فہرست مضامین
- انتساب
- ***
- غزلیں
- ***
- اپنے آنسو رول رہا تھا
- اک تری یاد کو بس رختِ سفر جانا ہے
- دوستا! ہم کو جو دعا ملی ہے
- فیصلہ اس کے فقط حق میں سنایا ہوا ہے
- ایک زمانے بعد ملے ہو، چھوڑو ناں!
- سفر تمام ہوا راستے تمام ہوئے
- چھین کر مجھ سے پھر بیان مِرا
- سنو! ہنسنا تھا یوں رونا نہیں تھا
- دھڑکن چُپ چُپ رہتی ہے
- قصّے کو کچھ ایسا اُس نے موڑ دیا
- کون آیا تھا؟ کون آئے گا؟
- میں جہاں بھی رہا وہیں تھا مجھے
- دلِ ویراں میں تیرا درد ہی مہمان، کافی تھا
- رگوں میں خون جمنے لگ گیا تھا
- بچھڑ جائے گا وہ بھی خامشی سے
- جُنوں آسان ہوتا جا رہا ہے
- جھلّی تو ہر بات کرے نادانی کی
- ہو کے ویران چلے آتے ہیں
- ایک جلوہ، کہاں کہاں کی آنکھ
- یہ کس نے ہنس کے سبھی زخم ہی مجھے دیے ہیں
- چل رہی ہیں چال آنکھیں
- دنیا وہ بھی چھین چکی ہے
- جس کو ہو، بسمل ہوتا ہے
- یہ چھپ کر کون شہرِ دل سے گزرا
- عشق کہاں جانے والا تھا اب کے بن بدنام کیے
- کیسے کیسے ہم کو خواب پرونا آیا کرتا تھا
- مجھے تُو یاد ہر دم ہے تو پھر کیا ہے
- نظر تری یوں اُتار جائیں
- اس کو آتی نہیں چھپانی، ہنسی
- اب میں سمجھا ہوں بیل کا مقصد
- یادیں، میں، کچھ ٹوٹے پتے، صندل، جنگل، بارش تھی
- خود کو برباد کر کے دیکھنا ہے
- قطعات
- ******
- نظمیں
- ******
- عیدِ سعید
- صلہ
- ’’کچھ تو کہو‘‘
- متفرق اشعار
وہ آنکھوں سے بول رہا تھا
شاعر
زین شکیل
جمع و ترتیب
اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
وہ آنکھوں سے بول رہا تھا
(غزلیں، نظمیں)
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
انتساب
رضوان خلیل اور اذان علی کے نام
***
غزلیں
***
اپنے آنسو رول رہا تھا
وہ آنکھوں سے بول رہا تھا
تیرے بعد مرے کمرے میں
ماتم کا ماحول رہا تھا
ہم ہی چلنے سے عاری تھے
وہ تو رستے کھول رہا تھا
جان! تمہاری نگری اندر
میں کتنا بے مول رہا تھا
وہ بھی کیسے اپنی چُپ سے
میری چُپ کو تول رہا تھا
تم کتنے انمول ہوئے ہو
میں کتنا انمول رہا تھا
رات، مری بے چین آنکھوں میں
چاند اداسی گھول رہا تھا
یاد ہے؟ تیری خاطر میرے
ہاتھوں میں کشکول رہا تھا
***
اک تری یاد کو بس رختِ سفر جانا ہے
ہم نے پتھر کو بہر طور گہر جانا ہے
جس طرح رات کٹی دن بھی گیا ہاتھوں سے
اس طرح ہم نے کسی شام گزر جانا ہے
یہ جو دریا ہے کسی یاد کا بپھرا دریا
اِس نے چپ چاپ سمندر میں اتر جانا ہے
چاند کو ہم نے بتانا ہے ترے بارے میں
آج تو ہم نے بڑی دیر سے گھر جانا ہے
ایک مدت سے اجڑتے ہی چلے آئے ہیں
ایک لمحے میں کہاں ہم نے سنور جانا ہے
اور پھر میرے سوا کون سہے اس کے ستم
اور اِک اس کے سوا میں نے کدھر جانا ہے
زین مالا سا ہمیں اس نے پرو رکھا ہے
ہم نے چُپ چاپ کسی روز بکھر جانا ہے
***
دوستا! ہم کو جو دعا ملی ہے
جانے کس جرم کی سزا ملی ہے
ورنہ تم سے نباہتے رہتے
زندگی ہم کو بے وفا ملی ہے
اب یہ آئے گی اپنی آئی پر
اک اداسی جو مجھ سے آ ملی ہے
تیرے خط بھی نظر چرا رہے ہیں
تیری تحریر بھی خفا ملی ہے
اب جو ہر شب نگہ برستی ہے
ہم کو قسمت سے یہ گھٹا ملی ہے
ہم ہی پاگل تھے ہنس کے ملتے رہے
وہ تو جب بھی ملی خفا ملی ہے
***
فیصلہ اس کے فقط حق میں سنایا ہوا ہے
ہم کو اس شخص نے پاگل جو بنایا ہوا ہے
جس کو گھنٹوں سے بٹھا رکھا ہے تو نے باہر
تیرے ملنے کو بڑی دور سے آیا ہوا ہے
میں گریبان میں پہلے سے ہی جھانک آیا تھا
آئینہ خود کو کئی بار دکھایا ہوا ہے
وہ جسے دیکھ کے، منہ پھیر کے، ہنس دیتے ہو
ہائے وہ شخص زمانے کا ستایا ہوا ہے
میں تجھے پائے ہوئے خود کو تلاشوں ہر جا
یہ بتا تُو نے کہاں مجھ کو گنوایا ہوا ہے؟
روزِ محشر ہے بنے سنورے ہوئے ہیں آقا
حشر میں، حشر نے اک حشر اٹھایا ہوا ہے
ہاتھ میں خوشبو لیے جانبِ من آؤ ذرا
میں نے کاغذ پہ کوئی پھول بنایا ہوا ہے
جس طرف جائے تری سمت چلا آتا ہے
زین کو تو نے یہ کس رہ پہ چلایا ہوا ہے
***
ایک زمانے بعد ملے ہو، چھوڑو ناں!
ایسے کیا اب دیکھ رہے ہو؟ چھوڑو ناں!
ہاں میں نے ہی رستہ بدلا ہے، سچ ہے
ہاں بس تم ہی ساتھ چلے ہو، چھوڑو ناں!
میں کتنا بد عہد رہا ہوں، دیکھ لیا؟
ساری باتیں مان چکے ہو؟ چھوڑو ناں!
مل کر بیتی باتوں کو مت دہراؤ
کتنے خوش خوش آج دِکھے ہو، چھوڑو ناں!
جانے دو، وہ خوشی منائے، عیش کرے
زین سنو تم ہار گئے ہو، چھوڑو ناں!
مت میٹھے لہجے میں مجھ سے بات کرو
تم اَوروں کے ساتھ ملے ہو، چھوڑو ناں!
زین تمہیں وہ بھول چکا ہے اور اک تم
اب بھی اُس کو سوچ رہے ہو، چھوڑو ناں!
***
سفر تمام ہوا راستے تمام ہوئے
سحر ہوئے نہ تری ہم، نا تیری شام ہوئے
نہیں تھا تجھ میں ذرا سا بھی وصفِ شہنشہی
سو دیکھ ایسے میں ہم پھر ترے غلام ہوئے
وہ باتیں ہائے وہ باتیں، وہ رس بھری باتیں
کہ جب وہ نینوں سے دو نین ہم کلام ہوئے
اُسے تو یار! کوئی فرق ہی نہیں پڑتا
ہم اُس کی زیست میں جیسے برائے نام ہوئے
چلو یہ ٹھیک ہوا تم سے جان چھوٹ گئی
ہمیشہ کل پہ جو ڈالے وہ سارے کام ہوئے
ہم اپنے آپ کو اک روز ڈھونڈنے نکلے
تجھے بھی کھو دیا رُسوا بھی گام گام ہوئے
***
چھین کر مجھ سے پھر بیان مِرا
لے گئے ہو کہاں نشان مِرا
میرے کمرے کو مضطرب پا کر
رونے لگتا ہے یہ مکان مِرا
وہ جہاں آنکھ سے ہوا اوجھل
بس وہیں رہ گیا ہے دھیان مِرا
ہجر اُس کا بڑے سلیقے سے
لینے آیا ہے امتحان مِرا
کیا بتاؤں کہ کس قدر ناراض
مجھ سے رہتا ہے خاندان مِرا
***
سنو! ہنسنا تھا یوں رونا نہیں تھا
تو پھر وہ حادثہ ہونا نہیں تھا
جو تُو ملتا تو تیرا دھیان رکھتے
تجھے ہم نے کبھی کھونا نہیں تھا
جہاں میں ہوں وہاں تُو ہی نہیں ہے
جہاں تُو ہے وہیں ہونا نہیں تھا
مجھے بھی جاگنے کی عادتیں تھیں
اُسے بھی دیر تک سونا نہیں تھا
ہمیں ازبر نہ تھے آدابِ دنیا
جہاں روئے وہاں رونا نہیں تھا
تری خاطر گرائیں سب فصیلں
مرے دل میں کوئی کونا نہیں تھا
یہ کچی عمر اور اس پر محبت؟
ابھی سے بوجھ یہ ڈھونا نہیں تھا!
***
دھڑکن چُپ چُپ رہتی ہے
کون اِس دل میں ٹھہرا ہے
ہر دم ہنسنے والوں کا
دکھ بھی کتنا گہرا ہے
اک جھلّی سی لڑکی کا
سوچوں پر بھی پہرا ہے
تیرے ہجر کا موسم ہے
میرا درد سنہرا ہے
گھر بھی لگتا ہے جیسے
دکھ کا ایک کٹہرا ہے
دل کو کیسے سمجھاؤں
دل ازلوں سے بہرا ہے
***
قصّے کو کچھ ایسا اُس نے موڑ دیا
میرا دُکھ سے دائم رشتہ جوڑ دیا
میں تو اب تک، یار! غریقِ حیرت ہوں
کیسے تُو نے میرے دل کو توڑ دیا؟
ہم نے رب سے جتنے سکھ منگوائے تھے
سب کا رستہ تیری جانب موڑ دیا
تھوڑی سی خود داری بھی تو لازم تھی
جس نے ہاتھ چھڑایا، ہم نے چھوڑ دیا
پہلے بھیک میں خوشیاں مانگا کرتے تھے
عشق ہوا تو ہم نے کاسہ توڑ دیا
***
کون آیا تھا؟ کون آئے گا؟
کس لیے گھر کو تُو سنوارتا ہے؟
کون شہ رگ سے بھی قریں بیٹھا
میرے اندر مجھے پکارتا ہے
سر سے ماؤں کا سایہ اٹھ جائے
کون، یارو، نظر اُتارتا ہے
جیسے مشکل کا وقت کاٹتے ہیں
وہ مجھے اس طرح گزا رتا ہے
***
میں جہاں بھی رہا وہیں تھا مجھے
بس وہی شخص ہی حسیں تھا مجھے
چاہے رختِ سفر میں تھیں خوشیاں
کوئی تو غم کہیں کہیں تھا مجھے
غیر شافی تھی تیرے بن ہر شے
عارضہ ایسا دلنشیں تھا مجھے
ہائے افسوس اُس کے جانے پر
دکھ یہی تھا کہ دکھ نہیں تھا مجھے
***
دلِ ویراں میں تیرا درد ہی مہمان، کافی تھا
ہمیں بس اِک ترا ہجرِ بلائے جان کافی تھا
تجھے بالوں کو لہرانے کی ایسی کیا ضرورت تھی
میں جتنا ہو چکا تھا اُس قدر حیران کافی تھا
کرم کچھ حد سے زیادہ مجھ پہ تُو نے کر دیا لیکن
تجھے یہ زین یوں بھی بے سر و سامان کافی تھا
کسی انجان غم میں رو پڑا تھا وہ مرے آگے
مرے برباد ہونے کو یہی نقصان کافی تھا
بچھڑتے وقت کچھ بھی نا سہی دو لفظ دے جاتے
کوئی امید کافی تھی، کوئی پیمان کافی تھا
اُسی کے نقش ذہن و دل سے مٹ پائے نہیں اب تک
کہ جس کو بھولنے کا مرحلہ آسان کافی تھا
بلا کی دیر کر دی لوٹنے میں بس اِسی خاطر
ہمارے گھر کے رستے سے کوئی انجان کافی تھا
یہ تم جو آ گئے تو اِس کا منہ ما تھا نکل آیا
وگرنہ تم سے پہلے گھر مِرا ویران کافی تھا
جدا ہونے سے بہتر تھا، جفا کرتے، خفا کرتے
تمہارا زین کے سر پر یہی احسان کافی تھا
***
رگوں میں خون جمنے لگ گیا تھا
تعلق بوجھ بننے لگ گیا تھا
اسے دل سی اُترنا ہی پڑا ناں
وہ دکھ چُپ چاپ سہنے لگ گیا تھا
بڑی مشکل جدائی کی گھڑی تھی
ہمارا دم ہی گھُٹنے لگ گیا تھا
ہم اُس سے مل کے لوٹے، خوب روئے
وہ ہم سے دور رہنے لگ گیا تھا
لنگوٹی یار دل آوارگی کا
ہمی پر فقرے کَسنے لگ گیا تھا
جسے ملنے کو ہم روتے رہے تھے
وہ ہم سے مل کے ہنسنے لگ گیا تھا
***
بچھڑ جائے گا وہ بھی خامشی سے
چُنا جس نے مجھے اپنی خوشی سے
کہیں تیری صدا گھائل نہ کر دے
سو ہم گزرے نہیں تیری گلی سے
عداوت مول لی ہے شہر بھر کی
یہی اچھی تھی تیری دوستی سے
قسم سے بھول پاتا ہی نہیں ہوں
مجھے دیکھا تھا تُو نے بے دلی سے
وہ میرے گھر میں رُکتا بھی تو کیسے
جو خائف تھا مری بوسیدگی سے
مرے اندر فقط اک تُو نہیں ہے
میں کتنا بھر چکا تیری کمی سے
وہ صفحہ پھاڑ کر کیوں لے گئے تم
یہ دکھ جاتا نہیں ہے ڈائری سے
مجھے تو چاند تم جیسا لگا تھا
مرا کیا واسطہ تھا چاندنی سے
تمہیں یوں کب تلک لکھتا رہوں میں
بہت اکتا گیا ہوں شاعری سے
***
جُنوں آسان ہوتا جا رہا ہے
یہ دل نادان ہوتا جا رہا ہے
مری آنکھیں اگر خاموش ہیں تو
وہ کیوں حیران ہوتا جا رہا ہے
چلے آؤ خدا کا واسطہ ہے
یہ گھر ویران ہوتا ہے رہا ہے
ترا چھپ چھپ کے ایسے مسکرانا
وبالِ جان ہوتا جا رہا ہے
تمہاری ہر ادا کی زد میں آ کر
مِرا نقصان ہوتا جا رہا ہے
تمہارے بن یہ شہرِ دل بھی دیکھو
بڑا سنسان ہوتا جا رہا ہے
***
جھلّی تو ہر بات کرے نادانی کی
اچھی ہے یہ بات مِری دیوانی کی
یوں وہ میرا چہرا دیکھ کے ہنستا ہے
جیسے کوئی بات نہیں حیرانی کی
آنکھیں روئیں، دل پر بوجھ پڑا، تڑپے
جب بھی تیری یاد سے رو گردانی کی
اب چھالے ہیں پیروں میں، دل دکھتا ہے
سائیاں ہم کو راہ دکھا آسانی کی
بس کر اُجڑے اور اتنا اُجڑے کہ بس
بن بیٹھے تصویر کسی ویرانی کی
سب کی باتیں سن لیں پر خاموش رہے
آخر ہم نے اپنی ہی من مانی کی
***
ہو کے ویران چلے آتے ہیں
ایسے بے جان چلے آتے ہیں
تیرے کُوچے سے انہی پیروں پر
ٹھیک ہے جان! چلے آتے ہیں!
دل پریشان ہوا رہتا ہے
لوگ حیران چلے آتے ہیں
تین دن خیر سے کٹتے ہیں تو غم
بن کے مہمان چلے آتے ہیں
***
ایک جلوہ، کہاں کہاں کی آنکھ
یاد ہے بس فلاں فلاں کی آنکھ
آج بیداریِ یقیں بتلا
لگ گئی ہے کہاں گماں کی آنکھ
کب سے میں دیکھنے میں ہوں مصروف
بند ہے کب سے آسماں کی آنکھ
قالبِ درد میں کٹے گی شب
سُرخ تھی آج میری جاں کی آنکھ
ہائے آنکھیں چھلک اٹھیں اپنی
کھُل گئی زخم کے نشاں کی آنکھ
تاڑ بیٹھی ہے میٹھی نظروں سے
ہم کو اک ہجرِ بے کراں کی آنکھ
مرگِ حسرت پہ جب ہوا ماتم
تب کھُلی جا کے اس جہاں کی آنکھ
جو بھی صندل! ہمارے بیچ آئے
ایسی کی تیسی اُس کی ماں کی آنکھ
***
یہ کس نے ہنس کے سبھی زخم ہی مجھے دیے ہیں
مرے خلوص کے کیسے مجھے صلے دیے ہیں
جو تُو نہ آیا تو ہم نے ترے خیال کو ہی
تڑپ تڑپ کے پکارا ہے واسطے دیے ہیں
غزال مثل تجھے کیا خبر غزل کو مری
تری ردیف نگاہی نے قافیے دیے ہیں
سفر میں کتنی ہی کٹھنائیاں ہیں پر ہم نے
کیا ہے صبر، پہاڑوں نے راستے دیے ہیں
بچھڑ کے ہم سے وہ خوش رہ رہا ہے، حیرت ہے
ہمارے بعد اُسے کس نے حوصلے دیے ہیں؟
***
چل رہی ہیں چال آنکھیں
اُس کی بے مثال آنکھیں
لے کے پھر رہا ہے وہ
شہر میں کمال آنکھیں
بھولتیں نہیں مجھ کو
اب بھی پُر ملال آنکھیں
کر رہی ہیں زخموں کا
کب سے اندمال آنکھیں
دیکھ دیکھ راہوں کو
ہو گئیں نڈھال آنکھیں
خود جواب تھیں لیکن
بن گئیں سوال آنکھیں
دیکھ! میری آنکھوں میں
اس طرح نہ ڈال آنکھیں
اے خدا رہیں قائم
اُس کی لازوال، آنکھیں
***
دنیا وہ بھی چھین چکی ہے
ہم نے اُس کو جو دینا تھا
میرے دُکھ پر ہنسنے والے
تھوڑا سا تو رو دینا تھا
وہ تو میں نے تھام لیا ہے
تم نے مجھ کو کھو دینا تھا
***
جس کو ہو، بسمل ہوتا ہے
پیار بڑا قاتل ہوتا ہے
کوئی تو دُکھ سے بھی پوچھے
دل میں کیوں داخل ہوتا ہے؟
دل کو توڑ کے جانے والے
تم کو کیا حاصل ہوتا ہے؟
عشق نہ صورت، ذاتیں دیکھے
کون اِس کے قابِل ہوتا ہے!
خاموشی کو بول رہا ہوں
چُپ رہنا مشکل ہوتا ہے
اُس کی پریت ہے ایسی جیسے
اک ماہِ کامِل ہوتا ہے
وہ کتنی سُندر ہوتی ہے
جس کے ہونٹ پہ تِل ہوتا ہے
پگلی، کملی، جھلّی کُڑیے
دل تو آخر دل ہوتا ہے
***
یہ چھپ کر کون شہرِ دل سے گزرا
ہمارے دل کی دھڑکن تھم گئی ہے
وہ میرے حال سے واقف نہیں ہیں
مری اُن تک خبر کم کم گئی ہے
خوشی لینے چلی آئی تھی لیکن
وہ لڑکی آج بھی پُر نم گئی ہے
وہ شور و غُل میں کیسے بات سنتے
مری آواز بھی مدّھم گئی ہے
کبھی آ کر انہیں شفاف کر دے
ترے وعدوں پہ مٹی جم گئی ہے
***
عشق کہاں جانے والا تھا اب کے بن بدنام کیے
پہلے ہم کو گروی رکھا پھر جذبے نیلام کیے
خود پر تہمت آپ لگائی خود پر ہی الزام دھرے
دیکھو ہم نے بعد تمہارے کیسے کیسے کام کیے
جتنی عمر گزار آیا ہوں ساری تیرے نام پیا
اب جتنے لمحات بچے ہیں وہ بھی تیرے نام کیے
تُو پل بھر خاموش رہے تو ایسا لگنے لگتا ہے
جیسے عرصہ بیت گیا ہو تیرے ساتھ کلام کیے
اُس کی لاج رکھی اور خالی ہاتھ وہیں پر چھوڑ آئے
جس کے دَر پر وِرد وظیفے ہم نے صبح و شام کیے
چلتے چلتے تھک بھی جائیں تو بھی فرق نہیں پڑتا
اب تو مدت بیت گئی ہے زین ہمیں، آرام کیے
***
کیسے کیسے ہم کو خواب پرونا آیا کرتا تھا
بچپن تھا جب میٹھی نیندیں سونا آیا کرتا تھا
بے تُکّی سی بات پہ کیسے پہروں ہنستے رہتے تھے
چھوٹی چھوٹی بات پہ کیسے رونا آیا کرتا تھا
گھر کے سارے بچے کتنے خوش ہو جایا کرتے تھے
سب کی خاطر گھر میں ایک کھلونا آیا کرتا تھا
یاد ہے مجھ کو اک محرومی تجھ کو خوب رُلاتی تھی
تجھ کو پلنگ کا تکیہ خوب بھگونا آیا کرتا تھا
اب کھونے سے ڈر جاتا ہوں، تجھ بن کچھ بھی پاس نہیں
پہلے سب کچھ کھو دیتا تھا، کھونا آیا کرتا تھا
***
مجھے تُو یاد ہر دم ہے تو پھر کیا ہے
جو میری آنکھ پُر نم ہے تو پھر کیا ہے
میں تنہا خوش ہوں اپنی کائناتوں میں
یہ دنیا مجھ سے برہم ہے تو پھر کیا ہے
ترا لہجہ ہے کافی زخم دینے کو
ترا ہر لفظ مرہم ہے تو پھر کیا ہے
نہیں ملنا تو بس ہم نے نہیں ملنا
اگر ملنے کا موسم ہے تو پھر کیا ہے
ہمیں اپنی سزا ہر طور ملنی ہے
یہاں ہر شخص مجرم ہے تو پھر کیا ہے
جسے سننا ہے، وہ کیسے بھی، سن لے گا
مری آواز مدّھم ہے تو پھر کیا ہے
***
نظر تری یوں اُتار جائیں
کہ خود کو صدقے میں وار جائیں
سو اب اناؤں کو دفن کر کے
کسی کے آگے تو ہار جائیں
جو زندگانی کے پل بچے ہیں
وہ ہنس ہنسا کر گزار جائیں
نہ ایسے روٹھو، خیال کر لو
ہمیں یہ لمحے نہ مار جائیں
اُداس ہو کر بھی کیا ملا ہے
’’چلو اُداسی کے پار جائیں ‘‘
***
اس کو آتی نہیں چھپانی، ہنسی
ہم نے دل سے نہیں بھُلانی، ہنسی
اب وہ ہر بات پر نہیں ہنستا
اب وہ ہنستا ہے بس گیانی ہنسی
لاکھ چاہا نہ آ سکی لب پر
آج تو بات بھی نہ مانی، ہنسی
وہ بھی کرتا رہا نئی باتیں
ہم بھی ہنستے رہے پرانی ہنسی
لب پہ مسکان اور نم آنکھیں
کیسے عالم میں وہ دِوانی ہنسی
اس نے سختی سے کہہ دیا مجھ کو
اب لبوں سے نہیں اٹھانی ہنسی
تم ہنسی ہو تو یوں لگا مجھ کو
کوئی راجہ کی آج رانی ہنسی
حادثہ ہو گیا تھا آخر میں
روئے کردار تو کہانی ہنسی
میں لڑکپن سے اب تلک رویا
مجھ پہ کیوں آج یہ جوانی، ہنسی؟
زین جب تک نہیں ہنسے گا وہ
تیرے لب پر نہیں ہے آنی ہنسی
***
منتظر ہیں یہ گھر کی دیواریں
اب میں سمجھا ہوں بیل کا مقصد
دکھ سے آرام ملنے آیا ہے
ہو گا اب کچھ تو میل کا مقصد
عشق میں جیت ہو نہیں سکتی
ہار جانا ہے کھیل کا مقصد
***
یادیں، میں، کچھ ٹوٹے پتے، صندل، جنگل، بارش تھی
بانسریا کی کُوک پہ رقصاں جل تھل جل تھل بارش تھی
آنکھوں سے کچھ اتنا برسی، یاد دریچہ ڈوب گیا
جانے کس کے پیار میں یارو، اتنی پاگل بارش تھی
***
خود کو برباد کر کے دیکھنا ہے
پھر تمہیں یاد کر کے دیکھنا ہے
وسعتِ درد جانچنی ہے مجھے
ہجر آباد کر کے دیکھنا ہے
***
قطعات
مجھ سے گر فائدہ نہیں تو پھر
مجھ سے نقصان بھی نہیں ہو گا
یاد بھی کم ہی آؤں گا تجھ کو
تُو پریشان بھی نہیں ہو گا
***
ساکنانِ ہر جہانِ عاشقاں
عید کی تم کو مبارکباد ہو
ساکنانِ شہرِ ہجراں اور وصال
عید کی سب کو مبارکباد ہو
***
اس سے کہہ دو ابھی سہولت سے
جو بھی کہنا ہے آ کے کہہ جائے
یہ نہ ہو میں اُسے بھُلا ڈالوں
بات ہی ختم ہو کے رہ جائے
***
یہ انتظار غضب تھا، بہت بُرا تھا سو ہم
اس انتظار میں جیون بھی اپنا ہار گئے
کسی کے واسطے دنیا کا بوجھ ڈھونا پڑا
پھر اپنے کاندھوں سے یہ بوجھ بھی اُتار گئے
***
******
نظمیں
******
ہمت
مجھے اندر سے
کتنا توڑ دیتی ہے!
تری ٹوٹی ہوئی
’’ہمت‘‘
***
دوریاں نہیں مٹتیں!
عارضی محبت میں
سرسری تعلق کے
جھوٹ موٹ وعدوں کو
توڑنا ہی اچھا ہے!
کون دل کو سمجھائے
روز روز ملنے سے
دوریاں نہیں مٹتیں!
***
کس طرح کہیں تجھ سے
کس طرح کہیں تجھ سے
تیرے روٹھ جانے سے
ہم دکھوں کے ماروں پر
دو ٹکے کے لوگوں نے
انگلیاں اٹھائی ہیں
***
چھوڑ جاؤ گے کیا؟
سوچتے ہیں کہ اب تم سے کچھ نہ کہیں
چاہ سکتے نہیں!
صبر ہوتا نہیں کیا کریں کچھ کہو کہ کہاں جائیں ہم
کوئی ایسی جگہ بھی نہیں محرماں
جس جگہ تم نہیں!
بند آنکھیں کریں بھی اگر تو تصور تمہارا کسی طور ہٹتا نہیں
چاہے کچھ سوچ لیں
لاکھ بھولیں تمہیں …. تم نہیں بھولتے
مانتے ہیں تمہیں!
جانتے ہیں تمہیں …
اک تمہارے سوا سب بھلا تو دیا
تم نہیں بھولتے … کیا کریں؟
ہم تمہیں بھول جانے کی قصداً جو کوشش کریں بھی اگر
بھول پاؤ گے کیا؟
ایک مدت سے خوشیاں بھی ناراض تھیں
اور اب مسکراہٹ کی کلیاں ہمارے لبوں پر سجا کر.. کہاں جا رہے ہو؟
رُلاؤ گے کیا؟
یوں ستاؤ گے کیا؟
جانے والے سنو!
گر تمہیں چھوڑ جانا ہی ہے تو بتا کر تو جاؤ ہمیں کیا کبھی یاد آئیں گے ہم؟
لوٹ آؤ گے کیا؟
یا سدا کے لیے ہی ہمیں بھول جاؤ گے کیا؟
چھوڑ جاؤ گے کیا؟؟؟؟؟
***
سائیاں! دیکھ رہے ہو ناں تم؟
سائیاں! دیکھ رہے ہو ناں تم؟
ہم نے کتنے بھیس بدل کر
راہ بدلنے کی کوشش کی
ہم پھر بھی ناکام رہے ہیں
دکھ نے ہم کو ڈھونڈ لیا ہے
بھولی بسری یادوں کو بھی
تکیے کی اک شکل میں لا کر
سینے ساتھ لگا لینے سے
پل بھر دل بہلا لینے سے
من کی پیاس نہیں مٹتی ناں!
سائیاں رات نہیں کٹتی ناں!
ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے
کتنے زیادہ دکھ تھے جن کا
قتلِ عام کیا چُن چُن کر
پھر ان کی لاشوں کو سائیاں
دور بہت ہی دور کہیں پر
پھینک کے آگ لگا آئے ہیں
پھر بھی اپنے دل آنگن سے
غم کی بھیڑ نہیں جاتی ہے
سائیاں پیڑ نہیں جاتی ہے
***
مرے حق میں دعا کرنا
سنا ہے تم بہت خاموش رہتی ہو۔۔ ۔
مرے حق میں دعا کرتی رہو لڑکی
سنا ہے وہ جنھیں خاموشیوں کے فن پہ قدرت ہو
خدا ان کے بہت نزدیک رہتا ہے
تمہاری خامشی کے چند لمحوں سے
اگر مجھ کو ذرا اک پل ملے تو پھر
مرا جیون سنور جائے۔۔
سنو خاموشیوں میں گم
بڑی گم سم سی لڑکی تم
مرے حق میں دعا کرنا
***
نہیں حیران ہوتے ناں
نہیں حیران ہوتے ناں
کوئی جب لوٹ آئے تو
غنیمت جان لیتے ہیں
بھلے بچپن کھلونوں کی بجائے درد سے لڑتے ہی گزرا ہو
اداسی رنگ بدلے تو اسے پہچانتے ہیں ناں
گلے شکوے نہیں کرتے وگرنہ درد ہوتا ہے
اور اک یہ درد ہے ناں جو
بڑا بے درد ہوتا ہے
سکوں آنے نہیں دیتا
نگاہوں سے کسی لمحے نمی جانے نہیں دیتا
اگر کوئی محبت سے بلائے تو
نظر انداز کرنے سے بہت نقصان ہوتا ہے
یہ دل ویران ہوتا ہے
سنو جھلّی، ارے پگلی!
اگر کوئی بھی دل سے روح کی وادی میں آن اترے
بہت معصوم جذبوں کی کسی برسات میں بھیگے، بھگوئے بھی
جو تم کو بس تمہی کو سب کا سب ہی مان بیٹھا ہو
تو اُس کو مانتے ہیں ناں
اسے گردانتے ہیں ناں
اسے رسوا نہیں کرتے
اسے جانے نہیں دیتے
اسے دل میں بساتے ہیں
اسے سینے لگاتے ہیں
کوئی جب لوٹ آئے تو۔۔ ۔
نہیں حیران ہوتے ناں۔۔ ۔
***
نسیان
سُریلی چاندنی شب ہے!
یہی وہ بھول بیٹھا ہے کہ اُس نے اِس سہانی اور سُریلی چاندنی شب میں
مجھے ہی یاد کرنا تھا
مِرے بھی ذہن میں بالکل نہیں آیا
کہ میں نے اِس سُریلی چاندنی شب میں
اُسی کو یاد آنا تھا۔۔!
***
عیدِ سعید
خوش ہے تمام دہر کہ نکلا ہلالِ عید
اٹکا ہے کُنجِ لب پہ مرے پھر سوالِ عید
خاموش ہو گیا مرا فریاد رَس تو کیا
اور اِس پہ پھر تجھے بھی رہے پیش و پس تو کیا
میں تو خوشی کا گیت کبھی گا نہیں سکا
اس غم کدے میں چین کبھی آ نہیں سکا
چھوڑو اداس کر کے تمہیں کیا کماؤں گا
دنیا کے غم بھلا کے ترا غم ہی کھاؤں گا
گُل گوں اے عنبریں اے مری جان کی پناہ
تھی حشر خیز کیا وہ تری لعل گوں نگاہ
آباد ہو سدا وہ تری پُر ملال چشم
ہے اب تلک بھی یاد مجھے وہ گلال چشم
(ہائے وہ لاجونتی، وہ اک پیکرِ حیا
رَس گھولتی تھی کان میں اُس کی مَدھُر صدا
بادل ٹھہر ٹھہر کے اُسے دیکھتے بھی تھے
شب، اُس کے بارے، تارے مجھے پوچھتے بھی تھے )
عرصہ دراز بیت گیا اب ترے بغیر
بادل گزرتے جاتے ہیں مجھ سے ملے بغیر
کُل رنج و غم کو میرا اثاثہ بنا دیا
مہجوریوں نے مجھ کو تماشا بنا دیا
اب کیا ہوا وہ عشوہ و ناز و ادا، فسوں؟
اے جانِ جاناں حالتِ ناساز کی سکوں!
تُو ہے جہاں وہاں پہ تو عید آئی ہوئی ہے
پر یَاں تو فقط غم کی نوید آئی ہوئی ہے
خوشیاں جڑی ہیں تجھ سے ہی سارے جہان کی
بس خوش ہو گر تو خوش رہو، نا بھی رہو تو کیا
تجھ کو تو دیکھ کر ہی سکوں پا رہے ہیں لوگ
چاہے خموش ہی رہو، نا بھی ہنسو تو کیا
راحت یا سکھ تو بیتے زمانے کا نام ہے
اب یہ وجود دکھ کے گھرانے کا نام ہے
میں اِس ہلالِ عید پہ کیا اکتفا کروں
عیدِ سعید بس ترے آنے کا نام ہے
***
صلہ
اب تلک جسے میں نے
آتی جاتی سانسوں سے
بھی الگ نہیں مانا۔
آج چار لوگوں میں
بیٹھ کر یہ کہتا ہے
’’لوگ بھول جانے میں
دیر ہی نہیں کرتے‘‘
***
’’کچھ تو کہو‘‘
ایسی کیا بات بتا دی ہے اداسی نے تجھے
یہ جو تُو مجھ سے بہت دُور ہوا جاتا ہے
سچ کہوں پھر میں کبھی جھوٹ نہیں بول سکا
نیلی آنکھوں کی قسم جب بھی اٹھائی میں نے
تُو تو بس ایسے ہی ناراض ہوا ہے مجھ سے
تیرے ناراض رویے کے تشدد کے سبب
میرا ہر زخم ہی ناسور ہوا جاتا ہے
یہ جو تُو مجھ سے بہت دُور ہوا جاتا ہے
میں نے تیری تو کوئی بات نہ کی تھی اُس سے
میں تو گھُل مِل کے بھی اُس پر نہ کبھی کھُل پایا
آرزوؤں کے سَتَر کتنے چھپائے میں نے
تُو نے پھر مجھ کو بہ دامانِ دریدہ سمجھا
رات تو رات رہی اس کا گلہ کیا کرنا
مجھ کو ہر دن نے بھی بس خواب گزیدہ سمجھا
ان المناک حوادث سے بھرے جیون میں
ہر شبِ ہجر مِرے ہوش رُبا کاٹوں گا
اب کسی جرم کا الزام لگے یا نہ لگے
میں تجھے یاد تو کرنے کی سزا کاٹوں گا
کیا پتا اب میں تجھے یاد رہوں یا نہ رہوں
تجھ سے، ممکن ہے مِرا عکس بھی گم ہو جائے
ہو بھی سکتا ہے ترے ہاتھ اٹھیں میرے لیے
ہو بھی سکتا ہے کہ یوں مجھ پہ کرم ہو جائے
عالمِ سوگ ہے آنکھوں کو تو نم رہنے دے
یہ نہ ہو بعد میں تردیدِ الم ہو جائے
جانے کیا بات بتا دی ہے اُداسی نے تجھے؟
یہ جو تُو مجھ سے بہت دور ہوا جاتا ہے
تُو یہ کیوں ہوش میں بیٹھا ہے بتا میرے ’کلیم‘؟
دل تو جل جل کے مِرا طُور ہوا جاتا ہے
***
پردیسیوں کے لیے
ایک اکیلی جان
پردیسی ہو بیٹھی جب سے لگتی ہے بے جان
ساون کی خوشبو
آنکھوں میں تو آ جاتے ہیں بن پوچھے آنسو
گڑیا بہت اداس
پردیسوں میں کب ملتا ہے اپنوں سا احساس
چاروں جانب سوگ
تنہا رہ کے لگ جاتے ہیں دل کو کتنے روگ
چوڑی کی کھن کھن
پی نہ ملنے آویں مجھ کو چین نہ پاوے من
لمبی کالی رات
کون کرے پردیسوں میں مجھ سے پیاروں کی بات
پھیکا پڑ گیا مکھ
پل پل آنگن یاد آ جاوے کوسوں دور ہے سکھ
پیارا اپنا دیس
ہم پردیس کو کیا کاٹیں ہم کو کاٹے پردیس
مولا! رکھنا شاد
پردیسوں میں رہ رہ آویں ماں اور بابا یاد
سنے نہ جاویں بین
رو رو نیر بہاویں آنکھیں پل نہ پاویں چین
سبز رُتیں لے آ
اللہ سائیں! اب تو مجھ کو اپنوں سے ملوا…
***
رضوان خلیل کے جنم دن پر
اُداس رستے ہیں زندگی کے
قدم قدم پر ملالِ ماضی
یہ یادِ ماضی یا حافظے کا ملال یا پھر
عجب عجب سی اُداس و پُر غم حکایتوں کا جمود ہے جو
کھڑا ہوا ہے فراقِ یاراں کے بازوؤں میں
پسارے بازو
میں جانتا ہوں کئی شبیں ہیں
تجھے اے رضوان کاٹتی ہیں
جو ناگ بن کر
بڑی کٹھن ہیں۔۔ ۔ میں جانتا ہوں
ترے لیے صرف میرے لب پر دعا سجی ہے
طویل، لمبی حیات و خوشیوں کی مختصر سی حسیں دعا ہے
خدا کرے کہ تجھے دکھوں کی ہوا بھی دیکھے
تو رُخ بدل لے
خدا کرے کہ تجھے عطا ہو
سکوں ہمیشہ کے واسطے ہی
اور آبرو کا جہاں سدا ہی کھلا رہے اور
تری تمنا، مراد اور آرزو تمامی
خدا کے سوہنے نبیﷺ کے صدقے میں سُرخرو ہو
اے دوست رضوان!
یہ جنم دن تجھے مبارک
ترا جنم دن تجھے مبارک
***
اذان علی کے جنم دن پر
اذان علی!
محبتوں کی لو لگے تجھے
اذان علی!
مِرے اُداس اذان علی!
جہانِ عامیانۂ ازل میں میرے خاص اذان علی!
چل آ چلیں
وہاں جہاں کدورتوں کا نفرتوں کا کوئی کام کاج ہی نہیں
جہاں عداوتوں کا راج ہی نہیں
جہاں پہ حسرتوں میں آرزوؤں میں
اور احساسات میں عذاب کا مزاج ہی نہیں
اذان علی!
وہ بنچ پھر ہمیں بلا رہا ہے جس پہ بیٹھ کر
جہاں سے دور جایا کرتے تھے
وہ بنچ اُڑن کھٹولا تشتری وہ بنچ
جو ہمیں جہاں کی نفرتوں سے دور لے کے جایا کرتا
دوسرے جہاں میں
اُس جہاں میں جو ہمارا ہے
جہاں پہ عشق و آشتی، محبتوں کا ہی بسیرا ہے
اے میرے آنسوؤں کی دھار کے گواہِ بے قرار
میرے یار اذان علی!
ترے جنم کا دن بھی کس جہاں میں آ گیا
یہ بے سُرا جہان اور بے سِرا جہان
بے سروپا آفتوں کا ایک چھوٹا سا مکان یہ جہان
اس جہاں میں ہر خوشی ہے بے نشان
اور اس میں ایک عمر امتحان۔۔ ۔۔
اب تو میری بات مان، میری جان! اے اذان
چل چلیں وہاں جہان پہ کوئلیں محبتوں کے گیت گائیں
اور چاہتوں کے رس میں گھلتی جائیں یہ فضائیں
اور کان میں سنائیں چاہتوں کی میٹھی بات یہ سُریلی سی ہوائیں
چل چلیں وہاں اذان علی!
وہاں ترے جنم کا دن منائیں
اور تمام آفتیں، بلائیں، رنج و غم، اداسیاں،
یہ بے ثباتیاں، یہ نامرادیاں،
یہ اضطراب اور بے قراریاں
یہ بے کلی کے حاشیے
یہ آہ و زاریاں
یہ پُر عذاب رتجگے
یہ بے سبب سی انتظاریاں
سبھی ہی بھول بھال جائیں،
اے اذان علی!
چل آ ناں دست تھام کے تصورات کا
وہاں پہ جائیں اور پھر ترے جنم کا دن منائیں
اور ان پلوں کو خاطرِ سدا ہی لازوال ہم بنائیں
باکمال، لازوال، ہم خیال، میرے یارِ ماہ و سال
اے اذان علی!
مبارکیں قبول کر لے اپنے اس جنم کے دن کی
میں یہ سبھی تجھے اُس ایک بنچ پر ہی بیٹھے لکھ رہا ہوں
میرے یہ حروف بھی قبول کر
خدا تجھے خوشی کے سنگ اب سدا کے واسطے ہی جوڑ دے
مرے اذان علی!!!!
***
غلط فہمی
میں تو تیرے بغیر جی لوں گا
میری فرقت نہ مار ڈالے تجھے
***
عرض
رنج تم کو بھلے نہ ہو لیکن
میرے مرنے پہ خوش نہیں ہونا!
***
متفرق اشعار
نکل کر درد لفظوں سے مرا دل بھینچ لیتے ہیں
مجھے یہ شاعری اکثر بہت تکلیف دیتی ہے
***
کتنا آسان تھا ہمیں جاناں
پھر تجھی سی فریب کھا لینا
***
ہم خاک، گدا، ہم سب عاجز،
تم چنے ہوئے، مخصوص پیا
***
دل کو لازم ہے کہ تکلیف سہے ٹوٹا رہے
مجھ کو اوقات مری یاد دلاتے رہنا
***
مجھے تم حد میں اچھے کب لگے تھے
مجھے تم حد سے زیادہ چاہئیے ہو
***
ابھی جہاں ہوں وہاں سے تو لوٹ آنے دو
میں ایک بار محبت کروں گا پھر تم سے
***
جانتے ہیں کہ ہمیں حق ہے مکمل تم پر
پھر بھی ہم تم سے تمہیں مانگ لیا کرتے ہیں
***
اب یہ عالم ہے بس کہ میں ان سے
احتراماً گلہ نہیں کرتا
***
راستوں میں کہیں ہمیں کوئی
اتفاقاً بھی اب نہیں ملتا
***
دے رہا ہوں دوش اپنے آپ کو
تیرے طوطے اُڑ گئے ہیں کس لیے؟
***
ماخذ:
http://zainshakeel.blogspot.com/p/1_39.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں