فہرست مضامین
- وہ جو کشتیِ چشم تھی
- عدیم ہاشمی
- ٹائپنگ اور ترتیب: شیزان اقبال
- گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
- شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی
- عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا
- وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں
- زندگی جب جہان میں آئی
- اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی
- فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
- مکمل عدیم اِرتقا ہو گیا
- اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا
- اور ہے، اپنی کہانی اور ہے
- تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا
- دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک
- کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دَار کی طرف
- فیصلہ اُس نے سُنایا بھی نہیں تعزیر کا
- ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدۂ تَر بھی
- تعلقات میں یہ ایک سانِحہ بھی ہے
- یہ جہاں ہے ایک عالم، ایک عالم اور ہے
- سوئی رہی ہے ساری خُدائی تمام شب
- جو دکھائی مجھے دیتا ہے سماں ہے کہ نہیں
- حقیقتیں بتانے والے کیا ہوئے
- کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
- دھڑکنے کی صدا تھوڑی سی تو رہنے دو سینوں میں
- چمک آئے کہاں سے پیار کی لوگوں کے سینوں میں
- ابھی میں سوچتا پھرتا تھا کچھ لفظوں کے بارے میں
- سب دیئے وارے افق کی دار پر
- گھر سے وہ کتنی شان سے نکلا
- شکوہ بھی کر رہے ہیں اُسی کا خدا سے ہم
- پیار وہ بھی تو کرے، وہ بھی تو چاہے گاہے
- پہلے فسانہ کیا تھا ترا ،اب فسانہ کیا
- جسے عدیم سدھارے ہوئے زمانہ ہوا
- اگر ارماں نہ ہوں دل میں تو دل محوِ فغاں کیوں ہو
- ازل سے جو سروں پر ہے، ہمیشہ وہ سماں کیوں ہو
- یہ تو نہیں عروجِ بہاراں چشیدہ ہوں
- جب ضبط کروں دل سے نکلتی ہے فغاں اور
- آنسو جلائے تیرگیِ شام کے لیے
- حضورِ یار چلے جب بھی ،سر جھکا کے چلے
- میں بہہ رہا تھا کسی بحرِ بےخبر کی طرح
- سرخیِ وصل پسِ دیدہ تر پانی میں
- اس نے دل پھینکا خریداروں کے بیچ
- پھر بھی بیٹھی ہے خزاں باغ کی دیوار کے ساتھ
- شب و روز خوشۂ اشک سے مری کشتِ چشم بھری رہی
- سارے جہان کو عدیمؔ واقفِ حال کر دیا
- Related
وہ جو کشتیِ چشم تھی
عدیم ہاشمی
منتخب کلام: ’’ بہت نزدیک آتے جا رہے ہو ّ سے
ٹائپنگ اور ترتیب: شیزان اقبال
گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کھُلی آنکھیں دیکھیں، اِک خواب ہو تم اِک خواب ہیں ہم
کیا محشر خیز جُدائی ہے، کیا وصل قیامت کا ہو گا
جذبات کا اِک سیلاب ہو تم، جذبات کا اِک سیلاب ہیں ہم
آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اِک ساون ہے اِک بھادوں ہے
اے غم کی ندی تو فکر نہ کر، اِس وقت بہت سیَراب ہیں ہم
اِس وقت تلاطم خیز ہیں ہم، گردش میں تمہیں بھی لے لیں گے
اِس وقت نہ تیَر اے کشتیِ دل، اِس وقت تو خُود گردَاب ہیں ہم
اِک ہنس پرانی یادوں کا، بیٹھا ہوا کنکر چنُتا ہے
تپتی ہوئی ہجر کی گھڑیوں میں، سُوکھا ہوا اِک تالاب ہیں ہم
اے چشم فلک، اے چشم زمیں، ہم لوگ تو پھر آنے کے نہیں
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم
کیا اپنی حقیقت، کیا ہستی، مٹی کا ایک حباب ہیں ہم
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم
٭٭٭
شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی
ایسا کیا جرم ہو گیا ہم سے
کیوں ملاقات عُمر بھر نہ ہوئی
اشک پلکوں پہ مُستقل چمکے
کبھی ٹہنی یہ بے ثمر نہ ہوئی
تیری قُربت کی روشنی کی قسم
صُبح آئی مگر سحر نہ ہوئی
ہم نے کیا کیا نہ کر کے دیکھ لیا
کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی
کتنے سُورج نِکل کے ڈُوب گئے
شامِ ہجراں ! تری سحر نہ ہوئی
اُن سے محفل رہی ہے روز و شب
دوستی اُن سے عُمر بھر نہ ہوئی
یہ رہِ روزگار بھی کیا ہے
ایسے بچھڑے کہ پھر خبر نہ ہوئی
اِس قدر دھُوپ تھی جُدائی کی
یاد بھی سایۂ شجر نہ ہوئی
شبِ ہجراں ہی کٹ سکی نہ عدیم
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی
٭٭٭
عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا
میں یہ سمجھتا رہا، اُس نے ایک وار کِیا
عدیم دل کو ہر اِک پر نہیں نِثار کِیا
جو شخص پیار کے قابل تھا، اُس کو پیار کِیا
پھر اعتبار کِیا، پھر سے اعتبار کِیا
یہ کام اُس کے لیے ہم نے بار بار کِیا
کِسی سے کی ہے جو نفرت تو اِنتہا کر دی
کِسی سے پیار کِیا ہے تو بےشمار کِیا
نہ تھی وصال کو بھی کچھ مداخلت کی مجال
جب اِنتظار کِیا، صِرف اِنتظار کِیا
اُمیدِ وصل شبِ ہجر کے سمندر میں
یہی لگا ہے کہ تِنکے پہ اِنحصار کِیا
بہت حسین ہوئیں بے وفائیاں اُس کی
یہ اُس نے جان کے خُود کو وفا شعار کِیا
اُتر گیا کوئی دل سے تو قبر میں اُترا
اُسے سدا کے لیے شاملِ غُبار کِیا
وہ اب مرے کہ جئے دل پہ کوئی بوجھ نہیں
میں مطمئن ہوں کہ پہلے اُسی نے وار کِیا
قصُور اُس کا نہیں ہے، قصُور میرا ہے
عدیم مَیں نے اُسے پیار بےشمار کیا
٭٭٭
وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں
ٹکرائی بھی تو جا کے نظر سے نظر کہاں
جانا ہے تم کو جاؤ، چلے ہو مگر کہاں
میں ڈھُونڈتا پھروں گا تمہیں دَر بہ دَر کہاں
قصر شہی کی بات ہے قصر شہی کے ساتھ
تیری گلی کہاں ، تِرے دیوار و دَر کہاں
دولت سے خوابگاہ تو جو بھی خرید لو
نِیندیں مگر خرید سکے مال و زَر کہاں
تُو آگ ہی لگا کے ذرا خُود کو دیکھ لے
تجھ پر یونہی پڑے گی کِسی کی نظر کہاں
میں اپنا آپ ڈھُونڈ رہا ہوں جہان میں
مجھ کو عدیم اور کِسی کی خبر کہاں
یہ کِس مقابلے کے لیے جا رہے ہو تم
آنسو کہاں عدیم، صدف کا گہر کہاں
٭٭٭
زندگی جب جہان میں آئی
جان دُنیا کی جان میں آئی
جیسے آیا شباب کشتی پر
یوں ہوا بادبان میں آئی
سانولی سی کوئی دُلہن جیسے
چھاؤں یوں سائبان میں آئی
چاند ملنے لگا تھا تاروں سے
چاندنی درمیان میں آئی
بات اِک داستان سے نکلی
دوسری داستان میں آئی
تیِر اُتنا ہی دُور مار ہوا
جِتنی سختی کمان میں آئی
ہم وفا کے بغیر بھی خوش تھے
کیوں وفا درمیان میں آئی
تیرے وہم و گمان سے نِکلی
میرے وہم و گمان میں آئی
یا تو آتی نہ تھی سُخن کی پری
آئی تو ایک آن میں آئی
٭٭٭
اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی
بڑھتی ہے اِس طرح بھی محبت کبھی کبھی
پہچان ہو گئی کئی لوگوں کی اِس طرح
آئی ہے کام یُوں بھی ضرُورت کبھی کبھی
ہوتے ہیں قُربتوں میں بھی محشر کئی بپَا
آتی ہے وصل میں بھی قیامت کبھی کبھی
پھر ایک بے پناہ سی شِدت کے واسطے
قُربان ہم نے کی تری قُربت کبھی کبھی
یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا کوئی دل میں ہے
محسُوس کی نہیں تیری چاہت کبھی کبھی
یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا ہے ہی کچھ نہیں
دُنیا پہ چھا گئی تری صورت کبھی کبھی
وہ جس کو دیکھ دیکھ کے جی تنگ آ گیا
اچھی بہت لگی وہی صُورت کبھی کبھی
سچائی تو ہے یہ کہ زمانے کے حُسن میں
یاد آئی ہی نہیں تری صُورت کبھی کبھی
دُنیا کی اور بات ہے، دُنیا تو غیر ہے
ہوتی ہے اپنے آپ سے وحشت کبھی کبھی
سارا ہی وقت، سارے جہاں کے لیے عدیم
اپنے لئے بھی چاہیئے فُرصت کبھی کبھی
دُوری کبھی کبھی بڑی اچھی لگی عدیم
اچھی نہیں لگی ہمیں قُربت، کبھی کبھی
٭٭٭
فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
کہاں کھویا، کہاں پایا گیا ہوں
میں زیور ہوں عروسِ زِندگی کا
بڑے تیور سے پہنایا گیا ہوں
نہیں عرض و گزارش میرا شیوَہ
صدائے کُن میں فرمایا گیا ہوں
بتا اے انتہائے حسنِ دنیا
میں بہکا ہوں کہ بہکایا گیا ہوں
مجھے یہ تو بتا اے شدتِ وصل
میں لِپٹا ہوں کہ لِپٹایا گیا ہوں
بدن بھیگا ہوا ہے موتِیوں سے
یہ کِس پانی سے نہلایا گیا ہوں
اگر جانا ہی ٹھہرا ہے جہاں سے
تو میں دُنیا میں کیوں لایا گیا ہوں
یہ میرا دل ہے یا تیری نظر ہے
میں تڑپا ہوں کہ تڑپایا گیا ہوں
مجھے اے مہرباں یہ تو بتا دے
میں ٹھہرا ہوں کہ ٹھہرایا گیا ہوں
تِری گلیوں سے بچ کر چل رہا تھا
تِری گلیوں میں ہی پایا گیا ہوں
جہاں روکی گئی ہیں میری کِرنیں
وہاں میں صورتِ سایہ گیا ہوں
عدیم اِک آرزُو تھی زِندگی میں
اُسی کے ساتھ دفنایا گیا ہوں
٭٭٭
مکمل عدیم اِرتقا ہو گیا
بشر، آدمی سے خُدا ہو گیا
بھلا ہو گیا یا بُرا ہو گیا
چلو کوئی تو فیصلہ ہو گیا
وہ پہلے بھی جو بےوفا ہو گیا
یہ دل پھر اُسی پر فِدا ہو گیا
اُسی سے نظر پھر سے ٹکرا گئی
دوبارہ وہی حادثہ ہو گیا
یہاں دل دیا اور وہاں دل دیا
محبت تو کھیل آپ کا ہو گیا
جو مِلنے کے وعدے تھے، وعدے رہے
بِچھڑنے کا وعدہ وفا ہو گیا
وہ کیا تِیر ہے، جو نہ دل میں گڑے
نشانہ وہ کیا، جو خطا ہو گیا
دل و چشم یوں باد و بارَاں بنے
جو سُوکھا تھا جنگل، ہَرا ہو گیا
جو سِکہ کھرا تھا، وہ کھوٹا ہوا
جو کھوٹا تھا سِکہ، کھرا ہو گیا
یہ دل جو کہ میرا تھا، میرا نہیں
یہ دل آج سے آپ کا ہو گیا
جو باقی تھا ، باقی رہا وہ عدیم
جو فانی تھا، خُود ہی فنا ہو گیا
٭٭٭
اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا
وصل تھا یا وصال تھا، کیا تھا
عشق ماہی مثال تھا، کیا تھا
دل کے دریا میں جال تھا، کیا تھا
تم تو ایسے مجھے نہیں لگتے
یہ تمہارا خیال تھا، کیا تھا
کچھ سفید اور کچھ سیاہ تھے بال
میرا ماضی تھا، حال تھا، کیا تھا
نِیم وا چشم، نِیم وا سا دَہن
یہ سوالِ وصال تھا، کیا تھا
ایک تخلیق، ایک چشمِ حسیں
وہ غزل تھی، غزال تھا، کیا تھا
اِتنی بے چینیاں، خُدا کی پناہ
یہ مِرے دل کا حال تھا، کیا تھا
مِٹ گیا ایک اشک بہتے ہی
تِرے چہرے پہ خال تھا، کیا تھا
خُود کھنچے جا رہے تھے جِسم عدیم
لمحۂ اِتّصال تھا، کیا تھا
٭٭٭
اور ہے، اپنی کہانی اور ہے
داستاں اُس کو سُنانی اور ہے
میں تو سویا تھا ستارے اُڑھ کر
یہ رِدائے آسمانی اور ہے
ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اُس سمندر کا تو پانی اور ہے
پھُول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اُس کی اِک عادت پُرانی اور ہے
اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے
اُس کے گھر کی اِک نشانی اور ہے
یُوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اِک عہدِ جوانی اور ہے
پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے
٭٭٭
تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا
ڈھُونڈتے ہو کِس لیے کوئی سہارا دوسرا
تب کہیں سمجھا ہوں میں اُس کا اشارہ دوسرا
اُس نے میرے ہاتھ پر جب ہاتھ مارا دوسرا
اِتنی دُنیا، اِتنے چہرے، اِتنی آنکھیں چار سُو
اُس نے پھر بھی کر دیا مجھ کو اِشارہ دوسرا
آسماں پر کوئی تھوڑے سے سِتارے تو نہیں
ایک چمکے کم اگر، چُن لو سِتارہ دوسرا
مجھ کو تو پہلا کِنارہ بھی نظر آتا نہیں
ہے کہاں بحرِ فلک تیرا کِنارہ دوسرا
درمیاں پردہ رہا اِک دِن تکلف کا بہت
بھید سارا کھُل گیا جب دِن گزارا دوسرا
تب کہیں مہندی لگا وہ ہاتھ پہچانا گیا
اُس نے دَر کی اوٹ سے جب پھُول مارا دوسرا
جان دے دی اُس کے پہلے ہی اِشارے پر عدیم
میں نے دیکھا ہی نہیں اُس کا اِشارہ دوسرا
٭٭٭
دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک
اپنی نظر ہی رہ گئی گرد و غبار تک
موسم بھی اپنی اپنی حدوں کے اِسیر ہیں
عہدِ خزاں ہے آمدِ فصلِ بہار تک
صحن خزاں میں پاؤں دھرے، کیا مجال ہے
فصلِ بہار قید ہے فصلِ بہار تک
معیاد قید ایک گھڑی پیش و کم نہیں
ممکن نہیں ہے قیدِ جہاں سے فرار تک
جو لکھ دیا جبیں پہ، اُسے لکھ دیا گیا
پابند اُس کے بعد ہے پرَوردگار تک
قسمت میں جو نہیں ہے، ملے گا وہ کِس طرح
ترک اِس لیے کِیا ہے تِرا اِنتظار تک
لکھا نہیں ہے وصل فقط کاتبین نے
تحریر ہو رہا ہے تِرا اِنتظار تک
اپنے کنوئیں ہیں جِن میں پھُدکتے ہیں سارے لوگ
محصُور ہیں عدیم سب اپنے حصار تک
٭٭٭
کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دَار کی طرف
مُنصِف تو ہو گیا ہے گنہگار کی طرف
معلُوم ہو تجھے کہ ہے دستِ بریدہ کیا
اُنگلی اُٹھا کے دیکھ مِرے یار کی طرف
قاتِل ہے حُسن اگر، تو ہے قاتِل کا کیا قصُور
خُود کِھنچ رہی ہیں گردنیں تلوار کی طرف
زَر کی کشش نے کھینچ لیا سارے شہر کو
بازار چل پڑے ہیں خریدار کی طرف
سارا جہاں کھڑا تھا ضرُورت کی چھاؤں میں
کوئی گیا نہ سایۂ دیوار کی طرف
سُوکھے ہوئے شجر پہ کوئی زخم بھی نہیں
پتھر بھی آئے نخلِ ثمر دار کی طرف
حیراں ہوں پھر بھی عکسِ رُخِ یار کِس طرح
جب آئینہ نہیں ہے رُخِ یار کی طرف
سب قبلہ رُو ہوئے تھے عبادت کے واسطے
میں نے کیا ہے رُخ تِری دیوار کی طرف
دھاگے میں کچھ پروئے ہوئے پھُول تھے عدیم
پہلے خزاں چلی ہے اُسی ہار کی طرف
٭٭٭
فیصلہ اُس نے سُنایا بھی نہیں تعزیر کا
پڑ گیا ہے دل پہ پہلے ہی نِشاں زنجیر کا
خط چھُپاؤں کِس طرح سے محرمِ دل گیِر سے
لفظ ہر اِک بولتا ہے پیار کی تحریر کا
باقی سارے خط پہ دھبے آنسوُؤں کے رہ گئے
ایک ہی جملہ پڑھا میں نے تِری تحریر کا
تیرے چہرے کا تاثر، تیری آنکھوں کا خُمار
حُسن ایسا تو نہیں ہے وادئ کشمیر کا
موتیوں جیسے ہیں آنسُو، پھُول جیسی ہے ہنسی
کونسا رُخ سامنے رکھوں تِری تصویر کا
کوئی کہتا ہے ملیں گے، کوئی کہتا ہے نہیں
کچھ پتا چلتا نہیں ہے خواب کی تعبیر کا
جو نصیبوں میں نہیں ہے، وہ ذرا لے لوں عدیم
وہ تو مل ہی جائے گا ، حصّہ ہے جو تقدیر کا
دوستوں سے بھی تعلق بن گیا ہے وہ عدیم
جو تعلق ہے کِسی شمشِیر سے شمشِیر کا
٭٭٭
ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدۂ تَر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی
بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھنور بھی
اے بحرِ سُخن، چند صدف، چند گہر بھی
پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تِری ایک نظر بھی
درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدۂ تر بھی
یہ شہرِِ جدائی ہے، اندھیرے ہیں شب و روز
اِس شہر میں جلتے ہیں دیئے وقتِ سحر بھی
کچھ پیاس ہے اُس حُسن کو بھی میری نظر کی
کچھ حُسن کا پیاسا ہے مِرا حُسنِ نظر بھی
کیا عِشق ہے، کیا حُسن ہے، کیا جانیئے کیا ہو
محشر ہے اِدھر بھی تو قیامت ہے اُدھر بھی
تُو چشمِ عنایت سے ذرا رُخ تو اِدھر کر
کافی ہے تِری ایک محبت کی نظر بھی
کچھ فرق درست اور غلط میں نہیں باقی
ہر بات پہ کچھ لوگ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی
کھنچنا ہے کہاں تک تجھے بانہوں کی کماں میں
تُو دل کے لیے ہے تو مِرے دل میں اُتر بھی
٭٭٭
تعلقات میں یہ ایک سانِحہ بھی ہے
محبتیں بھی ہیں اور درمیاں اَنا بھی ہے
یہ ٹھیک، تجھ کو شکایت بھی ہے، گلہ بھی ہے
تُو یہ بتا کہ تجھے میں نے کچھ کہا بھی ہے
کوئی بھی پُل ہو ، وہ دو ساحلوں پہ بنتا ہے
گر ایک دل ہے تِرا، ایک دل مِرا بھی ہے
یہ تیری بات ہے، آیت نہیں ، حدیث نہیں
کوئی تِرا تو کوئی میرا فیصلہ بھی ہے
پیالہ بھر تو لیا ہے جُدائی کا تُو نے
مجھے بتا کہ کبھی زہر یہ پیا بھی ہے؟
تعلقات کو اُتنا رکھا ہے، جتنے ہیں
قریب بھی ہے، مُناسب سا فاصلہ بھی ہے
ہوس کو چھانے دیا کم عدیم چاہت پر
کبھی کبھی یہ مگر واقعہ ہوا بھی ہے
٭٭٭
یہ جہاں ہے ایک عالم، ایک عالم اور ہے
اِک شبِ غم کاٹ لی ہے، اِک شبِ غم اور ہے
تم فقط دوزخ چشیدہ ہو نہیں سمجھو گے تم
اور ہے نارِ حسد، نارِ جہنم اور ہے
ایک سیپی آسماں تو دو صدف آنکھیں بھی ہیں
ہے گہر بار اور شبنم آنکھ پُر نم اور ہے
اور ہیں موتی، گِرا کر پھر اُٹھا سکتے ہو تم
باغ میں وقت ِسحر پھولوں پہ شبنم اور ہے
بال کھولے اُس نے ، جیسے بحرِ اسود کھل گیا
ایک خم کی لہر سے نکلوں تو اِک خم اور ہے
بحر کا طوفاں الگ ہے، برہمی اُس کی الگ
لہر کا خم اور اُس کی زلف کا خم اور ہے
کچھ دریچے پر بھی بارش کی بہت بوندیں پڑیں
آج تیری یاد میں کچھ آنکھ بھی نم اور ہے
کچھ چھپا رکھا ہے چہرہ اُس نے بالوں میں عدیم
کچھ دیئے کی لَو ذرا سی آج مدھم اور ہے
آج اُس کی سمت دیکھا ہی نہیں جاتا عدیم
آج کیفیت الگ ہے، آج عالم اور ہے
٭٭٭
سوئی رہی ہے ساری خُدائی تمام شب
دیتا رہا ہے کوئی دُہائی تمام شب
جس کے لیے عدیم سجائی تمام شب
اُس نے تو شکل بھی نہ دکھائی تمام شب
شاید پہل اُسی کی طرف سے ہو بات کی
اِس انتظار میں ہی گنوائی تمام شب
پلکوں پہ میں نے جشن چراغاں کئے رکھا
میں نے تمھاری یاد منائی تمام شب
دھوئیں تری جدائی کے خط کی سیاہیاں
تحریر آنسُوؤں سے مٹائی تمام شب
اِک اِک ستارہ سامنے میرے جڑا گیا
لگتا تھا جیسے میں نے بنائی تمام شب
تاروں کا رات سارے فلک پر ہجوم تھا
وہ چاند تھا کہ دیکھنے آئی تمام شب
چادر سیاہ ، اُس پہ ستارے بھی، چاند بھی
اُس نے تو اپنے سر پہ سجائی تمام شب
تاروں کے جسم صبح کی چادر سے ڈھانپ کر
میں نے سحر کے وقت سُلائی تمام شب
٭٭٭
جو دکھائی مجھے دیتا ہے سماں ہے کہ نہیں
دشتِ آسیب بتا کوئی یہاں ہے کہ نہیں
ہیں ترے دونوں جہاں، تیرا جہاں ہے کہ نہیں
تُو یہاں ہے کہ نہیں اور وہاں ہے کہ نہیں
لوگ بھیجے ہیں کئی خاک کے رستے سے جہاں
وہ جہاں ہے کہ نہیں ، کوئی وہاں ہے کہ نہیں
جنگ کے بعد مرے شہر میں کیا گزری ہے
مرے پیاروں کا کوئی نام و نشاں ہے کہ نہیں
وقت نے گھر کی طرف لوٹ کے جانے نہ دیا
جانے اب گھر کا کوئی نام و نشاں ہے کہ نہیں
مری بستی سے تم آئے ہو کئی برسوں سے
وہ جو چشمہ تھا وہاں، اب وہ رواں ہے کہ نہیں
اب کہو، اب تو تمہیں نصف صدی گزری ہے
زندگی اصل میں اِک کارِ زیاں ہے کہ نہیں
اِک طرف جیسے تلاطم میں پرِ کاہ کوئی
زندگی ایک طرف بارِ گراں ہے کہ نہیں
کہیں دھوکہ تو نہیں جو بھی نظر آتا ہے
دشتِ حیرت یہ بتا کوئی یہاں ہے کہ نہیں
آنکھ موندے ہوئے چلتے ہی چلے جاتے ہو
راستے میں کوئی منزل کا نشاں ہے کہ نہیں
آگ بھڑکی ہو تو پھر بھید کہاں چھُپتا ہے
دیکھ لو دور سے جنگل میں دھُواں ہے کہ نہیں
مرے دل پر تو کئی تیر کی تصویریں ہیں
ترے دل پر بھی محبت کا نشاں ہے کہ نہیں
٭٭٭
حقیقتیں بتانے والے کیا ہوئے
وہ آئینہ دکھانے والے کیا ہوئے
یہ کفش بوس کس طرف سے آ گئے
وہ دھجیاں اُڑانے والے کیا ہوئے
یہ گھر جلانے والے کون لوگ ہیں
وہ مشعلیں جلانے والے کیا ہوئے
یہ قیمتیں لگانے والے آ گئے
وہ قیمتیں بنانے والے کیا ہوئے
یہ راستہُ بھلانے والے کون ہیں
وہ راستہ دکھانے والے کیا ہوئے
یہ حوصلہ شکن کہاں سے آ گئے
وہ ہمتیں بندھانے والے کیا ہوئے
یہ لوگ یا بجھے ہوئے چراغ ہیں
وہ لوگ جگمگانے والے کیا ہوئے
دیئے بجھا دیئے گئے ہیں کس لئے؟
وہ تشنگی بجھانے والے کیا ہوئے
کڑی گھڑی کہاں سے آ گئی عدیم
کڑی گھڑی نبھانے والے کیا ہوئے
٭٭٭
کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا
میں جو کچھ ہوں، وہی کچھ ہوں، جو ظاہر ہے وہ باطن ہے
مجھے جھوٹے در و دیوار چمکانا نہیں آتا
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دُنیا کی پستی میں اُتر جانا نہیں اتا
زر و مال و جواہر لے بھی اور ٹھکرا بھی سکتا ہوں
کوئی دل پیش کرتا ہو تو ٹھکرانا نہیں آتا
بہت کمزوریاں ہیں مجھ میں اک یہ بھی ہے کمزوری
ضرورت میں بھی مجھ کو ہاتھ پھیلانا نہیں آتا
پرندہ جانبِ دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا
اگر صحرا میں ہیں ، تو آپ خود آئے ہیں صحرا میں
کسی کے گھر تو چل کر کوئی ویرانہ نہیں آتا
یہ رخش ِ وقت ہے اس پر چلے ہو تو ذرا سن لو
اسے جانا تو آتا ہے، پلٹ آنا نہیں آتا
ہوا ہے جو سدا، اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیم اپنے کیے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا
٭٭٭
دھڑکنے کی صدا تھوڑی سی تو رہنے دو سینوں میں
کوئی تو فرق رہ جائے دلوں میں اور مشینوں میں
کہاں ہیں درد کے گوہر سمندر کے دفینوں میں
یہ موتی چاہئیں تو ڈھونڈ آنکھوں کے خزینوں میں
یہ آنسو ہیں کہ دریا کشتیوں سے پھوٹ نکلے ہیں
یہ کس نے رکھ دیئے طوفان آنکھوں کے سفینوں میں
تپش ہے آنسوؤں کی وہ کہ آنکھیں ہیں چٹخنے کو
یہ لگتا ہے کسی نے آگ رکھ دی آبگینوں میں
کفِ ملبوس سے آنسو تو مجھ کو پونچھ لینے دو
عدیم اب سانپ تو ہوتے ہیں اکثر آستینوں میں
٭٭٭
چمک آئے کہاں سے پیار کی لوگوں کے سینوں میں
وہ آب و تاب ہی باقی نہیں دل کے نگینوں میں
قرینہ کیا ہوا شامل محبت کے قرینوں میں
عجب اک شور سا برپا ہے ساری مہہ جبینوں میں
کسی ایسی گھڑی دل میں ہوئی مہتاب کی خواہش
ہزاروں چاند اتر آئے حسینوں کی جبینوں میں
وہ جب سے ناز اٹھائے احتراماً ناز کے تم نے
تمہارا ذکر ہی رہتا ہے ساری نازنینوں میں
خبر آئی کہ اب کلیوں کو کھلنے کی اجازت ہے
عجب پنہاں سی ہلچل مچ گئی پردہ نشینوں میں
ہوا اعلان کنعانِ سخن کا یوسف آتا ہے
سجی شہزادیاں ساری غزل کی شہ نشینوں میں
عدیم آؤ تو ڈھونڈیں ،کس کا تم نے خواب دیکھا ہے
کوئی تو مہ جبیں ہوگی جہاں کی مہ جبینوں میں
٭٭٭
ابھی میں سوچتا پھرتا تھا کچھ لفظوں کے بارے میں
وہ سب کچھ کہہ گیا مجھ کو اشارے ہی اشارے میں
کسی کے ساتھ اس کو دیکھ کر جتنا جلا ہے دل
جلن اتنی کہاں ہو گی جہنم کے شرارے میں
مُصِر ہے ساری دنیا پھر بھی اپنی جان دینے پر
اگر چہ دل کا سودا ہے خسارے ہی خسارے میں
زمانہ اور ہی باتیں ترے بارے میں کرتا تھا
یہ میں ہوں، بات جس نےکی تری آنکھوں کے بارے میں
میں یوں ہی رات کو زیرِ فلک بیٹھا نہیں رہتا
تری آنکھیں چمکتی دیکھتا ہوں تارے تارے میں
تُو میرے پاس، میرے دو قدم کے فاصلے پر تھا
میں تجھ کو ڈھونڈتا پھرتا تھا قسمت کے ستارے میں
یہ دل پگھلا ہے جیسے، موم بھی پگھلا نہ یوں ہو گا
کوئی میں نے تپش دیکھی محبت کے شرارے میں !!
نظر منظر سے خالی ہو یہ ممکن ہو نہیں سکتا
کوئی موجود رہتا ہے ہمیشہ ہی نظارے میں
٭٭٭
سب دیئے وارے افق کی دار پر
تب سحر اُتری در و دیوار پر
دار سے اس کو اُتارا تو گیا
رہ گیا اس کا ہیولیٰ دار پر
کر گئے سرگوشیاں تیمار دار
اور جو گزری دلِ بیمار پر
ناؤ مانجھی نے ڈبو دی نیند میں
آ گیا الزام سب منجھدار پر
اس نے راتیں محنتوں میں کاٹ دیں
لوگ شک کرتے رہے کردار پر
اس گلی سے کھینچ تو لائے مجھے
رہ گیا سایہ اُسی دیوار پر
کشتیاں بھی کس قدر معصوم ہیں
پھر بھروسہ کر لیا پتوار پر
آؤ گے جب آؤ گے تب آؤ گے
اب یقیں آتا نہیں اقرار پر
میری اپنی تو کوئی خواہش نہیں
آ گیا ہوں میں ترے اصرار پر
زندگی چمکی چراغوں میں عدیم
رات جب اتری در و دیوار پر
٭٭٭
گھر سے وہ کتنی شان سے نکلا
حادثے میں جہان سے نکلا
جو الگ آن بان سے نکلا
فرد وہ خاندان سے نکلا
سنسناہٹ سی سنسناہٹ تھی
جیسے نیزہ کمان سے نکلا
تُو کوئی اور ڈھونڈ لے کردار
میں تری داستان سے نکلا
نہ ستارہ نہ آفتاب نہ چاند
جانے کیا آسمان سے نکلا
تری محفل سے جو نکل آیا
وہ تو سمجھو جہان سے نکلا
میں نے اتنا کہاں بھلایا تھا
وہ تو وہم و گمان سے نکلا
داستاں اس قدر طویل نہ تھی
قصہ اک درمیان سے نکلا
لفظ رہ جائے گا وہی باقی
جو قلم کی زبان سے نکلا
جاں بدن سے عدیم نکلی ہے
یا بدن قیدِ جان سے نکلا
ایک ہی تھا کرایہ دار عدیم
وہ بھی دل کے مکان سے نکلا
٭٭٭
شکوہ بھی کر رہے ہیں اُسی کا خدا سے ہم
ملنے بھی جا رہے ہیں اُسی بےوفا سے ہم
آ دیکھ لیں کہ دل میں کوئی چور تو نہیں
کیوں ڈر رہے ہیں آج ہر اِک آشنا سے ہم
ڈھونڈے گا تُو کہاں سے ہمیں اِس جہان میں
تیرا پتہ تو پوچھ ہی لیں گے صبا سے ہم
رکھنا ہے آپ کو جو تعلق تو دیکھ لیں
ایسے ہی تُند خُو ہیں بہت ابتدا سے ہم
ایسا مقام تو یہ سخن میں نہیں عدیم
پہنچے ہیں اِس جگہ بھی کسی کی دُعا سے ہم
٭٭٭
پیار وہ بھی تو کرے، وہ بھی تو چاہے گاہے
آہ وہ بھی تو بھرے، وہ بھی کراہے گاہے
عدل تھوڑا سا تو اے عادلِ وعدہ شکناں
عہد وہ روز کرے اور نباہے گاہے
لے حوالے ترے کر دی ہے تعلق کی کلید
یاد کر روز اسے، مل اسے گاہے گاہے
نرم سا نور بھی ہو، گرم سی تاریکی میں
آ شبِ ہجر میں بھی صورتِ ماہے گاہے
پیار دریا ہے جو دونوں ہی طرف بہتا ہے
میں تو چاہوں اسے، وہ بھی مجھے چاہے گاہے
اتنی تکلیف بھی کیا ، یہ بھی تکلف کیسا
جو ہمیشہ نہیں ملتے ہو تو کاہے گاہے
حسن کے در پہ سدا دل کو گداگر دیکھا
بر سر تخت انا صورتَ شاہے گاہے
حسنِ دنیا بھی فسوں خیز ہے اس پر بھی نظر
جانب، کوچۂ جاناں بھی نگاہے گاہے
ہے بھروسہ تو چلو آؤ یہ وعدہ کر لیں
مر ہی جائے جو کسی اور کو چاہے گاہے
نہ سہی تو نہ سہی وصل ہمیشہ کا عدیم
نہ ملے تو نہ ملے روز، پہ گاہے گاہے
٭٭٭
پہلے فسانہ کیا تھا ترا ،اب فسانہ کیا
تجھ پر کوئی یقین کرے گا زمانہ کیا
ہم ایک دوسرے سے بندھے تو نہیں ہوئے
جانے کا کوئی ڈھونڈ رہے ہو بہانہ کیا
رہتا ہے میرے سامنے ہر پل ترا خیال
تیرا کسی سے ذکر کروں غائبانہ کیا
تیرے تو ہاتھ کانپ رہے ہیں مثالِ برگ
تجھ سے ہمارے دل پہ لگے گا نشانہ کیا
شب کا قیام کیا ہے، کرو عمر بھر قیام
یہ سوچ لو کہ ہم کو کہے گا زمانہ کیا
ہونٹوں پہ تیرے وردِ خدا اس قدر ہے کیوں
ایسا گناہ تُو نے کیا کافرانہ کیا
کچھ کام کر لیا ہے تو سر کو اٹھا کے چل
اتنا بھی اب مزاج بھلا عاجزانہ کیا
یہ وار تُو نے دل پہ کیا قاتلانہ کیا
تجھ کو خبر ہے تجھ کو کہے گا زمانہ کیا
اتنے بڑے قدم جو اٹھاتا ہے تُو عدیم
ایسے میں تیرے ساتھ چلے گا زمانہ کیا
٭٭٭
جسے عدیم سدھارے ہوئے زمانہ ہوا
اُسی کے ساتھ یہ دل بھی کہیں روانہ ہوا
بس ایک ہُوک دھڑکتی ہے اب تو سینے میں
ہمارے دل کو تو دھڑکے ہوئے زمانہ ہوا
دھُواں سا ہے، نہ بھڑکتا ہے دل نہ بجھتا ہے
اِسی طرح سے سلگتے ہوئے زمانہ ہوا
اُدھر تو جا کے کوئی گھر کو لوٹتا ہی نہیں
یہ کس طرف کو ترا کارواں روانہ ہوا
یہ فیصلہ تو بہت دیر سے تھا ذہنوں میں
ہماری آج کی باتیں تو اک بہانہ ہوا
نظر کا وار تھا، پہلا ہی قاتلانہ ہوا
پھر اس کے بعد وہ قاتل کبھی رِہا نہ ہوا
کہاں تلاش کریں، کس جگہ اُسے ڈھونڈیں
ہمارا اُس سے تعارف ہی غائبانہ ہوا
گزر گیا وہ جو لمحہ تھا اُس کی چاہت کا
عدیم اب وہ ہمارا ہوا، ہوا نہ ہوا
عدیم، غالب و آتش ہوئے ، یگانہ ہوا
یہی وہ لوگ، مرا جن سے دوستانہ ہوا
٭٭٭
اگر ارماں نہ ہوں دل میں تو دل محوِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو آتش درختوں میں تو جنگل میں دھُواں کیوں ہو
یہ میرا درد اپنا ہے، کسی پر بھی عیاں کیوں ہو
کسی کی آنکھ سے میرا کوئی آنسُو رواں کیوں ہو
جدائی آپ مانگی ہے تو پھر یادیں بھی کیوں اُس کی
اگر اتنے جفا کش ہو تو زیرِسائباں کیوں ہو
جب اپنا پنا رستہ ہے، جب اپنی اپنی منزل ہے
تو کیوں مجھ پر سوال اتنے، یہاں کیوں ہو وہاں کیوں ہو
خوشی کی آبرُو ہے تو غموں کی آبرُو بھی ہے
جو مٹی میں ہی ملنا ہے تو پھر آنسُو رواں کیوں ہو
ہماری بات میں بولے ، زمانہ کون ہوتا ہے
ترا میرا تعلق ہے تو کوئی درمیاں کیوں ہو
تعلق ختم کرنا ہو تو اُس کے سو طریقے ہیں
یہ اتنی برہمی کیسی، تم اتنے سرگراں کیوں ہو
کسی کو کیا بتاؤں میں کہ میرے دل پہ کیا گزری
مرے غم کی کہانی ساری دنیا پر عیاں کیوں ہو
٭٭٭
ازل سے جو سروں پر ہے، ہمیشہ وہ سماں کیوں ہو
نئے ہیں ہم زمیں پر تو پرانا آسماں کیوں ہو
ہرا سورج کبھی نکلے، ستارے سرخ ہو جائیں
وہی پیلے سے انگارے، وہی نیلا دھواں کیوں ہو
شمالًا اور جنوباً بھی ستارے چل تو سکتے ہیں
سدا مغرب کی جانب ہی رواں یہ کارواں کیوں ہو
دوپٹہ جیسے پھیلا ہو کسی بیوہ سی بڑھیا کا
زمیں کے سر پہ دن کا زرد سایہ سائباں کیوں ہو
کبھی اڑتی ہو ئی یہ دھول بیٹھے بھی ستاروں کی
ہمیشہ سر پہ ساکت سا غبارِ کہکشاں کیو ں ہو
مجھے یہ چاند پاگل کیوں لگے کوئی ستاروں میں
ہمیشہ پتھروں کا ہی ستاروں پر گماں کیوں ہو
کبھی نقطے ستاروں کی لکیروں میں بدل جائیں
سدا یہ رات کی چادر مثالِ پرنیاں کیوں ہو
اگر بنیاد چاہت ہو عدیم اس آفرینش کی
خطر کیوں ہو، حذر کیوں ہو، شرر کیوں ہو، دھواں کیوں ہو
٭٭٭
یہ تو نہیں عروجِ بہاراں چشیدہ ہوں
اے موسمِ خزاں میں ابھی نودمیدہ ہوں
روتا نہیں ہوں، قیمتِ گریہ کا علم ہے
ہنستا ہوں اس لیے کہ تبسم گزیدہ ہوں
وہ سامنے ہے پھر بھی مجھے دیکھتا نہیں
میں آفریدہ ہو کے بھی نا آفریدہ ہوں
میری صدا جدھر ہے، ادھر کی ہوا نہیں
آواز ہوں ضرور مگر ناشنیدہ ہوں
ڈر ہے کہ آنسوؤں میں کہیں تُو نہ ڈوب جائے
تُو سامنے نہ آ، میں ابھی آبدیدہ ہوں
سب عارضی حروف ہیں تحریرِ وقت کے
مجھ میں یہ فرق ہے کہ ذرا خط کشیدہ ہوں
مجھ کو دہن سے مُشک سخں کھینچنا پڑی
میں کربلائے لفظ میں بازو بریدہ ہوں
اب تک سوالِ ہجر کا سوجھا نہیں جواب
اک عمر ہو گئی ہے یونہی سر خمیدہ ہوں
اک آفتابِ ہجر فلک پر ہوا طلوع
لگتا ہے صد ہزار قیامت چشیدہ ہوں
دھُلتا نہیں ہے آنکھ سے منظر جدائی کا
حالانکہ میں تو شا م و سحر آبدیدہ ہوں
٭٭٭
جب ضبط کروں دل سے نکلتی ہے فغاں اور
میں آگ بجھاتا ہوں تو اٹھتا ہے دھواں اور
تم دل کے نگر میں اسے ڈھونڈو گے کہاں اور
وہ شخص تو ہر روز بدلتا ہے مکاں اور
بادل ہے وہ پل پل بدلتا ہے ہوا سے
کیا اس کا بھروسہ ہے ، یہاں اور وہاں اور
اس جسم سے مٹتے ہی نہیں وصل کے آثار
میں ہاتھ لگاتا ہوں تو پڑتے ہیں نشاں اور
جب دو گے دل و جاں تو خبر تب تمہیں ہو گی
لینا دل و جاں اور ہے، دینا دل و جاں اور
شاید کہ فلک شدتِ حدت سے چٹخ جائے
اک آہ ذرا زور سے اے غم زدگاں اور
تم مانگ میں افشاں تو ذرا وصل کی بھر لو
ممکن ہے کہ بن جائے کوئی کاہکشاں اور
کچھ پھول کھلائے تو ہیں غالب کی زمیں میں
دو چار گھڑی آئے نہ اے کاش خزاں اور
نذرانہ سخن کا یہ عدیم اس کے لیے ہے
وہ جس کا زمانے میں ہے اندازِ بیاں اور
رک جاؤ عدیم ، اپنا سخں سنگ بنا لو
بھاگو گے تو بڑھ جائے گی آوازِ سگاں اور
٭٭٭
آنسو جلائے تیرگیِ شام کے لیے
رکھے تھے یہ چراغ اسی کام کے لیے
ملنے سے پیشتر ہی بچھڑتے ہو کس طرح
آغاز تو کرو کسی انجام کے لیے
بہتان بعد میں، مجھے مل تو سہی کبھی
بنیاد تو بنا کوئی الزام کے لیے
وہ چاند اور اس سے ملاقات دن کے وقت
یہ روشنی سنبھال کسی شام کے لیے
اک سرخ دائرہ سا لبوں کا تھا جام پر
اٹھے تمام ہاتھ اسی جام کے لیے
یہ کہہ کے اس نے صاف ہی انکار کر دیا
یہ خاص دل نہیں ہے کسی عام کے لیے
سینہ ہے ،کوئی مقبرہء آہ و غم نہیں
اس میں جگہ نہیں دلِ ناکام کے لیے
تجھ سے ہے زندگی کے شب و روز کا وجود
سورج ہے جیسے گردشِ ایام کے لیے
وہ بےوفائی ہو کہ ستم ہو کہ قہر ہو
اچھا ہے وہ،بہت ہی برے کام کے لیے
شاعر ہی کوئی لائے تو لائے خیالِ خاص
اب تو نبی نہ آئیں گے الہام کے لیے
کتنے سلام، کتنے پیام آ گئے عدیم
بیٹھا ہوا تھا میں ترے پیغام کے لیے
٭٭٭
حضورِ یار چلے جب بھی ،سر جھکا کے چلے
یہی لگا ہے کہ ہم سامنے خدا کے چلے
ہم اس لئے تو دیئے سے دیا جلا کے چلے
ہمیں خبر تھی کہ ہم سامنے ہوا کے چلے
یہ پُل صراط نہیں، یہ ہے پُل محبت کا
بڑے بڑے ہیں جو اِس پُل پہ ڈگمگا کے چلے
چمن تو خیر، چٹانوں میں پھول کھل جائیں
وہ ایک پل بھی ذرا سا جو مسکرا کے چلے
جہاں میں پھیل گئی ہیں ہتھیلیاں تیری
ہر ایک ہاتھ پہ جادو تری حنا کے چلے
جہاں کسی کا بھی جادو نہ چل سکا کوئی
فسون و سحر وہاں بھی تری ادا کے چلے
عدیمؔ ایسا کوئی ہمسفر جو تجھ سا ہو
قدم قدم سے ، نظر سے نظر مِلا کے چلے
کرن کرن تڑپ اٹھی خود اپنی حدت سے
جب آفتاب کو ہم آئینہ دِکھا کے چلے
پیمبری کا زمانہ تو یہ نہیں ہے عدیمؔ
یہ کون ہے جو دکھوں میں بھی مسکرا کے چلے
عدیمؔ رات کی جانب چلو جو چلنا ہے
"چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے”
٭٭٭
میں بہہ رہا تھا کسی بحرِ بےخبر کی طرح
وہ رقص کرتا ہوا آ گیا بھنور کی طرح
ہر اک لکیر ہے ہاتھوں پہ رہگزر کی طرح
یونہی تو عمر نہیں کٹ رہی سفر کی طرح
یونہی تو لوگ نہیں ڈوبتے ہیں مٹی میں
زمیں جو گھوم رہی ہے کسی بھنور کی طرح
شب ِ جدائی اگر تو ہے عمر میں شامل
تو پھر گزر بھی کسی عمرِ مختصر کی طرح
یہ اس کی یاد کے آنسو ہیں، جان لیتا ہوں
پلک پلک چمک اٹھتی ہے جب گہر کی طرح
کئی دنوں سے چمکتا ہے آسمان بہت
بھڑک اٹھے نہ کہیں یہ کسی شرر کی طرح
وہ روئے یا وہ ہنسے، اک چمک سی رہتی ہے
کبھی گہر کی طرح اور کبھی سحر کی طرح
وہ آئے تو کبھی آمد چھپی نہیں ا س کی
وہ پھیلتا ہے بھرے شہر میں خبر کی طرح
عدیمؔ آب و ہوا بھی عجیب جادو ہے
کبھی شجر کی طرح ہے کبھی ثمر کی طرح
بچھڑ کے وہ تو نہ رویا ، جو میں نے ہار دیا
وہ ہار ٹوٹ کے بکھرا ہے چشمِ تر کی طرح
صفات اس میں تضادات سے مرصع ہیں
گداز شب کی طرح ہے، چمک سحر کی طرح
عدیمؔ اس نے لکھا خط حنائی ہاتھوں سے
ہر ایک لفظ بھڑکنے لگا شرر کی طرح
٭٭٭
سرخیِ وصل پسِ دیدہ تر پانی میں
کہاں دیکھے تھے عدیم اتنے شرر پانی میں
تری یادیں پسِ بادیدۂ تر پانی میں
کون کہتا ہے کہ بنتے نہیں گھر پانی میں
ڈوبتے یوں ہی نہیں دیدۂ تر پانی میں
یہی آنسو ہیں جو بنتے ہیں گہر پانی میں
پوچھ آہوں سے، ہواؤں میں تپش کیسی ہے
آنسوؤں نے تو کیا سارا سفر پانی میں
کیا خبر تھی تری آنکھوں میں بھی دل ڈوبے گا
میں تو سمجھا تھا کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں
کشتیِ دل نے کیا رقص بڑی دیر کے بعد
دیر کے بعد ہی ناچے ہیں بھنور پانی میں
اشک پلکوں پہ جو ٹھہرے ہیں تو حیرت کیسی؟
ساحلی لوگ بنا لیتے ہیں گھر پانی میں
آب دیدہ سی ملاقات ہوئی ہے تجھ سے
عکس آیا ہے ترا مجھ کو نظر پانی میں
لمس تالاب میں ہاتھوں کا قیامت نکلا
آگ سے بڑھ کے ہوا اس کا اثر پانی میں
دل کے دریا میں لگایا تھا تمنا کا شجر
گر کے بہتا ہی رہا سارا ثمر پانی میں
فرق اتنا سا ہے اس شخص میں اور مجھ میں عدیمؔ
وہ کنارے پہ اُدھر، میں ہوں اِدھر پانی میں
٭٭٭
اس نے دل پھینکا خریداروں کے بیچ
پھر کوئی محشر تھا بازاروں کے بیچ
تُو نے دیکھی ہے پرستش حسن کی؟
آ کبھی اپنے پرستاروں کے بیچ
سر ہی ٹکرا کے گزر جاتے ہو کیوں
گھر بھی کچھ ہوتے ہیں دیواروں کے بیچ
تُو کہاں اس ریگزارِ دہر میں
پھول تو کھلتے ہیں گلزاروں کے بیچ
یہ سماں تُو نے بِتایا تھا کہاں
آ پلٹ جائیں انہی غاروں کے بیچ
کوئی سکہ بیچ میں گرتا نہیں
چاند وہ کشکول ہے تاروں کے بیچ
وہ کبوتر گنبدوں پر یاد ہیں
وہ پتنگ ان دونوں میناروں کے بیچ
فاختائیں بھی ، ابابیلیں بھی ہیں
کچھ نہیں موجود منقاروں کے بیچ
رات بھر آتی ہے آہوں کی صدا
کس کو چنوایا ہے دیواروں کے بیچ
یوں اسے دیکھا غنیموں میں عدیمؔ
جیسے کوئی پھول تلواروں کے بیچ
٭٭٭
پھر بھی بیٹھی ہے خزاں باغ کی دیوار کے ساتھ
جبکہ پتاّ بھی نہیں ہے کوئی اشجار کے ساتھ
کچھ تعلق تو نہیں تھا مرا بیمار کے ساتھ
پھر بھی دل ڈوب گیا شام کے آثار کے ساتھ
کس نے چمکایا ہے سورج مری دیوار کے ساتھ
صبح ہوتی ہے مری تو ، ترے دیدار کے ساتھ
ایک ہے میری انا ، ایک انا کس کی ہے
کس نے دیوار بنا دی مری دیوار کے ساتھ
تم بڑے لوگ ہو ، سیدھے ہی گزر جاتے ہو
ورنی کچھ تنگ سی گلیاں بھی ہیں بازار کے ساتھ
مستقل درد کا سودا ہے، ذرا نرمی سے
کچھ رعایت بھی تو کرتے ہیں خریدار کے ساتھ
مرے اشکوں پہ تجھے اتنا تعجب کیوں ہے
تُو نے چشمے نہیں دیکھے کبھی کہسار کے ساتھ؟
اب تو میں صرف ” تعلق” کے عوض بیٹھا ہوں
اب تو ” سایہ” بھی نہیں ہے تری دیوار کے ساتھ
میرے شہکار کو اس پیار سے تکنے والے
کوئی فنکار کا رشتہ بھی شہکار کے ساتھ
میں نے پہچان لیا دور سے، گھر تیرا ہے
پھول لپٹے ہوئے دیکھے جہاں دیوار کے ساتھ
لفظ نشتر کی طرح دل میں اتر جاتے ہیں
خط محبت کا بھی لکھتا ہے وہ تلوار کے ساتھ
کوئی فنکار کی تنہائی کی جانب نہ گیا
لوگ جا جا کے لپٹتے رہے شہکار کے ساتھ
٭٭٭
شب و روز خوشۂ اشک سے مری کشتِ چشم بھری رہی
یہ عجیب کھیت کی فصل تھی، جو ہری ہوئی تو ہری رہی
کئی رود و چشمہ وصل تھے، جنہیں خشک ہجر نے کر دیا
فقط اک صراحیِ چشم تھی ، جو بھری رہی تو بھری رہی
وہ جو ایک شامِ جدائی تھی، وہی عمر بھر کی کمائی تھی
نہ وہ ڈر رہا شبِ تار کا ، نہ وہ خواہشِ سحری رہی
جو جہان تھا وہ مہان تھا، کوئی تیر کوئی کمان تھا
یہ مجھی کو خوفِ خدا رہا، مری زندگی ہی ڈری رہی
یہ جہانِ خاک ہے اس جگہ سبھی خاکسار و غبار ہیں
نہ کسی کا تخت رہا یہاں، نہ کسی کی تاج ورَی رہی
کھلی آنکھ مشتِ غبار پر سرِ ریگزار پڑا تھا میں
نہ وہ خوفِ لاف و گزاف تھا، نہ وہ قاف تھا نہ پری رہی
کسی کنجِ حرص میں چور تھا شبِ وصل نقب لگا گیا
نہ سپردگی رہی حسن کی، نہ جنون کی بے خبری رہی
مرے دل کی درز سے چھن پڑی جو کرن تھی تیرے وصال کی
میں نے لاکھ راز نہاں کیا، مرے دل میں پھر بھی جھری رہی
کسی بحرِ درد کی لہر میں کہاں ڈوبتے ،کہاں تیرتے
وہ جو کشتیِ چشم تھی، وہ تو آنسوؤں سے بھری رہی
کبھی نا درست کے سامنے مرا سر عدیمؔ جھکا نہیں
میں وہ دیدہ ور، مری آنکھ میں یہی ایک دیدہ وری رہی
٭٭٭
سارے جہان کو عدیمؔ واقفِ حال کر دیا
تحفہ ذرا سا تھا مگر اس نے اچھال کر دیا
اُس کی نظر کو داد دو، جس نے یہ حال کر دیا
میرا کمال کچھ نہیں، اُس نے کمال کر دیا
ایک نگاہ کا اثر ،ظرف بہ ظرف مختلف
اِس کو نڈھال کر دیاِ، اُس کو نہال کر دیا
آگ کی شہ پہ رات بھر نور بہت بنے دئے
صبح کی ایک پھونک نے سب کو سفال کر دیا
یہ تو ہوا ہتھیلیاں گنبدِ سرخ بن گئیں
ہاتھوں کی اوٹ نے مگر رکھا سنبھال کر ” دِیا”
شمع بھی تھی، چراغ بھی، دونوں ہوا سے بجھ گئے
میں نے جلا لیا مگر دل کا نکال کر "دِیا”
موت سے ایک پل اِ دھر پھر سے حیات مل گئی
اس نے تعلقات کو پھر سے بحال کر دیا
اوک بنا بنا کے ہم دستِ دعا کو تھک گئے
جو بھی ہمیں دیا گیا، کاسے میں ڈال کر دیا
کوئی تو اس کی قدر کر، کوئی تو اس کو اجر دے
اس نے عدیمؔ تجھ کو دل کتِنوں کو ٹال کر دیا
بات سخن میں چل پڑی، اس نے عدیم ؔ مان لی
میں نے فراق کاٹ کر، اس کو وصال کر دیا
٭٭٭
ٹائپنگ: شیزان اقبال
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اچھا شعری مجموعہ ہے