FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

نالۂ شب گیر

 

حصہ اول

 

 

                   مشرف عالم ذوقی

 

 

 

 

 

 

کوئی تو نالۂ شب گیر پہ باہر نکلے

کوئی تو جاگ رہا ہو گا دیوانے کے سوا

— نعمان شوق

 

 

کمپوزنگ                :       سعید احمد معروفیؔ  9560062765

 

 

 

 

 

ہر اس لڑکی کے نام

جو باغی ہے

اور اپنی شرطوں پر

زندہ رہنا جانتی ہے

 

 

 

 

 

 

کچھ ’نالۂ شب گیر کے بارے میں ‘

’’وہ اپنے جسم کے تنے سے اپنے گرے پتّے اُٹھاتی ہے

اور روز اپنی بند مٹھی میں سسک کے رہ جاتی ہے/

وہ سوچتی ہے

کہ انسان ہونے سے بہتر تو وہ گندم کا ایک پیڑ ہوتی/

تو کوئی پرندہ چہچہاتا تو وہ اپنے موسم دیکھتی/

لیکن وہ مٹی ہے، صرف مٹی

وہ اپنے بدن سے روز کھلونے بناتی ہے/

اور کھلونے سے زیادہ ٹوٹ جاتی ہے۔۔ /

وہ کنواری ہے، لیکن ذلت کا لگان سہتی ہے/

وہ ہماری ہے

لیکن ہم بھی اُسے اپنی دیواروں میں چُن کے رکھتے ہیں /

کہ ہمارے گھر اینٹوں سے بھی چھوٹے ہیں /

___سارا شگفتہ

 

نالۂ شب گیر — سوچتا ہوں، آخر مجھے اس ناول کو تحریر کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی — اقبال نے کہا تھا   ؎

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

لیکن کیا سچ مچ ایسا تھا؟ صدیوں میں تصویر کائنات سے مردوں نے تتلیوں جیسے اس کے رنگ کو ’کھرچ‘ کر صرف استعمال ا ور استحصال کا ذریعہ بنا دیا تھا — حقیقت یہ ہے کہ شروع سے مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ مرد آزادی اور بڑے بڑ ے فلسفوں پر گفتگو کرنے کے باوجود عورت پر پابندیاں لگاتا ہے — گھر کی عورت پہروں، بندشوں اور گھٹن کا شکار کیوں رہتی ہے — خصوصی طور پر پاکستانی عورتوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ راز بھی افشاں ہوا کہ وہاں اگر ایک لڑکی انجینئرینگ یا میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہے تو کوئی ضروری نہیں کہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر بن بھی جائے — کیونکہ اس کی تقدیر کا فیصلہ وہ کرے گا، آئندہ اس کی زندگی میں آئے گا — کچھ عورتیں مجازی خدا، شوہر اور شریک حیات کے ناموں سے بھی خفا نظر آئیں۔ یہ حال صرف پاکستان کا نہیں، ہندوستان کا بھی ہے۔ بنگلہ دیش کا بھی ہے — میٹروپولیٹن شہروں کی باتیں چھوڑ دیں تو عورت آج بھی وہی ہے — گھٹن ا ور بندش کا شکار — جہاں اس کے پاس کوئی شناخت نہیں اور وہ مدتوں سے اپنی آزادی کے احسا س کو ترس رہی ہے—

عورت آج برانڈ بن چکی ہے۔ ایک ایسا برانڈ، جس کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹ کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے اس کی مدد لیتی ہیں۔ چاہے وہ جنیفیر لوپیز ہوں، ایشوریہ رائے یا سشمتا سین۔سوئی سے صابن اور ہوائی جہاز تک، بازار میں عورت کی مارکیٹ ویلیو، مردوں سے زیادہ ہے۔ سچ پوچھئے تو تیزی سے پھیلتی اس مہذب دنیا، گلوبل گاؤں یا اس بڑے بازار میں آج عورتوں نے ہر سطح پر مردوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے — یہاں تک کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف میں بھی عورتوں کے حسن اور جسمانی مضبوطی نے صنف نازک کے الزام کو بہت حد تک رد کر دیا ہے۔ یعنی وہ صنف نازک تو ہیں لیکن مردوں سے کسی بھی معنی میں کم یا پیچھے نہیں۔ صدہا برسوں کے مسلسل جبر و ظلم کے بعد آج اگر عورت کا نیا چہرہ آپ کے سامنے آیا ہے تو یقیناً آپ کو کسی غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عورت آپ اور آپ کی حکومت کی بیڑیاں توڑ کر آزاد ہونا چاہتی ہے — اور اب آپ اُسے روک نہیں سکتے۔

سینکڑوں، ہزاروں برسوں کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو عورت کا بس ایک ہی چہرہ بار بار سامنے آتا ہے۔ حقارت، نفرت اور جسمانی استحصال کے ساتھ مرد کبھی بھی اُسے برابری کا درجہ نہیں دے پایا — عورت ایک ایسا ’جانور‘ تھی، جس کا کام مرد کی جسمانی بھوک کو شانت کرنا تھا اور ہزاروں برسوں کی تاریخ میں یہ ’دیوداسیاں ‘ سہمی ہوئی، اپنا استحصال دیکھتے ہوئے خاموش تھیں  — کبھی نہ کبھی اس بغاوت کی چنگاری کو تو پیدا ہونا ہی تھا۔ برسوں پہلے جب رقیہ سخاوت حسین نے ایک ایسی ہی کہانی ’مرد‘ پر لکھی تو مجھے بڑا مزہ آیا۔ رقیہ نے عورت پر صدیوں سے ہوتے آئے ظلم کا بدلا یوں لیا کہ مرد کو، عورتوں کی طرح ’کوٹھری‘ میں بند کر دیا اور عورت کو کام کرنے دفتر بھیج دیا۔ عورت حاکم تھی اور مرد آدرش کا نمونہ — ایک ایسا ’دو پایا مرد‘، جسے عورتیں، اپنے اشاروں پر صرف جسمانی آسودگی کے لئے استعمال میں لاتی تھیں۔ میں رقیہ سخاوت حسین کی اس کہانی کا دلدادہ تھا اور بچپن سے کسی بھی روتی گاتی مجبور و بے بس عورت کو دیکھ پانا میرے لئے بے حد مشکل کام تھا — سچ پوچھئے تو میں عورت کو کبھی بھی دیوداسی، بڑنی، سیکس ورکر، نگر بدھو، گنیکا، کال گرل یا بارڈانسر کے طور پر دیکھنے کا حوصلہ پیدا ہی نہ کر سکا۔ بادشاہوں یا راجاؤں مہا راجاؤں کی کہانیوں میں بھی ملکہ یا مہارانی کے ’رول ماڈل‘ کا میں سخت مخالف رہا۔ میں نہ اُسے شہزادی کے طور پر دیکھ سکا، نہ ملکہ عالم یا مہارانی کے طور پر وہ مجھے مطمئن کر سکیں  — کیونکہ ہر جگہ وہ مردانہ سامراج کے پنجوں میں پھنسی کمزور اور ابلا نظر آئیں۔خواہ انہو ں نے اپنے سر پر ملکہ کا تاج یا شہزادیوں سے کپڑے پہن رکھے ہوں۔ تاریخ اور مذہب کی ہزاروں برسوں کی تاریخ میں، خدا کی اِس سب سے خوبصورت تخلیق کو میں لاچار، بدحال اور مجبوری کے ’فریم‘ میں قبول نہیں کر سکتا تھا — ایسا نہیں ہے کہ یہ سب لکھ کر میں ان لوگوں کی سخت مخالفت کر رہا ہوں، جو عورت کی حمایت میں صفحات در صفحات سیاہ کرتے رہے ہوں۔ ممکن ہے، بلندی پر پہنچی عورت کے لئے وہ اپنی طرف سے بھی ایک لڑائی لڑ رہے ہوں، مگر آج کی زیادہ تر کہانیوں میں یہی عورت مجھے اتنی مجبور و بے بس نظر آتی ہے، جیسے آپ بیچ سڑک پر اُسے ننگا کر رہے ہوں  — چلئے مان لیا۔ بے حد مہذب، آزاد ہندستان کے کسی گاؤں، قصبے میں ایک ننگا ناچ ہوتا ہے — اجتماعی عصمت دری یا کوئی بھی ایسا جرم سرزد ہوتا ہے، جس میں ایک کمزور، بے سہارا عورت کا دامن تار تار ہو جاتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہی ہے، ایک بار وہ اپنی عصمت دری کا ماتم کر چکی ہے۔ یہ کیسی فنکاری ہے کہ بار بار ایک جھوٹی تخلیق کے لئے آپ اس کو مزید عریاں کرنے پر آمادہ ہیں — شاید زمانہ قدیم سے افسانوں کا یہی سب سے بہتر اور پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ جس پر آزادی کے بعد کی ترقی پسندی نے بھیانک، دانشورانہ انداز میں سعیٔ کی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بہار، اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان یا ہندستان کے قبائلی علاقوں یا گاؤں میں ایسے حادثے نہ ہوتے ہوں  — لیکن بے حد ذائقہ دار انداز میں اُنہیں پیش کرنا بھی عریانیت کی حدود پار کرنا ہے۔ ہماری کہانیاں مادام باواری یا اناّ کارنینا کی سطح پر ہے۔ عورت کو دیکھنے سے ہمیشہ گریز کرتی رہی۔

ایسا کیوں ہے، یہ میری سمجھ میں آج تک نہیں آیا — لولیتا سے دی اسکارلیٹ لیٹر تک، ایسا نہیں ہے کہ عورتوں پر ہونے والے ظلم اور استحصال کے خلاف وہاں نہیں لکھا گیا، مگر مغرب میں ادب سے متعلق زیادہ تر موضوعات کا محور یا مرکز صرف یہ جسمانی استحصال نہیں ہے۔ لیکن ہمارے یہاں اردو ہندی دونوں زبانوں میں محض ایک کمزور اور ظلم سہتی ہوئی عورت کا تصور ہی رہ گیا ہے — کیا آج ایسا ہے — ؟ صرف چھوٹے موٹے گاؤں، قصبوں میں ہونے والے واقعات کو درکنار کیجئے — آپ کہہ سکتے ہیں، بڑے شہروں میں بھی اس طرح کے واقعات عام ہیں  — جیسے سیکس اسکنڈلس سے لے کر عورتوں کو زندہ جلائے جانے تک کی داستانیں ابھی بھی مہذب دنیا کا مذاق اُڑانے کے لئے کافی ہیں —

اس حقیقت کو تسلیم کئے جانے کے باوجود مجھے احساس ہے کہ یہ وہ موضوعات ہیں، جنہیں پریم چند سے منٹو تک ہزاروں لاکھوں بار دہرایا جا چکا ہے — اور اس سے بھی بڑا ایک سچ ہے کہ نئے ہزارہ کا سورج طلوع ہونے تک عورت نے اپنی ہر طرح کی بیڑیاں توڑ کر آزاد ہونے کی بھی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ جہاں تک میری بات ہے، نہ میں اُسے غلام دیکھ سکتا ہوں، نہ کمزور — نہ وہ مجھے شاہ بانو کے طور پر قبول ہے اور نہ ہی عمرانہ کے طور پر — میں اُس پر قدرت کی صناّعی دیکھتا ہوں اور یہی چیز میرے ادب کے لئے نئی نئی فنتاسیوں کو جنم دے جاتی ہے —

یعنی وہ ہے ایک پُراسرار ترین مخلوق —

رائیڈرزہیگڑڈ کی ’شی‘ کی طرح — ایک چونکا دینے والی حقیقت — ‘

’جسم — ‘ جسم سے جسم تک — وہ ایک آگ ہے، شرارہ ہے۔ وہ اپنی خوبصورتی اپنے جمال سے آپ کو ’بھسم‘ کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے —

تو آپ اپنی کہانیوں میں اس عورت کو کیوں نہیں تلاش کرتے!‘

میرے ساتھ مشکل یہی ہے کہ میں عورت کے لئے ہمدردی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ میرے سامنے اُسے دیکھنے اور محسوس کرنے کے لئے دوسرے فریم بھی ہیں۔ میں عورت کو صرف مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا — وہ مجھے فنتاسی کے لئے اتنی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ یہ نام آتے ہی کسی دوسری دنیا کی مخلوق یا جنت کے دروازے یا ’پری لوک‘ کا تصورسامنے آ جاتا ہے۔ وہ محبت بھی کرتی ہیں اور ایسی محبت کہ اُس کی محبت کے آگے نہ صرف سجدہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے بلکہ آپ سوبار مر کر سو بار زندہ ہوسکتے ہیں۔ وہ ایک نہ ختم ہونے والا ’اسرار‘ہے۔ اُس کی خوبصورتی آپ الفاظ میں قید نہیں کر سکتے۔ اُس کاخوبصورتجسم آپ کے سارے تصورات سے زیادہ شیریں اور غیر یقینی حد تک آپ کے الفاظ کو کھوکھلا اور بے معنی بناتا ہے، کیونکہ وشوامتر کی اس مینکا کو آپ الفاظ کے ذریعہ باندھ ہی نہیں سکتے۔ یعنی، عورت ہر بار میرے لئے طلسم ہوشربا کی ایک ایسی ساحرہ بن کر آتی ہے، جسے پلٹ کر دیکھنے والا انسان پتھر کا ہو جاتا ہے۔ ناقابل یقین، حسن کا مجسمہ اور تخلیقی محرکات کے لئے ایک بیش قیمت تحفہ۔

وہ ندی بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ کوئی سونامی لہر، کوئی جوار بھاٹا، کوئی سیلاب شرارہ، سیلاب، جھومتا گاتا آبشار۔ وہ سب کچھ ہے اور نہیں بھی ہے۔ وہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی ’پری کتھا‘ ہے۔ وہ دنیا کی ساری غزلوں، نظموں سے زیادہ خوبصورت اور’پُراسرار بلا‘ ہے۔ جو آج کی ہر تلاش و تحقیق کے ساتھ نئی اور پُراسرار ہوتی چلی جاتی ہے۔

’عورت‘ — کائنات میں بکھرے ہوئے تمام اسرار سے زیادہ پُراسرار، خدا کی سب سے حسین تخلیق — یعنی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ عورت کو جان گیا ہے تو شاید اُس سے زیادہ شیخی بگھارنے والا یا اس صدی میں اتنا بڑا جھوٹا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ عورتیں جو کبھی گھریلو یا پالتو ہوا کرتی تھیں۔ چھوٹی اور کمزور تھیں۔ اپنی پُراسرار فطرت یا مکڑی کے جالے میں سمٹی، کوکھ میں مرد کے نطفے کی پرورش کرتیں۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ محض بچہ دینے والی ایک گائے بن کر رہ گئی تھیں  — مگر شاید صدیوں میں مرد کے اندر دہکنے والا یہ نطفہ شانت ہوا تھا یا عورت کے لئے یہ مرد آہستہ آہستہ بانجھ یا سرد یا محض بچہ پیدا کرنے والی مشین کا محض ایک پُرزہ بن کر رہ گیا تھا۔۔  عورت اپنے اس احساس سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔۔  شاید اسی لئے اس ناول کا جنم ہوا۔۔  یا اس لئے کہ عورت جیسی پُراسرار مخلوق کو ابھی اور کُریدنے یا اُس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ہم نے ابھی بھی مہذب دنیا میں اسے صرف پاک ناموں اور رشتوں میں جکڑ رکھا ہے۔

ماں، ماں ہوتی ہے۔ بہن کی ایک پاکیزہ اور مقدس دنیا ہوتی ہے۔ بیوی کی دنیا ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔یہ سب صرف پاکیزہ رشتے اوڑھے ہوتی ہیں، عورت کا جسم نہیں۔ ان رشتوں میں کہیں جسم کا تصور نہیں آتا(ممکن ہے، بیوی کے رشتہ میں آپ اس جسم کو تلاش کرنے کی کوشش کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورت سے بیوی بنتے ہی اُس میں شردھا اور تقدس کے پھول بھی کھل اٹھتے ہیں )۔ وہ تصور جو اچانک ’عورت‘ کہتے ہی، آپ کے آگے ایک خواب رنگوں والے اندر دھنش کی خوبصورتی بکھیر دیتی ہے۔ اس لئے عورت کے نام کے ساتھ ان پاکیزہ رشتوں کا تصور نہیں آتا۔ صرف دل کو لبھانے والا جسم، یعنی ایک ایسا جھنجھنا کر بجنے والا جسم، جس کے صرف خیال سے آپ کسی ہوائی گھوڑے پر سوار ہو جاتے ہیں۔ حقیقت میں عورتوں سے متعلق بڑی بڑی باتیں کرنے کے باوجود ہم وہیں ہوتے ہیں ___ اپنی تنگ نظری کا دھواں پیتے ہوئے۔

’’عورت‘‘ — ہزاروں برسوں کے اس سفر میں کہاں کھوگئی ہے عورت؟پہلے بھی کہیں تھی یا نہیں ؟ قدیم گرنتھوں میں دروپدی، کُنتی، سیتا، ساوتری، پاروتی، دمینتی، شکنتلا، میتری وغیرہ — عزت سے پکاری جانے والی، الفی کے آخر تک لکس کا عریاں اشتہار کیسے بن گئی؟ یا وہ اشتہار نہیں بنی۔ ’لرل‘ اور ’لکس‘ کے اشتہاروں سے آگے نکل کر اور بھی مورچے سنبھالے ہیں اس نے — کہا جائے تو ایک پڑاؤ W.W.F.بھی ہے۔ آنے والے وقت میں کہاں کھو گئی یہ عورت؟

’خدائے ستاّر

عصمتوں کو ہزار پردے میں رکھنے والے/

صفات میں تیری عدل بھی ہے/

تو پھر مرے اور میرے محرم کے بیچ

تفریق کا سبب کیا — ؟‘

— عشرت آفریں

ادب تحریر کرنے والی عورتوں کے لئے ایسے سوال کوئی نئے نہیں ہیں۔ کہ اے خدا، اگر تو انصاف پسند ہے تو مرد اور عورت کے درمیان اتنا فرق کیوں ؟ اسی لئے آج کی عورت جب اڑان کے لئے اپنے پرکھولتی ہے تو کبھی کبھی ’جوناتھن سی گل‘ کی طرح اپنے دائرے کو توڑتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔ ہم اُسے کسی بھی نام سے پکاریں لیکن آخر اسے ایسا کرنے کا حق بھی ہم نے ہی دیا ہے۔

یہ مت بھولئے کہ صدیوں کے ظلم اور مردوں کی غلامی سے نجات کے بعد، اپنی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی ایک نئی دنیا بھی بنا سکتی ہے۔ اس نئی دنیا کو تنگ نظری کی آنکھوں سے مت دیکھئے — وہ اڑنا چاہتی ہے تو اُڑان کے نتیجے میں کچھ ’حادثے‘ بھی ہوسکتے ہیں — مگر یہاں سب سے اہم بات یہی ہے کہ وہ اب اپنی اُڑان کے لئے مکمل طور پر آزاد ہے —  میرے لئے یہ کوئی چونکنے والی بات نہیں تھی کہ صدیوں سے استحصال کا بوجھ اٹھاتی عورت اپنے وجود، اپنے جسم اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑتے ہوئے کہاں کہاں لہولہان یا شکست کا سامنا کر سکتی ہے یا پھر کہاں کہاں وہ مردوں کو شکست دے سکتی ہے۔

عورت: خوف سے مکالمہ اور احتجاج

’’اور بالآخر وہ ایک دن

اپنے مذہب کے خلاف چھیڑیں گی جہاد/

جس مذہب نے قید کر دیا تھا اُنہیں

ایک بند، گھٹن اور حبس سے بھرے

اندھیرے کمرے میں /

— صمد یزدانی(سندھی شاعر)

عورت نام آتے ہی گھر کی چہار دیواری میں بند یا قید، پردے میں رہنے والی ایک ’خاتون‘ کا چہرہ سامنے آتا ہے۔ اب سے کچھ سال پہلے تک مسلمان عورتوں کا ملا جلا یہی چہرہ ذہن میں محفوظ تھا۔ گھر میں موٹے موٹے پردوں کے درمیان زندگی بسر کر دینے والی یا گھر سے باہر خطرناک برقعوں میں اوپر سے لے کر نیچے تک خود کو چھپائے ہوئے — عرصہ پہلے پارٹیشن پر لکھی ہوئی کسی مشہور ’ہندو افسانہ نگار‘ کے ایک افسانہ میں ایسی ہی ایک برقعہ پوش خاتون کا تذکرہ ملتا ہے — ’’ ہم انہیں دیکھ کر ڈر جایا کرتے تھے۔ کالے کالے برقعہ میں وہ کالی کالی ’چڑیل‘ جیسی لگتی تھیں، تب ہم سڑکوں پر شاپنگ کرتی ان عورتوں سے صرف ڈرنے کا کام لیا کرتے تھے۔‘‘

وقت کے ساتھ کالے کالے برقعوں کے رنگ بدل گئے — لیکن کتنی بدلی مسلمان عورت یا بالکل ہی نہیں بدلی — قاعدے سے دیکھیں، تو اب بھی چھوٹے چھوٹے شہروں کی عورتیں برقعہ تہذیب میں ایک نہ ختم ہونے والی گھٹن کا شکار ہیں۔ لیکن گھٹن میں بغاوت بھی جنم لیتی ہے اور مسلمان عورتوں کی بغاوت کی لمبی داستان رہی ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ’مذہب کے اصولوں اور قوانین کو زندگی سے تعبیر کرنے والی‘ صوم وصلوٰۃ کی پابند عورت نے ایک دن اچانک بغاوت یا جہاد کے لئے بازو پھیلائے اور کھلی آزاد فضا میں سمندری پرندے کی طرح اڑتی چلی گئی۔

’فرہنگ آصفیہ‘ میں بغاوت کا لفظی معنی نافرمانی اور سرکشی کے آیا ہے۔ نافرمانی کی پہلی کہانی دنیا کے پہلے انسان یا پہلے پیغمبر حضرت آدمؑ کی بیوی حضرت حوّا سے شروع ہو جاتی ہے۔ اﷲ نے سب سے پہلے آدم کو پیدا کیا اور پھر آدم کی تنہائی ختم کرنے کے لئے اُن کی پسلی سے حضرت حوّا کو پیدا کیا۔ جنت میں سب کچھ کھانے پینے کی آزادی تھی، لیکن ایک درخت کے بارے میں حکم تھا کہ اس کا پھل کبھی مت چکھنا۔ ’نافرمانی‘ کی پہلی روایت یہیں سے شروع ہو جاتی ہے۔ عورت پیدائش کے وقت سے ہی اپنی تجسس کو دبا پانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے اندر سوالوں کی ایک ’دنیا‘ پوشیدہ ہوتی ہے۔ حضرت آدمؑ نے لاکھ سمجھایا۔ لیکن آخر کار حضرت حوّا نے ’گندم‘ توڑ کر کھا ہی لیا اور اسی نافرمانی کے نتیجے میں آدمؑ اور حوّا کو جنت سے نکالا گیا اور وہ دنیا میں آ گئے۔

تو دنیا کے دروازے آدمؑ اور حوّا کے لئے کھل چکے تھے۔ وہ آپس میں مل کر رہنے لگے۔ حضرت حوّا جب پہلی دفعہ حاملہ ہوئیں، تو ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی ایک ساتھ پیدائش ہوئی۔ بیٹے کا نام ’قابیل‘ اور بہن کا نام ’اقلیمہ‘ رکھا گیا۔ دوسری دفعہ جب حاملہ ہوئیں، تو ایک بیٹا ’ہابیل‘ اور بہن ’یہودا‘ کی پیدائش ہوئی۔ شریعت کے مطابق ایک پیٹ کی بیٹی کو دوسرے پیٹ کے بیٹے سے رشتۂ ازدواج میں منسلک کرنا تھا۔ یعنی شریعت کے مطابق ’قابیل‘ کی شادی ’یہودا‘ کے ساتھ اور ’ہابیل‘ کی ’اقلیمہ‘ کے ساتھ طے پائی تھی۔

یہ کیسی افسوسناک بات ہے کہ دنیا کے پہلے قتل کی وجہ بھی ایک عورت ہی بنی۔ پہلا قتل ایک عورت کے نام پر ہوا تھا۔ قابیل پہلی لڑکی یعنی اقلیمہ سے پیار کر بیٹھا۔ اس طرح عورت کے نام پر ’ہابیل‘ کو اپنی جان گنوانی پڑی۔

شریعت کا فرمان جاری کرنے والے اور اُس پر عمل کرنے والے مولویوں نے ہر بار مذہب کی حفاظت کی آڑ لے کر عورت کو اپنے پیر کی جوتی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسلسل ظلم، بیویوں کے ساتھ نا انصافیوں رواج، آزادی سے کچھ قبل تک بیوی کی موجودگی میں ’داشتہ‘ رکھنے اور کوٹھوں پر جانے کا رواج، اس بارے میں اپنی مردانگی کی جھوٹی دلیلیں، شہزادوں، نوابوں اور مہاراجاؤں کے ہزاروں لاکھوں قصوں میں عورت نام کی چڑیا سچ مچ مردوں کی بے محابا خواہشات کی تکمیل کے لئے کھیتی بن گئی تھی — مرد عورت کی ’زمین‘ پر ہل چلا سکتا تھا، رولر چلا سکتا تھا۔ زمین کو چاہے تو زرخیز اور چاہے تو بنجر بنا سکتا تھا — وہ مرد کی ’کھیتی‘ تھی اس لئے اُسے بولنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ مرد اُس کاکسی بھی طرح کا استعمال کر سکتا تھا۔

مسلم معاشرے نے عورت کو وہیں اپنایا، جہاں وہ مجبور تھی، جہاں اُسے مارا پیٹا یا سزا دی جا سکتی تھی۔ جہاں مرد عورتوں کو ’حلال‘ کر کے جبراً ان کے مالک بن سکتے تھے___ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے معاشروں میں یہ عورت راحت و آرام کی سانس لے رہی تھی۔ یہ عورت ہر جگہ بندشوں میں گھری ہوئی تھی۔مذہب کی بیڑیاں توڑ کر عورت جب چیخی، تو اُس کی چیخ سے آسمان میں بھی سوراخ ہو گیا۔ دیکھا جائے تو عورت ہر جگہ قید میں تھی۔ تبھی تو سیمون دبوار کو کہنا پڑا — ’عورت پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔‘

سیمون دبوار کی آپ بیتی کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ قاہرہ کے ایک سیمینار میں بولتے ہوئے سیمون نے مردوں پر عورتوں کے لئے حاکمانہ، زمیندارانہ اور ظالمانہ رویہّ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔ وہاں تقریب میں شامل مردوں نے سیمون کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ عورتوں کی نا برابری اُن کے مذہب کا حصہ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر ہے اور مذہب کا قانون دنیا کے ہر قانون سے اوپر ہے۔

یہاں میں صرف ایک مثال دینا چاہوں گا۔ صرف یہ دکھانے کے لئے کہ دیگر ملک یا معاشرہ میں بھی شروع سے ہی عورت کی یہی حالت رہی ہے۔ انگریزی ناول ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔ایم جی لیوس کا مشہور ناول ’دی میک۔۔ ‘جب1796 میں شائع ہوا، تو ادبی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ دنیا بھر کے عیسائی طبقے میں اس ناول پر نا اتفاقی کی فضا پیدا ہو گئی۔ پادریوں نے خاص اعلان کیا کہ یہ ناول نہ خریدا جائے، نہ پڑھا جائے اور نہ گھر میں رکھا جائے۔ ’دی میک‘ میں عورتوں کو ’نن‘ بنانے والی رسم کے خلاف جہاد چھیڑا گیا تھا — مذہبی پادریوں کے، عورتوں کے جسمانی استحصال کے ایسے ایسے قصّے اس کتاب میں درج تھے کہ دنیا بھر میں اس کتاب کی ہولی جلائی گئی — سچ تو یہی ہے، جیسا کہ سیمون دبوار نے کہا تھا — ’’عورتیں پیدا نہیں ہوتیں بنائی جاتی ہیں۔ وہ ہر بار نئے مردانہ سماج میں نئے نئے طریقے سے ’ایجاد‘ کی جاتی رہی ہیں۔‘‘

کیا یہ بند بند سے معاشرے کا احتجاج تھا، یا مسلم مردانہ سماج سے صدیوں میں جمع ہونے والی بوند بوند نفرت کا نتیجہ۔ یہ مذہب کا کرشمہ تھا یا صدیوں قید میں رہنے والی عورت اور اُس کی گھٹن کا نتیجہ — برسوں سے گھر کی چہار دیواری میں قید عورت کو آخر ایک نہ ایک دن اپنا پنجرا تو توڑنا ہی تھا۔ دیکھا جائے تو یہ بغاوت کے تیور معاشرے میں کم و بیش جنم لیتے رہے تھے۔ نبیوں کی روایت میں حضرت محمدؐ آخری نبیؐ ہیں۔ یعنی اُن کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ لیکن بہت بعد میں قرۃ العین طاہرہ نام کی ایک عورت نے اعلان کیا کہ میں ’’نبیہ‘‘ ہوں۔ اﷲ نے یہ کہا ہے کہ مرد پیغمبر نہیں آئیں گے۔ یہ کہاں کہا گیا ہے کہ عورت پیغمبر نہیں آئیں گی۔ نتیجہ میں قرۃ العین طاہرہ کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اردو کے مشہور نقاّد سجاد حیدر یلدرم کو کہنا پڑا — ’’میں حشر کا قائل نہیں، مگر حشر کا منتظر ضرور ہوں۔ میں قرۃ العین طاہرہ کے قاتلوں کا حشر دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

دراصل عورت اب عورت کے گندے ماضی سے لڑ رہی تھی — عورت تاریخ پر چابک برسا رہی تھی۔ وہ صدیوں میں سمٹے اُن پہلوؤں کا جائزہ لے رہی تھی، جب جسمانی طور پر اُسے کمزور ٹھہراتے ہوئے مردانہ سماج میں اُس پر ظلم وستم ایک ضروری مذہبی فریضہ بن چکا تھا۔

یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ دراصل بغاوت کی بیار زیادہ تر وہیں بہہ رہی تھی، جہاں بندشیں تھیں  — دم گھٹنے والا معاشرہ تھا۔ شاید اسی لئے تقسیم کے بعد کے پاکستان میں حکومت کرنے والے علماء اور ملاؤں کے خلاف عورتوں نے بغیر خوف اپنی آواز بلند کرنا شروع کی۔ کہاں ایک طرف پردہ نشینی کا حکم اور کہاں دوسری طرف دھکا دھک سگریٹ پیتی ہوئی، الفاظ سے تلوار کا کام لیتی ہوئی عورتیں —

دراصل نئے اسلامی معاشرے میں نوکر شاہی اور سیاست کا جو گھناؤنا کھیل شروع ہوا تھا، وہاں مرد صرف اور صرف ظالم حاکم تھا۔ عورت نئی اسلامی جمہوریت میں، مذہب کا سہارا لے کر پیر کی جوتی بنا دی گئی تھی، درد بھرے انجام کو پہنچی عورتوں کی اسی کہانی پر تہمینہ درّانی نے اپنی آپ بیتی لکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی سیاست کے اہم ستون مصطفیٰ کھر نے سیاست اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی قائم کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے ساتھ ایسے ظلم کئے کہ آج کے مہذب سماج کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تہمینہ کی آپ بیتی ’میرے آقا‘ نے پاکستان کے سیاسی ادبی حلقے میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ یہ عورت کے ظلم وستم کی داستاں تو تھی ہی۔ لیکن عورت اب بھی اپنے وجود کے لئے مرد کو نیچا دکھانے پر اتر آئی تھی۔

بقول سلوِیا باتھ —

’میں تو شبدوں کی پہیلی ہوں۔

ایک ہاتھ/

ایک طلسمی گھر/

ایک تربوز/

جو لڑھک رہا ہو/

ایک سرخ پھل ہاتھی دانت، صندل کی لکڑی /

وہ ریزگاری

جو ابھی ابھی تازہ، ٹکسال سے نکلی ہو،

میں ایک رشتہ ہوں

اسٹیج ہوں، گائے کا بچھڑا ہوں

میں نے سنہرے سیبوں کا بھرا تھیلا کھایا ہے

اور اب میں

اُس ٹرین میں سوار ہوں

جو کہیں رُک نہیں سکتی‘‘

میں برابری ا ور آزادی کا قائل ہوں  — اس لئے برسوں سے ایک ایسی کہانی کی تلاش میں تھا، جہاں اپنے تصور کی عورت کو کردار بنا سکوں  — اس ناول میں دو کردار ہیں  — صوفیہ مشتاق احمد ا یک خوفزدہ لڑکی کی علامت بن کر سامنے آتی ہے یہاں مجھے ضرورت ایک ایسی عورت کی تھی، جسے صوفیہ مشتاق احمد کے ساتھ مضبوطی کی علامت بنا کر پیش کر سکوں  — ناہید ناز کا کردار ایک ایسا ہی کردار ہے کہ جب ناہید کے کردار نے جنم لیا تو میری مشکل آسان ہو گئی۔ نہ وہ نفسیاتی مریضہ ہے نہ پاگل، مگر وہ صدیوں کے کرب اور غلامی سے آزاد ہونا چاہتی ہے — کیا یہ آسان ہے! یا صرف ناول اور کہانیوں تک محدود؟ ہم جس معاشرے میں ہیں، وہاں آج بھی عورت کی آزادی کا تصور نہیں کیا جا سکتا — اس لیے ’’نالۂ شب گیر‘‘ صدیوں کی وہ درد بھری موسیقی ہے، جو شب کے بحر ظلمات کا سینہ چیر کر پیدا ہو رہی ہے۔۔  مگر یہاں کون ہے جس کے پاس درد کی ان صداؤں کو سننے کے لئے وقت ہے۔ یہاں کی ہر عورت’ سیمون دبوار‘ ہے، جسے درد بھری آواز میں آخر کار یہی کہنا ہوتا ہے، عورت پیدا کہاں ہوتی ہے۔۔  وہ تو بس بنائی جاتی ہے۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

                   حصہ اول

 

دشت خوف

 

(صوفیہ مشتاق احمد)

 

 

 

نالۂ شب گیر

 

روز ازل سے اب تک کے فسانے میں ایک مرد ہے ایک عورت

لیکن غور کریں تو دونوں کی کہانی کتنی جدا ہے۔

خدا نے مرد کا تصور کیا تو ساتھ ہی نا تراشیدہ خوفناک چٹانوں اور عظیم الشان پہاڑوں کی تخلیق میں مصروف ہو گیا۔

خدا نے عورت کا تصور کیا تو گدلے پانی میں گڈمڈ ہوتی آسیبی پرچھائیوں کو دیکھا۔ عورت کی تخلیق کے ساتھ گدلے پانی کو عالم بالا سے عالم سفلی کی طرف اچھال دیا۔۔

اور وہاں خوف کی شکلیں نمودار ہو گئیں۔

مرد چٹانوں پر شان کبریائی سے کھڑا تھا۔

عورت گدلے پانی میں جھانکتی ہوئی خوف کی پرچھائیوں کے درمیان سہمی ہوئی کھڑی تھی۔ اور اس کی تقدیر اسی نالۂ شب گیر سے جوڑ دی گئی تھی۔

خدائے لوح و قلم نے اسے مرد کے لئے لوح مشق بنا کر بھیجا اور روز ازل سے وہ ضرب کی جگہ تقسیم ہوتی ہوئی بے نشاں بن چکی ہے —

 

مصنف کے نوٹس

ایک واہیات شب کے ساحل پر کھڑی لڑکی کا پورٹریٹ

 

XXXXXXXXXXXXXXXXXXXXXX

XXXXXXXXXXXXXXXXXXXXXX

XXXXXXXXXXXXXXXXXXXXXX

XXXXXXXXXXXXXXXXXXXXXX

XXXXX

ہنسنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ چونکنے کی ضرورت ہے، مندرجہ بالا سطور میں، میں نے کچھ لکھنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن لکھتے ہوئے احساس ہوا، یہاں ہر لمحہ ایک نئی دنیا بن جاتی ہے اور اوپر جو کچھ لکھا، وہ سب ماضی کا حصہ، بیکار یا واہیات ثابت ہو چکا ہوتا ہے۔ میری اس بات کو اس طرح سمجھیں کہ ابھی ایک زمین کے، ایک خالی حصہ کو کراس کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں اور واپس آتے ہیں تو یہاں ایک نیا شہر آباد رہتا ہے۔ نیا ہائی وے — فلک بوس عمارتیں  — فلائی اورس کے جال — سڑک پر خطرناک ٹریفک اور ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی گاڑیاں۔ غور کریں تو اس سے زیادہ برق رفتاری کے ساتھ خیالات کا ٹکراؤ ہو رہا ہے۔ ہم ایک لفظ لکھتے ہیں۔ اور دوسرے ہی لمحے اس کے نئے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ یقین نہ ہو تو فیس بک، ٹوئیٹر اور اس طرح کے دوسری ماڈرن ویب سائٹس دیکھ لیں  — اور اس ماڈرن ویب سائٹس کے ہائی وے پر اگر دو لوگ کھڑے ہیں تو آپ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ دو لوگ کون ہیں۔ آیا ان میں مرد کون ہے اور عورت کون — ؟ ممکن ہے پہلی نظر میں جو عورت ہو وہ دوسری نظر میں مرد ثابت ہو — یا جو پہلی نظر میں مرد ہو وہ دوسری نظر میں انفارمیشن ٹکنالوجی سے نکلا ہوا ایک انقلابی بزنس ماڈل ثابت ہو۔۔  اس لیے قارئین، سب سے پہلے مندرجہ بالا سطور میں جو کراس کے نشان ہیں انہیں پڑھنے کی کوشش کیجئے — یقینی طور پر وہاں کچھ لکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مگر اب نہیں ہے۔ اب وہاں صرف کراس ہے اور کراس پر غور کریں تو ایک اور نئی بات سامنے آتی ہے۔ جب ہم غصے میں تحریر کو کراس کرتے ہیں تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ایک خیال میں رنگ بھرنے سے پہلے ہی اسے مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یا، خیال میں جو رنگ بھرنے کی کوشش کی گئی، اس میں رنگ بھرنے کے ساتھ ہی رنگوں نے اترنا بھی شروع کر دیا اور آپ غور کریں تو کراس میں دو لکیریں ملتی ہیں  — اور کہتے ہیں دنیا بھی اس لیے آباد ہوئی کہ یہاں دو جنس کے لوگ تھے۔ ایک مرد، دوسری حوا — صرف حوا یا آدم ہوتے تو شاید دنیا کا عمل ہی سامنے نہ آتا۔ کراس کی ایک لکیر میں ایک حوا چھپی ہے۔ اور دوسری لکیر میں آدم ۔۔  آپ ملاحظہ کریں تو دونوں لکیریں ایک جیسی ہیں اور آپ کے لیے پہچاننا مشکل کہ آدم کون ہے اور حوا کون۔۔  آپ ان دونوں لکیروں کو گھماتے جائیے۔۔  مگر آخر تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گا کہ کون سی لکیر طاقت کا اشارہ ہے اور کون کمزوری کی علامت۔۔

قارئین! ہماری اس کہانی یا اس نئی دنیا کے ساتھ یہی ہو رہا تھا۔ عرصہ تک بلکہ صدہا صدی تک ایک لکیر، دوسری لکیر پر حاوی ہو کر صفحہ ہستی پر اپنا تماشہ دکھاتی رہی۔ مگر اس درمیان دوسری سوئی ہوئی لکیر میں حرکت ہوئی اور پہلی لکیر کا تماشہ نہ صرف بند ہوا بلکہ انہیں دیکھنے والے فرشتے بھی دم بخود رہ گئے۔۔

’نہیں ۔۔  وہ اول لکیر والا۔۔ ‘

’آپ غلط سمجھے۔۔  وہ حوا ہے۔۔ ‘

’اور دوسری لکیر۔۔ ‘

’وہ بھی حوا ہے۔۔ ‘

ہنسنے کی آوازیں۔۔  ’پھر آدم کہاں گیا؟‘

’آدم کراس میں چھپا ہے۔ وہ دیکھیے۔۔  لیکن کراس میں تو حوا بھی ہے۔۔  تو پھر ان دونوں میں سے آدم کون ہے اور حوا کون ۔۔ ؟

 

قارئین، سچائی یہ ہے کہ حقیقت، فنٹاسی میں اور فنٹاسی حقیقت میں جذب ہو گئی ہے۔ یہ کنفیوژن، یہ الجھن، یہ سارا کچھ y2k سے پیدا ہوا ہے۔

y2k ۔۔ ؟قارئین، چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ابھی سے پندرہ سال پہلے عورت کی طرح، سیمون د بوار کے لفظوں میں کہوں، تو یہ دنیا نئی نئی سیپ سے برآمد ہو رہی تھی۔۔  ایک نیا گلوبل گلوب ہمارے سامنے تھا، جس میں ایک ساتھ یہ مکمل دنیا ایک دوسرے کو دیکھ سکتی، پہچان سکتی اور گلوبل مارکیٹ کا ایک حصہ بن سکتی تھی۔۔  سن ۲۰۰۰ — یعنی y2k ۔۔  نئی صدی میں ’oo‘ کے اعداد کے ساتھ ایک غراتی ہوئی خوفناک بلی آ گئی تھی۔۔  جو ایلس کی طرح ونڈر لینڈ کی فنٹاسی سے باہر چھلانگ لگا کر اس نئی دنیا میں غرا رہی تھی کہ اب دیکھو۔۔  یہ ’oo‘ تمہاری دنیا میں ایک جھٹکے سے زلزلے کے آثار پیدا کر کے، نئے کھیل دکھانے والا ہے۔ ساری دنیا اور دنیا بھر کے انجینئر y2k کا حل تلاش کرنے میں لگ گئے۔ اور اس تلاش میں ہماری گول گول گھومتی اور لرزتی دنیا کو آئی ٹی کا جھنجھنا مل گیا۔ اس جھنجنے کے ملتے ہی گلوبل طلسمی آئینہ سے جھانکتا ہواہندوستانی بازار ایک نئی انگڑائی لے چکا تھا — اور یہ سب y2k کی وجہ سے تھا۔ انٹرنیشنل مارکیٹ فارین شیئر، اکسچینج، اسٹاک آپشن اور راتوں رات ایک بدلتی ہوئی زندگی تھی۔۔  خواب اور فنٹاسی گم تھے۔۔  انقلاب کا واسطہ حقیقت کی سرزمین سے تھا مگر کتنی عجیب بات، یہ سرزمین ابھی بھی عروج اور زوال میں کھوئی ہوئی تھی۔ ایک طرف ملٹی اسکائی بلڈنگس اور فلائی اورس کے جال تھے تودوسری طرف جھگی جھونپڑیاں بھی تھیں۔ ایک طرف لیپ ٹاپ، ڈیجٹل موبائیل تھے، حیران کرنے والے شاپنگ مالس تھے، تو دوسری طرف ڈپریشن کا شکار اکانومی بھی تھی۔ ایک طرف گے، لیسبیئن، لیو ان ریلیشن شپ کی حمایت کرنے والے تھے تو دوسری طرف عشق کے نام پر زندہ جلا دی جانے والی واردات اور رحم مادر میں ہی لڑکی کو پیدائش سے پہلے ہی ختم کر دینے جیسے خیالات بھی تھے۔ ’کنیکٹیویٹی کے اس دور میں، y2k کے انقلاب کے پندرہ برسوں میں جدید و قدیم کا یہ سنگم حیران کرنے والا تھا۔ ہم اڑتے اڑتے بھی کیڑے سے بدتر تھے اور چلتے چلتے بھی کیڑے سے بد تر۔۔

انقلاب کے ان پندرہ برسوں میں لفظ ومعنی کی شکلیں بد لی تھیں۔ اور شاید یہیں سے اس کہانی کے پیدا ہونے کی کلبلاہٹ سنائی دینے لگی تھی۔۔ اور قارئین اس لیے آئندہ صفحات پر جو کہانی آپ پڑھنے جا رہے ہیں وہاں کی فضا کچھ کچھ انہی خیالوں سے مانوس ہے — بندر ڈگ ڈگی بجائے گا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک آدم قد بن مانس میں تبدیل ہو جائے گا۔ ترقی کی ریس میں سوشل انجینئرنگ ڈائنوسار جیسے انسان پیدا کرے گی اور سیاست سرکس میں تبدیل ہو جائے گا۔ ہم کراس اور تضاد کے پل پر سوار ہیں جہاں ہم شاخوں پر بیٹھے بھی ہیں اور اپنی ہی شاخوں کو کاٹ بھی رہے ہیں۔ جہاں ہم تیزی سے مارس اور پگھلادینے والے سورج کی طرف قدم بڑھانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہم سوائن فلو اور سارس جیسی بیماریوں کے شکار ہو رہے ہیں۔۔  ایک طرف ہم بھول گئے ہیں کہ کراس کی ایک لکیر مرد ہے یا عورت — اور دوسری طرف رشتوں کے سجے بازار میں بیٹھی ہوئی ایک لڑکی آج بھی پندرہویں صدی کے قید خانے میں قید ہے اور معاف کیجئے گا، آئندہ صفحات میں، ایک ایسی ہی لڑکی سے میں آپ کی ملاقات کرانے جا رہا ہوں، اور اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ایک واہیات رات، انقلاب کی تیز رسی پر پھسلتی ہوئی دنیا کے بارے میں جب یہ احمق غور کر رہا تھا، اور ہیٹ، گڈنائٹ اورآل آؤٹ سے بھی نہیں مرنے والے مچھر مجھ پر حملہ کر رہے تھے، اور میں ایک خالی کینواس پر اس لڑکی کا پورٹریٹ بنانے کی کوشش کر رہا تھا — y2k کے 00 اچانک اچھل کر میرے سامنے آ گئے۔ اور یہ لمحہ میرے لیے اذیت ناک تھا جب میں اچھلتا ہوا کورے کینواس اور پھر اس کہانی کا حصہ بن گیا تھا۔

کہنا مشکل ہے کہ کراس کی پہلی لکیر میں کس کا چہرہ چھپا تھا — ؟ ناہید ناز کا یا صوفیہ مشتاق احمد کا؟ یا کسی دوسری عورت کا۔ جیسے یہ کہنا مشکل ہے کہ کراس کی دوسری لکیر میں کس کا چہرہ پوشیدہ تھا، کمال یوسف کا یا کسی اور مرد کا — جیسے یہ کہنا مشکل ہے کہ y2k انقلاب کے پندرہ برسوں بعد یہ دنیا مریخ پر اڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔۔  یا دیگر صورت میں یہ دنیا پندرہویں صدی کے اندھیرے میں گم ہونے جا رہی ہے۔۔  اور میری مجبوری یہ کہ یہ کہانی کسی ایسے موسم میں برآمد ہوئی جہاں لغات سے نکلے ہوئے لفظ، تتلی کے پروں کی طرح، رنگوں کو کشید کرتے ہوئے، پھڑپھڑاتے ہوئے ہوا میں اس طرح بکھر گئے کہ کمال یوسف، ناہید ناز میں یا ناہید ناز، کمال یوسف کے قالب میں سما گئے اور اس طرح جیسے پلک جھپکی، عقاب نے پر پھیلائے اور دنیا چپکے سے تبدیل ہو گئی۔

 

معاف کیجئے گا، یہاں ایک مصنف کے طور پر میں نے کچھ نوٹس لیے ہیں اور جو حقیقت سامنے آئی، اسے اپنے طور پر بتانے یا سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ممکن ہے میری فکر کا دائرہ محدود ہو تو یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنے طور پر تجزیہ کے پل صراط سے گزریں اور نئی صدی کی تاریخ کے صفحات سے گزرتے ہوئے، جو واقعات آپ کے سامنے رکھے جا رہے ہیں آپ ان کا اپنی سطح پر نتیجہ برآمد کریں۔ یہ آپ کی صواب دید پر ہے کہ آپ میرے نظریہ کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت۔ یہ آزادی بہر صورت آپ کے اختیار میں ہے۔

اور ایک ایسے عہد میں، میں نے یہ کہانی سنانے کی ذمہ داری قبول کی ہے جہاں جدید و قدیم، فنٹاسی اور حقیقت، نئے اور پرانے دماغ ایک دوسرے میں تحلیل ہو رہے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ کی اس نئی اور چونکانے والی دنیا میں الفاظ نئے سرے سے خود کو دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔  اوراسی نئی دنیا سے دو عورتیں برآمد ہوئی ہیں۔ ایک صوفیہ مشتاق احمد اور دوسری ناہید ناز۔۔

اور اس وقت بھی وہ میلا سا کاغذ میرے ہاتھوں میں ہے، جہاں ایک بلی کی تصویر بنی ہوئی ہے اور اس کے پیٹ میں ایک چوہا ہے — میں زندگی کی نئی حقیقتوں کے تعاقب میں، اب بھی تصویر میں پوشیدہ مفہوم کو سمجھنے کی سعی کر رہا ہوں۔۔

تو ایک تھی صوفیہ۔۔  صوفیہ مشتاق احمد —

٭٭٭

 

 

 

 

 

To be, or not to be: that is the question:

Whether ‘tis nobler in the mind to suffer

The slings and arrows of outrageous fortune,

Or to take arms against a sea of troubles,

And by opposing end them? To die: to sleep;

No more; and by a sleep to say we end

The heart-ache and the thousand natural shocks

That flesh is heir to, ‘tis a consummation

Devoutly to be wish’d. To die, to sleep…..

Wi٭٭

iam Shakespeare

 

 

 

(1)

 

’’میں ہر بار تمہارے گھر کی الگنی پر گیلے کپڑے کی طرح ’لٹکی‘ رہی۔ تم میرے لئے مٹھی مٹھی بھر دھوپ لاتے تھے۔ اور میں تھی، برف جیسی یخ___ دھوپ تمہاری مٹھیوں سے جھڑ جھڑ جاتی تھی۔۔  سوکھتی کیسے میں۔۔ ؟ تمہارے ہی گھر کی الگنی پر لٹکی رہی۔ دُکھ دینے کے لئے تمہیں۔‘‘

 

وہ کچھ ایسا ہی سوچتی تھی۔ اپنے بارے میں  — وہ یعنی، صوفیہ مشتاق احمد۔ اُسے اپنے بارے میں کچھ بھی سوچنے کا حق حاصل تھا۔ جیسے یہ کہ راتیں کیوں ہوتی ہیں ؟ جیسے یہ کہ آسمان پر ٹمٹماتے تاروں میں، اُس کی بھولی بسری عمر کیسے سماجاتی ہے۔۔ ؟ جیسے یہ کہ صبح کیوں ہوتی ہے۔۔ ؟ سورج کیوں نکلتا ہے۔۔ ؟ دھوپ سے زندگی کا کیسا رشتہ ہوتا ہے — ؟

قارئین! مجھے احساس ہے کہ میں نے کہانی غلط جگہ سے شروع کر دی۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا میرے ساتھ اکثر ہوا ہے۔ مگر پیارے قارئین، مجھے اس بات کا اعتراف کر لینے دیجئے کہ مجھے اس کہانی کو لکھنے کا کوئی حق نہیں تھا اور یقین جانیے، اس کہانی کے کرداروں سے، ملنے سے قبل تک مجھے اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ زندگی سے وابستہ بے حد معمولی سچائیاں اتنی تلخ، اتنی سنگین بھی ہوسکتی ہیں  — مجھے یہ بھی احساس ہے کہ آج کے عہد میں، جس کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ مہذب ترین دنیا کا کوئی تصوراوبامہ کے پاس بھی نہیں ہے — اور نیوکلیائی ہتھیاروں کی، انسانوں کے قتل عام کی اس سے بدصورت مثال شاید تاریخ کے بے رحم صفحوں پر بھی مشکل سے ہی ملے گی — مجھے احساس ہے کہ انسانی بم، جینوم، کلوننگ اور نیوٹکنالوجی کے اس عہد میں میں آپ کو ایک ایسی کہانی سنانے جا رہا ہوں، جس پر چوتھی دنیا کے مہذب ترین لوگ شاید ہی بھروسہ کر سکیں  — انسانوں کو غلام بنانے والی کہانیاں اور غلاموں سے کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ بدترین سلوک کی فنتاسیاں، معاف کیجئے گا، لوگ بھولے نہیں ہیں  — تاریخ کے صفحات اذیت اور جبر کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں  — لیکن یقین جانئے، میں ایسی کوئی رس بھری، لذیذ داستان آپ کے سامنے رکھنے نہیں آیا — اور آپ ہنسیں گے، یقیناً آپ کو ہنسنا چاہئے — کہ خود کو مہذب ثابت کرنے کی ریس میں اگر آپ کو کوئی ایسا قصہ سنایا جائے کہ عظیم طاقتوں میں سے ایک بننے جا رہے ملک ہندستان میں، ایک مسلمان لڑکی اپنی شادی کے لئے، ’شاہزادوں ‘ کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی اور اچانک ایک دن اُس نے ایک تنہا، اُداس کمرے میں — آسیبی داستانوں کے مشہور زمانہ کردار ڈراکیولا کو دیکھ لیا — تو چونکئے گا مت — اور یقین جانیے، ہماری اس کہانی کی کردار صوفیہ مشتاق احمد کے ساتھ بھی یہی ہوا —

٭٭

 

آدھی رات گزر چکی تھی۔ کمرے میں زیروپاور کا بلب جل رہا تھا۔ باہر خوفناک آندھیاں چل رہی تھیں۔ پتّے سرسرا رہے تھے۔ باہر کوئی جنگل نہیں تھا۔ پھر بھی چمگادڑوں، بھیڑیوں، الّو اور طرح طرح کی خوفناک آوازیں رات کے پُراسرار سناٹے کو اور بھی زیادہ خوفناک بنا رہی تھیں اور یقیناً یہ دستک کی آواز تھی — نہیں۔ کوئی تھا، جو دیواروں پررینگ رہا تھا — کیا ویمپائر — اُف، خوفناک آوازوں کا ریلا جسم میں دہشت کا طوفان برپا کرنے کے لئے کافی تھا۔ سہمی ہوئی سی وہ اٹھی۔ کاٹو توبدن میں خون نہیں  — وہ اٹھی، اور تھرتھراتی، کانپتی کھڑکی کی طرف بڑھی۔ لڑکھڑاتے کانپتے ہاتھوں سے کھلی کھڑکی کے پٹ بند کرنے چاہے تو ایک دم سے چونک پڑی — کوئی تھا جو دیواروں پر چھپکلی کی طرح رینگ رہا تھا۔ اُف۔ اُس نے خوفزدہ ہو کر دیکھا — یقینایہ ڈراکیولا تھا — ہونٹ انسانی خون سے تر — دانت، لمبے، بڑے اور سرخ — وہ اپنے ’تابوت‘ سے باہر آیا تھا۔ صبح کی سپیدی تک اپنے ہونے کا جشن منانے یا پھر انسانی خون کا ذائقہ تلاش کرنے۔۔  وہ یکبارگی پھر خوف سے نہاگئی۔کسی اسپائیڈر مین کی طرح ڈراکیولا اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار پر آرام سے چھپکلی کی طرح — پنجوں پر اُس کی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس کی گھگھی بندھ گئی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر۔۔  رینگتا ہوا، ڈراکیولا، ایکدم، دوسرے ہی لمحے اُس کے کمرے میں تھا — اُس کی آنکھوں میں وحشیانہ چمک تھی۔۔  اور اُس کے نوکیلے دانت اُس کی نازک ملائم گردن کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔  اُس کی آنکھوں میں نیم بے ہوشی کی دھند چھا رہی تھی —

٭٭٭

 

 

 

 

(2)

 

مصنف سے صوفیہ مشتاق احمد کی بات چیت

 

’اُف، ڈراؤنا خواب، لیکن اس صدی میں ڈراکیولا — آپ کتابیں بہت پڑھتی ہیں، ڈراؤنی کتابیں ؟‘

’نہیں پڑھتی۔‘

’پھر یہ خواب‘

’نہیں، یہ خواب نہیں ہے۔ دیکھئے۔۔ ‘

مصنف کے لئے یہ صبر آزما لمحہ تھا۔ یقیناً اُس کی گردن کی ملائم جلد کے پاس کئی داغ تھے — لیکن کیا یہ ڈراکیولا کے نوکیلے دانتوں کے نشان تھے، یا۔۔  مصنف اِن ’اذیت گزار‘ لمحوں کے سفر سے، پھیکی ہنسی ہنستا ہوا اپنے آپ کو باہر نکالنے کا خواہش مند تھا —

’یقیناً یہ داغ۔۔  آپ سمجھ رہے ہیں نا، ایک صبح ہم اٹھتے ہیں۔ اور کیڑے نے۔۔  کیڑا۔۔  آپ سمجھ رہے ہیں نا۔۔ ؟‘

صوفیہ مشتاق احمد کا چہرہ اس وقت لیوناڈوی ونچی کی پینٹنگ مونالزا کی طرح ہو رہا تھا، جس کے تأثر کو آپ لفظوں کا لباس پہنا ہی نہیں سکتے۔ یقیناً۔۔  وہ کیڑا ہی تھا۔ نوکیلے دانتوں والا ایک خوفناک کیڑا۔۔  اور آپ سے زیادہ بہتر کون جانے گا کہ اس صدی میں انسان سے زیادہ خوفناک کیڑا۔۔  دوسرا کون ہوسکتا ہے۔۔ ‘

ہے۔۔ ہے۔۔ ہے۔۔، مصنف پھیکی ہنسی ہنسنے پر مجبور تھا۔۔  ’یہ سب تو دانشوری، دانشمندی کی باتیں ہیں۔ ہے۔۔ ہے۔۔ ‘

مصنف کے الفاظ کھو گئے تھے۔۔  لیکن وہم و گمان کی ایک بے نام سی کہانی یہ بھی تھی کہ مصنف نے وہ داغ دیکھے۔۔  اور یقیناً وہ داغ اُس کی گردن پر موجود تھے۔۔

لیکن اس کہانی کے ساتھ، اس بے معنی گفتگو، ڈراکیولا اور صوفیہ مشتاق احمد کی گردن میں پڑے ڈراکیولا کے نوکیلے دانتوں کے نشان کا کوئی رشتہ نہیں ہے — لیکن اس گفتگو کے بعد ہی اس کہانی کی بنیاد پڑی تھی، اور یقیناً — اب جو کچھ میں سنانے جا رہا ہوں، وہ بیان کی شکل میں ہے اور اس بیان میں، میں شامل ضرور ہوں، لیکن یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ اس کہانی میں، اپنی طرف سے میں نے کوئی اضافہ یا الٹ پھیر نہیں کی ہے۔۔  اس سے پہلے کہ الگ الگ بیانات کا سلسلہ شروع ہو، مختصراً اس کہانی کے کرداروں سے آپ کا تعارف کرا دوں۔ دلّی جمنا پار رہائشی علاقے میں ایک چھوٹی سی مڈل کلاس فیملی — بڑی بہن ثریا مشتاق احمد۔ عمر پینتیس سال۔ ثریا کے شوہر اشرف علی — عمر چالیس سال۔ نادر مشتاق احمد، ثریا کا بھائی۔ عمر 30سال۔ اور ہماری اس کہانی کی ہیروئن (نہیں معاف کیجئے گا، بڑھتی عمر کے احساس کے ساتھ ایک ڈری سہمی سی لڑکی ہماری کہانی کی ہیروئن کیسے ہوسکتی ہے):صوفیہ مشتاق احمد، عمر 25سال۔

تو اس کہانی کا آغاز جنوری کی 8تاریخ سے ہوتا ہے۔ سردی اپنے شباب پر تھی۔ سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ دانت ٹھنڈی لہر سے کٹکٹا رہے تھے۔ لیکن جمنا پار، پریہ درشنی وہار، فلیٹ نمبر بی 302 میں ایک ناخوشگوار حادثہ وقوع پذیر ہو چکا تھا۔

کوئی تھا، جو تیزی سے نکلا — پہلے لڑکھڑایا، پھر باہر والے دروازہ کی چٹخنی کھولی اور تیز تیز، سرد رات اور کہاسوں کے درمیان، سیڑھیوں سے اُترتا ہوا، بھوت کی طرح غائب ہو گیا —

’وہ چلا گیا۔۔ ‘ یہ جیجو تھا۔ صوفیہ مشتاق احمد کا جیجو، آنکھوں میں خوف اور الجھن کے آثار — وہ چلا گیا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے۔۔ ‘

نادر مشتاق احمد نے نظر یں اٹھائیں۔ منظر کچھ ایسا تھا جیسے ویتنام اور ناگا ساکی، ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ندیوں سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے آسمان چھو گئے ہوں  — ’کیا ہوا، اُسی سے پوچھتے ہیں۔‘

’لیکن، کیا پوچھیں گے آپ — ثریا جیجو کی طرف مڑی۔ پھر ایک لمحے کو نظر اٹھا کر اُس نے نادر کی طرف دیکھا — جذبات پر قابو رکھو، اُف، دیکھو۔۔  وہ کیا کر رہی ہے۔۔ ‘

’شاید وہ آ رہی ہے۔۔ ‘  جیجو نے ہونٹوں پر انگلی رکھی —

’کوئی اُس سے کچھ بھی نہیں پوچھے گا۔‘ یہ ثریا تھی —

’تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو باجی۔ کوئی اُس سے بھلا کیا پوچھ سکتا ہے۔ وہ بھی اس ماحول۔۔  اور ایسے عالم میں۔ لیکن۔۔  کچھ۔۔ ‘

’کچھ نہیں ہو گا۔‘

’ہم نے فیصلہ کرنے میں۔۔ ‘

ثریا مشتاق احمد نے ایک لمبا سانس لیا۔ آواز ڈوبتی چلی گئی — ’کہہ نہیں سکتی۔۔  مگر — اُس نے اپنے شوہر اور نادر مشتاق احمد کی طرف ایک گہری نظر ڈالی — ’’ہم نے آپس میں بات کی تھی۔ اس کے سوا ہمارے پاس دوسرا راستہ ہی کیا تھا۔‘‘

’وہ آ رہی ہے اور اب ہمیں خاموش ہو جانا چاہئے — اور یقیناً ہمارے تأثرات ایسے نہیں ہونے چاہئیں کہ اُسے کسی بات کا شک ہو کہ ہم اُس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں — اور یقیناً ہمیں اُس کی نفسیات کو بھی سمجھنا ہو گا۔‘

یہ جیجو تھا —

باہر کہاسا زمین پر گر رہا تھا۔ رات برف سے زیادہ ٹھنڈی ہو گئی تھی — دروازہ چرچرانے کی آواز ہوئی۔ برف پگھلی۔ دھند چھٹی۔ سامنے صوفیہ کھڑی تھی۔ صوفیہ مشتاق احمد۔ ایک لمحے کو وہ ان کے پاس آ کر ٹھہری۔ لیکن رُکی نہیں  — دوسرے ہی لمحے، وہ اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی —

 

پہلا بیان: ثریا مشتاق احمد

 

میں ثریا مشتاق احمد۔ پیدا ہوئی اترپردیش کے بلند شہر میں۔ محلہ شیخاواں۔ مسلمانوں کا محلہ۔ زیادہ تر شیخ برادری کے مسلمان — پاس میں مسجد تھی۔ پاپا مشتاق احمد کی چھوٹی سی دکان تھی۔ اسٹیشن روڈ پر۔ پنج گانہ نمازی — پیشانی پر سجدے کے داغ۔چہرہ ایسا نورانی اور معصوم کہ میں نے زندگی میں آج تک نہیں دیکھا اور ممی تو جیسے گائے تھیں۔ نادر چھوٹا بھائی تھا۔ اُس سے پانچ سال چھوٹا اور صوفیہ اس سے دس سال چھوٹی تھی — بچپن میں چھوٹی چھوٹی آنکھیں مٹکاتی تو اس کی شرارت سے سارا گھر خوشی سے جھوم جایا کرتا۔

کالج میں داخلے سے قبل ہی اشرف زندگی میں آ گئے تھے — کیسے — ؟ یہ لمبی کہانی ہے۔ چھوٹے سے شہر میں ایسی کہانیوں کے پر لگ جاتے ہیں۔ پھر کبوتر کی طرح پرواز کرتی یہ کہانیاں شیخاواں کے ایک گھر سے دوسرے گھر میں گونجنے لگی تھیں —

مما کو ہائپرٹینشن تھا —

پاپا جلد گھر آ جاتے تھے، طبیعت کی گرانی کا بہانہ بنا کر — پڑوس والی مسجد سے نماز کی صدا بلند ہوتے ہی، وہ تیز تیز لپکتے مسجد پہنچ جایا کرتے۔ وہاں سے آتے تو لفظوں کے تیر سے اُداس اور گھائل ہوتے — ممی اور وہ گھنٹوں اشرف کے بارے میں باتیں کرتے رہتے — مثلاً کیوں آتا ہے۔ کیا کام ہے — خاندان تو اچھا ہے نا — یہ لڑکی ناک تو نہیں کٹائے گی۔ صوفیہ تو کافی چھوٹی ہے —

نادر نے صرف ایک بار جلتی آنکھوں سے میری آنکھوں میں دیکھا تھا — ’بجیا، یہ کیا تماشہ ہے۔ چاروں طرف تم دونوں کے ہی ریڈیو بج رہے ہیں۔‘

’تو بجنے دو نا۔۔ ‘

تب گول گول آنکھیں نکال کر صوفیہ نے میری طرف دیکھا تھا۔

’ایک ریڈیو میرے لئے بھی لادو نا۔۔ ‘

’پاگل، ایک ریڈیو نے ہی طوفان مچا دیا ہے۔۔ ‘ نادر ناگواری سے بولا

لیکن میں یہ کہانی کیوں سنا رہی ہوں۔ میری اور اشرف کی کہانی میں اگر کچھ دلچسپ ہے تو صرف یہ کہ ہم نے لومیرج کی تھی۔ پھر اشرف دلّی آ گئے اور میں بھی دلّی آ گئی — اور جیساکہ مہانگروں میں ہوتا ہے ایک دن خبر آئی۔ پاپا نہیں رہے۔ دوسرے سال خبر آئی۔ ممی نہیں رہیں۔ شیخاواں اُجڑ گیا۔ گھر ویران ہو گیا۔ بلند شہر سے رشتہ ٹوٹ گیا — نادر اور صوفیہ دونوں دلّی آ گئے۔ کبھی کبھی احساس ہوتا، اشرف ان دونوں کی موجودگی سے پریشان تو نہیں ہیں۔ لو میرج کا یہ بھی ایک فائدہ تھا کہ اشرف کسی بھی بات پر بولتے یا ٹوکتے نہیں تھے۔ مگر من میں کچھ گانٹھیں تو پڑہی جاتی ہیں — کبھی جب اشرف کو، اُن کی اپنی دنیا میں قید اور اُداس دیکھتی تو دل کی بات ہونٹوں پر آ جاتی۔۔

’وہ۔۔  ایک دن پرواز کر جائیں گے۔۔ ‘

’ہاں۔۔ ‘

’کون جانتا تھا، ممی پاپا اس طرح ہمیں ذمہ داریوں سے باندھ کر۔۔ ‘

اشرف کہیں اور دیکھ رہے ہوتے —

’تم ان دونوں کی موجودگی کو لے کر۔۔  نہیں میرا مطلب ہے۔۔ ‘

اشرف گہرا سانس کھینچ کر کہتے ہیں  — ’بچے ہیں۔۔  لیکن۔۔  پرائیویسی کے یہی دن ہیں۔ یہ دن واپس نہیں آتے۔۔  یہ دن چلے گئے تو۔۔ ‘

نہیں، مجھے احساس تھا، اشرف کی رومانی دنیا میں نئی نئی فنتاسی اور خوبصورت کہانیوں کی ایک بڑی دنیا آباد ہے۔۔  وہ اکثر اس کا ذکر بھی کیا کرتے۔۔  مثلاً ہنسی ہنسی میں۔۔  ’ثریا، یہ لباس کیوں بنایا گیا۔۔  شادی کے بعد گھر میں میاں بیوی کو لباس نہیں پہننا چاہئے۔۔  نیچرل ڈریس۔۔  آخر ہم قدرتی لباس میں کیوں نہیں رہ سکتے۔۔ ؟ بس یہی تو چار دن ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ سوئمنگ۔۔  ایک ساتھ۔۔ ‘

اشرف جب دن میں مجھے لے کر کمرہ بند کرنے کی کوشش کرتے تو وحشت سی ہوتی — صوفیہ کیا سوچے گی۔ بڑی ہو رہی ہے۔ پھر جیسے کمرے کے بند سناٹے میں کوئی کیڑا چپکے سے منہ نکالتا — اشرف ایکدم سے بوکھلا کر اُس سے الگ ہو جاتے۔ خود ہی آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیتے۔۔

’جاؤ۔ تمہیں آزاد کرتا ہوں۔‘

٭٭٭

 

 

 

(3)

 

مصنف سے ثریا مشتاق احمد کی مختصر سی گفتگو کے کچھ حصے

 

’’تو گویا تم سمجھ رہی تھی۔۔  کہ کیڑے۔۔ ‘

’ہاں۔۔ ‘

’یقیناً یہ کیڑے صوفیہ نے بھی دیکھے تھے۔۔ ؟‘

’اور نادر نے بھی۔۔ ‘

’پھر ؟‘

’نادر کو اپنی خود داری کا احساس تھا — وہ ایک بوجھ کی طرح اس گھر میں رہنے کے خلاف تھا اور اسی لئے اپنے لئے ایک چھوٹی سی نوکری کا بندوبست کرتے ہی۔۔ ‘

’اُس  نے یہیں تمہارے قریب ایک فلیٹ لے لیا۔‘

’ہاں۔ اور پھر صوفیہ کو بھی لے گیا۔۔ ‘

’نہیں۔ شروع میں نہیں لے گیا۔ اُسے اپنی مجبوریوں کا احساس تھا۔ مگر۔۔  صوفیہ چپ چاپ رہنے لگی — سارا سارا دن گم صم — اپنے آپ میں کھوئی ہوئی۔ کسی سے بولنا چالنا تک نہیں۔ بس جی چاہا تو کبھی کبھی ٹی وی کے آگے بیٹھ گئی۔ اُس کا بس چلتا تو سارا سارا دن بستر پر سوئی رہتی — مگر جیجو اور پرائے  گھر میں رہنے کا احساس۔۔  اور اچانک اُس دن۔۔  وہی کیڑا۔۔

’کیڑا۔۔ ؟‘

ثریا مشتاق احمد اپنے بیان میں گم ہو گئی تھیں۔

 

ثریا مشتاق احمد کے بیان کا دوسرا حصہ

 

مٹیا مارفوسس۔ آپ نے یقیناً یہ کہانی پڑھی ہو گی۔ نہیں، میں کیڑے میں، یا کیڑا مجھ میں تبدیل ہو گیا، ایسی کوئی بات نہیں۔ مگر وہ تھا، یہیں — کمرے میں  — صبح، سورج نکلنے سے پہلے ہی، بسترچھوڑتے ہوئے، میں نے اُسے اشرف کی آنکھوں کے پاس رینگتے ہوئے صاف دیکھا تھا۔ نہیں، مجھے کہیں سے کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ یقیناً وہ تھا۔ اور میرے بھگانے سے پہلے ہی۔۔

اُس دن ارم کا برتھ ڈے تھا۔ اِرم کون۔ میری بیٹی۔ اشرف کی آنکھوں کا تارا۔ پانچ برس کی ارم کولے کر اشرف کی آنکھوں میں خوابوں کے اتنے جھومر اور فانوس دیکھے کہ ڈر ڈر جاتی۔۔  وہ ایک خوبصورت شیشے کا ایکوریم تھا، جو اشرف اُس کے لئے خصوصی طور پر لے کر آئے تھے — شیشے کی رنگین دنیا میں تیرتی سپنیلی مچھلیاں۔۔  ’یہ سون مچھریاں ہیں۔۔ ‘ اشرف نے کہا تھا — ایک دن میری بٹیا اس سے بھی خوبصورت ایک سون مچھلی بن جائے گی — انسانی سون مچھلی۔ پھر اپنی ہی بات پر وہ زور سے ٹھہاکہ لگا کر ہنسے تھے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے شام کی پارٹی کے بارے میں وہ کچھ تفصیلات بتا کر گئے تھے۔ بچوں کی فہرست بن گئی تھی۔ ڈرائنگ روم خوبصورت ڈھنگ سے سجانے کے لئے کہہ گئے تھے۔۔ ’ کیڑا‘۔۔  ایک بار پھر اشرف کے دروازہ کے باہر نکلتے ہی میں نے کیڑے کی جھلک دیکھی تھی۔ کیڑا۔۔  میں چیختے چیختے رہ گئی — تب تک اشرف باہر نکل چکے تھے۔۔  چار بجے شام میں وہ واپس آئے تو ڈرائنگ روم کو ویسے کا ویسا پا کر وہ چیخ اٹھے۔

’صوفیہ کہاں ہے۔۔ ‘

’وہ۔۔  سورہی ہے۔۔ ‘

’ سات بجے تک محلے ٹولے کے بچے آ جائیں گے اور ابھی تک وہ سورہی ہے۔ اتنے سارے لوگوں کو پالنے کا ٹھیکا لے لیا ہے تم نے۔ یہ سونے کا وقت ہے۔۔  اور تم۔۔  تم کیا کرتی رہی۔۔ ‘

اشرف غصے سے بول رہے تھے۔۔  کیڑا اُن کی آنکھوں کی پتلیوں پر چپ چاپ بیٹھا تھا۔ کمرے سے باہر نکل کر دیوار سے سٹی ہوئی، تھر تھر کانپ رہی صوفیہ کو میں نے پہلی بار دیکھا — شاید اشرف نے بھی صوفیہ کا یہ رنگ دیکھ لیا تھا۔ ایک لمحے کو وہ ٹھہرے۔ پھر اپنے کمرے میں داخل ہو گئے۔ دروازہ زور سے بند کر لیا —

 

نادر مشتاق احمد کا بیان

 

نہیں۔ میں اشرف بھائی کو قصوروار نہیں ماننا۔ یقیناً ہم نے اُن کی زندگی میں سیندھ لگائی تھی۔ تقدیر کی مجبوری اپنی جگہ، لیکن اپنے اپنے فیوچر کے لئے کسی کی زندگی میں جبراً ہمیں داخل ہونے کا کیا حق تھا — صوفیہ اُس دن کا فی روئی تھی۔ مجھے احساس تھا۔ شاید جان لیوا تنہائی کے اُداس مکالمے اُسے بار بار پریشان کر رہے تھے۔ مجھے اُسے ایک بھائی کی سطح پر، اس سناٹے سے باہر نکالنا تھا۔ اور میں نے اُسے نکالا۔ دوسرے دن، یعنی اس ناخوشگوار حادثے کے دوسرے دن میں اُسے اپنے گھر لے گیا اور ایک دو ماہ بعد اُس کا داخلہ کمپیوٹر میں کرا دیا۔ شاید اُسے اپنی تنہائیوں کو بانٹنے کا موقع مل جائے۔ میں جانتا تھا۔ وہ کوئی دوست نہیں بنا سکتی۔ بوائے فرینڈ تو بالکل نہیں۔ لیکن بڑی ہوتی صوفیہ کی ذمہ داری سے آزاد ہونے کا خیال مجھے زیادہ ستائے جا رہا تھا۔ کیونکہ مجھے امریکہ جانا تھا۔ میرے خواب امریکہ میں بستے تھے اور پھر شروع ہوا آنکھ مچونی کا کھیل — نہیں صاحب۔پہلی بار احساس ہوا، کہ بجیا نے خود لڑکا پسند کر کے کتنی قابلیت دکھائی تھی — رشتہ دار، عزیز، جان پہچان والے، رشتہ گھر، شادی ڈاٹ کام، مہندی ڈاٹ کام۔۔ لڑکا دیکھنے کا سفر شروع ہوا تو جیسے ایک نئے بازار کو دیکھنے کا موقع ملا۔ نہیں صاحب۔ مجھے معاف کیجئے۔ یقیناً اس لفظ سے بہتر کوئی لفظ میرے پاس نہیں ہے۔ بازار — ہر کسی نے اپنے اپنے جانور کو پال پوس کر تیار کیا تھا۔ بقر عید کے موقع پر فروخت کرنے کے لئے — قیمتیں آسمان چھو رہی تھیں۔اُس پر گھر گھرانہ، شجرۂ نسب کی تفصیل — یہ بازار میرے لئے اور بجیا کے لئے نیا تھا۔ صوفیہ ہمیں گاڑی میں آتے جاتے ہوئے دیکھتی۔ بجیاکو فون پر باتیں کرتے ہوئے سنتی۔ پھر واپس آ کر ہمارے خاموش چہرے پر اپنی ادھ کھلی آنکھیں رکھ کر، واپس اپنے کمرے میں لوٹ جاتی — بجیا کو کبھی کبھی غصّہ آ جاتا۔۔

’سب کے رشتے ہو جاتے ہیں۔ مگر یہاں۔۔ ‘

جیجو ایک لمبا سانس بھر کر کہتے۔۔ ’ فکر کیوں کرتی ہو، آسمان سے ایک دن۔۔ ‘

وہ صوفیہ کے کمرے میں جاتے۔ اُسے بانہوں کے سہارے واپس لے کر آتے — ’’کیا کمی ہے اس میں۔۔  اور ابھی عمر کون سی نکلی جا رہی ہے۔۔ ‘ وہ ایک بار پھر ٹھنڈا سانس بھرتے۔ ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ کیوں صوفیہ۔ ایک دن چپکے سے ایک شاہزادہ آئے گا اور ہوا کے رتھ پر بیٹھا کر۔۔  ‘‘

’نہیں۔ کوئی نہیں آئے گا۔‘ صوفیہ مسکرانے کی کوشش کرتی۔

’آئے گا۔۔ ‘ جیجو میری طرف مڑتے۔ ’نادر، اس قدر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ صوفیہ سے زیادہ خوبصورت لڑکی میں نے کم ہی دیکھی ہے، اس کا اعتراف کرتا ہوں۔ مگر کمی کیا ہے صوفیہ میں — ‘ جیجو ہنستے۔ بس ایک کمی ہے۔ خوبصورت کے ساتھ خوب سیرت بھی ہے۔ اور خوب سیرت ’لڑکیوں کے بازار ذرا ٹھنڈے ہیں۔۔ ‘

’میں کیا خوب سیرت نہیں تھی۔۔ ‘ ثریا آنکھیں تریرنے کی کوشش کرتی تو جیجو فلک شگاف قہقہہ بلند کرتے — ’ خود پر کیوں لیتی ہو۔ صوفیہ مختلف ہے۔ اور ایک دن۔۔

میں سوچتا تھا۔ ایک دن ۔۔  ایک دن کیا ہو گا — کوئی معجزہ ہو جائے گا___ چمتکار۔ امریکہ بار بار خوابوں میں منڈلاتا ہے۔ نہیں ہنسیے مت — پریتی زنٹا، منموہن سنگھ اور ہمارے نیتاؤں سے زیادہ کلنٹن، بش اور کیری مجھے اپنے لگتے تھے۔ جینفر لوپیز کے خیالوں میں، میں زیادہ ڈوبا رہتا تھا — ہاں، یاد آیا۔ایک لڑکا اور آیا تھا۔ فریاد عارف۔ لدھیانہ کا۔ قد پانچ فٹ دس انچ۔ عمر چالیس سال۔ باہر رہنے کا دس برس کا تجربہ تھا۔ عمر زیادہ تھی تو کیا ہوا۔ یہ رشتہ ہمیں نیٹ سے ملا تھا۔ صوفیہ کی تصویر اور بایوڈاٹا لڑکے کو پسند آیا تھا۔ اُس کی تصویر بھی نیٹ سے ہم نے نکال لی تھی۔ شکل اچھی نہیں تھی۔ لیکن کیا شکل ہی سب کچھ ہوتی ہے۔۔  ہاں، اُس کے ہونٹوں کے پاس ایک داغ تھا۔۔  پتہ نہیں، کس چیز کا داغ تھا۔ جلنے کا یا۔۔  مگر داغ تھا — ڈرتے ڈرتے ہم نے تصویر صوفیہ کے حوالے کی۔ مگر تصویر دیتے ہوئے یقیناً ہمارے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ نظر جھکی ہوئی تھی۔

 

 

صوفیہ مشتاق احمد کا بیان

 

تصویر ہاتھ میں لیتے ہی میں ہنس پڑی تھی۔ یہ پاپا کے کوئی دوست ہیں کیا۔۔  نہیں، کم از کم جیجو مجھ سے اتنا بُرا مذاق نہیں کر سکتے۔ جیجو کے گھر سے باہر آنے کے بعد بھی میں جیجو کے لئے ذرا بھی خفا نہیں تھی۔ یقیناً وہ سب سے زیادہ مجھے پہچانتے تھے۔ اور میرے لئے سب سے زیادہ جنگ بھی، وہی لڑتے تھے اور خاص طور پر ایسے موقع پر، جب کمرے میں یکایک کالی کالی بدلیاں چھا جاتیں۔۔  پھر جیسے تیز تیز آندھیوں کا چلنا شروع ہو جاتا۔ نہیں، میں نے تصویر دوبارہ دیکھی۔۔  اور اچانک چہرے کا طواف کرتی آنکھیں داغ کے نشان کے پاس آ کر ٹھہر گئیں۔ ہونٹ کے نیچے کا حصہ۔۔  تصور اور خیالوں کی وادیوں میں، بوسے کے لئے سب سے خوبصورت جگہ۔ میں تو اس جگہ کا بوسہ بھی نہیں لے سکتی۔ میں ہنس رہی تھی۔ پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھی۔ کمرے میں دھند بڑھ رہی تھی۔ شاید باہر جیجو، بجیا اور نادر بھائی نے میرے ہنسنے کی آوازیں سن لی تھیں۔۔

’صوفیہ۔‘

دروازے پر تھاپ پڑ رہی تھی۔

نادر غصے میں تھے۔۔  ’دروازہ کیوں بند کر لیتی ہو۔‘

بجیا کی آنکھوں میں ایک لمحے کو ناگواری کے بادل لہرائے۔۔ ’ہم نے ابھی رشتہ منظور کہاں کیا ہے۔ صرف تم سے رائے پوچھی ہے۔۔

’نہیں۔ وہ۔۔  کیڑا۔‘

دروازہ کھولتے ہوئے میری آنکھیں وحشت میں ڈوبی تھیں  — جیجو نے سہارا دیا — صوفے تک لائے — کچھ ہی دیر میں مکالمے بدل گئے۔

’مگر کیڑا۔۔ ‘

نادر نے بجیا کی طرف دیکھا — ’کیڑے بڑھ گئے ہیں۔ کیوں۔ رات بھر کاٹتے رہتے ہیں۔ دوا کا چھڑکاؤ کرو۔ یاگڈ نائٹ لگاؤ۔ مگر کیڑے نہیں بھاگتے۔۔ ‘

بجیا یعنی ثریا مشتاق احمد نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ہونٹوں پر ایک طنز بھری مسکان تھی۔

’آپ یقین جانیے، کوئی تھا۔ جو دیواروں پر رینگ رہا تھا۔ ایک دم سے کمرے کی دھوپ اُتر گئی۔ تاریکی چھا گئی ۔۔  کمرے میں کہاسے بھر گئے اور۔۔  میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر۔۔  میں نے دیکھا۔۔  جیجو آہستہ آہستہ میری طرف دیکھ رہے تھے — پھر اُن کے ہونٹوں پر ایک مصنوعی مسکراہٹ داخل ہوئی —

’ایک ستارہ آئے گا۔۔ ‘

’’ستارے آسمان سے آتے آتے لوٹ گئے۔۔ ‘‘ یہ بجیا تھی۔

’’ہاں، لیکن گھبراؤ مت، ایک ستارہ آئے گا اور یوں اچھل کر تمہاری جھولی میں جا گرے گا۔۔ ‘ یہ جیجو تھے — ہونٹوں پر ہنسی۔ پھر وہ تمہاری آنکھوں میں، کبھی ہونٹوں پر آ کر چیخے گا۔۔  یہ میں ہوں۔پاگل۔ پہچانا نہیں مجھے۔ تمہاری قسمت کا ستارہ۔۔

’اُس کے چہرے پر دھوپ بہت تھی۔ تم نے دیکھا نا‘ — بھائی نظر نیچی کئے بہن کو ٹٹول رہا تھا۔

’’میں جگنو تلاش کرنے گئی تھی۔ راستہ بھٹک گئی — ‘یہ وہ تھی۔ اُس کی آواز اندر کے روشن دان سے بلند ہوئی اور اندر ہی اندر گھٹ گئی۔

 

 

جیجو کا بیان

 

دراصل اُس 40سال کے ادھیڑ مرد کی تصویر دیکھ کر مجھے خود بہت غصہ آیا تھا — نادر اور ثریا، رشتہ کے لئے مجھے کم ہی لے جاتے تھے۔ دراصل وہ اس ’مہرے‘ کو آخری وقت کے لئے بچا کر رکھنا چاہتے تھے اور کسی خاص موقع پر ہی خرچ کرنا چاہتے تھے۔ یہ سب میرے لئے بھی نیا تھا۔ کیونکہ ہر برس بدلتے کلینڈر کے ساتھ ہی، میں صوفیہ کو دیکھ کر اُداس اور پریشان ہوا جا رہا تھا اور آپ سمجھ سکتے ہیں، خود صوفیہ کی کیا حالت ہو گی — میرے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ مسلمانوں کے یہاں، ایک خوبصورت جوان لڑکی کی شادی کو لے کر اتنی ساری الجھنیں سامنے آسکتی ہیں — گھر گھرانہ اچھا۔خاندان سیّد۔ مگر کسی کو لڑکی کا قد کچھ کم لگتا۔ کسی کو عمر کچھ زیادہ۔ کبھی کبھی جی چاہتا کہ پوچھنے والوں کا گریبان پکڑ کر کہوں، کہ اٹھارہ سال سے رشتہ تلاش کرتے ہوئے تم لوگوں نے اسے 23سال کا کر دیا ہے اور اب — شاید میرے اسی غصّے کی وجہ سے نادر اور ثریا مجھے کبھی اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ مگر۔۔  کبھی کبھی اپنی بڑی ہوتی ارم کو دیکھ کر گہری سوچ میں گرفتار ہو جاتا۔ کیا میرے ساتھ بھی — اور ہوا یوں کہ اچانک اُس دن ارم کو دیکھا تو چونک گیا — ارم غائب تھی۔ ارم میں صوفیہ آ گئی تھی —

٭٭

 

قارئین، ایک بار پھر مداخلت کے لئے معافی چاہوں گا۔ کہانی شروع ہوئی تو سوچ کے دائرے پھیلتے چلے گئے۔ یہ میں کہا ں جا رہا ہوں۔ کیا یہ بھی کوئی کہانی ہوسکتی ہے۔ ایک مسلمان لڑکی کو لڑکے کی تلاش ہے۔ عمر 23سال، خوبصورت، تعلیم یافتہ — تہذیب کی اتنی صدیاں پار کرنے کے بعد بھی، چوتھی دنیا کے ہتھیاروں کی ریس میں آگے نکلنے والے ایک بڑے ملک میں، یہ مسئلہ ایک کہانی کا جزو بن سکتا ہے، میں نے کبھی سوچا نہیں تھا —

اُس دن، میں دوبارہ نادر مشتاق احمد کے گھر گیا۔ دروازہ کے پاس پہنچ کر بیل پر اُنگلی رکھی۔ دروازہ کھولنے والی وہی تھی۔

’آئیے۔‘

’نادر؟‘

’وہ باہر گئے ہیں۔‘

صوفیہ، صوفے پر دھنس گئی۔ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد بولی —

’چائے بناؤں !‘

’نہیں۔ ابھی رہنے دو۔‘

میں آہستہ آہستہ آنکھیں گھماتا کمرے کی ویرانی کا جائزہ لے رہا تھا۔ دیوار پر قطار میں اُڑتی چار چڑیائیں کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہی تھیں۔ تیسری والی چڑیا کی قطار ٹوٹ گئی تھی۔ تیسری چڑیا کیل سے جھول رہی تھی۔ پتہ نہیں کب سے۔ دیوار کے کنارے پر مشتاق احمد کی تصویر لگی تھی۔ تصویر پر ذرا بھی گرد نہیں تھی۔جیسے ابھی ابھی گرد صاف کی گئی ہو۔ لیکن کمرے کی باقی چیزیں۔۔

’اندھیرا ہے‘ میں آہستہ سے بولا۔ جبکہ دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ کھڑکی کے پاس پردہ پڑا تھا۔

’اِس گھر میں ہمیشہ اندھیرا رہتا ہے۔۔ ‘ صوفیہ آہستہ سے بولی۔

’اور وہ ڈراکیولا۔۔ ‘

میں آہستہ آہستہ کھڑکی کے پاس بڑھا —

’نہیں، یہاں نہیں۔۔۔ ‘ یہاں میرے ساتھ آئیے۔ میرے کمرے میں۔۔ ‘

وہ تیزی سے اٹھی — مجھے لے کر اپنے کمرے میں آ گئی — سنگل بیڈ کا دیوان پڑا تھا — چادر کئی دنوں سے بدلی نہیں گئی تھی — کمرہ بے رونق تھا اور یقیناً اس کمرے میں کھڑکی کے راستے گھنے کہرے، داخل ہو جاتے ہوں گے —

’یہاں۔۔  یہاں سے۔ یہ دیوار جو ہے۔۔  آپ دیکھ رہے ہیں نا۔۔ ‘

’مگر یہاں تو کوئی قبرستان نہیں ہے۔‘

’آہ۔ نہیں ہے۔۔ ‘ صوفیہ اپنے بستر پر بیٹھ گئی — ’میں نے کب کہا کہ یہاں قبرستان ہے۔ مگر بن جاتا ہے۔ رات کے وقت۔ اپنے آپ بن جاتا ہے — دھند میں ڈوبا ہوا ایک قبرستان۔ ڈھیر ساری قبریں ہوتی ہیں۔ ایک کھلا ہوا ’کوفن‘ ہوتا ہے۔ وہ یہاں۔۔  یہاں دیواروں پر رینگتا ہوا، کھڑکی سے اچانک میرے کمرے میں کود جاتا ہے۔۔‘

’یقیناً، وہم۔۔  اور وہم کا تعلق تو۔۔ ‘

’مجھے پتہ ہے۔ وہم ہے میرا۔ مگر کیا کروں۔ وہ رات میں، آپ یقین کریں میرے کمرے میں ہوتا ہے۔۔ ‘

’کیوں ؟‘

’اب یہ بھی بتانا پڑے گا بھلا۔ خون پیتا ہے۔۔  یقین نہیں ہو، تو یہ داغ دیکھئے۔‘ اُس نے اپنی گردن دکھائی۔ گردن پر یقیناً نیلے داغ موجود تھے۔

’کوئی یقین نہیں کرتا۔ میں بھی مانتی ہوں، وہم ہے مگر۔ وہ ہے۔ وہ آتا ہے۔۔ اور ۔۔ ‘

میں نے کہانی بدل دی۔ ’اوہ۔۔  تم نے بتایا تھا۔ تم بار بار مرتی تھی —

’کون نہیں مرے گا ایسے — جب آپ بار بار اُسے سجا کر باہر لے جاتے ہوں۔ یا کبھی کبھی سج دھج کر گھر میں ہی نمائش یا میلہ لگا دیتے ہوں۔ ایک حد ہوتی ہے۔ کوئی بھی کتنی بار مرتا ہے۔ کتنی بار مرسکتا ہے کوئی۔ میں تو ہر بار، ہر پل۔۔ ‘

صوفیہ کہتے کہتے رُک گئی تھی —

’مگر اُس دن نہیں مری۔ اُس دن۔ میں نے سوچ لیا تھا اور مطمئن تھی۔‘

’اُس دن۔۔ ‘

’ارے وہی۔ اِن ڈسنٹ پروپوزل۔‘ وہ کہتے کہتے رُکی — ایک ہنسی چہرے پر شعلے کی طرح کوندی۔ پروپوزل، کبھی بھی ان ڈسنٹ نہیں ہوتا۔ مگر بجیا اور بھیا کسی ساتویں عجوبے کی طرح اُس پروپوزل کو لے رہے تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں پہلی بار کمرے میں کھلکھلا کر ہنسی تھی۔ ’اب مزہ آئے گا۔‘ وہ ٹھہری — پھر بولی۔ اب کسی کو کیا پتہ۔ میرے جسم میں کتنے انگارے اکٹھا ہو گئے ہیں۔ اب تو شاید سرد بھی ہونے لگے ہوں یہ انگارے — نہیں، سرد نہیں۔ بڑھتے بڑھتے پورے جسم میں پھیل گئے ہیں۔ پھیلتے پھیلتے۔۔  آپ نہیں سمجھیں گے۔‘ اُس نے گہرا سانس لیا۔

’لیکن پروپوزل۔؟‘

’’وہ بھی نیٹ سے برآمد ہوا تھا۔ صوفیہ کے ہونٹوں پر ہنسی تھی — ’ عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ تھکے ہارے لوگوں کے لئے یہ بھی ہاتھ آیا ایک موقع تھا مگر — جس وقت بجیا اور بھائی اُس سے ملنے ہوٹل گئے، وہ ہوٹل کی لابی میں بیٹھا سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ یہ بجیا نے ہی بتایا۔

٭٭٭

 

 

 

 

(5)

 

اِن ڈسنٹ پروپوزل

 

ہوٹل کی لابی میں اس وقت زیادہ لوگ نہیں تھے۔ نادر اور صوفیہ اُس کے سامنے بیٹھے تھے۔ وہ سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ ظاہر ہے، وہ لڑکی کی تصویر دیکھ چکا تھا۔ لیکن اُس نے ملنے کا تجسس نہیں دکھایا تھا۔ سگریٹ کے گول گول مرغولے کے درمیان اُس کے چہرے کے تأثر کو پرکھا نہیں جا سکتا تھا —

نادر نے گلہ کھکھارتے ہوئے اُسے متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اُس کی اُنگلیوں میں، مہنگی سونے کی انگوٹھیاں تھیں۔ عام طور پر مسلمان مردوں میں سونا پہننے کا رواج نہیں ہے۔ گلے میں بھی سونے کا ایک چین پڑا تھا۔ یقیناً اُس کی منشا یہ تھی کہ سامنے والا اُسے کسی رئیس سے کم نہ سمجھے۔

ثریا نے پہلو بدلا اور ناگوار آنکھوں سے نادر کو دیکھا — اُس نے سگریٹ آرام سے ختم کیا۔ ایش ٹرے میں سگریٹ کے باقی ٹکرے کو مسلا۔ پھر مسکرایا —

’معاف کیجئے گا۔ سگریٹ میری مجبوری ہے۔‘

’کیوں نہ ہم معاملے کی بات کریں۔‘ نادر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

وہ ایک بار پھر مسکرایا — ’مجھے بھی جانے کی جلدی ہے۔ دراصل میں سوچ رہا تھا — نہیں، جانے دیجئے۔ کسی بھی چیز کو تاڑ کی طرح کھینچنے میں میری دلچسپی نہیں ہے۔ بھاگتی دوڑتی دنیا میں الجبرے کے فارمولے کی طرح میں نے زندگی گزاری ہے۔ دو پلس دو برابر چار — سمجھ گئے نا۔ میرا پروپوزل ہوسکتا ہے، آپ کو پسند نہیں آئے۔ مگر سوچئے گا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ نہیں پسند آئے تو آپ جا سکتے ہیں۔ کوئی جہیز لیتا ہے۔ کسی کی کوئی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کسی کی کوئی — میرے پاس سب کچھ ہے۔ خود سے حاصل کیا ہوا — اس لئے مجھے کچھ نہیں چاہئے۔‘ وہ ایک لمحے کو ٹھہرا اور دوسرے ہی لمحے جیسے نشانہ سادھ کر اُس نے گولی داغ دی۔۔

’’ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے بہتر ہے کہ ہم ایک رات ساتھ ساتھ گزاریں۔‘‘

اُس نے ہمارے تأثرات کی پرواہ نہیں کی۔ جملہ ختم کرتے ہی اٹھا اور دوسری طرف منہ کر کے دوسرا سگریٹ سلگالیا۔ لائٹر کی خوبصورت ٹیون کے ساتھ ایک شعلہ لپکا تھا، جس کی طرف پلٹ کر دیکھنے کی ہم نے ضرورت محسوس نہیں کی —

 

صوفیہ کا جواب

 

واپس گھر لوٹنے تک جیسے یہ دنیا ایک چھوٹے سے سیپ میں بند ہو چکی تھی۔ صوفے پر برسوں کی بیمار کی طرح ثریا دھنس گئی۔ دوسرے صوفے پر نادر نے اپنے آپ کو ڈال دیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ دل و دماغ پر پتھراؤ جاری تھا — کب کس وقت صوفیہ آ کر قریب میں بیٹھ گئی، پتہ بھی نہیں چلا۔ مگر جیسے ساری دنیا الٹ پلٹ ہو چکی تھی — سیپ کے منہ کھل گئے تھے۔ یا سیپ، لہروں کی مسلسل اُچھال کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی تھی۔

’کیوں، کیا ہوا۔۔ ؟‘

یہ صوفیہ تھی۔ معمول کے خلاف اُس کے ہونٹوں پر ایک ہنسی بکھری ہوئی تھی — جیسے وہ یقیناً اس موسم کی عادی ہو چکی ہو۔۔ !

جیجو پاس میں آ کر بیٹھ گئے۔ صوفیہ نے جیجو کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنس دی۔

’یہ آتش بازی بھی پھس ہو گئی۔ کیوں جیجو۔۔ ؟‘

لیکن یہ سچ نہیں تھا۔ نادر مشتاق احمد اور ثریا مشتاق احمد کی آنکھوں میں حساب کتاب کا سلسلہ جاری تھا —

’بتا دوں ؟‘ یہ نادر مشتاق احمد تھا۔

’نہیں، جیجو نے درد کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں —

’بتانے میں حرج ہی کیا ہے۔۔ ‘ ثریا کی آواز دبی دبی تھی۔۔

’نہیں۔ مجھے بتائیے۔‘ صوفیہ اور قریب آ گئی۔ میں جانتی ہوں مجھے کوئی پسند نہیں کر سکتا۔ میں کتنی بار آپ لوگوں سے کہہ بھی چکی ہوں۔ مگر — اﷲ کے واسطے بتایے ہوا کیا ہے۔۔ ‘

اور پھر، جیسے ایک کے بعد ایک آتش بازی چھوٹتی چلی گئی۔ آتش بازیوں کا کھیل رُکا تو دوسرا بم کا گولہ صوفیہ نے داغ دیا۔

’میں تیار ہوں۔ اُسے آنے دیجئے۔ کب بلایا ہے — ‘ ثریا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے، اُس نے اپنا فیصلہ سنا دیا — میں تھک گئی ہوں۔ اب حوصلہ نہیں ہے، اب یہ کھیل ختم ہو جانے دیجئے۔ اب ایک آخری کھیل — ہم سب کے فائدے کے لئے۔ وہ پھر رُکی نہیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی —

٭٭

 

قارئین۔ کوئی دنیا اس سے زیادہ خوبصورت اور کوئی دنیا اس سے زیادہ بدصورت نہیں ہوسکتی۔ یہ میرا ماننا ہے۔ اور شاید یہ اسی لئے بطور مصنف میں اس کہانی کا گواہ رہا — بطور مصنف میں نے اپنے آپ کو بھی اس کہانی میں شامل کیا — مجھے نہیں معلوم، ثریا اور نادر نے صوفیہ کی رضامندی کو اپنی منظوری کی ہری جھنڈی کیسے دے دی۔ یا پھر صوفیہ اس پروپوزل کے لئے مان کیسے گئی۔ اس ترقی یافتہ ملک میں شادی کے اس بھیانک بازار کا تصور میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ شاید اسی لئے اس خوفناک کہانی کا انت سنانے کا حوصلہ مجھ میں نہیں ہے اور اسی لئے اب میں آپ کے درمیان سے رخصت ہوتا ہوں  — دسمبر کی بھیانک سردی اپنے عروج پر تھی۔ اُس دن کی صبح عام صبح جیسی نہیں تھی۔ مگر صوفیہ مطمئن تھی۔ وہ شان سے گنگناتی ہوئی اٹھی__ دوپہر تک سرد لہری میں اضافہ ہو چکا تھا —

گھڑی کی تیزی سے بڑھتی سوئیاں ایک نئی تاریخ لکھنے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔

٭٭

 

ڈرائنگ روم میں ایک دوسرے کو گھیر کر سب بیٹھ گئے تھے۔ جیسے کسی میّت میں بیٹھے ہوں۔ جنازہ اٹھنے میں دیر ہو — ایک ایک لمحہ برسوں کے برابر ہو۔ پھر جیسے ہونٹوں پر جمی برف، بھاپ بن کر پگھلی —

’آہ، یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔۔، یہ جیجو تھا۔

’کیا ہو گا؟ ‘ ثریا کی آنکھوں میں اُڑ کر وہی کیڑا آ گیا تھا —

نادر نے بات جھٹکی — رات میں یہ کیڑے پریشان کر دیتے ہیں۔‘

’شی۔۔ وہ آ رہی ہے۔۔ ‘ جیجو نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔۔  ’اور جان لو، وہ کوئی کیڑا نہیں ہے۔‘

اور جیسے وقت تھم گیا — صوفیہ ایک لمحے کو اُن کے سامنے آ کر رُکی —

’آپ لوگ۔۔  آپ لوگ اتنے پریشان کیوں ہیں۔‘

نہیں۔ یہ وہ لڑکی تھی ہی نہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ڈر جانے والی — پتوں کی طرح بکھر جانے والی — اُس کی ساری تیاریاں مکمل تھیں —

وقت آہستہ آہستہ قریب آ رہا تھا۔

اُس نے پلٹ کر جیجو کی طرف دیکھا — نہیں یہ جیجو نہیں تھے۔ جیجو کی جگہ کوئی لاش تھی۔ کاٹو تو خون نہیں۔ آنکھیں بے حرکت۔۔

اُس نے پلٹ کر بھائی کی طرف دیکھا۔ بھائی ہمیشہ کی طرح نظریں نیچی کئے، اپنے آپ سے لڑنے کی کوشش کر رہا تھا —

بہن نے چہرہ گھما لیا تھا۔ اس لئے وہ بہن کے جذبات کو نہیں دیکھ سکی —

پھر جیسے کمرے میں ایٹم بم کا دھماکہ ہوا —

’پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں بس، وہ آتا ہو گا — میں کمرے میں ہوں۔ آپ اُسے کمرے میں ہی بھیج دیجئے گا۔‘

اُس کی آواز نپی تلی تھی۔

پھر وہ وہاں ٹھہری نہیں۔ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اپنے کمرے میں آ گئی —

٭٭

 

کوئی امتحان ایسا بھی ہوسکتا ہے، اُس نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ بچپن سے لے کر آج تک اپنی خاموشی کے ریگستان میں چپ چاپ سلگتی رہی۔ کسی نے اُس کے اندر کی آواز کو کب سنا تھا۔ کسی نے بھی اُس کے اندر کی لڑکی کو کب دیکھا تھا۔ خود اُس نے بھی نہیں۔ نہیں۔ یہ سچ ہے۔ ایک عرصہ سے وہ اپنے آپ سے نہیں ملی۔ کمپیوٹر کوچنگ سے گھر اور گھرسے اپنے اُداس کمرے کا حصہ بنتے ہوئے بس وہ خلاء میں ڈوبتے ابھرتے بھنور کو دیکھنے میں ہی صبح سے شام کر دیتی — کمرے کے آسیب اُسے گھیر کر بیٹھ جاتے — اُسے سمجھنے والا کون تھا۔ اُسے پڑھنے والا کون تھا — وہ عشق نہیں کر سکتی تھی۔وہ اپنے لئے کوئی لڑکا پسند نہیں کر سکتی تھی۔ انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرتے ہوئے اُس کے ہاتھ کانپتے تھے۔ کسی لڑکے سے دو منٹ چیٹنگ کے بعد ہی اُس کی سانس دھونکنی کی طرح چلنی شروع ہو جاتی۔ بدن کانپنے لگتا۔ سائبر کیفے کی ایک ایک شئے گھومتی ہوئی نظر آتی۔ وہ بدحواس پریشان سی گھر آتی تو۔۔ ‘

لیکن گھر کہاں تھا۔ ماں باپ ہوتے تو گھر ہوتا۔ بہن اور جیجو کا گھر، گھر کہاں ہوتا ہے۔ بھائی کا گھر، گھر کہاں ہوتا ہے۔ گھر میں تو سپنے رہتے ہیں۔ سپنوں کے ڈھیر سارے ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار — یہ چھوٹے چھوٹے تارے تو ہتھیلیوں سے چھوٹ چھوٹ کر گرتے رہے۔ اندھیرے کمرے میں آسیبی مکالمے رہ گئے تھے —

’کھانا بنایا — ؟‘

نہیں۔

’کیوں ؟‘

خواہش نہیں ہوئی —

’خواہش یا۔۔ ؟‘

ہونٹوں پر ایک ناگوار ساتأثر اُبھرا۔ کیا بس اِسی کام کے لئے رہ گئی ہوں —

’’ہوسکتا ہے۔ بھائی نے یہی سوچا ہو۔‘‘

’نہیں۔ بھائی اُ س محبت کرتا ہے۔

’سارے بھائی محبت کرتے ہیں مگر۔۔ ‘

’میرا بھائی‘۔۔  وہ کہتے کہتے رُک جاتی۔۔

تمہارا بھائی ہر لمحہ تمہارے اندر ہوتا ہے۔ جانتی ہو کیوں۔؟

’نہیں۔‘

’اُس کے پاس سپنے ہیں۔۔ ‘

’تو۔۔ ؟‘

’وہ اُڑنا چاہتا ہے۔ اُڑ کر اپنے لئے بھی سپنے دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر تم۔ افسوس۔ تم نے اُس کے سپنوں کو راکچھس کے ان دیکھے قلعے میں نظر بند کر رکھا ہے۔ وہ تم سے چھٹکارا چاہتا ہے — ‘

’نہیں۔‘ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر وہ آئینہ کے سامنے کھڑی ہو گئی — ‘ جھوٹ بولتے ہو تم۔ کوئی چھٹکارا نہیں چاہتا۔ سب پیار کرتے ہیں مجھ سے۔ ہاں، بس، عمر کے پنکھ پرانے پڑ رہے ہیں۔ پنکھ پرانے ہو جائیں تو کمزور ہو جاتے ہیں۔ میں ایک بے ارادہ سڑک بن گئی ہوں۔ کوئی گزرنا ہی نہیں چاہتا۔‘

’نہیں ڈرو مت۔‘

کمرے کے آسیب اُسے گھیر رہے ہیں۔ خود سے باتیں کرتے ہوئے سارا دن گزار لیتی ہو۔ پتہ ہے بہن کیا کہتی ہے؟

’نہیں۔‘

’بھائی پر ناراض ہوتی ہے۔ اسی لئے تو تمہیں وہاں سے نکالا گیا۔ تم کوئی کام ہی نہیں کرتی تھی۔ بس سوتی رہتی تھی۔‘

’سوتی کہاں تھی۔ میں تو خود میں رہتی تھی۔ خود سے لڑتی تھی۔‘

’کیا ملا۔ بہن نے بھائی کے یہاں بھیج دیا۔‘

’بھیجا نہیں۔ میں خود آئی۔۔ ‘ کہتے کہتے ایک لمحے کو وہ پھر رُک گئی۔۔

’دراصل تم ٹیبل ٹینس کی بال ہو۔۔  سمجھ رہی ہونا، چھوٹی سی ٹن ٹن۔۔  بجنے والی بال۔۔  لیکن اس بال کو راستہ نہیں مل رہا ہے۔۔

’کیا کروں میں۔۔ ‘

’افسوس، تم ابھی کچھ نہیں کر سکتی — تم صرف آگ جمع کرتی رہو۔ سن رہی ہو نا۔ آگ۔۔  اپنے آپ کو برف کی طرح سردمت پڑنے دو۔ سرد پڑ گئی تو۔۔  لاش کو اپنے گھر کون رکھتا ہے۔ وہ بھی بدبو دار لاش۔۔ ‘

٭٭

 

ٹیبل ٹینس بال کی طرح ادھر اُدھر لڑھکنے کا سلسلہ جاری رہا — پتہ نہیں، وہ کتنی بار مری۔ پتہ نہیں وہ کتنی بار زندہ ہوئی۔ بہن اور بھائی کے ہزاروں سوالوں سے لاتعلق، آسیب سے لڑتی لڑتی تھک گئی تو اُس ’اِن ڈسنٹ پروپوزل‘ کے لئے اُس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

اور یہ حیرت کرنے والی بات تھی — پہلی بار اُسے لگا۔ کمرے میں آسیب اکٹھا نہیں ہوئے ہیں۔ پہلی بار لگا، اُس کے اَن کہے مکالموں کی بھاپ سے کمرے میں ’کہاسے‘ نہیں جمع ہوئے ہوں  — کمرے میں خوف کی چادر ہی نہیں تنی ہو — کمرے میں ڈھیر سارے چمگادڑ نہیں اکٹھا ہوئے ہوں۔ جیسے بہن، دھیرے سے ہنستی ہوئی ایک دن بھائی سے بولی تھی — آسیب، وہاں آسیب رہتے ہیں سمجھاؤ اُسے۔ کمرے کو اپنی خاموشی سے اُس نے آسیب زدہ بنا دیا ہے اور یقیناً اُسے بھائی کا چہرہ یاد نہیں۔ بھائی نے ہمیشہ کی طرح نظریں جھکا کرکچھ دھیرے دھیرے کہنے کی کوشش کی ہو گی۔

مگر آج —

آوازوں کے تیر غائب تھے۔ شب خونی ہوا کا پتھراؤ گم تھا — آئینہ میں وہ پاگل لڑکی موجود نہیں تھی۔ جسے بار بار بہن کی پھٹکار سننی پڑتی تھی۔ نہیں لڑکی۔ ایسے نہیں۔ مانگ ایسے نکالو۔ لباس، کپڑے کیا ایسے پہنے جاتے ہیں۔ زلفیں کیا ایسے سنواری جاتی ہیں۔

وہ دھیرے سے ہنسی —

آئینہ والی لڑکی جو بھی ہنسی —

پھر وہ تیز تیز ہنستی چلی گئی —

٭٭

 

کمرے کی دیوار گھڑی پر ایک اُچٹتی نظر ڈال کر وہ کمرے سے ملحق باتھ روم میں چلی گئی۔ کمرے کا دروازہ اُس نے بھیڑ دیا تھا تاکہ ’اُس کی‘ آہٹ کی اطلاع اُسے باتھ روم میں مل سکے۔ باتھ روم کا ٹائلس ذرا سا گندہ ہو رہا تھا۔ اُس نے شاور کے نیچے کے دونوں نل کھول لیے۔ گیزر چلا دیا۔ گرم گرم پانی جب تلووں سے ہو کر بہنے لگا تو وہ ٹائلس کو اپنے بے حد ملائم گورے ہاتھوں سے تیز تیز رگڑ نے لگی۔ ٹائلس کے چاروں طرف صابن کے جھاگ پھیل گئے تھے۔ اُس نے اپنے لئے ایک بے حد خوبصورت اور سینسیشنل نائیٹی کا انتخاب کیا تھا۔ یہ نائیٹی سیاہ رنگ کی تھی۔ جو اُس کے گورے ’جھنجھناتے‘ بدن سے بے پناہ میچ کھاتی تھی۔ نائیٹی اُس نے باتھ روم کے ہینگر میں ٹانگ دی۔ صابن کے گرم گرم جھاگ اور فواروں سے، وہ کچھ دیر تک اپنے ننگے پاؤں سے کھیلتی رہی — پھر مدہوشی کے عالم میں ٹوٹتے بنتے جھاگوں کے درمیان بیٹھ گئی — ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں۔ دوسرے ہی لمحے کپڑے اُس کے بدن سے آزاد ہو کر اُڑتے چلے گئے۔ اُس نے نل بند کیا۔ جسم میں مچلتے طوفان کا جائزہ لیا — صابن کے جھاگوں کو ہاتھوں سے اُڑایا — یا پھر اپنے ننگے بدن کے ساتھ وہیں لیٹ گئی —

کمرے کا دروازہ چرمرایا تو اچانک وہ، جیسے خواب کی وادیوں سے لوٹی — منہ سے بے ساختہ آواز بلند ہوئی —

’’آپ انتظار کیجئے — آ رہی ہوں۔‘‘

ایک لمحے کو وہ حیران رہ گئی — کیا یہ اُس کی آواز تھی — ؟صوفیہ کی آواز — جس کے بارے میں مشہور تھا کہ صوفیہ کے تو منہ میں زبان ہی نہیں۔ کیا یہ وہ تھی۔۔ آج سارے موسم جیسے بدل گئے تھے — وہ بدل گئی تھی —

ایک لمحے کو باتھ روم کی کنڈی پر ہاتھ رکھ کر وہ ٹھٹھکی — ، دروازہ بند کروں یا — نہیں  — بند نہیں کروں گی — بند کرنے سے کیا ہو گا — آئینہ کے سامنے برقع پہننے سے کیا حاصل۔ شرط رکھنے والے کو تو سب کچھ دیکھنا ہے۔ اُسے پورا پورا۔ ایک وقت آتا ہے، جب مانگیں جسم سے آگے نکل جاتی ہیں۔ جسم کی ساری حدود توڑ کر۔ آگے۔ بہت آگے۔۔  اُس نے ہلکی سی انگڑائی لی۔واش بیسن کے آئینہ میں اپنے عکس کو ٹٹولا۔۔  نہیں وہ ہے۔ ایک مدہوش کر دینے والی ’صفت‘ کے ساتھ۔۔  نہیں، یقیناً، وہ کسی بیوٹی کانٹسٹ میں شامل نہیں ہے۔ مگر۔۔  ایک لمحے کو اُس نے پلکیں جھپکائیں — آئینہ میں گیزر چل رہا تھا۔ نہیں یہ گیزر نہیں تھا۔ یہ تو وہ تھی۔ مجسم، سرتا پا آگ۔۔

اُس نے گیزر بند کر دیا۔ ٹھنڈے پانی کا شاور کھول دیا۔۔  شاور کی بوندیں آگ میں گرتی ہوئی دھواں دھواں منظر پیش کر رہی تھیں۔چاروں طرف سے آگ کی جھاس اُٹھ رہی تھی۔ ٹائلس سے — برہنہ دیواروں سے — آئینہ سے — اور — وہ ایک دم سے چونکی۔ کمرے میں کوئی انتظار کر رہا ہے — آگے  بڑھ کر اُس نے ٹوول کھینچا — ہینگر سے نائیٹی کھینچی۔ آئینہ کے سامنے کھڑی ہوئی۔ آئینہ میں بھاپ جم گئی تھی۔ تولیہ سے بھاپ صاف کرنے لگی۔ پھر ایک بار اپنے آپ کو ٹٹولا۔۔  اور دوسرے ہی لمحے دھڑاک سے اُس نے باتھ روم کا دروازہ کھول دیا —

کمرے میں، یعنی وہ جو بھی تھا، دیوار کے اُس طرف منہ کئے کسی سوچ میں گم تھا۔ دروازہ بھڑاک سے کھلتے ہی وہ یکایک چونکا۔ اُس کی طرف مڑا اور یکایک ٹھہر گیا —

سلیولیس نائیٹی میں صوفیہ کا جسم کسی کمان کی طرح تن گیا — ’آئی ایم صوفیہ مشتاق احمد۔ ڈاٹر آف حاجی مشتاق احمد۔ عمر پچیس سال۔ پچیس سے زیادہ لوگ تم سے پہلے مجھے دیکھ کر جا چکے ہیں  — تمہارا کا نمبر۔

’مجھے اس سے زیادہ مطلب نہیں۔۔ ‘ یہ لڑکا تھا۔ مگر آواز میں کپکپی برقرار — جیسے پہلی بار جرم کرنے والوں کے ہاتھ کانپ رہے ہوتے ہیں۔۔

’بیٹھئے۔‘ وہ آہستہ سے بولی۔

لڑکا بیٹھ گیا۔ اُس نے لڑکے کے چہرے پر اپنی نظریں گڑا دیں۔ چہرہ کوئی خاص نہیں۔ گیہواں رنگ۔ ناک تھوڑی موٹی تھی۔ بدن دبلا تھا۔ قد بھی پانچ فٹ سات انچ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ وہ آسمانی جینس اور میرون کلر کی ٹی شرٹ پہنے تھا۔ مینئل سفاری شوز اُس کے پاؤں میں بالکل نہیں جچ رہے تھے — لڑکا اُس سے آنکھیں ملانے کی کوشش میں پہلی ہی پائیدان پرچاروں خانے چت گرا تھا۔

’دیکھو مجھے۔۔ ‘ وہ آہستہ سے بولی۔

’دیکھ رہا ہوں۔۔ ‘ لڑکے نے اپنی آواز کو مضبوط بنانے کی ناکام سی کوشش کی۔

’نہیں تم دیکھ نہیں رہے ہو، دیکھو مجھے — نائیٹی کیسی لگ رہی ہے۔۔ ‘

اس بار لڑکے نے ایک بار پھر اپنی مضبوطی کا جوا کھیلا تھا — ’اچھی ہے۔۔ ‘

’اچھی نہیں۔ بہت اچھی ہے۔۔ ‘ وہ مسکرائی — کیسی لگ رہی ہوں میں۔۔ ‘

لڑکا ایک لمحے کو سہم گیا — وہ دھیرے سے ہنسی ۔۔ نظر جھکانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ دیکھنے پر ٹیکس نہیں ہے۔ اور تم تو۔۔  کسی بازار میں نہیں، اچھے گھر میں آئے ہو۔۔  یقین مانو۔ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔ اسی لئے تمہاری شرط کے بارے میں سن کر مجھے تعجب نہیں ہوا — تمہارے لئے یہی بہت ہے کہ تم مرد ہو۔ مرد ہو، اس لئے تمہارے اندر کا غرور بڑھا جا رہا تھا۔ پہلے تم نے جہیز کا سہارا لیا۔ رقم بڑھائی، رقم دگنی سہ گنی کی اور پھر۔۔  یقین مانو، میرے گھر والوں نے سوچا تھا کہ یہ موم کی مورت تو بُرا مان جائے گی۔ مگر میں نے ہی آگے بڑھ کر کہا۔۔  بہت ہو گیا۔۔  آخری تماشہ بھی کر ڈالو۔۔ ‘

باہر رات گر رہی تھی۔ نہیں، رات جم گئی تھی۔ جنوری کی ٹھنڈی لہریں جسم میں تیزاب برپا کر رہی تھیں۔ لیکن وہ جیسے ہر طرح کے سرد و گرم سے بے نیاز ہو کر ٹک ٹکی باندھے اُسے دیکھ رہی تھی۔

’بستر پر چلو یا۔۔ ‘

اتنی جلد۔۔  اتنی جلدی کیا ہے۔۔ ‘ لڑکے کی آواز گڑبڑائی تو وہ پوری قوت لگا کر چیخ پڑی —

’جلدی ہے۔ تمہیں نہیں۔ لیکن مجھے ہے۔ تم سے زیادہ بھوکی ہوں میں۔ کتنے بھوکے ہو تم — پتہ ہے یہاں آ کر، اس کمرے میں آ کر مجھ سے نظریں ملاتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے تمہیں  — بس اتنے بھوکے ہو۔ نہیں۔ باہر۔۔  باہر والوں کی پرواہ مت کرو۔وہاں ایک بھائی ہے، جب تک میں باہر نہیں نکلوں گی۔ تیر کی طرح زمین میں گڑا، اپنے ناکارہ ہونے کے احساس سے مرتا رہے گا، سہمی سہمی سی ایک بہن ہو گی اور سہمے سہمے سے سوال ہوں گے — نہیں اُن سوالوں کی پرواہ مت کرو — میں کرتی تو اس وقت نائیٹی پہن کر تمہارے سامنے نہیں ہوتی — اُنہیں بس یہی پڑی تھی کہ میری شادی ہو جائے — پھر تم ملے۔ تم مجھے بستر پر آزما کر، میرے بدن کو منظوری دینے والے تھے۔ سچ، ایک بات بولنا۔ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے یا میرے بدن سے۔۔ ‘

’وقت — ‘ لڑکے نے پھر مضبوط لفظوں کا سہارا لیا — ’وقت بدل رہا ہے۔‘

’وقت — ‘وہ زور سے ہنسی — ’بدل رہا ہے نہیں۔ بدل گیا ہے۔ لیکن تم کیوں کانپ رہے ہو۔ دیدار کرو میرا، دیکھو مجھے۔‘

کمرے میں نور کا جھماکا ہوا —

ایک لمحے کو اُس کے ہاتھ پیچھے کی طرف گئے — نائیٹی کے ہک کھلے اور نائیٹی ہوا میں اُڑتی ہوئی بستر پر پڑی تھی —

لڑکا بستر سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ کانپ رہا تھا۔ اُس کی پلکوں پر جیسے انگارے رکھ دئے گئے تھے — نہیں، انگارے نہیں  — برف کی پوری سلی — وہ جیسے پلک جھپکانا بھول گیا تھا — ہوش اُڑ چکے تھے۔ آنکھیں ساکت و جامد تھیں۔۔  ایک دھند تھی، جو روشندان چیرتی ہوئی کمرے میں پھیل گئی تھی۔

’دیکھو مجھے۔۔ ‘

وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آئینہ کے قریب آ گئی — ’’دیکھو مجھے۔ میں نے کہا تھا، نا۔ تم سے زیادہ بھوکی ہوں  — پچیس لوگ تم سے پہلے بھی مجھے دیکھے بغیر واپس لوٹ چکے ہیں  — سمجھ سکتے ہو۔ پچیس بار تو یونہی مری ہوں  — شادی کے ہر احساس کے ساتھ بدن میں انگارے پلتے تھے — جانتے ہونا، فرائیڈ نے کہا تھا، عورت مرد سے زیادہ اپنے بدن میں انگارے رکھتی ہے — اور میں تو بڑی ہوئی تب سے انگارے جمع کرتی رہی تھی۔۔  فلم سے سیریل، ٹی وی، دوست سہیلیوں کی شادی — مجھ سے بے حد کم عمر لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہونے کے قصّے۔۔  ہر بار انگاروں کی تعداد بڑھ جاتی۔ میں ہر بار انگارے چھپا لیتی۔۔  وہ زور سے چیخی — رنڈی نہیں ہوں میں۔ بازار میں نہیں بیٹھی ہوں۔ تم نے سودا نہیں کیا ہے میرا۔ میں نے بھی تسلی کر لی ہے کہ اگر تم میرے شوہر ہوئے تو تمہیں تو پورا پورا مجھے دیکھنا ہی ہے — اور پھر۔۔  میرے گھر والے یوں بھی تھک گئے ہیں۔‘‘

اُس نے بے حد مغرور انداز میں آئینہ میں اپنی ایک جھلک دیکھی۔ جیسے قلوپطرہ نے اپنی ایک جھلک دیکھی ہو اور فاتحانہ انداز میں سراٹھا کر اپنے ملازموں سے کہا ہو — یہ آئینہ لے جاؤ، اس کا عکس بھی مجھ سے کم تر ہے۔ کوئی ایسا آئینہ خانہ لاؤ، جو میری طرح نظر آ سکے۔

وہ مغرور اداؤں کے ساتھ مڑی۔ بستر سے نائیٹی کو اٹھایا اور دوسرے ہی لمحے نائیٹی کے ’بدن‘ میں داخل ہو گئی —

لڑکا ابھی بھی تھرتھر کانپ رہا تھا۔۔

’یہ کوٹھا نہیں تھا اور اتنا طے ہے کہ تم آج تک کسی کوٹھے پر نہیں گئے — دیکھو۔۔  تم کانپ رہے ہو۔ نہیں، ادھر آؤ۔ اُس نے بے جھجک اُس کا ہاتھ پکڑا۔ مرر کے سامنے لے آئی۔ یو نو، تم کیسے لگ رہے ہو۔ جوناتھن سوئفٹ کے گھوڑے — لیکن نہیں۔ تم گھوڑے بھی نہیں ہو۔۔  تم ایک ڈرپوک مرد ہو، جو ایک خوبصورت بدن کو آنکھ اُٹھا کر غور سے دیکھ بھی نہیں سکتا — ‘

لڑکا بے حس وحرکت تھا۔ ساکت وجامد۔ لاش کی طرح سرد —

صوفیہ مشتاق احمد کی آنکھوں میں برسوں کی ذلت چنگاری بن کر دوڑ گئی — بھوک، نفرت پر غالب آ گئی — ’دیکھتے کیا ہو — میں پوچھتی ہوں۔ اب بھی تم اس کمرے میں کھڑے کیسے ہو۔ تم تو شرط کا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہو۔ نامرد کیڑے۔ نہیں۔ وہیں کھڑے رہو اور جانے سے پہلے میری ایک بات اور سن لو۔ میں نے کہا تھا ناتم سے زیادہ بھوکی ہوں میں مگر رنڈی نہیں ہوں۔ ارے، تمہاری جگہ میں ہوتی، میں نے شرط رکھی ہوتی تو کم از کم یہاں آنے کی جرأت کے بعد کم از کم تمہیں چھوا ضرور ہوتا۔ دھیرے سے، تمہارے ہاتھوں کو۔۔  کہ بدن کیسے بولتا ہے — کیسے آگ اُگلتا ہے۔ لیکن تم۔۔  تم تو بند کمرے میں، اپنی ہی شرط کے باوجود، چھونا تو دور اسے دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کر سکے۔۔ ‘ ایک لمحے کو جیسے اُس کے اندر برقی لہر دوڑ گئی۔ بے حد نفرت کی آگ میں سلگتے ہوئے صوفیہ احمد نے اُسے زور کا دھکا دیا۔۔ ’گیٹ لاسٹ۔‘

لڑکا پہلے ہڑبڑایا۔ پھر سرعت کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ایک لمحہ کو صوفیہ مشتاق احمد مسکرائی۔ اپنا عکس آئینہ میں دیکھا — نہیں۔ اب اُسے مضبوط ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُس نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ باہر کہاسے گر رہے تھے۔ سرد ہوا تیز ہو گئی تھیں۔ کھڑکی کھلی رہ گئی تھی۔ اُف، اس درمیان وہ جیسے دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر ہو گئی تھی۔ تیز، جسم میں طوفان برپا کرنے والی سردی کو بھی — اُس نے اپنے ہی دانتوں کے کٹکٹانے کی آواز سنی اور اچانک ایک لمحے کو وہ ٹھہر گئی۔ وہی جانی پہچانی دستک — خوفناک آوازوں کا شور۔ جیسے دیواروں پر کوئی رینگ رہا ہو۔ کیا ویمپائر۔۔ ؟ ڈراکیولا۔۔ ؟ باہر یقیناً اس ’پُراسرار‘ تماشے کا حال جاننے کے لئے اُس کے گھر والے موجود ہوں گے — اور اُس کا بے چینی سے انتظار بھی کر رہے ہوں گے —

مگر۔۔  یہ دستک۔۔ خوفناک آوازیں۔۔  دیواروں پر رینگنے کی آواز — جیسے ہزاروں کی تعداد میں چمگادڑیں اُڑ رہی ہوں۔ پیڑوں پر اُلو بول رہے ہوں۔ شہر خموشاں سے بھیڑیوں کی چیخ سنائی دے رہی ہو — وہی رینگنے کی آواز — برفیلی، تیز ہوا سے کھڑکی کے پٹ ڈول رہے تھے۔۔  وہ تیزی سے آگے، کھڑکی کی طرف بڑھی —

گہری دھند کے باوجود شہر خموشاں کا منظر سامنے تھا اور وہاں دیوار پر چھپکلی کی طرحی رینگتا ڈراکیولا، اس بار اُسے بے حد کمزور سا لگا — شاید وہ شہر خموشاں میں واپس اپنے ’تابوت‘ میں لیٹنے جا رہا تھا۔

جبکہ صبح کی سپیدی چھانے میں ابھی کافی دیر تھی —

٭٭٭

 

 

 

 

(6)

 

صوفیہ مشتاق احمد کے چہرے کا تاثر جاننا یا اس کی نفسیات پڑھنا میرے لئے آسان نہیں تھا۔۔  ویسے بھی وہ ایک سپاٹ چہرے کے ساتھ میرے سامنے ہوتی تھی۔ یعنی ایک ایسا چہرہ جو ہر طرح کے جذبات سے عاری ہوتا ہے — ایک مصنف کے طور پر مجھے صوفیہ سے ہمدردی تھی۔ ممکن ہے اس سے میں ہمدردی کا اظہار کرتا تو وہ ناراض ہو جاتی۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمدردی کی سطح سے بلند ہو کر اس چٹان کی طرح تھی، جس پر کوئی بھی لفظ اپنا اثر نہیں چھوڑتا — مثال کے لئے اگر میں روبرو ہوتا تو شاید وہ مجھے دیکھ کر بھی دیوار یا کھڑکی کی طرف بے نیازی سے دیکھ رہی ہوتی —

’کیا جاننا چاہتے ہیں آپ۔۔ ‘ کھڑکی کے باہر درختوں کی قطار کو دیکھنا اسے پسند تھا۔ وہ اشارہ کرتی۔۔  اُس طرف سے۔۔  وہ آیا۔۔  اور اُس تابوت میں سما گیا۔۔  اب نہیں آئے گا۔۔، وہ پلٹ کر کہتی۔۔  کیا کبھی آپ نے بند تابوت کا تصور کیا ہے؟ کبھی یہ خواہش ہوئی کہ تابوت کے اندر بند ہو کر دیکھا جائے کہ وہاں نیند کیسے آتی ہے۔۔ ؟ اُف۔۔  میں تصور نہیں کر سکتی۔۔  اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اس طرح کے تابوت میں صندل کی لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں اور — لاشوں کو آرام سے تابوت میں لٹا یا جاتا ہے تو۔۔،

میں یقین کے ساتھ صوفیہ کی آنکھوں کی چمک کا تصور کر سکتا ہوں۔۔  وہ بے نیازی سے کھڑکی کے باہر دیکھ رہی ہوتی۔۔

’تابوت میں لٹایا جا تا ہے تو؟‘

’ہاں۔۔  میں کہہ رہی تھی۔ صندل کی لکڑیاں اکثر سرد ہوتی ہیں۔ نرم اور ملائم — اندر آرام کرنے والے کو ایسا احسا س ہوتا ہے جیسے وہ ایرکنڈیشنڈ بستر پر لیٹا ہو — اور کیسی خوبصورت پناہ گاہ — آپ کو کچھ سوچنا ہی نہیں ہوتا۔ آپ ہر طرح کے تصور سے آزاد ہوتے ہیں۔ ہر طرح کی گھٹن سے۔۔  وہ دیکھیے۔۔،

اس نے اشارہ کیا۔۔  میں لیٹ جاتی ہوں۔۔  آپ تابوت کو بند کر دیں گے۔۔  میں ذرا دیر لطف لینا چاہتی ہوں۔۔  اور ہاں۔۔  ذرا دیر کیوں۔۔  سمجھ رہے ہیں نا آپ۔۔،

اور یہ وہی لمحہ ہوتا جب میں او ہنری کے بھوت کی طرح غائب ہو کر سہما ہوا خود کو اپنے کمرے میں محسوس کرتا۔ ڈرا کیولا، تابوت، صوفیہ، شہر خموشاں اور خوفناک مکالمے۔۔ دیر تک کانوں میں گونجتے رہتے۔

 

آگے کی کہانی، جو آئندہ صفحات میں آپ پڑھنے جائیں گے، اُس کے لئے یہ مناظر آپ کے کام آئیں گے۔ کیونکہ اس سے قبل مجھے بھی یقین نہیں تھا کہ کیا میری صوفیہ سے دوسری بار بھی ملاقات ہو گی — یا اس حادثہ کے بعد بھی کئی سوالات ایسے تھے، میں جن کا جواب جاننے کا خواہش مند تھا — مثال کے لیے جب وہ اجنبی، جو اپنی شرطوں کے ساتھ (یہاں پر ناجائز شرط کا استعمال کرنے سے قاصر ہوں ) صوفیہ کے کمرے میں اُس سے ملنے آیا تھا اور پھر صوفیہ سے ملتے ہی بھاگ کھڑا ہوا، تو بھاگنے کے بعد صوفیہ کے بارے میں اس کے کیا خیالات رہے ہوں گے — ؟ اس سے بھی زیادہ ضروری سوالات یہ تھے کہ کیا صوفیہ سے اس کے گھر والوں نے دریافت کر نے کی کوشش کی کہ اندر کمرے میں کیا ہوا — ؟ یا وہ اجنبی واپس کیوں گیا۔۔ ؟ لیکن۔۔  مجھے یقین ہے۔ صوفیہ سے ایسا کوئی سوال نہیں کیا گیا ہو گا — کیوں کہ کہنا مشکل ہے کہ ان حالات میں کون زیادہ ڈرا ہوا ہو گا — صوفیہ تو بالکل بھی نہیں  — پھر اس کی بہن! بہنوئی، بھائی۔۔  ؟ شاید ان میں سے کوئی بھی صوفیہ سے کسی بھی طرح کا مکالمہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا اور اس کا تجزیہ بھی آسان ہے کہ آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے سے گفتگو تو ہوئی ہو گی۔ لیکن کوئی بھی صوفیہ سے کمرے کے اندر کا حال جاننے کا حوصلہ نہیں کر سکا ہو گا۔۔  ہم ایک سرد معاشرے کا حصہ ہیں۔ ایک ایسے معاشرے کا جہاں گھر میں لڑکیاں ہیں تو آسیبی کہانیوں کو سنانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔۔  خوف خود ہی گھر کا راستہ دیکھ لیتا ہے —

٭٭

 

یہ بتانا ضروری ہے کہ صوفیہ کے ساتھ یہ غیر معمولی واقعہ یا حادثہ انہی دنوں پیش آیا جب دلی کے جنتر منتر پر شام کے وقت ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جیوتی گینگ ریپ کے خلاف موم بتیاں جلائے قاتل کو پھانسی دیے جانے کی مانگ کر رہے تھے۔ یہ حادثہ انہیں دنوں پیش آیا، جب امریکہ کے وہائٹ ہاؤس سے یہ رپورٹ جاری کی گئی کہ دو کروڑ بیس لاکھ عورتوں کو ہوس کا شکار بنایا گیا ہے اور امریکہ کی ہر چار میں سے ایک لڑکی مرد کے غیض و غضب اور ہوس کا شکار بن جاتی ہے۔ اور ان میں زیادہ ترکیس میں لڑکی کے اپنے قریبی رشتہ دار ہی شامل ہوتے ہیں اور انہی دنوں ہمارے پیارے ایگریکلچر سائنٹسٹ البرٹ نپٹو اپنی تحقیق میں مصروف تھے کہ گدھوں کی طرح گوریا کی نسل ختم کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ معصوم سی گوریا جو گھروں میں اور درختوں پر اپنے گھونسلے بنا لیتی تھی۔ جو جھنڈ کی جھنڈ دانہ چگنے کے لیے ہر گھر کو اپنا گھر سمجھ لیتی تھی۔۔  کنکریٹ کے مکانات بننے اور درختوں کے کٹنے کے بعد چڑے چڑیاں کی کہانیاں بھی جیسے وقت کے گمشدہ صفحات میں دفن ہوتی جا رہی ہیں۔۔

ننھی منی سی معصوم گوریا کی یاد کیوں آئی، تو یہ کہانی بھی دلچسپ ہے — اس حادثے کے کچھ دن پہلے اور میں اسے محض اتفاق نہیں سمجھتا — میرے قدم خود بخود صوفیہ کے گھر کی طرف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ وہ کالونی کے چھت پر تھی۔ اس کے ہاتھ و درنگ ہائیٹس کے کردار ہیتھ کلف کی طرح کھلے ہوئے تھے۔ ہیتھ کلف جو نیم شب اپنی محبوبہ کو کھڑکی کے راستہ بلایا کرتا تھا۔ وہ محبوبہ، جو اب دنیا میں نہیں تھی۔ میں نے صوفیہ کو دیکھا۔۔  اس کے ہاتھ پھیلے ہوئے تھے۔۔  وہ چاروں طرف الجھن اور کشمکش کے انداز میں دیکھ رہی تھی۔ اور جیسے کسی کو بلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ میں بغور اس نئی نئی صوفیہ کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ مجھ پر نگاہ پڑتے ہی وہ تھم گئی۔ اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔

آپ نے دیکھا ہے ۔۔ ؟

’کیا ۔۔،

’وہ۔۔  اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔۔ ‘ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔  پہلے ہم چھوٹے تھے۔ بڑا سا گھر ہوا کرتا تھا۔ تب گھر میں روٹیوں کے لیے پیکٹ میں آٹا نہیں آتا تھا۔ گیہوں کے بورے آتے تھے بازارسے۔ گیہوں پسارنے کئی بار میں اپنے خدمتگار کے ساتھ خود بھی جایا کرتی تھی۔ اور گھر میں چھت پر اماں گیہوں کے دانے پسار دیا کرتی تھیں۔۔

’پھر ۔۔ ‘

گوریا آتی تھی۔۔  جھنڈ کی جھنڈ۔۔  ایک دانہ اٹھایا — پھر سے اڑ گئی۔۔  پھر ایک دانہ۔۔  میں ہنستی تھی تو اماں پیچھے سے آ کر غصہ کرتی تھیں۔ سارے گیہوں لٹوا دے گی یہ لڑکی۔ گوریا کو ہنکاتی کیوں نہیں۔۔ ‘ وہ میری طرف پلٹی تھی۔۔  اب گوریا نہیں آتی۔۔  میں کئی دنوں سے لگاتار چھت پر آ کر انتظار کرتی ہوں۔۔  آپ بتا سکتے ہیں۔۔  اب گوریا کیوں نہیں آتی۔۔ ؟‘

’نہیں۔‘

’ یہی تو۔۔ ‘ وہ ہنس رہی تھی — ’ آپ بھی نہیں جانتے۔ میں بھی نہیں جانتی۔ اور گوریاؤں نے آنا بند کر دیا۔ کتنی عجیب بات۔‘

پھر وہ تیز تیز چھت کی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی تھی۔

ان سطور کے لکھے جانے تک وہ چہرہ اب بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر اس چہرے میں کیا تھا، جو مجھے یاد رہ گیا۔ اسی کے بعد وہ حادثہ ہوا تھا۔ اور شاید اس کے بعد ہم نہیں مل سکے —

٭٭

 

مصنف کا نوٹ

 

(صوفیہ کی کہانی کو یہیں چھوڑ کر اب ہم ایک دوسری کہانی کی طرف بڑھتے ہیں  — یہ زندگی بھی ایک ہائی وے ہے، جہاں اکثر کہانیاں ایک دوسرے سے ٹکرا جایا کرتی ہیں۔۔ )

٭٭٭

 

 

                   دوسرا حصہ

 

آتش گل

 

 

 

he whole of feminine history has been man-made. Just as in America there is no Negro problem, but rather a white problem; just as anti-Semitism is not a Jewish problem, it is our problem; so the woman problem has always been a man problem.

— Simone de Beauvoir

 

(1)

 

جیسا کہ پہلے صفحات سے آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا کہ میں ایک مصنف ہوں۔ لیکن میری مکمل شخصیت کسی جوکر کی طرح ہے — اور مجھے بار بار لگتا ہے جوکر کی طرح ہنستے ہنساتے ہوئے آپ سامنے والے شخص کے اندر اور باہر آرام سے جھانک سکتے ہیں  — اسی طرح جیسے دوستوفسکی کا ایڈیٹ شرمایا ہوا شہزادی کے دل تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ مصنف کو بے شرم بننا پڑتا ہے۔ مگر اس کی موجودگی میں احمق اور جوکر دونوں کے کردار بیک وقت شامل رہتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی دونوں کرداروں کو ایک ساتھ انجام دیتا رہتا ہے۔ جنگل، پہاڑ، برف اور گلیشیئر کے پگھلنے سے الگ  میں زیادہ تر رومانوی دنیا سے الگ ہی رہتا ہوں اور بیحد چھوٹی چیزیں بلکہ واہیات چیزیں مجھے زیادہ متاثر کر جاتی ہیں۔ مثال کے لئے خوبصورت وادیوں میں کوئی ٹھونٹھ درخت مجھے دکھ جائے تو حیران آنکھوں سے مجھے اس پر مسلط خزاں کا حساب لگانا زیادہ اچھا لگتا ہے اور اسی لیے افسانوں سے زیادہ گھوڑے یا بھری پڑی بستیوں سے زیادہ ویرانی، شہر خموشاں یا وحشت کے بجتے گھنگھرؤوں کو سننا مجھے اچھا لگتا ہے۔ اور شاید اسی لیے اس گھر میں صوفیہ مشتاق ہی میری توجہ کا مرکز بن سکی کہ اس کے کمرے میں اندھیرے جمع تھے۔ یا وہ اپنے احساس کی تپش سے جالوں، چمگادڑوں، چھپکلیوں سے لے کر ڈری سہمی آواز کی آسیبی موسیقی بھی کمرے میں پیدا کر لیا کرتی تھی۔ ایک کہانی کے بعد دوسری کہانی کی تلاش کچھ یوں ہوتی ہے کہ ہم پچھلے کرداروں کو بھول جاتے ہیں  — انہی دنوں میری ملاقات نینی تال کے کمال یوسف سے ہوئی تھی — اور اس کہانی میں کئی کہانیاں یکا یک شامل ہوتی چلی گئی تھیں —

جیسے کمال یوسف کا اپنی بیوی اور چھ مہنے کی بیٹی کے ساتھ انڈیا گیٹ پر آنا۔ رات بھر یخ بستہ ہواؤں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انقلاب اور احتجاج کا حصہ بن جانا، اور میرا گر جانا — تعجب ہے نا، مصنف بھی گرتے ہیں  — بلکہ میں تو یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اکثر مصنف بے خیالی میں گر جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی آنکھیں راستہ بنانے کی جگہ اپنے ہی خیالوں میں سفر کرتی رہتی ہیں۔ اور وہ سامنے کی رکاوٹ کو نہیں دیکھ پانے کی صورت میں بلاوجہ چوٹ کھا جاتے ہیں۔ لیکن کمال یوسف سے ملنے، میرے گر جانے اور صوفیہ کے اتفاقاً ملنے کی کڑیاں ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں کہ انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا —

یہ انہی دنوں کا تذکرہ ہے جب ہندوستانی سر زمین پر سیاست نے نئی کروٹ لی تھی۔ دلی کا انڈیا گیٹ ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ میں انقلابی چوک میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہ دبے پاؤں آنے والی انقلاب کی وہ آہٹ تھی، جو شاید اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی — یہ وہی دور تھا جب دنیا کے کئی حصوں میں اس طرح کے مظاہرے عام تھے — سیاسی چہروں کو یہ فکر دامن گیر تھی عوام کا غصہ جاگ گیا تو تخت و تاج کا کیا ہو گا — بار بار تباہ و برباد اور آباد ہونے والی دلی آزادی کے بعد محض سوئی ہوئی، خاموش تماشائی بن کر رہ گئی تھی۔ لیکن ایک حادثے نے دلی والوں کو نہ صرف جگا دیا تھا بلکہ دلی کے ساتھ ہی پورا ہندوستان بھی جاگ گیا تھا اور یہ معاملہ تھا جیوتی گینگ ریپ کا معاملہ — ایک معصوم سی لڑکی جیوتی، جس کو میڈیا اور چینلس نے ابھیا، نربھیا جیسے ہزاروں نام دے ڈالے تھے۔ ایک کالج کی لڑکی جو صبح سویرے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک خالی بس میں بیٹھی اور بس میں سوار پانچ لوگوں نے بے رحمی کے ساتھ بوائے فرینڈ کی موجودگی میں اسے اپنی ہوس کا شکار بنا لیا اور چلتی بس سے دونوں کو باہر پھینک دیا — یقینی طور پر ایسے معاملات پہلے بھی سامنے آئے تھے۔ لیکن بے رحمی اور درندگی کی نہ بھولنے والی اس مثال نے دلی کو احتجاج اور انقلاب کا شہر بنا دیا تھا — جنترمنتر سے لے کر دلی گیٹ اور انڈیا گیٹ تک ہزاروں لاکھوں ہاتھ تھے، جو انقلاب کے سرخ پرچم کے ساتھ ہوا میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ بطور مصنف کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی نئی دنیا میں قدم رکھنے کے باوجود آج تک جبلت اور درندگی کے واقعات میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی تو علم نفسیات کی موٹی موٹی کتابیں بھی ہانپ جاتی ہیں کہ نہ قدیم عہد میں کچھ بدل سکا اور اس انفارمیشن ٹکنالوجی اور سائنسی انقلاب کے عہد میں کچھ بدلنے کی امید ہے — عورت کو اپنی حکومت کے طور پر محسوس کرنے والا — اور صدی کے انقلاب کے باوجود برتری کا وہی پیمانہ ہے جو آج بھی عورتوں کو حاشیہ پر دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ اور اسی لیے عورت ہونے کے تصور میں، مرد نے کبھی اس کے اڑان کا استقبال نہیں کیا بلکہ ایسی ہر اڑان اس کی مردانگی کو للکارتی رہی۔ سیمون د بوار سے تسلیمہ نسرین تک عورت جب یہ کہتی ہے کہ یہ گھر میرا ہے، یہ فرج میرا، یہ لیپ ٹیپ میرا اور یہ بدن میرا تو مرد کی آنکھیں تن جاتی ہیں۔ مرد نہ عورت کو برانڈ بنتے دیکھ سکتا ہے نہ سماج سے سیاست تک اس کے قد کو پھیلتے اور بڑھتے ہوئے — یوروپی ممالک کی عورتیں بھی اس معاملے میں وہی ہیں، جو ایک عام ایشیائی عورت کا معاملہ ہے — وہاں بھی زنا بالجبر اور زور زبردستی کی وارداتیں عام ہیں  — اور یہ وارداتیں ہر سطح پر ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ تہذیب کی اتنی صدیاں گزار نے کے بعد بھی ایک تعلیم یافتہ لڑکی رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر سفر نہیں کر سکتی۔ دفتروں میں کام کرتے ہوئے اسے چوکنا رہنا ہوتا ہے۔ وہ گھر میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہاں باپ سے بھائی تک کے قریبی رشتوں میں بھی سگ زار برادر شغال کی مثال ہی سامنے آتی ہے — صرف ایک بدن کے قصور میں آزاد ہوتے ہوئے اور ترقی کے مینارے چڑھتی ہوئی عورت بھی زمانۂ قدیم کی داسی محسوس ہوتی ہے، جس کی ڈور روز ازل سے مرد کے پاس ہے اور اسے مرد کے اشاروں پر ہی ناچنا ہوتا ہے —

 

دسمبر کا مہینہ — ٹھنڈک اپنے عروج پر تھی — سرد ہواؤں کے باوجود پر جوش مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی — یہ وہ لوگ تھے جو جیوتی گینگ ریپ کے ظالموں کو سزا دلوانے اور ایوان سیاست کو جگانے آئے تھے۔ سیاسی ہلچل تیز ہو چکی تھی۔ انڈیا گیٹ کے آس پاس کی سڑکیں رین بسیرے میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ سرد لہر، جنگلی پتنگوں کا اڑنا، مچھروں کا حملہ۔۔  لیکن جاگتی آنکھیں امید سے پر کہ اب اس انقلاب کی آہٹ کو کوئی روک نہیں سکتا —

اور اسی مقام پر پہلی بار میں نے کمال یوسف کو دیکھا تھا۔ عمر یہی کوئی تیس بتیس کے آس پاس۔ گورا خوبصورت چہرہ۔ جینس کا پینٹ اور گرم جیکٹ پہنے — اس نے ایک سفید شال بھی ڈال رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی، جس کی گود میں ایک ننھا سا بچہ بھی تھا۔ لڑکی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔ کمال یوسف نے ننھے شیر خوار کو گود میں لے لیا۔ میں نے خود کو تیار کیا، یہی موقع تھا جب میں اس سے گفتگو کر سکتا تھا۔

وہ محبت سے ملا۔ ہاتھ بڑھایا۔ اور اپنائیت سے بولا۔

’کمال یوسف۔‘

اس بار چونکنے کی باری میری تھی۔

’مسلمان ؟‘

’کیوں ؟‘ اس بار اس کے ساتھ والی لڑکی نے چبھتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا — ’ مسلمان نہیں ہونا چاہئے۔؟

’نہیں میرا مطلب ہے۔۔ ‘ میں نے نظر یں جھکاتے ہوئے کہا — ’عام طور پر اس طرح کے احتجاج میں مسلمان شامل نہیں ہوتے۔۔ ‘

کمال یوسف نے زور کا قہقہہ لگایا — کس نے کہا کہ مسلمان شامل نہیں ہوتے۔ کس دور میں جی رہے ہیں آپ؟‘ اس نے آگے بڑھ کر شرارت کے انداز میں میرے چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ لا کر چٹکیاں بجائیں — ’ تیس کروڑ کی آبادی ہے ہماری صاحب — مسلمان بھی اسی ملک کا حصہ ہیں۔ لیکن آپ انہیں حصہ ماننے پر تیار ہی نہیں۔‘ وہ ہنس رہا تھا۔

’نہیں  — میرا مطلب ہے۔۔ ‘ میں گڑبڑا گیا تھا۔

کمال یوسف نے لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ یہ میری بیوی ہے — ناہید ناز۔ ہم نینی تال سے آئے ہیں۔‘

’ناہید ناز؟‘

اس بار ناہید کا قہقہہ بلند ہوا — ناہید یوسف کہتی یا ناہید کمال، تب ہی آپ تسلیم کرتے کہ ہم میں کوئی رشتہ بھی ہے۔۔۔‘

’نہیں — ‘ میں مسلسل حملوں سے گھبرا گیا تھا۔

’میری اپنی شناخت ہے۔ ’ناہید ناز کا چہرہ سخت تھا۔’ اس دنیا میں ایک لڑکی اپنی شناخت اور آزادی کے ساتھ کیوں نہیں جی سکتی — ؟ کمال سے شادی کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میری شناخت کمال کی محتاج ہے۔ میری اپنی آئیڈینٹیٹی ہے، کمال کی اپنی آئیڈینٹی۔ ایک گھر میں دو لوگوں کو اپنی اپنی آئیڈینٹیٹی اور اپنی اپنی پرائیویسی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق ہونا چاہئے —

رات کے دو بج گئے تھے۔ اسٹیج سے وقفے کے بعد تقریروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کمال یوسف نے بیگ سے چادر نکال کر زمین پر بچھا دی — ہم چادر پر بیٹھ گئے۔ تھرمس سے چائے نکال کر اس نے ایک کپ میری طرف بڑھایا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ ناہید ناز بچے کو پتنگوں اور کیڑوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کمال یوسف نے میری طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سرد تھا۔ سپاٹ۔

’مسلمان۔ دوسروں کے منہ سے اکثر یہ نام سنتے ہوئے پریشان ہو جاتا ہوں۔ ہاں بھائی مسلمان ہوں تو کیا ہوا۔ دوسرے مذاہب کے ناموں پر حیرانیاں کیوں نہیں پیدا ہوتیں۔ مسلمان، اس نام کے ساتھ اچانک ہم چودھویں یا پندرہویں صدی میں کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ اور مسلمان کہاں نہیں ہیں ؟ کرکٹ سے فلم اور سیاست تک۔ اور ہم جس مقصد سے یہاں آئے ہیں، وہ صرف ایک معاملہ نہیں ہے۔ یہ معاملہ کسی مذہب سے وابستہ نہیں ہے۔ یہ اس نفسیاتی خوف کا معاملہ ہے جہاں ایک لڑکی اپنے ہی گھر میں ڈر ڈر کر رہتی ہے اور بالغ ہونے کے بعد بھی مسلسل ڈرتی رہتی ہے۔‘

ناہید ناز نے میری طرف دیکھا۔’ اس کی آنکھوں میں آگ روشن تھی۔ بچے کو سلاتے ہوئے کہا — ’ ابھی یہ صرف چھ مہینے کا ہے۔ دلی آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے ایک لمحے کو نہیں سوچا کہ باشا کی طبیعت خراب ہوسکتی ہے۔ جانتے ہیں کیوں ؟‘

’نہیں۔‘

‘لڑکوں کو آزادی دیتے ہوئے آپ کی دنیا لڑکی کی آزادی کے پر کاٹ لیتی ہے۔ کبھی اسے چنری دی جاتی ہے۔ کبھی حجاب۔ کبھی اسے اپنوں سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ لڑکوں کے لیے کوئی شرط نہیں رکھی جاتی۔ لڑکی نہیں ہوئی عذاب ہو گئی — اور آپ ہی کے سماج نے اسے بے رحم نام دے رکھے ہیں۔ فاحشہ، طوائف، رنڈی، داسی، کلنکنی — یہ سارے نام مرد کو کیوں نہیں دیتے — ؟ سب سے بڑا دلال اور بھڑوا تو مردہے  — فاحشہ، طوائف، کلنکنی یہ سارے نام مرد پر فٹ بیٹھتے ہیں۔ کیوں ساری زندگی، سہمی سہمی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے ہمیں ؟ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اپنی مرضی کی زندگی نہیں جی سکتی۔ اسے ایک مرد کا غلام بننا ہوتا۔ اس کے بچوں کو پالنا ہوتا ہے۔ مرد کیوں نہیں پالتا بچوں کو؟ کھانا کیوں نہیں بناتا؟ بیوی کو چائے کیوں نہیں پیش کرتا؟ گھر کیوں نہیں سنبھالتا۔ ہم آواز اٹھائیں تو آپ مذہب، شریعت اور موٹی موٹی آسمانی کتابیں لے کر آ جاتے ہیں۔ ان کتابوں میں مرد کو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ وہ عورت کے ساتھ خوش رہے۔ عورت کو ہی بتایا جاتا ہے کہ شوہر کی خوشی میں ہی اس کی تقدیر کی تعویذ پڑی ہے۔ کمال سے شادی کی تو تقدیر کی یہ تعویذ اتار پھینکی۔ کیوں کمال؟‘

کمال یوسف نے زور کا قہقہہ لگایا — شادی سے پہلے ملنا ہوا تو سوچتا تھا کہ ایسی پاگل اور عجیب و غریب لڑکی شاید دنیا میں نہ ہو گی۔ ملاقاتوں کاسلسلہ طویل ہوا اور بات شادی تک پہنچی تو ناہید نے صاف طور پر کہہ دیا۔۸ بجے اٹھتی ہوں۔ بیڈ ٹی مجھے تم دو گے۔ ناشتہ میں بنا لوں گی۔ شادی کے بعد بھی ہم دو لوگ ہوں گے جن کی اپنی اپنی آزاد دنیائیں ہوں گی۔ میں ٹھہرا، مذہبی گھرانے میں آنکھیں کھولنے والا۔ ایسا گھرانا جہاں آج بھی بہشتی زیور کی حکومت چلتی ہے۔‘ وہ ہنس رہا تھا۔

مجھے یکا یک احساس ہوا، کئی تصویریں ایک دوسرے میں منعکس ہونے لگی ہیں۔ ایک چہرہ سرد کا فن میں آرام کا تصور کرنے والی صوفیہ کا تھا، دوسرا چہرہ جیوتی کا اور تیسرا چہرہ ناہید ناز کا۔ یہ سارے چہرے آپس میں گڈمڈ ہو رہے تھے۔ ان چہروں میں کہیں صدیوں کی آگ روشن تھی تو کہیں آگ سرد پڑ گئی تھی۔۔  اور ان سے الگ بھی ایک چہرہ تھا۔ کمال یوسف کا چہرہ۔ مجھے یقین ہے خدا کی بستی میں عورتوں کو عزت دینے والے، آزادی دینے والے ایسے مردوں کا مشینی طور پر بننا شروع ہو چکا ہے۔ تو کیا یہ صدیوں سے سفر کرتی ہوئی عورت کے احتجاج کی ہی شکل ہے کہ نئے سماج کی مشینوں نے نئے اذہان کے مردوں کو اگلنا شروع کر دیا ہے۔؟ یہ سمجھوتا ہے، وقت کی مانگ یا آنے والی تبدیلیاں ہیں — ؟ اس سے بھی بڑا سوال تھا کہ مرد اپنی خصلت کو کب تک پوشیدہ رکھ سکتا ہے؟ اور اس سے بھی بڑا سوال تھا کہ اگر ایک دن کمال یوسف بھی وہی عام سا مرد ثابت ہوا تو؟ میں نے اس طرف توجہ دلائی تو ناہید ناز زور زور سے ہنس پڑی۔

’ آپ کیا سمجھتے ہیں، کیا ایسی صورت میں، میں ایک منٹ بھی ان کے ساتھ رہ سکتی ہوں ؟ بالکل بھی نہیں۔ میں دھکے مار کر اسے گھر سے باہر نکال دوں گی۔ دھکے مار کر — میں اس بات پر غور نہیں کروں گی کہ ہمارا کتنا پرانا ساتھ تھا۔ اور اس بات کو بھول جائیے کہ میری آنکھوں میں ایک سکنڈ کے لئے بھی آنسو کا قطرہ چمکے گا — در اصل ہوتا یہ ہے کہ ہمیں شادی کے بعد مرد کو سونپنے والا معاشرہ ایک بیمار معاشرہ ہوتا ہے۔ جو ہم سے کہتا ہے کہ دیکھو، یہ تمہارا مجازی خدا ہے اور اس کی خوشی میں ہی تمہاری زندگی کا سفر پوشیدہ ہے۔ بڑی ہوتے ہی میں نے اس دقیانوسی کتاب کے چیتھڑے بکھیر دئیے۔ مرد کو سمجھنا ہو گا کہ اُس کی خوشی ہماری ذات میں پوشیدہ ہے۔‘

کمال یوسف آہستہ آہستہ مسکرا رہا تھا — جھینگر چیخ رہے تھے۔ پتنگوں اور مچھروں کی یلغار بار بار پریشان کر رہی تھی۔ اور یہاں میرے سامنے دو چہرے تھے۔ صوفیہ جسے ایک ماحول نے سرد، بجھی ہوئی راکھ میں تبدیل کر دیا تھا اور اسی ماحول سے نکلی ہوئی ناہید ناز، جسے خود پر بھروسہ تھا۔ اپنی ذات کے سہارے جینے پر یقین رکھنے والی اور مرد کی ہر طرح کی محکومیت سے انکار کرنے والی۔

فلیش چمک رہے تھے۔ چینلس اور میڈیا کے لوگ بھی کافی تعداد میں تھے۔ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی تھی۔ مگر زیادہ تر آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ آزادی کے بعد کے تھکے ہوئے لوگوں میں اس انقلاب کو لے کر امید کی ایک موہوم سی کرن پیدا ہوئی تھی۔ مجھے اس بات سے زیادہ غرض نہیں تھی کہ یہ انقلاب بھی ہزاروں انقلابوں کی طرح پھُس ثابت ہوتا ہے یا اس سے اچھے نتائج کی امید کی جا سکتی ہے — میرے لیے اس وقت اتنا کافی تھا کہ جمہوریت میں مرتے ہوئے لوگوں کے لیے ایک معصوم سی لڑکی کا قتل ایک بڑے انقلاب کا گواہ بن گیا تھا۔

کندھے پر جھولتے ہوئے بیگ سے کاغذ اور قلم نکال کر کچھ دیر ادھر اُدھر کے نوٹس لیتا رہا۔ اس درمیان کمال یوسف اسٹیج کی طرف نظریں کئے بغور تقریر سننے میں محو تھا۔ ناہید ناز کے ملائم ہاتھ سوئے ہوئے بچے کو تھپکیاں دے رہے تھے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ناہید ناز کے ساتھ بھی ہوا ہو گا جس نے نینی تال سے دلی آنے میں مدد کی ہو گی — میں پھر اسی خیال کے رتھ پر سوار تھا کہ کتنی عجیب بات، ایک مہذب دنیا میں آج بھی معصوم لڑکیاں، بچیاں، عورتیں اپنی آزادی اور حق کا مطالبہ کر رہی ہیں اور ساری دنیا سوئی ہوئی ہے۔ اپنے ہی گھر میں خوف کا پیچھا کرتے ہوئے، بڑے ہونے کا خوف، جوان ہونے کا خوف، شادی نہ ہونے کا خوف، شادی کے بعد کا خوف۔۔  طلاق کا خوف۔۔  زندگی کے سمندر میں صرف خوف کے بھنور تھے اور الجھی ہوئی تھیں ہزاروں معصوم زندگیاں  — مریخ پر راکٹ بھیجے جار ہے تھے۔ سائبریا میں درخت اگانے کی مہم چل رہی تھی۔ انسانوں جیسے انسان پیدا کئے جا رہے تھے۔ موت پر فتح پائی جا رہی تھی اور سائنس کے ہزاروں حیرت انگیز کارناموں کے باوجود امریکہ سے ہندوستان تک خوفزدہ تھی تو عورت — پریشان تھی تو عورت — چار برس کی معصوم بچی بھی ہوس کا شکار ہو رہی تھی اور ۹۰ سال کی بزرگ خاتون بھی مرد کی درندگی سے محفوظ نہیں تھی۔ انتہائی بدصورت اور ناکارہ لڑکوں کو بھی شادی کے بارے میں یا بڑھتی عمر کے بارے میں سوچنا نہیں پڑتا تھا اور حسین لڑکیوں کی شادیاں بھی معاشرے میں عذاب بن کر رہ گئی تھیں۔

ایک دوزخ سے نکل کر دوسری دوزخ میں داخل ہونے کا راستہ کھل جاتا تھا۔ میں نے دیکھا، ناہیدناز بغور میرے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی اور یہی لمحہ تھا جب میں نے اس سے دریافت کیا اور میں نے نرم نرم لہجے میں دریافت کیا کہ کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ کیا اس کی زندگی میں بھی آیا ہے۔۔ ؟ وہ جیسے میرے اسی سوال کے انتظار میں تھی۔ چھوٹتے ہی اس نے دوسرا سوال میری طرف داغ دیا۔

’کیا دنیا میں کوئی لڑکی ان حادثوں سے محفوظ بھی ہے؟ کسی ایک لڑکی کا نام بتا دیجئے — ‘ وہ ہنس رہی تھی — جب سے دنیا بنی ہے۔ ایسی کوئی لڑکی بنی ہی نہیں۔ لڑکیاں پیدا ہوتے ہی شہد کی طرح ایک جسم لے کر آ جاتی ہیں  — اور سب سے پہلے اپنے ہی گھر میں اپنے میٹھے جسم پر چبھتی اور ڈستی ہوئی آنکھوں سے خوفزدہ ہو جاتی ہیں  — جو عورت اس سچ سے انکار کرتی ہے وہ جھوٹ بولتی ہے۔‘ اس کا لہجہ تلخ تھا — ’مرد اپنی فطرت بدل ہی نہیں سکتا۔‘

’ اور آپ کے شوہر؟‘

’وہ شوہر نہیں ہے۔ خدا کے لیے انہیں شوہر نہ کہیے۔۔  وہ میری بیوی ہیں۔۔  ‘ ناہید نے کھلکھلا کر جواب دیا۔اور اب میری حراست میں ہیں۔ کیوں کمال۔۔ ‘

کمال یوسف نے قہقہہ لگایا۔

ناہید کے چہرے پر پھر سے شکن نمودار ہوئی تھی — ’لڑکے اپنے گھروں میں کیوں نہیں ڈرتے۔ پھر تو لڑکوں کو آزادی ملتی ہی چلی جاتی ہے۔ ناجائز آزادی۔ اور لڑکی۔ آپ اور آپ کا مذہب صرف ان پر ہی کیوں بندش اور پہرے بیٹھاتا ہے، اور مردوں کو بے لگام کر دیتا ہے۔‘

میں نے پہلی بار ناہید ناز کے چہرے کا جائزہ لیا۔ ایک سانولا معصوم چہرہ۔ عمر یہی کوئی ستائس اٹھائیس کے قریب۔ قد پانچ فٹ دو انچ سے کچھ زیادہ۔ ستواں بدن۔ چہرے پر معصومیت کے ساتھ ایک کشش بھی تھی۔ کیا یہی وہ کشش تھی کہ مرد کے لیے عورت کا چہرہ اور وجود دیکھتے ہی دیکھتے ایک جسم میں تبدیل ہو جاتا ہے — ؟

ناہید کی آنکھیں نیلے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ اس نے پلٹ کر پھر میری طرف دیکھا۔ وہ مسکرا رہی تھی — ’ وہ میرے باپ بھی ہو سکتے ہیں، بھائی بھی۔ اور یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ وہاں بھی دوسری لڑکیوں یا عورتوں کے لیے ایک چور مرد ضرور رہتا ہے — میرا احتجاج اسی بات پر ہے کہ وہ چور مرد آتا ہی کیوں ہے — عورت کا وجود ہی جسم کیوں بنتا ہے، مرد کا وجود جسم کیوں نہیں بنتا — آپ نے ابھی سوال کیا، کیا کوئی ایسا حادثہ میرے ساتھ بھی ہوا ہے۔۔  ہاں ہوا ہے — نہ ہوا ہوتا تب بھی میں اس احتجاج میں ضرور شامل ہوتی۔۔

کمال یوسف نے سگریٹ جلا لی تھی۔ اب وہ دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔

’میں جس دفتر میں کام کرتی ہوں، وہاں کا حادثہ ہے یہ۔ شام کے سات بج گئے تھے۔ عام طور پر میں پانچ بجے دفتر چھوڑ دیتی تھی۔ باس نے مجھے روک رکھا تھا۔ آفس کے زیادہ تر اسٹاف جا چکے تھے۔ مگر آٹھ دس لوگ ابھی بھی اپنی اپنی سیٹوں پر موجود تھے۔ سات بجے باس نے مجھے طلب کیا۔ میں کمرے میں گئی تو پتہ نہیں کیا سوچ کر اُس نے دروازہ بند کیا — میں نے سمجھا کوئی خاص بات ہو گی۔ کوئی ایسی راز کی بات ہو گی جو باس اوروں سے خفیہ رکھنا چاہتا ہے۔ مجھے اس وقت تک اس کی نیت کا اندازہ نہیں تھا۔ میں مسکرا رہی تھی۔

’دروازہ بند کیوں کیا؟‘

وہ مسکراتا ہوا سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھ رہا تھا — ’آپ نہیں جانتیں کہ دروازہ کیوں بند کرتے ہیں۔۔ ؟‘

’نہیں۔‘ میں نے پھر مسکرانے کی کوشش کی — ’ مجھے سچ مچ نہیں پتہ۔‘

’اس کے چہرے کا رنگ بدلا تھا — ’ اب آپ اتنی بھولی بھی نہیں کہ آپ کو بتانے کی ضرورت ہو۔۔ ‘

میرا ما تھا ٹھنکا۔ پہلی بار شدت سے مجھے خوف کا احساس ہوا۔ میں نے بند دروازے کی طرف دیکھا۔ وہ پتہ نہیں کیا کیا اول فول بول رہا تھا۔۔  میری پروموشن۔۔  ترقی۔۔  سیلری میں اضافہ۔۔  میرا ذہن سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اور اچانک اس نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں کو تھام لیا۔ یہ ایک غیر متوقع حملہ تھا اور میں اس کے لیے قطعاً تیار نہیں تھی۔ میں نے اس کو دھکا دینے کی کوشش کی تو اس نے مجھے صوفے پر گرا دیا۔۔  لیکن اپنا توازن کھو بیٹھا اور میرے لیے یہی لمحہ زندگی ثابت ہوا۔ خود کو بحال کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ میز پر کپ میں گرم چائے پڑی تھی۔ اور اس سے قبل کہ وہ اٹھ کر دوبارہ مجھ سے دست درازی کی کوشش کرتا میں نے گرم کھولتی ہوئی چائے اس کے چہرے پر اچھال دی۔۔ ‘

ناہید ناز کے چہرے پر سلوٹیں نمایاں ہو گئی تھیں۔۔

میں سانس روکے ناہید ناز کی کہانی سن رہا تھا۔

پھر کیا ہوا؟ پھرتو آپ دروازہ کھول کر بد حواسی کے عالم میں گھر روانہ ہو گئی ہوں گی؟‘

’نہیں۔ بالکل نہیں۔ میں کیوں گھر بھاگتی! میں نے کیا جرم کیا تھا۔ جرم اس بد ذات نے کیا تھا۔ کھولتی ہوئی چائے نے اس کے چہرے کو جھلسا دیا تھا۔ وہ اپنی آنکھیں تھام کر زور سے چلایا۔۔  میں نے دروازہ کھول دیا۔ آفس میں موجود اسٹاف کے لوگ بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے تو میں پولس کا نمبر ڈائل کر رہی تھی۔

وہ صوفے پر چلاتا ہوا تڑپ رہا تھا۔ پانی۔۔  اُس کی آنکھیں گرم کھولتی ہوئی چائے سے جھلس گئی تھیں۔ میں خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے اسٹاف کو سمجھا دیا کہ اس بد ذات کے ارادے برے تھے اور میں نے اس کی سزا دے دی۔۔ ‘

سردی بڑھ گئی تھی۔ کمال یوسف کی سگریٹ بجھ چکی تھی۔ ہاتھوں کا تکیہ بنا کر چادر پر اس نے اپنے پاؤں پھیلا دیئے تھے۔ ناہید ناز کسی گہری سوچ میں گم ہو گئی تھی۔

ایک لمحہ کے لیے انقلاب سو گیا تھا اور کئی سہمے ہوئے چہرے آنکھوں کی اسکرین پر جاگ گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(2)

 

اگلی صبح انقلاب نے پھر دستک دی تھی۔

انڈیا گیٹ کے چہار اطراف انسانی ہجوم نظر آ رہا تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں نعرے لگاتے ہوئے حکومت اور انتظامیہ کی دھجیاں بکھیر رہے تھے۔ کمال یوسف ناہید سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔

’اس موقع پر وحیدہ کو بھی لانا چاہئے تھا۔‘

’وحیدہ کبھی نہیں آتی۔‘

’کیوں۔‘

’ایک تو اسے بھیڑ بھاڑ سے نفرت ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے۔۔ ‘ ناہید نے مسکرا کر کہا — ’یہاں آ کر بھی وہ تتلیاں تلاش کرتی۔۔ ‘

مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ کل شب بھی گفتگو میں دو بار خاموشی سے وحیدہ کا نام آیا اور آج بھی ناہید نے بہت پیار سے اس کے نام کا ذکر کیا تھا۔ ممکن ہے وحیدہ ان کی کوئی پڑوسی رہی ہو۔ مجھے اس نام میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی مگر ناہید کے آخری جملوں نے مجھے چونکا دیا تھا — یہاں آ کر بھی وہ تتلیاں تلاش کرتی — ممکن ہے چھوٹی سی بچی ہو یا ممکن ہے کوئی الہڑ دوشیزہ جس نے ابھی ابھی شباب کی منزلوں میں قدم رکھا ہو اور اس کے قدم رنگ برنگے پروں والی تتلیوں کے تعاقب میں دوڑ رہے ہوں  — لیکن وحیدہ کا نام آتے ہی کمال یوسف کے ہونٹوں سے بھی ایک مسکراہٹ نمودار ہو جاتی تھی۔

ناہید نے شک کی آنکھوں سے میری طرف دیکھا — ’ کیا لگتا ہے آپ کو — ؟یہ۔۔  اس انقلاب کا کوئی نتیجہ نکلے گا — ؟ یا یہ انقلاب بھی دوسرے ہنگاموں کی طرح پھُس ہو جائے گا۔ ‘ اس کی آواز میں غصہ کی جھلک تھی — کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں عورت محفوظ ہو۔ کھیل کی دنیا سے فلم انڈسٹری، کا رپوریٹ انڈسٹری، آشرم، سیاست ۔۔  اسکول سے کالج اورگھر کی چہار دیواری تک۔ عورت نہ ہوئی رس ملائی ہو گئی۔ زبان نکالے ہوا مرد ہوس بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جی چاہتا ہے یہ زبان ہی کاٹ لوں۔۔ ‘

کمال یوسف نے پلٹ کر میری طرف دیکھا — ’ اکیسویں صدی میں بھی عورت ترقی سے الگ اپنے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے۔‘

ناہید نے بات آگے بڑھائی — عورت ہونے کا مطلب ہے غلامی، دوزخ اور خوف کی زندگی۔ ساری زندگی خوف کا ساتھ۔ ملالہ کو دیکھئے۔۔  اسکول میں پڑھنے والی معصوم بچی پر اسلحے تانتے ہوئے طالبانی نامرد نہیں گھبراتے — اب اس پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دیکھئے۔ عورت یا تو گھر سے باہر نکل نہیں سکتی۔ نکلتی ہے تو لباس کی قید میں اس کے ہاتھوں کے انگلیوں کا بھی باہر نکلنا ممنوع ہے۔ کانگو جہاں عورتوں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان جہاں عورتیں مردوں کی برابری کر ہی نہیں سکتیں۔ اور ہمارے یہاں۔ دنیا کا چوتھا خطرناک ملک جہاں ہر وقفہ بعد ایک عورت ہوس کا شکار بن رہی ہوتی ہے۔ کمال پوچھتے ہیں کہ ناہید انتا غصہ کیوں ہے تمہارے پاس — غصہ کیوں نہ آئے۔ یہاں تو بیٹیوں کو جسم کے اندر ہی مار دیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی اسمگلنگ اور تجارت ہوتی ہے۔ اور بڑی تعداد میں نابالغ بچیوں کو جسم فروشی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ رسم و رواج اور مذہب کے نام پر بار بار ان کا شکار کیا جاتا ہے۔‘

 

تیز تیز ہنگامے کی آواز سن کر ہم چونک گئے تھے۔ میں نے دیکھا پولس بے رحمی سے بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کمال یوسف کے ساتھ حیرانی بھری آنکھوں سے ناہید نے بھی یہ منظر دیکھا اور آگے بڑھنے کی کوشش کی تو کمال نے ہاتھ تھام لیا —

’تمہاری گود میں بچہ ہے۔‘

’ پھر۔۔  بچہ تھام لو۔۔ ‘

’نہیں۔ اس کے باوجود تم نہیں جاؤ گی۔ پولس پتھراؤ بھی کر سکتی ہے۔‘

دوچار عورتیں پولس سے الجھنے کے لیے آگے بڑھیں تو پولس کے آدمی نے ایک عورت کو دھکا دیا۔ دوسرا پولس والا ایک عورت کو بے رحمی سے کھینچتا ہوا دور لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھگدڑ مچ گئی تھی۔ کمال نے مضبوطی سے ناہید کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور ناہید غصے سے غرا رہی تھی۔

’خود کیوں نہیں جاتے پولس سے الجھنے کے لیے۔ چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ مجھے بھی نہیں جانے دیتے۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی، اس عورت کو زمین پر گھسیٹنے اور دھکا دینے کی۔ کیوں چھونے کی کوشش کی اس نے ایک عورت کو۔ یہ سالے ذائقہ لیتے ہیں۔ بہانہ کوئی بھی ہو، عورت کو ٹچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں سالے۔۔ ‘

’ناہید۔۔ ‘ کمال’ اسے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’یہاں اتنی بھیڑ ہے۔ یہ لوگ مار کیوں نہیں دیتے ان پولس والے بھیڑیوں کو — مردوں کو — نوچتے رہو عورتوں کو۔ ہوس کا شکار بناتے رہو۔ بسوں سے باہر پھینکتے رہو۔ گھر سے باہر نکلنے پر پابندیاں لگا دو۔ گدھ کی طرح للچائی نظروں سے گھورتے رہو — اور ہم خاموش رہیں۔ کیوں خاموش رہیں ہم۔۔ ‘

ناہید نے زور سے کمال کو دھکا دیتے ہوئے ہاتھ چھڑا لیا۔ زمین پر پڑا ہوا پتھر غصہ میں اس نے پولس والوں کی طرف اچھال دیا — مگر یہ تو اچھا ہوا کہ اس کی یہ حرکت کسی نے دیکھی نہیں  — پولس والوں کے ارد گرد بھیڑ اکٹھا ہو گئی تھی۔۔  اسٹیج سے امن قائم رکھیں کا اعلان ہو رہا تھا۔ اس درمیان صرف اتنا ہوا کہ کمال یوسف ناہید کا ہاتھ تھامے اسے کنارے لے آیا تھا۔ یہ جگہ اسٹیج کے قریب تھی۔ اس چھوٹی سی کچھ گھنٹوں کی ملاقات میں، میں نے ناہید کا خوفناک چہرہ بھی دیکھ لیا تھا۔ میرے لیے یہ سوچنا مشکل نہیں تھا کہ کمال یوسف آخر کس طرح ناہید جیسی باغی عورت کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہو گا — ؟ کیونکہ ناہید کا وجود ایک ایسی سونامی کی طرح تھا، جسے روکنا آسان نہیں تھا۔ میں اچانک چونک گیا تھا۔ ناہید کمال یوسف کا ہاتھ تھامے ہوئے پوچھ رہی تھی۔۔

’تم کیا سمجھتے ہو، وحیدہ آتی تو اس کے لیے یہ سب کچھ دیکھ پانا آسان ہوتا؟‘

’پتہ نہیں۔ لیکن اسے آنا چاہئے تھا۔ یہ انقلاب اس بات کی علامت ہے کہ ایک اکیلی لڑکی کو تنہا زندگی کا سفر کرنے کا حق کیوں نہیں ہے؟ تنہا چلنے کا‘ تنہا باہر نکلنے کا۔۔ کسی بھی گھڑی۔۔  کسی بھی لمحہ۔۔ ‘

’ اب وہ اتنی تنہا بھی نہیں ہے۔‘ ناہید نے بھنویں سکوڑتے ہوئے کہا۔۔  ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ زندگی جینا سیکھ رہی ہے۔‘

’کچھ بھی کہو۔لیکن وہ ہے ایک پر اسرار لڑکی۔ وہ ایسے چلتی ہے جیسے اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں پرچھائیاں چل رہی ہوں۔‘

’پرچھائیاں نہیں۔ آسیب‘ — ناہید کھلکھلا کر ہنسی تھی۔

’آسیب؟‘ میں اس بار زور سے چونکا تھا اور یہی وہ لمحہ تھا، جب مجھے وحیدہ کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا ہوا تھا۔ کون ہے آخر یہ لڑکی، جس کے بارے میں اتنی ساری کہانیاں بنائی جا رہی ہیں۔ جسے یہاں کے ہنگامی ماحول میں بھی بار بار یاد کیا جا رہا ہے۔ آخر کچھ تو اس لڑکی میں خاص ہو گا۔

’کون ہے وحیدہ؟‘

’جان کر کیا کریں گے آپ؟‘ ناہید ناز نے ناگواری سے پوچھا۔

’بس یونہی۔‘

کمال نے قہقہہ لگایا — ’ وہ قلوپطرہ کی طرح تو حسین نہیں۔ مگر مونا لزا کی طرح گہری اور پراسرار ضرور ہے — ایک مستقل خوف ہے، جو اس کے چہرے پر نظر آتا ہے۔‘

وہ شاید اس سے آگے بتانے کی کوشش کرتا لیکن تب تک منچ سے تقریر بھی شروع ہو چکی تھی اور وہ ناہید کے ہاتھوں کو تھام کر منچ کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ ابھی کمال یوسف اور ناہید مجھ سے اس قدر واقف نہیں ہوئے کہ مجھے کچھ زیادہ بتاپانے کی حالت میں ہوں۔ بلکہ میری طرف سے معاملہ یہ تھا کہ میں ان کے گلے پڑنے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ اور اس درمیان نہ میں جوکر تھا اور نہ ہی دوستوفسکی کا ایڈیٹ۔ لیکن دلی گینگ ریپ کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ یہاں آنے والا ہر شخص خود کو ایک دوسرے سے وابستہ محسوس کر رہا تھا۔ جیسے یہ ہجوم نہ ہو کر سب ایک خاندان ہوں اور حق و انصاف کے لیے بہری حکومت کے دروازے کھٹکھٹائے جا رہے ہوں۔ میں نے ایسی ہزاروں تحریکوں اور انقلاب کو بے اثر ہوتے دیکھا تھا۔ اس لیے اس انقلاب سے بھی مجھے کوئی زیادہ امید نہ تھی —

اس وقت مجھے صوفیہ، وحیدہ اور ناہید میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آ رہا تھا۔ ناہید کی بغاوت بہت حد تک اضطرار ی کیفیت کی غماز تھی۔ اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ایک نامعلوم خوف اس کے وجود میں بھی سانپ کی طرح کنڈلی مارکر اندر تک بیٹھا ہوا ہے۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ یا میں علم نفسیات کے خام مطالعہ سے اس کے اندرون میں جھانکنے کی نا کام کوشش کر رہا تھا۔

میں نے دیکھا، وہ دونوں دھیمی آواز میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے۔ میں جگہ بناتا ہوا تقریباً ان دونوں کے پاس پہنچ چکا تھا۔

کمال کہہ رہا تھا۔ اب ہمیں واپس لوٹنا چاہئے۔

’کیوں ؟‘

’کئی روز ہو گئے۔ ہماری وجہ سے بچہ بیمار ہوسکتا ہے،

’ایک پوری نسل بیماری ہو چکی ہے۔‘ ناہید نے تیور سے کہا۔

’لیکن یہ ہمارا بچہ ہے۔‘

’وہ بھی کسی کی بچی تھی۔‘

’ میں نے یہ تو نہیں کہا۔‘

’تم نے یہی کہا۔ تم مردوں میں ہمارے معاملے میں ذرا بھی صبر نہیں — وہ غصہ میں تھی —

’پہلی بار ایک بڑی آواز ہماری حمایت میں اٹھی ہے تو تم اپنے قدم پیچھے کھینچ رہے ہو۔‘

’میں قدم پیچھے نہیں کھینچ رہا۔ میں نے بچے کی صحت کو لے کر۔۔ ‘

’بچے کی صحت ٹھیک ہے۔ اور میں اس کی ماں ہوں۔ تم سے زیادہ فکر ہے مجھے اس کی۔‘

جہنم میں جاؤ۔ اس بار کمال یوسف غصے سے بولا اور دوسری طرف منہ کر کے سگریٹ کے کش لینے لگا۔

اس درمیان میں نے پہلی بار کمال یوسف کے چہرے پر جھنجھلاہٹ دیکھی تھی اور مجھے اس بات کا احساس تھا کہ نارمل سے نارمل انسان بھی مسلسل ایسے واقعات کا شکار ہو کر ذہنی الجھنوں میں گرفتار ہوسکتا ہے۔ میرا دوسرا سوال تھا کہ اس وقت اس ماحول میں کمال یوسف پر کیا گزر رہی ہو گی — اور اسی سوال سے وابستہ ایک اور سوال تھا کہ ازدواجی زندگی میں محبتوں کو نبھاتے ہوئے یہ توازن کب تک قائم رکھا جا سکتا ہے — ؟ یہ پتہ تو چل ہی گیا تھا کہ دونوں میں لو میرج ہوئی تھی۔ عام طور پر تعلیم یافتہ ترقی پسند لڑکے ایام شباب میں ایسی بولڈ لڑکیوں کو پسندتو کرتے ہیں  — پھر شادی بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ لڑکیوں کا یہ بولڈ نیس ازدواجی زندگی کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے یا تو کھو جاتا ہے یا پھر شوہر کے نظریہ سے آہستہ آہستہ محبوب میں چور دروازے سے ایک ایسے مرد کی واپسی ہو جاتی ہے، جو اس بولڈ نیس کو پسند نہیں کرتا۔ اور اس کے بعد فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ میری فکر یہ تھی کہ کمال یوسف توازن کے ساتھ اس رشتہ کو کب تک نبھا پاتا ہے؟ یا کوئی جھنجھلاہٹ بھرا لمحہ اسے ہمیشہ کے لئے ناہید ناز سے دور لے جائے گا۔

پھر ناہید ناز کا کیا ہو گا؟

کیا کوئی دوسرا کمال یوسف اسے مل سکے گا؟ یا اگر فرض کر لیتے ہیں، ایسا ہوتا ہے تو ناہید کی بغاوت یا ناہید کے اندر کی باغی عورت پھر سے کسی کمال یوسف کو اپنی زندگی میں جگہ دے گی۔؟‘

یہ سوال ایسے تھے جن کا ابھی کوئی جواب میرے پاس موجود نہیں تھا۔ ممکن ہے کمال یوسف اپنے مزاج کے مطابق اس رشتہ کو نبھانے میں کامیاب ہو جائے۔ مگر مجھے یہ دشوار نظر آ رہا ہے — یہ میلان عام مردوں کا نہیں ہے اور ایسی عورتوں سے نباہ کرنا شاید آسان بھی نہیں ہوتا — ایسے ہزاروں سوال تھے لیکن ابھی مجھے وقت کا انتظار کرنا تھا —

’ایسی عورتوں سے نباہ کرنا آسان نہیں ہوتا‘‘ کا سیدھا سا جواب ہے کہ عام طور پر مرد اساس معاشرے نے مردانگی کے ساتھ سختیاں، غیض و غضب، ظلم و ستم اور عیش و نشاط کی ساری کہانیاں خود تک محدود رکھی ہیں اور صدیوں کے فسانے میں مردوں نے ان خوبیوں سے خود کو جوڑ کر رکھا ہے۔ اس لیے عورت کی ذرا سی بغاوت یا ’مردانگی‘ کے مظاہرے کو برداشت کرنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ’عورت پن‘ ایک کمزور سا احساس ہے اور ’مردانگی‘ مرد کی عیش پسند طبیعت اور فطرتاً سختی کی طرف اشارہ ہے اور آمر مرد بھی یہ قبول کرتا ہے کہ عورت میں یہ سختیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بر خلاف اگر عورت میں بغاوت کے تھوڑے بھی عنصر چھپے رہ جاتے ہیں تو مرد ہر طور اُسے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ صدیوں میں یہ روایت ٹوٹ ضرور رہی ہے مگر عورت آج بھی گھٹن اور بندش کا شکار ہے اور اس سے ذرا بھی باہر نکلنا چاہتی ہے تو یا تو صوفیہ ہو جاتی ہے یا پھر ناہید ناز — میں صوفیہ کو دیکھ چکا تھا اور اب مجھے اس کہانی کے لیے، میں معافی چاہوں گا۔ مگر بطور ناول نگار مجھے بھی اس دلچسپ کہانی کے لیے آگے کے واقعات پر نظر رکھنی تھی۔ اور جیسا کہ میں نے آغاز میں بتا یا، صوفیہ کے اپنے کمرے میں واپس لوٹنے، دلی گینگ ریپ، ناہید ناز اور کمال یوسف سے ملاقات اور میرے گھٹنے میں چوٹ لگنے تک، یہ واقعات کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کو جوڑ رہے تھے۔ اور مجھے اس بات کا احسا س نہیں تھا کہ یہ ساری کڑیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو کر وقت کے صفحے پر ایک انوکھی اور دلچسپ کہانی کو تحریر کرنے جا رہی ہیں۔

اس درمیان صرف اتنا ہوا تھا کہ میں ناہید ناز اور کمال یوسف کے کافی قریب آ چکا تھا۔ اور یہ اطلاع دینا ضروری ہے کہ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد یہ دونوں نینی تال واپس لوٹ گئے تھے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ دوسری تحریکوں یا انقلابات کی طرح اس انقلاب کی بھی ہوا نکل گئی تھی۔ بلکہ اس انقلاب کے ایک ہفتہ کے اندر زنا بالجبر کے کئی حادثے دلی میں ہی سامنے آ چکے تھے۔ حیوانیت اور درندگی کا سلسلہ جاری تھا۔ جنتر منتر اور انڈیا گیٹ میں جمع ہوئے انقلابی واپس اپنی اپنی دنیا میں پہنچ چکے تھے۔ شور تھم گیا تھا۔ عورت دوبارہ خوف کی دہلیز پر تھی۔ اور دنیا مردوں کی مردانگی کے ساتھ اسی طرح دوڑ رہی تھی جیسے روز ازل سے دوڑتی آئی ہے —

ناہید ناز اور کمال یوسف قرول باغ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ لیکن نینی تال واپسی سے پہلے ایک رات میں نے انہیں ڈنر کے لئے اپنے گھر بلایا تھا۔ تین کمروں والے فلیٹ میں، میں اکیلے رہتا ہوں۔ میں اپنی تنہائی میں خوش ہوں۔ کتابیں میری دوست ہیں۔ میں نے اُن کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہیں رکھی تھی۔ ۷؍ بجے بیل بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے پھولوں کے ’بکے‘ کے ساتھ دونوں کھڑے تھے۔ مسکراتے ہوئے۔ میں نے پھولوں کا تحفہ قبول کرتے ہوئے انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔

٭٭

 

کھانے سے فارغ ہو کر ہم ٹیرس پر آ گئے۔ یہاں پھولوں کے گملوں کے درمیان بوٹی سی چیئر پر بیٹھ گئے۔ گملوں کے درمیان رنگین قمقمے بھی روشن تھے۔ ناہید اور کمال یوسف کو میرا گھر پسند آیا تھا۔

’آپ اکیلے ہو کر یہ سب کیسے کر لیتے ہیں۔‘

’مجھے اچھا لگتا ہے۔ کہیں نہ کہیں ان سے ہو کر بھی میری تخلیق گزرتی ہے۔ مجھے بکھراؤ اچھا نہیں لگتا۔ چادر پر ایک ہلکی سی سلوٹ ہو تو مجھے لکھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ کتابیں بکھری ہوں تو میں لاکھ لکھنا چاہوں مگر قلم اپاہج ہو جائے گا۔‘

’تعجب ہے۔‘ کمال یوسف نے ایک گملے کی طرف اشارہ کیا۔۔  یہ رات کی رانی ہے نا۔۔ ؟‘

آپ کو پسند ہے۔۔  میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

’ہاں۔ اکثر لکھتے ہوئے ٹیرس پر آ جاتا ہوں اور واپسی میں جب لکھنے کی میز تک پہنچتا ہوں تو کہانیاں میرے سامنے ہوتی ہیں۔‘

میں نے دیکھا، ناہید ٹیرس کے دائیں طرف کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک درخت کی آڑ میں ایک نوجوان لڑکا، ایک لڑکی کا بوسہ لے رہا تھا۔۔  ناہید کی آنکھوں میں چمک تھی۔میرے لیے یقینی طور پر یہ ایک عام سی بات تھی اور میں اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ محبت میں ہر گناہ جائز ہے۔ محبت کے ہر ذائقے میں ایک نئی جنت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اور محبت کے لئے کوئی عمر نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت میں کچھ اور سوچ رہا تھا۔ اور یہی موقع تھا جب ناہید ناز کی نفسیات پر کھل کر چوٹ کی جا سکتی تھی۔ نتیجہ کے طور پر مجھے امید تھی، ناہید کی شخصیت کے بارے میں مزید جاننے کا کچھ موقع مل ہی جائے گا۔

میں نے غور سے اس نوجوان جوڑے کی طرف دیکھا۔ پھر ناہید کی طرف مڑا۔

’اس طرح کی بے حیائی یہاں عام ہے۔‘

’ بے حیائی!‘ ناہید غصے سے میری طرف مڑی تھی — محبت کرنے کو آپ بے حیائی سمجھتے ہیں۔؟‘

’لیکن محبت گھر میں بھی تو کی جا سکتی ہے۔‘

’باہر کیا پرابلم ہے۔ اور محبت کے لیے صرف گھر کی شرط کیوں — ؟ جہاں بھی موقع ملے۔۔  میرے خیال میں محبت کو کسی بھی طرح کی سماجی، قانونی مذہبی بندش سے بغاوت کر دینی چاہئے۔‘

’ کیا یہ بغاوت آسان ہوتی ہے؟‘

’مشکل بھی نہیں ہوتی۔ ہمت چاہئے۔‘

’ماں باپ ہمت کو کمزور کر دیں تو۔۔ ‘

’ماں باپ غلطی کریں تو انہیں ان کے جرم کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔ اور ہمارے معاشرے میں عام طور پر غلطیاں ماں باپ ہی کرتے ہیں۔ لڑکی بڑی ہو تو بس ایک ہی فکر کہ کہیں بھی شادی کر دو۔ اور اگر لڑکی نے خلاف توقع اپنی پسند کا لڑکا چن لیا تو ان کے غرور کو دھچکا لگتا ہے۔ کیوں بھئی آپ اپنی زندگی جی چکے۔ اب ہمیں جینے دیجئے۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بھی آپ ہی کی طرح ایک بندھی بندھی بیکار سی زندگی جینے پر مجبور ہوں۔ ہماری زندگی ہے بھائی۔ ہمیں جینے دیجئے۔

لیکن وہ ماں باپ ہوتے ہیں۔‘ کمال یوسف نے مداخلت کی۔

’تو؟ ماں باپ ہیں تو ہمیں مار ڈالیں۔ یہی ذمہ داری ہے ان کی۔ ماں باپ ہیں تو ایک حد میں رہنا چاہئے انہیں۔ کیونکہ جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو ہماری اپنی زندگی کی شروعات ہو جاتی ہے جو ہمیں اپنے طریقے سے جینی ہوتی ہے۔ ہماری شناخت کیوں ماں باپ کی شناخت یا مذہب، ماں باپ کا مذہب ہونا چاہئے۔۔ ؟ صرف اس لیے کہ انہوں نے ہمیں پیدا کیا ہے۔‘

میں نے غور کیا، ناہید ناز کا پورا چہرہ غصہ کی آگ میں سلگ رہا تھا۔ ’اکثر ماں باپ اس لائق نہیں ہوتے کہ انہیں ماں باپ کہا جائے۔ کیونکہ پیدا ہوتے ہی وہ آسمانی کتابوں سے دو مختلف طریقے ہمارے لیے ڈھونڈ لے آتے ہیں۔ لڑکوں کے لئے رہنے کے طریقے الگ — لڑکیوں کے جینے کے طریقے الگ — دنیا کے زیادہ تر ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ایک دقیانوسی ماں باپ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے وجود کو مشکل سے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔‘

کمال یوسف اس پوری گفتگو کے درمیان خاموش تھا۔ اور یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ وہ ناہید ناز کی گفتگو سے متفق نہیں مگر ابھی کچھ بھی بولنا اس کے لئے آسان نہیں تھا۔ ناہید ناز خاموش ہوئی تو مجھے چائے تیار کرنے کا موقع مل گیا۔ جب چائے ٹرے میں لے کر لوٹا تو ٹیرس پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ٹیرس سے باہر وہ دونوں سائے اب بھی موجود تھے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بولا۔

’دیکھئے۔ وہ لڑکی ابھی تک ہے۔ یہ لڑکیاں مذہب اور معاشرے کا فرق تک بھول گئی ہیں۔۔ ‘ میں نے ایک معمولی بات کہی تھی لیکن اچانک میں نے غصہ سے کانپتے ہوئے ناہید ناز کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ مجھ پر برس پڑی تھی۔

’آپ بھی جو نا گڑھ کے ہجڑے نکلے۔‘

’جوناگڑھ۔۔ ‘ میں ایک دم سے چونک گیا تھا۔۔

’میں وہیں کی رہنے والی ہوں۔۔ ‘ کہہ کر وہ رکی نہیں۔ غصہ سے دہاڑتی ہوئی بولی — وہاں پیڑ کے سائے میں لڑکا بھی ہے۔ پھر لڑکے سے آپ کو شکایت کیوں نہیں۔‘ اس نے لڑکے کی شان میں گندی گالیوں کا پورا پٹارہ کھول دیا — لڑکی تو معصوم ہے۔ اور کیا جانتے ہیں آپ لڑکی کے بارے میں — ؟ ایک معصوم تیرہ چودہ، پندرہ سال کی لڑکی کے بارے میں — ؟ وہ اپنے احساس کی پینٹی میں ہوتی ہے۔ آپ کے ذراسا چھوتے ہی گیلی ہو جاتی ہے۔ قصور لڑکی کا ہے یا اسے بنانے والے کا ؟ سیکس آپ سے زیادہ لڑکی کو دیا تو لڑکی قصور وار ہو گئی۔ بھگوان نے ایک غلطی اور بھی کی۔ عورت کو لینے والا بنایا اور مرد کو دینے والا — مرد سو غلطیاں کرے تو پاک صاف۔ عورت غلطیاں کرے تو آپ چرتر ہین، کلٹا، فاحشہ رنڈی اور پتہ نہیں کن ناموں سے پکارنے لگتے ہیں  — میرے مطابق یہ تمام نام آپ کے ہونے چاہئیں۔ مردوں کے نام۔۔  رنڈی مرد۔۔  بھڑوا مرد۔۔  کلٹا مرد۔۔  فاحشہ مرد۔۔  آپ نے کائنات کے سب سے حسین تصور پر اپنی گندگیاں، بد صورتی اور خامیاں چھپانے کے لئے میل ڈال دی — مجرم تو آپ ہوئے۔‘

ناہید ناز نے ٹھنڈی سانس بھری۔ چائے کا کپ خالی کر کے بوٹی کرسی کے نیچے ڈال دیا۔۔  اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔  کچھ وقفہ تک سوچتی رہی جیسے اپنے توازن میں لوٹنا چاہتی ہو یا سلگتے الفاظ کے سرخ دہکتے کوئلے کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہو۔۔  وہ مسکرا رہی تھی۔۔

’آپ بھی جوناگڑھ کے ہجڑے نکلے۔ساری غلطی لڑکی کی۔مجرم عورت ۔۔  واہ رے۔۔  دو وجود آپسی اتفاق سے کمرے میں بند — شادی نہیں ہوئی تو محبت کے رشتے بھی نا جائز۔ دونوں بند ہیں لیکن ذمہ دار ہے تو لڑکی۔ سماج کو خراب کر رہی ہے تو لڑکی۔ بدنامی کا سارا طوق اسی کے گلے پر۔ اور مرد بڑے پارسا ٹھہرے۔‘

’ لیکن اس طرح تو آپ مغرب کی حمایت کر رہی ہیں۔ غیر ضروری آزادی کی حمایت کر رہی ہیں۔ کیا آپ نے سوچا ہے ان خیالات کو فروغ مل جائے تو بے راہ روی میں اضافہ ہو جائے گا۔ رشتوں کا فرق مٹ جائے گا۔ مذہب اسی توازن کا تو نام ہے۔‘

وہ پوری شدت سے چیخی تھی — ’ مذہب آپ کے گندے انڈروئیر میں ہوتا ہے۔ اور مرد جب تب عورتوں کے استحصال کے لیے مذہب کو اسی میلے انڈر ویر سے نکال لیتے ہیں۔ اور مجھے معاشرہ، مذہب آزادی کا خوف نہ دکھائیے — آپ جیسے جوناگڑھ کے ہجڑوں نے مذہب کو، عورت کو، سماج کو صرف اپنی ملکیت سمجھ رکھا ہے۔ یہ وراثت آپ سے ایک دن چھین لی جائے گی۔ اور آپ مغرب کی بات کرتے ہیں۔ آپ کا معاشرہ کیا ہے۔ یہاں لڑکیاں کوکھ میں مار دی جاتی ہیں۔ بڑی ہو جاتی ہیں تو اپنے رشتہ داروں کی جنسی جبلت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اسکول اور کالج جاتی ہیں تو وہاں بھی سیکس کا کھلونا ہوتی ہیں اور آپ کے ہر عمر کے مرد اسے گھورتے رہتے ہیں۔ آزادی تو آپ کی چھینی جانی چاہئے۔ آپ کو ساڑی پہنا کر، ہاتھوں میں چوڑیاں ڈال کر گھروں میں بند کر دینا چاہئے۔ میں سائنس سے صرف ایک تقاضہ چاہتی ہوں۔ بچے مرد پیدا کریں اور عورت بچہ پیدا کرنے کے عذاب سے آزاد ہو جائے — آپ عورت کو سڑکوں پر بھی مارتے ہیں۔ چلتی ہوئی بسوں میں بھی۔ اس کے ساتھ گزارے لمحوں کو عیش کا نام دیتے ہیں اور ہر بار آپ کی مردانگی کا ناجائز استعمال ہونے کے بعد وہی آپ کے لیے غلط ہو جاتی ہے۔ آپ کا پورا مرد سماج دوغلا ہے صاحب۔۔ ‘

وہ طنز کے ساتھ ہنس رہی تھی لیکن چہرے پر جھلستی آگ کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔

میں آہستہ سے بولا۔۔  ’مجھے ایسا کیوں احساس ہو رہا ہے کہ مغرب کے پردے میں آپ ناجائز سیکس کی وکالت کر رہی ہیں۔۔ ‘

ناہید ناز نے قہقہہ لگایا۔ پر جوش قہقہہ۔ کمال یوسف کی طرف دیکھا۔ پھر میری طرف — سیکس ناجائز کب سے ہو گیا؟ ناجائز ہے تو دنیا کے سارے رشتے ناجائز۔‘ وہ ہنس رہی تھی — دو لوگ ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ آپ کی گندی دنیا میں محبت تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی بہت ہے۔ لیکن آپ کے معاشرے کو ان کا ساتھ رہنا پسند نہیں تو یہ سماج شادی کا جائز سرٹیفکیٹ تھمانے چلا آتا ہے۔ شلوک اور دعا پڑھنے سے، رسوم سے گزار کر آپ کے یہاں ان معاملات کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔‘

’ آپ نے کیوں شادی کی، آپ بھی تو بغیر شادی کیے۔۔ ‘

’لو۔۔  وہی جوناگڑھ کے ہجڑوں کی طرح بات۔‘ ناہید زور سے ہنسی — ‘  ان سے پوچھئے۔ اس نے کمال یوسف کی طرف اشارہ کیا — ان کو لیو ان ریلیشن شپ منظور نہیں تھا۔۔  وہی۔۔  لوگ کیا کہیں گے۔ ارے لوگ جائیں بھاڑ میں۔ لوگوں کا کیا کرنا ہے۔ اور اب تو آپ کا بے بس اور لاچار قانون بھی ایسے رشتوں کو تسلیم کر رہا ہے۔۔ ‘

میں غور سے اس کے چہرے کی نفسیات پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس وقت کوئی بھی نتیجہ برآمد کرنا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ کمال یوسف کی حالت مجھ سے چھپی نہیں تھی۔ وہ کئی بار اس گفتگو میں مجھ سے نظریں چرانے کی کوشش کرتا نظر آیا۔ جیسے یہ مکالمے اسے پسند نہ آئے ہوں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ ناہید ناز جیسی کھلی ہوئی عورت کے سامنے وہ اس قدر لاچار تھا کہ اپنے خیالات کا اظہار بھی نہیں کر سکتا تھا۔ کمال یوسف کے چہرے کے تاثرات سے یہ اندازہ مجھے ہو چکا تھا کہ ناہید ناز کی باتوں پر متفق ہونا اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ بلکہ اب یہاں آنے کے بعد وہ شایداس بات کے لیے بھی پریشان تھا کہ اسے ناہید کو لے کر یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔ مگر اس سے ایک بات اور بھی ثابت ہوئی تھی کہ ناہید کا ماضی کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہو گا — کیونکہ جو باغی عورت اس کے وجود سے باہر آنے کو بے تاب ہے اس میں ایک بڑا ہاتھ اس کے اپنے گھر کا بھی رہا ہو گا۔ مگر ظاہر ہے ابھی اس بارے میں کوئی بھی بات ناہید ناز سے نہیں پوچھی جا سکتی تھی —

چلتے وقت کمال یوسف نے اپنا کارڈ دیا۔

’آپ نینی تال آئیں گے تو مجھے خوشی ہو گی۔‘

’کیوں نہیں۔ میں ضرور آؤں گا۔‘

’اب اجازت دیجئے۔‘

 

دونوں کے جانے کے بعد بھی آگ کی وہ تپش باقی تھی جو ناہید ناز اپنی گفتگو سے چھوڑ گئی تھی۔

اس کے کچھ دنوں بعد ہی میں اپنے گھر کی سیڑھیوں سے الجھ کر گر گیا تھا۔ ڈاکٹر نے ایک ہفتہ آرام کا مشورہ دیا تھا۔ اور اسی درمیان نینی تال سے مجھے کمال یوسف نے فون کیا تھا۔ دلی میں کیا کر رہے ہیں۔ یہاں آ جائیے — ممکن ہے یہاں آپ کو ایک دلچسپ کہانی مل جائے —

اور اسی کے بعد میں نے نینی تال جانے کا پروگرام بنا لیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

                   تیسرا حصہ

 

ریگِ جنوں

 

 

One is not born, but rather becomes, a woman.

— Simone de Beauvoir

 

(1)

 

ہری بھری گل پوش پہاڑیوں کے درمیان کئی خوبصورت کاٹیج بنے ہوئے تھے۔ خوشگوار موسم، پہاڑی جھیلوں اور جھرنوں کی مترنم آوازیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ مرغزاروں کے درمیان کی سڑک پر کبھی کبھی کوئی سواری یا کار تیزی سے رینگ کر پہاڑیوں کی دوسری سمت میں اوجھل ہو جاتی۔۔  حسین پھولوں اور سبز پتوں والے درختوں کی نہ ختم ہونے والی قطار کے درمیان سفری بیگ کندھے پر لٹکائے ہوئے ان وادیوں میں سیر کا بھی اپنا مزہ تھا۔تالوں میں تال، اور سب سے حسین اپنا نینی تال کہنے والے باشندے جب فخر سے مسکراتے تو ان کے چہروں پر نور کی کرنوں کا بسیرا ہوتا۔۔  اور جب وہ میزبانی کے فرائض انجام دیتے تو اس شہر کے تعلق سے ہزاروں کہانیاں ان کی زبان پر ہوتیں۔ کمایوں کے طول عرض میں یوں تو کتنے ہی تالوں میں قدرت نے اپنی سخاوت کا خزانہ کھول رکھا ہے لیکن پہاڑیوں اور مرغزاروں سے گھرے نینی تال پر قدرت کچھ زیادہ ہی مہربان نظر آتی ہے۔ تال میں پہاڑیوں اور درختوں کے عکس جب سورج کی کرنوں کے ساتھ اترتے ہیں تو سیاحوں کی آنکھوں کا نور کچھ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ پہاڑی جھرنوں میں تیرتے ہوئے بطخوں کا جھنڈ، چھوٹی چھوٹی کشتیاں اور رنگین موٹر بوٹ اور شب پر پانی میں اترتی ہوئی چاندنی کی کرنیں  — پھر کون ہے جس کی آنکھیں ان حسین مناظر میں گم نہ ہو جائیں۔۔

یہ ایک کاٹیج تھا جس کے باہر کوئی بھی نیم پلیٹ نہیں تھی۔ ایک خوبصورت سا لوہے کا دروازہ تھا۔ اور یہاں سے سامنے دلکش پہاڑیوں پر جمی ہوئی دھند کا نظارہ کچھ ایسا تھا جو اس لڑکی کو دیر تک۔ اس منظر میں گم ہو جانے پر مجبور کر رہا تھا۔۔  پہاڑی پرندے اڑتے ہوئے اس طرف آتے تو لمحہ بھر کیلئے اس کے ساتھ ان کی جانب اٹھ جاتے۔ پرندوں کے آسمان پر اوجھل ہوتے ہی وہ دوبارہ پہاڑیوں کی طرف دیکھنے لگتی۔۔

کاٹیج کے اندر کی ڈرائنگ روم میں اس وقت دو بزرگ ہستیاں ہندی کے قرآن شریف پر جھکی ہوئی تھیں۔

بوڑھے مرد نے آہستہ سے اپنی بیوی سے کہا۔ ’ہاں۔۔  کل جس جگہ تم نے چھوڑا تھا، اب وہاں سے آگے سناؤ۔‘

میں چشمہ بھول آئی ہوں۔‘ بزرگ عورت نے کہا۔بہتر ہے آج تم سناؤ۔‘

بوڑھے مرد نے عقیدت سے قرآن شریف کے صفحے پلٹے۔۔  اور پھر — بآواز بلند پڑھتا بھی جاتا تھا اور درمیان میں ٹھہر کر اپنی بیوی سے کچھ پوچھتا بھی جا رہا تھا۔۔۔

’’لوگوں کے لئے من پسند چیزیں۔۔  استریاں، سنتان، سونے چاندی کے ڈھیر، چنے ہوئے گھوڑے، چوپائے اور کھیت کی زمینیں بڑی لبھاونی بنا دی گئی ہیں۔ لیکن یہ سب دنیا کے لیے، کچھ دنوں کی چیزیں ہیں۔ حقیقت میں جو اچھا ٹھکانہ ہے وہ اللہ کے پاس ہے۔ میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے اچھی چیز کیا ہے، جو لوگ تقویٰ کی نیتی اپنائیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہے۔۔  جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ جہاں انہیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔۔  پاکیزہ بیویاں ان کی ساتھی ہوں گی۔ اور اللہ کی خوشی انہیں حاصل ہو گی۔ اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مالک ہم ایمان لائے ہماری خطاؤں کو معاف کر۔ اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا لے۔ یہ لوگ جو صبر سے کام لینے والے ہیں۔ سچے ہیں۔ فرماں بردار ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے معافی کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔۔ ‘

بوڑھے مرد نے سفید شال، جو پڑھتے ہوئے کندھے سے اتر گئی تھی، دوبارہ اپنے کندھے پر رکھی۔ پلٹ کر چمکتی آنکھوں سے بیوی کی طرف دیکھا۔ بزرگ بیوی کے ہونٹوں پر شکایت تھی۔

’تم بہت تیز پڑھتے ہو۔ میں اپنا چشمہ لے کر آتی ہوں۔ ‘ وہ سرعت سے اٹھی اور دوسرے ہی لمحہ مسکراتی ہوئی واپس آ کر صوفہ پر بیٹھ گئی۔

وحیدہ نہیں ہوتی تو۔۔ ‘ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس نے ہم اکیلے بوڑھوں میں زندگی ڈال دی ہے۔‘

’اور دیکھو تو کوشلیا۔۔  ہمارے لیے یہ آسمانی کتاب بھی لے کر آ گئی۔‘‘ بزرگ مرد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی — ’میں ایک عرصہ سے پڑھنے کا خواہشمند تھا۔ اور دیکھو تو۔۔  جیسے گیتا پڑھ رہا ہوں۔ گیتا میں ہے قرآن، تو قرآن میں گیتا۔ اقبال کتنا پہلے کہہ چکے تھے۔‘

کوشلیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ’ وحیدہ جب پڑھتی ہے تو لگتا ہے پھول جھڑ رہے ہوں۔‘

’وحیدہ کہاں ہے۔۔ ؟‘

’آواز دوں کیا؟‘‘

’نہیں۔ کہاں جائے گی۔ پینٹنگ کرے گی یا خاموشی سے باہر کے نظارے دیکھے گی۔ بیوٹی پارلر سے بھی چھٹی لے رکھی ہے۔‘

مرد بزرگ نے آہستہ سے کہا — ہاں تم آگے سنانے والی تھی۔

بزرگ عورت نے آنچل برابر کیا اور روانی سے پڑھنا شروع کیا۔

’’اللہ نے خوداس بات کی گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور فرشتے بھی اس سچائی اور انصاف کے ساتھ اس پر گواہ ہیں کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک مذہب صرف اسلام ہے۔۔ ‘

بزرگ مرد اس جملے پر ٹھہرا۔۔  کوشلیا نے بھی ایک سکنڈ کے لیے ٹھہر کر بزرگ مرد کے چہرے کی طرف دیکھا۔

’اس کے معنی وحیدہ سے پوچھنے ہوں گے۔‘

بزرگ نے آہستہ سے کہا۔’ اسلام کا مطلب ہوتا ہے سچا راستہ۔ ممکن ہے یہاں یہی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہو۔‘

کوشلیا کے ہونٹوں پر سوال تھے — ’ یعنی ہمارا دھرم کوئی دھرم نہیں۔‘ اس کے لہجہ میں فکر تھی۔ اب یہ بات وحیدہ ہی بتائے گی۔‘ کیوں۔۔  میں آواز دیتی ہوں۔‘

پتلی سی گردن پر وزن دیتے ہوئے چہرے کو دروازے کی طرف گھمایا اور صدا لگائی۔۔ ‘

’وحیدہ۔۔ ‘

کچھ ہی لمحے بعد تیزی سے وہ لڑکی بھاگتی ہوئی آئی جو کچھ دیر پہلے پہاڑیوں کی دھند دیکھنے میں مصروف تھی۔۔

’جی امی۔۔  جی ابو۔۔  آپ نے بلایا۔۔ ‘

’ دیکھا۔۔  پہلی ہی آواز پر۔۔ ‘ کوشلیا نے پیار سے وحیدہ کی طرف دیکھا۔۔  کہاں تھی بیٹی۔۔ ‘

’ باہر تھی امی۔۔ ‘

’کیوں۔۔ ‘

’زندگی کو سمجھ رہی تھی امی۔۔ ‘

ناگارجن یعنی بوڑھے مرد نے قہقہہ لگایا — ’تو میری بیٹی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم تو ابھی بھی نہیں سمجھ پائے بیٹی۔۔ ‘

’ جی ابو۔۔ ‘

’ اچھا۔ کچھ سمجھ میں آیا بیٹی۔۔ ‘

’جی ابو۔۔  باہر پہاڑیاں ہیں۔۔  دھند ہے۔۔  پرندے کھائیوں میں اپنی روح چھوڑ جاتے ہیں۔۔  راتیں نیلے آسمان سے ان کی حفاظت کرتی ہیں۔۔ ‘

’ روحوں کی۔۔ ؟‘

’ جی ابو ۔۔ ‘

کوشلیا غور سے وحیدہ کا چہرہ پڑھ رہی تھی۔۔

’ یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں وحیدہ‘

’پرندوں سے — وہ ہماری دوست ہیں۔۔ ‘

ناگارجن نے پھر ایک قہقہہ لگایا۔۔  زندگی ایک چھلا وہ ہے بیٹی۔۔  اچھا کیا جو تم نے پرندوں کو اپنا دوست بنا لیا۔ انسان تو چھلا وہ ہوتے ہیں۔۔  اب دیکھو۔۔  میرے ہی دو بیٹے تھے۔ ایک سنگاپور میں دوسرا امریکہ میں۔۔  ایک عمر میں دولت نشہ بن جاتی ہے۔ پرندے اڑ جاتے ہیں اور بوڑھے موت کے انتظار میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔‘

’ایسا کیوں کہتے ہیں ابو ۔۔ ‘

بوڑھے نے شال برابر کی۔ سرپر گرم ٹوپی تھی۔ سفید چہرہ اس وقت کچھ زیادہ ہی سپید ہو گیا تھا۔ ناک لال سرخ ہو رہی تھی۔ قد بھی کوئی پانچ فٹ ۸ انچ کے قریب۔ دبلے پتلے۔ آنکھیں فکر میں ڈوبی ہوئیں۔ ایک قطرہ آنسو آنکھوں میں خشک ہو گیا۔ کوشلیا نے پلٹ کر دیکھا۔۔

’ ایک وقت آتا ہے جب بچوں کی اپنی زندگی ہوتی ہے۔‘

’ ہاں اور اس زندگی کے لیے بچے، ہمارے درمیان گزارے ہوئے لمحوں کے ساتھ ہمیں بھی بھول جاتے ہیں۔‘

’ایسا نہیں ہے ابو۔‘

ناگارجن نے پلٹ کر اس معصوم سی بچی کو دیکھا۔ آنکھوں میں ایک چمک دوڑ گئی — کہاں سے آ گئی یہ فرشتہ اُن کے گھر ! اگر وحیدہ نہیں آئی ہوتی تو۔۔ ؟ انسانوں سے دور اور پرندوں کو اپنانے والی، قدرت کے سحر میں ڈوب جانے والی وحیدہ نے گھر کی اداسی اور ویرانی کو بڑی حد تک ختم ضرور کر دیا تھا۔ آنکھوں میں تین سال پہلے کی ایک تصویر لہرائی۔۔  یہاں سے دو کیلو میٹر آگے ایک جھیل ہے جسے چاندرک جھیل کہتے ہیں۔ وہاں سے دو قدم آگے لورزپوائنٹ ہے۔ یہاں اکثر خود کشی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس وقت وہ خود گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ کوشلیا نے ہاتھ کے اشارے سے چلا کر کہا —

’ وہ دیکھو۔۔ ‘

سامنے پہاڑیوں پر جھکی ہوئی ایک لڑکی تھی۔ کندھے سے جھولتی ہوئی سیاہ چنری۔ چوڑی دار پائجامہ اور کرتا پہنے — وہ پہاڑیوں پر یوں جھکی تھی جیسے چھلانگ لگانا چاہتی ہو۔۔  ناگارجن نے گاڑی روک دی۔ کوشلیا تیزی سے گاڑی سے اتری۔ اور دوڑ کر آگے بڑھ کر لڑکی کے ہاتھوں کو تھام لیا۔۔

’ کیا کرنے جا رہی تھی۔۔ ‘

’ گہرائی ناپنے جا رہی تھی۔۔ ‘

’ گہرائی۔۔ ‘

ناگارجن نے شک سے پوچھا — اکیلی ہو؟‘

’ہاں سب ہی تو اکیلے ہیں۔‘

’ پاؤں پھسل جاتا تو۔۔ ؟‘

’ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی — پھر پرندہ بن جاتی۔۔  ایک چھوٹی سی گوریا۔۔ ‘

’ مرنے سے ڈر نہیں لگتا؟‘

’ زندگی سے لگتا ہے۔۔ ‘ اُس کی آواز سرد تھی۔

ناگارجن کو اس لڑکی پر پیار آ گیا تھا۔

’ گاڑی میں بیٹھو۔ یہاں سے کچھ دوری پر ہی میرا گھر ہے۔‘

 

ڈرائنگ روم میں ڈرائی فروٹس اور پھلوں کے ساتھ وحیدہ کے چہرے پر رونق آ گئی تھی۔ وہ گرلس لاج میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ایک چھوٹا سا بریف کیس تھا اس کے پاس۔۔  ناگارجن اور کوشلیا نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے زندگی کے سارے راز چھپا لیے۔ صرف اتنا بتایا۔۔

’ میں تنہا ہی اس زندگی کو سمجھنا چاہتی ہوں۔‘

پھر ناگارجن نے اس کے بعد کبھی اس کے ماضی کے بارے میں جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ گرلس لاج سے بریف کیس آ گیا۔ اور وحیدہ خاندان کا ایک حصہ بن گئی۔ مگر وحیدہ کو دیکھتے ہوئے ہر بار ایسا لگتا، جیسے زندگی کے ہزاروں راز اس کے سینے میں پوشیدہ ہوں۔

ناگارجن خیالات سے واپس آئے تو سامنے وحیدہ کے شگفتہ چہرے پر فکر کی متعدد لکیریں دیکھ کر چونک گئے۔

’ کیا بات ہے بیٹی۔۔ ‘

’کچھ نہیں ابو۔۔  بس جی کبھی کبھی گھبرا جاتا ہے۔‘

’ لیکن تم تو تنہائیوں سے پیار کرتی ہو۔‘

’ کبھی کبھی تنہائیاں بھی گفتگو نہیں کرتیں۔‘

کوشلیا۔ آہستہ سے بولی — ’کیوں میری بیٹی کو پریشان کر رہے ہیں۔۔ ‘

وحیدہ جلدی سے بولی۔۔  ’نہیں امی ۔۔  ابو پریشان نہیں کرتے۔۔ ‘

ناگارجن نے پیار سے وحیدہ کو دیکھا۔

’اچھا ایک بات پوچھوں بیٹی۔۔ ؟‘

’ ہاں۔‘

’ تم پرندوں سے کیا باتیں کرتی ہو؟۔

’ میں تو ان سے ڈھیر ساری باتیں کرتی ہوں۔۔ ‘

’ کیا وہ تمہاری باتوں کو سمجھتے ہیں۔؟‘

ہاں۔ انسانوں سے زیادہ۔۔ ‘

’ کیا وہ بھی تم کو اپنی باتیں بتاتے ہیں۔‘

’ ہاں۔۔  وہ کہتے ہیں تم ہماری طرح بن جاؤ۔۔ ‘

’پھر تم کیا کہتی ہو؟‘

خدا نے جس کو جیسا پیدا کیا ہے، اس کو اسی طرح رہنا ہے۔

واہ۔۔  کوشلیا نے تیز آواز میں کہا۔۔

اچھا۔ تم پرندوں سے کیا کہتی ہو۔۔ ‘

’میں پوچھتی ہوں۔ زندگی کیا ہے۔۔  وہ پروں کو پھیلا کر اڑتے ہوئے کہتے ہیں۔ یہ ہے زندگی۔۔  میں کہتی ہوں۔۔  مجھے تو اڑنا نہیں آتا۔۔  وہ کہتے ہیں۔ اڑان سب کی سرشت میں ہے۔ میں کہتی ہوں۔۔  مجھے اڑنا سکھایا ہی نہیں گیا۔۔  وہ کہتے ہیں۔۔  نہیں سکھایا گیا تو ہمارے ساتھ سیکھ لو۔۔ ‘

’ پرندے تم سے تمہارے گھر کے بارے میں نہیں پوچھتے — ؟ ناگارجن نے نشانہ لگایا۔۔

نہیں۔ پرندے کہتے ہیں۔ یہ پورا آسمان ہمارا گھر ہے۔۔  اور یہ سارے پرندے ہمارے اپنے گھر کے لوگ — لیکن انسانوں میں ایسا نہیں ہوتا نا ابو۔۔  یہاں کوئی کسی کو اپنا نہیں سمجھتا۔۔ ‘

’ ہاں بیٹی۔ ہماری دنیا کا یہی سچ ہے۔ اپنے ہوتے ہوئے بھی ہم یہاں اکیلے ہوتے ہیں۔‘

ناگارجن پھر گہری اداسی میں کھو گئے تھے۔

’ میں باہر جاؤں ابو۔۔ ‘

’ ہاں بیٹی۔‘

وحیدہ کے باہر جاتے ہی کمرے میں سناٹا پھیل گیا۔

کوشلیا آہستہ سے بولی۔ کبھی کبھی اس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔۔  لیکن جانے کیوں لگتا ہے وہ بولتی رہے اور ہم سنتے رہیں۔۔ ‘

ناگارجن نے شال صوفے پر پھیلا دی۔ اور صوفے کی پشت پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔

باہر وحیدہ ہاتھ پھیلائے اڑتے پرندوں سے گفتگو میں محو تھی اور یہی وقت تھا جب ایک سایہ کندھے پر بیگ لٹکائے تیز تیز چلتا ہوا اچانک ٹھہر گیا تھا —

٭٭٭

 

 

 

(2)

 

یہ نظارے کسی مصور کی حسین پینٹنگس کی طرح تھے۔ دلکش اور دلفریب لینڈ اسکیپ میں گھری ہوئی یہ مکمل وادی قدرت کا حسین شاہکار معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن ابھی میری آنکھیں غیر یقینی طور پر ایک دوسری زندہ جیتی جاگتی پینٹنگ پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھیں۔ گلابی دھند میں پرندوں کے غول کے درمیان بھاگتی ہوئی، ہاتھوں کو ہوا میں لہراتی ہوئی وہ مجھے کسی طلسم کدے میں تنہا چھوڑ گئی تھی۔ حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا — اس کا چہرہ واضح نہیں تھا۔ تا حد نظر پہاڑیاں۔ ہلکی دھند۔ اڑتے ہوئے پرندے اور پرندوں کے درمیان ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے۔۔  میں پشت سے ایک نظر اس ساحرہ پر ڈال سکا تھا۔۔  جو پرندوں کے ساتھ ہی وادی گل پوش کی کسی اور سمت میں اوجھل ہو گئی تھی۔ اب پرندے بھی نہیں تھے۔ مگر ایک تصویر تھی جو اس وقت آنکھوں میں جامد و ساکت تھی اور مجھے میری حیرانیوں میں اُسی گلابی دھند کے ساتھ چھوڑ گئی تھی۔۔

یقین کے ساتھ، اس منظر سے نکل پانا میرے لئے مشکل تھا۔۔  وہ مثل غزال قلانچیں بھرتی، ایک ایک ڈگ اٹھاتی، اڑتے آنچل اور پرندوں کے ساتھ اسی انداز میں رقص کرتی ایک دھند سے نکلی اور دوسری دھند میں غروب ہو گئی — میں اسے پشت سے دیکھ سکا تھا اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہو نہ ہو میں پہلے بھی اس ساحرہ سے مل چکا ہوں۔ اور مجھے اس بات کا بھی یقین ہونے لگا کہ ان وادیوں میں آ کر میں نے کوئی بھول نہیں کی ہے بلکہ یہاں ابھی سے کہانیاں میرا انتظار کرنے لگی ہیں۔

اور اسی طرح مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ دلی گینگ ریپ، کمال یوسف اور ناہید ناز سے ملاقات، میرے گھٹنے کی چوٹ اور نینی تال میں قدم رکھتے ہی اس ساحرہ سے ملاقات کے درمیان بکھری ہوئی داستان کی گمشدہ کڑیاں اتفاقاً ایک دوسرے سے پیوست ہوتی جا رہی ہیں  — اور مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ یہاں آ کر اس ساحرہ سے ملاقات کے پس پشت بھی کچھ ایسی بات ضرور ہے جس نے مجھے دلی سے نینی تال کی وادیوں تک لانے پر مجبور کیا ہے —

کمال یوسف کا بنگلہ پاس ہی تھا — اتفاق سے دونوں ہی گھر پر تھے۔ ناہید ناز کچھ بدلی بدلی ہوئی خاموش تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ بڑے تپاک سے ملی اور اس بات کا احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ اندر سے پریشان ہے۔ جیسے وہ اس بات سے قطعی انجان تھی کہ میں مسلسل اُسے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا —

چائے پیتے ہوئے مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ میری آمد سے ناہید ناز کچھ زیادہ باخبر نہیں تھی — یعنی اگر یہ دعوت خاص کمال یوسف کی طرف سے ہے تو اس میں ضرور کچھ خاص بات ہے۔

بسکٹ کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے ناہید ناز نے کہا — کمال نے کل شب بتایا کہ آپ آنے والے ہیں۔۔ ‘

’ اس کا مطلب آپ کو کوئی خوشی نہیں ہوئی۔‘

’خوشی کیوں نہ ہو گی۔ ہم مہمان کو باعث رحمت سمجھتے ہیں۔ اور یہاں کون ہے جو اتنی دور ان وادیوں میں روز روز ہم سے ملنے آتا ہے۔‘

کمال یوسف نے مسکراتے ہوئے پوچھا — ’ آپ کا کمرہ تیا رہے۔ ضرورت کی ہر چیز وہاں موجود ہے۔ کیا آپ آرام کرنا چاہیں گے۔‘

’ ہاں۔ میں تھوڑی دیر فریش ہو کر آرام کرنا چاہوں گا۔‘

 

در اصل میرے لیے آرام کرنا ایک بہانہ تھا۔ میں اس درمیان جی بھر کر اس گلابی دھند کو یاد کرنا چاہتا تھا، جہاں وہ ساحرہ رقص کرتی ہوئی قدرت کے لینڈ اسکیپ کے درمیان اچانک گم ہو گئی تھی۔

’ کیا اس کے بارے میں کمال یوسف سے دریافت کروں ؟‘

لیکن میں ابھی جلد بازی کا کوئی مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ فریش ہونے کے بعد میں نے دوبارہ غور سے اپنے سجے ہوئے کمرے کو دیکھا — کھڑکی کا پردہ کھینچا۔ باہر پہاڑیوں پر گرتی ہوئی سورج کی کرنیں، ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے پہاڑیوں پر سونے کی نقاشی کر دی گئی ہو۔ گلابی دھند غائب تھی۔ ان پہاڑیوں پر دھند اور کرنوں کا رقص چلتا رہتا ہے — کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں ڈرائنگ روم میں آیا تو کمال یوسف اکیلے تھے۔ معلوم ہوا کہ ناہید کسی ضروری کام سے باہر گئی ہے۔ لیکن جلد ہی آ جائے گی۔۔  میں نے ناہید اور اس کے تعلقات کے بارے میں پوچھا تو اس نے ٹھنڈی سانس لے کر بتایا۔ سب کچھ تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے۔ میرے لیے سمجھنا مشکل ہے کہ ناہید مجھ سے کیا چاہتی ہے۔

میں نے پوچھا۔ کیا یہ سب پہلے بھی تھا۔۔

’ نہیں۔ ہاں کبھی کبھی اس میں ایک بدلی ہوئی عورت آ جاتی ہے۔۔ ‘

’بدلی ہوئی عورت یا مرد؟‘

’ممکن ہے۔‘

’ لیکن اس کی کوئی تو وجہ ہو گی۔؟‘

’ وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ لیکن محبت کی شروعات تک ایسا بالکل نہیں تھا۔ وہ ایک عام سی مسلمان ہندوستانی لڑکی تھی۔ کبھی کبھی اس کی باتیں ایک منفرد سوچ رکھنے والی، تعلیم یافتہ لڑکی کی ہوا کرتی تھیں، جس پر زیادہ غور کرنے کی مجھے فرصت نہیں تھی۔‘

’ کیا یہ رویہ دلی آنے کے بعد۔۔ ؛‘

’ نہیں۔۔  میں کہہ سکتا ہوں، اس رویے کی شروعات دلی آنے سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔‘

’ آپ نے ناہید کے اس بدلے بدلے رویے پر کچھ تو غور کیا ہو گا؟‘

’ میں کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اس کی ناراضگی آہستہ آہستہ ایک بڑی بغاوت میں تبدیل ہونے لگی ہے۔ کبھی کبھی مجھے یہ بھی احسا س ہوتا ہے کہ کہیں وہ کسی دماغی مرض یا نفسیاتی الجھن کا شکار تو نہیں۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ وہ ایک عام سی لڑکی ہوتی ہے۔‘

’ممکن ہے اُس پر غصہ کا دورہ پڑتا ہو۔۔ ‘

’ نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے  — یقیناً کوئی بات اندر سے اسے پریشان کر رہی ہے — لیکن وہ بات کیا ہوسکتی ہے، میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔‘

’مجھے بھی یہی لگتا ہے۔ لیکن ناہید سے کچھ بھی اگلوانا ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی میں کوشش ضرور کروں گا۔‘

میری آنکھیں گہری سوچ میں ڈوب گئی تھیں۔ مجھے ناہید ناز کے وہ مکالمے یاد آئے۔ جہاں مرد ذات کے لئے شدید ناراضگی کا رد عمل کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا۔

’کیا تم کو نہیں لگتا کہ بیک وقت وہ دو طرح کی زندگی جی رہی ہے۔؟‘

’ہاں۔ یہ میں نے کئی بار محسوس کیا۔‘

میں نے باشا کے بارے میں دریافت کیا۔’ اپنے بچے کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے۔‘

باشا کا خیال رکھتی ہے۔لیکن کبھی کبھی مجھ پر بھی ناراض ہوتی ہے کہ کیا حدیث میں لکھا ہے کہ بچے کا خیال عورت ہی رکھے۔‘

در اصل میں دلی سے آنے کے بعد کے واقعات جاننے کا خواہشمند تھا۔ کیونکہ کمال یوسف کی زندگی میں آنے والی بڑی تبدیلیاں اسی درمیان رونما ہوئی تھیں۔ وہ مجھ سے کھل کر گفتگو کا خواہشمند تھا — لیکن وہ خوفزدہ بھی تھا کہ ناہید ناز کسی لمحہ بھی گھر پہنچ سکتی تھی اور اسی لیے وہ بار بار ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا، کھڑکی کے پاس گیا۔ باہر کی طرف دیکھا — پھر مسکرانے کی ناکام کوشش کرتا ہوا بولا۔

’باشا نہیں ہوتا تو شاید میں اس سے الگ بھی ہو جاتا۔ مگر صاحب۔ محبتیں کبھی کبھی آپ کو رسوائی اور ذلت کے باوجود بھی مجبور اور لاچار بنا دیتی ہیں۔ میں جانتا ہوں، میں نے ٹوٹ کر ناہید سے محبت کی ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر کبھی کبھی۔۔  اور میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔‘ میں آپ کو کیسے بتاؤں۔۔  میں خود بھی اس کے ہر سوال پر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔۔  جیسے کل ہی جب میں نے اس کو بتایا کہ آپ آنے والے ہیں۔ اس کا غصہ دیکھنے کے لائق تھا۔۔  آپ نہیں سمجھیں گے۔ میں بتاتا ہوں کیا ہوا تھا۔ میں منسٹری آف ٹورزم کے محکمہ میں ہوں۔ اس دن مجھے اتراکھنڈ پر آئی ہوئی تباہی کے متعلق اپنی رپورٹ منسٹری کو بھیجنی تھی۔ ساتھ ہی نئے سرے سے تعمیرات اور تخمینہ کو لے کر بھی اپنی کارروائی مکمل کرنی تھی۔ میں سارا دن بزی رہا۔ ناہید سمر وے اسکول میں پڑھاتی ہے۔ صبح کو آفس آتی ہے اور تین بجے تک باشا کے ساتھ رہتی ہے — کبھی کبھی مشغول رہنے کے لیے وہ باہر سے بھی کچھ کام گھر لے آیا کرتی ہے۔ مثال کے لئے ایک ہندی اردو ڈکشنری کا پروجیکٹ تھا۔ اور یہ پروجیکٹ ایک ہنگامے کے ساتھ کچھ دنوں قبل ہی پایۂ تکمیل تک پہنچا تھا۔

’ ہنگامے کے ساتھ؟‘

’ یہ واقعہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے وہ واقعہ سن لیجئے جس کا تعلق آپ کی آمد سے ہے۔ شام کے ۶ بج گئے تھے۔ میں گھر پہنچا تو وہ بیڈ روم کی چادر تبدیل کر رہی تھی۔

٭٭

 

’ تو آ گئے آپ۔۔ ‘ ناہید گنگناتے  ہوئے ٹھہر گئی۔ غور سے کمال یوسف کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ مگر کمال یوسف اس مسکراہٹ کے بارے میں جاننے لگا تھا۔ ادھر کچھ دنوں سے ایسی مسکراہٹ آندھی بن کر نازل ہونے لگی تھی۔ کمال نے مسکرانے کی کوشش کی تو ناہید نے ہنستے ہوئے کہا۔

’جانتے ہو کیا سوچ رہی تھی‘

’نہیں۔‘

’ہاں تم کیسے جان سکتے ہو۔ ‘ وہ آہستہ سے بولی۔’ مگر سنو گے تو اچھل جاؤ گے۔‘

’ کوئی واہیات سی سوچ ہو گی۔‘

’تم مردوں کو ایسی سوچ واہیات ہی لگے گی۔ مگر سوچتی ہوں۔۔ ایسا ممکن کیوں نہیں ہے۔‘

’ کیا ممکن نہیں ہے۔‘

ناہید ناز تیز چلتی ہوئی کمال یوسف کے برابر میں کھڑی ہو گئی۔ پیار سے ہاتھوں کو تھام لیا۔

’ میں باہر سے آؤں۔ اور تم گھر سنبھالو۔‘

’مطلب — ‘ کمال یوسف نے بے چارگی سے ناہید کو دیکھا۔ اگر تمہارا مطلب جاب سے ہے تو جاب تم بھی کرتی ہو۔ میں بھی۔ ہاں دونوں کے آنے اور جانے کے اوقات مختلف ہیں۔ لیکن تم کوئی ہاؤس وائف تو ہو نہیں۔‘

ناہید نے ہاتھ چھوڑ دیا۔ اب وہ چیخ رہی تھی۔

’ تو مجھے ہاؤس وائف ہونا چاہئے تھا؟‘

’ نہیں۔ میں نے یہ کب کہا۔‘

’ ابھی کہا تم نے۔‘ وہ زور زور سے چلا رہی تھی — ’تم مردوں کا بس چلے تو بس ہمیں ہاؤس وائف بنا کر ہی رکھو۔ نمائشی گڑیا — جیسا تم صدیوں سے ہمیں بناتے رہے ہو۔ عورت گھر میں رہے۔ گھر کا کام کاج کرے۔ برتن صاف کرے۔ کھانا پکائے۔ جھاڑو دے۔ برتن صاف کرے۔ تمہارے بچے پیدا کرے۔ اور بچوں کی دیکھ بھال کرے۔ اور ایک دن گھس گھس کر مر جائے۔ یہی چاہتے ہو نا تم لوگ۔ پہلا گھر باپ کا۔ یہاں بھی اس کی کوئی شناخت نہیں۔ شناخت ہے تو باپ کی۔ شادی کی تو تمہاری شناخت۔ شوہر کی شناخت — عورت کے پاس اس کی اپنی شناخت کہاں رہ جاتی ہے — تم کو، تمہارے بچوں کو جیتے ہوئے وہ خود کو اس حد تک تقسیم کر دیتی ہے کہ زیرو رہ جاتی ہے۔ کم عمری میں ڈھل جاتی ہے۔ جسم پر چربی چھا جاتی ہے — عورت مردوں کے استعمال کے لیے نہیں بنائی گئی۔ مگر اس دنیا میں یہی ہوتا رہا ہے۔ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ عورت تم کو خوش کرے۔ مگر کمال یوسف، میں ان عورتوں میں سے نہیں ہوں۔ اس لیے تمہیں مجھے خوش  رکھنا ہو گا اور یہ بات تمہاری آئندہ کی ڈیوٹی میں شامل ہو گی۔‘

ناہید ناز ہنس رہی تھی — ’ دونوں خدا کی مخلوق۔ ایک مرد ایک عورت۔ لیکن تم لوگوں نے کیا بنا دیا عورت کو۔ تمہاری حکومت کے ختم ہونے کے دن آ گئے ہیں۔ اور اسی لیے میں سوچ رہی تھی۔ تم سے کہوں۔ نوکری سے استعفیٰ دے دو۔‘

’ استعفیٰ دے دوں ‘ کمال یوسف زور سے چلایا — ’مگر کیوں ؟‘

ناہید ناز نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ مسکرائی — میں چاہتی ہوں۔ تم گھر سنبھالو۔ گھر کی چادریں ٹھیک کرو۔ باشا کو دیکھو۔ جانتے ہو جب گھر پر میرا پہلا رشتہ آیا تھا تو لڑکے کی ماں بولی۔ آپ کی لڑکی کیا کرتی ہے۔ میری پڑھائی کے بارے میں جاننے کے بعد اس کی ماں کا خیال تھا۔ اتنی پڑھائی کافی ہے۔ پڑھ کر کیا نوکری کرنی ہے۔ اللہ کا دیا ہوا میرے گھر میں سب کچھ ہے۔ لڑکی کو تو خانہ داری آنی چاہئے۔ سلائی کڑھائی، کھانا پکانا۔۔  تب تک میرے تن بدن میں آگ لگ چکی تھی۔ کمرے میں ابو امی دونوں موجود تھے۔ میں نے پلٹ کر اس عورت سے پوچھا۔۔  تب تو آپ نے اپنے بیٹے کو یہ سب سکھایا ہو گا — وہ میری بات کی تہہ تک نہیں جا سکی۔اس نے حیرت سے پوچھا۔ کیا۔۔ ؟

’ یہی خانہ داری، سلائی، کڑھائی؟‘

’ کیوں ؟‘

’کیونکہ میں یہ سب نہیں جانتی۔ اللہ کا دیا ہوا یہاں بھی سب کچھ ہے — آپ کا بیٹا آرام سے رہے گا۔ ماشا ء اللہ اتنا پڑھ گیا ہے تو اسے کسی کام کی کیا ضرورت ہے۔ میں ہوں نا۔۔  اور ہاں۔۔  اُسے ناچ بھی سکھا دیجئے گا۔ کبھی کبھی میں اس کا مجرا بھی دیکھنا چاہوں گی۔۔ ‘

ناہید ناز کا چہرہ سلگ رہا تھا۔ کمینہ ہے تم مردوں کا سماج۔ لڑکی پڑھ لکھ کر بھی بیکار۔ پڑھنے لکھنے کے بعد بھی اسے گھر کی نوکری دے دیتے ہو تم لوگ۔ نوکرانی بنا دیتے ہو۔۔  جانتے ہو اس کے بعد کیا ہوا۔ وہ عورت غصے میں بکتی چیختی ہوئی بیٹے کو ساتھ لے کر چلی گئی تو ابو نے مجھ پر ہاتھ اٹھا دیا۔ میں غصے میں جل رہی تھی۔ میں نے ان کے ہاتھ کو تھام لیا۔ اور صرف ایک جملہ کہا۔ آئندہ یہ مت کیجئے گا جو ابھی کیا ہے۔ میرا تماشہ بنائیں گے تو خود تماشہ ہو جائیں گے۔۔ ‘

ناہید ناز نے آگے بڑھ کر سوئے ہوئے باشا کی طرف دیکھا۔ وہ خود کو سلگتے ہوئے جزیرے سے واپس لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

’صبح سے سوچ رہی تھی۔ تم آؤ گے تو کہوں گی۔ نوکری چھوڑ دو۔ باشا اب بڑا ہو گا۔ اُسے باپ کی ضرورت ہو گی۔ مرد زیادہ اچھے شیف ہوتے ہیں۔ فائیو اسٹار ہوٹل کو ہی لو۔ سارے بڑے شیف مرد ہیں۔ میں جانتی ہوں تم مجھ سے اچھا کھانا بنا لیتے ہو اور تم عورت سے بہتر گھر چلا کر دکھاؤ گے۔۔  ہے نا کمال۔۔ ‘

کمال یوسف حیرانی سے ناہید ناز کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی تو مسکراہٹ غائب تھی۔ چہرہ آڑی ترچھی لکیروں سے پُر تھا۔ ناہید ناز نے قریب آ کر اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔

’ ایسا ہونا چاہئے نا۔۔  ایک پوری زندگی تم مرد ہمارے نام کر دو۔ ہمارے بھروسے جیو۔ ہمارے ساتھ، ہماری رہنمائی میں۔ ہماری خوشی تمہاری خوشی ہو اور جب ہم زیادہ خوش ہوں تو تمہیں شاپنگ کرائیں۔ فلم دکھانے لے جائیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر تمہیں نئے نئے لباس میں ساتھ لے جائیں۔ اپنی دوستوں سے تمہارا تعارف کرائیں اور واپسی میں، تمہیں آئس کریم بھی کھلائیں۔۔  آخر ایسا کیوں ممکن نہیں ہے کمال۔۔ ؟‘

’ میں تمہیں ایک خبر دینے والا تھا۔۔ ‘ کمال نے اس سلسلے کو یہیں روکتے ہوئے آہستہ سے کہا۔

’ کیسی خبر؟‘

’ تم تو میرے آتے ہی شروع ہو گئی۔ تم نے مہلت ہی کہاں دی۔‘

’ تم نے مہلت مانگی ہی کب۔‘ ناہید ناز نے مسکرانے کی کوشش کی۔

اس درمیان باشا اٹھ گیا تھا۔ اس نے باشا کو گود میں اٹھا لیا۔ وہ پھر سے عورت بن گئی تھی۔ اب وہ باشا کو تیار کر رہی تھی۔ پہلے اس نے باشا کو بوتل سے دودھ پلایا پھراسے نئے کپڑے پہنانے لگی۔ اس درمیان وہ آہستہ سر میں کچھ گنگنا رہی تھی۔ کمال یوسف بالکنی میں آیا تو رات کی سیاہی آسمان پر چھا چکی تھی۔۔  ذہن میں پٹاخے چھوٹ رہے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ اگر وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر بیمار تھی تو وہ یہ بھی کہہ نہیں سکتا تھا کہ چلو، ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ ناہید کسی بھی طور پر خود کو بیمار سمجھنے کا جرم نہیں کر سکتی تھی۔ اس ناہید کو سمجھنا مشکل تھا۔ وقت کے ساتھ مردوں سے نفرت کا جذبہ شدید ہوا جا رہا تھا۔ یہ ایسی بات تھی جس کا اظہار وہ اپنے کسی مرد دوست سے بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر کمال یوسف کو یقین تھا کہ دلی میں جس مصنف سے ملاقات ہوئی تھی، وہ کسی حد تک اس معاملے میں اس کی مدد ضرور کر سکتا ہے — کمال کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ناہید کو اس کی اطلاع کیسے دے — مگر اطلاع تو بہر صورت دینی تھی۔ دوسری صورت میں مصنف کی اچانک آمد کو ناہید کسی سازش کا حصہ بھی سمجھ سکتی تھی۔

کمال یوسف نے اپنا جائزہ لیا۔ کیا وہ ناہید سے خوفزدہ ہے — ؟ اور اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں تھا۔ محبت کبھی کبھی خوفزدہ بھی کر دیتی ہے۔

یا زندگی جینے کے عمل میں محبت ہر بار خوفزدہ کرتی ہے۔

کمال یوسف کو ناہید کے آنے کی آہٹ سنائی دی۔ بالکنی میں اس کے سامنے والی کرسی پر ناہید بیٹھ گئی۔ سیاہ بدلیوں کی طرف دیکھتی ہوئی وہ اس طرف پلٹی۔ ہونٹوں پر معصوم سی مسکراہٹ تھی۔

’ تم ایک اچھے مرد ہو۔۔ ‘

’ مرد یا شوہر؟‘

’ شوہر؟‘ اس نے برا سا منہ بنایا۔ یہ ایک دقیانوسی سا لفظ ہے۔ مجازی خدا، شریک حیات، شوہر۔۔  یہ الفاظ مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔‘ وہ مسکرائی۔ ناراض تو نہیں ہو گے اگر یہ کہوں کہ۔۔ ‘

’ کیا۔۔ ‘

’ تم ایک اچھی بیوی ہو۔۔ ‘ ناہید نے اپنے ہی اس جملہ پر قہقہہ بلند کیا۔۔  تم میری ہر بات مان لیتے ہو۔۔ ‘ وہ مسکرا رہی تھی۔۔  سنو نا کمال۔۔  ڈکشنری سے لفظوں کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ عورت شوہر کے تصور میں بہتر لگتی ہے۔ اور مرد بیوی کے روپ میں۔ کیوں ؟‘

’ بیوی ہونا تمہیں پسند نہیں ؟‘

’ بالکل بھی نہیں ‘

’ اور شوہر ہونا۔‘

ناہید زور سے ہنسی۔۔  میں تمہاری شوہر ہی تو ہوں۔۔ ‘

’ قواعد کی روسے مجھے تمہارا شوہر ہونا چاہئے۔‘

’ چلو، قواعد کو بھی بدل دیتے ہیں۔‘

’ تمہارے لیے بدل دینا اتنا آسان کیوں ہے ناہید؟‘

’یہی سوال تم سے کروں تو تمہارے لیے یہ سب سننا مشکل کیوں ہے — ؟ بولو؟ ہر وقت۔۔  محبت کے موقعوں پر بھی ساتھ میں ایک چور مرد کو لے کر کیوں گھومتے رہتے ہو تم لوگ؟ کیوں ناز کرتے ہو اپنی مردانگی پر اس قدر، یہ مت بھولو کہ کائنات میں عورت کا تصور نہ ہوتا تو تمہارے پاس فخر کرنے لائق یہ مردانگی بھی نہ ہوتی — پھر کیوں ڈھول پیٹتے رہے ہو اس مردانگی کا۔۔ ‘

کمال خاموش تھا۔ ناہید نے ابھی اس لمحہ حقیقت کا اعتراف کیا تھا، آخرجس فلسفہ کو وہ بیان کر رہی تھی اسے دونوں کے مابین ہونے والا مکالمہ سمجھ لیا جائے تو ظاہر ہے غصہ یا ناراضگی کی کوئی صورت ہی نہ پیدا ہو۔ ہاں مردانگی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو ناہید ناز کی گفتگو سے نکلا ہوا یہ جملہ زہر تھا — مرد کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنی مردانگی کے ساتھ جیتا ہے۔

’ ہاں۔۔  تم کچھ بتانے والے تھے۔ ‘ ناہید کوجیسے کچھ یاد آ گیا۔

نیلے آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے چھا گئے تھے۔۔  دور پہاڑیوں کے ارد گرد روشنیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔۔

کمال نے ناہید کی طرف دیکھا۔۔ ’ تم کو وہ مصنف یاد ہے۔۔ ؟‘

’ جو دلی میں ملا تھا۔۔ ؟‘

’ ہاں۔‘

’ مجھے پسند نہیں آیا تھا۔‘

’ کیوں۔؟‘

’ پندرہویں صدی کی باتیں کرتا تھا۔‘

’اردو میں لکھنے والے ابھی بھی پندرہویں صدی میں جی رہے ہیں۔‘

’ تو مت لکھیں۔ کس نے کہا ہے لکھنے کے لئے۔‘

’ تبدیلی اچانک تو نہیں آتی ناہید۔‘

’مشکل یہ ہے کہ کوئی تبدیلی چاہتا بھی تو نہیں  — وہی پندرہویں صدی کی فکر۔ کیا مرد وہی رہ گیا ہے — ؟ کیا دنیا وہی ہے — ؟ سب کچھ بدل گیا ہے تو نئی دنیا کا تعاقب تو کرنا چاہئے نا۔۔ ‘

’ ان کی نظروں میں ابھی بہت کچھ نہیں بدلا ہے — جیسے وہ نہیں چاہتے کہ بہت کچھ بدل جائے۔ ابھی بھی بہت سے گھروں کے بچے پزا اور بر گر کی جگہ گھر کی روٹیاں ہی پسند کرتے ہیں۔ کولا بوتل کی جگہ انہیں پانی ہی پسند ہے — وہ زیادہ اڑان نہیں چاہتے۔ اور اپنی محدود دنیا میں خوش رہتے ہیں۔‘

’ ہونہہ — ‘ ناہید ناز نے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا۔۔

’ میں پھر کہتی ہوں۔ وہ آدمی مجھے ذرا بھی پسند نہیں آیا تھا۔‘

’لیکن یاد ہے، تم نے اُسے نینی تال آنے کی دعوت دی تھی۔‘

میں نے نہیں۔ تم نے دی تھی۔ میں نے دبے لفظوں میں کہا تھا۔۔ ‘

’ دبے لفظوں میں لیکن کہا تو تھا — ‘

’ اس کا کیا مطلب؟‘

’ وہ آ رہا ہے۔ وہ کل ہمارے گھر ہو گا۔ وہ ہمارے یہاں ہی ٹھہرے گا۔‘‘

’ ہمارے یہاں ؟‘

ناہید زور سے چیخی۔ اس کا لہجہ بدل چکا تھا۔

’ جھوٹ مت بولنا۔ اُسے تم نے بلایا ہے نا۔۔ ‘

’ میں کیوں بلاؤں گا۔‘

’ قسم کھاؤ، کہیں یہ تمہاری کوئی سازش تو نہیں۔؟‘

’ سازش کیوں ہو گی۔‘

’ اسے تم نے بلایا ہے۔ اور میرا دل کہہ رہا ہے۔ تم نے اس کو جان بوجھ کر بلایا ہے۔‘

کمال یوسف نے زور سے کہا — ’میرا قصور یہ ہے کہ جب اس نے آنے کے لیے کہا تو میں منع نہیں کر سکا۔ مجھے جھوٹ بولنا پسند نہیں آیا۔‘

وہ یہیں ٹھہرے گا؟‘

’ ہاں۔‘

’ کھانا کون بنائے گا۔ تم؟‘

’ نہیں۔ باشا کے لیے جو گورنیس آتی ہے — رکمنی — وہ اپنی چھوٹی بہن کو بھیج دے گی۔ وہ سارا دن ہمارے پاس ہی رہے گی۔‘

’ ہونہہ۔‘

ناہید گہری سوچ میں ڈوب گئی تھی۔ وہ دیر تک آسمان کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر اس سے مخاطب ہوئی۔

’ ٹھیک ہے۔ تمہارے مہمان۔ تم ہی سنبھالنا۔ لیکن ایک بات کہہ دیتی ہوں۔ اگر مجھے یہ تمہاری سازش نظر آئی تو۔۔ !

’ سازش کیوں ہو گی۔؟‘

’یہ تم زیادہ بہتر جانتے ہو۔ مگر سازش ہوئی تو میں ایک سکنڈ اس گھر میں نہیں ٹھہروں گی۔ اور ہاں تمہیں مجھ سے۔۔ ‘

ناہید ناز کے چہرے پر سختی کے آثار تھے۔تمہیں مجھ سے خلع لینا ہو گا۔‘

’خلع عورتیں لیتی ہیں۔ مرد طلاق دیتا ہے۔‘

’واہیات۔ معنی بدل چکے۔ طلاق دینا ہو گا تو میں دوں گی — تم مجھ سے خلع لو گے۔‘

وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

آسمان میں تیرتے ہوئے بادل دور چلے گئے تھے۔ آسمان پر چاند روشن تھا۔ کمال یوسف کے دل و دماغ میں چلنے والی آندھیاں تیز ہو گئی تھیں۔

٭٭

 

دیر تک کمرے میں خاموشی پسری رہی۔ بطور مصنف مجھے ناہید ناز سے ہمدردی تھی۔ اب مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ اس کے ماضی کی کئی کڑیاں ایسی رہی ہوں گی، جسے وہ آج تک سب سے چھپاتی آئی ہے۔ ممکن ہے دلی گینگ ریپ کے حادثے نے ناہید ناز کے اندر کی اس عورت کو جگا دیا ہو، جو خوفناک سطح پر مردوں سے نفرت رکھتی تھی۔ اب ناہید ناز سے ملنا اور ان حقیقتوں کی تہہ تک جانا میرے لئے ضروری ہو گیا تھا — اور اس کے لیے ضروری تھا کہ ناہید ناز کو دوست بنایا جائے اور یہ کافی مشکل کام تھا۔ اوراس کے بعد بھی یہ کہنا مشکل تھا کہ ناہید ناز ماضی کے کھنڈرات سے ان زخمی یادوں کو زبان تک لاتی ہے یا نہیں —

باشا کو کھلانے والی گورینس اپنے ساتھ اپنی بہن کو لے کر آئی تھی۔جو ایک پیاری سی لڑکی تھی۔ گورینس نے کہا۔

’کل سے لاجو صبح سے شام تک سارا کام کر دیا کرے گی۔ جیسا کھانا چاہیں گی۔ ویسا بنا لے گی۔‘

ناہید نے پوچھا۔ ’تمہارا کوئی بھائی نہیں ہے؟‘

کیوں ؟‘

’ مرد زیادہ اچھی دیکھ بھال اور زیادہ اچھا کھانا بناتے ہیں۔‘

’ نہیں، بھائی نہیں ہے۔‘

’ چلو کوئی بات نہیں۔‘

لاجو کے آنے سے چائے پینے کی آسانی ہو گئی تھی۔ میں نے محسوس کیا، کمال یوسف کے چہرے پر ناراضگی بھری شکن موجود تھی — اس کے برخلاف ناہید ناز اپنے معمول پر تھی۔ کبھی گاتی گنگناتی ہوئی، کبھی کمال کا نام لے کر پکارنا۔۔  کبھی باشا کو گود میں لینا۔۔  کبھی لاجو کو کچن کے بارے میں کچھ سمجھانا۔۔  جبکہ کمال یوسف کو چہرے کے تاثرات چھپانے میں خاصہ دقت پیش آ رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

(3)

 

وحیدہ کا اندنوں روز کا معمول بن گیا تھا۔ صبح سویرے اٹھ جاتی۔ پھر ابو امی کا بی پی اور شوگر چیک کرتی۔ دوا کھلاتی۔ ۔  اس کے بعد دونوں کو بیٹھا کر بھگوت گیتا سناتی۔ ناگارجن اور کوشلیا کے کہنے پر قرآن شریف کی قرأت کرتی اور آسان لفظوں میں مطلب بھی بتاتی جاتی۔۔

’ آج صبح کچھ نئے پرندے آئے تھے۔‘

’ تمہیں۔ کیسے معلوم کہ نئے پرندے تھے۔‘

’ میں نے بتایا تھا نا کہ یہاں کے پرندوں سے میری دوستی ہو گئی ہے۔‘ ناگارجن آہ بھر کر کہتے — ’ پرندے کب کس کے دوست ہوئے ہیں بیٹی۔‘

’آپ دوست بنا کر تو دیکھیے ابو۔‘

کوشلیا ایسے موقعوں پر بس مسکرا کر رہ جاتی۔

بی پی اور شوگر چیک کرنے کے بعد وحیدہ امی اور ابو کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آ گئی۔ اس نے ہاتھ میں گیتا لے کر گیتا کا پاٹھ کرنا شروع کیا۔ سر پر عقیدت سے آنچل ڈالا۔۔

’ یہ آتما نہ تو پروچن سے پراپت ہو سکتی ہے، نہ بدھی سے، اور نہ سننے سے ہی۔ یہ جس کو ورن کر لیتا ہے، اسی کے لیے یہ پرماتما اپنے روپ پرکٹ کر دیتی ہے۔ میں ایشور ہوں۔۔  میں سوادھین ہوں۔۔  اور دوسروں کا  ینتا بھی میں ہی ہوں۔ میں سدھ ہوں۔ میں سویم ہی سدھ ہوں۔۔  میں بلوان ہوں۔۔  اس لوک میں میرے سدرش دوسرا کون ایسا ہے، جس کو اپنے دم پر سارا ویبھو پراپت ہوا ہو۔۔ ‘

’ ایشور کی مایا بھی عجیب — ناگارجن آہستہ سے بولے۔۔  ایشور ان سبھی کتابوں میں اپنے رہسیہ کے ساتھ اپنے گن کی تعریف کرتا ہے۔ تم سچ کہتی ہو بیٹی۔ فرق صرف ہم میں ہے۔ مسلمانوں کا ایشور اور ہندوؤں کا ایشور الگ کہا ں ہے۔ اب بند کر دو بیٹی۔ دوپہر میں تم سے قرآن پاک سنیں گے۔ کیوں کوشلیا۔ وحیدہ کے ساتھ باہر چلیں، پرندوں کو دوست بنانے۔‘

’بہتر ہے کہ آپ ہی جائیں۔‘

ناگارجن وحیدہ کے ساتھ باہر آ گئے۔ پہاڑیوں کے درمیان سے جھانکتے ہوئے آسمان کا حسن ہی اور تھا۔ ناگارجن آہستہ آہستہ وحیدہ کے ساتھ چلتے رہے۔ وہ جیسے گفتگو کا بہانہ تلاش کر ر ہے تھے۔ بڑا بیٹا امریکہ ہے۔ گھر گرہستی بسالی۔ چھوٹا سنگاپور میں۔ کیوں ہوتا ہے مذہب؟ وہ جیسے خود سے سوال کر رہے تھے۔ کیا چھوٹے بیٹے کو وحیدہ سے بہتر کوئی لڑکی مل سکتی ہے؟ کیا وحیدہ اس کے لیے تیار ہو جائے گی۔ کیا ان کا آزاد خیال بیٹا اس کے لیے تیار ہو گا۔

وہ چلتے رہے۔۔  وحیدہ کی مسکراتی آنکھیں پرندوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ آسمان پرندوں سے خالی تھا۔ ناگارجن نے آہستہ سے پوچھا۔۔ ’ کبھی کبھی ہم انسان ہونے کے احساس سے تھک جاتے ہیں اور پالتو جانوروں میں، پرندوں میں زندگی کی کرنیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ یہاں ان پہاڑی علاقوں میں کتنے ہی ایسے بزرگ مل جائیں گے بیٹی، جن کے بچے انہیں چھوڑ کر غیر ممالک میں بس گئے۔ آہستہ آہستہ آنا جانا کم ہوا۔ پھر یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔۔ ‘

’ پھر۔۔ ‘ وحیدہ نے چونک کر ناگارجن کی طرف دیکھا۔۔

’ پھر پرندے آ گئے نا۔۔ ‘ ناگارجن ہنسے ان کے گھر جاؤ تو وہاں پنجرے ملیں گے۔ طوطا۔۔  مینا۔۔  مرغے مرغیاں۔ بلیاں۔۔  کتے۔۔  اور ان کے درمیان ایک سب سے بڑے پنجرے میں وہ مل جائیں گے۔‘

’ بڑا سا پنجرہ؟‘

’گھر۔ گھر بھی تو پنجرہ ہوتا ہے۔ جب تک گھر میں آبادی ہے۔۔  بچے ہیں۔ زندگیاں ہیں۔ گھر گھر ہے۔ لیکن بچے بھی تو پرندے ہوتے ہیں۔ پرندے اڑ گئے تو گھر خالی پنجرہ ہو جاتا ہے۔ اور پھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔‘

’ میں سمجھ سکتی ہوں ابو۔‘

’ کاش تم اس سے زیادہ بھی سمجھ سکتی۔۔  اور میرے بیٹے بھی۔ ناگارجن کہتے کہتے رک گئے۔ دیکھو نا بیٹی۔۔  آج میں آیا ہوں تو پرندوں سے آسمان خالی۔ پرندے نہیں آئے۔ تم اکیلے آتی ہو تو پرندے بھی آتے ہیں۔ پرندے انسان کی تنہائی سمجھتے ہیں۔ جب تم تنہا ہوتی ہو تو آ جاتے ہیں۔۔  پرواز کرتے ہوئے۔۔  آج مجھے دیکھا تو سوچتے ہوں گے، میں کیوں آؤں ؟ پرندے بھی حسد رکھتے ہیں بیٹی۔۔ ‘

’ نہیں ابو۔۔، وحیدہ چونک کر بولی۔ جب ہم کمرے میں تھے۔ فائر کی آواز ہوئی تھی۔ آپ نے سنی۔ مجھے یقین ہے پرندوں کا غول فائر کی آواز سن کر چھپ گیا۔ پرندے پھر آ جائیں گے۔۔  آ۔۔ آ۔۔ آ۔۔ ‘

وحیدہ ننھی سی بچی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ ہاتھ ہلا ہلا کر پرندوں کو آواز دے رہی تھی۔۔،

ناگارجن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ غور سے وحیدہ کو دیکھ رہے تھے۔۔

’آ۔۔ آ۔۔  آ۔۔ ‘

پہاڑیوں کے درمیان سے نیلا آسمان مسکرا رہا تھا۔۔

’آ۔۔ آ۔۔ آ‘

ناگارجن سب کچھ بھول کر معصوم سی وحیدہ کو دیکھ رہے تھے، جو اس لمحے ایک چھوٹی سی بچی میں تبدیل ہو گئی تھی۔۔

’ نہیں آئیں گے بیٹی۔۔  ناگارجن آہستہ سے بولے۔۔  انسانوں سے تھک ضرور گئی ہو لیکن۔۔ پرندوں کی جگہ انسانوں کو دوست بنا کر دیکھو۔۔  انسان اچھے بھی ہوتے ہیں۔۔ ‘

پھر وہ رکے نہیں، آگے بڑھ گئے۔۔

اس سے پہلے کہ وحیدہ ان کے الفاظ پر غور کرتی، ہوا میں اڑتا ہوا ایک پرندہ وحیدہ سے ذرا سے فاصلے پر، آہنی گیٹ پر آ کر بیٹھ گیا تھا۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(4)

 

میں نے کمال یوسف اور ناہید ناز کی زندگی کے کم و بیش اُن واقعات پر غور کرنا شروع کیا، جن سے میں واقف ہو گیا تھا اور میں بار بار اسی نتیجہ پر پہنچ رہا تھا کہ کچھ ایسی باتیں ضرور ہیں جن کا گہرائی سے ناہید کی پچھلی زندگی سے تعلق رہا ہے۔ میں کمال یوسف کو اس بات کے لیے تیار کرنا چاہتا تھا کہ میری موجودگی میں وہ کوئی ایسی دل شکن بات نہ کہے جس سے ناہید ناز خفا ہو کر اس پر پاگلوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ میرے لیے اس کی زندگی کے حال جاننے کا یہ بہتر موقع ہوتا۔ مگر جیسا کہ مجھے کمال نے سمجھایا، اس کا دوسرا پہلو بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس حد تک بھیانک ہو سکتا ہے کہ ہم کسی بھی خوفناک نتیجہ کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ کیا ثقافت اور مذہب کے امتزاج کا جو نیا رویہ عورتوں میں پیدا ہوا ہے، وہ مردوں سے نفرت کا ہے — ؟ ہندوستان سے پاکستان تک یہ جذبہ شدت اختیار کرتا ہے تو عورت پہلے خدا کی منکر ہوتی ہے پھر مردوں کے لیے اس کا جذبۂ انتقام سونامی بن جاتا ہے۔

 

رات کا کھانا کھانے کے بعد ہم ٹیرس پر تھے۔ لاجو وہیں چائے لے کر آ گئی تھی۔ آسمان میں چاند روشن تھا۔ ہوا سرد تھی اور جسم کو چھوتے ہوئے گزرتی تو اندر تک سرد لہر پھیلتی چلی جاتی۔ میں نے ناہید کی طرف دیکھا۔

’ آپ کو ڈر لگتا ہے؟‘

’نہیں۔‘

’ بچپن میں تولگتا ہو گا؟‘

’ ہاں۔ بچپن میں ہمیں جان بوجھ کر ڈرایا جاتا تھا۔ تاکہ لڑکیاں اپنی مضبوطی اور اڑان سے الگ ہوں اور خوفزدہ رہیں۔ گھر کی کھونٹ سے پالتو جانوروں کی طرح بندھی ہوئی۔‘

’ کوئی ایسا واقعہ۔۔، میں نے ترچھی نظر سے کمال یوسف کو دیکھا۔ وہ پہاڑیوں کی طرف بے نیازی سے دیکھ رہا تھا۔

ناہید ناز کا چہرہ شکن آلود تھا۔ ہزاروں واقعات ہیں۔۔  کہتے کہتے وہ ٹھہر گئی۔۔  میری طرف دیکھا۔ لیکن کیوں سناؤں آپ کو۔۔  اور آپ کو میری زندگی کے واقعات میں اتنی دلچسپی کیوں ہے۔۔ ‘

آنکھوں میں پرچھائیوں کا رقص تیز ہوا تو اس کا لہجہ نرم پڑ گیا۔ وہ رات کی سیاہی سے آنکھیں ملانے کی کوشش کر رہی تھی۔

’ میں خوفزدہ کب نہیں تھی۔ پیدا ہوتے ہی خوفزدہ تھی۔ اماں کہتی تھیں کہ میں ذرا ذرا سی بات پر ڈر جاتی تھی۔ گھر میں آسیب ہی آسیب بھرے تھے۔ کہتے تھے رات کے وقت گھر میں شہید بابا نکلتے ہیں۔ وہ سارے گھر میں گھومتے ہیں۔ رات میں ذرا سی آہٹ ہوتی تو امی ہونٹوں پر چپی رکھ کر کہتیں۔ شہید بابا۔۔  ایک بڑا سا باورچی خانہ تھا۔ باورچی خانہ کے پاس ایک دالان، جسے ان دنوں پتلکی دالان کہا جاتا تھا۔ یہاں نعمت خانہ بھی تھا۔ اماں کہتی تھیں۔۔  اسی دالان میں کہیں شہید بابا کا مزار ہے۔ ایک بار اماں نے بتایا۔۔ بقر عید کا موقع تھا۔ کباب کی تیاری کے لیے اسی پتلکی دالان میں اماں نے چھوٹے چھوٹے اینٹوں کو گھیر کر کوئلہ روشن کیا تو اچانک جیسے دھماکہ ہوا۔۔  سرخ کوئلے اماں کے چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے — اماں نے کہا، انہیں یقین ہے، یہ قبر اسی جگہ ہونی چاہئے۔ یہ شہید بابا کون تھے، یہ کہانی کبھی تفصیل سے بتائی نہیں گئی۔ کوئی اس کہانی کو ۱۸۵۷ کے غدر سے جوڑ دیتا۔ کوئی کہتا، یہاں آزادی کی جنگ لڑی گئی تھی۔ جب انگریزوں کا قافلہ رات کے وقت حملہ کرنے آیا تو اچانک کسی نے دیکھا۔۔  گھوڑے پر ہاتھ میں شمشیر لیے کوئی اکیلا فوجی ان کی طرف بڑھتا آ رہا ہے۔ قریب سے دیکھا تو اس فوجی کا سر ہی نہیں تھا۔ انگریز فوج اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ بھاگ کھڑی ہوئی۔۔  ایسے تھے شہید بابا۔۔  بس رات میں نکلتے تھے۔ کہتے ہیں وہ کھڑاؤں پہنتے تھے۔ اس لیے ان کے چلنے سے کھٹ کھٹ کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔‘

ناہید ناز کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔  لیکن آسیب کہاں نہیں تھا۔ برآمدے میں امرود کا پیڑ تھا اس پر بھی آسیب تھا۔ بالائی چھت سے سیم کی بیلیں دور تک چلی گئی تھیں۔ کہتے ہیں وہاں بھی آسیب کا ڈیرہ تھا۔ گھر میں سیڑھیوں سے اوپر کا حصہ اکثر ویران رہتا۔ چھت کے بارے میں ہزاروں کہانیاں مشہور تھیں۔ دن میں یہی چھت گلزار رہتی۔ چاول اور گیہوں پسرے ہوتے — دھلے ہوئے کپڑے یہیں چھت پر الگنی پر ڈالے جا رہے ہوتے۔ لیکن رات گئے چھت سے الو کی منحوس آوازیں گونجا کرتیں اور نانی اماں پوچھنے پر ڈانٹ دیا کرتیں۔۔  ان آوازوں کو نہیں سنتے ہیں پگلی — آسیب باہر بھی تھے۔ آسیب گھر میں بھی تھے۔ آسیب پائخانے میں تھے اور ہمارے سونے والے کمروں میں بھی — اور پھر ایک دن بچپن سے الہڑ پن کی دنیا میں آتے آتے ہم بھی آسیب ہو گئے۔ اماں نے مولوی صاحب کو بلایا تھا۔ مولوی صاحب نے دور سے ہی کہہ دیا۔ اس پر تو شاہ جنات سوار ہیں۔

’ ہائے اللہ۔ پھر اس کی شادی کیسے ہو گی؟‘

سوائے مولوی صاحب کے گھر کے ہر آدمی پر آسیب سوار تھا۔ گھر میں مولویوں کی عزت تھی اور آنا جانا لگا رہتا تھا۔ کیونکہ یہ مولوی جنات بھگایا کرتے تھے۔ ان کے قبضے میں پریاں ہوا کرتی تھیں۔ ان کے ناخنوں پر اسکرین بنا ہوتا تھا اور اسکرین پر اچھے برے، شیطان، جناتوں کی تصویریں بن جایا کرتی تھیں۔ اور ان بلاؤں کو ٹالنے کے لیے اماں اور نانی اماں ان کے کرتے کی جیبیں بھرا کرتی تھیں۔۔  جبکہ مجھے سب سے بڑے آسیب یہی مولوی صاحبان لگتے تھے۔ لیکن پیدا ہوتے ہی ہمارے ہونٹ سی دیئے گئے تھے۔ اورہمیں کچھ بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی۔

ناہید ناز بولتے بولتے اچانک زور سے چیخی — کچھ اور سننا ہے آپ کو۔ ذائقہ مل رہا ہے ہماری باتوں سے۔ مزہ آ رہا ہے۔ میں اب کچھ بھی نہیں سناؤں گی۔ اور سن لیجئے۔ یہاں مجھے ڈر نہیں لگتا۔ میں ڈر کو اس جوناگڑھ کے آسیبی گھر میں چھوڑآئی ہوں۔۔  وہ ہنس رہی تھی۔۔  اب تو میں خود ایک آسیب ہوں۔ یقین نہ ہو تو کمال سے پوچھ لیجئے۔ مجھے اکثر احساس ہوتا ہے کہ کمال مجھ سے خوفزدہ ہے۔ کیوں کمال۔۔ ؟

’ نہیں تو۔۔، کمال نے جلد بازی میں کہا۔۔

’ دیکھا۔۔، ناہید نے قہقہہ لگایا۔ پہلے نہیں لیکن اب یہ ڈرنے لگا ہے مجھ سے۔ اور مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مردوں کا ڈرنا اچھا شگن ہے۔ برسوں ان مردوں نے ہمیں ڈرا ڈرا کے رکھا ہے۔ اب انہیں ہم سے بھی ڈر لگنا چاہئے۔ میں سونے جا رہی ہوں۔

وہ تیزی سے اٹھی اور ٹیرس سے اپنے کمرے کی طرف غائب ہو گئی۔کمال یوسف گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ جبکہ میں ناہید ناز کی ذہنی کیفیت پر مسلسل غور کر رہا تھا۔ آج چھپانے کے باوجود جوناگڑھ کا تذکرہ ایک بار پھر آ گیا تھا۔ اور یہ حقیقت سامنے آ گئی تھی کہ جوناگڑھ میں جو اذیتیں ناہید کے حصے میں آئی ہیں، اب اس کا رد عمل باغی ناہید کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی یقین تھا کہ یہ اذیتیں کچھ اتنی بھیانک رہی ہوں گی کہ ناہید محض مردوں کو سزا دینے کے تصور سے ہی خوش ہو جاتی ہے۔ زندگی نے جو بھیانک سلوک اس کے ساتھ ماضی میں کیا ہے، اب وہ اسی کا انتقام لے رہی ہے۔ ممکن ہے یہ شادی بھی اسی انتقام کا حصہ ہو۔ یا یہ ممکن ہے کہ شادی کے بعد آہستہ آہستہ کمال جیسے مرد کی موجودگی میں ان مردوں کی کہانیاں بھی کھلتی چلی گئی ہوں، جو کبھی اس کی زندگی میں آئے ہوں۔ جب آپ اس طرح کے دو لوگوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو بھیانک پہلو پر سب سے پہلے آپ کی نظر پڑتی ہے۔ ممکن ہے کمال ایک متوازن شوہر رہے ہوں اور تجزیہ کے طور پر ناہید کے سامنے وہ مرد اچانک آ گئے ہوں، جنہوں نے کبھی، کسی دور میں اس کی روح تک کو زخمی کیا ہو اور آہستہ آہستہ یہ کہانیاں اتنی پھیل گئیں کہ کمال کی خوبیوں پر یہ خوفناک حادثے حاوی ہوتے چلے گئے۔

مگر کہانی کا اصل سرا ناہید ناز کے پاس تھا۔ اور میرے لیے اب اس کی کہانی کو جاننا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

(5)

 

لاجو سترہ سال کی ایک ہنس مکھ لڑکی تھی۔پرانی گورینس رکمنی کی چھوٹی بہن۔۔  ناہید کا خیال تھا کہ لاجو جلد ہی سب کچھ سیکھ جائے گی۔ رکمنی اپنے گاؤں گئی ہوئی تھی اور اس درمیان گھر اور باشا کا خیال لاجو کو ہی رکھنا تھا۔ باشا کے ساتھ اس نے کچن بھی سنبھال لیا تھا۔ اور اسی کے ساتھ اب اس کی بڑی بہن کو چھٹی مل گئی تھی۔ ناہید کی موجودگی میں لاجو اکثر خود کو قابو میں رکھتی تھی لیکن ناہید کے ذرا بھی اوجھل ہوتے ہی وہ کمال سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ ممکن ہے میرا وہم ہو لیکن نوخیز عمر کے اپنے تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ اور میرا خیال تھا، یہ بات ذرا بھی ناہید کے علم میں آئی تو لاجو پر پہاڑ ٹوٹ سکتا تھا۔

باہرلان میں ہم نے صبح کا ناشتہ کیا۔ مخملی گھاس پر پلاسٹک کی رنگین کرسیوں پر بیٹھے ہوئے دھوپ کی سنہری کرنوں کو دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔ پہاڑیوں کے درمیان سے سورج کی کرنیں و ادی گلپوش کو سونے کے رنگوں میں تبدیل کر رہی تھیں۔ میں نے نینی تال کے بارے میں جاننا چاہا تو بریڈ میں مکھن لگا تی ہوئی ناہید نے مسکرا کر کہا۔ یہاں کے لوگ نینا دیوی کے بھکت ہیں۔ اور یہ نینا دیوی شیو کی پتنی پاروتی ہیں۔ اس کے بعد ناہید نے وہ کہانی چھیڑ دی، جو عرصۂ قدیم سے یہاں کے باشندے سنتے چلے آئے ہیں۔ دکش پرجاپتی کی بیٹی اوما کی شادی شیو سے ہوئی تھی۔ لیکن دکش، شیو کو پسند نہیں کرتے تھے۔۔ ایک بار دکش پرجاپتی نے یگیہ کیا اور سارے دیوتاؤں کو بلایا۔ لیکن اوما اور شیو کو یگیہ میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔ اوما سے یہ برداشت نہیں ہوا۔ وہ ہون کنڈ میں کود گئی۔ شیو کو جب احساس ہوا تو وہ اپنے رودر روپ ( غصے) میں آ گئے۔ معافی مانگنے اور سمجھانے کے بعد شیو نے معاف کر دیا اور اوما کے جلے ہوئے جسم کو لے کر آسمانی سفر شروع کر دیا۔ جہاں جہاں اوما کے جسم کے حصے گرے، وہاں پر شکتی پیٹھ بنتے چلے گئے۔ اور یہ وہ مقدس جگہ ہے، جہاں اوما کے نین گرے تھے۔۔  نین کے گرتے ہی یہاں تال بن گیا۔۔  آج بھی یہاں کے باشندے نینا دیوی کی آرادھنا کیا کرتے ہیں۔

ناشتہ سے فارغ ہو کر ناہید کو سمر ولے اسکول جانا تھا۔ لاجو کو ضروری ہدایت دے کر ہم سے معافی مانگ کر وہ اسکول کے لیے روانہ ہو گئی۔ کمال یوسف کو منسٹری جانا تھا۔ لاجو بار بار باہر آ رہی تھی۔ میں اب اس کی آنکھوں کی چمک سے اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ کمال میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس درمیان کمال نے جو کچھ بتایا۔۔  وہ میرے لیے نیا تو نہیں تھا، مگر ناہید کے اندر چلنے والی کشمکش کو ان واقعات کے تناظر میں محسوس کیا جا سکتا تھا۔ کمال تیار ہونے چلے گئے تو میں واقعات کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کرنے لگا۔ اور بہتر صورت یہ ہے کہ میں اسی انداز میں واقعات آپ تک پہنچاؤں، جس انداز میں کمال نے مجھ تک پہچانے کی کوشش کی۔ کمال کے مطابق دلی سے آنے کے بعد ہی بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ ہر بار خود کو نرم کرنے کی کوشش کرتا۔ مگر ناہید کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں نے آہستہ آہستہ اسے ناہید سے دور کرنا شروع کر دیا تھا۔

٭٭

 

پہاڑیوں پر رات سو گئی تھی۔

باہر گھنا گہرا چھایا تھا۔ کھانے کے بعد تھوڑی سی چہل قدمی اور اس کے بعد کمال یوسف کمرے میں لوٹا تو ناہید لیپ ٹاپ پر جھکی ہوئی تھی۔ کمال سے آنکھیں چار ہوتے ہی ناہید کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

’ تم میری ہر بات مانتے ہونا۔۔ ‘

’ہاں۔ کیوں۔‘

’آج بھی تم کو میری ایک بات ماننی ہو گی۔‘

لیکن کون سی بات؟‘

’پہلے وعدہ کرو مانو گے؟‘

’ میں وعدہ نہیں کرتا۔ کیونکہ آج کل تمہاری مانگیں خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔‘ کمال یوسف نے جبراً مسکرانے کی کوشش کی۔

’ میں نے ایسی کسی مانگ کا اظہار تو نہیں کیا — ‘ ناہید زور سے چیخی — یہ اور بات ہے کہ اپنے حساب سے سوچتے اور غور کرتے ہوئے تم اسے غلط رنگ دے دیتے ہو۔‘

’ میں غلط رنگ دینے کی کوشش نہیں کرتا۔۔ ‘

’ اچھا۔۔  چلو کوئی بات نہیں۔ مگر آج تم کو میری بات ماننی ہو گی۔ اچھا ٹھہرو۔ میں ابھی آئی۔‘

کمال یوسف کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔۔  ناہید کے چہرے کی چمک بتا رہی تھی کہ کوئی انہونی ہونے جا رہی ہے۔ وہ دس منٹ کے بعد لوٹی تو کمال یوسف ایک دم سے چونک گیا۔ ناہید نے ایک مردانہ سوٹ پہن رکھا تھا۔ یہ وہی سوٹ تھا جسے پچھلے سال ہی اس نے ریٹائرڈ کر دیا تھا مگر ناہید کو یہ سوٹ بہت پسند تھا۔ سفید جھولتا ہوا شرٹ اور گرے کلر کی پینٹ۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ پشت کی طرف بندھے تھے۔

’کیسی لگ رہی ہوں میں۔۔ ‘

’ یہ کیسا مذاق ہے۔۔ ‘

’ میں پوچھ رہی ہوں کہ کیسی لگ رہی ہوں میں۔۔ ‘

کمال یوسف نے تلخی سے جواب دیا — ’ خود آئینہ میں دیکھ لو۔۔  جھولتا ہوا شرٹ۔ پاؤں سے باہر نکلتا ہوا پینٹ۔ اس وقت تم ایک جوکر لگ رہی ہو۔۔ ‘

کمال یوسف نے دیکھا۔ آخری جملے کا زبردست اثر ناہید کے چہرے پر ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ آگے کیا تو سرخ رنگ کی ساڑی اور اس سے میچ کرتا ہوا بلاؤز اس کے ہاتھ میں تھا۔۔  ناہید نے ساڑی اور بلاؤز اس کی طرف اچھال دیا۔

’اب یہ تم کو پہننا ہے۔۔ ‘

’پاگل ہو گئی ہو۔‘

’ میں کہہ رہی ہوں نا۔ یہ تم کو پہننا ہے۔‘ وہ ہنس رہی تھی۔

’سوال ہی نہیں — ‘

’ اس گھر میں دو دو جوکر ہیں۔ اکیلے جوکر بننا مجھے منظور نہیں۔‘

’ میں کسی قیمت پر تمہارے اس گھٹیا کھیل میں شریک نہیں ہو سکتا۔‘

وہ تو تمہیں ہونا ہو گا۔۔ ‘ ناہید زور سے چیخی۔ آخر میں نے بھی تو تمہارا لباس پہنا ہے۔ تمہارا لباس پہنتے ہوئے مجھے دو منٹ کے لیے بھی نہیں سوچنا پڑا۔ ہمارے لباس پہنتے ہوئے تمہیں اتنا سوچنا کیوں پڑ رہا ہے؟ اسی لباس کو دیکھتے ہونا۔۔ ؟ اسی لباس میں چھپے ہوئے جسم کو آنکھوں میں بساتے ہونا۔۔  پہنو۔۔،

کمال کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا تھا۔

’ لیکن میں اس کے باوجود نہیں پہن سکتا۔۔،

’تمہیں ہر قیمت پر پہننا ہو گا۔‘

’ تم اپنی حد کراس کر رہی ہو ناہید۔‘

ناہید کے چہرے پر خطرناک مسکراہٹ تھی — ’ابھی تم نے میری حد دیکھی کہاں ہے۔۔ ‘

کمال کا ذہن ڈوب رہا تھا۔۔  ساڑی اور بلاؤزاس نے کانپتے  ہاتھوں سے اٹھا تو لیا مگر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، ناہید کی باتوں پر عمل کیوں کیا جائے؟ اگر یہاں صرف پیار ہوتا تو ممکن ہے وہ اس عمل سے بھی گزر جاتا۔ اس نے ایسی کہانیاں سینکڑوں بار سنی تھیں کہ بہت سے جوڑے سیکس کے موقع پر ایک دوسرے کے لباس تبدیل کر لیتے ہیں۔ ممکن ہے ایک نئے ذائقے کے لیے۔ لیکن یہاں ذائقہ نہیں تھا۔ ایک خطرناک ضد شامل تھی۔ اور اس خطرناک ضد میں وہ ناہید کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ ناہید اس کے مردانہ لباس میں سامنے تھی اور حقیقت یہ تھی کہ اس نے جو کر ضرور کہا تھا مگر اس لباس میں اس کی جسمانی خوبصورتی کھل کر سامنے آئی تھی۔ وہ سیکسی لگ رہی تھی۔مگر سوال یہ تھا کہ ساڑی اور بلاؤز پہن کر وہ اس میں کیا دیکھنا چاہتی ہے۔ اور اگر وہ منع کر دیتا ہے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے — ؟ وہ اپنی خاموشی میں الجھا ہوا تھا یا اس وقت کمرے کی خطر ناک خاموشی سے بارود کی مہک آ رہی تھی۔۔ ’’ اس نے ناہید کی آواز سنی، وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر اس سے مخاطب تھی۔

’تم نے اب بھی نہیں پہنا تو سن لو کمال یوسف۔ تم میری موت کے ذمہ دار ہو گے۔ میں یہاں سے سیدھے باہر جاؤں گی اور پہاڑسے چھلانگ لگا دوں گی ۔۔ جانتے ہو نا۔۔  میں ایسا کر سکتی ہوں۔‘

کمال یقینی طور پر اس دھمکی سے ڈر گیا تھا اور اس کے آگے کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ناہید کی باتوں پر عمل کرے۔۔  اس نے بے چارگی بھری نظروں سے ناہید کی طرف دیکھا۔۔

’ تمہاری خواہشیں تمہاری طرح خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔‘

’ جانتی ہوں۔‘

’ کیا یہ ڈرامہ ضروری ہے؟‘

’ہاں۔۔  مجھے تمہیں اس ڈریس میں دیکھنا ہے۔ تسلی کرنی ہے۔‘

’ کس بات کی تسلی۔‘

’ یہ نہیں بتا سکتی۔‘

’ کیوں ‘

’بس نہیں بتا سکتی۔‘

’ پھر تسلی کس بات کی۔۔ ‘

ناہید کی مسکراہٹ زہر بھری تھی — ’ تم مردوں کو عورت کے روپ میں دیکھنے کی۔ ‘ وہ ہنس رہی تھی — ’ فلموں میں دیکھو۔ عامر سے شاہ رخ تک عورتوں کے لباس میں نظر آتے ہیں تو کتنے مضحکہ خیز لگتے ہیں۔۔ ‘

’ تم یہ دیکھنا چاہتی ہو کہ تمہارا شوہر کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔؟‘

’پلیز شوہر مت بولو۔ مجھے اس نام سے چڑ ہے۔ اس وقت شوہر میں ہوں۔ اور تم سرخ ساڑی زیب تن کر نے کے بعد میری بیوی۔‘

’ انا کی تسکین ہو جائے گی؟‘

’ مکمل نہیں۔ تھوڑی بہت‘

’ اس سے تمہیں کیا ملے گا؟‘

’ زیادہ سوال مت کرو کمال۔ جو ملے گا تم مرد اسے سمجھ بھی نہیں سکتے۔ مگر پلیز۔ اب پہن لو۔ میں تمہیں اس لباس میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ جلدی کرو۔۔ ‘

’ تو تم نہیں مانو گی۔‘

’ کسی بھی قیمت پر نہیں۔‘

 

شاید محبت انسان کو اکثر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ عجیب سی خواہش کا اظہار تھا مگر اس کے لیے دھمکی بھی دی جا چکی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اندنوں ناہید کی دماغی حالت بہتر نہیں ہے۔ وہ ضد میں کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہے۔۔  کمال اب وہ کرنے کے لیے مجبور تھا، جس کا حکم اسے ناہید نے دیا تھا۔اس کا ذہن اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔  اسے بار بار لگ رہا تھا، وہ نہیں مانا تو ناہید کسی بھی پہاڑی سے کود جائے گی۔ اس کے بعد جو ہو گا، وہ اس الجھن میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا، لیکن یہ کام، جسے ناہید کرنے کے لیے کہہ رہی تھی، ایسا غیر معقول کام تھا، جسے کرتے ہوئے اس کی مردانہ جھجھک آڑے آ رہی تھی۔ ایک جھٹکے سے اس نے کپڑے اتار دیئے۔۔  بلاؤز پہننے کی کوشش کی تو چھوٹا پڑ گیا۔۔  ناہید زور سے تالیاں بجا کر ہنسی۔۔

’ ساڑی پہن لو۔۔ ‘

وہ ساڑی کسی طرح بمشکل کمر سے باندھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔

’ اب پلو ڈالو۔۔ ‘

’اس نے پلو بھی ڈال لیا۔۔  اور اچانک ناہید کا زہریلا قہقہہ سن کر چونک گیا۔۔

’تم جوکر نہیں ایک بد ہیئت اور خوفناک مخلوق نظر آ رہے ہو۔۔  جس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔ جاؤ دیکھو، سامنے آئینہ ہے۔ خود کو دیکھ لو۔۔  اسی جسم پر ناز کرتے ہو تم لوگ۔۔  کیسا اوبڑ کھابڑ اور خوفناک بدنما جسم ہے تم لوگوں کا۔۔  تم سے اچھے تو سڑک کے گدھے اور گھوڑے ہیں۔ناہید کی آواز سے بارود کی مہک آ رہی تھی۔۔  اسی بدصورت جسم سے عورت کے بارے میں سوچتے ہو؟ اسی جسم سے زنا بالجبر کو رسوا اور ذلیل کرنے کا خیال جاگتا ہے۔ یہ جسم نہیں ہے، سر سے پاؤں تک بکھری ہوئی ایک ایسی بد صورتی ہے جسے سوچنے اور دیکھنے سے بھی گھن آتی ہے۔‘

کمال حیران سا ناہید کو دیکھ رہا تھا۔ گولیورس ٹریول میں جب گولیور گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو گھوڑے انسانی جسم کا کچھ اسی طرح مذاق اڑا رہے تھے، جیسا مذاق اس وقت ناہید اڑا رہی تھی۔ لیکن وہ صرف ایک مرد نہیں تھا، ایک شوہر تھا۔ تو کیا ناہید اس کے وجود کے سہارے دنیا کے تمام مردوں سے انتقام لے رہی تھی۔۔

’تم ناقابل برداشت ہو۔ اور دیکھو، اس لباس نے تمہاری اصلیت کو بے نقاب کر دیا۔ یہ ہو تم لوگ۔ ٹیڑھے میڑھے۔ اوبڑ کھابڑ۔۔  جانوروں سے بدتر۔ اور شاید اسی لیے تم لوگوں کی خصلت میں ایک جانور بولتا آیا ہے۔ تم لوگ جانور ہی پیدا ہوئے اور حقیقت یہ ہے کہ تم مرد جانوروں سے بھی بدتر نظر آتے ہو۔۔،

 

اس حادثے کے بعد کئی دنوں تک کمال یوسف اور ناہید کے درمیان بول چال بند رہی۔ دو ہی راستے تھے۔ یا تو ناہید سے الگ ہو جایا جائے یا پھر ناہید کو اسی حالت میں قبول کیا جائے۔ ایک طرف باشا تھا جس کے لیے ناہید کی ضرورت تھی اور ایک اہم سوال اور بھی تھا، آج کی ناہید کو کون قبول کرے گا؟ ممکن ہے اس سے الگ ہونے کے بعد ناہید زندگی کی دعوت کو قبول ہی نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناہید اس کی محبت تھی اور وہ مشکل حالات میں بھی ناہید کے بارے میں کچھ بھی برا سوچنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔

ایک مہینہ تک سب کچھ ٹھیک چلا۔ مگر ایک مہینہ بعد ایک اور حادثہ ہو گیا جس نے اس فکر کو تقویت دی کہ ناہید کو بدلا نہیں جا سکتا ہے۔ اور ناہید مردوں کے نام پر جس غصے کے ساتھ زندگی جی رہی ہے، یہ غصہ اچھی بھلی ازدواجی زندگی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن ناہید ان سوالوں سے کہیں دور جا چکی تھی۔۔

’ اس دن شام کے 4بجے ہوں گے۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(6)

 

ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ باشا کو دو دنوں سے بخار تھا۔ بخار کی کیفیت میں باشا لاجو کے پاس رہنا نہیں چاہتا تھا۔ ناہید باشا کے لیے پاگل ہو جاتی تھی۔۔  وہ خود ہی باشا کو لے کر ڈاکٹر کے یہاں چلی جاتی۔۔  اور ایسے موقعوں پر ایک بالکل ہی نئی ناہید سامنے ہوتی تھی۔ باشا صحت مند ہو گیا تو ناہید نے آرام کی سانس لی۔ اس کے دوچار روز بعد ہی ناہید کی ایک سہیلی کی شادی تھی۔ کمال نے پہلے تو منع کیا لیکن ناہید کی ضد کے آگے ہمیشہ کی طرح اسے ہتھیار ڈالنا پڑا۔

’ تم اکیلی کیوں نہیں جا سکتی — ؟‘

’ جا کیوں نہیں سکتی۔ لیکن جب تم اپنے دوستوں کی شادی میں جاتے ہو تو مجھے کیوں لے جاتے ہو۔‘

’ کبھی کبھی کسی ضروری کام کی وجہ سے مجبوری بھی تو ہو سکتی ہے۔‘

’ آفس کا کوئی کام اتنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔‘

’ یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو — ؟‘

’کیوں کہ میں تمہارے ضروری کام کی نوعیت سے واقف ہوں۔‘

’کیا تم نے یہ محسوس کیا ہے ناہید کہ ان دنوں تمہاری ضد ہر معاملے میں شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔‘

ناہید نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ ’در اصل تم جسے ضد کہتے ہو وہ چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہوتی ہیں۔ تم ان خواہشوں پر بھی سوالوں کی تہہ چڑھا دو تو تمہاری مرضی۔۔ ‘

کمال کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر ناہید نے کوئی فیصلہ کر لیا ہے تو وہ اپنے فیصلے کے آگے جھک نہیں سکتی۔ اگر دونوں میں کسی ایک کو جھکنا ہے تو اسے ہی جھکنا ہو گا۔ صبح کی بوجھل گفتگو کے بعد وہ دیر تک لیپ ٹاپ سے کھیلتا رہا۔ ٹورزم سے متعلق سائٹ پر جانا اور نئے نئے انفارمیشن جمع کرنا اسے پسند تھا۔ اور اسی لیے ڈائرکٹرس میٹنگ میں اس کی انفارمیشن کی قدر کی جاتی تھی۔ کیوں کہ اس کے پاس مضبوطی سے اپنی بات رکھنے کے لیے جو ڈاٹا  ہوتے تھے، انہیں ہر صورت میں قبول کرنا ہوتا تھا۔ ذہنی دباؤ سے بچنے کا بھی یہ ایک طریقہ تھا کہ لیپ ٹاپ سے دل بہلایا جائے۔ مگر کمال یوسف کا بیقرار دل بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ آج بھی کچھ انوکھا ہونے والا ہے۔ دلی سے واپسی کے بعد ہر روز ہی ان مکالموں میں ایک انجانے مرد کی موجودگی ہوتی تھی۔ مرد، جس سے انتقام لیا جانا ہی واحد راستہ تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ دنیا کے تمام مردوں کے انتقام کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا تھا — ایک بار ناہید نے مسکراتے ہوئے کہا بھی تھا۔

’ تمہارے اندر صبر بہت ہے کمال۔‘

’ اور آپ میرے اسی صبر کا امتحان لیا کرتی ہیں۔‘

’مجھے اچھا لگتا ہے۔‘ وہ معصومیت سے مسکرائی۔

’لیکن کسی دن یہ صبر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔۔ ‘

’مجھے اس دن کا بھی انتظار رہے گا۔ برف پگھل سکتی ہے۔ صبر ٹوٹ کیوں نہیں سکتا۔؟‘

وہ اتنے پیار سے مسکرائی کہ کمال یوسف کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔

’ تم سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ہو ناہید۔‘

’میں آسان ہونا بھی نہیں چاہتی۔ میں زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی اور جیتی ہوں۔ میں زندگی کو سمجھنے کے لیے دوسروں کا احسان نہیں لیتی۔‘

ناہید مطمئن تھی لیکن تب تک کمال یوسف کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ جلد ہی ایک نئے حملے کا شکار ہونے والا ہے۔۔

 

بیڈ روم میں آرام کرنے کے دوران ہی ناہید نے جگا دیا۔ ابھی تک آپ سو رہے ہیں۔ سات بجے تک شادی میں پہنچنا ہے۔

’ تم سونے بھی نہیں دیتی۔‘ کمال نے بے بسی سے کہا۔

’میں تیار ہونے جا رہی ہوں۔ اور ہاں۔ آپ کے لیے کپڑے نکال رہی ہوں۔ جوسوٹ نکالے ہیں۔ آپ کو وہی پہننا ہے۔

’ کیوں۔؟‘

’میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ اور یاد رکھئے شادی میں لے کر میں آپ کو جا رہی ہوں۔ آپ نہیں۔ وہاں میری بہت سی سہیلیاں ہوں گی۔‘

’ سہیلیاں ہوں گی تو میں کیا کروں۔۔ ؟‘

’ارے آپ کیا کریں گے۔ مجھے تعارف کرانا ہو گا۔۔  مجھے بتانا ہو گا کہ آپ کون ہیں۔ اور ہاں۔ ناہید نے جلتے ہوئے توے پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے کہا۔ ’سوٹ کے پاس ہی آپ کی گھڑی بھی رکھی ہوئی ہے۔‘

’گھڑی؟‘

’ ہاں۔‘

’ تم جانتی ہو میں گھڑی نہیں پہنتا‘

’ ہم چوڑیاں پہنتے ہیں نا۔۔، ، ناہید نے قہقہہ لگایا — ’گھڑی جان بوجھ کر رکھی ہے۔ مجھے احساس ہو گا چوڑیوں کی جگہ آپ کی کلائی پر یہ گھڑی موجود ہے۔

کمال یوسف کی نیند اچٹ چکی تھی۔ وہ حیران و پریشان نظروں سے ناہید کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’ چوڑی کا گھڑی سے کیا رشتہ ہے — ‘

’ دونوں ہتھیلیوں کو قید رکھتے ہیں۔‘

’ تو آپ ہمیں شادی میں قیدی بنا کر لے جانا چاہتی ہیں۔‘

’ ہاں۔‘ ناہید نے بے رحم آنکھوں سے کمال یوسف کی طرف دیکھا۔۔  ’شادی بیاہ میں ہی تم مردوں کو ہم عورتوں کی یاد آتی ہے۔ نمائش کی چیز بنا کر رکھ دیا ہے عورت کے وجود کو۔ گھر میں میلے کپڑوں میں تمہارے بچوں کی پرورش کرے گی اور جب شادی بیاہ میں لے جانا چاہو گے تو چمچماتے کپڑوں میں شو پیس بنا کر لے جاؤ گے۔ چار گھنٹے بیوٹی پارلر میں اور پھر ایک داسی یا غلام کی طرح جب اپنے دوستوں سے تعارف کراتے ہو تو قربانی کے جانوروں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔‘

ناہید نے سفاک نظروں سے کمال کی طرف دیکھا — ’تم ہمیں نمائش کی گڑیا بنا سکتے ہو تو ہم تمہیں نمائش کا گڈا کیوں نہیں بنا سکتے — ؟ ہم بھی تمہیں سجا کر لے جائیں گے۔ اور ٹھیک ویسے ہی اپنی سہیلیوں سے تمہارا تعارف کرائیں گے جیسے تم شادی بیاہ کی محفلوں میں ہمارا کراتے ہو۔۔  اب چلو۔ کوئی سوال نہیں۔ جلدی سے تیار ہو جاؤ۔۔

ناہید جا چکی ہے لیکن کمال یوسف اب بھی حیران نظروں سے اس جگہ کو دیکھ رہے تھے جہاں کچھ دیر پہلے ناہید کھڑی تھی۔ کیا تہذیب اور شرافت کا بوجھ کچھ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ برداشت کی حد بھی ختم ہو جاتی ہے۔ کوئی آہستہ سے کمال یوسف کے اندر چیختا ہے۔۔  کہاں ہو تم۔۔ کہاں سو گئی ہے تمہاری مردانگی۔ ناہید ناز ایک کٹھ پتلی کی طرح تمہارا استعمال کر رہی ہے۔۔  اور تم مسلسل استعمال ہوتے جا رہے ہو۔۔  تم برداشت کی ہر حد سے گزرنے کے بعد کھوکھلے ہو چکے ہو۔۔  اور ایک دن تم غائب ہو جاؤ گے کمال یوسف۔۔  تمہاری جگہ صرف تمہارا سایہ رہ جائے گا۔ اور اس سایہ پر بھی ناہید ناز کی حکومت ہو گی۔ ابھی بھی وقت ہے۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ابھی بھی خود کو سنبھال سکتے ہو تم۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ خود کو سنبھالو کمال یوسف۔۔ ‘

کمال یوسف نے ٹھنڈی سانس بھری۔۔  میں نہیں جانتا، میں کہاں کھو جاتا ہوں۔ مگر حقیقت ہے کہ میں کھو جاتا ہوں۔۔  اور میں کس بات سے انکار کروں۔۔  ناہید ناز کا عمل غلط ہوسکتا ہے۔ مگر اس کی باتوں میں دم ہے۔ یہاں صدیوں کی قید عورت ہے، جس کا مردوں نے ہر سطح پر استحصال کیا ہے۔ اور آج صدیوں کے ظلم سہنے کے بعد وہ عورت اگر ناہید ناز کے وجود میں سانس لے رہی ہے تو وہ مجرم کیسے ہے — ؟ غلط یہ ہے کہ مردوں کا یہ انتقام صرف اس سے لیا جا رہا ہے۔ یعنی ایک ایسے مرد سے جو شاید لڑنا بھی بھول چکا ہے۔

وہ اس سر زمین پر پہلا آدم تھا جسے صدیوں کے ظلم و جبر کی علامت بنا کر ذلت اور رسوائی کی صلیب پر چڑھا دیا گیا تھا اور اس کی سزا یہ تھی کہ اسے اف بھی نہیں کرنا تھا۔۔

٭٭

 

بطور مصنف میرے پاس اس وقت ہزاروں سوالات تھے، جو ذہن میں پیدا ہو رہے تھے۔ مگر میں ان لمحوں میں کمال یوسف کی ذہنی سطح کا اندازہ لگا رہا تھا۔ شرافت اور تہذیب کا بوجھ شاید کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے —

’ پھر آپ شادی میں گئے۔؟‘

’ نہیں۔‘

’اور ناہید مان گئی۔؟‘

’ نہیں۔ اس دن ہمارا جھگڑا ہوا تھا۔ میں نے اس سے صاف طور پر کہا کہ اگر اسے دنیا کے سارے مردوں کا انتقام مجھ سے لینا تھا تو پھر مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہئے تھی۔‘

’ کیا جھگڑے کے دوران ناہید نے رونا بھی شروع کیا تھا؟‘

’ بالکل بھی نہیں۔ وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پائی۔ وہ دیر تک چیختی رہی۔ میں باہر لان میں جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔‘

’ کیا ناہید عام طور پر رونے سے پرہیز کرتی ہے — ؟ یا ایسا کوئی موقع جب آپ نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہوں۔۔ ؟‘

’ وہ آنسو بہانے والی لڑکیوں میں سے نہیں ہے۔ ہاں ایک بار باشا کی طبیعت خراب ہوئی تو میں نے اسے روتے ہوئے دیکھا تھا — مگراس نے مجھے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کی آنکھیں نم ہیں۔‘

میں گہری سوچ میں ڈوب گیا —

’ کیا اب بھی آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ ایک نارمل لڑکی ہے۔؟‘ کمال نے آہستہ سے کہا — ’میں الجھ کر رہ گیا ہوں۔‘

میں ناہید کے لیے فکر مند تھا۔ مردوں کو قابل نفرت دیکھنے سے کیا وہ اپنی عظیم ترین آزادی کے لیے فتح محسوس کرتی ہے؟

’ مشکل یہ ہے کہ اس کا علاج بھی نہیں کرایا جا سکتا۔ اسے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا جا سکتا۔ اس پر دباؤ نہیں بنایا جا سکتا۔ پھر کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک نا معلوم تشدد کی طرف بڑھ رہی ہے — ؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا پہلا شکار میں ہوسکتا ہوں۔ لیکن سوال ہے، راستہ کیا ہے؟ راستہ یہ بھی نہیں کہ میں اسے ذہنی بیماری کی حالت میں چھوڑ کر اس سے الگ ہو جاؤں۔۔ ‘

’ الگ ہونا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انتقام کا یہ شدید جذبہ اسے تشدد کی طرف لے جا رہا ہے۔ اور اس کا ذہن جن باتوں سے دو چار ہے، اس راستہ میں تشدد معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اب اس کی بغاوت اسی سمت پرواز کر رہی ہے۔‘

’ میں جانتا ہوں۔ مجھ سے الگ ہونے کے بعد ناہید کے لئے زندگی بہت حد تک مشکل ہو جائے گی اور شاید اسی لیے اب تک میں نے اس کی ہر بات کو برداشت کیا ہے۔ مگر سوچتا ہوں کہ آگے کیا کچھ اور خوفناک صورتحال پیدا ہوتی ہے، تو کیا برداشت کا مادہ میرے اندر ہو گا — ؟‘

’ کسی بھی انسان کے لیے یہ کہنا مشکل ہے۔‘

کمال یوسف کی آنکھیں ابھی بھی سوچ کی وادیوں میں تھیں۔ ہم نے اس گفتگو کو یہیں ختم کیا۔ کیونکہ ناہید کے آنے کا وقت ہو چکا تھا۔ اور ہم ناہید کو اس بات کا احساس نہیں دلانا چاہتے تھے کہ ہماری گفتگو اسی محور پر گردش کر رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

(7)

 

دو تین دن ہم نے نینی تال کے مختلف مقامات کی سیر کی۔ اس دوران کمال یوسف اور ناہید دونوں ساتھ رہے۔ مگر دونوں زیادہ تر خاموش رہے۔ ہاں کبھی کبھی باشا کو لے کر دونوں کے درمیان گفتگو ہو جاتی۔ مگر اس بات کا احساس زور پکڑ رہا تھا کہ آہستہ آہستہ ناہید کا انتقامی انداز اب کمال کے لیے ٹینشن کا سبب بننے لگا ہے۔ مجھے گھومنے اور سیر سپاٹے کا شوق ہے اور اس شوق میں اکثر ڈائری اپنے ساتھ رکھتا ہوں اور مجھے اس بات کا احساس ہے کہ لکھنے والے کی حیثیت بہت سے کرداروں کے ساتھ ساتھ ایک منشی کی بھی ہوتی ہے۔ منشی کی نوٹ بک میں واقعات و حادثات کی کڑیاں نوٹ، تاریخوں کے ساتھ اس طرح درج کی گئی ہوتی ہیں کہ انہیں کچھ برسوں کے بعد پڑھیے تو ماضی وتاریخ کی روشنی میں ایک نیا جہان آباد ہو جاتا ہے۔ ڈائری کی اہمیت یوں ہے کہ سلسلہ وار واقعات کو جوڑنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ناہید اور کمال کے ساتھ ہم نے مختلف مقامات کی سیر کی۔ ہم تری رشی سرور بھی گئے۔ کہتے ہیں تین رشیوں نے تین مقاموں پر الگ الگ تین تالوں کی تعمیر کی تھی۔ یہاں قدرت کا انمو ل خزانہ بکھرا ہوا تھا۔

ناہید نے بتایا کہ یہاں 1790سے1815 تک گورکھاؤں کی حکومت تھی۔ گورکھوں نے گڑھوالی اور کماؤنی لوگوں پر بہت ظلم ڈھائے۔ اس کے بعد یہاں برٹش فوج آ گئی۔ گورکھاؤں کو شکست ہوئی۔۔  یہاں کی آب و ہوا خوبصورت تھی۔ انگریزوں کو یہ مقام اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے گڑھوال، کمایوں جیسے پہاڑی مقامات پر نئے نئے شہر بسانے شروع کر دیے۔ الموڑا، رانی کھیت، لینس ڈاؤن انگریزوں نے ہی بسائے۔

نینی تال گھومنے کے دوران ہم سیلانی پیک دیکھنے بھی گئے۔ اور روپ وے پر بھی سوار ہوئے۔ سارا دن یہاں سیاح بوٹ کی سواری کرتے ہیں۔ ساتھ ہی گھوڑ سواری کے بھی مزے لیتے ہیں۔ ہنومان گڑھی۔ کاٹھ گودام، چینی پک جیسے مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے ہم تھک چکے تھے۔ ایک جگہ جب ناہید سستانے کے لئے پتھر کے بنچ پر باشا کے ساتھ بیٹھی تو ناہید کو سنانے کے لئے کمال نے طنز کرتے ہوئے کہا۔

’ عورتیں جلد ہی تھک جایا کرتی ہیں۔‘

ناہید نے غصے سے پلٹ کر دیکھا۔ مگراس درمیان باشا رونے لگا تھا۔ اس لیے وہ باشا کو چپ کرانے میں لگ گئی۔ لیکن گھر واپسی تک دونوں کے درمیان مکالمے نہیں کے برابر ہوئے۔ یہ بات مجھے بری لگ رہی تھی اور مجھے اس بات کا احساس تھا کہ کم از کم میری موجودگی میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ مگر نفرت کا زہر شاید دونوں طرف اپنا اثر دکھانے لگا تھا۔

دوسرے دن ناہید کے سمرولے اسکول جاتے ہی میں کسی کام سے ڈرائنگ روم آیا تو اچانک میں چونک گیا۔ لاجو پاگلوں کی طرح کمال سے چپکی ہوئی تھی اور اس کے ہونٹوں کا بوسہ لیے جا رہی تھی۔ جبکہ کمال اس کے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور بار بار آہستگی سے ایک ہی لفظ کہہ رہا تھا۔ لاجو کوئی آ جائے گا۔ نادانی مت کرو۔ مگر لاجو کی عمر بہتی ہوئی ندی کی طرح تھی، جو ایسے موقعوں پر رکنا کہاں جانتی ہے۔ کمال جب لان میں آیا تو اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ جیسے گناہ کے احساس سے وہ مجھ سے آنکھیں چار کرتے ہوئے شرما رہا ہو یا اسے اس بات کا شک ہو کہ کہیں میں نے اسے اس حال میں دیکھا تو نہیں —

 

رات کھانے کے بعد ہم ٹیرس پر بیٹھے تو اچانک ایک بار پھر سے وحیدہ کا تذکرہ آ گیا۔ اس درمیان وحیدہ میرے خیالوں سے نکل چکی تھی۔ اور نینی تال کے قیام کے اس پورے ہفتہ کے دوران نہ وحیدہ یہاں ملنے آئی اور نہ اس کے بارے میں کوئی گفتگو ہوئی۔

ناہید نے بتایا۔ وہ من موجی قسم کی لڑکی ہے۔ جب آئے گی تو ایک دن میں کئی چکر ہو جائیں گے۔ اور جب نہیں آئے گی تو کئی کئی دنوں تک روپوش رہے گی۔

کمال نے ناگارجن سینی اور ان کی اہلیہ کے بارے میں تفصیلات بتائیں، جن کے بچے باہر رہتے ہیں۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ ایک شام ان سے وحیدہ ٹکرائی اور یہ لوگ وحیدہ کو اپنے گھر لے آئے۔ اور وحیدہ بیٹی بن کر تب سے ان لوگوں کے ساتھ ہے۔ ناگارجن اور کوشلیا وحیدہ پر جان چھڑکتے ہیں۔

ناہید نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ اسے دیکھیں تو پہلی بار میں اسے سمجھ ہی نہیں سکیں گے۔ وہ انسانوں کی باتیں کم پرندوں کی باتیں زیادہ کرتی ہے۔ یہاں آئے گی تو باشا کو گود میں اٹھا لے گی۔ پھر لان میں نکل جائے گی۔ حیرت کی بات یہ کہ پرندے بھی اس کی موجودگی میں اڑتے ہوئے جانے کہاں سے آ جاتے ہیں۔

کمال کو نیند آ رہی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ناہید اکیلی رہ گئی۔ دور پہاڑیوں کے درمیان جلتے بجھتے ہوئے قمقموں کی روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ لمحہ میرے لیے اہم تھا۔ میں ناہید سے مخاطب ہوا۔۔

’ سنو ناہید۔ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘

’ جی۔‘ ناہید نے چونک کر میری طرف دیکھا۔‘

’ ممکن ہے کسی روز بھی میں دلی واپس چلا جاؤں۔ یہاں تم لوگوں سے ملاقات بھی ہو گئی۔ اور نینی تال کی سیر بھی کر لی۔ مگر ناہید۔ عمر میں تم سے کافی بڑا ہوں اس لیے اپنے تجربے کی بنا پر جو کچھ تم سے کہنے جا رہا ہوں۔ وہ غور سے سنو۔ ہوسکتا ہے اس کے بعد تمہیں یہ موقع نہ ملے۔ اور تمہیں وقت کے کھو دینے کا احساس ہو۔۔ ‘

’ جی۔۔، میں نے پہلی بار ناہید کے چہرے پر خوف کے اثرات دیکھے تھے۔ ’اس گھر میں جو کچھ بھی چل رہا ہے وہ میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اور کمال ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کر رہے ہو۔ یہ تم لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے اور مجھے بولنے کا حق نہیں۔ مگر مجھے صرف ایک بات کہنی ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ تم اس بات پر عمل بھی کرو۔‘

’ جی۔۔  کہئے۔۔ ‘ ناہید آہستہ سے بولی۔

’ تمہاری خاموشی کے پیچھے کچھ ہے، یہ تم بھی جانتی ہو اور میں بھی اس سے انجان نہیں  — یہ خاموشی خطرناک ہے اور اس بات کی گواہ بھی کہ تمہارے اندر، تمہارے سینے میں ایک زہر بھری پوٹلی رکھی ہے۔ تم اس پوٹلی کو نکالنا نہیں چاہتی، یہ تمہاری مرضی — مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن یہ زہر بھری پوٹلی پھٹ بھی سکتی ہے اور جس دن یہ پوٹلی پھٹے گی، کئی لوگ اس کے شکار ہو جائیں گے۔ تم، کمال، باشا اور تم سے وابستہ لوگ — تم ابھی اس حقیقت سے واقف نہیں کہ راز کو راز رکھتے ہوئے تم خود سے کتنا بڑا فریب کر رہی ہو۔۔  تم خود کو خطرے میں ڈال رہی ہو۔ کیونکہ پوٹلی کے پھٹنے کا مطلب ہے، سب سے پہلا شکار تم خود ہو گی۔ زندگی میں کوئی ایک ہونا چاہئے، جسے اپنا راز دار بنایا جائے۔ کوئی ایک، جس پر بھروسہ کیا جائے، کوئی ایک جس کو اپنے دل اور جنوں کا حال سنایا جا سکے۔ تم اکیلے ہی اس راز کی نگہبان رہو اور اکیلے ہی سلگتی اور جلتی رہی ہو۔ لیکن اب تمہارے اندر سے آگ کے شعلے اٹھنے لگے ہیں۔ اور ابھی وقت ہے کہ تم اس کہانی کو اپنے اندر سے نکالو، جو تمہیں آہستہ آہستہ ختم کر رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

میں ایک لمحہ کے لیے ٹھہرا — ’میں تمہیں مجبور نہیں کر رہا۔ مجبور کر بھی نہیں سکتا۔ مگر تمہارے پاس سوچنے کے لیے پوری رات پڑی ہے۔ تم آرام سے سوچ لو۔ اور اگر محسوس کرو کہ مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو تو آرام سے آگ کے ان شعلوں کو نکال دینا جو تمہیں آہستہ آہستہ بھسم کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے۔ تم میری باتوں پر غور ضرور کرو گی۔‘

اس کے بعد میں ٹھہرا نہیں۔ اپنے کمرے میں واپس آ گیا۔ اس مکالمہ کے لیے میں نے دو دنوں سے تیاری کی تھی۔ اور مجھے اس لمحہ کا انتظار تھا جب ناہید اکیلی ہو گی تو میں اپنی بات بھرپور طریقے سے اس کے سامنے رکھ سکوں گا۔ تنہائی کا موقع ہاتھ آیا تو میں نے کھلے طور پر اپنی بات کی وضاحت کر دی۔ اب مجھے صبح کے طلوع ہونے کا انتظار تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ ناہید اپنے راز مجھ پر افشاں کرنے کے لیے تیار ہو جائے گی مگر اتنا ضرور تھا کہ تنہائی میں وہ اس بارے میں غور ضرور کرے گی — بطور مصنف میں نے اپنی طرف سے نفسیات کے مہرے چل دئیے تھے اور اب مجھے ناہید کے جواب کا انتظار تھا۔

٭٭

 

دوسرے دن کی صبح عام صبح جیسی نہیں تھی۔ آسمان میں کہرا چھا گیا تھا۔ ناہید اسکول نہیں گئی۔ ناشتہ کے وقت بھی وہ سوچ میں گرفتار تھی اور جیسے مجھ سے آنکھیں ملاتے ہوئے بھی گھبرا رہی تھی۔ مجھے یقین تھا، یہ کشمکش بھرے لمحے ہیں اور شاید اسی لیے ناہید نے اسکول سے چھٹی کر لی تھی۔ دس بجے کمال آفس کے لیے روانہ ہو گئے۔ بارہ بجے کے آس پاس سورج نمودار ہو چکا تھا۔ میں لان میں تھا۔ میں نے دیکھا، ناہید آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میری طرف آ رہی ہے — میرے قریب کی کرسی پر ناہید بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں نیلے آسمان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ اچانک اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ لیکن آنکھیں حرکت میں تھیں جیسے گزرے دنوں کی فلم ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے پردے پر چل رہی ہوں۔

’ اس نے میری طرف دیکھا۔ لمبی سانس لی۔ پھر بولی — ’میں رات بھر سوچتی رہی۔ میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ زخم کا علاج نہ ہو تو اکثر زخم پھٹ جاتے ہیں۔ میرا زخم بھی ناسور بن چکا ہے۔ اور شاید آج، ان لمحوں میں، میں اس بے رحم کہانی کو یاد کرنا چاہتی ہوں، جس کو میں نے کبھی یاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘ اچانک اس نے دریافت کیا۔۔

’ کیا آپ مجھے کچھ دیر رو لینے دیں گے۔۔ ؟‘

میں چونک گیا تھا۔ مجھے کمال کی بات یاد آئی۔ کمال یوسف نے کہا تھا، زندگی میں کوئی بھی موقع ایسا نہیں آیا، جب میں نے ناہید کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہوں۔ لیکن وہی ناہید ناز میرے سامنے بیٹھی ہوئی سسکیاں لے رہی تھی۔ آنسو اس کے رخسار پر پھیل رہے تھے۔ وہ بھول گئی تھی کہ ایک اجنبی اس کے سامنے ہے۔ وہ زور زور سے رو رہی تھی۔ اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ اچانک اس کے ہاتھ اٹھے۔ آنسوؤں کو خشک کیا۔ مسکرانے کی کوشش کی۔ میری طرف دیکھا۔

’ اب میں ٹھیک ہوں۔ برسوں بعد زندگی میں لوٹی ہوں۔ لیکن زندگی میں لوٹی کہاں ہوں۔۔  ہاں میں آپ کو کچھ سنانے والی تھی۔۔  لیکن سمجھ میں نہیں آتا، کہاں سے شروع کروں۔۔  یہ کوئی بہت الجھی ہوئی داستان نہیں ہے۔ بہت مختصر سی کہانی ہے۔۔  مگر۔۔  کہیں نہ کہیں سے مجھے سنانے کی شروعات کرنی ہو گی۔۔  ٹھہریے۔۔  مجھے سوچ لینے دیجئے —

اور پھر آہستہ آہستہ اس نے ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کیا۔

٭٭٭

 

 

 

                   چوتھا حصہ

 

بحر ظلمات

 

 

مقدس کتاب کہتی ہے

کہ ہم گرتے رہیں گے بار بار

اس نارنجی گڑھے میں

جن کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں

اس لئے جنت ہمارے قدموں سے

بہت دور اگائی گئی ہے

ہم پر حرام ہے اس کی خوشبو

٭٭

— سدرہ سحر عمران (پاکستان)کی ایک نظم سے

 

 

 

 

(1)

 

ابو میرے گھر میں دیکھو لال پری کا دانہ ہے

جو بھی ہے یہاں سیانا ہے۔

 

جوناگڑھ کا ایک بڑا سا حویلی نما مکان۔۔  ایک ابو تھے۔ انتہائی سخت، نمازی، پرہیز گار۔ غصہ آتا تھا تو صرف اماں پر۔ اور اماں پر آئے غصے کے لئے انہیں کسی وجہ کی ضرورت نہیں تھی۔ گھر میں پردے کا رواج تھا۔ باہر جانے پر پابندی تھی۔ لیکن رشتے داروں کی فوج تھی، آئے دن جن کا حملہ ہوتا رہتا تھا۔۔  اب تو شکلیں بھی بھولنے لگی ہوں۔ اجو ماموں، گبرو دادا، چینو چاچا۔۔  سبحان بھائی، تختے والے عمران چاچا۔۔  سفید داڑھی والے ابو چاچا۔۔  زیادہ تر داڑھیوں والے بلکہ خوفناک داڑھیوں والے بزرگ۔۔  یہ حویلی ہماری تھی تو ان کی بھی تھی۔۔  میری عمر ہی کیا تھی۔ مگر میں جیسے مرغی کے دربے میں ہاتھ بڑھا کر کسی مرغی کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیتی، ایسے ہی یہ لوگ پیار کے بہانے مجھے بھی دبوچ لیتے۔ کیوں دبوچتے، یہ بات میری سمجھ میں پہلے نہیں آئی تھی۔

پھر مرغیوں کی کڑ کڑاہٹ کے ساتھ ننھی معصوم آوازیں لنگیوں اور پاجاموں کی سرسراہٹ میں کھو جاتیں۔

ماموں چھوڑو نا۔۔  جانے دونا۔۔

ابو چاچا۔۔  کیا کرتے ہو۔۔  جانے دو ۔۔  نا۔۔

گبرو دادا۔۔  میں اماں سے کہہ دوں گی۔۔  تم بہت گندے ہو۔۔

چھوڑو نا۔۔

دکھ رہا ہے۔۔

جانے دو۔۔

یہ بچوں سے پیار کے کھیل تھے جو ابو اور اماں کے سامنے بھی کیے جاتے تو بچوں کا لاڈ اور پیار نظر آتا۔ مگر میں آہستہ آہستہ دس سال کی ننھی عمر سے ان شیطانوں کی نیت کو جاننے لگی تھی۔ اور ان کی سفید لنگیوں میں سرسراتے سانپ اور اس کے ڈسنے کے فن سے واقف ہو چکی تھی۔۔

اجو ماموں گود میں بھر لیتے۔ لنگی کے اندر بیٹھا سانپ سرسراتا۔۔  ماموں پیار سے گال چومتے۔۔  کس کلاس میں پڑھ رہی ہے میری بیٹی۔۔

اماں کو ماموں پر لاڈ آ جاتا۔ ارے لڑکیوں کا پڑھنا بھی کیا۔ پڑھ کر کوئی تیر مارنا ہے کیا۔ اپنے گھر جانا ہے۔۔

’ہاں یہ بھی ٹھیک۔ ماموں کہتے۔۔  پڑھ کر کیا کرے گی۔‘

مجھے غصہ آتا لیکن میں چپ رہتی۔۔

’یہاں کی لڑکیوں نے پڑھ کر کون ساتیر مار لیا جو یہ مارے گی۔‘

’ہاں۔۔ یہ بھی ٹھیک ۔۔ ‘

میں اٹھنے لگی تو ماموں پھر سے دبوچ لیتے۔۔

’ لیکن بو بو ۔۔  ندو کو پڑھنے سے نہ روکیے گا۔۔  کیوں ندو۔۔  میں ناہید ناز، ان کے لیے ندو تھی۔۔

میں دس سال کی ننھی عمر سے اپنے جینے کا تماشہ دیکھ رہی تھی —

کیوں لکھنے لگا کوئی میرے درد کی تفسیر

اے نالۂ شب گیر ۔۔

 

حویلی نما اس مکان میں کمرے ہی کمرے تھے۔۔  کمروں کے چور دروازے۔۔  بڑی سی کھلی ہوئی ننگی چھت۔۔  چھت پر ایک کمرہ بڑے ابو کے نام سے بند تھا۔ بڑا سا تالہ لٹکا تھا۔ لیکن دروازوں کے درمیان دھکا دینے پر اتنی جگہ بن جاتی کہ ہم بچے اس اندھیرے کمرے میں لکا چھپی اور آئیس پائیس جیسے کھیلوں میں چھپ جایا کرتے۔ سرسراتے ہوئے کپڑے ۔۔ سہمی ہوئی آوازیں۔

’ عظیم بھائی۔۔  مجھے ڈر لگتا ہے۔۔،

— یہ بڑے ابو کے بیٹے تھے۔ مجھ سے پورے چار سال بڑے۔۔

— ارے ڈرتی کیوں ہے ندو۔ یہاں بھوت تھوڑے رہتے ہیں۔

— اماں کہتی ہیں جس کمرے میں چالیس دن تک کوئی نہ جائے وہاں آسیب آ جاتے ہیں۔

— اماں تو بے وجہ ڈراتی ہیں۔۔  چل آ۔۔  پہلے تو ہی اس کھوبر میں داخل ہو۔۔

بڑے ابو کے بند دروازے کا نام ہم نے کھوبر رکھا تھا۔ عظیم بھائی نے دروازے کو ذرا سا دھکا دیا۔۔  اور مجھے دروازے کے درمیان بنی ہوئی جگہ میں اندر جانے کو کہا۔۔

’ نہ۔۔  میں تو نہیں جاؤں گی۔۔،

’کیوں نہیں جائے گی۔ میں بھی تو جاؤں گا۔‘

مگر مجھے ڈر لگتا ہے۔‘

’میں ہوں نا ساتھ۔۔ ‘

نکہت دس تک گنتیاں گن رہی تھی۔ یہ بڑے چچا کی اکلوتی لڑکی تھی۔ مجھ سے دوسال بڑی۔ دس کی گنتی ختم ہوتے ہی اسے ہم لوگوں کو تلاش کرنا ہوتا تھا۔۔  ہم اس کی آواز سن رہے تھے۔۔  رنکو بھائی۔ دیکھ لیا تمہیں۔۔  سجاد بھائی۔۔ اب نکل آؤ۔۔  یہ عظیم بھائی کہاں ہیں۔ ندو کہاں ہے۔۔

کھوبر کے اندر تاریک کمرے میں عظیم بھائی نے مجھے اپنی جانگھوں کے اندر کس لیا تھا۔۔  میں چھٹپٹا رہی تھی۔۔

’ بس چھپی بیٹھی رہ۔۔  یہاں کوئی نہیں دیکھے گا۔۔ ‘

’ چھوڑو مجھے۔۔ ‘

’ نا۔۔  اٹھے گی تو آواز ہو گی۔۔ ‘

عظیم بھائی۔۔  اتنے زور سے نہیں پکڑو۔۔

بدن میں چیونٹیاں رینگ رہی ہیں۔۔  کہیں سانپ۔۔  کہیں چیونٹیاں۔۔  کچھ ہو رہا ہے مجھے۔۔  اگڑم بگڑم دہی چٹاکن۔۔  کچھ ہو رہا ہے۔۔  کمرے میں سرسراتے ہوئے ڈھیر سارے سانپ۔۔

میں ان ڈھیر سارے سانپوں کے درمیان بڑی ہو رہی تھی۔۔

اور بے زبان تھی۔

میں سب کچھ دیکھ رہی تھی اور سمجھ رہی تھی۔

مگر ننھی سی عمر میں جیسے بند بند دریا کے پاٹ کھل گئے تھے۔ یا جیسے پاگل سونامی لہروں نے سارے باندھ توڑ دیئے تھے۔

ہاتھی کی سونڈ۔۔  چوہے کا گھوڑا۔۔  گھوڑے کا چوہا۔۔  مارا ہتھوڑا۔۔  یہ گھوڑے کا چوہا کیا ہے۔۔  اماں بال سنوارتے ہوئے پوچھتیں۔۔

میں کیسے بتاتی کہ ابو چاچا کی ہلتی ہوئی لنگی میں گھوڑے ہنہناتے ہیں۔۔  نہیں چوہے۔۔  تب میں نکہت یا مہرو کے ساتھ باہر برامدے میں کھیلتی ہوئی دیر تک ان دونوں کے ساتھ ہنستی رہتی تھی۔۔

’یہ ہاتھی کی سونڈ کیا ہے۔؟‘ اماں پوچھتیں۔

میں نے اماں سے کہا۔۔ یہاں ہر کمرے میں سانپ رہتے ہیں۔

اماں نے پیار سے گالوں پر تھپڑ جڑ دیا۔ بس تجھے دکھائی دیتے ہیں ندو۔ ہمیں تو دکھائی نہیں دیتے۔

تمہیں کیسے دکھائی دیں گے اماں۔۔  تم تو آنکھیں بند کیے رہتی ہو۔‘

’آنکھیں بند کیے؟‘

اماں پر غصہ آتا تھا۔۔  اور ان سے زیادہ ابو پر۔۔  یہاں اس حویلی نما مکان کا ہر کمرہ عیش گاہ تھا۔ اور سب کی آنکھوں کے سامنے سہمی ہوئی نازک کلیوں کو آتش گل میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ مگر سب ایک دوسرے سے آنکھیں موندے تھے۔

 

چار بہنیں تھیں۔ خدیجہ آپا کی شادی ہو گئی۔ بڑی ہوئی تو ان کے بارے میں ہزار کہانیاں سنیں۔ خدیجہ آپا کے شوہر انہیں لے کر سعودی چلے گئے۔ اور وہیں کے ہوکے رہ گئے۔

نازیہ اپو خاندان میں ہی بیاہی گئیں۔ ماموں کے لڑکے سے جوانی میں ایسا رشتہ جوڑا کہ گھر میں طوفان آ گیا۔ حمل ٹھہر گیا۔ دونوں گھروں میں تلواریں تن گئیں اور آخر ماموں کے لڑکے امتیاز کو چار و نا چار انہیں اپنانا پڑا۔ لیکن نازیہ اپو کو گھر میں کوئی عزت نہ ملی۔ امتیاز بھائی نے ان کا حویلی آنا جانا بند کرا دیا۔ اڑتی اڑتی خبریں ملتی تھیں۔ امتیاز مارا کرتے ہیں۔ شراب پی کر آتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے تو معصوم پھنسایا گیا۔ جانے کس کا حمل تھا۔ حویلی میں تو غٹرغوں کرنے والی مرغیوں کی عصمت بھی محفوظ نہیں۔

شاذیہ آپا تو جوانی میں سامنے والے لڑکے مجو کے ساتھ بھاگ گئیں۔ پورے ایک ہفتہ بعد لوٹیں تو گھر میں کہرام مچ گیا —

ابو نے زٹ زٹ تھپڑ مارے تو شاذیہ آپا غصہ سے چیخ پڑیں۔

’ یہاں کے داڑھی والے لٹیروں سے تو وہ مجو اچھا ہے۔‘

مگر مجو میاں ہیرو بننے ممبئی بھاگ گئے۔ یا اس ذلت اور رسوائی سے بچنے کے لئے روپوش ہو گئے۔ مگر شاذیہ آپا نے بقول ابا، گھر کی عزت تار تار کر دی تھی۔ دو سال بعد ایک بڑے میاں کا رشتہ آیا۔ عمر تھی 55سال — بی بی کا انتقال چھ مہینے پہلے ہوا تھا۔ ابو نے عزت بچانے کے لئے بڑے میاں سے رشتہ کر دیا۔ نکاح میں خاندان والے شریک نہیں ہوئے۔

اکا دکا پانچ چھ لوگ بس —

کان میں جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا تھا۔۔  بس یہی سننے کو ملا۔ حرافہ ہے۔ کتیا ہے۔۔  ایک ہفتہ مجو کے ساتھ سوئی۔۔  وہ تو اچھا ہوا بڑے میاں نے اس عمر میں رشتہ بھیج دیا۔ ورنہ ایسی لڑکیاں تو محلے کا محلہ خراب کر دیں۔۔

تب دادی اماں زندہ تھیں۔ زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھیں۔۔  دادی اماں کہتی تھیں۔۔  اس گھر سے لڑکیوں کی ڈولی نہیں اٹھتی، جنازہ اٹھتا ہے۔۔  لڑکیاں گھر سے رخصت ہوتی ہیں تو پلٹ کر واپس نہیں آتیں۔۔

’ ہائے اللہ۔ میرا بھی جنازہ اٹھے گا۔۔ ؟‘

’ تو پاگل ہو گئی ہے۔۔  ‘ دادی اماں چڑھ کر کہتیں۔

’ تم ہی تو کہتی ہو دادی۔‘

دادی اماں ادھر ادھر دیکھ کر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہتیں۔۔  اچھا سن۔۔  وہ جو برامدے میں امرود کا پیڑ ہے۔۔

ہاں۔۔

اور ادھر دائیں طرف جو پپیتے کا۔۔ ؟

ہاں۔۔

اور وہ جو شریفے کا۔۔ ؟

ہاں۔۔

’ تو نہیں سمجھے گی ندو۔۔  پیڑ نہیں ہیں۔ سب مرد ہیں۔۔ ‘

’ مرد ہیں۔۔ ؟‘ میں چونک جاتی۔۔

دادی کی آنکھیں چھت کو دیکھ رہی ہوتیں۔۔  ’سب مرد ہیں۔۔  حویلی میں جو بھی شان سے کھڑا ہے۔ وہ مرد ہے۔۔  عورتیں تو سواری کے لیے ہوتی ہیں۔۔  مارو۔ دھکا دو۔۔  جان سے مار دو۔۔  مگر اُف۔۔  بے زبان گائے۔۔  ایک حرف شکایت زبان پر نہیں آئے گا۔۔ ‘

دادی کی آنکھوں میں ماضی زندہ ہو جاتا۔ گزرے دنوں کی ریل چلنے لگتی تو دادی حویلی کے مردوں کی داستان لے کر بیٹھ جاتیں۔۔

چھوٹی سی ننھی سی عمر — سوچ پانے سے قاصر تھی کہ آخر دادی آج بھی داستانوں کی یہ پوٹلی لے کر کیوں بیٹھ جاتی ہیں۔ لیکن اب محسوس کرتی ہوں، دادی دور اندیش تھیں۔۔  وہ جانتی تھیں۔۔  آنے والے وقت میں مجھے یہ کہانیاں یاد رہیں تو زندگی سنوارنے میں مدد ملے گی۔۔  مگر دادی یہ نہیں جانتی تھیں کہ کم عمری، علاء الدین کے چراغ اور بھیگی پینٹی کے درمیان بھی ایک رشتہ ہوتا ہے۔۔  پینٹی بھیگتی ہے، چراغ کا جن جاگتا ہے تو خود پر قابو رکھنے والی صلاحیتیں معدوم ہو جاتی ہیں۔۔

علاء الدین کا چراغ۔۔  چراغ کا جن اور بھیگی پینٹی۔۔

گیارہ سال کی تھی۔۔

حویلی میں برامدے کے پاس ایک کمرہ تھا۔ گبرو دادا کا کمرہ۔۔  کہتے ہیں گبرو دادا کے پاس کہانیاں ہی کہانیاں تھیں۔ 60سال کی عمر۔۔  دمے کے مریض۔۔  مشکل سے اٹھتے۔ چائے کی طلب ہوتی تو امی کو آواز دیتے۔ امی گھر کے سارے لوگوں کے لیے بوبو تھیں۔ اور گبرو دادا کے لیے دلھن — بڑے پیار سے آواز لگاتے۔۔  دلہن۔۔  ایک کپ چائے ملے گی۔۔ کیا کروں، اس وقت چائے کی طلب ستا رہی ہے۔

جی۔۔

دلہن۔۔  ندو سے پان بنوا کے بھیج دینا۔۔

جی۔۔

کہتے ہیں دادا نے دو شادی کی تھی۔ ایک بیگم طوائف گھرانے کی تھیں۔ وہ حویلی کبھی نہیں آئیں۔ دادا نے ایک دوسرا گھر تحفہ میں دے دیا تھا۔ گبرو دادا اسی طوائف کی اکلوتی اولاد تھے۔ وہ عین جوانی میں انتقال کر گئیں تو دادا نے وہ گھر بیچ دیا۔ اور گبرو اسی گھر میں پلنے بڑھنے لگے۔ پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔ گھر کا سارا کام اکیلے کرتے۔ شادی نہیں کی۔ رنڈوے رہے۔ بیڑی پی پی کر برا حال کر لیا۔ اب دمے کے مریض ہیں اور برامدے کے پاس والا کمرہ ہے، جوان کے اختیار میں ہے۔ گبرو دادا کے کمرے میں ہم بچوں کی پوری فوج جمع رہتی۔ اور گبرو دادا کہانیاں سنایا کرتے۔ جس بچی پر دل آتا۔ اسے گود میں دبوچ لیتے۔ مگر کہانیاں چلتی رہتیں۔۔

باہر لو کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ دو بجے کا وقت۔۔  ہاتھ میں گوٹ لیے چھوتی ۔۔  کھیلتی ہوئی۔ دادا کے کمرے میں نظر گئی تو گبرو دادا نے اشارے سے آنے کو کہا — گود میں بیٹھا لیا۔۔

ایک علاء الدین تھا۔۔

اچھا جی۔۔

علاء الدین کو ایک چراغ مل گیا تھا۔

اچھا جی۔۔

چراغ سے جن نکل آیا۔۔

چراغ سے جن کیسے نکلتے ہیں۔۔ ؟ ننھے دماغ سوالوں میں گھر جاتے۔۔  مگر اچانک چونک جاتی۔۔  گبرو دادا کے ہاتھ جانے انجانے جسم پر پھسلتے ہوئے محسوس کرتی۔۔  کچھ ہو رہا ہے گبرو دادا۔۔

چراغ کا جن۔۔  ہا ہا۔۔ ؟۔۔  گبرو دادا منہ سے جن کو لے کر ڈراؤنی آوازیں نکالتے۔۔

مجھے کچھ ہو رہا ہے۔۔  کچھ ہو رہا ہے۔۔  یہاں سانپ ہیں۔۔  بچھو ہیں۔۔  گھوڑے کا ہے ۔۔  چوہے کا گھوڑا۔۔  مارا ہتھوڑا۔۔  گبرو دادا مجھے چھوڑو مجھے۔۔  باہر لو کے جھکڑ چل رہے ہیں۔۔  اور ایک جھکڑ یہاں ننھے جسم میں طوفان اٹھا رہے ہیں۔۔  اماں نے شلوار کے ساتھ اب پینٹی پہنانا شروع کر دیا تھا۔۔  مارا ہتھوڑا۔۔  چراغ سے جن نکل رہا ہے۔۔  اور یہاں۔۔ پینٹی بھیگ رہی ہے۔۔  میں سہمی آنکھوں سے گبرو دادا کو دیکھتی ہوں۔۔  دھکا دیتی ہوں۔۔  اور دوڑتی ہوئی مرغیوں کے دربے کے پاس پہنچ جاتی ہوں۔۔

وہاں۔۔  وہ شریفے کا پیڑ۔۔  وہ پپیتے کا۔۔  وہ امرود کا۔۔  دادی اماں کہتی ہیں۔۔  یہ درخت نہیں ہیں۔۔  یہ سب مرد ہیں مرد۔۔  مرد نہیں ہیں۔ چراغ کے جن ہیں۔۔  علاء الدین کے چراغ سے جن نکلا اور ادھر شلوار بھیگ گئی۔۔

میں آئینہ کے سامنے تھی۔

آئینہ میں میرا عکس غائب تھا۔ سرسراتے نیولے، بلے، اژدہے اور جنگلی جانوروں کے عکس تھے۔ دہاڑنے کی آوازیں تھیں۔۔  میں سوچ رہی تھی۔۔  جسم کا کون سا حصہ ایسا ہے، جسے حویلی کے برہنہ ہاتھوں نے نہ چھوا ہو۔۔  پاؤں کی انگلیاں۔۔  پیشانی۔۔  جانگھیں۔۔  گال۔۔  سینے کے پاس کا حصہ۔۔  زور سے سینے کے تل پر چکوٹی کاٹ کر مسکرانے والی آنکھیں۔۔  ہر حصہ چھوا ہوا۔۔  جسم کے نازک حصے میں ہلچل مچ جاتی۔۔  میں سیلاب کی زد میں ہوتی۔ امڈتا بادل۔۔  پانی کے قطروں کے گرنے کی آوازیں ۔۔  ٹپ ٹپ۔۔

اماں۔۔  میں بھیگتی جا رہی ہوں۔۔

اماں۔۔  یہاں سب کے سب علاء الدین ہیں۔۔

اپنے اپنے خطرناک اور بدنما چراغوں کے ساتھ۔۔

اماں۔۔  یہاں جناتوں کی پوری ٹولی ہے۔۔

اماں۔۔  میں بھیگتی جا رہی ہوں۔۔

برآمدے میں نلکا۔۔  ہینڈ پمپ۔ اس سے ذرا آگے دو غسل خانے۔ ایک میں دروازہ لگا تھا۔ ایک پر پردہ۔ اماں مجھے نہلانے لے جاتیں تو پردہ برابر کر دیتیں۔ بڑی عمر کی عورتیں دروازے والے غسل خانے میں جایا کرتی تھیں۔۔  اماں مجھے نہلا رہی ہیں۔ پردہ برابر۔۔

اچانک اماں چونک جاتی ہیں۔۔

تو اب بڑی ہو رہی ہے ندو۔۔

وہ کیسے اماں۔۔

اب تجھے اس غسل خانے میں نہیں نہاؤں گی۔۔

وہ بڑا والا غسل خانہ ۔۔ ؟

ہاں۔۔

لیکن کیوں اماں۔۔

’ چپ کر۔‘ اماں نے پیٹھ پر دو ہتھی جمائی — ’تیرا جسم اب بولنے لگا ہے۔۔ ‘

٭٭٭

 

 

 

(2)

 

میرا جسم بولنے لگا تھا۔ آواز دینے لگا تھا اور میں بڑی ہو رہی تھی۔ بڑے ہونے کے احساس کے ساتھ ہی اب میں اپنے آس پاس کے تمام چہروں کو پہچاننے لگی تھی۔ گھر میں سلہٹ پر مصالحہ پیستی رجو بوا گھر کی پرانی خادمہ تھیں۔ عمر ڈھلنے لگی تھی۔ رجو بوا کی دو لڑکیاں تھیں۔۔  دونوں جوان۔ غیر شادی شدہ۔۔  جسم کی شاداب بیلوں پر حویلی کے نگوڑے مردوں کی نگاہیں پھسلتی رہتی تھیں  — آنچل منہ میں دیئے دھب دھپ سیڑھیوں سے نورا اترتی۔۔  سہمی سی۔ پھر کچھ دیر بعد عظیم بھائی اترتے تھے — چوروں کی طرح۔۔  دوسری زلیخا تھی۔ دو دو چوٹیاں باندھتی تھی۔ لمبی اور بدن سے آگ کی جھاس نکلتی ہوئی محسوس ہوتی۔۔  اکثر ماموں کے کمرے میں نظر آتی۔ ماموں اپنا پاؤں دبواتے تھے اور بدلے میں زلیخا کو پانچ دس روپے بھی مل جاتے تھے۔ کبھی کبھی ماموں اس کے لیے کریم اور پاؤڈر کی ڈبیا بھی لے آتے تھے۔ ماموں بڑے چچا کی بیٹی، نکہت پر بھی لٹو تھے۔ گالوں کو چوم لیتے۔ اور گود میں بیٹھا کر دیر تک پیار کرتے۔

نکہت کبھی کبھی بھاگتی لہراتی ہوئی واپس آتی تو ہاتھ میں پانچ روپے کے نوٹ ہوتے۔۔

’کہاں سے ملے۔۔ ؟‘

اجو ماموں نے دیے۔۔

’تو نے پاؤں دبائے ۔۔ ؟‘

’ہاں۔۔ ‘

’کیوں دبائے۔۔ ؟‘

اجو ماموں نے کہا۔۔

میں نکہت کو غور سے دیکھتی تو وہ سہم جاتی۔

’اس طرح کیوں دیکھ رہی ہے ؟‘

تو نے ماموں کے کمرے میں سانپ کو دیکھا۔۔ ؟

’سانپ۔۔ ؟‘

’ہاں۔۔ سانپ۔۔ ‘

’دیوار کے بل سے ہوتا ہوا کپڑوں کے اندر چھپ جاتا ہے۔۔ ‘

’لنگی میں۔۔ ‘

’ہاں۔۔ ‘

’دھت۔۔  تو پاگل ہو گئی ہے۔۔ ‘

لیکن یہاں پاگل کون تھا۔ یہاں کمرے میں عصمت چغتائی کے ہاتھی جھول رہے تھے۔ بڑے بڑے سونڈ والے۔ یہاں سب پیشہ ور تھے۔ خاندان اور شرافت کی دہائیاں دی جاتی تھیں۔۔  اور یہ کتنے شریف زادے تھے، میں اچھی طرح جان رہی تھی۔۔

اور انہی دنوں شاذیہ آپا کی خود کشی کی خبر آئی تھی۔ اس خبر نے مجھے اندر تک پریشان کر دیا تھا۔ اس گھر میں سب سے ہمت والی شاذیہ آپا تھیں۔ حویلی میں جہاں ہر مرد گندے سور کی طرح منہ مارنے میں لگا ہوا تھا، پہلی بار شاذیہ آپا نے ہمت کی اور حویلی کے درو بام سے باہر نکل کر مجو میاں کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئیں۔ میرا دل کہتا تھا، شاذیہ آپا ایک بار حویلی چھوڑ گئی تھیں تو انہیں واپس نہیں آنا چاہئے تھا۔ وہ واپس آئیں تو بوڑھے بڑے میاں کے گھر کی کھونٹ سے باندھ دی گئیں۔ لیکن جیتے جی اس ذلت کو شاذیہ اپی برداشت نہیں کر سکیں۔ میں دو ایک بار ہی شاذیہ اپی کے گھر جا سکی۔ وہ جھک گئی تھیں۔ چہرے کی شادابی کو نظر لگ گئی تھی۔ وہ زندہ کہاں تھیں اور پھر ان کے مرنے کی خبر آ گئی — دادی اماں کی بات ذہن و دماغ پر حاوی تھی۔ یہاں سے لڑکیوں کی ڈولی نہیں اٹھتی۔۔  جنازہ جاتا ہے۔۔

 

شاذیہ آپا کا چالیسواں تھا۔ صبح سے چہل پہل تھی۔ چنے کے دانوں پر عورتیں اور مرد الگ الگ قل ھواللہ پڑھ کر دانے الگ کر رہے تھے۔ قرآن شریف کی تلاوت ہو رہی تھی۔ مدرسوں کے بچے بھی بلائے گئے تھے۔۔ اگر بتی اور لوبان کی مہک فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ مجھے یہ پورا ماحول آسیبی لگ رہا تھا۔۔  ایک ساتھ تلاوت کرتے لوگوں کی آوازوں سے ہول آ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے شاذیہ آپی سارے گھر میں گھوم رہی ہوں۔۔  ندو ،ان لوگوں نے مارا مجھے۔۔  ان سب لوگوں نے مارا مجھے۔۔ ‘

میری آنکھیں حیران تھیں اور خوفزدہ۔۔  میں دوڑتی بھاگتی چل رہی تھی۔۔  ادھر چوکی پر بیٹھی عورتیں آپس میں ہنسی مذاق کرتی ہوئی چنے کے دانے چن رہی تھیں۔ ٹھوکر لگی۔۔  چنے کے دانے بکھر گئے۔۔

میں چھت پر بھاگی۔ تختے والے عمران چا کمرے میں لنگی بدل رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ہاتھوں کو پکڑ کر کھینچا۔۔

’وہ۔۔ ‘

’کوئی شرارت کی ہو گی۔۔ ؟‘

’نہیں تو۔۔ ‘

’کسی سے چھپ رہی ہے۔۔ ؟‘

’ہاں۔۔ ‘

’مار پڑے گی۔۔ ؟‘

’ہاں جی۔۔ ‘

تختے والے عمران چا نے دروازہ بند کیا۔۔  اور میں ان کی لنگیوں میں چھپی تھی۔۔  میں خوفزدہ تھی۔۔  مگر دیواروں پر جھولتے ہاتھی اس وقت مجھے برے نہیں لگ رہے تھے۔۔  عمران چا میرے گالوں کو چوم رہے تھے۔۔  اور۔۔  وہ آہستہ سے بولے۔۔

’ہاتھی کو بند کمرے میں دیکھا ہے۔۔ ؟‘

’نہیں۔۔  تو۔۔ ‘

باہر سے قرآن شریف کی تلاوت کی آواز یہاں تک گونج رہی تھی۔۔

میں نے برہنہ جسم اور برہنہ جسم میں جھولتے ہوئے ہاتھی کی سونڈ کو پہلی بار اس طرح دیکھا تھا۔۔  میں خوفزدہ تھی۔۔  میں تختے والے عمران چا کے جسم میں جھولتی ہوئی بے جان سی تختہ بن گئی تھی۔۔  سیڑھیوں پر آہٹ گونجی تو عمران چا نے جلدی سے لنگی باندھی۔ کرتا ڈالا۔۔  دروازہ کھولا۔۔  سرپر دو پلی ٹوپی چڑھا لی۔ داڑھی کے بال پورے سفید ہو چکے تھے۔۔

سیڑھیاں پار کرتے ابو چھت پر آ گئے تھے۔ میری طرف غصہ سے دیکھا۔۔

’قل ھو اللہ والے چنے گرا کر آئی ہے۔۔  ابو نے عمران چا کو دیکھا۔۔  مولوی صاحب آ گئے ہیں۔ فاتحہ اب شروع ہو گا۔۔

چلیے۔۔  میں تو تیار ہوں۔۔

ابو سیڑھیوں سے نیچے اتر گئے۔۔  میرے ننھے جسم میں آگ لگی تھی۔۔  میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔۔  چھت، کمرے، اوسارا، برامدہ۔۔  یہاں توہر جگہ ہاتھی کی سونڈ تھی۔۔  دیواروں سے لے کر کمروں تک ہر جگہ الگ الگ ہاتھی جھول رہے تھے۔۔

میں نے پیشانی پر آتے ہوئے پسینہ کو پوچھا۔ تختے والے چچا کو دیکھا۔۔  جو ابھی تک کھڑے تھے۔۔

’ ہاتھی بد دعائیں دیتا ہے۔۔  خبر دار ندو۔۔  کسی کو بتانا مت۔۔ ‘

’ کیا۔۔ ‘

’ ہاتھی۔۔ ‘ وہ مسکرائے۔۔  اچھا چلتا ہوں۔ قرآن شریف بھی تو پڑھنا ہے۔۔

وہ تیز تیز سیڑھیاں اتر گئے۔۔

اگر بتی اور لوبان کی مہک یہاں تک آ رہی تھی۔۔  اب مجھ پر وحشت سوار تھی۔۔  مجھے مردوں سے، اپنے آپ سے شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی۔۔  کیوں کرتے ہیں یہ بوڑھے خبیث اس طرح کی حرکتیں۔۔ ؟ کس لیے کرتے ہیں۔۔ ؟ کیوں اتنے بے شرم بن جاتے ہیں۔۔  اماں کہتی ہیں۔۔  اب پردے والے غسل خانے میں نہیں نہانا ہے۔ میرا بدن بولنے لگا ہے۔۔  مجھے ہر وقت حجاب ڈالنے کی عادت ڈالنی ہو گی۔۔

میں غصے کی آگ میں جل رہی تھی۔۔  اور یہ کہنا سچ ہو گا کہ پہلی بار مذہب بھی میرے غصے کے نشانے پر تھا۔

خدا نہیں ہے۔۔

میں دل میں بار بار اس بات کا اقرار کرتی تھی۔

خدا ہے ہی نہیں۔۔

یہاں کے مردوں نے مذہب کو اپنی اپنی لنگیوں، داڑھی اور ٹوپیوں میں سی لیا ہے۔ اور جب دیکھو، ان کے اندر کا جنگلی جانور بھی سامنے آ جاتا ہے۔ جانور جاتا تو سجدے جاگتے۔ سجدے سے اٹھتے تو پھر جانور لنگیوں سے باہر آنے کو بے چین رہتا۔۔

اور اس درمیان گھر میں دو حادثے اور ہوئے۔

سعودی میں خدیجہ آپا کا انتقال ہو گیا۔ اور انتقال کے دو ہی ماہ بعد نوشے بھائی نے وہاں دوسری شادی بھی کر لی۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کہتا۔۔  اپیا کو زہریلی دوا اور انجکشن دے کر مارا گیا ہے۔ نوشے بھائی کا اپیا سے دل بھر گیا تھا۔ اور کسی سولہ سال کی لڑکی پر دل آ گیا تھا۔ اب جو لڑکی ان کی زوجیت میں ہے، وہ صرف سولہ سال کی ہے —

میں سوچتی تھی۔ یہ مردوں کا دل اتنی جلد بھر کیسے جاتا ہے۔۔ ؟ نوشے بھائی کو اگر اپیا کو نہیں رکھنا تھا تو طلاق دے دیتے۔ مارا کیوں۔۔ ؟ مگر ننھی عمر میں ان سوالوں کا جواب نہیں ملتا تھا۔۔

مگر ایک بات جان گئی تھی۔ دل بھر جائے تو یہ مرد مار دیتے ہیں۔ دل بھر جائے تو یہ مرد دھکا دے کر بھگا دیتے ہیں۔۔  دل بھر جائے تو یہ مرد دوسری تیسری اور چوتھی تک لے آتے ہیں۔۔

اور یہاں تو عورتیں بے حیا کے جنگلی پودوں کی طرح اگتی ہیں۔ جوناگڑھ کی حویلی کے باہر کے حصے میں دور تک بڑا میدان تھا۔ یہاں لڑکے ہر طرح کے کھیل کھیلتے تھے۔ میدان میں جنگل جھاڑ اگے ہوئے تھے۔ اماں نے بتایا تھا۔۔  یہ بے حیا کے پودے ہیں۔ کہیں بھی اگ جاتے ہیں۔۔  اور یہی لفظ میں بھی بار بار سنتی تھی۔۔  بے حیا ہو گئی ہے۔ پردہ کر۔۔  حجاب ڈال۔۔  لڑکیاں بے حیا کے پودوں کی طرح پھیلتی جا رہی تھیں۔۔  ایک سے جی بھر گیا۔ دوسری حاضر۔۔  لو جی۔۔  میں آ گئی۔۔  دوسری سے جی بھر گیا۔۔  تیسری حاضر۔۔  اور مردوں کا جی تو بھرتا ہی بھرتا ہے۔۔  ایک جسم سے کب تک کام چلائے گا مرد۔۔  میں ابا کو دیکھتی تھی جو اماں کے پاس کبھی بھول کر نہیں جاتے تھے۔۔  اماں بس ابا کی مار کے لیے تھیں  — جی چاہتا تھا۔۔  ذرا بڑی ہو گئی تو ان ہاتھوں کو تھام کر مروڑ دوں گی۔۔  اور چیخ کر کہوں گی۔۔  جوناگڑھ کے ہجڑے۔۔

۔۔  یہاں سب ہجڑے تھے۔۔

مجھے اس نئے نام سے تقویت ملی تھی۔۔

خدیجہ اپی کے بعد ایک اور حادثہ ہوا تھا۔ امتیاز بھائی نے نازیہ کو گھر سے نکال دیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ یہ حرافہ ہے۔ محلے کے نوجوان چھوکروں سے آنکھیں لڑاتی ہے۔

بے حیا۔۔  حرافہ۔۔  کمینی۔۔

مجھے وہ منظر یاد ہے۔ لوہے کے بڑے سے بکسے کے ساتھ باہر نازیہ اپو کا رکشہ رکا تھا۔ اجو ماموں نے آواز لگائی۔

’ بوبو۔۔  نازیہ آ گئی۔۔ ‘

اماں دالان والے کمرے سے نکل کر آئیں۔۔  اجو ماموں نے نازیہ اپو کا بکسہ تھام رکھا تھا۔ بکسہ چوکی پر رکھا۔ ابو آئے — نہ سلام نہ کلام۔۔  نازیہ اپو کو دیکھا۔۔  واپس اپنے کمرے میں چلے گئے۔ اماں صحن کا پردہ تھامے نازیہ کو دیکھ رہی تھیں۔ جسم میں کوئی ہلچل نہیں۔ اتنے زلزلے گزر جانے کے بعد جسم میں ہلچل کہاں رہ جاتی ہے — اماں مجبور، لاچار اور بے بس تھیں  — نازیہ اپو چوکی کے کنارے بیٹھ گئی۔ چہرہ سپاٹ اور بے جان۔۔  لاش جیسا سرد۔۔  ایک طرف کرسی پر بیٹھے تھے اجو ماموں۔۔  ماحول میں خاموشی طاری تھی۔۔

اجو ماموں نے اماں کی طرف دیکھا۔ پھر نازیہ سے پوچھا۔۔

’محلے میں کس لڑکے سے ملتی تھی۔‘

جواب میں خاموشی رہی —

’ملنا نہیں چاہئے تھا نا۔۔ ؟‘

جواب میں اس بار میں بھی خاموش رہی۔

’کون تھا لڑکا؟ کس کا لڑکا تھا؟‘

اس بار اماں نے آنکھوں کے ساتھ ماموں کو پنجہ دکھایا۔ ماموں نے ہونٹ سی لیے۔ اماں نازیہ اپو کے پاس آئیں۔ کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔  دونوں کی آنکھوں میں آنسوکا نام و نشان نہیں۔ میں نازیہ اپو کے سرد اور بے جان ہاتھوں کو تھامے ہوئی تھی۔۔

’چلو کمرے میں۔۔ ‘

نازیہ اپو پتھر کے مجسمہ کی طرح اپنی جگہ سے اٹھ کر اماں کے ساتھ کمرے میں داخل ہو گئیں  — کبھی یہ کمرہ ہم بہنوں کے نام تھا۔۔  آہستہ آہستہ یہ کمرہ خالی ہو گیا۔ ویران دیواریں  — دیواروں سے جھولتے مکڑی کے جالے — ایک بڑی سی چوکی۔ چوکی پر رکھی ہوئی میلی سی چادر — تکیہ کے سہارے دیوارسے ٹیک لگا کر نازیہ نے پہلی بار امی کو دیکھا۔ آنسو کے قطرے جھلملائے۔۔  باندھ ٹوٹ گیا۔۔

’ مجھ پر غلط الزام لگائے گئے اماں۔۔ ‘

’ جانتی ہوں۔۔ ‘

’ میں ایسی نہیں ہوں۔۔ ‘

’ چپ کر۔۔ ‘

’ شادی کے بعد امتیاز کے گھر والوں نے مجھے ایک دن بھی قبول نہیں کیا۔کہتے تھے کوئی اور آتی تو جہیز لے کر آتی۔ تو کیا لائی۔ بھک منگن۔ ناجائز حمل لے کر میرے بیٹے کو پھانس لیا۔۔  صبح شام اٹھتے بیٹھتے صرف گالیاں تھیں۔ میں اس گھر میں بار بار مرتی تھی اماں۔۔  ہر وقت مجھے گھر کے نام پر جلی کٹی سنائی جاتی تھی۔۔  اماں میں مر جاؤں گی۔۔  میں جان دے دوں گی اماں۔۔ ‘

اماں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے نازیہ کو دیکھا — ’خدیجہ جا چکی — شاذیہ بھی گئی۔ اب تو بھی جان دے دے۔۔  بہتر ہے کہ میں ہی جان دے دوں۔۔  ندو کو بھی زہر کھلا دوں اور تم کو بھی۔۔  اور خود بھی کھا کر سورہوں۔۔ ‘

اماں کی آنکھیں بارش بن گئی تھیں۔

میں نے زندگی میں اماں کو بہت کم روتے ہوئے دیکھا تھا۔ مگر اماں نازیہ اپو کا ہاتھ تھامے سسکیوں کے ساتھ رو رہی تھیں  — میں پاس میں ہی تھی۔ اماں اور نازیہ اپو کی باتیں سن رہی تھی۔۔  میرا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔۔  ایک غصہ تھا جو آہستہ آہستہ ابال لے رہا تھا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ یہاں کے ایک ایک مرد کو جان سے ماردوں۔۔  ان کے کھانے میں زہر ملا دوں۔۔  ان مردوں نے کمینگی کی انتہا کر رکھی ہے۔ ان کے نشانے پر عورت ہے۔ الزام لگانے کے لئے۔ قتل کرنے کے لئے۔ گھر سے نکالنے کے لیے۔ وہ عورت کب پیدا ہو گی جو ان مردوں کو گھر سے نکالے گی۔۔  جو ان مردوں کا استقبال تھپڑ سے کرے گی۔۔

اماں نے آنسو پوچھ لیے تھے۔۔  وہ آہستہ آہستہ نازیہ اپو سے کہہ رہی تھیں۔۔

سن نجو۔۔  میری بات دھیان سے سن۔ یہ ایک گھر دس محلے کا کنبہ ہے۔ باتیں تو بنیں گی۔ اور کون بنائے گا۔ یہی اپنے بنائیں گے۔ الزام لگانے کوئی باہر سے دشمن تھوڑے ہی آتا ہے۔ الزام لگانے والے گھر کے لوگ ہوتے ہیں۔ مگر تجھے ہمت رکھنی ہو گی۔ برداشت کرنے کی طاقت ڈالنی ہو گی۔ مجھے صدمہ ہے کہ میں تیرے لیے سایہ دار درخت نہیں بن سکی۔ یہاں ڈولی اتری، تبھی سے میرے پر کاٹ دیئے گئے۔۔  میرے پاس آواز بھی نہیں ہے۔ تجھے بھی آواز نہیں کرنی ہے ورنہ یہ جو کمرہ ہے نا۔۔  اس کے دروازے بھی یہ لوگ تیرے لیے بند کر دیں گے۔ میں جانتی ہوں سمجھ دار کو اتنا اشارہ کافی ہے۔ آگے اللہ کی مرضی ۔۔ ‘

’میں سمجھ سکتی ہوں اماں ‘

مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ میں اندر ہی اندر گھٹن کا شکار تھی۔۔  لڑکیاں کیا مرنے کے لیے ہوتی ہیں ؟ زندگی میں ایک عورت کتنی بار مرتی ہے؟ یہ مرد کیوں نہیں مرتے۔۔ ؟ اماں اگر یہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں تو اماں نے کبھی آواز اٹھانا مناسب کیوں نہیں سمجھا۔ اگر امتیاز بھائی نے نازیہ کو نکال دیا تو ان کا کیا قصور۔۔  حقیقت یہ ہے کہ میں اندر ہی اندر آگ جمع کر رہی تھی۔

ابو کو نازیہ اپو کا آنا پسند نہیں آیا تھا۔ وہ برآمدے میں کرسی پر بیٹھے گالیاں دے رہے تھے۔۔  میں نے اپنی سگی بیٹی کو اس طرح کی گالیاں دیتے ہوئے پہلی بار سنا تھا۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(3)

 

اجو ماموں کے پورے وجود سے مجھے نفرت تھی۔ ان کا دل سوائے عورتوں کے کہیں نہیں لگتا تھا۔ پنج وقتہ نمازی تھے لیکن عورتوں میں گھرے رہتے۔ اماں کے دور کے رشتے کے بھائی تھے۔ جوانی میں ہی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ یہیں پڑے رہتے تھے بلکہ روٹیاں توڑتے تھے۔ میں نے جوناگڑھ کے ان مردوں میں بہت کم کو باہر کام کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان کے پاس جائیداد تھی۔ کھیت تھا اور یہ لوگ بس ایک گھر سے دوسرے گھر گھومتے رہتے تھے۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ نا کارے لوگ تھے۔ افواہیں پھیلانا ان کا محبوب پیشہ تھا۔ جہاں بیٹھ جاتے وہاں غیبت شروع ہو جاتی۔ بچوں کی شادی کرنی ہوتی تو کھیت بدھار کے بٹوارے شروع ہو جاتے۔

میں اسی ماحول میں جوان ہو رہی تھی۔

نازیہ اپو نے کچن سنبھال لیا تھا۔ امتیاز بھائی کے گھر سے نہ بلاوہ آیا نہ یہاں سے کوئی معافی مانگنے ان کے گھر گیا —

اس دن دوپہر کے دو بجے تھے —

ابو باہر گئے تھے۔ حویلی سنسان پڑی تھی۔ اجو ماموں کو دیکھا، چوری چھپے نازیہ اپو کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ باہر سے مرغیوں کی غٹرغوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دروازے پر نازیہ اپو کھڑی تھیں۔ پھر دروازہ بند ہو گیا۔

میں سہمی ہوئی باہر کھڑی تھی۔۔

کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔ چوروں کی طرح لنگی سنبھالے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اجو ماموں تیزی سے برامدہ پار گئے۔

میں حیرت کی وادیوں میں تھی۔

اندر ہی اندر غصے سے پیچ و تاب کھائی ہوئی۔

میں اتنے غصے میں تھی کہ خود کو روک نہیں پائی۔ تیز تیز چلتی ہوئی نازیہ اپو کے کمرے میں گئی تو وہ شلوار برابر کر رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی ایسے چونک گئیں جیسے چوری پکڑ لی گئی ہے۔۔

’تم۔۔ ‘

’ہاں۔۔  میں۔۔ ‘

’کیا بات ہے ندو۔۔ ‘

’اجو ماموں کیوں آئے تھے۔۔ ؟‘

وہ ۔۔ ؟ نازیہ اپو کا چہرہ اچانک پتھر ہو گیا۔

’میں جانتی ہوں کیوں آئے تھے۔۔ ‘

’پتھر کے مجسمے میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی — ‘

’آپ نے دروازہ کیوں بند کیا؟‘

’وہ۔۔ ‘

’میں جانتی ہوں کوئی جواب نہیں آپ کے پاس۔۔  امتیاز بھائی نے اچھا کیا جو آپ کو نکال دیا۔ آپ اسی کے لائق ہیں۔ اب وہ کہانیاں۔۔  مجھے جھوٹی نہیں لگ رہی ہیں۔ اللہ کے واسطے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہیے گا۔ میں آپ کی عزت کرتی تھی۔ لیکن آج آپ میری نگاہوں سے گر گئی ہیں نازو اپو۔۔ ‘

’ بھوک لگتی ہے مجھے۔۔ ‘ نازو اپو زور سے چلائیں۔۔  میرے اندر کی بھوک جگا کر مجھ سے انتقام لیا جاتا تھا۔ جب بھوک لگتی ہے تو اچھے برے، جائز ناجائز کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔۔  نازیہ اپو رو رہی تھی۔۔ ’تو ان باتوں کو کیا جانے گی۔ لیکن بھوک کا کوئی علاج نہیں ہے۔۔  سہتے سہتے برداشت کی حدیں ختم ہو گئی تھیں۔‘

میں نے نفرت سے نازیہ اپو کی طرف دیکھا۔ ان کی باتوں میں کوئی دم نہیں تھا۔ اجو ماموں جیسے مرد کے لیے ان کی خود سپردگی نے میرے دل میں ان کے لئے نفرت پیدا کر دی تھی۔۔

خدا کے لیے بھی میری نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔۔  اتنا کمزور کیوں بنا دیا عورت کو؟ جسم سے بڑی بھوک کیوں بنا دی۔۔ ؟

امرود کے پیڑوں پر کوے آیا کرتے تھے۔ سیانے کوے۔ شاطر کوے۔ مجھے یہ مرد کی ذات کووں سے زیادہ سیانی لگتی۔۔

میں، نکہت، انجم ڈنگا پانی کھیلتے ہوئے زور زور سے گاتے۔۔

ابو میرے گھر میں دیکھو۔۔  لال پری کا دانہ ہے۔

جو بھی ہے یہاں سیانہ ہے۔۔

انجم میری خالہ زاد بہن ہے۔ وہ میرے ہی محلے میں رہتی ہے۔۔  انجم پوچھتی۔

’اس گھر میں سب سے سیانہ کون؟‘

نکہت کہتی۔ گبرو دادا۔۔

’اجو ماموں۔۔ ‘

’اور کون۔۔ ؟‘

’ابو چاچا۔۔ ‘

’دھت۔۔  سارے مرد ہی سیانے ہیں۔۔ ‘

وقت تیزی سے پر لگا کر اڑ رہا تھا۔

 

اس دن عظیم بھائی زبردستی ہاتھ تھام کر چھت پر لے گئے۔۔  وہی کھوبر والا کمرہ۔۔  میں نے زور سے کہا — نا۔۔

کیوں ؟ عظیم بھائی کے تیور سخت تھے۔۔

’نا۔۔  تو۔۔ نا۔۔ ‘

’پہلے تو اتنی زور سے نا نہیں کہتی تھی۔۔ ‘

سینے پر چکوٹی بھری تو میں نے بھی تیز لات چلا دی۔۔  بالکل اسی مقام پر۔۔  عظیم بھائی کراہتے ہوئے زمین پر گر گئے۔ گالیاں بکنے لگے۔۔  میں زور زور سے ہنسنے لگی۔۔

وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا۔ پرانی نسل گم ہو رہی تھی۔ اور نئی نسل ٹھیک ان کی جگہ لے رہی تھی اور جوناگڑھ کی اس حویلی میں کچھ بھی نہیں بدلا تھا — کہانیاں وہی تھیں۔ شوق وہی تھے۔ یہاں عمر کا لحاظ نہیں تھا اور ننھی ننھی بچیوں میں بھوک مٹانے کے نئے نئے طریقے آزمائے جاتے تھے۔۔  شاید آس پاس بھی یہی ہو رہا تھا۔

میں سترہ سال کی ہو گئی تھی۔ ابا پڑھائی کے سخت خلاف تھے۔ مگر میں اپنی جگہ ڈٹی رہی۔

مجھے پڑھنا ہے تو پڑھنا ہے۔۔

’پڑھ کر کون سا تیر مار لو گی؟‘ ابا نے پوچھا۔۔

’تیر ہی تو ماروں گی۔۔  سب کو — ‘ پہلی بار میں نے ابا کا مقابلہ کیا تھا۔ لیکن ابو کے چہرے کے تاثرات نہیں پڑھ سکی۔ وہ کمزور ہو گئے تھے۔ میری بات سننے کے بعد ایک لمحہ بھی رکے نہیں۔ باہری دروازے سے نماز کے لیے نکل گئے۔

مسجد میں محلے کے سارے خرافاتی بوڑھے جمع ہوتے تھے۔ اور ان کے پاس سوائے غیبت کے اور کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ کس کی لڑکی فاحشہ ہے۔ کس کی حرافہ۔ کس نے کتنے حمل گرائے۔ یہ باتیں چوری چھپے سنتی آئی تھی۔ اجو ماموں سن کر آتے تو اماں کو بتایا کرتے — اماں صرف ہوں ہاں کر کے رہ جاتیں۔ اماں کو اس طرح کی باتوں کا جواب دینا نہیں آتا تھا۔۔

لیکن میری دنیا بدل رہی تھی اور اس دنیا میں، میں بالکل اکیلی تھی۔ جب بھی تنہا ہوتی، وحشت کے گھنگھروؤں کی موسیقی ابھرنا شروع ہو جاتی۔۔  ایسا محسوس ہوتا جیسے میری عمر کی لڑکیوں کے لیے تنہائی بھی موت کا دروازہ ہے۔۔  مرد کی خوفناک آنکھیں شکار تلاش رہی ہیں۔۔  میں سوچنے سے قاصر تھی کہ یہ سب یہیں ہوتا ہے یا یہ سب دوسرے گھروں میں بھی ہوتا ہے۔ حویلی میں نئی دنیا کی کوئی دستک نہیں تھی۔ شاید یہ لوگ نئی دنیا کی آہٹوں یا دستکوں کو بھی سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان سب کے لیے ماضی ایک اثاثہ تھا اور یہ اسی ماضی میں سانس لیتے ہوئے عمریں گن رہے تھے۔ نئی روشنی انہیں گوارہ نہیں تھی۔ یا انہیں شدت سے اس بات کا احساس تھا کہ نئی روشنی کی آمد ان کی سلطنت کے شیرازے بکھیر سکتی ہے۔

انہی دنوں ایک اور حادثہ ہوا تھا۔ ایک ایسا حادثہ جس نے میری دنیا کو پلٹ دیا تھا۔

یہ میری عمر کا اٹھارواں سال تھا۔

٭٭٭

 

 

 

(4)

 

وہ حادثہ، جس نے میری زندگی بدل دی۔۔  کتنا تکلیف دہ حادثہ تھا۔۔  میرے لیے اس حادثہ کو بھول پانا مشکل تھا۔ دادی اماں کی کہی ہوئی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ یہاں سب مرد ہیں۔۔  پیڑ پودے بھی پیڑ پودے کہاں ہیں۔۔  یہ بھی مرد ہیں۔ جنگلی بلا۔ غراتا ہوا۔۔  اور ان جنگلی بلوں کو غرانے کی ضرورت بھی کیا تھی۔ شکار تو اپنے ہی گھر میں موجود تھا۔ بس ہاتھ بڑھا کر دبوچنے کی ضرورت تھی۔ مگر اس حادثہ سے پہلے ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔۔  اماں نے مکتب میں بیٹھایا تھا۔ ایک بڑی بڑی داڑھی والے مولانا تھے جو قرآن شریف پڑھانے آیا کرتے تھے۔مجھے ان کا سیاہ چہرہ اور سفید داڑھی سے ڈر لگتا تھا۔ اوپر سے چیچک کے داغ۔ مولوی صاحب رات کے آٹھ بجے آیا کرتے۔۔  اماں سرپر آنچل ڈال کر بھیجا کرتیں۔۔  مولوی صاحب پڑھانا شروع کرتے تو خادمہ پہلے چائے لے کر آتی پھر ایک طشتری میں پان کی دو گلوریاں رکھ کر بھیجی جاتیں۔ دو ایک دن تو ٹھیک چلا۔۔  پھر مولوی صاحب جب میری کسی بات سے خوش ہوتے تو زور سے گال میں چکوٹی کاٹتے۔۔  زیادہ خوش ہوتے تو مجھے کھینچ کر گود میں بیٹھا لیتے۔۔  ادھر ادھر دیکھتے۔۔  اور گود میں بیٹھا کر ہی سبق یاد کراتے رہتے۔۔  کئی باد مجھے کراہیت محسوس ہوئی۔۔  ابو یا کوئی ملنے والا آ جاتا تو مولوی صاحب زور زور سے سبق یاد کرانے لگتے۔۔  اب لگتا ہے۔۔  حویلی آنے والے سارے کے سارے مرد تھے۔ دودھ والا — سبزی والا۔۔  کپڑے والا۔۔  ان کابس نہیں چلتا تھا۔۔  جن کا بس چلتا تھا وہ جھاڑی سے سانپ برامد کر لیتے تھے ۔۔

اماں کہتی تھیں کچھ برا سوچو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔۔

’ اچھا جی۔۔ ‘

اس رات اچانک لائٹ چلی گئی تھی۔۔  مولوی صاحب نے زور سے کہا۔۔

’ ڈر نا مت۔۔ ‘

مجھے گود میں کھینچ لیا۔۔  میں محسوس کر رہی تھی۔۔  دیوار پر جھولتے ہاتھی نے پھولنا شروع کر دیا ہے۔۔  میں نے مولوی صاحب کا ہاتھ جھٹکا۔۔  اور غصے میں بولی۔۔

’ آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا۔۔ ‘

’ کیا۔۔ ؟‘

’آپ قرآن شریف کے سبق یاد کراتے ہیں۔۔ ‘

روشنی آ گئی تھی۔۔  روشنی میں پلکیں جھپکاتے ہوئے مولوی صاحب کا چہرہ ایسا لگتا تھا جیسے اڑتی چڑیا نے چہرے پر گندگی ڈال دی ہو۔۔

اب سوچتی ہوں۔۔  ہم محفوظ کہاں تھے؟

باہر تو باہر۔۔  ہم گھر میں بھی کہاں محفوظ تھے۔۔

گھر میں جانوروں کی فوج تھی اور ہر جانور موقع کی تاک میں۔۔  دشواری یہ تھی کہ گھر میں ان کی شکایت بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔۔

میں اسی ماحول میں بڑھتی ہوئی 19سال کی ہو گئی تھی کہ اچانک وہ حادثہ ہو گیا۔۔

بڑے چچا کی اکلوتی لڑکی نکہت۔۔

میں صبح سے اسے تلاش کر رہی تھی۔۔  نکہت کہاں ہے؟ انجم سے پوچھا۔۔  مہرو سے دریافت کیا۔۔  مگر کسی کو نکہت کا پتہ نہیں تھا۔۔  سورج غروب ہو رہا تھا۔۔  اماں کہتی تھیں کہ مغرب کی نماز کے بعد کتابیں نکال کر بیٹھ جایا کرو۔۔  میں کتاب نکالنے جا رہی تھی کہ اچانک آہٹ سن کر چونک گئی۔۔

مرجھائی ہوئی آواز سنائی پڑی۔۔  ندو۔۔

میں نے مڑ کر دیکھا۔۔  دروازے کے پاس نکہت کھڑی تھی — لیکن برسوں کی بیمار نظر آ رہی تھی۔ چہرے کی ہنسی مسکراہٹ کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ نکہت کا ایسا مرجھایا ہوا چہرہ میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا —

میں پھٹی پھٹی حیران نگاہوں سے نکہت کو دیکھ رہی تھی۔۔

’بیمار ہو۔۔ ‘

’ نہیں۔‘

کسی نے ڈانٹا یا مارا ہے۔۔ ؟

’ نہیں۔۔ ؟‘

’ پھر کیا بات ہے نکو۔۔ ‘

نکہت نے سہمے ہوئے انداز میں ادھر ادھر دیکھا۔ پھر کمرے میں آ کر دروازہ بند کر دیا۔۔

’دروازہ کیوں بند کیا۔۔ ؟‘

’میری کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے ندو۔۔ ‘

اچانک جسم میں جیسے بجلی دوڑی ہو۔ نکہت مجھ سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی — اس کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔

’ نکہت۔۔ ہوش میں آؤ۔ بتاؤ تو سہی۔ ہوا کیا ہے۔۔ ‘

’ میں کچھ نہیں جانتی۔ مگر یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے۔۔ ‘

’کیوں مار ڈالیں گے؟‘ میں نے غصے سے کہا۔۔

’میں جانتی ہوں۔۔  وہ لوگ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔۔ ‘

’مگر کیوں ؟‘ میں زور سے چلائی۔۔  ایساکیا ہو گیا ہے کہ وہ لوگ تجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔۔

نکہت نے آنسو پوچھے۔ میری طرف دیکھا۔۔ اس کے لب کانپ رہے تھے۔۔

’ آج سارا دن چھپی چھپی پھرتی رہی۔۔  سارا دن مجھے الٹی ہوتی رہی۔۔ ‘

’ اُلٹی۔۔ ؟ قئے۔۔ ؟‘

’ ہاں۔۔ ‘

مگر۔۔ ؟ مگر کہتے ہوئے میں اچانک چونک گئی تھی۔ میرے چہرے کا رنگ تبدیل ہو چکا تھا۔۔  میں نے غور سے نکہت کے چہرے کا جائزہ لیا۔۔  اس نے آنکھیں جھکا لیں۔۔

’ کہیں تم۔۔ ؟‘

’ ہاں۔۔ ‘

’ اُف میرے خدا۔۔ ‘ میں نے نکہت کے سرد ہاتھوں کو چھوڑ دیا۔۔  یہ غلطی کیسے ہوئی نکہت۔۔  اتنی بڑی غلطی۔۔‘

’ بس ہو گئی۔۔  میں نہیں جانتی مگر۔۔ ‘

میری آنکھوں میں آسیبی پرچھائیوں کا رقص شروع ہو چکا تھا۔۔  میں خوف سے کانپ رہی تھی۔۔

’تم مطمئن ہو کہ ۔۔ ؟‘

’ ہاں۔۔ ‘

’ مگر یہ کس کا ہو سکتا ہے۔۔ ؟‘ میں نے چبھتی ہوئی آنکھوں سے نکہت کو دیکھا۔۔  وہ سر جھکائے اب بھی رو رہی تھی۔۔

’ عظیم بھائی؟‘

’نہیں۔‘

’ اجو ماموں۔۔ ؟‘

’ نہیں۔۔ ‘

تختے والے چاچا۔۔ ؟

نہیں۔۔

ابو چاچا۔۔ ؟

نہیں۔۔

گبرو دادا، سلمان بھائی۔۔ ؟

نہیں۔۔  نہیں۔۔ ‘ نکہت سہمی ہوئی تھی۔۔  اللہ جانتا ہے مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔  میں یہ بھی نہیں جانتی کہ ان میں سے کون ہے جس کی وجہ سے آج میری یہ حالت ہو گئی ہے۔۔  ‘ نکہت اب بھی رو رہی تھی۔۔  تم نہیں جانتی ندو۔ مگر میں ان گھر والوں سے واقف ہوں۔ یہ لوگ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ مار دیں گے مجھے۔۔  مجھے مرنے کا غم نہیں ہے ندو۔۔ مگر ایسی رسوائی کی موت نہیں چاہتی میں۔۔  کہ مرنے کے بعد بھی لوگ مجھے برے ناموں سے یاد کریں۔۔  ندو۔۔  تم تو سب کچھ جانتی ہو۔۔  بتاؤ۔۔  ہم لوگوں کا قصور کیا ہے۔۔ یہ لوگ بچوں کو بچہ کہاں رہنے دیتے ہیں۔۔  ندو۔۔  میری کوئی غلطی نہیں۔۔  مگر۔۔  جس کو بھی موقع ملا۔۔  میری غلطی یہ تھی کہ میں بے زبان تھی۔۔  اس گھر میں زبان کس لڑکی کو ہے؟ یہاں ہمیں کچھ بھی بولنے کہاں دیا جاتا ہے۔۔  بس خوفناک پنجے ہوتے ہیں  — گدھوں کی طرح۔۔  ہمیں دبوچنے کے لئے۔۔  ہماری ٹکا بوٹی کرنے کے لئے۔۔  یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے ندو۔۔ ‘

’ کوئی نہیں مارے گا تمہیں۔ میں ہوں نا نکو۔۔ ‘

میں بھی نکہت کے ساتھ رو رہی تھی۔۔  یہ اچانک زمین کیسے ہلنے لگی۔۔  دنیا کیسے بدل گئی۔۔  یہ اچانک کیا سے کیا ہو گیا۔۔  اگر گھر کے بڑے بوڑھے سنیں گے تو۔۔  یہ مجھے معلوم تھا اس کا انجام کیا ہو گا — نکہت بھی اس انجام سے واقف تھی۔۔  مگر کون پوچھتا۔۔

’کیوں اپنے ساتھ لنگیوں میں جنگلی بلے کو لیے گھومتے ہو تم لوگ۔۔ ؟‘

کیوں، یہاں گھر کی ہر دیوار پر موٹی موٹی سونڈھ والے ہاتھی جھولا کرتے ہیں۔۔

شرافت کی آڑ میں ننھی ننھی بچیوں کا شکار کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔۔ ؟

مگر کس سے پوچھتی۔۔  سوالوں کا ہر دروازہ بند تھا۔ یہاں سوال بھی مردوں کے پاس تھے اور جواب بھی۔ اور باقی بھیڑ بکریاں جن کے نصیب میں ذبح ہونا لکھا تھا۔

٭٭

 

دوسرا دن قیامت کا دن ثابت ہوا۔

صبح ہوتے ہی یہ قیاس لگانا آسان تھا کہ نکہت کے حاملہ ہونے کی خبر گھر والوں کو مل چکی ہے — اس حویلی نما بوڑھے مکان میں کتے اور بلیوں کے رونے کی آوازیں سن رہی تھی۔ اماں کا چہرہ سہما ہوا تھا۔ ابو پریشان حال برامدے میں ٹہل رہے تھے — ہمیں کمروں سے باہر آنے پر پابندی تھی۔ شاید خیال رہا ہو کہ ایسی خبروں کی بار گشت ہمیں بھی گمراہ کر سکتی ہے۔۔

میں نکہت سے ملنا چاہتی تھی۔ میں نکہت کو دیکھنا چاہتی تھی۔۔

میں نے اماں سے اشاروں میں نکہت کا نام لیا تو انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔

’ چپ رہ۔ گھر میں قیامت آ چکی ہے۔‘

میں نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔۔  ’کیسی قیامت اماں۔۔ ؟‘

’ آج کل دیواروں کے کان نہیں ہوتے — تجھے بھی خبر مل جائے گی۔ تیرے ابو نے کہا ہے کہ تجھے کسی سے ملنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

’ ابو کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے۔‘

’ ملنے گئی تو اپنی جان کی خیر منانا۔ اس حویلی کے مردوں کے عتاب سے ابھی تو واقف نہیں۔‘

’میں واقف ہونا بھی نہیں چاہتی اماں۔ مگر میں پابندیوں میں نہیں جی سکتی۔ مجھے معلوم تو ہونا چاہئے کہ آخر اس گھر میں کیا چل رہا ہے،

’ میں نے کہا نا۔۔  دیواروں کے اب کان نہیں ہوتے۔‘

’ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی اماں۔‘

’ قیامت کہہ کر نہیں آتی ندو۔ سمجھ لے۔ قیامت آ چکی ہے۔ نکہت کی خیر نہیں۔‘

میں نے اماں کی آنکھوں میں منڈلاتے آنسوؤں کو پڑھ لیا تھا۔ مجھے نکہت کا چہرہ یاد آ رہا تھا۔۔  وہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے۔۔  لیکن میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ جنہیں سزا ملنی چاہئے وہ تو عیش کریں اور غریب نکہت کو لڑکی ہونے کی سزا مل جائے۔

میرے لیے سوچنے کی بات یہ تھی کہ جب راز کھل چکا ہے تو اس گھر کے بڑے بوڑھے نکہت کے ساتھ کیا سلوک کر سکتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ میرا دل گھبرا رہا تھا۔ اور مجھے بھی اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ یہ لوگ اپنی شرافت کے ڈھونگ میں نکہت کی جان لے لیں گے۔۔

اور میرا اندازہ سچ ثابت ہوا تھا۔

 

اس حادثے کے ٹھیک چوتھے دن نکہت نے زہر کھا لیا تھا۔یہ کہنا مشکل تھا کہ نکہت نے زہر کھا کر خودکشی کی یا اس کو زبردستی زہر دے کر مار دیا گیا۔ کیوں کہ بوڑھی حویلی کے شرافت یہ نگہبان اپنی رسوائی سے بچنے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے تھے۔ اور ہر بار سولی پر چڑھنے کے لیے عورت تو ہوتی ہے —

میں چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی۔ نکہت کی تصویر بار بار آنکھوں کے آگے گھوم رہی تھی۔ اچانک ایک لمحہ میں جیسے ساری دنیا بدل گئی۔ ان لوگوں نے نکہت کو مار ڈالا۔ یہ لوگ مجھے بھی مار ڈالیں گے۔

آنکھوں کے آگے نیلی پیلی سیاہ پرچھائیوں کا رقص جاری تھا۔۔  مجھے اچانک احساس ہوا۔۔  میں دوڑ رہی ہوں۔۔  تیز بہت تیز۔۔  اور اچانک میں ٹھہر گئی ہوں۔۔  چاروں طرف مکڑی کے جالے۔۔  اور ان جالوں کے باہر گھر میں موجود مردوں کے چہرے تھے۔۔  میں ان میں سے ہر چہرے کو پہچانتی تھی۔ مگر میری سمجھ  سے باہر تھا کہ پیدا ہوتے ہی لڑکیوں کو پاکیزگی، حیا، کردار کی تعلیم دینے والے، سبق پر سبق پڑھانے والے ان مردوں کے ہونٹوں سے ہر وقت رال کیوں ٹپکتی ہے۔۔ ؟ حجاب میں رہنے کی تعلیم دینے والے ہمیں حجاب کے اندر اندر اتنا دیکھ لیتے ہیں کہ جسم کی کینچلی اتار پھینکنے کو جی چاہتا ہے۔۔

یہ ہونٹ۔۔  گٹر میں ڈال دوں۔۔

یہ ابھرا ابھرا سینہ۔۔  گوشت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے دلدل میں دفن کر دوں۔۔  یہ کلائیاں۔۔  یہ جانگھیں۔۔  یہ ناف۔۔  ایک بڑا سا چھڑا لوں۔۔  اور بس کاٹتی چلی جاؤں — بے رحم قصاب کی طرح۔۔  کھچ کھچ۔۔  کھچ کھچ۔۔

میں گھر میں نظر بند تھی۔

میں اپنے کمرے کی طرف پلٹی۔ مجھے کسی کا ڈر نہیں تھا۔ کوئی آئے۔ کوئی جائے۔ جہنم میں جائے۔ میں آئینہ کے سامنے کھڑی تھی۔ میں نے انگڑائی لی۔ اور اپنے جسم کی طرف دیکھا۔۔  آئینہ کی طرف اپنی ہتھیلیوں کو پھیلایا۔۔

ایک پر شباب جسم سامنے تھا مگر اس وقت آئینہ کے عکس سے مجھے الجھن ہو رہی تھی۔ پھر میں نے یکے بعد دیگرے سارے کپڑے اتار دیئے۔۔  میں برہنہ تھی۔۔  مجھے خوف نہیں تھا۔۔  کپڑے اتارتے ہوئے میں خوف اتار رہی تھی۔۔  پہلی بار مجھے آئینہ کو دیکھ کر وحشت ہوئی۔ آئینہ میں ایک خوبصورت جسم موجود تھا اور اس جسم سے آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔۔  میں چیخنا چاہتی تھی۔۔  میرے جسم میں آگ کے یہ شعلے کیوں رکھے ہیں۔ کوئی پتھر یا لوہے کا کوئی ٹکڑا ہاتھ میں ہوتا تو میں آئینہ توڑ چکی ہوتی۔۔  میں اچانک چونک گئی۔ کھلے دروازے سے اماں داخل ہوئی تھیں۔۔  اور اماں نے چیخ کر پوچھا تھا۔۔

یہ کیا ہے؟

اماں نے جلدی سے دروازہ بند کیا — ’ پاگل ہو گئی ہے ندو۔ گھر کا کوئی مرد آ جاتا تو۔۔ ؟‘

’آ جا تا تو کیا ہوتا۔۔ ‘ میں طنز سے ہنسی۔۔  ’تم تو ایسے کہہ رہی ہو اماں کہ کسی نے بھی۔۔ ‘

اماں نے ہاتھوں کو میرے منہ پر رکھا۔’ چپ کر۔ جلدی سے کپڑے ڈال۔‘

’کیوں۔ ایسے رہنے میں کوئی برائی ہے۔؟‘

’ہاں۔۔ ‘

میں تو ایسے ہی رہوں گی۔ آج سوچتی ہوں — ایسے ہی سارے گھر میں گھومتی رہوں۔‘

’خبط سوار ہے۔‘ اماں کی آنکھوں میں تشویش کی لہریں تھیں۔۔  ایک کا جسم مٹی ہو گیا۔ اور ایک مٹی کے جسم کو کھولے کھڑی ہے۔ ہمیں یہ حق نہیں بیٹی۔ ایبنورمل مت بن۔۔ کپڑے پہن لے۔‘

اماں کی یہ بات بجلی کی طرح دماغ میں داخل ہو گئی۔ میں زور سے چیخی۔

’میں ایبنورمل نہیں ہوں۔ ہمیں کیوں کہا جاتا ہے ایبنورمل۔ اور وہاں۔۔  میں نے غصہ سے کہا۔ وہ جو سارے مرد بیٹھے ہیں۔ اپنے اپنے گندے جسم کے ساتھ۔ انہیں ایبنورمل کیوں نہیں کہا جاتا۔ بس دنیا ہمیں دیکھتی رہتی ہے۔ کوئی کام مرد کی مرضی کے خلاف ہو تو ہم ایبنورمل ہو جاتے ہیں۔ اب دیکھنا اماں۔۔  اس گھر میں بہت کچھ بدلے گا۔۔ ‘

’کون بدلے گا۔۔ ؟‘

’میں بدلوں گی۔‘

’تجھے یہ لوگ زندہ چھوڑیں گے؟‘

’یہ پوچھ کہ میں ان لوگوں کو زندہ چھوڑوں گی؟‘

’تو کیا کرے گی ان لوگوں کا؟ کچھ نہیں بگاڑ پائے گی۔‘

’کیوں۔ ببر شیر ہیں یہ؟‘

’ببر شیر سے بھی زیادہ خطرناک۔‘

’’پھر ان مردوں کو پنجرے میں کیوں نہیں رکھا جاتا۔ ہمیں کیوں رکھا جاتا ہے۔‘‘

’شکار کرنے کے لیے۔‘ ایسا احساس ہوا کہ اماں اب رو دیں گی۔۔  ’پنجرہ کھولا اور شکار کر لیا۔ ایک شکار ہو گئی نا۔۔ ‘

’دوسری شکار نہیں ہو گی۔‘

’تو ان مردوں کے پنجے نہیں جانتی۔‘

’شیر کے پنجے ہیں۔ اکھاڑ دوں گی۔‘

میں نے لباس پہن لیا تھا۔ غور سے اماں کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔ ایک پوری زندگی اماں نے اسی گھر کی چہار دیواری میں خوف و دہشت کے ساتھ گزار دی تھی۔ کیا میں گزار سکوں گی۔۔ ؟

پنجرہ ہل رہا تھا۔۔

مجھے اماں نہیں بننا۔

پنجرہ زور زور سے ہلنے لگا تھا۔

میں اس چہار دیواری میں رہی تو اماں بن جاؤں گی۔۔

پنجرہ ہل رہا تھا۔ باہر سے کوئل کی کوک سنائی دے رہی تھی۔۔  میرے اندر نفرت جمع ہو رہی تھی۔۔  ہر معصوم ذی روح سے۔۔  کوئل۔۔  گوریا۔۔  چڑیا۔۔  لڑکی۔۔  مینا۔۔  مرد شکاری کی طرح تعاقب میں ہے۔۔

پنجرہ ٹوٹ گیا تھا۔

اور اسی کے بعد گھر کی چہار دیواری نے سونامی زلزلوں کی آہٹ محسوس کی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

(5)

 

’بھاگ رے بگولے۔۔

اونچے اونچے ٹیلے

ٹیلے کے اوپر

مان سرور

مان سرور میں ڈبکی لگاؤں گی

‘میں پھر نہ آؤں گی۔۔ ‘

کھیلتے کھیلتے نکہت شرارت سے مسکراتی تو میں پوچھتی۔۔

’کیوں نہ آئے گی۔۔ ‘

مان سرور میں ڈبکیاں لگانے کے بعد کوئی واپس آتا ہے کیا؟‘

’کیوں نہیں آتا؟‘

’مان سرور سے پریاں اپنے ساتھ لے جاتی ہیں ؟‘

’کہاں۔۔ ؟‘

’وہاں۔۔  دور نیلے آسمان میں۔۔ ‘

پنجرہ ٹوٹ گیا تھا۔ نکہت میری آنکھوں کے آگے زندہ تھی۔ ہزاروں واقعات۔۔ کھیل کود۔۔  شرارتیں۔۔  میں تنہا رہ گئی تھی۔۔  اور اس وقت میں اپنے ہی غصے کی آگ میں جل رہی تھی۔۔  مجھے خبر ملی تھی۔۔  گھر میں پولس والے آئے ہیں۔۔  میں برآمدے میں جا کر چھپ کر وہ منظر دیکھ رہی تھی۔

٭٭

 

جوناگڑھ کی زوال آمادہ حویلی گھر کے مردوں کے لیے رسوائی کا سامان لیے آئی تھی۔ بڑے بوڑھے اپنی غیرت اور عزت کو لٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔۔  لیکن اس وقت پولس کے چار آدمیوں کو ایک ساتھ دیکھ کر حویلی میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔

پولس۔۔

یا اللہ رحم۔۔

پردے کے اندر سے عورتوں کے رونے کی آواز ٹھہر ٹھہر کر آ رہی تھی۔ ابو آگے بڑھے۔ جھکی نگاہوں نے پولس والوں کی سنگین نگاہوں سے بچتے ہوئے چہرہ چھپا لیا۔

’میں چودھری زین العابدین۔۔ ‘  آواز کانپ رہی تھی۔ صدیوں میں اس حویلی نے اپنی عزت اور ناموس کا خیال رکھا تھا۔ لیکن اب وقت بدل رہا ہے۔ اور بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ کچھ بھی سلامت نہیں۔‘

ایک پولس والے نے بیڑی سلگائی۔ ’کتنا خیال رکھا ہے۔‘

’یہ تو ہم بھی دیکھ رہے ہیں چودھری صاحب۔‘

دوسر ے پولس والے نے قہقہہ لگایا۔ کچھ دن پہلے بھی نالے پر ایک لاش ملی تھی۔۔  بچی کو پیدا ہوتے ہی نالے میں پھینک دیا گیا تھا۔‘

زین العابدین نے نظریں اٹھانے کی کوشش کی۔ ’ہمارے خاندان کو ذلت اور رسوائی سے بچا لیجئے۔‘

’کیا۔؟‘ پولس والا ٹھہاکا مار کر ہنسا — ’ بدنامی اور کیا ہوتی ہے چودھری صاحب۔ چاروں طرف جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور آپ کو بدنامی کی پڑی ہے۔ لاش تو پوسٹ مارٹم کے لیے جائے گی۔‘

دوسرے پولس والے نے معنی خیز نظروں سے زین العابدین کی طرف دیکھا۔

’کیا پتہ۔ کنواری لڑکی کے ماں بننے کی خبر سن کر آپ ہی لوگوں نے زہر دے دیا ہو۔۔ ‘

٭٭

 

میں اس سے آگے کچھ نہیں سن سکی۔ جلیبی چھن رہی تھی۔ گرم کڑاہی میں میدے کی چھوٹی چھوٹی لوئیوں کو جلیبی کی شکل دی جا رہی تھی۔۔  کلٹا۔۔  حرامی بچہ۔۔  بے حیا۔۔  بے غیرت۔۔  چھنال۔۔  کلنکی۔۔  مجھے اتنا معلوم ہوا کہ پولس والے چلے گئے۔ سودا ہو گیا تھا۔ ذلت اور رسوائی کی دہائی دے کر ایک بے غیرت، بے حیا، بدکردار لڑکی نے بدنامی کا جو طوق گھر کے شریف مردوں کے گلے میں ڈالا تھا، اس شرافت کو نیلام ہونے سے بچانے کے لیے چند سکوں کا پیپرویٹ رکھ دیا گیا تھا۔۔

جلیبی چھن رہی تھی۔۔  نکہت۔۔  کلٹا۔۔  بے غیرت۔۔

کرچھی تیل میں گھوم رہی تھی۔۔  جلیبی چھن رہی تھی۔ غیرت مندوں کے گھر میں ایک بے غیرت، بے حیا لڑکی کی لاش کمرے میں پڑی تھی۔۔

مان سرور میں ڈبکی لگاؤں گی۔۔

میں پھر نہ آؤں گی۔۔

تیل اڑ رہے تھے۔ کرچھی ناچ رہی تھی۔۔  چھن چھن۔۔  جلیبی چھن رہی تھی۔۔  اور اچانک میرے پاؤں میں حرکت آ گئی۔

اور یہی وقت تھا جب اچانک موسم تبدیل ہو گیا۔ تیز دھوپ بدلیوں کی آغوش میں گم تھی۔ آسمان سیاہ ہو گیا تھا۔ بجلی کڑک رہی تھی۔۔  بارش کے آثار نظر آ رہے تھے۔

یہ برآمدہ تھا۔ جہاں میں کھڑی ہوئی تھی۔۔  یہاں سے سیم کی شاخیں دور تک چلی گئی تھیں۔۔  پولس والے چلے گئے تھے۔ یہاں سے دالان کا منظر سامنے تھا۔ چودھری زین العابدین سرجھکائے بیٹھے تھے۔

ابو چاچا زور زور سے بول رہے تھے — ’ نامراد مرتے مرتے ناک کٹا گئی خاندان کا۔ پولس والا نہیں مانتا تو سارے شہر میں ڈھنڈورا پٹ جاتا خاندان کا۔ ارے ایسی لڑکیاں تو پیدا ہوں اور گردن مروڑ کر زمین میں دفن کر دو۔۔

اندر کمرے سے عورتوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔  گبرو دادا زور سے دہاڑے — ’ عورتیں رونا بند کرو۔ بے حیا کے مرنے پر رویا نہیں جاتا۔۔  سارے خاندان کی عزت نیلام کر کے گئی ہے کلٹا۔۔ ‘

کسی نے آہستہ سے کہا۔ بارش کے آثار ہیں۔ جنازہ دیر تک نہیں رکھنا چاہئے۔۔

ابو چاچا آگے آئے۔ ’چار لوگوں کو لو۔ اور دفن کر آؤ قبرستان میں۔ عزت مٹی میں ملا دی کمبخت نے۔۔ ‘

دالان مردوں سے بھرا ہوا تھا۔۔  چاروں طرف فکر میں ڈوبے ہوئے مرد۔ ذلت، بدنامی اور رسوائی سے نگاہیں جھکائے ہوئے مرد۔۔  اور یہی وقت تھا جب چھناک سے دوڑتے ہوئے قدم دالان خانے میں آ کر رک گئے تھے۔ میں پاگلوں کی طرح ان مردوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔

’کس نے مارا میری نکہت کو۔۔ ؟‘

اندر جاؤ۔ ابو کی زوردار آواز ابھری۔۔

کس نے مارا میری نکہت کو۔ میں گلا پھاڑ کر چلائی۔ پردے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اماں باہر چلی آئی تھیں۔ اماں میرا ہاتھ تھام کر اندر لے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میرے آنسو خشک تھے۔ چہرہ پتھر اور میں تیز آواز میں چیخ رہی تھی۔

’کس نے مارا میری نکہت کو۔۔  آپ سب نے مل کر مارا ہے میری نکہت کو۔۔ ‘

’اندر چلو۔‘ اماں زور سے کھینچ رہی تھیں۔

’بے غیرت۔۔ ‘ ابو چاچا کی آواز سنائی پڑی۔۔

اور یہی لمحہ تھا جب اس لفظ نے میرے اندر کی غیرت کو جگا دیا تھا۔

’ہاتھ چھوڑو اماں۔‘میں نے زور سے دھکا دے کر اماں سے ہاتھ چھڑا لیا — ’بے غیرت۔۔  آج کسی نے کچھ کہا تو میں کہہ رہی ہوں اتنا برا ہو گا کہ کبھی نہیں ہوا ہو گا۔ بے غیرت۔۔  ارے کس نے کہا بے غیرت۔۔  اس گھر کے مردوں کو غیرت سے واسطہ بھی ہے۔۔  کس غیرت کی باتیں کرتے ہیں یہ لوگ۔۔  ارے اس گھر کی لڑکیاں تو پیدا ہوتے ہی ان مردوں کے سائز تک سے واقف ہو جاتی ہیں۔‘

اماں نے ہاتھ گھمایا تھا مارنے کے لیے۔۔  میں نے اماں کا ہاتھ روک دیا۔۔  — ’آج نہیں اماں۔۔  آج ہاتھ مت اٹھانا۔۔  آج کوئی میری طرف بڑھا تو جان سے مار ڈالوں گی۔ میں چلائی تھی۔۔  یہ اجو چچا۔ گبرو دادا۔۔  یہاں مرد اپنے گھر میں شکار کرتے ہیں۔ مرغیاں، بکریاں اور میمنے تک ان شریف مردوں کے سائز سے واقف ہیں۔‘

’بس کرو۔‘اماں نے زور سے چیخ کر کانوں کو بند کر لیا —

چودھری زین العابدین دروازے سے باہر نکل گئے تھے۔ اجو چاچا میری طرف بڑھے تو میں نے ہاتھ بڑھا کر ایک بڑا سا پتھر اٹھا لیا۔

’کیا رشتہ تھا تم سے نکہت کا؟‘

آگے بڑھتے بڑھتے اجو چاچا کا چہرہ ایک خوفناک مگر سہمے ہوئے چہرے میں تبدیل ہو چکا تھا۔

اماں دیوار کی طرف منہ کر کے رو رہی تھیں۔

’نکہت بے غیرت نہیں ہے۔‘ میں گلہ پھاڑ کر چیخی تھی۔’ آپ لوگ لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلی ہی جوان کر دیتے اور مار دیتے ہیں۔ اسے بڑھنے کہاں دیتے ہو۔ آپ کی شرافت ان بوسیدہ دیواروں کے ذرے ذرے میں چھپی ہوئی ہے۔۔

’ندو۔‘

’آج مت روکنا امی۔۔ ‘

’کیا سمجھا رہی ہے انہیں۔‘ میں نے پہلی بار امی کو دیکھا تھا۔ امی نے آج پردہ اٹھا دیا تھا — ’ کسے سمجھا رہی ہے۔ تو کیا سمجھتی ہے تیرے سمجھانے سے ان مردوں کی شرافت کے ڈھونگ ختم ہو جائیں گے۔ ‘

اماں نے پردہ کی رسم توڑ دی تھی —

’اس خاندان میں کون سی لڑکی یا عورت ہے جو ان مردوں کے ستم کا شکار نہ ہوئی ہو۔۔  اور ہمیں نکاح کر کے زوجیت میں لینے کا دم بھرنے والے اپنے ناکارے پن کی وجہ سے سب دیکھتے ہوئے بھی چپ رہتے ہیں۔ شرافت۔۔  شرافت۔۔  شرافت۔۔  بچپن سے شرافت سنتے سنتے شرافت سے چڑھ ہو گئی۔ ارے ہمت ہے تو باہر کا کوٹھا تلاش کرو۔ گھر کی مرغیوں اور بچیوں کو تو چھوڑ دو — ‘

اماں دہاڑتی ہوئی رکیں۔ مردوں کی طرف دیکھا۔ اور پھر زور سے صدا لگائی۔

’نکہت کے جنازے میں کندھے کم نہیں پڑیں گے۔ مرد ناکارہ اور نامرد ہوں تو ہم عورتیں کافی ہیں، جنازہ کو قبرستان تک لے جانے کے لیے۔ چل ندو۔‘

اماں نے میرا ہاتھ تھاما اور تیزی سے پردہ ہٹا کر کمرے میں داخل ہو گئیں۔ جہاں ایک سناٹا اور کہرام پھیلا تھا۔ ایک طرف چادر پر نکہت کی لاش پڑی تھی۔ سرتاپاکفن سے ڈھکی ہوئی لاش۔ سرہانے اور آس پاس عورتوں کا مجمع تھا۔ لیکن آج جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔

کمرے میں آنے کے باوجود اماں کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اماں نے زور دے کر کہا۔

’تیاری کر لو۔ ان مردوں کی زلفن میں تیل نہیں ہے۔ جنازہ ہمیں لے جانا ہو گا۔‘

بجلی زور سے کوندی اور اسی کے ساتھ تیز تیز بارش شروع ہو گئی۔۔  میں سفید کفن کو دیکھ رہی تھی۔۔  آنسو خشک تھے۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ ہم میں سے ہر لڑکی کی تقدیر میں یہی دن لکھا ہے۔

ہم پیدا ہوتے ہوئے بھی کہاں پیدا ہوتے ہیں /

یا پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے

ہمیں روندنے اور مسلنے کی تیاری/

یا پیدا ہوتے ہی ہمارے ننھے منے جسم کو/

تیل سے پوتتے ہوئے بڑی بوڑھیاں نہیں جانتیں

کہ وہ گوشت کے ننھے منے بدن کو تیار کر رہی ہیں

بڑی ہو کر شکاری کے آگے پھینکنے کے لیے/

ہم پیدا ہوتے ہی چٹخارے اور لذت کا سامان بن جاتے ہیں /

ہم پیدا ہوتے ہی لڑکیاں کہاں ہوتے ہیں۔۔

جلیبیاں۔۔  رس ملائی۔۔  چاکلیٹ اور ملک شیک ہوتے ہیں /

پیدا ہوتے ہی مردوں کی نگاہیں

جسم میں اتنے چھید کر دیتی ہیں کہ نہ روح باقی رہتی ہے نہ جسم/

پیدا ہوتے ہی صرف شکار ہوتے ہیں ہم اور تعاقب میں ہوتا ہے شکاری۔۔

باہر کی دنیا تو بعد میں آتی ہے۔

پہلے ہم ذبح ہو جاتے ہیں / اپنے ہی گھر میں /

اور پھر مسلسل ذبح ہوتے رہتے ہیں۔

٭٭

 

مجھے پہلی بار احساس ہوا، یہاں کے مرد تو گیڈر سے زیادہ ڈرپوک ہیں۔ گھر کی عورتیں پہلی بار دروازے پر قدم رکھتے ہی اپنی چیخ کا اعلان کر دیں تو اپنی شرافت کے سائے میں یہ مرد تمام عمر دبکی بلی کی طرح خاموش رہیں گے۔۔  پہلی بار اس گھرکے تمام مردوں کے لیے میرے اندر سے ایک لفظ اچھل کر سامنے آیا تھا۔۔  جوناگڑھ کے ہجڑے۔ مرد کہاں ہیں ؟ جو ناگڑھ کے ہجڑے ہیں یہ۔۔

اس رات، عشا کی نماز کے بعد جنازہ اٹھا — مردوں کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں  — عورتیں پردہ سے باہر نکل آئی تھیں۔ کندھا دینے والے مرد ہی تھے۔ یہاں بھی مردوں کو اپنی غیرت اور عزت کی یاد آ گئی تھی کہ اگر عورتیں نکہت کے جنازہ کو کندھوں پر اٹھائے قبرستان لے گئیں تو لوگ کیا کہیں گے —

 

نکہت چلی گئی —

مرد مٹی دے کر واپس آئے تو ایک دوسرے سے نظریں بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس رات اماں میرے ساتھ رہیں۔۔  رات میں کئی بار وہ چونک چونک کر اٹھ جاتیں۔ آدھی رات گزر چکی تو میں نے دیکھا، اماں مجھے جھنجھوڑ رہی تھیں۔

’کیا ہے اماں۔۔ ‘ میں اماں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔

اماں کی آنکھیں گہری فکر میں ڈوبی ہوئی تھیں — ’ سن ندو — شادی ہوتے ہی ہم گھروں سے ایک پنجرا لے آتے ہیں۔ مجھے دکھ ہے کہ یہ پنجرا آج کیوں ٹوٹا۔ برسوں پہلے ٹوٹ گیا ہوتا تو نکہت نہیں جاتی۔۔  جاتے یہاں کے مرد۔ سن ندو۔ اب حساب کا وقت ہے۔۔  نکہت کا چالیسواں ہو جانے دے۔ تیرے ابو سے پوچھوں گی کہ اس گھر میں جو ناکارہ مردوں کو بسا کر رکھا ہے، اس کی وجہ کیا ہے۔۔  شدھی کرن جانتی ہے ندو — ؟ اب اس گھر کا شدھی کرن ہو گا۔ بیل کی طرح سانی میں منہ گھسائے ان مردوں کو یہاں سے جانا ہو گا — مجھے افسوس ہے کہ تیرے ابو اس کام کے لیے بھی ناکارہ نکلے۔ اب یہ کام بھی مجھے کرنا ہو گا اور سن ندو — میں کل ہی اجو، ابو اور گبرو میاں سے بھی بول دوں گی۔۔  اب اس گھر سے دانہ پانی اٹھ گیا۔ کہیں اور کا انتظام کریں۔۔  سن ندو۔۔  کہیں سے تو ایک شروعات کرنی ہوتی ہے۔ اب تک ان کا جبر دیکھا تھا اب مجھے دیکھنا۔‘

’کر پاؤ گی اماں۔۔ ؟‘ میں معصوم سی اماں کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔

’اپنی عمر جی چکی ندو۔۔  اندر جو ایک پھانس پڑی تھی، تو نے اسے نکلوا دیا۔ اچھا کیا۔۔  اب کسی سے ڈر نہیں۔۔  مگر ہاں ندو۔۔  تو اس گھر سے نکل جا۔اس بوڑھی حویلی میں صدیوں سے عیاشی کے آسیب رہتے ہیں۔۔  اب تجھے کوئی بری نظر سے دیکھ کر تو دیکھے۔۔  آنکھیں نکال لوں گی۔‘

اور دوسرے ہی دن اماں کی بغاوت کا پہلا چہرہ ابھر کر سامنے آیا تھا۔ جب اجو ماموں سرجھکاکے اماں کے پاس آئے تھے۔

’بو بو۔۔  ناشتہ نہیں ملا اب تک؟‘

’ناشتہ۔؟ کیوں ملے گا ناشتہ۔۔ ؟‘

’بوبو۔۔ ‘ اجو ماموں ایکدم سے چونک گئے تھے۔ کیا کہہ رہی ہیں بوبو۔۔ ‘

اماں تنک کر کھڑی ہو گئیں — ’ اب چولہے میں صرف تین آدمیوں کا کھانا بنے گا۔ باقی لوگوں سے بھی کہہ دیجئے۔ اپنا اپنا انتظام کر لیں۔ چودھری صاحب کے دور دراز رشتے داروں کو کھلانے کا ٹھیکہ نہیں لیا میں نے۔ اور آپ دیکھ کیا رہے ہیں۔ جائیے۔ اور ہاں۔۔  اب دروازے سے اندر آتے ہوئے آواز لگایا کیجئے۔ بے پردگی ہوتی ہے۔ ایک بات اور — نکہت کے چالیسواں تک میں خاموش رہوں گی۔ چالیسواں کے بعد آپ میں سے کوئی رشتے دار اب اس حویلی میں نہیں پلے گا۔‘

’دیکھ لیں گے۔‘

اجو ماما اماں کو کھلی وارننگ دیتے ہوئے گئے تھے۔ لیکن میں خوش تھی۔ اماں کے نئے تیور میں، میں نے جوناگڑھ کی اس صدیوں پرانی بوڑھی حویلی کو پھر سے جوان ہوتے ہوئے محسوس کیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

(6)

 

’تیز آگ برس رہی ہے۔۔ /

لو کے جھکڑ بھی ہیں /

مگر گھبرانا نہیں ہے/

ہم نے ابھی بغاوت کا پہلا کلمہ پڑھا ہے/

گولیاں برسیں گی

تو ہماری ہتھیلیاں مضبوط بن کر

ان گولیوں کو تھام لیں گی/

 

محلہ چھندوارہ کے اس طرف گندی بستیاں ہیں اور اس طرح محلہ شیخاں اور گلی سے مین مارکیٹ کو جاتا ہوا راستہ۔ یہی راستہ آگے بڑھ کر سیدھے اسٹیشن روڈ چلا جاتا ہے۔چھندوارہ کے اس محلے میں گلیوں میں ٹوٹے پھوٹے مکانوں کی ایک لمبی قطار دور تک چلی گئی ہے۔ ایک مکان سے ملا ہوا دوسرا مکان۔ اسی محلہ میں پرانے طرز کی چار پانچ حویلیاں ابھی بھی باقی ہیں۔ گلی میں ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے ہوئے مسلم بچے یا چھوٹی چھوٹی لڑکیاں گلی کے کنارے کنارے چلتی ہوئی، باتیں کرتی ہوئی آئیں گی — حویلیوں کے محراب نما دروازے اب پرانے دنوں کی کہانیاں سناتے سناتے بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ اور یہیں آباد ہے چودھری زین العابدین کی حویلی — ان حویلیوں میں یا پرانے طرز کے مکانات میں نو تعمیراتی ترقیوں کے باوجود روشنی کی کوئی کرن ابھی تک نہیں پہنچی ہے۔ ابھی تک بہت سے مرد ایسے ہیں، جنہوں نے ساری زندگی بغیر کچھ کئے گزار دیئے۔ باپ دادا کی چھوڑی گئی جاگیریں اور ملکیت فروخت ہوتی چلی گئی — کسی لڑکی کی شادی ہوتی تو سب سے پہلے کھیت پر نظر جاتی۔

چودھری زین العابدین یعنی میرے ابو نے بھی پوری زندگی اسی طرح گزار دی۔ بڑے ابو کا انتقال ہو چکا تھا۔ عظیم بھائی اب بڑے ہو گئے تھے۔ اکثر اپنی موٹر سائیکل اٹھا کر چک سائیں کی طرف نکل جاتے جہاں ہمارے کھیت تھے۔ وقت کے ساتھ اتنی تبدیلی ضرور آئی تھی کہ اب یہ چودھریوں کے لڑ کے کھیت بدھار سے متعلق معلومات اپنے بڑوں سے کچھ زیادہ ہی رکھنے لگے تھے۔ کہاں کس کا کھیت ہے۔ کس کا کھیت بک رہا ہے۔ خرید و فروخت کے اس سلسلے میں موٹی کمائی بھی تھی۔

اس خستہ ہوتی حویلی میں بڑے ابو اور ابو کی رہائش کے علاوہ کئی ایسے دور کے رشتے دار بھی رہتے تھے، جنہیں آباء واجداد کے گناہوں کا ثمرہ کہا جا سکتا ہے — جیسے ایک کمرہ بنی دادی کا تھا۔ اور ان کے بیٹے گپو ان کے ساتھ رہتے تھے۔ پرانی کہانیوں میں یہ پردادا کے گناہوں کے پوٹلی میں سے، نکلی ہوئی کہانی کے کردار تھے۔ پردادا نے رحم کھا کر حویلی کا ایک کمرہ ان کے نام کر دیا تھا۔ گبرو دادا، اجو مامو۔۔  ابو چاچو۔۔  ایسے تمام لوگ دور کے رشتے دار تھے اور ان کی کہانیاں بھی رشتوں سے گزرتی ہوئی گناہوں کی دہلیز پر جا کر ختم ہوتی تھیں۔ ایسا میں نے سن رکھا تھا۔ ان میں سے کچھ لوگوں کی زندگی بڑے ابو کے گھر کے بھروسہ چلتی تھی اور کچھ ابو کے بھروسہ — صرف آنکھ بند ہونے کے انتظار میں تھے۔ یعنی آنکھ بند اور کہانی ختم۔ اب سوچتی ہوں تو لگتا ہے شاید مسلمانوں کی پسماندگی اور زوال کے پیچھے یہی کہانی رہی کہ نسل در نسل پدرم سلطان بود کا قصہ آباد رکھا۔ جائیداد تباہ ہو گئیں۔ کھیت بک گئے۔ اور ساری زندگی گھر کی دہلیز پر بغیر کسی کام اور محنت کے گزار دیا —

اماں نے نکہت کے انتقال کے دوسرے دن جب اجو ماموں کو ٹکاسا جواب دیا تو مجھے حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی تھی۔ اور امید تھی کہ اجو ماموں چپ نہیں بیٹھیں گے اور کوئی نہ کوئی طوفان تو اس گھر میں ضرور آئے گا۔

 

دوپہر بارہ بجے کے قریب ڈاکیہ سائیکل پر گھنٹی بجاتا ہوا ہمارے محلے میں آیا کرتا تھا۔ دور سے ہی اس کی مخصوص گھنٹی کی آواز ہمیں بتا دیا کرتی کہ ڈاکیہ آ رہا ہے۔ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی وہ گھنٹی بجا کر آواز لگایا کرتا تھا۔ ڈاکیہ۔۔

ساڑھے بارہ بج گئے تھے۔ سورج سر پر تھا۔ دھوپ برآمدے میں چھٹکی ہوئی تھی۔ باہر سائیکل کی گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ پھر آواز آئی ۔۔ ڈاکیہ۔ میں اس وقت اماں کے ساتھ تھی۔ اماں تیزی سے اٹھیں۔۔  اور برآمدہ پھلانگتی ہوئی دروازے تک گئیں۔ ابو ہمارے پیچھے رہ گئے تھے۔عام طور پر ڈاکیہ سے خط وہی لیتے تھے۔

’رجسٹری ہے۔۔ ‘ ڈاکیہ اماں کو دیکھ کر گھبرا گیا تھا۔

’لاؤ۔‘

’دستخط کرنا ہو گا۔۔ ‘

اماں نے کاغذ لیا۔ آرام سے اردو میں دستخط کیا۔ میری آنکھیں اس جگہ کو دیکھ رہی تھیں، جہاں اماں نے دستخط کیا تھا — مہرسلطانہ۔۔

ڈاکیہ نے جاتے ہوئے بھی پلٹ کر اماں کی طرف دیکھا۔ اماں سے چند فاصلے پر ابو کھڑے تھے۔ سناٹے میں ڈوبے ہوئے۔ اماں نے خط ان کی طرف بڑھا دیا۔ اور میرا ہاتھ تھام کر دوبارہ کچن میں آ گئیں۔

اماں اب اماں نہیں تھیں۔ مہر سلطانہ تھیں۔۔

کچن میں لوٹ کر اماں دوبارہ کھانے کے برتنوں میں الجھ گئی تھیں۔ مگر میں بغور اماں کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔۔  یہ اماں کہاں چھپی تھیں اماں میں  — اماں کے وجود کو حویلی کے سات پردوں میں دفن کر دیا گیا تھا۔ کیا یہ صرف ایک دستخط تھا؟ اماں آخر زندگی میں پہلی بار معمولی سے خط کے لیے دروازے کی طرف کیوں گئی تھیں — ؟ کیا اماں اپنی اس حرکت سے کچھ بتانا چاہتی تھیں  — ؟یہ اماں میں نئی اماں کی پیدائش تھی۔ اور یہ صرف میں سمجھ رہی تھی۔ نازیہ اپو کی ایک خاموش دنیا آباد تھی۔ گھر کے حادثہ نے انہیں توڑ دیا تھا۔

اسی رات کی بات ہے۔ مجھے اور نازیہ اپو کو بیٹھا کر اماں نے ایک بار پھر مجھے حیران کر دیا تھا۔ انہوں نے ابو کو مجھے بھیج کر طلب کیا تھا۔ یہ بھی اس گھر کے لیے ایک نئی بات تھی۔ ابو خاموشی سے آئے تو اماں ہم دونوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں۔۔

’کیا بات ہے جی؟‘ ابو بغور اماں اور ہمارا چہرہ پڑھ رہے تھے۔

’جی نہیں  — میرا نام مہر سلطانہ ہے۔ مہر بھی تو کہہ سکتے ہیں۔‘

’جی۔۔ ‘

’ان دونوں بچیوں کو دیکھ رہے ہیں۔؟‘

’جی۔۔ ‘

’مہر کہیے۔ مہر نہیں مانگ رہی ہوں۔ نام لینے کو کہہ رہی ہوں بس‘

’مہر۔۔ ‘ ابو کو پہلی بار الجھن اور پریشانی میں محسوس کیا تھا۔ یہ وہ چودھری زین العابدین نہیں تھے، جو بات بات میں بھی اماں پر یا تو مکے برسایا کرتے تھے یا گالیاں دیا کرتے تھے۔ یہ اس گھر کے تمام مردوں کا شیوہ تھا کہ اپنی شرافت کے تمام زیورات کا استعمال گھر کی عورتوں پر ہی آزمایا کرتے تھے۔ خود بڑے ابو کا یہی حال تھا۔ اور شاید یہی حال حویلی کے ان تمام مردوں کا تھا، جو شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے اور میرے لیے اب محض جوناگڑھ کے ہجڑے تھے۔

اماں نے بغور ابو کے کمزور سراپے کا جائزہ لیا۔ پھر تیز آواز میں پوچھا۔

’ہمیں تو چوڑیاں پہنا کر گھر میں بیٹھا دیا۔ پڑھی لکھی بھی نہیں ہوں۔۔ ‘

’جی۔۔ ‘

’کبھی ان بچیوں کے مستقبل کا خیال نہ آیا۔۔ ؟‘

’جی۔۔ ‘

’دو بچیاں تو شہادت پا گئیں۔ رہ گئیں یہ دونوں بچیاں۔ ان کے بارے میں سوچنے کے لیے اللہ کے فرشتے آئیں گے۔۔ ‘

’جی۔۔ ‘

’مہر کہیے — ‘ اماں زور سے چلائیں — ’ اتنے برسوں میں مجھے اور میرے نام کو بھی حویلی کی دیواروں میں دفن کر دیا تھا آپ لوگوں نے۔ مشکل سے آج اس نام کو آزاد کرا سکی ہوں۔‘

’مہر۔۔ ‘

’سنیے۔ غور سے میری بات سنیے۔ یہ حویلی اکیلے آپ کی نہیں ہے۔ اب تک جو ہوتا رہا، میں نے کچھ نہیں کہا۔ نکہت بھی چلی گئی۔ نکہت کے ابو بھی چلے گئے۔ نکہت کے ابو ہوتے تو شاید میں زبان نہ کھولتی۔ لیکن عظیم نیا بچہ ہے۔ زمانہ دار ہے۔ خدا نخواستہ ہماری آنکھیں بند ہو گئیں اور ساری حویلی پر اس نے اکیلے قبضہ جما لیا تو — ؟ ان دونوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیں گے کیا۔۔ ؟

’جی۔۔  سن رہا ہوں۔‘

’سنیے مت۔ چالیسواں ہو جائے تو عظیم کو بلا کر گھر کا بٹوارہ کر دیجئے۔ اور سنیے۔ ساری زندگی ناز و گھر میں نہیں بیٹھے گی۔ جو نازو کے ساتھ ہوا وہ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ تھوڑا جانگر چلائیے۔ آپ ہی کی بچی ہے۔ رشتے دیکھئے۔ یا رشتہ دیکھنے کا کام بھی ہمیں کرنا ہو گا۔۔  ؟باقی معاملات ہم پر چھوڑ دیجئے۔‘

میں کبھی اماں، کبھی ابو کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ نازو اپو کی آنکھیں نم تھیں۔ پتھرائی آنکھوں میں پہلی بار آنسو دیکھے تھے۔ اماں اچانک ابو بن گئی تھیں اور ابو کمزور حویلی کے خستہ وجود کی طرح اماں میں تبدیل ہو گئے تھے۔۔

’اور سنیے۔۔ ‘ اماں کا چہرہ پتھر کی طرح سخت تھا۔

’جی۔‘

’آپ کے اٹھا ٹی گیرے رشتہ دار اب یہاں نہیں رہیں گے۔ میں جانتی ہوں آپ نہیں بول پائیں گے۔ یہ کام بھی مجھے کرنا پڑے گا۔‘

ابو اچانک چونک گئے تھے۔ چہرہ زرد ہو گیا۔۔

’لیکن وہ کہاں جائیں گے؟‘

’جہنم میں۔‘ اماں کو غصہ آ گیا تھا — ’ نکہت کے جنازے کے وقت سگی بیٹی سے زہر جیسا سچ سننے کے بعد بھی آپ کا خون نہیں کھولا — کیسے باپ ہیں آپ؟ آپ کو چاہیے تھا کہ اس سچ کے بعد ہی دھکے دے کر ان لوگوں کو گھر سے باہر کر دیں اور اوپر سے سانپ کو دودھ پلا کر پرورش کر رہے ہیں۔ لیکن اب میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔‘

’جی‘

’ سن لیا۔‘

’پھر بیٹھے کیوں ہیں ؟‘

’جاؤں ؟‘

ابو آہستہ سے بولے۔ دو منٹ خاموش رہے پھر کمرے سے باہر نکل گئے۔

اماں کی آنکھوں میں آنسو تھے — ’ ڈولی چڑھ کر اس گھر میں آئی تو نگوڑے ان مردوں کو شیر سمجھ بیٹھی اور بھیگی بلی کی طرح ڈری سہمی ہوئی قید دیواروں کا حصہ بن گئی۔ اب جان گئی ہوں ندو۔ نا مردوں کے ساتھ رہنے سے اکیلی آزاد زندگی زیادہ بہتر ہے۔ کمزور رشتہ ٹوٹ جائے تو بہتر مگر عورت کو نیچا سمجھنے اور ہاتھ اٹھانے والے کے ساتھ کسی بھی عورت کو زندگی بسر کرنے کا حق نہیں۔ میں ہزار بار اس حویلی میں مری ہوں۔ مگر اب نہیں مروں گی۔۔  اور تم لوگوں کو بھی مرنے نہیں دوں گی۔

میں اماں کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ نازیہ اپو کا چہرہ پھر سے مجسمہ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اماں کے چہرے پر سلوٹیں پڑی تھیں۔ مگر اس وقت اس چہرے میں مجھے ایسا اعتماد نظر آ رہا تھا، جو بڑی سے بڑی قیامت اور بڑے سے بڑے زلزلے سے بھی ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا تھا۔۔

٭٭٭

 

 

(7)

 

اس زوال آمادہ، خستہ ہوئی حویلی میں ہزاروں راز دفن تھے۔ بچپن میں اماں ابو کے منہ سے یہ کہانیاں سنتی ہوئی بڑی ہوئیں۔اماں بتایا کرتی تھیں کہ غلامی کے دنوں میں اس حویلی میں کئی سرنگیں بنائی گئی تھیں۔ آزادی کے مجاہد فرنگی حکومت سے بچنے کے لیے ان سرنگوں کی مدد لیا کرتے تھے۔ اماں ان تہہ خانوں کے بارے میں بھی بتایا کرتی تھیں جو حویلی میں موجود تھے — مگر جب سے وہ بیاہ کر اس گھر میں آئیں، کبھی ان تہہ خانوں کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ایک تہہ خانہ تو ہمارے بیڈروم میں موجود تھا۔ جس میں نیچے کی طرف ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔ اور اس دروازے پر زنگ لگاتالہ جھول رہا تھا۔

اس دن اماں پہلی بار ہم دونوں کو لے کر سرنگوں اور تہہ خانوں کی کھوج کرتی رہیں۔ بڑی دالان میں اوپر کی طرف بھی چھجے کو پاٹ کر لکڑی کے موٹے موٹے دروازے لگا دیئے گئے تھے۔ اور ان پر بھی تالہ جھول رہا تھا۔

اماں نے بتایا۔۔  ایک تہہ خانہ یہ بھی ہے۔۔

’اتنا اوپر؟‘

’سنتے ہیں۔ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ اور نیچے اترنے کے بعد یہ سرنگ اکھاڑے والے میدان تک جاتی ہے۔ اب تو اس میں سانپ ہی سانپ بھرے ہوں گے۔ پتہ نہیں کیوں، گھر کے مردوں نے کبھی ان سرنگوں اور تہہ خانوں کا پتہ لگانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ ارے ان کا کوئی کام تھا؟ گھر میں بیٹھے بیٹھے روٹیاں توڑنے سے فرصت کہاں تھی؟

ماضی کے کھنڈرات روشن تھے۔ مجھے تعجب تھا کہ آج اماں کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ سرنگوں اور تہہ خانوں کی تلاش کے پیچھے کہیں اماں اپنے اندر چھپے تہہ خانوں کا جائزہ تو نہیں لے رہی ہیں۔ خانے در خانے۔۔  تہہ خانے ۔۔  اماں نے اب تک خود کو کتنے خانوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ اوپر خانے میں طلسمی خاموشی —

’کہتے ہیں ایک بار گورے سپاہی آئے تھے۔۔  مگر انہیں کوئی سراغ نہ مل سکا۔ انگریز تہہ خانوں کا حال کیا جانیں۔ آتے۔ پتہ نہیں کیا الم غلم تلاش کرتے اور واپس چلے جاتے۔‘

’پھر ان سرنگوں میں کون ہوتا۔؟‘

’لو ندو کی سنو۔۔  ارے۔ جانباز اور مجاہد ہوتے۔ کہتے ہیں کہ ان تہہ خانوں میں میٹنگیں ہوا کرتی تھیں۔ آس پاس کی حویلیوں میں بھی ایسے تہہ خانے اور سرنگیں بنی ہوئی تھیں۔۔  غلام تھے تو نوج ان رگوں میں خون بھی دوڑتا تھا — آزادی مل گئی تو سب نکمے ہو گئے۔ ‘

اماں کے ساتھ ایک کمرے سے دوسرے کمرے کی سیر کرتی رہی۔ ایک اندھیرا کمرہ ’پتلی دالان‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اماں اس کمرے میں ساتھ لے کر آئیں۔۔  ہمیں اس کمرے میں جانا منع تھا۔ اس کمرے میں ایک قطار سے کئی بڑے ٹرنک رکھے تھے۔ اماں دکھا رہی تھیں۔ اس میں شادی وادی کے سامان پڑے ہیں۔ گہنے بھی ہیں۔ میں جب اس گھر میں آئی تھی، اس وقت کے کپڑے بھی ہیں۔ دکھانا ضروری ہے۔ کیا پتہ کب آنکھ لگ جائے۔ ان مردوں سے یہ بھی نہیں ہو گا کہ اپنے ہی سامانوں کی دیکھ ریکھ کر سکیں۔ اور ہم تو شادی کے بعد ہی چولہے میں جھونک دیئے گئے۔ بندھی ہوئی بے زبان گایوں کی طرح۔ مگر اللہ رکھے اب تم لوگ بڑی ہو رہی ہو۔ تم لوگوں کو یہ سب جاننا چاہئے۔‘

’کیوں جاننا چاہئے اماں ؟‘

’لو یہ سب کس کا ہے؟ تم ہی لوگوں کا نا؟ پھر جانے گا کون؟ پڑوسی آئیں گے جاننے کو؟ اس ٹرنک میں شیشے اور چاندی کے برتن ہیں۔ اور یہ جو ٹرنک ہے۔ اس میں شادی کے سامان پڑے ہیں۔۔  اور اس میں دریاں، گرم کپڑے۔ رضائی۔‘ اماں کی آنکھیں نم تھیں  — ’یہاں جو بند تھا۔ بند رہا۔ کھلا ہی نہیں۔ گھر کی عورتوں کی طرح۔ مگر تم لوگ بند مت رہنے دینا۔ یہ سب گھر میں استعمال کے لیے ہیں اور یاد رکھنا۔ تم لوگوں کے لیے ہیں۔‘

’جی اماں۔‘

اماں اچانک چونک گئی تھیں۔ یہ باہر تیز تیز بولنے کی آواز کس کی آ رہی ہے؟‘

’جی اماں۔۔ ‘

’چل کر دیکھتے ہیں۔‘

 

برآمدے میں جسے جہاں جگہ ملی تھی، بیٹھ گیا تھا۔ چبوترے پر، پلنگڑیوں پر۔۔  ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر۔ باہر کی طرف کھلنے والے عام دروازے کو بند کر دیا گیا تھا، جس کی اونچائی گھر کے دوسرے دروازوں سے کہیں زیادہ تھی۔ یہاں آگے مشتری بوا کے نام پر ایک کنواں تھا، جسے پاٹ دیا گیا تھا۔ مشتری بوا کبھی اس گھر کی خادمہ رہی تھیں۔ لیکن ایک دن وہ اسی کنویں میں گر کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ برسوں مشتری بوا کے نام پر یہ سرگوشیاں بھی ہوتی رہیں کہ ان کی روح اسی کنویں کے آس پاس بھٹکتی رہتی ہے۔ کنویں کو پاٹنے کے پیچھے کی کہانی اتنی ہے کہ مشتری بوا کے انتقال کے بعد کچھ مردوں نے کنویں سے آتی مشتری بوا کی درد ناک آوازوں کو سنا تھا، جیسے وہ کنویں سے باہر نکالنے کے لیے کہہ رہی ہوں  — اس وقت ماحول گرم تھا۔

بنی بوا کا لڑکا امرود کے درخت کے قریب کھڑا غصے میں کہہ رہا تھا۔

’ایسے کیسے کمرہ چھوڑ دیں گے۔ کوئی نکال کے تو دیکھے۔ قانون بھی مجھ سے میرا کمرہ خالی نہیں کرا سکتا۔‘

اجو ماموں غصے میں تھے — چپ کر۔ بس اپنی لیے بیٹھا ہے۔ تماشہ ہو گا تو ہم بھی خاموش تماشائی نہیں ہوں گے۔ برسوں اس گھر میں گزارہ کیا ہے۔ اب تو نیکی، اخلاق، مروت سے بھی پردہ اٹھ گیا۔

گبرو میاں اپنی کمزور آواز میں بولے — ’ بولنے سے پہلے یہ تو سوچنا چاہئے کہ اس بڑھاپے میں ہم کہاں جائیں گے۔ اب جانگر تو چلتا نہیں۔ کوئی کام تو ہم سے ہوتا نہیں۔‘

ابو میاں لڑکھڑاتی آواز میں بولے — ’ آپ سن کیا رہے ہیں۔ عابد بابو۔ فیصلہ کیجئے۔ ایسے ہم کیوں چلے جائیں۔ اس گھر پر ہمارا بھی حق ہے۔‘

گبرو میاں بولے — ’ وہ تو ہم نے اپنے حصے کی مانگ نہیں کی۔ ہماری شرافت تھی کہ چلو مر کھپ گئے تو کہاں کی زمین، کس کی زمین۔۔ ‘

اجو ماموں زور سے بولے — ’ اپنے حصے کی زمین مانگ لی ہوتی تو یہ دن دیکھنا نہیں ہوتا۔‘

جینو میاں، تختے والے عمران بھائی، سلمان میاں، یہ لوگ باہر کام کرتے تھے اور رات کے وقت آرام کرنے حویلی آ جاتے تھے۔ صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا اسی گھر میں ہوتا۔ جب موڈ ہوتا آواز لگ جاتی۔ بوبو۔ چائے نہیں ملے گی؟ اس وقت۔ ان تینوں کے چہروں پر جھنجھلاہٹ بھی تھی اور غصے کا ابال بھی۔

تختے والے عمران میاں نے غصے سے کہا — ’ انسانیت ہی ختم ہو گئی۔ ہم انسان نہ ہوئے، کوڑا کرکٹ ہو گئے۔ جب مرضی گھر سے بے دخل کر دیا۔‘

جینو میاں غصے میں چلائے — ’ ایسے کوئی کیسے بے دخل کر سکتا ہے۔ برسوں اس حویلی میں گزارا ہے تو جنازہ بھی اسی گھر سے اٹھے گا۔‘

سلمان میاں کو جب غصہ آتا تو وہ ناک سے بولنے لگتے تھے۔ وہ سمجھداروں جیسی بات کر رہے تھے۔

’بوں بوں نے غصے میں کہا۔۔  ں۔۔ ہو۔۔ ں گا۔۔ ‘

اجو ماموں چلتے ہوئے ان کے آگے آ کر کھڑے ہو گئے۔

’غصے میں نہیں کہا۔ فیصلہ ہو گیا ہے۔ آپ لوگوں کو کیا معلوم۔ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ آپ لوگوں کو جانا ہے تو جائیے۔ ہم تو کہہ دیتے ہیں کوئی ہمیں نکال کر تو دیکھے۔

زین العابدین چپ تھے۔ سرجھکائے ہوئے۔ یہ ہمیشہ سے ان کی بات تھی۔ ایسے موقعوں پر وہ پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کر لیتے تھے۔ ان کی خاموشی اجو ماموں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ وہ گلہ پھاڑ کر چلائے۔

’آپ کچھ بولتے کیوں نہیں۔ جواب کیوں نہیں دیتے۔ حویلی کے مردوں کے یہ برے دن آ گئے کہ اب گھر کا نازک فیصلہ بھی عورتیں کریں گی۔‘

اور بس یہیں اجو ماموں مار کھا گئے — ابھی تک اماں یہ سارا تماشہ سیم کی جھاڑ کے پیچھے سے دیکھ رہی تھیں۔ لیکن عورت کا نام سن کر اماں نے اچانک ہمارا ہاتھ چھوڑا اور تنک کر ان کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔

’کس نے کیا بولا۔۔ ؟‘

جتنے بھی مرد تھے سب کو سانپ سونگھ گیا۔ اماں کی آنکھوں میں کچھ ایسی آگ روشن تھی کہ جو جہاں تھا، وہیں پتھر کے مجسمہ میں تبدیل ہو گیا۔۔

’ہاں۔ ابھی کون بول رہا تھا کہ گھر کا نازک فیصلہ بھی عورتیں کریں گی۔۔ ؟‘

اماں نے ایک ایک کر کے گھر کے مردوں پر نظر ڈالی پھر اجو کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئیں۔

’وہ۔۔  تو۔۔  میں۔۔  عابد بھائی سے۔۔ ‘

’عورتیں گھر کے مردوں کو ناشتہ کرا سکتی ہیں۔ کھانا کھلا سکتی ہیں، چائے پلا سکتی ہیں اور فیصلے نہیں کر سکتیں۔ کیوں — ؟ فیصلے کا وقت آیا تو گھر کے مرد فیصلہ کریں — ؟‘

’بوبو۔۔ وہ۔۔ ‘

’خاموش۔۔ ‘ اماں زور سے چلائیں — ’ فیصلہ ہو گیا ہے۔ اور فیصلے کے لیے وقت بھی دیا جا چکا ہے۔ اور یہ قانون کون پڑھا رہا تھا؟ ان میں کسی مرد کو اٹھنے، بولنے، باتیں کرنے کا تو ہوش نہیں ہے، عدالت جائیں گے، عدالت جا کر کہیں گے کیا؟ کون ہیں آپ لوگ؟ کیوں پل رہے ہیں حویلی میں ؟‘

اماں غصہ میں تھیں —

حویلی کی کتاب کھلے گی تو آپ شریفوں کے سیاہ پہاڑوں کا کچا چٹھا بھی کھل جائے گا۔ پھر کس کو منہ دکھائیں گے۔۔ ؟ کہیں منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رہیں گے۔ اور گبرو میاں۔ جانگر نہیں چلتا تو جوانی میں جانگر چلایا کیوں نہیں ؟ جانگر چلاتے تو اس حال میں نہیں پہنچتے۔ بس بہت ہو گیا۔ اب آپ سب کا حقہ پانی اس گھر سے اٹھ چکا ہے۔ اپنی اپنی خیر منائیے کہ اب تک آپ اس گھر میں موجود ہیں۔ ورنہ آپ کے کارنامے ایسے ہیں کہ چوک سے مزدور بلاتی اور دھکے مار کر آپ لوگوں کو یہاں سے باہر نکال دیتی — ‘ اماں چیخ رہی تھیں۔ برآمدے میں سناٹا چھا گیا تھا۔

سب سے پہلے وہاں سے اٹھنے والوں میں ابو تھے۔

پھر آہستہ آہستہ بھیڑ چھٹتی گئی۔

آخر میں خود کے بوجھ کو سنبھالتے ہوئے گبرو میاں اٹھے۔۔  آنکھیں بجھی ہوئی تھیں۔ تھرتھراتے ہونٹ آہستہ سے بولے۔۔

’لے بھئی۔۔  چھپکلی کٹی۔۔ ‘

جاتے ہوئے اماں کی طرف دیکھا۔ پھر آگے بڑھ گئے۔

آسمان پر کوؤں کا جھنڈ ابھی ابھی اڑتا ہوا گیا تھا۔ میں اس آواز کی زد میں تھی۔۔ ’ لے بھئی۔۔  چھپکلی کٹی۔۔ ‘

کانوں میں نگاڑے کی طرح یہ آواز گونج رہی تھی۔۔

لے بھئی۔۔  چھپکلی کٹی۔۔

یہ آواز سنی ہوئی تھی۔۔  برسوں پہلے۔۔  یادوں کی چھک چھک کرتی ٹرین پیچھے لوٹی تو میں گبرو دادا کی گود میں تھی۔۔

’چھوڑو نا۔۔ ‘

’نہیں چھوڑتا۔۔ ‘

میں محسوس کر رہی تھی۔۔  ایک ہاتھی ہے۔۔  ایک ہاتھی کی سونڈ ہے۔۔

’چھوڑو نا۔۔ ‘

’ارے کچھ دیر تو بیٹھ ندو۔ اچھی بچی کی طرح۔۔ ‘

تیز ہوا۔۔  ہوا میں تیرتی ہوئی ہاتھی کی سونڈ۔۔

اور اچانک گبرو دادا نے مجھے گود سے نیچے اتار دیا تھا۔۔  لے بھئی ۔۔  چھپکلی کٹی۔۔

اب ہوا ٹھہر گئی تھی۔ ہاتھی کے سونڈ غائب تھے۔ سامنے والی دیوار پر نمی لہرا رہی تھی۔۔  مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔  اندر اندر ایک گیلا سا احساس رہ گیا تھا۔۔  میں اُس دن تیز تیز رسیاں پھاندتی ہوئی بھی وہی جملہ بار بار بولے جا رہی تھی۔۔

لے بھئی۔۔  چھپکلی کٹی۔۔

اکیس ۔۔  بائیس۔۔

لے بھئی ۔۔  چھپکلی کٹی۔۔

تیس۔۔  چالیس۔۔  پورے سو۔۔

میں اماں کے ساتھ کمرے میں آئی تو اماں کمرے کی چادر تبدیل کرنے میں مصروف تھیں۔۔  میں نے اماں کو غور سے دیکھا۔۔  اتنے غور سے کہ اماں کا چہرہ سپید پڑ گیا۔

’کیا دیکھ رہی ہے ندو۔۔ ؟

’لے بھئی ۔۔  چھپکلی کٹی۔۔ ‘

اور اس لمحے، میں نے اماں کی آنکھوں میں ایک بار پھر سلگتے انگاروں کی گرمی محسوس کر لی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

(8)

 

ای، چک۔۔  دانا ۔۔  بچک دانا۔۔

دانے اوپر دانا۔۔

ای چک دانا۔۔ ‘

نکہت اکثراس گانے کو گنگنایا کرتی تھی ۔۔  کھپڑوں کی سرخ سرخ گوٹ سے کھیلتے ہوئے۔۔  وہ بہشتی لباس میں تھی۔۔  پہلے سے کہیں زیادہ حسین — اُس کے پیچھے پیچھے سفید لہراتے ہوئے بادل تھے۔۔  وہ روئی جیسے بادلوں سے کھیلتی ہوئی مجھ سے مخاطب تھی۔

’تو بھی آ جا ندو۔۔  یہاں بہت خوش ہوں میں ۔۔ ‘

’میں نہیں آنے کو ابھی۔۔ ‘

’ہوا میں اڑتے اُڑتے میں تیری ساری دنیا کو دیکھ آئی۔۔  بہت برے لوگ ہیں ندو۔ کوئی بھی اچھا نہیں۔۔  ای چک دانا۔۔  بچک دانا۔۔  دانے اوپر دانا۔۔ ‘

نکہت گنگناتی ہوئی بادلوں کے ساتھ آگے بڑھ گئی تو اچانک چونک کر میری نیند کھل گئی۔ آگے بڑھ کر میں نے کھڑکی کھول دی۔ اُفق کے اس پار ایسا احساس ہوا جیسے پریوں کی طرح، پریوں کے لباس میں پلٹ کر نکہت نے میری طرف دیکھ کر اپنے ہاتھ ہلائے ہوں۔ میں نے جوابی طور پر ہاتھ اٹھایا تو میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میں نے کھڑکی بند کر دی۔ نکہت یاد آ رہی تھی۔ اُس رات میں دیر تک نکہت کو یاد کر کے آنسو بہا تی رہی۔ نکہت کے الفاظ بار بار یاد آتے رہے۔۔  میں دور تک دیکھ آئی ہوں۔ تمہاری یہ دنیا بہت بری ہے۔۔ ‘

لیکن اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ ابھی ایک حادثہ میرا انتظار کر رہا ہے۔ اور اس حادثے کے بعد اس گھر میں رہنا میرے لئے مشکل ہو جائے گا۔

٭٭

 

نکہت کا چالیسواں گزر چکا تھا۔

اجو ماموں، بنی پھوا اور اُن کے بیٹے گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ گبرو دادا پر ابو کو رحم آ گیا تھا۔ اماں نے صاف کہہ دیا تھا۔ بوڑھؤ اپنے کھانے کا انتظام کر لیں۔ وہ اپنے کمرے سے کم ہی باہر نکلتے تھے۔ ان کے کھانسنے کی منحوس آوازسن کر مجھے ان جملوں کی یاد آ جاتی تو میرا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا۔۔  لے بھئی۔۔  چھپکلی کٹی۔۔  جی چاہتا تھا، ایک بڑاسا چاقو لوں اور پوری پوری چھپکلی کو جڑ سے کاٹ کر پھینک دوں۔۔

نکہت کہتی تھی کہ چھپکلی کی دم کٹ جائے تو فوراً نئی دم آ جاتی ہے۔

’کیسے۔‘

’اب آ جاتی ہے۔ مجھے کیا معلوم۔ ‘

’اپنے آپ آ جاتی ہے۔؟‘

’ہاں۔‘

چھپکلی غائب تھی۔ بوڑھی ہوتی حویلی میں ویرانی نے اپنا ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ مجھے احساس تھا، کچھ ہونے والا ہے۔۔  یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہے۔ بڑے ابو والے حصے کی ویرانی کچھ زیادہ تھی۔ بڑی امی نے نکہت کے جانے کے بعد لوگوں سے ملنا اور گفتگو کرنا بند کر دیا تھا۔ عظیم بھائی نے کھیتوں کی خرید و فروخت میں خود کو مصروف کر لیا تھا۔

ابو نے امی کو بتایا تھا کہ انہوں نے گھر کے بٹوارے کو لے کر عظیم سے بات کی تھی مگر عظیم کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ اس نے کہا، کوئی بٹوارہ نہیں ہو گا۔ اماں اس نئی نسل کے غصے سے واقف تھیں مگر وہ مطمئن بھی تھیں کہ یہ پوری حویلی اکیلے عظیم کی تو ہے نہیں۔ اس لئے اگر عظیم نہیں مانے تو محلے والوں سے مشورہ کر کے بٹوارے کی رسم پوری کی جائے گی۔

مگر کیا یہ رسم بھی پوری ہو سکی — ؟

کیا کہتی ہے مجھ سے میری روٹھی ہوئی تقدیر

اے نالۂ شب گیر۔۔ ۔۔

میں اُس کہانی کے زد میں تھی جہاں کاتب تقدیر نے میری آنے والی زندگی کے صفحے نالۂ شب گیر سے جوڑ دیے تھے اور میں کتنی انجان تھی۔۔  ایک خزاں حویلی کی تقدیر میں لکھ دی گئی تھی اور میری زندگی کے آئندہ صفحوں کے لئے خدائے لوح و قلم نے محرم کے مہینے کا انتخاب کیا تھا۔

بیگانی ہوئی جاتی ہے مجھ سے میری تصویر

اے نالۂ شب گیر

کیا کہتی ہے مجھ سے میری روٹھی ہوئی تقدیر

اے نالۂ شب گیر ۔۔ ۔۔

اے نالہ شب گیر ۔۔ ۔۔

٭٭

 

محرم کا مہینہ۔ اماں کہتی تھیں، حضرت حسینؓ جس روز شہید ہوئے، آسمان سے خون کی بارش ہوئی تھی۔ اماں واقعۂ کربلا کو ایسے بیان کرتیں کہ خود بھی روتیں اور ہمیں بھی رلاتیں۔ محرم جوناگڑھ کی اس بوڑھی حویلی میں خاص اہتمام سے منایا جاتا — شیعہ سنی میں دوستی تھی۔ مجلسوں کے لئے بلاوہ آتا۔ مجھے یاد ہے، باہری دروازے کا بڑا سا پردہ ہٹا کر آواز دی جاتی —

’۳ بجے مجلس ہے۔ ‘

گھیری محلے میں شیعوں کی اچھی خاصی آبادی تھی اور اس محلے سے بی بی کا ڈولہ اٹھتا تھا۔ گھیری محلہ اور ہمارا محلہ آپس میں ملا ہوا ہے۔ مجلس کے لئے بلاوہ آتا تو گھر کے مرد پوری تیاری کے ساتھ ان مجلسوں میں شامل ہونے کے لئے جاتے — عام طور پر محرم میں سبز یا سیاہ لباس پہننے کا رواج تھا۔ اماں ہمیں سلام کرنے سے بھی منع کرتی تھیں کہ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا، ہم کسی کو سلامتی کی دعا کیسے دے سکتے ہیں۔ یہی موقع تھا جب اماں کے منہ میں زبان دیکھتی تھی۔۔  اماں آنکھوں میں آنسو بھر کر بتایا کرتیں کہ جب حضرت امام حسینؓ شہید ہو گئے تو ان کے پاس اُن کا پیارا وفادار گھوڑا تھا۔ گھوڑا روتا ہوا مقتولین کی لاشوں کے پاس سے گزرتا ہوا حضرت امام کی لاش کے پاس آ کر ٹھہر گیا تھا۔۔  وہ ایسے رو رہا تھا کہ اُس کہ ہنہنانے اور رونے سے کربلا کا میدان گونج اٹھا تھا۔۔  جب اُس گھوڑے کو دشمن کی فوج نے پکڑنے کی کوشش کی تو اُس نے کئی شہسواروں کو زمین پر گرا دیا۔۔  اور لشکری اُس پرقابو نہ پا سکے۔۔  اماں بتاتی جاتیں اور روتی جاتی تھیں۔۔

’پھر کیا ہوا؟‘

اماں کی آنکھیں یادوں کے دریچے سے کہیں دور نکل کر گم ہو چکی ہوتیں۔

 

چھٹی محرم سے ہمارے محلے میں تعزیہ بننا شروع ہو جاتا۔ چھوٹی تھی تو گھر اور محلے کی لڑکیوں کے ساتھ بھاگ کر دالان میں پہنچ جاتی۔۔  یہاں ایک بڑا سا چبوترہ ہوتا۔ چبوترے پر بیٹھے لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف ہوتے۔ کوئی رنگ برنگے کا غذ پریہ گوند لگا رہا ہوتا۔۔  کوئی چمکیلی پنیّوں کو قینچی سے کاٹ رہا ہوتا۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں نیاز فاتحہ کا قاب لیے، جو خوان پوش سے ڈھکا ہوتا، ادھر ادھر کے گھروں میں دوڑ رہی ہوتیں۔

ٹھہر ٹھہر کر کسی مرد کی آواز گونج جاتی۔۔

زرینہ ذرا سنبھل کر ۔۔

’اونچی سیڑھیاں ہیں۔ ٹھیک سے چلو۔۔ ‘

محلے کے تعزیہ کے خلیفہ مٹروں میاں بھی ادھر ادھر گھومتے اور مشورہ دیتے ہوئے نظر آ جاتے۔ اس موقع پر اماں نے ہمارے لئے گھر میں بھی مٹی کے چبوترے بنا رکھے تھے۔ ایک زمانے میں یہاں چار چبوترے تھے۔ رمضان کے موقعوں پر ان چبوتروں کو صاف کیا جاتا۔ ہم بچوں کو ایک شغل مل جاتا۔ کاغذ کی بنی ہوئی تعزیہ جو گھر کے لڑکوں کی مدد کے بغیر بن ہی نہیں سکتی تھی، ان چبوتروں پر احترام کے ساتھ رکھی جاتی۔۔  اماں ملیدہ فاتحہ کرتیں۔ اور یہ ملیدہ بڑے ابو کے گھر سے لے کر محلے میں بھی تقسیم ہوتا۔ اس موقع پر کتنی ہی رسمیں تھیں، جو عقیدت و احترام کے ساتھ ادا کی جاتیں۔ محرم کی آٹھ تاریخ ۴ بجے ہمارے محلے سے بی بی کا ڈولہ اٹھتا تھا۔ آگے آگے ماتم کرتے ہوئے سیاہ اور سبز لباس پہنے ہوئے لوگوں کا قافلہ ہوتا۔ ان میں سنی بھی ہوتے شیعہ بھی ہوتے۔ گھر کے بزرگ اپنے اپنے دروازوں پر سفید کرتا پائجامہ یا کالی شیروانی اور ٹوپی پہن کر کھڑے ہو جاتے۔ گھر کی بالائی منزل سے گھر کی عورتوں، بچیوں کو دیکھنے کی آزادی تھی۔ باہر کے دروازے پر آنا منع تھا۔ ڈولہ گھر کے آگے روکا جاتا۔ یہاں سے گھر کے بزرگ مرد، جوان اور کم عمر بچے بھی ساتھ ہولیتے۔ دیر تک ماتم کی آوازوں کی گونج ہوتی۔

واویلا۔۔  صد واویلا

کوفیوں نے کی دغا

رسی سے باندھا گلہ۔۔

واویلا۔۔  صد واویلا۔۔

یہاں سے ماتم کرتا ہوا یہ قافلہ آگے بڑھتا۔ آگے ہادی صاحب کے گھرسے تخت نکلتا تھا۔ پھر پرانے بازار سے مہندی۔۔  اس طرح ڈولہ تخت، مہندی۔۔  اور اس کے ساتھ آہستہ آہستہ یہ قافلہ پرانے امام باڑے کی طرف چل پڑتا۔ ہم بچیاں راستہ میں تھک جاتے تو راستہ سے ہی گھر کے مرد ہمیں واپس گھر لے آتے۔۔  نوحہ پڑھتے اور ماتم کرتے ہوئے لوگوں کو دیکھنے کے لئے بھیڑ جٹ جاتی۔ سڑکوں پر ٹریفک جام ہو جاتا۔۔  یہ قافلہ جگہ جگہ رکتا۔ گھر کے زیادہ تر بزرگ پرانے امام باڑے تک جاتے اور پھر وہاں سے گھر لوٹ آتے۔ اماں بتایا کرتیں کہ عزا داری کی یہ مختلف رسمیں کربلا کے شہروں سے نسبت رکھتی ہیں۔ اماں نے ہی بتایا تھا کہ مہندی کی رسم کے لیے تعزیے کے تخت پر پالکی کو سجا کر تعزیے کو تیار کرتے ہیں۔ اس موقع پر حضرت قاسم کی شادی اور اس کے بعد ان کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے عزا دار نوحہ پڑھتے اور ماتم کرتے ہیں۔ اور سید الشہداء کو نوشۂ کربلا کا پر سہ دیتے ہیں۔ اماں نے بتایا تھا کہ وقت کے ساتھ یہ رسمیں بھی گم ہونے لگی ہیں۔ آٹھ محرم کو تعزیوں کو دربار کی شکل میں سجایا جاتا۔ اماں بتاتی تھیں کہ یہ دربار حضرت امام حسینؑ کی اپنے اصحاب کے ساتھ اپنے خیمے میں ملاقات سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ اصحاب کے ساتھ امام حسین کی آخری ملاقات تھی۔

اماں کی آنکھیں نم تھیں۔ کچھ یاد آ گیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ پڑھ رہی تھیں۔

خیمے سے برآمد ہوئے زینب کے جو دلبر

دیکھا کہ حسین ابن علی روتے ہیں در پر

بس جھک گئے تسلیم کو حضرت کی، وہ صفدر

منہ کر کے سوئے چرخ پکارے شہہ بے پر

یہ وہ ہیں جو آغوش میں زینب کے پلے ہیں

بچے بھی تری راہ میں مرنے کو چلے ہیں ۔۔

 

اماں کی آنکھیں آنسوؤں سے جل تھل تھیں۔۔

 

جب کوفیو ں نے کوفہ میں مسلم سے دغا کی

جو عہد کیا ایک نے اس پر نہ وفا کی

کی شرم خدا سے نہ محمد سے وفا کی

مظلوم پہ، بے کس پہ، مسافر پہ جفا کی

پانی نہ دم مرگ دیا تشنہ دہن کو

کس ظلم سے ٹکرے کیا آوارہ وطن کو ۔۔

 

میری آنکھیں بھی نم تھیں۔۔  اماں کی آواز کمرے میں ابھر رہی تھی۔۔

 

آواز پسر سنتے ہی حالت ہوئی تغیر

چلا کے کہا ہائے کلیجے پہ لگا تیر

برچھی سے تو زخمی ہوئے واں اکبر دلگیر

بسمل سے تڑپنے لگے یاں حضرت شبیر

تھا کون، اٹھاتا جو زمیں سے انہیں آ کر

اٹھ کر کبھی دوڑے تو گرے ٹھوکریں کھا کر ۔۔

جب کوفیو ں نے کوفہ میں مسلم سے دغا کی

جب کوفیوں نے کوفہ میں مسلم سے دغا کی۔۔

دغا۔۔  فریب۔۔

اُس دن محرم کی آٹھ تاریخ تھی۔۔ اماں جیسے ہی اس جملے پر آئیں، میری نظر سامنے چلی گئی۔ سامنے ڈیوڑھی کے پاس عظیم بھائی کھڑے تھے۔ میں نے ایک نظر ان کی طرف۔۔  ایک نظر اماں کی طرف دیکھا۔۔  اماں بے نیازی سے پڑھتی جا رہی تھیں۔۔  آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔

’جب کوفیوں نے کوفہ میں مسلم سے دغا کی۔۔

میں نے دیکھا، ہاتھ کے اشارے سے مجھے عظیم بھائی بلا رہے ہیں۔ اماں کسی اور ہی دنیا میں تھیں۔ میں بھاگ کر عظیم بھائی کے پاس آئی۔

کیا ہے۔۔

ذرا اوپر چلو۔۔

’کیوں۔۔ ‘

عظیم بھائی ایک لمحے کو لڑ کھڑا گئے۔’ وہ چچا بٹوارے کے متعلق کہہ رہے تھے۔‘

’ہاں۔۔ ‘

’تو چلو۔۔ ‘

’لیکن کیوں۔۔ ‘

’چلو گی تو میں بتاؤں گا۔۔ ‘

آسمان کا رنگ سرخی مائل تھا۔ بادلوں کے آوارہ ٹکڑے اس سرخی کا حصہ بن گئے تھے۔ صحن میں ویرانی تھی۔ بڑی امی کی طرف جانے والا دروازہ بھی بند تھا۔۔  میں نے عظیم بھائی کی طرف دیکھا۔ اماں کی آواز آہستہ آہستہ ماحول میں اب ابھر رہی تھی۔

’حضرت معاویہ نے دین کو بالائے طاق رکھ دیا۔ شریعت کی حدیں توڑ دیں اپنے نالائق بیٹے یزید کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔۔ ‘

’ میں اوپر نہیں جاؤں گی۔۔ ‘ پتہ نہیں کیوں میرا دل دھک دھک کر رہا تھا —

’کیوں ؟‘

’اوپر سناٹا رہتا ہے۔ ‘

’ابھی تک ڈرتی ہے۔۔ ‘

’ڈرتی نہیں ہوں۔‘

’پھر۔۔ ‘ عظیم بھائی کی سلگتی آنکھیں میری طرف دیکھ رہی تھیں۔۔

 

’سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اہل عراق کی دعوت پر گئے تھے اور یزید اسے بغاوت سمجھ رہا تھا۔۔  سیدنا حسین کے پاس کوئی فوج نہیں تھی۔ بغاوت ہوتی تو ہمراہ فوج بھی ہوتی۔۔  شامل تھے۳۲ سوار اور ۴۰ پیادے۔۔  اور بہتر کے اس قافلے میں ان کے بال بچے بھی تھے۔ ان کے مقابلے میں کوفہ سے جو فوج بھیجی گئی اُس میں ۴۰۰۰ سپاہی شامل تھے۔ اور اتنی بڑی فوج آسانی سے انہیں گرفتار کر سکتی تھی۔۔ ‘

 

اچانک عظیم بھائی کی آنکھیں بدل گئیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔۔  مجھے ایسا لگا جیسے ان ہاتھوں نے میرے ہاتھوں پر اپنی گرفت سخت کر لی ہو۔

’چل۔۔ ‘

’نہیں۔ چلتی۔‘

ناہید غائب تھی۔ میری ہتھیلیاں کسی معصوم لڑکی کی ہتھیلی کی طرح کانپ رہی تھی۔‘

ناہید کا جسم بھی غائب تھا۔ اور اس کی جگہ ایک کمزور لڑکی کا جسم آ گیا تھا۔

’ہاتھ چھوڑو۔ ‘

نہیں چھوڑتا‘

’ امی کو آواز دوں گی۔‘

’ امی کیا کر لیں گی۔ ‘

 

’پھر حضرت حسین نے کہا۔۔  یاتو مجھے واپس جانے دو۔ یا کسی سرحد کی طرف نکل جانے دو۔۔  یاپھر مجھے یزید کے پاس لے چلو۔۔  حسینؓ کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد کے پاس جانے کے لئے تیار نہ تھے۔ کیونکہ مسلم بن عقیل کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ انہیں معلوم تھا۔۔ ‘

 

عظیم نے ہاتھ چھوڑ دیا۔۔

’تمہارے ابو گھر کے بٹوارے کو لے کر پریشان ہیں۔ ‘

’ہاں ہیں تو۔۔ ‘

’اُسی کے بارے میں باتیں کرنی ہے۔۔ ‘

’کیا باتیں کرو گے۔‘

’چلو گی، تب تو بتاؤں گا۔۔ ‘

میں غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ امی نوحہ خوانی میں مصروف تھیں اور ان کی آواز کی گونج یہاں تک صاف سنائی دے رہی تھی۔

 

’ماں بولی یہ کیا کہتی ہے صغریٰ ترے قرباں

گھبرا کے نہ اب تن سے نکل جائے مری جاں

بے کس میری بچی ترا اللہ نگہباں

بے کس میری بچی تیرا اللہ نگہباں۔۔ ‘

 

آسمان پر سرخ سرخ بدلیاں چھا گئی تھیں۔۔  اماں کی آواز گونج رہی تھی۔۔  بے کس مری بچی ترا اللہ نگہبان۔ نہیں، اللہ نگہبان کہاں تھا۔ میں اب بھی غور سے عظیم بھائی کو دیکھ رہی تھی۔۔  چہرہ تبدیل ہو رہا تھا۔ اجو ماموں۔۔  نہیں گبرو دادا۔۔  نہیں۔۔  نہیں ابو چاچا۔۔  وہ بھی نہیں۔۔  بوتل کا جن۔۔  میں گہری سوچ میں ڈوبی تھی۔ ہوا تیز تھی۔ بارش ہونے کا امکان تھا۔۔  آنکھوں کے آگے گہرے کنویں کا منہ کھل گیا تھا۔ کبھی یہ کنواں برآمدے میں امرود کے درخت کے پاس تھا۔ مریم بوا کہتی تھیں، اس کنویں سے آواز آتی ہے۔۔  کیسی آوازیں۔۔ ؟ ڈراؤنی۔۔  تبھی تو کنویں کو پاٹ دیا گیا۔۔  کنواں۔۔  اوکھلی۔۔  ندی۔۔  میں مسلسل تصویروں میں تبدیل ہو رہی تھی۔۔

’چلو۔۔ ‘

دو ہاتھوں نے مجھے پھر تھام لیا تھا۔

اس بار میں نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔۔  ایک بار پلٹ کر کمرے کی طرف دیکھا۔ اماں بے نیازی سے پڑھنے میں مشغول تھیں۔۔  لمبی لمبی سیڑھیاں۔۔  سیڑھیاں پار کرتے ہی بڑی سی چھت۔ چھت پر بنے ہوئے دو تین کمرے۔۔  اور ان میں ایک کمرہ وہی کھوبر تھا۔ جس پر ہمیشہ تالا بند رہتا۔ آنکھوں میں بچپن اترتا ہے۔۔  عظیم بھائی مجھے کمرے کے اندر جانے کو کہتے تھے۔

’نہیں — مجھے ڈر لگتا ہے۔۔ ‘

کھوبر کا ذرا سا دروازہ۔۔  دھکا دیتے ہی میں اندر ہو جاتی۔۔  پھر عظیم بھائی خود کو سمیٹ کر کھوبر میں آ جاتے۔۔  اور مجھے گود میں سمیٹ لیتے۔۔  چھوڑو نا۔۔

سناٹے میں دیر تک یہ آواز میرے حواس پر گونجتی رہی۔۔

میں نے دیکھا عظیم بھائی کھوبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھ رہے ہیں۔۔ ‘

’تمہیں یاد ہے۔۔ ؟‘

’کیا۔۔ ‘

’ارے سب یاد ہو گا۔۔  کون سا زیادہ وقت گزرا ہے۔‘

’کیا یاد ہو گا۔ ‘

’اُس وقت بھی بچی نہیں تھی تم۔ سیانی تھی۔ پوری سیانی۔‘

’ مجھے کچھ یاد نہیں۔۔ ‘

’سب یاد ہے۔۔ ‘

عظیم بھائی نے زور سے میرے ہاتھوں کو تھام لیا تھا۔ اب جوان مرد کی کلائی تھی یہ۔

’ چھوڑو مجھے۔۔ ‘

’نہیں چھوڑتا۔ ‘ عظیم بھائی شیطانی ہنسی ہنس رہے تھے۔۔

’میں کہتی ہوں چھوڑو مجھے۔۔

’ کیا کر لو گی ۔۔ چیخو گی۔؟‘

’ ہاں۔ ‘

’نہیں چیخ سکتی۔ ‘

’کیوں ۔۔ ‘

علاء الدین کا جن مسکرا رہا تھا۔ اتنی طاقت نہیں ہو گی کہ چیخ سکو۔ اور سنو۔ اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔ نیچے سے تمہاری اماں بھی نہیں آنے والیں۔۔

میں نے خود کا جائزہ لیا۔ چیخنے کی کوشش کی تو احسا س ہوا، آواز اندر ہی اندر گھٹ چکی ہے۔ جسم کانپ رہا تھا۔۔  آنکھوں کے آگے سیاہ سائے تھے۔ میں کھوبر کے پاس والے کمرے میں ڈھکیل دی گئی تھی۔ عظیم بھائی نے دروازہ بند کر لیا تھا۔ میرا جسم کانپ رہا تھا۔۔  منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ آسمان پر چھائی ہوئی سرخی میں اضافہ ہو چکا تھا۔۔

میں اب ناہید نہیں تھی۔

میں ایک جسم تھی۔۔

میں بھرا بھرا سینہ تھی۔۔  ابھرے ہوئے پستان۔۔

ناہید سے میں گورا گورا بدن بن گئی تھی۔۔

میں ناہید نہیں تھی۔۔  گرم گرم جانگھوں والی لڑکی تھی۔ رس بھرے ہونٹوں والی لڑکی۔۔  پسینے میں بھیگی ہوئی لڑکی۔۔  دروازے ہوا سے ہل رہے تھے۔ میں بار بار چیخنا چاہتی تھی۔۔  اور ہر بار میں ناہید سے ہونٹ بن جاتی۔۔  دو ہونٹ آگے بڑھ کر میرے ہونٹوں کو بند کر دیتے۔۔  آہستہ آہستہ میں نے چھٹپٹانا  چھوڑ دیا۔ آسمان کے سرخی مائل بادل ہاتھی کی سونڈ میں تبدیل ہو گئے تھے۔۔

دیواروں پر ہاتھی نے جھولنا شروع کر دیا تھا۔

 

’’آخرکار ان سے جنگ کی گئی۔ سارے ساتھی شہید ہو چکے تھے۔۔  اور وہ میدان جنگ میں تنہا رہ گئے تھے۔ شہادت قریب آ گئی تھی۔ ان کی لاش سے کپڑے تک اتار لئے گئے۔ اس کے بعد ان کی قیام گاہ کو لوٹا گیا۔ اور خواتین کے جسم سے چادریں تک اتار لی گئیں۔۔

ساحل پہ سرپٹکتی تھیں موجیں فرات کی

ساحل پہ سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی ۔۔ ‘‘

 

ساحل پر سر پٹکتی ہوئی موجیں خاموش تھیں۔۔  میں ہار گئی تھی۔ یا ہمیشہ سے شکست ہی ہماری تقدیر رہی ہے۔ میں اس وقت صرف ایک جسم تھی۔۔  اماں کی آواز یں گم تھیں۔۔  آسمان کی سرخی غائب تھی۔ پھر سے لامحدود وسعتوں میں نیلا رنگ سمٹ آیا تھا۔۔  ۸ تاریخ تھی۔۔  شاید ۵ بج رہے تھے۔۔  میں ماتم کی آواز سن رہی تھی۔۔  یہ آواز ابھی دور تھی۔۔  اور یہی وقت تھا جب بی بی کے ڈولہ کے ساتھ ماتم کرتے ہوئے، نوحہ پڑھتے ہوئے قافلہ حویلی کے باہر رکا تھا۔ ممکن ہے ابو نکل کر باہر جائیں۔۔  لیکن ابھی اس لمحے۔۔  میں صرف ایک جسم بن گئی تھی۔۔  میں ناہید نہیں تھی۔۔  میرے جسم کے ہر حصے کا ایک نام تھا۔ اور عظیم، عظیم نہیں تھا۔۔  میں اس کو دیکھ رہی تھی۔۔  اس کا چہرہ غائب تھا۔ اور چہرے کی جگہ ہاتھی کا سونڈ آ گیا تھا۔ وہ ا س وقت صرف ایک سونڈ تھا۔۔  میرے کپڑے کھل گئے تھے۔ میں برہنہ تھی۔۔

ماتم کی آواز قریب آ گئی تھی۔۔  آواز اب صاف تھی۔۔

حسین۔۔  حسین۔۔  حسین۔۔ حسین۔۔

ہاتھی کی سونڈ نے مجھے دبوچ لیا۔ مجھے اکہری چارپائی پر پھینکا اور جانے کہاں سے اُس لمحہ مجھے طاقت مل گئی۔۔

حسین ۔۔  حسین۔۔

حسین ۔۔  حسین۔۔

باہر زور زور سے ماتم ہو رہا تھا۔

گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار

آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار

پیتے تھے آب نہر پر نہ آ کے بیشمار

سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار

پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا

اک ابن فاطمہ کے لئے قحط آب تھا

حسین حسین۔۔

 

سونڈ لہراتی ہوئی جسم پر گر پڑی تھی۔۔  میرے ہونٹ بند تھے۔ اور اُسی پل مجھے پشت پر ایک ڈنڈا نظر آیا۔۔  میں نے پوری قوت سے ڈنڈا سنبھال کر سونڈ کے سر پر وار کیا۔۔  ایک چیخ گونجی اور ماتم کی صداؤں کے درمیان دب کر رہ گئی۔۔

حسین ۔۔  حسین۔۔

ماتم اب کھل کر ہو رہے تھے۔۔

میں لڑکھڑاتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی۔۔  سر گھوم رہا تھا۔  جسم برہنہ۔۔  مگر مجھے اپنے جسم کی فکر نہیں تھی۔۔  سونڈ کا جھولنا بند تھا۔۔  اب وہ پھر سے ایک مرد کی صورت میں سامنے تھا۔ اور اس وقت یہ مرد زمین پر گرا ہوا تھا۔ شاید بیہوش بھی۔۔

شرکائے جلوس دروازے کے باہر حسین حسین کی صدا بلند کرتے رہے۔۔  لیکن اب میں کچھ نہیں سن رہی تھی۔ زمین پر ایک ننگا جسم پڑا تھا۔ عظیم کے کپڑے کھلے تھے۔۔  میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ میں اس بیہودہ جسم کو تا دیر دیکھ نہیں سکتی تھی۔ میرے جسم میں اس وقت تیز آندھی چل رہی تھی۔۔  میں خود سے لڑ رہی تھی۔۔

میں جسم کیوں ہوں۔۔

ندی کیوں ہوں۔۔  اوکھلی یا کنواں کیوں ہوں۔۔ ؟

میں شکار اور صرف شکار کیوں ہوں۔؟

اور اُسی لمحہ ایک تیز لہر میرے جسم میں سرایت کر گئی۔ میں سب کچھ بھول گئی۔ اور میرے پاؤں ہوا میں بلند ہوئے اور میں مسلسل۔۔  ہاتھی سونڈ پر اپنے پاؤں سے وار کرتی گئی — ایک لمحے کو اُسے ہوش آیا۔۔  ایک چیخ گونجی۔ لیکن نازک حصے پر مسلسل پاؤں کی ٹھوکر سے وہ دوبارہ بیہوش ہو گیا۔۔  میں اس وقت تک سونڈ پر ٹھوکر مار تی رہی جب تک بالکل تھک نہ گئی۔ میں چار پائی کے قریب تھک کر بیٹھ گئی۔ میں نے عظیم کی جانگھوں کو دیکھا، خون چھلک آیا تھا۔۔  سر میں ابھی بھی چکر آ رہے تھے۔ خود کو سنبھالتی ہوئی کھڑی ہوئی۔ کپڑے پہنے — بالوں کو درست کیا۔ نوحہ پڑھتے ہوئے اور ماتم کرتے لوگوں کا قافلہ آگے بڑھ گیا۔ حسین حسین کی صدائیں دھیمی پڑ گئی تھیں۔ میں نے ایک نظر دوبارہ عظیم کے ننگے جسم پر ڈالی۔ خون جانگھوں تک پھیل گیا تھا۔ پھر میں ٹھہری نہیں۔ تیز تیز سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آ گئی۔ سیم کی لتوں کو پار کرتے ہوئے میں بڑی اماں کی ڈیوڑھی پر رکی۔ پھر تیز تیز قدم بڑھاتی بڑی امی کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ نکہت کا صدمہ کچھ ایسا تھا کہ بڑی امی آس پاس کی دنیاؤں کو یکسر بھول چکی تھیں۔ جس وقت جنازہ اٹھا، اس وقت بھی ان کی آنکھیں بے جان اور ہونٹ ساکت تھے اور اس کے بعد وہ محض پتھر کا مجسمہ بن کر رہ گئی تھیں۔

میں نے بڑی امی کی طرف دیکھا۔ سانسوں کو سنبھالا۔ پھر کہا۔

’بڑی امی۔ میں نے ایک اور نکہت کو شہید ہونے سے بچا لیا۔۔ ‘

مجسمہ نے سر اٹھا کر دیکھا — پتلیوں میں ہلچل تھی۔

’کوئی ہے جو اس وقت چھت والے کمرے میں بیہوش ہو کر پڑا ہے۔ اسپتال بھیجئے، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ ‘

میں یہ دیکھنے کے لئے ٹھہری نہیں کہ مجسمے کے بدن میں ہلچل ہوئی یا نہیں۔ میں تیزی سے پلٹی اور اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔ میں نے سوچ لیا تھا، اب مجھے اس شہر میں نہیں رہنا ہے۔

امی کے کمرے میں آنے تک میں بریف کیس میں اپنا سامان رکھ چکی تھی۔ فیس بک پر کچھ لڑکیاں تھیں۔ جو گرلس ہوسٹل میں رہتی تھیں اور میری دوست بن چکی تھیں۔ ان میں ایک لڑکی ریتا اگروال تھی۔ پروگریسیو۔ ایک انگریزی اخبار میں تھی۔ ریتا نے کئی بار بلایا تھا۔ وہاں کیا کر رہی ہو۔ دلی آ جاؤ۔ اپنی مرضی کی زندگی جیو۔۔  جتنے دن چاہو۔ ہمارے ساتھ رہ سکتی ہو۔ اس درمیان جاب تلاش کرتی رہنا۔ جاب تو مل ہی جائے گی۔۔

امی نے غور سے میری طرف دیکھا۔

’جا رہی ہو۔۔ ‘

’ہاں۔ ‘

’کہاں۔ ‘

’ دلی۔‘

’ہونہہ‘

’ میں واپس نہیں آؤں گی۔ ‘

ہونہہ۔‘

’کچھ باقی رہ گیا ہے۔۔ ‘ میں امی کی طرف پلٹی۔۔  میں نے پھر اس لفظ کو دہرایا ۔۔  کچھ باقی رہ گیا ہے۔۔ ’ اماں کسی اور سوچ میں گرفتار تھیں۔ لیکن یہ لفظ کچھ باقی رہ گیا ہے۔ دیر تک میرے اعصاب پر سوار رہے۔ اندر کشمکش چل رہی تھی۔ گھر میں طوفان آسکتا ہے۔ جب گھر کے مردوں کو بیہوش عظیم کا پتہ چلے گا، تو ہنگامہ شروع ہو جائے گا۔ مجھے اس ہنگامہ سے پہلے ہی گھر چھوڑ دینا تھا۔ میں اب کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جبکہ اب میں اتنی با ہوش تھی کہ کسی بھی مصیبت کا سامنا کرنے کو تیار تھی۔

’کچھ باقی رہ گیا ہے۔‘ میں آہستہ سے بولی۔

’ٹھیک۔۔ ‘ امی نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔

یہ دو پتھروں کے درمیان کا مکالمہ تھا۔ میں نے اتنا ضرور کہا تھا کہ مجھے پیسوں کی ضرورت پڑے گی۔ اور پیسہ میرے بینک میں ٹرانسفر کرا دینا۔

٭٭

 

میں دلی آ گئی۔ چھ مہینے تک جوناگڑھ کی ذلیل یادوں سے دور رہنے اور جینے کی کوشش کی تو آخر زندگی راس آ ہی گئی۔ اس درمیان ایک کال سینٹر میں جاب مل گئی۔ یہیں کمال سے ملاقات ہوئی۔ دلی کی اکیلی زندگی سے بھی گھبراہٹ کا احساس ہوتا تھا۔ کما ل سے شادی ہو گئی۔ اور اس درمیان کمال کی جاب نینی تال میں ہو گئی۔

اور اس طرح میں نینی تال آ گئی۔

٭٭

 

ناہید اچانک اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اُس کے چہرے پر کہیں بھی درد یا تکلیف کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ وہ زور سے چیخی۔

’اب یہاں کیا کر رہے ہیں آپ۔۔ ‘

’جی۔‘

میرے اندر بہتی ہوئی جذباتی ندی ایک جھٹکے سے ٹھہر گئی تھی۔۔  وہ دروازے تک جاتے جاتے پلٹی۔

’ میں نے جو کچھ کہا۔ اُسے، اسی لمحے بھول جائیے۔ سمجھ رہے ہیں آپ۔ ‘

’جی۔ ‘

میرے لئے، ناہید کی کہانی سے باہر نکلنا مشکل تھا۔ میں کمال اور ناہید کے تعلقات کو، پرانی کڑیوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔

٭٭٭

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید