فہرست مضامین
- نسیم ہدایت کے جھونکے
- عرض مرتب
- پیش لفظ
- تقریظ
- تقریظ
- تبصرہ
- تبصرہ
- آغازِ سخن
- مزمل بھائی{سوہن ویر} سے ایک ملاقات
- انجینئر عبدالاحد صاحب {پرمود کمار کھرانہ} سے ایک ملاقات
- ماسٹر عبداللہ صاحب {ٹھاکرے} سے ایک ملاقات
- ماسٹر محمد اسعد صاحب {ریوتی شرن شکل} سے ایک ملاقات
- محترمہ مومنہ تبسم عبدالکریم {ارچنا} سے ایک ملاقات
- حسینہ بیگم {راج کماری} کے قبول اسلام کی ایمان افروز روداد
- جناب عبداللہ پاٹل سے ایک ملاقات
- محترمہ عفیفہ بہن {پریتی} سے ایک ملاقات
- بھائی محمد نعیم الدین سے ایک ملاقات
نسیم ہدایت کے جھونکے
حصہ چھ
فہرست
عرض مرتب.. 4
پیش لفظ.. 6
تقریظ. 9
تقریظ. 12
تبصرہ 14
تبصرہ 15
آغازِ سخن… 16
مزمل بھائی{سوہن ویر} سے ایک ملاقات.. 18
انجینئر عبدالاحد صاحب {پرمود کمار کھرانہ} سے ایک ملاقات.. 28
ماسٹر عبداللہ صاحب {ٹھاکرے} سے ایک ملاقات.. 34
ماسٹر محمد اسعد صاحب {ریوتی شرن شکل} سے ایک ملاقات.. 40
محترمہ مومنہ تبسم عبدالکریم {ارچنا} سے ایک ملاقات.. 46
حسینہ بیگم {راج کماری} کے قبول اسلام کی ایمان افروز روداد 51
جناب عبداللہ پاٹل سے ایک ملاقات.. 56
محترمہ عفیفہ بہن {پریتی} سے ایک ملاقات.. 63
بھائی محمد نعیم الدین سے ایک ملاقات.. 69
ڈاکٹر محمد احمد سے ایک ملاقات.. 76
جناب جاوید احمد سے ایک دلچسپ ملاقات.. 80
مسعود احمد صاحب سے ایک ملاقات.. 87
محمد عمر صاحب {پون کمار کیوٹ} کا جیل سے لکھا گیا مکتوب.. 94
جناب ہارون صاحب سے ایک ملاقات.. 99
محترمہ زینب انجم {ریکھا لہاسے} سے ایک ملاقات.. 106
جناب شفیق احمد {راج کمار گپتا} سے ایک ملاقات.. 111
محمد اسعد پٹیل سے ایک ملاقات.. 118
ڈاکٹر محمد یوسف {سنیل کمار} سے ایک ملاقات.. 126
نورالامین {اشوک کمار سوم} بھائی سے ایک ملاقات.. 132
عبدالعزیز صاحب {پیر کھلائی ناتھ} سے ایک ملاقات.. 138
نور اللہ جی {اوم پرکاش} سے ایک ملاقات.. 143
عرض مرتب
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خیر امت اس لئے بنا یا ہے کہ اسے پوری انسانیت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے بھیجا گیا ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنَہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران:۱۱۰)اس آیت میں مسلمین اور مومنین کے بجائے ’’ناس ‘‘یعنی پوری انسانیت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں خصوصاً کفار مشرکین داخل ہے بلکہ اہل علم نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں ’’یَا اَیُّہَا النَّاسْ ‘‘کے لفظ سے زیادہ تر مشرکین ہی کو مخاطب کیا گیا ہے اور امام رازیؒ نے لکھا ہے کہ ’’معروف ‘‘سے مراد ’’ایمان ‘‘ اور ’’منکر‘‘ سے مراد ’’شرک ‘‘ہے اور امام رازیؒ کی تائید اس بات سے ہو تی کہ معروف کا رکنِ اعلی ’’ایمان ‘‘ ہی ہو سکتا ہے اور منکر کا رکنِ اعلی’’ کفر‘‘ ہی ہو سکتا ہے لہٰذا اس آیت کا یہ مفہوم ہو ا کہ مسلمانوں کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دیں اور کفر سے بچائیں اس خاص کام کی وجہ سے وہ’’ خیر امت ‘‘ہیں۔
پس ہما رے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں (جو ہمارے خونی رشتہ کے بھائی ہیں ) کے حقوق کو ادا کریں اگر ہم نے ان کے حقوق ادا نہیں کیے تو اللہ کے یہاں ہم ان کے بارے میں جواب دہ ہیں، اور رسول ا للہ ﷺ کا سامنا کر نے میں ہمیں شرمندگی نہ ہو نبی ﷺ تو دعوت ایمان کے لئے طائف میں پتھر کھائیں اور احد میں زخمی ہوں اور آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوں لیکن نبی کے ماننے اور چاہنے والوں کے تلووں میں اس فرض کو ادا کرنے میں کبھی ایک کانٹا بھی نہ چبھے اور ان کے دل میں انسانیت کے لئے کو ئی ٹیس بھی نہ پیدا ہو دعوت کی فکر و تڑپ ہمارے اندر پیدا ہوا اس کے لئے مہاجر بھائیوں اور بہنوں کے حالات زندگی مہمیز کا کام دیتے ہیں ان ہی کے حالات پر مشتمل انٹرویوز کی چار جلدیں اللہ پاک کی توفیق سے آپ با ذوق قارئین کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہیں جس کے کئی ایڈیشن ختم ہو چکے ہیں اور اب’’ نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ کی پانچویں جلد پیش کر نے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔
صاحبِ افادات داعیِ اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب مد ظلہم کا سایۂ عاطفت اللہ تعالیٰ ہمارے سروں پر تا دیر قائم رکھے اور اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مد ظلہم کو صحت و عافیت عطاء فرما کر تمام ملکوں تک اس صدا کو پہنچانے کے لئے قبول فرمائے۔ اس کتاب کی ترتیب و تصحیح میں جن لوگوں نے بندہ کا ساتھ دیا اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطاء فرمائے خصوصاً حضرت مولانا عبدالسلام صاحب پونوی مظاہری مدظلہٗ اور برادرم محمد یعقوب علی سلمہ نے اس کی تصحیح و ترتیب کا کام بحسن خوبی انجام دیا اور اس کتاب میں انٹرویوز کے عناوین مولانا الیاس بندے الٰہی صاحب اون،ضلع سورت، گجرات نے لگائے جو ماشاء اللہ بڑے پرکشش ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ یہ ہمارے لئے مسرت و افتخار کا مقام ہے کہ ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ کی پانچویں جلد مولانا جاوید اشرف صاحب ندوی مدنی مدظلہٗ العالی کی کا وشوں سے مدینہ منورہ سے شائع ہو رہی ہے، نبی ﷺ کے مقدس شہر اور بابرکت دیار سے،نبی ﷺ کی فکروں کے حیات کے لئے مولانا موصوف کا یہ اقدام قابل ستائش ہے اور ہمارے لئے نیک فال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطاء فرمائے اور امت کو اپنے فرض منصبی کا شعور عطا ء فرما کر دعوت پر کھڑا فرمائے۔ ـ ؎
فکر نبی ؐ جس کے سینے میں ہے
وہ کہیں بھی رہے مدینے میں ہے
فقط و السلام
بندہ محمد روشن شاہ قاسمی
۲۰ ذی الحجہ ۱۴۳۲ھ مطابق ۱۷ نومبر ۲۰۱۱ء بروز جمعرات
پیش لفظ
محمد کلیم صدیقی
خالق کائنات فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ، عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر،عَلِیْم وَخَبِیْر رب نے اپنے سچے کلام میں ببانگ دہل یہ اعلان فرمایا: ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰیٰ وَدِ یْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(سورہ التوبہ)
’’وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے، گو مشرکین کیسے ہی ناخوش ہوں ‘‘ حجاز مقدس کی حد تک جناب رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں دین حق دوسرے تمام باطل مذاہب پر غالب آگیا تھا، مگر یہ عالمینی دین سارے عالم میں غالب ہو نا ہے، اللہ کے سچے نبی ﷺ نے یہ خبر بھی دی ہے کہ ہر کچے اور پکے گھر میں اسلام داخل ہو کر رہے گا، قرب قیامت کے اکثر آثار ظاہر ہو چکے ہیں، اسلام کا پیغام پوری انسانیت تک پہنچانے کی ذمہ داری ختم نبوت کے صدقے میں ہمیں عطا کی گئی تھی، اس فرض منصبی سے مجرمانہ غفلت کی وجہ سے دین حق اسلام(جو خیر محض ہے) کا تعارف لوگوں کو نہ ہو سکا اور پوری دنیا میں اس عدم واقفیت کی وجہ سے، یا غلط واقفیت کے نتیجہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ اپنے نقطہ عروج پر ہے، مگر اللہ کی شان ہادی اور اس کی ربوبیت کے قربان، کہ اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے خلاف اس پروپیگنڈہ سے عام انسانوں میں اسلام کو جاننے کا تجسّس بڑھ رہا ہے، ایک زمانہ تھا کہ لوگ اسلام کو، مسلمانوں کے کردار معاملات اور اخلاق سے جانتے تھے، مگر اب جدید ذرائع ابلاغ کی کثرت خصوصاً انٹرنیٹ کی ایجاد نے حقیقی اسلام لوگوں کے بستروں تک پہنچا دیا ہے، اس کی وجہ سے پورے عالم میں جوق در جوق لوگ اسلام قبول کرتے دکھائی دیتے ہیں اور حیرت ناک بات یہ ہے کہ قبول اسلام کے واقعات مغربی ملکوں میں زیادہ ہیں جہاں سے خاص طور پر اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے، روحانیت، اہل محبت اور مذہب سے جنون کی حد تک تعلق رکھنے اور مسلمانوں کے بعد مذہب پر سب سے زیادہ قربانی دینے والوں کے ہمارے پیارے ملک ہندوستان میں بھی اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے۔پوری دنیا میں بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنے والوں کے حالات پر غور کیا جائے تو تین باتیں خاص طور پر حیرت ناک ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ ان خوش قسمت ہدایت یاب ہونے والے نومسلموں کے قبول اسلام میں مسلمانوں کی دعوتی کوشش کا دخل بہت کم ہے، اسلام کی کسی چیز میں کشش محسوس کر کے، اسلام مخالف کسی پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر اسلام کو جاننے کا شوق پیدا ہوا، اسلام کا مطالعہ کیا اور مسلمان ہو گئے، یا اپنے مذہب کی کسی رسم سے انفعال کے نتیجہ میں مذاہب کا تقابلی مطالعہ ہدایت کا ذریعہ بنا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان خوش قسمت دستر خوان اسلام پر آئے ہوئے نو مسلم مہمانوں کے ایمان، تعلق مع اللہ، دین کے لئے قربانی او ر دعوت کے جذبہ کو دیکھ کر خیر القرون کے مسلمان یاد آ جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا حال اللہ کے اس فرمان کا کھلا مظہر ہے۔
وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْ اَمْثَالَکُمْ (سورہ محمد)
’’اور اگر تم روگردانی کرو گے تو اللہ تعالی دوسری قوم پیدا کر دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘ اشاعت اسلام کے ان واقعات کی کثرت کے ساتھ جب ہم پوری دنیا کے حالات کے تناظر میں غور کرتے ہیں تو انتہائی خطرناک فکر کی بات سامنے آتی ہے کہ جس تیزی کے ساتھ بلکہ جس طرح جوق در جوق نئے لوگ اسلام کے سایہ میں آتے دکھائی دیتے ہیں اسی کثرت سے مسلمانوں کے مرتد ہو نے واقعات بھی دکھا ئی دیتے ہیں، بعض مرتبہ تو تعداد اور معیار کے لحاظ سے بالکل متوازی تبدیلی کا فیصلہ دکھا ئی دیتا ہے، کسی علاقہ میں جتنے نئے لوگ مسلمان ہو تے ہیں اتنے ہی مسلمان مرتد ہو جاتے ہیں یا جس معیار کا غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہو ا اسی معیار کا کوئی مسلمان مرتد ہو گیا۔
دستر خوان اسلام پر آنے والے ان نووارد خوش قسمت نومسلموں کی داستانیں، ہم رسمی اور خاندانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے والی اور جھنجھوڑنے والی ہو تی ہیں اور ان سے جہاں ایک طرف یاس میں آس دکھائی دیتی ہے، وہیں اپنے دعوتی فریضہ سے غفلت کی وجہ سے تبدیلی کی وارننگ بھی سنائی دیتی ہے، کسی نہ کسی طرح اشاعت اسلام کے یہ واقعات ایمانی حرارت پیدا کرنے اور غفلت و جمود توڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں، مسلمانوں میں ان خوش قسمت نومسلموں کے حالات پڑھ کر غیرت ایمانی پیدا ہو اور دعوت کا جذبہ رکھنے والوں کو حوصلہ ملے اور ان کی زندگی سے دعوتی تجربات سامنے آئیں، اس مقصد سے الحمد للہ ماہنامہ ارمغان نے چند سالوں سے ہر ماہ ایک نومسلم کی آپ بیتی کا سلسلہ بطور انٹرویو ’’نسیم ہدایت کے جھونکے ‘‘ کے عنوان سے شروع کیا تھا، یہ اشاعت اپنے مقصد میں بہت کامیاب ہوئی، ملک کے مختلف رسائل، اخبارات نے ان کو شائع کیا، ان کے مجموعے شائع ہوئے اور اردو کے علاوہ ملک کی دوسری زبانوں میں ترجمے شائع ہو نے لگے، اس سے الحمد للہ ملک بلکہ بیرون ملک میں مسلمانوں میں بڑا دعوتی جذبہ پیدا ہو ا اور ایک طرح سے صدیوں کا جمود ٹوٹا۔
یہ انٹرویو اس حقیر کے فرزند میاں احمد اوّاہ ندوی اور ان کی بہنوں اسماء ذات الفوزین امت اللہ اور مثنیٰ ذات الفیضین سدرہ نے لئے ہیں، ان آپ بیتیوں کے بعض مجموعے کتابی شکل میں پہلے بھی شائع ہو چکے ہیں، مگر اب مکمل طور پر کام کرنے کے لئے ہمارے ایک بلند ہمت رفیق، داعی الی اللہ، خادم قرآن و سنت، محب و مکرم جناب مفتی روشن شاہ صاحب قاسمی زید لطفہٗ نے نئی ترتیب کے ساتھ شائع کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے، مفتی صاحب کو اللہ تعالی نے بڑا حوصلہ اور بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے، انھوں نے لسان تبلیغ حضرت مولانا محمد عمر پالن پوری نور اللہ مرقدہٗ سے اپنے ذاتی اور طویل تعلق کی بنا پر خاص استفادہ کیا ہے اور ہمارے تبلیغی اکابرین کی تقریروں اور ملفوظات کی ترتیب و اشاعت کا مبار ک کام اللہ نے ان سے لیا ہے اور بہت کم وقت میں خود الحمد للہ علاقہ میں تعلیم و دعوت کے سلسلہ میں قابل رشک خدمات ان سے لی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو دینی دعوتی خدمات کے لئے بھی بڑے جذبہ اور سلیقہ سے نوازا ہے، انھوں نے نو مسلموں کی ان تمام آپ بیتیوں کو جو ارمغان میں شائع ہو ئی ہیں ترتیب وار مرتب کر کے اشاعت کا پروگرام بنایا ہے، یقیناً ایک مبارک قدم ہے اور مفتی صاحب موصوف کی طرف سے ملت کے لئے ایک مبارک تحفہ ہے، جسے وہ ’’نسیم ہدایت کے جھونکے ‘‘ کے نام سے ملت کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
میں مفتی صاحب موصوف کو اس اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں، بہ دل و جان دعا ہے کہ یہ مجموعہ خیر امت کے افراد کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر پھر ماضی کی عزت اور خیر امت کے منصب پر لانے کا ذریعہ بنے اور مفتی موصوف کے لئے ذخیرۂ آخرت اور سعادت دار ین کے حصول کا وسیلہ ثابت ہو۔
خاک پائے خدامِ دین
محمد کلیم صدیقی
جمعیت شاہ ولی اللہ، پھلت ضلع مظفر نگر،یوپی
۲ جمادی الثانیہ ۱۴۳۰ھ
تقریظ
محمد عوامہ
مدینہ منورہ سعودیہ عربیہ
(عربی نسیم ہدایت کے جھو نکے کی تقریظ کا یہ ترجمہ ہے)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ الذی ہدانا للاسلام وما کنا لنہتدی لولا ان ہدانا اللہ،والصلوات التامات والتسلیمات المبارکات علی سیدنا محمد سید السادات،والہ و اصحابہ ذوی المقامات العلیا وعلیٰ من تبعہم واقتفیٰ اثرہم بالدعوۃ الی سبیلہ بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ۔ اما بعد
عالم با عمل صاحب بصیرت اور دور اندیش داعی اسلام جناب حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب دامت برکاتہٗم سے پہلے بھی کئی بار مدینہ منورہ میں شرف ملاقات کی سعادت سے بہرہ مند ہو چکا ہوں، اللہ تعالی آپ کو اپنی امان میں رکھے،اور آپ کی مخلصانہ مساعی جمیلہ سے مسلمانوں کو استفادہ کا موقع عنایت فرمائے،اللہ نے ہندوستان میں بھی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،احمد بن عبد الرحیم کے مولد و مسکن موضع پھلت میں آپ کی ملاقات و زیارت کا شرف بخشا،اور پھلت کی اس جامعہ میں جس کے آپ بانی مبانی ہیں، اور جو حضرت شاہ ولی اللہ کے نام نامی سے منسوب ہے۔جامعہ کے اساتذہ،طلباء سے مل کر آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں اور دل میں فرحت پیدا ہوئی، الحمد للہ علیٰ ذلک۔
موصوف حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نانیہالی خاندان کے چشم و چراغ ہیں، جو خاندان ایک عظیم اور با برکت خاندان ہے، پیدائشی طور پر آپ عجمی ہیں لیکن اپنی اصل اور خاندانی طور پر خالص عربی ہیں، جناب حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب علم و عمل اور دعوت الی اللہ کے میدان میں ایک ایسی مبارک درخت کی شاخ ہیں جو کہ افراط و تفریط سے پاک ہے،اور یہ درخت با صلاحیت صالح علماء اور دعاۃ کرام کے امام اور پیشوا شیخ ابو الحسن علی ندوی کی ذات گرامی قدر ہے۔اللہ تعالی آپ کو اپنی رحمت کے سایہ میں ڈھانپے،اور اپنی رضا عطا فرمائے۔ موصوف حضرت مولانا علی میاں ندوی کے مسترشدین میں سے بھی ہیں اور آپ کو ان کو جانب سے خلافت بھی حاصل ہے۔شیخ ابو الحسن ہی کی ایما پر آپ نے دعوتی جدو جہد شروع فرمائی اور بحسن و خوبی اس کو انجام دینے میں ہمہ تن مصروف ہیں، آپ اپنے اسلاف کے بہترین جانشین ہیں۔
علوم و معارف کے راستہ میں زبان و وطن کی اجنبیت اور دوری ایک بڑی رکاوٹ اور حجاب ہوا کرتی ہے،جو علوم سے استفادہ کے لئے مانع ہوتی ہے،اسی بنا پر جناب مولانا کلیم صدیقی نے بفضلہ تعالی عربی زبان میں ایک رسالہ’’ الخیر‘‘ اور اردو زبان میں ماہنامہ ’’ارمغان ‘‘کے نام سے دعوت اسلام اور تعلیمات اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے، اور دسترخوان اسلام پر آنے والے ان نووارد اور خوش قسمت حضرات کے انٹرویوز اور کارگذاریاں شائع کرنے کے لئے،جو موصوف محترم کی دعوت سے متاثر ہو کر جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں، جاری کئے ہیں۔ اللہ کے احسان اور اس کی توفیق کے نتیجہ میں شیخ کے دست حق پر اور آپ کے ذریعہ اسلام لانے والے خوش قسمت افراد کے ہاتھوں پر لاکھوں افراد مشرف باسلام ہو چکے ہیں، اور یہ خوش قسمت لوگ ہندوستان کے مختلف طبقات اور مختلف عمروں کے ہیں۔
بہت سے وہ افراد جنھیں اللہ تعالی نے ہدایت یاب فرمایا ہے اور ان کے قلوب کو نور اسلام سے منور فرمایا ہے،ان کے عجیب و غریب اور عبرت آموز قصے تاریکیوں سے روشنی کی طرف آنے اور گمراہی سے ہدایت پانے کے موصوف نے دو جلدوں میں شائع فرمائے ہیں، پھر عربی زبان میں منتقل شدہ انٹرویوز کو آپ کے فیض یافتہ اور داماد جناب ڈاکٹر محمد اویس صاحب نے ایک کتاب میں یکجا کرنے کا کام شروع کیا ہے، جو کہ حجم کے اعتبار سے مختصر ہے لیکن اس کی زبان سلیس ہے اور ترجمہ با محاورہ ہے،اللہ تعالی ڈاکٹر محمد اویس صاحب کو نظر بد سے محفوظ رکھے اور مزید ہمت اور توفیق بخشے۔انھوں نے مجھے پہلی جلد ہدیہ کی ہے، جو ۲۷۰ صفحات پر مشتمل ہے،اور جس میں کل بیس خوش قسمت حضرات و خواتین کے انٹرویوز اور کارگذاریاں جمع کی گئی ہیں، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برادرم محمد اویس صدیقی نانوتوی ایک جلیل القدر عالم دین، جناب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے خاندان کے ایک فرد ہیں، مولانا قاسم نانوتویؒ اسلامی بیداری اور تعلیمات اسلام کے امام ہیں، اور آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی ایک عظیم الشان دارالعلوم موضع دیوبند میں قائم ہوا،پھر اس دارالعلوم کا فیض اولاً ہندوستان میں اور ثانیا ً عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں پہنچا۔اہل علم کے نزدیک دارالعلوم ازہر ہند کی حیثیت سے جانا پہچانا جا تا ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی خاندانی طور پر صدیقی ہیں، آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے،زیر نظر کتاب ’’ہبات من نسیم الہدایۃ‘‘ میں جو ایک خاص قسم کی حلاوت اور شیرینی ہے وہ بغیر اس کے مطالعہ سمجھ میں آنی مشکل ہے۔اور اس کے تجرباتی مطالعہ کے لئے ایک لمبی مدت درکار ہے لیکن میں ذیل میں کچھ اہم اور قابل ذکر باتیں پیش کر رہا ہوں۔
۱) اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ لوگوں کے قلوب کی زمین بالکل ہموار ہے،اور دلوں میں ہدایت کی طلب اور پیاس موجود ہے،اور دعوت کے لئے میدان بہت کشادہ ہے،لہٰذا مخلصین حضرات اس کوچہ دعوت میں آئیں اور اپنے اپنے جوہر دکھائیں، بقول شاعر:
راستے بند ہیں سب کوچہ دعوت کے سوا
۲) اس کتاب کے مطالعہ سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو تا ہے،اور یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ اسلام بالکل فطری دین ہے،اس لئے اس کی دلیلیں بھی بالکل فطری ہیں، عقائد،عبادات اور اخلاق وغیرہ کے بیان میں اس کے لئے فلسفیانہ اور مناظرانہ انداز اور دلائل کی بالکل گنجائش نہیں ہے اور داعی اپنے مدعو کے دل کو دستک نہیں دے سکتا ہے،اور نہ اس کے قلب کے پردہ کو اٹھا سکتا ہے،مگر بالکل فطری انداز میں اور مسلسل لگن کے ساتھ۔ ایک عرصہ تک علماء اسلام اپنے ہمعصروں کے ساتھ اپنے فلسفیانہ اور مناظرانہ دلائل اور انداز کے ساتھ میدان دعوت میں مشغول و مصروف رہے۔
۳) کتاب پڑھ کر ایک فائدہ یہ ہو تا ہے کہ داعی کے ساتھ ہمیشہ علم و حکمت کا توشہ رہنا چاہئے،تاکہ بوقت ضرورت داعی بحسن و خوبی میدان دعوت میں اس سے فائدہ اٹھا سکے۔
۴) داعی بلکہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا کردار اسلامی اخلاق کی روشنی میں آراستہ کرے تاکہ وہ دوسروں کے لئے ایک عمدہ نمونہ ثابت ہو سکے،اور صرف قول ہی سے نہیں بلکہ اپنے حال سے بہترین داعی ثابت ہو۔
۵) درج بالا فوائد کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کتاب کے مطالعہ سے اخذ ہوتی ہے کہ دعوت الی اللہ کے میدان میں کامیابی ایک God Gift(خدائی عطیہ ہے)،اور یہ بات فضیلۃ الشیخ مولانا محمد کلیم صدیقی دامت برکاتہٗم جیسے دعاۃ کی رہنمائی اور تجربہ سے بھی حاصل ہو سکتی ہے۔
اخیر میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میں ’’ہبات من نسیم الہدایۃ‘‘ کی دوسری جلد کا ابھی سے منتظر ہوں، اس کے اندر ہماری عقلوں کے لئے غذا اور روح کی تسکین کا سامان موجود ہے۔بفضلہ تعالی یہ کتاب اسلام اور مسلمانوں کے لئے روشنی اور مستقبل کی بشارت دیتی ہے۔ محمد عوامہ
مدینہ منورہ
۶ رجب ۱۴۳۲ھ
تقریظ
وصی سلیمان صاحب ندوی
دعوتِ دین مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، اسی عمل سے ان کی سر بلندی اور سرفرازی رہی۔ اور اس کو ترک کرنے کی وجہ سے وہ خدا و خلق کی نگاہ میں بے اعتبار اور بے حیثیت ہوتے گئے، مسلمانوں کو موجودہ زمانہ میں جتنے مسائل درپیش ہیں اور ان کی انفرادی اور اجتماعی حیثیت کے لئے جو چیلنج موجود ہیں ان سب کا حل اور مشترک علاج کارِ دعوت سے عملاً وابستگی ہے، اسپین کے مسلمان دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے کس چیز میں پیچھے تھے؟مال و دولت کی ان کے پاس کمی نہیں تھی علم و فن فلسفہ و سائنس میں دنیا کی پیشوائی کر رہے تھے، لیکن داعیانہ صفت کے فقدان کے بعد کوئی دنیاوی اور علمی ترقی ان کے قومی اور مذہبی وجود کی ضامن نہیں بن سکی۔
اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ دنیا کے ہر خطّہ میں اپنے مذہب و عقیدہ اور تہذیبی و ثقافتی شناخت کے ساتھ با عزت زندگی گزاریں اور انہیں آبرومندانہ پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل ہوں تو انہیں سب سے پہلے اس کارِ منصبی کی طرف پوری توجہ کرنی ہی پڑے گی، قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیتوں کے سیاق و سباق اسکے ظاہر و باطن اور بین السطور پر غور کرنے سے یہ حقیقت پوری طرح واضع ہوتی ہے، یَا اَیُّہَا الرَّسُولُ بلِّغْ مَا اُنْزِلُ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدہ:۶۷) اے رسول !جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو، اگر تم نے یہ نہ کیا تو تم نے کارِ رسالت کا حق ادا نہیں کیا اور اللہ تم کو لوگوں (کے شر) سے بچائے گا، ماہنامہ ارمغان (پھلت ضلع مظفر نگر یوپی)جو ایک خالص دینی دعوتی رسالہ ہے اس کے مقاصد میں ابتدا ہی سے یہ جذبہ شامل ہے کہ خدا کے بندوں کو خدا سے ملانے اور بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے کے لئے ملت اسلامیہ کو آمادہ کیا جائے اور انہیں ان کا بھولا ہو ا سبق یاد دلایا جائے اس سلسلہ میں دینی دعوتی ذہن رکھنے والے اہل قلم خصوصاً داعیِ اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کی مختلف موضوعات کی دعوتی تحریروں کے ساتھ ’’نسیم ہدایت کے جھونکے ‘‘کے عنوان سے ہر ماہ اسلام قبول کرنے والی ایک خوش نصیب شخصیت کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا گیا الحمد للہ یہ سلسلہ توقع سے بڑھ کر کارآمد اور مفید ثابت ہوا اور اس نے ملک کی جامد فضا میں ایک ارتعاش پیدا کر دیا، خصوصاً دعوت کی راہ کے مختلف مسائل کو سمجھنے اور اس سلسلہ کی بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی راہ ہموار ہوئی اور بڑے پیمانے پر دعوتی ذہن سازی کا کام انجام پایا، ایک ارب سے زائد آبادی کے اس ملک میں جہاں تقریباً ہر پانچواں فرد مسلمان ہے اور خیر امت ہونے کے سبب داعی الی اللہ کے منصب پر فائز ہے، اتنی بڑی تعداد تک یہ پیغام پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر صوبہ اور ہر شہر سے یہ آواز بلند ہو اور چراغ سے چراغ جلتے رہیں، مقامِ شکر ہے کہ ملک کے ایک ممتاز عالم و مصنف اور داعیِ دین مفتی محمد روشن شاہ قاسمی نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور ان انٹرویوز کو نئی ترتیب و تزئین کے ساتھ پیش کر دیا موجودہ زمانہ میں دعوت کے لئے ماحول بہت سازگار ہے، پوری دنیا میں قبول اسلام کی لہر چل رہی ہے اور لوگ از خود اسلام کی خیر کی طرف لپک رہے ہیں اس لئے اگر تھوڑی سی دردمندی اور انسانیت کو دوزخ سے بچانے کی تڑپ اور فکر کے ساتھ دعوت پیش کی جائے تو توقع سے بڑ ھ کر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں، ان تمام انٹرویوز کا یہی مشترکہ پیغام ہے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی اس درد مندانہ گفتگو پر یہ تحریر ختم کی جاتی ہے : کیا اسلام کے لئے اب بھی وقت نہیں آیا کہ وہ اقوام بھی دریوزہ گری چھوڑ کر اپنے روایتی استغناء اور غیرت مندی کی بنیادوں پر کھڑی ہوں اور اپنے اساسی مقصد (دعوت الی اللہ) کو سنبھالے جس سے اس کی حقیقی برتری کا جلوہ دنیا پھر ایک بار دیکھ لے جو صرف دعوتِ دین ہی کے راستہ سے نمایاں ہو سکتا ہے۔‘‘
(دینی دعوت کے قرآنی اصول، مؤلفہ حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ ص:۱۶)
وصی سلیمان ندوی
۸ جمادی الثانیہ ۱۴۳۰ھ
تبصرہ
سید محمد شاہد صاحب سہارنپوری
داعیِ اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہٗ ناظم جامعہ امام ولی اللہ پھلت،مظفر نگر، کو حق تعالی شانہٗ نے دین کی دعوت اور اسلام کے عالم گیر پیغام اخوت کو برادران وطن تک پہنچانے کے لئے ایک خاص سلیقہ اور مخصوص جذبہ عطا فرمایا ہے، چنانچہ اسلامی تعلیمات سے متأثر ہو کر کثرت کے ساتھ ان کے ذریعہ قبول اسلام کا سلسلہ رواں دواں ہے، اور جس کے نتیجہ ہندوستان اور بیرون ہند میں تبلیغ اسلام کی ایک عظیم اور جدید تاریخ مرتب ہو رہی ہے، حق تعالیٰ شانہٗ مولانا موصوف کی حفاظت فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔
پیش نظر کتاب ایسے ہی قبول اسلام کرنے والے نومسلم بھائیوں کی کہانی ہے جو خود انہی کی زبانی انٹرویو کے طور پر مرتب کی گئی ہے، مولانا مفتی محمد روشن شاہ قاسمی، اکولہ، مہاراشٹر، اس کتاب کے مرتب ہیں، کتاب اپنے مضامین کی اثر انگیزی اور دین کے خاطر جان و مال، عزت و آبرو کی قربانی دینے والوں کے عبرت انگیز حالات کی وجہ سے اس درجہ تاثیر اور کشش اپنے اپنے اندر رکھتی ہے، کہ مختصر سے مختصر عرصہ میں اس کے متعدد ایڈیشن (ہندوستان و بیرون ہند )سے شائع ہوئے،جب کہ حال ہی میں اس کا جدید ایڈیشن کتب خانہ اشاعت العلوم محلہ مبارک شاہ سہارنپور سے بھی شائع ہو کر آ چکا ہے، کتاب چھ حصوں پر مشتمل ہے اور اس میں ۱۰۸ برادران وطن کے قبولیت اسلام کی تاریخ اور حیرت انگیز داستان آ گئی ہے، خدا کرے یہ سلسلہ دراز تر ہو اور اس مبارک جدوجہد کے ثمرات کی مزید تاریخ اور داستان امت مسلمہ کو پڑھنے بلکہ نصیحت اور اثر پذیری کے لئے ملتی رہے۔
(ماہنامہ یاد گارِ شیخ محلہ مفتی سہارنپور جون، جولائی ۲۰۱۰ء)
تبصرہ
مفتی محمد شعیب
مذکورہ کتاب کوئی مستقل تصنیف و تالیف تو نہیں مگر اپنی افادیت اور اثر آفرینی کی باعث مستقل تصنیف و تالیف سے بڑھ کر ہے در اصل یہ کتاب ان نو مسلم بھائیوں کی داستانِ حیات ہے جنہوں نے کفر و شرک سے بیزار ہو کر بالواسطہ یا بلاواسطہ داعی ٔ اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب دامت برکاتہٗم کے دست حق پرست پر کفر و شرک سے توبہ کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ وہ بھی ہیں جنہوں نے حالت کفر میں مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے ہر اول دستہ کی قیادت کی اور اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے اس میں جی جان سے لگے تا کہ ان کی آتما (روح)کو سکون و چین ملے مگر انہیں سکون کے بجائے بے سکونی، بے چینی،ڈر اور خوف ملا۔اور بالآخر انہیں چین و سکون اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں نصیب ہو ا اور پھر اسلام لانے کی پاداش میں ہر تکلیف کو برداشت کیا مگر کوئی تکلیف بھی ان کے پاؤں کو متزلزل نہیں کر سکی۔درحقیقت ان نو مسلم بھائیوں کی یہ داستانِ ایمان ہم جیسے خاندانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے جھنجھوڑتی اور ہماری حقیقت کو آئینہ دکھاتی ہے اور بلاشبہ بعض مرتبہ اپنے اوپر شک گذرنے لگتا ہے کہ ہم مسلمان بھی ہیں یا نہیں۔
اس لئے کتاب کی خوبیوں کا اندازہ تو صرف پڑھنے ہی سے ہو گا کتاب ہر خاص و عام کے پڑھنے کی ہے خصوصاً دعوتی کام کرنے والوں کے لئے تو بہت ہی اہم ہے کیونکہ اس سے نیا عزم و حوصلہ ملے گا نئی راہیں کھلیں گی اور دعوتی کام میں آنے والی ہر تکلیف کو برداشت کرنا آسان ہو جائے گا۔
(ماخوذ از ماہنامہ مظاہر علوم جنوری ۲۰۱۰ء ص۴۷)
آغازِ سخن
آیئے عہدِ وفا تازہ کریں
زمین و آسمان کے مالک جس نے اس پوری کائنات کو اپنے حکم سے پیدا فرمایا اس کو خوبصورتی عطا کی اور اپنی انگنت مخلوقات سے اس کو آباد کیا، اس نے اس پوری کائنات کو اپنے تعارف، پہچان اور شناخت کا ذریعہ بنا دیا، اسی نے اس کی حکمرانی، پاسبانی اور نگرانی کے بطور انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس عالم میں اپنا نائب بنایا، اِنِّیْ جَاعِل فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَۃ (ترجمہ:میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں )اور حضرت انسان کی رہنمائی اور رہبری اور رشد و ہدایت کی راہ پر لانے کے لئے نبیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری فرمایا جو حضرت آدم ؑ سے شروع ہو کر جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر آ کر منتہی ہوا تاکہ یہ انسان وہ عہد الست بھول نہ جائے جو اس نے عالم بالا میں اپنے پروردگار سے کیا تھا، اللہ کے یہ برگزیدہ بندے اپنے اپنے دور میں قوموں، قبیلوں اور خاندانوں میں بھیجے گئے اور دین کا، ایمان کا، اخلاق کا، انسانیت کا سبق بھٹکے ہوئے انسانوں کو دیتے رہے اور اخیر میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اس کارزار عالم میں اس سلسلہ کی آخر ی کڑی بن کر تشریف لائے اور دنیا کے باطل ایوانوں میں توحید خداوندی کی ایک پر اثر آواز سے لرزہ پیدا کر دیا اور انسان کو انسانیت کا وہ سبق جو اس نے بھلا دیا تھا پوری قوت، طاقت، ہمت اور قربانی کے ساتھ یاد دلایا آپ ﷺ کی یہ آواز کہ ’’اے لوگو!لا الہ الا اللہ کہہ دو کامیاب ہو جاؤ گے‘‘ مکہ کے ایک بنجر پہاڑ کی چوٹی سے بلند ہوئی اور پورے عالم میں پھیل گئی آپ ﷺ اپنے ساتھ خدا کی طرف سے ایسا دستور العمل اور قانون و شریعت لیکر آئے جو انسانی فطرت کا ہمراز اور دم ساز تھا زمین و آسمان نے کبھی اتنے مؤثر اور ہمہ گیر قانون کا تجربہ نہیں کیا تھا، لہٰذا باطل کے سارے نظام ان کے نظام کے سامنے فیل ہو گئے اور قرآنی تعلیمات، اس کی آیات اور نشانات کے ذریعے انسان نے انسانیت کا ایسا سویرا دیکھا جس میں ساری تاریکیاں کافور ہو گئیں۔
ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ‘ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (سورہ الصف آیت: ۶) ترجمہ:’وہی ہے جس نے ہدایت اور سچا دین دیکر اپنے رسول ﷺ کو بھیجا تاکہ دین کے تمام بناوٹی شکلوں پر اس سچے دین کو غالب کر دے چاہے مشرک لوگ کتنا ہی برا مانتے رہ جائیں ‘ یہ لا زوال ابدی ہدایت کا سرچشمہ وہ قرآن مجید ہے جس کے بارے میں خود اس کے بھیجنے والے نے یہ کہا ’’یہ ایک پیغام ہے تمام انسانوں کے لئے اور یہ بھیجا گیا اس لئے کہ ان کو اس کے ذریعے خبر دار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے۔‘‘
محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے صرف رہبر انسانیت ہی بنا کر نہیں بھیجا بلکہ ان کو شرافت اور زندگی کے لئے صلاح و فلاح اور صفات حسنہ کا نمونہ بھی بنا کر بھیجا مزید یہ کہ انسانیت کو راہ راست اور معیا ر اعلیٰ پر لانے کے لئے ایسی کاوش کے ساتھ بھیجا جس سے انسانوں کو جانوروں جیسی بے مہار زندگی سے نکل کر خیر و کامیابی کی زندگی میں داخل ہونے کی راہ ملی، رب العالمین نے اسی بنیاد پر ان کو رحمت للعالمینی کی صفت عطا فرمائی، وہ امت جس کی طرف آپ بھیجے گئے اس کو بھی دعوت الی اللہ اور کلمہ توحید کو عام کرنے کے لئے ایسے مکلف بنایا گیا کہ جس کے کرنے پر ہی اسکی خیر و فلاح اور کامیابی و کامرانی کو مقدر کیا گیا، کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ۔۔۔الخ، لہٰذا تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امت نے جب جب دعوت کی ذمہ داری کو پورا کیا وہ کامیاب رہی اور جب جب اس فریضہ سے غافل ہوئی امت ذلت و رسوائی سے دو چار ہوئی، انفرادی اعتبار سے ہو یا اجتماعی اعتبار سے جب جب پیاسی قوموں تک حق و صداقت کی بات اور کلمہ توحید کی دعوت پیش کی گئی، ایمان و اسلام کی بارشیں برسیں، نسیم ہدایت کے جھونکے چلے اور اس کے دامن میں سلگتی، سسکتی، تڑپتی، کراہتی انسانیت نے راحت و آرام چین و سکون اور اطمینان کی سانس لی آج کے اس پُر آشوب دور میں بھی الحمد للہ جو لوگ اس فرض منصبی کو ادا کرنے میں سرفروشانہ جدوجہد کر رہے ہیں، خداوند عالم اپنے فضل ا ور ان کی محنتوں سے بھٹکتے انسانوں کو جادہ حق و صراط مستقیم سے ہم کنار کر رہا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کی تڑپ کڑھن سوز و اضطراب اور ان کا درد لے کر پوری انسانیت کو مخلوق پرستی کی لعنت سے نکال کر خالق سے جوڑ نے اور کفر اور شرک کی بھول بھلیوں سے نکال کر توحید کی شاہ راہ پر لانے کی کوشش کریں، اسی کے ساتھ یہ موازنہ بھی کریں کہ اس فرض منصبی کو ادا کرنے میں ہم کہاں تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں، اور جو واقعات آپ ﷺ کی زندگی میں پیش آئے ہمیں ان سے کہاں تک مناسبت ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے اس ذمہ داری کو پس پشت ڈال دیا کہیں ایسا تو نہیں کہ دھکے کھا کھا کر جس پیغام کو رسول اللہ ﷺ نے ہم تک پہنچایا تھا اسے ہم دھکے دے دے کر اپنے گھروں سے نکال رہے ہیں کیا کسی کو کفر و شرک کی حالت میں دیکھ کر ہمارا دل بے چین ہوتا ہے، کیا کسی کو کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھ کر ہماری آنکھیں نم ہوتی ہیں، کیا طائف کے واقعہ کی کوئی جھلک ہماری زندگی میں پیش آئی کیا خواب میں بھی دعوت کے لئے کسی گھاٹی میں نظر بندی کی سعادت ہمیں نصیب ہوئی ہے، پھر ہم کیسے آپ کے امتی ہیں امت کے کندھوں پر ڈالی گئی ان آفاقی ذمہ داریوں کا تقاضہ ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اسوہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے فرض منصبی کو سمجھیں اور ایک لمحہ ضائع کئے بغیر دعوت الی الایمان کے لئے متحرک ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد کو وفا کرنے کی کوشش میں ہمہ تن مصروف ہو جائیں اور امت کی زبوں حالی پستی و ذلت کا علاج اسی نسخہ شفاء سے کریں جسے رسول اللہ ﷺ نے امت کے ہر فرد کے ہاتھوں میں دیا تھا، اللہ ہم سب کو اپنا فرض منصبی ادا کرنے کی توفیق دے۔
محمد روشن شاہ قاسمیؔ
٭٭
انتہائی ایذا رسانی کے باوجود حضرت داعیِ اسلام کی شفقت
مزمل بھائی{سوہن ویر} سے ایک ملاقات
سوال : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
جواب : و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
سوال : مزمل بھائی آپ کا نمبر بھی آ ہی گیا؟
جواب : جی احمد بھائی، میں نے آپ سے کتنی بار کہا کہ میرا انٹرویو بھی لے لو۔
سوال : تمہارا حال تمہیں خود معلوم ہے کیسا تھا، کیا وہ اس لائق تھا کہ اسے چھپوایا جائے،وہ تو ایسا حال تھا اسے چھُپایا جائے بس پھر یہ بات بھی تھی کہ ابی جس کے بارے میں فرماتے ہیں میں ان سے ہی بات کرتا ہوں، میں نے ابی سے تمہاری بات کہی تھی،تو ابی کہتے تھے ذرا انتظار کر لو اس کا حال ذرا اس لائق ہونے دو۔
جواب : مشہور ہے کہ بارہ برس میں کوڑی کے دن بھی بحال ہو جاتے ہیں، احمد بھائی مجھے بارہ برس اسلام قبول کئے ہوئے ہو گئے بلکہ اگر میں کہوں کہ اسلام قبول کرنے کا ڈھونگ بھر ے ہوئے، تو یہ بھی صحیح ہے۔
سوال : مزمل واقعی ہم پر تمہارا احسان ہے کہ تمہاری وجہ سے ہم نے ابی کو پہچانا اور ہمیں معلوم ہوا کہ کسی کو برداشت کرنا اور صبر کرنا کس کو کہتے ہیں، ورنہ اچھے اچھے ہمت ہار جاتے ہیں ؟
جواب : احمد بھائی آپ حضرت کے گھر میں سب سے نرم،برداشت کرنے والے اور رحم دل ہیں، آپ نے بھی مجھے دو دفعہ پھلت سے بھگایا، لیکن حضرت دونوں دفعہ مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر ساتھ لے آئے۔
سوال : اچھا اب ڈیڑھ سال سے تم نے کوئی ڈرامہ نہیں کیا،کہتے ہیں چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہیں جاتا،تو کیا اب تمہارے دل میں پرانی حرکتیں کرنے کی بات نہیں آتی۔
جواب : الحمد للہ میرے اللہ کا کرم ہے (روتے ہوئے) اب کچھ بھی نہیں آتی۔
سوال : تمہیں کلمہ پڑھے ہوئے کتنے دن ہوئے؟
جواب : کون سا والا کلمہ پڑھے ہوئے،میں نے تو بیسیوں بار کلمہ پڑھا ہے۔
سوال : تم نے اسلام قبول کرنے کے لئے کلمہ کب پڑھا؟
جواب : مولوی احمد ! میں نے ہر دفعہ اسلام قبول کر نے کے لئے کہہ کر کلمہ پڑھا، سب سے پہلا ڈرامہ میں نے ۹ جون۱۹۹۸ء میں کلمہ پڑھنے کا کیا تھا، جب تھانہ بھون کے ایک بڑے آدمی چودھری صاحب مجھے حضرت کی خدمت میں لے کر آئے تھے،اس کے بعد میں ضرورت کے لحاظ سے بار بار کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کا ڈرامہ کرتا رہا، لیکن ۳ مارچ۰۰۹ ۲ء کو مجھے حضرت نے جامع مسجد پھلت میں دس بج کر بائیس منٹ پر کلمہ پڑھوایا تھا اس کے بعد سے کوشش کرتا ہوں کہ اس پر جما رہوں، ہمارے حضرت کہتے ہیں کہ مجھے ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ ایمان رہا کہ نہیں، اس خوف سے مغرب کے بعد اور فجر کے بعد ایک دفعہ روزانہ ایمان قبول کرنے کے لئے کلمہ پڑھتا ہوں، آپ نے تو سنا ہو گا، کوئی نو مسلم آ کر کہتا ہے کہ میں نو مسلم ہوں، حضرت معلوم کرتے ہیں کب مسلمان ہوئے؟ تو وہ بتاتا ہے کہ دو مہینے ہو گئے،دو سال ہو گئے۔حضرت کہتے ہیں کہ آپ تو مجھ سے پرانے مسلمان ہو میں نے ابھی فجر کے بعد اسلام قبول کیا ہے یا مغرب کے بعد،حضرت تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر بچہ سچے نبی ﷺ کی سچی خبر کے مطابق مسلمان پیدا ہوتا ہے، تو اب آپ نو مسلم کہاں ہوئے آپ تو پیدائشی مسلمان ہیں، الحمد للہ ۹ جون سے روزانہ صبح و شام ایمان کی تجدید کرتا ہوں دن رات میں کبھی کبھی درمیان میں بھی کلمہ پڑھ لیتا ہوں کہ شاید ابھی موت کا وقت قریب ہو۔
سوال : آج کل تم کہاں رہ رہے ہو؟
جواب : میں آج کل حضرت کے حکم سے سہارن پور کے ایک مدرسہ میں پڑھ رہا ہوں، یہ تو آپ کے علم میں ہے کہ میں اگست ۲۰۰۹ء میں چار مہینے جماعت میں لگا کر آیا، اور قرآن شریف ناظرہ اور حفظ سات مہینے میں مکمل کیا،۵ اپریل۰۱۰ ۲ء کو میرے حضرت ہمارے مدرسہ میں تشریف لائے، میرے ختم قرآن کی دعا ہوئی،حضرت پر اس قدر رقت طاری تھی کہ تقریر کرنا مشکل ہو گیا اور چالیس منٹ کی دعا کرائی، سارا مجمع روتا رہا، حضرت نے پروگرام کے بعد کھانا کھاتے ہوئے یہ بات کہی کہ آج مجھے مزمل کے حفظ کی جتنی خوشی ہوئی اگر اللہ نے بخش دیا اور جنت میں جانا ہوا تو شاید اتنی خوشی بس اس روز ہو گی،اس کے بعد میں نے دَور کیا اور الحمد للہ میں نے جماعت میں عادل آباد میں وقت لگایا،اور ساتھیوں کو قرآن شریف سنایا،اس سال الحمد للہ عربی پڑھنی شروع کر دی ہے، میں نے حضرت سے وعدہ کیا ہے کہ انشاء اللہ جلد حضرت کو عالمیت کی سند دکھانی ہے، ثم انشاء اللہ۔
سوال : قرآن مجید تو آپ کا بالکل پکا ہو گیا ہے، مگر آپ نے بڑی عمر میں حفظ کیا ہے اس لئے یاد کرتے رہنا چاہئے؟
جواب : حضرت سے میں نے معلوم کیا تھا کہ ہمارے نبی ﷺ کا کتنا قرآن پڑھنے کا معمول تھا تو حضرت نے بتایا کہ ایک منزل روزانہ، اور بہت سے صحابہ کرام کا ابھی آپ ﷺ کی اتباع میں اس معمول کا ذکر آتا ہے،میں نے عید کے بعد سے تہجد میں ایک منزل پڑھنا شروع کیا ہے، چند دنوں کے علاوہ جب مجھے ڈینگو ہو گیا تھا الحمد للہ ابھی تک ناغہ نہیں ہوا ہمارے مدرسہ میں صفر گھنٹے میں ترجمہ قرآن پڑھایا جاتا ہے، الحمد للہ مجھے خاصا قرآن سمجھ میں آنے لگا ہے، کبھی کبھی بہت ہی مزا آتا ہے۔
سوال : شروع میں جب۱۹۹۸ء میں تم نے کلمہ پڑھا تھا تو اس وقت تمہارا ارادہ مسلمان ہونے کا تھا کہ نہیں ؟
جواب : اصل میں آپ کو معلوم ہے، میں تھانہ بھون کے قریب ایک بھنگی خاندان میں پیدا ہوا،ہمارے خاندان والے گاؤں کے چودھریوں کے یہاں صفائی وغیرہ کرتے تھے،میرے پتاجی دسویں کلاس تک پڑھے ہوئے تھے،اور سوسائٹی میں ملازم ہو گئے تھے،میری ماں بھی پڑھی لکھی ہیں، وہ ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر ہیں انھوں نے ہی مجھے پڑھایا،میں بہت ذہین تھا،ہائی اسکول میں فرسٹ ڈویزن پاس ہوا،گیارہویں کلاس میں پہلے مجھے شراب کی لت لگی پھر اور دوسرے خطرناک نشوں کا عادی ہو گیا،اور اس طرح کے لڑکوں کے ساتھ بری سنگتی (صحبت)ہو گئی، ان میں ایک دو مسلمان بھی تھے،انٹر پاس کر کے میری ماں مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں، مگر میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ لگ گیا، کچھ رفتار میں ایسی تیز تھی کہ جدھر جاتا آگے نکل جاتا تھا،تھانہ بھون میں ایک گوجر زمین دار کے بیٹے کے ساتھ میرے تعلقات بڑھے جو نشہ کی وجہ سے بنے تھے،ان کے یہاں حضرت ایک بار ناشتہ کے لئے آئے تھے،میں وہاں موجود تھا، حضرت سے چودھری صاحب کے بڑے بیٹے نے میری ملاقات کرائی، تو حضرت نے ان کے بیٹے جو میرے ساتھی تھے الطاف سے کہا کہ اپنے دوست کی خبر لو ورنہ یہ تمہیں دوزخ میں پکڑ کر لے جائے گا،الطاف کے بڑے بھائی نے مجھ سے کہا:سوہن ویر کب تک تو اچھوت رہے گا مسلمان ہو جا، میں نے کہا اگر میں مسلمان ہو جاؤں گا تو مسلمانوں میں میری شادی ہو جائے گی؟اس نے کہا: ہو جائے گی، میں نے سوچا :چلو دیکھتے ہیں، ایک دفعہ مسلمان ہو کر دیکھتے ہیں، اگر جمے گا تو اچھا ہے ورنہ پھر گھر آ جاؤں گا،میرے پتاجی(والد )کا تو شراب کی لت میں ۵۴ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا، میری ماں میری وجہ سے بہت پریشان رہتی تھی،الطاف کے بڑے بھائی مسرور مجھے لے کر پھلت پہنچے، حضرت نے مجھے کلمہ پڑھوایا، میرٹھ بھیج کر میرے کاغذ بنوائے اور مجھے جماعت کے لئے دہلی مرکز بھیج دیا گیا،ہماری جماعت بھوپال گئی،حضرت نے یہ کہہ کر پیسے ابّا الیاس سے دلوائے کہ یہ قرض ہے، جماعت سے واپس آ کر تم کام پر لگو گے تو واپس کرنے ہیں، جب یہ جیب خرچ ختم ہو گیا تو میں نے امیر صاحب سے کہا کہ میں نے گھر فون کیا تھا،میری ماں بہت بیمار ہے مجھے بلایاہے،امیر صاحب سے سترہ سو روپئے لے کر میں جماعت سے واپس آ گیا، سترہ سو روپئے شراب اور گولیوں و غیرہ میں خرچ کئے اور تھانہ بھون پہنچا،وہاں لوگوں سے کہا کہ جماعت سے مجھے امیر صاحب نے بھگا دیا کہ تم نو مسلم ہو ہمیں مرواؤ گے کیا ؟تمہارے گھر والے ہمارے سر ہو جائیں گے،یہ کہا اور مجھے بھگا دیا، مجھے کرایہ کے پیسے بھی نہیں دئے،الطاف نے حضرت کو فون کیا حضرت نے کہا کہ ہم معلوم کریں گے،ایسا نہیں ہو سکتا، پھر بھی اگر کوئی جماعت علاقہ میں کام کر رہی ہو،اس میں جوڑ دیں، انھوں نے تھانہ بھون مرکز جا کر معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ کیرانہ کے علاقہ میں ایک اچھی جماعت کا م کر رہی ہے، مجھے جماعت کے ایک ساتھی لے کر کیرانہ جا کر دوسری جماعت میں جوڑ کر چلے آئے،جماعت میں امیر صاحب نے خرچ کی رقم امانت کے طور پر ایک ماسٹر صاحب کے پاس رکھ دی تھی، تین روز تو میں ہمت کر کے جماعت میں رہا،مگر میرے لئے مشکل تھا کہ میں اتنی محنت کروں، میں نے رات ماسٹر صاحب کے جواہر کٹ سے پیسے نکالے اور فرار ہو گیا،جب تک پیسے رہے تفریح کر تا رہا اور پھر پھلت پہنچا، حضرت سے بڑی مشکل سے وقت لے کر تنہائی میں ملاقات کی،حضرت سے معافی مانگی اور کہا کہ پہلے میری شادی کرا دیں، حضرت نے مجھے سمجھایا کہ جب تک تم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو گے کون اپنی لڑکی دے گا،تم خود سو چو،اگر تمہاری کوئی بیٹی ہو تو تم بے روزگار لڑکے سے شادی کیسے کرو گے؟کچھ صبر کرو،اپنے حال کو بناؤ،دیکھو تمہاری زندگی کا یہ اہم موڑ ہے،ہمیں تم سے صرف تمہارے مستقبل کے لئے تعلق ہے، تم اچھی زندگی گذارو گے تو خوشی ہو گی،مجھے بہت سمجھایا مگر میری سمجھ میں بات نہ آئی، واپس آیا اور دینک جاگرن کے دفتر میں کھتولی جا کر ایک خبر بنوائی:’’شادی کا وعدہ پورا نہ ہونے پر ہندو جوان نے اسلام لوٹایا‘‘ اور اسلام قبول کر نے کا سرٹیفکٹ ایک لڑکے کے ہاتھ حضرت کے پا س بھجوا دیا اور حضرت سے کہلوا دیا کہ اسلام مجھے نہیں چاہئے گھر واپس چلا گیا،ماں مجھے دیکھ کر بہت ناراض ہوئی، لیکن جب میں نے دینک جاگرن دکھایا کہ اسلام چھوڑ کر آیا ہوں تو بہت خوش ہوئی۔ گھر رہ کر پھر وہی کام ماں کو لوٹنا، شروع میں ماں جھیلتی رہی مگر ایک روز جب میں نے زیادہ نشہ کر کے گاؤں کے ایک لڑکے سے لڑائی کی تو وہ بہت پریشان ہو گئی اور بولی بس سوہن مجھے ایسے بیٹے سے اچھا ہے کہ میں بغیر بیٹے کے رہوں، اور میرے گھر سے منھ کالا کر کے مجھے نکال دیا، ایک دو روز میں گھر سے اِدھر اُدھر رہا،مجھے کہیں ٹھکانہ نہیں ملا تو میں نے ہمت کر کے حضرت کو فون کیا، اتفاق سے فون مل گیا،حضرت نے کہا:ہمارا بھگوڑا کون ہوتا، میرا بیٹا مزمل بول رہا ہے،حضرت نے پوچھا:کہاں ہو؟ میں نے کہا:مظفر نگر، حضرت نے کہا :پھلت آ جاؤ، ملاقات پر بات ہو گی،میں نے کہا پھلت میں مجھے کون آنے دے گا، حضرت نے گلے لگایا،رات کو دیر تک سمجھاتے رہے، اور بولے بیٹا جو کچھ تم اچھا برا کر رہے ہو اپنے ساتھ کر رہے ہو،تم ہمیں ستر بار دھوکہ دو گے ہم فخر کے ساتھ دھوکہ کھائیں گے، اور حضرت عمر ؓ کا واقعہ سنایا، حضرت عمر فرماتے تھے دین کے نام پر کوئی ہمیں دھوکہ دے گا تو ہم ستر مرتبہ فخر سے دھوکہ کھائیں گے،مجھے زور دیتے رہے کہ تم جماعت میں ایک پورا چلہ لگا لو،میں نے آمادگی ظاہر کی، میرے کاغذات تلاش کرائے تو نہیں مل سکے،دوبارہ میرٹھ بھیج کر کاغذات بنوائے اور مجھے مرکز نظام الدین بھیج دیا گیا،اس بار ایک جاننے والے ساتھی کو سمجھا کر میرے ساتھ کیا،جماعت میں میرا وقت متھرا میں لگا،نشہ کی عادت میرے لئے بہت بڑا مسئلہ تھا،میں بہت ہمت کرتا تھا مگر رکا نہیں جاتا تھا، دوبار میں نے باہر جا کر شراب پی لی،امیر صاحب نے حضرت کو فون کیا،حضرت نے ایک صاحب کو مظفر نگر سے نشہ چھڑانے کی دوا لے کر بھیجا،اس کو کھانے سے نشہ کا مسئلہ حل ہو گیا، مگر اپنی آزاد طبیعت کی وجہ سے پورے چلہ میں نے ساتھیوں کی ناک میں دم کر رکھا، مگر امیر صاحب حضرت کے ایک مرید تھے،ان سے حضرت نے کہہ دیا تھا، اگر آپ نے مزمل کا چلہ پورا لگوا دیا تو آپ کو داعی سمجھیں گے ورنہ آپ فیل ہو جائیں گے،انھوں نے لوہے کے چنے چبائے مگر جماعت سے واپس نہیں کیا،چونکہ میرا ذہن بہت اچھا تھا،بالکل نہ کرنے کے بعد بھی میں نے نماز مکمل مع نماز جنازہ کے یاد کر لی،اور کھانے کے، سونے کے آداب، مختلف دعائیں یاد کر لیں، چلہ لگا کر آیا تو حضرت بہت خوش ہوئے،امیر صاحب کو بہت مبارک باد دی اور مجھے دہلی میں ایک جاننے والے کے یہاں نوکری پر لگوا دیا، چار ہزار روپئے ماہانہ اور کھانا رہنا طے ہوا،ریسپشن ڈیوٹی تھی،وہاں پر ایک لڑکی سے میرے تعلقات ہو گئے،اور میں اسے لے کر فرار ہو گیا،لڑکی کے گھر والوں نے کمپنی کے مالک اور میرے خلاف ایف آئی کر دی،سب کو پریشان ہونا تھا،حضرت نے کسی طرح افسروں سے سفارش کر کے کیس کو ڈیل کیا،لڑکی ایک برہمن کی تھی،میں نے اسے کلمہ پڑھوایا اور الہ آباد لے جا کر قانونی کا روائی کروائی،کمپنی میں تین اور نو مسلم کام کرتے تھے،کمپنی والوں نے حضرت سے کہا کہ ان سبھی کو کہیں اور کام پر لگا دو،حضرت نے کہا ان کو رزق دینے والے اللہ ہیں، آپ جیسے کتنے لوگوں کو اللہ نے ان کی خدمت کے لئے مالدار بنایا ہے،حضرت ان تینوں کو لے کر آ گئے اور اسی دن کو شش کر کے ان تینوں کو کام پر لگوا دیا، میری یہ شادی زیادہ دن نہیں چل سکی اور میں نے اس لڑکی کو چھ مہینے بعد طلاق دے دی۔
سوال : ان دنوں آپ کہاں رہے ؟
جواب : میں نے حضرت کا نام لے کر کان پور میں ایک صاحب کو اپنا باپ بنا لیا تھا اور ان کے یہاں ہم دونوں رہے۔
سوال : انھوں نے ایسے میں تمہیں رکھ لیا؟
جواب : میں حضرت کے تعلق کے لوگوں کو نگاہ میں رکھتا تھا،حضرت سے کوئی ملنے آیا فوراً نمبر لے لیا،ایک دو فون خیریت اور دعا کے لئے کرتا تھا، حضرت بھی بیٹا بیٹا ان کے سامنے کرتے تھے،لوگ سمجھتے کہ یہ حضرت کا بہت خاص ہے، بس میرا کام نکلتا رہتا تھا۔
سوال : اس طرح اندازاً تم نے کتنے لوگوں سے پیسے اینٹھے ہوں گے؟
جواب : لاکھوں روپئے میں نے حضرت کے تعلق سے لوگوں سے وصول کئے اور سیکڑوں ایسے لوگ ہوں گے جن سے میں نے فائدہ بلکہ حقیقت میں نقصان اٹھا یا، دسیوں معاملے تو آپ کے سامنے بھی آئے،دو بار آپ نے، ایک بار شعیب بھائی نے مجھے پھلت سے بھگا دیا، آپ نے تو وارننگ دی تھی کہ آج کے بعد تمہیں پھلت میں دیکھا تو اپنی موجودگی میں منھ کالا کر کے نکال دوں گا۔
سوال : اس لڑکی کا کیا ہوا؟
جواب : اس کا اسلامی نام میں نے آمنہ رکھا تھا، گھر والے اسے مارنا چاہتے تھے،طلاق کے بعد اس کے لئے پھلت کے علاوہ کوئی جگہ نہیں تھی، حضرت کے پاس وہ پہنچی،حضرت نے اس کو میرٹھ کے کسی مدرسہ میں بھیجا، کچھ روز پڑھایا،عدت کا وقت گذرنے کے بعد غازی آباد کے ایک جاننے والے کے بیٹے سے اس کی شادی کر دی۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : مجھ پر ایک بہت شاطر شیطان سوار تھا، روز روز نئے کھیل سجھا تا تھا، میں نے حضرت سے کچھ بڑی رقم اینٹھ نے کی سوچی۔ میں نے مظفر نگر انٹلی جینس کے دفتر میں رابطہ شروع کیا اور وہاں ایک راجپوت انسپکٹر سے دوستی کر لی اور کہا کہ پھلت میں بدلوانے کا کام ہو تا ہے بڑی رقم ان کے پاس باہر سے آتی ہے۔
سوال : کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسا ہے؟
جواب : مجھے خوب معلوم ہے کہ حضرت کا مزاج تو یہاں کے لوگوں سے بھی چندہ کرنے کا نہیں ہے، بس ویسے ہی شیطانی میں میں نے ایسا کہا،میں نے کہا کہ میں وہاں سے آپ کو بڑی رقم دلوا سکتا ہوں، مگر اس میں سے 25%مجھے دینا ہو گا،وہ تیار ہو گئے انھوں نے ایک آئی بی کارکن کو جس کا پاؤں ایک حادثہ میں کٹ گیا تھا،میرے ساتھ بھیجا، اور ایک اور ساتھی کو ساتھ لیا،میں تو راستہ میں رک گیا اور ان کو وہاں بھیج دیا،ابّا الیاس صاحب اور ماسٹر اکرم کا پتہ بتا دیا، وہ دونوں پھلت پہنچے کہ ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں، حضرت تو نہیں ملے،ماسٹر اکرم کے پاس گئے،ان سے باتیں ہوئیں، انھوں نے مولانا عمر صاحب سے ان کو ملوایا،محمود بھائی بھی آ گئے،انھوں نے ان کو اسلام کا تعارف کروایا اور بتایا کہ ہم لوگ تو پیسے لے کر مسلمان کرتے ہیں، ہم تو کلمہ پڑھوا کر اسلام دیتے ہیں، اس کے لئے کوئی رقم دینے یا شادی وغیرہ کا کیا تک ہے، ہمارے یہاں تو اگر آپ سرٹیفکٹ لیں گے تو پانچ سو روپئے فیس ہے،وہ دینی پڑے گی، ہم آپ کو مدرسہ کی رسید دیں گے،یہ لوگ اور بحثیں کر تے رہے، وہاں پر کچھ ملا نہیں تو مایوس ہو کر واپس آئے، مجھ پر بہت برسے، وہاں سے ’’آپ کی امانت ‘‘لے کر آئے،اس کو پڑھ کر بہت متاثر تھے، میں نے کہا اتنی آسانی سے بات بننے والی نہیں وہ میرے اصرار پر دو تین مرتبہ گئے،کچھ ہاتھ نہیں آیا انھوں نے مجھے دھمکایا کہ تمھارے خلاف مقدمہ بنا دیں گے، میں مایوس واپس آیا،پھر میں نے بجرنگ دل اور شیو سینا والوں کو بھڑکا نے کی کوشش کی،شیو سینا والوں نے پھلت کہلوایا بھی کہ پھلت والے یہ دھرم بدلوانے کا کام یا تو بند کر دیں ورنہ ہم انتظام کریں گے،حضرت نے ان کے پاس ساتھیوں کو بھیجا،اور ان سے کام کا تعارف کرایا اور دفتر والوں سے پھلت آنے کو کہا، باری باری وہ لوگ آتے رہے اور پھر معاملہ ٹھنڈا ہو گیا۔
سوال : اس کے بعد ایک بار ’پور قاضی‘ میں بھی تو تم نے شادی کی تھی؟
جواب : حضرت کے تعلق کے ایک قاضی جی سے میں نے بہت رو روکر اپنا حال سنایا اور ان سے کہا کہ میں نے حضرت کو بار بار نہ چاہتے ہوئے بھی دھوکہ دیا، اب میں اس وقت تک حضرت کو منھ نہیں دکھانا چاہتا جب تک ایک اچھا مسلمان نہ بن جاؤں، قاضی جی نے مجھ پر ترس کھا کر مجھے اپنے گھر ر کھ لیا،ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں تھی،میں ان کی دوکان پر بیٹھنے لگا،انھوں نے بجنور ضلع کے ایک گاؤں میں اپنے رشتہ داروں میں میری شادی کرا دی بے چاروں نے خود ہی شادی وغیرہ کے انتظامات کئے۔
سوال : انھوں نے آپ کے بارے میں تحقیق نہیں کی؟
جواب : انھوں نے حضرت سے معلوم کیا تھا،حضرت نے کہا ہم داعی ہیں، اور داعی طبیب ہوتا ہے،آخری سانس تک مایوس ہونا اصول طب کے خلاف ہے کوشش کیجئے،کیا خبر اللہ نے اس کی ہدایت آپ کے حصہ میں لکھی ہو۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟اس لڑکی کو بھی تم نے طلاق دے دی ہے نہ ؟
جواب : بس آٹھ مہینے میں اس کے گھر والوں کا اور قاضی جی کے سارے خاندان والوں کا ناک میں دم کر کے، مار پیٹ کر تین طلاق دے کر بھاگ آیا۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : میں در بدر بھٹکتا رہا، اس دوران ایک بار ہمت کر کے پھلت پہنچا،ماسٹر اسلام مجھے مل گئے،حضرت تو نہیں تھے،انھوں نے مجھے ڈرایا،بہت برا بھلا کہا کہ تو نے سب لوگوں کا اعتماد ختم کر دیا، ہر نومسلم مہاجر سے یہاں کے لوگ بد ظن ہو گئے ہیں، میں ان سے بہت لڑا اور چلا آیا،کئی بار غلط لوگوں کے ساتھ لگا،دو بار دو دو مہینہ کی جیل میں بھی رہا، حضرت کے کسی جاننے والے نے ضمانت کرائی، اللہ کا شکر ہے کہ جن لوگوں نے مقدمہ کرایا تھا حضرت کی سفارش سے انھوں نے واپس لے لیا، جیل میں البتہ میں نے دو لوگوں کو کلمہ پڑھوایا، حضرت سب لوگوں سے کہتے تھے کہ دیکھو اس کی وجہ سے پانچ لوگ جیل میں اور ایک برہمن کی لڑکی آمنہ مسلمان ہوئی،اب ان کی نسلوں میں قیامت تک کتنے لوگ مسلمان ہوں گے،اب اگر یہ ہماری زندگی کو جیل خانہ بھی بنا دے تو ہم نے محنت وصول کر لی۔
سوال : سب گھر والے اور تعلق والے تمہاری وجہ سے ابی سے بحث بھی کرتے تھے، ابی اکثر، بگڑے ہوئے لوگوں او ر نومسلموں کے لئے کہتے ہیں کہ جیسی روح ویسے فرشتے، نیک لوگوں کے پاس نیک لوگ آتے ہیں، بدوں کے پاس بد آتے ہیں، ہم فاسق و فاجر دھوکہ باز دھونگیوں کے پاس پاک باز اور نیک لوگ کہاں رہنے لگے،دیکھو شرابیوں کے پاس شرابی، جواریوں کے پا س جواری جمع ہوتے ہیں، ہم جیسے بدکاروں کے پاس کہاں نیک لوگ جمع ہونے والے،امی جان کا انتقال ہو ا تو فرمانے لگے کہ امی جان نہیں رہیں تو ہمیں کیسی کمی محسوس ہو رہی ہے،حالانکہ اپنے گھر کے سارے عزیز بھائی بہن بیوی بچے موجود ہیں، یہ بیچارے نو مسلم ان کا کوئی بھی نہیں، اپنا سگا بیٹا کتنے عیبوں میں پھنس جاتا ہے کبھی کسی سے ذکر بھی نہیں کرتا،نہ گھر سے نکالتا ہے،یہ بیچارے در بدر پھرتے ہیں، ذرا سی بات ان سے ہو جائے تو لوگ انھیں نکال دیتے ہیں، پرانا مسلمان سارے عیب کرے تو کوئی خیال نہیں، یہ کل کا مسلمان سوچتے ہیں کہ فرشتہ بن جائے اور سب دھتکار تے ہیں، یہ سب کہہ کر ابی بار بار رونے لگتے ہیں۔
جواب : ایک روز جب میں پچھلی بار آیا تھا تو میں حضرت سے ملا تو میں نے یہ کہا کہ آپ نے مجھے اتنی بار ایسی بری حرکت کرنے کے باوجود بار بار موقع دیا، حضرت نے فرمایا کہ مجھ سے بری حرکت کون کرنے والا ہو گا،میرے بیٹے تم مجھ سے تو ہزار درجہ بہتر ہو،بس اللہ نے میرے عیب چھپا رکھے ہیں۔
سوال : اس دوران تم کتنی بار جماعت میں گئے؟
جواب : ان بارہ سالوں میں مجھے سترہ بار جماعت میں بھیجا گیا، ایک بار چلہ لگایا،اور آخر میں تین چلے تو پورے کئے،ورنہ دھوکہ دے کر بھاگتا رہا،اسی زمانہ میں مجھے ۲۱ بار کام سے لگایا، یا کاروبار کرایا،مگر میں کوئی کام کرنے کے بجائے دھوکہ دیتا رہا۔
سوال : اب تمہارے دل میں وہ باتیں نہیں آتیں ؟
جواب : الحمد للہ نہیں آتیں، مجھے ایسا لگتا ہے وہ شیطان جو مجھ پر سوار تھا وہ میرے حضرت کی برکت سے مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے،۲ مارچ ۲۰۰۹ء کو پھلت کے ایک صاحب نے میری ایک حرکت پر مجھے بہت مارا،حضرت سفر سے رات کو دیر سے تشریف لائے،صبح دس بجے مجھے دیکھا،میرا پورا جسم زخمی تھا،حضرت مجھے پکڑ کر جامع مسجد لے گئے،مسجد جا کر دو رکعت نماز پڑھی،اور دیکھتے رہے اور بار بار چومتے رہے،میرے بیٹے کب تک تم ایسی ذلت برداشت کرتے رہو گے،اور اگر اسی طرح رہے تو پھر دوزخ کی مارکس طرح سہو گے،چلو آؤ اللہ سے دعا کریں بہت دیر تک دعا کی،میں آمین کہتا رہا،پھر بولے مزمل آؤ دونوں سچے دل سے توبہ کریں بس،ایسی توبہ جس کے بعد لوٹنا نہ ہو،مجھے توبہ کرائی،ایمان کی تجدید کرائی،اور مجھ سے وعدہ کیا کہ بس اب مسلمان داعی بن کر میری عزت کی لاج رکھو گے،اور سب کو دکھا دو گے کہ انسان کبھی بھی اچھا بن سکتا ہے، میں نے وعدہ کیا اگلے روز چار مہینے کی جماعت میں چلا گیا،اور الحمد للہ جماعت میں داڑھی رکھی اور خوب دعا کا اہتمام کیا،حضرت نے جماعت سے واپس آ کر کام پر لگنے کو کہا،میں نے حافظ عالم بننے کی خواہش کا اظہار کیا،داخلہ ہو گیا، الحمد للہ حفظ مکمل ہو گیا،انشاء اللہ بہت جلد عالمیت کا نصاب مکمل کر لوں گا،میرا ارادہ ہے کہ عالمی داعی بنوں، اس کے لئے ایک گھنٹے میں نے انگریزی اچھی کرنے کے لئے پڑھنی شرو ع کر دی ہے۔ الحمد للہ اس وقفہ میں میرے مدرسہ میں سب لوگ خصوصاً اساتذہ اور ذمہ دار مجھے بہت چاہتے ہیں بلکہ مجھ سے دعا کراتے ہے۔
سوال : ماشاء اللہ، ارمغان کے قارئین کے لئے کوئی پیغام دیں ؟
جواب : بس حضرت کی بات ہی میں کہوں گا کہ ہر مسلمان ایک داعی ہے اور داعی ایک طبیب ہے، کسی مریض سے آخرت سانس تک مایوس ہونا یا مرض کے برا ہونے کی وجہ سے مریض کو اپنے در سے دھتکارنا اصول طب کے خلاف ہے، ہر انسان اللہ کی بنائی ہوئی شاہکار مخلوق ہے اس کو احسن تقویم پر اللہ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، اس سے مایوس نہیں ہونا چاہئے،بس اس کے لئے دل میں درد رکھ کر اس کی اصلاح اور اسے دعوت دینے کی فکر رکھنی چاہئے، شاید مجھ سے زیادہ برا انسان تو اللہ کی زمین میں کوئی او ر ہو؟جب میں اپنے لئے انسان بننے کا ا رادہ کر کے یہاں تک آ سکتا ہوں تو کسی سے بھی مایوس ہونے کی کیا وجہ ہے،دوسری درخواست قارئین ارمغان سے دعا کی ہے،کہ اللہ تعالیٰ موت تک مجھے استقامت عطا فرمائے اور میرے حضرت نے جو مجھ سے ارمان بنائے ہیں اور حضرت فرماتے بھی ہیں کہ میری حسرت ہے کہ مزمل اللہ تعالیٰ تمہیں پیارے نبی کے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے میری تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے پیارے نبی ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائیں۔
سوال : شکریہ بھائی مزمل ! واقعی ایک زمانہ تھا کہ تمہارا نام سن کر ہم سبھی کو غصہ آ جا تا تھا،مگر الحمد للہ اب تم سے ملنے کی بے چینی رہتی ہے۔
جواب : جی احمد بھائی ! میں اسی لائق تھا اور ہوں، بس میرے اللہ کا کرم ہے کہ اس نے دل کا رخ موڑ دیا ہے۔
سوال : شادی کے بارے میں تمہارا کیا ارادہ ہے ؟
جواب : اب شادی میرے لئے کوئی بات نہیں رہی، الحمد للہ میرے اللہ نے میرا دل اپنی طرف پھیر دیا ہے، اب مجھے خلوت میں اپنے رب کے حضور راز و نیاز کا مزا میرے ر ب نے مجھ گندے کو لگا دیا ہے،قرآن یہ کہتا ہے :اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا، صبح کا قرآن مجید تو آمنے سامنے کا ہے، بس ایسے جمیل محبوب سے سامنا ہونے لگے تو ساری حسینائیں اندھیرا لگتی ہیں الحمد للہ میرے اللہ کے کرم سے نالہ نیم شبی کی بادشاہت میرے اللہ نے مجھے عطا فرما دی ہے، اس کی وجہ سے ہر ایک کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے میرے اللہ نے مجھے بچا لیا۔
سوال : آج کل اخراجات وغیرہ کس طرح چل رہے ہیں ؟
جواب : اللہ کے کرم سے نالہ نیم شبی کی بادشاہت نے دل کو مال دار کر دیا ہے، اس کی برکت سے ہاتھ پھیلانے سے اللہ نے بچا لیا ہے، الحمد للہ اب مجھے خرچ کی ضرورت نہیں، میں چھٹی میں مزدوری کر لیتا ہوں، میں نے امتحان کی چھٹی میں مزدوری کی، اور ایک ہزار روپئے حضرت کی خدمت میں ہدیہ کئے،کب سے آپ کو حضرت لوٹتا رہا یہ حقیر ہدیہ قبول کر لیجئے،حضرت نے بہت گلے لگایا اور بڑی قدر سے قبول کر لیا، اب ہاتھ اوپر کر لیا ہے اور اللہ سے سوال کیا ہے کہ اللہ اب کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلوائیں، ،مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اب کسی کا محتاج نہ کریں گے۔
سوال : اچھا بہت شکریہ السلام علیکم
جواب : و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗٗ
ماخوذ از ماہنامہ ’’ارمغان‘‘ مارچ ۲۰۱۱ء
٭٭
یا ہادی یا رحیم کی برکت سے ایمان ملا
انجینئر عبدالاحد صاحب {پرمود کمار کھرانہ} سے ایک ملاقات
احمد اوّاہ :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
عبدالاحد صاحب :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
سوال :آپ کی طبیعت اب کیسی ہے ؟
جوا ب:مولانا احمد صاحب، میں اپنے مالک کا کس طرح شکر ادا کروں میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے، میرے اللہ نے مجھے فزیکل بھی دوسری زندگی دی ہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک زندگی سے ایسا مایوس مریض بالکل ٹھیک ہو جائے گا،میرے ڈاکٹر خود حیرت میں ہیں۔
سوال :میں آپ کے پاس ابی کے حکم سے آیا ہوں، حیدرآباد سے بھی ابی کا فون آیا تھا،آپ کا فون نمبر دیا تھا کہ میں آپ کے پاس جا کر آپ سے ارمغان کے لئے انٹرویو لوں، اس وقت میں آ نہیں سکا،اب اس سلسلہ میں آپ کے پاس آیا ہوں ؟
جوا ب :جی !حضرت صاحب کا میرے پاس بھی فون آیا تھا کہ وہ آپ کو میرے پاس بھیج رہے ہیں، مجھے حکم کریں میں کیا بتاؤں ؟میں تو آج ہی دوپہر کو مسجد خلیل اللہ میں ان کے پاس گیا تھا۔
سوال :آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے؟
جوا ب :میں بیس اکتوبر ۱۹۸۴ء کو لدھیانہ کے ایک کھرانہ خاندان میں پیدا ہوا،میرے والد نے میرا نام پرمود کمار کھرانہ رکھا ابتدائی تعلیم لدھیانہ کے ایک انگلش میڈیم اسکول میں ہوئی بارھویں کلاس سائنس سے پاس کر کے، میں نے روڑ کی آئی ٹی آئی سے بی ٹیک اور بعد میں ایم ٹیک کیا، ،تین سال پہلے ایک امریکی کمپنی ڈیل DELLمیں میری ملازمت لگ گئی، اسی سال میں ۱۶ دسمبر کو میری شادی دہلی کے ایک بڑے پڑھے لکھے اور بڑے خاندان میں ہو گئی، میری اہلیہ ایم ٹیک ہیں، اور وپرو WIPROمیں ملازم ہیں، پچھلے سال میں کچھ مہینوں کے لئے کمپنی کی طرف سے بنگلور گیا تھا،وہاں پر ایک مسلمان انجینئر سے دوستی ہو گئی،شاعری کا مجھے بچپن سے شوق ہے، اردو کے شعر یاد کرنا میری ہابی(Hobby) رہی ہے، اسی شوق کی وجہ سے میں نے اردو سیکھنے کا شوق ظاہر کیا،میرے مسلمان دوست جن کا نام سید حامد علی تھا، اچھے شاعر تھے، حامد اپنا تخلص لکھتے تھے،انھوں نے مجھے اردو سکھانا شروع کر دیا، وہاں سے آ کر دہلی میں بھی میں نے اردو سیکھی اب میں اردو بھی لکھ پڑھ سکتا ہوں۔
سوال :اپنے قبول اسلام کا واقعہ بتائیے؟
جوا ب :میرے اللہ کا کرم ہے کہ میری ہدایت کا ذریعہ ایک حادثہ ہوا،دسمبر میں، میں اپنی بیوی کے ساتھ ہنی مون منانے کلو منالی ہماچل گیا تھا،ہم دونوں وہاں برف پر پھسل کر کھیل رہے تھے کہ اچانک میرا پاؤں پھسلا،اور میں گر گیا،گر کر میں پیچھے گہرے کھڈ میں چلا گیا، میری کمر کی ہڈی میں سخت چوٹ آئی، اور میں پڑا کا پڑا رہ گیا،میری بیوی کسی کے سہارے سے مجھے اٹھا کر لائی، ایمبولنس منگوائی گئی اور اسپتال میں داخل کرایا گیا،میرے چاروں ہاتھ پاؤں نے کام کرنا بند کر دیا،میری بیوی نے لدھیانہ اور دہلی فون کیا،میرے برادر نسبتی اور میرے چچا لدھیانہ اور دہلی سے آگے اور مجھے لدھیانہ لے گئے،سی ٹی اسکین اور ایم آر،آئی کرایا گیا،تو معلوم ہوا کہ ریڑھ کی ہڈی کے چھ منکے ادھر ادھر ہو گئے ہیں اور ان کے درمیان نروس دب گئی ہیں آپریشن ہو گا،ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ تیس فیصد آپریشن کے کامیاب ہونے کی امید ہے، کافی روز تک فزیوتھیرپی اور وزن وغیرہ سے علاج کی کوشش کی گئی، میرے والد نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا کہ آپریشن میں اس سے زیادہ تو معذور نہیں ہوں گے۔ڈاکٹروں نے کہا کہ اس سے زیادہ معذور ی اور کیا ہو سکتی ہے، مہینوں مشورہ کر کے یہ طے کیا گیا کہ آپریشن کرا لیا جائے، لدھیانہ میں اسپائن کا مشہور اسپتال ہے وہاں پر آپریشن ہوا، مگر آپریشن کامیاب نہ ہو سکا، بلکہ ایک پریشانی یہ ہو گئی کہ ہاتھ پیر کام کرنا تو کیا شروع کرتے،آپریشن کے بعد چاروں ہاتھ پاؤں اچھلنے لگے،خود بخود جھٹکے لگتے چاروں ہاتھوں پاؤوں کو یا تو کوئی دبا کر رکھے، یا کسی چیز سے باندھ کر رکھے، یہ ایک بڑی مشکل تھی، فروری کے آخر میں مجھے کچھ لوگوں نے اور میری کمپنی کے مینجر نے علاج کے لئے نیویارک امریکہ جانے کا مشورہ دیا،اور کمپنی نے اپنی طرف سے علاج کی پیش کش کی، میرے والد مجھے نیویارک لے کر گئے،وہاں پر جانچیں ہوئیں، ڈاکٹروں نے مشورہ دیا،کہ آپریشن سے پہلے اگر یہاں آتے تو علاج ممکن تھا،اب یہ نسیں جو دب گئی ہیں، وہ دب کر مر گئی ہیں، اب اس کا علاج ممکن نہیں۔
وہ مجھے دہلی واپس لائے تو میری بیوی کے ایک چچا جو ڈاکٹر ہیں، انھوں نے مشورہ دیا کہ یہاں پر اسپائنل انجری کے لئے ایک مشہور اسپتال ہے، وہاں پر ایک ڈاکٹر بھاردواج، دنیا کے مشہور اسپائنل کے سرجن ہیں، ان سے میرا تعلق ہے، ان کو اور دکھایا جائے،ڈاکٹر بھاردواج نے ایک بار اور ایم آر آئی کرنے کا مشورہ دیا، ہم لوگ گرین پارک پہنچے، وہاں پر مشینوں کی صفائی اور سروسنگ کے لئے ٹیکنیشن آئے ہوئے تھے، مجھے وہیل چیر پر لے کر میرے برادر نسبتی اور چچا سنٹر میں پہنچے،ہاتھ اور پاؤں کو اسٹپ سے باندھا ہوا تھا، اسی وقت آپ کے والد مولانا کلیم صاحب، اپنے عزیز مولانا اسامہ صاحب کو سی ٹی اسکین کے لئے لے کر آئے تھے، ان کے ساتھ ایک ڈاکٹر صاحب تھے جن کا سنٹر میں پہلے سے بڑا تعلق تھا،ان کی وجہ سے سب سے پہلے ان کو سی ٹی اسکین کے لئے لے گئے، میں سامنے وہیل چیر پر تھا، بظاہر چہرہ سے میں مریض نہیں لگ رہا تھا، مولانا صاحب مجھے غور سے دیکھتے رہے، بعد میں انھوں نے مجھے بتایا کہ میں دیر سے آپ کو اس لئے دیکھ رہا تھا کہ ایک بالکل خوب صورت تندرست نوجوان کے ہاتھ پاؤں وہیل چیر کے ہینڈل اور ڈنڈوں سے کیوں بندھے ہوئے ہیں، بعد میں جب مجھے ایم آر آئی کے لئے،لے جانے کے لئے ہاتھ پاؤں کھول کر اسٹریچر پر لٹایا گیا تو میرے ہاتھ پاؤں اچھلنے لگے،اور چوٹ لگنے کو ہوئی تو ساتھیوں نے مجھے دبا لیا،مولانا صاحب اٹھ کر آئے اور بولے آپ کو کیا بیماری ہے ؟میں نے تفصیل بتائی، تو مولانا صاحب بہت دکھی ہوئے،اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ بولے ڈاکٹر کیا کہتے ہیں ؟میرے چچا سسر نے بتایا کہ نیویارک سے چند روز پہلے واپس آئے ہیں، وہاں انھوں نے کہا کہ آپریشن سے پہلے آتے تو کچھ امید تھی اب تو ان کی نسیں دب کر مر گئی ہیں، اب علاج ممکن نہیں ہے، مولانا صاحب نے پوچھا کہ پھر ایم آر آئی کیوں کرا رہے ہیں ؟انھوں نے کہا اپنے یہاں اسپائنل انجری کے اسپتال میں دکھایا ہے، سوچتے ہیں کہ علاج تو کرتے ہی رہنا چاہئے،مولانا صاحب نے کہا کسی مریض کو آخری سانس تک لا علاج بنا دینا اصول علاج کے خلاف ہے، سچے مالک کے سچے رسول حضرت محمد ﷺ نے بتایا ہے کہ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کی اللہ نے دوا نہ بنائی ہو، آپ مایوس نہ ہوں علاج جاری رکھیں، مولانا میرے پاس آئے اور پیار سے میرا نام پوچھا اور بولے میرے بھائی پرمود کھرانہ جی، آپ کیسے خوب صورت نوجوان ہیں، دیکھنے سے بالکل نہیں لگ رہے ہیں کہ آپ بیمار ہیں، آپ کی خوب صورتی دیکھ کر میرے مالک نے میرے دل میں ڈالا کہ اتنا خوب صورت نوجوان ہونے کے بعد نرک میں جلے تو کتنے دکھ کی بات ہے، میرے بھائی یہ زندگی تو آپ کی مشکل میں ہے، مگر اس کے بعد ایک جیون ہمیشہ ہمیشہ کا ہے، اگر ایمان کے بغیر آپ کی موت آ گئی تو وہاں بھی مصیبت ہے، مالک کے اچھے اچھے نام ہیں، ایک یا ہادی ایک یا رحیم،یہ دونوں صبح صبح سو بار سو بار پڑھا کریں اور مالک سے اپنے اچھا ہونے کی اور جو راستہ اور جیون کا جو طریقہ پسند ہو اس پر چلنے کی دعا بھی کیا کریں، میں نے بتایا کہ میں نے اردو پڑھی ہے اور اردو کی وجہ سے میں مسلمانوں سے دوستی پسند کرتا ہوں اور بہت سے شعر مجھے یاد ہیں، مولانا صاحب نے ڈرائیور کو بلایا اور گاڑی سے اپنی کتاب ’’آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں ‘‘مجھے منگا کر دی،اور کہا اس کو غور سے پڑھنا،اگر خدا نہ خواستہ یہاں پر آپ ٹھیک نہ ہوئے تو وہاں کا چین تو آپ کو مل ہی جائے گا،تبھی اندر سے ایم آر آئی کے لئے بلاوا آ گیا، مولانا صاحب نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور چوم کر کہا میرے بہت پیارے بھائی دیکھو،اب اگر اللہ تمھیں زندگی دے تو ایمان پر جینا، اور اگر اللہ نے موت لکھ دی ہے تو ایمان پر مرنا،اور ایمان کیا ہے ؟یہ بات آپ کی امانت، آپ کو بتائے گی۔
ایم آر آئی کرا کے ہم لوگ ڈاکٹر بھاردواج کے یہاں گئے، ڈاکٹر بھاردواج نے رپورٹ دیکھ کر جواب دے دیا کہ ان کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہیں، ہاں کسی فقیر کی دعا لگ جائے اور مالک کوئی چمتکار کر دیں تو دوسری بات ہے، انھوں نے کہا میں کئی کیسوں میں فقیر کی دعا چمتکار دیکھ چکا ہوں، مایوس ہو کر ہم لوگ دہلی اپنی سسرال پہنچے، دو روز تک صبح کو یا ہادی یا رحیم پڑھا، مجھے اس کو پڑھ کر بہت ہی سکون ملا،تو میں نے بار بار سو سو بار اس کو پڑھا، مجھے رہ رہ کر مولانا صاحب کا خیال آ تا رہا،کہ آج بھی دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو اپنے علاوہ کسی اجنبی انسان کی تکلیف سے ایسے متاثر ہو سکتے ہیں، مولانا صاحب کی آنکھوں کے آنسو بار بار آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے،بار بار یا ہادی یا رحیم پڑھ کر اندر سے عجیب سا اطمینان اور بھی میرے لئے مولانا صاحب کے لئے میرے دل میں نہ جانے کیا کیا سوچنے پر مجبور کر رہا تھا، دو روز کے بعد ہم لوگوں نے لدھیانہ کی طرف رخ کیا، تین اپریل کی صبح سویرے،ہم لوگ لدھیانہ کے لئے نکلے،کرنال سے آگے جا رہے تھے،گاڑی سو کلو میٹر سے زیادہ اسپیڈ سے چل رہی تھی، اچانک ایک کتا سامنے آ گیا اسے بچانے کے لئے ڈرائیور نے ذرا کٹ مارا،تو گاڑی ایک ٹرالی سے ٹکرا گئی، زبردست ایکسیڈنٹ ہوا ٹیکسی ڈرائیور موقع پر مر گیا، میرے برادر نسبتی کو چوٹ آئی، ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی، میں اور میری اہلیہ پیچھے بیٹھتے تھے،مالک کا شکر ہے کہ صرف تھوڑی تھوڑی چوٹیں دونوں کو آئیں، ہمیں گاڑی سے نکالا گیا،پولس نے ایمبولنس منگا کر ہم سبھی کو کرنال اسپتال پہنچایا، دہلی اور لدھیانہ سے دوپہر بعد تک گھر والے بھی آ گئے، میرے ساتھ عجیب معاملہ ہوا، اس ایکسیڈنٹ سے مجھے چوٹ تو آئی مگر اس کی وجہ سے میرے ہاتھ پاؤں اچھلنے بند ہو گئے،اور فیڈس بند ہو گئے،ہاتھ پاؤں اچھلنے بند ہو کر فیڈس کا بند ہونا ہمارے سارے گھر کے لئے بڑی راحت تھی،اللہ کا کرم کہ دو روز کے بعد مجھے اپنے ہاتھ پاؤں میں حس معلوم ہونے لگی، ایک ہفتہ میں ہاتھ پاؤں چلنے لگے،۱۲ اپریل کو مجھے سہارے سے کھڑا کیا گیا، اور۱۵ اپریل کو میں ایک واکر کے سہارے سے چلا،روز اللہ کے فضل سے حال ٹھیک ہوتا گیا،اب مجھے مولانا صاحب سے ملنے کا خیال آیا میں نے اپنی اہلیہ کے پرس سے ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘منگائی اور اس کو پڑھا،اس کتاب نے میرے دل و دماغ کو قبضہ میں کر لیا،میں نے تین بار یہ کتاب پڑھی،اور مولانا صاحب سے ملنے کے لئے دل بہت بے تاب ہوا۔
سوال :آپ یا ہادی یا رحیم روزانہ پڑھتے رہے؟
جوا ب :یا ہادی یا رحیم میں روزانہ دن رات پڑھ رہا تھا،مجھے یقین تھا کہ یہ نئی زندگی یا ہادی یا رحیم پڑھنے کی برکت ہے۔
سوال :اس کے بعد کیا ہوا؟
جوا ب :میں نے آپ کی امانت پر جو فون نمبر لکھا تھا اس پر بات کی، معلوم ہوا کہ دہلی کتاب چھپانے والوں کا فون ہے، انھوں نے مولانا صاحب اور ان کے ڈرائیور کا فون دیا ڈرائیور کا فون ملایا تو معلوم ہوا کہ حضرت سفر پر ہیں، حضرت صاحب کا فون نہ مل سکا،صبح سے شام تک بات نہ ہو سکی، اگلے روز صبح ۱۵ اپریل کو گیارہ بجے اچانک حضرت صاحب کا فون مل گیا،میں نے بات کی تو حضرت صاحب نے فون پر کلمہ پڑھنے کے لئے کہا، میں نے کلمہ پڑھا اور حضرت صاحب نے میرا نام عبدالاحد رکھا،اور بتایا کہ گلابی باغ میں ہمارا مدرسہ ہے، وہاں مولانا ساجد صاحب ذمہ دار ہیں ان سے جا کر مل لو، ہمارے محلہ کے قریب صوفی باغ میں ایک مشہور ٹیلر ماسٹر حاجی چاند صاحب رہتے ہیں، وہ ہمارے والد صاحب کے دوست ہیں، مجھے دیکھنے آئے تو انھوں نے بتایا کہ حضرت مولانا کلیم صاحب کا ان سے بہت تعلق ہے اور وہ ان کے مرید بھی ہیں، وہ مجھے لے کر گلابی باغ گئے،اور اس طرح نئی زندگی ملنے سے بہت خوش ہوئے، ۱۸ اپریل کو میری اہلیہ اور میرے والد مجھے ٹرین سے دہلی لے کر آئے۔
سوال :آپ نے خوب سوچ سمجھ کر کلمہ پڑھا تھا؟
جوا ب :خوب سوچ سمجھ کر ہی نہیں بلکہ اندر سے چاہ کر میں نے کلمہ پڑھا تھا، اب میرے روئیں روئیں میں، یا ہادی یا رحیم سے تعلق اور عقیدت پیدا ہو گئی تھی۔
سوال :آپ کے گھر والوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا ؟
جوا ب :کیسی بات کرتے ہیں، میرے گھر والوں کو میری اس نئی زندگی کی خوشی میں چاہے جو کچھ کرنے کہیں وہ تیار تھے، میری اہلیہ تو بس مارے خوشی کے مری جاتی تھی، اصل میں لوگ ان کو طعنے دیتے تھے،ڈائن ہے، ایسے سندر بچے کو کھا گئی، شادی منحوس سے کر دی میں نے حضرت صاحب سے اہلیہ کی بات کرائی تو حضرت نے ان کو بھی کلمہ پڑھنے کو کہا، الحمد للہ انھوں نے خود خوشی سے کلمہ پڑھ لیا،ان کا نام حضرت صاحب نے خدیجہ رکھا۔
سوال :اس کے بعد آپ نے ڈاکٹروں کو نہیں دکھایا؟
جوا ب :میری اہلیہ کے چچا نے ڈاکٹر بھاردواج سے فون پر بتایا تو وہ خود مجھے دیکھنے گریٹر کیلاش آئے اور دیکھ کر بولے میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ کسی فقیر کی دعا لگ جائے تو چمتکار ہو سکتا ہے،انھوں نے حضرت صاحب کا فون مجھ سے لیا اور ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا میں نے اپنے نیویارک کے ڈاکٹر سے بھی نیٹ پر رابطہ کر کے اپنا حال بتایا وہ بہت حیرت میں ہوئے اور انھوں نے مجھے اپنے خرچ پر نیویارک آنے کی دعوت دی اور بولے ہم اس کیس پر ریسرچ کرنا چاہتے ہیں۔
سوال :آج آپ دوپہر خلیل اللہ مسجد گئے تھے؟
جوا ب :ہاں مجھے ملنے کی بہت بے چینی تھی، پھر ڈاکٹر بھاردواج صاحب بھی ان کے بہت معتقد ہو گئے ہیں، ان کے ساتھ ہم لوگ خلیل اللہ مسجد گئے تھے مجھے دیکھ کر خوشی سے حضرت صاحب رونے لگے اور بولے میں کتنی بار اپنے گھر والوں بچوں اور بہنوں سے آپ کا ذکر کر رہا تھا کہ کیسا خوب صورت نو جوان اور کس تکلیف میں مبتلا ہے ڈاکٹر صاحب کو بھی کچھ گھر کے حالات کے لئے دعا کرانی تھی حضرت صاحب نے کہا میں گناہ گار بندہ ہوں خود حالات سے دوچار ہوں مگر وہ ہادی اور رحیم جس نے پرمود صاحب کو راحت دی اس کے قبضہ میں سب کچھ ہے آپ بھی روزانہ یا ہادی یا رحیم پڑھیں، ڈاکٹر صاحب بہت خوش ہو کر آ گئے۔حضرت صاحب بہت تھک رہے تھے اور کہیں جانا بھی تھا اس لئے جلدی واپس آ گئے دوبارہ اطمینان سے ملیں گے۔
سوال :آپ نے ’’آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں ‘‘ڈاکٹر صاحب کو نہیں دی ؟
جوا ب :میں نے بٹلہ ہاوس مسجد کے سامنے کتب خانہ سے خرید لی ہے، دس کتابیں لایا ہوں سبھی کو پڑھوانی ہیں۔
سوال :اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟
جوا ب :حضرت صاحب نے مجھے کہا ہے کہ میں اللہ کے بندوں کو دوزخ سے بچانے اور جھوٹے خداؤں اور دیوی دیوتاؤں سے بچا کر ایک ہادی اور رحیم رب سے جوڑ نے کے لئے زندگی گذاروں میں نے مولانا صاحب سے مسجد میں وعدہ کیا ہے کہ یہ دوسری زندگی صرف اس کے لئے گذاروں گا۔میں نے مولانا صاحب سے نوکری چھوڑنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے نوکری چھوڑنے کو منع کیا مگر یہ کہا نوکری کو ذریعہ سمجھ کر جو آمدنی ہو اس کا اکثر حصہ دعوت میں لگانا ہے امریکہ بھی جانا ہے تاکہ وہاں جو ڈاکٹروں کی ٹیم مجھے دیکھ رہی تھی ان تک دعوت پہنچا سکوں۔
سوال :ڈاکٹر بھاردواج صاحب نے کلمہ پڑھا ہے ؟
جوا ب :ابھی تو نہیں پڑھا ہے البتہ مجھے امید ہے کہ وہ بالکل قریب ہیں۔
سوال :ارمغان کے قارئین کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے؟
جوا ب :میں دو دن کا مسلمان کیا پیغام دے سکتا ہوں البتہ دعا کی درخواست ضرور کر سکتا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی جو اللہ نے مجھے دوبارہ یا ہادی یا رحیم کی برکت سے دی ہے اپنے ہادی و رحیم رب کو سونپ دی ہے میں نے حضرت صاحب سے کہا ہے کہ بس یہ زندگی اور اس کی ساری گھڑیاں آپ کی ہیں آپ اپنا غلام سمجھ کر مجھے جہاں چاہیں میرے سرب کی خوشی اور رضا کے لئے لگایئے حضرت صاحب نے دعوت کے لئے لگانے کے لئے کہا ہے میں لدھیانہ سے آ کر بس حضرت صاحب کے مشورہ سے زندگی گذارنا چاہتا ہوں، ارمغان پڑھنے والے دعا کریں کہ اللہ مجھے صحت یاب رکھے۔
سوال :آمین،السلام علیکم و رحمۃ اللہ
جوا ب :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔
ماخوذ از ماہنامہ ارمغان، مئی ۲۰۱۰ء
٭٭
معصوم کی سسکیوں سے دل کی کایا پلٹ گئی
ماسٹر عبداللہ صاحب {ٹھاکرے} سے ایک ملاقات
احمد اوّاہ :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
ماسٹر عبداللہ ٹھاکرے :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
سوال :جناب ماسٹر صاحب بہت بہت شکریہ آپ تشریف لائے ابی سفر پر گئے تو بتایا کہ صبح ساڑھے نو بجے آپ تشریف لائیں گے، تو میں آپ سے ارمغان کے لئے انٹرویو لے لوں پھلت سے اردو میں ایک ماہنامہ ارمغان کے نام سے نکلتا ہے،اس کا مقصد مسلمانوں کو ان کا منصب یاد دلانا ہے اور اس کے واسطہ سے اصل میں ہم خود اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرنا چاہتے ہیں، ابی اکثر کہتے ہیں کہ اصل میں نہ تو ہمیں سبق یاد ہے نہ ہم میں دعوت کی اہلیت ہے اس طرح چیخ پکار کرنے سے ایک تو کچھ نہ کچھ سبق یاد ہو جائے گا کم از کم جرم کا احساس ہو جائے گا کہ ہم نے اسلام اور ایمان دوسروں تک نہ پہنچا کر اپنے خونی رشتہ کے بھائیوں پر کیسا ظلم کیا ہے دوسرے ہمارے شور مچانے سے کچھ اہل لوگ دعوت کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اللہ کا شکر ہے دونوں نشانے ہمیں کسی درجہ میں ملتے جا رہے ہیں۔
جوا ب :جی ہاں ! میں صرف حضرت صاحب سے ملنے آیا تھا،ایک ہفتہ پہلے آ گیا تھا۔ پچھلے دنوں فون پر رابطہ میں آخری کوشش کے باوجود ناکام رہا تو پھر میرے دوست ماسٹر عبدالعزیز صاحب نے کہا کہ آپ کہتے ہیں مجھے حضرت صاحب سے دوری سے ایسا عشق ہو گیا ہے جیسے کسی عاشق کو معشوق سے ہو جاتا ہے، تو محبت تو قربانی چاہتی ہے اس کے لئے دودھ کی نہر پہاڑ سے کھودنی پڑتی ہے چلیں چل کر دہلی پڑ جاتے ہیں، مولانا صاحب سے ملاقات ہو ہی جائے گی، آٹھ روز پہلے ہم آئے تھے ہماری ٹرین صبح سویرے چار بجے پہنچی تھی خیال ہوا پہلے اوکھلا چلتے ہیں، مگر بعد میں ماسٹر عبدالعزیز سے مشورہ ہوا کہ صبح سویرے تکلیف دینا ٹھیک نہیں، یہ بھی کوئی بات ہے کہ محبوب کو تکلیف دی جائے چلیں پہلے نظام الدین جا کر گیسٹ ہاؤس میں رکتے ہیں، دن میں بٹلا ہاؤس دار ارقم جا کر حضرت صاحب کا پروگرام معلوم کریں گے،بلکہ کسی فون پر وقت لے کر ملاقات کریں گے دس بجے بٹلا ہاؤس پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب ایک ہفتہ کے لئے جنوب کے سفر پر تشریف لے گئے ہیں سوچا کہ واپس چلیں پھر ایک ہفتہ میں آ جائیں گے، میں نے کہا ماسٹر صاحب آپ کو جانا ہو چلے جائیں، مجھے تو ایک سال رکنا پڑے گا تو رکوں گا اس لئے کہ محبت میں انتظار کا مزا بھی خوب ہوتا ہے،الحمد للہ ایک ہفتہ میں کل شام بہت اطمینان کی ملاقات ہوئی حضرت صاحب ہمارے ایک ہفتہ کے انتظار سے بہت خوش ہوئے چار دفعہ مجھے گلے لگایا چار بار گلے لگانے کے لئے چار زندگیاں دینی پڑتیں تو میں سستا سودا سمجھتا حضرت نے میری پوری کہانی سن کر مجھ سے کہا کہ اب تو رات ہو گئی ہے کیا آپ صبح تشریف لا کر ارمغان کے لئے انٹرویو دے سکتے ہیں میں نے کہا کیوں نہیں ؟آپ سو بار کہیں گے تو سو بار حاضر ہوں گے اب بتائیں میرے لئے کیا حکم ہے ؟
سوال :آپ پہلے اپنا خاندانی تعارف کرایئے؟
جوا ب :میں مہاراشٹر میں جلگاؤں کے ایک ٹھاکرے پریوار میں ۶ جولائی ۱۹۵۶ء میں پیدا ہوا،ہائی اسکول اور بارہویں کلاس کے بعد سائنس سے بی ایس سی کیا، میرے پتاجی ایک پڑھے لکھے انسان تھے اور ایک ہائی اسکول کے پرنسپل تھے بڑے اچھے آدمی تھے بس انسانیت ان کا دھرم تھا مگر میرا تعلق کچھ مذہبی جنون رکھنے والے جوانوں سے ہو گیا، بی ایس سی کے بعد میں نے بی ایڈ کیا اور بعد میں ایم ایس سی حساب سے کی، ایک سر کاری اسکول میں منیجر ہو گیا، ابھی بھی ایک انٹر کالج میں لیکچرر ہوں بعد میں میں نے شیو سینا جوائن کر لی اور پارٹی کا بہت فعال کا رکن بن گیا، ۱۹۹۰ء میں ایڈوانی جی کی رتھ یاترا کے لئے ذمہ داروں نے مجھے ذمہ داریاں سونپیں اور ۱۹۹۲ء میں مجھے پارٹی نے کام کرنے کے لئے ممبئی بلایا اور وہاں کے ننگے ناچ میں میں نے بہت ایکٹیو رول ادا کیا کتنے معصوم بچوں کی خوشیاں مجھ درندہ کی وجہ سے سسکیوں میں بدلی ہوں گی، یعنی میری پلاننگ کی وجہ سے بد قسمتی سے میری شادی بھی ایک کمیونل ذہن رکھنے والے (متعصب)خاندان میں ہو گئی اس سے کریلہ اور نیم چڑھا ہو گیا، میرے تین بچے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہوئیں تینوں کا دل و دماغ ہمارے زہر سے زہریلا بنا۔ ہمارے گھر میں بچوں میں ذکر ہوتا کہ دیش کے وفادار مسلمانوں کو ہندو بنا نے کی کوئی ترکیب کرنی چاہئے اس کے لئے میری بڑی بیٹی نے اظہر الدین کو خط لکھا تھا کہ ان کو ہندو بن جانا چاہئے اور انھوں نے میری اجازت سے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر وہ ہندو ہو جائے تو میں آپ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں اے پی جے عبد الکلام کو بھی ہندو بننے کے لئے خط لکھا تھا۔
سوال :اپنے قبول اسلام کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتایئے؟
جوا ب :بس اصل تو یہ ہے کہ میرے اللہ کو مجھ پر رحم آیا اور حضرت جیسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل و دماغ کو حق اور اسلام کے لئے کھولنے کا فیصلہ کر دیا ہے اور مسلمانوں کو ہوشیار کرنے کے لئے ہم جیسے ظالموں کے لئے ہدایت کے دروازے کھول دیئے ہیں، بظاہر اسباب کچھ بھی ہو سکتے ہیں ہوا یہ کہ میں ایک فزیکس ورکشاپ کے لئے کالج کے طلباء کا ایک گروپ لے کر تین روز کے لئے ممبئی گیا ورکشاپ تیسرے روز دوپہر کو ختم ہو گیا تھا ہم لوگوں نے ممبئی گھومنے کا پروگرام بنایا سمندر کے کنارے ہم لوگ شام کو گھوم رہے تھے، تو میں نے دیکھا ایک پرائمری اسکول کا گروپ پکنک کے لئے وہاں آیا ہوا ہے سب بچے خوشی خوشی چاروں طرف گھوم رہے تھے۔انہیں بچوں میں میں نے دیکھا کہ دو تین ٹیچرس ایک بچی کے پاس جمع تھیں اور وہ بچی گھومنے کے بجائے ہچکیوں سے رو رہی تھی اس کی استانیاں اس کو محبت پیار کر رہی تھیں مگر وہ انتہائی غم زدہ اور سسکیوں سے رو رہی تھی میں نے رونے کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ احمد آباد کی بچی ہے اس کے ماں باپ گجرات فساد میں جلا دیئے گئے، یہ بچی کبھی ہنستی نہیں ان استانیوں نے بتایا کہ اس معصوم ننھی سی بچی کی ہنسی اس انسان نام کے درندوں نے ہمیشہ کے لئے سسکیوں میں بدل دی،یہاں ممبئی میں گجرات کے ایک صاحب اس کو لے کر آئے تھے اور ہمارے اسکول میں داخل کر دیا مگر اس کی سسکیوں نے پورے اسکول کو غم زدہ کر دیا ہے اس بچی کا دل بہلانے کے لئے ہمارے پرنسپل بار بار پکنک کے لئے بھیجتے ہیں مگر اس کا دل ہے کہ بہلنے کے بجائے اور اد اس ہو جاتا ہے۔
اس بچی کی سسکیاں میرے دل میں تلوار کے زخموں کی طرح چبھ گئیں اور اس قسم کا یہ جملہ کہ کچھ انسان نما درندوں نے اس کی خوشیوں کو ہمیشہ کی سسکیوں میں بدل دیا ہے میرے دل و دماغ پر جم گیا اپنی پوری زندگی کے کارنامے ایک اسکرین کی طرح میرے سامنے آ گئے خصوصاً سن ۱۹۹۲ء کے ممبئی کے دنگے خصوصاً مدن پوری اور اس کے آس پاس کے محلوں کی پلاننگ کی ذمہ داری کے لحاظ سے مجھے یہ جملہ کچھ اس طرح سنائی دیتا بار بار میرے کانوں سے دماغ اور دل تک پہنچتا تھا مجھ انسان نام کے درندے نے کتنی بچیوں کی خوشیاں اور قہقہے ہمیشہ کے لے سسکیوں میں بدل دیئے میں نے کالج سے چھٹی لی اور کچھ دن ممبئی قیام کیا اور علاقہ کا دورہ کیا اور سروے کیا اور اپنے کالے کرتوتوں کا جائزہ لیا نہ جانے کتنے گھرانوں کی ہمیشہ کی خوشیاں مجھ انسان نام کے درندہ کی پلاننگ کی وجہ سے ہمیشہ کی سسکیوں میں بدل گئیں اس کے احساس نے مجھے جھنجھوڑ دیا اور مجھے احساس ہوا کہ انسانیت کو مذہب سمجھ کر زندگی گذارنے والے باپ کے بیٹے کے یہ ظالمانہ کرتوت انسانیت کے نام پر بدنما داغ ہیں ایک ہفتہ اپنے جرائم اور ننگے کرتوتوں کو نئی آنکھوں سے دیکھا جن پر سے ظلم کی عینک ٹوٹ کر صاف نظر آنے لگا تھا۔
میں اپنے گھر آیا، میرے کالج میں ماسٹر عبدالعزیز ایک بہت شریف مسلمان انگریزی کے استاذ ہیں جو مذہب کو فالو کرنے والے شریف مسلمان ہیں ان کو میری اکٹیوٹیز کا علم تھا اس لئے مجھ سے ڈرتے تھے اپنے جرم کے احساس سے میں بے چین رہنے لگا میری نیندیں اڑ نے لگیں گذشتہ سال مئی میں ایک روز میں نے ماسٹر عبدالعزیز صاحب سے ملاقات کی اور ان سے کہا میں کسی اچھے مسلمان سے ملنا چاہتا ہوں آپ اپنے کسی مذہبی گرو سے ملائیں اور میں نے اپنے دل و دماغ پر اپنے مجرمانہ کرتوتوں کے جو اثرات لئے انھیں بتایا ماسٹر صاحب نے بتایا کہ دھارنی ضلع امراؤتی میں ایک بڑا جلسہ ہو رہا ہے وہاں پر ایک بڑے دھرم گرو اور انسانیت سے محبت کرنے والے عالم مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب آرہے ہیں آپ وہاں چلیں کو شش کریں گے کہ ملاقات ہو جائے ہم نے پروگرام بنایا ایک جیپ گاڑی کرایہ پر کی اور ہم لوگ ضلع جلگاؤں سے اس پروگرام میں پہنچے انسانوں کا سمندر پروگرام میں شریک تھا بھیڑ ہی بھیڑ تھی اس پروگرام میں پہنچ کر یہ عجیب بات لگی کہ ہر ایک والہانہ طور پر اپنے دھرم گرو کو دیکھنے اور سننے آیا تھا بڑی تعداد ہندوؤں کی بھی پروگرام میں تھی مگر وہ بھی ایسے جذبہ میں تھے جیسے کسی مسلمان عالم نہیں بلکہ کسی اپنے ہندو گرو کے درشن کے لئے آئے ہوں وہاں جا کر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب بیماری کی وجہ سے نہیں آ سکے لوگ بڑی مایوسی سے واپس لوٹ رہے تھے کتنا مشکل سفر کر کے ہم پہنچے تھے خیال تھا کہ ملاقات ہو جائے گی تو جیون کے غم میں کچھ سکون ملے گا بالکل گھٹنے ٹوٹ گئے حضرت صاحب کے یہاں سے کوئی مولانا صاحب آئے تھے ان کی تقریر سنی اس پروگرام میں یہ احساس مجھے ہوا کہ جہاں یہ لوگ حضرت سے والہانہ محبت کے ساتھ آئے تھے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے تو بولنے میں صاف لگتا کہ یہ سب ایک گھر کے لوگ والہانہ تعلق رکھنے والے ہیں رہ رہ کر مجھے احساس ہو رہا تھا کہ وہ انسان کیسا ہو گا کیسا محبت بھرا اس کا دل ہو گا جس کو دیکھنے اور سننے کے جذبہ نے ان لوگوں میں ایسی محبت پیدا کر دی کہ یہ ہندو مسلم کی مہاراشٹر میں تمیز کھو بیٹھے مجھے ان سے ملنا چاہئے بڑے مایو س ہو کر ہم لوگ واپس آئے مگر اس سفر کی رفاقت کی وجہ سے کچھ مسلمانوں سے میرا تعلق ہو گیا خصوصاً ماسٹر عبدالعزیز صاحب سے تو دوستی ہو گئی ماسٹر صاحب میں بھی اس سفر سے ایک عجیب تبدیلی آئی کہ وہ ہندوؤں اور ہم لوگوں سے جو کٹے کٹے رہتے تھے وہ قریب ہوئے اور ہمیں اسلام سے قریب اور کرنے کی کوشش کرتے رہے ایک مہینہ کے بعد انھوں نے مجھے حضرت صاحب کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ہندی اور انگریزی میں لا کر دی میں نے وہ کتاب دس بار پڑھی،اور مجھے معلوم ہوا کہ دھارنی کے پروگرام میں ہر آنے والے کی ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی اور محبت اس محبت بھرے انسان کے دل کے سمندر سے بانٹی اور بکھیری گئی محبت تھی جو خود کسی بیماری کی وجہ سے نہیں آیا مگر اپنی انتر آتما سے اپنی ممتا اس سے اپنے لئے آنے والے لوگوں کے لئے بھیج دی تھی اب مجھے حضرت صاحب سے ملنے کی بے چینی ہوئی روزبروز بے چینی بڑھتی رہی کئی مہینے کے بعد ماسٹر عبدالعزیز نے اور ہم نے فون ملایا تو فون مل گیا اور حضرت سے بات ہو گئی مولانا صاحب نے مجھ سے ملاقات کا شوق ظاہر کیا اور دھارنی نہ پہنچے کی معذرت بھی کی اور تکلیف کا اظہار کیا اور بتایا کہ اس سال دھارنی ضرور آؤں گا۔
سوال :ابی اس سال دھارنی گئے تھے آپ کی ملاقات وہاں نہیں ہوئی، آپ تو فرما رہے تھے کہ پہلی ملاقات کل ہوئی ہے ؟
جوا ب :محبت قربانی چاہتی ہے۔ اس سال ہمیں دھارنی کے پروگرام کا علم نہیں ہو سکا میں اس وقت کسی ضرورت سے دو ہفتوں کے لئے پونہ گیا ہوا تھا۔
سوال :جی تو آپ کچھ فرما رہے تھے فرمایئے؟
جوا ب :حضرت صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ آپ کی امانت آپ نے پڑھی کہ نہیں ؟ میں نے کہا دس بار پڑھی حضرت صاحب نے معلوم کیا اس میں کوئی بات غلط ہو تو ٹھیک کر دیجئے میں نے کہا اس میں ساری غلطیوں کو ٹھیک کیا گیا ہے حضرت صاحب نے کہا تو پھر آپ بھی وہ غلطی ٹھیک کر لی کہ نہیں میں نے کہا وہ غلطی تو آپ کی شرن میں آ کر ہی صحیح ہو گی حضرت نے کہا کہ آپ نے کلمہ پڑھ لیا کہ نہیں میں نے کہا وہ میں نے یاد بھی کر لیا ہے میں نے فون پر حضرت صاحب کو کلمہ سنایا حضرت صاحب نے کہا آپ نے اسلام قبول کرنے کی نیت سے اسے پڑھ لیا کہ نہیں ؟میں نے کہا اتیاچار اور ظلم کی نحوست میرا پیچھا نہیں چھوڑتی حضرت نے کہا اس کا علاج بھی یہی ہے کہ آپ سچے دل سے کلمہ پڑھ لیجئے میں نے کہا حضرت صاحب آپ ہی پڑھوا دیجئے شاید میری آتما کو کچھ شانتی مل جائے مولانا نے فون پر مجھے کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں ذرا تفصیل سے کہلوایا تو بہ کرائی اور میرا نام فون پر ہی عبداللہ ٹھاکرے رکھ دیا اور مجھے مرنے کے بعد کیا ہو گا ؟اسلام ایک پریچے، اسلام کیا ہے ؟ہندی میں اور Mohammad the Ideal prophet انگریزی میں پڑھنے کا مشورہ دیا اور موقع لگا کر کسی پڑھی لکھی جماعت کے ساتھ وقت لگانے کا مشورہ دیا اور یہ بھی تاکید کی کہ جماعت میں جا کر آپ یہ نہ بتائیں کہ میں نے اسلام قبول کیا ہے اور یہ کہ شیو ینا کا میں ایکٹیو ممبر رہا ہوں بہر حال میں نے پونہ سے اعظم کیمپس کی ایک جماعت کے ساتھ وقت لگایا میرا وقت بنگلور میں لگا اللہ کا شکر ہے جماعت کے لوگ بہت اچھے تھے۔
سوال :آپ نے جماعت والوں کو بتایا کہ میں نے اسلام قبول کیا ہے ؟
جوا ب :نہیں بالکل نہیں بتایا وہ لوگ مجھ سے معلوم بھی کرتے کہ آپ اتنے بڑے ہو گئے آپ کو نماز بھی یاد نہیں میں کہتا اصل میں میرا ماحول بہت خراب ہے اپنے علاقہ میں بس میں اکیلا ہی مسلمان ہوں ساتھ ہی مجھ پر ترس بھی کھاتے میں نے یہ بھی نہیں بتایا میں فزیکس کا لیکچرر ہوں بلکہ کہا کہ ایک اسکول میں پڑھاتا ہوں بس بہر حال وقت بہت اچھا لگا پونہ میں میری کچھ حضرت صاحب کے مریدوں اور نو مسلم مریدوں سے بھی ملاقات ہوئی جن سے مل کر مجھے اور بھی حضرت سے ملنے کا شوق بڑھ گیا۔ اللہ کا شکر ہے یہ مراد بھی کل پوری ہو گئی۔
سوال :آپ کے گھر والوں کا کیا حال ہے ؟
جوا ب :میں نے ورکشاپ والے سفر سے اپنے بچوں اور گھر والوں کو اپنے ساتھ رکھا اور دھارنی کے سفر کی بھی کارگذاری مسلسل فون پر سناتا رہا تو میرے اسلام کے پورے سفر میں میری اہلیہ اور بچے دل و دماغ سے میرے ساتھ رہے اس کی وجہ سے میرے کلمہ پڑھنے کے دوسرے روز میری بیوی اور بیٹوں بیٹیوں کو ماسٹر عبدالعزیز نے کلمہ پڑھوا دیا میری اہلیہ کا نام امۃ اللہ اور میری بیٹی کا نام امۃ العزیز چھوٹی بیٹی کا نام امۃ رحمن اور بیٹے کا نام عبدالرحمن ہے۔
سوال :اب آئندہ آپ کا کیا ارادہ ہے ؟
جوا ب :ہم لوگوں نے حضرت سے مل کر ایک پورا خاکہ بنایا ہے اسلام پڑھنے اور خاندان والوں میں کام کرنے کا پہلے مرحلہ میں خاکہ بنایا ہے، حج کا فارم بھی میں نے بھر ا ہے اسی سال خاندان والوں کے ساتھ حج کو جانا ہے اگر حج کمیٹی کے ساتھ نہ بھی ہوا تو انشاء اللہ ٹور سے حج کو جانا ہے اس کے بعد مراٹھوں میں کام کرنا ہے اور شیو سینا کے ساتھیوں تک ان کا حق پہنچانا ہے الحمد للہ میرے چالیس گاؤں اور ناسک کے دس بارہ ساتھیوں کے دل و دماغ سے تعصب کی عینک ٹوٹ گئی ہے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کچھ ضرور کام لیں گے۔
سوال :ماشاء اللہ خوب عزائم ہیں قارئین ارمغان کے لئے کچھ پیغام ہے ؟
جوا ب :انسانیت کی خیر خواہی کے لئے امت مسلمہ کو اللہ نے برپا کیا ہے اس خیر خواہی کے لئے جینا مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ مسلمان انفعال اور ری ایکشن کا راستہ چھوڑ کر دنیا کی سازشوں مکر و فریب تعصب اور ظلم زیادتی سے بے پروا ہو کر اگر صرف اپنے طرز زندگی کی سوئی انسانیت کی خیر خواہی یعنی داعیانہ طرز زندگی میں جینے کی طرف کر دیں تو پھر یہ پوری دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے۔
سوال :ماشاء اللہ کیا سچی بات آپ نے کہی ہے ؟
جوا ب :آپ شرمندہ کر رہے ہیں میں نے تو اپنی چھوٹی سی زندگی بلکہ زندگی کے چند خوش گوار دنوں میں حضر ت سے تعلق کے بعد جو سبق سنا ہے اس کو دہر ا رہا ہوں۔
سوال :واقعی آپ نے بہت کام کی بات کہی ہے، جزاکم اللہ شکریہ بہت بہت شکریہ،السلام علیکم و رحمۃ اللہ
جواب :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
ماخوذ از ماہنامہ ارمغان، جون ۲۰۱۰ء
٭٭
بچوں کی ادلا بدلی سے دل بدل گئے
ماسٹر محمد اسعد صاحب {ریوتی شرن شکل} سے ایک ملاقات
احمد اوّاہ :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
ماسٹر محمد اسعد :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
سوال :جناب ماسٹر صاحب !ابی آج کل جہاں جا رہے ہیں یہ فرما رہے ہیں کہ اس وقت اللہ کی شان ہادی اپنے مظاہر دکھا رہی ہے وہ کیسے کیسے بہانے سے اپنے بندوں کی ہدایت کا انتظام فرما رہے ہیں یہ شاید پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا بالکل انوکھا واقعہ ہے جو اللہ نے آپ کی ہدایت کے لئے آپ کے ساتھ کرایا۔
جوا ب :روتے ہوئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔مولانا احمد صاحب شاید پوری کائنات میں مجھ گندے ناپاک سے زیادہ اللہ کی رحم کی نگاہ کسی پر پڑی ہو (دیکھئے میرا رواں رواں کھڑا ہو رہا ہے ) کیا خواب میں بھی ایسا ہو سکتا ہے کسی افسانہ لکھنے والے کسی ناول نگار نے اپنے تخیل میں ایسا واقعہ سوچا ہو گا جیسا واقعہ ہمارے ساتھ پیش آیا۔
سوال :واقعی ابی نے بتایا تو ہم سبھی لوگ ایسا ہی خیال کر رہے ہیں ابی نے حکم دیا کہ ماسٹر صاحب ملنے آ رہے ہیں اس ماہ ارمغان میں انھیں کا انٹرویو چھپنا ہے ؟
جوا ب :جی انھوں نے ہی مجھے بھی حکم دیا کہ احمد آ رہے ہیں وہ آپ سے کچھ باتیں کریں گے۔
سوال :اجازت ہے، میں آپ سے کچھ باتیں کروں ؟
جوا ب :ضرور!اسی لئے تو انتظار کر رہا ہوں۔
سوال :اپنا خاندانی تعارف کرایئے؟
جوا ب :میں ایک برہمن خاندان میں ۲ جنوری ۱۹۵۷ء کو دیوریا ضلع کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا ریوتی شرن شکل میرا نام رکھا گیا۔
سوال :تو آپ شکل برہمن ہیں ؟
جوا ب :ہاں شکل مرد کو اور شکلا عورت کو کہتے ہیں۔
سوال :ہمارے ایک نو مسلم بڑے جذبہ کے ساتھی ہیں شکلا جی
جوا ب : اصل میں لوگ مجھے بھی شکلا جی، شکلا جی کہتے ہیں۔
سوال :جی تو فرمایئے آپ تعارف کرا رہے تھے اپنا تعارف بھی کرایئے اور اپنے قبول اسلام کی دل چسپ کہانی بھی سنایئے؟
جوا ب :میرے پتاجی ایک اسکول میں ٹیچر تھے میں نے پرائمری تعلیم اسی اسکول میں حاصل کی اس کے بعد انٹر میڈیٹ کیا اور بی ٹی سی کر کے سرکاری ٹیچر بن گیا، میری شادی بلیا کے ایک اچھے خاندان میں ہوئی میری اہلیہ گریجویٹ ہیں اور مجھ سے زیادہ پڑھی لکھی ہیں۔ ۳ فروری ۱۹۸۴ء کو میری شادی ہوئی، ۱۹۹۴ء تک دس سال تک ہمارے کوئی اولاد نہیں ہوئی، بہت علاج کرایا، بہت سے حکیموں ڈاکٹروں کو دکھایا بہت سے سیانوں کو دکھایا لوگ کہتے تھے کسی نے کوکھ باندھ دی ہے مگر کوئی کھولنے والا نہیں ملتا تھا گرمی کا موسم تھا جون کا مہینہ تھا نہ جانے کیوں مجھ سے زیادہ میری بیوی کو اولاد کی چاہت تھی ایک روز وہ بہت مایوس تھی ایک فقیر آیا اور کھانا کھلانے کو کہا، میری بیوی نے اس کو بٹھایا اور تازہ کھانا بنا کر کھلایا۔ اس نے کہا بیٹا تمھارے کوئی اولاد نہیں ہے ؟بیوی نے کہا نہیں اس نے سر پر ہاتھ رکھا اور دعا دی اللہ تمھیں اسی سال خوشی دکھائے۔ اس فقیر کی دعا لگی اور اگلے مہینہ خوشی کے آثار شروع ہو گئے مگر تیسرے مہینہ میری بیوی کی طبیعت خراب رہنے لگی ایک مہینہ پہلے اسپتال میں پھر گھر پر بیڈ ریسٹ کیا اس وقت راحت ہو گئی، مگر چھٹے مہینہ پھر دوبارہ طبیعت خراب ہو گئی ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ صفائی کروا دینی چاہئے ورنہ جان کا خطرہ ہے میری بیوی اس کے لئے تیار نہیں ہوئی اور بولی کہ میری جان چلی جائے گی تو جانے دیجئے آپ دوسری شادی کر لیجئے آپ کو تو اولاد ہو جائے گی اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ طبیعت ٹھیک ہو گئی خدا خدا کر کے دن پورے ہوئے۔ ولادت کا وقت آ گیا ضلع کے ایک بڑے اسپتال میں میری بیوی بھرتی ہو گئی، اتفاق سے ایک صاحبہ اسی وقت آ گئیں وہ قریب کے کسی گاؤں کی مسلمان خاتون تھیں اور لڑکیوں کے کسی مدرسہ میں پڑھاتی تھیں اور عالمہ تھیں، ان کے تین بیٹیاں تھیں اور یہ چوتھی ولادت تھی میری بیوی اور ان کا ایک وقت میں ولادت کا معاملہ پیش آیا ہمیں اولاد کی چاہت تھی اچھا ہے کہ بیٹا ہو ا انھیں صرف یہ چاہت تھی کہ ایک کے بعد ایک بیٹی کی پیدائش سے وہ عاجز تھیں انھوں نے پانچویں مہینہ الٹرا ساؤنڈ کرا کے چیک کرایا تھا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ بیٹا پیٹ میں ہے ان کا خیال تھا کہ اگر بیٹی ہو گی تو ابھی اسقاط کرا دیں گے مگر ولادت سے چھ روز پہلے ولادت کا وقت اور موجودہ پوزیشن دیکھنے کے لئے الٹرا ساؤنڈ کرایا تو معلوم ہوا کہ لڑکی ہے، وہ بہت پریشان تھے ان کے شوہر نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا اور اس کو ایک لاکھ روپئے دینا طے کیا کہ ایک دو روز میں کوئی ولادت ہو اور وہ لڑکا ہو تو وہ ہماری لڑکی سے بدل دیں ڈاکٹر نے وعدہ کر لیا اور ساتھ میں کام کرنے والی نرسوں کو دو دو ہزار روپئے دینے کا وعدہ بھی کیا اتفاق سے میری بیوی اس روز اسپتال میں داخل ہوئی اور دو گھنٹے پہلے اس عالمہ کے بیٹی پیدا ہوئی اور دو گھنٹے بعد ہماری بیوی کے بیٹا پیدا ہوا ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ بیٹی پیدا ہوئی اور بیٹا ان کو دے دیا عالمہ کے شوہر جو خود ایک داڑھی والے مسلمان تاجر تھے ایک لاکھ چار ہزار روپئے علاوہ اسپتال میں ولادت کے خرچ کے ڈاکٹر کو بچہ بدلنے کے لئے دیئے ہمارے لئے تو اولاد ہونا کافی تھا، ہمارے آنگن میں اللہ نے اس فقیر کی دعا سے اس سال خوشی دکھائی لڑکی کا نام ہم نے مسکان رکھا اس کے دو سال کے بعد اللہ نے ہمیں بیٹا دیا، پچھلے سال ڈاکٹر صاحب کی اسٹاف نرس سے بات بگڑ گئی ہمارا ٹرانسفر ہو گیا اور ہم نے دیوریا چھوڑ دیا اس نرس نے لوگوں میں شور کر دیا کہ اس ڈاکٹر نے لاکھوں روپئے لے کر بچہ بدلا ہے اور کسی دوسرے کا لڑکا حاجی صاحب کو دے دیا ہے اس پر قصبہ میں خوب شور مچ گیا کہ ایسا ظلم ہو گیا لوگ حاجی صاحب کے پاس جاتے وہ کہتے ایسا بالکل نہیں ہے وہ عالمہ بھی قسمیں کھا لیتی کہ یہ بدنام کرنے کی سازش ہے مگر وہ نرس کہتی میں اپنا فرض سمجھ کر کہتی ہوں کہ وہ لڑکی جو برہمن ماسٹر صاحب کے یہاں ہے وہ مسلمان ہے بعض مسلمانوں نے اس کے لئے کوشش بھی کی مگر ان لوگوں نے بات کو دبانے کی کوشش کی میں بلیا میں رہ رہا تھا بلیا کے کچھ لوگوں کو اس کا پتہ لگا میری بچی اسکول میں پڑھ رہی تھی بلیا کے ایک ڈاکٹر صاحب جو ہو میوپیتھک تھے ان کو اس کیس کا علم ہوا،انھوں نے دیوریا جا کر ان حاجی صاحب پر بہت زور ڈالا کہ آپ اپنے خون کو ہندو گھرانہ میں پال رہے ہیں مگر وہ بالکل نہ مانے، ڈاکٹر صاحب نے اپنی بچی کو میری بچی کے ساتھ اسکول میں داخل کیا اور رفتہ رفتہ اس کی ذہن سازی کی کہ وہ مسلمان کی بچی ہے اور اس طرح اسپتال کے عملہ نے خیانت کی ہے اور اس کو ایمان کے بغیر ہمیشہ کی جہنم میں جلنے سے ڈرایا کسی طرح فون نمبر لے کر اس کی ماں سے فون پر بات کرائی اس نے اپنی ماں سے کہا میں مسلمان ہو کر آپ کے پاس آنا چاہتی ہوں اس کی ماں نے صاف منع کر دیا کہ تمھارا میرا کوئی رشتہ نہیں یہ بات سب غلط ہے اور ہمیں بدنام کرنے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے ڈاکٹر صاحب ارمغان پڑھتے ہیں اور دعوتی جذبہ رکھتے ہیں انھوں نے اپنی بچی کو اس پر لگا یا کہ اس بچی کو اسلام پر جمانے کی کوشش کریں لڑکی نے اس کو کلمہ پڑھایا اور اس کا نام بشریٰ رکھا لڑکی گھر چھوڑ کر کسی مدرسہ میں جانے کو تیار ہو گئی وہ گھر میں رہ کر گھٹن محسوس کر نے لگی ایک روز ڈاکٹر صاحب کی بیٹی نے اپنے چچا کے ساتھ اس کو لے کر لکھنؤ لڑکیوں کے مدرسہ میں داخل کرنے کا پروگرام بنایا وہ لڑکی کو لے کر نکل گئی مگر ہمیں پتہ لگ گیا، پولس میں رپورٹ کی گئی اور لڑکی برآمد ہو گئی ڈاکٹر صاحب کے بھائی اور لڑکی کو گرفتار کر لیا گیا بعد میں ڈاکٹر صاحب بھی گرفتار ہوئے ہمارے اسکول میں ایک مسلمان ماسٹر امیر احمد پڑھاتے تھے وہ میرے اچھے دوست تھے ڈاکٹر صاحب کے گھر والے ان ماسٹر صاحب سے ملے اور اپنی غلطی کی معافی چاہی، ڈاکٹر صاحب کے دادا بہت بوڑھے آدمی تھے وہ آ کر بہت رونے لگے اور میرے پاؤں پکڑنے لگے ماسٹر امیر احمد نے بھی میری خوشامد کی بوڑھی آنکھوں کو روتا دیکھ کر مجھے بھی ترس آ گیا، بہر حال میں نے ان سب کو آزاد کر دیا اور تھانہ سے مقدمہ ختم کر وا دیا، ڈاکٹر عبدالمومن صاحب دہلی جا رہے تھے وہ آپ کے والد صاحب سے ملے اور پوری کہانی سنائی، ایک عالمہ کے اپنی مسلمان بچی قبول کرنے سے انکا رسے ان کو حیرت ہوئی پوری کہانی سننے کے بعد انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا کہ مسئلہ کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ آپ اس بچی کے نئے والدین ماسٹر صاحب اور ان کی اہلیہ کو دعوت دیں انھوں نے کہا کہ ہمیں ڈر لگتا ہے تو انھوں نے ان کو چند روز دعوتی کیمپ میں لگانے کو کہا دہلی میں تین مہینہ کا دعوتی کیمپ چل رہا تھا ڈاکٹر صاحب تین روز تک کیمپ میں رہے اور پرانے داعیوں کے ساتھ جا کر دعوت کا طریقہ پریکٹیکل سیکھا جاتے وقت اصرار کیا کہ کسی داعی کو میرے ساتھ بھیج دین ایک ڈاکٹر صاحب آسام سے آئے ہوئے تھے حضرت نے ان کو ڈاکٹر عبدالمومن کے ساتھ بھیج دیا، ڈاکٹر صاحب ان آسامی ڈاکٹر کو لیکر ہمارے پاس آئے اسکول میں ان سے ملاقات ہوئی پہلے تو ڈاکٹر عبدالمومن کو دیکھ کر مجھے غصہ آیا میں سمجھا کہ وہ اس لڑکی کو ہم سے مانگنے آئے ہیں ڈاکٹر صاحب بولے یہ آسام کے رہنے والے ڈاکٹر صاحب ہیں بڑے پہنچے ہوئے صوفی ہیں آپ سے ملنے آئے ہیں میں نے صاف صاف کہہ دیا یہ بچی ہمیں مالک نے ایک فقیر کی دعا سے بڑی آرزوؤں کے بعد دی ہے میں مر تو سکتا ہوں مگر اس لڑکی کو نہیں چھوڑ سکتا ڈاکٹر رفیق صاحب جو آسام والے تھے انھوں نے کہا آپ کو اس لڑکی سے محبت ہے، آپ اس کو ہمیشہ ساتھ رکھنا چاہتے ہیں نہ ؟میں نے کہا بالکل انھوں نے کہا ہم بھی آپ کے پاس اسی لئے آئے ہیں کہ وہ بچی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے اس لئے کہ وہ بچی مسلمان ہے اور وہ موت کے بعد جنت میں جائے گی آپ اس کے ساتھ ہمیشہ تب رہ سکتے ہیں جب آپ مسلمان ہو جائیں ورنہ موت کے بعد آپ کو اس کو چھوڑنا پڑے گا ڈاکٹر صاحب نے بہت ہی محبت سے اسلام سمجھانے کی کوشش کی اسلام میری سمجھ میں آ گیا میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا آپ میری بیوی سے بات کر لیں اگر وہ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو میں مسلمان ہونے کو تیار ہوں، ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ کی سمجھ میں بات آئی کہ نہیں ؟میں نے کہا میں تو سمجھ گیا ہوں انھوں نے کہا آپ ابھی خود کا کلمہ پڑھ لیجئے بیوی صاحبہ کو مت بتایئے جب وہ تیار ہو جائیں گی ان کے ساتھ دوبارہ کلمہ پڑھ لیجئے اگر آپ کی موت آ گئی تو کم از کم آپ تو دوزخ سے بچ کر اپنی لاڈلی بیٹی کے ساتھ جنت میں جائیں گے میں تیار ہو گیا میں نے کلمہ پڑھا اور ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ آپ میری بیوی سے کہئے کہ مسلمان فقیر کی دعا سے اللہ نے تمھارے آنگن کو بھرا ہے وہ اس فقیر کی بڑی معتقد ہے ڈاکٹر صاحب شام کو ہمارے گھر آئے رات تک ہم دونوں کو سمجھا تے رہے میں ذرا سخت بنا رہا شروع میں مسلمانوں نے ہمارے ساتھ کیسا دھوکہ کیا اس کا طعنہ دیتا رہا میری بیوی نرم پڑھتی تو میں ذرا سخت ہو جاتا وہ مجھ سے کہتی ان کو کہنے تو دیجئے رات کے بارہ بجے اللہ نے اس کا دل پھیر دیا رات میں بارہ بجے انھوں نے ہم دونوں کو دونوں بچوں کے ساتھ کلمہ پڑھایا میرا نام محمد اسعد میری اہلیہ کا نام سعیدہ رکھا بیٹی کا نام بشریٰ بیٹی نے خود طے کیا اور اپنے بھائی کا نام میری بیٹی نے محمد خالد رکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہم سبھی کو دہلی جا کر حضرت صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا، دو روز ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر رہے اور دن بھر وہ ڈاکٹر عبدالمومن کو لے کر لوگوں کے پاس جاتے تھے دو روز میں ڈاکٹر صاحب نے ۳۲ لوگوں کو کلمہ پڑھوایا تیسرے روز سنیچر کو ہم لوگوں نے دہلی جانے کا پروگرام بنایا اور حضرت صاحب سے ملاقات کی حضرت نے ہمیں بہت مبارک باد دی ہماری اہلیہ حضرت کے گھر والوں سے مل کر بہت خوش ہوئیں ہم نے دہلی میں اپنے کاغذات بھی بنوائے،حضرت نے ہمیں جماعت میں جانے کا مشورہ دیا الحمد للہ دیوریا میں نے اپریل سے چلے میں وقت لگایا، ہماری جماعت پنجاب گئی بہت اچھا وقت لگا، وقت پورا ہوا اس سال میرا دوسرا چلہ لگا، ابھی چلہ لگا کر میں آیا ہوں اس سال ہمارا چلہ بنگلور میں لگا۔
سوال :آپ کے بیٹے اور بیٹی کیا کر رہے ہیں ؟
جوا ب :اسکول سے ہٹا کر ہم نے سبھی گھر والوں کے مشورہ سے دونوں بچوں کو مدرسہ میں داخل کرا دیا ہے میرا بیٹا الہ آباد کے ایک مدرسہ میں پڑھ رہا ہے اور بیٹی اعظم گڑھ میں عالمیت کے اعداد یہ میں داخل ہے یعنی اس سال عربی اول میں آ گئی ہے میری اہلیہ نے اس سال قرآن مجید پڑھ لیا ہے وہ بھی اردو پڑھ رہی ہے۔
سوال :آپ کے اصلی بیٹے کا کیا ہو ا،یعنی بڑے بیٹے کے بارے میں آپ کو علم ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے ؟
جوا ب :مجھے اس کا بہت افسوس ہے حاجی صاحب نے اس کو عیسائیوں کے ایک اسکول سینٹ میری میں داخل کرایا ہے ڈاکٹر عبدالمومن اس سے ملے ہیں انھوں نے بتایا وہ بہت ماڈرن ذہن کا ہے اور اسلام کو بالکل دقیا نوسیت سمجھتا ہے میں نے اس سال چھٹیوں میں اس سے پہلے فون پر بات کرنا شروع کی اور اس کو بتایا میں مسلمان ہو گیا ہوں تمھاری ماں بھی مسلمان ہو گئی ہے اس پر وہ بہت ناراض ہوا کہ میری ماں کیوں ہوئی اب یہ زمانہ ہندو مسلمان بننے کا نہیں اب نئے زمانے میں چاند ستاروں پر لوگ جا رہے ہیں یہ زمانہ ترقی کرنے کا ہے میرا دل بہت دکھا میں رات کو تہجد میں بہت رویا بہت دعا کی میرے اللہ وہ میرا خون ہے آپ نے مجھے یہاں ہدایت دی اور وہ عالمہ کی گود میں رہ کر عیسائی ہو رہا ہے اس بار جماعت میں میری اس سے تین بار بات ہوئی وہ نرم ہو گیا ہے، اس نے ہمارے پاس آنے کے لئے بھی کہا ہے۔
سوال :آپ نے اپنے خاندان کے لوگوں پر کام نہیں کیا ؟
جوا ب :میں نے ڈاکٹر صاحب کو آسام سے دوبارہ بلایا تھا الحمد للہ میرے بڑے بھائی اور ان کے دو بیٹے مسلمان ہو گئے ہیں میری اہلیہ کی ایک بہن نے بھی کلمہ پڑھ لیا ہے اب حضرت مولانا کے مشورہ سے میں نے دعوتی کیمپ میں شریک ہونے کا پروگرام بنایا ہے حضرت نے مجھ سے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کب تک آسام بنگال سے لوگوں کو بلائیں گے خود مرغی پالیئے۔آپ بھی دعا کیجئے اللہ تعالیٰ مجھے داعی بنا دے۔
سوال :واقعی اللہ کی عجیب شان ہے اللہ تعالیٰ نے کس طرح آپ کے لئے ہدایت کے دروازے کھولے؟
جوا ب :الحمد للہ جس روز سے میں نے کلمہ پڑھا ہے اس کے چند روز بعد سے روزانہ دو رکعت نماز صلوٰۃ الشکر اور دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھتا ہوں، کہ میرے اللہ آپ نے کس طرح میری ہدایت کا انتظام فرمایا اور اس کی دعا کہ اللہ مجھے ایمان پر خاتمہ عطا فرمائے اور کتنے لوگ مجھ سے اچھے ہدایت سے محروم ہیں ان کو بھی ہدایت عطا فرمائے۔ الحمد للہ ان چار رکعتوں کی کبھی ناغہ نہیں ہوئی۔
سوال :آپ قارئین ارمغان کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
جوا ب :میں تو وہی کہتا ہوں جو ہمارے حضرت کہتے ہیں ایسا لگتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کا فیصلہ فرما چکے ہیں بس ہم اس ہدایت کو اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کے لئے کچھ ذرا بیدار ہو جائیں۔
سوال :واقعی بالکل ایسا ہی لگتا ہے ابی تو یہ بات بہت دنوں سے کہتے ہیں پہلے تو یہ بات عجیب لگتی تھی مگر اب تو اس سے انکار کی گنجائش نہیں بہت بہت شکریہ ماسٹر صاحب آپ ہمارے لئے دعا فرمایئے۔السلام علیکم و رحمۃ للہ
جوا ب :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
ماخوذ از ماہنامہ ارمغان، جولائی ۲۰۱۰ء
٭٭
داعی کے اخلاق نے اسلام قبول کر نے پر مجبور کیا
محترمہ مومنہ تبسم عبدالکریم {ارچنا} سے ایک ملاقات
۲۹ نومبر ۲۰۰۳ء کی خوش گوار صبح تھی موسم کہر آلود تھا، ذرا سی خنکی بھی تھی تقریباً ۹ بجے صبح میں اپنی بچی سمتا کو گود میں لے کر کانپور سے لکھنؤ جانے والی بس پر بیٹھ گئی، تھوڑی دیر بعد بس چل پڑی اور مسافروں نے اپنا اپنا ٹکٹ بنوانا شروع کیا میں نے بھی ٹکٹ بنوانے کے لئے اپنا پرس کھولا تو میرے ہوش اڑ گئے جو روپئے میں نے رکھے تھے وہ اس میں نہ تھے، ہاتھ پاؤں پھولنے لگے، سانسیں تیز تیز چلنے لگی بار بار پرس الٹتی پلٹی رہی، بمشکل تمام کل بتیس روپئے نکلے،جب کہ کرایہ اڑتیس روپئے تھا اب کنڈیکٹر شور مچانے لگا کہ کس نے ٹکٹ نہیں بنوایا ہے۔ میں ڈری سہمی اٹھی اور کنڈیکٹر کو بتیس روپئے تھما کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی، کنڈیکٹر تیز تیز چیخنے لگا کہ پورے پیسے لاؤ،میں بالکل خاموش تھی، کچھ بولا نہیں جا رہا تھا طرح طرح کے خیالات دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے بس گنگا ندی پر سے گذر رہی تھی کہ کنڈیکٹر نے پھر کہا کہ پورے روپئے لاؤ ورنہ بس سے اتر جاؤ،اور اس نے بس رکوا دی، مجھے اتر نے کے لئے بار بار کہہ رہا تھا، پوری بس میں سناٹا چھایا ہوا تھا سارے پسینجر مڑ کر میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں مارے شرم کے سردی میں بھی پسینے پسینے ہو رہی تھی۔
اتنے میں ایک صاحب نے جو کالی شیروانی زیب تن کئے ہوئے ڈرائیور کے پیچھے والی سیٹ پر اخبار پڑھ رہے تھے، کنڈیکٹر سے پوچھا کیا بات ہے ؟اس نے جواب دیا ارے یہ میڈم پورے پیسے نہیں دے رہی ہیں اور اتر بھی نہیں رہی ہیں، انہوں نے ایک اچٹتی نظر سے میری طرف دیکھا اور پھر کنڈیکٹر سے پوچھا کتنے روپئے کم ہیں ؟اس نے بتایا چھ روپئے کم ہیں ان صاحب نے دس روپئے کا نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سے لے لو اور پھر بس چل پڑی بس تیز رفتار درختوں، مکانوں اور دکانوں کو پیچھے چھوڑتی بھاگتی جا رہی تھی اور میں قدرے اطمینان سے مختلف احساسات و خیالات میں کھوئی ہوئی تھی، لکھنؤ آ گیا اور میں جھٹ سے بس سے اتر کر کنارے کھڑی ہو گئی سوچا کہ ان بھلے آدمی کا شکریہ ادا کر لوں۔
جب وہ صاحب اترے تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو سنبھالنے کی کوشش کی وہ صاحب بولے ارے کوئی بات نہیں ہے اور جانے لگے،پھر اچانک مڑ کر پوچھا بات کیا ہوئی تھی،ان کا یہ سوال غالباً اس لئے تھا کہ میں دیکھنے میں خوش حال لگ رہی تھی، بہترین لباس اور زیورات پہن رکھے تھے، میں نے بتایا کہ بھائی صاحب گھر سے نکلی تو خیال تھا کہ پرس میں روپئے ہیں مگر معلوم نہیں کیا ہوا انھوں نے کہا :ایسا ہو جاتا ہے، آپ کو جانا کہاں ہے ؟میں نے بتایا کہ حسین گنج میں رہتی ہوں پیدل چلی جاؤں گی، انھوں نے کہا کہ بچی گود میں ہے بیگ بھی وزنی معلوم ہوتا ہے(جو واقعی وزنی تھا )آپ یہ روپئے لیجئے اور رکشہ سے چلی جایئے، اور بیس روپئے کا نوٹ میری طرف بڑھایا۔ میں نے پہلے معذرت کی مگر انہوں نے زبر دستی وہ نوٹ مجھے دیا اور چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میں نے رکشہ کیا اپنے گھر پہونچ گئی لیکن دل میں ایک ایسا نقش بیٹھ چکا تھا کہ اب کبھی مٹ نہیں سکتا تھا، شام کو اپنے شوہر امت کمار سے پوری داستان سنائی، وہ بھی بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ ان کا نام پتہ اور فون نمبر وغیرہ لے لیا ہو تا، مجھے بھی بڑا افسوس ہوا کہ یقیناً نام پتہ معلوم کر لینا چاہئے تھا مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس وقت میری عقل گم تھی۔ اب میں دن رات بار بار یہی بات سوچتی اور دل چاہتا کاش ایسے بھلے انسان سے پھر ملاقات ہوتی۔ کئی دن گذر گئے میں اور میرے شوہر اکثر تذکرہ کرتے، ان کو یاد کرتے راہ چلتے نظریں انہیں تلاش کرتیں، بہت سے ایسے افراد شیروانی، ٹوپی اور داڑھی میں جب دکھائی دیتے تو امت کہتے ان میں پہچانو مگر اب وہ کہاں ملتے۔
تقریباً تین ماہ بعد ایک روز ہم دونوں مارکیٹنگ کرتے ہوئے کچہری روڈ امین آباد سے گذر رہے تھے کہ اچانک میری نظر ایک صاحب پر پڑی جو کرتہ پاجامہ مین تھے مگر دیکھتے ہی دل نے کہا کہ یہ تو وہی صاحب ہیں جب تک میں فیصلہ کرتی اور امت کو بتاتی وہ ہم لوگوں کے قریب سے آ گے نکل گئے میں نے امت سے کہا کہ شاید یہ وہی صاحب ہیں ذرا پوچھو، امت لپکے اور ان کو روکا۔ میں بھی قریب پہونچی تو یقین ہو گیا کہ وہی صاحب ہیں جن کو ہم تلاش کرنا چاہتے تھے، ہم نے ان کو نمستے کہا وہ حیرت سے ہم لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا آپ نے مجھے پہچانا؟انہوں نے کہا معاف کیجئے گا میں تو نہیں پہچان سکا، مجھے اندر سے تکلیف سی محسوس ہوئی کہ جس شخص کی شکل و صورت گذشتہ تین چار ماہ سے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی وہ مجھے نہیں پہچان رہا ہے۔ امت نے کہا سوچئے اور پہچانئے انہوں نے کہا نہیں بالکل یاد نہیں ہے برائے کرم کچھ بتایئے، میں نے کہا کہ تین چار ماہ پہلے کانپور سے آتے ہوئے بس میں ملاقات ہوئی اور آپ نے میری مدد کی تھی اب وہ ہنسنے لگے اور بولے آیئے چائے پیتے ہیں اور یہ کہہ کر قریب کے ایک ہوٹل میں بیٹھ گئے ہم لوگ ان سے ملنے کے لئے بے قرار تھے اس لئے فوراً ان کی پیش کش قبول کر لی، اب سب سے پہلے تو ہم لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا اپنی مجبوری بیان کی اور اپنی کیفیت بیان کرتے رہے وہ بار بار یہی کہتے کہ بھائی چھوڑئے ان سب باتوں کو کوئی ایسی بات تو نہیں تھی کہ آپ لوگ اس قدر یاد کرتے رہے۔ امت نے ڈائری نکالی اور کہا جناب اپنا اسم گرامی اور فون نمبر وغیرہ لکھا دیجئے۔ انھوں نے نام اور فون نمبر و پتہ لکھا یا اور امت کا پتہ و نمبر وغیرہ ایک کاغذ پر لکھ لیا۔ معلوم ہوا کہ یہ جناب سرائے میر اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں (اس واقعہ میں نام حذف کر دیا گیا ہے تا کہ اس واقعہ اخلاص میں شہرت کا داغ نہ لگے) امت نے میرے کہنے پر گذارش کی کہ چائے کا پیسہ ہمیں دینے دیجئے۔ وہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے تھے میں نے کہا ڈاکٹر صاحب مجھے بڑی خوشی ہو گی کہ چائے کا پیسہ میں دوں، وہ خاموش ہو گئے اور امت نے پیسہ دے دیا۔
اب ہم نے آہستہ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب !ایک بات کہوں آپ کچھ محسوس نہ کیجئے گا، یہ چھبیس روپئے برائے کرم رکھ لیجئے، وہ قدرے بلند آواز میں بولے، بھئی یہ کیا بات کر رہے ہیں، اگر یہ پہلی اور آخری ملاقات ہے تو کوئی بات نہیں ہے ورنہ ایسی باتیں نہ کیجئے مگر امت نے بہت زبردستی چھبیس روپئے ان کی جیب میں ان کے منع کرنے کے باوجود رکھ دئے۔
اب میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کبھی میرے گھر تشریف لایئے، انہوں نے کہا ہر گز نہیں کبھی نہیں آؤں گا، دو باتیں آپ لوگوں نے زبردستی منوا لیں، میری شرط ہے کہ پہلے آپ لوگ میرے گھر آیئے۔ تھوڑی تکرار کے بعد ہم لوگوں نے وعدہ کر لیا کہ جلد ہی ہم ضرور آئیں گے اور پھر ہم لوگ رخصت ہو گئے۔
اگلے ہی اتوار کو امت نے کہا چلو ڈاکٹر صاحب کے گھر چلیں فون کیا تو انہوں نے کہا تشریف لایئے میں انتظار کروں گا حسب وعدہ شام کو ہم لوگ چلے، یقین کیجئے زندگی میں پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا تھا میرا کوئی بھائی ہے اور میں اپنے بھائی کے گھر جا رہی ہوں۔ میرا کوئی حقیقی بھائی یا بہن نہیں ہے، ماں باپ کا بھی کافی دنوں پہلے انتقال ہو چکا تھا اب جو لوگ بھی ہیں وہ سسرالی رشتہ دار ہیں۔
ہم پہونچے تو ڈاکٹر صاحب اپنے آفس کے باہر انتظار کر رہے تھے۔بڑی محبت سے ملے اور فوراً گھر میں لے گئے، بٹھایا اور کچن میں اپنی اہلیہ ام سلمہ اعظمی سے ملاقات کرائی جو میری عمر کی ہیں، یا سال دو سال کی چھوٹی ہو گی۔ ان سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی بڑی ہنس مکھ ملن سار اور سلیقہ مند ہیں۔ ضیافت کا اچھا خاصا اہتمام کیا تھا چائے کے دوران ہی میں نے کہا ڈاکٹر صاحب اگر آپ اجازت دیں اور حرج نہ ہو تو روٹی میں پکا دوں اس لئے کہ بچہ رو رہا ہے اور بھابھی پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا بھابھی سے پوچھ لو تم اپنے ہی گھر میں ہو،ان کی اس بات سے مجھے حد درجہ خوشی ہوئی میں نے بہت کہا کہ کھانا پکانے میں مدد کروں مگر بھابھی نے کہا :اب جب دوبارہ آیئے گا تو کھانا پکایئے گا۔ اس دوران میں تو بھابھی سے باتیں کرتی رہی اور ڈاکٹر صاحب امت کو بہت سی کتابیں دکھاتے رہے۔ امت کتابوں کے دیوانے ہیں تقریباً دو ڈھائی گھنٹہ بعد جب ہم چلنے کو تیار ہوئے تو امت نے دسیوں کتابیں لے لی تھیں۔ چلتے ہوئے بھابھی نے ایک پیکیٹ دیا اور کہا اسے گھر جا کر کھولئے گا۔ ہم لوگ گھر پہونچے دس بج چکے تھے، پیکٹ کھولا تو حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی ایک ساڑی بلاؤز اور میری بیٹی سمتا کے لئے ایک فراک اور ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ تھا۔
اب کیا تھا امت آئے دن ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہے کتابیں لاتے رہے۔ رات رات بھر پڑھتے اور واپس پہنچاتے رہے۔ میں بھی کتابیں پڑھتی تھی، شانتی مارگ، مکتی مارگ، جیون مرتیو کے پشچات، اسلام دھرم، اسلام جس سے مجھے پیار ہے، چالیس حدیثیں، قرآن کا پریچے اور قرآن کا ترجمہ، سب کچھ پڑھ ڈالا، چار پانچ بار میں بھی ڈاکٹر صاحب کے گھر گئی۔ جب بھی جاتی اور واپس آتی تو بھابھی کچھ نہ کچھ کپڑے، کھلونے، کھانے پینے کی چیزیں یا کچھ اور چیزیں ضرور دیتیں، دو تین بار وہ بھی ہمارے ساتھ ہمارے گھر آئیں ہم لوگ ایک دوسرے سے کافی قریب ہو چکے تھے امت اکثر ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہتے اور وہ بھی فون کر کے ان کو بلا لیتے، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا بار بار کہنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر نہیں آئے۔ ہر بار کوئی مجبوری یا عذر بیان کرتے اور پھر آنے کا وعدہ کرتے۔ ایک بار ہم لوگ ان کے گھر گئے، تو معلوم ہوا طبیعت کچھ خراب ہے بدن سنسنا رہا ہے اور بھابھی اپنی ناراضگی ظاہر کر رہی ہیں، معلوم ہوا کہ آج ہی کسی اجنبی مریض کو خون دے کر آئے ہیں جب کہ دو ماہ پہلے بھی کسی مریض کو خون دیا تھا۔ بھابھی ناراض ہو رہی تھیں اور وہ کہہ رہے تھے اگر خون دے کر کسی کی جان بچ سکتی ہے تو کیا حرج ہے ؟میں نے بھابھی کی حمایت کی۔
امت آتے، اکثر کوئی نہ کوئی واقعہ بتاتے اور حیرت و خوشی سے بار ہا تذکرہ کرتے مثلاً آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ ایک لسٹ لئے بیٹھے تھے دیکھو آٹا،دال، چاول اور یہ سامان لانا ہے۔ میں پہونچ گیا تو بیٹھے رہے باتیں ہوتی رہیں اسی درمیان ندوہ کا ایک طالب علم آیا، کچھ دیر بعد اس نے اپنی ضرورت بیان کی۔ ڈاکٹر صاحب نے چار سو روپئے اس کو دے دئے اور سامان لانا رہ گیا۔
ایک بار کہنے لگے آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی ساتھ میں امین آباد گئے تھے ایک کمبل تین سو پچاس روپئے میں خریدا اور واپس آ رہے تھے راستے میں ایک نقاب پوش خاتون ملی اور کہا کہ مولوی صاحب بچے سردی کھا رہے ہیں، ایک لحاف دلا دیجئے، اتنا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے وہ کمبل اس کو تھما دیا اور خالی ہاتھ گھر چلے گئے۔
اس درمیان امت میں غیر معمولی تبدیلی آ چکی تھی۔ پوجا کرنا اور مندر جانا بالکل چھوڑ دیا تھا۔ جب کہ پہلے اس کی پابندی کرتے تھے۔ گھر سے تمام تصویروں اور مورتیوں کو ہٹا دیا اور ہم لوگ عجیب سی تبدیلیاں محسوس کرنے لگے۔اس دوران ڈاکٹر صاحب سے بار بار گھر آنے کو کہتے مگر وہ ٹال جاتے ایک رات تقریباً گیارہ بجے امت نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ہاتھ میں آٹے کا تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں چاول دال اور کچھ سامان لٹکائے ہوئے ہماری گلی کے قریب والی دوسری گلی کی طرف مڑے ہیں۔ امت پیچھے لگ گئے اور قریب جا کر پوچھا آپ اس وقت یہاں یہ کیا ہے ؟پہلے تو انہوں نے ٹالنا چاہا مگر پھر بتایا کہ یہاں ایک بوڑھی خاتون رہتی ہے ان کا کوئی سہارا نہیں۔ میں کبھی کبھار یہ سامان پہنچا دیتا ہوں، پھر امت کو ساتھ لے کر گئے سامان دیا کچھ روپئے دیئے۔ واپس لوٹے اب امت نے اصرار کیا کہ گھر چلئے انہوں نے کہا کافی رات ہو گئی ہے پھر آئیں گے مگر امت زبردستی گھر لے آئے، اپنے گھر میں انہوں نے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی میں جلدی سے کھانے پینے کا انتظام کر نے لگی۔انہوں نے کہا ہم تو کھانا کھا چکے ہیں، چائے بنا لو بس کھانا پھر کبھی کھائیں گے، بہر حال جو کچھ تھا پیش کیا باتیں ہونے لیگیں اور بالآخر امت بولے اب بہت دن ہو گئے ہم لوگ کب تک اسی طرح رہیں گے ڈاکٹر صاحب نے کہا جلدی کیا ہے ؟ہم نے کہا اگر درمیان میں موت آ گئی تو ؟اب ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش تھے، تقریباً ایک بجے امت ان کو پہونچانے گئے جب واپس آئے تو ہم لوگ رات بھر سو نہ سکے اور ایمان، اسلام، جنت، دوزخ اور ڈاکٹر صاحب اور اس بوڑھی خاتون کی باتیں کرتے رہے۔
اسی طرح تین چار ماہ گذر گئے، نماز کی کتاب سے اور بھابھی سے نماز پڑھنا سیکھ لیا اور ہم لوگ پابندی سے نماز پڑھنے لگے اسی دوران امت کا ٹرانسفر ہو گیا اور ہم لوگ لکھنؤ سے غازی آباد آ گئے، یہاں سے ہم لوگوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا ہے میں ارچنا سے مؤمنہ تبسم، امت عبدالکریم اور سمتا عظمیٰ ہو چکی ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے، ڈاکٹر صاحب دو سال سے عید کے موقع پر سب لوگوں کے لئے کپڑے اور عیدی بھیجتے ہیں ان کے ہم زلف محمد یونس بھائی تحفے تحائف لے کر آتے ہیں، دو بار میں بھی لکھنؤ جا چکی ہوں ان کا گھر مجھے اپنا میکہ لگتا ہے اور اسی انداز سے ہم جاتے اور آتے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ یہ رشتہ برقرار رہے اور ہم سب لوگ آخرت میں کامیاب ہوں، ایک شعر پر اپنی داستان ختم کرتی ہوں، میں نے یہ شعر اکثر ڈاکٹر صاحب کی زبان سے سنا ہے۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی
(ماخوذ از ماہنامہ ’’اللہ کی پکار ‘‘ دسمبر ۲۰۰۷ء)
٭٭
اسلامی قوانین کی فطرت سے ہم آہنگی
حسینہ بیگم {راج کماری} کے قبول اسلام کی ایمان افروز روداد
ذیل میں ہم ایک نو مسلم خاتون کے احوال درج کر رہے ہیں جسے حکیم شوکت علی گیلانی نے ماہنامہ ضیائے حرم لاہور کے شمارہ دسمبر ۱۹۷۶ ء کے لئے قلم بند کیا تھا، ہم نے یہ حالات و کوائف ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کی مشہور کتاب ’’ہمیں خدا کیسے ملا ‘‘سے اخذ کئے ہیں، اس لئے اس مضمون کے ناموں اور مقامات کے بارے میں ہمیں کوئی تفصیل حاصل نہیں ہو سکی۔ (ادارا)
دیا نگر کے مہاراجہ ان چند والیان ریاست میں سے تھے، جو وضع داری اور تعلیم کے بظاہر متضاد اوصاف کے حامل تھے ان کے مذہب کو علوم جدیدہ کی روشنی نے کوئی صدمہ نہیں پہنچایا تھا۔ لہٰذا ان کے لئے نہایت آسان تھا کہ شیلے اور کیٹس کی نظموں کا مطالعہ کرنے کے بعد مندر میں جا کر بت پرستی کریں۔
وہ ویدانت کے عمیق فلسفہ کو اوہام پرستی کے منافی خیال نہیں کرتے تھے اور اسپنسر اور براٹس کے مقالات پڑھ کر بھی چاترک کے حامی تھے ان کی اکلوتی بیٹی سندر کماری تھی، جو اپنے نام کی تفسیر تھی۔ حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت بھی شامل تھا، مجسمہ حسن و معصومیت جہاں پہنچتی تھی اپنی شعلہ افروز نگاہوں سے لوگوں کے خرمن دل کو جلا دیتی تھی۔
یہ مجسمہ حسن ایک با ہوش راج کمار کے قلب کی تسکین کا سامان ہوئی اور شادی کی مقدس زنجیر کی بدولت اس سے وابستہ ہو گئی، شہزادہ بھی قسمت سے ویسا ہی ملا جیسا ملنا چاہئے تھا، حسین شریف سمجھ دار اور مخلص اس کا دل محبت سے لبریز تھا، اور سندر کماری کے دل کے جذبات کو بھی سمجھتا تھا، دونوں کو ایک دوسرے کی بدولت جنت حاصل تھی، ان کی چھوٹی سی دنیا میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔
مگر یہ کب ہوا ہے کہ دو دلوں کو راحت نصیب ہوئی ہو اور تفرقہ پر داز فلک چین سے بیٹھا ہو؟ راج کمار اور سندر کمار ی اسی دنیا کے فانی انسان تھے، یہ بھی ان قوانین ابدی کے ماتحت تھے جن سے کسی کو چارہ نہیں غرض سندر کماری کو راج کمار کی فرقت کا صدمہ سہنا پڑا اور قدرت نے اس کے محبوب شوہر کو اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا۔ سولہ برس کی سن میں ایک پیکر حسن و جمال کی بیوگی اور پھر ہندو قانون کے مطابق اس کا مدت العمر ایک زہرہ گداز سانحہ کے رنج وا لم کے لئے وقف ہو جانا۔ اب حالت یہ ہے کہ سندر کماری کو دنیا کی کسی چیز سے رغبت نہیں ہے وہ زیب و زینت جو نسوانی حسن کا تتمہ ہے اس کے جسم سے نا آشنا ہے، وہ راحتیں جو جوانی کے لئے پیدا ہوتی ہیں وہ اس سے کوسوں دور ہیں اس کے دل کی روشنی تاریکی سے تبدیل ہو گئی اور اب تمام دنیا اس کی نظر میں اندھیر ہے۔ وہ اکثر کہتی ہے اور سچ کہتی ہے کہ کاش میں مر جاتی مگر موت کی آرزو کا پورا ہونا آسان نہیں، آرزو جس چیز کی بھی ہو مدعا کے حصول کو دشوار بنا دیتی ہے۔
وہ غم جو گلا گھونٹتا ہے اور دل میں دھواں پیدا کر تا ہے، اکثر انسان کو دنیا کی طرف سے مایوس کر کے ان ابدی حقیقتوں کی طرف متوجہ کر دیتا ہے، جن کو ہم روحانیت یا مذہب کہتے ہیں۔ روح دنیا کی مسرتوں سے بیزار ہو کر ان مسرتوں کے اکتساب کی تلاش میں گم ہو جاتی ہے جن کو فنا نہیں۔ سندر کماری نے بھی دنیا کی سے بیزار ہو کر مذہب کی طرف رجوع کیا اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہونچی کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر بنارس روانہ ہو گئی۔ اس کے ضعیف باپ نے ہر چند کوشش کی کہ اسے کچھ دولت دیدے کہ وقت پر کام آئے یا کچھ اور ایسا بندوبست کر دے کہ اسے تکلیف نہ ہو۔ لیکن اس نے قبول نہ کیا اور کہا :’’میں دھرم کے لئے باہر نکلی ہوں بھکتی میں مایا کا کیا کام ؟‘‘راجہ صاحب کو مجبور ہونا پڑا، اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بیٹی کا ارادہ کس قدر مضبوط ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مذہبی ارادوں میں خلل ڈال کر اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتے تھے۔ دنیا کی وہ مقدس چیزیں جو ہمیں دور سے بہت دل فریب نظر آتی ہیں اکثر بہت ہی مکروہ اور خراب ہوتی ہیں۔ کتنے راہب ایسے ہیں جو فی الحقیقت راہب ہوں، اور کتنے ہادی واقعی ہدایت کا کام کرتے ہیں ؟جب سندر کماری بنارس پہنچی تو اسے بھی ان تلخ حقیقتوں کا احساس ہوا، اس کے رنج و الم نے اس کی فطری کشش کو کم نہ کیا تھا اس کا ظاہر فریب حسن اب بھی تارک الدنیا راہبوں تک کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا، وہ بنارس جاتے ہی ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گئی، اس دنیائے تقدس میں جہاں گناہ کا نام لینا بھی گناہ تھا سندر کماری کو ہر در و دیوار سے گناہ کی آواز آنے لگی۔ وہ حیران تھی کہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں اس زمین میں جہاں دنیاوی کثافتوں سے بالاتر ہونے کی آرزو مند ہوں، میرا امتحان اس قدر شدید کیوں لیا جاتا ہے، کیا دنیاں نیکوں سے خالی ہے ؟کیا تقدس و رہبانیت کا خاتمہ ہو گیا ؟کیا کوئی متنفس ایسا نہیں جو اسے صحیح صحیح ہدایت کرے اور مجھے وہ راستہ دکھا سکے جہاں پہنچ کر میں تمام دنیا کو فراموش کر دوں ؟
ایک روز اسی خیال میں مستغرق گنگا کے کنارے ایک تنہا مقام پر بیٹھی تھی اس کی آنکھوں میں کاشی میں آنے کے بعد سے اس وقت تک کے تمام نظار ے پھر گئے، اکثر پنڈتوں کی بد اخلاقی اور اس کی عصمت کے شدید خطرہ میں پڑ جانے کے وہ تمام واقعات اس کی نظر کے سامنے آ گئے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ان پجاریوں کے مقدمہ کی بھیانک تصویر بھی آ گئی جو معصوم عورتوں کو تہ خانہ میں رکھنے اور ان کی عصمت پر ڈاکہ ڈالنے اور ناجائز بچوں کے مار پھینکنے کے ہولناک جرائم میں ۱۹۰۳ء میں گرفتار ہوئے تھے۔ اس مقدمہ میں بنارس کے ایک تہ خانہ میں سے تقریباً ستر بچوں کی کھوپڑیاں نکلی تھی جن کو چھپانے کے لئے مار کر وہاں ڈال دیا گیا تھا، اس نے اپنے قلب کی حالت کو دیکھا اور اس پر یہ حقیقت اور بھی واضح ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ اسے بہت اچھی طرح عبادت کرنی چاہئے۔ شاید اس سے مجھے اپنے نفس پر قابو حاصل ہو جائے اور میں فطرت کے مقابلہ میں کامیاب ہو سکوں۔ لہٰذا وہ تمام مندروں میں گئی اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں مانگیں کہ دیوتا اسے قدرت پر نہ سہی کم از کم اس کے نفس پر اسے فتح دلا دیں۔ یہ عمل ایک عرصہ تک جاری رہا لیکن کوئی نہ نتیجہ نتیجہ نکلا اور سندر کماری کے شکوک و شبہات ترقی ہی کرتے رہے۔ ایک دن وہ مندر سے نکل رہی تھی، اس نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی مندر میں جانا چاہتا ہے لیکن کوئی اسے گھسنے نہیں دیتا، جب اس نے در یافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اچھوت ہے اور اگر وہ اندر گھس آیا تو مندر ناپاک ہو جائے گا۔ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ بیچارہ انسان کیا ان دیوتاؤں کو ماننے والا نہیں ہے، پھر دیوتا کے پجاری اسے اپنے معبود تک کیوں نہیں جانے دیتے ؟
اس نے قریب جا کر اس شخص سے پوچھا :’’تو کون ہے ؟‘‘اس نے کہا :میں ایک غریب آدمی ہوں میں دیوتا کے درشن کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے گھسنے نہیں دیا جاتا کہ میرے جانے سے مندر ناپاک ہو جائے گا‘‘۔سندر کماری نے پوچھا :کیا تم انسان نہیں ہو؟ اس نے جواب دیا :میں انسان ضرور ہوں لیکن پنڈت کہتے ہیں کہ میرے چھونے سے ہر چیز خراب ہو جاتی ہے، جس کھانے کو میں چھو لیتا ہوں اور جس پانی کو میں پی لیتا ہوں حتیٰ کہ جس چیز پر میرا سایہ بھی پڑ جاتا ہے وہ بھی ناپاک ہو جاتی ہے۔ سندر کماری زیادہ نہ سن سکی وہ خیالات میں ڈوب گئی اور وہاں سے چلی گئی، چاندنی رات کی روشنی میں بنارس کی عالم گیری مسجد نے ایک خاص دلا آویزی اختیار کر لی تھی، اس کے بلند میناروں پر ایک سکوت کا عالم طاری تھا اور اس کے گنبدوں کا شکوہ اور بڑھ گیا تھا۔ سندر کماری کھڑی ہوئی اس نظارہ کو دیکھ رہی تھی اور تعجب کر رہی تھی کہ کیا یہ عمارت بھی خود غرضیوں اور نفس پرستوں کا ویسا ہی مرکز ہے جیسا میں دوسرے معابد میں دیکھ چکی ہوں۔ وہ جانتی تھی کہ دنیا کی آبادی کا ایک حصہ مندروں سے علاحدہ ہے اور مسجدوں میں جا کر عبادت کرتا ہے، اب اس کے دل میں یکایک یہ خیال آیا کہ اس کے اندر عبادت کا کیا طریقہ ہے ؟اس کے اندر کس کی عبادت ہوتی ہے ؟کیا اس میں وہ لوگ جمع ہوتے ہیں جو میری طرح مندروں سے بیزار ہیں ؟ان خیالات میں مستغرق اپنے وجود سے بے خبر وہ اس جگہ کھڑی رہی اور سوچتی رہی کہ یکایک اس نے اذان کی آواز سنی تھوڑی دیر کے بعد اس نے دیکھا ایک صفائی کرنے والا جھاڑو رکھ کر زینہ پر چڑھا اور مسجد میں داخل ہو گیا سندر کماری کے دل میں خیال پیدا ہوا، اب لوگ اس کو روکیں گے، لیکن اسے کسی نے بھی اندر جانے سے منع نہ کیا، سندر کماری بہت حیران ہوئی اور وہ بھی مسجد میں داخل ہو گئی اور صحن کے گوشہ میں بیٹھ گئی۔ حلال خور نے مسجد میں وضو کیا اور نماز میں شریک ہو گیا، سندر کماری نے خیال کیا کہ لوگوں نے اسے پہچانا نہیں ہے۔ اگر میں بتا دوں تو یہ مسجد سے نکال دیا جائے گا۔ وہ ہمت کر کے اٹھی مسجد کے اندر گئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بلند آواز سے کہا یہ اچھوت ہے اور میرے سامنے جھاڑو دے رہا تھا، اس نے مسجد کو خراب کر دیا، حلال خور نے کہا میں مسلمان ہوں، مسلمانوں نے اس سے کچھ نہ کہا، بلکہ سندر کماری کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تو کون ہے، جو اس شخص کو روکتی ہے ؟وہ حلال خور ضرور ہے مگر ہمارا بھائی اور خدا کا پرستار ہے۔ وہ ہمارے ساتھ نماز پڑھتا ہے، اس میں کسی قسم کا حرج نہیں۔ کیونکہ اسلام فطری مذہب ہے اس میں جو شخص داخل ہو تا ہے وہ بھی پاک ہو جاتا ہے۔سندر کماری کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی اس نے دل میں سوچا کہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اچھوتوں کو برا نہیں سمجھتے۔ لہٰذا اس نے اور جرأت کی اور ایک سفید پوش بزرگ کے پاس گئی جو امام تھے وہ بولی :’’مسجد کے پجاری مجھے اپنا دیوتا دکھاؤ جو سب آدمیوں کو برابر سمجھتا ہے اور کسی سے نفرت نہیں کرتا ‘‘ انہوں نے کہا :اس مسجد کے دیوتا کو کوئی نہیں دیکھ سکتا وہ ہر شخص کے دل میں ہے۔ صرف عبادت سے نظر آتا ہے۔ وہ ہر چیز کا مالک ہے دنیا کی کوئی چیز اس کے قبضہ سے باہر نہیں وہ ایک ہے نہ اس جیسا کوئی ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ تو کون ہے جو خدا کو دیکھنا چاہتی ہے ؟
سندر کماری : بزرگ انسان کیا تم اسے پوجتے ہو جسے تم نے کبھی دیکھا نہیں ؟
امام صاحب : ہاں وہی ایک پرستش کے قابل ہے، جس کا ہر چیز پر قابو ہے، اور وہ اپنے وجود کے لئے کسی کے دیکھنے کا محتاج نہیں۔
سندر کماری : کیا وہ میرے دل کو گناہ سے پاک کر دے گا ؟
امام صاحب :اس میں سب طاقت ہے، جس طرح کوئی تاریکی سے نکل کر روشنی میں آ جاتا ہے اور یکا یک روشنی کو دیکھ کر اس کی نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہے اسی طرح راج کماری نے اس مقدس انسان کی پاک نظروں میں کچھ دیکھا اور حیران رہ گئی لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے کہا مجھے اپنے پاس رکھو اور اپنے خدا کی باتیں مجھے بتاؤ۔مجھے تمہاری باتوں سے بہت اطمینان حاصل ہو رہا ہے، امام صاحب نے اس سے کہا تو اپنے عزیزوں سے اجازت لے لے، اگر وہ اجازت دیں تو یہاں آ کر مجھ سے پوچھ لیا کر۔ میں کسی اجنبی عورت کو بلا اجازت اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا، سندر کماری نے کہا :مجھ بدنصیب کا یہاں کوئی نہیں ہے مجھے آپ کے چہرہ میں تقدس کی چمک معلوم ہوتی ہے ؟جوں جوں میں اس پر نظر ڈالتی ہوں مجھے یقین ہو رہا ہے کہ آپ میں کوئی روحانی کشش ہے، اس لئے مجھے یقین ہے کہ تم مجھے اپنی بیٹیوں کی طرح رکھو گے اور میرے شکوک رفع کر کے مجھے اطمینان و نجات کا راستہ دکھاؤ گے۔
سندر کماری اب امام صاحب کے ساتھ رہنے لگی، وہاں اس کے ساتھ عزیزوں کا سا برتاؤ ہوا۔ امام صاحب کی بہو بیٹیاں اسے بہن کہتی تھیں اور وہ یہ محسوس کرتی تھی کہ وہ ایک نئی دنیا میں آ گئی ہے۔ آہستہ آہستہ اس نے توحید کا سبق سیکھا اور اس کے بعد اسلام کی مساوات اور مسلمانوں کے اخلاق کی گرویدہ ہو گئی، بالآخر اس نے ایک دن قبول اسلام کی تمنا کی، اور اپنی خوشی سے خدائے واحد کی پرستار ہو گئی، اس نے یہ اصول بھی معلوم کیا کہ اسلام دین فطرت ہے وہ کسی مرد یا عورت کو فطرت کے خلاف نبرد آزمائی پر مجبور نہیں کرتا، چنانچہ ایک دن جب اسے امام صاحب کی بیوی نے نکاح کی تلقین کی، تو وہ ان کے الفاظ سن کر حیرت میں رہ گئی اس نے کہا :ہمارے رسول ﷺ نے فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے جو بھی اس سنت سے منہ پھیرے گا وہ ہم میں سے نہیں۔ سندر کماری کو ایک سادھو کے الفاظ یاد آئے کہ ’’فطرت کے خلاف جنگ ناممکن ہے ‘‘ اور وہ عمیق خیالات میں کھو گئی، جب راجہ دیا نگر کو بیٹی کی خبر ملی، تو وہ خود بنارس آئے اور انہوں نے بیٹی کو تلاش کیا، اس وقت تک وہ مسلمان ہو چکی تھی۔ راجہ صاحب پر اس کا گہرا اثر ہوا، لیکن شفقت پدری غالب آئی اور وہ اس سے محبت سے ملے،سندر کماری نے انہیں اس معقول طریقہ پر تمام باتیں سمجھائیں اور اس طرح آپ بیتی سنائی کہ وہ بھی مشرف باسلام ہو گئے۔
سندر کماری جو اب حسینہ بیگم ہے اسلامی شریعت کے مطابق اپنے باپ کی جائداد کی مالک ہوئی اور اس کا عقد باپ کی مرضی کے موافق ایک سید زادہ بیرسٹر سے کیا گیا، شادی کے موقع پر راجہ صاحب نے بہت سا روپیہ اسلامی تحریکات خصوصاً تبلیغ کی امداد کے لئے دیا اور خصوصی جائداد اس کے لئے وقف کر دی کہ حضرت شہنشاہ عالمگیر کی روح کو ثواب پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ بنارس کی عالم گیر مسجد میں نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کے لئے مدرسہ کھلا جائے نیز نو مسلم عورتوں کے لئے ایک آشرم بنایا جائے جس کی نگرانی حسینہ بیگم (سابق سندر کماری)کریں گی۔
ماخوذ از ماہنامہ ارمغان پھلت ستمبر ۲۰۱۰ء
٭٭
پڑوسی کے اخلاق نے مشرف بہ اسلام کیا
جناب عبداللہ پاٹل سے ایک ملاقات
سوال : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
جواب : و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
سوال : عبداللہ صاحب آپ آج ہی جماعت سے واپس آئے ہیں، آپ کا وقت کیسا لگا ؟
جواب : اللہ کا شکر ہے وقت بہت اچھا لگا، ہمارے امیر صاحب بہت اچھے اور نیک آدمی تھے کچھ ساتھی بھی بہت اچھے تھے کچھ ساتھی میری طرح بگڑے ہوئے تھے، انہوں نے امیر صاحب کو بہت پریشان کیا، بار بار بھاگتے تھے۔ ساتھیوں سے لڑتے تھے، امیر صاحب بار بار پاؤں پکڑ پکڑ کر جماعت کو ٹوٹنے سے بچاتے رہے۔ جب زیادہ پریشان ہوتے تو دو رکعت نماز پڑھ کر اپنے اللہ کے سامنے رونے لگتے فوراً معاملہ ٹھیک ہو جاتا۔ جماعت میں جا کر جو سب سے بڑی چیز سیکھنے کو ملی وہ امیر صاحب سے یہ داؤ سیکھنے کو ملا کہ جو مسئلہ ہو اپنے اللہ سے کہو۔
سوال :نماز پوری یاد کر لی آپ نے اور کیا کیا سیکھا؟
جواب :الحمد للہ نماز یاد ہو گئی،جنازہ کی نماز اور دعائے قنوت کچی ہے اس کے علاوہ چھ باتیں، کھانے سونے کے آداب بھی یاد ہو گئے ہیں اللہ کا شکر ہے ہندی کی فضائل اعمال سے میں نے تعلیم بھی کی، امیر صاحب نے بہت سی دفعہ مجھ سے ہی کتاب پڑھوائی۔
سوال :ما شاء اللہ اب آپ تو جماعت کے امیر بن کر جماعت لے جا سکتے ہیں ؟
جواب :جماعت کا امیر بن کر میں تو کیا لے جا سکتا ہوں البتہ میں جماعت میں جا سکتا ہوں۔
سوال :ابھی آپ کو مسلمان ہو کر دو ماہ ہوئے ہیں فوراً جماعت میں جا کر اجنبی ماحول میں آپ کو کیسا لگا ؟
جواب :جماعت میں ساتھیوں کی لڑائی سے تو ذرا میری طبیعت گھبرائی، باقی نماز، روزہ اور معمولات میں بالکل اجنبی کوئی بات نہیں لگی، حالانکہ یہ زندگی کا پہلا رمضان ہے، میں نے کبھی ہندو مذہب میں برت بھی نہیں رکھا۔
سوال :جماعت میں آپ کا وقت کہاں لگا؟
جواب :ہمارا وقت دہرا دون میں لگا۔ میں نے حضرت سے فون پر بات کی، جاتے وقت میں ملنے آیا تھا مگر ملاقات نہ ہو سکی، فون پر حضرت نے ایک نصیحت کی کہ امیر کا حکم ماننا۔ اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ بس ایک بات جو میرے لئے مشکل ہوئی وہ یہ تھی کہ بہت بار ایسا ہوتا کہ ہم گشت میں جاتے، راستے میں کسی غیر ایمان والے بھائی کا گھر ہوتا تھا تو جماعت والے اس گھر کو چھوڑ دیتے تھے، کئی دفعہ تو ایسا ہوا وہ لوگ تو خود چاہتے کہ ہم سے بات کریں مگر جماعت والوں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے کئی بار امیر صاحب سے زور دے کر کہا بھی کہ یہ ایمان والے تو بس نماز و روزہ اعمال سے دور ہیں یہ غیر ایمان والے تو بغیر ایمان کے سخت خطرہ میں ہیں، جن کی جان کا خطرہ ہو پہلے ان کو بچانا چاہئے وہ کہہ دیتے کہ ہمارے بڑوں کی اجازت نہیں ہے۔ مجھے یہ بات اچھی نہ لگتی تھی۔ میں امیر صاحب سے کہتا تھا کہ فضائل اعمال میں ہم پڑھتے ہیں کہ سب بڑوں کے بڑے ہمارے نبی ﷺ سارے غیر ایمان والوں کی پہلے فکر کرتے تھے، پھر بھی میں نے کوشش کی کہ امیر کا حکم مانوں۔
سوال :آپ مہاراشٹر میں کس شہر کے رہنے والے ہیں اور وہاں پر کیا کرتے تھے ؟گھر والے کون کون گھر پر ہیں ؟ذرا تفصیل سے بتا دیں۔
جواب :ہمارا خاندان پربھنی شہر میں رہتا ہے، میں چالیس گاؤں کے قریب ایک قصبہ میں ہارڈ وئیر کی دکان کرتا ہوں۔ ہم لوگ مراٹھا برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاٹل ہم لوگوں کی گوتر ہے۔ میری تعلیم بی کام تک ہے کالج کے زمانہ میں شیو سینا میں شامل ہوا ۲۰۰۰ء سے چند سالوں تک ضلع کی شیو سینا کا ذمہ دار رہا۔ اسلام قبول کرنے تک شیو سینا کا ایکٹیو ممبر رہا ہوں۔ میرے والد بھی تجارت کرتے ہیں۔ ایک بڑے بھائی سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر ہیں، ایک بہن ہے جن کی شادی ایک پڑھے لکھے خاندان میں ہوئی ہے۔ان کے شوہر لکچرار تھے اب پرموشن ہو کر ریڈر ہو گئے ہیں۔
سوال :آپ شیو سینا کے ایکٹیو ممبر رہے ہیں، آپ تو اسلام اور مسلمانوں سے بہت دور رہے ہوں گے پھر آپ کیسے مسلمان ہو گئے ؟
جواب :ہمارے امیر صاحب نے بتایا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے یعنی بائی نیچر وہ مسلمان ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ اس کو ہندو، سکھ عیسائی بناتے ہیں۔ سچے نبی نے جو بتایا اس میں کیا شک ہو سکتا ہے۔ اس لئے کوئی انسان بائی نیچر اسلام سے دور نہیں ہو سکتا۔ ظاہری حالات کی وجہ سے جو دوری ہوتی ہے وہ عارضی آرٹیفیشل (مصنوعی)ہوتی ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ آدمی جو سنتا ہے اور دیکھتا ہے اس سے متاثر ہوتا ہے۔ میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو سنتا تھا اور شیو سینا کے ماحول میں جو ذہن بنایا جاتا تھا اس کی وجہ سے میرے دل و دماغ میں یہ بات تھی کہ یہ مسلمان ہمارے اور ہمارے دیش کے لئے خطرہ ہیں۔ اس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے میرے دل میں نفرت اور دوری تھی مگر جب اسلام کی کرن میرے دل پر پڑی تو پھر ظاہری اور مصنوعی اندھیرے دور ہو گئے اور میرے اللہ نے میرے دل کی دنیا کو جگمگا دیا۔
سوال :وہ کس طرح ہوا، ذرا تفصیل بتانا؟
جواب :میں ایک ایسے علاقہ میں رہتا تھا جہاں ہمارے مکان کے پیچھے ایک مسلم آبادی شروع ہوتی تھی، میرے مکان کے پیچھے کی دیوار ایک مسلمان جناب خالد محمود صاحب سے ملتی تھی جو تبلیغی جماعت کے سرگرم کارکن تھے، ان کا بیکری پروڈکٹس سپلائی کا کام تھا اور چونکہ میرا شیو سینا کا ذمہ دار ہونا سب کو معلوم تھا، کبھی میرا ان کا ملنا نہیں کے برابر ہوتا تھا، ایک دو بار ہمارے گھر میں پیچھے کی دیوار سے پانی آیا تو میں نے چھت پر چڑھ کر ان کو گالیاں بھی بکیں بس اس کے علاوہ ہمارا ان کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ان کو بڑے بیٹے کی شادی کرنی تھی تو انہوں نے مکان کے اوپر ایک مکان بنانے کا پروگرام بنایا، نگر پالیکا سے نقشہ منظور کرا کے تعمیر کا مٹیریل بھی منگوا لیا، اتفاق سے ان کے بہنوئی (جو کریم نگر آندھرا میں رہتے تھے )کی طبیعت خراب ہو گئی اور ان کا آپریشن ہوا وہ ان کو دیکھنے کے لئے کریم نگر گئے، وہاں پر آپ کے والد مولانا کلیم صاحب کا پروگرام تھا، مولانا کو خالد محمود صاحب پہلے سے جانتے تھے اور ان سے ملنا چاہتے تھے، موقع غنیمت سمجھ کر پروگرام میں شرکت کی مولانا صاحب نے دعوت پر بیان کیا اور لوگوں کو جھنجھوڑا کہ ہم لوگ رسمی مسلمان ہیں رواج میں جو چیز یں ہیں انہیں ہم مانتے ہیں، جو چیزیں رواج میں نہیں ان کو نہیں مانتے، اس پر کچھ مثالیں دیں جن میں ایک یہ تھی کہ مولانا نے کہا :پڑوسی کے حقوق میں ایک حق یہ ہے کہ تو اپنی دیوار اس کی دیوار سے بغیر اس کی اجازت کے اونچی نہ کر۔ یہ فرمان رسول ﷺ کیا عمل کے لئے نہیں ؟اگر ہے تو اتنے دین داروں میں کوئی بتائے کہ میں نے اس پر عمل کیا ہے ؟نگر پالیکاؤں اور سرکاری اداروں سے رشوتیں دے کر نقشہ پاس کراتے ہیں، اسلام کا حکم یہ ہے کہ پہلے پڑوسی سے نقشہ پا س کرایا جائے اس کی اجازت اور منظوری کے بغیر گھر کی دیوار میں اینٹ نہ لگائی جائے پڑوسی کی ہوا رکے گی، روشنی رکے گی، اس کے گھر کی بے پردگی ہو گی ‘‘۔۔۔ تقریر بڑی عجیب تھی خالد صاحب گھر آئے تو برابر والے پڑوسیوں سے ملے ان کو نقشہ دکھلایا اور بتایا کہ مولانا صاحب نے بتایا ہے کہ آپ کی منظوری کے بغیر مجھے گھر بنوانے کی اجازت نہیں، ان لوگوں نے کہا آپ کا گھر ہے ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ان میں سے ایک صاحب نے جو موٹر سائیکل ایجنسی چلاتے ہیں، نے یہ بھی کہا کہ ہم نے تو آپ سے کہا تھا کہ آپ ہمارا مکان بھی خرید لیں، جب آپ اپنا مکان نہیں فروخت کر سکتے تو آپ ہمارا خرید لیں تا کہ ذرا بڑا مکان بنا سکیں۔ اگلے روز وہ نقشہ لے کر ہمارے گھر آئے، مجھے اچانک زندگی میں پہلی بار ان کو گھر پر دیکھ کر حیرت ہوئی انہوں نے معذرت کی، اصل میں ہم اپنے کو مسلمان کہتے ہیں مگر اسلام کیا ہے اس کو ہم نے نہ جانا نہ مانا۔میں ایک جلسہ میں گیا تھا مولانا صاحب نے پڑوسی کے حقوق بتائے اور خاص طور پر یہ بات بھی کہی کہ پڑوسی کی اجازت اور منظوری کے بغیر مکان بنانا جائز نہیں چاہے پڑوسی شیو سینا کا ممبر ہو یا وہ ہو جس سے آپ کی دشمنی چل رہی ہے میرے بیٹے کی شادی کا پروگرام ہے اوپر ایک منزل بنانا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو بنواؤں ورنہ نہیں۔
مجھے خیال آیا کہ ایسے ہی یہ فار ملٹی پوری کرنے آئے ہیں مگر ذہن میں بھونچال آ گیا، اسلام میں پڑوسیوں کے لئے یہ قانون ہے، میں یہ دیکھنے کے لئے کہ صرف کہنے آئے ہیں یا مانیں گے بھی، کہا کہ بھائی صاحب دیکھئے، آپ دوسری منزل بنائیں گے تو مجھے تو تکلیف ہو گی، میں آپ کو مکان بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا، وہ بولے سوچ لیجئے دو تین روز مشورہ کر لیجئے اگر واقعی آپ کو تکلیف ہے تو پھر میں کوئی دوسرا مکان دیکھ لوں گا، تین روز کے بعد انہوں نے اپنے لڑکے کو بھیجا میں نے وہی جواب ان کو بھی دے دیا ’’مجھے تکلیف ہو گی اجازت نہیں ہے ‘‘ اور مقصد صرف یہ تھا کہ کیا یہ واقعی ایسا کریں گے یا بغیر اجازت بنا لیں گے مگر انہوں نے جو مٹیریل اینٹیں وغیرہ آئی تھیں واپس کر وا دیں۔
اللہ کی ماننے والا ہمیشہ کیسی خیر میں رہتا ہے، وہاں پر کچھ اچھے پڑھے لکھے مسلمانوں نے ایک صاف ستھری کالونی بنائی ہے اس میں ایک بڑے اکسپورٹر رہتے تھے انہوں نے تین سو گز میں بڑی اچھی دو منزلہ کو ٹھی بنائی تھی مگر کسی حادثہ کی وجہ سے ان کو اپنے بچوں کے پاس کینیڈا میں جانا پڑ رہا تھا ا ور ہندوستان سے اپنا کاروبار بند کر کے چلا جانا تھا، انہوں نے اپنے ایک دوست سے جو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے، کہا کہ میں نے بڑے شوق سے مکان بنایا ہے مکان کوئی دین دار مسلمان خرید لے تو مجھے اسے چھوڑ کر جانے میں دکھ نہیں ہو گا۔ وہ صاحب خالد صاحب کے دوست تھے اور ان کو خالد صاحب کا مسئلہ معلوم تھا کہ وہ مکان بنانا چاہ رہے ہیں اور ان کے پڑوسی ان کا مکان خرید نا چاہتے ہیں۔ انہوں نے خالد محمود صاحب سے بات کی، خالد محمود صاحب نے اپنے پڑوسی حاجی عبدالرحمن سے بات کی کہ آپ ہمارا مکان خرید نا چاہیں تو ہمیں ایک ہفتہ میں رقم چاہئے، وہ بہت خوش ہوئے گیارہ لاکھ روپئے تیسرے روز دینے کا وعدہ کیا گیارہ لاکھ کا مکان بیچ کر بارہ لاکھ میں انہوں نے وہ کوٹھی جس کی تعمیر پر پانچ سال پہلے پچیس لاکھ روپئے خرچ ہوئے تھے خالد صاحب نے خرید لی، میں نے سامان نکالتے دیکھا تو سکتہ میں آ گیا میں نے خالد صاحب سے کہا میں نے تو امتحان کے لئے منع کیا تھا کہ واقعی آپ کریں گے بھی یا صرف کہہ رہے ہیں ؟میں نے کہا ہر گز ہر گز میں آپ کو جانے نہیں دوں گا، انھوں نے کہا اب معاملہ طے ہو گیا ہے بیع نامے وغیرہ سب ہو گئے ہیں، مجھے بہت صدمہ ہوا،ایسا اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی فیصلہ ہو جائے گا گھر آ کر مجھے بہت رونا آیا، میری بیوی نے مجھے روتا دیکھ کر وجہ معلوم کی تو میں نے فوراً وجہ بتائی وہ بولی کہ کیا بات ہے، سورج پچھم میں نکل رہا ہے، ملا جی کے جدا ہونے پر آپ رو رہے ہیں۔
خالد صاحب نے مجھ سے کہا مکان کی دیواروں کے دور ہونے سے کیا ہوتا ہے کیا عجیب ہے کہ اللہ تعالیٰ دل کی دیواروں کو ملا دے میں نے کہا کہ میرے دل کی دیوار تو آپ کے دل کی دیوار سے چپک کر رہ گئی، مجھے وہ مولانا صاحب کی تقریر ضرور سنایئے اگر آڈیو ویڈیو ہو، اتنی دور آپ تقریر سننے گئے تو تقریر ٹیپ ہوئی کی، میں دوسرے تیسرے روز ان کی دوکان پر جاتا تھا ان سے ملنے کی چاہت بھی ہوتی اور تقریر کی آڈیو ویڈیو لینے کے لئے بھی، انہوں نے کسی طرح سے سی ڈی مجھے دی، اس سی ڈی میں مولانا صاحب کی پانچ تقریریں تھیں، کریم نگر کی تقریر نہیں تھی مگر مہاراشٹر کی ایک تقریر میں پڑوسی کے حقوق کی وہ بات مولانا صاحب نے کہی تھی تقریروں میں آپ کی امانت غیر مسلم بھائیوں کو دینے کی بات کہی گئی تھی اور سب مسلمانوں کو غیر ایمان والے بھائیوں کو اپنا سمجھنے کی بات کہی گئی تھی، میں نے خالد صاحب سے کسی طرح ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘منگوانے یا اس کا پتہ معلوم کرنے کے لئے کہا، جہاں وہ کتاب مل سکتی ہو، واقعی بات سچی ہوئی کہ مکان کی دیواریں ایک کلو میٹر دور ہونے سے دل کی دیواریں مل گئیں، مکان کے پیچھے مکان میں وہ میرے گھر ایک بار پہلی بار اجازت لینے کے لئے آئے،اور میں دو بار ان کی چھت پر گالیاں دینے کے لئے گیا، مگر اب پہلے دوسرے اور تیسرے روز اور بعد میں روزانہ ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے لگے کئی بار ان کے گھر میں نے کھانا کھایا اور انہوں نے بھی میرے گھر چائے پی، اکولہ سے کسی جماعت کے ساتھی کے واسطہ سے انہوں نے آپ کی امانت منگا کر مجھے دی۔ اس کتاب کو پڑھ کر مجھے مولانا صاحب سے ملنے کی چاہت ہوئی کئی فون رابطہ کرنے کے لئے مگر بات نہ ہو سکی خالد صاحب نے’’ مرنے کے بعد کیا ہو گا ؟‘‘’’اسلام کیا ہے ؟‘‘کتا بیں منگا کر دی اور قرآن کا ہندی ترجمہ بھی مجھے لا کر دیا، میں نے ان سب چیزوں کو پڑھا اللہ کا کرم ہوا ایک روز دن میں مولانا صاحب سے فون پر بات ہو گئی مولانا نے فون پر کلمہ پڑھنے کو کہا۔ میں نے مل کر کلمہ پڑھنے پر زور دیا تو مولانا نے دو تین لوگوں کے بارے میں بتایا کہ فون پر کلمہ پڑھا اور اسی روز انتقال ہو گیا اس لئے موت کا کیا یقین کہ کب آ جائے اس لئے آپ بھی فون پر مجھ سے یا خالد صاحب سے کلمہ پڑھ لیں میں نے فون پر کلمہ پڑھا، مولانا صاحب نے میرا نام عبداللہ رکھ دیا۔
سوال :گھر والوں سے آپ نے بتا دیا ؟
جواب :اصل میں خالد صاحب کے اس معاملہ سے میرے دونوں بیٹے اور میری بیوی حد درجہ متاثر ہوئے، ہمارے گھر میں ہر وقت خالد صاحب کا ذکر ہوتا اور ملاقات میں جو بھی بات ہوتی میں گھر آ کر گھر والوں سے بتاتا تھا، اس لئے اللہ کا شکر ہے گھر والے میرے ساتھ رہے اور میرے کلمہ پڑھنے سے پہلے میری بیوی خود کہہ رہی تھی کہ ہم لوگوں کو مسلمان ہو جانا چاہئے، میں نے جا کر بتایا تو دونوں بیٹے اور بیوی تیار تھی ہی خالد صاحب کو بلا کر میں نے کلمہ پڑھوایا بیٹوں کے نام عبدالرحمن اور عبدالرحیم رکھے اور اہلیہ کا نام آمنہ خالد صاحب ہی نے رکھا۔
سوال :کیا آپ کے محلہ داروں کو بھی علم ہو گیا ؟
جواب :میری پارٹی کے ساتھیوں کو معلوم ہوا تو بڑی مشکل ہوئی انہوں نے مجھ پر بہت دباؤ ڈالا۔ میری بیوی نے اس گھر کو چھوڑ کسی مسلم علاقہ میں گھر بدلنے کا مشورہ دیا، میرے اللہ کا کرم ہے مجھے بڑی آسانی ہوئی، خالد صاحب کے پڑوس میں ایک گھر چھوڑ کر ایک مکان تھا، جسے ایک صاحب نے جو سعودی عرب میں رہتے تھے، بنایا تھا، بعد میں انہوں نے ممبئی میں مکان لے لیا، اس لئے وہ اس مکان کو بیچنا چاہتے تھے، خالد صاحب نے اس مکان مالک سے رابطہ کیا اور معاملہ طے ہو گیا، میرا مکان ایک پراپرٹی ڈیلر نے خرید لیا میں نے خالد صاحب سے کہا آپ نے تو میرے پڑوس سے جان بچانے کی کوشش کی اللہ نے آپ کا پڑوس میرے مقدر میں لکھا ہے، اللہ کا شکر ہے اب ہم پھر پڑوسی ہیں مگر اب دلوں کی دیواروں کے بھی پڑوسی ہیں۔
سوال :واقعی خوب بات آپ نے کہی،ابی سے آپ کی پہلی ملاقات کب ہوئی ؟
جواب :فون پر تو بار بار جماعت سے بھی بات ہوتی رہی مگر ملاقات آج ہی ہوئی۔ میں جماعت سے ۲۰ اگست کو واپس آیا معلوم ہوا مولانا ۲۷ اگست کو آئیں گے تو ہم نے پھر ایک ہفتہ جماعت میں لگانے کی سوچی میں دہلی کی ایک جماعت کے ساتھ جڑ گیا، الحمد للہ آج حضرت سے ملاقات ہو گئی۔
سوال :آئندہ کے لئے کچھ بات ہوئی ؟
جواب :الحمد للہ حضرت نے اپنی پارٹی کے ورکروں کے لئے دعا کرنے اور ان پر کام کرنے کو کہا اور خاندان والوں پر بھی مجھے خود بھی بار بار ان کا خیال آتا تھا جب جماعت میں مجھے غیر مسلم بھائی ملتے تھے تو خیال ہوتا تھا کہ میں بھی ایک جماعت بناؤں کاش مجھے بھی اللہ تعالیٰ مولانا الیاس صاحب والا درد دیدے، تو میں بھی ایک جماعت بناؤں جو غیر ایمان والے بھائیوں میں کام کرے میں نے جماعت میں بہت دعا بھی کی، میرے اللہ مجھے کم از کم حضرت مولانا الیاس صاحب بنا دے، کفر و شرک میں پھنسے ہمارے نبی کے ان امتیوں کی کون فکر کرے گا ؟
سوال :اللہ کا شکر ہے اب لوگ فکر کرنے لگے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ جیسے کتنے لوگوں کو کھڑا کر رہے ہیں، آپ کو علم ہے کہ یہ باتیں جو میں نے آپ سے کی ہیں اردو میگزین ارمغان کے لئے کی ہیں آپ ارمغان پڑھنے وا لوں کے لئے کوئی پیغام دیجئے ؟
جواب :میرے دل میں یہ بات آئی ہے اور کئی راتوں تک میں جماعت میں بھی ساری رات سوچتا رہا اور میری نیند اڑی رہی کہ پوری دنیا کے انسان ہمارے رب کے بندے اور ہمارے نبی کے امتی ہیں اور ہمارے خونی رشتہ کے بھائی ہیں، یہ بات میں نے مولانا کلیم صاحب کی تقریر میں سنی اور امیر صاحب بھی یہی کہہ رہے تھے اس دنیا کے سارے لوگوں میں ڈیڑھ ارب تو مسلمان ہیں جو الحمد للہ مسلمان ہیں۔ یہ سب تو ہمیشہ کی دوزخ سے بچے ہوئے ہیں ساڑھے چار ارب غیر ایمان والے امتی ہیں۔ ڈیڑھ ارب لوگوں میں کام کرنے والے تو کروڑوں ہیں، ساڑھے چار ارب جو ان سے لاکھوں گنا خطرہ میں ہیں ان کو بچانے والے سیکڑوں بھی نہیں ہیں، حالانکہ ان کی تعداد تین گنی ہے اور یہ لوگ لاکھوں گنا خطرہ میں ہیں، اس کے لئے فکر کرنے والے کروڑوں میں ہونے چاہئے اس کے لئے ایک جماعت ضرور بنائی جائے۔
سوال :ابی تو کہتے ہیں یہ کروڑوں جماعت والے ان لوگوں کو دوزخ سے بچانے کے لئے ہی تیار ہو رہے ہیں، انشاء اللہ بہت جلد یہ ساری انسانیت کی فکر کو اوڑھ لیں گے۔
جواب :خدا کرے ایسا ہی ہو، خدا کرے ایسا ہی ہو۔
سوال :بہت بہت شکریہ عبداللہ میاں اجازت دیں ہمیں پھلت جانا ہے، میں بھی ابی کے ساتھ سفر پر تھا۔ السلام علیکم
جواب :جی مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت پوری فیملی کے ساتھ تشریف لے گئے تھے۔ وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
ماخوذ از ما ہنامہ ارمغان پھلت اکتوبر ۲۰۱۰ء
٭٭
برقعہ{حجاب}نے دل میں گھر کر لیا
محترمہ عفیفہ بہن {پریتی} سے ایک ملاقات
سوال : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
جواب : و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
سوال : ابی نے ہمیں بتایا تھا کہ ہندوستان کی ایک ہاکی کھلاڑی آ رہی ہیں تو ہم سوچ رہے تھے کہ آپ ہاکی کی ڈریس میں آئیں گی، مگر آپ ماشاء اللہ برقع میں ملبوس اور دستانے پہن کر مکمل پردہ میں ہیں، آپ اپنے گھر سے برقع اوڑھ کر کیسے آئی ہیں ؟
جواب : میں الحمد للہ پچھلے دو ماہ سے سو فیصد شرعی پردہ میں رہتی ہوں۔
سوال : ابھی آپ کے گھر میں تو کوئی مسلمان نہیں ہوا ؟
جواب : جی میرے گھر میں ابھی میرے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے مگر اس کے باوجود میں الحمد للہ کوشش کرتی ہوں کہ میں اگر چہ گھر میں اکیلی مسلمان ہوں مگر میں آدھی مسلمان تو نہ بنوں، آدھی ادھر آدھی ادھر یہ تو نہ ہونا چاہئے۔
سوال :آپ کو ہاکی کھیلنے کا شوق کیسے ہوا، یہ تو بالکل مردوں کا کھیل ہے؟
جواب :اصل میں میں ہریانہ کے سونی پت ضلع کے ایک گاؤں کی رہنے والی ہوں ہمارے گھر میں سبھی مرد پڑھے لکھے ہیں اور اکثر کبڈی کھیلتے رہتے ہیں، میں نے اسکول میں داخلہ لیا شروع سے کلاس میں ٹاپ کرتی رہی۔ سی بی ایس ای بورڈ میں میری ہائی اسکول میں گیارھویں پوزیشن رہی، مجھے شروع سے مردوں سے آگے نکلنے کا شوق تھا، اس کے لئے میں نے اسکول میں ہاکی کھیلنا شروع کی، پہلے ضلع میں نویں کلاس میں سلیکشن ہوا، پھر ہائی اسکول میں ہریانہ اسٹیٹ کے لئے لڑکیوں کی ٹیم میں میرا سلیکشن ہو گیا۔ بارھویں کلاس میں بھی میں نے ٹاپ کیا اور سی بی ایس ای بورڈ میں میرا نمبر اٹھارہواں رہا۔ اسی سال میں انڈیا ٹیم میں سلیکٹ ہو گئی عورتوں کے ایشیا کپ میں بھی کھیلی اور بہت سے ٹورنامنٹ میری کارکردگی کی وجہ سے جیتے گئے، اصل میں ہاکی میں بھی سب سے زیادہ ایکٹیو رول اسما باجی ! سنٹر فار ورڈ کھلاڑی کا ہوتا ہے۔ یعنی سب سے آگے درمیان میں کھیلنے والے کھلاڑی کا میں ہمیشہ سنٹر فار ورڈ میں کھیلتی رہی۔ اصل میں بس مردوں سے آگے بڑھنے کا جنون تھا، مگر روزانہ رات کو میرا جسم مجھ سے شکایت کرتا تھا کہ یہ کھیل عورتوں کا نہیں ہے مالک نے اپنی دنیا میں ہر ایک کے لئے الگ کام دیا ہے۔ ہاتھ پاؤں بالکل شل ہو جاتے تھے، مگر میرا جنون مجھے دوڑا تا تھا اور اس پر کامیابی اور واہ واہ اپنے نیچر کے خلاف دوڑ نے پر مجبور کرتی تھی۔
سوال : اسلام قبول کرنے سے پہلے تو آپ کا نام پریتی تھا نا ؟
جواب : حضرت نے میرا نام ابھی عفیفہ یعنی کچھ ماہ پہلے رکھا ہے۔
سوال : آپ کے والد کیا کرتے ہیں ؟
جواب :وہ ایک اسکول چلاتے ہیں اس کے پرنسپل ہیں وہ سی بی ایس ای بورڈ کا ایک اسکول چلاتے ہیں، میرے ایک بڑے بھائی اس میں پڑھاتے ہیں۔ میری بھابھی بھی پڑھاتی ہیں، وہ سب کھیل سے دل چسپی رکھتی ہیں، میری بھابھی بیڈمنٹن کی کھلاڑی ہیں۔
سوال :ایسے آزاد ماحول میں زندگی گذارنے کے بعد ایسے پردہ میں رہنا آپ کو کیسا لگتا ہے ؟
جواب :انسان اپنے نیچر سے کتنا دور ہو جائے اور کتنے زمانہ تک دور رہے جب اس کو اس کے نیچر کی طرف آنا ملتا ہے وہ کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرے گا وہ ہمیشہ فیل کرے گا کہ اپنے گھر لوٹ آیا۔ اللہ نے انسان کو بنایا اور عورتوں کی نیچر بالکل الگ بنائی۔ بنانے والے نے عورت کا نیچر چھپنے اور پردہ میں رہنے کا بنایا۔ اسے سکون و چین لوگوں کی ہوس بھری نگاہ سے بچے رہنے میں ہی مل سکتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے جس کے سارے حکم انسانی نیچر سے میل کھاتے ہیں، مردوں کے لئے مردوں کے نیچر کی بات اور عورتوں کے لئے عورتوں کے نیچر کی بات۔
سوال :آپ کی عمر کتنی ہے ؟
جواب :میری تاریخ پیدائش ۶ جنوری ۱۹۸۸ء ہے گو یا میں ۲۲ سال کی ہونے والی ہوں۔
سوال :مسلمان ہوئے کتنے دن ہوئے؟
جواب :ساڑھے چھ مہینے کے قریب ہوئے ہیں ؟
سوال :آپ کے گھر میں آپ کے اتنے بڑے فیصلے پر مخالفت نہیں ہوئی ؟
جواب :ہوئی اور خوب ہوئی مگر سب جانتے ہیں کہ عجیب دیوانی لڑکی ہے، جو فیصلہ کر لیتی ہے پھر تی نہیں، اس لئے شروع میں ذرا سختی کی، مگر جب اندازہ ہو گیا کہ میں دور تک جا سکتی ہوں تو سب موم ہو گئے۔
سوال :آپ ہاکی اب بھی کھیلتی ہیں ؟
جواب :نہیں ! اب ہاکی میں نے چھوڑ دی ہے۔
سوال :اس پر تو گھر والوں کو بہت ہی احساس ہوا ہو گا ؟
جواب :ہاں ہوا، مگر میرا فیصلہ مجھے لینے کا حق تھا میں نے لیا، اور میں نے اپنے اللہ کا حکم سمجھ کر لیا، اب اللہ کے حکم کے آگے بندوں کی چاہت کیسے ٹھہر سکتی ہے۔
سوال :آپ کے تیور تو گھر والوں کو بہت سخت لگتے ہوں گے ؟
جواب : آدمی کو ڈھل مل نہیں ہونا چاہئے، اصل میں آدمی پہلے یہ فیصلہ کرے کہ میرا فیصلہ حق ہے کہ نہیں، اور اگر اس کا حق پر ہونا ثابت ہو جائے تو پہاڑ بھی سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔
سوال :آپ کے اسلام میں آنے کا کیا چیز ذریعہ بنی ؟
جواب :میں ہریانہ کے اس علاقہ کی رہنے والی ہوں جہاں کسی ہندو کا مسلمان ہونا تو دور کی بات ہے، ہمارے چاروں طرف کتنے مسلمان ہیں جو ہندو بنے ہوئے ہیں، خود ہمارے گاؤں میں بادی اور تیلیوں کے بیسیوں گھر ہیں جو ہندو ہو گئے ہیں، مندر جاتے ہیں ہولی دیوالی مناتے ہیں لیکن مجھے اسلام کی طرف وہاں جا کر رغبت ہوئی جہاں جا کر خود مسلمان اسلام سے آزاد ہو جاتے ہیں۔
سوال :کہاں اور کس طرح ذرا بتائیں ؟
جواب :میں ہاکی کھیلتی تھی تو بالکل آزاد ماحول میں رہتی تھی۔ آدھے سے کم کپڑوں میں ہندوستانی روایت کا خیال بھی ختم ہو گیا تھا، ہمارے اکثر کوچ مرد ہے، ٹیم کے ساتھ کچھ مرد ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں ٹیم میں ایسی بھی لڑکیاں تھیں جو رات گذارنے بلکہ خواہشات پوری کرنے میں ذرّہ برابر کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں، میرے اللہ کا کرم تھا کہ مجھے اس نے اس حد تک نہ جانے دیا گول کے بعد اور میچ جیت کر مردوں عورتوں کا گلے لگ جانا چمٹ جانا تو کوئی بات ہی نہیں تھی، میری ٹیم کے کوچ نے کئی دفعہ بے تکلفی میں میرے کسی شاٹ پر ٹانگوں میں کمر میں چٹکیاں بھریں، میں نے اس پر نوٹس لیا، اور ان کو وارننگ دی، مگر ٹیم کی ساتھی لڑکیوں نے مجھے برا بھلا کہا کہ اتنی سی بات کو تم دوسری طرح لے رہی ہو مگر میرے ضمیر پر بہت چوٹ لگی، ہماری ٹیم ایک ٹورنامنٹ کھیلنے ڈنمارک گئی وہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہاں کی ٹیم کی سنٹرفار ورڈ کھلاڑی نے ایک پاکستانی لڑکے سے شادی کر کے اسلام قبول کر لیا ہے اور ہاکی کھیلنا چھوڑ دیا ہے لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس نے شادی کے لئے اس لڑکے کی محبت میں اسلام قبول کیا ہے مجھے یہ بات عجیب سی لگی، ہم جس ہوٹل میں رہتے تھے اس کے قریب ایک پارک تھا، اس پارک سے ملا ہوا ان کا مکان تھا میں صبح کو اس پارک میں تفریح کر رہی تھی کہ ڈنمارک کی ایک کھلاڑی نے مجھے بتایا کہ وہ سامنے برٹنی کا گھر ہے جو ڈنمارک کی ہاکی کی مشہور کھلاڑی رہی ہے، اس نے اپنا نام اب سعد یہ رکھ لیا ہے اور گھر میں رہنے لگی ہے، مجھے اس سے ملنے کا شوق ہوا،میں ایک ساتھی کھلاڑی کے ساتھ اس کے گھر گئی وہ اپنے شوہر کے ساتھ کہیں جانے والی تھی، بالکل موزے دستانے اور پورے برقع میں ملبوس، میں دیکھ کر حیرت میں رہ گئی اور ہم دونوں ہنسنے لگے، میں نے اپنا تعارف کرا یا تو وہ مجھے پہچانتی تھی وہ بولی میں نے تمہیں کھیلتے دیکھا ہے، سعدیہ نے کہا ہمارے ایک سسرالی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے مجھے اس میں جانا ہے ورنہ میں آپ کے ساتھ کچھ باتیں کرتی، میں تمہارے کھیلنے کے انداز سے بہت متاثر رہی ہوں، ہاکی کھیل عورتوں کے نیچر سے میل نہیں کھاتا، میرا دل چاہتا ہے کہ تمہاری صلاحیتیں نیچر سے میل کھانے والے کاموں میں لگیں، میں تم سے ہاکی چھڑوانا چاہتی ہوں، میں نے کہا آپ میرے کھیل کے انداز سے متاثر ہیں اور مجھ سے کھیل چھڑوانا چاہتی ہیں، اور میں آپ کا ہاکی چھوڑنا سن کر آپ سے ملنے آئی ہوں، کہ ایسی مشہور کھلاڑی ہو کر آپ نے کیوں ہاکی چھوڑ دی ؟میں آپ کو فیلڈ میں لانا چاہتی ہوں سعدیہ نے کہا کہ اچھا آج رات کو ڈنر میرے ساتھ کر لو، میں نے کہا آج تو نہیں، کل ہو سکتا ہے، طے ہو گیا میں ڈنر پر پہنچی تو سعدیہ نے اپنے قبول اسلام کی روداد مجھے سنائی اور بتایا کہ میں نے شادی کے لئے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اپنی شرم اپنی عصمت کی عزّت و حفاظت کے لئے اسلام قبول کیا ہے اور اسلام کے لئے شادی کی ہے۔ سعدیہ نہ صرف ایک مسلم خاتون تھی بلکہ اسلام کی بڑی داعیہ تھی، اس نے فون کر کے دو انگریز لڑکیوں کو اور ایک معمر خاتون کو بلایا، جو ان کے محلہ میں رہتی تھیں، اور سعدیہ کی دعوت پر مسلمان ہو گئی تھیں، وہ مجھے سب سے زیادہ اسلام کے پردہ کے حکم کی خیر بتاتی رہیں اور بہت اصرار کر کے مجھے برقع پہن کر باہر جا کر آنے کو کہا میں نے برقع پہنا، ڈنمارک کے بالکل مخالف ماحول میں میں نے برقع پہن کر گلی کا چکر لگایا، مگر وہ برقع میرے دل میں اتر گیا، میں بیان نہیں کر سکتی کہ میں نے مذاق اڑانے یا زیادہ سے زیادہ اس کی خواہش کے لئے برقع پہنا تھا، مگر مجھے اپنا انسانی قد بہت بڑھا ہوا محسوس ہوا، اب مجھے اپنے کوچ کی بے شرمانہ شہوانی چٹکیوں سے گھن بھی آ رہی تھی، میں نے برقع اتار ا اور سعدیہ کو بتایا کہ مجھے واقعی برقع پہن کر بہت اچھا لگا،مگر آج کے ماحول میں جب برقع پروویسٹرن حکومتوں میں پابندی لگائی جا رہی ہے، برقع پہننا کیسے ممکن ہے ؟ اور غیر مسلم کا برقع پہننا تو کسی طرح ممکن نہیں، وہ مجھے اسلام قبول کرنے کو کہتی رہی اور بہت اصرار کرتی رہی میں نے معذرت کی کہ میں اس حال میں نہیں ہوں، ابھی مجھے دنیا کی نمبر ون ہاکی کی کھلاڑی بننا ہے میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر جائے گا سعدیہ نے کہا مجھے آپ کو ہاکی کی فیلڈ سے برقع میں لانا ہے، میں نے اپنے اللہ سے دعا بھی کی ہے اور بہت ضد کر کے دعا کی ہے اس کے بعد ہم دس روز تک ڈنمارک میں رہے وہ مجھے فون کرتی رہی، دو بار ہوٹل میں ملنے آئی، اور مجھے اسلام پر کتابیں دے کر گئی۔
سوال :آپ نے وہ کتابیں پڑھیں ؟
جواب :کہیں کہیں سے دیکھی ہیں۔
سوال :اس کے بعد اسلام میں آنے کا کیا ذریعہ بنا؟
جواب :میں انڈیا واپس آئی، ہمارے یہاں نریلا کے پاس ایک گاؤں کی ایک لڑکی (جس کے والد ۱۹۷۴ء میں ہندو ہو گئے تھے، اور بعد میں آپ کے والد مولانا کلیم صاحب کے ہاتھوں مسلمان ہو گئے تھے، ان کے مرید بھی تھے اور حج بھی کر آئے تھے )ہاکی کھیلتی تھی، دلی اسٹیٹ کی ہاکی ٹیم میں تھی اور انڈیا کی طرف سے سلیکشن کے بعد روس میں کھیلنے جانے والی تھی، مجھ سے مشورہ کھیل کے انداز میں رہنمائی کے لئے میرے پاس آئی میں نے اس سے ڈنمارک کی مشہور کھلاڑی برٹنی کا ذکر کیا اس نے اپنے والد صاحب سے ساری بات بتائی وہ اپنی لڑکی کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے اور مجھے حضرت کی کتاب ’’آپ کی امانت ‘‘اور ’’اسلام ایک پریچے‘‘ دی آپ کی امانت چھوٹی سی کتاب تھی، برقع نے میرے دل میں جگہ بنا لی تھی اس کتاب نے برقع کے قانون کو میرے دل میں بٹھا دیا میں نے حضرت صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دوسرے روز حضرت کا پنجاب سفر تھا، اللہ کا کرنا کہ بہال گڑھ ایک صاحب کے یہاں ہائی وے پر ملاقات طے ہو گئی اور حضرت نے دس پندرہ منٹ مجھ سے بات کر کے کلمہ پڑھنے کو کہا اور انھوں نے بتایا کہ میرا دل یہ کہتا ہے کہ برٹنی نے اپنے اللہ سے آپ کو برقع میں لانے کی بات منوا لی ہے بہر حال میں نے کلمہ پڑھا اور حضرت نے میرا نام عفیفہ رکھا، اور کہا عفیفہ پاک دامن کو کہتے ہیں، چونکہ بائی نیچر آپ اندر سے پاکدامنی کو پسند کرتی ہیں، میری بھانجی کا نام بھی عفیفہ ہے، میں آپ کا نام عفیفہ ہی رکھتا ہوں۔
سوال :اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب :میں نے برٹنی کو فون کیا اور اس کو بتایا وہ خوشی میں جھوم گئی جب میں نے حضرت کا نام لیا تو انھوں نے اپنے شوہر سے بات کرائی ڈاکٹر اشرف ان کا نام ہے، انھوں نے بتایا کہ حضرت کی بہن کے یہاں رہنے والی ایک حرا کی شہادت اور اس کے چچا کے قبول اسلام کی کہانی سن کر ہمیں اللہ نے اسلام کی قدر سکھائی ہے اور اسی کی وجہ سے میں نے برٹنی سے شادی کی ہے، یہ کہہ کر کہ اگر تم اسلام لے آتی ہو تو میں آپ سے شادی کے لئے تیار ہوں، میں نے اخبار میں ایڈ دیا،گزٹ میں نام بدلوایا، اپنی ہائی اسکول اور انٹر کی ڈگریوں میں نام بدلوایا اور ہاکی سے ریٹائرمنٹ لے کر گھر پر اسٹڈی شروع کی۔
سوال :اب آپ کا کیا ارادہ ہے، آپ کی شادی کا کیا ہوا؟
جواب :میں نے آئی سی ایس کی تیاری شروع کی ہے، میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں ایک آئی سی ایس افسر بنوں گی اور برقع پوش آئی ایس افسر بن کر اسلامی پردہ کی عظمت لوگوں کو بتاؤں گی۔
سوال :آپ کس کے لئے کوچنگ کر رہی ہے ؟
جواب :میں نیٹ پر اسٹڈی کر رہی ہوں، میرے اللہ نے ہمیشہ میرے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے کہ میں جو ارادہ کر لیتی ہوں اسے پورا کر دیتے ہیں، جب کافر تھی تو پورا کرتے تھے اب تو اسلام کی عظمت کے لئے میں نے ارادہ کیا ہے۔ اللہ ضرور پورا کریں گے، مجھے ایک ہزار فیصد امید ہے کہ میں پہلی بار میں ہی آئی سی ایس امتحانات پاس کر لوں گی۔
سوال :انٹرویو کا کیا ہو گا؟
جواب :سارے برقع اور اسلام کے مخالف بھی اگر انٹرویو لیں گے تو وہ میرے سلیکشن کے لئے انشاء اللہ مجبور ہو جائیں گے۔
سوال :گھر والوں کو آپ نے دعوت نہیں دی ؟
جواب :ابھی دعا کر رہی ہوں، اور قریب کر رہی ہوں ’’ہمیں ہدایت کیسے ملی ‘‘ہندی میں میں نے گھر والوں کو پڑھوائی سب لوگ حیرت میں رہ گئے اور اللہ کا شکر ہے ذہن بدل رہا ہے۔
سوال :یہ باتیں، میں نے آپ کے علم میں ہے کہ پھلت سے نکلنے والے رسالہ ارمغان کے لئے کی ہیں اس رسالہ کے بہت سے پڑھنے والے ہیں ان کے لئے کوئی پیغام آپ دیں گی ؟
جواب :عورت کا بے پردہ ہونا اس کی حد درجہ توہین ہے، اس لئے مرد خدا کے لئے اپنے جھوٹے مطلب اور اپنا بوجھ ان پر ڈالنے کے لئے ان کو بازاروں میں پھرا کر بازاری بنانے سے باز رہیں، اور عورتیں اپنے مقام اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے اسلام کے پردہ کے حکم کی قدر کریں۔
سوال :بہت بہت شکریہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
جواب :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ
ماخوذ از ماہنامہ ارمغان پھلت نومبر ۲۰۱۰ ء
٭٭
مداری کے ڈھونگ نے اسلام کی حقیقت تک پہنچا یا
بھائی محمد نعیم الدین سے ایک ملاقات
سوال : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
جواب : و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
سوال : بھائی نعیم الدین صاحب آپ کے ہاتھ میں پلاسٹر ہوا ہے ہاتھ ٹوٹ گیا ہے کیا؟
جواب :جی بھائی مولانا صاحب یہ ہاتھ ہی نہیں میرا ایک پاؤں بھی ٹوٹ گیا تھا (کھول کر پاؤں دکھاتے ہوئے)یہ پاؤں میں راڈ پڑا ہوا ہے،پاؤں تو الحمد للہ ٹھیک ہو گیا ہاتھ میں دوبارہ پلاسٹر کرانا پڑا ہے۔
سوال : یہ چوٹیں آپ کے کیسے لگیں ؟
جواب :یہ خاندان والوں کی عنایت ہے، یہ ہاتھ پاؤں اور چچا کے بیٹوں نے توڑے ہیں مجھے خوشی ہے کہ یہ سب کچھ میرے ساتھ اللہ کو ایک کہنے کے جرم میں کیا گیا ہے کسی چوری ڈاکے کے جرم میں نہیں بس میرے اللہ کا مجھ پر لاکھ لاکھ کرم ہے کہ اللہ نے ایمان سلامت بچائے رکھا بلکہ ایمان کا مزہ چکھایا۔
سوال :آپ کا گھر کہاں ہے ؟خاندان والے کون لوگ ہیں، جو ایسے سخت ہیں ؟
جواب :میں مغل سرائے ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبے کے یادو خاندان کا ایک فرد ہوں، سُشیل یادو میرا خاندانی نام ہے، میری زندگی کی عجیب بات یہ ہے کہ مجھے اپنے چھوٹے بھائی کی محبت میں ایمان ملا اور پھر ایمان لانے کے بعد بھائیوں اور خاندان والوں نے میرے ساتھ حد درجہ ظلم بھی کیا۔
سوال :ذرا تفصیل سے بتایئے ؟
جواب :میرے والد صاحب علاقہ کے بڑے زمیندار ہیں ہم چار بھائی ہیں، میرا نام سُشیل یادو میرے چھوٹے بھائی سنیل یادو اور انیل یادو ہیں، ایک بڑے بھائی کپل یادو ڈی ایس پی ہیں، میں نے بارہویں کلاس پاس کر کے تعلیم چھوڑ دی تھی اور چھوٹے بھائی سنیل یادو نے گریجویشن کر لیا تھا انل ابھی انجنئیر نگ کر رہا ہے۔میرے چھوٹے بھائی سنیل سے میری ایک روز لڑائی ہو گئی اور میں نے اس کے منہ پر زور سے چانٹا مار دیا اس کو بہت غصہ تھا، غصہ تو ہمارے خاندان کے لوگوں میں اکثر کو رہتا ہے وہ رات کو گھر سے چلا گیا اگلے روز اس کو تلاش کیا مگر اس کا پتہ نہیں چل سکا جیسے جیسے دن گذرتے گئے گھر میں غم بڑھتا گیا، میری ماں روتے روتے پاگل سی ہو گئیں، گھر میں سنیل سے مجھے سب سے زیادہ پیار تھا مگر چونکہ میرا چانٹا اس کے گھر سے جانے کا سبب بنا تھا اس لئے سب کی نگاہوں میں میں کھٹکتا تھا، سب گھر والے مجھے کھاتے تھے، میرے لئے گھر میں رہنا مشکل ہونے لگا، سنیل کی یاد بھی بہت آتی تھی، میں نے گھر والوں سے کہا کہ آپ سب گھر بیٹھو اور مجھے اجازت دو میں جاتا ہوں اور تلاش کرنے کو منع کون کرتا ہے ؟میں گھر سے نکلا اور گھر والوں سے کہا جب تک سنیل نہیں ملے گا واپس نہیں آؤں گا، میں گھر سے نکلا مغل سرائے، وارانسی،الہ آباد،لکھنؤ،پٹنہ، دہلی تین سال تک اپنے بھائی کو تلاش کرتا رہا، مزدوری کرتا اور تلاش کرتا سیانوں تانترکوں، مولویوں کی خوشامد کرتا،ان کو پیسے دیتا رہا، مگر میرے بھائی کا پتہ نہ چلا، دہلی میں میں نے ایک فیکٹری میں ملازمت کر لی اور تلاش کرتا رہا ایک روز کچھ مال لینے نوئیڈا گیا، وہاں پر ایک مداری تماشہ کر رہا تھا وہ مجمع میں سے کسی آدمی کو زمین پر بٹھاتا اور اس پر چادر ڈھک کر اس سے چھپی ہوئی چیزوں کے بارے میں معلوم کرتا، ان بابوجی کی جیب میں کیا ہے ؟اچھا بتاؤں ان چودھری صاحب کے گھر میں کیا پک رہا ہے ؟وہ آدمی سب بتا رہا تھا، کھیل ختم ہوا تو میں نے کہا جب تم ساری باتیں بتا رہے ہو،میرا بھائی کہاں ہے یہ بھی بتادو اس نے کہا تم خود کھیل سیکھ لو تم خود دیکھ لو گے میں نے کہا اس کے لئے کیا کرنا ہو گا ؟اس نے کہا اکیس ہزار روپئے تین جوڑے گرو دکشنا دینے پڑیں گے میں نے کہا اپنا پتہ بتا دو میں انتظام کر کے لاؤں گا، اس نے بتایا کہ وہ کیلوکری گاؤں میں رہ رہا ہے، میرا نام اصغر ہے، ہمارا ڈیرہ اسکول کے باہر پڑا ہوا ہے، میں فیکٹری گیا، منیجر صاحب سے کہا کہ مجھے اکیس ہزار روپئے کی ضرورت ہے، ہر مہینے آپ دو ہزار روپئے کاٹتے رہیں، منیجر صاحب نے کہا میں صرف پندرہ ہزار روپئے دے سکتا ہوں، میں نے کہا پندرہ ہزار ہی دے دو، میں نے ایک ساتھی سے چھ ہزار روپئے قرض لئے اور اکیس ہزار روپئے لے کر مداری کو تلاش کرنے نکلا، کیلوکری گاؤں پہنچا، تو معلوم ہوا کہ مداری آج یہاں سے چلا گیا ہے اب مداری کی تلاش ہوئی، پورے دن قریب کے گاؤں در گاؤں تلاش کرتا رہا، رات کو معلوم ہوا کہ وہ دادری میں تماشہ دکھا رہا تھا۔ میں دادری گیا دن چھپے میں تھک کر سڑک کے کنارے بیٹھا تھا تو دیکھا کہ سامنے ایک ڈیرہ لگا ہے، جا کر معلوم کیا، دو بچے ایک بوڑھا اور دو عورتیں ڈیرہ میں تھیں، میں نے معلوم کیا آپ لوگ کون ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ ہم مداری ہیں، میں نے معلوم کیا کہ ایک مداری اصغر ہے جو کیلوکری گاؤں میں رہتا تھا، تم اس کو جانتے ہو ؟بوڑھا بولا وہ اصغر ہمارا بیٹا ہے، کیلوکری گاؤں والوں نے ہمارا ڈیرہ اکھاڑ دیا ہمیں یہاں آنا پڑا تم انتظار کرو وہ آنے والا ہو گا، (ڈھونڈنے ’’والا پاتا ہے ‘‘)مثال سچی دکھائی دی، اس لئے میرے دل میں خیال آیا جب ڈھونڈنے سے مداری مل گیا تو مجھے میرا بھائی بھی ضرور ملے گا دو گھنٹے بعد اصغر آ گیا، مجھے کھانے کو کہا میں نے کھانے سے منع کر دیا، میں نے کہا کہ میں گرو دکشنا کا انتظام کر کے لے آیا ہوں تین جوڑے بھی لایا ہوں، اس نے کہا کل صبح آ جانا میں رات کو جا کر ایک آشرم میں رکا، صبح جلدی اصغر کے یہاں گیا اس نے اکیس ہزار روپئے اور تین جوڑے لے کر مجھ سے کہا کھیل سیکھنے کے لئے میں تمہیں پہلے مسلمان بناؤں گا، جاؤ نہا کر آؤ، سامنے ایک ٹیوب ویل چل رہا تھا میں وہاں جا کر نہا کر آیا، اس نے کہا کہ اب تم کلمہ پڑھو، یہ سوچ کر کہ میں اپنا دھرم چھوڑ کر مسلمان ہو رہا ہوں، سچے دل سے وہ کہو جو میں کہہ رہا ہوں میں نے کہا کہ میں دھرم نہیں چھوڑ سکتا، اس نے کہا کہ پھر تم کھیل بھی نہیں سیکھ سکتے میں نے کہا کہ کھیل سیکھ کر میں اپنے بھائی کو دیکھ لوں گا یا نہیں ؟اس نے کہا کیوں نہیں ؟کھیل سیکھ کر نہ جانے کیا کیا دیکھو گے ؟مجھے اپنے بھائی کی تلاش کا جنون تھا میں نے کہا اگر میرا بھائی مل جاتا ہے تو میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں اس نے مجھے ایک چٹائی پر بٹھایا اور مجھے چادر اڑھائی اور کہا سچے دل سے اس وشواس کے ساتھ کہ میں ہندو دھرم چھوڑ کر مسلمان ہو رہا ہوں کلمہ پڑھو کہو : لا الہ الا اللہ محمد یا رسول اللہ۔
سوال :محمد یا رسول اللہ پڑھوایا یا محمد رسول اللہ پڑھوایا تھا ؟
جواب :اس نے مجھے سات بار محمد یا رسول اللہ پڑھوایا۔
سوال :آپ نے سچے دل سے مسلمان ہونے کے لئے کلمہ پڑھا تھا ؟
جواب :سچے دل سے تو کیا، بھائی کو تلاش کر نے کے لئے مسلمان بننے کے لئے یہ کلمہ پڑھا تھا۔
سوال :پھر اس کے بعد کیا ہوا ؟
جواب :اصغر مداری نے بہت دیر تک مجھے کچھ کچھ پڑھوایا، پھر مجھے کھڑا کیا اور کہا کہ تمہیں کل پھر آنا ہے، میں کل پھر گیا اس نے پھر مجھ سے ایک گھنٹے تک جاپ کروایا، پھر کہا سات روز تک تمہیں آنا ہو گا، میں سات روز تک جاتا رہا، سات روز کے بعد اس نے مجھے چٹائی پر لٹا کر چادر اوڑھائی اور بولا، دیکھو کیا دِکھتا ہے ؟میرے ابا جی کی جیب میں کیا ہے ؟مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر میرے منہ سے خود بخود نکل رہا تھا، بیڑی ہے، مالا ہے، پیسے ہیں، اس نے کہا کہ اس لڑکی کے پیٹ میں کیا ہے ؟اس نے کیا کھایا ہے ؟میں نے کہا کیلا کھایا، دال روٹی کھائی ہے، اس نے اسی طرح تین چار لوگوں کے بارے میں معلوم کیا اور مجھے اٹھا دیا اس نے کہا ابھی تمہارا ایک طبق روشن ہوا ہے، اگر تم لگے رہے تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے اور تین طبق کے بعد تمہارا بھائی تمہیں دکھائی دے جائے گا، تم اس سے جا کر مل لینا، میں نے کہا مجھے تو کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا، اس نے کہا تم پھر کیسے صاف صاف بتا رہے تھے ؟میں نے بحث کی تو بولا تمہارا ایمان سچا نہیں ہے اس میں میل ہے، اس لئے ابھی تمہیں کچھ نہیں دکھائی دیا،دیکھو چشمہ پر مٹی لگی ہو تو کچھ دکھائی نہیں دیتا، میں نے کہا میرا ایمان کیسے صاف ہو گا، اس نے کہا کسی مولانا صاحب کے پاس جا کر اپنا ایمان صاف کرو، میں نے کہا تم میرے پیسے اور جوڑے واپس کرو اس نے کہا کہ میں حق ادا کر چکا، میں اس سے لڑنے لگا تو بولا کہ اگر زیادہ بولو گے تو میں تم پر گھایل چھوڑ دوں گا،میں نے اس سے پیسے چھننے کی کوشش کی تو اس نے میری طرف آنکھیں لال کر کے پھونک ماری، میرے پورے بدن میں مرچیں لگنے لگیں، اس قدر کھجلی کہ پاگل ہونے کو ہو گیا، میں رونے لگا،آدھا گھنٹہ کھجلاتے جب بیہوش ہونے کو آیا تو اس نے کہا جا معاف کرتا ہوں، اب تو کچھ نہیں کہے گا، دکشنا واپس تو نہیں مانگے گا،میں نے کہا مجھے معاف کر دو، پھونک مار کر بولا جا میں نے کیا، اپنا ایمان بنا، جب میل دور ہو جائے گا تو اپنے بھائی سے مل لینا کھجلی کم ہوئی تو مجھے ہوش آیا، بہت مایوس جان بچا کر بھاگا، بس اڈے پر ایک مولانا ارریہ بہار کے دادری میں لڑکیوں کا مدرسہ چلاتے تھے مولانا فیروز صاحب وہ ملے میں نے حلیہ دیکھ کر ان سے معلوم کیا کہ آپ مولانا ہیں، انہوں نے کہا کہ ہاں بولئے کیا بات ہے ؟میں نے اپنی دکھ بھری داستان سنائی، مولانا صاحب نے کہا :وہ مداری تو بس دھوکہ دے رہا ہے البتہ ہمارے حضرت صاحب ہیں جو صرف ساری دنیا کے انسانوں کے ایمان بنانے کی محنت کرتے ہیں، میں ان کے پاس جانے کے لئے بس کے انتظار میں کھڑا ہوں آپ کے پاس وقت ہو تو میرے ساتھ دہلی اوکھلا چلو، میں نے چلتا ہوں، مولانا فیروز صاحب کے ساتھ میں اوکھلا پہونچا ایک گھنٹہ انتظار کے بعد خلیل اللہ مسجد میں مولانا صاحب آئے مولانا فیروز صاحب نے بتایا کہ یہ بھائی صاحب دادری بس اڈے پر کھڑے تھے میں ان کو لے آیا، مولانا صاحب نے مجھ سے پوری بات سنی اور سن کر بولے، مداری تو واقعی مداری تھا اور یہ تو سب شعبدہ باز ہوتے ہیں، مگر بات سچی کہہ رہا تھا کہ اگر واقعی آدمی اپنے ایمان کو بنا لے تو پھر اسے سب کھرا کھوٹا صاف دکھنے لگتا ہے، اب یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ بھائی کو ڈھونڈنے نکلے اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ آپ کے لئے ہدایت کے راستے کھول رہے ہیں، آپ پریشان وہاں کھڑے تھے، مولانا فیروز مل گئے اور یہ فوراً میرے یہاں آ رہے تھے یہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اتفاق سے ہوا لیکن اللہ کے یہاں سب ارادہ سے ہوتا ہے، جب اللہ ہی آپ کے لئے ہدایت کا راستہ کھول رہے ہیں تو پھر آپ کو مالک کی خاص عنایت کی قدر کرنی چائے، آپ سچے دل سے کلمہ پڑھ لیجئے۔ انھوں نے مجھے اسلام اور ایمان کے بارے میں بتایا، پھر مجھے کلمہ پڑھوایا، میں نے کلمہ پڑھا دوسرا کلمہ شہادت پڑھوایا، میں نے کہا، پہلا کلمہ تو مجھے یاد ہے، میں نے سنایا تو مولانا صاحب نے کہا محمد یا رسول اللہ بالکل غلط بلکہ بہت غلط ہے، محمد رسول اللہ ﷺ ٹھیک ہے، میرا نام نعیم الدین رکھا، مجھے مشورہ دیا کہ آپ ایفی ڈیوٹ بنوا لیں اور دین سیکھنے کے لئے جماعت میں چلے جائیں، میں نے کہا میرے بھائی کا کیا ہو گا ؟مولانا صاحب نے کہا کہ اللہ کے راستے میں جا رہے ہو وہاں جا کر اللہ سے دل سے دعا کرنا، اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا، اور وہاں سے جس کام کے ہونے کا فیصلہ ہو جاتا ہے کوئی روک نہیں سکتا، وہ کریم اللہ ہر ایک کی دعا قبول کرتے ہیں اور اپنے راستے میں اور بھی دعائیں قبول کرتے ہیں، میں نے کہا میری نوکری کا کیا ہو گا؟اور مجھ پر قرض بھی ہے، مولانا صاحب نے معلوم کیا تو پتہ لگا کہ فیکٹری مالک مولانا صاحب کے جاننے والے ہیں، مولانا صاحب نے ان کو فون کیا کہ جماعت سے آ کر قرض اتار دیں گے، تیسرے روز میں جماعت میں چلا گیا، امیر صاحب فیروز آباد کے تھے مولانا صاحب کو اچھی طرح جانتے تھے، ان کی وجہ سے ساتھیوں نے میرا بہت خیال کیا، ایک چلہ کے بعد ساتھ میں دو چلوں کی تشکیل ہو گئی مولانا صاحب سے فون پر بات ہو گئی خوشی کا اظہار کیا، پہلا چلہ ہمارا بھوپال میں لگا، دوسرے چلہ میں میں کھنڈوہ چلا گیا، اور تیسرا چلا میرا ممبئی میں لگا۔
سوال :آپ نے اپنے بھائی کے لئے دعا نہیں مانگی ؟
جواب :اتنی دعائیں مانگیں جتنی مانگ سکتا تھا اور اللہ نے قبول فرمائیں، ایک روز ہم خصوصی گشت کے لئے نکلے، جو گیشوری میں ایک دکان کے سامنے سے ہم گذرے، تو میرا بھائی اس دکان پر سیلز مین بنا ہوا گر اہکوں کو سامان دکھا رہا تھا میں چیخا سنیل میرے بھائی وہ مجھے اس حلیہ میں پہچان نہیں سکا، وہ بولا آپ کون ہیں ؟میں نے کہا تیرا بڑا بھائی سُشیل وہ شروع میں تو بہت خوش ہوا،مگر تھوڑی دیر میں اس کا چہرہ میرے اس حلیہ سے اتر سا گیا، میرا چلہ پورا ہو گیا تھا، بس ایک دن زیادہ لگانے کے لئے امیر صاحب نے سب لوگوں کو آمادہ کیا تھا، میں نے امیر صاحب کو اپنا سارا حال سنایا، امیر صاحب، دکان مالک (جو مسلمان تھے)کی اجازت سے میرے چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لے گئے ان کو ناشتہ وغیرہ کرایا، میں نے بھائی کو گھر کا حال سنایا، ماں کے دکھ کی داستان سنائی اور بتایا کہ میں گھر سے قسم کھا کر چلا تھا کہ بھائی کو تلاش کر کے ہی واپس لوٹوں گا، مزدوری کی، رکشہ چلایا، اور تمہیں تلاش کرتا رہا اس کو میں نے آمادہ کیا کہ وہ میرے ساتھ ایک بار گھر چلے ٹکٹ بنوایا اور پروگرام بنایا کہ دہلی حضرت صاحب سے مل کر ہم لوگ گھر جائیں، دہلی پہنچے مولانا سے ملاقات کے لئے ہمیں دو روز قیام کرنا پڑا، معلوم ہوا کہ پھلت میں ہیں، ہم لوگ پھلت پہنچے، مولانا صاحب سے ملاقات ہوئی سنیل کو دو بار انہوں نے گلے سے لگایا، مولانا عمر صاحب کو بلا کر مولانا صاحب نے ہمارا تعارف کرایا اور سنیل سے کہا یہ ہمارے نواسے مولوی عمر ہیں، آپ سے کچھ دیر محبت اور پریم کی بات کریں گے، مولانا عمر صاحب نے میرے بھائی کو کچھ دیر سمجھایا اور ان کو دعوت دی، اللہ کا شکر ہے وہ تیار ہو گیا اس کو کلمہ پڑھوایا، پھر مولانا صاحب نے ایک بار کلمہ پڑھوایا، تجدید کرائی اس کا نام فہیم الدین رکھا،اس کے قانونی کاغذات بنوائے، جماعت میں جانے کا مشورہ دیا، میں نے کہا میں ایک بار مغل سرائے جا کر گھر والوں سے اس کی ملاقات کرانا چاہتا ہوں، کہا بہت اچھا، ان کو جلدی واپس کرو،یہ کہہ کر کہ اس کی اچھی جاب لگی ہے، وہ چھوٹ جائے گی میں خوشی خوشی گھر لوٹا، پہلے سے فون پر بتا دیا تھا، گھر کے لوگ بہت خوش تھے، ہم دونوں پہنچے تو مجھے دیکھ کر لوگ سہم گئے، سب لوگ ہمارے آنے کی خوشی بھول کر برس پڑے،اور جب میرا معلوم ہوا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، گھر میں طوفان کھڑا ہو گیا، فہیم الدین میرا بھائی تو تین روز رہ کر ماں سے کہہ کر کہ ماں میرا ممبئی میں بہت اچھا کام لگا ہے وہ چھوٹ جائے گا وہاں سے دہلی آ گیا اور جماعت میں چلا گیا، میرا حال یہ ہوا جو آپ کے سامنے ہے، گھر والوں نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ امریکہ کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ نہ کیا جاتا ہو، میرے ایک چچا نے میرے منہ میں پیشاب کیا، مجھے ٹانگ کر مارا، میرے پاؤں اور ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور ایک ہفتہ تک کسی نے میرے پٹی بھی نہیں بندھوائی، پورے علاقہ میں میرا چرچہ تھا، پڑوس کے گاؤں میں مسلمانوں نے ایک ایم ایل اے کی مدد سے تھانہ میں ایک رپورٹ لکھوائی، پولس آئی، ہمارے گھر والوں کو پکڑ کر لے گئی، مجھے سرکاری اسپتال میں بھرتی کیا گیا، میرے پڑوس کے ایک سیٹھ جی نے مجھے ایک اچھے اسپتال میں بھرتی کرایا، اور میرا آپریشن کرایا۔
سوال : سیٹھ جی ہندو نہیں تھے؟
جواب : ہندو تھے مگر ان کو میرے حال پر بہت ترس آیا، انہوں ہی نے پڑوس کے مسلمانوں کو میرے حال کی خبر کی تھی، پولس والوں نے میرے گھر والوں کے خلاف رپورٹ لکھی، پھر رشوت لے کر آئندہ کوئی حرکت نہ کرنے کی شرط پر چھوڑ دیا۔
سوال :آپ کی ماں کو بھی آپ پر ترس نہیں آیا ؟
جواب :ماں بہت روتی رہیں، چیختی رہیں، مگر کسی نے کچھ نہ سنی۔
سوال :آ پ کو اس تکلیف میں کیسا لگا؟
جواب :دو بار تو مار کے بعد خون میں میرے پورے کپڑے بھیگ گئے،مگر اللہ کا شکر ہے مجھے بہت مزہ آتا رہا اور میں یہ سوچ کر کہ مجھے جان سے مار رہے ہیں کلمہ شہادت پڑھتا رہا، اس کے بعد یہ سلسلہ روز بروز چلتا رہا، دو بار مجھے زہر دینے کی کوشش کی،’’مگر جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے‘‘ باوجود یہ کہ پولیس والوں کا ڈر تھا مگر وہ لوگ نرم نہ پڑے، کسی طرح میں نے مولانا صاحب کو فون کیا، مولانا صاحب نے اپنے ایک ساتھی ماسٹر صاحب کو بھیج کر مجھے دہلی بلایا وہ مجھے لے کر دہلی آئے مولانا صاحب میرا حال دیکھ کر رونے لگے، بار بار مجھے پیار کرتے تھے اور فرماتے کہ نعیم الدین آپ کتنے خوش قسمت ہیں کہ اس زمانہ میں آپ کو اللہ نے صحابہ کے انداز کے حالات سے نوازا، حضرت صاحب نے میرا علاج کرایا، اللہ کا شکر ہے سب چوٹیں ٹھیک ہو گئی ہیں اب بس دوبارہ ہاتھ پر پلاسٹر چڑھایا گیا ہے۔
سوال :اللہ کی شان کہ آپ کو ایک بازی گر کے واسطے سے اسلام کی طرف رہنمائی کی۔
جواب :یہ ہی نہیں، بلکہ حضرت نے مجھ سے کہا اب اس اصغر مداری کا آپ پر حق ہو گیا ہے کہ آپ اس کو بھی راہ راست پر لانے کی فکر کریں۔ میں ایک صاحب کے ساتھ دادری گیا، اتفاق کی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس کا ڈیرہ وہاں موجود تھا، وہ اس سال برسات میں پھر یہاں آیا ہے، میں نے اس کو اپنا پورا حال بتایا اور مولانا صاحب سے ملنے کے لئے کہا، وہ اپنے بچپن میں پھلت رہ چکا ہے، جب اس کے والد مداری کا کام کرتے تھے، اس نے بتایا کہ وہ مدرسہ میں پڑھا بھی ہے، ایک مہینہ تک مولانا نے اس کو سمجھایا اور مرنے کے بعد کی زندگی کی فکر کرنے کو کہا اور بتایا کہ رزق مقدر ہے، انسان کی کوشش سے بڑھنے گھٹنے والا نہیں ہے، انسان کو حلال طریقہ اختیار کرنا چاہئے، یہ شعبدہ بازی حرام ہے، میرے حال کو دیکھ کر اور میری داستان سن کر اس پر بہت اثر تھا اس نے توبہ کا وعدہ کیا، حضرت نے اس کو جماعت میں جانے کا مشورہ دیا، اصغر نے کہا، میں نعیم الدین کے اکیس ہزار روپئے ادا کر کے جماعت میں چلا جاؤں گا،پندرہ روز کے بعد اس نے اکیس ہزار روپئے اور دو جوڑے بھی مجھے لا کر دئے اور ایک جوڑے کو معاف کرنے یا قیمت لینے کو کہا، میں نے دونوں جوڑے اس کو ہدیہ کئے اکیس ہزار روپئے قرض ادا کیا، اور اس پر بہت شکر ادا کیا کہ میری ہدایت کا ذریعہ بننے والا خود بے راہ تھا، اللہ نے اس کے بھی جماعت میں جانے کا ذریعہ مجھے بنایا۔
سوال :اب آ پ کا کیا ارادہ ہے ؟
جواب :ابھی ذرا صحت کا حال ٹھیک ہو جائے، تو حضرت جیسا کہیں گے ویسا کریں گے، میرے بھائی فہیم الدین بھی جماعت سے آ گئے ہیں، دہلی میں الحمد للہ ملازمت بھی مل گئی ہے۔
سوال : بہت بہت شکریہ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ
جواب : وعلیکم السلام علیکم و رحمۃ اللہ ماخوذ از ماہنامہ ارمغان دسمبر ۲۰۱۰ء
٭٭