری پٹی لپیٹتے ہوئے بولا، ’’بھگوان کی ہو یا انسان کی۔ بیٹا اصل میں یہ سوال ایسا ٹیڑھا ہے کہ بھگوان خود بھی حل نہیں کر سکتا۔‘‘
بندو کا دل جیسے ننھی بچی کی پٹیوں میں خود بھی جکڑ کر رہ گیا۔
اس دن تالاب کے پاس والے میدان میں چند لڑکے مل کر گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے کہ بندو بھی جا نکلا۔ سب اونچی ذات والوں کے لڑکے تھے۔ زمیندار کا بیٹا بھی ان میں موجود تھا۔ سب کو پتہ تھا کہ بندو گلی اڑانے میں طاق ہے۔ اسے دیکھ کر ذرا سمٹ سے گئے۔
’’اے بندو۔ داؤ دے گا؟‘‘ ایک لڑکا خوش دلی سے پکار کر بولا۔
’’مگر بے ایمانی نہیں کرنا۔ ہاں۔‘‘ بندو بولا۔
زمیندار کا بیٹا اسے غصہ سے دیکھ کر بولا، ’’تم لوگ اس کے ساتھ کھیلو گے؟ ڈیڈی منع کرتے ہیں۔ یہ نیچ ذات کے لوگ، ان کے ساتھ نہ اٹھنا بیٹھنا چاہیے، نہ کھیلنا۔‘‘
بندو کا منھ اتر گیا۔ دوسرا بولا، ’’ارے یار کھیل میں کیا ہرج ہے۔ ہم کوئی اس کے ساتھ کھا پی رہے ہیں؟‘‘ چھوٹے سرکار بولے، ’’نہیں نہیں اس کے ہاتھ کی چھوئی گلی ہم چھوئیں گے تو ہم اور ہمارا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا۔ دادی ماں نے منع کیا ہے۔‘‘ بندو یونہی کھڑا رہ گیا۔ کسی لڑکے نے گلی کو جو ڈنڈا رسید کیا تو وہ دور میدان میں جا گری۔ چھوٹے سرکار بولے، ’’اے بندو بہت دور گلی جا کر گری ہے۔ کون جائے۔ تو ہی دوڑ کر اٹھا لا۔‘‘ بندو ڈھٹائی سے بولا، ’’اب میں اٹھا کر لاؤں گا تو گلی ناپاک نہیں ہو گی۔ کھیلتا تو تم اور تمہارا دھرم بھرشٹ ہو جاتے؟‘‘
’’حرام زادے۔ زبان چلاتا ہے۔‘‘ اور ایک کرارا چانٹا اس کے گال پر پڑا۔ ایک ہاتھ گال پر رکھ کر بندو سیدھا چھوٹے سرکار کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا، ’’زمیندار کے بیٹے۔ میری ماں کہتی ہے کبھی بھی کسی سے قرض لو تو اسے واپس کر دیا کرو۔ آج میں تمہارا یہ قرضہ سنبھال کر رکھ رہا ہوں۔ کسی دن تمہیں ضرور واپس کر دوں گا۔ اور دگنا تگنا کر کے واپس کروں گا۔‘‘
چاول ان دنوں سونا ہوا جا رہا تھا۔ ویسے تو ہوش سنبھالنے پر بندو نے سدا جوار کی روٹی ہی کھائی تھی۔ سالن کی لگاون تو کم ہی نصیب ہوتی تھی، ہاں پیاز نمک اور مرچ ضرور مل جایا کرتی تھی۔ زندگی میں تینوں بھائی بہنوں نے کبھی کبھار ہی چاول دیکھے تھے، وہ بھی جب بڑے اور اونچی ذات کے گھرانوں میں کسی کی شادی یا موت ہوتی اور نیچ ذات والوں کو پن کمانے کی خاطر کھلایا جاتا تب۔
فصلیں الٹ کر گھر میں آ رہی تھیں۔ بڑی چوکسی سے اناج کی صفائی ہو تی اور سال بھر کے لیے گوداموں میں اسٹور کرا دیا جاتا۔ ایک دن بہت رات پڑے بھی باپو گھر نہ لوٹا تو محبت کا مارا بندو باپ کی خبر لینے ماں کی چوری سے حویلی جا پہنچا۔ مگر دور ہی سے، جھاڑ کی آڑ سے دیکھتا رہا۔ پہلے تو اس کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، پھر ذرا غور سے دیکھا تو کچھ بات پلے پڑی۔
باپو کے دونوں پیروں میں موٹی موٹی زنجیریں بندھی ہوئی تھیں اور زنجیروں کے ساتھ بڑے بڑے دو پتھر گھسٹتے ہوئے چلتے۔ یہ تو اس نے دیکھ لیا کہ پتھر بندھے ہوئے ہیں مگر کیوں بندھے ہوئے ہیں، یہ وہ نہ سمجھ پایا۔ اور باپو ایسا بے زبان جانور تھا کہ باہر کی بات گھر میں آ کر بولتا ہی نہ تھا۔ بس کام سے آئے، منھ ہاتھ دھوئے۔ کھانا کھایا اور کونے میں منھ دے کر سو رہے۔ ختم۔ صبح ہوئی پھر وہی پرانا چکر۔
آس پاس کچھ کھٹر پٹر ہوئی تو بندو بندر کی سی پھرتی سے جھاڑ چڑھ گیا۔ زمیندار کا منشی آیا۔ پھر ایک ایک پر گرجا برسا۔ سب کا حساب کتاب صاف کیا۔ پھر ایک نوکر کو بلا کر کہا، ’’کلو کی تلاشی لے لے کہ چاول باندھ کر کہیں کمر ومر میں چھپا تو نہیں رکھے۔‘‘ جب نوکر تلاشی لے کر بول چکا کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے تو اسے حکم ملا کہ اب گھر جائے۔
کلو مسمسی سی صورت بنا کر آگے کی اور جھکا اور منشی کے پیر چھوکر بولا، ’’مائی باپ! میں تو برسوں کا پرانا نمک کھانے والا آدمی ہوں۔ اب بھی مجھ پر بھروسہ نہیں۔ روز روز وزنی زنجیروں اور پتھر باندھنے سے میرے ٹخنے اور پیر چھل گئے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں حضور میں چاول کا ایک دانہ بھی کبھی گھر نہیں لے جاؤں گا مگر یہ سزا ختم کر دیں۔‘‘
’’ابے چل چل۔ ہم نے کئی ایسے شاطر چور دیکھے ہیں جو طرح طرح سے چوری کرتے ہیں، اسی لیے سرکار نے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے۔ زنجیر پیروں میں بجتی بھی ہے اور پتھروں سے بندھی ہونے سے وزنی بھی ہو جاتی ہے تو کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ چوری نہیں جر سکتا۔ سمجھا حرام خور۔۔۔‘‘
کلو سر ہلا کر رہ گیا۔ بندو کا سارا خون اس کی آنکھوں میں اتر آیا مگر قدرت کلو پر مہربان تھی۔ اس رات موت نے ایسی زنجیر اس کے پیروں میں باندھی کہ زندگی پھر اسے کبھی گھسیٹ نہ سکی۔ اور وہ دن ایک ایسا دن تھا جس دن زندگی نے ایک نیا موڑ لیا! برسات کا مہربان پانی، بنجر اور زرخیز زمین، دونوں پر ایک ساتھ برستا ہے۔ غریب ہو یا امیر، جوانی ہر ایک کے چہرے پر بغیر تخصیص گلال بکھیرتی ہے۔
بندو تینوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ دونوں بہنیں ابھی اتنی بڑی تو نہ تھیں لیکن غریبی کی شفقت کچھ جلد ہی ہاتھ پاؤں کھول دیتی ہے۔ تانی بڑی تھی اور رجی چھوٹی۔ دونوں جنگل سے لکڑیاں کاٹنے جاتی تھیں۔ بنڈل بنا کر لا کے محلے گاؤں میں یا ہاٹ بھرتا، تو اور دوسری ہریجن عورتوں کی طرح بیچنے آتی تھیں۔
اس دن بندو تانی اور رجی کے ساتھ لکڑیاں کاٹنے گیا تھا۔ کلہاڑی لے کر وہ جھاڑ پر چڑھا ہوا تھا۔ نیچے تانی اور رجی لکڑیاں جمع کر رہی تھیں۔ لکڑیاں بہت سی جمع ہو گئیں تو رجی بولی، ’’اتنی لکڑیاں تو ہم سے اٹھیں گی نہیں۔ میں ماں کو بلا کر لاتی ہوں۔۔۔‘‘ رجی کے جانے کے بعد ہی پٹر پٹر گھوڑے کی ٹاپیں سنائی دیں اور عین اس جھاڑ کے نیچے گھوڑا ا کر ٹھہر گیا۔ گھوڑے پر زمیندار بیٹھا ہوا تھا۔ تانی کو دیکھ کر زمیندار یونہی بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔ اس کی آنکھیں مارے ہوس کے پھیل کر رہ گئیں۔ تانی ایک انجانے خوف کے مارے ہٹتے ہٹتے جھاڑ کے تنے سے جا لگی۔۔۔ ماحول کا تناؤ کم کرنے کے لیے وہ ڈری ڈری سی آواز میں یونہی بولی، ’’م۔ م۔ میں لکڑیاں سمیٹنے آئی ہوں۔‘‘
زمیندار ایک مکار ہنسی ہنس کر بولا، ’’ہم بھی تو کچھ سمیٹنے ہی یہاں رکے ہیں۔‘‘ پھر وہ گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ جانے کتنے لمحے یونہی شکاری اپنے شکار کو تکتا رہا کہ دور سے کسی کو آتا دیکھ کر تانی ذرا جرأت پا کر چلائی، ’’ماں!‘‘
رکمنی تیز تیز قدم اٹھاتی آئی اور قریب آ کر ٹھٹک کر رہ گئی۔ رجی بھی یونہی سہمی کھڑی رہ گئی۔ زمیندار نے پلٹ کر دیکھا اور ہنس کر بولا، ’’جوان جوان چھوکریوں کی ماں بھی اتنی جوان اور دلکش ہو سکتی ہے؟ واہ بھئی واہ۔ تو پھر پہلے شاخ کا ہی حساب صاف کر لیں۔۔۔ ٹہنیوں سے بعد میں نپٹتے رہیں گے۔‘‘ جیسے ہی زمیندار نے رکمنی کی ساڑی کا پلو کھینچا، اوپر بندو نے اور نیچے لڑکیوں نے منھ پھیر لیے۔ ماں چیخی چلائی۔
’’بھگوان کے لیے مجھ پر رحم کرو۔ میری بیوگی پر ترس کھاؤ۔ میرے اپنے بچوں کے سامنے مجھے ننگی نہ کرو۔‘‘ لیکن شیطان آج ساری رسیاں تڑا چکا تھا۔ ماں سے نپٹ کر وہ تانی کی طرف مڑا۔ اسے ایک پھول کی طرح اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا اور گھوڑے پر بٹھا، یہ جا وہ جا۔۔۔ چھو ہو گیا۔
کتنا عجیب حادثہ تھا۔ وہ اوپر بیٹھا دیکھتا رہا۔ ہاتھ پیروں میں ہلنے بھر کی بھی سکت نہ رہ گئی تھی۔ ماں پھر دھیرے دھیرے اٹھی۔ اپنے کپڑے برابر کیے۔ چھوٹی بیٹی کا ہاتھ پکڑا۔ سامنے والے کنویں کی کگر پر رکی۔ اشارے سے بیٹی سے کہا، ایک ڈول پانی کھینچ۔ جب وہ پانی کھینچنے کو جھکی تو اسے دھکا دے کر کنویں میں گرا دیا اور دوسرے ہی لمحے خود بھی کنویں میں کود پڑی۔ دوسرے دن گاؤں کے ایک اور کنویں سے تانی کی بھی لاش ملی۔ پتہ نہیں زمیندار نے ڈلوا دیا تھا یا وہ غیرت کے مارے خود ہی کود گئی تھی۔ لیکن جب اس سے رامو کاکا نے روتے روتے پوچھا تھا، ’’بیٹا تیرا تو سارا گھر بار ہی ایک ساتھ اجڑ گیا۔ ماں بھی، دونوں بہنیں بھی۔ اب تو کہاں جائے گا؟‘‘ تو وہ پاگلوں کی طرح منھ اٹھائے تکتا رہا۔
لیکن اس رات جب سارا گاؤں نیند کے مزے لوٹ رہا تھا، وہ ہر قسم کے ڈر سے، خوف سے بے پروا منھ اٹھا کر ایک طرف چل دیا۔ جہاں بھی قسمت لے جائے۔۔۔!
٭
شہر نے بھی اس سے کوئی بہت خوبصورت سلوک نہیں کیا۔ فاقے، دھکے، جوتے ہر ذلت اس کا مقدر بنی ساتھ پھرتی رہی۔ مگر گاؤں میں ہر جگہ جو اچھوت اور ہریجن کہہ کہہ کر اسے اس کے ماں باپ اور گھر والوں کو دھتکارا جاتا تھا، اس سے کسی حد تک یہاں چھٹکارا مل گیا تھا، کیونکہ اتنے بڑے شہر میں کون کسے پہچاننے اور پوچھنے چلا تھا لیکن اچھوت ہونے کی جو چھاپ اس کے ماتھے اور زندگی پر لگ چکی تھی، وہ اسے دھو دینا چاہتا تھا۔ تھا تو وہ کم عمر لیکن یہ بات اس نے اچھی طرح جان لی تھی کہ اس کی زندگی کا سب سے برا روگ ہی یہ تھا کہ وہ اچھوت تھا اور اب اس نے اپنے آپ کو جتا دیا تھا کہ بیٹا اگر کہیں بھی، کوئی بھی تم سے پوچھے کہ تم کون ہو تو صاف کہہ دینا کہ میں برہمن ہوں۔ نام بدلنے کو کون سے ہاتھی گھوڑے لگتے ہیں؟ کوئی تمہارے اندر جھانک کر نہیں دیکھتا کہ تمہاری ذات کیا ہے؟
(۲)
اور اس دن سے اس نے اپنا چلن سا بنا لیا۔ چلتے پھرتے سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے بس ایک سبق اپنے آپ کو سکھائے جاتا۔
’’میں اچھوت نہیں ہوں۔‘‘
’’میں اچھوت نہیں ہوں۔‘‘
’’میں اچھوت نہیں ہوں۔‘‘
وقت کے نقارے پر کچھ اور چوٹیں پڑیں اور دنیا میں دیکھے جانے والے چند اور ایسے خوابوں کا اضافہ ہو گیا جن کی کوئی خوبصورت تعبیر نہیں ملتی۔ اندھی آنکھوں کے بے رنگ خواب۔ جلتی جوانی کے سلگتے خواب! یہ آنکھیں بندو کی آنکھیں تھیں۔ جو خواب ویسے بھی کم دیکھتی تھیں اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی ناانصافی زیادہ۔
بہت دنوں سے وہ قلی، مزدوری، بھاڑا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے بیزار سا ہو گیا تھا، کیونکہ شہر کی بات اور اصول۔۔۔ ہر جگہ اپنے اپنے آدمی لگے رہتے تھے۔ نئے آدمی کو گھسنے نہیں دیا جاتا تھا۔ اسی لیے کچھ دنوں سے وہ ایک ہاتھ گاڑی والے کے ساتھ لگ گیا تھا۔ وزنی وزنی بوجھے ڈھوتے اس کی کمر ٹوٹنے لگتی۔ آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگتا لیکن وہ جئے جا رہا تھا۔ جتنے پیسے ملتے، وہ اپنے ڈاب میں سنبھال کر رکھے جاتا۔ بھوک بہت زور کرتی تو چند پیسوں کے چنے پھانک لیتا یا سستے قسم کے ہوٹل میں کم سے کم پیسوں میں پیٹ کی دوزخ بھر لیتا۔
ایک دن وزن کی زیادتی اور بھوک کے غلبے نے ایسا زور کیا کہ وہ چکرا کر گر پڑا۔ اسے پتہ نہیں، بعد میں کیا ہوا کیونکہ وہ بے ہوش ہو چکا تھا لیکن ہوش آیا تو خود پر ایک بہت بوڑھے اور مہربان چہرے کو جھکا پایا۔
’’شکر ہے تم ہوش میں آ گئے بیٹا۔‘‘ وہ اجنبی بوڑھا خوش ہو کر بولا، ’’میں تو گھبرا ہی گیا تھا۔ تم کون ہو بیٹا؟ کہاں کے رہنے۔۔۔‘‘ لیکن بوڑھے کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ تیزی سے بول اٹھا، ’’میں اچھوت نہیں ہوں۔‘‘ بوڑھے نے حد درجہ حیرت سے اسے دیکھا۔ دیکھتا ہی گیا۔ اچانک بندو کو احساس ہوا کہ وہ غلط جگہ غلط جواب دے گیا ہے۔ کچھ شرمندہ سا ہو کر بولا، ’’میں ایک مزدور ہوں بابا۔ مگر آپ کون ہیں۔‘‘
’’میں ایک بڈھا ہوں بیٹا۔‘‘ بوڑھا نرمی سے ہنسا، ’’اور بوڑھے جب اور بوڑھے ہو جاتے ہیں اور کسی بے سہارا کو سڑک پر بے ہوش دیکھ لیتے ہیں تو اسے اپنا بیٹا بنا لیا کرتے ہیں۔‘‘
یہ محبت، یہ خلوص، یہ انسانیت تو اسے زندگی میں آج تک کبھی نہیں ملی تھی۔ یہ فرشتہ کون تھا جو اتنے سالوں اس کی زندگی سے دور رہا تھا۔ وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ وہ اس محبت بھری شخصیت سے لپٹنے کو بے قرار ہو اٹھا، کچھ آگے بھی بڑھا، لیکن اس صاف ستھرے بوڑھے کو دیکھ کر اس نے اپنے میلے کچیلے وجود کو دیکھا اور ٹھٹک کر رہ گیا۔ بوڑھا اچانک اٹھا اور اسے گلے لگا کر محبت سے بولا، ’’تن کا میل کوئی چیز نہیں ہے بیٹا۔ بری بات یہ ہے کہ مَن میلا نہ ہو۔‘‘
زندگی میں پہلی بار چوبیس سالہ بندو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
بوڑھے بابا نے سڑک سے اسے بے ہوشی کی حالت میں اٹھایا تھا اور واقعی بابا نے اسے ہوش عطا کر دیا۔ بابا کے ساتھ رہ کر اس نے زندگی کا صحیح روپ دیکھا، نیکی اور انسانیت کی صحیح اقدار کو پرکھا۔ وہ اکثر سوچتا، ’’زندگی میں مجھے بابا نہ ملتے تو میں کتنا ادھورا بکھرا بکھرا اور ٹوٹا ہوا رہتا۔‘‘
بابا جب کبھی نماز پڑھتا، جب کبھی قرآن شریف پڑھتا اور بے حد عجز و انکساری سے خدا کے حضور گڑگڑاتا، بندو اسے سخت حیرت اور تعجب سے دیکھتا۔ دیکھے جاتا۔
’’بابا۔‘‘ ایک دن وہ بولا، ’’میں نے آپ سی کوئی شخصیت نہیں دیکھی۔‘‘ بابا نے قرآن شریف جزدان میں لپیٹ کر رکھا اور مسکرا دیا، جیسے پوچھتا ہو۔۔۔ ایسی کیا انوکھی بات ہے مجھ میں؟
’’بابا میں سمجھتا ہوں کہ ہم انسان، عبادت کو بطور سکے کے استعمال کرتے ہیں، ہم عبادت پوجا اسی لیے تو کرتے ہیں کہ جواب میں ہمیں خدا، بھگوان جو مانگیں، دے دیتا ہے، جیسے کسی بھی دکاندار کو آپ سکہ دے کر کوئی سی چیز خرید لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم عبادت اس لیے نہیں کرتے کہ ہمیں اوپر والے سے کوئی لگاؤ یا محبت یا عقیدت ہے، بس دین لین کا سا معاملہ ہے۔‘‘ وہ ہنسا، ’’لیکن بابا آپ۔۔۔ آپ عبادت کو صرف عبادت سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ میں نے آپ کو بدلے میں خدا سے کچھ مانگتے نہیں دیکھا!‘‘
بابا نے ہنس کر اسے دیکھا، ’’خدا ہمیں کچھ نہ دے، تو بھی کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ جتنی بھی دیر ہم خدا کے حضور میں رہتے ہیں اس سے قریب رہتے ہیں!‘‘
’’بابا۔۔۔ ’’لرزتی ہوئی آواز میں بندو بولا، ‘‘ میں نے نہ کبھی مندروں میں جھانکا نہ بھگوان کی مورتیوں کو ہی دیکھا۔ لیکن اب کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کو۔۔۔ آپ کو۔۔۔‘‘ آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا۔
کئی بار آنسو بھی تو زبان کا حق ادا کر دیتے ہیں؟
٭
بندو کو بابا اپنے ہی جھونپڑے میں اٹھا لائے تھے۔ بندو کو سخت شرم آتی تھی کہ بوڑھا بابا خود ہی گھر کا سارا کام کرتے، کھانا بھی پکاتے اور ایک ماں کی طرح کھانا پروس کر بندو کو آواز دیتے، ’’میاں پہلے کھانا کھا لے۔ پڑھائی لکھائی بعد میں ہوتی رہے گی۔‘‘ حد یہ کہ سارا خرچہ وہی اٹھا رہے تھے۔
دن بھر بندو لوہے کا بھنگار، کچرا، ہاتھ گاڑی میں ادھر سے ادھر کرتا رہتا۔ رات کو کام سے لوٹتا تو خالی وقت میں پڑھتا رہتا۔ اپنے تکلیف دہ بچپن کی یادوں میں سب سے تلخ یاد اس کے ذہن کو یہ ڈستی تھی کہ وہ اچھی طرح تعلیم بھی حاصل نہ کر سکا تھا۔
دو دن پہلے انگلی پر ہتھوڑی لگ جانے کی وجہ بابا کے ہاتھ پر سوجن آ گئی تھی اور بندو سخت شرم محسوس کر رہا تھا کہ اس حالت میں بھی بابا ہی کام کریں۔ وہ مستعدی سے جٹا ہوا تھا۔
’’بابا آج آپ میرا کمال دیکھیے۔ ایسی بڑھیا روٹی کھلاؤں گا کہ بس۔‘‘ اس نے پتیلی میں آٹا نکال کر بھر لوٹا پانی اس میں جھونک دیا اور بے حد پریشان ہو گیا کہ پتیلی سے آٹا تو جانے کدھر غائب ہو گیا تھا، صرف پانی ہی پانی موجیں مار رہا تھا۔ بابا بڑی سنجیدگی سے بولا، ’’میاں میرے خیال سے تم کھیر بہت اچھی پکا لیتے ہو گے۔‘‘ بندو پہلے تو تھوڑی دیر سر کھجایا کیا اور پھر کتاب اس طرح لے کر بیٹھ گیا کہ کتاب سے اس کا چہرہ چھپ گیا۔ بابا مسکرا مسکرا کر اسے دیکھتا اور اپنا کام کرتا رہا۔ بڑی دیر بعد بندو بولا، ’’بابا اب بہت جلد میں بے حد امیر بن جاؤں گا اور سب سے پہلے کھانا پکانے کے لیے ایک نوکر رکھوں گا۔‘‘
’’انشاء اللہ۔‘‘ بابا نے دل جمعی کے ساتھ کہا۔
’’ہاں ہاں انشا اللہ کہنا میں بھول گیا تھا۔‘‘
’’انشاءاللہ۔ انشاءاللہ۔۔۔‘‘ کچھ دیر رک کروہ بولا، ’’مگر بابا ایک بات ہے۔ آپ نے بتایا تھا کہ انشاءاللہ کا مطلب ہے اللہ نے چاہا تو۔۔۔ تو اگر کبھی اللہ میاں کا موڈ بدل گیا اور ان کا دل چاہے ہی ناں، تو پھر اپن امیر کیسے بنیں گے بابا؟‘‘ بابا ہنس پڑا۔ بڑے پیار سے بولا، ’’ارے دیوانے اللہ میاں نے قرآن شریف میں وعدہ فرمایا ہے کہ ہم محنت کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ یعنی جو محنت کرے گا اس کا پھل اسے ضرور دیں گے۔ تو تو جو دن رات محنت کر رہا ہے تو کیا یہ یونہی رائیگاں چلی جائے گی؟‘‘
اک دم بندو تیزی سے اٹھا اور اوپر لکڑی کی پٹی پر رکھی ہوئی اپنی پوٹلی نکال کر بابا کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
’’بابا دیکھیے، اب تو کافی روپے جمع ہو گئے ہیں، کل ہی گن کر رکھے ہیں۔ پورے دو سو چودہ ہیں۔ اب اس سے ایک زوردار بزنس شروع کر دینا چاہیے۔‘‘
’’ہاں بیٹا، میں بھی یہی کہنے والا تھا کہ سب سے اچھی روزی خودمختاری کی۔ بھلا کب تک دوسروں کے بوجھے ڈھوتا رہے گا۔ ایسا کر، تو قسطوں پر ایک ہاتھ گاڑی خرید لے اور یہاں وہاں سے لوہے کا کچرا ٹکڑا خرید کر، اچھے داموں بیچنا شروع کر دے۔‘‘
بندو برا مان گیا۔ ’’ارے واہ بابا، آپ نے بھی خوب بزنس بتایا۔ پرسوں ہی میں نے یہ نیا شرٹ اور نئی لنگی خریدی ہے، اس نئے جوڑے کو پہن کر بھی میں ہاتھ گاڑی گھسیٹوں اور لوہے کا کچرا جمع کرتا پھروں؟‘‘
’’میاں!‘‘ بابا نے بے حد نرمی سے سمجھایا، ’’کوئی بھی دھندہ حقیر نہیں ہوتا۔ مجھے دیکھو جوتے گانٹھتا ہوں۔ موچی بابا کہلاتا ہوں۔ اس سے کیا میری ذات گھٹ گئی۔۔۔‘‘
’’بابا یہ خیال تو میرے دل میں بھی پہلے کئی بار آیا تھا۔ کہنے کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کو جوتے گانٹھتے برا نہیں لگتا؟‘‘
بابا نے سر اٹھا کر ترس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
’’اچھا ہی ہے نا بیٹا، جوتے ہی تو گانٹھتا ہوں نا؟ لوگوں کے پیروں پر ہی نظر رہتی ہے نا؟ جو کام کسی فرد کو بھی پسند ہے، تم نے دیکھا ہو گا، ماتھا، آنکھیں اور منھ تو اونچائی پر ہوتے ہیں مگر عقیدت کے اظہار کے لیے چھوا تو قدموں کو ہی جاتا ہے۔‘‘ بندو کچھ نہ بولا۔ بڑی عقیدت مندانہ نظروں سے بابا کو دیکھے گیا۔‘‘ اور بیٹا لوہے کا دھندہ کرنے کو اس لیے بھی کہتا ہوں کہ خدا نے فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے لیے لوہے میں بہت سے فائدے رکھے ہیں۔‘‘
بندو ہنس کر بولا، ’’بابا آپ نے مجھے آدھا مسلمان تو کر ہی دیا۔ چلیے آپ کی یہ بات بھی مانے لیتے ہیں۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ خدا محنت کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ سلی لنگی، پھٹے شرٹ میں دھاروں دھار پسینے میں ڈوبے ڈوبے ہاتھ گاڑی چلاتے ہوئے بندو نے ترقی کی ایک اور منزل سر کر لی۔ ایک جگہ بھنگار میں سستے داموں بہت سا لوہا مل گیا۔ ان دنوں لوہے کا بھاؤ نیچا جا رہا تھا۔ بابا نے ہی مشورہ دیا کہ جھونپڑے کے سا منے والی خالی زمین میں مال خرید خرید کر جمع کرتے جاؤ۔ جب بھاؤ اونچا جائے تب نکال دینا۔ ایک ہی ہلے میں بندو کے پاس ہاتھ گاڑی سے تین پہیوں والا ٹیمپو آگیا۔ لنگی، پتلون سے بدل گئی اور چہرے مہرے سے اسے دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ کسی نیچ ذات کا آدمی ہے۔
بندو نے بابا کا ساتھ پھر بھی نہ چھوڑا۔
’’بابا۔ ٹیمپو میں بیٹھا ہوا کیسا لگتا ہوں؟‘‘ اس دن بندو نے ذرا شرارت سے اکڑ کر بابا سے پوچھا۔
’’میاں۔ بس خدا کا شکر ادا کیا کرو۔ وہ جسے چاہے عزت دے۔‘‘
بندو ٹیمپو سے کود کر اترا بابا کے گلے سے بچوں کی طرح جھول گیا۔
’’بابا دو تین سالوں کی محنت ہی میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ بابا اب اپن ایک اچھا والا گھر لے لیں گے۔‘‘
بابا نے ہاتھ اٹھا کر انکاری انداز میں سر ہلا دیا۔
’’اپن نہیں۔ تم۔‘‘
’’ارے واہ بابا۔‘‘ بندو روہانسا ہو گیا، ’’آپ کے بغیر نیا گھر تو کیا میں سورگ میں بھی نہ جاؤں۔‘‘
بابا اسے پیار سے اپنے بازو میں بٹھاتے ہوئے بولا، ’’دیکھ بیٹا۔ میں بڈھا آدمی اسی کونے میں اللہ اللہ کرتا ٹھیک ہوں۔ تو جوان آدمی ہے۔ نیا گھر لے، چار دن کو اللہ موٹر دے گا۔ شادی کرنا، بال بچے ہوں گے۔ میں یہیں سے تیرے لیے بیٹھے بیٹھے دعا کیا کروں گا۔‘‘
’’بابا میں نے کہہ دیا نا آپ کے بغیر میں کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘
بابا دور اشارہ کر کے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو پینے کی کوشش کرتا ہوا بولا، ’’میں یہاں رہوں گا تو دل کو یہ تسلی رہے گی کہ اپنی سکینہ سے قریب ہوں۔ وہ قبر میں سہی، مجھے لگتا ہے مجھ سے قریب ہے، ہر برے وقت میں، دکھ میں، آنسوؤں میں اس نے میرا ساتھ دیا۔ بس زندگی بھر اولاد کے لیے ترستی رہی۔ آج تو وہ بھی دیکھتی ہو گی کہ اللہ نے نہ صرف میری بلکہ اس کی بھی گود بھر دی ہے۔‘‘ اس نے زور سے بندو کو گلے سے لگا لیا۔
’’اب آخری وقت میں اسے کیا چھوڑوں گا بیٹا۔ ویسے میں تیرے پاس آتا جاتا رہوں گا ہی۔‘‘ وہ ہنسنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا۔
’’بابا۔‘‘ بندو ڈرتے ڈرتے بولا، ’’میں ماں کی قبر پر پھول۔۔۔‘‘ پھر وہ اچانک چپ رہ گیا۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔‘‘ بابا آنسو پونچھ کر بولا، ’’اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔۔۔‘‘
’’بابا۔۔۔‘‘ وہ زور سے چیخ کر بابا سے لپٹ گیا، ’’میں آج آپ کے سامنے اپنی زندگی کا ہر ہر ورق کھول کر رکھ دوں گا۔ آپ اتنے مہان ہیں، اتنے عظیم ہیں کہ آپ سے کوئی بھی بات چھپانا گناہ ہو گا۔ جرم ہو گا۔ بابا۔ بابا۔‘‘ وہ ذرا شانت ہو کر بولا، ’’میں۔ میں اچھوت ہوں!‘‘ بابا نے اسے بے حد حیرت سے، بڑے اچنبھے سے دیکھا۔ پھر سر ہلا کر بولا، ’’تو اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟‘‘
بندو پاگلوں کی طرح دونوں ہاتھ ہلا کر بولا، ’’تو بابا آپ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی فرق ہی نہیں پڑتا؟‘‘ پھر وہ زور زور سے قہقہے لگانے لگا، ’’ارے بابا آپ بالکل بھولے ہیں اس سے بہت فرق پڑ جاتا ہے بابا۔ جب کوئی ا نسان اچھوت بن کر پیدا ہو جاتا ہے نا بابا۔۔۔ تو اس کے لیے مندر کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ کنویں کا پانی اس کے لیے حرام ہو جاتا ہے۔ چوری نہ بھی کرے تو اس کے پیروں میں موٹی موٹی زنجیریں باندھ دی جاتی ہیں۔ اور بابا۔۔۔ اور تو اور کمر سے جھاڑو باندھ دی جاتی ہے کہ پاک دھرتی پر ناپاک قدموں کے نشان پڑ بھی جائیں تو مٹتے جائیں۔۔۔‘‘ بابا حیرت سے بندو کو دیکھ رہا تھا جو ہانپے جا رہا تھا مگر مسلسل بولے جا رہا تھا۔
’’بابا آپ کو نہیں پتہ، اچھوت کے ہاتھ کی چھوئی ہوئی ہر چیز نجس، ناپاک اور گندی ہو جاتی ہے لیکن بابا مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری عورتوں کو، ہماری ماؤں بہنوں کو چھونے سے وہ لوگ ناپاک نہیں ہوتے۔۔۔‘‘
بابا نے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا ایک کٹورہ اس کے منھ سے لگا دیا۔ پھر بندو نے اپنے ماضی کی ایک ایک چھوٹی سے چھوٹی واردات بابا کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ بابا خاموش بیٹھا سنا گیا۔ بیچ بیچ میں وہ بندو کو گلے لگاتا جاتا یا پیٹھ تھپکنے لگتا۔ جب دل کی پوری بھڑاس نکل چکی تو بندو پر سکون سا ہو کر بولا، ’’بابا میں سمجھ رہا تھا کہ یہ سب سن کر اور یہ جان کر کہ میں ایک نیچ ذات سے ہوں، آپ مجھ سے نفرت کرنے لگیں گے۔‘‘
بابا مسکرایا۔ بڑی دانش مندانہ مسکراہٹ۔ پھر بولا، ’’بیٹا کوئی چھوٹا ہے نا بڑا۔ انسان کا اول بھی مٹی ہے آخر بھی مٹی۔ سب ایک طرح پیدا ہوئے ایک ہی طرح مریں گے۔ اس میں بڑائی چھوٹائی کہاں سے آ گئی؟‘‘
بندو کی نظروں میں بابا آکاش سے بھی اونچا ہو گیا۔
٭
اس دن بندو بہت ہی خوش خوش باہر سے لوٹا اور آتے ہی بابا سے لپٹ کر بولا، ’’بابا بس آپ کا آشیرواد چاہیے۔ آج ایک ایسا آرڈر ملنے کی امید ہے کہ بس آر یا پار۔‘‘ بابا مسکرایا، ’’وہ تو اللہ کے فضل سے تجھے مل ہی جائے گا۔ لیکن اب اس کے بعد سب سے پہلا کام تیری شادی ہو گی۔‘‘
’’شادی۔‘‘ بندو حیرت سے بولا، ’’وہ کیوں بابا؟‘‘
’’ارے میاں شادی ہو گی تو گھربار ہو گا، بال بچے ہوں گے۔ یہی تو اصلی زندگی ہے۔‘‘
اِک دم بندو سنجیدہ ہو گیا، ’’نہیں بابا اصلی زندگی یہ نہیں ہے۔ اصلی زندگی تو وہ ہو گی جب میں اپنی نیچ جاتی کو اوپر اٹھا سکوں گا۔ یہ میرا عہد ہے بابا۔ میرے منصوبے وار مقاصد کچھ اور ہیں، آپ نہیں سمجھیں گے۔‘‘
’’میں سب سمجھتا ہوں بیٹا اور مجھے خوشی بھی ہوتی ہے۔ تمہیں اور تمہارے حوصلوں کو دیکھ کر۔ اصل میں جب بھی دنیا میں جہالت اور ظلم کا گھور اندھیرا چھایا ہے، تم سا کوئی نہ کوئی جیالا مشعل لے کر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ مہاتما گاندھی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔‘‘
’’بابا آپ جیسی مہان ہستی مہاتما گاندھی کا نام لے بھی سکتی ہے۔ میں تو اتنا حقیر اور چھوٹا ہوں کہ اپنی زبان سے یہ نام ادا کرنے کی ہمت بھی نہیں جر سکتا۔ ہاں آپ کے چرن چھوکر یہ عہد ضرور جر سکتا ہوں کہ باپو نے جو مشعل جلائی تھی، میں اسے بجھنے نہیں دوں گا۔‘‘
بابا اسے محبت سے دیکھے جا رہا تھا۔ ’’بابا میرے دل میں بدلہ لینے کی کوئی تمنا نہیں۔ بدلہ تو کم ظرف لیا کرتے ہیں۔ میں ایک ہی بات چاہتا ہوں کہ سچائی کا، برابری اور اونچ نیچ کا جھگڑا ختم ہو جائے۔ اس کے لیے بابا میں نے بھی ایک نعرہ ایجاد کیا ہے کہ غریبوں کو اتنا امیر کر دو کہ امیر ان کے سامنے غریب نظر آنے لگیں۔‘‘ بابا مسکرانے لگا۔ ’’ہاں بابا میں نے دیکھا ہے اور اپنے حسابوں یہی سمجھ سکا ہوں کہ دنیا میں سارے جھگڑے دراصل غریبی کے پیدا کردہ ہیں۔ بابا آپ کو نہیں پتہ، خاص طور سے چھوٹے دیہاتوں میں ہم غریب اچھوت کس طرح دھتکارے جاتے ہیں۔ کیسے کیسے ہمارا دل جلتا ہے کیسی کیسی آہیں ہمارے دلوں سے نکلتی ہیں۔۔۔‘‘
’’بیٹا! جس طرح چھوٹا بچہ بھوک سے تڑپے تو ماں کی چھاتیوں میں دودھ آپ ہی آپ جوش مارنے لگتا ہے اسی طرح مظلوم کی آہ خداوند تعالیٰ کی محبت کو جوش دلا دیتی ہے۔ تڑپ اور آہ میں اثر ہو تو عرش اعظم کے پائے ہل جاتے ہیں۔ مجھے خدا سے یقین ہے میاں کہ تمہاری کوششیں خدا کے یہاں ضرور قبولیت کا درجہ پائیں گی۔ تم نے دیکھا ہو گا چمڑے کی دھونکنی لوہے تک کو پگھلا کر رکھ دیتی ہے۔‘‘
٭
ایک عالیشان بنگلے کا آج افتتاح تھا۔ جھلمل جھلمل قمقمے یہاں سے وہاں تک جگمگا رہے تھے۔ سامنے کی دیوار پر بڑی سی نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی جس پر ’’دھرم راج اسٹیل اینڈ آئرن ڈیلر‘‘ کا خوب صورت نام جھم جھما رہا تھا۔ مہمانوں کے بھیڑ بھڑکے میں کئی گاڑیوں کو پس پشت ڈالتی ایک لمبی سی گاڑی پھاٹک کے اندر داخل ہوئی۔
’’دھرم راج جی آ گئے۔‘‘
’’دھرم راج جی آ گئے۔‘‘
لوگ آپس میں ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے۔
کھٹاک سے گاڑی کا دروازہ کھول کر بندو اترا۔ ایک شاندار اور عظیم الشان شخصیت۔ اس نے تیزی سے اتر کر دوسری طرف کا دروازہ کھولا، ’’آئیے بابا۔ اس گھر کا افتتاح آپ کو کرنا ہے۔ آپ ہی کے شبھ قدم سب سے پہلے اس گھر کی دہلیز کو چھوئیں گے۔‘‘ ناں ناں کرتا بابا اترا۔ اس کے پیچھے بندو اور لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ۔ بابا نے ربن کاٹی اور دعا کی، ’’خداوند اس گھر کو سدا بھرا پرا رکھنا اور اس گھر کے مکینوں کو ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے راستے پر چلانا۔‘‘ باہر آتش بازی چھوٹنے لگی اور مستعد نوکر مٹھائیوں اور مشروبات کے تھال ادھر سے اُدھر کرنے لگے۔
٭
بابا کے جھونپڑے کے سامنے لمبی سی گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ اندر بندو بابا سے الجھ رہا تھا۔
’’بابا آپ نے کہا تھا کہ آتے جاتے رہا کریں گے، دیکھیے آپ اپنا وعدہ نہیں نبھا رہے ہیں۔‘‘
’’تو تو نبھا رہا ہے نا۔‘‘
’’ہاں بابا وہ تو میں انشاء اللہ زندگی بھر نبھاتا رہوں گا۔ جس طرح آپ پانچ وقت کی نماز یہ کہہ کر پڑھتے ہیں نا کہ یہ فرض ہے جو ٹالا نہیں جا سکتا، اسی طرح میرا روزانہ آپ کے ہاں آ کر ایک بار آپ کے درشن کر لینا بھی فرض ٹھہرا۔ یہی میری عبادت ہے۔‘‘
بابا ایک جوتے میں کیل ٹھونکتے ہوئے مسکرایا اور ہتھوڑی زمین پر رکھ کر بولا، ’’تو مجھ سے ا تنی محبت کرتا ہے کہ میری بات نہیں مانتا۔ شادی کرنے لینے سے کیا تیرے کام کاج رک جائیں گے۔ بلکہ دل جما رہے گا، تو اور اچھی طرح کام ہوں گے۔‘‘ بندو کچھ فکرمند سا نظر آتا تھا۔
’’نہیں بابا، ابھی فی الحال تو اس پروگرام کو اٹھا ہی رکھیے۔ مجھے ایک الگ ہی سوچ کھائے جا رہی ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ بابا بھی فکر مند ہو گیا۔
بندو زمین پر اطمینان سے بیٹھ گیا۔‘‘ بابا دراصل بات یہ ہے کہ مجھے ہر لمحہ یہ ڈر سا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی میری اصلیت کو پہچان نہ لے۔ آج کل تو طرح طرح کے بزنس والے، اخبار والے ملنے آتے رہتے ہیں۔ اکثر میری زندگی، میرے ماضی، میری جد و جہد اور اس کامیابی کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں۔ ابھی تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا ہے بابا۔ اگر ادھر بیچ میں لوگوں کو پتہ چل گیا کہ میں دراصل ایک نیچ ذات کا اچھوت ہوں تو آپ جانیں بابا عوام کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں جر سکتا۔ میں اکیلا پس جاؤں گا اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ نہ کر پاؤں گا۔۔۔‘‘
بابا بھی کچھ پریشان سا ہو گیا۔
’’اور بابا آپ جانتے ہیں، دشمنوں اور بہکانے والوں کی اور بہک جانے والوں کی کسی بھی زمانے میں کمی نہیں رہی ہے۔‘‘
’’میں اچھی طرح تمہارا مطلب نہیں سمجھا میاں۔‘‘ بابا سر ہلا کر بولا۔
’’دیکھیے نا بابا، یوں دروازہ بند رہے تو کوئی دستک نہیں دیتا لیکن ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے کوئی بھی سر اندر ڈال کر جھانک لیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے اور غلط نہیں لگتا کہ میری زندگی میں کہیں نہ کہیں ایسا جھول ضرور ہے کہ لوگ انگلی اٹھا سکیں۔ اسی لیے میں تنہا رہنا چاہتا ہوں تاوقتیکہ میں کوئی ٹھوس کام نہ کر لوں۔ میں اپنے راز کا سوائے آپ کے زندگی میں کسی کو شریک نہیں بنا سکتا۔‘‘ پھر وہ کچھ رک کر بولا، ’’کل میں ویسے گاؤں جا رہا ہوں۔‘‘
بابا نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’ہاں بابا۔ چودہ برس بہت طویل مدت ہے۔ رام کی طرح میں نے بھی ایک پورا بن باس جھیلا ہے۔ میں چاہتا ہوں ذرا جا کر دیکھوں تو سہی کہ کیا وہاں کی پوتر دھرتی پر پڑنے والے ناپاک نقوش کو مٹانے کے لیے آج بھی کمر سے جھاڑو باندھی جاتی ہے؟ کیا ابھی تک بچیوں کے پیر ٹیڑھے۔۔۔‘‘ وہ اچانک چپ رہ گیا۔ اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھ کر بابا کا اپنا جی بھی پگھل گیا۔ وہ ذرا سنبھل کر بولا، ’’لیکن بابا میں اس سوٹ پینٹ، ٹائی اور گاڑی میں نہیں جاؤں گا۔ میں ایک اچھوت کی طرح ہی جاؤں گا تاکہ اس مٹی سے اپنا رشتہ یاد جر سکوں۔‘‘
٭
بڑا سا پگڑ، جس سے آدھا چہرہ بھی ڈھک گیا تھا، دھوتی کرتا اور بکڑ سے چپل۔ اپنے گاؤں کو جانے کے لیے بندو نے وہ راستہ چنا تھا جو 4-6 کوس پہلے ہی سے ہریجن بستی سے نکلتا تھا۔ اس گاؤں کا نام چندا پور تھا، جو اس کے اپنے سونا گاؤں سے بہت پہلے پڑتا تھا۔
’’سنتے ہیں دیش میں بہت سدھار ہو رہے ہیں، ذرا دوسری ہریجن بستیوں کو بھی دیکھتے چلیں۔‘‘ اس نے پکڑی سر پر جماتے ہوئے اپنے آپ کو سنایا۔
تھوڑی دیر بس سے اتر کر وہ پیدل چلا کیا۔ مزے مزے میں کھیتوں کی ہوا اور مناظر کے درشن کرتا ہوا۔ پھر اس کا دل ٹوٹنے لگا۔ وہی مخصوص چہرے، وہ شیشوں کی نوک کی طرح دل میں چبھ جانے والی یادیں، وہی کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اچھوت، گوبر تھاپتی، اپلے سمیٹتی ان کی عورتیں، ننگ دھڑنگ بچے، زمین داروں کے کارندے ہاتھ میں سونٹے اٹھائے عورتوں کو تاکتے، بظاہر ان کے کاموں کی نگرانی پر مامور مگر ان کے جسموں کو ٹٹولتے ہوئے، کہیں کہیں روٹی کھاتے ہوئے کسان، جن کی خشک حلق سے سوکھی روٹی اور پیاز اترتی نہ تھی اور جوہر نوالے کو پانی کے گھونٹ سے اندر ڈھکیل دیتے تھے۔
اے ہندوستان!
اے میرے جنت نشان۔۔۔!
اس نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو روکنے کی مطلق کوشش نہ کی۔
ڈھم۔ ڈھم۔ ڈھم۔ کہیں دور ڈھول پٹ رہا تھا۔ کسی کی حسب دستور نیلامی اٹھ رہی تھی۔ وہ تلخی سے دل ہی دل میں ہنسا۔ چند برتن، چند بیوی کے چاندی کے تار سے کچھ فاقہ زدہ بچوں کے منھ سے چرایا ہوا اناج کہ وقت پر ان ہی کا دوزخ بھرا جا سکے۔ اٹھاؤ بولی۔ اٹھاؤ۔۔۔
سامنے نظر اٹھائی تو ڈھم ڈھم کی آوازوں کے ساتھ مجمع بھی بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اس نے ادھر سے نگاہیں ہٹا لیں اور اپنے دل کو سنایا، ’’کیوں پرانی باتیں یاد دلا رہے ہو بھائی۔ آنکھوں کا ایک مصرف دیکھنا بھی ہے، صرف رونا ہی نہیں۔‘‘
وہ ایک جھاڑ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اسی کی ذات کا ایک آدمی اس کے قریب سے گزرا۔
’’مسافر ہو؟‘‘
اس نے سر ہلا دیا۔
’’کس گاؤں کے؟‘‘
’’سارے گاؤں ایک جیسے ہوئے ہیں۔ کہیں کا بھی سمجھ لو۔‘‘
’’کھانا کھاؤ گے؟ ایک روٹی ہے آدھی آدھی کر لیں گے۔‘‘
’’روٹی کے ٹکڑے مت کرو۔ اس محبت سے میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے بھائی۔‘‘ اس نے کہنا چاہا مگر آنسو گلے میں پھندہ بنے بیٹھے تھے۔ اس نے بمشکل انکار میں سر ہلا دیا۔
’’تو پھر پانی ہی پی لو۔ تھکے ہارے لگتے ہو۔‘‘
’’ہم سب تھکے ہارے ہیں۔ اپنی اپنی منزلوں سے بھٹکے ہوئے۔ کون جانے کہ منزل ملے گی بھی یا نہیں۔‘‘
اس نے پانی کا لوٹا لے کر چند چھپکے منھ پر مارے۔ ایک دو گھونٹ پئے اور آگے بڑھ گیا۔ اس کے دل و دماغ اور روح میں ایک آگ سی بھر گئی تھی۔
’’کون کہتا ہے دن بدل گئے ہیں؟ یہ دن کبھی نہیں بدلیں گے۔ کبھی نہیں، جب تک کہ ہم خود اس آگ میں نہ کود پڑیں۔۔۔‘‘
’’ابے سن۔‘‘ اچانک ایک آواز نے اسے چونکا دیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا اور دیکھتے ہی حیرت زدہ سا رہ گیا۔ زمیندار صاحب کا بڑا بیٹا!
یہ گاؤں تو چندا پور تھا۔ یہاں اس کا کیا کام؟ وہ تو سونا پور کا جاگیردار تھا! چھوٹے زمیندار نے اسے نہیں پہچانا لیکن وہ پہچان گیا تھا۔ سن سن کرتا خون اس کے چہرے پر چھلک آیا۔ گھوڑے پر بیٹھا ہوا چھوٹا زمیندار اسے اس طرح کھڑا دیکھ کر غصہ سے بولا، ’’سنتا نہیں۔ بہرا ہے کیا۔ میں نے تجھے بلایا ہے۔‘‘ بندو دھیرے دھیرے غصہ کو ضبط کرتا آگے بڑھا اور گھوڑے کے قریب جا کر زمیندار کو دیکھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
’’یہ چابک میرے ہاتھ سے گر گیا ہے، ذرا اٹھا کر دے تو!‘‘ بندو ذرا ٹیڑھے لہجے میں بولا، ’’گھوڑے چڑھنا آتا ہے تو اترنا بھی آتا ہی ہو گا۔ خود اتر کر کیوں نہیں اٹھا لیتے۔‘‘
زمیندار نے عجیب سی نظروں سے دیکھا، جس میں غصہ سے زیادہ حیرت تھی! پھر ذرا دانت پیس کر بولا، ’’تو اچھوت نہیں ہے؟‘‘ بندو تلخی سے مسکرا کر بولا، ’’تو اچھوت ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ تمہارا ہر حکم مان لیا جائے؟ میں تمہارا چابک کس خوشی میں اٹھا کر دوں؟‘‘ زمیندار نے ادھر ادھر سر گھما کر دیکھا۔ کوئی قریب میں نظر نہ آیا۔ وہ تلملا کر بولا، ’’حرام زادے، زمین کے کیڑے، تجھے پتہ ہے ہم کون ہیں؟‘‘
بندو غصہ دلانے کے انداز میں ہنس کر بولا، ’’سونا پور کے چھوٹے جاگیردار! جو اس وقت گھوڑے پر بیٹھے ہیں لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ بلندی پر گھوڑے پر سوار ہونے کے باوجود تم مجھ سے سر جھکا کر بات کر رہے ہو اور میں زمین پر ہو کر بھی سر اٹھا کر تمہاری بات کا جواب دے رہا ہوں!‘‘ چھوٹے زمیندار نے غصہ سے پھن پھنا کر دیکھا، واقعی گھوڑے پر بیٹھنے کے باوجود بات کرنے میں اسے سر نیچا کرنا پڑتا تھا، جب کہ وہ اچھوت نیچ ذات کا آدمی سر اٹھائے اس سے زبان لڑا رہا تھا۔ زمیندار گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے اتنی زور سے تڑپا کہ گھوڑا پیر پٹخ پٹخ کر اپنی بے چینی کا اظہار کرنے لگا۔
’’ابے کوئی ہے۔۔۔؟‘‘ وہ اوپر بیٹھے ہی بیٹھے زور سے چلایا۔
’’بچے۔ بہادر ہو تو دوسروں کو پکارنے کی تکلیف مت کرو۔ ایک کو ایک بہت کافی ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہمیں کوئی پہلوانی تو کرنی ہے نہیں۔۔۔ بس ذرا ہاتھ پاؤں کھولنے ہیں۔‘‘
گھوڑے سے اچھل کر زمیندار نیچے اتر آیا، اب وہ صبر و ضبط کی منزلوں سے گزر چکا تھا۔ نیچے پڑا چابک اب بھی اس کی غیرت کو للکار رہا تھا۔
’’اب بھی وقت ہے۔ چابک اٹھا کر دے دو۔‘‘
’’سنو زمیندار! معمولی سی بات ہے، چابک اٹھانے کے لیے جھکنا بھی پڑتا ہے! اور میں زندگی میں کسی انسان کے آگے نہیں جھکوں گا۔‘‘ وہ بڑی بے خوفی سے زمیندار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بات کہہ رہا تھا۔
’’تو کیا یہ حقیر سر مندر میں بھگوان کے آگے جھکے گا؟‘‘ زمیندار تلخی سے ہنس کر بولا، کیونکہ مندروں میں اچھوتوں کا داخلہ منع تھا، پھر اچانک ہی وہ تیزی سے جھپٹ کر اس کی گردن پکڑ کر دباتے ہوئے بولا، ’’ارے! سالے یہ دو انگلی کی گردن تو ایک چٹکی کے بھی قابل نہیں۔‘‘ لیکن زمیندار کا اندازہ غلط تھا۔ چوبیس سالوں سے جمع ہوتی ہوئی کڑواہٹ اب ایک ایسا شکنجہ بن گئی تھی کہ بڑی سے بڑی چٹان کو بھی پیس کر رکھ دیتی۔ بندو نے ایک جھکائی دے کر اس طرح اپنی گردن چھڑائی، مانو زمیندار کے ہاتھوں میں گھی چپڑا ہوا ہو، جس کی چکناہٹ سے وہ پھسل پڑا ہو۔ اب زمیندار نے تلملا کر چابک اٹھایا کہ بندو کو دے مارے۔ بندو نے اسے اور تاؤ دلا دیا، ’’ہاں یہ ہوئی شرافت کی بات۔ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کیا کرو بچے، اس طرح صحت اچھی رہتی ہے۔‘‘
’’صحت کے بچے، تیری کھال نہ ادھیڑ دی ہو تو یاد رکھنا۔‘‘
اٹھے ہوئے چابک کی سونٹی پکڑ کر بندو نے اتنی زور سے اپنی طرف کھینچی کہ زمیندار بھی ساتھ ہی لڑھکتا چلا آیا۔ شہر میں بوجھے ڈھونے، ہاتھ گاڑی بھر بھر وزن کھینچنے اور محنت مشقت کرنے سے بندو کے ہاتھ پاؤں ایسے مضبوط نکل آئے تھے کہ جو بھی دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا۔ زمیندار اپنی جاگیردارانہ نوکروں کے بل بوتے پر بڑا ضرور تھا مگر طاقت میں بندو کا مقابلہ کہاں کر پاتا۔ اوپر سے بندو اسے جلائے جا رہا تھا۔ اسے کتے کی طرح پچکارتا ہوا بولا، ’’پُچ۔ پُچ۔۔۔ اچھے بچے یوں مٹی میں لوٹ کر اپنے کپڑے خراب نہیں کیا کرتے۔ جاؤ گھر جاؤ۔ نہیں تو ماں مارے گی۔‘‘
اس کے بعد گھونسوں، لاتوں اور مکوں کا وہ زور دار تبادلہ شروع ہوا کہ گرد و غبار میں دونوں اٹ گئے۔ دور سے کسی نے یہ تماشا دیکھا اور اس کے چیخ پکار کرنے پر ایک ایک کر کے کئی لوگ جمع ہوئے اور قریب آ گئے۔ سب دم سادھے دو شیروں کی لڑائی دیکھ رہے تھے، جن میں سے کوئی بھی ہار ماننے پر تیار نہ تھا، دیکھنے والوں میں اکثریت اچھوتوں اور غریبوں کی تھی، جن کے چہرے، زبان حال سے چیتھڑوں میں لپیٹے اور غریبی کی تصویر بنے بندو کی جیت کی دعائیں کر رہے تھے۔ زمیندار کا ایک گھونسہ بندو کے منھ پر پڑتا تو کئی لوگوں کے منھ سے اُس کی آہ کی آوازیں نکل جاتیں اور بندو کی لاتیں زمیندار پر پڑتیں تو گو خوف کے مارے وہ کچھ بول نہ سکتے مگر چہرے کھل اٹھتے۔۔۔ اور شاید اس دن قدرت کو یہی منظور تھا کہ وہ چہرے کھلے رہیں کہ ایک زوردار گھونسے سے زمیندار بے ہوش ہو کر خاک پر گر پڑا۔
بندو نے ہانپتے ہوئے آس پاس کھڑے لوگوں کو مخاطب کیا، ’’سالے کو گھوڑے پر ڈال دو۔ گھوڑا وفادار جانور ہوتا ہے گھر پہنچا دے گا۔‘‘
’’مگر بھیا۔ کچھ لوگ آگے بڑھے۔ تم نے گجب کر دیا۔ اب تمہاری کھیر نہیں۔ تمہیں پتہ نہیں وہ سونا گاؤں کا چھوٹا ٹھاکر ہے۔‘‘
’’تو یہاں کیا کرنے آیا تھا؟‘‘ بندو نے غصہ سے پوچھا۔
یہاں کی جمینات بھی خریدنا چاہتا ہے۔ ایک سودا پکا کر کے جا رہا تھا۔ اور بھی جمین لینے والا ہے۔۔۔‘‘
’’حالانکہ انسان کو صرف چھ ہاتھ کی زمین بہت کافی ہوتی ہے۔‘‘ بندو اپنی رو میں کہے گیا۔
’’بھائی تم اس گاؤں کے تو نہیں لگتے؟‘‘ اس کی بہادری سے مرعوب ہو کر ایک عورت بولی۔
’’ہاں بہن ٹھیک سمجھیں تم۔ میں اس گاؤں کا نہیں لگتا، پھر بھی یہ گاؤں میرا بہت کچھ لگتا ہے۔ یہی گاؤں نہیں، ہر گاؤں سے میرا ناطہ ہے۔ میرا ہی نہیں۔۔۔ ہم سبھی کا۔۔۔ اور میں وہی رشتہ دوبارہ سے زندہ کرنے آیا ہوں۔‘‘
آس پاس کھڑے سب لوگ اسے اس عقیدت سے دیکھ رہے تھے مانو وہ کوئی دیوتا ہو۔ اتنے میں ایک عورت لوٹا بھر پانی اور ایک تھالی میں روکھا سوکھا کچھ کھانا لے آئی اور بڑے پیار سے بولی، ’’لو بھائی۔ تھوڑا کھا کر جرا آرام کر لو۔ آج تو تم نے جیسے کہانیوں کی بات سچ کر دکھائی، جن میں کوئی راجکمار، راکشس کو اپنی ایڑی سے مسل دیتا ہے۔‘‘
’’مسلنے کا ٹیم تو اب آئے گا میری بہن۔‘‘ بندو اَب پر زور دے کر ہاتھ منھ دھوتے دھوتے بولا، ’’کھالی برتن میں ایک حد تک پانی سما سکتا ہے۔ بعد میں تو چھلکے گا ہی۔‘‘
’’دیکھو سب لوگ مارے کھسی کے کیسے ناچ رہے ہیں کہ آج تم نے جمیندار کی ٹھکائی کر دی۔ ایک آدمی نے چند بچوں عورتوں اور مردوں کی طرف اشارہ کیا جو مارے خوشی کے واقعی ناچنے گانے لگے تھے۔‘‘
بندو کا دل ایک عجیب سی امید اور خوشی سے بھر سا گیا۔ کئی لوگوں نے اس سے اصرار کیا کہ ہمارے گھر چلیں مگر وہ وہیں ایک پیڑ کے کنارے لیٹ گیا اور پتہ نہیں دل پر سے کیسا بوجھ سا ہٹ گیا تھا کہ اسے وہیں پڑے پڑے نیند لگ گئی۔
پتہ نہیں کتنا وقت گزر گیا تھا۔ گھوڑوں کے ہنہنانے، بیل گاڑیوں کی کھچر کھچر، جانوروں کی گھنٹیوں سے اس کی آنکھ کھل گئی مگر وہ غلط سمجھا، اس کی آنکھ دراصل نیلامی بولنے والے کی تیز آواز سے کھلی تھی جو چلا چلا کر لوگوں کو ترغیب دلا رہا تھا، ’’دیکھو لوگو۔۔۔ دیکھو، کیا بڑھیا مال ہے۔ ہاں ہاں ایک ایک کپڑا اتار کر دکھاؤں گا۔ تبھی دام لگانا۔ ہاں تو کس نے کہا تھا کہ ایک سو ایک، ایک سو ایک، دیکھو اب ادھر بھگوان کی کاری گری کا کمال! چَر سے اس نے لڑکی کا بلاؤز پھاڑا۔ دیکھو۔ ذرا غور سے دیکھو کہ کیسا چاندی سا بدن ہے۔ ایسے بدن کے تو۔۔۔ ہاں تو کس نے کہا تھا ایک سو پچاس ایک۔ ایک سو پچاس دو۔ دیکھو ادھر کسی دل والے نے دو سو کی بولی دے دی ہے۔ ابھی ایک کپڑا اور باقی ہے، وہ بھی اتر جائے گا تو پھر دیکھنا کیا حال ہے۔ مچھلی کی طرح ہاتھ سے پھسل پھسل پڑتی ہے سالی۔ اب دیکھو اگر دیکھنے کی طاقت ہو۔ پھر دام لگانے میں کنجوسی مت کرنا بھائی لوگو۔‘‘
بندو بیچ و تاب کھاتا آگے بڑھا۔ ذلیل ندیدی بھوکی نظریں جوان لڑکی کے جسم کو چھیدے ڈال رہی تھیں۔ گھاگرے کے اوپر سے وہ آدھی برہنہ ہو چکی تھی اور نیلامی بولنے والا لوگوں کو اکسائے جا رہا تھا کہ وہ اسے پوری برہنہ کر کے بتائے گا کہ بولی اونچی لگے۔۔۔ گھوڑے اپنے مالکوں کی بے تابی دیکھ کر ہنہنا رہے تھے۔ گاڑی بان بلا ضرورت بیلوں پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ ماحول میں بیک وقت شور بھی تھا اور سناٹے کا تناؤ بھی۔ لڑکی دونوں ہاتھوں سے اپنا جسم چھپانے کی کوشش کرتی اور نیلامی پھر اسے لوگوں کے سامنے ڈھکیل دیتا کہ جی بھر کر دیکھ لیں۔
’’ہم اس چھوکریاں کو کھریدیں گے۔‘‘ بندو پیچ و تاب کھاتا آگے بڑھا اور اپنے تلفظ کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر بولا، ‘‘ مگر پہلے کھوب اچھی طرح دیکھ کر کہ مال کچا نہ نکلے۔‘‘ نیلامی نے اور بیک وقت کئی لوگوں نے حیرت سے مڑ کر بندو کو دیکھا۔ پھر جلدی سے نیلامی بولا، ’’دیکھ لو ساہو۔ پر صورت سے لگتا تو نہیں کہ خرید سکو گے۔‘‘
سارے موجود لوگوں نے زور کا ٹھٹھا مارا۔ بندو نے گھور کر سب کو دیکھا اور دھیرے دھیرے لڑکی کی پیٹھ پر ہاتھ دھر کر اسے ایک طرف لے گیا، جہاں ایک طرح دار گھوڑا کنوتیاں بدل رہا تھا، مانو کسی خوب رو کو سواری کی پیش کش کر رہا ہو۔ تیر کی سی تیزی سے اس نے لڑکی کو گھوڑے پر چڑھایا اور اسی تیزی سے خود بھی چڑھا اور باگیں سنبھال کر بولا، ’’اب جس کسی نے اپنی ماں کا اصلی دودھ پیا ہے وہ ہمارا پیچھا کرے، گھاسلیٹ پینے والوں سے ہماری کوئی شرط نہیں۔‘‘
اور اس تیزی سے اس نے گھوڑا دوڑا یا کہ پہلے تو کوئی کچھ سمجھا ہی نہیں کہ کیا ہو گیا، پھر ہوش ٹھکانے آئے تو سب سے پہلے گھوڑے والا چلایا، ’’ارے میرا گھوڑا۔۔۔‘‘ اور ساتھ ہی کئی اور دوسرے بھی جاگے اور کئی لوگوں نے پھر اپنے اپنے گھوڑے پیچھے ڈال دیے۔
اچانک بندو نے خود بھی ایک ایسی بشاشت اور توانائی محسوس کی جو اتنی زندگی میں اس نے خود میں کبھی محسوس نہ کی تھی۔ گھوڑوں کی پیچھے آتی ہوئی ٹاپوں کو سن کر وہ بڑے ہلکے پھلکے اور پر مزاح لہجے میں لڑکی سے بولا، ’’اب تم دیکھنا چھوکریا، ہم ان بدماسوں کو کیسا چکمہ دیں گے۔‘‘
اور واقعی اس نے ایک عجیب و غریب حرکت کی کہ پیچھے سے کئی گھوڑ سوار اس کے تعاقب میں انتہائی تیزی سے اس کے قریب آ گئے تو اس نے اچانک اپنے گھوڑے کو روک لیا۔ سارے گھوڑ سوار اپنی ہی رو میں خوب دور تیز نکلے چلے گئے اور بندو مخالف سمت میں تیزی سے دوڑ پڑا۔ یہ آنکھ مچولی بڑی دیر تک چلتی رہی اور آخر میں بندو نے گھوڑے کو اتنا تیز دوڑایا کہ پھر کسی خطرے کی گنجائش نہ رہی اور وہ دھیرے دھیرے ہلکی چال پر گھوڑے کو ڈال کر سکون سا محسوس کرنے لگا۔
اس وقت تک دوپہر اتر چکی تھی۔ ماحول میں ایک خوشگوار خنکی رچنی شروع ہو گئی تھی۔ کھیتوں سے پیاری پیاری ہوائیں اپنے ساتھ مدھ ماتی خوشبوئیں لیے چلی آ رہی تھیں۔ ایسے ماحول میں اچانک بندو بے حد بشاش ہو اٹھا۔۔۔ اور اسے خود حیرت تھی کہ وہ جو زندگی بھر ہونٹوں کو سیے رہا، آج یوں ہنسنے پر خود کو مجبور کیوں پا رہا تھا۔
’’مجا آگیا نا؟‘‘ وہ خواہ مخواہ مذاق کے موڈ میں آگیا تھا۔ لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ بڑی دیر بعد جیسے وہ اپنے آپ کو حالات کی شدت میں ڈھال سکی۔ پھر بولی، ’’آپ بہت اچھے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ وہ ہاں کو لمبا کر کے بولا، ’’اچھے تو ہم بہت سوں کو لگتے ہوں گے پر ہم کو بھی تو کوئی اچھا لگے۔‘‘ اس پر لڑکی نے اچانک اسے پلٹ کر دیکھا اور وہ یکبارگی ششدر سا رہ گیا۔
’’کھوبصورت تو واکئی تم اتنی ہو کہ دو ہجار میں بھی بکتی تو کم تھا۔‘‘ لڑکی نے پھر سے پلٹ کر اسے دیکھا۔ اب کی بار اس کے چہرے پر ذرا غصہ تھا۔ ’’مگر یہ چکر کیا تھا نیلامی کا؟‘‘ وہ اس کے کان میں جھک کر بولا۔ لڑکی ذرا آزردہ ہو گئی۔ بولی، ’’بے سہارا عورت راستے میں پڑا سکہ ہوتی ہے جسے کوئی بھی راہ چلتا، جیب میں اٹھا کر ڈال لیتا ہے۔‘‘
بندو آنکھیں سٹ پٹا کر بولا، ’’انگریجی تو بہت بڑھیا بول لیتی ہو۔‘‘
’’انگریزی؟ وہ عجیب سے لہجے میں بولی، ’’جو اپنی زبان سے بات کرنے کو ترستا ہو، وہ دوسروں کی زبان میں کیا بات کرے گا بھلا۔‘‘
’’اب تو تم اور بھی بڑھیا انگریجی بول گئی ہو۔ واہ۔‘‘
’’پتہ نہیں کس مسخرے سے پالا پڑ گیا ہے۔‘‘ لڑکی نے جھلا کر سوچا۔ لیکن اس کا ذرا بھی سنجیدگی سے اس پر غصہ ہونے کو جی نہ چاہا۔ اتنے ساروں کے مجمع سے یوں بہادری سے نکال لایا۔ بیٹھتے ہی اپنا پگڑ حوالے کر دیا کہ اپنا جسم ڈھانک لو۔ اب اتنی شرافت سے لیے جا رہا ہے۔ کیا ہوا اگر مزاج میں ذرا دل لگی کرنے کی عادت ہے۔ اچانک بندو نے پوچھا، ’’بھوک لگی ہے؟ لگی تو ہو گی۔ ہمیں بھی لگی ہے۔‘‘ پھر کھیتوں میں ادھر ادھر نظر ڈال کر بولا، ’’مگر ہم کچھ لائیں گے تو ہمارے ہاتھ کا کھا لو گی نا؟‘‘
لڑکی نے ذرا حیرت سے اسے دیکھ کر پوچھا، ’’آپ؟‘‘
’’آپ کون ہیں؟‘‘ لڑکی کے دیکھنے کا انداز ایسا تھا کہ وہ اپنے آپ سے بولا، ’’میاں دھرم راج! آپ گئے کام سے۔۔۔‘‘ پھر وہ بے حد لاپروائی سے آسمان کی طرف خوب اونچا ہاتھ کر کے بولا، ’’ہم۔ ہم تو بھیا بہت، بہوت اونچی جات کے باہمن ہیں۔‘‘ پھر ذرا غم سے، ’’مگر جرا گریب ہیں۔‘‘
’’آپ۔۔۔ آپ برہمن ہیں؟‘‘ وہ اِک دم چلتے گھوڑے پر سے کود پڑی، ’’آپ تو ہمارے مائی باپ ہیں۔ آپ کے برابر تو بیٹھنا بھی پاپ ہے۔‘‘
’’دیکھو چھوکریا۔‘‘ وہ ہاتھ ہلا کر بولا، ’’ہم نہ تو عورت ہیں جو تمہاری مائی بن سکیں اور نہ تو۔۔۔ ہم تمہارے باپ بننا چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے دل میں تمہاری اور سے گھور پاپ آگیا ہے اور جب کسی کے دل میں کسی کی طرف سے پاپ آ جائے تو وہ باپ کیسے بن سکتا ہے؟ کیوں کنیا؟‘‘ لڑکی کے چہرے پر ایک حیا آمیز مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے سوچا کس قدر عجیب بات ہے کہ ابھی چند لمحے پیشتر میں ایسے ہی مول تول سے گزر رہی تھی اور دیکھا جائے تو ابھی بھی میں ایک مرد ہی کے ہاتھوں میں ہوں۔ مگر شاید محفوظ ہاتھوں میں۔
لڑکی کو نیچے کھڑا دیکھ بندو ہنسا۔ ’’تم تو گھوڑے پر سے اس مساکی(مشاقی) سے کود پڑی ہو کہ لگتا ہے کہ ساری جندگی گھوڑوں پر سے کودتی رہی ہو۔‘‘ اور ہاتھ بڑھا کر اسے اوپر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا، ’’چلو جلدی سے بیٹھ جاؤ۔ رات پڑے ہمیں اپنے گھر پہنچنا ہے۔‘‘ لڑکی بے حد سعادت مندی سے اس کے سامنے چڑھ بیٹھی۔
’’تمہارا نام تو ہم نے پوچھا ہی نہیں چھوکریا۔‘‘
’’دیوالی۔‘‘ وہ دھیرے سے بولی۔
بندو چونک سا گیا، ’’ارے واہ۔ دیوالی! پھر تمہارے ہاں چراگ اور تیل کا تو کوئی کھرچہ ہی نہیں ہو گا نا۔ دن رات کے اجالے۔‘‘
’’نہیں بابو صائب، ہم لوگ تو اجالوں کے بیچ رہ کر بھی اجالوں کو ترسنے والے لوگ ہیں۔ جس طرح میری ماں ہولی ہو کر بھی زندگی بھر رنگوں کے لیے ترستی رہی۔‘‘ بندو نے اچانک سوچا، یہ بھی محرومیت سے فرار پانے کا ایک راستہ ہے۔ خوشیوں سے محروم لوگ، اجالوں سے محروم لوگ، رنگوں سے محروم لوگ، اگر اپنے نام دیوال، ی ہولی رکھ بھی لیں تو کیا انہیں اجالے اور رنگ مل جاتے ہیں؟ وہ بولا کچھ نہیں۔
’’ماں کو رنگین کپڑے پہننے کا اتنا شوق تھا لیکن وہی بتاتی تھی کہ جب بابا کو بیگار میں گھسیٹا گیا تو وہ بیمار تھے، بہانہ سمجھ کر زمیندار نے اتنا پٹوایا کہ دم نکل گیا۔ پولس کیس بھی نہ بن سکا۔ پیسے میں بڑی طاقت ہے نا؟ پھر ماں نے کبھی رنگین ساڑی نہیں پہنی۔ ساون میں جب سب سکھی سہیلیاں ہری رنگ کی چوڑیاں پہنتی تھیں تو ماں اپنی سفید کفن ایسی ساڑی پہنے برہا کا ایسا درد بھرا گیت گاتی تھی کہ ساجن اگر تم پردیس سے سونا لینے جاتے اور واپسی میں دیر ہو جاتی تو بھلے ہی میرے کاجل ایسے بال چاندی جیسے ہو جاتے، مجھے غم نہ ہوتا، لیکن تم تو ایسے پردیس گئے ہو جہاں سے کوئی واپس ہی نہیں آتا۔‘‘
ماحول اچانک سناٹے میں ڈوب گیا تھا۔ بمشکل بندو پوچھ سکا، ’’اور ماں؟‘‘
’’وہ ہولی تھی نا؟ اس نے اپنے سونے جیسے بدن کی خود ہی ہولی جلا ڈالی۔ زمیندار نے اسے ایک دن گڑ کی راب بنانے اپنی حویلی پر بلایا تھا۔ راب کے ساتھ ساتھ اُسے میری ماں بھی بہت مزے کی لگی تھی۔‘‘
’’تم بھی۔ میں بھی۔ ہم سب ہی، ایک منزل کے راہی ہیں۔۔۔‘‘ خوش مذاقی کا وہ غلاف بندو پر سے سرک گیا تھا۔ وہ غم کے ساتھ کہہ رہا تھا، ’’ہم سب کی ایک ہی کہانی ہے۔‘‘
’’ہم سب کی؟ آپ کی بھی۔‘‘ دیوالی نے حیرت سے پلٹ کر اسے دیکھا، مگر وہ کہیں ماضی میں کھو چکا تھا۔
گھوڑے کی پٹر پٹر سن کر بابا بغل میں جانماز دبائے دروازے میں نکل آیا اور بندو کو دیکھ کر بے حد حیرت سے بولا، ’’میاں تم؟‘‘
’’ہاں بابا میں۔‘‘ بابا حیرت سے دیوالی کو دیکھے جا رہا تھا۔ بندو نے ذرا آنکھیں چرا کر ذرا ادھر ادھر دیکھتے ہوئے تعارف کروایا۔
’’بابا یہ ایک بے سہارا لڑکی ہے۔ راستے ہی میں۔۔۔‘‘ بابا نے مسکرا کر بات اچک لی، ’’تو یوں کہو کہ راستے ہی میں منزل مل گئی۔‘‘ بندو شرما کر آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔
’’نہیں بابا وہ کچھ بات ایسی ہو گئی کہ۔۔۔‘‘ وہ ہاتھ ملتے ہوئے ذرا پشیمانی سے کہنے لگا، ’’بابا میں آپ کو بعد میں ساری بات بتاؤں گا اور دیوالی کی آنکھ بچا کر اس نے بابا کے آگے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔ بابا نے ہنس کر دیوالی کو گلے سے لگایا، ’’بیٹی بڑی نصیب والی تھی جو اچھے ہاتھوں میں پڑ گئی۔۔۔‘‘ دیوالی نے گھبرا کر پہلے بندو پھر بابا کو دیکھا۔ بابا نے بڑی جلدی سے بات سنبھال لی، ’’میرا مطلب تھا ہمارے یہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی بیٹی تمہیں۔ مجھے اپنے باپ کی جگہ سمجھنا اور۔۔۔‘‘
بندو جلدی سے اس کے کان میں جھک کر بولا، ’’مگر خدا کے لیے مجھے بھائی نہ سمجھ لینا۔‘‘
بابا کھانے پینے کا انتظام کرنے اندر گیا تو بندو بڑی پریشانی سے بولا، ’’یہ سالا گھوڑا تو میری جان کو ہی چپک گیا۔‘‘ دیوالی مسکرا کر بولی، ’’ارے واقعی آپ نے اسے کھلا چھوڑ دیا ہے پھر بھی جا ہی نہیں رہا۔‘‘ بندو ہنس کر بولا، ’’ہم رسی تو کھلی چھوڑ دیتے ہیں مگر محبت سے باندھ لیتے ہیں۔‘‘ دیوالی شرما کر دروازے میں چلی گئی۔ گھوڑے کی پیٹھ تھپ تھپا کر بولی، ’’اب تو وہیں چلا جا جہاں سے ہمیں لایا تھا۔ میں اپنے گھر پہنچ گئی ہوں۔‘‘
کھانے وانے سے فارغ ہو کر بندو نے اکیلے میں بابا سے پوچھا، ’’بابا میں دیوالی کو کہاں رکھوں؟‘‘ بابا نے ذرا حیرت سے اسے دیکھا، ’’اپنے پاس اور کہاں؟‘‘
’’لیکن بابا۔۔۔‘‘ وہ پریشانی سے ہاتھ ملتے ہوئے بولا، ’’آپ بات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ میرے سینے پر آنے والے خطرے کی دو دھاری تلوار لٹک رہی ہے۔ میں جو لوگوں کی نگاہوں میں دھرماتما بن کر راج کر رہا ہوں، اگر انہیں پتہ چل جائے کہ میں نے گھر میں ایک ہریجن لڑکی رکھی ہے تو سماج کے یہ ٹھیکے دار مجھے جینے دیں گے؟ شکوک اور مخالفتوں کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو گا اور میرا سارا مشن ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔‘‘
’’تو میں رکھ لوں؟‘‘ بابا نے مشورہ دیا۔ بندو نے جھونپڑے پر ایک نظر ڈال کر دھیرے سے کہا، ’’بابا میں چاہتا تھا کہ ایک خزاں رسیدہ پودا جسے پالا مار گیا ہے، ذرا بہار بھی دیکھ لے۔‘‘ بابا منھ اٹھائے پریشانی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ کہے گیا، ’’بابا، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ دونوں ہی میرے ساتھ چل کر رہیں۔ دیکھنے والے سوچیں گے کہ آپ باپ بیٹی ہیں۔ میرے مہمان ہیں۔‘‘ اور بڑی آس سے اس نے بابا کو دیکھا۔ بابا نے ہاتھ ملتے ہوئے بے چارگی سے دیکھا۔
’’میں نے کبھی سکینہ کو اکیلا نہیں چھوڑا بیٹا۔۔۔‘‘ اور وہ خاموش رہ گیا۔ گھٹنوں کے بل جھک کر اس نے بابا کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ ’’بابا روحوں کا اگر کوئی وجود ہے اور وہ دیکھ سکتی ہیں، محسوس کر سکتی ہیں تو ماں جی کبھی برا نہیں مانیں گی۔ آپ نے مجھے بیٹا بنایا ہے نا؟ میں ماں جی کا بھی بیٹا ہوا نا؟ کیا اولاد کا اتنا بھی حق نہیں ہوتا۔۔۔‘‘
بابا اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے بولا، ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے بیٹا۔‘‘ اس نے بندو کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’لیکن حالات سنبھل جائیں گے اور تم دونوں کی شادی ہو جائے گی تو پھر میں یہیں چلا آؤں گا۔‘‘ وہ آنسو پونچھنے کو رکا، ’’برسوں کا بندھن بڑی مشکل سے ٹوٹتا ہے بیٹا۔ بڑی مشکل سے۔۔۔‘‘
دوسرے دن بندو سوٹ بوٹ میں ملبوس لمبی سی گاڑی میں سوار ہو کر آیا تو دیوالی اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ آج وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق معلوم ہو رہا تھا۔ با وردی ڈرائیور نے مؤدب ہو کر کار کا دروازہ کھولا اور وہ یوں اترا جیسے بادشاہ اترتے ہیں۔ پھر وہ جھونپڑے کے اندر آیا۔ بابا اور دیوالی کو گاڑی میں بٹھایا اور ایک بہت ہی شاندار شاپنگ سینٹر میں جا کر گاڑی رکوا دی۔
دیوالی کے لیے ڈھیر سارے کپڑے اور عورتوں کے ساج سنگار والا خوب سامان خرید کر جب وہ پھر گاڑی میں آ بیٹھا، تب بھی دیوالی سحر زدہ سی اسے دیکھتی رہی۔ پھر جب گاڑی ایک عظیم الشان بنگلے پر جا کر رکی اور نوکر لوگ دوڑتے ہوئے آئے، تب بھی وہ یونہی بھونچکی رہی، پھر جب ان کے داخل ہوتے ہی ایک مستعد بیرا سفید وردی میں ٹھنڈے مشروبات طشت میں سجائے داخل ہوا تو وہ جو سانس روکے تنی سی بیٹھی تھی، ذرا پرسکون ہوئی۔ اب وہ سمجھ گئی کہ یہ سفید لباس والا ہی اس گھر کا مالک ہے۔
’’شاید ہم لوگ دعوت میں آئے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے آپ کو سنایا۔
مگر بندو نے ایک کمرے تک دیوالی کو لے جا کر بتایا کہ اب سے اس کمرے میں تم رہو گی۔ تو وہ پھر ڈر سی گئی۔ بندو کا مرصع لب و لہجہ اور مہذب انداز گفتگو۔۔۔ وہ اپنے حواسوں پر شک کرنے لگی۔
’’اور سنو۔۔۔‘‘ وہ حجت سے بولا، ’’یہ سارے کپڑے تمہارے ہیں، انہیں اس الماری میں سنبھالو اور ساتھ ہی باتھ روم ہے۔ جا کر نہا لو۔‘‘ پھر اس نے مڑ کر ایک نوکر کو مخاطب کیا، ’’میم صاحب کے لیے گرم گرم کافی اور ٹوسٹ لے آؤ۔‘‘
تو پھر خود کو پاگل لگنے لگی۔ اب جو غور سے اس نے مڑ کر اپنے کمرے پر نظر ڈالی تو چکراسی گئی۔ عظیم الشان خواب دیکھنے کے لیے بھی پہلے حقیقت کی دنیا کا وجود ضروری ہوتا ہے۔ کوئی انسان اپنے سامنے اعلیٰ اور ناممکن چیزیں دیکھے تبھی وہ اپنے تصور میں انہیں سوچ سکتا ہے اور خواب میں پا سکتا ہے۔ یہاں تو زندگی میں ایسی کوئی رنگین گھڑی آئی ہی نہیں تھی۔ پھر یہ سب کیا تھا؟ ہاں گاؤں کی ایک بڑھیا دادی سبھوں کو کبھی کبھار ایک پری محل کی داستان ضرور سناتی تھی۔ تو۔۔۔ تو کیا یہ وہی پری محل تھا اور وہ اس کی پری؟ اس نے زور سے سر کر جھٹکا۔ کہیں خواب تو نہیں؟
نہیں۔ خواب نہیں تھا۔ سامنے ہی ایک کالی کالی سی شے کو کان اور منھ سے لگائے وہ برہمن اس پر لاکھوں کی باتیں کر رہا تھا۔ اسے ہنسی آ گئی۔ پاگل ہے۔ آس پاس کوئی بھی نہیں اور اکیلے میں بک بک کیے جا رہا ہے۔
’’ہاں ہاں۔ دو لاکھ ہی کی تو بات ہے نا۔ ارے تو اس میں پوچھنے کا کیا سوال ہے، بھئی مال اٹھا لو فوراً۔ ایسے موقعے قسمت سے ہی ہاتھ لگتے ہیں۔‘‘
’’تو کماری دیوی جی۔ ایسے موقعے قسمت سے ہی ہاتھ لگتے ہیں۔ شاید کبھی پچھلی زندگی میں تم نے کوئی پن کیا ہو اور بھگوان نے اس کا یہ صلہ دیا ہو!‘‘
کھانے کی لمبی چوڑی ٹیبل پر بھی دیوالی منھ تھتھائے بیٹھی رہی۔ بابا تو ٹیبل کرسی پر یونہی اٹ پٹا سا محسوس کر رہا تھا۔ دیوالی بھی بڑی سخت مشکل میں پھنسی ہوئی تھی۔ بابا کھا کر چلا گیا تو دھرم راج نے شرارت سے اسے چھیڑا، ’’کھائیے بیگم صاحب۔ نزاکت کے لیے ساری عمر پڑی ہے۔‘‘
دیوالی منھ چڑھا کر بولی، ’’ہم بہت۔۔۔ بہوت اونچی جات کے باہمن ہیں۔۔۔ پر جرا گریب ہیں۔‘‘ پھر وہ کھڑی ہو کر غصہ سے بولی، ’’آپ کو جھوٹ بولتے شرم نہیں آتی۔ آخر یہ سب ڈھونگ رچانے کا کیا مطلب تھا؟‘‘
’’مطلب وطلب کچھ نہیں کماری جی۔ بات بس اتنی سی ہے کہ میں چاہتا تھا آپ مجھ سے بالکل بے تکلفی محسوس کریں۔‘‘ پھر وہ شرارت سے بولا، ’’ویسے آپ آزاد ہیں جہاں چاہیں جا سکتی ہیں۔ مگر بس اتنی بات تھی کہ سوچا تھا آپ ساتھ رہیں گی تو ذرا ایک ساتھ بیٹھ کر چائے وائے پی لیا کریں گے۔‘‘
دیوالی نے اسے غصہ سے گھور کر دیکھا تو وہ جلدی سے بولا، ’’م۔۔۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہمیشہ چائے ہی پیا کریں۔ آپ چاہیں تو شوق سے کافی بھی پی سکتی ہیں۔ یہ تو اپنی اپنی پسند کا سوال ہے۔‘‘ دیوالی منھ پھیر کر مسکرا دی۔
رات کو دیوالی سو گئی تو بندو بابا کے کمرے میں آیا، ’’بابا زندگی میں پروگرام تو بہت سارے بنا رکھے ہیں، اب شروعات کرنی ہے۔ میں اپنے گاؤں سے ابتدا کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تو بسم اللہ کرو میاں، نیک کاموں میں سوچ بچار کیسا؟‘‘
’’بابا آپ میرے لیے دعا کیجیے۔‘‘ وہ ان کے پیروں میں جھکنے لگا۔ بابا نے پکڑ کر اٹھا لیا۔
’’بیٹا سر صرف خدا کے حضور میں جھکتے بھلے لگتے ہیں۔ ہم حقیر بندے، کیوں ہمیں گنہ گار کرتے ہو۔ اور رہی دعا کی بات تو میری ہر آتی جاتی سانس، تمہارے حق میں دعا گو ہے۔‘‘
٭
لمبی سی گاڑی ایک نرم ہچکولے کے ساتھ رک گئی اور بنا ڈھم ڈھم کے ہی ایک جم غفیر اس کے آس پاس جمع ہو گیا، مانو کوئی نیلام ہونے جا رہا ہو۔ بچے، عورتیں، متجسس مرد، ادھ ننگے، بھوکے فاقوں سے ادھ موئے، جن کے جسموں پر میل کی تہیں چڑھی ہوئی تھیں، جن کے چہرے زبانِ حال سے کہہ رہے تھے، ’’ہم بھوکے ہیں۔ ہم بھوکے ہیں۔‘‘
ڈرائیور نے ایک نسبتاً معقول آدمی سے پوچھا، ’’یہاں کوئی زمین بکاؤ ہے؟‘‘ آدمی۔ م۔ م۔ مم کر کے ہکلا کر رہ گیا۔ مارے رعب کے اس کی زبان ہی نہ کھلی۔ اب دھرم راج نے گاڑی سے اتر کر ذرا اپنائیت سے پوچھا، ’’ارے بھائی۔ یہاں کوئی زمین، کھیت، خالی جگہ بکنے کے لیے ہے۔‘‘
’’ہے صائب۔‘‘ ایک دوسرا آدمی بولا۔ پھر ہاتھ کے اشارے سے بولا، ’’بہت ہے صائب۔ م۔ مم مگر۔۔۔‘‘
’’مگر کیا؟‘‘ دھرم راج نے نرمی سے پوچھا۔
’’جمین دار صاحب کی ہے سب جگہ۔‘‘
’’ٹھیک ہے ہم بات کر لیں گے۔ وہ اس وقت مل سکیں گے۔‘‘
’’کیں نئیں صائب۔ وہ سدا حویلی میں ہی تو رہتے ہیں۔ مگر چھوٹے سرکار ملیں گے۔ لین دین اب وہی کرتے ہیں۔‘‘
’’تو آؤ ہمارے ساتھ چل کر حوالی کا راستہ دکھاؤ۔‘‘ اس نے گاڑی میں بیٹھ کر اس کے لیے جگہ بناتے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ اس کا دس بارہ سال کا بچہ بھی تھا۔ اس نے ہچکچا کر بچے کو دیکھا۔ پھر گاڑی کو۔ دھرم راج مسکرا دیا، ’’کوئی بات نہیں۔ بچے کو بھی ساتھ بٹھا لو۔‘‘
گاڑی چل پڑی۔ پیچھے بہت سارے پھل رکھے ہوئے تھے۔ دھرم راج نے انگور کا ایک بڑا سا خوشہ اٹھا کر بچے سے پوچھا۔۔۔ بڑی نرمی سے مسکرا کر، ’’یہ تمہیں کیسے لگتے ہیں؟‘‘
’’بہت سندر۔‘‘ بچہ غور سے انگور دیکھتے ہوئے بولا۔
’’سندر؟‘‘ دھرم راج حیرت سے بولا، ’’ارے بھائی میں ان کی سندرتا کی بات نہیں کر رہا، میں پوچھ رہا ہوں ان کا مزہ تمہیں اچھا لگتا ہے؟‘‘
بچے نے بے بسی سے باپ کو دیکھا۔ باپ نے سر جھکا کر جواب دیا، ’’صائب بارہ برس کا یہ ہو گیا۔ آج جندگی میں پہلی بار انگور دیکھ رہا ہے۔ اور یہ سنگترے اور چیکو اور انناس اگر آپ گاؤں کے کسی بھی بچے کو بتائیں تو کوئی یہ نہیں سمجھے گا کہ یہ کھانے کی چیج ہیں۔ وہ۔۔۔‘‘
’’نہیں۔ نہیں۔۔۔‘‘ دھرم راج زور سے چلایا اور اس نے اپنی بانہہ میں اپنا منھ چھپا لیا۔
حویلی آ گئی تھی۔ اس نے اپنا چہرہ اوپر کیا تو اس کا منھ آنسوؤں سے تر بتر ہو رہا تھا۔ ان پھولوں کو کھلنے دو۔ ان پھولوں کو کھلنے دو۔ اس نے تڑپ کر اپنے آپ کو سنایا۔
دو ایسے انسان آمنے سامنے کھڑے تھے، جنہیں ایک ہی ماں نے جنم دیا تھا لیکن دو الگ الگ ماؤں نے انہیں اپنا دودھ پلایا تھا۔ اور یہ دودھ کی پکار تھی کہ ایک غریبوں کو اوپر لانے کی بات کر رہا تھا اور دوسرا انہیں پچھاڑنے کی۔
’’دھرم راج جی! آپ کے وِچار ویسے بہت اونچے ہیں۔ اسکول اور ہاسپٹل کھولنے کی اسکیم بھی بہت اچھی ہے، لیکن آپ جانیں یہ نیچ لوگ، لاکھ آپ سر پٹخیں، سدھرنے والے نہیں۔ آپ نے وہ کہاوت نہیں سنی کہ کتے کی دم بارہ سال نلی میں رکھو مگر رہے گی پھر بھی ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔‘‘
آس پاس بیٹھے ہوئے چھوٹے سرکار کے گرگوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ دھرم راج سنجیدگی سے بولے، ’’اگر دُم کاٹ ہی دی جائے تو۔‘‘ سب کے ہنستے ہوئے منھ لٹک گئے۔ پھر وہ اسی رو میں کہے گئے، ’’سوال صرف زمین کے بیچنے اور خریدنے کا ہے، میں آپ سے سماج سدھار کے اپدیش لینے نہیں آیا۔ ٖآپ قیمت بتائیے۔‘‘
’’جس ٹکڑے پر آپ زمین لے کر ہاسپٹل بنانا چاہ رہے ہیں، وہ تو بہت ہی ہوادار ہے۔ کھلے مقام پر ہے، گورنمنٹ بھی ایک بار کوشش کر چکی مگر ہم نے طرح دے کر ٹال دیا۔ آپ اگر چاہتے ہی ہیں تو تین لاکھ میں ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے ایک لاکھ سے بھی کم قیمت زمین کو خوب اونچا کر کے بتایا اور دوسری اسکول والی زمین دو لاکھ میں۔۔۔‘‘ اور وہ دھرم راج کے چہرے پر رد عمل دیکھنے کے لیے ذرا رک گئے، جو کھڑے ہو چکے تھے۔
’’ٹھیک ہے۔ میرا سکریٹری کل ضروری کاغذات کے ساتھ آ جائے گا۔ باقی معاملات آپ اور ہم شہر میں طے کر لیں گے۔‘‘
چھوٹے سرکار اور ان کے گرگے دیکھتے ہی رہ گئے اور دھرم راج نپے تلے پراعتماد قدموں سے چلتے اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ بھی گئے۔ لوگوں کا جم غفیر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے گاڑی سے سر نکال کر کہا، ’’اس گاؤں میں آپ لوگوں کی صحت اور بچوں کی مناسب تعلیم کے لیے، ہم ایک ہاسپٹل اور ایک اسکول کھولیں گے۔ علاج بھی مفت ہو گا۔ تعلیم بھی۔ کتابیں، کاپیاں، پنسلیں، ضرورت کی ہر چیز اسکول سے ہی مفت ملے گی۔‘‘ اچانک اس نے سوچا کہ اگر ان سبھوں کو پتہ چل جائے کہ میری اصلیت کیا ہے تو۔۔۔؟
دوسری بار دھرم راج سونا گاؤں آئے تو زمین دار کی ایک اور بڑی خالی حویلی کا سودا کر گئے۔ وہ چاہتے تھے گاؤں میں بھی ایک مکان رہے تاکہ وقتاً فوقتاً اس میں آ کر رہیں اور زیر تعمیر بلڈنگوں کا خود بھی جائزہ لیتے رہیں۔ تیسری بار جب اپنی لمبی سی گاڑی میں دھرم راج گاؤں آئے تو بات چیت بجائے چھوٹے سرکار کے بڑے سرکار نے کی۔ قہقہہ لگا کر بولے، ’’بڑا بھاری دل دیا ہے بھگوان نے آپ کو۔ ہم نے تو لوگوں کو جمع کرتے ہی دیکھا ہے خرچ کرتے نہیں۔‘‘
دھرم راج اس شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے دیکھتے رہے، جس نے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی ماں کا قتل کر دیا تھا۔ ہاں وہ قتل ہی تو تھا۔ اور وہ لمحہ۔۔۔ زندگی کا وہی لمحہ ایسا فیصلہ کن لمحہ تھا، جس نے انہیں ہندوستان بھر کی غریب ماؤں کے لیے، مجبور جوانیوں کے لیے، بھوکے پیٹوں کے لیے ایک مشعل روشن کر دینے کا عظیم الشان حوصلہ عطا کر دیا تھا۔ آج وہی شخص ان کے سامنے کھڑا تھا اور یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ وہ اس کے سامنے مسکرا رہے تھے۔
’’رائے صاحب!‘‘ وہ مسکرائے، ’’انسان دنیا سے خالی ہاتھ آتا ہے، جاتا بھی خالی ہاتھ ہی ہے۔ پھر اگر ہم اپنے ہی جیسے چند انسانوں کو آرام اور خوشیوں کا سامنا کرا سکتے ہیں تو یہ جوڑ جمع کس لیے؟‘‘
’’پھر بھی ان سکوں کے پیچھے ہی ساری دنیا دیوانی ہے؟‘‘ رائے صاحب ہنسے۔
’’دیکھیے رائے صاحب آسان سی بات ہے۔‘‘ دھرم راج نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ کیا، ’’وہاں یہ سکے کام نہیں آتے جو ہم یہاں جوڑ کر رکھتے ہیں اور جو سکہ وہاں چلتا ہے وہ ہم جیسے گنہ گاروں کے پاس وہاں نہیں ہو گا۔ تو پھر ان سکوں کا حساب یہیں کیوں نہ صاف کر کے بھگوان کے سامنے جائیں۔۔۔‘‘ رائے صاحب اس حساب سے بھنا کر بولے، ’’آپ بھگوان میں بہت وشواس رکھتے ہیں! بہت بڑی بات ہے جناب، ورنہ آج کل کی نئی پود بھگوان کو کیا ماں باپ کو بھی نہیں مانتی۔‘‘
’’بھگوان کی بھگتی مندر میں چند پھول ہار اور ناریل چڑھانے سے نہیں ہوتی رائے صاحب۔ انسانیت کی خدمت اور سیوا سب سے بڑی بھگتی، سب سے بڑی عبادت ہے اور میں اسی سیوا میں وشواس رکھتا ہوں۔‘‘ رائے صاحب ذرا بور ہو کر بولے، ’’آج آپ کی آمد کا مقصد کیا تھا؟‘‘
’’مجھے اس بار بزنس میں امید کے خلاف کچھ زیادہ ہی منافع ہو گیا۔ چونکہ مجھے اس کی کوئی آس نہیں تھی اس لیے ضرورت بھی نہیں ہے، اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ گاؤں کے جو ہریجن بہت زیادہ غریب ہیں، سب سے زیادہ غریب ہیں، ان کو کم سے کم ایک ایک ایکڑ زمین خرید کر تحفہ دے دوں کہ خود ہی کاشت کریں کھائیں۔ نہ کوئی مالک نہ کوئی نوکر۔‘‘
رائے صاحب نے پینترا بدلا۔ ذرا گرم ہو کر بولے، ’’اس طرح تو ہمارے کھیتوں اور زمینات کے لیے مزدور نہیں مل سکیں گے۔‘‘
’’تو ہمارے اپنے یہ دو ہاتھ دو پیر کس لیے ہیں، اگر بھگوان ہر کسی کو دوسرے کا محتاج کر کے بھیجنے والا ہوتا تو ہر ایک کے ساتھ اسپیئر پارٹس کی طرح چند ہاتھ، چند پاؤں، چند سر بھی روانہ کرتا۔ لیکن ظاہر ہے کہ بھگوان بڑا عقل مند آدمی ہے۔ اس نے ہر انسان کو دو ہی ہاتھ دیے ہیں اور دو ہی پاؤں۔ پھر ذرا رک کر، ’’۔۔۔ تو آپ زمین بیچ رہے ہیں۔‘‘
چھوٹے سرکار نے بتا دیا تھا کہ دھرم راج بڑا خرچیلا، پاگل اور سرپھرا سا جوان ہے۔ ایک ایک لاکھ کے دس دس لاکھ روپے دینے سے بھی نہیں چوکتا۔ لین دین کی بات میں ہی کروں گا۔ اس لیے وہ تلملا کر رہ گئے۔ ویسے دل میں تو یہ آ رہا تھا کہ اسے اٹھا کر چمٹے سے پکڑ کر پھینک دیں۔
’’دیوالی۔ چلو آج تمہیں سونا گاؤں گھما لائیں۔‘‘
دیوالی مسکرا کر بولی، ’’میں آپ کے ساتھ بیٹھی کیسی لگوں گی؟‘‘
’’گاڑی جگمگانے لگے گی۔‘‘
دیوالی شرما گئی، ’’آپ تو مذاق بنا رہے ہیں میرا۔ میرا مطلب تو کچھ اور تھا۔‘‘ وہ اداس سی ہو گئی، ’’آپ اتنے بڑے مہان آدمی، پھر برہمن۔۔۔ میں نیچ ذات کی لڑکی۔۔۔‘‘
’’تمہیں پتہ ہے بھگوان رام نے اچھوت شودری کے جھوٹے بیر کھائے تھے، لوگوں نے بہت غصہ بھی کیا تھا لیکن بھگوان رام نے جواب دیا تھا، جو چیز من کی لگن، اور شردھا سے کھلائی جائے وہ پوتر ہوتی ہے۔۔۔‘‘ پھر وہ عجیب شرارت بھرے لہجے میں بولا، ’’ہمیں ایک آدھ دن اپنے جھوٹے بیر کھلاؤ نا۔‘‘
’’پھر آپ بھی میری طرح نیچ جاتی کے ہو جائیں گے۔‘‘ دیوالی تو یہ کہہ کر ہنس کر بھاگ گئی اور دھرم راج سناٹے میں آگیا۔ دھرم راج دیوالی کے ساتھ ہنس بول لیتا تھا، لیکن اکیلے پن میں بس یہی خیال مارے ڈالتا تھا،
’’پہچان نہ لے کوئی۔‘‘
’’پہچان نہ لے کوئی۔‘‘
بڑی محفلوں میں مذہب، بھگوان، گیتا، پاٹھ، مندر یاترا، ان تمام موضوعات سے وہ سخت کتراتا، کیونکہ اس کی زندگی میں ان چیزوں کا کوئی دخل تھا نہ معلومات۔ جہاں ساری زندگی ہی بڑے لوگوں کے دھکے، جوتے، لاتیں کھاتے گزری ہو وہاں ان باتوں کا گزر ممکن بھی کیسے تھا؟ دن رات یہی دھڑکا اس کے جی کو مارے ڈالتا کہ کوئی میرے ماضی کو نہ کھوج بیٹھے۔ حالانکہ وہ یہ بات بھی بخوبی جانتا تھا کہ اس کے ماضی کا راز دار سوائے بابا کے اور کوئی نہیں ہے اور بابا پر اسے اپنی ذات سے بھی کچھ زیادہ ہی بھروسہ تھا۔ اسے ڈر تھا تو صرف یہ کہ اس کے کام ادھورے نہ رہ جائیں۔ ایک بار اگر لوگوں کا وشواس اٹھ گیا تو پھر کبھی بات نہ بن پائے گی۔ لوگ اس کی دھجیاں بوٹیاں کر دیں گے۔ مذہب کے نام پر اتنا بڑا جوا کھیلا بھی نہیں جا سکتا۔ کم سے کم اتنی دیر تک نہیں کھیلا جا سکتا اور جو گاؤں کے لوگوں نے اس کے دیالو پن سے متاثر اور با امید ہو کر یہ درخواست کی تھی کہ اچھوتوں کے لیے ایک مندر الگ سے بنوایا جائے کہ وہ بھی کسی کے آگے ماتھا ٹیک سکیں، تو نہ صرف یہ کہ اس نے حامی بھر لی تھی بلکہ ساتھ ہی یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اونچی ذات کا برہمن ہونے کے باوجود وہ پہلے دن سب اچھوتوں کے ساتھ مندر میں بیٹھ کر پرارتھنا کرے گا اور بھجن کیرتن کرے گا۔
دیوالی تیار ہو کر آئی تو وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ دیوالی کو دیکھ کر پتہ نہیں اس کی ساری فکریں اور وسوسے کہاں پر لگا کر اڑ جاتے تھے اور وہ فوراً ہی ہنستا کھیلتا مسکراتا ایک عام سا نوجوان رہ جاتا۔
’’ماں قسم۔ آج تو ڈائرکٹ شادی ہی کر لینی پڑے گی۔‘‘ دیوالی زور سے اس انداز پر ہنس پڑی۔ پھر اک دم سنجیدہ ہو کر بولی، ’’آپ کے منھ سے آج پہلی بار ماں کا لفظ سنا ہے۔ میں نے کبھی پوچھا بھی نہیں۔ آپ کے گھر والے کہاں ہیں؟‘‘
دھرم راج اک دم سے رنجیدہ ہو گیا۔ ماں۔ ماں۔ ماں۔ تم کہتی ہو کہ آج پہلی بار میرے منھ سے یہ لفظ سنا ہے اور میں کہتا ہوں میرے جیون میں میری ہر باہر آنے والی سانس میں، میری ہر اندر جانے والی سانس میں، میرے روم روم میں صرف اسی ایک لفظ کی پکار گونجتی ہے۔ وہ منھ سے کچھ نہ بولا۔ مسکرا کر رہ گیا۔
’’کسی دن اپنی ماں سے ملانے ضرور لے چلوں گا۔ مگر وہ بات نہیں کرے گی۔ اسے اب مجھ سے زیادہ نیند پیاری ہے۔‘‘
دیوالی نے دکھ سے دیکھا۔ وہ انسان، تقدیر جس کے سامنے سرنگوں تھی، دولت جس کے گھر کی باندی تھی، جو جی چاہے خرید سکتا تھا، جسے چاہے خرید سکتا تھا، ماں کے نام پر ایک بچے کی طرح رونے لگا تھا۔ ماں! وہ عظیم محبت جسے ساری دنیا کی دولتیں مل کر بھی نہیں خرید سکتیں۔
گاڑی کے سونا گاؤں پہنچتے ہی مخصوص ہارن کی آواز سن کر لوگ جمگھٹے کی شکل میں جمع ہونے لگے۔ دھرم راج ان کے لے بھگوان کا، اوتار کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ بغیر کسی مطلب اور چھل کے وہ جو کچھ بھی کر رہا تھا، اس نے سبھوں کو اس کا بن داموں غلام بنا کر رکھ دیا تھا۔ ایک ایک کر کے آنے اور چرن چھونے والوں کا تانتا ختم ہی نہ ہوتا تھا، ہر منھ سے دعا نکل رہی تھی۔ دیوالی نے اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھا اور بڑی شردھا سے بولی، ’’آپ نے میری ضروریات کا ہر سامان لا کر دیا تھا، میں روز سوچتی تھی کہ آپ سے کہوں کہ بھگوان کی ایک مورتی بھی لا کر دیں۔۔۔‘‘ دھرم راج نے اسے ذرا حیرت سے دیکھا، ’’۔۔۔ لیکن میں بھی کتنی نادان تھی۔ بھگوان تو میرے گھر میں، میرے کمرے میں، میرے اپنے دل میں ہی موجود ہے۔ مجھے مندر جانے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ آپ جو میرے بھگوان۔۔۔‘‘
’’مجھے اتنا اونچا نہ اٹھاؤ دیوالی۔‘‘ وہ تیزی سے بولا، ’’مت اتنا اونچا اٹھاؤ کہ گروں تو سنبھل بھی نہ سکوں۔ مت مجھ پر اتنا اندھا وشواس کرو۔۔۔‘‘ لوگ باگ چونک کر اسے دیکھنے لگے۔۔۔ دیوالی نے گھبرا کر اسے دیکھا، اس کے ماتھے پر پسینہ پھوٹ آیا تھا۔ اک دم اس نے تیزی سے گاڑی موڑی، ’’آج میں تمہیں سب کچھ صاف صاف بتا دوں گا۔ دیوالی چلو گھر چلیں۔ سینے پر اتنا بڑا پہاڑ رکھ کر میں جی نہیں سکوں گا۔‘‘
دیوالی دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اپنا چہرہ چھپائے ساری داستان سنتی رہی۔ سنتی رہی۔ وہ کہتا رہا۔ کہتا گیا۔
’’اب خدا کے لیے مجھے اونچے اونچے ناموں سے نہ پکارنا۔‘‘
وہ شرارت سے بولی، ’’اب تو میں آپ کو خود سے اور بھی زیادہ قریب پا رہی ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آپ میں اور مجھ میں جو ایک فرق تھا، اونچ نیچ کی جو دیوار تھی، وہ ڈھے گئی ہے اور میں بڑی آسانی سے آپ کو چھو سکتی ہوں۔ پا سکتی ہوں!‘‘
اس رات فانوسوں میں جلتے ہوئے چراغوں کو دیوالی ایک ایک کر کے بچھا چکی اور اندھیرا اپنا تسلط جما چکا تو دھرم راج جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں بولا، ’’تمہیں پتہ ہے دیوالی، تم سارے چراغ بجھا دیتی ہو تو بھی ایک چراغ روشن رہ جاتا ہے۔ تمہارے چہرے کا چراغ۔ جس سے میری زندگی میں روشنی ہے!‘‘
سونا گاؤں کا نقشہ ہی چند مہینوں میں کچھ سے کچھ ہو گیا۔ پکی سڑکیں بن گئیں۔ اسکول کھڑا ہو گیا۔ ہاسپٹل تیار ہو گیا۔ نسبتاً بڑی لڑکیوں کے لیے سلائی کڑھائی کے سینٹر کھل گئے۔ بوڑھے اور کمزور بوڑھوں کو، جن سے کھیتی کی مشقت ناممکن تھی، گھر بیٹھے آمدنی کے لیے بھینس، گائیں دلا دی گئیں، کسی نے فرمائش کی تو پولٹری فارم کھلوا دیا گیا۔
اور اس دن گاؤں کے بیچوں بیچ، جو ایک بہت ہی زرخیز اور شاداب لمبی چوڑی کھیتی تھی، اس کی بات چیت کے لیے دھرم راج تلے ہوئے تھے۔ چھوٹے زمیندار نے حیرت سے آنکھیں پٹ پٹا کر دھرم راج کو دیکھا۔
’’اتنا بڑا کھیت؟ آپ سنبھال نہیں پائیں گے!‘‘
’’مجھے سنبھالنا ہے بھی نہیں۔ وہ میں اپنے لیے نہیں لے رہا ہوں۔ ایک اچھوت خاندان کے 4، 5 گھرانوں کی کھیتی کے طور پر میں انہیں تحفہ دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’قیمت؟‘‘ چھوٹے زمیندار نے بھویں اٹھا کر رعونت سے پوچھا۔
’’میں نے آج تک کبھی قیمت کی بات کی ہے؟ جو مناسب ہو۔‘‘ اور ذرا ہنس کر کہا، ’’جو آپ کی جیب کو بھاتی ہو۔‘‘
بڑے زمیندار نے ہاتھ اٹھا کر بات روک دی، ’’لیکن وہ کھیت تو عین گاؤں کے بیچ میں ہے۔ اس طرح تو یہ نیچ جاتی کے لوگ ہم میں رل مل جائیں گے۔۔۔‘‘
دھرم راج انگلی اٹھا کر بولا،
That is the main point
یہی وجہ ہے کہ میں خاص طور سے وہی زمین خریدنا چاہتا ہوں جو اچھوتوں کو ہمارے بیچ لے آئے۔ میں گاؤں کے پرلی اور سرحدی کناروں پر ہریجن بستیاں بسانے کے خلاف ہوں۔ اسی طرح تو دوریاں بڑھتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں انہیں دور کونے کھدروں میں نہیں، اپنے بیچ میں، اپنے قریب، اپنے دل میں بساؤں، تاکہ دوری کے فاصلے مٹ جائیں۔‘‘
’’لیکن دھرم راج جی آپ یہ بات بھول رہے ہیں کہ برسوں۔۔۔‘‘
دھرم راج نے بڑے زمیندار صاحب کی بات وہیں کاٹ دی، ’’میں جانتا ہوں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔۔۔ یہی نا کہ برسوں سے یہ فاصلے قائم ہیں؟ لیکن یہ فاصلے قائم کس نے کیے ہیں؟ ہمیں نے نا؟ اور ہمیں انہیں توڑیں گے بھی۔ اور سچ جو پوچھیے اگر ہم نہ توڑیں تو اور کون توڑ سکتا ہے؟‘‘ وہ مسکرا کر دونوں باپ بیٹوں کو دیکھنے لگا۔ بڑے زمیندار کو کچھ نہ سوجھا تو اٹھ کر تیزی سے ٹہلنے لگے۔ چھوٹے ٹھاکر اس وقت باپ کی کوئی بات سننے کے موڈ میں نہ تھے۔ منھ مانگی قیمت کا سن کر وہ زمین بیچنے پر اتاؤلے ہوئے جا رہے تھے۔
دھرم راج کو وہیں چھوڑ کر وہ باپ کو اندر لے جا کر سمجھاتے ہوئے بولے، ’’پتاجی! آپ بات کی نزاکت کو نہیں سمجھتے۔ منھ مانگی قیمت کوئی الو کا پٹھا ہی دے سکتا ہے۔ ایک لاکھ قیمت کے کھیت کے پانچ پانچ لاکھ وصول کروں گا۔ سب سے بڑی طاقت پیسہ ہے۔ پیسہ ہو تو ہر جگہ جائداد خریدی جا سکتی ہے اور ہر جگہ حکومت کی جا سکتی ہے۔‘‘
بڑے زمیندار نے دھرم راج پر اپنا غصہ اتارا، ’’الو کا پٹھا۔ بڑا دیش سدھار بنتا ہے، ہماری پوزیشن بگاڑ رہا ہے۔ اور اوپر سے تم ہو کہ گاؤں کے بیچ اچھوتوں کو آباد کرنے میں اس کا ساتھ دینا چاہتے ہو۔ ہمارے پرکھوں سے کبھی ایسی انہونی ہوئی ہے۔۔۔‘‘
لیکن باپ کو بک بک کرتا چھوڑ چھوٹا ٹھاکر پھر سے دھرم راج کے پاس آ چکا تھا، ’’آپ کل تشریف لے آئیے۔ کاغذات تیار کروا لیں گے۔‘‘ پھر اندر کی طرف اشارہ کر کے بولا، ’’پتاجی کی باتوں پر آپ کان نہ دیں۔ پرانے لوگ نئے لوگوں کی بات ذرا مشکل ہی سے مانتے ہیں۔‘‘ دھرم راج مسکرانے لگا۔ پھر ذرا بن کر بولا، ’’یہ ادھر ادھر کے جو گاؤں ہیں، جیسے چندا پور، وہاں آپ کی کوئی زمین کھیتی بکاؤ نہیں ہے؟‘‘
چندا پور کے نام پر چھوٹے ٹھاکر کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا۔ نفرت سے بولا، ’’دھرم راج جی۔ وہاں کے اچھوت تو اور بھی زیادہ نیچ ہیں۔ آپ سے بن نہیں پائے گا ان کو سنبھالنا۔‘‘
’’اور جب میں خود ہی ان میں مل جاؤں، تو؟‘‘ اور واقعی وہ اپنی دھن میں مگن تھا۔
اور یہ سب کچھ محض ایک اور ایک ہی شخص کی بدولت تھا۔ دھرم راج۔ دھرم راج۔ دھرم راج۔ گاؤں والوں کی زبان پر صرف ایک ہی نام تھا۔ ایک ایسا نام جو ان کے لیے بھگوان کے سمان تھا۔
گاؤں میں ایک بچے کے چیچک نکلی۔ دھرم راج ہر کام چوکسی سے اپنی نگرانی میں کرواتے تھے۔ فوراً گاؤں بھر کے لوگوں کے لیے چیچک کے ٹیکوں کا انتظام کیا گیا۔
’’ایک صحت مند معاشرہ ہی بہتر زندگی کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔‘‘ دھرم راج کا اصول تھا۔
حویلی والوں نے طوفان اٹھا کر کھڑا کیا، ’’جن سوئیوں سے یہ نیچ خون والے انجکشن لیں، کیا ہم بھی انہیں سے لیں؟‘‘ چاپلوس ڈاکٹر بھٹناگر ہاں میں ہاں ملائے گیا۔
’’بھگوان نے سب کا خون یکساں ایک ہی رنگ کا بنایا ہے، وہ ایک ہی طرح رگوں میں دوڑتا ہے۔ خون میں اونچ نیچ آ گئی؟ لگاؤ بھائی اسی سوئی سے مجھے بھی ٹیکہ، جس سے ابھی ابھی تم نے کلوا دھیڑ کو لگایا ہے۔‘‘ اور دھرم راج نے اپنا صحت مند گورا گورا بازو آستین ہٹا کر سامنے کر دیا۔
’’اسے کہتے ہیں جی سچا ریفارمر۔‘‘ ڈاکٹر نے چاپلوسی دکھائی اور روئی سے بازو صاف کرنے لگا۔ ایک دم وہ بازو دیکھ کر ذرا چوکنا ہوا۔
’’پدم؟ چاند کا نشان؟ جناب بزرگوں سے جیسا سنا تھا ویسا ہی اس نشان کا اثر پایا؟‘‘
’’کیا سنا تھا بزرگوں سے؟‘‘ دھرم راج مسکرا کر منھ پھیرتے ہوئے بولا۔
’’ارے جناب ہم انگریزی پڑھ، لکھ بھی گئے تو کیا ہوا۔ اپنے پرکھوں بزرگوں کی بات پر ایمان اور وشواس تو رکھتے ہی ہیں۔ یہ صاحب جو آپ کے بازو پر چاند کا نشان ہے نا، بڑے بوڑھے کہتے ہیں یہ پیدائشی نشان عمر بھر نہیں مٹتا اور جس کسی کو بھی بھگوان یہ نشان دے، اس کے اپنے بھاگوان ہونے میں کوئی شک نہیں۔ سو صاحب آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔‘‘
دھرم راج آستین نیچی کرتے ہوئے مسکرا کر بولے، ’’چلیے صاحب ایک چشم دید گواہ تو آج تو ملا۔‘‘ پھر ذرا رک کر بولے، ’’ڈاکٹر صاحب آپ سے ایک ضروری بات یہ کہنی تھی کہ یہ فیملی پلاننگ والے تو لاکھ چیختے رہیں، ہمارے بھائی لوگ تو بچے پیدا کرتے ہی رہیں گے۔۔۔ تو ہاسپٹل میں ایک دو تجربہ کار لیڈی ڈاکٹر رکھنی تھیں مجھے۔ آپ کا تو یہ فیلڈ ہے۔ کوئی جان پہچان کی ڈاکٹرز ہوں تو مجھ سے کہیے گا۔‘‘
’’ایک ڈاکٹر تو میری پہچان کی ہے شانتی ڈاملے۔ بہت تجربہ کار بھی ہے، مگر کچھ سر پھری ہے۔ پہلے اس کا اپنا میٹرنٹی ہوم بھی تھا، پتہ نہیں کیا جی میں آیا، بیچ دیا۔ اب نوکری بھی نہیں کرتی اور ہاسپٹل بھی نہیں رکھا۔‘‘
’’بات کر کے تو دیکھیے ذرا۔‘‘
’’ارے صاحب بات کیا کر کے دیکھوں گا، راضی کر کے ہی لوٹوں گا۔ آپ جیسے بھاگوان آدمی کا کام کون نہ کرے۔ اس گاؤں میں سانچا آدمی تو بس آپ ہی ہیں سرکار۔ باقی تو سب نام کے ہی بڑے ہیں۔ کوڑی کوڑی سینے سے لگا کر رکھنے والے۔‘‘
دھرم راج کے ڈسپنسری سے نکلتے ہی دوسرے لوگ آنے شروع ہو گئے۔ ڈاکٹر کا وظیفہ جاری تھا، ’’ارے صاحب، ہم بھلے ہی انگریزی اور سائنس پڑھ لکھ گئے، لیکن اپنی مان مریادا تو نہیں بھول سکتے۔ اپنے ہی ہاتھوں کیسے ایک ہی سوئی سے برہمن اور اچھوت دونوں کو ایک ساتھ ٹیکہ لگائیں؟‘‘
’’ڈاکٹر بابو! آپ کو بڑے زمیندار نے حویلی پر بلایا ہے۔‘‘ کسی آدمی نے آ کر کہا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
ڈاکٹر صاحب کو جہاں چار پیسے زیادہ ملنے کی آس ہوتی، فوراً وہاں پہنچ جاتے، کیونکہ دھرم راج جی کی ایسی کوئی پابندی ان پر نہ تھی کہ ہاسپٹل کے نوکر ہوتے باہر کے مریض اٹنڈ نہ کریں۔ جی بھر کے دولت سمیٹ رہے تھے اور دلوں میں نفرت کے بیج بھی خوب بو رہے تھے۔ کوئی دن جاتا تھا کہ یہ فصل پک کر تیار ہو جاتی۔
’’وہ دھرم راج کا بچہ کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ بڑے رائے صاحب نے گرج کر پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب نے مسمسی شکل بنا کر جواب دیا، ’’صاحب انہوں نے تو اسی سوئی سے انجکشن لگوایا جس سے تھوڑی دیر پہلے ایک چمار بھنگی کو لگ چکا تھا۔‘‘
’’ہوں!‘‘ وہ تھوڑی دیر چپ رہے۔
’’سارے گاؤں کا ناس مار دیا۔ اب سنا ہے دوسرے آس پاس کے گاؤں میں بھی دستِ شفقت پھیرنے والا ہے۔‘‘
’’جی ہاں جناب۔ ان کے ارادے تو بہت بڑے بڑے ہیں۔ اور صاحب بھگوان نے دولت بھی تو خوب دل کھول کر دی ہے اور دل بھی خوب دیا ہے۔ واہ۔‘‘
’’واہ واہ۔۔۔‘‘ رائے صاحب گرجے، ’’آپ واہ واہ کر رہے ہیں اور یہاں برسوں کی بنائی ہوئی عزت خاک ہو رہی ہے۔ جس کنویں سے ہمارے کھیتوں کو پانی جاتا ہے، اسی سے چمار زادے بھی پانی لے رہے ہیں۔ جیسا اناج ہم کھاتے ہیں، وہ حرام زادے بھی جوار باجری چھوڑ کر چاول گیہوں کھا رہے ہیں۔ بدمعاش کا بچہ۔ انہیں ہائی برڈ سیڈ سپلائی کرتا ہے۔ گاؤں کے لچے لفنگے بھی ہماری ہی طرح کے لباس پہننے لگے ہیں۔ سڑک پر نکلے تو حویلی کی بہو اور گاؤں کی منیارن میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو سکتا۔ اور تو اور۔۔۔ نیچ ذات کے گندے انڈے فر فر انگلش اور صحیح ہندی بول رہے ہیں۔ اور آپ واہ واہ کر رہے ہیں!‘‘
’’تو پھر صاحب میں کیا کروں؟‘‘
’’لوگوں کے دلوں میں پھوٹ ڈالیے۔ نفرت بھریے۔ آپ پڑھے لکھے ہیں، یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے جر سکتے ہیں۔‘‘
’’صاحب مگر میں نوکر تو دھرم راج جی کا ہوں۔‘‘
رائے صاحب گرجے، ’’تو ہم کس الو کے پٹھے کے مالک ہیں پھر؟‘‘ اور انہوں نے ایک موٹی سی گڈی ان کے آگے پھینک دی۔ ڈاکٹر صاحب حویلی سے نکلے تو ایک کتا جھوٹی ہڈی چچوڑتا بیٹھا تھا۔
٭
شانتی ڈاملے کسی حال اپنا ادارہ بدلنے پر راضی نہ تھیں۔
’’کمال ہے۔‘‘ ڈاکٹر بھٹناگر چڑ کر بولے، ’’بیٹھے بٹھائے ہزار روپے مہینے کی آمدنی ٹھکرا رہی ہو۔ آخر لوگ ڈاکٹر سیوا کرنے کے لیے ہی بنتے ہیں۔ کوئی گھر بیٹھنے کے لیے تو نہیں۔‘‘
’’نہیں ڈاکٹر صاحب پلیز۔ آپ مجھے فورس نہ کریں۔ میں نے طوفان کی سی بھیانک ایک پوری زندگی گزار لی۔ اب کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے کھانے بھر کو۔۔۔ اتنا تو بھگوان نے دے رکھا ہے کہ روکھی سوکھی عمر بھر کھا سکوں۔‘‘
’’ارے جب گھی سے ترتراتی ملتی ہے تو روکھی سوکھی کیوں کھاؤ بھئی۔‘‘
’’یہ بھی ایک طرح سے اپنا گناہوں کا پرائشچت کرنا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب ہنسے، ’’ارے واہ تم جیسی نیک دیوی بھی کوئی گناہ جر سکتی ہے، جس کا پرائشچت کرنا پڑے۔‘‘
’’ہاں ڈاکٹر صاحب! میں نے تو ایک ایسا گناہ کیا ہے کہ گنگا میں ایک بار ڈبکی تو کیا ساری عمر کے لیے گنگا میں ڈوب کر رہ جاؤں تو بھی وہ داغ نہیں دھلے گا۔ زندگی میں کبھی مذہب، دھرم بھگوان کو نہیں مانا لیکن اب دن رات یہی چنتا کھائے جاتی ہے کہ بھگوان کو کیا منھ دکھاؤں گی؟‘‘
’’آخر بات کیا تھی۔ مجھ سے بتاؤ تو۔ دل ہی ہلکا ہو جائے گا۔‘‘
’’ہاں ڈاکٹر صاحب! میں مرنے سے پہلے کم سے کم کسی ایک انسان کو تو یہ بات بتا ہی دوں۔ اتنا بڑا بوجھ میں تو اٹھا بھی لوں۔ ارتھی اٹھانے والے پس کر رہ جائیں گے۔‘‘
شانتی ڈاملے کہتی گئیں۔ آنکھیں پھاڑ ڈاکٹر بھٹناگر سنتے گئے۔۔۔
’’ہائے کیسا گل گوتھنا سا بچہ تھا ڈاکٹر صاحب، کیسا بھاگیہ وان۔ بازو پر سچ مچ کے چاند جیسا پدم کا نشان۔ اور میں نے اپنے بدلے کی آگ میں اسے ایک نیچی جاتی والی عورت کی بچی سے بدل دیا۔ اب سوچتی ہوں کہ اس سے بڑا پاپ کوئی بھی عورت جر سکتی ہے؟ ننھی سی جان جو ہزاروں لاڈ پیار سے ناز و نعم سے پلتی، جانے کن کن مصیبتوں کا شکار ہوئی ہے۔ رائے زادہ اشوک چکرورتی کی اولاد اچھوت بن گئی!‘‘
’’پھر بعد میں اس کا کچھ پتہ چلا؟‘‘ ڈاکٹر بھٹناگر کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک پیدا ہوئی۔
’’کوئی نہیں۔ جس عورت کی بچی سے میں نے اسے بدل دیا تھا، بعد میں میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ زمیندار کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اس نے کنویں میں ڈوب کر خودکشی کر لی تھی۔ دونوں لڑکیوں کی لاشیں بھی کنویں سے ملی تھیں۔ پورا خاندان ہی تباہ ہو گیا تھا۔ سنا تھا بعد میں وہ لڑکا گاؤں چھوڑ کر شہر بھاگ گیا تھا۔ کوئی بارہ تیرہ برس کی عمر میں۔۔۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر؟ دنیا بہت بڑی ہے۔ بہت بڑی ہے اور انسان اس عظیم اور وسیع سمندر میں ایک قطرہ! اور پہچان کے لیے محض ایک چاند کا نشان وہ بھی بازو پر جو آستین چھپی رہتی ہے۔۔۔ کون کسے ڈھونڈ سکتا ہے۔ بس بھگوان ہی بچھڑوں کو ملا سکتا ہے اور کوئی نہیں۔‘‘
’’تو میں چلوں شانتی جی۔ مگر کوشش کرو کہ دل کو آمادہ جر سکو۔ لوگوں میں گھری رہو گی تو غم اور گناہ دونوں کا بوجھ ہلکا جر سکو گی۔‘‘
٭
دھرم راج کے شاندار آفس میں ایک بڑے سے خوبصورت فریم میں مہاتما گاندھی کی ایک تحریر آویزاں تھی۔
’’میں بھگوان سے پرارتھنا کروں گا کہ مرنے کے بعد اگر دوسرا جنم ملتا ہے تو میں ہریجن بنا کر پیدا کیا جاؤں۔‘‘
ڈاکٹر بھٹناگر دھرم راج کے آفس میں بیٹھے بڑی دیر سے اس فریم کو تکے جا رہے تھے۔ دھرم راج مڑا اور ہنس کر بولا، ’’کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب! بڑے سوچ بچا رمیں بیٹھے ہیں۔‘‘
’’نہیں صاحب بات کیا ہوتی، سوچ رہا ہوں مہاتما گاندھی بھی کتنے بڑے آدمی تھے۔ کیا ہی اچھی بات کہی ہے۔ واہ۔ واہ صاحب واہ۔‘‘ دھرم راج نے ہزار بار کے دیکھے ہوئے فریم کو نئے سرے سے مڑ کر دیکھا۔ پھر اچنبھے سے ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر اپنے کاغذات پر جھک گیا۔
’’مگر ایسے فریم تو نیچ ذات والوں کو۔۔۔ میرا مطلب ہے اچھوتوں کو اپنے گھروں اور دیواروں پر لگانے چاہئیں۔۔۔ آپ تو۔۔۔‘‘ اور انہوں نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
دھرم راج اک دم گڑبڑا گیا۔ وہ گھبراہٹ میں ہنسا۔ پھر سنجیدہ ہوا۔ پھر ہنسا۔ اس کے چہرے پر پسینہ پھوٹ نکلا۔ اس نے بات سنبھال لی، ’’ہم نام کے برہمن۔۔۔ کون سے ہمارے کام ایسے ہیں کہ برہمن کہلا سکیں۔ اسی لیے یہ فریم ٹانگ بھی رکھا ہے کہ اپنی اوقات یاد آتی رہے۔‘‘ وہ زور سے ہنسا۔ مگر ڈاکٹر بھٹناگر کی تیز نگاہوں کے سامنے اسے محسوس ہوا کہ قہقہہ کچھ پھیکا پڑ گیا ہے۔
بات کرنے کی خاطر بات کرنی تھی، ’’پھر آپ نے کسی لیڈی ڈاکٹر کا انتظام کیا؟‘‘ ڈاکٹر بھٹناگر اسے دیکھے ہی گیا۔ جواب کچھ نہ دیا۔
دھرم راج یکایک اکھڑ سا گیا۔
’’آپ غلط سمجھ رہے ہیں ڈاکٹر بھٹناگر۔۔۔ میں۔۔۔ م۔۔۔ مم۔۔۔‘‘
’’آپ یہی کہنا چاہتے ہیں نا کہ آپ اچھوت نہیں ہیں۔ تو صاحب میں بھی کب کہہ رہا ہوں۔ میں نے تو بس بات جیسی بات کی تھی۔ آپ یہ کہاں کے بکھیڑے لے بیٹھے۔‘‘
تھوڑی دیر تک ماحول میں تناؤ سا رہا۔ پھر ڈاکٹر بھٹناگر بڑی مکار سی لجاجت سے بولا، ’’صاحب آپ تو بڑے دیالو ہیں۔ بھگوان کی کرپا سے بھگوان سمان ہی ہیں۔ یہیں شہر میں بیوی کو ایک پلاٹ پسند آگیا ہے۔ صاحب اس حکومت میں ایک ڈاکٹر کی اوقات ہی کیا۔ تیس ہزار کا پلاٹ آپ کے لیے کچھ نہ سہی، مگر ہمارے لیے تو زندگی موت کا سوال ہے۔‘‘ اور وہ دھرم راج سے نظریں ملائے بغیر مہاتما گاندھی کے فریم کو تکے گیا۔
دھرم راج تھوڑی دیر تو یونہی سن بیٹھا رہا، پھر دھیرے سے اٹھا، سیف کھول کر تیس ہزار کے بنڈل نکالے اور ڈاکٹر بھٹناگر کے سامنے رکھ دیے۔ ڈاکٹر اٹھ کر چلا گیا تو دھرم راج نے اپنے آپ کو سنایا، ’’دھرم راج! میں خود عنقریب تمہاری پول کھول دوں گا۔ صرف چند اہم کام اور سرانجام دے لوں۔۔۔ اور ڈاکٹر کے بچے۔‘‘ وہ دروازہ کی طرف دیکھ کر دانت پیس کر بڑبڑایا۔
’’تجھ سے۔ تجھ سے کسی دن سمجھ لوں گا۔ اس وقت میں تو تیری مٹھی میں ہوں۔‘‘
اسی رات کو کھانے کی میز پر دھرم راج نے بغیر کسی پس و پیش یا شرم کے، بڑے بوکھلائے ہوئے انداز میں بابا سے کہا، ’’بابا اگر آپ کی اجازت ہو تو کل میں اور دیوالی شادی کر لیں؟‘‘ دیوالی نے پریشانی سے اسے دیکھا۔ ’’کہیں دھرم کا دماغ تو نہیں پھر گیا۔ جو کھلم کھلا بابا سے یوں بات کر رہا ہے۔‘‘ بابا نے اس کی پریشانی بھانپ کر توڑا ہوا نوالہ پھر سے پلیٹ میں رکھ دیا۔
’’کیا بات ہے بیٹا؟ تم اتنے پریشان تو کبھی دکھائی نہ دیے۔‘‘
وہ پلیٹ سامنے سے ہٹا کر کرسی سے سر ٹکا کر بیٹھ گیا۔ دیوالی اور بابا سے نظر ملائے بغیر اس نے بڑی مشکل سے رک رک کر جملہ پورا کیا، ’’بابا جس بات سے میں ڈرتا تھا کہیں پہچان نہ لیا جاؤں۔ پکڑ نہ لیا جاؤں۔ وہی بات ہو گئی۔ کچھ لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ میں اچھوت ہوں۔ بات پھیلتے دیر نہیں لگتی بابا۔ وقت کسی کے ساتھ مہربانی نہیں کرتا بابا۔ وہ اپنا چکر چلائے جاتا ہے۔ کون جانے وقت کا بے رحم پہیہ کب مجھے اور دیوالی کو اٹھا کر دور دور پھینک دے۔ اسی لیے بابا۔۔۔‘‘ وہ انتشار کی حالت میں کھڑا ہو گیا، ’’اسی لیے بابا میں چاہتا ہوں کہ تھوڑی بہت جو بھی خوشیاں میرے نصیب میں ہوں، انہیں سمیٹ لوں۔‘‘
دیوالی کی سسکی کی آواز سن کر وہ پلٹا، ’’رو رہی ہے پاگل۔ پریشان ہونے کے لیے میں اکیلا کافی نہیں ہوں کیا؟‘‘ بابا نے اٹھ کر دیوالی کے سر کو پیار سے تھپکا، ’’بیٹا خدا اپنے نیک بندوں کی ہی آزمائش کرتا ہے۔ اٹھو دعا کرو۔ گھبراؤ نہیں۔ دعا میں بڑی طاقت ہے۔ خدا سب ٹھیک ہی کرے گا۔‘‘
توقع کے برخلاف ایک دن لیڈی ڈاکٹر شانتی ڈاملے سونا گاؤں ہاسپٹل پہنچ گئیں۔ تنہائی کا بوجھ۔ گناہوں کا بوجھ۔ ندامتوں کا بوجھ۔ آخر اکیلا انسان کتنے بوجھے ڈھو سکتا ہے۔ بیٹھے بیٹھے انہوں نے سوچا ممکن ہے کسی کی خدمت کے صلے میں ایک آدھ ایسی دعا مل جائے جو گنہ کے سارے داغ ہی دھو دے۔
ڈاکٹر بھٹناگر اسے دیکھتے ہی ہڑبڑا گئے۔
’’ارے تم ڈاکٹر۔ خیریت تو ہے؟‘‘
’’آپ کے اصرار نے اور میرے اپنے حالات نے یہی سمجھایا کہ خود کو مصروف رکھنے میں بھلائی ہے۔ میں دھرم راج جی سے ملنا چاہتی تھی۔ آپ نے ان کے بارے میں مجھ سے کہا تھا نا؟‘‘
’’ہاں۔ ہاں۔ ہاں۔‘‘ وہ گڑبڑائے، ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ تو شہر میں رہتے ہیں اور بہت مصروف بھی۔ کبھی کبھار ہی لوگوں سے ملتے ہیں۔ میں خود ان سے مدت سے نہیں مل پایا۔‘‘
حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اسی دوران وہ تین بار دھرم راج سے مل چکے تھے اور اب تک ایک لاکھ کا کوٹا پورا کر چکے تھے۔ شانتی ڈاملے کو دیکھ کر انہیں وحشت سی ہو گئی کہ ’’وقت وقت کی ہی بات ہے، کبھی بھگوان نہ کرے اس نے دھرم راج کا بازو دیکھ لیا اور یوں پتہ چل گیا کہ یہی وہ سپوت ہے، تو پھرتو یہ ہزاروں کی آمدنی ہی گئی۔ تھا تو وہ بے وقوف دھرم راج خود ہی برہمن بچہ۔ مگر خود کو اچھوت سمجھے بیٹھا تھا۔ اور اچھوت پن کو چھپانے کے ہزاروں روپے دیے جا رہا تھا۔‘‘
شانتی ڈاملے اٹھ کر جاہی رہی تھیں کہ باہر کار رکنے کی آواز آئی اور کئی آوازوں کا ملا جلا شور اٹھا۔ اچانک دھرم راج اندر داخل ہوا۔
’’آئیے۔ آئیے دھرم راج جی۔‘‘ ڈاکٹر بھٹناگر اس بے وقت کی اچانک آمد سے حد درجہ پریشان ہو کر گڑبڑاتے ہوئے اٹھے اور کرسی پیش کی۔ بیٹھنے سے پہلے ایک مہربان اور شفیق صورت عمر رسیدہ، صورت سے پڑھی لکھی خاتون کو دیکھ کر دھرم راج ٹھٹک سا گیا اور اخلاق سے پوچھا، ’’آپ کی تعریف؟‘‘
ڈاکٹر بھٹناگر نے بد دلی سے تعارف کرایا، ’’لیڈی ڈاکٹر شانتی ڈاملے۔‘‘
’’اچھا اچھا۔‘‘ اس نے ہاتھ جوڑ دیے، ’’آپ کے بارے میں تو مدت سے سن رہا تھا۔ بڑے سوبھاگیہ میرے، جو یوں آپ سے ملاقات ہو گئی۔‘‘
شانتی ڈاملے انکساری سے مسکرانے لگی۔
’’تو پھر آپ ہمارے ہاسپٹل کا چارج لے رہی ہیں ماں جی؟‘‘
’’ماں جی؟‘‘ شانتی نے گھبرا کر دھرم کو دیکھا۔
محبت بھی انسان کو پیس کر رکھ دیتی ہے۔ شانتی میں ’’نہیں‘‘ کہنے کی اب تاب ہی کہاں رہ گئی تھی۔ آبدیدہ ہو کر بولی، ’’جب ماں کہہ دیا بیٹا تو پھر انکار کی جگہ ہی کہاں رہ جاتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر بھٹناگر نے بے موقع بے توڑ بات شروع کی، ’’دیکھنا حویلی والوں کے ہاں سے بلاوا آئے بھی تو نہ جانا۔‘‘
’’لیکن میری طرف سے تو کوئی مناہی نہیں ہے آپ لوگوں کو۔‘‘ دھرم راج نرمی سے بولا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے آپ بھلے بھاگوان آدمی ہیں۔ وہ لوگ تو نام کے ہی برہمن ہیں۔ بڑے خبیث قسم کے لوگ ہیں۔‘‘
دھرم راج اسی رو میں کہے گیا، ’’چھوٹے سرکار کے بارے میں تو زیادہ نہیں کہہ سکتا لیکن رائے صاحب اشوک چکرورتی تو خاصے سلجھے ہوئے آدمی ہیں۔‘‘ پھر ذرا مسکرا کر بولا، ’’بس ذرا غصہ جلدی ہو جاتے ہیں۔ پیسے والے ہیں نا۔‘‘ اس کے لہجے میں طنز چھپا نہ رہ سکا لیکن شانتی ڈاملے کچھ نہیں سن رہی تھیں۔
’’ہائے ری قسمت پھینکا بھی تو کہاں لا کر۔ لیکن اب تو اس جال میں ہاتھ پاؤں ایسے پھنس چکے ہیں کہ چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔‘‘
ڈاکٹر بھٹناگر دھرم راج کے پیچھے پیچھے لپکے۔
’’صاحب آج اچانک ادھر آنا کیسے ہو گیا تھا؟‘‘
دھرم راج نے معنی خیز نظروں سے اسے گھور کر کہا، ’’ایسا لگتا ہے زندگی کے چند ہی روز باقی رہ گئے ہیں، اسی لیے سوچتا ہوں کہ جلدی جلدی بہت سی نیکیاں اور پن کر ڈالوں۔ اطراف کے چار گاؤں میں اسکول اور ہاسپٹل کے لیے زمین خریدتا پھرا ہوں!‘‘
’’دھن ہو۔ دھنیہ ہو۔‘‘ ڈاکٹر بھٹناگر نے پیشہ ور سادھوؤں کے انداز میں الاپنا شروع کر دیا۔ دھرم راج جاتے جاتے مڑا، ’’دیے سے دیا جلتا ہے۔ میں نے سوچا تھا ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں۔ دوسرے سے تیسرے۔ اس طرح جہاں تک ممکن ہو سکے، روشنی پھیلاتا چلا جاؤں گا کہ ایک حد وہ آ لگے کہ لوگ مٹھیوں میں بھر بھر روپے خیرات کرنے کو نکلیں اور کوئی لینے والا نہ ملے۔ لیکن ڈاکٹر بھٹناگر! جس طرح ایک دیے سے دوسرا جلتا ہے، اسی طرح زہریلی ہوا کے ایک ہی جھونکے سے ایک ایک کر کے سارے دیے بجھ بھی جاتے ہیں۔‘‘
اس نے اپنے پیچھے زور سے دروازہ بند کیا اور مڑ کر دیکھا تک نہیں۔
پتہ نہیں بابا کی رائے میں کون سی مصلحت تھی مگر انہوں نے دھرم راج سے یہ کہا تھا کہ ابھی فی الوقت دھوم دھڑاکے سے شادی نہ کرو۔ مندر میں جا کر مالے بدل شادی کر لو۔ رسپشن بعد میں ہوتا رہے گا۔ اور دھرم راج نے ہر بات کی طرح بابا کی یہ بات بھی مان لی تھی اور اگلا سنیچر شادی کے لیے طے کیا تھا کہ اچانک پیر کو سونا گاؤں سے چند لوگ آ گئے۔ اتفاقاً مندر کے ادگھاٹن کا دن بھی سنیچر ہی قرار پایا تھا۔ اور چونکہ دھرم راج وعدہ کر چکے تھے کہ سارے اچھوتوں کے ساتھ مندر میں پرارتھنا کریں گے اور اس لیے ناممکن تھا کہ وعدہ پورا نہ کرتے۔ شادی کی بات تو ٹل گئی لیکن یہ بھی طے رہا کہ بابا اور دیوالی بھی سنیچر کو مندر پرارتھنا میں ضرور جائیں گے۔
جب دھرم راج کی شاندار گاڑی سونا گاؤں کے سامنے جا کر رکی ہے تو بھیڑ کا عالم دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ آگے منڈپ تنا ہوا تھا جس میں خوب جھکا جھک اجالا ہو رہا تھا۔ سامنے نرم اور گدیلے صوفوں پر شہر سے آئے ہوئے اور گاؤں کے بڑے لوگ، سماجی مرتبے دار لوگ، برہمن لوگ، پیسے والے لوگ براجمان تھے۔ جو بس چلتا تو ہرگز اس محفل میں نہ آتے لیکن چونکہ اب اس کام کی نوعیت کچھ کچھ سیاسی بھی ہو گئی تھی اور حکومتِ وقت کا ساتھ نہ دینا غیر دانش مندی میں شامل تھا، اس لیے آ کر بیٹھ تو گئے تھے مگر سخت بری بری صورتیں بنا رہے تھے۔
سامنے شطرنجیوں پر نیچی جاتی کے لوگ، مرد، عورتیں بچے بھرے بیٹھے تھے۔ پھر اسکولوں کے ماسٹر، ہسپتالوں کے ڈائرکٹرز، پورا عملہ اور صرف سونا گاؤں کا ہی نہیں، اِدھر اُدھر آس پاس جتنی بھی جگہوں پر دھرم راج نے اپنی مہربانیوں سے روشنی پھیلائی تھی، سبھی موجود تھے۔ ایک قطار میں صوفوں پر رائے صاحب اشوک چکرورتی، ان کی دھرم پتنی، ان کے بڑے بیٹے، چھوٹی بیٹی سلیکھا، ان سے ہٹ کر ڈاکٹر بھٹناگر، ڈاکٹر شانتی ڈاملے۔ ڈائس پر تیز روشنی میں دو تین سیاسی نیتاؤں کے ساتھ دھرم راج بیٹھے ہوئے تھے۔ نیچے پہلی قطار میں بابا اور دیوالی بھی نظر آرہے تھے۔
مدتوں بعد آج شانتی ڈاملے نے اشوک رائے کو دیکھا تھا۔ سینے میں جذبات اور کڑوی کسیلی میٹھی کسکتی یادوں کا طوفان موجزن تھا۔ ایک دل کہتا تھا کہ جا کر کہہ دیں ایسی ایک بھول زندگی کا روگ بن گئی ہے۔ پھر سوچتیں اس نے بھی تو میری زندگی کو ایک بھنور میں لا چھوڑا تھا۔ ایک دل کہتا تھا اپنے گناہوں کا راز خود ہی کھول دیں۔ پھر سوچتیں اگر وہ پوچھ بیٹھا کہ میرا لال، میرا جگر کا ٹکڑا کہاں ہے، تو میں کہاں سے لاؤں گی؟ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے دل کو سنبھال رہی تھیں۔
’’بھگوان مجھے شکتی دے کہ میں یہ سمے بخوبی ٹال سکوں۔‘‘
اچانک ڈائس پر سے اناؤنسر کی آواز گونجی، ’’حاضرین، بہنوں اور بھائیو! دھرم راج کی ذات کسی تعارف، کسی پریچے کی محتاج نہیں۔ آپ نے جو کچھ بھی کیا، اس کے لیے میں ایک ہی بات کہوں گا کہ جس طرح ایک چاند دنیا بھر کی تاریکی کو دور جر سکتا ہے، کچھ ایسی ہی مثال دھرم راج جی کی بھی ہے، وہ ایک ہیں مگر انہوں نے سونا گاؤں اور آس پاس کے گاؤں میں ایسے ایسے سماج سدھار کے کام کیے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ کئی ہیں۔ (دھرم راج جی اپنی ہنسی روک نہ سکے کیونکہ یہاں پہنچ کر خود اناؤنسر نے ہی تالیاں بجانی شروع کر دیں۔) آج کی محفل میں بھی وہ پن اور ثواب کا ایک بہت بڑا کام کرنے جا رہے ہیں۔ اپنے ذاتی خرچے سے لاکھوں روپے کی مالیت کا بنوایا ہوا مندر آج ان کے اپنے ہاتھوں کھلنے والا ہے۔ اس موقع پر ستیہ نارائن کی پوجا کے لیے جو پنڈت مہاراج آئے ہیں، وہ ابھی آپ سبھوں کے سامنے دھرم راج جی کو جنیئو پہنائیں گے۔ پر اس کام کے لیے آپ میں سے کسی ایسی مہان ہستی استری کی سیوا درکار ہے جو شادی شدہ نہ ہو اور عمر میں زیادہ ہو۔‘‘
لوگوں نے گردنیں بڑھا کر آگے اور پیچھے جھانکنا شروع کیا۔ اناؤنسر کی آواز پھر سے گونجی، ’’ہمارے دیش میں ابھی بدیشی ملکوں کی چھاپ نہیں پڑی ہے۔ مطلب یہ کہ بہت خوشی کی بات ہے کہ سب لوگ خوشی خوشی شادی کرتے ہیں۔۔۔‘‘
’’اور بے حساب بچے پیدا کرتے ہیں۔‘‘ پیچھے سے کسی نے آواز لگائی۔
لیکن تب تک دو تین پہچان والوں نے کھینچ کھانچ کر شانتی ڈاملے کو کھڑا کر دیا تھا۔
’’یہ دیوی جی غیر شادی شدہ ہیں۔‘‘
’’تو براہِ کرم آپ ڈائس پر تشریف لے آئیے۔‘‘ اناؤنسر صاحب کی آواز گونجی۔ کانپتے قدموں سے شانتی ڈاملے ڈائس پر پہنچیں تو تیز اجالے میں ان کا چہرہ دیکھ کر رائے صاحب اشوک چکرورتی اپنی جگہ بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔ اشلوک پڑھتے ہوئے پنڈت جی مہاراج نے بغیر کسی تکلف کے دھرم راج جی کا حلیہ ٹائٹ کر دیا۔ پہلے ٹائی، پھر کوٹ، پھر شرٹ بھی۔
’’غنیمت ہے یار پتلون رہنے دی۔‘‘ کسی منچلے نے پیچھے سے ہانگ لگائی۔ دھرم راج جی نے سخت پشیمانی اور بوکھلاہٹ کے ساتھ حاضرین کو دیکھا مگر بے چارے مجبور تھے۔ پھر پنڈت جی نے ایک لمبا چوڑا جنیئو دیوی شانتی جی کے ہاتھوں میں تھما دیا، ’’پہلے اسے بازو سے نکال کر گردن میں ڈالیے اور پھر ماتے پر سیندور کے ساتھ۔۔۔‘‘
اور جب تیز روشنی میں جنیئو اوپر نکالنے کے لیے شانتی ڈاملے نے دھرم راج کا بازو تھاما تو وہ چاند اچانک ان کی آنکھوں کے سامنے آ گیا جو چھپا ہوا تھا تو جانے کتنوں کی زندگیوں کو تاریک کیے ہوئے تھا۔
’’بیٹا۔ تم۔ تم۔ یہ چاند۔۔۔‘‘
دھرم راج نے ذرا شرما کر دیوالی اور دوسری خواتین کی طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں بولے، ’’جی ہاں ماں جی یہ میرا بچپن کا پیدائشی نشان ہے۔‘‘
جنیئو ان کے ہاتھ سے چھوٹ گرا۔
’’بیٹا۔‘‘ وہ بمشکل خود کو سنبھال رہی تھیں۔ آج مندر کے شبھ ادگھاٹن کے شبھ اوسر پر شاید بھگوان کو بھی مجھے سرخ رو کرنا تھا۔ دھرم راج نے ذرا غور سے انہیں دیکھا۔ اچانک انہیں یاد آیا ڈاکٹر بھٹناگر شاید ٹھیک ہی کہتا تھا کہ کچھ سر پھری بڑھیا ہے۔
’’بیٹا تم اچھوت نہیں ہو۔ اچھوت تو تمہیں میں نے اپنے بدلے کی آگ میں جھلس کر بنا دیا۔ تم تو رائے بہادر اشوک چکرورتی کے دوسرے بیٹے ہو۔‘‘ مائک جگہ جگہ فٹ ہونے کی وجہ سے سارے میں آواز جا رہی تھی۔ شانتی کی بات پر رائے صاحب اور ان کی پتنی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ دھرم راج سخت سراسیمہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا تھا۔ کوئی بات اس کے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ پھر شاندی ڈاملے نے رک رک کر بھرے مجمع میں اشوک چکرورتی کو مخاطب کر کے کہنا شروع کیا،
’’جب تم نے میری زندگی کو کھلونا سمجھ کر دل بہلایا اور پھر توڑ پھوڑ کر پھینک دیا تو میں نے زندہ رہنے کا بہانہ ڈھونڈنے کے لیے ڈاکٹری کی پڑھائی پوری کر لی۔ ہاسپٹل تمہارے گاؤں سے دور ہی کھولا، لیکن یہ بھی قسمت تھی کہ تمہاری اولاد کو میرے یہاں ہی جنم لینا تھا۔ ایک ہریجن عورت کی پکار کہ مجھے بیٹی نہیں چاہیے اور تمہارا دیا ہوا جذبۂ انتقام۔۔۔ میں نے اپنے ضمیر کی آواز کو کچل کر تمہارا بیٹا ایک ہریجن عورت کی بچی سے بدل دیا کہ جی بھر کے دکھ بھوگے، اتنے ہی دکھ جتنے تم نے مجھے دیے۔ بس بچے کی ایک نشانی اتفاقاً میری نظر سے گزر گئی۔ بازو پر چاند کا پدم۔ پھر زندگی کے بھیڑ بھڑکے میں سب کھو کر رہ گئے، مگر میرا مامتا کا مارا دل اس بدنصیب بچے کے لیے سدا روتا رہا لیکن بھگوان کے کھیل بھی نیارے ہوتے ہیں۔ میں نے جس بچے کو اس لیے بدل دیا تھا کہ وہ ہریجن بن کر پلے بڑھے اور دنیا بھر کی ذلتیں سہے، وہی بچہ ساری ہریجن جاتی کے لیے ایک مشعل راہ بن گیا۔ وہ ہریجن بچہ۔ جو دراصل برہمن۔۔۔‘‘
مگر اچانک دھرم راج چیخا، ’’میں برہمن نہیں ہوں۔ میں برہمن نہیں بننا چاہتا۔ میں اچھوت ہوں۔‘‘
’’میں اچھوت ہوں۔‘‘
ہر طرف ایک شور۔ ہلڑ مچی ہوئی تھی۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ رائے اشوک چکرورتی تو اپنی جگہ ندامتوں کے ڈھیر میں ڈوبے کھڑے تھے، ان کی دھرم پتنی البتہ لوگوں کو چیرتی پھاڑتی بیٹے تک پہنچ گئی تھیں جو آج اچانک ہی انہیں پلا پلایا مل گیا تھا۔ وہ پٹا پٹ اس کی بلائیں لیے جا رہی تھیں مگر وہ عجیب کس مپرسی کا شکار بنا کھڑا تھا۔
پھر سے شانتی ڈاملے کی آواز گونجی، ’’میں گنہ گار یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی تھی، اسی لیے میں نے صرف ڈاکٹر بھٹناگر کو زندگی میں یہ راز بتایا تھا، آج میں کس منھ سے بھگوان کا شکر ادا کروں۔‘‘ دھرم راج نے اچانک مجمع میں سے ڈاکٹر بھٹناگر کو نکل کر تیز تیز جاتے دیکھا، وہ اپنے آپ میں مسکرا کر پھر سے شانتی ڈاملے کی بات سننے لگا۔
’’میں کس منھ سے اپنے بھگوان کا شکریہ ادا کروں کہ اس نے میرے سینے کے اس بوجھ کو اتار دیا۔ میں خود ہی نیچ جاتی کی کچلن میں دبی پسی، یہ دکھ اور بھی جان لیوا تھا کہ ایک برہمن بچہ کو ہریجن بنا ڈالا۔۔۔‘‘
’’مگر ماں جی۔۔۔‘‘ دھرم راج چلایا، ’’آپ کس رشتے سے مجھے برہمن کہہ رہی ہیں۔ میری ماں، جس کا میں نے دودھ پیا، وہ بھی اچھوت تھی۔ جن لوگوں میں، جس خاندان میں پلا بڑھا، وہ سب اچھوت تھے۔ یہ رشتہ کوئی کچا دھاگا نہیں، جسے ایک جھٹکے سے توڑ دیا جائے۔ سانپ ہمیشہ چندن کے پیڑ سے لپٹا رہتا ہے مگر چندن اس سے زہریلا نہیں ہو جاتا۔۔۔‘‘ پھر وہ کچھ رکتے رکتے بولا، ’’اور سب سے بڑی بات میری ہونے والی دلہن بھی تو میری ہی طرح اچھوت ہے۔ اور مجھے اپنے اچھوت ہونے پر فخر ہے کیونکہ ہمیں وہ لوگ ہیں جن کا دھرتی سے اٹوٹ رشتہ ہے۔۔۔‘‘ اور جب یہ سب کہتے کہتے اس نے گھوم کر اس جگہ نظریں دوڑائیں جہاں دیوالی بیٹھی تھی تو وہ حیرت زدہ سا رہ گیا۔ دیوالی پنڈال سے اٹھ کر دھیرے دھیرے باہر چلی جا رہی تھی۔
وہ اچانک تیزی سے اس کی اور دوڑا۔
’’دیوالی۔ تم اچانک چلی کیوں آئیں؟‘‘ اور اس نے دیوالی کا ہاتھ تھام لیا۔
’’چھوڑ دیجیے میرا ہاتھ۔‘‘ دیوالی غصے سے بولی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔
’’مگر ہوا کیا دیوالی؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ وہ لجاجت سے بولا۔
’’آپ پوچھتے ہیں آپ نے کیا کیا ہے؟ میں کہتی ہوں آپ نے کیا نہیں کیا ہے۔ ہر بار ایک سے ایک نیا ڈھونگ رچاتے رہے۔ کبھی برہمن بن جاتے کبھی اچھوت۔ اور جب میں نے اپنے آپ کو آپ سے وابستہ کر دیا اور ایک سر پھری اور پاگل ندی کی طرح کی آپ کی ذات کے سمندر میں خود کو ملا دینے کا عہد کر لیا تو۔۔۔ تو۔۔۔‘‘ وہ اچانک زور زور سے رونے لگی۔
’’میں بھول گئی تھی کہ آپ کے دل تک جو راستہ جاتا ہے، وہ سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا ہے اور میں دھول اور مٹی پر چلنے والی۔۔۔‘‘
دھرم راج نے اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ ’’بس۔ بس۔ کرو۔ بھگوان کے لیے ایسی باتیں مت کرو۔ ہم سب۔ تم بھی۔ میں بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو دکھوں کی کھیتی بوتے ہیں اور آنسوؤں کی فصل کاٹتے ہیں۔ میں تم سے الگ کہاں ہوا دیوالی۔ تم چلی گئیں تو میری زندگی میں ایسا اندھیرا چھا جائے گا کہ سارے چراغ مل کر بھی ہلکا سا اجالا تک پیدا نہ کر پائیں گے۔‘‘
دیوالی نے غصہ سے اسے دیکھا، ’’اتنے بڑے گاؤں کے ٹھاکر اور مالک کے لیے دیوالیوں کی کیا کمی؟‘‘
’’دیوالی۔‘‘ دھرم راج جذبات کی شدت سے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو پیتا ہوا بولا، ’’مت اتنی ظالم بنو۔‘‘
’’ظالم میں نہیں۔۔۔ آپ ہیں۔ جب آپ کو پتہ تھا کہ آپ کون ہیں، کیا ہیں تو اتنا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ٹھاکر صاحب آپ زمیندار کے بیٹے ہیں اور بیٹے رہیں گے۔ اور میں۔۔۔‘‘
دھرم راج نے غصہ سے اس کی بات کاٹی، ’’دیوالی میں تم سے کہہ رہا ہوں، مجھے یہ ساری باتیں واقعی نہیں معلوم تھیں۔‘‘
’’اب تو معلوم ہو گئیں۔ اور جب اپنے نئے ماحول میں آپ رچ بس جائیں گے تو وہی ہو جائیں گے جو سبھی ہوتے ہیں۔ اور یہ بڑی بڑی باتیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ اک دم وہ غصہ سے گھوم گئی۔ ’’یہ تو کہیے قسمت کی بات تھی جو آپ اچھوتوں کے بیچ پل کر بڑھے اور ان کے دکھ درد کو محسوس کیا۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو۔۔۔‘‘
دھرم راج نے ایک غم زدہ سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’یہی تو کہتا ہوں دیوالی۔ دانہ جب تک مٹی سے نہیں مل جاتا یونہی پڑا رہتا ہے اور جب مل جاتا ہے تو پھول بن کر ابھرتا ہے، کھیتی بن کر لہراتا ہے، بہار بن کر جھومتا ہے۔۔۔ ساری بات رشتوں کی ہے۔ میں اپنا رشتہ خوب سمجھ گیا ہوں۔‘‘ وہ کچھ آگے بڑھا، ’’اور اس پر بھی تمہیں اس مٹی سے میری وفاداری کا یقین نہیں آتا تو ایک لمحے کے لیے میری آنکھیں دیکھ لو۔ مائیں کبھی جھوٹ نہیں بولتیں۔ اور میری ماں تو بڑی ہی سچی تھی، وہ کہتی تھی پاپ اور جھوٹ آنکھوں میں اتر جائیں تو انسان کبھی کسی سے آنکھ نہیں ملا سکتا۔‘‘
دیوالی نے دھیرے دھیرے آنکھیں اٹھائیں اور دھرم راج کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں بٹھا دیں۔ دھرم راج کی آنکھیں، جو اتنی معصوم، اتنی شفاف، اتنی محبت بھری تھیں کہ کوئی جھوٹ ان میں سما ہی نہ سکتا تھا؟
’’پوجا کا سمے ہو گیا۔ مندر میں نہیں چلو گی؟‘‘ دھرم راج دھیرے سے بولا، ’’میرے ساتھ!‘‘
اور سیکڑوں ہزاروں تعداد اچھوتوں اور نیچ جاتی کے لوگوں کے ساتھ جب دیوالی کا ہاتھ تھامے تھامے وہ مندر میں داخل ہو گیا اور اس کے نقش قدم پر چلتے چلتے اس کے اپنے ماں باپ بھائی بہن سبھی اندر پہنچ گئے تو بابا نے کھڑے کھڑے پیار سے سوچا، ’’جب جب بھی ظلم اور ناانصافی کی گھور تاریکی چھائی ہے، تم ہی جیسا کوئی جیالا مشعل لے کر اٹھا ہے۔‘‘
اندر زور زور سے گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔
٭٭٭
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
https://www.rekhta.org/stories/phool-khilne-do-wajida-tabassum-stories
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں