FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

نسیم ہدایت کے جھونکے

 

 

احمد اوّاہ ندوی

 

جلد چہارم

ماہنامہ ارمغان، پھلت سے ماخوذ

 

 

 

 

عبد اللہ بھائی {پردیپ چند اہیر} سے ایک ملاقات

 

اسلام قبول کر نے کی پاداش میں ’حِرا‘ کو زندہ جلا دیا گیا

 

احمد اواہ   ندوی

 

احمد اواہ  :    السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

عبد اللہ     :      وعلیکم السلام  و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

سوال   :عبداللہ بھا ئی آپ کے علم میں ہو گا کہ ہما رے یہاں پھلت سے ایک میگزین ارمغان کے نام سے نکلتی ہے اس میں کچھ عرصے سے دستر خوان اسلام پر آنے والے نئے خوش قسمت لوگوں کے انٹر ویو کا سلسلہ چل رہا ہے، اس کے لئے میں آپ سے کچھ باتیں کر نا چاہتا ہوں۔

جواب  :  احمد بھائی ( آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے کہا )  مجھ جیسے ظالم اور کمینے آدمی کی باتیں اس مبارک میگزین میں دے کر کیوں اسے گندہ کر تے ہیں۔

سوال   : نہیں عبداللہ بھائی ! ابی (میرے ابا جان حضرت مولانا محمد کلیم صاحب صدیقی مدظلہ) کہہ رہے تھے، آپ کی زندگی اللہ کی قدرت کی ایک عجیب نشانی ہے، ان کی خواہش ہے کہ آپ کا انٹرویو ضرور شائع کیا جائے۔

جواب  : آپ کے ابی اللہ تعالیٰ ان کو لمبی عمر دے، میں اپنے کو ان کا غلام مانتا ہوں، ان کا حکم ہیں تو میں سر جھکا تا ہوں، آپ جو سوال کریں میں جواب دینے کو تیار ہوں۔

سوال    : پہلے آپ اپنا تعارف کرایئے ؟

جواب  : اگر میں یہ کہوں کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے آج تک میں دنیا کا سب سے ظالم  ترین، بد ترین اور خوش قسمت ترین انسان ہوں بلکہ درندہ ہوں، تو یہ میرا بالکل سچا تعارف ہو گا۔

سوال  : یہ تو آپ کا جذباتی تعارف ہے آپ اپنے گھر اور خاندان کے بارے میں بتایئے ؟

جواب  : میں ضلع مظفر نگر کی بڑھانہ تحصیل کے ایک مسلم راج پوت اکثریت کے ایک گاؤں کے اہیر ( گڈریہ )کے گھر اب سے بیالیس یا تینتالیس سال قبل پیدا ہوا میرا گھرانہ بہت مذہبی ہندو اور جرائم پیشہ تھا والد اور چاچا ایک گرو کے سر کردہ لوگوں میں تھے، لوٹ مار، ظلم خاندانی طور پر گھٹی میں پڑا تھا، ۱۹۸۷  ء میں میرٹھ کے فسادات کے موقع پر اپنے باپ کے ساتھ رشتے داروں کی مدد کے لئے میرٹھ رہا ہم دونوں نے کم از کم پچیس مسلمانوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا، اس کے بعد مسلم نفرت کے جذبہ سے متاثر ہو کر بجرنگ دل میں شامل ہوا، بابری مسجد کی شہادت کے سلسلہ میں  ۱۹۹۰ ء میں شاملی میں کتنے ہی مسلمانوں کو قتل کیا، ۱۹۹۲   ء میں بڑھانہ میں بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا، بڑھانہ میں ایک بہت مشہور نام کا بدمعاش، مگر سچا مسلمان تھا، جس سے پورے علاقے کہ غیر مسلم تھراتے تھے، میں نے اپنے ساتھی کے ساتھ اس کو گولی ماری، اس مسلم دشمنی میں مجھ درندے نے ایک ایسی ظالمانہ حرکت بھی کی، ، ، (دیر تک روتے ہوئے ) کہ شاید ایسی بر بریت اور ظالمانہ حرکت آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کسی نے نہ دیکھی ہو گی اور نہ سنی ہو گی اور نہ خیال کیا ہو گا۔۔۔۔  ( پھر دیر تک روتے رہے )

سوال  :آپ  اپنے قبول اسلام کے بارے میں سنائیے ؟

جواب  : قرآن شریف کے ۳۰ /ویں پارے میں ایک سورۃ بروج ہے نا، اس میں آگ کی کھائی والوں کے بارے میں اللہ نے کہا ہے کہ وہ برباد ہوئے اور ہلاک کئے گئے یہ سورت شاید میرے بارے میں اتری ہے بس اتنا ہے کہ وہ آگ والے ہوئے، یہ کہا گیا، کیا آیت ہے عربی میں سنایئے ؟ یعنی ہلاک کر دئے گئے اور برباد ہوئے آگ کی خندق والے۔

سوال  :  اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الَّرَحِیْمِ0 قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِالنَّارِذَاتِ الْوُقُوْدِ اِذْ ھُمْ عَلَیْھَا قُعُوْد ط

 جواب  : اگر یہ کہیں رحم کیا گیا آگ والوں پر تو عربی میں کیا ہو گا ؟

سوال   :  رحم اصحاب الاخدودالنارذات الوقود

جواب  :   ہاں اگر میرے بارے میں یہ آیت اترتی تو یہ ہوتا کہ رحم اصحاب الاخدود النارذات الوقود

سوال   :  آپ ا پنا واقعہ بتائیے ؟

جواب  :  ہاں میرے بھائی بتا رہا ہوں، مگر کس منھ سے بتاؤں اور کس دل سے بتاؤں میرا پتھر دل بھی اس واقعہ کو سنانے کی ہمت نہیں رکھتا۔

سوال   :  پھر بھی بتائیے، شاید ایسا واقعہ تو اور زیادہ لوگوں کے لئے عبرت کا ذریعہ ہو،

جواب  : ہاں بھئی واقعی میرے قبول اسلام کا واقعہ ہر ما یوس کے لئے امید دلانے والا ہے کہ وہ کرپا وان اور دیالو ( ارحم الراحمین ) خدا جب میرے ساتھ ایسا کرم کر سکتا ہے تو کسی کو مایوس ہونے کی کہاں گنجائش ہے، تو سنو احمد بھائی، میرے ایک بڑے بھائی ہے اتنے ظلم اور جرائم کے باوجود ہم دونوں بھائیوں میں حد درجہ محبت ہے میرے بھائی کی دو لڑکیاں اور دو لڑکے تھے اور میرے کو کوئی اولاد نہیں ہے، ان کی بڑی لڑکی کا نام ہیر ا تھا وہ عجیب دیوانی لڑکی تھی بہت ہی بھاؤک (جذباتی) جس سے ملتی بس دیوانوں کی طرح اور جس سے نفرت کرتی پا گلوں کی طرح کبھی کبھی ہمیں یہ خیال ہوتا کہ شاید اس پر اوپری اثر ہے، کئی سیانوں وغیرہ کو بھی دکھایا، مگر اس کا حال جوں کا توں رہا اس نے آٹھویں کلاس تک اسکول میں پڑھا، بڑی ہو گئی اس کو گھر کے کام کاج میں لگا دیا، مگر اس کو آگے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور اس نے گھر والوں کی مرضی کے بغیر ہائی اسکول کا فارم بھر دیا آٹھ دن تک کھیتوں میں مز دوری کی تاکہ فیس بھرے اور کتا بیں بھی لے، جب کتابیں اس کی خود سمجھ میں نہیں آئی تو وہ برابر میں ایک بامن ( برہمن ) کے گھر اس کی لڑکی سے پڑھنے جا نے لگی، برہمن کا ایک لڑکا بدمعاش اور ڈاکو تھا، نہ جانے کس طرح میری بھتیجی ہیرا کو اس نے بہکایا اور اس کو لے کر رات کو فرار ہو گیا وہ اس کو لے کر بڑوت کے پاس ایک جنگل میں جہاں اس کا گروہ رہتا تھا پہنچا، وہ اس کے ساتھ چلی تو گئی مگر وہاں جا کر اسے اپنے ماں باپ کی عزت جانے اور ان کی بدنامی اور اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ چپکے چپکے روتی تھی۔

اس گینگ میں ایک ادریس پور کا مسلمان لڑکا بھی رہتا تھا ایک روز اس نے روتے ہوئے دیکھ لیا اس نے رونے کی وجہ معلوم کی اس نے بتایا کہ میں کم عمری اور کم سمجھی میں اس کے ساتھ آ تو گئی، مگر مجھے اپنی عزت خطرے میں لگ رہی ہے اور میرے ماں باپ کی پریشانی مجھے بہت یاد آ رہی ہے، اس کو ہیرا پر ترس آ گیا اور اس نے بتایا کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان اپنے عہد کے سچے کو کہتے ہیں، میں تجھے اپنی بہن بناتا ہوں، میں تیری عزت کی حفاظت کروں گا اور تجھے اس جنگل سے نکال کر صحیح سلامت تیرے گھر پہنچانے کی کوشش کروں گا اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ لڑکی تو بہت بہادر اور اپنے ارادے کی پکی معلوم ہوتی ہے ہمیں اپنے گروہ میں ایک دو لڑکیوں کو ضرور شامل کرنا چاہیے اکثر ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے، اب جنگل میں اس کو ساتھ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو لڑکوں کے کپڑے پہناؤ، اس کی بات سب ساتھیوں کی سمجھ میں آ گئی، ہیرا کو کپڑے پہنا کر لڑکا بنایا گیا اور وہ ساتھ لے کر پھرتے تھے، اس نے دیکھا دس بارہ لوگوں میں اس مسلمان کا حال سب سے الگ تھا، وہ بات کا پکا تھا، اچھی رائے دیتا تھا جب مال بٹتا تھا تو اس میں کچھ غریبوں کا حصّہ رکھتا تھا ہیرا کو الگ کمرے میں سلاتا تھا اور رات کو بار بار اٹھ کر دیکھتا تھا کہ کوئی ساتھی ادھر تو نہیں آیا، جب کچھ روز ہیرا کو ان کے ساتھ ہو گئے اور ان کو اطمینان ہو گیا کہ وہ ان کے گینگ کی ممبر بن گئی ہے تو اس سے چو کسی کم کر دی گئی۔

اب اس نے ایک روز ہیرا کو ایک بہانے سے بڑوت بھیجا اور ہیرا سے کہا کہ تو وہاں تانگہ میں بیٹھ کر ہمارے گھر ادریس پور چلی جانا اور وہاں جا کر میرے چھوٹے بھائی سے سارا حال سنانا اور کہنا کہ تیرے بھائی نے بلایا ہے اور اس کو بتا دینا کہ وہ یہاں آ کر یہ کہے کہ وہ لڑکی بڑوت والوں نے شک میں پکڑ کر پولیس والوں کو دے دی ہے  ہیرا نے ایساہی کیا، اس کا بھائی جنگل میں گیا اور اپنے بھائی سے جا کر کہا اس لڑکی کو بڑوت والوں نے پکڑ کر پولیس کو شک میں دے دیا ہے، اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ ہیرا کو تھانے بھیج دو اور وہ جا کر تھانہ میں کہے کہ ایک گروہ مجھے گاؤں سے اٹھا لایا کسی طرح میں چھوٹ کر آ گئی ہوں مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، ہیرا نے ایساہی کیا، بڑوت تھانے والوں نے بڑھانہ تھانہ سے رابطہ کیا، وہاں پر اس لڑکی کہ اغوا کر نے کی رپورٹ پہلے ہی لکھی ہوئی تھی لیڈیز پولیس لے کر بڑھانہ تھانہ کے لوگ بڑوت آئے اور تھانہ سے اس ہیرا کو لے گئے ہیرا کو لے کر ہمارے گاؤں آئے ہم نے اسے گھر رکھ تو لیا مگر ایسی بد چلن لڑکی کو گھر میں کس طرح رکھیں، ہیرا نے بتایا کہ مجھے تو گروہ اٹھا کر لے گیا، مگر میں نے اپنی عزت کی حفاظت کی ہے کسی کو یقین نہ آیا، ایک پڑھے لکھے رشتہ دار بھی آ گئے انھوں نے کہا کہ ڈاکٹری کرالو، ہم دونوں بھائی ڈاکٹری کے لئے بڑھانہ اسپتال اس کو لے کر گئے اور خیال یہ تھا کہ اگر اس کی عزت سلامت ہے تو واپس لائیں گے، ورنہ مارکر بڑھانہ کی ندی میں ڈال آئیں گے، اللہ کا کرم ہو ا کہ ڈاکٹر نے رپورٹ دی کہ اس کی عزت محفوظ ہے، خوشی خوشی اس کو لے کر گھر آئے مگر وہ اب مسلمانوں کا بہت ذکر کرتی تھی اور بار بار ایک مسلمان لڑکے کی شرافت کی وجہ سے اپنے بچ جانے کا ذکر کرتی تھی، وہ مسلمانوں کے گھر جانے لگی وہاں ایک لڑکی نے اس کو دوزخ کا کھٹکا اور جنت کی کنجی کتاب دے دی، مسلمانوں کی کتاب میں نے گھر میں رکھی دیکھی تو میں نے اس کو بہت مارا اور خبر دار کیا کہ اگر اس طرح کی کتاب میں نے گھر میں دیکھی تو تجھے کاٹ کے ڈال دوں گا، مگر اس کے دل میں اسلام گھر کر گیا تھا اور اسلام نے اس کے دل کی اندھیری کوٹھری کو اپنے پرکاش (نور) سے پرکاشت (منور) کر دیا تھا، اس نے مدرسہ میں ایک مسلمان لڑکی کے ساتھ جا کر ایک مولانا صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور چپکے چپکے نماز سیکھنے لگی اور وہ سمے سمے پر( وقتاً فوقتاً ) نماز پڑھنے لگی مسلمان ہو نے کے بعد وہ شرک کے اندھیرے گھرانے میں گھٹن محسوس کر نے لگی، وہ بالکل اداس اداس سی رہتی، ہر وقت ہنسنے والی لڑکی وہ ایسی ہی ہو گئی جیسے اس کا سب کچھ بدل گیا ہو، نہ جانے کس کس طرح اس نے پروگرام بنا یا اور وہ پھر گھر سے چلی گئی، ایک مولانا صاحب اس کو اپنی بیوی کے ساتھ پھلت چھوڑ آئے، پھلت کچھ روز احمد بھائی آپ کے یہاں رہی، شاید آپ کو یاد ہو گا۔

سوال   :  ہاں ہاں حرا باجی !ارے وہ حرا باجی کہاں ہے ! ہمارے گھر والے تو ان کی طرف سے بہت فکر مند ہیں، وہ بڑی نیک انسان تھیں حیرت ہے کہ آپ حرا باجی کے چچا ہیں۔

جواب  :  ہاں احمد بھائی ! اس کا نام آپ کے ابی نے حرا رکھا تھا اور اس نیک بخت بچی کا ظالم اور قاتل چچا میں ہی ہوں۔۔۔ (روتے ہوئے )

سوال  : پہلے تو یہ سنائیے کہ حرا باجی کہاں ہیں ؟

جواب  :  بتا رہا ہوں، میرے بھائی بتا رہا ہوں اپنے ظلم اور درندگی کی داستان، جیسا کہ آپ کے علم میں ہو گا کہ مولانا صاحب نے اس کو احتیاط کے طور پر دہلی اپنی بہن کے یہاں بھیج دیا وہ وہاں رہی، وہاں اس کو بہت ہی مناسب ماحول ملا وہ مولانا صاحب کی بہن کے یہاں رہی، وہ ان کو رانی پھوپی کہتی تھی آپ کی امی نے بھی اس کو بہت پیار دیا اور رانی پھوپی نے اس کی بہت تربیت کی، شاید ایک ڈیڑھ سال وہ دہلی رہی، پھلت اور دہلی کے قیام نے اس کو ایسا مسلمان بنا دیا کہ اب اگر قرآن حکیم نازل ہوتا تو احمد بھائی شاید نام لے کر اس ایمان والی شہید بچی کا ضرور ذکر ہوتا، اسے اپنے گھر والوں سے بہت محبت تھی خصوصاً اپنی ماں سے بہت محبت تھی، اس کی ماں بہت بیمار رہتی تھیں، ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ میری ماں مر گئی ہے آنکھ کھلی تو اس کو ماں کی بہت یاد آئی اگر ایمان کے بغیر اس کی ماں مر گئی تو کیا ہو گا یہ سوچ کر وہ رو نے لگی اور اس کی چیخیں لگ گئی، گھر کے سبھی لوگ اٹھ گئے اس کو سمجھایا تسلی دی، وقتی طور پر وہ چپ ہو گئی مگر بار بار اس کو خواب کو یاد کر کے رونا آتا تھا اور آپ کے ابی کو ابی جی کہتی تھی، بار بار وہ اپنی ماں کو یاد کرتی اور گھر جانے کی اجازت مانگتی مگر آپ کے ابی اس کو سمجھاتے کہ تمہارے گھر والے تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے اور مار دیں گے  اور اس سے زیادہ یہ کہ تمہیں پھر ہندو بنا لیں گے، ایمان کے خطرے سے وہ رک جاتی مگر پھر اس کو گھر یاد آتا تو گھر جانے کی ضد کرتی، بہت مجبور ہو کر مولانا نے اس کو اجازت دی مگر سمجھایا کہ تم صرف اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دینے کی نیت سے گھر جاؤ اور واقعی اگر تمہیں اپنے گھر والوں سے محبت ہے تو محبت کا سب سے ضروری حق یہ ہے کہ تم ان کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو، ہیرا نے کہا کہ وہ تو اسلام کے نام سے بھی چِڑھتے ہیں وہ ہر گز اسلام نہیں قبول کر سکتے، اس نے گھر میں بتا یا تھا کہ مولانا صاحب نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے سینے کو اسلام کے لئے کھول دیں گے تو پھر وہ کفر اور شرک سے بھی اسی طرح چِڑھنے لگیں گے جس طرح اسلام سے  چڑھتے ہیں، مولانا صاحب نے اس سے کہا کہ تم بھی تو اسلام سے اسی طرح چڑھتی تھی جس طرح اب شرک سے نفرت کرتی ہو، اللہ سے دعا کرو اور مجھ سے عہد کرو کہ میں گھر اپنی ماں اور گھر والوں کو دوزخ سے بچانے کی فکر میں جا رہی ہوں، اگر تم اس نیت سے جاؤ گی تو اول تو اللہ تمہاری حفاظت کریں گے اور اگر تم کو تکلیف بھی ہوئی تو وہ تکلیف ہو گی جو ہمارے نبیﷺ کی اصل سنت ہے اور اگر تمہارے گھر والوں نے تمہیں مار بھی دیا تو تم شہید ہو گی اور شہادت جنت کا مختصر ترین راستہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ تمہاری شہادت خود ان کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو گی، اگر تم گھر والوں کو دوزخ سے بچانے کے لئے اپنی جان بھی دے دو گی وہ ہدایت پا جائیں گے تو تمہارے لئے سستا سودا ہو گا۔

مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس کو دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے ہدایت کی دعا کرنے اور دعوت کی نیت سے اپنے گھر جانے کا عہد کرنے کو کہا، وہ دہلی سے پھلت اور پھر گھر آ گئی، ہم لو گ اس کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے، میں نے اس کو جوتوں اور لاتوں سے مارا اس نے یہ تو نہیں بتایا کہ میں کہاں رہی؟ البتہ یہ بتا دیا کہ میں مسلمان ہو گئی ہوں اور اب مجھے اسلام سے کوئی ہٹا نہیں سکتا، ہم اس پر سختی کرتے تو وہ رو رو کر الٹا ہمیں مسلمان ہونے کو کہتی، اس کی ماں بہت بیمار تھی، دو مہینہ کے بعد وہ مر گئی تو وہ اس کو دفن کے لئے مسلمانوں کو دینے کو کہتی رہی کہ میری ماں نے میرے سامنے کلمہ پڑھا ہے، وہ مسلمان مری ہے، اس کو جلانا بڑا ظلم ہے مگر ہم لوگ کس طرح اس کو دفن کرتے، اس کو جلا دیا، روز ہمارے گھر میں ایک فساد ہوتا، کبھی وہ بھائیوں کو مسلمان ہونے کے لئے کہتی کبھی وہ باپ کو، ہم لوگوں نے اس کو میرٹھ اس کی نانیہال میں پہنچا دیا، اس کے ماموں اس کی مسلمانی سے عاجز آ گئے اور انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو بلایا کہ اس ادھرم (لامذہب) کو ہمارے یہاں سے لے جاؤ، ہم لوگ روز روز کے جھگڑوں سے عاجز آ گئے ہیں۔

میں نے بجرنگ دل کے ذمہ داروں سے مشورہ کیا سب نے اسے مار ڈالنے کا مشورہ دیا میں اسے گاؤں لے آیا، ایک دن جا کر ندی کے کنارے پانچ فٹ گہرا گڑھا کھودا، میں اور بڑے بھائی دونوں اس کو گاؤں لے جانے کے بہانے لے کر چلے کہ تیری بوا کے یہاں جا رہے ہیں، اس کو شاید سپنے (خواب )میں معلوم ہو گیا تھا وہ نہائی اور نئے کپڑے پہنے اور ہم سے کہا کہ چچا آخری نماز تو پڑھنے دو، جلدی سے نماز پڑھی اور خوشی خوشی دلہن سی بن کر ہمارے ساتھ چل دی، آبا دی سے دور راستہ سے الگ جانے کے باوجود اس نے ہم سے بالکل نہیں پوچھا کہ بوا کا گھر ادھر کہاں ؟ندی کے بالکل پاس جا کر اس نے ہنس کر اپنے باپ سے پوچھا آپ مجھے بوا کے گھر لے جا رہے ہیں یا پیا کے گھر (دیر تک روتے ہوئے۔۔۔)

سوال  :   پانی منگا کر پلاتے ہوئے، ہاں بات پوری کر دیجئے ؟

جواب  :  کس دل سے پوری کروں ؟ہاں بھائی پوری تو کرنی ہی ہے میرے تھیلے میں پانچ لیٹر پٹرول تھا، ہیرا کا حقیقی باپ اور میں ظالم چچا دونوں کے ساتھ وہ سچی مومنہ عاشقہ اور شہیدہ ہم اس کو لے کر گڑھے کے پاس  پہنچے جو ایک روز پہلے پروگرام کے تحت کھودا تھا، اس درندہ چچا نے یہ کہہ کر اس پھول سی بچی کو اس گڑھے میں دھکا دے دیا کہ تو ہمیں نرک کی آگ سے کیا بچائے گی، لے خود مزا چکھ نرک کا، گڑھے میں دھکا دے کر میں نے اس کے اوپر وہ سارا پٹرول ڈال دیا اور ماچس جلائی، میرے بڑے بھائی بس روتے ہوئے اس کو کھڑے دیکھتے رہے، جلی ہوئی ماچس کی تیلی اس پر لگی کہ آگ اس کے نئے کپڑوں میں بھڑک گئی، وہ گڑھے میں کھڑی ہوئی اور جلتی آگ میں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور چیخی ’’میرے اللہ ! آپ مجھے دیکھ رہے ہے نا، میرے اللہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں نا، میرے اللہ آپ مجھ سے محبت کر تے ہے نا، اپنی حرا سے بہت پیار کرتے ہیں نا، ہاں میرے اللہ آپ غار  حرا سے بھی محبت کرتے ہیں اور گڑھے میں جلتی حرا سے بھی محبت کر تے ہے نا، آپ کی محبت کے بعد مجھے کسی کی ضرورت نہیں ‘‘  اس کے بعد اس نے زور زور سے کہنا شروع کیا : ’’ پتا جی اسلام ضرور قبول کر لینا، ‘  چاچا مسلمان ضرور ہو جا نا، چاچا مسلمان ضرور ہو جا نا ‘‘  ( ہچکیوں سے روتے ہوئے )

اس پر مجھے غصہ آ گیا اور میں بھائی صاحب کا ہا تھ پکڑ کر چلا آیا، بھائی صاحب مجھ سے کہتے رہے کہ ایک بار اور سمجھا کر دیکھ لیتے مگر مجھے ان پر غصہ آیا، بعد میں واپس آتے ہوئے ہم نے گڑھے کے اندر سے زور زور سے لا الہ الا اللہ کی آوازیں آتی سنیں اور ہم اپنے فریضہ کو ادا کرنا سمجھ کر چلے تو آئے مگر اس شہید محبت کا یہ اخیر جملہ مجھ درندہ اور سفاک کے پتھر دل کو ٹکڑے کر گیا، میرے بھائی گھر آ کر بیمار پڑ گئے ان کے دل میں صدمہ سا بیٹھ گیا اور یہ بیماری ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی، مرنے کے دو دن پہلے انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ ہم نے زندگی میں جو کیا وہ کیا، مگر اب میری موت حرا کے دھرم پر جائے بغیر نہیں ہو سکتی، تم کسی مولانا صاحب کو بلا لاؤ، میں بھی بھائی صاحب کے حال کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا، ہمارے یہاں مسجد کے امام صاحب مل گئے، ان کو لے کر آیا، انہوں نے ان سے کلمہ پڑھانے کو کہا، کلمہ پڑھا، اپنا اسلامی نام عبدالر حمن رکھا اور مجھ سے کہا کہ مجھے مسلمانوں کے طریقے پر مٹی دینا، میرے لئے یہ بہت مشکل بات تھی مگر میں نے  بھائی کی انتم اِچّھا ( آخری خواہش )  پوری کر نے کے لئے یہ کیا کہ ان کے علاج کے بہانے دہلی لے گیا، وہاں پر اسپتال میں داخل کیا، وہیں ان کی موت ہوئی، وہ بہت اطمینان سے مرے، پھر ہمدرد کے ایک ڈاکٹر سے میں نے یہ حال سنایا تو انہوں نے وہاں سنگم و ہار کے کچھ مسلمانوں کو بلا کر ان کے دفن وغیرہ کا انتظام کیا۔

سوال  :  عجیب واقعہ ہے ؟ آپ نے اپنے اسلام قبول کر نے کا حال نہیں بتایا ؟

جواب  :  وہی بتا رہا ہوں، اسلام سے میری دشمنی کچھ تو کم ہو گئی تھی مگر بھائی کے مسلمان ہو کر مرنے کا بھی مجھے دکھ تھا، بھائی صاحب کے مسلمان مرنے سے مجھے یہ یقین آ گیا کہ میری بھابھی بھی ضرور مسلمان ہو گئی ہو گی، مجھے ایسا لگا کہ کسی مسلمان نے ہمارے گھر پر جادو کر دیا ہے اور وہ دلوں کو باندھ رہا ہے، ایک ایک کر کے سب اپنے دھرم کو چھوڑ رہے ہیں، تو میں نے بہت سے سیانوں سے بات کی، میں ایک تانترک کی تلاش میں شاملی سے اون جا رہا تھا، بس میں سوار ہو ا تو بس کسی مسلمان کی تھی، ڈرائیور بھی مسلمان تھا، اس نے ٹیپ میں قوالی چلا رکھی تھی، بڑھیا نام کی قوالی تھی اس نے ہمارے نبیﷺ کے، ایک بڑھیا کی خدمت اور بڑھیا کے ان کو سمجھانیاور پھر بڑھیا کے مسلمان ہو نے کا قصہ تھا، اسپیکر میرے سر پر تھا، بس جھنجھانہ رکی، اس قوالی نے میر ی سوچ کو بدل دیا، مجھے خیال ہوا کہ جس نبی کا یہ قصہ ہے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا، میں اون کے بجائے جھنجھانہ اتر گیا اور خیال ہوا کہ مجھے اسلام کے بارے میں پڑھنا چاہئے، اس کے بعد شاملی بس میں بیٹھ گیا، اس میں بھی ٹیپ بج رہا تھا، پاکستان کے مولانا قاری حنیف صاحب کی تقریر تھی مرنے اور مر نے کے بعد کے حالات پر ان کی تقریر تھی، مجھے شاملی اتر نا تھا مگر وہ تقریر پوری نہیں ہوئی تھی، شاملی اڈے پر پہنچ کر ڈرائیور نے ٹیپ بند کر دیا، مجھے تقریر سننے کی بے چینی تھی بس مظفر نگر جانی تھی، میں نے تقریر سننے کے لئے مظفر نگر کا ٹکٹ لیا، بگھرا پہنچ کر وہ تقریر ختم ہو گئی، اس تقریر نے اسلام سے میرے فاصلہ کو بہت کم کر دیا، میں بڑھانہ روڈ پر اترا اور گھر جانے کے لئے بڑھانہ کی بس میں سوار ہوا، میرے قریب ایک مولانا صاحب بیٹھ گئے، ان سے میں نے کہا کہ میں اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہتا ہوں یا معلومات کر نا چاہتا ہوں، آپ میری اس سلسلہ میں مدد کریں، انہوں نے کہا آپ  پھلت چلے جائیں اور مولانا کلیم صاحب سے ملے، ان سے مناسب آدمی ہمارے علاقے میں آپ کو نہیں ملے گا، میں نے پھلت کا پتہ معلوم کیا اور گھر جانے کے بجائے پھلت پہنچا، مولانا صاحب وہاں نہیں تھے، اگلے روز صبح کو آنے والے تھے، رات کو ایک ماسٹر صاحب نے مجھے مولانا صاحب کی کتاب ’’ آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں ‘‘ دی، یہ کتاب اس کی زبان اور دل کو چھونے والی باتوں نے، مجھے شکار کر لیا، مولانا صاحب صبح سویرے کے بجائے اگلے روز شام کر پھلت آئے، میں نے مغرب کے بعد ان سے مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور بتایا کہ میں معلومات کرنے آیا تھا، مگر آپ کی امانت نے مجھے شکار کر لیا، مولانا صاحب بہت خوش ہوئے، ۱۳ جنوری  ۲۰۰۰  ء کو مجھے کلمہ پڑھایا، میرا نام عبداللہ رکھا، رات کو میں وہیں رکا، میں نے مولانا صاحب سے ایک گھنٹہ کا وقت مانگا اور اپنے ظلم و بربریت کے ننگے ناچ کی کہانی سنائی، مولانا صاحب میری بھتیجی حرا کی کہانی سن کر دیر تک روتے رہے اور بتایا کہ حرا ہمارے یہاں ہی رہی اور میری بہن کے پاس دہلی رہی، مولانا صاحب نے مجھے تسلی دی کہ اسلام پچھلے سارے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے، مگر میرے دل کو اس کا اطمینان نہ ہوا اس درجہ سفا کی بر بریت کو کس طرح معاف کیا جاسکتا ہے۔

مولانا صاحب مجھ سے کہتے تھے، اسلام سے سارے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اپنے دل کے اطمینان کے لئے آپ نے اتنے مسلمانوں کو قتل کیا، اب آپ کچھ مسلمانوں کی جان بچانے کی کوشش کریں، قرآن نے کہا ہے کہ نیکیاں گناہوں کو زائل کر دیتی ہیں، اِنَّ الْحَسَنَاتَ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتْ میں اپنی دل کی تسلی کے لئے اور اپنے ظلم کی قسمت جگانے کے لئے کوشش کر تا ہوں کہ کسی حادثہ میں کسی بیماری میں، کوئی مسلمان مرنے جا رہا ہو تو میں اس کو بچانے کی کوشش کروں، یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ مرنے والے کو میں بچانے والا کون ہوں، مگر کوشش کرنے والا بھی، کر نے والے کی طرح ہوتا ہے، اس لئے کوشش کرتا ہوں۔

گجرات میں دنگے ہوئے، تو میں نے موقع غنیمت جانا، میرے اللہ کا کرم ہے کہ اس نے مجھے خوب موقع دیا، میں نے وہاں پر ہندو بن کر بہت سے مسلمانوں کو محفوظ جگہ پر پہنچایا، یا پہلے سے خطرے سے ہوشیار کیا، پہلے جا کر ہندوؤں کے مشورہ میں شامل ہوا اور دس گیارہ بھیڑ کے حملوں کی میں نے مسلمانوں کو اطلاع دے کر اپنے گاؤں سے، حملے سے پہلے ہی بھگا دیا، ایک کام تو میرے اللہ نے مجھ سے ایسا کرایا جس سے مجھے ضرور بڑی تسلی ہوتی ہے، آپ نے سنا ہو گا کہ بھاؤ نگر میں ایک مدرسہ میں چار سو بچوں کو مدرسہ کے اندر جلانے کا پروگرام تھا، میں نے وہاں تھانہ انچارج شرما کو اطلاع دی اور ان کو تیار کیا، بھیڑ کے آنے کے دس منٹ پہلے پیچھے کی دیوار میں نے اپنے ہاتھ سے توڑی اور اللہ نے چار سو معصوموں کی جان بچانے کا مجھے ذریعہ بنایا، میں تین مہینہ تک گجرات جا کر پڑ گیا پھر بھی میرے ظلم اتنے زیادہ ہیں کہ یہ سب کچھ اس کے برابر نہیں ہو سکتا، بس ایک بار مولانا صاحب نے مجھے تسلی دی کہ اللہ کی رحمت کے لئے کیا مشکل ہے کہ موت کا وقت اور بہانہ تو اس نے خود طئے کیا ہے، جس اللہ نے آپ کو ہدایت سے نواز دیا وہ اللہ آپ کو معاف کر نے پر کیوں قادر نہیں، اس سے دل مطمئن ہوا، مولانا صاحب نے مجھے اسلام سیکھنے کے لئے جماعت میں جانے کا مشورہ دیا، میں نے دو ماہ کا وقت مانگا، گاؤں سے مکانات اور زمینیں سستے داموں میں فروخت کیں اور دہلی جا کر مکان لیا، بیوی اور دو بھتیجوں اور حرا کی بہن کو تیار کیا اور پھلت لے جا کر کلمہ پڑھوایا، اس میں مجھے دو ماہ کے بجائے ایک سال لگا، پھر جماعت میں وقت لگا، میرا دل ہر وقت اس غم میں ڈوبا رہتا ہے کہ اتنے مسلمانوں اور پھول سی بچی کا اس سفا کی سے قتل کر نے والا کس طرح معافی کا مستحق ہے، مولانا صاحب نے مجھے قرآن شریف پڑھنے کو کہا اور خاص طور پر بروج سورت کو بار بار پڑھنے کو کہا، اب وہ مجھے زیادہ یاد ہے اور اس کا ترجمہ بھی، ۱۴۰۰ سو سال پہلے کیسی سچی بات میرے اللہ نے کہی تھی، مجھے ایسا لگتا ہے کہ غیب کے جاننے والے خدا نے ہمارا ہی نقشہ کھینچا ہے،

        قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ، اِذْھُمْ عَلَیْھَا قُعُوْد، وَّھُمْ عَلیٰ مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُوْمِنِیْنَ شُھُوْدط وَمَا نَقَمُوْامِنْھُمْ اِلَّا ٓ اَنْ یُّوْمِنُوْابِاللّٰہِ الْعَزِیْزِالْحَمِیْدِ، اَلَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط َواللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْد (البروج :۴تا۹)

ترجمہ :’’خندقوں والے ہلاک کر دیے گئے، یعنی آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا، جب کہ وہ ان کے کناروں پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو سختیاں وہ اہلِ ایمان پر کر رہے تھے ان کو سامنے دیکھ رہے تھے، ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے جو غالب اور قابلِ تعریف ہے، وہی جس کی آسمانوں اور زمین میں بادشاہت ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘

احمد بھائی اس سورت کو آپ پڑھیں اور حرا کی تڑپا دینے والی آخری صداؤں پر غور کریں : میرے اللہ آپ مجھے دیکھ رہیں ہے نا ! میرے اللہ آپ مجھ سے محبت کر تے ہیں نا! ہاں ! میرے اللہ آپ غار  حرا ء سے بھی محبت کر تے ہیں، اپنی حرا سے بھی پیار کر تے ہیں نا ! آپ کی محبت کے بعد مجھے کسی کی محبت کی ضرورت نہیں۔۔۔پتا جی اسلام ضرور قبول کر لینا، چا چا مسلمان ضرور ہو جا نا، چا چا مسلمان ضرور ہو جا نا۔( ہچکیوں سے روتے ہوئے )

سوال  :اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے اس کا کہنا مان لیا آپ بہت خوش قسمت ہیں اس ظلم کے اندھیرے کو رحمت اور اسلام کے نور کا ذریعہ اللہ نے آپ کے لئے بنا دیا۔

جواب  :  میں نے کہا اس کا کہنا مانا ؟ ہدایت کا فیصلہ کر نے والے اس سے محبت کر نے والے اللہ نے اس کا کہنا مانا، مجھ جیسا درندہ کب اس کرم سے قابل تھا ؟

سوال  : بہت بہت شکریہ عبداللہ بھائی !

جواب  : احمد بھائی آپ دعا کریں، اللہ تعالیٰ مجھ سے کوئی ایسا کام ضرور کرا دے جس سے میرا دل مطمئن ہو جائے کہ میرے مظالم کی تلافی ہو گئی، واقعی قرآن کے اس فرمان میں مجھ جیسے لا علاج مریض کے لئے بڑا علاج ہے کہ اچھائیاں برائیوں کو زائل کر دیتی ہیں، اس لئے گجرات فسادات میں کچھ معصوم مسلمانوں کی مدد اور جان بچانے کی کوششوں سے میرے دل کو بڑی تسلی ہوتی ہے۔ (خدا حافظ)

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، فر وری ۲۰۰۵ء

 

 

 

ماسٹر محمد عامر {بلبیرسنگھ} سے ایک چشم کشا ملاقات

 

ماسٹرمحمد عامر  :   السلام علیکم و رحمۃ اللہ

احمد اواہ       :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  ماسٹر صاحب ایک عرصے سے ابی کا حکم تھا کہ میں ارمغان کے لئے آپ سے انٹرویو لوں اچھا ہوا آپ خود ہی تشریف لے آئے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔

جواب  :  احمد بھائی آپ نے میرے دل کی بات کہی، جب سے ارمغان میں نو مسلموں کے انٹرویو کا یہ سلسلہ چل رہا ہے، میری خواہش تھی کہ میرے قبول اسلام کا حال اس میں چھپے، اس لئے نہیں کہ میرا نام ارمغان میں آئے، بلکہ اس لئے کہ دعوت کا کام کرنے والوں کا حوصلہ بڑھے اور دنیا کے سامنے کریم و ہادی رب کی کرم فرمائی کی ایک مثال سامنے آئے اور دعوت کا کام کرنے والوں کو یہ معلوم ہو کہ جب ایسے کمینے انسان اور اپنے مبارک گھر کو ڈھانے والے کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے نواز سکتے ہیں تو عام شریف اور بھولے بھالے  لوگوں کے لئے ہدایت کے کیسے مواقع ہیں۔

سوال  : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

جواب  :  میرا تعلق صوبہ ہریانہ کے پانی پت ضلع کے ایک گاؤں سے ہے میری پیدائش ۶ دسمبر ۱۹۷۰ء کو ایک راجپوت گھرانے میں ہوئی، میرے والد صاحب ایک اچھے کسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک  پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے، وہ بہت اچھے انسان تھے اور انسانیت دوستی ان کا مذہب تھا، کسی پر بھی کسی طرح کے ظلم سے انہیں سخت چڑ تھی  ۱۹۴۷ء کے فسادات انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے وہ بہت کرب کے ساتھ ان کا ذکر کرتے اور مسلمانوں کے قتل عام کو ملک پر بڑا داغ سمجھتے تھے بچے کھچے مسلمانوں کو بسانے میں وہ بہت مدد کرتے تھے، اپنے اسکول میں مسلمان بچوں کی تعلیم کا وہ خاص خیال رکھتے تھے، میرا پیدائشی نام بلبیر سنگھ تھا اپنے گاؤں کے اسکول سے میں نے ہائی اسکول کر کے انٹرمیڈیٹ میں پانی پت میں داخلہ لیا، پانی پت شاید بمبئی کے بعد شیوسینا کا سب سے مضبوط گڑھ ہے، خاص طور پر جو ان طبقہ اور اسکول کے لوگ شیوسینا میں بہت لگے ہوئے ہیں، وہاں میری دوستی کچھ شیوسینکوں سے ہو گئی اور میں نے بھی پانی پت شاکھا میں نام لکھا لیا، پانی پت کے اتہاس (تاریخ) کے حوالے سے وہاں نوجوانوں میں،  مسلمانوں خاص طور پر بابر اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے خلاف بڑی نفرت گھولی جاتی تھی، میرے والد صاحب کو جب میرے بارے میں معلوم ہوا کہ میں شیو سینا میں شامل ہو گیا ہوں تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا، انہوں نے مجھے اتہاس کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی، انہوں نے بابر خاص طور پر اور نگ زیب کی حکومت کے انصاف اور غیر مسلموں کے ساتھ ان کے عمدہ سلوک کے قصے سنائے اور مجھے بتانے کی کوشش کی کہ انگریزوں نے غلط تاریخ ہمیں لڑانے کے لئے اور دیش کو کمزور کرنے کے لئے گھڑ کر تیار کی ہے، انہوں نے ۱۹۴۷ء کے ظلم اور قتل غارت گری کے قصوں کے حوالے سے مجھے شیوسینا سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔

سوال  : آپ نے پھلت کے قیام کے دوران بابری مسجد کی شہادت میں اپنی شرکت کا قصہ سنایا تھا، ذرا اب دوبارہ تفصیل سے سنایئے ؟

جواب  :  وہ قصہ اس طرح ہے کہ  ۱۹۹۰ء میں ایڈوانی جی کی رتھ یا ترا میں مجھے پانی پت کے پروگرام کی خاصی بڑی ذمہ داری سونپی گئی رتھ یاترا میں ان ذمہ داروں نے ہمارے روئیں روئیں میں مسلم نفرت کی آگ بھر دی میں نے شیواجی کی سوگندھ کھا ئی کہ کوئی کچھ بھی کرے میں خود ا کیلے جا کر رام مندر پر سے اس ظالمانہ ڈھانچہ کو مسمار کروں گا، اس یاترا میں میری کار کردگی کی وجہ سے مجھے شیو سینا کے یوتھ ونگ کا صدر بنا دیا گیا، میں اپنی نوجوان ٹیم کو لے کر ۳۰ /اکتوبر کو ایودھیا گیا، راستہ میں ہمیں پولس نے فیض آباد میں روک دیا، میں اور کچھ ساتھی کسی طرح بچ بچا کر پھر بھی ایودھیا پہنچے، مگر پہنچنے میں دیر ہو گئی اور اس سے پہلے گولی چل چکی تھی اور بہت کوشش کے با وجود میں بابری مسجد کے پاس نہ پہنچ سکا میری نفرت کی آگ اس سے اور بھڑکی میں اپنے ساتھیوں سے بار بار کہتا تھا اس جیون سے مر جانا بہتر ہے رام کے دیش میں عرب لٹیروں کی وجہ سے رام کے بھگتوں پر رام جنم بھومی پر گولی چلا دی جائے، یہ کیسا انیائے اور ظلم ہے، مجھے بہت غصہ تھا، کبھی خیال ہوتا تھا کہ خود کشی کر لوں کبھی دل میں آتا تھا کہ لکھنو جا کر ملائم سنگھ کے اپنے ہاتھ سے گولی مار دوں، ملک میں فسادات چلتے رہے اور میں اس دن کی وجہ سے بے چین تھا کہ مجھے موقعہ ملے اور میں بابری مسجد کو اپنے ہاتھوں مسمار کروں۔

ایک ایک دن کر کے وہ منحوس دن قریب آیا جسے میں اس وقت کاخوشی کا دن سمجھتا تھا میں اپنے کچھ جذباتی ساتھیوں کے ساتھ ایک دسمبر ۱۹۹۲ ء کو پہلے ایودھیا پہنچا میرے ساتھ سونی پت کے پاس ایک جاٹوں کے گاؤں کا ایک نوجوان یوگیندر پال بھی تھا جو میرا سب سے قریبی دوست تھا، اسکے والد ایک بڑے زمیندار تھے اور وہ بھی بڑے انسان دوست آدمی تھے، انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو ایودھیا جانے سے بہت روکا اس کے تاؤبھی بہت بگڑے مگر وہ نہیں رکا۔

ہم لوگ چھ دسمبر سے پہلے کی رات میں بابری مسجد کے بالکل قریب پہنچ گئے اور ہم نے بابری مسجد کے سامنے کچھ مسلمانوں کے گھروں کی چھتوں پر رات گزاری، مجھے بار بار خیال ہوتا تھا کہ کہیں ۳۰/اکتوبر کی طرح آج بھی ہم اس شبھ کام سے محروم نہ رہ جائیں، کئی بار خیال آیا کہ لیڈر نہ جانے کیا کریں، ہمیں خود جا کر کارسیوا شروع کرنی چاہیئے، مگر ہمارے سنچالک نے ہمیں روکا اور ڈسیپلن بنائے رکھنے کو کہا، اوما بھارتی نے بھاشن دیا اور کارسیوکوں میں آگ بھر دی میں بھاشن سنتے سنتے مکان کی چھت سے اتر کر کدال لے کر بابری مسجد کی چھت پر چڑھ گیا، یوگیندر بھی میرے ساتھ تھا، جیسے ہی اوما بھارتی نے نعرہ لگایا، ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو، بس میری مرادوں کے پورا ہونے کا وقت آ گیا اور میں نے بیچ والے گنبد پر کدال چلائی اور بھگوان رام کی جے کے زور زور سے نعرے لگائے، دیکھتے دیکھتے مسجد مسمار ہو گئی، مسجد کے گرنے سے پہلے ہم لوگ نیچے اتر آئے، ہم لوگ بڑے خوش تھے رام للا کے لگائے جانے کے بعد اس کے سامنے ما تھا ٹیک کر ہم لوگ خوشی سے گھر آئے اور بابری مسجد کی دو دو اینٹیں اپنے ساتھ لائے، جو میں نے خوشی خوشی پانی پت کے ساتھیوں کو دکھائیں، وہ لوگ میری پیٹھ ٹھونکتے تھے، شیو سینا کے دفتر میں وہ اینٹیں رکھ دی گئیں اور ایک جلسہ کیا گیا اور سب لوگوں نے بھاشن میں فخر سے میرا ذکر کیا کہ ہمیں گرو (فخر)ہے کہ پانی پت کے نوجوان شیوسینک نے سب سے پہلے رام بھکتی میں کدال چلائی، میں نے گھر بھی خوشی سے جا کر بتایا میرے پتا جی بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور مجھ سے صاف کہہ دیا کہ’’ اب اس گھر میں تو اور میں دونوں نہیں رہ سکتے، اگر تو رہے گا تو میں گھر چھوڑ کر چلاجاؤں گا نہیں تو تو ہمارے گھر سے چلاجا، مالک کے گھر کے ڈھانے والے کی میں صورت دیکھنا نہیں چاہتا، میری موت تک تو مجھے کبھی صورت نہ دکھانا ‘‘مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا، میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور پانی پت میں جو سماّن (عزت)  مجھے اس کارنامہ پر ملا وہ بتانے کی کوشش کی انھوں نے کہا کہ یہ دیش ایسے ظالموں کی وجہ سے برباد ہو جائے گا اور غصہ میں گھر سے جانے لگے، میں نے موقع کو بھانپا اور کہا آپ گھر سے نہ جائیے میں خود اس گھر میں رہنا نہیں چاہتا جہاں رام مندر بھگت کو ظالم سمجھا جاتا ہو اور میں گھر چھوڑ کر آ گیا اور پانی پت میں رہنے لگا۔

سوال  :  اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیں ؟

جواب  :  پیارے بھائی احمد !میرے اللہ کیسے کریم ہیں کہ ظلم اور شرک کے اندھیرے سے مجھے، نہ چاہتے ہوئے، اسلام کے نور اور ہدایت سے مالا مال کیا، مجھ جیسے ظالم کو جس نے اس کا مقدس گھر شہید کیا ہدایت سے نوازا، ہوا یہ کہ میرے دوست یوگیندر نے بابری مسجد کی اینٹیں لا کر رکھیں اور مائک سے اعلان کیا کہ رام مندر پر بنے ظالمانہ ڈھانچہ کی اینٹیں سوبھاگیہ(خوش قسمتی ) سے ہماری تقدیر میں آ گئی ہیں سب ہندو بھائی آ کر ان پر (موت دان ) پیشاب کریں، پھر کیا تھا، بھیڑلگ گئی، ہر کو ئی آتا تھا اور ان اینٹوں پر حقارت سے پیشاب کرتا تھا مسجد کے مالک کو اپنی شان بھی دکھانی تھی چار پانچ روز کے بعد یو گیندر کا دماغ خراب ہو گیا، پاگل ہو کر وہ ننگا رہنے لگا، سارے کپڑے اتارا تھا، وہ عزت والے زمیندار چودھری کا اکلوتا بیٹا تھا، اس پاگل پن میں وہ بار بار اپنی ماں کے کپڑے اتار کر اس سے منھ کالا کر نے کو کہتا، بار بار اس گندے جذبہ سے اس کو لپٹ جاتا اس کے والد بہت پریشان ہوئے بہت سے سیانے اور مولانا لوگوں کو دکھایا، بار بار مالک سے معافی مانگتے، دان کرتے، مگر اس کی حالت اور بگڑتی تھی، ایک روز وہ باہر گئے تو اس نے اپنی ماں کے ساتھ گندی حرکت کرنی چاہی، اس نے  شور مچایا دیا، محلہ والے آئے، تو جان بچی، اس کو زنجیر میں میں باند ھ دیا گیا، یو گیندر کے والد عزت والے آدمی تھے، انھوں نے اس کو گولی مارنے کا اراد ہ کر لیاکسی نے بتایا کہ یہاں سونی پت میں عیدگاہ میں ایک مدرسہ ہے وہاں بڑے مولانا صاحب آتے ہیں، آپ ایک دفعہ ان سے اور مل لیں، اگر وہاں کوئی حل نہ ہو تو پھر جو چاہے کرنا، وہ سونی پت گئے تو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب تو یہاں پہلی تاریخ کو آتے ہیں اور پرسوں پہلی جنوری کو آ کر ۲/تاریخ کی صبح میں جاچکے ہیں، چودھری صاحب بہت مایوس ہوئے اور کسی جھاڑ پھونک کرنے والے کو معلوم کیا، معلوم ہوا کہ مدرسہ کے ذمہ دار قاری صاحب یہ کام کر دیتے ہیں، مگر وہ بھی مولانا صاحب کے ساتھ سفر پر نکل گئے ہیں، عیدگاہ میں ایک دوکاندار نے انہیں مولانا کا دہلی کا پتہ بتایا کہ پرسوں بدھ میں حضرت مولانا نے (بوانے، دہلی )میں ان کے یہاں آنے کا وعدہ کیا ہے، وہ لڑکے کو زنجیر میں باندھ کر بوانہ کے امام صاحب کے پاس لے گئے، وہ آپ کے والد صاحب کے مرید تھے اور بہت زمانے سے ان سے بوانہ کے لئے تاریخ لیناچاہتے تھے مولانا صاحب ہر بار ان سے معذرت کر رہے تھے، اس بار انھوں نے ادھر کے سفر میں دو روز کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے کا وعدہ کر لیا تھا، بوانہ کے امام صاحب نے بتایا کہ حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے ۶/دسمبر  ۱۹۹۲ء سے پہلے ہریانہ کے بہت سے امام اور مدرسین یہاں سے یوپی اپنے گھروں کو چلے گئے تھے اور ان میں سے بعض ایک مہینہ تک نہیں آئے اس لئے مولانا صاحب نے پہلی تاریخ کواس موضوع پر تقریر کی اور بڑا زور دے کریہ بات کہی کہ مسلمان نے ان غیر مسلم بھائیوں کو اگر دعوت دی ہوتی اور اسلام، اللہ اور مساجد کا تعارف کرایا ہوتا تو ایسے واقعات پیش نہ آتے، انھوں نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بیک واسطہ ہم مسلمان ذمہ دار ہیں اور اگر اب بھی ہمیں ہوش آ جائے اور ہم دعوت کا حق ادا کرنے لگیں تو یہ مسجد گرانے والے، مسجدیں بنانے اور کرنے والے بن سکتے ہیں، ایسے موقع پر ہمارے آقا اللّھم اھد قومی فانھم لا یعلمون (اے اللہ، میری قوم کو ہدایت دے، اس لئے کہ یہ لوگ جانتے  نہیں )فرمایا کرتے تھے۔

یو گیندر کے والد چودھری رگھو بیر سنگھ جب بوانہ کے کے امام (جن کا نام شاید مولانا بشیر احمد تھا )کے پاس پہنچے، تو ان پر اس وقت اپنے شیخ کی تقریر کا بڑا اثرتھا، انھوں نے چودھری صاحب سے کہا کہ میں جھاڑ پھونک کا کام کرتا تھا مگر اب ہمارے حضرت نے ہمیں اس کام سے روک دیا، کیوں کہ اس پیشہ میں جھوٹ اور عورتوں سے اختلاط (میل ملاپ )بہت ہوتا ہے اور اس لڑکے پر کوئی اثر یا جادو وغیرہ نہیں بلکہ مالک کا عذاب ہے، آپ کے لئے ایک موقع ہے، ہمارے بڑے حضرت صاحب پر سوں بدھ کے روز دوپہر کو یہاں آ رہے ہیں، آپ ان کے سامنے بات رکھیں، آپ کا بیٹا ہمیں امید ہے کہ ٹھیک ہو جائے گا، مگر آپ کو ایک کام کرنا پڑے گا، وہ یہ کہ اگر آپ کا بیٹا ٹھیک ہو جائے تو مسلمان ہونا پڑے گا، چودھری صاحب نے کہا کہ میرا بیٹا ٹھیک ہو جائے تو میں سب کام کرنے کو تیار ہوں۔

تیسرے روز بدھ تھا چودھری رگھو بیر صاحب یو گیندر کو لے کر صبح  ۸/بجے بوانہ پہنچ گئے، دوپہر کو ظہر سے پہلے مولانا صاحب آئے، یو گیندر زنجیر میں بندھا ننگ دھڑنگ کھڑا تھا، چودھری صاحب روتے ہوئے مولانا کے قدموں میں گر گئے اور بولے کہ مولانا صاحب میں نے اس کمینہ کو بہت روکا، مگر یہ پانی پت کے ایک اوت کے چکر میں آ گیا مولانا صاحب مجھے شما کرا دیجئے میرے گھر کو بچا لیجئے مولانا صاحب نے سختی سے انہیں سر اٹھانے کے لئے کہا اور پورا واقعہ سنا۔

انہوں نے چودھری صاحب سے کہا کہسارے سنسار کو چلانے والے سرو شکتی مان (قادر مطلق )خدا کا گھر ڈھا کر انہوں نے ایسا بڑا پاپ( ظلم ) کیا ہے کہ اگر وہ مالک سارے سنسار کو ختم کر دے تو ٹھیک ہے، یہ تو بہت کم ہے کہ اس اکیلے پر پڑی ہے، ہم بھی اس مالک کے بندے ہیں اور ایک طرح سے اس بڑے گھنگھور پاپ (بڑے گناہ ) میں ہم بھی قصوروار ہیں کہہم نے مسجد کو شہید کرنے والوں کو سمجھانے کا حق ادا نہیں کیا، اب ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے بس یہ ہے کہ آپ بھی اس مالک کے سامنے گڑگڑائیں اور شما مانگیں اور ہم بھی معافی مانگیں، مولانا صاحب نے کہا، جب تک ہم مسجد میں پروگرام سے فارغ ہوں آپ اپنے دھیان کو مالک کی طر ف لگا کر سچے دل سے معافی مانگیں اور پرارتھنا (دعا) کریں کہ مالک میری مشکل کو آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا، چودھری صاحب پھر مولانا صاحب کے قدموں میں گر گئے اور بولے جی میں اس لائق ہوتا یہ دن کیوں دیکھتا، آپ مالک کے قریب ہیں، آپ ہی کچھ کریں مولانا صاحب نے ان سے کہا کہ آپ میرے پاس علاج کے لئے آئے ہیں، اب جو علاج میں بتا رہا ہوں وہ آپ کو کرنا چاہنے، وہ راضی ہو گئے  مولا نا صاحب مسجد میں گئے، نماز پڑھی  تھوڑی دیر تقریر کی اور دعا کی، مولانا صاحب نے سبھی لوگوں سے چودھری صاحب کے لئے دعا کو کہا، پروگرام کے بعد مسجد میں ناشتہ ہوا، ناشتہ سے فار غ ہو کر مسجد سے باہر نکلے تو مالک کا کرم کہ یوگیندر نے اپنے باپ کی پگڑی  اتارا کر اپنے  ننگے جسم پر لپیٹ لی تھی اور ٹھیک ٹھاک اپنے والد صاحب سے بات کر رہا تھا، سب لوگ بہت خوش ہوئے، بوانہ کے امام صاحب تو بہت خوش  ہوئے، انھوں نے چودھری صاحب کو وعدہ یاد دلایا اور اس کو ڈرایا  بھی کہ جس مالک نے اس کو اچھا کیا ہے اگر تم وعدہ کے مطابق مسلمان نہیں ہوتے  ہو تو پھر یہ دوبارہ اس سے زیادہ پاگل ہو سکتا ہے، وہ تیار ہو گئے اور امام صاحب سے بولے، مولانا صاحب میری سات پشتیں آپ کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتیں، آپ کا غلام ہوں، جہاں چاہیں آپ مجھے بیچ سکتے ہیں، حضرت مولانا کو جب یہ معلوم ہوا کہ امام صاحب نے اس سے ٹھیک ہونے کا ایسا وعدہ کر لیا تھا، تو انھوں نے امام صاحب کو سمجھایا کہ اس طرح کرنا احتیاط کے خلاف ہے۔

چودھری صاحب کو مسجد میں لے جانے لگے، تو یو گیندر نے پوچھا پتا جی کہاں جا رہے ہو انھوں نے کہا مسلمان بننے، تو یوگیندر نے کہا، مجھے آپ سے پہلے مسلمان بننا ہے اور مجھے تو بابری مسجد دوبارہ ضرور بنوانی ہے، خوشی خوشی ان دونوں کو وضو کرایا اور کلمہ پڑھوایا گیا، والد صاحب کا محمد عثمان اور بیٹے کا محمد عمر نام رکھا گیا، خوشی خوشی وہ دونوں اپنے گاؤں پہنچے وہاں پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے، اس کے امام صاحب سے جا کر ملے، امام صاحب نے مسلمانوں کو بتا دیا، بات پورے علاقہ میں پھیل گئی، ہندوؤں تک بات پہنچی، تو قوت دار لوگوں کی میٹنگ ہوئی اور طئے کیا کہ ان دونوں کو رات میں قتل کروایا جائے، ورنہ نہ جانے کتنے لوگوں کا دھرم خراب کریں گے، اس میٹنگ میں ایک مرتد بھی شریک تھا اس نے امام صاحب کو بتا دیا، اللہ نے خیر کی ان دونوں کو راتوں رات گاؤں سے نکالا گیا، پھلت گئے اور بعد میں جماعت میں ۴۰ دن کے لئے چلے گئے، یوگیندر نے پھر امیر صاحب کے مشورہ سے تین چلے لگائے، بعد میں ان کی والدہ بھی مسلمان ہو گئیں، محمد عمر کی شادی دہلی میں ایک اچھے مسلمان گھرانے میں ہو گئی اور وہ سب لوگ خوشی خوشی دہلی میں رہ رہے ہیں گاؤں کا مکان اور زمین وغیرہ بیچ کر دہلی میں ایک کارخانہ لگا لیا ہے۔

سوال  :  ماسٹر صاحب آپ سے میں نے، آپ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوال کیا تھا آپ نے یوگیندر اور ان کے خاندان کی داستان سنائی، واقعی یہ خود عجیب و غریب کہانی ہے، مگر مجھے تو آپ کے قبول اسلام کے بارے میں معلوم کرنا ہے ؟

جواب  : پیارے بھائی اصل میں میرے قبول اسلام کو اس کہانی سے الگ کرنا ممکن نہیں، اس لئے میں نے اس کا پہلا حصہ سنایا، اب آگے دوسرا حصہ سن لیجیے، ۹/مارچ ۱۹۹۳ء کو اچانک میرے والد کا ہارٹ فیل ہو کر انتقال ہو گیا، ان پر بابری مسجد کی شہادت اور اس میں میر ی شر کت کا بڑا غم تھا، وہ میری ممی سے کہتے تھے کہ مالک نے ہمیں مسلمانوں میں پیدا کیوں نہیں کیا، اگر مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتے، کم از کم ظلم سہنے والوں میں ہمارا نام آتا، ظلم کرنے والی قوم میں ہمیں کیوں پیدا کر دیا، انھوں نے گھر والوں کو وصیت کی تھی کہ میری ارتھی پر بلبیر نہ آنے پائے، میری ارتھی کو یا تو مٹی میں دبانا، یا پانی میں بہا دینا، ظالم قوم کے رواج کے مطابق آگ مت لگانا بلکہ ہندوؤں کے شمشان میں بھی نہ لے جانا، گھر والوں نے ان کی اِچھّا(خواہش ) کے مطابق عمل کیا اور آٹھ دن بعد مجھے ان کے انتقال کی خبر ہوئی، میرا دل بہت ٹوٹا، ان کے انتقال کے بعد بابری مسجد کا گرانا مجھے ظلم لگنے لگا اور مجھے اس پر فخر کے بجائے افسوس ہونے لگا اور میرا دل بجھ سا گیا، میں گھر کو جاتا تو میری ممی میرے والد کے غم کو یاد کر کے رونے لگتیں اور کہتیں کہ ایسے دیوتا باپ کو تو نے ستا کر مار دیا تو کیسا نیچ انسان ہے میں نے گھر جانا بند کر دیا، جون میں محمد عمر جماعت سے واپس آیا تو پانی پت میرے پاس آیا اور اپنی پوری کہانی بتائی دو مہینہ سے میرا دل ہر وقت خوف زدہ سا رہتا تھا کہ کوئی آسمانی آفت مجھ پر نہ آ جائے، والد کا دکھ اور بابری مسجد کی شہادت دونوں کی وجہ سے ہر وقت دل سہما سہما سا رہتا تھا، محمد عمر کی کہانی سن کر میں اور بھی پریشان سا ہوا، عمر بھائی نے مجھ پر زور دیا کہ ۲۳/جون کو سونی پت میں مولانا صاحب آنے والے ہیں، آپ ان سے ضرور ملیں اور اچھا ہے کچھ دن ان کے ساتھ رہیں، میں نے پروگرام بنایا، مجھے پہنچنے میں دیر ہو گئی، عمر بھائی پہلے پہنچ گئے تھے اور مولانا صاحب سے میرے بارے میں پورا حال بتا دیا تھا، میں گیا تو مولانا صاحب بڑی محبت سے ملے، اور مجھ سے  کہا کہ آپ کی تحریک پر اس گناہ کو کرنے والے یوگیندر کے ساتھ مالک یہ معاملہ کر سکتے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آ سکتا ہے اور اگر اس دنیا میں وہ مالک سزانہ بھی دے تو مرنے کے بعد ہمیشہ کے جیون میں جو سزاملے گی آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ایک گھنٹہ ساتھ رہنے کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر مجھے آسمانی آفت سے بچنا ہے تو مسلمان ہو جانا چاہئے، مولانا صاحب دو روز کے سفر پر جا رہے تھے، میں نے دو روزساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو انھوں نے خوشی سے قبول کیا، ایک روز ہریانہ پھر دہلی اور خورجہ کا  سفر تھا، دو روز کے بعد  پھلت پہنچے دو روز کے بعد میں دل سے اسلام کے لئے آمادہ ہو چکا تھا، میں نے عمر بھائی سے اپنا خیال ظاہر کیا تو انھوں نے خوشی خوشی مولانا صاحب سے بتایا اور الحمد للہ میں نے ۲۵ /جون ۱۹۹۳ ء ظہر کے بعد اسلام قبول کیا مولانا صاحب نے میرا نام محمد عامر رکھا اسلام کے مطالعہ اور نماز وغیرہ یاد کرنے کے لئے مجھے پھلت رہنے کا مشورہ دیا، میں نے اپنی بیوی اور چھوٹے بچوں کی مجبوری کا ذکر کیا تو میرے لئے مکان کا نظم کر دیا گیا، میں چند ماہ پھلت آ کر رہا اور اپنی بیوی پر کام کرتا رہا، تین مہینے کے بعد وہ بھی مسلمان ہو گئی۔ الحمدللہ

سوال  :  آپ کی والدہ کا کیا ہوا؟

جواب  :  میں نے اپنی ماں سے اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا، وہ بہت خوش ہوئیں اور بولیں کہ تیرے پتا کو اس سے شانتی ملے گی، وہ بھی اسی سال مسلمان ہو گئیں۔

سوال  :  آج کل آپ کیا کر رہے ہیں ؟

جواب  : آج کل میں ایک جونیرہا ئی ا سکول چلا رہا ہوں، جس میں اسلامی تعلیم کے ساتھ انگریزی میڈیم میں تعلیم کا نظم ہے۔

سوال  :  ابی بتا رہے تھے کہ ہریانہ پنجاب وغیرہ کی غیر آباد مسجدوں کو آباد کرنے کی بڑی کوششیں آپ کر رہے ہیں ؟

جواب  :  میں نے عمر بھائی سے مل کر یہ پروگرام بنایا کہ اللہ کے گھر کو شہید کرنے کے بعد اس بڑے گنا ہ کی تلافی کے لئے ہم ان ویران مسجدوں کو آباد کرنے اور کچھ نئی مسجدیں بنانے کا بیڑا اٹھائیں، ہم دونوں نے طئے کیا کہ کام تقسیم کر لیں، میں توویران مسجدوں کو آباد کراؤں اور عمر بھائی نئی مسجدیں بنانے کی کوشش کریں اور  ایک دوسرے کا تعاون کریں، ہم دونوں نے زندگی میں سو سو مسجدیں بنانے اور واگزار کرانے کا پروگرام بنایا ہے، الحمدللہ ۶/دسمبر  ۲۰۰۴ء تک ۱۳/ویران اور مقبوضہ مسجدیں ہریانہ، پنجاب اور دہلی اور میرٹھ کینٹ میں واگزار کرا کے یہ پاپی آباد کرا چکا ہے (جولائی ۲۰۰۹ء تک ۶۷/مسجدیں واگزار اور ۳۷/نئی مسجدیں بنا چکے ہیں )عمر بھائی مجھ سے آگے نکل گئے وہ اب تک بیس مسجدیں نئی بنوا چکے ہیں اور اکیسویں کی بنیاد رکھی ہے ہم لوگوں نے یہ بھی طے کیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کی ہر برسی پر ۶/دسمبر کو ایک ویران مسجد میں نماز شروع کرانی ہے اور عمر بھائی کو نئی مسجد کی بنیاد ضرور رکھنی ہے، الحمدللہ کوئی سال ناغہ نہیں ہوا، البتہ سو کا نشانہ ابھی بہت دور ہے، اس سال امید ہے تعداد بہت بڑھ جائے گی، آٹھ مسجدوں کی بات چل رہی ہے، امید ہے وہ آئندہ چند ماہ میں ضرور آباد ہو جائیں گی، عمر  بھائی تو مجھ سے بہت آگے پہلے ہی ہیں اور اصل میں ہمارا کام بھی ان ہی کے حصہ میں ہے، مجھے اندھیرے سے  نکالنے کا ذریعہ وہی بنے۔

سوال  : آپ کے خاندان والوں کا کیا خیال ہے ؟

جواب  :میری والدہ کے علاوہ صرف ایک بڑے بھائی ہیں ہماری بھا بھی کا چار سال پہلے انتقال ہو گیا ان کی شادی مجھ سے بعد میں ہوئی تھی، ان کے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ایک بچہ معذور سا ہے ہماری بھابھی بڑی بھلی عورت تھیں، بھائی صاحب کے ساتھ مثالی بیوی بن کر رہیں ان کے انتقال کے بعد بھائی بالکل ٹوٹ سے گئے تھے، میری بیوی نے بھابھی کے مرنے کے بعد ان بچوں کی بڑی خدمت کی، میرے بڑے بھائی خود بہت شریف آدمی ہیں، وہ میری بیوی کی اس خدمت سے بہت متاثر ہوئے، میں نے ان کو اسلام کی دعوت دی مگر میری وجہ سے میرے والد کے صدمہ کی وجہ سے وہ مجھے کوئی اچھا آدمی نہیں سمجھتے تھے، میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا میرے بچے بڑے ہیں اور بھائی مشکل سے جی رہے ہیں، اگر میں تمھیں طلاق دے دوں اور عدت کے بعد بھائی تیار ہو جائیں کہ وہ مسلمان ہو کر تم سے شادی کر لیں تو دونوں کے لئے نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے، وہ پہلے تو بہت برا مانی مگر جب میں نے اس کو دل سے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ راضی ہو گئی، میں نے  بھائی کوسمجھا  یا ان بچوں کی زندگی کے لئے اگر آپ مسلمان ہو جائیں اور میری بیوی سے شادی کر لیں تو اس میں کیا حرج ہے اور کوئی عورت ایسی ملنا مشکل ہے جو ماں کی طرح ان بچوں کی پرورش کر سکے، وہ بھی شروع میں تو بہت برا مانے کہ لوگ کیا کہیں گے میں نے کہا عقل سے جو بات صحیح ہے اس کے ماننے میں کیا حرج ہے، باہم مشورہ ہو گیا، میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور عدت گزار کر بھائی کو کلمہ پڑھوایا اور ان سے اس کا نکاح کرایا، الحمد للہ وہ بہت خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہیں، میرے اور ان کے بچے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔

سوال  :  آپ اکیلے رہتے ہیں ؟

جواب  :  حضرت مولانا کے مشورہ سے میں نے ایک نو مسلم عورت جو کافی معمر ہیں شادی کر لی ہے الحمدللہ خوشی خوشی ہم دونوں بھی رہ رہے ہیں۔

سوال  :  قارئین ارمغان کے لئے کچھ پیغام آپ دینا چاہیں گے ؟

جواب  :  میری ہر مسلمان سے درخواست ہے کہ اپنے مقصد زندگی کو  پہچانیں اور اسلام کو انسانیت کی امانت سمجھ کر اس کو پہنچا نے کی فکر کریں، محض اسلام دشمنی کی وجہ سے ان سے بدلہ کا جذبہ نہ رکھیں احمد بھائی میں یہ بات بالکل اپنے ذاتی تجربہ سے کہہ رہا ہوں کہ بابری مسجد کی شہادت میں شریک ہر ایک شیوسینک بجرنگ دلی اور ہر ہندو کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ اسلام کیا ہے ؟ مسلمان کسے کہتے ہیں ؟قرآن کیا ہے اور مسجد کیا چیز ہے تو ان میں سے ہر ایک مسجد بنانے کی تو سوچ سکتا ہے، مسجد گرانے کا تو سوال ہی نہیں ہو سکتا، میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ بال ٹھاکرے جی، ونئے کٹیار، اوما بھارتی اور اشوک سنگھل جیسے سر کردہ لوگوں کو بھی اگر اسلام کی حقیقت معلوم ہو جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ اسلام ہمارا بھی مذہب ہے، ہمارے لئے بھی ضروری ہے، تو ان میں سے ہر ایک اپنے خرچ سے بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کو سعادت سمجھے گا، احمد بھائی چلئے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو مسلمان کی دشمنی کے لئے مشہور ہیں مگر ایک ارب ہندوؤں میں ایسے لوگ ایک لاکھ بھی نہیں ہوں گے، ایک لاکھ بھی سچی بات یہ ہے کہ میں شاید زیادہ بتا رہا ہوں، ننانوے کروڑ۹۹ لاکھ تو میرے والد کی طرح ہیں، جو انسانیت دوست بلکہ اسلامی اصولوں کو دل سے پسندکرتے ہیں، احمد بھائی میرے والد (روتے ہوئے )کیا فطرتاً مسلمان نہیں تھے مگر مسلمانوں کے دعوت نہ دینے کی وجہ سے وہ کفر پر مر گئے میرے ساتھ اور میرے والد کے ساتھ مسلمانوں کا کتنا بڑا ظلم ہے، یہ بات سچی ہے کہ بابری مسجدکو شہید کرنے والے مجھ سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے ؟مگر مجھ سے بہت زیادہ ظالم تو وہ مسلمان ہیں، جن کی دعوت سے غفلت کی وجہ سے میرے ایسے پیارے باپ دوزخ میں چلے گئے، مولانا صاحب سچ کہتے ہیں، ہم شہید کرنے والے بھی، نہ جاننے اور مسلمانوں کے نہ پہنچانے کی وجہ سے ہوئے، ہم نے انجانے میں ایسا ظلم کیا اور مسلمان جان بوجھ کران کو دوزخ میں جانے کا  ذریعہ بن رہے ہیں، مجھے جب اپنے والد کے کفر پر مر نے کا رات میں بھی خیال آتا ہے تو میری نیند اڑ جاتی ہے، ہفتوں ہفتوں نیند نہیں آتی نیند کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں، کاش مسلمانوں کو اس درد کا احساس ہو۔

سوال  :  ہت بہت شکریہ، ماشاء اللہ آپ کی زندگی اللہ کی صفت ہادی اور اسلام کی حقانیت کی کھلی نشانی ہے۔

جواب  :  بلاشبہ احمد بھائی، اس لئے میری خواہش تھی کہ ارمغان میں یہ چھپے، اللہ تعالی اس کی اشاعت کو مسلمانوں کے لئے ان کی آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بنائے۔آمین

اچھا اللہ حافظ

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، جون ۲۰۰۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

طیب بھائی {رام ویر} سے ایک ملاقات

 

احمد اواہ  :  اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

طیب   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  ماہنامہ ارمغاں میں نو مسلموں کے انٹرویوز کا سلسلہ کئی سال سے چل رہا ہے جس کیلئے میں نے آپ کو یہ زحمت دی ہے آپ سے انٹرویو لینے کے بارے میں ابی سے کافی روز سے بات چیت چل رہی تھی اور آپ کو ابی سے کوئی کام بھی تھا، اس لئے میں نے آپ کو سونی پت سے بلایا ہے کہ آپ کا کام بھی ہو جائے گا اور میں انٹرویو بھی لے لوں گا؟

جواب  :  ہاں حضرت نے مجھ سے تین چار مہینے پہلے انٹرویو کے بارے میں کہا تھا۔

سوال  :  آپ خیریت سے ہیں ؟

جواب  :  الحمدللہ میں بخیر ہوں،

سوال  :  آپ اپنا  تعارف کرائیں ؟

جواب  :  میرا پورا نام رام ویر بن عجب سنگھ تھا ہم سات بھائی بہن تھے دوکا انتقال ہو گیا، اب تین بھائی اور دو بہنیں بچی ہیں، میں کا کڑا ضلع مظفر نگر کا رہنے والا ہوں اور راشٹریہ انٹر کالج شاہ پورسے میں نے ہائی اسکول کیا ہے، میرے والد ایک شریف اور بھلے کسان ہیں مگر ہمارا خاندان بہت دھارمک ہندو خاندان ہے، ہندو جاٹ برادری سے میرا تعلق ہے۔

سوال  :  اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیں ؟

جواب  :  میرے اسلام قبول کرنے کا بھی عجیب اتفاق ہے میرے ذہن میں تو اسلام قبول کرنے کی کوئی بات نہیں تھی اور پڑھائی چھوڑنے اور بیوی کو طلاق دینے کے بعد زندگی بالکل خراب ہو گئی تھی، ہر وقت جنگل میں رہنے اور لوگوں کو پریشان کرنے اور نشہ کرنے کا تو میں عادی ہو چکا تھا  میرا تعلق علاقے کے بدمعاشوں سے ہو گیا تھا اور میں جانور سپلائی کرنے والوں کو راستے میں روک کر پیسے چھین کر زندگی بسر کرتا تھا، گھر اور محلہ والے مجھ سے بہت پریشان تھے گھر والوں نے عاجز آ کر مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا، مگر میں نے گھر سے نکلنے سے منع کر دیا اور ٹیوب ویل لگا کر کھیتی کرنے کا فیصلہ کیا، ہمارے کھیت کے برابر میں ایک انصاری ہیں ان کی پرانی ٹیوب ویل بند پڑی تھی، میں نے اس کو صحیح کرنے میں رات دن محنت کی، بالآخر وہ صحیح ہو گئی، میں نے موٹر اور پنکھا ادھار لیے اور چوری سے لائٹ کے کنکشن کر لیے لیکن ٹیوب ویل نے پانی نہیں اٹھایا میں نے اسے چلانے کی بہت کوشش کی، ٹریکٹر سے بھی پمپ چلوایا، لیکن میں کامیاب نہ ہو سکا، بالآخر میں پنڈت کے پاس پہونچا، اس نے ٹیوب ویل پر چڑھاوا چڑھانے کو کہا، میرے پاس کچھ نہیں تھا آخر میرے دل میں یہ آیا کہ دیوتا بھنگ سے خوش ہوتے ہیں، میں نے بھنگ مسل کر اس پر چڑھا دی، پھر بھی پانی نہیں آیا، ایک مرتبہ رات میں برابر کے کھیت والے انصاری (یٰسین)بھی میرے پا س ہی تھے ہم دونوں ٹیوب ویل کے پاس مٹی پر ہی لیٹے ہوئے تھے تو یٰسین کہنے لگے کہ اگر آج اس نے پانی اٹھایا تو میں دو رکعت نماز پڑھوں گا، میں نے کہا تم دو کی بات کرتے ہو میں چار پڑھوں گا، اکثر رات کو ساڑھے دس بجے بجلی آ جاتی تھی لیکن اس رات کو بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر لائٹ آئی میں نے یٰسین سے کنکشن کرنے کو کہا، وہ کہنے لگے کہ تم ہی کر لو مجھے تو بجلی سے  ڈر لگتا ہے، میرے کنکشن کرتے ہی  ٹیوب ویل نے تقریباً ڈھائی میٹر دور پانی پھینکنا شروع کر دیا اور ٹیوب ویل کے سامنے والی سڑک پر پانی گرنے لگا، احمد بھائی (تعجب سے کہتے ہوئے ) سوکھی مٹی ہونے کے باوجود پانی کی دھار کی رفتار سے سڑک میں تقریباً ڈیڑھ میٹر گڑھا ہو گیا۔

صبح جب محلے والوں نے دیکھا کہ یہ کامیاب ہو گیا ہے تو وہ سب جمع ہو کر آئے اور ٹیوب ویل بند کرا دی کہنے لگے کہ اس لائٹ سے ہم تمہاری ٹیوب ویل نہیں چلنے دیں گے، اپنی لائٹ منظور کراؤ ٹیوب ویل بند ہونے کے بعد یٰسین نماز کے لئے کہنے لگے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے چار رکعت پڑنے کا نیم (نذر ) کیا تھا اب تمہیں پڑھنی چاہیے کبھی ٹیوب ویل پھر خراب ہو جائے، میں نے کہا چلو پڑھتے ہیں، ہم کبیر پور کھیت کے قریب ایک گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھنے جا رہے تھے کہ یاسین نے کہا کہ اپنی ٹیوب ویل میں وضو کریں گے، ہم وہاں آئے یاسین نے وضو کیا اور مجھے اچھی طرح غسل کرایا اس کے بعد ہم نے نماز ادا کی نماز کے بعد یاسین کہنے لگے کہ تم مسلمان ہو جاؤ، ہم تمہاری بجلی بھی منظور کرا دیں گے، میں نے کہا مجھ سے مسلمان بھی پریشان ہیں وہ مجھے کہاں رکھ لیں گے یاسین نے کہا کہ جب تم مسلمان ہو جاؤ گے تو تم ٹھیک ہو جاؤ گے اور اگر تم ٹھیک بھی نہ ہو گے تب بھی مسلمان تمہیں رکھ لیں گے اور مسلمان نہ بھی رکھیں تو مرنے کے بعد خدا تمہیں جنت میں رکھے گا، میں نے یاسین سے کہا کہ تم مجھے ہر سولی مدرسہ میں لے چلو میں وہاں یہ معلوم کروں گا کہ مسلمان ہو جاؤں یا نہیں ؟ہم دونوں وہاں پہنچنے مولانا انیس صاحب سے ملاقات ہوئی ان سے میں نے مسلمان ہونے کے بارے میں معلوم کیا انہوں نے کہا کہ مسلمان ایسے نہیں بنتے بلکہ جماعت میں جا کر نماز وغیرہ سیکھنی ہو گی تم چلہ لگاؤ اور دلی مرکز چلے جاؤ میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں تم ہی بھیج دو، انہوں نے مظفر نگر مرکز میں فون پر بات کی اور مظفر نگر جانے کو کہا، اس وقت میں تیار نہیں تھا اس لئے میں نے ا گلے دن جانے کا وعدہ کر لیا، جانے سے پہلے میں نے اپنی اماں کو بتایا کہ گھر  والے مجھ سے بہت پریشان ہیں اس لئے میں تو جا رہا ہوں اور مسلمان ہو جاؤں گا، اس نے کہا اچھا چلے جانا لیکن کھانا تو کھا لے میں کھانا کھا کر اور دو گلاس دودھ پی کر راستہ میں ایک شخص سے سات سو روپے لے کر مظفر نگر پہنچا جہاں مرکز میں مولانا موسیٰ صاحب سے ملاقات ہوئی، انھوں نے مجھے بتایا کہ یہاں تو کوئی جماعت نہیں جا رہی ہے، تم پھلت چلے جاؤ، پھلت سے بھی جماعت جاتی ہے، میں پھلت چلا گیا وہاں ابا الیاس سے ملاقات ہوئی، انھوں نے شام کو حضرت سے ملوایا، حضرت نے کلمہ پڑھوایا، پھر میری زندگی کے حالات معلوم کئے، جب انھوں نے میرے حالات سنے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ایمان و اسلام اصل میں ایمان و سلامتی میں خود رہنے اور اپنے سے دوسروں کو امن و سلامتی میں رکھنے کا نام ہے، اس لئے اب تم مسلمان ہو گئے ہو، تم اگر یہ چاہتے ہو کہ خود بھی امن و سلامتی میں رہو اور اس دنیا کے بعد ہمیشہ کی زندگی میں بھی سکون و چین اور امن و سلامتی میں رہو تو ضروری ہے کہ تم اس طرح زندگی گذارو کہ تم سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور ہر آدمی کے لئے امن اور سلامتی کا ذریعہ بنو اس کے لئے سب سے پہلے تمہیں نشہ سے سچی توبہ کرنی ہو گی اس لئے کہ سب سے زیادہ آدمی نشہ کی حالت میں لوگوں کو ستاتا ہے، ہے، حضرت نے مجھ سے کہا کہ تم چودھری آدمی ہو، چودھری لوگ بڑے بہادر ہوتے ہیں، ایک جوان اگر کسی بات کا پکا ارادہ کر لے تو پہاڑ سے دودھ کی نہر کھود نکال سکتا ہے، ایک جوان مرد اگر پکا ارادہ کرے تو نشہ چھوڑنا کوئی مشکل کام نہیں، مولانا صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا پکا ارادہ کرو، مجھ سے وعدہ کرو کہ اب کسی طرح کا نشہ نہ کروں گا، اب تم ایمان والے ہو اور مسلمان ہو گئے ہو، اب تو نشہ بہت بڑا جرم ہے، میں نے مولانا صاحب سے وعدہ کیا، احمد بھائی !نشہ کی مجھے اتنی عادت ہو گئی تھی کہ میں سوچتا تھا، یہ عادت میرے جیون کے ساتھ ہی جائے گی، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھ میں نشہ چھوڑنے  کے ارادہ کی بھی ہمت ہو جائے گی مگر حضرت کے سامنے جب میں نے وعدہ کیا تو مجھے یہ نشہ چھوڑنا بالکل آسان کام لگا، شاید یہ میرے ایمان کی برکت تھی میرے اللہ نے مجھے ہمت دی اور اس تجربے نے نہ صرف مجھے بہت سی برائیوں سے بچایا بلکہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی ہمت دی ہے، پکا ارادہ کر کے انسان ہر بڑے سے بڑا کام کر سکتا ہے اس یقین کے ساتھ میں نے نہ جانے کتنے لوگوں سے نشہ اور بیڑی، سگریٹ اور گٹکا چھڑا دیا، پانچ چھ لوگوں سے جوا اور سٹہ چھڑوایا، دو لوگوں سے عورتوں کے ناجائز تعلقات چھڑوائے، بس میرے اللہ کا کرم ہے، مولانا صاحب نے میرٹھ بھیج کر میرا سرٹیفکٹ بنوایا، اتفاق سے اگلے دن پھلت سے جماعت جانی تھی میں ان کے ساتھ چلا گیا، وہاں نماز وغیرہ سیکھی پھر چلہ پورا کرنے کے بعد پھلت واپس آ گیا، حضرت سے ملاقات ہوئی حضرت نے پوچھا یہ زندگی اچھی ہے یا اسلام سے پہلے کی زندگی ؟میں نے بتا یا کہ حضرت مجھے تو بہت سکون ملا ہے، ان چالیس دنوں میں نشہ تو دور کی بات، کوئی نشہ کرنے والا بھی قریب سے نہیں گزرا اور میری صحت بھی اچھی ہو گئی ہے، مجھے تو یہ زندگی بہت اچھی لگی، حضرت نے پوچھا اب کہاں رہنا چاہو گے ؟میں نے کہا آپ جہاں کہیں گے، انھوں نے میری تعلیم کے بارے میں معلوم کیا میں نے بتا دیا، حضرت نے پوچھا : پڑھا سکتے ہو؟ میں نے کہا چھوٹے بچوں کو پڑھا سکتا ہوں، حضرت نے مجھے سونی پت بھیج دیا۔

ایک سال بعد سکوتی میں میری شادی ہو گئی، میری شادی الحمدللہ بہت دین دار اور پڑھی لکھی نیک لڑکی سے ہوئی وہ لوگ سکوتی ٹانڈہ کے رہنے والے ہیں، سکوتی ٹانڈہ میں ہمارے ہندو رشتہ دار بہت سے رہتے ہیں، اس خیال سے کہ کہیں وہ کوئی فتنہ فساد نہ کریں حضرت میری شادی کا پروگرام کھتولی میں میرے ساڑو کے گھر سے بنایا وہ لوگ لڑکی کو لے کر کھتولی آ گئے، حضرت دو تین لوگوں کے ساتھ مجھے لے کر کھتولی گئے اور الحمدللہ سادگی سے سنت کے مطابق نکاح اور رخصتی ہوئی میرے والد بھی میرے ساتھ میرے نکاح میں شریک تھے وہ بہت خوش تھے حضرت مولانا (کلیم صاحب )  کا بار بار شکریہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ نے میرے لڑکے کو سدھار دیا اس سے پورا علاقہ پریشان تھا اور ہم سب لوگ عاجز تھے، پھلت رخصتی ہوئی تو میری والدہ بھی آ گئیں میری اہلیہ سے مل مل کر خوشی سے روئیں اور بار بار ما تھا چومتی تھیں کہ کیسی سوہنی بہو میرے مالک نے مجھے دی ہے، میری اہلیہ نے بھی دو روز کی شادی کے باوجود میری والدہ کی خوب خدمت کی، ابتداء اچھے گھرانہ میں شادی کی وجہ سے مجھے مضبوطی ملی اور مجھے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے میں بڑی قوت ملی، میرے والد صاحب کو جب معلوم ہوا کہ مولانا صاحب نے سکوتی میں ہمارے رشتہ داروں کے فتنہ کرنے کے ڈر سے کھتولی لڑکی بلا کر شادی کی ہے، تو انھوں نے مولانا صاحب سے کہا :مولانا صاحب آپ مجھے پہلے خبر کرتے ہم کسی کے گھیر میں نہیں رہتے ان بیچاروں کو بے گھر کیا، خود بارات لے کر سکوتی جاتا، میرے بیٹے نے کوئی جرم تو کیا نہیں مسلمان ہو گیا تو اچھا ہی کیا ہے، کیا تھا کیا ہو گیا ؟ میں سات جنم تک آپ کا احسان نہیں اتارسکتا میرے گاؤں والوں نے اس کے مسلمان ہونے کے بعد پنچایت کی کہ تیرا بیٹا ادھرم ہو گیا ہے اس پر سختی کرو تو میں نے صاف کہہ دیا وہ ادھرم نہیں بلکہ دھارمک ( مذہبی ) ہو گیا ہے، دھرم اپنا اپنا معاملہ ہے، میں آپ میں سے کسی کا دیا نہیں کھاتا، اگر زیادہ کرو گے توکھیت اور گھر بیچ کر میں بھی پرسوں ہی جا رہا ہوں اور بیٹے کے ساتھ میں بھی مسلمان ہو جاؤں گا جب ایسے اوت اور بگڑے ہوئے کو مسلمان نے ایسا سدھار دیا تو مجھ میں بھی سدھار آئے گا، کچھ لوگ ذرا غصہ میں گالیاں دینے لگے تو میں پنچایت سے چلا آیا اور میں نے کہا ابھی ایس پی کے یہاں جا کر رپٹ لکھواؤں گا، کچھ لوگوں نے مجھے روکا اور پھر میٹھی باتیں کرنے لگے، ہم تیری بھلائی میں پنچایت کر رہے تھے، آدمی میں ہمت ہونا چاہئے، میں جب اپنے گاؤں والوں سے نہیں ڈرا تو پھر سکوتی والوں کا کیا ڈر تھا ؟حضرت نے فرمایا ڈر تے تو ہم بھی نہیں، مگر شادی میں کوئی بات ہوتی تو بد مزگی آ جاتی، اور اب میں اپنی بیوی کے ساتھ سونی پت میں رہ رہا ہوں، میرے پڑوسی بہت اچھے ہیں، سب لوگ پانچوں وقت کے نمازی ہیں اور میری عزت کرتے ہیں، مجھے ان سے بہت پیار ملاوہ سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں، اصل میں جب میں سونی پت آیا تو مدرسہ والوں نے میرے لئے ایک کرایہ کے مکان کا عید گاہ کالونی میں انتظام کر دیا سب کو معلوم تھا کہ میں نے دو مہینے پہلے اسلام قبول کیا ہے، مجھے نماز کی پابندی اور تسبیح وغیرہ پڑھتے دیکھ کر لوگوں کو شرم آتی میں نے اپنی اہلیہ سے عورتوں میں تعلیم شروع کرائی، میں گشت وغیرہ بھی پابندی سے کراتا تھا رفتہ رفتہ پڑوسی نماز پڑھنے لگے بہت سے بچے میں نے مدرسے میں داخل کرائے الحمد للہ کافی لوگ نماز کی پابندی کرنے لگے، وہ لوگ میرا بہت احترام کرتے ہیں، میرے محلہ اور مدرسہ والے جس طرح مجھے پیار کرتے ہیں میں نے اپنے گھر والوں سے بھی ایسا پیار نہیں پایا، یہ محض میرے اللہ کا کرم اور میرے ایمان کا صدقہ ہے۔

سوال  :  اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کو کسی قسم کی پریشانی سے دو چار ہونا پڑا؟

جواب  :  احمد بھائی، میرے حضرت نے مجھے کلمہ پڑھوایا تھا تو اس وقت مجھے سمجھایا تھا کہ اصل میں ایمان و اسلام خود امن و سلامتی سے رہنے اور دوسروں کو اپنے شر سے بچا کر امن وسلامتی سے رکھنے کا نام ہے، اسلام امن وسلامتی ہے، بلکہ احمد بھائی میں یہ بتانا بھول گیا کہ حضرت نے یہ فرمایا کہ امن وسلامتی، ایمان  واسلام سے نکلی ہے، ایمان واسلام کے بغیر نہ دنیا کے کسی آدمی کو خود امن و چین نصیب ہو سکتا ہے نہ دنیا کو بغیر اسلام و ایمان کے کسی سے امن و سلامتی نصیب ہو سکتی ہے، اس پر میں نے حضرت سے کہا بھی تھا کہ ساری دنیا کے اخباروں اور ٹی وی پر جو خبریں آتی ہیں ان سے یہ لگتا ہے کہ مسلمانوں نے ساری دنیا کے چین کو برباد کر رکھا ہے اور وہ اسلام و جہاد سے پوری دنیا کو آتنک واد  (دہشت گردی) کی آگ میں جھونک رہے ہیں، مولانا صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ غلط پروپیگنڈہ ہے، کچھ جذباتی مسلمانوں کی نا سمجھی کے  بعض فیصلوں سے فائدہ اٹھا کر اسلام مخالف لوگ اسلام اور مسلمانوں کی غلط تصویرپیش کر رہے ہیں، اس کے باوجود اسلام دنیا میں پھیل رہا ہے، مولانا صاحب نے چاروں طرف بیٹھے دسیوں لوگوں کا مجھ سے تعارف کرایا کہ یہ سب ان ہی دنوں میں اند ھیروں سے نکل کر اسلام کے سایہ رحمت میں آئے ہیں، انھوں نے قرآن پاک کی آیت پڑھ کر بتایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسی ایک آدمی کی ناحق جان لینے کوپوری دنیا کا قتل بتایا ہے اور قرآن نے صاف  اعلان کیا ہے :

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ   ’’ترجمہ: بے شک اللہ بگاڑ کو پسند نہیں کرتا ‘‘

قرآن کو ماننے والے آتنک وادی نہیں ہو سکتے، اسلام رحمت اور امن کا مذہب ہے، مولانا صاحب نے کہا کہ ہم لوگ تو پشتوں سے مسلمان ہیں اس لئے پرانے مسلمان صرف نام کے اور رسمی مسلمان ہیں، جب کسی جسم میں خون خراب ہو جائے تو زندگی کو معمول پر لانے اور صحت کو ٹھیک کرنے کے لئے نئے خون کی ضرورت ہے، اس دنیا کی امن و سلامتی کے لئے نئے خون کی یعنی سوچ سمجھ کر قرآن مجید کے اسلام قبول کرنے والے نومسلموں کی ضرورت ہے، اس لئے آپ لوگوں پر زیادہ ذمہ داری ہے اور اللہ کا شکر ہے نئے لوگ یہ کام کر رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ عراق اور سعودی عرب میں مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان سے لڑنے والے امریکی فوجی مسلمان ہو رہے ہیں اور ان فوجیوں کا اسلام کیسا ہوتا ہے اس کے کچھ قصے سنائے۔

میں یہ بتارہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اسلام میں امن و سلامتی پائی میں اسلام سے پہلے گھر کے سایہ سے محروم تھا لوگوں کو ستاتا، جنگلوں میں رہنا، لڑنا، مارنا دھاڑنا، میرا کام تھا اور مسلمان ہونے کے بعد دنیا کے جس گھر میں جاتا ہوں، مجھے پیار ملتا ہے، لوگ میرا اکرام کرتے ہیں، شایدمیں ایسا مسلمان ہوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے کوئی پریشانی نہیں جھیلی میرے ہندو خاندان کی طرف سے میری مخالفت کی بجائے میری عزت ہوئی اب وہ میری بات کو عزت سے سنتے ہیں مجھ سے مشکل معاملات میں مشورہ لیتے ہیں، میرے اللہ نے مجھ بگڑے کو کیسے سنواردیا میں جان بھی دے دوں تو اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا اللہ کا شکر ہے مجھے کسی قسم کی پریشانی سے دو چار ہونا نہیں پڑا، کیونکہ میری تربیت اچھے عالموں کے سپرد رہی ہے، اسلام لانے کے بعد میں نے جو اطمینان و سکون حاصل کیا ہے اس کے بارے میں تو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اللہ تعالیٰ نے میرے لئے نعمتوں کے دروازے کھول رکھے ہیں، میں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میری اتنی اچھی زندگی ہو جائے گی، میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہر مسلمان کو میری جیسی زندگی عطا فرمائے۔

سوال  : آپ کی اپنے  وا لدین سے ملاقات ہے ؟ آپ نے کبھی ان کو دعوت نہیں دی؟

جواب  :  الحمدللہ میں اور میری اہلیہ دونوں گھر جاتے ہیں، میری والدہ پر ان کے گھر والوں کا دباؤ ہے، ورنہ وہ اندر سے مسلمان ہو گئی ہیں، میں نے ایک بار ان کو کلمہ بھی پڑھوا دیا ہے میرے ایک بھائی حضرت کے پاس آتے ہیں، وہ حضرت سے بہت محبت کر تے ہیں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید حضرت نے ان کو کلمہ پڑھوا دیا ہے، اب وہ مندر بالکل نہیں جاتے ان سے چھوٹا بھائی الحمد للہ سونی پت آیا اور ایک بھتیجہ دونوں نے اسلام قبول کر لیا، ایک چلہ میں گیا ہوا ہے، دوسرا کچھ روز کے بعد انشاء اللہ جماعت میں جائے گا، مجھے امید ہے کہ میرے بہت سے دوست بھی مسلمان ہو جائیں گے وہ خود میرا حال دیکھ کر حضرت سے ملنے کے بڑے (اچّھک) مشتاق  ہیں، آپ بھی دعا کریں مجھے جب بھی اپنے اسلام کا خیال آتا ہے، مجھے اپنے سارے رشتہ دار اور دوست یاد آتے ہیں، میں بہت دل سے ان کی ہدایت کے لئے دعاکرتا ہوں۔

سوال  :  آپ ارمغان کے ذریعہ مسلمانوں کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب  : ہاں میں یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ اسلام کے اندر بہت سکون ہے اور بہت بڑی نعمت ہے اور جو نماز کی پابندی کرے گا اس کو یہ سکون حاصل اور جو فارملٹی پوری کرے گا اس کے لئے کچھ نہیں ہے، میں یہی پیغام دینا چاہوں گا کہ ہم سب مسلمان نماز کی پابندی اور قدر کریں اور اسلام کی طرف لوگوں کو   بلائیں معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کس کو ذریعہ بنا کر کامیابی و کامرانی کا راستہ کھول دیں، سب سے ضروری بات یہ ہے کہ دنیا میں امن چین اور سلامتی کے لئے، دنیا کے لوگوں کو اسلام کے سایہ میں آنا ضروری ہے، یہ کیسا اندھیر ہے کہ لوگ امن شانتی اور چین سلامتی کے مذہب کو دہشت گردی سمجھنے لگے ہیں، اس میں جہاں شیطان اور شیطانی چیلوں کا لوگوں کو اسلام اور جنت سے دور رکھنے کی سازش کا دخل ہے، وہیں مسلمانوں کے حالات بھی ان کی مد دکرتے ہیں، آپ علاقے کی جیلوں کو جا کر دیکھیں تو زیادہ تر قیدی مسلمان ہیں، حالانکہ جن سنکھیا ہندوؤں کی زیادہ ہے، جب  میں ایک دو بار مظفر نگر جیل میں گیا تو وہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ قیدیوں میں ۷۶/فیصد مسلمان تھے جب کہ ہمارے ضلع میں مسلمان شاید ۳۰ یا ۳۵ فیصد ہوں گے، مسلمانوں کے اس اندھیرے کر دار کا پردہ بس سازشی لوگ لوگوں کے سامنے اسلام سے دور رکھنے کے لئے لگا دیتے ہیں، اس سے دنیا امن سے محروم ہوتی جا رہی ہے، میری درخواست ہے کہ ہر ایمان والے کو اپنا مقام سمجھنا چاہئے کہ وہ ایمان والا اور مسلمان ہے، اس لئے وہ جہاں رہے اس کو یہ خیال رہنا چاہئے کہ وہ رحمۃ للعالمین نبی کا امتی ہے، اس کو اپنے آپ کو امن و سلامتی کا پیامبر سمجھنا چاہئے، کم از کم وہ جہاں رہے لوگوں کو اپنے شر سے بچائے، دوسروں کے لئے امن و سلامتی کی کوشش کرے جب وہ دوسروں کی فکر کرے گا، تو وہ خود ہر وقت ہر ایک کی ایمان پر موت کی فکر کرے گا، ہم اگر اپنے اسلام کا مطلب سمجھ لیں اور لوگوں کو السلام علیکم کا مطلب سمجھا دیں کہاسلام نے سلام کو پھیلانے کا حکم دیا ہے، تو بس اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے آ جائے، اس طرف بہت سوچنے کی ضرورت ہے، اسلام کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ تم پر سلامتی ہوچاروں طرف تم پر سلامتی ہو اس کو پھیلانے کا ہمارے نبی نے حکم دیا ہے، پھر اس دین کو ماننے والا کیسے ظالم ہو سکتا ہے ؟کیسے آتنک وادی ہو سکتا ہے ؟

سوال  :  شکریہ جزاک اللہ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب  :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

 

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، ما رچ  ۲۰۰۶ء

٭٭٭

 

 

 

 

سعید احمد {ڈاکٹر شیلندر کمار ملہوترا} دہلی سے ایک چشم کشا ملاقات

 

ڈاکٹرسعید احمد  :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ

احمد اواہ        :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  ڈاکٹر صاحب آپ مسقط سے کب تشریف لائے ؟

جواب  : میں ۳/ نومبر کو مسقط سے آ گیا تھا، اصل میں میرا پہلا Agreement (معاہدہ) ختم ہو گیا تھا، وہ لوگ دوبارہ مجھے وہاں پر رہنے کے لئے اصرار کر رہے تھے مگر میں نے درمیان ہی میں فیجی میں ایک معاملہ طئے کر لیا تھا اس لئے مجھے آنا پڑا۔

سوال  :  چھ مہینے قبل ابی نے آپ کے قبول اسلام کا واقعہ سنایا تھا اسی وقت سے آپ سے ملاقات کا اشتیاق تھا، الحمدللہ آج ملاقات ہو گئی، اصل میں، میں آج آپ کی خدمت میں ابی کے حکم سے انٹرویو کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔

جواب  : ضرور ضرور !مجھے حکم کریں، میرے لئے مولانا صاحب کا کیا حکم ہے ؟

سوال  :  ہمارے یہاں پھلت سے ایک دینی دعوتی ماہنامہ ارمغان نکلتا ہے۔

جواب  : ہاں ہاں !میں الحمدللہ اس سے واقف ہوں۔

سوال  : اس کے لئے آپ سے ایک انٹر ویو لینا ہے، تاکہ دعوت کا کام کرنے والوں کے لئے بھی مفید ہو اور اور مسلمانوں کے لئے بھی اسلام کی قدر و منزلت کا ذریعہ بنے،

جواب  :ضرور ! میرے لئے خوشی کی بات ہو گی۔

سوال  :  بر ائے کرم آپ اپنا تعارف کرائیں ؟

جواب  :  میری پیدائش ۷/نومبر ۱۹۵۴ء کو ایک مشہور ملہوترا خاندان میں ہوئی، ہمارا خاندان اصل میں  ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے ہندوستان آیا تھا، سرگودھا  ہمارا آبائی وطن تھا، تبادلۂ آبادی میں سخت مراحل سے گذرنے کی وجہ سے ہمارے خاندان میں بڑا تعصب پایا جاتا ہے، ہمارے خاندان کے اکثر لوگ (مجھے چھوڑ کر ) آر ایس ایس اور بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں، ایک بڑ ے لیڈر بی جے پی کے میرے چچا زاد بھائی ہیں، دہلی میں قرول باغ میں ہمارا گھر ہے، ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کرنے کے بعد میرا داخلہ سینٹ اسٹیفن کالج میں ہو گیا، وہیں سے میں نے بی ایس سی کیا اور پھر کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا، مجھے ہمیشہ تعلیمی لائن پسندتھی، میرے والد تو زندگی بھر ٹیچنگ لائن سے وابستہ رہے، اس کے بعد میرا سلیکشن آکسفورڈ یو نیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لئے ہو گیا، وہاں پر مجھے ملازمت بھی مل گئی، ۶/ سالہ دوران ملازمت میں نے ایجو کیشن میں ڈاکٹریٹ (ڈی ایڈ )بھی مکمل کر لیا، والدین کی بیماری اور ان کے اصرار پر مجھے ہندوستان آنا پڑا، مجھے انگلینڈ میں دنیوی زندگی کے لئے بڑے اچھے مواقع تھے، مگر شاید اللہ کو مجھے ہدایت سے نوازنا تھا، اس لئے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہندوستان آ گیا، تقریباً دو سال، میں والدین کی بیماری کی وجہ سے تقریباًاسپتالوں ہی میں رہا، آخری درجہ کی علاج کی کوششوں کے باوجود موت نے اپنی سچائی منوائی اور ۱۳/ اکتوبر  ۱۹۸۹ ء میں میرے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کے ۹/ روز بعد میری ماں بھی مجھے چھوڑ کر ان کے پاس چلی گئیں، آج کل نئے معاشرہ میں بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھنے کا عام رواج ہے اور ہمارے یہاں تو شاید یورپ سے بھی برا حال ہے، بوڑھے والدین کے لئے بس دنیا ہی میں دوزخ ہے،  میرے اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اپنے والدین سے حد درجہ محبت تھی اور مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا، آخری بیماری میں تو میرا حال دیکھ کر لوگ حیرت کرتے تھے اس تعلق کی وجہ سے مجھے ان کے انتقال کا بہت صدمہ ہوا اور میں نے سنیاس لینے کی سوچی، میں دو سال اسی خیال سے ہری دوار اور رشی کیش کے آشرموں میں رہا، ایک کے بعد ایک آشرم بدلتا رہا اور شانتی اور سکون کی تلاش کرتا رہا، مگر مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہاں پر بس دھرم کے نام پر دھندہ کا ایک بازار ہے، ان لوگوں کو چھوڑ کر جو دنیا کی بے چینی سے تنگ آ کر اور سب کچھ چھوڑ کر شانتی اور سکون کی تلاش میں یہاں بھٹک رہے ہیں، ہر آدمی اور ہر گرو کا کچھ نشانہ ہے اور صرف لوگوں کو اپنا معتقد بنانا اور ان سے اپنا الوسیدھا کرنا ہے، مجھے خیال ہوا کہ یہاں سے اچھا یہ ہے کہ میں سماجی دنیا میں جا کر اپنی صلاحیت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں، دو سال کی اس مدت میں مجھے مذہب سے بڑی مایوسی ہوئی، میں دہلی آ گیا، میں ایک روز سمینار میں شریک ہوا جو ’’ہندوستانی سماج کی تعلیمی پسماندگی اور اس کا حل ‘‘ کے عنوان سے ( وزارت فلاح و بہبود انسانی) کے تحت کیا جا رہا تھا جہاں پر جناب سوامی کلیان دیو جی مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے، میرے ایک دوست نے ان سے میرا تعارف کرایا اور میری تعلیم کے میدان میں کچھ خدمت کرنے کا اظہار کیا، سوامی جی کی اور ان کے ٹرسٹ کی تعلیمی خدمات کا بھی انہوں مجھ سے تعارف کرایا، اگلے روز صبح کو پنڈارا پارک میں ایک وزیر کی کوٹھی پر ہماری ملاقات طئے ہو گئی اور دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد میں نے سوامی جی اور ان کے ٹرسٹ سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ان کے ساتھ جڑ کر میں ان کی ذاتی زندگی اور اصول پسندی سے بہت متاثر ہوا اور سماج میں رہ کر اس کی فکر کرنا اور تعلیمی پس ماندگی دور کرنے کے سلسلہ میں فکر مندی میرے مزاج کے بہت قریب لگی، مگر ٹرسٹ میں ان کے کارندوں کی آپسی سیاست میرے لئے وہاں بھی گھٹن کا باعث رہی، اس کے علاوہ جب میں تنہائی میں بیٹھ کر ان سے مذہب اور خدا کے بارے میں بات کرتا تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ اتنے بڑے گرو ہونے کے باوجود جیسے کسی سچ کی تلاش میں ابھی غیر مطمئن اور پیا سے ہیں، جب بھی ان سے خدا اور مذہب کے بارے میں بات ہوتی مجھے اس بات کا احساس اور زیادہ ہو جاتا، ان کے ٹرسٹ کے ایک ذمہ دار سے مجھے بالکل مناسبت نہیں ہو پائی جن کی ان کے یہاں بہت زیادہ اہمیت تھی، اس خیال سے مجھے ان کے  کام میں انتشار کا ذریعہ نہیں بننا چاہئے میں نے وہ ٹرسٹ چھوڑ دیا اور  ۱۹۹۸ء میں دلی پبلک اسکول سے وابستہ ہو گیا، پہلے میں ایک برانچ میں پرنسپل رہا پھر اس کے بعد مجھے ایڈوائزر کی پوسٹ پر اصرار کر کے مقرر کیا گیا، اس دوران اللہ کی رحمت نے مجھ پر ترس کھایا اور میرے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ پیش آیا، اور مجھے آپ کے والد صاحب نے کچھ روز کے لئے Gulf (خلیج)میں جانے کا مشورہ دیا، میں تین سال کے معاہدے کے تحت مسقط چلا گیا، وہاں میں اپنا معاہدہ الحمد للہ عزت کے ساتھ اور خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کر کے آیا ہوں اور اگلے ہفتے واپس جا  رہا ہوں، بس یہ میرا تعارف ہے۔

سوال  :  آپ اپنے قبول اسلام کا واقعہ بتایئے اور یہ بھی بتایئے کہ اسلام کی طرف کس نے آپ کو دعوت دی ؟

جواب  : سچی بات یہ ہے کہ مجھے اسلام کی طرف کسی مسلمان یا کسی انسان نے دعوت نہیں دی، بلکہ مذہب حق اسلام نے خود مجھے دعوت دی، ہوا یہ میں احمد آباد  میں دلی پبلک اسکول کی برانچ کے قیام کے لئے گیا، ایک ہفتہ کے قیام کے بعد احمد آباد میل سے واپس لوٹا، گاڑی سات گھنٹے لیٹ تھی، دو پہر کے شاید ڈیڑھ دو بج رہے ہوں گے، میں گاڑی سے اترا تو میں نے دیکھا کہ قلی اکھٹے ہو کر ایک طرف کو جا رہے ہیں، مجھے غریبوں اور مزدوروں کے حقوق سے ہمیشہ دل چسپی رہی ہے، مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید یہ کوئی ایجی ٹیشن کرنے جا رہے ہیں، سچی  بات یہ ہے کہ ہدایت مجھے بلارہی تھی ورنہ آج میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ دس بیس قلی آنے والی گاڑی پر اس طرح جاتے ہی ہیں مگر اس وقت میرے خیال میں آیا کہ میں ان کے ایجی ٹیشن میں ان کی رہنمائی کروں، اس لئے میں قلیوں کے ساتھ چلا، میں نے دیکھا کہ انھوں نے پلیٹ فارم پر ایک جگہ سے لوٹے اٹھائے، پانی بھرا اور پلیٹ فارم پر وضو کرنے لگے، مجھے دوپہر کو سب لوگوں کے اس طرح لوٹے اٹھائے اور پھر منھ ہاتھ دھونے سے حیرت ہوئی اور خیال ہوا کہ دیکھنا چاہئے کہ دوپہر کو ہاتھ منھ دھوکر یہ کیا کرتے ہیں ؟ خوب اچھی طرح داتون وغیرہ کر کے انھوں نے ہاتھ اور پاؤں دھوئے، اور جگہ پر جو انھوں نے رسیاں باندھ کر نماز کے لئے بنائی ہوئی تھی وہاں چٹائیاں بچھائیں اور سب لائن میں کھڑے ہو گئے ایک آدمی آگے کھڑا ہوا باقی سب بالکل سیدھی صف بنا کر کھڑے ہو گئے اور اس طرح صف کو سیدھا کیا کہ ایک انچ کوئی آگے پیچھے ہوتا تو برابر والا اس کو ٹھیک کھڑا ہونے کو کہتا، ایک کے اللہ اکبر کہنے سے سب ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے اب مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں بھار ڈھو نے والی قلی قوم کو میں دیر تک جماعت پوری ہونے تک دیکھتا رہا، مجھے خیال ہوا کہ ایسی جاہل قوم میں ایسانظم اور ڈسپلن جس مذہب نے پیدا کیا ہے مجھے ضرور اس کو پڑھنا چاہئے، میں اس جذبہ سے اردو بازار پہنچا میرے علم میں تھا کہ وہ بازار اردو اور اسلامی کتابوں کاہے، ایک کتب خانے پر گیا تو انھوں نے مجھے کتب خانہ انجمن ترقی اردو پر جانے کا مشورہ دیا، وہاں پہنچا تو انھوں نے مجھے مولانا منظور نعمانی صاحب کی کتاب کا انگریزی ترجمہ What Islam Is? (اسلام کیا ہے ؟) اور مولانا سید سلیمان ندوی کی  Prophet Mohammad The Ideal   (خطبات مدراس) پڑھنے کا مشورہ دیا، میں خرید کر لے آیا، مجھے ان دونوں کتابوں نے اسلام سے میری خاندانی دوری کے باوجود اسلام سے بالکل قریب کر دیا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ان دونوں کتابوں نے مجھے ایک حد تک مسلمان بنا دیا تو شاید یہ بات بھی صحیح ہو، اس کے بعد مجھے یہ خیال ہوا کہ مجھے اسلام کو اس کی اصل سے پڑھنا چاہئے اور قرآن پاک کے ہندی اور انگریزی ترجمے اردو بازار سے میں لے کر آیا، قرآن پاک کو پڑھ کر مجھے احساس ہونے لگا کہ اسلام میری کھوئی ہوئی مایا ہے اور جیسے جیسے میں قرآن پاک پڑھتا گیا میرے اندر کی اندھیری جگمگانے لگی اور مجھے ایسا لگا کہ  (فطرتاً)  میں مسلمان ہی پیدا کیا گیا ہوں، جنت دوزخ کے حالات پڑھ کر مجھے یہ بھی خیال ہوا کہ مجھے فیصلہ میں جلدی کرنا چاہئے، اگر اسلام اور ایمان کے بغیر میری موت آ گئی تو میری ہلاکت ہے، میں نے اس کے لئے تلاش شروع کی، میں جامع مسجد امام بخاری کے پاس گیا، مگر انھوں نے میرے ساتھ بہت بے رخی کا معاملہ کیا میرے مالک کا مجھے پر کرم تھا کہ میرے لئے خود اسلام نے اپنا دروازہ کھولا، کوئی مسلمان اس کا ذریعہ نہیں تھا، اب میرے لئے قرآنی اسلام اور مسلمانوں کے اسلام میں فرق کرنا مشکل کام نہیں تھا، اگر میں مسلمانوں کے اسلام سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف آتا تو امام صاحب کے پاس حاضری ہی میرے لئے رکاوٹ بننے کے لئے کافی تھی، مگر میں نے تلاش جاری رکھی، میں جماعت اسلامی کے دفتر میں بھی گیا وہ میرا تعارف سن کر شاید شک میں پڑ گئے اور میرے  بڑے بھائی جو وزیر ہیں ان کی رشتہ داری ان کے لئے جھجک کا باعث ہوئی، میں ۶/ ماہ تک شاید پچا س لوگوں کے پاس گیا کہ کوئی مجھے مسلمان کر لے، مگر نہ جانے کیوں مجھے کوئی کلمہ نہ پڑھو اسکا، اس دوران میرا مطالعہ جاری رہا اور مجھے روز بروز یہ فکر اور خوف بڑھتا گیا کہ کہیں میں اس حال میں مر نہ جاؤں اور شاید میں اس نعمت کا اہل نہیں ہوں، بار بار میں تنہائی میں اپنے مالک سے فریاد بھی کرتا، میرے مالک آپ ہی مجھے مسلمان کر لیجئے، یہ ۶/ ماہ مجھ پر بہت سخت گزرے اور حد درجہ شکستگی مجھ پر طاری رہی، میری بے چینی بڑھتی گئی، اس دوران میری بڑی بہن کا انتقال ہو گیا، مجھے کریا کرم میں شریک ہونا پڑا میں نے اندر سے مسلمان ہو کر پہلی بار اپنی بہن کو جلتے دیکھا تو میں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھ پر کیا گزری میرے والدین کے بعد میری بڑی بہن اس آگ کے واسطہ سے اس دوزخ کی آگ کی طرف چلی گئی، اب اس کے بعد عمر کے لحاظ سے میرا نمبر تھا میری ہمت ٹوٹنے لگی، ساری رات مجھے بے چینی میں نیند نہیں آئی اٹھ کر بیٹھ گیا بڑی آہ و زاری سے دعا کرتا رہا :میرے مالک مجھے ایمان کے بغیر موت نہ آئے۔

صبح کو مجھے خیال آیا کہ مجھے کتب خانہ انجمن ترقی اردو والوں سے بھی مشورہ کرنا چاہئے، شاید وہ کچھ راہ نکالیں، ان کے پاس گیا اور اپنی پوری کہانی سنائی، انہوں نے کہا آپ فوراً پھلت چلے جائیں اور مولانا کلیم صاحب سے ملیں انہوں نے پھلت کا پتہ بتایا، میں فوراً کتب خانہ سے اپنی گاڑی سے پھلت پہنچا، ۲۴/ مئی ۲۰۰۱ء کو تقریباً ساڑھے گیارہ بجے میں پھلت پہنچا، مولانا کلیم صاحب اندر گھر سے خود ہی کسی سفر کے لئے نکل رہے تھے، گاڑی تیار تھی، بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی، کھڑے کھڑے میں نے ان سے چڑ چڑ ے پن سے کہا، میں مسلمان ہونے آیا ہوں، اگر آپ کر سکتے ہوں تو بتائیں ورنہ جواب دیں، مولانا صاحب شاید اس جملہ سے میری پوری داستان سمجھ گئے، انھوں نے کہا اگر آپ کھڑے کھڑے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا چاہتے ہیں تو کھڑے کھڑے پڑھ لیں اور اگر کرسی پر بیٹھ کر پڑھنا چاہیں تو بیٹھ جائیں، میں بیٹھ گیا انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور میرا نام میرے نام کی مناسبت سے سعید احمد رکھا، مولانا صاحب نے مجھے دلی مبارکباد دی اور گلے لگایا، پانی منگوایا اور کہنے لگے اگر آپ برا نہ مانیں تو اپنا تعارف کرا دیں اور یہ بتائیں کہ آپ کو اسلام کی کس نے دعوت دی ؟ میں نے تعارف کرایا اور بتایا کہ مجھے اسلام نے خود دعوت دی ہے، مولانا نے پورا حال سن کر میری تسلی کے لئے گویا انھوں نے میری مذاق اڑائی اور کہا ڈاکٹر صاحب آپ سائنس داں ہیں مذہب اسلام کو آپ حق سمجھ کر قبول کر رہے ہیں اور اسلام کو پڑھ کر آپ نے یہ فیصلہ کیا ہے آپ نے اچھی طرح سمجھا ہو گا کہ اسلام رسموں کا مذہب نہیں ہے، ایمان اللہ اور بندہ کے درمیان سچے رشتے کا نام ہے، جب حق سمجھ کر آپ نے اس کو مان لیا دل کی گہرائی سے تسلیم کر لیا اور باپ دادوں کی بت پرستی اور شرک کو چھوڑنے فیصلہ کر لیا تو آپ اللہ کے نزدیک مسلمان ہو گئے، میں نے جو کلمہ آپ کو پڑھوایا محض آپ کی تسلی اور آپ جیسے سچے اور گناہوں سے پاک مسلمان کے ساتھ کلمہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے پڑھوایا ہے ورنہ مسلمان تو آپ چھ ماہ پہلے ہو گئے تھے انھوں نے میرا اس طرح پر مذاق اڑایا کہ میرے سارے جگہ جگہ دھکے کھانے کے زخموں کا علاج ہو گیا اور اب میں ان لوگوں کے بجائے جو کلمہ پڑھوانے سے کتراتے ہیں اپنی حماقت پر خود ہی ہنسا، مولانا صاحب کے یہاں پر تکلف ناشتہ ہوا، انھوں نے اپنے سفر کو ایک گھنٹہ موخر کیا اور جن لوگوں نے مجھے کلمہ پڑھوانے سے جھجک محسوس کی حالات کا تقاضہ بتا کر ان کی صفائی کرتے رہے اور مجھے اس پر آمادہ کرتے رہے کہ مسلمانوں کا اسلام پیاسی اور دکھیاری انسانیت کے قبول حق کے راستہ میں رکاوٹ و حجاب ہے ایسے میں اب زیادہ ضرورت ہے کہ قرآنی اسلام کو سمجھنے اور ماننے والے آپ جیسے قرآنی مسلمان، لوگوں کو حقیقی اسلام کا اپنے قول اور عمل سے تعارف کرائیں، بلکہ درد مندی سے دعوت دیں اور چلتے چلتے مجھ سے وعدہ بلکہ عہد لیا کہ دنیا کی اس کمی کے لئے میں کام کروں گا، مولانا صاحب نے اصرار کیا کہ میں کھانا کھا کر جاؤں، مگر یہ چاہتے ہوئے کہ میں مولانا صاحب کے ساتھ کچھ وقت گذار نے کو دل چاہتا تھا میں نے ان کے سفر کی وجہ سے اجازت لی اور خوشی خوشی واپس لوٹا۔

مولوی احمد صاحب !آپ میرے محسن زادے ہیں جو میں اپنی اس خوشی اور سفر کی کامیابی کے مزے کی حالت بتا نہیں سکتا مجھے ایسا لگا جیسے آج ہی میں پیدا ہوا ہوں، میں راستہ بھر سوچتا رہا کہ پوری دنیا کو ایک ملک بنا کر مجھے اس کا بادشاہ بنا دیا جاتا شاید میرے لئے اتنی خوشی کی بات نہ ہوتی  اس لئے کہ میں آج اپنے مالک کو گویا راضی کر کے لوٹا تھا۔

دہلی واپس لوٹا تو میں نے اپنی بیوی سے صاف صاف بتا دیا انھوں نے گھر والوں سے بتا دیا اور میرے گھر میں کہرام مچ کیا میرے بڑے بھائی (جو وزارت کی کرسی پر تھے )نے بڑے لالچ دیئے اور فیصلہ بدلنے پر  زور دیا اور فیصلہ نہ بدلنے پر سخت وارننگ بھی دی، میں نے دو ٹوک ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا انھوں نے مجھے پارٹی اور ملک کے دو بڑے ذمہ داروں بلکہ وقت کے سب سے بڑے ذمہ داروں سے ملوایا، انھوں نے مجھے ملک کی وزارت کی آفر دی، میں نے وہاں بھی اپنا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا اور جب وہ زور دیتے رہے اور مجھے چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے تومیں سوچنے کو کہہ کر جان چھڑا کر چلا آیا ظاہر ہے  اس مبارک فیصلہ کے لئے کچھ سوچنے کے تصور سے بھی کانپ جاتا ہوں، میں نے آپ کے والد صاحب کو ضرور ان ملاقاتوں کی اطلاع دی، انھوں ایک دو روز غور فکر کے بعد یہ مشورہ دیا کہ آپ دلی پبلک اسکول کو چھوڑ کر کچھ روز کے لئے سعودی عرب یا گلف کے کسی ملک میں رہیں میں نے بھی اس رائے کو بہتر سمجھا نیٹ پر دیکھ کر ایک انگلینڈ کے اسکول میں انٹرنیٹ پر اپلائی کر دیا اور نیٹ ہی پر انٹر ویو ہوا اور ایک مہینہ میں ہی مسقط تین سال کے لئے چلا گیا، اللہ کا شکر ہے کہ میرا یہ وقت بہت اچھا گزرا۔

سوال  : آپ فر ما رہے تھے کہ ابی سے آپ نے قرآنی اسلام کی دعوت کا وعدہ اور عہد کیا تھا، اس عہد و پیمان کا کیا رہا؟

جواب  :  میں نے تین سال مسقط میں گزارے، صرف اور صرف دعوت کو مقصد بنا کر کام کیا، عرب نوجوانوں کو میں نے زندگی کا مقصد سمجھ کر جینے کے لئے تیار کیا اور اپنے ساتھیوں اور رفقاء میں کام کیا، میرے کالج کے پرنسپل جو فرانس کے رہنے والے تھے الحمدللہ مسلمان ہوئے اور انھوں نے پیرس میں جا کر ایک دعوتی ادارہ قائم کیا، ہمارے کالج کے چھ استاذ اور تین ملازموں نے اسلام قبول کیا جن میں تین ہندوستانی، تین امریکی اور تین لوگ لندن کے تھے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ مع اپنے خاندان کے مسلمان ہوئے، تعداد تو زیادہ بڑی نہیں ہوئی مگر اس بات پر میں اللہ کا حد درجہ شکر کرتا ہوں کہ یہ سب لوگ شعوری طور پر قرآنی مسلمان ہیں جس کالج میں رہا وہاں پر ایسی دعوتی فضا بن گئی کہ ہفتہ واری پروگراموں میں میرا دعوتی لیکچر بڑے شوق سے سنا جاتا رہا، میرے کالج کے پچاسوں شاگردوں کی الحمدللہ ایسی ذہن سازی ہو گئی ہے کہ وہ انشاء اللہ جب تک زندہ رہیں گے دعوت کو مقصد بنا کر جئیں گے، ان میں سے اکثر برطانیہ اور مغربی ملکوں میں ہیں دو جاپان اور دو اٹلی میں دعوتی کام کر رہے ہیں، اصل میں میرے ساتھ بھی مسئلہ تھا کہ میں نے اس وقت خود بھی پڑھنے کی کوشش کی، الحمد للہ قرآن شریف پڑھا اور اردو بھی اب میری اچھی خاصی ہو گئی ہے۔

سوال  :   اب آپ نے فیجی جا نے کا پروگرام بنایا ہے، وہاں پر آپ کی کیا مصروفیت ہو گی؟

جواب  :  اصل میں یہ فیصلہ میں نے مولانا صاحب کے مشورہ اور ان کی ایما پر کیا ہے، مولانا صاحب فی جی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں دعوت کے لئے بڑے فکر مند ہیں اور وہاں کے حالات سے بہت پر امید ہیں، وہاں پر ان سے وابستہ کچھ لوگ کام کر رہے ہیں، مولانا صاحب کا خیال ہے کہ مغربی ملکوں خصوصاً امریکہ کی دادا گیری اور ظالمانہ رویہ سے مشتعل، نوجوان مسلمانوں کی جہادی تحریکوں سے اسلام کی رحمدلانہ اور سو فی صد رحمت بھری تصویر مسخ ہو کر رہ گئی ہے، اس لئے کہ جذبات میں یہ نوجوان اسلامی اصولوں کو نظر انداز کر کے، مغرب کی دیوالیہ ہو چکی انسانیت کے، اسلام کی طرف آنے میں رکاوٹ اور حجاب بن رہے ہیں، اس لئے ان ملکوں میں دعوت کی ضرورت بھی زیادہ ہے اور یہاں امیدیں بھی زیادہ ہیں اس لئے میں نے ایک ملازمت تلاش کر لی ہے اور انشاء اللہ جنوری میں میرا وہاں کا سفر ہے، خدا کرے میں مولانا صاحب کی امیدوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بن سکوں۔

سوال  :   مسلمانوں کے لئے کچھ پیغام ارمغان کے واسطہ سے آپ دینا چاہیں گے ؟         جوا ب  :  بہت زیادہ تو میں کچھ کہنے کے حال میں نہیں ہوں، البتہ میری زندگی خود مسلمانوں کے لئے پیغام اور عبرت ہے، میری یہ بات یقیناً بڑی کڑوی سچائی ہو گی کہ اگر مسلمان سچائی اور حق سے دیوالیہ انسانیت کو حق کی دعوت کا حق ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم قرآنی اسلام اور دنیا کے درمیان رکاوٹ اور حجاب نہ بنیں اور اسلام اور انسانیت کے درمیان سے ہٹ جائیں۔

سوال  :  واقعی یہ بات تو حقیقت ہے مگر آپ کو اس سلسلہ میں بالکل مایوس نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ کسی نہ کسی درجہ میں آپ کو کتاب دینے والے اور جن کتابوں کو آپ نے پڑھا  ان کے لکھنے والے اور کلمہ پڑھوانے والے سب لوگ آج کل کے ہی مسلمان ہیں۔

جواب  : یہ بات بالکل حق ہے یہ لوگ واقعی قرآنی مسلمان ہیں مگر ایسے مسلمانوں سے عام انسانوں کا رابطہ اور ان کو دیکھنے کا موقع ان کو کب ملتا ہے، غیر مسلموں کو جن مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جو قرآنی اسلام کے لئے حجاب ہیں۔

سوال   :  واقعی آپ کی یہ بات بھی سچ ہے، بہت بہت شکریہ !  السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب   :آپ کا بھی شکریہ ! وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ   فی امان اللہ

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، جنوری  ۲۰۰۶ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ڈاکٹر محمد حذیفہ{رام کمار} بستی یو پی، سے ایک ملاقات

 

 

ا حمد ا واہ      :   السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

ڈاکٹر حذیفہ  :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  اللہ کا شکر ہے آپ آ گئے، ابی سے بہت مرتبہ آپ کا ذکر سنا، ابی اکثر لوگوں کے سامنے آپ کا ذکر کرتے ہیں، اپنے خونی رشتہ کے بھائیوں کی خیر خواہی اور ان کو ہمیشہ کی ہلاکت اور عذاب سے بچانے کے لئے اسلام کی دعوت دینا نہ صرف یہ کہ اسلامی فریضہ ہے بلکہ یہ ایک خیر خواہی  ہونے کی وجہ، ہمارے ملک کے قانون کے لحاظ سے بھی ہمارا قانونی حق ہے، اس سلسلہ میں آپ کے قبول اسلام کا تذکرہ مثال کے طور پر کیا کرتے ہیں، مجھے آپ سے ملاقات کا اشتیاق تھا، اللہ نے ملاقات کرا دی،

جواب  :میں دہلی ایک سرکاری کام سے آیا تھا، مولانا صاحب کا فون تو ملتا نہیں، خیال ہوا کہ فون کر کے دیکھ لوں، اگر پھلت ہوئے تو ملاقات کر کے جاؤں گا، بہت دنوں سے ملاقات نہ ہو پانے کی وجہ سے بہت بے چین سا تھا، فون ملایا تو معلوم ہوا مولانا صاحب دہلی میں ہی ہیں، میرے لئے اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ دہلی میں ملاقات ہو گئی  میرے اللہ کا کرم ہے رمضان سے پہلے ملاقات ہو گئی ہے، بیقراری بھی بہت ہو رہی تھی اور ذرا ایمان کی بیٹری بھی چارج سی ہو گئی، بہت دن ملاقات کو ہو جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے، جیسے اندر کی بیٹری ڈاؤن ہو گئی ہو، الحمد للہ ملاقات ہو گئی اور ایک پروگرام میں بھی مولانا صاحب کے ساتھ شرکت ہو گئی، بیان سے بھی تسلی سی ہو گئی۔

سوال  :    حذیفہ صاحب میں آپ سے ایک مطلب کے لئے ملنا چاہتا تھا، ہمارے یہاں پھلت سے ایک ماہنامہ میگزین ارمغان کے نام سے نکلتا ہے، شاید آپ کے علم میں ہو، اس کے لئے ایک انٹرویو آپ سے لینا چاہتا ہوں تاکہ دعوت کا کام کرنے والوں کے لئے رہنمائی بھی ہو خصوصاً آپ کے انٹرویوسے خوف کم ہو اور حوصلہ بڑھے۔

جواب  :  ہاں احمد  بھیاّ!میں ’ ارمغان ‘  کو خوب جانتا ہوں میں نے مولانا صاحب سے کئی مرتبہ درخواست کی ہے کہ اس کا ہندی ایڈیشن ضرور نکالیں، میں نے مولانا صاحب سے کہا تھا کہ ہندی کے کم سے کم پانچ سوسالانہ ممبر میں بنواؤں گا انشاء اللہ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ ستمبر سے ہندی ایڈیشن نکل رہا ہے، مگر نہ جانے کیا وجہ ہوئی ستمبر، میں بھی وہ نہیں آ سکا،

سوال  :   وہ انشاء اللہ جلدی آ رہا ہے، آپ فکر نہ کریں، ابی اور مولانا وصی صاحب اس کے لئے بہت فکر مند ہیں اور لوگوں کا تقاضا بھی بہت ہے۔

جواب  : خدا کرے یہ خبر جلدی سچ ہو، احمد بھائی حکم کریں مجھ سے کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں ؟

سوال   : آپ اپنا تعارف کرایئے ؟

جواب  : مشرقی یوپی میں بستی ضلع کے گاؤں کے زمیندار کے یہاں میری پیدائش ۱۳/اگست ۱۹۵۷ء میں ہوئی، ۱۹۷۷ء میں انٹر پاس کیا، میرے چچا یوپی پولیس میں ڈی ایس پی تھے، ان کی خواہش پر پولیس میں بھرتی ہو گئی، دوران ملازمت  ۱۹۸۲ء میں میں نے بی کام کیا اور ۱۹۸۴ء میں ایم اے کیا، یوپی کے ۵۵ تھانوں میں انسپکٹر تھانا انچارج رہا، ۱۹۹۰ء میں پرموشن ہوا، سی او ہو گیا ۱۹۹۷ء ایک ٹریننگ کے لئے فلور اکیڈمی جانا ہوا تو اکیڈمی کے ڈائرکٹر جناب اے۔ اے صدیقی صاحب نے جو ہمارے چچا کے دوست بھی تھے، مجھے کر منالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے کا مشورہ دیا اور میں نے چھٹی لے کر ۲۰۰۰ء میں پی ایچ ڈی کیا۱۹۹۷ء میں میری پر فارمینس (ملازمت میں بہتر کار کردگی ) کی بنیاد پر خصوصی پر موشن ڈی ایس پی کے عہدہ پر ہو گیا اور میری پوسٹنگ مظفر نگر میں خفیہ پولیس کے محکمہ میں ہو گئی، میرے ایک چھوٹے بھائی ہیں جو انجنیئر ہیں ایک بہن ہے جس کی شادی ایک لکچررسے ہوئی، خاندان میں الحمد للہ تعلیم کا رواج رہا ہے، آج کل میں مشرقی یوپی میں ایک ضلع ہیڈ کوارٹر میں محکمہ خفیہ پولیس کا ذمہ دار ہوں۔

سوال  :   اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتایئے ؟

جواب : ہمارا خاندان پڑھا لکھا خاندان ہونے کی وجہ سے اپنی مسلم دشمنی میں مشہور رہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ ہمارے خاندان کی ایک شاخ تقریباً سوسال پہلے مسلمان ہو کر فتح پرہنسوہ اور پر تاب گڑھ میں جا کر آباد ہو گئی تھی، جو بہت پکے مسلمان ہیں، ادھر ہماری بستی میں تیس سال پہلے بستی کے زمین داروں کی چھو ا چھوت سے تنگ آ کر آٹھ دلت خاندانوں نے اسلام قبول کیا تھا، ان دونوں واقعات کی وجہ سے ہمارے خاندان میں مسلم دشمنی کے جذبات اور بھی زیادہ ہو گئے تھے، بابری مسجد کی شہادت کے زمانے میں اس میں اور بھی زیادتی ہو گئی، ہمارے خاندان کے کچھ نوجوانوں نے بجرنگ دل کی ایک برانچ گاؤں میں قائم کر لی تھی جس میں سب سے زیادہ خاندان کے لڑکے ممبر تھے، میں نے یہ باتیں اس لئے بتائیں کہ کسی آدمی کے اسلام قبول کرنے کے لئے مخالف ترین ماحول میرے لئے تھا، مگر اللہ کو جس کا نام ہادی اور رحیم ہے اپنی شان کا کرشمہ دکھا نا تھا، اس نے ایک عجیب راہ سے مجھے راہ دکھائی۔

ہوا یہ کہ غازی آباد ضلع کے پلکھوہ کے ایک خاندان کے نو لوگوں نے مولانا کے پاس آ کر پھلت میں اسلام قبول کیا، دو ماں باپ اور چار لڑکیاں اور تین لڑکے، لڑکا شادی شدہ تھا، مولانا صاحب سے ان لوگوں نے کلمہ پڑھوانے کے لئے کہا اور بتا یا کہ ہم آٹھ لوگ تو ابھی کلمہ پڑھ رہے ہیں یہ بڑا لڑکا شادی شدہ ہے اس کی بیوی ابھی تیار نہیں ہے، جب اس کی بیوی تیار ہو جائے گی یہ اس کے ساتھ کلمہ پڑھے گا، مولانا صاحب نے کہا موت زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں، یہ بھی ساتھ ہی کلمہ پڑھ لے، ابھی اپنی بیوی کو نہ بتائے اور اس کو تیار کرے اور اس کے ساتھ پھر دوبارہ کلمہ پڑھ لے مولانا صاحب نے ان سب کو کلمہ پڑھوایا اور ان کی فرمائش پر ان سب کے نام بھی اسلامی رکھ دیئے، ان لوگوں کے کہنے پر ایک پیڈ پر ان کے قبول اسلام اور ان کے نئے  ناموں کا سرٹیفکٹ بنا کر دے دیا، ان لوگوں کو بتا بھی دیا کہ قانونی کاروائی ضروری ہے اس کے لئے بیان حلفی تیار کرا کے ڈی ایم کو رجسٹر ڈ ڈاک سے بھیجنا اور کسی اخبار میں اعلان نکالنا کافی ہو گا، یہ لوگ خوشی خوشی وہاں سے گئے اور قانونی کاروائی پکی کرالی، بچوں کو مدرسہ میں داخل کر دیا، بڑی لڑکیاں اور ماں عورتوں کے اجتماع میں جانے لگیں۔

مسلمان عورتوں کو معلوم ہوا تو انھوں نے خوشی میں مٹھائی تقسیم کر دی، لڑکے کی بہو کو معلوم ہو گیا، اس نے اپنے مائکہ والوں کو خبر کر دی ایک سے ایک کو خبر ہوتی گئی اور ماحول گرم ہو گیا علاقہ کی ہندو تنظیمیں جوش میں آ گئیں، آج تک ٹی وی چینل کے لوگ آ گئے، دیکھتے دیکھتے خبر پھیل گئی دینک جاگرن اور امر اجالا دونوں ہندی اخباروں میں چار کالموں کی بڑی بڑی خبریں چھپیں، جن کا ہیڈنگ تھا ’’لالچ دے کر دھرمانترن پر پوری ہندو برادری میں روش، دھرمانترن پھلت مدرسہ میں ہوا ‘‘اس خبر سے پورے علاقے میں گرمی پیدا ہو گئی میری پوسٹنگ مظفر نگر میں تھی، علاوہ اپنی دفتری ذمہ داری کے مجھے خود اس خبر پر غصہ آیا اور ہم اپنے دو انسپکٹروں کو لے کر پھلت پہنچے، وہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ مولانا صاحب ہی صحیح بات بتا سکتے ہیں اور ہمیں اطمینان دلایا کہ ہمارے یہاں کو ئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا، مولانا صاحب سے آپ ملیں وہ آپ کو بالکل حق بات بتا دیں گے میں نے اپنا فون نمبر وہاں دیا کہ مولانا صاحب سے معلوم کر کے مجھے بتائیں کہ وہ پھلت کب آ رہے ہیں ؟

تیسرے روز مولانا صاحب کا پھلت کا پرو گرام تھا، ۶/ نومبر  ۲۰۰۲ء کی صبح ۱۱/بجے ہم پھلت پہنچے، مولانا صاحب سے ملے، مولانا صاحب بہت خوشی سے ہم سے ملے ہمارے لئے چائے ناشتہ منگایا، بولے بہت خوشی ہوئی آپ آئے، اصل میں مولوی ملاؤں اور مدرسوں کے سلسلہ میں بہت غلط پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، میں تو اپنے ساتھیوں اور مدرسے والوں سے بار بار یہ کہتا ہوں کہ پولیس والوں ہندو تنظیموں کے ذمہ داروں اور سی آئی ڈی، سی بی آئی  کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مدرسوں میں بلانا بلکہ چند دن مدرسوں میں مہمان رکھنا چاہئے، تاکہ وہ اندر کے حال سے واقف ہو جائیں اور مدرسوں کی قدر پہچانیں،  مجھے معلوم ہوا کہ آپ ایک دن پہلے بھی آئے تھے، مجھے ایک سفر پر ادھر ہی سے جانا تھا مگر خیال ہوا کہ آپ کو انتظار کرنا ہو گا، اس لئے میں صرف آپ کے لئے آج آ گیا ہوں مولانا صاحب نے ہنس کر کہا، فرمائیے  میرے لائق کیا سیوا ہے ؟احمد بھائی! مولانا صاحب نے ملاقات کے شروع میں ہی کچھ ایسے اعتماد اور محبت کا اظہار کیا کہ میری سوچ کا رخ بدل گیا، میرا اندر کا غصہ آدھا بھی نہ رہا، میں نے اخبار نکالے اور معلوم کیا کہ آپ نے یہ خبر پڑھی ہے ؟ مولانا صاحب نے بتایا کہ رات مجھے یہ اخبار دکھا یا گیا تھا میں نے امر اجالا  میں یہ خبر پڑھی ہے، میں نے کہا پھر آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ مولانا صاحب نے بتا یا کہ میں ایک سفر پر جا رہا تھا، گاڑی میں سوار ہو رہا تھا کہ ایک جیپ گاڑی آئی مجھے سفر کی جلدی تھی میں نے ساتھیوں سے کہا کہ یہ لوگ حضرت جی سے ملنے آئے ہوں گے  ان کو ادھر قاری حفظ الر حمن صاحب کا پتہ  بتا دو مگر ایک صاحب جانتے تھے، کہا ہمیں کسی دوسری جگہ نہیں جانا ہے ہم لوگ آپ کے پاس آئے ہیں یہ ہمارے بھائی اپنے گھر والوں کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتے ہیں اور ایک مہینہ سے پریشان ہیں، میں گاڑی سے اترا ان کو کلمہ پڑھوایا، ان کے زیادہ کہنے پر ان کے اسلامی نام بھی بتائے اور ان کو ایک سرٹیفکٹ بھی قبول اسلام کا دیا اور ان کو بتا دیا کہ قانونی کاروائی پکی جب ہو گی جب آپ بیان حلفی تیار کر کے ڈی یم کو اطلاع کریں گے اور ایک اخبار میں اعلان کر دیں گے اور اچھا ہے کہ ضلعی گزٹ میں دے دیں، ان لوگوں نے وعدہ کیا کل ہی جا کر ہم سب کاروائی پوری کریں گے اور مجھے علم ہوا کہ انھوں نے یہ سب کام پورے کرا لئے ہیں مولانا صاحب نے کہا کہ ہمارا ملک سیکولر ملک ہے اور ملک کے قانون نے اپنے مذہب کو ماننے اور مذہب کی دعوت دینے کا بنیادی حق ہمیں دیا ہے، کسی کو ایمان کی دعوت دینا، کوئی مسلمان ہونا چاہے اس کو کلمہ پڑھوانا ہمارا بنیادی قانونی حق ہے، جس چیز کا قانون ہمیں حق دیتا ہے، اس کے سلسلہ میں ہم لوگ کسی سے نہیں ڈرتے اور غیر قانونی کام ہم لوگ جان بوجھ کر ہر گز نہیں کرتے، بھول میں ہو جائے تو اس کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں، جہاں تک لالچ دے کر یا ڈرا کر مذہب  بدلوانے کی بات ہے، یہ بالکل غیر قانونی ہے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ غیر قانونی کام ممکن بھی نہیں ہے، مذہب بدلنا یا کسی کا مسلمان ہونا اس کے دل کے وشواس کا بدلنا ہے، جو لالچ اور ڈر سے ہو ہی نہیں سکتا، آپ کو خوش کرنے کے لئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں ہندو ہوتا ہوں یا مسلمان ہوتا ہوں مگر اتنا بڑا فیصلہ اپنی زندگی کو آدمی اندر سے راضی ہوئے  بغیر نہیں کر سکتا۔

دوسری اس سے بھی اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمان اس کو کہتے ہیں جو ہر سچی بات کو مانے، سارے  سچوں سے سچاہے ہمارا ما لک ا ور اس کے بھیجے ہوئے رسول حضرت محمد ﷺ جن کے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ و ہ صرف مسلمانوں کے رسول اور ان کے لئے مالک کے سندیش واہک تھے، حالانکہ قرآن میں اور آپ کی حدیثوں میں صرف یہ بات ملتی ہے کہ ہم سب کے مالک کی طرف سے بھیجے ہوئے سارے انسانوں کی طرف انتم (آخری ) اور سچے سند یشٹا ( رسول ) تھے، وہ ایسے سچے تھے کہ ان کے دین کے اور ان کی جان کے آخری دشمن بھی کبھی ان کو جھوٹا نہ کہہ سکے، بلکہ دشمنوں نے آپ کا لقب الصادق الامین اور سچا اور ایمان دار کا دیا، ہمارا وشواس یہ ہے کہ دن ہو رہا ہے ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں یہ آنکھیں دھوکہ دے سکتی ہیں، یہ بات جھوٹ ہو سکتی ہے کہ دن ہو رہا ہے، مگر ہمارے رسول ﷺ نے جو ہمیں خبر دی ہے اس میں ذرہ برابر غلطی، دھوکہ یا جھوٹ نہیں ہو سکتا، ہمارے رسول ﷺ نے ہمیں خبر دی ہے کہ سارے دنیا کے سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اس لئے سارے جگت کے انسان آپس میں خونی رشتہ کے بھائی ہیں، شاید آپ کے یہاں بھی یہی مانا جاتا ہے میں نے کہا یہ بات تو ہمارے یہاں بھی مانی جاتی ہے، مولانا نے کہا یہ تو بالکل سچی بات ہے ہم اور آپ خونی رشتہ کے بھائی ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ میرے چچا ہو، یا میں آپ کا چاچا ہوں، مگر آپ کے اور ہمارے بیچ خونی رشتہ ہے، اس خونی رشتہ کے علاوہ آپ بھی انسان ہیں اور میں بھی انسان، انسان وہ ہے جس میں انسیت ہو یعنی محبت ہو، ایک دوسرے کی بھلائی کا جذبہ ہو، اس رشتہ سے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندو دھرم ہی اکیلا مکتی کا راستہ اور موکش کا طریقہ ہے، تو آپ کو مجھے اس رشتہ کا لحاظ کرتے ہوئے، ہندو بنانے کی جی جان سے کوشش کرنی چاہئے اور اگر آپ انسان ہیں اور آپ کے سینہ میں پتھر نہیں ہے دل ہے، تو اس وقت تک آپ کو چین نہیں آنا چاہئے، جب تک میں غلط راستہ چھوڑ کر مکتی کے راستہ پر نہ آ جاؤں، مولانا صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ یہ بات ہے یا نہیں ؟میں نے کہا بالکل سچ بات ہے، مولانا صاحب نے کہا آپ کو سب سے پہلے آ کر مجھے ہندو بننے کے لئے کہنا چاہئے تھا، دوسری بات یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں، نکلتے سورج کی روشنی سے زیادہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اسلام ہی واحد، سب سے پہلا اور سب سے آخری، فائنل مذہب اور مکتی اور موکش یعنی نجات کا واحد راستہ ہے، اگر آپ مسلمان ہوئے بغیر دنیا سے چلے گئے تو آپ کو ہمیشہ کی نرک میں جلنا پڑے گا اور زندگی کا ایک سانس کے لئے بھی اطمینان نہیں، جو سانس اندر چلا گیا کیا خبر کہ باہر آنے تک آپ زندہ رہیں گے یا نہیں اور جو سانس باہر نکل گیا کیا خبر کہ اندر آنے تک زندگی وفا کرے گی ؟ اس حال میں اگر میں انسان ہوں اور میں آپ کو اپنا خونی رشتہ کا بھائی سمجھتا ہوں تو جب تک آپ کلمہ پڑھ کر مسلمان نہیں ہو گے مجھے چین نہیں آئے گا یہ بات میں کوئی ناٹک کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں، تھوڑی دیر کی اس ملاقات کے بعد اس خونی رشتہ کی وجہ سے اگر مجھے رات سوتے سوتے بھی آپ کی موت اور نرک میں جلنے کا خیال آئے گا تو میں بے چین ہو کر بلکنے لگوں گا، اس لئے سر آپ پلکھوہ والوں کی فکر چھوڑ دیجئے، جس مالک نے پیدا کیا ہے جیون دیا ہے اس کے سامنے منھ دکھانا ہے، میرے درد کا علاج تو جب ہو گا جب آپ تینوں مسلمان ہو جائیں گے، اس لئے آپ سے رکویسٹ  (درخواست) ہے کہ آپ میرے حال پر ترس کھائیں، آپ تینوں کلمہ پڑھیں، احمد بھائی میں عجیب حیرت میں تھا، مولانا صاحب کی محبت جیسے جادو ہو، میں ایسے خاندان کا ممبر ہوں، جس کی گھٹی میں مسلمانوں، مسلم بادشاہوں اور اسلام کی دشمنی پلائی گئی ہے اور اس خبر کے سلسلہ میں حد درجہ برہم ہو کر میں گویا مخالف انکوائری کے لئے فیصلہ کر کے پھلت گیا تھا اور مولانا صاحب مجھے نہ اسلام کے مطالعہ کو کہتے ہیں، نہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے کہتے ہیں، بس سیدھے سیدھے مسلمان ہونے کو کہہ رہے ہیں اور میری انتر آتما، میرا ضمیر گویا مولانا صاحب کی محبت کے شکنجہ میں جیسے بالکل بے بس ہو، میں نے کہا بات تو آپ کی بالکل سادی اور سچی ہے اور ہمیں سوچنا ہی پڑے گا، مگر یہ فیصلہ اتنی جلدی کرنے کا تو نہیں کہ اتنا بڑا فیصلہ اتنی جلدی میں لے سکیں، مولانا صاحب نے کہا سچی بات یہ ہے کہ آپ اور ہم سب مالک کے سامنے ایک بڑے دن حساب کے لئے اکٹھا ہوں گے تو اس وقت اس سچائی کو آپ ضرور پائیں گے کہ یہ فیصلہ بہت جلدی میں کرنے کاہے اور اس میں دیر کی گنجائش نہیں اور آدمی اس میں جتنی دیر کرے گا  پچھتائے گا، پتہ نہیں پھر زندگی فیصلہ لینے کی مہلت دے یا نہ دے اور موت کے بعد پھرا فسوس اور پچھتا وے کے علاوہ آدمی کچھ نہیں کر سکتا بالکل یہ بات سچ ہے کہ ایمان قبول کرنے اور مسلمان ہونے سے زیادہ جلد بازی میں کرنے کا کوئی اور فیصلہ ہو نہیں سکتا ہاں اگر آپ ہندو دھرم کو مکتی کا راستہ سمجھتے ہیں تو پھر مجھے ہندو بنانے میں اتنی ہی جلدی کرنی چاہئے جس طرح میں مسلمان بننے کے لئے جلدی کرنے کو کہہ رہا ہوں، مجھے خیال ہوا کہ جس وشواس (مضبوط اعتماد و یقین ) کے ساتھ مولانا صاحب مسلمان ہونے کو کہہ رہے ہیں اس میں اس اعتقاد کے ساتھ میں ہندو بننے کو نہیں کہہ سکتا، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے پورے دھرم کو کہی سنائی رسموں پر آدھارت کہانیوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے تھے، جب ہمارا ہندو دھرم پر وشواس کا یہ حال ہے تو یہ کسی کو کس بل بوتے ہندو بننے کو کہہ سکتے ہیں ؟ میرے اندر سے جیسے کو ئی کہہ رہا تھا، رام کمار اسلام میں ضرور سچائی ہے جو مولانا صاحب کے اندر یہ وشواس ہے، مولانا صاحب کبھی کبھی بہت خوشامد، کبھی ذرا زورسے بارہا ہم لوگوں سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کے لئے کہتے رہے، جب مولانا صاحب خوشامد کر تے تو مجھے ایسا لگتا جیسے کسی زہر کھانے کا ارادہ کرنے والے یا آگ میں کودنے والے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے کوئی ہمدرد، کوئی ماں، خوشامد کرتی ہے۔

مولانا صاحب ہمیں بار بار کلمہ پڑھنے پر زور دیتے رہے میں نے وعدہ کیا ہم لوگ ضرور غور کریں گے، ہمیں پڑھ نے کے لئے بھی دیجئے، مولانا نے اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دی اور ہمیں سوسوبار روزانہ یا ہادی، یا رحیم اس وشواس کے ساتھ پڑھنے کو کہا کہ وہ مالک راستہ دکھانے والا، سب سے زیادہ دیا کرنے والا ہے، آنکھیں بند کر کے اس مالک کو جب آپ ان ناموں سے یاد کریں گے تو آپ کے لئے اسلام کے راستے ضرور کھول دیں گے، اصل میں دلوں کو پھیرنے کا فیصلہ اسی اکیلے کا کام ہے، میں نے مولانا صاحب سے کہا اچھا ہے، ماحول گرم ہو رہا ہے آپ اخبارات میں اس خبر کا کھنڈن نکلوا دیں، مولانا صاحب نے کہا میں نے ان کو دینی اور ان کا قانونی حق سمجھ کر کلمہ پڑھوایا ہے، جھوٹ کھنڈن کرانا کس طرح ہو سکتا ہے ؟ میری رائے یہ ہے کہ آپ کو بھی کسی جھوٹ بات کو چھپانا نہیں چاہئے، میں نے کہا اچھا ہم خود کر دیں گے ہم لوگ واپس ہو گئے تو میرے دونوں انسپکٹرس مجھ سے بولے، سر دیکھا کتنے سچے اور سجن آدمی ہیں، ہم لوگوں کا تو دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا   مو لا نا صاحب تو ایسے آدمی ہیں کہ کبھی کبھی شانتی کے لئے ان کی سنگتی میں آ کر بیٹھا جائے کو ئی لا گ نہیں لپیٹ نہیں، صاف صاف باتیں۔

سوال  :  آپ نے کلمہ نہیں پڑھا ؟

جواب  : میں نے گھر جا کر آپ کی اما نت آپ کی سیوا میں پڑھی محبت ہمدردی اور سچائی اس کے لفظ لفظ سے پھوٹ رہی تھی، مجھے اس کتاب کو پڑھ کر لگا کہ ایک بار پھر میری ملاقات مولانا صاحب سے ہو گئی ہے، اس کے بعد بار بار میرے اندر مولانا صاحب سے ملاقات کی ہوک سے اٹھتی رہی، اسلام کو پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوا، میں مظفر نگر میں ایک دکان سے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ لے کر آیا، میں نے فون پر مولانا صاحب سے اس کے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا، مولانا صاحب نے کہا، دیکھئے قرآن مجید کو آپ ضرور پڑھیں مگر صرف اور صرف یہ سمجھ کر پڑھیئے کہ میرے مالک کا بھیجا ہوا یہ کلام ہے یہ سوچ کر اور پڑھیں کہ یہ مگر صرف اور صرف میرے لئے بھیجا ہے، اس لئے مالک کا کلام سمجھ کر اچھا ہے آپ اشنان کر کے پڑھیں، پاک کلام کا پاک نور، پاک اور صاف ستھری حالت میں پڑھنا چاہئے، دو ہفتوں میں میں نے پورا قرآن مجید پڑھ لیا اب میرے لئے مسلمان ہونے کے لئے اندر کے دروازے کھل گئے تھے، میں نے پھلت جا کر مولانا صاحب کے سامنے کلمہ پڑھا مولانا صاحب نے میرا نام ’’ رام کمار ‘‘ بدل کر میری خواہش پر محمد حذیفہ رکھا اور بتا یا کہ ہمارے نبیﷺ اپنے ایک صحابی کو راز داری اور جا سوسی کے لئے بھیجا کرتے تھے، مجھے اس لحاظ سے یہ نام بہت اچھا لگا۔

سوال  :  اس کے بعد اسلام کے مطالعہ کے لئے آپ نے کیا کیا َ؟

جواب  :  مولانا صاحب کے مشورہ سے ہی چھٹی لے کر ایک چلہ جماعت میں لگایا، مگر مولانا صاحب نے مجھے سختی سے منع کر دیا تھا کہ آپ کسی سے جماعت میں اپنا پرانا تعارف نہ کرائیں، نہ اپنے آپ کو نو مسلم کہیں، اس لئے کہ آپ سچی بات یہ ہے کہ پیدائشی مسلمان ہیں، ہمارے نبی نے سچی خبر دی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا اسلامی نظریہ پر پیدا ہوتا ہے اس لئے ہر مذہب کے بچے کو دفنا یا ہی جا تا ہے، آپ تو پیدائشی مسلمان ہیں اور ہم سب کے باپ حضرت آدم اس کائنات کے سب سے پہلے مسلمان تھے اس لئے آپ پشتینی مسلمان ہیں، جماعت میں میرا وقت اچھا گذرا، لوگ مجھے انگریزی پڑھا لکھا، دینی تعلیم سے بالکل کورا مسلمان سمجھ کر مجھے نماز وغیرہ یا د کرانے کی کوشش کرتے رہے، گجرات کے ایک نوجوان عالم ہماری جماعت کے امیر تھے، میں نے چالیس دن میں پوری نماز اور بہت سی دعائیں یاد کر لیں، جماعت سے واپس آیا تو میرا ٹرانسفر الہ آباد ہو گیا، اپنی الہ آباد پوسٹنگ کے دوران میں نے اپنی بیوی کو بہت کچھ بتا دیا، وہ بہت فرمانبردار بھولی بھالی عورت ہیں، انھوں نے میرے فیصلہ کی ذرا بھی مخالفت نہیں کی، بلکہ میرے ساتھ ہر حال میں رہنے کا وعدہ کیا میں نے اس کو بھی کتابیں پڑھوائیں، ہماری شادی کو دس سال ہو گئے، تھے مگر کوئی اولاد نہیں تھی میں نے اس کو لالچ دیا، اسلام قبول کرنے سے ہمارا مالک ہم سے خوش ہو جائے گا اور ہمیں اولاد بھی دے گا، اولاد نہ ہو نے کے غم میں وہ بہت گھلتی رہتی تھی وہ اس بات سے بہت خوش ہو گئی، ایک مدرسہ میں لے جا کر اس کو کلمہ پڑھوایا، میں نے اپنے اللہ سے بہت دعا کی میرے رب میں نے آپ کے بھروسے اس سے وعدہ کر لیا ہے، آپ میرے بھروسے کی لاج رکھئے اور اس کو چاہے ایک ہی ہو، اولاد دیجئے خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اللہ نے گیارہ سال کے بعد ہمیں ایک بیٹا دیا اور تین سال کے بعد ایک بیٹی بھی ہو گئی ہے۔

سوال  :  اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی ملازمت میں کوئی مشکل نہیں آئی ؟

جواب  : میں نے الہ آباد پوسٹنگ کے دوران اپنے قبول اسلام کا اعلان کر دیا اور قانونی کاروائی ہائی کورٹ کے ایک وکیل کے ذریعہ کرائی، جس کے لئے مجھے اپنے محکمہ سے اجازت لینی ضروری تھی میں نے اس کی درخواست کی، ایک دویدی جی ہمارے بوس تھے، انھوں نے مجھے بہت سختی سے روکا اور دھمکی دی کہ اگر آپ نے یہ فیصلہ کیا تو میں آپ کو معطل کر دوں گا، میں نے ان سے صاف طور پر کہہ دیا کہ یہ فیصلہ تو میں کر چکا ہوں اب واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ کو جو کچھ کرنا ہو کر دیجئے انھوں نے مجھے سسپینڈ (معطل) کر دیا، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور تین چلے کے لئے جماعت میں چلا گیا، بنگلور اور میسور میں میرا وقت گزرا اور الحمد للہ بہت اچھا گذرا، مجھے اس وقت  تین بار حضور ﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی جس کی مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا، واپس آیا تو اللہ نے میرے تمام افسروں کو نرم کر دیا، لکھنؤ میں ایک مسلمان افسر جو بہت بڑی پوسٹ پر ہیں، میں نے ان سے جا کر اپنا پورا حال سنایا وہ پھلت جا چکے تھے اور مولانا صاحب کو جانتے تھے، انھوں نے میری مدد کی اور مجھے ملازمت پر بحال کر دیا گیا۔

سوال  : آپ کے دونوں انسپکٹر ساتھیوں کا کیا ہوا؟  جو ابی سے آپ کے ساتھ ملنے گئے تھے ؟

جواب  :  ان میں سے ایک نے اسلام قبول کر لیا ہے ان کے گھر والوں کی طرف سے ان پر بہت مشکلیں آئیں، ان کی بیوی ان کو چھوڑ کر چلی گئی مگر وہ جمے رہے اور اللہ نے ان کے حالات کو حل کیا دوسرے بھی اندر سے تیار ہیں مگر وہ بھی اپنے ساتھی کی مشکلات دیکھ کر ڈرے ہوئے ہیں۔

سوال  : آپ نے اپنے خاندان والوں پر کام نہیں کیا؟

جواب  : الحمد للہ کام جاری ہے، اس کام کی بڑی تفصیلات ہیں، میری ٹرین کا وقت ہو رہا ہے، پھر کسی ملاقات میں آپ تفصیلات سنئے تو آپ کو بہت مزا آئے گا۔

سوال  : ایک منٹ میں ارمغان کے پاٹھکوں (قارئین )کے لئے کوئی پیغام آپ دیں گے ؟

جواب  : اسلام سے بڑی کوئی سچائی نہیں اور جب یہ ایسی سچائی ہے تو اس کے ماننے والوں کو نہ اس پر عمل کرنے میں ڈرنا چاہئے نہ اس کو دوسروں تک پہنچانے سے رکنا چاہئے، تھوڑی بہت مخالفتیں آئیں گی، ہمارے مولانا صاحب کہتے ہیں کہ اسلام ایک روشنی ہے اور سارے باطل مذاہب اندھیرے، اندھیرے کبھی اجالے پر حاوی نہیں ہو سکتے، اجالا ہی غالب ہوا کرتا ہے، کبھی کبھی جب روشنی کی کمی ہوتی ہے تو لگتا ہے کہ اندھیرے چھا گئے اور غالب آ گئے مگر ذرا اجالا کیجئے اندھیرے نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں، بس میرا یہ ماننا ہے اور یہی میرا پیغام ہے کہ فتح ہمیشہ روشنی والوں کی ہوتی ہے اس لئے کسی طرح کے ڈر کے بغیر اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور بغیر لالچ کے سچی ہمدردی کا حق ادا کرنے کی نیت سے دعوت دی جائے تو مجھ جیسے اسلام اور مسلم دشمنی میں پلے، مخالفانہ انکوائری کا فیصلہ کرنے والوں کو جب ہدایت ہو سکتی ہے، تو بھولے بھالے سادہ دماغ لوگوں پر اثر نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟

سوال  :   شکریہ  !  جزاک اللہ

جواب  :  اچھا اجازت دیجئے، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ، بہت بہت شکریہ، انشاء اللہ جب کبھی آپ آئیں گے تو دوسری قسط ضرور سنائیے گا۔

جواب  :انشاء اللہ ضر ور

 

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، اکتو بر  ۲۰۰۶ء

٭٭٭

 

 

 

 

 جناب عبدالرحمن {انل راؤ} سے ایک ملاقات

 

 

عبد الرحمن   :  السلام علیکم و رحمۃ و برکاتہٗ

احمد اواہ     :   و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : عبدالرحمن صاحب، ایک زمانہ قبل ہمارے یہاں سے ارمغان دعوت میں حضرت مولانا علی میاں نور اللہ مرقدہٗ کے نام آپ کا ایک خط شائع ہوا تھا، اس وقت سے آپ سے ملاقات کا اشتیاق تھا، آپ ایسے وقت تشریف لائے جب مجھے ایک دوسری بھی ضرورت درپیش تھی، پھلت سے شائع ہونے والے دعوتی ماہنامے ’ارمغان ‘ میں دستر خوان اسلام پر آنے والے نئے خوش نصیب بھا ئی بہنوں کے انٹر ویو شائع کرنے کا ایک سلسلہ چل رہا ہے ‘ ستمبر کے شمارے کے لئے میں تلاش میں تھا کہ آپ سے ملاقات کروں، بہت اچھے وقت پر آپ کا آنا ہوا۔

جواب  :مجھے بھی بعض بہت ضروری مشورے مولانا صاحب (مولانا کلیم صدیقی صاحب) سے کرنے تھے سالوں ملے بھی ہو گئے تھے، اچھا ہوا آپ سے بھی ملاقات ہو گئی، آپ سے ملنے کا میرا بھی دل چاہتا تھا اصل میں حیدرآباد کے ہمارے بہت سے دوست آپ کا بہت ذکر کرتے ہیں، وہاں کے اردو اخباروں میں ارمغان کے حوالے سے انٹرویو شائع ہو رہے ہیں، جن سے بڑی دعوتی فضا بن رہی ہے اور لوگوں میں الحمد للہ بڑا دعوتی جذبہ پیدا ہو رہا ہے، ہمارے یہاں ور نگل سے بہت سے لوگ پھلت کے سفر کا خاص طور پر آپ سے ملاقات کے لئے پروگرام بنا رہے ہیں، اللہ تعالی آپ کی عمر اور علم میں برکت عطا فرمائے، دل بہت خوش ہوتا ہے کہ ہمارے حضرت کے صاحب زاد ہ بھی مشن سے جڑ گئے ہیں، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔

سوال  : آمین، اللہ آپ کی زبان مبارک کرے اور مجھ نا اہل کو بھی اپنے دین کی خدمت خصوصاً دعوت کے لئے قبول فرمائے آمین، جناب عبدالرحمن صاحب!آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

جواب  : میں شہر ورنگل کے ایک بڑے تاجر کے گھر میں اب سے تقریباً ۵۱سال پہلے ۱۳/اگست ۱۹۵۴ء کو پیدا ہوا۔  نام انیل راو رکھا گیا پانچ سال کی عمر میں اسکول میں داخل ہوا، ۱۹۵۹ء  میں ہائی اسکول پھر  ۱۹۶۱ء میں بارہویں کلاس سائنس سائڈسے پاس کی، اس کے بعد ۴ ۱۹۶ء میں بی ایس سی اور ۶۶ء میں فزکس سے ایم ایس سی (M.Sc.)کیا اور اس کے بعدPh.D. میں رجسٹریشن کرا لیا۔

سوال  :    ایسی معیاری تعلم کے باوجود آپ ہر دوار، رشی کیش کس طرح گئے ؟

جواب  :  میرے والد صاحب میری شادی کرنا چاہتے تھے، مگر نہ جانے کیوں میرا دل اس طرح کے جھمیلوں سے گھبراتا تھا، میرے پتاجی نے شادی کے لئے دباؤ ڈالا تو میں گھر سے فرار ہو گیا، میں نے ہر یدوار کا رخ کیا، میں نے ارادہ کر لیا کہ مجھے برہم چریہ کی (مجرد ) زندگی گذارنی ہے، ہمارا گھرانہ آریہ سماجی تھا، ہریدوار میں ایک کے بعد ایک چھ آشرموں میں رہا، مگر مجھے وہاں کا ماحول نہ بھایا، ہر دوار میں ایک انجینئر صاحب بی ایچ ایل میں ملازمت کرتے تھے اور وجے واڑہ کے رہنے والے تھے، میری ان سے اچھی دوستی ہو گئی، انھوں نے میری بے چینی دیکھ کر مجھے مشورہ دیا کہ مجھے رشی کیش میں شانتی کنجِ میں جانا چاہئے، یا وہیں پر کسی اور سماجی آشرم کو تلاش کرنا چاہیئے میں نے رشی کیش جا کر تلاش شروع کی بہت تلاش کے بعد میں نے شری نتیانن جی مہاراج کے ستیاپراکاش آشرم کو اپنے لئے مناسب سمجھا، جہاں پر اکثر پڑھے لکھے لوگ رہتے تھے اور سوامی نتیانن جی خود بہت پڑھے لکھے تعلیم یافتہ آدمی تھے، وہ الہ آبا دیونیورسٹی سے سنسکرت میں ڈاکٹریٹ کر کے ایک زمانہ تک وہاں ریڈر اور پھر پروفیسر رہ چکے تھے، چھ سال تک میں وہاں برہم چاری رہ کر گیان سیکھتا تھا، چھ سال کے بعد سوامی جی نے مجھ سے پریکشا (امتحان ) کے لئے یگیہ کرائے اور مجھے شاستری کی پردان کی شاستری بننے کے بعد میں نے سات سال میں چوبیس یگیہ کئے، جن میں بڑا امتحان تھا، مگر میں سب کچھ تیاگ کر اپنے مالک کو پانے کے لئے آیا تھا اس لئے میں نے مشکل سے مشکل وقت میں ہمت نہ ہاری اور ور نگل سے آنے کے سات سال بعد میرے بھائی اور پتاجی مجھے ڈھونڈ تے ڈھونڈ تے رشی کیش پہنچے اور مجھے نہ جانے کس طرح تلاش کر لیا، آشرم میں آئے، ایک ہفتہ تک میری خوشامد  کرتے رہے اور مجھے واپس گھر لے جانے کے لئے زور دیتے رہے، لیکن میرا دل گھر جاتے ہوئے گھبراتا تھا، میں نے اپنے والد اور بھائی کی بہت خوشامد کی اور مجھے ایشور کو پانے تک وہاں رہنے دینے کے لئے کہا، وہ مجھے چھوڑ کر اس شرط پر چلے گئے کہ وہ اپنے خرچ پر آشرم میں رہے گا اور دان وغیرہ یعنی صدقہ خیرات نہیں کھائے گا اور آشرم میں انھوں نے اندازہ سے اب تک کا خرچ بھی جمع کیا اور ایک بڑی رقم آئندہ کے لئے جمع کرا کے چلے گئے۔

سوال  : اتنے روز تک ایک پروفیسر سوامی کے زیر تربیت ایسے پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ آشرم میں رہنے کے باوجود آپ کو اسلام کی طرف آنے کا خیال کیسے ہوا ؟ اپنے قبول اسلام کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائیے ؟

جواب  : اصل میں جس سچے مالک کی تلاش میں میں نے ورنگل چھوڑا تھا، اس کو مجھ پر ترس آیا اور اس نے میرے لئے راستہ خود نکال لیا، احمد بھائی آپ کو معلوم ہے کہ آریہ سماج، ہندو دھرم کی بہت سنشودھت  (اصلاح شدہ ) شکل ہے، اس میں ایک نرا کار خدا کی عبادت کا دعوی کیا گیا ہے، مورتی پوجا اور پرانی دیومالائی باتوں کا ان کار کیا گیا ہے، اس مذہب کی اصل کتاب یا گر نتھ ستیارتھ پر کاش ہے، جو سوامی دیا نند سر سوتی کی تصنیف ہے، اس مذہب کے بانی سوامی وویکانند  اسلام مذہب اور اس کی تعلیمات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور انھوں نے ہندوؤں کو مسلمان بننے سے روکنے کے لئے، ہندو مذہب کو عقل کے مطابق بنانے کے لئے آریہ سماج کی بنیاد رکھی ان کا دعوی ہے کہ آریہ سماج سو فیصد ویدک دھرم ہے، جو  ترکوں ( دلائل ) پر مبنی ہے اور بالکل سائنٹفک اور لو جک ہے، مگر جب میں نے آریہ سماج کو پڑھا تو میرے دل میں بہت سی باتیں کھٹکتی تھیں، ۱۳  سال کی سخت ترین تپسیا  ( مجاہدہ )  کے باوجود میں اپنے اندر کوئی تبدیلی محسوس نہیں کرتا تھا، میں کبھی کبھی سوامی نیتا نند جی کے قریب ہونے کی کوشش کرتا، تو میں ان کو بہت الجھا ہوا انسان پاتا، میں جب ان کے سامنے اپنے اشکالات رکھتا، تو کبھی وہ جھنجھلاتے، مجھے محسوس ہوتا کہ یہ خود ہی اپنی بات سے مطمئن نہیں، ۱۹۹۲ء میرے لئے بہت بہت سخت گذرا، ماں باپ کو دکھ درد دے کر تیرہ سال کے سنیاس ( خلوت نشینی) کے بعد اس کے علاوہ کہ لوگ شاستری جی کہنے لگے تھے، میں نے اپنے اندر کے انسان کو پہلے سے کچھ گرا ہوا ہی پایا، طرح طرح کے خیالات میرے دل میں آئے، بعض دفعہ کئی روز تک میری نیند اڑ جاتی، کبھی خیال آتا کہ خدا کو پانے کا راستہ ہی غلط ہے، مجھے کسی اور راستے کو تلاش کرنا چاہئے، کبھی یہ خیال آتا کہ میری آتما میں گندگی ہے، اس لئے مجھ پر کچھ اثر نہیں ہو رہا ہے، جب کبھی رات کو مجھے نیند نہ آتی تو میں اٹھ کر بیٹھ جاتا اور من ہی من میں اپنے مالک سے دعائیں، کرتا، سچے مالک اگر تو موجود ہے اور ضرور موجود ہے، تو اپنے انل راؤ کو اپنا راستہ دکھا دے، تو خوب جانتا ہے کہ میں نے سب کچھ صرف اور صرف تجھے پانے کے لئے چھوڑا ہے، اس دوران اتر کاشی میں سخت ترین زلزلہ آیا، پورا ہردوار اور رشی کیش دہل گیا، میرا دل اور بھی ڈر گیا، اسی طرح کسی دن میں بھی کسی حادثہ میں مر گیا تو میرا کیا ہو گا۔ ۱۷/د سمبر  ۱۹۹۲ء کی رات تھی، مجھے سوامی جی نے بلایا اور کہا کہ ہریانہ کے ضلع سونی پت میں رائی میں ایک بڑا آریہ سماج آشرم ہے، وہاں وہ لوگ اپنا پچاس سالہ سماروہ  ( جشن) منا رہے ہیں، مجھے وہاں جانا تھا مگر میری طبیعت اچھی نہیں، یوں بھی اب آپ کا تعارف کرانا چاہتا ہوں، وہاں پروگرام کی صدارت اور یگیہ کے لئے کل آپ کو وہاں جانا ہے، مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ سوامی جی مجھ سے کتنا پریم کرتے ہیں، خوشی خوشی کمرے میں آیا سفر کی تیاری کی، مگر رات کو بستر پر گیا تو میرے من میں آیا کہ اس سنسار کے سامنے تعارف اور نام ہو بھی جائے تو کیا؟ کیا اسی لئے تو نے ورنگل چھوڑا تھا، ماں باپ بھائی بہن سب کچھ تیاگ کر کیا اسی نام کے لئے تو آیا تھا، میرا دل بہت دکھا، میری نیند اڑ گئی میں بستر سے اٹھا اور آنکھ بند کر کے مالک سے پرارتھنا کرنے لگا، میرا مالک تو سب کچھ کرنے والا ہے، مجھے گرو کی آ گیا ہے تو جانا ہے، میرے مالک کب تک میں اندھکار میں بھٹکتا رہوں گا، مجھے سچی راہ دکھا دے، وہ راہ جو تجھے پسند ہو وہ راستہ جس پر چل کر تجھے پایا جا سکے، خوب رو رو کر میں دعا کرتا رہا، روتے روتے میں سو گیا، میں نے خواب میں دیکھا، میں ایک مسجد میں ہوں وہاں ایک خوبصورت مولانا صاحب ہیں، ایک سفید چادر اوپر اور ایک نیچے لنگی باندھے تکیہ لگائے بیٹھے ہیں، بہت سارے لوگ ادب کے ساتھ بیٹھے ہیں، لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت محمدﷺ ہیں، میں نے لوگوں سے سوال کیا کہ وہ محمد صاحب جو مسلمانوں کے دھرم گرو ہیں ؟ تو خود حضرت محمدﷺ نے جواب دیا، نہیں نہیں !  میں صرف مسلمانوں کا دھرم گرو (رسول )نہیں ہوں، بلکہ میں تمہارا بھی رسول ہوں، میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے پاس بٹھایا اور بڑے پیار سے مجھے گلے لگایا اور فرمایا کہ جو تلاش کرتا ہے وہ پاتا ہے تمہیں کوئی ہمدرد ملے تو قدر کرنا، آج کا دن تمہارے لئے عید کا دن ہے، میری آنکھ کھل گئی  میرے دل کا حال عجیب تھا، گد گدی سی لگ رہی تھی، آپ ہی آپ خوش ہو رہا تھا، میرے ساتھیوں نے مجھے اتنا خوش کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ کہنے لگے کہ سوامی جی اپنی جگہ ادھیکشتا (صدارت ) کے لئے بھیج رہے ہیں، واقعی آپ کو خوش ہونا ہی چاہیے، ان کو کیا معلوم تھا کہ میں کیوں خوش ہو رہا ہوں، صبح سویرے اٹھ کر میں رشی کیش بس اڈے پہنچا، وہاں سے سہارن پور پہنچا بس اڈے کے سامنے ایک مسجد دکھائی دی، میں مسجد کے اندر گیا لوگ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے  میں نے کہا کہ مالک کا گھر ہے درشن کرنے کے لئے آیا ہوں، میں نے مسجد کے اندر جا کر چاروں طرف تلاش کیا کہ رات والے لوگوں میں کوئی ملے، مگر مسجد خالی تھی، مسجد سے واپس آیا اور بڑوت کی بس میں بیٹھ گیا، بڑوت سے مجھے ہریانہ کے لئے بس ملنی تھی، سونی پت جانے والی ہریانہ روڈ ویز میں سوار ہوا، آگے کی سیٹ پر آپ کے ابی ( مولانا کلیم صاحب) بیٹھے ہوئے تھے ۔  میں نے ان سے معلوم کیا کہ آپ کے پاس کوئی اور ہے، انھوں نے کہا نہیں، کوئی نہیں، آپ تشریف رکھئے، بہت خوشی کے ساتھ بٹھایا، مولانا صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ پنڈت جی کہاں سے آ رہے ہو ؟  میں نے کہا :رشی کیش ستیہ پرکاش آشرم سے، انھوں نے سوال کیا کہ سونی پت جا رہے ہو ؟ ہم نے کہا کہ نہیں رائی میں آریہ سماج آشرم کے پچاس سالہ جشن میں یگیہ کے لئے جا رہا ہوں، انھوں نے پوچھا کہ آریہ سماجی ہیں ؟ میں نے کہا جی ہاں، مولانا صاحب نے اخلاق کے ساتھ خیر خیریت معلوم کر کے تھوڑی دیر میں مجھ سے کہا بہت روز سے مجھے کسی آریہ سماج گرو کی تلاش تھی، اصل میں دھرم میری کمزوری ہے اور ہر دھرم کو پڑھتا ہوں، مجھے خیال ہوتا ہے کہ جو ہما رے پاس ہے وہ ستیہ ہے، یہ خیال تو اچھا نہیں، جو سچ ہے وہ ہمارا ہے وہ کہیں پر بھی ہو یہ اصل سچائی کی بات ہے، میں نے ستیارتھ پرکاش بھی پڑھی اور بار بار پڑھی، کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آئیں، شاید میری عقل بھی موٹی ہے، اگر آپ برا نہ مانیں تو آپ سے معلوم کر لوں ؟ میں  اعتراض کے طور پر نہیں بلکہ سمجھنے کے لئے معلوم کرنا چاہتا ہوں، میں نے کہا ضرور معلوم کیجئے، مولانا صاحب نے سوالات کرنا شروع کئے، میں جواب دیتا رہا ایک کے بعد ایک سوالات کرتے رہے، سچی بات یہ ہے کہ احمد بھائی، مولانا صاحب سوال کرتے تھے، مجھے ایسا لگتا تھا کہ مولانا کلیم صاحب انل راؤ سے سوال نہیں کر رہے ہیں، بلکہ انل راؤ، سوامی نیتا نند جی سے سوال کر رہا ہے، بالکل وہی سوالات جو میں اپنے سے کرتا تھا اور وہ مجھے جواب نہ دے سکے تھے، مجھ پر رات کے خواب کا اثر تھا، میں نے چار پانچ سوالوں کے بعد ہتھیار ڈال دئے اور مولانا صاحب سے کہا کہ مولانا صاحب یہ سوالات سارے میرے دل میں بھی کھٹکتے ہیں اور میرے گرو سوامی نیتا نند جی اس کا اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے، پھر میں آپ کو کس طرح مطمئن کر سکتا ہوں، تھوڑی دیر خاموش رہ کر مولانا صاحب نے مجھ سے کہا میں ایک مسلمان ہوں، اسلام کے بارے میں سب کچھ تو میں بھی نہیں جانتا مگر کچھ جاننے کی کوشش کی ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ میں کچھ اسلام کے بارے میں آپ کو بتاؤں اور اسلام کے بارے میں کچھ اشکال یا سوال آپ کے من میں یا عقل میں آتا ہو تو آپ بغیر جھجک کے مجھ سے سوال کر سکتے ہیں، مجھے کوئی ناگواری نہیں ہو گی، میں اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا، اس لئے سوال کیا کرتا، بس ستیارتھ پرکاش میں کچھ پڑھا تھا، مگر وہ بات میرے دل کو نہیں لگتی تھی، میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ آپ اسلام کے بارے میں مجھے ضرور بتائیں اور اگر حضرت محمدﷺ کے جیون کر بارے میں مجھے بتائیں گے تو مجھ پر بڑا احسان ہو گا، مولانا صاحب نے مجھے بتانا شروع کیا اور سب سے پہلے مجھے بتایا کہ محمدﷺ کے پریچے ( تعارف ) کے لئے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف مسلمانوں کے دھارمک گرو (رسول )  ہیں،  حالانکہ قرآن میں جگہ جگہ اور حضرت، محمدﷺ نے بار بار یہ بتایا کہ وہ پوری انسانیت کی طرف بھیجے گئے آخری رسول (انتم سندیشٹا ) ہیں، وہ جس طرح میرے رسول ہیں، اسی طرح آپ کے بھی ہیں، اب جو میں ان کے بارے میں بتاؤں تو آپ یہ سمجھ کر سنیں، آپ کو زیادہ آنند آئے گا، مولانا صاحب نے یہ کہا تو مجھے رات کا خواب یاد آیا اور مجھے ایسا لگا کہ رات جو لوگ حضرت محمدﷺ کے ساتھ تھے یہ ان میں ضرور تھے اور وہ ہمدرد یہ ہی ہیں، مولانا صاحب نے ایسے پیارسے حضرت محمدﷺ کے جیون، انسانیت پر ان کے ترس اور ان کو راستہ دکھانے کے لئے قربانیوں اور اپنوں غیروں کی دشمنی کا حال کچھ اس طرح بتایا کہ میں بار بار رو دیا، تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر پتہ بھی نہ لگا کہ کب پورا ہوا، بہال گڈھ آ گیا، مجھے بہال گڈھ اتر کر دوسری بس لینی تھی، مولانا صاحب کو سونی پت جانا تھا، مگر وہ بھی ٹکٹ چھوڑ کر میرے ساتھ بہال گڈھ اتر گئے مجھ سے کہا سردی کا موسم ہے، ایک کپ چائے ہمارے ساتھ پی لیں میں نے کہا بہت اچھا، میں نے سامنے ایک ریسٹورینٹ کی طرف اشارہ کیا کہ چلیں، مگر مولانا صاحب نے کہا کہ یہاں پر ہمارے ایک دوست کی دوکان ہے وہیں پر چائے منگا لیتے ہیں، ہم دونوں وہاں پہنچے چائے منگائی گئی، میں مولانا صاحب کو دیکھتا تو بار بار مجھے رسول اللہﷺ کا فرمان یاد آتا، کوئی ہمدرد ملے تو قدر کرنا، میں نے مولانا صاحب سے معلوم کیا کہ آپ لوگوں کو مسلمان بناتے ہیں تو کیا رسم ادا کرتے ہیں ؟ مولانا صاحب نے کہا اسلام میں کوئی رسم نہیں یہ مذہب تو ایک حقیقت ہے بس دل میں ایک خدا کو سچا جان کر اس کو خوش اور راضی کرنے کے لئے اور اس کے آخری اور سچے رسول کے بتائے طریقے پر زندگی گزارنے کا عہد کرنے والا مسلمان ہوتا ہے، بس ! میں نے کہا پھر بھی کچھ تو آپ کہلواتے ہوں گے، انھوں نے کہا، ہاں اسلام کا کلمہ ہے، ہم اپنے بھلے اور ساکشی ( گواہ) بننے کے لئے وہ کلمہ پڑھواتے  ہیں، میں نے کہا کہ آپ مجھے بھی وہ کلمہ پڑھوا سکتے ہیں ؟ مولانا صاحب نے کہا بہت شوق سے پڑھیں، اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمداًعبدہ و رسولہ  مولانا صاحب نے اس کا تر جمہ بھی ہندی میں کہلوایا، احمد بھائی ! میں زبان سے اس حال کو بیان نہیں کر سکتا کہ اس کلمہ کو پڑھنے کے بعد میں نے اپنے اندر کیا محسوس کیا بس ایسا لگتا تھا کہ ایک انسان بالکل اندھکار اور گھٹن سے بالکل پرکاش اور اجالے میں آ گیا اور اندر سے جیسے نہ جانے کتنے بندھن سے آزاد ہو گیا، مجھے جب بھی وہ کیفیت یاد آتی ہے تو مجھے خوشی اور مزا کا ایک نشہ سا چھا جاتا ہے ایمان کے نور کا مزا، اللہ اللہ، دیکھئے اب بھی میرا رواں کھڑا ہو گیا ہے۔

سوال  :  ماشاء اللہ واقعی آپ پر اللہ کا خاص فضل ہے، آپ سچے متلاشی تھے اس لئے اس نے آپ کو راہ دکھائی، اس کے بعد رائی کے پروگرام کا کیا ہوا ؟

جواب  : مولانا صاحب نے مجھے بہت مبارکباد دی اور گلے لگا یا، مجھ سے پتہ وغیرہ لیا اور سونی پت جا نے لگے، وہاں سے مرتدوں کے ایک گاؤں بھورا رسول پور جانا تھا، جو  ۱۹۴۷ء میں مرتد ہو گئے تھے اور خاندانی ہندوؤں سے بھی زیادہ سخت ہندو ہو گئے تھے، میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ آپ مجھے کہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں، اب آپ کو مجھے بھی ساتھ لینا ہے، مولانا صاحب نے کہا کہ واقعی اب آپ کو میرے ساتھ ہی جانا بلکہ رہنا چاہیے، مگر رائی کے پروگرام کا کیا ہو گا ؟ میں نے کہا کہ اب مجھے اس پروگرام میں شریک ہونا کیا اچھا لگے گا، مولانا صاحب میرے اس خیال سے بہت خوش ہوئے، پیلے کپڑوں، ماتھے پر تلک اور ڈمرو ہاتھ میں لئے میں بھی مولانا صاحب کے ساتھ ہو لیا اور ہم لوگ بھورا رسول پور پہنچے، مولانا صاحب نے بتایا کہ اس علاقہ کے لوگ اسلام کو جانتے نہیں تھے، ان کو ایمان کی قدر و قیمت معلوم نہیں تھی، اس لئے  ۱۹۴۷ء میں فسادات سے گھبرا کر یہ مرتد  (ہندو )  ہو گئے تھے، چھوٹے بچہ کے ہاتھ میں ہیرا ہو اس کو ہیرے کی قیمت کیا معلوم اب اگر اس کو کوئی ڈرا دھمکا دے، تو وہ ہیرا دے دے گا کہ یہ پتھر ہے، اگر وہ ہیرا جوہری کے ہاتھ میں ہو تو جان دے دے گا مگر ہیرا نہیں دے گا، اب ہم لوگ ان کو ایمان کی ضرورت اور قیمت بتا کر دوبارہ اسلام میں لانے کی کو شش میں ہیں، بھورا گاؤں میں ایک مسجد تھی بالکل ویران، مولانا صاحب نے بتا یا کہ یہاں اب صرف ایک گو جر گھر مسلمان ہے، حالانکہ  ۱۹۴۷ء سے پہلے یہ پورا گاؤں مولا جاٹ مسلمانوں کا تھا، اب یہ مولا جاٹ ایسے سخت ہو گئے ہیں کہ چند سال پہلے یہاں ایک تبلیغی جماعت آئی تھی، مسجد میں قیام کیا، یہ بیچارہ گوجر مسلمان ان کو لے کر مولا جاٹوں میں لے گیا، بس گاؤں میں فساد ہو گیا ان مرتدوں نے عدالت میں مقدمہ کر دیا کہ شر پھیلانے کے لئے یہ ہمارے یہاں ملاؤں کو لے کر آیا ہے، مقدمہ چلا اور اس بیچارے گوجر کو ایک گشت کی رہبری کی قیمت مقدمہ میں تقریباًبیس ہزار روپئے لگا کر چکانی پڑی، اتر کاشی کے زلزلہ کے جھٹکے یہاں تک آئے تھے، لوگوں کے دل ذرا ڈرے ہوئے اور نرم تھے، مولانا صاحب نے مسجد کے امام صاحب سے کہا کہ کوشش کرو، کچھ ذمہ دار لوگوں کو مسجد میں بلا لاؤ، کچھ مشورہ کرنا ہے، کم از کم کسی بہانے لوگ اللہ کے گھر میں آ جائیں گے، امام صاحب نے کہا بھی کہ یہ لوگ مسجد میں نہیں آئیں گے، مگر مولانا صاحب نے کہا کوشش کریں، اگر آ گئے تو اچھا ہے ورنہ پردھان کے گھر میں لوگوں کو بلائیں گے، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ لوگ مسجد میں آ گئے، میں نے مولانا صاحب سے پہلے کچھ کہنے کی خواہش ظاہر کی، مولانا صاحب نے اجازت دے دی، میں نے لوگوں سے اپنا پریچے (تعارف) کرایا کہ میں ورنگل کے بہت بڑے تاجر کا بیٹا ہوں، ایم ایس سی کرنے کے بعد پی ایچ ڈی مکمل کرنے والا تھا کہ گھر والوں نے شادی کے لئے دباؤ دیا، میں دنیا کے جھمیلوں سے بچ کر ہردو ار آ گیا، ایک کے بعد ایک تقریباً ہر آشرم کو دیکھا بعد میں رشی کیش رہا وہاں بھی بہت سے آشرموں میں رہا، تیرہ سال وہاں تپسیا ( مجاہدے ) کرتا رہا، ۱۳ /سال میں مجھے اس ہندو دھرم کے مرکز میں اس کے علاوہ کچھ نہ ملا کہ لوگ مجھے شاستری جی کہنے لگے، اس کے علاوہ شانتی جس کا نام ہے اس کا کہیں پتہ نہیں لگا، مالک کی مہر بانی ہوئی مولانا صاحب کے ساتھ بڑوت سے بہال گڑھ تک کا سفر کیا، سچی بات کہتا ہوں جو شانتی مجھے ڈیڑھ گھنٹہ اسلام کی باتیں سن کر بڑوت سے بہال گڑھ تک مولانا صاحب کے ساتھ سفر کر کے اور کلمہ پڑھ کے ملی وہ ۱۳ /سالوں میں مجھے نہیں ملی، میرے بھائیو !ایسے شانتی اور سچے دھرم کو چھوڑ کر اس بے چینی میں آپ کیوں واپس جا رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے مجھ سے رہا نہ گیا اور میری ہچکیاں بندھ گئیں، میری اس سچی اور درد بھری بات کا وہاں کے لوگوں پر بڑا اثر ہوا اور وہاں کے لوگوں نے اسلامی اسکول قائم کر نے کے لئے آمادگی ظاہر کی، بلکہ اس کے لئے چندہ بھی دیا، اس میں سب سے زیادہ دل چسپی گاؤں کے پردھان کرن سنگھ نے دکھائی جو سب سے زیادہ اسلام کا مخالف تھا، مولانا صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے مبارکباد دی اور کہنے لگے آپ کا اسلام انشاء اللہ نہ جانے کتنے لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنے گا۔

سوال  : اس کے بعد آپ کہاں ر ہے ؟

جواب  : مولانا صاحب کے ساتھ پھلت واپس آئے، کپڑے اتارے، چوٹی کٹوائی، خط بنوایا اور حلیہ ٹھیک کرا کے مولانا صاحب نے مجھے جماعت میں چلہ لگانے کے لئے بھیج دیا، ہمارا چلہ متھرا کے علاقے میں لگا مجھے اپنے اسلام کی بہت خوشی تھی بار بار میں شکرانے کی نماز پڑھتا تھا، میرے اللہ نے میری مراد پوری کی مگر جب میں ہندوؤں کو دیکھتا کہ بیچارے راستہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے کفر اور شرک کے لئے کیسی قربانیاں دے رہے ہیں، تو مجھے خیال ہوتا کہ یہ تو مسلمان کا ظلم ہے  کتنے لوگ روز کفر و شرک پر مر کر ہمیشہ کی دوزخ کا ایندھن بن رہے ہیں، پیارے نبیﷺ نے تو یہ کام پورے مسلمانوں کے ذمہ سونپا تھا میں اس سلسلہ میں بہت سوچنے لگا اور میری خوشی ایک طرح غم کی طرف لوٹ آئی اس غم میں گھلتا تھا کہ کس طرح لوگوں تک حق پہنچے میں نے متھرا مرکز سے حضرت مولانا علی میاںؒ کا پتہ لیا اور ان کے نام اپنے اس حال کے لئے خط لکھا وہ خط آپ نے ارمغان دعوت میں پڑھا ہو گا(وہ خط قارئین ارمغان کے لئے ذیل میں دیا جا رہا ہے )آدرنیہ جناب مولانا علی میاں صاحب السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہٗ۔ٗ آپ کو یہ معلوم ہو کر آشچریہ ہو گا کہ میں آپ کا نیا سیوک ہوں، ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ساتھ سفر کیا اور وہاں سفر کیا جماعت میں جا رہا ہوں وہاں سے آ کر ہریدوار میں کام کرنے کا ارادہ ہے وہاں پر شانتی کی تلاش میں آئے مجھ جیسے کتنے لوگ بھٹک رہے ہیں، آپ میرے لئے دعا کریں، ایک پرشن غلطی کی معافی کے ساتھ آپ سے کرتا ہوں جو لوگ اسلام کی دعوت نہ دینے کی وجہ سے اسلام سے دور رہ کر دنیا سے چلے گئے اور سدا کے نرک کے ایندھن بن گئے ان کی ذمہ داری کس پر ہو گی آپ سے دعا کی امید ہے۔  آپ کا سیوک عبد الرحمن (انل راو شاستری )

سوال  : جماعت سے آنے کے بعد آپ نے کیا مشغلہ اختیار کیا ؟

جواب  : میں نے جماعت میں ارادہ کیا تھا کہ میں ہریدوار اور رشی کیش جا کر دعوت کا کام کروں گا، کتنی بڑی تعداد میں حق کے متلاشی ہندو بھائی راہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے وہاں بھٹک رہے ہیں بلکہ اب تو بڑی تعداد انگریزوں اور یہودیوں کی بھی وہاں رہنے لگی ہے، مجھے ایسے بھٹکے لوگوں کو راستہ دکھانا ہے، میں جماعت سے واپس آیا تو مولانا صاحب نے مجھ سے کہا، آپ کا میدان تو ہر دوار اور رشی کیش ہی ہے مگر پہلے اپنے گھر والوں کا حق ہے، آپ ایک آدھ سال دار نگل جا کر رہیں میں ورنگل گیا وہاں جا کر معلوم ہوا کہ میرے والد اور والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، وہ آخر تک مجھے یاد کرتے رہے اور تڑپتے رہے، ابھی تک مجھے غیر متعلق ہندوؤں کے کفر و شرک پر مرنے کا غم  سوار تھا، مگر اب میری ماں جس نے مجھے جنم دیا جس نے اپنے خون سے بنا دودھ پلایا، جس نے میرا پیشاب پا خانہ صاف کیا، میرے پیارے والد جو مجھے اپنی آنکھوں کا تارا سمجھ کر پالتے، پو ستے رہے، میرے گھر سے جانے کے بعد پانچ چھ سال تک سارے دیش میں مجھے تلاش کر تے  رہے اور روتے پھرتے رہے، میرے ایسے محسن ماں باپ ایمان سے محروم کفر و شرک پر مر گئے اور وہ دوزخ میں جل رہے ہوں گے، بس یہ خیال میرے سینے کا ایسا زخم ہے ‘‘ میرے بھائی احمد شاید آپ اس درد کو نہیں سمجھ سکتے یہ ایک زخم ہے جس کا کوئی مرہم نہیں اور ایسا درد ہے جس کی کوئی دوا نہیں اور جب میں سوچتا ہوں کہ مسلمانوں نے ان کو ایمان نہیں پہنچایا تو میں سوچتا ہوں کہ ایسے ظالموں کو کیسے مسلمان کہوں ؟ یہ بات بھی ہے کہ بھٹکے کو مسلمان نے ہی راستہ دکھایا، مگر شاید میرے لئے میرے ایمان سے زیادہ ضروری میرے ماں باپ کا ایمان ہے، جب کہ وہ اسلام سے بہت قریب تھے، اپنے گھر میں مسلمان ملازم رکھتے تھے، ڈرائیور ہمیشہ مسلمان رکھتے تھے بیڑی کی فیکٹری میں سارے کام کرنے والے مسلمان تھے، ہندو دھرم میں ان کو ذرا بھی یقین نہ تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ میں تو پہلے جنم میں مسلمان ہی رہا ہوں گا، اس لئے مجھے صرف اسلام کی باتیں بھاتی ہیں، ایک روز وہ اپنے ڈرائیور سے کہنے لگے، کسی بُرے کرم کی وجہ سے میں اس جنم میں ہندو پیدا ہو گیا، اگلے جنم میں امید ہے کہ میں مسلمان پیدا ہوں گا، احمد بھائی میں بیان نہیں کر سکتا کہ اس غم میں کس قدر گھلتا ہوں اور مجھے کبھی کبھی مسلمانوں پر حد درجہ غصہ بھی آتا ہے، میرے بھائی کاش میں پیدا نہ ہوتا، (روتے ہوئے ) آپ ذرا تصور کریں اس بیٹے کا غم اور زندگی کا دکھ جس کو یقین ہو کہ اس کے پیارے مشفق و محسن ماں باپ دوزخ میں جل رہے ہوں گے، (بہت دیر تک روتے ہوئے )

سوال  : کیا خبر اللہ تعالی نے ان کو ایمان عطا کر دیا ہو، جب وہ ایمان کے اس قدر قریب تھے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں سے ان کو کلمہ پڑھوا دیا ا ہو، ایسے بھی واقعات ملتے ہیں،

جواب  :  ہاں میرے بھائی کاش یہ بات سچ ہو، جھوٹی تسلی کے لئے میں اپنے دل کو یہ بھی سمجھاتا ہوں، مگر ظاہر ہے کہ یہ صرف تسلی ہے۔

سوال  :   باقی رشتہ داروں کی تو آپ فکر کرتے، آپ نے ان پر کچھ دعوتی کام کیا؟

جواب  : الحمد للہ میرے بڑے بھائی، بھابھی اور دو بچوں کے ساتھ مسلمان ہو گئے تھے، والد کے انتقال کے بعد کاروبار پر بہت برا اثر پڑا، فیکٹری بند ہو گئی انھوں نے گھر بیچ کر اب گلبرگہ میں مکان خرید ا ہے اور کاروبار شروع کیا ہے۔

سوال  :   آپ کی شادی کا کیا ہوا؟

جواب  :  میری طبیعت ذمہ داری سے گھبراتی ہے، اس لئے اندر سے دل شادی کے لئے آمادہ نہیں تھا، مجھ جیسے معذور کے لئے شاید شریعت میں گنجائش بھی ہوتی، مگر مولانا صاحب نے نکاح کے سنت ہونے اور اس کے فضائل کچھ اس طرح بیان کئے کہ مجھے اس میں عافیت معلوم ہوئی، میں نے ایک غریب لڑکی سے شادی کر لی ہے، الحمد للہ  وہ بہت نیک سیرت اور حد درجہ خدمت گذار ہے اور اللہ تعالی نے ہمیں دو بچے ایک لڑکا اور ایک لڑکی عطا فرمائے ہیں۔

سوال  :  ہردوار رشی کیش میں کام کے ارادہ کا کیا ہوا؟

جواب  :  والد اور والدہ کے کفر و شرک پر مرنے کے غم نے مجھے نڈھال کر دیا تھا، ایک زمانہ تک میرے ہوش وحواس ختم ہو گئے تھے، نیم پاگل جنگلوں میں رہنے لگا، بھائی صاحب مجھے پکڑ کر لائے، علاج وغیرہ کرایا کئی سال میں جا کر طبیعت بحال ہوئی، تین سال پہلے میں رشی کیش گیا، ستیہ پرکاش آشرم پہنچا، سوامی نیتا نند جی سے ملا، کچھ کتابیں میرے پاس تھیں، مولانا صاحب کی  ’’  آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘ان کو بہت بھائی، وہ بہت بیمار تھے ان کے  ( غدود)  میں کینسر ہو گیا تھا، ایک روز انھوں نے مجھے تنہائی میں بلایا اور مجھ سے کہا کہ میرے دل میں بھی یہ بات آتی ہے کہ اسلام سچا مذہب ہے مگر اس ماحول میں میرے لئے اس کو قبول کرنا سخت مشکل ہے، میں نے ان کو بہت سمجھایا کہ آپ اتنے پڑھے لکھے آدمی ہیں، اپنے دھرم کو ماننے کا ہر انسان کو پورے سنسار کے لوگوں کے سامنے قانونی حق ہے، آپ کھل کر اعلان  کریں، مگر وہ ڈرتے رہے بار بار مجھ سے اسلام پر یقین کا ذکر کرتے، میں نے ان کو قرآن شریف ہندی ترجمے کے ساتھ لا کر دیا، وہ ماتھے اور آنکھوں سے لگا کر اس کو روز پڑھتے تھے، ان کی بیماری بڑھتی رہی، میں نے اس خیال سے کہ کفر پر مرنے سے بچ جائیں ان سے کہا کہ آپ سچے دل سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائیں، چاہے لوگوں سے اعلان نہ کریں، دلوں کا بھید جاننے والا تو دیکھتا اور سنتا ہے، وہ اس پر راضی ہو گئے، میں نے ان کو کلمہ پڑھوایا اور ان کا نام محمد عثمان رکھا، موت سے ایک روز پہلے انھوں نے آشرم کے لوگوں کو بلایا اور ان سے اپنے مسلمان ہونے کا کھل کر اعلان کیا اور کہا کہ مجھے جلایا نہ جائے، بلکہ اسلام کے طریقہ پر دفنا یا جائے، لوگوں نے اسلام کے طریقے پر تو نہیں بلکہ ہندوؤں کے طریقہ پر ان کو بٹھا کر سمادھی بنا دیا، اللہ کا شکر ہے کہ وہ یہاں کی آگ سے بھی بچ گئے، ان کے مسلمان ہونے پر رشی کیش میں بہت سے لوگ میرے مخالف ہو گئے، مجھے وہاں رہنے میں خطرہ محسوس ہونے لگا، میں نے پھلت آ کر پورے حالات بتائے، مولانا صاحب نے میرا حوصلہ بڑھایا کہ داعی کو ڈر نا نہیں چاہئے، قرآن کا ارشاد ہے :    الذین یبلغون رسالات اللہ و یخشونہ ولا یخشون احداًالا اللہ و کفیٰ باللہ حسیباً( جو لوگ اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں، وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور ان کے حساب کے لئے اللہ کافی ہے )

اللہ کی مدد ہمیشہ داعیوں کے ساتھ رہی ہے، کچھ روز گلبر گہ رہ کر میں نے پھر رشی کیش کا سفر کیا، ہمارے آشرم کے کئی ذمہ دار اب میرے اور اسلام کے بہت قریب ہیں اور دوسرے آشرموں میں بھی لوگ مانوس ہو رہے ہیں، شانتی کنج کے تو بہت سے لوگ اسلام کو پڑھ رہے ہیں، امید  ہے کہ دعوت کی فضا ضرور بنے گی، اب کافی لوگ میری باتیں محبت سے سنتے ہیں، میرا ارادہ مستقل وہیں رہ کر کام کرنے کاہے، اللہ تعالیٰ مجھے ہمت عطا فرمائے۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ، عبد الرحمن صاحب، آپ سے بہت سی باتیں قارئین ارمغان کے حوالے سے ہو گئیں، آپ ان کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب  : بس مسلمان بھائیوں سے تو میری درخواست یہی ہے کہ ہم جیسے دکھیاروں کے غم کو سمجھیں، جن کو اللہ نے ہدایت دی، مگر ان کے ماں باپ دوزخ میں جل رہے ہیں، ذرا گہرائی سے اس غم کو سمجھنے کی کوشش کریں اور نبی اکرم ﷺ نے جو ذمہ داری ہم مسلمانوں کے ذمہ سپرد کی ہے اس کے لئے فکر کریں۔

سوال  :  واقعی آپ کی بات سچ ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس درد کو سمجھنے کی توفیق عطا فر مائے۔

جواب  :آمین

سوال  :  جزا کم اللہ خیراً، السلام علیکم

جواب  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و بر کا تہ

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، ستمبر  ۲۰۰۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

جناب نور محمد {رام پھل} سے ایک ملاقات

 

 

احمد اواہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

نور محمد    :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

سوال  :   نور محمد صاحب ہمارے یہاں سے ایک اردو میگزین ارمغان کے نام سے نکلتا ہے، مجھے اس کے لئے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں، تاکہ وہ باتیں اس رسالہ میں آئیں اور لوگوں کو ان سے فائدہ ہو۔

جواب  :احمد بھیا ! مجھ دیہاتی سے آپ ایسی کیا باتیں کریں گے، جن سے لوگوں کو فائدہ ہو،

سوال  :   آپ کو اللہ تعالی نے ایسے زمانہ میں اپنے فضل سے ہدایت دی ہے آپ کی زندگی میں اللہ کی کریمی کا نمونہ ہے۔

جواب  :ہاں بھیّا اس میں کیا شک ہے کہ میرے اللہ نے مجھے ہدایت دی، (روتے ہوئے ) میں ہرگز ہرگز اس لائق نہیں تھا، اگر میرے روئیں روئیں میں ایک جان ہو اور اللہ کے شکر میں اس کو قربان کر دوں پھر بھی شکر ادا نہیں ہو سکتا کہ جان اور رواں بھی اس کی نیامت (نعمت ) ہے۔

سوال  :  آپ اپنا تعارف کرایئے، یعنی اپنا پر یچے دیجئے ؟

جواب  : میرا پرانا نام رام پھل ہے، میں میرٹھ ضلع کے ایک گاؤں دادری کے گوجر گھرانے میں پیدا ہوا، پتاجی ایک چھوٹے کسان تھے، تقریباً ۲۵ سال ہوئے، ان کا دیہانت (انتقال ) ہو گیا تھا، مجھے میرے اللہ نے تیرہ چودہ سال پہلے ہدایت دی، میں نے پھلت آ کر آپ کے والد صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور میری مرضی سے انہوں نے میرے بڑے بھائی کے نام پر میرا نام نور محمد رکھا۔

سوال  :   آپ کے بڑے بھائی بھی مسلمان ہو گئے تھے ؟

جواب  :  جی ہاں ! اصل میں مسلمان وہی ہوئے تھے اور مجھے ان کے صدقے میں ہدایت ملی

سوال  :   ذرا تفصیل سے اپنے قبول اسلام کا واقعہ سنائیے ؟

جواب  :   میرے ایک بڑے بھائی جے پال تھے، وہ کھتولی میں میرٹھ والے لا لا ؤں کے یہاں ملازم تھے، ان کے یہاں کولھو کریشر کا بڑا کاروبار تھا، بھائی صاحب بڑے مذہبی سجن اور رحم دل آدمی تھے، کسی دکھی آدمی کو دیکھ نہیں سکتے تھے، کسی زخمی جانو رکو دیکھ کر وہ بہت پریشان ہو جاتے، بڑے بھاوک (جذباتی) سے آدمی تھے، پھولوں، پودوں کو دیکھتے تو مچل جاتے، ستاروں کو دیکھتے تو بے تاب ہو جاتے، اٹھ کر بیٹھ جاتے، ساری ساری رات مالک کی تعریف کرتے رہتے تھے، ان کے کارخانہ کے پاس میں پھلت کے دو لوگوں کی  دوکان تھی، جو فرنیچر وغیرہ بناتے تھے، ان کی دوکان پر آپ کے ابی (مولاناکلیم صاحب) کبھی کبھی آیا کرتے تھے، بھائی صاحب بھی ان سے ملتے دوچار لوگ جمع ہو جاتے، تو مولانا صاحب دین کی باتیں کرتے، میرے بھائی بھی نیچے بیٹھتے ان کو توجہ سے سنتے اسلام کی باتیں ان کے دل کو بہت بھاتیں، مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ ان کو خیال ہی نہ تھا کہ یہ شخص ہندو ہے، اگست کے مہینہ میں کھتولی میں چھڑیوں کا میلہ لگتا تھا  ۱۹۹۰ء میں میلہ لگ رہا تھا، مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ میں سڑک سے جا رہا تھاتو قسیم الدین نے تیز آ کر مجھے سلام کیا اور کہا کہ دادری کا ایک گوجر میرٹھ والوں کے کارخانہ میں رہتا ہے، وہ آپ سے ملاقات کے لئے تڑپ رہا ہے، آپ پانچ منٹ اس سے مل لیں، مولانا صاحب آ کر دوکان پر بیٹھے اور اندر کارخانہ سے ہمارے بھائی کو بلا لائے، بھائی صاحب نے مولانا صاحب سے کہا کہ مولانا صاحب میں نے ایک سپنا دیکھا، دیکھا کہ ایک بہت خوبصورت سنہرا  راتھ (رتھ) ہے جیسے سونے کا ہو، اس پر بہت سارے حضرات یعنی مولانا لوگ بیٹھے ہیں اور آپ اس رتھ کو چلا رہے ہیں، سامنے ایک بڑا محل ہے، بہت خوبصورت جس پر ہیرے جڑے ہوئے ہیں، قمقمے سجے ہوئے ہیں، اس کے آٹھ دروازے ہیں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سورگ ہے، میں نے یہ سنا تو میں بھی رتھ میں لٹکنے لگا مگر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اتار دیاکہ تو ہندو ہے، تو اس حال میں سورگ میں نہیں جاسکتا، آپ سب لوگ سورگ میں چلے گئے اور میں روتا ہوا کھڑا رہ گیا، یہ کہہ کر بھائی صاحب مولانا صاحب سے چمٹ گئے اور خوب روئے، مولانا صاحب آپ نے مجھے سورگ میں جانے کیوں نہیں دیا، آپ کا کیا بگڑ جاتا؟مولانا صاحب نے ان کو تسلی بھی دی اور کہا کہ بھائی مجھے تو اس خواب کا پتہ بھی نہیں، مجھے کسی کو سورگ سے روکنے کا حق بھی نہیں، اصل میں سورگ سے آپ کو اس نے روکا جو سورگ کا مالک ہے، اس کا قانون یہ ہے کہ اس نے صرف ایمان والوں اور مسلمانوں کے لئے سورگ بنائی ہے، سچی بات یہ ہے کہ جو انسان ایمان نہ لائے اور مسلمان نہ ہو، اس کو تو اس دنیامیں رہنے کا حق ہی نہیں ہے، اس کو سنسار کی نیشنلٹی ہی نہیں، غیر ایمان والا باغی اور غدار کی طرح دنیا میں رہتا ہے، اس دنیا کا مالک ایک اکیلا خدا ہے اور اس نے اپنی دنیا کے لوگوں کے لئے ایک قانون اسلام اپنے سچے نبی ﷺ کے واسطہ سے بھیجا ہے، جو آدمی اس اکیلے مالک کو نہ مانے اور اس کے بنائے ہوئے قانون اسلام کو نہ مانے وہ تو اللہ کا باغی اور غدار ہے، اس کو اس دنیا میں رہنے کا حق حاصل نہیں، پھر وہ سورگ میں کیسے جاسکتا ہے اگر آپ کو سورگ میں جانا ہے تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائیے، آج تو خواب دیکھ کر اتنا پچھتارہے ہو موت کا کچھ پتہ نہیں کب آ جائے، موت کے بعد اگر خدا نہ خواستہ آپ مسلمان نہ ہوئے تو یہ خواب حقیقت بن جائے گا اور پھر یہاں لوٹ کر بھی نہیں آ سکتے، بھائی صاحب نے کہا کہ دادری جیسے گاؤں میں آج کے فسادات کے دور میں اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو میرے گھر کے لوگ مجھے مارڈالیں گے، مولانا صاحب نے کہا، مار ڈالیں گے تو آپ شہید ہو جائیں گے اور بھی جلدی جنت میں جائیں گے، بھائی صاحب نے کہا اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے گھر چھوڑ نا پڑے گا، پھر میں کہاں رہوں گا؟مولانا صاحب نے کہا کہ آپ پھلت آ جائیے اور ہمارے یہاں رہئے، بھائی صاحب نے کہا کہ میں دو چار روز میں گھر والوں سے کہہ کر آؤں گا، مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ ملاقات کر کے وہ پھلت چلے آئے، خیال تھا کہ دو چار روز میں جے پال بھائی پھلت آئیں گے، مگر وہ نہیں آئے، نومبر کے آخر میں ایک روز مولانا صاحب ظہر کی نماز کے لئے نکلے، تو دیکھا جے پال بھائی صاحب باہر بیٹھے ہیں، کچھ پھل وغیرہ لے کر آئے ہیں، مولانا صاحب سے گلے ملے اور بولے مولانا صاحب !آپ سوچتے ہوں گے دھوکہ دے گیا، اصل میں میرے نام کچھ زمین تھی میری ایک ماں ہے میں نے سوچا کہ ماں کی سیوا بھی ان کا حق ہے، میں یہاں سے چلا جاؤں گا ان کی سیوا کا کیا ہو گا ؟ میں نے اپنے بھتیجہ کو بلایا اور اس کو قسم دی اور اس سے وعدہ لیا کہ میں اپنی ساری زمین تیرے نام کرتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ تو میری ماں یعنی اپنی دادی کی دل سے سیوا کرے گا، وہ راضی ہو گیا، زمین اور گھر کا حصہ اس کے نام کرانے میں اتناوقت لگ گیا، اب میں آ گیا ہوں مجھے مسلمان ہونے کے لئے کیا کرنا ہے ؟ مولانا صاحب ان کو اپنے ساتھ مسجد میں لے گئے اور ان کو غسل کا طریقہ بتا کر مسجد کے غسل خانہ میں نہانے کے لئے کہا پھلت میں ایک عرب جماعت آئی ہوئی تھی جماعت سے دوچار منٹ پہلے مولانا صاحب ان کو مسجد کے اندر والے حصہ میں لے گئے اور جا کر کلمہ پڑھوایا، مسجد کے صحن میں، دھوپ میں جماعت کے لوگ بیٹھے تھے سب دیکھنے لگے کہ اجنبی کو اندر کیوں لے جا رہے ہیں ؟ جماعت کھڑی ہو گئی، مولانا صاحب نے بھائی صاحب کا نام نور محمد رکھا، اپنے برابر میں جماعت میں کھڑا کر لیا، کسی طرح نماز پڑھی نماز پڑھ کر گھر آئے کھانا وغیرہ کھایا، عصر کی نماز میں پھر مسجد گئے، نماز میں عرب لوگوں کو دیکھا، وہ بھائی صاحب کو بہت اچھے لگے، بھائی صاحب رات کو ان کے ساتھ رہے، اگلے روز اتوار کا دن تھا جماعت میرٹھ جا نے والی تھی، بھائی صاحب نے مولانا صاحب سے کہا کہ میرا دل اس  جماعت کے ساتھ جانے کو چاہ رہا ہے، مولانا صاحب نے امیر صاحب سے جو گجرات کے رہنے والے تھے بھائی صاحب کا تعارف کرایا اور ان کی خواہش کا ذکر کیا، امیر صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور بہت اصرار کے باوجود مولانا صاحب سے خرچ وغیرہ بھی نہیں لیا، جماعت میرٹھ چلی گئی، تین چار روزکے بعد مولانا صاحب نے بھائی صاحب کی خبر لینے کے لئے ایک حافظ صاحب کو میرٹھ بھیجا  تو  معلوم ہوا کہ جماعت میرٹھ پہنچی پیر کے روز صبح فجر کے بعد مذاکرہ اور نماز وغیرہ یاد کرانے کے لئے نور محمد کو تلاش کیا گیا تو کسی نے بتایا کہ آج شاید انھوں نے فجر کی نماز بھی نہیں پڑھی، وہ اندر تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے، تلاش کے لئے ایک ساتھی اندر مسجد میں گئے، تو دیکھا کہ سہ دری کے برابر میں ایک الگ حصہ ہے اس میں سجدہ میں پڑے ہیں، ساتھی نے آواز دی مگر انھوں نے نہیں سنی، خیال کیا کہ سجدہ میں نیند آ گئی ہے مگر ہلا یا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لئے آغوش رحمت میں سوچکے ہیں، کل نو نمازیں فرض اور ایک تہجد انھوں نے پڑھی، جو سنتا اس موت کی تمنا کرتا، ظہر کی نماز میں ان کو میرٹھ میں دفن کر دیا گیا،

سوال  :   ہاں ہاں یہ واقعہ ابی اکثر سنایا کرتے ہیں، وہ آپ کے بھائی کا واقعہ ہے ؟ آپ اپنے اسلام کی بات بتایئے ؟

جواب  :  بھیا !اصل میں ہم لوگوں کا اسلام تو بھائی صاحب کے ایمان کا صدقہ ہے ایک زمانہ تک ہمیں معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے، مگر وہ میرے لڑکے کے سپنے میں بہت آتے  تھے، زیادہ تر اسلامی لباس میں ٹوپی، کرتے اور ڈاڑھی کے ساتھ ایک بار میرے بیٹے کو خواب دکھائی دیا، بھائی صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ بیٹا میں نے ساری زمین جائیداد تیرے نام کی ہے، تو میرا ایک کام کر دے، ایک درجن کیلے لے کر پھلت میں بڑے مولانا صاحب کے پاس پہنچا دے، وہ صبح کو اٹھا اور کھتولی سے کیلے خریدے اور پھلت گیا، مسجد کے ملاجی اس کو آپ کے گھر لے کر گئے مولانا صاحب لکھنو گئے ہوئے تھے، وہ کیلے مولانا صاحب کے بہنوئی کو دے آیاکہ مولانا صاحب سے کہنا کہ دادری والے جے پال نے یہ کیلے بھیجے ہیں، ایک بار اس کو خواب میں آ کر مولانا صاحب کو ایک کلو مٹھائی پھلت جا کر دینے کو کہا، وہ مٹھائی لے کر گیا، مولانا صاحب کہتے ہیں کہ اللہ کے لئے محبت یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے، بھائی نور محمد مرنے کے بعد جنت میں بھی تحفے بھیج رہے ہیں، ایک ہمارے گاؤں میں جھگڑا ہو گیا ایک بڑے اور طاقت ور آدمی نے کچھ غریبوں اور کمزوروں پر بہت ظلم کیا، میرا دل بہت دکھا ہوا تھا، رات کو دیر تک نیند نہیں آئی، من من میں مالک سے شکایت کرتا رہا کہ مالک جب سب کچھ دیکھتا ہے، تو یہ اتیاچار کیوں ہوا، دیر رات کو نیند آئی، سپنا دیکھا لوگوں کی بھیڑ ایک طرف کو جا رہی تھی، میں نے معلوم کیا کہ یہ بھیڑ کہاں جا رہی ہے، اچانک بھائی صاحب کو دیکھا، انھوں نے کہا یہ بھیڑ پھلت جا رہی ہے، مسلمان ہونے اور مسلمان ہو کر سورگ میں جانے، رام پھل جلدی کر ورنہ تو پیچھے رہ جائے گا، جلدی جاجلدی، پھلت جا کر مولانا صاحب سے کہنا کہ مجھے مسلمان بنادو، تاکہ میں بھی سورگ میں چلا جاؤں، میں تو اپنے مالک کے کرم سے سورگ میں آ گیا ہوں، آنکھ کھل گئی سپنے مجھے بہت کم دکھائی دیتے ہیں، مگر اس سپنے نے مجھے بے چین کر دیا، صبح ہوئی تو میں پھلت پہنچا، بڑی مسجد گیا، ملاجی صاحب مجھے مولانا صاحب کے یہاں لے گئے مولانا صاحب کہیں گئے ہوئے تھے، معلوم ہوا کہ رات میں آ جائیں گے، رات تک انتظار کیا، مگر مولانا صاحب نہ آ سکے صبح کو سوکر اٹھا تو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب رات ڈیڑھ بجے آئے ہیں، پیر کا دن تھا مولانا صاحب کا پھلت رہنے کا دن تھا، صبح سے لوگ آنا شروع ہو گئے، مولانا صاحب سے ملاقات کر کے جا تے رہے میرا نمبر دیر میں آیا نو بجے میری ملاقات ہوئی میں نے معلوم کیا کہ آپ جے پال جی دادری والوں کو جانتے ہیں، انھوں نے کہا خوب، وہ میرے پاس آئے تھے اور ان کے اسلام کا پورا واقعہ بتایا، میں نے اپنا خواب سنایا، مولانا صاحب نے مجھے مباکباد دی اور بتایا کہ آج ہی رات میں انھوں نے بھی خواب دیکھا کہ نور محمد بہت اچھے لباس میں ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرا چھوٹا بھائی رام پھل آ رہا ہے، اس کو مسلمان ہوئے بغیر جانے مت دیجئے، مولانا صاحب نے میرا نام معلوم کیا اور کہا آپ نور محمد کے چھوٹے بھائی رام پھل ہیں ؟ مولانا صاحب سے بغیر بتائے نام سن کر مجھے اپنے خواب کے اور سچا ہونے کا یقین ہو گیا، میں نے مولانا  صاحب سے خود بھی مسلمان ہونے کو کہا مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور مجھ سے کہا کہ اگر آپ اسلامی نام رکھنا چا ہیں تو نام بدل سکتے ہیں، نام بدلنا کوئی ضروری نہیں، اصل میں دل کا بدلنا ضروری ہے، میں نے کہا کہ آپ میرا نام ضرور رکھ دیں اور اچھا ہے کہ جو نام لے کر میرے بڑے بھائی سورگ میں گئے ہیں، میرا نام بھی وہی رکھ دیں، کیا میرا نام نور محمد رکھا جا سکتا ہے ؟ مولانا صاحب نے کہا کوئی حرج نہیں اور میرا نام نور محمد رکھ دیا، ایک روز رہ کر میں اپنے گھر دادری چلا آیا، میں نے اگلے روز اپنی بیوی سے پورا حال بتا یا وہ بہت ناراض ہوئی اور اس نے میرے خاندان والوں کو بتا دیا میرے چچا گاؤں کے پردھان تھے، گاؤں میں پنچایت ہوئی، کئی لوگوں نے کہا کہ اس کا منھ کا لا کر کے گدھے پر بٹھا کر جلوس نکالو، کسی نے کہا اس کو گولی مار دو، یہ کافر ہو گیا، ہمارے گاؤں کے ایک رٹائرڈ پرنسپل بھی اس پنچایت میں تھے، انھوں نے کہا یہ زمانہ تر کوں ( دلائل) کاہے، آپ اس کو سمجھاؤ اور یہ ثابت کرو کہ یہ ہندو دھرم، اسلام سے اچھا ہے، زبردستی سے آپ اس کے دل کو نہیں بدل سکتے، اچھا ہے آپ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ وہ بہت معززآدمی تھے، ان کے سمجھانے سے پنچایت ختم ہوئی، میری ماں نے مجھے بہت سمجھایا، ان کا خیال تھا کہ پھلت والوں نے اس پر جادوکر دیا ہے، وہ اتار کے لئے مجھے پھلاؤ دہ لے گئیں، چیر مین صاحب جو بڑے عامل سمجھے جاتے ہیں، ان کے پیروں میں پڑگئیں کہ میرے بیٹے پر جادوکرا دیا گیا وہ کافر ہو گیا آپ مجھ پر دیا کرو، انھوں نے ماں کو تسلی دی، اس پر کوئی جادو نہیں مالک کی لہر ہے، آپ بھی پھلت والوں سے جا کر ملیں وہ بہت مہان آدمی ہیں، وہ ہر دکھیارے کی مدد کرتے ہیں، وہاں سے ہم دونوں لوٹے میں نے ماں کو بہت سمجھایا کہ ماں آپ بھی مسلمان ہو جاؤ، سب سے زیادہ ہمارے چچا پر دھان جی کو دکھ تھا، وہ کہتے تھے کہ رام پھل نے برادری میں منھ دکھا نے لائق نہیں چھوڑا، عاجز آ کر انھوں نے ایک دن پو رنیما کے بہانے ایک دعوت کی، میں نے خواب میں آپ کے والد کو دیکھا، مولانا صاحب مجھے کہہ رہے ہیں کہ پورنیما کی دعوت میں کھیرکا جو پیالہ تمہارے سامنے ہے، اس میں زہر ہے، اسے مت کھانا، دعوت ہوئی تو میں نے خواب کا منظر سامنے پایا میرے چا چا نے میرے آگے کھیر کا پیالہ رکھا میں نے روٹی کھانا شروع کی اور موقع پا کر وہ پیالہ چا چا کے سامنے کر دیا، ان کو پتہ نہیں لگا، دوتین چمچے انھوں نے کھائے ان کا حال بگڑ گیا، الٹیاں شروع ہو گئیں فوراً ان کو میرٹھ لے کر گئے مگر وہ بچ نہ سکے اور ان کا دیہانت ہو گیا ان کے کریا کرم سے فارغ ہو کر میں پھلت آیا مولانا صاحب سے سارا قصہ سنایا اور معلوم کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہو گیا کہ اس کھیر میں زہر ملایا گیا ہے، مولانا صاحب نے کہا کہ غیب کی بات اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اللہ اپنے بندوں کو بچاتے ہیں اور ایمان والے کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے، اسکی صورت میں اپنے فرشتوں کو بھیج کر رہبری کرتے ہیں، اس کو مہربان رب کہتے ہیں، گھر جا کر میں نے اپنی ماں کو بھی سارا قصہ سنایا، میرے کا پھر (کافر ) ہونے کے باوجود چاچا کی یہ دشمنی ان کو بہت بری لگی اور وہ اسلام سے قریب ہو گئیں، چاچا کے دونوں لڑکے اب میری جان کے دشمن ہو گئے اور میں نے روز روز کے جھگڑوں سے بچنے کے لئے گاؤں چھوڑ دیا، پھلت جا کر رہنے لگا، میرے گھر والے پھلت جا کر پیچھا کرتے تھے مگر ان کا کوئی بس وہاں نہیں چلتا تھا۔

سوال  :   آپ پھلت کتنے دن رہے ؟

جواب  :میں تین سال سے زیادہ پھلت رہا، وہاں نماز وغیرہ یاد کی، ذکر کرتا تھا اور آنے جانے والے مہمانوں کی خدمت کرتا تھا۔

سوال  :    سنا ہے آپ پھلت میں رہتے تھے، تو نماز میں بہت روتے تھے ؟

جواب  : بھیا میں کیا روتا تھا (روتے ہوئے ) ایک گندے ناپاک قطرہ سے بنے انسان کو اتنے بڑے مالک کے سامنے جانامل جائے اور اپنے پیارے اللہ سے ملاقات نصیب ہو جائے، تو رونا تو پڑے ہے، داروغہ تھا نے میں بلائے تو کیا حال ہو جاتا ہے، مالک کے سامنے جا کر کیا حال ہونا چاہئے، جہاں میں نے نیت باندھی میرے دل میں خیال آیا کہ یہ گندانور محمد اور کہاں آپ کا دربار، مسجد میں جاتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے مالک کے، جو میرا محبوب بھی ہے قدموں میں سر رکھ رہا ہوں، مولانا صاحب نے مجھے نماز کے ساتھ نماز کا ترجمہ بھی یاد کرایا تھا مجھے یہ خیال ہوتا تھا کہ نماز میں التحیات اور درود کیوں ہے ؟ ایک روز مولانا صاحب نے بیان کیا کہ معراج میں ہمارے نبی کے صدقہ میں ہمیں اللہ سے ملاقات کا یہ موقع نصیب ہوا، اس لئے نماز کے آخر میں معراج کا وہ مکالمہ اور نبی پر درود پڑھ کر ہمارے نبی ﷺ کا احسان یاد کیا جاتا ہے، میرے دل کو یہ بات بہت لگی اب میرا دل التحیات اور درود شریف میں بہت بھر بھر کر آتا ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ پیارے نبی ﷺ کی روح بھی مجھ سے خوش ہے۔

سوال  :  سنا ہے کہ آپ کو حضور اقدسﷺ کی کافی زیارت ہوئی ہے ؟ایک آدھ خواب سنایئے۔

جواب  :میں الحمدللہ درود اور التحیات  بہت دل سے پڑھتا ہوں اور جب سے حضور اقدسﷺ کی زیارت بھی مجھے خوب ہوئی ہے، سب سے پہلے جب مجھے حضور اقدس ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ کے ابی جیسے ہیں، ذرا عمر کچھ زیادہ اور رنگ صاف ہے اور مجھ سے فرمارہے ہیں کہ جا اپنی ماں کو کلمہ پڑھوادے، وہ تیار ہے اور تیرا انتظار کر رہی ہے، میں نے صبح کو مولانا صاحب کو بتایا، مولانا صاحب نے مجھے گھر جانے کامشورہ دیا، میری ماں بہت بیمار تھی میں نے ڈاکٹر کو لا کر دکھایا، میں ان کی خدمت کے لئے گھر رک گیا، میرا بیٹا بھی ان کی بہت سیوا کرتا تھا، ان کو دستوں کا مرض ہو گیا تھا باربار کپڑے خراب ہو جاتے تھے میں اپنے ہاتھوں سے اس کو نہلاتا اور کپڑے وغیرہ دھوتا، اسلام قبول کرنے سے پہلے میری ماں سے میری نہیں بنتی تھی، وہ میری اس خدمت سے مجھ سے بہت متاثر ہوئی اور ان کے دل میں خیال آیا کہ مسلمان ہو کریہ ایسا ہو گیا ہے، میں نے موقع دیکھ کر ان سے مسلمان ہونے کو کہا، وہ تیار ہو گئی، میں نے ان کو کلمہ پڑھایا اور ان کا نام فاطمہ رکھا اللہ کا کرم ہے کہ وہ اچھی بھی ہو گئیں، گاؤں والوں کو میرا گاؤں میں آنا اچھا نہیں لگا، وہ میرے ساتھ دشمنیاں کرتے رہے، کئی بار مجھ پر حملہ بھی ہوئے مگر اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے مجھے بچالیا، میں نے پھلت جا کر مشورہ کیا مولانا صاحب نے مجھے گاؤں چھوڑ نے کو کہا، میں اپنی ماں کو لے کر میرٹھ میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر رہنے لگا، شروع میں کمرہ کرایہ پر لے لیا بعد میں مولانا صاحب نے مجھ سے کہا اسلام روزگار میں سب سے زیادہ تجارت کو پسند کرتا ہے، ہمارے نبیﷺ نے بھی تجارت کی ہے، میں نے سبزی کی تجارت شروع کی، اس کے بعد مولانا صاحب نے لوہے کی تجارت میں نفع ہونے حدیث سنائی، تو میں نے کباڑے کی دوکان کر لی، میرا کام بہت اچھا چل گیا، میرا بیٹا بھی میرے یہاں آ کر مسلمان ہو گیا، گاؤں والوں کو میرا پتہ معلوم ہو گیا وہ میرٹھ میں بھی میرا پیچھا کرتے رہے، میرے چاچا کے بڑے بیٹے نے ایک بدمعاش کو دس ہزار روپئے مجھے گولی مارنے کے لئے دیئے، میں نے خواب میں حضور ﷺ کی پھر زیارت کی کہ کل تمہیں مارنے کے لئے بدمعاش آئے گا، اس کا نام محمد علی ہے، وہ کالی پینٹ اور نیلی قمیص پہنے ہو گا، اس سے کہنا کہ محمد علی ہو کر ایک رام پھل کے ’نور محمد‘ بننے پر مجھے مارنے آئے ہو، میں رات کو دوکان بند کر کے جانے والا تھا، وہ شخص آیا میں نے فوراً اس سے کہا کہ محمد علی ہو کر ایک رام پھل کے  ’نور محمد‘ بننے پر مارنے آئے ہو، وہ حیرت میں پڑ گیا،  اس نے حیرت سے پوچھا، تمہیں میرا نام کس نے بتایا، میں نے کہا اس نے بتایا جو سارے سچوں کا سچاہے، جس نے دنیا کو سچ سکھلایا ہے، میں نے اس کو رات کا خواب بتایا، اپنی قبول اسلام کی داستان سنائی، وہ چمٹ کر مجھ سے رونے لگا، میرے ہاتھ میں ریوالور دے کر کہنے لگا، ایسے پیارے نبیﷺ کے نام کو بد نام کرنے والے محمد علی سے تم رام پھل کتنے اچھے ہو، ایسے کمینے کو زندہ رہنے کا حق نہیں، لو میرے پیٹ میں گولی ماردو، میں نے اس سے کہا گولی مارنے سے کام نہیں چلے گا، سچی توبہ ہر گناہ کا علاج ہے، اللہ سے توبہ کرو اور جماعت میں چلہ لگاؤ، اس نے وعدہ کیا وہ صبح کو میرے یہاں آیا، میں اس کو لے کر حوض والی مسجد گیا اور وہ مجھ سے قرض لے کر جماعت میں چلا گیا، مرکز میں مجھے ایک جماعت کے ساتھی نے وہ جگہ دکھائی، جہاں میرے بھائی نے تہجد کی نماز میں مسجد میں انتقال کیا تھا، میں رات کو مسجد میں رکا، تہجد اسی جگہ پڑھی دیر تک مسجد میں اس امید پر پڑارہاکہ شاید یہی جنت کا دروازہ ہے، مجھے مسجد میں نیند آ گئی اور نبی ﷺ کی زیارت ہوئی، فرمایا، جنت اہل ایمان کے لئے ہے، مگر ابھی تمہیں بہت کام کرنا ہے، آنکھ کھل گئی میں سوچ میں پڑ گیا مجھ گندے کو کیاکام کرنا ہے میں سوچتا رہتا تھا، کیا میں بھی کچھ کام کر سکتا ہوں، پیارے نبی کا کچھ کام۔۔۔ میرٹھ میں بھی میرے لئے رہنا مشکل ہو گیا مولانا صاحب سے مشورہ کیا، تو انھوں نے مجھے میرٹھ چھوڑنے کا مشورہ دیا، پہلے پنجاب، پھر ہریانہ، مگر میرا کام نہ جم سکا، قرض بڑھتا گیا، مجھے کسی نے کانپور جانے کا مشورہ دیا، مولانا صاحب نے استخارہ کو کہا، اتفاق سے مولانا کے ایک جاننے والے کانپور سے آ گئے اور میں ان کے ساتھ کانپور آ گیا، الحمدللہ چار سال میں یہاں میرا لوہے کا کام سیٹ ہو گیا، سارا قرض بھی اتر گیا، پہلے میں نے اپنے بیٹے کی شادی کی اور اب گذشتہ سال ایک بیوہ سے میں نے مسلمان کر کے شادی کر لی ہے، اس کے چھ بچے بھی میری تربیت میں مسلمان ہیں۔

سوال  :   ماشاء اللہ بہت مبارک ہے، آپ مسلمانوں کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب  :   ایک تو درخواست میری آپ سے ہے اور میں نے یہ سفر مولانا صاحب سے دعا کی درخواست کے لئے کیا ہے اور سب مسلمانوں سے بھی دعا کی درخواست ہے کہ میں نے اپنے ساتھ ایک دعوتی ٹیم بنائی ہے، جس نے ایک تو بنگالی خانہ بدوشوں اور ایک مدھیہ پردیش کے بھیل لوگوں میں دعوت کا کام شروع کیا ہے، اصل میں میرا ایک چلہ تو جمنا نگر میں لگا وہاں پر جگہ جگہ بنگالی لوگوں کی کچی پکی بستیاں ہیں ان میں اس وقت ہمارے مولانا صاحب کے ساتھی کام شروع کر رہے تھے اور ایک چلہ کھنڈوہ کے علاقہ میں لگا، وہاں پر اسی طرح کی آبادی بھیلوں کی رہتی ہے، وہاں پر میں نے محسوس کیا کہ ان لوگوں میں کام کیا جائے تو فوج کی فوج مسلمان ہو سکتی ہے کانپور میں سیٹ ہو کر پچھلے سال میں نے دس سفر کئے، مجھے اللہ سے امید ہے کہ لاکھوں لاکھ لوگ انشاء اللہ مسلمان ہوں گے، میری تمام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ ایسی نہ جانے کتنی آبادیاں ہوں گی اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو کتنے لوگ دوزخ سے بچ سکتے ہیں، اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے دعوت کی فکر کرنی چاہئے۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ ! نور بھائی آپ بڑے خوش قسمت ہیں، آپ ہمارے لئے بھی دعا کریں۔

جواب  :پیارے بھیا، ایسا احسان فراموش کون ہو سکتا ہے، جو آپ کے اور آپ کے گھرانے والوں کے لئے دعا نہ کرتا ہو، روتے ہوئے، رواں رواں آپ کے گھرکے احسان میں دبا ہوا ہے، میں اپنی کھال کی جوتیاں بنا دوں تو آپ کے گھر کے احسان کا بدلہ ادا نہیں کر سکتا اللہ تعالی قیامت تک آپ کے گھرانے کو پورے عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے رکھے۔

سوال  :    آمین، ہمارے گھرانے کا کچھ نہیں، اصل میں تو اللہ کی طرف سے آپ کے  لئے ہدایت کا فیصلہ ہوا۔

جواب  :ہاں میرے اللہ کا تو اصل کرم ہے ہی،

سوال  :  اچھا ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ حافظ فی امان اللہ

جواب  :   وعلیکم السلام، اللہ حافظ

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، جو لا ئی، اگست  ۲۰۰۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 انجینئر محمد خالد {ونود کمار کھنہ} سے ایک ملاقات

 

محمد خالد   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

احمد اواہ   :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :   خالد صاحب آپ کو ایک زحمت دینی ہے، ہمارے یہاں پھلت سے ایک اردو دعوتی میگزین ارمغان کے نام سے نکلتی ہے، اس کے لئے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں ؟

جواب  : ہاں احمد بھائی ارمغان سے میں خوب واقف ہوں اس میں میرا نام بھی ہو جائے، تو میرے لئے بڑی خوش قسمتی کی بات ہو گی، آپ جو حکم کریں میں تیار ہوں۔

سوال  : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

جواب  :  میرا نام الحمد للہ محمد خالد ہے، میرا گھریلو نام ونود کمار کھنہ تھا، میری پیدائش ۲/ اگست ۱۹۵۶ء میں پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں ہوئی، ہمارا آبائی وطن پٹیالہ ہے، میرے والد کا نام جناب ڈاکٹر انل کمار کھنہ ہے، وہ میکانیکل انجینئر ہیں اور وہ پانچ سال پہلے بجلی پانی کے محکمہ ہا ئیڈل سے ایکزیکیٹیو انجینئر کی پوسٹ سے رٹائرڈ ہوئے ہیں، میں نے بھی الیکٹرکل میں انجینئرنگ کی اور والد صاحب کے محکمہ میں مجھے ملازمت مل گئی، ۱۵ سال برابر میری پوسٹنگ بھی جالندھر میں رہی، تین سال پہلے میرا پرموشن میں ٹرانسفر ہو گیا، آج کل وہیں پر فیملی کے ساتھ رہتا ہوں، بہت دنوں سے مولانا صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، مجھے ایک دفتری کام سے دہلی کا سفر تھا، موقع غنیمت سمجھ کر ملنے آیا ہوں، الحمد للہ ملاقات بھی ہو گئی اور ضروری باتوں کے لئے مشورہ بھی ہو گیا۔

سوال  :   اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے ؟

جواب  :  آج سے ٹھیک تیرہ سال پہلے ۱۹ / اپریل  ۱۹۹۲ء کو میں دہلی سے دفتر کے کام سے واپس لوٹ رہا تھا دہلی سے سپر فاسٹ اکسپریس میں سوار ہوا، گاڑی مظفر نگر اسٹیشن پر پہنچی، گاڑی میں لوگ سوار ہوئے، ان سوار ہونے والوں میں ایک ( اگر میں اپنی پیدائش زبان میں یہ کہوں کہ ) دیوتا بھی گاڑی میں سوار ہوئے تو میرا  خیال ہے کہ اس زبان میں وہ ہی ٹھیک ہو گا، اسلامی زبان میں رحم و کرم کا فرشتہ، نبی رحمت کا سچا وارث بھی کہہ سکتا ہوں، مجھ سے کچھ فاصلہ پر تیسری سیٹ پر بیٹھ گئے دو منٹ گاڑی رکی اور جلدی ذراسی دیر میں رفتار تیز ہو گئی، وہ دیوتا اور فرشتہ صفت انسان احمد بھائی آپ کے والد، میرے سب سے بڑے محسن مولانا کلیم صاحب تھے، میرے برابر میں مظفر نگر کا ایک دیہاتی شاید جاٹ چودھری بیٹھا تھا، گاڑی جب تیز ہو گئی تو اس نے سوال کیا کہ مظفر نگر کتنی دیر میں آ جائے گا، مولانا صاحب نے جواب دیا کہ تاؤ جی مظفر نگر تو جا چکا، یہ اسٹیشن جس سے ہم سوار ہوئے ہیں، مظفر نگر ہی تھا، اس کو مظفر نگر اترنا تھا، وہ چودھری اپنی سیٹ کے نیچے سے سامان کی گٹھری اپنے سر پر رکھ کر دروازہ کی طرف بڑھا اور جلدی میں دروازہ سے چلتی گاڑی سے کودنا چاہتا تھا، مولانا صاحب نے پہلے اس کا ہاتھ پکڑا اور پھر اس کو دونوں ہاتھوں میں تھاما اور کہا تاؤ جی اب آپ نہیں اتر سکتے، آپ دیوبند تک چلیں، گاڑی رکے گی، آپ اتر کر کسی دوسری گاڑی سے مظفر نگر واپس آنا، وہ چودھری ضد کرنے لگا، میری لڑکی کے منگنی والے آ رہے ہیں، مجھے جلدی جانا ہے، مولانا صاحب اس کو کھینچ کر اپنی سیٹ پر لے آئے اور اس کو سمجھایا کہ تاؤ جی جب آپ زندہ بچیں گے، تب تو آپ منگنی کریں گے، چلتی گاڑی سے اتریں گے تو آپ بچیں گے کہاں ؟ وہ ضد کرتا رہا، مگر مولانا صاحب اس کو مضبوط تھامے رہے اور کہا کہ میں دیوبند سے پہلے آپ کو نہیں اترنے دوں گا، جب چودھری کو یقین ہو گیا کہ یہ ہر گز مجھے چلتی گاڑی سے نہیں اتر نے دیں گے، تو اس نے مجبوراً اپنی گٹھری سیٹ کے نیچے ڈال دی، دیو بند اسٹیشن آیا، گاڑی رکی، مولانا صاحب نے اس کی گٹھری اٹھائی اور اس کو اتارا، گٹھری اس کے سپرد کی، میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، ہمارا گھرانہ بہت مذہبی سمجھا جاتا تھا اور مجھے خود اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ میں بہت سوشل انسان ہوں، یہ، منظر دیکھ کر میرے ضمیر کو بہت چوٹ لگی میرے دل میں خیال آیا کہ میرا ہم مذہب ہندو بھائی میرے برابر سے اٹھ کر چلتی گاڑی سے کود کر گویا مرگیا اور ایک غیر مذہب کے بہت مذہبی دکھائی دینے والے مسلمان نے اس تعصب کے زمانہ میں (یہ بابری مسجد رام جنم بھومی کی آگ کا زمانہ تھا) اس کی جان بچائی، اس لئے کہ اگر مولانا صاحب اس کو نہ روکتے اور بہت کوشش کر کے زبردستی کھینچ کر نہ لاتے تو چودھری تو مر گیا تھا، مجھے اپنے حال پر بڑی شرمندگی ہوئی اور میں اٹھ کر مولانا صاحب کے سامنے والی سیٹ پر جا کر بیٹھا اور مولانا صاحب سے کہا کہ مولانا آپ نے تو مجھے بہت بڑی سزا دی، مجھے اس قدر تکلیف ہو رہی  کہ دل چاہ رہا ہے کہ ٹرین سے کود کر مر جاؤں، مولانا صاحب نے بڑے پیار سے کہا معاف کیجئے میں تو آپ سے بہت دور بیٹھا ہوں، آپ سے میری کوئی بات چیت بھی نہیں ہوئی، پھر بھی اگر کوئی تکلیف ہوئی ہے تو میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ ساتھ میں سفر کرنے والے ہیں اور ایک مسلمان پرسا تھی مسافر کا بڑا حق ہوتا ہے۔

میں نے کہا مولانا صاحب ہندو مسلم نفرت کی اس آگ کے زمانہ میں آپ نے ایک ہندو کو اتنی محنت سے مرنے سے بچا لیا اور یہ میرا مذہبی بھائی میرے برابر سے اٹھ کر مرگیا تھا، مجھے یہ ہوش نہ آیا کہ میں اس کو روکتا اور آپ اتنی دور سے جا کر اس کے لئے پریشان ہوئے، مجھے یہ خیال ہو رہا تھا کہایسی بے حسی کی زندگی سے مر جانا بہتر ہے، واقعی مولانا صاحب آپ کی تو یہ بڑائی کی بات تھی، مگر مجھے آپ کے اس برتاؤ نے بڑی سزا دی، میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں اپنے کو اس کی کیا سزا دوں ؟مولانا صاحب میرے اس احساس سے بہت خوش ہوئے اور پیار سے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر چوما اور بولے میرے پیارے بھائی مالک کا کرم ہے کہ آپ کو احساس ہو گیا، ورنہ یہ دنیا تو بس اپنے میں کھوئی ہوئی ہے اور میں تو آپ سے بہت گیا گذرا ہوں، بس مالک کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان مذہبی گھر میں پیدا کیا جس کی وجہ سے ہمیں انسانیت کے کچھ اصول آ گئے  ہمارے نبیﷺ نے ہمیں پڑوسیوں، انسانوں اور جانداروں کے حقوق بتائے، مولانا صاحب نے دیر تک رسول اللہﷺ کی باتیں، ہمیں بتائیں اور بیچ بیچ میں حضرت محمد ﷺ کے سچے وارث کے ایسے کئی اللہ والوں کے بھی قصے سنائے، باتیں محبت کی اور سنانے والا کچھ ایسا کہ لوگ اکٹھا ہو گئے، بار بار دل بھر آ رہا تھا کئی لوگ تو رو پڑے۔

میں نے مولانا صاحب سے تعارف چاہا، تو انھوں نے بتایا کہ صوفی سنتوں کی ایک مشہور تاریخی بستی پھلت ہے، جہاں پر دنیا کے مشہور اسلامی اسکالر حضرت شاہ ولی اللہ پیدا ہوئے، وہ وہیں کے رہنے والے ہیں، مولانا صاحب نے اپنا پتہ لکھ کر دیا اور میرا پتہ بھی معلوم کیا اور جب یہ معلوم ہوا کہ میں جالندھر میں انجینئر ہوں، تو مولانا صاحب نے اپنے دو لوگوں کے فون نمبر اور پتے دیئے جو جالندھر میں کاروبار کے سلسلہ میں آتے تھے اور مجھے ان سے رابطہ رکھنے کی تاکید کی، مولانا صاحب کے دونوں ساتھی اصل میں مولانا صاحب کے مرید تھے، جالندھر جا کر میں ان سے ملا مجھے انھوں نے بہت متاثر کیا انھوں نے مجھے مولانا صاحب کی کتاب، ’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘ اور اسلام کیا ہے ؟ دی میں نے ٹرین میں اسلام کی ہلکی سی کرن مولانا صاحب کے عمل کی شکل میں دیکھی تھی ‘ان دونوں کتابوں کو پڑھنے کے بعد میرے لئے کسی شک کی گنجائش نہیں رہی اور میں نے اسلام قبول کر لیا، شروع میں مجھے لوگوں نے اپنے اسلام کو چھپانے کا مشورہ دیا، ایک سال تک میں نے اعلان نہیں کیا، مگر بعد میں مجھے خیال ہوا کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں ایک غلط راہ پر تو ہم کھلے عام چلیں اور اللہ کی زمین پر، اللہ کے آسمان کے نیچے، اللہ کی بندگی چھپ کر کریں، یہ کیسی بزدلی اور کم ظرفی کی بات ہے، میں نے کچہری جا کر اپنے قبول اسلام کے قانونی کاغذات بنوائے اور پھر گھر والوں کے سامنے اعلان کر دیا، اپنی بیوی سے بھی بتا دیا، گھر کے لوگ بہت برہم ہوئے اور میرے والد کے علاوہ سب لوگ مجھے برا بھلا کہتے رہے، گھر سے نکل جا نے کو کہا میرے والد صاحب نے گھر والوں سے کہا اس طرح لڑنے سے کوئی فائدہ نہیں، یہ پڑھا لکھا ہے، ہوشیار بھی ہے، کوئی پا گل نہیں ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مذہب بدلنے کا فیصلہ بڑا فیصلہ ہے بہت سوچ سمجھ کر کر نا چاہئے، میں نے ان سے کہا کہ میں نے دو سال خوب سوچ سمجھ کر یہ   فیصلہ کیا ہے۔

اسلام کو پوری طرح  جاننے اور نماز وغیرہ سیکھنے کے لئے مجھے کسی آدمی کی تلاش ہوئی تو میں نے ایک مولانا صاحب سے جو سہارنپور کے رہنے والے تھے اور ایک مسجد میں امام تھے مولانا محمد اشتیاق صاحب ان سے رابطہ کیا، میں نے ان کے پاس رات میں جانا شروع کیا تین چار روز کے بعد انھوں نے ہمیں بتا یا کہ اسلام قبول کر نے کے بعد آپ کی بیوی سے آپ کا رشتہ ختم ہو گیا ہے کیونکہ وہ ہندو ہیں اب ان کے ساتھ آپ کا رہنا جائز نہیں، اسلام میں نے بہت سوچ سمجھ کر قبول کیا تھا اور میری خواہش تھی کہ ایک پکے مسلمان کی طرح اسلام کے ہر قانون کو جانوں، میں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا اور اپنی بیوی سے اپنی مجبوری بتائی میرے دو چھوٹے بچوں کا مسئلہ تھا جن میں سے ایک ابھی دودھ پیتا تھا، اس مسئلہ کے بعد میرے خاندان میں میرے قبول اسلام کی سخت مخالفت ہوئی اور مجھے سخت مسائل کا سامنا کر نا پڑا مجھے مولانا اشتیاق صاحب نے بتا یا کہ مولانا کلیم صاحب کو ہم نے جالندھر کی دعوت دی ہے اور انھوں نے اگلے ہفتہ پنجاب کے سفر کا وعدہ کر لیا ہے ان کا اصلی سفر سمر الا ضلع لدھیانہ کا تھا میں نے اس خیال سے کہ جالندھر سفر ہو نہ ہو اور بات کا موقع ملے یا نہ ملے، سمر الا جا کر ملاقات کو اچھا سمجھا جہاں رات کو مولا نا صاحب کو رکنا تھا میں نے چھٹی لی، سمرالا دوپہر کو پہنچ گیا، عصر کے بعد مولا نا صاحب آ گئے ملاقات ہوئی میرے قبول اسلام سے بہت خوش ہوئے اور مجھے بتا یا کہ کئی رات وہ میرے لئے ہدایت کی دعا کر تے رہے کہ یا اللہ کیسا اچھا آدمی ہے، کیسا صاحب ضمیر ہے، وہ تو ہدایت کا ضرور مستحق ہے، اللہ کا شکر ہے میرے اللہ نے سن لی، میں نے اپنی بیوی سے علاحدگی وغیرہ کے بعد در پیش مسائل کے سلسلہ میں مشورہ کیا، مولانا صاحب نے مجھے اللہ کے ہر حکم کو ماننے پر رضا مندی پر مبارکباد دی، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ کو، کسی بھی حکم پر عمل کر نے سے پہلے کسی داعی سے رابطہ کر نا چاہئے کہ دعوت کا قانون الگ ہوتا ہے، اسلامی شریعت کا اصول یہ ہے کہ دو نفعوں میں سے ایک کو اختیار کرنا ہو تو چھوٹے نفع کو چھوڑ کر بڑے نفع کو اختیار کرنا چاہئے اور دو نقصانوں میں سے ایک کو قبول کر نا ضروری ہو تو بڑے نقصان کے مقابلے چھوٹا نقصان قبول کیا جائے گا، ہمارا زندگی بھر کا تجربہ ہے کہ اگر احتیاط کے ساتھ ان حالات میں شوہر کو بیوی کے ساتھ رہنے دیا جائے اور شوہر فکر مند رہے تو بیوی بچے مسلمان ہو ہی جاتے ہیں اور اگر الگ کر دیا جائے تو پھر اس کا امکان بہت کم ہو جا تا ہے، اس حال میں اگر چہ نا محرم کے ساتھ رہنا ایک گناہ ہے، مگر کم از کم دو بچوں اور بیوی کے قبول اسلام کی امید پر اس کو برداشت کیا جائے گا، بس اللہ سے توبہ کرتے رہیں اور تھوڑے فاصلہ پر احتیاط سے رہیں، یعنی ازدواجی تعلق سمجھ کر ساتھ نہ رہیں، ایک داعی اور مدعو سمجھ کر ساتھ رہیں، مولانا صاحب نے فون نمبر بھی دیا اور مجھے تاکید کی کہ ہر مسئلہ میں مجھ سے مشورہ کریں، یہ ملاقات میرے لئے بڑی راحت کا ذریعہ بنی، میں اپنے گھر چلا گیا اور میں نے ٹرین والے واقعہ کے ساتھ مولانا صاحب کا تعارف کرا رکھا تھا، میں نے سمرالہ لوٹ کر بیوی کو بتا یا کہ مولانا صاحب نے مجھے بہت برا بھلا کہا کہ ایسی وفادار اور محبت کر نے والی بیوی کو مسلمان ہو کر کس طرح چھوڑ سکتے ہیں، اب تو اور بھی ان کا حق بڑھ گیا ہے، میں نے اپنی بیوی کو یہ بھی بتایا کہ مولانا صاحب نے مجھے یہ بات بتا ئی ہے کہ سب سے اچھا مسلمان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو، مولانا صاحب نے مجھے اردو اور قرآن شریف پڑھنے کا مشورہ دیا میں نے روزانہ اس کے لئے ایک گھنٹہ دینا شروع کیا اور آدھا گھنٹہ بیوی پر دعوت کے لئے  بلا ناغہ لگا یا، جس میں اس سے محبت کی باتیں کرتا اور دو و چار باتیں اسلام کی حقانیت اور ہندو مذہب کی خلاف عقل باتوں کی کرتا، چار سال کی مسلسل لگن کے بعد میری بیوی اسلام قبول کر نے کے لئے راضی ہو گئی اور میں نے قرآن شریف اور اردو اس طرح پڑھ لیا کہ میں اردو اچھی طرح لکھنے لگا، جنوری  ۱۹۹۹ء میں میں نے دو روز کا اپنی بیوی کے ساتھ پھلت کا سفر کیا، مولانا صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے بتا یا کہ آپ کے ذمہ حج فرض ہے، اب الحمد للہ ہمارے یہاں چار بچے تھے اور ایک کی ولادت قریب تھی وقت ایسا تھا کہ حج کے موقع پر میری بیوی کا سفر مشکل تھا اس لئے ہم نے اگلے سال حج کا پختہ ارادہ کیا اور الحمد للہ   ۲۰۰۰  ء میں پانچوں بچوں کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی، حج کے اس سفر میں دس دس روز میرا مدینہ منورہ کا قیام عجیب رہا  اصل میں  ۱۹۹۶ء میں میں نے مولانا صاحب کی کتاب ارمغان دعوت پڑھی اس کو پڑھ کر میرے دل میں یہ بات بالکل بیٹھ گئی کہ پوری انسانیت تک نبی کے درد کے ساتھ اسلام کی دعوت کو مقصد بنائے بغیر مسلمانی جھو ٹی ہے بس مجھے کچھ کر نے کی سوجھی اور میں نے جالندھر میں چمڑا رنگنے والی ایک آبادی کو نشانہ بنایا، میں نے اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو جوڑا گھر والوں پر محنت کے ساتھ میں نے ان پس ماندہ لوگوں پر کام شروع کیا، الحمد للہ چند سا لوں کی کوشش اللہ نے قبول کی اور اس برادری کے پنجاب میں تقریباً ۲۰۰ /لوگوں نے کفر و شرک سے توبہ کی، جالندھر میں ایک مسجد اور مدرسہ بنوایا، اس کے علاوہ تین گرو دواروں کے گرنتھی بھی مسلمان ہوئے، یہ میری مدینہ حاضری عجیب جذبہ سے ہوئی تھی، دل چاہتا تھا کہ قدموں سے نہیں بلکہ پیارے نبی ﷺ کے شہر میں پلکوں سے چلوں، روضہ اطہر پر پہنچ کر میں بے خود ہو گیا، ایک عجیب مد ہوشی کی کیفیت تھی، میں نے محسوس کیا کہ پیارے نبی ﷺ نے مجھے سینہ سے چمٹا لیا ہے، میں نے اپنی شرمندگی اور ندامت کا اظہار کیا کہ پیارے نبی ﷺ آپ نے تو اس دعوت کے لئے کیسے کیسے قربانیاں دی ہیں، مگر ہم تو بس نام کے مسلمان ہیں، پیارے نبی ارمغان دعوت سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ آپ کے سے درد کے بغیر آپ کا کہلانے کا حق نہیں ہے، کیا میرا یہ خیال صحیح ہے ؟ مجھے ایسا لگا جیسے آپ ﷺ نے میرے خیال کی تائید کی ہو اور فرمایا کہ بلاشبہ ہمارے اس کام کے بغیر ہمارا کہلانے کا حق نہیں ہے اور تم سے ہمیں جو پیار ہے وہ اس لئے کہ تم نے سماج کے کمزور سیکڑوں لوگوں کو دوزخ سے بچانے کی کوشش کی۔

سوال  :   یہ باتیں آپ سے بیداری میں ہوئیں ؟

جواب  :  مجھے تو پتہ نہیں کہ مجھے نیند تھی یا خیال تھا یا مد ہوشی، مگر اس میں اتنا مزہ تھا کہ آج تک اس کا مزہ محسوس ہوتا ہے، بلکہ جب بھی مجھے ذرا غفلت ہوتی ہے، میں اس کا تصور کر لیتا ہوں، میرا جذبہ بالکل تازہ ہو جاتا ہے، خود دس روز تک مدینہ منورہ کے قیام کے دوران مجھ پر اس واقعہ کا نشہ سا طاری رہا اور الحمدللہ دس روز میں اکیس بار خواب میں حضور اکرم ﷺ کی اس گندے کو زیارت ہوئی، الحمدللہ میں نے وہیں پر ڈاڑھی رکھ لی اور تقوی کی زندگی گذارنے  کا عزم کر لیا، ملازمت کے دوران اس سلسلہ کی جو بے احتیاطی ہوئی تھی، ان کی مدینہ منورہ میں ایک فہرست بنائی اور حج سے واپسی کے بعد اہل حق کاحق ادا کرنا شروع کیا، کافی حد تک میرے اللہ نے مجھے کامیابی عطا فرمائی۔

سوال  :  آپ کے بچوں کی تعلیم کا کیا ہوا؟

جواب  :  احمد بھائی ! میرے تین بیٹے عبداللہ، عبدالرحمن اور عبدالرحیم ہیں اور دو بچیاں فاطمہ اور عائشہ ہیں، میری اہلیہ کا نام بھی میں نے آمنہ رکھا، میں نے ایک مولانا صاحب کو صرف اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے گھر پر رکھا ہوا ہے، اسلام قبول کرنے سے پہلے میں فیملی پلاننگ کا قائل تھا اس لئے گیارہ سال تک ہمارے ایک بچہ اور بچی چھ سال کے فاصلہ سے پیدا ہوئے تھے، مگر میں نے اسلام قبول کیا تو مجھے خیال ہوا کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کا معاملہ اچھا نہیں، جب میں نے اسلام قبول کیا ہے، تو اب عقل میں آئے یا نہ آئے مجھے اسلام کو ماننا ہے اور اللہ تعالی نے مجھے چھ بچے عطا فرمائے، مجھے خوشی ہوتی ہے، مدینہ منورہ کے قیام کے دوران اسلام کے سلسلہ میں میری کیفیت بدل گئی اب مجھے اسلام کا ہر حکم سو فیصد عقل کے مطابق بالکل برحق لگتا ہے، چنانچہ اب میں فیملی پلاننگ کی حمایت کے خلاف کسی بڑے سے بڑے اسکالر سے مناظرہ کر سکتا ہوں، میرے پیارے نبیﷺ حکم دیں کے زیادہ بچے پیدا کر نے والی عورتوں سے شادی کرو اور ہم مسلمان ہو کر ان احمق انگریزوں کے چکر میں فیملی پلاننگ کی حماقت کو ترقی سمجھیں، کیسی بے وقوفی ہے، مجھے امید ہے کہ اگر میرے اللہ مجھے بیس بچے دیں گے اور میں نے ان کی تعلیم و تربیت کا اسلامی حق ادا کیا تو سب سورج چاند بنیں گے، انشاء اللہ ثم انشاء اللہ، الحمد للہ میرے بچے اسکول بھی جاتے ہیں اور دینی تعلیم کی حالت سے بھی میں مطمئن ہوں۔

سوال  :   آپ نے اپنے والدین پر کام نہیں کیا؟

جواب  :  میرے اللہ کا مجھ پر کرم ہے کہ میرے والد رٹائرڈ ہو کر پٹیالہ اپنے گھر چلے گئے، میں نے حج کے دوران ملتزم پر اور عرفات میں اپنے والد اور والدہ اور اپنی چھوٹی بہن کے لئے خوب ہدایت کی دعا کی اور حج سے واپسی پر سیدھا پٹیالہ گیا اور ایسا لگتا تھا کہ والد صاحب خود ہی تیار تھے، وہ اصل میں پاکستان کے ایک صوفی با با بولے شاہ چشتی کے مرید بابا سانولی شاہ سے بہت متاثر تھے، با با سانولی شاہ گرداس پور کے رہنے والے تھے، ۱۲۵ سال کی عمر  ہوئی اور بڑے مجاہدے کئے توحید کے قائل تھے، بڑے ذکر وغیرہ کرتے تھے، ان کا پنجابی میں تصوف پر بڑا کلام چھپا بھی ہے شاید وہ کہیں ان سے بیعت بھی ہو گئے تھے، حج سے واپسی پر انھوں نے مجھ سے زمزم مانگا اور کھڑے ہو کر عقیدت سے پیا، مدینہ کی کھجوریں بہت آنکھوں کو لگا کر کھائیں اور بار بار کہتے رہے کہ مدینہ اور مدینہ والے کی باتیں بتاؤ ؟میں نے جب ان سے اپنے مدینہ کے کچھ واقعات سنائے تو وہ سن کر رونے لگے اور بولے بیٹا تو نے بڑی قسمت پائی ہے، مجھے مدینہ سے ان کی ایسی عقیدت کا اندازہ نہیں تھا، میں نے ان سے مدینہ والے کا پیغام بتا کر اسلام قبول کر نے کو کہا تو انھوں نے بتایا کہ میں تو تیرے آنے کا انتظار کر رہا تھا، مجھے میرے با با سانولی شاہ کی خواب میں زیارت ہوئی تو انھوں نے بتا یا کہ دین تو سچا اسلام ہی ہے، پھر اس کو مانتے کیوں نہیں ؟اس دن سے میں بے چین ہوں میں نے ان سے کلمہ پڑھنے کے لئے کہا، الحمد للہ انھوں نے کلمہ پڑھا میں نے ان کا نام محمد عمر رکھا، اس کے بعد میں نے محبت سے اپنی والدہ کی خوشامد کی تین روز کی کوشش سے وہ بھی مسلمان ہو گئیں، اس کے بعد سارے گھر میں میری بہن بچی تھی، اس کی شادی کے ایک سال کے بعد وہ بیوہ ہو گئی تھی ہم سب کے اسلام کے بعد اس کے مسلمان ہونے کی زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑی، وہ خود بہت بھلی انسان ہے بلکہ ہم سبھی سے اچھی ہے۔

سوال  :  ماشاء اللہ خالد صاحب آپ کے ساتھ اللہ کی خاص رحمت ہے، ورنہ گھر والوں کے سلسلہ میں بڑے مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔

جواب  :الحمد للہ میرے لئے میرے اللہ نے سب کچھ بلا مشقت مقدر کر رکھا ہے، واقعی میں اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔

سوال  :   بتائیے آپ تو دن رات دعوت کی دھن میں لگے رہتے ہیں، دعوتی زندگی کے کچھ خاص تجربات، کچھ خاص مشکلات یا نکات سنائیے ؟

جواب  : احمد بھائی اصل میں میری زندگی کے اجالے کی شروعات آپ کے والد صاحب کی محبت کی کرنوں سے ہوئی ہے، میری نگاہ میں کوئی آئیڈیل اور نبی کا سچا متبع مسلمان اگر کوئی ہے جو میں نے دیکھا ہے، تو وہ مولانا کلیم صاحب ہیں، میں کہا بھی کرتا ہوں :    ؎

دیر و حرم میں روشنی شمس و قمر سے ہو تو کیا        مجھ کو تم پسند ہو اپنی نظر کو کیا کروں

مولانا صاحب کی ایک تقریر میں نے لدھیانہ میں سنی، انھوں نے کہا کہ اسلام ایک نور ہے اور مسلمان اس نور سے منور ایک یونٹ ( اکائی ) ہے نور اور روشنی کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ہو گی تو منور کرے گی، یعنی مسلمان ہو گا تو داعی ہو گا اور داعی اس طرح کا کہ اس کی پہچان داعی ہو  میں تو الحمد للہ اپنا کام اور اصل مشغلہ دعوت کو سمجھتا ہوں اور مجھ سے کوئی مشغلہ پوچھتا ہے تو میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ میں ہائیڈل میں انجینئیر ہوں بلکہ دعوت بتا تا ہوں اور یہ بتا نا بھی میں نے مولانا صاحب سے سیکھا ہے اور الحمدللہ مجھے بتانے اور کہنے کا بہت فائدہ ہوا، پہلے میں نے کہنا شروع کیا تھا، الحمد للہ کہتے کہتے میرے شعور میں یہ بات بیٹھ گئی، میں، الحمد للہ اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ کم از کم دعوت پر خرچ کرتا ہوں، میرے بچے میری بیوی برابر کے شریک ہیں، میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے منصب اور مشغلے کا شعور ہو جائے تو پوری دنیا اسلام کی پیاسی ہے اور دعوت اسلام کے لئے ماحول بالکل سازگار ہے، اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان اس کے لئے تیار نہیں، مسلمانوں میں دعوتی شعور بیدار کرنا اور ان کو اس سلسلہ میں ذ مہ دار ی کا احساس دلانا بڑا مشکل ہے، ایک داعی کو سب سے بڑی مشکل مسلمانوں کے ذمہ داری کا نہ سمجھنے اور دعوتی شعور نہ ہونے کی وجہ سے آتی ہے، اصل میں انسان ایک سماجی حیوان ہے اسے زندگی کے ہر مرحلہ میں ایک سماج کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا سماج جو اسے اسلام پر باقی رکھنے میں معاون ہو، میں آپ کو ایک درد ناک واقعہ بتاتا ہوں، جالندھر میں جو چمڑا رنگنے والے لوگ مسلمان ہوتے ہیں ان میں سے ایک ذمہ دار اور حد درجہ فکر مند ساتھی ہیں جو پہلوان کے نام سے مشہور ہیں، ان لوگوں میں کام کرنے میں ہمارے سب فعال ساتھی ہیں ابتدا سے بہت پکے، حج بھی کر لیا ہے، اس علاقہ میں چھ مسجدیں وا گذار کرانے میں ان کا بنیادی حصہ ہے مدرسہ کے قیام میں مرکزی کر دارادا ہو رہے ہیں، اپنے چاروں بچوں کو انھوں نے حافظ بنایا، بڑی بچی ہے  اس کو بھی حفظ کرایا، چار بار قرآن شریف تراویح میں اس نے سنایا، جب اس کی شادی کا مرحلہ آیا تو کوئی آدمی اس سے شادی کو تیارنہ ہوا، چار سال تک کو شش کرتے رہے، بہت معمولی درجہ کے لڑکوں سے شادی کی کوشش کی، مگر چما رکہہ کر لوگ ہٹ گئے وہ بہت جذباتی آدمی ہیں بہت مجبور ہو کر انھوں نے اپنی حافظ لڑکی کی شادی اپنی برادری کے غیر مسلم سے کر دی، جس کے گھر میں خنزیر پلتے ہیں اور اس کا گوشت پکتا ہے، اب پہلو ان کا حال یہ ہو گیا کہ مسلمان کا نام آتا تھا تو گالیاں بکتا تھا، میں نے اس کو سمجھایا بھی تھا کہ بغیر شادی کے رہ جانا اس سے بہتر ہے کہ غیر مسلم کے یہاں جائے اور حرام کاری کی مجرم ہو، اصل میں ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ ان کے کارخانے میں ان کا ایک مزدور ملازم مسلمان تھا، جو بالکل ان پڑھ اور موٹی عقل کا تھا، انھوں نے اس سے شادی کی پیشکش کی، اس نے صاف ان کار کر دیا کہ چماروں میں میں تو ہرگز بھی نہیں کر سکتا، بس اس غصہ میں کہ ہمارا ملازم بھی اس لڑکی سے شادی کو منع کر دے انھوں نے غیر مسلم سے اس کی شادی ہندو انہ طریقہ پر کر دی، خود میرے لئے یہ بہت تکلیف کی بات تھی، وہ لڑکی ساری ساری رات روتی تھی، کئی بار اس نے زہر بھی کھایا، مگر زندگی تھی نہیں مری، اللہ کا کرنا کہ آپ کے والد صاحب کا یہاں کا سفر ہوا، میں نے پورا واقعہ سنا یا، انھوں نے جالندھر جا کر پہلوان سے ملاقات کی اور ان کو سمجھایا کہ آخرت اور اللہ کی رضا کے لئے مسلمان ہوئے ہو تو ان مسلمانوں سے کیا امید لگا تے ہو، پھر انھوں نے اپنے دو ساتھیوں کو لڑکی کے شوہر پر لگا یا، الحمد للہ وہ مسلمان ہو کر اپنا گھر چھوڑ کر آ گیا، ان کا نکاح کرایا، مولانا صاحب نے ان کو یقین دلایا کہ بچوں کی شادی کرانے کی ذمہ داری ہماری ہے، اب اللہ کا شکر ہے مسئلہ حل ہو گیا، سچی بات یہ ہے احمد بھائی، اس لڑکی کے شوہر کے مسلمان ہونے کی خوشی مجھے اپنے مسلمان ہونے سے زیادہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تھا اس وقت مجھے دعوتی شعور نہیں تھا اور اس بات کا مجھ پر دن رات غم سوار تھا، میں راتوں کو اس سلسلہ میں مولانا صاحب کے لئے دعائیں کرتا ہوں، اس لئے میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں میں دعوتی شعور بیدار ہونا بہت ضروری ہے، اگر مسلمانوں کو ذمہ داری کا ا حسا س ہو جائے تو پھر دعوت کا کام بالکل آسان ہے اور ماحول بہت ساز گار ہے، ادھر تو پیاس ہے بے چینی ہے، بس ہم میں ان کو کچھ دینے اور سیراب کرنے کا شعور ہی نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے ؟اس لئے مولانا صاحب ہر وقت اس غم میں گھلتے رہتے ہیں اور دن رات یہی بات کہتے ہیں کہ بس مسلمانوں، سارے انسانوں بلکہ کائنات کے سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو دعوتی ذمہ داری کا احساس ہو جائے، اس سلسلہ میں بڑا کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال  : بہت بہت شکریہ خالد صاحب، ارمغان کے لئے میں نے بہت سے لوگوں سے باتیں کیں بہت سے انٹرویو لئے مگر مجھے بڑا احساس ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعوت کا کام آپ کو جس طرح سمجھایا ہے، کسی دوسرے کو نہیں سمجھا یا، آپ کے ساتھ رہ کر اس سلسلہ میں استفادہ کرنا چاہئے اللہ نے موقع دیا تو آپ کے ساتھ رہوں گا۔

جواب  : احمد بھائی آپ شرمندہ کرتے ہیں، میں تو خود بہت کڑھتا ہوں کہ نبی کا امتی ہونے کا ہم حق ادا نہیں کر رہے ہیں، یہ جو کچھ زبانی باتیں ہیں وہ صرف آپ کے والد صاحب کے درد کا ایک فیض ہے، یہ بات ضرور ہے کہ مولانا صاحب میرے اور ہمارے ساتھیوں کے واسطہ سے قبول اسلام کرنے والے سینکڑوں لوگوں کے اسلام کو اس بات کے ثبوت میں بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے لئے حالات کس قدر سازگار ہیں، مولانا صاحب کہا کرتے ہیں کہ دعوت کا شور مچانے والا ایک شخص ایک طرح سے بے شعوری میں انسانی ہمدردی میں چلتی گاڑی سے کود پڑنے والے ایک چودھری کا ہاتھ پکڑ کر سیٹ پر بٹھا لیتا ہے تو یہ چھوٹاساہمدردی کا عمل سیکڑوں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ہے اس سے زیادہ دعوت کے لئے ساز گار حالات ہونے کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔

سوال  :  واقعی بڑی سچی بات ہے، بہت بہت شکریہ ! آپ نے بڑے کام کی بات بتائی اور ان سے قارئین ارمغان کو انشاء اللہ بڑا فائدہ ہو گا، السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب  :  شکریہ ! آپ کا کہ آپ نے مجھے اس کار خیر میں شریک کیا، وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

فی امان اللہ۔

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، مئی  ۲۰۰۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 توحید بھائی {دھرمیندر} سے ایک ملاقات

 

 

احمد اواہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

توحید    :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :   توحید بھائی مجھے آپ سے ارمغان کے لئے ایک انٹرویو لینا ہے ؟

جواب  :  ہاں احمد بھائی، ابی جی کہہ رہے تھے کہ احمد تم سے کچھ باتیں کریں گے، انھوں نے مجھے کل اسی لئے سفر کرنے سے منع کیا تھا، میں بھی رک گیا کہ ارمغان کی دعوتی تحریک میں مجھ نا اہل کا بھی کام کے لئے نام آ جائے، کیا عجب ہے اللہ مجھ سے بس اتنی بات سے ہی راضی ہو جائے۔

سوال  :   آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

جواب  :  میں مدھیہ پردیش کے سیہور ضلع کے ایک ورما خاندان میں اب سے بائیس سال پہلے پیدا ہوا میرا نام گھر والوں نے دھر مندر رکھا میرے والد بہت متعصب ہندو ہیں میرے خاندان کے لوگ بجرنگ دل، شیوسینا اور سناتن دھرم اکھاڑے کے ذمہ دار ہیں، میرے تین بھائی ایک بہن اور ہیں، میں نے اپنے یہاں اسکول کی تعلیم حاصل کی، اسکے بعد منڈی دیپ بھوپال میں ایک فیکٹری میں ملازمت کر لی وہاں میرے کئی نوجوان ساتھی شیوسینا میں تھے مجھے ورزش وغیرہ کا شوق تھا اس لئے میرے دوستوں نے مجھ کو کوشش کر کے بھوپال شیو سینا میں شامل کرایا، میں شیوسینا کا بہت فعال ممبر تھا ہر پروگرام میں شامل ہوتا اور مسلمانوں سے نفرت اور ان کو تکلیف پہنچانے کے کئی پروگراموں میں، میں نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

سوال  :   اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بتایئے ؟

جواب  :  پیارے نبیﷺ کی ایک حدیث میں نے سنی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ دن رات میں ایک گھڑی اللہ کے یہاں ایسی مقبول آتی ہے کہ آدمی کی زبان سے نکلی بات قبول و پوری ہو جاتی ہے میرا ایمان اس حدیث پاک کی تصدیق ہے، میں اسکول میں پڑھتا تھا تو میری دوستی دو مسلم لڑکوں سے ہو گئی، دونوں بھائی تھے ان کا نام شہزاد اور آزاد تھا، میں ان کے ساتھ کھیلتا، ان کے گھر جاتا اور ان کے ساتھ کھانا کھاتا، گوشت بھی کھانے لگا تھا اکثر جب میں ان کے گھر کھانا کھاتا تو ہم تینوں ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے، ان کے کھیت بھی ہمارے کھیت کے ساتھ تھے شہزاد کے والد نے ایک بار ہمارے کھیت کی مینڈ ھ کاٹ دی اس پر میرے والد اور ان کی لڑائی ہوئی، بات بہت بڑھنے لگی، تو شہزاد کی امی نکل آئیں اور میرے والد اور شہزاد کے والد کو کہنے لگیں، آپ لوگ  بڑے ہو کر آپس میں لڑتے ہیں اور یہ بچے آپس میں اتنی محبت کرتے ہیں، آپ کا بیٹا اور ہمارے بیٹے ایک تھالی میں کھانا کھاتے ہیں اور ایک گلاس میں پانی پیتے ہیں، یہ سن کر میرے والد اس وقت تو گھر آ گئے مگر آ کر مجھے بہت مارا اور کہا تو تو اَدھرم ہو گیا، گؤ کا مانس کھاتا ہے، مجھے گالیاں دیں اور کہنے لگے تیرا منھ تو ناپاک ہو گیا ہے اس کو پاک کرنے کے  لئے اس کو آگ سے جلانا پڑے گا، مجھے بھی غصہ آ گیا، چھوٹا تو تھا ہی میں نے کہا آپ مجھے وہاں جانے سے روک نہیں سکتے وہ مجھے اور مارنے لگے تو میں نے کہا کہ میں گھر سے بھاگ کر مسلمان بن جاؤں گا، سچی بات یہ ہے، مجھے تو لگتا ہے کہ میرے اللہ نے میری زبان سے نکلی بات قبول کر لی اور مجھے دھر مندر سے توحید بنا دیا۔

سوال  :   تم نے کس طرح کلمہ پڑھا، ذرا تفصیل سے سنائیے ؟

جواب  :  میر ے والد کو میرا مسلمانوں سے دوستی کرنا بہت برا لگا اور انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذہن بنانے کی فکر شروع کی، مغل بادشاہوں اور محمود غزنوی وغیرہ کے مظالم کا ذکر کر کے روزانہ رات کو مجھے پڑھاتے، میرے ذہن میں بھی مسلمانوں سے نفرت ہونا شروع ہو گئی اور یہ نفرت ہی میرے شیوسینا کا ممبر بننے کا ذریعہ بنی، مگر میرے دل میں اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلم معاشرت سے بڑی مناسبت ہو گئی تھی اس لئے اس نفرت کے باوجود کوئی نہ کوئی دوست مسلمان ضرور رہا، بھوپال میں میری کمپنی میں ایک لڑکا وسیم نام کا تھامیں اس کے ساتھ ڈیوٹی چھوڑ کر اس کے گھر جاتا، رمضان آئے تو وہ روزے رکھتا اور مجھے شام کو افطار میں شریک کرتا اور میری بڑی خاطرمدارات کرتا، اس کے پاس جماعت کے لوگ آتے تو وہ مجھے چھوڑ کر ان کے پاس چلا جاتا میں بھی دور سے جماعت والوں کی بات سنتا، کبھی کبھی میں بے اختیار ان کے پاس کھڑا ہو جاتا اور میں رومال باندھ کر ان کی باتیں سنتاوہ صرف مرنے کے بعد کی باتیں کرتے اور اللہ کے سامنے کھڑا ہونا، جنت، دوزخ کا ذکر کرتے، میرے دل کو یہ بات بہت بھلی اور سچی لگتی، اس فیکٹری سے کسی مجبوری کی وجہ سے نوکری چھوڑنا پڑی، تو دوسری فیکٹری میں نوکری کر لی، اتفاق سے وہاں بھی جاوید نام کا ایک لڑکا میرا دوست بن گیا وہ بھی مجھے افطار پر لے جاتا افطار کے بعد وہ نماز پڑھتا میں دور سے نماز پڑھتے دیکھتا رہتا ایک روز جاوید نے مجھ سے کہا، بھورا بھائی مرنا تو تمہیں بھی ہے، تم کو بھی نماز پڑھنا چاہئے تم مسلمان ہو جاؤ، میں نے کہا تم مجھے کھانا اس لئے کھلاتے ہو کہ لالچ دے کر مسلمان کرو، وہ کہنے لگا میں تو محبت اور سچی ہمدردی کی بات کہتا ہوں، اتفاق سے میری طبیعت خراب ہو گئی چند روز کی چھٹی لی اور چھٹی لمبی ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں سے نوکری چھوڑنا پڑی، اس فیکٹری میں ایک گیتا نام کی لڑکی بھی کام کرتی تھی میں نے اس کو بڑی بہن بنا لیا اور ان کو  گیتا دیدی کہتا تھا، میری کمپنی کے پہلے سپر وائزر بھوپال چھوڑ کر نوئیڈا میں نوکری کر نے لگے تھے انھوں نے مجھے فون کیا اور میں نوئیڈا آ گیا میں نے گھومنے کے لئے گیتا دیدی کو نوئیڈا بلایا، ان کو دیکھ کر میری کمپنی کا مالک مجھ سے ناراض ہو گیا کہ یہ لڑکا تو بدمعاش ہے لڑکیوں کو بلا کر رکھتا ہے اور اس نے مجھے نوکری سے ہٹا دیا، میں نے گیتا دیدی سے کہا کہ جاوید مجھے مسلمان ہونے کو کہتا ہے، انہوں نے کہا وہ بہت اچھی بات کہتا ہے، اسلام ہی سچا دھرم ہے ہمارے پڑوس میں ایک میاں جی ر ہتے ہیں ان کی دو لڑکیاں مجھے مرنے کے بعد کے حالات سناتی تھیں، ان کے یہاں اردو کی ایک میگزین ’ارمغان ‘ آتی ہے، اس میں ایسے لوگوں کے انٹر ویو آتے ہیں جو پہلے دوسرے مذہب کے تھے اور اب مسلمان ہو گئے تو ضرور مسلمان ہو جا اور جب تو مسلمان ہو جائے تو مجھے بھی ضرور بلا لینا  دیکھ اپنی دیدی کو ضرور یاد رکھنا، دہلی گھما کر میں گیتا دیدی کو تو چھوڑ آیا مگر ان کے کہنے سے میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ مجھے مسلمان ہونا ہے، میں نے ایک دوسری فیکٹری میں ملازمت کر لی وہاں شریف نام کا ایک لڑکا رہتا تھا، میں نے اس سے کہا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں تو مجھے مسلمان کر وا دے انہوں نے کہا کہ تم مسجد کے امام صاحب کے پاس چلے جانا وہ تمہیں مسلمان بنا لیں گے، میں مسجد گیا بہت سارے مسلمان و ہاں وضو کر رہے تھے، میں باہر ہی سے کھڑا دیکھتا رہا اس ڈر سے کہ لڑائی نہ کریں باہر بیٹھا سگریٹ پیتا رہا اور پانچ بجے سے آٹھ بجے تک مسجد کے باہر بیٹھ کر واپس آ گیا، مگر مسجد میں جانے کی ہمت نہ ہوئی، وہاں بیٹھنے کے بعد مسلمان ہونے کی بے چینی میری بہت بڑھ گئی، دوسرے روز دن چھپنے کے بعد میں پھر مسجد گیا تو لوگوں نے بتا یا کہ امام صاحب مارکیٹ گئے ہیں، میں انتظار کر تا رہا، آٹھ بجے وہ آئے مجھے دیکھ کر بولے میں مریضوں کو صبح دس سے بارہ بجے تک دیکھتا ہوں اس کے بعد تعویذ نہیں دیتا، میں نے کہا مجھے یہ علاج نہیں چاہئے، میں دوسرے مرض کا مریض ہوں، میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں اگر کوئی آدمی آپ کے دھرم میں آنا چاہے تو آپ کو کوئی مشکل تو نہیں، انہوں نے کہا ہمیں تو کوئی مشکل نہیں میں نے کہا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں انہوں نے میرا نام پتہ مکان نمبر و فون نمبر وغیرہ لکھا اور جمعرات کو دوبارہ بلایا میں جمعرات کو گیا تو بولے کل جمعہ کو آنا میں جمعہ کو گیا تو وہاں جماعت کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی انہوں نے مجھ سے معلوم کیا تم مسلمان کیوں ہونا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا ویسے ہی وہ بولے ایک درخت پر بہت سی چڑیاں بیٹھی تھیں ایک آدمی آیا اس نے پتھر اٹھا کر مارا کچھ چڑیاں مر گئیں کچھ ا ڑ گئیں کچھ بیٹھی رہ گئیں کسی نے پوچھا تم نے پتھر کیوں مارا تو بولا ویسے ہی تم بھی ویسے ہی مسلمان ہو رہے ہو، مجھے اس طرح ان کا بات کرنا بہت برا لگا میں  میں نے نوئیڈا میں لوگوں سے معلوم کیا کہ ہمارے قریب میں دہلی میں سب سے زیادہ مسلمان کہاں رہتے ہیں لوگوں نے کہا اوکھلا میں، میں نے سوچا میں اوکھلا جا کر مسلمان ہو جاؤں اتفاق سے جمعہ کے دن اوکھلا کی جماعت آ گئی، مجھے شریف نے بلوایا اور جماعت والوں سے بتا یا کہ یہ لڑکا مسلمان ہو گیا ہے، جماعت والوں نے مجھ سے کہا اوکھلا کی جماعت چالیس دن کے لئے جانے وا لی ہے آپ اس میں وقت لگا دو، میں تیار ہو گیا تین روز کے بعد میں جماعت میں نکل گیا، خرچ کے لئے میں نے گھڑی اور سو نے کی انگوٹھی بیچی، پانی پت، سو نی پت میں ہمارا وقت لگا مجھے فون کا بہت شوق تھا کبھی، بھوپال، کبھی سیہور فون کرتا کبھی نوئیڈا فون کرتا تھا، میرے ساتھیوں کو مجھ پر شک ہو گیا مجھ سے الگ مشورہ ہو گیا اس لڑکے کو واپس بھیج دو یہ سی آئی ڈی کا آدمی ہے جماعت میں ایک صاحب تھے وہ ابی (مولانا کلیم صاحب ) سے بیعت تھے انھوں نے کہا کہ یہ سی آئی ڈی کاہے تو کیا ہے، ہم کوئی چوری ڈاکہ تو کر نہیں رہے ہیں لیکن جماعت والے نہیں مانے انھوں نے مولانا صاحب (مولانا کلیم صدیقی) کو فون کیا اور میری ساری بات سنا دی، مولانا نے صرف فون پر سن کر ان سے یہ بات کہی کہ تم اس لڑکے کو اپنے ساتھ میں چالیس دن لگواؤ اگر اس سے کوئی خطرہ ہو گیا تو ذمہ دار میں ہوں گا، آپ اس کو میرا بیٹا سمجھ کر ساتھ رکھو ہر نقصان کا ذمہ دار میں ہوں، مجھ سے بھی مولانا صاحب نے بڑی محبت سے بات کی اور کہا جماعت سے آ کر آپ مجھ سے ملنا اور امیر صاحب سے بھی کہا یہ میرا بیٹا ہے ہر نقصان اور خطرہ کا میں ذمہ دار ہوں اس لئے انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں جماعت سے واپس جا کر حضرت مولانا سے بیعت ہو جاؤں پانی پت میں حضرت کے یہاں ایک مفتی صاحب (مفتی شرافت صاحب) سے ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے بڑی تسلی دی اور مبارک باد دی۔

جماعت سے واپس آ کر میں نوئیڈا آ گیا اور مولانا صاحب کو بار بار فون کرتا رہا ایک مہینہ تک مولانا سے ملاقات نہ ہو سکی جب فون کرتا تو معلوم ہوتا کہ سفرمیں ہیں ایک روز مولانا صاحب نے بتایا کہ صبح نو بجے تک میں انشاء اللہ دہلی پہنچوں گا آپ مسجد خلیل اللہ آ جائیں، میں آٹھ بجے خلیل اللہ مسجد پہنچا، مولانا راستہ میں جام میں پھنس گئے اور گیارہ بجے تک نہیں آئے، مسجد خلیل اللہ میں میرے ایک جماعت کے ساتھی بھائی یوسف ملے انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حکیم محمود اجمیری کے پاس جا کر بیعت ہو جاؤں وہ مجھے لے کر ان کے پاس گئے انھوں نے گھر سے آ کر مصافحہ ملایا اور بولے میں تو ایک بجے کے بعد ملاقات کر سکتا ہوں، مجھے افسوس بھی ہوا مگر بیعت کے شوق میں جا کر مسجد میں انتظار کرنے لگا اتفاق سے ساڑھے گیارہ بجے مولانا صاحب آ گئے بہت پیارسے گلے لگایا، دیر ہونے اور اتنے دنوں ملاقات نہ ہونے کے سلسلہ میں بہت معافی مانگی، مجھ سے معلوم کیا کہ تم کتنے دن پہلے مسلمان ہوئے ہو، میں نے کہا مجھے کسی نے مسلمان نہیں کیا مولانا صاحب نے کہا کلمہ پڑھے بغیر سارے اعمال بے کار ہیں موت کا کچھ پتہ نہیں پہلے آپ کلمہ پڑھ لو مجھے کلمہ پڑھوایا اور کہا کوئی نام پسند ہو تو بدل دو میں نے کہا میں نے شرک سے توبہ کی ہے اس لئے میں اپنا نام بھی توحید رکھنا چاہتا ہوں، مولانا صاحب نے یہ نام بہت پسند کیا مجھے ’’آپ کی امانت‘‘ کتاب منگا کر دی اور میرے اصرار پر مجھے بیعت بھی کر لیا۔

سوال  :   اس کے بعد کیا ہوا؟

جواب  :  اگلے روز ہمارے ضلع کے کچھ لو گ مولانا صاحب سے ملنے آ گئے انھوں نے حضرت سے کہا کہ توحید کو ہم لے جاتے ہیں یہ گھر والوں پر کام کرے گا مولانا صاحب نے مجھے ان کے ساتھ بھیج دیا میں بھوپال میں تھا کہ میرے گاؤں کے کچھ لوگوں نے مجھے دیکھ لیا انھوں نے بتایا کہ گاؤں کے لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ تو مسلمان ہو گیا ہے ہمیں وہاں فساد کا خطرہ ہے، تمہیں یہاں ہرگز نہیں رہنا چاہئے، میں پھر پھلت آ گیا مولانا سے میں نے کہا کہ میں نے بیعت کی تھی سنت کی اتباع پر، مگر میری ایک سنت چھوٹ رہی ہے آپ میری ختنہ کرا دیں، مولانا صاحب نے کہا بہت اچھا ہے اگلے روز نائی کو بلایا اور بہت سارے لوگوں کی ایک ساتھ ختنہ ہو گئی  سب کی ختنہ جلد اچھی ہو گئی بس میری اور ایک لڑکے کی ختنہ پک گئی مجھے بخار ہو گیا بہت تکلیف رہی، میرے ساتھی مجھ سے معلوم بھی کرتے رہے، ایک دو لوگوں نے مجھے ڈرایا کہ ختنہ کے پکنے سے آدمی مر بھی جاتا ہے میں نے کہا کہ پیارے نبیﷺ کی سنت کے لئے میری جان بھی چلی جائے تو میری خوش قسمتی ہے، الحمد للہ میری طبیعت ٹھیک ہو گئی میں نے مولانا صاحب  سے درخواست کی کہ حضرت میں بیعت ہو گیا تھا مگر میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ سنت کی اتباع کا عہد تو کر رہا ہے مگر ایک سنت چھوٹ رہی ہے اب الحمد للہ وہ سنت بھی ادا ہو گئی، آپ مجھے دوبارہ بیعت فرما لیں حضرت نے مجھے دوبارہ بیعت کر لیا۔

سوال  :  آپ کی گیتا دیدی کا کیا ہوا ؟

جواب  :ان کے گھر والے ان کی شادی کرنا چاہتے تھے وہ کئی مسلمانوں کے پاس گئی کہ کوئی ان کو مسلمان کر لے اور ہندو دھرم سے نکلنے کے لئے مدد کرے مگر کوئی اس کے لئے تیار نہ ہوا، سب ڈرتے تھے ان کے گھر والوں نے ایک شرابی اور جواری لڑکے سے منگنی کر دی اور ساموہک وواہ سمیلن میں لے جانے کو کہا، انہوں نے مجھے فون کیا کہ میں آ کر اس سے پہلے ان کو لے جاؤں میں نے کہا اتوار کو میری چھٹی ہوتی ہے مگر ہفتہ کے دن ان کی شادی ہونی تھی وہ جمعہ کے روز دسیوں مسلمانوں کے پاس گئیں کہ وہ مسلمان بننا چاہتی ہے اور اگر آج مجھے مسلمان نہ بنایا گیا تو میرے گھر والے میر ی شادی کر دیں گے اور مجھے ہندو ہی رہنا پڑے گا، مگر کوئی آدمی ان کو مسلمان کرنے کے لئے تیار نہ ہوا مجبوراً انہوں نے رات کو سلفاز کی گولیاں کھالیں اور رات کو ان کا انتقال ہو گیا وہ یہ کہتی رہیں کہ میں ہندو سماج میں رہنے اور شادی کرنے سے زیادہ موت کو پسند کرتی ہوں میرے اللہ مجھے خود مسلمان کر لیں گے، میں اتوار کو بھوپال پہنچا تو مجھے حادثہ کا علم ہوا آج تک میں اس ظلم کو بھلا نہیں سکتا، میں نے دو پیسہ کی نوکری کے لئے کتنا ظلم کیا، میرے اللہ مجھے معاف کرنا۔

سوال  :  اس کے بعد آپ کہاں رہے ؟

جواب  : مجھے حضرت نے کالا آنب (ہریانہ) بھیج دیا، وہاں ایک فیکٹری میں ملازمت کی تلاش میں گیا، انہوں نے میرے حالات معلوم کر کے نوکری دینے کا تو وعدہ کیا مگر شرط لگائی کہ تمہیں داڑھی کٹوانا پڑے گی، میں نے کہا نوکری تو کیا چیز ہے میں جان کے لئے بھی داڑھی نہیں کٹواسکتا، میں سر تو کٹواسکتا ہوں مگر داڑھی نہیں کٹواسکتا، مجھے فاقے منظور ہیں مگر نبی ﷺ کی سنت چھوڑنا منظور نہیں، ایک دوسری فیکٹری میں، میں نے آدھی تنخواہ پر ملازمت کر لی میرے اللہ نے میرے ساتھ کرم کیا میرے کام کو دیکھ کر کمپنی مالک نے میرا پر موشن کر دیا اور سپر وائزر  بنا لیا میرے ساتھی مجھ سے جلنے لگے ایک روز مجھے فیکٹر ی میں پانچ روپئے پڑے ہوئے ملے میں نے جماعت میں سنا تھا کہ ہر پڑی چیز یا تو اٹھانی نہیں چاہئے اگر اٹھا لی ہے تو ذمہ داری ہے کہ چھتیس سال تک اعلان کر تا رہے میں نے ایک گتے میں اعلان لکھ کر فیکٹری کے دروازے پر لگا دیا، میرے ساتھیوں نے منیجر کو بھڑکا دیا مجھے مجبوراً ملازمت چھوڑنی پڑی۔

سوال  :  اسلام میں آنے کے بعد آپ کو کیسا لگتا ہے ؟

جواب  :  اسلام کی ہر چیز سے مجھے عشق ہے مجھے اپنے مسلمان ہو نے پر ناز ہے اور اپنی پیارے نبیﷺ کی سنت مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے میں نے بال بڑھا کر پٹھے رکھے ہیں، میں جب آئینہ دیکھتا ہوں تو مجھے نبی کی سنت کی وجہ سے اپنے پر بہت پیا ر آتا ہے میں کپڑے سلوانے گیا، درزی نے معلوم کیا جیب کدھر لگواؤں ایک حافظ صاحب میرے ساتھ تھے، میں نے ان سے معلوم کیا جیب کدھر لگانا سنت ہے انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں میں نے کہا ابھی کپڑے مت سینا مجھے جب تک معلوم نہ ہو جائے کہ میرے نبی ﷺ جیب کدھر لگواتے تھے میں ہرگز کپڑے نہیں سلواؤں گا، میں نے مولانا صاحب کو فون کیا انھوں نے جواب دیا تحقیق کر کے بتاؤں گا پھر وہ عمرہ کو چلے گئے میں کچھ روز کے بعد سعودی عرب فون کیا حضرت مولانا نے وہاں بہت سی دعا کی حضرت مولانا نے وہاں پہنچ کر عالموں سے معلوم کیا مگر اطمینان نہیں ہو سکا، میں نے آج تک نئے کپڑے نہیں سلوائے اور انشاء اللہ جب تک معلوم نہ ہو جائے میرے نبی ﷺ جیب کہاں لگواتے تھے ہرگز ہرگز کپڑے نہیں سلواؤں گا۔

سوال  :  آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد کوئی دعوتی کام بھی کیا؟

جواب  :  الحمدللہ ثم الحمدللہ، بھلا حضرت مولانا سے جڑنے کے بعد یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دعوت کا کام نہ کریں  الحمدللہ ایک سال میں بہت سے فیکٹری کے ساتھیوں کو میں نے دعوت دی اور وہ مسلمان ہوئے آج بھی ایک سفر پر جا رہا ہوں پانچ لوگ جھنجھا نہ کے قریب الگ الگ گاؤں کے بالکل قریب ہیں، انشاء اللہ پرسوں تک ان کو کلمہ پڑھوا کر لے کر آؤں گا، ہدایت تو اللہ کے فیصلے میں ہے مگر کوشش پر اللہ نوازتے ہیں۔

سوال  :   ارمغان کے لئے کوئی پیغام آپ دیں گے ؟

جواب  : بس اس سے زیادہ پیغام کیا ہو سکتا ہے کہ اسلام کے دشمن خاندان کے ایک انسان کو جب اللہ تعالی سنت سے ایسی محبت دے سکتے ہیں تو بھولے بھالے انسان جو دنیا میں زیادہ ہیں اگر ان کو اسلام سمجھایا جائے تو پھر وہ کیسے نبی ﷺ کے چاہنے والے نہیں بن سکتے، ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔

سوال  :   بہت شکریہ  !  توحید بھائی۔

جواب  :  آپ کا بھی شکریہ ! احمد بھائی

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، ڈسمبر  ۲۰۰۶ء

٭٭٭

 

 

عبد اللہ کٹکی {سنجیو پٹنائک} سے ایک ملاقات

 

احمد اواہ     :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبداللہ کٹکی  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

سوال  :   عبداللہ بھائی میرا نام احمد ہے، مولانا کلیم صاحب کا بیٹا ہوں، کل ابی نے مجھے آپ کا پتہ دیا تھا، آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟

جواب  :  ہاں احمد بھائی میں آپ کو جانتا ہوں، پھلت میں ایک ماہ کے قریب رہا ہوں، میری طبیعت الحمدللہ اب ٹھیک ہے۔

سوال  :   ابی نے مجھے کہا تھا کہ آپ سے ’’ ارمغان ‘‘ کے لئے انٹرویو لوں ؟

جواب  :  ضرور بھیا، مجھ سے مولانا صاحب کہہ رہے تھے کہ میں احمد کو بھیجوں گا، آپ کو اپنی زندگی کی کہانی ان کو سنانی ہے۔

سوال  :    ذرا آپ اپنا انٹروڈکشن (تعارف) کرا لیں ؟

جواب  : میرا پرانا نام سنجیو پٹنائک تھا، میں کٹک اڑیسہ میں ایک تعلیم یافتہ گھرانہ میں ۹/جنوری  ۱۹۶۷ء کو پیدا ہوا، میرے پتاجی (والد صاحب ) ایک انٹر کالج میں لکچرر تھے، ہمارے والد صاحب کا اچانک ہارٹ فیل ہو کر انتقال ہو گیا، اس لئے مجھے مجبوراً بی ایس سی کے بعد تعلیم روکنی پڑی۔

سوال  :  اپنے قبول اسلام کا واقعہ بتایئے ؟

جواب  : والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ اور بہن کی ذمہ داری میرے سر پر تھی، بہن کی منگنی والد صاحب نے کر دی تھی میں نے قرض لے کر کسی طرح اس کی شادی کر دی، دو سال تک والد صاحب کے اسکول میں، میں جونیر سیکشن میں پڑھاتا تھا، مگر اسکول کے پرنسپل سے میری اَن بن رہتی تھی اور مجبوراً مجھے ملازمت چھوڑنی پڑی، اس کے بعد دو چار جگہ تھوڑے تھوڑے وقت کے لئے میں کام کرتا رہا مگر قرض ادا نہ ہو سکا اور مسلسل مجھ پر دباؤ بڑھتا رہا، چھ سال تک میں روزگار کے لئے پریشان رہا، سوسائڈ (خودکشی )کرنے کا ارادہ کیا اور ایک بڑی ندی کے پل پر چڑھا کہ ڈوب کر مر جاؤں، میں پل پر چڑھ رہا تھا کہ ایک مولانا صاحب وہاں آ گئے، انہوں نے سردی میں مجھے پل پر چڑھتے دیکھا موٹر سائیکل روکی اور میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے کھینچا اور مجھ سے پل پر چڑھنے کی وجہ معلوم کی میں نے اپنا ارادہ بتایا، مولانا صاحب نے مجھ سے کہاں میری بات پہلے سن پھر جو چاہے کر لینا انہوں نے مجھے بتایا کہ ندی میں چھلانگ لگا کر ضروری نہیں کہ تم مر جاؤ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی طرح بچ جاؤ اور پانی پھیپھڑوں میں بھر جانے کی وجہ سے بیماری کے ساتھ تمہیں کب تک جینا پڑے اور اگر تمہاری موت ڈوب کر مر جانے میں لکھی ہے تو بھی اس موت کے بعد ایک زندگی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں، تمہارے مالک نے یہ زندگی اور جان امانت بنا کر دی ہیں، جس کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے اگر تم نے اس کی حفاظت کرنے کے بجائے خودکشی کر لی تو قیامت (پر لوک)تک تمہیں یہ سزا دی جائے گی کہ تمہیں بار بار ڈوب کر مرنا پڑے گا، اس لئے اچھا ہے کہ مرنے سے پہلے مرنے کے بعد کی سدا رہنے والی زندگی کی فکر کرو، میں نے ان سے سوال کیا کہ مرنے کے بعد تو سب گل سڑجاتے ہیں مولانا صاحب بہت محبت کے ساتھ مثالیں دے کر مجھے سمجھاتے رہے، بیچ بیچ میں قرآن مجید کی آیتیں پڑھتے جاتے تھے، جن کا میرے دل پر بہت اثر ہوا میں نے ان سے مرنے کے بعد کی زندگی کو کامیاب بنانے کے طریقہ کے بارے میں معلوم کیا تو انھوں نے مجھے مسلمان ہونے کو کہا اور مجھے مشورہ دیا کہ آپ ہمارے پیر صاحب کے یہاں یوپی چلے جاؤ، انھوں نے مجھے اطمینان دلایا کہ آپ کو وہاں جا کر کچھ ملے نہ ملے شانتی تو ضرور ملے گی، میں نے ان سے اپنے قرض کے بارے میں بتایا اور بتایا کہ اتنی دور جانے کا کرایہ میرے پاس نہیں ہے، وہ مجھے موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھر لائے اور مجھے ایک خط لکھ کر دیا اور ۵۰۰ /روپے بھی مجھے دیئے۔

میں ماں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میری نوکری دلی لگ رہی ہے، ماں نے خوشی سے مجھے اجازت دے دی میں ٹرین میں سوار ہو کر دلی پہنچا یہاں سے دوسری ٹرین میں کھتولی پہنچا اور پھر پھلت، مولانا صاحب سفر پر گئے تھے اتفاق سے مولانا صاحب کے ایک مرید مولانا عقیق کٹکی صاحب آئے ہوئے تھے، میری ان سے ملاقات ہو گئی مجھے ہندی بولنا نہیں آتی تھی ان کے ملنے سے میری جان میں جان آ گئی، انہوں نے میری پوری کہانی سنی اور مجھے مبارک باد دی کہ آپ نے بہت مناسب فیصلہ کیا ہے حضرت کل آ جائیں گے اور حضرت مولانا صاحب کی بہت تعریف کی، اگلے روز چار بجے وہ سفر سے واپس آ گئے، ملاقات ہوئی، مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور میرا نام عبد اللہ رکھا مجھے صرف اُڑیا اور انگریزی زبان آتی تھی، میں نے انگریزی میں مولانا صاحب سے درخواست کی کہ مجھے یہیں رہنا ہے اور مجھے روز گار بھی چاہئے، مولانا صاحب نے مجھے مولانا عقیق صاحب کے ساتھ جسولہ گاؤں میں رہنے کے لئے بھیج دیا کہ آپ وہاں رہ کر کچھ دن ہندی اور اردو بولنا سیکھ لیں اور کچھ دین بھی سیکھ لیں، میں ایک باہر کے سفر پر جا رہا ہوں وہاں سے واپسی پر کسی اسکول میں آپ کی ملازمت لگو ا دیں گے، میں اگلے روز صبح کو مولانا عقیق صاحب کے ساتھ جسولہ گاؤں چلا گیا، وہاں پر میں نے قاعدہ پڑھنا شروع کیا، غسل وضو کا طریقہ سیکھا نماز سیکھنی شروع کی، مولانا عقیق صاحب نے پاکی اور بہت سی بیماریوں سے بچنے کے لئے ختنہ کرانے کا مشورہ دیا، میرے خیال میں خود اصل مسلمانی ختنہ ہی تھی اس لئے میں نے بھی خود ختنہ کرانے پر زور دیا، نائی کو بلایا میں نے ختنہ کرا لیا اور مجھے اطمینان ہوا آج میں پکا مسلمان ہوا ہوں۔

سوال  :   آپ نے کھتولی تھا نے ابی کے خلاف ایک رپورٹ کرائی تھی، اس کی وجہ کیا تھی ؟

جواب  :   احمد بھائی میری کم ظرفی تھی، شاید کتا بھی اتنی کم ظرفی اور کمینے پن کی حرکت نہ کرتا، میری آپ کے ابی سے صرف چند گھنٹوں کی ملاقات تھی، بلکہ اس میں بھی مصروفیت کی وجہ سے بیس پچیں منٹ سے زیادہ میری بات نہیں ہوئی، مگر ان بیس پچیس منٹ میں مجھے محسو س ہوا کہ یہ آدمی اس کل یگ کا نہیں، یہ تو پوری انسانیت کے درد میں کڑھنے والا کسی پرانے زمانے کاآدمی ہے جس کی زبان میں ہر دکھے دل کے لئے مر ہم ہے، میں سالوں کا مایوس جیسے دوبارہ جنم لے کر پیدا ہواہوں، اصل میں میرے مزاج میں غصہ تو پیدائشی تھا مگر اتنی لمبی مایوسی کی زندگی نے مجھے حد درجہ چڑچڑ ابنا دیا تھا، مولانا صاحب ایک لمبے سفر پر دو بئی اور عمرے کے لئے چلے گئے، میں جسولہ میں رہ رہا تھا، وہاں بھی میری باربار استادوں سے لڑائی ہوتی، مگر مولوی عقیق صاحب مجھے سمجھا دیتے، اتفاق سے مولوی عقیق کی والدہ بہت بیمار ہو گئیں اور ان کو اڑیسہ جانا پڑا، میں نے بھی اپنی ماں کی خبر لینے کو ان سے کہا، وہ مجھے لڑائی کے ڈرسے پھلت چھوڑ گئے، میں وہاں خانقاہ میں رہتا تھا، ماسٹر اسلام صاحب جو خود ایک نو مسلم تھے ذمہ دار تھے میری وہاں مہمان سے بار بار لڑائی ہوتی رہی، ماسٹر صاحب سمجھاتے رہے، بہت عاجز آ کر لڑائی سے بچانے کے لئے میرے لئے انہوں نے مسجد کے حجرے میں رہنے کا انتظام کر دیا، وہاں پر موذن صاحب سے بھی میری لڑائی ہوتی رہی ایک روز میں نے مؤ ذن صاحب کو بہت گالیاں دیں ماسٹر اسلام صاحب نے مجھے بہت ڈانٹا کہ روز روز کی لڑائی ہم کب تک برداشت کرتے رہیں گے، مجھے غصہ آ گیا اور ماسٹر صاحب کو گالیاں بکنے لگا اور ان کا گر یبان پکڑ لیا ان کو بھی غصہ آتا تھا، انھوں نے دو چانٹے زور زور سے میرے کو لگا دئے بس کیا تھا میں آپے سے باہر ہو گیا اپنا سامان اٹھایا اور سیدھا کھتولی تھانہ پہنچا اور تھانے جا کر رپورٹ لکھوائی کہ مولانا کلیم صاحب مجھے دلی سے گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر زبردستی لائے، مجھے مار مار کر کلمہ پڑھوایا اور مسلمان کیا، باندھ کر میرا ختنہ کروایا اور خود تو عرب کے سفر پر چلے گئے اور دو پہلوانوں اسلام اور عبداللہ کو میرے اوپر چھوڑ گئے جو مجھے مار مار کر نماز پڑھواتے ہیں، میں کسی طرح ان کی قید سے چھوٹ کر آیا ہوں پولیس انسپکٹرمیری باتیں سن کر بہت ہنسا اور بولا بھلے مانس کچھ تو سچ بھی کہہ لے، آج کے زمانے میں ایسا ہو سکتا ہے ؟تو جوان آدمی ہے، بات بتا کیا ہے تو کس سے لڑ کر آیا ہے ؟ میں نے کہا آپ میری رپورٹ لکھیں ورنہ میں ایس پی کے یہاں جا کر لکھواؤں گا۔

سوال  :   آپ نے ابی کے خلاف رپورٹ لکھوائی، جب کہ آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کی ہمدردی سے آپ بہت متاثر ہوئے تھے ؟

جواب  :  احمد بھائی سچی بات یہ ہے کہ میرا ضمیر شاید موت تک اس کمینے پن کو معاف نہیں کر سکتا، مگر مجھ جیسے کتوں کے بھونکنے سے پریم و محبت کی گاڑی کب رکنے والی ہے، میں نے تھانے میں رپورٹ کرائی، رپورٹ کچے کاغذ پر لکھ لی گئی، تھانہ انچارج نے دو سپاہیوں کو پھلت مولانا صاحب کو بلانے بھیجا، مولانا صاحب باہر کے سفر پر گئے ہوئے تھے، مولانا صاحب کے بڑے بھائی وکیل صاحب ایک ڈاکٹر صاحب کو لے کر تھانے آئے، تھانہ میں ایک خطر ناک معاملہ زوروں پر تھا، چند دن  پہلے کچھ شیو سینکوں نے ایک گاؤں  کے ایک جنگل میں ایک ۱۵/سالہ مسلمان لڑکی سے بلاتکار (زنا) کر کے اس کو مار کر مٹی میں دبا دیا تھا مسلمانوں نے احتجاج کیا تو مایاوتی کے آرڈر سے ان لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا شیو سینک پورے علاقے کے اکٹھا ہو کر ان لوگوں کو رہا کرانے کے لئے دھرنا دے رہے تھے  ایسے گرم ماحول میں وکیل صاحب نے سوچا کہ کسی طرح اس معاملہ کو رفع دفع کرانا چاہئے، ایک بڑی رقم کا مطالبہ تھانے سے تھا، بڑی کہاسنی کے بعد کہ ہمیں خود کچھ نہیں چاہئے اس آدمی کو دینا ہے جس کے ساتھ ایسا جرم ہوا ہے، نو ہزار روپے میں معاملہ طئے ہو گیا، تھانیدار نے مجھے پانچ سوروپے کرایہ کے دیئے، میں نے زیادہ مانگے تو مجھے گالیاں دیں کہ جھوٹی رپورٹ لکھاتا ہے شرم نہیں آتی، میں تھا نے سے نکل کر بس میں بیٹھا، دہلی جا کر کٹک کا ٹکٹ لیا اور ٹرین سے گھر پہنچا میری ماں کا دیہانت ( انتقال ) ہو چکا تھا، لو گوں نے مجھے بتایا کہ وہ مولانا صاحب جو کلیم صاحب کے مرید تھے، انھوں نے میری ماں کا بہت علاج کرایا اور بہت خدمت کی اور وہ مسلمان ہو کر مریں اور مسلمانوں کے قبرستان میں ان کو دفن کیا گیا، میں ایک ایسے بدقسمت فقیر کی طرح جس کو خواب میں بادشاہت مل گئی ہو اور پھر اچانک آنکھ کھل جائے اور فقیر کا فقیر رہے، پھلت سے واپس لوٹا، ایک انجانا سا ڈر مجھے اندر ہی اندرمحسوس ہو رہا تھا کہ ایسے احسان اور ہمدردی کر نے والوں کے ساتھ اس کمینے پن کی سزا مجھے زندگی میں ضرور بھگتنی پڑے گی اتنے دنوں اسلام کی باتیں جاننے کے بعد مجھے ہندو بن کر جینے کو تو دل بالکل نہیں چاہتا تھا مگر میرا منھ بھی نہیں تھا کہ میں کسی مسلمان کے پاس جاؤں، ایک دو مہینہ میں کٹک میں گذ ارا کرتا رہا کبھی کچھ سوچتا کبھی کچھ، ایک روز ایک پنڈت جی سے ملاقات ہوئی، وہ بنارس کے ایک بڑے آشرم کے ذمہ دار تھے، میں نے یہ سوچ کر کہ یہ دھارمک آدمی ہیں اپنی پریشانی کا ذکر کیا انھوں نے مجھ سے بنارس ساتھ چلنے کے لئے کہا میں ان کے ساتھ بنارس آشرم میں چلا گیا، ایک سال میں وہاں رہا، مگر مجھے ہندو دھرم کی کوئی بات بھی بھاتی نہیں تھی۔

انہیں دنوں بنارس کے کئی آشرموں میں بم ملے، ہمارے آشرم میں بھی بم رکھے ملے پولیس نے سخت ایکشن لیا، خود مندروں میں رہنے والوں اور پجاریوں کی تحقیق و تفتیش ہوئی، نئے لوگوں میں مجھ پر پولیس کو شک ہوا، ہمارے پورے آشرم سے صرف مجھے، پولیس گاڑی میں بٹھا کر تھا نہ لے گئی، تھا نہ انچارج نے مجھ سے تفتیش شروع کی، تو ان کو مجھ پر اور بھی شک ہو گیا، کہنے لگے یہ لشکر طیبہ کا آدمی ہے، اس کی پینٹ ا تار کر دیکھو یہ مسلمان ہے، میری پینٹ اتاری گئی، میری ختنہ دیکھ کر ان کو یقین ہو گیا کہ یہی آتنگ وادی ہے، میں نے ان سے کہا کہ میری ختنہ زبردستی کرا دی گئی تھی اور کھتولی تھانہ میں ر پو رٹ بھی لکھی ہوئی ہے، تھانہ انچارج نے کھتولی رابطہ کیا کھتولی والوں نے بتا یا کہ ہمارے یہاں ایسی کوئی رپورٹ دو سالوں میں بھی نہیں لکھی ہوئی ہے، پھر کیا تھا میرے ساتھ سختی ہونے لگی، مجھ سے تفتیش کے بعد اور جرم کے ا قرار کے لئے جو بھی حیوانیت ہو سکتی تھی، کی گئی سخت ما ردی گئی میرے ناخن کھینچے گئے، حیوانیت کا کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو میں نے نہ سہا ہو، خیال ہوتا تھا کہ میں اب مر جاؤں گا وہ مجھ سے دہشت گردوں کا پتہ مانگتے تھے مگر میں کہتا کہ یہ میرا جرم نہیں ہے جس کی سزا تم مجھے دے رہے ہو، بلکہ میرا جرم یہ ہے کہ میں نے اپنے محسن کے ساتھ دغا کی، مگر ان ظالموں کو کہاں سمجھ میں آنے والا تھا، میرے فوٹو اخباروں میں چھپے کہ لشکر کا پرانا آتنک وادی پجاری کے بھیس میں ایک سال وکاس آشرم میں رہا، پورا پر شاسن حرکت میں تھا، سب کچھ کر نے کے بعد جب ان کو مجھ سے کچھ سراغ نہیں مل سکا تو مجھے ڈی آئی جی کے یہاں لے جایا گیا میرے پاؤں کی ہڈیوں میں فریکچر آ گئے تھے اس لئے مجھے لیٹا کر لے جا یا گیا، یہ ڈی آئی جی بریلی سے پرموشن ہو کر ڈی آئی جی بنے تھے، انھوں نے سارے پولیس والوں کو الگ کر کے محبت سے مجھ سے بات کی اور مجھے سچ بتا نے کو کہا، میں نے رو رو کر اپنی کہا نی ان کو بتا ئی اور بتا یا کہ یہ سب سزا مجھے اس گھناؤنے جرم کی مل رہی ہے کہ میں نے ایسے محسن کو دغا دی مولانا کلیم صاحب کو وہ جانتے تھے، وہ مولانا صاحب سے دہلی میں ملے تھے اور ان کی کتا ب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ پڑھ چکے تھے انھوں نے مجھے وہ منگوا کر دکھائی، ڈی آئی جی کو میرے سچ پر یقین آ گیا، انھوں نے مجھے بتایا کہ میں نے خود مولا نا صاحب کے ہاتھ چھ مہینے پہلے کلمہ پڑھا ہے، مگر ابھی میں نے اعلان نہیں کیا، واقعی تم نے بہت بری حرکت کی، انھوں نے مجھ سے کہا اب بھی اگر سکھی جیون چا ہتے ہو، تو مولانا صاحب کے پاس پھلت جاؤ میں تمہیں یہاں سے چھڑوا دیتا ہوں، شرط یہ ہے کہ تم اسلام پر جمے رہو، انھوں نے مجھے پولیس کی گاڑی میں بٹھا کر، بنارس کے ایک مدرسے میں بھیج دیا، مدرسے والوں نے مجھے رکھنے سے صاف منع کر دیا کہ جس شخص پر دہشت گردی کا الزام ہو ہم لوگ اسے نہیں رکھ سکتے لوگ مدرسوں کو اور بھی بد نام کریں گے، مجھے ایک سرکاری اسپتال میں بھرتی کر دیا گیا، میرے دونوں پاؤں پر پلاسٹر ہوا دو مہینے بعد میری ہڈیاں جڑ گئیں اور بیساکھیوں سے چلنے لگا مگر میری صحت بالکل خراب ہو گئی تھی سخت چوٹوں کی وجہ سے میرے گردے خراب ہو گئے تھے بنارس کے ایک حاجی صاحب نے ڈی آئی جی کے کہنے پر میرے علاج پر کافی رقم خرچ کی مگر میری صحت بحال نہ ہوئی، تو مجھے دہلی علاج کے لئے جانے کا مشورہ دیا گیا، آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے لئے مجھے ڈاکٹر نے پرچہ لکھ دیا کچھ رقم حاجی صاحب سے لے کر دہلی آیا دہلی آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ میں ایک ہفتہ چکر لگاتا رہا مگر میرا داخلہ نہ ہو سکا، مجبوراً میں صفدر جنگ اسپتال میں داخل ہو گیا، میں علاج سے بالکل مایوس ہو گیا تھا مجھے یہ خیال ہو تا تھا کہ کاش موت سے پہلے میں مولانا صاحب سے ایک بار ملاقات کر کے، ان کے قدموں میں پڑ کر ان سے معافی مانگ لوں، شاید موت کے بعد کی زندگی کے لئے رحمت کا ذریعہ بن جائے، مجھے بار بار ڈی آئی جی صاحب کی وہ بات یاد آ رہی تھی کہ اب بھی اگر سکھی جیون چاہتے ہو تو مولانا صاحب کے قدموں میں پھلت چلے جاؤ، مجھے یہ بھی خیال آ رہا تھا کہ اس محسن کی کیا بات ہے کہ، ایسے غدار کو اتنی مشکل سے نجات ملی، تو ڈی آئی جی سے ان کے رشتہ کی وجہ سے ورنہ نہ جانے کس طرح جیل میں سڑ کر مرتا مجھے مولانا صاحب کی بہت یاد آئی اور روز روز جیسے علاج سے مایوسی بڑھتی رہی یاد بڑھتی گئی کہ کاش کوئی صورت آخری ملاقات کی ہو جاتی۔

۹/مارچ کو اچانک میری عید ہو گئی، ۱۲/بجے کے قریب مو لانا صاحب اپنے کسی دوست ڈاکٹر صاحب سے ملنے صفدر جنگ پہنچے، وہ ڈاکٹر صاحب ہمارے وارڈ میں تھے میں نے دروازے سے مولانا کو آتے دیکھا تو میں گیٹ سے نہ جانے کس طاقت سے کود کر مولانا صاحب کے قدموں سے چمٹ گیا، مولانا صاحب شرو ع میں تو ڈر سے گئے مگر جب میں نے بتایا کہ میں آپ کا کمینہ نمک خوار احسان فراموش عبداللہ کٹک والا ہوں تو مولانا نے مجھے اٹھایا اور گلے لگایا اور معلوم کیا کہ یہ کیا حال ہو گیا، میں نے رو رو کر پوری کہانی سنائی، مولانا صاحب نے معلوم کیا اب اسلام پر ہو کہ نہیں، میں نے کہا اللہ تعالی نے حقیقی مسلمان تو اب بنایا ہے، اب بس آپ کے قدموں میں جان دینے کی آخری آرزو ہے مولانا صاحب میری حالت زار دیکھ کر بہت دکھی بھی ہوئے اور اس بات پر خوش بھی ہوئے کہ میں انہیں مل گیا، مولانا صاحب نے میری شرمندگی اور ندامت کو اور بھی بڑھا دیا کہ اتنی کم ظرفی کے باوجود بھی وہ اس کے لئے فکر مند تھے کہ کہیں میں ہندو ہو کر نہ مر جاؤں اور ہمیشہ کی دوزخ کا ایندھن بنوں، انھوں نے بتایا کہ حج و عمرہ کے سفر میں ہر موقع پر میرے لئے دعا کی کہ میرے اللہ ! میرے عبداللہ کو میرے یہاں بھیج دیجئے اور اسے اسلام پر موت نصیب فرمائیے، مولانا صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے تمہارے اسلام پر چلنے کے لئے روزوں کی نذر مانی، نفلوں اور صدقوں کی نذر مانی، نذر بڑھاتا رہا، اب تک چالیس روزے، سو رکعت نفل اور دس ہزار روپے صدقہ کی نذر میں تمہارے اسلام پر واپس آنے کے لئے کر چکا ہوں، میں یہ سن کر بلک گیا کہ ایسے احسان فراموش کے ساتھ ایسی ہمدردی، یا اللہ یہ کائنات ایسے لو گوں کی وجہ سے قائم ہے، میں مولانا صاحب کے قدموں میں بار بار چمٹتا تھا کہ خدا کے لئے اس کمینہ کو معاف کر دیں میری وجہ سے بھائی صاحب کو نو ہزار روپے تھانے میں بھی دینے پڑے، مولانا صاحب بار بار مجھے گلے لگاتے اور کہتے کہ ہمارے اسلام پر ملنے کے بعد مجھے کسی بات کا بھی احساس نہیں رہا اور وہ نو ہزار روپے تو اللہ نے مجھے واپس دلوا دیئے تھے میں نے کہا وہ کیسے احمد بھائی دیکھئے اللہ کے یہاں سچے انسانیت دوستوں اور ہمدردوں کی کیسی ناز برداری ہوتی ہے، مولانا صاحب نے بتایا کہ میں باہر کے سفر سے واپس آیا تو لوگوں نے میرا پورا واقعہ سنایا میں نے ساتھیوں سے کہا آپ لوگوں کو سمجھانا چاہئے تھا، نو ہزار روپئے کی تو ایسی بات نہیں ہے البتہ اگر وہ مرتد ہو گیا تو ایک آدمی کا ایمان سے چلے جا نا ساری دینا لٹ جانے سے زیادہ ہے مولانا صاحب نے بتا یا، مجھے یہ بھی خیال ہوا کہ اگر تھانہ میں رشوت کا سلسلہ چل گیا تو یہ خون پولیس والوں کے منھ لگ جائے گا، حسن اتفاق کے کچھ زمانہ پہلے مولانا صاحب نے حضرت مولانا رابع صاحب کا ایک پیام انسانیت کا دورہ علاقہ میں کرایا تھاجس میں میرٹھ، کھتولی، بجنور مظفر نگر میں پیام انسانیت کے زبردست جلسے ہوئے تھے، مظفر نگر کے جلسے میں ایس پی سٹی جناب اے کے جین بھی شریک ہوئے تھے، جو پیام انسانیت تحریک سے لکھنؤ پو سٹنگ کے زمانے سے واقف تھے، انھوں نے مظفر نگر میں میری تقریر سنی تو مجھ سے کہا کہ مولانا صاحب میں آپ کے اس فورم کا آجیون  ( تا حیات ) سیوک ہوں، مجھے آپ ممبر بنانے کے لئے لائف ممبر شپ کی فیس لے لیں اور رات دن میں دیش کے جس کونے میں جس سیوا کے لئے آپ مجھے بلائیں گے، میں حاضر رہوں گا، تھانوں کا چارج ایس پی سٹی کے ہاتھ میں ہوتا ہے، مولانا صاحب نے سنا یا کہ میں نے معلوم کرایا کہ جین صاحب ابھی مظفر نگر میں ہیں یا نہیں ؟ خدا کا کرنا کہ ابھی تک وہ ایس پی سٹی تھے، میں نے ان کو فون کیا کہ مجھے ضروری کام ہے، جین صاحب نے بڑی معذرت سے کہا کہ مجھے خود سیوا میں حاضر ہونا چاہئے تھا، مگر اس وقت ایک مسئلہ یہ ہے کہ کا وڑ چل رہے ہیں، اگست کے مہینے میں ہریدوار سے لوگ کاندھے پر کاوڑ میں جل لے کر اپنے اپنے مندروں پر چڑھا تے ہیں، بیسیوں لاکھ لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں، پورے علاقے کے راستے بند کر دئے جاتے ہیں اور پولیس پر انتظام کے لئے بڑا دباؤ ہوتا ہے اور آئی جی کی میٹنگ ہے اس لئے آپ ہی زحمت کریں مظفر نگر پہنچا بہت خوشی سے ملے، میں نے پورا واقعہ بتایا کہ روزگار سے پریشان خود کشی کرنے والے ایک گریجو یٹ کو ہمارے ایک دوست نے میرے پاس بھیجا تھا وہ ہندی نہیں جانتا تھا اس لئے میں اس کو اڑ یا جاننے والے دوست کے پاس چھوڑ  کر باہر چلا گیا، بعد میں کسی سے اس کی لڑائی ہو گئی اور اس نے جھوٹی رپورٹ لکھوائی اور تھانیدار نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھائی صاحب سے نو ہزار روپے لے لئے آپ اگر ہمیں دیش میں رہنے کا حق دار سمجھتے ہیں تو بتایئے ورنہ پھر ہمیں یہاں سے نکل جانے کے لئے کہیں جین صاحب نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمارے ہوتے ہوئے اگر آپ کے ساتھ ظلم ہو گا تو ہمارا جیون کس کام کا ؟ مگر آپ کو  کل مجھے آدھا گھنٹہ اور دینا پڑے گا کل دس بجے آپ میری کوٹھی پر آ جائیں اور بس ایک کپ چائے پی لیں میں آپ کا دل ٹھنڈا کر کے بھیجوں گا اور میں چائے بالکل ایک نمبر کی پلاؤں گا، مولانا صاحب نے بتا یا کہ میں اگلے روز جین صاحب کی کوٹھی پر پہنچا جین صاحب نے کھتولی کے تھانہ دار کو بلا رکھا تھا اور کوتوال کھتولی بھی موجود تھے، تھانہ دار کو بہت گالیاں دیں کہ تم دیوتاؤں کو نہیں پہچانتے، ان سے رشوت لے کر گل جاؤ گے، سارا دیش، دیش کو جلا رہا ہے، یہ بجھانے والے دیوتا ہیں ان کی مدد نہیں کر سکتے تو ان کے ساتھ ظلم تو نہ کرو، جین صاحب نے کہا بس آخری بات یہ ہے کہ کل تک تیری وردی مولانا صاحب کے ہاتھ میں ہے، اگر صبح سویرے مولانا صاحب کے چرنوں میں نو ہزار روپے رکھ کر چھما یاچنا  (معافی ) کرے گا اور مولانا صاحب معاف کریں گے، تو تیری وردی رہے گی ورنہ پلیٹ اتار کر یہاں جمع کر دینا۔

مولانا صاحب نے بتایا، میرے اللہ کا شکر ہے کہ وہ تھانیدار صبح پھلت آیا نو ہزار روپے میرے قدموں میں رکھ کے دیر تک معافی مانگتا رہا، میں نے اسے اٹھایا گلے لگایا اور کہا آپ اب میرے مہمان ہیں اس نے موبائیل جین صاحب کو ملا کر مجھے دیا کہ صاحب سے کہہ دیجئے میں نے معاف کر دیا، میں نے جین صاحب سے ان کو معاف کرنے کو کہا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور آج تک سوچتا ہوں کہ شاید ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہوا کہ داروغہ رشوت لے کر قدموں میں واپس لے کر آئے اور معافی مانگے، اس سے زیادہ میرے رب کے وَکَفیٰ بِاللّٰہِ حَسِیْباً  ’’ترجمہ: اور حساب کیلئے تو اللہ ہی کافی ہے‘‘کے داعی کیساتھ وعدہ کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔

سوال  :  پھر اسکے بعد کیا ہوا ؟

جواب  : مولانا صاحب نے مجھے ساتھ لے کر صفدر جنگ سے چھٹی کرائی اور اپنے  جاننے  والے  ایک ڈاکٹر صاحب کو آل انڈیا میڈیکل میں فون کیا، وہ فوراً صفدر جنگ آ گئے  اور مجھے  آل انڈیا لے  گئے  اور مجھے  داخل کرایا اور علاج کرا یا الحمد للہ ایک مہینہ میں زندگی کے  آثار دکھائی دینے  لگے، مجھے  خود مولانا صاحب سے  مل کر بڑا علاج مل گیا تھا، اب الحمد للہ ایک مہینہ پہلے  میں اسپتال سے  آ گیا ہوں، اگرچہ علاج اب بھی چل رہا ہے  پرانی دہلی کے  ایک مدرسہ میں مولانا صاحب نے  میرے  رہنے  کا نظم کر ا دیا ہے  وہاں میں انگلش پڑھا رہا ہوں اور ہر لمحہ اپنے  اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ ایسے  ناقدرے  کو اسلام کی طرف کس طرح زبردستی لوٹایا، اصل میں تو یہ مولانا کے  درد اور دعاؤں کا صدقہ تھا۔

سوال  :  اب آپ کیسا محسوس کر تے  ہیں ؟

جواب  :  میں بیان نہیں کر سکتا کہ میں اپنے  کو دنیا کا کس قدر خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں کہ اتنی کم ظرفی کے  باوجود میرے  اللہ نے  مجھے  گھیر کر اسلام پر لوٹایا، میرا رواں رواں کانپ جاتا ہے  کہ اگر پھلت سے  لوٹنے  کے  بعد مجھ پر مسائل نہ آئے  ہوتے  اور میں بنارس کے  وکاس آشرم میں کفر پر مرگیا ہوتا مرنے  کے  بعد ہمیشہ کی سزا میں کس طرح برداشت کرتا، حقیقت یہ ہے  کہ دنیا میں اسلام و ایمان کے  لئے  میں سب سے  زیادہ نا اہل انسان تھا۔

سوال  :   ارمغان کے  قارئین کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب  :مجھے  یہ خیال ہوتا ہے  کہ وراثت میں ملے  اسلام کی مسلمانوں کو کچھ قدر نہیں ہوتی، نہ ان کو خاندانی طور پر ملی اس دولت میں اس کا احساس ہے  کہ اسلام سے  محروم انسان کتنے  خطرے  میں ہیں اور وہ کیسی قابل ترس حالت میں ہے، خدارا ان پر ترس کھائیں اور ان کے  دوزخ کی دردناک آگ سے  نکالنے  کی فکر کریں، کم از کم اس تکلیف اور درد کا احساس ہی کریں۔

سوال  :   بہت بہت شکریہ عبداللہ بھائی، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کا تہٗ  فی امان اللہ

جواب  :آپ کا بہت بہت شکریہ آپ میرے  پاس آئے، واقعی میری کہانی بہت سے  لوگوں کے  لئے  بڑا سبق ہے، اچھا ہوا مولانا صاحب نے  آپ کو بھیج دیا۔

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، جون  ۲۰۰۶ء

٭٭٭

 

 

 

 

بھائی ڈاکٹر محمد احمد {رام چندر} دہلی سے  گفتگو

 

احمد اواہ      :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ڈاکٹر محمد احمد  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

سوال  :   بھائی محمد احمد صاحب بہت شکریہ!آپ تشریف لے  آئے، میں نے  اس لئے  آپ کو زحمت دی کہ ابی کا حکم تھا کہ میں آپ کو فون کر کے  بلاؤں اور آئندہ ماہ کے  ارمغان کے  لئے  آپ سے  ایک انٹرویو لوں۔

جواب  :  احمد بھائی شکریہ کی کوئی بات نہیں مجھے  بھی مولانا صاحب کئی ماہ سے  فرما رہے  تھے  کہ میں خود آپ سے  مل کر ارمغان کے  لئے  کچھ باتیں کروں مگر مجھے  خود آپ سے  کہنے  کی ہمت نہیں ہو رہی تھی، مجھے  خیال آتا تھا کہ میری حیثیت ہی کیا ہے  کہ میں ایک اہم میگزین کے  لئے  اپنے  انٹرویو کی پیشکش کروں، مجھے  یہ بھی خیال تھا کہ مجھے  حکم کی تعمیل کرنی چاہئے  آپ نے  خود مجھ پر بڑا احسان کیا میری مشکل حل کر دی۔

سوال  :   آپ اپنا تعارف کرایئے،

جواب  :  میرا پرانا نام رام چندر ہے  جو میرے  گھر والوں نے  رکھا، میں تقریباً ۲۸ سال قبل مہرولی دہلی کے  ایک بھنگی خاندان میں پیدا ہوا میرے  چا چا نے  پتاجی سے  زبردستی کر کے  مجھے  چھ سال کی عمر میں ایک اسکول میں داخل کرا دیا جہاں سے  میں نے  آٹھویں کلاس پاس کی، بچپن سے  مجھے  پڑھائی کا شوق تھا اور ذہن بھی اللہ نے  اچھا دیا تھا، سرکاری اسکول میں نویں کلاس میں داخلہ لے  لیا، جب میں گیارہویں کلاس میں تھا تو میرے  والد صاحب کا انتقال ہو گیا میں گھر میں بڑا تھا بڑی مشکل سے  مزدوری کر کے  میں نے  انٹرپاس کیا سائنس سے، انٹر میڈیٹ میں نے  الحمدللہ فرسٹ ڈویزن سے  پاس کیا تھا، میرے  گھریلو حالات ایسے  خراب تھے  کہ میں بیان نہیں کر سکتا کہ انٹر میڈیٹ تک میں کس طرح پہنچا، کئی بار ایسا خیال ہوا مجھے  پڑھائی چھوڑنی پڑے  گی میرے  چاچا گورنمنٹ کالج میں ملازم تھے، ہمارے  کالج میں کئی بر ہمن ٹیچر تھے  اور ایک راجپوت بھی تھے  مجھے  بھنگی سمجھ کر مجھ سے  جس طرح کا معاملہ کرتے  تھے  میں اس ذلت آمیز رویہ کو بیان نہیں کر سکتا، کبھی کبھی میرا دل چاہتا کہ میں خود کشی کر لوں کبھی یہ بھی خیال آیا تھا کہ میں ان لوگوں کو قتل کر دوں، انٹر کے  بعد میں ریگو لر تعلیم جاری نہیں رکھ سکا اور ملازمت کی تلاش میں تھا میرے  والد صاحب ایک سیّد صاحب کی کوٹھی پر جو گریٹر  کیلاش میں ہے  ملازم تھے  میں سیّد صاحب کے  یہاں گیا انھوں نے  مجھے  کوٹھی پر صفائی اور چوکی داری کے  لئے  ملازم رکھ لیا، میں نے  پرائیویٹ بی اے  کا فارم بھر دیا بس یہ میرا خاندانی تعارف ہے۔

سوال  :    اپنے  قبول اسلام کا واقعہ سنایئے  ؟

جواب  :  احمد بھائی میرا قبول اسلام، میرے  نبی پر کروڑوں اربوں سلام اور درود ہوں، ان کے  رحمۃ اللعالمین ہونے  کا زندہ ثبوت ہے، ایک بھنگی پر اللہ کا ایسا احسان ہے  کہ ہر روز احساس شکر سے  میرا رواں رواں کھڑا ہو جاتا ہے، ہندو مذہب کے  ذات پات کے  نظام سے، میں بیان نہیں کر سکتا کہ اس چھوٹی سی زندگی میں، میں نے  کتنے  تکلیف دہ واقعات کا سامنا کیا ہے، ذات پات کے  ظالمانہ نظام سے  کچلا ہوا حد درجہ شکستہ دل تھا کہ اچانک رحمت اسلام کا ایک جھونکا مجھے  چھو گیا اور اس ایک جھونکے  کی ٹھنڈک نے  مجھے  ماں کی ممتا کی طرح اپنی آغوش میں لے  لیا شاید مولانا صاحب نے  آپ سے  واقعہ بتایا ہو۔

سوال  : ایک بار ابی نے  اپنی تقریر میں بڑے  درد کے  ساتھ آپ کا واقعہ سنایا تھا اور مسلمانوں کو جھنجھوڑا تھا کہ نبی رحمتﷺ کی امانت کے  ہم امین، برادران وطن کے  رواجوں سے  متاثر ہو کر اونچ نیچ اور ذات پات کے  نظام میں جی رہے  ہیں، پچاس کروڑ ہمارے  خونی رشتہ کے  دلت بھائی صرف ہمارے  ساتھ کھانے  اور ہمارے  برتن میں پانی پینے  کو ترس رہے  ہیں، ہم اللہ کو کیا منھ دکھائیں گے، آپ ذرا پورا واقعہ سنایئے ؟

جواب  :سید ندیم صاحب جن کے  یہاں میں کوٹھی میں صفائی اور چوکی داری پر ملازم تھا، مالدار اور خاندانی آدمی ہیں، وہ الہ آباد کے  رہنے  والے  ہیں، گریٹر کیلاش میں ان کی کوٹھی ہے، نوئیڈا میں دو کارخانے  ہیں، آپ کے  والد صاحب (مولانا کلیم صدیقی)سے  کافی دنوں سے  تعلق رکھتے  ہیں اور دعوتی مزاج رکھتے  ہیں ان کی خواہش تھی کہ مولانا صاحب ان کی دعوت ایک بار قبول کر لیں، ایک بار مولانا صاحب نے  وعدہ کر لیا تھا مگر وہ کسی وجہ سے  نہیں آ سکے، ایک روز پہلے  فون آ گیا کہ کوئی حادثہ ہو گیا ہے  جس کی وجہ سے  نہیں آ سکیں گے  اصل میں مجھ سے  سیّدصاحب نے  کہا تھا کہ رام چندر ہمارے  مولانا صاحب آئیں گے  میں تمہیں ان سے  ملواؤں گا، ان سے  دعا کو کہنا مجھے  بھی خوشی تھی کہ کوئی دھارمک گرو ہیں، اچھا ہے  ملاقات ہو جائے  گی مگر ان کے  فون آنے  سے  مایوسی ہو گئی تھی، ۲۰/جون ۱۹۹۹ء کو انھوں نے  اپنے  الور کے  سفر سے  واپسی پر ہمارے  سید صاحب کے  یہاں کھانے  پر دوپہر بعد آنے  کا وعدہ کیا، پونے  تین بجے  مولانا صاحب آئے  میں بھی انتظار کر رہا تھا، آندھی اور تیز ہوا کی وجہ سے  پوری کوٹھی میں مٹی کوڑا ہو گیا تھا میں اس خیال سے  کہ مولانا صاحب آنے  والے  ہیں جھاڑو لے  کر صفائی کرنے  لگا ابھی صفائی آدھی کی تھی کہ مولانا صاحب کی کار آ گئی میں چونکہ بار بار سیدصاحب سے  معلوم کرتا رہا تھا کہ مولانا صاحب کب آئیں گے، اس لئے  جیسے  ہی میں نے  کار کو اندر کھڑا کرنے  کے  لئے  دروازہ کھولا سیّد صاحب نے  میرا تعارف کرایا کہ یہ ہمارا جمعدار رام چندر ہے  میں نے  اس سے  آپ کے  آنے  کا ذکر کر دیا تھا یہ آج دوپہر کو کھانا کھانے  بھی نہیں گیا، مولانا صاحب نے  مجھے  اوپر سے  نیچے  کو دیکھا، نہ جانے  کس طرح جیسے  میرے  اندر کے  زخموں کو انہوں نے  دیکھ لیا ہو، سیّد صاحب سے  پہلے  مجھ سے  ہاتھ ملایا اور پھر اپنے  سینہ سے  لگا یا اور دیر تک میری پیٹھ کو پیار سے  دباتے  رہے  اس کے  بعد سید صاحب سے  ملے، دوپہر کے  کھانے  کو دیر ہو گئی تھی، فوراً ڈرائنگ روم میں تخت پر دستر خوان لگا دیا گیا میں اپنی جھاڑو کو پورا کرنے  لگا، میرے  اندر ایک بھونچال سا آ گیا یہ مسلمانوں کے  دھرم گرو ہیں میں تو سمجھتا تھا کہ وہ مجھ سے  ملیں گے  بھی نہیں، مگر یہ کس سنسار کے  آدمی ہیں ایک بھنگی کو سیّد صاحب سے  پہلے  گلے  لگا لیا، ایک چوکیدار ایک چپراسی کو ایسی محبت سے  گلے  لگا نے  والے  یہ کس یگ کے  آدمی ہیں، میں یہ سوچ رہا تھا کہ مولانا صاحب ڈرائنگ روم سے  باہر آئے  اور بولے  آؤ رام چندر کھانا کھالو، پہلے  تو میں یہ سمجھاکہ مولانا صاحب ایسے  ہی فارملٹی پوری کر رہے  ہیں، مگر انھوں نے  زور دینا شروع کیا اور کہا کہ دیکھو تم نے  کھا نا تو کھایا نہیں اور میرے  ہاتھ سے  جھاڑو لے  کر ایک طرف رکھ دی اور میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچ کر واش بیسن کے  پاس لے  گئے  کہ ہاتھ دھولو، مجھ سے  کہا تمہارے  ہاتھ جھاڑو کے  ہو رہے  ہیں صابن سے  دھو لو، ہاتھ دھلا کر میرا ہاتھ پکڑ ا اور ڈرائنگ روم میں لے  گئے  اور تخت پر بٹھا نے  لگے، میں بار بار نیچے  بیٹھنے  پر زور دیتا رہا مگر مولانا صاحب نے  میری ایک بھی نہ مانی اور کہا تمہیں میرے  برابر میں بیٹھ کر کھا نا کھانا ہے  میرے  لئے  بالکل عجیب تجربہ تھا میرے  لئے  اس دستر خو ان پر بیٹھنا کتنا مشکل کام تھا اور پھر بیٹھ کر ساتھ کھا نا کھانا، پلیٹ میں مولانا صاحب نے  اپنے  ہاتھ سے  سالن نکالا روٹی اٹھا کر میرے  ہاتھ میں دی، ایک ایک لقمہ میرے  لئے  کتنا مشکل ہو رہا تھا میں بیان نہیں کر سکتا، اچانک مولانا صاحب نے  ایک لقمہ میری پلیٹ میں لگا یا میں اچھل سا گیا، مولانا صاحب نے  محبت سے  معلوم کیا کہ رام چندر مجھ گندے  سے  گھن  (کراہیت)   آ رہی ہے  ؟تمہارے  ساتھ خوب اچھی طرح صابن سے  ہاتھ دھوئے  ہیں، میری آواز نہ نکل سکی، مولانا صاحب نے  میری پلیٹ میں اپنی پلیٹ کا سالن الٹ دیا اور پھر میری پلیٹ میں کھا نے  لگے، بریانی بھی نکالی اور میٹھا بھی ایک پیالے  میں کھایا، مجھ سے  کھا نا تو کہاں کھایا جا رہا تھا مجبوراً کچھ نہ کچھ کھا تا رہا  دستر خوان اٹھا لیا گیا مگر میں اس لائق نہیں رہا تھا کہ اپنے  پاؤں اٹھ سکوں، میں سوچ رہا تھا کہ اس سنسار میں اس جنم میں میرے  ساتھ یہ سب کچھ ہوا، میرے  مالک جن کا میں چوکیدار ہوں ان کے  پیر صاحب اور دھرم گرو میری پلیٹ میں کھانا کھائیں، میں یہ سب خواب تو نہیں دیکھ رہا تھا، کیا واقعی یہ سچ تھا مجھے  خود اپنے  حواس پر اعتماد سا اٹھتا جا رہا تھا، شاید آدھا گھنٹہ میں اسی حالت میں بیٹھا رہا اور نہ جا نے  کیا کیا سوچتا رہا اچانک سید صاحب نے  کہا رام چندر تمہیں گھر نہیں جا نا ؟مولانا صاحب سے  کیوں ملنا چاہتے   تھے، کچھ کہنا ہو کہہ لو اور گھر جاؤ، گھر پر تمہارا انتظار ہو رہا ہو گا، تمہاری ماں پریشان ہو رہی ہو گی کہ کھانا کھانے  کیوں نہیں آیا، میں نے  ہمت کر کے  سر اٹھا یا اور سید صاحب سے  کہا ’ میاں صاحب اب آپ مجھے  اس گندگی میں کیوں بھیج رہے  ہو جب ساتھ کھلا لیا ہے  تو بس مسلمان کر کے  اپنے  میں ملالو، مولانا صاحب نے  جواب دیا کہ بیٹے  تم ہمارے  ہی تو ہو، کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ تم ہم ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور تم ہمارے  خونی رشتے  کے  بھائی ہو، یا بھتیجے  البتہ ایک خاندان کے  لوگوں کو ایک خدا کا بندہ بن کر ایک اسلام کا قانون ضرور ماننا چاہئے، اللہ کے  نبیﷺ جو قانون اسلام کی شکل میں ہمارے  لئے  لائے  اور جس نے  اونچ نیچ، ذات پات کے  نظام کو آ کر پیروں کے  نیچے  روندا اس کا ماننا تمہارے  لئے  بھی اتنا ہی ضروری ہے  جتنا ہمارے  لئے، تم نے  بہت اچھا سوچا بس تم نے  ارادہ کر لیا تو مسلمان تو تم ہو گئے، مگر ہم بھی ساکشی (گواہ ) بن جائیں اس لئے  اپنے  مطلب کے  لئے  تم سے  کہتے  ہیں کہ دو لائنوں کا کلمہ ہے  وہ پڑھ لو میں نے  کہا جی پڑھاؤ، مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں اس کا ترجمہ بھی کہلوایا اور پھر کہا نام بدلنا ضروری نہیں مگر نام بھی بدلنا چاہو تو بتا دو، میں نے  کہا نہیں جی نام تو ضرور بدل دو، مولانا صاحب نے  کہا میں تمہارا نام محمد احمد رکھتا ہوں، اس لئے  رکھتا ہوں کہ محمد اور احمد ہمارے  نبیﷺ کے  نام ہیں، تم نے  چونکہ ایک زمانے  تک اونچ نیچ کے  نظام میں ذلت برداشت کی ہے  اب اسلام میں تمہارے  لئے، میں سب سے  عزت والا بلکہ دونوں ناموں کو ملا کر معزز ترین نام رکھتا ہوں اور مجھے  جماعت میں جانے  کا مشورہ دیا۔

سوال  :   اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  :  شام کو میں گھر چلا تو گیا مگر مجھے  وہاں حد درجہ گھٹن محسوس ہوئی ساری رات خیالوں میں مجھے  نیند نہ آئی اگلے  روز میں ڈیوٹی پر گیا تو سید صاحب نے  مجھے  جماعت میں جانے  کا مشورہ دیا گھر والوں سے  یہ کہہ کر کہ مجھے  میرے  مالک سوا مہینہ کے  لئے  باہر بھیج رہے  ہیں، میں جماعت میں چلا گیا مرکز کے  سامنے  سے  کچھ کتابیں ہندی انگریزی میں مجھے  سید صاحب نے  خرید کر دیں، علی گڑھ کی جماعت کے  ساتھ مراد آباد میں ہمارا وقت لگا، سب پڑھے  لکھے  لوگ تھے  میرا وقت بہت اچھا لگا جماعت میں وقت لگا کر میں واپس آیا، تو سید صاحب جن کو میں اب ابی کہتا ہوں مجھے  لینے  کے  لئے  مرکز آ گئے، مجھے  لے  کر گریٹر کیلاش پہنچے، ساتھ میں کھانا کھلایا پھر مجھ سے  کہا تم نے  پڑھائی کیوں چھوڑ دی ہے  میں نے  گھریلو حالات کے  بارے  میں بتایا انھوں نے  مجھ سے  کہا میں تمہارا داخلہ کرا دوں ؟ میں نے  کہا اگر کہیں ہو جائے  تو اس سے  بہتر میرے  لئے  اور کیا ہو سکتا ہے، جامعہ میں میرا داخلہ اللہ کے  کرم سے  سفارشوں کے  بعد ہو گیا، میں نے  بی اے  آنرس کر لیا اور الحمدللہ فرسٹ ڈویزن، بی اے  میں بھی آئی، پھر انگلش سے  ایم اے  بھی کیا اس دوران میں نوئیڈا فیکٹری میں جانے  لگا، ایم اے  پہلے  سال میں ایک روز شام کو سید صاحب نے  مجھے  بلایا اور کہنے  لگے  کہ اگر تمہیں قبول ہو تو میں تم سے  اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہوں، میں ششدر رہ گیا کہ یہ کیا کہہ رہے  ہیں، میں خاموش ہو گیا تو انھوں نے  کہا آج رات تمہارا نکاح ہو گا عشاء کی نماز کے  بعد کچھ لوگ اکٹھا ہو گئے  سید صاحب نے  خود میرا نکاح پڑھایا اور لوگوں کو بتایا کہ بہتر ہے  کہ لڑکی کا باپ اگر نکاح پڑھا سکتا ہو تو وہ نکاح پڑھائے، مدینہ کی کھجوریں نکاح کے  بعد تقسیم ہوئیں، رخصتی تو بعد میں ہونی طئے  تھی نکاح کے  بعد ساری رات میں سوچتا رہا آخر میں کون سی دنیا میں آ گیا ۱۰/جنوری ۲۰۰۳ء کو میرا نکاح ہوا اور اسی سال مئی میں رخصتی ہوئی اور رخصت کر کے  ہم دونوں کے  لئے  ابی صاحب نے  عمرہ کا پرو گرام بنایا، عمرہ میں میری عجیب کیفیت رہی مدینہ منورہ ہم پہنچے  تو روضہ اطہر پر میری عجیب کیفیت ہو گئی، مجھے  خیال تھا، یہ ساری نئی دنیا میرے  اس محسن نبیﷺ کے  قدموں کا صدقہ ہے  جی چاہتا تھا کہ فرط عقیدت میں جان دے دوں، میں نے  ابھی تک داڑھی بھی نہیں رکھی تھی روضہ مبارک پر حاضر ہوا تو مجھے  ایسا لگا کہ میرے  نبیﷺ مجھے  مشرکوں کی صورت بنائے  ہوئے  امتی کو دیکھ رہے  ہیں، میں نے  اسی وقت داڑھی رکھنے  کا عہد کیا حرم کے  اماموں کو قرآن شریف پڑھتے  ہوئے  سن کر میرا دل بہت متاثر ہوتا تھا، مجھے  احساس ہوا کہ یہ بھی کوئی بندگی ہے  کہ اپنے  مالک کا کلام بھی نہ سمجھ سکے، الحمدللہ قرآن شریف ناظرہ میں نے  تجوید کے  ساتھ ایم اے  کے  دوران پڑھ لیا تھا اور اردو بھی خوب لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا میں نے  عربی پڑھنے  کا بھی عزم کیا اور مدینہ منورہ میں ہی ایک مولانا صاحب سے  اس کی بسم للہ بھی کرائی، الحمدللہ یہ عمرہ کا سفر میرے  لئے  بڑا مبارک رہا، میں نے  بارہا اپنے  رسولﷺ کی خواب میں زیارت کی ایک بار میں خواب میں آپ کے  قدموں سے  چمٹ گیا اور خوب بوسے  دیئے، اسی سال دوبارہ الحمد للہ ہم دونوں کا حج کا سفر بھی ہوا، پی ایچ ڈی میں میرا رجسٹریشن ہو گیا تھا، الحمدللہ ۲۰۰۳ء سے  اس سال میری تحقیق مکمل ہو گئی ہے۔

سوال  :  آپ نے  کس مضمون میں پی ایچ ڈی کیا اور عنوان کیا تھا ؟

جواب  :   میں نے  جے  این یو سے  انگریزی میں پی ایچ ڈی کیا ہے، میرا عنوان بھی بہت پیارا تھا، اس کے  لئے  مجھے  وزارت تعلیم سے  زور ڈلوانا پڑا، میری پی ایچ ڈی کا عنوان تھا ’’  انسانیت اور تہذیبوں پر محمد رسول اللہﷺ کے  احسانات ‘‘

سوال  : آپ کی پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی ؟

جواب  :  جی الحمدللہ تقریباً مکمل ہو گئی، وایوا کا ایک مرحلہ مکمل ہو گیا ہے، ایک باقی رہا ہے۔

سوال  :  آپ کی اہلیہ محترمہ کا رویہ آپ کے  ساتھ کیسا ہے  ؟

جواب  :  وہ بہت دین دار لڑکی ہے، میں نے  چار سالہ ملازمت میں اس کو نہیں دیکھا تھا، ایک دین دار  خاتون ہونے  کی حیثیت سے  وہ مجھے  اپنا شوہر سمجھتی ہیں، اسلام میں آنے  کے  بعد سب سے  بڑا مجاہدہ اور مشکل میرے  لئے  ان کو بیوی سمجھنا ہے، مجھے  ہر لمحہ یہ خیال ہوتا ہے  یہ میرے  نبیﷺ کی آل سے  ہیں، الحمدللہ میں نے  کبھی ان سے  پانی بھی اس اکرام کی وجہ سے  نہیں مانگا، بڑا دعوتی ذہن ہے، مولانا صاحب کی ساری دعوتی کتابیں پڑھتی ہیں کبھی کبھی جب مجھے  نبی اکرم ﷺ کی عقیدت کا جذبہ آتا ہے  تو میں بے  اختیار ان کے  قدموں کو چوم لیتا ہوں کہ ان قدموں میں میرے  نبی کا خون ہے، پیارے  نبی کا ذکر، آپ کا خیال، میرے  لئے  زندگی کا سہارا ہے، آپ کی رحمۃ للعالمینی کا جو پر تو میری زندگی پر ہے  وہ شاید کسی کو نصیب ہوا ہو، کاش بلکتی انسانیت کو آپ ﷺ کا تعارف کرایا جاتا تو انسانیت ظلم کے  اندھیروں سے  نکل سکتی ابھی کچھ روز پہلے  ڈنمارک کے  ناسمجھوں اور احمقوں کا واقعہ ہوا، اپنے  کو ترقی یافتہ سمجھنے  والے  مغرب اور یورپ کے  لوگ کیسی ذلالت کی حرکت کرتے  رہے، میں بیان نہیں کر سکتا مجھے  کیسی تکلیف ہوئی، میں نے  بلک بلک کر دعائیں کیں میرے  اللہ ان کمینوں نے  میرے  پیارے  نبیﷺ اربوں سلام ہوں آپ پر اور کروڑوں درود، کی شان کو نہیں سمجھا، میرے  اللہ ان کو سزا دیجئے، مجھے  امید ہے  کہ دنیا ان بدبختوں کا انجام ضرور دیکھے  گی اور آگ ان کو کھائے  گی، کئی بار میں اٹھ کر بیٹھ جاتا، میرے  نبی ﷺ کی توہین کرنے  والوں کو اللہ کی زمین پر رہنے  کا حق نہیں ہے  اور جی چاہتا کہ ابھی اٹھ کر چل دوں اور ان کمینوں کو اپنے  جوتوں کے  نیچے  مسل دوں، ایک روز مولانا صاحب سے  میں نے  اس کا ذکر بھی کیا، مولانا صاحب نے  بتایا کہ اس توہین کے  بیک واسطہ ذمہ دار ہم مسلمان ہیں کہ ہم نے  رسول رحمتﷺ کا دنیا کو تعارف ہی نہیں کرایا، تو مجھے  واقعی اپنے  قصور کا احساس ہوا اور غصہ کچھ کم ہوا، پھر بھی مجھے  اپنے  رب سے  امید ہے  کہ وہ بد بخت ضرور اس دنیا میں اس کا خراب انجام دیکھیں گے۔

سوال  :   آپ نے  عربی پڑھنے  کا کیا کیا؟

جواب  :  الحمدللہ دو گھنٹہ روز عربی پڑھ رہا ہوں اللہ کا شکر ہے  پورا قرآن شریف سمجھ میں    آ رہا ہے، شیخ سدیس اور شیخ شریم دونوں کے  لہجوں میں قرآن شریف پڑھ لیتا ہوں، میں نے  حفظ کرنا بھی شروع کر دیا ہے  اور چار پارے  مکمل کر لئے  ہیں، اس مرتبہ میں نے  نوئیڈا کی مسجد میں جمعہ کی نماز بھی پڑھائی مولانا صاحب نے  مجھ سے  اصرار کیا، میں نے  بھی سعادت سمجھ کر قبول کر لیا۔

سوال  :   آپ کو دیکھ کر بالکل نہیں لگتا کہ آپ نئے  مسلمان ہیں بلکہ آپ کو سب لوگ مولانا ہی سمجھتے  ہوں گے۔

جواب  :  آپ نے  بالکل ٹھیک فرمایا اکثر لوگ مجھے  دیکھ کر مولانا ہی کہتے  ہیں، میں معذرت کرتا ہوں کہ میں تو مولانا کے  قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں۔

سوال  :   آپ خود آئینہ دیکھتے  ہیں، تو کیسا لگتا ہے ؟

جواب  :  میرا خود اپنے  چہرے  کو بوسہ لینے  کو جی چاہتا ہے، یہ خیال ہوتا ہے  کہ میرے  نبی کی اتباع میں یہ چہرا ہے، یہ نہیں لگتا کہ مجھ گندے  کا یہ چہرا ہے، میرے  اللہ نے  میرے  حلیہ کو بھنگی سے  سید بنا دیا، مجھے  غیر اسلامی حلیہ میں ہر شخص ایسا لگتا ہے  جیسے  مجھ بھنگی کا اسلام سے  پہلے  کا چہرہ اور حلیہ ہو۔

سوال  :   مگر کسی کو حقیر تو نہیں سمجھنا چاہئے۔

جواب  :  آپ کے  علم میں ہے  کہ ہم دونوں مولانا صاحب سے  بیعت ہیں الحمد للہ کسی کافر کی حقارت کبھی نہیں آتی کسی کو غیر اسلامی حلیے  میں دیکھتا ہوں خصوصاً مسلمانوں کو تو اندر سے  دعا نکلتی ہے، الٰہی اندر سے  تو یہ مسلمان ہے  اس کو باہر سے  بھی مسلمان بنا دیجئے  اور اس کو یہ سمجھا دیجئے  کہ بھنگی کے  حلیے  میں عزت ہے  یا سید کے  حلیے  میں ؟

سوال  :   اپنے  گھر والوں کے  بارے  میں آپ نے  کچھ کام شروع کیا؟

جواب  :  اصل میں تعلیمی مصروفیات میں زیادہ رہیں، تاہم دعوت سے  بالکل غافل نہیں رہا میری والدہ اور ایک بہن مسلمان ہو گئی ہے  اور ہم نے  ایک گھر نوئیڈا میں بنا لیا ہے، اس سال میرا عمرے  کے  لئے  جانے  کا ارادہ ہے  اور پھر ہم دونوں بس دعوت کے  لئے  زندگی کو وقف کریں گے، میری اہلیہ محترمہ تو بہت جذبے  کی داعی خاتون ہیں، الحمدللہ ان کی کئی سہیلیاں مسلمان ہو چکی ہیں اور انھوں نے  اپنے  والد کے  خرچ پر ان کی شادیاں بھی کی ہیں ایک ہزار بار درود شریف اور ایک منزل قرآن مجید روزانہ پڑھتی ہیں۔

سوال  :   آپ کے  معمولات کا کیا حال ہے۔

جواب  :میں بھی الحمد للہ ان کے  پیچھے  پیچھے  ساتھ ساتھ چلتا ہوں سونے  سے  پہلے  ایک ہزار بار درود شریف اور ایک منزل قرآن حکیم پورا کر لینا تو ہم دونوں ضروری سمجھتے  ہیں، بس اللہ ان میں جان اور اخلاص پیدا فرمائیں۔

سوال  :  آ پ ارمغان کے  قارئین کے  بارے  میں کچھ پیغام دینا چاہیں گے۔

جواب  :  ہمارے  ملک میں پچاس کروڑ دلت ہیں، بنگلہ دیش میں پچاس لاکھ لوگ دلت رہتے  ہیں، اس طرح دنیا میں ڈیڑھ ارب لوگ وہ ہیں جو ذات پات کے  نظام سے  متاثر اور مظلوم ہیں، ان میں ہر ایک میری  طرح صرف ایک بار ساتھ کھلانے  کے  لئے  ترس رہا ہے، رسولﷺ کے  آخری حج کے  خطبے  کو حقیقی معنوں میں اگر ان تک پہنچا دیں اور ذرا اسلامی انداز میں ان کو گلے  لگا لیا جائے  تو اتنی بڑی آبادی دونوں جہاں میں ہدایت یاب ہو کر دوزخ کی آگ سے  بچ سکتی ہے  ہم نے  پھلت میں دیکھا ہے  صفائی کرنے  والا جمعدار اور کام کر نے  والے  دلت مزدور مولانا کے  برابر میں بیٹھ کر چائے  اور ناشتہ کرتے  ہیں اور اللہ کا شکر ہے  ہدایت یاب ہوتے  ہیں اور دلت اور پسماندے  اور کالے  ہی کیا اسلام تو پوری دنیا کے  ظالمانہ نظام کا تریاق ہے  انسانیت تک اسلام اور نبی رحمت ﷺ کا تعارف اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ جزاکم اللہ خیر الجزاء، آخر میں چند آیتیں شیخ شر یم کے  لہجے  میں سنائیے۔ (آپ قرّاء میں کس کو زیادہ پسند کرتے  ہیں ؟)

جواب  : مجھے  شیخ شریم سے  زیادہ مناسبت اور عقیدت ہے  ایک تو وہ خود بہت سادہ مزاج کے  انسان ہیں (نیز وہ) اندر اندر گھٹتے  ہیں اور حدیث میں جو آتا ہے  کہ خوش الحانی یہ ہے  کہ قاری کی آواز اور لہجے  سے  یہ محسوس ہو رہا ہو کہ عظمت قرآن سے  دبا جا رہا ہے، شیخ شریم کے  پڑھنے  میں یہ بات پائی جا تی ہے  جیسے  رعب میں آواز دی جا رہی ہو۔( شیخ شریم  کے  لہجہ میں اعوذ باللہ بسم اللہ سے  شروع کر کے  پوری سو رہ مدثر تلاوت کی )

سوال  :  سبحان اللہ محمد احمد بھائی آپ نے  تو تڑپا کر رکھ دیا قرآن مجید سے  اس درجہ منا سبت بہت مبارک ہو۔

جواب  :  احمد بھائی آپ کو بھی مبارک ہو، ہمیں بھی مبارک ہو، قرآن مجید مبارک ہو، اسلام مبارک ہو قرآن مجید کے  الفاظ مبارک ہو اس کا لہجہ مبارک ہو، اس کی زبان مبارک ہو، اس کا رسول مبارک ہو، اس کی ہدایت مبارک ہو، اس کی تعلیمات مبارک ہوں، بلاشبہ مبارک صد مبارک ہزار مبارک، اہل زمین کو مبارک ساری کائنات کو مبارک خصوصاً آپ کو مبارک ہو آپ کے  گھرانے  کو مبارک ہو، نبی کا فیض مبارک ہو قرآنی دعوت کی توفیق مبارک ہو اللہ کے  یہاں آپ کے  گھر کا انتساب مبارک ہو، آپ کو ارمغان مبارک ہوں ارمغان دعوت مبارک، ہدیہ دعوت مبارک، تحفہ دعوت مبارک۔ (بہت زیادہ روتے  ہوئے )

سوال  :  اچھا محمد احمد صاحب بہت بہت شکریہ  ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

 

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، جولا ئی  ۲۰۰۶ء

٭٭٭

 

 

 

 

سہیل صدیقی {یوراج سنگھ}گجرات سے  ایک چشم کشا ملاقات

 

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد سہیل   :  و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :   سہیل بھائی آپ کے  علم میں ہے  کہ ہمارے  یہاں سے  ایک دعوتی میگزین ارمغان کے  نام سے  نکلتی ہے  اس میں اسلام قبول کرنے  والے  خوش قسمت بھائی اور بہنوں کی آپ بیتی انٹر ویو کے  ذریعہ شائع کی جاتی ہے، ابی کا حکم ہے  کہ میں آپ سے  اس کے  لئے  ایک انٹرویو لوں، اس لئے  آپ کو اندر بلایا ہے۔

جواب  :  بھائی احمد ضرور، میری خود بڑی خواہش ہے  کہ مجھ گندے  پر اللہ کے  کرم کی کہانی لوگ پڑھیں، تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو۔

سوال  :   آپ اپنا خاندانی پریچے  (تعارف) کرائیں ؟

جواب  :  میں گجرات کے  مہسانہ ضلع کے  ایک گاؤں کے  ٹھا کر زمین دار کا بیٹا ہوں میرا پرانا نام یوراج سنگھ ہے، یوراج سنگھ سے  ہی لوگ مجھے  جانتے  ہیں، بعد میں پنڈتوں نے  میری راشی کے  لئے  مشہور نام ہٹا کر میرا نام مہیش رکھا مگر یوراج ہی مشہور ہو گیا، ۱۳/ اگست ۱۹۸۳ء میری تاریخ پیدائش ہے، ہمارا اپنا خاندانی کالج ہے، اے  جے  جسپال ٹھا کر کالج، اس سے  میں بی کام کر رہا تھا کہ مجھے  تعلیم چھوڑنی پڑی میرے  ایک بھائی اور ایک بہن ہے، میرے  بہنوئی بڑے  نیتا ہیں، اصل میں وہ بی جے  پی کے  ہیں، مقامی راجنیتی میں اپنا وزن بڑھانے  کے  لئے  انھوں نے  اس سال کانگریس سے  الیکشن لڑا ہے  اور جیت گئے  ہیں۔

سوال  :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے ؟

جواب  :گودھر ا کانڈ کے  بعد  ۰ ۲۰۰ء کے  فسادات میں ہم آٹھ دوستوں کا ایک گروپ تھا، جو فسادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا، ہمارے  علاقہ میں درندگی کا ننگا ناچ ہو رہا تھا، ہمارے  گاؤں سے  ۱۵/ کلو میٹر دور سندرپور میں ۶۰، ۷۰/لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا، ہم لوگ بھی جوانی کے  زعم میں بہادری سمجھ کر اس میں حصہ لیتے  تھے  ہمارے  گھر کے  قریب گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی، لوگ کہتے  تھے  یہ بڑی اتہاسک (تاریخی) مسجد ہے، اس کو بڑے  پیر صاحب جن کو لوگ پیر ہمدانی کہتے  ہیں نے  بنوائی تھی، گجرات کے  لوگ ان کے  ہاتھ پر مسلمان ہوئے، ہمارے  گاؤں کی اس مسجد کو ہمیں ڈھا دینا چاہیے، ہم آٹھوں ساتھی اس کو گرانے  کے  لئے  گئے، بہت کوشش کے  باوجود اصل مسجد کو ہم گرانہ سکے، ایسا لگتا تھا کہ ہمارے  کدال لکڑی کے  ہیں، لوہے  کے  نہیں، بہت مجبور ہو کر ہم نے  باہر والی دیوار گرانی شروع کی، جو ابھی کچھ سال پہلے  گاؤں والوں نے  بنوائی تھی اس دیوار کو گرا کر ہم نے  سوچا کہ اس مسجد کو جلا دینا چاہئے  اس کے  لئے  پٹرول لایا گیا اور پرانے  کپڑے  میں پٹرول ڈال کر مسجد کو جلانے  کے  لئے  ایک ساتھی نے  آگ لگائی تو خود اس کے  کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہ وہیں جل کر مرگیا، میں تو یہ منظر دیکھ کر ڈر گیا، میرے  ساتھی کوشش کرتے  رہے، مسجد کو کچھ نقصان پہنچا دو ہفتوں کے  اندر میرے  چار ساتھی اچانک ایک کے  بعد ایک مر گئے، ان کے  سر میں درد ہوتا تھا اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گئے، میرے  علاوہ باقی دو پاگل ہو گئے، مجھ پر ڈر طاری ہو گیا میں ڈرا ڈرا چھپا پھرتا تھا، رات کو اس ٹوٹی مسجد میں جا کر روتا تھا کہ اے  مسلمانوں کے  بھگوان مجھے  شَما(معاف) کر دو، اپنا ما تھا وہاں ٹیکتا، اس دوران مجھے  سپنے  (خواب ) بہت دِکھنے  لگے  اور خواب میں نرک اور سورگ (جنت اور دوزخ) دونوں دِکھتے۔

سوال  :  جنت اور دوزخ کس طرح دکھائی دیتے  تھے، ایک دو خواب سنایئے ؟

جواب  : میں نے  ایک بار دیکھا میں نرک میں ہوں اور وہاں کا ایک داروغہ ہے  وہ میرے  ان ساتھیوں جو مسجد کو گرانے  میں میرے  ساتھ تھے  اپنے  جلادوں سے  سزا دلوا رہا ہے، اور سزایہ ہے  کہ لمبے  لمبے  لوہے  کے  کانٹوں کا ایک جال ہے، اس پر ڈال کر ان کو کھینچ رہے  ہیں اور مانس(گوشت )اور کھال گردن سے  پیروں تک اتر جاتا ہے  پھر ٹھیک ہو جاتا ہے  اس کے  بعد ان کو الٹا لٹکا دیا اور نیچے  آگ جلا دی گئی جو منھ سے  اوپر کو نکل رہی ہے  اور دو جلاد ہنٹر سے  ان کو مار رہے  ہیں وہ رو رہے  ہیں، چیخ رہے  ہیں کہ ہمیں معاف کر دو ہم اب کسی مسلمان کو نہیں ماریں گے  نہ کوئی مسجد ڈھائیں گے  داروغہ جلال میں کہتا ہے  توبہ کا موقع ختم ہو گیا ہے  موت کے  بعد کوئی توبہ نہیں ہے  اس طرح کے  وحشت ناک منظر مجھے  روز روز دکھائی دیتے  اور میں ڈر کے  مارے  پاگل سا ہونے  کو ہوتا، تو پھر مجھے  سورگ دکھائی جاتی سورگ جنت ہے  دیکھتا کہ دودھ کے  تالاب سے  بھی چوڑی نہر ہے  دودھ بہہ رہا ہے  اور خو بصورت لہریں چل رہی ہیں، ایک نہر مدھو یعنی شہد کی ہے، ایک ٹھنڈے  پانی کی، اتنی اچھی کہ میری تصویر اس میں صاف دکھ رہی ہے، ایک نہر مدرا کی ہے  (یہ شرا ب کی نہر ) میں نے  کہا شراب تو گندی چیز ہے، ہمارے  پر یو ار میں شراب بہت بری سمجھی جاتی ہے، جواب دیا یہ پاک اور خوشبو والی شراب ہے  اس کو پی کر نشہ نہیں ہوتا، ایک بار دیکھا کہ بہت خوبصورت درخت ہے  اتنا بڑا کہ ہزاروں لوگ اس کے  سایہ میں آ جائیں کبھی بہت اچھے  باغ دیکھتا اور ہمیشہ مجھے  وہاں اللہ اکبر اللہ اکبر کی تین بار آواز آتی، مجھے  اچھا نہ لگتا اور جب میں ساتھ میں اللہ اکبر نہ کہتا تو مجھے  اٹھا کر سورگ سے  باہر پھینک دیا جاتا، میری آنکھ کھلتی تو میں بستر سے  نیچے  پڑا ملتا۔

ایک بار میں نے  سورگ کو دیکھا تو لا الہ الا اللہ کہا وہاں کے  بہت بہت سارے  لڑکے  لڑکیاں، وہاں سورگ میں میری خدمت میں لگ گئے  اس طرح کافی دن گذر گئے  گجرات میں فساد ہوتا رہا مگر اب مجھے  اندر سے  ایسا لگتا تھا جیسے  میں مسلمان ہوں جب مسلمانوں کے  قتل کی خبر سنتا تو میرا دل بہت دکھتا، میں ایک روز بیجا پور گیا، وہاں ایک مسجد دیکھی، وہاں کے  امام صاحب سہارنپور کے  تھے  وہ ہریانہ میں مولانا کلیم صاحب کے  ساتھ کام کر چکے  تھے  ان سے  میں نے  پورا حال بتایا انھوں نے  کہا کہ اللہ کو آپ سے  بہت پیار ہے، اگر آپ سے  پیا ر نہ ہوتا تو اپنے  ساتھیوں کی طرح آپ بھی دوزخ میں جل رہے  ہوتے  آپ اس رحمت کی قدر کریں اور اسلام  قبول کر لیں، انھوں نے  بتایا کہ بابری مسجد کو شہید کرنے  والے  سب سے  پہلے  کدال چلانے  والے  دونوں نوجوان بھی ہمارے  مولانا صاحب (مولانا کلیم صاحب ) کے  ہاتھ پر مسلمان ہو چکے  ہیں، شاید آپ کو بھی اللہ کو ہدایت دے  کر سچے  راستہ پر لانا ہے  اب دیر نہیں کرنی چاہئے  ہریانہ کے  ایک دو ڈاکوؤں کے  مسلمان ہونے  کے  قصے  بھی انھوں نے  سنائے، خوابوں سے  پہلے  اسلام کے  نام سے  میں چڑتا تھا، ٹھا کر کالج میں کسی مسلمان کو داخل بھی نہیں ہونے  دیتا تھا مگر نہ جانے  کیوں اسلام کی ہر بات اب مجھے  اپنی لگنے  لگی بیجاپور سے  میں گھر آیا اور میں نے  ارادہ کر لیا کہ مجھے  مسلمان ہونا چاہئے  ورنہ اپنے  ساتھیوں کی طرح مجھے  بھی نرک کی سزا بھگتنی پڑے  گی۔

میں نے  احمد آباد جامع مسجدگیا اور اسلام قبول کر لیا، مولانا صاحب نے  گھر والوں سے  اسلام کو چھپانے  کو کہا میں احمد آباد سے  ’رہبر نماز ‘ نام کی کتاب لے  کر آیا اور نماز یاد کرنے  لگا اور رفتہ رفتہ نماز یاد کر کے  چھپ کر نماز پڑھنا شروع کر دی، امتحان کے  بعد گرمیوں کی چھٹی ہوئی تو میں نے  جماعت میں جانے  کا پروگرام بنایا گھر والوں سے  گوا گھومنے  کے  لئے  ٹکٹ بنوایا اور اپنے  دوست کو اپنے  ٹکٹ پر بھیج دیا میرا چلہ بڑودہ میں لگا ’فضائل اعمال ‘اور ’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟‘میں نے  پڑھیں تو جب میں جنت دوزخ کے  حال کو پڑھتا تو وہ سب مجھے  آنکھوں دیکھا لگتا تھا، چلہ لگا کر میں گھر آیا، تو چپکے  چپکے  نماز پڑھتا، ایک روز ہمارا نوکر ویریندر سنگھ اچانک دودھ لے  کر میرے  کمرے  میں آ گیا اس نے  مجھے  نماز پڑھتے  ہوئے  دیکھ لیا اس نے  میرے  پتاجی اور گھر والوں کو بتا دیا کہ چھوٹے  بابو تو مسلمانوں کی بھانتی نماز پڑھ رہے  تھے، میرے  پتاجی کو کچھ شک سا پہلے  ہی ہو گیا تھا، میں کالج سے  آیا تو میرے  پتاجی نے  دروازے  میں مجھے  روک دیا اور بولے  ہمیں معلوم ہو گیا کہ تو مسلمان ہو گیا ہے، اب یا تو اسلام یا گھر ایک چیز چھوڑنی پڑے  گی ایسے  اَدھرم کے  لئے  اس گھر کا دروازہ نہیں کھل سکتا، میں جماعت میں تھا تو میں سوچتا تھا کہ اسلام کے  لئے  اگر مجھے  دیش چھوڑ کر بخارا جانا پڑے  تو خوشی سے  جاؤں گا میں نے  سوچاکہ اللہ کا شکر ہے  اسلام میرے  رگ رگ میں اس طرح رچ بس گیا ہے  کہ جان، سانس اور اسلام میں سے  ایک چیز چھوڑنے  کے  لئے  مجھے  کہا جائے  تو جان سانس کا چھوڑنا میرے  لئے  آسان ہو گا، اسلام چھوڑنے  کا تصور بھی میرے  لئے  جان لیوا ہے، میں نے  سوچا کہ اللہ کی زمین پر کب تک گھٹ گھٹ کر جیوں گا، من چاہی چھوڑ کر رب چاہی جینے  کا نام ہی تو اسلام ہے، جب من چاہی چھوڑی ہے  تو رب چاہی کے  لئے  جن(عوام ) چاہی چھوڑنا کیا مشکل ہے، میں نے  پتاجی سے  پورے  وشواس کے  ساتھ کہا کہ اگر یہ بات ہے  تو میں گھر چھوڑتا ہوں اسلام چھوڑ دوں یہ خیال بھی حماقت ہے  میرا موبائیل، میرا ایٹی ایم اور کریڈٹ کارڈ مجھ سے  چھین لیا گیا، میں احمد آباد پہنچا وہاں پر جوہاپورہ مسجد میں گیا مگر وہاں پر سب لوگ ڈرے  ہوئے  تھے  اس لئے  وہاں کے  لوگوں نے  مجھے  رہنے  کی اجازت نہیں دی، وہاں سے  دریا پور پرانے  مرکز گیا انھوں نے  میرے  سرٹیفکٹ وغیرہ دیکھے  انھوں نے  فون وغیرہ کر کے  میرے  بارے  میں تحقیق کی جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ میرے  والد کے  وہاں کے  مشہور بی جے  پی لیڈر جو اب منتری بھی بن گئے  ہیں سے  تعلقات ہیں، تو انھوں نے  بھی وہاں رہنے  کی اجازت نہیں دی اور معذرت کر دی، میرے  پاس کھانے  کے  لئے  پیسے  نہیں تھے  میں چائے  اور بسکٹ لیتا اور بسم اللہ پڑھ کر یقین سے  کھا لیتا اور دعا کرتا میرے  اللہ ! آپ ہر چیز پر قادر ہیں مجھے  اس چائے  اور  بسکٹ سے  تین دن کی طاقت دیدے، میرے  اللہ کا شکر ہے  کہ تین تک مجھے  بھوک نہ لگتی، ایک صاحب نے  مجھے  پالن پور بھیج دیا وہاں پر ایک حاجی صاحب نے  مجھ سے  کہا کہ اگر سدھ پور چلے  جاؤ تو وہاں پر تمہارا انتظام ہو سکتا ہے  سدھ پور پہنچا جہاں سے  مجھے  راجستھان میں نیو جے  پور ہوٹل (جو جے  پور اجمیر ہائی وے  پر ہے  )وہاں بھیج دیا ہوٹل کے  مالک ذکرو بھائی نے  مجھے ۲۵/دن وہاں رکھا وہاں نماز پڑھتا اور اپنی مرضی سے  کچھ ہوٹل کا کام بھی کرتا حالانکہ وہ مجھے  منع کرتے  تھے، انھوں نے  احمد بھائی ڈلکس سے  رابطہ کیا وہ مولانا کلیم صاحب کے  خاص آدمی تھے  انھوں نے  مجھے  پھلت جانے  کا مشورہ دیا، پتہ لے  کر میں دہلی آیا اور پہلے  جامع مسجد پہنچا خیال تھا کہ اسلام قبول کرنے  کا سرٹیفکٹ بنوا لوں تا کہ لوگ  شک نہ کریں، وہاں کوئی بخاری صاحب امام ہیں انھوں نے  مجھے  جمعہ کو آنے  کو کہا، جب یہاں (پھلت)آیا تو یہاں کا ماحول دیکھ کر بالکل ایسا لگا کہ میں اپنے  گھر میں آیا ہوں۔

سوال  :  یہاں آ کر آپ نے  کیا خاص بات محسوس کی؟

جواب  :  یہاں پر ہم سب لوگ مولانا صاحب کو ابی جی کہتے  ہیں، مجھے  پھلت آ کر صحابہ کے  وہ قصے  جو حکایت الصحابہ میں پڑھے  تھے  اور ہمارے  نبی ﷺ کی زندگی کے  سارے  حالات آنکھوں دیکھے  لگنے  لگے، کبھی کبھی گھر کی یاد آتی ہے، مولانا صاحب کے  بارے  میں معلوم ہوتا ہے  کہ آج سفر سے  آنے  والے  ہیں پہلے  سے  خوشی ہونے  لگتی ہے  اور مولانا صاحب آئے  اور مصافحہ ملایا کبھی گلے  لگایا جس سے  سارے  غم دھل گئے۔

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ کیا محسوس کرتے  ہیں ؟آپ کا کیا خیال ہے  کہ اگر آپ اسلام قبول نہ کرتے  تو کیا ہوتا؟

جواب  :  کفر پر مر جانے  کا تو تصور بھی میرے  لئے  دوزخ سے  کم نہیں، میرے  بھائی، میرے  کو بس اللہ کا کرم ہے، ورنہ اپنے  ساتھیوں سے  زیادہ دوزخ کا مستحق تھا، میں زمین داری اور مالداری کے  زعم میں کیسے  کیسے  ظلم کرتا تھا اللہ کی زمین پر چلتا اس کا دیا کھاتا تھا، اس کے  دیئے  ہوئے  شریر (جسم) سے  نہ صرف یہ کہ اس کا حق ادا نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی مرضی کے  خلاف ہی ہر کام کرتا تھا، میں نے  اسلام قبول کیا تو ایک روز گھر میں وشنو بھگوان کی مورت دیکھ رہا تھا اس پر میری ماں نے  پرساد چڑھایا تھا دو تین چیونٹیاں اس پر ساد میں سے  کھینچ کر لے  جا رہی تھیں، تھوڑی  دیر میں ایک کتا باہر سے  آ گیا اس نے  وہ پرساد کھایا اور سارا چاٹ کر ٹانگ اٹھا کر وہاں پیشاب کر دیا نہ وہ چیونٹی کو روک سکے  نہ کتے  کو، میں اپنی عقل پر بہت  ہنسا کہ سہیل اگر میرے  خدا کی مجھ پر مہربانی نہ ہوتی اور مجھے  ہدایت نہ دی ہوتی تو میں کیسی حماقت کے  ساتھ اس مورتی کے  آگے  سر جھکاتا، جب کبھی اپنے  ہندو بھائیوں سے  بات کرتا تو مجھے  اور بھی افسوس اور حیرت ہوتی وہ کہتے  کہ دیکھو ہم جس بھگوان کی مورتی کی پوجا کرتے  ہیں وہ تو ہمارے  ساتھ ہے، مسلمان جس خدا کی پوجا کرتے  ہیں اسے  کس نے  دیکھا ہے  ؟میں ان سے  کہتا اچھا بتاؤ جس ہوا میں سانس لیتے  ہو اس میں آکسیجن ہے  کہ نہیں ؟ وہ کہتے  اگر آکسیجن نہ ہو تو مر جائیں، میں نے  کہا جس آکسیجن سے  تم سانس لیتے  ہو اس کو تم نے  دیکھا ہے  ؟وہ کہتے  کہ ہم اپنی عقل سے  محسوس تو کرتے  ہیں، میں کہتا کہ آکسیجن کو تم بغیر دیکھے  محسوس کرتے  ہو اور وشواس کرتے  ہو اور آکسیجن کے  پیدا کرنے  والے  مالک کو نہ محسوس کرتے  نہ اس کے  اوپر وشواس کرتے  ہو، افسوس ہے  تمہاری عقل پر، میرا ارادہ ہے  ذرا معاملہ ٹھنڈا ہو جائے  تو ورلڈ نیوز میں اپنی کہانی بھیجوں گا اس لئے  ہمارا پریوار پورے  علاقے  میں ہر طرح سے  بڑا سمجھا جاتا ہے  لوگ مجھے  دیکھ کر یہ سمجھتے  تھے  کہ تو سورگ میں رہتا ہے، اسلام کے  نام سے  میں چڑھتا تھا شاید جو شبد ( لفظ ) میرے  کئے  سب سے  گھر ڑاں ( نفرت )  کا لفظ  تھا وہ مسلمان تھا مگر جب حق آیا اور میری عقل سے  پردے  ہٹے  تو مجھے  خیال ہوتا ہے  کہ اپنے  سچے  مالک کو، اس کی مرضی نہ مان کر میں کیسے  نرک میں جی رہا تھا  اب سب سے  پیارا لفظ کوئی ہے  تو میرے  لئے  اسلام ہے، اگر کوئی مجھ سے  اسلام اور مسلمان کے  لئے  جان اور خون مانگے  تو میں سوچتا ہوں کہ میں اپنے  لئے  سوبھاگیہ ( خوش قسمتی ) سمجھ کر دوں گا، میں اس لئے  لوگوں کے  سامنے  اپنی کہانی سنا نا چاہتا ہوں کہ لوگ جانیں کہ ایسے  بڑے  گھر کا لڑکا کسی لالچ میں تو فیصلہ نہیں کرے  گا، اسلام حق ہو گا جو سب گھر بار چھوڑ کر اس نے  اسلام کو قبول کیا۔

سوال  :    اپنے  گھر والوں کے  بارے  میں آپ فکر کرتے  ہیں ؟

جواب  :  خون کا رشتہ ایک جذباتی رشتہ ہوتا ہے، اپنے  گھر والوں کو بہت یاد کرتا ہوں، بلکہ گھر والوں سے  زیادہ مجھے  ان کی موت بہت یاد رہتی ہے، ابھی تو میرے  لئے  وہاں رابطہ کرنا بھی آسان نہیں ہاں میں دعا کرتا ہوں، میں نے  ابی جی (  مولانا کلیم صاحب ) سے  دعا کے  لئے  کہا ہے، مجھے  یقین ہے، انھوں نے  وعدہ کیا ہے  اور مجھ سے  کہا ہے  کہ وہ دعا کرتے  ہیں، اللہ ان کی دعا ضرور قبول کریں گے، اور انشاء اللہ ضرور بالضرور میرا پریوار  (خاندان ) اسلام کے  سایہ میں آئے  گا  ایک روز میں نے  ابی جی مولانا کلیم صاحب سے  کہا آپ میرے  باپ اور گرو سب کچھ ہیں آپ سے  ایک چیز مانگوں گا، تو آپ دیں گے  ؟ میرا نام مولانا صاحب نے  سہیل خان رکھا تھا، میرا دل میرا چاہتا ہے  کہ میرا نام آپ سے  جڑے  جب آپ میرے  ماں باپ بلکہ ماں باپ نے  دھکے  دیئے  ہیں، آپ تو ماں باپ سے  بھی زیادہ ہیں، تو میں اگرسہیل صدیقی لکھنے  لگوں آپ مجھے  اجازت دیں  مجھے  امید ہے  اگر میں اپنا نام سہیل صدیقی لکھنے  لگوں گا تو مولانا کلیم صدیقی کی طرح اللہ ہمیں بھی لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائیں گے، کم از کم میرے  پریوار کے  لئے  تو اسلام کے  فیصلے  ہو جائیں گے، ابی جی نے  کہا بیٹا سچی بات یہ ہے  کہ ابھی تو کلیم صدیقی خود بھی مسلمان نہیں ہوا اصل بات یہ ہے  کہ ہمارے  نبیﷺ نے  ہمیں سچی خبر دی ہے  کہ قیامت سے  پہلے  ہر کچے   پکے  گھر میں اسلام داخل ہو جائے  گا، وہ خبر تو سچ ہونی ہے، نام کلیم صدیقی کا ہو رہا ہے، ایسے  گندے  سے  نسبت سے  کیا فائدہ، اصل میں یہ صدیقی نسبت حضرت ابو بکر صدیق کی طرف ہے، جنھوں نے  بغیر پس و  پیش اور جھجک کے  پہلے  لمحہ میں اللہ کے  رسولﷺ کی تصدیق کی اس لئے  آپ صدیق کہلائے  آپ نے  جنت دوزخ خواب میں دیکھ کر اسلام کی سچائی کی تصدیق کی آپ اس نیت سے  اپنے  کو سہیل صدیقی لکھا کریں، اس کے  بعد سے  میں اپنا نام سہیل خان کی جگہ سہیل صدیقی بتا تا ہوں۔

سوال  :  مسلمانوں کے  لئے  کوئی پیغام آپ دیں گے  ؟

جواب  : ایک آدمی سفر کرتا ہے  ریل میں، دو تین گھنٹے  کا سفر، کبھی کبھی تو ریل میں چیکنگ ہو جاتی ہے  ورنہ جب اسٹیشن کے  گیٹ سے  گھر کے  لئے  جا تا ہے  تو ٹکٹ چیک ہوتا ہے، اس دنیا کی ریل میں سے  اپنے  گھر آخرت کے  دروازے  پر ٹکٹ کی چیکنگ ضرور ہوتی ہے  اور یہاں کا ٹکٹ ایمان ہے  بغیر ایمان کے  ’بغیر ٹکٹ یا تری ‘ کی طرح آدمی نرک (دوزخ) کی جیل کے  منھ میں ہے  اس لئے  ہمیں ساری دنیا کے  انسانوں کو اس ٹکٹ کے  حاصل کرنے  کے  لئے  کہنا تو چاہئے، اسلام ایسی سچائی ہے  کہ اگر وہ لوگوں تک پہنچ جائے  تو سب کا حال میری طرح بدل جائے  گا اور ہم مسلمانوں کی یہ خاص ذمہ داری ہے، جس کو آخرت اور جنت دوزخ پر یقین نہ آئے  میرے  دل سے  پوچھ لے  کہ دوزخ کیسی خطرناک جگہ ہے، (جھرجھری لیتے  ہوئے ) اللہ بچائے، اللہ بچائے  اور جنت کیسی جگہ ہے  اس کے  لئے  آدمی قربان ہو جائے۔

سوال  :   بہت بہت شکریہ  ! السلام علیکم

جواب  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ  فی امان اللہ

 

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، اپریل، مئی  ۲۰۰۶ء

٭٭٭

 

 

 

 ماسٹر عبد الواحد {سنجیو استھانا} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ       :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ماسٹر عبداواحد  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

سوال  :  عبدالواحد بھائی ابی نے  مجھے  حکم کیا ہے  کہ اپنی اردو میگزین کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں کروں تاکہ دعوت کا کام کرنے  والوں کے  لئے  کار آمد ہوں۔

جواب  :  رات مجھے  بھی مولانا صاحب نے  کہا تھا کہ احمد آپ سے  کچھ باتیں کریں گے۔

سوال  :  آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں۔

جواب  :  ہمارا خاندان پہلے  سے  آسامی ہے  گوہاٹی میں ہمارے  دادا انگریزی دور میں افسر تھے، ستھانا گوت سے  ہمارا تعلق ہے، میرے  پتاجی بھی سیل ٹیکس افسر تھے، بنگال کے  الگ الگ شہروں میں رہتے  رہے  آخر میں کلکتہ میں گھر بنا لیا تھا اور وہیں پر ان کا انتقال ہوا، میرا پرانا نام سنجیو استھانا تھا میں گیارہ ستمبر ۱۹۵۹ء کو مالدہ میں پیدا ہوا، شروع کی تعلیم بھی مالدہ میں ہوئی، اسکول کے  بعد کالج کا نمبر آیا تو ہمارے  والد کا کلکتہ ٹرانسفر ہو گیا اور وہیں میری تعلیم ہوئی ایم ایس سی، بی ایڈ کیا اور سرکاری ہائیر سکنڈری اسکول میں سائنس کا ٹیچر ہو گیا، بعد میں ایک ڈگری کالج میں لکچرر بنا اور آج بھی اللہ کے  شکر سے  سائنس پڑھاتا ہوں میری شادی بھی ایک پڑھے  لکھے  گھرانے  میں اب سے  چودہ سال پہلے  ہوئی میرے  سسر صاحب ایک کالج کے  پرنسپل ہیں اور میری اہلیہ بھی ایک کانونٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں،

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  واقعے  کو ذرا تفصیل سے  بتائے۔

جواب  : تین سال میں بحیثیت سرکاری ملازم کے  ہم لوگوں کو خاندان کے  گھومنے  کے  لئے  خرچ دیا جاتا ہے، اب سے  نو سال پہلے  ۱۹۹۸ء کو ہم ساؤتھ کے  پکنک ٹور پر اپنی بیوی بچوں کے  ساتھ گئے  جاتے  وقت دو روز کے  لئے  بھوپال میں بریک جرنی کر کے  بھوپال دیکھنے  کا بھی پروگرام تھا، بھوپال ہم اترے  ایک ٹیکسی اسٹیشن سے  کرائے  پر لی، مجھے  اتفاق سے  بخار ہو گیا، ٹیکسی والے  سے  کسی مناسب ہوٹل کا پتہ معلوم کیا اس نے  کہا کہ تھوڑے  فاصلے  پر اچھے  اور سستے  ہوٹل کا میں انتظام کرا دیتا ہوں ٹیکسی والا غلط آدمی تھا وہ ہمیں لے  کر ایک ہوٹل گیا، مجھ سے  کہا آپ ہوٹل میں کمرہ پسند کر لیں میں ہوٹل کے  اندر گیا کمرہ پسند کر لیا مجھ سے  ٹیکسی والے  نے  کہا کہ میں بچوں اور سامان کو لاتا ہوں آپ کو بخار ہو رہا ہے  آپ کمرہ میں آرام کر لیں، گاڑی میں جا کر میری اہلیہ سے  کہا کہ آپ بچوں کو لے  کر چلیں میں گاڑی سے  سامان اتار کر لاتا ہوں میری قسمت کی خرابی کہو یا خوبی کہ سفر میں کبھی بھی کسی ٹیکسی والے  کو کرتا تو ہمیشہ گاڑی کے  نمبر نوٹ کرنے  کا عادی تھا، مگر بخار کی تیزی میں مجھے  نمبر نوٹ کرنا یاد نہیں رہا، ٹیکسی والا ٹیکسی لے کر سامان سمیت فرار ہو گیا، سارا سامان کپڑے، پرس کے  پانچ سوروپے  کے  علاوہ ٹکٹ بھی گاڑی میں تھے، بخار کی حالت میں اس حادثے  پر اجنبی شہر میں جو گذری بیان نہیں کر سکتا، بخار کی شدت میں میں ہوٹل سے  اترا پولس تھا نہ کا پتہ لگا یا پولس میں رپورٹ کی، تھانہ والوں نے  تسلی بہت دی مگر شام تک ہم لوگ تھانہ میں پڑے  رہے  مگر کوئی کاروائی نہیں کی بخار کے  لئے  اسٹور سے  دوائی لی بخار کچھ اترا واپسی کے  لئے  ریلوے  اسٹیشن پہونچے  گھر فون لگایا مگر تیز بارش اور سیلاب کی وجہ سے  بنگال کی لائنیں خراب ہو رہی تھی فون نہ لگ سکا، جھانسی جانے  والی ایک گاڑی تیار تھی بغیر ٹکٹ اس میں بیٹھ گئے  ریزرویشن کے  ڈبے  میں ٹی، سی ٹکٹ چیک کرنے  کے  لئے  آیا ہم سے  پینلٹی سمیت ٹکٹ لینے  کے  لئے  اصرار کرنے  لگا میں نے  اپنا پورا تعارف کرایا اور اپنے  ساتھ جو حادثہ پیش آیا تھا بتایا تو وہ نرم ہوا اس نے  کہا آپ فکر نہ کریں جھانسی سے  کٹہار کی گاڑی فوراً ملے  گی آپ وہ پکڑ لیں میرے  جاننے  والے  کئی ٹی، سی اس میں مل جائیں گے  میں ان سے  کہہ دوں گا وہ آپ کو اپنے  ساتھ بغیر ٹکٹ ہی لے  جائیں گے  کٹہار میں آپ کوئی صورت بنا لینا میری جان میں جان آئی کہ چلو کٹہار تک جانے  کی صورت بنی، بھوپال سے  چلتے  ہی مجھے  پھر بخار ہوا، بخار اس قدر تیز ہوا کہ میرا پورا جسم کانپنے  لگا مجھے  ہاتھوں پیروں کے  ہلنے  کا دورہ سا ہونے  لگا، کسی طرح جھانسی پہونچے  مگر میرا حال اتنا خراب تھا کہ میں آگے  سفر کے  لائق نہیں تھا مجبوراً فیصلہ کیا کہ جھانسی کے  کسی سرکاری ہسپتال میں داخل ہو جانا چاہئے، جھانسی اسٹیشن پر اتر کر ہسپتال معلوم کیا اور کسی طرح آٹو رکشہ کر کے  ہسپتال پہونچے  ڈاکٹروں نے  بتایا کہ دماغی بخار ہے، اگر علاج میں دیر کی تو آپ بے  ہوش ہو سکتے  ہیں، میں نے  کہا آپ ہمیں ایڈ مٹ کر لیں اور علاج شروع کریں دوا وغیرہ کے  پیسے  اگر ضرورت پڑے گی تو ہم گھر سے  رابطہ کی کوشش کریں گے، دس روز ہسپتال میں رہے  اور ہسپتال کے  ڈاکٹر نے  ترس کھا کر ہمارے  کھانے  کا نظم بھی ہسپتال سے  کر دیا، ان دنوں میں میری اہلیہ ہمارے  اور اپنے  گھر فون کرنے  کی کوشش کرتی رہیں مگر کوئی رابطہ نہ ہو سکا، طبیعت کچھ سنبھلی تو ڈاکٹروں نے  ہمیں سفر کی اجازت دے دی، ہم لوگ اسٹیشن پہنچے  تو اتفاق سے  وہ ٹی، سی جو ہمیں بھوپال سے  لائے  تھے  ہمیں اسٹیشن پر مل گئے، ان کی ٹرین دو گھنٹے  لیٹ ہو گئی تھی، میں نے  ان کو پہچان کر ان سے  درخواست کی کہ وہ ہمیں کٹہار کی گاڑی میں سوار کرا دیں وہ بیچارے  اپنے  ساتھیوں کو تلاش کرنے  لگے، وہ مل گئے، دو گھنٹے  بعد ٹرین جانے  والی تھی، انھوں نے  ہمیں ٹرین میں سوار کر دیا، راستہ میں مجھے  بخار آیا اور میرے  جسم کی حالت پھر اسی طرح ہو گئی، کپکپی کا دورہ مسلسل ہونے  لگا، کتنی مشکل سے  کٹہار تک کا سفر پورا کیا بیان کرنا مشکل ہے، کٹہار بہت سی گاڑیاں کلکتہ کے  لئے  تھیں گاڑیاں آئیں تو ٹی سی سے  بات کی مگر کوئی بھی ہمیں بغیر ٹکٹ ساتھ لے  جانے  پر راضی نہ ہوا میری جیب میں تیرہ روپئے  بچے  تھے، بچوں نے  رات سے  کھانا بھی نہیں کھایا تھا، بھوک سے  بیتاب بچے  رونے  لگے  تو میں نے  بیوی سے  تیرہ روپئے  کا کھانا لانے  کو کہا وہ دال بھات لے  کر آئی بیوی بچوں نے  کھانا کھایا  اسٹیشن پر فقیروں کی طرح ہفتوں کے  میلے  کپڑوں میں دال بھات کھاتے  دیکھ کر میں بہت رویا بس میرے  رونے  پر میرے  مالک کو ترس آ گیا اور نہ صرف یہ کہ مجھے  اس امتحان اور مشکل سے  نکالنے  کا فیصلہ فرمایا بلکہ مرنے  کے  بعد مجھے  دوزخ سے  بچانے  کا فیصلہ بھی انشاء اللہ ان آنسوں پر کر دیا۔

سوال  :  دال بھات کھاتے  دیکھ کر رونے  سے  اس کا کیا مطلب ؟

جواب  :  ہاں مطلب ہے، میں پلیٹ فارم پر جہاں لیٹا تھا میرے  بچے  سامنے  کھانا کھا رہے  تھے  بخار کی تیزی سے  میں کراہ رہا تھا اور پورا جسم ہل رہا تھا میری ساری بیماریوں کے  مسیحا کو میرے  مالک نے  میرے  سامنے  لا بٹھا یا، آپ کے  ابی مولانا کلیم صاحب بہار کے  ایک سفر سے  واپس آ رہے  تھے  اور ان کو کٹہارسے  راجدھانی ایکسپریس پکڑنی تھی گاڑی چار گھنٹے  لیٹ تھی جو لوگ مولانا کو اسٹیشن چھوڑنے  آئے  تھے  ان کو ٹرین سے  جانا تھا مولانا صاحب نے  ان کو زور دے کر واپس کر دیا اور خود گاڑی کے  انتظار میں پلیٹ فارم پر بیٹھ گئے، میرے  سامنے  بینچ پر آ کر بیٹھے  مجھے  کراہتے  ہوئے  انھوں نے  دیکھا وہ میرے  قریب آئے  تو میں رو رہا تھا، مولانا صاحب نے  مجھ سے  کراہنے  کی وجہ معلوم کی میں تو اس حال میں نہیں تھا کہ کچھ کہہ سکوں، میری بیوی نے  اپنا دکھڑا سنایا، مولانا صاحب ہماری پریشانی سن کر رو دئے  اپنے  ساتھی کو سامان سنبھال کر اسٹیشن سے  باہر گئے  اور اسٹور سے  دوا لائے  اور ساتھی سے  چائے  اسٹال سے  دودھ منگایا اور دودھ کے  ساتھ اپنے  ہاتھ سے  نکال کر دوا کھلائی اور پانچ روز کی دوا ہمیں دی، تھوڑی دیر میں میرے  جسم کے  درد کو بہت آرام ہوا، مجھ سے  بولے  بھائی صاحب مجھے  بہت شرم آ رہی ہے  مگر میری مجبوری ہے  مجھے  آپ سے  رکویسٹ (درخواست ) کرنی ہے  کہ آپ ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی ہیں آپ کی جگہ ہمارے  ساتھ بھی یہ حادثہ ہو سکتا ہے، آپ دو ہزار روپئے  مجھ سے  قرض لے  لیجئے، قرض اس لئے  کہہ رہا ہوں کہ آپ بڑے  آدمی ہیں آپ کو برا نہ لگے، ورنہ میرا دل دو ہزار روپئے  آپ کو بھینٹ (تحفہ) دینے  کو چاہ رہا ہے، پلیز یہ آپ قبول کر لیجئے، میں بیان نہیں کر سکتا کہ میرا کتنا عجیب حال تھا میرے  دل میں خیال آیا کہ یہ کو ئی ایشدوت (غیبی فرشتہ )ہے  جو ایک اجنبی کے  ساتھ یہ معاملہ کر رہا ہے  کتنے  لوگوں کو اپنا حال سنایا بس ٹیکسی والے  کی برائی کرنے  اور ہائے  وائے  کرنے  کے  سوا کسی کو خیال نہ آیا اور یہ غیر مذہب کے  مسلمان کس انداز سے  رقم دے  رہے  ہیں جیسے  دے  نہ رہے  ہوں بھیک مانگ رہے  ہوں، میں نے  ان سے  کہا کہ ہمیں پیسوں کی اتنی ضرورت ہے  ہم کیسے  منع کر سکتے  ہیں مگر آپ پہلے  اپنا پتہ دے دیجئے  تاکہ گھر پہنچ کر یہ رقم منی آرڈر کر دیں، مولانا صاحب نے  کہا کہ پیسے  تو رکھئے  ابھی پتہ بھی لکھ کر دیتا ہوں اور اپنے  ساتھی سے  کہا ماسٹر جی ان کو پتہ لکھ کر دے دینا اور ان کے  کان میں آہستہ سے  کچھ کہا، وہ اٹھ کر گئے  اور بچوں کے  لئے  آئس کریم اور کیلے  لے  کر آئے، بچوں نے  لینے  سے  منع کیا تو ہم نے  بچوں سے  کہا لیلو بیٹا یہ آپ کے  اصل انکل ہیں مولانا صاحب سے  میں پتہ لکھنے  کو کہتا رہا اور وہ ٹالتے  رہے، ابھی لکھتے  ہیں تب لکھتے  ہیں میں نے  زور دیا کہ کہنے  لگے  بھائی صاحب آپ تلاش کریں گے  تو ہم مل جائیں گے، کیا آپ اپنے  خونی رشتہ کے  بھائی کو بھی تلاش نہیں کر سکتے  ؟اتنی دیر میں ہماری گاڑی آ گئی، ٹکٹ ان پیسوں میں سے  مولانا صاحب کے  ساتھی نے  لا کر دے د یا تھا، ہمیں سوار کرایا میں نے  پتہ کے  لئے  کہا تو مولانا صاحب کے  ساتھی ماسٹر جمشید صاحب نے  اپنے  بیگ سے  جلدی ایک کتاب نکال کر دی کہ وہ مولانا صاحب کی کتاب ہے، اس پر نیچے  حضرت کا پتہ لکھا ہے  دن کا وقت تھا، ریزرویشن کے  ڈبے  میں خالی دیکھ کر ہم لوگ بیٹھ گئے  اور پتہ دیکھنے  کے  لئے  کتاب نکالی کتاب کا نام تھا’’ آ پ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ کتاب کے  شروع میں دو شبد مولانا وصی صاحب کے  لکھے  ہوئے  تھے، مولانا صاحب کا گویا ان کے  اندر کا تعارف تھا کیوں کہ ہم اس فرشتہ صفت مسیحا کو دیکھ کر آئے  تھے  ایک ایک لفظ دل میں اتر تا گیا، بخار کے  باوجود ہلتے  ہلتے  میں نے  پوری کتاب پڑھی پھر بیوی کو پڑھنے  کو دی انھوں نے  بھی ایک بار میں پوری پڑھی، مجھ سے  کہنے  لگیں کہ مولانا صاحب اگر یہ کتاب ہمیں اسٹیشن پر دے دیتے  تو اچھا تھا، بیچ میں چھوڑنے  کو دل نہیں چاہا، دوا کی دوسری خوراک میں نے  ریل میں لی، دوا نے  جادو کا اثر کیا اور کلکتہ پہنچنے  تک ایسا لگا جیسے  میں بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں، میں اور میری  بیوی آپ کی امانت کے  ایک ایک لفظ کے  شکار ہو گئے  اور سچائی اور محبت کے  پیغام کے  سامنے  اپنے  کو بے  بس سمجھ چکے  تھے، میں نے  کلکتہ اتر کر اپنی بیوی سے  کہا میری طبیعت کافی اچھی ہے، میرا دل چاہتا ہے  کہ گھر جا کر پیسے  لے  کر آج ہی مظفر نگر چلا جاؤں اور کچھ سمے  (وقت) مولانا کے  ساتھ گذاروں، بیوی نے  کہا دوا پوری کر لیجئے  اس کے  بعد جلدی چلے  جائیے، ہم گھر پہونچے، طبیعت بالکل ٹھیک ہو گئی، بیوی نے  کہا پہلے  پیسے  منی آرڈر کر دیجئے  اور پھر کچھ روز بعد چھٹی لے  کر ملنے  چلے  جایئے، منی آرڈر کر نے  کے  لئے  کتاب تلاش کی پتہ لکھ لیں گے  مگر نہ جانے  شیطان نے  وہ کتاب کہاں چھپا دی، دو روز ہم دونوں ایک ایک چیز الٹتے  پلٹتے  رہے  مگر کتاب نہیں ملی۔

مجھے  یہ تو یاد تھا کہ مولانا صاحب کا نام محمد کلیم ہے، مگر میں مظفر نگر کی بجائے  مظفر پور ضلع کر رہا تھا ایک دو لوگوں سے  معلوم کیا انھوں نے  بتایا کہ مظفر پور یو، پی میں نہیں بلکہ بہار میں ہے  بے  چینی کے  حال میں مظفر پور بہار کا ٹکٹ بنوایا ایک روز پہلے  ایک یو، پی کے  آدمی سے  ملاقات ہوئی میں نے  ان سے  معلوم کیا کہ یو، پی میں کوئی ضلع مظفر پور بھی ہے  ؟ انھوں نے  کہا کہ وہاں مظفر نگر ہے   مظفر پور نہیں، مظفر نگر سن کر مجھے  یاد آیا کہ یہ پتہ صحیح ہے  انھوں نے  بتا یا کہ مظفر نگر کی کوئی گاڑی ڈائیر یکٹ نہیں ہے، آپ کو دہلی یا سہارنپور جا نا پڑے  گا وہاں سے  مظفر نگر کے  لئے  بس یا ٹرین مل سکتی ہے، میں نے  دہلی کا ریزرویشن کر ایا اور ۲۷ / اکتوبر کو دہلی اور دہلی سے  مظفر نگر پہونچا اسٹیشن پر ایک میا نجی ملے، میں نے  کہا کہ مظفر نگر میں آپ مولانا کلیم صاحب کو جانتے  ہیں ؟ انھوں نے  کہا وہ مظفر نگر میں نہیں رہتے  بلکہ آپ کو کھتو لی اور وہاں سے  پھلت جا نا ہو گا، اسٹیشن سے  بس اڈے  پہونچے  کھتولی کی بس میں سوار ہوئے  تو میرے  برابر میں ایک نوجوان مولوی صاحب بیٹھے  تھے  ان سے  تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ پھلت مدرسہ میں رہتے  ہیں ریزرویشن کے  لئے  مظفر نگر آئے  تھے  ان سے  معلوم ہوا کہ مولانا صاحب تو پھلت نہیں ہیں پنجاب کے  سفر پر گئے  ہوئے  ہیں ان کے  ساتھ پھلت پہونچے، مولانا صاحب کے  گھر پہونچے  تو معلوم ہوا کہ آج رات تک پہونچیں گے  انتظار کا مزہ لیا، مولانا صاحب رات کو ایک بجے  پہنچے  میں جاگ رہا تھا ملاقات ہوئی مولانا صاحب فوراً پہچان گئے  مجھے  ٹھیک دیکھ کر بہت خوش ہوئے  اور صبح کو ملاقات کے  لئے  کہہ کر گھر میں چلے  گئے  اگلے  روز صبح ۹ / بجے  ملاقات ہوئی میں نے  وہ پیسے  پیش کئے  مولانا صاحب بہت زور دیتے  رہے  کہ ان کو آپ بھینٹ میں قبول کر لیں تو مجھے  زیادہ خوشی ہو گی، آپ نے  صرف یہ پیسے  دینے  کے  لئے  اتنا لمبا سفر کیا بہت زیادتی کی یہ پیسے  تو ہم خود آ کر وصول لیتے، مولانا صاحب ہنس کر بولے  دیکھئے   آپ نے  تلاش کر نا چاہا تو تلاش بھی کر لیا، بغیر پتے  کے  تلاش کر لیا میں نے  کہا آپ کو کیسے  معلوم ہے  کہ ہم سے   پتہ یعنی کتاب کھو گئی تھی ؟مولانا صاحب نے  کہا کیسی کتاب ؟ اصل میں ہم نے  پتہ دینا ہی نہ چاہا، میں نے  بتایا کہ آپ کے  ساتھی ’’آ پ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘گاڑی میں چلتے  چلتے  پکڑا گئے  تھے  وہ ہم نے  پڑھ بھی لی اور ہمیں شکار بھی کر گئی اور گھر نہ جانے  کیسے  کھو گئی، اب میں نے  پورا حال بتایا مولانا صاحب بہت خوش ہوئے، مو لانا صاحب نے  فرمایا کہ آپ کی امانت پڑھ کر آپ نے  کیا فیصلہ کیا میں نے  کہا آپ کا بن کر آئے  ہیں، آپ جو چاہے  کر لیجئے  یا چھوڑ دیجئے، مولانا صاحب نے  کہا میرا بننے  سے  تو کام بننے  والا نہیں جس نے  پیدا کیا ہے  اس کا بننے  سے  کام چلے  گا میں نے  کہا اسی لئے  تو آپ کے  پاس آئے  ہیں، مولانا صاحب نے  کہا کہ کلمہ آپ نے  پڑھ لیا ؟ ہم نے  کتاب میں تو پڑھ لیا آپ بھی پڑھا دیجئے، مولانا صاحب نے   ۲۹ / اکتوبر کو ساڑھے  نو بجے  ہمیں کلمہ پڑھوایا میرا نام عبدالواحد رکھا مولانا صاحب نے  مجھ سے  کہا کیا بھابی نے  بھی یہ کتاب پڑھی ہے  ؟ میں نے  کہا کہ انھوں نے  تین بار پڑھی ہے، مولانا صاحب نے  کہا کہ ان کا کیا ارادہ ہے  ؟ہم نے  جو ارادہ کیا ہے  وہ ہمارے  ساتھ ہیں، کچھ کتابیں مولانا نے  منگوا کر ہمیں دیں، ایک روز قیام کر نے  کے  بعد کلکتہ واپس ہوا مولانا صاحب کے  مشورہ کے  مطابق کلکتہ کے  مرکز گیا وہاں  علی گڑھ کی ایک جماعت آئی تھی اس کے  ساتھ چالیس روز گزارے  الحمد للہ یہ چالیس روز ہمارے  لئے  بہت مفید رہے  نماز بھی مکمل یاد کر لی اور ضروری باتیں معلوم ہو گئیں۔

سوال  :   آپ کی اہلیہ صاحبہ کا کیا ہوا؟

جواب  :الحمد للہ پھلت لے  جا کر میں نے  کلمہ پڑھوایا وہ بہت خوش ہوئیں۔

سوال  : اسلام قبول کر کے  آپ کو کیا محسوس ہوا ؟

جواب  :اسلام ملنے  کے  بعد میں بیان نہیں کر سکتا کتنی خوشی ہوئی، اب میں اس ٹیکسی والے  کو دعا دیتا ہوں کہ اگر وہ میرا سامان نہ لوٹتا تو میرا کیا ہوتا ؟میرے  اللہ کی رحمت کہ قربان کہ کوڑیاں لٹوا کر ہمارے  دل کی تجوری ایمان کے  خزانے  سے  بھر دی، ہم دونوں جب بھی بیٹھتے  ہیں بس اسی بات پر شکر ادا کر تے  ہیں کہ اللہ آپ نے  ہمارا سامان لٹوایا ہمیں ایمان کا مالدار کر نے  کے  لئے  اور کفر و شرک کی موت سے  بچانے  اور شفاء عطا کر نے  کے  لئے، واقعی احمد بھائی اللہ کی رحمت کا کوئی کیا اندازہ لگا سکتا ہے  !!!

سوال  : ایک سوال ذہن میں آتا ہے  کہ آپ کو ابی کی ہمدردی اور اخلاق نے  زیادہ متاثر اور اسلام کے  قریب کیا یا آپ کی امانت نے  یا اسلام کی حقانیت نے  ؟

جواب  :احمد بھائی !ایسی مصیبت میں اجنبی کے  ساتھ مولانا صاحب کی ایسی ہمدردی نے  ہمیں متاثر کیا مگر ہمارے  قبول اسلام کی وجہ وہ ہمدردی بنی بس اس سے  یہ ہوا کہ ایسی بے  لوث ہمدردی سے  ہمارے  دل میں مولانا کی ہمدردی پر اعتماد پیدا ہوا اور آپ کی امانت کو ہم نے  اپنا ہمدرد اور سچے  خیر خواہ کی بات سمجھ کر پڑھا، قبول اسلام کا ذریعہ اسلام کی حقانیت اور انسانی فطرت سے  قریب توحید اور اسلامی نظریہ ہوا، ہمدردی تو لوگ کتنی کرتے  ہیں کون اپنا مذہب بدلتا ہے  ہمارے  دل میں یہ خیال کہ اسلام کے  حق نے  ایک انسان کو فرشتہ بنا دیا وہ اسلام ہمارا بھی حق ہے۔

سوال  : اب آپ بچوں کی تعلیم کا کیا کر رہے  ہیں ؟

جواب  : اب میرے  بچے  انگلش میڈیم میں پڑھ رہے  ہیں اور ہم نے  ایک مولانا صاحب کا ٹیوشن بھی لگا رکھا ہے، بچے  اور ہم دونوں روزانہ رات کو قرآن، دینیات اور اردو پڑھ رہے  ہیں۔

سوال  : گھر والوں نے  آپ کے  اسلام کی مخالفت نہیں کی ؟

جواب  : بہت زیادہ کی، جب کسی نے  کی تو ہم نے  اسے  پورا واقعہ بتایا، پورا واقعہ سن کر ہمارے  چچا جو بہت ہی زیادہ مسلمان ہونے  سے  ناراض تھے  انہوں نے  کہا بیٹا تم نے  بہت اچھا کیا اور کتاب ہمیں بھی دینا، وہ دیناج پور اسٹیشن پر پو سٹیڈ ہے  میں نے  آپ کی امانت ان کو دی، مولانا صاحب کے  مشورہ سے  سفر کر کے  ان کے  یہاں گیا، رات کو دو بجے  تک میں ان کی خوشامد کر تا رہا   الحمد للہ دو بجے  رات ہی میں انہوں نے  کلمہ پڑھا، الحمدللہ میرے  خاندان کے  پچاس سے  زیادہ لوگ مسلمان ہو چکے  ہیں۔

سوال  :  ارمغان کے  قارئین کے  لئے  آپ کوئی پیغام دیجئے۔

جواب  : بہت محبت بھرا دل ہو، انبیاء کی طرح بغیر لالچ کے، اسلام جیسا حق ہاتھ میں ہو تو پھر کوئی سخت سے  سخت آدمی ایسا نہیں جو اسلام کا اسیر نہ ہو، اس لئے  ہمیں انسانیت کا حق ادا کر نا چاہئے۔

سوال  :  شکر یہ ماسٹر صاحب بہت بہت شکر یہ ا لسلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب  :  شکر یہ تو آپ کا کہ ہماری بات آپ نے  اتنی دیر سنی۔

و علیکم ا لسلام و رحمۃ اللہ و برکا تہٗ

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، نو مبر۲۰۰۶ء

٭٭٭