فہرست مضامین
نو طرزِ مرصّع
قصہ چہار درویش کا ایک اردو روپ
عطا خاں تحسین
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب پڑھیں۔۔۔۔۔
مجلس ادبیات عالیہ ، اردو محفل کی پیشکش
ٹائپنگ: گُل یاسمین
نوٹ:
یہ کتاب نسخہ ۱۸۴۶ء کو لے کر ٹائپ کی گئی ہے جو اس کا قدیم ترین نسخہ ہے۔ بعد میں پروفیسر نور الحسن ہاشمی نے مختلف ذرائع سے اسی نام کی کتاب کا متن حاصل کر کے تدوین کی ہے جو ۱۹۵۸ء میں شائع ہوئی، اور جس کا متن اِس متن سے بہت مختلف ہے جو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اصل نسخے سے اردو املا تبدیل کر کے جدید املا کے مطابق تحریر کی گئی ہے، لیکن وقفے (۔) کا ہر جگہ اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔
اعجاز عبید
ابتدائیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نظم:
کہاں تاب و طاقت کہ میری زبان
کرے حق تعالیٰ کی قدرت بیان
وہ صنعت ہے اس کی زمین تا فلک
کہ حیرت میں ہیں جملہ جن و ملک
زبان مو بمو ہو اگر تن میرا
سر مو نہ ہو حمد اس کی ادا
مگر اس گدا کی یہی ہے صدا
میں ہوں اس کا بندہ وہ میرا خدا
پھر اس کے سوا اور جو ہے کلام
نبیؐ و علیؓ پر درود و سلام:
پوشیدہ نہ رہے کہ سوائے تذکرہ الٰہی سب گفتگو واہی ہے مگر حکایات عشق انگیز اور روایات درد آمیز رسیدگان عالم امکان کو نیرنگی روزگار سے گوش گزار اور صنائع بدائع قادر برحق سے خبردار کرتے ہیں اس لئے اس خاک پائے درویشان حق بین محمدؐ عوض زریں نے قصہ چار درویش زبان فارسی میں ترتیب دیا اور عبارت شگفتہ سے گلدستہ مجالس کیا۔ راجہ صاحب سراپا حلم حاتم و تمکین راجہ رام دین کہ اوس عالی منش کے برادر بزرگ خداوند عدل دوا و راجہ سیتل پرشاد اور برادمبیانہ فیاض زمانہ راجہ بھوانی پرشاد ادام اللہ اقبالہم ہیں۔ اس نحیف کی تصنیف مطالعہ فرماتے اور حظ وافر اٹھاتے۔ ایک روز فرمایا کہ اگر کلام زبان ہندی میں انتظام پائے سامع کو بسہولت سرور آئے۔ میں نے خوشنودی آقا کو بہبودی دنیا و عقبیٰ جان کر سر رشتۂ ادب کو ہاتھ سے نہ دیا اور زبان اردو میں قلمبند کیا۔
اشعار:
الٰہی رہے وہ سدا کامیاب
کہ جس کی بدولت بنی یہ کتاب
جوان و جوان بخت و روشن جبین
گرامی منش راجۂ رام دین
ہوئی اس کی خواہش کہ یہ داستان
عبارات رنگیں سے ہو گلستان
بنا کر یہ گلدستہ روزگار
لکھی اس کی تاریخ باغ بہار
جو کوئی کرے سیر یہ گل زمین
اسے دے دعااور مجھے آفرین
قصہ اول
سرزمین ولایت روم میں ایک بادشاہ عادل دریا دل، صاحب تاج و تخت نام آزاد بخت۔ اس کی عمر پچاس کے قریب مگر اولاد سے بے نصیب ایک روز آئینہ رو برو تھا بال سفید نظر آیا فرمایا بے اولاد زندگی بے مزہ ہے اور دنیا دو روزہ ہے گوشہ لیجئے اور عبادت کیجئے۔
ابیات
نکلنے لگے بال میرے سفید
رہی اب کسے زندگی کی امید
اگر سو برس تک رہے جان و تن
پھر آخر وہی گور ہے اور کفن
بس گوشہ لیا اور حکم کیا کہ جب تک اجازت نہ پائے اپنا اور بیگانہ کوئی نہ آئے۔ امیر اور وزیر سب حیران ہر ایک کو اور ہی گمان کوئی کہتا موا کوئی کہتا فقیر ہوا تیسرے روز خرد مند نام وزیر صاحب تدبیر نے جا کر عرض کی کہ بے جمال عالم آرا جہان تاریک ہے اور غلام رنج و راحت کا شریک ہے جو پیر و مرشد فرمائیں سب عمل میں لائیں۔ کہا میرا تخت بے جانشین اور انگشتری بے نگین ہے خدا نے مجھے ملک کا مالک کیا مگر فرزند نہ دیا اب دنیا سے نفرت اور فکر آخرت ہے۔
نظم:
یہ لازم ہے جو آدمی پیر ہو
اسے زاد عقبیٰ کی تدبیر ہو
میرے حق میں اکسیر ہے بندگی
کہ بے بندگی ہیچ ہے زندگی
وزیر نے عرض کی کہ صدقہ دافعِ ہر مرض ہے اور خیرات کفیل ہر عرض ہے۔ ظل سبحانی تخت سلطانی پر جلوس فرمائیں اور خدمت فقرا بجا لائیں یقین ہے کہ گوہر مراد ملے اور گل مقصد کھلے۔ بارے التماس وزیر نے حسن اجابت پایا بار عام فرمایا کہ تمام روز عدل اور انصاف سے حکمرانی کرتا اور شب کو تنہا گور بزرگان پر فاتحہ خوانی کرتا ایک روز باد تند تھی شہر سے باہر ایک چراغ نظر آیا فرمایا اس شدت ہوا میں چراغ روشن کرنا کرشمۂ جنات ہے یا کسی بزرگ کی کرامات ہے قدم آگے رکھا دیکھا ایک مقبرے میں چار خرقہ پوش خاموش بیٹھے ہیں۔ پوشیدہ کھڑا ہوا تا دریافت کرے انسان ہیں یا شیطان۔ ناگاہ ایک فقیر بولا کہ ہم تم ہر ایک نے بہت سا رنج اٹھایا اور آج آب و دانہ یہاں لایا۔ کل دیکھئے پردہ غیب سے کیا باہر آئے اور یہ چرخ شعبدہ باز کیا بازی لائے۔ شب دراز ہے اور دردِ دل جان گداز ہے۔ اپنی اپنی سرگزشت کہو تا روز روشن ہو۔ کہا بہتر ہے اول آپ ہی آغاز اور ہم غریبوں کو سرفراز کیجیے۔
قصہ اول
درویش اول بولا کہ یہ آوارۂ وطن باشندۂ یمن ہے اس بندۂ ہے مقدار کا والد بزرگوار ملک التُجّار اور صاحب اقتدار تھا۔ دولت مند اس سے قرض لاتے اور فقیر روز روزینہ پاتے دو فرزند رکھتا تھا ایک یہ فقیر دوسری ہمشیر۔ لیکن کار خیر ہمشیر سے اپنے عین حیات میں فراغت کی اور میری پرورش بناز و نعمت کی۔ جو میں بلوغت کو پہنچا میرے باپ نے پیالہ اجل پیا اور میری ماں نے خانۂ گور کو آباد کیا۔ تین روز تک میری وہ حالت رہی کہ نہ کسی کی سنی اور نہ اپنی کہی۔ چوتھے روز خویش اور اقربا آئے۔ حرف نصیحت درمیان لائے کہ گریہ زاری سے درگذر اور صبر اختیار کر۔
نظم:
جسے دی ہے خلاق عالم نے جان
وہ اک دم کا دنیا میں ہے میہمان
جہاں میں کسی کو نہیں ہے قرار
سراسر زمیں گور ہے اور مزار
ناچار دل کو تسلی دی اور گھر کی خبر لی۔ نقد و جنس باپ کا پایا مال فراواں ہاتھ آیا۔ آغاز جوانی و موسم نادانی تھا۔ چند اوباش طعام تلاش یار اور دخیل کار ہوئے طبیعت عیاشی پر آئی اور عالم بے پروائی۔ ہر وقت راگ و رنگ اور طبلہ و مردنگ تھا۔
نظم:
شب و روز رہتا تھا دور شراب
کہ ہوتا تھا دل دشمنوں کا کباب
وہ دلچسپ مجلس شگفتہ بہار
کہ باغِ ارم کیجے اس پر نثار
تھوڑی مدت میں یاروں نے ہزاروں کو برباد کیا اور کنارہ کیا۔ نہ آشنا رفیق نہ بیگانہ شفیق۔ اپنا احوال بایں نوبت پہنچا کہ نہ سر پر تاج اور روٹی کا محتاج۔ جو کسی طرف راہ نہ پائی ہمشیرہ یاد آئی۔ دست تاسف ملا۔ تن تنہا چلا نہ زادِ راعلہ نہ یار قافلہ۔ غم و غصہ کھایا آپ کو وہاں پہنچایا۔ ہمشیر صورت فقیر دیکھ کر روئی۔ کہا اے بھائی دولت مفت کھوئی۔ پھر غذائے لطیف لائی۔ پوشاک فاخرہ پہنائی۔ کئی مہینے رہا۔ ایک دن ہمشیر نے کہا بھائی بیکاری باعث بے قدری ہے اور دلیل بے ہنری ہے۔ سوداگر شام کو جاتے ہیں تو بھی متاع تجارت خرید لا اور ان کے ساتھ جا۔ پریشانی دور اور فراغت بدستور ہو گی۔ میں بدست و پا کچھ نہ بولا اس نے صندوقچہ کھولا دو سو اشرفی دی اور تشفی کی۔ میں نے متاع کفایت سے لی اور ایک معتمد کو سپرد کی۔ قافلے نے کوچ کیا۔ میں نے رہ کر گھوڑا لیا۔ چند روز کے بعد با ساز خوب اور لباس مرغوب چلا۔ دو منزلہ طے کر کے جا ملا۔ سوداگر دن کو استراحت اور رات کو سیاحت کرتے ہر روز باتفاق دعوت کھاتے منزل بمنزل خوش جاتے۔ جب قافلہ شام کے نزدیک پہنچا میں سرِ شام سوار ہوا کہ پیشتر شہر کو جاؤں۔ کارواں سرا میں فرود آؤں۔ گھوڑا خیز کر آیا دروازہ شہر پناہ بند پایا۔ ناچار زیر دیوار منزل کی۔ جب کہ زلف شب کمر تک پہنچی اس وقت کسی نے ایک صندوق دیوار سے نیچے چھوڑا۔ میں نے ادھر باگ کو موڑا کہ یہ مال لیجئے اور خرچ کیجئیے۔ دیکھا تو ایک نازنین چار دہ سالہ آتش کا پرکالہ کہ آفتاب اس سے شرمندہ اور ماہتاب اس کا بندہ۔ زخمی صندوق میں تڑپتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ کہتی ہے کہ اے بے درد میں نے کیا تقصیر کی کہ تو نے میری جان لی۔
نظم:
جو ہیں دیکھا اس نازنیں کا جمال
ہوئی زلف اس کی محبت کا جال
اسے دیکھ گھائل مرا دل ہوا
یہ تڑپا یہ تڑپا کہ بسمل ہوا
میں نے کہا اے جانِ جہاں تیرا گھر کہاں ہے۔ کس ظالم نے بے رحمی سے ترا تن نازک زخمی کیا اور یہ وبال سر پر لیا اگر میں اسے پاؤں قیمہ بناؤں۔ میری آواز جاں گداز سن کر آنکھ کھولی اور بولی اے عزیز کیا فائدہ۔ کام تمام ہے اگر مجھ کو زمین کھود کے گاڑ دے ثواب عظیم لے۔ میں نے دل ہاتھ سے دیا تامل نہ کیا۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ اس کا صندوق اٹھایا کارواں سرائے میں لایا جراح کو طلب کیا مگر خوف نے لیا۔ مبادا کشف راز اور قصہ دراز ہو۔ القصہ جراح نے اس کا منہ کھولا تند ہو کر بولا کہ اے بے معنی یہ کیا نادانی ہے۔ میری زبان سے نکلا بندہ بے تقصیر ہے اور یہ میری ہمشیر ہے۔ قافلہ یمن سے آتا تھا رات کو چوروں نے لوٹ لیا اور اس کو زخمی کیا۔ شہر نزدیک پایا اٹھا لایا۔ بارے جرّاح نے رحم کیا۔ زخموں کو سیا اور کہا امید ہے خدا فضل کرے یہ نہ مرے۔ جو سوداگر داخل شہر ہوئے میں نے اپنا مال لیا اور سب اسی پہ خرچ کیا۔ آرام مجھ پر حرام ہوا۔ جو وہ کھاتی تو میں کھاتا۔ جو وہ سوتی تو میں سوتا۔
نظم:
نہ آرام جی کو نہ تن کی خبر
اسی پر مری رات دن تھی نظر
جو کرتی تھی میری طرف وہ نگاہ
تو میرے جگر سے نکلتی تھی آہ
قدرت خدا سے صحت پائی۔ چالیس روز کے بعد نہائی۔ اے درویشو جس وقت وہ نہائی اور مسند ناز پر آئی کیا عرض کروں۔
نظم:
وہ چہرے پر اس ناز پرور کے نور
مگر آسماں پر سے اتری تھی حور
خدا جانے انسان تھی یا پری
درخشاں تر از زہرہ و مشتری
وہ نازنین ہمیشہ چپ رہتی۔ اپنا احوال کچھ نہ کہتی۔ میں بھی بے اجازت کچھ نہ کہتا اور اس کی رضا میں رہتا۔ آخر میرے پاس خرچ نہ رہا۔ ملول بیٹھا تھا فرمایا میں نے جانا کہ جو تیرے پاس تھا سب خرچ کیا۔ لکھنے کا سامان حاضر کر۔ اس کے کہنے کے موافق حاضر کیا۔ اس نے لکھ دیا اور کہا فلانی طرف ایک سوداگر صاحب اقتدار ہے۔ اس کا نام سیدی بہار ہے۔ یہ رقعہ لے جا اسے دے۔ میں نے رقعہ پہنچایا۔ وہ آداب بجا لایا فوراً ایک خوان سر بمہر محل سرا سے لا کر غلام کو دیا اور حکم کیا کہ جس مکان سے یہ جوان رخصت کرے تو وہاں سے پھرے۔ میں نے سر دروازۂ کارواں سرا خوان لیا اور اسے رخصت کیا۔ خوان بھاری تھا۔ بدشواری حجرے میں لایا۔ اس جان جہاں نے فرمایا۔ دیکھ سیدی نے کیا بھیجا۔ سر پوش اٹھایا پُر از طلا پایا۔ مجھ کو حیرت آئی کہ اس عزیز نے اس قدر زر دیا اور کچھ تفحص نہ کیا۔ الٰہی یہ نادرۂ روزگار کس خاندان بزرگ سے ہے پھر مہربانی سے کہا اے فلاں تو نے میری خدمت بہت کی۔ اور اپنی دولت برباد دی۔ یہ مشت زر لے خرچ کر۔ میں بازار سے طعام لذیذ لایا اور اس نے تناول فرمایا۔ کہا کہ ایک حویلی خرید کر کہ گو گھر اپنا علیٰحدہ بہتر ہے۔ میں نے تمام روز گردش کھائی ایک عمارت بہم پہنچائی۔ کئی ہزار اشرفی قیمت دے کر خرید کی۔ جب عمارت میں آئی۔ بشارت فرمائی کہ بازار کی طرف جا پوشاک طیار لا۔ میں نے کہا اے جان جہاں پوشاک طیار کہاں۔ فرمایا قلعہ بادشاہی کے متصل یوسف نامی سوداگر مالدار ہے۔ اور اس کی دکان پر طرح طرح کا اسباب طیار ہے۔ میں گیا۔ دیکھا ایک جوان خوشرو چار ابرو بالائے مسند ناز بامتیاز بیٹھا ہے۔
نظم:
بہت نازک اندام و خوش قد جواں
چمن میں نزاکت کے سروِ رواں
نہایت حسین اور صاحب جمال
گلستان خوبی کا تازہ نہال
میں نے کہا کہ ایک بزرگ زادی صاحب اقتدار ہے اس کے واسطے پوشاک درکار ہے کہا کرم کیجئے لیجئے۔ پوچھا وطن عرض کی یمن۔ پھر پوشاک بے بہا لی اور قیمت بے تکرار دی۔ وہ عزیز محبت سے پیش آیا۔ حرف دعوت درمیان لایا میں نے عذر کیا کہ بندہ اس شہر میں بیگانہ ہے اور ساتھ صاحب خانہ ہے اس کی تنہائی ناگوار اور جدائی دشوار ہے ہر چند میں نے منہ موڑا اس نے دامن نہ چھوڑا۔ ناچار قسم یاد کی کہ اب جاؤں شام کو آؤں۔ اس اقرار سے اس زیبا نگار کے نزدیک رخت لایا پسند آیا پوچھا دیر کیوں ہوئی۔ میں نے اس کی مہربانی کا حال سب بیان کیا کہا بہتر وعدہ وفا کر۔ مجھ کو اس سراپا زیبائی کی جدائی منظور نہ تھی میں نے حیلہ کیا اس نے غصہ کیا۔ ناچار رضا درکار شام کو گیا وہ عزیز دکان بند کر کے منتظر تھا اس کی خاطر اس قدر بشاشت لائی گویا گئی ہوئی چیز ہاتھ آئی ایک باغ میں نشست کی اور مجلس ترتیب دی۔
نظم:
کروں کیا اب میں اس باغ کی ثنا
بہشت بریں کا نمونہ بنا
درخت اس میں جتنے تھے سب میوہ دار
چمن در چمن کھل رہی تھی بہار
اس میں ایک حوض آب شیریں سے لبریز فوارہ گہر ریز مکان خوب اور فرش مرغوب شب مہتاب بزم شراب گروہ مطرب آیا اس مزے سے گایا اگر زہرہ سنتی تنکے چنتی جب دماغ گرم اور دل نرم ہوا اس کی آنکھوں سے دریائے اشک بہا مجھ سے کہا دوست دمساز سے پردہ بعید از وفاق بلکہ علامت نفاق ہے اگر یہ عاجز پائے اپنی معشوقہ کو بلائے کہ وہ میری آرام جان اور درد دل کی درمان ہے۔ میں نے کہا اے دوستدار تیری خوشی درکار ہے۔ جلد بُلوا کہنے کے بموجب بلوائی۔ ایک عورت خوبصورت پردے سے باہر آئی۔ قدرت خدا نظر آئی۔
نظم:
نگہ اس کی ہوتی تھی جس دم دوچار
گزر جاتی تھی تیر سی دل کے پار
کہا اے یار دلنواز تو بھی اپنا ساز منگا اور کچھ گا اس نے ساز منگایا اس خیال سے ترانہ گایا کہ پانی چلنے سے اور پرند اڑنے سے رہا۔ تین رات دن وہ مزا رہا کہ ہر ایک مست و مد ہوش اور میں از خود فراموش۔ چوتھے روز دل میں گزرا کہ اے نادان وہ گرمجوشی اور اس کی جدائی ناگوار اور مفارقت دشوار تھی اب کیا عذر لائے گا کہ شرمندگی سے سر نہ اٹھائے گا، اس عزیز سے رخصت طلب کی اجازت نہ دی۔ کہا خدمت میں کیا کوتاہی پائی کہ خاطر پر کدورت آئی۔ میں نے یہ کیا بات ہے تم تو موصوف جمیع الصفات ہو۔ پھر رخصت ہوا۔ اس جان جہان کے پاس آیا شرمندگی سے سر نہ اٹھایا۔ متبسم ہو کر فرمایا کہو دعوت کی کیا حلاوت پائی۔ میں نے اس کا حسن اخلاق اور معشوقہ کا وافاق سب بیان کیا کہا اے فلانے صاحب غیرت جو کہیں کھاتے ہیں آپ بھی کہلاتے ہیں۔ میں نے کہا وہ اہل معاش میں صاحب افلاس۔ کہا بے سامانی سے ڈر تو بھی ضیافت کر۔ میں نے حیلہ لیا۔۔ ۔۔ ۔۔، جو مبالغہ حد سے گزرا ہر چند دریائے فکر میں غوطہ کھایا بھید کا کنارا پایا۔ ناچار دوسرے روز گیا اس نے تپاک سے بلایا۔ اخلاص برادرانہ کیا۔ حاضری منگوائی باتفاق کھائی۔ تمام روز اختلاط رہا شام کو میں نے کہا آج اگر غریب خانے کی طرف قدم رنجہ فرمائیے اور نان و نمک ایک جا کھائیے۔ عالم محبت میں گنجائش رکھتا ہے۔ ہنس دیا اور قبول کیا۔ باتفاق روانہ ہوئے اس کو میرا پاس خاطر کمال اور مجھے بے سامانی کے سبب سے یہ خیال کہ تھوڑی رات اور گزرے اسے فریب دوں اور راہ گریز لوں۔ فرصت نہ پائی حویلی نزدیک آئی۔ دیکھا صحن خانہ کے دروازے پر جاروب دی آب پاشی کی۔ دو رویہ جھاڑ روشن کئے کار پرداز کار فرما برپا ہیں۔ میں نے جانا شراب بہت پی راہ غلط کی جو خوب ملاحظہ کیا۔ وہی در اور وہی گھر ہے۔ خراماں خراماں دیوان خانے میں آیا۔ بخوبی آراستہ پایا۔ چاندنی کے فرش پر سراسر ناچنے والے پری پیکر شمع ہائی بلوریں روشن ارباب نادرہ فن گلاب کے شیشے دھرے قرابے شراب سے بھرے مہمان کو صدر مجلس میں جگہ دی اور ارباب نشاط کو اجازت کی۔ خدمتگار شربت خوشگوار لایا۔ میں نے اپنے ہاتھ سے پلایا۔ بعد ازاں میں اٹھا کہ دیکھوں وہ جان جہان اس مکان میں کہاں ہے۔ دیکھا تو ایک پال کے اندر چادر سفید سر پر سامان دعوت کرتی ہے۔ میں دوڑ کے نثار اور حیرت زدۂ روزگار ہوا کہ الٰہی یہ کیا نقش غریب اور طلسم عجیب ہے، میری طرف آنکھ اٹھائی اور غصے میں آئی کہ اے بے خبر نادانی نہ کر۔ مجلس میں جا مہمانداری بجا لا۔
نظم:
توقف نہ کر جلد جا اس کے پاس
مبادا تیرا میہمان ہو اداس
جو کھائے خوشی سے کھلانا اسے
مئے پرتگالی پلانا اسے
سب کو انعام دے۔ ہر ایک سے کام لے۔ خدمت سے منہ نہ موڑ تین رات دن نہ چھوڑ۔ اور اگر ہو سکے اس کی معشوقہ بھی آئے کہ مہمان حظ تمام پائے۔ غرض مجلس میں راگ رنگ خوب رہا۔ میں نے کہا عالم آشنائی میں کسی طرح کی جدائی نہیں۔ اگر تکلف درمیان نہ لائے اپنی معشوقہ کو بلائے۔ جو اس کو وہ غمگسار تھی اور بے اس کے زندگی ناگوار تھی۔ وہ بھی میانہ پر سوار ہو کر آئی۔ جوان نے بشاشت کمال پائی۔ ترین رات دن وہ صحبت رہی کہ زمانے نے واہ واہ کہی۔ چوتھے روز میں سو گیا۔ جب آفتاب نے گرمی کی۔ جاگا۔ اس انبوہ سے ایک آدمی نظر نہ آیا۔ خوف کھایا کہ طلسمات تھا یا عالم جنات تھا
نظم:
نہ پایا کسی آدمی کا نشان
ہوا خانہ عیش ہو کا مکان
نہ وہ گھر میں مالک نہ وہ شور و شر
مگر ایک مدت سے خالی تھا گھر۔
سراسیمہ اٹھا دیکھا کہ ایک کوٹھری میں سوداگر بچہ مع معشوقہ تیغ ستم سے کشتہ اور خاک و خون میں آغشتہ ہے۔
نظم:
جو دیکھا پڑا وہ جواں سرنگوں
بہا میری آنکھوں سے دریائے خوں
پھٹا غم اور درد سے سینہ میرا
گرا سنگ پر آبگینہ مرا خون سے ڈرا
وہاں سے پھر ایک خدمتگار اس نادرۂ روزگار کا نظر آیا۔ میں نے بلایا ہر چند پوچھا جواب نہ دیا۔ مگر مجھے ساتھ لیا۔ متصل حصار ایک مسجد کنگرہ دار تھی۔ کہا اس مکان سے باہر نہ جانا اور جانا تو پھر نہ آنا۔ شام کو خواجہ سرا آئے گا تجھے لے جائے گا۔ میں نے شکر خدا کیا اور گوشے میں چھپ رہا۔ شام کو خواجہ سرا آیا۔ مجھ کو آہستہ بلایا۔ میں اس کے ساتھ دست بدعا ایک باغ میں داخل ہوا۔ وہ باغ اگر رضوان پاتا بہشت کو نہ جاتا۔ ایک لمحے کے بعد وہ سرو گلستان رعنائی خراماں خراماں آئی۔ خواجہ سرا سے فرمایا دو توڑے اشرفیوں کے اسے دے اور کہہ کہ اپنی راہ لے۔ میں نے کہا اے جان جہان خدا سے ڈرو۔ اس وقت کو یاد کرو۔ اگر بندے کو اشرفیوں کی آرزو ہوتی تو جان اور مال سے فدا نہ ہوتا۔ یہی آرزو ہے کہ اب مجھ کو اپنی خدمتگاری میں لے یا جہاں تیری گذر گاہ ہو وہاں مار کر گاڑ دے۔ یہ سن کر ہنسی اور برخاست کی۔ میں روتا مسجد میں آیا، زندگی سے ہاتھ اٹھایا۔ ہر دم آہ سرد بھرتا اور نالہ گرم کرتا۔ نہ دن کو کھاتا نہ رات کو سوتا۔
نظم:
گیا بھول سب کھانا پینا مجھے
ہوا سخت دشوار جینا مجھے
کباب اپنے لختِ جگر سے کیا
پیاسا ہوا خون دل کا پیا
رفتہ رفتہ بیمار اور درد میں گرفتار ہوا۔ نہ اٹھنے کی طاقت نہ بیٹھنے کی قوت۔ جو کوئی پاس آتا افسوس کھاتا۔ اتفاقاً وہ خواجہ سرا چالیس روز کے بعد مسجد میں آیا۔ جاں بلب پایا۔ خدا نے اسے رحم دیا۔ میرا ذکر حرم میں کیا اس بے رحم کو بھی رحم آیا۔ فرمایا وقت شام فلانے مقام پر لانا اور دوا کھلانا۔ خواجہ سرا صاحب درد بلکہ جواں مرد تھا۔ مجھے باغ میں لایا۔ شربت مقوی پلایا۔ پہر رات گئے وہ نازنین آئی۔ میں نے عمر دوبارہ پائی۔ اگر سچ پوچھو تو میری خاطر اس قدر مسرور ہوئی کہ اسی دم نصف بیماری دور ہوئی۔ مجھے تسلی دی اور تشفی کی۔ اسی طرح ہر شب آتی دلداری کر جاتی۔ ایک شب تن تنہا آئی۔ نہایت مہربانی فرمائی۔ معلوم کیا وہ نادرۂ روزگار فقط میری صحبت کی نہیں طلبگار، حرصِ نفسانی غالب ہے۔ اور کچھ اور بات کی بھی طالب ہے۔ میں نے کہا اے ماہِ دل افروز اس روز دوپہر میں وہ سب اسباب کہاں پایا چوتھے روز کچھ نظر نہ آیا۔ یہ کیا طلسمات تھا۔ کہا اے عزیز میں شاہزادی ہوں۔ تجھ کو اس طرف رخصت کیا۔ آپ برقع سر پر لیا۔ ماں کے پاس آئی اسباب لائی۔ میں نے کہا اے سراپا ناز و زیبائی احوال جدائی کس طرح بیان کیا۔ کہا میرا باپ شکار کھیلنے کے طریق پر تین مہینے سے باہر ہے اور ماں قلعے کے اندر ہے۔ بے حرمتی جان کر کسی سے نہ کہتی خفیہ تلاش میں رہتی۔ میں جو آئی اس نے جان پائی۔ مجھے گود میں لیا تفحص حال کیا۔ میں نے کہا اے مادر مہربان تین روز اور مجھ سے درگزر بالفعل حکم کر کہ کار پرواز جمیع کارخانہ سب اسباب ضیافت کا آج ہی اس مکان میں پہنچائیں اور چوتھے روز چلے آئیں۔ چنانچہ سب آئے اور خدمت بجا لائے۔ میں نے کہا اے معشوقہ دلپذیر سوداگر بچے کی کیا تقصیر۔ فرمایا میں دائم الخمر اور گردشِ زمانہ سے بے خبر تھی۔ ایک ایّام میں شراب سے پرہیز تھا اور مسکرات سے گریز۔ مجھ کو خمار نے لیا اور خواجہ سرا نے التماس کیا اگر ملکہ جرعہ کو کنار نوش فرمائے مزاج فرحت پائے۔ میں نے کبھی اس کو نہ پیا تھا جواب نہ دیا۔ خواجہ سرا ایک ساعت کے بعد باہر سے آیا گھڑا بھر کے چھوکری کے سر پہ لایا۔ میں نے پیا اور ان کو دیا۔ خاطر مسرور اور کلفت دور ہوئی۔ وہ چھوکرا مسخرا تھا عجائب بولیاں بولتا دل کی گرہیں کھولتا۔ اس کا کوزہ زر سفید سے بھر دیا اور ہر روز آنے کا حکم کیا۔ میں اس کی باتیں سنتی اور ہنستی۔ مرد کچھ مہینے تک ہر روز آتا سیم سفید اور زر سرخ سے کوزہ بھر لے جاتا مگر اس کا لباس وہی رہا۔ ایک روز میں نے کہا کہ تو نے اس قدر زر پا لیا۔ کچھ لباس نہ بنایا۔ کہا میں غریب یتیم ہوں۔ سب مال دکاندار لیتا ہے مجھ کو روٹی دیتا ہے۔ میں نے رحم کیا لباس فاخرہ دیا۔ آغاز جوانی تھا جمال نے جلوہ اور حسن نے بلوا کیا، میرا دل طالب ہوا اور عشق غالب ہوا۔ اس قدر فریفتہ ہوئی اگر ایک روز ملاقات نہ ہوتی شب کو نہ سوتی۔ آخر راز فاش ہوا اور ہر ایک در پے تلاش ہوا۔ دایہ نے کہا اس کا آنا خوب نہیں۔ مبادا بادشاہ سنے کہیں۔ وہ بھی خوف سے نہ آیا دل تاب نہ لایا۔ خواجہ سرا میرا ہمراز تھا اس کے واسطے دکان علیٰحدہ لی اور کئی ہزار دینار کی تھیلی دی۔ دولت سے معمور اور تجارت میں مشہور ہوا۔ میں نے اپنی خوابگاہ کے نزدیک حویلی تیار کی اور نقب ترتیب دی۔ رات کو آتا صبح دم جاتا۔ چند روز کے بعد عرض کی کہ ایک باغ بکتا ہے طیار اور اس کی قیمت دو ہزار۔ لینا منظور مگر بے مقدور۔ میں نے اس کی خاطر سے زر دیا اور خود جا کے ملاحظہ کیا۔ فی الواقع باغ دلکشا اور جانفزا تھا۔ ایک روز پھر سے اختلاط سے باز رہا۔ میں نے کہا کہ کیا حالت ہے کہ ملالت ہے۔ عرض کی ایک کنیز طنبورہ نواز خوب گاتی ہے اور پان سو دینار کو ہاتھ آتی ہے۔ اگر اجازت پاؤں خرید لاؤں۔ میں نے اس کی خاطر کی قیمت دی۔ حقیقت میں کنیز نغمہ و سرور میں نادرۂ روزگار اور کامل عیار تھی۔ ایک شب میں نقب کی راہ سے حویلی میں اکیلی گئی وہ نہ تھا۔ غلام بچہ سے معلوم ہوا سیر باغ کرتا ہے اور لونڈی پر مرتا ہے۔ میں آتشِ غیرت سے جلی۔ تنہا باغ کو چلی۔ گرتے پڑتے آپ کو وہاں پہنچایا دونوں کو ایک جا پایا۔ لونڈی پیچ و تاب کھا کر گھبرائی۔ جانا آفت آئی۔ کہا اے عزیز میں نہ کہتی تھی دیوانہ نہ ہو، اپنی جان نہ کھو۔ میں نے لونڈی کو پچھاڑا گریبان پھاڑا۔ اس نمک حرام نے قدرت پائی میرے پیش قبض لگائی۔ میں بے ہوش ہو کر گری۔ پھر خدا جانے کیا گزری۔ اس نے اپنی دانست میں میرا کام تمام کیا اور صندوق میں بند کر کے نیچے پھینک دیا۔ میری حیات باقی تھی خدا تجھے لایا تو نے اٹھایا۔ اے فلانے وہ سوداگر کہ اس قدر زر تیرے ساتھ کر دیا اور عذر نہ کیا وہی کوکنار فروش تھا کہ میری ہدایت پہ عمدگی پائی اور عمارت بنائی۔ اور وہ جوان کہ تیرا مہمان ہوا وہی مسخرا تھا کہ یہ امتیاز پایا اور سوداگر بچہ کہلایا۔ میرے ساتھ وہ سلوک کیا میں نے یہ بدلہ لیا۔ اے درویشو شاہزادی یہ حکایت کہہ کر دو گھڑی تک روتی رہی۔ ہنوز اس کے دل میں زخم کاری اور آنکھوں سے خون جاری تھا۔ پھر اس کے بعد فرمایا اے فلانے جب سے مجھ کو تیری حضوری میسر آئی تو نے یہ راحت نہ پائی۔ اب تجھ کو دغا دینا گردن پر خون لینا ہے۔ فی الحال زیرِ دیوار خواجہ سرا رہ اور کسی سے کچھ نہ کہہ۔ جب فرصت پاؤں گی تیرے پاس آؤں گی۔ میں اس کے گرد نثار ہوا اور شکر گزار ہوا۔
نظم:
جو اس ماہ رو نے کیا یہ کلام
میں خوش ہو گیا صورت شاہ شام
خوشی سے کھلے میرے دل کے کواڑ
بسا پھر وہ گھر جو ہوا تھا اجاڑ
اس نے محل سرا کی طرف قدم رنجہ فرمایا میں نے مرگ چھالا بچھایا۔ شب کو تنہا آتی تسلی کر جاتی۔ ایک بار آدھی رات کو آئی۔ دو گھوڑے طیّار ساتھ لائی ایک آپ لیا دوسرا مجھے دیا۔ قلعہ سے باہر آئی جس طرف راہ پائی جلو ریزی فرمائی۔ میں نے رات دن راہ دراز کو طے کیا کہیں دم نہ لیا۔ اتفاقاً ایک دریائے عظیم پیش آیا۔ بے کشتی گزر نہ پایا۔ بلکہ ایک درخت کے نیچے فرود آئی آسائش فرمائی۔ میں کشتی کی تلاش کے واسطے چند قدم چلا سُراغ نہ ملا دل میں گزرا ملکہ تنہا ہے خبر لاؤں۔ پھر اور طرف جاؤں۔ وہاں جو آیا اسے نہ پایا۔ معلوم کیا قضائے حاجتِ انسانی کے واسطے گئی جو دیر ہوئی۔ سر زمین پر مارا ہر طرف اسے پکارا۔ جنگل منجھایا پتا نہ پایا۔ بے قرار اور بے اختیار ہوا۔
نظم:
تڑپ کر گرا آخرش خاک پر
پڑا میں رہا رات دن بے خبر
جو چیتا چلا دشت کو نعرہ زن
ہوا پیرہن پھٹ کے شکل کفن
زندگی وبال اور کوفت کمال ہوئی۔ چاہا پہاڑ سے گروں اور مروں۔ ایک فقیر نظر آیا احوال سن کر فرمایا۔ ملکہ ہنوز زندہ ہے اور اس کا اختر تابندہ ہے۔ شہر روم کی طرف جا، مدعا بر آئے گا۔ تین فقیر اور کہ ہر ایک کو مہم عظیم درپیش ہے۔ متصل شہر اول روز تجھے داخل اور تقریباً مجلس بادشاہ میں داخل ہوں گے۔ بادشاہ بھی ایک بات کا دردمند اور جناب الٰہی میں مستمند ہے۔ اغلب کہ پہلے بادشاہ اپنی مراد پائے بعد ازاں ہر ایک کی امید بر آئے۔ الحمد للہ اس فقیر کا فرمودہ راست آیا کہ تم بزرگوں کو یکجا پایا۔ آئندہ دیکھئیے کہ پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آئے۔ اور چرخ شعبدہ بازی کیا بازی دکھائے۔ اس خانماں برباد کی روداد یہ ہے اب اپنا اپنا احوال کہو اور فضل الٰہی کے امید وار رہو۔
قصہ دوم
دوسرا فقیر بولا کہ بندہ شاہزادہ عجم اور صاحب جاہ و حشم مالک خزانہ مختار کارخانہ ہے۔ باپ کا یہی بندہ ایک فرزند رگِ جاں کا پیوند۔
نظم:
مرا بوئے دولت سے تر تھا دماغ
شب و روز کرتا تھا گلگشت باغ
مرے گرد رہتے تھے لیل و نہار
ہزاروں پیادے ہزاروں سوار
ایک روز میں بارادۂ شکار سوار ہوا۔ صحن صحرا فرش زمردیں سے آراستہ اور رستہ خس و خار سے پیراستہ تھا۔
نظم:
زمیں سبز تھی اور ہوا خوشگوار
درختوں پہ قدرت خدا کی بہار
نمایاں سراسر وہ سبزی کی موج
زمین دوز اڑے جیسے طوطی کی فوج
ناگاہ ایک آہو مشکین مو بازیور طلائی بصد زیبائی نظر آیا۔ میں نے یاروں سے فرمایا کوئی میرا تعاقب نہ کرے۔ میں خود جاتا ہوں زندہ اسیر کر لاتا ہوں۔ بس گھوڑا خیز کیا اور آہو نے گریز۔ میں جب اس کے سر پر گیا وہ صحرا کو ایک چوکڑی بھر گیا۔ فرد، خدا جانے آہو تھا یا برق تھا۔ تڑپ ویسی ہے شکل میں فرق تھا۔ تا دوپہر ہاتھ نہ آیا۔ گھوڑا نین عرق لایا۔ ناچار ایک تیر اس نخچیر کے ران میں زورِ بازو سے ترازو کیا۔ اس نے پہاڑ کا رستہ لیا۔ میں نے گھوڑا چھوڑا پیادہ دوڑا۔ وہاں ایک چشمہ ملا پُر از آب۔ زُلال خنک بدرجۂ کمال۔ میں نے پانی پیا وضو کیا۔ متصل ایک گنبد تھا نادرہ کار۔ اس کے گرد درخت سایہ دار۔ وہاں سے آواز آئی کہ اے مونس تنہائی جس نے تجھے مارا ہو وہ خانماں آوارہ ہو۔ میں نے جا کر دیکھا کہ ایک پیر مرد صاحب درد کلاہ درویشی سر پر دئیے اور آہو کو گود میں لئے بے اختیار روتا ہے۔ عرض کی کہ اے پیر یہ تقصیر مجھ سے ہوئی معاف کر۔ فی الحال آہو کے ران سے تیر نکال کر میں نے مرہم بنایا زخم پر لگایا۔ دن تمام اور وقت شام ہوا۔ فقیر ماحضر لایا باتفاق کھایا۔ گوشہ لیا آرام کیا۔ نصف شب کو آواز گریہ آئی۔ چادر اٹھائی کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نازنین بلباس فرنگ غارت گر ناموس و تنگ کرسی مرصع پر بیٹھی ہے۔ وہ مغرور حسن و ناز اور فقیر بر سر عجز و نیاز۔ میں دیکھ کر بیہوش اور از خود فراموش ہوا۔
نظم:
صفائی وہ چہرے پہ دلخواہ تھی
مگر چودھویں رات کی ماہ تھی
غلط میں نے اس کو کہا ماہتاب
اسے دیکھ کر زرد ہو آفتاب
فقیر نے معلوم کیا کہ دل ہاتھ سے دیا۔ نزدیک آیا سمجھایا۔ میں نے کہا سچ کہو پری ہے یا بشر۔ فرمایا جا اسی سے دریافت کر۔ میں نے دوڑ کر سلام کیا۔ جواب نہ دیا۔ قدم کو ہاتھ لگایا سنگ سخت پایا۔ وہ بت تھی تراشیدہ سنگ۔ تراشان دست کار نقاشان۔ میں نے پوچھا اے پیر یہ کس کی تصویر ہے کہ بیک دیدار میں بے اختیار اور تیر عشق سینے سے پار ہوا۔
نظم:
یہ تصویر ہے کس دل آرام کی
کہ آفت ہوئی میرے آرام کی
پڑی ہے میری جب سے اس پر نظر
نہ دنیا کی سدھ ہے نہ دین کی خبر
برائے خدا اس کی اصل سے نشان دے ثواب عظیم لے کہ ابھی جاتا ہوں۔ طالع آزماتا ہوں۔ کہا اس بات سے درگذر آپ کو ہلاک نہ کر۔ مفت جان جائے گی وہ ہاتھ نہ آئے گی۔ میری خاطر میں نہ آیا۔ ناچار آہ سرد لبوں پر لایا۔ اس نے کہا نعمان سیّاح میرا نام ہے اور تجارت کام ہے۔ ہر اقلیم کو جانا خرید و فروخت کر آنا، جو سیر و سفر بہت کیا لوگوں نے سیاح خطاب دیا۔ اتفاقاً قافلہ سوداگران وارد فرنگستان ہوا۔ ایک پیر زن با لباس فاخرہ ہمراہ خواجہ سرا تشریف لائی۔ سرگروہ قافلہ سے پوچھتی پوچھتی میرے پاس آئی۔ کہا ملکۂ جہانیاں طلبگار ہے اور اجناس نفیسہ درکار ہے۔ میں نے کہا اب شام ہے وقت آرام ہے۔ کل حاضر ہوں گا۔ علی الصباح اپنا اور بیگانہ مال لے کر پہنچا۔ ملکہ نے روبرو طلب کیا۔ میں نے کہا سبحان اللہ عمارت دل کشا قابل تماشہ فرش دیبا نہایت زیبا ملکہ مثال پری مسند آرائی دلبری ہے۔
نظم:
پڑی اس کے منہ پر جو میری نگاہ
پڑھی بس درود اور کہا واہ واہ
نہ جانوں پری زاد تھی کہ حور
سراسر چمکتا تھا چہرے پہ نور
میں متحیر کھڑا ہو رہا اس نے ہنس کر کہا آگے آ اپنی متاع لا۔ میں نے پہلے نقد دل پیشکش کیا اور اس کے بعد اشیائے چند اور جواہر بیش بہا خانساماں کو دیا۔ فرمایا کل آنا قیمت لے جانا۔ میں خوش ہوا کہ الحمد للہ ایک بار دولت دیدار پھر میسر آئے گی۔
نظم:
میں آیا وہاں سے مگر بے حواس
گئی میرے قالب سے بھوک اور پیاس
نہ دل کو رہا پاس ناموس و ننگ
ہوا میں گرفتار قید فرنگ
اس روز کھانا نہ کھایا۔ یاروں نے سمجھایا کہ دل ہاتھ سے نہ دے سر پر آفت نہ لے۔ میں نے کسی کی بات نہ مانی۔ شب حیرانی میں گزرانی۔ جب صبح نمودار اور خلق خدا بیدار ہوئی۔ کمر باندھ کر گیا اس وقت بار عام اور مجرا سلام تھا۔ اندر در آیا۔ آداب بجا لایا۔ مجلس تھی تازہ بہار رنگین تر از گلزار۔ ملکہ با لباس سیاہ مانند ماہ تخت نشین اور امیر زادیاں اس کے گرد مثال پر ہیں۔ لونڈیاں دور دور دست بستہ مرہم دلہا سی خستہ۔
نظم:
ہر اک اپنے پایہ کے اوپر کھڑی
جواہر میں سر سے قدم تک جڑی
لیے خال سی دانہ زلفوں سے دام
رہیں فکر میں صید دل کے مدام
برخاست کے بعد زر قیمت دیا اور استفسار کیا کہ نفع تجارت ایک سال کس قدر ہے۔ میں نے کہا یہ قیمت پر منحصر ہے۔ فرمایا ہزار اشرفی دیتی ہوں اور ایک کام لیتی ہوں۔ اگر ہو سکے قبول کر نہیں راہ پکڑ۔ میں نے کہا بندہ فرماں بردار بلکہ جاں و مال سے نثار ہے۔ ایک بٹوا اعجوبہ کار اس میں رقعہ بخط گلزار مع رو مال زرتار حوالے کیا اور اپنے ہاتھ سے ایک چھلہ دیا۔ کہا دو کوس پر جہاں آرا ایک باغ بخوبی تمام ہے اس کا داروغہ کیخسرو نام ہے اس کو دینا جواب لینا۔ میں رخصت ہو کے جب باغ کے نزدیک پہنچا کئی مرد مسلح شمشیر علم کئے آئے مجھ کو پکڑ لائے۔ کخیسرو زرہ داؤدی در بر خود آہنی بر سر کرسی مرصّع پر بیٹھا تھا اور ہزار جوان کمر بند روبرو کھڑا تھا۔ میں نے دروازہ مدح باز کیا اور ثنا آغاز۔ جب قابو پایا چھلّہ دکھایا وہ متحیر رہا آہستہ کہا اور کیا فرمایا میں رو مال سامنے لایا۔ کہا باغ میں جا قیدی کو دے اور اپنی راہ لے۔ وہ عزیز تھا یوسف ثانی اور آغاز جوانی۔ پنجرہ فولادی میں گرفتار لاغر تر از بیمار۔
نظم:
فقط جان اس کے بدن میں تھی بس
رگیں تھیں نمودار مثلِ قفس
اسے دیکھ کر لوٹتا خوں میں باغ
وہی دل پہ لالہ کے ہے ایک داغ
میں نے نامہ دیا اس نے مطالعہ کیا کہا اس آرام جان سے کہنا میرا کام تمام ہے تدبیر سے درگذر۔ نامہ و پیغام نہ کر۔ یہ گفتگو سنتے ہی حبشیوں نے مجھ کو گھیر کر زخمی کیا پھر خبر نہ رہی کیا کیا۔ رو دیا۔ جب ہوش آیا آپ کو پایا۔ دو شخص لئے جاتے ہیں اور افسوس کھاتے ہیں کہ تماشا عجب رہا۔ ایک نے کہا اسے ڈال جائیں اور آنکھ چرائیں۔ دوسرا بولا خدا سے ڈر ایسا نہ کر۔ ملکہ اگر خبر پائے مجھ کو جیتا گڑوائے۔ یہ سن کر میں نے کہا یارو یہ کیا تماشا ہے اگر گرانی نہ لاؤ مجھے بھی بتلاؤ۔ کہا اے عزیز آفت تو لایا کہ نامہ پہنچایا۔ وہ جوان قیدی رشک ماہ برادر زادۂ بادشاہ ہے۔ اس کے باپ نے وقت رحلت بھائی کو سلطنت دی اور وصیت کی کہ شاہزادہ ہنوز خرد نزاد، تو بمنزلۂ پدر ہے، وقت بلوغ اپنی بیٹی دیجئیو اور ملک کا مالک کیجئیو۔ چچا نے دینا نہ لینا تہمت دیوانگی سے اس کو قید کیا کئی بار زہر ہلاہل دیا بے اجل کام نہ کیا۔ دونوں غمزدہ آپس میں منسوب اور باہم محبوب ہیں۔ ملکہ نے کیخسرو کو کچھ رشوت دی اور نامہ و پیغام کی راہ جاری کی۔ یہ حال کسی نے بادشاہ کو پہنچایا بادشاہ نے حبشیوں کو فرمایا تجھ کو زخمی کر کے ڈال دیا۔ کیخسرو کو باندھ لیا شہر میں شہرت ہوئی ملکہ شہزادے پر مرتی ہے اور عشق کا دم بھرتی ہے۔ بادشاہ نے وزیر سے فرمایا وہ تدبیر عمل میں آئے کہ یہ گمان خلق سے جائے۔ وزیر نے صلاح دی ملکہ اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کرے تب یہ آتش فتنہ مرے۔ پھر وزیر ملکہ کی خدمت میں آیا خوشامد سے سمجھایا انگلی کو دانتوں میں داب لیا اور انکار کیا جو مبالغہ حد سے گزرا کہا بہتر۔ مگر شب کو؟ وہی ماجرا روبکار ہے اور عالم زار و نزار ہے۔ ملکہ نے تجھے سر راہ اس حال سے تباہ دیکھا چند اشرفی دی اور اشارت کی ابھی اسے لے جاؤ میں نے کہا اے یارو یہ مال تم کو حلال ہے برائے خدا مجھ کو تماشہ دکھاؤ۔ وہ بارے تماشہ گاہ میں آئے مجھے ساتھ لائے۔ وہ ایک باغ تھا نادر۔ بادشاہ اور وزیر حاضر۔ ملکہ خراماں خراماں آئی بادشاہ نے شفقت فرمائی۔ پیشانی پر بوسہ دیا۔ گود میں لیا۔ شاہزادے کو پنجرے سے باہر نکالا۔ ایک طرف بٹھایا ملکہ بمجرد دیدار بیقرار اور مانند ابر اشکبار ہوئی۔
نظم:
اٹھی کھینچ کر آہ بے اختیار
ہوئی دوڑ کر گرد اس کے نثار
کہا میں فدا تجھ پہ اے میری جان
خدا دے تجھے ظالموں سے امان
بادشاہ غصے میں آیا وزیر سے فرمایا۔ اے بے شعور تجھے یہی منظور تھا کہ ملکہ میرے روبرو بے حیائی اور ادائے رسوائی کرے۔ اب جا تو ہی اس آگ کو بجھا۔ وزیر سیہ ضمیر کو غیرت نے لیا۔ ایک ضرب شمشیر میں اس کا کام تمام کیا۔ اس وقت کسی نے ایک تیر سینے وزیر پر ایسا جڑا کہ پار ہو کر اسّی قدم آگے جا پڑا۔ عالم تہ و بالا ہوا کہ وزیر موا۔ بادشاہ کو دہشت نے لیا۔ حرم کی طرف فرار کیا۔ مجھ کو اس حالت میں غش آیا۔ پیادوں نے کارواں سرا میں پہنچایا۔ کیا دیکھتا ہوں جراح آیا ہے مرہم لگایا ہے۔ سوداگر خوف کھا کر دریا کے پار اتر آئے۔ مجھ کو اٹھا لائے۔ چالیس روز کے بعد میں نہایا مگر زخم عشق کو بدستور پایا۔ ملکہ کے ملک کا ارادہ کیا۔ یاروں نے جانے نہ دیا۔ جب قافلہ اس سرزمین پر لایا عشق نے غلبہ پایا۔ ناچار سنگ تراشیان نادرہ روزگار اور نقاشان مانی نگار ہر دیار سے طلب کیے اور مبلغ خطیر انعام دئیے۔ اس کی تصویر بنائی۔ اند کے تسکین پائی۔ اگرچہ بت پرستی دور از دانائی ہے مگر دل سودائی کو فی الجملہ شکیبائی ہے۔ نصف مال عیال کو دیا باقی مال غلام کو سپرد کیا کہ تجارت کر کے بسر لے جائے اور بقدر قوت مجھ کو پہنچائے۔ جو خدا اسے دیتا ہے میری خبر لیتا ہے۔ جب سے یہ فقیر گوشہ گیر ہے اور باعث سرور یہ تصویر ہے۔ درویشو، یہ سن کر میں نے سلطنت پر نظر نہ کی۔ لباس درویشی پہن کر ملک فرنگ کی راہ لی۔ بعد تمامی ایام اس شہر دل آرام میں پہنچا ایک برس گردش کھائی۔ برآمدکار نظر نہ آئی۔ اتفاقاً ایک روز مرد گریزاں اور افتاں و خیزاں تھے۔ میں حیران ہوا کہ الٰہی یہ کیا حشرات اور کیا واردات ہے۔ دیکھا ایک جوان شیر توان جو شان و خروشان مثل فیل مست شمشیر بدست زرہ در بر خود بر سر چلا آتا ہے اور پیچھے دو غلام نازک اندام ان کے سرپر تابوت بہ ترتیب۔ تمام بازار میں تابوت اتارا پھر غلاموں نے سر پر لیا۔ آگے کو قصد کیا۔ جوان بر سر جوش و خروش اور غلام خاموش۔ میں نے تعاقب کی جرأت کی۔ اس نے طرح دی۔ میرا دامن لوگ پکڑتے اور منع کرتے کہ دیوانہ نہ ہو اپنی جان نہ کھو۔ میں زندگی سے تنگ آیا تھا کسی کا کہنا نہ مانا۔ مرگ کو راحت جانا۔ وہ جوان جاتے جاتے ایک عمارت میں داخل ہوا۔ مجھ کو طلب کیا۔ تیغہ ہاتھ میں کیا۔ کہا اے اجل گرفتہ خوف نہ کھایا میرے پیچھے کیوں آیا۔ ایسا تیغہ مارتا ہوں کہ سر قلم ہوتا ہے اور تو حشر تک پاؤں پھیلا کر گور میں سوتا ہے۔ میں نے عرض کی اے جوان دلاور میرے قتل میں دیر نہ کر۔ تجھ کو ثواب ہو گا اور مجھ کو نحیف عذاب۔ اس نے مجھ سے یہ جواب سن کر جگر پر ناخن کھایا۔ فرمایا اے عزیز سچ کہہ تو گرفتار ہے کہ زندگی سے بیزار ہے۔ راست گو کا میں یار اور دل سے مدد گار ہوں۔ میں نے احوال بت سنگ اور تعشق ملکۂ فرنگ اور جو کچھ نعمان سیاح سے سنا تھا اور حسب و نسب اپنا سب بیان کیا۔ ایک ساعت خاموش رہا پھر کہا تو نے بہت محنت اٹھائی مگر اب آخر آئی۔ سعی کام میرا ہے آگے نصیب تیرا ہے۔ پھر حمام کا حکم کیا۔ لباس فاخرہ دیا۔ کہا یہ تابوت مرصع بہ گوہر و یاقوت اسی شہزادہ بے گناہ کا ہے اور بندہ بہزاد خان کو کہ اس جنت آرام گاہ کا ہے۔ وزیر میرے ہاتھوں سے موا شہزادے کا بھی خون ہوا۔ ہر مہینے تابوت شہر میں لے جاتا ہوں۔ القصہ وقت شام ایک سر تابوت غلام کو دیا اور دوسری طرف مجھ کو حکم کیا۔ کہا ملکہ کی خدمت میں تیرا احوال گزارش اور تا بمقدور سفارش کرتا ہوں۔ خبردار بمجرد دیدار بے ہوش نہ ہونا ورنہ زندگی سے ہاتھ دھونا۔ میں نے قبول کیا۔ تابوت اٹھا لیا چلتے چلتے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ سنگ مر مر کے چبوترے پر فرش زربفتی بچھا تھا اور سائبان زر و زری کھڑا تھا۔ تابوت کو رکھوایا اور مجھ کو زیر درخت چھپایا۔ بعد از لمحہ ملکہ خراماں خراماں آئی۔ کرسی ناز پر استراحت فرمائی۔ بہزاد خان نے زمین کو بوسہ دیا اور میرا حال عرض کیا کہ بادشاہ زادۂ عجم اوصاف جمیلہ غائبانہ سن کر ایک سال سے اس شہر میں آوارہ کوچہ و بازار اور آرزومند دیدار ہے۔ میں نے قتل کا قصد کیا۔ سر رکھ دیا۔ مجھ کو اس جرأت پر تعجب آیا عاشق صادق پایا۔ اگر عرض غلام درجہ پذیرائی پائے ملکہ اس کو سرفراز فرمائے۔ کہا، تیرا کہنا عمل میں لاؤں دشمنوں سے امان کیوں کر پاؤں۔ کہا اس کا ذمہ غلام کا ہے اگر صلاح دولت ہو وہ جوان عالی خاندان نصف شب کے بعد آئے ملکہ اور اس کے ہمراہ غریب خانہ تشریف لائے اس نے رضا دی اور برخاست کی۔ بہزاد خان گھر میں آیا مجھے گلے لگایا کہا تیرا طالع یار ہوا اور بخت بیدار ہوا۔ شب کو باغ جانا اور باختلاط تمام آنا۔
نظم:
جو اس مژدۂ دل کشا کو سنا
ہوا مو بہ مو سے زبان ثنا
بغل میں جو میرے تھا صد پارہ دل
خوشی سے گیا مثلِ غنچہ وہ کھل
سر شام سے باغ میں آیا آپ کو چھپایا ملکہ نے جس وقت فرصت پائی دروازے سے باہر آئی میں نے دوڑ کر پیشانی پر بوسہ دیا اور آپ کو نثار کیا
نظم:
مہکنے لگا اس کی خوشبو سے باغ
ہوا عطر دان ہر کلی کا دماغ
ہوئی حور سے جب میرے روبرو
مجھے باغ سے آئی جنت کی بو
فرمایا باغ سے نکل، شتاب چل۔ میں نے نقد جان پایا قدم اٹھایا۔ ملکہ کو ساتھ لیا مگر راستہ گم کیا۔ ملکہ پیچ و تاب کھاتی ہر دم فرماتی۔ اے بے شعور مکان کتنی دور ہے۔ سپیدۂ صبح نمودار اور فتنۂ خوابیدہ بیدار ہوتا ہے۔ کہا، اے دلفریب میرے غلام کی حویلی قریب ہے۔ اتفاقاً ایک دروازہ عالیشان نظر آیا مگر قفل بند پایا۔ خجل ہو کر میں نے کہا افسوس جاتا رہا۔ ملکہ نے خود زورِ دست سے قفل مروڑا اور ضربِ سنگ سے توڑا۔ حویلی میں در آئی۔ جائے امن پائی۔ مجھ کو اندیشے نے لیا کہ میں نے کیا کیا۔ صاحبِ خانہ آئے گا غضب لائے گا۔ سخت رسوا ہوا اور بے موت موا۔ القصّہ طاق پر شیشۂ شراب تھا اور خوان میں نان و کباب۔ ملکہ نے پیالہ پیا اور مجھ کو دیا۔ میں نے نوش کیا اور غم و غصہ دیرینہ کو فراموش کیا۔
نظم:
ہوئی وہ گل اندام جب ہم بغل
گئے دل سے کلفت کے کانٹے نکل
کیا عشق نے مجھ کو آ کر سلام
ہوا پھر تو اقبال میرا غلام
اے درویشو جب ملکہ کو میں لایا اور لونڈیوں نے محل سرا میں نہ پایا۔ فوراً بادشاہ کو خبر دی۔ بادشاہ نے جستجو کی۔ حکم کیا کہ دروازۂ شہر پناہ معمور رہے اور دربان شہر داخل و مخارج کا احوال کہے۔ کُٹنیاں روانہ ہوئیں اور متجسس خانہ بہ خانہ ہوئیں۔ علی الصباح ایک پیر زال ہاتھ میں عصا اور رو مال آئی۔ کہا اے دختر اس ضعیفہ کی بیٹی درد زہ میں گرفتار اور نہایت نادار ہے۔ اگر صاحبزادی کچھ مدد فرمائے رزق میسّر آئے۔ ملکہ نے روٹی مع کباب دی اور انگشتری حوالے کی کہ اس کو بیچ کر رخت بنانا اور کبھی پھر آنا۔ بڑھیا دعا دیتی چلی۔ باہر جو نکلی ایک تازی سوار مہیب خونخوار آہو شکار بند سے بندھا حویلی میں در آیا اور اسے کھینچ لایا۔ ایک پاؤں رسی سے باندھ دیا۔ دوسرا پاؤں جھکا کر دو پارہ کیا۔ میرا رنگ زرد اور دل میں درد ہوا۔ مجھ کو بلایا میں لرزاں آیا۔ دیکھا تو وہی مشفق و مہربان بہزاد خان ہے۔ دوڑ کر سلام کیا اور بغل میں لیا۔ اس نے کہا اے نادان اگر خوف ملکہ نہ ہوتا ابھی تجھے دو نیمہ بلکہ قیمہ کرتا۔ یہ کام بزرگ اپنے سر پر لیا اور دروازہ بند نہ کیا۔ خیر کہہ کیا ماجرا گزرا۔ میں نے گم ہونا راہ اور غصہ ملکہ عالی جاہ، اور آنا اس مقام پر، تہمت کرنا غلام پر سب ظاہر کیا۔ بہزاد خان نے ہنس کر کہا مجھ کو بھی غلامی بجا لانا۔ اب ہمیشہ اسی خطاب سے یاد فرمانا۔ میں نے کہا اے جوان مرد بڑھیا غریب یہاں آئی ملکہ سے کچھ خیرات پائی۔ کیا تقصیر کی جو سزا دی۔ کہا اے شہزادے، میں سرکار سے جو آیا، زبان زد عوام پایا کہ ملکہ کے گُم ہونے سے شہر میں غوغا ہے۔ اور خانہ بہ خانہ آتش برپا ہے۔ یہ بڑھیا اُدھر سے جاتی اور یہی انگشتری نشانی دکھاتی۔ بس باقی ہوس۔ میں نے پوچھا کہاں سے آتی ہے اور کیا لے جاتی ہے۔ کہا، اس ضعیفہ کی بیٹی درد زہ میں گرفتار اور قوت سے ناچار ہے۔ مانگتی ہوئی ادھر آئی۔ خانم خانہ سے کباب لائی۔
نظم:
بڑی آفت آنی تھی اس شہر پر
اجڑتے خدا جانے کس کس کے گھر
میری تیغ جس وقت ہوتی علم
ہزاروں کے سر دم میں ہوتے قلم
اب سالہا سال اگر شہزادہ بلند اقبال استقامت فرمائے گا کسی بات کا خطرہ نہ آئے گا۔ پھر کباب تازہ تیار کر لایا۔ ملکہ نے نوش فرمایا۔ سال بعد خدمت سے منہ موڑا۔ ساتھ نہ چھوڑا۔ ایک روز مجھ کو وطن کی یاد آئی چہرے پر گرد ملالت پائی۔ بہزاد خان نے عرض کی اگر دل برخاستہ ہوا ہو شہزادہ جہاں کو ارادہ فرمائے، غلام پہنچا آئے۔ میں نے شوقِ وطن ظاہر کیا۔ اس نے کہا بندہ تیار ہے مگر رضائے ملکہ درکار ہے۔ ملکہ نے بھی یہ صلاح پسند کی اور اجازت دی۔ نصف شب کو تیار ہوئے اور گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ دربان نے شہر پناہ کا دروازہ نہ کھولا۔ سخت بولا۔ بہزاد خان نے غصہ کیا۔ قفل توڑ کر پھینک دیا۔ کہا، اے گیدی خرجا خبر کر کہ بہزاد خان ملکہ اور تیرے داماد کو مردانہ وار گھوڑوں پر سوار لئے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر کچھ ارادہ ہو اپنی فوج لائے، دوبارہ آزمائے۔ مجھ کو یہ بات سن کر لرزہ آیا کہ بہزاد خان تو آفت لایا۔ بارے دروازے سے باہر آئے گھوڑے اٹھائے۔ چوکیداروں نے خبر پہنچائی۔ بادشاہ کی طبیعت طیش میں آئی۔ فرمایا جمعیت کثیر جائے، اسیر کر لائے۔ سپاہ نے تعاقب کیا، تین کوس پر لیا۔ بہزاد خان نے ہم دونوں کو دیوار پل کے نیچے چھوڑا اور گھوڑا اس طرف موڑا۔ ہاں ہاں کرتا صف غنیم میں در آیا اور مارتے مارتے تا سردار آپ کو پہنچایا۔ وہ سردار شجاعت شعار ہزار جوان کے برابر تھا۔ ردّ و بدل بہت درمیان آئی آخرش امان نہ پائی۔ بہزاد خان نے وہ تیغہ جڑا کہ اس کا سر دس قدم پر جا پڑا۔
نظم:
گرا خاک پر جس گھڑی وہ غنیم
ہوا فوج کا خود بخود دل دو نیم
ہوئے صاف صف آن کی آن میں
گری لاش پر لاش میدان میں
یہ سن کر بادشاہ نے فوج عظیم روانہ کی۔ بہزاد خان نے اسے بھی شکست دی۔ خود صحیح و سالم آیا۔ شکر الٰہی بجا لایا۔ میں نے کہا اے بہزاد تجھ سا مرد دنیا میں نہ ہو گا۔ اگر رستم زندہ ہوتا تیرا بندہ ہوتا۔ پھر دلجمعی سے سوار اور گرم رفتار ہوئے۔ بعد از طے منازل اپنا شہر نزدیک آیا، قاصد دوڑایا۔ باپ کی مراد بر آئی۔ عمر دوبارہ پائی۔ فوراً تیار ہوا اور مع فوج سوار ہوا۔ سپاہ گروہ ہا گروہ اور مردم شہر انبوہ۔ کنارۂ شہر دریا واقع تھا۔ اس آرزو مند نے دریا میں گھوڑا ڈالا۔ خدا نے سلامت نکالا۔ باپ کا قدم چوم لیا، رکاب کو بوسہ دیا۔ میرا گھوڑا مادیان سواری ملکہ کا بچھیرا تھا اس نے اپنے بچے کے واسطے عنان اختیار ہاتھ سے دی اور بزور دریا میں گری۔ ہر چند روکا نہ پھری۔ گرداب دریا میں آیا ملکہ نے چرخ کھایا۔ بہزاد خان نے ملکہ کی رہائی کا ارادہ کیا۔ گرداب نے اسے بھی لیا۔ دونوں غرق ہوئے۔ بادشاہ نے جال ڈلوایا۔ نشان نہ پایا۔ میں نے نعرہ مارا۔ گریبان پھاڑا۔ خاک اڑائی پچھاڑ کھائی۔ کسی کی نصیحت گوش نہ کی۔ راہ بیابان لی۔ چند مدت آوارہ دشت و کوہ اور زیر بار درد و اندوہ رہا۔ ایک روز ایک پہاڑ پر گزرا کہ فقیر نے مجھ کو حصول مطلب سے مژدہ دیا اور اس طرف روانہ کیا۔ مجھ کو زندگی وبال اور کلفت کمال ہوئی۔ دل میں آیا آنکھ بند کیجئے اور گر کر جان دیجئے۔ وہی فقیر آ پہنچا۔ بعد از تامل فرمایا اپنی جان نہ دے، روم کی راہ لے۔ اغلب کہ خدا فضل فرمائے دونوں کو زندہ پائے۔ تین شخص اور تیرے شفیق اور تا حصول مطلب رفیق ہوں گے۔ اس جہت سے یہ خاکسار اس دیار کی طرف آیا۔ الحمد للہ تمہاری ملاقات سے بہرہ پایا۔ یقین ہے اس فقیر کا فرمودہ سب ظہور میں آئے اور ہر ایک اپنی مراد پائے۔ دوسرے فقیر نے جب حکایت تمام کی۔ سحر خیز نے آواز دی۔ بادشاہ دولت خانے میں آیا۔ لباس تبدیل فرمایا۔ حکم کیا کوئی صاحب امتیاز جائے، فلانے مقبرے سے فقیروں کو لائے۔ ایک خادم بارگاہ نے جا کر اشتیاق بادشاہ کا مژدہ دیا۔ فقیروں نے تعجب کیا۔ شکر الٰہی بجا لائے۔ حضور میں آئے۔ بادشاہ نے تعظیم دی۔ تکریم کی۔ مجلس برخاست اور خلوت آراستہ ہوئی۔ فرمایا اے درویشو! تم چار بزرگوار ہو اور میں تمہارا خدمتگار۔ رات کو احوال پر ملال دو صاحبوں کا میں نے سنا۔ آتش درد سے دل بھُنا۔ آرزو ہے دو صاحب باقی ماندہ بھی اپنی سرگزشت کہیں اور جناب کریم کار ساز سے امیدوار ہیں۔ فقیر برنگ تصویر خاموش رہے۔ بادشاہ نے فرمایا ایک سرگذشت تمہارے آگے میں بھی بیان کرتا ہوں کہ حجاب اٹھ جائے اور تکلف راہ نہ پائے۔ فقیروں نے کہا عین بندہ پروری اور کرم گستری ہے۔
تیسرا قصہ اپنی زبان سے بادشاہ آپ فرماتا ہے
بادشاہ نے فرمایا اے درویشو میرے باپ نے جب رحلت فرمائی اور سلطنت مجھ پر قرار پائی۔ ایلچی ہر دیار سے آئے اور سوغات اور تحفہ جات لائے۔ ایک سوداگر نے دانۂ لعل سات مثقال کے برابر نذر گزرانا۔ میں نے عجائب جانا۔ ہر روز منگواتا سب کو دکھاتا۔ وزیر نے عرض کی سرکار میں جواہر انبار ہے اور خزانہ بے شمار ہے۔ یہ کیا مناسب ہے کہ جہاں پناہ ایک پارۂ سنگ ہر روز طلب فرمائیں اور سب کو دکھائیں۔ نیشاپور میں ایک سوداگر نے کتا پالا ہے جڑاؤ پٹا ڈالا ہے۔ اس کے گلے میں لعل ہر ایک بوزن بارہ مثقال ہے۔ مجھ کو غصہ آیا وزیر کو سولی کا حکم فرمایا کہ بار دیگر کوئی جھوٹ نہ بولے اور زبان کذب نہ کھولے۔ ایلچی فرنگ حاضر تھا دست بستہ عرض کی اگلے بادشاہوں نے پنڈت خانہ اسی واسطے بنایا ہے کہ گناہگاروں کو چند روز بند کیجئے اور تحقیقات کے بعد سزا دیجئے تاکہ خون ناحق نہ ہو۔ جہاں پناہ وزیر کو سولی نہ دیں۔ خون ناحق گردن پر نہ لیں۔ راست دروغ اثبات فرمائیں۔ پھر جو مناسب ہو عمل میں لائیں۔ اس کی التماس نے مرتبہ اجابت پایا۔ وزیر کو قید فرمایا۔ اس کی ایک بیٹی تھی ہوشیار عاقلۂ روزگار، نازک اندام شیریں کلام، دولت حسن سے مغرور شرابِ جوانی سے مسرور۔ اس کی ماں سر پیٹی نے کہا اے بیٹی اگر تیری جگہ پر اندھا ایک بیٹا ہوتا کام آتا۔ نیشاپور کو جاتا. باپ کو چھڑاتا۔ اس نے کہا اے مادر نوحہ نہ کر. مبادا بادشاہ خبر پائے اور اعتراض فرمائے۔ خدا کارساز اور غریب نواز ہے پھر خفیہ خانساماں کو بلایا۔ آہستہ فرمایا مجھ کو نیشا پور ضرور جانا سوداگر کی خبر لانا۔ جس قدر چاہے خزانے سے لے۔ اسباب تجارت کو سرانجام دے۔ وہ دور اندیش عذر درپیش لایا۔ پذیرانہ فرمایا۔ فرمانبردار نے مبلغ خطیر لیے۔ تحفہ جات فراہم کیے۔ نصف شب کو دختر لباس مردانہ پہن کر تیار ہوئی اور گھوڑے پر سوار ہوئی۔ خانساماں کو مع جمیع سامان ہمراہ لیا اور بشکل سوداگر کوچ کیا۔ ماں نے خبر پائی حیرت میں آئی۔ اس بات کو چھپایا۔ خیل خدم سے فرمایا کمبخت کو جانے دو۔ اس کا نام نہ لو۔ اگر کوئی ذکر اس کا درمیان لائے گا سزا پائے گا صاحب شعور جاتے جاتے داخلِ نیشاپور ہوئی۔ دوسرے روز مردانہ وار گھوڑے پر سوار بصد زیبائی بازار کی طرف آئی۔ ایک عالم گرد آیا عشق کا تیر جگر پر کھایا۔
نظم:
وہ خوبی میں یوسف نمودار تھی
خریدار سے گرم بازار تھی
پڑی جس کی اس ماہ رو پر نظر
کنان ساں ہوا پارہ پارہ جگر
کیا دیکھا ایک سوداگر مالدار عمدہ روزگار کئی خادم شائستہ روبرو کمر بستہ دوکان عالیشان پر بیٹھا ہے اور طرف راست ایک دکان میں قالین بچھی صندلی پر گدی کسی کتا آرام سے سوتا ہے۔ جواہرات گراں بہا گلے میں پڑے، دو غلام سر پر کھڑے، ایک رو مال سے منہ پاک کرتا دوسرا مکھی جھلتا۔ طرف چُپ ایک مکان میں دو آدمی گرفتار پنجرۂ آہنی میں نظر آئے اور دو جوان مؤکل پائے۔ حیرت میں رہی، لاحول کہی۔ سوداگر نے اسے دیکھ کر غش کیا مشتاقانہ پیغام دیا کہ ایک ساعت ادھر تشریف لائیے اور سرفراز فرمائیے۔ اس عاقلہ نے کام کی برآمد پائی۔ فوراً گھوڑے سے اتر آئی۔ سوداگر نے تعظیم دی اور تکریم کی۔ پوچھا کیوں کر آئی کہاں سے تشریف لائی۔ کہا میری زاد بوم روم اور اس شخص کا باپ سوداگر ہے۔ پیر منحنی مال دنیا سے غنی۔ ایک بار اسباب تجارت مجھ کو دیا اور امتحان سلیقہ کیا۔ الحمد للہ۔ اس سفر میں منفعت کُلّی اٹھائی کہ صحبت تم سے بزرگ کی میسر آئی۔ سوداگر نے کہا بندہ بھی یہی کاروبار اور فی الجملہ اعتبار رکھتا ہے۔ اگر غریب خانے میں شفقت فرماؤ خرید و فروخت میں البتہ بہت فائدہ اٹھاؤ پہلے روئے عیاری سے حیلہ لیا پھر قبول کیا۔ خانساماں کو فرمایا بار اٹھا لایا۔ سوداگر نے مقام دلچسپ دیا۔ کھانا طلب کیا۔ پہلے قاب پلاؤ سے بھری کتے کے آگے دھری اس نے بقدر اشتہار نوش کیا اور لگن سے پانی پیا اور وہی پلاؤ قیدیوں کو بزور کھلایا اور وہی جھوٹا پانی پلایا۔ وزیر زادی نے کہا اے سراپا دانائی ان سے کیا تقصیر ظہور میں آئی کہ کتے کا جھوٹا کھلاتے ہیں۔ کہا اے فرزند میں نے بہت تاوان دیا یہ راز فاش نہ کیا۔ تو بھی درگزر اس کا ذکر نہ کر۔ اس عاقلہ کو نظر اپنے کام پر آئی۔ تکرار درمیان نہ لائی اور باتفاق سوداگر کھانا کھایا۔ دو مہینے تک رہی۔ غیر مرضی ایک بات نہ کہی۔ سوداگر اس قدر مفتون ہوا کہ وہ اگر ایک ساعت کہیں جائے یہ رنج کھائے۔ ایک روز کہا اے نور چشم خدا نے مجھے فرزند نہیں دیا ہے میں نے تجھ کو فرزندی میں لیا ہے۔ چنانچہ مجلس ترتیب دی اور ہر ایک کی دعوت کی۔ وزیر زادی نے جو دیکھا کہ یہ مرغ زیرک خوب دام الفت میں گرفتار اور فرمانبردار ہوا۔ ایک دن ملول ہو کر آئی۔ آنسو بھر لائی۔ سوداگر نے موجب ملال پوچھا۔ کہا کیا عرض کروں۔ آپ کی الفت زنجیر پا اور خدمت والد خوشنودی خدا ہے۔ اگر نہیں جاتا ہوں خجلت اٹھاتا ہوں۔ کہا اگر میری مرضی ہو آدمی معتمد مع سواری جائیں اور خرچ لے جائیں۔ بہ آرام تمام لائیں۔ اس نے کہا عالم کہے گا، نا خلف تھا وطن ترک کیا۔ باپ کو رنج سفر دیا۔ اگر آپ ارادہ کریں، عہد کرتا ہوں تا زندگی بندگی بجا لاؤں اور حکم سے باہر نہ آؤں۔ کہا، اے برخوردار تیری خوشی درکار ہے۔ چند روز کے بعد کوچ کیا۔ اپنا مال سب ساتھ لیا۔ وزیر زادی منزل بہ منزل طے کر کے اپنی ولایت میں آئی۔ سگ اور سگ پرست کو ہمراہ لائی۔ ایک باغ میں ڈیرہ کیا۔ خفیہ جا کر ماں کو مژدہ دیا کہ دو روز اور مہلت پاؤں تو باپ کو چھڑاؤں۔ ماں نے خوشی کی اور رخصت دی۔ تاجر کا آنا مشہور ہوا اور خانہ بہ خانہ مذکور ہوا کہ ایک سوداگر سگ پرست کہلاتا ہے اور کتے کا جھوٹا آدمیوں کو کھلاتا ہے یہ خبر بادشاہ نے پائی۔ اشارت فرمائی کہ بے طریق ہے لوٹ لیں اور سزا دیں۔ وہی ایلچی کہ جس نے وزیر کو سولی سے بچایا تھا آداب بجا لایا کہا قول وزیر راست آیا۔ جہاں پناہ پہلے حضور میں بلائیں پھر یہ فرمائیں۔ اس نے حکم کیا اسی وقت سگ اور سگ پرست کو مع پنجرۂ آہنی حضور میں لائے۔ بادشاہ نے لعل بچشم ملاحظہ فرمائے۔ پوچھا یہ کیا بدعت ہے۔ تیرا دین اور مذہب کیا ہے۔ عرض کی بندہ مسلمان اور قرآن خوان ہے مگر یہ راز زبان پر نہ لایا۔ اس باعث سے سگ پرست کہلایا۔ جہاں پناہ بھی معاف کریں۔ اس بات سے در گزریں۔ فرمایا اپنی جان سے ہاتھ دھو یا کاشف راز ہو۔ ناچار سگ پرست نے دونوں قیدیوں کو پنجرے سے باہر کیا۔ ایک کو طرف راست دوسرے کو جانب چپ لیا۔ کہا، جہاں پناہ سلامت یہ دونوں جوان اس ناتوان کے بڑے بھائی ہیں بعد از رحلت والد بزرگوار مال بے شمار رہا۔ بھائیوں نے کہا بانٹ لیجیے۔ میں لڑکا تھا۔ بھائیوں سے کہا باپ اگر موا کیا ہوا۔ تم مربی ہو۔ مجھ کو کھانا کپڑا درکار حصہ سے کیا سروکار ہے۔ فرمایا تو جھوٹا ہے اور زمانہ کھوٹا ہے مبادا ہم سے مال خرچ ہو جائے نوجوانی میں فساد اٹھائے۔ ابھی اپنا حصہ لے یا لا دعوی لکھ دے۔ میں نے فارغ خطی مہر قاضی سے لکھوا دیں۔ کچھ تکرار نہ کی۔ چند روز کے بعد انہوں نے مجھے خارج کیا اور گھر سے نکال دیا یہاں تک کہ اگر میرا کتا جاتا استخوان نہ پاتا۔ والد بزرگوار ان کی نسبت مجھے پیار کرتے تھے۔ اپنی عین حیات میں ایک حویلی بنائی۔ میرے نامزد فرمائی۔ مجھ سے کہا پانچ ہزار اشرفی وہاں حوض کے نیچے مدفون ہے۔ وقت پر لیجیو۔ اپنی معاش کیجیو۔ میں اسی حویلی میں جا رہا۔ بھائی ناواقف تھے کچھ نہ کہا معاملت سے منہ موڑا مگر اس حویلی کو نہ چھوڑا۔ باپ کی امانت پائی۔ تجارت کی دکان جمائی۔ دو تین سال میں اقتدار اور اعتبار پیدا کیا۔ ایک روز میرا غلام باہر سے آیا اشک بھر لایا کہ تمہارے دونوں بھائی مار کھاتے ہیں اور یہودی پکڑے لیے جاتے ہیں۔ میں نے رو کر پوچھا انہوں نے تمہارا کیا لیا کہ بے حرمت کیا۔ کہا اگر تجھے رحم آتا ہے پانسو دینار ہمارے دے ان کو لے۔ اسی وقت ان کا دین پہنچا دیا۔ بھائیوں کو ساتھ لیا۔ پوشاک فاخرہ دی۔ مدت تک خدمت کی سوداگر ترکستان کو چلے۔ بھائیوں نے کہا اگر کچھ اسباب پاتے ہم بھی جاتے۔ میں نے دو حصہ مال جدا کیا ہر ایک کو علیحدہ سرانجام کر دیا۔ ملک التجار سے کہا ان کو اپنے زیر سایہ رکھیو۔ ممد و معاون رہیو۔ ایک سال کے بعد قافلہ آیا۔ بھائیوں کو نہ پایا۔ مشوش رہا۔ ایک نے کہا تمہارے بڑے بھائی نے اپنا مال قمار بازی میں دیا اور دوسرے نے چھوکرے کے عشق میں صرف کیا۔ میں آتش غیرت سے جلا۔ خفیہ ترکستان کو چلا۔ بھائیوں کا وہی حال پایا جو سننے میں آیا۔ پھر ان کے واسطے اسباب تجارت خرید کیا اور ہمراہ لیا۔ دو منزل پر چھوڑ کر تنہا گھر آیا۔ ٹھہرایا کہ لوگ ساتھ لیجئے، بھائیوں کا استقبال کیجئے۔ دوسرے روز تا دوپہر شہر سے باہر منتظر رہا۔ ایک آنے والے نے کہا کاش تمہارے بھائی اس راہ سے نہ آتے۔ تین پہر رات گئی تھی کہ قزاقوں نے شبخون کیا۔ ان کے ساتھ غریبوں کو بھی لوٹ لیا۔ اب دونوں بھائی بلباس گدائی پوشیدہ بیٹھے افسوس و غم کھاتے ہیں۔ شرم سے نہیں آتے ہیں۔ میں نے سن کر پیچ و تاب کھایا۔ پھر گھر میں آیا۔ پوشاک اور لی۔ پھر بھائیوں کو جا کر دی۔ ان کو کچھ نہ کہا۔ تقدیر پر راضی رہا۔ چند روز کے بعد میں نے ہندوستان کا قصد کیا۔ عیال و اطفال کو ساتھ لیا۔ یہ دونوں بزرگوار کشتی پر سوار منزل بمنزل خوش آتے اور بفراغت بسر لے جاتے۔ قضا را میری کنیز بھائی کو نظر پڑی، دل میں گڑی۔ دوسرے سے اس نے صلاح کی بھائی کو درمیان سے اٹھا دیجئے مال سب آپ لیجئے۔ ایک رات میں سوتا تھا۔ انہوں نے پکارا بھائی جلد آنا مردم آبی رقصاں ہیں اور ہاتھوں میں شاخ مرجان۔ تماشا غریب ہے اور واقعہ عجیب ہے۔ میں ان کے کہنے پر یقین لایا۔ آنکھیں ملتا نکل آیا۔ ان سنگ دلوں نے خوف خدا نہ کیا۔ مجھے اٹھا کر دریا میں ڈال دیا۔ ہر چند دست و پا مار کر ہارا اور رفقاء کو پکارا۔ کسی نے میری سرگزشت نہ جانی مگر کتے نے آواز پہچانی۔ بے اختیار کود کر آیا۔ آپ کو مجھ تک پہنچایا۔ میں نے اس کی دم پکڑ لی اور اس نے شناوری کی۔
نظم:
نہ کشتی نہ بیڑا بحکم خدا
وہی موج دریا ہوئی ناخدا
میں جاتا تھا مردہ سا بے اختیار
مثال حباب ایک دم پر قرار
تیسرے روز کنارا پایا۔ شکر الٰہی بجا لایا۔ نہ قدم میں طاقت نہ دم میں قوت۔ اشتہا غالب ہوئی۔ افتاں و خیزاں چلا۔ ایک شہر ملا۔ وہاں کی زبان سمجھی نہ جاتی اور میری بات ان کی فہمید میں نہ آتی۔ مگر دو آدمی اجنبی دور سے نظر آئے آپ نے ہم جنس پائے۔ معلوم کیا یہ دونوں البتہ مہربانی فرمائیں اور کچھ کھلائیں۔ جو نزدیک آیا بھائیوں کو پایا۔ میں نے دوڑ کر سلام لیا اور رو دیا۔ دونوں حیرت میں آئے غضب لائے۔ دوڑ کر چوب لی۔ زد و کوب کی۔ ہر چند خدا اور رسول کو شفیع لایا۔ مار سے ہاتھ نہ اٹھایا۔ ہر ایک سے کہتے یہ بدبخت نوکر تھا ہمارے بھائی کو دریا میں ڈال دیا اور مال سب آپ لیا۔ بعد مدت آج ہاتھ آیا خدا نے غیب سے ملایا۔ حاکم کو کار سازی دی اور عرض کی اس کو سولی دیجئے۔ قصاص لیجئے۔ سر سنگ دار کے نیچے لائے دونوں بھائی ساتھ آئے۔ وہی بھائی ہیں کہ رشوت حاکم کو دی اور میرے قتل کی فکر کی۔
نظم:
یہی دونوں عزت کے خواہاں ہوئے
یہ بھائی میرے دشمن جاں ہوئے
میری بات کے ہیں یہ دونوں گواہ
کہ کاذب نہ جانے مجھے بادشاہ
اس حالت میں میں نے کوئی اپنا نہ پایا۔ خدا کی طرف رجوع لایا۔ وہ غریب نواز ہے اور بے چاروں کا چارہ ساز ہے۔ اس وقت اس شہر کا والی بیمار ہوا اور درد قولنج میں گرفتار ہوا۔ جان سے تنگ آیا۔ طبیبوں نے ہاتھ اٹھایا۔ ایک نے عرض کی جہاں اپنا اگر اسیروں کو رہا فرمائیں، اغلب ہے کہ ان کی دعا سے شفا پائیں۔ پس حکم ہوا۔ ایک خواص نے اس طرف گزر کیا۔ میرے گلے سے تسمہ کاٹ دیا۔ بھائیوں نے حاکم کو خبر دی اس نے طمع کی۔ آہستہ پیادوں سے کہا مبلغ قرار داد لو۔ زندان سلیمان میں ڈال دو۔ وہ کنواں تھا عمیق تنگ تر از گور اور خانہ مار و مور والی ولایت جس کو اس میں قید کرتا وہ اجل گرفتہ وہیں مرتا۔ سرہنگوں نے زرِ قرار داد لیا۔ مجھ کو کنویں میں ڈال دیا۔
ابیات:
کہوں کیا میں اپنی مصیبت کا حال
کنویں میں انہوں نے دیا مجھ کو ڈال
جو یوسف پہ گزرے تھے رنج و ملال
وہی بھائیوں نے کیا میرا حال
کنوئیں میں ایک شخص اور تھا۔ میں ہر چند پوچھتا رہا اس نے کچھ نہ کہا۔ بندہ کنوئیں میں حیران، کتا غریب اوپر سر گرداں۔ ہر دم بیتاب ہوتا اور بے اختیار روتا۔ اتفاقاً ایک شخص آدھی رات کو آیا۔ آذوقہ کنویں میں پہنچایا۔ یہ سگ وفا دار نے معلوم کیا کہ اس نے کسی کو دیا۔ صبح دم آپ شہر میں در آیا۔ روٹی قزاقی کر لایا۔ کنویں میں چھوڑ دی اور آواز کی۔ میں نے سر اٹھایا۔ گردہ نان پایا۔ سیر ہو کر کھایا۔ شکر خدا بجا لایا۔ اسی طرح ہر صبح جاتا روٹی لاتا۔ ایک بڑھیا قریب رہتی تھی۔ اس کے گھر جا کر کُتا اڑا، پاؤں پڑا اور پانی کا اشارہ کیا۔ بڑھیا نے دمانپہ نہ پیا۔ کنویں کا راستہ لیا۔ اس نے جانا زندان سلیمان میں کوئی قیدی آیا۔ ڈول بھر کر کنویں میں لٹکایا۔ سگ نے شور کیا میں نے پانی پیا۔ اس طرح چھ مہینے تک کُتا روٹی لاتا اور بڑھیا سے پانی پاتا۔ ایک رات کسی نے رسی دراز کی اور آواز دی کہ دوست بے بدل، کنویں سے نکل۔ میں نے زینہ پایا۔ نکل آیا۔ ایک جوان ہے خوش لباس دو گھوڑے اس کے پاس۔ ایک پر مجھے سوار کیا دوسرا آپ لیا۔ گھوڑے اٹھائے دور نکل آئے۔ جب صبح روشن ہوئی گھوڑے کی باگ لی۔ میری طرف نگاہ کی۔ اپنا دوست نہ پایا۔ غصے میں آیا۔ مجھ پر تلوار نکالی میں نے خالی دی۔ اور عرض کی کہ اے عیسیٰ روزگار مجھے نہ مار۔ تو نے نہ دیکھا نہ بھالا، کمند ڈال کر مجھ غریب کو نکالا۔ اب میرے مارنے سے کیا حاصل ہے۔ بارے میری عاجزی پر رحم آیا۔ فرمایا خیر سوار ہو۔ تمام روز اس کی چشم تر تھی اور خاطر مضطر تھی۔ شام کو جنگل میں قیام کیا۔ گھوڑوں کو چرنے کے واسطے چھوڑ دیا۔ میری سرگذشت پوچھی۔ میں نے عرض کی۔ سن کر رو دیا اور کہا اب میری روداد سن۔ اس شخص کا باپ اس ولایت میں مالک تاج و نگین ہے۔ میں اس کی بیٹی پردہ نشین ہوں۔ ایک روز وزیر زادہ نظر آیا۔ میں نے تیر عشق کھایا۔ چند روز زخمی رہی۔ آخرش دایہ سے سر گذشت کہی۔ اس نے سعی بلیغ فرمائی۔ اس کو میرے پاس لائی۔ وہ ہر شب آتا صبح دم جاتا۔ ایک رات چوکیداروں نے چور جان کر حوالی حرم میں پکڑ لیا اور میرے باپ کے حکم سے زندان سلیمان میں بند کیا۔ میں نے اس بات کا شکر کیا کہ کسی نے میرا بھید نہ پایا اور نہ جانا وہ حرم میں کس واسطے آیا۔ تین سال تک تیسرے روز شب کو خفیہ جاتی آذوقہ اس کو پہنچاتی۔ رات کو خواب میں ایک بزرگ نظر آیا۔ اس نے فرمایا اے زلیخائے عصر۔ رسی کنویں میں ڈال۔ اپنے یوسف کو نکال۔ خانماں برباد زاد راہ غربت لے۔ میں خوش ہو کر اسی دم دو گھوڑے تیز قدم با ساز و براق طویلے سے لائی اور کمند لے کر کنویں پر آئی۔ اس کا اختر زوال میں اور تیرا ستارہ اقبال پر تھا۔ وہ عزیز موا اور تو زندہ ہوا۔ نصیب اس کو کہتے ہیں۔ پھر شیر مال خورجی سے نکال کر تناول کی اور مجھ کو دی۔ میں نے نوش کی اور کُتّے کو دی۔ اپنے ہاتھ سے میری مو تراشی کی، پوشاک فاخرہ دی۔ میں نے غسل کر کے دوگانہ ادا کیا۔ اس نے ہنس دیا۔ پوچھا کیا حرکت تھی۔ کہا اس کی عبادت ہے جس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے زمین آسمان کو بنایا اور مجھ گدا کو تجھ شہزادی سے ملایا۔ اسی طرح سے راہ طے کرتی اور آہ سرد بھرتی کہتی اس کے واسطے میں وطن سے آوارہ اور غریب بیچارہ ہوئی۔ جب شہر نظر آیا۔ ولایت فرنگ میں پہنچی اور حویلی مول لی، سکونت کی۔ بطریق اسلام ایمان لائی اور میرے نکاح میں در آئی۔ ایک صندوقچہ پُر از جواہر مجھ کو دیا۔ میں نے دکان جواہر فروشی کو گرم کیا۔ وہاں چند شخص اجنبی رہتے تھے۔ مجھ کو بھائی کہتے تھے۔ ایک روز بازار تھا۔ معلوم ہوا دو آدمی اجنبی پکڑے آتے ہیں۔ گردن مارے جاتے ہیں۔ میں بھی دیکھنے آیا۔ دونوں بھائیوں کو پایا۔ میرے خون نے جوش کیا پیادوں کو زر کثیر رشوت میں دیا کہ تا حاکم پاس جاؤں پروانگی لاؤں۔ حاکم ایک دانۂ جواہر سو اشرفی کو لیتا تھا اور میں نہ دیتا تھا۔ وہی دانہ بخوشامد دیا اور رہائی کے واسطے التماس کیا۔ اس نے کہا مدعی کو راضی کر وگرنہ درگزر۔ پانچ سو تومان دے کر سمجھایا ان کو گھر میں لایا۔ ان کے روبرو اپنی عورت کو جانے نہ دیا۔ اور میں نے خدمت میں کسی نوع پر قصور نہ کیا۔ ایک روز صاحب خانہ حمام سے نکل کر سر برہنہ صحن میں کھڑی تھی۔ منجھلے بھائی کی نظر پڑی۔ عنان صبر ہاتھ سے دی۔ میرے مارنے کی فکر کی۔ بڑے بھائی نے کہا ملک بیگانہ کی باد شاہی گدائی سے بد تر اور وطن کی گدائی بادشاہی سے بہتر ہے۔ میں نے ان کی خاطر سے وطن کا قصد کیا۔ اہل و عیال کو ساتھ لیا۔ ایک منزل میں منجھلے بھائی نے کہا اس نواح میں ایک چشمہ دل کشا اور باغ قابل تماشہ ہے۔ اگر کل مقام ہوتا، جاتے سیر کر آتے۔ میں نے بھائیوں کی خوشی کے واسطے مقام کیا۔ دونوں صاحب منش صبح سے بیدار اور کمر باندھ کر تیار ہوئے۔ میں نے سواری طلب کی۔ بھائیوں نے صلاح نہ دی کہ قرب و جوار ہے سواری کیا درکار ہے۔ پیادہ رواں ہوئے۔ دونوں بھائی تیر اندازی کرتے جاتے اور لطیفہ طرب انگیز فرماتے۔ دو غلام میرے ساتھ تھے۔ ایک کو کہیں بھیج دیا اور دوسرے سے سواری کو طلب کیا۔ میں قضائے حاجت انسانی کے لئے ایک درخت کے نیچے بیٹھا۔ دونوں بھائی تلوار کھینچ کھینچ کر پہنچے۔ ایک نے میرے سر پر لگائی کان تک اتر آئی۔ دوسرے نے تیغہ جڑا۔ میں گر پڑا۔ مجھ کو تنہا پایا چورنگ بنایا۔ کتے غریب نے حملہ کیا۔ اسے بھی دونوں نے ایک ایک ہاتھ جڑ دیا۔
نظم:
کیا ٹکڑے ٹکڑے مرا سب بدن
گئے چھوڑ بے گور اور بے کفن
میرے بھائیوں نے کیا یہ خیال
کہ کھائیں اسے بھیڑئیے اور شغال
اے درویشو یہ سن کر مجھ کو رقّت آئی۔ سگ پرست نے پہلو اور پشت دکھائی۔ فی الواقع دو غار نظر آتے تھے۔ سوداگر نے پھر کہا۔ دونوں بھائیوں نے زخم ہلکے ہلکے اپنے مارے اور قافلے میں جا کر پکارے کہ اثنائے راہ میں قزق آ پہنچے۔ بھائی مارا گیا ہم بچے۔ ملکہ بھائیوں کے کردار سے خبردار تھی۔ آپ کو ضرب خنجر سے ہلاک کیا۔ مال سب بھائیوں نے لیا۔ میں زخمی پڑا تھا۔ قضا را دختر بادشاہ فرنگ با کنیزان شوخ و شنگ، ہر ایک گھوڑے پر سوار بطریق سیر و شکار ادھر آئی۔ مجھ میں سدّ رمق جان پائی۔ اس کو رحم آیا۔ جراح کو تعیّن فرمایا۔ ملکہ باپ سے چالیس روز کی رخصت لے کر باگ میں چمن آرا تھی۔ اور مشغول سیر صحرا تھی۔ جراح مجھ کو غالیچے میں لپیٹ کر باغ میں لایا۔ زخموں کو سی کر مرہم لگایا۔ ملکہ دن میں تین بار تشریف لاتی اور مرغ کا شوربہ روبرو پلاتی۔ چالیس روز کے بعد میں نے غسل کیا۔ ملکہ نے جرّاح کو انعام دیا اور میری احوال پرسی پر متوجہ ہوئی۔ میں نے اپنی مصیبت کی حقیقت سب مو بمو کہی۔ افسوس کرتی رہی۔ بارے تسلی دی اور خاطر داری کی۔ مقتضائے جوانی سے حرص طالب ہوئی اور ہوس غالب ہوئی۔ شب کو تنہا میرے پاس آتی۔ محظوظ ہو کر جاتی۔ میں بھی اس کے میوۂ وصل سے حلاوت پاتا۔ غم و غصہ بھول جاتا۔ ایک روز باپ کے دولت خانے میں تھی۔ میں نے قضائے عمری کی فرصت پائی۔ ایک گوشہ میں جانماز بچھائی۔ دل با خدا و دست بدعا ہوا۔ ناگاہ نوافل شب کو آئی۔ میری خوابگاہ خالی پائی۔ بد گمان ہو کر دایہ سے کہا شاید کسی لونڈی کے پاس رہا پھر آپ اور دائی میری طرف سیر کرتی آئی۔ حرکات نماز دیکھ کر قہقہہ مارا اور دائی کو پکارا کہ اجنبی بیچارہ دیوانہ ہوا۔ میں ڈرا کہ یہ ظالم کافر اور میں غریب مسافر۔ دیکھئیے کیا آفت لائے اور کیونکر پیش آئے۔ دایہ نے کہا مرد مسلمان ہے اور بت پرستی سے بد گمان ہے۔ میں نے برا کیا کہ دشمن کو بغل میں لیا۔ دو روز تک تشریف نہ لائی۔ تیسرے روز آئی۔ دائی سے پوچھا وہ راندۂ بت کیا کرتا ہے۔ کہا مرتا ہے۔ فرمایا باہر آئے اور اپنا طریق بتائے۔ میں آ کر خوفزدہ کھڑا ہو رہا۔ اس نے دایہ سے کہا اگر یہ میرے ہاتھوں سے مارا جائے بت بزرگ مہربانی فرمائے۔ دائی نے کہا اس کام سے درگذر۔ بت بزرگ کے حوالے کر۔ پھر ایک جام مجھ کو دیا اور زیر لب خندہ کیا۔ دایہ مزاج دان تھی۔ دعائے خیر کہی اور جا کر سو رہی۔ ملکہ نے فرمایا اے جاہل۔ بت بزرگ میں کیا بدی پاتا ہے کہ اس کے آگے سر نہیں جھکاتا ہے۔ میں نے کہا اے ملکہ بت ایک سنگ ہے تراشیدہ۔ نہ گوش رکھتا ہے نہ دیدہ۔ میں اس کی پرستش کرتا ہوں کہ ہر دم حاضر و ناظر ہے اور سب چیز پر قادر ہے۔
نظم:
وہی سب کو دیتا ہے روزی و جان
اسی سے ہے قائم زمین آسمان
جہان میں جہاں تک گل و خار ہے
اسی کی یہ قدرت نمودار ہے
خدا نے اسے توفیق دی۔ دولت اسلام قبول کی۔ کہا میں چچا کے بیٹے سے منسوب ہوں۔ البتہ وہ کافر آئے گا رسمِ عروسی بجا لائے گا۔ اس کی کیا فکر کیجئیے۔ میں نے کہا جو مزاج میں آئے۔ فرمایا وطن چھوڑ دیجئیے۔ غربت اختیار کیجئیے۔ فی الحال تو کارواں سرا میں جانا۔ چند روز ادھر نہ آنا۔ دایہ تیرے پاس ہر روز آئے گی ایک جواہر گراں بہا پہنچائے گی۔ جس وقت بلاد عجم کے سوداگر مسافرت کریں اور اسباب کشتی پر دھریں۔ اس روز میں خبر پاؤں شب کو تیرے پاس آؤں۔ میں نے کہا اے بلند مزاج دایہ کا کیا علاج۔ فرمایا وہ اہل ہے اور اس کا کام سہل ہے۔ ناچار داغ مفارقت اٹھایا۔ کارواں سرا میں آیا۔ بعد مدت سوداگروں نے ارادہ کیا۔ مجھ کو پیغام دیا کہ کفرستان سے نکل۔ ہمارا حال سقیم ہے اور خدا کریم ہے۔ پھر باہم مشورت کی۔ کشتی مول لی۔ اپنا اسباب کشتی پر دھرا اور شہر کو پھرا کہ یاروں سے رخصت ہو آؤں اور اپنی کنیز لاؤں۔ دایہ سے بخوشامد کہا کہ اے سراپا دانائی تیری بدولت راحت بہت پائی۔ اب ولایت کو جاتا ہوں۔ خدا جانے آب و خورش کب لائے۔ کسی طرح دیدار ملکہ میسر آئے۔ بارے دایہ بر سر رحم آئی۔ میری خبر پہنچائی۔ ملکہ نے نصف شب کو پوشاک بدلی۔ معہ صندوقچہ جواہر نکلی۔ میں نے ایک ضرب شمشیر میں دایہ کو مار کر ڈال دیا۔ ملکہ کو ساتھ لیا۔ صبح ہوتے کشتی پر آیا شکر الٰہی بجا لایا۔ جبکہ کشتی روانہ ہوئی توپ کی آواز سنی۔ ملاحوں نے لنگر ڈال دیا۔ کہا منع کیا۔ معلوم ہوا ملکہ کے گم ہونے سے شاہ بندر کو حکم پہنچا کشتی جانے نہ پائے۔ ہر تاجر اپنی کنیز لائے۔ بشرط پسند قیمت پائے گا ورنہ لے جائے گا۔ مجھ کو خوف نے لیا ملکہ کو صندوق میں بند کیا۔ اور بھی جس کی لونڈی خوبصورت آئی اس نے صندوق میں چھپائی۔ شاہ بندر آ پہنچا۔ ہر ایک کی لونڈی لی اور تشفی کی کہ اب جاتی ہیں تا شام پھر آتی ہیں۔ کسی غمّاز نے اس سے کہا جو لونڈیاں قابل پسند ہیں صندوق میں بند ہیں۔ اس نے سب کو نکال باہر کیا اور تاوان لیا۔ وقتِ شام سب نے اپنی اپنی لونڈی پائی مگر میری معشوقہ نہ آئی۔ چاہا کہ دریا میں گروں ڈوب مروں۔ سوداگروں نے کہا صبر کر۔ ہر تجارت پیشہ جتنی ہیں دو چند قیمت کر دیتی ہیں۔ میں راضی نہ ہوا۔ اپنا صندوقچہ اٹھایا زورق میں لایا۔ پریشان اور تباہ، سگ وفا دار ہمراہ۔ دن کو جنگل جنگل پھرتا، شب کو شہر میں جستجو کرتا۔ مدت تک سرگرداں رہا کسی نے احوال نہ کہا۔ ایک رات جان بازی کر کے دولت سرا بادشاہ میں در آیا، کہیں نشان نہ پایا۔ شاہ بندر کی حویلی کی طرف گزرا اس کے گرد پھرا۔ راہ در آمد نہ پائی۔ ایک مہری نظر آئی۔ پنجرہ آہنی تھا۔ حربہ کیا، کھود کر در آیا۔ دیکھا باغ ہے میوہ دار تازہ بہار۔ وہ نیک بخت درخت کے نیچے بیٹھی آواز جان گداز کہتی تھی کہ الٰہی میں تیری وحدانیت پر یقین لائی اور دین محمدیؐ میں آئی۔ بحق پیغمبرؐ مجھ بے کس پر رحم فرما اور میری دولت گم گشتہ کو ملا۔ میں دوڑ کر قدم پر گرا اور اس کے گرد پھرا۔ اس نے جان پائی اور آغوش میں آئی۔ دونوں روتے رہے۔ دامن بھگوتے رہے۔
نظم:
وہ رونے میں بے اختیاری ہوئی
کہ ہر آنکھ سے نہر جاری ہوئی
ہوا باغ غم سے مرے غمکدہ
ٹپکنے لگا مثل شبنم زدہ
فرمایا، بادشاہ بندر نے مجھ کو جمیلہ جانا بادشاہ کی نذر نہ گزرانا۔ خود ہر روز آتا ہے تعشق ظاہر کر جاتا ہے۔ لطائف الحیل سے آج تک نزدیک آنے نہیں دیا۔ اس نے بھی معلوم کیا اب تو گھر میں ہے۔ ایک روز بر میں ہے۔ خاطر داری میں رہتا ہے اور کچھ نہیں کہتا ہے۔ اب تک دامن عصمت لوث سے بچا مگر تا کجا۔ اگر تو نہ آتا اور وہ ہاتھ لگاتا میں کنی کھاتی مر جاتی۔ مگر اب اور فکر ہے اغلب کہ اس تدبیر سے رہائی پاؤں اور تیرے ہاتھ آؤں۔ رسم ہے کہ شہری یا بیرونی جو کوئی مفلسی سے تنگ آتا ہے سیاہ کپڑے پہن کر بتخانۂ بزرگ میں جاتا ہے تین روز تک زیارت کرنے والے جتنے ہیں نقد اور جنس اسے دیتے ہیں۔ چوتھے روز کچھ سرکار سے پاتا ہے، رخصت ہو جاتا ہے۔ تو مال نہ لیجیو اور عرض کیجیو۔ میں ستم رسیدہ اور جفا دیدہ ہوں مال مجھ کو کیا درکار مگر انصاف کا امیدوار۔ مادرِ برہمنان میری خبر لے اور بت بزرگ داد دے۔ نہیں تو روز عید آپ کو قربان کروں گا۔ اسی آستانہ پر مروں گا۔ مادر برہمنان پیر زال ہے اور اس کی عمر صد و پنجاہ سال ہے۔ خلق اس کو معشوقہ بت بزرگ کہتی ہے اور وہ چالیس بیٹے رکھتی ہے۔ جب وہ آئے اور تجھے بلائے، پاؤں پر گرنا عرض کرنا۔ یہ اجنبی تمہارا آوازۂ عدل و انصاف سن کر بت بزرگ کے طواف کے واسطے آیا۔ شاہ بندر نے ظلم کیا میری عورت کو چھین لیا۔ اپنا قاعدہ یہ ہے نامحرم اگر عورت کو ہاتھ لگائے، اس کا قتل لازم آئے۔ اور بے انتقام ہم پر کھانا پینا حرام ہے۔ یقین ہے کہ خبر لے اور تیری داد دے۔ القصہ ملکہ سے رخصت ہوا اور بت خانہ میں گیا۔ تین روز میں اس قدر زر و زیور فراہم آیا کہ شمار سے باہر پایا۔ چوتھے روز برہمن آئے خلعت رخصت لائے۔ میں نے کچھ نہ لیا انصاف طلب کیا۔ مادر برہمنان کو رحم آیا، روبرو بلایا۔ دیکھا ایک بڑھیا منحنی مال دنیا سے غنی، تخت مرصّع پر بیٹھی ہے۔ میں نے جا کر پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور ماجرا گزارش کیا۔ مرد اجنبی کو تمہاری قوم میں عورت بیگانہ کے نزدیک جانا خوب۔ اس نے کہا سخت معیوب۔ بڑھیا کے روبرو دو لڑکے وہ دوازدہ سالہ ماہر و ہلال ابرو کھیلتے تھے۔ فرمایا جاؤ بادشاہ سے کہو شاہ بندر مردم آزار اور جفا کار ہے۔ اس کا قتل اس نظر کردہ بت بزرگ کے لیے لکھ دے۔ حیلہ نہ لے۔ نہیں تو آج کی رات سنگسار اور عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔ وہ دونوں ماہ جماعت پنڈوان سوار ہو کر رواں ہوئے اور ایک گروہ آگے سرود کناں ناقوس زناں مردم اعلیٰ داد نے ان کی خاک پاک سرمہ کرتے اور سر پر دھرتے۔ بادشاہ نے پیادہ استقبال کیا اور اپنے پاس بٹھا لیا۔ لڑکوں نے پیغام پہنچایا۔ فرمایا شاہ بندر آئے قصہ انفصال پائے۔ میں ڈرا اگر قضا را روبرو آیا اپنی بیٹی لے گا اور مجھ کو سولی دے گا۔ لڑکوں نے قرینے سے معلوم کیا کہ یہ حکم اس غرضی کے خلاف مرضی ہے۔ کہا، فرمودۂ بت بزرگ نہیں مانتے ہو اور ہماری ماں کا قول جھوٹ جانتے ہو۔ خراب جاؤ گے سزا پاؤ گے۔ ناخوش ہوئے، اٹھ چلے۔ بادشاہ فرنگ نے خوف کھایا ان کو منایا۔ عذر خواہی بدرجۂ اتم کی اور چٹھی میرے نام پر شاہ بندر کو لکھ دی۔ لڑکے سوار ہو کر آئے نذر نیاز بہت سی لائے۔ مادر برہمنان نے فرمایا پانچ سو سوار جائیں شاہ بندر کو پکڑ لائیں۔ سواروں نے گھوڑے اٹھائے شاہ بندر کی حویلی میں در آئے۔ وہ اس ماجرے سے بے خبر غافل از قضا و قدر۔ میں نے اسے جا لیا۔ مار کے ڈال دیا۔ اپنی معشوقہ لی اور کسی کو ایذا نہ دی۔ اس کا نقد اور جنس قلمبند کیا رائیگاں جانے نہ دیا۔ برہمن میری داد و دہش سے مالدار ہوئے اور غریب غربا شکر گزار ہوئے دوسرے روز بارگاہ بادشاہ میں حاضر ہوا ارکان دولت کو تحفہ جات دیا، رضامند کیا۔ بادشاہ نے سرفراز کیا، خلعت فاخرہ دیا۔ معمول تھا جو قافلۂ دریا اترتا، میں مال ملاحظہ کرتا۔ بعد مدت ایک بار مال ملک التجار خدمتگار ہیرے روبرو لائے۔ ان میں دونوں بھائی نظر آئے۔ مجھ کو غیرت آئی کہ میں بایں شان اور بھائی پریشان۔ افسوس کھایا۔ ان کو ساتھ لایا۔ حضور میں تقریب شائستہ کی۔ ہر ایک کو خدمت عمدہ دی۔ ایک روز میری صاحب خانہ باغ میں روبرو کھڑی تھی، منجھلے بھائی کو نظر آئی پسند فرمائی۔ میں سوتا تھا دونوں بھائی مسلح شمشیر برہنہ لئے میرے مارنے کے واسطے آئے۔ سگ وفا دار سے آنے نہ پائے۔ چوکیداروں نے پکڑا رسی سے جکڑا۔ اس روز سے بھائیوں کو قید کیا اور کسی طور کا رنج نہ دیا۔ ابو ان کے دیدار سے محظوظ ہوں۔ جہاں پناہ سلامت دونوں بھائی موجود ہیں پوچھ لیجئے اگر خلاف عرض کرتا ہوں سزا دیجئے۔ میں نے اس عزیز کی مروت پر آفرین کی اور خلعت سے عزت دی۔ پوچھا جواہرات کہاں سے پائے۔ التماس کیا ایام حکومت بندر میں ایک روز برائے تفرج قصد ہوا۔ بالائے بام بیٹھا تھا دور سے دو نفر مسافر جنگل میں نظر آئے۔ حسب الایما قراول انہیں لائے۔ ایک نوجوان تھا پریشان حال دوسری عورت صاحب جمال۔ آتے ہی روٹی طلب کی، میں نے دی۔ جوان کھا کے بے ہوش ہوا۔ چند آستین بوسیدہ اس کے سر پر پیچیدہ تھیں۔ خدمتگار کھول لائے جواہرات نظر آئے۔ جب ہوش میں آیا پوچھا کہاں سے لایا۔ کہا یہ غریب بیچارا وطن آوارہ ستم زمانہ سے نیم جان باشندۂ آذربایجان ہے۔ باپ ملک التجار تھا۔ سفر ہند اختیار کیا مجھ کو ہمراہ لیا۔ مادر مہربان مانع ہوئی۔ باپ نے کہا میں پیر ناتوان اور یہ فضل الٰہی سے جوان ہے مبادا مجھ کو ساقی قضا و قدر شربتِ اجل پلائے اور دیدار میسر نہ آئے۔ پس مجھ کو ساتھ لیا اور مختار کیا۔ ہندوستان میں آیا وہاں سے وزیر آباد میں لایا۔ ارادہ فرنگ پر کشتی لی اور رواں کی۔ ایک روز بادِ مخالف آئی۔ کشتی نے پہاڑ سے ٹکر کھائی۔ پارہ پارہ اور ہر طرف آوارہ ہوئی۔ میں تن تنہا رہا میرا تختہ بہا۔ نہ باپ کی خبر مجھ کو، نہ میری خبر اس کو۔ خدا جانے موا یا جانبر ہوا۔
نظم:
نہ جی تن میں تھا اور نہ تن جی کے ساتھ
میری باگ تھی موجِ دریا کے ہاتھ
کروں کیا میں جینے کا اپنے حساب
یہی ایک دم تھا مثالِ حباب
تین روز کے بعد کنارہ پایا بہ ہزار خرابی باہر آیا۔ تشنہ گرسنہ سر و پا برہنہ افتاں و خیزاں چلا۔ ایک کھیت چنے کا ملا۔ کئی شخص سیاہ فام ہولے کھاتے تھے۔ انہوں نے مجھ کو دیے۔ میں نے لے لئے۔ تھوڑے کھائے حواس آئے۔ ان کی زبان فہمید میں نہ آئی صحبت سے کیفیت نہ پائی۔ آگے چلا دشت تھا۔ آتش بار ذرہ ذرہ شرار۔ ہوا اس قدر گرم اگر چڑیا آتی کباب ہو جاتی۔ میں نے رات دن گردش کھائی آبادی نظر نہ آئی۔ تھوڑے بوٹ کے دانے پاس تھے۔ انہیں تناول کیا پانی پیا۔ چوتھے روز ایک قلعہ بلند نظر آیا۔ قفل دروازہ بند پایا۔ مایوس ہو کر آگے چلا ایک پہاڑ ملا۔ اس کے نیچے شہر عظیم اور شہر پناہ مستقیم۔ گرتے پڑتے آپ کو وہاں پہنچایا۔ بسم اللہ کہہ کر دروازے میں در آیا۔ ایک مرد با لباس فرنگ بالائے کرسی خوش رنگ کرسی پر بیٹھا تھا۔ مجھ کو بھوکا معلوم کیا نان و کباب دیا۔ اسے جو کھایا غش آیا۔ افاقہ کے بعد پوچھا اب کیا ارادہ ہے۔ کہا، یہ فقیر چاہتا ہے کہ چند روز اس شہر میں بسر کی جائے تاکہ توانائی آئے۔ کہا، اے برادر فی الحال مع بیل و غربال اس ٹیلے پر جا۔ زمین کھود۔ جو ہاتھ آئے چھان کر لا۔ وہ کان جواہر تھی۔ تین توبڑے بھر لایا اور کئی دانوں کو چھپایا۔ اس عزیز نے کچھ نہ لیا سب مجھ کو دیا۔ کہا جہاں دل چاہے وہاں لے جا مگر اس شہر میں نہ آ۔ میں نے گردش کھانی تھی اس کی پند گوش نہ کی۔ ناچار اس نے اپنی انگشتری دی کہا ایک شخص میری صورت کا چوک میں ہے۔ اس کے پاس جانا جو وہ کہے عمل میں لانا۔ میں جا کر شہر میں داخل ہوا۔ شہر آباد بازار کشاد۔ رونق خوب آدمی محبوب۔ مردوں کی خرید و فروخت مردوں سے، عورتوں کی داد و ستد عورتوں سے۔ اس سے جا کر ملاقات کی انگشتری دی۔ کہا وہ گردن شکستہ آنے سے مانع نہ ہوا۔ میں نے کہا اس عزیز نے بہت سمجھایا میری رائے میں نہ آیا۔ میں نے اپنا قصہ پر غصہ کھا ایک ساعت چپ رہا۔ بولا اے نادان سو طرح کا عذاب اٹھاتا یہاں نہ آتا۔ اس شہر کے باشندے کافر اور دشمن مسافر ہیں جو غریب یہاں آتا ہے بے سجدۂ بت رہنے نہیں پاتا ہے۔ اگر چاہے بھاگ جائے، جانے نہ پائے۔ بت کے پیٹ میں ایک شیطان ہے اور اس کی گفتگو بہتان ہے۔ میں نے افسوس کھایا کہ عبث آیا۔ کہا خوب اب تو تقدیر لائی۔ میں نے تیرے واسطے جورو بہم پہنچائی۔ اس شہر کی رسم ہے مرد اجنبی جب سجدۂ بت بجا لائے جو مانگے سو پائے۔ کل بادشاہ بتکدے میں آئے گا بندہ بھی جائے گا۔ تو پرستش بت کے بعد بادشاہ کے قدم لیجیو اور دختر وزیر کی درخواست کیجیو۔ میں تیرا حال مفصّل کہوں گا اور اس کام کے در پے ہوں گا۔ پھر لباس فاخرہ دیا اور ساتھ لیا۔ دیکھا گرد بتخانہ کے انبوہ ہے اور ہر طرف زن و مرد کا گروہ ہے۔ بادشاہ فرنگ روبروئے بت سجدہ گزار اور امیر اور امراء دست بستہ امید وار۔ میں نے بت کو سجدہ کیا اور پائے برہمن چوم لیا۔ میں بادشاہ کے نثار اور وزیر کی بیٹی کا طلب گار تھا۔ بادشاہ نے فرمایا یہ اجنبی کہاں سے آیا۔ اس عزیز نے عرض کی یہ میرے اقربا سے ہے۔ بت بزرگ کی زیارت کے واسطے آیا۔ وزیر زادی کا تیر نگاہ کھایا۔ اب اس پر مائل ہے اور جہاں پناہ سے سائل ہے۔ امیدوار ہوں وزیر اس کو اپنی غلامی میں لائے اور سرفراز فرمائے۔ بادشاہ نے با آواز بلند وزیر سے فرمایا کہ اسے خلعت دامادی دینا واجب آیا۔ شہرت ہوئی کہ بزرگ نے مہربانی فرمائی اور اجنبی نے دختر وزیر پائی۔ اسی وقت برہمن مجھ کو بت کے آگے لایا اور رشتۂ زنار گلے کا ہار بنایا۔ میں نے گردن جھکائی بت سے کچھ آواز آئی۔ وقت شام بادشاہ خود مقام وزیر پر آیا مجھ کو ساتھ لایا۔ خلعت فاخرہ دیا دختر وزیر سے منعقد کیا۔ شادیانہ شاہی بلند اور عالم خرسند ہوا۔ ایک سال کے بعد معشوقہ حاملہ ہوئی۔ وقت اسقاط حمل موئی۔ میں غمگین تھا سینکڑوں رنڈیاں آئیں۔ نوحہ بر لائیں۔ دونوں ہاتھوں سے میرا سر پیٹنا شروع کیا اٹھنے نہ دیا۔ قریب تھا کہ میرا کام تمام ہو وہی شخص کہ آنے سے مانع ہوا تھا مجھے کھینچ کر دیوان خانے میں لایا اس آفت سے بچایا۔ کہا غم سے درگزر اپنا ماتم کر۔ میں نے تجھ کو بہت سمجھایا تیری خاطر میں نہ آیا۔ القصہ تمام املاک اور میری خانہ داری کا سب اسباب بیچ کر جواہرات لیا وہ جواہر اور چالیس روز کا قوت توشۂ تابوت کیا۔ بادشاہ وزیر ہمراہ ہر ایک با لباس سیاہ اسی قلعہ مقفل کی طرف کہ پہلے روز میں نے دیکھا تھا، تابوت لائے اور سو آدمی باتفاق دروازہ کھول کر اس میں در آئے۔ مجھ کو کہا یہ آذقہ کھانا اور چند روز بسر لے جانا تاکہ بت بزرگ خبر لے اور تیری داد دے۔ میں نے چاہا کچھ کہوں وہاں نہ رہوں۔ اس مرد نے بزبان اجنبی کہا اے بیہوش خاموش۔ والا ابھی ہمہ سوختی لاتے ہیں اور ہمیں تجھے جلاتے ہیں۔ مجھ کو نکلنے نہ دیا دروازہ بند کیا۔ میں نے لاش پر لات ماری کی تو کیوں موئی جو میری یہ خرابی ہوئی۔ چالیس روز تک وہی توشۂ تابوت میں نے اپنا قوت کیا اور ایک مہری سے آب گرم بہا وہی پیا۔ جب قوت آخر ہوا میں نے کہا اب موا۔ اتفاقاً ایک تابوت اور آیا میں نے آپ کو چھپایا۔ اس کے ساتھ پیر زال آذقہ مالامال۔ میں نے ایک ضرب چوب سے اس کا کام تمام کیا اور صندوقچہ لیا۔ چالیس روز کھایا پھر تابوت آیا۔ اس کے ساتھ دختر پری پیکر ماہ رو مشکین مو لباس کد خدائی در بر تاج عروسی بر سر صندوقچہ جواہر آبدار طعام لذیذ خوشگوار۔ میرا دل اس نازنین شمائل پر مائل ہوا۔ آذقہ لیا اور اس کو طلب کیا۔ اس نے گریز کی میں نے طرح دی کہ کہاں جائے گی آخر آئے گی۔ جب اس پر اشتہا غالب ہوئی دیکھا مجھ کو کہ ہر روز کھاتا ہے اور نہیں ستاتا ہے۔ دور سے سوال کیا میں نے میوہ دیا۔ چند روز میں رام اور ہم کلام ہوئی۔ پوچھا تو کون ہے۔ کہا، دختر وکیل مطلق بادشاہ شب زفاف کو میرا شوہر بیمار ہوا اور اسی مرض میں موا۔ میں نے بھی اپنا حال ظاہر کیا اور اس کو بغل میں لیا۔ ہم دونوں اپنا اپنا درد اور دکھ آپس میں کہتے اور ایک جا رہتے۔ ایک سال کے بعد لڑکا پیدا ہوا۔ اس پر دل شیدا ہوا۔ بہت مصیبت اٹھائی طبیعت تنگ آئی۔ ایک روز میں نے رو دیا۔ جناب کبریا میں التماس کیا کہ اے کریم کارساز غریب نواز کب تک زندہ درگور رہوں اور تیرے سوا کس سے کہوں۔ مجھ بے کس کی خبر لے۔ اس قید سے رہائی دے۔ ایک بزرگ نے خواب میں کہا مہری کی راہ سے باہر آ۔ مہری سنگ و آہن سے استوار اس کا جدا کرنا دشوار۔ بارے میری عقل سے میخ آہنی تابوت شکستہ سے لی۔ کھودنے کی محنت اختیار کی۔ ایک سال کے بعد اس میں رخنہ ہوا۔ اسی طرف سے باہر آیا۔ تھوڑے جواہر ساتھ لایا۔ ایک مہینہ کئی روز ہوئے جنگل طے کرتا ہوں، آبادی نہیں پائی آج تقدیر یہاں لائی۔ اے جہاں پناہ مجھ کو اس عزیز کے حال تباہ پر رحم آیا، کھانا کھلایا، لباس دیا، رفیق کیا۔ معتبر نظر آیا میرے نزدیک رتبہ پایا۔ اس کی عورت بندہ زادے کے ساتھ کہ ملکہ فرنگ سے تولد ہوا تھا، بار و ہمکنار ہوئی اس سے دو فرزند پیدا ہوئے لیکن دونوں موئے۔ چند مدت کے بعد بندہ زادہ بھی مر گیا۔ وہاں سے دل نفرت کر گیا۔ شاہی بندر اس کو سپرد کی۔ شاہ فرنگ سے رخصت لی۔ آپ سگ پرست کہلایا بڑے بھائیوں کی بات زبان پر نہ لایا مگر اس لڑکے کی خاطر سے ادھر کا راستہ لیا اور آپ کے روبرو یہ راز ظاہر کیا۔ اے درویشو میں نے لڑکے کی طرف رخ کیا اس نے زمین کو بوسہ دیا۔ کہا جہاں پناہ سلامت میرا باپ بند اور یہ عاجز و فرزند ناچار مردانہ وار باہر آئی۔ سگ پرست کو لائی۔ بادشاہ ملاحظہ فرمائے اور میرا باپ رہائی پائے۔ سگ پرست نے یہ سن کر بے اختیار رو دیا اور افسوس کیا کہ میرے فرزند تنہا چاہا اس کو فرزندی میں لاؤں اور اپنا جانشین بناؤں۔ خدا نے یہ بھی نصیب نہ کیا۔ زمانے نے فریب دیا۔ القصہ اس کے گریہ جانسوز سے میرا دل آب اور جگر کباب ہوا۔ اس کو نزدیک بلا یا۔ آہستہ فرمایا دختر وزیر کو اپنی زوجیت میں لے اور غم و غصہ جانے دے۔ فی الجملہ صبر آیا اور آداب بجا لایا۔ میں نے اس کو مختار کار کیا اور اعتبار دیا۔ چند روز کے بعد وزیر زادی کو اس کے ساتھ منعقد کیا۔ اس سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ایک میری سرکار کا مختار ہے اور دوسرا ملک التجار ہے۔ اے درویشو مطلب اس حکایت سے یہ ہے کہ حجاب درمیان سے اٹھ جائے اور ہر ایک اپنی سرگزشت بیان فرمائے۔
داستان چہارم زبانی درویش سوم
تیسرا درویش بولا کہ اے اداس یہ فقیر شہزادۂ ملک فارس ہے۔ ایام طفولیت میں استادوں نے تعلیم فرمایا۔ ہر فن سے بہرہ ور فرمایا۔ ہمیشہ حکایات بزرگان سنتا اور گل فیض چنتا۔ اتفاقاً ایک شخص نے ذکر حاتم کیا کہ خدا نے جوہر سخاوت اسی کو دیا۔ میں نے کہا اس کی کوئی روایت مختصر بیان کر۔ عرض کی اس کا دفتر بے نہایت ہے ازاں جملہ یہ حکایت ہے کہ نوفل نامی سردار عرب نے ایک بار رشک سخاوت سے حاتم سے عداوت کی۔ فوج برائے قتل تعین فرمائی۔ حاتم نے خبر پائی۔ کہا بے جرم و گناہ خونریزی سپاہ ہو گی۔ بجان واحد آپ کو ایک میں مخفی کیا۔ نوفل نے گھر لوٹ لیا۔ کہا جو سر حاتم لائے ہزار اشرفیاں پائے۔ عالم تلاش میں چلا، کسی کو نہ ملا۔ ایک مرد پیر اور پیر زن متصل غار خار کشی کرتے تھے۔ بڑھیا کی زبان سے نکلا اگر حاتم کہیں ہاتھ آتا ہمارا اخلاص بالکل جاتا۔ پیر مرد نے کہا ہے اے عاقلۂ جہاں وہ نصیب کہاں کہ دولت پائیں۔ فراغت سے کھائیں۔ حاتم نے یہ سن کر دل میں کہا اس غریب کو محروم رکھنا بعید از مروت اور دور از فتوت ہے۔ غار سے باہر آیا۔ پیر مرد کو بلایا۔ کہا میں حاتم ہوں، نوفل کے پاس لے چل، قید مفلسی سے نکل۔ اس نے کہا اے حاتم فی الواقع میری پریشانی جاتی ہے اور دولت ہاتھ آتی ہے مگر یہ کیا لطف ہے کہ ایک بے گناہ کو دشمن کے قبضہ میں دوں اور خون ناحق گردن پر لوں۔ حاتم نے قسم دی اس نے قبول نہ کی۔ اس بحث پر ہجوم ہوا اور خلق کو معلوم ہوا۔ حاتم نے کہا اگر تو نہیں لے چلتا ہے میں خود جاتا ہوں۔ تجھ کو پکڑ بلاتا ہوں کہ اس بڈھے نے مجھے چھپایا، اس باعث سے میں نہ آیا۔ پیر مرد بولا سبحان اللہ نیکی برباد گناہ لازم۔ طوعاً اور کرہاً ہمراہ ہوا۔ اس کے گرد گروہ، گروہ عالم کا انبوہ۔ جب وہاں پہنچا نوفل نے پوچھا حاتم کیونکر آیا۔ ایک رند نے کہا میں لایا۔ فرمایا اشرفیوں کا توڑا اس کے آگے دھرو اور حاتم کو قتل کرو۔ حاتم نے کہا اے نوفل اگر سچ پوچھ تو یہ مجھے نہیں لایا اس پیر مرد نے پایا۔ نوفل نے اسے بلایا۔ پوچھا حاتم کیونکر آیا۔ پیر مرد نے خار کشی کے طریق پر خار کی طرف اپنا جانا اور طمعِ دنیا سے حاتم کا ذکر لانا اور وہ بات حاتم کے گوش زد ہونا اور توجہات کی راہ سے اس کا نکل آنا اور اپنا انکار اور اس کی تکرار سب بیان کیا۔ نوفل نے کہا افسوس خون نا حق ہوا تھا اس جوانمرد نے غریب کے واسطے جان تک دریغ نہ کی۔ ایسے صاحب سخاوت سے عداوت کی۔ سخت دون ہمتی ہے اور پست فطرتی ہے۔ پھر پیر مرد کو زر خطیر دیا اور پاس حاتم بدرجۂ اتم کیا۔ اے قبلۂ عالم میرے دل میں گزرا حاتم ایک مرد شریف اس کی یہ تعریف۔ تو بادشاہ زمانہ مالک زمانہ تو ہی داد سخاوت دے اور نیک نامی لے۔ حکم کیا ایک عمارت تازہ مع چار دروازہ جلد تیار ہو اور نقد وہاں انبار ہو۔ بعد تیاری شہرت دی اور منادی کی کہ محتاج آئے احتیاج لے جائے۔ روز و شب زر افشانی تھی اور کامرانی تھی۔ ایک فقیر نے صدا کی میں نے اشرفی دی۔ اسی طرح ہر دروازے سے لایا۔ میری زبان سے نکلا یہ فقیر حریصوں کا پیر ہے۔ فقیر نے تبسم کیا جو پایا تھا رکھ دیا۔ کہا تیرے آگے کچھ چیز ہے اور میرے سامنے کمتر از پشیز ہے۔ اے عزیز جب تک سخاوت ملکۂ بصرہ دیکھ نہ آئے گا نیک نامی نہ پائے گا۔ میں نے دو چند سہ چند دیا قبول نہ کیا۔ کہا اگر سلطنت دے گا فقیر نہ لے گا۔ من دو گھڑی متحیر رہا۔ دل میں کہا اگرچہ بصرہ دور ہے مگر جانا ضرور ہے۔ وزیر کو خوب ملک پر متسلط کیا اور آپ لباس درویشی لیا اور بذات واحد سفر کیا۔ بعد مدت ولایت بصرہ میں داخل ہوا جس شہر اور گاؤں میں گزرتا گماشتہ ملکہ خدمت کرتا۔ جب شہر بصرہ میں پہنچا ایک جوان سر دروازۂ عالیشان نظر آیا۔ مجھ کو بلایا۔ کہا یہ تکیہ گاہ فقیر ہے اور مہمان خانۂ غریب و امیر ہے۔ جو تشریف لائے سرفراز فرمائے۔ تواضع سے پیش آیا اپنے مقام پر لایا۔ حویلی خوب مکان مرغوب فرش زیبا مسند دیبا ظروف مسی بے شمار۔ ہر ایک نادرہ کار۔ دسترخوان وسیع بچھایا کھانا لذیذ کھلایا۔ تین روز جانے نہ دیا۔ چوتھے روز میں نے قصد کیا۔ کہا کیا مضائقہ ظروف وغیرہ یہ سب اسباب آپ کا ہے۔ بار برداری لائیے لے جائیے۔ میں نے کہا اس قدر بار مجھ کو کیا درکار۔ کہا ملکہ اگر سنے گی۔ فقیر آیا اور قبول نہ فرمایا۔ بندہ مورد عتاب ہو اور گرفتار عذاب ہو۔ فی الحال اگر لے جانا محال ہے اسباب تمام ایک مقام پر رکھ کر قفل بند کیجیے۔ اس کی خاطر سے سب اسباب ایک حجرے میں بند کیا اور قفل دیا۔ اسی وقت ایک خواجہ سرا لباس فاخرہ پہنے آیا۔ حرف دعوت درمیان لایا کہا یہ خاکسار ایک مدت سے انتظار میں تھا کہ کوئی بزرگ آئے بندہ خدمت بجا لائے۔ الحمد للہ میری دعا نے اجابت پائی آرزو بر آئی۔ میں نے ہر چند عذر کیا جانے نہ دیا۔ مکان میں لایا دستر خوان بچھایا۔ طبق ہائے زریں کاسہ ہائے سیمیں۔ کھانے مزیدار شربت خوشگوار۔ تین روز تک نہ چھوڑا۔ چوتھے روز کہا اگر قیام کیجئے مقام لیجیے۔ اور جو مصرف اس مکان کا ہے مال مہمان کا ہے۔ اس کے سوا اور جو کچھ حضرت ارشاد فرمائیں خدمت ملکہ میں عرض کیا جائے۔ مجھ کو طمع انسانی اور حرص جوانی نے لیا۔ کہا خدا نے مجھے کسی چیز کا محتاج نہیں کیا مگر ایک مطلب ہے زبانی نہ کہوں گا رقعہ لکھوں گا۔ اگر مہربانی فرمائیے سر بمہر لے جائیے۔ خواجہ سرا نے قبول کیا میں نے رقعہ لکھ دیا۔ مضمون یہ تھا کہ یہ فارس ملک فارس میں تخت فرمانروائی پر کامکار اور شہرۂ روزگار تھا۔ ایک سیاح نے اوصاف حمیدہ اور خصائل پسندیدہ ملکہ سے شمہ بیان کیا۔ مجھ کو اشتیاق نے لیا۔ لباس بدلا اکیلا نکلا۔ حق تعالیٰ نے بخیر و خوبی یہاں پہنچایا حال ملکہ جو سنا تھا کہیں اس سے زیادہ پایا۔ سرکار کے گماشتے باخلاق پیش آئے۔ نقد و جنس سب حاضر لائے۔ لیکن عالم آزادی میں یہ بار مجھ کو کیا درکار۔ اگر ملکہ شرع شریف سے انکار نہ فرمائے میرے عقد نکاح میں آئے۔ عہد کرتا ہوں کہ تا زندگی حلقۂ بندگی سے باہر نہ آؤں گا اور غلام وار فرمانبرداری بجا لاؤں گا۔ باقی اختیار بدست مختار۔ خواجہ سرا نے خط پہنچایا ملکہ نے یاد فرمایا۔ سر دروازۂ حرم ایک دایہ محرم بازیو مرصع کار بالائے کرسی زرنگار بیٹھی تھی۔ میں نے بھی جا کر ایک کرسی پر نشست کی۔ ہر ایک نے تعظیم دی۔ دایہ نے کہا اے فرزند ملکہ دعا کہتی ہے اور فرماتی ہے کہ نہ مجھ کو شرع شریف سے عار ہے نہ شوہر کرنے سے انکار ہے۔ ایک مدت سے تجھ سے محب صادق کی۔ جستجو ہے آج سے مجھ کو اپنا نامزد جان اور خادموں سے کم تر پہچان۔ دنیا میں عورت کا مہر مقرر ہے مگر میرا مہر ایک شرط پر منحصر ہے۔ پوچھا شرط کیا۔ دایہ نے کہا کوئی جائے بہروز کو لائے۔ بہروز پوشاک فاخرہ در بر ہزار کلید بالائے کمر خراماں خراماں آیا۔ دایہ نے فرمایا اے بہروز احوال نیمروز بیان کر۔ اس نے کہا اے عزیز سرکار جہاں مدار ملکہ میں ہزار غلام صاحب اقتدار ہے اور سب سے کم ترین یہ خاکسار ہے۔ ہر ایک تجارت کے واسطے جاتا ہے اور جب آتا ہے ملکہ حرف سود و زیاں درمیان نہیں لاتی ہے۔ وضع ہر دربار استفسار فرماتی ہے۔ ایک بار میں شہر نیمروز کی طرف گزرا وہاں ہر شخص سیاہ پوش نظر آیا۔ ہر چند پوچھا کسی نے نہ بتایا
نظم:
سب ادنیٰ و اعلیٰ سے تا بادشاہ
سیہ پوش تھے جس طرح نجم و ماہ
میں ہر چند پوچھا کیا سب سے بھید
نہ ہرگز ہوئی وہ سیاہی سپید
روز اول ماہ از وزیر تا بادشاہ تمام خرد و بزرگ ہمراہ شہر سے نکل کر باہر کھڑے ہوئے۔ ہر ایک رو بصحرا برابر صف آرا۔ ایک نوجوان گاؤ زرد پر سوار آگے خدمت گار نیستان سے نمودار ہوا۔ جلد گاؤ سے اتر کے اس نے نشست کی۔ غلام مرتبان صف کی طرف لایا ہر ایک کو دکھایا۔ سب نے تحسین و آفرین کی۔ غلام ادھر سے ادھر پھرا اس کے آگے مرتبان دھرا۔ اس نے وہ تیغہ جڑا کہ اس کا سر دس قدم پر جا پڑا۔ پھر سوار ہو کر نیستان کو چلا۔ ہر ایک نے دست افسوس ملا۔ میں پوچھتا رہا کسی نے کچھ نہ کہا۔ غرض ہر سال یہی ازدحام اور اس جوان کا وہی کام ہے۔ میں نے خدمت ملکہ میں یہ احوال عرض کیا ملکہ کو حیرت نے لیا۔ فرمایا کوئی جائے تحقیق کر آئے۔ ایک غلام گیا چند ماہ کے بعد وہاں بیمار ہوا اور موا۔ نامہ لکھا کہ جو کچھ سمع شریف میں پہنچا راست ہے مگر اس عقدے کا حال کھلنا دشوار ہے۔ آگے ملکہ مختار ہے غلام فدا اور حق نمک ادا ہوا۔ اے عزیز ملکہ نے یہ سن کر تعجب کیا اور کشف اس راز کا اپنا مہر قرار دیا۔ جو یہ خبر لائے وہ خلعت دامادی پائے۔ اگر تجھ میں قدرت ہو، جا خبر لا۔ نہیں تو آپ کو خاک میں ملا۔ مگر اس ہوس سے درگزر خیال خام نہ کر۔ میں نے کہا جاتا ہوں۔ انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہو آتا ہوں۔ مگر ایک عقدہ ہے اگر ملکہ مجھ کو متصل پردہ بلائے اور حال بیان فرمائے مہربانی سے بعید نہ ہو گا۔ دایہ نے پیغام پہنچایا ملکہ نے یاد فرمایا۔ سبحان اللہ مکان نمونہ بہشت لونڈیاں حور سرشت۔ میرے واسطے ایک کرسی آئی ملکہ پسِ پردہ تشریف لائی۔ میں نے ثنا و صفت کے بعد کہا جس روز سے تقدیر قلمرو ملکہ میں لائی منزل بمنزل ضیافت کھائی اور شہرہ خاص میں کارپردازان سرکار نے اس قدر نقد و جنس در پیش کیا کہ مال دنیا سے بے نیاز کر دیا۔ لیکن میں نے اس عالم آزادگی میں کچھ نہ اٹھایا معلوم ہوا اسی طرح جو مسافر آتا ہے ممنون ہو جاتا ہے۔ اپنی دانست میں انتفاع ولایت ایک مہمان خانے کو کفایت نہیں کر سکتا ہے یہ خرچ کہاں سے چلتا ہے۔ اگر ملکہ اس راز سے مطلع فرمائے بندہ تلاش کے واسطے جائے۔ دایہ نے کہا شب کو گزارش کیا جائے گا۔ میں اٹھ کر مہمان خانے میں آیا۔ شب کو مجھے یاد فرمایا۔ جا کر دیکھا کہ دو شاخہ اور پنج شاخہ روشن بے شمار نقرہ و طلا کے شمع دان ہزار شامیانے زر و زری با جھالر مروارید جا بجا استادہ۔ اسباب عیش و عشرت بخوبی آمادہ۔ فرش ملوکانہ نام مسند خسروانہ۔ چلتے چلتے دایہ محل سرائے خاص میں لائی۔ آئینہ بندی مستحکم شیشہ ہائے حلبی قد آدم۔ در و دیوار کو اس قدر مرصع کیا ہے گویا تمام عالم کا جواہر جڑ دیا ہے۔ ملکہ پس پردہ تشریف لائی دایہ باہر آئی۔ مجھ کو کرسی دی۔ آپ حکایت آغاز کی کہ اس دیار کا والی سات بیٹیاں رکھتا تھا۔ بلند اختر ایک سے ایک بہتر۔ روز جشن سب بیٹیاں پوشاک پہن کر باپ کے سامنے آئیں آداب بجا لائیں۔ باپ نے سب سے پوچھا تم میرے نصیب سے پاتی ہو۔ ہر ایک نے عرض کی یہ حشمت آپ کی بدولت ہے مگر چھوٹی لڑکی نے کہا غریب پرور نصیب اپنا اپنا رہبر ہے۔ یہ سخن نا پسند آیا فرمایا کہ پالکی میں ڈال کر اسے لے جائیں صحرائے لق و دق میں چھوڑ آئیں۔ آدھی رات کو لوگ سوتے میں اٹھا لائے اور صحرائے ہولناک میں چھوڑ آئے۔ شاہزادی جاگی رونے لگی
نظم:
کروں کیا میں رونے کا اس کے بیاں
ہوئے دونوں آنکھوں سے دریا رواں
جو ڈیرے وہاں خشک تھے سو بھرے
ہوئے خار صحرا کے سارے ہرے
نا یگانہ نہ بیگانہ نہ پانی نہ دانہ۔ تن تنہا حیران دل پریشان۔ تیسرے روز خدا کی طرف رجوع لائی اس کی دعا نے اجابت پائی۔ غیب سے ایک فقیر آیا۔ اسے بھوکا پایا۔ اپنے کشکول سے روٹی دی اور تسلی کی۔ کہا اے شہزادی خاطر جمع رکھ۔ میں بھیک مانگ لاؤں گا تجھ کو کھلاؤں گا۔ چنانچہ ہر روز فقیر جاتا گدائی کر لاتا۔ ملکہ نے ایک روز تیل اور کنگھی طلب کی، فقیر نے لا دی۔ کنگھی کرنے میں بالوں سے ایک جواہر ہاتھ آیا فقیر پانچ سو کو بیچ لایا۔ ملکہ نے کہا مزدور آئیں حویلی بنائیں۔ فقیر بولا اگر مٹی کھدی ہوئی پاتا میں آپ دیوار بناتا۔ ملکہ نے بیل ہاتھ میں لیا شغل اختیار کیا۔ تھوڑی زمین کھودی کہ ایک دروازہ نظر آیا خانہ پُر از خزانہ پایا۔ بقدر احتیاج لیا اور بند کیا
نظم:
نہ تھے اس کی قسمت میں جو درد و رنج
دیا حق نے اس کو خرابے میں گنج
کہا شہزادی نے کلمہ بجا
کہ ہر ایک کا ہے نصیبہ جدا
فقیر بموجب ایما معمار اور مزدور شہر سے لایا۔ ملکہ نے شہر پناہ بلند اور قلعہ آسمان پیوند تجویز فرمایا۔ زر خطیر دیا اور امید وار کیا۔ عمارت عالی جلد تیار ہوئی اور شہرۂ روزگار ہوئی۔ رفتہ رفتہ بادشاہ نے خبر پائی۔ پوچھا یہ ملکہ کس خاندان سے آئی۔ جواب شافی نہ پایا حیرت میں آیا۔ اپنا ایک معتمد ملکہ کے نزدیک بھیجا ارادہ ہے کہ ہم آپ بطریق سیر آئیں عمارت ملاحظہ فرمائیں۔ ملکہ نے خوش ہو کر عرض کی اس غریب کے زہے نصیب جہاں پناہ اگر کل تشریف لائیں سرفراز فرمائیں۔ دوسرے روز شاہ والا تبار تخت رواں پر سوار ہو کر آئے۔ ملکہ با کنیزان خوبرو اور مع نغمہ سرایان خوش گلو تا دروازہ آئی آداب بجا لائی۔ زنجیر فیل کوہ پیکر اور کئی گھوڑے با زیور پیش کش کیے۔ اور چند جواہر گراں بہا نذر دیے۔ بادشاہ حیران رہا۔ زبان مبارک سے کہا اے عاقلہ کس ولایت سے آئی اور کیوں حویلی ویرانے میں بنائی۔ ملکہ نے عرض کی یہ وہی کنیز بے تمیز اور دختر نا چیز ہے کہ آپ نے غصہ کیا اور نکال دیا۔ بادشاہ کو فوراً وہ بات یاد آئی۔ شفقت پدری فرمائی۔ پیشانی پر بوسہ دیا اور گود میں لیا۔ پھر خاصہ آیا تناول فرمایا۔ بادشاہ بیگم اور لڑکیوں کو طلب کیا ملکہ نے ہر خواہر کو جواہر اس قدر دیا کہ اگر ہفت اقلیم کے جواہرات لائیں اس کے پاسنگ کو نہ پائیں۔ تا حین حیات بادشاہ نے حکمرانی فرمائی اس کے بعد ملکہ پر سلطنت قرار پائی۔ دولت خدا داد بے زوال ہے بلکہ ترقی شامل حال ہے۔ اے قبلہ عالم میں نے یہ سن کر ملکہ کو دعا دی اور نیمروز کی راہ لی۔ مدت کے بعد وہاں پہنچا عالم سیاہ پوش پایا جو سنا تھا وہی نظر آیا۔ میں نے تحقیقات کے واسطے سر دھنا کسی سے کچھ نہ سنا۔ غرہ ماہ کو پھر جو وہی ہنگامہ روبکار ہوا اور گاؤ سوار نمودار ہوا۔ چاہا اس کے پیچھے جاؤں دریافت کر آؤں۔ لوگوں نے مجھ کو گھیرا بزور پھیرا۔ مطلب بر نہ آیا افسوس کھایا۔ ناچار تیسری بار میں نے کسی سے نہ کہا نیستان میں چھپ رہا۔ جب گاؤ سوار صف سے دوچار ہو کر پھرا گاؤ مثال باد اڑا۔ میں پیچھے چلا شمشیر کھینچ کر کہا جا یہاں نہ آ۔ میں نے آوازہ فقیرانہ کیا خنجر مرصع پھینک دیا۔ میں نے پیچھا نہ چھوڑا پھر باگ کو موڑا۔ اے فقیر خون ناحق ہوتا ہے کیوں جان کھوتا ہے۔ میں نے کہا اے جوانمرد دریغ نہ کرنا مجھ کو راحت ہے مرنا۔ یہ سن کر تلوار میان میں کی اور اپنی راہ لی۔ دو کوس پر ایک باغ تھا دیوار یں بلند دروازہ بند نعرہ ہولناک زبان پر لایا کہ تمام باغ نے لرزہ کھایا دروازہ کھلا وہ اندر سے چلا۔ میں نے دل میں کہا مطلب رہا۔ بارے خدا نے اس کو رحم دیا مجھ کو طلب کیا۔ دیکھا ایک جوان ہے نازنین بالائے مسند مربع نشین۔ طیاری شیشۂ حلبی رو بکار اور مہر و زمردیں اس کے درمیان طیار۔ میں آداب بجا لایا بیٹھنے کو فرمایا۔ حاضری طلب کی مجھ کو بھی دی۔ وقتِ شام اس مقام سے اٹھا۔ غلاموں نے کنارہ کیا میں نے بھی گوشہ لیا۔ وہ نوجوان مانند سروِ رواں باغ کی طرف آیا میں نے دریچہ سے نکل کر آپ کو زیر درخت چھپایا۔ اس نے ایک چوب دستی ہاتھ میں لی۔ گاؤ کو خوب زد و کوب کی۔ پھر ایک دروازہ کھول کے در آیا وہاں کا احوال کچھ نہ پایا۔ پھر آ کر گاؤ کا بوسہ لیا اور پیار کیا۔ پھر مکان اوّل میں آیا۔ کھانا کھایا۔ میں تا وقت خواب بیٹھا رہا۔ مجھ سے کہا اے عزیز سچ کہہ۔ کیا رنگ ہے کہ زندگی سے تنگ ہے۔ میں نے ابتدا سے انتہا تک سب بیان کیا۔ آہ سرد زبان پر لایا فرمایا اے عزیز تو کامیاب ہوا اور میں زیادہ تر بیتاب ہوا۔ اے قبلۂ عالم میں نے اس میں عشق کی سوختگی پائی۔ قسم کھائی کہ اگر اس کار کے اسرار سے خبر دار ہوں جب تک کہ آپ کی مراد بر نہ لاؤں اپنی منزل مقصود کی طرف نہ جاؤں۔ اس نے مجھ کو شفیق اور رفیق جانا۔ کہا میں اس ولایت کے والی کا فرزند ہوں۔ وقتِ تولد منجموں نے عرض کی فضل الٰہی سے شہزادہ جمیع علوم سے بہرہ یاب اور روشن تر از آفتاب ہو گا مگر چودہ برس تک آفتاب اور ماہتاب کا دیکھنا زبون ہے بلکہ پیہم جنون ہے۔ فرمایا دایہ تہ خانے میں لے جائے ہرگز باہر نہ لائے۔ صلاح وزرائے دانشور سے ایک باغ مختصر طبع پسند دیواریں بلند ترتیب دیا اس پر خیمۂ نمد استاد کیا۔ روشنی کے واسطے شیشے جا بجا لگائے مجھ کو مع دایہ اور چند خواص وہاں لائے۔ باپ نے حکیم جہت تعلیم تعین فرمایا۔ ہر فن سے بہرہ وافر پایا۔ ایک روز شب ماہ تھی میں سیر باغ کرتا تھا۔ ایک گل عجیب نظر آیا میں نے ہاتھ دوڑایا نہ پایا۔ جب میں جھکتا وہ چھپتا اور جب ہاتھ دور لے جاتا نظر آتا۔ ظاہرا دست درازی شاخ نہاں سے نمد بوسید میں سوراخ ہوا وہ گل شعاعی تھا۔ میں نے کبھی دھوپ اور چاندنی نہ دیکھی تھی حیران ہوا۔ ناگاہ نمد پارہ ہوا اور چاندنی آشکار ہوئی۔ اوپر سے آواز قہقہہ آئی میں نے نگاہ اٹھائی۔ دیکھا ایک تحت ہے طلا کار اس پر ایک نازنین سوار۔ تاج مرصع برسر چارقب مروارید در بر۔ فوراً تخت نیچے آیا مجھ کو پکڑ کر پاس بٹھایا۔ دو جام پے در پے پئے۔ صحبت موافق آئی لذت وافر پائی۔ اس قدر میرا دل لیا کہ فریفتہ کیا۔ فرمایا آدمی بے وفا ہوتا ہے نہیں تو جب تک جیتی تیری مے محبت پیتی۔ ایک ساعت کے بعد پریزاد آئی آداب بجا لائی۔ کچھ اپنی زبان میں عرض کیا۔ وہ نازنین روئی۔ کہا میں نے چاہا تھا تیرے ساتھ کوئی دم خوشی سے بسر لے جاؤں اور لطف زندگی پاؤں
نظم:
میں جاتی ہوں ناچار اے میری جان
نہ ہونا میری سمت سے بد گمان
شب و روز دم تیرا بھر نا مجھے
فراموش تو بھی نہ کرنا مجھے
میں نے کہا اے راحت جان تیرا مقام کہاں۔ اگر چاہوں کہ پھر دولت دیدار پاؤں کس سے پوچھوں کدھر جاؤں۔ اپنے مقام سے نشان دے یا مجھے ساتھ لے۔ کہا میں بادشاہ جن کی بیٹی ہوں آدمی کی کیا قدرت کہ وہاں جائے اور مجھے دیکھنے پائے۔ یہ حرف کہاں اور آنسوؤں کا دریا بہا۔ پریزادوں نے تخت اٹھایا ہوا پر اڑایا۔ جہاں تک نظر کام کرتی رہی میں اسے دیکھتا رہا اور وہ مجھے دیکھتی رہی۔ جب غائب ہوئی سودا زدہ ہر طرف پھرا اور بے اختیار زمین پر گرا۔ روتا اور کہتا
نظم:
کہاں تو گئی اے مری نور عین
نہ آرام جی کو نہ دل کو ہے چین
تیرے ہجر میں ہائے مرتا ہوں میں
کئی دم ہیں باقی سو بھرتا ہوں میں
معلّم نے سورۂ جن دم کیا۔ بادشاہ کو اس خبر نے صدمہ دیا۔ بادشاہ خود تشریف لائے دانا اور ذو فنون ساتھ آئے۔ ہر ایک نے تدبیر فرمائی سود مند نہ آئی۔ میں روز بروز لاغر ہوتا اور راتوں کو نہ سوتا۔
نظم:
کبھی آسماں کی طرف تھی نگاہ
کبھی باد سے پوچھتا اس کی راہ
کبھی اڑتی چڑیا سے کہتا پکار
بتانا مجھے اس پری کا دیار
اس عرصہ میں ایک سوداگر وارد ہوا اس نے التماس کیا ہندوستان میں ایک جزیرۂ دلکشا جانفزا ہے۔ وہاں جوگی رہتا ہے افلاطون کردار ارسطو روزگار اس کی حویلی نہایت بلند برج بارہ آسمان پیوند۔ سال کے بعد روز باہر آتا ہے دریا کو جاتا ہے۔ نزدیک دور کے بیمار اس کے منتظر رہتے ہیں اس روز کو روز عید کہتے ہیں۔ جوگی اشنان کے بعد ایک نظر دیکھ کر نسخہ لکھ کر سب کو دے جاتا ہے ہر ایک شفا پاتا ہے۔ اگر اجازت پاؤں شہزادے کو وہاں لے جاؤں۔ بادشاہ نے حکم دیا وزیر کو ساتھ کیا۔ مدت کے بعد وہاں پہنچا فی الواقعہ اس ٹاپو کی فضا جانفزا تھی اور آب و ہوا دل کشا تھی۔ دل کو راحت اور جی کو فرحت ہوئی مگر اس پری کی یاد شب و روز تھی اور گرمیِ عشق سینہ سوز تھی۔ ایک روز بیماروں نے خوشی کا نقارہ بجایا کہ کل روز عید اور ساعت سعید ہے۔ علی الصباح جوگی باہر آیا دریا میں نہایا۔ بعد اشنان قلمدان مرصع در بر دستار نو بر سر لنگوٹ بند قد بلند عقص گردن فربہ بدن دست راست میں قلم۔ جادو رقم بیماروں کی صف کی طرف گیا ہر ایک کو نسخہ لکھ دیا۔ جب میری نوبت آئی دیوانگی پائی۔ بعد فراغ اپنے باغ میں آیا مجھ کو ساتھ لایا۔ ایک مکان میں بٹھایا باغ کا دروازہ معمور کیا قفل دیا۔ پھر ایک حجرے میں جا کر زنجیر بند کی پھر میری خبر نہ لی۔ وہاں درخت بار دار تھے میں میوہ خوشگوار کھاتا اور بسر لے جاتا۔ چالیس روز کے بعد آیا مجھے خوش پایا۔ ایک مرتبان معجون کا دیا کہ ہر روز چنے کے برابر کھانا اور جس میوے پر رغبت ہو تناول فرمانا۔ یہ کہہ کر گوشہ لیا اور دروازہ بند کیا۔ میں بدستور میوہ کھاتا شکر الٰہی بجا لاتا۔ اپنی حالت روز بہتر نظر آتی مگر وہ پری خاطر سے نہ جاتی۔ اس مکان میں کتب خانہ تھا۔ میں کتاب لاتا بہرہ اٹھاتا علم و حکمت سے خبردار ہوا اور طبابت میں واقف کار ہوا۔ جب پھر روز عید آیا جوگی مجھے باہر لایا۔ میرے رفقا دوڑے آئے شکر الٰہی بجا لائے۔ جو گی نے اشنان کیا۔ قلمدان مجھکو دیا۔ ہر بیمار کا نسخہ لکھا میں نے نسخہ نویسی کو بھی سیکھا۔ ایک مریض تھا جو نہایت ناتواں خوش رو چار ابرو۔ صاحب لیاقت مگر بے طاقت۔ جوگی جب باغ میں چلا کہا اس کو ساتھ لا۔ میں نے جوانی کو کام فرمایا گود میں اٹھا لایا۔ جوگی نے اسے حجرے میں لیا اور دروازہ بند کیا۔ ایک رخنہ سے کیا دیکھتا ہوں کہ تھوڑی کھوپڑی اس کے سر سے جدا کی ہے اور انبر ہاتھ میں لی ہے۔ میں نے ایک کتاب میں مطالعہ کیا تھا کے اگر ہزارپا کان میں جائے انبر نیم گرم سے اس کو نکال لائے۔ میری زبان سے نکلا کہ ہیں استاد انبر گرم ہے اور ہزارپا نرم۔ مبادا سوختہ ہو ناخن رہ جائے اور بیمار ایذا پائے۔ یہ حرف سن کر پیچ تاب کھایا حجرے سے باہر آیا۔ رشک سے سرزمین پر ٹپکا اور پھانسی گلے میں ڈال کر درخت سے لٹکا۔ اس کا وعدہ برابر ہوا فوراً موا۔ جل گیا جان کو دیا۔ میں جو ادھر آیا اسے مردہ پایا۔ افسوس کیا کھود کر گاڑ دیا۔ اس کے موئے سر سے ایک کنجی ہاتھ آئی اس کا قفل تلاش سے پایا کھول کر در آیا۔ وہ خانہ پر از خزانہ تھا۔ وہاں ایک کتاب ملی بخط جلی۔ اس میں اور اور مجربات اور نسخہ تسخیر جنّات تھے۔ میں نے خوش ہو کر مریض کی خبر لی۔ کھوپڑی قائم کی۔ مرہم لگایا۔ اس نے شفا پائی۔ زخم بھر آیا۔ جوان بزرگ خاندان یار موافق اور دوست صادق ہوا۔ صحت کے بعد دروازہ کھول دیا۔ جوان کو رخصت کیا بمشورت وزیر مال فقیر سے کشتی پُر کی اور وطن کی راہ لی۔ جب شہر کے نزدیک پہنچا بادشاہ نے مع سپاہ تشریف ارزانی فرمائی۔ جان تازہ پا ئی۔ قدم بوسی کے بعد میں نے عرض کی کہ اے قبلہ دو جہاں، میرا باغ قدیم کہاں۔ فرمایا وہاں کسی نے تم کو رنج دیا اس باعث سے ویران کیا۔ اب قلعے میں مقام لیجئے آرام کیجئے۔ میں نے قبول نہ کیا اور رو دیا۔ ہر چند سمجھایا خاطر میں نہ لایا ناچار کی۔ ہزار معمار مستعد کار اور باغ بدستور تیار ہوا میں نے وہاں گوشہ لیا اور عمل تسخیر شروع کیا۔ ہر روز احوال عجیب نظر آیا مگر برکت اسم اعظم سے خوف نہ کھایا۔ شب چہلم لرزہ زمین اور آواز سنگین کے بعد ایک پیر مرد سر پر تاج مرصّع کار تخت پر سوار ہوا سے نیچے آیا۔ ملامت کے بعد فرمایا اے عزیز کیا چاہتا ہے کہ ہم کو ستاتا ہے۔ میں نے کہا تیری دختر میری غارتگر ہے۔ برائے خدا مجھے دکھا۔ کہا جنات کی قسم سے ایک قوم سیاہ ہے بندہ اس گروہ کا بادشاہ ہے۔ میری دختر بد ہیئت ہے اور تو فرشتہ طلعت ہے۔ وہ تیری صحبت کے قابل نہیں۔ میں نے کہا حیلے سے درگزر، اسے حاضر کر۔ تنگ آیا، ناچار ہو کر بلایا۔ ایک دختر کریہہ منظر، زر زیور و گوہر میں غرق مگر اس مہ جبین سے زمین آسمان کا فرق تخت پر سوار نمودار ہوئی میں نے کہا تو نے وہ نازنین چھپائی۔ اس نے قسم کھائی۔ کہا اغلب ہے کہ تیری معشوقہ دختر بادشاہ عمان ہو مگر اس کا ہاتھ آنا مشکل اور محنت بی حاصل ہے۔ میں نے اسے صادق القول پایا۔ اس کا کہنا خیال میں لایا۔ اسے رخصت دی دعوت پھر شروع کی۔ شب اربعین اس نازنین کا باپ مع چند خدمتگار تخت پر سوار آیا۔ کہا ہم کو کیوں طلب فرمایا۔ میں نے کہا ایک مدت سے تیری دختر نے مجھ کو دیوانہ اور آپ سے بیگانہ کیا ہے۔
نظم:
نہ باہر خوش آتا ہے مجھ کو نہ گھر
شب و روز رہتا ہوں آشفتہ سر
کوئی مجھ سا دنیا میں مسکیں نہیں
کہ جس کو کسی طور تسکیں نہیں
کہا تو خاکی وہ آتشی، موافقت دشوار اور صحبت ناگوار ہے۔ صورت مباشرت میں اس کو قوت تجھ کو مضرت ہے۔ میں نے کہا اے پدر بزرگوار یہ خاکسار فقط طالب دیدار ہے۔ آرزو مند بوس و کنار نہیں۔ اس نے کہا آدمی زاد زبان سے کہتا ہے مگر قول پر ثابت نہیں رہتا ہے۔ میں نے کہا برائے خدا ایک بار دیدار دکھا کہ مدت سے بے تاب اور بے خور و خواب ہوں۔ بارے رحم کیا اور قول لیا۔ فوراً وہ پری مثال زہرہ و مشتری دُر و گوہر میں غرق تاج مرصّع بالائے فرق دروازے سے آئی۔ میں نے زندگی پائی۔
اشعار:
نظر آئی مجھ کو جو وہ خوش ادا
دل و جان سے اس پر ہوا میں فدا
محبت سے آغوش میں لے لیا
جدا دو گھڑی تک نہ ہونے دیا
ہوئے میرے محکوم جن و پری
پری تھی سلیمان کی انگشتری
خوشی سے میرا غنچۂ دل کھلا
مجھے تخت جمشید گویا ملا
ہم دونوں فراغت سے باغ میں بسر لے جاتے اور آپس کے دیدار سے حلاوت پاتے۔ وہ پری میری دلبری میں رہتی اور ہر وقت کہتی اے دوست دار جنوں سے خبردار یہ مکار اور جفا کار ہوتے ہیں۔ ایک رات مجھ کو شہوت غالب اور ہوس بشری طالب ہوئی۔ قول فراموش کیا اور اسے آغوش میں لے لیا۔ کسی نے کہا اس وقت کلام ربانی پاس رکھنا نادانی ہے۔ میں نے اپنے بیگانے میں تمیز نہ کی کتاب اس کو دی۔ پری نے فرمایا تو نے فریب کھایا۔ کتاب عفریت کو دی آفت سر پر لی۔ میں نے دوڑ کر اسے لیا اور اس نے کتاب کو اور کے ہاتھ میں دیا۔ مجھ کو ایک افسوں یاد آیا۔ اس کو بیل بنایا۔ خدا جانے جنوں نے کیا سحر کیا وہ پری بے ہوش اور میں از خود فراموش ہوا۔ ناچار شغل کے واسطے زمرد کا مرتبان بناتا ہوں اور غرہ ہر ماہ کو باہر جاتا ہوں۔ قتل غلام محض اس واسطے ہے کہ کسی کو رحم آئے میرے حق میں دعا فرمائے۔ جہاں پناہ سلامت اس عزیز کے حال پر مجھ کو رقت آئی۔ قسم کھائی کہ جب تک تیرا مطلب بر نہ لاؤں، اپنے کام کو نہ جاؤں۔ پھر رخصت ہوا۔ پانچ برس تک گردش کھائی مراد بر نہ آئی۔ اتفاقاً ایک کوہ پر گزرا چاہا وہاں سے گروں اور فوراً مروں۔ ناگاہ وہی مرد خدا آگاہ نظر آیا۔ بزرگوں کے طریق پر ارشاد فرمایا اس جہت سے آب و دانہ ادھر لایا۔ الحمد للہ آپ کی حضوری میں دخل پایا۔ یقین ہے کہ حسب ارشاد فقیر برآمد کار ہو اور ہر ایک شکر گزار ہو۔
قصّہ درویش چہارم
چوتھا فقیر بولا کہ یہ کم ترین شہزادۂ ملک چین ہے۔ میں خرد سال تھا باپ نے وقت رحلت اپنے بھائی کو سلطنت دی اور وصیت کی کہ میرا فرزند جس وقت حد بلوغ کو پہنچے اپنی بیٹی دیجیو اور ملک کا مالک کیجیو۔ چچا نے مجھ کو فرمایا حرم میں جائے باہر نکلنے نہ پائے۔ جو بیٹی میرے نامزد تھی میں اسے بہت چاہتا اور خوش رہتا۔ مبارک نام میرے باپ کا غلام تھا۔ کبھی کبھی میں اس کے پاس جاتا وہ حق نمک بجا لاتا۔ چودہ برس کی عمر میں ایک کنیز نے مجھ کو گالی دی میں روتا ہوا مبارک کے نزدیک آیا۔ وہ مجھ کو چچا کے پاس لایا۔ عرض کی بھائی کی وصیت بجا لائے اس کو کد خدا فرمائے۔ چچا نے مجھ کو گود میں لیا منجّم کو طلب کیا۔ پوچھا ساعت سعید اس نور دیدہ کی شادی دامادی کے واسطے سو برس میں آئے گی۔ منجّم مزاج دان تھا۔ تقویم لی۔ عرض کی قبلۂ عالم تین سو برس تک عطارد خانۂ زحل میں نازل ہے اور نحوست شامل ہیں۔ اس کے بعد روز عید اور ساعت سعید ہے۔ بادشاہ نے فرمایا کہ جب ایّام نیک آئیں گے شادیانہ بجائیں گے۔ مبارک یہ سن کر خاموش رہا۔ بادشاہ نے کچھ اس کے کان میں کہا۔ آداب بجا لایا اور مکان پر آیا۔ میں نے پوچھا کیا حکم ہوا۔ کہا اے برخوردار تجھ کو اس جفا کار کے پاس عبث لے گیا۔ بہار جوانی دیکھ کر ہر امیر کا دل باغ باغ ہوا مگر وہ ظالم بد دماغ ہوا۔ آہستہ مجھ سے کہا اس مدعی سلطنت کو زہر دیجیو اور دفع کیجیو۔ اب کیا کروں۔ نہ تیرا مار نا منظور نا عدول حکمی کا مقدور۔ یہ سن کر میں نے رو دیا اس نے گود میں لیا۔ پدر بزرگوار کے مقبرہ میں آیا۔ مجھ کو ساتھ لایا۔ زمین کھودی ایک دروازہ نظر آیا۔ مجھ کو اندر بلایا۔ میں نے جانا اس نے فریب دیا اور میرا کام تمام کیا۔ میں خوفزدہ در آیا۔ مکان وسیع پایا۔ دیکھتا کیا ہوں ایک حوض ہے لبریز در اور دس خُمن اشرفیوں سے پر۔ ہر خُم پر ایک پتھر کا بندر نمودار مگر ایک خُم بے کار۔ میں نے کہا اے نیک نہاد اس سے کیا مراد۔ کہا تیرا باپ عطر وغیرہ تحفہ ملک صادق جن کے واسطے لے جاتا اور وہاں سے زبرجد کا ایک بندر لاتا۔ میں پوچھتا آپ تحفہ جات لے جاتے ہیں ایک پتھر لاتے ہیں کیا فائدہ۔ کہا کسی سے نہ کہنا ہر بندر سردار ہے اور ہزار ہزار جن ایک ایک کا فرمانبردار ہے۔ مگر ملک صادق کا حکم ہے جب تک دس میمون فراہم نہ آئیں اطاعت بجا نہ لائیں۔ تھوڑا عرصہ باقی تھا کہ باپ موا اور یہ راز فاش نہ ہوا۔ چاہتا ہوں تجھ کو ملک صادق کے نزدیک لے جاؤں اور میمون باقی ماندہ لاؤں کہ جنوں کی مدد سے یہ ظالم سزا پائے اور ملک موروثی تیرے ہاتھ آئے۔ میں نے کہا تو بجائے والد بزرگوار ہے اور میرے کام کا مختار ہے۔ محل سرا میں پہنچایا اور خود تحفہ جات فراہم لایا۔ ایک روز بادشاہ سے عرض کی اگر حکم ہو اس کو صحرائے ہولناک میں لے جاؤں اور دفع کر آؤں۔ چچا نے پروانگی دی۔ مبارک نے وقت شب مجھ کو ساتھ لیا ایک مہینے میں راستہ طے کیا۔ جب لشکر جن کے قریب پہنچا آنکھوں میں سرمہ سلیمانی دیا۔ داخل لشکر ہوئے۔ دیکھا ہر ایک جوان خوش رو سم شگافتہ مثال آہو۔ ہم جدھر گزرتے عفریت خوش طبعی کرتے۔ چلتے چلتے بارگاہ بادشاہ میں در آیا، آداب بجا لایا۔ ملک صادق تاج مرصّع برسر چار قب مروارید در بر بہ تجمل تمام جلوس فرما اور ارکان دولت ہر ایک اپنے پائے پر در پے نشو و نما مبارک نے زمین کو بوسہ دیا التماس کیا اس کا باپ موا اور یہ یتیم ہوا۔ چچا نے اس کی وصیت نہ مانی بلکہ اس کے دفع میں صلاح جانی۔ وہاں آپ کو جانبر ہوتے نہ پایا۔ سر کو قدم بنا کر یہاں آیا۔ بخیال بندگی والد بزرگوار امید وار ہے کہ بادشاہ کیوان بارگاہ میمون دہم عنایت فرمائے تو ملک موروثی ہاتھ آئے۔ ملک صادق نے فرمایا برادر مرحوم نے میری خدمت بہت کی تو بھی میں نے اجازت نہ دی۔ اب اس کا فرزند عزیز آیا ہے۔ اس کے واسطے ایک کام تجویز فرمایا ہے۔ اگر درمیان خیانت نہ لائے گا زیادہ تر باپ سے منزلت پائے گا۔ اور اگر خلاف کرے گا بے موت مرے گا۔ مبارک نے کہا کیا مقدور۔ پھر ایک کاغذ مجھ کو دیا اور حکم کیا کہ اس تصویر کی صورت کی عورت میرے واسطے پیدا کر لاؤ۔ میں نے جو وہ تصویر پری پیکر ملاحظہ کی طاقت ہاتھ سے دی۔ قریب تھا کہ بے ہوش ہوں۔ بارے سنبھل کر رخصت ہوا۔ مبارک سے میں نے کہا ملک صادق نے یہ کام دیا مجھ کو ہلاک کیا۔ جنوں کے یہ مقدور ہیں اگر آسمان پر سراغ پائے اٹھا لائے۔ مبارک نے کہا ملک صادق کاذب نہیں البتہ کہیں ہو گی۔ تو نوجوان ہے یہ برائے امتحان ہے۔ پھر ہم دونوں نے دہ بدہ شہر بہ شہر سات برس تک گردش کھائی۔ کوئی اس تصویر کی نظیر نظر نہ آئی۔ اتفاقاً ایک شہر میں پہنچے۔ اس میں ہر ایک تسبیح خوان اور حافظ قرآن۔ وہاں ایک اندھا نظر آیا محتاج پایا۔ میں نے ایک اشرفی نذر کی اس نے دعا دی۔ ہم سیر کرتے چلے۔ ایک عمارت تھی وسیع نہایت رفیع مگر جائے شکستہ خراب و خستہ۔ میری زبان سے نکلا افسوس یہ عمارت عالیشان اور اس صورت سے ویران۔ چشم عبرت سے دیکھتا تھا۔ وہی نا بینا عصا زنان آیا کسی کو بلایا اندر سے ایک آواز آئی خیر ہے جلد مراجعت فرمائی۔ کہا اے فرزند ایک فرزند سعادتمند نے مہربانی کی، اشرفی دی۔ بعد مدت طعام لذیذ لیا اور تیرے واسطے لباس خرید کیا۔ کریم کار ساز اپنا فضل فرمائے۔ اس کی مراد بر لائے۔ یہ بات سن کر مجھ کو ترس آیا اندھے کو بلایا۔ پھر ایک مشت درم دی اور خاطر کی۔ وہ دعا دیتا اندر گیا ایک نازنین ماہ جبین اندر کے دروازے سے نظر آئی۔ اصل تصویر کی پائی۔ میں نے دیکھ کر غش کیا۔ مبارک نے مجھے بغل میں لیا۔ دیر تک پوچھتا رہا میں نے کچھ نہ کہا۔ وہ نازنین پردے سے بولی کہ اے عزیز خدا سے ڈر۔ پرائی استری پر نظر نہ کر۔ میں اس دلآرام کی فصاحت کلام پر متعجب رہا۔ جواب میں کہا کہ میں مسافر ہوں بیچارہ وطن آوارہ۔ اگر تمہارا بزرگ ایکدم مجھ تک آئے یا مجھ کو اپنی خدمت میں بلائے مہربانی سے بعید نہ ہو گا۔ اس پیر مرد نے میری آواز پہچانی اندر طلب کیا۔ نازنین نے گوشہ لیا۔ میں نے کہا اے پدر بزرگوار میرا باپ فرمانروائے ملک چین ہے اور یہ خاکسار عشق کی بدولت آوارۂ روئے زمین ہے۔ یہ تصویر عوض مبلغ خطیر ایک سوداگر سے لی۔ لباس تبدیل کر کے سیاحی اختیار کی۔ دہ بدہ شہر بشہر گردش کھائی۔ آج میری مراد بر آئی۔ وہ گنج حسن اس ویرانے میں نمودار ہے۔ آگے تو مختار ہے۔ اس نے کہا اے برخوردار وہ زیبا نگار ایک بلا میں گرفتار ہے۔ اس کا وصل خیلے دشوار ہے۔ پوچھا سبب کیا۔ کہا میں اس دیار میں عالی تبار ہوں اور شریف روزگار ہوں۔ خدا نے مجھ کو دختر کرامت فرمائی حسن میں بے نظیر پائی۔ جس نے سنا دیوانہ ہوا اس کا شہرہ خانہ بخانہ ہوا۔ قضا را شاہزادے نے سن کر غائبانہ دل ہاتھ سے دیا۔ بادشاہ نے مجھ کو رضا مند کیا۔ بادشاہ کی قرابت کے سبب سے میرا رتبہ زیادہ اور در دولت کشادہ ہوا۔ کمال تجمل سے شادی ہوئی اور ہر طرف سے مبارکبادی ہوئی۔ شب زفاف کو نوشہ نے چاہا بوس و کنار سے حظ اٹھائے۔ آواز نالہ و آشوب اور صدائے زد و کوب حجرے سے بلند ہوئی۔ ہر چند چاہا اندر جائیں خبر لائیں۔ دخل نہ پایا۔ جب ہنگامہ فرد ہوا دیکھا نوشہ تیغ سم سے کشتہ ہے اور عروس خوفزدہ خاک و خون میں آغشتہ ہے۔ بادشاہ نے ماتم کیا اسے میرے گھر میں بھیج دیا۔ جو شہزادہ اس کے سبب سے قتل ہوا ارکان دولت نے التماس کیا دختر بد اختر ہے قصاص بہتر ہے۔ بادشاہ نے مشاورت فرمائی جمع کثیر میرے گرد آئی۔ خود بخود در و دیوار سقف و مینار سے اس قدر بارش سنگ و خشت ہوئی کہ ہر ایک نے گریز کی اور اپنی اپنی راہ لی۔ بادشاہ نے آواز ہولناک سنی کہ اے ظالم بد اختر دختر سے درگزر نہیں تو جو تیری بیٹی نے سزا پائی یقین کر کہ وہی آفت تجھ پر بھی آئی۔ بادشاہ نے خوف کھایا فرمایا اس سے ہاتھ اٹھاؤ ہرگز نہ ستاؤ۔ اس آفت سے حافظ قرآن ہر طرف تلاوت کرتے ہیں اور منتر جنتر پڑھتے ہیں۔ اے عزیز مجھ کو بھی اس واردات سے خوب خبر نہ تھی مگر ایک روز عاجزہ سے پوچھا تھا۔ کہا شب زفاف کو چھت شق ہوئی ایک شخص سردار تخت پر سوار اور ایک جماعت بصورت انسان خوشرو مگر سم شگافتہ مثال آہو نیچے آئی، یہ آفت لائی۔ جماعت نے شاہزادے کا قصد کیا اور سردار نے مجھے گود میں لیا۔ میں خوف سے بے ہوش اور از خود فراموش ہوئی۔ اے جوان اس دن سے میرا حال تباہ ہے اور روز سیاہ ہے۔ یاروں نے جدائی اور نوکروں نے بے وفائی کی۔ اسباب سب فروخت ہوا بلکہ سوخت ہوا۔ اب گدائی کر لاتا ہوں اوقات بسر لے جاتا ہوں۔ خوف سے کوئی میرا نام نہیں لیتا ہے بلکہ بھیک بھی نہیں دیتا ہے۔ بعد مدت آج تیری بدولت طعام لذیذ کھایا اور پوشاک نفیس لایا۔ اگر آسیب کا صدمہ نہ ہوتا یہ عاجزہ تجھ کو دیتا۔ اب اس کا نام نہ لیجیو اور کسی سے یہ ذکر نہ کیجیو۔ میں ہر چند خوشامد سے پیش آیا جواب نہ پایا۔ وقت شام کاروان سرا میں آیا خوشی سے پیرہن میں نہ سمایا۔ مبارک نے کہا الحمد للہ بخت بیدار اور طالع یار ہوا۔ اور میں اپنے احوال پُر اختلال پر متفکر کہ خدا جانے یہ مرد اپنی بیٹی دے یا نہ دے۔ اور جو دے، مبارک ملک صادق کے واسطے نہ لے اور اگر مبارک کو بر سر رحم لاؤں ملک صادق سے امان کیوں کر پاؤں اور اس شہر میں قیام خوف بادشاہ مدام۔ خدا جانے کیا سلوک فرمائے کیونکر پیش آئے۔ اس منصوبہ میں رات آخر کی اور صبح پوشاک اور غذا خوب لی۔ پیر مرد کو جا کر دی اور پھر عرض کی۔ اس نے کہا اے عزیز اپنی جان مفت نہ کھو۔ اس آرزو سے ہاتھ دھو۔ میں نے کہا اے پدر بزرگوار بہت گردش کھائی، تب دولت میسر آئی۔
اشعار:
کہاں اب مجھے تاب دوری کی ہے
کہاں دل کو طاقت صبوری کی ہے
مرا سر ہے اور آستانہ ترا
خدا جلد لائے زمانہ ترا
غرض ایک مہینے تک خدمت کرتا رہا۔ ایک روز پیر مرد نے کہا اے جوان تو اس ہوس سے دستبردار نہیں ہوتا ہے اپنی جان مفت ہوتا ہے۔ خیر دختر سے ذکر لاتا ہوں دیکھوں کیا جواب پاتا ہوں۔ میں نے جو یہ خوش خبری پائی تمام رات نیند نہ آئی۔ صبح دم سر کو قدم بنا کر آیا پیر مرد نے فرمایا اے عزیز تو نے میری خدمت بہت کی میں نے بیٹی تجھ کو دی۔ مگر جب تک جیتا ہوں وہ میری غمگسار ہے۔ آگے تو مختار ہے۔ قضائے کار چند روز کے بعد وہ پیر مرد موا میں تجہیز اور تکفین میں مشغول ہوا۔ مبارک دختر کو چادر اوڑھا کر کاروان سرا میں لایا اور تسلی دے کر منہ ہاتھ دھلایا۔ میں نے چاہا آج اپنی محبت آشکار کروں اور تعشق اظہار کروں۔ مبارک نے کہا ہے اے بیخبر برسوں کی محنت ضائع نہ کر۔ میں نے رو دیا اور کنارہ کیا۔ مبارک نے میری تسلی کے واسطے کان میں کہا اگر تو امانت ملک صادق کو پہنچائے گا۔ اغلب ہے کہ وہ مہربانی سے تجھ کو عنایت فرمائے گا۔ نہیں تو اس کے ہاتھوں سے جانبر نہ ہو گا۔ پھر دو شتر خرید کیے۔ کجاوے لیے۔ جب سوار ہو کر شہر سے چلے کئی جن آ کر ملے۔ مبارک سے کہا کسی نے ملک صادق سے خبر پہنچائی کہ وہ نازنین ہاتھ آئی۔ فرمایا اسی وقت جاؤ۔ منزل بمنزل ساتھ آؤ۔ یہ سن کر وہ نازنین بے اختیار اور بے قرار ہوئی۔ ہر دم روتی اور کہتی اے ظالمو مجھ کو شہر سے کیوں باہر لائے کہ جنّات گرد آئے اور آدم زاد جنّات کو دیتے ہو کیوں لعنتی لیتے ہو۔ مبارک بلا فصل چلا جاتا اور مجھ سے اس کو چھپاتا۔ ایک روز مبارک کو خواب میں غافل پایا پھر عہد اس سے درمیان لایا کہ جب تک جان پابندِ قالب ہے بندہ تیرا طالب ہے۔ کہا اگر چاہتا تھا شہر سے کیوں باہر آیا۔ میں نے کہا بادشاہ سے خوف کھایا۔ اس نے کہا پھر ناچاری اور مقام بے اختیاری ہے۔ مجھ کو بھی تیری محبت میں مرنا مگر تو فراموش نہ کرنا۔ یہ کہہ کر ہم دونوں روئے اور منہ لپیٹ کر سوئے۔ مبارک بیدار ہوا اور میرے قول سے خبردار ہوا۔ کہا اے پسر جلدی نہ کر میرے پاس ایک روغن ہے اس کے بدن پر ملوں گا۔ اغلب ہے کہ ملک صادق کو اس سے نفرت آئے اور تجھ کو عطا فرمائے۔ بارے تسکین پائیں دل کو قوت آئی۔ ہنوز سپیدۂ صبح نمودار نہ ہوا تھا کہ کئی جن مع خلعت فاخرہ ہمارے پاس آئے اور ایک ہودج زر نگار اس زیبا نگار کے واسطے لائے۔ مبارک نے جلد روغن ملا اور لے چلا۔ رفتہ رفتہ بارگاہ ملک صادق میں پہنچے۔ اس نے میری پیشانی پر بوسہ دیا اور امیدوار کیا۔ پھر حرم کی طرف قدم رنجہ فرمایا اور ناخوش ہو کر نکل آیا مبارک کو گالی دی اور تندی کی کہ اے گیدی خوب شرط بجا لایا۔ مبارک نے اپنا ستر دکھایا کہ حضرت سلامت غلام نے جس وقت یہ مہم اپنے اوپر لی رجولیت کاٹ ازل ملک کے حوالے کی۔ تھوڑا مرہم سلیمانی لگایا زخم بھر آیا۔ وہ میری طرف مخاطب ہوا کہا اے نادان یہ خیال محال تیرے دل میں آیا کہ روغن لگایا۔ اس قدر رنجش فرمائی کہ مجھ کو تاب نہ آئی۔ میں نے دوڑ کر خنجر چلایا وہ تخت کے نیچے آیا۔ معلوم کیا کہ موا اور وہ لوٹ پوٹ کر صورت گرد باد ہوا۔ ایک گھڑی کے بعد آ کر میرے وہ لات جڑی کہ ہوش نہ رہا۔ جس وقت مجھ کو ہوش آیا آپ کو جنگل میں پایا۔ نہ وہ مقام نہ وہ دل آرام۔ خون جگر کھایا۔ آہ سرد لبوں پر لایا۔ صحرا صحرا کوہ کوہ گردش کھائی۔ ملک صادق کے ملک کی راہ نہ پائی۔ ارادہ کیا کوہ سے گروں۔ اتفاقاً وہ عابد کہ جس نے ان بزرگوں کو اس دیار کی طرف روانہ کیا اس نے مجھ کو بھی حکم دیا۔ الحمد للہ ان بزرگوں کی دولتِ ملاقات پائی اور جہاں پناہ کی حضوری میسر آئی۔ امید قوی ہے کہ ہر ایک کی مراد بر آئے اور فقیر کا فرمودہ ظہور پائے۔
بادشاہ کے تولد فرزند کی خبر پانے اور فقیر کے مطلب بر آنے کا احوال
یہ گفتگو درمیان تھی کہ دولت سرائے بادشاہ سے آوازہ شادی و مبارکبادی بلند ہوا۔ خواجہ سرا خبر لایا کہ شہزادے نے گلشن وجود میں جلوہ فرمایا۔ بادشاہ نے کہا کہ اہل حرم میں سے کوئی سی قامت بار دار نہ تھی یہ مژدہ عشرت اندوز ہو کہاں سے سامعہ افروز ہوا۔ عرض کی کہ فلانی سہیلی نورد عتاب سلطانی خوف جان سے حضور میں نہ آتی تھی ملکہ جہانیاں حاملہ جان کر خبرگیری فرماتی تھی۔ اس سے گل گلبن شہر یاری شگفتہ ہوا۔ بادشاہ نے خوش ہو کر اسی دم شہزادے کو باہر نکالا اور درویشوں کے قدموں پر ڈالا اور کہاں اے فرماں روایان کشور دانائی تمہاری برکت سے میری مراد بر آئی۔ خدا تمہاری مراد بھی بر لائے اور شتاب کامیاب فرمائے۔ فقیروں نے شہزادے کو گود میں لیا اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ شادیانہ شادی بلند ہوا اور عالم خرسند ہوا۔ بادشاہ نے ارکان دولت کو انعام اور منصب عالی دیا اور رعیت کو محصول سہ سالہ معاف کیا۔ دو گھڑی گزرنے نہیں پائی کہ اندر سے آواز نوحہ آئی. معلوم ہوا کہ جس وقت شاہزادے کو نہلا کر دایہ نے گود میں لیا ایک ابر تیرہ نے ظہور کیا۔ شاہزادہ غائب ہے اور حالت دایہ عجائب ہے۔ ہر ایک حیرت میں آیا سر نیچے لایا۔ فقیر دست بد دعا ہوئے اور امید وار فضلِ خدا ہوئے۔ دو روز کے بعد شاہزادہ خلعت فاخرہ پہن کر آیا اور گہوارہ مرصّع ساتھ لایا۔ نئے سر سے شادی تازہ ہوئی اور مبارکبادی بلند آوازہ ہوئی۔ اسی طرح شاہزادہ ہر مہینے جاتا اور تیسرے روز مع تحفہ جات آتا۔ ہر ایک حیرت زدۂ روزگار کہ الٰہی یہ کیا اسرار۔ القصّہ بادشاہ نے ایک عمارت دلکشا متصل محل سرا فقیروں کو دی۔ چاروں نے ایک جا سکونت کی۔ بادشاہ جب امور ملکی سے فراغت پاتا ہر روز ایک بار ان کے پاس جاتا۔ ساتویں برس درویشوں کی صلاح سے بعد آرزوئے ملاقات اور شکر گزاری احسانات نامہ قلمبند کیا اور شہزادے کی بغل میں رکھ دیا۔ شہزادہ غائب ہوا۔ بادشاہ فقراء کی خدمت میں حاضر اور جواب خط کا منتظر تھا۔ ناگاہ ایک کاغذ ہوا سے نیچے آیا مطالعہ فرمایا۔ لکھا تھا اے آزاد بخت شہزادہ بختیار کی خاطر کی اور تحت لانے کی اجازت دی۔ چند نفر رہبر آتے ہیں تم کو لاتے ہیں۔ آزاد بخت شکرگزار ہوا اور مع فقرا تیار ہوا۔ اسی وقت چار پانچ شخص آئے۔ آزاد بخت کا تخت فلک پر اڑایا اور باغ ارم میں پہنچایا۔ سرمہ سلیمانی سب کی آنکھوں میں لگایا۔ عجب تماشا دکھایا۔ گلزار تھا بہشت نشان، عمارت عالیشان۔ دو شاخوں، پنج شاخوں کی روشنی اس قدر کہ رات دن سے بہتر۔ ملک شہپال نائب سلیمان بالائی تحت مرصّع مجلس آرا اور خیل خیل پریزادوں سے قدرتِ خدا آشکارا۔ ایک نازنین دختر ہفت سالہ روبرو مشغول بازی اور شہزادہ بختیار پریزادوں سے مصروف دمسازی۔ آزاد بخت نے سلام کیا ملک شہپال نے آغوش میں لیا۔ تعظیم دی تکریم کی ہم نوا اور ہم پیالہ ہوئے۔ تمام رات ناچ رنگ رہا اور طبلہ اور مردنگ۔ دوسرے روز احوال پوچھا۔ آزاد بخت نے سرگزشت ہر بزرگوار اور ان کی برکت سے پیدائش شہزادہ بختیار سب شرح دی اور عرض کی سات برس فضل کریم کارساز پر نظر رکھ کر بسر لائے اور اب حضور موفور السرور میں آئے۔ پری زادوں کا شاہنشاہ توجہ فرمائے کہ غریبوں کی مراد بر آئے۔ ملک شہپال نے افسوس کیا بلکہ خون جگر پیا۔ بادشاہان جنات بحر و بر کو نامہ لکھا کہ بمجرد درود فرمان ہر ایک آپ کو بارگاہ فلک جاہ نائب سلیمان میں پہنچائے اور آدمی زاد جس کے پاس ہو، ساتھ لائے۔ عفریتوں نے نامے لیے ہر ایک کو جا کر دیے۔ ملک شہپال نے اپنی داستان آغاز کی کہ میں بھی فرزند کا آرزو مند تھا۔ جب حمل قرار پایا یہ میری زبان پر آیا کہ دختر یا پسر جو خالق جن و بشر کرامت فرمائے، اس کی شادی آدم زاد کے ساتھ کی جائے۔ جو دختر ہوئی، اسی وقت عفریت عالم کے گرد آئے۔ شہزادہ بختیار کو لائے۔ پریزادوں نے گود میں لیا، شیر دیا۔ ہر مہینے اسے یاد فرماتا ہوں اور تیسرے روز تمہارے پاس پہنچاتا ہوں۔ بیٹا تمہارا ہے اور داماد ہمارا ہے۔ آزاد بخت شکر گزار اور منت دار ہوا۔ ایک ہفتے کے بعد شاہ جن و پری اطاعت بجا لائے سب حضور میں آئے۔ ملک شہپال نے ہر ایک کو خلعت فاخرہ دیا اور مجلس کو آراستہ کیا۔ ملک صادق سے نازنین شاہزادۂ چین طلب فرمائی۔ اس نے چھپائی۔ ملک شہپال نے سمجھایا وہ ناچار اسے لایا۔ اس کے بعد بادشاہ ولایت دریائے عمان سے، شاہزادہ نیمروز اور وہ خوابیدہ اور وہ عفریت جو بیل ہو گیا تھا، طلب کیا۔ اس نے بھی حاضر کر دیا۔ پھر دختر شاہ فرنگ اور بہزاد کی جست و جو درمیان آئی۔ ہر ایک نے قسم کھائی۔ مگر بادشاہ قلزم نے سر نہ اٹھایا۔ ملک شہپال نے مبالغہ فرمایا۔ اس نے عرض کی جس روز اس کا باپ استقبال کو آیا اور عالم ہجوم لایا میں سیر دریا کرتا تھا۔ شہزادی نظر آئی میں نے تیغِ عشق کھائی۔ اس کو گرداب نے لیا میں نے ڈوبنے نہ دیا۔ بہزاد خان کمک کو پہنچا۔ میں نے اسے بھی کھینچا کہ صاحب درد اور جوان مرد تھا۔ دونوں موجود اور خوشنود ہیں۔ ملک شہپال نے کہا یہ جوان محق ہے۔ وہ نازنین اس کو دے حیلہ نہ لے۔ نائب سلیمان کی خاطر کی لا دی۔ جب کہ تذکرۂ دختر بادشاہ شام آیا سراغ نہ پایا۔ فرمایا اب تو اولاد جن سے کوئی باقی نہیں۔ کہا مسلسل جادو کہ نہایت صاحب شکوہ ہے اور اس کا قلعہ بالائے کوہ ہے۔ فرمایا جلد لاؤ۔ اسی وقت عفریتان قوی باز ہو آئے۔ بالائے قلعہ مسلسل جادو جا کر اس کو باندھ لائے۔ دختر شاہ شام کا ذکر کیا اس نے جواب نہ دیا۔ حسب اشارہ وہ دو پارہ ہوا۔ دختر شاہ شام کو ایک کنوئیں میں بند پایا۔ کوئی نکال لایا۔ فقیر شاد شاد ہوئے اور قیدِ غم سے آزاد ہوئے۔ ملک شہپال نے نئے سر سے مجلس شادی آراستہ کی اور پری نوش اپنی بیٹی شہزادہ بختیار کو بیاہ دی اور دختر شاہ شام، خواجہ زادۂ یمنی کے عقد نکاح میں آئی اور دختر شاہ فرنگ شہزادۂ عجمی نے پائی۔ ملکۂ بصرہ شاہ زادۂ فارس سے ہم پیالہ ہوئی اور معشوقۂ ملک صادق شہزادۂ چین کے حوالہ ہوئی۔ اس کے عوض شاہزادۂ چین کی بیٹی منگائی ملک صادق کو عنایت فرمائی۔ شہزادۂ نیمروز کو اس کی معشوقہ دل افروز دی اور بادشاہ نیمروز کی بیٹی بہزاد خان کو مرحمت کی۔ چالیس رات دن ہنگامہ شادی گرم رہا۔ اس کے بعد آزاد بخت نے رخصت کے واسطے کہا۔ حکم ہوا کہ جنات اور پریاں ہر ایک کو لے جائیں۔ بحفاظت تمام پہنچائیں۔ بس طرفۃ العین میں ہر ایک اپنے مقام پر آیا شکر الٰہی بجا لایا۔ خواجہ زادۂ یمنی اور بہزاد خان نے شہزادۂ بختیار کی رفاقت ہاتھ سے نہ دی۔ گلستانِ ارم کی ہوا پسند کی۔ تا زندگی درمیان جن و انس رسم مکاتبات اور ترسیل تحفہ جات رہی۔
خاتمہ الطبع
بتوفیق توفیق بخشے چار عنصر فسانہ رنگین اثر دلچسپ و پسندیدہ طبع قصہ چار درویش موسوم بہ نو طرز مرصّع طبع آفاق مرجع عالی ہمت صاحب شوکت و زور منشی نول کشور صاحب بمقام کانپور ماہ فروری 1874ع بزیبائش طبع مقبول خاص و عام ہوا۔
٭٭٭
ٹائپنگ: گُل یاسمین
پروف ریڈنگ: اعجاز عبید تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں