FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

نالۂ شب گیر

 

حصہ دوم

 

                   مشرف عالم ذوقی

 

 

 

 

وادی ِاسرار

 

(1)

 

پچھلے صفحات میں آپ نے جو کچھ پڑھا۔ اُسے کچھ دیر کے لئے بھول جائیے ۔۔  اُس خوفناک ڈراؤنے سفر کے بعد آگے بڑھتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا کہ ہم لکھنے والوں میں ایک جوکر بھی چھپا ہوتا ہے۔ اور اس لیے ناہید ناز کی کہانی سنانے اور کہانی کے خاتمہ پر اس کے بدلے ہوئے تیور نے میرے اندر اُس جوکر کو جگا دیا تھا۔

ایسے بہت سے قاری ہیں، جنہوں نے دوستو فسکی کے ایڈیٹ کا مطالعہ کیا ہے یا ایسے ناظرین ہیں، جنہوں نے ہندوستانی شو میں راج کپور کی فلم میرا نام جوکر  کا لطف اٹھایا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ جوکر بننا آسان نہیں ہوتا اور جوکر محض ایک ہنسنے ہنسانے والا انسان نہیں ہوتا بلکہ غور کریں تو جوکر میں انسانی نفسیات کی باریکی کو سمجھنے کا تجسس ہوتا ہے۔ اسی لیے اپنے مشاہدے کی بنا پر اس وقت بھی ہنساتا ہے، جب اُس کا دل رو رہا ہوتا ہے — حقیقت یہ ہے کہ میں اس وقت ایسا ہی ایک جوکر تھا — اور میری کیفیت’ میرا نام جوکر‘ کی تھی، جو اس کہانی کی کڑیوں کو جوڑتے ہوئے وادی تحیر میں بھی اور کئی ایسے مقام آئے، جہاں آنکھیں اشکبار بھی تھیں —

حقیقت یہ بھی تھی کہ آپ کی طرح میں بھی اس کہانی سے دور نکلنا چاہتا تھا۔  جیسا کہ میں نے بتایا میرے اندر وہ جوکر جاگ گیا تھا اور اب میں یوں ہی کچھ دیر کمرے میں بندروں کی طرح اچھل کود کرنا چاہتا تھا۔ میں کوئی پرانا باسی لطیفہ یاد کر کے ہنسنے کا خواہشمند تھا۔ یا یہ بھی خواہش ہو رہی کہ سر پر جوکروں کی طرح الٹی سیدھی ٹوپی پہن کر کچھ ایسی حرکتیں شروع کروں کہ ناہید ناز اپنی پرانی دنیا سے واپس نکل سکے۔ لیکن جیسا میں نے آپ کو شروع میں بتایا ہے کہ یہاں ہر کہانی ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور کبھی کبھی ایک کہانی کا سرا چھوڑ کر دوسری کہانی سے وابستہ ہونا پڑتا ہے۔ شاید ہم تمام انسانوں کی یہی کہانی ہے۔ کسی ایک کردار کا ایک سرا پکڑتے ہوئے ساری دنیا گھوم آئیے تو کہیں نہ کہیں ایک رشتہ حضرت آدم سے بھی نکل آئے گا۔۔  جوکر کی بات ۔۔  ہے نا۔۔  مگر ۔۔  ابھی اسی مبہم حقیقت کو سچ سمجھتے ہوئے اس کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ دنیا کتنی چھوٹی ہے۔ ہم کسی سے ملتے ہوئے بچھڑ جاتے ہیں اور پھر اچانک کسی مقام پر مل جاتے ہیں۔۔

اس دن — یعنی لنچ کے بعد کا وقت ہو گا۔ جب مجھے باہر کچھ ہنگامے کی آواز سنائی دی۔ اس درمیان یہ بتانا بھول گیا کہ کمال یوسف اور ناہید میں پھر سے گفتگو شروع ہو گئی تھی۔ یہ گفتگو آخر کتنے دن بند رہتی۔ کمال کہہ رہا تھا۔

’اُسے بلا لو۔۔  نا۔۔ ‘

’بلا لو۔۔  کیا ۔۔  وہ کہنے سے آ جائے گی۔۔  ؟‘

’میں بلا لوں ؟‘

’ تمہیں اتنی بے چینی کیوں ہے۔۔ ‘

’ وہ کئی دنوں بعد آئی ہے۔۔  ہو سکتا ہے۔۔  اُسے آنے میں تامل ہو۔۔  ‘

’تامل کیوں۔‘

’ وہ چاہتی ہے کہ اُسے بلایا جائے۔۔ ‘

’پھر وہ ڈرامے کیوں کرتی ہے۔۔  باہر دیکھو۔ تتلیوں کے تعاقب میں بھاگ رہی ہے۔۔ ‘

’وحیدہ — ‘ میرے ذہن میں اچانک ایک نام پیدا ہوا۔ تو کیا وحیدہ آئی ہے — ؟ اتنے دنوں بعد؟ میں تو اس درمیان اس نام کو بھول ہی گیا تھا۔ میں نے جلدی سے نئے کپڑے پہنے۔ بالوں کو سنوارا۔ سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا۔

آج دھند نہیں تھی۔ نیلا آسمان مسکرا رہا تھا۔ میں نے اُسے پشت سے دیکھا اور حیران رہ گیا۔ یا خدا۔ وہی لڑکی۔۔  مجھے یاد آیا، جب میں پہلی بار یوسف کمال سے ملنے آیا تھا تو اس لڑکی کو دیکھ کر طلسم ہوشربا کے کتنے ہی ہوش اڑانے والے صفحات میری نگاہوں کو خیرہ کر گئے تھے۔ آسمان میں دھند چھائی تھی اور ایک جسم نے دھند کا لباس پہن لیا تھا۔ پھر اچانک دھند چھٹی تو جسم غائب تھا۔ میں نے دیکھا۔ وہ پشت سے دونوں ہاتھوں کو پھیلائے ہے اور ادھر ادھر درختوں پر پرندے اتنے آرام سے بیٹھے ہیں جیسے اُس کے دوست ہوں۔

مجھے احساس ہوا، شاید اس وقت بھی وہ پرندوں سے باتیں کر رہی ہے۔ مگر پرندوں سے باتیں ؟

اس درمیان میں نے اس پر اسرار ساحرہ کے بارے میں دلی سے نینی تال تک اتنا کچھ سن رکھا تھا کہ اب اُس سے ملنے اور اُس سے گفتگو کرنے کا تجسس پیدا ہو چکا تھا۔۔  اور یہ تجسس اس وقت مجھے اُس کے پاس کھینچ لایا تھا — گو کہ میں اپنے قدم آہستہ آہستہ اٹھانا چاہتا تھا مگر اللہ نے لڑکیوں کے جسم میں خصوصی طور پر یہ تاثیر رکھی ہے کہ وہ ہلکی سی آہٹ کو بھی محسوس کر لیا کرتی ہیں —

اس نے ابھی تک مجھے نہیں دیکھا تھا اور وہ ابھی تک ان پرندوں سے گفتگو کرنے میں منہمک تھی — میں نے ایسا نظارہ زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا کہ پرندے بھی انسانی ہاتھوں کے ہلنے کے باوجود اپنی اپنی شاخوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایسا میں نے صرف طلسمی کہانیو ں یا حضرت سلیمانؑ کے معجزات کے تعلق سے سنا تھا۔ مگر ابھی اس وقت یہ تصویر زندہ تھی اور اچانک وہ پراسرار ساحرہ میرے قدموں کی آہٹ محسوس کرتے ہوئے میری طرف پلٹی اور میں اُسے دیکھتا رہ گیا۔۔

وحیدہ۔۔  یا۔۔  صوفیہ مشتاق احمد۔۔  اف خدا۔۔  نینی تال کی، اس وادیِ پراسرار میں اس طرح صوفیہ مشتاق احمد سے میری ملاقات ہو سکتی ہے، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ مجھے وہ سارے واقعات یاد آ گئے، جس کا میں نے ابتدائی حصے میں ذکر کیا ہے۔ مگر یہ صوفیہ ہے تو وحیدہ کیونکر ہو گئی — ؟ وحیدہ ہے تو صوفیہ  کیوں دکھ رہی ہے — ؟ کیا چہرے کی مماثلت ہے۔ نظروں کا دھوکہ یا اس بات پر یقین کیا جائے کہ ایک ہی وقت میں اس دنیا میں سات ایک ہی چہرے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ میں ابھی حیرت سے دیکھ رہا تھا اور یقینی طور پر وہ صوفیہ تھی — صوفیہ بھی مجھے پہچان گئی۔ میں اُس کے قریب آیا۔ اور آہستہ سے پوچھا۔

’صوفیہ۔۔ ؟‘

’ہاں۔۔ ‘

’صوفیہ مشتاق احمد۔۔ ؟‘

’جی۔۔ ‘

اُس نے نظریں جھکا لیں۔ ’لیکن یہاں میں وحیدہ ہوں۔ اور خدا کے لیے آپ یہاں مجھے وحیدہ کے نام سے ہی پکارئیے گا۔۔ ‘

’وحیدہ ؟‘

’جی۔‘

’مگر ۔۔  نام بدلنے کے پیچھے۔۔ !‘

وہ مسکرائی تو اُس کے چہرے کے اندر چھپے غضب کے سناٹے کا اندازہ ہوا مجھے۔۔

’کوئی لمبی کہانی نہیں۔‘

’پھر بھی۔۔ ‘

’جگہ بدل گئی تو نام بھی بدل گیا۔ ‘

’لیکن جگہ کیوں بدلی ؟‘

اُس نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن اس کوشش میں وہ مجھے برف کا مجسمہ نظر آئی —

’جگہ کیوں بدلی جاتی ہے؟‘ وہ پوچھ رہی تھی۔۔

’کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔‘

’جی۔۔ ‘ وہ پھر آہستہ سے مسکرائی’۔۔  آپ کو یاد ہو گا۔۔  میں نے آپ کو بتایا تھا۔۔  وہ پروپوزل۔۔  اور وہ حادثہ۔۔ ‘

’ہاں۔۔ ‘

وہ ہنس رہی تھی۔۔ ۔۔  مجھے لگا، اب ان لوگوں کو آزاد کر دینا چاہئے۔ ان لوگوں نے میری وجہ سے اپنی اپنی آزادی کو گروی رکھ دیا ہے۔‘

’ہونہہ۔ آگے۔۔ ‘

’آگے کی داستان کوئی بہت لمبی چوڑی نہیں  — وہ نوجوان چلا گیا تو مجھے احساس ہوا، اب میں یہاں کیا کر رہی ہوں  — میرے بھائی بہن اس سے زیادہ شاید میرے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ اور میری موجودگی ان سب کے لیے ناسور بن گئی ہے۔ مجھے احساس تھا، میرے جاتے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ سب اپنی اپنی دنیا میں لوٹ آئیں گے۔‘

’پھر ۔۔ ‘

’پھر کیا — میں نے رات میں ایک چھوٹا سا بریف کیس اٹھایا۔ کچھ پیسے پڑے تھے۔ بغیر کسی کو بتائے میں نے گھر چھوڑ دیا۔‘

ان لوگوں نے تلاش کیا ہو گا۔ پولس میں رپورٹ؟‘

’ نہیں میں اس کا بندو بست کر آئی تھی۔ میں نے ایک چھوٹی سی تحریر چھوڑ دی تھی کہ ’مجھے تلاش نہ کیجئے گا۔ کوئی فائدہ نہیں  — آپ لوگ بہت اچھے ہیں  — آپ نے جو کچھ کیا، وہ شاید ماں باپ بھی نہ کر پاتے — اب آپ بھی اپنی زندگی جینے کی کوشش کیجئے اور میں بھی۔۔  مجھے یقین تھا، اس تحریر سے وہ لوگ مطمئن ہو جائیں گے اور مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔۔ ‘

’اچھا۔۔ ‘ میں نے گہری سانس لی۔ غور سے صوفیہ مشتاق احمد کی طرف دیکھا۔ وہ تمام چہرے آنکھوں میں زندہ ہو گئے تھے۔ ثریا مشتاق احمد۔ جیجو، صوفیہ کا بڑا بھائی — ایک گھر میں سہمے ہوئے قید، بے حد شریف لوگ، ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی کی شادی کے لیے الجھ گئے تھے۔ اور لڑکی بھی محض خوب سیرت نہیں۔ خوبصورت بھی — اور ہم بھولے سے ایسے سماج کا حصہ ہیں، جہاں صوفیہ جیسی لڑکیوں کی شادی بھی عذاب بن جایا کرتی ہے۔ سلسلہ وار مجھے وہ سارے واقعات یاد آ گئے۔ میں نے صوفیہ کی طرف دیکھا، جہاں اُس کے چہرے پر ان حادثات و واقعات کا کوئی عکس نہیں تھا۔ یا وہ جان بوجھ کر ان واقعات سے انجان بن رہی تھی۔ یا وقت کے حادثے میں اس نے اپنی زندگی سے کھرچ کھرچ کر ان واقعات کو الگ کر دیا تھا۔ میں اب بھی اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

’کیا وہ لوگ پھر ٹکرائے۔؟‘

’ہاں۔‘وہ آہستہ سے بولی۔

’کہاں ؟‘

’یہیں۔۔  نینی تال میں۔۔ ‘

’نینی تال میں۔۔ ؟‘

’ہاں۔ میں کوئین لورز کی طرف گئی تھی۔ یہیں پاس میں ایک پہاڑی ہے۔ وہاں کئی اچھے ریسٹوران بھی بنے ہوئے ہیں۔ کافی ٹورسٹ آتے ہیں۔ میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ گئی تھی۔ ہم ایک اوپن ریستوراں میں کافی پی رہے تھے۔ ‘

’پھر۔۔ ‘

’ میں اچانک کسی کی آواز سن کر چونک گئی۔ میں نے دیکھا۔ میرے ٹھیک دائیں طرف کی کرسیوں پر وہ تینوں موجود تھے۔

’تینوں کون؟‘

’ جیجو، اپیا اور بھیا۔ ‘ صوفیہ نے ٹھنڈی سانس لی۔’ وہ تیز تیز باتیں کرتے ہوئے ٹھہر گئے تھے۔ اور مجھے یقین تھا کہ ان لوگو ں نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ اور نہ صرف دیکھ لیا تھا بلکہ پہچان بھی گئے تھے۔ ‘

’ پہچانتے کیوں نہیں۔ اتنے دنوں بعد تمہیں دیکھا تھا۔۔  وہ تو خوش ہو گئے ہوں گے۔۔ ‘

صوفیہ کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی۔۔ ’ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ مجھے احساس ہوا، شاید وہ لوگ مجھے دیکھ کر گھبرا گئے تھے۔ پھر بھی میں اپنے یقین کو پختہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔ ‘

’کیسا یقین؟‘

’وہ یہ، کہ ان لوگو ں نے واقعی مجھے دیکھا ہے یا یہ صرف میرا شک ہے — ؟ میں وہاں سے اٹھی اور چلتی ہوئی دروازے کی طرف بڑ ھ گئی۔ یہاں سے میں اس میز اور کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو آسانی سے دیکھ سکتی تھی۔ اور یقینی طور پر وہ لوگ مجھے وہا ں سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ میں نے دیکھا۔۔  پہلے اپیا مڑیں۔۔  پھر پلٹ کر جیجو نے اُس جگہ کو دیکھا۔ جہاں میں بیٹھی تھی۔ پھر بھائی نے پلٹ کر اُس جگہ کو دیکھا۔ اب وہ تینوں آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ اور اس بات سے مطمئن تھے کہ شاید میں انہیں نہیں دیکھ پائی۔ جیسا میں نے کہا، وہ اپنی اپنی زندگیوں سے مطمئن تھے۔مجھے احساس تھا کہ میں ان کی زندگی میں اب کہیں بھی نہیں ہوں۔ پہلے تھی۔ مگر پہلے بھی بوجھ کی طرح تھی۔

میں وحیدہ کی اس حقیقت سے واقف تھا، اس لئے خاموش رہا — اچانک میں نے دیکھا، وہ مسرت سے اٹھی۔ اُس کے ہاتھ پھیل گئے۔ جیسے شاخ پر بیٹھے ہوئے پرندے کو بانہوں میں لے رہی ہو — وہ اُس سے باتیں کر رہی تھی۔

جھمبو۔۔  تم جانتے ہونا۔۔  وہ ابھی اڑنا سیکھ رہا ہے۔ تم اُسے آزاد چھوڑ دیتے ہو۔ تم کو اُس کا دھیان رکھنا چاہئے۔ جھمبو۔۔  چلو جاؤ۔۔  دیکھو۔۔  وہ کہاں ہے۔۔  جلدی جاؤ۔۔ ‘

اور میں نے دیکھا، وہ پرندہ اپنی جگہ سے اڑا اور تیزی سے اڑتا ہوا آسمان کی وسعتوں میں گم ہو گیا۔ صوفیہ جواب ہمارے لئے وحیدہ تھی، میری طرف مسکراتی ہوئی پلٹی۔۔

’یہ جھمبوہے۔ یہاں کی زبان میں اسے جھمبو کہتے ہیں۔ وہ میری دوست ہے نا نا جو، آپ کیا جانیں گے۔۔  وہ پھول بیچتی ہے۔۔  اُس نے مجھے یہاں کے سارے پرندوں کے بارے میں بتایا ہے۔۔ ‘

’اچھا۔۔ ‘

جھمبو کا بچہ ہوا ہے۔۔  بس کچھ ہی روز پہلے۔۔  پہلے وہاں۔۔  اُس شاخ پر اُس کا گھونسلہ تھا۔ جھمبو کو اُس کے ساتھ رہنا چاہئے نا۔۔ ؟‘

وہ بجھ گئی تھی۔ اور یہ وقفہ مجھے اُس کے چہرے کا جائزہ لینے اور اسے پڑھنے کے لئے کافی تھا۔ میں اس احساس تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وحیدہ ان پرندوں سے اس قدر مانوس کیوں ہے۔ ان میں زیادہ تر پرندے اڑان بھرتے ہوئے اپنے خاندان سے کٹ جاتے ہیں۔ جیسے مثال کے لئے ابھی یہ جھمبو۔۔  میں نے وحیدہ کی آنکھوں میں صاف طور پر چھپے ہوئے درد کو محسوس کیا۔

’تم تو یہاں کے سارے پرندوں کو جانتی ہو گی۔؟ ‘

’ہاں۔‘ اُس نے معصومیت سے جواب دیا۔ سب میرے دوست ہیں۔ ‘

’پھر تو ان میں ہی وقت گزر جاتا ہو گا۔۔ ‘

’نہیں۔ صبح اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ پھر گھر میں امی ابو ہیں۔ انہیں قرآن شریف اور گیتا سنا تی ہوں۔۔ ‘ وحیدہ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی — ’ وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ فرشتہ صفت۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں۔ دنیا میں اتنے اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ‘

’وحیدہ ‘

ناہید کی آواز گونجی تو وحیدہ چونک گئی۔ اُس نے جلدی سے سلام کیا۔

’سلام علیکم ‘

’ وعلیکم السلام۔‘

کمال یوسف ناہید کے ساتھ باہر آ گئے تھے۔ ناہید میری طرف دیکھ رہی تھی۔

’کیا آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔؟ ‘

میں نے ہاں کیا تو ناہید ایک دم سے چونک گئی۔

’کیسے جانتے ہیں ؟‘

’ آپ نے دلی میں اتنی بار تذکرہ کیا اور پھر یہاں بھی — کسی نہ کسی بات پر وحیدہ کا تذکرہ روز ہی نکل آتا ہے۔‘

’ہو ہو۔۔  ‘ کمال یوسف زور سے ہنسا۔

’ویسے آپ سے بچ کر رہنا چاہئے مصنف صاحب۔ ‘ ناہید ناز کی آواز میں تلخی تھی۔

’تم یہاں کیا کر رہی ہو وحیدہ۔ چلو اندر چلو ۔۔ ‘

میں نے محسوس کیا۔ کمال کو دیکھتے ہوئے اُس کے اندر ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔ شاید یہی کیفیت کمال کی بھی ہو۔ اور ممکن ہے ناہید بھی اس معاملے کو تھوڑا بہت سمجھتی ہو۔

میں نے محسوس کیا تھا کہ وحیدہ کی موجودگی میں لاجو بجھ گئی تھی۔ ناہید نے لاجو کو چائے لانے کے لئے کہا تو اُس کی آواز میں تلخی کی جھلک تھی۔ ابھی لائی میم صاحب۔ جب وہ طشت میں چائے لے کر آئی تو میز پر چائے رکھنے کے بعد بھی ایک منٹ کھڑی رہی۔ وحیدہ کو دیکھتے ہوئے اُس کے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔ پھر وہ سرعت سے کچن کی طرف لوٹ گئی۔ میں نے دیکھا کمال یوسف بھی محتاط انداز میں وحیدہ کی خیریت دریافت کر رہا تھا۔ اور ناہید کی عقابی آنکھیں بغور دونوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔

وحیدہ نے چائے پینے کے بعد خالی کپ میز پر رکھ دیا۔ نگاہیں اٹھا کر ناہید کی طرف دیکھا۔

’آپ کی طبیعت تو اچھی ہے نا؟‘

’ہاں کیوں ؟‘

’ آپ کا چہرہ زرد نظر آ رہا ہے۔‘ وہ آہستہ سے بولی۔ اب چلوں گی۔ پھر کسی وقت آؤں گی۔ ‘

’اتنی جلدی کیا ہے؟‘

’نہیں کچھ کام ہے۔۔ ‘

’ایسا بھی کیا کام ۔۔ ‘

’ابو انتظار کر رہے ہیں۔‘

’ٹھیک ہے ۔۔ آتی رہنا۔‘

ناہید بولی ضرور مگر مجھے احساس ہوا اس کی بات میں کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ وہ ناہید نہیں تھی، جو بار بار وحیدہ کا تذکرہ کیا کرتی تھی۔ ناہید کی شخصیت میں آتی ہوئی یہ نئی تبدیلی تھی۔

وحیدہ چلی گئی۔

میں وحیدہ سے ملنے۔ اور اُسے جاننے کا خواہشمند تھا۔ وہ اپنے تمام لوگوں سے کٹ گئی تھی۔ اپنے گھر سے کٹ گئی تھی۔ بھائی بہنوں سے جدا ہو گئی تھی۔ اور ایسے میں کسی جوان تنہا لڑکی کے لئے زندگی کے دن گزارنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔

اس درمیان دوچار دن گزر گئے۔ وحیدہ نہیں آئی۔اُس رات کو ہم ٹیرس پر بیٹھے تھے، جب ایک دلچسپ بات ہوئی۔ کسی بات کو لے کر یوسف اور ناہید دیر تک جھگڑتے رہے۔ پھر اچانک ناہید نے وحیدہ کا تذکرہ چھیڑ دیا۔

’ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ کوئی ملنے آتا ہے تو ڈائرکٹ گھر آتا ہے۔ وہ ہمارے مین گیٹ میں داخل ہو کر درختوں میں گم ہو جاتی ہے۔‘

’درختوں میں نہیں پرندوں میں۔ ‘

’پرندوں میں۔‘

’ہاں۔ وہ کسی نہ کسی پرندے کو تلاش کرتی ہوئی ہمارے یہاں آ جاتی ہے۔‘

’اچھا۔۔  مجھے لگتا ہے یہ پرندہ کافی بڑا ہے۔ اس کا قد تمہارے جتنا تو نہیں ہے؟ ناہید کافی دنوں بعد کھلکھلا کر ہنسی تھی۔۔

کمال کے چہرے پر ناراضگی تھی۔ اب تم نے شک کا دامن تھامنا شروع کر دیا ہے — ‘

’ بالکل بھی نہیں۔ ‘

کمال نے طنز سے کہا — ’ تم پوری عورت ہوئی جار ہی ہو۔‘

’کیا؟ ‘ ناہید زور سے چیخی۔

’پوری عورت۔ شک کرنا عورتوں کا ہی کام ہے۔ ‘ کمال آہستہ سے بولا۔ اور اس میں برائی کیا ہے۔ عورت ہی تو ہو۔‘

’نہیں ہوں۔ ‘

’پھر مرد ہو؟‘

ناہید نے دوبارہ چیختے ہوئے کہا۔ یہ کیا عورت اور مر دلگا رکھا ہے۔‘ وہ سنجیدہ تھی — ’ تمہاری لغت بدل گئی ہے اورمعنی بھی۔

’ابھی تک تو نہیں بدلی۔‘

’بدلی ہے۔ تم لوگوں نے دیکھنا ہی بند کر دیا ہے۔‘

’کس نے ؟ مردوں نے؟‘

’نہیں تم لوگوں نے۔‘ ناہید کے لہجے میں ناراضگی تھی — بس مرد سننا چاہتے ہو تم لوگ۔ ہر جگہ ہر مقام پر مرد۔ اور اس مرد نام سے ہی تم لوگوں کی تسلی ہو جاتی ہے۔ اور اس کے نام کے ساتھ ہی خونخوار ہو جاتے ہو۔ کیوں ہے ایسا؟ یہ نام تمہارے اندر کی درندگی کو اتنا ابھار کیسے دیتا ہے کہ جانور ہو جاتے ہو — ‘

’ایک مرد برا ہو جائے تو تمام مردوں کو جانور نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ‘

’اچھا۔۔ ‘

ناہید اس بار زور سے ہنسی — ‘ اچھے خیالات ہیں تمہارے۔ میں دیکھ رہی ہوں۔ یہ مرد کچھ زیادہ ہی تمہارے وجود میں سانس لینے لگا ہے۔ اب مجھے اس مرد کو نکالنا ہو گا۔ ‘

ماحول میں خاموشی چھا گئی تھی۔ کمال یوسف بھی خاموش تھے۔ لیکن مجھے اس وقت گمان نہیں تھا کہ یہ رسمی نوعیت کے مکالمے محض مکالمے نہیں ہیں۔آنے والے دنوں میں یہ مکالمے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بننے والے ہیں۔

اور اس درمیان وحیدہ کو لے کر خبر ملی کہ وہ اپنے بڑے ابو کو لے کر پریشان ہے۔ تین دن پہلے ناگارجن سینی کو ہارٹ اٹیک آیا تھا۔

وحیدہ سے ملاقات کے بعد جو تفصیل سامنے آئی، وہ وحیدہ کے لفظوں میں ہی آپ کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔

٭٭٭

 

 

 

(2)

 

ناگارجن سینی اُس دن صبح سے تکلیف میں تھے لیکن وہ کوشلیا کو اپنی تکلیف بتانے سے گھبرا بھی رہے تھے۔ کوشلیا پریشان ہو جائے گی۔ شام ہونے تک سینے کی تکلیف بڑھ چکی تھی۔ وہ کچھ بے چینی محسوس کر رہے تھے۔ وحیدہ کو آواز دے کر بلایا اور کہا — گیتا سناؤ۔ وحیدہ دیر تک پڑھتی رہی۔ اس درمیان کوشلیا بھی دو بار دیکھنے آئی۔ پھر چلی گئی —

شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ آسمان پر تارے جھلملا رہے تھے۔ یہی کوئی ۸ بجے کا وقت ہو گا۔ پہاڑیوں کی راتیں جتنی حسین لگتی ہیں اتنی ہی خوفناک بھی ہوتی ہیں۔ رات کے اندھیرے میں جھل مل روشنیوں کے درمیان وادیاں اتنی سنسان اور ویرانی لگتی ہیں کہ وحشت ہوتی ہے — دور تک پہاڑوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اور الگ الگ پہاڑیوں پر بنے ہوئے مکانات — لوگ اس وقت زیادہ تر گھروں میں ہوتے ہیں  — شام ہوتے ہی مصروفیات سمٹ کر گھر تک محدود ہو جاتی ہیں —

وحیدہ نے گیتا پڑھتے ہوئے محسوس کیا، ابو کے چہرے پر درد کی چھٹپٹاہٹ۔ اُس نے دریافت کیا تو ناگارجن بولے۔۔

’نہیں بیٹی۔ اس عمر میں کبھی کبھی گیس پھنس جاتی ہے۔ گیس پھنس جاتی ہے تو پریشان کرتی ہے۔‘

’کوئی تکلیف ہو تو ڈاکٹر کے یہاں چلیں ابو۔۔ ؟‘

’نہیں بیٹی۔ ‘

’چائے یا کافی۔ پینا چاہیں گے؟‘

’نہیں بیٹی۔ کچھ دیر آرام کرنا چاہوں گا۔‘ ناگارجن سینی نے مسکرانے کی کوشش کی’ — تم کتنا خیال رکھتی ہو میرا — تمہارے آنے سے گھر سورگ ہو گیا ہے۔‘

وحیدہ مسکرائی کچھ بولی نہیں —

ناگارجن آہستہ سے بولے — ایک بیٹا آنے کو کہہ رہا ہے۔ پتہ نہیں آنے میں دیر نہ ہو جائے۔ ‘

’’کیسی باتیں کرتے ہیں ابو — جائیے میں نہیں بولتی۔‘

ارے میں تو مذاق کر رہا تھا۔ بیٹی۔ ‘

مگر وحیدہ کا دل بھی اداس تھا۔ آج برسوں بعد اُسے اپنے گھر کے لوگ یاد آئے تھے۔ امی ابو کا چہرہ نگاہوں میں بجلی کی طرح کوندا تھا۔ سب کتنی جلد چلے گئے۔ پھر بجیا اور جیجو کا چہرہ ابھرا۔ یہ لوگ اُس کے لئے کتنا پریشان رہتے تھے۔۔  زندگی کا سفر بھی عجیب ہے۔ ایک لمحے میں سب کھو جاتا ہے۔ وہ لوگ جن سے کبھی دوریوں کا تصور بھی ممکن نہیں تھا اور ایک لمحے میں زندگی میں نئے لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔ کبھی جو خواب و خیال میں بھی نہیں آئے۔ زندگی اُن کے ہمراہ شروع ہو جاتی ہے —

آج صبح سے اُس کے وجود میں بھی ہلچل تھی۔ جیسے ۔۔  کچھ ہونے والا ہے۔۔  مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔۔  وہ خوفزدہ تھی۔۔  وہ برسوں بعد خوف کو اپنے وجود میں رینگتے اور پھسلتے ہوئے محسوس کر رہی تھی۔۔

کچھ ہونے والا ہے۔۔

مگر کیا۔۔ ؟

کچھ تو ہونے والا ہے ۔۔

اب اور کیا برا ہو گا۔۔ ؟

وحیدہ نے کوشش کی کہ اپنے دوست پرندوں کی یادوں میں خود کو بہلانے کا بہانہ تلاش کر سکے مگر یہ بھی ممکن نہ ہو سکا —

اُس شام اُس نے پہلی بار اس گھر میں خزاں کا رنگ دیکھا تھا اور اسے اس رنگ سے وحشت ہوئی تھی — ابو کے پاس سے ہو کر وہ اپنے کمرے میں لوٹ آئی۔ یہاں دیواروں پر بھی اُس نے دنیا بھر کے پرندوں کی تصویریں لگا رکھی تھیں۔ اب یہی اُس کی دنیا تھی — دل ڈوبتا محسوس ہوا تو کھڑکی کھول کر باہر کا جائزہ لیا — رات کے سناٹے میں جھینگروں اور پتنگوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں  — درخت پرندوں سے خالی تھا۔سامنے والی سڑک سناٹے میں ڈوبی ہوئی تھی۔

نیلے آسمان پر تیرتے ہوئے ستاروں کا جمگھٹ اُسے اچھا لگا۔ اور ان کے درمیان سے چاند کا سفر بھی اس وقت طلسمی کہانیوں جیسا لگ رہا تھا۔ اس نے ماحول سے خود کو نکالنے کی کوشش کی مگر اندر ڈر اب بھی موجود تھا۔

ایک بجلی چمکی۔۔  اور اس بجلی میں ابو کا چہرہ چمکا اور اس چہرے کے ساتھ ایک دوسرا چہرہ بھی تھا۔ امی کا فرشتوں جیسا معصوم چہرہ۔۔  ایک چہرہ جو گم ہو گیا تھا۔ ایک چہرہ جو پھر سے زندہ ہو گیا تھا —

ایک گھر، جو اب کہیں نہیں تھا۔۔

وہ گھر۔۔  گمشدہ گھر خیالوں میں موجود تھا۔ تنگ گلیوں میں آباد ایک پرانا سا مکان — اور شفقتوں والے مہربان چہرے۔۔  محبت سے آواز دیتے ہوئے ہونٹ ۔۔  صوفیہ۔۔  صوفیہ۔۔

جی امی۔۔  ابھی آئی۔۔

صوفیہ بیٹی۔۔  چائے پئے ہوئے مدت ہو گئی۔

ابو ابھی لائی۔۔

وہ دوڑ رہی ہے۔۔  یہ ننا کا کمرہ ہے۔ ننا تسبیح کے دانوں پر ہاتھ۔ پھیر رہی ہیں۔۔  یہ کلوا ہے۔۔  یہ اپیا کا کمرہ۔۔  یہ جیجو کا ۔۔  پاؤں میں رفتار سما گئی ہے۔۔  ہر کمرہ زندگی کے نور سے معمور۔۔  اور ایک لمحے میں گھر گم ۔۔  محبت بھرے چہرے گم۔۔

ایسا لگتا ہے۔۔  وہ ابھی باتیں کرتے ہیں۔ اور پھر لگتا ہے، وہ کہیں نہیں ہیں۔ وہ گھر سے زندگی تک کہیں نہیں ہیں۔ اُن تک پہنچنے والے سارے راستے مسدود۔۔  لوگ زندہ چہروں میں موت کو کیوں نہیں پڑھتے۔۔ ؟

کہ صوفیہ ابھی ہے۔۔  اور ابھی نہیں رہے گی۔۔

ابھی باتیں کر رہی ہے۔۔  اور پھر باتیں بھی وداع کی پہاڑیوں میں کھو جائیں گی۔۔  ؟موت کا ایک لمحہ سب کچھ بکھیر دیتا ہے۔۔

وہ پھر صوفیہ سے وحیدہ بن گئی۔۔  آنکھوں میں نمی آ گئی تھی۔۔  آنکھوں کو خشک کیا — ٹھیک اُسی وقت ایک چیخ سنائی دی۔

’ وحیدہ۔ جلدی آؤ۔۔ ‘

وہ تیز تیز سیڑھیاں اترتی ہوئی امی کے کمرے میں گئی تو انہیں پاگلوں کی طرح روتے ہوئے پایا۔۔

’یہ کچھ بولتے نہیں۔۔ ‘

’کیا — ‘ میں دیکھتی ہوں۔۔، وحیدہ نے سانس برابر کی۔ ابو کی طرف دیکھا۔ نبض دھیمی رفتار سے چل رہی تھی۔ اس کا مطلب زندگی موجود ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب وہ میڈیکل کرنا چاہتی تھی۔ مگر خدا کو منظور نہ تھا۔ پھر مجبوریاں حاوی ہوتی چلی گئیں۔

’نبض چل رہی ہے۔ گھبرائیے نہیں۔ انہیں فوراً اسپتال لے جانا ہو گا۔‘

’مگر کیسے۔۔ ؟‘

امی مسلسل روئے جا رہی تھیں۔ کون لے جائے گا انہیں اسپتال — پہاڑیوں پر کوئی نہیں ملتا۔ کس سے باتیں کرے گی۔؟‘

’کسی سے بھی نہیں۔ ‘

’پھر کیسے لے جائے گی ۔۔ ؟‘

’میں ہوں نا۔۔، وحیدہ کے لہجے میں اعتماد تھا۔ میں نے ڈرائیونگ سیکھی ہے۔ باہر ابو کی کار کھڑی ہے۔ میں ڈرائیو کر لوں گی۔۔ ‘

’ارے یہ پہاڑی سڑکیں ہیں۔ تو نے کبھی ان سڑکوں پر ڈرائیو نہیں کیا ہے۔‘

’امی۔ میں ہوں نا۔۔  ابو کو کچھ نہیں ہو گا۔ وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹھہریے۔ پہلے میں گاڑی نکال لوں۔ ‘

وحیدہ کے بدن میں جانے کہاں سے قوت آ گئی تھی۔ اُس نے سوچ لیا تھا، اُسے کہاں جانا ہے۔ یہاں سے دوسرے موڑ، یعنی پہاڑی کے اُس طرف پرائیویٹ اسپتال تھا۔ ڈی مورو اسپتال۔۔  گاڑی کی کنجی لے کر وہ باہر کی طرف بھاگی۔ پورٹیکو سے گاڑی نکال کر گھر کے دروازے پر لگا دیا۔ پھر امی کا سہارا لے کر ابو کو گاڑی تک لے آئی — دروازے پر تالہ لگایا۔ سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں۔ لیکن یہ لمحے قیمتی بھی تھے اور فیصلہ کن بھی۔ اور یہی صحیح ہے کہ اُس نے ان پہاڑی علاقوں میں اس سے پہلے کبھی گاڑی نہیں چلائی تھی۔ لیکن اُسے ہر موڑ کا پتہ تھا۔ گاڑی چلانے سے پہلے اُس نے امی سے صرف اتنا کہا۔

’ ابو کو کچھ نہیں ہو گا۔ آپ بھگوان کو یاد کیجئے۔ میں اللہ کو یاد کرتی ہوں۔ دعا کیجئے۔ دعا کا وقت ہے۔ ‘

گاڑی دو ایک جگہ اچھلی مگر وحیدہ نے رفتار پر قابو پا لیا۔ اور کچھ ہی دیر بعد اُس کی گاڑی ڈی مورو اسپتال کے باہر کھڑی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی اُس نے اسپتال کے گارڈس سے کہا —

’ایمرجنسی۔‘

ان راتوں میں، پہاڑیوں پر بنے اسپتالوں میں بھیڑ نہیں ہوتی۔ اتفاق سے کئی ڈاکٹر نائٹ شفٹ میں تھے۔ فوراً ناگارجن سینی کو آئی سی یو میں لے جایا گیا۔

وارڈ کے باہر امی کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔ وحیدہ بار بار دعائیں پڑھ رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کے قطرے نکل کر رخسار پر پھیل رہے تھے۔یہ آدھا گھنٹہ قیامت کا گھنٹہ ثابت ہوا۔ ڈاکٹر نے باہر آ کر بتایا۔

’ہارٹ اٹیک آیا تھا۔ مگر اب نارمل ہیں۔ ابھی ان سے کوئی نہیں مل سکتا۔ ‘

’دور سے دیکھ تو سکتی ہوں۔۔ ‘

’نہیں۔ ابھی نہیں — پوری طرح آڈٹ آف ڈینجر نہیں کہا جا سکتا۔‘

امی کو سہارا دے کر اُس نے وہاں لگے ہوئے صوفے پر بیٹھا دیا۔ وہ اکثر اپنے دل پر بھروسہ کرتی تھی۔ اُسے یقین تھا۔ ابو کو کچھ نہیں ہو گا۔ ‘

وارڈ بوائے ادھر سے ادھر جا رہے تھے۔ اسپتال میں ریسپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکی کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ وحیدہ کو احساس ہو گیا تھا کہ صبح سے اس کا دل کس بات کے لئے گھبرا رہا تھا۔ لیکن اب وہ مطمئن تھی۔۔  امی کے آنسو خشک تھے۔ وہ نظر یں جھکائے ہوئے پرارتھنا کر رہی تھیں۔۔  صبح ہوتے ہوتے ڈاکٹر نے خوشخبری دے دی کہ اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔ لیکن ابھی انہیں کچھ دن اسپتال میں ہی رہنا ہو گا۔

٭٭

 

ابو اسپتال سے گھر آئے تو دو دنوں تک اپنے خیالوں کی دنیا میں گم رہے۔ وحیدہ کو اس بات کا احساس تھا کہ شاید ابو اپنی بیماری سے ڈر گئے ہیں۔ ایک بار ہارٹ اٹیک آیا تو دوسری بار بھی آسکتا ہے۔ ممکن ہے انہیں اس بات کا احساس ہو رہا ہو کہ اب اُن کی زندگی بہت کم بچی ہے۔ مگر اُس دن جب دوپہر کے وقت۔ انہوں نے وحیدہ کو آواز دی اور وحیدہ نے ان کے خیالات سنے تو محسوس ہوا، ابو تو کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔

ناگارجن سینی نے پیار سے وحیدہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔ آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔

’مجھے کوشلیا نے سب کچھ بتا دیا۔ ان پہاڑی سڑکوں پر کسی اجنبی کے لئے ڈرائیو کرنا آسان نہیں ہوتا وحیدہ۔ مگر اس وقت جو ممکن تھا، وہ تم نے کر دکھایا۔۔  کچھ بھی ہو سکتا تھا، مگر تم کو صرف میرا خیال تھا اور اس خیال کے آگے تم چٹان کی طرح کھڑی تھی۔ میرے بچے بھی شاید اس موقع پر وہ نہیں کرتے، جو تم نے کر دکھایا۔۔ ‘

ابو۔۔ ’ اس نے بولنا چاہا۔ مگر ناگارجن نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

’آج صرف مجھے بولنے دو بیٹی۔ میری بات غور سے سنو۔ میرا بیٹا آنے والا ہے۔ سنگاپور سے۔ لیکن میں اُس کی آمد سے خوش نہیں ہوں۔‘

’کیوں ابو۔۔ ‘

’ وہ میرے لیے نہیں آ رہا ہے — اس عمر میں بیٹے اپنے ماں باپ کے لئے نہیں آتے۔ وہ آ جاتے ہیں یہی غنیمت ہے۔ اور ہم انہیں دیکھ لیتے ہیں۔ مگر وہ پیسوں کے لئے آتے ہیں بیٹی۔ ایک وقت میں یہ پیسے ماں باپ سے زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔‘

’ایسا نہیں ہے ابو۔۔  ہو سکتا ہے، وہ ایسا نہ سوچتے ہوں۔۔ ‘

ناگارجن نے وحیدہ کی بات کاٹ دی۔ ان کی آنکھیں چھت کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ کچھ سوچتے ہوئے انہو ں نے دوبارہ وحیدہ کی طرف دیکھا۔۔

’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں تم سے۔ اور امید کرتا ہوں تم برا نہیں مانو گی۔ ‘

’جی ابو۔ ‘ وحیدہ آہستہ سے بولی۔

’دیکھو بیٹی — موت ابھی، ایک جھٹکا دے کر چلی گئی۔ مگر ابھی زندہ ہوں۔ مرنے سے نہیں ڈرتا۔ذمہ داریوں کے ادھورے رہ جانے سے ڈرتا ہوں۔ بھگوان نے ایک بات صاف کر دی بیٹی۔ سوچتا تھا، رشتے آسمان میں ہی بنتے ہیں۔ رشتے اسی زمین میں بنتے ہیں۔۔  اور جو رشتے زمین پر بنتے ہیں وہ زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔۔  سنو بیٹی۔۔  دو دنوں سے یہی سوچ رہا تھا۔ میری آنکھیں بند ہو گئیں تو تم کہاں جاؤ گی؟ کیا کرو گی؟‘

’ابو ۔۔  میری فکر نہ کریں۔ یہ سب نہ سوچا کریں ابو۔‘

ناگارجن نے دوبارہ خاموش رہنے کا اشارہ کیا — ’ سنو، بیٹی، جو بات کہنے جا رہا ہوں، وہ اکیلی میری نہیں ہے۔ کوشلیا کی بھی ہے۔ کوشلیا بھی یہی چاہتی ہے۔ میری آنکھیں بند ہوئیں تو میرے بیٹے سب سے پہلے اس مکان پر قبضہ کرنا چاہیں گے۔ اب میری بات سنو۔۔  آج میں نے اپنے وکیل کو بلایا ہے۔ ‘

’جی ابو۔۔، وحیدہ کو خوف کا احساس ہوا۔ کیوں ابو؟‘

’ میرے تین بچے ہیں۔ دو بیٹے باہر ہیں۔ اور ایک تم ہو۔ میں تمہارے اور اپنے رشتے کو قانونی مضبوطی دینا چاہتا ہوں۔ میرے پیسوں پر جتنا حق میرے بیٹوں کا ہو گا، اتنا ہی تمہارا ہو گا بیٹی۔ میں ایک حصہ ابھی سے تمہارے نام نکال کر الگ کرنا چاہتا ہوں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ ان پیسوں سے تم اپنی زندگی بنانے اور سنوارنے کا کام کرو۔۔ ‘

ناگارجن خاموش ہوئے۔ وحیدہ کی طرف دیکھا۔ وحیدہ کسی پتھر کے مجسمہ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ آنکھیں اشکبار۔ لفظ گم۔۔  اُس نے نگاہیں اٹھائیں۔ ابو کہتی ہوئی ناگارجن کی بانہوں میں جھول گئی۔ پھرآنسوؤں کو خشک کیا۔ لہجے میں اعتماد پیدا کیا۔

’لیکن میں ان پیسوں کو قبول نہیں کروں گی ابو۔۔  کسی قیمت پر نہیں۔ ‘

’جانتا تھا تم یہی کہو گی۔۔  لیکن تمہیں قبو ل کرنا ہو گا بیٹی۔ ابو کہتی ہو تو بیٹی کے لئے باپ کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ ‘

’نہیں ابو۔۔  کسی بھی قیمت پر نہیں اور یہ میرا فیصلہ ہے ابو۔۔ ‘ آپ بول چکے اور میری سنیں۔۔ ‘ وحیدہ نے ہاتھوں سے اشارہ کیا — ’ میں بھی خون کے رشتے کو نہیں مانتی۔ رشتے اس دنیا میں بنتے ہیں۔ اور جو یہ رشتہ آپ سے میرا ہے، وہ ان پیسوں سے بلند ہے۔‘

’جئیے گی کیسے — ؟ ناگارجن زور سے بولے — ’ قدم قدم پر خوفناک جانور ہیں وحیدہ۔ لوگ جینا مشکل کر دیں گے۔ ‘

’نہیں کریں گے۔ آپ ہیں۔ آپ کی دعائیں ساتھ ہیں۔ اور ابو۔۔  میں نے آزمایا ہے۔۔  راستہ بن جاتا ہے۔ راستہ بننے لگتا ہے۔۔  اس رشتے میں پیسے کو نہ آنے دیجئے۔ میرے لئے یہ پیار بیش قیمت ہے۔ یہاں پیسہ آ گیا، تو میں اپنے آپ کو کھو دوں گی۔ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو پایا ہے ابو۔۔  برسوں لگے ہیں۔ ‘

اُس کی آنکھیں نم تھیں۔

کندھے پر کسی نے شفقت بھرا ہاتھ رکھا تو اُس نے پلٹ کر دیکھا۔ یہ کوشلیا تھی۔ کوشلیا کی آنکھیں بھی نم تھیں۔

’بچے ان پیسوں کی قدر نہیں کریں گے بیٹی۔ ہم نہیں ہوں گے تو ہم یاد بھی نہیں آئیں گے — ‘

’کہاں جائیں گی آپ — ؟ آپ دلوں میں رہتی ہیں امی اور آپ دلوں میں رہیں گی ہمیشہ۔ ‘

ناگارجن بستر پر لیٹ گئے۔ آہستہ سے بولے۔

’یہ بٹیا رلا دیتی ہے۔ باپ کو ذمہ داری بھی ادا کرنے سے روک دیتی ہے۔ ‘

وحیدہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔  ’کچھ بھی بول لیجئے ابو۔۔  بس موت کی باتیں نہ کیجئے۔ یہ حقیقت مجھے توڑتی ہے۔ پاگل کر دیتی ہے۔ آپ لوگوں کو کبھی کچھ نہیں ہو گا۔۔ ‘ وحیدہ کو اچانک جیسے کچھ یاد آ گیا۔۔

’وہ جھپمی آ گئی ہو گی۔ میں ابھی آتی ہوں امی‘

’جھپمی۔۔ ؟ ناگارجن چونک کر بولے۔۔ ‘

’ ایک چڑیا ہے۔ ابو۔۔  ان دنوں میری دوست وہی ہے۔ ‘

٭٭٭

 

 

 

 

 (3)

 

مجھے یہاں رہتے ہوئے اب کافی دن ہو گئے تھے۔ میں نے سوچ لیا تھا۔ اب ایک دو روز میں دلی واپس ہو جاؤں گا۔ تنہائی میں، ان کہانیوں کی کڑیاں جوڑنے کی کوشش کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے، کمال یوسف اور ناہید کی کہانی ایک ایسے انجام پر پہنچ چکی ہے، جہاں کبھی بھی کوئی دھماکہ ہوسکتا ہے۔ مگر شاید ان دونوں کو جوڑنے والی کڑیوں کا نام باشا تھا۔ باشا ذرا بھی بیمار ہوتا تو دونوں کی پریشانیاں دیکھنے کے لائق ہوتیں۔ مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ اس سفر نے میری ملاقات صوفیہ مشتاق احمد سے بھی کرا دی تھی۔ اور اس نئی نئی سی صوفیہ میں مجھے ایک خود اعتماد لڑکی کی جھلک نظر آنے لگی تھی۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ اُس روز صوفیہ یعنی وحیدہ سے دوبارہ ملاقات کا موقع ملا۔ اپنے گھر کے باہر وہ اکیلی تھی اور پتھر کے بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھی تھی۔۔  اُس دن وہ دیر تک مجھے پرندوں کے بارے میں بتاتی رہی۔ مجھے اُس نے بتایا کہ یہاں کوئی سو سے زیادہ قسمیں مسافر پرندوں کی ہیں۔۔  کچھ پرندے موسم سرما میں یہاں اپنا آشیانہ بناتے ہیں۔ اور کچھ گرمیوں کے موسم میں روس یا شمالی یوروپ کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اور کچھ پرندے صرف گرمیوں کے موسم میں آتے ہیں۔ موسم کے سرد ہوتے ہی افریقہ جیسے ملکوں کی طرف پرواز کر جاتے ہیں۔۔  جو پرندے باہر سے آتے ہیں۔ ہم انہیں مہمان پرندے کہتے ہیں۔۔

’مہمان پرندے؟‘

’میں بھی تو مہمان ہوں۔‘ اور آپ بھی — وہ مسکرائی۔۔  زیادہ تر مسافر پرندے آبی پرندے ہوتے ہیں۔۔  جیسے مرغابیاں، کونجیں۔۔  یہ زیادہ تر چھلیوں کی سطح پر نظر آتی ہیں۔۔  ہاں، خشکی پرندے کم ہوتے جار ہے ہیں۔۔ جیسے چڑیاں، ٹیٹریاں۔۔  چکور۔۔  تلور۔۔  وہ ایک بار پھر مسکرائی — پرندے سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ انہیں پنجرے میں قید دیکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ وہ اپنی آزادی سے پیار کرتے ہیں۔۔

وہ کہیں اور دیکھ رہی تھی’۔۔  میں آزادی کو سمجھ ہی نہیں سکی۔ جب سمجھنا چاہا تو دیر ہو چکی تھی۔۔ ‘ اُس نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔  اڑتے ہوئے پرندوں کا ایک غول آیا تو وہ اچانک خود کو سمیٹے ہوئے ان کی طرف بھاگی، تیز تیز ہاتھ ہلاتے ہوئے انہیں کچھ اشارہ کرتی رہی۔ پھر میری طرف مڑی۔۔

’یہ مسافر پرندے تھے۔۔  جانے کہاں سے آ ٹپکتے ہیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ کچھ تو ایک خاص موسم میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے ماریا نے بتایا تھا۔ ان میں وہ پرندے ہیں، جو اپنے گھونسلوں کے آس پاس رہتے ہیں۔۔  کتنا مزہ آتا ہو گا۔ ایک ساتھ ایک گھونسلے میں۔۔  پھر آزادی سے ہوا میں اڑتے ہوئے اپنا علاقہ چھوڑ کر کسی اور دیس میں نکل جانا۔۔  اور آپ دیکھیں، ان میں سب سے آگے ایک پرندہ ہوتا ہے، جو رہنما پرندہ کہلاتا ہے۔ باقی پرندوں کی رہنمائی کرتا ہوا۔۔ ‘

وحیدہ ایک بار پھر بجھ گئی تھی۔ رہنمائی کرنے والے کھو جائیں تو آپ کے پاس سے ایک پوری دنیا کھو جاتی ہے۔۔  ہے نا۔۔ ‘

پھر وہ دیر تک مجھے قطبی پرندے، سائبریا سے آنے والے پرندوں اور ان کی رفتار کے بارے میں بتاتی رہی۔ میں نے ایک بات خصوصی طور پر نوٹ کی۔۔  ان پرندوں کے ساتھ وہ اپنی ذات کے سفر میں رہتی ہے۔۔  مسلسل۔۔  وحیدہ ماضی کو بھول ہی نہیں پائی۔ گزرا ہوا ایک ایک لمحہ اُس میں زندہ ہے۔ جبکہ وہ یہ احساس کراتی ہے کہ وہ گزرے حالات سے واپس نکل آئی ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔

اس وقت میں بھی ایک پرندہ تھا اور ایک جوکر۔۔  میں اپنی جگہ سے اچھل اچھل کر اڑنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔ مگر وحیدہ سنجیدہ تھی۔ جب اُس کے لئے برداشت کرنا مشکل ہو گیا تو وہ آہستہ سے بولی۔

’ پلیز ایسا مت کیجئے۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ ‘

٭٭

 

اُس دن رات ہوتے ہی میں نے فیصلہ کمال یوسف کو سنا دیا۔

’میں دلی واپس جا رہا ہوں۔‘

اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دیر تک میرے چہرے کا مطالعہ کرتا رہا۔ پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔

’صورتحال ابھی بھی نازک ہے۔ اور میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس طرح کی زندگی میں کب تک اور کیسے گزار سکتا ہوں۔ اور سچ پوچھیے تو آپ کو یہاں بلانے کے پیچھے مقصد بھی یہی تھا — آپ کہانیاں لکھتے ہیں۔ ہزار طرح کی زندگیاں آپ کے سامنے آتی ہیں  — ان سے الگ ہزار طرح کی زندگیوں کا آپ تعاقب کرتے ہیں اور سایہ کی طرح پیچھا کرتے ہیں۔ مگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ آپ چاہتے ہیں، اُس سے الگ بھی کئی طرح کی انوکھی زندگیاں ہوتی ہیں، جو تحریر میں کبھی نہیں لائی جاتیں  — شاید میری دلی میں آپ سے ملاقات نہ ہوئی ہو تی تو میں آپ کو بلاتا بھی نہیں۔ آپ ایک رائٹر ہیں اور میں سمجھتا ہوں، زندگیوں کو سمجھنا، معنی نکالنا مجھ سے یا عام انسانوں سے کہیں بہتر آپ لوگ کر سکتے ہیں اور اتفاق سے آپ ناہید سے بھی مل چکے ہیں۔ اور یہ میرے لئے آسانی تھی کہ آپ کو یہاں بلایا جا سکتا ہے۔ ‘

وہ سانس لینے کے لئے رکا۔ غور سے میری طرف دیکھا۔ پھر کہنا شروع کیا۔ اور اس بارے میں جو کچھ میرے ساتھ گزرتا رہا، میں آپ کو بتاتا بھی رہا۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ ناہید پہلے ایسی نہیں تھی۔ ممکن ہے اگر ایسی ہوتی تو میں اس سے شادی ہی نہ کرتا۔ مگر اچانک اس سطح پر ایک بدلے ہوئے باغی کردار میں آ جانا میرے لئے پریشانی کا سبب ہے اور آپ بہتر جانتے ہیں کہ باشا کے ہوتے ہوئے میں اُسے چھوڑ نہیں سکتا۔۔  اب جیسے کل ہی کا واقعہ ہے۔۔ ‘

کمال یوسف ایک لمحے کے لئے رکا۔ وہ دیر تک چھت کی طرف دیکھتا رہا جیسے جملے جوڑنے کی کوشش کر ر ہا ہو۔ پھر گہری سانس کھینچ کر اس نے کہنا شروع کیا — ’ ادھر وہ ٹھیک تھی اور مجھے لگ رہا تھا، معاملات کسی حد تک قابو میں ہیں۔ کل رات کے ۱ بجے اچانک وہ اٹھ کر میرے پاس آ گئی۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اُس نے مجھے جھنجھوڑا۔ میں نے آنکھیں کھول کر اُس کی طرف دیکھا تو اُس نے کہا آنکھیں بند کر لو۔۔  میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے کچھ دیر کے لئے محسوس ہوا کہ پچھلی تمام باتوں کو بھلا کر شاید اُس کے اندر محبت کا گمشدہ جذبہ پھر سے بیدار ہو رہا ہو۔ مگر یہ میری غلط فہمی تھی۔ اچانک مجھے ہونٹوں پر کچھ پھسلتا ہوا محسوس ہوا۔۔ ‘

’ پھسلتا ہوا۔۔ ‘

’جی ہاں۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ اُس کے ہاتھ میں ایک سرخ رنگ کی لپسٹک تھی اور وہ پورے ہوش و حواس میں میرے ہونٹوں پر لپسٹک لگانے کی کوشش کر ر ہی تھی — میں زور سے چلایا۔ پاگل تو نہیں ہو گئی ہو۔ اُس کا جواب تھا، تمہیں خوبصورت بنانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ تمہارے ہونٹ سگریٹ پی کر سیاہ ہوتے جا رہے ہیں۔ میرے غصہ کا عالم یہ تھا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اس کا گلہ گھونٹ دیتا۔ یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ناہید بالکل بھی میک اپ نہیں کرتی۔ ممکن ہے میک اپ کرنا بھی اسے عورتوں کا ہی مشغلہ نظر آتا ہو اور ممکن ہے مجھے لپسٹک لگاتے ہوئے وہ میرے اندر ایک عورت کی موجودگی محسوس کر رہی ہو اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں اس قدر غصہ میں تھا۔۔  لیکن میں نے فوراً ہی خود کو سنبھالا۔ وہ ہاتھوں میں لپسٹک لیے ہوئے بالکل مردوں والے انداز میں میری طرف دیکھ رہی تھی۔

’لگا لو۔۔  اچھے لگو گے۔۔ ‘

’تم پاگل ہو گئی ہو۔ ‘

’ہو گئی ہوں۔ لیکن پھر کہتی ہوں۔ لگالو۔۔  ہونٹ خوبصورت ہو جائیں گے۔‘

’مرد اپنے ہونٹوں پر لپسٹک نہیں لگاتے۔۔ ‘

وہ زور سے ہنسی — ’ تم کب سے مرد بن گئے — اور یہ بار بار خود کو مرد کہنا بند کرو گے یا نہیں۔ میں کہتی ہوں۔۔  دو منٹ بھی نہیں لگیں گے۔ میری بات مان لو۔۔ ‘

میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ اور دیر تک غصے سے اس کی طرف دیکھتا رہا اور اس درمیان وہ مسکراتی ہوئی میری طرف دیکھتی رہی۔

’کمال۔ تم پہلے میری ہر بات مان لیتے تھے۔ اب تم میں ضد آ رہی ہے اور تم جانتے ہو، تمہاری ضد میں پسند نہیں کرتی۔۔

’یہ ضد نہیں ہے۔‘

’پھر کیا ہے کمال۔ بس ایک فرمائش ہی تو ہے۔ چھوٹی سی فرمائش۔ تم ان فرمائشوں کو بھی پورا نہیں کر سکتے۔؟ ‘

’میں نے تمہاری کئی ایسی فرمائشیں پوری کی ہیں۔ لیکن اب تمہاری ایسی کوئی فرمائش پوری نہیں کروں گا۔‘ میں زور سے ہنسا۔’ چلو۔ خوش ہوں۔ تم اپنے لئے ایک لپسٹک تو لائی۔ تمہارے ہونٹ خوبصورت ہیں۔ رس سے بھرے ہوئے۔۔ ‘ میں اسے جلانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔  اور یہ جو تمہارے ہونٹ اوپر تک ابھرے ہوئے ہیں نا۔۔  یہی ہونٹ میرے آئیڈیل ہیں۔۔  یہاں گوشت کا گودا زیادہ ہے۔ رس سے بھرا۔۔  غور سے ان جگہوں پر دیکھو تو بیشمار سرخ لکیریں ملتی ہوئی مرد کے جوش جذبات کو بر انگیختہ کرتی ہیں اور بیساختہ بوسہ لینے کی خواہش ہوتی ہے۔۔ ‘

وہ زور سے چیخی۔‘ تم پرورٹیڈ ہو۔ ذہنی مریض ہو۔ تمہیں ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہے۔‘ وہ پھر چیخی۔ میں آخری بار کہتی ہوں، لگا لو۔۔  ورنہ۔۔ ‘

’ ورنہ کیا۔۔ ‘ میں نے بھی غصہ سے اُس کی طرف دیکھا۔ اور اس بار ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھوں سے لپسٹک چھین لیا۔ کھلی ہوئی لپسٹک کے سرخ رنگوں نے میری انگلیوں پر اپنے نشانات چھوڑ دیے تھے — میں نے لپسٹک کو غصے میں کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔۔  مجھے یقین تھا وہ مجھ پر چلائے گی، کاٹنے کو دوڑے گی۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ کم از کم دس منٹ تک وہ اپنی جگہ پر پتھر کا بت بنی بیٹھی رہی۔ پھر میں نے دیکھا — واش بیسن پر جا کر اُس نے اپنے چہرے کو دھویا۔ ممکن ہے ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے اندر کے غصے کو خارج کر رہی ہو۔ کچھ دیر بعد وہ بستر پر آئی اور سر تک چادر کھینچ لی۔‘

کمال نے میری طرف دیکھا — ’ مجھے ابھی بھی لگتا ہے اُس کا غصہ کم نہیں ہوا ہے۔ وہ کسی دن کوئی اور فرمائش کے ساتھ  میرے سامنے آسکتی ہے۔ لیکن اب میں نے بھی سوچ لیا ہے، میں اس کی ایسی کوئی فرمائش پورینہیں ہونے دوں گا۔ ‘

اُس نے آہستہ سے کہا — ’ کیونکہ اب اُس کی ہر فرمائش میری مردانگی سے ہو کر گزرتی ہے۔ اور مجھے پریشان کر جاتی ہے۔‘

کمال یوسف نے بے بسی سے میری طرف دیکھا — ’ کیا آپ بتائیں گے کہ ان صورتوں میں مجھے کیا کرنا چاہئے، یا کیا قدم اٹھانا چاہئے۔ ؟‘

میں کچھ دیر تک سوچتا رہا۔ ظاہر ہے میں کسی ایسے قدم کے بارے میں نہیں کہہ سکتا تھا، جو کمال کی ازدواجی زندگی کے لئے خطرہ پیدا کرے۔ کیونکہ بکھرتے ہوئے گھر کو بچانا بھی میری ذمہ داری تھی۔ لیکن مشکل یہ تھا کہ ناہید نے زندگی کا جو راستہ اختیار کیا تھا، وہاں کمال کتنے دنوں تک خود کو روک سکتا تھا — اور ایسی صورت میں جب بقول کمال، مسلسل اُس کی مردانگی پر ضرب پہنچانے کی کوشش کی جار ہی ہو —

’ مردانگی — ؟‘

میری سوچ با ر بار اسی مقام پر آ کر ٹھہر جاتی تھی۔ فرض کیجئے اگر کمال اس پورے معاملے کو مردانگی سے نہ جوڑتا تو کیا یہ معاملہ اتنا سیریئس ہوسکتا تھا — ؟ مثال کے لیے میں کچھ دیر کے لئے اس پورے معاملے کو الٹ دیتا ہوں۔ رات کے کسی لمحے ایک شوہر محبت سے اپنی بیوی کو مرادنہ لباس پہننے کو کہتا ہے —

فرض کیجئے شوہر مردانگی کے تصور سے کھیل کے بہانے اپنی بیوی کے وجود میں ایک مرد دیکھنے کا خواہشمند ہوتا ہے تو کیا بیوی کا وہی رد عمل ہو گا، جو کمال یوسف کا ہوا؟ کیا اس سے عورت کے ’عورت پن‘ پر اتنی ہی چوٹ پڑتی، جتنی چوٹ کمال کی مردانگی پر پڑی؟ جبکہ دوسرے مردوں کے مقابلہ میں کمال یوسف کی شخصیت میں صبر بھی ہے اور برداشت کا مادہ بھی۔ پھر اگر ایک شریف خاندانی مرد جو اپنے ازدواجی رشتہ کو بکھرنے سے روکنا چاہتا ہے، اگر وہ مردانگی میں آنچ آنے سے اس قدر متشدد ہوسکتا ہے تو عام مرد کی فکر کیا ہو گی — ؟ جہاں تک میرا خیال ہے، کسی عورت کا رد عمل اتنا گہرا نہیں ہو گا، جو اس وقت کمال یوسف کا تھا اور میں اُس کی شخصیت کو مردانگی کے آئینہ میں بکھرتے ہوئے دیکھ رہا تھا — اور ناہید ناز کی بات پختہ ہوتی جا رہی تھی کہ مرد ہر جگہ اپنی مردانگی کو سامنے رکھ دیتا ہے۔ صدیوں میں اسی مردانگی کو ڈھوتے ہوئے مردوں نے عورت کو استعمال بھی کیا اور اس کا استحصال بھی۔ اور بدلے ہوئے وقت اور حالات میں بھی وہ اسی مردانگی کو ڈھوئے جا رہا ہے —

میں نے کمال کو مشورہ دیا کہ جیسے اس نے اتنے دنوں تک صبر اور ہمت سے کام لیا، ویسے وہ کچھ اور دن انتظار کرے۔ ممکن ہے آنے والے وقت میں صورتحال بہتر ہو جائے — اس لیے کہ باشا کی موجودگی میں بہتر یہ ہے کہ خاندان کو بکھرنے سے روکا جائے۔ وہ کچھ دیر تک سرہلاتا رہا۔ جیسے اُس کی بھی سوچ یہی ہو۔

اب یہاں میرا کام ختم ہو گیا تھا۔ مجھے دلی کے لئے روانہ ہونا تھا لیکن میرا دل بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ مجھے بہت جلد ان وادیوں میں دوبارہ آنا ہو گا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ کچھ اس سے بھی خوفناک صورتحال پیدا ہونے والی ہے — مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ ایک بار پھر وقت نے ایک نئی اور خوفناک کہانی کے لئے میرا انتخاب کیا ہے۔ اور اس کہانی کو قارئین تک پہنچانا میرا فرض ہے۔

 

میں جب روانہ ہوا تو میری آنکھیں ناہید اور صوفیہ کو تلاش کر رہی تھیں۔ لیکن یہ اتفاق تھا کہ ناہید گھر میں موجود نہیں تھی۔ میں سفری بیگ لے کر باہر آیا تو یقین تھا کہ صوفیہ پرندوں کو تلاش کرتی ہوئی کہیں نہ کہیں مل جائے گی۔ لیکن چلتے ہوئے صوفیہ سے ملاقات نہ ہونے کا بھی مجھے افسوس رہا —

٭٭

 

میں نینی تال سے دلی آ گیا — —

دلی کی مصروفیات اور شب و روز میں، کچھ دنوں تک اس کہانی کو بھول گیا — مجھے یقین تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہو گا — مگر اندر سے ایک آواز کبھی کبھی ٹھہر ٹھہر کر مجھ پر حملہ کرتی تھی کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے کمال یوسف سے فون پر رابطہ کرنا چاہئے۔ مگر میں نے جان بوجھ کر رابطہ نہیں کیا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر ایسی کوئی آفت دوبارہ آئی تو کمال مجھے فون ضرور کریں گے —

اس درمیان چھ ماہ گزر گئے۔

ایک دن اچانک۔ مجھے فون پر کمال یوسف کا پیغام ملا۔

’فوراً آ جائیے — کہانی بھیانک ہو گئی ہے۔ زندگی میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ آپ کا آنا ضروری ہے۔‘

پیغام میں کسی بھی بات کی وضاحت نہیں کی گئی تھی۔ لیکن اب میرا دوبارہ نینی تال جانا ضروری ہو گیا تھا — اور مجھے یقین تھا کہ ان وادیوں میں ایک نئی کہانی میرا انتظار کر رہی ہے —

٭٭٭

 

 

 

بارشِ سنگ

 

 

 

In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.

 

 

 

 

 

(1)

 

نینی تال کے لئے دوبارہ نکلتے وقت کمال یوسف کے پیغام کا آخری جملہ مجھے بار بار پریشان کر رہا تھا۔ زندگی میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔۔ ‘ میں چاہتا تو فون پر یہ باتیں اس سے دریافت کر سکتا تھا۔ مگر وہاں پہنچنے تک میں اپنے تجسس کو قائم رکھنا چاہتا تھا۔ آخر زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہو گی — ؟ لیکن اُس سے پہلے ایک جملہ اور تھا — کہانی بھیانک ہو گئی ہے — دلی آئے ہوئے چھ مہینے گزر چکے تھے۔ کیا صرف ان چھ مہینوں میں بہت کچھ تبدیل ہو گیا — ؟ جیسا کہ کمال یوسف نے لکھا، کہانی بھیانک ہو گئی ہے۔ میں بار بار اس جملے پر آ کر رک جاتا تھا۔ آخر اس درمیان ایسی کیا بات ہو گئی ہو گی کہ کمال یوسف یہ لکھنے پر مجبور ہوا — نینی تال کی ہوشربا وادی میری نظروں کے سامنے تھی۔ میں کچھ لمحے کے لئے کمال یوسف، ناہید اور صوفیہ مشتاق احمد کی کہانیوں سے الگ قدرتی مناظر میں کھو جانا چاہتا تھا۔ مجھے ایک انگریزی نظم کی کچھ لائنیں یاد آ رہی تھیں۔

’یہاں جو کچھ ہے تمہارے لئے ہے؍

تمہاری آنکھوں کے لئے؍

اور جو کچھ تم سمیٹ سکتے ہو؍

وہ تمہارا ہے۔ ‘

میں نہیں جانتا، میں نے کچھ سمیٹنے کی کوشش کی یا نہیں۔ سمیٹنا چاہا تو ناہید ناز کی کہانیوں کے صفحے کھل جاتے۔

’ایک دن اس سر زمین پر

عورت نہیں ہو گی؍

ایک دن سبزہ سے خالی ہو جائے گی زمین؍

پھر ایک دن

مرد بھی نہیں ہوں گے؍‘

اور  — کسی نے کہا تھا — سب سے پہلے عورتیں رخصت ہوں گی اس سرزمین سے۔ مرد وحشی اور درندے ہو کر اپنا ہی لہو بہاتے ہوئے نظر آئیں گے — حقیقت یہ ہے کہ دلی کے ان چھ مہینوں میں، میں ناہید ناز کی زندگی کے خوفناک ترین صفحوں سے بندھ کر رہ گیا تھا — اور جیسا کہ ناز نے اپنی کہانی سناتے ہوئے غصے سے کہا تھا۔۔  عورت ہر بار ایک جسم ہوتی ہے۔ عورت ہر بار ایک آگ ہوتی ہے۔ میں عورت کے وجود سے یہ جسم کھینچ لینا چاہتی ہوں۔۔  میں مرد کو ایک جسم بنانا چاہتی ہوں۔۔  جیسے مرد ہر بار یہ سوچے کہ وہ مرد کم ایک جسم زیادہ ہے، جیسے آنکھیں کھولتے ہی لڑکیاں۔۔  اور لڑکیوں سے بنتی عورت ہر لمحہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ وہ لڑکی یا عورت بعد میں ہے۔۔  پہلے ایک جسم ہے۔ اور مرد اس جسم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑا کرتا ہے۔ اسے اذیت دیتا ے۔ اس کی جسمانی کمزوریوں پر حاوی ہوتا ہے۔۔ ‘

’لیکن جسم تو مرد کے پاس بھی ہوتا ہے؟‘

’نہیں — ‘ وہ پہلے چیخی پھر زور سے ہنسی تھی۔۔  جسم کہاں ہوتا ہے، وہ تو کچا پکا لوہا ہوتا ہے۔۔ ‘ وہ کہتے کہتے اپنے ہی الفاظ کی کشمکش میں گم تھی۔۔  لوہا نہیں۔۔  مگر مرد اسے جسم نہیں سمجھتا۔ جسم تو بس عورت کوسمجھتا ہے۔۔  گوشت خور۔۔ ‘

مجھے یاد ہے، اُس وقت وہ دور کہیں، کھڑکی کے اُس پار دیکھ رہی تھی۔۔  میں اُس کے لفظوں کی یورش میں گم تھا۔ مرد کے پاس جسم کہاں ہوتا ہے۔۔  میں نے خود کا جائزہ لیا۔۔  آنکھوں کے آگے مردانہ علاج سے لے کر کنڈوم تک کے اشتہارات گھوم گئے۔ ناز جو کچھ کہہ رہی تھی وہ ممکن ہے ناز جیسی عورتوں کے لئے نفسیات کا ایک پہلو ہو، مگر ہزار ایسی عورتیں بھی ہیں اور ان اشتہاروں میں بھی، جو مردانہ جسم کو ہوس بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ اشتہار سہی، لیکن مرد کو بھی کہیں نہ کہیں عورت ایک جسم کے طور پر دیکھتی ہے۔ مگر بقول ناز، مردوں کے پاس جسم کہاں ہوتا ہے — اور اُس کی جنگ اس بات سے بھی تھی کہ مرد جب دیکھتا ہے تو لڑکی یا عورت غائب ہو جاتی ہے اور محض اُس کی جگہ ایک جسم ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ پہلو بھی اُسی نفسیات سے وابستہ ہو، ناز نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں اور مسلسل جبر برداشت کرتی ہوئی وہ مردوں سے نفرت کرنے لگی تھی —

٭٭

 

اس بار نینی تال کی فضا بدلی ہوئی معلوم ہوئی۔ درختوں پر بھی خوشحالی کی جگہ ویرانی کا احسا س ہوا۔ گھر میں میرا استقبال کمال یوسف نے کیا مگر اُس کے چہرے کے تاثرات سے ایسا لگا جیسے وہ ان لمحوں میں کسی کشمکش سے گزر رہا ہو اور مجھے دیکھ کر تھوڑا پریشان بھی ہے۔

وہ آہستہ سے بولا’۔۔  سب کچھ بدل گیا ہے۔۔ ‘

’ ہاں۔ مجھے احساس ہو رہا ہے۔۔ ‘

پھر اُس نے بہت پیار سے آواز دی’۔۔  صوف۔۔ ‘

اور اب میرے چوکنے کی باری تھی۔ بیڈ روم سے ناہید کی جگہ شلوار اور جمپر میں ملبوس صوفیہ بھاگی ہوئی آئی تھی۔ مجھے جلد ی سے سلام کرنے کے بعد وہ وحشت  زدہ انداز میں کمال کی طرف مڑی۔

’تم ٹھیک تو ہو۔۔ ؟‘

’ہاں کیوں ؟‘

’ تم نے اتنی زور سے آواز دی۔۔  میں تو پریشان ہو گئی۔‘

’مہمان آئے ہیں۔۔ ‘

صوفیہ نے جلد ی سے کمال کا ہاتھ چھوڑا۔۔  ’ میں ابھی چائے بنا کر لائی‘ کہتی ہوئی اندر کمرے کی طرف غائب ہو گئی —

میں نے سفری بیگ بستر پر رکھ دیا۔ اب میں کمال کی طرف دیکھ رہا تھا —

’سب کچھ بدل گیا ہے۔۔ ‘

’ہاں۔‘

’شاید سب کچھ بدلنے کے لئے ہی ہوتا ہے۔۔ ‘

’شاید۔۔ ‘

’ چائے پی لو۔۔  پھرتم سے دریافت کروں گا کہ یہ سب کیسے ہوا۔۔ ‘

 

یہ وہی کمرہ تھا جہاں میں پہلے بھی ٹھہرا ہوا تھا۔ مگر اب یہ کمرہ مختلف تھا۔ دیواروں کے رنگ تک تبدیل ہو گئے تھے۔ بستر پر خوشنما چادر بچھی تھی۔ مجھے صوفیہ کو دیکھ کر حیرانی تھی۔ اور خاص کر جس طرح وہ کمال کے آواز دینے پر بھاگ کر آئی تھی، یہ بات مجھے پریشان کر رہی تھی۔۔  وہ مکمل طور پر ایک بدلی ہوئی صوفیہ تھی۔

چائے پینے کے بعد میں نے کمال کی طرف دیکھا۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا باہر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ مڑا اور بستر کے قریب والے صوفے پر بیٹھ گیا۔

’ کہاں سے سناؤں ؟‘ وہ ابھی بھی کشمکش میں تھا۔

’ ناہید کہاں گئی؟‘

’چلی گئی۔‘

’ کہاں ؟‘

’یہ ہمیں بھی نہیں معلوم۔۔ ‘

’ لیکن یہ کب ہوا؟‘

’جب آپ گئے تھے، اُس کے کچھ ہی دنوں بعد —

’اوہ۔۔ ‘ میرے لئے شا کنگ نیوز تھی — لیکن ابھی میں جان بوجھ کر ناہید کے معاملے کو طول نہیں دینا چاہتا تھا۔ ابھی سب سے پہلے مجھے صوفیہ کے بارے میں پوچھنا تھا۔ ناہید کے بارے میں مجھے حیرانی تھی۔ آخر وہ اس طرح کیسے جا سکتی ہے — جب میں نے اس کا اظہار کمال یوسف سے کیا تو اُس نے لمبی سانس لی۔ میری طرف دیکھا۔۔

’مجھے خود حیرانی ہے۔ ‘

’باشا کہاں ہے؟‘

باشا صوفیہ کے پاس رہتا ہے۔ صوفیہ باشا میں اتنی گھل مل گئی ہے کہ اب اُسے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘

’ہونہہ — ‘ میرے اندر کشمکش چل رہی تھی۔ میں نے غور سے کمال یوسف کے چہرے کا جائزہ لیا۔

’ تم نے اسے تلاش نہیں کیا۔۔ ‘

’ کیوں نہیں کیا۔ سب جگہ کیا۔ پولس میں رپورٹ لکھوائی۔ مگر۔۔ ‘

وہ آگے بولنا چاہتا تھا مگر میں نے اسے روک دیا۔

’ ابھی ناہید کی کہانی روک دو۔ ہم اس کہانی پر بعد میں آئیں گے۔ ابھی میری دلچسپی صوفیہ میں ہے۔ صوفیہ یہاں کیسے — ؟ ویسے کچھ معاملات تو میری سمجھ میں آنے لگے ہیں۔ مگر یہ سب اچانک۔۔ ‘

’ یہ سب اچانک ہی ہوا۔ ‘ کمال یوسف کی نگاہیں کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

’یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ جب ناہید جا چکی تھی۔ ہم اُسے تلاش کرتے ہوئے پریشان ہو چکے تھے — پولس کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہے — مجھے افسوس ہے لیکن شاید ناہید نے خود ہی یہ خوفناک راستہ اپنے لئے منتخب کیا تھا — پولس کا خیال تھا، پہاڑیوں سے کود کر اُس نے جان دے دی۔ ایسی وارداتیں یہاں اکثر ہوا کرتی ہیں۔۔  میرے لئے مشکل یہ تھی کہ میں باشا کی پرورش کیسے کر پاؤں گا — ؟ وہ بھی اکیلے۔۔

باشا۔۔  مجھے تعجب تھا۔ ناہید نے باشا کے بارے میں کیوں نہیں سوچا۔۔  اچانک ناہید کا غائب ہو جانا۔ مجھے یہ پوری کہانی ہی پر اسرار نظر آ رہی تھی۔۔  میں غور سے کمال کا چہرے پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’تو ناہید ایک دن اچانک چلی گئی۔۔ ؟‘

’ اچانک نہیں۔‘

’کوئی حادثہ ہوا تھا — ؟‘

’ہاں۔۔  وہ میں آپ کو بتانے والا تھا۔۔ ‘

’ نہیں۔۔  ابھی اُس حادثے کے لئے رک جاؤ — تو ناہید چلی گئی اور تم نے اُس کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اور پولس کا بھی یہی خیال تھا کہ کوئی پہاڑی سے کود کر جان دے دے تو یہاں لاشیں برامد کرنا آسان نہیں۔‘

’ہاں۔‘

اور تم نے سوچ لیا کہ اُس حادثے کے بعد، یعنی جو تم مجھے آگے بتاؤ گے، اُس کے بعد ناہید نے اچانک گھر چھوڑ دیا۔ اور اتنا بڑا فیصلہ۔‘

’ہاں۔‘

’ میں یہی بات ماننے کو قطعی تیار نہ تھا۔ یعنی ناہید جیسی لڑکی جو زندگی کے اتنے سرد و گرم کو قریب سے دیکھنے کے بعد بھی زندہ رہی، اتنا خوفناک فیصلہ کیسے کر سکتی تھی — ؟ اگر اُس نے یہی فیصلہ کیا تھا تو اس کی زندگی میں پہلے بھی ایک ہزار مواقع آئے ہوں گے جب وہ اس قسم کا فیصلہ کر سکتی تھی — پھر اُس نے ان لمحوں میں یہ فیصلہ کیوں نہیں کیا — ؟کیا شادی سے پہلے کی بغاوت اور شادی کے بعد کی زندگی اور بغاوت میں فرق ہوتا ہے — ناہید کا چہرہ آنکھوں کے پردے پر لہراتا تو احسا س ہوتا، ناہید ایسا نہیں کر سکتی۔ مگر کمال یوسف کی باتوں پر بلا وجہ شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی میرے پاس۔ اس درمیان گفتگو کرتے ہوئے ہم چھت پر آ گئے تھے۔

کمال گہری سوچ میں ڈوبا تھا۔ ظاہر ہے، ناہید کے ساتھ ایک لمبا ساتھ رہا تھا۔ کچھ موقعوں پر اُس کے لہجے کی تھرتھراہٹ بھی میں نے محسوس کی تھی۔ چھت سے نیلا آسمان جھانک رہا تھا۔ دور تک پہاڑیاں اور جھیلیں نظر آ رہی تھیں۔ یہاں شہر کسی حسین ساحرہ کی طرح نظر آ رہا تھا۔ دلکش بھی۔ دلفریب بھی۔ اور یہ وہی لمحہ تھا جب تیز تیز بھاگتی اور سانسوں کو برابر کرتی صوفیہ مشتاق احمد ہماری تلاش میں چھت پر آ گئی تھی۔ کمال کو دیکھ کر اس کے وحشت بھرے چہرے پر ایک چمک پیدا ہوئی۔ آگے بڑھ کر ٹھیک اُسی انداز میں اُس نے کمال کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا —

’کیوں چلے جاتے ہو بغیر مجھ سے کچھ کہے۔۔ ‘

کمال ہنسا — ’ ارے ہم چھت پر آئے تھے۔ اپنے ہی گھر میں ہیں۔‘

’کہیں بھی ہو۔ بتا کر آنا چاہیے نا۔۔ ‘ وہ چوری سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ ایسے مت جایا کرو کمال۔۔  تم جانتے ہونا، میں پریشان ہو جاتی ہوں۔۔ ‘

’کیوں ہوتی ہو‘۔۔  کمال مسکرایا۔۔

’ میں نے پہلے بیڈ روم دیکھا۔ تم وہاں بھی نہیں تھے۔ برآمدے میں گئی۔ وہاں بھی نہیں۔ دیکھو۔۔  میرا دل ابھی بھی کا نپ رہا ہے۔۔ ‘ وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔۔

کمال نے مسکرانے کی کوشش کی۔’ صوف۔۔  تم ابھی جاؤ۔ ہم لوگ کچھ سیرئس باتیں کر رہے ہیں۔ ‘

’چائے لاؤں ؟‘

’نہیں رہنے دو۔۔ ‘

دیکھو۔’’یہیں رہنا۔ بغیر مجھے بتائے کہیں مت جانا۔۔ ‘

آخری جملہ کہہ کر میری طرف ندامت سے دیکھتے ہوئے وہ واپس لوٹ گئی تھی — میں جاتے ہوئے اُس جگہ کو دیکھتا رہا، جہاں سے ابھی ایک سکنڈ، کچھ لمحہ پہلے وہ اوجھل ہوئی تھی۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیا ہے۔ مگر میں کمال یوسف سے جاننے کا خواہشمند تھا اور جاننے کے درمیان ناہید ناز کی یہ خوفناک کہانی سامنے آ گئی تھی۔

میں نے کمال کی طرف دیکھا۔۔  ہاں تو تم بتا رہے تھے۔۔  ناہید چلی گئی۔۔  اور تم نے تلاش کر نے کی کوشش بھی کی — مائی گاڈ۔ اتنا بڑا حادثہ۔۔  زندگی سے ناہید جیسی کسی عورت کا اس طرح گم ہو جانا ۔۔  کیا تمہیں لگتا ہے، یہ ایک بھول جانے والا حادثہ ہے؟ تم اس کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ باشا کی ماں تھی۔ تمہاری بیوی تھی۔۔  تم نے لو میرج کی تھی۔۔  کیا اس کا گم ہونا صرف ایک حادثہ تھا؟مجھے معاف کرنا کمال۔۔  مجھے لگا کہ تم دیوانوں کی طرح اسے تلاش کرتے۔۔

’’میری کوشش اسی طرح کی تھی — اس کی آواز کمزور تھی۔ مگر جانے سے پہلے۔۔  آپ نہیں جانتے۔۔ ‘ اس کی آواز ایک بار پھر بجھ گئی تھی۔ اُس نے مجھے وہ مینٹل اسٹروک دیا تھا کہ ۔۔  وہ لمبی سانسیں لے رہا تھا۔۔  ہاں یہ سچ ہے کہ اُس کے جانے کے بعد اس کو لے کر میں زیادہ اذیت سے نہیں گزرا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اُس نے محبت کے لئے میرے دل میں کہیں کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی۔ کمال یوسف تھوڑی دیر کے لئے رکا اور جیسا کہ آپ دیکھ چکے تھے۔۔  میں آہستہ آہستہ ناہید سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس ویرانی اور خزاں میں صوف کی موجودگی  مجھے خوش کرتی تھی۔۔  اور میں بھی یہ محسوس کر رہا تھا کہ میری موجودگی میں صوف تھوڑا سا پریشان ہو جاتی ہے۔ اور شاید ناہید آہستہ آہستہ اس حقیقت کو سمجھنے لگی تھی۔۔

’کبھی اُ س نے اس بارے میں کچھ پوچھا؟‘

’نہیں۔ ‘

پھر ممکن ہے، یہ محض تمہارا خیال ہو۔۔ ‘

’ہو سکتا ہے۔۔ ‘

’ پھر کیا ہوا؟‘

’ اس دن رات کے دو بجے ہوں گے۔ لاجو جا چکی تھی اور اُس کی بہن رکمنی واپس آ گئی تھی۔ وہی باشا کو سنبھالتی ہے۔۔ ‘

وہ کہتا کہتا رکا۔ میں نے غور سے کمال کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔  مجھے لاجو کی یاد آ گئی۔ برساتی ندی کی طرح اپنے حق پر قبضہ کرنے والی۔ مجھے وہ منظر یاد آ گیا، جہاں وہ دیوانگی کے عالم میں کمال کے ہونٹوں کا بوسہ لے رہی تھی۔۔

’لاجو کیوں گئی ؟ میں نے پوچھا۔

’ناہید نے اُسے نکال دیا۔ اور اُس کی بہن کو واپس بلا لیا۔ ‘

’کیا ناہید نے کچھ دیکھا تھا۔۔ ؟‘

’شاید نہیں۔‘

کیا ناہید کو کچھ شک ہوا تھا۔۔ ؟‘

’نہیں۔ ‘

’پھر اچانک۔‘

وہ ہماری گورینس رُکمنی کی جگہ تھی۔ رکمنی آنے والی تھی۔ اس کا فون آ گیا تھا۔ مگر اس سے ایک دن پہلے ہی ناہید نے لاجو کو بلا کر جانے کے لئے کہا۔ ناہید نے کہا۔۔  تم باشا کے حصے کا دودھ پی جاتی ہو۔۔  لاجو نے حیرت سے کہا۔۔  میں دودھ تو پیتی ہی نہیں۔۔  ناہید نے چیخ کر کہا۔ زبان مت لڑاؤ۔ تم باشا کا حق چھین رہی ہو۔ اور میں تمہیں یہ حق چھیننے نہیں دوں گی۔‘

’کیا تم کو بھی لگتا ہے کہ لاجو ایسا کرتی ہو گی؟‘

’لاجو کو باشا کے حصے کا دودھ پینے کی کیا ضرورت تھی؟

’مجھے نہیں لگتا۔ میں لاجو کو جانتا تھا۔ وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ یا وہ ایسا کوئی کام نہیں کر سکتی تھی کہ ناہید اُسے ہٹانے کے بارے میں سوچ سکے۔‘

میں نے غور سے کمال کی طرف دیکھا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ محبت نے کہاں کہاں خاموشی سے اپنی بستیاں آباد کر رکھی ہیں۔

’ کیا لاجو مل کر گئی تھی؟‘

’مجھ سے۔؟‘

’ہاں۔‘

’ اتفاق سے میں اُس دن گھر میں ہی تھا۔ میں اتنا جانتا تھا کہ اُس نے ناہید سے زیادہ باتیں نہیں کی ہوں گی۔ میں نے خود کو باتھ روم میں بند کر لیا تھا۔ میں جانتا تھا، لاجو کی نگاہیں مجھے تلاش کرنے کی کوشش ضرور کر رہی ہوں گی۔ جب مجھے احساس ہوا کہ وہ جا چکی ہے۔ پھر میں اپنے کمرے میں واپس لوٹا۔

میری الجھن یہ تھی کہ ناہید نے لاجو پر جھوٹا الزام کیوں لگایا۔ وہ بھی ایک معمولی سا الزام۔ میں پھر کہانی پر لوٹ آیا تھا۔

’ہاں تم بتا رہے تھے کہ اُس رات۔۔ ‘

کمال یوسف نے میری طرف دیکھا — ’ وہ ایک خوفناک رات تھی۔۔  بہتر یہ ہے کہ میں آپ کو وہ پورا منظر دکھا دوں۔۔  کیونکہ اسی رات سے میری زندگی کا نیا سفر شروع ہوتا ہے۔‘

اس کی آنکھیں بند تھیں۔ کچھ دیر تک وہ اپنے خیالوں میں گم رہا۔ جیسے ماضی کی چھک چھک کرتی ہوئی ریل اس کی نگاہوں کے آگے سے گزر رہی ہو۔

٭٭٭

 

 

 

(2)

 

سالوے پوائنٹ سے لے کر ہائی وے تک جاتی ہوئی سڑک تک سناٹا ہی سناٹا  تھا۔ کمال یوسف کی مشکل یہ تھی کہ ان دنوں زیادہ تر خود کو دوسرے کاموں میں بہلانے کی کوشش کرتا — تنہا ہوتا تو ناہید کا خیال، یادوں کی کشتی کا بادبان کھولے اسے ڈرانے آ جاتا۔ وہ ابھی تک پولس اور قانون کی دسترس سے پوری طرح باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ مگراس معاملے میں بہت حد تک صوفیہ کے کہنے سے ناگارجن سینی نے اس کی مدد کی تھی۔ اُن کے کئی جاننے والے پولس میں بڑے عہدوں پر تھے۔ ایک تو پولس کمشنر ہی تھے، جو پہلے ہردوئی میں تھے۔ اور اکثر ان کے گھر آیا کرتے تھے۔ عام طور پر اس طرح کے معاملات میں ایک شوہر شک کے گھیرے میں ہوتا ہے۔ پولس کو یہ بات سمجھانے میں پریشانی ہوئی کہ جب اُس پر نفسیاتی دورے پڑتے تھے تو وہ ڈاکٹر کے پاس لے کر کیوں نہیں گیا — پولس نے جب آپسی تعلقات کے بارے میں جانا تو شک کی سوئی مزید گہری ہو گئی۔ لیکن تفتیش اور کھوج بین کے دوران کسی لاش کا نہ ملنا بھی اُس کے حق میں رہا — جیسے ناگارجن سینی کا کہنا تھا کہ کوئی ضروری نہیں ہے، اُس نے کسی پہاڑی پر چڑھ کر چھلانگ ہی لگائی ہو۔ ممکن ہے وہ کہیں چلی گئی ہو اور ممکن ہے وہ واپس آ جائے۔ لیکن واپس آنے کی بات پر کمال مطمئن تھا۔ جن حالات میں اورجس طریقے سے ناہید گئی تھی، وہ جانتا تھا، وہ واپس نہیں آئے گی — اب دو سوال تھے جن کا جواب اُسے آسانی سے نہیں ملا۔ ناہید کیوں گئی؟ اور ناہید نے جانے کے لئے اُس آخری حادثے کا انتخاب کیوں کیا۔۔  ؟معاف کیجئے گا، اس آخری حادثے کی رپورٹ قارئین کو بعد میں دی جائے گی۔ ایک سوال اور بھی تھا کہ کیا ناہید نے واقعی کسی پہاڑی سے چھلانگ لگایا ہو گا — ؟ رشتوں کی تلخی کے باوجود اس حادثے پر غور کرنا کمال کے لئے آسان نہ تھا۔ اس دوران ان واقعات کا سب سے زیادہ اثر صوفیہ پر ہوا تھا۔ اور صوفیہ برابر اس کے گھر آنے لگی تھی۔ باشا کو دیکھنا۔ رکمنی کے ساتھ مل کر چائے اور کھانا بنا دینا۔۔  کئی بار ناہید کو یاد کرتے ہوئے اس نے صوفیہ کو آنسو بہاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ مگر حقیقت یہی تھی کہ ناہید چلی گئی تھی — اور ناہید کا آنا ممکن نہیں تھا — کم و بیش وہ یہی سوچتا تھا۔ وہ صوفیہ کی بڑی بڑی گہری آنکھوں میں ڈوب جاتا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ ناہید کی موجودگی میں ہی وہ صوفیہ کی طرف اپنی بڑھتی کشش کو محسوس کرنے لگا تھا۔ صوفیہ کو خوف اس بات سے تھا کہ اب کیا کرو گے۔۔ ؟

وہ معصوم صورت بنا کر پوچھتی۔ تمہیں کھانا کون دے گا؟

’رکمنی ہے نا۔۔ ؟

’ رکمنی کب تک دے گی۔۔ ؟‘

’ نہیں جانتا۔ ‘

’ باشا کی دیکھ بھال کون کرے گا — ؟‘

’نہیں جانتا۔ ‘

’ اتنی لمبی زندگی۔ کیسے گزارو گے۔۔  ؟کیوں گئی وہ۔۔  ؟واپس آئے گی نا۔۔ ؟‘ صوفیہ جب اپنی ہی باتوں سے لہولہان ہو جاتی تو اُس کی خواہش ہوتی آگے بڑھ کر وہ اسے بانہوں کے گھیرے میں لے لے۔ اپنے ہونٹ اس کے کانپتے ہونٹوں پر رکھ دے۔ مگر اخلاقیات۔۔  تہذیب کے پڑھے ہوئے چھوٹے چھوٹے سبق اسے روک دیتے۔ پتہ نہیں کیوں، اُسے لگتا، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو صوفیہ کو برا نہیں لگے گا۔ کیونکہ اب یہ صوفیہ بھی اس کے لئے نرم جذبات رکھتی ہے، اور اسے اس بات کا احساس تھا کہ شاید ناگارجن سینی بھی اس بات کو جانتے ہیں  — اور کئی موقعوں پر وہ صوفیہ کی بات چھیڑتے ہوئے خاموش ہو گئے۔ اس درمیان اُس نے صرف ایک بات محسوس کی تھی۔ پرندوں کی طرف صوفیہ کی کشش بہت حد تک کم ہو گئی تھی۔ گو ابھی بھی وہ باہر برآمدے میں جا کر درختوں کے پاس کسی دوست چڑیا کو تلاش کرتی مگر وہ جلد ہی واپس آ جاتی۔ اور بقول ناگارجن سینی، ہم تو فقط بزرگ سائبان ٹھہرے، وہ پرندوں میں پیار تلاش کرنے جاتی تھی۔۔

’پرندوں میں ۔۔ ‘

’پرندوں کی جگہ کوئی انسان آ گیا تو۔۔ ‘ ناگارجن نے غور سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’۔۔  میرا تجربہ کہتا ہے۔۔  وہ انسان کی ہو جائے گی اور ایسے ہو جائے گی کہ والہانہ پن اور دیوانگی دونوں ساتھ ہو گی۔ ‘

 

میں اس وقت ناگارجن سینی کی اس دلیل کو سمجھ نہیں سکا تھا۔ لیکن میں نے ان کے الفاظ میں اترنے کی کوشش کی تو ایسا لگا جیسے یہ جملے صرف میرے لئے ادا کئے گئے ہوں۔ ناہید اور صوفیہ کا موازنہ کرتا تو یہ موازنہ آسمان اور زمین کا ہوتا۔ ایک سرکش ندی کی طرح باغی اور دوسری معصوم میمنے، جیسی — اور مجھے بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ اب مجھے صوفیہ سے اپنے دل کی بات کہہ لینی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ پھر دیر ہو جائے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کئی دن گزر گئے تھے اور میں ناہید کی طرف سے مایوس ہو چکا تھا۔ وہ زندہ ہوتی تو واپس ضرور آتی۔ حویلی میں کوئی نہ تھا جہاں وہ واپس جائے۔۔  میں نے اس کی تلاش میں جوناگڑھ کی حویلی میں ایک قاصد بھی بھیجا جو ایک ٹکا سا جواب لایا۔۔  ایک داڑھی والا ملا۔ زیادہ عمر نہیں تھی۔ اس نے کہا مر گئی ہو گی۔ یہ بھی کہا کہ یہاں آتی تو یہی حشر ہوتا۔ ناہید کے پاس کوئی دوسرا گھر نہیں تھا اور مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ رکمنی باشا کا ویسا خیال نہیں رکھ پا رہی ہے، جیسا کہ اسے رکھنا چاہئے۔ وہ صرف اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے۔

اس دن پھر اسے پولس اسٹیشن بلایا گیا تھا۔ اور وہاں جانے سے پہلے ایک بات ہوئی۔ کمال نے بہت دنوں بعد آسمان میں اڑتے ہوئے ایک گدھ کو دیکھا تھا۔ عقب میں اڑتے ہوئے کوؤں کا غول تھا اور اس وقت آسمان کوؤں کی کاؤں کاؤں سے گونج رہا تھا۔

کمال پولس اسٹیشن پہنچا تو پولس افسرکوشاری میز پرپاؤں پھیلائے ہوئے چائے پی رہا تھا۔ اس کا ایک اسسٹنٹ پاس میں ہی کھڑا تھا۔ کوشاری نے اپنے اسسٹنٹ کو بھدا سا اشارہ کیا اور اسے کرسی پر بیٹھنے کے لئے کہا۔ پھر پوچھا۔۔

’ اچھا بتاؤ۔ کیسے مارا اُسے ؟‘

’ کسے؟‘

’اب مورکھ نہ بناؤ ہمیں۔ بیوی کو۔۔ ‘

’ میں نے نہیں مارا۔ ‘

’مارا تو تم نے ہے۔‘ وہ ڈھٹائی سے ہنسا۔ مارا کیسے۔۔ ’پہاڑی سے دھکا دیا یا گھر میں خون کر دیا پھر لاش پہاڑی پر سے پھینک دی۔‘

’دیکھیے۔ میں نے نہیں مارا۔۔ ’ کمال کی زبان گنگ تھی۔۔

’ارے مارنے کے تو سو طریقے ہو گئے ہیں اور پہاڑیوں میں تو ایک ہی طریقہ عام ہے۔ ہلدی لگے نہ پھٹکری۔ اتنی ساری پہاڑیاں۔۔  کہیں بھی لے جاؤ۔ دھکا دے دو۔۔ ‘

’میں نے نہیں مارا۔۔ ’ کمال آہستہ سے بولا۔۔

وہ اتفاق تھا کہ گھر سے نکلتے ہوئے کمال کی ملاقات ناگارجن سینی سے ہو گئی تھی اور ناگارجن نے اپنے کمشنر دوست کو فون کر دیا تھا۔جس وقت کوشاری بھدے الفاظ میں ناہید اور اس کے تعلقات کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ٹھیک اُسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔ ( یہ معاملہ ایسا تھا کہ اُسے ناہید اور اپنے خراب تعلقات کے بارے میں بہت سی باتیں پولس والوں کو بتانی پڑی تھیں اور اس وقت اسے افسوس ہو رہا تھا کہ ان باتوں کو آسانی سے چھپایا جا سکتا تھا۔ ) کوشاری نے فون اٹھایا تو اچانک اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ فون پولس کمشنر کا تھا اور فون کے بعد ہی اس کا لہجہ بدل گیا تھا۔

’جاؤ جی۔ گھر جاؤ — عیش کرو — ‘

 

کمال کو گھر آئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی — اُس نے دیکھا  — یہ صوفیہ تھی جو ہڑبڑائی اور گھبرائی ہوئی اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ اور چہرہ الجھن اور کشمکش کی کہانی بیان کر رہا تھا — اس وقت صوفیہ کی آمد اسے اچھی لگی مگر صوفیہ کو الجھن میں دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا تھا۔

’کیا بات ہے۔۔ ؟

’ وہ آ گیا ہے۔۔ ‘ اُس کا لہجہ ڈرا ڈرا تھا —

’کون آ گیا ہے؟‘

وہی ۔۔  بتایا تھا نا۔۔ وہ آنے والا ہے۔۔ ‘

’کون؟‘

اس بار میرے سوال پر وہ ذرا زور سے چیخی تھی — آپ سب بھول جاتے ہیں  — آپ کو بتایا تھا — وہ۔۔ ۔۔ ۔۔ —

اچانک مجھے یاد آیا۔ دو دن پہلے باشا کو کھلاتے ہوئے صوفیہ نے بتایا تھا کہ ناگارجن جی کا چھوٹا بیٹا آنے والا ہے — صوفیہ اسی بیٹے کے بارے میں بات کر رہی تھی —

’ناگارجن جی کا بیٹا!‘

’ہاں۔‘

’اس سے ڈرتی ہو؟‘

صوفیہ کی آنکھوں میں خوف تیر رہا تھا — وہ اچھا نہیں ہے۔ آج ہی ابو اور امی سے اس کا جھگڑا ہوا ہے — مجھے ایسی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ مجھے ڈر لگتا ہے —

’ کیسی آنکھوں سے؟‘

’مجھے بتانا پڑے گا۔؟ — نہیں سمجھ سکتے — ‘

اس کا لہجہ ایسا تھا جیسے اب وہ رو دے گی۔ اُس کی آنکھیں نم تھیں اور سہمی ہوئی ہرنی کی طرح وحشت زدہ۔۔  میں گہری سوچ میں تھا اور اس وقت میں یہی سوچ رہا تھا کہ کیا صوفیہ کو روک لوں — ؟ مگر اس گھر میں صوفیہ کیوں رُکے گی؟ کس رشتے کی بنا پر۔۔ ۔۔

’میں سوچتی ہوں۔۔ ‘ صوفیہ کہتے کہتے ٹھہر گئی —

’کیا۔۔ ؟

’میں بھاگ جاؤں ۔۔ ‘ وہ رو رہی تھی — اور بس یہی لمحہ تھا، کمال کو احساس ہوا جیسے اچانک بدن میں خون کا دوران تیز ہو گیا ہو۔

’نہیں صوفیہ۔۔  بھاگنا مت۔۔ ‘

ہزاروں بکھری ہوئی پرچھائیاں مل کر پیار بن گئے تھے۔ اور اس ایک لمحے میں زندگی آ گئی تھی۔ کمال نے صوفیہ کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے لیا تھا — بالکل اچانک۔۔  اور صوفیہ۔۔ ۔۔  جو اس لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اس کے سینے سے لگی ہوئی آنسو بہا رہی تھی۔۔ ۔۔  اُس کی سسکیاں تیز تھیں۔۔

’ بھاگ جاؤں گی۔۔  میں بھاگ جاؤں گی۔ تب سے بھاگ ہی تو رہی ہوں۔۔  زندگی سے بھاگتی پھر رہی ہوں۔۔ پھر بھاگ جاؤں گی۔۔

’نہیں  — تم نہیں بھاگو گی صوفیہ —

وہ میری قید سے نکلی۔ آنسوؤں میں موٹے موٹے  قطرے تیر رہے تھے — ’ پھر کہاں جاؤں گی میں۔۔ ‘

کمال نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ اس معصوم پری کو بہت پیار کرنے کی خواہش ہو رہی تھی۔ ہاتھ آگے بڑھے۔ صوفیہ کے آنسوؤں کو خشک کیا۔ دونوں ہاتھوں میں صوفیہ کا چہرہ لیا۔۔

’ کوئی پریشانی ہے تو تم یہاں رہ سکتی ہو۔ ابھی سے ۔۔  اسی لمحہ سے۔۔ ‘

صوفیہ شاید اسی لمحے کی منتظر تھی یا خدا معلوم اس کے اندر کیسی کشمکش چل رہی تھی — ادھر اس کی تلاش میں ناگارجن سینی آ گئے تو وہ ان کے ساتھ چلی گئی۔ جاتے ہوئے پلٹ کر صوفیہ نے اس کی طرف دیکھا — کمال اپنی جگہ پتھر کے مجسمہ کی طرح کھڑا تھا۔۔  جیسے اچانک ہوا کے تیز جھونکے اُس کی محبوب شئے کو اُڑا کر اس سے کہیں دور لے گئے ہوں۔۔  جسم میں وہ خوشبو ابھی بھی رچی بسی تھی۔۔  ابھی بھی وہ سہمی آنکھیں، آنکھوں کی پتلیوں میں تیر رہی تھیں۔۔  میں بھاگ جاؤں گی۔۔

 

’اس رات دیر تک کمال یوسف کو نیند نہیں آئی — ناہید کا خوف کہیں دور چلا گیا تھا — اور صوفیہ کے نرم و نازک جسم نے اس کی جگہ لے لی تھی۔۔  رات آدھی سے زیادہ ہو گئی تھی۔ تیز ہوا تھی۔ کھڑکی کے پٹ ڈول رہے تھے۔ دو بار باشا کے رونے سے اس کی نیند ٹوٹی — دونوں بار رکمنی بھاگتی ہوئی آئی۔ باشا کو گود میں لیا۔۔  بہلایا۔ پھر سلادیا۔۔  رات کے ۳ بجے ہوں گے کہ اچانک دروازے کی بیل سن کر وہ چونک گیا۔۔  کوئی تیز تیز دروازہ پیٹ رہا تھا۔ کمال تیزی سے اٹھا — دوڑ کر باہر آیا — دروازہ کھولا۔۔  اور اچانک جیسے اپنی جگہ پر منجمد ہو گیا۔ صوفیہ تھی۔۔  جو تھر تھر کانپ رہی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی وہ اُس کے جسم سے بری طرح لپٹ گئی۔۔

’صوفیہ۔۔ ‘

قیامت برپا کرنے والی سسکیاں تھیں۔ صوفیہ کے ہاتھوں نے سختی سے اسے تھاما ہوا تھا۔ جیسے پکڑ ڈھیلی ہوئی تو وہ بکھر کے رہ جائے گی۔۔ ۔۔  وہ پھر چلایا۔۔

صوفیہ ۔۔  کیا ہوا ہے۔۔

صوفیہ ۔۔  کچھ بولو تو سہی۔۔

اُسے احساس ہوا۔۔  صوفیہ کے ہاتھوں کی گرفت آہستہ آہستہ کمزور ہو رہی ہے۔۔

صوفیہ۔۔  کمال ایک بار زور سے چلایا۔۔

اُسے احساس ہوا۔۔  اس کے سینہ سے لگی ہوئی صوفیہ کا سر ڈھلک گیا ہے۔۔  وہ بیہوش ہو گئی تھی۔۔

صوفیہ۔۔

ایک بیہوش جسم اس کے ہاتھوں میں جھول رہا تھا اور یہ لمحہ کمال کو حقیقت سے نکال کر پریوں کے دیس پہنچا گیا تھا۔ بانہوں میں ایک نازک سا جسم اور ان لمحوں میں صوفیہ نے خود کو اُس کے حوالے کر دیا تھا — صوفیہ کے سرد جسم کو گود میں لیے وہ بستر تک آ گیا۔ بستر پر لٹایا۔ منہ پر پانی کا چھڑکاؤ کیا تو اچانک تیز چیخ کے ساتھ وہ اٹھی اور دوبارہ اس سے لپٹ گئی۔۔

’وہ میرے کمرے میں تھا۔۔ ‘

’کون۔۔ ‘

’وہی۔۔ ‘

صوفیہ سسکیاں لے رہی تھی۔۔  میں وہاں نہیں رہ سکتی۔ میں نے بڑی مشکل سے خود کو اُس کی گرفت سے آزاد کیا ہے۔۔ وہ شاخوں کی طرح کمال سے لپٹی ہوئی اس کے وجود میں اپنا تحفظ دیکھ رہی تھی۔

کمال آہستہ سے بولا’۔۔  اب تم کہیں نہیں جاؤ گی صوفیہ۔۔  تم یہیں رہو گی۔‘

صوفیہ بڑی بڑی آنکھیں نکالے خوفزدہ سی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ہونٹ خاموش تھے اور جسم ابھی بھی کانپ رہا تھا۔۔

’وہ میرے ۔۔ کمرے میں تھا۔۔  مجھے مار ڈالے گا۔۔ ‘

اُس کی آنکھیں خوف میں ڈوبی تھیں  — باہر اچانک دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز ہوئی تو کمال چونک گیا۔ اُس نے پلٹ کر صوفیہ کو دیکھا — دوڑ کر دروازہ کی طرف بھاگا — دروازہ کھولا تو دروازے پر حیران پریشان سے ناگارجن کھڑے تھے۔

’صوفیہ آئی ہے نا۔۔ ‘

’آپ آئیے میرے ساتھ — ‘

صوفیہ نے ناگارجن کو دیکھا تو دوڑ کر ان سے لپٹ گئی —

ناگارجن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے —

’میں شرمندہ ہوں بیٹی اور اس کے سوا میرے پاس کوئی لفظ نہیں ہے۔۔ ‘

’آپ کیوں شرمندگی کا اظہار کر رہے ہیں۔۔ ‘ روتے روتے وہ زور سے چیخی۔ آپ نے جو کیا ہے۔۔  وہ کوئی نہیں کر سکتا۔۔ ‘

صوفیہ تکیہ میں منہ دیے سسکیاں بھر رہی تھی۔

ناگارجن نے کمال کی طرف دیکھا۔۔  اشارہ کیا’۔۔  تم آؤ۔۔  تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔۔

کمال ناگارجن کے ساتھ کمرے سے باہر آ گیا — ناگارجن نے غور سے کمال کی طرف دیکھا — اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

’ میں نے بیٹی کہا تھا۔ اور بیٹی مانتا تھا — میں نے سوچا تھا میرا بیٹا بھی یہی رشتہ نبھائے گا۔ مگر۔۔  دو لوگ۔۔  دو مقدس رشتوں کی زنجیر میں کیوں نہ جکڑے ہوں، دو الگ الگ خیال ہوتے ہیں  — مجھے نہیں معلوم میرا بیٹا رات میں کس ارادے سے صوفیہ کے کمرے میں گیا۔۔  مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ اس کا ارادہ ٹھیک نہیں تھا۔۔  وہ وہاں محفوظ نہیں ہے۔۔ ‘

ناگارجن کی آنکھیں نم تھیں۔ لفظوں میں تھرتھراہٹ تھی۔۔ ’ صوفیہ بہت ڈر گئی ہے۔ اور اسے ڈرنا بھی چاہئے۔ شاید ایک لڑکی کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ اپنے باپ کے گھر میں بھی نہیں۔۔ ‘

ناگارجن کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ ٹپکا۔۔  تمہیں پتہ ہے نا۔ صوفیہ نے مجھے قرآن شریف لا کر دیا تھا۔ خالی وقت میں وہ مجھے قرآن شریف پڑھ کر سنایا کرتی تھی اور اس کے معنی بھی سمجھایا کرتی تھی۔ میں سنتا رہتا تھا۔ کہتے ہیں خدا جب ایک راستہ بند کرتا ہے تو دوسرا کھول دیتا ہے — وہ لکھا ہے نا۔۔  اُس کی ذات سے اُس کی نعمتوں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اور دیکھو بیٹا۔ کتنی دیر میں یہ بات سمجھ میں آئی۔۔ ‘

ناگارجن غور سے کمال کی طرف دیکھ رہے تھے —

’صوفیہ کے لئے خدا نے ایک دروازہ بند کیا — اور دیکھو — پڑوس کا ہی ایک دوسرا دروازہ کھول دیا — ‘

کمال چونک گیا۔۔ ‘ میں نے مطلب نہیں  سمجھا۔ ‘

میں سمجھاتا ہوں — ‘ ناگارجن نے کمال کے کندھے پر ہاتھ رکھا —

’ سب خدا کی مصلحت۔۔  تمہاری بیوی چلی گئی۔ ہم نے تفتیش میں کوئی کمی نہیں رکھی — لیکن حقیقت سے تم بھی واقف ہو — وہ اب نہیں آئے گی۔۔  لیکن اُس خلا کو بھرنا ضروری ہے — ایک زندگی یوں تنہا نہیں گزاری جا سکتی۔۔  اور ایسی حالت میں جب ایک ننھا شیرخوار بھی تمہارے ساتھ ہے۔۔ ‘

’میں اب بھی نہیں سمجھا۔۔ ‘

’تم سمجھ رہے ہو بیٹے۔ میں جو کہنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ تم سمجھ رہے ہو۔۔  اور مصلحت دیکھو۔۔  خدا نے میرے گھر کا راستہ بند کیا، صوفیہ کے لئے تمہارے گھر کا راستہ کھول دیا۔ اور کھولا ہی نہیں۔ گھر سے بیڈ روم کا راستہ بھی دکھا دیا۔۔  اس مصلحت کو سمجھو۔۔  میں نے صوفیہ کی آنکھوں کو پڑھا ہے۔۔  اور جانتا ہوں۔۔  وہ تم سے پیار کرتی ہے۔۔  اور اس حقیقت سے بھی واقف ہوں کہ تم بھی۔۔ ‘

کمال نے سر کو جھکا لیا۔۔

ناگارجن نے آگے بڑھ کر کمال کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام لیا۔۔  اُسے بھگوان کہوں۔۔  خدا کہوں۔۔  کچھ بھی کہوں۔۔  وہ آزمائش دیتا ہے تو راستہ بھی دیتا ہے۔۔ ‘

’جی ۔۔ ‘

’تم سمجھ رہے ہونا۔۔  ‘ ناگارجن کی آنکھوں میں چمک تھی۔ باپ ہوں نا۔۔  اس صدمے سے اچانک گھبرا گیا تھا۔ اور دیکھو تو سہی۔ وہ خوفزدہ ہو کر پناہ تلاش کرنے آئی بھی تو کہاں آئی ؟ تمہارے پاس۔۔  کیونکہ اُسے پتہ ہے ۔۔  یہاں اُسے پناہ ملے گی۔۔  تم پناہ دو گے اُسے ۔۔ ‘

’جی۔۔ ‘

’ میرے خیال سے اب دیر کرنا مناسب نہیں ہے — صوفیہ تمہارے پاس ہی رہے گی — میں اب مطمئن ہوں  — صوفیہ کو ایک مضبوط سہارا مل گیا ہے، ایک باپ کو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے۔۔ ‘

ناگارجن کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ پھر وہ ٹھہرے نہیں، تیزی سے دروازے سے باہر نکل گئے — کمال کچھ دیر تک ساکت و جامد اپنی جگہ کھڑا رہا — جیسے ایک لمحہ میں ایک پوری کائنات تبدیل ہو گئی تھی — دروازہ بند کیا — بیڈ روم کے دروازہ پر آ کر ٹھہرا — تکیہ کو سینے سے لپٹائے صوفیہ ایک معصوم سی گڑیا نظر آ رہی تھی۔۔  یہ وہ صوفیہ نہیں تھی، جو درختوں کی قطار کے درمیان دونوں ہاتھ پھیلائے پرندوں کو آواز دیا کرتی تھی۔۔  اس وقت وہ مزے سے لیٹی تھی۔۔  یا سو گئی تھی۔۔

’صوفیہ۔۔ ‘

اُس نے آہستہ سے آواز دی تو وہ اچانک ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی —

کمال آگے بڑھا۔ بانہیں پھیلائیں  — صوفیہ نے کوئی مدافعت نہیں کی۔ اس وقت اسے ان بازوؤں کی شدت سے ضرورت تھی — ایک کانپتا ہوا گرم جسم کمال کے جسم میں پیوست ہو رہا تھا۔۔

کمال نے آہستہ سے صوفیہ کے کان میں کہا —

’پریشان مت ہو۔ اب تم میری ہو — اب یہی گھر تمہارا ہے اور تم اس گھر سے اب کہیں نہیں جاؤ گی۔۔ ‘

باشا رو رہا تھا۔ صوفیہ اچانک پلٹی۔۔  اور روتے ہوئے باشا کو اپنی گود میں لے لیا۔۔

٭٭

 

کمال خاموش ہوا تو میں کچھ دیر تک غور سے کمال کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھتا رہا —

’پھر تم نے شادی کر لی۔‘

’ہاں۔ یہاں پاس میں ہی ایک مسجد ہے۔ سارا انتظام ابو نے کیا تھا۔‘

’ناگارجن سینی نے ؟‘

’ہاں — ‘

’نکاح ہوا — ایک چھوٹی سی تقریب۔ ملنا ملانا ہوا۔ میرے دو چار دوست ہی اس رسم میں شریک ہوئے۔ نکاح سے پہلے ہی صوفیہ نے سارے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔۔ ‘

’وہ خوش ہے؟‘

’بہت زیادہ۔ ‘

’اور تم؟‘

کمال نے پلٹ کر دیکھا’۔۔  آپ کہہ سکتے ہیں۔ میں محبت کے اس انداز سے واقف نہیں تھا۔ صوفیہ تو میرے لئے پاگل رہتی ہے۔ دو پل بھی مجھے نہ دیکھے تو پتہ نہیں اسے کیا ہو جاتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا — وہ بار بار بھاگ کر میرے پاس آ جاتی ہے۔‘

کمال کا چہرہ فرط جذبات سے روشن تھا’۔۔  سچ پوچھیں تو اب تک میں اسی پیار کے لئے بھٹک رہا تھا۔ پیار ایسا بھی ہوتا ہے۔ میں جانتا بھی نہیں تھا۔ پیار اس طرح جسم کے پور پور میں بسا ہوتا ہے۔۔  میں نے کب سوچا تھا۔۔  میں سب کچھ بھول گیا۔۔  اب کچھ بھی یاد رکھنے کی خواہش نہیں۔۔  اور آپ نہیں جانتے جب وہ خوشبو کی طرح مجھ میں اترتی ہے۔۔  ہوا کی طرح میرے جسم سے گزرتی ہے۔۔  سانسوں کی بہشت کے ہر دروازے پر ایک ان دیکھا پیار ہوتا ہے۔۔

کمال اچانک ٹھہر گیا تھا۔ سامنے صوفیہ تھی۔ اس درمیان شاید اُس نے کپڑے تبدیل کیے تھے۔۔  اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔  مگر میں اس مسکراہٹ کے پیچھے چھپی وحشت دیکھ رہا تھا — آخر ایسا کیوں ہے؟ صوفیہ لہروں کی طرح اتنی بے قرار کیوں ہے۔۔  مجھے اندیشہ تھا۔۔  محبت کی یہ بیقراری اُسے بیمار بھی ڈال سکتی ہے۔۔  آہستہ آہستہ وہ جنون کی جن منزلوں سے گزر رہی ہے۔۔  وہ اس کے حق میں بہتر نہیں ہے — صوفیہ کچھ لمحے کے لئے ٹھہری — کمال کو دیکھ کر کچھ اشارہ کیا — کمال نے سرہلایا — اور کچھ دیر بعد کمال مجھے لے کر نیچے ڈرائنگ روم میں آ گیا — جہاں نمکین بسکٹ اور چائے ہمارا انتظار کر ر ہی تھی — اس درمیان باشا کو لیے ہوئے وہ دو بار ہمارے پاس سے گزری — کمال کی آنکھیں چھت کو دیکھ رہی تھیں۔ میں صوفیہ کی زندگی کے اس نئے باب میں الجھ کر رہ گیا تھا۔۔  ڈراکیولا۔۔  خوف کی وادیاں، ہجرت۔۔  نینی تال میں آنا۔۔  پرندوں کے پیچھے بھاگنا اور کمال سے ملتے ہی بیقرار لہروں کا اُس کے اندر پیدا ہونا۔۔

میں اچانک اُس وقت چونکا، جب کمال مجھ سے مخاطب تھا۔۔

’آپ ناہید کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔۔ ؟‘

’ہاں  — لیکن اس سے پہلے صوفیہ کی کہانی کو جاننا ضروری تھا — ‘ میں مسکرایا۔۔  زندگی بھی کتنی عجیب ہے کمال۔۔  پانچ چھ ماہ قبل ہم میں سے کون سوچ سکتا تھا کہ زندگی اپنی سمت تبدیل کر دے گی۔۔  ایک جھونکا آئے گا اور زندگی تبدیل ہو جائے گی۔۔ ‘

’آپ نے درست کہا۔۔  ‘ کمال آہستہ سے بولا۔۔  زندگی نے آخر راستہ بدل دیا۔ سمت بدل گئی۔۔ ‘ وہ رُکا۔۔  پھر بولنا شروع کیا۔۔  میں نے آپ کو بتایا تھا، ان دنوں ناہید میں باغیانہ انداز کچھ زیادہ ہی آ گیا تھا — مجھے کئی بار احساس ہوتا کہ اگر اُسے مصروف کر دیا جائے، تو ممکن ہے یہ باغیانہ احساس بہت حد تک اُس کے اندر سے نکل جائے۔‘

’ہونہہ۔۔ ‘

’انہی دنوں میرے دوست نرمل اساس ڈکشنری پر کچھ بڑا کام کر رہے تھے۔ ان کا اپنا پبلشنگ ہاؤس ہے — ان کی کتابیں زیادہ تر باہر ایکسپورٹ ہوتی ہیں  — وہ کئی زبانوں میں لغات کا کام کرا رہے تھے۔ انہیں اردو لغات بھی چاہئے تھی۔ جو جامع بھی ہو اور جس میں وقت کے ساتھ نئے الفاظ کو بھی جوڑا جا سکے۔ نئے الفاظ۔۔  آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نا۔۔

’جی — ‘

’ میں نے اس کا اظہار جب ناہیدسے کیا تو وہ خوشی سے اچھل پڑی۔ اُس نے کہا کہ یہ کام وہ کر سکتی ہے اور پوری ذمہ داری سے کرے گی۔ سمرولے اسکول سے آنے کے بعد وہ اس لغات کو وقت دے دیا کرے گی۔ میں نے جب نرمل اساس سے اس بارے میں گفتگو کی تو وہ خوش ہو گئے اور فوراً ہی لغات کی پانچ سات کتابیں انہوں نے میری گاڑی میں رکھوا دیں۔۔  اور کہا، مجھے اس کام کی جلدی ہے۔۔  انہی لغات کا سہارا لینا ہے۔۔  اور نئے الفاظ کو زیادہ سے زیادہ شامل کرنا ہے۔۔

’پھر ۔۔ ‘

کمال یوسف کے چہرے پر یادوں کے سائے گہرے ہو گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

(3)

 

’سنو‘ ناہید چلاتی ہوئی، سیڑھیاں طے کر تی ہوئی کمال کے سامنے آ کر رُک گئی۔

صبح کے آٹھ بج گئے تھے۔ کمال آفس کے لئے تیار ہو رہا تھا۔ آئینہ میں ناہید کا عکس ابھرا تو اس نے پلٹ کر ناہید کی طرف دیکھا —

’کیا ہے۔۔ ‘

’میں اتنی دیر سے آواز دے رہی تھی۔۔ ‘

’سنا میں نے۔۔ ‘

ناہید زور سے چیخی’ پھر کان کیوں بند کیے رہے — منہ سے جواب کیوں نہیں دیا —

’تم دیکھ رہی ہو — میں تیار ہو رہا تھا — ‘

’تیار ہونے میں بھی جواب دیا جا سکتا تھا، ناہید غصے میں تھی — ’ بس ہم لوگوں سے ہی امید کرتے ہو کہ ایک آواز پر حکم ماننے کو تیار ہو جائیں — ‘

’یہ کوئی لڑنے کا وقت ہے۔‘

’لڑ کون رہا ہے۔۔ ‘ ناہید کی آواز میں ناراضگی تھی — میں کچھ کہنے آئی تھی۔۔ ؟

’ہاں بولو۔۔ ‘

’میں کل دیر رات تک لغات کا کام کرتی رہی۔‘

’ہاں  — میں نے دیکھا تھا۔‘

کئی الفاظ سمجھ میں نہیں آئے اور تم نے کہا تھا، میں اپنی آزادی کا استعمال کر سکتی ہوں۔‘

’ زیادہ آزادی نہیں۔ یہ لغات ہے۔ ذمہ داری کا کام ہے۔۔ ‘

’میں جانتی ہوں  — تم کو بتانے کی ضرورت نہیں۔‘ ناہید غصے میں تھی۔۔  یہ لغات کون تیار کرتا ہے۔۔ ؟‘

’مطلب؟‘ کمال چونک گیا تھا۔

’’میں پوچھ رہی ہوں کہ عام طور پراس طرح کے لغات کون تیار کرتا ہے۔۔ ؟‘

’یہ کیسا سوال ہے؟‘

’سوال ہے — کیوں کہ لغات کے اندر جو معنی دیے گئے ہیں، وہ مردوں کے حساب سے ہیں۔‘

پہلی بار کمال یوسف کو لگا تھا، کہ لغات کا کام کہیں اُس نے ناہید کو دے کر کوئی غلطی تو نہیں کی ہے۔ اسے امید نہیں تھی کہ ان سوالوں سے بھی دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔۔

ناہید کہہ رہی تھی — میرے خیال سے اب تک لغات پر جتنے بھی کام ہوئے ہیں، مردوں نے کئے ہیں۔۔ ‘

لیکن تمہیں کیا۔۔  تم تو خود کو مرد کہتی ہو۔۔ ‘

’مرد ہوں۔۔ ‘ اس بار ناہید زور سے چیخی تھی — بار بار مجھے عورت کہہ کر یا میرے اندر کی عورت کو دکھا کر اپنی مردانگی کو مطمئن کرنا چاہتے ہو۔۔ ؟‘

میں نے ایسا کب کہا۔۔ ؟

’کہا نہیں  — لیکن میں دیکھ رہی ہوں  — تمہارا مطلب یہی ہوتا ہے —

’یہ تم پر ہے — تم کچھ بھی مطلب نکال سکتی ہو — ‘

ناہید اس بار پھر زور سے چیخی — میں کوئی مطلب نہیں نکالتی — میں تو بس ایک عام سا سوال پوچھنے آئی تھی کہ میں تھوڑی سی آزادی لے سکتی ہوں —

’لغات کے کام میں کیسی آزادی؟‘ کمال کو بیساختہ ہنسی آ گئی —

ناہید کا پارہ چڑھ گیا۔۔  تم ہنسے کیوں ؟

’تمہاری باتوں پر اور کیا کروں۔۔ ‘

ناہید آہستہ سے بولی — میں کچھ جگہ اٹک جاتی ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔۔  اب ایک لفظ ہے آبرو — اور اس کے ساتھ محاورے دیے گئے ہیں۔ مثال کے لئے آبرو اتارنا۔۔  آبرو تھامنا، آبرو پر حرف آنا۔۔  آبرو ریزی۔۔  آبرو رکھنا۔۔  آبرو ٹکے کی ہو جانا۔۔  آبرو کے درپے ہونا۔۔  ناہید غور سے کمال کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی۔۔  یہ آبرو کس سے منسوب ہے۔ سن رہے ہو تم۔۔  میں اس لفظ کو بدلنا چاہتی ہوں۔۔

’مطلب؟‘

’ابھی نہیں کہہ سکتی۔۔  مگر یہ لفظ اور محاورے مجھے کچھ پسند نہیں آئے۔ خیر میں دیکھتی ہوں۔۔ ‘

ناہید کمرے سے باہر نکل گئی تو کمال سوچ میں پڑ گیا — لغات کا کام دے کر اُس نے کوئی نئی آفت تو نہیں مول لے لی۔۔  ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ تیز ہوا کی طرح ناہید دوبارہ کمرہ میں داخل ہوئی۔۔

’وہ آتشک کا نام سنا ہے۔۔ ؟‘

’ہاں۔۔  کیوں ؟‘

’بیماری ہے نا۔۔ ؟

’ہاں۔۔ ‘

میں نے اُس کے آگے لکھ دیا — آتشک: ایک جنسی بیماری جو مردوں کو ہوتی ہے۔۔ ‘

اُسے اندھیرے میں چھوڑ کر ناہید پھر سے ہوا ہو گئی تھی۔۔

٭٭

 

ناہید کی مشکل یہ تھی کہ جب سے اس نے یہ کام لیا تھا، اُس کی دنیا بدل گئی تھی۔۔  جیسے اب وہ الفاظ کے درمیان تیر رہی تھی۔۔

الف ب سے ی تک حروف الگ الگ شکل بنا کر اُسے گھیر لیتے — کبھی کبھی الفاظ میں گھر کر وہ باشا کے رونے کی آواز بھی نہیں سن پاتی۔۔  مشکل یہ تھا کہ کچھ دنوں سے یہ الفاظ حرکت میں آ گئے تھے۔۔

وہ حروف کے درمیان تھی۔۔

الف ڈنڈا بن کر عصائے موسوی کی طرح اس کے سر پر لہرانے لگتا۔۔

ب۔۔  ہوا میں لہراتی ہوئی گیند ٹھہر جاتی۔۔  اور وہ چت اُس گیند پر لیٹ جاتی۔۔

الگ الگ حرف جسم کی الگ الگ شکلیں اختیار کر لیتے۔۔  وہ خوف سے باہر نکلتی تو ان سارے حروف کو لغات سے باہر پھینکنے کی خواہش زور پکڑنے لگتی۔ جیسے اسے یہ احساس ہوتا کہ لغات ہی ہے جس نے بکھرے ہوئے بیشمار حروف کو الفاظ و معانی اور زبان کا خوفناک تحفہ دیا ہے — جیسے وہ یہ سوچتی کہ اگر اچھے لفظ ہیں تو برے لفظ کیوں ہیں  — اچھائی ہے تو برائی نہیں ہونی چاہئے — عروج ہے تو زوال کا ہونا لازمی نہیں ہے — زندگی اور موت میں کسی ایک کو ہی ہونا چاہئے۔۔  آگے بڑھتے ہوئے وہ خوفناک لفظوں میں گھر جاتی۔۔  ناگن۔۔ بھوت۔۔  جنات ۔۔  آسیب۔۔  جیسے وہ اس نتیجہ پر پہنچ رہی تھی کہ ان خوفناک لفظوں کو لغات میں رکھا ہی نہ جائے۔ کبھی کبھی مترادف الفاظ کو لے کر اُس کے کانوں میں نگاڑے بجنے شروع ہو جاتے۔۔

زندگی ہے۔۔  اس لیے موت بھی ہے۔۔

اچھائی ہے۔۔  اس لیے برائی بھی ہے۔۔

مرد ہے ۔۔  اس لئے ۔۔

لغات میں جہاں انسانی اعضاء کے نام اور تفصیلات لکھی تھی۔۔  وہاں پہنچتے ہوئے اچانک اس کی حالت خراب ہو جاتی۔۔  وہ خود کو جوناگڑھ کی اُسی حویلی میں محسوس کرتی۔۔  دھوکہ۔۔  کانوں میں گونجتی ہوئی نوحہ کی آوازیں۔۔  عظیم بھائی کے ہاتھوں کی گرفت۔۔  دو ہاتھ آگے بڑھ کر اُس کے لباس کی دھجیاں بکھیر رہے ہوں۔۔  یہ سب اس قدر اچانک ہوتا کہ اس کا چہرہ سپید پڑ جاتا۔۔  وہ لکھنا بند کر دیتی۔۔  بالکونی میں آ کر تیز تیز لمبی لمبی سانسیں لینا شروع کر دیتی۔۔  اور اس کیفیت سے باہر نکلنے میں اسے گھنٹوں گزر جاتے۔۔

دن ہے۔۔  اس لئے رات ہے۔۔

پانی ہے۔۔  اس لئے آگ ہے۔۔

سچ ہے ۔۔  اس لئے جھوٹ ہے۔۔

زمین ہے ۔۔  اس لئے آسمان ہے۔۔

کمال ہے۔۔  اس لئے ناہید ۔۔

نہیں۔۔  کاغذات کے ڈھیر کے درمیان صرف سلگتی ہوئی آگ ہوتی اور وہ ہوتی۔۔  غلامی ہے۔۔  اس لئے آزادی ہے۔۔

اُس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔۔  مگر جلد ہی یہ مسکراہٹ دھل گئی۔۔  لغات آئینہ خانہ میں تبدیل ہو گئے تھے۔۔  الفاظ اس آئینہ خانہ کے چاروں طرف طواف کر رہے تھے۔۔  اچھے لفظ برے لفظ۔۔  صحت مند لفظ۔۔  بیمار لفظ۔۔  اور اسی لیے اس رات ڈنر کرتے ہوئے وہ اپنے سہمے ہوئے لفظوں کے ساتھ ایک خاموش اور پراسرار دنیا میں تھی۔ کمال غور سے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور جب اُس سے رہا نہیں گیا تو وہ آہستہ سے بولا —

’تمہیں کیا ہو گیا ہے ناہید؟‘

’کچھ نہیں۔‘

کچھ تو ضرور ہوا ہے۔ میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں۔۔  تم کسی اور ہی دنیا میں ہوتی ہو۔‘

ناہید اچانک زور سے چلائی — تو تم نے اُس دنیا کا پتہ لگانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔۔ ‘

’تم ڈھنگ سے بات ہی کہاں کرتی ہو کہ میں کوشش کرتا۔‘

’اس نے ناہید کے چہرے کی طرف دیکھا — چہرہ سرخ ہو رہا تھا — کشمکش اور الجھن چہرے سے عیاں تھی۔ وہ شاید لفظ جوڑ رہی تھی۔۔  پھر اُس نے سر اٹھایا۔ کمال کی طرف دیکھا۔

’میں بتاؤں گی بھی تو تم نہیں سمجھوگے۔‘

’کیا نہیں سمجھو گے۔۔ ‘

میں اگر کہوں تنہائی میں یہ لفظ زندہ ہو جاتے ہیں۔۔  میر ے ارد گرد طواف کرنے لگتے ہیں۔۔ ‘

’یہ لغات تمہیں بیمار کر رہے ہیں۔ مت کرو۔میں انہیں لے جا کر واپس کر دوں گا — ‘

’نہیں تم واپس نہیں کرو گے — میں دیکھنا چاہتی ہوں کیا زندگی میں آنکھیں کھولنے کے بعد انسان محض ایک پرزہ ہوتا ہے — ؟ طاقتور لفظ ہوتے ہیں۔ لفظ جو کسی کو بیمار بنا سکتے ہیں۔ کسی کو مضبوط۔ کسی کو بچا سکتے ہیں۔ کسی کی جان لے سکتے ہیں۔ اُس نے ذرا توقف کے بعد آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔۔  حرف سے حرف ملتے ہیں توایک دنیا آباد ہونے لگتی ہے۔۔  لفظ بننے کے عمل کے ساتھ ہی معنی شور کرنے اور چنگھاڑنے لگتے ہیں۔ کیا کبھی تم نے ایسا محسوس کیا کمال ؟ یا یہ صرف میں محسوس کر رہی ہوں۔۔ ‘

’ میں تمہاری بات سمجھ ہی نہیں پا رہا تو جواب کیا دوں ؟‘

’کیوں نہیں سمجھتے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔‘ وہ زور سے چلائی۔۔  میں معصوم کہتی ہوں۔۔  تو ایک سراپا بنتا ہے۔۔  نور کی کرنیں پھیلتی ہیں۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ آتی ہے۔ اور معصوم کی جگہ میں حرامی۔۔  کتے کا پلا۔۔  باسٹرڈ، قاتل، ہتیارا کہتی ہوں تو جبڑے پھیل جاتے ہیں۔۔  آنکھوں میں چمک کی جگہ وحشت آ جاتی ہے۔ چہرے کے انداز بدل جاتے ہیں۔۔ ‘

’یہ ایک عام سی بات ہے۔۔ ‘

’ہاں جانتی ہوں۔ لیکن تب کیا کہو گے، جب قاتل کہتے ہی کمرے میں ایک قاتل موجود ہو — عضو تناسل کا نام لیتے ہی دیواروں پر ہاتھیوں کے سونڈ کی تصویریں ابھرنے لگیں۔۔  اور ساتھ ہی آنکھوں کے سامنے ایک بدنما کھیل شروع ہو جائے۔ فنٹاسی نہیں۔ خیال نہیں مسٹر کمال۔۔  یہ حقیقت ہے اور میں یہ سب مسلسل دیکھ رہی ہوں۔ عورتوں کے اعضا کا ذکر آتے ہی میں دور گیڈروں کے رونے کی آواز سنتی ہوں۔۔  اور مردانہ اعضاء کے ذکر کے ساتھ کمرے میں اتنی تیز آندھی چلتی ہے کہ مجھے خود کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

کمال سکتہ کی حالت میں تھا۔ وہ غور سے ناہید کا چہرہ پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’اس طرح تو تم بیمار ہو جاؤ گی۔‘

نہیں۔ میں بیمار نہیں ہوں۔ نہ بیمار ہو جاؤں گی۔۔ ‘ ناہید زورسے بول رہی تھی — ’ تم کیوں سمجھتے ہو ایسا کہ میں بیمار ہوں۔۔  میں تمہاری اصلیت بتا رہی ہوں۔ انسان ہونے کی اصلیت صرف یہ جسم نہیں ہے۔ یہ جسم تو محض کھلونا ہے۔ الفاظ۔۔  ہونٹوں سے نکلتے ہی فضا میں پھیلتے اور جمع ہوتے ہیں اور اپنے حساب سے انسانی جسم کو چلاتے ہیں۔ تم اپنے الفاظ کے سہارے چل رہے ہو اور میں اپنے الفاظ کے سہارے۔‘

کمال آہستہ سے بولا۔۔  بولیاں نہیں ہوتیں۔۔  زبان نہیں ہوتی۔۔  حروف اور الفاظ نہیں ہوتے، تب بھی انسانی جسم میں ہلچل تو مچتی نا۔۔ ؟ جسے تم کھلونا کہہ رہی ہو۔ اس میں زندگی ہے۔ بھرپور زندگی۔۔  اور زندگی اپنے حساب اور احتیاط سے جو پانا چاہتی ہے وہ پا لیتی ہے۔۔  جو کرنا چاہتی ہے وہ کر لیتی ہے۔۔ ‘

’صرف ایک نقطہ خدا کو جدا کر دیتا ہے ۔۔ ‘ ناہید کی آنکھیں سہمی ہو ئی کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھیں۔۔

کمال کی آنکھیں دھند میں اتر گئی تھیں  — عرصہ پہلے پڑھی ہوئی جارج آرویل کی کتاب1984 اس کی آنکھوں کے آگے گھوم رہی تھی۔ الفاظ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کتابوں کا گھروں میں رکھنا جرم ہے۔ قدم قدم پر Thaught پولس یہ دیکھنے میں لگی ہے کہ آپ کچھ سوچ تو نہیں رہے ہیں۔ انسان سوچنا بند کر دے تو زندگی آسان ہو جائے مگر کیا ایسی زندگی، زندگی کہلائے گی؟‘

کمال خود کو ایک اعصابی جنگ میں گھرا ہوا محسوس کر رہا تھا اور اس وقت ناہید کے کسی سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

 

ناہید کو پتہ تھا کہ اس وقت اس کی ذہنی کیفیت کو سمجھنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہو گا۔ خاص کر کمال کے لیے۔ مگر یہ بھی سچ تھا کہ لغات پر کام کرنے کے دوران اس کی زندگی میں کئی تبدیلیاں آئی تھیں  — جیسے وہ خود سے لڑ رہی تھی۔ جیسے کاغذ پر تنہا ئی لکھتے ہی وہ تنہا ہو جاتی تھی اور شور لکھتے ہی باہر سے بچوں کے شور کی آوازیں کانوں میں گونجنے لگتی تھیں۔ اس درمیان دو لفظوں پر وہ ٹھہر گئی تھی۔۔  اسے نہیں معلوم کہ یہ دو لفظ بار بار اسے اپنے حصار میں کیوں لے رہے ہیں۔ ایک لفظ فرار تھا۔ اور دوسرا انتقام — اس دن اچانک وہ چونک گئی تھی۔ باشا کو رکمنی کے پاس سونپنے کے بعد جب وہ کام کرنے بیٹھی تو اچانک ایک حادثہ ہوا۔ لغات سے یہ دونوں لفظ نکلے اوراس کے اردو گرد طواف کرتے ہوئے کھڑکی سے دور چلے گئے۔ وہ گہرے سناٹے میں تھی۔ پہلے تو ناہید نے اسے محض اپنا واہمہ تصور کیا۔ پھر جب لغات کی طرف دیکھا تو اس کی پریشانیوں میں اضافہ ہو چکا تھا۔ یہ دونوں لفظ حقیقت میں لغات سے غائب تھے۔ پبلشر نے اس اہم کام کے لیے، اس طرح کے کئی لغات سے سہارا لینے کے لیے کہا تھا۔ مگر یہ عجیب حقیقت تھی کہ اس وقت کسی بھی لغت میں یہ دونوں لفظ موجود نہیں تھے۔

کہاں گئے؟

یہ کیسے ہوسکتا ہے — ؟

وہ گہری سوچ میں ڈوبی تھی اوراس بات سے قطعی انجان تھی کہ آنے والے دنوں میں ان دونوں لفظوں سے اس کا واسطہ پڑنے والا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 (4)

 

باشا رکمنی کے پاس تھا۔ رکمنی باشا کو لیے گانا گنگناتی ہوئی اسے بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ کمال آفس جا چکے تھے۔ وہ سب کچھ بھول کر اس وقت لغت کی تکمیل میں مصروف ہونا چاہتی تھی۔۔  کئی دنوں سے وہ اچھے اور برے الفاظ کو الگ الگ کرنے میں مصروف تھی۔ وہ محاوروں کو بھی نئے زمانے کے حساب سے ڈھال رہی تھی اور ایسا کرتے ہوئے اسے قلبی سکون مل رہا تھا — پھر اس نے ایسے لفظوں کی فہرست بنا ئی، جو عام طور پر عورتوں سے منسوب تھے۔ اور اب وقت کے ساتھ ان کے معنی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔

جیسے آوارہ۔۔  اس نے آوارہ کے آگے لکھا۔۔  بد چلن مرد۔ مردوں کے چال چلن عام طور پر خراب ہوتے ہیں۔

فاحشہ۔۔  بدکار مرد۔۔

حرام کار۔۔  بدکار مرد۔۔

حرامی۔۔  بد ذات مرد۔۔

مطعون۔۔  بدنام زمانہ مرد۔۔

طوائف۔۔  ناچنے گانے والا مرد۔۔

ہجڑا۔ مردوں کی اعلیٰ قسم

رنڈی۔۔  بازارو مرد۔۔

عیاش۔۔  یہ بھی مردوں کی صفت ہے

کلنکنی۔۔  بد ذات مرد

حرافہ۔ بدکار مرد

لکھتے لکھتے وہ اچانک ٹھہر گئی۔ کہیں دور پازیب بجنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔  پھر گھنگھروؤں کی آواز ابھری۔۔  اور اس آواز میں مردانہ قہقہے شامل ہو گئے۔ جوناگڑھ کی پرانی حویلی آنکھوں کے سامنے تھی۔۔  اس حویلی کی یاد سے اسے ہر بار گھبراہٹ ہوتی تھی۔ مگر ماضی کے دریچے سے ہر بار یہ حویلی نکل کر اس کے سامنے کھڑی ہو جاتی۔

خستہ محرابوں سے جھانکتی روشنی۔۔  جوناگڑھ کی حویلی۔۔  محرابوں پر کوئی عبارت لکھی تھی۔۔  وقت کے ساتھ حروف مٹ گئے تھے۔۔  لیکن وہ دیکھ رہی تھی۔۔  لغات کے فرار اور انتقام میں سے ایک لفظ انتقام اس وقت خستہ محرابوں سے ابھر کر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر سے خوف کی وادیوں میں تھی۔ گزری ہوئی کہانی کے باقی ماندہ صفحے کھل گئے تھے۔۔  اور ان بوسیدہ صفحوں میں امی کی سسکیوں کے علاوہ تھا بھی کیا۔۔  کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا، جب اس نے امی کی آنکھوں میں آنسو نہ دیکھے ہوں۔ اس موقع پر آنسو بہاتی ہوئی امی اسے گود میں کھینچ لیتیں۔۔

وہ بڑی بڑی آنکھیں گھماتی ہوئی ایک ٹک امی کی طرف دیکھتی جاتی۔۔

محرابیں روشن تھیں۔ الفاظ چمک رہے تھے۔ اور وہ آخری منظر ناہید کی نظروں کے آگے تھا۔ ان دنوں جب بجیا کی خبریں حویلی سے باہر تک پھیل رہی تھیں  — ابو ایک دن غصے میں امی کے پاس آئے۔ دو بجے کا وقت تھا۔ برآمدے میں مرغیوں کے دربے سے مرغیوں کی کڑکڑاہٹ کی آوازیں اندر تک آ رہی تھیں۔ ابا زور سے چیخ رہے تھے۔۔

’سب تمہارا قصور ہے۔۔ ‘

باورچی خانے کی سیاہ پڑی دیواروں کے ایک طرف اماں خاموش کھڑی تھیں۔ چولہے پر پڑی ہوئی ہانڈی سے بھاپ نکل رہی تھی اور ہانڈی کا ڈھکن بار بار کھل اور بند ہو رہا تھا۔

’چاروں طرف نام نکل رہا ہے۔ عزت اور شرافت کی دھجیاں بکھر رہی ہیں۔۔ ‘

اماں نے پہلی بار اباکو سنتے ہوئے صرف ایک جملہ ادا کیا۔۔ ’ یہ تو آپ کو بھی سمجھنا چاہئے تھا نا۔۔ ‘

پھر تو قیامت آ گئی —

’زبان لڑاتی ہے۔‘

ابا تیزی سے آگے بڑھے۔ غصے میں اماں کا سر دیوار سے ٹکرا دیا۔ اس پر بھی بس نہیں چلا تو غصہ میں تھر تھر کانپتے ہوئے اماں کو کھینچتے ہوئے باہر دروازے تک لے آئے۔۔

’دفع ہو۔۔  نکلو گھر سے — ابھی اس گھر سے نکلو‘

وہ حیرانی سے یہ منظر دیکھنے پر مجبور تھی۔ اماں کا جسم پتھر کا ہو رہا تھا اور شاید یہ مردوں کا آخری حربہ ہوتا ہے۔۔  نکلو گھر سے۔ جس عورت نے زندگی بھر گھر کی سیڑھیوں سے آگے نکل کر بازار تک کا رخ نہ کیا ہو، وہ بھلا کہاں جائے گی۔ ابا کی نامردی بھری غیرت میں ایک مرد آ گیا تھا۔ یہ مرد ایسے موقعوں پر ہی آتا ہے، جب ایسے نامرد خود کو ناکارہ قبول کر لیتے ہیں  — امی نے جسم پتھر کا بنا لیا تھا مگر آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ نہ تھا — ابا ان کو کھینچنے اور باہر نکالنے میں ہانپ گئے تھے۔۔

باہر نکلو۔۔

باہر نکلو۔۔

چلو۔۔  باہر نکلو۔۔

میں اس آواز کی زد میں تھی۔۔  باہر نکلو۔۔  باہر نکلو۔ اباکی تیز آواز سنتے ہوئے ابو چا اور گھر کے دوسرے مرد جمع ہو گئے تھے۔ وہ لوگ بڑی مشکل سے ابا کو قابو میں کرتے ہوئے کھینچ لے گئے تھے۔ اماں پتھر کے مجسمہ کی طرح بہت دیر تک باہر والے دروازے کے پاس کھڑی رہیں۔ جیسے اندر ایک کشمکش چل رہی ہو۔

لغات سے نکلا ہوا لفظ آنکھوں کے آگے روشن تھا۔۔  انتقام۔۔  اس نے اپنا کام مکمل کر لیا تھا۔ کاغذوں کو سمیٹا۔ ایک فائل میں رکھا۔ وہ مطمئن ابھی بھی نہیں تھی۔ سانس ابھی بھی تیز تیز چل رہی تھی۔۔

 

دوسرے دن کمال نے آفس جاتے ہوئے ڈکشنری کا مسودہ نرمل اساس کے پاس جمع کرا دیا۔ نرمل اساس نے روکا۔ چائے پی کر جاؤ۔ مگر کمال کو دیر ہو رہی تھی۔ نرمل نے کہا، مسودہ دیکھنے میں کچھ وقت لگے گا۔

لیکن یہ اتفاق تھا کہ شام کے ۷ بجے ہی کمال کے پاس نرمل اساس کا فون آ گیا۔

’میں نے مسودہ دیکھ لیا۔ ممکن ہو تو اپنی اہلیہ کے ساتھ آ جانا۔‘

کمال نے منظور کر لیا۔ لیکن نرمل کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا، جیسے کوئی خاص بات ہوئی ہو۔ لیکن وہ خاص بات کیا ہوسکتی ہے، وہ دیر تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔

٭٭

 

دوسرے دن صبح گیارہ بجے وہ نرمل اساس کے کمرے میں تھا۔ ناہید بھی اس کے ساتھ تھی — یہ ایک خوبصورت کمرہ تھا۔ دیوار پر ایک حسین تجریدی پینٹنگ آویزاں تھی۔۔  نرمل اساس نے چائے کا آرڈر دیا۔ اس درمیان کمال نے محسوس کیا، نرمل بار بار ترچھی نظر سے ناہید کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ناہید نے شلوار جمپر پہنا ہوا تھا۔ اور اس لباس میں وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ چائے ختم ہوتے ہی نرمل نے ناہید کی طرف دیکھا۔ ہونٹوں میں مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

آپ کو کافی محنت کرنی پڑی۔

’جی ہاں۔۔ ‘

’لیکن آپ نے بہت جلد اس کام کو مکمل کر دیا۔ مجھے اتنی جلدی امید نہیں تھی۔‘

کمال خاموشی سے یہ گفتگو سن رہا تھا اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ناہید آہستہ سے بولی، اچھے کام میں وقت تو لگتا ہے۔‘

’ہاں کیوں نہیں۔‘ کیوں نہیں۔ کو کافی کھینچ کے بولا گیا تھا۔

’اور میں دیکھ رہا تھا۔۔ ‘ نرمل کے ہونٹوں کی مسکراہٹ بہت گہری تھی۔ آپ نے کچھ زیادہ ہی آزادی لینے کی کوشش کی ہے۔

’کچھ زیادہ نہیں۔‘ ناہید کے چہرے پر معصومیت تھی۔’ مگر جیسا آپ نے کہا تھا۔ وقت کے حساب سے۔۔ ‘ وہ ٹھہری۔۔  مجھے لگا۔۔  وقت کے حساب سے بہت کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔‘

’ہونہہ۔‘ نرمل اساس کی آنکھیں چھت کو دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے جبراً مسکرانے کی کوشش کی اور اس بار کمال یوسف کی طرف دیکھا۔

’پرفیکٹ میچ۔۔ ‘ وہ کہتے کہتے ٹھہرا۔۔

کمال یوسف کو احساس ہوا کہ اس پرفیکٹ میچ میں دراصل اس کا مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی ہو۔

نرمل اساس کچھ سوچتا ہوا بولا — ’ میں پبلشر ہوں۔ کتابوں کا بزنس کرتا ہوں۔ ڈکشنری کے کام اس سے پہلے بھی کئی کرا چکا ہوں۔ مگر اس بار — اس نے ہنسنے کی کوشش کی۔ پہلی بار مجھے لگا، میں اس نظام کا حصہ نہیں ہوں۔ یا میں اس نظام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ دنیا اس حد تک تبدیل ہو چکی ہے مگر اس بارے میں مجھے کچھ نہیں پتہ۔ میں بالکل انجان کسی ننھے منے سے بچے کی طرح ہوں، جس کے سامنے سے نکل کر یہ دنیا پوری طرح بدل گئی اور مجھے احساس تک نہ ہوسکا۔۔ ‘

ناہید مسکرا رہی تھی۔

کمال نے چونک کر پوچھا۔ ’میں نے کچھ سمجھا نہیں۔‘

اساس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے ناہید کی طرف اشارہ کیا — ’انہوں نے بتایا کہ یہ دنیا بدل چکی ہے۔ بہت سے لفظ اپنی پہچان کھو چکے ہیں اور ان کی جگہ نئے الفاظ آ چکے ہیں۔ بہت سے لفظوں نے ندی کی لہروں کی طرح معنی کا رخ ہی بدل دیا ہے۔۔  کاش ایسا ہوتا۔۔  کاش۔۔ ‘ نرمل اساس نے دو بار کاش کو دہرایا۔

’مگر کیا سچ مچ ایسا ہے میڈم۔۔  نہیں مجھے معاف کیجئے گا۔ کیا یہ دنیا اس حد تک بدل چکی ہے۔ ؟‘

’یہ اپنے اپنے نظر یہ سے سوچنے اور دیکھنے کی بات ہے۔۔ ‘

’ہاں۔ یہ بھی ٹھیک۔۔ ‘ نرمل اساس مسکرانے کی کوشش کر رہا تھا — ’ اور آپ نے صحیح کہا۔ ڈسکو چلے جائیے۔ نئی نسل کو دیکھئے۔ مرد عورت اور عورت مرد۔۔  یعنی سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کیا ہے — میرے بیٹے کانوں میں چھلے پہنتے ہیں۔ بیٹی لڑکوں کی طرح رہتی ہے۔ شاید آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ لیکن اس بدلی ہوئی صورتحال میں۔۔

وہ شیشے کی کیبن کے باہر دیکھ رہا تھا — ’ تبدیلی۔ بہرحال ہم ایک بڑی اور خوفناک تبدیلی کی زد میں ہیں۔ وہ ہنسا — ’ میں کہتا ہوں جو لغات آپ نے تیار کیا ہے اسے ویسا مارکیٹ میں ڈال دوں تو زلزلہ آ جائے گا۔ مجھے لگتا ہے یہ ایک بڑی خبر بھی بن سکتی ہے۔ ہاٹ نیوز۔ اخباروں سے لے کر ٹی وی چینلس تک۔ اور کیا پتہ باہری میڈیا بھی اسے کور کریں۔۔  باہر کے ملکوں میں الفاظ و معانی کی یہ تبدیلی نئے بحث کھڑا کر دے گی۔ کیا سچ مچ ایک پوری تہذیب بدل رہی ہے — ؟ بدل رہی ہو گی‘ اساس نے آہستہ سے کہا — ’ عورتیں زیادہ آزادانہ طور پر کنڈوم خریدتی ہیں۔ مرد رات میں بیڈروم میں نائیٹی پہن لیتے ہیں۔ سیکس کے تجربے بڑھ رہے ہیں۔ عورتیں فائٹ کر رہی ہیں۔ آپ صحیح ہیں۔ تبدیلی آئی ہے اور اسی دنیا میں آئی ہے تو پھر لغات، ڈکشنری، شبد کوش۔۔  یہ لفظ کیوں نہ بدلے جاتے۔ بدلے جائیں گے۔۔ ‘

نرمل اساس دوبارہ شیشے کی کیبن کے باہر دیکھ رہا تھا۔ مگر۔۔ ‘ اس نے فائل کے صفحے پلٹے۔ ایک صفحہ ناہید کے آگے کر دیا۔ یہ آپ نے لکھا ہے نا۔۔  اسے پڑھیے۔۔

’میں نے پڑھ لیا ہے۔‘

’کیا۔۔ ‘

’جو آپ دکھا رہے ہیں۔‘

میں کیا دکھا رہا ہوں۔۔

ناہید مسکرائی — عورتوں کے حصے کے تمام نام میں نے مردوں کے خانے میں ڈال دیا ہے۔ مثلاً داسی، طوائف، کلنکنی، کلنچھی، بے حیا، فاحشہ۔۔  رنڈی۔۔ ‘

’رنڈی۔۔ ‘ نرمل اساس نے لمبی سانس کھینچی۔۔  کمزور آواز میں پوچھا گیا۔۔  ’معاف کیجئے گا۔۔  اپنی تسلی کے لیے پوچھ رہا ہوں۔ رنڈی کو مرد کے حوالے سے رنڈا بھی تو لکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے لیے بھڑوا۔ ‘

’نہیں۔‘ ناہید ناز مطمئن تھی — ’ اب ان میں سے کوئی بھی لفظ بدلا نہیں جائے گا۔ آنے والے وقت میں مردوں کو انہی ناموں کے ساتھ جینا ہو گا۔‘

’بالکل ٹھیک۔۔ ‘

نرمل اساس کا لہجہ اس بار خوفزدہ تھا۔ وہ کرسی پر اس طرح ہل رہے تھے جیسے اچانک ذہنی رو بگڑ گئی ہو۔۔  آنکھیں چھت کو دیکھ رہی تھیں اور انہوں نے کئی بار اس جملے کو دہرایا۔۔  بالکل ٹھیک۔ اچانک انہوں نے کرسی سیدھی کی۔ اور کمال کی طرف مڑے۔

’کمال ہے۔۔  واہ کمال ہے۔۔ ‘

’جی۔۔ ‘

’آپ ابھی تک نہیں سمجھے — ‘ نرمل اساس ہنسنے کی کوشش کر رہے تھے اور ہنسنے کی کوشش میں ان کا چہرہ اس وقت کسی مسخرے کے چہرے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ وہ مسکرا رہے تھے مگر اندر ہی اندر جیسے کوئی تیز آندھی اٹھ رہی ہو۔۔  وہ پھر کمال کی طرف مڑے۔۔ ’ آپ اور میں جتنا اس دنیا کو جانتے ہیں، وہ ناکافی ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں۔ اس دنیا کو آپ کی بیوی میرا مطلب ہے۔۔  میڈم زیادہ جانتی ہیں۔ دنیا اتنی تیزی سے بدلی ہے کہ بہت تیز دوڑنے والا بھی اس رفتار کو پکڑ نہیں سکتا۔ کیوں میڈم۔ اب لیو ان ریلیشن شپ کو ہی لیجئے۔ باضابطہ قانون آ چکا ہے۔ ایک مرد دو عورتوں کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ ایک دروازہ دوسری عورت کے کمرے میں کھلتا ہے۔‘ وہ ہنس رہے تھے — ’ محبت کو ہی لیجئے۔ محبت کے لیے  جنس مخالف کی کوئی شرط نہیں ہے۔ بلکہ لڑکے لڑکوں سے لڑکیاں لڑکیوں سے پیار بھی کر رہی ہیں اور شادی بھی۔ پھر ڈکشنری کے الفاظ تو بدلے جائیں گے۔ کیونکہ کل تک کہاں یہ سب بیماریاں۔۔  معاف کیجئے گا میڈم۔۔  مجھے اس وقت اور کوئی اصطلاح نہیں سوجھ رہی ہے۔ میرا مطلب ہے۔۔  یہ دنیا کچھ برس پہلے تک اتنی تیزی سے کہاں پھیلی تھی۔ ہم زندگی کے نئے ہائی وے پر ہیں اور نیا شہر بسانے کی تیاری کر رہے ہیں۔۔  چیلنج بڑھیں گے تو مسائل بڑھیں گے۔ بلکہ بدلیں گے اور بدلیں گے تو معنی کی ایک نئی دنیا ہو گی۔‘

نرمل اساس کا چہرہ کئی طرح کے جذبات سے دوچار تھا — ’ ایک طرف ہم مارس پر جا رہے ہیں۔ چاند پر پانی اور زندگی کی تلاش ہو رہی ہے، بلکہ زمین کی بکنگ بھی شروع ہو چکی ہے۔ اوردوسری طرف وہی زندگی، وہی تہذیب، وہی دقیانوسی باتیں، وہی لفظ اور وہی معنی۔۔  نہیں چلے گا۔۔  کیوں میڈم۔۔ ؟‘

’بالکل صحیح۔۔ ‘ ناہید کی آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ مگر اس وقت یہ آنکھیں ایسی تھیں جیسے نرمل اساس کی ذہنی روش کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

کمال خاموشی سے دونوں کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے لیے سمجھنا آسان نہیں تھا کہ اس وقت نرمل اساس اور ناہید میں کون صحیح اور کون غلط ہے — اور یہ بھی کہ کون کس کا مذاق بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا نرمل اساس واقعی ناہید کے کام سے خوش ہوئے ہیں ؟ ایسا اسے نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت جو نرمل اساس کرسی پر مسلسل ہل رہے تھے، وہ چہرہ اور کردار اس کے لیے نیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں اس نے نرمل اساس کا یہ چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ ایک بات واضح تھی۔ وہ یہ کہ ناہید کے کام سے نرمل اساس بری طرح ہل کر رہ گئے ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہوا، اس کی نفسیاتی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ جیسے ابھی کچھ دیر پہلے انہوں نے اپنی بیٹی اور بیٹے کا تذکرہ کیا۔ لیکن اصلیت کیا ہے، یہ ابھی سمجھ پانا مشکل تھا۔ اس درمیان نرمل اساس نے ایک زور کا ٹھہاکا لگایا۔ باری باری سے دونوں کے چہروں کو دیکھا۔ پھر خصوصی طور پر ناہید کی طرف دیکھ کر مخاطب ہوا۔

’میڈم معاف کیجئے گا۔ اپنی معلومات بھر باتیں آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔ کیونکہ اس کا ذکر بھی آپ کے لغات سے ہے۔ معلومات بھر، آپ سمجھ رہی ہیں نا۔ اور اگر میں یا میرے الفاظ غلط ہوں تو میں پہلے ہی اس کے لیے معافی مانگ لیتا ہوں۔‘

’نہیں آپ کہیے۔‘ ناہید نے جلدی سے کہا۔

’شکریہ۔ میں تبدیلی کی بات کر رہا تھا۔ جیسا کہ آپ نے لغات میں تبدیلی کے دوران محسوس کیا ہو گا۔ اگر تبدیلی آئی ہے تو دوچند لوگ ہی کیوں محسوس کریں ؟ میں پچھلے دنوں جان گرے کی ایک کتاب ’مین آر فرام مارس اینڈ ویمن آر فرام وینس‘ پڑھ رہا تھا۔ سیکسوئیلیٹی کو ہی لیجئے۔ عورت زیادہ سخت ہو گئی ہے۔ بیڈ روم کا مرد ہار رہا ہے۔ باب ڈلن کا ایک گیت یاد آ رہا ہے۔۔  کیا تم کھانا پکا سکتے ہو، بیج بو سکتے ہو؟ پھول کھلا سکتے ہو۔۔  کیا تم میرے درد کو محسوس کر سکتے ہو — ؟ اور نیا مرد کہتا ہے — ہاں۔۔  یہ نیا مرد آج شیف ہے۔ سب سے اچھا کھانا بناتا ہے۔ مساج پارلر میں آج اس کی ڈیمانڈ عورتوں سے زیادہ ہے۔ وہ جم جا کر باڈی بھی بنا رہا ہے اورجسم میں لچک بھی پیدا کرہا ہے۔وہ کانوں میں چھلے پہنتا ہے — وہ مونچھ اور داڑھی کٹا رہا ہے۔ اسے چکنا نظر آنا زیادہ پسند ہے۔ وہ نیا ماچو مین ہے۔۔  وہ کچن بھی سنبھال رہا ہے اور گھر بھی — نرمل اساس کا لہجہ بدلا ہوا تھا۔۔  یہ نیا مرد وجود میں آ چکا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں پیدا ہو رہا ہے۔ ایک لچر سماج میں، ایک ختم ہوتی تہذیب میں، ایک کمزور ہوتی جمہوریت میں اور اس آئی ٹی انڈسٹری میں ہم نے نئی عورت اور نئے مرد کو تلاش کر لیا ہے۔ یہ ہماری ٹنڈ منڈ اور مغرب سے برآمد تہذیب، ملی جلی اکانومی اور پزا برگر کے ذائقہ سے برآمد ہوا ہے اور حقیقت ہے کہ اس وقت سب بدل چکا ہے۔۔  آئینہ کے سامنے لپسٹک لگاتا ہوا مرد اور فائیلوں میں گھری عورت — نرمل اساس آہستہ سے بولے — خوفناک۔۔

کیا۔۔  ناہید چونک کر بولی۔۔

’اور اب میری سمجھ میں آیا کہ ان سب کے پیچھے کون ہے — ؟ مائی گاڈ۔۔  سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے تھا اور ہم کتنے بے خبر تھے۔

’ان سب کے پیچھے کون ہے؟‘ ناہید کا لہجہ بھی بدل گیا تھا۔

’عورت۔‘

نرمل اساس کا لہجہ اس وقت برف کی طرح سرد تھا — ’ عورت، جس نے آئی ٹی انڈسٹری سے سائبرا سپیس تک قبضہ کر لیا۔ اور انتہائی ہوشیاری سے مردوں کو ایک نیا مرد بنا دیا۔یعنی عورت۔۔ ‘

ناہید ہنس رہی تھی لیکن اس وقت اس کی یہ ہنسی مجھے ناقابل برداشت لگ رہی تھی۔ یہ ہنسی ایسی تھی کہ مجھے طلسم ہوشربا کی کہانیوں میں اس مکار حسین عورت کی یاد آ گئی، جو دراصل عورت نہیں تھی بلکہ ایک راکشس تھی۔ اور راز کے کھلتے ہی وہ زور زور سے قہقہہ لگا کر اپنے اصل روپ میں واپس آ گئی تھی۔

’مائی گاڈ۔۔  عورت — یہ سارے جال عورت نے بنے — اور کمال ہوشیاری سے کہ مردوں کو پتہ بھی نہیں چلا۔۔ ‘ نرمل اساس اس بار زور سے چیخے تھے۔

’اب آپ کیا چاہتی ہیں۔۔ ؟‘

’میں کچھ نہیں چاہتی۔‘

’پھر یہ کیا ہے۔۔ ‘ نرمل نے اس بار فائل کو زور سے دیوار پر دے مارا اور فائل میں جمع کاغذات ہوا میں اڑتے ہوئے بکھرتے چلے گئے۔

’آپ پاگل تو نہیں ہو گئے ہیں۔‘ اس بار کمال نے غصہ سے کہا تھا۔

’مسٹر کمال۔۔  بہتر ہو گا کہ ابھی آپ انہیں لے کر چلے جائیں اور معاف کیجئے گا۔ میرا دماغ اس وقت بالکل قابو میں نہیں ہے۔‘

کمال نے ناہید کی طرف دیکھا۔ ناہید کا چہرہ سپاٹ تھا۔

اور اس وقت اس کے چہرے کے تاثرات سے کچھ بھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔

کمال نے ناہید کا ہاتھ تھاما اور نرمل اساس کے کمرے سے باہر آ گیا —

اور اس وقت اس کے دماغ میں تیز تیز آندھیاں اٹھ رہی تھیں۔

٭٭

 

بطور مصنف، میرے لیے ان واقعات سے سرسری گزرنا آسان نہیں تھا — کیونکہ نئی صدی کی شروعات سے ہی ان تبدیلیوں کا بہت کچھ، اشارہ ملنے لگا تھا — اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نئی، تیز رفتار بدلتی ہوئی دنیا اگر نئی عورت کو ڈسکورکر رہی تھی تو یہاں نیا مرد بھی پیدا ہو رہا تھا — اور یہ حقیقت ہے کہ یہ نیا مرد اور یہ نئی عورت سائبر سے آئی ٹی انڈسٹری اور تمام گلیمر ورلڈ تک پھیل گئی تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس انڈسٹری کی اپنی سوشل نیٹ ورکنگ تھی — فیس بک سے ٹوئٹر تک پرانے الفاظ غائب ہوتے چلے گئے تھے اور ان کی جگہ نئے الفاظ لے رہے تھے۔ ٹوئٹ کرنے والوں اور فیس بک کا استعمال کرنے والوں کے لیے لفظ و معنی کی اپنی دنیا آباد تھی اور ان میں بے شمار الفاظ ایسے تھے، جو لغات یا ڈکشنری میں نہیں تھے — اور یہ نسل اس نئی سوشل نیٹ ورکنگ کے سہارے رشتے، معیار اور زندگی کا اپنا راستہ تلاش کر رہی تھی یا ان کی نئی تعریفیں ڈھونڈھنے میں لگی تھی — کرن جوہر، راہل ملہوترہ جیسے ہزاروں نام جس نے ماچو مین کی تعریف بدل کر رکھ دی ہے۔ آپ کمال یوسف کو بھی اس صف میں رکھ سکتے ہیں  — باشا کے کپڑے بدلتا ہوا، ضرورت پڑتی تو کچن میں چائے بناتا ہوا — مجھے بار بار نرمل اساس کے جملے یاد آ رہے تھے۔ کیا مرد کو اس نئی تہذیب میں لانے والی عورت ہے — ؟مرد سیلون جاتے ہیں  — فیشئل اور پیڈیکیور کراتے ہیں  — وہ اچھا نظر آنا چاہتے ہیں اورجیساکہ ایک سائیکوتھریپسٹنے کہا تھا — ’ ہندوستانی مردوں میں عورتوں کی صفات دیگر ملکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں — ‘ لیکن ہوتی ہر جگہ ہے — ہر ملک میں — اور اس لیے مرد کے تصور میں ایک نئی عورت سامنے آ گئی تھی —

 

میں فکری سطح پر الجھ کر رہ گیا تھا — ایک طرف ناہید تھی تو دوسری طرف صوفیہ مشتاق احمد  — اور کمال بھی تھا جس نے ناہید کے کہنے پر عورتوں کے لباس بھی پہنے اور مردانگی کی حد تک یا عورتوں کی صفات کی حد تک خود کو ناہید کے کہنے پر ڈھال لیا تھا، یا اس نے ڈھالنے کی کوشش کی تھی — در اصل یہاں ہر شخص ایک نئے سوشل اسپیس کے لئے جگہ بنا ر ہا ہے —

مجھے واشنگٹن ارونگ کی وہ کہانی یاد آ رہی تھی، جہاں ایک کردار بیس سال تک سوتا رہا اور اچانک جب وہ جاگا تو ایک پوری دنیا تبدیل ہو چکی تھی — ایک ایسی دنیا جہاں آڈیو، ویڈیو اور ڈکشنری یا الفاظ کی سطح پر بھی مسلسل انسانی زندگی کا گراف تبدیل ہو رہا ہے — گوگل، فیس بک سے ٹوئٹر تک — سوشل نیٹ ورکنگ نیا اسپیس، اور نئے لفظ ڈسکور کرنے کی کوشش کر رہا ہے — شاید اسی لیے ٹیکنالوجی سے نظریہ، محاورے سے بازار تک ہم رشتوں اور نیٹ ورکنگ کی نئی دنیا میں ہیں  — اور جس کے بارے میں مارک زبر گر کہتا ہے کہ آپ چھپ نہیں سکتے — آپ دنیا کے کسی کونے میں ہوں  — آپ کو پہچان لیا گیا ہے —

میں اپنا ہوم ورک کر چکا تھا اور اس ہوم ورک میں، میں ناہید کو لے کر اب تک الجھن کا شکار تھا اور دل کسی طور پر یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ وہ یہ قدم اٹھا سکتی ہے ہو سکتا ہے سوشل نیٹ ورکنگ کی اس نئی اصطلاح مائی اسپیس میں اس نے اپنے لیے ایک ایسا خلا پڑھ لیا ہو، جس کے بعداس نے زندگی کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی ہو — میرے سامنے مہذب دنیا میں اس وقت ایسی کئی مثالیں تھیں اور ایسے زیادہ تر لوگ نوجوان تھے، جنہوں نے آسانی سے اپنی زندگی محض اس لیے ختم کر لی تھی کہ وہ جینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کر رہے تھے — ایک نسل خوف اور صدمے میں انجانی موت کی طرف بڑھتی ہوئی — مجھے اس از بیک شاعر کی یاد آ رہی تھی جس نے کہا تھا  — ہم مرنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔۔

اور اس پوری کہانی کا موہوم سا سچ یہ تھا کہ ناہید نے اپنے لیے ایک ایسی ہی موت کا انتخاب کیا تھا — وہ موت جو علم الحساب، ضرب، تقسیم، لغات کے بوسیدہ الفاظ اور ’’مائی اسپیس‘ کے خلاء کو نہ بھر سکنے کی صورت میں سامنے آئی تھی — یا جسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اُس کے اندر کے دھماکے اتنے بڑھ گئے تھے کہ وہ خاموشی کے جسم میں تحلیل ہو گئی — کبھی کبھی اندازے اور قیاس غلط بھی ثابت ہوتے ہیں  — اس لئے ان تفصیلات کو کمال یوسف سے جاننا ضروری تھا۔ جیسے کمال نے بتایا کہ ہم نرمل اساس کے کمرے سے نکل کر گاڑی میں بیٹھے تو میری اور اس کی کیفیت میں زمین آسمان کا فرق تھا —

’’مثال کے لئے، اگر میں جاننا چاہوں تو؟‘

’ظاہر ہے۔ مجھے نرمل پر غصہ تھا — میں اسے پانچ برسوں سے جانتا تھا اور میں نے اس کا یہ رویہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘

’اس وقت ناہید کی کیفیت کیا تھی؟‘

’ہم باہر آئے تو وہ بے مطلب کچھ گنگنا رہی تھی — جیسے اندر جو کچھ ہوا‘ اُس کا اس پر کوئی اثر نہیں تھا — ‘

کیا اُس نے واقعی کوئی اثر نہیں لیا تھا؟

’’نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اُس کے بعد جو کچھ گھر میں ہوا۔۔ ‘

میں نے کمال کو روک کر کہا — ’ مگر جیسا کہ آپ بتا رہے ہیں  — نرمل اساس کے کمرے سے باہر نکلنے تک وہ نارمل تھی؟‘

’جی ہاں — ‘

یہ میرے لئے حیرت کی بات تھی، کیوں کہ ایسے موقع پر جب سامنے والا شخص ناہید جیسی باغی عورت کو کمرے سے باہر جانے کے لئے کہہ رہا ہو، ناہید کا نارمل حالت میں ہونا مجھے پریشان کر رہا تھا — کیا یہ ناہید کے لئے فتح کا احساس تھا؟ اگر ہاں تو کیوں — ؟

کمال نے میری طرف دیکھا —

’میں آپ کو پورا واقعہ بتاتا ہوں بلکہ دکھانے کی کوشش کرتا ہوں — ‘

٭٭٭

 

 

 

 

(5)

 

کمال کو اپنی غلطی کا اعتراف تھا۔ اس نے اگر یہ پروجیکٹ ناہید کو نہ دیا ہوتا تو شاید نرمل اساس نے اس طرح بے عزت کر کے اُن دونوں کو کمرے سے باہر نہیں نکالا ہوتا — وہ باہر آیا تو ناہید کوئی گیت گنگنانے میں لگی تھی — اس کا چہرہ سپاٹ تھا — اور اُس کی آنکھوں کو دیکھنے کے بعد کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ نرمل اساس کی باتوں سے اسے چوٹ لگی ہو —

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کمال نے زور سے کہا —

’آج تمہاری وجہ سے ہماری بے عزتی ہوئی ہے — ‘

’میری وجہ سے کیوں ؟‘

’تم نے دیکھا اُس کا لہجہ کیسا تھا؟‘

’وہ تمہارا دوست ہے۔ ‘

’لیکن اس نے ایک پروجیکٹ دیا تھا — اور اس پروجیکٹ کے لئے وحشی بننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی — ‘

’میں وحشی ہوں — ‘ ناہید زور سے چلائی —

’چیخو مت — ‘

’مجھے وحشی کہنے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟‘

ناہید مسلسل چیخ رہی تھی — کمال نے گاڑی کے شیشے چڑھا لیے — اسے یقین تھا، اس وقت ناہید کو کوئی بھی جواب دینا مناسب نہیں  — وہ باہر کے مناظر میں جذب ہو کر ناہید کے غصے کو بھولنا چاہتا تھا — گاڑی آہستہ آہستہ پہاڑی راستوں پر آگے بڑھ رہی تھی — سر سبز و شاداب، گھنے درخت اور جنگلات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔۔  خوبصورتی ایسی کہ کوئی متبادل نہیں  — کمال نے تصور کیا کہ یہ سبزہ اور درخت وادیوں سے گم ہو جائیں تو کیا یہ دنیا زندہ رہے گی۔۔

’تمہارے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہے — تم نے مجھے وحشی کیوں کہا؟‘

اس بار ناہید غصے سے چلائی اور اچانک کچھ لمحے کے لئے اس کا توازن کھو گیا — گاڑی تیزی سے چرمرائی اور ایک جھٹکے سے رک گئی — سامنے ہزاروں فٹ نیچے کی گہرائی تھی — اور اگر اُس نے جھٹکے سے بریک نہ لیا ہوتا تو شاید اس کی گاڑی ان گہرائیوں کی نذر ہو چکی ہوتی —

’یہ کیا کیا تم نے — گاڑی روک کیوں دی — ؟‘

’خدا کا نام لینا چاہتا تھا — ‘

’کیوں ؟‘ ناہید غصے سے چیخی —

’مرنے سے پہلے خدا کو یاد کیا جاتا ہے — ‘

’تو تم مجھے مارنے چلے تھے — ‘

’گاڑی میں اکیلے تم نہیں ہو — میں بھی ہوں  — اور میں تمہارے اس روز روز کے پاگل پن سے تھک چکا ہوں — ‘

’اور اسی لیے مجھے مارنے کا ارادہ کر لیا — ؟‘ ناہید غصے سے چیخ رہی تھی — گاڑی روکو — تمہارا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے — ‘

کمال کو ہنسی آ گئی — لیکن ناہید کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا —

’تو تم اسی لیے آئے تھے — میری رسوائی کا تماشہ دیکھنے اور اس کے بعد مجھے ان گہرائیوں میں پھینکنے کے لئے — ‘ ناہید کی آنکھیں سلگ رہی تھیں —

’پاگل ہو گئی ہو تم — ‘

’تو تم مجھ سے اب گھبرا چکے ہو۔ اور اب مجھے مارنا چاہتے ہو — در اصل میں تمہاری ان نفسیات کو سمجھ رہی تھی — میں لگاتار تمہیں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی — اور میں اس نتیجہ پر پہنچی کہ تم ایسا کر سکتے ہو۔۔ ‘

کمال نے غور سے اس کی آنکھوں میں جھانکا — اُس نے کوشش کی کہ لہجہ میں توازن کو برقرار رکھا جا سکے مگر ناہید نے صبر کے پیمانے کو چھلکا دیا — وہ دیر تک چیختا رہا — جب احساس ہوا کہ سانسیں گھٹن کا شکار ہیں تو وہ آہستہ سے بولا۔۔

’تم اپنے ہوش کھو بیٹھی ہو — تم بھول گئی ہو کہ یہ کام میں کہیں بھی کر سکتا تھا — مگر سوال ہے، میں تمہیں کیوں ماروں گا — ؟

’کیونکہ تم مجھ سے گھبرا چکے ہو؟‘

’کیوں  — چلو مان لیں میں گھبرا چکا ہوں تو تم اس رشتہ کو اس مقام تک کیوں لے آئی — ؟ ‘

’ میں نہیں لائی — ‘ ناہید کی آواز میں غصہ برقرار تھا — ’تم بدل گئے ہو — اور تم میں ایک مرد آ گیا ہے — ‘

’میں مرد ہوں  — میں مرد تھا۔۔  ‘ کمال نے مسکرانے کی کوشش کی — ’ اور مرد رہوں گا۔ اور میں مرد نہ ہوتا تو تمہارے لئے مجھ میں کشش بھی نہ ہوتی اور نہ تم مجھ سے شادی کرتیں — ‘

’واہیات‘ — ناہید ناخن چبانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔  اور اس وقفہ میں شاید وہ کچھ سوچ بھی رہی تھی۔ ناہید نے پلٹ کر کمال کو دیکھا۔۔

’اور تم نے دیکھا — میں نے لغات کو ہی تبدیل کر دیا — مرد میں ہوں۔۔ ‘

مسکرانے کی کوشش میں اُس کے جبڑے پھیل گئے  — اور پہلی بار کمال کو، ناہید کو دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہوا  — ناہید میں، وہ مکمل طور پر ایک مرد کو داخل ہوتے ہوئے محسوس کر ر ہا تھا —

’کیا ہم یہیں لڑتے رہیں گے یا گھر بھی چلیں گے؟‘

کمال نے گاڑی بیک کی۔ اور پھر گاڑی کو گھر کی طرف موڑ لیا۔ دو ایک بار پلٹ کر اُس نے ناہید کی طرف دیکھا۔ ناہید کے چہرے پر کشمکش کے آثار تھے۔ جیسے ابھی بھی ایک جنگ اُس کے اندر چل رہی ہو —

گھر آنے کے بعد کمال کی خواہش تھی کہ وہ اُس سے جتنا دور رہے وہی اس کے لئے بہتر ہے۔ کیونکہ کمال کو اس بات کا احساس تھا کہ اس وقت اس کی حالت اُس زخمی شیرنی جیسی ہو رہی ہے — جو کسی بھی بات پر کاٹنے کو دوڑ سکتی ہے —

کمال نے شاور لیا۔ اس وقت وہ سب کچھ بھول کر خود کو ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ مگر شاید ناہید ایسا نہیں چاہتی تھی — باہر سے تیز تیز بولنے کی آواز آ رہی تھی —

کپڑے پہن کر وہ باہر آیا تو ناہید اُسے دیکھتے ہی زور سے چلائی —

’اب میری سمجھ میں آ رہا ہے، تم مجھے اپنے دوست کے پاس کیوں لے گئے  تھے؟‘

’ میں نہیں لے گیا تھا — اس نے تمہارا یہ ذلیل کام دیکھنے کے بعد مجھے فون کیا تھا — اور فون پر درخواست کی تھی کہ تمہیں لے کر آؤں۔‘

’’مجھے بے عزت کرنے کے لئے؟ اور تم تماشہ دیکھ رہے تھے — ‘ ناہید زور سے چلائی — ’تم اس لیے خوش رہے کہ تمہیں مزہ آ رہا تھا۔ وہ کمبخت میری محنت کی دھجیاں اڑا رہا تھا اور تم دیکھ رہے تھے۔ جس وقت اُس نے فائل ہوا میں اڑائی۔ میں اسے تھپڑ بھی مار سکتی تھی۔ مگر میں صرف تمہارے لیے خاموش رہی۔‘

’میرے لیے کیوں ؟ مجھ پر یہ احسان کیوں کیا؟‘

’کیونکہ شاید تمہارے اندر کی مردانگی۔۔، وہ کہتے کہتے رک گئی۔ پھر تیزی سے بولی۔۔  کہ شاید تم شرم محسوس کرو — اور اس سے کہو کہ اُسے اس انداز میں بات نہیں کرنا چاہئے۔‘

’تم پاگل ہو گئی ہو — یاد کرو، میں نے یہ بات اُس سے کہی تھی۔‘

’تمہاری آواز میں جوش نہیں تھا — اور میں اب تمہارے اس ڈرامے کوسمجھ رہی ہوں  — در اصل یہ تم دونوں کا پلان تھا۔ وہ غصے میں چیخی۔ میں بتاؤں گی نہیں۔ سن لیا تم نے ۔۔  میں بتاؤں گی نہیں — ‘

ناہید پاؤں پٹختی ہوئی چلی گئی۔ کمال کچھ دیر تک سناٹے میں ڈوبا رہا۔ ناہید کا آخری جملہ ابھی بھی کانوں میں گونج رہا تھا — اُس کے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ کیا ناہید اب اپنا ذہنی توازن کھونے لگی ہے۔ یا وہ بغاوت کی اس منزل پر ہے، جہاں کچھ بھی کر سکتی ہے — اُس کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ اس رشتہ میں بغاوت کہاں سے آ گئی — ؟اور ناہید نے اچانک یہ نیا ڈرامہ کیوں شروع کر دیا — کمال یہ بھی سوچتا تھا کہ آخر اُس سے غلطی کہاں ہوئی۔ مگر یہ حقیقت تھی کہ ناہید کا یہ مزاج اب اُسے دن بہ دن ناہید سے دور کرتا جا رہا تھا۔

 

رات ہو گئی تھی۔

نینی تال میں موسم سرما کی ہوائیں ایک قطار سے کھڑے درختوں کو چومتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ پتوں کے ہلنے سے پہاڑیوں میں ایک پر اسرار موسیقی کی گونج ہوتی ہے۔ اس موسیقی میں خوف کے ساتھ جنون کا بھی احساس ہوتا ہے۔ رات میں کہتے ہیں اِن پہاڑیوں کی چٹانیں جاگ جاتی ہیں اور جب کبھی کوئی گاڑی ان پہاڑی راستوں سے گزرتی ہے تو چٹانیں خوفناک موسیقی کے ذریعہ اُسے آنے والے خطرات کا احساس بھی دلاتی ہیں۔۔  ایک گہری خاموشی — اور اس وقت ساری دنیا سوچکی ہے۔ لیکن کیا کوئی طوفان آنے والا ہے۔۔ ؟

کیا حقیقت یہ ہے کہ ان الجھی ہوئی سانسوں اور بیقراری کا کوئی انت نہیں ہے — ؟ ایک گہراکنواں ہے اور جیسے ایک بے بس جسم اس کنویں میں اترتا چلا جا رہا ہے۔۔  دور کہیں آگ جل رہی ہے اور چند قبائلی رقص کرتے ہوئے منہ سے عجیب عجیب آواز نکال رہے ہیں اور فضا میں بھنے ہوئے گوشت کی بو پھیلی ہوئی ہے۔۔  کمال کو احساس ہوا، چاروں طرف چیلیں جمع ہیں۔۔  اور وہ دیکھ سکتا ہے۔۔  انسان آہستہ آہستہ خاتمہ کی طرف بڑھ رہا ہے — ڈھول بج رہے ہیں۔ قبائیلی زور زور سے تانڈو کرتے ہوئے منہ سے عجیب سی آوازیں نکال رہے ہیں  — اور اچانک۔۔

کمال کو احساس ہوتا ہے۔ پاؤں کی انگلیوں کے پاس حرکت ہوئی ہے۔۔  وہ جسم میں سہرن‘ سی محسوس کرتا ہے۔۔  پاؤں کی انگلیوں سے ہو کر جانگھوں تک۔۔  سرسراتے ہوئے ہاتھ۔۔

باہر تیزی سے بجتے ہوئے ڈھول مجرے۔۔  وہ ان خوفناک وادیوں میں تھا جہاں قبائلی نرتیہ کرتے ہوئے دنیا کے فنا ہونے کی کہانیاں سنا رہے تھے۔۔  چیخ رہے تھے۔۔  شور کر رہے تھے۔

چٹانوں سے گزرتی ہوئی سرد ہوا خاموشی کو توڑ رہی تھی — رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی — اور اب وہ ہر طرح کے احساس سے باہر نکل آیا تھا۔ اور یہ محض خیال نہیں تھا۔۔  دو ہاتھ اُس کے پاؤں کے پاس سر سرا رہے تھے۔۔  اور اچانک اُسے احساس ہوا۔۔  وہ بے لباس ہے — پائجامہ اتر چکا ہے۔۔  اور کوئی انسانی جسم اُس کے ننگے پاؤں کے پاس جھکا ہوا اُسے غور سے دیکھ رہا ہے —

وہ زور سے چلایا۔۔  اور ہر بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے ناہید کو دیکھنے لگا — وہ بے لباس تھا اور ناہید اُس کے پاؤں کے پاس جھکی ہوئی اس کے نازک اعضا کو غور سے دیکھ رہی تھی۔۔  ا س وقت اس کے سارے بدن میں خوف کے ساتھ کپکپی بھی داخل تھی۔۔  ناہید کا چہرہ سپاٹ تھا — جذبات سے عاری۔

کمال زور سے چیخا — کیا کر رہی تھی تم۔۔ ؟‘

’دیکھ رہی تھی۔‘

دیکھ رہی تھی۔۔  یا — ‘ کمال کو اچانک صبح میں بولے گئے ناہید کے لفظوں کی یاد آ گئی — ’ مردانگی‘ کہتے ہوئے وہ ٹھہر گئی تھی — تو کیا بغاوت کی ہر منزل سے گزر کر وہ اُس کی مردانگی کو ختم کرنے آئی تھی — وہ غور سے ناہید کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا — کہیں اُس کے پاس کوئی چاقو، کوئی ہتھیار تو نہیں اور ان دنوں ناہید جس غصے اور بغاوت کے ساتھ نظر آ رہی تھی، وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔

کمال کا خوف ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا۔ وہ پھر زور سے چلایا۔

’تم کیا کر رہی تھی — ؟ تم نے میرے کپڑے کیوں اتارے — ؟‘

ناہید کا چہرہ سپاٹ تھا — ’ میری خواہش ہوئی۔ ‘

’کیوں، سیکس کی آگ جاگ گئی تھی۔ بھوک‘

ناہید کے چہرے کا رنگ بدلا۔ اب یہ چہرہ ایک خوفناک چہرے میں تبدیل ہو چکا تھا۔

’نہیں۔ ‘

پھر کیا کر رہی تھی — ؟ ‘ کمال کی آنکھوں میں خوف تھا — ’مجھے یقین ہے تم کچھ برا سوچ کر آئی تھی۔ اور اگر میری آنکھ نہیں کھلتی تو شاید تم کچھ کر گزرتی۔ مگر کیا کر گزرتی — ؟ مائی گاڈ۔ میں سوچنے سے قاصر ہوں کہ آدھی رات، جب کہ ساری دنیا سو چکی ہے، ایک بے رحم عورت، جو بد قسمتی سے میری بیوی بھی ہے، میری جانگھوں پر جھکی ہوئی ہے۔ اُس نے میرا پائجامہ اتار دیا ہے۔ تو یہ سب بے مقصد تو نہیں ہو سکتا ۔۔ ؟‘

’میں نے کب کہا کہ بے مقصد تھا؟‘

’پھر۔۔  ‘ کمال غصہ سے چلایا۔۔  یہ تم نے اپنے ہاتھو ں میں کیا چھپا رکھا ہے۔۔  مائی گاڈ۔۔  دکھاؤ مجھے۔۔

’کچھ نہیں ہے۔‘ ناہید کا لہجہ اس بار بھی سپاٹ تھا۔

’کچھ نہیں ہے تو تم نے ہاتھ پیچھے کی طرف کیوں باندھ رکھے ہیں۔ دکھاؤ مجھے کیا ہے۔۔

کمال اچھل کر پشت پر آ گیا۔ اور اس نے ناہید کے ہاتھوں میں چھپے ہوئے چاقو کے پھل کو دیکھ لیا۔ اُس نے تیز چیخ ماری۔ لباس کا جائزہ لیا — کچھ دیر پہلے چاقو کا پھل لیے ناہید اُس کے جانگھوں کے درمیان جھکی ہوئی تھی۔ صبح گفتگو کے درمیان وہ مردانگی کے الفاظ پر آ کر ٹھہر گئی تھی — اور پھر کمرے سے باہر جاتے ہوئے اس نے کہا تھا — دیکھ لوں گی؟ تو کیا آدھی رات، ہاتھ میں چاقو لیے وہ اس کی مردانگی کا خاتمہ کرنے آئی تھی — ؟ یہ تو اچھا ہوا کہ اُس کی چھٹی حس نے اسے جگا دیا —

’چاقو دو مجھے۔۔ ‘

’چاقو کہاں ہے؟‘ ناہید نے دونوں ہاتھوں کو کھول دیا۔

’چاقو تمہارے ہاتھ میں تھا۔ ‘

’تمہارا وہم ہے‘

’میں کہتا ہوں، تھا۔‘

’ تم پاگل ہو گئے ہو۔ ‘

’میں کہتا ہوں، تمہارے ہاتھ میں چاقو میں نے خود دیکھا ہے۔ ‘

’یہ تمہاری سوچ کا فتور ہے۔ ‘

’فتور نہیں۔ ‘ کمال زور سے چیخا — ’ تمہارے ہاتھ میں چاقو تھا اور میں نے خود دیکھا ہے۔۔  بولو تم نے کہاں چھپایا — ؟‘

’میں نے کہیں نہیں چھپایا — ؟ ‘

’تم نے چھپایا ہے — ‘ کمال زور سے چیخا اور اس بار اچھل کر دوبارہ ناہید کے آس پاس تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ شک کی نگاہوں سے ناہید کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ناہید کا چہرہ سپاٹ تھا۔ لیکن ابھی اس چہرے میں اسے عیاری اور مکاری دونوں کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ جب کمال کو چاقو نہیں ملا تو وہ تھک کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ سانس تیز چل رہا تھا۔ وہ الجھن اور کشمکش بھرے لمحوں سے گزر رہا تھا — یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔  میں نے صاف دیکھا تھا۔ چمکتا ہوا چاقو کا پھل۔ یہ وہ چاقو ہرگز نہیں تھا، جو کچن میں ہوتا ہے، جس سے سبزیاں کاٹی جاتی ہیں  — ذہن میں آندھیاں الجھ رہی تھیں۔ اور اس وقت کمال ایک ایسے کرب سے گزر رہا تھا۔ جسے لفظوں کا لباس نہیں پہنایا جا سکتا۔ ذہن میں انگارے برس رہے تھے۔ اور بس ہر دھماکہ یہی کہہ رہا تھا۔ یہ عورت تمہاری مردانگی کو ہمیشہ کے لئے سلانے اور ختم کرنے آئی تھی۔ یہ دنیا کی پہلی عورت ہے۔ جو اپنے ہی شوہر کی مردانگی ختم کرنے آئی تھی۔ یہ گونج کچھ ایسی تھی کہ تھر تھر کانپتے ہوئے کمال نے ایک بار پھر ناہید کی طرف دیکھا اور غصے میں چیخا۔

’میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔ سن رہی ہو تم۔ اب اس رشتے میں کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے۔ سنا تم نے۔۔  اور مجھے حیرانی ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیوں رہ رہا ہوں  — کیا مجھے تمہارے ساتھ رہنا چاہئے۔ رہنا چاہیے تو کیوں ؟ اس خوف کے ساتھ کہ تم کبھی بھی مجھ پر حملہ کر سکتی ہو۔ کبھی بھی غصہ میں آ کر میرے مرد ہونے کے احساس کو کاٹ سکتی ہو۔۔  اور میں ابھی بھی تمہارے ساتھ رہ رہا ہوں۔‘

’ تو کیوں رہ رہے ہو۔۔  چلے کیوں نہیں جاتے — ‘ ناہید نے اطمینان سے جواب دیا۔ اتنے اطمینان سے کہ کمال یوسف کے غصے کا پارہ آسمان چھو گیا — اس نے ایک گندی سی گالی دی اور غصہ میں اس سے پہلے کہ ناہید پر تھپڑ اٹھاتا، ناہید نے اس کے ہاتھوں کو تھام لیا۔ اسے احساس ہوا، اس وقت ناہید کے ہاتھ پتھر کی طرح سخت ہیں اور اُس نے شاید چاقو بھی چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں تھرتھراہٹ تھی۔ ناہید نے ہاتھ چھوڑ دیا۔ کمال یوسف نے محسوس کیا کہ اس وقت اس کے جسم میں تھرتھراہٹ ہے۔ اور اس کا ہاتھ سرد ہو رہا ہے۔ بلکہ لنج ۔۔  اس نے دروازے کے ہلنے کی آواز سنی۔ پھر جیسے سناٹاچھا گیا۔۔

٭٭

 

’رکو — ‘

بطور مصنف میں الجھ کر رہ گیا تھا۔ میرے لیے ضروری ہو گیا تھا اور میں کمال کو آگے کی کہانی سنانے سے روک دوں۔ میں نے محسوس کیا، ا س وقت بھی کمال کے جسم میں تھرتھراہٹ تھی اور ممکن ہے، وہ دوبارہ اسی منظر کی زد میں ہو اور اس سے باہر نکلنا اس کے لئے آسان نہ ہو۔

’میرے پاس اس وقت دو سوال ہیں۔ اور مجھے کہنا چاہئے کمال؟ میں تم سے کہیں زیادہ الجھ کر رہ گیا ہوں۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب ناہید تم پر جھکی ہوئی تھی تو کیا تم نے اُس کے ہاتھ میں واقعی چاقو دیکھا تھا —

’ہاں  — مجھے یقین ہے۔ اُس کے ہاتھ میں چاقو تھا بلکہ چاقو کے پھل کی چمک ابھی بھی میری آنکھوں میں خوف پیدا کر رہی ہے۔‘

’ممکن ہے یہ تمہارا وہم ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو ہم سوچ لیتے ہیں، وہی ہمیں نظر بھی آتا ہے۔ ممکن ہے اُس موقع پر ناہید سچ بول رہی ہو۔ تو سوال یہ ہے کہ وہ تم پر جھکی ہوئی کیوں تھی؟

’میں نے کہا نا، اس کے ہاتھ میں چاقو تھا — اور اُس دن اچانک ہی اُس نے غصہ میں بولتے ہوئے ایک لفظ ادا کیا تھا۔ مردانگی — اور اس کے بعد وہ خاموش ہو گئی تھی۔۔ ‘

’تو تم محسوس کرتے ہو کہ۔۔ ‘ میں نے کمال کی آنکھوں میں جھانکا۔

’محسوس نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘

’اچھا یہ بتاؤ — ‘ میرے ذہن میں وہ منظر کوند گیا تھا، جب کمال، ناہید پر چلا رہا تھا اور ناہید کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ کمال نے ناہید پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی تھی اور ظاہر ہے ناہید جیسی عورت خاموشی سے باہر نہیں نکل سکتی تھی۔ میں نے کمال کی طرف دیکھا۔ ایک ساتھ بہت ساری الجھنیں میرے چہرے پر جمع ہو گئی تھیں۔

’سنو کمال۔ سوچ کر جواب دینا۔ جب ناہید پر تم نے ہاتھ اٹھایا اور وہ تمہارے کمرے سے باہر نکلی، کیا اُس وقت اُس نے کچھ کہا تھا یا خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔ ؟

’چوہا — ‘ کمال کو جیسے اچانک کچھ یاد آ گیا — ہاں یہی کہا تھا اُس نے — میں نے پلٹ کر دیکھا بھی کہ کہیں آس پاس کوئی چوہا تو نہیں۔ کیونکہ ان دنوں گھر میں عام طور پر چوہے گھومتے رہتے تھے اور ناہید چوہوں کی یورش سے پریشان رہتی تھی۔‘

’چوہا۔۔ ‘ میری ذہنی رو گھوم رہی تھی۔۔  اس موقع پر ناہید کا چوہا کہنا اور کمرے سے باہر نکل جانا۔۔  میں نے اس پورے منظر کو اپنی آنکھوں میں بسا لیا تھا۔ رات کی تاریکی میں ناہید کا کمال کے پاس ہونا۔۔  اُس کے پاجامے کو اتارنا۔۔  کمال کا اُس کے ہاتھوں میں چاقو دیکھنا۔ دونوں میں جنگ ہونا اور ناہید کا چوہا کہہ کر کمرے سے باہر نکل جانا۔۔  وہ بھی خاموشی سے  — اُف خدا۔۔  مجھے چکر آ رہا تھا۔ انسانی اخلاقیات کی کتاب میں شاید اظہار کے ان نئے اور انوکھے طریقے پر ابھی بندش ہے اور سنگسار ہونے کا خطرہ  — مگر اس مہذب ترین دنیا اور اب تک کی دنیا کے مرد اور ان کی مردانگی پر ناہید ایک خوفناک تبصرہ کر کے گذر گئی تھی۔۔ ’ چوہا۔۔ ‘ صدیوں کی یہ مردانگی کندن کی طرح تپے ہوئے احساس کے پیکر کا حصہ نہیں تھی، یہ مردانگی کوئی سایہ دار درخت، کوئی سائبان، سہارا دینے کا عمل یا برگد کی چھاؤں سے عبارت نہیں تھی۔۔  یہ مردانگی ایک چوہے میں تبدیل تھی۔۔  اور مرد ذات کی اب تک کی حماقتوں یا مردانگی پر یہ ایک ایسا یک لفظی بھرپور تبصرہ تھا، کہ اس وقت مرد اساس معاشرے میں چوٹ کرنے والا اس سے بھیانک تبصرہ شاید  کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا تھا۔

’مائی گاڈ — ہم اکیسویں صدی میں ہیں اور مرد ایک چوہا بن رہا ہے۔ اس کا سموپولیٹن کلچر، چیٹ لائن، انٹرنیٹ مکالمہ، اور کنزیومر تہذیب میں وہ جس تیزی سے کپڑے اتار رہا ہے، اُس تیزی سے تو عورتیں بھی نہیں اتار رہی ہیں  — اس کی سیکسول اور مردانگی کی امیج کہیں دور ہو گئی ہے۔ اور ایک زیادہ بڑے سماج سے وابستہ مردوں کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان میں ایک بڑی اکثریت نے خود کو چوہے کی حد تک قبول کر لیا ہے۔۔

’مطلب؟‘ کمال حونقوں کی طرح میرا چہرہ پڑھ رہا تھا۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ یہ چوہا حملہ بھی کرتا ہے۔۔  دلی کے گینگ ریپ یا اس طرح کی کوئی بھی مثال، ممکن ہے مردانگی کی سطح پر خود کو آزمانے کا چیلنج ہو — لیکن کتنا بیہودہ اور کتنا خوفناک ۔۔  اس کو سمو کلچر میں مرد اپنے مرد ہونے کی صفات کے وسیع تر دائرے کو چھوڑ کر صرف ایک معمولی چوہے کی حد تک سمٹ آیا ہے — غیر معمولی طاقت، غیر معمولی فکر، سیاست، حکمرانی، نگہبانی اور اس طرح کی تمام صفات اُس سے چھین لی گئی ہیں۔ وہ اس وسیع کائنات کا ایک معمولی پرزہ ہے بلکہ ایک معمولی چوہا۔۔

میں نے کمال کی طرف دیکھا — وہ اب بھی نا سمجھوں کے انداز میں میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اور محض ناہید کے بولے گئے ایک لفظ میں مجھے صدیوں کے ظلم و ستم کے اشارے مل رہے تھے۔ صدیوں کی غلامی، Chastity Belt سے ہو کر گزرنے والے خوفناک قصے — یہاں مرد حاکم تھا۔ عورت صرف ایک ربر کی گڑیا۔ صدیوں کے جبر و ظلم کے بعد ذرا سا آزاد ہونے کی کوشش میں اگر عورت نے مرد کا جائزہ لیا تو اسے کہاں دیکھا تھا — ؟ کافکا کے کردار گریگور سمسا کی آنکھیں ایک صبح کھلتی ہیں تو وہ خود کو ایک عظیم کیڑے میں تبدیل ہوا دیکھتا ہے۔ لیکن اس مہذب صدی میں دو عظیم جنگوں سے نکلنے کے بعد جدید ٹیکنالوجی اور کمر شیلزم کے اس دور میں مرد کی حقیقت کیا رہ گئی تھی — ؟ اور حقیقت یہ تھی کہ ناہید اس’ محض چوہا‘ کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنے کو تیار نہیں تھی۔۔

’تو کیا اس دن وہ چلی گئی؟‘

’آہ — نہیں۔ ‘

’ہونہہ — ’ میرے اندر کشمکش ابھی بھی جا ری تھی۔

’تو کیا اس نے اس ذلیل چوہے کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا تھا؟‘

’ذلیل چوہا — ؟ ‘ اس بار خوف سے کمال نے میری طرف دیکھا —

’آہ۔۔ ‘ مجھے ہنسی بھی آ رہی تھی۔ اور دنیا کے تمام مردوں کے لیے ترحم کا جذبہ بھی پیدا ہو رہا تھا۔۔  آہ۔۔  تمہیں کیسے سمجھاؤں میرے دوست۔ تم اُس کے لئے کچھ بھی نہیں رہ گئے تھے۔ شونیہ۔ صفر۔۔  یا پھر مجھے معاف کرنا۔ ایک معمولی چوہا۔۔  اس سے زیادہ تم نہیں تھے۔ تم کوئی سایہ دار برگد نہیں تھے۔ تم اُسے تحفظ نہیں دے سکتے تھے۔ اس نے تمہاری تمام بڑی بڑی حقیقتوں کو جھٹلا دیا تھا — اور اسی لئے اسے جانا تھا اور اُس نے جانے کا فیصلہ کر لیا۔‘

پھر اس نے خود کشی کیوں کی؟‘

’تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ اس نے خود کشی کی ہو گی؟‘

کمال سوچ میں گم تھا — ’ پولیس بھی تفتیش کر کے ہار گئی۔ وہ اپنی حویلی میں بھی نہیں ملی۔ پھر اور کیا ہو سکتا ہے؟‘

’یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ مگر میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ناہید اس طرح کی کوئی حرکت نہیں کر سکتی تھی — ممکن ہے، جیسا تم نے بتایا، وہ رات کے وقت گھر سے نکلی تھی۔ ممکن ہے اندھیرے میں اگر وہ کسی گہری کھائی میں گر گئی ہو تو الگ بات ہے مگر دانستہ طور پر وہ یہ قدم نہیں اٹھا سکتی تھی۔۔ ‘

کمال سوچ میں ڈوب گیا۔۔  وہ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’اچھا۔ اس حادثہ کے بعد کیا ہوا — ؟ یعنی جب تمہیں وہ چوہا کہہ کر کمرے سے باہر نکلی، کیا وہ معمول پر آ چکی تھی؟‘

’شاید ہاں۔۔  شاید نہیں۔ میں ٹھیک سے نہیں بتا سکتا۔ کمال نے کچھ سوچتے ہوئے کہا’۔۔  در اصل اس حادثے کے بعد میں اتنا ڈر گیا تھا کہ میں اُس سے خود ہی جان چھڑانا چاہتا تھا۔ کیونکہ مجھے اس سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ لیکن میں جانتا تھا، وہ اس طور پر نہیں جائے گی۔ ممکن ہے میرے اشتعال دلانے سے وہ چلی جائے۔ دوسرے دن صبح میں اُس کی تلاش میں گیا تو وہ باہر برامدے میں کرسی پر جھکی ہوئی تھی — اور اُس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا — وہ پورے انہماک سے اپنے کام میں مصروف تھی۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔۔  وہ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر رہی تھی۔ اور اس کے بعد جو میں نے دیکھا، میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’کیوں ؟‘

’اس کے پاس ایک چوہے دانی پڑی تھی۔۔  چوہے دانی کے اندر وہ روٹی کا ٹکڑا ڈال رہی تھی۔۔

پہلے میں نے نرم لہجہ اختیار کیا — ’ کیا کر رہی ہو؟‘

’دیکھتے نہیں۔ کیا کر رہی ہوں۔‘

’ہاں دیکھ رہا ہوں۔ تبھی پوچھ رہا ہوں۔‘

’جب دیکھ رہے ہو تو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔‘

’لیکن اتنی صبح یہ چوہے دانی کہاں سے ملی — ؟‘

’مل گئی کہیں سے۔ دیکھتے نہیں۔ گھر میں چوہے کافی آ گئے ہیں۔‘

میں نے اقرار میں سر ہلایا — ’ آ تو گئے ہیں۔ لیکن تم نے اس سے قبل کبھی چوہے دانی لانے کے بارے میں نہیں سوچا — ؟ ‘

ناہید اپنے کام میں مصروف تھی۔ اس نے اُسی لہجے میں جواب دیا — ’ جو کام پہلے نہیں ہوا۔ وہ بعد میں بھی تو ہو سکتا ہے۔ ‘ وہ مسکرائی تھی۔ اب دیکھنا۔ چوہا مرے گا۔۔ ‘

اس کا لہجہ اور انداز ایسا تھا کہ میں ڈر گیا۔۔

کمال یوسف خاموش ہوا تو میں نے پوچھا۔’ اس میں ڈرنے والی بات کون سی تھی — ؟‘

’ اس کا لہجہ — مجھے اس لہجے سے خوف کی بو آ رہی تھی۔ اور میں کمرے میں واپس آ کر سوچ رہا تھا کہ اگر مجھے ناہید کو خود سے دور کرنا ہے تو اسے اشتعال دلانا ہو گا۔ دوسری صورت میں، میں نے ان تمام پہلوؤں پر غور کر لیا تھا کہ میں اُس کے ساتھ رہ سکتا ہوں یا نہیں  — اگر پچھلی رات والا حادثہ نہ ہوا ہوتا تو شاید میں اس احمقانہ خیال کے بارے میں سوچتا بھی نہیں کہ اس سے پیچھا کیسے چھڑایا جائے۔ لیکن پچھلی رات جس طرح وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھی، میں کہہ سکتا ہوں، میں اس قدر ڈر گیا تھا کہ اب اس کے ساتھ رہنا کم و بیش میرے لیے آسان نہیں رہ گیا تھا۔

’پھر کیا ہوا۔۔ ؟‘

’وہی اشتعال دلانے والی بات۔۔  ‘ کمال نے میری طرف دیکھا — ‘ بہتر ہے میں وہ پورا منظر آپ کو دکھا دوں۔۔ ‘

٭٭٭

 

 

 

(6)

 

دھوپ سر پر آ گئی تھی مگر کمال کی آنکھوں کے سامنے جو کھیل چل رہا تھا، اُس نے خوشگوار صبح کے تاثر کو زائل کر دیا تھا — ناہید ابھی بھی چوہے دانی میں الجھی ہوئی تھی — روٹی کے چھوٹے ٹکڑے چوہے دانی کے اندر تار میں احتیاط سے لٹکائے جا رہے تھے۔۔  درختوں کے سبز پتّوں کے درمیان سے چھن چھن کر آنے والی سورج کی کرنوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے ہر کرن سے چمکتے ہوئے سفید سفید چوہے زمین پر گرتے جا رہے ہوں۔۔ اس وقت وہ چوہوں کی زد میں تھا۔ ہر طرف سے جیسے چوہوں نے اس پر حملے کر دیے ہوں۔ کمال کو اُس جادو گر کی یاد آ رہی تھی جو بانسری بجاتا ہوا پہلے گاؤں سے چوہوں کی فوج کو لے کر پہاڑوں کی ترائی میں اُتر گیا — پھر اس کے پیچھے پیچھے گاؤں کے تمام بچے پہاڑی کی ترائی میں اتر کر غائب ہو گئے۔ یہ چوہے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔  کمال کے سامنے البیر کا مو کے ناول دی پلیگ کا کردار ڈاکٹر ریو بھی تھا، جس نے اپنے گھر کی سیڑھیوں پر ایک چوہے کو مردہ دیکھا تھا — اور اس کے بعد ہی سارے شہر میں ہیضہ پھیل گیا تھا — ڈاکٹر ریو غائب تھا — اور جادو گر بھی پہاڑ کی ترائی میں اتر چکا تھا — دھوپ کی اجلی کرنوں کے درمیان انہماک سے اپنے کام میں مصروف ناہید تھی — اور ایک کمال، جس نے کبھی ناہید کو اس طرح بیکار کے کاموں میں الجھا ہوا کبھی نہیں پایا تھا — رات کی آندھی ابھی مکمل طور پر رخصت نہیں ہوئی تھی — اور اس وقت اس آندھی نے کمال کو دوبارہ اپنے نرغے میں لینا شروع کر دیا تھا۔۔  اس کے باوجود وہ اس لمحے کو ایک سکون آمیز لمحے میں تبدیل کرنے کا خواہشمند تھا۔۔  اُس نے مسکرانے کی کوشش کی — ناہید کی طرف دیکھا۔۔

’تو چوہا مارنے کا خیال ہے۔۔ ؟‘

’ہاں۔۔ ‘

’’سفید یا سرخ ۔۔ ؟‘

’چوہے  — چوہے ہوتے ہیں — ‘ ناہید کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔  ’چوہے بزدل ہوتے ہیں  — کوئی سفید بزدل چوہا بھی آسکتا ہے اور کوئی سرخ بھی — ‘

کمال نے پھر مسکرا نے کی کوشش کی  — ’کہتے ہیں انسان کی طرح چوہے  بھی صدیوں سے ہیں  — انسان کے سب سے پرانے دوست۔۔ ‘

ناہید نے نظر اٹھائی  — اُس کے چہرے پر سختی تھی  — اس بار وہ خاموش رہی — ‘

کمال کو مزہ مل رہا تھا — اس نے دوبارہ کہا — ایک چوہا ہمارے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر میں بھی ہے۔۔  ماؤس۔۔ ‘ وہ زور سے ہنسا — چوہے شکل بدل کر زندہ رہتے ہیں اور کہیں بھی آ جاتے ہیں  — ہمارے نیٹ سسٹم کو وہی چلاتے ہیں۔۔ ‘

ناہید کی آنکھوں میں انگارہ چھپا تھا — اب ماؤس کی ضرورت نہیں ہے — ‘ وہ زور سے ہنسی تھی — اسی لیے اس چوہے دان میں۔۔  تم سمجھ رہے ہونا۔۔ ‘اُس کا لہجہ اُکھڑا ہوا تھا —

’لیکن تم ایسا کر نہیں پاؤ گی — اور مجھے اس کا افسوس رہے گا ناہید — ‘ کمال غور سے ناہید کے چہرے کو پڑھتا ہوا بولا — چوہے ہر جگہ ہیں۔۔  اب تو دھماکہ خیز مواد اور منشیات کو سونگھنے کے لیے بھی چوہوں کو کتوں کے طرز پر تربیت دی جا رہی ہے — کتوں کی طرح چوہے بھی کھوجی بن گئے ہیں  — کہا جاتا ہے کہ کتوں کے مقابلے چوہوں میں سونگھنے کی حس، کہیں زیادہ ہوتی ہے — کتوں کو زیادہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ چوہے بہت کم وقت میں اچھے کھوجی چوہے ثابت ہوتے ہیں — ‘کمال مسکرایا۔۔  ’جب تک تم اسے پکڑنے کی کوشش کرو گی۔ وہ کسی چوہیا کی تلاش میں نکل چکا ہو گا۔‘

ناہید نے جیسے سنا نہیں  — وہ اپنے کام میں الجھی ہوئی تھی — کمال کو یاد آیا، یہ وحشت ناہید پر رات سے سوار ہوئی تھی جب اُس کے کمرے سے جاتے ہوئے ناہید نے آہستہ سے اس لفظ کی ادائیگی کی تھی۔۔  چوہا — لیکن تب کمال یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ صبح ہوتے ہی، رات کی ’جبلت‘ سے پہرہ ہٹتے ہی، وہ اس چوہے کے تعاقب میں اتنی دور نکل جائے گی کہ صبح ہی صبح ان چوہوں کو پکڑنے یا مارنے کے لئے ایک چوہے دانی لے کر آ جائے گی — کمال ابھی تک ناہید کے اس مزاج کو سمجھ نہیں پایا تھا — وہ اب بھی اُس کی طرف دیکھ رہا تھا — وہ ایک بار پھر آہستہ سے بولا —

’چوہا بہت جلد انسان سے مانوس ہو جاتا ہے۔۔ ‘

ناہید چپ رہی — ‘

’جنگلی چوہے گھر بنانے کے فن میں ماہر ہوتے ہیں — ‘

ناہید اس بار بھی چپ رہی — ناہید کی خاموشی کمال کو اُکسانے پر مجبور کر رہی تھی — اُس نے آہستہ سے کہا — ایک شخص چوہوں سے پریشان تھا — اُس نے ایک چوہے دانی لگائی ۔۔ ‘

ناہید نے نگاہیں اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا —

کمال نے اپنی بات جاری رکھی۔۔ ’ لیکن وہ شخص کنجوس تھا — روٹی کے ٹکڑے کی جگہ اُس نے اخبار سے تراشی ہوئی روٹی کے ٹکڑے کی تصویر چوہے دانی میں رکھ دی۔۔ ‘

ناہید کا چہرہ آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا تھا —

’دوسرے دن جب وہ شخص چوہے دانی کے پاس گیا تو معلوم ہے اُس کو کیا ملا — روٹی کی تصویر کے پاس ہی اخبار سے کتری ہوئی چوہے کی ایک تصویر رکھی ہوئی تھی۔۔ ‘

اس سے پہلے کہ کمال قہقہہ لگا پاتا، اُس نے دیکھا، ناہید اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی — اُس کی آنکھیں جل رہی تھیں اور گلے سے غراتی ہوئی آواز نکل رہی تھی — کمال کے لیے یہ چونکنے والا لمحہ تھا، کیونکہ اس سے قبل کبھی اس نے ناہید کا یہ روپ نہیں دیکھا تھا — ناہید کی آنکھیں خوفناک لگ رہی تھیں  — وہ چیخ رہی تھی —

’تم پاگل ہو گئے ہو۔۔  تم جانتے بھی نہیں کہ چوہا کیا ہوتا ہے۔۔  گوشت کی ایک جھلّی۔۔  ایک منحوس ٹکڑا — میں چاہتی تو چوہے مارنے والی دوا بھی لا سکتی تھی — آج کل تو چوہے مارنے کے پاؤڈر بھی ملتے ہیں  — بسکٹ بھی — مگر نہیں  — میں اُسے پکڑنا چاہتی ہوں  — اسے روندنا چاہتی ہوں  — مسلنا چاہتی ہوں۔۔  ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہوں ۔۔  سمجھ رہے ہو تم۔۔

’ناہید۔۔ ‘ کمال زور سے چیخا — اس وقت یہ چہرہ اُس کے لیے اجنبی تھا — وہ زور سے چیخا — ’تم جانتی بھی ہو تم کیا کہہ رہی ہو — میں مذاق کر رہا تھا — اور تم۔۔ ‘

’تم مذاق نہیں کر رہے تھے۔۔ ‘ ناہید پھر زور سے چلائی۔۔  کمال کو ذہن ڈوبتا ہوا محسوس ہوا — اس کا لہجہ سرد تھا — میں تو یونہی چوہے کے بارے میں۔۔ ‘

’جانتے بھی ہو چوہا کیا ہے — ؟‘ ناہید کی آواز میں سانپ کی پھنکار شامل تھی۔۔  ’چوہا ایک بھوک ہے — روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو کترنے کے بعد بھی اُس کی بھوک شانت نہیں ہوتی — اُس کی بھوک بڑھ جاتی ہے ۔۔  اور وہ ہر بار اپنی بھوک مٹانے کے لئے آ جاتا ہے۔۔  پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور بن کر۔۔  لیکن میں چھوڑوں گی نہیں  — مار دوں گی — وہ جہاں کہیں بھی ہو گا — چھت پر، برامدے میں۔۔  بلوں میں، کونے کتروں میں  — میں اسے تلاش کروں گی اور ماردوں گی۔۔  ‘ ناہید کے چہرے پر ایک سفاک مسکراہٹ تھی — اور ادھر کمال کو اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ اچانک اُس کی مسکراہٹ چھین لی گئی ہے — جیسے اُس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہو۔۔  کوئی آسیب۔۔  بھوت۔۔  ڈراکیولا۔۔  اچانک اُس کے سا منے آ گیا ہو — درختوں کی اوٹ سے آتی ہوئی سورج کی کرنوں کی جگہ چھن چھن کر چوہے زمین پر گر رہے تھے۔۔  وہ حیران نظروں سے چوہوں کو دیکھ رہا تھا۔۔  ایک۔۔  دو۔۔  تین۔۔  ہزار۔۔  چاروں طرف چوہے تھے۔۔  کیا یہ ناہید کی گفتگو کا رد عمل تھا؟ اُس کو چکر آ رہے تھے — رات کا واقعہ یاد آ رہا تھا اور ناہید کے ابھی کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے۔۔  میں ماردوں گی۔۔  میں اُسے تلاش کروں گی اور ماردوں گی۔۔ ‘

کمال نے نفرت سے ناہید کی طرف دیکھا — ’اور اسی لئے کل آدھی رات تم مجھے مارنے کے لئے آئی تھی۔۔ ؟‘

’نہیں — ؟

’جھوٹ — تم مجھے مارنے آئی تھی۔۔  تمہارے لئے مارنا کھیل ہے — اور مجھے لگتا ہے، تمہارے پاس سے زندگی، زندگی کو قائم رکھنے والا جذبہ، محبت سب کچھ غائب ہو چکا ہے۔۔ ‘

’اسے تم نے غائب کیا ہے — ‘

’میں نے۔۔ ‘

’دھچکا لگا — ؟‘ ناہید کے ہونٹوں پر پھر وہی سفاک مسکراہٹ تھی — تمہاری بھوک کچھ بھی زندہ رہنے کہاں دیتی ہے — تمہاری بھوک سب کچھ مردہ کر دیتی ہے — ‘

یہ بھوک کہاں سے آئی — ‘

ناہید نے قہقہہ لگایا — چوہے دانی کو ہلا کر بولی — ’روٹی کے ٹکڑے رکھے ہیں  — بھوک جمع کر رہی ہوں  — وہ آئے گا اور یہ لکڑی کا پٹرہ گر جائے گا — اور ادھر دیکھو۔۔  یہاں جالی بنی ہے۔۔  میں اُسے دیکھ سکوں گی۔۔  قید میں تڑپتے ہوئے۔۔  اور پھر میں اُسے ماردوں گی — ‘

ناہید اُسے دیکھ کر مسکرائی تھی — لیکن اس وقت اس پر ا سرار مسکراہٹ کو سمجھنا کمال کے لئے مشکل تھا — وہ کچھ دیر دم بخود اپنی جگہ کھڑا رہا۔ گھنے سائے تھے جو تیز دھوپ کے با وجود اُس کی آنکھوں کے آگے لہرا رہے تھے۔۔  ا ور شاید وہ تا دیر اسی کیفیت میں رہتا۔۔  اگر وہ میٹھی سریلی آواز اُس کے کانوں میں نہ گئی ہوتی —

’’منگری — میں جانتی ہوں تم یہیں ہو۔۔ ‘

’’منگری۔۔  کہاں ہو تم۔۔ ‘

اچانک دوڑتے ہوئے پاؤں ٹھہر گئے تھے — کمال نے پلٹ کر دیکھا — یہ وحیدہ تھی۔۔  گھنے سائے اچانک دور ہو گئے — کمال کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔

آپ۔۔

’وہ ۔۔  آپ نے منگری کو دیکھا ۔۔ ‘

’منگری۔۔ ‘

’میری دوست ہے — ہر سال اسی موسم میں سائبیریا سے آتی ہے۔۔ ‘ وحیدہ کے ہونٹوں پر شکایت تھی — ابھی اڑتی ہوئی اس طرف آئی تھی — اچھا چلتی ہوں۔۔  منگری۔۔  منگری۔۔ ‘

وحیدہ آواز دیتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی — کمال کی خواہش ہوئی کہ یہ دریافت کرے، وہ ان پرندوں کی ہی تلاش کیوں کرتی ہے؟ جو دور رہتے ہیں اور مسافر پرندے ہوتے ہیں  — مگر اس وقت کمال کی باتیں سننے کے لئے وحیدہ موجود نہیں تھی —

٭٭

 

دو بجے چوہوں نے پھر شور مچایا —

اس درمیان کمال کی کوشش تھی کہ ڈراونے خواب جیسے واقعات سے الگ اپنی سوچ وحیدہ پر مرکوز کرے اور اس کا فائدہ بھی ہوا تھا — پچھلے کئی مہینوں سے چلنے والے خوفناک واقعات کی جگہ ہرنی کی طرح سہمی ہوئی وحیدہ آ گئی تھی — اور یہ ایک حقیقت تھی کہ اب وحیدہ اُسے اچھی لگنے لگی تھی — لیکن کیا ناہید کو اس کی خبر تھی؟ کیا ناہید نے اسی لیے اب وحیدہ سے دور رہنا شروع کر دیا تھا — ؟ جب کہ ایک وقت تھا، وہ وحیدہ کا نام لیتے ہوئے تھکتی نہیں تھی —

’کیا ناہید میں ایک دوسری عورت آ گئی ہے؟ اور یہ عورت وحیدہ کی وجہ سے ہے؟‘

کمال یہ ماننے کو قطعی تیار نہ تھا — ایک وجہ تو یہ تھی کہ ا گر ایسا کچھ تھا تو بیحد خاموشی سے تھا — اگر وحیدہ بھی اُسے پسند کرتی تھی تو اس نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا — ا ور کمال نے کبھی بھی ناہید کے سامنے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ وحیدہ کے لئے کمزور ہو رہا ہے — اس کے با وجود، اگر ناہید کے اندر یہ باغی اور خطرناک عورت آ گئی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟

اور حقیقت میں، کمال کوئی بھی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا — گھر کی فضا کچھ ایسی تھی کہ بار بار اسے خوف کا احساس ہو رہا تھا — پہلے اُسے اس بات کا یقین تھا کہ ناہید کسی نفسیاتی بیماری کی شکار نہیں ہے — مگر اب وہ جو واقعات پیش آ رہے تھے، اُس سے کہنا مشکل تھا کہ ناہید بیمار نہیں ہے — بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ ناہید نے خود کو بیمار کر لیا ہے — ممکن ہے یہ واقعات اُس کے ساتھ پیش نہ آئے ہوتے، تو اُس کے لئے یہ یقین کرنا مشکل ہوتا کہ کوئی عورت ایسی بھی ہو سکتی ہے —

دو بجے کا وقت ہو گا۔ اچانک کمال ناہید کی چیخ سن کر چونک گیا۔۔  آواز کچن سے آئی تھی — ادھر لگاتار ہی نئی نئی باتیں ہو رہی تھیں مگر اب محتاط رہنا ضروری ہو گیا تھا — وہ بھاگ کر کچن میں آیا تو اچانک چونک پڑا —

کچن جنگ کا میدان بنا ہوا تھا — برتن اور سامان ادھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے — کچن کے فرش پر خالی بوتلوں کے ڈھیر تھے — ان میں تیل، گھی، بورن ویٹا، ہارلکس کے خالی ڈبّے بھی تھے — یہ وہ ڈبے تھے جن کے خالی ہو جانے کے بعد وہ کچن کے نیچے کی طرف کھلنے والی المیرا میں ڈالتی چلی جاتی تھی۔۔  ناہید کا چہرہ سیاہ پڑ گیا تھا — آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں —

’کیا ہوا۔۔ ؟‘

’چوہا۔۔ ‘ ناہید زور سے چلا کر۔۔  ’میں یہ خالی ڈبے نکال رہی تھی۔۔  اُس نے اشارہ کیا۔۔  دو موٹے چوہے۔۔  اچانک کود کر باہر آئے اور مجھ پر حملہ کر دیا۔۔  پھر کئی کئی چوہے۔۔  ‘ وہ خوفزدہ نظروں سے کمال کو دیکھ رہی تھی۔۔ ’یہ چوہے خوفناک ہو گئے ہیں  — ہر جگہ ہیں، سمجھ رہے ہو تم۔۔ ‘ وہ دوبارہ چیخی — ناقابل برداشت۔۔ اُس نے ٹھہر کر اس لفظ کو دہرایا — اب بھی وہ خوف اور غصے سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی —

’اس میں چیخنے کی بات کیا ہے — چوہے ہر گھر میں ہیں — ‘

’ ہر گھر میں ہیں  — کیا یہ خوفناک بات نہیں — ؟‘ اُس نے غصہ سے اشارہ کیا — ‘ وہ دیکھو۔۔  یہ تم نے کیا ہے۔۔ ‘

’کیا ۔۔ ؟‘

کمال نے پلٹ کر دیکھا — اور اس لمحہ اُسے اپنی ہنسی کو روکنا مشکل ہو گیا — صبح جس چوہے دان کے ساتھ وہ روٹیاں ڈالنے اور چوہے کو پکڑنے کی تدبیر کر رہی تھی، وہ چوہے دان ٹوٹا پڑا تھا — لکڑی کے پٹرے الگ تھے — روٹی کے ٹکڑے بھی باہر بکھرے ہوئے تھے۔۔

’چوہے، چوہے دان بھی۔۔  چبا گئے؟‘

’نہیں  — یہ تم نے کیا ہے — ‘

’ تم پاگل ہو گئی ہو — ‘

’یہ تم نے کیا ہے — جھوٹ مت بولو — میں صبح ہی تمہارا منشا جان گئی تھی۔۔  ناقابل برداشت — ناہید نے دوبارہ یہ لفظ دہرایا۔۔  چوہوں کے ساتھ رہنا مشکل ہے۔۔  تم سمجھ رہے ہو نا۔۔  مشکل ہے رہنا۔‘ کچن سے باہر نکلتے ہوئے ناہید ایک لمحہ کے لئے رُکی — پلٹ کر کمال کی طرف دیکھا —

’میں اس گھر کو چوہوں سے پاک کر دوں گی — سمجھ رہے ہو تم۔۔ ‘

٭٭

 

کمال اپنی دنیا میں واپس آ چکا تھا — میں بغور اُس کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا — خوف کا عکس اُس کے چہرے پر اب بھی موجود تھا، جیسے ابھی بھی وہ خوفناک چوہوں کے درمیان ہو — چوہے جو کچھ بھی کتر سکتے ہیں  — چوہے جو چوہے دانی کترنا بھی جان گئے ہیں۔۔  چوہے جو کھوجی، جاسوس ا ور خوفناک بیماریوں کی وجہ بھی ہیں  — لیکن یہ چوہے ناہید کی نظر میں کیا تھے — ؟ میں نے کمال کو دیکھا  — وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر واش بیسن تک گیا — چہرے پر پانی کے دوچار چھینٹے مارے — پھر واپس آ گیا — جیسے وہ ان خوفناک واقعات کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر سے ان حادثوں کا حصہ بن گیا تھا — اس درمیان صوفیہ دو بار آئی اور گئی  — وہ خاموش تھی — میں نے اُس کی آنکھوں کو غور سے پڑھنا چاہا تو وہ مجھے اتنی ویران نظر آئیں کہ مجھے اس معصوم سی لڑکی سے ہمدردی پیدا ہو گئی — وہ ہر کچھ دیر بعد کمال کو اس طرح دیکھنے یا کھوجنے چلی آتی جیسے اُس کا قیمتی کھلونا کہیں گم نہ ہو جائے — میں نے دوبارہ کمال کی طرف دیکھا — میرا ذہن بھی الجھ چکا تھا — پچھلی رات سے لے کر دن کے دو بجے تک کا جو واقعہ کمال نے سنایا تھا، میں اُسے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا —

’چلو، کہیں باہر چلتے ہیں  — ممکن ہو تو صوفیہ کو بھی لے لو۔۔ ‘

اس وقت ذہن اتنا پریشان تھا کہ نینی تال کے حسین مناظر ہی مجھے ان حادثوں اور الجھنوں سے باہر نکال سکتے تھے — کہنے کی دیر تھی کہ صوفیہ تیار ہو گئی — کمال نے گاڑی نکال لی — گاڑی ہائی وے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ میں نے رُکنے کے لئے کہا — یہاں دونوں طرف تنگ راستے تھے — تھوڑا اوپر جانے کے بعد ہزاروں فٹ نیچے کی خوفناک گہرائی تھی — اگر یہ قبول کیا جائے کہ ناہید کو مرنا ہی تھا تو اس کو بہت دور جانے کی کوئی ضرور ت نہیں تھی — مجھے ڈاکٹر سانیال یاد آ رہے تھے، جو کہا کرتے تھے کہ خودکشی کرنے کے لئے ارادہ کرنے سے زیادہ ضروری ہے، زندگی سے ہار مان لینا یا آخری امید بھی اٹھا لینا — جب ایسا انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ آگے کوئی راستہ نہیں ہے اور موت ہی الجھنوں سے چھٹکارے کا واحد علاج ہے تو ایسا سوچتے ہی دماغ کی متحرک نسیں کام کرنا بند کر دیتی ہیں — پھر وہ ایک لمحہ۔۔  ایک بھیانک لمحہ۔۔  اس لمحے کے لئے خودکشی کرنے والے کو بہت زیادہ سوچنا نہیں پڑتا — لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس پوری کہانی میں مجھے کہیں ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ ناہید زندگی سے ہار گئی ہو — وہ عشق سے ہار سکتی تھی — مگر نہیں  — وہ عشق سے بھی کہاں ہار ی تھی — ہارتی تو انتقام نہیں لیتی — اور اُس کے اندر جو غصہ یا آگ بھری تھی، وہ کسی کمزور، خود کشی کرنے والی لڑکی کی دلیل کو غلط ثابت کر رہی تھی — لیکن سوال تھا، ناہید کہاں گئی — ؟ لیکن ابھی اس کہانی کے کچھ اور پڑاؤ باقی تھے — اور مجھے ان کے بارے میں جاننے کا تجسس برقرار تھا —

لورز پوائنٹ، آئس ہل کی سیر، کشتی بانی اورنڈلس، آئس کریم کھانے کے بعد ہم دوبارہ گھر کی طرف چل پڑے — اس اثنا میں، میں برابر صوفیہ کے چہرے کے تاثرات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا — وہ کم بول رہی تھی — لیکن اُس کی نظریں کمال کے چہرے سے ہٹتی نہیں تھیں  — اور کمال کی طرف دیکھتے ہوئے محبت سے زیادہ میں نے اُس کے چہرے پر خوف کے آثار پائے تھے —

٭٭

 

رات ڈنر کرنے کے بعد ہم ٹیرس پر آ گئے — یہاں سے اندھیرے میں پہاڑیوں پر بنے ہوئے مکانات اور دور سے جلتی بجھتی روشنیوں کے درمیان شہر کو دیکھنا میرے لیے کسی فنٹاسی سے کم نہیں تھا — ہوا تیز تھی — صوفیہ چائے بنانے کے لئے گئی تھی — اور یہ موقع میرے لئے مناسب تھا کہ میں کمال سے آگے کی کہانی جان سکوں۔۔  میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا —

’تو ناہید نے جاتے ہوئے کہا، وہ گھر کو چوہوں سے پاک کر دے گی — ‘

’ہاں۔۔ ‘

’اور اس وقت ظاہر ہے وہ غصہ میں رہی ہو گی — ‘

’ہاں — ‘

’ پھر تم نے کیا کیا۔۔ ‘

’مجھ سے ایک غلطی ہو گئی — ‘ کمال آہستہ سے بولا — ’مجھے باشا کی یاد آ رہی تھی — میں سوچ رہا تھا کہ ممکن ہے رات جو کچھ ہوا، وہ محض ایک پاگل پن ہو — ممکن ہے وہ مجھے مارنے نہیں آئی ہو — اور کوئی بھی عورت اپنے شوہر کا قتل کیوں کرنا چاہے گی۔۔ ؟ میں ناہید کے غصے کو کم کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے ضروری تھا کہ میں خود کے جذبات پر بھی قابو پانے کی کوشش کروں  — لیکن اس درمیان کئی روز سے مجھے ایک چیز پریشان کر رہی تھی — اور آپ دیکھ رہے ہیں، میری کوئی زیادہ عمر نہیں ہے — یعنی اس عمر میں۔۔  اگر ایک شوہر کو کئی کئی راتیں یونہی گزارنے کی نوبت آئے تو — میرے خیال میں آپ سمجھ گئے ہوں گے — ‘

’ہونہہ — ‘ میں نے آہستہ سے کہا —

’میں اندر کی سلگتی ہوئی آگ کو لے کر پریشان تھا  — اس لیے جب ناہید غصہ میں یہ بولی کہ میں چوہوں سے اس گھر کو پاک کر دوں گی تو اچانک میرے منہ سے نکلا۔۔ ‘

کمال کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا —

’کیا نکلا — ؟‘

’میں نے کہا۔۔  لیکن اس سے پہلے میں تمہیں ناپاک کرنا چاہتا ہوں  — آپ سمجھ سکتے ہیں، ایسے مذاق شوہر بیوی کے درمیان ہوتے رہتے ہیں  — یہ کوئی ایسی ویسی بات بھی نہ تھی — مگر باہر جاتے جاتے میرے اس مذاق پر ناہید کے جسم میں آگ لگ چکی تھی — وہ اتنی زور سے چیخی کہ اگر یہ گھر کمزور ہوتا تو شاید اُس کی چیخ کی تاب نہ لا کر گر پڑا ہوتا۔۔  وہ ہسٹریائی انداز میں چیخ رہی تھی۔۔  کیا کہا تم نے۔۔  ناپاک کرنا چاہتے ہو مجھے۔۔  بھوک۔۔  بھوک سے آگے بھی کچھ جانتے ہو۔۔ ؟ ہمیشہ بھوکے میں رہتے ہو — کتے کے پلے۔۔  میں زور سے چیخا — بس کرو ناہید۔۔  مگر وہ جیسے پاگل پن کے انداز میں کچھ بھی سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں تھی — وہ زور زور سے چلا رہی تھی۔۔  اور شاید غصے میں، میں بھی چلایا تھا — ہاں مرد ہوں میں۔۔  مجھے بھوک لگتی ہے۔۔  میں مرد ہوں۔۔  مجھے بھوک لگتی ہے۔۔ ‘

’۔۔  میں اپنے کمرے میں آ گیا تھا — میرا دماغ گھوم گیا تھا — میں نے سوچ لیا تھا اب اس عورت کے ساتھ نہیں رہ سکتا — میں مطمئن تھا کہ ناہید بھی یہی سوچ رہی ہے — اسی ادھیڑ بن میں رات کے ۱۰ بج گئے تھے — ہم دونوں میں  کسی نے بھی کچھ نہیں کھایا تھا — میں نے سوچ رکھا تھا کہ ناہید نارمل ہو گی تو اطمینان سے اُس سے بات کروں گا کہ اگر دو لوگ ایک چھت کے نیچے چین سے نہیں رہ سکتے تو انہیں الگ ہو جانا چاہئے — مگر دشمنوں کی طرح نہیں  — کیونکہ اس طرح رہنے میں تین زندگیاں داؤں پر لگ جا تی ہیں — اور ہمارے معاملے میں سب سے زیادہ متاثر باشا ہو گا — ‘

’۔۔ مجھے احساس تھا کہ جب میں یہ موضوع چھیڑوں گا تو ناہید ا س پر غور ضرور کرے گی اور ممکن ہے آپسی رضا مندی سے یہ مسئلہ حل ہو جائے — کیونکہ ناہید کو بھی ایک زندگی چاہئے — مجھے یقین تھا کہ وہ خود بھی اس زندگی سے پریشان ہو گئی ہو گی — میں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ باشا کا معاملہ بھی آپسی رضا مندی سے طے کر لیں گے — اگر ناہید باشا کو رکھنا چاہے گی تو میں اعتراض نہیں کروں گا — مگر رات دس بجے اچانک جو واقعہ پیش آیا، میں نے کبھی خواب میں بھی اس کا تصور نہیں کیا تھا —

’ مطلب؟ ‘ میں نے کمال کی طرف دیکھا — وہ کسی بچے کی طرح کانپ رہا تھا — صوفیہ چائے رکھ کر جا چکی تھی — کمال نے چائے کی کپ خالی کی — میری طرف دیکھا —

’مرد کسی عورت سے پریشان ہو جائے تو اُس کا آخری حربہ کیا ہوتا ہے؟‘

’مطلب؟ ‘ اب چونکنے کی باری میری تھی —

’مثلاً ایک شوہر ہے — و ہ بیوی سے ناراض رہتا ہے — اس کی زندگی میں کوئی بھی دن خوشی کا نہیں ہے تو وہ کیا کرے گا۔۔ ؟‘

’کچھ بھی۔۔ ‘

’مثلاً۔۔ ؟‘

’وہ چلائے گا۔۔ ‘

’اس کے بعد بھی عورت نے اس کو پریشان کیا۔‘

’وہ سمجھائے گا۔‘

’عورت ماننے والی نہ ہوئی۔ یا مرد کا دل اس عورت سے بھر گیا ہو تو ایسا مرد کیا کرے گا؟‘

’ وہ دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دے گا۔ ‘

’بالکل صحیح — ‘ کمال نے میری طرف دیکھا — ’ اُس نے یہی کیا — کیونکہ وہ ایک شوہر تھی — رات دس بجے بیڈ روم کا دروازہ زور سے کھلا — جیسے زلزلے کا جھٹکا آیا ہو — میں نے دیکھا — دروازے پر ناہید تھی — اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک بڑا سا ڈنڈا تھا — منہ سے خوفناک آواز نکالتی ہوئی وہ حملہ آور موڈ میں میری طرف دیکھ رہی تھی۔۔  نکلو۔۔  نکلو۔۔  یہاں سے۔ میں نے کہا تھا نا۔۔  تمہارے ساتھ رہنا مشکل ہے۔ اب حد ہو چکی ہے۔ اب تم اس گھر میں نہیں رہ سکتے۔‘

’ناہید ۔۔ ‘

میرا نام مت لو۔۔  نکلو یہاں سے — ‘

’کہاں — ؟ پاگل ہو گئی ہو تم۔۔ ‘

’جو بھی سمجھ لو — لیکن نکلو۔۔ اس نے اشارہ کیا۔۔  یہ لوہا ہے — میں ماردوں گی۔۔  یہیں مر جاؤ گے — نکلو یہاں سے — ‘

میں کانپ رہا تھا — ’ تم جانتی بھی ہو تم کیا کر رہی ہو — پاگل ہو گئی ہو تم — ‘

’بس نکلو — ورنہ دھکے مار کر۔۔ ‘ لو ہے کا ڈنڈا پاگل پن کے انداز میں گھماتی ہوئی وہ مجھے باہر والے دروازے تک لے آئی — اُس کے چہرے کا رنگ اچانک بدلا تھا — اب اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی — وہ غصہ سے میری طرف دیکھتی ہوئی چیخی — تم لوگ ایسے ہی اپنی بیویوں کو گھر سے باہر نکالتے ہو نا — ؟ دھکے مارکر۔۔ ؟ سوچتے بھی نہیں کہ وہ کیا کرے گی؟ کہاں جائے گی — تمہارے الفاظ اُس پر کیا اثر کریں گے — ؟ سب کچھ بھول جاتے ہو تم لوگ نا۔۔ ؟ اب میں یہی کرنے والی ہوں۔۔  دیکھ کیا رہے ہو — نکلو باہر۔۔  باہر نکلو — ‘

’تم پاگل ہو گئی ہو — سنو — میری بات سنو — ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو مشکل کیا ہے — آرام سے بھی تو الگ ہوا جا سکتا ہے — ‘

اُس کی آواز میں سانپ کی پھنکار شامل تھی — ’ نکلو باہر — مجھے کچھ نہیں سننا — ‘

’لیکن اتنی ر ات گئے۔ میں کہاں جاؤ ں گا۔ پہاڑی علاقہ ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں سو گئے ہوں گے۔۔ ‘

’میں کچھ نہیں جانتی — ‘ وہ ہنس رہی تھی۔۔  ’وہ عورتیں بھی اسی طرح روتے ہوئے مکالمہ ادا کرتی ہوں گی نا — ‘ تم ذرا رو کر دکھاؤ۔ شاباش — ممکن ہے میرا ارادہ بدل جائے — ‘ اس کے چہرے پر پھر سے سختی آ گئی تھی — ‘ نہیں میرا ارادہ نہیں بدلے گا — باہر نکلو۔۔  ابھی بھی باتیں کرتے رہے تو میں ڈنڈا چلا دوں گی — نکلو باہر  — دھکے مار مار کر دروازے سے باہر نکال دوں گی — ‘

’۔۔  مجھے احساس تھا کہ اس وقت اس کی ذہنی حالت اچھی نہیں ہے — اور جو کچھ وہ کہہ رہی ہے۔۔  وہ کر سکتی ہے۔۔  گھبرایا ہوا میں پیچھے ہٹتا ہوا دروازے سے باہر تھا — پھر میں نے آواز سنی — وہ دروازہ بند کر رہی تھی۔۔ ‘

کمال بولتے بولتے ٹھہر گیا تھا — کچھ دیر تک سرجھکائے وہ زمین کی طرف دیکھتا رہا — ممکن ہے، ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہو — میں نے دیکھا — ’ اُس کی آنکھیں نم تھیں  — شاید ان موقعوں پر خود کو سنبھالنا آسان نہیں ہوتا — ماحول میں خاموشی پسری  ہوئی تھی —

حقیقت فنٹاسی سے زیادہ تلخ ہوتی ہے — ان واقعات کا تصور کرتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے — اور یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس وقت کمال پر کیا گز رہی ہو گی — میں نے دیکھا — کمال نے اپنی ایک ہتھیلی سے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا — وقت ٹھہر گیا تھا — یہ ایک ایسا لمحہ تھا، جب خاموشی دھماکے کر رہی تھی اور اس وقت اس کی گونج یہاں صرف ہم دونوں سن رہے تھے —

ہر بار ایک دنیا ہمارے لئے نئی ہو جاتی ہے — ہر بار ایک تہذیب پرانی ہو کر گم ہو جاتی ہے — ہر بار ہم ایک نئی تہذیب کے ساتھ حیران ہو رہے ہوتے ہیں  — لیکن کیا ناہید کی بغاوت سے کہیں کچھ فرق پڑا تھا — ؟ کیا اربوں، کروڑوں میں ایسی کوئی ایک بغاوت اس سماج اور معاشرے پر کوئی اثر ڈال سکتی ہے — ؟لیکن اس کا جواب بھی میرے پاس موجود تھا — ناہیدیں پیدا ہو رہی ہیں  — اور اس مرد اساس معاشرے کو آہستہ آہستہ اس کا جواب ملنے لگا ہے —  ایک بدلتی ہوئی، جاگتی ہوئی عورت جو بچوں کی تربیت سے لے کر سیکس تک ہر مورچے پر اپنی شناخت، اور مضبوطی بھی قائم رکھتی ہے — جیسے ایک عورت سہاگ رات میں اپنے شوہر سے پوچھتی ہے۔۔  مجھے اپنی میڈیکل رپورٹ دکھاؤ — اس کے بعد ہی میں اس حسین رات کے لئے کچھ سوچ سکتی ہوں۔۔  اور یہاں اس نئے ماحولیات میں جنم لیتا ہوا مرد ہے، جواب ایسے سوالوں میں اپنی مردانگی تلاش نہیں کرتا — ڈائنا سور جیسے عظیم الشان، قوی الجثہ جانوروں کی نسلیں ختم ہو گئیں کیونکہاس کے پس پشت ماحولیات کو دخل تھا کہ جس قدر زمین، پانی اور ہوا ان کے نشو و نما اور زندگی کے لئے چاہئے تھا۔ وہ انہیں میسر نہیں تھے۔۔  مرد سے مردانگی کے عنصر چھینے جا رہے تھے۔۔ ‘

میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی — مرد سکڑ رہا ہے۔۔  میں نے کمال کی طرف دیکھا —

’تو تم گھر سے باہر تھے — ‘

’ہاں۔۔ ‘

’تم اپنے ہی گھر سے نکال دیے گئے تھے — ‘

’ہاں۔ یہ انوکھی بات تھی۔ میں سمجھنے سے قاصر تھا کہ میرے ہی گھر کے دروازے میرے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ اور مجھے میرے ہی گھر سے نکال دیا گیا ہے — اور مجھے نکالنے والی اور کوئی نہیں میری بیوی ہے۔‘

’وقت کیا ہوا تھا؟‘

’ اس پورے ہنگامے میں رات کے بارہ بج چکے تھے۔ تنہائی مجھے خوفزدہ کرتی ہے۔۔  پہاڑیوں کی ویرانی اور سناٹے کا احساس اس وقت آپ کو پاگل کر دے گا جب اچانک آپ کو احساس ہو کہ نیم شب میں آپ اکیلے اس بھیانک پتھریلے راستے اور ہزاروں فٹ نیچے کی گہرائیوں کا حصہ ہیں۔ میں نے دیکھا۔ دور تک درخت ہی درخت۔ آس پاس سے، کہیں سے بھی کتوں کے بھونکنے کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ ہوا رک گئی تھی۔ پیڑ پودے ساکن و جامد کھڑے تھے۔ سامنے وحیدہ کا گھر تھا۔ پہاڑیوں پر یوں بھی گھر دور دور بنے ہوتے ہیں۔ میری خواہش ہوئی کہ وحیدہ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاؤں۔ پھر خیال آیا کہ انہیں کہوں گا کیا — یہ کہ میری بیوی نے مجھے نکال دیا ہے۔ اس خوفناک سناٹے میں تاریکی کے آسیب جاگ رہے تھے اور میرے جسم میں کپکپی پیدا ہو رہی تھی۔ میں دیر تک اپنے ہی گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا۔ میں چیخ رہا تھا۔ پاگل ہو گئی ہو۔ میں رات کہاں گزاروں گا۔۔  دروازہ کھولو ناہید۔ میں کہتا ہوں دروازہ کھولو۔۔  میں نے ہزاروں بار بیل بجائی ہو گی۔ مجھے تیز نیند کا احساس ہو رہا تھا۔ اور قدم شل تھے۔۔  میں یہ سوچنے سے قاصر تھا کہ کیا ساری رات مجھے اسی مقام پر گزارنا ہو گا — ؟ وہ بھی تنہا۔ کیا اس طرح میں زندہ رہوں گا؟ ایک طرف خوف اور دوسری طرف بھیانک سناٹا۔ میں سڑک کی طرف گزرتی ہوئی گاڑیوں کی تلاش میں آ گیا کہ شاید کوئی گاڑی نظر آئے تو فریاد کر سکوں۔ کار کی کنجی اور موبائیل دونوں گھر کے اندر رہ گئے تھے۔ میں ایک ایسا لاچار شخص تھا، جس کے پاس ان بھیانک لمحوں میں زندگی کا ہر دروازہ بند تھا — کوئی گاڑی مل جاتی تو میں کسی ہوٹل میں چلا جاتا یا کسی دوست کے پاس — کوئی بہانہ بنا دیتا۔ اس درمیان سڑک پر گشت کرتے ہوئے بھی دو گھنٹے گزر گئے تھے۔ مجھے خیال آیا، گھر چلنا چاہئے۔ ایک بار پھر دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔ ممکن ہے، ناہید کو مجھ پر رحم آ جائے۔‘

’پھر — ؟‘

’میں جیسے ہی گھر کے دروازے پر آیا، میں حیران رہ گیا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اندر کی روشنی باہر تک آ رہی تھی۔ ناہید کا نام لیتے ہوئے میں تیزی سے گھر میں داخل ہوا۔۔  میں نے چاروں طرف دیکھا۔ ڈرائنگ روم، بیڈروم۔ بیڈروم میں باشا ابھی بھی سویاہوا تھا۔ممکن ہے درمیان میں اٹھا ہو، پھر روتے روتے سو گیا ہو۔۔  کچن، ٹوئلیٹ، باتھ روم۔ لیکن ناہید کہیں نہیں تھی۔ مجھے خیال آیا۔ یقیناً وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہو گی اور ابھی مجھ سے چھپنے کی کوشش کر رہی ہو گی۔ لیکن سوال یہ بھی تھا کہ ناہید اگر گئی تو کہاں گئی؟‘

’تم نے تلاش کیا۔‘

’ہر جگہ۔ گوشہ گوشہ۔ جہاں کہیں بھی میں تلاش کر سکتا تھا۔۔  میں یہ بھی دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اگر مان لیا کہ وہ کہیں چلی گئی ہے تو کیا اس نے کوئی خط چھوڑا ہے — ؟ مگر ایسا کوئی خط موجود نہیں تھا۔شاید یہ وہی وقفہ رہا ہو گا، جب میں باہر سڑک پر مدد کے لیے گاڑیوں کو تلاش کر رہا تھا۔ اور اسی درمیان ناہید نے یہ گھر چھوڑ دیا ہو گا۔ ممکن ہے اس نے مجھے دیکھا ہو۔۔  یوں بھی اس طرف راستوں کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن سوال ہے کیا وہ پیدل گئی۔ کہاں گئی — ؟ اب میں خطرہ محسوس کر رہا تھا۔ میں نے اپنے دو چار دوستوں کو فون کر کے بتایا کہ ناہید گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ آنے والا وقت میرے لیے سنگین ہوسکتا ہے — میں نے دوستوں کو یہی بتایا کہ ہمارا آپس میں کچھ جھگڑا ہوا۔ جیسے جھگڑے عام طور پر میاں بیوی میں ہوتے رہتے ہیں۔ مگر یہ جھگڑا اتنا شدید نہیں تھا کہ ناہید نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔۔ ‘

’پھر؟‘

رکمنی چھٹی پر تھی۔ باشا کو گھر میں اکیلے چھوڑنا مناسب نہیں تھا۔ اس درمیان ایک گھنٹہ بعد میرے ایک دوست اپنی اہلیہ کے ساتھ آ گئے۔ باشا کو ان کی اہلیہ کے حوالے کر کے ہم ناہید کی تلاش میں نکل گئے۔ گاڑی میں ہی چلا رہا تھا — مجھے خطرہ اس بات کا تھا کہ کہیں غصے اور جذبات میں ناہید نے کوئی غلط قدم تو نہیں اٹھا لیا — ؟ سات بجے تک ہم گھر واپس آ گئے۔ میرا دوست خاموش تھا۔ ہم دونوں ایک ہی نتیجے پر پہنچے کہ ناہید کے غصے نے اس کو خوفناک انجام تک پہنچا دیا۔‘

’خوفناک انجام یعنی خودکشی۔۔ ؟‘ میں کمال کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔

’جی۔‘

’یعنی تمہیں یقین ہے کہ رات جب تمہیں ناہید نے گھر سے باہر نکالا۔۔  یعنی میرا مطلب ہے تمہارے جاتے ہی اس نے خودکشی کا ارادہ کر لیا۔۔ ؟‘

’میں اس بارے میں نہیں جانتا۔‘

’لیکن یہ کام تمہیں گھر سے باہر نکالنے سے پہلے بھی وہ کر سکتی تھی۔؟‘

’جی۔۔ ‘

’پھر اس نے اتنا انتظار کیو ں کیا — ؟‘

’مطلب۔۔ ؟‘

’مطلب تمہیں پہلے گھر سے نکالا اور پھر مرنے کے لیے گھر چھوڑ دیا — ‘

’یہ میں بھی نہیں سمجھ سکا۔‘ کمال کے چہرے پر حیرانی تھی۔

میں کمال کے چہرے کو دیکھ رہا تھا — ’تمہیں یاد ہے کمال۔ تمہارے دوست نرمل اساس نے کیا کہا تھا۔۔  تبدیلی آ رہی ہے۔ اور بہت تیزی کے ساتھ — ہم ہر لمحہ تاریخ کی موت کے ساتھ جی رہے ہیں  — ممکن ہے، اس فلسفے پر اعتبار نہ کیا جائے — مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ نوجوان نسل آگے بڑھتی ہوئی پیچھے دیکھنے کی قائل نہیں ہے اور اسی لیے اس نے تاریخ سے اپنی توجہ ہٹا کر مستقبل پر نظریں مرکوز کر رکھی ہیں۔ اور اسی لیے۔۔ ‘ میں نے کمال کی طرف دیکھا۔۔  مجھے یقین نہیں کہ ناہید نے ایسا کیا ہو گا — اس کے لیے تاریخ سے زیادہ اس کا ہونا اہم تھا — مردہ تاریخ سے الگ وہ ایک مضبوط مستقبل سے نبرد آزما تھی — اور اسی لیے اس نے نئے عہد میں جیتے ہوئے لغات تک کو بدلنے کا فیصلہ کیا — ‘ ایک لمحہ کو رکا — یہ بات مجھے قائل نہیں کر پا رہی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا — ؟ یا وہ گئی تو کہاں گئی — ‘

’یہی تو میری بھی سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘

’اس کے بعد کیا ہوا؟‘

’ اس کے بعد کی کہانی تو آپ جانتے ہیں۔ پولیس تفتیش۔ مجھ پر شک کیا جانا۔۔  ناگارجن جی کا مدد کرنا۔۔  اور صوفیہ کا میرے گھر آنا۔۔ ‘

’صوفیہ۔۔ ‘ میں نے کمال کی طرف دیکھا۔ ابھی بھی ذہن میں چلنے والی آندھیوں کو سنبھالنا میرے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے کمال سے پوچھا — کیا پولس تفتیش میں کوئی ایسی بات سامنے آئی، جس سے کوئی سراغ مل سکے۔۔ ؟‘

’نہیں۔‘ کمال کچھ سوچتے ہوئے رکا — ’ کتابوں کی الماری سے ایک بچکانہ سی تصویر ملی تھی — ٹھہریے۔ میں دکھاتا ہوں آپ کو۔ پولس دیر تک اس تصویر میں الجھی رہی۔ مگر وہ آخر تک سمجھنے سے قاصر رہی کہ یہ کیا ہے۔ پھر یہ تصویر پولس نے زمین پر پھینک دی۔‘

’تصویر۔ — ‘

’ہاں۔ وہ اکثر بیٹھی بیٹھی کاغذ پر کچھ آڑی ترچھی لکیروں سے تصویریں بنایا کرتی تھی۔ میں نے اکثر دیکھا تھا۔‘

’کیا وہ تصویر ہے تمہارے پاس۔؟‘

’ہاں کیوں نہیں — ‘ کمال اٹھتے ہوئے بولا — ’میں نے جان بوجھ کر تصویر ضائع نہیں کی۔ کیا پتہ پولس کو کب اس تصویر کا خیال آ جائے۔ مگر۔۔  اس نے میری طرف دیکھا — ’آپ کو اس تصویر میں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ یہ معمولی چوہے بلی کی تصویر ہے۔۔ ‘

’چوہے بلی کی۔۔ ‘ بطور مصنف اس پورے مکالمے میں، میں پہلی بار اپنی جگہ سے اچھلا تھا۔ اور اس وقت میری جگہ ایڈگرایلن پو آ گیا تھا۔۔  جس کو اس تصویر میں ایک بڑا خزانہ ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہو۔

کچھ ہی دیر میں کمال واپس آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک میلا سا کاغذ تھا۔ میں نے کاغذ پر دیکھا۔۔  دو تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ پہلی تصویر چوہے کی تھی۔ دوسری تصویر ایک بلی کی تھی۔ اوراس چوہے کو بلی کے پیٹ کے اندر دکھایا گیا تھا۔

میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔یہ ایک بچکانہ سی تصویر تھی جیسی تصویریں ہم بچپن میں بنایا کرتے تھے۔ میں نے آہستہ سے پوچھا۔

’کیا میں یہ تصویر رکھ سکتا ہوں — ؟‘

’کیوں نہیں۔ کمال مسکرایا۔ بس اسی طرح کی تصویریں وہ اکثر بنایا کرتی تھی۔‘

’کیا اس سے پہلے کبھی ناہید نے چوہے اور بلی کی تصویر بنائی تھی — ؟‘

کمال نے کچھ سوچتے ہوئے کہا — ’نہیں۔‘

میں نے تصویر جیب میں رکھ لی۔ لیکن یہی وہ لمحہ تھا جب ایک بلی غراتی ہوئی میرے قریب آ گئی تھی۔ مائی گاڈ۔۔  میں نئی صدی کے ان ۱۵۔۱۴ برسوں کا محاکمہ کر سکتا تھا — ہر قدم پر ایک خوفناک انقلاب کا سامنا — یہ نئی صدی دنیا کو بدلنے والی صدی تھی — اور دنیا کو بدلنے کا خطرہ آئی ٹی انقلاب نے اٹھایا تھا۔۔  اچانک ہمارے بازار بدل گئے۔ آئی ٹی نے کارپوریٹ انڈیا کا چہرہ تبدیل کر دیا۔ پہلی بار کارپوریٹ انڈیا کے عالمی بازار نے لبریشن یا آزادی کے معنی کو سمجھا۔ ایک بڑی دنیا سامنے تھی۔ اور ایک نئی تہذیب — جہاں عالمی بازار کے سامنے مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں تھی — جہاں صرف انسانی ضرورتوں کے حصول کے لیے اس بازار کو سجایا جا رہا تھا اور اس طرح لندن، نیویارک اور بنگلور سب ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے — ایک دنیا تبدیل ہو رہی تھی۔ ساری دنیا کے لائف اسٹائل کم و بیش ایک ہی رہے تھے اور ایک نئی تہذیب اس آئی ٹی انقلاب میں پرورش پا رہی تھی۔۔  آزادی۔۔  اور اچانک آزادی کے اس خول سے ایک بلی غراتی ہوئی باہر آ گئی تھی۔۔ ‘

مجھے یاد آیا — ناہید نے غائب ہونے سے ایک دن قبل کمال کے کمرے سے جاتے ہوئے ایک بے رحم لفظ کی ادائیگی کی تھی۔۔  چوہا۔۔  تو کیا کمال کے لفظوں میں، میلے کاغذ پر بنی ہوئی یہ تصویر سچ مچ بچوں جیسی حرکت تھی — ؟ یا ایک غراتی ہوئی بلی نے اس اسپیس ایج، آئی ٹی کلچر اور نئی تہذیب کے دہانے پر دستک دیتے ہوئے اپنی آزادی کے احساس کو زندہ کیا تھا — ؟ اور ایک گوشت کی جھلی جیسے بد نما چوہے کو کھا کر اپنے پیٹ میں اتار لیا تھا۔۔

 

کمال میرے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ مگر اس وقت میں کمال کو کچھ بھی بتانے یا سمجھانے سے قاصر تھا۔ ناہید کی پوری کہانی میرے سامنے تھی۔ مگر ابھی بھی ایک سوال رہ گیا تھا۔ آخری سوال۔۔  خوفناک بلی کمزور چوہے کو نگل چکی تھی۔ باہر جنگل لرز رہا تھا۔۔

میں نے کمال کی طرف دیکھا۔۔  میرا لہجہ کمزور تھا۔۔  آواز ٹوٹ رہی تھی۔۔  ’پتہ نہیں مجھے یہ سوال کرنا چاہئے یا نہیں۔ مگر۔۔  تم سمجھ رہے ہو نا کمال۔۔  شاید ناہید کو جاننے کے لیے یہ سوال بھی ضروری ہے۔۔ ‘

’جی۔۔ ‘

’میں پہلے ہی اس سوال کے لیے معافی مانگ لیتا ہوں۔ مگر۔۔  جیسا تم سمجھ رہے ہو۔۔  یہ بھی ایک سوال ہے۔ اور شاید میری نظر میں ضروری۔۔ ‘

’آپ پوچھ سکتے ہیں۔‘

’بے حد شکریہ۔‘ میں نے کمال یوسف کی طرف دیکھا۔۔  ’پرائیویٹ سوال ہے، لیکن پوچھنا ضروری ہے۔۔ ‘

لفظ کام نہیں کر رہے تھے۔۔  میں نے غور سے کمال کی طرف دیکھا۔۔  ناہید ناز کے ساتھ تمہارے تعلقات۔۔  میرا مطلب سیکس کے وقت۔۔ ‘ جنگل میں چیخ گونج گئی تھی۔۔  زیادہ تر ناہید ناز کیا پوز پسند کرتی تھی۔۔ ؟ ‘

کمال یوسف کی آواز سرد تھی۔۔  ’زیادہ تر میں نیچے ہوتا تھا۔ اور وہ کسی بھیانک آندھی کی طرح مجھ پرسواری کرتی تھی۔۔ ‘

’ایلس ان ونڈر لینڈ‘ سے وہ غراتی ہوئی بلی اچانک میرے سامنے آ گئی تھی۔ اور میں دیکھ رہا تھا۔۔  وہ خوش نظر آ رہی تھی اور بار بار دیوار پر پنجے مارتی ہوئی اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔

میں سکتے کی کیفیت میں باہر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سناٹا چھا گیا تھا۔

باہر تیز اٹھنے والی آندھی کے بعد، ایک کے بعد ایک منظر تبدیل ہو رہے تھے۔۔  جونا گڑھ کی حویلی۔۔  نیم شب حویلی کے خستہ وجود سے بلند ہوتی چیخیں۔۔  اور ان سب کے درمیان میرے کانوں میں ناہید کی آواز گونج رہی تھی۔۔  مرد سمجھتے ہیں کہ وہ مرد ہیں۔ دراصل جو طاقتور ہوتا ہے، وہی مرد ہوتا ہے۔ اس نئی دنیا میں دیکھیے۔ یہاں مرد اکثر ہار جاتا ہے۔۔  عورت جیت جاتی ہے۔۔ ‘

کمال کی کہانی ختم ہو چکی تھی۔ میں ابھی بھی ایک منظر کی زد میں تھا اور اس منظر نے جیسے مجھے منجمد کر دیا تھا۔ کمال کو دھکا دے کر باہر نکالنے کے بعد نیم شب کے سناٹے میں ہذیان کی کیفیت میں دروازہ کھول کر چپکے سے ایک عورت کا باہر نکلنا اور شب کے طلسم میں کھو جانا۔۔  خوفناک سیاہ پہاڑیوں کی آغوش میں ایک جسم کا تحلیل ہو جانا۔۔

کیا کہانی ختم ہو گئی تھی۔

ہم ہر بار ایک بوجھ جیسی رات سے طلوع ہوں گے/

اور ہر بار/

ایک بوجھ جیسی رات میں سما جائیں گے/

٭٭٭

 

 

 

 

سفر آخر شب

 

 

ایک دن حیران کر دینے والی تبدیلیوں کے ساتھ /

یہ دنیا بدل چکی ہو گی/

کتّے گھروں ا ور سڑکوں پر سہمے ہوئے ہوں گے/

اور بلّیاں اپنے تیز نوکیلے پنجوں کے ساتھ غرّا رہی ہوں گی/

 

 

 

(1)

 

میں دلی آ گیا تھا۔ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دلی آنے کے بعد، کئی مہینوں تک میرے لئے ان خوفناک واقعات کے جنگل سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا تھا — چھ مہینے گزر گئے تھے اور یہ مدت بڑے سے بڑے حادثے کو بھولنے یا اس کے اثرات کو کم کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے — حقیقت کے پس پردہ بھی ایک حقیقت ہوتی ہے جسے ہم دیکھ نہیں پاتے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے — حقیقت۔۔  اور جیسا کہ کہانی کے آغاز میں، میں نے بتایا تھا — میں کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا — در اصل یہ واقعات و حادثات کی کڑیوں کو جوڑنے اورسمجھنے کا عمل تھا، جیسا کہ ہم مصنف عام طور پر کرتے رہتے ہیں۔ اور مشکل یہ تھی کہ میں مسلسل اپنی تحریر کو کراس کر رہا تھا —

xxxxxxxxxxxxxx

xxxxxxxxxxxxx

xxxxxxxxxxxx

xxxxxxxxxxx

اور اچانک میں چونک گیا تھا۔ ایک دوسرے کو کراس کرتی ہوئی دونوں لکیریں اب نمایاں تھیں۔ کیا ان میں سے ایک صوفیہ اور دوسری ناہید تھی — ؟ میں نے پھر کراس کو دیکھا اور اس بار پھر مجھے حیرت ہوئی۔ ان دونوں لکیروں میں کمال یوسف کا چہرہ مسکرا رہا تھا۔ کمال یوسف، یعنی ایک مرد چہرہ۔ اور تجزیہ کا دلچسپ موڑ یہی تھا کہ ناہید خاموشی سے نیم شب کے سناٹے میں اس کے گھر سے باہر چلی گئی اور ایک نیم شب خاموشی سے سہمی ہوئی صوفیہ اس کے پاس آ گئی — دونوں ہی صورتوں میں مرد مغلوب رہا کہ ایک خلاء میں گم ہو گئی اوردوسرے نے مرد میں سہارا ڈھونڈ لیا — y2k کے ان چودہ برسوں کی دریافت بھی مرد تھا؟ عورت لڑتے لڑتے بھی مرد کے وجود کے آگے جھک گئی تھی اور خود سپردگی کو ہی اپنی فتح سمجھ بیٹھی تھی۔ ناہید نے کسی حد تک اس روایت کو توڑنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اب؟

کہاں تھی ناہید۔۔ ؟

تو کیا ناہید کی کہانی سچ مچ ختم ہو چکی تھی۔۔  میرا دل قطعی طور پر یہ ماننے کو تیار نہ تھا — مگر دل کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ — وہ آئی، اس نے دیکھا اوراس نے فتح کر لیا۔ کیونکہ نیم شب کے سناٹے میں گم ہو جانے والی ناہید باغی تو ہوسکتی ہے مگر فاتح نہیں ہوسکتی۔

اور یہ چھ مہینے بعد کی کہانی ہے جب میں ایک بلی کو لے کر الجھ گیا تھا۔ وہ ایک پالتو بلی تھی جو اکثر دودھ پینے کے بہانے گھر میں آ جاتی تھی۔ اور اس دن میں نے دیکھا۔۔  میرے دروازے کے باہر ایک کتا کھڑا تھا۔ اور بلی میرے دروازے پر کھڑی ہوئی غرا رہی تھی۔ میرے لیے ایک دلچسپ منظر تھا۔ اور میں نے دیکھا کچھ دیر بعد ہی بھونکتا ہوا کتا آگے بڑھ گیا تھا۔ بلی کو انسانی وجود کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ آرام سے دم ہلاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ اور کمرے کے راستے کچن میں داخل ہو گئی۔ اور یہ وہی لمحہ تھا جب میں ایک جھٹکے سے کچن میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کر لیا۔ بلی کچھ دور پر کھڑی دودھ کے برتن اور میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی دونوں آنکھیں آسیب زدہ لگ رہی تھیں۔ وہ غرا رہی تھی۔۔  سامنے کی کھڑکی کھلی تھی۔۔  اور اس سے پہلے کہ میں کچن کی کھڑکی کو بند کرتا۔ میرے منہ سے تیز چیخ نکل گئی تھی۔ بلی نے غراتے ہوئے مجھ پر حملہ کر دیا تھا اور پھر تیزی سے کھڑکی کے راستہ باہر چلی گئی تھی۔ میرے ہاتھوں پر پنجے سے نشانات واضح تھے اور ہلکی سی خون کی پرت بھی نظر آ رہی تھی۔۔  بیسن کے پاس خود کو شیشے میں دیکھتے ہوئے اور ڈیٹول سے کھرونچ والی جگہ کو صاف کرتے ہوئے مجھے اس بلی کی تصویر کا خیال آیا جسے ناہید اپنی غیر موجودگی میں چھوڑ گئی تھی — میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔۔  وقت کے ساتھ بلیوں کے تیور بدل گئے ہیں۔ وہ حملہ کر سکتی ہیں۔

 

تیزی سے بجتی ہوئی ڈور بیل کی آواز کو سن کر میں چونک گیا تھا۔ آگے بڑھ کر میں نے دروازہ کھولا تو اچانک چونک گیا۔

’تم۔؟‘

سامنے کمال یوسف کھڑا تھا۔ چہرہ پریشان۔ کندھے پر سفری تھیلا۔ جینس پینٹ اور ٹی شرٹ پہنے ہوا مگر چہرے سے خوفزدہ۔

’کیا آپ مجھے اندر آنے کے لیے نہیں کہیں گے؟‘

’اوہ۔ ارے ہاں۔۔  اندر تو آ جاؤ۔‘

’شکریہ۔۔ ‘

میں اسے لے کر تیزی سے ڈرائنگ روم میں آ گیا۔ وہ میرے ہاتھوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔

’یہ کیا ہوا۔۔ ؟‘

’کچھ نہیں۔۔  وہ بلی۔۔ ‘ میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔

’بلی۔۔ ‘ کمال یوسف چونک گیا تھا۔

’ہاں، بلیاں بہت تنگ کرتی ہیں۔۔ ‘ میں پھر مسکرادیا۔ ’اور یہ بھی سچ ہے کہ آپ بلیوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔‘ میں نے کمال کی طرف دیکھا۔ ’پہلے میں تمہارے لیے چائے تیار کر لوں۔ پھر آرام سے بیٹھ کر باتیں کریں گے۔۔ ‘

٭٭

 

چائے ختم ہو گئی تھی۔ میں نے کھڑکی کے پردے ہٹا دیئے۔ اس درمیان کمال یوسف غسل سے فارغ ہو کر کرتا پائجامہ تبدیل کر کے صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔ اس نے چائے ختم کر لی تھی۔۔  اس نے بتایا کہ راستہ میں ہی اس نے ناشتہ کر لیا۔ اس لیے فی الحال ناشتہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔  کھڑکی سے سورج کی شعاعیں کمرے میں داخل ہو رہی تھیں۔ مجھے احساس ہوا، سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اور کمال یوسف کی اچانک کی اس آمد میں کوئی راز ضرور پوشیدہ ہے۔ میں غور سے کمال کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔  کمال نے نظریں جھکا لیں۔

’چھ مہینے پہلے جو کچھ ہوا۔ آپ تو اس کے گواہ بھی رہے ہیں۔‘

’ہاں۔ بہت کچھ جو تم نے بتایا اور بہت کچھ جو میں نے محسوس کیا۔۔ ‘

’بالکل صحیح۔۔  آپ کے ساتھ رہ کر میں کچھ کچھ آپ کی طرح واقعات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ بالکل آپ کی طرح نہیں۔۔ ‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔ ’ مگر۔۔  کسی حد تک۔۔  ہاں کسی حد تک میں ان تمام واقعات پر غور کر رہا تھا۔۔ ‘

’صوفیہ کیسی ہے؟‘ میں نے اچانک پوچھا تو کمال کا چہرہ اتر گیا۔۔  ’پتہ نہیں۔ ممکن ہے اچھی ہو۔۔  میں اس کے بارے میں بعد میں باتیں کروں گا۔ مگر۔۔ ‘ اس نے غور سے میری طرف دیکھا۔ ’دراصل میں اپنی زندگی کے شب و روز کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور اپنی نئی زندگی سے اس قدر پریشان ہو گیا کہ راستہ صرف آپ تھے۔ اور میں نے بیگ اٹھایا۔ صوفیہ کو سمجھایا۔ رکمنی کو ضروری ہدایت دے کر آپ سے ملنے چلا آیا۔۔ ‘

’اوہ۔۔ ‘ مجھے اس کی اس نئی کہانی میں دلچسپی پیدا ہوئی۔۔

’آپ کو  یاد ہو گا ہم کب ملے تھے۔۔ ؟‘

’ہاں۔۔  سب کچھ اچھی طرح یاد ہے۔ جیوتی گینگ ریپ اور انڈیا گیٹ پر لوگوں کا جم غفیر۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے انقلاب آ کر رہے گا۔۔

’انقلاب۔۔ ‘ کمال مسکرایا۔۔  انقلاب کبھی نہیں آتا۔ گونج ہوتی ہے۔ پھر گونج کرنے والے ہی سو جاتے ہیں۔‘ اس نے غور سے میرے چہرے کا معائنہ کیا۔۔  مگر۔۔  اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو احساس ہوتا ہے۔ انڈیا گیٹ اور ناہید کی بغاوت میری زندگی کا نیا پڑاؤ ثابت ہوئی۔ اور جیسا آپ نے کہا تھا، واقعات کے تجزیے سے پہلے کسی بڑی لکیر کو گواہ بنا لو تو تجزیہ آسان ہو جاتا ہے۔ مگر آپ بھول گئے کہ انہی دنوں، ایک اور حادثے کی دستک سنائی دی تھی۔ بلکہ ایک سال پہلے سے اس حادثے کی دستک سنی جا رہی تھی۔‘

’اوہ‘ میں ایک دم سے چونکا اور مسکراتی آنکھوں سے کمال کی طرف دیکھا — ’ تم صحیح جا رہے ہو دوست۔ اور کسی بھی نتیجہ تک پہنچنے کا یہ بہتر راستہ ہے کہ ہم ایک بڑے حادثے کو گواہ بنا لیں۔‘

’ہاں۔ میں نے یہی کیا۔ کیونکہ تبدیلیاں اچانک نہیں آتیں۔ تبدیلیوں کے پیچھے کئی موڑ ہوتے ہیں۔ آہ انہی دنوں دنیا بھر میں ایک قیامت کا ذکر ہو رہا تھا۔ اسپیس سماج، پرنٹ، الکٹرانک میڈیا ہر جگہ۔۔  ایک ہی ہنگامہ تھا کہ کیا ۱۲ دسمبر ۲۰۱۲ کو دنیا ختم ہو جائے گی۔۔  یوروپی ممالک میں تو کچھ لوگوں نے خود کو محفوظ کرنے کے لیے لائف جیکٹس تک خرید لیے تھے۔ ناہید کا رد عمل تھا کہ یقیناً یہ ہو گا اور صرف عورتیں رہ جائیں گی۔ کیونکہ دنیا اور اس کے نظام کو مردوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کمال نے میری طرف دیکھا — ’وہ کہتی تھی۔۔  دنیا ختم ہو جائے گی اور ہم عورتیں اس دنیا میں طاقت ور ہو جائیں گی۔۔  کچھ سہمی عورتیں ہوں گی، جن میں مردوں کے کچھ عنصر باقی رہ جائیں گے — مگر زیادہ تر فاتح، اور نئی اڑان کے پروں پر سوارہوں گی مگر یہ دنیا ضرور ختم ہو گی۔۔ ‘

’ہونہہ۔‘ میں نے کمال کی طرف دیکھا۔ ’یہ سب مایا کلینڈر کا فساد تھا۔ مایا، یعنی ہزاروں برس قبل دنیا کی قدیم تہذیب۔۔  قدیم امریکی تہذیب مایا کا کلینڈر اسی دن ختم ہوتا ہے۔۔  اور اسی لیے یہ پیشین گوئی کی گئی کہ اس تاریخ کو دنیا ختم ہو جائے گی۔۔  اور آپ غور کریں تو ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ نئی صدی کے آغاز پر بھی یہی کہا گیا کہ دنیا کے تمام کمپیوٹر اپنا کام کرنا بند کر دیں گے۔ اور یہ نظام خود ناکام ہو کر برباد ہو جائے گا۔

’اور اس کے لیے‘ — کمال نے غور سے میری طرف دیکھا — y2k کے بارہ برس بعد۔۔  یعنی ہندوستانی تاریخ میں وہ سال جب عصمت دری کے واقعہ کو لے کر ایک انقلاب برپا ہوا تھا اور دوسری طرف میڈیا یہ دیکھنے میں مصروف تھا کہ کیا سچ مچ قیامت آئے گی اور دنیا ختم ہو جائے گی۔۔  اور ناہید کے لفظوں میں صرف عورتیں زندہ رہیں گی۔ مرد مارے جائیں گے۔۔ ‘ کمال نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔  قیامت نہیں آئی مگر آپ دیکھیں تو y2k کے بارہ برسوں، یعنی دلی، انڈیا گیٹ میں انقلاب کی نئی دستک تک، اگر کوئی بڑی تبدیلی آئی تھی تو وہ صرف عورتوں میں آئی تھی۔۔  اور مجھے اپنے دوست نرمل کی بات یاد آ رہی تھی۔۔  یعنی اگر بدلی تھی تو عورت۔ باغی ہوئی تھی تو عورت۔۔ دوسری طرف اس کے رد عمل بھی تھے۔ یعنی سہمی ہوئی تھی تو عورت۔‘

’سہمی ہوئی۔۔ ‘اس بار میں نے چونک کر کمال کی طرف دیکھا۔۔  چلو۔۔  کچھ دیر اس موضوع پر ٹھہرتے ہیں۔۔  ’قدیم مایا تہذیب کے لوگوں کو علم و فنون پر بھروسہ تھا۔ وہ ستاروں پر نظر رکھتے تھے اورمستقبل کا حال کہہ دیتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی تہذیب کے خاتمہ کے بارے میں بھی پیشین گوئی کی تھی کہ سمندر کی طرف سے حملہ ہو گا اور ان کی تہذیب سمندر کی نذر ہو جائے گی۔۔  اور جیسا جیسا انہوں نے کہا، غور کریں تو ہر دور میں وہی ہوتا گیا۔۔  ڈائنا سورس آئے اور پہلے دور کا خاتمہ ہو گیا۔ طوفانی ہوائیں چلیں، طوفان اٹھے اوردوسرا دور بھی ختم ہو گیا۔ تیسرا دور شعلوں کی نذر ہوا۔۔  چوتھا سیلاب اور پانچواں دور۔۔ ‘

کمال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔۔  y2k کے ان چودہ برسوں میں یہ دنیا آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور اس بار ان کے پیچھے نہ گرم ہوائیں ہیں، نہ طوفان، نہ شعلے، نہ آندھی۔۔  اس بار ان کے پیچھے بلّی ہے۔ اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔۔  چوہوں کو کھانے کے بعد وہ آرام سے اپنی راہ چل دی۔ یا غائب ہو گئی۔‘ وہ آہستہ سے بولا۔۔  میں اب اس تصویر کا مفہوم سمجھ چکا ہوں۔

’تو تم مانتے ہو کہ۔۔ ‘

’ہاں۔ y2kکے بعد کی یہ دنیا عورتوں سے منسوب ہے۔ اور ہم صرف مہرے۔ اور اسی لیے اپنی نئی زندگی کا تعاقب کرتا ہوں تو ایک بڑی لکیر۔۔ ‘ وہ مسکرا رہا تھا — یہ آپ ہی نے کہا تھا کہ اس سے چیزوں کے سمجھنے کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ مگر اسی واقعہ کی کڑی ناہید کا وہ بیان بھی تھا۔ یعنی جو بیان اس نے مایا کلینڈر کو لے کر دیا تھا۔۔  کچھ عورتیں فاتح ہوں گی اور کچھ۔۔  جن میں مردوں کی کچھ خصوصیات باقی رہ جائیں گی۔۔  وہ سہمی ہوئی ہوں گی۔

’تمہاری مراد صوفیہ سے ہے۔‘

کمال نے گلا خشک کیا — ’ ہاں۔ اور اب اس نئی کہانی کی طرف آتا ہوں۔ لیکن کیا مجھے ایک گلاس پانی ملے گا۔۔ ؟‘

’کیوں نہیں۔ ابھی لایا۔‘

حقیقت یہ ہے کہ میں کمال کو کچھ دیر کے لیے اکیلے چھوڑنا چاہتا تھا۔۔  مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ وہ زندگی کی پہیلیوں کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔

٭٭

 

دوپہر، لنچ کے بعد ہم دوبارہ ڈرائنگ روم میں آ گئے تھے۔ کمال دیر تک سگریٹ کے کش لیتا رہا۔ سگریٹ ختم کرنے کے بعد اس نے میری طرف دیکھا۔

’نئی صدی یا y2kکے ان چودہ برسوں میں ہم نے کیا پایا تو کہہ سکتے ہیں، ہم جیسے انسانوں کے لیے اس صدی کی سب سے بڑی سوغات ہے خوف۔۔  قیامت کا خوف۔۔  دنیا کے ختم ہونے کا خوف۔۔  یہ خوف عورتوں اور مردوں میں مختلف ہوتا ہے۔۔  مجھے یاد ہے بچپن میں ہم دیوار پر چڑھتی ہوئی چھپکلی کو مارنے کے لیے چپل اٹھا لیتے تھے۔۔  اس کے بر خلاف چھپکلی کو دیکھ کر عورتیں ڈر جایا کرتی تھیں۔ باتھ روم میں کاکروچ ہو تو عورتوں کی چیخ نکل جاتی ہے۔ سانپ، چوہے، نا معلوم خوفناک مخلوق، آسیب، تاریکی، سناٹا، ویرانی۔۔  بچپن سے ہی ہم اپنے وجود میں خوف کی ایک سلطنت آباد کر لیتے ہیں مگر غور کریں تو کئی مواقع آتے ہیں، جب ہم خود کو خوف کی سرحدوں سے نکالنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اور بڑی حد تک ہم اس میں کامیاب بھی ہوتے ہیں مگر۔۔ ’ اس نے میری طرف دیکھا۔ کچھ معاملے مختلف ہوتے ہیں۔ اور اتنے مختلف کہ کبھی کبھی کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اسی لیے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ سے ملاقات کی جائے۔۔ ‘ وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔ پھر آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔ صوفیہ کو تو آپ نے دیکھا ہے۔ اور مجھے کہنا چاہئے۔۔  آپ کی موجودگی میں۔۔ ‘

’ہاں۔ وہ ڈری سہمی رہتی تھی۔۔ ‘

’بالکل صحیح۔‘ کمال نے پلٹ کر میری طرف دیکھا — ’ اور یقین مانیے میں سمجھنے سے قاصر تھا کہ محبت اور خوف میں کیا یکسانیت ہوسکتی ہے — ؟ مثال کے لیے میں آپ کو بتاتا ہوں۔ آپ کے جانے کے دوسرے ہی دن میں آفس جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ اچانک وہ آ گئی۔ ذرا ٹھہریے۔ میں آپ کو وہ منظر دکھا نے کی کوشش کرتا ہوں۔

کمال گہری سوچ میں گم ہو گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

(2)

 

یہ صبح کمال یوسف کے لیے عام صبح جیسی بالکل نہیں تھی۔ صبح رکمنی نے اتنی زور سے ڈور بیل بجائی کہ اسے غیر متوقع طور پر پہلی بار اس پر ناراض ہونا پڑا۔

’آئندہ آپ اتنی زور سے بیل نہیں بجائیں گی۔ سمجھ گئیں آپ۔‘

’جی۔‘

دروازہ زور سے بند کرتے ہوئے، اور بے خیالی میں چلتے ہوئے وہ دروازے کے پاس رکھے گملے سے ٹکرا گیا۔ یہاں بونسائی کانٹوں کی دنیا آباد تھی۔ ایک دوست نے یہ کہہ کر اسے تحفہ دیا تھا کہ بری روحیں ان کانٹوں سے ہو کر باہر چلی جاتی ہیں اور گھر کا ماحول اچھا رہتا ہے۔ بونسائی کانٹوں کے بارے میں یہ نئی معلومات تھی۔ مگر اب جو کچھ اس گھر کے ساتھ ہو رہا تھا، اس نے دوست کے دعووں کو جھوٹا ثابت کر دکھا یا تھا۔ مثال کے لیے صوفیہ کے چہرے پر لکھی ہوئی خوف کی عبارت اسے بالکل بھی پسند نہیں تھی — تیسری واردات پینٹ کے جلنے کو لے کر ہوئی۔آفس جانے سے قبل اس نے ایک پینٹ صوفیہ کو آئرن کرنے کے لیے دیا۔ جب جلنے کی مہک ہوئی اور وہ بھاگ کر کمرے میں گیا تو جلتا ہوا آئرن پینٹ کے اوپر رکھا ہوا تھا اور پینٹ سے دھواں نکل رہا تھا۔ اور پاس میں ہی صوفیہ بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ زور سے چیخا۔

’صوفیہ۔‘

آگے بڑھ کر اس نے آئرن کو ہٹایا۔ سوئچ آف کیا۔۔  صوفیہ کی طرف دیکھا، جس کی معصوم روتی صورت دیکھ کر وہ اپنا سارا غصہ بھول گیا۔

’صوفیہ۔ آگ بھی لگ سکتی تھی۔‘

’جی۔‘

’تم آئرن کرنے آئی تھی۔۔ ‘

’ہاں۔‘

’پھر۔۔ ‘

’پتہ نہیں۔‘

’نیند آ گئی تھی۔؟‘

’نہیں۔‘

’نہیں۔ ‘ کمال چونکا۔۔  پینٹ جل رہا تھا۔۔ دھواں اٹھ رہا تھا اور تمہیں خبر نہیں۔؟‘

’نہیں۔‘ صوفیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے — تمہارا نقصان ہو گیا۔ پینٹ جل گئی۔ میں بہت بری ہوں۔‘

’ارے نہیں صوفیہ۔‘ کمال نے پینٹ کو کنارے کیا۔ صوفیہ کو بانہوں میں لیا۔ ’پینٹ کا کیا ہے۔ نئی آ جائے گی۔ ویسے بھی پینٹ کی میرے پاس کمی نہیں ہے۔‘

’لیکن میری وجہ سے ۔۔  میں سچ کہتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم۔ مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔ ‘

’لیکن تم یہیں تھی صوفیہ اور پینٹ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ کمال نے مسکرانے کی کوشش کی — ’اور تم نے کہا تم نیند میں بھی نہیں تھی۔ بے خیالی میں ایسا ہو جاتا ہے۔‘

’میں تمہارے بارے میں سوچ رہی تھی۔‘

’میرے بارے میں۔‘ کمال ہنسا۔ میرے بارے میں کیا سوچ رہی تھی۔۔

’تم کیوں جاتے ہو باہر۔ مجھے چھوڑ کر۔ مت جایا کرو۔‘

’باہر؟‘ کمال نے آگے بڑھ کر اس کے رخسار کا بوسہ لیا۔ ہونٹوں کو چوما۔ اپنی آغوش میں بھر لیا۔۔  ’میری ننھی سی جان۔ میری پیاری گڑیا۔ میں دفتر جاتا ہوں۔ کام کرتا ہوں۔ دو پیسوں کے لیے۔ نہ جاؤں تو زندگی کیسے چلے گی۔‘

’جو بھی ہو۔ مگر مت جاؤ تم۔۔  مجھے ڈر لگتا ہے۔۔  مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘

’کیوں ؟ کمال نے غور سے اس کے چہرے کا جائزہ لیا۔

’پتہ نہیں۔‘

’ڈر کی کوئی وجہ تو ہو گی۔؟‘

’پتہ نہیں۔‘

’کوئی آسیبی خیال۔۔ ؟‘

’نہیں۔‘

’کوئی آہٹ۔۔  کوئی دستک؟ تنہائی، خاموشی۔۔ ؟‘

’نہیں۔۔ ‘

’پھر۔؟‘

’تم۔۔ ‘

’میں۔۔ ؟ کمال اس بار چونک گیا تھا۔ مجھ سے ڈر لگتا ہے۔۔ ؟‘

’نہیں۔‘

’ابھی تم نے کہا کہ مجھ سے ڈر لگتا ہے۔؟‘

’تم سے کیوں ڈروں گی۔‘ بچوں کی طرح ناراض ہو کر صوفیہ بولی — ’ مجھے تمہارے جانے سے ڈر لگتا ہے۔۔  تم کہیں مت جایا کرو۔ بس میرے پاس رہا کرو۔‘

’ایسا کیسے ممکن ہے صوفیہ۔؟‘

’یہ میں نہیں جانتی۔۔  مگر ڈر جاتی ہوں۔ تم باہر جاتے ہو تو لگتا ہے۔۔  کوئی ٹیکسی تمہیں کچل دے گی۔ فلائٹ سے جاتے ہو تو لگتا ہے۔ ایئر کریش ہو جائے گا۔ ٹرین سے جاتے ہو تو لگتا ہے۔ ٹرین کا ایکسڈینٹ ہو جائے گا۔‘

صوفیہ بچوں کی طرح اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کمال نے کبھی اس والہانہ محبت کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ناہید کے ساتھ رہ کر تو بالکل بھی نہیں۔ اس ننھی سی پری پر اسے بے پناہ پیار آ رہا تھا۔ ایک بار پھر اس نے صوفیہ کو چوم لیا۔ ہونٹوں پر گرم جلتے ہوئے ہونٹ رکھ دیئے۔ اس کی سہمی ہوئی آنکھوں کی طرف دیکھا۔

’میری جان۔ میری پیاری صوفیہ۔ ایسا ہوتا ہے۔ ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات ہے صوفیہ کہ جن سے ہم پیار کرتے ہیں، ان کے لیے کہیں نہ کہیں ایک خوف بھی پیدا کر لیتے ہیں۔ تم مجھ سے محبت کرتی ہو، اس لیے تم خوفزدہ بھی رہتی ہو کہ مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ مگر یقین رکھو۔ مجھے کچھ نہیں ہو گا۔‘

’مجھے یقین نہیں ہوتا۔ میں سارا دن ڈرتی رہتی ہوں۔ تم باہر جاتے ہو تو میں سارا دن دروازے پر کھڑی رہتی ہوں۔۔  جب تک تم آ نہیں جاتے۔‘

کمال نے غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں کی ہلتی ڈولتی پتلیوں سے ابھی بھی خوف جھانک رہا تھا۔ کمال نے محسوس کیا کہ محبت اور خوف کے ملے جلے۔ رنگوں کی اس شروعات کو کئی مہینے ہو چکے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ صوفیہ اب پوری طرح سے خوف کا شکار ہو چکی ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ مگراس وقت محبت کا مجسمہ بنی صوفیہ پر اسے بہت پیار آ رہا تھا۔

صوفیہ نے ایک بار پھر اس کی آغوش میں سمٹتے ہوئے کہا۔

’تم آفس نہیں جاؤ گے۔ میں تمہیں کسی بھی حال میں جانے نہیں دوں گی۔‘

٭٭

 

کمال نے میری طرف دیکھا — ’حقیقت یہ ہے کہ میں اس وقت تک پیچیدہ ہوتی ہوئی صورت حال کا صحیح جائزہ نہیں لے پایا تھا۔جیسے اب، وہ مسکرایا — میں سوچتاہوں تو کئی اسرار سے پردے اٹھتے ہیں۔ مثلاً خوشی اپنے ساتھ دکھ بھی لاتی ہے اور محبت اپنے ساتھ توقعات اور فکر بھی۔ افسردگی اور بیزاری بھی۔ میں غور کر سکتا ہوں کہ یہ ایک طرح کی Anxiety تھی، جس نے صوفیہ کے دل میں گھر کر لیا تھا۔ وہ خوف، اندیشے اور تشویش میں گھرتی جا رہی تھی۔۔

کمال خاموش ہوا تو صوفیہ کی زندگی کے تمام پچھلے صفحے میرے سامنے کھلتے چلے گئے۔ جب وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں گہرے سایوں کو جمع کر لیتی تھی۔ لیکن یہ اس کی ہمت تھی کہ اس نے وہ گھر چھوڑ دیا اور نینی تال کی ان وادیوں میں اسے پہلے زندگی گزارنے کو چھت اور پھر کمال یوسف کی محبت مل گئی۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ صوفیہ ایک Disorder یعنی خوف سے گھر گئی ہے۔ میں اپنے طور پر اس کا تجزیہ کر سکتا تھا۔ بھائی اور جیجو کے گھر میں بھی وہ محبت کو ترستی رہی۔ نینی تال کی وادیوں میں محبت کے لیے اس نے پرندوں کو اپنا دوست بنا یا اور اب۔۔ ؟ تو کیا خوف کے احساس سے صوفیہ کی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے — ؟‘

’لیکن ہوا کیا صوفیہ کے ساتھ؟‘

’میں اسی کہانی پر آ رہا ہوں۔‘ کمال نے غور سے میری طرف دیکھا۔ ہلکے سے مسکرایا — ’ اور دیکھیے یہ سب میں نے آپ سے سیکھا ہے۔ اور یقین جانیے، اس سے واقعات اور اس کے Roots تک جانے میں آسانی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں الجھن میں ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔۔ ؟ میں نے اتنا تو جان ہی لیا ہے کہ یہ دنیا بے حد حساس لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ بے حد حساس لوگ ہمارے معاشرے کے طور طریقے کا حصہ نہیں ہو پاتے۔ کیونکہ وہ ہر وقت اپنی فکر میں الجھے ہوتے ہیں۔ اور اس لیے خوف چور دروازے سے چپکے چپکے ان پر حملہ کرتا رہتا ہے۔ شرم کا خوف۔۔  ہجوم کا خوف۔۔  بند کمرے کا خوف۔۔  روشنی کا خوف۔۔  اور اس سے آگے۔۔  بجلی کی گرج۔۔  طوفان، پانی کا خوف۔۔  میں اس نتیجہ پر بھی پہنچا کہ لاشعور میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ محفوظ ہوتا ہے جو واہمہ کا سبب بنتا ہے یا خوف پیدا کرتا ہے۔ اندھیرے کا خوف۔۔  محبت کا خوف۔۔  ‘

کمال نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا — ’ صوفیہ اپنی گزری زندگی کے بارے میں باتیں کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ اس لیے میں نے بھی کبھی اسے کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ تاہم میں سمجھ سکتا ہوں کہ وہ محبت کی بھوکی رہی ہے اور یہ محبت اسے نہیں مل سکی۔ جیسے اس کے والدین جلد ہی گزر گئے۔ اور ایسے ماحول میں صوفیہ جیسی حساس لڑکی کے لیے محبت کیا معنی رکھتی ہے، اسے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔۔ ‘

’آگے کیا ہوا — ‘ میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ اور میری خواہش تھی کہ کمال جلد سے جلد اس تجزیے کاکام مکمل کرے اور اصل کہانی کی طرف لوٹ آئے۔‘

’بتاتا ہوں۔‘ کمال نے مسکرانے کی کوشش کی۔ کبھی کبھی زندگی سمجھ میں نہیں آتی۔ جیسے میں خوف اور اس خطرناک قسم کے Disorder کو نہیں سمجھ سکا اور یہاں تک کہ۔۔  مجھے احساس ہوا ۔۔۔  میں نے اب تک جو کچھ بھی سوچا ہے، وہ فضول ہے۔ انسانی نفسیات کا تجزیہ کرنے میں، میں مکمل طور پر ناکام ہوں۔‘

’میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتا ہوں کمال۔۔ ‘ میں آہستہ سے بولا۔۔  ’مگر آخر ایسا کیا ہوا کہ تم اتنے الجھ کر رہ گئے۔‘

’ان دنوں میں آفس کے ایک ضروری کام سے ملیشیا گیا ہوا تھا۔ یہ ٹور پندرہ دنوں کا تھا۔ پہلے تو صوفیہ نے خوب رونا دھونا مچایا۔ اسے بالکل منظور نہیں تھا کہ میں اسے چھوڑ کر باہر جاؤں۔ جبکہ رکمنی کو میں نے راضی کر لیا تھا کہ اس درمیان وہ اس کے ساتھ رہے گی اور باشا کی دیکھ بھال بھی کرے گی۔‘

’پھر۔؟‘

’ظاہر ہے مجھے جانا تھا اوراس کے لیے میں نے صوفیہ کو اپنے طور پر سمجھانے کی حد درجہ کوشش بھی کی تھی۔ میں ملیشیا سے واپس آیا تو اس گھر میں جیسے ایک نئی کہانی میرا انتظار کر رہی تھی۔‘

’خوب۔’ میں آہستہ سے بولا۔ ’کمال۔ تم پر پوری طرح میرا رنگ چڑھ چکا ہے۔ ‘

میں نے کمال کو دیکھا۔ اس نے جیسے میری طرف دیکھا بھی نہیں۔ وہ خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑ گئی تھیں۔

’بہتر ہے، میں وہ منظر آپ کو دکھا دوں۔ اس سے آپ کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملے گی۔‘

٭٭

 

صوفیہ۔۔  صوفیہ۔۔

صوفیہ۔۔

بریف کیس لے کر کمال گھر میں داخل ہوا تو دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بریف کیس اس نے ڈرائنگ روم میں رکھا۔ پھر صوفیہ کو آواز دیتا ہوا بیڈ روم میں آ گیا۔ صوفیہ یہاں بھی نہیں تھی۔ اوپر جانے والی سیڑھی کے پاس ایک چھوٹا سا اسٹور تھا، جس میں بیکار کے سامان رکھ دیئے جاتے تھے۔ کمال نے دیکھا۔۔  اسٹور کی کھڑکی کھلی ہوئی ہے۔ اور صوفیہ باہر کی طرف دیکھ رہی ہے۔ کمال نے چند فاصلے پر کھڑے ہو کر آواز دی۔ اس کے باوجود اس نے پلٹ کراس کی طرف نہیں دیکھا۔

’صوفیہ۔۔ ‘

اس بار کمال ذرا زور سے بولا۔ اور اس کے قریب پہنچ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اچانک وہ چونکی۔

اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔’ آپ آ گئے۔‘

’ہاں۔‘

’تمہیں کوئی خوشی نہیں ہوئی صوفیہ۔‘

’خوشی کیوں نہیں ہو گی۔‘

کمال نے غور سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ وہاں بے جان پتلیاں تھیں۔ جہاں کوئی حرکت نہیں تھی۔۔  اور یہ وہ صوفیہ قطعی نہیں تھی جسے وہ پندرہ روز پہلے چھوڑ کر ملیشیا گیا تھا۔ رکمنی سے عام طور پر اس نے صوفیہ کے بارے میں کبھی بھی کچھ بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ اور اسی لیے گھر پہنچنے کے بعد کمال نے اسے دو دن کی چھٹی دے دی۔ لیکن ایسا لگا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔۔  جانے سے پہلے وہ کمال کو دروازے پر مل گئی۔ اس کی آواز بوجھل تھی۔

’صاحب۔ میم صاب کی طبیعت اچھی نہیں۔‘

’کیوں ؟ کیا ہوا ہے۔‘

’مجھے لگتا ہے ان پر پرانی ہوا سوار ہے۔‘

’پرانی ہوا۔‘

’ہاں صاب۔ میم صاب دن بھر اسٹور میں رہتی ہیں۔ وہاں باتیں بھی کرتی ہیں۔‘

’اچھا۔ تم جاؤ۔ میں دیکھ لوں گا۔‘

رکمنی کو چھٹی دینے کے بعد کمال کی پریشانیاں بہت حد تک بڑھ چکی تھیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر صوفیہ کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

٭٭

 

’کیا آپ بھوت پریت کو مانتے ہیں۔‘

’نہیں۔‘

’میں بھی نہیں مانتا۔‘ کمال نے اس بار غور سے میری آنکھوں میں جھانکا — ’میں نے اس درمیان صوفیہ پر گہری نظر رکھی۔خاص کر اسٹور پر۔ کہ وہ وہاں کیا کرتی ہے۔۔

’پھر۔۔ ‘

’یہ سمجھنا میرے لیے بھی مشکل تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ یا اسے کیا ہو گیا ہے۔ کبھی کبھی وہ اسٹور کو بند کر لیتی تھی۔ یا کبھی کبھی وہ باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی بند کر لیتی تھی۔۔  اور دیر تک دیوار کا سہارا لے کر فکر میں ڈوبی رہتی تھی۔۔ ‘

’اوہ۔۔  مجھے یاد آیا۔۔  صوفیہ کی زندگی کے پرانے صفحے آنکھوں کے آگے تھے۔۔ ‘ میں نے ٹھہر کر پوچھا۔۔

’کبھی اسٹور میں صوفیہ سے باتیں ہوئیں۔؟‘

’ہاں۔‘

’کیا وہ۔۔  ڈراکیولا۔۔  تابوت۔۔  ویمپائر۔۔  اس طرح کی باتیں تو نہیں کرتی تھی۔‘

’بالکل بھی نہیں۔ کیوں ؟‘ کمال نے چونک کر میری طرف دیکھا۔

میں نے کمال کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ ’ کیا صوفیہ کی محبت میں آپ نے کوئی کمی محسوس کی۔۔ ؟‘

’وہ اپنے آپ میں ہوتی ہی کب تھی۔ جو اس کمی کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔‘

’ہونہہ۔‘ میں نے پھر کمال کی طرف دیکھا۔۔  اسٹور میں آپ کی صوفیہ سے کس طرح کی باتیں ہوئی تھیں ؟‘

’وہ۔۔  کمال نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔  اس دن وہ اچھے موڈ میں تھی۔۔  اس نے میرا ہاتھ تھاما اور دیوار کی طرف اشارہ کیا۔۔  وہ دیکھو۔۔  وہاں خوب پانی ہے۔۔  وہاں بھی تم ہو۔۔  اور وہ دیکھو۔۔  مکڑی نے جالے بنا دیئے ہیں۔ لیکن تم وہاں بھی ہو۔۔  اور وہ دیکھو۔۔  دور۔۔  اونچی۔۔  پہاڑی ہے۔۔  تمہیں کس نے کہا تھا اتنا اوپر چڑھنے کے لیے۔تم وہاں بھی ہو۔۔  اور وہ دیکھو۔۔  وہ ٹوٹا پھوٹا ہوائی جہاز۔۔  ارے۔۔  تم وہاں بھی ہو۔۔  میں نے محسوس کیا، اس کی آنکھوں میں مسکراہٹ نہیں تھی۔۔  اس نے اپنے وجود کو اسٹور کے بند کیبن تک قید کر لیا تھا۔ اوراس کے باہر کی زندگی میں اس کے لیے کہیں کسی رنگ کا تصور نہیں تھا۔ وہ شدت بھی غائب تھی، جوان مہینوں میں، میں نے اس میں محسوس کی تھی۔۔  میں لوٹ آیا تھا مگر اس کی جذباتیت کہیں گم ہو گئی تھی۔۔

’اف۔۔  مائی گاڈ۔۔ ‘ میں نے سر کو تھام لیا۔ ایسا واقعہ اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے اور اب میں بتا سکتا ہوں کہ صوفیہ کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ یہ محض قیاس نہیں ہے۔‘ میں ہنس رہا تھا۔۔  کمال پاگلوں کی طرح میرا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’حقیقت یہ ہے کہ وہ آج بھی تم سے پیار کرتی ہے۔ اور اس شدت سے کہیں زیادہ۔‘

’مگر کیسے۔؟ اب وہ اقرار تو نہیں کرتی۔‘

ہاں۔ وہ نہیں کرتی اور تمہیں یاد ہو گا وہ تم کو اس شدت سے چاہتی تھی کہ خوف محسوس کرنے لگی تھی۔۔

’ہاں۔‘

’مجھے یاد ہے کہ جب میں تمہارے یہاں تھا، وہ ہر کچھ دیر بعد تمہیں دیکھنے کے لیے بھاگ کر آ جاتی تھی۔۔ ‘

’ہاں۔‘

’جانتے ہو کیوں ؟‘

کمال میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔

’اس کی محبت نے خوفزدہ ہونا شروع کر دیا تھا۔ وہ تم سے اس قدر پیار کرتی تھی کہ دو سکنڈ کے لیے بھی تم اوجھل ہو جاؤ تو ڈرنے لگتی تھی۔ اوراسی لیے تمہارا کہیں بھی جانا اسے منظور نہیں تھا۔ اور جیسا تم نے ابھی کہا کہ وہ شروع سے محبت کے لیے ترستی رہی تھی۔ اور اسی لیے تم ملے تو صوفیہ کو محبت کی منزل مل گئی۔‘

’جی۔‘ کمال میری طرف دیکھ رہا تھا۔

میں مسکرایا۔’ کیا تم اب بھی نہیں سمجھ سکے۔‘

’بالکل بھی نہیں۔ اوراسی لیے تو میں آپ کے پاس آیا ہوں۔‘

’بہت آسان۔‘ میں زور سے ہنسا۔ پہلے وہ تم سے محبت کرتے ہوئے خوفزدہ تھی۔ وہ بار بار ڈرتی تھی۔۔  اور اس لیے۔۔ ‘ میں نے کمال کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔۔

’اب وہ خوف سے پیار کرنے لگی ہے۔۔ ‘

’خوف سے؟‘ کمال حیران آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔

’تم تو آتے جاتے تھے۔ اس کے پاس رہتے کہاں تھے۔ اس کا خوف بڑھتا جا رہا تھا اور انتہا یہ ہوئی کہ اچانک تمہاری جگہ خوف آ گیا۔ تمہارے جانے کے بعد وہ کن خیالوں سے دوچار ہوئی، یہ کون بتا سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ محبت اب بھی ہے۔ اور یہ محبت کی شدت ہے کہ اس کی جگہ اب وہ خوف کو لے کر آ گئی ہے۔۔ ‘

’کیا وہ واپس ہو گی؟‘

’یہ تم پر ہے۔‘

کمال گہری سوچ میں گم تھا۔

میں نے کمال کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’وہ تمہاری وجہ سے خوف میں گرفتار ہوئی ہے اور اس لیے خوف سے باہر لانا بھی تمہاری ذمہ داری ہے۔‘

کمال کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ ممکن ہے باہر دیکھتے ہوئے وہ جذبات کے خوفناک طوفان سے باہر نکلنے کی سعی کر رہا ہو۔ وہ جب میری طرف مڑا تو اس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔۔

کتنی عجیب بات ہے۔۔  اس نے دو بار اس لفظ کو دہرایا۔ ’آپ سمجھ سکتے ہیں۔ کتنی عجیب بات۔۔  میری زندگی میں دو لڑکیاں آئیں۔۔  ایک بغاوت کے راستہ پہاڑیوں میں سما گئی اوردوسری خوف کی وادیوں میں گم ہو گئی۔ رہا میں۔۔  میرے حصہ میں تو کچھ بھی نہیں آیا۔۔ ؟‘

میں کمال کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔  اس چہرے کے پیچھے ایک گہری دھند دکھائی دے رہی تھی۔۔  اوراچانک۔۔  مجھے احساس ہوا۔۔

y2kسے نکل کر دو صفر ہوا میں معلق ہو گئے ہوں۔ اورجیسا کمال نے کہا، ایک صفر نے پہاڑیوں سے کود کر چھلانگ لگا دی — اوردوسرے صفر نے اپنے لیے تاریک وادیوں کو منتخب کر لیا ۔۔

٭٭٭

 

 

 

(3)

 

اس کے ٹھیک دوسرے دن کمال چلا گیا۔

کچھ وقت اور گزر گیا۔ میں نے اس کہانی کو بھول کر ایک نئی کہانی پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔مگر میں اس پوری کہانی سے ابھی بھی مطمئن نہیں تھا۔ خاص کر ناہید کے کردار سے۔ میرا دل کہتا تھا، ناہید مر نہیں سکتی۔ اور میرا دل ناہید کے اس انجام کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔

اس دن۔۔

شام کے ۴ بج رہے ہوں گے۔ ٹھنڈ شروع ہو گئی تھی۔۔  میں پوش ایریا میں کوڑا بننے والے بچوں کی زندگی پر لکھنے کے لیے مواد اکٹھا کر رہا تھا۔ یہ ساؤتھ ایکس کا ایریا تھا۔ یہاں ایک عمارت بن رہی تھی اور دوسری طرف ایک قطار سے شاندار بنگلے بنے ہوئے تھے۔ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک خوبصورت کار رکی۔ جینس پینٹ اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے ایک عورت شان سے گاڑی سے اتری۔ ریموٹ سے گاڑی کو بند کیا۔۔  میری طرف پلٹی اور اچانک میں چونک گیا۔۔

’ناہید۔۔  ناہید ناز۔۔ ‘

میں غور سے اس عورت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے عورت کی آنکھوں میں بھی چمک پیدا ہوئی۔ اس نے اشارہ کیا۔۔  آ جاؤ۔۔  وہ شان سے اپنے بنگلہ کی طرف بڑھی۔ ڈور بیل بجائی۔۔

ایک خوبصورت لڑکی نے دروازہ کھولا۔۔  مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں حیرت کی جھلک تھی۔

’یہ ماریہ ہے۔ میرے ساتھ رہتی ہے۔‘

وہ مجھے لے کر اپنے خوبصورت ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئی۔

٭٭

 

’قید کو توڑ دے اور آزاد ہو جا۔‘

’میں ایسا راز ہوں جسے پانے میں صدیاں لگتی ہیں۔‘

 

دو منٹ کہہ کر ناہید اندر کمرے کی طرف گئی اور میں اس شاندار بنگلہ کے حسین ڈرائنگ روم کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ دیوار پر آویزاں قیمتی پینٹنگس۔ قیمتی صوفے۔ باہر ایک چھوٹی سی خوبصورت پھلواری۔ ہزاروں سوال بادلوں کے قافلے کی طرح آئے اور گزر گئے۔ کیا ناہید نے شادی کر لی۔ ؟ نہیں۔ تو پھر یہ بنگلہ؟ دل کسی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ صرف چند مہینوں کے اندر ناہید جیسی عورت اس قیمتی بنگلہ کی اکیلی مالک ہوسکتی ہے۔ باہر جو عورت ناہید کی صورت میں نظر آئی تھی، یہ وہ ناہید نہیں تھی، جسے میں نے انڈیا گیٹ پر یا پھر کمال یوسف کے گھر میں دیکھا تھا۔ یہ ایک نئی ناہید تھی۔ اس ناہید میں کسی ملکہ جیسی خصوصیات کے ساتھ زبردست خود اعتمادی بھی شامل تھی۔ اوراس وقت اس کے چہرے پر ایک ایسی مغرور ملکہ کی چمک تھی، جو اپنی سلطنت میں کسی کا دخل نہیں برداشت کرتی، کیا صرف کچھ مہینوں میں اتنی تبدیلی ممکن ہے۔۔ ؟

فیس بک کے نوجوان مالک مارک زبرگر کا قول یاد آ رہا تھا کہ صرف ایک لمحہ آپ کو کچھ سے کچھ بنا سکتا ہے — مگر ان کچھ مہینوں میں ناہید میں ایسی تبدیلیاں بھی آسکتی ہیں، کم از کم میں سوچنے سے قاصر تھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اکیلا میں تھا جو یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ناہید جیسی عورت کبھی خودکشی بھی کر سکتی ہے۔

میں ایسا راز ہوں جسے پانے میں صدیاں لگتی ہیں۔۔

وہ سامنے آئی تو اچانک مجھے طلسم ہوشربا کی اس ساحرہ کی یاد آ گئی جسے دیکھنے والا پتھر کا ہو جایا کرتا تھا۔۔  وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ پاؤں پر پاؤں چڑھا لیا۔ ماریا ایک پلیٹ میں کچھ نمکین، کاجو اور بادام رکھ کر گئی۔ پھر ایک خوبصورت ٹرے میں چائے لے کر آئی اور چائے بناتی ہوئی بھی میری طرف حیرت سے دیکھ رہی تھی۔

ناہید نے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ کہا — ’ اس گھر میں مرد نہیں آتے۔ ماریا کو اسی لیے حیرت ہو رہی ہے۔ آپ مصنف ہیں اس لیے مجھے کوئی پریشانی نہیں۔۔ ‘

میں نے محسوس کیا۔۔  ہر لفظ ناپ تول کر بولا گیا تھا۔ ٹھہر ٹھہر کر۔ اس درمیان چائے کے کپ خالی ہو چکے تھے۔ ناہید کی گہری آنکھیں میری آنکھوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔

’کیا آپ نے بھی مجھے مردہ سمجھ لیا تھا؟‘

’نہیں۔‘

’ مجھے یقین تھا۔‘ وہ پھر زیر لب مسکرائی۔

اس وقت میرا سابقہ ایک ایسی عورت سے تھا، جس نے اپنے احساس اور جذبات پر اس حد تک قابو پا لیا تھا کہ اس کے چہرے پرکسی بھی طرح کا تاثر پیدا نہیں ہو رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ پاؤں چلا رہی تھی۔ ممکن ہے، مجھے دیکھنے کے بعد جوناگڑھ سے لے کر نینی تال تک کے واقعات اس کی نگاہوں میں گھوم گئے ہوں۔ مگر وہ انجان بنی ہوئی، تاثر سے عاری چہرہ لیے خلا میں دیکھ رہی تھی۔۔

’زندگی عجیب ہے۔۔ ‘

میں نے دانتوں کے بجنے کی آواز سنی۔۔

’ہاں۔‘

’اور پر اسرار بھی۔‘

’ہاں۔‘

’کچھ لوگ ہوتے ہیں، جو جان بوجھ کر آسان زندگی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔‘

’شاید۔۔ ‘

’ہم اپنی شرطوں پر کیوں نہیں جی سکتے۔؟‘

’جی۔‘

’اپنی آزادی کے ساتھ۔۔ ‘

وہ اب بھی خلاء میں دیکھ رہی تھی اور کہنا چاہئے۔۔  ہر لفظ کے ساتھ میں دانتوں کے بجنے کی آواز سن رہا تھا۔ ماحول کو ایک مغرور ملکہ کی موجودگی نے گہرے سناٹے میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس کی مسکراہٹ غائب تھی۔ اب وہ میری طرف گھومی۔۔

’تو آپ کو یقین تھا کہ میں۔۔ ‘

’میرے لیے تصور بھی محال تھا۔‘

’کیوں۔۔ ؟‘

’کیونکہ اس طرح کے دم خم والی عورت۔۔ ‘ میں کہتے کہتے ٹھہر گیا تھا۔ اور اس وقت دم خم سے زیادہ بہتر لفظ مجھے کوئی اور نظر نہیں آ رہا تھا۔۔  میں نے ایک ذرا توقف کے بعد کہنا شروع کیا۔۔  کیونکہ ایسی عورت خودکشی کو سوچ بھی نہیں سکتی۔

اس نے کچھ نہیں کہا۔ نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ میں سوالوں کے ہجوم میں تھا مگر کہنا چاہئے، اس وقت سوال بھی سہمے ہوئے تھے۔۔

میں نے ڈرتے ڈرتے دریافت کیا۔۔ ’ یہ بنگلہ۔۔ ‘

وہ پر اسرار انداز سے مسکرائی۔۔ ’ آپ کو کیا لگتا ہے۔۔ ‘

’میں سوچنے سے قاصر ہوں۔‘

’پھر بھی۔۔ ؟ کسی نے تحفہ میں دے دیا۔۔ ؟‘

’نہیں۔‘

’شادی کر لی۔ جہیز میں ملا؟‘ وہ مسکرائی تو پرانی ناہید کی جھلک مجھے نظر آ گئی۔۔

’شاید۔۔ نہیں۔۔ ‘

’شاید۔۔ ‘ اس بار وہ کھل کر ہنسی۔۔  زور دار قہقہہ لگایا۔۔  ’آپ بھی شاید کہیں گے۔ مجھے لگا تھا، آپ مجھے جان گئے ہیں۔۔  مسٹر رائٹر۔۔  ایک بات یاد رکھیے۔ دنیا کا ہر رائٹر جھوٹا ہوتا ہے۔ وہ صرف اندازے لگاتا ہے۔ اور کبھی کبھی بیہودہ اور غلط اندازے۔ یہ دنیا اس کے اندازوں سے کہیں الگ ایک نئی پرواز لے رہی ہے یا لے چکی ہے۔۔ ‘

’جی۔۔ ‘

’رائٹر سمجھتا ہے، دعوے کرتا ہے کہ وہ سچ تک پہنچ گیا ہے۔ مگر کیا سچ مچ؟ میرے خیال سے نہیں۔ وہ سچ کے صرف ایک فیصد تک پہنچتا ہے۔ وہ بھی مشکل سے۔ اور اس پر وہ غرور کرتا ہے کہ وہ سچ اور حقیقت کی تہہ تک پہنچ چکا ہے۔

’مجھے وہ تصویر مل گئی تھی۔۔ ‘ میں نے آہستہ سے کہا۔۔

ناہید چونک گئی۔ میری طرف دیکھا۔۔  ’وہ بلّی چوہے والی۔۔ ؟‘ وہ شک سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔۔

’ہاں۔ اس لیے قیاس لگانا مشکل نہیں تھا کہ چوہے کو کھانے کے بعد بلی آزاد ہے۔ اور آزاد بلیاں خودکشی کا راستہ نہیں اختیار کرتیں۔۔ ‘

’گڈ۔ وہ شادی بھی نہیں کرتیں — ‘ اس کے ہونٹوں پر زہر بھری مسکراہٹ تھی۔ ’چوہے کچلنے کے لیے ہوتے ہیں۔۔ ‘ اتنا کہہ کر وہ ایک بار پھر خاموش ہو گئی تھی۔۔  کچھ دیر تک ماحول میں سناٹا چھایا رہا۔ اس کے ہاتھوں میں ایک چاندی کی رنگ آ گئی تھی۔ جسے وہ اپنی انگلیوں سے گول گول گھما رہی تھی۔۔

’اس بنگلہ کے بارے میں بتا دوں آپ کو۔۔  کوئی لمبی چوڑی کہانی نہیں ہے۔‘

’جی۔۔ ‘

’وہاں سے میں دلی آ گئی۔ اسی گرلس ہوسٹس میں۔ وہاں تمام چہرے بدل گئے تھے۔ آپ کو ڈکشنری یاد ہے۔۔ ‘

’ہاں۔‘

’میں ایک مہینے تک ڈکشنری کی اشاعت کے لیے غیر ملکی لٹریری ایجنٹ سے مسلسل رابطہ کرتی رہی۔۔  پھر ایک دن ایک میل موصول ہوئی۔ لندن کی رائیل پبلشنگ ہاؤس کی میڈم رونا ٹیلر کی طرف سے۔ لکھا تھا۔ آپ اس پر کچھ اور کام کریں۔ آپ کا استقبال ہے۔ آپ پہلی خاتون ہیں جو دنیا کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ آپ انڈین ہیں۔ اس لیے انگریزی لغات میں کام کرنے کے لیے آپ کو پریشانی ہو گی۔ مس جنیفر آپ کو ملیں گی۔ اور وہ آپ کو کاپریٹ کریں گی۔۔ یہ ادارہ عورتوں کے لیے کام کرتا ہے اور اس میں کام کرنے والی صرف عورتیں ہیں۔ میری میڈم رونا ٹیلر سے فون پر بھی کئی بار بات ہوئی۔ وہ اس بات سے خوش تھی کہ میں ان کے مشن کو سمجھ رہی ہوں۔ یا میں اس مشن میں ان کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہوں۔ انہوں نے مجھ سے بہت سی باتیں دریافت کیں۔ مثال کے لیے میری پچھلی زندگی — ناہید ایک وقفہ کے لیے رکی۔ میری طرف دیکھا۔ پھر کہنا شروع کیا۔۔  وہ اس بات سے خوش تھی کہ میں اب اکیلی ہوں اور اس نظام کا حصہ ہوں۔۔  جہاں۔۔  چوہے۔ صرف کچلنے کے لیے ہوتے ہیں۔۔  ہاں تو، میں آپ کو جنیفر کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔

’جی۔‘

’تین مہینے جنیفر کے ساتھ میں نے اس پروجیکٹ پر کام کیا۔مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ اس سطح پر سوچنے والی اکیلی میں نہیں ہوں۔ ایک دنیا تمہارے پاگل پن اور کارناموں سے گھبرا چکی ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے، تمہاری مردہ مردانگی سے۔ اور اسی لیے تیز رفتاری سے اسی نئی دنیا میں ایک نیا معاشرہ تیار ہو رہا ہے۔ اور تم سوچ بھی نہیں سکتے، بہت حد تک یہ نیا معاشرہ وجود میں آ چکا ہے۔ جنیفر اور دیگر کئی ممالک کی لڑکیاں، عورتیں ہمارے ساتھ ہیں۔ اوراس لیے اس سسٹم تک پہنچنا ضروری تھا جو تمہارے صدیوں سے ہتھیار رہے ہیں۔‘ ناہید مسکرائی۔۔  لفظ۔۔  شبد۔۔  ورڈس۔۔  ہم سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعہ بھی بلاسٹ کریں گے اور تمہاری مردانگی کے چیتھڑے اڑا دیں گے۔۔  وہ ہنس رہی تھی۔۔  اور تمہارا وہ منحوس کینچوا۔۔  کیا نام تھا اس کا۔۔  نرمل اساس۔۔  وہ کسی حد تک اس تبدیلی کو سمجھ چکا تھا۔ مگر بیچارہ۔۔  کچھ لوگ خوفزدہ پیدا ہوتے ہیں۔ اور خوف زدہ ہو کر مر جاتے ہیں۔۔ ‘ وہ ایک بار پھر زہر بھری کڑواہٹ کے ساتھ مسکرائی — جیسا میں نے بتایا، مجھے ابھی کام شروع کیے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے ہیں۔۔  اور معلوم، ان تین مہینوں کے لیے مجھے کیا انعام دیا گیا۔۔ ‘

ناہید کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ تھی۔۔  یہ بنگلہ۔ اور ایڈوانس کے طور پر دو کروڑ کا چیک۔ رائیلٹی الگ۔۔  وہ چوہا اس کام کی قیمت نہیں سمجھ سکا مگر رونا ٹیلر۔۔  وہ عورت تھی اور جانتی تھی کہ لفظوں کی طاقت کیا ہے۔۔

’جی‘

کیا تم نے اس طاقت کا تجزیہ کیا تھا۔۔ ؟

’نہیں۔۔ ‘

’تم کر بھی نہیں سکتے تھے۔‘

میں ناہید کے نئے روپ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اوراس وقت ذہن کے پردے پر رونا ٹیلر  اور جینفر کی جو تصویر بن رہی تھی وہ مجھے حیرت میں ڈال رہی تھی۔

’کیا رونا اور جنیفر لیسبئن ہیں ؟‘ میں نے اچانک پوچھا تو وہ زور سے چلائی۔ شٹ اپ۔۔  بالکل نہیں۔‘

ماریا باہر نکل کر آ گئی تھی۔ پھر ناہید کو خاموش دیکھ کرواپس لوٹ گئی۔

’ایک دنیا آزادی کے لیے پر تول رہی ہے تو لفظ کیوں قید رہیں گے؟ لفظوں کو آپ لوگوں نے غلام بنا رکھا تھا۔ اب لفظ آزاد ہو رہے ہیں۔۔ ‘

وہ غرور سے مسکرائی۔۔ ’ اور آپ دیکھیں گے، لفظوں کے آزاد ہوتے ہی اس دنیا کا مکمل نظام بدل جائے گا۔‘

’آپ کے ہاتھوں میں ہو گا؟‘

’کیوں ؟ آپ کو ڈر لگتا ہے۔‘ وہ پھر زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھ رہی تھی۔۔

’لیکن آپ کو نہیں لگتا کہ۔۔ ‘

’کیا۔۔ ؟‘

’اس آزادی میں کچھ کمزور لوگ بھی شامل ہیں۔۔ ‘

’صوفیہ۔۔ ‘ اس بار اس کا چہرہ پتھر کی طرح سخت تھا۔۔

’جی۔۔ ‘ میں نے آہستہ سے کہا۔۔  ’کیا آپ جانتی تھیں۔۔ ‘

اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا۔۔  تلخی اور نفرت بھرے احساس کے ساتھ مسکرائی — میں سب جانتی تھی۔ کیا اتنا کہہ دینا کافی نہیں۔۔ ‘

’جی۔‘

’کمزور لوگ، کمزور لوگوں کی پسند ہوتے ہیں اور آزاد لوگوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔۔ ‘

ناہید کے چہرے پر غرور آمیز چمک دوبارہ لوٹ آئی تھی۔۔

میں نے آہستہ سے کہا — ’ یہ سماج ابھی بھی دو حصے میں تقسیم ہے۔ ایک طرف گھنی پرچھائیاں ہیں اور دوسری طرف طلوع آفتاب کا طلسم۔ ایک آبادی خوف کی ہے، جو ایک بڑی دنیا کو آزاد ہونے سے روک رہی ہے۔۔  ممکن ہے یہ توازن کے لیے ہو۔۔ ‘

’کیوں ؟‘

’زیادہ آزادی خطرناک بھی تو ہوسکتی ہے۔؟‘

’آزادی کبھی خطرناک نہیں ہوتی۔ توازن، غلامی، یہ سب چوہوں کے استعمال شدہ ہتھیار ہیں، جسے وہ آج بھی مہذب دنیا میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اور انہیں خوف اس بات کا ہے کہ دنیا کی ایک بڑی آبادی نے ہی اس کمزور ہتھیار کو ریجکٹ کر دیا ہے۔‘

’کیا آپ کہہ سکتی ہیں کہ آپ خوش ہیں ؟‘

’کیوں ؟ کمی کیا ہے میرے پاس۔۔ ؟‘ اس کی آنکھوں میں اس بار جلاد جیسی چمک تھی — ’ جسے آپ کمی کہہ رہے ہیں وہ بھی غیر مہذب چوہے سماج، معاشرے اور مذہب کی دہائیاں دیتے ہوئے لائے ہیں۔‘

’فطرت؟ فطری اصول۔۔  جسم کی مانگ۔۔ ؟‘میں نے غور سے ناہید کی طرف دیکھا۔۔  آپ انسان ہیں تو یہ مانگیں لازمی ہیں۔ مرد ہو یا عورت ان مانگوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔۔  آپ ابھی جوان ہیں تو کیا کوئی ایسی مانگ آپ محسوس نہیں کرتیں ؟‘

میں غور سے ناہید کا چہرہ پڑھ رہا تھا۔ اس کے چہرے کے رنگ تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔ مجھے یقین تھا، دھماکہ ہو گا۔۔  اور میرے خطرناک لفظ اپنا کام کر گئے تھے۔

اس بار وہ زور سے چیخی۔۔ ’گیٹ لاسٹ۔ بیٹھے کیوں ہو اب تک۔۔  اب بھی کچھ باقی رہ گیا ہے۔۔ ‘

میرے سوال کو نظر انداز کرتی ہوئی وہ پھر غصے سے چلائی۔۔  ’اب بھی کچھ باقی رہ گیا ہے۔۔ ‘

میں اچانک کھڑا ہو گیا۔۔  مغرور ملکہ نے مجھے باہر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ کچھ دوری پر ماریا کھڑی ہوئی مجھے زہر آلود نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ مجھے اس بے عزتی کی چنداں پرواہ نہیں تھی۔ مگر مجھے یاد آیا۔۔  یہ جملہ کچھ کچھ سنا ہوا ہے۔۔  اب بھی کچھ باقی رہ گیا ہے۔ مگر یہ جملہ کب کس نے کہا۔۔  اور اچانک میں چونک گیا تھا۔

 

باہر آنے تک یہ پوری کہانی کچھ ایسے صاف ہو گئی تھی جیسے کانن ڈائیل کے مشہور کردار شرلاک ہو مز نے قاتل کے راز کو دریافت کر لیا ہو۔۔  مائی گاڈ۔۔  بنگلہ کے باہر آنے تک میرا جسم لرز رہا تھا۔۔  مجھے یاد آیا۔۔  جب ناہید ناز نینی تال والے گھر میں مجھے اپنی آپ بیتی سنا رہی تھی۔۔  عظیم والے حادثہ کے بعد اس نے گھر چھوڑتے ہوئے اپنی اماں کے سامنے ٹھیک یہی مکالمہ ادا کیا تھا۔۔  اب بھی کچھ باقی رہ گیا ہے۔۔  میرا ذہنی افق اس وقت روشن تھا۔۔  تو اس ’باقی رہ گیا ہے۔‘ کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسے ایک چوہے کی ضرورت تھی۔ یعنی کمال یوسف کی۔۔  اور جب یہ کام مکمل ہو گیا تو بلّی پورے طور پر آزاد تھی۔۔  اپنی شرطوں پر اپنی آزاد دنیا میں۔۔

 

میں بنگلہ سے باہر آ گیا تھا۔ گاڑیوں کی آمدورفت جاری تھی۔ ذہن میں سناٹا پسرا ہوا تھا۔ اور اچانک میں چونک گیا۔۔  مجھے احساس ہوا۔۔  میرا جسم سکڑتا جا رہا ہے۔۔  سکڑتا جا رہا ہے۔۔  اور اس وقت فرانز کافکا کے لازوال کردار کی طرح میں ایک معمولی سے کیکڑے۔۔  نہیں چوہے میں تبدیل ہو گیا ہوں۔

گھر تک پہنچنے کے لیے مجھے اپنے جسم کو گھسیٹنا پڑ رہا ہے۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگ عجیب عجیب نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ میں شرمندگی سے بچنے کے لیے مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔

ایک معمولی کیکڑا۔۔  نہیں۔۔ چوہا۔۔ زمین پر رینگنے۔۔  چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید