فہرست مضامین
وِش منتھن
(ناول)
غضنفر
انتساب
اُن کے نام
جو
تانے بانے
سے
رنگ
ابھارتے ہیں
روشنی
نکالتے ہیں۔
پیش لفظ
فن،
فن اس لیے ہے
کہ اس میں فنکاری ہوتی ہے
فن کاری یہ ہے کہ
لفظ تصویر بن جائے
لفظ سُر میں ڈھل جائے
لفظ رنگ میں بدل جائے
لفظ خوشبو ہو جائے
لفظ روشنی نظر آئے
لفظ اگر ’’پھول‘‘ ہے
تو کھل جائے
رنگ ہے
تو قوس قزح بکھیر دے
خوشبو ہے
تو مہک اٹھے
سُر ہے تو
بول پڑے
لفظ بندوق ہے
تو چلے
تلوار ہے
تو کاٹے
خنجر ہے
تو چیرے
آگ ہے
تو جلائے
آب ہے
تو بجھائے
آنسو ہے
تو رلائے
تبسم ہے
توہنسائے
٭٭٭
(۱)
برافروختہ تحقیری آواز کی زہریلی ضرب سے سماعت کے ساتھ ساتھ بٹو کے دل و دماغ بھی جھنجھنا اٹھے۔ جیسے کسی سیاہ بچھّونے اُسے ڈنک مار دیا ہو۔
کنوینٹین اسٹائل اسٹوڈینٹ بٹو نے یہ آواز پہلے بھی سنی تھی۔ اِس آواز کی ٹیس بھی محسوس کی تھی مگراِس باراِس کی زہر ناکی اپنی پوری شِدّت کے ساتھ اس کے شعور و ادراک میں اتر گئی تھی۔
اس کے بھیتر ایک ابال سا اٹھا اوراس کا ہاتھ اسپرنگ کی طرح اُچھل کر آواز نکالنے والے کے منہ پر چٹاخ سے جا پڑا۔
احساسِ برتری کے سنسکارمیں پلنے والے نان کنوینٹین وضع قطع کے طالبِ علم کو بٹو کی طرف سے اس طرح کے ردِّ عمل کی اُمیّد نہ تھی۔ پہلے تووہ ہکّا بکّا ہو کر دیکھتا رہا۔ پھراس نے اپنا داہنا ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ کر بٹو کے گال کی جانب تیزی سے بڑھا دیا مگر بٹو نے اسی سُرعت کے ساتھ اس کے طمانچے کو اپنے گال پر پڑنے سے روک دیا۔ اپنے طمانچے کی ناکامی اور بٹو کے تھپّڑ کی چوٹ نے اس کے اندر ایک اضطراری کیفیت پیدا کر دی۔ تحقیر آمیز برانگیختہ آواز بار بار اس کے منہ سے نکلنے لگی جیسے اچانک کسی توپ کا دہانہ کھُل گیا ہواوراس سے دشمن کی سمت دھڑادھڑ گولے برسنے لگے ہوں۔
بٹو نے بھی جوابی کار روائی شروع کر دی۔ اس کے ہاتھ بھی تابڑ توڑ اپنے حریف کے جسم پر تڑتڑ پڑنے لگے جیسے وہ بھی کسی آلۂ حرب میں تبدیل ہو گئے ہوں۔
آوازوں کے شور نے آس پاس کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔
قریب پہنچ کر کچھ چہرے غضب ناک ہو گئے۔ ایک خشمگیں ہاتھ نے آگے بڑھ کر بٹو کے ہاتھ کو روک لیا۔
بٹو نے مزاحمت کی تو کچھ دوسرے ہاتھ بھی اس کے گال اورجسم کے مختلف حصّوں پر تڑا تڑ پڑنے لگے۔
بٹو کے سینے کا ابال اور جوش میں آ گیا۔ اس کے گالوں پر ابھرے انگلیوں کے نشان دہک اٹھے۔ پیٹھ کی چوٹوں میں چنگاریاں بھر گئیں۔ اس کی آنکھوں کے ڈورے پلیتوں کی طرح سلگنے لگے۔ ہاتھوں کی رگیں تن گئیں۔ وہ اکیلا ان سب سے بھڑ گیا۔
کھیل کی پُر لطف اورسبک فضا اچانک بوجھل اور بد مزہ ماحول میں تبدیل ہو گئی۔
بات یہ تھی کہ علم و عقل کے کھیل میں جب ایک کی شکست ہو گئی اوراس کا مذاق اڑنے لگا اوردوسرے کو جیت پر شاباشی ملنے لگی تو ہارنے والے نے اپنی جھینپ اور کھسیا ہٹ مٹانے کے لیے اس مضحکہ خیز حربے کاسہارالیاجوعام طور پر نسلی یا معاشرتی برتری والے سنسکارمیں پرورش پانے والے کمزورانسان ایسے موقع پر لیا کرتے ہیں اوراس طرح ایک ہلکا پھُلکا تفریحی کھیل ایک گمبھیر جنگ کا روپ اختیار کر گیا۔
شور زیادہ بڑھا تو بٹو کا باپ بھی وہاں آ پہنچا مگر وہ اپنے بیٹے کے حملہ آوروں کو للکارنے اور ان پر جھپٹنے کے بجائے خاموشی سے بٹو کو کھینچ کر لڑکھڑاتا ہوا اپنے گھرکی طرف چل پڑا۔
’’یہ اپنے کوسمجھتے کیا ہیں ؟آخر ہم نے اِن کا بگاڑا کیا ہے ؟کیوں یہ ہمیں آئے دن ذلیل کرتے رہتے ہیں ؟کیوں ہمیں اِس ملک کا دشمن سمجھتے ہیں ؟ کیوں ہمیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں ؟کیوں ہمیں …………
بٹو ہڑبڑاتا ہوا چل رہا تھا۔ اسے اپنے باپ پربھی غصّہ آ رہا تھا جو اپنے بے قصور بچّے کی طرف سے لڑنے کے بجائے بزدلوں کی طرح میدانِ جنگ سے اسے کھینچے لیے جا رہا تھا۔
باپ کی خاموشی اوراس کے کسی بھی طرح کے ردِّ عمل سے عاری چہرے پراسے رہ رہ کر تاؤ آ رہا تھا۔
کیا یہی وہ آدمی ہے جس کی ہمّت اور جواں مردی کے قصّے وہ بچپن سے سنتا آ رہا تھا؟
کیا یہی ہے وہ بہادرانسان جس کی بہادری دور دور تک مشہور ہے ؟
اس نے ایک بار پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا۔
باپ کا چہرہ ایک دم سپاٹ تھا۔ اس پر کہیں بھی کوئی بھاؤ نہیں تھا۔ وہ اس مورتی کی طرح لگ رہا تھاجسے پوجا کے بعد لکڑیوں کے سہارے وِسرجن کے لیے لے جایا جا رہا ہو۔
اس کی نگاہیں باپ کی ٹوپی اورلباس کو گھورنے لگیں۔ دفعتاً آنکھوں میں اس کے اپنے کھیت کا ایک بجوکا آ کر کھڑا ہو گیاجس کی آنکھیں ڈھیٹ پرندوں نے چونچ مار مار کر پھوڑ دی تھیں۔
اس کا باپ اسے ایساکیوں نظر آیا۔ اس سوال نے اس کے دماغ میں انکش گاڑ دیا۔ اس سے اس کے ذہن کا ہاتھی اور بدک گیا۔ وہ اپنے گھرکے پاس پہنچ چکے تھے۔ باپ بیٹے دونوں خاموشی سے اپنے اپنے کمرے میں جا کر دھڑام سے بسترپرڈھیرہو گئے۔
بٹو کے دل و دماغ کی بے چینی نے اسے ایک حالت میں رہنے نہیں دیا۔ اس کی سیمابی کیفیت نے جلد ہی اسے بسترسے اٹھا کر بیٹھا دیا۔ حقارت آمیز آواز کی گونج، مُکّوں اور طمانچوں کی چوٹ اور باپ کی خاموشی اور بے حسی نے اس سے اس کا توازن چھین لیا۔ وہ پلنگ سے اتر کر میز کے پاس گیا۔ میزسے الماری کے پاس پہنچا۔ الماری سے کھسک کر آئینے کے پاس رکا۔ پھر پلٹ کر پیچھے کی دیوار کے پاس پہنچ گیا۔ دیوار پر ٹنگے کلنڈر کی تحریر نے اسے آئینے کے پاس سے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔
’’ہم میں کوئی بھید بھاؤ نہیں۔ ہم سب ایک ہیں۔ ‘‘اس تحریر پر نگاہ پڑتے ہی بٹو کا چہرہ بگڑ گیا۔ جیسے دیوارسے اڑ کر کوئی تتیا اس کی پلکوں پر بیٹھ گیا ہو۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا اور کلنڈر کو نوچ کراس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے فرش پر پھینک دیا۔
کچھ دیر تک وہ کھڑے کھڑے ان ٹکڑوں کو دیکھتا رہا جن کی تحریروں کی ترتیب بدل گئی تھی اور اتفاق سے اس نئی ترتیب سے وہ معنی برآمد ہو رہا تھاجس سے بٹو ابھی ابھی دو چار ہو کر آیا تھا۔ پھرآہستہ آہستہ میز کی جانب بڑھ کرکرسی پر بیٹھ گیا۔
دل کی بے کلی میں کچھ کمی آئی تووہ کرسی سے اٹھ کرسامنے کی دیوار کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ نگاہیں دیوار پر آویزاں ایک فریم پر مرکوز ہو گئیں۔
فریم میں محفوظ کاغذکا رنگ پیلا پڑ چکا تھا مگر تحریر کی سیاہی ابھی تک روشن تھی:
This is to certify that Akhtar Ali Urf Bhuttoo Khan of village Jhamai Tola has been awarded Ist, Prize for blooming a new variety of Champa in Desi flower Competition.
Signature
Dist, Magistrate
Lucknow
یہ سرٹیفیکٹ اس کے داداکودیسی پھولوں کے رنگ و بو کو نکھارنے اور ان کی نسل کو بہتر بنانے کے عوض میں ملی تھی۔
یکایک فریم باغ میں تبدیل ہو گیا۔ کاغذ کی پیلی زمین سرسبزہو گئی۔ سیاہ تحریریں رنگین پتّیوں میں بدل گئیں۔
دور دور تک چمپا، چمیلی، بیلا، جوہی، گیندا، گلاب، سورج مکھی کے پھول کھِل کر ہوا کے نرم جھونکوں پر لہرانے لگے۔
چمپا کے ایک پھول پر بٹو کی نگاہیں ٹک گئیں۔
بڑی بڑی دبیز پتّیاں، چاندی گھلی ہوئی چمپئی رنگ، رنگ سے جھانکتا ہوا آب دار روغن، روغن سے پھوٹتا ہوا نور۔ نور میں ملی اسپات کی سی چمک۔ ۔ ۔
یہ وہی گلِ چمپا تھاجسے اس کے دادا نے ایک بدیسی اوردیسی چمپا کو گرافٹنگ کے عمل سے گزار کر اپنی زمین سے اگایا تھا اورجس نے پھولوں کی دنیا میں رنگ و بو کا ایک نیا منظر اُبھار دیا تھا۔
کچھ دیر تک بٹو اس چمپاکوغورسے دیکھتا رہا۔
پھولوں کی نازکی، سبک مزاجی، نرمی اور چمپا کی انوکھی اور پر فخر چمک نے اس کے من کے بھاری پن کو قدرے ہلکا کر دیا تھا۔ چہرے کے کھنچاؤ اور اعصاب کے تناؤ میں کچھ کمی آ گئی تھی۔
اس کی نگاہیں اس فریم سے سرک کر ایک اور فریم پر مرکوز ہو گئیں۔
اس فریم میں اس کی اپنی ایک سندجڑی تھی جواسے ’’آل انڈیا ہندی نبندھ پرتی یوگتا ‘‘میں اوّل آنے پر ملی تھی۔
اورجس نبندھ کی تیاری میں سوٗر، کبیر، تلسی وغیرہ کو یوں سے پہلی بار اس کا بھرپور تعارف ہوا تھا۔ جس کے دوران اس نے جانا کہ ؎
پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا پنڈت ہوا نہ کوئے
ڈھائی آکھر پریم کا پڑھے سو پنڈت ہوئے
اوراس پریہ راز بھی کھلا کہ اتنی بڑی اور بلند شخصیتوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’داس ‘‘کیوں لگایا تھا۔
پاس ہی میں ایک اورسرٹی فیکٹ ایک دوسرے فریم میں جڑی تھی۔ یہ اسے انڈین کلچر پر لکھے گئے ایسّے کی پسندیدگی کے لیے دی گئی تھی۔
اِس مضمون کو لکھنے میں اس نے اتنی ساری کتابیں پڑھ ڈالی تھیں جواس سبجکٹ میں اعلا تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بھی نہیں پڑھ پاتے۔
ان سے سرسری گزر کر وہ داہنی طرف کی دیوار کے پاس جا پہنچا۔ وہاں بھی کچھ فریم آویزاں تھے۔
ایک ایک کر کے بٹو کی آنکھوں نے ان فریموں کی تمام تحریریں پڑھ ڈالیں۔ یہ ساری سندیں اس کے ابّا نے اپنی بہادری اور جواں مردی کے کارناموں کے صلے میں حاصل کی تھیں۔
پہلی سندانھیں اس وقت ملی تھی جب انھوں نے اپنی جان پر کھیل کر ٹھاکر رگھویندر سنگھ کے اکلوتے بچّے کوندی میں ڈوبنے سے بچایا تھا۔
دوسری سندانھوں نے اس موقعے پر حاصل کی تھی جب وہ گاؤں کی ایک عورت کو ایک وحشی درندے کے منہ سے زندہ نکال لائے تھے۔
تیسری سندان کی اس بہادری پر دی گئی تھی جب انھوں نے تنِ تنہا خطرناک ڈاکوؤں کو مار بھگایا تھا بلکہ ان میں سے ایک کو زندہ پکڑ بھی لیا تھا۔ داہنی طرف کی دیوارسے ہٹ کراب وہ بائیں جانب کی دیوار کے پاس پہنچا۔
وہاں بھی بہت ساری سندیں اور تصویریں سنہری فریموں سے جھانک رہی تھیں۔ یہ بھی بٹو کے باپ کی بہادری سے جُڑی ہوئی تھیں جو دورانِ ملازمت اس کے قابلِ قدر کارناموں کے عوض میں حاصل ہوئی تھیں۔
ان تمام تصویروں اور تحریروں نے مل کربٹو کی نگاہوں کے سامنے ایک پیکر کھڑا کر دیا:
گٹھاہواجسم، چوڑاسینہ۔ مضبوط شانے۔ کسرتی بازو۔ سخت جبڑے۔ عقابی آنکھیں۔ بھگت سنگھ کٹ مونچھیں۔ با رعب چہرہ۔
پیکر نے بٹو کی آنکھوں میں رشک و افتخار کا بھاؤ بھر دیا۔ ایسابہادرشخص بزدل کیوں کر ہو گیا؟
آج اِس نڈر شخص نے اپنی جواں مردی کا ثبوت کیوں نہیں دیا؟
اپنے بے قصور بیٹے کی طرف سے لڑا کیوں نہیں ؟
آخراس نے خاموشی کیوں اختیار کر لی؟
رگوں میں گرم خون رکھنے والا اتناسرد کیوں پڑ گیا؟
پتھر کی مورت کی طرح بے جان کیوں ہو گیا؟
کئی سوالات ایک ساتھ کھڑے ہو گئے۔
بٹو کا ذہن ان سوالوں میں اُلجھ گیا۔
اُدھر بٹو کا باپ اپنے بسترپرگم سم پڑاسوچتا رہا
بٹو میرے بارے میں کیاسوچتا ہو گا؟
اس نے کیا رائے قائم کی ہو گی؟
ضروراس نے یہ سوچاہو گا:
اس کا باپ بزدل ہے
ڈرپوک ہے
بے مصرف ہے
کسی کام کا نہیں ہے
اس سے جڑے بہادری اور جواں مردی کے تمام قصّے فرضی ہیں،
اُس نے بالکل صحیح سوچا
واقعی اس کا باپ بزدل ہے، ڈرپوک ہے، بے کار و بے مصرف ہے، کسی کام کا نہیں ہے۔
جو آدمی اپنی اولاد تک کی حفاظت نہ کر سکے اسے بزدل ہی تو کہا جائے گا۔ آخر میرے ہاتھ اپنے بیٹے کے دشمن پرکیوں نہیں اٹھے۔
جانوروں کے جبڑے توڑنے والے یہ ہاتھ آخرانسانوں سے کیوں ڈر گئے ؟
سوالوں کے جواب میں اس کی آنکھوں کے سامنے
کچھ سرخ ہیولے ڈولنے لگے
کچھ سنہرے خواب لہرانے لگے
کچھ سیاہ منظر منڈرانے لگے
اس کے ضبط کا بند ٹوٹ گیا۔
دل و دماغ کی کیفیت آنسوبن کر چھلک پڑی۔
٭٭٭
(۲)
ایک تھپّڑ کے بدلے بے شمار طمانچے اور مکّے جڑنے کے باوجود لوگوں کوتسلّی نہیں ہوئی۔ ان کا غصّہ شانت نہیں ہوا۔ ان کی اناکوتسکین نہیں ملی۔ ان کا جی نہیں بھرا۔
بٹو کے تھپڑاوراس کی اکڑنے ان کے احساسات و جذبات پربھی ضرب لگا دی تھی۔ معاملے کو کافی سنجیدگی سے لیا گیا۔ رات بھرسرگوشیاں ہوتی رہیں۔ بات محلّے کے معزز اور مدبّر لوگوں تک پہنچائی گئی۔
دل دکھے۔ دماغ بے چین ہوا۔ ما تھاسکڑا۔ رگیں تنیٖں۔ بھنویں کھنچیں، آنکھیں سرخ ہوئیں۔ مٹھیاں بھِنچیں۔ نیندیں اڑ گئیں۔
لوگ جمع ہوئے۔ بٹو اوراس کے باپ کو بلوایا گیا۔
سب سے معمّر اور با رعب شخص بٹو سے مخاطب ہوا
’’کیوں بے !تمہاری یہ ہمّت ہو گئی کہ ہمارے بچّوں پر ہاتھ اٹھانے لگے ؟‘‘
’’قصور وار میں نہیں، بلکہ یہ ہے۔ ‘‘بٹو نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا جو معمّر شخص کے پاس ہی بیٹھا تھا اورجس کی حقارت آمیزآوازسے یہ قضیہ کھڑا ہوا تھا۔
’’اس نے کیا قصور کیا ہے ؟‘‘
’’اس نے مجھے گالی دی تھی۔ ‘‘
’’گالی دی تھی؟‘‘معمّر شخص چونکا۔
’’جی ہاں، گالی دی تھی۔ ‘‘
’’کیا گالی دی تھی؟‘‘
’’اسی سے پوچھ لیجئے۔ ‘‘
’’راجیش، تم نے اسے گالی دی تھی؟‘‘
’’نہیں، میں نے تواسے کیول باہری کہا تھا۔ ‘‘
’’کیوں ؟اس نے کیول یہی کہا تھایا کچھ اور؟‘‘معمّر شخص کا رخ بٹو کی طرف پلٹ آیا۔
’’اس نے صرف یہی کہا تھا۔ ‘‘
’’پرنتو یہ تو کوئی گالی نہیں ہوئی؟‘‘
’’آپ کے نزدیک نہ ہو مگر میرے لیے تو یہ گالی سے بھی بڑھ کر ہے۔ ‘‘
معمّر شخص چونکا، پھر بولا
’’چلو مان لیتے ہیں کہ تمہارے لیے یہ گالی ہے تواس کے لیے تم کسی کو تھپڑ ماردو گے ؟‘‘
’’اگر آپ کو کوئی حرامی کہے تو کیا آپ چپ رہیں گے ؟‘‘
با رعب شخص تلملا اٹھا۔ اس کاسرخ وسپیدچہرہ اور بھی سرخ ہو گیا۔ جیسے اس کے احساس پرکسی نے چنگاری رکھ دی ہو۔ بٹو کے چہرے پر خنجر کی طرح آنکھیں گڑاتے ہوئے اس نے پوچھا،
’’کہاں پڑھتے ہو؟‘‘
’’ماڈرن پبلک اسکول میں جہاں دینو پڑھتا ہے۔ ‘‘
دینو کے نام پر کچھ زیادہ ہی چونکتے ہوئے معمّر شخص نے سوال کیا۔
’’کون دینو؟‘‘
’’آپ کا گرینڈ سن اور کون؟‘‘
اچانک معمر شخص کا چہرہ بگڑ گیا۔ بردبار خط و خال کی سنجیدگی اپنا توازن کھونے لگی۔ اس کے جی میں آیا کہ ایک تھپڑ وہ بھی بٹو کے گال پر جڑ دے مگر جلد ہی عمر، حیثیت، ماحول اور مرتبے کے خیال نے بھیتر کے ابال اور چہرے کے بگاڑکوسنبھال لیا۔ جلد کا کھِنچاؤ معمول پر آ گیا۔ وہ اپنے لہجے پر مشکل سے قابو پاتے ہوئے بولا
’’اچھا تو تم بھی دنیش کمار شرما کے اسکول میں پڑھتے ہو؟
جی۔ ‘‘بٹو نے جی کی ’’ای‘‘ کو زور دے کر ادا کیا۔
’’بہت بڑا اسکول ہے اور کافی مہنگا بھی۔ ہے نا؟‘‘
’’جی۔ ‘‘ایک بار پھر جی کی آواز دیر تک سنائی پڑی۔
’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’کامران علی خان۔ عرف بٹو ۔ ‘‘
’’کس کے بیٹے ہو؟‘‘
لڈّن علی خاں کا۔
ایسامحسوس ہواجیسے ’ٹ‘ اور ’ڈ‘ کی آوازوں پر کافی زور دیا گیا ہو۔ اس نام کوسنتے ہی معمّر شخص کے چہرے کی جلد ایک بار پھر کھنچاؤ اور تناؤسے بھر گئی۔ جیسے اس کی سماعت نے کوئی آوازسننے کے بجائے کسی چابک کی چوٹ کھا لی ہو۔ ایک تکلیف دہ منظراس کے ذہن سے چپک گیا۔ اِس باراُس نے بٹو کوبڑی ہی معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’تو تم لڈنا کے بیٹے ہو؟‘‘
بٹو کومحسوس ہواجیسے ایک بارپھراسے گالی دی گئی ہومگراس بار وہ اپنے غصّے کوپی گیا، جواب میں صرف ’’جی ‘‘کہہ کر رہ گیا مگر یہ ’’جی‘‘ایساسنائی پڑاجیسے اسے دانت پیس کر ادا کیا گیا ہو۔
معمّر شخص نے بھی اپنی ذہنی حالت کے برعکس مجلسی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے متوازن لہجے کو قائم رکھا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔
’’ایک بات سچ سچ بتانا۔ کیاواستومیں یہ شبد تمہیں برا لگتا ہے ‘‘۔
’’آپ برا لگنے کی بات کرتے ہیں اسے سن کر تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ میرا خون کھول اٹھتا ہے، جی چاہتا ہے کہ ……اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’پرنتو تمہیں برا کیوں لگتا ہے ؟‘‘
اِس بار بٹو نے معمّر شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا ’’آپ اچھی طرح جانتے ہیں، پھر بھی مجھ سے پوچھ رہے ہیں ؟‘‘
بٹو نے یہ جملہ کچھ اس اندازسے ادا کیا کہ اس کی تردید میں معمّر شخص سے کوئی مناسب جواب نہ بن پڑا۔ اسے محسوس ہوا کہ مقابل میں کھڑا شخص اسکول میں پڑھنے والا کوئی بچّہ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ معمّر، جہاں دیدہ اور تجربہ کار آدمی ہے جس کے نپے تلے سوالوں کا جواب دیناآسان نہیں، وہ ہڑبڑاتے ہوئے بولا ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے ‘‘ پرنتو اتنا تو مانتے ہو نا کہ تمہارے باپ دادا باہر سے آئے تھے۔ ‘‘
یکایک بسترپرپڑے ہوئے بٹو کے دادا اس کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے
ان کا رنگ
ناک نقشہ
قد و قامت
بھیس بھوشا
ایک ایک خط و خال ابھر آیا
نگاہیں دادا کے سراپے سے ہٹیں تو باپ کی جانب مبذول ہو گئیں، دادا سے زیادہ پکّا رنگ
نسبتاً چھوٹا قد
اور بھی تیکھے نقوش
خاکی وردی
فوجی بوٹ
بوٹ کے پاس پہنچ کر نگاہیں ٹھٹھک گئیں۔
پیروں کے پاس صرف ایک بوٹ دکھائی دے رہا تھا۔ دوسرے بوٹ کی جگہ ایک ہولناک منظر ابھر آیا:
سماعت کو چیر دینے والا ایک دھماکا ہوا۔
پہاڑ کی طرح اپنی زمین پر اڑا ایک پاؤں گولیوں سے چھلنی ہو گیا۔
گوشت کے پرخچے اڑ گئے۔
ہڈیاں چور ہو گئیں۔
خون کا فوّارہ ابلنے لگا۔
بٹو کی آنکھیں گیلی ہو گئیں۔
’’کیوں مانتے ہونا؟‘‘بٹو کو خاموش دیکھ کر جرح کرنے والے معمّر شخص نے اپنا سوال دُہرایا۔
بٹو روہانسی آواز میں بولا۔
میڈلز سے سجی خاکی وردی میں ایک پاؤں پر کھڑا یہ آدمی کیا آپ کو باہری لگتا ہے ؟‘‘
میٹنگ میں موجود تمام نگاہیں یکبارگی بٹو کے باپ کے اوپر مرکوز ہو گئیں۔
بٹو کے باپ کے سینے پر کئی میڈلز چمک رہے تھے۔ ایسالگتا تھا انھیں براس سے رگڑ رگڑ کر ابھی ابھی چمکایا گیا ہو۔ میڈلز کے اوپری حصّے پر ایک بیچ بھی ٹنگا تھاجس پر انگریزی میں لکھا تھا:
HAWALDAR LADDAN ALI KHAN
بہت سی آنکھوں میں ایک جنگ کا نقشہ گھوم گیا۔ حولدار لڈّن علی خان کا ایک پاؤں کچھ داڑھی والے فوجیوں سے لڑتے ہوئے اسی جنگ میں کٹا تھا۔
معمّر شخص قدرے جھینپتے ہوئے بولا
’’باپ داداسے میرا مطلب تھا تمہارے پوروج۔ ارتھات تمہارے بزرگ۔ بزرگوں کا ذِکر آتے ہی بٹو کی آنکھیں کمرے سے نکل کرقبرستان میں پہنچ گئیں۔ نگاہوں میں مرحومین کے کتبے ابھرنے لگے۔
احمد علی ولد محمد علی
متوطن جھمائی ٹولہ
سنِ وصال یکم شوال ۱۲۱۵ہجری
بمطابق۱۸۹۰ء
محمود علی عرف ننھے خان
ساکن جھمائی ٹولہ
سالِ وفات ۱۲؍جولائی۱۹۳۰ء
انور علی عرف چھٹّن خان
موضع جھمائی ٹولہ
وفات۸؍مئی۱۹۶۰ء
مگر ہمارے بزرگ تو کئی پشتوں سے یہیں دفن ہیں۔ بٹو نے نہایت ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا،
’’اور ان سے پہلے ؟‘‘
وہ بھی یہیں ہوں گے۔ ‘‘
’’اورسب سے پہلے والے ؟‘‘
معمر شخص کے اس طرح کے سوالوں سے بٹو جھِلّا اٹھا۔ معمّر شخص کا منہ بند کر دینے والا جواب وہ سوچ ہی رہا تھا کہ یکایک اس کے کانوں میں ایک کہانی گونجنے لگی جو کبھی اس کے دادا نے اسے سنائی تھی:
ہمارے ایک بزرگ نے اُس طرف سے اِس طرف کے ساحل کو خورد بین سے دیکھا اورساحل پر بچھی چمک دارسیپیوں کو دیکھ کران کے پاؤں پانی میں اتر گئے۔ موجوں کے تھپیڑے کھا کر تھکے ہارے کنارے پہنچے اور تھیلے میں سیپیاں بھرکرواپس جانے لگے کہ انھیں ایک سایہ دار درخت دکھائی دیا۔ ان کے تھکے ماندے پاؤں سائے کی طرف خود بخود کھِنچتے چلے آئے۔ درخت کی چھاؤں اور نرم مٹّی کے لمس سے ایساسکون ملا کہ وہ سب کچھ بھول گئے۔ وہ بھول گئے کہ کہاں سے آئے تھے ؟کب آئے تھے ؟کس لیے آئے تھے۔ انھیں لوٹ کر کہاں جانا تھا ؟
ان کی آنکھیں اس وقت کھُلیں جب ان کے کانوں میں ایک چیخ سنائی پڑی۔ اٹھ کر دیکھا تو تھوڑے فاصلے پر کچھ انسانی درندے ایک عورت کو دبوچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوڑے ہوئے وہ اس عورت کے پاس پہنچے۔ اُسے ان درندوں کے چُنگل سے آزاد کرایا اور اس کے تار تار ہوئے لباس سے جھانکتے ہوئے ننگے بدن پر اپنا صافہ ڈال دیا۔ شرم وحیاسے سکڑی ہوئی خوف زدہ عورت نے ممنونیت سے ان کی طرف دیکھا۔ اُس کی آنکھوں کی حیا اورسانولے سلونے چہرے کی ملاحت نے اُنھیں اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف کھِنچتے چلے گئے۔ وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب جا پہنچے کہ آپس میں گھُل مِل کر ایک ہو گئے۔
عورت پوری طرح ان کے رنگ میں رنگ گئی۔ انھوں نے بھی عورت کے رنگ ڈھنگ کو اچھّی طرح اپنا لیا۔
عورت نے اپنا اُجڑا ہوا پھولوں کا باغ بھی ان کے حوالے کر دیا۔ دونوں نے مِل کر کڑی محنت کی۔ اپنا اپناپسینہ بہایا۔ باغ پھرسے آباد ہو گیا۔ پھرسے پھولوں کی فصل لہلہا اٹھی۔
کہتے ہیں کہ وہ بزرگ جب مرے تو ان کی وصیت کے مطابق انھیں اسی باغ کے ایک گوشے میں دفنایا گیا۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی قبر پر رات کی رانی کا ایک پودا اُگ آیا تھاجس کی خوشبو دور دور تک پھیلی رہتی تھی۔
بٹو کی آنکھوں کے سامنے وہ باغ ابھر آیا۔ گلاب، گیندا، چمپا، چمیلی، بیلا، جوہی، سورج مکھی، رات کی رانی وغیرہ کے پھول لہلہانے لگے۔
یہ وہی باغ تھاجس میں کچھ دنوں پہلے تک اس کے دادا پھول اُگایا کرتے تھے اورجس کے پھولوں کے سائز، خوشبو اور رنگت کو دیکھ کر انھیں انعام و اکرام سے نوازا گیا تھا مگر اچانک ایک رات کہیں سے آگ کی لپٹیں آ کر باغ کے پودوں سے لپٹ گئیں۔ پھول جھلس کر راکھ ہو گئے۔ خوشبو دھواں ہو کر اُڑ گئی۔ دادا کے چہرے کا رنگ بھی اُڑ گیا۔ وہ صدمے سے بیمار پڑ گئے۔ اورایسابیمار پڑے کہ بسترپکڑ لیا۔
کافی دنوں تک وہ باغ بے رنگ و بو رہا مگر اب فوج سے واپس آ کربٹو کے باپ حوالدار لڈّن علی خاں نے اسے پھرسے سنبھال لیا ہے۔ پھرسے اس میں گلاب، گیندا، چمپا، چمیلی، جوہی، بیلا، سورج مکھی وغیرہ کے پھول کھِل اٹھے ہیں۔
بٹو بھی اپنی پڑھائی سے تھوڑا وقت نکال کر اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ پودوں کی جڑوں میں پانی دیتا ہے۔ کیاریوں سے گھاس پات، کنکر پتھّر نکالتا ہے اور پھولوں کو کھِلنے، نکھرنے اور خوشبو بکھیرنے میں مدد کرتا ہے۔
بٹو پھولوں کے فروغ میں اس لیے بھی دلچسپی لیتا ہے کہ پھول اسے بہت اچھے لگتے ہیں۔ کیاریوں کی شادابی اسے تازگی بخشتی ہے۔ خوشبواس کے دل و دماغ کو معطّر کرتی ہے اور رنگ اس کی آنکھوں میں روشنی بھرتے ہیں، پھولوں پر توجہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے باغ کے پھولوں نے اس کے دل کے پھول کو کھلانے میں اس کی بڑی مدد کی ہے۔
’’تم نے تو بالکل چپّی سادھ لی ہے۔ ‘‘معمر شخص نے بٹو کو مخاطب کیا۔
’’میں نہیں مانتا۔ ‘‘
کیا نہیں مانتا۔ ‘‘
’’ یہی کہ میرا کوئی بزرگ باہرسے آیا تھا۔ ‘‘
سبھی کے کان کھڑے ہو گئے لوگ دیدے پھاڑ پھاڑ کراُسے دیکھنے لگے۔
’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔ اتہاس گواہ ہے کہ تمہارے پوروج باہرسے آئے تھے۔ ‘‘
’’میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔ میرے حساب سے میرے دادا، پردادا، سگڑ دادا سب یہیں کے رہنے والے تھے۔‘‘
’’یہ ستیہ نہیں ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ تمہارے بزرگ باہرسے آئے تھے ‘‘ ’’باہرسے آنے والا باہری نہیں ہو جاتا۔ ‘‘بٹو نے اپنی نظریں معمّر شخص کے چہرے پر جما دیں۔ جیسے اپنی پتلیوں کے آئینے میں وہ انھیں کچھ دکھانا چاہتا ہو۔
معمّر شخص اور کئی دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں ایشیائے کوچک سے دوآبہ تک کا نقشہ ابھر آیا۔
لمبے قد، دراز بازو، ستواں ناک، سفیدجلد، نیلی آنکھ اورسنہرے بالوں والے انسانوں کا ایک جتھّا ایشیائے کوچک کی سطحِ مرتفع سے اتر کر دوآبہ کی طرف بڑھنے لگا اور دوآبہ میں بسنے والے چھوٹے قد، چپٹی ناک، سیاہ جلد، موٹے ہونٹ والے لوگوں کو اپنی قوت سے۔ پیچھے کی طرف دھکیلنے لگا۔
اس نقشے کے ابھرتے ہی ان کی آنکھیں اور پھیل گئیں۔ با رعب شخص کی آنکھوں سے کرودھ جھانکنے لگا۔ اس نے اپنی غضب ناک نگاہوں کی نوکیں بٹو کی آنکھوں میں چبھوتے ہوئے کہا ’’تم بہت بڑھ چڑھ کر بولنے لگے ہو؟‘‘
’’اس کے لیے آپ ہی مجبور کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’دیکھو!ستیہ یہی ہے کہ تمہارے پوروج باہرسے آئے تھے اس لیے تم بھی باہری ہوئے۔ ‘‘
’’میں کوئی آم نہیں کہ یہاں کی مٹّی سے پیدا ہونے اور یہاں کی آب و ہوا میں پلنے اور پکنے کے باوجود ولایتی کہلانے پر خاموش رہ جاؤں گا۔ میں آپ کو کس طرح یقین دلاؤں کہ ہم باہری نہیں ہیں۔ ہم بھی اسی دھرتی کی مٹی سے جنمے ہیں۔ اسی میں پلے بڑھے ہیں۔ ہمارے Bloodمیں بھی اسی کا رنگ شامل ہے۔ اسی کی خوشبو ہمارے جذبوں میں مہکتی ہے۔ اسی کا نور ہمارے فکرواحساس میں جھلکتا ہے۔ یہ مٹی ہمارے لیے ماں سے کم درجہ نہیں رکھتی۔ ‘‘بٹو کا لہجہ جذباتی ہو گیا۔
’’یدی تم باہری نہیں ہو تو یہاں والوں کی طرح کیوں نہیں رہتے ؟‘‘
’’یہاں والوں کی طرح؟‘‘چونک کربٹو ان کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ہاں، یہاں والوں کی طرح۔ ‘‘
’’یعنی؟‘‘
’’یعنی ہماری طرح۔ ‘‘
’’ہماری طرح یعنی کس کی طرح؟آپ کی طرح؟یا اِن کی طرح؟ یا اُن کی طرح جو آپ کے پیچھے کھڑے ہیں ؟‘‘
سبھی کی نگاہیں ایک دوسرے کی طرف اٹھ گئیں۔
دھوتی کوٹ، پتلون، ٹائی، سجے سنورے کیس –لنگی، بنیائن، بے ہنگم بال—پگڑی، داڑھی، مونچھ، کرپان آنکھوں میں کئی طرح کے حلیے ابھر آئے۔
ان حلیوں سے ان کے دل، دماغ، آنکھ، ناک، کان، زبان اور پیٹ کی ترجیحات بھی جھانکنے لگیں۔ ماحول کی سنجیدگی کو دیکھ کر معمّر شخص بول پڑا۔
’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ زیادہ بحث نہیں، تمہارے ماننے اور نہ ماننے سے اتہاس نہیں بدل جائے گا۔ نیائے کی بات یہ ہے کہ تم نے ایک سدھارن سی بات پر ایک نِر دوش بچّے پر ہاتھ اُٹھایا ہے۔ اس لیے اچھا یہی ہو گا کہ تم اس سے اور ہم سب سے بھی چھما مانگ لو۔ ‘‘
’’نہیں،یہ نیائے نہیں ہے۔ یہ سراسرInjusticeہے۔ میں ہرگز چھما نہیں مانگوں گا۔ میں نے کوئی قصور نہیں کیا ہے۔ اس لیے معافی مانگنے کاتوسوال ہی نہیں اٹھتا۔ ‘‘
’’معافی مانگ لینے ہی میں تمہاری بھلائی ہے ورنہ معاملہ تھانے میں پہنچ جائے گا۔ تم ابھی بچّے ہواس لیے ہم نہیں چاہتے کہ کیس پولیس تک جائے۔ ‘‘ ایک دوسرے معزّز شخص نے بٹو کوسمجھایا۔
’’بھیج دیجئے تھانے میں۔ دے دیجئے پولیس کو۔ میں نہیں ڈرتا، تھانہ پولیس سے۔ اور کیوں ڈروں، میں نے کوئیCrimeنہیں کیا ہے۔ عجیب دھاندلی ہے جس نے مجھے گالی دی۔ جنھوں نے مجھے ٹارچرکیا۔ مار مار کر میرا منہ سجا دیا۔ میری پیٹھ زخمی کر دی۔ اُن سے تو کچھ بھی نہیں کہا جا رہا ہے۔ الٹے مجھ بے قصور کو تھانہ پولیس کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ ‘‘بٹو کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
’’تو ٹھیک ہے انجام کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ‘‘
’’نہیں، نہیں، اسے چھوڑ دیجیے۔ اس کے بدلے میں معافی مانگتا ہوں۔ اِس باراسے معاف کر دیجیے۔ میں اسے سمجھادوں گا۔ ‘‘بٹو کے باپ نے ہاتھ جوڑ دیئے۔
دوسرے معزز لوگوں کی طرف دیکھنے اور اُن کی آنکھوں کے اشارے سمجھنے کے بعد معمّر شخص نے بڑے ہی گمبھیر لہجے میں لڈّن علی خاں سے مخاطب ہوتے ہوئے فیصلہ سنایا۔
’’ٹھیک ہے، تمہارے کہنے سے اس بار ہم اسے چھوڑے دے رہے ہیں، کنتو اچھی طرح اسے سمجھا دینا کہ زیادہ چپر چپر نہ بولے۔ اپنی جیبھ کو اپنے دانت تلے دبا کر رکھے ورنہ تو جانتا ہے کہ انجام کیا ہو سکتا ہے ؟۔ ‘‘
لڈّن علی خاں کی آنکھوں میں یکایک خون میں لتھڑی ایک لاش بچھ گئی۔ کٹے ہوئے ہاتھ پاؤں والی لاش اس کے بڑے بھائی کی لاش تھی جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے ایک مجمع میں ایمان کی بات کہہ دی تھی اور اس کی اس سچّی بات سے ایک بڑے آدمی کی ناک کٹ گئی تھی۔
اس کی نظروں کے سامنے بار بار اٹھتی اور گرتی ہوئی اس کی اپنی چہار دیواری بھی ابھر آئی، وہ سرسے پاتک لرز اٹھا۔
’’جی، جی!میں ٹھیک سے سمجھادوں گا، باپ لرزتا ہوا جلدی جلدی بول پڑا۔ اور تیزی سے آگے بڑھ کربٹو کو وہاں سے گھسیٹ لے گیا۔
’’ہونہہ !پولیس کودے دیں گے !بڑے آئے پولیس کو دینے والے۔ جنگل راج سمجھ رکھا ہے !میں بھی دیکھتا ہوں ——-
’’چپ کیوں نہیں رہتا۔ ‘‘باپ نے بٹو کی بڑبڑاہٹ پر مُڑ مُڑ کراسے دیکھتی ہوئی لوگوں کی نظروں اور آنکھوں کے تیور کو دیکھ کراسے ٹوکا۔
’’کیوں چپ رہوں ؟کسی کی دھونس ہے کیا؟میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کیوں خود تو چپ رہتے ہی ہیں، مجھے بھی خاموش کر دینا چاہتے ہیں۔ حیرت ہے اتنے بہادر ہو کر بھی آپ نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔ ‘‘
’’تو کیا کرتا؟تری ہڈیاں تُڑوا دیتا۔ ‘‘
’’مر گئے ہڈّیاں توڑنے والے۔ ‘‘
’’سچ مچ تو بہت بولنے لگا ہے۔ ‘‘
’’تو کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں بھی اپنا منہ سی لوں۔ ‘‘
’’کبھی کبھی منہ سیٖنا پڑتا ہے بیٹے۔ ‘‘
’’مگر کیوں ؟‘‘
’’اس ’’کیوں ‘‘کونہ میں تجھے سمجھاسکتا ہوں اور نہ تواسے ابھی سمجھ پائے گا۔ ‘‘
’’کیوں نہیں سمجھ پاؤں گا۔ میں سب سمجھتا ہوں۔ مگر مجھ سے یہ نہیں ہو گا جو آپ کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’اچھّا!اچھّا!اب تو چپ ہو جا گھر قریب آ گیا ہے۔ ان تک بات نہیں پہنچنی چاہیے۔ ‘‘
’’سننے دیجیے انھیں بھی، وہ بھی تو جانیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے ——چپ ہو جاؤں !عجیب الٹا زمانہ ہے۔ کوئی ٹارچر کرے، گالی دے، کاروبار میں آگ لگا دے، ہماری دیواریں گرا دے اور یہ بھی چاہے کہ جس کاسب کچھ لُٹ گیا ہے وہ چیخے نہیں، کچھ بولے نہیں، کچھ ———-‘‘
بٹو بڑبڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔
٭٭٭
(۳)
بٹو کا باپ اپنے کمرے میں پہنچ کربٹو کے تیور، پنچایت کی دھمکی، لوگوں کے رخ، ان کی آنکھوں کے قہر، اور اپنے مستقبل کے خوابوں پر غور کرنے لگا۔
بھری محفل میں معزز اور با رعب لوگوں کے بیچ بٹو کا بے خوف ہو کر بولنا، ترکی بہ ترکی جواب دینا، اپنے موقف کو دلیلوں کے ساتھ رکھنا، اپنی معلومات کا ثبوت دینا، دھمکیوں سے ذرا بھی نہ ڈرنا ایک ایک بات پھرسے ابھرکرسامنے آنے لگی۔
اپنے بیٹے کا یہ روپ، اس کا یہ انداز، اس کا یہ تیور، لڈّن علی خاں کو اچھّا لگا۔ اسے اس کا بیٹا اس جیسامحسوس ہوا۔ بالکل ایک فوجی کی مانند، نڈر، بے باک، کھرا، اپنی پوزیشن پر ڈٹا، اپنی بات پر اٹل، چوکنّا، چوکس، ساودھان، دشمن کی چال کو ناکام بنانے کی فکر میں مستعدی سے جُٹا، اسے مات دینے کی دھن میں ہر وقت تیار۔
مگر جہاں اس تیور نے لڈن علی خاں کے دل میں احساسِ فخروانبساط پیدا کر دیا تھا، وہیں اس نے اس کے دماغ میں کچھ اندیشے بھی بو دیئے تھے۔ اس لیے کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس طرح کے تیور کا دشمن کی فوج میں کیا ردّ عمل ہوتا ہے۔
میدانِ جنگ میں مخالف فوج پر نظر رکھنے والی آنکھوں کی چوکسی، دشمن کی ہشیاری، عیّاری، اس کے لائحہ عمل کا بڑھتا ہوا دائرہ، سازشوں کا گھیرا، داؤ پیچ کا شکنجہ، گھاتوں کی تیزی، ترکیبوں کی تیاری ساراکچھ آن کی آن میں میان سے نکلی ہوئی تلوار کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا گیا۔
سرحد کے علاوہ اس طرح کا منظر وہ مختلف شہروں اور اپنے گاؤں میں بھی دیکھ چکا تھا۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ منظراس کے بیٹے کے سامنے دہرایا جائے۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس نے جو خواب دیکھے ہیں وہ ٹوٹ کر بکھر جائیں۔ جو روشنی وہ اپنی آنکھوں میں سنجوئے جی رہا ہے، وہ اس کے دیدوں سے نکل جائے۔ اس کی پلکوں کے جگنو بجھ جائیں۔ اس کے دل و دماغ میں اندھیرا بھر جائے۔
اس کے خوابوں میں وہ سب کچھ تھا جو ایک باپ اپنے بچّوں کے لیے دیکھتا ہے۔ وہ سارے پیکر تھے جنھیں ایک باپ کا دماغ سوچتا ہے۔ وہ سارے رنگ تھے جنھیں ایک باپ اپنی اولاد کے لیے چاہتا ہے۔
اس کے خوابوں میں ایک خواب یہ بھی تھا کہ اس کے بیٹے کے ہاتھوں میں بندوق کی جگہ قلم ہو۔ وہ زندگی کی جنگ دست و بازو کے بجائے دماغ سے لڑے۔ جسموں کو جیتنے کے بجائے دلوں کو فتح کرے۔ اس کے کان ’’ساودھانی اور وشرام سننے اور کرخت فوجی آوازوں پر کٹھ پتلیوں کی طرح ناچنے کے بجائے وہ الفاظ سنیں جن سے من جھومتا ہے۔ تن ڈولتا ہے۔ جن سے جسم پر خاکی رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ بھی چڑھتے ہیں مگرایسے لفظوں تک پہنچنے اور ان کے معنی و مفہوم کی خواہش رکھنے والے کس طرح مار دیئے جاتے ہیں، خاص طورسے وہ جن کی ڈگریوں پر تحریر ڈویژنوں کے بجائے ناموں پر نظر رکھی جاتی ہے، اس کی نگاہیں اچھی طرح دیکھ چکی تھیں۔ قلم پکڑنے والے ہاتھوں کو پھاوڑا پکڑنے پرکس طرح مجبور کر دیا جاتا ہے، یہ اس سے چھپا ہوا نہیں تھا۔ کس آسانی سے قلم شہید ہو جاتا ہے، یہ منظر وہ بار بار دیکھ چکا تھا۔
اس کی نگاہوں کے سامنے صوبے دار عبد الحامد کا جوان بیٹا ننگے پاؤں ننگے بدن، بے ہنگم بال، میل جمے لمبے لمبے ناخنوں کے ساتھ عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
یہ وہی نوجوان تھاجس پر صوبے دار صاحب کو بڑا ناز تھا، ان کا خاندان اس کی لیاقت، علمیت اور خوبصورتی پر فخر کرتا تھا۔ جس نے اپنی قابلیت، ذہانت اور کڑی محنت کے زورپرسب انسپکٹری کا تحریری امتحان پاس کر لیا تھا اور اب بس کچھ ہی دنوں میں تعیناتی کا آرڈر پا کرکسی تھانے میں پہنچنے والا تھا۔ اس کی کامیابی سے گھرکا ایک ایک فرد پھولے نہیں سماتا تھا۔ بہت سے لوگوں کی تقدیریں اس کی اس کامیابی سے جڑی ہوئی تھیں، ان کی مرادیں اس سے پوری ہونے والی تھیں۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ فزیکل امتحان سے بحسن و خوبی گزر جائے گا۔ اس لیے کہ اس نے مناسب ورزش، اچھی غذا اور طرح طرح کی ترکیبوں سے اپنی چھاتی کو کافی چوڑا کر لیا تھا۔ مگر فزیکل امتحان میں ایک فتنہ انگیز فیتے نے اس کی پھولی ہوئی چھاتی کی ہوا ایک لمحے میں نکال دی۔
ناکامی کی ضرب ایسی پڑی کہ دماغ کی نسیں ٹوٹ گئیں۔ اس کے حواس اس سے جدا ہو گئے۔ اور وہ اس حالت کو پہنچ گیا۔
یہ حقیقت بھی لڈّن علی خاں کے ذہن میں سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ چکی تھی کہ پانی میں رہنا ہے تو مگر مچھ سے بیر ٹھیک نہیں، مگرمچھ دوسری مخلوقات کی طرف دیکھ کر اگر اپنا منہ کھولتا اور دانت کچکچاتا بھی ہے، تب بھی انھیں چاہیے کہ وہ اپنے ردّ عمل کو اپنے اندر دبا کر چپکے سے کسی اور جانب کھسک لیں۔ یاکسی ہشیار مچھلی کی طرح مگرمچھ پر نظر پڑتے ہی دَم سادھ کر دُم سیدھی کر لے۔ مگر وہ اپنے بیٹے کو کیا کرے جو نہ مگرمچھ کو مگرمچھ سمجھتا ہے اور نہ ہی مچھلی کو مچھلی۔ اُسے کس طرح سمجھائے ؟کیسے احساس دلائے کہ مگرمچھ کو چھیڑنا یا اس کے آگے آنا، اس کے منہ میں اپنی ٹانگ دینے کے مترادف ہے۔
اچانک اس کاسراپا اس کی آنکھوں میں آبسا۔ کٹی ہوئی ٹانگ نے اسے ناکارہ بنا دیا تھا۔ اسے میدانِ جنگ سے نکال کر گاؤں میں پھینک دیا تھا، جس طرح سڑے گلے سامان کوکسی ڈسٹ بِن میں ڈال دیا جاتا ہے۔
وہ ٹانگ کے بغیر اپاہج، مفلوج، محتاج اور بے بس بنا کھڑا تھا۔
’’لنگڑا!‘‘
کہیں سے ایک گولا اس کے دماغ پر گرا اوراس کی شخصیت کے پرخچے اڑ گئے۔ گولے کے دھماکے کے ساتھ ہی اس کے دھڑ پر ایک دوسراچہرہ لگ گیا۔
اس نئے چہرے کو دیکھتے ہی اس کی نگاہیں حیران و پریشان ہو گئیں۔ اس کا دل دہل گیا۔ آنکھوں میں آنسوچھلک آئے۔ اس کے لبوں پر دعائیں مچلنے لگیں۔
خدایا!میرے بچّے کو مگرمچھ سے بچا۔ اسے پانی میں رہناسِکھا۔ دشمنوں کے قہر اور زمانے کے جبرسے اس کی حفاظت فرما۔ اسے اپنے حفظ و امان میں رکھ۔ اسے صبر و تحمل کی تلقین فرما۔ اسے بلاؤں، مصیبتوں اور عذابوں ——— اور نظرِ بد………
اس پر رقّت طاری ہو گئی۔ باپ کی دعا آنسوؤں میں ڈوب گئی۔
٭٭٭
(۴)
بیٹے کے غم میں دن بھرسسک سسک کر روتی رہی ماں، شام ہوتے ہی اپنے آنسوؤں میں گھول کر ہلدی چونے کا گرم گرم لیپ لیے بٹو کے پاس چلی آئی۔
بٹو بسترپرگم سُم پڑا چھت کو گھور رہا تھا۔ ماں نے اسے پیٹ کے بل لٹا کر اس کی پیٹھ سے کُرتے کا دامن ہٹایاتواس کا کلیجہ دھَک سے رہ گیا۔
بٹو کی بے داغ پیٹھ نیلوں سے اٹی پڑی تھی۔ کمرسے گردن تک کی جلد انگوٹھی والی مٹھیوں کی مارسے جگہ جگہ سے چھل گئی تھی۔ ایسالگتا تھاجیسے کسی جنگلی جانور نے پیٹھ پر اپنے پنجے مار دیے ہوں، ماں کا کلیجہ پھٹنے لگا۔
بیٹے کے درد اور دشمنوں کی بے دردی نے ماں کے دل کو دُکھا کر رکھ دیا۔ دکھے دل سے بد دعائیں نکلنے لگیں۔
’’ناس پیٹوں نے کس بے دردی سے مارا ہے۔ خدا انھیں غارت کرے۔ ان کے ہاتھ ٹوٹ جائیں !ان کے جسموں میں کیڑے پڑیں۔ ان کے گھر تباہ ہو جائیں۔ اُن کے … ……‘‘
دشمنوں کو کوسنے کے بعد ماں بٹو کی طرف مخاطب ہوئی ’’تو بھی تو کم نہیں ہے ! کیا ضرورت تھی ان سے الجھنے کی۔ گالی دیتے ہیں تو دینے دیتا!ہم سچّے ہیں تو ان کی گالیاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتیں۔ باہری کہتے ہیں تو کہنے دیتا۔ ان کے کہنے سے ہم باہری ہو تو نہیں جاتے۔ پھر کبھی ان قصائیوں سے نہ الجھنا۔ تجھے تیرے خدا اور رسول کاواسطہ!‘‘
’’ماں تم نہیں سمجھتیں۔ ان کے باہری کہنے سے ہم پر بہت اثر پڑتا ہے۔ ہم نہیں ہوتے ہوئے بھی باہری ہو جاتے ہیں۔ زمین ہمارے نیچے سے کھِسکنے لگتی ہے۔ ہم ڈولنے اور ڈگمگانے لگتے ہیں۔ ‘‘
بٹو جودیرسے خاموش تھا، یکایک بول پڑا۔
’’ڈگمگاتے ہی تو ہیں، گر تو نہیں جاتے۔ پیٹھ پر نیل تو نہیں پڑتے۔ جِلد تو نہیں چھِلتی۔ خون تو نہیں بہتا۔ ‘‘
’’میں تمہیں کس طرح سمجھاؤں ماں کہ———
’’دیکھ !مجھے کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کہہ دیا کہ ان سے نہیں الجھنا تو نہیں الجھنا۔ تجھے میرے سرکی قسم۔ ‘‘
ماں نے اپنے سرکی قسم دے کر اپنی انگلیاں ہلدی چونے کے لیپ کی کٹوری میں ڈبو دیں۔ انگلیاں اپنے پوروں پر گرم گرم لیپ اٹھا کر اسے بٹو کی زخمی پیٹھ پر پھیلانے لگیں۔
ہلدی اور چونے کے ساتھ ساتھ ماں کی انگلیوں کے لمس اوراس کے آنسوبھی کام کرنے لگے۔ دردآہستہ آہستہ سرکنے لگا۔ جلتی ہوئی پیٹھ میں ٹھنڈک پڑنے لگی۔
لیپ لگا کر ماں چلی گئی اور درد کو قدرے آرام مل گیا تو بٹو نے حادثے کے ایک ایک پہلوپرسنجیدگی سے سوچناشروع کیا۔ ہمارے یقین دلانے کے باوجود ہمیں یہ لوگ باہری ثابت کرنے پرکیوں تلے ہوئے ہیں ؟
ہمیں بار بار یہ احساس کیوں دلایا جاتا ہے کہ ہم یہاں کے نہیں ہیں ؟ ہماری بات پر یہ یقین کیوں نہیں کرتے کہ ہم بھی یہیں کی مٹّی سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں جنم دینے والی کوکھ کہیں باہرسے نہیں آئی ہے ؟یہ صحیح ہے کہ ہمارا کوئی بزرگ کہیں اورسے آیا تھا مگر کیا اس نے اپنے آپ کو یہاں کے رنگ میں رنگ نہیں لیا؟کیا اس نے خود کو یہاں کے سانچے میں ڈھال نہیں لیا؟کیا وہ یہاں کے ماحول اور آب و ہوا میں رچ بس کر یہاں کا نہیں ہو گیا ؟ مانا کہ وہ باہر کا تھا مگر اس کی بیوی!وہ تو باہر کی نہیں تھی؟وہ تو یہیں کی تھی۔ اس کاجسم تو یہیں کی مٹّی سے تیار ہوا تھا۔ اس کے خون میں تو یہیں کا رنگ شامل تھا۔ اس بزرگ سے جو اولادیں پیدا ہوئیں، ان کی پیدائش میں صرف باپ کاہی نہیں، ماں کا بھی ہاتھ رہا۔ بچّوں کی رگوں میں ماں کا بھی خون دوڑا بلکہ ماں کا رول تو زیادہ رہا۔ اس نے تو خون کے ساتھ ساتھ اپنی کوکھ کا بھیUseکیا۔ مہینوں تک مسلسل تکلیف اوردردسہہ کر بچّوں کو Grow کیا اور شدید کرب ناک اذیتیں برداشت کر کے اُنھیں جنم دیا۔ پھراس خالص دیسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچّوں کوبدیسی سمجھنا اور انھیں باہری کہنا کہاں کا انصاف ہے ؟ان بچّوں کو باہری کہنا، ماں کو گالی دینا ہے۔ اس دھرتی کا اپمان کرنا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ساتھ ساتھ یہ اِس دھرتی کا بھی اپمان کیوں کرتے ہیں ؟———پھر ان کے پوروج بھی تو باہر سے آئے تھے !مگر ہم تو انھیں باہری نہیں کہتے۔ کبھی احساس نہیں دلاتے کہ یہ بھی یہاں باہرسے آئے ہیں ——آخر ہماری اور ان کی سوچ میں فرق کیوں ہے ؟
یہ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم یہاں والوں کی طرح نہیں رہتے۔ پتا نہیں یہ بات کن بنیادوں پر کہی جاتی ہے۔
کیا ہمارا گھر ان کی طرح نہیں ہے ؟
کیا ہمارے کپڑے ان سے مختلف ہیں ؟
کیا ہمارے اناج ان سے جدا ہیں ؟
کیا ہمارے پانی کا رنگ ان سے الگ ہے ؟
کیا ہم کسی اور سورج سے گرمی حاصل کرتے ہیں ؟
کیا ہم کسی اور ہوا میں سانس لیتے ہیں ؟
کیا ہم اپنے چولھوں میں کوئی اور آگ جلاتے ہیں ؟
کیا ہم کسی اور ڈھنگ سے ہنستے ہیں ؟
کیا ہمارے رونے کا طریقہ ان جیسانہیں ہے ؟
اس کی نظروں کے سامنے مکان، لباس، اناج، پانی، سورج، آگ ہوا، ہنسی، آہ و زاری ایک ایک چیز آ کر کھڑی ہو گئی۔ ہماراتورہناسہنا، اُٹھنا بیٹھنا، سوناجاگنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، روناہنسنا سب تو ایک جیسا ہے ——پھر ان کا یہ کہنا کہ ہم ان کی طرح نہیں رہتے کیا معنی رکھتا ہے۔ کہیں ان کا مقصد یہ تو نہیں کہ ہماری عبادت کا طریقہ ان سے الگ ہے۔ ہم ان کی طرح پوجا پاٹ نہیں کرتے ؟اس کے سامنے دفعتاً ان کی عبادت گاہوں کے دروازے کھل گئے :
طرح طرح کے دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں دکھائی دینے لگیں۔ کسی میں رام، کسی میں شیو، کسی میں وشنو، کسی میں درگا، کسی میں لکشمی، کسی میں گنیش، کسی میں جے سنتوشی ماں، کسی میں ماں شیراوالی، کسی میں چھٹ میا، کسی میں شرڈی کے سائیں بابا، کسی میں رادھاسوا می، کسی میں رجنیش نظر آنے لگے۔
اُن دیوی دیوتاؤں کے آگے جھکے، کھڑے، بیٹھے، پری کرما کرتے، طرح طرح کے چڑھاوے چڑھاتے، آرتی اتارتے، شنکھ پھونکتے، گھنٹیاں بجاتے الگ الگ لباس میں مختلف رنگ و روپ والے لوگ بھی دکھائی دینے لگے۔
پوجا کرتے ہوئے کچھ ایسے لوگ بھی نظر آنے لگے جن کے آگے کوئی مورتی نہیں تھی۔
آہستہ آہستہ ان کے رسم و رواج تیج تیوہار، شادی بیاہ کھان پان، جنم مرن، کریا کرم کے بہت سارے مناظر بھی ابھر آئے، ان کی اپنی پوجا پاٹ بھی تو ایک جیسی نہیں ہے، ان کے رہنے سہنے کا ڈھنگ بھی تو ایک جیسانہیں ہے، ان کے کھان پان بھی تو ایک جیسے نہیں ہیں پھر اگر ہماری عبادت اور ہمارے کچھ طور طریقے ان سے الگ ہیں تو یہ کون سی انوکھی بات ہے ؟
اس حساب سے دیکھا جائے توکسی ایک کو چھوڑ کر باقی سبھی باہری ثابت ہو جائیں گے اور یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو جائے گا کہ وہ ’’ایک ‘‘کون ہے جسے یہاں کا قرار دیا جائے۔
سوچتے سوچتے آدھی رات گزر گئی مگر بٹو کی سمجھ میں نہ آ سکاکہ باہری ثابت کرنے پر زور کیوں دیا جاتا ہے ؟اس کے پیچھے لوجک کیا ہے ؟
نینداس کی آنکھوں سے غائب ہو چکی تھی۔ وہ بسترسے اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ اس کی سوچ کا عمل جاری رہا۔
ذہن نے ایک اور پہلو تلاش کر لیا۔
ممکن ہے یہ ہمارے کسی عمل، کسی رویّے سے دکھی ہوں ؟
دادا، ابّا اور خود اس کے اپنے اعمال کا احتساب شروع ہو گیا۔ ان کے یہاں شادی بیاہ ہو، کوئی تیج تیوہار ہو، کریا کرم ہو، کوئی عوامی جلسہ ہو یا کوئی نجی محفل، دادا نے ہر موقع پر پھول پہنچائے۔ اچھے سے اچھّے پھول چنے، عمدہ پھولوں کی مالائیں بنائیں۔ تازہ پھولوں سے ہار گوندھے، آرڈر کو ہمیشہ وقت پر پورا کیا۔ کبھی لیٹ نہیں ہوئے۔ کبھی کسی طرح کی آناکانی نہیں کی، ان سے کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔ انھوں نے کبھی کسی سے اڈوانس نہیں مانگا۔ پیسوں کے لیے کبھی تقاضا نہیں کیا۔ ہار مالا گوندھنے میں کبھی کوئی بے ایمانی نہیں کی، غلطی سے بھی کبھی کوئی باسی پھول نہیں گوندھا۔ کسی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔
ابّا نے بھی کبھی کسی کا دل نہیں توڑا۔ کسی کو دکھ نہیں پہنچایا، جب بھی ضرورت پڑی، لوگوں کا کام کیا۔ دل و جان سے ان کی اور اپنے ملک کی خدمت کی بلکہ اس ملک کے لیے تو انھوں نے اپنی ……………
باپ کی کٹی ہوئی ٹانگ اس کی آنکھوں میں ابھر آئی۔ دیر تک وہ اپنے باپ کی لڑکھڑاہٹ کو دیکھتا اور اداس ہوتا رہا۔ باپ کی طرف سے نگاہیں ہٹیں تو خود اس کی طرف مرکوز ہو گئیں۔ اس نے بھی تواس حادثے سے پہلے کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ کبھی کسی کے ساتھ زور زبردستی نہیں کی۔ کسی سے کوئی بدتمیزی نہیں کی۔ اپنی پڑھائی اور پوزیشن کا کبھی کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا۔ کبھی غرور نہیں کیا۔ اس سے جتنا ہو سکا، اس نے اپنے اسکول اور اپنے کلاس فیلوز کی مدد کی۔ اسکول کا خیال آتے ہی اس کے ساتھی یاد آنے لگے۔
وہ ساتھی جو خود بھی اس کاساتھ دیتے تھے۔ اس سے پیار کرتے تھے۔ اس کی اہمیت کوتسلیم کرتے تھے۔ اس کی قدر کرتے تھے، وہ لڑکیاں بھی یاد آنے لگیں جواسے ہرسال راکھی باندھتی تھیں۔ اس کے ماتھے پر ٹیکہ لگاتی تھیں، اسے اپنے ہاتھوں سے لڈّو کھلاتی تھیں۔
راکھی کے دھاگوں نے اس کی سوچ کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ نگاہیں یک لخت الماری کی طرف مبذول ہو گئیں۔ وہ وہاں سے اٹھ کر الماری کے پاس پہنچا اور الماری کھول کراندرسے ایک ڈِبّا نکال لایا۔
ڈبّے کا ڈھکن کھلتے ہی رنگ و نور کی کرنیں پھوٹ پڑیں، اس نے ڈبّے سے راکھیاں نکال کربسترپرپھیلا دیں :
سفیدچادرآن کی آن میں رنگین ہو گئی۔ اس پرسورج چاند اور ستارے اپنی اپنی مسندلگا کر بیٹھ گئے۔
راکھی کے رنگین دھاگوں سے گورے گورے نازک نازک ہاتھ نکل کر اس کی کلائی کی طرف بڑھنے لگے۔ پتلی پتلی نرم و نازک انگلیاں اپنے پوروں میں دبی تتلیوں کو کلائی پر بٹھانے لگیں۔ اپنے بے ریا دلوں سے نکلے پر خلوص جذبوں کے چمکے لیے تاروں کو پیارسے لپیٹنے لگیں۔ بلاؤں سے محفوظ رکھنے والے آرزوؤں کے دھاگے باندھنے لگیں۔ اسے معصوم دعاؤں کے مضبوط کوچ پہنانے لگیں۔
خلوص و محبت برسانے والے خوبصورت ہاتھوں کے نام بھی ابھر آئے۔
شوبھا، شیلا، شالنی، وندنا، نیلما، رتنا، پریا، پرینکا، پریتی، سُربھی، میناکشی، شاکسی، رچنا، لیزا، ماریا، عائشہ، عالیہ…………
ان ناموں کے ساتھ ہی کچھ اور نام بھی یاد آ گئے جن کی دلکش انگلیوں نے راکھی کا دھاگا تو نہیں باندھا تھا، مگرکسی تار میں اسے باندھا ضرور تھا۔
اسے کسی اور دھاگے میں باندھنے والے ناموں کے چہرے اس کی آنکھوں میں چاند تاروں کی طرح چمکنے لگے۔ ایک چہرہ تو دیر تک رکا رہ گیا۔
اس چہرے نے ہلدی چونے کے لیپ سے لپی اس کی زخمی پیٹھ میں ٹھنڈی ٹھنڈی سنسناہٹ دوڑا دی۔ اس کی باہری اور بھیتری دونوں چوٹوں کواس چہرے نے کہیں اور سرکا دیا۔ اور وہ پیاراساچہرہ اس سے پیاری پیاری باتیں کرنے لگا۔
’’تمہارا کھیل دیکھنے میں میں روز لیٹ ہو جاتی ہوں۔ ڈیلی گھر پر ڈانٹ پڑتی ہے۔ ‘‘
’’تو کیوں دیکھتی ہو؟‘‘
’’اچھا لگتا ہے۔ ‘‘
’’کیا کھیل تمہیں اتنا اچھا لگتا ہے ؟‘‘
’’کھیل نہیں۔ ‘‘
’’تو؟‘‘
’’تمہارا کھیلنا۔ ‘‘
’’کیا، میں اتنا اچھا کھیلتا ہوں ؟‘‘
’’ہاں، بہت ہی اچھا۔ ‘‘ ’’تم جب اچھل کر گیند پکڑتے ہو توایسالگتا ہے کہ تم نے چاند کو پکڑ لیا ہے۔ اس وقت میں آسمان میں اڑنے لگتی ہوں۔ ‘‘
——————
’’سنبھل کر کھیلا کرو۔ کہیں پاؤں ٹوٹ جاتا تو؟‘‘
’’تو کیا ہوتا؟‘‘
’’چاند میرے ہاتھوں سے پھسل جاتا۔ میرا آسمان میں اڑنا رک جاتا۔ ‘‘
——————
’’تم میراپنسل بکس دیکھنا کیوں چاہتے ہو؟‘‘
’’یوں ہی۔ ‘‘
’’بس یوں ہی؟‘‘
ہاں،یونہی۔ ‘‘
’’مگر تم دکھانا کیوں نہیں چاہتیں ؟‘‘
’’یوں ہی۔ ‘‘
’’بس یوں ہی؟‘‘
’’ہاں، یوں ہی۔ ‘‘
’’نہیں، تم مجھ سے کچھ چھپانا چاہتی ہو؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’مجھے کیا پتا؟‘‘
’’تم جانتے ہو۔ ‘‘
’’میں جانتا ہوں ؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘
’’وہی جو میں چھپانا چاہتی ہوں۔ ‘‘
——————
’’کامران!کیا میں تمہیں کامیو کہہ سکتی ہوں ؟‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’مجھے اچھّا لگتا ہے۔ ‘‘
’’کہہ سکتی ہو۔ ‘‘
’’تھینکیو۔ ‘‘
’’تھینکیو، کیوں ؟‘‘
’’تم نے نام بدلنے کی پرمیشن جو دے دی۔ ‘‘
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟‘‘
’’فرق تو پڑتا ہے۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘
’’میرے لیے اب تم زیادہ ایزی ہو گئے۔ ‘‘
’’کیسے ؟کیا میرے اندرسے کچھ کم ہو گیا؟‘‘
’’کچھ کم تو نہیں ہوا بٹ——‘‘
’’بٹ کیا؟‘‘
’’بٹ کچھ ہو ضرور گیا۔ ‘‘
’’کچھ نہیں ہوا۔ میں پھر بھی وہی رہا، جو تھا۔ ‘‘
’’اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ نام بدلنے سے کچھ ہو جاتا ہے، کچھ بدل جاتا ہے۔ ‘‘
’’ یہی تومیں جاننا چاہتا ہوں کہ ’’کیا۔ ‘‘؟
’’میں بھی یہی تو نہیں سمجھاپا رہی ہوں کہ ’’کیا؟‘‘
’’اچھّاتواس ’’کیا‘‘سے ہی کچھ نکال کر دیکھتے ہیں ‘‘
’’کیا؟‘‘
;(ے )کو نکال دیتے ہیں۔ اب کیا رہا؟۔
’’کا۔ ‘‘
’’غورسے دیکھو، اس ’’کا‘ ‘کا بھی وہی معنی ہے جو ’’کیا‘‘ کا ہے۔ ‘‘
وہ کیسے ؟‘‘
’’تم نے اپنے چپراسی کو ’کیا بات ہے بی بی جی !کی جگہ ’’کا بات ہے بی بی جی، بولتے نہیں سنا؟‘‘
’’سناتوہے۔ ‘‘
’’تو ان دونوں جملوں کے ’’کا‘‘ اور ’’کیا‘‘ میں کوئی فرق ہے ؟‘‘
’’یہاں تو کوئی فرق نہیں لگ رہا ہے بٹ ’’اس کاگھر‘‘اس Sentence میں ’’کا‘‘ کیا ’’کیا‘‘ کا(معنی)Meaningدے رہا ہے ؟یہاں تو ’’کا‘‘ ’’کیا‘‘ سے الگ ہو گیا۔ ہو گیا کہ نہیں ؟‘‘
’’ہو گیا پر———‘‘
’’پر ور کچھ نہیں۔ کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے، اسے مان لو کامیو!‘‘
’’ٹھیک ہے مان لیتا ہوں سوینٹ!‘‘
’’واٹ ؟‘‘
’’ہاں، سونم سے سوینٹ!‘‘
’’ناٹی بوائے !‘‘
——————
تمہیں یاد ہے کامیو!
تم نے مجھے پھول دیا
میں نے تمہیں تتلی دی
پھول نے تتلی کو اپنے دامن میں بٹھایا
تتلی نے پھول کے آغوش کو رنگوں سے بھر دیا
پھول تتلی کے لمس سے مہک اٹھا
تتلی پھول کے لمس سے مست ہو گئی
یہ منظر ہمیں اتنا بھایا
کہ ہم دونوں اس میں کھو گئے
اوراس حد تک کھوئے
کہ تم پھول بن گئے
اور میں تتلی
———
کامیو!
تمہیں یاد ہے
ایک دن ہم جھیل کے کنارے
پانی میں اپناعکس دیکھ رہے تھے
’’یہاں بیٹھنا کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ ‘‘
میں نے کہا تھا
جواب میں تم بولے تھے
’’بالکل اس جھیل کی طرح:شانت، شیتل، شفّاف
ہمارے عکس ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے تھے
’’کوئی شور نہیں، کوئی رکاوٹ نہیں، کوئی الجھن نہیں ……
تم بولے جا رہے تھے
’’ڈب‘‘ اچانک میرے ہاتھ سے پھسل کر ایک کنکڑی جھیل میں جا گری اور جھیل کا شانت اور شفّاف پانی لہروں سے بھر گیا۔ ہماراعکس کھو گیا
’’تم نے کیاکیاسونم ؟‘‘تم نے حیران اور اداس ہو کر پوچھا تھا
’’بے خیالی میں میرے ہاتھ سے کنکڑی اچھل گئی۔ ‘‘پشیمانی کے ساتھ میں نے جواب دیا تھا
’’تمہاری اِس بے خیالی سے جانتی ہو کیا ہو گیا؟‘‘
تم نے عجیب انداز میں سوال کیا تھا۔
’’جانتی ہوں، بہت کچھ کھو گیا۔ بہت کچھ ختم ہو گیا۔ ‘‘
میں نے گردن جھکا لی تھی۔
’’سونم!پھر کبھی کسی جھیل میں کنکڑی نہ گرانا۔ ‘‘
تم جھیل سے اٹھ گئے تھے۔
تم اس طرح اٹھے تھے جیسے تم اپنے اوپر ٹنوں بوجھ لیے اٹھ رہے ہو میرے ذہن پر تمہارا بوجھ آج بھی سوارہے۔ کوشش کرتی ہوں کہ گر جائے مگر نہیں گرتا اسے گرانے میں میری مدد کرو نا کامیو!‘‘
——————
’’کامیو!رات میں نے ایک خواب دیکھا۔ بہت ہی ونڈر فل خواب! سنو گے ؟‘‘
’’سناؤ۔ ‘‘
میں نے دیکھا کہ میں اپنے بند کمرے سے نکل کرآسمان کے نیچے ایک بہت ہیComfortableبسترپرلیٹی ہوں۔ میرے چاروں طرف دودھیا چاندنی چھٹکی ہوئی ہے اور میرے بسترکے پاس ایک بہت ہی ہینڈسم اور چارمنگ نوجوان کھڑا ہے۔ جس کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا ہے اوراس کی آنکھیں سورج کی طرح دمک رہی ہیں۔ اس کاجسم خوب گٹھا ہوا ہے Just like Hercules۔ (بالکل ہرکلس کی طرح)اس کے چہرے میں بلا کی کشش ہے اور آنکھوں میں ایک عجیب طرح کا جادو۔
وہ میری طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ مجھے اس کا دیکھنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ایسالگتا تھاجیسے اس کی پتلیوں سے کچھ نکل کر میری آنکھوں کے راستے میرے جسم کے ایک ایک حصّہ میں سماتاجا رہا ہو۔ میری رگوں میں نشّہ سا گھلتا جا رہا تھا، مجھے عجیب طرح کا مزا مل رہا تھا۔ میرا من پھول کی طرح ہلکا ہوتا جا رہا تھا۔
’’مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘میں نے اس سے پوچھا تو بولا ’’پری کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟‘‘
پری!میں چونک پڑی
’’ہاں پری!جو پھول کی طرح کومل، شبنم کی مانند شیتل، دریا کی طرح نرمل، چاند کی مثل اُجول، شیشے کی طرح شفاف اور فرشتوں جیسی معصوم ہوتی ہے۔ جس میں کہیں کوئی داغ، کوئی دھبّہ، کوئی نقص نہیں ہوتا۔ جس کامن چھل کپٹ، دھوکا دھڑی، دغا فریب، فتنہ فساد سب سے خالی ہوتا ہے۔ جو تمام عیبوں سے پاک ہوتی ہے۔
’’لیکن یہاں تو کوئی پری نہیں ہے۔ ‘‘میں نے چونک کر بتایا۔
’’ہے ‘‘اس نے زور دے کر کہا۔
’’کدھر ہے ؟‘‘میں نے بھی زور دے کر پوچھا۔
’’وہ پری تم ہوسونم!‘‘اس نے یہ جملہ ہونٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی پلکوں سے بھی ادا کیا۔
’’میں !‘‘میں پھر چونکی۔
’’ہاں، تم۔ ‘‘
اس کے منہ سے یہ بات سن کر میرا من جھوم اٹھا، تن ڈولنے لگا،
میں زمین سے اوپر اٹھ کرآسمان میں اڑنے لگی۔ پھیلے ہوئے نیلگوں آسمان میں دیر تک اڑتی رہی۔ تاروں سے ملتی رہی، چاند کو چھوتی رہی، سورج کی طرف بڑھتی رہی۔
آسمان کی سیرسے واپس آ کر میں نے اس اجنبی نوجوان سے پوچھا۔
’’تم نے میرا نام کیسے جانا؟‘‘
’’ویسے ہی جس طرح پھول اور چاند کو جانتے ہیں، شبنم اور شیشے کو پہچانتے ہیں۔ ‘‘ ’’اچھا اب میں چلوں گا‘‘اس نے بتایا اور جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
’’کیوں ؟‘‘بناسوچے سمجھے یہ لفظ میرے منہ سے نکل گیا، شاید میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ اتنی جلدی چلا جائے۔
’’کیا مجھے نہیں جانا چاہیے ؟‘‘اس نے اس طرح پوچھا کہ میں ’’ہاں، کہہ کر شرما گئی۔
’’کیوں ؟‘‘اس نے سوال پرسوال کرنا شروع کر دیا۔
’’تمہارا یہاں ہونا اچھا لگ رہا ہے۔ ‘‘میں اس کے ایک ایک سوال کا جواب دینے لگی۔
’’صرف میرا ہونا؟‘‘
’’نہیں، تمہارا یہاں بیٹھنا اور مجھے دیکھنا بھی—جی چاہتا ہے کہ تم مجھے اسی طرح دیکھتے رہو‘‘ میں اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔
’’کب تک ؟‘‘اس نے بڑے ہیMeaningfulانداز میں پوچھا ’’جب تک میں ہوں، جب تک تم ہو‘‘ میں نے بہت ہی رومانٹک ہو کر جواب دیا۔
’’ایساکیوں ؟‘‘جواب جاننے کے لیے اس کی آنکھیں بے چین نظر آنے لگیں۔ ’’اس لیے کہ تمہاری آنکھیں مجھ پر جادو کر رہی ہیں، مجھے پھول کی طرح کھِلا رہی ہیں۔ مجھ میں خوشبوئیں بسا رہی ہیں۔ مجھے ہلکا بنا رہی ہیں۔ ‘‘ میں نے اپنے Feelingsبیان کر دئیے۔
’’کیا یہ چیزیں تمہیں اچھّی لگیں ؟‘‘اس نے اپنائیت سے پوچھا۔
’’ہاں، تن کا کھلنا، من کا مہکنا اور طبیعت کا ہلکا ہونا مجھے بہت اچھّا لگا۔ ‘‘میں نے اپنے Feelings کو دو بارہ بیان کر دیا۔
’’جانتی ہوایساتمہیں کیوں لگا؟‘‘وہ نوجوان اپنے Philosophyکے لیکچر رکی طرح لگنے لگا۔
’’کیوں لگا؟‘‘میں بھی اسٹوڈینٹ بن گئی۔
’’تمہیں محبت سے دیکھا گیا۔ ‘‘اس کا لہجہ کچھ پراسرارہو گیا۔
’’محبت سے۔ ‘‘میں چونک پڑی۔
’’ہاں، محبت سے جس میں جادو ہوتا ہے اورجادواسی طرح کا کام کرتا ہے۔ ‘‘وہ فلسفیوں کی طرح بولنے لگا۔
’’جادو والی محبت اور کیا کیا کرتی ہے ؟‘‘میری کیوریوسٹی بڑھ گئی
’’خاموشی میں زبان ڈال دیتی ہے۔ آدمی کو بے باک بنا دیتی ہے۔ دل و دماغ سے ڈر خوف نکال دیتی ہے۔ ‘‘وہ میری کیوریوسٹی کو اور بڑھانے لگا۔
’’اور؟‘‘میں اسے کریدنے لگی۔ ‘‘
’’نا امیدی کو امید میں بدل دیتی ہے۔ غم کو خوشی میں تبدیل کر دیتی ہے، اداسی کوہنسی کا روپ دے دیتی ہے۔ ‘‘وہ بلا رُکے بولتا گیا۔
’’اور؟‘‘میری کرید بڑھتی گئی۔
’’آنکھوں کوبولناسکھا دیتی ہے۔ ‘‘اس بار وہ صرف ایک جملہ بول کر رک گیا۔
’’اور؟‘‘مگر میں نہیں رُکی
’’اورسوال کرناسکھا دیتی ہے۔ ‘‘اس نے میری طرف عجیب طرح سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
میں شرما کر خاموش ہو گئی مگر میری خاموشی بولنے لگی۔ اس نے میرے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اس لیے کہ اس نے خاموشی کی زبان سن لی تھی۔
اس کے ہونٹ رکھتے ہی میں اپنے ہوش وحواس کھونے لگی۔ اسی دوران بہت ہی قریب سے آتی ہوئی مجھے ایک آوازسنائی پڑی۔
’’محبت بے باک بنا دیتی ہے۔ ‘‘
اور میں بے باک بنتی چلی گئی۔
’’جانتے ہو کامیو!اس خوبصورت اجنبی نوجوان سے میں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کیا بتایا؟‘‘
’’کیا بتایا؟‘‘
’’کامیو۔ ‘‘
سونم کامران کی طرف اس طرح دیکھنے لگی جس طرح خواب والے نوجوان اجنبی نے اس کی طرف دیکھا تھا۔
آنکھوں سے محبت کا جادو نکلا اور آنکھوں میں سماتا چلا گیا۔
———————————
اس یاد نے سونم اور بٹو کے درمیان کی کچھ اور یادوں کو بھی سامنے لا کر کھڑا کر دیا۔ بٹو تیزی سے دوبارہ الماری کے پاس جا کر ایک لفافہ نکال لایا۔
ڈیر کامیو!
ویلین ٹائن ڈے قریب آتا جا رہا ہے۔ میری تمام سہیلیاں اپنے بوائے فرینڈ کے لیے گفٹ خریدنے میں لگی ہوئی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ونڈرفل اوکیزن پر میں اپنے فرینڈ کو کیا پریزینٹ کروں ؟ایساکیاتلاش کروں جو میرے اس دوست کو جو بیک وقت Emotionalبھی ہے اورRationalبھی، سوٹ کر سکے، اسے اچھّا لگ سکے۔
اس لونگ ڈے (Loving Day)کے لیے ویسے تومیں نے بہت کچھ اکٹھا کر لیا ہے جواس وقت میرے سامنے ہی پڑا ہوا ہے مگر ان میں سے کیا چوز کروں، دماغ فیصلہ نہیں کرپا رہا ہے۔
سوچتی ہوں تمہارا تصوّر کر کے ان میں سے دو چیزیں اٹھا لوں۔ تمہیں پسند آ جائیں تو میری گڈ لک۔ نہ پسندآئیں تو بیڈ لک( Bad luck)۔
میں نے آنکھیں بند کر کے دو چیزیں اٹھا لی ہیں اور اب انھیں لفافے میں بھر رہی ہوں۔
تمہاری رائے کا بے تابی سے انتظار کروں گی۔
تمہاری سونیٹ
خط پڑھ کراس نے ایک کارڈ اٹھا لیا۔
چکنے دبیز کاغذ پر نیلگوں آسمان پھیلا ہوا تھا۔ آسمان کے نیچے زمین بچھی ہوئی تھی۔ زمین کے دامن میں دریا رواں تھے۔ ہری بھری کوکھ سے پہاڑ، پیڑ اور پودے اُگے ہوئے تھے۔
سبزدھرتی کے اوپر اور نیلے آسمان کے نیچے وسیع و عریض فضا میں دو پرندے ایک ساتھ اڑ رہے تھے۔ دونوں کے پر پوری طرح کھُلے ہوئے تھے۔ اُن میں سے ایک کے پَر بالکل سفیدتھے اوردوسرے کے پروں کی سفیدی میں ہلکی سی سیاہی ملی ہوئی تھی۔ دونوں کی آنکھوں میں چمک اور چونچ کے کناروں پر سُرخی تھی۔
آسمان پر بادل نہیں تھے۔ کہیں کوئی سیاہ لکیٖر بھی نہیں تھی۔ پرندوں کا رُخ اس سرخ رنگ کے موتی کی طرف تھا جو کہیں دورکسی زرد کانچ کے بیضوی بکسے سے اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اورجس کی پھوٹی ہوئی شعاعوں سے زمین کا ایک ایک گوشہ، ایک ایک ذرّہ، ایک ایک پتّا، ایک ایک قطرہ جگمگا رہا تھا۔
کاغذ پر ابھارے گئے منظروں نے بٹو کے چہرے کو خوش رنگ بھاوؤں سے بھر دیا۔ اس کی آنکھ، پیشانی، لب، رخسارسب میں چہل پہل دکھائی دینے لگی۔
کچھ دیربعداس نے پہلا کارڈ رکھ کر دوسراکارڈاٹھالیا، اس پر کرشن اور رادھا کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔
کرشن مُسکراتے ہوئے رادھا کی طرف دیکھ رہے تھے۔ مسکراہٹ رادھا کو گدگدا رہی تھی۔ مسکراہٹوں کی گدگدی رادھا کے انگ انگ سے مسرت بن کر پھوٹ رہی تھی۔
کرشن اور رادھا کی تصویروں کے پس منظر میں تلوار ترشول اور تیر دکھائے گئے تھے جن کی چمک ماند پڑ گئی تھی اور نوکیں جھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔
تلوار، ترشول اور تیروں کی جھکی ہوئی نوکوں اور ماند پڑی چمک سے ہٹ کربٹو کی نگاہیں کرشن کی مسکراہٹ کے پاس آ گئیں۔
مسکراہٹوں کی سرخی اور دمک اٹھی۔ مسکراہٹوں کے پاس کچھ دیر رکنے کے بعد نظر یں رادھا کی طرف مبذول ہو گئیں۔ رادھا کے انگوں سے پھوٹتی ہوئی مسرت روشنی بن کراس کی آنکھوں میں سماگئی۔
اس روشنی میں ماں کی انگلیاں جن کے لمس سے اس کی جلتی ہوئی پیٹھ میں ٹھنڈک سرایت کر گئی تھی، چمچما اٹھی۔ ماں کی آنکھوں سے ٹپکے ہوئے آنسوبھی جگمگا اٹھے جنھوں نے درد کی تپش پر برف کے پھاہے رکھ دیئے تھے۔
روشنی میں وہ چہرہ بھی طلوع ہو گیا جو پھولوں کی طرح کھِلا ہوا تھا اور جس کا تن من محبت کی نظرسے سبک ہو گیا تھا اورجس نے کرشن اور رادھا کے ساتھ ساتھ وہ تحفہ بھی بھیجا تھا جس میں دو پرندے کھلے آسمان میں کھلے ہوئے بازوؤں کے ساتھ کھُلے من سے اُڑ رہے تھے اور جن کا رُخ اُس دمکتے ہوئے سرخ موتی کی طرف تھا جو بہت اونچائی پر ہوتے ہوئے بھی نیچے کی چیزوں کو اپنی شعاعوں سے روشن کر رہا تھا۔
٭٭٭
(۵)
معاملہ رفع دفع ہو جانے کے باوجود بٹو معمر شخص کی آنکھوں میں گڑا رہا جیسے کانٹا نکل جانے کے بعد بھی چبھن باقی رہ جاتی ہے۔
معمر شخص بسترپربار بار کروٹیں بدل رہا تھا۔ کمرے میں دنیش کی موجودگی چبھن کو اور شدید بناتی جا رہی تھی۔ بار بار کروٹیں بدلنے والا شخص اچانک بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا، جیسے اس کی پلنگ پر کوئی سانپ چڑھ آیا ہو، یاجیسے کسی کھٹمل نے زورسے اسے کاٹ کھا لیا ہو۔
اس نے سرہانے تکیے کے پاس پڑی سگریٹ کی ڈبیاسے سگریٹ نکالی، اسے چند لمحے تک غورسے دیکھا اورماچس کی تیلی جلا کراسے سلگالی۔
بوڑھی انگلیوں میں دبی سگریٹ تیزی سے جوان ہونے لگی۔ خلا میں مرغولے اچھلنے لگے جیسے سگریٹ کسی معمر شخص کے لبوں کے بجائے کسی نئے پینے والے نوجوان کے ہونٹوں سے لگی ہو۔
مرغولوں میں اسے بہت کچھ دکھائی دینے لگا۔ اس کے اندر دبی تصویریں دھوئیں کے چھلّوں میں ابھرنے لگیں۔
دنیش!ذرا اِدھر تو آنا۔ ’’سگریٹ کے آخری حصّے کو پلنگ کی پٹّی پرمسلتے ہوئے معمر شخص نے دینو کو پکارا۔
’’یس گرینڈ پاپا!بولیے کیا حکم ہے۔ ‘‘دینو اپنی اسٹیڈی ٹیبل سے اٹھ کر دادا کے پاس آ گیا۔
’’بیٹے !لڈنا کا بیٹا کیا تمہارے کالج میں پڑھتا ہے ؟‘‘
کون؟——بٹو ، جسے کل رات آپ نے Punishکیا تھا۔ ‘‘ ’’ہاں، وہی۔ ‘‘
’’جی، وہ میرے ہی کالج میں پڑھتا ہے۔ ‘‘
’’کیا وہ تمہیں دینو کہہ کر پکارتا ہے ؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’تمہیں بُرا نہیں لگتا؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’اس کا دینو کہنا۔ ‘‘
’’نہیں تو۔ برا کیوں لگے گا؟‘‘
’’کیا وہ تمہارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا بھی ہے ؟‘‘
’’ہاں، اٹھتا بیٹھتا بھی ہے ؟‘‘
’’اور کھاتا پیتا بھی ہو گا؟‘‘
آف کورس کھاتا پیتا بھی ہے مگر یہ سب آپ کیوں پوچھ رہے ہیں گرینڈپا؟‘‘
یوں ہی۔ ‘‘معمر شخص خاموش ہو گیا۔ اس نے ڈبیاسے ایک اورسگریٹ نکال لی۔ فضا میں پھرسے مرغولے اچھلنے لگے۔
اپنے دادا کے چہرے کے اتارچڑھاؤاوراس طرح کے سوالوں سے دینوکو محسوس ہواجیسے اس کے گرینڈ پا کے بھیتر کوئی جوار بھاٹا اٹھ رہا ہے۔ اس کا جی چاہا کہ وہ اپنے دادا کی اِس کیفیت کاسبب جانے۔ ان سے پوچھے کہ وہ اس قدر بے چین کیوں ہیں مگراس وقت اس نے مناسب نہیں سمجھا۔ البتہ بٹو کی حالت اور پنچایت کے فیصلے کولے کر جو بات اسے پریشان کر رہی تھی، اس کے بارے میں وہ داداسے ضرور بات کرنا چاہتا تھا۔ اس نے دادا کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ’’گرینڈ پا!اچھا ہوا آپ نے خود ہی بٹو کی بات چھیڑ دی۔ میں آپ سے پوچھنے والا تھا کہ آپ نے اسے Punishکیوں کیا؟‘‘
’’اس لیے کہ اس نے قصور کیا تھا‘‘
’’کیا قصور کیا تھا؟‘‘
’’اُس نے ہمارے ایک بچّے کو مارا تھا۔ ‘‘
’’لیکن اس نے یوں ہی تو نہیں مارا ہو گا۔ ضروراس کا کوئی ریزن (Reason) ہو گا۔ ‘‘
’’ریزن کیا!بچّے نے اسے باہری کہہ دیا تھا۔ بس اس سادھارن سی بات پراس نے تھپڑ مار دیا۔ ‘‘
’’بٹ بٹو از ناٹ آؤٹ سائڈرگرینڈ پا۔ وہ یہیں کا رہنے والا ہے۔ لائک می اینڈیو۔ ‘‘
’’سوتوٹھیک ہے، پراس کے پوروج توباہرسے آئے تھے۔ ‘‘
’’پوروج مِنس ؟‘‘
’’اوہ!پوروج نہیں سمجھتے۔ پوروج مِنس Ancestors, fore fathers
’’او۔ گرینڈپا، کیا وہ سچ مچ باہرسے آئے تھے ؟‘‘
’’نی سندیہہ، وہ باہرسے آئے تھے۔ ‘‘
’’نی سندیہہ؟سوری گرینڈپا!میری ہندی ذرا پوٗور ہے۔ ‘‘
’’ان ڈاؤٹیڈلی(Undoubtedly)‘‘اس بار معمر شخص نے ناگواری سے جواب دیا۔
’’تھینکیو گرینڈپا——وہ کیا کرنے آئے تھے ؟‘‘
’’اس دیش کو لوٹنے اور کیا کرنے ؟‘‘
’’دیش کو لوٹنے ؟‘‘
’’ہاں، اس Countryکو لوٹنے ‘‘
’’لوٹا؟‘‘
’’ہاں، خوب لوٹا۔ جی بھرکے لوٹا۔ دونوں ہاتھوں سے لوٹا؟‘‘
’’عجیب بات ہے، لٹیرے تو لوٹ پاٹ کر چلے گئے مگر اپنی سب سے Costly چیز چھوڑ گئے۔ ‘‘
’’کون سیCostlyچیز؟‘‘
’’اپنیProgeny۔ ‘‘
’’Progeny!‘‘اس بار معمر شخص چونکا۔
’’اپنیGenerationگرینڈپا!‘‘
’’او——وہ گئے نہیں، وہ بھی یہیں رہ گئے۔ ‘‘
’’تب تو ان کا لوٹا ہوا مال بھی یہیں رہ گیا ہو گا؟‘‘
معمر شخص سے اس سوال کا جواب نہ بن پڑا۔ وہ خاموش ہو گیا ’’گرینڈپا، آپ کاSilenceبتا رہا ہے کہ مال یہیں رہ گیا۔ اِٹ مِنس کہ ان کی لوٹ پاٹ سے اس ملک کو کوئی ہارم نہیں پہنچا۔ ‘‘
’’پہنچا کیوں نہیں۔ بہت ہارم پہنچا۔ انھوں نے یہاں کی سبھیتا ایوم سنسکرتی کوتہس نہس کیا، اب یہ مت پوچھنا کہ سبھیتا ایوم سنسکرتی کا ارتھ کیا ہے ؟‘‘
’’میں ان کا ارتھ سمجھتا ہوں گرینڈپا——گرینڈپا، اور کیا ہارم پہنچایا انھوں نے ؟‘‘
’’یہاں کے۔۔۔۔۔ ،۔۔۔ کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ ‘‘
دینو نے اپنے حافظے پر بہت زوردیامگرایسے کسی بھی بھون کی تصویر نہیں ابھری جوان کے ہاتھوں مِسمار ہوا ہو، البتہ ان کے ہاتھوں تعمیر کی ہوئی کچھ عمارتیں ضرور آ کراس کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔
اچانک اس کے کانوں میں کچھ ٹوٹنے کا شور گونجا اور آنکھوں میں کھڑی عمارتوں میں سے ایک کے در و دیوار گرنے لگے۔
اورسب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے یہاں کی مہیلاؤں کی عزّتیں لوٹیں۔ ‘‘
’’گرینڈ پا ہمارے لوگوں نے اپنی عورتوں کی عزّتیں کیوں لوٹنے دیں ؟ انھوں نے انھیں بچایا کیوں نہیں ؟وہ اتنے زیادہ تو نہیں رہے ہوں گے کہ ان سے اپنی عورتوں کی عزّت بچاناImpossibleتھا۔ کہیں ایساتونہیں کہ جن عورتوں کی عزّتیں لٹیں، انھیں ہم بچانا ہی نہیں چاہتے تھے ؟سننے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ہم خود بھی ان کی عزّت سے کھیلواڑ کیا کرتے تھے۔ اور ہمارے ہی ڈرسے وہ ان کی پناہ میں گئیں۔ ‘‘
’’یہ سب بکواس ہے۔ ‘‘معمر شخص کا چہرہ تمتما گیا۔
’’اگر ہم مان بھی لیں کہ یہ جھوٹ ہے مگر یہ تو جھوٹ نہیں کہ یہاں کی عورتیں ——Self respectہندی میں کیا کہتے ہیں اسے ؟
’’سوابھیمانی‘‘معمرشخص کا چہرہ اور تمتما گیا۔
’’ہاں بڑی سوابھیمانی رہی ہیں، عزّت لٹ جانے کے بعد تو انھیں شرم سے مر جانا چاہیے تھا مگر وہ مری نہیں۔ ہسٹری تو یہ تک بتاتی ہے کہ یہاں کی عورتوں نے ان کے بچّے جنے، انھیں پالاپوسا۔ بڑا کیا۔ اِٹ مِنس کہ یہاں کی عورتوں نے انھیں اپنی مرضی سے Acceptکیا۔ ‘‘
’’نہیں،یہ ہسٹری غلط ہے۔ ضروراسے کسی بدیشی نے لکھا ہو گا۔ ‘‘
’’نہیں گرینڈ پا!یہ بات تو یہاں والے بھی کہتے ہیں۔ ‘‘
’’چلو مان لیتے ہیں کہ یہ بات یہاں والے بھی کہتے ہیں، پرنتو یہ آوشیک تو نہیں کہ اتہاس میں جو کچھ لکھا ہے، وہ ستیہ ہی ہو؟‘‘
’’You are right Grand Pa۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ کوئی ضروری نہیں، لیکنLogical mindسچ اور جھوٹ کا اندازہ تو لگا ہی لیتا ہے۔ ‘‘
’’اس کا ارتھ یہ نکلا کہ تمہیں کچھ بھی غلط نہیں لگتا؟‘‘معمر شخص نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لگتا کیوں نہیں، جوWrong ہے، وہ Wrongہے۔ For Exampleبٹو کو جو سزا سنائی گئی، وہWrong ہے، اس پر جو مار پڑی وہ Wrongہے، اسے جو دھمکی دی گئی وہ غلط ہے۔ آپ نے شاید دھیان نہیں دیا کہ اس بے چارے کوکس بے دردی سے پیٹا گیا ہے، اس کا منہ سوج گیا ہے۔ ور اس کی پیٹھ کا تو پوچھیے مت۔ بہت برا حال ہے۔ جگہ جگہ سے چھلی پڑی ہے اور اندرونی مار کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں، ——
’’کیا اسے تم دیکھنے گئے تھے ؟‘‘
’’ہاں، گیا تھا۔ ‘‘
’’یہ جانتے ہوئے بھی کہ ——‘‘معمر شخص کی آنکھوں میں حیرت بھر گئی۔ ’’گرینڈپا، بٹو میراکلاس فیلو ہے۔ ایک اچھّادوست ہے۔ وہ ایکHelpfulلڑکا ہے۔ ہمارے کام آتا ہے بلکہ سبھی کے کام آتا ہے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ وہ ہمارے کالج کے لیے ایک ایسٹ (Asset )ہے۔ کالج کواس پر ناز ہے۔ وہ ایک بہت ہیBrilliantاور آل راؤنڈراسٹوڈینٹ ہے۔ ہمیشہ فرسٹ آتا ہے، کٹ کا بیسٹ پلیر بھی ہے۔ بہت ہی اچھا اوریٹر ہے۔ گاتا بھی بہت اچھّا ہے۔ کلاس کا ایک ایک لڑکا اسے چاہتا ہے۔ اس کی عزّت کرتا ہے۔ لڑکیاں تو اس پر جان چھڑکتی ہیں۔
’’ہندو لڑکیاں بھی؟‘‘معمر شخص کے ہونٹوں سے یہ سوال بے ساختہ نکل پڑا۔
’’ہاں ہندو لڑکیاں بھی—گرینڈپا، لڑکیاں اسے مسلمان نہیں، کامران سمجھتی ہیں۔ ‘ ‘
’’کامران !‘‘
’’بٹو کا اصلی نام کامران ہے۔ کامران جو ہمارے کالج کا ایک اچھّا اسٹوڈینٹ ہے۔ ایسا اسٹوڈینٹ جس سے کالج کا نام روشن ہے۔ ‘‘
معمر شخص کی حیرت میں اضافہ ہو گیا۔
’’لگتا ہے تمہارا درشٹی کوّٹر———معمر شخص کچھ کہتے کہتے رُک گیا، اس کی آنکھیں پوتے کی آنکھوں پر پھیلی ہوئی تھیں جو دنیا کو بہت ہی سہج بھاؤسے دیکھ رہی تھیں۔
اسے اپنے ہم شکل پوتے کے چہرے پراس کی آنکھیں کچھ بے میل سی لگیں۔ اور یہ محسوس ہوتے ہی اس کی اپنی آنکھیں اور پھیلتی چلی گئیں۔
آہستہ آہستہ آنکھوں میں دھواں بھرنے لگا۔ دھواں گہرا ہوتا گیا۔
پوتے کا چہرہ اس دھند میں ڈوبتا گیاجیسے کبھی کبھی دن میں بھی سورج گھنے بادلوں کے گھیرے میں گھِر کر اپنی روشنی گنوا بیٹھتا ہے۔
معمر شخص کی نگاہیں اس دھند کو چیرتی ہوئی بہت دور پہنچ گئیں۔ وہاں، جہاں سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ سمندرکے آخری کنارے پر پانی کی سطح پر ڈولتے ہوئے کچھ سائے دکھائی پڑے۔
آہستہ آہستہ سائے قریب آتے گئے۔
سایوں سے چہرے، اور ہاتھ پیر ابھرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سائے شکلوں میں بدل گئے۔
شکلیں متحرّک ہو گئیں۔
متحّرک شکلیں طرح طرح کے سازوسامان، بھری ہوئی بوریوں اور خالی تھیلیوں کے ساتھ نیلے پانی سے نِکل کر ہری بھری خشکی پر اِدھر اُدھر پھیل گئیں۔
اُن کی زبانوں سے نرم، شیریں اور پرکشش آوازیں نکل کرسماعتوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگیں۔ مختلف سمتوں سے بھری ہوئی مٹھیّوں والے ہاتھ ان کی طرف بڑھنے لگے۔
مُٹھّیاں تھیلیوں میں کھلنے لگیں اور بوریاں کھل کر ہاتھوں میں بند ہونے لگیں۔
سمندرکے پانی سے نکلی ہوئی شکلوں کی آوازیں اور ان کے ہمراہ آئی چیزیں دلوں کو اتنی بھائیں کہ کچھ نرم و نازک باہیں ان شکلوں سے لپٹ گئیں۔
شکلیں ان نرم گرم باہوں سے مل کر کچھ اور شکلیں بنانے لگیں۔ پہلی اور دوسری دونوں شکلیں رفتہ رفتہ نکھرنے اورسنورنے لگیں۔
ان میں سے ایک شکل نے، جس کی پیشانی چوڑی، آنکھیں گہری اور چہرہ با رعب اور زبان شیریں اور نکتہ آفرینی سے معمور تھی، مختلف سمتوں میں گھومتے ہوئے ایک مقام جس کی زمین قدرے اونچی اور فضا خوش گوار تھی، رک کر اپنا ڈیرا ڈال دیا۔
ڈیرے میں پڑے پڑے اُس نے آسمان کو دیکھا اور اپنی بھری ہوئی تھیلیوں سے بہت سارے سنہرے اور روپہلے ٹکڑے نِکال کر اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں پرسجالیے۔ سنہرے اور روپہلے ٹکڑے فضا میں اس طرح چمکے دمکے کہ چانداورسورج بھی شرما گئے۔
چمکے لیے ٹکڑے ہتھیلیوں سے اُٹھ کر فضا میں اچھلے اور موافق ماحول سے مَس کھا کر مختلف صورتوں میں ڈھل گئے، کسی نے بلند و بالا فصیلوں کا روپ لے لیا، کوئی منقّش در و دیوار میں بدل گیا، کچھ مزیّن چھتوں میں تبدیل ہو گئے، کچھ مرمریں فرش بن کر بچھ گئے، کچھ بلّوریں فانوس بن کر چھتوں سے لٹک گئے، کسی نے تخت کی صورت اختیار کر لی، کوئی تاج بن کراس ڈیرا ڈالنے والی شکل کے سرپرجاچمکا اور کچھ کمخواب وسنجاب میں بدل کراس کے بدن پرسج گئے۔
نیلے پانی سے نکل کر در در بھٹکنے والی شکل ایک وجیہہ، پُر وقار اور جاہ و جلال والے شہنشاہ کی صورت میں شان و شکوہ و تزک و احتشام کے ساتھ مسندِشاہی پر جلوہ افروز ہو گئی، جیسے اس در در بھٹکنے والی شکل کے ہاتھوں میں کسی لالچی اور بے وقوف سپیرے نے آوازوں کے جال اور تھوڑے سے مال کے پھندے میں آ کر جتن سے پالا ہوا اپنا اِچھّا دھاری سانپ سونپ دیا ہو۔ اور وہ سانپ اس کے وجود میں سما گیا ہو، اس اِچھّا دھاری سانپ نے منوں لعل اُگل دیے۔ تاج و تخت اور در و دیوار چمچما اٹھے۔ ان کی چمک دمک نے بہت سے انسانوں اور حیوانوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ مختلف گوشوں سے نکل نکل کر کچھ لوگ شہنشاہ کے اردگرد مودبانہ کھڑے ہو گئے۔ دربار لگ گیا،
کہیں سے ایک عورت جس کاجسم گداز، نقش تیکھے، نین متوالے، روپ دلکش اور رنگ گیہواں تھا اورجس کے ماتھے پر بندیا اور دانتوں میں مِسّی تھی اورجس کے مانگ میں سیندورچمک رہا تھا، زیورات سے لدی پھندی اس کے پہلو میں آ بیٹھی۔
ہیرے جواہرات سے مزّین تخت پر چمچماتے ہوئے تاج والے شخص کے پہلو میں بیٹھی اس عورت کو دیکھ کر دربار میں کھڑے لوگوں میں سے ایک کی پیشانی کا ٹیکا چمک اٹھا۔ اس کی مونچھیں تن گئیں۔ فخر و افتخار کے پرچم اس کی آنکھوں میں لہرانے لگے۔ اس کے چہرے پر کیف وانبساط کی لہریں رقص کرنے لگیں۔ وہ اس قدر شاد و مسرور تھا جیسے وہ عورت اس کی کوئی سگی ہو۔ شاید وہ اس کی کوئی سگی ہی تھی۔ اس لیے کہ دونوں کی شکلیں ایک دوسرے سے کسی حد تک مِل رہی تھیں۔
تختِ شاہی پر جلوہ افروز تاج دار نے بغل میں بیٹھی عورت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے پہلو میں بھینچ لیا۔
یہ منظر دیکھ کر معمر شخص کی بھنویں کھِنچ گئیں۔ جیسے سفیدمیانوں سے تلواریں نکل آئی ہوں۔ اس کی آنکھیں قہر آلود ہو گئیں۔ ماتھے پربل پڑ گئے جیسے شہنشاہ کے پہلو میں بھنچی عورت اس کی اپنی بہن ہو، تاج دار تخت سے اٹھ کر محل میں داخل ہوا۔ محل کے مختلف کمروں میں ایک سے ایک طرح دار، ملیح صورت عورت اپنے اپنے کمرے میں تن من سجائے بسترلگائے، انتظار میں آنکھیں بچھائے دروازے پر کھڑی تھی۔
تاج دار نے باری باری سے ایک ایک پہلو کو گرم کیا اور ان سب کی کوکھ میں حمل ٹھہرا کر جھومر ٹیکے والی اس با رعونت عورت کے پاس آ کراس کے لب، رخسار، پیشانی، زلف، شانہ، بازو، ران ایک ایک انگ سے کھیلنے لگا۔
معمر شخص کی کھِنچی ہوئی بھنویں اور کس گئیں۔ اس کی پیشانی کے بل اور گہرے ہو گئے۔ اس نے اپنی سرخ آنکھیں شرم سے نیچی کر لیں۔
کچھ دیربعداس نے نظریں اوپر اٹھائیں تو دیکھا:
نیلے پانی سے نکل کر ہری بھری خشکی پر پھیلی ہوئی دوسری متحرک شکلوں نے بھی اپنی پھولی ہوئی تھیلیوں سے کچھ چھوٹے چھوٹے سنہرے اور روپہلے ٹکڑے اچھال کر جگہ جگہ چہار دیواری کھِنچوا دی تھی اور اپنے اونچے اونچے پختہ و مزّین مکانوں میں طرح طرح کی عورتیں جمع کر کے ان کے آغوش میں اپنی ہم شکل اولادیں ڈال دی تھیں۔
چہار دیواریوں کو دیکھتے ہی معمر شخص کی آنکھیں چونک پڑیں۔ نگاہوں کے سامنے ایک اور چہار دیواری کھڑی ہو گئی——
یہ وہ چہار دیواری تھی جواس کے اپنے گاؤں کے باہر مدّت سے خالی پڑی سرکاری زمین پر کچھ ہی دنوں پہلے کھِنچی تھی۔
اس زمین پراس کے گاؤں کے مویشی چرا کرتے تھے۔ گاؤں کی عورتیں اس میں اپلے تھاپا کرتی تھیں، کبھی کبھاراس میں گاؤں جوار کے بچّے کھیلا بھی کرتے تھے۔ اس زمین سے گاؤں کے سبھی لوگوں کو فائدہ پہنچتا تھا مگر اب وہ زمین کسی اور کے قبضے میں چلی گئی تھی۔
معمر شخص کے کانوں میں اچانک کسی تقریر کے بول گونجنے لگے،
’’بھائیو! بہنو!اور بچّو!آج کا یہ سمارُوہ ایک ایسے گورو پر آبھار پرکٹ کرنے کے لیے آیوجت کیا گیا ہے جس سے ہمارے راشٹرکاسرآکاش کو چھونے لگا ہے، اس گورو کا شَرئے جاتا ہے اِس گاؤں کے اس بیرسپوت کوجس نے دیش کی سیماپردشمنوں کے چھکّے چھڑا دیے، جس نے دشمن کو اپنی دھرتی پر قدم نہیں رکھنے دیا۔ جس نے اپنی دھرتی ماں کی رکشا بہت ہی ویرتاسے کی،یہاں تک کہ اپنی ماتر بھومی کے چرنوں پرجس نے اپنی ٹانگ کی بھینٹ چڑھا دی۔ اس ساہسی، جانثار اور بہادر سپاہی کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔ سرکارنے اس کے یوگ دان اوراس کے بلیدان سے خوش ہو کراسے سمّانت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور یہ فیصلہ لیا ہے کہ دھرتی کو بچانے اور اس کی آن بان کو بڑھانے والے اس بیٖرسپوت کو پُرسکارکے روپ میں دھرتی کاہی ایک ٹکڑا پیش کیا جائے۔
آپ میں سے کچھ لوگ اس بہادرسپاہی کا نام جاننے کے لیے بے چین ہیں تو لیجے میں پردہ اٹھاتا ہوں۔ دوستواس ساہسی سپوت اوربہادرسپاہی کا نام ہے حولدار لڈّن علی خاں !
میں حولدار لڈّن علی خاں کو اپنی طرف سے بدھائی اورسرکارکی اورسے زمین کے کاغذات پیش کرتا ہوں۔ جئے ہند!جے بھارت!‘‘
معمر شخص کی آنکھوں میں ابھری چہار دیواری والی زمین رنگ برنگ کے پھولوں سے لہلہا اٹھی۔
پھولوں کا رنگ لڈّن علی خاں کے چہرے کو رنگین اور روشن بنانے لگا۔
معمر شخص کے چہرے کا رنگ اُڑنے لگا۔ اسے محسوس ہواجیسے بہت سارے کانٹے اس کے جسم میں پیوست ہو گئے ہیں۔ اس نے اپنے اندر چبھن محسوس کی اور اپنی آنکھیں میٖچ لیں۔
وہ دھواں جو بہت پہلے اس کی آنکھوں میں بھرا تھا اورجس کی دھند میں اس کے پوتے دنیش کمار شرما کا چہرہ ڈوبتا چلا گیا تھا، اور جو کچھ دیر کے لیے اس کے آنکھوں کے کسی کونے میں چھپ گیا تھا، پھرسے دیدوں میں آ کر گھنا ہو گیا۔
اس گھنے دھوئیں میں اس کے پوتے دنیش کمار شرما کے علاوہ بھی کچھ لوگ ڈوبے ہوئے محسوس ہوئے۔ انھیں اس نے پہچاننے کی کوشش کی۔ اسے لگاجیسے وہ کسی اچھے ماحول کے پروردہ ہوں، شاید پہاڑی آب و ہوا میں پروان چڑھنے والے لوگ تھے۔ ایسے پہاڑی خطّے کے لوگ جس کی وادیوں میں پھول کھلتے ہیں، پیڑوں پر پھل لگتے ہیں، آبشار پھوٹتے ہیں، جھیلیں بستی ہیں، جھیلوں میں کشتیاں تیرتی ہیں۔
وہ لوگ اس دھوئیں کے دلدل میں اپنی مرضی سے نہیں کودے تھے بلکہ ڈھکیل دیے گئے تھے۔
کافی دیر تک وہ شخص دھوئیں میں دھنسے لوگوں کے بارے میں غور کرتا رہا۔ پھر نگاہیں دھوئیں پر مرکوز کر دیں۔
اس گھنے اندھیرے سے کچھ دیر بعد ایک چہرہ طلوع ہوا۔ چہرے کے ارد گرد کچھ مناظر ابھرنے لگے۔
ایک طرف اونچی اونچی ملیں کھڑی ہو گئیں۔ ملوں کے اندر مشینوں پرتنے سوتی، ریشمی اور اونی دھاگوں کے تانے بانے سے پھوٹتی ہوئی رنگوں کی دھنک باہر آ کراس چہرے کو رنگنے لگیں۔ چہرہ گلنار ہونے لگا۔
دوسری جانب بڑی بڑی بھٹّیاں سلگ اٹھیں۔ بھٹّیوں کے اوپر ملبے چوڑے کڑاہوں میں پگھلتی ہوئی پیلی اورسیمابی دھات طرح طرح کے سانچوں میں ڈھلنے لگی۔ سانچوں سے چم چم کرتی ہوئی منقّش شکلیں باہر نکل کر شیشے کی الماریوں میں سجنے لگیں۔
ان منقش شکلوں کی چمک شیشوں سے پھوٹ کراس چہرے کو چمکانے لگی۔
تیسری طرف آگ کے چولھوں پر چڑھے بڑے بڑے خالی جاروں میں رنگ برنگ کے پھولوں کا انبار لگنے لگا۔ دھیمی آنچ پر پھولے اور پھیلے ہوئے پھول آہستہ آہستہ سکڑنے لگے۔ پتیاں اپنا رنگ و روغن چھوڑنے لگیں۔
جاروں میں کھڑی پھولوں کے پہاڑ جھیلوں میں تبدیل ہو گئے۔ جھیل کا پانی گاڑھا ہو کر خو شبو بکھیرنے لگا۔ رنگ آمیز خوشبو دار پانی کانچ کی ان خوبصورت شیشیوں میں پہنچنے لگا جو پاس ہی میں رقیق مادّوں سے ٹھوس شکلوں میں ڈھل رہی تھیں۔
پھول کی پتّیوں کی رگوں سے نکلا ہوا روغن خوشبو بن کراس چہرے میں سمانے لگا، اسے مہکانے لگا۔
چوتھی جانب تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لوہا پگھل رہا تھا۔ اور وہ پگھلا ہوا اسپات مختلف صورتوں میں ڈھلتا جا رہا تھا۔ کہیں پر چھری، چاقو اور قینچیوں کا ڈھیر لگ رہا تھا تو کہیں پر تالے اور چابیوں کا انبار بڑھتا جا رہا تھا۔
چہرے کے ایک ہاتھ میں چاقواوردوسرے ہاتھ میں چابیوں کا گچھّا چمچمانے لگا۔ ان دونوں چیزوں کی چمک نے چہرے کی تابناکی کو اور بڑھا دیا۔
ایک جانب ایک بکس ابھرآیاجس کے سامنے والے حصّے میں ایک محدّب شیشے کا اسکرین لگا ہوا تھا۔ بکس کے دائیں بائیں سفیدرنگ کے کچھ ڈبّے بھی ابھرے جوبکس سے جڑے ہوئے تھے۔
بکس کے کسی کونے سے کافی لمبی دم والا سفیدرنگ کا ایک چوہا نکلا اور رینگتا ہوا اس چہرے کے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پر بیٹھ گیا۔ ہاتھ کی انگلیاں اس خوبصورت چوہے کی پیٹھ سہلانے لگیں۔ پیٹھ پر انگلیوں کالمس پڑتے ہی چوہا اپنے لب ہلانے لگا۔
لبوں کے ہلتے ہی بکس کے پردے کا رنگ دودھیا ہو گیا۔ دودھیا پردے پر رنگ برنگ کی تحریریں ابھرنے لگیں۔ تحریریں طلسمات کھولنے لگیں۔
نقطے اور لکیروں سے حرف
حرف سے لفظ
لفظ سے جملے
جملے سے عبارت
عبارت سے عبارتیں بننے لگیں
عبارتیں معانی نکالنے لگیں
مفاہیم سمجھانے لگیں
رموزواسرارابھارنے لگیں
برق رفتاری سے کائنات سمٹ کر ایک نقطے پر مرکوز ہونے لگی۔ نقطے سے نکات کی شعاعیں پھوٹنے لگیں
ایک وقفے نے منظر بدل دیا
پردے پر ایک زیرو ابھرا۔
زیرو کے بائیں جانب ایک ہندسہ بنا ۱۰
زیرو کے داہنی طرف ایک اور زیرو ابھرا۔ ۱۰۰
ایک زیرو اور ابھرا۔ ۱۰۰۰
پھر ایک زیرو ابھرا ۱۰۰۰۰
ایک زیرو اور ابھر آیا۔ ۱۰۰۰۰۰
پھر دو زیرو ابھرے۔ ۱۰۰۰۰۰۰
دو اور ابھرے۔ ۱۰۰۰۰۰۰۰۰
پھر دو دو زیرو ابھرتے گئے ۱۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اور اس طرح دو دو کر کے بہت سارے زیرو ابھرتے چلے گئے …
۱۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
زیرو کے اندرسے ایک کرن ابھری اورسفیدچوہے والے چہرے کے پاس آ کر آنکھوں میں سماگئی۔
زیروبکس کے کسی خانے میں محفوظ ہو گئے —
ایک خفیف سے وقفے کے بعد پردہ کورا ہو گیا۔
کورے پردے پر اب ایک چھوٹاسادائرہ بنا۔
دائرہ تھوڑا بڑا ہوا۔
تھوڑا اور بڑا ہوا۔
کچھ اور بڑا ہوا —
پھر بڑا ہوتا چلا گیا —
اتنا بڑا کہ پردے کے آخری کناروں تک پھیل گیا –
دائرے کے درمیان سے پھر ایک شعاع نکلی۔ شعاع فضا میں لہرائی اور چہرے کے قریب پہنچ کر خط و خال میں تحلیل ہو گئی۔
دائرہ سرک کرکسی دوسرے خانے میں مقیم ہو گیا۔
ایک وقفے کے بعد روشن اسکرین پر کچھ سیدھی، کچھ ٹیڑھی، کچھ پڑی، کچھ آڑی ترچھی لکیریں ابھر آئیں ——
لکیریں بڑی ہوئیں اور ایک دوسرے سے مل کر ایک اسکیچ میں تبدیل ہو گئیں۔
اسکیچ میں ہاتھ، پاؤں، آنکھ، منہ، لب وغیرہ بن گئے۔ سب میں رنگ بھر گیا۔ اسکیچ تصویر میں بدل گیا۔
تصویر کے ہاتھ پیر ہلنے لگے۔ آنکھیں دہکنے لگیں۔ لب جنبش کرنے لگے۔ منہ بولنے لگا——تصویر میں جان پڑ گئی۔
جان دارتصویرسے شعاعوں کا ایک ریلا اٹھا اورسیدھے اس چہرے میں داخل ہو گیا۔
چہرہ جگمگا اٹھا۔
معمر شخص کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔
زیرواس کے دل و دماغ پرلپتھوٹرسپی کی طرح ضرب لگانے لگے۔
دائرے بم کے گولوں کی ماننداس کے وجود پربرسنے لگے۔ تصویر کی لکیریں تیر و تبر بن کراسے اندرسے چیرنے لگیں۔
اُدھر چوہے والے چہرے کی آنکھوں میں رقص کرتی ہوئی مسرّت کی ایک اور لہر ہاتھ کی انگلیوں میں پہنچ گئی۔
چوہے نے منہ کھولا۔ پردے پر ایک ہاتھی ابھر آیا۔
ہاتھی اپنے اگلے دونوں پاؤں موڑ کر جھکا اور اپنی سونڈسے ڈنڈوت کر کے پیروں پر کھڑے ہو کراپناسرمٹکانے لگا۔
دوسری جانب سے مونچھوں کا بال تانے، دانت نکالے، غرّاتا ہوا ایک شیر نکلا۔ مگر اس چہرے کے سامنے، آتے ہی شیر کی مونچھوں کے بال جھک گئے۔ دانت جبڑوں میں چھُپ گئے۔ غرّاہٹ بند ہو گئی، ہاتھی کی طرح وہ بھی اپنے پچھلے پیروں پر کھڑے ہو کر کرتب دکھانے لگا۔
کہیں سے بہت تیزی سے ایک سفیدچوہا آیا اور ہاتھی کے سرپرسوارہو گیا۔ وہ ہاتھی کے سرسے شیر کی پیٹھ پر کودا اور اچھل کر پھر ہاتھی کے سرپربیٹھ گیا۔ اوراس طرح باری باری سے دونوں کے اوپر زقندیں لگانے لگا۔
معمر شخص کومحسوس ہواجیسے کوئی اس کے اندر بیٹھا اس کی نسیں کتر رہا ہو۔
تلملا کراس نے اپنی نگاہیں دینو کی طرف موڑ دیں۔ مگر دنیش کمار شرما اپنی اسٹڈی ٹیبل پر موجود نہیں تھا۔
کمرے کاسنّاٹاتیزی سے اس کے اندر اتر گیا۔ لپک کراس نے سگریٹ کی ڈبیا اٹھا لی مگر ڈبیا میں ایک بھی سگریٹ باقی نہیں تھی۔
جھنجھلا کراس نے ڈبیا کو زمین پر پھینک دیا۔ اور فرش کو گھورنے لگا۔ فرش پر جلی ہوئی سگریٹوں کے بے مصرف ٹکڑے جہاں تہاں بکھرے پڑے تھے۔
اسے محسوس ہواجیسے اس کی آنکھوں میں کچھ گر کر گڑنے لگا ہے۔ اوراس کی رگڑسے پانی رس آیا ہے۔
٭٭٭
(۶)
دینو اپنے گرینڈپاکوکسی گہری چنتا کی مدرا میں دیکھ کر وہاں سے کھسک آیا تھا، وہ ان کے پاس سے چلا تو آیا تھا مگر وہ اس کے پاس سے نہیں جا سکے تھے۔ اس کے ذہن میں بیٹھے کبھی وہ اس سے سوال کرتے :
’’بیٹے !لڈنا کا بیٹا کیا تمہارے کالج میں پڑھتا ہے ؟‘‘
’’کیا وہ تمہیں دینو کہہ کر پکارتا ہے ؟‘‘
اس کا دینو کہنا کیا تمہیں برا نہیں لگتا؟‘‘
کیا وہ تمہارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ؟
’’اور کھاتا پیتا بھی ہو گا؟
اور ان کے سوالوں پراس کے اندر ردّ عمل شروع ہو جاتا ’’گرینڈ پا لڈّن علی خاں کو لڈنا کیوں کہتے ہیں ؟‘‘
کیا وہ گرینڈ پاسے چھوٹے ہیں اس لیے ؟
مگر چھوٹا تو میں بھی ہوں بلکہ میں تو بہت چھوٹا ہوں لیکن گرینڈپا مجھے کبھی دینو نہیں کہتے جبکہ دینو کہنے میں تو زیادہ پیار جھلکتا ہے۔
تو کیا گرینڈپا مجھ سے پیار نہیں کرتے ؟
’’نہیں، نہیں، گرینڈپا تو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ پاپاسے بھی زیادہ بلکہ اپنے آپ سے بھی زیادہ۔
تو پھر مجھے وہ دینو کیوں نہیں کہتے۔ ہمیشہ دنیش سے کیوں بلاتے ہیں اوردوسروں کے سامنے تو میرے نام کے ساتھ کمار اور شرما بھی لگانا نہیں بھولتے۔ گرینڈپا میرے نام کے ساتھ ایساکیوں کرتے ہیں ؟
ایساوہ لڈّن علی خاں کے ساتھ کیوں نہیں کرتے ؟انھیں تو یہ نام آدر سے لینا چاہیے۔ اس لیے کہ گورنمنٹ بھی اس نام کوHonourکر چکی ہے۔
دوسری طرف انھیں بٹو کا مجھے دینو پکارنے پر حیرت ہے۔
گرینڈ پاکواس پر حیرت کیوں ہے ؟
بٹو میرا ہم عمر ہے، میراکلاس میٹ ہے۔ میرادوست ہے۔ مجھ سے پیار کرتا ہے اس کے منہ سے دینو مجھے اچھّا لگتا ہے۔ بٹو کے منہ سے میرے لیے دنیش کمار شرما کتنا اٹ پٹا لگے گاجیسے کلاس میںAttendanceلی جا رہی ہو، میرے ساتھ اس کے اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے پربھی انھیںObjection ہے۔
کیوں ؟
کیا وہ اچھوت ہے ؟
کیا اسے چھوت کی کوئی بیماری ہے ؟
کیا وہ کوئی خطرناک مجرم ہے ؟
کیا وہ کوئی چرسی ہے ؟
کیا وہ گندا رہتا ہے ؟
ایساتوکچھ بھی نہیں ہے۔
پھر بھی گرینڈ پاکواس سے پرہیز کیوں ہے ؟
کبھی وہ بٹو اوراس کے خاندان کو باہری ثابت کرنے لگتے اور دینو کا ردّ عمل زور پکڑ لیتا۔
گرینڈ پا اچھّی طرح جانتے ہیں کہ بٹو کا خاندان اپنی سات پشتوں سے یہیں رہ رہا ہے۔ پھر بھی وہ انھیں باہری سمجھتے ہیں۔
ایساکیوں ہے ؟
کیا گرینڈ پاکو بٹو کے گھر والوں سے کوئی ذاتی دشمنی (Personal enmity) ہے۔ ‘‘
’’کیا بٹو کے گھر والوں نے ان کا کچھ بگاڑا ہے ؟‘‘
کیا بٹو یا اس کے باپ نے ان کے ساتھ کبھی کوئی بدتمیزی کی ہے ؟
کیا بٹو یا اس کے باپ دادا نے اس ملک سے کبھی غدّاری کی ہے ؟
کیا وہ عرب اورپاکستان کے Favourمیں بولتے ہیں ؟
ایساتوکبھی سننے میں نہیں آیا۔
بلکہ بٹو توہم سے بھی زیادہ دیش بھکت ہے۔
کالج کا ایک واقعہ اس کی آنکھوں میں تیر گیا۔
کرکٹ میچ میں پاکستان کی جیت پر ایک لڑکا مٹھائی بانٹ رہا تھا، بٹو نے اس لڑکے کے ہاتھ سے مٹھائی کا دونا چھین کر زمین پر پھینک دیا تھا اور غصّے میں اس لڑکے کے گال پر ایک زور کا تھپڑ بھی جڑ دیا تھا۔
اسے ایک اور واقعہ یاد آنے لگا
وہ ایک دن اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ رنجیت شرما اپنی عادت کے مطابق ایک ایک چیز کو ٹھوکر مارتا ہوا چل رہا تھا۔ اب کے اس نے جس چیز کو ٹھوکر ماری وہ پھٹا ہوا ترنگا جھنڈا تھا۔
بٹو نے آگے بڑھ کراس پھٹے ہوئے گرد آلود ترنگے کو اٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا—اس پر ہم سب کاسرشرم سے نیچے جھک گیا تھا۔
مجھے گرینڈپا کو یہ بات بتانی چاہیے تھی۔ اب کبھی وہ بٹو کی بات چھیڑیں گے تووہ ضرور انھیں یہ واقعہ سنائے گا۔
بٹو کا تو دل بھی بہت بڑا ہے۔ دینو کو ایک اور بات یاد آنے لگی
’’بٹو مجھے تمہارے نوٹس چاہیے۔ ‘‘
’’لے لینا۔ ‘‘
’’تمہاری اسٹڈی سفرتونہیں کرے گی؟‘‘
’’کرے گی تو مگر میںManageکر لوں گا۔ ‘‘
’’اگر تمہارے نوٹس سے میرے بھی نمبر تمہارے برابر آ گئے تو؟‘‘
’’تو کیا ہوا، ہم دونوں کی پوزیشن آ جائے گی۔ ‘‘
’’تم یہ بات دل سے کہہ رہے ہو؟‘‘
’’کیوں ؟تمہیں جھوٹ لگ رہا ہے ؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’لیکن یہ سچ ہے۔ تمہیں پوزیشن آ جائے تو واقعی مجھے خوشی ہو گی۔ کاش میں ہنومان جی ہوتاتوسیٖنہ پھاڑ کر تمہیں دکھا دیتا کہ جواس وقت میری زبان پر ہے، وہی میرے دل میں بھی ہے ‘‘
گرینڈ پا کبھی سوال کر کے اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگتے :
’’کیا تم اسے دیکھنے گئے تھے ؟‘‘
گرینڈ پانے مجھ سے یہ سوال کیوں کیا تھا؟
ان کا منہ کیوں بگڑا تھا؟
میری طرف عجیب نظروں سے انھوں نے کیوں دیکھا تھا؟
کیا اس لیے کہ انھوں نے بٹو کو خودPunishکیا تھا؟
مگر بٹو قصور وار نہیں ہے
وہ بیمار اور زخمی ہے
مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی ہے
ایسا انسان جومیرادوست بھی ہے
تو کیا ایسے آدمی کوایسے موقع پر دیکھنے نہیں جانا چاہیے
مگر گرینڈ پانے بُرا مانا۔
’’برا کیوں مانا؟
’’کیا ہندو لڑکیاں بھی؟‘‘
گرینڈ پانے اس طرح کیوں سوچا؟
ان کی آنکھیں اس قدر کیوں پھیلیں ؟
’’مسلمان لڑکے کی ہندو لڑکیاں دوست کیوں نہیں ہو سکتیں ؟
جن ہندو لڑکیوں نے اسے دوست بنایا انھوں نے یہ کیوں نہیں سوچاکہ بٹو مسلمان ہے ؟
سونم کیوں نہیں سوچتی کہ وہ ایک مسلمان لڑکے سے پیار کرتی ہے ؟
مسلم لڑکیاں مجھ سے کیوں دوستی کرتی ہیں ؟وہ کیوں نہیں سوچتیں کہ میں کوئی احمد یا علی نہیں، بلکہ دنیش کمار شرما ہوں ؟
بٹو کی بہن لاڈلی مجھے راکھی کیوں باندھتی ہے ؟میری کلائی اسے ایک ہندو کی کلائی کیوں نہیں لگتی؟
اس کی نظریں اپنی کلائی پر پہنچ گئیں۔ اس کی کلائی پر لاڈلی کی انگلیاں چمکنے لگیں۔
انگلیوں سے دھاگے ابھرنے لگے
دھاگے رشتوں کے تانے بانے بننے لگے
تانے بانوں سے مِلنے لگے۔
بانے تانوں کے قریب آ گئے
دونوں کے درمیان کا کھانچا بھر گیا
کھانچے کے بھرتے ہی رنگ پھوٹ پڑا
روشنی جھلملا اٹھی۔
رنگ آمیز روشنی میں لاڈلی کی انگلیاں کر نڑوتی کی انگلیوں میں تبدیل ہو گئیں۔
کلائی نے ہمایوں کی کلائی کا روپ دھارن کر لیا۔
ہمایوں نے کرنڑوتی کے سرپراپناہاتھ رکھ دیا
بٹو ، سونم، لاڈلی، میں، ہم میں سے کوئی ایسانہیں سوچتامگرگرینڈپاسوچتے ہیں۔
گرینڈ پا ایساکیوں سوچتے ہیں ؟
دینو کے اندر گرینڈپا کے سوالوں اور ان کے رویوں پر ردّ عمل شروع ہوا تو دیر تک چلتا رہا۔
کچھ اس کی سمجھ میں آیا، کچھ نہیں آیا۔
٭٭٭
(۷)
معمّر شخص کی آنکھوں میں ابھرے منظروں سے اس کے سینے میں مچی ہلچلوں نے اسے چین نہیں لینے دیا۔
جلد ہی اس نے اک مخصوص مٹنگ طلب کی۔ مٹنگ میں خاص خاص لوگوں کو بلایا گیا۔
مٹنگ میں شرکت کرنے والے سبھی اہم ممبران آ چکے تھے۔ پھر بھی مٹنگ کی کار روائی رکی پڑی تھی، ماحول پرسنجیدگی اور ایک طرح کی پُر اسراریت طاری تھی۔
معمر شخص کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے، وہ کسی مناسب سِرے کی تلاش میں بہت دیرسے لگا ہوا تھا مگر کوئی ایساسِراپکڑ میں نہیں آ رہا تھا، ۔ اس کے ذہن کی حالت اس کے چہرے پربھی سمٹ آئی تھی۔
’’آپ بہت چنتت دکھائی دے رہے ہیں، کوئی خاص بات ہے کیا؟‘‘
ایک ممبر نے خاموشی توڑنے کی کوشش کی۔
ہاں، بات تو خاص ہی ہے۔ ‘‘معمر شخص نے گمبھیر لہجے میں جواب دیا
’’کیاسرکار ڈانوا ڈول ہو رہی ہے یا پارٹی میں پھر کوئی کھٹ پٹ ہو گئی ہے ؟‘‘
’’یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘
تو مڈ ٹرم پول آنے والا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
’’کچھ پھیر بدل تو نہیں ہو رہا ہے ؟‘‘
’’نہیں،یہ بات بھی نہیں۔ ‘‘
’’کوئی چھاپا واپا تو نہیں پڑنے والا ہے ؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
’’کوئی انکوائری ؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
’’کسی نے للکارا تو نہیں ؟‘‘
’’نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘‘
’’تو پھر آپ اتنے گمبھیر مدرا میں کیوں بیٹھے ہیں ؟‘‘
’’میں بٹو کولے کر پریشان ہوں۔ ‘‘
’’کون بٹو ؟‘‘
’’وہی، پرسوں نرسوں والا بٹو ۔ ‘‘ ایک ممبر نے بٹو کی پہچان کی طرف اشارہ کیا۔ ‘‘
’’آپ لوگ اس لنگڑے کی اولاد کی بات تو نہیں کر رہے ہیں ؟‘‘
’’ہاں وہی، ‘‘ معمّر شخص نے نہایت دھیمی آواز میں جواب دیا۔
’’کیا پھر اس نے کچھ گڑبڑ کی؟‘‘
’’نہیں ‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’اس کے باپ نے اس کی اور سے چھما تو مانگ لی تھی پر۔ ۔ ۔ معمر شخص کچھ بولتے بولتے رک گیا۔
’’پر کیا؟‘‘ ایک ساتھ کئی آواز گونجیں۔
’’بٹو کے لچھّن کچھ ٹھیک نہیں دِکھتے۔ ‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس رات اس کے تیور بڑے آ کرامک تھے۔ ‘‘ ایک اور ممبر نے تائید کی۔
’’سچ، وہ ہم سب کے سامنے بھی ایسے اکڑ کر بات کر رہا تھا جیسے وہ کوئی ہمارا پرتی دوندی ہو۔ ‘‘ ایک اور نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’بالکل صحیح کہہ رہے ہیں آپ لوگ۔ وہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ لڈنا کا بیٹا ہے۔ ‘‘ ایک اور ممبر نے اظہارِ خیال کیا۔
’’کیا پتا اصلیت میں بھی نہ ہو۔ ‘‘
’’بھیّا جی ٹھیک بول رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ ہم میں سے ہی کسی کا–‘‘
معمر شخص کو چھوڑ کر تقریباً سبھی کے ہونٹوں پر ہنسی ابھر آئی۔
’’اس گمبھیرسمسیا کو ہنسی میں نہ اڑائیے۔ ‘‘ معمر شخص نے ان کی طرف فکرمند آنکھوں سے دیکھتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’سوری! چھما چاہتا ہوں، ‘‘ مذاق کرنے والے کے ساتھ دوسرے ممبران بھی سنجیدہ ہو گئے۔
کچھ دیر تک ماحول پر سنّاٹا طاری رہا۔
’’سمسیا تو سچ مچ سیریس ہے۔ وہ سسرا بِتّے بھر کا لونڈا کیساConfidence کے ساتھ بول رہا تھا۔ جیسے وہی کھانٹی ہو۔ ‘‘ ایک ممبر نے ماحول کے بوجھل پن کو دور کرنے کی شروعات کی۔
’’ایک بات تو ماننی پڑے گی۔ ‘‘ایک ممبر بہت ہی سنجیدہ لہجے میں بولا
’’کیا؟‘‘ ایک ساتھ کئی ہونٹ ہلے۔
’’اسے بھی یہاں کی مٹی سے لگاؤ ہے۔ ‘‘
’’سو تو ہے۔ ‘‘ کئی آوازوں نے تائید کی۔
معمر شخص کے کانوں میں دینو کے جملے گونجنے لگے :-
’’گرنیڈپا، آپ کو شاید نہیں معلوم بٹو تو ہم لوگوں سے بھی بڑا دیش بھکت ہے۔ ‘‘
ہمارے ایک ساتھی نے جس پھٹے ہوئے ترنگا جھنڈے کو ٹھوکر مار کر کنارے کر دیا تھا، اسے زمین سے اٹھا کر بٹو نے اپنی آنکھوں سے لگا لیا اور ایک دن تو اس نے ایک لڑکے کے گال پر تھپّڑ جڑ دیا تھا اس لئے کہ وہ پاکستان کی جیت پر مٹھائی بانٹ رہا تھا۔
معمّر شخص کا چہرہ اور گمبھیر ہو گیا، وہ ایک ایک آدمی کی طرف پُر اسراربھاؤ کے ساتھ دیکھتے ہوئے بولا:-
’’یہی تو چنتا کا کارن ہے۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘ سبھی ایک ساتھ چونک پڑے۔
معمّر شخص نے گہری سانس لے کر بولنا شروع کیا۔
’’اُسے اس مٹّی سے اتنا لگاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘
اس جملے کو سنتے ہی تمام آنکھیں ایک بار پھر چونک کر معمّر شخص کی فکرمند آنکھوں پر مرکوز ہو گئیں۔
مٹّی سے لگاؤ کے کے تانے بانے معمّر شخص کی آنکھوں سے نکل کر ان تمام لوگوں کی آنکھوں میں تننے لگے۔ ان کے چہروں پر بھی چنتا کے جالے ابھرنے لگے۔
’’کیول یہی نہیں، ہماری چنتا کا ایک کارن اور بھی ہے۔ ‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’ہماری نئی پیڑھی۔ ‘‘
’’ہماری نئی پیڑھی؟‘‘
اسے کیا ہو گیا ؟‘‘
’’ہاں، ہماری نئی پیڑھی جسے کچھ بھی اٹ پٹا نہیں لگتا، ہم جو دیکھتے ہیں اسے دکھائی نہیں دیتا۔ ہماری سوچ بھی اس کی سمجھ میں نہیں آتی جسے نہ اپنے بھوت کی پرواہ ہے اور نہ ہی بھوشیہ کی چنتا! سچ ہماری یہ پیڑھی ہماری آنکھ سے نہیں دیکھتی۔ ‘‘
معمّر شخص کی آنکھیں اور چنتت ہو گئیں۔ اس کا چہرہ پہلے سے زیادہ گمبھیر ہو گیا۔
سبھا میں موجود لوگوں کی پھیلی ہوئی آنکھیں اور پھیل گئیں۔ جالوں کے تانے بانے گھنے ہوتے چلے گئے۔
چنتت ذہن چنتن منن میں بیٹھ گیا۔
مِنتھن شروع ہو گیا۔
٭٭٭
(۸)
سنو! سنو! سنو!
آواز نے سب کو چونکا دیا:
متحرک پاؤں ٹھٹھک گئے۔ مصروف ہاتھ رُک گئے۔ کان اعلان سننے کے لیے بے قرار ہو اٹھے۔
’’بھائیو اور بہنو! بزرگو اور بچو! آج رات رام لیلا گراؤنڈ میں دیش کی مشہور ناٹک منڈلی اپنا نیا ناٹک ’’ساگر منتھن‘‘ پرستوت کرے گی۔ اس کھیل میں منجھے ہوئے کلا کار اپنے ابھنیے کا کمال دکھائیں گے۔ آج کا یہ رومانچک کھیل آپ دیکھنا نہ بھولیں۔ خود آئیں اور اپنے ملنے والوں کو بھی ساتھ لائیں۔ ‘‘
ناٹک کا مژدہ سن کر لوگوں کے دلوں میں ترنگ بھر گئی۔ ٹھہرے ہوئے ہاتھ پاؤں دوبارہ حرکت میں آ گئے۔ بند پڑے کام تیزی سے نمٹنے لگے۔ آنکھیں روشنی کے جانے اور تاریکی کے آنے کی دعائیں مانگنے لگیں۔
دن ڈھلتے ہی رام لیلا گراؤنڈ کے پنڈال میں لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ نگاہیں پردے کے پیچھے کے منظر کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہو گئیں۔ تجسّس منتہا کو پہنچنے لگا۔
یکایک پردہ اٹھ گیا۔
منظر اپنے ایک ایک خط و خال کے ساتھ آنکھوں میں بسنے لگا۔ اسٹیج کے درمیانی حصّے میں بنا مصنوعی سمندر۔ سمندر کے وسط میں گھومتا ہوا اسٹیل کا ایک گول مٹول کھمبا۔ کھمبے سے لپٹی ہوئی پلاسٹک کی موٹی رسّی۔ رسّی کے دونوں سروں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے بہت سارے لوگ۔
ایک طرف کے لوگوں کا تین چوتھائی جسم کپڑوں سے خالی۔ سر پر روکھے پھیکے بے ہنگم بال۔ چہرے کاجھلساہوارنگ۔ دھنسی ہوئی آنکھیں۔ پچکے ہوئے گال۔ ہونٹوں پر پپڑیاں۔ چھاتی کی ابھری ہوئی پسلیاں۔ ننگے پاؤں۔ پنڈلیوں اور ہاتھوں پر کن کھجوروں کی طرح پھولی ہوئی رگیں۔
دوسری جانب کے لوگوں کا بدن سر سے پاؤں تک ڈھکا ہوا۔ سڈول ہاتھ پاؤں۔ بھرے ہوئے گال۔ چمک دار چہرے۔
دونوں طرف کی نگاہیں سمندر کی سطح پر مرکوز۔
مسلسل گھومتے ہوئے کھمبے کے پاس سے نکلتا ہوا ایک خاص طرح کا شور۔ سطح سے اٹھتا ہوا جھاگ۔
اسٹیج کے ایک حصّے میں کرسیوں پر عمدہ لباس زیب تن کیے ہوئے کچھ معمّر اور سنجیدہ افراد۔
ایک گوشے میں کچھ بڑے چھوٹے برتن، رسیّوں کا گٹھر وغیرہ۔
کرسیوں پر براجمان افراد میں سے ایک شخص کھڑا ہوا۔
’’دیویو تتھا سجَّنو! ساگر منتھن شروع ہو چکا ہے۔ دھیان سے دیکھیے اور پرارتھنا کیجیے کہ سُمدر کے گربھ سے وہ سب کچھ باہر نکل آئے جس کی ہمیں آوشیکتا ہے اور ہمارا اُدشیہ ایک ایک منشیہ تک پہنچ جائے جس کے لیے یہ رچنا رچی گئی ہے۔ دھنیہ واد۔ ‘‘
مجمعے کی آنکھیں اسٹیج پر مرکوز ہو گئیں۔ کچھ گوشوں میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔
کرسی سے تھوڑی دیر بعد ایک دوسرا آدمی کھڑا ہوا۔
’’ہمارے پیارے تماش بین! آپ کی بد بداہٹیں اور آنکھوں کی پتلیوں کی گردشیں یہ بتا رہی ہیں کہ آپ کچھ حیران ہیں۔ آپ کی حیرانی کی وجہ شاید یہ ہے کہ آپ ساگر منتھن کے قصّے سے پرچت ہیں۔ آپ کے من میں یہ پرشن اٹھ رہے ہوں گے کہ آج کے منتھن میں دیوتا اور دانو کی جگہ مانو، پربت کے استھان پر اسٹیل کا کھمبا، اور ناگ راج واسو کی کی جگہ پلاسٹک کی رسّی کیوں ؟ آپ کے یہ پرشن سبھاوک ہیں لیکن آپ دھیرج رکھیے۔ ناٹک کا انت آتے آتے آپ کے ان تمام سوالوں کے جواب اوشیہ مل جائیں گے۔ ‘‘
سرگوشیاں رک گئیں۔ لوگوں کی نظریں سمندر کی سطح پر مرکوز ہو گئیں۔ البتہ کچھ نظریں اب بھی اسٹیج پر گردش کرتی رہیں۔
’’دیکھو! دیکھو! کچھ نکل آیا۔ ‘‘ اسٹیج پر بیٹھے کسی کے منہ سے یہ آواز گونج پڑی۔
یکبارگی منتھن رک گیا۔ رسّی کھینچنے والوں کی نگاہیں سطحِ آب کا جائزہ لینے لگیں۔ ان کی آنکھوں میں چمک دوڑ گئی۔ پیشانی پر نور جھلملانے لگا۔
اسٹیج پر بیٹھے کچھ لوگ اپنی جگہ سے اُٹھ کر سمندر کے پاس پہنچے اور گربھ سے نکلے پدارتھ کو پانی سے نکال کر ایک بڑے سے برتن میں رکھ دیا۔
’’کیا نکلا ہے صاحب؟‘‘ تین چوتھائی عریاں جسموں والے لوگوں کی جانب سے سوال کیا گیا۔
کرسی پر بیٹھے معمّر اشخاص میں سے ایک فرد کھڑا ہوا۔
’’آپ کا سوال بالکل فطری ہے۔ آپ کی محنت سے جو رتن نکلا ہے اس کے بارے میں آپ کو جاننے کا پورا پورا ادھیکار ہے پرنتو بنا جانچے پرکھے یہ بتانا سمبھو نہیں ہے کہ ابھی ابھی سمدر کے گربھ سے جو رتن نکلا ہے وہ کیا ہے ؟ اس کے لیے ابھی آپ کو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘
منتھن پھر سے جاری ہو گیا۔ رکے ہوئے ہاتھ رسّی کھینچنے میں مصروف ہو گئے۔ ہاتھوں کی رگیں پھولنے لگیں۔ جسم سے پسینہ بہنے لگا۔ آنکھیں کسی اور رتن کے انتظار مین سمندر کی سطح پر مرکوز ہو گئیں۔
تین چوتھائی ننگے بدن والے لوگوں کی صف کا ایک آدمی اچانک لڑکھڑانے لگا۔
’’کیا کر رہے ہو، ٹھیک سے رسّی کھینچو انیتھا سنتولن بگڑ جائے گا۔ ‘‘
کرسی پر بیٹھے اشخاص میں سے ایک نے قدرے سخت لہجے میں ٹوکا۔
’’کمزوری سے چکّر آ گیا صاحب! اس لیے۔ ۔ ‘‘ اس کی زبان بند ہو گئی۔ کمزوری کے سبب وہ جملہ پورا نہ کر سکا۔
’’یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم اب کام کے لائق نہیں رہے ’’نہیں کھینچا جا رہا ہے، تو اُدھر جا کر بیٹھ جاؤ۔ ‘‘
’’اچھا صاحب۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ صف سے نکل کر کنارے جا کر بیٹھ گیا اور اس کی جگہ اسی کے قبیلے کا ایک آدمی آ کر رسّی کھینچنے میں مصروف ہو گیا۔
’’پھر کچھ نکلا۔ ‘‘ شور بلند ہوا۔
یک بارگی رسّی کھینچنے والوں کے ہاتھ رک گئے۔ نگاہیں سطحِ آب پر مرکوز ہو گئیں۔ حسبِ معمول کچھ لوگ کرسیوں سے اٹھ کر پانی کے پاس پہنچے اور تہہ سے سطح پر آئے پدارتھ کو نکال کر ایک برتن میں رکھ دیا۔
منتھن پھر سے جاری ہو گیا۔ رکے ہوئے ہاتھ پھر سے رسّی کھینچنے میں مصروف ہو گئے۔ ہاتھوں کی رگیں تننے لگیں۔ جسم سے پسینہ بہنے لگا۔ آنکھیں کسی اور رتن کا بے صبری سے انتظار کرنے لگیں۔
’’کیا نکلا ہو گا؟‘‘ تماشائیوں کے ایک گوشے میں ایک نے دوسرے سے پوچھا۔
’’پہلی بار تو کوئی نیلے رنگ کا پدارتھ نظر آیا تھا۔ ‘‘
’’اور اس بار؟‘‘
’’اس بار ٹھیک سے دھیان نہ دے سکا۔ ‘‘
’’پہلا والا وِش تو نہیں تھا؟‘‘
’’ہو سکتا ہے۔ ‘‘
’’اور دوسرا والا امرت ہو؟‘‘
’’سمبھو ہے۔ ‘‘
’’یار انھیں بتانا چاہیے۔ ‘‘
’’بتائیں گے۔ ‘‘
’’کب؟‘‘
’’جب منتھن پورا ہو جائے گا۔ ‘‘
’’پھر کھیل میں ہماری دلچسپی کیسے بنی رہے گی؟‘‘
کچھ دیر بعد رسّی کھینچنے والے ہاتھ پھر رک گئے۔ نگاہیں سمندر سے نکلے پدارتھ پر مرکوز ہو گئیں۔ کچھ لوگ آگے بڑھے۔ سطح سے رتن کو نکال کر ایک تیسرے برتن میں رکھ دیا گیا۔
رسّی کھینچنے کا عمل جاری رہا۔ مگر اس بار کافی دیر بعد بھی کچھ نہیں نکلا۔
رسّی کھینچنے والوں کی پریشانی بڑھ گئی۔ کمزور جسم لڑکھڑا کر زمین پر گرنے لگے۔
’’دیکھیے ! ہمّت نہ ہارئیے۔ اور زور لگائیے۔ رفتار بڑھائیے۔ ابھی سمندر کے گربھ میں بہت کچھ ہے۔ آشا ہے، وہ سب کچھ بھی باہر آ جائے گا جو ابھی تک تہہ میں پڑا ہوا ہے۔ ‘‘
کرسی پر بیٹھے بیٹھے ایک نے رسّی کھینچنے والوں کی ہمّت بڑھائی۔
زور اور رفتار دونوں میں اضافہ ہو گیا۔
مگر دھیرے دھیرے چہروں پر مایوسی چھانے لگی۔ آنکھوں سے نا امیدی جھانکنے لگی۔ رسّی کھینچنے کا عمل سست پڑنے لگا۔ مایوسی اور نا امیدی کی پرت گہری ہوتی گئی۔
اور اچانک منتھن کا کام رک گیا۔
دونوں طرف کے لوگ ان برتنوں کے ارد گرد جا کر کھڑے ہو گئے جن میں ساگر سے نکلے ہوئے رتنوں کو رکھا گیا تھا۔
’’دیکھیے۔ شانتی سے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جائیے اور دھیرج بنائے رکھیے۔ بس تھوڑی ہی دیر میں ہم ان رتنوں کا پریکشا کرنے والے ہیں۔ ‘‘ اسٹیج سے ایک آواز گونجی۔
آواز سنتے ہی اسٹیج اور پنڈال دونوں طرف کی بدبداہٹیں رک گئیں۔ لوگ اپنی اپنی جگہ پر لوٹنے لگے۔
ایک آدمی ایک برتن کے قریب پہنچا۔ اور اس میں سے رقیق مادہ نکال کر کچھ لوگوں کو پینے کے لیے دیا۔
رقیق مادہ پیتے ہی وہ لوگ چکر کھا کر دھڑام سے زمین پر گر پڑے۔ ان کے منہ سے نیلے رنگ کا جھاگ نکلنے لگا۔ کچھ دیر تک وہ مچھلی کی طرح چھٹپٹاتے رہے۔ پھر سب نے آہستہ آہستہ اپنا دم توڑ دیا۔
ماحول میں خوف و ہراس کی فضا چھا گئی۔
وہ آدمی دوسرے برتن کے پاس پہنچا اور اس میں سے رقیق مادہ نکال کر کچھ اور لوگوں کی طرف بڑھا۔ بڑی مشکل سے وہ لوگ اس رقیق شئے کو اپنے لبوں سے لگا پائے۔
لبوں سے لگتے ہی، ان کا حال بھی وہی ہوا جو پہلے برتن کے رقیق مادہ پینے والوں کا ہوا تھا۔
دہشت اور بڑھ گئی۔
ہمت کر کے اس آدمی نے تیسرے برتن سے رقیق شے نکال کر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کچھ لوگوں کی طرف بڑھایا مگر اسے لینے کے لیے کوئی بھی ہاتھ آگے نہ بڑھ سکا۔
’’ڈرئیے نہیں،یہ کوئی آوشیک نہیں کہ یہ بھی وہی ہو۔ ‘‘
’’سمبھو ہے یہ امرت ہو۔ دیکھیے، اس کا رنگ بھی پہلے والے رتنوں سے بھنّ ہے۔ آپ ہاتھ نہیں بڑھائیں گے تو کیسے پتا چلے گا کہ یہ کیا ہے۔ ویسے میں آپ کو وشواس دلاتا ہوں کہ یہ امرت ہی ہے۔ آپ اسے پیجئے اور پی کر امر ہو جائیے۔ ‘‘
’’۔ ۔ ٹھیک ہے، اسے میں ہی پی کر دیکھتا ہوں۔ ‘‘
ڈرتے ڈرتے اس شخص نے پیالے کو اپنے لبوں سے لگا لیا مگر اس کا خیال غلط ثابت ہوا۔ اسے پیتے ہی اس کا بھی وہی حشر ہوا جو دوسروں کا ہوا تھا۔
یہ دیکھتے ہی چاروں طرف سنّاٹا چھا گیا۔ لوگ حیرت اور خوف سے ان برتنوں کو تکنے لگے جن میں موجود رقیق شے نے کتنوں کی جان لے لی تھی۔
’’اس بار امرت کیوں نہیں نکلا۔ ‘‘ اسٹیج کے کسی آدمی کے منہ سے یہ جملہ سہما ہوا نکلا۔
مگر اس سوال کا جواب کسی کے بھی منہ سے باہر نہیں آیا۔
چاروں طرف خاموشی چھائی رہی۔
’’آج کا منتھن تو وچتر رہا۔ ‘‘ کافی دیر بعد اسٹیج کا ایک آدمی بولا۔
’’ہاں، پرینام پہلے جیسا نہیں نکلا۔ ‘‘ دوسرے نے سُر میں سُر ملایا۔
’’آخر ایک ہی تتو کیوں نکلا؟ وہ بھی وش!‘‘
’’میں بھی تو اس پرشن سے پریشان ہوں۔ ‘‘
’’اس کا رہسیہ کیا ہو سکتا ہے ؟‘‘
’’مجھے کیا پتا؟‘‘
’’کس کو پتا ہو گا؟ کس سے پوچھا جائے ؟‘‘
’’سمبھو ہے گیانیشور رشی کچھ پرکاش ڈال سکیں۔ ‘‘
’’تو ہمیں رشی جی کے پاس چلنا چاہیے۔ ‘‘
’’ساتھیو آپ سب یہیں رکیے، ہم لوگ گیانیشور رشی کے پاس اس رہسیہ کا پتا لگانے جا رہے ہیں۔ ‘‘
کرسی پر بیٹھے لوگوں میں سے کچھ لوگ اٹھ کر رشی گیانیشور کے استھان کی طرف چل دی یے۔
پردہ گر گیا۔
دوسرا منظر
[ایک ہرا بھرا باغ۔ باغ کے ایک کونے میں سجی سنوری کٹیا۔ کٹیا کے اندر مرگ چھالے پر آسن جمائے دھیان میں بیٹھے سنت گیانیشور۔ پردے کے ایک طرف سے کچھ تھکے ہارے حیران و پریشان لوگ داخل ہوئے اور رشی گیانیشور کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ [
کافی دیر بعد رشی نے اپنی آنکھیں کھولیں۔
’’نمسکار منی ور!‘‘ رشی کی کٹیا نمسکار کی آواز سے گونج اٹھی۔
’’آپ لوگ کون ہیں اور کس لیے پدھارے ہیں ؟‘‘ رشی نے گردن اٹھا کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم اسی نگری کے باسی ہیں منی ور! ایک سمسیا کا سمادھان چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’سمسیا کیا ہے ؟‘‘
’’امرت۔ ‘‘
’’تنک کھول کر بتائیے۔ ‘‘
’’جی منی ور! بات یہ ہے مہاراج کہ ہم نے سمندر منتھن کیا پرنتو اس بار اس میں سے کیول ایک تتو نکلا۔ ‘‘
’’کیول ایک تتو؟‘‘ رشی کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’ہاں منی ور! ماتر ایک تتو۔ ‘‘
’’وہ تتو امرت ہو گا؟‘‘
’’نہیں، وہ وِش ہے منی ور۔ ‘‘
’’وِش ہے !‘‘ رشی کی آنکھیں کچھ اور پھیل گئیں۔
’’امرت تو نکلا ہی نہیں، منی ور۔ ‘‘
’’پرنتو یہ کیسے پتا چلا کہ ساگر سے جو رتن نکلا ہے، وہ امرت نہیں، وِش ہے ؟‘‘
’’پریکشا کے پشچات منی ور! اسے کچھ لوگوں کو پینے کے لیے دیا گیا۔ پرنتو ہونٹوں سے لگاتے ہی وہ لوگ زمین پر گر پڑے۔ پہلے ان کے منہ سے جھاگ نکلا۔ پھر پورا شریر نیلا پڑ گیا اور وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اوہ!‘‘ گیانیشور منی چنتت ہو اُٹھے۔
’’منی ور! اس بار منتھن سے امرت کیوں نہیں نکلا؟‘‘
رشی خاموش رہے۔
یہ دیکھ کر کہ گیانیشور منی آنکھیں موند کر دھیان میں لین ہو گئے ہیں، کسی نے پھر کوئی سوال نہیں پوچھا۔ کافی دیر بعد بھی جب رشی اپنے دھیان سے باہر نہیں آئے تو ان میں سے ایک نے پھر وہی سوال دہرایا۔
’’منی ور! اس بار منتھن سے امرت کیوں نہیں نکلا؟‘‘
دھیان سے باہر آتے ہوئے رشی نے نہایت ہی گمبھیر لہجے میں جواب دیا۔
’’امرت ہو تب تو نکلے۔ ‘‘
’’ہم سمجھے نہیں منی ور؟‘‘
’’ساگر کے گربھ سے امرت پہلے ہی نکل چکا ہے۔ ‘‘
’’امرت پہلے ہی نکل چکا ہے ؟‘‘ ایک ساتھ سبھی چونکے۔
’’ہاں، اسے نکال کر کچھ لوگوں نے پہلے ہی پی لیا ہے۔ ‘‘
’’کچھ لوگوں نے پی لیا ہے ! کس طرح منی ور؟‘‘
’’متھ کر‘‘
’’تو کیا ہم سے پہلے بھی ساگرمتھ چکا ہے۔ ‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’منی ور! وہ کون ہیں جنہوں نے ہم سے پہلے ساگر کو متھ لیا۔ منی ور کہیں آپ کا سنکیت دیوتاؤں کی اور تو نہیں ہے ؟‘‘
’’نہیں، دیوتاؤں نے تو بہت پہلے متھا تھا۔ یہ ان کے بعد کی بات ہے۔ ‘‘
’’منی ور یہ کب کی بات ہے اور منتھن کرنے والے کون ہیں ؟‘‘
’’یہ کچھ دنوں پہلے کی بات ہے اور متھنے والے بھی تمھارے ہی بیچ کے لوگ ہیں۔ ‘‘
’’ہمارے بیچ کے ؟‘‘
’’ہاں، وہ تمھارے ہی بیچ رہتے ہیں۔ ‘‘
’’ان کا کچھ اتا پتا منی ور۔ ‘‘
’’ہم اس سے ادھیک نہیں بتا سکتے کہ وہ کسی اور لوک کے باسی نہیں بلکہ تمہاری ہی دھرتی پر تمہارے ہی ساتھ رہتے ہیں۔ ‘‘
’’اب کیا ہو گا منی ور؟‘‘
’’اُپ چار۔ ‘‘
’’کیسا اُپچار منی ور؟‘‘
’’امرت کی پونہہ پر اپتی کا اُپچار۔ ‘‘
’’کیا امرت پھر سے پراپت ہو سکتا ہے ؟‘‘
’’ہاں، ہو سکتا ہے۔ ‘‘
’’کیا یہ سمبھو ہے ؟‘‘
’’سمبھو ہے پر———‘‘
’’پر کیا منی ور؟‘‘
’’اُپچار سرل نہیں ہے۔ بہت ہی کٹھن اور کشٹ دائک ہے۔ ‘‘
’’امرت کے لیے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سب کچھ سہہ لیں گے۔ آپ بتائیے تو سہی۔ ‘‘
’’جن لوگوں نے امرت پیا ہے، ان کے بھیتر سے اسے کھینچنا ہو گا۔ ‘‘
’’ان کے بھیترسے ؟‘‘
’’ہاں ان کے بھیتر سے۔ ارتھات ان کے شریر سے۔ ‘‘
’’پرنتو یہ کیسے سمبھو ہے منی ور؟‘‘
’’سمبھو اس پرکار ہے کہ امرت ابھی بھلی بھانتی ان کے شریر میں گھلا ملا نہیں ہے۔ ارتھات وہ امرت کو ابھی تک پچا نہیں پائے ہیں۔ اُپچار سے اب بھی امرت ان کے شریر سے باہر نکل سکتا ہے۔ ‘‘
’’کیا اُپچار کرنا ہو گا منی ور؟‘‘
’’یہ کاریہ میرا نہیں۔ اُپچار آپ کو سوچنا ہے۔ اسے آپ کو ڈھونڈنا ہے۔ ہمارا کاریہ کیول مارگ درشن تھا، سو ہم نے کر دیا۔ ‘‘
’’منی ور!‘‘
’’بولیے ‘‘
’’اِس وش کا ہو گا؟‘‘
’’اسے تو کسی نہ کسی کو پینا ہی پڑے گا۔ انیتھایہ سموٗچے سنسار کو وشیلا کر دے گا۔ اس کے پربھاؤ سے یہ سرشٹی ہی نشٹ ہو جائے گی۔ ‘‘
’’اس کے لیے کوئی اُپچار منی ور؟‘‘
’’اس کا اُپچار بھی آپ کو سوچنا ہو گا۔ ‘‘
’’دھنیہ واد منی ور۔ ‘‘
’’کلیان ہو۔ ‘‘
وش کے برتن اٹھا کر وہ لوگ گیانیشور منی کی کٹیا سے باہر نکل آئے۔
پردہ گر گیا۔
تیسرا منظر
[چندنی چنتنی پیشانی، دھیانی گیانی نین، جو گیائی بال، سادھوئی لباس میں کچھ لوگ گمبھیر مدرا میں مرگ چھالے پر براجمان۔ ]
ایک آدمی کھڑا ہوا۔
’’سبھاپتی مہودے تتھا اپستھت وچارک گنڑ! رشی گیانیشور مہاراج نے جس اُپچار کی اور سنکیت کیا، اس سے سمبندھت کچھ موٗل پرشن میں سبھا کے پٹل پر رکھنے کی انومتی چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’انو متی ہے۔ ‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں گونجیں۔
’’دھنیہ واد! پہلا پرشن ہے، امرت پینے والے کون ہیں ؟ دوسرا مہتو پورن پرشن یہ ہے کہ امرت پینے والوں کے شریر سے امرت نکالنے کا اُپچار کیا ہو گا؟ تیسرا پرشن ہے، وش کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے ؟ ارتھات اسے کسے پلایا جائے تاکہ سنسار کو نشٹ ہونے سے بچایا جا سکے ؟‘‘
سنچالک کے سوال سن کر مرگ چھالے پر براجمان لوگوں میں سے ایک نے ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’پہلے تو ہمیں یہ پتا لگانا ہو گا کہ امرت پینے والے کون ہیں ؟ یدی وہ ہمارے بیچ رہتے ہیں جیسا کہ گیانیشور رشی نے سنکیت دیا، تو ان کی پہچان کیا ہے ؟ یدی ان کی پہچان ہمیں مل جاتی ہے تو ان کے بھیتر سے امرت نکالنے کے اُپچار پر وچار کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ ‘‘
دوسرا بولا۔
’’میرے وچار سے تو پہلے ہمیں اُپچار پر دھیان دینا چاہیے۔ امرت پینے والے کون ہیں، اتنا پتا تو چل ہی چکا ہے کہ وہ ہمارے ہی بیچ رہتے ہیں۔ اتہہ ان لوگوں کا پتا لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے پرنتو امرت نکالنے کا اُپچار تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں اِس اور زیادہ اور ترنت دھیان دینے کی آوشیکتا ہے۔ ‘‘
تیسرے آدمی نے دوسرے کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا:
’’آپ کا سوچنا اچت ہے۔ ہمیں اُپچار پر پہلے دھیان دینا چاہیے۔ میرے وچار سے تو اس کے لیے وہی اوپائے اپنانا ہو گا جو شیر کے شکار کے لیے اپنایا جاتا ہے۔ ارتھات ہمیں شڈینتر رچنا پڑے گا۔
’’شڈینتر!‘‘ پہلا آدمی چونکا۔
’’ہاں شڈینتر! شیر کو پکڑنے کے لیے مچان بنانا ہوتا ہے۔ بچھڑا باندھنا پڑتا ہے اور گھات لگا کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ‘‘
’’تو آپ کا تات پریہیہ ہے کہ امرت نکالنے کے لیے بھی ہمیں کوئی ایسا ہی شڈینتر رچنا پڑے گا۔ ‘‘
اب تک خاموش رہنے والے چوتھے آدمی نے لب کھولا۔
’’جی۔ ‘‘
’’پرنتو اس کٹھن کاریہ میں کیول شڈینتر سے کام نہیں چلے گا۔ شڈینتر کے ساتھ ساتھ ہمیں مہا بھارت کی بھانتی کوئی چکرویو بھی رچنا ہو گا۔ ‘‘ دوسرے نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
’’یہ سب تو ٹھیک ہے پرنتو پہلے یہ تو پتا چلے کہ یہ شڈینتر رچنا کس کے لیے ہے ؟ چکرویو کس کے لیے بنانا ہے ؟‘‘
پہلے آدمی نے اپنے خیال کو ایک بار پھر دہرا دیا۔
’’ہاں، پہلے تو یہ گیات ہونا چاہیے کہ شیر ہے کون؟ میرے وچار سے تو اس کے لیے ہمیں گپت چر لگا دینے چاہئیں۔ ‘‘
ایک اور آدمی نے پہلے آدمی کے خیال کی تائید کرتے ہوئے اپنی رائے ظاہر کی۔
’’نہیں،یہ کام گپت چر کے بس کا نہیں ہے۔ ‘‘ پہلے آدمی نے آخری آدمی کی تردید کی۔
’’تو؟ آخری آدمی نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے پوچھا۔
’’اس کے لیے چنتن منن کی آوشیکتا ہے۔ ‘‘
’’اس کاریہ کی ذمّے داری چنتکوں کو سنبھالنی چاہیے۔ اس کے لیے انہیں آگے آنا چاہیے۔ ‘‘
’’یہ بات ادھیک ترک سنگت لگ رہی ہے۔ ہمیں یہ کام اپنے چنتکوں کو سونپ دینا چاہیے اور ان سے یہ بھی آگرہ کرنا چاہیے کہ وہ امرت نکالنے کے اپچار پر بھی چنتن منن کریں اور وِش کو ٹھکانے لگانے کا اپائے بھی سوچیں۔ ‘‘
کئی لوگوں نے اس خیال سے اتفاق کیا۔
’’دھنیہ واد پرستاؤ کے ساتھ ساتھ آج کی سبھا کی سماپتی کی گھوشنا کی جاتی ہے۔
پردہ گر گیا۔
چوتھا منظر
]پراسرار ماحول، گمبھیر مدرا میں بیٹھے چنتک گنڑ۔ پلکیں بند۔ آنکھیں کھلی ہوئیں۔ [
یکایک ایک چنتک کی پیشانی چمک اُٹھی۔ اس کے چہرے پر اطمینان کا چراغ روشن ہو گیا۔
کچھ دیر بعد ایک اور چنتک کی پلکیں کھل گئیں۔ اس کے دیدوں کے دیے بھی جھلملا اٹھے۔
دونوں نے فرش پر پڑے کاغذوں کے ٹرے میں سے ایک ایک کاغذ اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیے اور ان پر جلدی جلدی کچھ لکھنے لگے۔ لکھ لینے کے بعد دونوں نے اپنے اپنے کاغذ ایک دوسرے کی طرف بڑھا دیئے۔
دونوں دیر تک تحریروں پر اپنی نظریں گڑائے رہے، پھر ان دونوں کاغذوں کو باری باری سے دوسرے چنتکوں کی طرف بڑھا دیا گیا۔
کاغذ کی تحریروں کو پڑھتے ہی تمام چہروں پر اطمینان کی کرن جھلملا اٹھی۔
تحریریں پڑھ لینے کے بعد سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آنکھوں آنکھوں میں بات کی۔ اور ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا۔
’’سمسیا کی گمبھیرتا اور اس سے سمبندھت جٹِلتا کو دیکھتے ہوئے کافی سوچ وچار اور چنتن منن کیا گیا اور جس نِش کرش پر پہنچا گیا، وہ یہ ہے کہ وش کو ٹھکانے لگانے اور اس سرِشٹی کو بچانے کا اوپائے یہ ہو گا کہ اسے (وش) ان لوگوں کو پلا دیا جائے جن کے دماغ میں سوچنے کی شکتی نہیں ہے اور جن کے شریر کمزور تتھا سڑ گل گئے ہیں۔ چنتن ہیٖن مستشک اور سڑے گلے بے کار شریر والے لوگوں کو جیوت رہنے سے اچھا ہے کہ وہ مر جائیں۔ اس سے وِش کی کھپت بھی ہو جائے گی اور اچھے دماغ اور مضبوط شریر کی رکشا بھی ہو سکے گی۔ ان کا مرنا اس لیے بھی آوشیک ہے کہ ان سے دھرتی پر سڑاندھ پھیلنے کا خطرہ ہے۔
ہمارے گھور چنتن کے انوسار امرت ان لوگوں نے پیا ہے جو ہم میں رہ کر بھی ہم سے الگ ہیں۔ جن کی پرورتی دوٗب سے ملتی جلتی ہے اور جو اگنی کی بھانتی پھیلتے ہیں اور ہوا کے سمان بڑھتے ہیں۔ تتھا سمدر کی بھانتی گہرے ہیں۔ شریر سے امرت نکالنے کے اُپچار کے سمندھ میں جو وِدھیاں ہمارے چنتن منن نے ہمیں سجھائی ہیں۔ وہ یہ ہیں :
پہلی ودھی۔ چیرا کرن
دوسری ودھی۔ لنکا دہن
تیسری ودھی۔ سمبندھ وِ چھیدن
چوتھی ودھی۔ سمپتّی سَماپن
’’اور ایک انتم ودھی یہ بھی ہو سکتی ہے۔ ‘‘ ایک چنتک جو ابھی تک چنتن میں ڈوبا ہوا تھا، بول پڑا:
’’کون سی وِدھی؟‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں ابھریں۔
’’وشاروپن!‘‘
’’وشاروپن‘‘
’’ہاں، وشاروپن۔ وِش روپنے سے امرت کا پشپ باہر آ سکتا ہے۔ ‘‘
’’وہ بھلا کیسے ؟‘‘
’’جب اس وَدھی کوپر یوگ میں لایا جائے گا تو سب کچھ اپنے آپ سمجھ میں آ جائے گا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ہم اسے بھی ان وِدھیوں میں شامل کر لیتے ہیں۔ اب ہمارا اگلا چرن یہ ہو گا کہ ہم ان ودھیوں کو ان کے پوٗرن وِورن کے ساتھ، ساتھ ہی امرت پینے والوں کی پہچان کی نشانیوں اور مستشک ہیٖن ایوم گلے سڑے شریر والے لوگوں کے پتے اپنے کرم کانڈھ جتھے کے حوالے کر دیں تاکہ بنا دیر کیے عملی کاروائی شروع کی جا سکے۔
مجھے آشا ہی نہیں، پورن وشواس ہے کہ ہمارا پرشرم اوشیہ رنگ لائے گا اور ہم اپنے مشن میں جلد ہی سپھل ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی آج کی سبھا سماپت کی جاتی ہے۔
پردہ گر گیا۔
٭٭٭
(۹)
پنڈال سے نکل کر بٹو اور لڈن علی خاں دونوں باپ بیٹے ایک ساتھ ہو لیے تھے۔
لڈن علی خاں تو حسبِ معمول خاموش تھے ہی، آج بٹو بھی چپّی سادھے ہوئے تھا۔
لڈن علی خاں کو بٹو کا یہ رویہ کچھ اٹ پٹا سا لگا۔ انھیں محسوس ہوا جسے وہ بٹو کے بجائے کسی اور کے ہمراہ چل رہے ہیں۔
انھوں نے بٹو کی طرف مڑ کر دیکھا۔ بٹو کے چہرے پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔ اس کی سنجیدگی لڈن علی خاں کو اچھی نہیں لگی۔
’’کیا بات ہے ؟ تم بہت خاموش ہو۔ ‘‘ لڈن علی خاں سے رہا نہیں گیا۔
بٹو نے اپنے باپ کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ شایداسے اپنے ذہن میں مچے شور و ہنگامے کے درمیان باپ کی آواز سنائی نہیں پڑی تھی۔
اس وقت اس کے ذہن میں ناٹک کے ایک ایک منظر، ایک ایک پیکر اور ایک ایک پہلو ابھرے ہوئے تھے۔
ہر منظر کا پس منظر بھی ابھر رہا تھا۔
اس کے پیش منظر کا عکس بھی جھلملا رہا تھا۔
ہر ایک پیکر کا ہیولا دیو ہیکل کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا۔
ہر ایک پہلو سے پہیلیاں جھانک رہی تھیں۔
اور ہر پہیلی اپنے حل کی طرف کہیں پر مبہم اور کہیں پر کچھ واضح اشارے کر رہی تھی۔
ذہن منظر، پس منظر اور پیش منظر میں رشتہ تلاش کرنے میں لگا ہوا تھا۔ وہ پیکروں، پہلوؤں اور پہیلیوں کو جاننے، سمجھنے اور بوجھنے میں سرگرداں تھا۔
اسے بہت سی باتیں یاد آ رہی تھیں۔
اسے یاد آ رہا تھا کہ ساگر منتھن کا قصّہ دوسرا تھا۔ وہ قصّہ یہ نہیں تھا جو ابھی ابھی وہ رام لیلا گراؤنڈ میں دیکھ کر آ رہا تھا۔
وہ منتھن دیوتاؤں اور راکشسوں نے مل کر کیا تھا۔ وہ منتھن بھگوان بھولے ناتھ، وش ہرن، نیل کنٹھ، شیو شنکر کے کہنے پر سنسار کے کلیان کے لیے کیا گیا تھا۔ اُس منتھن میں ساگر کے گربھ سے صرف وِش ہی نہیں نکلا تھا، بلکہ بہت سارے بہو مولیہ رتن بھی باہر آئے تھے۔ ان میں امرت تھا۔ دھنونتری وید تھا، لکشمی تھی، رمبھا تھی، منڑی اور شنکھ تھے، گجراج اور ششی تھے اور یہ سارے کے سارے رتن منشیہ کے کلیان کے لیے تھے۔ البتہ وِش وِناش کاری ضرور تھا مگر اُسے بھگوان شنکر نے اپنے گلے میں اتار کر سنسار اور سرشٹی کو تباہ ہونے سے بچا لیا تھا۔
مگر آج کے اسٹیج پر دکھایا گیا منتھن تو بالکل الگ تھا۔ اس میں سے تو صرف ایک رتن نکلا، وہ بھی وِش۔ جسے ٹھکانے لگانے کا اپائے یہ ڈھونڈا گیا کہ اسے ایسے لوگوں کو پلا دیا جائے جن کے دماغ میں سوچنے کی صلاحیت نہیں ہے اور جن کے جسم کمزور اور گلے سڑے ہیں۔
اچانک اس کی آنکھوں میں کچھ ننگے جسموں کے کمزور پاؤں کی لڑکھڑاہٹ لہرا گئی اور کانوں میں ایک جملہ گونج پڑا۔ ’’کیا کر رہے ہو، ٹھیک سے رسّی کھینچو انیتھا سنتولن بگڑ جائے گا۔ ‘‘
اسے یاد آ رہا تھا کہ اس منتھن کے قصّے میں ایک راکشس کا سر دھڑ سے اُڑا دیا تھا اس لیے کہ اس نے چھل کپٹ سے امرت پی لیا تھا۔ بھگوان نے اس کا سر اس لیے قلم کر دیا کہ راکشس کہیں امر نہ ہو جائے۔ اس لیے کہ راکشس بدی کی علامت ہے۔ بدی اگر امر ہو گئی تو اس کے پربھاؤ سے سنسار سنکٹ میں پڑ جائے گا۔ سرشٹی نشٹ ہو جائے گی۔ منش اور دیوتا اپنا صبر اور سکون کھو دیں گے مگر اِس ناٹک میں تو انسانوں کے جسم سے امرت نکالنے کی بات کی گئی تھی۔
وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا واقعی کچھ انسانوں نے امرت پی لیا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو وہ امرت پینے والے کون ہیں ؟
وہ کون ہیں جو اپنے اندر دوب کی خاصیت رکھتے ہیں ؟
دوب کی خاصیت سے مراد کیا یہ ہے کہ دوب کٹ کر پھر اُگ آتی ہے، یا کچھ اور؟
وہ کون ہے جو اگنی کی بھانتی پھیلتا ہے ؟
سمندر جیسی گہرائی کس میں ہے ؟
ہوا کے سمان بڑھنے والا شخص کون ہے ؟
وہ یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ
چیرا ہرن کا کیا مطلب ہے ؟
لنکا دہن سے مراد کیا ہے ؟
سمبندھ وِچھیدن کا مفہوم کیا ہے ؟
سمپتّی سماپن کیا ہے ؟
وِشاروپن وِدھی میں کیا ہو گا؟
ان تمام سوالوں نے اس کے دل و دماغ میں ہلچل مچا رکھی تھی۔
’’تم نے چپّی کیوں سادھ لی ہے بیٹے ؟ بیٹے کی خاموشی باپ کی برداشت سے باہر ہونے لگی۔
’’میں چپ ہوں ؟‘‘ بیٹے نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’ہاں، تم چپ ہو اور سنجیدہ بھی۔ ‘‘
بٹو پھر خاموش ہو گیا۔
کیا وجہ ہے، بتاؤ نا؟‘‘
’’ابو! آپ بھی تو چپ ہیں ؟‘‘ بٹو لڈن علی خاں کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولا
’’میں تو خاموش رہتا ہی ہوں بیٹے۔ ‘‘
’’مگر اتنے سنجیدہ تو نہیں رہتے ؟‘‘
لڈن علی خاں سے اس سوال کا کوئی جواب نہ بن پڑا۔
’’ابو، میں جانتا ہوں کہ آپ سنجیدہ کیوں ہیں ؟ میں یہ بھی جان گیا ہوں کہ آپ خاموش کیوں رہتے ہیں۔ ابوّ آپ کی خاموشی اور سنجیدگی کی وجہ بھی وہی ہے جو میری ہے۔ آپ کے دل و دماغ میں بھی وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو میرے ذہن میں برپا ہے۔ ہے نا ابو؟‘‘
’’ہاں، ‘‘ لڈن علی خاں نے دم توڑتی ہوئی آواز میں حامی بھری۔ اور پھر دونوں کے درمیان گہری خاموشی طاری ہو گئی۔
’’ابّو!ابّو!جلدی آیئے ہمارا پروگرام شروع ہو گیا۔ ‘‘
ٹیلی وژن کے پردے سے نگاہیں ہٹائے بغیر بٹو نے آواز لگائی۔ لڈّن علی خاں لڑکھڑاتے ہوئے اپنے کمرے سے ٹیلی وژن روم میں لپک آئے۔ ان کی نظریں بھی ٹیلی وژن پر مرکوز ہو گئیں۔
ٹیلی وژن اسکرین پر گل کھلا رہا تھا۔
سفید پردہ رنگین ہوتا جا رہا تھا۔
طرح طرح کے رنگ اپنا اپنا جادو جگانے میں مصروف تھے۔
در اصل یہ پھولوں کی نمائش کا ایک منظر تھا جو کچھ دنوں قبل شہر میں لگائی گئی تھی جس میں لڈّن علی خاں کے گلشن کا وہ پھول بھی شامل ہوا تھاجسے ان کے خاندان کے ایک بزرگ نے دیسی چمپاکوبدیسی چمپا کے ساتھ گرافٹنگ کے عمل سے گزار کر تیار کیا تھا اورجس نے اپنے نرالے رنگ و نکہت اور نئی تازگی سے پھولوں کی دنیا میں ایک نیا رنگ پیدا کر دیا تھا۔
بٹو اور حولدار لڈّن علی خاں کی نگاہیں اپنے چمپا کی تلاش میں سرگرداں تھیں۔ مگر پھولوں کے ہجوم میں کسی ایک پھول کو تلاش کر لینا بہت آسان نہیں تھا۔ اس لیے بھی کہ پردے پر موجود ایک ایک پھول بڑھ چڑھ کر اپنا جوبن دکھا رہا تھا۔
منظر کا رخ بدلنا شروع ہوا۔
پھول آہستہ آہستہ اسکرین سے سرکنے لگے۔
ایک ثانیے کے لیے پورا پردہ رنگوں سے خالی ہو گیا۔
مگردوسرے ہی لمحہ ایک پھول نمودار ہو کر اپنا رنگ بکھیرنے لگا۔
رفتہ رفتہ وہ پھول بڑا ہوتا گیا اور آخر میں اتنا بڑا ہو گیا کہ اس کی پتّیاں پورے پردے پرچھا گئیں۔
یہ سرخ گلاب تھاجس کا رنگ کلوزپ کے سبب کافی گاڑھا ہو گیا تھا۔
گلاب کی گاڑھی سرخی نے دیدوں میں ایک عجیب طرح کا رنگ بھر دیا۔
رگوں میں ترنگ دوڑنے لگی۔
کچھ دیر تک سرخ گلاب اپناحسن لٹاتا رہا اور دیکھنے والوں کی آنکھوں میں رنگ و نورسجاتا رہا۔ پھر اچانک پردے سے غائب ہو گیا۔
مگر جلد ہی سفید پردے پرآسمانی رنگ کا ایک دوسراپھول کھل اٹھا۔ آسمانی رنگ کے پھول کی پتیآں بھی آہستہ آہستہ بڑی ہوتی چلی گئیں۔ ان کے ساتھ ان کا رنگ بھی گھنا ہوتا گیا۔
گھنے آسمانی رنگ نے پلکوں پر ایک اور رنگ سجا دیا۔
سیاہ پتلیوں اورسفیددیدوں میں نیلگوں آسمان بس گیا۔
یکایک پردے سے آسمانی رنگ، کسی پرندے کی مانند اُڑ کر کہیں دور چلا گیا اوراس کی جگہ دھانی رنگ کے ایک گل نے اپنا ڈیرا ڈال دیا۔
گرد و پیش میں ہریالی بکھر گئی۔ ماحول سرسبزوشاداب ہو گیا۔
ہرے رنگ کی رنگت نے آنکھوں کو ہرا بھرا کر دیا۔ دل و دماغ ایک اور رنگ میں رنگ گئے۔
کچھ لمحے بعد ہرے رنگ کا پھول بھی سرک کر کہیں اور جا چھپا اوراس کے مقام پر ایک پیلے رنگ کا پھول لہرانے لگا۔
یہ پھول بھی چھوٹے سے بڑا ہوا اور پھر بہت بڑا ہو گیا۔
بڑے سائزکے زرد پھول نے مسکرا کر فراخ دلی سے اپناسنہراخزانہ کھول دیا۔ قلب و نظر ایک اور رنگ کے نورسے معمور ہو گئے۔
زرد رنگ کے بعدسفیدرنگ کا ایک پھول کھلکھلا اٹھا۔
سفیدپتّیوں کی ہنسی نے بٹو اور لڈن علی خاں کی آنکھوں میں مسکراہٹیں بھر دیں۔
ان کی پُر نور نظریں یک لخت پہلے سے زیادہ منوّر ہو اٹھیں۔
اس لیے کہ انھوں نے اس بار اپنے پھول کو پہچان لیا تھا۔
پردے پران کا ’’چمپا‘‘آہستہ آہستہ جوان ہو رہا تھا۔ جوان چمپا کی چمپئی رنگت جس میں اسپات کی چمک بھی شامل تھی، اپنی رونق بکھیر رہی تھی۔
آج ان کا پھول ٹیلی وژن کے پردے پر آ کر اپنی اصل شکل سے بھی زیادہ خوبصورت اور دلکش دکھائی دے رہا تھا۔
اس کا رنگ بٹو اور لڈّن علی خاں کی آنکھوں میں پھول کے ساتھ ساتھ سونا، چاندی، تامبا، پیتل اوراسپاٹ کے رنگ بھی بھرتا جا رہا تھا۔ چمپا کے بعد کچھ اور پھول بھی کھلے اور انھوں نے اپنے رنگ بھی لڈن علی خاں اور بٹو کی آنکھوں میں سجا دیے۔
پھولوں کے پردے پر آنے سے صرف ان کا رنگ ہی ذہن و دل بھی اُبھرتا تھا بلکہ ان رنگوں سے نکلنے والی مخصوص قسم کی خوشبو کا تصوّر بھی اُبھر آتا تھا اوراس تصوّراتی خوشبوسے بھی دل و دماغ مہک اٹھتے تھے۔
ایک ایک پھول کا کلوزپ دکھا کر انھیں قرینے سے ایک پنڈال میں سجا دیا گیا۔ رنگ برنگ کے پھولوں سے بھرا پنڈال زمین پر جنت کا نمونہ پیش کرنے لگا۔ بِن موسم کی بہار دکھائی دینے لگی۔
زمینی جنت کی پُر بہار وادی سے یکایک ایک اعلان گونجا—کان آواز کی جانب متوجہ ہو گئے۔
’’اس نمائش میں جتنے پھول شامل ہوئے سبھی اپنے رنگ و روپ میں بے مثال ہیں۔ ایک ایک کاحسن قابل تعریف ہے مگراس چمپا کا جواب نہیں جو لڈن علی خاں کے بزرگوں کے ہاتھوں پروان چڑھا ہے۔ آج کاBestایوارڈ چمپا کو دیا جا رہا ہے۔ ‘‘
اعلان سنتے ہی بٹو اور لڈن علی خاں اچھل پڑے۔ دونوں نے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو لپٹا لیا۔ دیر تک دونوں اپنی خوشی ایک دوسرے کے سینے میں انڈیلتے رہے۔
اپنی خوشی کے اظہار کے بعد دونوں کی نگاہیں آگے کی کار روائی دیکھنے کے لیے پھرسے پردے پر مرکوز ہو گئیں۔
اچانک لڈن علی خاں کی نظر اپنی گھڑی سے ٹکرا گئی۔ گھڑی کی سوئیاں حالاتِ حاضرہ کے وقت کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔
’’بیٹے ذرا نیوز تو لگاؤ۔ ‘‘
’’جی ابو!‘‘بٹو نے ریموٹ کا بٹن دبا دیا۔
بٹن کے دبتے ہی پھولوں کا رنگ غائب ہو گیا۔ پردے سے شعلے بھڑکنے لگے۔ دھواں اٹھنے لگا۔ ساتھ ہی سرخیاں ابھرنے لگیں۔
نفرت کے سیلاب نے تمام سیماؤں کو توڑ دیا۔
دماغوں کازہرجسموں میں اُتر گیا۔
امن و آشتی کے شہر میں خون کی ہولی شروع ہو گئی۔
دشمنی کی آگ، مکان، دکان، جسم، جان پہچان، ایمان سب کو جلانے لگی– سلگتا ہوا ایک منظر قریب آ گیا۔
چمنی والی عمارت کا اندرونی حصّہ
رنگ برنگ کے کپڑوں سے لپٹی آگ
مشینوں سے اٹھتے شعلے
ٹوٹتے ہوئے تانے
بکھرتے ہوئے بانے
ایک منظر اور آ دھمکا
سبزگنبد سے نکلتی ہوئی سرخ لپٹیں
جھلستا ہوا رنگ و روغن
سیاہ ہوتی ہوئی سفیدی
ہموار فرش پر دھڑ دھڑاتا ہوا بلڈوزر
اکھڑتی ہوئی زمین
گرتی ہوئی دیواریں
ایک اور منظر
نیزے پر ٹنگا ایک شیر خوار بچّہ
معصوم جسم میں پیوست ہوتی ہوئی گولیاں
کنکریلی فرش پر بے حس و حرکت پڑی ایک عورت
عریاں جسم
شرم گاہ میں گھسابھالا
رستا ہوا خون
منظروں نے لڈّن علی خاں، بٹو اور گھر کے دوسرے افراد کے دلوں میں درد، دماغوں میں خوف، رگوں میں زہر اور آنکھوں میں سمندراتاردیے۔
ان کے چہرے فق ہو گئے۔ آنکھوں میں بسے رنگ اُڑ گئے۔
وجود پرسکتہ طاری ہو گیا۔
ڈری سہمی، نمناک آنکھیں سکتے کے عالم میں پردے پر ٹکی تھیں کہ ایک اور منظر ابھر آیا۔
نیزے پر بچّے کو ٹانگنے اور عورت کی شرم گاہ کو لہولہان کرنے والی بھیڑ سے جواب کسی اورسمت کا رخ کر رہی تھی ایک بچّہ نکل کر بھاگتا ہوا عورت کے پاس آیا۔ اس نے عورت کے جسم سے بھالا نکال کر پھینکا اور شرم گاہ کو اپنی ٹی شرٹ سے ڈھانپ دیا۔
بے حس و حرکت جسموں میں اچانک حرارت سی پیدا ہوئی اور پر آب آنکھوں میں پھول سے جھلملا اٹھے۔ سرخ، سفید، دھانی، چمپئی پھول…
٭٭٭
تعارف
نام : غضنفر علی
تاریخ پیدائش : ۹؍مارچ۱۹۵۳ء
جائے پیدائش : چوراؤں، گوپال گنج، بہار
تعلیم : ایم۔ اے، پی۔ ایچ۔ ڈی(اردو)
پیشہ : سرکاری ملازمت،
(پرنسپل، اردو ٹیچنگ اینڈ رسرچ سنٹر، لکھنؤ)
پہلی مطبوعہ تخلیق : ٹری کاٹ کا سوٹ (افسانہ)
ماہنامہ بڑھتے قدم دہلی،۱۹۷۳ئ
نمائندہ تحریریں : ڈگڈگی، پہچان، خالو کا ختنہ، کڑوا تیل،
بھیڑ چال، حیرت فروش، ہاؤس ہوسٹس (افسانے )
-:کتابیں :-
۱۔ پانی (ناول، ۱۹۸۹ء)
۲۔ کینچلی (ناول، ۱۹۹۳ء)
۳۔ کہانی انکل (ناول، ۱۹۹۷ء)
۴۔ مم (ناول، ۱۹۹۸ء)
۵۔ دویہ بانی (ناول۲۰۰۰ء)
۶۔ فسوں (ناول، ۲۰۰۳ء)
۷۔ مشرقی معیارِ نقد (تنقید،۱۹۷۸ء)
۸۔ زبان و ادب کے تنقیدی پہلو (تنقید،۲۰۰۱ئ، دوسرا ایڈیشن)
۹۔ کوئلے سے ہیرا (ڈرامہ، ۱۹۷۱ء)
دیگر سرگرمیاں : شاعری، افسانہ نگاری
رابطہ : (۱) پرنسپل، اردو ٹیچنگ اینڈ رسرچ سنٹر،
۱۰۔ اے، مدن موہن مالویہ مارگ، لکھنؤ
فون — 2204274, 2208490
(۲) بشریٰ، حمزہ کالونی، نیو سرسید نگر ایکسٹینشن، علی گڑھ
فون — 2501960
٭٭٭
تشکر: نسترن احسن فتیحی جنہوں نے فائل فراہم کی اور مصنف جنہوں نے لائبریری میں شامل کرنے کی اجازت دی
ان پیج سے تبدیلی تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید