FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

موہن راکیش کی نمائندہ کہانیاں

 

انتخاب و ترجمہ:  عامر صدیقی

 

 

 

تعارف مصنف

 

موہن راکیش۔ پیدائش:  ۸ جنوری، ۱۹۲۵ء، امرتسر (پنجاب)۔

میدان:  ناول، کہانی، ڈرامہ، مضامین، ڈائری، سفرنامے۔

اہم تخلیقات:

ناول:  اندھیرے بند کمرے، انترال، نہ آنے والا کل،

کہانیوں کے مجموعے:  کوارٹر اور دیگر کہانیاں، پہچان اور دیگر کہانیاں، وارث اور دیگر کہانیاں، نئے بادل، موہن راکیش کی سنپورن کہانیاں۔

ڈرامہ:  اساڑھ کا ایک دن، لہروں کے راج ہنس، آدھے ادھورے۔

ڈائری:  موہن راکیش کی ڈائری۔

سفرنامہ:  آخری چٹان تک۔

مضامین:  پرویش۔ انتقال: ۳ جنوری، ۱۹۷۲ ء، دہلی۔

٭٭٭

 

انجان

 

دھند کی وجہ سے کھڑکیوں کے شیشے دھندلے پڑ گئے تھے۔  گاڑی چالیس کی رفتار سے سنسان اندھیرے کو چیرتی چلی جا رہی تھی۔  کھڑکی سے سر ٹکا کر بھی باہر کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پھر بھی میں دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔  کبھی کسی درخت کی ہلکی یا گہری شبیہ ہی گزرتی نظر آ جاتی تو کچھ دیکھ لینے کا سا اطمینان ہوتا۔ دل کو الجھائے رکھنے کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔  آنکھوں میں ذرا بھی نیند نہیں تھی۔ گاڑی کو جانے کتنی دیر بعد کہیں جا کر رکنا تھا۔ جب اور کچھ دکھائی نہ دیتا، تو اپنا سایہ تو کم از کم دیکھا ہی جا سکتا تھا۔  اپنے سائے کے علاوہ اور بھی بہت سے سائے تھے۔ اوپر کی برتھ پر سوئے شخص کا سایا عجب بے بسی کے ساتھ ہل رہا تھا۔ سامنے کی برتھ پر بیٹھی عورت کا سایہ بہت اداس تھا۔  اس کی مخمور پلکیں لمحے بھر کیلئے اوپر اٹھتیں، پھر جھک جاتیں۔ سایوں کے علاوہ کئی بار نئی نئی آوازیں بھی دھیان بھٹکا دیتیں، جن سے پتہ چلتا کہ گاڑی پل پر سے جا رہی ہے یا مکانوں کی قطار کے پاس سے گزر رہی ہے۔  اسی دوران اچانک انجن کی چیخ سنائی دے جاتی، جس سے اندھیرا اور اکیلا پن مزید گہرے ہوتے محسوس ہونے لگتے۔

میں نے گھڑی میں وقت دیکھا۔  سوا گیارہ بجے تھے۔ سامنے بیٹھی عورت کی آنکھیں بہت ویران تھیں۔  بیچ بیچ میں ان میں ایک لہر سی اٹھتی اور معدوم ہو جاتی۔ وہ آنکھوں سے جیسے دیکھ نہیں رہی تھی، سوچ رہی تھی۔  اس کی بچی، جسے فر کے کمبلوں میں سلایا گیا تھا، ذرا ذرا سا کسمسانے لگی۔ اس کی گلابی ٹوپی سر سے اتر گئی تھی۔  اس نے دو ایک بار پاؤں پٹخے، اپنی بندھی ہوئی مٹھیاں اوپر اٹھائیں اور رونے لگی۔ عورت کی سنسان آنکھیں اچانک امڈ آئیں۔  اس نے بچی کے سر پر ٹوپی ٹھیک کر دی اور اسے کمبلوں سمیت اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔

مگر اس سے بچی کا رونا بند نہیں ہوا۔  اس نے اسے ہلا کر اور دلار کر چپ کرانا چاہا، مگر وہ پھر بھی روتی رہی۔  اس پر اس نے کمبل تھوڑا ہٹا کر بچی کے منہ میں دودھ دے دیا اور اسے اچھی طرح اپنے ساتھ چپکا لیا۔

میں پھر کھڑکی سے سر ٹکا کر باہر دیکھنے لگا۔  دور روشنیوں کی ایک قطار نظر آ رہی تھی۔ شاید کوئی آبادی تھی، یا صرف سڑک ہی تھی۔  گاڑی تیز رفتاری سے چل رہی تھی اور انجن بہت قریب ہونے سے دھند کے ساتھ دھواں بھی کھڑکی کے شیشوں پر جمتا جا رہا تھا۔  آبادی یا سڑک، جو بھی وہ تھی، اب آہستہ آہستہ پیچھے چھٹتی جا رہی تھی۔ شیشے میں دکھائی دینے والے سائے پہلے سے مزید گہرے ہو گئے تھے۔  عورت کی آنکھیں بند ہو گئی تھیں اور اوپر لیٹے شخص کا بازو زور زور سے ہل رہا تھا۔ شیشے پر میری سانس کے پھیلنے سے سائے مزید دھندلے ہو گئے تھے۔  یہاں تک کہ آہستہ آہستہ سبھی سائے چھپ گئے۔ میں نے تب جیب سے رو مال نکال کر شیشے کو اچھی طرح پونچھ دیا۔

عورت نے آنکھیں کھول لی تھیں اور ایک ٹک سامنے دیکھ رہی تھی۔  اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی لکیر پھیلی تھی جو ٹھیک سے مسکراہٹ نہیں تھی۔  مسکراہٹ کے بہت مدھم اظہار کو ظاہر کرتی اس لکیر میں کہیں سنجیدگی بھی تھی اور یاسیت بھی۔  جیسے وہ اچانک ابھر آئی کسی یاد کی لکیر تھی۔ اس کی پیشانی پر ہلکا سا بل پڑ گیا تھا۔

بچی جلد ہی دودھ سے ہٹ گئی۔  اس نے سر اٹھا کر اپنا بغیر دانتوں والا منہ کھول دیا اور کلکاری بھرتی ہوئی ماں کے سینے پر مٹھیوں سے چوٹ کرنے لگی۔  دوسری طرف سے آتی ایک گاڑی تیزی سے پاس سے گزری، تو وہ ذرا سہم گئی، مگر گاڑی کے نکلتے ہی اور زیادہ منہ کھول کر کلکاری بھرنے لگی۔  بچی کا چہرہ گدرایا ہوا تھا اور اس کی ٹوپی کے نیچے سے بھورے رنگ کے ہلکے ہلکے بال نظر آ رہے تھے۔ اس کی ناک ذرا چھوٹی تھی، پر آنکھیں ماں کی ہی طرح گہری اور پھیلی ہوئی تھیں۔  ماں کے گال اور کپڑے نوچ کر اس کی آنکھیں میری طرف گھوم گئیں اور وہ بانہیں ہوا میں پٹختی ہوئی مجھے اپنی کلکاریوں کا نشانہ بنانے لگی۔

عورت کی پلکیں اٹھیں اور اس کی اداس آنکھیں لمحے بھر کو میری آنکھوں سے ملی رہیں۔  مجھے اس لمحے بھر کیلئے لگا کہ میں ایک ایسے افق کو دیکھ رہا ہوں، جس میں گہری سانجھ کے سبھی ہلکے گہرے رنگ جھلملا رہے ہیں اور جس کا نظارہ لمحے کے ہر سوویں حصے میں بدلتا جا رہا ہے۔۔ ۔

بچی میری طرف دیکھ کر بہت ہاتھ پٹخ رہی تھی، اس لئے میں نے اپنے ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیے اور کہا، ’’آ بیٹے، آ۔۔۔‘‘

میرے ہاتھ پاس آ جانے سے بچی کے ہاتھوں کا ہلنا بند ہو گیا اور اس کے ہونٹ روہانسے ہو گئے۔

عورت نے بچی کو اپنے ہونٹوں سے چھوا اور کہا، ’’جا بٹو، جائے گی ان کے پاس؟‘‘

لیکن بٹو کے ہونٹ مزید روہانسے ہو گئے اور وہ ماں کے ساتھ چپک گئی۔

’’غیر آدمی سے ڈرتی ہے، ‘‘ میں نے مسکرا کر کہا اور ہاتھ ہٹا لئے۔

عورت کے ہونٹ بھنچ گئے اور پیشانی کی کھال میں کھنچاؤ آ گیا۔  اس کی آنکھیں جیسے ماضی میں چلی گئیں۔ پھر اچانک وہاں سے لوٹ آئیں اور وہ بولی، ’’نہیں، ڈرتی نہیں۔  اسے در اصل عادت نہیں ہے۔ یہ آج تک یا تو میرے ہاتھوں میں رہی ہے یا نوکرانی کے۔۔ ۔ ‘‘ اور وہ اس کے سر پر جھک گئی۔  بچی اس کے ساتھ چپک کر آنکھیں جھپکنے لگی۔ عورت اسے ہلاتی ہوئی تھپکیاں دینے لگی۔ بچی نے آنکھیں موند لیں۔ جیسے چومنے کیلئے ہونٹ بڑھائے ہوں، اس حالت میں عورت اس کی طرف دیکھتی ہوئی، اسے تھپکیاں دیتی رہی۔  پھر اچانک اس نے جھک کر اسے چوم لیا۔ ؂

’’بہت اچھی ہے ہماری بٹو، جھٹ سے سو جاتی ہے۔ ‘‘ یہ اس نے جیسے خود سے کہا اور میری طرف دیکھا۔  اس کی آنکھوں میں ایک اداسی بھرا جوش بھر رہا تھا۔

’’کتنی بڑی ہے یہ بچی؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’دس دن بعد پورے چار مہینے کی ہو جائے گی، ‘‘ وہ بولی، ’’پر دیکھنے میں ابھی اس سے چھوٹی لگتی ہے۔  نہیں؟ ‘‘

میں نے آنکھوں سے اس کی بات کی حمایت کی۔  اس کے چہرے میں ایک اپنی ہی نوعیت کی نرمی تھی، اعتماد اور سادگی کی۔  میں نے سوئی ہوئی بچی کے گال کو ذرا سا سہلا دیا۔ عورت کا چہرہ اور جذباتی ہو گیا۔

’’لگتا ہے آپ کو بچوں سے بہت محبت ہے، ‘‘ وہ بولی، ‘‘آپ کے کتنے بچے ہیں؟‘‘

میری آنکھیں اس کے چہرے سے ہٹ گئیں۔  بجلی کی بتی کے پاس ایک کیڑا اڑ رہا تھا۔

’’میرے؟‘‘ میں نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’ابھی تو کوئی نہیں ہے، مگر۔۔ ۔ ‘‘

’’مطلب بیاہ ہوا ہے، ابھی بچے وچے نہیں ہوئے، ‘‘ وہ مسکرائی، ’’آپ مرد لوگ تو بچوں سے بچے ہی رہنا چاہتے ہیں نا؟‘‘

میں نے ہونٹ سکوڑ لیے اور کہا، ’’نہیں، یہ بات نہیں۔۔ ۔ ‘‘

’’ہمارے یہ تو بچی کو چھوتے بھی نہیں، ‘‘ وہ بولی، ’’کبھی دو منٹ کیلئے بھی اٹھانا پڑ جائے تو جھلانے لگتے ہیں۔  اب تو خیر وہ اس مصیبت سے چھوٹ کر باہر ہی چلے گئے ہیں۔ ‘‘ اور اچانک اس کی آنکھوں چھلچھلا گئیں۔ رونے کی وجہ سے اس کے ہونٹ بالکل اس بچی کی طرح ہو گئے تھے۔  پھر اچانک اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لوٹ آئی، جیسا اکثر سوئے ہوئے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس نے آنکھیں جھپکا کر خود کو پر سکون کیا اور بولی، ’’وہ ڈاکٹریٹ کیلئے انگلینڈ گئے ہیں۔  میں انہیں بمبئی میں جہاز پر چڑھا کر آ رہی ہوں۔۔ ۔ ویسے چھ آٹھ ماہ کی بات ہے۔ پھر میں بھی ان کے پاس چلی جاؤں گی۔ ‘‘

پھر اس نے ایسی نظر سے مجھے دیکھا، جیسے اسے شکایت ہو کہ میں نے اس کی اتنی ذاتی بات اس سے کیوں جان لی!

’’آپ بعد میں اکیلی جائیں گی؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’اس سے تو آپ ابھی ساتھ چلی جاتیں۔۔ ۔ ‘‘

اس کے ہونٹ سکڑ گئے اور آنکھیں پھر ویران ہو گئیں۔  وہ کئی لمحے خود میں ڈوبی رہی اور اسی انداز سے بولی، ’’ساتھ تو نہیں جا سکتی تھی، کیونکہ اکیلے ان کے جانے کا بھی کوئی خاص ذریعہ نہیں تھا۔  لیکن انہیں میں نے کسی طرح بھیج دیا ہے۔ چاہتی تھی کہ ان کی کوئی تو خواہش مجھ سے پوری ہو جائے۔۔ ۔ دیشی کے باہر جانے کی بہت خواہش تھی۔۔ ۔ ابھی چھ آٹھ مہینوں میں اپنی تنخواہ میں سے کچھ پیسہ بچاؤں گی اور تھوڑا بہت کہیں سے ادھار لے کر اپنے جانے کا انتظام کروں گی۔  ‘‘

اس نے سوچوں میں ڈوبتی اتراتی اپنی آنکھوں کو اچانک ہوشیار کر لیا اور پھر کچھ لمحے شکایت بھری نظروں سے مجھے دیکھتی رہی۔  پھر بولی، ’’ابھی بٹو بھی بہت چھوٹی ہے نا؟ چھ آٹھ مہینوں میں یہ بڑی ہو جائے گی اور میں بھی اس وقت تک تھوڑا سا پڑھ لوں گی۔  دیشی کی بہت خواہش ہے کہ میں ایم اے کر لوں۔ مگر میں ایسی گھامڑ اور ناکارہ ہوں کہ ان کی کوئی بھی خواہش پوری نہیں کر پاتی۔ اسی لیے اس بار انہیں بھیجنے کیلئے میں نے اپنے تمام گہنے بیچ دیئے ہیں۔  اب میرے پاس بس میری بٹو ہے، اور کچھ نہیں۔ ‘‘ اور وہ بچی کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی، بھری بھری نظر سے اسے دیکھتی رہی۔

باہر وہی سنسان اندھیرا تھا، وہی مسلسل سنائی دیتی انجن کی پھک پھک۔  شیشے سے آنکھ گڑا لینے پر بھی دور تک ویرانی ہی ویرانی نظر آتی تھی۔

مگر اس عورت کی آنکھوں میں جیسے دنیا بھر کی شفقت سمٹ آئی تھی۔  وہ پھر کئی لمحے خود میں ڈوبی رہی۔ پھر اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بچی کو اچھی طرح کمبلوں میں لپیٹ کر سیٹ پر لٹا دیا۔

اوپر کی برتھ پر لیٹا ہوا آدمی خراٹے بھر رہا تھا۔  ایک بار کروٹ بدلتے ہوئے وہ نیچے گرنے کو ہوا، پر اچانک ہڑبڑا کر سنبھل گیا۔  پھر کچھ ہی دیر میں وہ اور زور سے خراٹے بھرنے لگا۔

’’لوگوں کو جانے سفر میں کیسے اتنی گہری نیند آ جاتی ہے!‘‘ وہ عورت بولی، ‘‘مجھے دو دو راتیں سفر کرنا ہو، تو بھی میں ایک پل کو نہیں سو پاتی۔  اپنی اپنی عادت ہوتی ہے! ‘‘

’’ہاں، عادت کی ہی بات ہے، ‘‘ میں نے کہا، ’’کچھ لوگ بہت بے فکر ہو کر جیتے ہیں اور کچھ ہوتے ہیں کہ۔۔ ۔ ‘‘

’’بغیر فکر کئے جی ہی نہیں سکتے!‘‘ اور وہ ہنس دی۔  اس کی ہنسی کا انداز بھی بچوں جیسا ہی تھا۔ اس کے دانت بہت چھوٹے چھوٹے اور چمکیلے تھے۔  میں نے بھی اس کی ہنسی میں ساتھ دیا۔

’’میری بہت خراب عادت ہے، ‘‘ وہ بولی، ’’میں بات بے بات کے سوچتی رہتی ہوں۔  کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ میں سوچ سوچ کر پاگل ہو جاؤں گی۔ یہ مجھ سے کہتے ہیں کہ مجھے لوگوں سے ملنا جلنا چاہئے، کھل کر ہنسنا، بات کرنا چاہئے، مگر ان کے سامنے میں ایسے گم صم ہو جاتی ہوں کہ کیا کہوں؟ ویسے دوسرے لوگوں سے بھی میں زیادہ بات نہیں کرتی، لیکن ان کے سامنے تو خاموشی ایسی چھا جاتی ہے، جیسے منہ میں زبان ہو ہی نہیں۔۔ ۔ اب دیکھئے نہ، اس وقت کس طرح کتر کتر بات کر رہی ہوں! ‘‘ اور وہ مسکرائی۔  اس کے چہرے پر ہلکی سی ہچکچاہٹ کی لکیر آ گئی۔

’’راستہ کاٹنے کیلئے بات کرنا ضروری ہو جاتا ہے، ‘‘ میں نے کہا، ’’خاص طور سے جب نیند نہ آ رہی ہو۔ ‘‘

اس کی آنکھیں پل بھر پھیلی رہیں۔  پھر وہ گردن ذرا جھکا کر بولی، ’’یہ کہتے ہیں کہ جس کے منہ میں زبان ہی نہ ہو، اس کے ساتھ پوری زندگی کیسے کاٹی جا سکتی ہے؟ ایسے انسان میں اور ایک پالتو جانور میں کیا فرق ہے؟ میں ہزار چاہتی ہوں کہ انہیں خوش دکھائی دوں اور ان کے سامنے کوئی نہ کوئی بات کرتی رہوں، لیکن میری ساری کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔  انہیں پھر غصہ آ جاتا ہے اور میں رو دیتی ہوں۔ انہیں میرا رونا بہت برا لگتا ہے۔ ‘‘ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے، جنہیں اس نے اپنی ساڑی کے پلو سے پونچھ لیا۔

’’میں بہت پاگل ہوں، ‘‘ وہ پھر بولی، ’’یہ جتنا مجھے ٹوکتے ہیں، میں اتنا ہی زیادہ روتی ہوں۔  در اصل یہ مجھے سمجھ نہیں پاتے۔ مجھے بات کرنا اچھا نہیں لگتا، پھر جانے کیوں یہ مجھے بات کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ ‘‘ اور پھر پیشانی کو ہاتھ سے دبا کر ہوئے گویا ہوئی، ’’آپ بھی اپنی بیوی سے زبردستی بات کرنے کیلئے کہتے ہیں؟‘‘

میں نے پیچھے ٹیک لگا کر کندھے سکوڑ لیے اور ہاتھ بغلوں میں دبائے بتی کے پاس اڑتے کیڑے کو دیکھنے لگا۔  پھر سر کو ذرا سا جھٹک کر میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔

’’میں؟‘‘ میں نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے یہ کہنے کا کبھی موقع ہی نہیں مل پاتا ہے۔  میں بلکہ پانچ سال سے یہ چاہ رہا ہوں کہ وہ ذرا کم بات کیا کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کئی بار انسان چپ رہ کر زیادہ بات کہہ سکتا ہے۔  زبان سے کہی بات میں وہ رس نہیں ہوتا، جو آنکھ کی چمک سے یا ہونٹوں کے اشارے یا پیشانی کی ایک لکیر سے کہی گئی بات میں ہوتا ہے۔ میں جب اسے یہ سمجھانا چاہتا ہوں، تو وہ مجھے مزید تفصیل سے بتا دیتی ہے کہ زیادہ بات کرنا انسان کے خلوص کا ثبوت ہے اور میں اتنے سالوں میں اپنے تئیں اس احساس کو سمجھ ہی نہیں سکا! وہ در اصل کالج میں لیکچرار ہے اور اپنی عادت کی وجہ سے گھر میں بھی لیکچر دیتی رہتی ہے۔  ‘‘

’’اوہ!‘‘ وہ تھوڑی دیر دونوں ہاتھوں میں اپنا منہ چھپائے رہی۔  پھر بولی، ’’ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے دیشی سے یہی شکایت ہے کہ وہ میری بات نہیں سمجھ پاتے۔  میں کئی بار ان کے بالوں میں اپنی انگلیاں الجھا کر ان سے بات کرنا چاہتی ہوں، کئی بار ان کے گھٹنوں پر سر رکھ کر مند آنکھوں سے ان سے کتنا کچھ کہنا چاہتی ہوں۔  لیکن انہیں یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب گڑیوں کا کھیل ہے، اس کی بیوی کو جیتا جاگتا انسان ہونا چاہئے۔ اور میں انسان بننے کی بہت کوشش کرتی ہوں، لیکن نہیں بن پاتی، کبھی نہیں بن پاتی۔  انہیں میری کوئی عادت اچھی نہیں لگتی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ چاندنی رات میں کھیتوں میں گھوموں، یا دریا میں پاؤں ڈال کر گھنٹوں بیٹھی رہوں، مگر یہ کہتے ہیں کہ یہ سب پاگل دل کے چکر ہیں۔ انہیں کلب، سنگیت کی محفلیں اور ڈنر پارٹیاں اچھی لگتی ہیں۔  میں ان کے ساتھ وہاں جاتی ہوں تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ مجھے وہاں ذرا اپنا پن محسوس نہیں ہوتا۔ یہ کہتے ہیں کہ تو پچھلے جنم میں مینڈکی تھی جو تجھے کلب میں بیٹھنے کی بجائے کھیتوں میں مینڈکوں کی آوازیں سننا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ میں اس جنم میں بھی مینڈکی ہوں۔  مجھے برسات میں بھیگنا بہت اچھا لگتا ہے۔ اور بھیگ کر میرا دل کچھ نہ کچھ گنگنانے کو کہنے لگتا ہے، حالانکہ مجھے گانا نہیں آتا۔ مجھے کلب میں سگریٹ کے دھوئیں میں گھٹ کر بیٹھے رہنا نہیں اچھا لگتا۔ وہاں میری جان حلق کو آنے لگتی ہے۔ ‘‘

اس تھوڑے سے وقت میں ہی مجھے اس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ کافی مانوس سا لگنے لگا تھا۔  اس کی بات سنتے ہوئے میرے دل پر ہلکی سی اداسی چھانے لگی تھی، حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ کوئی بھی بات مجھ سے نہیں کہہ رہی، وہ خود سے بات کرنا چاہتی ہے اور میری موجودگی اس کیلئے صرف ایک بہانہ ہے۔  میری اداسی بھی اس کیلئے نہیں تھی بلکہ اپنے لئے تھی، کیونکہ اس سے بات کرتے ہوئے بھی بنیادی طور پر میں سوچ اپنے بارے میں رہا تھا۔ میں پانچ سال سے منزل در منزل شادی شدہ زندگی سے گزرتا آ رہا تھا، روز یہی سوچتے ہوئے کہ شاید آنے والا کل، زندگی کے اس ڈھانچے کو بدل دے گا۔ سطح پر ہر چیز ٹھیک تھی، کہیں کچھ غلط نہیں تھا، مگر سطح سے نیچے زندگی کتنی الجھنوں اور گانٹھوں سے بھری ہوئی تھی۔  میں نے شادی کے اولین دنوں میں ہی جان لیا تھا کہ نلینی مجھ سے شادی کر کے خوش نہیں ہو سکی، کیونکہ میں اس کی کوئی بھی دلی تمنا پوری کرنے میں اس کا معاون ثابت نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ایک بھرا پرا گھر چاہتی تھی، جس میں اس کا راج ہو اور ایسی سماجی زندگی بھی جس میں اسے افضلیت کا درجہ حاصل ہو۔ وہ خود سے الگ اپنے شوہر کی ذہنی زندگی کا تصور نہیں کرتی تھی۔ اسے میری بھٹکنے کی جبلّت اور سادگی سے محبت، ذہنی انتشار لگتے تھے، جنہیں وہ اپنے زیادہ مفید فلسفہ ہائے زندگی سے دور کرنا چاہتی تھی۔  اس نے اس اعتماد کے ساتھ ازدواجی زندگی شروع کی تھی کہ وہ میری غلطیوں کی تلافی کرتی ہوئی، بہت جلد مجھے سماجی نقطہ نظر سے کامیاب انسان بننے کی سمت میں لے جائے گی۔ اس کی نظر میں یہ میرے شعائر کی غلطی تھی، جو میں خود میں اتنا گم رہتا تھا اور ادھر ادھر مل جل کر آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ وہ اس حالت میں بہتری لانا چاہتی تھی، پر صورتِ حال سدھرنے کے بجائے بگڑتی گئی تھی۔ وہ جو کچھ چاہتی تھی، وہ میں نہیں کر پاتا تھا اور جو کچھ میں چاہتا تھا، وہ اس سے نہیں ہوتا تھا۔ اس سے ہم میں اکثر تو تو میں میں ہونے لگتی تھی اور کئی بار دیواروں سے سر ٹکرانے کی نوبت بھی آ جاتی تھی۔  مگر یہ سب ہو چکنے پر نلینی بہت جلد نارمل ہو جاتی تھی اور اسے پھر مجھ سے یہ شکایت ہوتی تھی کہ میں دو دو دن خود کو ان عام سی باتوں کے اثرات سے آزاد کیوں نہیں کر پاتا۔ مگر میں دو دن میں تو کیا، کبھی بھی ان باتوں کے اثرات سے آزاد نہیں ہو پاتا تھا اور رات کو جب وہ سو جاتی تھی، تو گھنٹوں تکیے میں منہ چھپائے کراہتا رہتا تھا۔ نلینی باہمی جھگڑے کو اتنا غیر فطری نہیں سمجھتی تھی، جتنا میرے رات بھر جاگتے کو اور اس کیلئے مجھے نرَو ٹانک لینے کا مشورہ دیا کرتی تھی۔ شادی کے پہلے دو سال اسی طرح گزرے تھے اور اس کے بعد ہم الگ الگ جگہ کام کرنے لگے تھے۔ حالانکہ مسئلہ جوں کا توں بنا رہا تھا اور جب بھی ہم اکٹھے ہوتے، وہی پرانی زندگی لوٹ آتی تھی، پھر بھی نلینی کا یہ یقین اب بھی کم نہیں ہوا تھا کہ کبھی نہ کبھی میرے سماجی خیالات کو عروج ضرور حاصل ہو گا اور پھر ہم ایک ساتھ رہ کر خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کر سکیں گے۔

’’آپ کو کچھ سوچ رہے ہیں؟‘‘ اس عورت نے اپنی بچی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

میں نے اچانک خود کو یکجا کیا اور کہا، ’’ ہاں، میں آپ ہی کی بات کے متعلق سوچ رہا تھا۔  کچھ لوگ ہوتے ہیں، جنہیں بناوٹی رکھ رکھاؤ آسانی سے نہیں اوڑھا جاتا۔ آپ بھی شاید انہی لوگوں میں سے ہیں۔  ‘‘

’’میں نہیں جانتی۔ ‘‘ وہ بولی، ’’مگر اتنا جانتی ہوں کہ میں بہت سے جان پہچان کے لوگوں کے درمیان خود کو انجان، بیگانی اور بے جوڑ محسوس کرتی ہوں۔  مجھے لگتا ہے کہ مجھ میں ہی کچھ کمی ہے۔ میں اتنی بڑی ہو کر بھی وہ کچھ نہیں سمجھ پائی، جو لوگ بچپن میں ہی سیکھ جاتے ہیں۔ دیشی کا کہنا ہے کہ میں سماجی طور پر بالکل مس فٹ ہوں۔‘‘

’’آپ بھی یہی سمجھتی ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’کبھی سمجھتی ہوں، کبھی نہیں بھی سمجھتی۔ ‘‘ وہ بولی، ’’ایک خاص طرح کے معاشرے میں، میں ضرور خود کو مس فٹ محسوس کرتی ہوں۔  مگرکچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے درمیان جا کر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ بیاہ سے پہلے میں دو ایک بار کالج کی پارٹیوں کے ساتھ پہاڑوں پر گھومنے گئی تھی۔  وہاں سب لوگوں کو مجھ سے یہی شکایت ہوتی تھی کہ میں جہاں بیٹھ جاتی ہوں، وہیں کی ہو جاتی ہوں۔ مجھے پہاڑی بچے بہت اچھے لگتے تھے۔ میں ان کے گھر کے افراد سے بھی بہت جلد دوستی کر لیتی تھی۔  ایک پہاڑی خاندان کی مجھے آج تک یاد تازہ ہے۔ اس خاندان کے بچے مجھ سے اتنا گھل مل گئے تھے کہ میں بڑی مشکل سے انہیں چھوڑ کر ان کے یہاں سے چل پائی تھی۔ میں کل دو گھنٹے ان لوگوں کے پاس رہی تھی۔  دو گھنٹے میں میں نے انہیں نہلایا دھلایا بھی اور ان کے ساتھ کھیلتی بھی رہی۔ بہت ہی اچھے بچے تھے وہ۔ ہائے، ان کے چہرے اتنے سرخ تھے کہ کیا کہوں! میں نے ان کی ماں سے کہا کہ وہ اپنے چھوٹے لڑکے کشنو کو میرے ساتھ بھیج دے۔  وہ ہنس کر بولی کہ تم سب کو لے جاؤ، یہاں کون سے ان کیلئے موتی رکھے ہیں۔ یہاں تو دو سال میں ان کی ہڈیاں نکل آئیں گی، وہاں کھا پی کر اچھے تو رہیں گے۔ مجھے اس کی بات سن کر رونا آنے لگا۔۔ ۔ میں اکیلی ہوتی تو شاید کئی دنوں کیلئے ان لوگوں کے پاس رہ جاتی۔  ایسے لوگوں میں جا کر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔۔ ۔ اب تو آپ کو بھی لگ رہا ہو گا کہ کتنی عجیب ہوں میں! یہ کہا کرتے ہیں کہ مجھے کسی اچھے نفسیاتی معالج سے اپنا تجزیہ کرانا چاہئے، نہیں تو کسی دن میں پاگل ہو کر پہاڑوں پر بھٹکتی پھروں گی! ‘‘

’’یہ تو اپنی اپنی بناوٹ کی بات ہے، ‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے خود پرانی وضع کے لوگوں کے درمیان رہنا بہت اچھا لگتا ہے۔  میں آج تک ایک جگہ گھر بنا کر نہیں رہ سکا اور نہ ہی آئندہ امید ہے کہ کبھی رہ سکوں گا۔ مجھے اپنی زندگی کی جو رات سب سے زیادہ یاد آتی ہے، وہ رات میں نے پہاڑی گوجروں کی ایک بستی میں بسر کی تھی۔  اس رات اس بستی میں ایک بیاہ تھا، تو ساری رات وہ لوگ شراب پیتے اور ناچتے گاتے رہے۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی، جب مجھے بتایا گیا کہ وہی گوجر دس دس روپے کیلئے آدمی کا خون بھی کر دیتے ہیں! ‘‘

’’آپ کو واقعی اس طرح کی زندگی اچھی لگتی ہے؟‘‘ اس نے کچھ حیرت اور غیر یقینی کے ساتھ پوچھا۔

’’آپ کو شاید خوشی ہو رہی ہے کہ اس پاگل پنے کی آپ اکیلی ہی امیدوار نہیں ہیں، ‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔  وہ بھی مسکرائی۔ اس کی آنکھیں اچانک جذباتی ہو اٹھیں۔ اس ایک لمحے میں مجھے ان آنکھوں میں نہ جانے کیا کچھ دکھائی دیا۔ ہمدردی، حساسیت، ممتا، جذباتیت، چاؤ، خوف، کشمکش اور پیار! اس کے ہونٹ کچھ کہنے کے لئے کانپے، لیکن کانپ کر ہی رہ گئے۔  میں بھی خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ چند لمحوں کیلئے مجھے محسوس ہوا کہ میرا دماغ بالکل خالی ہے اور مجھے پتہ نہیں کہ میں کیا کر رہا تھا اور اس کے بعد کیا کہنا چاہتا تھا۔ دفعتاً اس کی آنکھوں میں پھر وہی سونا پن بھرنے لگا۔ اور پل بھر میں ہی وہ اتنا بڑھ گیا کہ میں نے اس کی جانب سے نظریں ہٹا لیں۔

بتی کے پاس اڑتا کیڑا اس کے ساتھ چپک کر جھلس گیا تھا۔

بچی نیند میں مسکرا رہی تھی۔

کھڑکی کے شیشے پر اتنی دھند جم گئی تھی کہ اس میں اپنا چہرہ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔

گاڑی کی رفتار سست ہو رہی تھی۔ شاید کوئی اسٹیشن آ رہا تھا۔  دو ایک بتیاں تیزی سے نکل گئیں۔ میں نے کھڑکی کا شیشہ اٹھا دیا۔  باہر سے آتی برفانی ہوا کے لمس نے حواس کو تھوڑا سا بیدار کر دیا۔ گاڑی ایک بہت نیچے پلیٹ فارم کے پاس آ کر کھڑی ہو رہی تھی۔

’’یہاں کہیں تھوڑا سا پانی ملے گا؟‘‘

میں نے چونک کر دیکھا کہ وہ اپنی ٹوکری میں سے شیشے کا گلاس نکال کر غیر یقینی کے انداز سے ہاتھ میں لئے ہے۔  اس کے چہرے کی لکیریں پہلے سے گہری ہو گئی تھیں۔

’’پانی آپ کو پینے کیلئے چاہئے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ ہاں۔  کلی کروں گی اور پیوں گی بھی۔  نہ جانے کیوں ہونٹ کچھ چپک رہے ہیں۔  باہر اتنی سردی ہے، پھر بھی۔۔ ۔ ‘‘

’’دیکھتا ہوں، اگر یہاں کوئی نل ول ہو تو۔۔ ۔ ‘‘

میں نے گلاس اس کے ہاتھ سے لے لیا اور فوری طور پر پلیٹ فارم پر اتر گیا۔  نہ جانے کیسا منحوس اسٹیشن تھا کہ کہیں پر بھی کوئی انسان نظر نہیں آ رہا تھا۔  پلیٹ فارم پر پہنچتے ہی ہوا کے جھونکوں سے ہاتھ پیر سن ہونے لگے۔ میں نے کوٹ کے کالر اونچے کر لیے۔  پلیٹ فارم کے جنگلے کے باہر سے پھیل کر اوپر آئے دو ایک درخت ہوا میں سرسرا رہے تھے۔ انجن کے بھاپ چھوڑنے سے لمبی شوں اُوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔  شاید وہاں گاڑی سگنل نہ ملنے کی وجہ سے رک گئی تھی۔

دور چند ڈبوں پیچھے ایک نل دکھائی دیا، تو میں تیزی سے اس کی طرف چل دیا۔  اینٹوں کے پلیٹ فارم پر اپنے جوتوں کی آواز مجھے بہت عجیب سی لگی۔ میں نے چلتے چلتے گاڑی کی طرف دیکھا۔  کسی کھڑکی سے کوئی چہرہ باہر نہیں جھانک رہا تھا۔ میں نل کے پاس جا کر گلاس میں پانی بھرنے لگا۔ تبھی ہلکی سی سیٹی دے کر گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ چل پڑی۔  میں بھرا ہوا پانی کا گلاس لیے اپنے ڈبے کی طرف دوڑا۔ دوڑتے ہوئے مجھے لگا کہ میں اس ڈبے تک نہیں پہنچ پاؤں گا اور سردی میں اس اندھیرے اور ویران پلیٹ فارم پر ہی مجھے بغیر سامان کے رات گزارنی ہو گی۔  یہ سوچ کر میں اور تیز دوڑنے لگا۔ کسی طرح اپنے ڈبے کے قریب پہنچ گیا۔ دروازہ کھلا تھا اور وہ دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر گلاس مجھ سے لیا۔ فٹ بورڈ پر چڑھتے ہوئے ایک بار میرا پاؤں ذرا سا پھسلا، مگر اگلے ہی لمحے میں سنبھل کر کھڑا ہو گیا۔  انجن تیز ہونے کی کوشش میں ہلکے ہلکے جھٹکے دے رہا تھا اور اینٹوں کے پلیٹ فارم کی جگہ اب نیچے مبہم گہرائی دکھائی دینے لگی تھی۔

’’اندر آ جائیے۔ ‘‘

اس کے یہ الفاظ سن کر مجھے احساس ہوا کہ مجھے فٹ بورڈ سے آگے بھی کہیں جانا ہے۔  ڈبے کے اندر قدم رکھا، تو میرے گھٹنے ذرا ذرا سے کانپ رہے تھے۔

اپنی جگہ پر پہنچ کر میں نے ٹانگیں سیدھی کر کے پیچھے ٹیک لگا لی۔  چند لمحوں بعد آنکھیں کھولیں تو لگا کہ وہ اس بیچ منہ دھو آئی ہے۔ پھر بھی اس کے چہرے پر مردنی سی چھا رہی تھی۔  میرے ہونٹ سوکھ رہے تھے، پھر بھی میں تھوڑا سا مسکرایا۔

’’کیا بات ہے، آپ کا چہرہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’میں کتنی منحوس ہوں۔۔ ۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا نچلا ہونٹ ذرا سا کاٹ لیا۔

’’کیوں؟‘‘

’’ابھی میری وجہ سے آپ کو کچھ ہو جاتا۔۔ ۔ ‘‘

’’یہ خوب سوچا آپ نے!‘‘

’’نہیں۔  میں ہوں ہی ایسی۔۔ ۔  ‘‘وہ بولی، ’’ زندگی میں ہر ایک کو دکھ ہی دیا ہے۔  اگر کہیں آپ نہ چڑھ پاتے۔۔۔‘‘

’’تو؟‘‘

’’تو؟‘‘ اس نے ہونٹ ذرا سکوڑے، ‘‘تو مجھے پتہ نہیں۔۔ ۔ پر۔۔  ‘‘

اس نے خاموش ہو کر آنکھیں جھکا لیں۔  میں نے دیکھا کہ اس کی سانس تیزی سے چل رہی ہیں۔  جانا کہ حقیقی آفت کے مقابلے میں ٓآفت کا تخیل زیادہ بڑا اور خطرناک ہوتا ہے۔  شیشہ اٹھا رہنے کی وجہ سے کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔ میں نے کھینچ کر شیشہ نیچے کر دیا۔

’’آپ کیوں گئے تھے پانی لانے کیلئے؟ آپ نے منع کیوں نہیں کر دیا؟ ‘‘ اس نے پوچھا۔

اس کے پوچھنے کے انداز سے مجھے ہنسی آ گئی۔

’’آپ ہی نے تو کہا تھا۔ ‘‘

’’میں تو پاگل ہوں، کچھ بھی کہہ دیتی ہوں۔  آپ کو تو سوچنا چاہیے تھا۔ ‘‘

’’اچھا، میں اپنی غلطی مان لیتا ہوں۔ ‘‘

اس سے اس کے مرجھائے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔

’’آپ بھی کہیں گے، کیسی لڑکی ہے، ‘‘ اس نے اندرونی اظہار کے ساتھ کہا۔  ’’سچ کہتی ہوں، مجھے ذرا عقل نہیں ہے۔ اتنی بڑی ہو گئی ہوں، پر عقل رتی بھر نہیں ہے، سچ! ‘‘

میں پھر ہنس دیا۔

’’آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟‘‘ اس کی آواز میں ایک بار پھر شکایت گھلی تھی۔

’’مجھے ہنسنے کی عادت ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’ہنسنا اچھی عادت نہیں ہے۔ ‘‘

مجھے اس پر پھر ہنسی آ گئی۔

وہ شکایت بھری نظروں سے مجھے دیکھتی رہی۔

گاڑی کی رفتار پھر تیز ہو رہی تھی۔  اوپر کی برتھ پر لیٹا آدمی اچانک ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا اور زور زور سے کھانسنے لگا۔  کھانسی کا دورہ کم ہونے پر اس نے کچھ وقت سینے کو ہاتھ میں دبائے رکھا، پھر بھاری آواز میں پوچھا، ’’کیا بجا ہے؟‘‘

’’پونے بارہ۔ ‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ کر جواب دیا۔

’’بس پونے بارہ؟‘‘ اس نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا اور پھر لیٹ گیا۔  کچھ ہی دیر میں وہ پھر خراٹے بھرنے لگا۔

’’آپ بھی تھوڑی دیر سو جائیے۔ ‘‘ وہ پیچھے ٹیک لگائے شاید کچھ سوچ رہی تھی یا صرف دیکھ رہی تھی۔

’’آپ کو نیند آ رہی ہے، آپ سو جائیے، ‘‘ میں نے کہا۔

’’میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ مجھے گاڑی میں نیند نہیں آتی۔ آپ سو جائیے۔  ‘‘

میں نے لیٹ کر کمبل اوڑھ لیا۔  میری آنکھیں دیر تک اوپر جلتی بتی کو دیکھتی رہیں، جس کے ساتھ جھلسا ہوا کیڑا چپک کر رہ گیا تھا۔

’’رضائی بھی لے لیجئے، کافی ٹھنڈ ہے، ‘‘ اس نے کہا۔

’’نہیں، ابھی ضرورت نہیں ہے۔  میں بہت سے گرم کپڑے پہنے ہوں۔ ‘‘

’’لے لیجئے، ورنہ بعد میں ٹھٹھرتے رہ جائیں گے۔ ‘‘

’’نہیں، ٹھٹھروں گا نہیں۔ ‘‘ میں نے کمبل گلے تک لپیٹتے ہوئے کہا، ’’اور تھوڑی تھوڑی ٹھنڈ محسوس ہوتی رہے تو اچھا لگتا ہے۔ ‘‘

’’بتی بجھا دوں؟‘‘ کچھ دیر بعد اس نے پوچھا۔

’’نہیں، رہنے دو۔ ‘‘

’’نہیں، بجھا دیتی ہوں۔  ٹھیک سے سو جائیے۔ ‘‘ اور اس نے اٹھ کر بتی بجھا دی۔  میں کافی دیر اندھیرے میں چھت کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر مجھے نیند آنے لگی۔

شاید رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی، جب انجن کے بھونپو کی آواز سے میری نیند کھلی۔  وہ آواز کچھ ایسی بھاری تھی کہ میرے پورے بدن میں ایک جھرجھری سی بھر گئی۔ پچھلے کسی اسٹیشن پر انجن بدل گیا تھا۔

گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگی تو میں نے سر تھوڑا اونچا اٹھایا۔  سامنے کی سیٹ خالی تھی۔ وہ عورت نہ جانے کس اسٹیشن پر اتر گئی تھی۔  اسی اسٹیشن پر نہ اتری ہو، یہ سوچ کر میں نے کھڑکی کا شیشہ اٹھا دیا اور باہر دیکھا۔  پلیٹ فارم بہت پیچھے رہ گیا تھا اور بتیوں کی قطار کے سوا کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔  میں نے شیشہ پھر نیچے کھینچ لیا۔ اندر کی روشنی اب بھی بجھی ہوئی تھی۔ بستر میں نیچے کو سرکتے ہوئے میں نے دیکھا کہ کمبل کے علاوہ میں اپنی رضائی بھی لیے ہوں، جسے اچھی طرح کمبل کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔  گرمی کے کئی ایک کانٹے ایک ساتھ جسم میں بھر گئے۔

اوپر کی برتھ پر لیٹا آدمی اب بھی اُسی طرح زور زور سے خراٹے بھر رہا تھا۔

٭٭٭

 

ایک اور زندگی

 

اور اس ایک لمحے کیلئے پرکاش کے دل کی دھڑکن جیسے رکی رہی۔  کتنا عجیب تھا وہ لمحہ، آسمان سے ٹوٹ کر گرتے ہوئے تارے جیسا! دھند کی چھاتی پر ایک لکیر سی کھینچ کر وہ لمحہ اچانک بے نشاں ہو گیا۔

دھند میں سے گزر کر جاتی ہوئی صورتوں کو اس نے ایک بار پھر بغور دیکھا۔  کیا یہ ممکن تھا کہ کسی شخص کی آنکھیں اس حد تک اسے دھوکہ دیں؟ تو جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا، وہ حقیقت نہیں تھا؟

چند لمحوں پہلے جب وہ کمرے سے نکل کر بالکنی پر آیا، تو کیا اس نے تصور میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ آسمان کی لامتناہی حد تک پھیلی ہوئی دھند میں، گہرے پانی کی نشیبی سطح پر  تیرتی ہوئی مچھلیوں جیسی جو صورتیں نظر آ رہی ہیں، ان میں کہیں وہ دو صورتیں بھی ہوں گی؟ مندر والی سڑک سے آتے ہوئے دو دھندلے رنگوں پر جب اس کی نظر پڑی تھی، اس وقت بھی کیا اس کے دل میں کہیں ایسا قیاس جاگا تھا؟ پھر بھی نہ جانے کیوں اسے لگ رہا تھا جیسے بہت وقتوں سے، بلکہ کئی دنوں سے، وہ ان کے وہاں سے گزرنے کا انتظار کر رہا ہو، جیسے ان کو دیکھنے کیلئے ہی وہ کمرے سے نکل کر بالکنی پر آیا ہو اور انہیں کو ڈھونڈتی ہوئی اس کی آنکھیں مندر والی سڑک کی طرف مڑی ہوں۔ یہاں تک کہ اس دھانی آنچل اور نیلی نیکر کے رنگ بھی جیسے اس کے پہچانے ہوئے ہوں اور دھند کی چادر میں وہ انہی دو رنگوں کو ہی کھوج رہا ہو۔  ویسے ان صورتیں کے بالکنی کے نیچے پہنچنے تک اس نے انہیں پہچانا نہیں تھا۔ لیکن ایک لمحے میں اچانک وہ شکلیں اس طرح اس کے سامنے واضح ہو اٹھی تھیں، جیسے جمود کے لمحے میں، تحت الشعور کی گہرائی میں ڈوبا کوئی خیال اچانک شعور کی سطح پر کوند گیا ہو۔

نیلی نیکر والی صورت مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھ رہی تھی۔  کیا اسے بھی دھند میں کسی کی تلاش تھی؟ اور کس کی؟ پرکاش کا من ہوا کہ اسے آواز دے، مگر اس کے گلے سے الفاظ نہیں نکلے۔  دھند کا سمندر اپنی سنجیدگی لئے خاموش تھا، مگر اس کی اپنی خاموشی ایک ایسے طوفان کی طرح تھی، جو ہوا نہ ملنے سے اپنے اندر ہی گھٹ کر رہ گیا ہو۔  نہیں تو کیا وہ اتنا ہی لاچار تھا کہ اس کے گلے سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکے؟

وہ بالکنی سے ہٹ کر کمرے میں آ گیا۔  وہاں اپنے بے ترتیب سامان پر نظر پڑی، تو جسم میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی۔  کیا یہی وہ زندگی تھی جس کیلئے اس نے۔۔ ۔؟ لیکن اسے لگا کہ اس کے پاس کچھ بھی سوچنے کے لئے وقت نہیں ہے۔  اس نے جلدی جلدی کچھ چیزوں کو اٹھایا اور رکھ دیا، جیسے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو جو اسے مل نہ رہی ہو۔ اچانک کھونٹی پر لٹکتی پتلون پر نظر پڑی، تو اس نے پاجامہ اتار کر فوری طور پر اسے پہن لیا۔  پھر پل بھر کھویا سا کھڑا رہا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ چاہتا کیا ہے؟ کیا وہ ان دونوں کے پیچھے جانا چاہتا تھا؟ یا بالکنی پر کھڑا ہو کر پہلے کی طرح انہیں دیکھتے رہنا چاہتا تھا؟

اچانک اس کا ہاتھ میز پر رکھے تالے پر پڑ گیا تو اس نے اسے اٹھا لیا۔  جلدی سے دروازہ بند کر کے وہ زینے سے اترنے لگا۔ زینے پر آ کر خیال آیا کہ جوتا نہیں پہنا۔  وہ لمحے بھر کو ٹھٹک کر کھڑا رہا، مگر لوٹ کر نہیں گیا۔ نیچے سڑک پر پہنچتے ہی پاؤں کیچڑ میں لت پت ہو گئے۔  دور دیکھا، وہ دونوں صورتیں گھوڑے کے اڈے کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ وہ جلدی جلدی چلنے لگا۔ پاس سے گزرتے ایک گھوڑے والے سے اس نے کہا کہ آگے جا کر نیلی نیکر والے بچے کو روک لے۔ اس سے کہے کہ کوئی اس سے ملنے کیلئے آ رہا ہے۔  گھوڑے والا، گھوڑا دوڑاتا ہوا گیا، مگر ان دونوں کے پاس رکا نہیں، بلکہ ان سے آگے نکل گیا۔ وہاں جا کر نہ جانے کسے اُس نے اِس کا کہہ دیا۔

تیز تیز چلتے ہوئے بھی پرکاش کو لگ رہا تھا، جیسے وہ بہت دھیرے دھیرے چل رہا ہو، جیسے اس کے گھٹنے اکڑ گئے ہوں اور راستہ بہت بہت لمبا ہو گیا ہو۔  اس کا دل اس خدشے سے بے حال تھا کہ اس کے پاس پہنچنے تک وہ لوگ گھوڑوں پر سوار ہو کر وہاں سے چل نہ دیں اور جس فاصلے کو وہ گھٹانا چاہتا تھا، وہ جوں کا توں نہ بنا رہے۔  مگر جوں جوں فاصلہ گھٹ رہا تھا، اس کا گھٹنا بھی اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ کیا وہ جان بوجھ کر خود کو ایک ایسی صورتِ حال میں نہیں ڈال رہا تھا، جس سے اسے خود کو بچائے رکھنا چاہیے تھا؟

ان لوگوں نے گھوڑے نہیں لئے تھے۔  وہ جب ان سے تین چار گز دور رہ گیا، تو اچانک اس کے قدم رک گئے۔  تو کیا واقعی اب اسے اس صورتِ حال کا سامنا کرنا ہی تھا؟

’’پاشی!‘‘ اس سے پہلے کہ وہ ارادہ کر پاتا، خود بخود اس کے منہ سے نکل گیا۔

بچے کی بڑی بڑی آنکھیں اس کی طرف گھوم گئیں، ساتھ ہی اس کی ماں کی آنکھیں بھی۔  دھند میں اچانک کئی کئی بجلیاں کوند گئیں۔ پرکاش ایک دو قدم اور آگے بڑھ گیا۔ بچہ حیران آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا ہوا اپنی ماں کے ساتھ چپک گیا۔

’’پلاش، ادھر آ میرے پاس۔ ‘‘ پرکاش نے ہاتھ سے چٹکی بجاتے ہوئے کہا، جیسے یہ روز مرہ کا کوئی عام سا واقعہ ہو اور بچہ ابھی کچھ منٹ پہلے ہی اس کے پاس سے اٹھ کر اپنی ماں کے پاس گیا ہو۔

بچے نے ماں کی طرف دیکھا۔  وہ اپنی آنکھیں ہٹا کر دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔  بچہ اب اس کے ساتھ مزید چپک گیا تھا اور اس کی آنکھوں حیرانی کے ساتھ ساتھ شرارت سے چمک اٹھیں۔

پرکاش کو کھڑے کھڑے الجھن ہو رہی تھی۔  لگ رہا تھا کہ خود چل کر اس فاصلے کو پاٹنے کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں ہے۔  وہ لمبے لمبے ڈگ بھر کر بچے کے پاس پہنچا اور اسے اس نے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا۔  بچے نے ایک بار ہنس کر اس کے ہاتھ سے چھٹنے کی کوشش کی، لیکن دوسرے ہی لمحے اپنے چھوٹے چھوٹے بازو اس کے گلے میں ڈال کر وہ اس سے لپٹ گیا۔ پرکاش اس کو لئے ہوئے تھوڑا ایک طرف کو ہٹ گیا۔

’’توُ نے پاپا کو پہچانا نہیں تھا کیا؟‘‘

’’پیتانا تا۔ ‘‘ بچہ بازو اس کے گلے میں ڈالے جھولنے لگا۔

’’تو تُو جھٹ سے پاپا کے پاس آیا کیوں نہیں؟‘‘

’’نہیں آیا۔ ‘‘ کہہ کر بچے نے اسے چوم لیا۔

’’تو‘ آج ہی یہاں آیا ہے؟‘‘

’’نہیں، تل آیا تا۔ ‘‘

’’ابھی رہے گا یا آج ہی لوٹ جائے گا؟‘‘

’’ابی تین چار دن لہوندا۔ ‘‘

’’تو پاپا کے پاس ملنے آئے گا نا؟‘‘

’’آؤں دا۔ ‘‘

پرکاش نے ایک بار اسے اچھی طرح اپنے ساتھ چپٹا کر چوم لیا، تو بچہ کلکاریاں مار کر اس کی پیشانی، آنکھوں اور رخساروں کو جگہ جگہ سے چومنے لگا۔

’’کیسا بچہ ہے!‘‘ پاس کھڑے ایک کشمیری مزدور نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

’’تم تہاں لیتے ہو؟‘‘ بچہ بازو اسی طرح اس کی گردن میں ڈالے، تھوڑا پیچھے کو ہٹ گیا، جیسے اسے اچھی طرح دیکھنا چاہتا ہو۔

’’وہاں!‘‘ پرکاش نے دور اپنی بالکنی کی طرف اشارہ کیا، ’’توُ کب تک وہاں آئے گا؟‘‘

’’ابی اوپل جا تل دودھ پیوندا، اُچھکے بعد تمالے پاچھ آؤندا۔ ‘‘ بچے نے اب اپنی ماں کی طرف دیکھا اور اس کی بانہوں سے نکلنے کیلئے مچلنے لگا۔

’’میں وہاں بالکنی میں کرسی ڈال کر بیٹھا رہوں گا اور تیرا انتظار کروں گا۔ ‘‘بچے بانہوں سے اتر کر اپنی ماں کی طرف بھاگ گیا، تو پرکاش نے پیچھے سے کہا۔  لمحے بھر کیلئے اس کی آنکھیں بچے کی ماں سے مل گئیں، لیکن اگلے ہی لمحے دونوں دوسری طرف دیکھنے لگے۔ بچہ جا کر ماں کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ وہ دھند کے پار دیودار کی دھندلی قطاروں کو دیکھتی ہوئی بولی، ’’تجھے دودھ پی کر آج کھِلن مرگ نہیں چلنا ہے؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

بچے نے اس کی ٹانگوں کے سہارے اچھلتے ہوئے سپاٹ سا جواب دیا، ’’میں دودھ پیتل، پاپا تے پاچھ جاؤندا۔ ‘‘

تین دن، تین راتوں سے آسمان گھرا تھا۔  دھند آہستہ آہستہ اتنی گھنی ہو گئی تھی کہ بالکنی سے آگے کوئی روپ، کوئی رنگ دکھائی نہیں دیتا تھا۔  آسمان کی شفافیت پر جیسے گاڑھا سفیدہ پوت دیا گیا تھا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، دھند مزید گہری ہوتی جا رہی تھی۔  کرسی پر بیٹھے ہوئے پرکاش کو کسی کسی پل محسوس ہونے لگتا، جیسے وہ بالکنی پہاڑیوں سے گھری کسی کھلی جگہ میں نہیں ہے، بلکہ خلا کی کسی پر اسرار گہرائی میں بنی ہوئی ہے۔ نیچے اور اوپر صرف خلا ہی خلا ہے۔ خلا میں بالکنی کی طاقت خود میں مکمل اور آزاد ایک اقلیم کی طرح ہو۔

اس کی آنکھیں اس طرح ایک ٹک سامنے دیکھ رہی تھیں، جیسے آسمان اور دھند میں اسے کوئی مفہوم ڈھونڈنا ہو۔ اپنی بالکنی کے وہاں ہونے کا راز جاننا ہو۔

دھند کے بادل کئی کئی شکلیں لے کر ہوا میں ادھر ادھر بھٹک رہے تھے۔  اپنی گہرائی میں پھیلتے اور سمٹتے ہوئے وہ اپنی تھاہ نہیں پا رہے تھے۔  درمیان میں کہیں کہیں دیودار کی پھنگیاں ایک سبز لکیر کی طرح باہر نکلی تھیں۔ دھندلے آسمان پر لکھی گئی ایک منطقی سی کہانی جیسی۔  دیکھتے دیکھتے وہ لکیر بھی گم ہوتی جا رہی تھی۔ دھند کی وسعت پذیری اسے بھی رہنے دینا نہیں چاہتی تھی۔ لکیر کو مٹتے دیکھ کر پرکاش کے اعصاب میں ایک تناؤ سا بھر رہا تھا، جیسے کسی بھی طرح وہ اس لکیر کو مٹنے سے بچا لینا چاہتا ہو۔  لیکن جب لکیر ایک بار مٹ کر پھر دھند سے باہر نہیں نکلی، تو اس نے سر پیچھے ڈال دیا اور خود بھی دھند میں دھند ہو کر پڑ رہا۔۔ ماضی کی دھند میں کہیں وہ دن بھی تھا، جو چار سال میں اب تک بیت نہیں سکا تھا۔۔

بچے کی پہلی سالگرہ تھی اس دن، وہی ان کی زندگی کی بھی سب سے بڑی گرہ بن گئی تھی۔۔ ۔

بیاہ کے چند ماہ بعد ہی میاں بیوی الگ رہنے لگے تھے۔  بیاہ کے ساتھ جو رشتہ جڑنا چاہیے تھا، وہ جڑ نہیں سکا تھا۔  دونوں الگ الگ جگہ کام کرتے تھے اور اپنی اپنی آزادی، تانا بانا بُن کر رہ رہے تھے۔ رسم و رواج کی وجہ سے سال چھ مہینے میں کبھی ایک بار مل لیا کرتے تھے۔  وہ رسم و رواج ہی اس بچے کو دنیا میں لے آئے تھے۔۔ ۔

بینا سمجھتی تھی کہ اس طرح جان بوجھ کر اسے پھنسا دیا گیا ہے۔ پرکاش سوچتا تھا کہ انجانے میں ہی اس سے ایک قصور ہو گیا ہے۔

سال بھر بچہ ماں کے ہی پاس رہا تھا۔  درمیان میں بچے کی دادی چھ سات مہینے اس کے پاس گزار آئی تھی۔

پہلی سالگرہ پر بینا نے لکھا تھا کہ وہ بچے کو لے کر اپنے باپ کے پاس لکھنؤ جا رہی ہے۔  وہیں پر بچے کی سالگرہ کی پارٹی دے گی۔

پرکاش نے اسے تار دیا تھا کہ وہ بھی اس دن لکھنؤ آئے گا۔  اپنے ایک دوست کے یہاں حضرت گنج میں ٹھہرے گا۔ اچھا ہو گا کہ پارٹی وہیں دی جائے۔  لکھنؤ کے کچھ دوستوں کو بھی اس نے مطلع کر دیا تھا کہ بچے کی سالگرہ کے موقع پر وہ اس کے ساتھ چائے پینے کیلئے آئیں۔

اس نے سوچا تھا کہ بینا اسے اسٹیشن پر مل جائے گی، لیکن وہ نہیں ملی۔  حضرت گنج پہنچ کر نہا نے دھونے کے بعد اس نے بینا کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ وہاں پہنچ گیا ہے، کچھ لوگ ساڑھے چار پانچ بجے چائے پینے آئیں گے، اس سے پہلے وہ بچے کو لے کر ضرور وہاں آ جائے۔  مگر پانچ بجے، چھ بجے، پھر سات بج گئے۔ بینا بچے کو لے کر نہیں آئی۔ دوسری بار پیغام بھیجنے پر پتہ چلا کہ وہاں ان لوگوں کی پارٹی چل رہی ہے۔ بینا نے کہلا بھیجا کہ بچہ آٹھ بجے تک فارغ نہیں ہو گا، تو وہ ابھی اسے لے کر نہیں آ سکتی۔  پرکاش نے اپنے دوستوں کو چائے پلا کر رخصت کر دیا۔ بچے کیلئے خریدے ہوئے تحفے بینا کے پتا کے یہاں بھیج دیئے۔ ساتھ میں یہ پیغام بھی بھیجا کہ بچہ جب بھی فارغ ہو، اسے تھوڑی دیر کیلئے اس کے پاس لے آیا جائے۔

مگر آٹھ کے بعد نو، دس، بارہ بج گئے، پر بینا نہ تو خود بچے کو لے کر آئی، اور نہ ہی اس نے اسے کسی اور کے ساتھ بھیجا۔

وہ رات بھر سویا نہیں۔  اس کے دماغ کی جیسے کوئی چھینی سے چھیلتا رہا۔

صبح اس نے پھر بینا کے پاس پیغام بھیجا۔  اس بار بینا بچے کو لے کر آ گئی۔ اس نے بتایا کہ پارٹی رات دیر تک چلتی رہی، اسلئے اس کا آنا ممکن نہیں ہوا۔  اگر سچ مچ اسے بچے سے پیار تھا، تو اسے چاہیے تھا کہ تحفہ لے کر خود ان کے یہاں پارٹی میں چلا آتا۔

اس دن صبح سے شروع ہونے والی بات چیت آدھی رات تک چلتی رہی۔  پرکاش بار بار کہتا رہا، ’’بینا، میں اس کا باپ ہوں۔ اس وجہ سے مجھے اتنا حق تو ہے ہی کہ میں اسے اپنے پاس بلا سکوں۔ ‘‘

لیکن بینا کا جواب تھا، ’’آپ کے پاس ایک باپ کا دل ہوتا تو آپ پارٹی میں نہ آ جاتے؟ یہ تو ایک ناگہانی حادثہ ہی ہے کہ آپ اس کے باپ ہیں۔ ‘‘

’’بینا!‘‘ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہ گیا، ’’میں نہیں سمجھ پا رہا کہ تم در اصل چاہتی کیا ہو۔ ‘‘

’’میں کچھ بھی نہیں چاہتی۔  آپ سے میں کیا چاہوں گی؟ ’’

’’تم نے سوچا ہے کہ تمہارے اس طرح کے برتاؤ سے بچے کا کیا ہو گا؟‘‘

’’جب ہم اپنے بارے میں کچھ نہیں سوچ سکے، تو اس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ ‘‘

’’کیا تم پسند کرو گی کہ بچے کو مجھے سونپ دو اور خود آزاد ہو جاؤ؟‘‘

’’اسے آپ کے حوالے کر دوں؟‘‘ بینا کے لہجے میں اداسی گہری ہو گئی، ’’کس چیز کے بھروسے؟ کل کو آپ کی زندگی کیا ہو گی، یہ کون کہہ سکتا ہے؟ بچے کو اس غیر یقینی کی زندگی کے بھروسے چھوڑ دوں۔ اتنی بیوقوف میں نہیں ہوں۔ ‘‘

’’تو کیا تم یہی چاہو گی کہ اس کا فیصلہ کرنے کیلئے عدالت میں جایا جائے؟‘‘

’’آپ عدالت میں جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔  ضرورت پڑنے پر میں سپریم کورٹ تک آپ سے لڑوں گی۔ آپ کا بچے پر کوئی حق نہیں ہے۔ ‘‘

بچے کو باپ سے زیادہ ماں کی ضرورت ہوتی ہے، کئی دنوں، کئی ہفتوں تک وہ دل ہی دل میں لڑتا رہا۔  جہاں اسے دونوں نہ مل سکیں، وہاں ماں تو اسے ملنی ہی چاہئے۔ ’’ٹھیک ہے، میں بچے کی بات بھول جاؤں اور نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرنے کی کوشش کروں۔۔ ۔ ‘‘

مگر۔۔ ۔۔

’’بیکارکی جذباتیت میں کچھ نہیں رکھا ہے۔  بچے وچے تو ہوتے ہی رہتے ہیں علیحدگی کر کے دوبارہ بیاہ کر لیا جائے، تو گھر میں اور بچے ہو جائیں گے۔  بس دل میں اتنا ہی سوچ لینا کافی ہو گا کہ اس بچے کے ساتھ کوئی حادثہ ہو گیا تھا۔ ‘‘

سوچنے سوچنے میں دن، ہفتے اور مہینے نکلتے گئے۔  ذہن میں تشویش سی اٹھتی، کیا واقعی پہلے کی زندگی کو مٹا کر، انسان نئے سرے سے زندگی شروع کر سکتا ہے؟ زندگی کے چند سالوں کو وہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح بھولنے کی کوشش کر سکتا ہے؟ کتنے انسان ہیں جن کی زندگی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی دورا ہے سے غلط سمت کی طرف بھٹک جاتی ہے۔  کیا مناسب نہیں کہ انسان اس راستے کو بدل کر خود کو صحیح سمت میں لے آئے؟ آخر آدمی کے پاس ایک ہی تو زندگی ہوتی ہے۔ تجربے کیلئے بھی اور رہنے کیلئے بھی۔ تو کیوں آدمی ایک تجربے کی ناکامی کو زندگی کی ناکامی مان لے؟ کورٹ میں کاغذ پر دستخط کرتے وقت چھت کے پنکھے سے ٹکرا کر ایک چڑیا کا بچہ نیچے آ گرا۔

’’ہائے، چڑیا مر گئی۔ ‘‘ کسی نے کہا۔

’’مری نہیں، ابھی زندہ ہے۔ ‘‘ کوئی اور بولا۔

’’چڑیا نہیں ہے، چڑیا کا بچہ ہے۔ ‘‘ کسی تیسرے نے کہا۔

’’نہیں چڑیا ہے۔ ‘‘

’’نہیں، چڑیا کا بچہ ہے۔ ‘‘

’’اسے اٹھا کر باہر ہوا میں چھوڑ دو۔ ‘‘

’’نہیں، یہیں پڑا رہنے دو۔  باہر اسے کوئی بلی ولّی کھا جائے گی۔ ‘‘

’’پر یہ یہاں آیا کیسے؟‘‘

’’جانے کیسے؟ روشندان کے راستے آ گیا ہو گا۔ ‘‘

’’بے چارہ کس طرح تڑپ رہا ہے!‘‘

’’شکر ہے، پنکھے نے اسے کاٹ نہیں دیا۔ ‘‘

’’کاٹ دیا ہوتا، تو بلکہ اچھا تھا۔  اب اس طرح لنجے پروں سے بیچارہ کیا جئے گا!‘‘

اس وقت تک میاں بیوی دونوں نے کاغذ پر دستخط کر دیے تھے۔  بچہ اس وقت کورٹ کے احاطے میں کوؤں کے پیچھے بھاگتا ہوا کلکاریاں بھر رہا تھا۔  وہاں آس پاس دھول اڑ رہی تھی اور چاروں طرف مٹیالی سی دھوپ پھیلی تھی۔

پھر دن، ہفتے اور مہینے۔۔ ۔!

ڈھائی سال گزر جانے پر بھی وہ پھر سے زندگی دوبارہ شروع کرنے کی بات کا فیصلہ نہیں کر پایا تھا۔  اس درمیان بچہ تین بار اس سے ملنے کیلئے آیا تھا۔ وہ نوکر کے ساتھ آتا اور دن بھر اس کے پاس رہ کر اندھیرا ہونے پر لوٹ جاتا۔  پہلی بار وہ اس سے شرماتا رہا تھا، مگر بعد میں اس سے گھل مل گیا تھا۔ وہ بچے کو لے کر گھومنے جاتا، اسے آئس کریم کھلاتا، کھلونے لے کر دیتا۔  بچہ جانے کے وقت ہٹیلاپن کرتا، ’’ابی نہیں داؤندا۔ دود پیتل داؤندا۔ تھانہ تھاتل داؤں گا۔ ‘‘

جب بچہ اس طرح کی بات کہتا، تو اس کے اندر کوئی چیز دُکھنے لگتی۔  اس کا دل ہوتا تھا کہ نوکر کو جھڑک کر واپس بھیج دے اور بچے کو کم سے کم رات بھر کیلئے اپنے پاس رکھ لے۔  جب نوکر بچے سے کہتا، ’’بابا، چلو، اب دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘ تو اس کا دل ایک مایوسی بھرے غصے سے کانپنے لگتا اور بہت مشکل سے وہ اپنے آپ کو سنبھال پاتا۔  آخری بار بچہ رات کے نو بجے تک رکا رہ گیا تو ایک اجنبی شخص اسے لینے کیلئے چلا آیا۔

بچہ اس وقت اس کی گود میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔

’’دیکھئے، اب بچے کو بھیج دیجئے، اسے بہت دیر ہو گئی۔ ‘‘ اس اجنبی نے کہا۔

’’آپ دیکھ رہے ہیں، بچہ کھانا کھا رہا ہے۔ ‘‘ اس کا دل ہوا کہ مکا مار کے اس آدمی کے دانت توڑ دے۔

’’ہاں ہاں، آپ اس کو کھانا کھلا لیجئے۔ ‘‘ اجنبی نے فراخدلی کے ساتھ کہا، ’’میں نیچے انتظار کر رہا ہوں۔ ‘‘

غصے کے مارے اس کے ہاتھ اس طرح کانپنے لگے کہ اس کیلئے بچے کو کھانا کھلانا نا ممکن ہو گیا۔

جب نوکر بچے کو لے کر چلا گیا، تو اس نے دیکھا کہ بچے کی ٹوپی وہیں رہ گئی ہے۔  وہ ٹوپی لئے ہوئے دوڑ کر نیچے پہنچا، تو دیکھا کہ نوکر اور اجنبی کے علاوہ بچے کے ساتھ کوئی اور بھی ہے، اس کی ماں۔  وہ لوگ چالیس پچاس گز آگے چل رہے تھے۔ اس نے نوکر کو آواز دی، تو چاروں نے مڑ کر ایک ساتھ اس کی طرف دیکھا۔ پھر نوکر ٹوپی لینے کیلئے واپس آیا اور باقی تینوں آگے چلنے لگے۔

اس رات کمبل میں منہ لپیٹے وہ دیر تک روتا رہا۔

تب نئے سرے سے پھر وہی سوال اس کے دل میں اٹھنے لگا۔  کیوں وہ خود کو اس ماضی سے مکمل طور پر آزاد نہیں کر لیتا؟ اگر بسا ہوا گھر بار ہو، تو کیا اس کی چہل پہل میں وہ اس دکھ کو بھول نہیں جائے گا؟ اس نے اسی لئے تو خود کو بچے سے الگ کیا تھا کہ اپنی زندگی کو ایک نیا موڑ دے سکے، پھر اس طرح اکیلی زندگی جی کر وہ یہ مشقت کس لئے سہہ رہا ہے؟

لیکن نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کے تصور میں ہمیشہ ایک خدشہ گھلا رہتا تھا۔  وہ جتنا اس خدشے سے لڑتا تھا، وہ اتنا ہی شدید ہو اٹھتا تھا۔ جب اس کا ایک تجربہ کامیاب نہیں ہوا، تو کیسے کہا جا سکتا تھا کہ دوسرا تجربہ کامیاب ہو گا؟

وہ پہلے کی بھول دوہرانا نہیں چاہتا تھا، تو اس خدشے نے اسے بہت محتاط کر دیا تھا۔  وہ جس کسی لڑکی کو اپنی ممکنہ بیوی کے روپ میں دیکھتا، اس کے چہرے میں اسے اپنی ماضی کی زندگی کے سائے دکھائی دینے لگتے۔  حالانکہ وہ واضح طور پر اس موضوع میں کچھ بھی سوچ نہیں پاتا تھا، پھر بھی اسے لگتا کہ وہ کسی ایسی ہی لڑکی کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے، جو ہر لحاظ سے بینا کے متضاد ہو۔  بینا میں بہت انا تھی، وہ اس کے مساوی پڑھی لکھی تھی، اس سے زیادہ کماتی تھی۔ اسے اپنی آزادی کا بہت خیال تھا اور اس پر بھاری پڑتی تھی۔ بات چیت بھی وہ کھلے مردانہ ڈھنگ سے کرتی تھی۔  اب وہ ایک ایسی لڑکی چاہتا تھا، جو ہر لحاظ سے اس پر انحصار کرے اور جس کی کمزوریاں، ایک مرد کی پناہ گاہ کی توقع رکھتی ہوں۔

کچھ ایسی ہی لڑکی تھی نرملا، اس کے دوست کرشن جونیجا کی بہن۔  دو بار اس نے اس لڑکی کو جونیجا کے یہاں دیکھا۔ بہت سیدھی سی لڑکی تھی۔  سادہ سی پڑھی لکھی تھی اور سادہ طریقے سے ہی رہتی تھی۔ چھبیس، ستائیس کی ہو کر بھی دِکھنے میں وہ اٹھارہ، انیس سے زیادہ کی نہیں لگتی تھی۔  وہ جونیجا کے گھر کی مشکلات کو جانتا تھا۔ ان مشکلات کی وجہ سے ہی شاید اتنی عمر تک اس لڑکی کی شادی نہیں ہو سکی تھی۔ جب نرملا کے ساتھ اس کے بیاہ کی بات اٹھائی گئی، تو اسے سچ مچ لگا کہ اس کی زندگی کی گاڑی اب صحیح پٹری پر آ جائے گی۔  بات طے ہو جانے کے بعد اسے اپنا آپ کافی طمانیت بھراسا لگنے لگا۔ آسمان اور فضاؤں میں اسے ایک اور ہی طرح کی کشش لگنے لگی۔ نرملا ابھی بیاہ کر گھر میں آئی بھی نہیں تھی کہ وہ شام کو لوٹتے ہوئے پھولوں کے گجرے خرید کے گھر لانے لگا۔ اپنا پہلا گھر اسے چھوٹا لگنے لگا، اسی لئے اس نے ایک زیادہ بڑا گھر لے لیا اور نیا فرنیچر خرید کے اسے سنوار دیا۔ پلّے میں زیادہ پیسے نہیں تھے، پھر بھی قرض لے کر اس نے نرملا کیلئے کتنا کچھ بنوا ڈالا۔

نرملا ہنستی ہوئی اس کے گھر میں آئی، مگر وہ ایک ایسی ہنسی تھی، جو ہنسنے کا موقع نہ ہونے پر بھی تھمنے میں نہیں آتی تھی۔

پہلے کچھ دن تو وہ سمجھ نہیں سکا کہ یہ ہنسی اصل میں کیا ہے۔  نرملا کبھی بھی بغیر بات کے ہنسنا شروع کر دیتی اور دیر تک ہنستی رہتی۔  وہ حیران ہو کر اسے دیکھتا رہتا۔ تین چار سال کے بچے بھی ایسے غیر متوقع ڈھنگ سے نہیں ہنستے تھے، جیسے وہ ہنستی تھی۔  کوئی اس کے سامنے گر جائے یا کوئی چیز کسی کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ جائے، تو اس کیلئے اپنی ہنسی روکنا نا ممکن ہو جاتا تھا۔  ایسے میں مسلسل دس دس منٹ تک وہ ہنسی سے بے حال رہتی۔ وہ اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ ایسی باتوں پر نہیں ہنسا جاتا، تو نرملا کی اور بھی ہنسی چھوٹتی۔  وہ اسے ڈانٹ دیتا، تو وہ اسی غیر متوقع ڈھنگ سے بستر پر لیٹ کر ہاتھ پیر پٹختی ہوئی رونے لگتی، چلا چلا کر اپنی مری ہوئی ماں کو پکارنے لگتی، اور آخر میں بال بکھیر کر دیوی بن جاتی اور گھر بھر کو لعنت دینے لگتی۔  کبھی اپنے کپڑے پھاڑ کر ادھر ادھر چھپا دیتی، اپنے گہنے جوتوں کے اندر سنبھال دیتی۔ کبھی اپنے بازو پر پھوڑے کا تصور کر کے دو دو دن اس کے درد سے کراہتی رہتی اور پھر اچانک صحت مند ہو کر کپڑے دھونے لگتی اور صبح سے شام تک کپڑے دھوتی رہتی۔

جب من مطمئن ہوتا تو منہ گول کئے وہ انگوٹھا چوسنے لگتی۔

اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، پرکاش کے سامنے نرملا کے طرح طرح کے روپ آتے رہتے اور اس کا دل ایک اندھے کنویں میں بھٹکنے لگتا۔  رستہ چلتے ہوئے اس کے دل ایک خالی پن سا گھِر آتا اور وہ بھونچکا سا سڑک کے کنارے کھڑا ہو کر سوچنے لگتا کہ وہ گھر سے کیوں آیا ہے اور کہاں جا رہا ہے۔  اس کا کسی سے ملنے یا کہیں بھی آنے جانے کو من نہ ہوتا۔ کئی بار وہ بالکل فاتر العقل ہو کر کافی دیر تک ایک ہی جگہ کھڑا یا بیٹھا رہتا۔ ایک بار سڑک پر چلتے ہوئے وہ کھمبے سے ٹکرا کر نالی میں گر گیا۔  ایک بار بس پر چڑھنے کی کوشش میں نیچے گر جانے سے اس کی بش شرٹ پیچھے سے پھٹ گئی اور وہ اس سے لا علم، دوسری بس میں چڑھ کر آگے چل دیا۔ اسے پتہ تب چلا جب کسی نے راستے میں اس سے کہا، ’’جنٹلمین، آپ کو گھر جا کر کپڑے بدل لینے چاہئیں؟‘‘

اسے لگتا جیسے وہ جی نہ رہا ہو، اندر ہی اندر گھٹ رہا ہو۔  کیا یہی وہ زندگی تھی، جسے حاصل کرنے کیلئے اس نے اتنے سال خود سے جد و جہد کی تھی؟

اسے غصہ آتا کہ جونیجا نے اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ اس لڑکی کو ذہنی ہسپتال میں بھیجنے کی جگہ اس کا بیاہ کیوں کر دیا؟ اس نے جونیجا کو اس سلسلے میں خط لکھے، لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔  اس نے جونیجا کو بلا بھیجا، تو وہ آیا بھی نہیں۔ وہ خود جونیجا سے ملنے گیا، تو جواب ملا کہ نرملا اب اس کی بیوی ہے، اس کے میکے کے لوگوں کا ان کی زندگی میں کوئی دخل نہیں ہے۔

اور نرملا رات دن گھر میں اسی طرح ہنستی اور روتی رہتی۔۔ ۔!

’’تم میرے بھائی سے کیا پوچھنے گئے تھے؟‘‘ وہ بال بکھیر کر دیوی کا روپ اختیار کئے ہوئے کہتی، ’’تم بینا کی طرح مجھے بھی طلاق دینا چاہتے ہو؟ کسی تیسری کو گھر میں لانا چاہتے ہو؟ مگر میں بینا نہیں ہوں۔  وہ ستی عورت نہیں تھی۔ میں ستی عورت ہوں۔ تم مجھے چھوڑنے کی بات من میں لاؤ گے، تو میں اس گھر کو جلا کر بھسم کر دوں گی۔ سارے شہر میں بھونچال لے آؤں گی۔ لاؤں بھونچال؟‘‘ اور بانہیں پھیلا کر وہ چلّانے لگتی، ’’آ بھونچال، آ۔۔ ۔ آ! میں ستی عورت ہوں، تو اس گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دے۔  آ، آ، آ!‘‘

وہ اسے پرسکون کرنے کی کوشش کرتا، تو وہ کہتی، ’’دیکھو، تم مجھ سے دور رہو۔  میرے جسم کو ہاتھ لگانا نہیں۔ میں ستی عورت ہوں۔ دیوی ہوں۔ تم میری آبرو تباہ کرنا چاہتے ہو؟ مجھے خراب کرنا چاہتے ہو؟ میرا تم سے بیاہ کب ہوا ہے؟ میں تو ابھی کنواری ہوں۔  چھوٹی سی بچی ہوں۔ دنیا کا کوئی بھی مرد مجھے نہیں چھو سکتا۔ میں روحانی زندگی جیتی ہوں۔ مجھے کوئی چھو کر دیکھے تو۔۔ ۔ ‘‘

اور بال بکھیرے ہوئے اسی طرح بولتی چلاتی، کبھی وہ گھر کی چھت پر پہنچ جاتی اور کبھی باہر نکل کر گھر کے آس پاس، چکر کاٹنے لگتی۔  اس نے دو ایک بار ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر نرملا کا منہ بند کرنا چاہا، تو وہ اور بھی زور سے چلانے لگی، ’’تم میرا منہ بند کرنا چاہتے ہو؟ میرا گلا گھوٹنا چاہتے ہو؟ مجھے مارنا چاہتے ہو؟ تمہیں پتہ ہے میں دیوی ہوں؟ میرے چاروں بھائی چار شیر ہیں! وہ تمہیں نوچ نوچ کر کھا جائیں گے۔  انہیں پتہ ہے اس کی بہن، دیوی ہے۔ کوئی میرا برا چاہے گا، تو وہ اسے اٹھا کر لے جائیں گے اور کال کوٹھری میں بند کر دیں گے۔ میرے بڑے بھائی نے ابھی ابھی نئی کار لی ہے۔ میں نے اسے چٹھی لکھ دوں، تو وہ ابھی گاڑی لے کر آئے گا اور ہاتھ پیر باندھ کر تمہیں گاڑی میں ڈال کر لے جائے گا۔  چھ مہینے بند رکھے گا، پھر چھوڑے گا۔ تمہیں پتہ نہیں وہ چاروں کے چاروں شیر کتنے ظالم ہیں؟ وہ راکشس ہیں، راکشس۔ آدمی کی بوٹی بوٹی کاٹ دیں اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔ مگر میں انہیں نہیں بلاؤں گی۔ میں ستی عورت ہوں، اسی لئے اپنی سچائی سے ہی اپنی حفاظت کروں گی۔۔ ۔!‘‘

تمام تر کوششوں سے ہار مان کر، وہ تھکا ہوا اپنے پڑھنے کے کمرے میں بند ہو کر پڑ جاتا، تو بھی آدھی رات تک وہ ساتھ کے کمرے میں اسی طرح بولتی رہتی۔  پھر بولتے بولتے اچانک خاموش ہو جاتی اور تھوڑی دیر بعد اس کا دروازہ کھٹکھٹانے لگتی۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ کہتا۔

’’اس کمرے میں میری سانس رک رہی ہے۔ ‘‘ نرملا جواب دیتی، ’’دروازہ کھولو، مجھے ہسپتال جانا ہے۔ ‘‘

’’اس وقت سو جاؤ۔ ‘‘ وہ کہتا، ’’صبح تم جہاں کہو گی، وہاں لے چلوں گا۔ ‘‘

’’میں کہتی ہوں دروازہ کھولو، مجھے ہسپتال جانا ہے۔ ‘‘ اور وہ زور زور سے دھکے دے کر دروازہ توڑنے لگتی۔

وہ دروازہ کھول دیتا، تو وہ ہنستی ہوئی اس کے سامنے آ جاتی۔

’’تمہیں ہنسی کس بات کی آ رہی ہے؟‘‘ وہ کہتا۔

’’تمہیں لگتا ہے میں ہنس رہی ہوں؟‘‘ نرملا اور بھی زور سے ہنسنے لگتی، ’’یہ ہنسی نہیں، رونا ہے رونا۔ ‘‘

’’تم ہسپتال چلنا چاہتی ہو؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ابھی تم کہہ رہی تھیں۔۔ ۔!‘‘

’’میں ہسپتال جانے کیلئے کہاں کہہ رہی تھی؟ میں تو کہہ رہی تھی کہ مجھے اس کمرے میں ڈر لگتا ہے، میں یہاں تمہارے پاس سوؤں گی۔ ‘‘

’’دیکھو نرملا، اس وقت میرا دل ٹھیک نہیں ہے۔  تم بعد میں چاہے میرے پاس آ جانا، مگر اس وقت تھوڑی دیر۔۔ ۔ ‘‘

’’میں کہتی ہوں، میں اکیلی اس کمرے میں نہیں سو سکتی۔  میرے جیسی چھوٹی سی بچی کیا کبھی اکیلی سو سکتی ہے؟‘‘

’’تم چھوٹی بچی نہیں ہو، نرملا!‘‘

’’تو تمہیں میں بڑی نظر آتی ہوں؟ ایک چھوٹی سی بچی کو بڑی کہتے ہوئے، تمہارے دل کو کچھ نہیں ہوتا؟ اس لئے کہ تم نے مجھے اپنے پاس سلانا نہیں چاہتے؟ مگر میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔  تمہیں مجھے اپنے ساتھ سلانا پڑے گا۔ میں بیوہ ہوں جو اکیلی سوؤں گی؟ میں سہاگن عورت ہوں۔ کوئی سہاگن کیا کبھی اکیلی سوتی ہے؟ میں پھیرے لے کر تمہارے گھر میں آئی ہوں، ایسے ہی اٹھا کر نہیں لائی گئی ہوں۔  دیکھتی ہوں تم کیسے اُس کمرے میں بھیجتے ہو؟‘‘ اور وہ اس کے پاس لیٹ کر اس سے لپٹ جاتی۔

کچھ دیر میں جب اس کے اعصاب پر سکون ہو جاتے تو بار بار اسے چومتی ہوئی کہتی، ’’میرا سہاگ! میرا چاند! میرے راجا! میں تمہیں کبھی خود سے الگ رکھ سکتی ہوں؟ تم میرے ساتھ ایک سو چھتیس سال کی عمر تک جیو گے۔  مجھے یہ پرساد ملا ہے کہ میں ایک سو چھتیس سال کی عمر تک سہاگن رہوں گی۔ جس کی بھی مجھ سے شادی ہوتی، وہ ایک سو چھتیس سال کی عمر تک جیتا۔ تم دیکھ لینا میری بات سچ نکلتی ہے یا نہیں۔ میں ستی عورت ہوں اور ستی عورت کے منہ سے نکلی بات کبھی جھوٹ نہیں ہوتی۔۔ ۔ ‘‘

’’تم صبح میرے ساتھ ہسپتال چلو گی؟‘‘

’’کیوں، مجھے کیا ہوا ہے، جو میں ہسپتال جاؤں گی؟ مجھے تو آج تک کبھی سر درد بھی نہیں ہوا۔  میں ہسپتال کیوں جاؤں گی؟‘‘

ایک دن پرکاش اس کیلئے کئی کتابیں خرید لایا۔  اس نے سوچا تھا کہ شاید پڑھنے سے نرملا کی ذہنی رو کو ایک سمت مل جائے اور وہ آہستہ آہستہ اپنے من کے اندھیرے سے باہر نکلنے لگے۔  مگر نرملا نے ان کتابوں کو دیکھا، تو منہ بنا کر ایک طرف ہٹا دیں۔

’’یہ کتابیں میں تمہارے پڑھنے کے لئے لایا ہوں۔ ‘‘ اس نے کہا۔

’’میرے پڑھنے کیلئے؟‘‘ نرملا حیرانی کے ساتھ بولی، ’’میں ان کتابوں کو پڑھ کر کیا کروں گی؟ میں نے تو مارکسزم، نفسیات اور سبھی کچھ چودہ سال کی عمر میں ہی پڑھ لیا تھا۔  اب اتنی بڑی ہو کر میں یہ کتابیں پڑھنے لگوں گی؟‘‘

اور اس کے پاس سے اٹھ کر انگوٹھے چوستی ہوئی وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔

’’پاپا!‘‘

دھند کے بادلوں میں بھٹکا ذہن اچانک بالکنی پر لوٹ آیا۔  کھلن مرگ کی سڑک پر بہت سے لوگ گھوڑے دوڑاتے جا رہے تھے۔ ایک دھندلی تصویر کی بجھی بجھی صورتوں کی طرح۔  کچھ ایسی ہی بجھی بجھی سی صورتیں کلب سے بازار کی جانب آ رہی تھیں۔ بائیں طرف برف سے ڈھکی پہاڑی کی ایک چوٹی دھند سے باہر نکل آئی تھی اور نجانے کدھر سے آتی آفتابی روشنی کی ایک کرن نے جسے جگمگا دیا تھا۔  دھند میں بھٹکتے کچھ پرندے اڑتے ہوئے اس چوٹی کے سامنے آ گئے، تو اچانک ان کے پنکھ سنہرے ہو اٹھے، مگر اگلے ہی لمحے وہ پھر دھندلکے میں کھو گئے۔

پرکاش کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور جھانک کر نیچے سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔  کیا وہ آواز پلاش کی نہیں تھی؟ مگر سڑک پر دور تک ویسی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔  آنکھوں آنکھوں میں ٹورسٹ ہوٹل کے گیٹ تک جا کر وہ لوٹ آیا اور گردن پر ہاتھ رکھ کر جیسے مایوسی کی چبھن کو روکے ہوئے، پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔  دس کے بعد گیارہ، بارہ اور پھر ایک بج گیا تھا اور بچہ نہیں آیا تھا۔ بچے کی پہلی سالگرہ کے حادثے کو آج پھر دوہرایا جانا تھا؟

’’پاپا!‘‘

پرکاش نے چونک کر سر اٹھایا۔  وہی دھند اور وہی دھندلی سنسان سڑک۔  دور گھوڑوں کی ٹاپیں اور دھیمی چال سے اِس طرف کو آتا ایک کشمیری مزدور! کیا وہ آواز اسے اپنے کانوں کے اندر سے سنائی دے رہی تھی؟

تبھی کانوں کے اندر دو ننھے پیروں کی آواز بھی گونج گئی اور اس کے بہت قریب بچے کی ہنسوڑ آواز پھیلی، ’’پاپا!‘‘

ساتھ ہی دو ننھے بازو اس کے گلے سے لپٹ گئے اور بچے کے لہراتے بال اس کے لبوں سے چھو گئے۔

پرکاش نے بچے کے بدن کو سر سے پیر تک چھو لیا۔  پھر اس کی پیشانی اور آنکھوں کو ہلکے سے چوم لیا۔

’’تو میں جاؤں، پلاش؟‘‘ ایک بھولی ہوئی مگر جانی پہچانی آواز نے پرکاش کو پھر چونکا دیا۔  اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ کمرے کے دروازے کے باہر بینا دائیں طرف نہ جانے کس چیز پر نظریں گڑائے کھڑی تھی۔

’’آپ؟۔۔ ۔ اندر آ جائیے آپ۔۔ ۔!‘‘ کہتا ہوا وہ بچے کو بانہوں میں لیے ہڑبڑا کے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

’’نہیں، میں جا رہی ہوں۔ ‘‘ بینا نے پھر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا، ’’مجھے اتنا بتا دیجئے کہ بچہ کب تک لوٹ کر آئے گا۔ ‘‘

’’آپ۔۔ ۔ جب کہیں، تبھی بھیج دوں گا۔ ‘‘ پرکاش بالکنی کی دہلیز پھلانگ کر کمرے میں آ گیا۔

’’چار بجے اسے دودھ پینا ہوتا ہے۔ ‘‘

’’تو چار بجے تک میں اسے وہاں پہنچا دوں گا۔ ‘‘

’’اس نے ہلکا سا سویٹر ہی پہن رکھا ہے۔  دوسرے پُل اوور کی ضرورت تو نہیں پڑے گی؟‘‘

’’آپ دے دیجئے۔  ضرورت پڑے گی، تو میں اسے پہنا دوں گا۔ ‘‘

بینا نے دہلیز کی دوسری جانب سے پل اوور اس کی طرف بڑھا دیا۔  اس نے پل اوور لے کر اسے شال کی طرح بچے کو اوڑھا دیا، ’’آپ۔۔ ۔۔ ‘‘ اس نے بینا سے پھر کہنا چاہا کہ اندر آ جائے، مگر اس سے کہا نہیں گیا۔  بینا خاموشی سے زینے کی طرف چل دی۔ پرکاش کمرے سے نکل آیا۔

زینے سے بینا نے آواز دی، ’’دیکھیں، یہ آئس کریم وغیرہ مت کھلائیے گا۔  اس کا گلا بہت جلد خراب ہو جاتا ہے۔ ‘‘

’’اچھا!‘‘

بینا پل بھر کو رکی رہی۔  شاید اسے اور بھی کچھ کہنا تھا۔  مگر پھر بغیر کچھ کہے نیچے اتر گئی۔  بچہ، پرکاش کی بانہوں میں اچھلتا ہوا ہاتھ ہلاتا رہا، ’’ممی، ٹا ٹا! ٹا ٹا!‘‘ پرکاش اسے لیے بالکنی پر لوٹ آیا تو وہ اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بولا، ’’پاپا، میں آئیچھ کیلیم جلول تھاؤندا۔ ‘‘

’’ہاں ہاں بیٹے!‘‘ پرکاش اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا، ’’جو تیرے دل میں آئے سو کھانا۔ ‘‘

اور کچھ دیر وہ خود کو، بالکنی کو اور یہاں تک کہ بچے کو بھی فراموش کیا ہوا سامنے دھند میں دیکھتا رہا۔

دھند کا پردہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگا، تو میلوں تک پھیلی ہریالی کے میدانوں کی دھندلی لکیریں واضح ہو اٹھیں۔

وہ دونوں گولف گراؤنڈ پار کر کے کلب کی طرف جا رہے تھے۔  چلتے ہوئے بچے نے پوچھا، ’’پاپا، آدمی کے دو ٹانگیں کیوں ہوتی ہیں؟ چار کیوں نہیں ہوتیں؟‘‘

پرکاش نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور کہا، ’’ارے!‘‘

’’کیوں پاپا۔ ‘‘ بچے بولا، ’’تم نے ارے کیوں کہا ہے؟‘‘

’’تو اتنا صاف بول سکتا ہے، تو اب تک تتلا کر کیوں بول رہا تھا؟‘‘ پرکاش نے اسے بانہوں میں اٹھا کر ایک عجوبے کی طرح سامنے کر لیا۔  بچہ کھلکھلا کر ہنسا۔ پرکاش کو لگا کہ یہ ویسی ہی ہنسی ہے، جیسی کبھی وہ خود ہنسا کرتا تھا۔ بچے کے چہرے کی لکیروں سے بھی اسے اپنے بچپن کے چہرے کی یاد آ گئی۔  اسے لگا جیسے اچانک اس کا تیس سال پہلے کا چہرہ اس کے سامنے آ گیا ہو اور وہ خود اُس چہرے کے سامنے ایک عجوبے کی طرح کھڑا ہو۔

’’ممی تو ایچھے ہی اچھا لدیتا ہے۔ ‘‘ بچے نے کہا۔

’’کیوں؟‘‘

’’میلے تو نہیں پتہ۔  آپ ممی چھے پوچھ لینا۔ ‘‘

’’تیری ممی تجھے زور سے ہنسنے سے بھی منع کرتی ہے؟‘‘ پرکاش کو وہ دن یاد آئے، جب اس کے کھلکھلا کر ہنسنے پر بینا کانوں پر ہاتھ رکھ لیا کرتی تھی۔

بچے کی بانہیں اس کی گردن پر مزید سخت ہو گئیں۔ ‘‘ ہاں۔ ‘‘ وہ بولا، ’’ممی تہتی ہے اچھے بچے جول چھے نہیں ہچھتے۔ ‘‘

پرکاش نے اسے بانہوں سے اتار دیا۔  بچہ اس کی انگلی پکڑے گھاس پر چلنے لگا۔  ’’تیوں پاپا۔ ‘‘ انہوں نے پوچھا، ’’اچھے بچے جول چھے توں نہیں ہچھتے؟‘‘

’’ہنستے ہیں بیٹا!‘‘ پرکاش نے اس کے سر کو سہلاتے ہوئے کہا، ’’سب اچھے بچے زور سے ہنستے ہیں۔ ‘‘

’’تو ممی میلے تو توں لوتتی ہے؟‘‘

’’اب وہ تجھے نہیں روکیں گی۔  اور تو تتلا کر نہیں ٹھیک سے بولا کر۔  تیری ممی تجھے اس کیلئے بھی منع نہیں کرے گی۔  میں اس سے کہہ دوں گا۔ ‘‘

’’تو تم نے پہلے ممی چھے، توں نہیں تہا؟‘‘

’’ایسے نہیں، کہہ کہ تم نے پہلے ممی سے کیوں نہیں کہا۔ ‘‘

بچہ پھر ہنس دیا، ’’تو تم نے پہلے ممی سے کیوں نہیں کہا؟‘‘

’’پہلے مجھے یاد نہیں رہا۔  اب یاد سے کہہ دوں گا۔ ‘‘

کچھ دیر دونوں چپ چاپ چلتے رہے۔  پھر بچے نے پوچھا، ’’پاپا، تم میری سالگرہ پارٹی میں کیوں نہیں آئے؟ ممی کہتی تھی تم ولایت گئے ہوئے تھے۔ ‘‘

’’ ہاں، میں ولایت گیا ہوا تھا۔ ‘‘

’’تو پاپا، اب تم ولایت نہیں جانا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’مجھے اچھا نہیں لگتا۔  ولایت جا کر تمہاری شکل اور ہی طرح کی ہو گئی ہے۔ ‘‘

پرکاش ایک روکھی سی ہنسی ہنسا، ’’کیسی ہو گئی ہے شکل؟‘‘

’’پتہ نہیں کیسی ہو گئی ہے؟ پہلے دوسری طرح کی تھی، اب دوسری طرح کی ہے۔ ‘‘

’’دوسری طرح کی کیسے؟‘‘

’’پتہ نہیں۔  پہلے تمہارے بال کالے کالے تھے۔  ابھی سفید سفید ہو گئے ہیں۔ ‘‘

’’تُو اتنے دن میرے پاس نہیں آیا، اسی لئے میرے بال سفید ہو گئے ہیں۔ ‘‘

بچہ اتنے زور سے ہنسا کہ اس کے قدم لڑکھڑا گئے۔ ‘‘پاپا، تم تو ولایت گئے ہوئے تھے۔ ‘‘ اس نے کہا، ’’میں تمہارے پاس کیسے آتا؟ میں کیا اکیلا ولایت جا سکتا ہوں؟‘‘

’’کیوں نہیں جا سکتا۔  تو اتنا بڑا تو ہے۔ ‘‘

’’میں سچ مچ بڑا ہوں نا پاپا؟‘‘ بچہ تالی بجاتا ہوا بولا، ’’تم یہ بات بھی ممی سے کہہ دینا۔  وہ کہتی ہے میں ابھی بہت چھوٹا ہوں۔ میں چھوٹا نہیں ہوں نہ پاپا!‘‘

’’نہیں، تو چھوٹا کہاں ہے؟‘‘ پرکاش میدان میں دوڑنے لگا، ’’اچھا بھاگ کر مجھے پکڑ۔ ‘‘

بچے اپنی چھوٹی چھوٹی ٹانگیں پٹکتا ہوا دوڑنے لگا۔  پرکاش کو پھر اپنے بچپن کی یاد آ گئی۔ تب ایک بار کسی نے اسے دوڑتے دیکھ کر کہا تھا، ’’ارے یہ بچہ کیسے ٹانگیں پٹک پٹک کر دوڑتا ہے! اسے ٹھیک سے چلنا نہیں آتا کیا؟‘‘

بچے کی انگلی پکڑے، پرکاش کلب کے بار روم میں داخل ہوا، تو بارمین عبداللہ اسے دیکھ کر دور سے مسکرایا۔  ’’صاحب کیلئے دو بوتل بیئر۔ ‘‘ اس نے پاس کھڑے بیرے سے کہا، ’’صاحب آج اپنے ساتھ ایک مہمان کو لایا ہے۔ ‘‘

’’بچے کیلئے ایک گلاس پانی دے دو۔ ‘‘ پرکاش نے کاؤنٹر کے پاس رک کر کہا، ’’اسے پیاس لگی ہے۔ ‘‘

’’خالی پانی؟‘‘ عبداللہ بچے کے گالوں کو پیار سے سہلانے لگا۔ ‘‘اور سب دوستوں کو تو صاحب بیئر پلاتا ہے اور اس بیچارے کو خالی پانی؟‘‘ اور پانی کی بوتل کھول کر وہ گلاس میں پانی ڈالنے لگا۔  جب وہ گلاس بچے کے منہ کے پاس لے گیا، تو بچے نے یہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، ’’میں اپنے آپ پیوں گا۔ ‘‘ اس نے کہا، ’’میں چھوٹا تھوڑے ہی ہوں؟ میں تو بڑا ہوں۔ ‘‘

’’تو بڑا ہے؟‘‘ عبداللہ ہنسا، ’’تب تو تجھے پانی دے کر میں نے غلطی کی ہے۔  بڑے لوگوں کو تو میں بیئر ہی پلاتا ہوں۔ ‘‘

’’بیئر کیا ہوتا ہے؟‘‘ بچے نے منہ سے گلاس ہٹا کر پوچھا۔

’’بیئر ہوتا نہیں، ہوتی ہے۔ ‘‘ عبداللہ نے جھک کر اس کا بوسہ لے لیا، ’’تجھے پلاؤں کیا؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘ کہہ کر بچے نے اپنی بانہیں پرکاش کی طرف پھیلا دیں۔  پرکاش اسے لے کر ڈیوڑھی کی طرف چلا، تو عبداللہ بھی ان دونوں کے ساتھ ساتھ باہر چلا آیا، ’’کس کا بچہ ہے، صاحب؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’میرا لڑکا ہے۔ ‘‘ کہہ کر پرکاش بچے کو سیڑھی سے نیچے اتارنے لگا۔

عبداللہ ہنس دیا۔ ‘‘صاحب بہت خوشدل آدمی ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا۔

’’کیوں؟‘‘

عبداللہ ہنستا ہوا سر ہلانے لگا، ’’آپ کا بھی جواب نہیں ہے۔ ‘‘

پرکاش کچھ کہنے کو ہوا، مگر پھر خود کو روک کر بچے کو لئے ہوئے آگے چل دیا۔  عبداللہ ڈیوڑھی میں رک کر پیچھے سے سر ہلاتا رہا۔ ویٹر شیر محمد اندر سے نکل کر آیا، تو وہ اور بھی کھل کر ہنس دیا۔

’’کیا بات ہے؟ اکیلا کھڑا کیوں ہنس رہا ہے؟‘‘ شیر محمد نے پوچھا۔

’’صاحب کا بھی جواب نہیں ہے۔ ‘‘ عبداللہ کسی طرح ہنسی پر قابو پا کر بولا۔

’’کس صاحب کا جواب نہیں ہے؟‘‘

’’اس صاحب کا۔ ‘‘ عبداللہ نے پرکاش کی طرف اشارہ کیا، ’’اس دن بولتا تھا کہ اس نے اسی سال شادی کی ہے اور آج بولتا ہے کہ یہ پانچ سال کا بابا، اس کا لڑکا ہے۔  جب آیا تھا، تو اکیلا تھا۔ اور آج اس کے لڑکا بھی ہو گیا۔ ‘‘ پرکاش نے ایک بار مڑ کر تیکھی نظروں سے اس کی طرف دیکھ لیا۔ عبداللہ ایک بار پھر کھلکھلا اٹھا، ’’ایسا خوشدل آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ‘‘

’’پاپا، گھاس ہری کیوں ہوتی ہے؟لال کیوں نہیں ہوتی؟‘‘ کلب سے نکل کر پرکاش نے بچے کو ایک گھوڑا کرائے پرلے دیا تھا۔  لنین مارگ کو جانے والی پگڈنڈی پر وہ خود اس کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہا تھا۔ گھاس کی ریشمی وسعتوں پر دھند کا آسمان اس طرح جھکا تھا، جیسے من کی امڈتی اشتہا اسے خود کو دبا دینے کیلئے مجبور کر رہی ہو۔  بچہ پر تجسس آنکھوں سے آس پاس کی پہاڑیوں اور سامنے سے بہہ کر جاتی پانی کی پتلی دھار کو دیکھ رہا تھا۔ کبھی کچھ پل وہ خود کو بھولا رہتا، پھر اپنے اندر کے کسی جذبے سے متاثر ہو کر کاٹھی پر اچھلنے لگتا۔

’’ہر چیز کا اپنا رنگ ہوتا ہے۔ ‘‘ پرکاش نے بچے کی ران کو ہاتھ سے دبائے ہوئے کہا اور کچھ دیر خود بھی ہریالی کی وسعتوں میں کھویا رہا۔

’’ہر چیز کا اپنا رنگ کیوں ہے؟‘‘

’’کیونکہ قدرت نے ہر چیز کا اپنا رنگ بنا دیا ہے۔ ‘‘

’’قدرت کیا ہوتی ہے؟‘‘

پرکاش نے جھک کر اس کی ران کو چوم لیا، ’’قدرت یہ ہوتی ہے۔ ‘‘ اس نے کہا۔  ران پر گدگدی ہونے سے بچہ بھی ہنسنے لگا۔

’’تم جھوٹ بولتے ہو۔ ‘‘ اس نے کہا۔

’’کیوں؟‘‘

’’تمہیں اس کا پتہ ہی نہیں ہے۔ ‘‘

’’اچھا، تو تُو بتا، گھاس کا رنگ ہرا کیوں ہوتا ہے؟‘‘

’’گھاس مٹی کے اندر سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے اس کا رنگ ہرا ہوتا ہے۔ ‘‘

’’اچھا؟ تجھے اس کا کیسے پتہ چل گیا؟‘‘

بچہ اچھلتا ہوا لگام کو جھٹکنے لگا، ’’میرے کو ممی نے بتایا تھا۔ ‘‘

پرکاش کے ہونٹوں پر ایک ادھوری سی مسکراہٹ آ گئی۔  اسے لگا جیسے آج بھی اس کے اور بینا کے بیچ ایک دوبدو جنگ چل رہی ہو اور بینا اس دوبدو جنگ میں اس پر بھاری پڑنے کی کوشش کر رہی ہو، ’’تیری ممی نے تجھے اور کیا کیا بتا رکھا ہے؟‘‘

وہ بولا، ’’یہ بھی بتا رکھا ہے کہ آدمی کے دو ٹانگیں کیوں ہوتی ہیں اور چار کیوں نہیں؟‘‘

’’ ہاں۔  ممی کہتی تھی کہ آدمی کے دو ٹانگیں اس لئے ہوتی ہیں کہ وہ آدھا زمین پر چلتا ہے، آدھا آسمان میں۔ ‘‘

’’اچھا؟‘‘پرکاش کے ہونٹوں پر ہنسی اور دل میں اداسی کی ایک لکیر پھیل گئی، ’’مجھے اس کا پتہ نہیں تھا۔ ‘‘

’’تمہیں تو کسی بات کا بھی پتہ نہیں ہے، پاپا!‘‘ بچہ بولا، ’’اتنے بڑے ہو کر بھی پتہ نہیں ہے!‘‘

گھاس، برف اور آسمان کے رنگ دن میں کئی کئی بار بدل جاتے تھے۔  بدلتے رنگوں کے ساتھ دل میں بھی کچھ سے کچھ ہونے لگتا تھا۔ صبح اٹھتے ہی پرکاش بچے کے آنے کا انتظار کرنے لگتا۔  بار بار وہ بالکنی پر جاتا اور ٹورسٹ ہوٹل کی طرف دیکھتا ہوا کافی دیر تک وہاں کھڑا رہتا۔ ناشتہ یا کھانا کھانے کیلئے بھی وہ وہاں سے نہیں ہٹنا چاہتا تھا۔  اسے ڈر تھا کہ بچہ اس دوران وہاں آ کر لوٹ نہ جائے۔ تین دن میں اسے ساتھ لیے وہ کتنی ہی بار گھومنے گیا تھا، اس کے گھوڑے کے پیچھے دوڑا تھا اور اس کے ساتھ گھاس پر لوٹتا رہا تھا۔  بچہ جان بوجھ کر رستے کی کیچڑ میں اپنے پاؤں لت پت کر لیتا اور منہ بسور کے کہتا، ’’پاپا، پاؤں دھو دو۔ ‘‘ وہ اسے اٹھائے ادھر ادھر پانی ڈھونڈتا پھرتا۔ بچے کو وہ جس کسی زاویے سے دیکھتا، اسی زاویے سے اس کی تصویر  لے لینا چاہتا۔ جب بچہ تھک جاتا اور لوٹ کر اپنی ممی کے پاس جانے کی ضد کرنے لگتا، تو وہ اسے طرح طرح کے لالچ دے کر اپنے پاس روک رکھنا چاہتا۔ ایک بار اس نے بچے کو اپنی ماں کے ساتھ دور سے آتے دیکھا اور اتر کر نیچے چلا گیا۔  جب وہ پاس پہنچا، تو بچہ دوڑ کر اس کی طرف آنے کے بجائے، ماں کے ساتھ فوٹو گرافر کی دکان کے اندر چلا گیا۔ وہ کچھ دیر سڑک پر رکا رہا، پھر یہ سوچ کر اوپر چلا آیا کہ فوٹوگرافر کی دکان سے نکل کر بچہ اپنے آپ آئے گا۔ مگر بالکنی پر کھڑے کھڑے اس نے دیکھا کہ بچہ دکان سے نکل کر اس کی طرف آنے کے بجائے ضد کے ساتھ اپنی ماں کا ہاتھ کھینچتا ہوا اسے واپس ٹورسٹ ہوٹل کی طرف لے جا رہا ہے۔  اس کا دل چاہا کہ پھر نیچے جا کر بچے کو اپنے ساتھ لے آئے، مگر کوئی چیز اس کے قدموں کو روکے رہی اور وہ وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ شام تک نہ جانے کتنی بار وہ بالکنی پر آیا اور کتنی کتنی دیر وہاں کھڑا رہا۔ آخر اس سے نہیں رہا گیا، تو اس نے نیچے جا کر کچھ چیریاں خریدیں اور بچے کو دینے کے بہانے ٹورسٹ ہوٹل کی طرف چل دیا۔ ابھی وہ ٹورسٹ ہوٹل سے کچھ فاصلے پر تھا کہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ باہر آتا دکھائی دیا۔  مگر اس پر نظر پڑتے ہی وہ واپس ہوٹل کی گیلری میں بھاگ گیا۔

پرکاش جہاں تھا، وہیں کھڑا رہا۔  لمحے بھر کیلئے اس کی نظریں بینا سے ملیں۔  اسے لگا کہ بینا کا چہرہ پہلے سے کچھ سانولا ہو گیا ہے اور اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ابھر آئے ہیں۔  وہ پہلے سے کافی دبلی بھی لگ رہی تھی۔ کچھ لمحے ٹھہرے رہنے کے بعد پرکاش آگے بڑھ گیا اور چیری والا لفافہ بینا کی طرف بڑھا کے سوکھے گلے سے بولا، ’’یہ میں بچے کیلئے لایا تھا۔ ‘‘

بینا نے لفافہ لیا، مگر لیتے ہوئے اس کی آنکھیں دوسری طرف مڑ گئیں۔  ’’پلاش!‘‘ اس نے کچھ لڑکھڑاتی آواز میں بچے کو پکارا، ’’یہ لے، پاپا تیرے لئے چیری لائے ہیں۔ ‘‘

’’میں نہیں لیتا۔ ‘‘ بچے نے گیلری سے کہا اور بھاگ کر اور بھی دور چلا گیا۔

بینا نے ایک بے بس نظر بچے پر ڈالی اور  پرکاش کی طرف دیکھ کر بولی، ’’کہتا ہے، میں پاپا سے نہیں بولوں گا۔  وہ صبح ٹھہرے کیوں نہیں، چلے کیوں گئے؟‘‘

پرکاش، بینا کو جواب دیئے بغیر گیلری میں چلا گیا اور کچھ دور بچے کا پیچھا کر کے اس نے اسے بانہوں میں اٹھا لیا، ’’میں تم نہیں بولوں گا، کبھی نہیں بولوں گا۔ ‘‘ بچہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتا، کہتا رہا۔

’’ایسی کیا بات ہے؟‘‘ پرکاش اسے پچکارنے کی کوشش کرنے لگا، ’’پاپا سے اس طرح ناراض ہوتے ہیں کیا؟‘‘

’’تم نے میری تصویریں کیوں نہیں دیکھیں؟‘‘

’’کہاں تھی تیری تصویریں؟ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔ ‘‘

’’پتہ کیوں نہیں تھا؟ تم دکان کے باہر سے ہی کیوں چلے گئے تھے؟‘‘

’’اچھا لا، پہلے تیری تصویریں دیکھیں گے، پھر گھومنے چلیں گے۔ ‘‘

’’یہ صبح آپ کو دکھانے کیلئے ہی تصویریں لینے گیا تھا۔ ‘‘ بینا کے ساتھ کھڑی ایک نوجوان عورت نے کہا۔  پرکاش نے دھیان نہیں دیا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔

’’تصویریں میرے پاس تھوڑے ہی ہیں؟ اسی کے پاس ہیں۔ ‘‘

’’صبح فوٹوگرافر نے نگیٹوز دکھائے تھے، پازیٹو وہ اب اِس وقت دے گا۔ ‘‘ اسی عورت نے پھر کہا۔

’’تو چل، پہلے دکان پر چل کر تیری تصویریں لے لیں۔  دیکھیں تو سہی کیسی تصویریں ہیں!‘‘

’’میں ممی کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ ‘‘ بچے نے اس کی بانہوں میں مچلتے ہوئے کہا۔

’’ ہاں، ہاں، تیری ممی بھی ساتھ آ رہی ہے۔ ‘‘ کہتے ہوئے پرکاش نے ایک بار بینا کی طرف دیکھ لیا۔  بینا ہونٹ دانتوں میں دبائے آنکھیں جھپک رہی تھی۔ وہ چپ چاپ اس کے ساتھ چل دی۔

فوٹوگرافر کی دکان میں داخل ہوتے ہی بچہ پرکاش کی بانہوں سے اتر گیا اور فوٹوگرافر سے بولا، ’’میرے پاپا کو میری تصویریں دکھائیں۔ ‘‘ فوٹوگرافر نے تصویریں نکال کر میز پر پھیلا دیں، تو بچہ ایک ایک تصویر اٹھا کر پرکاش کو دکھانے لگا، ’’دیکھو پاپا، یہ وہیں کی تصویر ہے نہ جہاں سے تم نے کہا تھا، سارا کشمیر نظر آتا ہے؟ اور یہ تصویر بھی دیکھو، جو تم نے میری گھوڑے پر بیٹھے ہوئے اتاری تھی۔ ‘‘

’’دو دن سے بالکل صاف بول رہا ہے۔ ‘‘ بینا کی ساتھی عورت نے کہا، ’’کہتا ہے پاپا نے کہا ہے تو بڑا ہو گیا ہے، اس لئے اب تتلا کر مت بولا کر۔ ‘‘

پرکاش نے کچھ نہ کہا، بس تصویریں دیکھتا رہا۔  پھر دس کا ایک نوٹ نکال کر فوٹو گرافر کو دیتے ہوئے کہا، ’’اس میں سے آپ اپنے پیسے کاٹ لیجئے!‘‘

فوٹوگرافر لمحے بھر متذبذب سا اسے دیکھتا رہا۔  پھر بولا، ’’پیسے تو ابھی آپ ہی کے میری طرف نکلتے ہیں۔  میم صاحب نے جو بیس روپے دیئے تھے، ان میں سے دو ایک روپے ابھی بچتے ہوں گے۔  کہیں تو ابھی حساب کر دوں۔ ‘‘

’’نہیں، رہنے دو حساب بعد میں ہو جائے گا۔ ‘‘ کہہ کر پرکاش نے نوٹ واپس جیب میں رکھ لیا اور بچے کی انگلی پکڑے دکان سے باہر نکل آیا۔  کچھ قدم چلنے پر پیچھے سے بینا کی آواز سنائی دی، ’’یہ آپ کے ساتھ گھومنے جا رہا ہے؟‘‘

’’ ہاں!‘‘ پرکاش نے تھوڑا چونک کر پیچھے دیکھ لیا، ’’میں ابھی تھوڑی دیر میں اسے واپس چھوڑ جاؤں گا۔ ‘‘

’’دیکھئے، آپ سے ایک بات کہنی تھی۔۔ ۔۔ ‘‘

’’کہئے۔۔ ۔ ‘‘

بینا لمحے بھر کو کچھ سوچتی ہوئی خاموش رہی۔  پھر بولی، ’’اسے ایسی کوئی بات مت بتائیے گا جس سے یہ۔۔ ۔ ‘‘

پرکاش کو لگا جیسے کوئی سرد چیز اس کے اعصاب پر چھا گئی ہو۔  اس کی آنکھیں جھک گئیں اور اس نے آہستہ سے کہا، ’’نہیں، میں ایسی کوئی بات اس سے نہیں کہوں گا۔ ‘‘ اسے افسوس ہوا کہ ایک دن پہلے جب بچہ ضد کر کے کہہ رہا تھا کہ ’’پاپا‘‘ اور ’’پتا جی‘‘ایک ہی شخص کو نہیں کہتے، ’’پاپا‘‘کو پاپا کہتے ہیں اور پتا جی ’’ ممی کے پاپا‘‘ کو۔ تو وہ کیوں اس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔

وہ اکیلا بچوں کے ساتھ کلب کی سڑک پر چلنے لگا، تو کچھ دور جا کر بچہ اچانک رک گیا، ’’ہم کہاں جا رہے ہیں، پاپا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’پہلے کلب چل رہے ہیں۔ ‘‘اس نے کہا، ’’وہاں سے گھوڑا لے کر آگے گھومنے جائیں گے۔ ‘‘

’’نہیں، میں وہاں اس آدمی کے پاس نہیں جاؤں گا۔ ‘‘ یہ کہہ کر بچہ اچانک پیچھے کی طرف چل دیا۔

’’کس آدمی کے پاس؟‘‘

’’وہ جو وہاں کلب میں تھا۔  میں اس کے ہاتھ سے پانی بھی نہیں پیوں گا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’مجھے وہ آدمی اچھا نہیں لگتا۔ ‘‘

پرکاش لمحے بھر کیلئے بچے کو دیکھتا رہا، پھر اس کی طرف مڑ آیا۔  ’’ ہاں، ہم اس آدمی کے پاس نہیں چلیں گے۔ ‘‘ اس نے کہا، ’’مجھے بھی وہ آدمی اچھا نہیں لگتا۔ ‘‘

بہت دنوں کے بعد اس رات پرکاش کو گہری نیند آئی۔  ایسی نیند، جس میں خواب دکھائی نہ دیں، جو اس کیلئے تقریباً بھولی ہوئی چیز ہو چکی تھی۔  پھر بھی جاگنے پر اسے خود میں تازگی کا احساس نہیں ہوا، احساس ہوا ایک خالی پن کا۔ جیسے کوئی چیز اس کے اندر ابلتی رہی ہو، جو گہری نیند سو لینے سے غائب ہو گئی ہو۔  روز ہی کی طرح اٹھ کر وہ بالکنی پر گیا۔ دیکھا آسمان صاف ہے۔ رات کو سویا تھا، تو بارش ہو رہی تھی۔ مگر اس دھلے نکھرے آسمان کو دیکھ کر احساس تک نہیں ہوتا تھا کہ کبھی وہاں بادل بھی گھرے رہتے تھے۔  سامنے کی پہاڑیاں صبح کی دھوپ میں دھل کر اجلی ہو اٹھی تھیں۔

وہ کافی دیر وہاں کھڑا رہا۔ اپنی تازگی میں بے عملی کا مشاہدہ کرتا ہوا۔  پھر دور اٹھتے بادلوں کی طرح کوئی چیز اسے اپنے میں امڈتی محسوس ہونے لگی اور اس کا دل ایک دبے دبے سی خدشے سے دہل گیا۔  کہیں ایسا تو نہیں کہ۔۔ ۔؟

وہ بالکنی سے ہٹ آیا۔  پچھلی شام بچے نے اسے بتایا تھا۔  اس کی ممی کہہ رہی تھی کہ دن صاف ہوا، تو وہ لوگ صبح وہاں سے چلے جائیں گے۔  رات کو جیسی بارش ہو رہی تھی، اس سے صبح تک آسمان کھلنے کی کوئی امید نہیں لگتی تھی۔  اس لئے سوتے وقت وہ اس طرف سے تقریباً لاپروا ہو گیا تھا۔ مگر رات بھر میں آسمان کا رنگ روپ بالکل بدل گیا تھا۔  تو کیا واقعی آج وہ لوگ وہاں سے چلے جائیں گے؟

اس نے کمرے میں بکھرے سامان کو دیکھا کچھ جانی پہچانی چیزیں تھیں۔  چاہا کہ انہیں سنبھال کر رکھ دے، مگر کسی بھی چیز کو رکھنے اٹھانے کو من نہیں ہوا۔  بستر کو دیکھا۔ اس میں روز کے مقابلے میں بہت کم سلوٹیں تھیں۔ لگا جیسے رات کی گہری نیند کیلئے وہ بستر ہی قصور وار ہو اور گہری نیند، برستے آسمان کے صاف ہو جانے کے لئے!

آہستہ آہستہ دوپہر ہونے لگی۔  اس سے اس کے دل کو کچھ سہارا ملا۔  وہ چاہ رہا تھا کہ اسی طرح شام ہو جائے اور پھر رات اور بچہ اس سے وداع لینے نہ آئے۔  مگر جب دوپہر بھی ڈھلنے لگی اور بچہ نہیں آیا، تو اس کے من میں ایک اور خدشہ سر اٹھانے لگا۔  کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی ممی صبح صبح ہی اسے لے کر وہاں سے چلی گئی ہو؟

وہ بار بار بالکنی پر جاتا ایک دھڑکتی امید لیے۔  بار بار ٹورسٹ ہوٹل کی سڑک پر نظریں دوڑاتا اور پہلے سے زیادہ لڑکھڑاتا ہوا کمرے میں واپس آتا۔  اس کی شریانوں میں خون کی ہر ایک بوند مضطرب اور گھبرائی ہوئی تھی۔ اس نے صبح سے کچھ کھایا نہیں تھا، لہٰذا بھوک بھی اسے پریشان کر رہی تھی۔  کچھ دیر بعد کمرا بند کر کے وہ کھانا کھانے چلا گیا۔ بڑے بڑے نوالے نگل کر کسی طرح دو روٹیاں حلق سے اتاریں اور فوری طور پر واپس چلا آیا۔ مگر اتنی دیر بھی کمرے سے باہر رہنا اسے ایک جرم سا لگ رہا تھا۔  لوٹتے ہوئے اس نے سوچا کہ اسے خود جا کر ٹورسٹ ہوٹل سے معلوم کر لینا چاہئے۔ مگر سڑک کی چڑھائی چڑھتے ہوئے اس نے دور سے دیکھا۔ بینا بچے کے ساتھ اس کی بالکنی کے نیچے سڑک پر کھڑی تھی۔

وہ تیز تیز چل کر ان کے پاس پہنچ گیا۔  مگر بچے نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ اپنی ماں کا ہاتھ کھینچتا ہوا کسی چیز کیلئے ضد کر رہا تھا۔  پرکاش نے اس کا بازو ہاتھ میں لیا، تو وہ بازو چھڑانے کیلئے زمین پر لوٹنے لگا، ’’میں تمہارے گھر نہیں جاؤں گا۔ ‘‘ اس نے لگ بھگ چیخ کر کہا۔ پرکاش بھونچکا رہ گیا اور اس کا بازو چھوڑ کر شرمندہ سا کھڑا رہا۔

’’مجھ سے ناراض ہے کیا؟‘‘ اس نے دونوں میں سے کسی کی بھی طرف دیکھے بغیر پوچھ لیا۔

’’ممی، میرے ساتھ اوپر کیوں نہیں چلتی؟‘‘ بچہ اسی طرح چلایا۔

پرکاش اور بینا کی آنکھیں ملنے کو ہوئیں، مگر پوری طرح نہیں مل پائیں۔  پرکاش نے بچے کا بازو پھر سے ہاتھ میں لے لیا اور غیر جانبدار انہ انداز میں بینا سے کہا، ’’آپ بھی آ جائیے نا!‘‘

’’اسے آج جانے کیا ہوا!‘‘ بینا کچھ جھنجھلاہٹ کے ساتھ بولی، ’’صبح سے بات بات پر تنگ کر رہا ہے!‘‘

’’اس وقت یہ اکیلا میرے ساتھ اوپر نہیں جائے گا۔ ‘‘ پرکاش نے لہجے کی غیر جانبداری اب بھی برقرار رکھی۔

’’چل، میں تجھے زینے تک پہنچا دیتی ہوں۔ ‘‘ بینا جواب گول کر کے، بچے سے بولی، ’’اوپر سے جلدی لوٹ آنا۔  گھوڑے والے ادھر تیار کھڑے ہیں۔ ‘‘

پرکاش کو دل میں ایک نشتر سا چبھتا محسوس ہوا۔  مگر جلد ہی اس نے خود کو سنبھال لیا، ’’آپ لوگ آج ہی جا رہے ہیں؟‘‘ اس نے کوشش کی کہ لفظوں سے اس کے دل کے تاثرات ظاہر نہ ہو۔

’’ ہاں۔ ‘‘ بینا دوسری طرف دیکھتی رہی، ’’جانا تو صبح ہی تھا، مگر اس کی ضد کی وجہ سے اتنی دیر ہو گئی۔  اب بھی یہ۔۔ ۔ ‘‘ اور بات درمیان میں ہی چھوڑ کر اس نے بچے سے پھر کہا، ’’چل، تجھے زینے تک پہنچا دوں۔ ‘‘

بچہ، پرکاش کے ہاتھ سے بازو چھڑا کر کچھ دور بھاگ گیا، ’’میں نہیں جاؤں گا۔ ‘‘ اس نے کہا۔

’’اچھا آ۔ ‘‘ بینا بولی، ’’میں تجھے اوپر پہنچا دیتی ہوں۔ اس دن کی طرح۔ ‘‘

’’میں نہیں جاؤں گا۔ ‘‘ اور بچہ کچھ قدم اور دور چلا گیا۔

’’آپ اوپر کیوں نہیں آ جاتیں؟ یہ اس طرح اپنی ضد نہیں چھوڑے گا۔ ‘‘پرکاش نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔  بینا نے آنکھ جھپکنے تک اس کی طرف دیکھ لیا۔ اس نظر میں ایک تیکھا چبھتا احساس تھا۔ مگر آنکھ جھپکنے کے ساتھ ہی وہ احساس دھل گیا اور اس نے خود کو سنبھال لیا۔  اس کے چہرے پر ایک سختی آ گئی اور اس نے بچے کو بانہوں میں اٹھا لیا، ’’چل، میں تیرے ساتھ چلتی ہوں۔ ‘‘ اس نے کہا۔

بچے کی روہانسی آواز ہنسی میں تبدیل ہو گئی اور اس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ پرکاش ان سے آگے آگے زینہ چڑھنے لگا۔

اوپر پہنچ کر بینا نے بچے کو بانہوں سے اتار دیا اور کہا، ’’لے اب میں جا رہی ہوں۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘بچے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’تم یہیں رہو۔ ‘‘

’’بیٹھ جائیے نا۔ ‘‘ پرکاش نے کرسی پر پڑی دو ایک چیزیں جلدی سے ہٹا دیں اور کرسی بینا کی طرف بڑھا دی۔  بینا کرسی پر نہیں بیٹھی، وہ چارپائی کے کونے پر بیٹھ گئی۔ تبھی بچے کا دھیان نہ جانے کس چیز نے کھینچ لیا۔  وہ ان دونوں کو چھوڑ کر بالکنی میں چلا گیا اور وہاں سے اچک اچک کر سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔

پرکاش کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھے جیسے کھڑا تھا، ویسے ہی کھڑا رہا۔  بینا چارپائی کے کونے میں اور بھی سمٹ کر دیوار کی طرف دیکھنے لگی۔ بے دھیانی کے ایک لمحے میں ان کی آنکھیں مل گئیں تو بینا نے اپنی پوری طاقت کو جمع کر کے پوچھ لیا، ’’کل اس کی جیب میں کچھ پیسے ملے تھے۔  وہ آپ نے رکھے تھے؟‘‘

’’ ہاں۔ ‘‘ پرکاش نے اٹکتی آواز سے کہا، ’’سوچا، ان سے یہ۔۔ ۔ کوئی چیز بنوا لے گا۔ ‘‘

بینا لمحے بھر کو چپ رہی۔  پھر بولی، ’’کیا چیز بنوانی ہو گی؟‘‘

’’کوئی بھی چیز۔  کوئی اچھا سا اوور کوٹ یا۔۔ ۔ ‘‘

کچھ دیر کیلئے خاموشی رہی۔  پھر بینا نے پوچھ لیا، ’’کیسا کوٹ بنوانا ہو گا؟‘‘

’’کیسا بھی۔  جیسا اسے اچھا لگے، یا۔۔ ۔ یا جیسا آپ ٹھیک سمجھیں۔ ‘‘

’’کوئی خاص قسم کا کپڑا لینا ہو تو بتا دیجئے۔ ‘‘

’’خاص کپڑا کوئی نہیں۔۔ ۔ کیسا بھی ہو۔ ‘‘

’’کوئی خاص رنگ۔۔ ۔؟‘‘

’’نہیں۔۔ ۔  ہاں۔۔ ۔ نیلے رنگ کا ہو، تو زیادہ اچھا ہے۔ ‘‘ کہہ کر پرکاش کو تھوڑا افسوس ہوا۔  اسے پتہ تھا بینا کو نیلا رنگ پسند نہیں ہیں۔

بچہ اچھلتا ہوا بالکنی سے لوٹ آیا اور بینا کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’اب چلو۔ ‘‘

’’پاپا سے پیار تو کیا نہیں اور آتے ہی چل بھی دیا؟‘‘ پرکاش نے اسے بانہوں میں لے لیا۔  بچے نے اس کے لبوں سے ہونٹ ملا کے ایک بار اچھی طرح اسے چوم لیا اور پھر جھٹ سے اس کی بانہوں سے نکل کر ماں سے کہا، ’’اب چلو۔ ‘‘

بینا چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔  بچہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کی طرف کھینچنے لگا، ’’تلو نہ ممی دیل ہو لہی ہے۔ ‘‘ وہ پھر تتلانے لگا اور بینا کو ساتھ کھینچتا ہوا دہلیز پار کر گیا۔

’’تو جا کر پاپا کو خط لکھے گا نہ؟‘‘ پرکاش نے پیچھے سے آواز دی۔

’’لتھوندا۔ ‘‘ مگر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا ایک بار بینا نے اور فوری طور پر نظریں ہٹا لیں۔  آنکھوں کے کونوں میں اٹکے آنسو اس نے بہنے نہیں دئیے، ’’تو نے پاپا کو ٹا ٹا نہیں کیا۔ ‘‘ اس نے بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔

’’ٹاٹا پاپا!‘‘ بچے نے پیچھے دیکھے بغیر ہاتھ ہلایا اور زینے سے بینا اترنے لگی۔ آدھے زینے سے پھر اس کی آواز سنائی دی، ’’پاپا کا دھل اچھا ہے ممی، ہمالا دھل اچھا ہے۔  پاپا تے دھل میں تو کچھ چھامان ہی نہیں ہے۔۔ ۔!‘‘

’’تو اب چپ کرے گا کہ نہیں!‘‘ بینا نے اسے جھڑک دیا، ’’جو منہ میں آتا ہے بولتا جاتا ہے۔ ‘‘

’’نہیں تپ تلوندا، نہیں تلوندا تپ۔۔ ۔ ‘‘ بچے کی آواز روہانسی سی ہو گئی اور وہ تیز تیز نیچے اترنے لگا۔  ’’پاپا کا دھل دندا! پاپا کا دھل تھو۔۔ ۔!‘‘

رات ہوتے ہوتے آسمان پھر بھر گیا۔  پرکاش کلب کے بار روم میں بیٹھا ایک کے بعد ایک بیئر کی بوتلیں خالی کرتا رہا۔ بار مین عبداللہ لوگوں کے لئے رم اور وہسکی کے پیگ بناتا ہوا بار بار کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھ لیتا۔  اتنے دنوں میں پہلی بار وہ پرکاش کو اس طرح پیتے دیکھ رہا تھا۔ ’’لگتا ہے آج صاحب نے کہیں سے بڑا مال مارا ہے۔ ‘‘ اس نے ایک آدھ بار شیر محمد سے کہا، ’’پہلے کبھی ایک بوتل سے زیادہ نہیں پیتا تھا، اور آج چار چار بوتلیں پی کر بھی بس کرنے کا نام نہیں لے رہا۔ ‘‘

شیر محمد نے بس منہ چڑا دیا اور اپنے کام میں لگا رہا۔

پرکاش کی نظریں عبداللہ سے ملیں، تو عبداللہ مسکرا دیا۔ پرکاش کچھ لمحے اس طرح اسے دیکھتا رہا، جیسے وہ کوئی آدمی نہ ہو بلکہ ایک دھندلی سی پرچھائیں ہو اور سامنے موجود گلاس پرے سرکا کے اٹھ کھڑا ہوا۔  کاؤنٹر کے پاس جا کر اس نے دس دس کے دو نوٹ عبداللہ کے سامنے رکھ دیے۔ عبداللہ بقایا پیسے گنتا ہوا خوشامدی لہجے میں بولا، ’’آج صاحب بہت خوش نظر آتا ہے۔ ‘‘

’’ ہاں۔ ‘‘ پرکاش اس طرح اسے دیکھتا رہا جیسے اس کے سامنے سے وہ پرچھائیں دھندلی ہو کر بادلوں میں گم ہوتی جا رہی ہو۔  وہ چلنے کو ہوا، تو عبداللہ نے پہلے سلام کیا، پھر آہستہ سے پوچھ لیا، ’’کیوں صاحب، وہ کون بچہ تھا اس دن آپ کے ساتھ؟ کس کا لڑکا ہے وہ؟‘‘

روشنی کو لگا جیسے وہ پرچھائیں اب بالکل گم ہو گئی ہو اور سامنے صرف بادل ہی بادل گھرا رہ گیا ہو۔  اس نے جیسے بادل کو چیر کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’کون لڑکا؟‘‘

’’عبداللہ لمحے بھر کو بھونچکا سا ہو گیا۔  پھر کھلکھلا کر ہنس پڑا، ’’تب تو میں نے شیر محمد سے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔ ۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’کہ صاحب طبیعت کا بادشاہ ہے۔  جب چاہے کسی کے لڑکے کو اپنا لڑکا بنا لے اور جب چاہے۔۔ ۔ یہاں گل مرگ میں یہ سب چلتا ہے۔  آپ جیسا ہمارا ایک اور صاحب ہے۔۔ ۔ ‘‘

پرکاش کو لگا کہ بادل بیچ سے پھٹ گیا ہے اور چیلوں کی کئی قطاریں اس سوراخ میں سے ہو کر دور اڑی جا رہی ہیں۔ وہ چاہ رہا ہے کہ سوراخ کسی طرح بھر جائے، جس سے وہ قطاریں آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں، مگر سوراخ کا منہ آہستہ آہستہ مزید بڑا ہوتا جا رہا ہے۔  اس کے گلے سے ایک مبہم سی آواز نکلی اور وہ عبداللہ کی طرف سے آنکھیں ہٹا کر وہاں سے چل دیا۔

’’صرف ایک بازی اور۔۔ ۔!‘‘ اپنی آواز کی گونج پرکاش کو خود اجنبی سی لگی۔  اس کے ساتھیوں نے ہلکا سا احتجاج کیا، مگر پتے ایک بار پھر بٹنے لگے۔

کارڈ روم اس وقت تک لگ بھگ خالی ہو چکا تھا۔  کچھ دیر پہلے تک وہاں کافی چہل پہل تھی۔ کئی ایک نازک ہاتھوں سے پتوں کی نازک چالیں چلی جا رہی تھیں اور تپائیوں پر شیشے کے نازک گلاس رکھے اٹھائے جا رہے تھے۔  مگر اب آس پاس، چار چار خالی کرسیاں سے گھری چوکور میزیں ہی رہ گئی تھیں، جو بہت اکیلی اور اداس لگ رہی تھیں۔ پالش کی چمک کے باوجود ان میں ایک ویرانی ابھر آئی تھی۔  دیواری آتش دان کی آگ کب کی ٹھنڈی پڑ چکی تھی۔ جالی کے اس طرف کچھ بجھے ادھ بجھے انگارے بھر ہی رہ گئے تھے۔ سردی سے ٹھٹھر کر سیاہ پڑتے اور راکھ میں گم ہوتے ہوئے۔

اس نے پتے اٹھا لیے۔  ہر بار کی طرح اس بار بھی تمام بے میل پتے تھے۔ ایسی بازی کہ آدمی چپ چاپ پھینک کر الگ ہو جائے۔  مگر اسی کے زور دینے سے پتے بٹے تھے، اس لئے وہ انہیں پھینک نہیں سکتا تھا۔ اس نے نیچے سے پتہ اٹھایا، تو وہ اور بھی بے میل تھا۔  ہاتھ سے کوئی بھی پتہ چل کر وہ ان پتوں کا میل بٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔

باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ گزشتہ رات کی بارش سے بھی تیز۔ کھڑکی کے شیشوں سے ٹکراتی بوندیں ایک چیلنج لئے آتیں مگر بے بس ہو کر نیچے ڈھلک جاتیں۔  انہیں دیکھ کر لگتا، جیسے بہت سے چہرے کھڑکی کے ساتھ لگ کر لگاتار آنسو بہا رہے ہوں۔ کسی لمحے ہوا سے کواڑ ہل جاتے، تو وہ چہرے جیسے ہچکیاں لینے لگتے۔ ہچکیاں بند ہونے پر غصے سے گھورنے لگتے۔  ان چہروں کے پیچھے گہرا اندھیرا تھا۔ جہاں لگتا تھا، کوئی چیز تڑپتی ہوئی دم توڑ رہی ہے۔

’’ڈکلیئر!‘‘ پرکاش چونک گیا۔  اس کے ہاتھ کی پتوں میں اب بھی کوئی میل نہیں تھا۔ اس بار بھی اسے فل ہینڈ دینا تھا۔  پتے پھینک کر اس نے پیچھے ٹیک لگا لی اور پھر کھڑکی سے لگے چہروں کو دیکھنے لگا۔

’’تم بہت خوش قسمت آدمی ہو پرکاش، ہم میں سب سے خوش قسمت تم ہی ہو۔۔ ۔!‘‘پرکاش کی آنکھیں کھڑکی سے ہٹ گئیں۔  پتے اٹھا کر رکھ دیئے گئے تھے اور میز پر ہار جیت کا حساب کیا جا رہا تھا۔ حساب کرنے والا آدمی ہی اس سے کہہ رہا تھا، ’’کہتے ہیں نہ، جو پتوں میں بد نصیب ہو، وہ زندگی میں خوش قسمت ہوتا ہے! اب دیکھ لو سب سے زیادہ تم ہی نقصان اٹھانے والے ہو، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ سب سے خوش قسمت آدمی تم ہی ہو۔ ‘‘

پرکاش نے اپنے نام کے آگے لکھی رقم کو دیکھا۔  لمحے بھر کے لئے اس کی دھڑکن بڑھ گئی کہ جیب میں اتنے پیسے ہیں بھی یا نہیں۔  اس نے پوری جیب خالی کر لی۔ تقریباً ہاری ہوئی رقم کے برابر ہی پیسے تھے۔ رقم ادا کر دینے کے بعد دو ایک چھوٹے سکے ہی اس کے پاس بچے۔ اور ان کے ساتھ وہ خط جو شام کی ڈاک سے آیا تھا اور جسے جیب میں رکھ کر وہ کلب چلا آیا تھا۔  خط نرملا کا تھا، جو اس نے اب تک کھول کر پڑھا نہیں تھا۔ جیب میں پڑے پڑے وہ کافی مڑ تڑ گیا تھا۔ نرملا کے حروف پر نظر پڑتے ہی اس کے کئی کئی چہرے اس کے سامنے ابھر کر آنے لگے۔ اس کے ہاتھ کا ایک ایک حرف جیسے ایک ایک چہرہ ہو! گھر سے روانگی کے دن بھی وہ اس کے کتنے کتنے چہرے دیکھ کر آیا تھا۔  ایک چہرہ ہنس رہا تھا، ایک رو رہا تھا۔ ایک بال کھولے زور زور سے چیخ رہا تھا اور دھمکیاں دے رہا تھا اور ایک۔۔ ۔ ایک بھوکی آنکھوں سے اس کے جسم کو نگلنا چاہ رہا تھا۔ اس نے اپنی ضرورت کا کچھ سامان ساتھ لانا چاہا تھا، تو ایک چہرہ اس کے ساتھ کشتی کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا۔

’’نرملا!‘‘ اس نے مایوس ہو کر کہا تھا، ’’تمہیں اس طرح گتھم گتھا ہوتے شرم نہیں آتی؟‘‘

’’کیوں؟‘‘ نرملا ہنس دی تھی، ’’مرد اور عورت رات دن گتھم گتھا نہیں ہوتے کیا؟‘‘

وہ بغیر ایک قمیض تک ساتھ لیے گھر سے نکل آیا تھا۔  بنیانیں، تولیے، قمیضیں سب کچھ اس نے آتے ہوئے راستے میں خریدا تھا۔  یہ سوچنے کیلئے وہ نہیں رکا تھا کہ اس کے پاس جو چار پانچ سو روپے ہیں، وہ اس طرح کتنے دن چلیں گے! بچھانے اوڑھنے کا سارا سامان بھی اس نے وہیں سے کرائے پر لیا تھا۔۔ ۔!

اور وہاں آنے کے چوتھے پانچویں دن سے ہی نرملا کے خط آنے شروع ہو گئے تھے۔ وہ اس کے کسی دوست کے یہاں جا کر اس کا پتہ لے آئی تھی۔  ان خطوط میں بھی نرملا کے سبھی چہرے جھلک جاتے تھے۔

وہ سخت بیمار ہے اور ہسپتال جا رہی ہے۔

اس کے بھائی پولیس میں خبر کرنے جا رہے ہیں کہ ان کا بہنوئی لاپتہ ہو گیا ہے۔

وہ رات دن بے چین رہتی ہے اور دیواروں سے پوچھتی رہتی ہے کہ اس کا شوہر کہاں ہے۔

وہ جوگن کا بھیس دھار کے جنگلوں میں جا رہی ہے۔

دو دنوں کے اندر اندر خط کا جواب نہ آیا تو اس کے بھائی اسے ہوائی جہاز میں وہاں بھیج دیں گے۔

اس کے چھوٹے بھائی نے اسے بہت مارا پیٹا ہے کہ وہ اپنے ’’خصم‘‘ کے پاس کیوں نہیں جاتی!

خط پرکاش کی انگلیوں میں مسل گیا تھا۔  اسے پھر جیب میں رکھ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔  باہر ڈیوڑھی میں کچھ لوگ کھڑے تھے۔ اس انتظار میں کہ بارش رکے تو وہاں سے روانہ ہوں۔  ان کے درمیان سے ہو کر وہ باہر نکل آیا۔ ’’آپ اس بارش میں جا رہے ہیں؟‘‘ کسی نے پوچھ لیا۔  اس نے جواب نہیں دیا اورچپ چاپ کچے راستے پر چلنے لگا۔ سامنے نیڈوز ہوٹل کی بتیاں جگمگا رہی تھیں۔ باقی ہر طرف، دائیں بائیں اور اوپر نیچے، اندھیرا  ہی اندھیرا تھا۔ کلب کے احاطے سے نکل کر وہ سڑک پر پہنچا، تو بارش اور تیز ہو گئی۔

اس کا سر مکمل طور پر بھیگ گیا تھا اوراب پانی کی دھار گردن سے ہو کر قمیض کے اندر جا رہی تھیں۔  ہاتھ پیر سن ہو رہے تھے، پھر بھی آنکھوں میں ایک جلن سی محسوس ہو رہی تھی۔ کیچڑ سے لت پت جوتا چلنے میں آواز کرتا، تو جسم میں کوئی چیز جھنجھنا جاتی۔  تبھی ایک نئی لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ اسے لگا کہ وہ سڑک پر تنہا نہیں ہے۔ کوئی اور بھی اپنے ننھے ننھے پاؤں پٹکتا اس کے ساتھ چل رہا ہے۔ راستے کی نالی پر بنا لکڑی کا پل پار کرتے ہوئے اس نے گھوم کر پیچھے دیکھ لیا۔  اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ایک بھیگا ہوا کتا، کان جھٹکتا ہوا، خاموش اور سوچوں میں گم!

٭٭٭

 

مندی

 

چیئرنگ کراس پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ اس وقت وہاں میرے سوا ایک بھی شخص نہیں ہے۔  ایک بچہ جو اپنی آیا کے ساتھ وہاں کھیل رہا تھا، اب اس کے پیچھے بھاگتا ہوا ٹھنڈی سڑک پر چلا گیا تھا۔  وادی میں ایک جلی ہوئی عمارت کا زینہ اس طرح خلا کی جانب جھانک رہا تھا، جیسے ساری دنیا کو خود کشی کی ترغیب دینے اور اپنے اوپر آ کر کود جانے کی دعوت دے رہا ہو۔  آس پاس کے پھیلاؤکو دیکھتے ہوئے اس خاموشی بھری تنہائی میں مجھے ہارڈی کے ایک لینڈ اسکیپ کی یاد آ گئی، جس کے بہت سے صفحات پر مشتمل تفصیل کے بعد انسانیت نگاہوں میں داخل ہوتی ہے۔ یعنی ایک چھکڑا سست چال سے آتا دکھائی دیتا ہے۔  میرے سامنے بھی کھلی وادی تھی، دور تک پھیلی پہاڑیاں تھیں، بادل تھے، چیئرنگ کراس ایک سنسان موڑ تھا۔ اور یہاں بھی کچھ اسی طرح انسانیت نگاہوں میں داخل ہوئی۔ یعنی ایک پچاس پچپن سال کا بھلا آدمی چھڑی ٹیکتا دور سے آتا دکھائی دیا۔  وہ اس طرح ادھر ادھر نظر ڈالتا چل رہا تھا، جیسے دیکھ رہا ہو کہ جو ڈھیلے پتھر کل وہاں پڑے تھے، وہ آج بھی اپنی جگہ پر ہیں یا نہیں۔ جب وہ مجھ سے کچھ ہی فاصلے پر رہ گیا، تو اس نے آنکھیں تین چوتھائی بند کر کے چھوٹی چھوٹی لکیروں جیسی بنا لیں اور میرے چہرے غور سے معائنہ کرتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔  میرے پاس آنے تک اس کی نظر نے جیسے فیصلہ کر لیا، اور اس نے رک کر چھڑی پر بوجھ ڈالے ہوئے، لمحے بھر کے وقفے کے بعد پوچھا، ’’یہاں نئے آئے ہو؟‘‘

’’ ہاں، ’’ میں نے اس کی مرجھائی ہوئی پتلیوں میں اپنے چہرے کا سایہ دیکھتے ہوئے ذرا ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا۔

’’مجھے لگ رہا تھا کہ نئے ہی آئے ہو۔ ‘‘وہ بولا، ’’پرانے لوگ تو سب اپنے پہچانے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’آپ یہیں رہتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ہاں یہیں رہتے ہیں۔ ‘‘ اس نے اکتاہٹ اور شکایت بھرے لہجے میں جواب دیا، ’’جہاں کا دانہ پانی لکھا کر لائے تھے، وہیں تو رہیں گے۔  پھر چاہے دانہ پانی ملے چاہے نہ ملے۔ ‘‘

اس کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے مجھ سے اسے کوئی پرانا گلہ ہو۔  مجھے لگا کہ یا تو وہ بے حد قنوطیت زدہ ہے، یا اسے پیٹ کی کوئی متعدی بیماری ہے۔  اس کی رسی کی طرح بندھی ٹائی سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہے، جو اب اپنی کوٹھی میں سیب کا باغیچہ لگائے اس کی حفاظت کیا کرتا ہے۔

’’آپ کی یہاں پر اپنی زمین ہو گی؟‘‘ میں نے دل چسپی نہ ہوتے بھی پوچھ لیا۔

’’زمین؟‘‘ اس کے لہجے میں اور بھی مایوسی اور شکایت بھر گئی، ’’زمین کہاں جی؟‘‘ اور پھر جیسے کچھ جھنجھلاہٹ اور کچھ طنز کے ساتھ سر ہلا کر اس نے کہا، ’’زمین!‘‘

مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب مجھے کیا کہنا چاہئے۔  اسی طرح چھڑی پر بوجھ دیئے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ کچھ لمحات بھرا، وہ خاموش وقفہ مجھے عجیب سا لگا۔  اس صورتِ حال سے نکلنے کیلئے میں نے پوچھ لیا، ’’تو آپ یہاں کوئی اپنا ذاتی کام کرتے ہیں؟‘‘

’’کام کیا کرنا ہے جی؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’گھر سے کھانا اگر کام ہے، تو وہی کام کرتے ہیں اور آج کل کام رہ کیا گئے ہیں؟ ہر کام کا برا حال ہے!‘‘

میری توجہ پل بھر کیلئے جلی ہوئی عمارت کے زینے کی طرف چلی گئی۔  اس کے اوپر ایک بندر آ بیٹھا تھا اور سر کھجلاتا ہوا شاید یہ فیصلہ کرنا چاہ رہا تھا کہ اسے کود جانا چاہئے یا نہیں۔

’’اکیلے آئے ہو؟‘‘ اب اس آدمی نے مجھ سے پوچھ لیا۔

’’ہاں، اکیلا ہی آیا ہوں۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’آج کل یہاں آتا ہی کون ہے؟‘‘ وہ بولا، ’’یہ تو بیابان جگہ ہے۔  سیر کے لئے بہترین جگہیں ہیں شملہ، مسوری وغیرہ۔ وہاں کیوں نہیں چلے گئے؟‘‘

مجھے پھر سے اس کی پتلیوں میں اپنا سایہ نظر آ گیا۔  مگر من چاہتے ہوئے بھی میں اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ مجھے پہلے پتہ ہوتا کہ وہاں آ کر میری اس سے ملاقات ہو گی، تو میں ضرور کسی اور پہاڑ پر جاتا۔

’’خیر، اب تو آ ہی گئے ہو۔ ‘‘ وہ پھر بولا، ’’کچھ دن گھوم پھر لو۔  ٹھہرنے کا انتظام کر لیا ہے؟‘‘

’’ ہاں۔ ‘‘ میں نے کہا، ’’کتھلک روڈ پر ایک کوٹھی لے لی ہے۔ ‘‘

’’سبھی کوٹھیاں خالی پڑی ہیں۔ ‘‘ وہ بولا، ’’ہمارے پاس بھی ایک کوٹھری تھی۔  ابھی کل ہی دو روپے مہینے پر چڑھائی ہے۔ دو تین مہینے لگی رہے گی۔ پھر دو چار روپے ڈال کر سفیدی کرا دیں گے۔  اور کیا!‘‘ پھر دو ایک لمحوں کے بعد اس نے پوچھا، ’’کھانے کا کیا انتظام کیا ہے؟‘‘

’’ابھی کچھ نہیں کیا۔  اس وقت اسی خیال سے باہر آیا کہ کوئی اچھا سا ہوٹل دیکھ لوں، جو زیادہ مہنگا بھی نہ ہو۔ ‘‘

’’نیچے بازار میں چلے جاؤ۔ ‘‘ وہ بولا، ’’نتھا سنگھ کا ہوٹل پوچھ لینا۔  سستے ہوٹلوں میں وہی اچھا ہے۔ وہیں کھایا کرنا۔ پیٹ ہی بھرنا ہے۔ اور کیا!‘‘

اور اپنی نحوست میرے اندر بھر کر وہ پہلے کی طرح چھڑی ٹیکتا ہوا رستے پر چل دیا۔

نتھا سنگھ کا ہوٹل بازار میں بہت نیچے جا کر تھا۔  جس وقت میں وہاں پہنچا بڈ ھا سردار نتھا سنگھ اور اس کے دونوں بیٹے اپنی دکان کے سامنے موجود حلوائی کی دکان میں بیٹھے حلوائی کے ساتھ تاش کھیل رہے تھے۔  مجھے دیکھتے ہی نتھا سنگھ نے تپاک سے اپنے بڑے لڑکے سے کہا، ’’اٹھ بسنتے، گراہک آیا ہے۔ ‘‘

بسنتے نے فوراً ہاتھ کے پتے پھینک دیئے اور باہر نکل آیا۔

’’کیا چاہئے صاحب؟‘‘ اس نے آ کر اپنی گدی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

’’ایک پیالی چائے بنا دو۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’ابھی لیجئے۔ ‘‘ اور وہ کیتلی میں پانی ڈالنے لگا۔

’’انڈے ونڈے رکھتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’رکھتے تو نہیں، پر آپ کیلئے ابھی منگوا دیتا ہوں۔ ‘‘ وہ بولا، ’’کیسے انڈے لیں گے؟ فرائی یا آملیٹ؟‘‘

’’آملیٹ۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’جا ہربنسے، بھاگ کر اوپر والے لالہ سے دو انڈے لے آ۔ ‘‘ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو آواز دی۔

آواز سن کر ہربنسے نے بھی جھٹ سے ہاتھ کے پتے پھینک دیئے اور اٹھ کر باہر آ گیا۔  بسنتے سے پیسے لے کر وہ بھاگتا ہوا بازار کی سیڑھیاں چڑھ گیا۔ بسنتا کیتلی بھٹی پر رکھ کر نیچے سے ہوا دینے لگا۔

حلوائی اور نتھا سنگھ اپنے اپنے پتے ہاتھ میں لئے تھے۔  حلوائی اپنے پاجامے کا کپڑا انگلی اور انگوٹھے کے بیچ میں لے کر ران کھجلاتا ہوا کہہ رہا تھا، ’’اب چڑھائی شروع ہو رہی ہے نتھا سنگھ!‘‘

’’ ہاں، اب گرمیاں آئی ہیں تو چڑھائی شروع ہو گی ہی۔ ‘‘ نتھا سنگھ اپنی سفید داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتا ہوا بولا، ’’چار پیسہ کمانے کے یہی تو دن ہیں۔ ‘‘

’’پر نتھا سنگھ، اب وہ پہلے والی بات نہیں ہے۔ ‘‘ حلوائی نے کہا، ’’پہلے دنوں میں ہزار بارہ سو آدمی ادھر کو آتے تھے، ہزار بارہ سو ادھر کو جاتے تھے تو لگتا تھا کہ ہاں، لوگ باہر سے آئے ہیں۔  اب بھی آ گئے سو پچاس تو کیا ہے!‘‘

’’سو پچاس کی بھی بڑی برکت ہے۔ ‘‘ نتھا سنگھ توکل بھرے لہجے میں بولا۔

’’کہتے ہیں آج کل کسی کے پاس پیسہ ہی نہیں رہا۔ ‘‘ حلوائی نے جیسے غور و فکر کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔  دو چار سال سب کے پاس پیسہ ہو جاتا ہے، پھر ایک دم سے سب بھوکے ننگے ہو جاتے ہیں۔ جیسے پیسوں پر کسی نے بند باندھ کر رکھا ہے۔ جب چاہتا ہے چھوڑ دیتا ہے، جب چاہتا ہے روک لیتا ہے!‘‘

’’سب کرنی کرتار کی ہے۔ ‘‘ کہتا ہوا نتھا سنگھ بھی پتے پھینک کر اٹھ کھڑا ہوا۔

’’کرتار کی کرنی کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ حلوائی بے دلی سے پتے رکھتا ہوا بولا، ’’جب کرتار پیداوار اسی طرح کرتا ہے، تو لوگ کیوں بھوکے ننگے ہو جاتے ہیں؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ ‘‘

نتھا سنگھ نے داڑھی کھجلاتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کھوج رہا ہو کہ کرتار کے علاوہ دوسرا کون ہے جو لوگوں کو بھوکا ننگا بنا سکتا ہے۔

’’کرتار کو ہی پتہ ہے۔ ‘‘ پل بھر بعد اس نے سر ہلا کر کہا۔

’’کرتار کو کچھ پتہ نہیں ہے۔ ‘‘ حلوائی نے تاش کی گڈی پھٹی ہوئی ڈبی میں رکھتے ہوئے سر ہلا کر کہا اور اپنی گدی پر جا بیٹھا۔  میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ اس نے کرتار معصوم بتانے کی کوشش کی ہے، یا کرتار کی قدرت پر شک ظاہر کیا ہے!

کچھ دیر بعد میں چائے پی کر وہاں سے چلنے لگا، تو بسنتے نے کل چھ آنے مانگے۔  اس نے حساب بھی دیا چار آنے کے انڈے، ایک آنے کا گھی اور ایک آنے کی چائے۔ میں پیسے دے کر باہر نکلا، تو نتھا سنگھ نے پیچھے سے آواز دی، ’’بھائی صاحب، رات کو کھانا بھی یہیں کھائیے گا۔  آج آپ کیلئے اسپیشل چیز بنائیں گے! ضرور آئیے گا۔ ‘‘

اس کے انداز میں ایسی درخواست تھی کہ میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔  سوچا کہ اس نے چھ آنے میں کیا کما لیا ہے، جو مجھ سے رات کو پھر آنے کی درخواست کر رہا ہے۔

شام کو سیر سے لوٹتے ہوئے میں نے بک ایجنسی سے اخبار خریدا اور بیٹھ کر پڑھنے کیلئے ایک بڑے سے ریستوران میں چلا گیا۔  اندر پہنچ کر دیکھا کہ کرسیاں، میز اور سوفے قرینے سے سجے ہوئے ہیں، پر نہ تو ہال میں کوئی ویٹر ہے اور نہ ہی کاؤنٹر پر کوئی آدمی ہے۔  میں ایک سوفے پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا۔ ایک کتا جو اس سوفے سے لگ کر لیٹا تھا، اب وہاں سے اٹھ کر سامنے کے سوفے پر آ بیٹھا اور میری طرف دیکھ کر زبان لپلپانے لگا۔  میں نے ایک بار ہلکے سے میز کو تھپتھپایا، بیرے کو آواز دی، پر کوئی انسانی صورت سامنے نہیں آئی۔ البتہ، کتا سوفے سے میز پر آ کر اب اور بھی قریب سے میری طرف زبان لپلپانے لگا۔  میں اپنے اور اس کے بیچ اخبار کا پردہ کئے خبریں پڑھتا رہا۔

اس طرح بیٹھے ہوئے مجھے پندرہ بیس منٹ گزر گئے۔  آخر جب میں وہاں سے اٹھنے کو ہوا، تو باہر کا دروازہ کھلا اور پاجامہ کرتا پہنے ایک آدمی اندر داخل ہوا۔  مجھے دیکھ کر اس نے دور سے سلام کیا اور قریب آ کر ذرا ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا، ’’معاف کیجئے گا، میں ایک بابو کا سامان موٹر اڈے تک چھوڑنے چلا گیا تھا۔  آپ کو آئے زیادہ دیر تو نہیں ہوئی؟‘‘

میں نے اس کے ڈھیلے ڈھالے جسم پر ایک گہری نظر ڈالی اور اس سے پوچھ لیا، ’’تم یہاں اکیلے ہی کام کرتے ہو؟‘‘

’’جی، آج کل اکیلا ہی ہوں۔ ‘‘ اس نے جواب دیا، ’’دن بھر میں یہیں رہتا ہوں، صرف بس کے وقت کسی بابو کا سامان مل جائے تو اڈے تک چھوڑنے چلا جاتا ہوں۔ ‘‘

’’یہاں کا کوئی مینیجر نہیں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’جی، مالک خود ہی مینیجر ہے۔ ‘‘ وہ بولا، ’’وہ آج کل امرتسر میں رہتا ہے۔  یہاں کا سارا کام میرے ذمہ ہے۔ ‘‘

’’تم یہاں چائے وائے کچھ بناتے ہو؟‘‘

’’چائے، کافی۔ جس چیز کا آرڈر دیں، وہ بن سکتی ہے!‘‘

’’اچھا ذرا اپنا مینو دکھانا۔ ‘‘

اس کے چہرے کے تاثرات سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ میری بات نہیں سمجھا۔  میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’تمہارے پاس کھانے پینے کی چیزوں کی چھپی ہوئی لسٹ ہو گی، وہ لے آؤ۔ ‘‘

’’ابھی لاتا ہوں جی۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ سامنے کی دیوار کی طرف چلا گیا اور وہاں سے ایک گتے اتار لایا۔  دیکھنے پر مجھے پتہ چلا کہ وہ اس ہوٹل کا لائسنس ہے۔

’’یہ تو یہاں کا لائسنس ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’جی، چھپی ہوئی لسٹ تو یہاں پر یہی ہے۔ ‘‘ وہ کشمکش میں پڑ گیا۔

’’اچھا ٹھیک ہے، میرے لئے چائے لے آؤ۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’اچھا جی!‘‘ وہ بولا، ’’مگر صاحب۔ ‘‘ اور اس کی آواز میں کافی اپنائیت آ گئی، ’’میں کہتا ہوں، کھانے کا وقت ہے، کھانا ہی کھائیں۔  چائے کا کیا پینا۔ سالی اندر جا کر نالیوں کو جلاتی ہے۔ ‘‘

میں اس کی بات پر دل ہی دل مسکرایا۔  مجھے سچ مچ بھوک لگ رہی تھی، اس لئے میں نے پوچھا، ’’سبزی وبزی کیا بنائی ہے؟‘‘

’’آلو مٹر، آلو ٹماٹر، بھرتا، بھنڈی، کوفتہ، رائتہ۔۔ ۔ ‘‘ وہ جلدی جلدی لمبی فہرست بول گیا۔

’’کتنی دیر میں لے آؤ گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’بس جی پانچ منٹ میں۔ ‘‘

’’تو آلو مٹر اور رائتہ لانا، ساتھ خشک چپاتی۔ ‘‘

’’اچھا جی!‘‘ وہ بولا، ’’پر صاحب۔ ‘‘ اور پھر آواز میں وہی اپنائیت لا کر اس نے کہا، ’’برسات کا موسم ہے۔  رات کے وقت رائتہ نہیں کھائیں، تو اچھا ہے۔ سرد چیز ہے۔ بعض وقت نقصان کر جاتی ہے۔ ‘‘

اس کی اپنائیت سے متاثر ہو کر میں نے کہا، ’’تو اچھا، صرف آلو مٹر لے آؤ۔ ‘‘

’’بس، ابھی لو جی، ابھی لایا۔ ‘‘ کہتا ہوا وہ لکڑی کے زینے سے نیچے چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد میں کتے سے جی بہلانے لگا۔  کتے کو شاید بہت دنوں سے کوئی چاہنے والا نہیں ملا تھا۔  وہ میرے ساتھ ضرورت سے زیادہ پیار دکھانے لگا۔ چار پانچ منٹ کے بعد باہر کا دروازہ پھر کھلا اور ایک پہاڑی دوشیزہ اندر آ گئی۔  اس کے کپڑے اور پیٹھ پر بندھی ٹوکری سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ وہاں کی کوئلہ بیچنے والی لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ حسن کا تعلق چہرے کی بناوٹ سے ہی ہو، تو اسے بلاشبہ خوبصورت کہا جا سکتا تھا۔  وہ سیدھا میرے پاس آ گئی اور چھوٹتے ہی بولی، ’’بابوجی، ہمارے پیسے آج ضرور مل جائیں۔ ‘‘

کتا میرے پاس تھا، اس لئے میں اس کی بات سے گھبرایا نہیں۔

میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ پھر بولی، ’’آپ کے آدمی نے ایک بورا کوئلہ لیا تھا۔  آج چھ سات دن ہو گئے۔ کہتا تھا، دو دن میں پیسے مل جائیں گے۔ میں آج تیسری بار مانگنے آئی ہوں۔  آج مجھے پیسوں کی بہت ضرورت ہے۔ ‘‘

میں نے کتے کو بانہوں سے نکل جانے دیا۔  میری آنکھیں اس کی نیلی پتلیوں کو دیکھ رہی تھیں۔  اس کے کپڑے۔ پاجامہ، قمیض، واسکٹ، چادر اور پٹکا۔ سب بہت میلے تھے۔  مجھے اس کی ٹھوڑی کی تراش خوبصورت لگی۔ سوچا کہ اس کی ٹھوڑی کے سرے پر اگر ایک تل بھی ہوتا۔۔

’’میرے چودہ آنے پیسے ہیں۔ ‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔

اور میں سوچنے لگا کہ اسے ٹھوڑی کے تل اور چودہ آنوں میں سے ایک چیز کو چننے کیلئے کہا جائے، تو وہ کیا چنے گی؟

’’مجھے آج جاتے ہوئے بازار سے سودا لے کر جانا ہے۔ ‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔

’’کل سویرے آنا!‘‘ اسی وقت بیرے نے زینے سے اوپر آتے ہوئے کہا۔

’’روز مجھ سے کل سویرے بول دیتا۔ ‘‘ وہ مجھے ہدف بنا کے ذرا غصے کے ساتھ بولی، ’’اس سے کہیے کل صبح میرے پیسے ضرور دے دے۔ ‘‘

’’ان سے کیا کہہ رہی ہے، یہ تو یہاں کھانا کھانے آئے ہیں۔ ‘‘ ویٹر اس کی بات پر تھوڑا سا ہنس دیا۔

اس لڑکی کی نیلی آنکھوں میں ندامت کی ہلکی لہر دوڑ گئی۔  وہ اب بدلے ہوئے لہجے میں مجھ سے بولی، ’’آپ کو کوئلہ تو نہیں چاہئے؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’چودہ آنے کی بوری دیں گے، کوئلہ دیکھ لو۔ ‘‘ کہتے ہوئے اس نے اپنی چادر کی تہ میں سے ایک کوئلہ نکال کر میری طرف بڑھا دیا۔

’’یہ یہاں آ کر کھانا کھاتے ہیں، انہیں کوئلہ نہیں چاہئے۔ ‘‘اب بیرے نے اسے جھڑک دیا۔

’’آپ کو کھانا بنانے کیلئے نوکر چاہئے؟‘‘ لڑکی بات کرنے سے نہیں رکی، ’’میرا چھوٹا بھائی ہے۔  سب کام جانتا ہے۔ پانی بھی بھرے گا، برتن بھی ملے گا۔ ‘‘

’’تو جاتی ہے یہاں سے کہ نہیں؟‘‘ بیرے کا انداز اب دھتکارنے جیسا ہو گیا۔

’’آٹھ روپے مہینے میں سارا کام کر دے گا۔ ‘‘ لڑکی اس کے انداز کو اہمیت نہ دیتی ہوئی، کہتی رہی، ’’پہلے ایک ڈاکٹر کے گھر میں کام کرتا تھا۔  ڈاکٹر اب یہاں سے چلا گیا ہے۔ ‘‘

بیرے نے اب اس کابازو سے پکڑ لیا اور باہر کی طرف لے جاتا ہوا بولا، ’’چل چل، جا کر اپنا کام کر۔  کہہ دیا ہے، انہیں نوکر نہیں چاہئے، پھر بھی بکے جا رہی ہے!‘‘

’’میں کل اسی وقت اسے لے کر آؤں گی۔ ‘‘ لڑکی نے پھر بھی چلتے چلتے مڑ کر کہہ دیا۔

ویٹر اس دروازے سے باہر پہنچا کر پاس آتا ہوا بولا، ’’کمین ذات! ایسے گلے پڑ جاتی ہیں کہ بس۔۔ ۔!‘‘

’’کھانا ابھی کتنی دیر میں لاؤ گے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔

’’بس جی پانچ منٹ میں لے کر آ رہا ہوں۔ ‘‘ وہ بولا، ’’آٹا گوندھ کر سبزی چڑھا آیا ہوں۔  ذرا نمک لے آؤں۔ آ کر چپاتیاں بناتا ہوں۔ ‘‘

خیر، کھانا مجھے کافی دیر سے ملا۔  کھانے کے بعد میں کافی دیر ٹھنڈی سڑک پر ٹہلتا رہا، کیونکہ پہاڑیوں پر چھٹکتی چاندنی بہت اچھی لگ رہی تھی۔  لوٹتے وقت بازار کے پاس سے نکلتے ہوئے میں نے سوچا کہ ناشتے کیلئے سردار نتھا سنگھ سے دو انڈے ابلوا کر لیتا چلوں۔  دس بج چکے تھے، پر نتھا سنگھ کی دکان ابھی کھلی تھی۔ میں وہاں پہنچا تو نتھا سنگھ اور اس کے دونوں بیٹے اکڑوں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔  مجھے دیکھتے ہی بسنتے نے کہا، ’’وہ لو، آ گئے بھائی صاحب!‘‘

’’ہم کتنی دیر انتظار کر کر کے اب کھانا کھانے بیٹھے ہیں۔ ‘‘ ہربنسا بولا۔

’’خاص آپ کیلئے مرغا بنایا تھا۔ ‘‘ نتھا سنگھ نے کہا، ’’ہم نے سوچا تھا کہ بھائی صاحب دیکھ لیں، ہم کیسا کھانا بناتے ہیں۔  خیال تھا دو ایک پلیٹیں اور لگ جائیں گی۔ پر نہ آپ آئے اور نہ کسی اور نے ہی مرغ کی پلیٹ لی۔ ہم اب تینوں خود کھانے بیٹھے ہیں۔  میں نے مرغا اتنے چاؤ سے، اتنے پیار سے بنایا تھا کہ کیا کہوں! کیا پتہ تھا کہ خود ہی کھانا پڑے گا۔ زندگی میں ایسے بھی دن دیکھنے تھے! وہ بھی دن تھے کہ جب اپنے لئے مرغ کا شوربا تک نہیں بچتا تھا۔ اور ایک دن یہ ہے۔  بھری ہوئی پتیلی سامنے رکھ کر بیٹھے ہیں۔ گانٹھ سے ساڑھے تین روپے لگ گئے، جو اب پیٹ میں جا کر کھنکتے بھی نہیں! جو تیری کرنی مالک!‘‘

’’اس میں مالک کی کیا کرنی ہے؟‘‘ بسنتا ذرا تیکھا ہو کر بولا، ’’جو کرنی ہے، سب اپنی ہی ہے۔  آپ ہی کو جوش آ رہا تھا کہ چڑھائی شروع ہو گئی ہے، لوگ آنے لگے ہیں، کوئی اچھی چیز بنانی چاہئے۔  میں نے کہا تھا کہ ابھی آٹھ دس دن ٹھہر جاؤ، ذرا چڑھائی کا رخ دیکھ لینے دو۔ پر نہیں مانے۔ ضد کرتے رہے کہ اچھی چیز سے مہورت کریں گے تو موسم اچھا گزرے گا۔  لو، ہو گیا مہورت!‘‘

اسی وقت وہ آدمی، جو کچھ گھنٹے پہلے مجھے چیئرنگ کراس پر ملا تھا، میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔  اندھیرے میں اس نے مجھے نہیں پہچانا اور چھڑی پر بوجھ دے کر نتھا سنگھ سے پوچھا، ’’ نتھا سنگھ ایک گاہک بھیجا تھا، آیا تھا؟‘‘

’’کون گاہک؟‘‘ نتھا سنگھ مرجھائے ہوئے لہجے میں بولا۔

’’گھنگھرالے بالوں والا نوجوان تھا، موٹے شیشوں کا چشمہ لگائے ہوئے۔۔ ۔؟‘‘

’’یہ بھائی صاحب کھڑے ہیں!‘‘ اس سے پہلے کہ وہ میری مزید تفصیل بیان کرتا، نتھا سنگھ نے اسے ہوشیار کر دیا۔

’’اچھا آ گئے ہیں!‘‘ ‘ اس نے مجھے ہدف بنا کر کہا اور پھر نتھا سنگھ کی طرف دیکھ کر بولا، ’’تو لا نتھا سنگھ، چائے کی پیالی پلا۔ ‘‘

کہتا ہوا وہ مطمئن انداز سے اندر ٹین کی کرسی پر جا بیٹھا۔  بسنتا بھٹی پر کیتلی رکھتے ہوئے جس طرح بڑ بڑایا، اس سے ظاہر ہوا تھا کہ وہ آدمی چائے کی پیالی گاہک بھیجنے کے بدلے میں پینے جا رہا ہے۔

٭٭٭

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں