..
فہرست مضامین
میزانِ نو
(ادبی تبصرے و تنقیدی جائزے )
ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیلؔ
انتساب!
والد محترم الحاج مولوی محمد عبدالغفار صاحبؒ مرحوم
و
والدہ الحاجہ رحیم النساء بیگم صاحبہ مرحومہ
کی نذر
جن کی صالح تربیت نے مجھے ایک اچھا انسان بنایا!
ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیلؔ
تعارف
نام: محمد عبد العزیز
قلمی نام: عزیزسہیلؔ
ولدیت: مولوی محمد عبد الغفار صاحب(مرحوم)
تعلیمی قابلیت: ایم اے (اردو، نظم و نسق عامہ)، بی۔ ایڈ، نیٹ، پی ایچ ڈی
پیشہ: تدریس/لیکچرار ایم وی ایس کالج محبوب نگر
مقام پیدائش: نظام آباد تلنگانہ
سکونت: محبوب نگر
ادبی وابستگی: بانی مدیر ’’ماہنامہ بچوں کا غازی‘‘ نظام آباد 2001
: بانی مدیر ’’ماہنامہ التوحیدِ‘‘ نظام آباد 2002 تا 2009
: سابق خازن ادارہ ادب اسلامی ہند شہر نظام آباد 2006تا2007
: معتمد ’’ اردو اسکالرس اسوسی ایشن نظام آباد2013
: معتمد ادارہ ادب اسلامی محبوب نگر 2014
: مشیر ادارہ ادب اسلامی جڑچرلہ 2015
ا یوارڈ و خطاب: عزیز دکن2015ء (ادارہ ادب صادق حیدرآباد)
پہلا مضمون: صحافت کی ابتداء اور ہندوستان‘‘ ماہنامہ رفیق منزل نئی دہلی 2005
تصانیف: (۱) ادبی نگینے (ادبی تنقیدی و معلوماتی مضامین ) مارچ2014ء
(۲) ڈاکٹر شیلا راج تاریخی و ادبی خدمات جولائی 2014ء
(۳) سماجی علوم کی اہمیت، مسائل اور امکاناتمئی2015ء
زیر طبع: 1)دریچے ( ادبی اجلاسوں کے رپورتاژ)
2 )متاع عزیز(ادبی، تنقیدی و معلوماتی مضامین)
3)توازن و تقابل(ادبی تبصروں و مضامین کا مجموعہ)
پیش لفظ
جنوبی ہند کی نئی نسل میں تحقیق و تنقید کے حوالے سے تصنیف و تالیف کو اظہار کا ذریعہ بنانے والے نئے ادیبوں میں ڈاکٹر عزیز سہیل کا شمار ہوتا ہے، جن کا تعلق ریاست تلنگانہ کے اہم ادبی علاقہ نظام آباد سے انتہائی گہرا ہے۔ بہت کم وقفہ میں انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ شناخت بنا لی ہے۔ اردو کے ادبی رسائل جرائد ہی نہیں، بلکہ اخبارات کے ادبی ایڈیشن میں ان کے تجزیے اور تبصرے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں دکن کی سرزمین سے بے تکان تصنیف و تالیف کو جاری رکھتے ہوئے نئے لکھنے والے قلمکاروں میں ڈاکٹر عزیز سہیل انفرادیت کے حامل ہیں۔ جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ سے استفادہ کرنے والے چند نمائندہ شاگردوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے مادرِ جامعہ سے اکتساب کے دوران ہی اساتذہ سے بھر پور تعاون حاصل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی کتابوں کے سلسلہ میں بھی جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ کی رہنمائی ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک سال کے مختصر عرصہ میں ان کی تین اہم کتابیں اشاعت کا موقف حاصل کر چکی ہیں۔
محنت و مشقت کو کام میں لاتے ہوئے کتابوں کے مطالعہ سے دانشوری کو کشید کرنے کا عمل عزیز سہیل کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسی خوبی نے انھیں اظہار کی صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ زبان و بیان کو سلیقہ سے برتنے کی وجہہ سے ان کی تحریریں دلچسپ اور معنی خیز ہونے کے علاوہ اعتماد کی فضا بحال کر لیتی ہیں۔ ابتداء میں وہ تجارت سے وابستہ رہے، پھر رفتہ رفتہ پیشہ تدریس سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ خدا کے فضل سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے بھی سرفراز ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نئی دہلی کے نیٹ امتحان میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی تحریر و تصنیف کا سلسلہ زیادہ طویل نہیں، گذشتہ ایک دہائی کے دوران انہوں نے ادبی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ان کی تحریریں اردو رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ تحریر پر گرفت، اظہار پر قابو اور زبان کے محاوروں اور فقروں کے برمحل استعمال سے ان کی نثر کا خمیر اٹھا ہے۔ تلاش و تجزیہ کی ہمہ جہت خصوصیات کی وجہہ سے ان کی تحریروں میں جاذبیت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف سادہ لفظیات کے ذریعہ کیفیت کے برملّا اظہار کا سلیقہ رکھتے ہیں، بلکہ تحریر کو ہر قسم کی ژولید بیانی سے پاک کر کے سادہ انداز کو راست وضاحت کا آئینہ دار بناتے ہیں، جس سے ترسیل کا حق پوری طرح ادا ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر عزیز سہیل عصری دنیا کے با شعور شہری ہیں۔ ذرائع ترسیل و ابلاغ اور ترجمہ کے فن سے واقف کاری کے سلسلہ میں انہوں نے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے پو سٹ گریجویٹ ڈپلوما کے ابتدائی شاگردوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہہ ہے کہ سادہ زبان اور صحافتی ضروریات کی تکمیل کرنے والے لب و لہجہ کے ذریعہ نثر کا ایوان سجاتے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ ان کی تحریر اظہار کے تنوع کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کی نثر میں جملوں اور فقروں کے ذریعہ بے ساختہ اظہار کے جوہر نمایاں ہوتے ہیں۔ وہ سادہ اور عام زبان میں اظہار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس سے ما فی الضمیر کی ادائیگی کے دوران خالص فطری اسلوب ان کی نثر میں طاقت و قوت پیدا کرنے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔
ادب کے انتہائی سنجیدہ طالب علم ڈاکٹر محمد عبدالعزیزسہیل کو تحقیق و تنقید سے بڑی دلچسپی ہے، ’’میزان نو‘‘ مختلف وقفوں میں تحریر کردہ ان کے ادبی تبصروں کا مجموعہ ہے۔ ان تبصروں میں کہیں تنقیدی نقوش اجاگر ہوتے ہیں تو کہیں پر تحقیقی رویہ بھی نمایاں ہونے لگتا ہے۔ فطری طور پر عزیز سہیل انتہائی شریف اور سلیقہ شعار انسان ہیں، وہ اساتذہ کی عزت کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت دوستی اور ہمدردی و شرافت کو بھی فطرت کا وسیلہ بنا لیتے ہیں، طبیعت میں انتہائی سادگی اور مزاج میں حد درجہ انکساری کے دریا موجزن ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جس ادب دوست سے ملتے ہیں اس کے سچے مرید ثابت ہوتے ہیں، بے شمار قدرتی اور ذاتی صلاحیتوں سے مالا مال ڈاکٹر عزیز سہیل اردو کی ادبی دنیا میں داخل ہونے والے نئے شہسوار ہیں، ان کے مضامین میں عصری شعور اور عصری زندگی کے کرب کی صعوبتیں ہلچل مچاتی ہیں۔ ’’میزانِ نو‘‘ میں شامل تمام مضامین فنی اعتبار سے تبصرہ نگاری کی دلیل بنتے ہیں، انہوں نے اپنے عصر کے مسائل سے بھر پور فیض پایا ہے، نہ صرف اپنے ہم عمروں کی تصانیف کے تجزیہ پر خصوصی توجہ دی ہے، بلکہ ان کی عمر سے زیادہ تجربہ رکھنے والے ادیبوں کے کارناموں کو بھی تبصرہ نگاری کی زینت سے مالا مال کیا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹرسیدداوداشرف، ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، ڈاکٹر عابد معز، یٰسین احمد، ڈاکٹر شیلا راج، محمد انیس فاروقی، ڈاکٹر اسلم فاروقی، ڈاکٹر محسن جلگانوی، ڈاکٹر طیب خرادی، ڈاکٹر ابرار الباقی، ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین، ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر اور ایسے ہی کئی قلم کار، ارباب دانش کی تحریروں پر تبصرہ کا حق ادا کیا ہے، جس کے ساتھ ہی فن کی جولانی کا ثبوت دینے کے لیے ڈاکٹر عزیز سہیل کے محاکماتی تجزیے کو ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
اردو کے ایک نئے اور نو مشق ادیب کی حیثیت سے ڈاکٹر عزیز سہیل نے غیر افسانوی نثر کی طرف اپنے جھکاؤ کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اب تک کے شائع شدہ ان کے مقالے اور سبھی مضامین سے خود اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ایک مبصر کی حیثیت سے عزیز سہیل نے غیر جانب داری کے دامن پر حروف آنے نہیں دیا۔ بیشتر تبصروں میں تجزیہ و تشریح کے علاوہ خود مصنف کی فکر کو واضح کرنے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ دیگر مضامین لکھنے کے دوران تبصرہ کے لیے تعارف اور اس کے ساتھ ہی تجزیہ کا عمل اختیار کرنا لازمی ہوتا ہے، اسی کے پیش نظر معاصر ادبی کتابوں اور اردورسائل پر تبصرے لکھ کر عزیز سہیل نے مکمل طور پر عہد کی ترجمانی انجام دی ہے۔ کتاب کو تین ذیلی حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے پہلے حصہ میں مطبوعہ کتب پر تبصرے اور تجزیہ پر توجہ دی گئی ہے، جب کہ دوسرے حصہ میں اردو رسائل و جرائد کی خصوصی اشاعتوں پر تبصرے پیش کیے گئے ہیں۔ کتاب کا تیسرا حصہ اسلامی کتب کے تبصروں سے وابستہ ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تبصرہ اور تجزیہ کے لیے کسی ایک موضوع کی کتاب کے احاطے کو مرکوز نہیں کیا گیا، بلکہ محاسن و معائب کی روشنی میں جانچنے کی خاطر تحریر کیے گئے متوازن تبصرے کہلاتے ہیں، ڈاکٹر عزیز سہیل نے ابھی اپنے سفر کا آغاز کیا ہے، انہیں کئی منزلوں کی مسافت طے کر کے بہت دور تک سفر کرنا ہے۔ عام طور پر بہتر آغاز کو بذاتِ منزل تک کامیابی کے ساتھ پہنچنے کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے ڈاکٹر عزیز سہیل کے تبصروں کی کتاب ’’میزانِ نو‘‘ کو ان کے بہتر آغاز کا درجہ دے کر استقبال کیا جاتا ہے، عزیز سہیل سے توقع ہے کہ قلم کے محور کو تبصرہ نگاری کے محدود طرز سے آگے بڑھ کر ادب کی دوسری نثری اصناف میں اظہار کے وسیلے تلاش کر کے ضرور ایک کامیاب مصنف ہونے کا حق ادا کریں گے، ’’میزان نو‘‘ کا ادبی دنیا میں استقبال کیا جاتا ہے۔ ادب دوستوں کی نیک خواہشات اور دلی تمنائیں مبصر کے شامل حال ہے۔ قوی توقع ہے کہ سلامت روی کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر عزیز سہیل ضرور اردو کے شہسوار ادیبوں میں شمار کیے جائیں گے۔ تاریخ23جون2014بروز پیر۔
پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد
ڈاکٹر عزیز سہیل ایک ہردلعزیز علمی و ادبی شخصیت
اردو ہماری مادری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیائے علم و ادب کا ایک ایسا اثاثہ ہے جس کی بقاء فروغ ہماری ذمہ داری ہے۔ اردو زبان کی مقبولیت و جاذبیت سے وہی لوگ خوب واقف ہیں جو اس کے چمن کی اپنے خون جگر سے آبیاری کرتے ہیں۔ اس زبان میں ایسی لذت ہے ‘ جو دل و دماغ میں ایک خوشگوار تاثر پیدا کرتی ہے ‘ جس کی کیفیت کے اظہار کو الفاظ میں لانا مشکل ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس کو مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی دل و جان سے چاہتے ہیں۔ مشاہدہ میں بات آتی ہے کہ شاعر، ادیب و محبانِ اردو کو بھی اردو بے حد عزیز ہوتی ہے وہ دم آخر تک اس سے وابستگی برقرار رکھتے ہوئے ایک محسن اردو کی حیثیت سے اس کی لذت و چاشنی سے محظوظ ہوتے ہیں۔ دور حاضر میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہیں اردو زبان سے صحیح معنوں میں محبت ہے اس ایک وجہہ یہ ہے کہ ہمارے طلباء اردو ذریعہ تعلیم سے دور ہیں اور چند طلباء جو اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا معیار نہایت ہی کم تر و گٹھیا ہے جس کی ذمہ داری اساتذہ اور اولیاء طلباء پر عائد کی جا سکتی ہے۔ اردو زبان اپنے نامساعدحالات میں بھی عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے اور اس کے چاہنے والے اس کی سربلندی کیلئے کوشاں ہیں آج مختلف مقامات سے طلباء و طالبات ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں مگر ان میں چند ہی نوجوان ایسے ہیں جو کماحقہٗ اس کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں۔ ان ہی چند احباب میں نظام آباد ضلع سے اٹھنے والی ایک شخصیت کو شامل کیا جا سکتا ہے جس کا نام ڈاکٹر عزیز سہیل ہے۔ ڈاکٹر عزیز سہیل جو بچپن سے ہی اردو کے دلدادہ ہیں اور اردو زبان کی بقاء و فروغ میں مسلسل کوشاں ہیں۔ ڈاکٹر عزیز نے ’’ڈاکٹر شیلا راج حیات اور علمی، ادبی خدمات‘‘ پر پی ایچ ڈی کی اور ایک جامعہ مقالہ کی تحریر سے کافی مقبول ہوئے۔ دو سال سے بحیثیت لکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور اپنی تدریسی ‘علمی و ادبی صلاحیتوں کے سبب دنیائے علم و ادب، طلبہ اور اولیاء طلباء کی نظروں میں ایک اعلی مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز سہیل کا تعلق ایک علمی و ادبی و مذہبی گھرانے سے ہے۔ ان کی صحیح تربیت نے ڈاکٹر سہیل کے زندگی کو ایک ایساخوشگوارموڑ دیا ہے کہ وہ دنیائے علم و ادب میں ایک روشن ستارہ کی حیثیت سے چمکنے لگے ہیں۔
ڈاکٹر عزیز سہیل میں وہ تمام اعلی صلاحیت موجو دہیں جو ایک محب اردو میں ہونی چاہیئے دو سال قلیل مدت میں انہوں نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر میں کبھی اردو زبان یا اردو ذریعہ تعلیم کا کوئی قومی سطح کا سمینار منعقد نہیں کئے گئے ڈاکٹر عزیز سہیل نے حالیہ عرصہ میں قومی سطح کا سمینار منعقد کروایا جو اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے جس میں مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسر نے شرکت کی تھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اردو کی عظمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے علمی، ادبی و ثقافتی پروگرام منعقد کئے جس میں اردو کے نامور شعراء ، ادباء، دانشورانِ ملت نے شرکت کی اور اس طرح کی سرگرمیوں کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا جس کے لیے وہ قابل مبارکباد ہیں ساتھ ہی ان کے ساتھی اساتذہ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر عزیز سہیل کو نثر میں کافی عبور حاصل ہے چنانچہ انہوں نے تا حال دو تصانیف رقم کی ہیں جن میں ’’ادبی نگینے ‘‘ اور ’’ڈاکٹر شیلا راج کی تاریخی و ادبی خدمات ‘‘ شامل ہیں ’’میزانِ نو ‘‘ ان کی تیسری تصنیف ہے جو تنقیدی جائزے و ادبی تبصروں پر مشتمل ہیں۔ ان کی اس کتاب میں نامور شخصیتوں کی تصانیف پر تبصرے و جائزے ‘اردو رسائل پر بھی تبصرے ہیں جس کا عزیز سہیل نے تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بیشتر تبصرے تعارفی ہیں جس سے نئے موضوعات پر شائع ہونے والی تصانیف سے اہل اردو واقف ہوتے ہیں ہے۔ عزیز سہیل کے اندر تنقیدی شعور پایا جاتا ہے وہ ایک بہترین مبصر کی حیثیت سے اردو حلقوں میں اپنا ایک خاص مقام بنا لیا ہے ان کی تحریریں کافی دلچسپ اور معلومات سے لبریز ہوتی ہیں جو غور و فکر پر آمادہ کرتی ہیں۔ ان کا مبسوط مطالعہ دلوں کو اردو زبان کی عظمت و مقبولیت سے روشناس کراتا ہے اور دلوں پر ایسے خوشگوار نقوش چھوڑتا ہے جس کی روشنی سے علم و ادب کی راہیں پر نور آسان بن جاتی ہیں۔ یقیناً یہ ان کی اعلی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ حال ہی میں ان کی علمی و ادبی خدمات کے پیش نظر ادارہ ادب اسلامی محبوب نگر کے معتمد عمومی کی حیثیت سے ان کو نامزد کیا گیا اور وہ اپنی ذمہ داری کے فرائض بڑی دلچسپی و جانفشانی سے انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز سہیل ایک اچھے ناظم جلسہ بھی ہیں انہیں اردو زبان پر مکمل دسترس حاصل ہے اور اس طرح ان کی نظامت سے جلسوں اور مشاعروں کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اپنے وطن عزیز نظام آباد میں بھی انہوں نے عظیم الشان جلسوں و سمینار کا انعقاد عمل میں لا کر اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور کافی مقبول ہوئے ڈاکٹر سہیل ایک خوش اخلاق منکسر المزاج، سادہ دل و خوش مزاج انسان ہیں ہر کسی سے خندہ پیشانی و سادگی سے ملتے ہیں ان کے اعلی ظرف ہونے کا ثبوت بھی ہے۔ یقیناًانسان میں ایسی اعلی صلاحیتیں موجود ہوں تو اسے شہرت چار چاند لگا دیتی ہے اور ایسی ہی شہرت ڈاکٹر عزیز سہیل کو حاصل ہو رہی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ مجاہد اردو اپنی اعلی صلاحیتوں کو زندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ اور اردو کے چمن کو اپنے خون جگر سے آبیاری کرتا رہے گا اور اردو اپنے چاہنے والوں پر ناز کرتی رہے گی۔ اردو زبان کے جواں سال اسکالر کا جہاں جہاں بھی تذکرہ ہو گا وہاں وہاں ڈاکٹر عزیز سہیل کا وجود ایک روشن ستارہ کی حیثیت سے چمکے گا۔
دعا ہے کہ ہمارے جواں سال اسکالرس میں عزیز سہیل جیسے مخلص، قابل اور با صلاحیت احباب بھی دنیائے علم و ادب میں پیدا ہوتے رہیں تاکہ اردو کبھی مایوس و محرومی کا شکار نہ بن سکے بلکہ اپنی سرخروی، چاشنی و مقبولیت سے محبان اردو کو محظوظ کرتی رہے جو ہر محب اردو کی دلی تمنا بھی ہے۔
/20اپریل 2015حلیم بابر
صدر بزم کہکشاں محبوب نگر
دیباچہ
تبصرہ نگاری تنقید کی ایک شاخ ہے۔ تبصرہ کے لغوی معنی تصریح، تشریح اور توضیح کے ہیں۔ زندگی میں آئے دن ہم ایک دوسرے پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔ مختلف موضوعات زیر بحث لاتے ہیں۔ ان تبصروں میں صداقت ہوتی ہے اور نہیں بھی۔ لیکن ہم تبصروں سے باز نہیں آتے، آفس ہو کہ گھر، مسجد ہو کہ میخانہ، بازار ہو کہ ویرانہ، آن لائن ہو کہ آف لائن۔۔ ۔ بس ایک صنم چاہیئے تبصرے کیلئے والا معاملہ درپیش ہوتا ہے ادبی دنیا میں تبصرے سے مراد کسی کتاب یا رسالہ کا اجمالی طور پر جائزہ لینا ہے۔ یعنی کسی کتاب یا رسالہ کو پڑھ کراس کی خوبیوں اور خامیوں کا اظہار تبصرہ ہے۔ تبصرہ مصنف کو حوصلہ اور توانائی بخشتا ہے۔ سوچ اور فکر کو روشن کرتا ہے تاکہ وہ اپنی تخلیق پر نظر ثانی کرے اور بہترسے بہتر لکھنے کی کوشش کرے۔
تبصرہ نگار قارئین کا امین ہوتا ہے، کتاب پڑھنے سے پہلے وہ تبصرہ پڑھ کر جان لیتا ہے کہ کتاب لائق مطالعہ ہے یا نہیں۔ اس لیے تبصرہ نگار کو دیانت داری سے کام لینا چاہئیے۔ مصنف کو خوش کرنے والا تبصرہ بد دیانتی کی مثال ہے اس لیے تبصرہ کے ذریعے اگر کتاب کی دس خوبیاں بیان کرنا مقصود ہے تو کم از کم ایک دو خامیاں بھی بیان کرنا چاہیئے تاکہ مصنف اور قارئین کا حق ادا ہو سکے۔ کچھ ادباء و شعراء اپنے اور کتاب کے حق میں صرف تعریف سننا ہی پسند کرتے ہیں کسی خامی یا کوتاہی کا اظہار انہیں ناگوار گزرتا ہے۔ لیکن تبصرہ نگار پر لازم ہے کہ وہ خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرے۔
کچھ ادیبوں کو کتاب سے زیادہ اس کے رسم اجراء کی فکر لاحق گیر ہوتی ہے خواہ اس کا معیار کتنا ہی گیا گزرا ہو مگر رسم اجراء کی تقریب شاندار پیمانے پر منعقد کی جاتی ہے، لفافے دے کر تبصرے لکھوائے اور پڑھوائے جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کو یقینی بنایا جاتا ہے، ظلم یہ ہے کہ نامی گرامی حضرات بھی غیر معیاری کتاب اور مصنف کی تعریف کے پل باندھتے جاتے ہیں۔ سب کچھ پیسے کا کمال ہے۔
موجودہ دور میں تبصرہ نگاری صرف کتاب کی تعارف تک محدود رہ گئی ہے۔ حالیؔ، نیاز فتحپوریؔ، فرماں فتحپوریؔ اور مولوی محمد عبدالحق جیسے اکابرین نے کتابوں کی خوبیوں اور خامیوں کو روشن کر کے تبصرہ نگاری کا حق ادا کیا ہے۔ موجودہ مبصروں میں ڈاکٹر عزیز سہیل نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بیسوں کتابوں پر تبصرے کئے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مصنف اور قاری کے درمیان رشتہ استوار کر سکیں، ان کے بعض تبصرے تعارف کے زمرہ میں آتے ہیں اور کچھ تبصروں پر انہوں نے مفصل گفتگو کی ہے۔ وہ روایتوں کے پاسدار ہیں۔ مثبت سوچ و فکر کے علمبردار ہیں سچ کہا جائے تو ڈاکٹر سہیل نے تاثراتی تبصرہ نگاری کو فروغ دیا ہے۔ یہ ان کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ کہنہ مشق شعراء اور ادباء نے بھی اپنی تصانیف پر ڈاکٹر عزیز سہیل سے تبصرے لکھوائے ہیں اور یہ سہیل کی اعلی ظرفی ہے کہ انہوں نے ہم عمروں اور نئے لکھنے والوں کی تصانیف پر بھی تبصرے لکھ کر ان کی ہمت افزائی کی ہے۔
ڈاکٹر سہیل کا طرز تحریر نہایت ہی واضح ہے۔ تحریر میں کہیں بھی پیچ و خم نظر نہیں آتے۔ وہ سیدھے سادھے انداز میں اپنی بات رکھتے ہیں۔ مصنف کا تعارف ہو کہ کتاب کا اجمالی تعارف کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معلومات پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’چراغ تہہ داماں کی اردو ادب میں ایک علحٰدہ پہچان ہے۔ اقبال متین کا یہ ناول اردو ادب میں متنازعہ سمجھا گیا ہے اس کی وجہہ ناول کی کہانی ہے جسے بیشتر ناقدین فحش و عریاں تصور کرتے ہیں لیکن ناول کے فنی تقاضوں کے اعتبار سے اس کا مطالعہ کرنے والے ناقدین کا گروہ اس ناول کا حمایتی بھی ہے جس نے بہ طور فن اس ناول کا مطالعہ پیش کیا ہے اور اس کا تجزیہ نفسیاتی ، سماجی اور اقتصادی انداز میں بھی کیا ہے۔ جواس ناول کو اردو ادب میں ایک سنگ میل کا درجہ دیتا ہے ‘‘ (ص27)
مصنف کا تعارف کروانے کا والہانہ انداز دیکھئے۔
’’ڈاکٹر سید داؤد اشرف اردو دنیا کیلئے قطعی محتاج تعارف نہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر تصانیف ریاست حیدرآباد اور آصف جاہی حکمرانوں پر لکھی ہیں۔ ’’حیدرآباد مشاہیر کی نظر میں ‘‘ ان کی21ویں تصنیف ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے قبل اردو زبان میں ان کی 13کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں مخدوم۔ ایک مطالعہ، اور کچھ بیان اپنا، بیرونی مشاہیر ادب اور حیدرآباد، حاصل تحقیق، نقوش تاباں، قدر داں حیدرآباد، اوراق مورخ، حرف اعتبار، گذشتہ حیدرآباد، بیرونی ارباب کمال اور حیدرآباد، گنجینۂ دکن، حیدرآباد کی علمی فیض رسانی، کتابوں کے قدر شناس، آصف سابع شامل ہیں اس کے علاہ7تصانیف انگریزی زبان میں شائع ہو کر مقبول عام ہو چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں عہد آصفی پر ایک اتھاریٹی تسلیم کیا جاتا ہے ساتھ ہی ان کی تحقیق کو معتبر مانا جاتا ہے ‘‘ ۔ (ص33)
ڈاکٹر سہیل نے اس تصنیف میں بیس سے زائد تصانیف پر تبصرے کیئے ہیں ان کتابوں کے موضوعات، تحقیق و تنقید، شاعری، افسانہ، صحافت ہیں جبکہ آٹھ رسائل دیگر موضوعات پر تبصرے شامل ہیں۔ مختلف موضوعات کے حامل تصانیف پر تبصرہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر عزیز سہیل کا ادبی سفر یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔ تبصرہ کے علاوہ وہ تجزیہ و تنقید پر اپنی توجہ منعکس کریں گے اور ہر سال تصنیف و تالیف کا کوئی نہ کوئی تحفہ اردو والوں کو ملتا رہے گا۔
15؍مئی2015ء
ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم
چیرپرسن بورڈ آف اسٹڈیس اردو اورینٹل جامعہ عثمانیہ حیدرآباد
اپنی بات
تبصرہ نگاری اردو تنقید کی ایک مقبول قسم ہے جب کوئی تخلیق اشاعت کے مرحلے سے گذرتی ہے اور قارئین کے ہاتھ میں پہنچتی ہے تو تخلیق کار چاہتا ہے کہ اس کی تخلیق کے تعارف پر مبنی تبصرہ اخبارات و رسائل کی زینت بنے تاکہ اس کا اور تخلیق کا بھرپور تعارف قاری کے پیش نظر ہو اور اگر تبصرہ نگار تخلیق کے محاسن و معائب بیان کرتے ہوئے کتاب سے متعلق کچھ تعارفی و توصیفی جملے لکھ دے تو اس سے تخلیق کے مشہور ہونے میں معاونت حاصل ہوتی ہے۔ تبصرہ نگاری کا فن اردو ادب میں مقبول رہا ہے اور اردو کے ادیبوں اور نقادوں نے ہر زمانے میں تخلیقات پر تبصرے لکھے ہیں۔ تبصرہ نگاری کے اسی فن سے استفادہ کرتے ہوئے راقم نے بھی اردو کی شعری و نثری تخلیقات پر تبصرے کئے ہیں جو ’’میزان نو‘‘ کے عنوان سے طباعت کے مراحل میں ہیں۔
میں نے بحیثیت تبصرہ نگار تقریباً50سے زائد تصانیف و رسائل پر تبصرہ کیا ہے جو کہ ملک کے مختلف اخبارات و رسائل اور چند اردو ویب سائٹس پر شائع ہو چکے ہیں۔ تبصرہ نگاری سے متعلق میرے اندر شعور میرے تحقیقی مقالہ کے سلسلہ میں جاگا اور الحمد للہ پچاسوں تبصرے شائع ہو چکے ہیں۔ میرا پہلا تبصرہ2011ء میں ’’دین اسلام کا مختصر تعارف ‘‘ برادرم محمد عبداللہ کی کتاب پر روزنامہ اعتماد حیدرآباد اور تزئین ادب دھولیہ سے شائع ہوا تھا۔ حالانکہ مجھے بچپن سے اخبارات کا مطالعہ اور مضامین لکھنے کا شوق رہا ہے۔ میرے ادبی سفر کا آغاز صحافت سے ہوتا ہے اور میرے پہلے تبصرے پر ڈاکٹر فضل اللہ مکرم BOSSاردو اورینٹل عثمانیہ یونیورسٹی حمایت نگر اور ڈاکٹر اسلم فاروقی لیکچرار گورنمنٹ گری راج ڈگری کالج نظام آباد کی ہمت افزائی نے میرے اس شعور کو پذیرائی بخشی۔ ساتھ ہی میرے تبصروں اور تنقیدی جائزے پر دوست احباب نے سراہا تو اس جانب دلچسپی کو تقویت ملی اور میں اس سفر میں آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ میرے بیشتر مضامین تبصرے اور رپورتاژ ملک کے ممتاز رسائل و اخبارات ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ میزانِ نو میرے تبصروں کا پہلا مجموعہ ہے۔
زیر نظر تصنیف کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ اردو تصانیف کے تحت 22تحقیقی کتب پر تبصرے کئے گئے ہیں۔ جبکہ دوسرا حصہ اردو رسائل کے متعلق شامل کیا گیا ہے جس میں 6رسائل کے خصوصی گوشوں پر تبصرے پیش کئے گئے ہیں اور تیسرا حصہ اسلامی کتب کے عنوان سے ایک تبصرہ شامل ہے۔
میں شکر گذار ہوں تلنگانہ اسٹیٹ اُردو اکیڈیمی کا جس کی مالی اعانت کے ذریعہ میں اپنے تبصرے اور تنقیدی جائزے کے اس مجموعہ کو پیش کر پایا ہوں۔
میں شکریہ ادا کرتا ہوں ڈاکٹر مجید بیدار، جناب حلیم بابر، ڈاکٹر فضل اللہ مکرم صاحب کا کہ انہوں نے اپنی گراں قدر تحریریں اس کتاب کے دیباچہ کے طور پر لکھی۔ احسان مند ہوں محمد محبت علی منان صاحب اور تمام ان افراد کا جن کے زرین مشوروں نے اس کتاب کی اشاعت میں میری رہنمائی کی۔
میں اپنے تبصروں کے اس پہلے مجموعہ کو امید کے سہارے پیش کر رہا ہوں کہ اس میں شامل میرے تبصروں اور تنقیدی جائزے کو پڑھ کر با ذوق حضرات ان کتابوں کی اہمیت کو سمجھیں گے اور ادبی حلقوں میں اس کی خوب پذیرائی ہو گی۔
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
تبصرہ نگاری کا فن
ڈاکٹر عزیز سہیل
فیروز اللغات میں تبصرہ کے معنی تصریح، تفصیل اور’ توضیح کے دئے گئے ہیں حروف عام میں تبصرے سے مراد رائے ظاہر کرنا ہے۔ ’اردو لغت‘ مرتبہ اردو ڈکشنری بورڈ میں تبصرے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’کسی کتاب یا رسالے وغیرہ کو پڑھ کر اس کی خوبی یا خامی کے بارے میں رائے دینا‘‘ یا ’کسی امر یا واقعہ کے بیان میں خوبی اور خامیوں کا ذکر، تبصرہ کہلاتا ہے۔ رفیع الدین ہاشمی کے خیال میں ’‘’تبصرہ مصنف کو حوصلہ بخشتا ہے اور اْسے سوچ کے نئے زاوئے عطا کرتا ہے اور اسے اپنی تخلیق پر نظر ثانی کا مشورہ بھی دیتا ہے ‘‘ ۔
تبصرہ نگاری کا تعلق غیرا فسانوی ادب سے ہے جو ایک معروف صنف ہے ، جس کا اندازہ ہم اخبارات و رسائل کے مشاہدہ کے بعد قائم کرتے ہیں کیونکہ کم و بیش تقریباً ہر اخبار و رسالہ میں تبصرہ نگار سے نئی کتابوں پر تبصرے کروانے کا رواج عام و خواص ہے۔ جس کے مطالعہ سے قارئین کو کتاب کی اہمیت اور اس کے اس میں پیش کئے گئے موضوعات سے متعلق مکمل آگہی ملتی ہے۔ تبصرہ کی صنف کے وجود میں آنے اور اس کی خصوصیت سے متعلق پروفیسر مجید بیدار لکھتے ہیں،
’’عصر حاضر میں ایک خاص انداز کی تحریر کو ’’ تبصرہ نویسی‘‘ کی حیثیت سے شناخت کیا جانے لگا۔ اردو میں تبصرہ نگاری کی روایت انگریزی ادب سے پروان چڑھی۔ تبصرہ کے متبادل لفظ کے لیے انگریزی میں Reviewجیسی ترکیب کا استعمال عام ہے۔ تبصرہ کا استعمال کسی مخصوص چیز کے لیے نہیں ، بلکہ ہر چیز کے مشاہدہ کے بعد انسان کی غور و فکر سے وجود میں آنے والے تمام خیالات جو اس چیز سے متعلق ہو انہیں بیان کرنا تبصرہ کا درجہ رکھتا ہے۔ اردو نثر میں کسی کتاب، رسالہ یا کسی بھی وجود کو دیکھنے کے بعد تاثرات کے اظہار کو تبصرہ نویسی کا درجہ دیا گیا ہے ‘‘ (اردو کی شعری و نثری اصناف، ص256)
اردو میں تبصرہ نگاری سے قبل دیباچہ کا رواج بھی عام تھا۔ تبصرہ اور دیباچہ دو مختلف صنف ہیں دیباچہ در اصل کتاب کی اشاعت سے قبل کسی مشہور قلمکار، ادیب سے لکھوا کر کتاب میں شامل کیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ادیب و ناقدین کتاب پڑھ کر تبصرہ لکھے تاکہ کتاب اشاعت میں ان کی رائے کو شامل کیا جائے۔ جس کے ذریعے نہ صرف کتاب اور مصنف کو متعارف کیا جاتا ہے بلکہ کتاب کے نمایاں خد و خال کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے۔
تبصرہ میں مبصر کتاب کے مطالعہ کے بعد اس کے محاسن و معائب بیان کرتا ہے جس سے قاری کو کتاب کی اہمیت کا انداز ہوتا ہے اور اہم معلومات حاصل ہوتی ہے جس سے قاری کو کسی کتاب سے متعلق رائے قائم کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ در اصل کسی کتاب کے وجود میں آنے کو تخلیق کہا جاتا ہے اور محاسن و معائب کا تعلق تنقیدی عمل سے ہے۔ تبصرے میں کتاب کے مندرجات اور اسلوب بیان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مواد کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سفیر اختر کے خیال میں ’تبصرہ کو بہت زیادہ بے لاگ بھی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی بہت فراخ دل۔ جہاں محقق کی غلطیوں کی نشاندہی کی جائے وہیں ساتھ ہی بتا دیا جائے کہ غلطی کی نوعیت کیا ہے ‘‘ ۔
تبصرہ کی خوبی اور تبصرہ نگار کی ذمہ داری سے متعلق ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی رقمطراز ہیں۔
’’تبصرہ نگار کی خوبی اور مہارت یہ ہونی چاہیے کہ کتاب، صاحبِ کتاب اور اس موضوع پر مختصر اظہار خیال خوبصورت انداز سے بیان ہو جائے۔ یہی ایک اچھے تبصرے کی خوبی بھی ہوتی ہے۔ تبصرہ کتاب کی تعریف و توصیف بیان کرنے کا نام نہیں ساتھ ہی غیر ضروری تنقید بھی تبصرہ نہیں کہلاتی اس میں میانہ روی اور غیر جانب داری کی چاشنی کا پایا جا نا تبصرے کی اصل روح ہے۔ مکمل اور معیاری تبصرہ وہ ہے جسے پڑھ کر قاری اس کتاب یا دستاویز کے بارے میں یہ رائے قائم کر لے کہ یہ کتاب اس کی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے یا نہیں۔ ‘‘ ( جنگ مڈ ویک میگزین ۷۲ نومبر2013ء، ص۶)
عصر حاضر میں تبصرہ کے رجحان میں اضافہ کی وجہہ کتب بینی میں کمی بھی ہے دور جدید کا قاری کتاب کے مکمل مطالعہ کے بجائے کتاب کے تعارفی تبصرہ پر اکتفا کر رہا ہے اور چاہتا بھی یہ ہے کہ جلد سے جلد اور اختصار سے وہ مکمل کتاب میں موجود مواد سے متعلق معلومات سے واقف ہو جائے۔
اردو ادب میں تبصرہ نگاری کا آغاز انیسویں صدی کے درمیاں سے ہوتا ہے۔ جو در اصل علی گڑھ تحریک کی دین ہے۔ پروفیسر مجید بیدار نے اردو ادب میں تبصرہ نگاری کا آغاز اور اردو کے اولین تبصرہ نگاروں سے متعلق رقمطراز ہیں۔
’’سرسید کی بیداری کی تحریک نے اردو نثر کو تبصرہ نگاری کی خصوصیت سے مالا مال کیا۔ ’’تہذیب الا خلاق‘‘ کی اشاعت کے ذریعہ سب سے پہلے سرسید احمد خان نے تبصرہ نگاری کو ایک نثری اظہار کے طور پر نمایاں کیا۔ انہوں نے عربی کی ایک اہم قواعد اور آداب سے متعلق کتاب پر تبصرہ کر کے اس صنف کا آغاز کیا، جس کے بعد خواجہ الطاف حسین حالی اور علامہ شبلی نعمانی کے تبصرے وقفہ وقفہ سے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں شائع ہونے لگے۔ (اردو کی شعری و نثری اصناف، ص256)
اردو ادب میں تعمیری ادب کا آغاز علی گڑھ تحریک سے ہوتا ہے۔ سر سید احمد خاں اور ان کے رفقاء نے اردو ادب پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جس پر چل کر آج اردو ادب اپنی ترقیوں کے زینے طئے کر رہا ہے۔ غیر افسانوی ادب کے فروغ میں سر سید تحریک کے کارنامے ناقابل فراموش ہے۔ اردو صحافت کے آغازسے ہی تبصرہ نگاری کا بھی آغاز شروع ہوتا ہے۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی تبصرہ نگاری کے آغاز اور ارتقاء سے متعلق اپنے مضمون میں لکھا ہے۔
’’تبصرہ نگاری ابتدا ہی سے مصنفین، مؤلفین، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کا مشغلہ رہا ہے۔ غالب نے سرسید کی کتاب ’آثار الصنادید‘(1847ء) اور آئین اکبری‘ (1855ء )پر تبصرہ لکھا جسے تقریظ کہا گیا۔ دونوں کتابیں شاعری پر نہیں تھیں۔ غالب نے کتاب کے موضوع سے اختلاف کرتے ہوئے تقریظ تحریر کی۔ الطاف حسین حالی کو تبصرہ نگاری میں کمال حاصل تھا۔۔ حافظ محمود شیرانی کے لکھے ہوئے تبصرے کتاب کے بارے میں دو ٹوک رائے ہوا کرتے تھے۔ علامہ نیاز فتح پوری نے بھی اپنے رسالے ’نگار ‘میں تبصرے تحریر کیے، اس سلسلے کو ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم نے آگے بڑھایا اور بے شمار کتابوں پر دیباچہ، تقریظ ہی نہیں لکھیں بلکہ کتابوں پر تبصرے بھی کیے۔ خود میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے مختصر تبصرہ تحریر فرمایا۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق ایک بلند پایہ تبصرہ نگار تھے۔ ان کے کیے ہوئے تبصرے تاریخ تبصرہ نگاری میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ علامہ ماہر القادری کتاب کے تفصیلی مطالعہ کے بعد تبصرہ تحریر کیا کرتے تھے۔ مشفق خواجہ مرحوم اپنے ادبی کالم میں کتابوں کا تعارف خوبصورت انداز میں کروایا کرتے تھے۔ رئیس امروہوی مرحوم بھی اپنے کالموں میں کتابوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ معروف ادیب، دانشور اور کالم نگار جمیل الدین عالی اپنے کالموں میں اکثر کتابوں کا تعارف کرواتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح عطا ء الحق قاسمی بھی کبھی کبھار کسی کتاب کے تعارف کو اپنے کالم میں شامل کر لیتے ہیں۔ انجمن ترقی اردو کے مجلے ’قومی زبان ‘ میں کئی اہل قلم کتابوں پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ (جنگ مڈ ویک میگزین ۷۲ نومبر2013ء، ص۶)
واضح رہے کہ اردو بک ریویو اردو زبان کا مقبول عام رسالہ ہے جس میں نئی شائع ہونے والی کتابوں پر تبصرے شامل ہوتے ہیں جو اپنی انفرادیت سے مزین ہوتے ہیں۔
بہر حال عصر حاضر میں اخبارات کے ادبی صفحہ اور رسائل میں نئی شائع ہونے والی کتابوں پر مختلف اہل قلم کے تبصرے شائع ہوتے ہیں جس کی ایک اچھی روایت ہے جو چلی آ رہی ہے۔ اردو قارئین اخبارات و رسائل کے مطالعہ سے مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی تصانیف کی اہمیت و افادیت سے واقف ہوتے ہیں اور اپنی ضرورت کی کتابیں خریدی کرتے ہیں، کچھ عرصہ تک اردو میں تنقیدی تبصروں کا رواج رہا لیکن عصر حاضر میں فرمائشی و تعارفی تبصرے لکھنے کا رواج عام ہے۔
حصہ اول
تصانیف
چراغِ تہہِ داماں (تفہیم و تعبیر۔ ایک تجزیاتی مطالعہ)
مصنف: اقبال متین مرتب: طارق سعید
اردو میں کسی معروف شاعر یا ادیب پر لکھی گئی تنقیدی کتابوں کو یکجا کر کے کتابی شکل دینے کی روایت بھی اب عام ہونے لگی ہے۔ اور اس کوشش کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی بڑے تخلیق کار کے فن یا کسی مشہور فن پارے پر کی گئی منتخب تحریروں کو یکجا کرتے ہوئے قارئین کے لئے ایک ہی کتاب میں متضاد آراء کو پیش کر دیا جائے تاکہ قاری اس تخلیق کار یا فن پارے کے بارے میں تنقید کے کئی زاویوں سے آگاہ ہو سکے اور خود مرتب یا قاری ان تحریروں کے ذریعے اس فنکار یا فن پارے کے بارے میں اپنی کوئی رائے قائم کر لے اور اس میں مزید اضافے کے امکانات تلاش کرے۔ ایسی ہی ایک کوشش طارق سعید نے کی ہے اور انہوں نے ’’چراغِ تہہ داماں۔ تفہیم و تعبیر‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے۔ جس میں بر صغیر کے نامور افسانہ نگار اقبال متین کے ایک شاہکار ناولٹ ’’ چراغ تہہ داماں ‘‘ پر اردو ناول کے اہم نقادوں اور اردو ادب کے نامور ناقدین کے تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ اور ان مضامین کے مطالعے سے قاری کو اقبال متین کے اس متنازعہ سمجھے جانے والے ناولٹ پر اردو تنقید کے مختلف اسالیب کی روشنی میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔۔ اقبال متین اردو کے صف اول کے افسانہ نگار کے طور پر ادب کی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ لیکن وہ ایک اچھے شاعر، خاکہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں۔ اور وہ پچھلی نصف صدی سے زائد عرصہ سے اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ناول کے فن کے ٹھہراؤ کے زمانے میں انہوں نے ’’چراغِ تہہ داماں ‘‘ جیسا ناول لکھا جو 1976ء میں شائع ہوا۔ اور اردو کے ادبی حلقوں میں اپنے منفرد اور متنازعہ موضوع کے سبب مشہور ہو گیا۔
’’چراغِ تہہ داماں ‘‘ کی اردو ادب میں ایک علیحدہ پہچان ہے اقبال متین کا یہ ناول اردو ادب میں متنازعہ سمجھا گیا ہے اس کی وجہہ ناول کی کہانی ہے جسے بیشتر ناقدین فحش و عریاں تصور کرتے ہیں لیکن ناول کے فنی تقاضوں کے اعتبار سے اس کا مطالعہ کرنے والے ناقدین کا گروہ اس ناول کا حمایتی بھی ہے جس نے بہ طور فن اس ناول کا مطالعہ پیش کیا ہے اور اس کا تجزیہ نفسیاتی ، سماجی اور اقتصادی انداز میں بھی کیا ہے۔ جواس ناول کو اردو ادب میں ایک سنگ میل کا درجہ دیتا ہے۔ ’’ چراغِ تہہِ داماں ‘‘ کا موضوع بہت ہی نازک اور اچھوتا ہے اس ناول میں ایک ایسی کہانی کو پیش کیا گیا ہے جس میں حالات کا شکار ایک ماں اپنے شوہر کے دھوکے کا شکار ہو جاتی ہے لیکن اپنے بچے کی بہتر پرورش کی آرزو رکھتی ہے۔ لیکن وہ بچے کی خاطر جسم فروشی کے پیشے میں رہنے کے لئے مجبور ہے۔ اسی زندگی میں اسے سماج کا ایک مکروہ چہرہ نظر آتا ہے جب ایک عورت کے لئے دو خریدار آ جاتے ہیں اور بعد قرعہ دوسرے شخص کو عورت کی قربت نہیں ملتی تو اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لئے وہ کوشلیا نامی طوائف کے بیٹے شانوجہ سے ہم جنس پرستی کا فعل انجام دیتا ہے۔ اور اس کے بعد شانوجہ نامی مرد و عورت بن کر طوائف کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اور اپنے ظالم مفرور باپ کا بدلہ سماج کے مردوں سے لیتا ہے اور ان سے دولت بٹور کر عیش کرتا ہے۔ جب کہ اس کی ماں اسے بہتر انسان بنانے کے لئے طوائف کے پیشے کو مجبوری کے طور پر اختیار کرتی ہے۔ اس ناول میں اقبال متین نے سب سے پہلے اردو ناولوں میں مردو طوائف کو پیش کیا۔ اقبال متین کا ناول جب پیش ہوا تو اس پر ہر طرح کی تنقید ہوئی جس کا انتخاب اس کتاب میں پیش ہے۔ اس ناول سے متعلق عابد سہیل نے کیا خوب کہا ہے۔ ’’اقبال متین چراغِ تہہ داماں میں ایک ایسے موضوع کو چھوا ہے جس کو ہاتھ لگاتے ہی خیال کی انگلیاں جل اٹھتی ہیں ‘‘ ۔ لیکن اقبال متین نے اس ناول کے عنوان چراغ تہہ داماں کے ذریعہ کیچڑ سے کنول نکالنے اور اندھیرے سے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول کے مطالعہ سے قبل قاری کو ناول کے فحش ہونے کا احساس ہوتا ہے لیکن جب قاری ناول کا مطالعہ کر گزرتا ہے تو وہ اقبال متین کے فن کا قائل ہو جاتا ہے اور وہ اس فیصلے پر پہنچ جاتا ہے کہ کیا حقیقت ہے اور کیا فسانہ۔
اس طرح کی ایک کوشش ڈاکٹر طارق سعید نے اودھ اکیڈمی فیض آباد سے کی ہے انہوں نے ’’چراغِ تہہ داماں ‘‘ کی تفہیم و تعبیر کو ایک مجلہ کی شکل میں کے۔ ایس۔ ساکیت کالج فیض آباد سے ریسرچ جنرل سریز کے سلسلہ کے طور پر پیش کیا ہے جس کی پہلی کڑی یہ کتاب ہے۔
اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر طارق سعید نے حرف آغاز کے عنوان سے لکھا ہے جس میں انہوں نے اس ناول کی تفہیم و تعبیر کے مقصد کو ایک مجلہ کی شکل میں شائع کرنے کے مقصد سے متعلق لکھا ہے۔
’’ایک منتخب کتاب پر ادب کے اسکالرس کی بیش قیمت آرا کبیر و صغیر اور مقتدرہ ادب بغیر کسی تحفظ و تعصب کے ریسرچ، Dissertation، اور آرٹیکل کو یکجا کر کے سپرد تاریخ کرنا اس تحقیقی مجلہ کا بنیادی مقصد ہے اسے اتفاق کہیے یا شومی قسمت کہ ’’چراغِ تہہِ داماں ‘‘ سے یہ کتابی سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ شہکار تخلیق اقبال متین کے جاوداں قلم کی رہین منت ہے۔ ‘‘ (ص4)
اس تحقیقی مجلہ میں اردو کی کہکشاں کے ممتاز ستاروں کی تفہیمی و تجزیاتی دریافت پر مشتمل تعبیر کو یکجا کیا گیا ہے اس تفہیمی و تعبیری مجلہ میں 12گراں قدر تنقیدی مضامین شا مل ہیں جو ’’کہ چراغِ تہہِ داماں ‘‘ کا مکمل احاطہ کرتے ہیں۔ جن ناقدین کے مضامین شامل ہے ان میں پروفیسر یو سف سرمست، ڈاکٹر افصح ظفر، پروفیسرمہدی جعفر، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، روف خیر، ڈاکٹر احمد صغیر، محمد مستمر، ڈاکٹر اشہد کریم الفت، ڈاکٹر محمد ممنون عالم، صائمہ اقبال، ڈاکٹر طارق سعید۔
اس کتاب میں سب سے سے پہلا، مضمون ’’ چراغِ تہہِ داماں ‘‘ کے عنوان پر پروفیسر یوسف سر مست کا شامل ہے۔ انہوں نے اپنے اس مضمون میں اقبال متین کی افسانہ نگاری پر بھر پور روشنی ڈالی ہے اور ان کو ہند و پاک کے صف اول کا افسانہ نگار قرار دیا ہے اور ناول کے موضوع سے متعلق لکھا ہے۔
’’چراغِ تہہِ داماں ‘‘ کی کہانی بالکلیہ اپنے نام کے مطابق اس دامن کی کہانی ہے جو ’’چراغ‘‘ کو روشن و محفوظ رکھنے کیلئے زمانے کی سردو گرم ہواؤں کا مقابلہ کر رہا تھا لیکن حادثہ کا یک ایسا جھونکا آتا ہے جو دامن سے گزرتا ہوا چراغ تک پہنچ ہی جاتا ہے اور چراغ کو تہہ داماں کرنے کی ساری کوشش رائے گاں جاتی ہے۔ ‘‘ ص(07)
پروفیسر یو سف سرمست نے اس ناول کی کہانی پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس ناول کو اردو ناول نگاری میں ممتاز قرار دیا ہے۔
اس کتاب کا دوسرا مضمون ’’اقبال متین اجمالی تفصیل کا ناول نگار ‘‘ جو کہ ڈاکٹر افصح ظفر کا شامل ہے ڈاکٹر افصح ظفر اپنے اس مضمون میں ناول نگاری اور اقبال متین کی ناول نگاری پر اجمالی جائزہ پیش کیا ہے اور ’’چراغِ تہہِ داماں ‘‘ سے متعلق لکھا ہے۔
’’وہ اس کہانی میں ایک سیکس ور کر کو برتنے اور پرکھنے کی کوشش میں پوری شاعرانہ تخلیقی قوت کے ساتھ ماورائی جنسیاتی تعلقات میں جا کر ان کرداروں کی اس بنیادی سچائی سے آشنائی کرتے ہیں بعض انسانی زندگی کو بنیادی طور پر شکمی، گرسنگی کے بطن میں داخل ہو کر دیکھنا چاہتے ہیں اور جس کی بنا پر وہ اس ناول میں سیکس کو تلذذ اور عیاشی سے ہٹ کر بھوک کی جبلت میں ڈال دیتے ہیں۔ ‘‘ (ص18)
تیسرا مضمون ’’چراغِ تہہِ داماں کی شعلہ سامانی‘‘ کے عنوان پر پرفیسر مہدی جعفر کا شامل ہے۔ پروفیسر مہدی جعفر نے اس ناول کا خوب جائزہ لیا ہے اور ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ جس میں وہ کبھی ناول کی کہانی کا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں تو کبھی ناول نگار کا اور آخر اس کی انفرادیت کے قائل ہو جاتے ہیں اور اس ناول کو اردو کے دیگر ناول امراو جان ادا، آگ کا دریا، گردش رنگ چمن۔ ایسی بلندی ایسی پستی، خدا کی بستی سے ہٹ کر بتاتے ہیں بلکہ اس ناول کو بصارت سے زیادہ بصیرت کا طلبگار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے۔
’’معلوم ہوتا ہے مصنف نے بہت سونچ سمجھ کر آخر کار ایک ذہنی جست لگائی تو جگنو کی طرح یہ عنوان اس کے ہاتھ آیا۔ کوئی بھی اس میں پیوست شعریت کو محسوس کر سکتا ہے۔ لو دیتا ہوا چراغ۔ جو سایہ دامن میں سوزاں ہے۔ زیر دامن جنسی نفسیاتی اور حسیاتی شدت کا ترجمان ہے اس کی طرف انگشت نما ہے ہم پورے ناول میں ایک طرح کی شعری کیفیت محسوس کر سکتے ہیں۔ ‘‘ (ص22,23)
اس تصنیف میں ایک اور اہم مضمون ’’چراغِ تہہِ داماں ‘جنسیت، جذباتیت و جرات کا شہکار‘‘ کے عنوان پر ڈاکٹر علی احمد فاطمی کا بھی شامل ہے انہوں نے اپنے اس مضمون میں ناول کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور اقبال متین اور ان کے اس ناول کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے۔
’’ اس ناول سے متعلق بزرگ نقادوں کے سامنے بات کرتے تو وہ ادھر اُدھر کی بات چھیڑ دیتے۔ شاید اس لئے اس ناول پر کم باتیں ہو سکی ہیں اور اس کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکا ہے اب جبکہ تخلیق اور تنقید نے بہت ساری سرحدیں پار کر لی ہیں اور تنقید تخلیق کے باطن میں داخل ہو کر نہاں خانوں کو طشت از بام کر رہی ہے اور بڑی حد تک بے حجاب ہو چکی ہے بین المتونیت اور معنی کی کثرت کا دور چل پڑا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم غیر معمولی ناول پر از سر نو گفتگو کی جائے اور اس کو اس کا اصل مقام دیا جائے۔ ‘‘ (ص47,48)
بہر حال اقبال متین کے فن پر بات کرنے سے قبل افسانہ اور ناول نگاری پر گہرے مطالعہ کی ضرورت پیش آئے گی کیوں کے ان کے فن پر بات کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج کو روشنی دکھانے جیسی بات ہو گی۔ اقبال متین نے اس ناول کا موضوع جس میں ناول نگار کو بھٹکنے اور بہکنے کی پوری پوری گنجائش تھی بہت ہی سنبھل سنبھل کر اپنے توازن کو برقرار رکھا ہے۔
چراغ تہہ داماں ایک انارکی کا شکار سماج میں بگڑے کرداروں کی نفسیاتی مطالعے کا ناول ہے۔ چنانچہ ناول کے متنازعہ کردار شانوجہ کی کردار نگاری پر ڈاکٹر محمد ممنون عالم نے مضمون لکھا۔ ڈاکٹر اشہد کریم الفتؔ نے ناول کے کرداروں کا تعارف اور تجزیہ پیش کیا۔ چراغ تہہ داماں کا نفسیاتی و جنسیاتی تجزیہ کے عنوان سے محمد مستمر کا مضمون بھی کتاب میں شامل ہے۔۔ کتاب کے مرتب طارق سعید نے اپنے مضمون میں ہندوستان کے موجودہ حالات اور مغرب کی نقالی کا نقصان اٹھانے والے معاشرے کی روشنی میں اس ناول کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اور ادب سے زیادہ زندگی کے حقائق کی روشنی میں اس ناول کی معنویت اجاگر کی۔
ان مضامین کے علاوہ دیگر مضامین بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں اور تحقیق و تنقید کے اصولوں کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں اور یہ تصنیف دیگر نقادوں کو بھی دعوت دیتی ہے کہ وہ اس پر اپنا تنقیدی نقطہ نظر پیش کریں۔ ’’چراغ تہہ داماں تفہیم و تعبیر‘‘ تصنیف اقبال متین کے اس ناول پر مزید مکالمے کے دعوت دیتی ہے۔ اس کتاب میں شامل تنقیدی مضامین سے یہ سوال بھی پیدا ہوتے ہیں کہ کیا یہ ناول مغرب اور مشرق کے کلچر کے ملاپ کا عکاس ہے کیونکہ اس میں ایک ہندوستانی طوائف کی شاہکار تصویر ہے جو عورت بھی ہے اور ماں بھی لیکن اس میں شانوجہ کی شکل میں ایک مرد طوائف کی مرقع کشی ہے جس کا تصور ہندوستانی سماج میں عام نہیں ہے لیکن جیسا طارق سعید نے ہندوستان کے موجودہ حالات کی طرف اشارہ کیا جس میں ہم جنس پرستی کو قانونی جواز دینے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ مغرب میں یہ تصور عام ہے۔ لیکن اس ناول سے یہ مکالمہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقبال متین نے منٹو کی طرح سماج کی ایک کڑوی حقیقت کی تصویر کشی تو کر دی کہ ہمارے سماج میں یہ مذہب اور سماج کے قوانین رکھنے کے باجود یہ ہو رہا ہے۔ لیکن کیا ادیب کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ شانوجہ جیسے کردار کی تخلیق کرتے ہوئے سماجی برائی کو مزید ہوا دے رہا ہے۔ اس ناول پر یہ مکالمہ بھی ہو سکتا ہے کہ شانوجہ جیسے کردار کی تخلیق کے پس پردہ کہیں وہ جینیاتی عوامل تو نہیں جو خون کے اثرات دکھاتے ہیں اور اس جیسے کردار وجود میں آتے ہیں۔ اس ناول کا وسیع پیمانے پر سماجی، تہذیبی ، نفسیاتی اور اقتصادی مطالعہ ضروری ہے تاکہ ادب کی نئی جہتوں کا پتہ چل سکے۔ یہ تصنیف جو کہ مجلہ کی شکل میں اودھ اکادمی فیض آباد نے پیش کیا ہے وہ قابل مبارکباد ہے کہ ایک نئی نوعیت کا کتابی سلسلہ انہوں نے شروع کیا ہے امید کہا سطرح کے مزید تحقیقی جرنل دیگر موضوعات کا بھی احاطہ کریں گے اور وقت کی کمی کے شکار قاری کو اصل تصنیف کے بجائے صرف تنقیدی مضامین پڑھ کر ہی تخلیق سے آگاہی ہو سکے۔ میں طارق سعید کی اس کامیاب کوشش پر ان کو اورساکیت کالج فیض آباد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کے اس تصنیف کو اردو دنیا میں مثبت انداز سے قبول کیا جائے گا۔ مصنف کا فون نمبر: 09415328781
٭٭٭
حیدرآباد مشاہیر کی نظر میں (تحقیقی مضامین کا مجموعہ)
مصنف: ڈاکٹر سید داؤد اشرف
حیدرآبادی تہذیب اور آصف جاہی حکمرانوں کی رواداری ساری دنیا میں اپنی انفرادی پہچان رکھتی ہے۔ آصف جاہوں نے اپنے دور حکومت میں رواداری اور یکجہتی کی جو مثال قائم کی ہے وہ قابل ستائش ہے اور کبھی نہ بھولنے والی یادگار ہے۔ انہوں نے ریاست حیدرآباد میں امن و امان قائم رکھا، تہذیبی و ثقافتی یادگاریں چھوڑیں ، تعلیم، صحت، انتظامی امور اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں اعلیٰ معیار کے ان مٹ نقوش قائم کئے۔ اور ریاست حیدرآباد کو سماجی معاشی ، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے ترقی کی اعلیٰ منزلوں پر لا کھڑا کیا۔ عہد آصفی خاص کر میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کے دور حکمرانی میں اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا اور آصف سابع میر عثمان علی خان کے عہد میں اردو زبان نے ترقی کی منزلیں طئے کیں اور انہوں نے تعلیمی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ ان کے عہد حکمرانی میں ہندوستان کی عظیم الشان مادر علمیہ ’’جامعہ عثمانیہ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تہذیبوں کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ لوگ اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد رکھیں۔ اور ماضی کی شاندار یادوں اور تجربات کی روشنی میں مستقبل کے سنہرے محل تیار کریں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ مادہ پرستی اپنی انتہائی حدوں کو پار کر چکی ہے۔ اور اخلاقی قدریں انتہائی پستی کا شکار ہو چکی ہیں۔ ارباب اقتدار اور فطرت کے قوانین سابقہ یادگاروں کو مٹانے کے درپے ہیں۔ حیدرآباد کی گذشتہ تہذیب کی یادگاروں کو قدیم مخطوطات اور نادر نسخوں کے مطالعے سے عصر حاضر کے لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں کچھ لوگ پیش پیش رہ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی کے رشتوں کو حال میں اس لئے جوڑ رہے ہیں تاکہ لوگوں کا مستقبل سنورتا رہے۔ حیدرآباد کی قدیم تہذیبی وراثت کو نئی نسلوں تک ایک امانت کی شکل میں پہونچانے والے ایک عظیم مورخ اور قلم کار ڈاکٹر سید داؤد اشرف ہیں جن کا نام اب حیدرآبادی تہذیب اور آصف جاہی دور کے کارناموں کو ہم تک پہونچانے والوں میں شمار کیا جانے لگا ہے۔
ڈاکٹر سید داؤد اشرف اردو دنیا کیلئے قطعی محتاج تعارف نہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر تصانیف ریاست حیدرآباد اور آصف جاہی حکمرانوں پر لکھی ہیں۔ ’’حیدرآباد مشاہیر کی نظر میں ‘‘ ان کی21ویں تصنیف ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے قبل اردو زبان میں ان کی 13کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں مخدوم۔ ایک مطالعہ، اور کچھ بیان اپنا، بیرونی مشاہیر ادب اور حیدرآباد، حاصل تحقیق، نقوش تاباں، قدر داں حیدرآباد، اوراق مورخ، حرف اعتبار، گذشتہ حیدرآباد، بیرونی ارباب کمال اور حیدرآباد، گنجینۂ دکن، حیدرآباد کی علمی فیض رسانی، کتابوں کے قدر شناس، آصف سابع شامل ہیں اس کے علاہ7تصانیف انگریزی زبان میں شائع ہو کر مقبول عام ہو چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں عہد آصفی پر ایک اتھاریٹی تسلیم کیا جاتا ہے ساتھ ہی ان کی تحقیق کو معتبر مانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سید داؤد اشرف کی زیر نظر کتاب ’’حیدرآباد مشاہیر کی نظر میں ‘‘ تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا رسم اجراء 16؍جون 2013ء کو ابو الکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد میں بدست سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی عمل میں آیا رسم اجراء کی تقریب میں بطور مہمان جناب زاہد علی خان صاحب مدیر سیاست، پروفیسر نسیم الدین فریس، پروفیسر اشرف رفیع، محمد فاروق علی خان صاحب، ضیاء الدین نیر صاحب نے شرکت کی۔
زیر نظر کتاب جملہ26مضامین پر مشتمل ہیں جس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصہ میں مشاہیر کی تصانیف سے اخذ کردہ اہم معلومات کو شامل کیا گیا ہے اور دوسرے حصہ میں جن مشاہیر سے انٹرویوز لئے گئے اور جن شخصیات کے متعلق لئے گئے ان سے اہم مواد کو شامل کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے پہلے حصہ میں جن مضامین کو شامل کیا ہے ان میں سرورالملک سرور جنگ کی خودنوشت ’’کارنامہ سروری‘‘ ، مرزا فرحت اللہ بیگ کی تصنیف ’’میری داستان‘‘ خالدہ ادیب خانم کے کتابچے، ’’ اندرون حیدرآباد‘‘ ظہیر احمد کی مرتبہ انگریزی کتاب Life’s Yesterday اور نواب صاحب چھتاری کی خودنوشت ’’یاد ایام‘‘ سے اخذ کئے گئے مواد پر اپنی یہ تخلیق رقم کی ہے۔
ڈاکٹر سید داؤد اشرف کتاب کے پیش لفظ میں ان مضامین کی اہمیت سے متعلق لکھا کہ:
’’یہ تمام مضامین چھٹے آصف جاہی حکمراں میر محبوب علی خاں آصف سادس (دور حکمرانی1869ء تا1911ء) اور ساتویں اور آخری آصف جاہی حکمراں میر عثمان علی خاں (دور حکمرانی1911ء تا1948ء ) کے ادوار حکمرانی کی آٹھ دہائیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ مشاہیر کی معاصر تصانیف اور انٹرویوز میں دستیاب مواد کی بنیاد پر قلمبند کئے گئے ان مضامین سے آصف سادس اور آصف سابع ہر دو کی شخصیت و سیرت اور طرز حکمرانی پر روشنی پڑتی ہے۔ اس طویل مدت میں ریاست کی ترقی اور اس زمانے کی امتیازی خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس دور کے وزرائے اعظم اور نامور و ممتاز شخصیتوں کے کارناموں اور حیدرآباد کے کلچر سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر سید داؤد اشرف ان مضامین میں مستند حوالوں اور آرکیوز کے ریکارڈ سے ریاست حیدرآباد اور عہد آصفی کے سنہرے دور کے متعلق مشاہیر کی قیمتی آراء اور معلوماتی واقعات کو شامل کرتے ہوئے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ ایک پختہ کار محقق اور ماہر تخلیق کار ہیں۔ ان کا انداز بیان کافی دلچسپ ہے۔ تاریخی واقعات کے بیان سے قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ ڈاکٹر سید داؤد اشرف نے اپنی تصنیف کے 9ویں مضمون ’’تیسرے پائے گاہ کمیشن کی کاروائی آصف سابع کو بدنام کرنے کی ریزیڈنٹ کی کوشش ناکام‘‘ میں فرحت اللہ بیگ کے حوالے سے تیسرے پائے گاہ کمیشن کے صدر مسٹر ایچ۔ ڈی۔ سی۔ ریلے (مدراس ہائی کورٹ کے جج)کے واقعہ کو بیان کیا ہے کہ آصف سابع نے مسٹر ریلے کو ایک دفعہ لنچ پر بلایا تھا جس کے بعد مسٹر ریلے نے آصف سابع کی شخصیت سے متاثر ہو کر ان کی تعریف اس طرح بیان کی ہے۔ ’’ایسا شریف انسان اور باخبر رئیس میرے دیکھنے میں نہیں آیا اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کی ساری رعایا مطمئن ہی نہیں بلکہ اپنے بادشاہ پر جان دیتی ہے۔ ‘‘
فاضل مصنف نے اس کتاب میں جن واقعات کو مختلف مشاہیر کے ذریعہ پیش کیا ہے وہ در اصل اہم اور تاریخی اہمیت کے ساتھ ساتھ راز دارانہ واقعات ہیں جس سے عام قاری کم ہی واقف ہوتے ہیں اور تاریخی کتابوں میں شاید ہی ان واقعات کے متعلق تفصیل پائی جاتی ہو۔
میر محبوب علی خاں آصف سادس کی شخصیت کے متعلق ڈاکٹرسید داود اشرف میر معظم حسین سے لیے گئے انٹرویو کے حوالے سے رقمطراز ہیں۔ ’
’ محبوب علی خان کی شخصیت میں موروثی وقار تھا۔ تربیت کی وجہہ سے ان کی شخصیت کو چار چاند لگ کئے تھے۔ وہ ہاتھ کے بڑے کھلے تھے۔ فیاضی اور رحم دلی ان کی شخصیت کا اہم عنصر تھا۔ موسی ندی میں طغیانی (ستمبر ۱۹۰۸ء)کے موقع پر انہوں نے رعایا کیلئے اپنے محل کھول دئیے تھے۔ رعایا کو تکلیف و مصیبت میں دیکھ کر ان کے آنسو نکل پڑے تھے۔ رعایا کو بھی اندازہ تھا کہ ان کی پریشانی میں ان کا حکمراں پوری طرح ان کے ساتھ ہے ‘‘
ڈاکٹر سید داؤد اشرف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہایت ہی لگن و جستجو اور تحقیق کے ذریعہ ریاست حیدرآباد پر مختلف مشاہیر کے تاثرات کو اپنی اس گرانقدر تصنیف میں شامل کیا ہے۔ انہوں نے اس تصنیف کے ذریعہ حیدر آبادیوں کیلئے ایک احسان عظیم انجام دیا ہے جس کی جتنی تعریف ستائش کی جائے کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈاکٹر داؤد اشرف نے حیدرآبادی تاریخی ورثے کے تحفظ کی جو مہم شروع کی ہے اسے نئے دور کے مورخ، محقق اپنائیں۔ اور آج کی اس تیرہ بخت دنیا میں رعایا پرور حکمرانی، انسانی خدمت کے عظیم جذبوں اور تہذیب و تمدن کی بے مثال یادوں کے ذکر کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ دور حاضر میں برائی کے روبرو اچھائی کی مثالیں آتی رہیں اور لوگ اچھی قدروں کے سہارے اپنی زندگی کا سفر جاری رکھ سکیں۔ ریاست حیدرآباد اور آصف جاہی عہد سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اور محققین کیلئے یہ کتاب ایک قیمتی تحفہ ہے۔ امید کے ادبی حلقوں میں ڈاکٹر سید داؤد اشرف کی اس تصنیف کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
٭٭٭
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اس کتاب کی ای بک کی تشکیل میں جناب اعجاز عبید صاحب اور بزماردو لائبریری کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے جزاک اللہ