فہرست مضامین
- موجِ ہوائے رنگ
- شہزاد احمد
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے
- دلِ فسردہ اسے کیوں گلے لگا نہ لیا
- دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا
- لوگ اس بزم سے آئے تو غزل خواں آئے
- نور برسا پھول سے اور خون برسا سنگ سے
- ہم دو قدم بھی چل نہ سکے، خاکِ پا ہوئے
- بے تابیِ غم ہائے دروں کم نہیں ہو گی
- پریت بِنا جگ سُونا سُونا پریت کیے دکھ ہوئے
- میں جو روتا ہوں تو کہتے ہیں کہ ایسا نہ کرو
- کبھی ان سے کبھی خود سے بھی غافل ہو گیا ہوں میں
- دل و نظر پہ ترے بعد کیا نہیں گزرا
- شاید کوئی فسوں ہے تمہاری نگاہ میں
- کچھ اور وہم دل میں سمایا نہیں ہنوز
- مجھ سے ترے حضور چھپایا نہ جا سکا
- ستارہ اپنی بھی تابندگی نہ دیکھ سکا
- شاملِ نقشِ کارواں ہیں ہم
- سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دل کی خو کیا تھی
- تصویر کے خطوط نگاہوں سے ہٹ گئے
- پکارا کیے دوستو دوستو
- حلاوت ہے بہت انکار میں بھی
- رات پھر جاگنا پڑا جیسے
- دلوں میں تری یاد سی رہ گئی
- کچھ نہ کچھ ہو تو سہی انجمن آرائی کو
- اس مروت پہ محبت کا گماں کیا ہوگا
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
موجِ ہوائے رنگ
پرانی ای بک سے ترمیم شدہ
شہزاد احمد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے
دل میں پھر اِک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اِک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے
سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے
اے دل تجھے بدلتی ہوئی رُت سے کیا ملا
پودوں میں پھول اور درختوں میں پھل پڑے
اب کس کے انتظار میں جاگیں تمام شب
وہ ساتھ ہو تو نیند میں کیسے خلل پڑے
شہزاد دل کو ضبط کا یارا نہیں رہا
نکلا جو ماہتاب سمندر اچھل پڑے
٭٭٭
دلِ فسردہ اسے کیوں گلے لگا نہ لیا
قریب رہ کے بھی جس نے ترا پتا نہ لیا
بس ایک لمحے میں کیا کچھ گزر گئی دل پر
بحال ہوتے ہوئے ہم نے اک زمانہ لیا
تمام عمر ہوا پھانکتے ہوئے گزری
رہے زمیں پہ مگر خاک کا مزا نہ لیا
جو تھا عزیز اسی سے گریز کرتے رہے
گلی گلی میں پھرے، اپنا راستہ نہ لیا
کسی بھی حال میں پہنچے تو ہیں کنارے پر
یہی بہت ہے کہ احسانِ ناخدا نہ لیا
امید شعلہ نہیں آفتاب ہے شہزاد
چراغ تھا تو ہواؤں نے کیوں بجھا نہ لیا
٭٭٭
دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا
چور سے ڈرتے تھے لیکن گھر کا دروازہ نہ تھا
گرچہ وہ آباد ہے تارِ رگِ جاں کے قریب
ڈھونڈتے اس کو کہاں جس کو کہیں دیکھا نہ تھا
اب جہاں میں ہوں وہاں میرے سوا کچھ بھی نہیں
میں اسی صحرا میں رہتا تھا مگر تنہا نہ تھا
پیاسی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ آیا تھا ابھی
خشک تھی دل کی زمیں پانی ابھی برسا نہ تھا
حسرتیں رہنے لگیں غولِ بیاباں کی طرح
آرزوؤں کا نگر بسنے ابھی پایا نہ تھا
٭٭٭
لوگ اس بزم سے آئے تو غزل خواں آئے
ہم پریشان گئے اور پشیماں آئے
بجھ گئے آج سُلگتی ہوئی یادوں کے چراغ
یوں سکوں آیا ہے جیسے کوئی طوفاں آئے
شوقِ منزل نے کسی گام بھی رکنے نہ دیا
راہ میں لاکھ چمن لاکھ بیاباں آئے
پا بہ زنجیر اڑا لائی ہے اک یاد ہمیں
آج کس حال میں سُوئے چمنستاں آئے
دلِ برباد میں یوں آئی ہے امید تری
جس طرح نورِ سحر حشر بداماں آئے
ڈس نہ جائے کہیں ناگن سی لپکتی ہوئی رات
کوئی لمحہ مری دنیا میں فروزاں آئے
دل میں طوفان چھپے بیٹھے ہیں لیکن شہزاد
ایک مدت ہوئی آنسو سرِ مژگاں آئے
٭٭٭
نور برسا پھول سے اور خون برسا سنگ سے
اہتمامِ فصلِ گل ہے اپنے اپنے رنگ سے
پا شکستہ ہوں مگر محرومِ ذوقِ دل نہیں
منزلوں کو دیکھ لیتا ہوں کئی فرسنگ سے
مجھ کو آوارہ ہواؤ ساتھ اپنے لے چلو
میرا جی گھبرا گیا ہے اس جہانِ تنگ سے
محفلِ گل میں کوئی تارا ضیاء پھیلا گیا
دیر تک رونق رہی موجِ ہوائے رنگ سے
آخرِ شب یوں برستے ہیں مری آنکھوں سے اشک
قطرہ قطرہ ہو کے جیسے خون ٹپکے سنگ سے
نور بن کر فضا میں پھیلتا ہے کوئی گیت
راگ بن بن کر جوانی پھوٹتی ہے چنگ سے
دور تک گہری اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی شہزاد گزرے گی مگر کس ڈھنگ سے
٭٭٭
ہم دو قدم بھی چل نہ سکے، خاکِ پا ہوئے
جو قافلے کے ساتھ گئے، جانے کیا ہوئے
آنکھوں میں ایک اشک سحر تک نہ آ سکا
کن حسرتوں کے ساتھ ستارے جدا ہوئے
دل کو شبِ طرب کی فضا یاد رہ گئی
لیکن وہ انتظار کے لمحات کیا ہوئے
اس پیکرِ بہار کی بُو باس یاد ہے
مدت گزر گئی ہے اگرچہ جدا ہوئے
جو لفظ کہہ دیئے وہ بنے کائناتِ شوق
لیکن وہ لفظ جو نہ زباں سے ادا ہوئے
مٹنے لگا ہے رنج و مسرت کا امتیاز
شہزاد کس فریب میں ہم مبتلا ہوئے
٭٭٭
بے تابیِ غم ہائے دروں کم نہیں ہو گی
یہ آگ تو اب تم سے بھی مدھم نہیں ہو گی
دامن کو ضیائے رخِ مہتاب سے بھر لے
اب بارشِ انوار ہے، پیہم نہیں ہو گی
تو ہی دلِ بیتاب جو سو جائے تو سو جائے
یہ چاندنی اس رات تو مدھم نہیں ہو گی
میں ان کے لئے غیر ہوں وہ میرے لئے غیر
اچھا ہے کہ اب رنجشِ باہم نہیں ہو گی
ہم سب کو سنا کر ہی رہیں گے غمِ ہستی
آواز کسی شور میں مدغم نہیں ہو گی
اب قافلۂ زیست ہی رک جائے تو رک جائے
یہ درد کی لذت تو کبھی کم نہیں ہو گی
٭٭٭
پریت بِنا جگ سُونا سُونا پریت کیے دکھ ہوئے
جیون ہی جگ روگ بنا من جیسے چاہے روئے
آنکھ مچولی سی کھیلی ہے ساری ساری رات
سو سو کر ہم جاگ اٹھے اور جاگ جاگ کر سوئے
بوند بوند ہو ہو کے لہو سب انگ انگ سے ٹپکا
سیج سیج پر کانٹے ہم نے کروٹ کروٹ بوئے
دکھیارے من مورکھ کو اندھیارا ہی من بھائے
کرے نہ کوئی تارا جگمگ کبھی بھور نہ ہوئے
اِک اِک دکھ سہہ سہہ کر کتنی یادوں کو اپنایا
کلی کلی چُن چُن کر ہم نے کتنے ہار پروئے
آس دلانے والا سارے جگ میں کوئی نہ پایا
کس کس کو دکھڑا نہ سنایا کس کس پاس نہ روئے
٭٭٭
میں جو روتا ہوں تو کہتے ہیں کہ ایسا نہ کرو
تم اگر میری جگہ ہو تو بھلا کیا نہ کرو
اب تو اے دل ہوسِ ساغر و مینا نہ کرو
چھوڑ بھی دو یہ تقاضا یہ تقاضا نہ کرو
دل پہ اے دوست قیامت سی گزر جاتی ہے
تم نگاہِ غلط انداز سے دیکھا نہ کرو
پھر بھی آنکھیں انہیں ہر بات بتا دیتی ہیں
دل کو کہتا ہے کسی بات کا چرچا نہ کرو
اب مرا درد مری جان ہُوا جاتا ہے
اے مرے چارہ گرو اب مجھے اچھا نہ کرو
یہ سرِ بزم مری سمت اشارے کیسے
میں تماشا تو نہیں میرا تماشا نہ کرو
مل ہی جاتی ہے کبھی یاس میں تسکین مجھے
اے امیدو مجھے ایسے میں تو چھیڑا نہ کرو
اس نے شہزاد تری بات کو ٹھکرا ہی دیا
میں نہ کہتا تھا اظہارِ تمنا نہ کرو
٭٭٭
کبھی ان سے کبھی خود سے بھی غافل ہو گیا ہوں میں
دیارِ بیخودی میں تیرے قابل ہو گیا ہوں میں
سرِ محفل بہ اندازِ تغافل دیکھنے والے
تری بے اعتنائی کا بھی قائل ہو گیا ہوں میں
بگولوں کی طرح اڑتا پھرا ہوں شوقِ منزل میں
مگر منزل پہ آ کے خاکِ منزل ہو گیا ہوں میں
مری ساحل نشینی انتظارِ سیلِ بے پایاں
انہیں ڈر ہے کہ اب پابندِ ساحل ہو گیا ہوں میں
تمہاری آرزو میں میں نے اپنی آرزو کی تھی
خود اپنی جستجو کا آپ قائل ہو گیا ہوں میں
مری سب زندگی شہزاد اسی عالم میں گزری ہے
کبھی ان سے کبھی غم سے مقابل ہو گیا ہوں میں
٭٭٭
دل و نظر پہ ترے بعد کیا نہیں گزرا
تجھے گماں کہ کوئی حادثہ نہیں گزرا
وہاں وہاں بھی مجھے لے گیا ہے شوقِ سفر
کبھی جہاں سے کوئی قافلہ نہیں گزرا
اگرچہ تو بھی نہیں اب دلوں کی دنیا میں
مگر یہاں کوئی تیرے سوا نہیں گزرا
ہم اب تو اس کو بھی حادثہ سمجھتے ہیں
خیال تھا کہ کوئی حادثہ نہیں گزرا
کبھی کبھی نظر آئی امید بھی شہزاد
ہمارا وقت کبھی ایک سا نہیں گزرا
٭٭٭
شاید کوئی فسوں ہے تمہاری نگاہ میں
لذت سی پا رہا ہوں غمِ بے پناہ میں
اڑنے کے واسطے کسی جھونکے کے منتظر
بیٹھے ہوئے ہیں خاک کی مانند راہ میں
یادیں بھی ہیں امید بھی ہے بے بسی بھی ہے
اے دوست کیا نہیں ہے ہماری نگاہ میں
اے دل مری شکستِ وفا پر نہ مسکرا
تو بھی شریک ہے مرے حالِ تباہ میں
ہم کو سِوائے شدتِ غم کچھ نہ مل سکا
لوگوں نے ایک کیف سا پایا گناہ میں
شہزاد ہم کو عہدِ طرب بھولتا نہیں
جلوے سلگ رہے ہیں ہماری نگاہ میں
٭٭٭
کچھ اور وہم دل میں سمایا نہیں ہنوز
ہم نے ترا خیال بھلایا نہیں ہنوز
تو کیا ہے، دل کے کونسے گوشے میں ہے نہاں
خود کھو گئے مگر تجھے پایا نہیں ہنوز
اب تک وہی امید کا عالم ہے رو برو
نومیدیوں نے جی کو جلایا نہیں ہنوز
تجھ کو بھی دیکھنے کی ہوس دل میں ہے مگر
تیری طرح کوئی نظر آیا نہیں ہنوز
پہلے ہی چشمِ شوق سے یہ بد گمانیاں
تو نے تو ہم سے ربط بڑھایا نہیں ہنوز
جا بھی چکے وہ ، ہو بھی چکی داستاں تمام
شہزاد پھر بھی آپ میں آیا نہیں ہنوز
٭٭٭
مجھ سے ترے حضور چھپایا نہ جا سکا
وہ ماجرائے غم کہ سنایا نہ جا سکا
تو نے تو ہم کو بخش دیے دو جہاں کے غم
بارِ کرم ہمیں سے اٹھایا نہ جا سکا
ہیں جاں فزا زمانے کی رنگینیاں مگر
دل وہ دیار تھا کہ بھلایا نہ جا سکا
گرچہ ترا خیال ہی تھا وجہِ اضطراب
لیکن ترا خیال بھلایا نہ جا سکا
یوں تو ہمیں قبول غمِ جاوداں بھی تھا
لیکن غمِ حبیب اٹھایا نہ جا سکا
جانے لگا تو جی سے گیا راہِ عشق میں
آنے لگا تو آپ میں آیا نہ جا سکا
شہزاد اس نے پا ہی لیا مدعا مرا
تجھ سے تو اس قدر بھی چھپایا نہ جا سکا
٭٭٭
ستارہ اپنی بھی تابندگی نہ دیکھ سکا
وہ دھند تھی کہ یہ منظر کوئی نہ دیکھ سکا
تلاش کرتے ہوئے انگلیاں جلا ڈالیں
وہ تیرگی تھی کہ میں شمع بھی نہ دیکھ سکا
ملا تھا شام مجھے ایک بجھا ہوا سورج
میں اس کے بعد کبھی روشنی نہ دیکھ سکا
جو ربط باقی تھے سب قطع کر لئے اس نے
وہ مہرباں مری بیچارگی نہ دیکھ سکا
نگاہ ویسے تو بامِ فلک کو چھو آئی
میں جس زمیں پہ کھڑا تھا وہی نہ دیکھ سکا
وہی ہے آئینہ خانہ وہی ہیں تصویریں
میں عمر بھر کوئی صورت نئی نہ دیکھ سکا
تمام شہر میں وہ دیدہ ور ہوا مشہور
وہ اپنی ناک سے آگے کبھی نہ دیکھ سکا
٭٭٭
شاملِ نقشِ کارواں ہیں ہم
اب فقط یادِ رفتگاں ہیں ہم
ہم وہ آنسو کہ جو چھلک نہ سکے
یعنی اِک سعیِ رائیگاں ہیں ہم
جس سے کل زندگی میں گرمی تھی
اب اُسی آگ کا دھُواں ہیں ہم
کہہ رہے ہیں بُجھے بُجھے آنسو
یادگارِ دلِ تپاں ہیں ہم
ڈس رہی ہے طویل تنہائی
جی رہے ہیں کہ سخت جاں ہیں ہم
آج یُوں دیکھتے ہیں گلشن کو
جیسے پروردۂ خزاں ہیں ہم
غنچے غنچے کے مُنہ کو تکتے ہیں
نو گرفتارِ گلستاں ہیں ہم
گرچہ اِک تیرگی ہیں ہم لیکن
کچھ ستاروں کے درمیاں ہیں ہم
دیکھنے میں ہیں گرچہ شمعِ خموش
جگمگائیں تو کہکشاں ہیں ہم
سِمٹ آئیں تو ایک قطرۂ اشک
پھَیل جائیں تو بیکراں ہیں ہم
ہم کہ ارزاں ہوئے سرِ بازار
نہ ملیں تو بہت گراں ہیں ہم
غور سے سُن رہے ہیں ہر آواز
غنچے غنچے کے ہم زباں ہیں ہم
کل جہاں تذکرے تمہارے تھے
اب وہیں زیبِ داستاں ہیں ہم
لے اُڑا ہے کوئی خیال ہمیں
ہم وہاں بھی نہیں جہاں ہیں ہم
اب ہمیں منزلوں کا ہوش نہیں
مَوج میں آئے ہیں رَواں ہیں ہم
دل کی دھڑکن بھی سو چکی شہزادؔ
کوئی آواز دو کہاں ہیں ہم
٭٭٭
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دل کی خو کیا تھی
سفر تو آٹھ پہر کا تھا جستجو کیا تھی
وہ آبشار کے پانی سی طبع رکھتا تھا
مگر تھکے ہوئے لہجے کی گفتگو کیا تھی
ہوئی شکست جہاں فتح کا یقین ہوا
کوئی چھپا ہوا دشمن تھا آرزو کیا تھی
تلاش کرتے ہو کس شے کو کس خرابے میں
درخت ہی نہ رہے شاخِ رنگ و بو کیا تھی
تو آفتاب اگر تھا تو کیوں غروب ہوا
یہ روشنی سی ترے بعد چار سو کیا تھی
درخت پختہ چھتیں توڑ کر نکل آئے
یہ اک عذاب ہی تھا قوت نمو کیا تھی
٭٭٭٭
تصویر کے خطوط نگاہوں سے ہٹ گئے
میں جن کو چومتا تھا وہ کاغذ تو پھٹ گئے
انسان اپنی شکل کو پہچانتا نہیں
آ آ کے آئینوں سے پرندے چمٹ گئے
بنتی رہی وہ ایک سویٹر کو مدتوں
چپ چاپ اس کے کتنے شب و روز کٹ گئے
کس شوق سے وہ دیکھ رہے تھے ہجوم کو
جب میں نظر پڑا تو دریچے سے ہٹ گئے
آخر کسی کشش نے انھیں کھینچ ہی لیا
دروازے تک نہ آئے تھے آ کر پلٹ گئے
پت جھڑ میں اک کلی بھی میسر نہ آسکی
پس سگرٹوں کی راکھ سے گلدان اَٹ گئے
بدلا ہوا دکھائی دیا آسماں کا رنگ
ذرے زمیں سے، شاخ سے پتے لپٹ گئے
اتنا بھی وقت کب تھا کہ پتوار تھام لیں
ایسی چلی ہوا کہ سفینے اُلٹ گئے
پابندیاں تو صرف لگی تھیں زبان پر
محسوس یہ ہوا کہ مرے ہاتھ کٹ گئے
کچھ سرد تھی ہوا بھی نظر کے دیار کی
کچھ ہم بھی اپنے خول کے اندر سمٹ گئے
ہر سُو دکھائی دیتے ہیں نیزہ بدست لوگ
اے کاخِ ظلم تیرے طرف دار گھٹ گئے
شہزاد پھر سے رخت سفر باندھ لیجیے
رستے بھی سوکھ جائیں گے، بادل تو چھٹ گئے
٭٭٭
پکارا کیے دوستو دوستو
کہاں کھو گئے ہو کہو دوستو
یُونہی دُور سے مت بُلاتے رہو
کبھی آن کر بھی ملو دوستو
مجھے ہی تسلی نہ دیتے رہو
کچھ اس کو بھی جا کر کہو دوستو
یہی دوستی ہے تو پھر دہر میں
اکیلا مجھے چھوڑ دو دوستو
سحر کا ستارہ چمکنے لگا
گھڑی دو گھڑی سو رہو دوستو
وہی لمحے آنکھوں میں آنسو بنے
دل و جاں کی راحت تھے جو دوستو
کئی چاند آنکھوں میں پھرنے لگے
اگر تم اسے دیکھ لو دوستو
ہوا ہے زمانے کی بگڑی ہوئی
مرے دل میں بیٹھے رہو دوستو
٭٭٭
حلاوت ہے بہت انکار میں بھی
زباں سے آپ لیکن کچھ کہیں بھی
نئے چہروں سے جی گھبرا رہا ہے
غنیمت تھیں پُرانی صحبتیں بھی
شبِ غم چاند بھی گہنا گیا
لرز اُٹھی ہیں تاروں کی لویں بھی
رَگوں میں گرم خوں ٹھنڈا تو ہولے
ز خود مٹ جائیں گی یہ الجھنیں بھی
ہمارے کان پتھر ہو چلے ہیں
کوئی آواز آئے تو سُنیں بھی
گُلوں کو چھو کے زندہ رہنے والو!
بڑی لذت ہے نوکِ خار میں بھی
کبھی خلوت کدے میں جھانک کر دیکھ
یہاں سُونی پڑی ہیں محفلیں بھی
کہاں عالم کی پہنائی کہاں ہم
مگر ملتی نہیں اپنی حدیں بھی
ابھی ہے منزل دُور شہزاد
بہاریں ساتھ لے جائیں ہمیں بھی
٭٭٭
رات پھر جاگنا پڑا جیسے
آنکھ میں رنگ ہیں حنا جیسے
بند ہیں یوں دلوں کے دروازے
کوئی آیا یہاں نہ تھا جیسے
شب کی تنہائیوں میں یاد اس کی
جھلملاتا ہوا دیا جیسے
تپ رہی ہیں خیال کی گلیاں
چل رہا ہوں برہنہ پا جیسے
دل کی باتوں میں آ کے پچھتائے
سانپ پر پاؤں آ گیا جیسے
مطمئن ہوں ہوائے زنداں سے
گھر سی پائی یہاں فضا جیسے
میں تو پہلے ہی تھا قفس پروَر
خلوتی دل بھی ہو رہا جیسے
قطعہ
یُوں کھڑے ہیں طویل قامت پیڑ
کبھی آیا نہ زلزلہ جیسے
یُوں تمنائیں دل میں رہتی ہیں
نہ کبھی سَیلِ غم اُٹھا جیسے
شہر میں یُوں اُداس پھرتا ہوں
کوئی میرا نہیں رہا جیسے
خلق کی بے نیازیاں شہزاد
مہرباں مل گئے خدا جیسے
٭٭٭
دلوں میں تری یاد سی رہ گئی
یہی ایک منزل کڑی رہ گئی
اُڑا لے گئی دھوپ پھولوں کی
چمن میں صبا چیختی رہ گئی
اگرچہ وہ صورت ستارہ نہ تھی
دلوں میں مگر روشنی رہ گئی
نظر کے خرابے نہ دیکھے گئے
یہی چیز تھی دیدنی رہ گئی
بہت چاند کو دُکھ اُٹھانے پڑے
مگر بے اثر چاندنی رہ گئی
نہیں دل میں کچھ حسرتوں کے سوا
یہی ایک محفل جمی رہ گئی
کہاں پھر یہ ہنگامۂ رنگ و بُو
فراقت گھڑی دو گھڑی رہ گئی
قطعہ
جلاتے رہے ہم لہو کے چراغ
مگر تیرگی تیرگی رہ گئی
زمانہ اندھیروں میں ڈوبا رہا
چراغوں تلے رَوشنی رہ گئی
نہ پایا کسی نے کسی کا پتہ
نظر ہر طرف ڈھونڈتی رہ گئی
نہ پھر کوئی آیا ہماری طرف
نگاہِ طلب ڈھونڈتی رہ گئی
٭٭٭
کچھ نہ کچھ ہو تو سہی انجمن آرائی کو
اپنے ہی خوں سے فروزاں کو تنہائی کو
اب یہ عالم ہے کہ بیتی ہوئی برساتوں کی
اپنے ہی جسم سے بُو آتی ہے سودائی کو
پاس پہنچے تو بکھر جائے گاافسوں سارا
دُور ہی دُور سے سنتے رہو شہنائی کو
کسی زنداں کی طرف آج ہوا کے جھونکے
پا بہ زنجیر لیے جاتے ہیں سودائی کو
کس میں طاقت ہے کہ گلشن میں مقید کر لے
اس قدر دور سے آئی ہو ئی پُروائی کو
وہ دہکتا ہوا پیکر وہ اچھوتی رنگت
چُوم لے جیسے کوئی لالۂ صحرائی کو
بہت آزردہ ہو شہزادؔ تو کھل کر رو لو
ہجر کی رات ہے چھوڑو بھی شکیبائی کو
٭٭٭
اس مروت پہ محبت کا گماں کیا ہوگا
تو اگر دیکھ بھی لے دل نگراں کیا ہوگا
وہ فسانہ کہ جسے کہہ نہ سکے آنسو بھی
خشک ہونٹوں کے تبسم سے بیاں کیا ہوگا
ہم جہاں بیٹھے ہیں وہ شہر بھی ویرانہ ہے
ہم جہاں خاک اُڑائیں گے وہاں کیا ہوگا
اَب تو یوں چُپ ہیں کہ جیسے کبھی روئے ہی نہ تھے
اَب جو روئیں گے تو اندازِ فغاں کیا ہوگا
٭٭٭
مآخذ:
انٹر نیٹ کی مختلف سائٹس سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل:اعجاز عبید