FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

میری دعا ہی اور ہے

 

پرانی ای بک سے ترمیم شدہ

                شہزاد احمد

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

جس کو چکھا نہیں کبھی اس کا مزا ہی اور ہے

آپ بہشت مانگیے، میری دعا ہی اور ہے

 

مانا کہ شش جہات پر، اس کی ہیں سائیبانیاں

مجھ کو کہیں نہیں اماں، میری خطا ہی اور ہے

 

ایسا مرض ملا مجھے، جس کا نہیں کوئی طبیب

جاۓ کہاں دل غریب، اس کی دوا ہی اور ہے

 

میرا نصیب دیکھیے، مر کے بھی نہیں مر سکا

دست قضا سے خوف کیا، میری قضا ہی اور ہے

 

ویسے تو لوگ سب کے سب، مانتے ہیں اسی کو رب

ان کی گواہی اور ہے، میری گواہی اور ہے

 

یونہی برہنہ سر نہ پھر، شہر میں چادریں بہت

جو ترے دل کو ڈھانپ لے، پھر وہ ردا ہی اور ہے

 

اس قدر آگیا ہے فرق، سائے میں روشنی ہے غرق

بزم اداس کیوں نہ ہو، آج دیا ہی اور ہے

٭٭٭

 

جسے بار بار ملے تھے تم ، وہ مرے سوا کوئی اور تھا

مرے دل کو تاب نظر کہاں ، تمہیں دیکھتا کوئی اور تھا

 

گل تازہ یہ ترا رنگ و بو ، ہوا سب سے بڑھ کے ترا عدو

کسی اور نے تجھے چن لیا ، تجھے چاہتا کوئی اور تھا

 

سبھی ربط بے سر و پا ہوئے ، نہ ملے نہ تجھ سے جدا ہوئے

نہ الگ تھا تیرا جہاں کبھی ، نہ مرا خدا کوئی اور تھا

 

کھلا ہمدموں پہ راز کب کہ میں ایک عمر سے جاں بلب

مجھے روز ملتے تھے لوگ سب مگر آشنا کوئی اور تھا

 

کبھی روشنی مجھے کی عطا ، کبھی سائے ساتھ لگا دیے

کبھی سب چراغ بجھا دیے ، وہ تمہی تھے یا کوئی اور تھا

٭٭٭

 

 

 

گلے ہزار سہی، حد سے ہم بڑھیں گے نہیں

ہے کوئی بات مگر آپ سے کہیں گے نہیں

 

ہم اس لڑائی کو شرطِ ادب سمجھتے ہیں

وہ سامنے بھی اگر آگیا، ملیں گے نہیں

 

جو بات دل میں ہے، خود اپنے کان میں کہہ لے

یہ گفتگو در و دیوار تو سنیں گے نہیں

 

جہاں میں کوئی بھی شے بے سبب نہیں ہوتی

سبب کوئی بھی ہو، انکار ہم سنیں گے نہیں

 

عجب نہیں کہ اسی بات پر لڑائی ہو

معاہدہ یہ ہوا ہے کہ اب لڑیں گے نہیں

 

کسی بھی خوف سے کیوں چھوڑ دیں تری قربت

کہیں بھی جائیں، اس الزام سے بچیں گے نہیں

 

جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا

و نقش دل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں

 

ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تیرگی شہزاد

چراغ ہوں بھی تو اس رات میں جلیں گے نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شعر غالبؔ کے گنگناتے رہو

اور خود قافیے ملاتے رہو

 

سر دھُنو مدحِ اہلِ دانش میں

اپنی دُنیا میں خاک اُڑاتے رہو

 

جاگتے خواب دیکھتے جاؤ!

آپ اپنے فریب کھاتے رہو

 

نہ چلو موجۂ ہَوا کے ساتھ

دُور سے وقت کو بُلاتے رہو

 

بیٹھ کر اپنے آشیانوں میں

اُڑنے والوں پہ مسکراتے رہو

 

کرو بے نُور محفلِ اِمروز

تُربتوں پہ دِیے جلاتے رہو

 

جینے والوں سے مُوند کر آنکھیں

مرنے والوں کے گیت گاتے رہو

 

تیشۂ کوہکن سے کام نہ لو!

آستانوں پہ سر جھکاتے رہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

آج تلک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے

پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے

 

دھیان بھی اس کا ہے، ملتے بھی نہیں ہیں اس سے

جسم سے بیر ہے، سایے سے وفاداری ہے

 

دل کو تنہائی کا احساس بھی باقی نا رہا

وہ بھی دھندلا گئی جو شکل بہت پیاری ہے

 

اس تگ و تاز میں ٹوٹے ہے ستارے کتنے

آسمان جیت سکا ہے نا زمیں ہاری ہے

 

کوئی آیا ہے ذرا آنکھ تو کھولو شہزاد

ابھی جاگے تھے، ابھی سونے کی تیاری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کسی دیار کسی دشت میں صبا لے جا

مَیں مُشتِ خاک ہوں مجھ کو کہیں اُڑا لے جا

 

گُلوں کی باس نسیمِ سَحر سے کہتی ہے

کہیں قیام نہ کر مجھ کو جا بجا لے جا

 

ذرا سی دھوپ سے پہلو میں آنچ اُٹھتی ہے

میں برگِ خُشک ہوں موجِ فنا، بہا لے جا

 

خبر نہیں کہ کہاں شب کی ظلمتیں مل جائیں

دیارِ نُور میں بھی مشعلیں جلا لے جا

 

کہیں فضائے چمن کو نظر نہ لگ جائے

گلوں کو خوب بھی کہہ عیب بھی نکالے جا

 

کبھی تو جلوۂ جاناں کی آگ بھڑکے گی

نگاہِ شوق تُو سانپ آستیں میں پالے جا

 

تھکن ہزار سہی حوصلہ نہ ہار ابھی

قدم اُٹھیں نہ اُٹھیں دل مگر سنبھالے جا

 

یہ چاند ہی تری جھولی میں آ پڑے شاید

زمیں بیٹھ، کمند آسماں پہ ڈالے جا

 

ہُوا زمانہ کہ شہزادؔ مَیں بھی تنہا ہوں

مجھے بھی انجمنِ شوق میں ذرا لے جا

٭٭٭

 

 

 

 

وہ مرے پاس ہے کیا پاس بلاؤں اس کو

دل میں رہتا ہے کہاں ڈھونڈھنے جاؤں اس کو

 

آج پھر پہلی ملاقات سے آغاز کروں

آج پھر دور سے ہی دیکھ کے آؤں اس کو

 

قید کر لوں اسے آنکھوں کے نہاں خانوں میں

چاہتا ہوں کہ کسی نہ ملاؤں اس کو

 

اسے دنیا کی نگاہوں سے کروں میں محفوظ

وہ وہاں ہو کہ جہاں دیکھ نہ پاؤں اس کو

 

چلنا چاہے تو رکھے پاؤں مرے سینے پر

بیٹھنا چاہے تو آنکھوں پہ بٹھاؤں اس کو

 

وہ مجھے اتنا سبک ، اتنا سبک لگتا ہے

کبھی گر جائے تو پلکوں سے اٹھاؤں اس کو

 

مجھے معلوم ہے آخر تو جدا ہونا ہے

لیکن اک بار تو سینے سے لگاؤں اس کو

 

یاد سے اس کی نہیں خالی کوئی لمحہ

پھر بھی ڈرتا ہوں کہیں بھول نہ جاؤں اس کو

 

آج تو دھوپ میں تیزی ہی بہت ہے ورنہ

اپنے سائے سے بھی شہزاد بچاؤں اس کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

طے ہوں گے کس طرح یہ مراحل کہا نہ جائے

اس تیرگی میں کیا ہے مقابل کہا نہ جائے

 

خود دے دیے ہیں میں نے اسے ہاتھ کاٹ کر

وہ لکھ دیا ہے جو سر محفل کہا نہ جائے

 

پتھر ہوئے وہ لفظ کہ تھے جیتے جاگتے

اس خامشی سے کیا ہوا حاصل کہا نہ جائے

 

اب تک تو چل رہے ہیں ترے ساتھ ساتھ ہم

آئے گی کس جگہ حد فاصل کہا نہ جائے

 

نشہ ہے یا کہ زہر فضا میں ملا ہوا

کچھ ہے ہر ایک چیز میں شامل کہا نہ جائے

 

آخر کہیں تو بیٹھ گئے پاؤں توڑ کر

پھر کیا کہیں گے گر اسے منزل کہا نہ جائے

 

یہ اور بات کچھ بھی دکھائی نہ دے سکے

آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو غافل کہا نہ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

لوٹ آئی تیرے لمس سے مہکی ہوئی شامیں

پھر آگ لگا دی تری سانسوں نے ہوا میں

 

رقصاں ہیں اسی لے پہ ستارے ہوں کے شبنم

کیا سحر ہے اس دل کے دھڑکنے کی صدا میں

 

اک نور کا سیلاب ہے بند آنکھوں کے اندر

لپٹے ہوئے چہرے ہیں اندھیرے کی ردا میں

 

کس آگ نے رکھا ہے قدم دل کی زمین پر

سورج سے دمکتے ہیں نشان کف پا میں

 

اس خوف سے اک عمر ہمیں نیند نہ آئی

اک چور چھپا بیٹھا ہے سینے کی گُفا میں

 

جاگ اٹھا ہے دل میں کوئی سویا ہوا وحشی

ہم گھر میں ہیں شہزاد کہ جنگل کی فضا میں

٭٭٭

 

 

 

ایک زخمی پرندہ

 

 

مرے دل میں آباد ہے ایک زخمی پرندہ

جو اڑتا نہیں

چہچہاتا نہیں

دانے دنکے کی خاطر

کہیں آتا جاتا نہیں

بھیگتا ہے وہ ان بارشوں میں

جو ہو تی نہیں

وہ ترستا ہے اس دھوپ کو

جو بہت تیز ہے

صاف شفّاف ہے

ایسی بے رنگ ہے ____

اس کی آنکھوں میں عکس اس کا پڑتا نہیں

وہ نظر اس کو آتی نہیں

اپنی جانب بلاتی نہیں

 

اس کی آنکھوں میں اجڑے ہوے باغ ہیں

اس کے چہرے پہ مسلے ہوے رنگ ہیں

اس کی پیاسی زباں پر بہت ذائقے ہیں

مگر سب میں تلخی کی اک لہر ہے

گھونسلا اس کا اجڑا ہوا شہر ہے !!

٭٭٭

 

 

 

ہم اور ہوا

 

 

گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا

میری بھی تقدیر رہا ہے

تم نے بھی دُنیا دیکھی ہے

پھر بھی جب ہم ملتے ہیں

بچوں جیسی معصومی سے باتیں کرتے ہیں

تم کہتی ہو

آج سے پہلے تیرے جیسا کوئی نہیں تھا

میں کہتا ہوں

میں نے تجھ کو ہر چہرے میں تلاش کیا ہے

تم کہتی ہو

میرا دل دوشیزہ دھرتی جیسا ہے

میں کہتا ہو ں

میں اس دوشیزہ دھرتی کی پہلی بارش ہوں

لیکن ہم پہ ہوا ہنستی ہے

پیار سے آ کے لپٹ جاتی ہے

اور کہتی ہے

میں بھی پہلی بار چلی ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے

خاک سے بیٹھ گئے خاک اُڑانے والے

 

یہ الگ بات میسر لبِ گویا نہ ہوا

دل میں وہ دھوم کہ سنتے ہیں زمانے والے

 

کسی منزل کی طرف کوئی قدم اُٹھ نہ سکا

اپنے ہی پاؤں کی زنجیر تھے جانے والے

 

دل سا وحشی کبھی قابو میں نہ آیا یارو

ہار کر بیٹھ گئے جال بچھانے والے

 

دن کی کجلائی ہوئی دھوپ میں کیا دیکھتے ہیں

شام ہوتے ہی پریشاں نظر آنے والے

 

جلوۂ حسن سزاوارِ نظر ہو نہ سکا

کچھ نہیں دیکھ سکے آنکھ اُٹھانے والے

 

یادِ ایّام کے دروازے سے مت جھانک مجھے

آنکھ سے دُور نہ ہو دل میں سمانے والے

 

تیری قربت میں گزارے ہوئے کچھ لمحات

دل کی تنہائی کا احساس دلانے والے

 

انہی جھونکوں سے ہے شہزاد چمک آنکھوں میں

یہی جھونکے ہیں چراغوں کو بجھانے والے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہزار موجۂ سیلاب پُر خطر ہی سہی

جو ڈوبنا ہے تو پھر تیرے نام پر ہی سہی

 

کبھی یہاں بھی چمن تھا یہاں بھی رونق تھی

گزر رہے ہو تو اس سَمت اِک نظر ہی سہی

 

نہ منزلوں کو تمنا نہ راستوں کی خبر

نکل پڑے ہیں تو پھر کوئی رہگزر ہی سہی

 

کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں

جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی

 

کبھی تو لے ہی اُڑوں گا قفس کو ساتھ اپنے

ہنوز مجھ کو تمنائے بال و پَر ہی سہی

 

تمہاری آنکھ میں کیفیتِ خمار تو ہے

شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی

 

زمانہ تِیرہ و تاریک ہے ۔۔۔مگر مَیں کون؟

مری چمک سے اُجالا نگر نگر ہی سہی

 

بہت اُداس ہے ہر ایک رہگزر شہزادؔ

کدھر کو جائیں ہم آمادۂ سفر ہی سہی

٭٭٭

 

 

 

مرے ہمراہ منزل بھی رواں ہے

مسافر میں ہوں یا سارا جہاں ہے

 

حقیقت تک رسائی ہے کہاں ہے

یقیں جس کو سمجھتے ہو گماں ہے

 

وہاں پہنچے جہاں جانا نہیں تھا

سفر جتنا کیا وہ رائیگاں ہے

 

وہاں میں ڈھونڈتا ہوں جاودانی

جہاں ہر چیز بے نام و نشاں ہے

 

بدلتا ہے وہ دن بھر میں کئی روپ

فلک شاید چراغوں کا دھواں ہے

 

عجب آسیب ہے یہ خانۂ دل

مکیں ہوتے ہوئے خالی مکاں ہے

 

دہکتا کوئلہ ہے ہر حرفِ مطلب

مگر یہ کوئلہ میری زباں ہے

 

مرے دل میں چمکتے ہیں ستارے

مرے اندر بھی شاید آسماں ہے

 

پہنچنا ہے مجھے اپنے خُدا تک

مگر ساری خُدائی درمیاں ہے

 

یہ کِس کو چھو لیا شہزادؔ میں نے

سکت دل میں اب نہ ہاتھوں میں جاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم

سچ بات یہ ہے تیرے زمانے کے نہیں ہم

 

آوارہ مزاجی بھی طبیعت نہیں اپنی

ویسے تو کسی ٹھور ٹھکانے کے نہیں ہم

 

اب دیکھتے ہیں تیرگی جاتی ہے کہاں تک

اے تیرہ شبی شمع جلانے کے نہیں ہم

 

اک درد کی دولت ہے جسے بانٹے پھریے

مالک بھی کسی اور خزانے کے نہیں ہم

 

تو نے تو ابھی کھیل کا آغاز کیا ہے

کردار ابھی تیرے فسانے کے نہیں ہم

 

اے خالق گل چاہیے کچھ اور بھی وسعت

معمورۂ عالم میں سمانے کے نہیں ہم

 

کہتے چلے جاتے ہیں کہانی پہ کہانی

اس قید سے باہر کبھی جانے کے نہیں ہم

 

اس شہر کے اندر ہیں فصیلیں ہی فصیلیں

اس قید سے باہر کبھی جانے کے نہیں ہم

 

شہزاد دل و جاں پہ جو گذری ہے قیامت

وہ زخم کسی کو بھی دکھانے کے نہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی

بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی

 

آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو

منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی

 

ہے ابھی لمس کا احساس مرے ہونٹوں پر

ثبت پھیلی ہوئی بانہوں پہ حرارت اس کی

 

وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو

ابھی محسوس کئے جاؤ رفاقت اس کی

 

وہ کبھی آنکھ بھی جھپکے تو لرز جاتا ہوں

مجھ کو اس سے بھی زیادہ ہے ضرورت اس کی

 

وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں

میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی

 

بے طلب جینا بھی شہزاد طلب ہے اس کی

زندہ رہنے کی تمنا بھی شرارت اس کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے

وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے

 

آخر کار ہوئے تیری رضا کے پابند

ہم کہ ہر بات پہ اصرار کیا کرتے تھے

 

خاک ہیں اب تیری گلیوں کی وہ عزت والے

جو تیرے شہر کا پانی نہ پیا کرتے تھے

 

اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں

لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے

 

دوستو! اب مجھے گردن زدنی کہتے ہو

تم وہی ہو کہ مرے زخم سیا کرتے تھے

 

اب تو شہزاد ستاروں پہ لگی ہیں نظریں

کبھی ہم لوگ بھی مٹی میں جیا کرتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس سے تُو بات کرے جو ترا چہرہ دیکھے

پھر اُسے شہر نظر آئے نہ صحرا دیکھے

 

روشنی وہ ہے کہ آنکھیں نہیں کھُلنے پاتیں

اب تو شاید ہی کوئی ہو جو اُجالا دیکھے

 

اس بھرے شہر میں کس کس سے کہوں حال اپنا

میری حالت تو کوئی دیکھنے والا دیکھے

 

چھوڑنے میں نہیں جاتا اُسے دروازے تک

لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اُسے جاتا دیکھے

 

مُنہ چھُپانے کا بھی موقع نہ میسّر آئے

اہلِ دُنیا کی وہ ذِلّت ہو کہ دُنیا دیکھے

 

سائے کی طرح مرے ساتھ ہے دُنیا شہزادؔ

کیسے مُمکن ہے کہ کوئی مُجھے تنہا دیکھے

٭٭٭

 

 

 

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے

پتھر پہ ہوں لکیر مٹا دیجئے مجھے

 

ہر روز مجھ سے تازہ شکایت ہے آپ کو

میں کیا ہوں، ایک بار بتا دیجئے مجھے

 

میرے سوا بھی ہے کوئی موضوعِ گفتگو

اپنا بھی کوئی رنگ دکھا دیجئے مجھے

 

میں کیا ہوں کس جگہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں

ہیں آپ کتنی دور صدا دیجئے مجھے

 

کی میں نے اپنے زخم کی تشہیر جا بجا

میں مانتا ہوں جرم سزا دیجئے مجھے

 

قائم تو ہو سکے کوئی رشتہ گہر کے ساتھ

گہرے سمندروں میں بہا دیجئے مجھے

 

شب بھر کرن کرن کو ترسنے سے فائدہ

ہے تیرگی تو آگ لگا دیجئے مجھے

 

جلتے دنوں میں خود پسِ دیوار بیٹھ کر

سائے کی جستجو میں لگا دیجئے مجھے

 

شہزادؔ یوں تو شعلۂ جاں سرد ہو چکا

لیکن سُلگ اٹھیں تو ہوا دیجئے مجھے

٭٭٭

 

 

 

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو

میں پیمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو

 

دل کے ہر ذرے پہ ہے نقش محبت اس کی

نور آنکھوں کا ہے آنکھوں سے جدا کیسے ہو

 

جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانیں

اور جسے جان چکے ہیں وہ خدا کیسے ہو

 

عمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی

ہاں مگر دل نہ جلائیں تو ضیا کیسے ہو

 

جس سے دو روز بھی کھُل کر نہ ملاقات ہوئی

مدتوں بعد ملے بھی تو گلہ کیسے ہو

 

کن نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہوں شہزاد

مجھ کو معلوم نہیں اس کو پتا کیسے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

حال اس کا ترے چہرے پہ لکھا لگتا ہے

وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے ترا کیا لگتا ہے

 

یوں تو ہر چیز سلامت ہے مری دنیا میں

ایک تعلق ہے جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے

 

میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اک شہر میں میں

یہاں تو ہر شخص کا انداز جدا لگتا ہے

 

مدتیں بیت گئیں طے نہ ہوئی منزلِ شوق

ایک عالم مرے رستے میں پڑا لگتا ہے

 

اے مرے جذبۂ دوراں مجھ میں کشش ہے اتنی

جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے

 

جانے کون سی پستی میں گِرا ہوں شہزادؔ

سورج بھی اس قدر دور ہے کہ دِیا لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے

اک نظر مری طرف دیکھ ترا جاتا کیا ہے

 

میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک

میرے قصے مرے یاروں کو سناتا کیا ہے

 

پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو

دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

 

سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں ترے

دور سے دیکھ کے اب ہاتھ اٹھاتا کیا ہے

 

عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے

تو مجھے میرے ہی سائے سے ڈراتا کیا ہے

 

مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابرِ کرم

بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے

 

میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا

دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے

٭٭٭

فرد فرد اشعار

 

 

 

شہر میں سب محفلیں برہم ہوئیں

اب کہیں آنا جانا نہیں

دل کہ جسے دعویٰ خدائی کا ہے

ایک ہُنر میں بھی یگانہ نہیں

٭٭

 

 

بہت مضبوط تھی بستی کی دیوار

مگر دریا کو رستہ چاہیے تھا

مری تقدیر جب لکھی گئی تھی

مجھے موجود ہونا چاہیے تھا

٭٭

 

 

کھلے جو پھول تو منہ چھپ گیا ستاروں کا

مثالِ ابر چلا کارواں بہاروں کا

نہ مجھ سے پوچھ شبِ ہجر دل پہ کیا گزری

یہ دیکھ حال ہے کیا میرے غمگساروں کا

شبِ سیاہ کے لمحے گزار لینے دو

گھڑی گھڑی نہ کرو ذکر ماہ پاروں کا

٭٭

 

 

آوارگیاں چاند ستاروں کے جہاں میں

وہ دن کہ زمیں پر کبھی پاؤں نہ پڑے تھے

شہزادؔ کسی کھوئی ہوئی یاد کی مانند

کل سایۂ دیوار میں چپ چاپ کھڑے تھے

٭٭٭

مآخذ: فیس بک اور انٹر نیٹ کی مختلف ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید