فہرست مضامین
- پولیس مقابلوں کا شرعی نقطہ نظر سے جائزہ اور تجاویز
- پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی
- اسلام میں انسانی جان کی اہمیت و احترام
- انسانی جان کو نقصان پہنچانے والے کی سزا
- اُخروی سزا
- بنی کریمﷺ کا اپنے صحابہ سے خون کے تحفظ کا عہد لینا
- اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسانی جان کا تحفظ
- انسانوں جانوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے
- بر صغیر میں انسانی جانوں کا عدم تحفظ
- عوام کے ساتھ پولیس کا سلوک
- پولیس کے نئے نظام میں ظلم کی دو مثالیں
- پاکستان کا ناقص عدالتی نظام اور قانون
- کافر حکومت کو بقا ہے ظالم کو نہیں
- سرکاری اہل کاروں کو ظلم میں آلہ کار نہیں بننا چاہیے
- پولیس مقابلوں کی روک تھام
- صفائی کا موقع دئیے بغیر ملزموں کے سروں کی قیمت مقرر کرنا اقدام قتل ہے
- انصاف نہ ملنے کے نتائج
- ظلم کی تعریف اور انجام
- لاقانونیت کا حل سیرت طیّبہ میں ہے
- مذہبی و سیاسی آزادی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے
- ملزموں کو حصول انصاف کے مواقع اور عام معافی ملنی چاہیے
پولیس مقابلوں کا شرعی نقطہ نظر سے جائزہ اور تجاویز
پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی
اسلام نے انسان کو معزز و مکرم قرار دیا (الا سراء /١٧ )اور یہ اعزاز کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں حتی کہ فرشتوں کو بھی۔ اسی اعزاز کی بدولت اس کی جان، مال آبرو کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔
اسلام میں انسانی جان کی اہمیت و احترام
یہ تحفظ اسے بھی حاصل ہے جو کسی اعلی نسل یا حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص ہو اور اُسے بھی حاصل ہے جو سماجی یا کسی بھی اعتبار سے کمزور شخص ہو۔قرآن نے ایسے لوگوں کی گرفت کرتے ہوئے کہا جو جنس کی بنیاد پر بچیوں کا قتل کرتے تھے۔بای ذنب قتلت (التکویر/٩)قیامت کے دن ایسے لو گوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کس جرم کی پاداش میں قتل کیے گئے۔
جو بھی شخص پیدا ہو ا ہے زندہ رہنا اس کا حق ہے، اُسے قتل کرنا یا کسی بھی قسم کا جسمانی نقصان پہنچانا اسلام کی صریح تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ اللہ تعالی نے مسلمان کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
ولا یقتلو ن النفس التی حرم اللّٰہ الا بالحق (فرقان / ٦٨)
مسلمان وہ ہیں جو اللہ کی حرام کی ہوئی کسی انسانی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے۔
بلکہ بلا تخصیصِ مذہب ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا۔ارشا دِ ربانی ہے :
من قتل نفسا بغیر نفس اوفساد فی الارض فکا نما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکا نمآاحیا الناس جمیعا ( المائدہ /٣٢ )
جس نے کسی شخص کو قتل کیا بغیر کسی جان کے بدلہ یا زمین میں فساد پھیلایا وہ قاتل ایسا ہے جیسے اس نے سارے انسانوں کو قتل کیا ہو جس نے کسی ایک انسان کو زندگی کا تحفظ فراہم کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو تحفظ فراہم کیا۔
اور اس حکم میں مسلم، غیر مسلم، عورت، مرد کی کوئی تخصیص نہیں، قتل قتل ہے خواہ کسی کا بھی ہو۔ اسی طرح زندگی بچانا بھی عظیم کام ہے وہ زندگی کسی مسلمان کی ہو یا کافر کی، عورت کی ہو یا مرد کی اور ایک انسان کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنا سارے انسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی طرح ہے۔نبی کریمﷺ نے زندگی کے آخری حج کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :
ایھا الناس … ان دماء کم و اموالکم واعراضکم و ابشارکم و اولادکم حرام علیکم۔ (سیرت ابن ہشام بیروت ج٢ ص٦٠٣)
اے لوگو ! بلا شہہ تمہارے خون اور تمہارے مال، تمہاری عزتیں، تمہاری جانیں اور تمہاری اولاد باہم ایک دوسرے کے لیے قابل احترام ہیں۔
کسی مسلمان کو قتل کرنا یا اس کا مال زبردستی لینا (جیسے بھتہ لینا) یا اس کی بے عزتی کرنا (یہ کام آج کل اخبارات کر رہے ہیں، ہر شریف انسان کو دہشت گرد اور قاتل لکھ دیتے ہیں )یہ سب حرام ہے۔
انسانی جان کو نقصان پہنچانے والے کی سزا
جو انسانی جان کو کلی یا جزوی نقصان پہنچائے گا اس کی دنیاوی سزا تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا۔جان کے بدلہ جان یعنی قتل کے بدلہ قاتل کو قتل کیا جائے گا، آنکھ کے بدلہ آنکھ، دانت کے بدلہ دانت توڑا جائے گا(سورۂ بقرہ ١٧٨ اور ١٩٤ ) اور یہ بھی بتا دیا کہ قاتل کو قتل کرنے میں ساری انسانیت کی حیات و تحفظ کا راز پوشیدہ ہے (سورۂ بقرہ ١٧٩ )لیکن یہ حق صرف عدالت کو دیا گیا ہے۔
اُخروی سزا
یہ تو دنیاوی سزا ہے، علماء کے ایک طبقہ کی رائے ہے دنیاوی سزا پانے کے باوجود اُخروی سزا بھی ملے گی اور یہ کہ وہ توبہ بھی کر لے اور سزا بھی بھگت لے۔قاتل کی اخروی سزا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :
ومن یقتل مؤمنا متعمدًا فجزاءہ جھنم خالدًا فیھا وغضب اللّٰہ علیہ و لعنہ و اعدلہ عذاباعظیما۔ (سورہ النساء ٩٣ )
اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے وہ اسی میں رہے گا اور اللہ کا اس پر غضب ہو گا اور اس کی لعنت، اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔
یعنی مسلمان کے قتل کرنے والے کی سزا دنیا میں قتل اور آخرت میں جہنم ہے۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا :
ہر گناہ کے متعلق امید ہے اللہ تعالی معاف کر دے سوائے اس شخص کے گناہ کے جو شرک کرتے ہوئے مرا یا جس نے کسی مسلمان کو ناحق قتل کیا۔ (جمع الفوائد ج١ ص ٢٧٤ )
بنی کریمﷺ کا اپنے صحابہ سے خون کے تحفظ کا عہد لینا
خونِ مسلم کی یہی اہمیت ہے جس کے پیش نظر آپﷺ نو مسلم صحابہ و صحابیات سے باقاعدہ بیعت لیتے تھے کہ وہ کسی کا ناحق خون نہیں بہائیں گے۔
صحیح بخاری کی روایت ہے حضرت عبادہ فرماتے ہیں آپﷺ جن باتوں پر بیعت لیتے تھے ان میں سے ایک یہ تھی ولا تقتل النفس التی حرم اللّٰہ (بخاری باب من احیاھا)عہد کرو ناحق کسی انسان کو قتل نہیں کرو گے جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ قرآن نے خواتین کی بیعت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے : ولایقتلن اولاد ھن (الممتحنۃ /٢)خواتین عہد کریں کہ وہ اپنے بچوں کو جنس کی بنیاد پر یا کھلانے کے خوف سے قتل نہیں کریں گی۔اس لیے کہ بچوں کا قتل اگرچہ مرد کرتے تھے لیکن اس میں خواتین کی رضا شامل ہوتی تھی دوسرے کبھی وہ اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے نومولود کو قتل کر دیا کرتی تھیں اس لیے بھی خواتین سے عہد لیا جاتا تھا۔
لیکن میرا خیال ہے نو مسلموں سے خصوصی طورسے یہ عہد اس وجہ سے لیا جاتا تھا کہ ا س معاشرہ میں جسے عہد جاہلیت کہا جاتا ہے انسانی خون اپنی قدر و قیمت کھو چکا تھا جو جسے چاہتا قتل کر دیتا تھا، بڑے آدمی کے قصاص میں غریب کو قتل کیاجاتا تھا لیکن غریب اور کمزور کے قصاص میں طاقتور کو معاف کر دیا جاتا یا معمولی جرمانہ لگا دیا جاتا تھا۔اُردو زبان کی اصطلا ح میں لوگوں کے منہ خون لگ چکا تھا جس سے عادت چھڑانا بہت مشکل کام تھا وہ لوگ سالہا سال تک معمولی باتوں پر خون کی ہولی کھیلتے رہتے تھے اس لیے جہاں ایک طرف عبرت ناک سزائیں مقرر کیں وہیں دوسری طرف ان سے عہد بھی لیا تاکہ اُ نھیں اس حکم کی خصوصی نوعیت کا اندازہ ہو۔
اعانت قتل بھی قتل کی طرح ہے۔اسلام میں جو سزا قتل کرنے کی ہے وہی سزا قتل میں مدد کرنے والے کے لیے بھی ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا :
جو شخص کسی مسلمان کے قتل میں مدد کرے خواہ وہ ایک کلمہ ہی سے کیوں نہ ہو تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا ” خدا کی رحمت سے مایوس ”(تفسیر ابن کثیر ج١ ص٣٣٥)
جو کسی دوسرے کو قتل کرنے حکم دیتا ہے اس کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا :
قسمت النار سبعین جزا فللآ مرتسعۃ وستون وللقاتل جزء (جمع الفوائد ج١ص٢٧٥)
آگ ستر حصوں میں بانٹ دی گئی ہے ان میں سے انہتر حصے اس کے لیے ہو گی جو قتل کا حکم دیتا ہے اور ایک حصہ اس قاتل کے لیے جو دوسرے کے کہنے سے قتل کرے۔
آپﷺ نے نہ صرف اعانت قتل سے منع کیا بلکہ مسلمانوں کو ترغیب دی کہ مظلوم کی مدد کریں۔مدد کی تین صورتیں ایمان کی بلندی و پستی سے منسلک کر کے بیان کی ہیں۔فرمایا ایمان کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان برائی کو ہاتھ سے روکے، دوسرا درجہ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکو، اگر اس کی بھی طاقت نہ تو کم از کم دل سے برا جانے یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔اسی طرح آپﷺ نے فرمایا :
جہاں ظلم و جور سے ایک انسان کو قتل کیا جا رہا ہو تم میں سے کوئی کھڑا منہ تکتا نہ رہے بلکہ اس کو بچائے جو وہاں کھڑا رہتا ہے اور مظلوم کو نہیں بچاتا وہ قابل لعنت ہے اس پر لعنت برستی رہتی ہے (جمع الفوائد ج١ص ٢٧٥)
اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسانی جان کا تحفظ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق میں بھی پہلی دفعہ میں صراحتاً لکھا ہے ”ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے عزت اور حقوق میں سب برابر ہیں اور تیسری دفعہ میں مرقوم ہے”ہر انسان اپنی زندگی، آزادی اور شخصی سلامتی کا حق رکھتا ہے ”نویں دفعہ میں صراحت ہے ”کسی انسان کو ظلماً قید کرنا، بند رکھنا یا اسے جلا وطن کرنا جائز نہیں ہے ” (انسانی حقوق محمد رحیم حقانی جمعیت پبلیکیشنز لاہور ص١٢٢۔١٢٣)
انسانوں جانوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے
پاکستان کے آئین کے مطابق بھی ہر شخص کی جان مال آبرو کو تحفظ حاصل ہے۔مفتی ظفیر الدین صاحب نے نبی کریمﷺ کی ایک حدیث نقل کی ہے۔آپﷺ نے فرمایا :
جو شخص اس اُمت کے کسی کام پر مامور ہو اور وہ ان میں انصاف نہ کرے تو اللہ تعالی اس شخص کو جہنم میں ڈال دے گا (اسلام کا نظام امن ص٨٢)
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لوگوں کی جان کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔اسی وجہ سے اللہ تعالی نے
اسٹیٹ کے ارباب حل و عقد کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا :
ولایجرمنکم شنآن قوم علی ان لا تعد لوا اعدلوا ھواقرب للتقوی واتقوا اللّٰہ اناللّٰہ خبیر بما تعملون (المائدہ /٢)
کسی قوم کی دشمنی تم کو ناانصافی پر آمادہ نہ کرے تمہیں چاہیے انصاف کرو پرہیز گاری کا یہی تقاضہ ہے اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تعالی کو تمہارے سب کا موں کی خبرہے۔
بر صغیر میں انسانی جانوں کا عدم تحفظ
پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں یہ روایت عام ہے کہ صاحب اختیار سرکاری آفیسر ز و عہدیداران اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے خلاف اسٹیٹ کی طاقت کو استعمال کرتے ہیں انصاف کی جگہ ناانصافی کی شکایات عام ہیں اور یہ ظلم وستم کے کام کی ابتداً پولیس سے بعد میں عدالتوں کے ذریعہ لیے جاتے ہیں۔
عوام کے ساتھ پولیس کا سلوک
پولیس ناحق لوگوں کو گرفتار کرتی ہے یہ گرفتاری کبھی از خود اور کبھی کسی سرکاری آفیسر کے ایماء پرعمل میں آتی ہے اس کے بعد کھاتہ پورا کرنے کے لیے انھیں مختلف کیسز میں ملوث کیا جاتا ہے۔پولیس اپنے پالتو مخبر اور دلالوں کی گواہی بھی شامل کر کے کیس عدالت میں بھیج دیتی ہے۔لیکن بہت سے کیس ایسے ہوتے ہیں جس میں مطلوبہ شخص گرفتار نہیں ہوتا لہٰذا پولیس اسے پہلے مفرور قرار دیتی ہے پھر جتنی بھی ایف آئی آر زیر تفتیش ہوتی ہیں انہیں مطلوبہ شخص کو نامزد کر کے بے شمار جھوٹے کیسز میں ملوث کر دیا جاتا ہے پھر عدالت میں فائل کا پیٹ بھر کے جج کے سامنے کیس پیش کر دیا جاتا ہے۔ پچھلے دور میں ایسے کیسز پر عدالت نے لوگوں کے سروں کی قیمت مقرر کرنی شروع کر دی تھی گویا ایک سرکاری ادارہ نے بے گناہ کو گناہ گار قرار دیا دوسرے ادارے (عدالت ) نے پہلے ادارے کو اقدام قتل کا موقع فراہم کیا، نتیجہ یہ نکلتا کہ بے شمار نوجوانوں کو پولیس گرفتار کرتی مطلوبہ رقم نہ ملنے پر یا دشمنی نکالنے کے لیے پولیس مقابلہ میں ہلاک کر دیتی تھی۔ پاکستان میں اس ظلم و ستم کی تاریخ غلام مصطفٰی کھر سے شروع ہوتی ہے جس نے پنجاب میں اپنی گورنری کے زمانہ میں لوگوں کو پولیس مقابلہ میں مروانا شروع کیا پھر اسی نسخہ کو سندھ کے وڈیروں نے اپنے مخالفین پر استعمال کیا۔ اس طرح پولیس کے منہ خون لگا دیا گیا پھر پولیس کا حوصلہ اس قدر بلند ہو گیا کہ وہ وزیر اعظم جو عوام کے خلاف پولیس مقابلہ کا ہتھکنڈہ استعمال ر رہی تھی اسی کا بھائی اس کا نشانہ بن گیا یہی حربہ پورے ملک میں مذہبی افراد کے خلاف استعمال کیا گیا بہت سے نوجوانو ں کو پچھلے دور حکومت میں جیلوں سے نکال کر پولیس مقابلہ میزن شوٹ کر دیا گیا اور یہ سارے کام سرکاری ایماء پر ہوئے۔
پولیس کے نئے نظام میں ظلم کی دو مثالیں
موجودہ حکومت نے اگرچہ بظاہر یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ سابقہ غلط راستوں پر نہیں چلے گی لیکن دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے ہمدرد لیڈر اور کارندے اپنے سیاسی و مذہبی مخالفین کو پولیس مقابلوں میں مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مذہبی جماعت سے وابستہ شخص لال محمد عرف لالو کے حوالہ سے روز نامہ جنگ کراچی میں ٢٠٠٢۔٤۔٥ کو ایک خبر شائع ہوئی جس کا عنوان تھا ”پراسرار پولیس مقابلہ ”ساتھ ایک خبر اور بھی شائع ہوئی جس میں الزام لگا دیا گیا تھا کہ تین دن گرفتار رکھنے کے بعد پولیس مقابلہ میں مارا گیا گویا جو سلسلے پہلے چل رہے تھے وہ آج بھی جاری ہیں۔ اسی سال کے آغاز میں پھر فروری میں ملک بھر سے بے شمار ایک مذہبی جماعت سے وابستہ افراد کو گھروں سے گرفتار کیا گیا پھر انھیں بغیر کوئی کیس درج کئے اور انٹری کئے دس تا بارہ دنوں تک تھانوں میں رکھا گیا، اورنگی تھانہ پر صوبہ سندھ کے محتسب نے چھاپہ مارکر پرائیویٹ کمروں سے تین افراد کو برآمد بھی کیا جن کی تھانہ میں انٹری تک نہیں تھی یہ خبر متعدد اخبارات میں شائع ہوئی مگر اس چھاپے کے دو یوم بعد ساٹھ دنوں کے لیے ایم پی او سولہ کے تحت انھیں جیل بھیج دیا گیا حالانکہ ان افراد کا کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا، متاثرین عدالتی اخراجات کے متحمل نہیں تھے لہٰذا وہ صبر کر کے بیٹھ گئے۔
پاکستان کا ناقص عدالتی نظام اور قانون
ہماری عدالتوں نے بے شمار ایسے کیسز پچھلے ایک سال میں صرف اس بنیاد پر خارج کئے ہیں کہ وقوعہ کے دنوں میں مذکورہ شخص ملک میں بھی موجود نہیں تھا لیکن اسے کیس میں شامل کرنے پر کسی پولیس افسر کو سزا نہیں دی گئی۔ یہ نتیجہ ہے ہماری عدالتوں کے ناقص قوانین کا۔کریمنل کیسز، قوانین اور ان کاپروسیجر برطانوی دور کا تیار شدہ ہے جو اس نے غلام قوم کو کچلنے کے لیے تیار تیا تھا، اسی کا ثمرہ ہے کہ مظلوم کو انصاف کے حصول کے لیے وقت پیسہ صرف کرنے کے ساتھ طویل اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے مرحلہ میں سالہا سال پیشیاں بھگتنی پڑتی ہیں، دوسرے مرحلہ میں پولیس کے تیار کردہ یا مدعی کے تیار کردہ جھوٹے گواہوں کو بھگتنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی انصاف نہیں ملتا ہے۔اگر انصاف ملتا بھی ہے تو وہ طویل وقت گزرنے کے بعد اپنی افادیت کھو چکا ہوتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پولیس، بعض عدالتی ادارے اور وکیل ظلم کے تکون بنے ہوئے جس کی چکی کے پاٹ میں آنے والا ہر شخص آئندہ کے لیے قانون کا راستہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ہے بلکہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور طاقت کے ذریعے مقصد بر آوری کو ترجیح دیتا ہے جس سے معاشرہ میں لا قانونیت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ جن اداروں کو انصاف کی فراہمی کا منبع و مرکز ہو نا چاہئے وہ ناانصافی کے مراکز ہیں۔
کافر حکومت کو بقا ہے ظالم کو نہیں
اس موقع پر مناسب سمجھتا ہوں امام ابن تیمیہ کا فرمان نقل کر دوں فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس حکومت کو باقی رکھتا ہے جو انصاف پسند ہو خواہ وہ کافروں کی کیوں نہ ہو۔ مگر وہ ظلم کرنے والی حکومت کو باقی نہیں رکھتا خواہ مسلمان کی حکو مت کیوں نہ ہو(الحسبۃ فی الاسلام /٧٥)۔ اگر کسی شخص کو ابن تیمیہ کے فرمان میں شک ہو تو وہ پچھلی دو حکومت کے حکمرانوں کا جائزہ لے لیں۔اسی طرح ان لیڈروں کا جنھوں نے لوگوں کو قتل کروایا سب بے گھر بے در اور بے یارو مددگار خوار ہو رہے ہیں اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔
سرکاری اہل کاروں کو ظلم میں آلہ کار نہیں بننا چاہیے
قرآن نے تمام مسلمانوں کو واضح حکم دیا ہے :
تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اللّٰہ ان اللّٰہ شدید العقاب (المائدہ /٢)
آپس میں نیک کام اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور ظلم کے کام میں کسی کی مدد نہ کرو اور صرف اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔
انصاف کی فراہمی کے ذمہ داروں کو ظالموں کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے انہیں اس بات سے بھی نہیں ڈرنا چاہیے کہ آرڈر کی عدم تعمیل کی صورت میں انھیں عدم ترقی، مالی نقصان یا عہدہ سے تنزلی کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ انہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے، دنیاوی سزا کے مقابلہ میں اخروی سزا زیادہ سخت ہے بلکہ عین ممکن ہے استقامت کے نتیجہ میں ممکن ہے وقتی نقصان پہنچے لیکن دنیا و آخرت میں اس کا اجر ضرور ملتا ہے اور ملے گا۔
پولیس مقابلوں کی روک تھام
دوسرے یہ کہ پولیس کے ادارہ میں کچھ کرپٹ افراد ہیں جنھیں قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے قطعاً شرم محسوس نہیں ہوتی۔رشوت اور خونِ ناحق ان کے منہ لگ چکا ہے۔ایسے لوگوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی جائیں تاکہ دیگر پولیس اہل کار عبرت حاصل کریں اور پولیس میں بھرتی کے وقت ہر اہل کار سے انفرادی حلف لیا جائے کہ وہ کسی بھی شخص کو قتل نہیں کرے گا جس طرح نبی کریمﷺ نو مسلم صحابہ و صحابیات سے عہد لیا کرتے تھے۔ اور تھانہ میں ہلاکت یا پولیس مقابلہ میں ہلاکت کی صورت میں ہائی کورٹ کا فل بینچ اس کیس کے محل وقوع پر جا کر جبری گواہی لے کر کیس کی تحقیقات کر کے تیس یوم میں اپنی رپورٹ اخبارات کو جاری کرے۔اگر پولیس اہل کار مجرم ثابت ہو تو اس کی نوکری ختم کر کے اس کے جی پی فنڈ سے اور سرکاری فنڈ سے مقتول کے ورثاء کو دیت ادا کی جائے اس لیے کہ ناحق ہونے والے قتل کی ذمہ دار حکومت ہے لہٰذا اس کا ازالہ بھی حکومت کی ذ مہ داری ہے۔ارشاد نبوی ہے :
الاکلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ فالا میر الذی علی الناس راع وہو مسؤول عن رعیتہ (بخاری باب الجمعۃ فی القری (ج/١ ص /٢١٥)
خبردار تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحتوں پر نگران ہے اور تم میں سے ہر شخص سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی۔حکمران اپنی رعایا کا نگران و ذمہ دار ہے اس سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی۔
قرآن نے بھی ظلماً قتل کیے جانے والے شخص کے خون کا ذمہ دار حکمران کو بنایا ہے۔ارشاد ربانی ہے۔
ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لولیہ سلطانا۔(الاسراء / ٣٣)
جو ظلماً قتل ہو اور اس کا وارث کوئی نہ ہو تو حکمراں اس کا وارث ہو گا خواہ قصاصاً قتل کرے یا دیت ادا کرے (فتح القدیر کاسانی ٣/٢٢٣)
یہی وجہ ہے علماء کی اکثریت حضرت حسین کے قتل کی ذمہ دار یزید کو ٹھہراتی ہے۔
صفائی کا موقع دئیے بغیر ملزموں کے سروں کی قیمت مقرر کرنا اقدام قتل ہے
تیسرے یہ کہ جب تک کوئی ملزم اپنی صفائی کا موقع نہ حاصل کرلے عدالت کے لیے سروں کی قیمت مقرر کرنا یا اخبارات میں انعامات مشتہر کرنا اسلامی نقطہ نظر سے سراسر ممنوع ہے۔ صرف اطلاع دینے یا گرفتار کروانے پر انعام دیا جا سکتا ہے عموماً ایسے موقع پر جواب دیا جاتا ہے کہ جناب فلاں شخص تو پہلے ہی سے مشہور ہے یقیناً اسی نے قتل کیا ہو گا یا فلاں کی فلاں سے دشمنی تھی لہٰذا وہی قاتل ہو گا۔بظاہر یہ قرائن خواہ کتنے ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں جب تک ملزم سے اقبالی بیان نہ لے لیا جائے اسے صفائی کا موقع نہ دے دیاجائے اس وقت تک وہ ملزم ہی ہوتا ہے اسے مجرم کی صف میں کھڑا کرنا اسلامی نقطہ نظر سے غلط ہے۔
پہلی مثال قرآن کریم میں ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن بلتعہ کا واقعہ منقول ہے جس کا پس منظر یہ ہے۔
نبی کریمﷺ نے مکہ پر حملہ اور فتح کرنے کا پروگرام بنایا اور اس خبر کو راز رکھنے کی خصوصی تاکید فرمائی۔حضرت حاطب بن بلتعہ نے یہ سوچ کر کہ اگر اہل مکہ کو میں حملہ کی اطلاع کر دوں تو وہ اس احسان کے بدلہ میرے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کریں گے۔ انھوں نے بذریعہ خط اس کی اطلاع اہل مکہ کو بھیجی، اللہ تعالی نے بذریعہ وحی (الممتحنہ /١)نبی کریمﷺ کو مطلع کر دیا آپﷺ نے قاصدہ کو گرفتار کروا کر خط برآمد کرلیا۔غور فرمائیے اس خط کی نوعیت غداری، جاسوسی اور جنگی جرائم کی تھی خط جو ان کے نام اور ہاتھ سے بھیجا گیا تھا تحریر ی ثبوت کی شکل میں مل گیا، قاصدہ نے بھی گواہی دے دی کہ حضرت حاطب نے خط دیا ہے۔ اتنے واضح ثبوت اور سنگین جرم کے بعد حضرت عمر نے قتل کرنے کی اجازت مانگی لیکن آپﷺ نے منع کر دیا اور انھیں کھلی عدالت میں اپنی صفائی کا پورا پورا موقع فراہم کیا پھر ان کے بیان سے مطمئن ہو کر معاف کر دیا۔
دوسری مثال اسی طرح عبدالرحمن کے دور حکومت میں مسلمانوں کی رواداری کی بدولت اندلس کے عیسائی نہ صرف اسلام قبول کر رہے تھے بلکہ اپنے کلچر کو چھوڑ کر مسلم کلچر اور زبان کو اختیار کر کے مسلم رنگ میں رنگتے جا رہے تھے جس کو دیکھ کر چند عیسائی پادریوں نے مشتعل ہو کر اہانت رسول کا ارتکاب کیا۔ انھیں گستاخی رسول کے بدلہ سزائے موت دی گئی تو انھوں نے اسے ایک تحریک کی شکل دے کر لا شہیدی تحریک کا آغاز کیا تاکہ مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد فراہم ہو۔پھر کچھ دن بعد مسیح کے لیے شہادت حاصل کرنے کا متمنی کسی مسلم عدالت میں پہنچا، قاضی کے سامنے کھڑا ہو کر ہمارے پیغمبر کو گالیاں دیتا، اسلام کو برا کہتا تھا تاکہ جواباً قتل ہو کر شہید بن جائے لیکن کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں جہاں ملزم کو صفائی کا موقع دئیے بغیر سزائے موت دی گئی ہو جب بھی کسی قاضی کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تو مذکورہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا دوبارہ باقاعدہ مقدمہ کی سماعت اور ملزم کے اقبالی بیان اور گواہیوں کی سماعت کے بعد اسے سزائے موت دی گئی۔بغیر عدالتی ٹرائل کے کسی کو قتل کرنے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں رہا حالانکہ ایک مسلمان کے لیے اہانت رسول سے بڑھ کر کون سا جرم ہو سکتا ہے؟
تیسری مثال اسی طرح ایسا قاتل جس نے دن دھاڑے قتل کیا ہو، قاتل و مقتول دونوں معلوم ہوں پھر بھی اس کے و رثاء کے لیے جائز نہیں کہ وہ قاتل کو از خود قتل کر دیں بلکہ انہیں عدالت کے ذریعہ یہ اختیار حاصل کرنا پڑے گا۔علماء نے لکھا ہے اگر کسی وارث شخص نے از خود قاتل کو قتل کر دیا تو تعزیراً اسے سزا دی جائے گی اس لیے کہ اگر قتل کا حق عدالت میں جرم ثابت ہوئے بغیر دے دیا جائے تو ملک میں لاقانونیت پھیل جائے گی اور یہ بڑے فساد کا ذریعہ بنے گی۔
انصاف نہ ملنے کے نتائج
اس موقع پر میں حکمرانوں اور سرکاری کارندوں سے کہنا چاہوں گا کہ وہ مظلوم کی داد رسی کے راستے بند کر کے ان کو دیوار سے نہ لگائیں۔وہ جن اتھارٹیز سے انصاف کے معاملہ میں مایوس ہو گا ان کو بھی ظلم کا ستون اور ظلم میں شامل سمجھے گا۔ اپنے دشمنوں میں اس شخص یا ادارہ کو بھی شامل کر لے گا اور ان کے خلاف بھی لڑے گا حکومت ایسے افراد کو ملک کا باغی قرار دے گی قاتل قرار دے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مظلوم ہے ملک کے دشمن اور باغی وہ افراد اور ادارے ہیں جنھوں نے ایسے لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کیا۔ آپ کو یاد ہو گا کچھ عرصہ قبل ہمارے ملک میں وکلا ء کے قتل کا سلسلہ چلا تھا ایسا کیوں ہوا ؟ اگر غور کریں تو بات خود سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ وکلا ء اپنے موکلین کا استحصال کرتے ہیں فیس لیتے ہیں کیس کی پیروی نہیں کرتے، پیسے نہ ملیں تو اپنے مؤکل کو خود پھنسوا دیتے ہیں بعض وکلا ء مخالف سے پیسے وصول کر کے بک جاتے ہیں اپنے مؤکل کو ہر غلط راستہ اور بیان سکھا تے ہیں۔ یہ کام خاص کر وہ وکلاء کرتے ہیں جو کریمنل کیسز چلاتے ہیں۔
ایک شخص کو جب عدالت کے ذریعہ بھی انصاف نہیں ملتا تو وہ وکیل اور عدالت دونوں کو اپنا دشمن سمجھ کر نشانہ بناتا ہے۔آج کل ڈاکٹروں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے کسی نے اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ لوگوں نے مسیحا کو کیوں قتل کرنا شروع کر دیا ہے یہاں بھی دیگر عوامل کے ساتھ ایک سبب یہ ہے کہ آج ڈاکٹر اور قصائی میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے ان ڈاکٹروں سے جھوٹی میڈیکل بنوا کر جس کے خلاف چاہیں کیس درج کروا سکتے ہیں۔ مریض ہسپتالوں میں تڑپتے رہتے ہیں یہ ڈیوٹیوں پر ہی نہیں ہوتے، اگر ہوتے ہیں تو بھی فوری توجہ کے بجائے گھنٹوں بعد مریض کو ٹریٹ مینٹ دیتے ہیں خواہ اس دوران مریض ہلاک ہو جائے۔ بعض ڈاکٹر مخالف مذہب کے زخمیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں تاکہ وہ ہلاک ہو جائے یا اس کی میڈیکل رپورٹ اس طرح بناتے ہیں تاکہ کوئی کیس نہ بن سکے۔جرائم پیشہ لوگ جرم کرتے ہیں پھر انہی ڈاکٹروں سے جھوٹے سرٹیفیکیٹ بنوا کر عدالت میں پیش کر دیتے ہیں کہ وہ اس وقت ہسپتال میں داخل تھے اور عدالت سے با عزت بری ہو جاتے ہیں یہ سب ظلم میں داخل ہے۔
ظلم کی تعریف اور انجام
ظلم کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ظلم کہتے ہیں ناحق غیر کے حق میں تصرف کرنا یا کسی کے حق سے زیادتی کرنا(موسوعۃنظر ۃ النعیم ج١٠ ص ٤٨٧٢)
نبی کریمﷺ نے فرمایا :
اتقوا دعوۃ المظلوممظلوم کی بد دعاء سے بچو (مستدرک للحاکم ج١ص٢٩)
دوسری جگہ فرمایا :
اتقوا الظلم فان الظلم ظلمات یوم القیامۃ (مسلم حدیث نمبر ٢٥٧٨ فتح الباری ج٥ ص ٢٤٤٧)
اے لوگو ظلم کرنے سے باز رہو بیشک ظلم قیامت کے دن اندھیرے کی شکل میں ظاہر ہو گا۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے ظلم کے ذریعہ ظلم اور فساد کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ہر ظلم کے بعد اندھیرا ہے ہر شام کے بعد سویرا ہے
جس طرح اندھیرے سے چلنے والا منزل کو نہیں پا سکتا ہے اسی طرح ظلم کے ذریعہ امن محبت اور قانون کی بالا دستی حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔
لاقانونیت کا حل سیرت طیّبہ میں ہے
اگر ہمارے حکمراں اور سرکاری کا رندے فی الحقیقت ملک سے لسانیت، فرقہ واریت، دہشت گری اور لاء اینڈ آڈر کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ظلم کے سوتوں کو بند کرنا ہو گا۔ ہر ادارہ اور فرد سے انصاف کا اجراء کرنا ہو گا پولیس مقابلوں کے بجائے اپنی جانب سے رواداری عفو و درگزر کا دروازہ کھولنا ہو گا۔ حکمرانوں کو صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ بنی کریمﷺ نے دشمن کے سامنے جھک کر صلح کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن کے دل میں اسلام کی گنجائش پیدا ہو گئی، نفرتیں محبتوں میں بدلنے لگیں بالآخر وہ وقت آ گیا جب مکہ فتح ہو گیا جیسا کہ قرآن نے صلح کے وقت پیش گوئی کی تھی۔فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کو قتل کرنے والے ان کو اذیتیں دینے والے گھروں سے بے گھر کرنے والے تمام افراد گرفتار ہو گئے مگر آپﷺ نے صاف اعلان فرمایا :
الیوم یوم المرحمۃ لا تثریب علیکم الیوم
آج رحمت اور درگزر کا دن ہے آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی تم سب آزاد ہو۔
اسلام کے اعلانِ عفو کی بدولت قاتل مسلمانوں کے پاسبان بن گئے، مسلمانوں کو بے گھر کرنے والے خود بے گھر ہونے کے لیے تیار ہو گئے، مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسلام کی خاطر اپنی گردن کٹانے والے بن گئے۔ یہ انقلاب اسلامی رواداری کا ثمرہ تھا۔
مذہبی و سیاسی آزادی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے
اقوام متحدہ کا حقوقِ انسانی کا چارٹر ہر شخص کو یہ آزادی فراہم کرتا ہے کہ وہ جس سوسائٹی، تنظیم، پارٹی میں شامل ہونا چاہے شامل ہو سکتا ہے۔ دفعہ ٢٠ کی دو شقیں یہ ہیں :
(١) ہر انسان کو کسی پُر امن سوسائٹی یا جماعت میں شریک ہونے حق حاصل ہے۔
(٢) کسی انسان کو کسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔
(انسانی حقوق محمد رحیم حقانی ص١٢٣)
پاکستان کا آئین بھی یہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔لہٰذا حکومت کو چاہیے وہ ان راستوں پرنہ خود چلے نہ اپنے کا رندوں کو چلنے دے جن پر چل کر پچھلی حکومتیں نشان عبرت بن چکی ہیں۔ کسی بھی جماعت یا پارٹی پر پانبدی لگانا مسئلہ کا حل نہیں ایسے لوگ کوئی دوسرا نام رکھ کر کا م کا آغاز کر لیں گے، حکومت کتنے ناموں پر پابندی عائد کرے گی ؟
دوسرے یہ کہ پولیس مقابلہ کے ذریعہ یا ظلم و تشدد کے ذریعہ کسی پارٹی کو توڑنا یہ غیر اخلاقی و غیر قانونی طریقہ ہے۔ایسا کرنے سے رد عمل پیدا ہو گا لوگوں کے دلوں میں فطری بات ہے ایسے افراد سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گا جس سے زیر زمین مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔
ملزموں کو حصول انصاف کے مواقع اور عام معافی ملنی چاہیے
مناسب صورت یہ ہے کہ حکومت ایسے تمام افراد کو جن کا تعلق کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت سے ہے انھیں موقع فراہم کرے کہ وہ ہتھیار پھینک دیں۔انھیں سرکاری وکیل فراہم کرے تاکہ وہ انصاف کے حصول کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہوسکیں یا پھر عام معافی کا اعلان کر کے موقع دے کہ وہ اگر پرامن زندگی گزارنے کی ضمانت دیں اور آئندہ دو سال تک کسی غلط کام میں ملوث نہ ہوں تو ان پر عائد کیسز ختم کر دیے جائیں تو اُمّید کی جا سکتی ہے بہت سے نوجوان جو پولیس، عدالت یا حکومت سے متنفر ہو کر جرائم کے راستوں پر چل پڑے ہیں وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ کر پرامن زندگی گزارنے لگیں۔ جو نوجوان اپنے گھر، معاشرہ اور ماحول سے کٹ جاتا ہے وہ ان کے دباؤ سے نکل جاتا ہے پھر اپنی ضروریات و تحفظ کے لیے دوسروں کا آلہ کا ر بن جاتا ہے لہٰذا ایسے نوجوان اگر اپنے گھروں میں واپس آجائیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے معاشرتی دباؤ کے بعد وہ دوبارہ سابقہ راستوں پر چلنے سے باز رہیں گے۔
اس موقع پر یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے جس ملزم کو پولیس مقابلہ میں ہلاک کیا جاتا ہے وہ ملزم سے ہیرو بن جاتا ہے، اس کے بھائی رشتہ دار دوست احباب متعلقہ فرد یا ادارہ سے انتقام لینے کے لیے اسی راستہ پرچلنے لگتے ہیں۔ بظاہر ہم سمجھتے ہیں ایک دہشت گرد قتل ہو گیا تو گویا ایک کم ہو گیا حالانکہ اس ایک سے دس پیدا ہو جاتے ہیں اور یو نہی انتقام در انتقام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ پچھلے ادوار میں طویل ترین آپریشن انہی غلط سوچ اور طاقت کے غلط استعمال کا ثمرہ تھا لہٰذا حکومت کے ارباب حل و عقد کو بہت غور و خوض کے بعد لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ایسا لائحہ عمل جس میں عفو، رواداری، ملکی استحکام، قانونی بالادستی اور اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھا گیا ہو۔
پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں
٭٭٭
ماخذ:
انوار مدینہ، لاہور کے شمارے
تشکر: اسد جن سے فائل کا حصول ہوا
تسوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید