فہرست مضامین
ٹوٹی شاخ کا پتّہ
اور دوسری کہانیاں
(افسانوی مجموعہ ’پیچ ندی کا مچھیرا‘ کی بیشتر کہانیاں)
صادقہ نواب سحر
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل مجموعہ ’پیچ ندی کا مچھیرا‘ ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
کریم النساء بیگم محمد حیات
کے نام
جو
لال اماں
تھیں
مہربان نانی
جن کی محبتوں کی میں
قرض دار
ہوں!
سُنئے تو سہی!
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسکول کی لائبریری کی چھوٹی چھوٹی رنگین کرسیوں پر بیٹھ کر بچوں کی کہانیوں، ڈراموں اور نظموں کی کتابیں لائبریری پیریڈ میں پڑھا کرتی تھی۔ نئی کتابیں ہاتھ لگتیں تو کھِل اٹھتی … اردو، ہندی اور انگریزی کی کتابوں کو اسکول کھُلنے سے پہلے ہی چاٹ جاتی۔ کتنی کہانیوں میں ڈوبی رہتی تھی میں! شاعری کی دنیا میں غرق رہتی! بعد میں کتابوں میں چھپا کر کہانیاں اور ناول پڑھنے کے شوق نے جکڑے رکھا۔
گھر میں نیم ادبی اخبار و رسائل آتے تھے۔ تب بڑے شوق سے اس کی کہانیاں، فلمی ستاروں کی زندگی اور سوال جواب کے کالم گھر میں پڑھے جاتے تھے۔ سب کو دلچسپی تھی۔ والدہ بہت ہنستی اور خوش ہوتی تھیں کہ میں شاعری بڑی دلچسپی سے پڑھتی تھی۔ والد نے میرے شوق اور ذوق کو تحریک دینے کے لیے کبھی کوئی کہانی سنائی اور اس کو اپنے طریقے سے لکھنے کو کہا اور کبھی موضوع دیے۔
’’ایک لہسن کی کہانی لکھو۔۔ ۔۔‘‘
’’آج ایک پیاز کی کہانی لکھو۔۔‘‘
’’۔۔ ۔ ایک کرسی کی۔۔ ۔‘‘
اب سوچتی ہوں تو تعجب ہوتا ہے کہ شاید وہ ایسا کروا کر مجھے ہر موضوع پر لکھنے کے لیے تیار کر رہے تھے۔ کیسے شکریہ ادا کروں ان کا کہ اب دنیا میں نہیں … ممی اور نانی کی شاعری، ان کی زبانی کہی ہوئی کہانیاں جو کبھی شاعری کی کتاب، کبھی ڈائری بن جاتی تھی۔ والدہ نے کئی ڈائریاں لکھی تھیں لیکن پھر پھاڑ دیں۔ ہم نے وہ ڈائریاں نہیں پڑھیں۔ وہ اپنی سوچ کو اپنی حد تک محدود رکھنا چاہتی تھیں۔ بس یہی وجہ تھی کہ سب پُرزے خاک میں ملا دیے گیے … بی اے کے پہلے سال میں داخلے کے وقت صوفیہ کالج کی پرنسپل اور بابا کی رائے ایک ہی تھی کہ زبانوں میں اس کی دلچسپی لکھنے کے فن میں مدد کرے گی۔
مجھے بچپن سے ہی بڑے بوڑھے بہت اچھے لگتے ہیں کہ ان کے پاس تجربات کا خزانہ ہوتا ہے۔ ہمارے پڑوس کے دو بزرگ کتابیں لے کر ہمارے گھر آتے تھے۔ وہ پڑھ نہیں پاتے تھے لیکن نسیم حجازی کے ناول بڑے شوق سے سنتے تھے۔ کسی کو تمیم انصاری مل گئی تھی۔ وہ کچھ اور بھی کتابیں خرید کر لاتے اور مجھ سے پڑھوا کر سنتے۔ یاد آتا ہے اپنی آپا سے بھی بچپن میں کہانیاں سننے کا لاڈ کروا لیا تھا۔ بابا کو کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ ان کے پاس ہر موضوع پر کتابوں کا انبار ہوا کرتا تھا۔ ان کو یاد کرتی ہوں تو ایزی چیئر پر لنگی اور بنیان پہنے ہوئے، چشمہ لگائے ہوئے ڈیل کارنیجی کی یا کسی نفسیات کی کتاب پڑھتے ہوئے … دکھائی دیتے۔ یاد ہے چوتھی کلاس میں، میں نے ان کا اس طرح کا اسکیچ بنایا تھا جس میں ان کی ذہین آنکھیں عینک میں سے کتاب میں غرق دکھائی دیتیں۔ کم عمر میں ہی انھوں نے زندگی جینے کے سارے گُر ہمیں سکھا دیئے۔ ان کو عملی جامہ پہنایا ممی نے۔ خیال آتا ہے کیسی زندگی جی لی انھوں نے! بچوں کے سوا انھیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ان کی پرورش، ان کا آج، ان کا مستقبل … کم عمر میں ان کی شادی ہوئی تھی۔ ساری زندگی ماں باپ نے ہم پر لٹا دی۔
گھر میں ایک ’قصص الانبیاء‘ تھا۔ ہر رات کھانے کے بعد ہم سب ہال میں اکٹھا ہوتے تھے۔ میں اسے پڑھتی اور نانی اس کا خلاصہ کرتی جاتیں۔ کبھی کبھی وہ خود بھی پڑھ کر سناتیں۔ آہ نانی! انھوں نے ہی تو ماں کو روایت دی تھی بچوں کے لیے مر مٹ جانے کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئیں اور ساری زندگی شوہر کی ذمہ داریوں اور شوہر کے دیئے ہوئے بچوں کا خیال رکھنے کا وعدہ نبھاتی رہیں۔ پیغمبروں کے قصے میرے اندر اترتے گئے۔ ممبئی میں ڈگری کالج میں اردو کی لیکچرر شپ ایم اے کرتے ہی حاصل ہو گئی تھی لیکن اس وقت تک میں ایک ننھی منی سی بچی کی ماں بن چکی تھی۔ کھوپولی لوٹ کر ہندی پڑھاتے ہوئے مہابھارت اور رامائن کو جاننے کا موقعہ ملا۔ پہلے مجھے شکایت رہتی تھی، ایک چھوٹی سی جگہ پہنچا دئے جانے کی … لیکن بعد میں احساس ہوا۔ اب خدا کا شکر بجا لاتی ہوں کہ اس نے مجھے یہاں بھیجا۔ شاید میں بڑے شہروں کی زندگی میں محدود ہو کر رہ جاتی۔ یہاں کا ماحول، یہاں کے طالب علم، ملک کے الگ الگ حصوں اور خاص طور پر مہاراشٹر کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے اساتذہ اور کرم چاری۔ میں نے طلبا سے بہت سیکھا۔ یقیناً آدیواسی تو مجھے کہاں ملتے۔ ان کا رہن سہن، ان کے گھر اور گاؤں، ان کے ریت رواج اور شادیاں، ان کے مسائل، ان کی، دلتوں کی، غریب مسلمانوں کی جھگّی جھونپڑیوں تک بھی میں پہنچ پائی … یہ علاقہ صنعتی علاقہ ہے۔ چھوٹے بڑے کارخانوں میں کام کرنے والی آبادی سے بنا ہوا۔ اچھے گھر کے پڑھے لکھے یا چھوٹے بڑے کاموں کے ہنرمند لوگ یہاں بستے ہیں۔ میں اکثر ہنستی ہوئی کہتی ہوں، ’’جو یہاں آیا، یہیں کھپ گیا، یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اچھا ہے کہ میں یہاں ہوں۔ یہاں اِن سب نے میری سوچ کو اُجالا دیا ہے۔ صادقہ آراء سحرؔ نے مضامین بھی لکھے، شاعری بھی کی اور افسانے بھی لکھے۔ رسالوں میں افسانے آئے، شاعری مسکرائی، اور مبارک باد کے ڈھیر سارے خطوط آنے لگے لیکن صادقہ نواب سحر کے پاس وقت کی تنگی ہو گئی۔ بچے بڑے کرتے ہوئے چھپنے کا سلسلہ تقریباً نا کے برابر ہو گیا۔ جب جب وقت ملا، ٹی وی سیریلوں اور سہیلیوں سے گپ بازی میں نہیں گزارا بلکہ کبھی لکھا کبھی پڑھا۔ جو جی میں آیا، کیا۔ بچے بڑے کرنے کے علاوہ جاب کی مصروفیات بھی ہوئی۔ ان دنوں شاعری میرے اظہار کا ذریعہ زیادہ تھی کہ وہ تو ذہن میں تیار ہونے کے بعد کچھ ہی منٹوں میں کاغذ پر اتر جاتی تھی لیکن شاعری کو چھپنے کے لیے کم بھیجا۔ اب بھی کم ہی بھجواتی ہوں۔ کئی اہم مشاعروں میں بھی شریک ہوئی۔ خوش قسمتی سے ایک شعری مجموعہ بھی آ گیا۔ یہ میری پہلی کتاب تھی۔ اس کتاب کو میں کہیں پہنچا نہیں پائی۔ کیا پتہ تھا کہ پہچانا بھی ہوتا ہے! ناشر قتیل راجستھانی صاحب نے مجھ سے کہا بھی کہ میں اسے غزل گائیکوں تک پہنچاؤں۔ پانچ سو کتابیں گھر میں پڑی رہ گئیں یا تحفوں میں چلی گئیں۔
شاعری کی طرف رخ ہوا، غزل سے زیادہ زندگی کی تلخ اور شیریں سچائیوں کو آزاد اور نثری نظموں میں اتارنے لگی۔ خلوصِ دل سے دنیا کو شاعری میں سمیٹا۔ ’تکمیل‘ نے ممبئی کے شعرا پر نمبر نکالا، مجھے شامل کیا۔ جینوئن شاعر مانی جانے لگی۔ مجروح سلطانپوری صاحب نے شعبۂ اردو کی سربراہ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی کی موجودگی میں مہاراشٹر کالج کے ایک مشاعرے میں کہا تھا، ’’اس لڑکی میں بہت جَس ہے۔‘‘
جرمنی سے شائع ہونے والے رسالے ’جدید ادب‘ نے ’صادقہ نواب سحرؔ کی دس دلت نظمیں‘ کے عنوان سے میری نظموں کو مان دیا۔ میں نے مان لیا کہ یہی میرا میدان ہے بس! لیجئے ایک عمر گزر گئی یہ سوچنے میں کہ میں کیا لکھنے کے لئے بنی ہوں۔ شاعری کی طرف رجحان ہوا تو نثر نے پسندیدگی پائی اور جب نثر کی طرف جھکی تو شاعری نے قارئین کو متاثر کیا۔ کچھ ایسا ہی ڈراموں کے ساتھ بھی ہوا۔
پھر پتہ نہیں کیا ہوا! ایک دن اچانک ایک خیال نے مجھ سے ایک ناول لکھا لیا۔ ۲۰۰۸ء میں پہلے ناول ’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘ کی آمد نے احساس دلایا کہ میں فکشن کے لیے بنی ہوں … اور پھر کچھ پرانی کچھ نئی کہانیاں جمع کر کے ایک مجموعہ ’’خلش بے نام سی‘‘ تیار ہوا۔ دو سرا ناول ’’جس دن سے۔۔۔!‘‘ نے بھی پذیرائی حاصل کی۔ دو ناولوں کے، ایک افسانوں کے اور ایک ڈراموں کے مجموعے (’مکھوٹوں کے درمیان‘) فکشن کے نام پر میری جھولی میں آ گئے۔ ان پر لکھی گئی تنقیدی تحریریں ’’صادقہ نواب سحر: شخصیت اور فن (فکشن کے تناظر میں )‘‘ میں آٹھ سو صفحات میں سِمٹ گئیں۔ میرے شوہر اسلم نواب صاحب نے ہر قدم پر نہ صرف میرا ساتھ دیا بلکہ رہنمائی بھی کی۔ ملک بھر کی سیر کروائی۔ ہم نے بیرونِ ممالک کے تجربے بھی حاصل کئے۔ میری تحریروں کے لیے یہ تجربات بھی اساس بن گئے۔
’پیج ندی کا مچھیرا‘ میرا دوسرا افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اب سوچتی ہوں … اچھا ہے کہ فکشن کی طرف دیر سے آئی۔ اب رومانی، نیم رومانی زندگی میں اکیسویں صدی کی نئی دنیا گھل مل جو گئی ہے۔ دیر آید درست آید۔
صادقہ نواب سحرؔ
۲۲؍۲؍۲۰۱۸ء
سہمے کیوں ہو انکُش!
مسز پاٹل بہت پریشان تھیں۔ شرمندہ بھی تھیں۔ اندازہ نہیں تھا کہ ان کا شریر بچہ شرارتوں میں اِس حد تک بڑھ جائے گا کہ انہیں پورے قصبہ میں شرمندہ ہونا پڑے گا۔
انکُش نام کا انکش یعنی بندھن تھا مگر اس پر کوئی بندھن عائد نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ایک لمحہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ کلاس میں ٹیچر کے پڑھاتے وقت بھی وہ بے چین بے چین سا اپنی جگہ ہلتا رہتا تھا۔ جیسے ہی ٹیچر تختۂ سیاہ کی جانب پلٹتیں، وہ اپنی جگہ سے فوراً اٹھ کھڑا ہوتا۔ یہاں تاکتا، وہاں جھانکتا یا دیواروں پر لگے ہوئے پوسٹر غور سے دیکھتا رہتا اور ان کی کہانیوں، نظموں کی دنیا میں کھو جاتا۔ پتہ نہیں وہ کیوں اتنی بے کلی کا شکار تھا! لیکن کل تو اس نے حد ہی کر دی۔
دوپہر کے کھانے کے وقفہ میں نیرج نے اپنی پانی کی بوتل اسے دے کر کہا تھا، ’’جا کُولر سے بھر کر پانی لا … ‘‘
انکش اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
’’جلدی … نہیں تو! … ‘‘ نیرج نے تیزی سے اپنا دایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ سہم کر پیچھے ہٹا۔
نیرج کی ’’نہیں تو!‘‘ کی حد ہی نہیں تھی۔
’’اپنے رو مال سے میرے جوتے صاف کر … نہیں تو! … ‘‘
’’میرا بیگ اٹھا لا … ‘‘ کل ہی نیرج نے انکش سے کہا تھا۔
’’میں لکھ رہا ہوں نا! میرا پروجیکٹ پورا نہیں ہوا ہے۔‘‘ انکش چِڑ کر بولا تھا۔
’’جا یار! تو لے آ یار!‘‘ نیرج نے پاس کھڑے لڑکے سے کہا تھا، ’’انکش کو اپنی ٹیم سے باہر کرتے ہیں … ‘‘ وہ کلاس کی طرف مڑا، ’’کلاس میں انکش کے ساتھ کون کھیلے گا؟‘‘
’’ہم کھیلیں گے۔‘‘ لڑکیوں کی بنچوں سے دو تین آوازیں اُبھری تھیں۔
’’انکش لڑکیوں کے ساتھ کھیلے گا … انکش لڑکی … لڑکی … لڑکی … ‘‘ ۔ لڑکے ہاتھ ہلا ہلا کر انکش کا مذاق اُڑا رہے تھے۔
یہ تو روز کی بات تھی۔
انکش با دلِ ناخواستہ اٹھا۔ بیگ پرے رکھا اور کولر سے پانی بھر کر لایا۔
’’بڑی پیاس لگی ہے یار!‘‘ نیرج نے فاتحانہ نظر اپنے ساتھیوں پر ڈالی اور بوتل منہ سے لگا لی۔ پہلے گھونٹ پر ہی نیرج تھوکتا ہوا واش روم کی طرف دوڑا۔ انکُش ہنسنے لگا۔
نیرج واش روم سے دوڑتے ہوئے لوٹا۔ آتے ہی اس نے انکش کے منہ پر ایک گھونسہ جڑ دیا اور دونوں کی ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔
وقفہ ختم ہو گیا۔ الیکٹرک کی گھنٹی کی گھنگھناہٹ، اپنی اپنی کلاس کی طرف دوڑتے ہوئے بچوں کے شور میں ایک جان ہونے لگی لیکن نیرج نے گھونسے بازی بند نہیں کی۔ اس کا غصہ کسی طرح ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا۔ دونوں لڑتے لڑتے کلاس کے دروازے تک آ گئے تھے۔ انکش کی ہنسی اب بند ہو چکی تھی۔ وہ اپنی شرٹ کے اوپر کے دو بٹن لگانے کی کوشش کر رہا تھا، جو دھاگے کے ساتھ لٹک گئے تھے۔ دونوں کے بال بُری طرح بکھرے ہوئے تھے۔ دونوں کی سانس بری طرح پھول رہی تھی۔
’’ٹیچر آ گئیں۔‘‘ بچوں نے شور مچایا اور اپنی جگہوں پر پہنچتے ہوئے ایک آواز میں بولے، ’’گڈ مارننگ ٹیچر‘‘ ۔
ٹیچر نے ان کی طرف توجہ نہیں دی تو ٹیچر سے ’’سِٹ ڈاؤن‘‘ سننے سے پہلے ہی اپنی بنچوں پر بیٹھ بھی گئے۔ نیرج ابھی تک انکش سے بھِڑا ہوا تھا۔ ٹیچر نے دونوں کی پیٹھ پر دھپ لگائی۔ دونوں کے کان پکڑ کر کلاس کے اندر لے گئیں۔ قصہ معلوم کر کے پہلے تو وہ ’پھک‘ سے ہنس پڑیں پھر سنجیدہ ہو گئیں۔ ٹیچر نے اپنی ہری سوتی ساری کے پلّو کو کمر میں اڑس لیا۔ پیشانی کی ہری بِندی پر ان کی مانگ کا سیندور چھٹک گیا تھا۔ اس وقت ان کا چہرہ گلابی ہو رہا تھا۔
’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
’’وہ مجھے روز ستاتا ہے۔‘‘
’’اچھا! اسی لئے تم نے یہ کیا! مجھ سے کیوں نہیں کہا؟‘‘
’’کہا تھا، مگر آپ بولی تھیں، ’اُس کی بات سن لے ورنہ وہ تیرے ساتھ نہیں کھیلے گا۔‘‘
’’تو تم کو کھیلنے کے لئے وہی ملا!‘‘
’’وہ مجھے کسی اور کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتا!‘‘
’’اچھا! پھر تو وہ اچھا لڑکا ہے نا! تمہیں اکیلا ہونے نہیں دیتا۔ ساتھ رکھتا ہے۔‘‘
’’وہ مجھے اپنی پیٹھ کھجلانے کو بھی کہتا ہے۔‘‘
’’اسے کھجلی ہوتی ہو گی۔‘‘
’’کیا وہ تمہیں ہی اپنے کام کرنے کو کہتا ہے؟دوسرے بچوں کو نہیں؟‘‘
’’پہلے دوسروں سے بھی کہتا تھا مگر اب مجھے ہی کہتا ہے۔ میرے پیچھے ہی پڑا رہتا ہے۔‘‘
’’کیوں کہ تم منع کرتے ہو۔ ہے نا!‘‘
انکش ٹھٹکا پھر بولا، ’’ہاں!‘‘
پھر وہ بچوں سے مخاطب ہوئیں، بولیں، ’’بچو! آپ کو پتہ ہے، انکُش نے ایک گندہ کام کیا ہے۔‘‘
’’آآآآآ … ‘‘ بچے چلائے۔
’’بتاؤ اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟‘‘ بچے چپی سادھے بیٹھے رہے، ’’بولو بولو۔‘‘
سب چپ تھے۔
’’اچھا! ایک کام کرتے ہیں۔ نیرج تم ادھر آؤ۔ تمہیں ڈرائنگ اچھی آتی ہے نا! بلیک بورڈ پر ڈرائنگ بناؤ انکُش کی۔‘‘
نیرج نے ڈرائنگ بنائی۔ لمبی ٹہنیوں جیسے ہاتھ پاؤں، بغیر بالوں والا گول چہرہ، اس پر دو نقطے آنکھیں، ناک کی جگہ کھڑی لکیر اور متوازی لکیر منہ کی۔
’’شاباش! یہ دیکھو۔ سکنڈ اے کلاس کے آپ کے دوست بچے نے انکش کی ڈرائنگ کتنی اچھی بنائی ہے! ہے نا! نیرج کے لئے تالیاں بجاؤ! ۔۔‘‘
بچے تالیں بجانے لگے۔
’’اب ہم ’انکش انکش‘ کھیلیں گے … او کے انکش!‘‘
انکش نے ’ہاں ‘ میں گردن ہلائی۔ وہ بری طرح سہم گیا تھا۔ نہ جانے ٹیچر اسے کیا سزا دیں!
’’ … چلو بچو! ۔۔ نئے کھیل کے لیے تالیاں بجاؤ۔۔‘‘
کلاس پھر ایک بار تالیوں سے گونجنے لگی۔
’’بتاؤ یہ کیا ہے؟‘‘ ٹیچر نے پوچھا۔
’’بلیک بورڈ، ٹیچر۔‘‘ بچے ایک سُر میں چلائے۔
’’اور یہ؟‘‘ ٹیچر نے تختۂ سیاہ کے قریب، ایک اسٹینڈ سے خاکی رنگ کے پُٹھّے کا ڈبہ ہاتھ میں لیا تھا اور اس میں رکھے چاک نکال کر انہیں دکھایا تھا۔
’’چاک‘‘
’’اور یہ ڈرائنگ میں بچہ کون ہے، بچو؟‘‘ ٹیچر نے پوچھا۔ بچے چپ تھے۔ ’’انکش ہے نا! بولو! … کون ہے؟‘‘
’’انکش‘‘ بچے ایک ساتھ بولے۔ ٹیچر نے ہاتھ میں پکڑے ڈبے سے چاک نکالے، اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے اور تیس بچوں کی کلاس میں تقسیم کر دیے۔ پھر انھوں نے باقی چاکوں کے بھی ٹکڑے کئے اور ڈبے میں رکھ دیئے۔
’’بچو! تم نے دیکھا، بلیک بورڈ کی اس ڈرائینگ میں انکش نے کپڑے پہنے نہیں ہیں نا!‘‘
بچے چپ تھے۔
’’بولو … نہیں پہنے نا! … یس یا نو؟‘‘
’’نو ٹیچر!‘‘ بچے ایک ساتھ چلّائے۔
’’جب میں ون ٹو تھری بولوں، تو بچے بلیک بورڈ پر اِس انکُش کی ڈرائنگ کو چاک سے ماریں گے۔ کہاں ماریں گے؟ … بلیک بورڈ پر نا! … ٹھیک ہے؟ یس اور نو؟ … بولو یس۔‘‘
’’یس ٹیچر‘‘ سب چلائے، ’’دیکھو یہ ایک نیا گیم ہے۔ اچھا!‘‘
’’اچھا، ون … ٹو … تھری … بلیک بورڈ کے انکش کو چاک سے مارو … ‘‘
چاک دھڑا دھڑ تختۂ سیاہ سے ٹکرا کر زمین پر گرنے لگے۔
’’ نہیں … نہیں ٹیچر … نہیں ٹیچر … ‘‘ انکش اپنے دونوں ہاتھ ہلاتے ہوئے چلانے لگا۔ جیسے ہی بچوں کے ہاتھ کے چاک ختم ہوتے، ٹیچر ڈبہ آگے بڑھاتیں۔ بچے اس میں سے چاک نکال کر ڈرائینگ کو مارتے۔ واقعی ان کے لیے یہ انوکھا کھیل تھا۔ ادھر انکش آنکھیں پھاڑے تختۂ سیاہ پر چاک مارنے والے اپنے ساتھیوں کو اور اپنی ٹیچر کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ وہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے بچے کے پیچھے منہ چھپانے لگا۔
’’ساری ٹیچر … ساری ٹیچر … ساری … ساری … ‘‘ وہ لگاتار ’ساری‘، ’ساری‘ کہے جا رہا تھا۔
ٹیچر مسکرائیں، ساری ٹیچر کو نہیں … تم نے نیرج کو ستایا ہے، ٹیچر کے تو تم اچھے بچے ہو۔ ہے نا!‘‘
انکش نے ’ہاں ‘میں سر ہلا دیا۔
’’ساری مجھے نہیں، نیرج کو بولو!‘‘ ٹیچر نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ تھرّا گیا۔ اسے محسوس ہوا جیسے ٹیچر نے اس کے سر میں سوئی چبھو دی ہو۔ جلدی سے بولا، ’’ساری نیرج‘‘
’’ایسے نہیں، یہاں آؤ۔‘‘ ٹیچر انکش کے قریب جا کر کھڑی ہو گئیں۔ ’’نیرج کے پاؤں چھو کر ساری نہیں بولو گے تو وہ معاف تھوڑے ہی کرے گا! بہت گندہ کام کیا ہے تم نے اس کے ساتھ۔‘‘
انکش کا جی چاہا کلاس سے بھاگ کھڑا ہو۔ پلٹ کر نہ دیکھے، جیسے وہ ریس میں کرتا ہے اور ہمیشہ اول رہتا ہے۔ اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔ کڑی لگی ہوئی تھی۔
’’چلو۔‘‘ ٹیچر کی آواز اسے دور سے سنائی دی۔ وہ نیرج کے پیروں پر جھکنے لگا۔
’’اچھا، ٹھہرو … ‘‘ ٹیچر نے انکش کو روکا اور نیرج سے پوچھنے لگیں، ’’نیرج! کیا تم نے انکش کو معاف کر دیا؟ اس نے تم کو ساری کہا ہے۔‘‘
’’نو ٹیچر! … مجھے اب بھی غصہ آ رہا ہے۔‘‘
’’بچو! تم سب نے انکش کو مارا نا؟‘‘ وہ بچوں کی طرف دیکھنے لگیں۔
’’یس ٹیچر!‘‘
’’نیرج کوا ب شانت ہو جانا چاہیے نا؟ … ہے نا؟ … بولو یس!!‘‘
’’یس ٹیچر! … ‘‘ بچّے چلّائے
’’یس ٹیچر!‘‘
’’او کے ٹیچر!‘‘ نیرج واقعی پُرسکون ہو گیا۔
’’ بچو! ۔ اب کھیل ختم ہوا۔ مزا آیا نا! … اور اس کھیل میں۔ نیرج جیت گیا ہے … تالیاں بجاؤ … ‘‘ تالیاں بجیں۔ ٹیچر کا دھیان بنچ سے باہر نکل کر کھڑے ہوئے بچوں کی طرف گیا، ’’اب سب اپنی اپنی جگہ بیٹھیں گے … یس اور نو؟‘‘
’’یس ٹیچر‘‘
’’انکش اور نیرج بھی اپنی بینچ پر لوٹ جائیں گے۔‘‘ وہ سانس لے کر بولیں، ’’اور اپنی اپنی تاریخ کی کلاس ورک بُک نکالیں گے؟‘‘
’’یس ٹیچر … ‘‘
ٹیچر نے دروازے کی کنڈی کھولی۔ تبھی ہیڈ مسٹریس کلاس میں داخل ہوئیں۔ انہیں دیکھ کر بچے اُٹھ کھڑے ہو گئے۔ بولے، ’’گُڈ مارننگ میڈم!‘‘
ہیڈ مسٹریس نے بچوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بچے ’’تھینک یو میڈم‘‘ کہہ کر بیٹھ گئے۔ بچوں کو ایسی ہی تربیت دی گئی تھی۔
’’میں نے سنا، اس کلاس کے بچے مکے بازی کی مشق کر رہے تھے!‘‘ ہیڈ مسٹریس نے پوچھا۔
’’جی میڈم۔‘‘ کلاس ٹیچر بولیں، ’’انکش ہی کی شرارت ہے۔‘‘ اور ہیڈ مسٹریس کو انگریزی میں انکش کی شرارت بتائی۔
’’انکش! کم ہیئر! ۔ ‘ ہیڈمسٹریس اسے اپنے آفس میں لے گئیں۔ اس کے ماں باپ کو فون کر کے بلا لیا اور اسے پندرہ دنوں کے لیے سسپینڈ کر دیا۔
دو دن گزر گئے۔ ’’تیرے کپڑے میلے ہو گئے ہیں۔ نہ نہاتا ہے نہ کپڑے بدلتا ہے۔‘‘ ممی نے صوفے پر بیٹھے ہوئے انکش کو ہلکی سی دھپ لگائی اور بولیں، ’’چپ چپ کیوں رہتا ہے … بول تو کیا ہوا تھا؟‘‘ وہ انکش کے شرٹ کے باقی بچے ہوئے بٹن کھولنے لگیں، جنھیں اس نے فوراً دوبارہ لگا لیا۔ غصے کے باوجود ممی کو پریشان، سہمے سہمے انکش پر بے تحاشہ پیار آ گیا۔ اسے بے چین دیکھ کر انہوں نے تڑپ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور سینے سے لگا لیا۔
’’پندرہ دن کی پڑھائی۔۔ ۔ کلاس ورک، ہوم ورک، سب کیسے کَور کرو گے؟؟ … بتا … بھلا کوئی ایسی شرارت بھی کرتا ہے؟؟ … اچھا تو نے اسے سزا دی … تو … کوئی ایسی سزا … کیسے سوچ سکتا ہے تو؟؟‘‘
’’وہ میرے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ میرے ڈبے سے مٹھائی نکال کر کھا لیتا ہے۔ اوپر سے وہ مجھ سے اپنے جوتے پہنانے کو کہتا ہے، ہر روز پانی … ‘‘ آج انکش کھل کر بول رہا تھا، ’’میں نے سزا دی نیرج کو … ‘‘ انکش نے سر اٹھا کر کہا۔
’’پتہ ہے، تو نے کتنی بڑی سزا دی اس کو؟‘‘
’’ہوں‘‘ انکش نے دھیرے سے بند منہ سے جواب دیا۔
’’کیوں کیا تو نے ایسا؟؟ … غلطی ہو گئی نا تیری! … مجھ سے کہتا … ٹیچر سے کہتا … بول!‘‘
’’ہاں ممی! غلطی ہو گئی۔‘‘
اچانک ممی کو کچھ خیال آیا۔ انکش کی بات کاٹ کر پوچھا، ’’انکش! … اچھا یہ بتا … مجھے تو پتہ نہیں تھا، کیا تجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ نیرج تیری ٹیچر کا بیٹا ہے؟‘‘
’’پتہ ہے۔ لیکن وہ مجھے ستاتا تھامیں نے اس کو سزا دینے کے لئے اس کی واٹر بوتل میں تھوڑاسو سوکر دیا۔‘‘
تھوڑا!! … بہت بڑا غلط کام ہوا ہے نا تجھ سے!‘‘ ممی نے آنکھیں پھاڑیں۔
’’ہاں بہت غلط کام ہوا مجھ سے … مگر ممی انہوں نے مجھے ننگا کر کے کیوں مارا؟‘‘ انکش نے اپنا چہرہ دوبارہ ماں کے آنچل میں چھپا لیا۔
’’وہ تو تمہاری ڈرائنگ پر چاک پھینک رہے تھے نا! … تمہیں تو چھُوا بھی نہیں نا بیٹا!‘‘
’’نائیں ممی انہوں نے مجھے مارا … انہوں نے مجھے بہت مارا … ‘‘
مسزپاٹل نے محسوس کیا، وہ سر سے پاؤں تک لرز رہا تھا۔
لیکن … ممی انہوں نے مجھے ننگا کر کے کیوں مارا؟ مجھے کتنی شرم آئی تھی … ! … ہاں ممی! … بتائیے نا! ۔ وہ مجھے کپڑوں میں بھی مار سکتے تھے نا! … انہوں نے مجھے ننگا کر کے کیوں مارا ممی؟‘‘ وہ اپنے جسم کو ماں کی ساڑی سے ڈھکنے لگا تھا۔
مسزپاٹل کا سانولا چہرہ اور سنولا گیا۔ انہوں نے بیٹے کو اپنی بانہوں میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ انکش ان دو دنوں میں پھپھک پھپھک کر پہلی بار رویا تھا۔
٭٭٭
راکھ سے بنی انگلیاں
بنگلور سے ممبئی آنے کے بعد مجھے ذہنی سکون نہیں ملا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کسی اچھے علاقے میں اچھا کرایہ ادا کر کے رہنے کا اہل نہیں تھا۔ ممبئی میں مکان کا ملنا بھی کچھ آسان نہیں ہوتا۔ بہت کوششوں کے بعد جس بلڈنگ میں مجھے جگہ ملی تھی، وہ غریبوں کی چال کا ایک حصّہ تھی۔
بائکلہ کے مصطفیٰ بازار علاقے سے سیدھے چلیں تو اُس سے پہلے ناریل واڑی سُنّی مسلم قبرستان لگتا ہے۔ اس کے آگے رے روڈ ریلوے اسٹیشن کا شروعاتی حصہ جھونپڑیوں اور جھونپڑے نما گھروں کے درمیان چھپا ہوا سا ہے۔ رے روڈ پُل پر دونوں جانب جھونپڑے بنے ہوئے ہیں۔ آگے جا کر دائیں جانب بریٹانیہ بسکٹ کمپنی ہے۔ پُل اترنے کے بعد بائیں طرف سیوڑی اور دائیں طرف راستہ دارو خانہ کی طرف جاتا ہے۔ دارو خانہ
سی گلیاں اسٹیل کے چھوٹے بڑے بیوپاریوں کی دوکانوں سے بھری پڑی ہیں۔ اِن دوکانوں میں لوہے کی پلیٹیں، پائپ اور اینگل کا نیا پُرانا مال بکتا ہے۔ شاید انہیں بیوپاروں نے یہاں یہ بستیاں بسا دی تھیں۔ میں یہیں کی گلی نمبر تین میں ’ فلیگ والا اینڈ سنس‘ میں کام کرتا ہوں۔ گھر سے زیادہ دور نہ ہونے کی وجہ سے رے روڈ کے پُل سے نیچے جو راستہ رے روڈ اسٹیشن کو جاتا ہے، وہیں ایک منزلہ بلڈنگ میں اوپر کے حصّے میں کرائے کا گھر بنا لیا تھا۔
میں دارو خانہ سے گھر جلدی پہنچ جاتا تھا، اِس کا اطمینان تو تھا مگر گھر کے راستے میں پترے کے ڈبے سے بنے چولہے پر توا رکھے مچھلی تلتی ہوئی عورت، سیڑھی کے نیچے رکھے ہوئے پانی کے ڈرم میں پائپ ڈال کر پانی نکالتی، کپڑے دھوتی لڑکیاں اور عورتیں، پان پٹّی، سائیکل کی دوکان پر بے باکی سے کھڑے مرد و عورتیں … یہ سارا منظر مجھے بالکل نہیں بھاتا۔
یہاں کرایہ ہزار روپئے اور کمرے دو تھے، لہٰذا میں نے کمرہ لینے میں جلد بازی دکھائی تھی مگر اب پچھتا رہا تھا۔ آس پاس کے گھروں کی بات تو چھوڑیئے، میری اپنی بلڈنگ اور سامنے والی بلڈنگ! اف توبہ اتنا شور اور ہنگامے! یہاں آ کر میں نے محسوس کیا کہ غریبی ایک گُناہ کی سزا سے کم نہیں۔ ہر گھر بے حساب مسائل کا شکار تھا پڑوسیوں کی آوازیں تو دن کے بڑے حصے میں بلند رہتیں، لیکن شام جوئے، تاش اور شراب کے دور کے ساتھ شروع ہوتی۔ کچھ نوجوان لڑکے تو سارا دن چال کو سر پر اُٹھائے رکھتے۔ غریبوں کا کوئی کھیل ان سے بچا نہیں تھا۔ مجھے اِن سب لوگوں سے کوئی مطلب نہیں تھا، بلکہ میں انہیں منہ لگانا بھی نہیں چاہتا تھا، آخر یہاں رہنے والے سبھی لوگ مزدور تھے اور میں ہیڈ کلرک۔ میں یہاں گھر گھر میں کھانے کے لئے جھگڑے روزانہ سنا کرتا تھا مگر میری بیوی کی سمجھ داری اور میری ٹھیک ٹھاک تنخواہ نے کبھی بھی ایسی تنگی کی نوبت آنے نہیں دی۔ ان کے جسم پر کئی دنوں تک وہی میلے چیتھڑے جھولتے رہتے، جبکہ میں، میری بیوی اور ہمارے بچے صاف ستھرے کپڑے پہنتے۔ ان کے بچے سارا دن ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اور کتّوں کے پِلّوں کی طرح جھگڑتے نظر آتے، جبکہ میرے بچے اسکول سے گھر لوٹ کر اپنے ہوم ورک میں لگ جاتے۔ میں نے انہیں ایک کیرم بھی لے دیا تھا، تاکہ فرصت کے وقت اُن بدمعاشوں کے ساتھ گندگی میں نہ کھیلیں۔
اِس سے پہلے ہم بنگلور کے کنٹونمنٹ میں اپنے خاندانی مکان میں رہتے تھے۔ پرانا گھر تھا جس کے آس پاس سرکاری افسروں کے بنگلے تھے۔ اُن کے بچے ہمارے گھر کی طرف نہیں آتے تھے لیکن میں اپنے بچوں کو ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیجا کرتا تھا تاکہ بڑوں میں رہ کر اونچے گھروں کے طور طریقے سیکھ جائیں … لیکن اِس گندی جگہ پر ہم … اُف! … ف! … صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہوں کہ دو گھر چھوڑ کر جو نل ہے، اس پر عورتیں جھگڑا کر رہی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو اپنی سوت اور نہ جانے کیا کیا بنائے ڈال رہی ہیں۔ اخبار پڑھتے پڑھتے دودھ والے اور سبزی والے کے ساتھ ان لوگوں کی چِخ چِخ سنتا ہوں۔ بیوی کا کہنا ہے کہ ’’کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑی دھواں دھار لڑائی چھڑ گئی ہے، مگر جب برآمدے میں جا کر دیکھتی ہوں تو یہ لوگ گھریلو باتوں پر گفتگو کر رہی ہوتی ہیں، سبزی کے بھاؤ کی پوچھ تاچھ ہو رہی ہے اور بچوں کی بیماریوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ کون کس کے ساتھ بھاگی اور کس کا کس کے ساتھ عشق چل رہا ہے، اس سلسلے میں اپنی معلومات کی شیخی بگھاری جا رہی ہے۔
شروع میں میری بیوی پڑوسیوں کی مدد کے لئے آٹا شکر دے دیتی تھی لیکن اپنے گھر کا چراغ بجھا کر مسجد میں دِیا جلانے کے لئے تو خدا نے بھی نہیں کہا ہے۔ میں نے اسے سختی سے منع کر دیا۔ کہا کہ ’’تم ان لوگوں سے بات نہ کرو۔ کیا ہائی سوسائٹی کے اصول بھولتی جا رہی ہو؟‘‘
غریبوں کے یہاں تو سمسیائیں چھپّر پھاڑ کر برستی ہیں۔ پڑوس میں سنتا ہوں کہ ایک خاتون تین بچوں کو دھڑادھڑ پیٹ رہی ہے۔ وہ کھانے کے نام پر ایک ایک سوکھی چپاتی دیتی ہے … باقی تین بچوں کو پیٹ بھر کھانا ملتا ہے۔ آواز آتی رہتی ہے۔
’’تیرے باپ کا مال ہے کیا؟ تیری ماں تو اپنے یار کے ساتھ بھاگ گئی اور اپنے طفیلیوں کو میرے سر مڑھ گئی۔ کھانا ہے تو کھاؤ نہیں تو مرو۔‘‘ اور اسی کے ساتھ چانٹوں کی واضح آواز یں میرے منہ میں جاتے نوالے کا مزہ چھین لیتیں۔
چال کی لڑکیوں کا نوجوان لڑکے فلمی گانوں سے سواگت کرتے اور ان کی گندی باتوں سے جی الٹنے لگتا۔ تیزی طرّاری میں لڑکیاں بھی کم نہیں تھیں۔ الٹے جواب دیتیں۔
’’جا کے ماں بہن کے ساتھ آنکھیں لڑا۔‘‘ میں شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ سامنے کے گھر میں روز کی چِخ چِخ لگی رہتی۔ میں نے اس گھر سے ایک شرابی مرد کو بارہا گنگناتے ہوئے سیڑھیوں پر سے لُڑھکتے ہوئے دیکھا ہے اور اس خوبصورت عورت کو بھی دیکھا ہے جو اکثر برآمدے میں کپڑے سُکھاتی نظر آتی۔ مجھے یہ عورت جانی پہچانی سی نظر آتی! … شاید نہیں! شاید یہ صرف خوبصورتی کا تعلق ہے … میں حسین چیزوں کا دیوانہ ہوں۔ شادی شدہ ہوں۔ کسی پر گندی نظر نہیں ڈالتا، مگر حسین شئے، چاہے عورت ہی کیوں نہ ہو، مجھے اپنا اس سے ازلی رشتہ نظر آنے لگتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی نظر پڑتی ہی رہتی ہے۔ میں نے بیوی سے نہیں پوچھا کہ، ’’یہ کون ہے؟‘‘
فضول شک میں گرفتار ہو جائے گی۔ ’چھوڑو جھنجھٹ کون مول لیتا ہے ‘ اور چپ ہو رہا۔
کھانے کے بعد میں بچوں کا ہوم ورک دیکھنے لگا۔ ان کے رپورٹ کارڈ پر سائن کر دیئے اور آرام سے پلنگ پر لیٹا اپنی ہی سوچوں میں گُم تھا۔ بیوی کافی لے آئی۔ پلنگ کی پائینتی پر بیٹھ کر کافی بناتے ہوئے کہنے لگی۔
’’آپ کو پتہ ہے؟‘‘
’’میں اپنے خیالوں سے باہر نکل آیا اور پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘
’’ہوا یہ کہ ہم ایک بہت بڑی افسانہ نگار کے پڑوس میں رہتے ہیں اور ہمیں اب تک پتہ بھی نہیں چلا۔‘‘ وہ اِٹھلاتے ہوئے بولی، جیسے لاٹری لگنے کی خبر سنا رہی ہو۔
’’کون ہے؟‘‘ میں نے یوں ہی پوچھ لیا۔
’’تبسّم زیدی۔‘‘
میں اچھل کر اٹھ بیٹھا۔
’’سچ! … مگر کون؟ … یہ تین بچوں کی سوتیلی اور تین بچوں کی سگی ماں؟‘‘
’’ارے نہیں!‘‘ وہ ہنس پڑی۔ ’’وہ رہا اُس کا گھر‘‘
مجھے معلوم تھا کہ اس کا اشارہ کچھ فٹ کی دوری پر کھڑی ایک منزلہ عمارت کے شرابی کی طرف تھا۔ ہمارا کمرہ نمبر تین سو چوبیس اور ان کا تین سو اُنچاس تھا۔ ہمارے اور تبسم زیدی کے گھروں کے درمیان کا گھر ڈھہ چکا تھا اور وہ جگہ ملبے کے رُوپ میں خالی پڑی تھی۔
’’وہ خوبصورت عورت!‘‘ میں اسے خوبصورت بول کر دل ہی دل میں پچھتایا۔
’’ہاں وہی‘‘ بیوی کا جواب غیر متوقع تھا۔ ’’ہماری پسندیدہ فنکار ہمارے گھر کے سامنے … اور ہم اب تک اس سے ملے نہیں!‘‘ اس کے لہجے میں تعجب اور خوشی کی آمیزش تھی۔
’’مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ گھریلو عورت جس کی اپنے شوہر کے ساتھ دن رات کی چِخ چِخ سے جی گھبرانے لگا ہے، کہانیاں کیا لکھتی ہو گی؟‘‘
’’مجھے بھی اس کا چہرہ جانا پہچانا لگا تھا مگر اس بار کے ماہنامہ ’’گھنگرو‘‘ میں اس کی تصویر دیکھ کر دھیان آیا کہ یہ تو پہچانی سی ہیں۔‘‘
اس رات دیر تک ہم تبسم زیدی کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔
’’میں کسی دن اپنے گھر اس کی دعوت کروں گی۔‘‘ میں پھولے نہیں سمایا۔ ہم میاں بیوی کے درمیان ازدواجی ہی نہیں ادبی رشتہ بھی تھا۔
دوسرے دن صبح جب میں اُٹھا تو اُس عورت کے بارے میں میرا نظریہ بدل چکا تھا۔ اب وہ مجھے فرشتہ نظر آ رہی تھی۔ اتوار کا دِن تھا۔ میں دیر سے سو کر اُٹھا تھا۔ ناشتے کے بعد جب میں چائے پیتے ہوئے برآمدے میں کھڑا ہوا تو دیکھا کہ وہ نِچوڑے ہوئے کپڑے کندھوں پر لٹکائے اپنے گھر سے باہر آ رہی تھی۔ اُس کی نظر مجھ پر پڑی بھی مگر شاید اس نے مجھے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ میں اداس سا لوٹ گیا۔
شام کو جب میں اپنے ایک دوست کی الوداعی پارٹی میں شامل ہونے کے لئے اپنے دوسوٹوں میں سے ایک پہن کر تیار ہو رہا تھا، چال کی چیخ پُکار کے بیچ سامنے والے گھر کی چیخیں اور لڑائی کچھ واضح معلوم ہوئی۔
’’تم مجھے سمجھتے کیا ہو؟ چار ہزار روپئے مہینہ تو کماتے ہو۔ اس پر یہ تاؤ! روز بیس پچیس روپئے کی شراب پیو گے تو بچے گا کیا؟ بچے چار ہیں، وہ بھی ناکارہ آوارہ۔ میری ضد اور کوشش پر تو وہ میونسپل اسکول میں چلے جاتے ہیں، ورنہ تم تو ان کا ستیہ ناس ہی کر ڈالتے۔‘‘
’’کہا نہ کل سے نہیں پیوں گا۔‘‘ وہ بھی چلّایا۔
’’روز یہی کہتے ہو، … مگر … اوور ٹائم کرو گے تو گھر کی حالت سُدھر جائے گی۔ اِس کے بجائے مہینے کے سات آٹھ سو شراب پر اُڑا دیتے ہو۔‘‘
’’وہ تو تمہاری کہانیوں سے کچھ پیسے اکٹّھا ہو جاتے ہیں، … ورنہ بھوکوں مرتے … ؟ یہی کہنا چاہتی ہو نا!‘‘ اس نے بڑے طنزیہ لہجے سے اس کی بات کو کاٹا۔
’’کیا کیا خواب دیکھے تھے میں نے اِن بچّوں کے لئے!‘‘ تبسّم کی بھرّائی ہوئی آواز نے اس کا دکھ بیان کیا۔
جانے کیوں دونوں چیخ چیخ کر باتیں کر رہے تھے، جیسے لڑائی کر رہے ہوں۔ ویسے تو یہاں ہر آدمی اپنی اپنی حالت میں مست تھا اور کسی کو کسی کی بات سننے کی فرصت نہیں تھی۔ اِتنے دنوں سے ہمارا بھی یہی حال تھا مگر اب ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ یہ اتنی بڑی ادیبہ ہے۔ کچھ دیر کے لئے میرا دھیان ان کی طرف سے ہٹ گیا اور میں اس زور زور سے بولنے والی عورت کی خوبصورت کہانیوں کو یاد کرنے لگا۔ اچانک ہا تھا پائی کی آواز پر میں اور میری بیوی دوڑ کر باہر نکلے۔ برآمدے میں سے دیکھا کہ مرد کے ہاتھوں میں تبسم کی چُٹِیا تھی اور وہ اپنے بال چھڑاتے ہوئے چیخ رہی تھی۔
’’ٹھہرو پیسے دے تو رہی ہوں۔ ہم نے دیکھا کہ اب تبسم نے اپنی ساڑی کے پلّو سے بیس روپئے نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔
’’خدا کی قسم ہے۔ اِن بچوں کے مستقبل کی فکر نہیں ہوتی … ‘‘ وہ بُری طرح بھڑکی ہوئی تھی اور الفاظ اس کی زبان سے بڑی مشکل سے ادا ہو رہے تھے۔
’تو … ؟‘‘ مرد نے گردن ٹیڑھی کر کے پوچھا۔
’’اری جا جا روز میکے کی دھونس جماتی ہے۔ جائے گی تو خرچ بچے گا۔ بچوں کو بھی لیتی جا ساتھ میں۔‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو؟ میں چلی جاؤں گی اور تم یہاں عیش کرو گے؟دوسری کوئی بیاہ لاؤ گے؟ میں یہاں سے ٹلنے والی نہیں۔‘‘
’’اری جائے گی تو منہ تک نہ دیکھوں گا۔ دو چار کہانیاں کیا چھپنے لگیں، بڑی بی کے پر لگ گئے۔ عورت کی آزادی پر لکھنے لگی ہے۔ آزادی چاہئے تو نکل جا میرے گھر سے۔ پھر یاروں کے ساتھ چونچیں لڑانا، … جن کے روزانہ خط آتے ہیں۔‘‘
’’خبردار جو یار کہا۔‘‘ تبسم کی خوبصورت آنکھیں اُبل پڑیں۔ ساڑی کا پلّو کمر میں کس کر لپیٹا اور بایاں پیر دروازے کی چوکھٹ پر جما کراس نے کہا، اپنے جیسا سمجھ رکھا ہے کیا؟کوئی دوسری ہوتی تو تھوک کر چلی جاتی۔ وہ تو میں ہی ہوں … مگر یہ مت سمجھنا کہ میں چُپ رہوں گی۔ ایک حد تک عزت کرتی ہوں۔ بے عزتی پر اُتر آئی تو دیکھ لینا۔‘‘ اُسی وقت زمین پر رکھے ہوئے جوٹھے برتنوں کے ٹوکرے میں سے ایک پلیٹ زنّاٹے سے اس کے ماتھے پر آ لگی اور خون اُبل پڑا۔
’’سالی زبان چلاتی ہے! میری ہانڈی کا کھاتی ہے کُتیا اور مجھی پر بھونکتی ہے۔ کھینچ لوں گا زبان جو اَب کے بولی تو!‘‘
تبسم چکرا کر زمین پر بیٹھ گئی اور اس کا شوہر بک بک کرتا سیڑھی سے نیچے اُتر گیا۔
ہم اندر چلے آئے۔ ہم دونوں ہی گُم صم تھے۔ مجھے پارٹی کے لئے یوں بھی دیر ہو رہی تھی، اس لئے میں اپنی بیوی کو گھر کی دیکھ بھال کی ہدایت دیتا ہوا باہر نکل آیا۔
گلی کے نل پر تبسم زیدی کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ وہ اُسی ٹوکرے کے ساتھ بیٹھی انہیں برتنوں کو دھو رہی تھی۔ حیرت اور خوشی مجھ پر حاوی تھی۔ میری حالت اس بچے کی طرح تھی، جس کو پاس ہونے پر مٹھائی دینے کا وعدہ کیا گیا ہو مگر امتحان سے پہلے ہی اسے مٹھائی مل گئی ہو۔
میں نے اپنے آس پاس نظر دوڑائی۔ نیچے والے بیشتر دروازوں پر ہمیشہ کی طرح پردہ پڑا ہوا تھا۔ گھروں کی چھتوں پر ٹاٹا اسکائی ٹی وی ڈِش آج مجھے خواہ مخواہ ہی بلند دکھائی دینے لگے۔ آگے چند قدم کی دوری پر ہاتھ گاڑی پر ایک آدمی اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے چھوٹے مگر وزنی لوہے کے ٹکڑے کھینچ رہا تھا۔ وہ ہاتھ گاڑی کو پیچھے سے ڈھکیل رہے تھے۔ میں نے اس منظر سے نظر ہٹا کر خاتون سے پوچھا:
’’آپ افسانہ نگار تبسم زیدی ہیں نا؟ … ہم آپ کے فین ہیں۔‘‘
وہ گندے ہاتھوں سے ہی سر پر پلّو ڈالتے ہوئے کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھیں حیران ہو رہی تھیں۔ میں نے اپنا تعارف کرا دینا مناسب سمجھا۔
’’میں آپ کے سامنے والے گھر میں رہتا ہوں۔‘‘
’’اوہ! تو آپ ہی ہیں ہیڈ کلرک صاحب؟‘‘
اجنبیت کی دیوار گر گئی مگر اپنا عہدہ بہت چھوٹا اور لباس بہت قیمتی محسوس ہوا۔
’’جی جی‘‘ مجھے مسکرانا پڑا۔ جواب میں وہ بھی بڑے خلوص سے مسکرائی۔ پہلی بار مجھے اس کے شرابی شوہر سے رشک محسوس ہوا۔
’’میں اور میری بیوی آپ کی کہانیوں کو پسند کرتے ہیں۔ آپ تو بہت غضب کا لکھتی ہیں۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘ پیشانی سے لٹیں ہٹاتے ہوئے اس نے سر جھکایا تو پیشانی پر سرخ ابھرا ہوا حصہ اس برتن کی شکایت کرتا نظر آیا، جسے شاید اس نے مانجھتے مانجھتے زمین پر چھوڑ دیا تھا۔
میری تعریف کے ساتھ ہی گلابی شفق اس کے گالوں پر لہرائی۔
’’کسی دن ہمارے گھر کھانے پر تشریف لائیے۔ میری بیوی بہت اچھا پکاتی ہیں۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘ میرے عقیدت کا اظہار کرتے ہی وہ سراپا معذرت بن گئی۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے منع کرتے ہی میرے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔
’’ان کو پسند نہیں کہ میں اپنے پرستاروں سے ملوں۔‘‘
مجھے اس کے شوہر کی کچھ دیر پہلے کی پھینکی پلیٹ یاد آ گئی۔
’’آپ تو عورتوں کی آزادی کے بارے میں لکھتی ہیں!‘‘ میں نے سوالیہ نگاہیں اس پر مرکوز کر دیں۔
’’طبیعت سے میں آزاد خیال ہی ہوں۔‘‘ اب وہ اپنی کہانیوں کے ایک قاری سے بات کر رہی تھی۔ اس کے لہجے میں نرمی تھی۔
’’شوہر کی اتنی فضول باتیں سننا، اس کے ہاتھوں مار کھانا اور پیشانی سُجا لینا ہی آزاد خیالی ہے؟‘‘ مجھے غصّہ آ رہا تھا مگر خود پر تعجب بھی ہو رہا تھا لیکن پرستار کی بھی کوئی حیثیت ہوتی ہے، حق ہوتا ہے۔ وہ میرا منہ تکنے لگی۔
’’بچوں کی مجبوری ہے۔‘‘ تبسّم واقعی مجبور دکھائی دے رہی تھی۔
’’بچوں کی کیا مجبوری؟‘‘ اب میں ذرا کھل گیا تھا۔ جیسے اُس سے برسوں کی جان پہچان ہو اور وہ تبسم زیدی نہ ہو دوست ہو۔
’’کیا وہ بچوں کا باپ نہیں! چھوڑ دیجئے اور چلی جائیے۔ آپ کے نام کے ساتھ بی اے کی ڈگری تو لگتی ہے۔‘‘
’’انہیں پسند نہیں۔ بی اے پاس تو وہ بھی ہیں، مگر صرف ڈگری سے کیا فائدہ! اب مِل میں کام کرتے ہیں۔‘‘
’’جو انسان صحیح راستوں سے بھٹک جاتا ہے، اسے راستہ ڈھونڈ نکالنے میں دِقّت پیش آتی ہے۔ آپ چاہیں تو میں آپ کو اپنے آفس میں نوکری دلا سکتا ہوں۔‘‘
’’شکریہ‘‘ وہ مسکرائی، بولی، ’’مگر یہ نا ممکن ہے۔‘‘
اب مجھ میں تلخی آ چکی تھی۔ میں اپنے آپ کو روک نہیں پا رہا تھا۔ بولا:
’’یہ ادیب بڑی بڑی باتیں تو خوب کرتے ہیں اور دوسروں پر خوب اپنا اثر جماتے ہیں۔ دوسروں کے لئے نصیحت اور خود کے لئے۔۔ ۔۔ ہونہہ!‘‘
’’جی!‘‘
’’دوسروں کو سبق سِکھانا تو آسان ہوتا ہے۔‘‘ میرے چہرے پر طنز تھا۔ ’’اب آپ کو اپنی کہانیوں میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عورت کو ہمیشہ ہی مجبور رہنا چاہئے۔‘‘
’’جی!!‘‘ وہ حیرت سے میرا منہ تک رہی تھی۔
’’آپ کی جگہ میں ہوتا تواُسی برتن سے پلٹ کر اُسے دے مارتا۔‘‘
اس کا ہاتھ اپنی پیشانی پر چلا گیا، جسے اس نے فوراً ہٹا لیا۔ اب اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دکھائی دئے مگر مجھے پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا، جوش میں کہتا گیا۔ ’’یہ اچھا ہی ہوتا کہ میں سیڑھیوں سے اسے دھکّا دے دیتا اور اس کی جان لے لیتا۔‘‘
تبسّم منہ کھولے مجھے ایسے تک رہی تھی جیسے سمجھ نہ پا رہی ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔
’’ … ایسا نہیں کر سکتا تو دو چار چانٹے اس کے گال پر جڑ دیتا اور اپنی راہ لیتا۔‘‘ میں ایک لمحے کے لئے رُکا، سانس لی اور نرم پڑ کر بولا، ’’یہ اکیسویں صدی ہے۔ عورتیں بھی انسان کا درجہ حاصل کر چکی ہیں … اور آپ تو ایک بڑی فنکارہ ہیں۔ تھوک کیوں نہیں دیتیں اس کمینے کے منہ پر؟ … مرد ہے تو رعب … ‘‘ ‘
’’شٹ اپ۔۔ ۔!!!‘‘ اِس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ پورا کر پاتا، اس کے ’’شٹ اپ … ‘‘ کا گھونسہ زنّاٹے سے میرے دِل پر پڑا۔ میں ہوش میں آ گیا۔ اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئی وہ برس رہی تھی۔
’’کون ہوتے ہیں آپ ہمارے معاملے میں بولنے والے؟ وہ میرے شوہر ہیں میری ہر چیز کے مالک۔ کیا ہوا جو دو بات کہہ لی! آخر کو میں ان کی عورت ہوں۔ چاہے کتنی ہی بڑی افسانہ نگار کیوں نہ ہوں۔ جا سکتے ہیں۔‘‘
سوڈے کی جھاگ کی طرح میں ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اِس وقت نہ وہ افسانہ نگار ہی تھی اور نہ ہی میں اس کا فین۔ ایک ہی پل کی تو بات تھی۔ اِس دوسرے پل میں وہ بالکل اجنبی تھی۔
قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر جب میں سُوٹ تبدیل کر رہا تھا، تب اچانک بیوی نے پوچھ لیا تھا، ’’آپ کے دائیں رُخسار پر راکھ سے بنی اُنگلیوں کا نشان کیسا؟‘‘
میں نے بہت یاد کیا، لیکن یاد ہی نہیں آیا۔ مجھے پورا یقین ہے، تبسّم زیدی نے مجھ پر ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا۔
٭٭٭
ٹمٹماتے ہوئے دیے
یہ علاقہ شہر کی ہلچل سے کچھ دور واقع تھا۔ اِس ڈِیمڈ یونیورسِٹی میں کئی فیکلٹیز تھیں۔ کینٹین ایک طرف تھا، دوسری طرف ہاسٹل کی دو منزلہ عمارتیں۔ چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ اُسی کے بیچ کچی پگڈنڈیاں تھیں جو سبھی عمارتوں کو آپس میں جوڑتی تھیں۔ پگڈنڈیوں کی لال مِٹّی پر سپرِنگ اسپرے سے ہر شام پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا۔
ماڈرن جھونپڑی کی شکل والے کینٹین کے کھپریل کی چھتوں پر امرود کے لدے ہوئے درخت جھُکے ہوئے تھے۔ کینٹین کے باہر اینٹوں کی بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی دیواروں پر گول کِناروں والے بے ڈھب پتھر اچھے لگ رہے تھے۔ کینٹین کے کونے میں پڑے ہوئے پتھر کے ایسے ٹیبلوں پر لڑکے لڑکیاں کہیں جوڑے بناتے ہوئے راز و نیاز میں مشغول تھے اور کہیں گروپ مباحثے میں۔ کینٹین کے اندر داخل ہوتے ہوئے سوپنالی اَگھن کو دیکھ کر خوش ہو گئی تھی۔
’’ایک پرابلم ہے اَگھَن!‘‘
’’مجھے جلدی ہے۔ پھر کبھی۔‘‘ اِگھن نے کینٹین کے کاؤنٹر پر مِسّل پاؤ اور چائے کے تیس روپئے رکھے، بولا، ’’کل کے پیسے۔‘‘ اور تیزی سے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ دروازے تک پہنچتے پہنچتے اُسے سوپنالی کی فکرمند آواز نے پلٹنے پر مجبور کیا۔
اَگھن نے پلٹ کر دیکھا، سوپنالی کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ اس کا دل ایک منٹ کو پگھلا لیکن وہ پلٹ کر وہاں سے نکل گیا۔
ہاسٹل کے اپنے چھوٹے سے کمرے میں وہ چائے کا کپ ہاتھوں میں لئے کچھ دیر بیٹھا رہا مگر دل نہ مانا۔ اٹھا اور گیراج سے بائک نکال لی۔ اگلے دس منٹوں میں وہ کینٹین میں تھا۔
سوپنالی اب بھی وہیں بیٹھی تھی۔ اگھن کو دیکھتے ہی نظریں چرانے لگی۔ ساتھ بیٹھی لڑکیوں نے اسے اشارہ کیا پھر بھی کینٹین کی دیوار کے اسٹینڈ پر سجی سائیں بابا کی چھوٹی سی مورتی پر ٹمٹماتے ہوئے دئے کا اثر ڈالے ہوئے بلب کو دیکھتی رہی۔
’’سوپنالی ذرا سننا تو!‘‘ اگھن نے آواز دی اور سائیں بابا والی دیوار کے نیچے خالی ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ سوپنالی نے ان سنی کر دی۔ کچھ لمحوں بعد اگھن اٹھ کر سوپنالی کے پاس آیا۔ پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’کون سی بات؟‘‘ سوپنالی نے سہیلی کی طرف دیکھ کر اگھن کو شاکی نظر سے دیکھا۔
’’تم کچھ کہہ رہی تھیں؟ مجھے ضروری ڈرافٹ بنانا تھا۔ ہاسٹل چلا گیا تھا۔‘‘
’’اوکے۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ وہ انجان بن کر پھر سے اپنے گروپ کا حصہ بن گئی۔ اگھن لوٹ کر اپنے ٹیبل پر چلا آیا اور خاموشی سے جالی کی دیوارسے باہر سڑک پر جانے والی ٹرکوں کو گننے لگا۔
’’بولو!‘‘ تھوڑی دیر بعد سوپنالی اگھن کے ساتھ اس کے ٹیبل پر بیٹھی اس کی محویت کو توڑ رہی تھی۔
’’کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ اگھن خوش ہو گیا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’ارے رو کیوں رہی تھیں؟‘‘
’’تمہیں اس سے کیا؟‘‘
اگھن چپ ہو گیا۔ سوپنالی کی آنکھیں پھر امڈ آئیں۔
’’دیکھو بتا دو۔‘‘
’’او کے۔ ایک پرابلم ہے۔‘‘ نہ گلہ کیا نہ شِکوہ، وہ سیدھے اپنی بات پر اتر آئی۔
’’او کے۔ بتاتی ہوں۔ سنو!‘‘
’’یہاں داخلہ لینے سے پہلے میں ممبئی کے ایک لاء کالج میں تھی۔‘‘
’’کئی بار سن چکا ہوں وکیل صاحبہ!‘‘
’’دیکھو مذاق میں اُڑا رہے ہو آرکیٹیکٹ صاحب!‘‘ سوپنالی ہنس دی، ’’اب ذرا دھیان سے سنو نا! مسئلہ گمبھیر ہے۔‘‘
’’نہیں، اب کچھ نہیں بولوں گا۔ میں بہت سیریس ہو گیا ہوں۔‘‘ اگھَن نے بیمار ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے آنکھیں اور کندھے ڈھیلے کر لیے لیکن اس کے رخسار اس کے اندر کی شوخی سے چمک رہے تھے۔ سوپنالی نے اس کی اس ادا پرکوبی ردّ عمل نہیں دیا۔
’’پورے دھیان سے سنو ورنہ میری پرابلم کا حل ڈھونڈھنے میں کوئی مدد نہیں کر پاؤ گے۔‘‘
اَگھَن خاموش تھا۔ اب وہ چست ہو کر بیٹھ گیا تھا۔
’’جنتا جونیئر سے بارہویں کامرس پڑھنے کے بعد میں نے ممبئی کے لاء کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ بارہویں کے بعد وکالت پانچ سالوں کا کورس ہوتا ہے۔ میں نے اسکالر شپ فارم بھرا تھا اس لیے فیس برائے نام تھی مگر پہلے سال میں ہی لاجک اور لیگل لینگویج دو سبجیکٹس میں فیل ہو گئی۔ مجھے اے ٹی کے ٹی لگ گیا۔ اب راستہ یہی تھا کہ میں فرسٹ ایئر کے دو سبجیکٹس کو لے کر ہی لاء کے دوسرے سال میں داخلہ لے لوں۔‘‘
’’او کے۔ پھر لیا کیوں نہیں! یہاں کے کامرس میں کیوں آ گئیں؟‘‘ اَگھَن سے چپ نہ رہا گیا۔
’’میں نے سوچا، دوبارہ اے ٹی کے ٹی لگ گئی تو! … اس طرح پانچ سالوں میں تو نہ گریجویشن ہی پورا ہو گا اور نہ جاب ہی کر پاؤں گی … دِل لاء سے ہٹ گیا۔ بس فیصلہ کر لیا کہ تین سالوں میں بی کام کر لوں۔ اس کے بعد ایل ایل بی جوائن کروں گی تو تین ہی سالوں کا کورس کر کے ایڈوکیٹ بن جاؤں گی۔ … اور میں نے یہاں بی کام کے لیے ایڈمیشن فارم بھر لیا۔‘‘
’’نہ کرتیں تو مجھ سے کیسے ملتیں!‘‘ اَگھن نے اپنی کالر سیدھی کی۔
’’اس سب میں کچھ وقت لگا۔‘‘ سوپنالی نے اگھن کی شرارت کی جانب دھیان ہی نہیں دیا، ’’جب میں لاء کالج چھوڑ کر اِس کالج پہنچی۔ تو کامرس کے داخلے ختم ہو چکے تھے۔ اس پر میرے بارہویں کامرس کے نمبر صرف پچاس فی صد ہی تھے۔‘‘
’’اوہ!‘‘
’’بی کام کا دروازہ بند تھا لیکن بی اے میں ابھی داخلے ہو رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے جلدی سے ذات کے سرٹیفکیٹ کی فوٹو کاپی دے کربی اے کے پہلے سال میں داخلہ لے لیا۔
کچھ دن بعد اسکالر شپ فارم نکلے۔ میں سائبر کیفے میں فارم بھرنے گئی۔
’’ کمپیوٹر ایرر دکھا رہا ہے۔ اسے اپنے کالج میں دکھا کر پوچھ تاچھ کر لو۔‘‘ سائبر کیفے والی لڑکی نے مجھے اس ایرر کا ثبوت والا پیپر پکڑا دیا۔
’’پھر!‘‘
’’ ایسے کیسے ایرر آ سکتا ہے!‘‘ کالج کی کلرک میڈم نے مجھ سے ہی سوال کیا۔
میں نے انھیں بتایا۔
’’اپنے علاقے کے سماج کلیان کے علی باغ آفس جاؤ۔ وہاں کے افسر سے جا کر ملو۔ تمہارا کام ہو جائے گا۔‘‘ کلرک میڈم نے مجھے آفس کا پتہ دیا۔
سماج کلیان آفس میں گئی توافسر نے پوری بات سن کر کہا، ’’تم اپنے پچھلے کالج جا کر، وہاں کے کلرک سے کہو کہ تمہارا اسکالر شپ لاک کرے تاکہ اِس کالج میں اسکالر شپ شروع ہو سکے۔‘‘
’’میں دوبارہ لاء کالج گئی۔ کلرک میڈم نے اپنے ہاتھ کا کام چھوڑ کر میرا کام میرے سامنے ہی کر دیا۔ میں خوشی خوشی بی اے کے پہلے سال کا اسکالر شپ فارم بھرنے کے لیے دوبارہ سائبر کیفے پہنچی۔
سائبر کیفے والی لڑکی نے چیک کر کے بتایا۔
’’تمہارا فارم تو بھرا ہوا ہے۔ تم تو لاء کے سیکنڈ ایئر کا فارم بھر چکی ہو۔ اب بی اے کے پہلے سال کا فارم کیسے بھر سکتی ہو!‘‘ میں نے گھبرا کر فوراً سماج کلیان آفس کے افسر کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ، ’’ لاء کالج کی کلرک میڈم نے لاء کالج سے میرا نام کٹوانے کی بجائے میراسیکنڈ ایئر کا ایڈمیشن فارم بھر لیا ہے۔‘‘
’’ارے! یہ تو بڑی گڑبڑ ہو گئی! ایسے کیسے ہوا؟‘‘ وہ بولے۔
’’شاید انھوں نے میری بات سمجھی ہی نہیں تھی۔‘‘ میں نے انھیں جواب دیا۔
’’تم نے اپنی بات ٹھیک سے نہیں کہی ہو گی!‘‘ اَگھن جھنجھلا کر بولا۔
’’اگھن، میں سماج کلیان آفیسر کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی اور کہہ رہی تھی، ’’کچھ کیجئے نا سر!‘‘
انہوں نے مجھے سمجھایا، ’’دیکھو، اب اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو وہی لاء کالج والے کر سکتے ہیں۔ میں تمہاری پرابلم سمجھتا ہوں۔ تم کئی بار یہاں اس کام کے لیے آئی ہو۔ فون بھی کرتی ہو، لیکن ایک وقت میں دو جگہ کی اسکالر شپ نہیں مل سکتی نا! تم لاء کالج کی کلرک سے کہو کہ وہاں کا اسکالر شپ فارم کینسل کر ڈالے۔ ابھی تمہارے اسکالر شپ فارم پرنسپل کی کیبن میں ہی ہوں گے۔ ابھی وہ یونیورسٹی نہیں گئے ہیں۔ ابھی اُس کی ڈیٹ باقی ہے۔‘‘
’’او کے … او کے‘‘ اگھن نے کہا۔
’’میں پھر ایک بار لاء کالج کی کلرک کے سامنے کھڑی تھی۔‘‘ سوپنالی نے بات آگے بڑھائی، ’’ مجھے دیکھتے ہی کلرک میڈم کے چہرے پر تناؤ چھپانے کی کوشش صاف دکھائی دینے لگی تھی۔ بولیں، ’ایک کام کرو، تم اسکالر شپ فارم ابھی مت بھرو۔ اگلے سال بھرو‘۔‘‘
’’میڈم پلیز!‘‘ میں نے ان سے درخواست کی۔
’’سوپنالی، تم جانتی ہو نا، ہمارے پرنسپل غصے والے ہیں۔ تم جانتی ہو نا! یہاں ایک سال پڑھی ہو نا تم!‘‘
’’پلیز میڈم! سماج کلیان والے افسر بھی یہی کہہ رہے تھے کہ آپ ہی کو کینسل کرنا ہو گا۔ فارم ابھی پرنسپل سر کی کیبن میں ہی ہیں نا؟‘‘
’’نہیں تو!‘‘ وہ صاف مُکر گئیں۔
’’ذرا دیکھ لیجئے میڈم۔‘‘ انہوں نے ’نہ‘ میں سر ہلایا۔
’’مجھے پوری فیس بھرنی پڑے گی۔ … ‘‘ میں نے پھر بِنتی کی۔
’’اب بھری ہے کہ نہیں؟‘‘
’’ہاں رعایت والی فیس … ساڑھے تین سو روپئے بھرے ہیں۔ اوپن والوں کے لیے فیس ساڑھے پانچ ہزار ہے۔ نہیں … فارم نہیں بھرا تو … لیکن … دو سال … تین سال کے تو … اتنے پیسے … !‘‘
’’میں بولتی ہوں نا تمہارے کالج میں۔ … تم چِنتا کیوں کرتی ہو؟‘‘
’’ہاں میڈم، پلیز آپ ہمارے کالج آفس میں اس بارے میں بتایئے۔‘‘
’’ہاں ہاں … اچھا ذرا سماج کلیان والے افسر کو فون تو لگانا۔ پہلے اُن سے بات کر لوں۔‘‘
میں نے فون لگایا تو وہ میرا موبائل لے کر اور مجھے ٹھہرنے کا اشارہ کر کے آفس کے کوریڈور میں چلی گئی۔ پھر کچھ منٹوں میں لوٹ کر میری بات اُس افسر سے کروا دی۔‘‘
’’تم اگلے سال سیکنڈ ایئر بی اے میں اسکالر شپ فارم بھر لینا۔ ابھی مت بھرو۔‘‘ افسرمجھ سے بولے۔
’’چل جائے گا؟‘‘
’’ہاں چل جائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر۔‘‘ میں نے بھی اِس معاملے کو یہیں چھوڑ دیا۔ سوپنالی نے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اپنے ہونٹوں سے لگا لی اور غٹ غٹ خالی کر دی۔
’’تو اَگھن! اب اس سال میں بی اے کے سیکنڈایئر میں پہنچ گئی ہوں نا!‘‘ سوپنالی بیتی یادوں سے لوٹ آئی۔ ’’اسکالر شپ فارم کی تاریخیں آ چکی ہیں۔ فارم لینے اپنے کالج کے آفس گئی تھی۔‘‘
’’تم نے پچھلے سال بھی اسکالر شپ فارم نہیں بھرا تھا۔ اب دوسرے سال میں کیسے بھرو گی اور پھر اس سال سے طریقہ بدلا ہے، یہ کہ اب پہلے سال ہی اسکالر شپ فارم بھرنا ہو گا۔ وہی آخری سال تک چلے گا۔ پچھلے سال تک کا طریقہ الگ تھا۔ پہلے ہر سال فارم بھرنا ہوتا تھا۔‘‘ اگھن نے اس کی بات اُچک لی۔
’’ہاں ہاں … بالکل یہی کہا گیا آفس میں۔‘‘ وہ بولی۔
’’اب اِس سال بھی ایسا ہی ہو گا۔ فیس نہیں بھر پاؤ گی۔ اسکالر شپ فارم بھرنے کا آج آخری دن ہے۔ کیا کروں؟ وہ کہتے ہیں کہ پرانا اسکالر شپ کینسل نہیں کروایا اور یہاں فارم نہیں بھرا تو گریجویشن کے پورے تین سالوں کی فیس بھرنی پڑے گی … ہے نا!‘‘
’’ہاں اَگھن! میں اِتنی ساری فیس کیسے بھروں؟ وہ بھی اوپن کی!!‘‘ اس کی آنکھیں گنگا جمنا ہو گئیں۔
’’ارے ایک سال سوتی رہی تھیں کیا؟مجھ سے اب کہہ رہی ہو!‘‘ اگھن بھونچکّا رہ گیا، ’’دیکھنا چاہئے تھا کہ کلرک کیا کر رہی ہے۔ تمہاری غلطی ہے۔‘‘
’’ہاں ہے تو۔‘‘
’’تم اپنے ڈیڈی سے کہو نا یہ سب!‘‘
’’وہ ٹرک چلاتے ہیں۔‘‘
اگھَن چپ چاپ سوچتا رہا۔ پھر اٹھا اور کاؤنٹر سے اپنے من پسند مِسّل پاؤ کی پلیٹ لے کر لوٹا۔
’’پہلے پیٹ پوجا۔ پھر دماغ چلے گا۔‘‘ اس نے پلیٹ میں رکھے دو چمچوں میں سے ایک سوپنالی کو پکڑا دیا۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے اگھن۔ سہیلیوں کے ساتھ کھا چکی ہوں … ‘‘ اُس کے سپاٹ چہرے پر اجنبیت سی آ گئی تھی۔ شاید وہ اپنے اندرون میں کچھ کھوج رہی تھی، ’’سنو اَگھن! کل میں اسٹیشن پر بنچ پر بیٹھی ٹرین کا انتظار کر رہی تھی۔
’’دسویں پاس ہونا؟‘‘ بنچ پرپاس ہی ٹرین والے کاکا کب آ بیٹھے، پتہ نہیں چلا۔ پتہ تب چلا جب انھوں نے مجھ سے پوچھ لیا۔ میں نے انھیں حیرت سے دیکھا۔ وہ رکے، ’’ … ایک سال کا ڈیزل میکینک کا کورس کرنا ہو گا۔‘‘
’’ایسا کرو … سائبر کیفے میں آئی ٹی آئی کا ڈیزل میکینک کا فارم ملتا ہے۔ ایک سال کاکورس ہے۔ وہ بھر دو۔ لسٹ لگتی ہے۔ اگر نمبر لگ جائے تو پنویل، کرجت، لوَجی … میں سے کسی کالج میں ایڈمیشن لے لو۔ ٹرین چلاؤ گی ٹرین! تمہیں ٹرین جاب ضرور ملے گا۔‘‘
اور میں سوچ رہی تھی کہ اس بوڑھے شخص نے کیسے جان لیا کہ میں پریشان ہوں! اب میں بھی بی اے، ایم اے کر کے یہ وہ کورس کہاں کرتی پھروں گی! نوکری کہاں ملتی ہے!‘‘
سوپنالی نے چمچ بھر مِسّل اپنے منہ میں رکھ لیا۔
اگھن حیرت میں غرق اپنی پسندیدہ ڈش کا مزہ لینا بھول گیا۔ پلیٹ میں چمچ رکھا۔ ایک لمحہ سوچا اور بولا:
’’تم ایک کام کروسوپنالی، پاٹل سر ابھی لیکچر میں ہیں۔ دس منٹ میں باہر آئیں گے۔ اُن سے مل لو۔ علی باغ میں ان کا گھر ہے۔ وہاں ان کے بیوی بچے رہتے ہیں۔ ان کا رسوخ بھی ہے۔ میرے آرکیٹکچر کے پروفیسرہیں۔ تم نِراش تو نہیں ہونے لگیں بہادر لڑکی؟چلو میں ہی تمہیں لے چلتا ہوں۔‘‘ اَگھن نے کہا۔
’’نہیں، پہلے میں جا کر بات کرتی ہوں۔‘‘ وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
’’تم ہفتہ بھر لیٹ ہو چکے ہو اَگھَن … !‘‘ پروجیکٹ دیکھ کر پروفیسر پاٹل نے کہا۔
’ساری سر! آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے، کیا کمال پروجیکٹ لائے ہو؟دیکھیں!!‘‘ انہوں نے اُس پر احسان جتایا اور ٹیبل پر اگھن کے پھیلائے سفید شیِٹ کی ڈرائنگ پر نظر دوڑاتے ہوئے بولے، ’’پریزینٹیشن شروع کرو۔‘‘
’’کرجت کے پیچھے، پہاڑیوں میں، آدیواسیوں کے کئی قبیلے روزی روٹی کے جُگاڑ میں لگے رہتے ہیں، میں نے اُن پر پروجیکٹ بنایا ہے۔ اُس علاقے کی نوآبادی … ‘‘
’’تمہارا ان سے کوئی تعلق ہو تو بات کرو، ورنہ کوئی اور سبجیکٹ لو۔‘‘ پروفیسرپاٹل نے اُس کی بات کاٹ دی، ’’ جھوٹے پروجیکٹوں کی بھرمار سے تنگ آ چکا ہوں۔ امتحان سر پر ہیں اور سرپھرے، کام چور طلبا کسی کا پرانا پروجیکٹ، کسی سے لکھوا کر سبمِٹ کر رہے ہیں۔ ایماندار طلبا کم ہیں۔ پرانے پروجیکٹوں سے ہی کام چل جاتا ہے۔ ہے نا لیٹ جو ہو ہو جاتے ہیں، کیوں؟‘‘
’’میں انہیں آدی واسیوں میں سے ایک ہوں۔‘‘ پروفیسر کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ بولا:
’’لگتے تو نہیں!‘‘ وہ چپ رہا۔
’’او کے۔ اب اپنا پریزینٹیشن شروع کرو۔‘‘ پروفیسر نے اپنی خجالت اور حیرانی چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔‘‘ اگھن نے پریزینٹیشن دیتے ہوئے کہا۔
’’تمہاری ماں کیا کرتی ہیں۔‘‘ پروفیسر اس کی ذاتی زندگی میں دلچسپی دکھانے لگے تھے۔
’’جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچتی ہیں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’ہوٹلوں، بھٹیار خانوں میں … اور بھی بہت سی جگہیں ہیں … جس دن یہاں نہ بکیں، مارکیٹ میں بیٹھ جاتی ہیں۔‘‘
’’اور تمہارے بابا؟‘‘
’’کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں اور فصل کٹائی کے بعد کے مہینوں میں اینٹ بھٹی میں کام کرتے ہیں۔‘‘
’’یعنی جس دن کام ملا، اُس دن چولہا جلتا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس کی آواز میں کوئی درد نہیں تھا، جیسا کہ پروفیسر محسوس کر رہے تھے۔ یہ تو اس کی روزانہ کی زندگی تھی!
’’تم نے کبھی کھیت میں کام کیا ہے؟‘‘
’’ہاں کیا ہے، بلکہ کرتا ہوں۔ گرمیوں میں اور اکتوبر کی چھٹیوں میں تو کرتا ہی ہوں … کچھ پیسے آ جاتے ہیں۔ کالج جاتا ہوں … جوتوں، کپڑوں، موبائل وغیرہ کا خرچ انھیں پیسوں سے کرتا ہوں۔‘‘
’’ماں باپ نہیں مانگتے؟‘‘
’’نہیں۔ سمجھتے ہیں نا! کالج کی ضرورتیں ہوتی ہیں۔‘‘
’’یعنی خوش ہوتے ہیں!‘‘
’’ہاں کبھی کبھی نہیں بھی ہوتے۔‘‘
-یہ تمہارا آخری سال ہے۔ اُس کے بعد کیا کرو گے؟ … میرا مطلب ہے اپنی برادری والوں کے لئے … ؟‘‘
’’یہاں تو نہیں رہوں گا۔‘‘
پروفیسر اس کا منہ دیکھنے لگے۔
’’کیوں تمہیں اپنی ذات برادری والوں کے لئے کچھ کرنا نہیں چاہئے؟؟‘‘
’’جی سر!!‘‘ پروفیسر کی بات سُن کر اَگھَن ہڑبڑا گیا تھا۔ جلدی سے بات بدل کر بولا:
’’سر سوپنالی … !‘‘
’’ہاں وہ میرے پاس آئی تھی … تمہارا نام لے کر … !‘‘ پروفیسر عجیب سے معنی خیز انداز میں مسکرائے تھے۔
’’سر وہ او بی سی ہے … بھٹکی جماعت … ‘‘
’’ہاں تو!! پروفیسر نے ناک بھوں چڑھائی، ’’جانتا ہوں کس طرف اِشارہ کر رہے ہو! … ‘‘
’’وہ آپ ہی کی تو … ‘‘
اِگھَن اُن کا چہرہ دیکھنے لگاجس سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی اور اب کا چہرہ کرختگی اختیار کر رہا تھا۔
’’ہاں تو!! … ہم ٹیچر ہیں … ہمارا فرض سب کے لئے ہے۔ ہم اپنے اپنے تو نہیں کر سکتے نا!‘‘
’’برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں سر!!‘‘
’’بے جھجک کہو۔‘‘
’’ پڑھے لکھے آدی واسی کی حیثیت سے، مجھ سے یہ سوال کرنے والوں سے میں ہی پلٹ کر پوچھتا ہوں، آپ بھی تو پڑھے لکھے ہیں، آپ اپنی ذات برادری والوں کے لئے کیا کرتے ہیں؟ … کیا مجھ جیسے آدی واسی سے کچھ الگ کرتے ہیں؟؟ نوکری ڈھونڈھ کر اپنی زندگی ہی بہتر بناتے ہیں نا! کہ پورے سماج کی؟‘‘
پر وفیسر اس کا منہ دیکھنے لگے۔ ’پروجیکٹ سبمٹ کرنے والے طلبا تو خوب مکھن لگاتے ہیں۔ یہ کیسا لڑکا ہے!‘ ان کی آنکھیں شرارے اگلنے لگیں۔ اَگھن ان کی تاب نہ لا سکا۔ نظریں جھکا کر بولا:
’’سر، سوپنالی نے کالج سے نام کٹوا لیا۔‘‘
٭٭٭
شیشے کا دروازہ
’’اسٹیشن روڈ کی گلی میں ایک ورائٹی اسٹور میں ایک لڑکی کے لیے جاب ہے۔‘‘ میری سہیلی شبانہ نے مجھے بتایا، ’’ وہاں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں۔‘‘
جا کر دیکھا۔ یہ ایک بیس فٹ چوڑی اور سترہ فٹ لمبی دوکان تھی۔ دائیں طرف دوکان کی مالکن کا انگریزی کے ’ایل‘ کی شکل کا کانچ کا ٹیبل تھا۔ ٹیبل میں سے رنگ برنگی گھڑیاں جلوہ دکھا رہی تھیں۔ ٹیبل بہت خوبصورت اور قیمتی تھی۔ اِسی کے پیچھے آنٹی اپنی سرخ پالش والی ڈیزائنر کرسی پر براجمان ہوئیں۔ جب وہ وہاں بیٹھیں تو اپنے پیچھے چھت سے لٹکتی ہوئی سبز پتوں اور بینگنی پھولوں کی بیلوں کے پس منظر میں ان کا چوڑا گورا چہرہ خوب پھبتا ہوا دکھائی دیا۔ سلیقے سے کٹے ہوئے بال بالکل خاموشی سے اے سی کی ٹھنڈ میں ان کی گردن پر کسی ڈرے سہمے بچے کی طرح پڑے ہوئے تھے۔ پھولوں کے گچھے کے پاس لگے ہوئے اسٹیریو سسٹم نے ان کے سیٹ پر بیٹھتے ہی ہلکی انگریزی موسیقی سے دوکان کو یوں بھر دیا کہ الگ سماں بندھ گیا۔ اس ٹیبل سے کوئی دو فٹ کی دوری پر موٹے موٹے شیشوں کے شیلف پر کانچ، چینی مٹی، لکڑی، پلاسٹک کے خوبصورت شو پیس، گلدان، کافی مگ، گلاسیں اور کھلونے وغیرہ سجے ہوئے تھے۔ اس کے سامنے ایک لمبے سے شیشے کے ٹیبل میں بالوں کے پِن، چوڑیاں، بڑی مالائیں، چھوٹی چھوٹی بتیوں میں جگمگا رہی تھیں۔ ٹیبل کی دوسری طرف دیوار سے نکلے ہوئے لمبے لمبے ہینگروں میں دوپٹّے، اسکارف اور پرسیں لگی ہوئی تھیں۔ اسی کے نیچے دروازے تک کی پوری دیوار میں مختلف موقعوں کے گریٹنگ کارڈ کچھ دیوار کو ٹکائے ہوئے اور کچھ بچھائے ہوئے تھے۔
ایک نازک لڑکی کی مورتی دروازے میں داخل ہوتے وقت سواگت کرتی نظر آئی تھی۔
مجھے وہاں کی لڑکیوں کا طور طریقہ اچھا لگا اور پھر وہاں آنے والے گاہکوں کو بھی دیکھا۔ ’’اچھے رنگ ڈھنگ کے ہیں اور اچھی انگریزی بولتے ہیں۔‘‘ میں نے سوچا، ’’ کچھ سیکھنے کو تو ملے گا۔ ہندی ذریعۂ تعلیم سے پڑھائی کرنے کی وجہ سے میں انگریزی بولنے میں ذرا پیچھے رہ جاتی ہوں۔‘‘
میں نے نوکری پا لی۔ مجھے یہاں سچ مچ بہت سیکھنے کو ملا۔ اب مجھے سامان کی قیمت سمجھ میں آتی ہے۔ چھوٹ کتنی اور کس پر دی جاتی ہے؟ سب کچھ … اب مجھے اتنی عادت ہو گئی ہے کہ اپنی دوکان کھولوں تو بھی پرابلم نہیں۔ آنٹی میرے بھروسے پر دوکان چھوڑتی ہیں۔ انہیں بس کیش برابر چاہیے۔ ہر چیز لکھ کر رکھو۔ نہیں لکھا تو بھی پرابلم نہیں۔ حساب برابر سمجھتی ہیں۔ دوکان میں روز کی کمائی کبھی ہزار روپئے تو کبھی تین ہزار روپئے ہوتی ہے۔ روزانہ تین ہزار روپئے کا حساب ہوا تو بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے کم ہوا تو پوچھتی ہیں، آج اِتنا کم کیسے ہوا؟‘‘
’’نئی پیڑھی کو کیا چاہئے؟‘‘ مجھ سے پوچھ کر رجسٹر میں لکھتی ہیں۔
’’ فیشن روز بدل جاتا ہے، آنٹی‘‘ میں کہتی ہوں۔
تم بھی تو کالج گرل ہو، تبھی تو تم سے پوچھتی ہوں۔‘‘ وہ اپنی بائیں آنکھ پھڑپھڑا کر مذاق کے لہجے میں کہتی ہیں۔
اُس دن میں لنچ کھا کر ٹفن بند کر رہی تھی کہ اچانک گاہکوں سے شاپ بھر گئی۔ میں فوراً ڈبہ نیچے رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ کوئی کارڈ دیکھ رہا تھا۔ کوئی لیڈیز پرس۔ میں خود دو لڑکیوں کو انگوٹھیاں اور کانوں کے بندے دکھا رہی تھی لیکن میری نظر ہر گاہک پر تھی۔ اتنے میں مجھے لگا کہ شیلف میں ایک پرس کم دکھائی دے رہا ہے۔ میں نے فوراً آنکھوں ہی آنکھوں میں پرسوں کو گِن لیا۔ ایک کم تھا۔
’’مجھے یہ پرس چاہئے مگر پانچ سو روپئے نہیں دے سکتی۔‘‘
’’ٹھیک ہے پچاس روپئے کم دے دیجیے۔‘‘ میں نے اطمینان کی سانس لی اور کہا۔ تبھی اس کے ساتھ کھڑی ہوئی لڑکی نے ٹیبل کے شیلف میں ہاتھ ڈال کر اس میں سے گھڑی نکال لی۔
’’یہ بیچنی نہیں ہے۔‘‘ مجھے اس طرح اس کی ہوشیاری پر غصہ آیا تھا، اس لئے گھڑی اندر رکھ کر شیلف کو تالا لگا دیا۔ پرس خریدنے والی خاتون کا چہرہ عجیب سے ڈھنگ سے دیکھ کر وہ لڑکی اُس کے پیچھے چھُپ گئی۔
’’دو ہزار کا نوٹ؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’آپ کے پاس ساڑھے چار سو روپئے نہیں ہیں؟‘‘ میں ٹیبل میں بنے پیسوں کے شیلف سے نوٹ نکالنے لگی، ساتھ والی لڑکی ٹی شرٹ دیکھنے لگی۔ مجھے سمجھ میں آنے لگا کہ ان دونوں کے معاملے الگ ہیں۔
’’ مجھے یاد آیا کہ پرس بِک چکا ہے۔ ہماری دوکان میں آپ کے لئے کچھ نہیں ہے میڈم!‘‘ میں نے کہا، ’’ساری!‘‘
اگلے دن صبح سویرے شاپ پر پہنچ کر میں نے جھٹکن ہاتھ میں لیا۔ موپ سے فرش کو چمکایا اور مینیکوِن کے کپڑے بدل کر اس کے وِگ کے بالوں کو برش کیا اور دوبارہ اس کے سر پر لگا دیا۔ آج ہفتے کا پہلا دن تھا۔ آج یہ کام بھی تھا۔
اچانک دو کِنّروں کو دیکھا۔ شیشے کا دروازہ کھول کر سیدھے ٹیبل کے سامنے کب آ کر کھڑے ہو گئے! پتہ ہی نہیں چلا۔ میں ڈر چھپانے لگی۔
’’ذرا انگوٹھی دکھانا تو بے بی۔‘‘ کہا ایک نے لیکن دونوں کی گردن اور کمر لچک گئیں۔ میں نے شیلف سے چار انگوٹھیاں نکال کر ٹیبل پر رکھیں۔ وہ کچھ دیر انگوٹھیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔ دو انگوٹھیاں لوٹا دیں۔ پھر اپنی ساڑیاں لہراتے ہوئے چلے گئے۔ میں دیکھتی رہ گئی۔ ڈر کے مارے میری زبان ہی نہیں کھلی۔ مردوں جیسی قد کاٹھی کے شیو کئے ہوئے چہروں اور نقلی بالوں کے جوٗڑے باندھی ہوئی اس مخلوق سے پیسے مانگ نہ سکی۔ دونوں نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔
’’کِنّر سے پیسے مانگو گی تو پاپ لگے گا۔‘‘ ایک نے کہا۔ میری تو زبان ہی نہیں کھل رہی تھی میں کیا پیسے مانگتی! کپڑے اٹھا کر لے جاتے تو بھی کیا کرتی! شکر ہے یہ کپڑے ان کے کام کے نہیں تھے۔‘‘
کچھ دیر بعد سنبھل کر میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’خدا کی مخلوق ہیں۔ اِن سے ڈرنا کیوں!‘‘
’’ہیلو شبانہ! دو کِنّر ہمارے یہاں سے نکلے ہیں۔ دو انگوٹھی اٹھا لے گئے۔ سنبھلنا۔‘‘
ہفتہ گزر گیا۔ ایک صبح پلاسٹک پھولوں پر الیکٹرانک برش پھیر رہی تھی کہ نکّڑ کی دوکان سے وہی دونوں نکلتے ہوئے دکھائی دئے۔ کندھوں پر رنگ برنگی ساڑی کو سیفٹی پِن سے کسے ہوئے تھے۔ موٹی کمروں پر کسی ہوئی ناف بالکل بھلی نہیں لگ رہی تھی۔ انہیں دیکھتے ہی میں نے برش کو آنٹی کی سیٹ پر پھینکا اور چابی لے کر شاپ سے باہر آ گئی۔ شیشے کا دروازہ لاک کر کے باہر آ کھڑی ہوئی۔ دونوں دوکان پر آئے اور دروازے کو ڈھکیلنے لگے۔
’’مالک ابھی آئے نہیں ہیں۔ آئیں گے تب ہی دروازہ کھلے گا۔‘‘
دونوں نے بد دعا کے انداز میں میری طرف جھٹک کر تالی پھینکی اور گھورتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
ہماری دوکان کالج سے مشکل سے آٹھ دس منٹ کی پیدل دوری پر ہے، اسی لئے کالج کے اسٹوڈنٹ یہاں جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہفتے سے دوسرے ہفتے فیشن کیسے بدل جاتا ہے، یہاں کام کرتے ہوئے پتہ چلا۔‘‘ نیل پالش، کبھی پلاسٹک پالش، جو دکھائی نہیں دیتی، کبھی بالکل سفید آئی لائنر۔ ہمارے یہاں ڈی او ڈورینٹ اور گریٹنگ کارڈ بھی ہوتے ہیں۔ رَیک میں لگا ہوا سامان پچاس روپئے سے شروع ہوتا ہے۔ ریک پر لکھے ہوئے الفاظ دل کو بہت بھاتے ہیں۔ میں نئی نئی کام پر لگی تھی۔ اس دن باقی لڑکیاں ابھی آئی نہیں تھیں۔ ایک شخص دوکان میں آیا۔ اس کا برتاؤ الگ الگ سا لگ رہا تھا۔ مجھے لگا شاید پِئے ہوئے تھا۔
’’لیڈیز پرس ہے؟‘‘
’’نہیں ہے۔‘‘ میں نے جھوٹ کہا کیوں کہ میں ڈر گئی تھی۔ چاہتی تھی کہ وہ یہاں سے فوراً چلا جائے۔
’’نہیں ہے؟؟ … کیسے نہیں ہے؟؟ … کیوں نہیں ہے؟؟آپ کے پاس اتنے آئٹم ہیں۔ پرس کیسے نہیں ہو گا؟‘‘ وہ بھڑک کر بولا۔ میں ڈر گئی اور بولی:
’’ کہا نا، نہیں ہے۔‘‘
وہ آ گے بڑھنے لگا۔
’’جاؤ، نہیں تو باہر کے لوگوں کو بلا لوں گی۔ یہ میرا نہیں، آنٹی کا شاپ ہے۔‘‘
میری پرابلم انگلش زبان ہے اور یہ علاقہ چھوٹی بڑی اچھی اچھی دوکانوں کا ہے۔ قریب ہی ’مانجی نیس ‘اور ’ہال مارک‘ جیسی دوکانیں بھی ہیں۔ دن میں کام کرنے والی لڑکیاں میری دوست بن گئی ہیں۔ اس دوکان میں تین لڑکیاں اور کام کرتی تھیں۔ دھیرے دھیرے سب چلی گئیں۔ ایک کو نکال دیا گیا کیوں کہ اس کے ہاتھ سے سامان گر کر ٹوٹتا رہتا تھا۔ دوسری کی شادی ہو گئی اور تیسری نے کالج میں آخری سال ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ یہ سب اتنی جلدی جلدی ہوا کہ جاب جوائن کرنے کے دس دنوں کے اندر ہی میں اکیلی سیلز گرل رہ گئی۔ شروع شروع میں آنٹی یا ان کی بہو میرے ساتھ ہوتیں لیکن آنٹی کے بیٹے کا ٹرانسفر ہو گیا اور آنٹی کا مجھ پر بھروسہ بڑھ گیا۔ اب میں یہاں اکیلی ہی ہوتی ہوں۔
اگلے دن ایک کسٹمر دھڑا دھڑ انگلش میں شروع ہو گیا۔ دو منٹ بعد سمجھ میں آیا کہ وہ ٹائپنگ جیسے نام کی کوئی چیز مانگ رہا ہے۔
’’ڈوُ یو ہیو اِٹ؟‘‘
’’نو سر، ساری‘‘ میں نے فوراً منع کر دیا۔
رات آٹھ بجے کے قریب آنٹی حساب دیکھنے آتی ہیں۔ لیکن اس دن وہ کوئی صبح گیارہ بجے کے آس پاس دوکان میں آ گئیں۔ میں نے آنٹی سے پوچھا تو وہ بولیں، ’’ اندر جا کر دیکھو۔‘‘
’’اِتنا مہنگا سو روپے سے شروع ہونے والا آئٹم تھا۔ اتنی صبح صبح گراہک چھوڑ دیا۔‘‘ وہ خود اندر کے چھوٹے سے اسٹور روم سے ایک چھوٹا سا ڈبّہ اٹھا لائیں۔
’’غلطی ہو گئی۔‘‘ وہ سیدھے ہندی میں کہتا تو ٹائی پِن دے نہ دیتی! اگر اس نے آدھا ہندی اور آدھا انگلش میں بولا ہوتا تب بھی سمجھ میں آتا۔ پورا انگلش میں بولا اور اتنی تیزی سے تو مشکل ہے سمجھنا۔ ’’ہی‘‘ ’’شی‘‘ کے علاوہ کچھ پلّے نہیں پڑا۔
’’آج کل چھوٹے بچے انگلش بہت زیادہ بولتے ہیں۔ جس کو دیکھو وہ انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں بچوں کو ڈالنا زیادہ ضروری سمجھتا ہے۔ پیٹ کاٹ کاٹ کر ٹیوشن کی فیس ادا کرتے ہیں۔‘‘ … میری زبان تک بات آئی مگر میں کچھ بولی نہیں۔ یہاں آنٹی کو چاہیے صرف کیش۔ وہ ٹھیک سمجھ رہی ہیں، اِس لئے میں یہاں ہوں۔
’’کسٹمر کو تم کیسے ہینڈل کرتی ہو، وہ تمہارا کام ہے۔‘‘
جس دن مال آتا ہے، رجسٹر پر لکھ کر رکھ دیتی ہوں کہ اِتنا اِتنا مال آیا۔ اِتنا ڈِسپلے؟؟؟ کِیا۔ ایک چیز بِکی، ایک طرف لکھا۔ قیمت لکھی ہوئی ہو تو شام کو حساب مل ہی جاتا ہے۔
اُس شام آٹھ بجے کلوزِنگ کے وقت گاہک کے ہاتھ سے شیشے کا گُلدان چھوٹا اور چھن … ن … ن … سے ٹوٹ گیا۔ قیمت ڈیڑھ سو روپئے تھی۔ گراہک سے آدھے پیسے لینے پڑے۔ پہلے ہم مشہور ’ہورائزن‘ کمپنی کی برانڈیڈ چیزیں رکھتے تھے لیکن اب اُن برانڈ والوں کی آپسی پھوٹ کی وجہ سے اُن کی فیکٹری بند ہو گئی۔ پھر بھی ابھی ’’ہورائزن‘ کمپنی کا نام ہماری شاپ سے نہیں ہٹا ہے۔ اُن سے کہہ کر اب ہم نے اور جگہوں سے سامان منگوانا شروع کر لیا ہے۔ دام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ چیز برانڈیڈ نہیں ہے۔ پوچھنے پر میں گاہک کو بتا بھی دیتی ہوں۔ ویسے بھی سستی ہونے پر وہ خود بھی سمجھ جاتے ہیں۔
اُس دن آنٹی شام پانچ بجے ہی شاپ پر آ گئیں۔ اُن کی سیٹ پر میں کبھی نہیں بیٹھتی۔ اُس دن بھی ان کی کرسی کے پاس پڑے اسٹول پر میں اپنی سہیلی شبانہ کے ساتھ بیٹھی گپیں لڑا رہی تھی۔ آنٹی کو دیکھ کر میں اُٹھی۔ تبھی ایک گاہک دوکان میں آیا۔ میں اُس کی مدد کرنے لگی۔
آنٹی نے روزانہ کی طرح سیٹ پر بیٹھتے ہی دوکان میں ادھر اُدھر نہیں دیکھا۔ سامنے گلی کے نُکّڑ سے آگے تک کا منظر اُن کی آنکھوں کے سامنے کھُلا تھا۔ چھترپتی شیوا جی ٹرمِنس سے آنے والی ٹرین اسٹیشن پر دھیرے دھیرے رُک رہی تھی۔ جنرل ڈبے کے کچھ درمیانہ عمر کے مرد، کالج کے کچھ منچلے لڑکے کمپارٹمنٹ سے کود کر پلیٹ فارم پر کچھ قدم ٹرین کے ساتھ دوڑ رہے تھے۔ ابھی کچھ منٹوں میں شہر کو جانے والا یہ راستہ بھیڑ سے اَٹ جائے گا۔ آنٹی راستے کو گھورتی رہیں۔
آنٹی کے آنے کے کچھ دیر بعد شبانہ اپنی دوکان میں لوٹ گئی۔
’’دوستوں کا جمگھٹ یہاں پندرہ منٹ سے زیادہ دکھائی دیا تو … ۔‘‘ اُس کے جانے کے بعد آنٹی نے مجھ سے کہا۔ کہا کیا، کہتے کہتے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’تیری خیر نہیں۔‘‘ میں نے دل ہی دِل میں ان کا جملہ پورا کر دیا۔
’’کالج پاس ہی ہے اسی لئے سہیلیاں آ جاتی ہیں … اور پھر شبانہ نے ہی تو نوکری لگائی تھی۔‘‘
’’چلو جاب چھوڑ دو۔‘‘
میں ہکّا بکّا رہ گئی۔ ذرا سی بات پر کیسے یہ کہہ گئیں!
’’تمہارا اپنا گھر نہیں ہے کہ اپنے دوستوں کو بٹھاؤ، خاطرداری کرو، خاص کر لڑکا تو بالکل نہیں چاہئے۔ دوستوں کے بارے میں تو میں سوچ بھی سکتی ہوں لیکن دوست ہوں یا باہر والے، آدھا گھنٹہ رُکے تو کچھ نہ کچھ لے جائے ورنہ ٹائم پاس کرنے کا نہیں۔ کوئی دس منٹ ٹھہرے تو فوراً پوچھنا چاہئے کہ ’آپ کو کیا چاہئے؟‘ کچھ اور وقت گزارے تو غصے سے پوچھو، اُس سے زیادہ وقت رکے تو آرام سے کہو، ’چلے جائیے ‘۔‘‘
’’ٹرین کا معاملہ ہے۔ سامنے ہی اسٹیشن پر ٹرین کے وقت پر بھیڑ رہتی ہے۔ بارش ہونے لگے تو لوگ دوکان میں چلے آتے ہیں اور کارڈ دیکھنے لگتے ہیں۔ دو کارڈ دیکھے تو دس منٹ گزر گئے۔‘‘ مگر میری یہ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔
’’ٹھیک ہے آنٹی۔‘‘ بس یہی کہہ پائی۔
اُس دن وہ لڑکی یہی کر رہی تھی۔ فون پر لگاتار بات بھی کرتی جا رہی تھی۔ کافی دیر بعد میں نے پوچھا، کیا چاہئے؟‘‘
’’لَورس کارڈ چاہئے۔‘‘
’’دیکھ رہی ہوں، کافی دیر دیکھتی رہی ہو۔ ایک گھنٹہ پورا ہونے لگا ہے۔‘‘
’’میں ’ہورائزن‘ میں ہوں۔ اِدھر آ جاؤ۔‘‘ وہ مجھے اَن سُنا کر کے فون پر کسی سے کہہ رہی تھی۔
’’آپ جا سکتی ہیں۔‘‘
’’کارڈ دیکھ رہی ہوں۔‘‘
’’یہ نہیں چلتا۔ فون بند کرو۔‘‘
’’لے رہی ہوں نا!‘‘
مجھے ڈیرِنگ چاہئے۔
جب نئی نئی نوکری لگی تھی، تب کوئی گراہک دو گھنٹے بھی لگاتا تھا تب بھی بول نہیں پاتی تھی۔
اگر تم اپنا سامنا نہیں کر سکتی تو دوسروں کا بھی نہیں کر سکتی۔‘‘
آنٹی نے مجھے سکھایا کہ آدمی کیسے ہوتے ہیں۔ لوگوں کا نیچر باہر آ کر سمجھ میں آیا ورنہ کالج سے گھر، گھر سے کالج اسی کے بیچ دنیا کی سمجھ تھی۔ نئی پیڑھی کی ہو کر بھی پتہ نہیں تھا۔ کہیں اور کام کرتی تو شاید پتہ چلتا بھی نہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ دنیا بڑی بیکار سی چیز ہے۔ نئی نسل بھی … بات کا ڈھنگ ہی نرالا ہے۔ اِس سال میں نے بی اے کے آخری سال میں ایڈمیشن لیا ہے۔ خریداروں کو دیکھ کر سوچتی ہوں کہ میں پرانی نسل کی ہو گئی ہوں۔ غریب اور حیثیت والوں کے طور طریقے میں فرق محسوس کرتی ہوں۔ اونچی حیثیت والے عزت دے کر بات نہیں کرتے ہیں۔
’ ’دیدی یہ دو۔‘‘
’’ وہ دو۔‘‘
’’اس کی پرائز کیا ہے؟‘‘ کہہ کر باتیں کرتے ہیں۔ غریب کو لگتا ہے نوکر ہے۔
’’یہ دے دے چل‘‘
’’جلدی دے بابا! کیا کرتی ہے رے؟‘‘
’’ اِس طرح بات کرتے ہیں؟گراہک ہو تو دوکان میں کام کرنے والوں سے عزت سے بات نہیں کر سکتے!‘‘
’’ارے ایسے کیوں بات کرتا ہے؟ غریب لڑکی ہے۔‘‘ اس کا ساتھی اُس سے کہتا ہے۔
’’غریب کو مستی بہت ہوتی ہے۔‘‘ وہ بھی میری طرف دیکھتے ہوئے دوست کو جواب دیتا ہے۔
میں بھی جانتی ہوں، سہنا پڑتا ہے۔ ایک بار تو میں رو ہی پڑی۔ ایک گراہک نے بڑے بُرے ڈھنگ سے مجھ سے کی چین کی قیمت پوچھی۔ میں کوڈ دیکھنے لگی۔
’’اوئے! اِکڑے بَگھ تیاچی پرائز! (ارے یہاں دیکھ اس کی قیمت)‘‘
’’ذرا عزت سے بات کرو نا!‘‘
’’تو مالکن ہے یا نوکر ہے؟‘‘
’’میں نوکر ہوں مگر آپ کا کام کرتی ہوں۔ مجھ سے تمیز سے بات کیجیے۔‘‘
’’کام کرتی ہے تو عزت سے رہ۔ دوسروں کا کھاتی ہے۔ گھمنڈ کرتی ہے۔‘‘
’’محنت کرتی ہوں تو ملتا ہے۔‘‘
’’تو ہم کہاں بیٹھ کر کھاتے ہیں؟‘‘
’’یہاں بیٹھی ہے تو اپنی عزت کیوں خراب کر رہی ہے؟‘‘
’’میں تو نوکر ہوں۔ سب کو بتاتی ہوں۔ میں آپ سے آپ کہہ کر بات کرتی ہوں نا! آپ کا عزت سے بات کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘
’’نوکر ہے تُو!‘‘ اس نے دایاں ہاتھ اُٹھا کر کہا، ’’ تیری عزت تیرے پاس رکھ۔‘‘ اس کے نتھنے پھول رہے تھے۔
’’صحیح طریقے سے بات نہیں کرنی، چلے جاؤ۔‘‘
اُس دن میں بہت روئی۔
میرے غصے سے آنٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
’’آنٹی میں جاب چھوڑ رہی ہوں۔‘‘ شام کو میں نے آنٹی سے کہا، آپ کے کسٹمر برے طریقے سے بات کرتے ہیں۔‘‘ میں نے انھیں سب بتایا۔
’’اِتنی تُو تُکار کرنی ہی نہیں چاہیے۔ سامنے والے کو شہہ ملتی ہے۔ جواب پر جواب دے کر اُس کو چھیڑنے کا مزا دیتی ہو تم!‘‘ آنٹی نے اپنی چھوٹی چھوٹی گڑھوالی آنکھیں میری آنکھوں میں گاڑ دیں۔ اُن کا گورا چہرہ سُرخ ہو گیا، ’’میں نے سی سی ٹی وی سے سب دیکھا تھا۔‘‘
’’آئی ایم ساری آنٹی۔‘‘ میں نے اپنی پلکیں دھیرے سے جھکا لیں۔ وہ ایک لمحہ میں شانت ہو گئیں۔
’’کوئی بھی کسٹمر غلط سلط بولا تو کہہ دینا، ’یہ میرا شاپ ہے، میں شاپ کیپر ہوں۔ کسی دوسرے کو یہاں بیٹھے دیکھا ہے کیا؟ … نہیں نا! … یہ شاپ میرا ہے۔ میری عزت کیسی ہے، کیا ہے، … مجھے پتہ ہے۔ پولیس کمپلینٹ کروں گی‘ … ۔‘‘ آنٹی نے مجھے ہمت دی۔
’’تُو تو کہتی ہے، تیرا جیجا حوالدار ہے۔ کھنڈالا کے گھاٹ پر اُس کی ڈیوٹی لگی ہے۔ وہ کتنی دوری پر ہے؟ اور … پھر تُو روئے گی تو وہ بولتا جائے گا۔ سمجھ جائے گا کہ تُو کمزور ہے۔ رونا ہو تو بعد میں رو۔ کسی نے غلط بولا، جواب دو۔‘‘ پھر اچانک وہ بھڑک اُٹھتی ہیں، ’’ خلاصہ یہ کہ کسٹمر کو ٹھیک سے اٹینڈ کرنا ضروری ہے۔ سمجھیں! یہ نہیں ہوتا تو فوراً جاب چھوڑ دو۔ میرے منہ پر چابی مار دو۔‘‘
مجھے لگتا ہے سب باس پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ وشواس دلائے تو ڈانٹے ہی کیوں نہ!
پچھلے سال بی اے کے سال دوم کی چھٹیوں میں تین مہینوں کے لئے میں نے نوکری کر لی تھی اور آنٹی کو بھی میری ضرورت ہے۔ جس دن انہوں نے دوکان کی چابی دی تھی … تب سے وہ یہاں نہیں بیٹھیں۔ اب تو میں کوڈ دیکھے بغیر چیزوں کی قیمت جانتی ہوں۔ شروع میں تو آنٹی بیمار تھیں، ایک ہفتے بعد شاپ پر آئیں۔ پتہ چلا، یہ لڑکی اچھی طرح کام کرتی ہے۔ پہلے دن ہی میں نے انہیں ساڑھے تین ہزار روپئے کیش جو دیئے تھے۔ بس ان کا وشواس بن گیا۔ جب مجھے جاب پر رکھا تب سے وہ مجھے اچھی لگتی ہیں۔ بڑے پیار سے پوچھا، ’’کہاں رہتی ہو؟ کیا کرتی ہو؟ جاب کی ضرورت کیوں ہے؟‘‘
میں نے ان سے کہا تھا، ’’چھٹیاں ہیں۔ بس اسی لئے تجربے کے لئے کام کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈیڈی میری طرف دھیان نہیں دیتے۔
’’بارہویں ہوئی نا! اب تمہاری شادی کرتے ہیں۔ ہم خاندیش سے ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکی اٹھارہ کی ہوئی تو بہت بڑی ہوئی۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’ابھی نہیں۔ گریجویشن ہو جانے دو بابا۔‘‘
’’میں پیسے ہی نہیں دوں گا۔‘‘ وہ مجھے فیس نہ دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔
’’جاب کروں گی۔ خود کما کر پڑھوں گی۔‘‘
’’ایک روپیہ بھی نہیں ملے گا۔ آج سے خرچہ بھی بند!‘‘ وہ سختی سے کہتے ہیں۔
یہ سب میں نے آنٹی کو نہیں بتایا، ورنہ وہ اسے مجبوری سمجھتیں۔ شاید من دُکھا کر بات کرتیں۔ آج انہیں لگتا ہے، میں ایسے ہی ہاتھ خرچ کے لئے کام کرتی ہوں۔ اب وہ مجھے بیٹی ماننے لگی ہیں۔ گھر کے پروگرام میں بھی بلاتی ہیں۔ گھر میں کام نہیں کرواتیں۔ ان کی بیٹی سویٹا بڑی سخت ہے۔ جب یہاں آتی ہے تو دوکان اوپر سے نیچے تک دیکھتی ہے۔ کام کرنے والوں سے اُسے کچھ لینا دینا نہیں۔ صرف دوکان سے مطلب ہے۔ ٹیبل کی کانچ پر اُنگلی پھیر کر دھول کا دھبہ دکھاتی ہے۔
گراہک نہیں دیکھتی۔ سیدھے کہتی ہے:
’’دیکھو بیٹا اپرنا! یہ اچھی طرح صاف کرنا چاہئے۔ تمہیں کیسا لگتا ہے؟ کسٹمر آئے تو اچھی بات ہو گی؟ وہ سمجھے گا پُرانی چیز ہے۔‘‘ فٹ سے بولتی ہے۔
فون کرتی ہے تب بھی مجھ سے یہی پوچھتی ہے۔ آنٹی یہ سب دیکھتی ہیں اور چپ چاپ مسکراتی رہتی ہیں۔ منع نہیں کرتیں۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا، ’’بے بی کے نام سے ہی اِس شاپ کی پرمیشن ملی ہے۔ اُس نے ہوٹل مینجمنٹ کا کورس کیا ہے۔ اسی نے اپنے ماں باپ کو آئیڈیا دیا تھا۔‘‘
میں آنٹی کو دیکھتی رہتی ہوں۔ وہ میری سوچ کو سمجھتی ہیں۔ مجھے سمجھاتی ہیں:
’’تمہارے انکل نہیں آتے کبھی شاپ پر۔ ریٹائرڈ ہیں مگر انہیں دوکان میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘
’’آپ لوگ ہماچل پردیش اپنے گاؤں بھی نہیں جاتے؟‘‘
’’فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘
’’گاؤں کو ہم نے یادوں میں ضرور بسا لیا ہے۔۔ اور پھر جائیں تو رہیں کہاں؟ ہمارے ماں باپ نہیں رہے۔ دور کے رشتے دار بس دور ہی ہیں۔‘‘ آنٹی ٹھنڈی سانس بھر کر کہتی ہیں۔
اس جاب نے مجھے فیس کے پیسے ہی نہیں دیئے، میری زندگی بھی بدل دی ہے۔ قبرستان کے پیچھے جھونپڑپٹی میں رہنے والی لڑکی، جو کسی سے بات بھی نہیں کر سکتی تھی، سمجھ گئی:
’’یا تو فَٹ سے جواب دو یا پھر چلی جاؤ۔‘‘
میں نے حساب کا بہی کھاتہ بند کر کے آنٹی کے ٹیبل کے دائیں طرف بنی ڈراز میں رکھ دیا۔ آئینے کے سامنے کھڑے رہ کر کھلے بالوں میں پِن لگایا۔ اپنے سفید دوپٹے کو چہرے کے گِرد لپیٹ کر پل بھر خود کو غور سے دیکھا۔ پرانی کالی جینس پینٹ پر پہنے سفید لمبے کُرتے کی سِلوٹوں کو درست کیا۔ پرس، تالا اور چابی کا گُچھا اٹھا کر شیشے کا دروازہ کھول کر دوکان سے باہر نکل آئی۔ دوکان کے آدھے کھُلے شٹر کو گِرا کر اُسے لاک کیا۔ شبانہ بھی اپنی دوکان کو لاک کر کے میرے پیچھے آ کھڑی ہوئی تھی۔
’’ا تنی خوبصورت دوکان میں، میں سانولی، گول چہرے پر مہاسوں کے داغوں والی، معمولی سی سُوتی یا سستے سِنتھے ٹِک کپڑوں میں غریب ضرور دکھائی دیتی ہوں، کم حیثیت والی، مگر کوئی مجھ سے جیت کر تو دکھا دے!‘‘ ذرا سا گردن اونچی کئے ہوئے سڑک پر اپنے بڑھتے قدموں پر نظر ڈالتے ہوئے میں آگے بڑھنے لگی۔
’’تم نے مجھ سے کچھ کہا؟‘‘ شبانہ نے پوچھا۔
’’نہیں تو۔‘‘ میں نے مسکرا کر اُس کا ہاتھ تھام لیا۔
٭٭٭
پہاڑوں کے بادل
ڈاکٹر راحین اپنی ڈسپنسری کا پرانا اسٹاک دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ مہینوں بعد ایکسپائرہونے والی دوائیاں نکال کر الگ کر رہی تھیں۔ ان کے ڈسپنسری کے اوقات صبح نو سے بارہ اور شام چھ سے آٹھ تھے۔ اس وقت دوپہر کے بارہ بجے تھے۔ شاید آج کا آخری مریض جا چکا تھا یا شاید ابھی کوئی باقی ہو! تبھی ایک لڑکی نے ڈسپنسری میں قدم رکھا۔
پتہ چلا پروانہ آئی ہے۔ وہی لڑکی جو پچھلے تین سالوں سے کالج کی فیس کے لئے مدد مانگنے آتی رہی ہے۔ در اصل پچھلے کچھ سالوں سے ڈاکٹر راحین کے پاس ایک زکوٰۃ کمیٹی کے پیسے آنے لگے تھے، جنہیں وہ مستحق بچوں کی پڑھائی لکھائی پر بطور مدد خرچ کرتی ہیں۔ اس بارے میں بہت باخبر رہنا پڑتا ہے کہ کہیں لوگوں کی نکالی ہوئی زکوٰۃ کے پیسے غریب بن کر ٹھگنے والے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں۔ پچھلے مہینے ایک خاتون اپنی پانچ بیٹیوں کو لے کر ڈاکٹر راحین کی ڈسپنسری میں آئی تھی۔ سب کی پچھلے سال کی فیس جمع نہیں کرائی گئی تھی اس لئے سالانہ امتحانات میں بیٹھنے سے روک دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر راحین نے پتہ چلایا کہ وہ خاتون سنگِ مرمر کے فرش پر بنے ایک چھوٹے سے ذاتی گھر میں رہتی ہے۔ اس کے گھر میں فرج اور ٹی وی بھی ہے۔ خاتون نے خدا کا واسطہ دیا کہ یہ سب اچھے دنوں کی یادگار ہیں، جب اس کا شوہر زمین کی دلالی میں اچھا خاصہ کمایا کرتا تھا۔ اب اس کے شوہر کا برسوں کا پینا رنگ لایا ہے۔ اس کا شوہر جگر کے سخت درد کا شکار ہے۔ اب وہ چار ہزار روپئے مہینہ کمانے کے لئے ایک پیکنگ کمپنی میں دن کے دس گھنٹے گزارتی ہے اور بیچ بیچ میں چھُٹّی لے کر اپنے شوہر کا علاج بھی کرواتی ہے۔
’’ ابھی گھر کا سامان بِکا نہیں ہے۔‘‘ وہ گڑگڑاتی رہی۔
لیکن ڈاکٹر راحین کو ایسے لوگوں پر ذرا بھی بھروسہ نہیں۔ اس نے ایسے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو خدا کے نام پر پیسہ جمع کر کے کھا لیتے ہیں۔ پھر وہ کیسے اس لڑکی پر یقین کرے!
اسی لئے وہ پروانہ سے ہر سال کالج سے فیس کی تفصیل منگواتی ہیں۔
پروانہ لگاتار فون کرتی۔ ملتی۔ اس کا بی اے کا آخری سال تھا۔ آٹھ دنوں میں امتحان ہونے والے تھے۔ ہفتہ بھر پہلے تو اس نے حد ہی کر دی۔ اپنے ابا سے فون پر بات کروا دی!
’’آپ نے میری لڑکی کا کالج میں داخلہ کروایا۔ پڑھا رہی ہیں، ساتھ ساتھ ذرا گھر بنانے میں بھی مدد کیجئے۔‘‘
ڈاکٹر راحین کو اس کا اپنے والد کے ہاتھ میں اچانک فون تھما دینا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔
آخر انھوں نے تنگ آ کر پروانہ کو گھر کی تصویر کسی کے فون سے وہاٹس ایپ کرنے کے لئے کہا تھا اور کسی دن اس کا گھر دیکھنے جانے کا وعدہ بھی کر لیا۔
ڈاکٹر راحین مہاراشٹر کے ضلع رائے گڑھ کے کھالاپور ضلع کے تحصیلدار آفس کے پاس رہتی تھی۔ اسی عمارت کے نیچے ان کی ڈسپنسری تھی۔ باندرہ کی چہل پہل سے اکتا کر وہ پچھلے دنوں ہی سکون کی تلاش میں ممبئی میٹرو پولیٹن کے اس پرسکون علاقے میں منتقل ہوئے تھے۔ ممبئی کے ایک بلڈر نے نیا کمپلیکس بنانا شروع کیا تھا۔ ان کے ڈاکٹر شوہر نے زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر اس پر اپنے ذاتی اسپتال کی تعمیر شروع کر دی تھی۔ اِن دنوں وہ میڈیکل کانفرنس میں شرکت کرنے کلکتہ گئے ہوئے تھے۔ ان کے دونوں بیٹے وہیں ایک انگریزی اسکول میں دوسری اور تیسری کلاسوں میں پڑھنے لگے تھے۔ ابھی امتحان ختم ہوئے تھے اور بچے دن بھر گھر کے اندر کھیلتے ہوئے تھک چکے تھے۔ بس شام کو مولوی صاحب قرآن شریف اور اردو پڑھانے آ جاتے … اور پھر ڈاکٹر راحین نے پروانہ سے وعدہ کر لیا تھا کہ اِس ہفتے وہ ضرور اس کا گھر دیکھنے آئیں گی۔ آخر ایک پنتھ دو کا …
کرجت اسٹیشن سے بیس پچیس منٹ پیدل دوری پر’ دہی وَلی ‘گاؤں سے بائیں جانب کوئی دو ڈھائی کلومیٹر کی دوری پر آکُرلے گاؤں کی ابتدا میں ہی بائیں طرف بغیر دیوار کا دو جھولے اور ایک گھَسرن والے چھوٹے سے تِکونے گارڈن کے پاس ایک دوکان کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے تین نوجوانوں سے ڈاکٹر راحین نے پروانہ کا پتہ پوچھا۔ بچے اِس چھوٹے سے گارڈن کو دیکھ کر مچل رہے تھے لیکن بارہ بجے کی دھوپ میں تپتے جھولے کس کام کے! گارڈن کے بالکل سامنے ایک چکّی کی چال میں صدر دروازے کے باہر چھوٹی سی موری کے اوپر چار پائپوں کے سہارے پڑی چھوٹی سی چھت کے سائے میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت کپڑے دھو رہی تھی۔ کار کے رکتے ہی اُس عورت نے تپاک سے سلام کیا جیسے پہچان گئی ہو کہ کون آیا؟
’’ پروانہ اندر ہے۔‘‘ اس نے کہا اور کھڑی ہو گئی۔ ’’اے … ے … پروانہ … !‘‘ اس نے آواز لگائی تو پروانہ باہر آئی۔ پھر جھانک کر اندر چلی گئی۔ وہ کچھ ہی سکنڈ میں دوپٹّہ اوڑھ کر باہر آئی اور ڈاکٹر راحین اور ان کے دونوں بچوں کو صدر دروازے سے اندر لے گئی۔ ڈاکٹر راحین کے لئے اس قسم کے گھر کی ساخت نئی تھی۔ وہ چالی جہاں ڈاکٹر راحین کھڑی تھیں، کوئی چھے سات فٹ چوڑی تھی اور صاف ستھری تھی۔ صدر دروازے کے سامنے بالکل آخری حصے میں ایک چھوٹی سی تین فٹ اونچی دیوار کی موری تھی۔ وہاں تک پہنچنے کے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنے چار کمروں کے دروازوں سے گزرنا ہوتا۔
چالی کے پہلے کمرے میں قدم رکھتے ہی ڈاکٹر راحین بھونچکّا رہ گئیں۔ کمرہ بہت صاف ستھرا تھا۔ دروازے کے پیچھے پلاسٹک کی دو کرسیوں پر گدے، چادریں اور تکیے تہہ کر کے رکھے ہوئے تھے۔ پروانہ کی نانی پڑوس سے مانگ کر ایک کرسی لے آئیں جس پر ڈاکٹر راحین بیٹھیں اور لوہے کی تین فٹ چوڑی کھاٹ پر پرانی سوتی ساڑی کے کور والے بستر پر دونوں بچے بیٹھ گئے۔ پروانہ کی نانی نے پلو کی گانٹھ سے کچھ روپئے نکال کر پروانہ کو دے دیئے اور وہ وہاں سے چلی گئی۔
ان کے گھر کے پچھلے حصے میں گاؤں کا ماحول تھا بلکہ ایکسپریس وے کو لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے قصبے اور آدیواسی واڑیاں بھی تھیں مگر ابھی وہ ان حصوں کو دیکھ نہیں پائے تھے۔
ڈاکٹر راحین بچوں کو کہہ کر لائی تھیں کہ گاؤں دیکھنے جا رہے ہیں۔ اسی لئے وہ دھیان سے اس چھوٹے سے کمرے کو دیکھ رہے تھے۔ دروازے کے دوسرے پٹ سے لگے ہوئے دو بڑے بڑے صندوق تھے۔ پلنگ کے اوپر سیمنٹ کی چھت لوہے کے فریم پر پڑی تھی۔ فریم سے ایک سفید پیاز کی گَڈ لٹک رہی تھی۔
’’پروانہ کل کے شنی وار بازار سے ہفتہ بھر چلنے والی سبزیاں خرید لائی تھی۔‘‘ نانی نے اشارہ کیا۔ اونچے پلنگ کے نیچے دو بڑے پتّہ گوبھی، ایک بڑا سا پھول گوبھی، تھیلیوں میں ٹماٹر اور ہری مرچ کلو دو کلو رکھے ہوئے تھے۔
’’ادھار لے کر گھر بنا رہے ہو؟۔‘‘ ڈاکٹر نے اندازہ لگاتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم ادھار نہیں لیتے صرف کرانہ کا کھاتا ہے۔ ہر مہینہ چکا دیتے ہیں … بقایا رکھتے نہیں۔‘‘ پروانہ کی نانی نے جواب دیا۔
تبھی پروانہ آدھا لیٹر مینگولا کی بوتل اور ایک ویفرس کا پیکٹ لئے ہوئے اندر آئی اور کچن میں جا کر اسٹیل کے گلاسوں میں مینگولا انڈیلنے لگی۔ ڈاکٹر اس کے پیچھے کچن میں گئیں۔ کچن کیا تھا، کمرے کے اندر ایک بہت چھوٹا سا کمرہ تھا جسے کچن کہہ سکتے ہیں۔ وہاں ایک چوڑا برتن رکھنے کا ریک سلیقے سے سجا ہوا تھا۔ بس اُتنی ہی دیوار تھی۔ دروازے کے سامنے والی دیوار پر ایک کچن کا ٹیبل تھا جس پر دو چولہوں کا اسٹو رکھا ہوا تھا۔ کچن بہت صاف ستھرا تھا۔
’’کیا پکایا ہے تم نے؟‘‘
’’میں نے نہیں، نانی نے۔ میں پڑھ رہی تھی۔‘‘ کہتے کہتے پروانہ نے ڈاکٹر راحین کے سامنے کچن ٹیبل پر رکھی چھوٹی چھوٹی ہانڈیوں کو کھول دیا۔ ایک میں ابلے ہوئے چاول، دوسری میں کھچڑی، تسلے میں گوندھا ہوا آٹا اور ایک برتن میں کوئی پاؤ کلو بیگن آلو کا سالن تھا۔
بچے ویفرس کے لئے جھگڑنے لگے تھے۔ ڈاکٹر راحین نے ایک ویفر کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہی محسوس کیا، اچھے تیل سے نہیں بنا ہے لیکن بچے کب سنتے ہیں۔
’’آپ کے آنے کا پتہ ہوتا تو ماں چھٹّی لے لیتیں۔‘‘ پروانہ نے بغیر شکایت کئے ہی کہا، ’’وہ پچھلے مہینے سے ایک نرسری میں پانچ ہزار کی تنخواہ پر کام کر رہی ہیں۔‘‘
’’نرسری میں تو اتوار کو چھٹی ہوتی ہے!‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’’نہیں وہ بچوں والی نرسری نہیں۔۔ ۔ پھولوں پودوں والی … !‘‘
’’ارے واہ!‘‘
نرسری پوسری گاؤں میں تھی، جہاں جانے اور آنے کے بیس روپئے خرچ ہو جاتے تھے۔ پروانہ نے بتایا کہ اس کے ابّا میونسپلٹی میں عارضی نوکری پر تھے۔ جب کام ہوتا بلا لئے جاتے۔ ’’ابا کو فون کروں؟ بلاؤں؟‘‘ پروانہ بچھی جاتی تھی۔
’’نہیں رہنے دو۔‘‘
’’اس چھوٹے سے ڈیڑھ کمرے کے گھر کا کرایہ ڈیڑھ ہزار روپئے ہے۔‘‘ نانی نے بتایا، ’’لائٹ بل اور پانی کا بل اوپر سے پانچ سو روپئے۔ یہ چال چکّی والے کی ہے۔ چکی والے کی دوکان کا رُخ سڑک کی طرف ہے۔ چال کے سبھی گھروں سے ایک ایک کلسی پانی بھر کر چکّی پر پہچانا ہوتا ہے۔‘‘
’’روز صبح چکی والا چکی صاف کرنے کے لئے میری ماں سے کہتا ہے۔ کبھی کبھی وہ انکار کر دیتی ہے۔ تب وہ اسے جی بھر کر کوستا ہے اور کچھ دیر کے لئے لائٹ بھی بند کر دیتا ہے۔ سبھی عورتوں کی باری کبھی صبح کبھی شام لگتی ہے۔‘‘ پروانہ نے وضاحت کی۔
پروانہ کا گھر دیکھ کر تینوں ماں بیٹے باہر آئے۔
’’کیا آپ یہیں رہتی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے نانی سے پوچھا۔
’’پھر کہاں رہوں؟‘‘ نانی نے بتایا کہ ان کے شوہر کسی بلڈر کے یہاں کام کرتے تھے۔ شوہر کی موت کے بعد وہ اپنی اِسی بیٹی کے گھر رہتی ہے۔ اُن کی سب سے غریب بیٹی پروانہ کی ماں ہی تھی۔ دونوں بیٹیاں اپنے اپنے گھر میں سکھ کی روٹی کھاتی تھیں۔
پروانہ بہت خوش تھی۔ وہ بار بار کہتی تھی کہ ’’پتہ ہوتا تو دونوں بھائیوں کو یہاں بلا لیتی۔ آپ ڈانٹتیں تاکہ وہ کچھ کام کرنے لگتے۔‘‘
’’تمہارا بڑا بھائی پیتا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’جوا‘‘
’’ہاں‘‘
’’اور ابا؟‘‘
’’کبھی کبھی۔‘‘
’’جوا بھی؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’چھوٹا بھائی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اچھا! اب وہ گھر دکھاؤ۔ تمہارا اپنا گھر، جسے دیکھنے کے لئے ہم یہاں آئے ہیں۔‘‘
’’آپ چلیں گی؟ اتنی دور؟ ہم تو پیدل جاتے ہیں۔ آپ نہیں چل سکتیں۔‘‘
’’گاڑی سے چلیں گے۔‘‘
’’پاس ہی کا گاؤں ہے۔ ’بام چا مالا‘ … ‘‘
پروانہ ڈرائیور کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئی اور وہ دس منٹ میں پاس کے اُس ’بام چا مالا ‘ گاؤں پہنچ گئے۔ اندرونی سڑک کے کنارے گاڑی رکوا کر پروانہ انھیں کچے راستے سے اپنے گھر لے گئی۔
’’یہ وہی گھر ہے، جس کی تعمیر ہو رہی ہے، ڈاکٹر۔‘‘ پروانہ نے بتایا، ’’ برسوں نگر پالیکا میں کام کرنے کے کارن ایک پمپ ہاؤس والا کمرہ میرے ابا کو دے دیا گیا تھا۔ تب پمپ ہاؤس مارکیٹ یارڈ میں شفٹ ہو گیا تھا۔ یہ پرانا پمپ ہاؤس موٹی دیواروں والا مضبوط چھوٹا سا کمرہ تھا۔‘‘
’’یہ کیسے ملا؟‘‘
’’صاحب کی لگاتار چاپلوسی اور گڑگڑانے سے، ساتھ ہی صاحب کے بنگلے کے چھوٹے موٹے کام وقت پر کرتے رہنے سے صاحب نے پمپ ہاؤس سے لگی ہوئی ایک کمرے کی زمین بھی ابّا کو دے دی۔ اِس سے پہلے بھی وہ اِس سے بہت بڑی جگہ دے رہے تھے مگر وہ زمین بہت دور تھی۔ وہاں نہ پانی تھا نہ بجلی۔ راستے بھی کچے تھے۔ بارش میں چاروں طرف کیچڑ اور پھسلن … ‘‘ وہ ہنسی، مجھے وہ جگہ پسند نہیں آئی، اس لیے ابا نے نہیں لی۔‘‘
’’اچھا! … تمہاری پسند!!‘‘
’’آپ کو بتایا نہیں۔ میں نے کال سینٹرمیں کام کیا۔ سات ہزار کماتی تھی۔ میری پگار پر گھر چلتا تھا۔ دسویں، بارہویں کے امتحانات میں باہر سے بیٹھی۔ اب کھوپولی کا ٹاٹا کال سینٹر بند ہو گیا ہے۔ کالج جاتی ہوں۔ بھائی اسکول ہی پورا نہیں کر پائے۔‘‘
’’اوہ! بڑا مان ہے تمہارا! … ‘‘ ڈاکٹر راحین نے کہا۔
’’گھر بننے کے بعد یہ جگہ ابا کے نام پر چڑھائی جانے والی ہے۔‘‘ پروانہ مسکرائی اور بولی۔
پمپ ہاؤس سے ایک دروازہ اُس کمرے میں کھلتا تھا۔ کچی اینٹوں کا کمرہ تیار ہو چکا تھا۔ ابھی فرش کا کام باقی تھا اور پلاسٹر کا بھی۔ ڈاکٹر راحین کچھ عجیب سے احساس میں مبتلا تھیں۔
’’یہ ہمارا پہلا ذاتی گھر ہو گا۔‘‘ پروانہ نے بتایا۔
پروانہ کے ساتھ اس کے گھر دیکھتے ہوئے ابھی گھنٹہ بھر ہی ہوا تھا اور بچوں کا بھی جی نہیں بھرا تھا۔ وہ گاؤں کی زندگی دیکھ کر بہت جوش میں تھے اور فارم ہاؤس دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے پہلی بار آدیواسیوں کو بھی دیکھا تھا۔ چھوٹی چھوٹی دوکانوں میں کرانہ سامان اور دوسری چھوٹی چیزیں بیچتے ہوئے، سڑک پر مست چال سے چلتے ہوئے اور ان کے نئے گھر کے پیچھے والے جھونپڑے میں تین آدیواسی عورتوں کو پیٹی کوٹ اور بلاؤز پر دوپٹّہ پہنے بیٹھے دیکھ کر بچّے حیران ہو گئے تھے۔
’’کیا ہم تمہاری امی سے ان کی نرسری میں مل سکتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر راحین نے پروانہ سے پوچھا۔
’’مگر میں لوٹوں گی کیسے؟وہ تو بہت دور ہے؟‘‘
پروانہ نے بہت فون لگایا مگر ماں نے نہیں اٹھایا۔ اس نے اپنے ابا سے بات کی۔ انھیں صرف اتنا پتہ تھا کہ وہ پوسری کی کسی نرسری میں کام کرتی تھیں۔ بڑی مشکل سے ماں نے فون اٹھایا تب پتہ چلا کہ وہ مہر بیکری کے پاس کسی نرسری میں کام کرتی ہیں۔ جو’ لاڈی وَلی‘ کی پرکاش نرسری کے بعد آتی ہے۔ نرسری کا نام ابھی رکھا نہیں گیا تھا۔ پروانہ نے ماں سے نرسری کے باہر کھڑے رہنے کے لئے کہا۔ پروانہ کی ماں اپنی ماں کی طرح نظر آئی۔ گہرے سانولے چوڑے چہرے والی۔ چھوٹی آستین کے بلاؤز اور میلی سی سوتی ساڑی میں وہ سخت دھوپ میں کھڑی ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ وہ ہمیں نرسری میں لے گئی۔ بوگن وِلا، ڈیلیا اور دوسرے پھولوں اور پودوں کو الگ الگ حصوں میں قطار در قطار پلاسٹک کی تھیلیوں میں لگایا گیا تھا۔ دھوپ میں کام کرنے والی عورتیں سر پرسوتی کپڑے کے اوپر انگریزی کیپ لگائے کمر جھکائے کام کر رہی تھیں۔
پروانہ کی ماں نے اپنے ساتھیوں سے ڈاکٹر کا تعارف کروایا۔ وہ سب چھاؤں میں بیٹھی پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی کالی تھیلیوں میں کھاد ملی مٹی بھر رہی تھیں۔ نرسری کا مالک وہیں تھا۔ بچوں کے مانگنے پر نرسری کے مالک نے انھیں دو تلسی کے پودے دیئے۔ بچے خوشی خوشی نرسری میں یہاں وہاں ایک دوسرے کی تصویریں کھینچتے کھنچواتے رہے۔ ڈاکٹر راحین نے انھیں بتایا کہ گیٹ کے سامنے بنا ہوا چھوٹا سا مکان فارم ہاؤس ہے۔
لوٹتے ہوئے پروانہ کو اس کے گھر چھوڑنا تھا۔ انتظار میں گھر کی چوکھٹ پر بیٹھی پروانہ کی نانی انھیں دیکھ کر ہاتھ ہلا نے لگیں۔
’’کھانا کھا کر جایئے ڈاکٹر صاحب!‘‘ پروانہ نے کار سے اترتے ہوئے کہا۔
’’اور تم کیا کھاؤ گے؟‘‘
’’ہم پھر بنا لیں گے۔‘‘ اس نے خلوص کے ساتھ کہا۔ ڈاکٹر مسکرائیں اور پروانہ کو اگلے دن اپنی ڈسپنسری بلا لیا۔ تبھی کار کی کھڑکی پکڑ کر کھڑی ہوئی پروانہ کے اوپر آسمان سے پانی کی کچھ بوندیں گریں۔ اس نے سر اٹھا کر پہاڑوں سے گزرتے ہوئے بادلوں کی طرف دیکھا۔ چند بوندیں اور اس کے چہرے پر گریں۔ اس نے ہتھیلیوں کو بے ساختہ پھیلا دیا۔ سوکھی ہتھیلیوں کو ٹھنڈی بوندیں سکون دینے لگیں۔ اُنہی اٹھے ہوئے ہاتھوں سے اس نے ڈاکٹر راحین کے بچوں کو ’بائے ‘ کہا اور کار یو ٹرن لے کر کرجت کی طرف مڑ گئی۔
٭٭٭
دیوار گیر پینٹنگ
صدف نے اپنی ماں کے گھر کے اِس ایک چھوٹے سے کمرے کو اپنا آشیانہ مستقل طور پر بنا رکھا تھا، وہ تھی اور اس کی تنہائی، جس میں مخل ہونے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔ بس آوارہ سوچیں ہی چپکے سے چلی آتیں اور ہولے ہولے باتیں کرتی ہوئی اس کے دل و دماغ پر چھا جاتیں اور وہ گھنٹوں آنکھیں بند کئے ماضی کے جھروکے میں جھانکتی رہتی یا سامنے دیوار پر لگی ساحلِ سمندر کی پینٹنگ کو دیکھتی رہتی۔ غم کے سمندروں کی بے پناہ موجوں کے تھپیڑوں سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ جذبات کی شدت نے اس کے اندر ایک ہلچل سی مچا دی تھی، لیکن باہر خاموشی تھی۔
اُف! وہ محبت کے دن اور راتیں!
آخر کہاں، کیا غلطی ہو گئی! اس نے تو اپنے جامِ محبت کا ایک ایک قطرہ جواد کو پلا دیا تھا! جواد کی شدّتِ محبت سے تو وہ بعض اوقات گھبرا اٹھتی تھی۔ کیا یہ سب بناوٹ تھا یا وقتی لگاوٹ!
زندگی میں کیا نہیں تھا!
’’ باجی! بھائی جان باہر کھڑے ہیں۔ اندر بلا لوں؟‘‘ چھوٹی بہن نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’تم میرے لئے چائے بنا لاؤ گی، مینو؟ سخت سر درد ہے۔‘‘ صدف نے کہا اور مینو مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی گئی۔
… یادیں … صرف یادیں … وہ کھو سی گئی … سمندر کی لہر جیسے ایک شور کے ساتھ اٹھی تھی اور اسے شرابور کر گئی تھی۔
کال بیل بجی تھی۔
صدف نے مسالہ لگا ہوا چکن کا تسلہ ملازمہ کے ہاتھ سے لے کر بڑے سے کچن کے بیچ کچن ٹیبل میں بنے کوکنگ رینج پر رکھ دیا اور اسے دروازہ کھولنے کے لئے بھیج دیا۔ گو یہ خلافِ عادت تھا مگر وہ نہیں چاہتی تھی کہ اپنے جذبات کا اظہار فی الفور کرے۔ جواد پیچھے سے آ کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لے گا۔ کار کا ہارن سننے کے باوجود دروازے پر موجود نہ رہنے کی شکایت کرے گا اور وہ اس کے چوڑے چکلے سینے میں سر چھپا کر دو جہان سے بیگانہ ہو جائے گی … مگر یہ سب کچھ نہ ہوا۔ کوکنگ رینج پر لگی چِمنی، کوُکر کی بھاپ کو بے آواز اپنے اندر جذب کر رہی تھی۔
خواب گاہ سے کھٹ پٹ کی آوازیں مسلسل آ رہی تھی۔ صدف کے اداس سے چہرے پر کچھ اور اداسی چھا گئی۔ صدف نے چولہا بند کر دیا، سِنک میں ہاتھ دھو لئے اور کچن سے باہر آ گئی۔
خواب گاہ میں جواد دیوار میں لگی شیلف کی ساری کتابیں زمین پر ڈھیر کرتا جا رہا تھا۔
’اب وہ چلے جائیں گے اور مجھے گھنٹہ بھر ہر چیز سلیقے سے لگانے میں لگ جائے گا۔ ‘، وہ جواد کے قریب جا کھڑی ہوئی مگر اس نے صدف کی جانب نظر ڈالے بغیر ہی کہا، ’’صدف پلیز ذرا نیلا لفافہ ڈھونڈھ دو نا!‘‘
’’کون سا لفافہ؟‘‘
’’وہی جو آج صبح کی ڈاک سے آیا تھا۔ کینڈا سے بھئی! اور کیا تم نے ٹکٹ نکال لئے تھے؟ یہیں تو کسی کتاب میں رکھا ہے … ہاں یہیں تو!‘‘
صدف نے جھٹ تکیہ کے نیچے سے کتاب نکال کر جواد کے ہاتھ میں تھما دی، ’’اسی میں نا!‘‘
’’تم اسے بستر کی زینت بنائے ہوئے ہو اور میں آدھے گھنٹے سے یہاں اپنا دماغ خراب کر رہا ہوں۔‘‘ جواد قدرے چِڑ سے بولا تھا۔ صدف نے کچھ نہ کہا۔ یہ بھی نہیں کہ، ’ جناب آپ ہی نے تو یہ کتاب شیلف سے اتار کر چند سطریں پڑھیں اور پرے ڈال کر چلے گئے تھے۔ ‘
وہ کمرے سے نکل آئی۔ اس کے قدم بھاری ہو گئے تھے اور اپنے ہی قدموں کی چاپ سے محسوس ہو رہا تھا جیسے جواد سِلپر گھِسٹتا پیچھے چلا آ رہا ہو، اسے منانے کے لئے۔ ایک بار تو اس نے پلٹ کر دیکھا بھی۔ اسے مایوسی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔
’’سنو صدف میں ایک ضروری میٹنگ میں جا رہا ہوں۔ تم کھانا کھا لینا۔‘‘ سینٹ کی تیز خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔
’’کب تک واپسی ہے؟‘‘ اس نے پلٹ کر دیکھا، ’اچھا تو جناب کو ایسی زبردست تیاری میں اتنی دیر لگی۔ کہتے تھے، صدف، میں ہمیشہ تمہاری پسند کے لباس پہنا کروں گا۔ یوں ہی اس شوخ شوخ لباس میں خوشبوئیں اڑائے کسی پر بجلی گرانے جا رہے ہو؟‘
مگر اس نے کچھ کہا نہیں۔
’’بس دس بج ہی جائیں گے۔‘‘ جواد نے جیب سے رومال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھا۔
’’میں کھانے پر انتظار کروں گی۔‘‘
’’ذرا سمجھو صدف وہاں ڈنر ہے!‘‘
’’اچھا۔‘‘
صدف نے مسالہ لگا چکن اٹھا کر فرج میں رکھ دیا، ’اب اکیلی جان کے لئے کون بکھیڑے کرے!‘ اپنے کو مصروف رکھنے کے لئے اس نے وقت سے پہلے ہی کھچڑی اور دال بنا لی۔ بیڈ روم میں بکھری کتابیں اور کپڑے سلیقے سے رکھے اور ڈرائنگ روم میں ریڈیو آن کر کے بیٹھ گئی۔ کچھ سوگوار سے گیت بج رہے تھے۔ اس نے گھبرا کر ریڈیو بند کر دیا اور اپنی انگریزی کہانیوں کی کتابیں لے آئی۔ کچھ دیر کامکس الٹتی رہی۔ پھر ’ایسوپس فیبلس‘ نکال کر بیٹھی مگر ان ساری کتابوں میں بنی تصویروں میں اسے صرف اور صرف سوہنی نظر آ رہی تھی۔
سوہنی کو پہلی بار اس نے پارٹی میں دیکھا تھا جو ان کی شادی کی خوشی میں اسٹاف کو دی گئی تھی۔ سفید چمکیلی ساڑی میں سفید نقلی کنکروں کے آویزے، کنگن، نیکلیس اور بریسلیٹ، سفید سینڈل اور اسی کے ہم رنگ وہ خود۔ جیسے آکاش سے کوئی اپسرا دھرتی پر اتر آئی ہو۔ میک اپ اور ہیئر اسٹائل کا سلیقہ کوئی اس سے سیکھے! سوہنی سے مل کر تو صدف اداس ہی ہو اٹھی۔ خوبصورت اِٹھلاتی ہوئی یہ بلا جواد کی سکریٹری تھی اور اسے، ’’منیجر صاحب!‘‘ یا، ’’سر‘ کہنے کی بجائے ’جواد‘ کہہ کر مخاطب ہو رہی تھی۔ اسٹاف میں اور بلاؤں کی کمی نہ تھی مگر یہ تو جان لیوا بلا ایمان لیوا تھی۔ کمبخت چھوٹا سا بغیر آستین کا بلاؤز اور جارجیٹ کی پِرنٹ والی ساڑی پہنے قیامت ڈھاتی پھر رہی تھی۔ اور آج!
آج سوہنی اس کے گھر کس بے تکلفی سے چلی آئی تھی۔ وہ صوفے پر یوں براجمان تھی جیسے اس کا اپنا ہی گھر ہو۔ صدف گنگ رہ گئی۔ وہی یہاں وہاں کی ہانکتی رہی۔
’’بھئی صدف میں تو یہ دیکھنا چاہتی تھی، اس روز پارٹی میں تمہارا حسن کسی بیوٹی پارلر کا کمال تھا یا تم اُتنی ہی خوبصورت ہو!‘‘ سوہنی نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا، اس نے اپنی نیلی جینس پینٹ پر پہنی چھوٹی سی شرٹ کو سیدھا کیا اور تپائی سے رسالہ ’’اکنامک ٹائمس‘‘ نکال کر اسے دیکھنے لگی۔ صدف کا ہاتھ اپنے بکھرے بکھرے گھنگھریالے بالوں پر چلا گیا۔
’’ویسے شادی سے پہلے جواد نے بڑے دعوے کئے تھے۔ کہتا تھا مجھ سے اچھی بیوی لائے گا۔‘‘ سوہنی نے مسخرانہ قہقہہ لگایا۔، ’’کہتا تھا۔۔ ۔۔‘‘ صدف چونکی۔
’’بھئی ہم نے تو جواد کو کبھی باس نہیں سمجھا۔۔ ۔ بس اِسے جواد کی پالیسی ہی سمجھ لو۔‘‘ سوہنی نے دیدے نچائے اور معنی خیز انداز میں بولی، ’’ … ۔ اور ہم تو بہت ہی فری رہتے ہیں۔ بڑا خوش مزاج آدمی ہے۔ تم تو کچھ … ‘‘ اس نے شک کی نظروں سے صدف کو دیکھا، ’’تم کم گو ہو یا احساسِ کمتری کی شکار؟ ہوں؟‘‘
صدف کا سانولا رنگ اور گہرا ہو گیا۔ سوہنی نے ہاتھ میں پکڑا ہوا رسالہ تپائی میں رکھ دیا پھر دوسرا رسالہ اٹھاتے ہوئے بولی، ’’اہا! ریڈرس ڈائجسٹ بڑی اچھی میگزین ہے۔ میں تو ایک ہی دن میں چاٹ جاؤں۔ تم نے کتنی پڑھ لی؟‘‘ پھر زور سے ہنس دی۔ ’’کافی نہیں پلاؤ گی؟‘‘
صدف اٹھنے لگی۔
’’ویسے میں یہی بتانے آئی تھی کہ آج شام کی پارٹی میں ضرور آ رہی ہوں، جواد سے کہہ دینا۔ اس نے بہت اِسرار کیا تھا۔ برا مان جائے گا۔ آں ہاں … اور میں گلابی شِفان کی ساڑی پہنوں گی۔ وہی برتھ ڈے پریزینٹ والی۔ جواد کو بہت پسند ہے۔‘‘ سوہنی نے جسم کو ذرا خم دے کر اپنا موبائل پینٹ کی جیب سے نکالا اور بولی، ’’اس کا موبائل کوریج ایریا سے باہر آ رہا ہے۔‘‘
پینٹنگ کے ٹھیک اوپر لگے دیوار گیر کلاک نے 8 بجائے تو صدف نے شدید بھوک کے احساس کو جان لیا۔ نہ جانے کب سے … اور اس نے کچھ خیال ہی نہیں کیا۔ یوں بھی ناشتے میں پیٹ میں ہلکا سا درد رہنے کی وجہ سے اس نے مکھن ٹوسٹ پر ہی اکتفا کیا تھا۔ اس نے دال گرم کی اور نیم گرم کھچڑی کے ساتھ نوالے حلق سے اتارنے لگی۔ پیٹ آسودہ ہوا تو غنودگی اعصاب پر چھانے لگی۔ جانے کب تک وہ اسی عالم میں پڑی رہی۔ کال بیل کی ’پیہو پیہو‘ نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ اس نے ادھ کھلی آنکھوں اور خمار آلودہ چہرے کے ساتھ دروازہ کھولا۔ جواد نے گرم جوشی سے اسے تھام لیا۔
’’مبارک ہو صدف! ہماری کمپنی کو کینیڈا کا آرڈر مل گیا۔‘‘ جواد جوش میں جانے کیا کیا کہتا رہا۔ وہ تو اس کے چہرے پر اُس مسرت کی جھلک محسوس کر رہی تھی جو آدم کو گیہوں کھانے پر ہوئی ہو گی! کل سوہنی نے یہی کہانی تو اسے سنائی تھی۔
’’ارے بھئی! ذرا مسکراؤ تو! ۔۔ ۔ آؤ ناچیں، گائیں، دھوم مچائیں … ‘‘ جواد نے بڑھ کر ٹیپ ریکارڈر پر میٹھی سی انگریزی موسیقی لگائی اور صدف کا بازو تھام کر تھرکنے لگا۔ صدف کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے جواد سے اپنا بازو چھڑا لیا اور صوفے کی پشت پر سر ٹیک دیا۔ جوا دبھی ٹیپ بند کر کے اس کے قریب بیٹھ چکا تھا۔
’’کیا ہوا صدف!‘‘ اس نے جیسے ہوش میں آتے ہوئے پوچھا، ’’شاید تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔ بتاؤ نا کیا ہوا!‘‘
مگر وہ آنکھیں بند کئے رہی۔ پلکوں کے کنارے لرز لرز کر آنسوؤں کو بہنے سے روکنے کی ناکام کوششیں کرتے رہے۔
’’صدف!‘‘ جواد نے دھیرے سے پکارا، ’’ کیا بات ہے؟ بس یہی بات مجھے اچھی نہیں لگتی۔ تمہاری کم گوئی۔ کچھ اگلتی ہی نہیں۔ میں ٹھہرا پرلے درجے کا باتونی ہنسوڑ اور تم … !‘‘
’’تو پھر سوہنی ہی سے شادی کیوں نہ رچائی؟؟‘‘ صدف نے تڑپ کر آنکھیں کھولیں۔
’’تم تو جانتے ہی تھے، میں غریب ہوں۔ بہت پڑھی لکھی بھی نہیں۔ نہ میں خوبصورت ہوں نہ گوری چِٹّی۔ نہ آپ کے ساتھ ناچ سکتی ہوں نہ فیشن کے سلیقے سے واقف ہوں۔ پھر مجھ پر کرم کیوں کیا! ہاں سوہنی … ہاں سوہنی کو شریکِ حیات بنا لیتے تو وہ نئے زمانے کے ساتھ ساتھ تم سے قدم ملا کر چلتی۔ کیوں بیاہ لائے مجھے؟ کہو کیوں مجھ پر احسان کیا؟‘‘
جواد نے آتش فشاں بہہ جانے دیا۔ پھر سنبھل کر نرمی سے پوچھا، ’’ڈیئر تم نے سوہنی کا نام لیا۔ شوبھنا کا کیوں نہیں لیا؟ مدھو یا دیویکا کے بارے میں ایسا کیوں نہیں کہا؟‘‘
’’کیوں کہ سوہنی تمہاری پسند کے کپڑے پہنتی ہے۔ تمہارے ساتھ ڈنر پارٹی میں جاتی ہے اور شاید … شاید میرے آنے سے پہلے اِس گھر میں کئی بار آ چکی ہے!‘‘
’’کیا سوہنی نے تمہیں یہ سب بتایا ہے یا محض قیاس آرائیاں … ؟‘‘
’’میں قیاس آرائیاں کیوں کروں؟ تم ٹھہرے خوبصورت نوجوان۔ مجھ سی سانولی، گنوار، معمولی شکل کی لڑکی سے کیسے نباہ ہو … ! چاہو تو اب بھی مجھے ماں کے پاس بھیج دو۔‘‘
اس کے آنسو بہنے لگے۔
’’تم لڑکیوں کو دھمکی دینے کا یہی حربہ آتا ہے۔‘‘ جواد نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’میں سمجھ گیا ہوں۔ میں نے جو کتابیں لا کر دی ہیں، انھیں پڑھنے کے بجائے تم سارا دن پڑے پڑے اپنا دماغ خراب کرتی ہو۔ کہا تو ہے، نہ ہو تو پینٹنگ ہی کر لیا کرو، سیکھا ہوا تو ہے۔ بیکار دماغ شیطان کا گھر۔‘‘ جواد سر ہلاتے ہوئے مسکرایا۔
’’تو آپ سمجھتے ہیں، میں بچی ہوں۔ کچھ سمجھتی ہی نہیں!‘‘
نہیں بھئی! اب تم بچی کہاں رہیں۔ پوری عورت ہو۔ ایک عدد شوہر پر حق رکھتی ہو۔ شک کرنا بھی تمہارا ہی حق ہے بلکہ پیدائشی حق۔‘‘ وہ مزے لے لے کر بولا۔
’’اپنی غلطی کو شک کے پردے میں چھپانے کی کوشش نہ کیجئے جناب! سوہنی نے مجھے خود بتایا ہے۔‘‘ صدف نے پورے اعتماد سے کہا۔ وہ سنجیدہ ہو گیا۔
’’ہاں!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’آپ کو بتاؤں کہ آپ کی ضد پر وہ آج کی پارٹی میں جانے کے لئے رضامند ہوئی تھی اور ہاں! اس نے وہی گلابی ساڑی پہنی ہو گی نا جو اسے سالگرہ پر تحفے میں ملی تھی اور شاید آپ نے ہی دی تھی! آپ کو وہ ساڑی پسند بھی تو بہت ہے نا!‘‘ لہجے میں بھرپور طنز کی کاٹ تھی۔
’’پگلی! وہاں اتنے سارے کمپنی کے لوگ آئے ہوئے تھے، اُس جگہ کمبخت سکریٹری کا کیا کام!‘‘
’’اور ڈنر پارٹی!‘‘
’’اب کمپنی کی طرف سے تو انھیں ڈنر دینا ہی تھا۔ پھر اختر اور ارون جیسے قابل ماتحتوں کے ہوتے مجھے سوہنی کو ہی لے جانا تھا!‘‘
اب جھوٹ پر اتر آئے نا! میں سب سمجھتی ہوں۔ اگر تمہاری شہ نہ ملی ہوتی تو وہ میرے گھر آ کر مجھے یوں ذلیل نہ کرتی!‘‘ صدف کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
’’کیا کہا اس نے؟‘‘ جواد نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’اس نے میرے کم پڑھا لکھا ہوا ہونے پر طنز کیا۔ میری معمولی رنگت پر طعنے کسے۔ میرے سامنے آپ کے بارے میں تو تڑاخ کرتی ہے! یہ سب کچھ کم ہے؟‘‘
’’اُف کمبخت!‘‘ جواد کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
’’ایک بات اور بتاؤ مجھے، کیا شادی سے پہلے وہ یہاں آیا کرتی تھی؟‘‘ جواد کو ہنسی آ گئی۔
’’اِس میں ہنسنے کی کون سی بات ہے؟‘‘ اس نے چڑ کر پوچھا۔
’’شادی سے پہلے کی پوچھ رہی ہو نا! اسی لئے ہنسی آ گئی۔ خیر وہ یہاں آ چکی ہے۔‘‘
’’وہ تومیں جانتی ہی تھی۔‘‘
’’پچھلے برس جب میں یرقان کو اسپتال میں چھوڑ کر مہینے بھر بعد گھر لوٹا تو صحت یابی کی خوشی میں مجھے پارٹی دینی ہی پڑی۔‘‘
’’سوہنی کو؟‘‘ صدف نے عجلت سے پوچھا تو اسے پھر سے ہنسی آئی۔
’’نہیں بھئی! پورے اسٹاف کو! میری پالیسی ہی ہے کہ اسٹاف سے دوستانہ ماحول میں کام لوں بس!‘‘
’’مگر وہ تو بے دھڑک گھر میں یوں گھس آئی جیسے برسوں یہیں گزارے ہوں۔‘‘
’’اُف صدف! خدا کے لئے کچھ تو سمجھنے کی کوشش کرو۔ جواد نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ صدف سہم کر اس کا منہ تکنے لگی۔ پھر وہ نرمی سے گویا ہوا، ’’ سمجھنے کی کوشش کرو، صدف! آفس کی لڑکیاں ایک امیر باپ کے خود مختار بیٹے پر ڈورے نہیں ڈالیں گی کیا؟پھر سوہنی نے تو جیسے عہد ہی کر لیا تھا کہ یہ مہم سر کر کے رہے گی۔ ڈیڈی بھی کچھ کچھ راضی تھے مگر میں راضی نہ ہوا کیوں کہ چاہے میں کتنا ہی خوش مزاج کیوں نہ ہوں، ماڈرن اسٹاف میں رہتا ہوں، مگر بیوی کے متعلق میرا نظریہ بالکل مختلف رہا ہے۔ مجھے تتلی نہیں چاہئے تھی جو پھولوں کی خوشبو پر منڈراتی پھرے۔ مجھے ایک محبت کرنے والی بیوی چاہئے تھی، جو صرف اور صرف میری ہو۔ سیدھی سادی گھریلو عورت، جس پر میں پورا پورا حق جتا سکوں اور جو مجھ سے بھی اپنا حق منوا سکے مگر تم … ‘‘
وہ حیران ہو کر دیکھنے لگی۔
’’تم میری قدر نہیں کر سکیں صدف! شادی کو ایک سال ہو گیا۔ تم کو میں نے اپنی جان بنا لیا ہے مگر اب بھی تم مجھے اپنا نہیں سمجھتیں … یا پتہ نہیں کیا سمجھتی ہو!‘‘
صدف نے دکھ کے ساتھ شوہر کی طرف دیکھا۔ وہاں بھی آنکھیں بوجھل تھیں۔
’’تم نے مجھے مجازی خدا تو مانا، شوہر نہیں مانا، دوست نہیں مانا، ہے نا! ورنہ سوہنی کی چال پر یوں پریشان نہیں ہوتیں۔ وہ جانتی تھی، تم ایک اندر ہی اندر گھُٹنے والی لڑکی ہو۔ کسی سے دل کی بات نہیں کہو گی۔ اپنے شوہر سے بھی نہیں۔ بات صاف نہیں ہو گی۔ تم مجھ سے کھِنچو گی … میں تم سے … اور اس کا کام بن جائے گا۔‘‘ وہ مسکرایا مگر اس کی مسکراہٹ تھکی تھکی تھی، ’’مگر افسوس اس کی چال ناکام رہی۔ آج یہ جوالا مکھی پھٹ ہی پڑا! پگلی! پیار بھی کہیں چھُپتا ہے! اور ہاں۔۔‘‘ وہ شوخی سے بولا، کون کہتا ہے تم خوبصورت نہیں؟ میری نظر سے کوئی دیکھے تو اِس تیکھی تیکھی متوالی ناگن کو، جس کی شخصیت قیمتی ملبوسات اور نقلی رنگوں سے نہیں، پیار کے رنگوں سے … ‘‘
’’اور یہ پینے پلانے کا ڈھنگ۔!‘‘
’’اب صرف تمہاری محبت کا نشہ … تم … میری جان۔۔!‘‘
مگر صدف نے آگے کچھ نہ سنا۔ وہ تو دوڑ کر خواب گاہ کے دروازے کی کُنڈی چڑھا چکی تھی۔
شادی کے ابتدائی پانچ برس کتنے خوبصورت تھے … خوبصورت اور رنگین پنکھوں والے مور جیسے … پھر کیا ہوا اگلے دو سالوں میں … صدف کہاں سمجھی … وہ اپنے آپ میں مطمئن … گھر سنسار سنبھالے ہوئے تھی۔ شوہر کے ساتھ قدم سے قدم ملائے کمپنی کی پارٹیوں میں بڑے پُر وقار ڈھنگ سے چلنا، انگریزی طرز سے کھانا کھانے کا انداز … لوگوں سے رکھ رکھاؤ کے ساتھ باتیں کرنے کا انداز … جواد نے اسے وہ سب کچھ سکھایا تھا، جو اس کے طبقہ کی تہذیب کا حصہ تھا۔
جواد موبائل کے انٹرنیٹ پر عجیب و غریب فلم دکھانے کی کوشش کرتا۔ عجیب و غریب نوجوان، عجیب سی حرکتیں۔
’’یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔۔ مجھے نا پسند ہے!‘‘
’’کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں ہوتا؟‘‘ صدف نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا۔
’’کیا کر رہا ہوں؟ فلم دیکھ رہا ہوں۔۔ ۔ تمہارے ہی پاس ہوں نا! تمہیں سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
’’مگر۔۔!‘‘
’’کچھ نہیں ہوتا یار! ۔۔ تم بھی دقیانوسی ہی رہو گی۔ آؤ تم بھی بیٹھو میرے پاس۔‘‘
’’اس میں مرد بھی ہیں! میں انھیں دیکھوں؟۔۔ ۔ نہیں‘‘
’’پھر مجھے دیکھنے دو۔‘‘
صدف کا موڈ اکھڑ گیا۔
’’او کے جیسا تم کہو۔‘‘ جواد نے اس کی زلفوں کو سمیٹا۔
’’آپ نے پھر پی ہے؟‘‘ وہ پرے ہٹ گئی۔
’’ہاں ذرا سی۔ تھوڑا سا خمار ہے۔‘‘
’’کیوں ہماری محبت میں خمار نہیں؟‘‘ اس نے لُبھاؤنے انداز میں کہا۔
’’کیوں نہیں! مگر تم نے نہیں سنا، سات سال بعد کیسا محسوس ہوتا ہے؟‘‘
’’ وہ کیا ہے؟‘‘
’’ارے تم نہیں سمجھو گی۔ مردوں والی بات ہے۔ بس اتنا سمجھ لو … بوریت سے بچنے کے لئے!‘‘
’’ارے! اس وقت دروازے کی گھنٹی کیسے بجی؟‘‘ اس نے اپنے کو بچاتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں تو! تمہارے دماغ میں بجی ہے۔ خطرے کی گھنٹی۔۔‘‘ جواد نے قہقہہ لگایا۔
’’آج کل تم الجھی الجھی سی کیوں رہتی ہو؟‘‘ جوا دبزنس ٹور سے لوٹا تھا، ’’ محسوس کر رہا ہوں، صدف! تم ذرا پریشان سی رہنے لگی ہو!‘‘
’’نہیں تو!‘‘ مگر اسے پتہ تھا وہ جھوٹ بول رہی تھی۔ جواد کی روز روز کی شراب نوشی اسے گھُلائے جا رہی تھی۔
’’خوش رہو یار! ہنستی مسکراتی … ورنہ میں بور ہو جاتا ہوں۔‘‘
’’اوکے جی!‘‘
’’اچھا! تین حرفوں میں نپٹا دیا مجھے؟‘‘
’’نہیں تو!‘‘
’’اور یہ کپڑے اب نہ پہنو۔ پرانے ہو گئے ہیں۔ کسی کو دے دو … اپنی دھوبن کو دے دو!‘‘ جواد نے اس کی ہڑبڑاہٹ سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
’’دھوبن!‘‘
’’ہاں۔‘‘ صدف کی آنکھوں میں دھوبن کا سراپا ڈول گیا۔ ڈولتی مٹکتی دھوبن عمر کی ایسی منزل پر کھڑی تھی، جہاں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی۔ صدف کی آنکھیں دھوبن کی یاد سے خیرہ ہو گئیں۔ ایسا تو اس نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا۔
’’نہیں بھئی، میں تو یوں ہی کہہ رہا تھا۔ تم جس کو چاہو دے دو۔ او کے!‘‘
’’گُڈ ہسبینڈ۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’اچھا آؤ میرے قریب۔‘‘ جواد نے اس کی گردن پر اپنے بازوؤں سے زور ڈالا۔
آج پھر آپ نے۔۔ ۔‘‘
’’ہاں پی ہے۔ تم ہمیشہ گھر کے کام کروانے میں لگی رہتی ہو یا گھریلو باتوں میں۔‘‘
’’نہیں تو … !‘‘ وہ بوکھلائی۔
’’تو پھر اپنی اس سہیلی کے بارے میں بتاؤ، کیا نام ہے اس کا … ارے وہی جو بینک میں جاب کرتی ہے، ثانی … ثانی … ہاں کیا کہتی ہے وہ؟‘‘ اس نے چھیڑا۔ صدف کو بُرا لگا۔
’’ذرا ہٹئے … ‘‘ اس نے جواد کی بانہوں کے حصار سے نکلنا چاہا۔
’’نہیں۔ نخرے مت کرو۔ آؤ ہمارے نشے کو دوبالا کرو۔‘‘
’’ہٹتے ہو یا … ‘‘ صدف نے زور لگایا۔
’’کیا کرو گی؟ مارو گی … لو تمہارے ہاتھ بھی باندھ دیئے۔‘‘ اس نے اپنے بائیں ہاتھ سے صدف کے دونوں ہاتھوں کو دبوچ لیا۔
’’یہ کیا زبردستی ہے؟‘‘ اسے غصہ آ گیا۔ ’’بیوی سے زبردستی نہ کروں تو کس سے … ؟‘‘
’’بس بس … ‘‘ صدف کو لگا جیسے وہ کوئی نام زبان پر لانے جا رہا ہے، ’’آپ ہوش میں نہیں۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگ رہا ہے۔‘‘
’’کیوں اور کس لئے ہو تم؟ کیا لگتا ہے تمہیں … ؟‘‘ جواد نے اس کی زلفوں میں اپنا سر جھکا لیا، ’’کس لئے بیاہ کر لائے ہیں تمہیں؟‘‘
’’زبردستی کرنا غلط ہے!‘‘
’’تمہاری پولیس والی دوست، گیتا پانڈے کہتی ہے کیا؟‘‘
ہاں … تو؟ … یہ جبر ہے۔‘‘
’’ہاں! اور اس قانونی جرم کرنے سے … خود کو بچا لو مجھ سے … ‘‘ جواد کا چہرا قریب آیا تو انگریزی شراب کی بو سے پریشان ہو کر صدف نے اپنا منہ موڑ لیا۔
’’میرا نشہ مت اتارو، جان!‘‘
’’آپ کو میں نشے میں ہی کیوں یاد آتی ہوں؟ ہر بار نشے میں … نہیں اب نہیں!‘‘
’’تمہارے پاس آنے کے لئے ہی تو ذرا سی پی لیتے ہیں۔‘‘
’’اور … اور … ‘‘ خود کو جواد کی مضبوط گرفت سے چھڑانے کی کوشش میں وہ ہانپنے لگی تھی، ’’ مجھے نفرت ہے … ‘‘
’’مجھ سے؟‘‘
’’ہاں جب آپ پئے ہوئے ہوتے ہیں، کیا وہ یاد آتی ہے؟‘‘
’’ہا ہا ہا! … ‘‘
’’سچ کہنا!‘‘ جواد کی ہنسی نے اس پر وحشت طاری کر دی تھی۔
’’آئی بھی تو کیا کریں! وہ تو شادی کر کے چلی گئی۔‘‘
صدف کو بہت غصہ آیا۔ ’’تو بازار میں اور بھی ہوں گی نا!‘‘
’’ہاں ہیں تو! … مگر تم … ؟‘‘ وہ پھر ہنسا، ’’جاؤں وہاں؟ … اور تم؟ … تم کیا کرو گی۔ کسی اور کے پاس چلی جاؤ گی، جو ہوش میں تم سے پیار کرے گا … ؟۔۔ طلاق دے دوں؟ … ہا ہا ہا!‘‘
’’ہر بار طلاق کی بات سے آپ مجھے ڈرا نہیں سکتے۔‘‘
جواد نے اسے بُری طرح گھسیٹا۔ صدف کی ہلکے پیازی رنگ کی ریشمی ساڑی کا پلُّو خوبصورت سے پِن کے ساتھ اس کے کندھے سے اُکھڑ گیا۔ اس کا جوڑا کھُل گیا اور جواد کے کف لنک میں الجھ گیا۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
’’آؤ نا سوہنی! … ‘‘ جواد کے منہ سے نکلا۔ کشمکش میں اس کے ہاتھوں سے صدف کا ہاتھ چھوٹ گیا۔
’’سوہنی؟؟‘‘ پوری طاقت لگا کر اس نے جواد کے دائیں گال پر طمانچہ جڑ دیا۔ فوری ردِّ عمل ہوا۔ جواد نے ہاتھ اٹھایا مگر اس نے اسے پورے زور سے پرے ڈھکیلا۔ دھپ کی آواز کے ساتھ وہ خوبصورت اسٹینڈ پر رکھے ٹی وی سیٹ کے ساتھ زمین پر آ گرا۔ وہ اس کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھی۔
’’ہر بار صرف ڈراتا ہوں نا!‘‘
’’طلاق طلاق طلاق‘‘ اچانک جواد کے منہ سے نکلا۔ اس نے احساسِ ندامت سے بھی آنکھیں موند لیں۔ نیند اور نشے کے غلبے نے اسے دبوچ لیا تھا۔
صدف نے اپنی ماں کے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے کو اپنا آشیانہ مستقل طور پر بنا رکھا تھا۔ وہ تھی اور اس کی تنہائی، جس میں مخل ہونے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔ بس آوارہ سوچیں ہی چپکے سے چلی آتیں اور ہولے ہولے باتیں کرتی ہوئی اس کے دل و دماغ پر چھا جاتیں اور وہ گھنٹوں آنکھیں بند کئے ماضی کے جھروکے میں جھانکتی رہتی۔ غم کے سمندروں کی بے پناہ موجوں کے تھپیڑوں سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ جذبات کی شدت نے اس کے اندر ایک ہلچل سی مچا دی تھی لیکن باہر خاموشی تھی۔
’وہ باتیں، وہ یادیں۔ وہ محبت کے دن اور راتیں!‘
آخر کہاں، کیا غلطی ہو گئی! اس نے تو اپنے جامِ محبت کا ایک ایک قطرہ جواد کو پلا دیا تھا! جواد کی محبت کی شدت سے بھی تو وہ بعض اوقات گھبرا اٹھتی تھی۔ کیا یہ سب بناوٹ تھا یا وقتی لگاوٹ!
زندگی میں کیا نہیں تھا!
ڈھلی ڈھلائی بیوی … سکون سکون … سکون
کیا یہی مصیبت تھی
نہ بچے کی کی کلکاریاں، نہ بیوی کی نوک جھونک
مگر’ بچہ نہیں چاہئے ‘، کی ضد تو جواد ہی کی تھی۔
’’ باجی! بھائی جان باہر کھڑے ہیں۔ اندر بلا لوں؟‘‘ بہن مینو نے جھجکتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’تم میرے لئے چائے بنا لاؤ گی، مینو؟ سخت سر درد ہے۔‘‘ صدف نے کہا تھا اور وہ مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی گئی تھی۔ وہ ابھی ابھی گھاٹکوپر سے لوٹی تھی، جہاں وہ ٹائپسٹ کی نوکری کرتی تھی۔ جواد کبھی اس طرف آتا نہیں تھا۔ صدف اس کے دوست کی بہن کی سہیلی تھی۔ سیدھی سادی گھریلو لڑکی۔ دوست ہی نے کوشش کر کے اس کی شادی کروائی تھی۔ شادی ان کے گھر کے قریب ہی باندرہ بینڈ اسٹینڈ پر واقع پانچ ستارہ ہوٹل ’تاج لینڈس اینڈ‘ میں ہوئی تھی۔ آج پتہ نہیں وہ کس طرح وکھرولی کے کنّامور علاقے میں چلا آیا تھا۔ یہ علاقہ ایسٹرن ایکسپریس ہائی وے سے بس پانچ چھے منٹ کے فاصلے پر، ٹیگور نگر کے مقابل تھا۔ یہاں قطار سے ایک روم اور دو روم کچن کے گھروں والی عمارتیں تھیں۔ صدف کے والد کا یہ گھر گودریج کمپنی کے مزدوروں کی کالونی میں تھا۔ ’رولس روائز فینٹم کار کو بچّے چھو کر محسوس کر رہے ہوں گے!‘اس کے دل میں ہلکا سا خیال آیا، جو دوسرے ہی لمحہ کہیں گُم ہو گیا۔
چائے پینے کے بعد کتنی ہی دیر وہ گم صم پڑی رہی، کہ اس کے کمرے کا دروازہ آہستہ سے چرمرایا۔ باہر ہال میں دیر تک انتظار کرنے کے بعد بغیر بلائے ہی جواد ندامت کے ساتھ کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔ اس کے آتے ہی خوشبو کا جھونکا صدف کی سانسوں کو مہکا نے لگا۔ صدف نے پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ وہ خود ہی کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے دھیرے سے موگرے کے پھولوں کی لڑیوں والا بڑے سے گولے کی شکل کا گُچھا بستر پر رکھتے ہوئے پاس ہی پڑے صدف کے بے حس ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’صدف!‘‘
’’میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ مجھ سے شراب کے نشے میں ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی۔‘‘
وہ گم صم پڑی رہی۔
’’کیا اس غلطی کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا؟‘‘
وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی۔ سامنے مجنوں سی صورت لئے وہ بیٹھا تھا۔ داڑھی بڑھی ہوئی، بے سلیقہ کپڑے، اس پر ترس آیا کہ نفرت ہونے لگی! اس نے سوچا، مگر کچھ ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آیا۔
’’ازالہ کہتا ہے۔۔ ایک شادی اور پھر طلاق … تین دنوں کی ہی تو بات ہے۔ کیوں؟ پھر میرے پاس لوٹ آؤ گی۔‘‘ ایک لمحہ اذیّت سے بھرا ہوا جواد پر گزرا، ’’سوچ سکتی ہو ایسا کہتے ہوئے کسی مرد کی انا کیسے چوٹ کھائی ہو گی! … مجھ سے کیسے … یہ سب … !‘‘ اس نے زہر کے ایک بڑے سے گھونٹ کو جیسے حلق سے اتارا۔
’اور مجھے … ؟ میری انا؟ … کیا جائیداد کی منتقلی ہو رہی ہے!!‘، صدف کے لب پھڑپھڑائے، آواز چاہ کر بھی نہ نکلی اس نے پلکیں زور زور سے جھپکائیں اور جذبات چھُپ گئے۔
’’اچھا ایسا کرتے ہیں، سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ویسے بھی وہ سب نشے میں اور غصے میں … صحیح طریقے سے تھوڑے ہی ہوا تھا۔ کچھ نہیں ہوا۔ چلو گھر چلیں۔‘‘
’’صدف! کچھ تو سوچو اپنی اور میری محبت کا کچھ تو خیال کرو۔ یوں پتھر کی بے جان مورت نہ بنی رہو!‘‘ اس کی خاموشی پر وہ تڑپ اٹھا۔
’’صدف! معافی مانگتا ہوں بابا!‘‘
’’تمہیں اپنا گھر یاد نہیں آتا؟‘‘ جواد نے کمرے کی دیوار پر لگی پینٹنگ میں سمندر کی نیلی لہروں پر کھڑی صدف کی فیملی فوٹو پرسرسری سی نظر ڈالی جس میں وہ بھی موجود تھا اور جو ان کی شادی کے موقعے پر کھینچی گئی تھی۔ ’’سمندر تمہیں پُکارتا نہیں؟‘ صدف کو سمندر کے قریب اپنا پندرہویں منزل کا ڈُپلے گھر یاد آ گیا۔ بڑے بڑے کمرے، نوکروں کا کوارٹر، ساری سہولتوں سے آراستہ اپنا ’سی ویو اپارٹمنٹس‘، جہاں اس نے سات سال گزارے تھے، اپنی بانہیں کھولے اسے بلا رہا تھا۔
مگر ایک لمبی چُپ تھی، جو اس کے ہونٹوں کو سئے دیتی تھی۔
’’ٹھیک ہے؟ وعدہ کرتا ہوں تمہاری مرضی کے خلاف کبھی مجبور نہیں کروں گا۔‘‘ سب کچھ یاد دلا کر جواد نے فیصلہ صدف پر چھوڑ دیا۔
’’کبھی کبھار اپنے ساتھ دو باتیں کرنے کا حق تو ہے نا۔ اوکے؟۔۔ ۔ پھر آتا ہوں؟ اوکے؟‘‘
وہ چپ ہی رہی۔ اپنی بات وہ کہہ چکا تھا، ’یہ نازک سی عورت اب انکار نہیں کر پائے گی! لوٹ ہی آئے گی۔ کیا کرے گی!‘، جواد نے سوچا، ’ دوبارہ رشتہ قائم کرنے کی شروعات تو ہو گئی۔ ‘
وہ اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔
صدف دیوار پر لگی سمندر کی پینٹنگ کے قریب اُٹھ آئی۔ آج اس میں جیسے ایک عجیب سی توانی پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے کی دیوارکے سہارے کھڑی الماری کے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ چہرے کے پیچھے وہی سمندر کی پینٹنگ۔ آج یہ لہریں کتنی نیلی ہیں! اس نے جھک کر پانی کو چھُوا۔ ہاں وہ سمندر کی نیلی لہروں پر کھڑی تھی۔ ’سی ویو اپارٹمنٹس‘ کے سامنے، سڑک کے اُس پار سمندر کے کنارے کی ریت میں، گھُٹنے گھُٹنے پانی میں۔ چہل قدمی کرتے لوگ، سمندر کے کنارے بڑے بڑے پتھروں پر بیٹھے دنیا جہان کی فکروں سے آزاد، اپنی دنیا میں مست دو چار نو جوان اور ادھیڑ عمر کے جوڑے اور دور بڑے جہاز اور ذرا قریب نظاروں کو خوبصورت بناتی ہوئی مچھیروں کی کشتیاں، بائیں جانب باندرہ ورلی سی لنک پُل پر آتی جاتی رنگ برنگی گاڑیاں کسی فلم کی چلتی ہوئی ریِل جیسی ہو گئی تھیں! صدف نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پھولوں کی گیند کو کھولا اور سمندر کے ایک کنارے سے دوسرے تک اسے بِچھانے لگی۔ اس نے آئینے سے نظر ہٹائی۔ پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ ہاں وہی تو تھی … وہ سمندر کنارے کی ریت پر بیٹھ کر گھروندہ بنانے لگی۔
٭٭٭
اِکنامِکس
دو دنوں کے بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ تیسرے دن بھی وہ گھر سے باہر نہیں نکلا لیکن شام کے وقت اس کے جی میں جانے کیا سمائی کہ بازار سے مٹھائی خرید لی اور اپنے خیر خواہوں سے ملنے چلا گیا۔ در اصل عمارت کے اس منزلے پر شہلا کا گھر سب سے آخری تھا۔ اختر ان کے پڑوس میں رہتا تھا۔ شہلا کی امی سے اس نے ماہانہ ٹِفن طے کر لیا تھا لیکن کبھی بے وقت اسے چائے کی ضرورت ہوتی تو زیادہ تکلف کئے بغیر ہی ان کے یہاں چلا آتا۔ بھنڈی بازار کے بوہری محلے کی شاندارسیفی مسجد کے پاس مختلف قسم کے پکوان کھانے والوں کی بھیڑ سی لگی رہتی ہے۔ ان کی چار منزلہ عمارت کے چھوٹے سے صدر دروازے میں پڑوس کی دوکان کی مٹن سینڈوِچ اور رول کی خوشبو کو وہ اکثر اپنی سانسوں میں بھر لیا کرتا مگر کھاتا نہ تھا کہ بازار کے کھانے سے اس کی طبیعت بگڑ جایا کرتی تھی۔
کمرے میں صوفے پر کوئی بیٹھا ہوا تھا۔ اسے شبہ ہوا کہ کہیں یہی شہلا کا باپ تو نہیں! لیکن شہلا کیوں سجی سنوری اس کے سامنے بیٹھی ہے؟ اس کے چہرے سے بیزاری اور دکھ کے جذبات جھلک رہے تھے۔ وہ سلام کر کے اس شخص کے پاس بیٹھ گیا۔ پوری آستین کا کرتا اور پٹھانی شلوار پہنے، عطر کی بھینی بھینی خوشبو اُڑاتا ہوا، کاندھوں پر جھولتی زلفوں کی لٹوں سے وہ پینتیس سے اُس طرف کا ہی لگتا تھا۔ یہ کمال بیگ تھا۔ اختر نے کمال بیگ کو پہچان لیا۔ کچھ وقت پہلے وہ اخباروں میں اکثر نظر آ جاتا تھا۔ کمال نے اکتاہٹ سے اس کی جانب دیکھا۔
’’کون ہے؟‘‘ کمرے میں پارٹیشن کے پیچھے سے شہلا کی ماں چائے کا ٹرے لے آئیں۔
’’ارے بیٹا تم!‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ارے بیٹھو بیٹھو، جانتے ہو اِنہیں؟ کمال بیگ صاحب ہیں۔ ممبئی کے رئیسوں میں اِن کا شمار کیا جاتا ہے۔ اب شہلا کے ہونے والے دولہا ہیں۔ بس اگلے مہینے شادی ہے۔ اُسی کی دوڑ دھوپ میں لگی ہوں۔ ویسے تو کمال صاحب نے سختی سے منع کر دیا ہے مگر میں بھی تو لڑکی کی ماں ہوں۔ کیا کوئی یوں ہی بیا ہے گا بیٹی کو!‘‘ انہوں نے بیٹی اور ہونے والے داماد کو پیار بھری نظروں سے دیکھا! اختر حیرت زدہ رہ گیا۔ کم سن اچھی خاصی صورت والی بیٹی کو اس کم بخت سے ہی بیاہنا رہ گیا تھا مگر مصلحت یہی تھی کہ وہ شکریہ ادا کر کے چلا آیا۔
رات بھر اس کے ذہن میں شہلا اور کمال کا سراپا ہلچل مچاتا رہا۔ اختر نے کبھی کسی کے ذاتی یا گھریلو معاملوں میں دخل اندازی نہیں کی تھی اور نہ اب کرنا چاہتا تھا مگر اس کا دل اس کے اصولوں کو توڑنے کی ضد کر رہا تھا۔ اختر ممبئی یونیورسٹی میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ اس کی تحقیق آخری مرحلے میں تھی۔ صبح وہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہوا تھا۔ اس نے کالے اور نیلے پٹّوں والی ٹی شرٹ اور جینس پینٹ پہنی اور باہر نکل آیا … مگر قدم سیڑھوں کی طرف جانے کے بجائے پڑوس والے کمرے کی طرف اُٹھ گئے تھے۔
’’شہلا کی ماں سوتیلی ہو گی، تبھی تو … ‘‘ اس نے خود کو تسلّی دی۔ ہو سکتا ہے بغیر دیکھے جانے یہ مکھّی سونے کے نِوالے میں چلی آئی ہو۔
آخر دل جیت گیا اور وہ دوسرے دن صبح ہی صبح پڑوس کے کمرے میں تھا۔
’’آؤ بیٹا!‘‘ شہلا کی ماں بستر سے تیزی سے اُٹھ بیٹھیں۔ بستر کو تہہ کر کے پاس رکھے ٹرنک میں رکھ دیا اور اختر کے پاس پڑی کرسی پر آ بیٹھیں۔
’’بیٹا ذرا چائے بھجوا دے۔۔ اختر آئے ہیں۔‘‘ انھوں نے پارٹیشن کی جانب منہ کر کے کہا اور اختر کی طرف مُڑیں۔
’’بیٹے! آج ناشتہ ہمارے ساتھ ہی کر لو‘‘
اختر نے شہلا کی ماں کے پر شفقت چہرے کو دیکھا اور سوچنے لگا، ’یہ عورت سوتیلی نہیں ہو سکتی!‘
ناشتے کے بعد اختر نے کمال کے بارے میں شہلا کی ماں کی معلومات پرکھنی شروع کی۔ وہ بہت ہی عقیدت اور محبت کے ساتھ اپنے ادھیڑ عمر داماد اور اس کے کام دھندے کے بارے میں بتاتی رہیں۔
’’آنٹی!‘‘ وہ آخر میں بڑی سنجیدگی سے بول پڑا، ’’ آپ نے اس شخص کا خاندان دیکھا ہے؟ اس کے کاروبار سے آپ مطمئن ہیں؟‘‘
شہلا کی ماں نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا اور بولیں، ’’ خاندان سے مجھے کیا لینا دینا؟ہاں ممبئی کے شاندار علاقے جُوہُو میں اس کا بنگلہ ہے۔ وہ شہلا کو وہیں رکھے گا اور رہا کاروبار کا سوال، تو یہ پوچھنے کی بات نہیں ہے۔ سارا محلہ کہتا ہے، میری شہلا خوش قسمت ہے۔‘‘
ان کے عجیب دھیمے لہجے نے اسے خبردار کیا، ’ ’اب بھی باز آ!‘‘ مگر
’’آپ کی معلومات کے لئے ایک بات بتلا دوں۔ آنٹی یہ آدمی ممبئی کے ڈونگری علاقے کا جانا پہچانا اسمگلر ہے۔‘‘ اس نے کہہ ہی دیا۔
’’تو کیا ہوا؟ آج کل تو ہر دوسرا آدمی اسگلر ہے۔ انھوں نے بے پروائی سے کہا۔
’’صرف اسمگلر ہی نہیں، وہ دلال بھی ہے۔ بھولی بھالی لڑکیوں کو خرید کر بزنس کرتا ہے۔‘‘
’’کیا کہتے ہو اختر؟ ہوش میں تو ہو؟‘‘ وہ پریشان ہو کر بولیں۔
’’اگر ایسی بات تھی تو اس نے شہلا کا ہاتھ کیوں مانگا؟اس سے اتنی دھوم دھام سے منگنی کیوں کی؟ اور اب شادی کیوں کر رہا ہے؟‘‘
’’آنٹی آپ سیدھی سادی عورت ہیں۔ اس قسم کے مردوں کے فریب کو نہیں پہچانتیں۔ اسی سے پوچھئے، آپ کی شہلا اس کی کون سے نمبر کی بیوی بنے گی؟ … پوچھئے، اس کے ڈونگری والے گھر میں کون کون رہتا ہے؟‘‘
’’اختر!‘‘ وہ بکھر گئیں، ’’تم یہ سب کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
’’آنٹی یہ سب سچ ہے۔ آگے آپ کی مرضی!‘‘
’’مگر … مگر میں کیا کروں؟‘‘ وہ سر تھام کر بیٹھ گئیں۔ پھرسر اُٹھا کر بولیں، ’’شہلا کو کہیں نہ کہیں بیاہنا تو ہے ہی، اور پھرحُسین … وہ تو ابھی صرف نو سال کا ہے۔ اس کی پرورش کا ذمّہ کون لے گا۔ میں ٹھہری ذیابیطس کی شکار، دل کی مریض … کسی بھی وقت سانس اُکھڑ سکتی ہے میری۔ میری معصوم بچی نے زمانے کی اونچ نیچ نہیں دیکھی۔ اس کی دادی نے اسے بارہویں سے زیادہ پڑھنے بھی نہیں دیا۔ باپ کا سایہ بھی سر پر نہیں۔ لے دے کر یہی گھر ہے۔ وہ بھی شاید میری بیماری کی نذر ہو جائے! اب بچی کی شادی کی خوشی میں بھاگ دوڑ کر لیتی ہوں ورنہ میری حالت سے بس خدا ہی واقف ہے۔ میں کیسے کمال کو ’نا ‘کہہ دوں بیٹے؟ ہو سکتا ہے، کل میری بچی کا معصوم چہرہ اسے خدا کی یاد دلا دے! خدا کی کار کردگی کی قائل ہوں۔ اختر بیٹے! میرے بچوں کو جب اس نے پیدا کیا ہے، اب تک عزت سے پیٹ بھرا ہے، تو آگے بھی عزت دے گا۔‘‘
’’انشاء اللہ‘‘
وہ اٹھ کر پارٹیشن کی دوسری جانب چلی گئیں۔ کچھ دیر بعد لوٹیں تو شاید خوب رو کر لوٹیں۔ منہ دھو کر آئی تھیں۔ وہ چہرے پر تازگی لانے کی کوشش کرتی رہیں۔ اختر کے ذہن میں اس خاتون کے مسئلے کا کوئی حل نہ تھا۔ وہ اٹھا اور ان کے کمرے سے چلا گیا۔
اختر کے جانے کے بعد کئی دن ماں بیٹی چھُپ چھُپ کر روتی رہتیں۔ ایک دوسرے کے سامنے رونے کا حوصلہ شاید ان میں نہیں تھا۔
اختر آج کل شام ہوتے ہوتے ہی گھر لوٹنے لگا تھا۔ وہ کمال کو ہر دوسرے دن پڑوس میں جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ مگر وہ کر بھی کیا سکتا تھا؟ اس نے کمال کے بارے میں بتا کر اپنا فرض تو پورا کر لیا تھا مگر اس مجبور عورت اور اس کی بے کس بیٹی کی آنکھوں سے آنسو نہ پونچھ سکا۔ اب وہ ایک اور الجھن میں گرفتار ہو گیا تھا۔ وہ کُڑھتا رہا۔ کمال کا آتا رہنا اس کے ضمیر کے چہرے پر طمانچہ مارتا رہا۔ مگر وہ چپ رہا۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ کس کے دل پر کیا گزر گئی، کون کہہ سکتا ہے! گرمی نے شدّت پکڑ لی تھی۔ دن بھر اپنے اندر کی آگ سے اُجالا پھیلا کر سورج دیوتا سِدھار گئے تھے۔ آسمان پر ہلکی ہلکی سُرخی ابھی باقی تھی اور دور ایک سہما سہما چاند تن تنہا اپنی مدھم مدھم روشنی کے ساتھ اب بھی دنیا کی اونچ نیچ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اختر کمرے میں داخل ہوا تو دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی شہلا پارٹیشن کے اُس طرف کہتی ہوئی چلی گئی۔ ’’امّی اختر صاحب آئے ہیں۔‘‘
شہلا کی امّی وہیں لیٹی ہوئی تھیں۔ آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر اختر کو دیکھا اور اُٹھ بیٹھیں۔ وہ چپ چاپ سامنے بِچھی کرسی پر اس اُجڑی اُجڑی خاتون کو دیکھنے لگا۔ آنکھیں سُرخ، بال بکھرے ہوئے، ملگجے کپڑوں میں وہ بیمار نظر آ رہی تھیں۔ اختر کو وہ اس وقت ممتا کی مورت نظر آئیں۔ عقیدت سے اُس نے نظر جھکا لی، ’کاش! میری ماں بھی ایک ایسی ہی ماں ہوتی۔ میری ہر پریشانی پر تڑپنے والی … ماں ‘، اس کا رُواں رُواں چیخ رہا تھا۔
’’کل سے چکّر آ رہے ہیں۔ شاید بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے۔‘‘ وہ بولیں۔ وہ خاموش بیٹھا انھیں دیکھتا رہا۔ پھر وہ خود ہی بولیں، ’’تم چائے پیو گے؟‘‘ اور اس کا جواب سنے بغیر ہی آواز دی۔
’’شہلا بیٹے دو کپ چائے لانا۔ ایک میں شکر ڈالنا نہ بھولنا۔‘‘ وہ دھیرے سے مسکرائیں اور اختر کی طرف دیکھ کر بولیں۔
’’کہیں غلطی سے تمہیں بھی پھیکی چائے نہ دے دے۔‘‘ وہ ان کی مسکراہٹ کا جواب مسکرا کر نہ دے سکا۔
’’آنٹی کمال بیگ اب بھی کیوں اِس گھر میں آتا ہے؟‘‘ وہ بغیر کسی تمہید کے بول اُٹھا تھا، ’’کیا اب بھی شہلا سج سنور کر اس کے سامنے بیٹھتی ہے؟‘‘
شہلا کی امّی کا چہرہ پیلا پڑنے لگا۔ شہلا نے چائے لاتے ہوئے اختر کا جملہ سنا اور ماں کی پھیکی رنگت کو دیکھ کر ٹرے کو جلدی سے تِپائی پر رکھ دیا:
’’میری امّی سے پلیز کچھ نہ کہئے … ‘‘ اختر حیران ہو کر شہلا کا منہ تکنے لگا۔ اِس گوں گی لڑکی کے زبان بھی ہے؟ اُس نے تو شہلا کی موجودگی ایسے محسوس کی تھی جیسے گھر کے کونے میں بد کی بِلّی، ’’آپ کی باتوں نے ہی اِنہیں بیمار کر ڈالا ہے۔ اگر اِنھیں کچھ ہو گیا تو! ۔۔ ۔ کون ہمارا ذمہ دار ہو گا؟‘‘
’’مگر شہلا، کمال … ‘‘
’’ہاں وہ جو کچھ بھی ہے، میری ماں کو خوش تو کر سکا تھا۔ نہ آپ آتے نہ سب کچھ کہتے … مجھ سے نہیں دیکھی جاتی اختر صاحب، میری ماں کی تڑپ۔‘‘ وہ سسک اٹھی، ’’میں شادی کر لوں گی امی!‘‘ وہ ماں کی طرف مُڑی، ’’میں کبھی انکار نہیں کروں گی امّی۔‘‘ وہ ماں کی بانہوں میں سما گئی، ’’آپ پریشان نہ ہوں۔ میں کمال کو سُدھار لوں گی امی۔ میری امی!‘‘ وہ تڑپ تڑپ کر رونے لگی۔
’’بیٹا!‘‘ شہلا کی ماں نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’میں کیسے انکار کروں؟ اگر وہ سچ مچ اِتنا ہی بُرا ہے تب بھی میرے بچوں کا مستقبل برباد کرے گا۔ ہائے میرے اللہ! کس الجھن میں گرفتار کر دیا ہے تو نے … اِتنا امتحان تو نہ لے کہ بے کس بندہ تجھ سے ہی مُنکر ہو جائے!‘‘ اُن کی لرزتی کانپتی پلکیں چھت کی جانب اُٹھ گئیں۔
’’آنٹی، اگر میں شہلا کا ہاتھ تھام لوں تب؟‘‘ نہ جانے یہ فیصلہ کرنے کے لئے وہ کرب کی کن منزلوں سے گزرا تھا۔
اختر تینوں کو لے کر حیدرآباد چلا آیا تھا۔ یہاں ماصب ٹینک علاقے میں خواجہ مینشن کے قریب اس کا اپنا مکان تھا۔ زندگی نے کچھ اس طرح رنگ بدلا کہ خدا کے وجود سے منکر ہونے پر پچھتا رہے تھے۔
شہلا اور اختر ہنی مون کے لئے اوُٹی کُنّور ہو آئے۔ تقریباً روزانہ ہی اختر اسے وہاں کے قابلِ دید مقامات دکھانے لے جاتا۔ وہ شہلا کی امی اور حسین کو بھی ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر اپنی بیٹی کی خوشیوں میں ہی وہ خوش تھیں، البتہ کبھی کبھارحُسین کو ساتھ بھیج دیتیں۔ شہلا کی زندگی میں خوشیوں نے بسیرا کر لیا تھا۔
اُس دن نہرو زولوجیکل پارک کی آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے جانوروں کی عجیب حرکتوں پر وہ خوب قہقہے لگا رہی تھی۔ وہ کبھی سالار جنگ میوزیم میں قدرت کے دی ہوئی اُس نعمت کا اعتراف کرتی، جسے فن کہتے ہیں۔ ’’پینٹنگ، مورتیاں، گھڑیاں اور مختلف چیزیں نوابوں کے عیش کے سامان ہوں گے!‘‘ وہ تاریخ کے بابوں میں کھو سی جاتی … مگر آج اُسے ایک چیز بُری طرح کھٹک رہی تھی۔ اختر کی عجیب سی محبت۔ اختر کی چاہت کو جھٹلانا، خدا کی نعمتوں کو جھٹلانے کے مترادف تھا۔
تین مہینے چپکے سے گزر گئے تھے۔ اختر حسبِ معمول رات گئے تک کتابیں لئے بیٹھا رہتا۔ آج شہلا روزانہ کی طرح سوئی نہیں تھی۔ وہ بے چین نگاہوں سے اختر کے سراپے کو دیکھتی رہی۔ ایک دو بار کہا بھی۔
’’اختر پلیز مجھے نیند نہیں آ رہی ہے۔‘‘
’’تم سو جاؤ شہلا ڈئیر۔ میں ذرا اس کتاب کو ختم کر کے ہی آؤں گا۔‘‘
’’یعنی تم نے ٹھان لیا ہے، روزانہ مجھے سُلا کر ہی سوؤ گے۔‘‘
’’نہیں تو، ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘
’’پھر آ جاؤ نا تم بھی۔‘‘
اختر خاموش رہا۔ شہلا اٹھ بیٹھی۔ شب خوابی کا گلابی لباس اس کے چہرے سے میل کھانے لگا۔ اختر کے پیچھے کھڑے ہو کر اس نے کتاب پر نظر ڈالی۔ اکنامکس کی موٹی سی کتاب تھی۔ اس نے دھیرے سے اختر کے کاندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔ اختر نے آنکھیں بند کر لیں۔
’’چلو نا، اتنی خشک کتاب پڑھنے کے لئے یہی وقت رہ گیا ہے کیا؟‘‘ اس نے پیار سے جھک کر کتاب اٹھانی چاہی۔ نازک سا بوجھ پڑا تو اختر گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ شہلا ہنس دی۔
’’کیوں ایسے کیوں گھبرا گئے؟‘‘
’’پلیز شہلا، مجھے پڑھنے دو۔‘‘ وہ ہال میں نکل آیا۔ شہلا بھی پیچھے پیچھے آئی۔
’’کیا صبح امتحان دینے جانا ہے؟‘‘ اس نے اپنا سر اختر کے کندھے سے لگا لیا۔
’’شہلا … میری اچھی شہلا! جا کر سو جاؤ۔‘‘
’’نہیں، میں اکیلی نہیں جاؤں گی۔‘‘ وہ بے تحاشہ اِسرار کرنے لگی تھی، جیسے آج ہر گز نہیں مانے گی۔
’’دن میں اتنا پیار اور رات میں یہ بے رُخی! ایسا کیوں اختر؟‘‘ اس نے اختر کی آنکھوں کی گہرائی میں جھانکا۔ وہ ہڑبڑا گیا۔
’’میں تمہارے لئے ایک اچھا سا شوہر تلاش کر دوں گا، شہلا۔‘‘ اس نے درد سے کہا۔ شہلا پرے ہٹ گئی۔
’’کیا کہا؟ اچھا سا شوہر!!!‘‘ شہلا کا جھٹکا اختر کو بھی دو قدم پیچھے ہٹا گیا۔
’’چھوڑو پھر کبھی بات کرتے ہیں۔‘‘ اختر نے ہاتھ آگے بڑھایا جسے شہلا نے پرے ہٹا دیا۔
’’نہیں … ابھی بتاؤ … کیا میں اِتنی ہی بری ہوں؟‘‘
’’شہلا، شہلا‘‘ اختر نے اپنی پیشانی دونوں ہاتھوں سے تھام لی۔
’’کہہ دو اختر کہ میں اس لائق نہیں کہ تمہاری بیوی کہلاؤں۔‘‘
’’شہلا، میں ہی اس لائق نہیں کہ تمہارا شوہر بنا رہوں۔‘‘ وہ سر اٹھا کر بولا۔
’’کیوں کیوں اختر؟ کہہ دو آج کہہ دو۔ آج مجھے اس درد سے بھی گزر جانے دو۔‘‘
’’میں تمہاری امی … سے … ساری بات پہلے ہی … ۔‘‘
’’پہلے ہی … امی سے کی تھی؟؟ … مجھ سے۔؟؟ … مجھ سے کیوں نہیں کی … اب کرو نا بات!‘‘ شہلا کی آواز حلق میں پھنس رہی تھی۔
’’ نہیں کر سکتا۔‘‘
اور اختر نکل گیا۔
کار کی آواز سے وہ تڑپ گئی۔ اس نے تیزی سے اپنی خواب گاہ کا دروازہ کھولا۔ اس کی امّی آنکھوں میں آنسو لئے کھڑی تھیں۔ شہلا کو دیکھتے ہی انہوں نے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پکڑا وِزِٹنگ کارڈ اس کے سامنے بڑھا دیا۔
’’ڈاکٹر بشیر نورانی
sexologist‘‘
شہلا نے پڑھا … اور کتنی ہی دیر وہ بُت بنی کھڑی رہی۔ اختر کب کا جا چکا تھا مگر اس کی آواز شہلا کے ذہن میں سنسناتی رہی۔ گھڑی نے دو بجائے تو وہ چونکی اور اب وہ بستر پر پڑی بیتی یادوں کی کڑیاں جوڑ رہی تھی۔
’’تو اختر نے مجھ سے اسی لئے شادی کی ہے؟‘ اس کے منہ سے نکلا، ’نہیں نہیں!‘‘ اس کے ذہن نے اسے جھنجھوڑا۔
’’اگر ان کا یہی مقصد ہوتا تو وہ میری دوسری شادی کی بات نہ کرتے۔‘‘
’’جانے اس قابلِ پرستش شخص نے کتنے درد سہے ہیں۔ زندگی نے اسے کتنا دتکارا ہے۔ زمانے نے کتنی ٹھوکریں لگائی ہیں … ‘‘ وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی۔
’’نہیں۔‘‘ وہ ایک ارادے کے ساتھ اٹھی، ’’اختر آج تک تم میرا سہارا بنے رہے۔ آج سے میں تمہارا سہارا بنوں گی۔‘‘ اس نے پیار سے شو کیس پر رکھی اختر کی تصویر سے کہا، ’’یقین نہیں نا؟ آزما کے دیکھ لو۔‘‘ اس نے وہی ساڑی نکال کر پہن لی جو اختر نے اسے ہنی مون کے دنوں میں بڑے پیار سے خرید دی تھی۔
پھر وہ اِکنامکس کی وہی کتاب ہال سے اٹھا لائی، جو اختر پڑھتے پڑھتے چھوڑ گیا تھا۔ کتاب میں مورپنکھ بُک مارک کی طرح رکھا ہوا تھا۔ اُس نے وہ صفحہ کھولا۔
Fridman Milton کے اصول ’’”Theory of Consumptionکے تین سو صفحات پر بکھرے ہوئے تھے۔ شہلا اپنے بیڈ روم میں پڑی آرام کرسی پر بیٹھ گئی۔ اختر اپنے کمرے میں اُسی آرام کرسی پر بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا۔ شہلا اکنامکس کے اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے صبح کا انتظار کرنے لگی۔
… لیکن آج کی رات امّی پر بھاری تھی۔
وہ بیٹی کے کمرے کے باہر ہال کے صوفے پر پڑی کراہ رہی تھیں۔
’’ … جیسے دوبارہ اُنھیں حالات میں پہنچ گئی ہوں۔، جن کے بھنور سے نکلنے کے لئے اختر کا سہارا لینا پڑا تھا۔‘‘ وہ بڑبڑائیں۔ یادیں منظر منظر آنکھوں سے گُزرنے لگیں۔ دو دنوں میں سامان سمیٹ کر وہ اختر کے ساتھ رات کے تیسرے پہر گھر سے نکل گئے تھے۔ کسی سے نہیں بتایا تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ حیدرآباد پہنچتے ہی جاوید نے اپنے کچھ دوستوں رشتے داروں کی موجودگی میں شہلا سے نکاح پڑھوا لیا تھا۔
’’آج میں پھر اُسی دورا ہے پر کھڑی ہوں۔‘‘
وہ صوفے پر اُٹھ بیٹھیں۔ صوفے کی موٹھ پر لیٹی ہوئی انسان کے نوزائیدہ بچے جیسی دکھائی دینے والی گڑیا کو اٹھا کر انہوں نے اپنے پلّو میں چھپا لیا۔ سامنے بیٹی اپنے کمرے میں آرام کُرسی پر جھولتے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔
’’بیٹی تم اِتنی پُرسکون کیسے ہو!‘‘ انہوں نے شہلا سے پوچھا مگر شہلا نے کب سُنا تھا!
اپنی سُرخ ساڑی پر لہراتی سنہری جھالروں میں وہ انہیں کانٹوں کی باڑ میں پھنسی ہوئی زخمی ہرنی سی لگ رہی تھی جو کسی امید کے تحت مسکرا رہی ہو!
٭٭٭
پیج ندی کا مچھیرا
دھوپ چڑھے پیج ندی کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دھوپ سے گہرائے گہرے سانولے رنگ کے مرد بارود کو آگ دِکھا کر ندی میں پھینک رہے تھے۔ پھَٹ پھَٹ کی آوازیں آس پاس کے گاوؤں میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ جمعرات کا دن تھا۔ مہادوُ آج ذرا دیر سے ندی پر پہنچا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کی ایک دوکان سے پانچ انچ لمبے بارود کے رول کے تین ٹکڑے کر کے کپڑے کی چھوٹی سی تھیلی میں لایا تھا۔ یہ چھوٹے بم وہیں آس پاس کے گھروں میں بنائے جاتے تھے اور کوئی سوا سو ڈیڑھ سو روپیوں میں بڑی آسانی سے مل جاتے تھے۔
مہادو نے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی کپڑے کی تھیلی کو دونوں پیروں کے پنجوں کے درمیان دبایا۔ ہونٹوں میں بیڑی پھنسا کرماچس کی تیلی سے سلگایا۔ جھُک کردائیں ہاتھ سے تھیلی میں سے بارود کا ایک ٹکڑا نکالا۔ ہونٹوں کی سُلگتی بیڑی کو بائیں ہاتھ میں لیا۔ دائیں ہاتھ میں پکڑے بارود کے فیتے کو آگ دکھائی اور سُرسُراتے ہوئے بارود کو پھرتی کے ساتھ ندی میں پھینک دیا۔ پانی کی لہروں میں ’’ پھَٹ پھَٹ‘‘ کی آواز کے ساتھ ڈھیر ساری مچھلیاں اچھلیں اور پانی کی سطح پر مَری ہوئی مچھلیاں دکھائی دینے لگیں۔ مہادو نے مچھلیوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ پانچ چھ انچ کی بڑی مچھلیاں اُس نے آسانی سے پانی کی سطح سے سمیٹیں اور کمر میں اُڑسے ہوئے ایک تھیلے کو نکال کر اس میں بھر لیں۔ پھر کمر کمر پانی میں اتر کر ندی کی اُتھلی سطح سے اور مچھلیاں نکال نکال کر کنارے رکھے اپنے سامان کی طرف پھینکنے لگا۔ اب تک کچھ مچھلیاں ندی کے پانی میں تڑپ اور اچھل رہی تھیں۔
ندی کے تین حصوں میں مہادُو نے اسی طرح بارود لگا کر مچھلیاں اکٹھا کیں اور تھیلے میں بھر لیں۔ دوپہر کے تین بج چکے تھے۔ مہادو نے آسمان کی جانب دیکھ کر اندازہ لگایا۔ صبح پی ہوئی تھوڑی سی دیسی شراب کا نشہ اتر گیا تھا۔ اس نے مچھلیوں سے بھرا ہوا تھیلا اٹھایا اور اپنے بائیں کندھے پر ڈال لیا۔
ممبئی سے تقریباً سو کلومیٹر کی دوری پر سینٹرل لائن پر لوکل ٹرین کا آخری اسٹیشن کرجت ہے۔ کرجت سے پندرہ کلو میٹر دور نسرا پور گاؤں تینوں طرف ندیوں سے گھرا ہوا ہے۔ ایک جانب اُلہاس ندی دھیمی رفتار سے بہتی رہتی ہے اور دوسری جانب پیج ندی کی رفتار کچھ زیادہ ہے۔ پیج ندی میں خوب مچھلیاں ہوتی ہیں۔ نسرا پور کے تیسری جانب یہ دونوں ندیاں ملتی ہیں اور اچھی خاصی رفتار کے ساتھ ایک ہو کر بہتی ہیں۔ اُلہاس ندی سے مِل کر پیج ندی اپنا نام کھو دیتی ہے۔
مہادو پیج ندی کے کنارے ’واکس‘ گاؤں سے لگی ہوئی ’واکس واڑی‘ میں رہتا تھا۔ اِس علاقے میں چار باڑیاں ہیں۔ واکس، کلمبولی، سالوڑ اور ایکسل۔ چاروں قریب قریب ہیں۔ یہ جنگلاتی علاقہ ہے۔ مہادُوا سی طرح مچھلیاں پکڑ کر شام کونیرل کے بازار میں بیچنے چلا جاتا تھا۔ ’واکس واڑی‘ قریب پچیس گھروں سے آباد تھا۔ وہاں کے لوگ لکڑی کی پتلی ڈالیوں سے گھر بناتے ہیں اور اس پر گوبر لیپتے ہیں۔ اِن سیدھے سادے آدیواسی قبائلیوں کو قدرت کی گود میں ہی سکون ملتا ہے۔
صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔ مہادو باکس کے رِکشہ اسٹینڈ کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ سیاہ بال دھُول سے اٹے ہوئے۔ تبھی ایک لڑکا کالج کا بیگ کندھوں پر لٹکائے ٹیبل کی طرف بڑھا۔ مہادو نے اسے شوق سے دیکھا۔ لڑکا اس کے پاس نہیں بیٹھا۔ اُسے شراب کی بوٗسی محسوس ہوئی تھی۔ پیچھے دو ٹیبل چھوڑ کر بیٹھا۔ ناشتہ ختم کر کے لڑکا کاؤنٹر پر پہنچا۔
’’کتنے ہوئے؟‘‘
’’وڑا پاؤ اور چائے۔ بیس روپئے۔‘‘
’’ پرس بھول آیا ہوں بھائی! کل لا کر دے دوں گا۔‘‘ وہ لڑکا کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے ہوٹل والے سے دھیرے دھیرے کہہ رہا تھا۔
’’کھانے سے پہلے دیکھ لینا منگتا تھا نا!‘‘
’’معاف کرو۔ غلطی ہو گئی بھاؤُ۔‘‘
’’تیرے جیسا بہت دیکھیلا ہے۔‘‘ ہوٹل والے نے کہا، ’’سیدھے سیدھے پیسے نکال۔ نہیں تو جانے نہیں دوں گا۔ سمجھتا ہے کیا خود کو!‘‘
’’کالج جانے کی جلدی میں نکل گیا بھاؤ! پرس بھول گیا تھا۔ کل پکّا چُکا دوں گا۔‘‘
’’ایسا نہیں چلنے والا۔ ایڑا سمجھا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں نہیں بھاؤُ، بہت غلطی ہوئی۔‘‘
’’کائے کا بھاوُ ٔ!‘‘
’’مازے کِتی زالے؟‘‘ مہادو لڑکے کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ لڑکا ذرا دور ہٹ گیا۔
’’وڑا پاؤ چائے۔ بیس روپئے۔‘‘
’’ہے گھے چالیس روپئے۔ یاچے پَن گھے۔‘‘ (یہ لو چالیس روپئے۔ اِس کے بھی لے لو۔) مہادو نے لڑکے کی طرف اشارہ کر کے کہا اور پیسے دے کر جلدی سے ہوٹل کے باہر آ گیا۔
’’میں تم کو کل پیسے لا کر دے دوں گا۔ کہاں ملو گے؟کل اِسی وقت اِسی جگہ ملو گے؟‘‘ لڑکا تیزی سے مہادو کے پیچھے باہر آیا تھا۔
مہادو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
’’دیکھو بھاوُ ٔ!‘‘
مہادو نے پلٹ کر لڑکے کی طرف دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں پہچان کی چمک تھی۔ اُس نے سوچا، ’’ اِسے تو یاد بھی نہیں کہ گاؤں کی شالا میں ہم دونوں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔ میں کِدھر رہ گیا … اور یہ … !‘‘
’کوئی بات نہیں ‘کے انداز میں دایاں ہاتھ اُٹھا کر اپنے کان تک لایا۔ انگلیوں کو جھٹکا اور چپ چاپ نکل گیا۔
سالوڑ کے قریب جامن کے گھنے پیڑوں کو لگی ہوئی سڑک کے کنارے زمین پر مہادوُ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ پڑا ہوا تھا۔ آج بازار میں مچھلیوں کی فروخت اچھی ہوئی تھی۔ دونوں نے خوب پی تھی۔ مہادو نے ٹین کے خالی ڈبّے کے ٹھوکر سے اڑائے جانے والی آواز سے اپنی سُرخ سُرخ آنکھیں کھول دیں۔ کالج جاتے ہوئے لڑکے نے اسے آواز دی، ’’او بھاؤ! اُدھر جھاڑ کے نیچے سوؤ نا!‘‘
’’تُجھیا باپا چا کائے جاتو اے رے سالا؟(سالا تیرے باپ کا کیا جاتا ہے بے … ؟)، مہادو نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے اسے گالی دی۔
’’ارے! یہ تو وہی ہے۔ وڑا پاؤ چائے کے پیسے دے دوں؟‘‘ لڑکے نے پہچانا۔
’’ مگراِس پرتو نشہ سوار ہے۔‘‘ لڑکا بُدبُدایا اور جلدی سے سڑک پار کر کے وہاں سے نکل گیا۔
شام کو مہادوُ جب اپنے چھوٹے سے جھونپڑے میں لوٹا تو اُس کے پاس پیسے برائے نام ہی بچے تھے۔ اس نے دال چاول کے علاوہ کچھ گھریلو سامان سے بھری ہوئی تھیلی اپنے صاف سُتھرے جھونپڑے میں ایک طرف رکھ دی۔
’’ایوڑھیا اُشیر؟‘‘ (اِتنی دیر لگا دی؟)، اس کی بیوی نے ٹھہر ٹھہر کر پوچھا۔ مہادو کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن اس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ سنبھل کر ایک ہاتھ زمین پر رکھ کر پاس پڑی چٹائی پر لیٹ گیا۔
اُس کی دُبلی پتلی، اُسی کی طرح چھوٹے قد اور رنگ روپ والی بیوی پدما نے اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُسے سہارا دیا اور پوچھا، ’’جے اُون گھے چل، بکریا چا مٹن بَنوَلَے‘‘ (کھانا کھا لے۔ بکرے کا مانس بنایا ہے )
’’ہو، جیبھ، ماسے، گھر چا انگنا تلی کومبڑی آنی رانٹی سسا یا پیکشا ویگلی مجا ماگت ہوتی‘‘ (ہاں، جیبھ مچھلی، گھر کی آنگن والی مرغی اور جنگلی خرگوش سے الگ مزا مانگ رہی تھی) وہ کہنا چاہتا تھا لیکن نیند اور نشے میں زبان نے لفظوں کا ساتھ نہ دیا۔ مہادو نے کروٹ لے کر بیوی کی جانب دیکھا۔ مسکرایا اور پوچھا:
’’پورگا کُٹھے ہائے؟‘‘ (بچہ کہاں ہے؟)
پدما نے اشارہ کیا۔ مہادوُ نے مِچمِچاتی ہوئی آنکھوں سے دوسری چٹائی پر سوئے ہوئے بچے کو دیکھا اور کچھ بڑبڑاتا ہوا نیند کی گود میں چلا گیا۔
پدما نے جھونپڑے میں بنی لکڑی کی پھلی پر رکھے مِٹّی کے ٹِمٹِماتے ہوئے دیئے میں اُس کے پاس رکھی بوتل سے تیل اُنڈیلا۔ کمرے میں روشنی بڑھ گئی۔ سرکار گھر کُل کی اسکیم کے تحت گھر اور شوچالیہ بنانے کے لئے پیسے دیتی تھی۔ پیسے تو انہوں نے لے لئے تھے لیکن یہ اپنے پرانے گھروں میں ہی خوش رہتے تھے۔ پیسے تو کب کے خرچ ہو چکے تھے۔
پدما نے جھونپڑے کے کنارے چھت سے لٹکتے چھینکے میں دودھ کا برتن رکھ دیا۔ وہ بھی آج دیر سے لوٹی تھی۔ کمر سے پِنڈلی تک بندھی گول ساڑی پر لپیٹا ہوا تولیہ نکال کراس نے دیوار سے بندھی رسی پر ٹانگ دیا۔ بلاؤز کے اوپر سینے پر ساڑی کے پلّو کے بجائے دوپٹّے کی طرح اوڑھے ہوئے تولیے کو خود سے الگ کر کے بچے پر اڑھا دیا اور مٹی سے پُتی ہوئی زمین پربیٹھ کر برتن میں کھانا نکال کراکیلے ہی کھانے لگی۔
پدما ایک کواری میں کام کرتی تھی۔ پیسے والے لوگ پہاڑ خرید لیتے اور اُسے بارود سے پھوڑ کر عمارتیں بنانے کے لئے ٹھیکیداروں کو بیچ دیتے۔ دھیرے دھیرے اس پتھر کے کان والی زمین استوار ہوتی جاتی۔ یہاں فارم ہاؤس بنتے تو ان کی دیکھ بھال کا کام بھی کسی نہ کسی آدیواسی پریوار کو مل جاتا اور ان کی زندگی ’روز کنواں کھودو، روز پانی پیو ‘والی چاکری سے چھوٹ جاتی۔ موسم کے مطابق کچھ قبائلیوں کو پھل بیچنے یا باغبانی کے کام بھی مل جاتے تھے۔ ویسے ان کو مہینے کی تنخواہ والے کام پسند نہیں ہوتے۔ یہ لوگ گاؤں کے بڑے لوگوں کے پاس کام کرتے ہیں۔ ندی کی ریت گھمیلے میں بھر کر اینٹ بنانا، ریت چھلنی میں ڈالنا جس سے ریت سے بڑے پتھر الگ ہو جائیں، ٹریکٹر میں بھرنا … بس اِسی طرح کے کام کرتے۔ دن بھر کی کڑی محنت کے بعد شام کو انہیں کھانے پینے کی کچھ چیزیں اور پیسے مل جائیں تو وہ خوش رہتے۔ کل کی بھی نہیں سوچتے۔ اِن کو روز پیسے چاہئیں۔ آج کا کام ختم، آج کا پیسہ ختم … جس دن اچھے پیسے ملیں، اُس دن عید۔
صبح سویرے پدما نے اُٹھ کر کھانا بنایا۔ تینوں نے کھانا کھایا۔
’’توُ شالیت جا؟‘‘ (تو اسکول جا؟)‘ اُس نے اپنے چار سال کے بیٹے سے پوچھا۔
’’نائے۔ ٹیچر آمالا ورگات بند کرتات۔‘‘ (نہیں۔ ٹیچر ہم کو کلاس میں بند کر دیتے ہیں۔)
’’کا؟‘‘ (کیوں؟)
’’کھِڑکی تُون آمی بگھتو۔ تے اِکڑے تِکڑے پھِرتات۔‘‘ (کھڑکی سے ہم دیکھتے ہیں۔ وہ اِدھر اُدھر گھومتے ہیں۔)
’’کائے کاہی شِکوت نائے کا؟‘‘ (کیا کچھ پڑھاتے نہیں؟‘‘)
’’نائے‘‘ (نئیں)
’’آنی مُلے کائے کرتات؟‘‘ ( اور لڑکے کیا کرتے ہیں؟)
’’مُلَا مارتات۔‘‘ ( لڑکے مارتے ہیں)
سبھی باڑیوں میں اسکول نہیں تھے۔ واکس واڑی میں چوتھی تک اسکول تھا۔ ایک ہی کمرے میں چاروں کلاسیں پڑھائی جاتی تھیں۔
پدما پاس کے گھر کے آنگن میں بغیر پلوّ والی پیروں کے درمیان سے لپیٹی ہوئی چھوٹی کاشٹا ساڑی اور بلاؤز میں کھڑی ہوئی بُڑھیاساس کواپنا چار سال کا بچہ سونپ کر مہادوکے ساتھ کام پر نکل گئی۔ پدما پہاڑی کی طرف چلی گئی اور مہادو ندی کی جانب۔
ندی پر پہنچ کر مہادو نے اپنے کیچڑ رنگ آدھی آستین کے شرٹ اور پتلون کی جیبوں کو ٹٹولا۔ دائیں ہاتھ میں پکڑے بم کی باتی کو بائیں ہاتھ کی بیڑی سے آنچ دکھائی۔ وہ اسے تیزی کے ساتھ ندی میں پھینکنے لگا کہ اچانک بم پھٹ گیا۔ کہنی سے کوئی چار پانچ انچ نیچے سے دایاں ہاتھ ٹوٹ کر زمین پر آ گرا۔ راستے میں پی ہوئی شراب کا نشہ اچانک اتر گیا۔ زمین پر تڑپتے ہوئے ہاتھ سے نکلنے والے خون پر اس نے ایک نظر ڈالی، گردن میں پڑے ہوئے رو مال کو کھینچ کر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کے کٹے ہوئے حصے کو لپیٹا، دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے اسے کس کر پکڑا اور تیزی سے دوڑنے لگا۔ اسے پتہ تھا، اسے اسپتال جانا ہے۔ اسپتال دور تھا۔ لگ بھگ پانچ کلو میٹر دور۔ رکشہ کے انتظار میں کچھ دور دوڑنے کے بعد وہ ایک جھونپڑی میں گھُس گیا۔ جھونپڑی کیا تھی دارو کا اڈّہ تھی۔ زمین پر بیٹھے ہوئے دو بڑی عمر کے مرد اور گاؤن پہنے ہوئے ایک جوان عورت شراب پی رہے تھے۔ اسے دیکھتے ہی سب ہڑبڑا کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے ایک آدمی کے ہاتھ سے اس نے بھرا ہواگلاس لیا اور غٹا غٹ پی گیا۔ اس کے شراب پینے کے دوران وہاں موجود نشے میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو اس کے کٹے ہوئے ہاتھ سے ٹپکتے ہوئے خون کا راز سمجھ میں آنے لگا۔ ہاتھ کا پنجے والا حصہ وہ ندی پر چھوڑ آیا تھا۔ ایک رکشہ والا بھی وہاں پینے آیا ہوا تھا۔ وہ اور دو مرد مہادوُ کو رکشہ میں بیٹھا کر اسپتال کی طرف چلے۔
مہادو پیج ندی کے کنارے کافی دیر سے کھڑا ہوا سورج کو ہلکی ہلکی لہروں پر جگمگا تے دیکھ رہا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں اس کی پلکوں کو بار بار جھپکنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ مچھلیاں بڑے سکون سے پانی کی مختلف سطحوں پر لہراتی، بل کھاتی، ایک دوسرے سے بتیاتی گُنگُنا ہوتے ہوئے پانی کا مزا لے رہی تھیں۔ اُس حادثے کے کئی مہینے بعد آج مہادو دوبارہ پیج ندی کے کنارے آیا تھا۔ اُس نے زور سے سانس لے کر تازہ ہوا کا مزا لیا۔ قریب ہی پڑے ہوئے کچھ پتّھروں کے بیچ کچھ سوکھے پتّے اکٹھا کر کے اس نے ان میں لائٹر سے آگ لگائی۔ تھیلی سے دس بارہ انچ کی لکڑی کا ایک سِرا آگ میں تپایا۔ وہ آنچ دینے لگا۔ کٹے ہوئے دائیں ہاتھ کی کہنی کے موڑ پر لکڑی کو اس میں پھنسا دیا۔ اب وہ لکڑی کے سُلگتے ہوئے ٹکڑے سے اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑے بارود کی باتی کو آگ دکھا رہا تھا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ اُس کے ہاتھ کا زخم پوری طرح سے سوکھ گیا تھا۔
’’آج ماجھیا گھری بکریا چا مٹن شِجیل!‘‘ (آج میرے گھر میں بکرے کا مانس پکے گا! ) بارود پھینکتے ہوئے وہ بڑبڑا رہا تھا۔
پانی کی لہروں میں پھَٹ پھَٹ کی آواز کے ساتھ ڈھیر ساری مچھلیاں اچھلیں اور پانی کی سطح پر مَری ہوئی مچھلیاں دکھائی دینے لگیں۔ اس نے جھُک کر کچھ مچھلیوں کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور چلّایا۔ ’’ایکلا تُمہی ماشیان نو! آج ماجھیا گھری بکریا چا مٹن شِجیل!‘‘ (سنا مچھلیو! آج میرے گھر میں بکرے کا مانس پکے گا! )
٭٭٭
ہوٹل کے کاؤنٹر پر
’ہوٹل روشنی پیلیس‘ کے کاؤنٹر پر نام پتہ درج کروا کر اپنی چابی لے رہا تھا کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ کوئی مجھے غور سے دیکھ رہا ہے۔ سوٹ بوٹ پہنے کسرتی بدن کا وہ شخص جس کی آنکھوں پر گہرے ہرے گاگلس لگے ہوئے تھے اور کنپٹی پر سفیدی پھیلی ہوئی تھی۔ سیاہ مونچھوں میں مسکراہٹ اور آنکھوں میں انجانی سی گہری سی پہچان کی چمک لیے کھڑا تھا۔ میں نے سرسری نظرسے اُسے دیکھا اور جوں ہی مُڑا، پیچھے سے آواز آئی، ’’نہال … !!‘‘ میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ مسکرا رہا تھا۔
’’معاف کیجئے گا، میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔
’’ امیر سورٹھیایار!‘‘ اس نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور دوسرے ہی لمحے ہم دونوں ایک دوسرے کے سینے سے لگے ہوئے تھے۔
اُن دِنوں میں بسکٹ کی مشہور کمپنی پارلے میں سیلز منیجر کے عہدے پر تعینات تھا۔ میں اسی سلسلے میں بھوپال ریلوے اسٹیشن پر اترا تھا۔ اسٹیشن سے باہر آتے ہی آٹو رکشہ والوں کے ہجوم نے سواگت کیا۔
’’نیا مارکیٹ۔‘‘ میں جلدی سے ایک رکشہ میں سوا رہو گیا۔
’’لگتا ہے صاحب پہلی بار بھوپال آئے ہیں۔‘‘ رکشہ چالک نے ریئر آئینے سے جھانکتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ میں نے گردن ہلا کر ’ہاں ‘ میں جواب دیا۔ اُس کا مجھے یہ پوچھنا اچھا نہیں لگا تھا کہ ’لو اب نیا جان کر شہر بھر گھما گھما کر پیسے اینٹھے گا۔ ‘
’’آپ کو بتاتا چلوں بھوپال کا اصلی نام بھوج پال تھا۔‘‘ رکشہ والے نے اچانک کہا، ’’ … ہم وی آئی پی روڈ سے گزر رہے ہیں … دیکھ رہے ہیں، یہ بڑا تالاب ہے۔ بھوپال اسی کے پانی پر چلتا ہے۔ تین سو ساٹھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔‘‘
’’ذرا دو منٹ آٹو روکنا تو … ‘‘ میں نے اس کو ٹوکا۔
’’راجہ بھوج کے ساتھ فوٹو کھنچوائیں گے صاحب!‘‘
میں نے مسکرا کر کیمرہ چلایا اور موبائل اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
’’دیکھئے صاب، اونچے پتھر کے ستون پر پرمار راجہ بھوج کا بڑا سا پُتلا کس طرح کھڑا ہے۔ دھوتی پہنے ہوئے دائیں ہاتھ کی تلوار زمین کو چھو رہی ہے۔ مضبوط جسم، کم قد، بڑی بڑی مونچھیں، گلے میں زیور، سر پر تاج، ہاتھ میں بریس لیٹ، گلے میں سینے سے نیچے تک پہنچتے ہوئے پٹکے کو بائیں ہاتھ کی مٹھی سے دھوتی کی کمر پر پیچھے کو ڈھکیلتا ہوا، پیروں میں موجڑی۔۔ ۔۔‘‘ رکشہ چالک نے کچھ اس طرح تفصیل بتائی جیسے رپورٹ دے رہا ہو، ’’جی صاب، بتائیے، راجہ بھوج کو تو جانتے ہیں نا!‘‘
’’کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی۔‘‘ مجھے خوشی ہوئی، ’’گنگو تیلی کہاں ہے بھائی؟‘‘
’’وہ تو بس محاورے میں زندہ ہے۔‘‘ اس نے رکشہ شروع کی، ’’ نیا مارکیٹ میں کون سے ہوٹل جائیں گے؟‘‘
’’ کسی اچھے، خوبصورت سے ہوٹل کی تلاش ہے۔‘‘
’’ ’ہوٹل روشنی پیلیس‘ کی اِن دنوں یہاں خوب پبلسٹی کی جا رہی ہے صاحب۔ کرایہ بھی معقول ہے۔‘‘ اس نے رکشہ کے ڈیش بورڈ سے ایک معمولی سا سفید وزٹنگ کارڈ نکالا۔
’’یہ میرا کارڈ ہے۔ کبھی شہر کی سیر کرنی ہو تو بلا لیجئے۔‘‘
امیر کو وہاں دیکھ کر اچانک مجھے بیس برس پرانا وہ زمانہ یاد آ گیا۔ جب جوانی طوفانی تھی۔ خون میں جوش تھا۔
’’تمہیں یاد ہے، ہم اسکول میں ماسٹر صاحب کو کس طرح بیوقوف بناتے اور فلمیں دیکھا کرتے تھے … اور پھر کالج کے پہلے سال کے تین مہینے تو سبحان اللہ … واللہ!‘‘
’’صاحب کا کمرہ نمبر سات ہے۔ سامان روم میں پہنچا دو۔‘‘ امیر نے ویٹر سے کہا۔
’’یہ ہمارا وی آئی پی روم ہے۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔
’’لگیج نہیں، بس یہ بریف کیس ہے۔ کل روانگی ہے۔‘‘
’’آؤ کچھ دیر باتیں کرتے ہیں۔‘‘ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’ سفر میں بیٹھے بیٹھے پریشان ہو گیا ہوں۔‘‘
’’یاد ہے وہ زمانہ!‘‘ اس نے میرا ہاتھ دبایا۔
’’ہاں یار! وہ جوانی کے دن … وہ محبتیں!‘‘ میں نے آنکھ ماری۔ امیر کی محبت دیکھ کر پرانی یادوں سے میں رومانی ہونے لگا تھا۔ ’’یار وہ نّمو تو اب بال بچوں والی ہو چکی ہو گی؟‘‘ ہم دونوں اس نئے ہوٹل کے شاندار کاؤنٹر کے پیچھے پڑی نرم کُرسیوں میں دھنسنے بھی نہیں پائے تھے کہ میں نے پہلا سوال داغ دیا۔
’’صرف نوَ بچے ہیں۔‘‘ اس نے اپنی معلومات سے مجھے متاثر کیا، ’’راجو جُلاہے سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ بے چارہ اُس وقت ہی ادھیڑ عمر کا تھا۔ اب تک تو کافی ڈھل چکا ہو گا۔‘‘
’’اوہ بیچاری نمّو! خیر! وہ بھی کیا یاد کرتی ہو گی! کس گبرو سے پالا پڑا تھا نوجوانی میں! کیا ڈائیلاگ بولا کرتے تھے یار ہم بھی! لڑکیاں تو بس فدا تھیں ہم پر!‘‘ میں نے بھویں اچکائیں، ’’مگر یار! کچھ بھی کہو، بیچاری نمو پر تو مجھے ترس آتا ہے۔ کہاں مجھ جیسا جوان پٹّھا … کہاں راجو جُلاہا!‘‘
امیر نے قہقہہ لگایا۔
’’اور کہاں نو نو بچے!‘‘ میں نے سنجیدہ مسکراہٹ کے ساتھ لُقمہ دیا، ’’میں تو بال بال بچ گیا۔‘‘ وہ لگاتار مسکراتا رہا۔
’’اور تو نے کتنے کیلنڈر ایشو کر دیئے؟‘‘ میں نے بڑے رازدارانہ لہجے میں پوچھا تو اُس نے مسکرانا بند کر دیا۔
’’یار! میں ایک بات تو کہے بغیر نہیں رہوں گا۔‘‘ میں نے زندہ دلی سے اس کے کندھے پر دھپ لگا دیا، ’’تیری زندہ دلی تو گئی، کیا روشنی نے ہنسی بند کروا دی؟‘‘ میں نے قہقہہ لگایا لیکن وہ چونک گیا۔
جذبات کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر میں پریشان ہو گیا۔
’’کیا بات ہے امیر؟‘‘
وہ کچھ بھی نہ بولا۔ میں نے جلدی سے کاؤنٹر کے پاس کی تپائی پر رکھے مگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ گلاس خالی کر کے اس نے مجھے لوٹا دیا۔
’’نہال! … تو تم کچھ بھی نہیں جانتے نہال!‘‘ ذرا سنبھل کراس نے کہا، ’’شاید تمہیں کالج کے بعد کی خبر نہیں ملی! تمہیں کسی بات کا بھی پتہ نہیں!‘‘
’’روشنی مجھے بھائی کہتی تھی امیر! اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ تم سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتی تھی۔ وہ تمہارے لئے ساری دنیا کو ٹھکرا دینا چاہتی تھی … لیکن اسے تم سے شکایت تھی … تمہاری بزدلی!‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں میرے بھائی! مگر یہ میری بزدلی ہی تو نہیں تھی۔‘‘ اس نے بھی شکایت کے لہجے میں جواباً شکایت کی۔
’’چھوڑو یار تم بھی کیا لے بیٹھے۔‘‘ میں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا مگر وہ بولتا رہا۔
’’روشنی نے مجھے اپنی محبت میں باندھ رکھا تھا۔ مجھے حوصلہ دیا تھا۔ طعنے کسے تھے کہ میں دنیا سے ڈرتا ہوں … اور آخر دوستوں کی مدد سے ایک دن مدراس جا کر شادی کر لی۔
’’اچھا!‘‘ میری حالت دِگر تھی۔
’’روشنی اپنی شادی کے لئے رکھے ہوئے گہنے اٹھا لائی تھی۔‘‘
’’تو تم نے انہی پیسوں سے ترقی کرتے کرتے یہ شاندار ہوٹل کھڑا لیا؟ … ایک بڑے بزنس میں … ‘‘ میں نے اس کی بات اُچک لی اور طنز سے بولا۔
’’نہیں نہال، ایسا نہ ہو سکا۔ مجھے کوئی راستہ نہیں سوجھتا تھا۔ … میں ہر دن کام کی تلاش میں نکل جاتا اور وہ لاج کے ایک کمرے میں میرا انتظار کرتی رہتی … ایک دن سارا زیور بِک گیا۔ ہم مشکل سے گزارا کرنے لگے۔ پتہ چلا، روشنی ماں بننے والی ہے۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا اور میرے ہاتھ سے گلاس لے کر پانی لینے کے لیے اپنی جگہ سے ہٹا اور میرا دل اِس کہانی کے عجیب و غریب پہلوؤں کو جاننے کے لیے بے چین ہو اٹھا۔
’’جب روشنی کی حالت بگڑنے لگی اور ہوٹل میں رہنے لائق نہ رہے تو مجبوراً ہمیں گاؤں لوٹنا پڑا۔‘‘ امیر پانی پی کر اپنی جگہ لوٹ آیا اور اپنی بات جاری رکھی، ’’مگر نہ روشنی کے ماں باپ نے ہمیں اپنے گھر میں جگہ دی اور نہ میرے ماں باپ نے اسے بہوہی سویکار کیا۔ وہ اپنے ماں باپ کے لیے اچھوت ہو گئی تھی اور میرے ماں باپ اپنی غریبی اور سماج سے ڈر گئے تھے۔‘‘ وہ پھر چپ ہو گیا۔
’’پھر؟ … روشنی کا کیا بنا؟‘‘
’’ پھر میں اُسے لے کراِسی شہر بھوپال آ گیا۔ ایئرپورٹ روڈ کے ایک سنسان علاقے میں میرے بابو ماما پانچویں منزلے کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ ماما نے اپنے کسی دوست کے ہاتھوں مجھے سفر کے پیسے بھجوائے تھے اور مجھے اپنا کوئی خالی کمرہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے چابی لینے کے لیے مجھے اپنے گھر بلایا تھا۔
وہ گھر پر ہی تھے۔
’’آپ کا گارڈن اجڑا اجڑا ہے۔ کوئی اس میں آتا جاتا نہیں؟‘‘ میں نے پوچھ لیا۔
’’پچھلے دنوں بلڈنگ کی سوسائٹی والوں کی آپسی لڑائی میں یہاں کام کرنے والوں کو تنخواہ نہیں ملی اور وہ کام چھوڑ کر دھمکی دے کر چلے گئے۔‘‘ انہوں نے مختصراً بیان کیا۔
’’گارڈن میں کیچڑ بھی ہے۔‘‘
’’ہاں وہ پائپ لائن کھلی رہ گئی تھی۔‘‘
’’آپ کے گارڈن کے پیچھے بھی تو سرکاری گارڈن ہے!‘‘
’’ہاں وہ سوکھ چکا ہے۔ کسی کام کا نہیں۔‘‘
بابو ماما پریشان سے لگے۔
فلیٹ میں مجھے ہلکے پھلکے ناشتے کے ساتھ بٹھا کر اپنی کار سے چابی لینے وہ نیچے گئے۔
’’شاید میرا موبائل گاڑی میں رہ گیا ہے۔ تمہارے موبائل سے رِنگ کر لوں؟‘‘ کہہ کر میرا موبائل ساتھ لے گئے۔ کافی دیر بعد میں نے دروازہ کھول کر دیکھنا چاہا کہ بات کیا ہے! لیکن وہ دروازہ لاک کر کے جا چکے تھے۔ پیپ ہول سے باہر کے گرل پر تالا دکھائی دے رہا تھا۔ سارا گھر پنجرا سا تھا۔ لوہے کی جالی سے گھِرا ہوا۔ میں پریشانی میں بے تحاشہ ٹہل رہا تھا۔ فرج میں کھانے پینے کا سامان موجود تھا مگر فون کی لائنیں کٹی ہوئی تھیں۔ میں نے سارا گھر ڈھونڈ ڈالا۔ رابطے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ تیسرے دن دوپہر بابو ماما فلیٹ پر آئے۔
’’یہ کیا کیا آپ نے؟ … وہ نیچے … ‘‘ میں دروازے کے پاس بھاگا کہ روشنی کی خبر لوں۔
’’ٹھہرو۔‘‘ ماما نے مجھے پکڑ لیا، ’’کہاں چلے؟‘‘
’’اپارٹمنٹس کے پچھواڑے میں روشنی کو سرکاری گارڈن کے جھولے پر انتظار کرتا چھوڑ آیا تھا۔‘‘ میں نے چیخ کے لہجے میں کہا۔
’’تم نے مجھے بتایا نہیں تھا کہ اسے گارڈن میں چھوڑ آئے ہو یا کہ وہ گارڈن میں بیٹھی تھی، نہیں تو کیا میں اُسے تمہارے پاس چھوڑ نہ جاتا؟‘‘
بابو ماما نے کہا۔ ’’صبح ایک لڑکی گارڈن میں سردی سے اکڑی ہوئی ملی تھی۔ بلڈنگ والے اسے ایک رکشہ میں ڈال کراسپتال میں چھوڑ آئے تھے۔‘‘
’’کون سا اسپتال؟‘‘ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے، میں اپنے آپ کو بابو ماما کے ہاتھ سے چھڑا کر دروازے سے باہر نکل گیا اور لفٹ کا بٹن دبا دیا۔ لفٹ اوپر آ رہی تھی۔ پہلے منزلے تک پہنچی ہی تھی مگراس کے فلور پر آنے سے پہلے ہی میں سیڑھیوں سے اتر نے لگا، بابو ماما نے آواز لگائی۔
’’امیر!‘‘ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ اُس وقت میری آنکھوں میں جیسے دھول اُڑ رہی تھی۔
’’ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ تمہاری روشنی ہے! اگر ایسا تھا تو تم چیخے چلّائے کیوں نہیں۔‘‘
’’بلڈنگ میں آپ کی بدنامی کے ڈر سے … !‘‘
بابو ماما عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔
’’مجھے لے چلئے وہاں!‘‘ میں بے حال ہو رہا تھا۔
’’اب مت جاؤ۔ پولیس انکوائری ہو رہی ہو گی۔ بچو گے نہیں۔‘‘
’’اس کے سامان میں ہماری شادی کے دستاویز ہیں۔‘‘ میرے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔
’’نہیں! شاید چوری ہو گیا سامان۔‘‘
’’آپ کیوں مجھے بند کر کے چلے گئے تھے؟آپ جانتے تھے میں اس کے ساتھ تھا!‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’۔۔ ۔ وہ لوٹ کیوں نہیں گئی … !!‘‘ ماما کی آواز میں پچھتاوا تھا۔
’’کہاں جاتی؟‘‘
’’ اپنے ماں باپ کے گھر۔۔ اور کہاں۔۔ ۔ کاش وہ ایسا کرتی!‘‘ بابو ماما نے آہ بھر کر دھیرے سے کہا۔
’’وہ نہیں گئی۔ اُس کے پاس کچھ پیسے بھی تھے … لوٹ سکتی تھی … مگر … اُسے مجھ پر اعتماد تھا … کہ میں اُسے … اور میں سمجھا … ‘‘
بابو ماما مجھے سینے سے لگانے لگے۔
’’روشنی مر گئی نہال … وہ مر گئی۔‘‘ وہ اپنی روَ میں کہتا چلا گیا، ’’سردیوں کی ٹھنڈی راتوں میں بھوکی پیاسی بیٹھے بیٹھے اکڑ کر مر گئی۔ طاقت بھی کہاں تھی بیچاری میں موسم کا مقابلہ کرنے کی … ساتھ میں بچہ!‘‘
میری نسوں میں سرد سی روَ بہنے لگی۔
’’اور تم خاموش تماشہ ہی دیکھتے رہے! … تو تم … تو تم اس کی لاش کو کندھا دینے نہ جا سکے؟‘‘
نہیں نہال! اسے کوئی کندھا نصیب نہ ہوا … !‘‘ اس کا گلا رُندھ گیا۔
’’کیونکہ تم سے شادی کر کے وہ کہیں جگہ پانے کے لائق نہیں رہی تھی۔ یہی نا؟‘‘ میں نے طنز سے کہا۔
’’پولیس نے اسے لا وارث قرار دیا … ہاں۔ وہ لا وارث … ‘‘ اُس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں مگر میرے دل پر اس کا اثر نہیں ہوا۔
’’جھوٹ! … تم اُس کے وارث تھے۔‘‘
’’میں کیا کرتا! … میرے حالات۔۔ میری عمر … ! کالج میں پڑھتے ہوئے لڑکے میں اتنی پختگی کہاں تھی!‘‘
’’یہ سب اُسے لے جانے، بیاہنے سے پہلے خیال میں نہیں آیا تھا کہ شادی ہوتی ہے تو پریوار بڑھتا ہے۔ اسے سنبھالنے کے لئے آمدنی کی ضرورت ہوتی ہے … ایک چھت کی ضرورت ہوتی ہے … ؟‘‘
’’ … نوجوانی کے جوش میں ہوش نہیں رہا تھا۔‘‘
’’ہاں اب یہی کہو گے تم؟ … سارے عقل کے اندھے یہی کہتے ہیں … مگر یاد رکھو، تم خونی ہو … دو انسانوں کے خوابوں، ان کے مستقبل کے ہی نہیں، دو جانوں کے بھی خونی … تم ان دونوں کے مجرم ہو!‘‘ غصے کی شدت سے میرا خون کھول اٹھا تھا۔ میرا ہاتھ اٹھ گیا، مٹھیاں کس گئیں۔ میں نے مشکل سے خود کو شانت کیا اور بولا،
’’آؤ اُن دونوں کی آتماؤں کی شانتی کے لئے دو منٹ کا مَون کریں۔‘‘ امیر نے مجھے حیرت سے دیکھا مگر میرے ساتھ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا بھی تھا۔
دو منٹ ہو گئے۔ میں نے اپنی آنکھیں کھولیں۔
’’سچ بتانا، تم نے شور اِس لئے نہیں مچایا تھا نا کہ وہ کہیں چلی جائے اور تم پر الزام نہ آئے … تم خود کو بے بس کہلاؤ … کہہ لو … ؟ تمہارے بابو ماما نے اپنی بیٹی سے
تمہاری شادی کروا دی ہو گی۔ اِس ہوٹل کو روشنی کا نام دے کر خود کو بہلا لیا ہو گا! بولو ہے نا! صحیح کہا نا میں نے؟‘‘
مگر وہ خاموش رہا جیسے سنا ہی نہ ہو۔ چار پانچ … دس منٹ۔ امیر نے اپنی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔ اس کا ہاتھ سینے پر بندھا ہوا ہی تھا اور گردن سینے پر جھُکی ہوئی تھی۔ میں اُس کے سُرخ چہرے کو ذرا دیر غور سے دیکھتا رہا۔ بریف کیس کے نیچے دبا ہوا کاغذ نیچے گرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے پاس پڑے بِلّوریں پیپرویٹ کو کاغذ کے اُس ٹکڑے پر رکھ دیا اور بریف کیس اٹھا کر وہاں سے نکل گیا۔
٭٭٭
ٹوٹی شاخ کا پتّہ
کار تیزی سے بورگھاٹ کی پہاڑیوں سے گزرتی جا رہی تھی۔ رئیسہ کار کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہچکولے کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کسی اندرونی درد کا اظہار کر رہی تھیں۔ آگے ڈرائیور کی سیٹ پر شہزاد بیٹھا تھا۔
’’شیزو!‘‘ اس نے بے اختیار آواز دی، ’’اور کتنا راستہ باقی ہے؟‘‘
شہزاد نے شاید اس کی بات سنی ہی نہیں تھی۔ سیٹی پر کسی تازہ فلم کی دھن بجاتا رہا۔
’’ذرا تیز چلاؤ۔‘‘
’’او کے‘‘ شہزاد نے کہا اور دوبارہ سیٹی بجاتے ہوئے کار کو موڑ پر گھمانے لگا۔
کھنڈالہ پہنچتے پہنچتے دھوپ چڑھ چکی تھی۔ شہزاد بھوک سے بے حال تھا مگر رئیسہ کو بالکل بھوک نہیں تھی۔ اس کی بھوک کسی کی بے وفائی کی یاد نے ختم کر دی تھی۔ آخر شہزاد کی ضد پر اس نے کھانا کھا ہی لیا۔
دو وسیع کمروں کی مشرقی اور مغربی کھڑکیوں کے قریب صاف ستھرے پلنگ لگوا دیئے گئے تھے۔ سامنے کشادہ گیلری، ایک جانب کچن، دوسری طرف بڑا سا ہال، سونے کے کمرے سے ملحق باتھ روم، ہلکا پھلکا فرنیچر، کچن میں گیس کی سہولت، بہر حال ہر طرح کا آرام تھا۔
’’شیزو! بنگلہ تو بڑا پیارا ہے۔ رئیسہ نے خوش دلی سے کہا۔
’’بہت خوبصورت‘‘ شہزاد نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔
سامان اندر رکھوا کر بنگلے کے باہر بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے رئیسہ اور شہزاد چائے کا انتظار کرنے لگے کہ منیر نظر آ گیا۔ اس کے ساتھ تین لوگ تھے۔ سبھی سیاہ سوٹ اور نیلی ٹائیوں میں ملبوس تھے۔ شاید وہ اپنے کلائنٹس کے ساتھ تھا۔ حیران حیران سا ان دونوں کو دیکھنے لگا۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں سے کچھ کہہ کر رئیسہ کے قریب آیا۔ وہ تینوں کانفرنس ہال کی طرف بڑھ گئے۔
’’جناب منیر صاحب! ان سے ملئے۔ یہ ہیں شہزاد میرے۔۔ ۔‘‘
’’نئے ڈرائیور!‘‘
’’دوست ہیں۔‘‘ رئیسہ نے منیر کے لہجے کی کاٹ اپنی مسکراہٹ سے دبا دی۔ ’’کل ہمارا پنچ گنی کا پروگرام ہے۔ کیا آپ ہمارا ساتھ دینا پسند کریں گے؟‘‘ رئیسہ نے پوچھا اور آگے بڑھ گئی۔
’’ڈرائیور کی ضرورت ہو تو ساتھ لے چلو۔‘‘ منیر کے لہجے کی کاٹ کو انجان بن کر اُڑن چھو کرتے ہوئے رئیسہ مسکرا کر بولی، ’’صبح نو بجے نکلیں گے۔‘‘
شہزاد آزاد خیال، امیر والدین کی اکلوتی اولاد۔ زندگی کے پل پل سے لطف اندوز ہونے کا خواہشمند، چوبیس سالہ نوجوان کسرتی جسم کا مالک تھا اور رئیسہ چھتیس برس کی حسین عورت، کمر کو چھوتے گھنگھرالے بال اس کے حسن میں اضافہ کر رہے تھے۔
’’تم اتنی دکھی کیوں ہو؟‘‘ شہزاد نے سوال کیا تو وہ ہنس دی۔
’’بھائی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اسی لیے نا؟‘‘ وہ جان بوجھ کر انجان بننے لگا۔
’’ارے بھئی شہزاد تم بھی کہاں کی کہانی لے بیٹھے۔‘‘ کہنے کو تو اس نے کہہ دیا لیکن اس کا بے چین دل کہہ رہا تھا، ’’شہزاد! تمہارے بھائی صاحب تو میرے لیے اسی دن مر چکے، جب انھوں نے شادی کی پیشکش رکھی۔‘‘
رئیسہ نو سال کی تھی جب نوشابہ بیاہ کر ان کے پڑوس میں آئی تھیں۔ اس منّی سی بچی سے انھیں بے حد پیار تھا۔ ’’رئیسہ رئیسہ‘‘ کہتے نہ تھکتی تھیں۔ نوشابہ کی سسرال میں کوئی نہیں تھا۔ وہ جلدی جلدی نوکروں سے کام کروا کر اس کے لئے فرصت بنا لیتیں۔ شام کورئیسہ اسکول سے ان کے یہاں آ جاتی اور پھر اپنی ماں کو بھی یاد نہ کرتی۔ ان کے شوہر مظہر بھی اکثر اسے پاس بٹھا کر کہانیاں سناتے۔ بھوتوں کی ڈراؤنی کہانیاں … اور وہ رات میں ڈر کر اپنی ماں سے لپٹ جاتی۔
دن ہمیشہ ایک جیسے کہاں رہتے ہیں! وقت ایک جگہ پر کہاں ٹھہرتا ہے! رئیسہ بڑی ہو چکی تھی۔ باجی اب بھی اسے گھر بلاتیں مگر وہ ماں کا چہرہ دیکھ کر انکار کر دیتی، البتہ صبح کے وقت اپنے گھر کے صحن میں لگی گلابوں کی کیاریوں کو پانی دیتے ہوئے مظہر بھائی سے گفتگو ہو جاتی۔ شام کے وقت وہ اپنے لان میں چائے کا انتظار کرتے ہوئے ملتے۔ باجی اکثر اندر باورچی خانے میں تلن میں مصروف ہوتیں۔ مظہر بھائی جانے کہاں کہاں سے لطیفے اور مزے مزے کے واقعات یاد رکھ کر اسے سناتے۔ وہ بھی میٹھی میٹھی باتیں کرتی۔ خوب ہنستی۔ باجی چائے لے آتیں تو وہ بھی محظوظ ہوتیں۔
’’آؤ رئیسہ بی! ساتھ چائے پئیں۔‘‘ وہ پیار سے آواز دیتیں، دیکھو تمہارے پسندیدہ سموسے بنائے ہیں قیمے کے۔‘‘
’’باجی! وہ مجھے ذرا کام ہے۔‘‘ وہ جھجھکتے ہوئے کہتی۔ یہیں دے دیں تو اور بات ہے۔ آپ کا دل رکھنے کے لیے کھا لوں گی۔‘‘ پھر تینوں بڑے مزے سے ہنسنے لگتے۔
’’اور آپ باجی۔‘‘ رئیسہ سموسے کا بڑا سا ٹکڑا اپنے منہ میں رکھ لیتی۔
’’وہ تو پکاتے پکاتے کھاتی رہتی ہیں۔ دیکھو نا کیسی موٹی تازی ہو گئی ہیں۔‘‘ مظہر ایک طویل قہقہہ لگانے کا لطف لیتے۔
نوشابہ رئیسہ کے دکھ کو سمجھتی تھی۔ اس کی دونوں بڑی بہنیں سولہ اور اٹھارہ سال کی ہو چکی تھیں۔ باپ کمپاؤنڈری کرتے کرتے چار پہلے ہی فوت ہو چکا تھا۔ امی کی خواہش تھی کہ اپنی بچیوں کو اچھی تعلیم دیں لیکن ممبئی کے مضافات میں تھانے ضلع کے وسئی شہر میں ہتَّی محلہ ‘ میں نانا میاں کی درگاہ کے قریب اپنے خاندانی مکان میں ایک حصے کو کرائے پر اٹھا دینے سے صرف پانچ ہزار روپے ہاتھ آتے تھے۔ چنانچہ لڑکیوں کی پڑھائی روک دی گئی اور رئیسہ تیسری جماعت میں ہی گھر بٹھا لی گئی۔ ویسے بھی اسے پڑھائی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اسے تو نئی نئی دوست بنانے، کھیلنے کودنے اور گانے بجانے کا شوق تھا۔ اس وقت تو اسے باجی پر بہت غصہ آیا جب انھوں نے رئیسہ کی پڑھائی کا ذمہ اپنے سر لینا چاہا۔ رئیسہ نے انکار کر دیا لیکن امی نے اشاروں اشاروں میں اکبر کی پڑھائی کی طرف دھیان دلا دیا اور باجی بات گول کر گئیں۔
اکبر امی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ آوارہ گرد دوستوں کی صحبت نے اسے نکمہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ اپنے گھر کے پچھواڑے کے گھروں کی قطار سے گزر کر تکیہ محلہ سے نکل کر وہ سمندر کے ساحلوں پر دوستوں کے ساتھ خرمستیوں میں مگن رہتا۔ کبھی تیرتا ہوا سمندر میں بنے وسئی قلعے تک پہنچ جاتا۔ کبھی درگاہ کی پشت سے کولی واڑا، ہولی اور بندر محلہ میں دھوم مچاتے ہوئے اس طرف کے قلعے پر شرارتوں کے جھنڈے گاڑتا۔ ناریل اور تاڑ کے پیڑوں پر چڑھ جانا اس کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کبھی پاپلیٹ، گھول، سرمئی، حلوہ مچھلیاں شکار کر لاتا۔ کبھی دوستوں سے سوکھے جھینگے مانگ کر گھر لے آتا اور پکانے کی فرمائش کرتا۔ اس کے ساتھی بگڑے ہوئے امیر عیسائی کولی تھے۔
سب قابل برداشت تھا لیکن جب اکبر بہنوں کی شادی کے لیے رکھے ہوئے زیور سمیت ایک دوست کی بہن کو لے کر فرار ہو گیا تو امی کی کمر ٹوٹ گئی۔ وہ دیوانی سی ہو گئیں۔ جوان بیٹیاں پہاڑ معلوم ہونے لگیں۔ اب ایسے کی بہنوں کو کون شریف بیا ہے گا!
دن اپنے سارے بکھیڑے ختم کر کے کوچ کر چکا تھا۔ بارش کی آمد آمد تھی۔ بادل مہیب دیو کی طرح بانہیں پسارے گویا کسی شکار کی تلاش میں سرگرداں نظر آ رہے تھے۔ امی ٹین میں بچے کھچے چاول صاف کر رہی تھیں۔ تینوں بیٹیاں خاکی کاغذوں سے لفافے بنا رہی تھیں کہ یہی ان کی روٹی روزی کا ذریعہ رہ گیا تھا۔ دروازے کی گھنٹی بجی۔ رئیسہ اٹھی۔ دروازہ کھلا۔
’’السلامُ علیکم‘‘ مردانہ آواز آئی۔ بڑی دونوں نے کاغذ، لفافے سمیٹے اور اندر کو دوڑیں۔
’’وعلیکم السلام مظہر بھائی!‘‘ رئیسہ نے بڑھ کران کے سلام کا جواب دیا۔ اس نے دو ہفتوں بعد انھیں دیکھا۔ مظہر کام کاج کے سلسلے میں گوا گئے ہوئے تھے۔ نوشابہ کا مائیکہ وہیں کا تھا۔ گوا کے شہر’ ماپسا‘ میں انہوں نے ایک بنگلہ بھی خرید رکھا تھا، جس کی دیکھ بھال بھی ہو جاتی تھی، اسی لیے وہ بھی ساتھ گئی تھیں۔
’’باجی آ گئیں؟‘‘ رئیسہ نے چہک کر پوچھا۔
’’آج وہ کرن پانی گاؤں اپنی ایک دوست کے گھر گئی ہیں۔‘‘
’’کِرن پانی! گاؤں کا نام!! ؟‘‘ وہ ہنس دی۔
’’کہا جاتا ہے کہ یہاں سمندر میں ویتال کی مورتی ملی تھی۔ سورج کی پہلی کرن اسی مورتی پر پڑی تھی۔ اس مورتی کو پانی سے نکال کر مندر میں رکھ دیا گیا اسی سے اس کا نام کرن پانی پڑ گیا۔‘‘
’’راجہ وکرمادتیہ اور اور بے تال والے ویتال؟؟ ہم نے بچپن میں ٹی وی پر ان کی کہانیاں دیکھی ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں وہی۔ گوا میں سبھی جگہ ویتال کی مورتیاں ہیں۔ کرن پانی، ماپسا سے بس آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔‘‘
’’باجی بتا رہی تھیں کہ گوا بہت خوبصورت ہے۔ ہمیں بھی لے چلئے نا کبھی گوا!‘‘
اور اس سے پہلے کہ مظہر کچھ جواب دیتے امی نے رئیسہ کو حکم دیا، ’’ رئیسہ چائے لے آؤ۔‘‘ اور وہ خاموشی سے اندر چلی گئی۔ بڑی آپا سے چائے کا کہہ کر وہ دروازے کے پیچھے کھڑی ہو کر ان دونوں کی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگی۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے اس نے بچپن میں بارہا امی کی مار بھی کھائی تھی مگر کمبخت چھوٹتی ہی نہیں تھی۔ اور پھر مظہر بھائی کی باتیں۔ میٹھی میٹھی اور پیاری! اس نے کسی ایسے ہی صحتمند مہذب نوجوان کا خواب دیکھا تھا۔ وہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔
’’پھر نوشابہ کا کیا ہو گا؟‘‘ امی کی دھیمی آواز آئی۔
’’آپ جانتی ہی ہیں میں اولاد کا خواہشمند ہوں۔ دس سال ہو چکے ہیں۔ اب تو ڈاکٹروں نے بھی کہہ دیا ہے۔ سب کچھ ہے پھر بھی کسی چیز کی کمی ہے۔ اسے کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ اسے الگ رکھوں گا۔‘‘
’’رئیسہ میری سب سے چھوٹی اور نازوں کی پلی بیٹی ہے۔ پھر ابھی بڑی دو بھی تو بیٹھی ہیں۔‘‘ امی نے دوسرا رخ پیش کیا۔
’’میں رئیسہ کو زیادہ بہتر جانتا ہوں۔‘‘ مظہر نے ذرا مستحکم لہجے میں کہا۔
’’جیسی آپ کی مرضی۔‘‘ امی کی نڈھال آواز آئی، ’’آج نہیں تو کل اس کی بھی تو شادی ہونی ہی ہے۔‘‘
’’آپ لوگ میرے لئے غیر تو نہیں۔ میں اکبر کو دوکان میں لگوا دوں گا۔ آپ اسے بلوا لیجئے، ورنہ میں اپنی چوک کی دوکان کا کرایہ آپ کے نام لکھ دیتا ہوں۔‘‘ بڑے کاروباری انداز میں کہا گیا۔ رئیسہ کو نتّھو بنئے کا خیال آیا۔ وہ بھی تو کچھ اسی انداز میں سودا کرتا ہے۔
پھر جاتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔
’’چائے لے جاؤ نا!‘‘ بڑی آپا رئیسہ کو جھنجھوڑ رہی تھیں لیکن جیسے وہ سن ہی نہیں پا رہی تھی۔ اس کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ مظہر بھائی اب عظیم نہیں رہے تھے۔ کانچ کے گُڈّے کی طرح نیچے آ رہے تھے۔۔
’کیا میں اپنی پیاری نوشابہ باجی کا گھر اجاڑ دوں گی! ۔۔ ۔‘‘ رئیسہ نے اپنے آپ سے پوچھا۔
’’ہرگز نہیں۔‘‘ رئیسہ نے نہایت جذباتی ہو کر سوچا۔
رات دسترخوان پر کئی قسم کی مٹھائیاں رکھی ہوئی تھیں لیکن کسی نے انھیں ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ بہنیں سخت ناراض تھیں مگر امی کے چہرے پر اطمینان بخش کش مکش کی لہریں ابھر اور مٹ رہی تھیں۔
’’امی میں شادی نہیں کروں گی۔ بڑی آپا اور چھوٹی آپا دونوں کی کر دیں۔ میں آپ کے پاس ہی رہوں گی۔‘‘ رئیسہ نے شکایتی لہجے میں کہا۔
’’ان دونوں کی شادی مظہر میاں کروا دیں گے۔‘‘ امی نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’رئیسہ تو پندرہ سال کی بھی نہیں۔ اور وہ پینتیس … چالیس … ‘‘
’’چپ کر بڑی! اس کے نصیب کھلے ہیں تو تجھے کیا!‘‘ وہ سختی سے بولیں اور بڑی گنگ رہ گئی۔ یہ تو مطلب نہ تھا اس کا!
’’امی مجھے نوشابہ باجی بہت پیاری ہیں۔‘‘ رئیسہ دھیرے سے بولی۔
’’اسی لئے تو تجھے اس کی پناہ میں دے رہی ہوں۔‘‘
پھر کوئی کچھ نہ بولا۔
رئیسہ اور مظہر کی شادی ہو گئی۔ نوشابہ پھر گوا سے نہیں لوٹی۔ اس نے کبھی رئیسہ سے رابطہ کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ اسے محبت راس نہیں آئی تھی۔ رئیسہ اس کے بسائے ہوئے گھر میں رہنے لگی۔ اس کی زندگی میں ایک غیر متوقع انقلاب آ چکا تھا۔ اور رئیسہ کے دل میں اٹھی نفرت کی چنگاری سونے کے ڈھیر تلے دبا دی گئی۔ حسن سنور کر اور نکھر گیا۔ اس کی دونوں بہنیں کھاتے پیتے گھرانوں میں بیاہ دی گئیں۔ امی اکیلی اپنے مکان کے ایک کونے میں پڑی رہتیں لیکن رئیسہ کا دل نہ چاہتا کہ ان کے گھر جائے۔ وہ بیچاری تڑپتی رہتیں۔ بیٹے کی آس تو کب کی چھوڑ چکی تھیں۔ عید برات کے روز تینوں بہنیں اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ ماں کے گھر یکجا ہوتیں۔ خوب ہنسی مذاق ہوتا۔ بڑی اور منجھلی کے شوہر اپنی بیویوں سے خوب چھیڑ چھاڑ کرتے۔ گپیں ہوتیں لیکن مظہر صرف مسکراتے رہتے۔ شاید ان کے سامنے وہ اپنے کو بزرگ محسوس کرتے تھے۔ بہنوں کے بچوں کو دیکھ کر رئیسہ کو رشک سا محسوس ہوتا۔ وہ بہنوں کے سامنے جان بوجھ کر زیوروں سے لدی پھندی جاتی۔ لیکن ان کے گلوں میں جھولتے بچوں کو دیکھ کر اسے اپنے زیور بوجھ لگنے لگتے۔
پھر رئیسہ نے بناؤ سنگھار کرنا چھوڑ دیا۔ سادگی اختیار کر لی۔ مظہر جب بھی گھر میں رہتے، رئیسہ انھیں زیادہ تر قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف دکھائی دیتی۔ مظہر بھی شاید اس کے جذبات کو سمجھتے تھے۔ انھوں نے اس کی اپنی طرف سے بے پروائی کی کبھی شکایت نہیں کی لیکن اس سرد مہری نے انھیں گھلا کر رکھ دیا۔ کارو بار میں زیادہ دھیان دینے لگے۔ وہ اکثر گھر سے باہر ہی رہتے۔
شام کے پانچ بج رہے ہوں گے۔ رئیسہ ٹہلتے ٹہلتے اپنی امی کے گھر کے پچھواڑے نکل آئی۔ برآمدے میں منیر بیٹھا کینوس میں قید برفانی منظر میں رنگ بھر رہا تھا۔
’’تصویر بناؤ گے میری بھی؟‘‘ وہ منڈیر پر بے تکلفی سے بیٹھ گئی۔
’’ہاں کیوں نہیں!‘‘ منیر کی محویت ٹوٹی، ’’مصوری میں ایم اے کس لیے کر رہا ہوں!!‘‘ اس نے اپنی ڈگری جتا دی۔
’’لیکن معاوضہ کتنا ہو گا؟‘‘
’’جتنا تم چاہو گی۔‘‘ وہ مسکرا کر تصویر مکمل کرنے لگا۔ رئیسہ کی خاموشی سیپلٹ کر بولا، ’’ارے نہیں، میں تو یونہی کہہ رہا تھا۔‘‘
’’میں اپنے بچپن کی دوست سے معاوضہ لوں گا!!‘‘
وہ چونکی۔ ’’مگر محنت تو تم کرو گے ہی … اور پھر سامان کا خرچ … !!‘‘
’’پھر!!‘‘
’’معاوضہ بھی لینا ہو گا۔‘‘
’’مغرور‘‘ منیر نے زیرِ لب کہا تو وہ گنگ رہ گئی، ’’پھر کل سے یہاں آ جایا کرو گی؟‘‘
’’اگر مغرور نہ سمجھو تو میرے یہاں آ جاؤ۔‘‘
’’بچے ڈسٹرب کریں گے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
تمہارے بچے نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ کہتے ہوئے وہ منڈیر سے اٹھی اور گھر چلی آئی۔
تصویر پر رنگ بکھیرتے بکھیرتے منیر نے رئیسہ کی زندگی کی بے رنگی کو بھی جان لیا۔ بے رنگ اداس زندگی میں اس نے شوخ چٹکیلے رنگ بھرنے شروع کر دیئے۔ وہ اپنے پینٹنگ جگت کے تجربے بلکہ دنیا بھر کی دلچسپ خبریں اسے سناتا اور رئیسہ کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر خوش ہوتا۔ رئیسہ نے بھی اپنی ہنسی کی آواز سولہ سال بعد پہلی بار سنی تھی۔ اسے مظہر کا خیال آ جاتا۔ وہ بیچارے تو اتنے سالوں میں اس کی پہلی سی کھلی مسکراہٹ کو ترستے رہے تھے۔ وہ منیر کے ساتھ خوش تھی۔
مظہر سنگاپور کے سفر سے لوٹ آئے تھے۔ لان میں مظہر، رئیسہ اور منیر کے ساتھ چائے پی رہے تھے۔ رئیسہ نے اپنے ہاتھوں سے ان کے پسندیدہ قیمے کے سموسے اور پُڈنگ تیار کیے تھے۔
’’اس بار آپ کی کمی بہت محسوس ہوئی۔‘‘ رئیسہ نے چہک کر مظہر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ۔۔ ۔ کیونکہ‘‘ وہ بوکھلا گئی۔ ’’بہت اکیلی ہو گئی ہوں نا!‘‘
’’وہ تو پہلے بھی تھیں۔‘‘ مظہر نے بے پروائی سے کہا۔
منیر کا ہاتھ پُڈنگ کی طشتری پر رک گیا۔
’’اس بار آپ کچھ دنوں کے لیے میرے پاس رہیں۔ ہم شاہ بابا کی درگاہ پر جائیں گے۔‘‘
’’کوئی خاص بات؟‘‘
’’ہاں منت مانی ہے۔‘‘
’’کیسی منت؟‘‘
’’ایسے ہی۔ کہتے ہیں، شاہ بابا کے دربار سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔‘‘
’’کیا مانگو گی؟‘‘
’’ہماری زندگی۔‘‘
’’پینٹر صاحب کے ساتھ چلی جاؤ۔‘‘ انہوں نے سادگی سے کہا۔ رئیسہ اور منیر دونوں ہی کے دل کانپ گئے۔
’’آپ سنگاپور تھے، تب میں منیر کے ساتھ دو بار شاپنگ کے لئے چلی گئی تھی۔ ڈرائیور نہیں آیا تھا نا!‘‘ رئیسہ نے اطلاع دی۔
’’پتہ ہے۔‘‘ مظہر نے معمولی لہجے میں کہا۔
’’کیا!!‘‘ رئیسہ کے منہ سے نکلا۔
’’مظہر بھائی صاحب! مجھے اجازت دیں۔‘‘ منیر چائے کا آخری گھونٹ حلق میں انڈیل کر اٹھ کھڑا ہوا بولا، ’’ایک ضروری میٹنگ کے لیے پُونا جانا ہے۔‘‘
’’بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ آپ کے لوٹنے سے پہلے میرا ٹور طے ہے۔ اگلی بار جب لوٹوں تب تک شاید آپ کی کئی تصویریں بن جائیں!‘‘
’’خدا حافظ‘‘ منیر نے کہا اور جلدی سے گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔
’’اچھا منیر صاحب خدا حافظ!‘‘ مظہر نے ذرا زور سے آواز لگائی۔
’’چلو گے نا میرے ساتھ؟‘‘ اپنی شادی شدہ زندگی میں وہ پہلی بار وہ مظہر سے اس طرح لبھاؤنے انداز میں بولی تھی۔
’’کل جمعرات بھی ہے۔‘‘
’’کہا تو منیر کے ساتھ چلی جاؤ۔‘‘
’’مگر وہ تو پونا جا رہا ہے۔‘‘
’’اس سے کہہ دو کہ پونا پرسوں چلا جائے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ منہ پھلا کر بولی، ’’آپ کے رہتے میں کسی کے ساتھ کیوں جاؤں؟‘‘ آج وہ اپنی تمام ادائیں ان پر صرف کر رہی تھی۔ پچھلے کچھ برسوں میں مظہر ذیابیطیس سے پوری طرح ڈھل گئے تھے۔ آنکھوں کی روشنی کم ہو چلی تھی۔ آج وہ اپنے بڑھاپے کو شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ اپنی جوان بیوی کی ناز برداری ان سے نہ کی گئی۔ زندگی کے پچپن سال انہیں بوجھ لگنے لگے۔
’’ٹھیک ہے، مجھے پرسوں ٹور پر جانا ہے۔ کل درگاہ لے چلوں گا۔‘‘
’’کچھ دن نہیں رہو گے میرے ساتھ؟‘‘
’’میرا کتنا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ رہوں۔‘‘
’’مظہر نے تعجب سے اسے دیکھا۔ اتنے سالوں کے انتظار کے بعد رئیسہ کی زبان شہد ٹپکا رہی تھی۔ انھوں نے بھرپور نظروں سے جائزہ لیا۔ گلابی شلوار قمیص، سچی موتیوں کی مالا، کانوں کے ہیروں کے جھمجھماتے بندے، سونے میں گُندھے ہوئے ہیروں کے کڑوں والی بانہیں دراز تھیں۔ ان کا جی چاہا، زندگی کے وسیع میدان میں پیچھے کی طرف دوڑتے چلے جائیں اور پھر تھک کر پھولوں کے بستر پر سو جائیں لیکن طبیعت میں جو سنجیدگی آ چکی تھی اسے وہ پل بھر میں دور نہ کر سکے۔ اڑتی اڑتی خبروں کو وہ رئیسہ کے کچھ میٹھے بولوں میں بھلا بیٹھے۔ سال کے آخری مہینے تھے۔ اس سال رئیسہ نے انھیں کہیں جانے نہیں دیا۔ اس دوران منیر کبھی کبھی اس طرف آ نکلتا۔ رئیسہ نے اسے پھر کبھی اہمیت نہیں دی۔ تصویر بن چکی تھی۔ منیر بہت خوشدلی کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا۔ مظہر بڑے کھلے دل سے اس سے ملتے۔
نعیمہ کی پیدائش پر مظہر نے خوشی کا اظہار کیا۔ مٹھائیاں بنٹیں۔ خوشیاں منائی گئیں۔ نعیمہ ننھے ننھے گہنوں کپڑوں سے لد گئی۔
رئیسہ نے شاہ بابا کے مزار کے لیے گلابوں کی پھولوں کی چادر بھجوائی۔
’’سب شاہ بابا کی دعاؤں کا پھل ہے۔‘‘ رئیسہ بار بار کہتی اور مظہر فوراً بچی کو گود میں اٹھا لیتے۔ وہ جھٹ اپنی جیب سے نرم برش نکال کر پیار سے اس کے بال سنوارنے لگتے۔
نعیمہ سال بھر ہی کی تھی جب مظہر عمرہ کے ارادے سے مکہ مکرمہ گئے۔ وہاں ایک صبح نماز پڑھتے پڑھتے جانماز پر انھوں نے دم توڑ دیا۔ وہ وہیں تدفین پا گئے۔
بہنیں پرسہ دینے آئیں۔ اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔ امی نے رئیسہ کے ساتھ رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن اس کی خاموشی دیکھ کر چپ ہو رہیں۔ شاید اسے اپنی آزادی عزیز تھی۔
دوپہر کا وقت تھا۔ نعیمہ دودھ پی کر جھولے میں سو رہی تھی۔ عدّت کے چار مہینے، دس دن گزر چکے تھے۔ رئیسہ کی نئی پڑوسن اتفاق سے اس کی اسکول کی دوست بھی تھی۔ یہ نئے نئے انداز کے جوڑے بنانے میں ماہر تھی۔ رئیسہ نے کل ہی اس سے ایک نئی طرز کا جوڑا بنانا سیکھا تھا۔ اسی کی مشق کر رہی تھی۔ بالوں کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر اوپر اٹھایا ہی تھا کہ اچانک منیر کی آواز آئی۔
’’ارے!!‘‘ اُس نے تو آیا کے لئے گیٹ کھلا رکھ چھوڑا تھا۔
’’کتنی پیاری بچی ہے۔‘‘ رئیسہ نے لجا کر ہاتھ چھوڑ دیے۔ بال کھُل کر بکھر گئے۔
’’ بہت پیاری! بالکل اپنے ابّا سی، ہے نا!‘‘ منیر نے نعیمہ کو بانہوں میں اٹھا لیا۔
’’تم بیٹھو میں تمہارے لیے کچھ لے آؤں۔‘‘ رئیسہ نے کہا۔
’’نہیں بھئی میں تو یونہی۔ پرسہ دینے چلا آیا۔ کہو کیسی ہو؟‘‘
’’پرسہ … ہوں … ‘‘ حقارت سے بھری رئیسہ کی آواز حلق میں پھنسی رہ گئی۔
’’کہو کیسی ہو؟ کبھی ہماری بھی یاد آئی؟‘‘ وہ بھی ہلکے سے طنز سے بولا۔
’’جناب تو بذاتِ خود ہمارے دل میں رہتے ہیں۔‘‘ رئیسہ نے اپنے لہجے میں نرمی پیدا کی۔
’’اچھا!‘‘ طنز سے کہا گیا۔
’’اچھا بتاؤ کب سے آ رہے ہو تصویر بنانے۔‘‘ رئیسہ نے طنز کی پروا نہیں کی۔
’’اگلے مہینے شادی ہے ایں جناب کی!‘‘
’’ منیر، میں تمہارے لیے۔۔ ۔!‘‘
’’نہیں رئیسہ، میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔ کہا بھی تھا، طلاق لے کر میرے پاس چلی آؤ مگر تم نہیں مانیں۔‘‘
’’تم جانتے ہو تمہارے گھر والے میرا منہ بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ تمہاری ماں تو میری دشمن ہی ہو چلی تھیں۔ مجھے کس طرح بدنام کر رہی تھیں!‘‘
’’سب کہنے کی باتیں ہیں۔ ان کو کون سا ہمارے یہاں رہنا تھا۔ گاؤں میں ہی رہتی آئی ہیں مگر تمہیں تو شوہر کی دولت چاہئے تھی۔ اولاد کی کمی تھی سو پوری ہو گئی۔‘‘
’’نہیں منیر یہ بات نہیں۔ میں … کیا رکھا ہے اب ان باتوں میں! … چلو بے بی کے ساتھ میری ایک تصویر بنا دو۔‘‘
’’نہیں رئیسہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب میں نے مصوری کا پیشہ چھوڑ دیا ہے۔‘‘ وہ دیوار کی پینٹنگ کریدنے لگا۔ کبھی اس نے بڑے پیار سے وہاں گل بوٹے بنائے تھے، ’’اور شادی کر رہا ہوں۔‘‘
’’ایک دولتمند گریجوئیٹ لڑکی سے؟؟‘‘
منیر خاموش تھا۔
’’میری ساری دولت تمہاری ہی تو ہے۔‘‘ وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔
’’مایوس کیوں ہوتی ہو جان! تم اب نعیمہ کو سنبھالو گی یا مجھے!‘‘
’’مگر وہ تو۔۔!‘‘
’’اب ان باتوں میں کچھ مزا نہیں رئیسہ! چھوڑو، کچھ اچھی باتیں سناؤ۔‘‘
اس واقعے نے رئیسہ کی امنگوں کا خاتمہ کر دیا۔ وہ محل اچانک کھنڈر میں تبدیل ہو گیا جو اس نے مظہر کی بے پناہ جائیداد، منیر کے پیار اور مظہر کی تیزی سے گرتی ہوئی صحت کی بنیادوں پر تعمیر کیا تھا۔ اس پر ایک عجیب سی دیوانگی بھری جھنجھلاہٹ طاری ہو گئی۔ نعیمہ کا وجود اب ایک ایسا پنجرہ بن گیا تھا، جس میں وہ بری طرح محبوس کر دی تھی۔
اور نعیمہ اپنی نانی کے پاس بھیج دی گئی۔
رئیسہ کی زندگی میں انقلاب آ گیا۔ وہ اونچی سوسائٹی کے تقاضوں کو پورا کرنے لگی۔ بال ترش گئے۔ کلبوں میں شامیں گزرنے لگیں۔ کینوس پر بے شمار رنگ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہونے لگے اور اس کی زندگی کی گاڑی بڑی تیزی سے راستے بدلنے لگی۔
ایسی ہی ایک پارٹی تھی۔ اپنی نئی دوست مسز فرنانڈیس کے دیور ولیم کی سالگرہ کی پارٹی۔ وہیں رئیسہ کو شہزاد مل گیا۔ اتفاق ہی تھا۔ مسز فرنانڈیس اسی ٹیبل پر بیٹھی تھیں جس پر شہزاد بیٹھا ولیم کے ڈانس کے ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔
’’ان سے ملو رئیسہ، دہلی سے بی کام ایم بی اے کر کے لوٹے ہیں۔ نام شہزاد دیکھنے میں شہزادہ، ہمارے ایڈورٹائزنگ بزنس کی جان۔ ماڈلنگ کی دنیا میں بھی دھوم نہ مچائی تو جو کہو وہ ہار دوں!!‘‘ مسز فرنانڈیس نے جوش کے ساتھ متعارف کروایا۔
اور اب چوبیس سالہ شہزاد رئیسہ کا دوست، بہت گہرا دوست اور غم گسار تھا۔
کھنڈالہ میں ’سمر پیلیس‘، ایک خوبصورت بنگلہ کرائے پر لے لیا گیا تھا۔ چوکیدار نے بہت اچھا کھانا بنا یا تھا۔ دونوں اپنے اپنے کمروں میں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔
شہزاد خود سے بری طرح پریشان تھا۔ منیر کی ملاقات اور زہریلی معنیٰ خیز باتوں سے شہزاد کا موڈ بری طرح خراب تھا۔
’’ماں سے جھوٹ بول کر کیوں آیا تھا یہاں؟ … منیر کا رویہ کتنا عجیب سا تھا۔۔ کس بھنور میں پھنس رہا ہے ہوں میں!!‘‘
شام تک شہزاد کا موڈ ٹھیک ہوتا نہ دیکھ کر رئیسہ نے لوناولہ کے ’نیل کمل‘ تھیٹر میں آن لائن دو ٹکٹیں بک کر لیں۔ لیکن کار کا انجن الیکٹریکل خرابی کی وجہ سے اسٹارٹ ہونے سے انکار کر کر رہا تھا۔ شہزاد کا موڈ اور خراب ہونے لگا۔
’’ٹیکسی لے لیتے ہیں۔ موڈ کا ستیاناس کیوں کریں۔‘‘ رئیسہ نے کہا تو وہ راضی ہو گیا لیکن دستوری گاؤں تک پہنچے ہی تھے کہ ٹیکسی جھٹکا کھا کر رک گئی۔
’’ ٹائر پنکچر ہو گیا ہے۔ میں ابھی ٹائر بدل دیتا ہوں میم صاحب! ۔۔ صرف پانچ منٹ لگیں گے۔‘‘ ڈرائیور تیزی سے ٹیکسی سے اترتے ہوئے بولا۔
’’افوہ!‘‘ رئیسہ کے منہ سے نکلا۔
’’لگتا ہے اپنی قسمت میں آج کے روز فلم نہیں!‘‘ شہزاد بیزاری سے ہنسا، ’’چلئے واپس چلتے ہیں۔‘‘
’’نہیں شیزو!‘‘ رئیسہ نے عجیب سے فیصلہ کن لہجے میں کہا، ’’ میں ٹیکسی بدلنا پسند کروں گی۔‘‘
اور کرایہ ادا کرنے کے لئے اپنا پرس کھولا۔ اسی وقت موبائل کی گھنٹی بجی۔ چند لمحوں بعد رئیسہ سڑک کنارے برگد کے درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔
’’طبیعت تو ٹھیک ہے؟ پانی لاؤں؟‘‘ شہزاد پاس کھڑا پوچھ رہا تھا۔
’’شیزو مجھے گھر جانا ہو گا۔‘‘
شہزاد اُس پارہ صفت خاتون کا چہرہ حیرت سے دیکھنے لگا۔
’’امی نہیں رہیں۔‘‘
’’آپ کی بچی آپ کے حوالے کرنے آئی ہوں۔‘‘ چند روز بعد رئیسہ نوشابہ کے گھر میں تھی۔ اس کی گود میں نعیمہ تھی۔ نوشابہ نے درد کے ساتھ رئیسہ کو دیکھا۔
’’شاہ بابا کی دعاؤں کا پھل ہے۔‘‘ رئیسہ نے اپنے سر پر پلو ٹھیک کیا۔
’’یہ لو وہ خط جو انتقال سے پہلے مظہر نے تمہارے لیے لکھا تھا۔ غلطی سے مکہ سے ان کے سامان کے ساتھ مجھے بھیج دیا گیا۔‘‘
’’رئیسہ جان!
جانتی ہو، اللہ تعالیٰ نے دنیا سے معجزے اٹھا لئے ہیں۔ میں تمہیں شاہ بابا کے مزار پر لے گیا۔ اللہ مجھے معاف کرے۔ شوگر کی زیادتی سے آنکھوں کے ساتھ ساتھ میری فرٹیلٹی ختم ہو چکی
تھی۔ پتہ کر لیا تھا مگر میں نے یہ بات بھی تم سے چھپا لی تھی تاکہ تمہیں شرمندگی محسوس کرنے سے بچا لوں۔ اب بھی نہیں چاہتا لیکن آج دل بھاری سا ہے۔ تم سے کچھ کہنے کا جی ہے۔ ابھی خط پھاڑ کر پھینک دوں گا۔ سنو! میں نے تمہیں معاف کیا۔ تم اللہ سے معافی مانگ لینا۔
تمہارا بہت چاہنے والا شوہر
مظہر‘‘
خط پڑھ کر رئیسہ نے اسے خاموشی کے ساتھ اپنے پرس میں رکھ لیا۔ کچھ دیر دونوں سوکنیں گم سم سی بیٹھی رہیں پھر رئیسہ نے نوشابہ سے نظر ملا کر کہا:
’’جانتی تھی، فرٹیلٹی کلینک بھی تو ہیں … ایک بچے کی خواہش تھی … کیا تھا؟ یا نفرت؟ میں کس سے بھاگتی رہی؟نفرت کرتی رہی؟ کس سے؟آپ سے؟اپنے آپ سے؟اپنی امی سے؟ مظہر سے؟کون سا عدم تحفظ کا احساس تھا؟ کیوں خود کو ذلیل کیا؟۔۔ کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں، پیاری نوشابہ باجی؟؟‘‘
وہ نوشابہ کے گھٹنے سے لگی ہوئی تھی۔ نعیمہ زمین پر رینگتے رینگتے اندرونی دروازے کی دہلیز تک پہنچ گئی تھی۔
٭٭٭
مصنفہ کے بارے میں
اصل نام: ۔ صادقہ آراء (پہلے صادقہ آراء سحرؔ کے نام سے شائع ہوئی)
تعلیم: ۔ پی ایچ ڈی، ایم اے (اردو)، ایم اے (ہندی)، ایم اے (انگریزی)، ڈی ایچ ای، سیٹ
ادبی شناخت: ۔ ناول و افسانہ نگار، شاعرہ، ڈرامہ نگار، تنقید، بچوں کا ادب
ذریعۂ معاش: ۔ درس و تدریس۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر، ریسرچ گائیڈ و صدر شعبۂ ہندی، کے ایم سی کالج، کھپولی، (ممبئی یونیورسٹی) ضلع رائے گڑھ، مہاراشٹر ۴۱۰۲۰۳
شوہر: ۔ محمد اسلم نواب
والدین: ۔ خواجہ میاں صاحب اور شرف النساء بیگم
پتہ: ۔ ۳۰۱، صادقہ مینشن، شاستری نگر، کھوپولی، ضلع رائے گڑھ، مہاراشٹر ۴۱۰۲۰۳
فون: ۔ ۶۷۰۵۴، ۶۲۷۲۰۔ ۰۲۱۹۲، 09370821955
مطبوعات: ۔ (اردو کتابیں )
۱۔ انگاروں کے پھول (شعری مجموعہ) ۱۹۹۶
۲۔ پھول سے پیارے جگنو (بچوں کی نظموں کا مجموعہ) ۲۰۰۳
۳۔ کہانی کوئی سناؤ متاشا (ناول) ۲۰۰۸، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دلی
۴۔ کہانی کوئی سناؤ متاشا (ناول) ۲۰۱۰، شہرزاد پبلی کیشنس، کراچی سے
۵۔ مکھوٹوں کے درمیان (اردو کا طبعزاد ڈرامائی مجموعہ) ۲۰۱۲ تخلیق کار پبلشر، دلی
۶۔ خلش بے نام سی (افسانوں کا مجموعہ) ۲۰۱۳ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دلی
۷۔ ’’جس دن سے۔۔ ۔۔!‘‘ (ناول) ۲۰۱۶، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دلی
(ہندی کتابیں)
۸۔ پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ، (مجروح سلطانپوری کی کلیات کا ترجمہ و ادارت ہندی میں، سارانش پرکاشن، دہلی سے) ۲۰۰۰ء
۹۔ لوک پریہ کوی مجروح سلطانپوری (مجروح سلطانپوری کی غزلوں کا ترجمہ و ادارت ہندی میں، وانی پرکاشن، دہلی سے ) ۲۰۰۲
۱۰۔ ہندی غزل: فکر و فن، خصوصی جائزہ: دُشینت کمار (تحقیق) ۲۰۰۷
۱۱۔ پتھروں کا شہر ۲۰۰۳
۱۲۔ کہانی کوئی سناؤ متاشا (ناول) ہندی میں بھاونا پرکاشن، دہلی، ۲۰۰۹
۱۳۔ منّت۔ (افسانوی مجموعہ۔ ’بھارتیہ بھاشا پریشد، کولکاتا ‘نے ’یُوا لیکھک پُستک پرکاشن سمّان‘ کے تحت شایع شدہ ) ۲۰۱۲
۱۴۔ ساہتیہ میں آلوچنا کی چِنتا (تنقیدی مضامین، وانگمئے پرکاشن، علی گڑھ)۲۰۱۲
۱۵۔ ’’جس دن سے۔۔ ۔۔!‘‘ (ناول)، بھاونا پرکاشن، دہلی، ۲۰۱۷
(تیلگو )
۱۶۔ کہانی کوئی سناؤ متاشا (ناول) ۲۰۱۴
(انگریزی)
۱۷۔ ’ غزل اینڈ اوڈ‘ (تحقیق)۱۰۱۰
۱۸۔ کہانی کوئی سناؤ متاشا (ناول) ۲۰۱۴
دوسری زبانوں میں ترجمے: ۔
اردو، ہندی کے بعد پنجابی، تیلگو، کنّڑ، انگریزی، مارواڑی، اور مراٹھی زبانوں میں بھی ترجمے ہوئے ہیں۔
صادقہ نواب پر کتابیں، رسائل: ۔
۱۔ ’’صادقہ نواب سحرؔ شخصیت اور فن: فکشن کے تناظر میں مرتبہ پروفیسر تراب علی ید الٰہی، اسلم نواب
۲۔ سہ ماہی اسباق نمبر
۳۔ ماہنامہ شاعر نمبر
(ملک اور بیرونِ ملک مختلف موقر رسالوں اور مجموعوں میں شامل)
نصابی کتابوں میں شامل: ۔
۱۔ بال بھارتی کی اردو کی پانچویں کی کتاب میں نظم ’’آؤ دعا مانگیں‘‘
۲۔ مغربی بنگال بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کی اردو کی دسویں کتاب میں ڈرامہ ’’سلطان محمود غزنوی‘‘
۳-بھارتی گیان پیٹھ کے افسانوں کے انتخاب ’’آج کی اردو کہانی‘‘ میں افسانہ ’منّت‘
انعامات و اعزازات: ۔
۱۔ مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی کا سنہ ۲۰۰۴ء کے لئے ’’ساحر لدھیانوی ایوارڈ‘‘
۲۔ مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی کا مکھوٹوں کے درمیان (اردو کا طبعزاد ڈرامائی مجموعہ)
۳۔ بہار اردو ساہتیہ اکادمی کا ’’رشیدت النساء ایوارڈ‘‘ ’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘ پر
۴۔ بہار اردو ساہتیہ اکادمی کا ’’شکیلہ اختر ایوارڈ‘‘ افسانوی مجموعہ ’ خلش بے نام سی‘ پر
۵۔ اتر پردیش اردو ساہتیہ اکادمی کا کل ہند ایوارڈ، ناول ’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘ پر
۶۔ اتر پردیش اردو ساہتیہ اکادمی کا کل ہند ایوارڈ، افسانوی مجموعہ ’ خلش بے نام سی‘ پر
۷۔ مہاراشٹر ہندی ساہتیہ اکادمی کا ’منشی پریم چندر ایوارڈ‘، ’ منّت‘ افسانوی مجموعہ پر۔
۸۔ مہاراشٹر ہندی ساہتیہ اکادمی کا جینیندر کمار ایوارڈ، ناول ’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘ پر
۹۔ بھارتیہ بھاشا پریشد، کولکاتا کا’ یُوا لیکھک پرکاشن سمّان‘، ناول ’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘ پر
۱۰۔ مغربی بنگال اردو ساہتیہ اکادمی کا ’’مولانا ابو الکلام آزاد ایوارڈ‘‘ افسانوی مجموعہ ’ خلش بے نام سی‘ پر
۱۱۔ مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی کا فکشن ایوارڈ ’جس دن سے۔۔ ۔!‘ ناول پر
۱۲۔ بہار اردو ساہتیہ اکادمی کا فکشن ایوارڈ، ’ جس دن سے۔۔ ۔ ‘ ناول پر
۱۳۔ مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی سے ’میریج بیورو‘ نامی یکبابی ڈرامے کو ’بیسٹ سکرپٹ رائٹنگ کا انعام
۱۴۔ ’اردو ساہتیہ پریشد، پونا سے پروین شاکر ایوارڈ‘،
۱۵۔ اسباق میگزین ایوارڈ، پونا
۱۶۔ مجروح اکادمی ایوارڈ
۱۷۔ آدرش شکشک پُرسکار
۱۸۔ شری بالوجا ساہتیہ کلا اکادمی ایوارڈ، دہلی
۱۹۔ مہاراشٹر لوک کلیانکاری سیوا سنستھا نے ’مہاراشٹر گورو پرسکار‘
۲۰۔ مراٹھا سیوا سنگھ نے ’جیجاؤ ساوتری سمان‘
۲۱۔ یوا جگت اخبار کا اعزاز
۲۲۔ ’ہندی بھوشن‘، (راشٹریہ ہندی ساہتیہ پریشد، میرٹھ، اتر پردیش)
۲۳۔ ’ساوتری بائی پھلے ویرانگنا نیشنل فیلوشپ ایوارڈ‘۔ (بھارتیہ دلت ساہتیہ اکادمی، دہلی)
۲۴۔ ہِماکشرا نیشنل ایوارڈ ۲۰۱۰
۲۵۔ ساہتیہ اکادمی کے کئی پروگراموں (ممبئی، اودے پور اور پورٹ بلیئر) میں اپنی کہانیاں، غزلیں و نظمیں پیش کیں۔
۲۶۔ بے شمار مشاعروں، ٹی وی ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں حصہ لیا۔
بیرونِ ممالک ادبی پروگراموں میں شرکت: ۔
۱-ماریشس، ۲-دوبئی، ۳-جدّہ، ۴-لندن، ۵-پیرس، ۶-سوٹزرلینڈ
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل مجموعہ ’پیچ ندی کا مچھیرا‘ ڈاؤن لوڈ کریں