فہرست مضامین
- مقدّمہ
- غزلیں
- نعت
- پیار کی نظروں سے دیکھے رحمتِ باری ہمیں
- نہ آ سکی ہے جراحتِ آرزو سوئے اندمال اب تک
- الفت کر سکتے ہیں لیکن کیا انجامِ الفت ہو گا
- ہونٹوں پر محسوس ہوئی ہے آنکھوں سے معدوم رہی ہے
- صحرا کو گلستاں کہتا ہوں، بجلی کو تجلّی کہتا ہوں
- ابھی تو موسمِ نا خوشگوار آئے گا
- تمھاری فرزانگی سے کچھ کم نہیں ہے دیوانہ پن ہمارا
- خواص پڑ کے سو رہے، عوام اُٹھ کے چل پڑے
- چرچے عبادتوں کے، گناہوں کے مشغلے
- عہد مایوسی جہاں تک سازگار آتا گیا
- بتوں کو نرم دل کہا ہے اور بارہا کہا
- شادِؔ مغموم جو مسرور نظر پڑتا ہے
- جن کی عیاشی مُسلّم ہے غزل میراث ہے
- دل کا چور زباں دشمن کی کھلنے پر پکڑا تو کیا
- احتیاطوں کو نیا انداز دوں
- وقت کیا شے ہے، پتہ آپ ہی چل جائے گا
- راحت ملی نہ کاوشِ عزمِ سفر گئی
- اُچھل کے اندھے کنوئیں میں گرنے کو میں ترقی نہیں سمجھتا
- ڈال کر بانہیں، بہا کر اشک، پھر آنے کی بات
- اندھیرے میں ہم، آپ ہیں روشنی میں
- اٹھانا ہے گھٹا کی زلفِ مشکیں سے دھواں مجھ کو
- مستقبل روشن تر کہیے
- مجھ پہ جم جائے نگاہِ فتنہ کار آساں نہیں
- سوتے ہی اپنے بستر پر
- تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے
- رنگِ رُخ یوں غمِ حالات نمایاں کر دے
- کوئی تلاش نہ ضائع نہ رائے گاں ہو گی
- بنا پائی نہ ذرّے کو نگینا
- کچھ اس ادا سے مجھ کو انجمن میں دیکھتا ہے وہ
- جو خبط و آگہی کی ہا تھا پائی ختم ہو جائے
- کرمِ موج پہ ساحل کو گوارا کر لوں
- دیکھتا ہوں انجمن میں اس طرح میں سوئے دوست
- کچھ سہی غیر وفادار نہیں کہہ سکتے
- تری نگاہ میں احساس کا لہُو پا کر
- اے کاش، آپ ہم کو وہاں تک ستا سکیں
- کل شہر سخنور ہے تو کیا عرض کیا جائے
- ہے تو احمق، چونکہ عالی شان کا شانے میں ہے
- وطن پرست ہی بیٹھے ہیں شہ نشینوں میں
- جو چاہتے ہیں ہمیں بے قرار فرمائیں
- یہ عرضِ دید کی غایت یہ اصلِ لن ترانی ہے
- چاہتے ہیں گھر بتوں کے دل میں ہم
- چشمِ پاداش میں کافی ہے مسلماں ہونا
- تارے جو آسماں سے گرے خاک ہو گئے
- ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حسیں پر
- رازِ گلشن کلی جو پالے گی
- کھری باتیں بہ اندازِ سخن کہہ دوں تو کیا ہو گا
- منزلیں اشعار کہہ چلنے میں آساں ہو گئیں
- چھوٹ سکتی تھی کہیں سیرِ گلستاں ہم سے
- مندر کا تصور کہ خُمستاں کے ارادے
- ہر ساغر کے بعد عموماً مجھ کو یہ احساس ہوا ہے
- چاہت کا الزام بُرا ہے
- کئی دن سے اُسے دیکھا نہیں ہے
- کام جو آج نہ ہو پائے وہ کل ہو نہ سکے
- بیٹھے تھے اُن کی یاد میں کل بے خبر سے ہم
- بندہ پرور دن تصور کر رہے ہیں رات کو
- اُسے جس حال میں سجدہ کیا ہے
- ہے جو بے قابو طبیعت آج کل
- یہ جگمگاتے ہوئے ستارے، یہ پھول جو مُسکرا رہے ہیں
- مجلسِ شوریٰ میں کج فہموں کو داخل کیوں کیا
- گو ہمیں حاصل جوتھی، وہ بھی تن آسانی گئی
- مجھ پہ اس ’’ حیا خو‘‘ کی ہر نظر ادھوری ہے
- تا چند باغبانیِ صحرا کرے کوئی
- سکوں کی التجا پر سوزِ نا معلوم غائب ہے
- لا اے ساقی تیری جے ہو
- مشکل سے اُس بُت کی قسمیں
- میں تو غزلیں کہہ کر دل بہلا لیتا ہوں لیکن وہ؟
- اصطلاحاً بُرے کو بھلا کہہ دیا
- میں نے کانٹوں میں لچک پائی ہے
- جوانی ہے دل آ جانے کے دن ہیں
- اور تو کیا یہ نمک خوارِ سیاست دیں گے
- مانا جبیں نواز ترا سنگِ در نہیں
- ہم لوگ بھی گلشن کے نگہبان رہے ہیں
- شادؔ ضعیف العُمر ہے لیکن اُس کے شعر جواں ہوتے ہیں
- اُس کے زانو سے اُٹھانا پڑ رہا ہے سر مجھے
- جبر نغمہ بھی، قیدِ قفس بھی
- تائیدِ غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں
- ’’اسی کوچے میں ‘‘ سحر۱؎ ایک حسیں دیکھ آیا
- اُٹھ گئی اس کی نظر میں جو مقابل سے اُٹھا
- کبھی کوئی کرم، کوئی عنایت ہو بھی جاتی ہے
- نام جس نے ستم کا کرم رکھ دیا
- اس زمانے میں جو رنگین غزل کہتے ہیں
- رنگِ رُخ سُرخیِ پیغام سے وابستہ ہے
- گزر جاتے ہیں جب دو دل حدودِ عہد و پیماں سے
- یقین مانیے یہ بات بھی بڑی خوشی کی ہے
- عمر، بکر کی شرارتوں پر جو زید کو بزم سے اٹھا دیں
- بہار کی خبر میں احتمال بھی تو چاہیے
- ہے ذکرِ انقلاب کہیں فکرِ شر کہیں
- خوف یہ ہے کہ وہ پھولوں پہ نہ آرام میں ہوں
- سلیقہ ہی نہ آیا اشک ہائے دیدۂ تر سے
- ایسی شراب جس کی زمانے کو بُو نہ آئے
- نہ عداوت نہ محبّت کا گماں ہوتا ہے
- ہوئی صبح، بسترِ رنگ و بُو سے وہ گلستانِ جواں اُٹھا
- جو صورت پہ معنیٰ کو قربان کر دے، کوئی اور ہو گا، مرا دل نہیں ہے
- دشمنوں سے جو آسرا لے گی
- دیکھ پاتے ہیں جو ہم کو درمیانِ کوئے دوست
- دیکھتا ہوں پھول کو کھویا ہوا شبنم میں ہوں
- مرا قاصد تقاضے پر تقاضہ کر رہا ہو گا
- بت خانوں کو یہ آزادی
- حیرتِ جلوۂ محبوب بتاؤں
- ابر ہے، التجائے ساقی ہے
- ہر نشانِ سجدہ کواس کا نقشِ پا کہہ دوں
- یہاں نہیں ہے وہاں نہیں ہے اِدھر نہیں ہے اُدھر نہیں ہے
- اُداسیوں کی چھاؤں کو سمجھ رہے ہیں نور ہے
- اسلحہ آٹھ پہر بنتے ہیں
- ناصح جو غلط بین و غلط کار رہا ہے
- الفت کے بعد سیرِ چمن لازمی ہوئی
- سروں پر جو ساماں اٹھائے کھڑے ہیں
- یہ راہزن ہوں کہ رہرَو ذرا گزر جائیں
- پوچھو تو رہنما سے یہ کون مرحلہ ہے
- فریبِ رسمِ محبت جو پا گیا ہوں میں
- بیکَسی میں سابقہ پڑنے پہ اندازہ ہوا
- سر سے ٹوپی گر جائے گی گردن دُکھ کر رہ جائے گی
- قدم سنبھل کے بڑھاؤ کہ روشنی کم ہے
- عہدِ مایوسی جہاں تک سازگار آتا گیا
- مطلع کہا ہے، نظمِ وطن کا گلہ نہیں
- کب خس و خاشاک میں بجلی چھُپی رہتی نہیں
- Related
- نعت
منتخب کلامِ شاد عارفی
فیروز مظفر
مکمل ڈاؤن لوڈ کریں
مقدّمہ
شاد عارفی( احمد علی خاں ) 1900ء میں ریاست لوہارو پیدا ہوئے تھے جہاں اُن کے والد عارف اللہ خاں تھانے دار تھے جن کے تین بیٹوں میں شادؔ سب سے چھوٹے تھے۔ اُن کی ابتدائی تعلیم لوہارو میں ہی شروع ہوئی۔ قاعدہ بغدادی، قرآن مجید اور عربی صرف و نحو کی کتابیں انھوں نے اپنے والد کی رہنمائی میں ہی پڑھیں۔ ابھی اُن کی عمر نو برس کی ہی تھی کہ اُن کے والد ملازمت سے رٹائر ہو گئے اور رام پور منتقل ہو گئے جہاں شاد عارفی کا نانہال تھا۔ رام پور کا محلہ گھیر عثمان خان اُن کے نانا سے منسوب ہے۔ رام پور میں شاد عارفی کو غلام حیدر عرف عمّی میاں کے دبستانِ حیدری میں داخل کر دیا گیا جس میں موصوف نے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اُن کے اساتذہ میں حکیم یوسف علی خاں اور حافظ ریل وغیرہ لائق ذکر ہیں بعد ازاں شاد نے حامد ہائی اسکول میں انگریزی پڑھی لیکن ابھی وہ میٹرک تک ہی پہنچے تھے کہ عارف اللہ خاں کا انتقال ہو گیا اور خاندان کی کفالت کا بار شاد عارفی کے کندھے پر آ پڑا اور اُن کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ بہ ایں ہمہ علم حاصل کرنے کی بے پناہ خواہش کے تحت شاد عارفی پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ادیب، منشی وغیرہ کے امتحانات میں کامیاب ہوئے اور ہندی زبان میں بھی سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔
باپ کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے بعد نو عمری میں ہی شاد عارفی کو ملازمتیں کرنی پڑیں پہلے مقامی شکر فیکٹری میں اکاؤنٹنٹ رہے پھر مکّا مِل میں سپروائزر ہوئے۔ مختلف اوقات میں انھوں نے کبھی کنسٹرکشن کمپنی میں سائٹ انچارج تو کبھی سی او ڈی(C.O.D.) میں لیجر چیکر کی خدمات انجام دیں پھر رامپور میونسپل بورڈ میں ٹیکس کلرک ہو گئے۔ آخر میں انھوں نے ریاست رام پور کے نیم سرکاری اخبار’ اقبال‘ کی ادارت سنبھالی پھر رام پور اسٹیٹ پریس میں انگلش پروف ریڈر کی اسامی پر تقرر ہوا اور وہیں بجٹ اکاؤنٹنٹ ہو گئے۔ ریاست رام پور کے حکومت ہند میں الحاق کے نتیجے میں انھیں دور افتادہ تحصیل سوار میں ناظر کے عہدے پر متعین کیا گیا جہاں وہ ملیریا کا شکار ہو گئے اور بہت پریشانی کے عالم میں ملازمت سے مستعفی ہو گئے۔ اس مرض نے زندگی بھر اُن کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ آخری عمر میں شاد نے گزر بسر کے لیے شاگردوں سے حق اصلاح کے طور پر حاصل کردہ فیس، چھوٹی موٹی ٹیوشنوں اور رسالوں سے اپنی نگارشات کے معاوضوں کو گزر بسرکا وسیلہ بنایا۔ یہ اُن کی بے پناہ تنگدستی اور افلاس کا زمانہ تھا۔ اکثر اُنھیں دو وقت کی روٹی فراہم کرنے کے لیے اپنی کتابیں اور رسالے اونے پونے داموں فروخت کرنی پڑتی تھیں۔ بے سہارا بھتیجی بھتیجے اور ان کے کنبوں کی کفالت شاد نے اسی بے سر وسامانی کے عالم میں کی، ان کی تعلیم کا بندوبست کیا، شادیاں کیں اور پھر اُن کی اولادوں کے سرپرست بن گئے۔ معذور بھائی اور سن رسیدہ والدہ کی انھوں نے آخری سانس تک خدمت کی حتیّٰ کہ ماں کے انتقال پر انھیں اپنا آبائی مکان بیچ کر تکفین و تدفین کا بندوبست کرنا پڑا جس کے بعد انھیں بقیہ زندگی کرائے کے خستہ حال مکانوں میں بسر کرنی پڑی۔
شاد عارفی کی زندگی میں سرد ہوا کے چند جھونکے بھی آئے۔ سولہ سترہ برس کی عمر میں انھیں اپنے دُور کی ایک رشتہ دار لڑکی سے عشق ہو گیا جو تین چار برسوں تک چلا۔ ان کا عشق اس اعتبار سے کامیاب تھا کہ محبوبہ کا بھرپور التفات انھیں حاصل تھا اور اس اعتبار سے ناکام تھا کہ ماں نے انھیں غیر کفو میں شادی کی اجازت نہیں دی اور وہ بی بی کسی دوسرے سے بیاہ دی گئی۔ اس جانکاہ حادثے کے زیر اثر شاد عارفی تقریباً تین سال تک مجنونی کیفیت میں رہے پھر اُنھیں تارا نام کی ایک لڑکی سے عشق ہوا جو اس خاندان کے پڑوس میں رہتی تھی جہاں شاد ٹیوشن پڑھانے جاتے تھے۔ یہ سلسلۂ محبت بھی چار پانچ برسوں تک جاری رہا پھر محبوبہ کے والد کا کہیں اور تبادلہ ہو گیا۔ اس محبت میں بھی شاد کا عشق دو طرفہ تھا بلکہ محبوبہ شاید ان کے عشق میں زیادہ پُر جوش تھی۔ کوئی چالیس برس کی عمر میں والدہ نے ان کی شادی پری بیگم سے کر دی جو ڈیڑھ برس اُن کی خدمت کر کے ایام حمل میں مناسب علاج معالجہ نہ ہونے کے باعث اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ ان تمام واقعات سے متعلق شاد کی کئی نظمیں اور عشقیہ غزلوں کے اشعار ان کے مجموعہ کلام میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس زمانے کے حالات بیان کرتے ہوئے مسعود اشعر نے لکھا ہے:
’’1955ء میں۔۔ ۔۔ رام پور گیا تو دیکھا کہ شاد عارفی اب وہ پہلے جیسا شاد ہی نہیں ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ بیماری نے یہ حال کر دیا ہے کہ چارپائی پر ہر وقت پڑے رہتے ہیں۔ منہ سے حقّے کی نَے لگی ہے اور نیچے فرش پر بیٹھے پچیسی (غالباً چوسر) کھیلنے والے شاگردوں کو مشورے دے رہے ہیں۔ کبوتر بازی اور پتنگ بازی طاقت کے ساتھ ہی ختم ہو چکی ہے۔ اب وہ خود ایک کٹی ہوئی پتنگ تھے جس نے چاہا پکڑ لیا اور جب چاہا چھوڑ دیا۔ ‘‘ (1)
اردو ادب میں میر تقی میر، یگانہ چنگیزی وغیرہ کی خود داری کے بڑے شہرے ہیں لیکن اس ضمن میں شاد عارفی اپنی مثال آپ تھے مرتے مر گئے لیکن کسی سے امداد کے خواہاں نہیں ہوئے۔ حتیّٰ کہ آل احمد سرور نے حکومت سے وظیفہ جاری کرانے کے لیے درخواست فارم پر دستخط لینے چاہے تو شاد نے انکار کر دیا کہ طلبیدہ وظیفہ وہ قبول نہیں کریں گے۔ کوئی معاونت کرنا چاہتا تو ناراض ہو جاتے تھے۔
طویل علالت میں معقول علاج کی کمی، اچھی غذا سے محرومی اور ناسازگار حالت میں کئی برس گزرانے کے بعد رام پور میں مزار شاہ ولی اللہ کے نزدیک ایک شکستہ مکان میں انھوں نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ یہ واقعہ 8فروری1964ء میں پیش آیا۔ انھیں مزار شاہ ولی اللہ کے احاطے میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔
مزاجاً شاد عارفی ایک انتہا پسند انسان تھے بقول مظفر حنفی:
’’ شاد عارفی کی شخصیت کا مطالعہ ان کی نثری تخلیقات، تنقیدی مضامین اور خطوط کی روشنی میں کیا جائے تو وہ تنگ نظر، احساسِ کمتری کا شکار اور چڑچڑے بھی نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی ان میں انتہائی سخاوت، ذہنی اور قلبی فراخدلی اور فیاضی، جرأت مندی، اخلاص، اعلا ذہانت و جودت طبع جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ وہ واقعی ایک زندہ اور حرارت سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ ‘‘ (2)
شاد عارفی سچ مچ مجموعۂ اضداد تھے جیسے ایک خوبصورت، رنگارنگ اور عطر بیز پھولوں کے گلدستے میں خشک اور خاردار ٹہنیاں اور زرد پتّے بھی پرو دیے گئے ہوں۔ بے حد حساس اور زود رنج تھے مخاطب کے لہجے سے اُس کی نیت کو بھانپ لیتے تھے۔ مصلحت پسندی، نمائش، بناوٹ اور زمانہ سازی سے سخت نفرت کرتے تھے۔ مقامی معاصرین کی سازشوں اور فریبی رشتہ داروں کی کارستانیوں کی وجہ سے کوئی بھی ملازمت دلجمعی کے ساتھ نہیں کر سکے۔ بڑے سے بڑے افسر کی کوتاہی پر کھلے عام اعتراض کرنے کی عادت بھی ان کے لیے بہت سے مصیبتوں کا سبب ہوئی۔ اکثر کسی افسر کی معمولی سی گرفت پر فی الفور ملازمت چھوڑ دیتے تھے اور غیر ضروری احساس کمتری کا شکار ہو جاتے تھے۔ ایسی ہی بیشتر وجوہ سے ان کے مزاج میں جو شدید انا پسندی پیدا ہو گئی تھی وہ زندگی بھر ان کے حق کانٹے بوتی رہی، پریشانیاں کھڑی کرتی رہی۔ رام پور سے باہر ادبی حلقوں میں اپنی منفرد شاعری کے نتیجے میں جو شہرت اور ناموری ان کے حصّے میں آئی اس نے مقامی شاعروں اور ادیبوں میں شاد عارفی سے حسد اور رقابت کو بڑھاوا دیا چنانچہ اس میدان میں بھی ان کے مخالفین اور منافقین نے اس نازک مزاج شاعر کا جینا دوبھر کر دیا۔ ان حالات میں شاد عارفی کے مزاج میں چڑچڑے پن، بہت جلد سیخ پا ہو جانا، خود ترحّمی، تشکک مزاجی اور انانیت نے گھر کر لیا۔ ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا لینا، عام سے واقعہ کا گہرا اثر قبول کرنا اور اتنی ہی شدّت کے ساتھ Reactکرنا ان کی فطرت میں شامل ہو گیا۔ کسی سے ذرا سی بات پر خفا ہو جاتے تو سلام دعا تک ترک کر دیتے تھے۔ معاشرے سے اتنے چرکے کھانے کے بعد اب وہ اپنے سچے مخلصین پر بھی مشکل سے بھروسہ کرتے تھے۔
شاد عارفی کو بچپن میں والد نے تلوار بازی سکھائی تھی۔ ڈیل ڈول ایسا پایا کہ سپاہی تو نہ بن سکے لیکن زود حسی، غیرت مندی، افلاس زدگی اور حالت کی ستم ظریفی نے شاد کو قلم سے تلوار کا کام لینا سکھا دیا۔ مظفر حنفی رقم طراز ہیں:
’’ جہاں بھی انھیں اپنی یا کسی دوسرے کی حق تلفی کا احساس ہوتا تھا وہ مخالف کے لیے شمشیر برہنہ بن جاتے تھے۔ معاشرے نے ان کی حق تلفی کی تو انھوں نے اپنی دھار دار غزلوں اور آتشیں نظموں سے اس کے ناسور کریدے۔ دوستوں، عزیزوں اور ہم وطنوں نے انھیں تکلیف پہنچائی تو ان کی بھی نظموں، غزلوں، رباعیوں، قطعوں اور خطوط کے ذریعے خبر لی گئی۔ ‘‘ (3)
اپنی ان نفسیاتی کمزوریوں کے ساتھ، جو کہ حالات کی دین تھیں، فطرتاً شاد عارفی بے حد غیور، غیرت مند، وسیع القلب، انصاف پسند، اقربا پرور، انسانیت نواز، سادہ مزاج، خوش خلق، ایثار پیشہ، قانع، حق گو، بے باک اور خوش مزاج آدمی تھے۔ جلدی روٹھتے تھے تو بہت آسانی سے صلح پر مائل بھی ہو جاتے تھے۔ سیر دلی کا یہ حال تھا کہ ملازمت کے زمانے میں مشاعروں میں شرکت کے لیے معاوضہ بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ ایک جگہ خلیل الرحمان اعظمی نے اُن کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ شاد عارفی ایک انوکھی اور نرالی شخصیت کے مالک تھے اور ان کے اندر بعض ایسی ادائیں تھیں جو انھیں سے مخصوص تھیں۔ طبعاً بہت معصوم اور بھولے بھالے تھے، ان کا روٹھنا اور من جانا بالکل بچوں کا سا ہوتا تھا۔ عزیزوں اور دوستوں سے بے حد محبت کرتے تھے اور ان کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ خلوت پسند اور بند بند سے آدمی بھی نہیں تھے اور نہ اپنے بارے میں زیادہ باتیں کرتے تھے۔ میں نے انھیں اپنی شاعری کے بارے میں عام لوگوں سے گفتگو کرتے کبھی نہیں دیکھا اور نہ وہ اپنا دکھڑا ہر ایک سے رونا پسند کرتے تھے۔ جس زمانے میں وہ فاقہ مستی کی زندگی گزار رہے تھے اور ان کو پَے بہ پَے کئی صدموں سے دوچار ہونا پڑا تھا، اس وقت بھی میں نے انھیں شگفتہ پایا۔ ‘‘ (4)
ان کے بارے میں اظہار خیال کرنے والے اکثر اہلِ قلم کا بیان ہے کہ موصوف کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں ان کو ایسے ایسے واقعات، لطیفے، ادبی چٹکلے اور زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں تجربات حاصل تھے کہ ہم صحبت لوگوں کو ان کے پاس بیٹھنے میں بہت مزا آتا تھا اور وہ اپنے ملاقاتی کو کبھی بیزار نہیں ہونے دیتے تھے۔ بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتے، نوجوانوں کے ساتھ ان کے برتاؤ کا اندازہ اکبر علی خاں ( عرشی زادہ) کے اس بیان سے بخوبی کیا جا سکتا ہے:
’’ ایک دن دل پکّا کر کے پہنچ گیا اور ان سے شاگردی کی درخواست کی۔ چھوٹتے ہی پوچھنے لگے کہ ’ عشق وشق کیا ہے ؟‘ یہ کسے توقع تھی کہ ایسا بے تکلف سوال کریں گے۔ میں نے کہا ’ نہیں ‘ تو بولے پھر شاعری تمھارے بس کی نہیں۔ انھوں نے وہ قصّے چھیڑ دیے جب آتش جوان تھا۔ اور پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو بڑے ہی دلچسپ آدمی ہیں۔ ‘‘ (5)
شاد عارفی کے فن پر گفتگو کرنے سے قبل اُن کے حالات زندگی اور شخصیت کے متعلق یہ امور اس لیے واضح کرنا ضروری تھے کہ ادب کو معاشرے کا آئینہ دار کہا جاتا ہے اور اس آئینہ خانے میں اس کے تخلیق کار کی شخصیت بھی صاف جھلکتی ہے۔ مظفر حنفی نے اس نکتے پر روشنی ڈالتے کیا خوب شعر کہا ہے:
ادب آئینہ ہے اور ایسا عجیب آئینہ
جس میں سیرت بھی نظر آتی ہے صورت ہی نہیں
بچپن میں شمشیر زنی کی تربیت حاصل کرنے والے شاد عارفی نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا تھا جو درج ذیل ہے:
ہو چکا ہے خیر سے ہُشیار تُو
اپنے دشمن پر اُٹھا تلوار تُو
(آخری شعری تخلیق وصی اقبال کا سہرا ہے جو نومبر 1963ء میں لکھا گیا تھا۔ )
شاد عارفی نے پانچ چھ برسوں کی مبتدیانہ کاوشوں کے بعد محمود خاں شفق رام پوری کی شاگردی اختیار کر لی۔ ان سے مشورہ سخن کا یہ سلسلہ کوئی دس برس جاری رہا۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد شاد، فصاحت جنگ جلیل مانکپوری کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہو گئے جنھوں نے دو تین برسوں تک ان کی غزلوں پر اصلاح دینے کے بعد انھیں فارغ الاصلاح قرار دے دیا۔ رواج کے بعد شاد نے شعر گوئی کی ابتداء غزل سے کی۔ 1930ء کے آس پاس نظمیں کہنی شروع کیں اور آخر عمر تک نظم و غزل دونوں اصناف میں خامہ فرسائی کرتے رہے۔ درمیان میں قطعات اور رباعیات بھی ہوتی رہیں۔ کچھ افسانے اور تنقیدی مضامین بھی ان کے قلم سے نکلے۔ زندگی میں ان کا کوئی مجموعۂ کلام سلیقے سے شائع نہیں ہوا۔ 1946ء میں ان کے شاگرد رشید احمد خان مخمور نے موصوف کی نظموں کا مجموعہ ’سماج‘ چھاپا لیکن بوجوہ اس کی باقاعدہ اشاعت نہیں ہوئی البتہ انجمن ترقی اردو ( ہند) نے ان کے کلام کا مختصر سا انتخاب1956ء میں شائع کیا تھا۔
مقام شکر ہے کہ وفات کے بعد شاد کی شعری اور نثری نگارشات ( بیشتر ان کے آخری شاگرد مظفر حنفی کی کاوشوں کے زیر اثر) کتابی شکل میں محفوظ ہو گئی ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
1۔ سفینہ چاہیے ( مرتبہ سلطان اشرف) مجموعہ غزلیات1965ء
2۔ نثر و غزلدستہ ( مرتبہ مظفر حنفی ) مضامین، نظمیں، غزلیں 1968ء
3۔ اندھیر نگری ( نیا ادارہ، لاہور) نظمیں۔ 1968ء
4۔ شوخیِ تحریر ( مرتبہ مظفر حنفی ) نظمیں۔ 1971ء
5۔ شاد عارفی کی غزلیں ( مرتبہ مظفر حنفی)1974ء
6۔ کلیات شاد عارفی ( مرتبہ مظفر حنفی) نامکمل1975ء
7۔ دکھتی رگیں ( مرتبہ سلطان اشرف) منتخب کلام 1982ء
شاد عارفی کے فن اور شخصیت پر مظفر حنفی کا تحقیقی مقالہ بھی1978ء میں شائع ہو گیا تھا مزید بر آں ان کے بارے میں ’ ایک تھا شاعر‘، ’ شاد عارفی: ایک مطالعہ‘، ’ شاد عارفی: فن اور فنکار‘ اور ’ مضامین و مکاتیب شاد عارفی‘ بھی مظفر حنفی کی مرتبہ اور شائع کردہ کتابیں ہیں۔ راقم الحروف کی مرتب کردہ کتاب ’ شاد عارفی: حیات و جہات‘ اور عثمان انجم کی مرتبہ کتاب ’شاد عارفی کی شاعرانہ عظمت‘ بھی اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔
شاد عارفی کے شاگردوں کی تعداد پچاس سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ ان کے مقامی شاگردوں میں ہادی مصطفی آبادی، جاوید کمال، مسعود اشعر، خلیل رام پوری، اکبر علی خان (عرشی زادہ)کے نام لائق ذکر ہیں۔ بیرون رام پور کے شاگردوں میں خلیل الرحمان اعظمی، محب عارفی، مظفر حنفی، عبد الباری شبنم سبحانی جیسے معروف شاعر، نقاد اور صحافی شامل ہیں۔
دورانِ حیات تو اردو کے ناقدین اور اکابرین ادب نے کچھ تو شاد عارفی کی تلخ و ترش تحریروں کے ردِّ عمل میں اور کچھ کسی بھی گروپ سے ناوابستگی کے باعث ان کے تئیں بے اعتنائی بلکہ بے رُخی کا رویہ روا رکھا لیکن انتقال کے بعد شاد عارفی کی اہمیت، انفرادیت اور خدمات کا بھرپور اعتراف کیا گیا۔ مسعود حسین نے فرمایا:
’’اہل نقد و نظر دیکھیں گے کہ ہمارے درمیان سے جو سخنور خاموشی سے اٹھ گیا ہے اس کی شخصیت اور فن دونوں کس قدر تہہ دار تھے۔۔ ۔۔ ۔ جسے ناقد(رے )پاسنگ سمجھ بیٹھے تھے ( اس نے ہمیں ) شعر و ادب کے ایسے اسلوب سے روشناس کرایا ہے جو اس صدی کے تیسرے اور چوتھے دہے کا سب سے چونکا دینے والا اسلوب ہے۔ ‘‘ (6)
سجاد ظہیر نے لکھا:
’’ یقیناً شاد عارفی موجودہ دور کے اہم ترین ادیبوں میں سے تھے۔ ‘‘ (7)
فیض احمد فیض نے اعتراف کیا:
’’ میں شاد عارفی مرحوم کے کلام کا معترف ہوں۔ ‘‘ (8)
ڈاکٹر محمد حسن نے قلمبند فرمایا:
’’ اس میں شک نہیں کہ شاد عارفی کا طنز گہرا اور مزاح صاف ستھرا ہے جس کی تلخی اور ترشی بھی پڑھنے والے کے دل کو چھوتی ہے اور فکر و احساس کے نئے زاویے بناتی گزر جاتی ہے۔ ‘‘ (9)
ظ۔ انصاری رقمطراز ہوئے:
’’طنزیہ ادب کی کوئی تاریخ جوش اور شاد عارفی کے نام اور کلام کا جائزہ لیے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ (10)
نیاز فتح پوری نے کہا:
’’ میں شاد عارفی کی شاعرانہ اہلیت کا دیرینہ معترف ہوں۔ شاد عارفی زمانہ حال کے شاعروں میں ایک خاص رنگ کے نقاد و طنز نگار ہیں۔ ‘‘ (11)
گیان چند کے الفاظ ہیں:
’’ ان کے تیور یاس یگانہ کی یاد دلاتے ہیں لیکن ان کا دامن یگانہ سے زیادہ وسیع ہے۔ ‘‘ (12)
اور ناصر کاظمی نے بے تکلفی سے کام لیا:
’’ مجھے شاد عارفی کی گالیاں بھی ان کی شاعری سے زیادہ عزیز ہیں کہ یہ گالیاں ہمارے بدلتے ہوئے معاشرے کی دردناک کتھا سناتی ہیں۔ ‘‘ (13)
الغرض سردارد جعفری، حفیظ جالندھری، اختر انصاری، آل احمد سرور، میرا جی، احمد ندیم قاسمی، وزیر آغا، فرمان فتح پوری، احتشام حسین وغیرہ تقریباً سبھی اہم نقادوں اور فنکاروں نے شاد عارفی کی موت پر دلی رنج و الم کا اظہار کیا اور ان کی شاعرانہ عظمت کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
شاد عارفی کا قلم کم و بیش پچاس برسوں تک گہر افشانیوں میں مصروف رہا۔ انھوں نے اردو نثر و شاعری کی تقریباً تمام اصناف میں جولانیِ طبع کے جوہر دکھائے ہیں، افسانے لکھے، اداریے قلمبند کیے، احباب اور شاگردوں کے نام خطوط میں ادبی امور پر اظہار خیال کیا لیکن ان پر مفصل گفتگو کا یہ محل نہیں ہے۔ شاعری میں اُن کی دلچسپی نثر کے مقابلے میں زیادہ رہی۔ انھوں نے تقریباً چار سو غزلیں، دو سو نظمیں، ڈھائی سو رباعیات و قطعات، کئی چہار بیت، بیس سے زیادہ گیت اور درجنوں سہرے اور مبارک بادیاں تخلیق کیں۔ ان کے ادبی سرمائے میں درجنوں ہندی کویتائیں اور اپدیش بھی شامل ہیں۔
شاعری میں ایک مخصوص رنگ شاد عارفی سے منسوب ہے جس کے وہ موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ خاص طور پر غزلوں میں ان کی انفرادیت اتنی واضح ہے کہ ان کے اشعار اپنے لہجے اور طرزِ بیان کے باعث دور سے پہچان میں آ جاتے ہیں۔ شاد کا ایک مقطع ہے:
دس پانچ برس حضرت حالی کی طرح شاد
مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے
ابتداء میں جب موصوف ’ص‘ بیگم اور بعد ازاں تارا کے عشق میں مبتلا ہوئے تو اُن کے کلام کا رنگ عاشقانہ تھا۔ اس دور کی غزلوں کا نمونہ مندرجہ ذیل اشعار میں ملاحظہ کیجیے:
سانولا رنگ، کشیدہ قامت
نہ پری ہے نہ کوئی حور ہے وہ
………
لائے ہیں تشریف تکیوں پر دُلائی ڈال کر
حسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے
………
کیا لکھ رہے ہیں آپ مجھے دیکھ دیکھ کر
میں نے دیا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں
………
پاؤں سونے کی اذیت کا بہانہ بے سود
تیرے زانو پہ وہ سر ہے جو اُٹھائے نہ بنے
………
کام کی شَے ہیں کروٹن کے یہ گملے اے شاد
وہ نہ دیکھے مجھے میں اس کا نظارہ کر لوں
………
کہتے ہیں پوچھا گیا جب چھپ کے رونے کا سبب
درد دل کا کام اس نے دردِ سر سے لے لیا
لکھ کر میرا نام اے شاد
اس نے بھیجا ہے رومال
………
چارہ گر الفت کی نفسیات سے واقف نہیں
لے کے نام اس کا کوئی دیکھے مرے چہرے کا رنگ
………
اس اسلوب کی حامل غزلیات کے بارے میں اختر انصاری دہلوی نے کہا تھا:
’’ شاد صاحب کی آواز اس وقت کے منار بابل کی آوازوں میں اپنا ایک مخصوص آہنگ ضرور رکھتی تھی۔ یہ آہنگ اس وقت کے عام اور معتاد آہنگ سے کسی قدر جداگانہ ضرور تھا۔ ایک خوشگوار ساکھردراپن، ایک گوارا قسم کا اکھّڑ پن، ایک بے تکلف اور بے جھپک اسلوبِ گفتار، ایک خفیف سا تحیر پیدا کرنے والی تازگی، ابلاغ و ترسیل کا ایک براہِ راست انداز اور ایک واشگاف قسم کا طرزِ تخاطب۔ یہ اس نئی آواز کے اوصاف تھے۔ ‘‘ (14)
شاد عارفی کی عشقیہ غزلوں میں غزل کے قدیم اور روایتی علائم و رموز سے روگردانی پائی جاتی ہے۔ اس نوع کی غزلوں میں انھوں نے مطالب کی بلا واسطہ اور براہِ راست ترجمانی کو اپنا مطمحِ نظر بنایا تھا۔ انھوں نے اپنی غزل کو اہم ترین اجزا یعنی مخصوص علامات، کنایات، تمثیلات و مجازات کے ساتھ اس کی معنوی دلالتوں، اور تعمیم و تعدیل سے تو ضرور محروم کر لیا لیکن ان کی جگہ تازگی، شگفتگی اور منفرد اسلوب برت کر اُسے عام غزلیہ روایت سے بالکل مختلف بنا دیا اور اس طرح خود کو صاحب طرز غزل گو تسلیم کرا لیا۔
اپنی مخصوص لَے اور منفرد طرز ادا کے با وصف شاد عارفی کے یہاں محاکات معاملہ بندی کے بہت سے اشعار ملتے ہیں لیکن ان میں فرسودگی اور ابتذال کا کہیں گزر نہیں ہے کچھ مثالیں دیکھیے:
وہ زبانِ بے زبانی سے ابھی واقف نہیں
ہاتھ رکھنا پڑ رہا ہے بارہا دل پر مجھے
ابھی انگڑائیاں لی جا رہی ہیں
سمجھتے ہیں ابھی دیکھا نہیں ہے
………
مسکرا دیں گے مرا نام کوئی لے دیکھے
وہ کس فکر میں بیٹھے ہوں کسی کام میں ہوں
………
کھنچے رہیے تو سو سو طرح نظارے لُٹائیں گے
بتوں سے آپ کو بھی واسطہ اکثر رہا ہو گا
………
حسیں ہو تم، آپ کی بلا سے، پری ہو تم، آپ کی دعا سے
جواب ملتا ہے سخت لہجے میں اس سے جو بات پوچھتا ہوں
………
شاد عارفی کی عشقیہ غزلوں میں متوسط ہندوستانی طبقے کے ’ گھریلو حسن، کی جلوہ گری نظر آتی ہے جو غزل کی نئی روایت قائم کرتی ہے۔ شاد کی عشقیہ غزل حسرت کی طرح سچ بولتی ہے ان غزلوں میں ہمیں حسن و عشق کی پیچیدہ کیفیات کے نقوش نظر آتے ہیں۔ شاد نے ایک جگہ کہا ہے:
دوسروں کے واقعات عشق اپناتے ہیں وہ
جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں
انھیں دو معاشقوں کے گوناگوں تجربات حاصل تھے جنھیں شاد نے عشقیہ غزلوں کے سیکڑوں اشعار میں پرو کر ان کی دلکشی میں اضافہ کیا ہے۔ ان غزلوں میں جیتے جاگتے محبوب کے جسم کی آنچ محسوس کی جا سکتی ہے حسن کی چلتی پھرتی تصاویر اور عشق کی حقیقی کیفیات نے ان کی تاثیر اور انفرادیت مستحکم کی ہے۔ اکثر شاد عارفی اپنی عشقیہ غزل میں محبوب کے سامنے سپاہیانہ بانکپن کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
’’غزل میں رام پور کے پٹھان ہیں تو آپ ہیں ‘‘
وہ ایک خود دار عاشق ہیں۔ ان کی آن بان اور بانکپن ان شعروں میں ملاحظہ کیجیے:
محبت میں خودی کی موت بھی دیکھی نہ جائے گی
اگر میں بارِ خاطر ہوں تو اٹھ جاؤں ترے در سے
………
یہ تو مت محسوس ہونے دیجیے
اجنبی ہیں آپ کی محفل میں ہم
………
جھٹک کے ہاتھ سے دامن کو جانے والے بس
ترے خیال کا دامن بھی چھوڑ تا ہوں میں
………
حق ہے کہ ستاؤ مگر اتنا نہ ستاؤ
پڑ جائے مری آنکھ کسی اور حسیں پر
………
بقول مظفر حنفی:
’’ شاد کی غزلوں میں نہ قدم قدم پر گراں بار تشبیہوں کے ڈھیر لگائے گئے ہیں اور نہ مرعوب کن صنائع بدائع اور تراکیب کا غیر متوازن استعمال ان کے ہاں ملتا ہے۔ لیکن جہاں کوئی تشبیہ یا استعارہ شاد نے استعمال کیا ہے وہاں ان کے تخیل کی نادرہ کاری اور طرفگی لطف دے گئی ہے اور یہ صنعتیں شعر کی بالائی سطح پر واقع نہ ہو کر گہرائی میں اُتری ہوئی ہیں۔ صنّاعی کی کوشش کے بجائے ایسے اشعار جذبے کی تپش اور فکر کی تابناکی سے لبریز ہیں۔ ‘‘ (15)
اس خیال کی تصدیق میں چند شعر پیش کرتا ہوں:
مقابل قدِ آدم آئینہ ہے
بڑا دلچسپ مطلع لڑ رہا ہے
………
دل جونہی بیٹھنے لگا منزل آرزوئے دل
محملِ گردباد سے جھانک کے مسکرا گئی
………
اسے نسیمِ چمن کہہ رہا ہوں میں لیکن
کہیں نسیمِ چمن مڑکے دیکھتی بھی ہے
………
بے شک اُن کی غزلوں میں بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر ہے اور وہ اپنے شعروں میں جو مخصوص لہجہ اختیار کرتے ہیں اس نے ان کی غزلوں کو ایسی انفرادیت عطا کر دی ہے کہ آنے والی نسلوں نے انھیں اپنا آئیڈیل قرار دیا اور ان کے گہرے اثرات قبول کیے۔
عاشقانہ مزاج رکھنے والی غزلوں میں شاد مکالماتی انداز اختیار کر کے شعر کو دلچسپ بنا دیتے ہیں اور اس طرح غزل کو صرف عاشق ہی کا ترجمان نہیں رہنے دیتے بلکہ اس میں معشوق کی مساویانہ شمولیت کو بھی ممکن کر دکھاتے ہیں، مندرجہ ذیل شعروں میں شاد کی اس ہنر مندی کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے:
کیوں ہمیں بدنام کرتا ہے زمانہ پوچھیے
کوئی خط پکڑا گیا تحریر پہچانی گئی
………
میری الفت سے اُسے انکار بے حد تھا مگر
جب کہا لوگوں نے یہ تحریر؟ اب خاموش تھا
………
القصہ مختصر صرف عشقیہ اشعار کی روشنی میں ہی دیکھا جائے تب بھی شاد عارفی ماضی کو مستقبل سے جوڑنے والے شاعر دکھائی پڑیں گے۔
لگ بھگ پندرہ بیس سال تک عاشقانہ رنگ میں غزلیں کہنے کے بعد شاد عارفی کی شاعری میں ایک نیا موڑ آیا۔
وہ رنگیں نوائی یہ شعلہ بیانی
کئی موڑ آئے مری شاعری میں
اُن تلخیوں اور شدید پریشانیوں کے ردِّ عمل میں جن کا مختصر سا ذکر شاد عارفی کی شخصیت کے ضمن میں کیا جا چکا ہے موصوف نے اپنی شاعری میں طنز نگاری کو اختیار کر کے زمانے کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا چنانچہ ان کا مطلع ہے:
بیکسوں پر ظلم ڈھا کر ناز فرمایا گیا
طنز کی جانب میں خود آیا نہیں لایا گیا
شاد کی غزلوں کا تقریباً دو تہائی حصہ طنزیہ اسلوب میں ہے۔ زمانے اور حالات نے ان پر ظلم و ستم کی اینٹیں برسائیں تو اس بانکے شاعر نے بھی طنزیہ اشعار کے پتھروں سے اس کا کرارا جواب تھا۔ کیا خوب کہا ہے:
اس نے جب سو تیر چلائے
میں نے ایک غزل چپکا دی
………
زمین اس کے ارادوں سے کانپ اٹھتی ہے
جو سوچ لے کہ غمِ بیکسی اگر ہے یہی
………
اپنے فن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے شاد عارفی نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’ مزاج کے خلاف کسی واقعے سے متاثر ہو کر میں جو منہ میں آئے کہنے سے نہیں چُوکتا مگر ادب کا دامن تھامے رہتا ہوں۔ یعنی دل کے ساتھ پاسبان عقل کا قائل ہوں اور کسی طرح بھی تنہا چھوڑنے کے موقع پر اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔ ابتدا میں میں نے رنگین غزلیں نظمیں بھی کہی ہیں جو میرے دو عشقوں کی یادگار ہیں لیکن اس دَور کے بعد عزیزوں کی لوٹ کھسوٹ، دوستوں کی بے وفائی اور در پردہ دشمنی، ملازمت کے سلسلے میں خوشامدیوں کی ترقی اور بدنیتوں کی گردنوں میں طوقِ زرّیں دیکھ دیکھ کر ’ رنگین شاعری‘ سے طنز کی طرف آتا چلا گیا۔ ‘‘ (16)
شاد عارفی کی 1942 ء کے بعد کی تقریباً تمام تر شعری نگارشات طنز کی بنیاد پر استوار ہیں ان ذاتی پریشانیوں اور مصیبتوں کے ساتھ جن کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے، شاد کو زمانہ بھی نہایت پُر آشوب ملا جو کہ طنز کی کشت زار کو بے انتہا زرخیز بنا دیتا ہے۔ شاد نے تقریباً نصف صدی تک دیسی ریاستوں میں رہ کر جاگیردارانہ نظام کی خامیوں، دربار داریوں کے سازشی ماحول، شخصی حکمرانوں کی آمریت، خوشامد پرستی اور عیاشیوں کو بہت نزدیک سے دیکھا اور ریاست کے مرکز سے الحاق کے بعد سیاسی جوڑ توڑ، زمانہ ساز رہنماؤں کی کود غرضی، رشوت خوری، اقربا پروری، اعلا اور ادنیٰ کی تفریق، تنگ نظری، بے انصافی، فرقہ پرستی، مذہبی ریاکاری، بے انصافی، گرانی اور معاشرے میں جاری وساری کمزوریوں اور خامیوں کا عمیق مشاہدہ کیا اور ان پر اپنی طنزیہ ابیات کے تیر چلائے:
جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی
چوم لوں منہ آپ کی تلوار کا
………
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
………
انصاف بیچتے ہیں بآوازۂ دہل
ایسے بھی منسلک ہیں عدالت سے آپ کی
………
صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا
اور اخبار میں اعلانِ ضرورت دیں گے
………
آئی نا، مغرب کے قدموں میں سیاست گھوم
ہو گئے آخر کو دو ٹکڑے وطن مرحوم کے
………
دل میں لہو کہاں تھا کہ اک تیر آ لگا
فاقے سے تھا غریب کہ مہمان آ گیا
………
کہے جو ساقیِ جشنِ جمہوریہ کہ مانگو جو مانگنا ہے
تو سو میں نوّے غریب پھیلا کے ہاتھ دونوں اناج مانگیں
………
سو گریباں پھاڑ ڈالے دو گریباں سی دیے
اور تو سب ٹھیک ہے لیکن تناسب سیکھیے
………
گویا اے اربابِ طریقت اس نے جب انسان بنائے
تم جیسوں کو عقل عطا کی، ہم جیسے نادان بنائے
………
غریب و بیکس ہر اک ستم پر نہ کیوں دعائیں ہزار دیں گے
اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو آپ گردن نہ مار دیں گے
………
یہ ہرے قمقمے یہ آدھی رات
اب نہ جھانکو نگار خانے میں
………
سلجھانے کی بات بنا کر
ڈاڑھی چوٹی سے الجھا دی
………
جناب شیخ ہی اب رہ گئے ہیں لے دے کر
وہ دن گئے کہ کسی برہمن پہ چوٹ کروں
………
مشتے از خروارے یہ شاد عارفی کے طنزیہ اہداف کی چند مثالیں ہیں۔ معاشرے میں رائج کون سی خرابی ایسی ہے، شخصیتوں میں پائی جانے والی کون سی خامیاں ایسی ہیں جن پر شاد نے اپنی غزلوں سے طنز کے ارجن بان نہیں چلائے ہوں۔ انھوں نے یہ دعویٰ غلط نہیں کیا:
نقد ماحول کہ فن ہے میرا
ہر طرف رُوئے سخن ہے میرا
اہم بات یہ ہے کہ شاد عارفی نے اپنے ساتھ روا رکھی گئی زیادتیوں اور بے انصافیوں کے بارے میں شعر کہتے ہوئے ایسی ندرتِ ادا اور رمزیہ اسلوب سے کام لیا ہے کہ ان کی آپ بیتی جگ بیتی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اور یہی طنز نگار کی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔
اردو شاعری میں خالص طنز کی مثالیں متقدمین کے زمانے سے ہی ملتی آئی ہیں۔ واسوخت، شہر آشوب، ہجو، ریختی وغیرہ طنزیہ اسالیب میں ہی جلوہ گر ہوئے آگے چل کر مثنوی، قطعہ اور نظم وغیرہ بھی طنز کے اثر میں آ گئے۔ غزل کے اکثر شعروں میں بھی شاعروں نے طنز سے بھرپور کام لیا ہے۔ مثلاً:
شکوۂ آبلہ ابھی سے میر
ہے پیارے ہنوز دلّی پر
(میر)
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
(آتش)
عمامہ کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا
(سودا)
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
(غالب)
جو بھی آوے ہے ترے پاس ہی آ بیٹھے ہے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جائیں
(میرحسن)
بہ ایں ہمہ غزل کے گرد حسن و عشق کے معاملات اور متصوفانہ خیالات کا دائرہ اتنا سخت تھا کہ عام طور پر غزل گویوں نے طنزیہ اسالیب سے اس میدان میں خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا اور سنجیدہ طنز نگاری کی اچھی مثالیں قدیم غزلوں میں خال خال ہی نظر آتی ہیں البتہ غالب کی غزلیات اس کلیے سے مستثنیٰ ہیں چنانچہ دیکھیے کہ کلام غالب میں طنز نے کیسے کیسے گل کھلا رکھے ہیں:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
………
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے
………
میں نے کہا کہ بزم ناز غیر سے چاہیے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں
………
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
………
اپنے گرد و پیش کے ناسازگار حالات سے نا آسودہ فنکار کے لیے طنز جی کی بھڑاس نکالنے کا حربہ ہے اور وہ اندر کے لاوے کو معتدل کرنے کے لیے طنز کا سہارا لیتا ہے۔ شاد عارفی نے اپنے دوسرے دور کی غزلوں میں خالص طنز ہی کو اپنا فن قرار دیا جب کہ غالب کے یہاں طنز مختلف اسالیب میں سے محض ایک اسلوب تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ جدّت طرازی اور انفرادی حیثیت حاصل کرنے کے لیے شاد عارفی نے روایت کو یکسر مسترد کر دیا ہو۔ البتہ موصوف نے روایت کو جدّت سے آمیز کر کے اپنا نیا رنگ نکالا اور اپنی غزل کے ذائقے کو نیا چٹخارہ عطا کیا۔ دیکھیے کہ شاد کی غزلوں میں رہنما، راہ زن، باغباں، صیاد، چمن، آشیاں، پھول، بہار، ساقی، شراب، پیمانہ، خزاں، رند، زاہد وغیرہ قدیم الفاظ استعاروں، تشبیہوں اور علامتوں کی صورت میں کس انوکھے طریقے سے سانپ کی طرح پُرانی کینچلی اُتار کر بالکل نئے اور کھرے ہو گئے ہیں:
میں اپنے لفظ واپس لے رہا ہوں
یہ رہزن تھا، میں سمجھا رہنما ہے
………
وہاں بہاروں کی باغبانوں سے سازشیں بارور نہ ہوں گی
جہاں خزاں نے اٹھا دیا ہو سوال کانٹوں کی آبرو کا
………
اگر ہمارا یقیں نہیں ہے تو آئیے آپ کو گِنا دیں
بہار میں جن کے آشیانے لٹے ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھا دیں
………
کبھی سوچا کہ پر کھولے ہوئے کیوں
شگوفے شاخ پر بیٹھے ہیں یارو
………
حضرتِ زاہد قضا پڑھتے رہے
رند نے پابندیِ اوقات کی
………
اکثر مری محرومی ساقی پہ نہیں کھلتی
اکثر مرے حصّے کی پی جاتا ہے پیمانہ
………
چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اُٹھا لا ساقی
شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی
مظفر حنفی نے شاد عارفی کی اس خصوصیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک مرثیے میں کیا خوب کہا ہے:
اس نے بہار و گُل کے معانی بدل دیے
مشکوک باغباں سے رہا خار کے لیے
جیسا کہ عرض کر چکا ہوں انھوں نے اپنے عہد اور اپنے ماحول کی تمام کمزوریوں اور نا ہمواریوں کو، معاشرے میں رائج بد نظمیوں اور بے اعتدالیوں، نا انصافیوں اور خود غرضیوں کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے خواہ وہ معاشرتی ہوں، سیاسی نوعیت کی ہوں یا مذہب سے متعلق ہوں:
زندگی پر دلیر ہیں وہ لوگ
مقبروں سے جو لے رہے ہیں خراج
………
ہے تو احمق، چونکہ عالی شان کاشانے میں ہے
اس لیے جھَک مارنا بھی اس کا فرمانے میں ہے
………
جشنِ آزادیِ جمہوریہ لاتا ہے دلیل
کو بکو شہر میں چندے سے چراغاں ہونا
………
فکر ہر کس بقدر ہمتِ اوست
بھینس کے آگے بین مجھ سے نہ بجی
مگر یہاں تو جل رہا ہے آدمی سے آدمی
سنا یہ تھا چراغ سے چراغ جلتے آئے ہیں
………
تو شاد کیا بانجھ ہو گئی مادرِ علوم و فنونِ حکمت
تجوریوں کے شکم سے ہونے لگے جو عزت مآب پیدا
………
ناجائز پیسے کی اُجلی تعمیروں کے ماتھے پر
تم نے لکھّا دیکھا ہو گا یہ سب فضلِ باری ہے
………
شاد نے اپنی طنزیہ غزلوں میں دبے کچلے پسماندہ عوام اور مظلوم انسانوں کو مایوسی کے غلبے سے محفوظ رکھنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے طرح طرح کے طنزیہ حربوں سے کام لیا ہے اور اس طرح کے سیکڑوں اشعار کہے ہیں:
تارے جو آسماں سے گرے خاک ہو گئے
ذرّے اُٹھے تو برقِ غضبناک ہو گئے
………
جھپٹ پڑیں نہ کبھی دن میں مشعلیں لے کر
عوام کو نہ سجھاؤ کہ روشنی کم ہے
………
لاکھوں ہیں ہم سب بیچارے
اے شہزادو! تم سب کَے ہو
………
عظمتِ فن کی روایات کو مرنے نہ دیا
شعر سے بچ کے کوئی ظلم گزرنے نہ دیا
………
کبھی کبھی تو ان کے احتجاج کی لَے اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ وہ چیخ اُٹھتے ہیں:
بے کسی جب فروغ پا لے گی
ظلم کی بوٹیاں چبا لے گی
………
اُن کے مدّاح اس زمانے میں
جیسے کتّے قصائی خانے میں
اُن کے طنزیہ اشعار کا مزا اس وقت دوبالا ہو جاتا ہے جب انھیں مناسب و موافق لہجے میں پڑھا جائے۔ لہجے کے شاعروں میں اُن کا مرتبہ اس اعتبار سے بلند ترین ہے کہ اُن کے شعر بغیر تخلّص کے بھی پہچانے جاتے ہیں کہ ان کا خالق شاد عارفی ہے:
عمر بکر کی شرارتوں پر جو زید کو بزم سے اُٹھا دیں
بتائیے اُن کی اس حماقت پہ سر نہ پیٹیں تو مسکرا دیں
………
آپ کے دوست اگر آپ اجازت دیں گے
پاس بیٹھے ہوئے ترغیب حماقت دیں گے
………
یہ چھچھورا شخص پہچانے اسے
خون ہے اس میں کسی سرکار کا
………
اب ارباب طریقت جانیں
میں نے میخانے سے لا دی
………
شاد نے غزل میں لفظیات کی حصار بندی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنے کلام میں ایسے الفاظ کو بھی جگہ دی جنھیں غزل گویوں نے ٹاٹ باہر کر دیا تھا اور شہرِ غزل سے تڑی پار کر دیا تھا۔ اسی طرح اونچی ذات اور ہریجن جیسی تفریق سے لفظوں کو نجات دلانا بھی موصوف کے کارناموں میں درج ہیَ مثالیں دیکھیں:
جیسے بھر لی ہوں گھنگھنیاں منہ میں
یہ نمائندگی نہیں۔ شرماؤ
………
گلستاں میری جنم بھومی ہے
باغبانوں کے ستم بھول بھی جاؤں
………
کل تھا لیکن آج نہیں ہے
طاقت ور کا ٹھینگا سر پر
………
جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے آج
کیا اسی کو کہیں گے جنتا راج
………
سینک سکتے ہیں آپ بھی آنکھیں
جل رہے ہیں نشیمنوں کے الاؤ
………
علاوہ ازیں شاد عارفی نے غزل میں مقامی اعتبار سے رائج ایسے الفاظ کو برتنے سے بھی گریز نہیں کیا جنھیں بیرونی لوگوں کو سمجھانے کے لیے فٹ نوٹ کی ضرورت پڑتی ہے دیکھیے:
یہ پژاؤں پہ گھومنے والے
ہم سے کرتے ہیں دعوۂ معراج
………
دھنگنا دے کر چھوڑ دیا ہے
اس کو کہتے ہیں آزادی
………
ناصح جو غلط بین و غلط کار رہا ہے
آنکھوں سے تُرپ ذہن سے نادار رہا ہے
………
باغباں آگ دینے کے حق میں نہ تھا
خار کے اول میں آشیاں آ گیا
………
اُن مصائب کے صلے میں جن سے ہیں دو چار ہم
داستانوں کے لیے مضمون کا توڑا نہیں
………
آپ بھی غالباً تائید کریں گے کہ شاد نے غزل کے اشعار میں پژاؤں ( اینٹ کے بھٹّے ) دھنگنا ( مویشیوں کے لٹکن) تُرپ ( عاری) اول ( آڑ) توڑا ( کمی) جیسے مقامی الفاظ کو بہت فنکارانہ انداز میں برت کر شعروں کا لطف دوبالا کر دیا ہے۔
یہ تو ہوا عام اشعار کا احوال، شاد عارفی نے اپنی غزلوں کے مطلعوں اور مقطعوں کو بھی عام روش سے ہٹ کر استعمال کیا ہے کہیں اپنے خانگی حالات کا اظہار تو کہیں تعلّی، کہیں ادبی نکات کی وضاحت تو کہیں معاصرانہ چشمک اور مقابلہ آرائیاں۔ کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں:
میں تو چٹنی سے کھا رہا ہوں شاد
دال بنٹتی ہے جیل خانے میں
………
اے وہ اردوئے معلی نہ سہی
شاد کی بات سنو استادو!
………
وہ جو ننگی ناچتی رہتی ہے بزم عیش میں
اس غزل کا شاد کیا ماحول بھی قائل نہیں
………
شاد مغموم و مسرور نظر پڑتا ہے
سچ کہا ہے کہ تخلص کا اثر پڑتا ہے
………
شاد ضعیف العمر ہے لیکن اس کے شعر جواں ہوتے ہیں
ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں
………
تائیدِ غزل کے بارے میں دوچار اشارے کیا کم ہیں
نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں
………
فن پر قدرت رکھنے والا جب محوِ شعریت ہو گا
جو رجحان تأثر دے گا مطلع اس کی بابت ہو گا
………
غزل میں شاد عارفی نے نئی تراکیب کا بہت بڑا سرمایہ داخل کیا ہے۔ کنگرۂ آرزو، وقعت سنگِ در، مکر طینت، امارتِ بد سرشت، جنونِ لب و رخسار، سوختہ ساماں، نامرادانِ وفا اور ایسی ہزاروں نا در اور نئی ترکیبیں شاد کے کلام میں پروئی ہوئی ہیں۔
اُن کی غزلوں میں اکثر قارئین کو حب الوطنی کی تلقین کی گئی ہے لیکن ایسے شعروں میں بھی ان کا مخصوص لہجہ صاف محسوس کیا جا سکتا ہے:
اگر چمن سے گزار دو گے چمن سے باہر گزار لیں گے
چمن کہا یہ نہیں کہا ہے وطن سے باہر گزار لیں گے
………
واعظ کہتا ہے جنت میں بے ایمان نہیں جائے گا
لیکن شاد مسلماں ہو کر پاکستان نہیں جائے گا
………
ان کی غزل میں وسیع المشربی اور مذہبی رواداری کی بھرپور نمائندگی نظر آتی ہے اور فرقہ پرستی کے خلاف شاد نے جم کر طنز کیے گئے ہیں۔ مثلاً:
صدائے ناقوس بتکدہ پر گرفت کا مشورہ نہ دیجے
عبادت و بندگی کے مانع نہیں ہے جب برہمن ہمارا
………
مگر تقدسِ زمزم پہ آئیں گے چھینٹے
اگر تصورِ گنگ و جمن پہ چوٹ کروں
………
کم سے کم یہ تو قیامت نہیں میخانوں میں
آپ ہندو تو نہیں آپ مسلماں تو نہیں
………
کلامِ شاد میں متصوفانہ شعروں کی کمی بھی نہیں ہے لیکن ایسے نازک مواقع پر بھی شاد کے لہجے کی کاٹ اور آواز کی کھنک موجود ہے۔ دو ایک شعر بطور نمونہ:
اگر تصور کی وادیوں میں نہ کی گئی میری رہنمائی
کسی کا دامن بھی تھام سکتا ہوں میں سمجھ کر تمھارا دامن
………
صرف کعبہ ہی نہ دورانِ سفر پڑتا ہے
ہم جدھر جائیں ادھر آپ کا گھر پڑتا ہے
………
ایک پردہ ہے جہاں تک بھی اٹھایا جائے
حدِّ منظر ہے جہاں تک بھی نظارہ کر لوں
………
اُسے جس حال میں سجدہ کیا ہے
اسے اللہ بہتر جانتا ہے
………
آل احمد سرور نے غلط نہیں کہا:
’’ شاد عارفی بڑے البیلے شاعر تھے۔ نہایت غیرت مند، خود دار، بڑے پکے، محب وطن، آزادی و جمہوریت کے دلدادہ، ترقی پسند خیالات رکھنے والے، بول چال کی زبان کے امکانات کو اور واضح کرنے والے، سماج کے فاسد مادے پر نشتر زنی کرنے والے، اپنے رنگ کے منفرد اور اپنی طرز کے انوکھے !‘‘ (17)
اور فرمان فتحپوری نے اُن کی غزلیات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ مجھے اردو غزل کی پوری تاریخ میں صرف دو ہی ایسے نام نظر آتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے عزل سے با مقصد اور سنجیدہ طنز نگاری کا بھرپور کام لیا ہے۔ میری مراد مرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب اور شاد عارفی سے ہے۔ دونوں نسلاً پٹھان ہیں اور دونوں کو شاعری سے زیادہ آبا ء و اجداد کے پیشۂ سپہ گری پر ناز ہے۔ ‘‘ (18)
شاد عارفی کی دو سو نظموں میں سے تقریباً آدھی نظمیں عاشقانہ اور منظریہ موضوعات سے تعلق رکھتی ہیں اور لگ بھگ سو نظمیں طنزیہ ہیں۔ منظر نگاری اور عشقیہ مضامین پر مشتمل نظموں میں ’’ گنگا اشنان‘‘ ، ’’ شہر اور دیہات‘‘ ، ’’ بسنت‘‘ ، ’’ دیوالی‘‘ ، ’’حیوان ناطق‘‘ ، ’’گوالن‘‘ ، ’’ دسہرا اشنان‘‘ ، مال روڈ‘‘ ، ’’فاروق اعظم‘‘ ، ’’ مالن‘‘ ، ’’ ہولی‘‘ ، ’’ مغرب زدگی‘‘ ، ’’ گاؤں ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اردو شاعری میں میر حسن، نظیر اکبر آبادی، میر انیس، چکبست وغیرہ نے منظر نگاری کی جس روایت کو مستحکم کیا تھا ماضی قریب میں جوش اور شاد عارفی نے اس کی توسیع کا فریضہ انجام دیا لیکن جوش اکثر الفاظ کے بہاؤ میں آ کر نظم کی وحدت کو نقصان پہنچاتے اور ایک بات کو بار بار بیان کرتے ہیں جب کہ شاد عارفی کی نظم ایک اکائی کے طور پر سامنے آتی ہے جس کا ہر مصرع مرکزی خیال کو آگے بڑھاتا اور تقویت پہنچاتا ہے چنانچہ موصوف کی نظم میں بھرتی کا کوئی مصرع جگہ نہیں پا سکتا۔ شاد عارفی نظم میں مرقع کشی کرتے ہوئے جزویات کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں اور ساتھ ہی منظر میں احساسات کا ترشع اور ارتعاش بھی پیدا کرتے ہیں لیکن نظم یا اس کے کسی عضو کو غیر ضروری طوالت یا عدم توازن کا شکار نہیں بننے دیتے۔
شاد کی منظر نگاری میں تنوع اور رنگا رنگی پائی جاتی ہے کہیں وہ داستان کا پس منظر بنتی ہے تو کہیں اظہار وابستگی کا کام کرتی ہے۔ بعض جگہ فطرت کی بے اعتنائی کا اظہار کرتی ہے تو بعض جگہ فطرت کی ہمدردی کا استعارہ بن جاتی ہے۔ اپنی ندرت ادا کے وسیلے سے شاد عارفی ان نظموں میں جزئیات کی باریک بینی سے عکاسی کرتے ہوئے ایسی ہنر مندی سے کام لیتے ہیں کہ ہر نظم کا مرکزی خیال بتدریج ارتقائی منزلیں طے کرتا رہتا ہے۔ ایک منظر ملاحظہ فرمائیں:
ابخرے بن کر کڑھائی پر ہوا لہکی ہوئی
ہر گلی پکوان کی بُو باس سے مہکی ہوئی
گھی تڑخ کر پاس والوں کی خبر لیتا ہوا
چَر سے شعلوں پر ٹپک جانے سے بو دیتا ہوا
ادھ جلے ایندھن کا آنکھوں میں دھواں بھرتا ہوا
نرگس شہلا میں تیزاب خزاں بھرتا ہوا
یہ نظم’ دیوالی‘ کا ایک منظر نامہ ہے، گرہستن تہوار پر پکوان تیار کر رہی ہے۔ جزئیات نگاری کا کمال دیکھیے کہ بصری، سمعی، شامی اور لامسی حسیات کے پیکر چند مصرعوں میں سمو دیے گئے ہیں۔ ہوا کڑھائی پر ابخرے بن کر لہک رہی ہے ( بصری) گلی میں پکوان کی مہک بس گئی ہے اور شعلے پر ٹپکنے والے گھی سے بو آ رہی ہے ( شامّہ) گھی تڑخ کر شعلے پر پڑتا ہے اور چَر کی آواز آتی ہے ( سامعہ) ادھ جلے ایندھن کے دھوئیں سے آنکھ میں جلن پیدا کرنے والے آنسو آ گئے ہیں۔ واقعی منظر نہ صرف نظر آ رہا ہے بلکہ مہک بھی رہا ہے، بول بھی رہا ہے اور محسوس بھی ہو رہا ہے۔
خوبصورت لڑکیوں کی ’’ گنگا اشنان‘‘ کے دوران چہلیں اور شوخیاں دیکھیے:
وہ دوڑ رہی ہے کوئی رنگین شرارت
چیتل ہے کہ میدان میں بھرتی ہے طرارے
وہ پاٹ میں موجوں سے کوئی پاؤں پسارے
ڈھلتے ہوئے آنچل سے کوئی محوِ تغافل
لپٹی ہوئی چادر میں کوئی شرم کے مارے
آنکھوں میں لیے ندرتِ معنائے سن و سال
نظروں کو جھکائے کوئی سینے کو اُبھارے
پانی میں اُترتی ہے کوئی جسم سمیٹے
چڑھتی ہے کنارے پہ کوئی ہاتھ پسارے
گن گن کے لگاتی ہے کوئی ڈبکی پہ ڈبکی
دم بھر کوئی ٹھہری ہے کہ بالوں کو سنوارے
گنگا کنارے غسل کرتی ہوئی بے شمار خوبرو لڑکیوں کی عکاسی کرنے والے انگنت شعروں میں سے چند نمونے مندرجہ بالا اشعار میں پیش کیے گئے ہیں آپ دیکھیں کہ اتنی لڑکیاں جمع ہیں اور شاد نے ایک ایک مصرعے میں سب کی انفرادیت کو واضح کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی فلم کا چلتا پھرتا، ہنستا گاتا منظر نامہ ہو۔ اس نظم میں زندگی سے بھرپور بصری پیکروں کی کارفرمائی پڑھنے اور تصور کی آنکھوں سے دید کے لائق ہے۔
پیکر تراشی کا ایک اور خوبصورت منظر ان کی نظم ’ مغرب زدگی‘ سے پیش کرنا چاہتا ہوں:
بوندوں سے بہر آن ترنّم سا ہویدا
مدھم کے سلیقے ہیں تو پنچم کے قرینے
رگ رگ میں نمی بن کے نمو دوڑ رہا ہے
بِچھتے ہوئے پودوں کو ابھارا ہے تری نے
بگلوں کی قطاریں طرفِ ابرِ سیہ مست
بہتے ہوئے جاتے ہیں سمندر پہ سفینے
پیپل کی جھکی شاخ سے پُروا کا الجھنا
کھڑتال سی چھیڑی ہے نسیم سحری نے
کیلوں کو شمیمِ چمن آرا کے جھکولے
سِمٹے ہوئے پر کھول دیے سبز پری نے
بارش کے موسم میں بوندوں سے ترنم کا سماں بندھنا، پودوں کا ترو تازہ ہو جانا، سیاہ بادلوں کے تلے سپید بگلوں کی قطار سے سمندر میں سفینے رواں ہونا، پیپل کے پتوں سے پُروا کے گزرنے پر کھڑتال چھڑ جانا اور شمیم چمن آرا کے جھکولوں سے کیلے کے پودے کا سبز پری کی طرح پر کھول دینا، کتنا سہانا منظر ہے اور ہمارے حواسِ خمسہ کو آسودہ کرنے میں کتنا کامیاب ہے، قارئین خود فیصلہ کر لیں۔
اس نوع کی پیکر تراشیاں شاد کی منظر یہ نظموں میں بے شمار ہیں۔ موصوف کی عشقیہ نظموں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ عاشقانہ معاملات سے تعلق رکھنے والی ان نظموں میں ’’واپسی‘‘ ، ’’ نو روز ’’، ’’ مندر جانے والی‘‘ ، ’’ مفارقت ’’، ’’ واپسی‘‘ ، ’’ خط کی چوری‘‘ ، ’’ غمازہ‘‘ ، سماج‘‘ ، ’’ وہ کافرہ‘‘ ، ’’ گلکاریِ تصور‘‘ ، ’’ایک تصویر دیکھ کر ‘‘ ، ’’فسانۂ ناتمام‘‘ ، ’’ پھول کی پتی سے ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ان نظموں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاد رومانی محبت اور جنسی محبت دونوں ہی کو پسند کرتے تھے وہ نہ تو مجسم پیروِ اخلاق تھے نہ ہی سراسر فحش نگار اور نہ ہی مصلحِ قوم۔ اپنی نظموں میں وہ سچے اور کھرے شاعر نظر آتے ہیں۔ وہ ان نظموں میں موسموں سے لذت یاب ہوتے ہیں، دوستوں کی محبتوں سے کسبِ سکون کرتے ہیں اور معاملاتِ حسن و عشق میں ایک جیتے جاگتے حساس آدمی نظر آتے ہیں فرشتہ یا پیغمبر نہیں۔
معاملہ بندی اور محاکات شاد کی عشقیہ نظموں میں اس طرح پروئے ہوئے ہیں جیسے موم کے چھتے میں شہد۔ نظم ’’ واپسی‘‘ سے اس کی ایک مثال درج ذیل ہے:
والد کی جانب یہ اشارہ تاڑ نہ جائیں دور رہو
مجھ سے مخاطب، چھوٹے بھائی کو یہ ایمائ، سنبھلو ٹھہرو
میری طرف نظریں لیکن نوکر کو حکم، سہارا دو
ماما کی خدمت پہ کِنایہ خط لانے لے جانے کو
آ کے برابر، کچھ یونہی سا یہ فقرہ، آج آنا تو
شاد بس اب خاموش کہ دنیا نظر لگانے والی ہے
نوخیز عاشق و محبوب کا ذہانت و معصومیت آمیز رویہ لائق دید بھی ہے اور لائقِ شنید بھی۔
محبوبہ کے ساتھ پکنک منانے کا ایک منظر بھی نظم ’’ نوروز‘‘ سے پیش کیا جاتا ہے:
پھڑپھڑاتی ہیں بطیں تالاب میں
بہتے ہیں ساغر شراب ناب میں
رحمتیں ہیں عام سب کے باب میں
پھونس کے چھپر میں ہم ہیں اور آم
کر رہے ہیں تیز چاقو اپنے کام
ذائقہ کھینچے ہے تیغِ بے نیام
ملاحظہ فرمایا آپ نے، شاد عارفی عشقیہ نظموں میں کیسی ہنر مندی کے ساتھ کسب مسرت کرتے ہیں۔ ان نظموں میں طنز کی جگہ بذلہ سنجی، بردباری، درد مندی، معصومیت، شگفتگی، شوخ گفتاری اور مسرت انگیزی نے لے رکھی ہے۔ شاد کی نظم ’ سماج‘ ایک محبت کی ناکام داستان ہے۔ تو نظم ’گلکاریِ تصور‘ ایک کامیاب عشق کی ترجمان ہے۔ عموماً عشقیہ شاعری میں عاشق کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے لیکن شاد کی عشقیہ نظمیں محبوب کے احساسات اور نفسیاتی کیفیتوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔
شاد کو زبان پر ایسی قدرت حاصل ہے جس کی مثالیں کم یاب ہیں وہ اتنا اچھا روزمرہ اور ایسی خوبصورت با محاورہ زبان استعمال کرتے ہیں کہ پڑھنے والا بیساختہ داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بر محل اور برجستہ ضرب الامثال اور کہاوتوں کا استعمال ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے وہ ایسے الفاظ کو بھی جو شاعری کی ٹکسال سے باہر سمجھے جاتے ہیں، بے حد مہارت کے ساتھ یوں استعمال کر لیتے ہیں کہ ان کی خلاقی اور ہنر مندی مستحکم ہو جاتی ہے۔ یہ زندہ اسلوب اور جیتی جاگتی زبان انھوں نے اساتذہ کے دواوین سے نہیں عوام کے ربط و ضبط سے سیکھی ہے۔ عورتوں کی گھریلو زبان شاد کی نظموں میں بھرپور انداز میں برتی گئی ہے۔
تقریباً سو نظمیں شاد عارفی نے طنزیہ اسلوب میں تخلیق کی ہیں۔ ان نظموں کی ایک بڑی خصوصیت ان کی ہیئت ہے بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو شاعری میں آزاد نظم کو فروغ دیا گیا تاکہ قافیے اور ردیف کی پابندی سے مجبور ہو کر شاعر اپنی نظموں میں بھرتی کے مصرعے استعمال نہ کرے۔ شاد عارفی نے ہر چند کہ تکمیل حجت کے طور پر ایک طویل آزاد نظم ’ یہ عبادت یہ رسوم‘ کہہ رکھی ہے لیکن انھوں نے پابندی میں آزاد رہنے کا کمال اپنی نظموں میں کر دکھایا ہے۔ شاید دو تین نظمیں انھوں نے مثنوی کے فارم میں کہی ہیں ورنہ ان کی تمام نظمیں پابند ہونے کے با وصف بہ اعتبار ہیئت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ثلاثی، مربع، مخمس، مسدس، مستزاد جیسی ہیئتوں کے علاوہ غزل کی ہیئت بھی ان میں شامل ہے۔ الغرض شاد نے اپنی نظموں سے اس قول کی صداقت پر مہر لگا رکھی ہے کہ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے۔ ان نظموں کی بحریں بھی متنوع ہیں اور بندشیں بھی۔
شاد عارفی کی طبیعت میں تنوع پسندی اور ہمہ گیری ابتداء ہی سے شامل تھی۔ اپنی طنزیہ نظموں میں بھی موصوف نے اس کے شواہد فراہم کیے ہیں۔ ان نظموں میں ہم عصر سماج اور افراد کی خام کاریوں اور کمزوریوں کو چن چن کر نشترِ طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مظفر حنفی نے ان نظموں کے موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’ انھوں نے ہماری سماج کے ہر جھول، ہر رخنے، ہر ناہمواری اور ہر خامی پر طنز کے وار کیے ہیں خواہ وہ گھر میں ہو، دربار میں ہو، بازار میں ہو یا خانقاہ میں ‘‘ ۔ (19)
آگے چل کر انھوں نے واضح کیا ہے کہ نظم ’ سماج ‘ میں شاعر نے ان فرسودہ اقدار کو ہدف ملامت بنایا ہے جو نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اپنی پسند کی شادی کرنے سے روکتی ہیں ’’روٹی‘‘ میں غریب و سرمایہ دار کے ما بین تفریق کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔ ’’اختلافات‘‘ میں یکجہتی پر زور دیا گیا ہے۔ نظم ’’ اندھیر نگری‘‘ ظلمت پرست حکمرانوں پر یلغار کرتی ہے۔ ’’ حیوانِ ناطق‘‘ اُن اشرف المخلوقات کو مطعون کرتی ہے جن کی فطرت میں شیطنت شامل ہے۔ ’’ شطرنج‘‘ غلام ہند کے بے حس شہریوں کو جھنجھوڑنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ ’’ جبر و قدر‘‘ ظالم و مظلوم کے کرداروں پر روشنی ڈالتی ہے الغرض شاد کی طنزیہ نظموں میں ہمیں ان کے عہد کی تاریک و قبیح تصویریں بھی نظر آتی ہیں اور ان پر چوٹیں بھی پڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ طنزیہ نظموں میں ’’ رسمی قید خانے ‘‘ ، ’’ ہمارے نوجوان‘‘ ، ’’دخت ک‘‘ش ، ’’ گاؤں ‘‘ ، ’’ ہولی‘‘ ، ’’ بیٹے کی شادی‘‘ ، ’’ جہیز‘‘ ، ’’ رت جگا‘‘ ، ’’ گوالن‘‘ ، ’’دیہاتی لاری‘‘ ، ’’ شوفر‘‘ ، ’’ پرانا قلعہ‘‘ ، ’’ ان اونچے محلوں میں ‘‘ ، ’’ رنگیلے راجا کی موت‘‘ ، ’’شوفر‘‘ ، ’’ملازمہ‘‘ ، ’’ گویم مشکل‘‘ ، ’’ ٹکر گدے ‘‘ ’’ نمائ‘‘ش ( چار نظمیں )، ’’ زن مرید شوہر‘‘ ، ’’مگر عورت کا دل کتنا‘‘ ، ’’ مرے پڑوس میں۔۔ ۔ ‘‘ وغیرہ ہر لحاظ سے اردو شاعری کے عمدہ انتخابات میں جگہ پانے کی مستحق ہیں۔ ہر چند کہ ان نظموں کے بعض حصوں میں مزاح کی کارفرمائی بھی نظر آ جاتی ہے مثلاً:
لگ چکا ہے ان کی داڑھی کو کلف
یہ غلامانِ سیاست اقتدار
قوم کے کاندھوں پر رہتے ہیں سوار
دیکھنے میں ہستیِ معقول
پردہ دارِ عیب زریں جھول بھی
چغلیاں کھاتے ہیں کردار و عمل
عقل کو لاحق ہے کرسی کا خلال
دیکھنا تالی پٹے گی ہر طرف
لگ چکا ہے ان کی داڑھی کو کلف ( آپ کی تعریف)
ایک دوسری نظم کا دلچسپ اقتباس۔۔ ۔۔ ۔
لدے پھندے پنجرے کے اندر گھس آیا اخلاقی کال
ہندو مسلم جھگڑے نے دی موقع پا کر ہڈی ڈال
بربر شامی جوش میں آئے اکڑی اینٹھی بھاجی دال
عمّامے نے گھونسہ تانا، پگڑی نے کی گالی سر
عضویاتی ورد و وظائف، جنسیاتی نقد و نظر
ثالث سعیِ صلح میں حیراں، یہ اسٹالن وہ ہٹلر
دونوں کے دونوں دیوانے دونوں کے دونوں حق پر
(دیہاتی لاری)
لیکن حق یہ ہے کہ شاد عارفی مزاح نگار نہیں طنز نگار ہیں۔ بقول قمر رئیس:
’’شاد عارفی مزاجاً ظریف نہیں، طنز نگار ہیں۔ اُن کی تیکھی غزلوں اور نظموں میں سماج اور سیاست کے مریضانہ حقائق پر بڑی نازک اور لطیف چوٹیں ملتی ہیں۔ گرد و پیش کی عفونت، عیاری اور کھوکھلے پن سے ان کی برہمی اور بے زاری کا اظہار کبھی عوامی محاورے اور پھکڑ پن میں ہوتا ہے اور کبھی ان کی شدت احساس، خیال انگیز ایمائیت کی قبا پہن لیتی ہے۔ ‘‘ (20)
اس خیال سے کوئی بھی سلیم الطبع شخص انکار نہیں کر سکتا کہ طنز نگار شاعر کو معاشرے اور افراد میں پائی جانے والی قبیح رسموں اور کج روی کی اصلاح مقصود و مطلوب ہوتی ہے۔ درپردہ تو شاد کی تمام نظموں کا مطمحِ نظر یہی ہے لیکن بعض نظموں میں انھوں نے بڑی وضاحت اور کھلے ڈلے انداز میں اصلاح کی تلقین کی ہے مثلاً نظم ’’ ہولی‘‘ میں بعض ناسمجھ جس طرح گالی گلوچ کرتے ہیں لوگوں پر کیچڑ، تارکول اور گوبر اُچھالتے ہیں، اس کی تصویر کشی کرنے کے بعد نظم کا اختتام ان مصرعوں میں کیا گیا ہے:
یہ سیاہی ہند کے چہرے سے دھونی چاہیے
اس مقدس رسم کی اصلاح ہونی چاہیے
حدِّ اعتدال سے بڑھی ہوئی آزادیِ نسواں پر اظہار خیال کرتے ہوئے نظم ’’ ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے ‘‘ میں مشورہ دیتے ہیں:
کسی عورت کو آزادی کا حیلہ
سزاوارِ یقیں ہوتا نہیں ہے
کہ نازک جنس اور پھر بے وسیلہ
روش مغرب کی مارِ آستیں ہے
’’ سبق‘‘ میں کہتے ہیں:
منزل کی جانب جاری رہ
جو پیش آئیں وہ صدمے سہہ
پستی میں بہتا پانی بن
رفعت میں برق ہمالہ بن
’’ جہیز‘‘ میں فرماتے ہیں:
گزرنے والی برات پر جائزے کا اقدام کر رہا ہوں
وطن کی تقلیدِ صرفِ بیجا پہ نقد کا کام کر رہا ہوں
’’ رسمی قید خانے ‘‘ ، ’’ مرید کی بیوی‘‘ ، ’’ بیٹے کی شادی‘‘ ، ’’ ہمارے نوجوان ‘‘ ، ’’ادبار‘‘ ، ’’ حیوانِ ناطق‘‘ وغیرہ اسی قبیلے کی نگارشیں ہیں۔
منظومات شاد میں کئی نظموں کا تعلق متوسط مسلم گھرانوں میں رواج پانے والی بدعتوں اور قبیح رسموں سے ہے ان میں ’’ بیٹے کی شادی‘‘ ، ’’ رت جگا‘‘ ، ’’ ساس اور بہو‘‘ ، ’’سالی‘‘ ، ’’ چڑھاوا‘‘ ، ’’ دادی اور پوتی‘‘ وغیرہ اس روش کی نمائندہ نظمیں ہیں۔ وزیر آغا نے اس نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’ ہمارے شعراء مغرب کے مسموم اثرات کو نشانۂ طنز بناتے آئے تھے تاہم اس طنز کا دائرہ کچھ زیادہ وسیع نہ ہو سکا اور اسی لیے جب دورِ جدید کے شعراء نے زندگی اور سماج کے چھپے ہوئے ناسوروں پر نشتر چلانے کا آغاز کیا تو ان کے طنز کی چبھن کو بڑی سختی سے محسوس کیا گیا۔ اس ضمن میں شاد عارفی کی طنزیہ نظمیں قابلِ ذکر ہیں کہ ان میں زندگی اور سماج کی بیشتر مریضانہ کیفیتوں اور پنہاں ناہمواریوں کو ہدفِ طنز بنایا گیا ہے۔ شاد عارفی کی بیشتر نظمیں سماج کے مرکز ’ گھر‘ کی ناہمواریوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ ‘‘ (21)
اس خیال کی وضاحت کے لیے شاد کی نظموں کے چند اقتباسات پیش کرنا چاہوں گا:
دیسی چھ بچوں کا باوا پاتا ہے پندرہ ہر ماہ
مغرب زادے بانجھ بنجھوٹوں کو بارہ سو کی تنخواہ
(شادی کے بعد )
’’ بٹھا لیا ہے کرم خاں نے اپنی بیٹی کو‘‘
’’ کرے بھی کیا وہ بچاری جنم کی ہیٹی کو‘‘
’’ نہیں ہے موت پر اس بوریے سمیٹی کو‘‘
’’ یہ کس نے ہاتھ لگایا تھا میری پیٹی کو‘‘
’’ بُری للک ہے یہ بندو کی سر چپیٹی کو‘‘
( رت جگا)
مانتی ہوں سہرے کے پھول آپ کھلتے ہیں
اور بَر زمانے میں بِن تلاش ملتے ہیں
کاہلی کی مسند سے باپ بھی تو ہلتے ہیں
گھر پہ آ کے قسمت کیوں دے صدا کہ حاضر ہوں
(مشورہ)
چھ ہزار تخمینہ کم سے کم چڑھاوے کا
رنگ اور کیا لاتا زیر و بم چڑھاوے کا
اے شعیب کی امّی کون غم چڑھاوے کا
باغ و قطعہ آراضی جا کے رہن رکھتا ہوں
(بیٹے کی شادی)
پیش کردہ مثالوں سے شاد کی نظموں کے گھریلو پن کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان اقتباسوں سے اُس بیگماتی ( رام پوری) طرزِ گفتگو سے بھی واقفیت ہو جاتی ہے جو شاد کے زمانے میں اس دیسی ریاست کے گھروں میں رائج تھی اور پٹھنولی کرارے پن اور ٹرکی نمائندگی بھی ہو گئی ہے جس کے لیے رامپوری پٹھان مشہور ہیں۔ ان نظموں کا ڈرامائی انداز اور مکالماتی اسلوب بھی شاد عارفی سے مخصوص ہے۔ چنانچہ خلیل الرحمان اعظمی کے اس خیال سے اختلاف کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ:
’’ شاد عارفی کا مخصوص آرٹ اُن کی شاعری کا ڈرامائی اسلوب تھا۔ انھوں نے شاعری کو بیانیہ اور نا تراشیدہ پیرائے سے نکال کر ایک ایسی شکل دے دی ہے جہاں حقیقت پر اظہارِ خیال نہیں ہوتا بلکہ ٹھوس اور چلتی پھرتی تصویر دکھائی جاتی ہے اور اسے ایسے زاویے سے پیش کیا جاتا ہے کہ شاعر کا نقطۂ نظر واضح ہو جائے۔ ان کی نظموں میں زیادہ تر کردار نگاری ہے ان کی نظمیں زیادہ تر مکالموں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ ان مکالموں میں روز مرّہ کی زبان استعمال ہوتی ہے اور خالص گھریلو فضا، مجلسی رنگ یا گلی کوچے اور بازار کا ماحول ہوتا ہے اس فضا اور ماحول کو پیش کرنے اور ان کرداروں کو جیتا جاگتا بنانے کے لیے شاد صاحب نے جو جو الفاظ استعمال کیے ہیں اور جس جس ڈھنگ سے کیے ہیں ان کی مثال بہت مشکل سے ملے گی۔ ‘‘ (22)
ان نظموں میں بے شمار ایسی خوبیاں ہیں جن کی تفصیل میں جائیں تو دفتر کے دفتر سیاہ کرنے پڑیں گے ان کا معاملہ قارئین کی ذہانت اور سخن سنجی پر چھوڑتے ہوئے اس نکتے کی طرف پڑھنے والوں کی توجہ ضرور مرکوز کرنا چاہوں گا کہ جزئیات نگاری پر بھرپور قدرت رکھنے کے باوجود شاد لفظوں کے برتاؤ میں بے حد محتاط ہیں اور کسی بھی مضمون یامسئلے کی وضاحت کے لیے صرف اتنے ہی الفاظ خرچ کرتے ہیں جتنے ضروری ہوں۔ نظموں کو غیر ضروری طوالت سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ تمہید میں ایک دو مصرعوں سے زیادہ استعمال کرنا کفر سمجھتے ہیں اور ان کی نظموں کا اختتام بھی او۔ ہنری افسانوں کی طرح بیساختہ اور چونکا دینے والا ہوتا ہے۔
زبان و بیان، تشبیہات و استعارات، ترکیب سازی اور صنائع و بدائع سے متعلق جن خوبیوں کی نشان دہی غزلیات شاد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کی جا چکی ہے وہ سب شاد عارفی کی نظموں میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں اس لیے ان کا اعادہ غیر ضروری سمجھتا ہوں۔ مندرجہ ذیل اقتباس میں آل احمد سرور نے بالکل سچ کہا ہے:
’’شاد اپنے ماحول سے باغی تھے، انھیں اس نفرت کی قیمت چکانی پڑی یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ شاد کی عظمت یہ ہے کہ انھوں نے اس بغاوت کو ایک تیکھے اور منفرد اسلوب کا روپ دیا۔ انھوں نے بول چال کی زبان کے امکانات کو بڑی خوبی سے واضح کر دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کئی نظموں میں انھوں نے ہماری معاشرت کی بعض خامیوں پر اس طرح طنز کی ہے کہ یہ مرقع غیر فانی ہو گئے ہیں۔ جو لوگ شاعری کی زبان اور بول چال کی زبان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھتے ہیں انھیں شاد کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ شاد نے بول چال کی زبان کی طاقت اور شعریت کو جس طرح اُجاگر کیا اور جس طرح بقول ایذرا پاؤنڈ حقیقی نفسیات کو زبان دی ہے اسے ہماری اردو شاعری ہمیشہ یاد رکھے گی۔ (23)
شاد عارفی نے رباعیاں اور قطعات بھی معتد بہ تعداد میں تخلیق کیے جن میں فلسفیانہ مضامین کی حامل نگارشات بھی ہیں اور حسن و عشق کے موضوعات پر مشتمل تخلیقات بھی۔ طنز تو ان کی اساسی خصوصیت ہے سو طنزیہ قطعات اور رباعیوں کا یہاں بھی غلبہ ہے۔ ان تحریروں میں پیشہ ورانہ سیاست دانوں کی گھما پھرا کر اچھی خبر لی گئی ہے اور ان کی خود غرضیوں کو بڑے انوکھے پیرائے میں اُجاگر کیا گیا ہے۔ مثلاً:
فکر شادابیِ وطن ہے در پیش
افراطِ خرد بھی ہے بڑی نادانی
کھیت سوکھے پڑے ہوئے ہیں لیکن
ہم سمندر کو دے رہے ہیں پانی
ان قطعات میں فنکاروں کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں پر بھی بڑی گہری چوٹیں کی گئی ہیں:
کسی شہکار کی تخلیق کے بعد
کاٹ لیتے تھے جو معمار کے ہاتھ
اب وہ سفّاک نہیں ہیں پھر بھی
غیر محفوظ ہیں فنکار کے ہاتھ
عمومی تجربے کی باتیں کہنے کے لیے شاد نے اپنی رباعی سے کام لیا ہے جیسے:
جنگل میں جو ذکر شہر دہراتا ہے
وہ سیر کے واسطے ہی کیوں آتا ہے
سبزے پہ کسی فکر میں ٹہلنے والا
سبزے کی طراوتوں کو جھٹلاتا ہے
قطعات میں بڑی مہارت کے ساتھ نفسیاتی کمزوریوں اور معاشرے کے مضحک پہلوؤں کو نشانہ ملامت بنایا گیا ہے۔ فرماتے ہیں:
بلند و پست میں نسبت ہے غیر قانونی
غرور و عجز میں رشتہ۔ سماج بکتی ہے
کسی امیر کی لڑکی کسی غریب کے ساتھ
نکاح عیب سمجھتی ہے، بھاگ سکتی ہے
ایک اور قطعے میں انسانی نفسیات کی بڑی نزاکت کے ساتھ ترجمانی کی ہے اور کیسی بر محل تشبیہہ کے ساتھ:
کنکری جوتے میں پڑ جائے اگر
آدمی دو گام چل سکتا نہیں
روح زندہ ہو تو حق تلفی کا بوجھ
آدمی کے جی سے ٹل سکتا نہیں
قصہ مختصر بقول سید احتشام حسین:
’’ شاد عارفی ایک طنز نگار نغز گو شاعر تھے اور گو کہ ان کی غزلوں میں جان دار اور تہہ دار اشعار کی کمی نہیں ہے لیکن ان کا اصل جوہر طنزیہ کلام میں جھلکتا ہے طنز نگاری کے امکانات کچھ محدود ہوتے ہیں تاہم اس کے اندرونی سماجی مقصد کی وجہ سے ان کا دائرہ کبھی کبھی پھیل بھی سکتا ہے۔ شاد عارفی نے اس حیثیت سے اپنی شاعری کا معیار بلند رکھا۔ ‘‘ (24)
انھیں اوصاف کے پیشِ نظر حنیف فوق، شمس الرحمن فاروقی، عمیق حنفی، راہی معصوم رضا، ندا فاضلی وغیرہ نے شاد کو جدے دیت کا پیش رو اور عہد ساز شاعر قرار دیا ہے۔
مظفر حنفی (پاپا) نے اپنی غزلوں پر شاد عارفی سے بذریعہ خط و کتابت کل چودہ مہینوں تک اصلاح لی اور 1964ء سے لے کر آج تک مرحوم کی خدمت میں مصروف ہیں۔ شاد عارفی کے ہم وطنوں نے انھیں مرحوم کی بیاضوں سے استفادے کا موقع نہیں دیا تو پاپا نے بر صغیر کے رسالوں اور جریدوں کے ہزاروں صفحات کھنگال کر کلام شاد کو ریزہ ریزہ جمع کیا، برسوں کی کاوش کے بعد اُن کے مکاتیب و مضامین یکجا کیے، اُن کے مزار کو پختہ کرنے کے لیے رقم فراہم کی، اُن پر تحقیقی مقالہ لکھا، ان کی نگارشات کو سات آٹھ ضخیم کتابوں کی شکل میں ترتیب دے کر شائع کیا۔ اردو کے مختلف مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے قدیم و جدید نقادوں سے سلسلۂ شادیات کے لیے مضامین لکھوائے اور مجموعوں میں ان کی اشاعت کا بندوبست کیا نیز شاد عارفی کی پچاسویں برسی کے موقع پر 2014ء میں اس عظیم شاعر کے متعلق نہ صرف دو مقتدر رسائل کو خاص نمبر شائع کرنے پر آمادہ کیا بلکہ ان کی ترغیب پر ہند و پاک کے تقریباً اٹھارہ رسالوں اور اخباروں نے شاد عارفی کی شخصیت اور فن پر گوشے نکالے نیز دو تین دانش گاہوں نے اُن کی رہنمائی میں ’ شاد عارفی: فن اور شخصیت‘ پر ہندوستان گیر پیمانے کے سیمینار منعقد کیے۔ انھوں نے کئی ریسرچ اسکالروں کو اس موضوع پر پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی کام کرنے پر مائل کیا۔ موصوف کا مشن اب بھی جاری ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں بھی اس کار خیر میں اپنی محدود استعداد کے ساتھ کچھ حصہ لے رہا ہوں۔ یہ کتاب مکمل ہو ہی نہیں سکتی تھی اگر اس کے لیے وہ اپنی مرتبہ و مؤلفہ کتب سے شاد عارفی کی تخلیقات منتخب کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور قدم قدم پر میری دستگیری اور معاونت نہیں فرماتے۔ مجھے شکریہ ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن اظہار تشکر تو بہر حال میں کر ہی سکتا ہوں۔ اللہ ان کا سایہ ہم لوگوں کے سروں پر سالہا سال قائم رکھے۔ آمین۔
یکم اپریل 2016ء فیروز مظفر
فرسٹ فلورD-40، بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی۔ 25
٭٭
حواشی
(1) ’فنون ‘( لاہور) اشاعت خاص نمبر ۵ 1964ء ص ۳۶/۳۳۵
(2) شاد عارفی: فن اور فنکار ص ۳۴
(3) شاد عارفی: فن اور فنکار ص ۴۱
(4) ’ ایک تھا شاعر‘ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۷۴۱
(5) ’ ایک اور گنجا فرشتہ‘ مشمولہ نقوش لاہور خاص نمبر 1965ء
(6) شاد عارفی: ایک مطالعہ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۲۴۶/۲۴۵
(7) شاد عارفی: ایک مطالعہ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۲۴۷
(8) شاد عارفی: ایک مطالعہ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۲۴۷
(9) شاد عارفی: ایک مطالعہ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۲۴۸
(10) شاد عارفی: ایک مطالعہ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۲۴۹
(11) شاد عارفی: ایک مطالعہ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۲۵۴
(12) شاد عارفی: ایک مطالعہ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۲۵۴
(13) شاد عارفی: ایک مطالعہ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۲۵۷
(14) شاد عارفی: ایک مطالعہ ( مرتبہ مظفر حنفی)ص ۵۵
(15) شاد عارفی: فن اور فنکار ص ۷۵
(16) سفینہ چاہیے ( مرتبہ: سلطان اشرف)ص ۱۶، ۱۷
(17) ایک تھا شاعر، ص۲۸
(18) شاد عارفی: ایک مطالعہ،ص ۴۵/۴۴
(19) شاد عارفی: فن اور فنکار،ص ۱۷۱
(20) شاد عارفی: ایک مطالعہ، ص۲۴۹
(21) شاد عارفی: ایک مطالعہ،ص ۲۴۸
(22) ایک تھا شاعر،ص ۷۴۸
(23) شاد عارفی: ایک مطالعہ،ص ۲۱۷
(24) شاد عارفی: ایک مطالعہ، ص۱۹/۲۱۸
٭٭٭
غزلیں
’’مجھے اُردو غزل کی پوری تاریخ میں صرف دو ہی ایسے نام نظر آتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے غزل سے با مقصد اور سنجیدہ طنز نگاری کا بھرپور کام لیا ہے۔ میری مراد مرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالبؔ اور شادؔ عارفی سے ہے۔ دونوں نسلاً پٹھان ہیں اور دونوں کو شاعری سے زیادہ آباء و اجداد کے پیشۂ سپہ گری پر ناز ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زبان اور طرز بیان سے تیغ جوہر دار کا کام لینے اور مدِّ مقابل پر بے محابا وار کرنے سے نہیں چوکتے۔ لیکن دو باتیں شاد عارفی کے طنزیہ لہجے کو بالکل الگ کر دیتی ہیں ایک تو یہ کہ شعروں میں طنزیہ لہجہ غالبؔ کے اسلوب کا ایک جزو ہے اور شادؔ عارفی کے طنز کا دائرہ، انداز نظر اور موضوع ہر اعتبار سے غالبؔ کے مقابلے میں وسیع، با مقصد اور بہت واضح ہے۔ ‘‘
فرمان فتح پوری
نعت
پیار کی نظروں سے دیکھے رحمتِ باری ہمیں
لازم آتا ہے یہاں نازِ گُنہ گاری ہمیں
بھا گئی تھی اس قدر مندر کی گلکاری ہمیں
حق نظر آتی تھی باطل سے وفاداری ہمیں
آپ نے بخشا جبینوں کو سجودِ قبلہ رُخ
یعنی سمتِ بندگیِ خالقِ باری ہمیں
سرمۂ ارشادِ والا سے جونہی آنکھیں ملیں
خواب تھا محسوس ہوتی تھی جو بیداری ہمیں
وہ مشیت آفریں ہے، آپ ختم المرسلیں
اور تھوڑی دیر ہے رستہ کی اندھیاری ہمیں
ہم کو احساسِ سفر کی داد ملنی چاہیے
روکتی ہے منزل یثرب سے ناداری ہمیں
پوچھتی ہیں گنبدِ خضرا پہ چھا کر بدلیاں
رحمۃ للعالمیں ! اِذنِ گہر باری ہمیں
انتہائے خلق ہے، عہدِ رعونت میں بھی شادؔ
آپؐ نے تلقین فرمائی گُل افشاری ہمیں
٭٭٭
نہ آ سکی ہے جراحتِ آرزو سوئے اندمال اب تک
نوید اے سعیِ چارہ فرما کہ ہر گِلہ ہے محال اب تک
عجیب بیم و رجا کی حالت میں ہے دلِ خستہ حال اب تک
جنون و فرزانگی کا عالم ہے تشنۂ انفعال اب تک
شباب آتے ہی سو حجابوں میں چھپنے والے یہی بتا دے
جہاں تھا بچپن میں کیا وہیں ہے گلاب عارض کا خال اب تک
نگاہِ ناظر کی نا تمامی سے خار الجھیں تو جُرم کِس کا
نگاہِ ناظر سے بے خبر ہے عروسِ حُسن و جمال اب تک
ہلال ہر چودھویں کو بنتا ہے بدر ’’ انوارِ شرمگیں ‘‘ سے
ترے رُخِ دلنشیں کی مجھ کو نہیں میسر مثال اب تک
دمک رہا تھا جو تیرے ماتھے پہ عید کا چاند دیکھنے میں
چمک رہا ہے مری نگاہوں کے سامنے وہ ہلال اب تک
مری محبت کی زندگانی ہے آج بھولی ہوئی کہانی
مگر لکھے جا رہا ہوں اے شادؔ ہر غزل حسبِ حال اب تک
٭٭٭
الفت کر سکتے ہیں لیکن کیا انجامِ الفت ہو گا
ہم جو چاہیں وہ نا ممکن، جو چا ہے گی قسمت، ہو گا
فن پر قدرت رکھنے والا جب محوِ شعریّت ہو گا
جو رجحانِ تاثر دے گا، مطلع اس کی بابت ہو گا
ناکامی و نا قدری پر ’’ فی الجملہ مایوس نہیں ہم‘‘
’’ یہ مایوس نہ ہونا‘‘ آخر تمکینِ شخصیّت ہو گا
اپنی کیا ہے ’’ شام سویرے ‘‘ کوچے کوچے سر گردانی
شام سویرے ’’ بام پہ آنا‘‘ آپ کے حق میں زحمت ہو گا
’’ باتونی ورثہ یابوں سے ‘‘ مل کر یہ محسوس ہوا ہے
جس کو جتنی فرصت ہو گی، اتنا ہی کم فرصت ہو گا
آنے والی عمر میں کیا کردار رہے ؟ مستقبل جانے
’’ چہرہ مہرہ‘‘ بتلاتا ہے، تو اِک روز قیامت ہو گا
یوں ہی آپس کے جھگڑوں کے معنی گر ہم ’’ حجّت لیں گے ‘‘
یارو، سنبھلو، سوچو، سمجھو، کیا انجامِ حجت ہو گا
اٹھنے کو تو اس محفل سے ہم کب کے اُٹھ آئے ہوتے
لیکن یہ اُمید ’’وہ کافر‘‘ اب ’’ محجوبِ نفرت‘‘ ہو گا
کج خصلت سے ’’نیک توقع‘‘ رکھنے کے یہ معنی ہوں گے
پھول نگاہوں میں کھٹکے گا، کانٹا صَرفِ زینت ہو گا
اپنے گھر کے رازِ وطن کے دشمن تک پہچانے والا
جعفر سا بد باطن ہو گا، صادق سا بد طینت ہو گا
ماضی کی پچھلی راتوں کے اب تک خواب نظر آتے ہیں
جیسے اب تارے ڈوبیں گے، جیسے اب وہ رخصت ہو گا
’ پاؤں نہیں ہوتے چوروں کے ‘ اگلوں نے یہ بات کہی ہے
یعنی ہر حالت میں رہزن، راہی سے کم ہمّت ہو گا
اپنی طنزوں کے بارے میں آپ سے میں یہ عرض کروں گا
آئینہ جس ہاتھ میں ہو گا اس کی حسبِ صورت ہو گا
شان بنانے کی خاطر بھی ہوتا ہے اصرارِ ساغر
ساقی کا یہ فرض ہے، کس سے کب کفرانِ نعمت ہو گا
٭٭٭
ہونٹوں پر محسوس ہوئی ہے آنکھوں سے معدوم رہی ہے
پھلواری کی ’’ نگہت دلہن‘‘ پھلواری میں گھوم رہی ہے
اُس کا ’’ آنچل اور آویزے ‘‘ میرا ما تھا چوم رہی ہے
پھر بھی ’’ چشم بد طینت‘‘ پُر الفت لا معلوم رہی ہے
ہر میکش کی ذہنی لغزش اس محور پر گھوم رہی ہے
جیسے وہ سنبھلا بیٹھا ہے جیسے محفل جھوم رہی ہے
چُننا ہے تو مُسکانے سے پہلے چن لو کوئی کلی بھی
گلشن میں کھلنے سے پہلے تک بے شک معصوم رہی ہے
تم عشرت سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھو، میں واقف ہوں
کس کس بیچارے کی خواہش نغموں سے محروم رہی ہے
اِس سے، اُس سے میری بابت روزانہ سر گوشی، یعنی
بنتے کیوں ہو، میری حالت تم کو بھی معلوم رہی ہے
پینے والوں کے کہنے سے، غم سے چھٹکارا پانے کو
پی کر بھی میری تنہائی مایوس و مغموم رہی ہے
عارض عارض صبحِ بہاراں، گیسو گیسو شامِ نشیمن
وہ کیا جانے جس کی غفلت جلووں سے محروم رہی ہے
میں تخئیلی نخلستاں میں آنکھیں بند کیے بیٹھا ہوں
میری ’’مستقبل اندیشی‘‘ منزل منزل گھوم رہی ہے
ورنہ سیدھے سادے سجدے ورنہ سیدھی سادی حمدیں
دُنیا ’’کیا اور کیوں ‘‘ کے ہاتھوں بھاری پتھر چوم رہی ہے
ہمدردی کے مُنہ پر فن کی آنکھیں کھلتی ہیں اے شادؔ
گویا انسانی ہمدردی شاعر کا مقسوم رہی ہے
٭٭٭
صحرا کو گلستاں کہتا ہوں، بجلی کو تجلّی کہتا ہوں
سو معنی پیدا ہوتے ہیں اتنی بے معنی کہتا ہوں
کہتا ہوں بلندی کوپستی، پستی کو بلندی کہتا ہوں
جب اُلٹی گنگا بہتی ہے، میں اُلٹی سیدھی کہتا ہوں
تم کیوں چونکے، تم کو تو نہیں اپنوں کو کہا ہے نا منصف
تم کیوں بگڑے، تم کو تو نہیں اپنوں کو فریبی کہتا ہوں
بننے کو تو ان کی محفل میں سب گونگے بہرے بن بیٹھے
لیکن ماتھے دھندلاتے ہیں جب سچی سچی کہتا ہوں
زک پہچانے کی تاک میں ہیں ہم دونوں لیکن کہنے کو
وہ مجھ کو پڑوسی کہتے ہیں میں ان کو پڑوسی کہتا ہوں
رہبر رہزن بن سکتا ہے، رہزن رہبر ہو جاتا ہے
جی ہاں میں وہ بھی کہتا ہوں جی ہاں میں یہ بھی کہتا ہوں
محفل کی افراتفری میں وہ اور اضافہ کرتے ہیں
جتنا بھی افراتفری کو میں غیر آئینی کہتا ہوں
مالی کے دھندلے ماتھے پر کچھ اوس دمکنے لگتی ہے
جب پھولوں کے مرجھانے کو موسم کی خرابی کہتا ہوں
اے شادؔ میں اکثر غزلوں میں اے شادؔ میں اکثر نظموں میں
مجھ پر بھی صادق آتی ہے ایسی جگ بیتی کہتا ہوں
٭٭٭
ابھی تو موسمِ نا خوشگوار آئے گا
پھر اس کے بعد پیامِ بہار آئے گا
خلوصِ عہدِ وفا سازگار آئے گا
کبھی تو ’’مرحلۂ اعتبار‘‘ آئے گا
جس انجمن میں دلوں کے قرار لُٹتے ہیں
اس انجمن میں پہنچ کر قرار آئے گا
’’ لبِ شگفتہ و مئے پاش پر‘‘ ، شگوفوں پر
کرو گے غور جہاں تک نکھار آئے گا
’’ یہی ہے بزمِ طرب آفریں ‘‘ تو جاتا ہوں
یہ چارہ گر نے کہا تھا قرار آئے گا
’’ سوالِ بیش و کم مئے ‘‘ نہیں مگر ساقی
کبھی تجھے بھی ’’شعورِ شمار‘‘ آئے گا
پکارنے پہ جب آیا تو تیرا دیوانہ
کسی بھی نام سے تجھ کو پکار آئے گا
’’ نثارِ حسنِ محبت رہی ہے ‘‘ دیکھو گے
کلی کے ساتھ ہی شاخوں پہ خار آئے گا
جو ہے مزاجِ بہارِ چمن سے نا واقف
برائے سیرِ چمن بار بار آئے گا
جنھیں قیاس و شواہد سے واسطہ ہے انھیں
یقینِ گردشِ لیل و نہار آئے گا
یہ پختہ کارِ تغزل خیال کے بل پر
غزل کے شہرِ قفس میں گزار آئے گا
٭٭٭
تمھاری فرزانگی سے کچھ کم نہیں ہے دیوانہ پن ہمارا
تمھیں مبارک تمھاری ہجرت، ہمیں مبارک وطن ہمارا
نہ ہو، نہیں ہے اس انجمن میں اگر کوئی ہم سخن ہمارا
مگر یقیں ہے کہ اور چمکے گا اور چمکے گا فن ہمارا
جو گلستانوں کی شاہراہوں پہ اپنے بستر بچھا نہ پائے
وہی وہاں جا کے کہہ رہے ہیں نہیں ہے کوئی چمن ہمارا
بقولِ اقبالؔ پہلے پہلے یہاں لگائے تھے جس نے ڈیرے
وہ کارواں آج بھی بسا ہے کنارِ گنگ و جمن ہمارا
بعیدِ اخلاق و آدمیت ہے رہ نماؤں سے بد گمانی
کمالِ سادہ دلی تو یہ ہے کہ ساتھ دے راہزن ہمارا
صدائے ناقوسِ بتکدہ پر گرفت کا مشورہ نہ دیجے
عبادت و بندگی کے مانع نہیں ہے جب برہمن ہمارا
یہ دوسری بات ہے کہ ہجرت نہ کر کے در در کی خاک چھانے
’’چنے ۱؎ نہ بیچے گا‘‘ جوشؔ کی طرح ذوقِ شعر و سخن ہمارا
وطن کی اس سرزمین کو اے شادؔ کون سے دل سے چھوڑ دیں ہم
وطن کی جس سر زمیں پہ گزرا ہے دورِ دار و رسن ہمارا
۱؎سب شہادت کے ہیں آثار چنا جور گرم ( جوشؔ)
٭٭٭
خواص پڑ کے سو رہے، عوام اُٹھ کے چل پڑے
جلے چراغ بجھ گئے، بجھے چراغ جل پڑے
’’ کہیں وہ مسکرا دیے، کہیں جبیں پہ بل پڑے ‘‘
یہ اس لیے کہ التماسِ حال میں خلل پڑے
نسیمِ نرم رو کا نام لے رہا ہے باغباں
جو آشیاں اجڑ گئے جو آشیاں مچل پڑے
سکوت بھی، قیام بھی، لحاظِ صبح و شام بھی
اصولِ جستجو نہیں کہ چل پڑے تو چل پڑے
یہ زلفِ پُر شکن نہیں، یہ ابروؤں کے خم نہیں
نکل نہ پائیں گے کبھی اگر دلوں میں بل پڑے
اُداسیِ بہار و باغبان کے شعور پر
کلی کلی کے مُنہ سے کیا عجب ہنسی نکل پڑے
’’سکھاؤ اپنی بندگی، سجاؤ قشقۂ جبیں ‘‘
بتانِ خود نما تمھیں کسی طرح کو کل پڑے
جو انجمن میں سامنا ہوا تو اشکِ بے کسی
ادھر مژہ پہ تھم رہے، اُدھر مژہ سے ڈھل پڑے
علی العموم گھومتے ہیں بُت کدے کی راہ پر
خیال ہے کہ شیخ وقت بھی کسی پہ چل پڑے
غلط نگاہیوں کو مرحبا کہ شادِؔ عارفی
جو تیر شست میں نہ تھے وہ تیر بر محل پڑے
٭٭٭
چرچے عبادتوں کے، گناہوں کے مشغلے
انسان کا مزاج بدلتا ہے دن ڈھلے
سچّی لگن کے ساتھ جدھر چل پڑے چلے
ایسوں کے واسطے نہ مصائب نہ مرحلے
ماحول جا رہا ہے مخالف تو کیا ہوا
آثار کہہ رہے ہیں کہ آئیں گے دِن بھلے
بے رونقی شمعِ تمنّا نہ پوچھیے
جیسے کوئی چراغ کسی قبر پر جلے
دلچسپیِ چمن کا جہاں تک سوال ہے
کانٹے بھی چاہتے ہیں نسیمِ سحر چلے
جب تک نہ میکدے میں لڑا کر پئیں گے جام
مل پائیں گے نہ شیخ و برہمن کبھی گلے
دنیائے بیکسی کا تمھیں تجربہ کہاں
تم کیا سمجھ سکو گے غریبوں کے مسئلے
آتی نہیں یہ بات بہاروں کے دھیان میں
شائستۂ قفس ہیں چمن کے بڑھے پَلے
کہتے ہیں شادؔ ہم سے پرانے غزل سرا
ہرگز اُدھر نہ جاؤ جِدھر کی ہوا چلے
٭٭٭
عہد مایوسی جہاں تک سازگار آتا گیا
اپنے آپے میں دل بے اختیار آتا گیا
کچھ سکوں، کچھ ضبط، کچھ رنگِ قرار آتا گیا
الغرض اخفائے رازِ قربِ یار آتا گیا
اُڑتے اُڑتے اس کے آنے کی خبر ملتی رہی
بال کھولے مژدۂ گیسوئے یار آتا گیا
رفتہ رفتہ میری ’’الغرضی‘‘ اثر کرتی رہی
میری بے پروائیوں پر اس کو پیار آتا گیا
جستہ جستہ لہلہایا گلشنِ زخمِ جگر
رفتہ رفتہ دستۂ گل پر نکھار آتا گیا
نیند آنکھوں میں مگر آتی گئی، اُڑتی گئی
دوشِ نکہت پر پیامِ زلفِ یار آتا گیا
اس نے جس حد تک بھی ہم سے داستانِ غم سُنی
ہم کو اس نسبت سے فنِّ اختصار آتا گیا
غالباً یہ بھی ہے میری کامیابی کا سبب
اپنی ناکامی پہ غصہ بار بار آتا گیا
ان میں شامل مسکراتے پھول بھی، تارے بھی ہیں
جن دریچوں سے شعورِ حسنِ یار آتا گیا
اس قدر نزدیک تر آتی رہی قدموں کی چاپ
جس قدر خدشہ خلافِ انتظار آتا گیا
اس کے رجحانِ نظر میں دلکشی پاتے ہوئے
اعتبارِ گردشِ لیل و نہار آتا گیا
’’ رنگ لائے گی ہماری تنگ دستی ایک دن‘‘
مثلِ غالبؔ، شادؔ گر سب کچھ اُدھار آتا گیا
٭٭٭
بتوں کو نرم دل کہا ہے اور بارہا کہا
مگر یقین کیجیے، خلافِ ماجرا کہا
بہار کو خزاں کہا، خزاں کو مرحبا کہا
سبھی کو حق ہے، جس کی جو سمجھ میں آ گیا کہا
وہی ہوا، وہاں وہاں نقاب اُٹھ کے رہ گئی
جہاں جہاں نقابِ رخ کو میں نے خوشنما کہا
یہ مسکراکے دیکھنے سے اور کیا مُراد تھی
جو تم نے آسرا دیا تو میں نے مدّعا کہا
چڑھی نہ تھی تو شیخ کی ہر اک بری بھلی سُنی
لگ اچکا تو شیخ کو بہت بُرا بھلا کہا
ستم یہ ہے کہ باغباں کو شاعری میں ڈھب نہیں
خطا ہوئی جو خار کو بہار آشنا کہا
کہے تو نظمِ انجمن کے تبصروں پہ کیا کہے
سمجھ رہا ہے صدرِ انجمن کہ سب بجا کہا
وہ اپنی کج روی پہ اپنے دل میں کٹ کے رہ گیا
جسے بڑے ادب کے ساتھ ہم نے رہ نما کہا
جو حالِ دل ہزار کوششوں پہ تم نہ سُن سکے
تو پھر اسی میں مصلحت بھی تھی کہ جا بجا کہا
حقیقتاً یہی تو آپ ہم سے چاہتے بھی تھے
اگر قفس کو آشیاں کہا تو کیا بُرا کہا
جنابِ شاؔدؔ آپ میں خلوص ہے تو کیا ہوا
کسی بھی مئے پرست کو کسی نے پارسا کہا؟
٭٭٭
شادِؔ مغموم جو مسرور نظر پڑتا ہے
سچ کہا ہے کہ تخلص کا اثر پڑتا ہے
صرف کعبہ ہی نہ دورانِ سفر پڑتا ہے
میں جدھر جاؤں ادھر آپ کا گھر پڑتا ہے
گریۂ غم کا محبت پہ اثر پڑتا ہے
کچھ دکھائی بھی تجھے دیدۂ تر پڑتا ہے
سیرِ گلشن کے علاوہ نہیں چارہ اس کا
دل پہ دورہ سا جو ہنگامِ سحر پڑتا ہے
غالباً وسوسۂ سود و زیاں ہے باقی
جام پیتا ہوں تو انجام نظر پڑتا ہے
حُسنِ کافر کا بھرم کھلتا ہے پاس آنے پر
وہ نہیں ہوتا ہے منظر، جو نظر پڑتا ہے
ان گھٹاؤں سے اجالوں کی توقع ہے مگر
کوئی جگنو، کوئی تارا بھی نظر پڑتا ہے
طے کیے جائیں شب و روزِ جدائی کیوں کر
بیچ میں ’’مرحلۂ شمس و قمر ‘‘ پڑتا ہے
دلنوازی جو بھرے گھر میں نہیں بن پڑتی
رخِ محجوب پہ گیسو ہی بکھر پڑتا ہے
پاسبانانِ چمن جس کو ہوا دیتے ہیں
وہ غمِ نظمِ وطن میرے ہی سر پڑتا ہے
آپ اربابِ صداقت کے مقابل اے شادؔ
چاپلوسوں کا مقدر ہی زبر پڑتا ہے
٭٭٭
جن کی عیاشی مُسلّم ہے غزل میراث ہے
آج بھی ٹکسال کی کنجی انھیں کے پاس ہے
آپ کی محفل میں کوئی صاحبِ اخلاص ہے
غالباً کوئی نہیں ہو گا ہمیں احساس ہے
مسکرانا منصبِ ساقی میں داخل ہے تو پھر
مُنہ بنا کر جام دینا التفاتِ خاص ہے
مل نہیں سکتا بصارت کو بصیرت پر فروغ
دیکھنے میں پارۂ بلّور بھی الماس ہے
بادۂ گُلرنگ بھی ہے یوں تو اک خاصے کی چیز
حضرتِ زاہد مگر ساقی بھی خاص الخاص ہے
واہ کیا مصرع کہا ہے، پھر عنایت کیجیے
آپ کو ہم نا مرادانِ وفا کا پاس ہے
دعویِ فیضانِ بوئے گلستاں کے بعد ہی
جھینپ جانا چاہیے تجھ کو، اگر حسّاس ہے
رکھ لیا ہے شیخ صاحب نے تعصّب اس کا نام
برہمن کو بتکدے کے ساتھ جو اخلاص ہے
بوالہوس بھی جب کہ دیوانے بنے پھرتے ہیں شادؔ
کیا بنے ان کا کہ جن میں عشق کی بو باس ہے
٭٭٭
دل کا چور زباں دشمن کی کھلنے پر پکڑا تو کیا
تانت کے بجنے پر محفل نے راگ اگر بُوجھا تو کیا
آپس کے جھگڑوں پر شاعر لکھّے بھی نوحہ تو کیا
قاضی شہر کے اندیشے سے ہو جائے دُبلا تو کیا
ہو سکتا تھا کچھ انکھیاروں میں کانا راجا تو کیا
لیکن جب بلّی کے بھاگوں ٹوٹ پڑے چھینکا تو کیا
ظالم کی چلمیں بھرنے پر دوزخ کو تم دوش نہ دو
پاپی کیا اشنان کرے گا بہتی ہے گنگا تو کیا
ہم بیچارے کس گنتی میں نیچی چولی، نیچی بات
اونچے اونچے شملے والے وار کریں اوچھا تو کیا
بانس تیری بھیں گی آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں اور چپ ہوں
دیکھ لیا ہے تو نے میری پلکوں پر تنکا تو کیا
کُہنے سے لٹکے رہنے پر جو بیتی سو بیت گئی
ٹوٹا ہاتھ گلے کو آنا تم نے اب مانا تو کیا
دھمکی سے دھن مل سکتا ہے نرمی سے تن من دھن بھی
بول بڑا ہم سے بولے گا قاضی کا پیادہ تو کیا
جتنی چادر کی پونجی ہو اتنے ہی پھیلاؤ پاؤں
جُڑ جائے زخموں کو نمک ہی مُشک ہو اسستا تو کیا
پستی اپنی کھونٹ پہ جا کر پاتی ہے شبھ نام مگر
شادؔ کنوئیں کی تہہ میں پانی ہو جائے تارا تو کیا
ہٹ دھرموں کے ساتھ رہیں گے ہٹ دھرموں کے سب کرتوت
شادؔ اگر پاپی کے گھر میں بہتی ہو گنگا تو کیا
٭٭٭
احتیاطوں کو نیا انداز دوں
اس کو اپنے نام سے آواز دوں
حالِ دل کو سُرخیِ آغاز دوں
معنیِ اشعار کو اعجاز دوں
اُلجھنوں سے ورنہ چھُٹکارا کہاں
یادِ گیسو کو پرِ پرواز دوں
لوگ دلچسپی نہیں لیتے تو میں
کیوں کسی کو اپنے دل کو راز دوں
دیکھتا رہ جاؤں اس کو دیکھ کر
عرضِ مطلب کو نوائے ساز دوں
جام لے کر چوم لوں ساقی کے ہاتھ
کچھ تو دادِ التفاتِ ناز دوں
’’ نرگسِ شہلا کو نیند آئی ہوئی‘‘
اور کیا تمثیلِ چشمِ ناز دوں
مستند ہو جائیں گی رسوائیاں
کیا جوابِ غمزۂ غمّاز دوں
یہ کوئی منزل شناسی ہے کہ میں
دوسروں کو بھی نشانِ راز دوں
جانتے ہو حضرتِ واعظ کو تم
یا مثالِ رندِ شاہد باز دوں
نا شناسوں کے درِ دولت پہ شادؔ
ہو نہیں سکتا کہ میں آواز دوں
٭٭٭
وقت کیا شے ہے، پتہ آپ ہی چل جائے گا
ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھّو گے تو جل جائے گا
جس کو محفل سے نکالو گے نکل جائے گا
مگر ادبار تو ادبار ہے، ٹل جائے گا؟
کہیں فطرت کے تقاضے بھی بدل سکتے ہیں
گھاس پر شیر جو پالو گے تو پل جائے گا؟
کہہ دیا تھا کہ یہ رہبر جو چُنا ہے تم نے
صاف طوطے کی طرح آنکھ بدل جائے گا
وہ بدلتے ہوئے ماحول کا سانچہ ہی سہی
کوئی سکّہ تو نہیں ذہن، کہ ڈھل جائے گا
صبحِ مایوسِ گلستاں کی قسم پھر کہیے
باغبانوں کے دماغوں سے خلل جائے گا
میکدے آ کے وہ انسان بنیں یا نہ بنیں
حضرتِ شیخ کا ایمان سنبھل جائے گا
ستم و ظلم کی ٹہنی بھی نہیں پھل سکتی
آپ نے باغ لگایا ہے، تو پھل جائے گا؟
فرض ہیں ہم پہ بیاناتِ بصیرت اے شادؔ
جس کی قسمت میں سنبھلنا ہے، سنبھل جائے گا
٭٭٭
راحت ملی نہ کاوشِ عزمِ سفر گئی
منزل اگر یہی ہے تو دل سے اُتر گئی
میرا خیال تھا کہ دعا بے اثر گئی
لیکن پتہ چلا کہ وہاں کام کر گئی
دشمن چھپے ہوئے ہیں جہاں تاک میں وہاں
میری نظر گئی نہ تمھاری نظر گئی
ممنونِ زلفِ دوست ہے بزم خیالِ یار
چاہا سنور گئی جو نہ چاہا بکھر گئی
بے ساختہ گمان کسی کی طرف گیا
جب دل کو گُدگُدا کے نسیمِ سحر گئی
تجھ بِن مرا مذاق اڑانے کے واسطے
ہر مہ جبیں ’’ نقاب اٹھا کر ‘‘ ٹھہر گئی
یہ اشکِ آرزو ہیں بہیں گے اسی طرح
ایسی ندی نہیں جو چڑھی اور اُتر گئی
الفت میں بدسلوکیِ احباب کیا کہیں
’’ بگڑی بنی‘‘ رواجِ زمانہ کے سر گئی
رجحان جن کے رنگ سے آگے نہ بڑھ سکے
آنکھوں میں اُن کی نکہتِ گُل دھول بھر گئی
اگلی غزل سے قطع توقع نہ کیجیے
اب کی مری بہار اگر بے ثمر گئی
اے شادؔ مجھ کو حُبِّ وطن کے لحاظ سے
کہنا یہی پڑے گا کہ ’’ اچھی گزر گئی‘‘
٭٭٭
اُچھل کے اندھے کنوئیں میں گرنے کو میں ترقی نہیں سمجھتا
مگر یہ باتیں نہیں ہے جس میں شعورِ ذہنی، نہیں سمجھتا
کوئی سہاروں کو مانتا ہے، کوئی ضروری نہیں سمجھتا
جو میرے دل پر گزر رہی ہے مرا پڑوسی نہیں سمجھتا
وہ جب کبھی ہو، مگر ہمارے اصول کی جیت لازمی ہے
مرے اشارے نہیں ہے جس میں شعورِ ذہنی، نہیں سمجھتا
ابھی سے رجعت پسند بزدل کو تم نے اپنا سمجھ لیا ہے
ابھی تو یہ مصلحت کا بندہ ہوا کا رُخ بھی نہیں سمجھتا
وہ پھول، کانٹے کی طرح جس میں نہیں ہے کوئی ضرر کا پہلو
اُسے متاعِ چمن کہوں گا، مفیدِ معنی نہیں سمجھتا
زمانہ اب ایسے خود غرض کو کبھی گوارا نہ کر سکے گا
جو آپ بیتی کو جانتا ہے وہ جگ پہ بیتی نہیں سمجھتا
’’ امارتِ پُر فریب‘‘ قسمت کا اتنا ’’ پرچار‘‘ کر چکی ہے
غریب بیچارا آج تک وجہِ بد نصیبی نہیں سمجھتا
قفس میں انجامِ آشیانہ کی فکر جب ناگوار گزرے
تو بجلیوں کو میں کیا سمجھتا اگر تجلی نہیں سمجھتا
تمھاری محفل کے ’’ رازِ خود پروری‘‘ نہ ہوتے جو آشکارا
تمھاری محفل میں بار پانے کو کامیابی نہیں سمجھتا!
بہ ایں ہمہ ایک ذرۂ ریگ میں ہے اے دوست ایک صحرا
الگ الگ فرد کے تصور کو میں سیاسی نہیں سمجھتا
ہدایتِ نا سزا کو اے شادؔ آج دنیا سمجھ چکی ہے
ذلیل و بر خود غلط کو دنیا میں کوئی ہادی نہیں سمجھتا
غمِ محبت کے قحط کے ساتھ یاں غمِ قحطِ جنس بھی ہے
میں شادؔ اپنے وطن کو اب تک اسدؔ کی دلّی نہیں سمجھتا
٭٭٭
ڈال کر بانہیں، بہا کر اشک، پھر آنے کی بات
جاتے جاتے یاد آنے اور تڑپانے کی بات
نرم لہجے میں اثر کرتی ہے سمجھانے کی بات
چھوڑ دیجے حضرتِ ناصح یہ دھمکانے کی بات
جیسے میٹھا زہر، ہلکا نشہ، سہتی تُرشیاں
سادہ سادہ کہہ گزرتا ہوں کہے جانے کی بات
شاعری سمجھو تو میں ممنون ہوں گا دوستو
کہہ رہا ہوں میں جو اُس کے لطف فرمانے کی بات
تو کہ رہتا آ رہا ہے کامیابِ آرزو
کیا سمجھ سکتا ہے محروموں کے غم کھانے کی بات
جن سے تو مانوس ہے ساقی، عجب کیا ان کے ساتھ
مثلِ بوئے بادہ، باہر جائے میخانے کی بات
چار چھ ایسے ہیں، لیکن بیشتر یہ بھی نہیں
کوئی ہمدردی کا جملہ کوئی بہلانے کی بات
ٹوٹ جانے چھوٹ جانے کا خیال آ جائے گا
ذکر پھولوں کا کیا جائے کہ پیمانے کی بات
جب حقیقت پر قیاس آرائیاں ہونے لگیں
’’ ختم شد‘‘ کہہ کر بنا دی میں نے افسانے کی بات
آدمیت کے تقاضے زندگی تک فرض ہیں
بھول جا تقلید بُلبُل اور پروانے کی بات
بیوقوفی اور شے ہے بے خودی کچھ اور شے
احمقوں سے مختلف ہے تیرے دیوانے کی بات
رہزنوں کے پاؤں چھو کر مشورہ حاصل کریں
رہ نماؤں سے نہیں بنتی جو بہکانے کی بات
آپ کیوں تیور بگاڑیں آپ کیوں مطعون ہوں
مسکرا کر بھی تو ممکن ہے ستم ڈھانے کی بات
ایک چُلّو میں اُلٹ جاتی ہو ’مت‘ جس رند کی
وہ ادھورا کیا بتا سکتا ہے پیمانے کی بات
سوچنا پڑتا ہے کس نے کیا کہا، کس جا کہا
نسبتاً بھٹّی سے بالا تر ہے میخانے کی بات
میں نے اس کافر ادا پر کی ہے جتنی گفتگو
آپ اپنے تک ہی رکھیّں گے یہ یارانے کی بات
مقطعِ اظہارِ الفت پر نہیں کچھ منحصر
شادؔ مطلع میں بھی آ پڑتی ہے دہرانے کی بات
٭٭٭
اندھیرے میں ہم، آپ ہیں روشنی میں
بڑا فرق ہے زندگی، زندگی میں
صداقت اگر عیب ہے آدمی میں
تو حقدار کیا کچھ نہ سوچیں گے جی میں
وہاں ’ٹوک دینا‘ ہے دانشوری میں
جہاں سر جھکے ہوں ’’ غلط بندگی‘‘ میں
وہ اُتھلی سیاست کا دم بھر رہے ہیں
جنھیں ڈوب مرنا تھا گہری ندی میں
کہاں جا رہے تھے، کدھر آ گئے ہیں
نہیں سوچتے نخوتِ رہبری میں
نشیمن ہوا نذرِ برقِ بہاراں
مگر گلستاں آ گیا روشنی میں
جسے کارواں اپنی توہین سمجھے
اُسے کیوں پس و پیش ہو گمرہی میں
غریبوں کے دل کی تو میں جانتا ہوں
پکے جیسے لاوا ’’ جوالا مکھی‘‘ میں
جہاں لوگ سمجھیں نہ آنسو کی قیمت
وہاں مسکرانا ہے دانشوری میں
کہیں رہ نہ جائے مشینوں کی دنیا
کہیں آدمی آنہ جائے کمی میں
چمن کیا ہے، کوہ و دمن پھونک دے گی
اگر گرم رَو آ گئی بے کسی میں
جو تم نے پڑھا ہے وہ ہم نے ’ گنا ہے ‘‘
بڑی چیز ہے تجربہ آگہی میں
وہ رنگیں نوائی یہ شعلہ بیانی
کئی موڑ آئے مری شاعری میں
حقیقت یہ ہے شادؔ کی ہر غزل سے
اضافہ ہوا آپ کی آگہی میں
غمِ زندگی شادؔ لرزاں ہے لیکن
محبت پہ اصرار ہے شاعری میں
٭٭٭
اٹھانا ہے گھٹا کی زلفِ مشکیں سے دھواں مجھ کو
زمیں کیسی بدلنا ہے مزاجِ آسماں مجھ کو
اگر فطرت عطا کرتی نہ احساسِ زیاں مجھ کو
تو چکّر دے چکا ہوتا امیرِ کارواں مجھ کو
’’ بزرگانِ غزل‘‘ سے بحث کی فرصت کہاں مجھ کو
سمجھنے دیجیے مرہونِ سعیِ رائے گاں مجھ کو
لگا لائی تلاشِ حسنِ جانانہ یہاں مجھ کو
جبیں سائی پہ اُکسانے لگا ہر آستاں مجھ کو
بڑی قیمت پہ چھوڑا چاہیے وہ آستاں مجھ کو
زمیں سر پر بٹھا لے، سر چڑھا لے آسماں مجھ کو
سِکھانے تھے بھری محفل کو اندازِ گُل افشانی
سنانی تھی بھری محفل میں اپنی داستاں مجھ کو
لیے چلتا ہے مجھ کو کارواں کے ساتھ یہ خطرہ
یہ اندیشہ، نہ جانے کب پکارے کارواں مجھ کو
قیامت ہے جن آنکھوں میں بہاروں کو سجایا تھا
انھیں آنکھوں اُجڑتے دیکھنا تھا گلستاں مجھ کو
تمھاری خلوتوں کے بھید کہنے بیٹھ جاتا ہے
’’ نِرا شاعر‘‘ سمجھتا ہے، تمہارا راز داں مجھ کو
چھپاتے ہیں وہ جن باتوں سے امکاناتِ عیاری
انھیں باتوں پہ ہوتا ہے عداوت کا گماں مجھ کو
کسی دن بھی سوالِ دید کی نوبت نہ آئے گی
کچھ ایسے گُر سکھاتا ہے تمھارا پاسباں مجھ کو
یہ کیا تکتے ہیں اُردوئے معلی بولنے والے
تو اپنے ساتھ لانا چاہیے تھا ترجماں مجھ کو
حقیقت کہہ رہا ہوں اپنی تعریفیں نہیں کرتا
بہاریں لوٹ آئیں گی بنا دو باغباں مجھ کو
عوام النآس کو اس باب میں کیوں بے خبر سمجھوں
رہا کرتا ہے جب اندیشۂ سود و زیاں مجھ کو
وہیں دل کانپ جاتا ہے چھلک پڑتا ہے پیمانہ
جو پیتے وقت آ جاتی ہے آوازِ اذاں مجھ کو
مرے افکار کی دنیا، مرے احباب کیا جانیں
وہاں اکثر نہیں ہوتا، سمجھتے ہیں جہاں مجھ کو
مجھے اے شادؔ ان رجعت پسندوں سے تو کیا لینا
کرے گی یاد مستقبل کی تہذیب جواں مجھ کو
٭٭٭
مستقبل روشن تر کہیے
لیکن آنکھ ملا کر کہیے
بربادی کو منظر کہیے
کہیے، سوچ سمجھ کر کہیے
سمجھایا تھا دیکھ کے چلیے
کیسی کھائی ٹھوکر کہیے
دم گھُٹنے کی بات الگ ہے
طوقِ گلو کو زیور کہیے
الجھن تو ماحول سے ہو گی
وہ بگڑیں گے ہم پر، کہیے
آنسو ہیں قانون سے باہر
غم کی باتیں ہنس کر کہیے
آئینہ دکھلانا ہو گا
سچی باتیں مُنہ پر کہیے
شیخی کی بھی حد ہوتی ہے
کب تک ’’ بہتر بہتر‘‘ کہیے
شادؔ زہے اربابِ سیاست
رہزن کہیے، رہبر کہیے
٭٭٭
مجھ پہ جم جائے نگاہِ فتنہ کار آساں نہیں
راس آئے گردشِ لیل و نہار آساں نہیں
وعدۂ فردا پہ حرفِ اعتبار آساں نہیں
صبح سے تا شام اظہارِ قرار آساں نہیں
آپ اس کو اتّفاقی بات کہتے ہیں مگر
سامنے آ جائے وہ دیوانہ وار آساں نہیں
پاسبانوں سے تکلف ہی برتنے دو مجھے
کھیلنا کانٹوں سے اے جانِ بہار آساں نہیں
اس کے آغازِ تغافل سے جو ہو شکوہ تو کیوں
جانتا ہوں، بے رخی پایانِ کار آساں نہیں
پھول برسائے نہ جب تک چشمِ خوں نابہ فشاں
کھینچنی دامن پہ تصویرِ بہار آساں نہیں
آسرے کی زندگی سے نا امیدی سہل ہے
صبر آساں ہے کسی کا انتظار آساں نہیں
جدّتِ طرزِ ادا اے شادؔ حصّہ ہے مرا
ایک مطلب عرض کرنا بار بار آساں نہیں
٭٭٭
سوتے ہی اپنے بستر پر
ہوتے ہیں ہم اس کے گھر پر
زلفوں کا سایہ ساغر پر
کُہرا چھایا ہے منظر پر
بام پہ وہ، ہم راہگزر پر
بر تر کا پرتو کم تر پر
طنزیں کب تک اس کافر پر
جونک نہیں لگتی پتھر پر
کل تھا لیکن آج نہ ہو گا
طاقت ور کا ٹھینگا سر پر
ہم پر تیری تنقیدیں کیا
شیشے کا حملہ پتھر پر
ہر منظر کچھ ڈھارس دے گا
نظریں رکھیے ہر منظر پر
آپ کا ہر ارشادِ غلط بھی
پلکوں پر‘ آنکھوں پر، سر پر
شادؔ جنھیں ہم سے نفرت ہے
ہم کیوں جائیں ان کے گھر پر
٭٭٭
کچھ وہ الزام لگائے ہیں کہ جی جانے ہے
اب وہ ’’اس پر اتر آئے ہیں ‘‘ کہ جی جانے ہے
راز اس درجہ چھپائے ہیں کہ جی جانے ہے
اتنے ہم راز بتائے ہیں کہ جی جانے ہے
رُخ پہ گیسو وہ گرائے ہیں کہ جی جانے ہے
وہ مہکتے ہوئے سائے ہیں کہ جی جانے ہے
اپنی آنکھوں کی حقیقت نہ سمجھنے والے
آج وہ جام پلائے ہیں کہ جی جانے ہے
دوستو صبر کرو، ہوش میں آ لینے دو
ابھی اس پاس سے آئے ہیں کہ جی جانے ہے
ایک دو جام کی مہمان تھی خود آگاہی
ہم وہاں سے پلٹ آئے ہیں کہ جی جانے ہے
’’ آپ کو ہم سے محبت ہے ‘‘ عقیدت تو نہیں
عذر وہ چھانٹ کے لائے ہیں کہ جی جانے ہے
تیری فطرت ہی جلانا ہے مگر برقِ چمن
کچھ نشیمن وہ جلائے ہیں کہ جی جانے ہے
کل جو دو قالب و یک جان کہے جاتے تھے
آج اس طرح پرائے ہیں کہ جی جانے ہے
شرح و تفصیل میں جانے کا نتیجہ معلوم
اُن سے القاب وہ پائے ہیں کہ جی جانے ہے
غالباً۱؎ میرؔ کی متروک زمیں میں اے شادؔ
تو نے وہ شعر سُنائے ہیں کہ جی جانے ہے
۱؎ تحقیق طلب
٭٭٭
تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے
طنز کرتے ہیں وہ حالات پہ دیوانوں کے
کہہ رہے ہیں کہ پڑو پاؤں نگہبانوں کے
آپ ہمدرد ہیں ہم سوختہ سامانوں کے
کھُل گئے بھید جو رندوں پہ جہاں بانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
جمگھٹے بچ کے گزرتے ہوئے انسانوں کے
قہقہے اور بڑھا دیتے ہیں دیوانوں کے
موسمِ گُل سے خزاں نے وہ سیاست کھیلی
گلستانوں کے ہوئے ہم نہ بیابانوں کے
جن شگوفوں کو سمجھتا تھا دلِ صد پارہ
دیکھتا کیا ہوں کہ ٹکڑے ہیں گریبانوں کے
وہی اخلاق کو، ایماں کو بناتے ہیں سپر
وہ جو اخلاق کے قائل ہیں نہ ایمانوں کے
شرطِ اوّل ہے مسلمان کا انساں ہونا
وہ مسلمان کے دشمن ہیں کہ انسانوں کے
جن کو آہوں کی طرح ضبط کیا جاتا ہے
ترجماں اشک ہی بنتے ہیں اُن ارمانوں کے
جس توقع پہ خوشامد میں لگے رہتے ہیں
اختیارات سے باہر ہیں نگہبانوں کے
کہہ رہے ہو جسے تم ابرِ بہاری اے شادؔ
میں سمجھتا ہوں کہ آثار ہیں طوفانوں کے
٭٭٭
رنگِ رُخ یوں غمِ حالات نمایاں کر دے
جیسے افسانے پہ قائم کوئی عنواں کر دے
اہلِ ایماں کو جو بُت ششدر و حیراں کر دے
کیوں نہ چاہوں کہ خدا اس کو مسلماں کر دے
خندۂ گُل کا وہ عالم ہے خلافِ موسم
جیسے بے وقت کوئی چاک گریباں کر دے
تاکہ میں مضطربِ عرض تقاضہ نہ رہوں
کاش وہ خواہشِ دیدار پہ ہاں ہاں کر دے
گو پریشانِ زمانہ ہوں مگر کیا ممکن
کوئی اوچھا مجھے شرمندۂ احساں کر دے
ہم کو یارانِ چمن سے کوئی امید نہیں
’’ میر سامان و سبب‘‘ ہی کوئی ساماں کر دے
دل اُجلنے کی کوئی شکل نکل آئے گی
تو نگاہوں کو نثارِ رُخِ جاناں کر دے
آج اُن راہ نُماؤں سے بڑا ہے پالا
خوفِ رہزن جنھیں سرگشتہ و حیراں کر دے
میں اگر غم کو بھُلانے کے لیے پیتا ہوں
مئے گُل رنگ مجھے اور پریشاں کر دے
باغبانوں کے تامّل پہ ز راہِ تمکیں
تو بھی بجلی کو نشیمن کا نگہباں کر دے
شادؔ حاصل ہو جسے غم سے فراغِ کامل
کیوں یہ چاہوں کہ خدا اس کو پریشاں کر دے
٭٭٭
کوئی تلاش نہ ضائع نہ رائے گاں ہو گی
اگر ہوئی بھی تو از راہِ امتحاں ہو گی
اگر ممانعتِ سیرِ گلستاں ہو گی
تو پھر بہار ہمیں رو کشِ خزاں ہو گی
اُصول یہ تو نہیں ہے کہ نا مُراد رہیں
فضا کبھی نہ کبھی ہم پہ مہرباں ہو گی
جہانِ درد میں انسانیت کے ناطے سے
کوئی بیان کرے، میری داستاں ہو گی
مئے نشاط و طرب، جس کا ہم سے وعدہ تھا
جبھی ہوئی نہ فراہم تو اب کہاں ہو گی
بیانٍ غم تو بہت سہل ہے پہ لذّتِ غم
سوائے عجزِ بیاں کس طرح بیاں ہو گی
کسی ’’ مفادِ حقیقت شکار‘‘ پر اَن بن
ضرور کاذب و باطل کے درمیاں ہو گی
اگر غلط ہے جو کچھ اس نے مجھ سے آ کے کہا
تو یہ جسارتِ تحریفِ راز داں ہو گی
پتہ چلا کہ ’’ بصارت فریب ہیں ‘‘ جلوے
میں اس خیال میں تھا ’’ عقل پاسباں ہو گی‘‘
وہاں وہاں غمِ حالات روشنی دیں گے
مری غزل کی رسائی جہاں جہاں ہو گی
پیو پیو کہ صبوحی سے فاصلہ نہ رہے
نمودِ صبح کی تقریب میں اذاں ہو گی
نشیمنوں کی مخالف نہ تھی بہارِ چمن
مگر شرارتِ ایمائے باغباں ہو گی
تو کیا کثافتِ عریانیِ غزل اے شادؔ
ادب کی خاک اُڑانے سے کچھ عیاں ہو گی
٭٭٭
بنا پائی نہ ذرّے کو نگینا
تو پھر مَصرف ترا اے چشمِ بینا!
سرہانے کوئی رکھ جاتا ہے مینا
خدا کا نام لینا اور پینا
نظر ہے اور تماشائے بد و نیک
بُری، اچھی سبھی پڑتی ہے پینا
پسیجا ہے بتوں کے دل ہمیں پر
یہیں پتھر کو آیا ہے پسینا
نگینہ ہے دلِ بربادِ الفت
مگر جو ٹوٹ جائے وہ نگینا
حجاب آلود رخسارِ جوانی
دیا پھولوں کو شبنم نے پسینا
جہاں اندھے ادب کے پاسباں ہوں
وہاں کیا ’’ عرضِ جوہر‘‘ کا قرینا
کسی کی مان بھی لیتے ہیں اے دوست
تجلّی بام پر بے تاب تھی نا!
کہاں ہیں تجربہ کارانِ خلوت
دھڑکتا ہے مرا دل اس کا سینا
مرا مسلک ہے صُلح و آشتی شادؔ
کمینہ ہے جو رکھے مجھ سے کِینا
٭٭٭
کچھ اس ادا سے مجھ کو انجمن میں دیکھتا ہے وہ
کہ یا تو جانتا نہیں ہے یا بہت خفا ہے وہ
نقاب کی یہ جنبشیں، حجاب کے یہ زاویے
جو اس سے چاہتا ہوں میں اسے سمجھ رہا ہے وہ
کسی کی زُلفِ پُر فشاں کی دل کشی تو دیکھیے
اگرچہ فنِّ شعر میں ’’ شکستِ ناروا‘‘ ہے وہ
روش روش پہ گھوم کر، کلی کلی کو چوم کر
تلاش و جستجو کا فاصلہ گھٹا رہا ہے وہ
نگاہِ التفات میں اگر کوئی کمی بھی ہے
تو اس کمی کو چھوڑیے کہ میرا آسرا ہے وہ
اُداسیوں کے ساتھ میں ہوائیاں اڑی ہوئی
بتا رہا ہے رنگِ رُخ کہ آج کل جُدا ہے وہ
میں جب اُٹھا ہوں باوجودِ احتیاطِ آرزو
نکل کے انجمن سے میرے ساتھ آ گیا ہے وہ
نظر اُٹھے نہ سر جھکے نہ سجدۂ خلوص ہے
جبینِ در کو کیا خبر کہ در پہ آ گیا ہے وہ
جو میکدہ پرست ہیں وہ شاد آئیں اس طرف
غرض نشاط سے ہے جن کو اُن کا راستا ہے وہ
٭٭٭
جو خبط و آگہی کی ہا تھا پائی ختم ہو جائے
شرارے دب کے رہ جائیں ’لڑائی ختم ہو جائے ‘
اگر ذہن رسا کی روشنائی ختم ہو جائے
تو ممکن ہے مری آتش نوائی ختم ہو جائے
تغزل سے اگر ’’عشرت سرائی‘‘ ختم ہو جائے
بنامِ آدمیت ’’جگ ہنسائی‘‘ ختم ہو جائے
اگر ساقی ذرا زائد پلا دے ان چھچھوروں کو
تو ’’ اربابِ ریا‘‘ کی پارسائی ختم ہو جائے
سرِ ساحل سفینے ڈوبتے ہیں ڈوبنے دیجے
ہمارے نا خداؤں کی ’’ خدائی ختم ہو جائے ‘‘
مگر ’’ تکرارِ عشقِ بادہ آشامی‘‘ بُری شے ہے
وگر نہ مئے سے بدبو کی بُرائی ختم ہو جائے
جو ’’ سنگِ اسود و موسیٰ‘‘ کو بُت گر کام میں لائیں
بُتانِ مرمریں کی دل ربائی ختم ہو جائے
جو ہو جائے ’’ وقوفِ مدح و ذم‘‘ مدحت فریبوں کو
’’نمک خوارانِ مدحت‘‘ کی کمائی ختم ہو جائے
اگر جَو بیچنے والوں کے چہرے لکھ لیے جائیں
ہمارے ملک سے ’’ گندم نمائی‘‘ ختم ہو جائے
کہیں تو رہ نما ٹھہرے، مڑے، نقشِ قدم دیکھے
کہیں تو حدِّ شرطِ رہ نمائی ختم ہو جائے
یہ خاص و عام کی ان بن جو کھنچنے کا نتیجہ ہے
نہ رہ پائے تو یہ زور آزمائی ختم ہو جائے
تذبذب شاملِ عزم و عمل ہو گا یہ نا ممکن
عقیدوں سے یقینِ نارسائی ختم ہو جائے
جھلک جائے اگر دل کا تکدّر شادؔ ماتھے پر
تو سعیِ ثالثِ صلح و صفائی ختم ہو جائے
٭٭٭
کرمِ موج پہ ساحل کو گوارا کر لوں
جی میں آتا ہے کہ کشتی سے کنارہ کر لوں
کیا ضرورت ہے کہ میں خون کو پارا کر لوں
وقت پڑ جائے تو تلچھٹ پہ گزارا کر لوں
کھو دیا ہے غمِ حالات کی دلچسپی نے
جب میں چاہوں غمِ حالات کا چارا کر لوں
خطِّ تقدیر پہ اصلاح کا موقعہ تو ملے
اپنی قسمت کے ستارے کو میں تارؔا کر لوں
آپ نے بھی مجھے ناکامِ تمنا سمجھا
یہ وہ توہین نہیں ہے جو گوارا کر لوں
ہے اجازت کہ کسی اور کی بانہیں تھاموں
ہو اشارہ تو میں جینے کا سہارا کر لوں
شرکتِ بزم پہ ایمائے نظر تک بھی نہیں
خود ہی میں آپ کی جانب سے اشارا کر لوں
اب تماشائے رُخِ یار ہے ایسا اے دوست
دل نہ چاہے بھی تو پھولوں کا نظارا کر لوں
ایک پردہ ہے، جہاں تک بھی اُٹھایا جائے
حدِّ منظر ہے، جہاں تک بھی نظارا کر لوں
مسکراتے ہوئے ہونٹوں میں سمو کرتا رے
تیرے انکار کو اقرار سے پیارا کر لوں
کام کی شے ہیں ’’ کروٹن‘‘ کے یہ گملے اے شادؔ
وہ نہ دیکھے مجھے، میں اس کا نظارا کر لوں
٭٭٭
دیکھتا ہوں انجمن میں اس طرح میں سوئے دوست
شرم کے مارے نکھر جاتا ہے رنگِ روئے دوست
تیز ہوتی جا رہی ہے نگہتِ گیسوئے دوست
اپنی جانب رہ نمائی کر رہا ہے کوئے دوست
ہر تخاطب چاہتا ہے کوئی چونکانے کی بات
پھینک دوں ساغر تو اُٹھ جائے نقابِ روئے دوست
ہو گئی آخر، جنونِ شوق کی حد ہو گئی
دوست کے ہر خط سے مجھ کو آ رہی ہے بوئے دوست
خوش نما پھولوں کو چھونا کفر تھا میرے لیے
گدگدا سکتا تھا ورنہ بارہا پہلوئے دوست
سہل ہو جاتی ہیں وہ فرقت کی راتیں جھیلنا
گھٹتے گھٹتے چاند بن جاتا ہے جب ابروئے دوست
رجعتی، سروِ رواں کہتے رہیں لیکن مجھے
سنگ میلِ راہِ عرفاں ہے قدِ دلجوئے دوست
جن کو تمئیزِ تغافل ہے نہ درکِ بے رُخی
جانتے ہیں ہر ستم کو تحفۂ نیکوئے دوست
حل کیا دیوانگی نے دوست دشمن کا سوال
مسکرانا خوئے دشمن، تلملانا خوئے دوست
گلستانوں پر دھوئیں کی بات کرتے ہیں مگر
یہ نہیں کہتے مکدّر ہے فضائے کوئے دوست
بارہا اے شادؔ ڈھلکا ہے وہ آنچل بزم میں
بار بار دیکھا ہے میں نے بے تکلف سوئے دوست
٭٭٭
کچھ سہی غیر وفادار نہیں کہہ سکتے
جانتے ہیں ہمیں سرکار، نہیں کہہ سکتے
جس کی تخلیق کو تلوار نہیں کہہ سکتے
ہم اُسے ’’ شاعرِ معیار‘‘ نہیں کہہ سکتے
پھول کو ’’ زخمِ دلِ زار‘‘ نہیں کہہ سکتے
ہم یہ ’’ تشبیہِ غلط کار ‘‘ نہیں کہہ سکتے
ہم غلط رنگ میں اشعار نہیں کہہ سکتے
یعنی بے مقصد و معیار نہیں کہہ سکتے
خود کو دانندۂ اسرار نہیں کہہ سکتے
’’ کہہ تو دیں اُن کے طلبگار‘‘ نہیں کہہ سکتے
ہم انا الحق کے سوا حضرتِ منصور کی مثل
کون حق بات سرِ دار نہیں کہہ سکتے
کہنے والوں نے کہا ظلِّ الٰہی اُن کو
جن کو ہم سایۂ دیوار نہیں کہہ سکتے
مصرفٍ ہوش و خرد ہم کو پرکھنا ہو گا
اونگھنے والے کو ہشیار نہیں کہہ سکتے
شمعِ فانوس کے مانند کدھر تھا سرِ بزم
التفاتِ نگہِ یار نہیں کہہ سکتے
’’ پئے تاریخِ ادب‘‘ ہم کو وہ کہنا ہو گی
جو غزل شاعرِ دربار نہیں کہہ سکتے
بلبلیں نالۂ غالبؔ سے غزل خواں تو ہوئیں
مرثیہ مرغ گرفتار نہیں کہہ سکتے
لوریاں دے کے جنھیں تم نے سُلا رکھا ہے
کیا انھیں خواب میں بیدار نہیں کہہ سکتے
تجربہ یہ ہے کہ دل توڑ نے والی باتیں
دوست کہہ سکتے ہیں، غمخوار نہیں کہہ سکتے
آپ کی رائے، بہر حال بڑے لوگ ہیں آپ
مان توسکتے ہیں، معیار نہیں کہہ سکتے
زاہد و شیخ کو کہہ سکتے ہیں لیکن اے شادؔ
رند کو، رندِ ریا کار نہیں کہہ سکتے
٭٭٭
تری نگاہ میں احساس کا لہُو پا کر
کہیں شراب نہ پینے لگوں میں گھبرا کر
جبینِ شوق کو جا تو رہے ہو ٹھکرا کر
رہے لحاظ پلٹنا پڑے گا پچھتا کر
کلی کلی نے چھپایا ہے رازِ نکہت و رنگ
حقیقتوں کو تامّل کے بعد رسوا کر
نواز نے کا یہ مطلب سہا نہ جائے گا
کہ اپنے آپ سے جاتا رہوں تجھے پا کر
یہ میکدہ کہ جہاں دیر بھی ہے کعبہ بھی
تو اس کو عیب لگانے چلا ہے، توبہ کر
وہ کیا ہنسیں گے جنھیں تازگی نصیب نہیں
وہ کیا کھلیں گے جو دل رہ گئے ہیں مرجھا کر
کبھی تو میری طرف بھی نگاہِ ناز اُٹھا
شعورِ بزم کی بابت کبھی تو سوچا کر
بُرے پہ نام خزاں کا نکل گیا ورنہ
چمن چمن کو بہاریں گئی ہیں ٹھکرا کر
ہُوا وہ حسن کا عالم کہ شادؔ کیا کہیے
مری نگاہ کی برجستگی سے شرما کر
٭٭٭
اے کاش، آپ ہم کو وہاں تک ستا سکیں
پوچھے جو کوئی حال تو آنسو بہا سکیں
انجامِ آرزو کو نمونہ بنا سکیں
دنیا کو آستین و گریباں دکھا سکیں
ایسے عدو بھی ہیں جو مِلاتے ہیں بڑھ کے ہاتھ
ایسے بھی لوگ ہیں جو عداوت چھپا سکیں
یہ اور بات ہے کہ قفس جھیل جائیں ہم
ممکن نہیں قفس کو نشیمن بنا سکیں
کیا ہو سکیں گے واقفِ رخسارِ مہوشاں
جو باغباں گلوں کی حقیقت نہ پا سکیں
محفل سے رازِ عشق چھپاتے رہیں گے ہم
جب تک نظر بچا کے نگاہیں ملا سکیں
جس طرح آج آئے ہیں کالی گھٹا کے ساتھ
اے کاش آپ روز مرے پاس آ سکیں
ایسے قدم اُٹھا جو نہ بہکیں کسی طرف
وہ انقلاب لا جو مقدر بنا سکیں
رسوائیوں کے بعد، اُسے شادِؔ عارفی
دُشوار ہو گیا کہ غزل بھی سُنا سکیں
٭٭٭
کل شہر سخنور ہے تو کیا عرض کیا جائے
ایک ایک سے بڑھ کر ہے تو کیا عرض کیا جائے
بھٹکا ہوا رہبر ہے تو کیا غرض کیا جائے
پتھر انھیں گوہر ہے تو کیا غرض کیا جائے
یہ برّشِ تیور ہے تو کیا عرض کیا جائے
کستا ہوا خنجر ہے تو کیا عرض کیا جائے
حالِ دلِ مضطر ہے بیاں کرنے کے قابل
پہرہ جو زباں پر ہے تو کیا عرض کیا جائے
ساقی کی عنایت کا تعلق ہے جہاں تک
ٹوٹا ہوا ساغر ہے تو کیا عرض کیا جائے
بس یہ کہ شگوفہ ہے مگر اس سے زیادہ
’ کوزے میں سمندر ہے ‘ تو کیا عرض کیا جائے
انجامِ مساوات جہاں، ناقص و کامِل
ہم رتبہ و ہمسر ہے تو کیا عرض کیا جائے
ہم جس کے لیے آپ سے انصاف طلب ہوں
الزام وہ ہم پر ہے تو کیا عرض کیا جائے
کچھ لوگ مخالف بھی ہوا کرتے ہیں لیکن
گھر گھر وہ ستم گر ہے تو کیا عرض کیا جائے
ہنستے ہیں جہاں ہونٹ وہاں روتی ہیں آنکھیں
ہر وضع مقدر ہے تو کیا عرض کیا جائے
احباب کی بے مال و زری جس پہ عیاں ہو
وہ شخص تونگر ہے تو کیا عرض کیا جائے
ہم جس کو بُتِ ہوش ربا مان رہے ہیں
کہہ دے کوئی ’پتھر ہے ‘ تو کیا عرض کیا جائے
پوچھے جو کوئی شادؔ، ترا طرزِ تغزّل
نشتر ہے کہ خنجر ہے تو کیا عرض کیا جائے
٭٭٭
ہے تو احمق، چونکہ عالی شان کا شانے میں ہے
اس لیے جھک مارنا بھی اس کا فرمانے میں ہے
آدمی کو آدمی مصروف بہکانے میں ہے
یہ قباحت ہے جو ذہنی انقلاب آنے میں ہے
فی الحقیقت آپ کو غیرت دلانے کے لیے
یہ گزارش تھی کہ وہ جذبہ جو پروانے میں ہے
ساقیِ محفل کا ہونا چاہیے یہ فرض بھی
کس کے ساغر میں نہیں ہے کس کے پیمانے میں ہے
بزمِ سرمایہ کے اندر باوجودِ عقل و ہوش
آدمی محسوس کرتا ہے کہ میخانے میں ہے
چھا گیا ہو جیسے رعبِ اقتدارِ برہمن
شیخ کو اس درجہ دلچسپی صنم خانے میں ہے
اور کتنی دیر جانے گل کھلائے گا چمن
اور کتنی دیر جانے انقلاب آنے میں ہے
قصرِ آزادی تصور کر رہے تھے جس کو ہم
ایک ٹوٹے مقبرے کی طرح ویرانے میں ہے
گِر چکا ہے شادؔ اب اِس درجہ معیارِ ادب
عقل زائل ہو چکی ہے، روح دیوانے میں ہے
٭٭٭
وطن پرست ہی بیٹھے ہیں شہ نشینوں میں
تڑپ رہی ہیں مگر چغلیاں جبینوں میں
عوام سب نہ سہی، کچھ تو ہیں ذہینوں میں
بتوں کو تم نے چھپایا ہے آستینوں میں
حرام وہ، جو فراہم ہو آبگینوں میں
مری شراب سماتی نہیں سفینوں میں
خدا کرے کہ کبھی اُن سے واسطہ پڑ ج ائے
عوام جن کو سمجھتے ہیں ’’ بہترینوں ‘‘ میں
دلوں کو توڑ کے کیوں جوڑنے کی فکر میں ہو
نکل نہ پائے جو بال آ گئے نگینوں میں
فریب دیتے ہیں اصنامِ خوشنما کی طرح
دکھائی پڑتے ہیں منظر جو دُور بینوں میں
عجب نہیں ہے کہ ہو جائے ان کا بیڑا غرق
جو سوچتے ہیں کہ محفوظ ہیں سفینوں میں
اُلٹ بھی دیں گے ’’ ہوا دارِ ظلِّ سبحانی‘‘
جو آ رہے ہیں نہائے ہوئے پسینوں میں
زبانِ حال سے کہتے ہیں غنچہ ہائے چمن
’ بھڑک رہی ہے بغاوت کی آگ سینوں میں ‘
جفا و جور کو خوبی تو ہم بھی کہتے ہیں
حکومتوں میں نہیں بلکہ مہ جبینوں میں
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھِری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
مخالفت کے علاوہ موافقت کے خلاف
کریں بھی کیا جو ملازم ہیں نکتہ چینوں میں
کچھ احترام بھی لازم ہے، شیخ نے بالفرض
شرابِ ناب ہی رکھی ہے آبگینوں میں
گزر گیا ہے یہ گاتا ہوا کوئی اے شادؔ
خدا کرے کہ لگے آگ شہ نشینوں میں
نہ پا سکے گا وہ ’’ ہیرے ‘‘ کا مرتبہ اے شادؔ
’’ عقیق ‘‘ خود کو سمجھتا رہے نگینوں میں
٭٭٭
جو چاہتے ہیں ہمیں بے قرار فرمائیں
کہیں وہ خود نہ ستارے شمار فرمائیں
ہمیں جو آپ شریکِ بہار فرمائیں
تو ہم خزاں بھی نہیں اعتبار فرمائیں
یہ سوچنا ہے ’’ وہ کس کس کو ذبح کرتے ہیں ‘‘
یہ دیکھنا ہے وہ کس کس کو پیار فرمائیں
ابھی جو آپ کے طرزِ عمل کے حق میں ہیں
انھیں بھی آپ غنیمت شمار فرمائیں
وہی چمن کی تباہی پہ بات پہنچے گی
ہمیں گِنیں کہ نشیمن شمار فرمائیں
چبا چبا کے جو کہنے چلے ہیں وہ ہم سے
مزہ تو جب ہے کہ بے اختیار فرمائیں
بجائے اس کے ہمیں آپ کچھ سہارا دیں
حضور اپنے قدم استوار فرمائیں
وہ انکسار کہ ہے جس سے آپ کو نفرت
عجیب شے ہے اگر اختیار فرمائیں
وہ بار بار جو فرما رہے ہیں عہدِ کرم
ہمیں یقین نہ ہو گا، ہزار فرمائیں
غزل کی جان ہیں اب تک وہ کافرانِ ادا
جو مسکرا کے خزاں کو بہار فرمائیں
جنابِ شادؔ یہ چربے اتارنے والے
ہماری طرح مضامیں شکار فرمائیں
٭٭٭
یہ عرضِ دید کی غایت یہ اصلِ لن ترانی ہے
مجھے الفت جتانی ہے اُسے رغبت جتانی ہے
نشاطِ نوجوانی ہے، وفورِ نا توانی ہے
یہ دو پہلو ہیں ان میں کون پہلو ’’ زندگانی ‘‘ ہے
سُنی جس نے مری رُودادِ غم، یہ بات مانی ہے
حقیقت پھر حقیقت ہے، کہانی پھر کہانی ہے
میں عرضِ حال کرتا ہوں اُمیدِ مہربانی پر
زمانہ کے لبوں پر خندۂ نا مہربانی ہے
نگاہیں کام کرتی ہیں اشارے صَرف ہوتے ہیں
محبت کی زباں مستغنیِ لفظ و معانی ہے
مسلّم ہے کہ دورِ جامِ ساقی کے تصدّق میں
نہ گردش ہے زمانے کو نہ دورِ آسمانی ہے
دلِ بے تاب کے ہمراہ وہ رسوا نہ ہو جائے
ابھی اے اضطرابِ شوق نیچا سر سے پانی ہے
زمانہ کیاسمجھتا ہے مرے ٹھکرائے جانے کو
یہ وہ نا قدردانی ہے جو رشکِ قدر دانی ہے
کہاں ہیں شادؔ غزلوں میں تغزل ڈھونڈنے والے
غزل کا ہر تنوّع حاملِ رنگیں بیانی ہے
٭٭٭
چاہتے ہیں گھر بتوں کے دل میں ہم
ہیں جنوں کی آخری منزل میں ہم
گیت گاتے ہیں قفس منزل میں ہم
کوستے جاتے ہیں لیکن دل میں ہم
یہ تو مت محسوس ہونے دیجیے
اجنبی ہیں آپ کی محفل میں ہم
میکدے کے چور دروازے بھی ہیں
آ تو جائیں شیخ کی منزل میں ہم
خود فریبوں کو پیامِ آگہی
مبتلا ہیں سعیِ لا حاصل میں ہم
دُور سے آتا ہے مبہم سا جواب
دیں اُسے آواز جس منزل میں ہم
روک لیں پلکوں پہ آنسو کس طرح
کیا سمو دیں موج کو ساحل میں ہم
سوچیے آخر وہ کیا حالات ہیں
جا رہے ہیں کوچۂ قاتل میں ہم
جی نہ مَیلا کیجیے فریاد پر
ہیں پشیماں آپ اپنے دل میں ہم
ہم غلط رجحان رکھتے تھے کہ آپ
آپ سے پوچھیں گے مستقبل میں ہم
نا شناسانِ ادب کے ہاتھ سے
شادؔ صاحب ہیں بڑی مشکل میں ہم
٭٭٭
چشمِ پاداش میں کافی ہے مسلماں ہونا
وہ جو کہتے ہیں کہ دشوار ہے انساں ہونا
کچھ ہنسی کھیل نہیں چاک گریباں ہونا
یہیں ثابت ہے پریشاں کا پریشاں ہونا
دیکھنا، نظمِ وطن پر تو کوئی طنز نہیں
پھول کا گلشنِ مایوس میں خنداں ہونا
آپ مایوس نہ ہوں سوز درونِ دل سے
شمع ہر حال میں چاہے گی فروزاں ہونا
غلطی ہائے سیاست پہ تمھیں فخر تو ہے
لازم آئے گا ہمیں جُرم پہ نازاں ہونا
نام سے کام حفاظت کا نہیں چل سکتا
کسی رہزن کی ضمانت نہیں درباں ہونا
جشنِ آزادیِ جمہور پہ لاتا ہے دلیل
کُو بہ کُو شہر میں چندے سے چراغاں ہونا
یہ حقیقت کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے
رات کے بعد ہے اک صبحِ درخشاں ہونا
اونچے اونچے بھی اسیرانِ غلامی نکلے
گو محلّات پہ لکھا نہیں زنداں ہونا
شیخ صاحب کی روایات نے رکھّا معذور
ورنہ چاہا تھا کئی بار مسلماں ہونا
شادؔ وہ لوگ بہر حال بڑے شاعر ہیں
جن کو قانون میں آتا ہے غزل خواں ہونا
٭٭٭
تارے جو آسماں سے گرے خاک ہو گئے
ذرّے اٹھے تو برقِ غضبناک ہو گئے
پُرسانِ حال دیدۂ نمناک ہو گئے
یہ کب سے آپ صاحبِ ادراک ہو گئے
انجامِ انبساطِ چمن کے سوال پر
اتنا ہنسے کہ پھول جگر چاک ہو گئے
ہونا پڑے گا قائلِ تعمیرِ عہدِ نو
جس دن غریب در خورِ املاک ہو گئے
تفتیشِ حالِ موسمِ گُل کو چلے ہیں آپ
اب، جبکہ آشیاں خَس و خاشاک ہو گئے
سادہ دلوں نے راہ نمایا قوم سے
اتنے فریب کھائے کہ چالاک ہو گئے
وہ ذہن وہ دماغ جو آتے وطن کے کام
نذرِ نشاطِ بادہ و تریاک ہو گئے
چھوٹا نہ ہم سے دامنِ تہذیبِ انجمن
دشمن ذرا سی ڈھیل پہ بے باک ہو گئے
تسلیم کر نہ پائے جنھیں خاکسار ہم
وہ آپ کی بلا سے اگر خاک ہو گئے
سر پر چڑھا لیا ہے جنھیں آج آپ نے
کل دیکھ لیں گے آپ، خطرناک ہو گئے
ہم بھی امامِ مسجدِ جامع کی طرح شادؔ
دھوئے گئے کچھ ایسے کہ بس پاک ہو گئے
٭٭٭
ہلکا سا تبسم ترے لب ہائے حسیں پر
مجبور نہ کر مجھ کو محبت کے یقیں پر
اے تو کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر
تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشیں پر
حق ہے کہ ستاؤ مگر اتنا نہ ستاؤ
پڑ جائے مری آنکھ کسی اور حسیں پر
سجدوں میں تکلف ہے مجھے اور بجا ہے
لکھا ہے ترا نام مری لوحِ جبیں پر
یہ بھیگی ہوئی رات یہ کیفیتِ عرفاں
چاہوں تو ستارے بھی اُتر آئیں زمیں پر
ہاں ہم نے ہی کھائے ہیں دلِ زار پہ چرکے
ہم قتل بھی ہو جائیں تو الزام ہمیں پر
لہجے کی درشتی لبِ نازک پہ گراں ہے
اوراقِ سمن صرف نہ کر لفظ ’’نہیں ‘‘ پر
وہ میرے لیے موردِ الزامِ محبت
آتا ہے ترس شادؔ مجھے حسنِ حزیں پر
٭٭٭
رازِ گلشن کلی جو پالے گی
ہونٹ دانتوں تلے دبا لے گی
جو سیاست دباؤ ڈالے گی
نام اپنا بہت اچھالے گی
بیکسی جب فروغ پا لے گی
ظلم کی بوٹیاں چبا لے گی
پی رہے ہیں جو آگہی کے لیے
ذہن ان کے شراب کھا لے گی
اب کہ بدنام ہو چکی ہے سماج
پاکبازی کی آڑ کیا لے گی
عہد کرتے ہیں جس زبان سے آپ
یہ تو جھوٹی قسم بھی کھا لے گی
کیا خبر تھی خزاں کے جاتے ہی
گلستاں کو بہار آ لے گی
نہ سُنیں گے تو بے زبانی بھی
آپ لوگوں کے کان کھا لے گی
دیکھ کر ہم کو بزمِ ساغر و گل
دانت پیسے گی منہ بنا لے گی
ترکِ الفت کی سوچتا ہوں مگر
آپ کی یاد جان کھا لے گی
کچھ دنوں اور شادؔ وہ محفل
ہم غریبوں پہ مسکرا لے گی
٭٭٭
کھری باتیں بہ اندازِ سخن کہہ دوں تو کیا ہو گا
عدوئے جان و تن کو جانِ من کہہ دوں تو کیا ہو گا
نگہبانِ وطن کو راہزن کہہ دوں تو کیا ہو گا
کسی بھی بد چلن کو بد چلن کہہ دوں تو کیا ہو گا
اندھیرے کو اندھیرا ہی کہیں گے دیکھنے والے
سوادِ شام کو صبحِ وطن کہہ دوں تو کیا ہو گا
جو مستقبل کے رُخ پر روشنی ڈالوں تو کیا دو گے
چمن کی تاک میں برقِ چمن کہہ دوں تو کیا ہو گا
غلط باتوں پہ دُنیا کب توجہ صرف کرتی ہے
بتوں کو بے زبان و بے دہن کہہ دوں تو کیا ہو گا
کہیں فطرت بدل سکتی ہے ناموں کے بدلنے سے
جنابِ شیخ کو میں برہمن کہہ دوں تو کیا ہو گا
غرورِ سیم و زر ہے مبتلائے نازِ خود بینی
وہ خود بینی جسے دیوانہ پن کہہ دوں تو کیا ہو گا
قد و گیسوکو تم شمشاد و سنبل کہہ کے کیا لو گے
قد و گیسو کو میں دار و رسن کہہ دوں تو کیا ہو گا
ستارے توڑتی ہے جب کہ ذروں کی توانائی
ستاروں کو تمھاری انجمن کہہ دوں تو کیا ہو گا
صدارت کے فرائض جب ادا ہونے نہیں پاتے
اگر میں تم کو صدرِ انجمن کہہ دوں تو کیا ہو گا
وہ بُت اے شادؔ جب غزلوں میں دلچسپی نہیں لیتا
میں اس کی شان میں کوئی بھجن کہہ دوں تو کیا ہو گا
٭٭٭
منزلیں اشعار کہہ چلنے میں آساں ہو گئیں
آہ وہ غزلیں جو صرفِ یادِ جاناں ہو گئیں
سبزہ و گل پر بہاریں شبنم افشاں ہو گئیں
کیا فضائیں بھی شریکِ دردِ انساں ہو گئیں
جس قدر نزدِ نقابِ روئے جاناں ہو گئیں
جستجوئیں اور حیراں اور حیراں ہو گئیں
کہہ گیا ہوں گا جنونِ شوق کی تحریک پر
مجھ سے جو باتیں خلافِ طبعِ درباں ہو گئیں
مشکبو زلفیں، جنھیں کافر کہا جاتا رہا
عارضِ گل رنگ پر آ کرمسلماں ہو گئیں
صبح نو کی نکہتیں، ’’احباب و مئے ‘‘ کی صحبتیں
کچھ پریشاں اور کچھ خوابِ پریشاں ہو گئیں
حُسن کی فطرت ہے اربابِ الم کی دلبری
التجائیں اپنی تاثیروں پہ نازاں ہو گئیں
جب سے ہم نے الجھنوں کو شاملِ ہستی کیا
الجھنیں ہم غم نصیبوں سے پریشاں ہو گئیں
دھجّیوں کو جبکہ آخر کار کچھ بننا ہی تھا
وہ جو دامن بن نہ پائی تھیں، گریباں ہو گئیں
جن جراحت ہائے دل کو تھی توقّع آپ سے
رفتہ رفتہ آپ سے مایوسِ درماں ہو گئیں
ہیں یہی آباد کارانِ وطن تو ایک دن
’’ دیکھنا ان بستیوں کو تم، کہ ویراں ہو گئیں، ،
’خلد میں ہم ان پری زادوں سے لیں گے انتقام‘
اب یہ روحیں ہوں کہ حوریں ہوں جو انساں ہو گئیں
غالبؔ مرحوم کے ’’ ہم بے تکے نقال‘‘ شادؔ
مشکلیں ہم پر پڑی کب تھیں کہ آساں ہو گئیں
٭٭٭
چھوٹ سکتی تھی کہیں سیرِ گلستاں ہم سے
ہم گریبان سے ڈرتے ہیں گریباں ہم سے
ہیں کئی دن سے یہ اندازِ نگہباں ہم سے
کوئی خواہش، کوئی حسرت، کوئی ارماں ہم سے
آئیے، آج اسی بات پہ کچھ شرط رہے
لائیے ڈھونڈھ کے کچھ بے سر و ساماں ہم سے
آج اس طرح مقدّر نے دکھائیں آنکھیں
خود بخود چھوٹ گیا، دامنِ امکاں ہم سے
بے خودی کا یہی احسان بہت ہے اے شادؔ
نہ ہوا کوئی بھی شرمندۂ احساں ہم سے
٭٭٭
مندر کا تصور کہ خُمستاں کے ارادے
ہر پھر کے وہی کوچۂ جاناں کے ارادے
یہ عہدِ بہاراں یہ گلستاں کے ارادے
اب تک بھی وہی ہیں دلِ ناداں کے ارادے
جب فائدۂ عہدِ چمن ہم نے اُٹھایا
بیدار ہوئے چاکِ گریباں کے ارادے
تبدیلیِ حالات کا پاتے ہی اشارہ
ڈھل جاتے ہیں شعروں میں سخنداں کے ارادے
یہ شاخِ نشیمن، یہ جھکولے، یہ تھپیڑے
مائل بہ عمل ہیں کسی طوفاں کے ارادے
کہتے ہیں کہ اربابِ طرب جان چکے ہیں
ہوتے ہیں جو اک بے سر و ساماں کے ارادے
کیا شرکتِ محفل سے ہمیں روک سکیں گے
دربان کے تیور کہ نگہباں کے ارادے
اُلجھے ہوئے حالات سُدھر جائیں، سلجھ جائیں
پا جائیں جو اُس زلفِ پریشاں کے ارادے
یہ چاند یہ تارے یہ فضا کچھ بھی نہیں ہے
اونچے ہیں بہت عالمِ امکاں کے ارادے
بگڑی تھی جہاں عزمِ زلیخا کی طہارت
سنبھلے تھے وہاں یوسفِ کنعاں کے ارادے
اے شادؔ قیامت ہے کہ اربابِ ادب سے
محتاجِ تعارف ہیں غزل خواں کے ارادے
٭٭٭
ہر ساغر کے بعد عموماً مجھ کو یہ احساس ہوا ہے
جیسے کوئی بھول ہوئی ہے جیسے کوئی جُرم کِیا ہے
تم کہتے ہو کوئی نہیں ہے، میں کہتا ہوں جھانک رہا ہے
اپنا اپنا حُسنِ یقیں ہے، اپنا اپنا اندازہ ہے
شاید میرے دل کا قصہ میرے چہرے پر لکھّا ہے
میں نے جس سے کہا نہیں ہے وہ کہتا ہے ’’ سُنا ہوا ہے ‘‘
کب اور کس جا، کس عالم میں، کتنے دن تک، یاد نہیں کچھ
ذہنی کاوش بتلاتی ہے، میرا تیرا ساتھ رہا ہے
آپ کو ہر الفت راس آئی، آئی ہو گی، لیکن سنیے
میں نے تو جب پھول چُنے ہیں کانٹوں میں دامن الجھا ہے
ڈاک سے بھینی خوشبو والے خط پر خط آئے تو اِک دن
پوچھے گا خط لانے والا، بابو جی! یہ خط کس کا ہے ؟
بانہیں ڈال کے دروازے میں، پھر آنے کا وعدہ کر کے
آنسو پونچھ کے جانے والے مڑ مڑ کے کیا دیکھ رہا ہے
آج بھی معنی دے جاتی ہیں ’’ برق و باراں ‘‘ سی تشبیہیں
میں نے رو کر نظم کہی تھی، تو نے ہنس کر شعر کہا ہے
لیکن شادؔ نے دل کھونے کے بعد نہ پایا اُس کافر کو
کہنے میں تو یہ آتا ہے، جو کھوتا ہے وہ پاتا ہے
٭٭٭
چاہت کا الزام بُرا ہے
بد اچھا بدنام بُرا ہے
حالِ دل ناکام بُرا ہے
ضبطِ غم، انجام بُرا ہے
رہزن کو نزدیک سے دیکھو
خصلت اچھی، نام بُرا ہے
قاصد کے اَوسان خطا ہیں
ظاہر ہے، پیغام بُرا ہے
منزل کھوٹی ہو جائے گی
رستے میں آرام بُرا ہے
مئے پینا، یا پردہ اُٹھنا
جلدی کا ہر کام بُرا ہے
سیجیں ہوں یا قبر کی چادر
پھولوں کا انجام بُرا ہے
ساقی کے تیور اچھے ہیں
ہونے دو گر جام بُرا ہے
شادؔ فلاطونی دُنیا میں
فکرِ سخن بھی کام بُرا ہے
٭٭٭
کئی دن سے اُسے دیکھا نہیں ہے
میں کچھ بیمار ہوں ایسا نہیں ہے
بُتانِ دہر سے شکوہ نہیں ہے
اگر ہے بھی تو کچھ بیجا نہیں ہے
کہاں ہیں شاکیِ انجامِ الفت
یہاں آغاز ہی اچھا نہیں ہے
ترے قدموں پہ موزوں ہے مِرا سر
جہاں جو چیز ہے۔ بیجا نہیں ہے
مناظر کی ’’کِیے جاتا ہوں پوجا‘‘
خدا کو آنکھ سے دیکھا نہیں ہے
ابھی انگڑائیاں لی جا رہی ہیں
سمجھتے ہیں ابھی دیکھا نہیں ہے
تلوّن کا ٹھکانہ ہی نہیں شادؔ
کبھی پردہ، کبھی پردہ نہیں ہے
تجھے اے شادؔ خود داری مبارک
مگر دنیا کا یہ شیوہ نہیں ہے
٭٭٭
کام جو آج نہ ہو پائے وہ کل ہو نہ سکے
یعنی ردِّ عملِ لیت و لعل ہو نہ سکے
وہ ارادہ نہ کروجس پہ عمل ہو نہ سکے
کہیں ایسا نہ ہو ’’میری سی غزل ہو نہ سکے ‘‘
آئینے ہوں تو بہرحال جِلا پا جائیں
بھر گئے مَیل دلوں میں تو ’’ سجل‘‘ ہو نہ سکے
جنبش کا کلِ پیچاں نے جنَم جن کو دیا
وہ اشارے وہ معمّے کبھی حل ہو نہ سکے
کاش وہ کارِ تغافل یونہی جاری رکھّے
کاش ہم سے ’’ گلۂ طولِ امل‘‘ ہو نہ سکے
جن کو اظہارِ حقیقت کی جسارت نہ ہوئی
وہ زمانے کے لیے ضربِ مِثل ہو نہ سکے
جو خزانوں کو رعایا کی امانت سمجھے
اُن سے تعمیر کبھی ’’ تاج محل‘‘ ہو نہ سکے
شاملِ بزم ہی جب تک نہ ضرورت سمجھیں
نظمِ محفل میں کوئی ردّ و بدل ہو نہ سکے
میکدے میں وہ ہوئی ہم کو میسّر اے شادؔ
نیک نامی جو برائی کا بدَل ہو نہ سکے
٭٭٭
بیٹھے تھے اُن کی یاد میں کل بے خبر سے ہم
وہ آئے اور کہا ’’ پلٹ آئے سفر سے ہم‘‘
کیسے چھپائیں دل کی لگی سارے گھر سے ہم
کب تک چھپائیں آنکھ تمھاری نظر سے ہم
تذلیلِ شانِ ضبط سہی، یہ محال ہے
گزریں نہ صبح و شام تری رہگزر سے ہم
کافر نگاہیوں کا سبب، حسنِ دلفریب
اس ’’ مبتدا‘‘ کو کیوں نہ سمجھ لیں خبر سے ہم
کعبہ کا طوَف فرض مگر اس کا کیا علاج
کچھ عہد کر چکے ہیں کسی سنگِ در سے ہم
انجامِ اعتمادِ وفا، کچھ نہ پوچھیے
کرتے ہیں مشورہ دلِ نا معتبر سے ہم
چھائی ہے حسرتوں کی گھٹا اُس مقام پر
پیتے تھے جامِ عشق جہاں اُس نظر سے ہم
یارائے ضبطِ دردِ جُدائی نہیں رہا
اے حُسن! ہوشیار، نکلتے ہیں گھر سے ہم
اوراقِ سادہ ہوتے ہیں لمحاتِ عمر شادؔ
رنگتے ہیں اُن کو سُرخیِ خونِ جگر سے ہم
٭٭٭
بندہ پرور دن تصور کر رہے ہیں رات کو
یا ہمیں الٹا سمجھ بیٹھے ہیں سیدھی بات کو
آپ حاوی کر چکے ہیں عقل پر جذبات کو
ورنہ یوں اونچا نہ فرماتے بتوں کی ذات کو
وہ یگانوں میں نہیں گنتے ہماری ذات کو
ہم کہاں تک ضبط کر سکتے ہیں ان حالات کو
لوچ دینے کے لیے تلخیِ معروضات کو
سوئے افسانہ گھما دیتے ہیں سیدھی بات کو
دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھا دینے کے بعد
آدمی، تکلیف پہنچاتا ہے، اپنی ذات کو
جو بھی عرفانِ مشیّت کا اُڑاتے ہیں مذاق
وہ نہ جانے کیا سمجھتے ہیں خدا کی ذات کو
ہم اُجالے کے پُجاری، تم اندھیرے کے دھنی
دن میں ذرّے جگمگاتے ہیں، ستارے رات کو
بیکسوں پر طنز کے پتھر تو بھاری چیز ہیں
ٹھیس پھولوں سے پہنچ جاتی ہے احساسات کو
ہم غریبوں کا تعلق رنگ محلوں سے کہاں
کھیتیوں سے واسطہ کیا شہر کی برسات کو
گیت، افسانے، کہانی، داستاں، نغمے، غزل
سینکڑوں سانچوں میں ڈھالا ہے غمِ حالات کو
وہ ہمیں تلقین فرماتے ہیں ایسے مشورے
جیسے اندھے سے کہا جائے کہ ’’ بائیں ہات کو‘‘
رہنماؤں سے تمیزِ نور و ظلمت اٹھ گئی
دھوپ کی عینک لگائے پھر رہے ہیں رات کو
دیکھیے نا! اُونٹ کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں
کلّیہ تسلیم کر لیں آپ کی کس بات کو
اُن لبوں پر مسکراہٹ زلف لہرانے کے بعد
گلستاں میں پھول کھلتے ہیں ہمیشہ رات کو
جن سے بنتا ہے عموماً۔ نا اُمیدی کا اُفق
ان دھندلکوں نے چھپا رکھا ہے امکانات کو
اپنے ارشادات پر اے شادؔ پچھتاتے ہیں وہ
ریزہ چیں مَلتے ہیں مکھّن جن کے ارشادات کو
٭٭٭
اُسے جس حال میں سجدہ کیا ہے
اسے اللہ بہتر جانتا ہے
مقابل قدِّ آدم آئینہ ہے
بڑا دلچسپ مطلع لڑ رہا ہے
تمھیں رہبر سمجھنا پڑ گیا ہے
ہماری بے کَسی کی انتہا ہے
ہماری جرأتوں پر وہ ہنسا ہے
ہنسا، لیکن پسینہ آ گیا ہے
جہاں مایوس ہو جاتا ہے انساں
وہیں محسوس ہوتا ہے، خدا ہے
مخاطب ہے وہ ایسے زاویے سے
جسے دیکھو مرا مُنہ تک رہا ہے
میں اپنے لفظ واپس لے رہا ہوں
یہ رہزن تھا، میں سمجھا رہنما ہے
کوئی جھٹکا، کوئی ٹکّر، کوئی موج
کنارے سے سفینہ آ لگا ہے
اگر ارشادِ والا ہو تو کہہ دوں
جو میں نے آپ کی بابت سُنا ہے
برابر ہیں فغانِ درد و نغمہ
یہ آزادی نہیں تو اور کیا ہے
جلوسِ رہبرِ ملت نہ سمجھو
سیاست کا جنازہ جا رہا ہے
کہا کرتا ہوں جس کے فائدے کی
تعجب ہے وہ مجھ کو گھُورتا ہے
بہر حالت بتوں کو پُوجتے ہیں
بہر حالت ہمارا بھی خدا ہے
بتوں سے عشق ہے اونچی سیاست
سمجھ کر شیخ دیوانہ ہوا ہے
بتاتی ہے نسیمِ صحنِ گلشن
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
ہمارے حق میں علّامہ ہے اے شادؔ
جو ناقد ’’ چیل‘‘ کو کہہ دے ہُما ہے
یہی ہے شادؔ میں سب سے بڑا عیب
وہی لکھتا ہے جو کچھ دیکھتا ہے
اُسے نزدیک جا کر دیکھ اے شادؔ
جو منظر فاصلے سے خوش نما ہے
٭٭٭
ہے جو بے قابو طبیعت آج کل
چاہتا ہوں نظم، ہوتی ہے غزل
آپ اور یہ آپ کا طرزِ عمل
’’بھوگتا‘‘ ہے آدمی کرنی کے پھل
جام سمجھاتا ہے پی اور جھوم جا
کان بجتے ہیں کہ دیوانے سنبھل
کاہلی کرتی ہے سستانے کی بات
پاؤں کہتے ہیں نہیں کانٹوں پہ چل
آپ کا یہ عذر بھی معقول ہے
’’ عہدِ زرّیں ‘‘ آج آتا ہے نہ کل
جس میں چومے جائیں معشوقوں کے مُنہ
اُس غزل کو کون کہہ دے گا غزل
اُن کی خدمت میں مرا ہر طنز شادؔ
بے محابا، فی البدیہہ و بر محل
٭٭٭
یہ جگمگاتے ہوئے ستارے، یہ پھول جو مُسکرا رہے ہیں
ابھی مصیبت نہیں پڑی ہے، فریب آغاز کھا رہے ہیں
اِدھر سے شرما کے جا رہے ہیں، اُدھر سے اِٹھلا کے آ رہے ہیں
زہے تقاضائے دلربائی، مجھے محبت سِکھا رہے ہیں
یہاں کھڑے مسکرا رہے ہیں، وہاں کھڑے مسکرا رہے ہیں
یہ ہوش کس کو، لُبھا رہے ہیں کہ دل پہ بجلی گرا رہے ہیں
وہی نتیجہ کہ جس سے میں ابتدائے الفت میں کانپتا تھا
یہ الجھنیں ہیں کہ آج وہ بھی اسی نتیجے پہ آ رہے ہیں
سحر کے چھٹتے ہوئے اندھیرے پہ جو بھی تمثیل دل کو بھائے
وہ اپنے چہرے سے رفتہ رفتہ سیاہ چادر اُٹھا رہے ہیں
غمِ جُدائی نہ چھُپ سکے گا رہی جو یہ مختصر بیانی
کسی کو میں کچھ بتا رہا ہوں کسی کو وہ کچھ بتا رہے ہیں
محبت اور ترکِ شرکتِ بزمِ حُسن مہمل سا ادّعا تھا
پر اس بھروسے نے بات رکھ لی کہ ہم کسی کو ستا رہے ہیں
نقاب کی جنبشوں سے پیدا ہیں جلوہ ہائے ’’حجابِ دشمن‘‘
شباب کے ولولوں میں ڈوبی ہوئی ادائیں لٹا رہے ہیں
ہم ان کو کھو کر نہ پا سکے ہیں نہ کوئی پانے کا آسرا ہے
مشاہدے میں یہ آ رہا ہے جو کھو رہے ہیں وہ پا رہے ہیں
ترنّمِ صبحِ گلستاں پر، ذرا تصوّر ملاحظہ ہو
وہ زیرِرخسار ہاتھ رکھے مری غزل گنگنا رہے ہیں
ہمیں جو اے شادؔ پیش آتے ہیں روز دنیائے آرزو میں
تمھیں بھی وہ واقعات پُر لطف جستہ جستہ سنا رہے ہیں
٭٭٭
مجلسِ شوریٰ میں کج فہموں کو داخل کیوں کیا
ابتری کو داخلِ آئینِ محفل کیوں کیا
رہزنوں کا تذکرہ، منزل بہ منزل کیوں کیا
جس میں خطرہ تھا وہ منصب تم نے حاصل کیوں کیا
’’ پھول کی پتی کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر‘‘
اعتبارِ وعدۂ اصنامِ باطل کیوں کیا
’’فن پنا ہو!‘‘ تم نے ’’ اپنا، قوم کا، احباب کا
فائدہ جس میں نہیں وہ علم حاصل کیوں کیا
کوئی گوشہ، کوئی پہلو، کوئی خامی جب نہ تھی
ہر کسی نے آپ کے دعووں کو باطل کیوں کیا
قطعہ
اک عوامی مسئلہ ہیں ’’ آج کل کی الجھنیں ‘‘
فکر نے نقد و نظر پر مجھ کو مائل کیوں کیا
دوسرے بھی تواثر لیتے غمِ حالات سے
صرف میں نے ہی تغزّل سے بُرا دل کیوں کیا
_________
سعیِ نا مشکور جس کی در خورِ دہلیز تھی
آپ نے اس شخص کو ممنونِ محفل کیوں کیا
عزمِ راسخ میں ہمارے کیا کمی محسوس کی
رہ نمانے ہم سے ذکرِ قربِ منزل کیوں کیا
دل تو مل سکتے ہیں لیکن صورتیں ملتی نہیں
اپنے آئینے میں تم نے ہم کو شامل کیوں کیا
پی توسکتا تھا مگر برداشت کر سکتا نہ تھا
غیر کو تم نے پلا کر اتنا غافل کیوں کیا
مجھ کو منصوبوں میں شامل ہی نہیں کرنا تھا شادؔ
اب یہ شکوہ کیوں کہ لقمہ دے کے قائل کیوں کیا
٭٭٭
گو ہمیں حاصل جوتھی، وہ بھی تن آسانی گئی
دوستو لیکن تمھاری ذات پہچانی گئی
باغباں بدلا تو ہم سمجھے، پریشانی گئی
خیر، جلدی ہی یہ خوش فہمی یہ نادانی گئی
اور پھر کہتے ہیں کس کو ندرتِ طرزِ ادا
میرے شعروں میں مری آواز پہچانی گئی
ہو چکی تکمیلِ وحشت، یہ بہاریں ہیں اگر
یہ شگوفے ہیں تو رسمِ چاک دامانی گئی
غیر ممکن ہے کہ نکلیں سُنبلِ قسمت کے بَل
کاکلِ بے تاب کی کس دن پریشانی گئی
سر خوشیِ جستجو نے کھو دیا رعبِ جمال
اس قدر نزدیک جا پہنچا کہ حیرانی گئی
جستہ جستہ بام و در کے راستے روکے گئے
رفتہ رفتہ بام و در کی ماہتابانی گئی
نو جوانی میں محبت، تجربوں کے باوجود
فطرتاً مانی گئی رسماً نہیں مانی گئی
وہ ’’ جو اس کا ہو کے ‘‘ اپنے آپ سے جاتا رہا
اس کی ہر لغزش کمالِ بیخودی مانی گئی
جا رہے ہیں دوست یوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
جس طرح اُن سے مری صورت نہ پہچانی گئی
کیوں ہمیں بدنام کرتا ہے زمانہ پوچھیے
کوئی خط پکڑا گیا، تحریر پہچانی گئی
باز آتے دعویِ شادابیِ گلشن سے آپ
وہ تو کہیے رنگ و نکہت کی فراوانی گئی
’’کِرکِری‘‘ محسوس کی خود رجعتی لوگوں نے شادؔ
’’ گردِ صحرائے تغزل‘‘ اس قدر چھانی گئی
٭٭٭
مجھ پہ اس ’’ حیا خو‘‘ کی ہر نظر ادھوری ہے
پھر بھی مدّعا کامل، پھر بھی بات پوری ہے
حاضرینِ محفل سے، قرب ہے نہ دوری ہے
شمع بزمِ عرفاں کا مسئلہ شعوری ہے
ان کو چھوڑ کر، جن کی ہر مُراد پوری ہے
’’التفات و الفت‘‘ میں فاصلہ ضروری ہے
ایک رنگ آتا ہے، ایک رنگ جاتا ہے
مصلحت پرستوں کی شاعری عبوری ہے
اُن ادب پناہوں کو کیا کہیں، جنھیں اب تک
عندلیب ’بیدلؔ‘ ہے اور گل ’ ظہوریؔ‘ ہے
خار و گل پہ گلشن میں غور کیجیے، یعنی
ایک سر بسر ’ باغی‘ ایک ’جی حضوری‘ ہے
اس تضاد پر آخر کس سے بحث کی جائے
عشق بھی ضروری ہے، صبر بھی ضروری ہے
گرمیاں دکھانے سے فاصلہ فزوں ہو گا
نرمیوں سے طے ہو گی یہ دلوں کی دوری ہے
میری مسکراہٹ ہے بر بِنائے مایوسی
پھول کے تبسم کا رنگ لا شعوری ہے
’’ وہ بھی کوئی شاعر ہے ‘‘ وہ بھی کیا ’’ سخنور تھا‘‘
شادؔ رام پوری تھا، شادؔ رام پوری ہے
٭٭٭
تا چند باغبانیِ صحرا کرے کوئی
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیا کرے کوئی
خنجر دِکھا دِکھا کے جو وعدہ کرے کوئی
کیوں اور کس طرح نہ بھروسہ کرے کوئی
ان میں سے، جن کو آپ سمجھتے ہیں معتبر
کس وقت جانے آپ سے دھوکہ کرے کوئی
خود مبتلا ہیں اپنی پریشانیوں میں ہم
فرصت کسے کہ آپ کو رسوا کرے کوئی
یہ ریشمیں نقاب کی بد احتیاطیاں
اب کیا برائے دید تقاضا کرے کوئی
جو فتنہ و فساد کی باتیں نہ کر سکے
محفل میں اعتراض ہی پیدا کرے کوئی
اٹھتی نہیں نگاہِ پشیماں زمین سے
شکوہ کرے کوئی کہ نہ شکوہ کرے کوئی
رنگینیِ چمن کا جہاں تک سوال ہے
گلچین و باغباں سے نہ جھگڑا کرے کوئی
سرمایہ دار سُن کے جسے تِلملائیں شادؔ
ایسی غزل کی ہم سے تمنا کرے کوئی
٭٭٭
سکوں کی التجا پر سوزِ نا معلوم غائب ہے
اور اس انداز سے گویا دلِ مغموم غائب ہے
چمن سے آج کل یوں ’’ نکہتِ معلوم ‘‘ غائب ہے
کہ جیسے فی زمانہ شعر سے مفہوم غائب ہے
بہ فیضِ عہدِ نو ’’ ہر نغمۂ معصوم‘‘ غائب ہے
قفس موجود لیکن ’’ طائرِ مغموم ‘‘ غائب ہے
’’ بتانِ بے دہان و بے کمر‘‘ ہیں ’’ قاتل و قائل‘‘
وہ ’’خطِّ منحنی و نقطۂ موہوم ‘‘ غائب ہے
پشیماں ہوں سوالِ التفاتِ بے محابا پر
نگاہوں سے ’’ لحاظِ فطرت معصوم‘‘ غائب ہے
نظامِ مے کدہ ہموار ہے بیشک، مگر ساقی
یہاں تو امتیازِ ’’خادم و مخدوم ‘‘ غائب ہے
یہی ہونا بھی تھا انجامِ افراطِ جبیں سائی
مرے ساغر سے ’’ خطِ بادۂ مقسوم‘‘ غائب ہے
غلط فہمی پہ مبنی تھا ’’ تصور شادمانی کا‘‘
فغانِ درد میں ’’ جمہوریت کی دھوم‘‘ غائب ہے
کسے دفنائیے اے شادؔ کس پر فاتحہ پڑھیے
کفن کی سلوٹوں میں شاعرِ مرحوم غائب ہے
٭٭٭
لا اے ساقی تیری جے ہو
کوئی بھی پینے کی شے ہو
اُردی ہو، بہمن ہو، دے ہو
سب موسم اچھے ہیں مئے ہو
گلشن میں صیّاد کے ہاتھوں
جو انجام بھی ہوتا ہے، ہو
ہم آخر کیوں ہمت ہاریں
ہو ناکامی، پَے درپَے ہو
لاکھوں ہیں ہم سب بیچارے
اے شہزادو تم سب کَے ہو
ذہنی طور پر اُترے شحنو
تم اب تک بھی جم ہو کَے ہو
میں دنیا پر طنز کروں گا
دُنیا کیوں میرے درپَے ہو
ہم اس کے پابند نہیں ہیں
ساقی ہو، مینا ہو، مئے ہو
شادؔ مجھے یہ دھُن رہتی ہے
اپنا نغمہ، اپنی لَے ہو
٭٭٭
مشکل سے اُس بُت کی قسمیں
دو سچّی ہوتی ہیں دس میں
کاش مرا دل بس میں ہوتا
ورنہ اس محفل کی رسمیں
اس کافر پہ آئی جوانی
اور جوانی کس کے بس میں
ان پہروں سے کیا ہوتا ہے
پھول نہیں کانٹوں کے بس میں
وعدے پر مجبور نہیں تم
کیوں کھاتے ہو جھوٹی قسمیں
اک بھینی بے نام سی خوشبو
شامل ہے ہونٹوں کے رس میں
خنجر سے شمشیر بنے گا
وہ ظالم دو چار برس میں
’’ لڑنے کا‘‘ الزام نہ دیجے
نظریں ’’ ملتی ہیں ‘‘ آپس میں
قسمت کے دونوں پہل وہیں
صحنِ چمن میں، کنجِ قفس میں
سہل نہیں دلچسپی لینا
ہر بے بس میں ہر بے کس میں
وقت انھیں جھُٹلا دیتا ہے
سب کھاتے ہیں سچی قسمیں
ہم الفت کو راز نہ رکھّیں
یونہی بن جاتی ہیں رسمیں
شادؔ بڑے شاعر کھاتے ہیں
اُس کا جھُوٹا، اس کی قسمیں
٭٭٭
میں تو غزلیں کہہ کر دل بہلا لیتا ہوں لیکن وہ؟
شہرِ سخن میں بدنامی سے بے پروا ہوں لیکن وہ؟
گاندھی پارک سے کوسی پُل تک جاتا رہتا ہوں لیکن
جس جا چاہا، جب تک چاہا، جا بیٹھا ہوں لیکن وہ
مال، سوِل لائن، اسٹیشن، ڈگری کالج، نہرو باغ
ہر ’’کالے برقعے ‘‘ سے دھوکا کھا جاتا ہوں لیکن وہ
آج بھی کچھ ’’ رجعت کے مارے ‘‘ پردے کو سمجھے ہیں فرض
پردے والی رکشا کا پیچھا کرتا ہوں لیکن وہ؟
چلمن، پردہ، اڈما، اوسٹ، گھونگھٹ، آنچل اور نقاب
میں یہ سارے رسمی بندھن توڑ چکا ہوں لیکن وہ؟
نسوانی فطرت کو شامل رہتے ہیں الفت کے راز
جس نے پوچھا، اپنا قصّہ لے بیٹھا ہوں لیکن وہ؟
بھولی سی ہم مکتب کوئی، کوئی سہیلی خالہ زاد
ان کے ہاتھوں خط بھِجواتے میں ڈرتا ہوں لیکن وہ؟
پھانس نکلوانے کے کارن دے دیتا ہوں ہاتھ میں ہاتھ
موقع پا کر ران میں چٹکی بھر لیتا ہوں لیکن وہ؟
نادانستہ بکھری زلفیں، نا دانستہ ’’الّھڑ چال‘‘
گھر میں چلتے پھرتے اس کو بھانپ رہا ہوں لیکن وہ؟
جاڑے کی وہ بھیگی راتیں، گرمی کے یہ جلتے دن
ایسی غزلیں، جیسی یہ ہے، بے باکانہ کہہ کر شادؔ
عصمت کو بے راہ روی پر اُکساتا ہوں لیکن وہ؟
٭٭٭
اصطلاحاً بُرے کو بھلا کہہ دیا
یعنی گالی نہ دی رہ نما کہہ دیا
مجھ کو بے دل اسے دل رُبا کہہ دیا
دو طرح ایک ہی ماجرا کہہ دیا
اس میں میرے سِکھانے کی کیا بات ہے
جس نے برتا تمھیں بے وفا کہہ دیا
ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں احوالِ غم
جب ہُوا آمنا سامنا کہہ دیا
بات ’’عمر و بکر‘‘ سے نہ آگے گئی
میں نے جب ’’ زید‘‘ سے مدّعا کہہ دیا
لوگ ’’ جھُوٹا لپٹّی‘‘ نہ کہنے لگیں
بے وفا کو اگر با وفا کہہ دیا
تم نے رنگت کو جس کی حجابی کہا
میں نے نکہت کواس کی قبا کہہ دیا
اس کو اندازۂ بے نیازی نہیں
جس نے خمیازۂ التجا کہہ دیا
سوزِ الفت کہ تھا صیغۂ راز میں
میرے اشعار نے جا بجا کہہ دیا
وائے بر حالِ افسانۂ بے کسی
جس نے پوچھا کہا، جو مِلا کہہ دیا
اب وہاں ہوں رواداریوں کی قسم
جو کہا سُن لیا، جو سُناکہہ دیا
جائیے ناصحِ مہرباں جائیے
آپ سے کہہ دیا، کہہ دیا، کہہ دیا
بزمِ ملہم سے دورانِ فکرِ سخن
جو بھی اے شادؔ پلّے پڑا کہہ دیا
٭٭٭
میں نے کانٹوں میں لچک پائی ہے
رنگ و نکہت میں کھٹک پائی ہے
جب کبھی اس کی جھلک پائی ہے
دل میں کوندے کی لپک پائی ہے
خوب پِیجے، خرد راز شناس
بعد مدّت کے بہک پائی ہے
ٹوٹ کر دل نے بکھیرے نغمے
جام کھویا تو کھنک پائی ہے
کیا میں فریاد و فغاں سے گزروں
اس نے پہلو میں کسک پائی ہے
ہے وہ مجھ سے متاثّر کہ نہیں
آنکھ ملنے میں جھِجھک پائی ہے
عشق و تسکین، عیاذاً بِاللہ
آپ نے آگ خنک پائی ہے ؟
تم نے دنیا کا تماشا دیکھا
ایک دامن ہی جھٹک پائی ہے
لُطفِ آغازِ محبت پہ نہ جا
ابھی پُروا ہی سنک پائی ہے
واقفِ کاکلِ شب رنگ نہیں
جس نے پھولوں میں مہک پائی ہے
در مئے خانہ سے ٹل جائیں شادؔ
شیخ صاحب کی جھپک پائی ہے
٭٭٭
جوانی ہے دل آ جانے کے دن ہیں
عقَل۱؎ مندو! یہ سمجھانے کے دن ہیں
بتوں پر شعر فرمانے کے دن ہیں
خطا کرنے، سزا پانے کے دن ہیں
یہی ہے رنگ و نکہت کا زمانہ
یہی زلفوں کے لہرانے کے دن ہیں
ابھی ہیں امتحانِ شوق کے دن
ابھی جھوٹی قسم کھانے کے دن ہیں
ہلالِ عید کی صُورت اُفق پر
نظر آؤ، نظر آنے کے دن ہیں
غضب ہے پاسِ احساسِ جوانی
نگہبانوں سے گھبرانے کے دن ہیں
نسیمِ صبح کے ہاتھوں چمن میں
نقابِ رُخ اُلٹ جانے کے دن ہیں
وہاں ہے اب رواجِ آرزو شادؔ
اِدھر کھونے اُدھر پانے کے دن ہیں
۱؎ عقَل مندو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ بہ تحریک ’’ق‘‘ بطور طنز
٭٭٭
اور تو کیا یہ نمک خوارِ سیاست دیں گے
ذہنِ سرکار کو ’’ تعریف‘‘ کی رشوت دیں گے
جب وہ محفل سے نکل جانے کی عزّت دیں گے
کوئی وقفہ، کوئی عرصہ، کوئی مدّت دیں گے
آپ کے دوست، اگر آپ اجازت دیں گے
پاس بیٹھے ہوئے ترغیبِ حماقت دیں گے
کیوں نہ تسلیم کرا لیں گے اجارہ داری
جب وہ ’’ امداد‘‘ تعاون کی بدولت دیں گے
آشیاں پھول نہیں تھے کہ خزاں لے اُڑتی
آپ اس بحث میں جانے کی اجازت دیں گے
آپ کے ’’حکمِ تحفّظ‘‘ پہ عمل کیوں ہو گا!
آپ جب بات بنانے کو ہدایت دیں گے
صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا
اور اخبار میں اعلانِ ضرورت دیں گے
کیا تعجب ہے کہ تیشوں کی طرف بڑھ جائیں
لوگ ہاتھوں کو ’’ سوالوں ‘‘ سے جو مہلت دیں گے
نظمِ محفل میں جہاں جھول، جہاں رخنے ہیں
کیا اجازت ہے ؟ مگر آپ اجازت دیں گے
مجھ کو چوری کی سہولت بھی نہ دیں گے اے شادؔ
وہ جو کہتے ہیں کہ جینے کی ضمانت دیں گے
٭٭٭
مانا جبیں نواز ترا سنگِ در نہیں
قسمت میں ٹھوکریں ہیں تو پھر در بدر نہیں
اک انقلاب دیکھ رہا ہوں چمن چمن
میری نظر جہاں ہے تمھاری نظر نہیں
یہ قابلِ لحاظ ہے، اس انجمن کی بات
نغموں کو راستہ ہے دعا کا گزر نہیں
مغرب سے پیشتر ہی ’’تلاشِ ہلال عید‘‘
اور اس طرح کہ دھیان سرِ رہگزر نہیں
سچ کہہ رہے ہیں، آپ کے چہرے پہ آپ کے
گیسو بکھر گئے ہیں، نمودِ سحر نہیں
احباب جانتے ہیں وہیں جا رہا ہوں میں
کیا اُس کی رہ گزر میں کوئی اور گھر نہیں
گیسو بدوش محوِ تماشائے آئینہ
اس کی نگاہ روزنِ دیوار پر نہیں
اے شادؔ ہم کو برکتِ شمعِ سحر کہاں
اظہارِ سوزِ غم پہ ہے قابو، مگر نہیں
٭٭٭
ہم لوگ بھی گلشن کے نگہبان رہے ہیں
جو آپ سے ہونا ہے وہ ہم جان رہے ہیں
وہ لہجہ و رفتار بدل دیں کہ نقابیں
پہچاننے والے انھیں پہچان رہے ہیں
آئی ہیں مری طنز کی چھینٹیں تو سبھی پر
یہ کیا کہ فقط آپ بُرا مان رہے ہیں
منظور ہے بد نظمیِ محفل پہ اشارہ
ہم بزم سے اٹھنے کی اگر ٹھان رہے ہیں
بے باک ہیں تائیدِ رسوماتِ قفس پر
وہ لوگ جو صیّاد کے مہمان رہے ہیں
زاہد پہ تعجب ہے، کہ اصنامِ حسیں کو
ہم، یہ تو نہیں ہے، کہ خدا مان رہے ہیں
ممکن ہے، رہے ہوں وہ پریشانِ زمانہ
چہرے نہیں کہتے کہ پریشان رہے ہیں
ناقابلِ افسوس ہے کانٹوں کی تباہی
جب پھول بہاروں میں پریشان رہے ہیں
لیکن کوئی اقدام، کوئی کارِ نمایاں
ہونے کو تو ہر عہد میں انسان رہے ہیں
اے شادؔ جو تھے تلخیِ افکار کے حامی
وہ بھی مرے شعروں پہ بُرا مان رہے ہیں
٭٭٭
شادؔ ضعیف العُمر ہے لیکن اُس کے شعر جواں ہوتے ہیں
ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں، ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں
کوئی نہیں کہہ سکتا، کانٹے بھی پامالِ خزاں ہوتے ہیں
ان کے نام و نشاں مٹتے ہیں جن کے نام و نشاں ہوتے ہیں
فتنے روز جنم لیتے ہیں، فتنے روز جواں ہوتے ہیں
اتنے پاپ کہاں ہوتے ہیں جتنے پاپ یہاں ہوتے ہیں
کچھ مطعونوں کے افسانے کچھ نا معقولوں کے نام
اکثر وردِ زباں رہتے ہیں اکثر وردِ زباں ہوتے ہیں
راہزن و رہبر کے قدموں کی پہچان بھی ہے اے راہی
دس ان میں سے منزل رس نوّے نقصان رساں ہوتے ہیں
زاہدِ قبلہ مئے خانے کی راتوں پر آ جائے نہ حرف
لوگ سمجھتے ہیں کعبے میں لیکن آپ یہاں ہوتے ہیں
کیا تھا؟ کیوں تھا؟ یہ مت سوچو، کیا ہے ؟ اس پر غور کرو
شاخوں پر آنے سے پہلے ہوں گے پھول جہاں ہوتے ہیں
چند بڑے لوگوں سے مل کر میں نے یہ محسوس کیا
اپنی بابت نا اہلوں کو کیا دلچسپ گماں ہوتے ہیں
یہ ماحول کے بکھرے گیسو، یہ حالات کے ٹوٹے جام
اپنے اپنے رُخ پر گویا اک اندازِ بیاں ہوتے ہیں
ہے رسوائے حکایت ہونا رازِ نہاں کی پہلی شرط
شادؔ چمن کے سینے میں غنچے بھی رازِ نہاں ہوتے ہیں
٭٭٭
اُس کے زانو سے اُٹھانا پڑ رہا ہے سر مجھے
’’ شامِ تنہائی؟‘‘ ہے گویا ’’ صبحِ خوش منظر‘‘ مجھے
طیش آتا ہے ’’ نقابِ عارض و رُخ‘‘ پر مجھے
حُسن کے حق میں جو بہتر ہے، وہ ہے بد تر مجھے
کیا تہیّہ کر لیا ہے انکشافِ راز کا
یوں جو دیکھے جا رہے ہیں آپ ہنس ہنس کر مجھے
ہیں ’’ کئی ایسے ‘‘ جنھیں ’’ ہموار کرنا ہے ابھی‘‘
راہِ الفت سے ہٹانے ہیں ’’کئی پتھر‘‘ مجھے
’’پاسبانانِ جوانی‘‘ ’’راستہ روکیں ‘‘ مگر
ایک پر دربان ’’ بے درباں ‘‘ ہیں ستّر گھر مجھے
عشق کی ’’ فرسودہ رسمیں ‘‘ توڑنے کی وجہ سے
پیش آتے ہیں نئے حالات بھی اکثر مجھے
وہ ’’زبانِ بے زبانی‘‘ سے ابھی واقف نہیں
ہاتھ رکھنا پڑ رہا ہے بار ہا دل پر مجھے
ناصحِ قبلہ، تو راہِ عشق میں ہر گام پر
آپ کے نزدیک، لگنی چاہیے ٹھوکر مجھے
اپنی جانب سے نہیں ممکن جو اُن کو ’’ خطِّ شوق‘‘
بھیج دینی چاہیے ’’ میری غزل لکھ کر ‘‘ مجھے
ناز بھی جب شاملِ انجامِ الفت ہے تو شادؔ
حُسن جو تجویز فرمائے، وہی بہتر مجھے
٭٭٭
جبر نغمہ بھی، قیدِ قفس بھی
طیش بھی آ رہا ہے ترس بھی
شیخ بھی، محتسب بھی، عسس بھی
دشمنِ بزمِ مئے، ہم نفس بھی
عشق سے واسطہ پڑ نہ جائے
کام آتا نہیں پیش و پس بھی
خدمتِ خلق کی بات کیجے
آپ زندہ رہے سو برس بھی
گھِر کے آئے ہیں اشکوں کے بادل
مسکرا دو تو جائیں برس بھی
ہیں تخیّل کی زد میں وہ مضمون
جن پہ چلتا نہیں کوئی بس بھی
فرضِ ساقی ہے اصرارِ بادہ
میرے قابو سے باہر ہے، بس بھی
کُفر ہے ان کو کانٹے سمجھنا
جن کو پھولوں پہ ہے دسترس بھی
عقل بھی سُود پر چل رہی ہے
ہیں کوئی چیز اہلِ ہوس بھی
شعر کہتے ہیں افیون کھا کر
شاعرِ ’’ عندلیب وقفس ‘‘ بھی
جیل میں شادؔ فاقے نہ ہوں گے
اور نہ ہو گا کوئی داد رس بھی
٭٭٭
تائیدِ غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں
نَو لمبی لمبی نظموں سے تو شعر ہمارے کیا کم ہیں
جگنو کے اشارے کیا کم ہیں، ہرنوں کے طرارے کیا کم ہیں
مہجوروں کے بہلانے کو اتنے بھی سہارے کیا کم ہیں
ہم گھر سے نکل کر وحشت میں صحرا کی جانب کیوں جائیں
چُننے کو شگوفے کیا کم ہیں گِننے کو ستارے کیا کم ہیں
نیچی نظریں، بکھری زلفیں، لٹکے آنچل شانے عریاں
حد بھر دل کش ’’اتنے سارے ‘‘ انداز تمھارے کیا کم ہیں
نزدیک آنے کی تدبیریں، بے جا ہیں بہ پاسِ رسوائی
جب دُور سے باتیں کرنے کو آنکھوں کے اشارے کیا کم ہیں
از راہِ تجلی سمجھا ہوں، از راہِ تصوف کہتا ہوں
اے شیخ! حریمِ کعبہ سے مندر کے دوارے کیا کم ہیں
دولت پر مٹنے والوں نے احساسِ خودی مجروح کیا
دولت کے آگے جتنوں نے بھی ہاتھ پسارے کیا کم ہیں
کافر آنکھوں، ’’ہندو زلفوں ‘‘ گلشن جسموں کو کیا دیکھیں
اُلجھے اُلجھے بگڑے بگڑے حالات ہمارے کیا کم ہیں
ٹوٹی شاخوں کی قلّت پر پھولوں کی کثرت حاوی ہے
دلکش نظّاروں کے پیچھے دلدوز نظارے کیا کم ہیں
سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جو آج بھی بوڑھی غزلوں کو
اے شادؔ وہ شعروں کے رسیا وہ عشق کے مارے کیا کم ہیں
٭٭٭
’’اسی کوچے میں ‘‘ سحر۱؎ ایک حسیں دیکھ آیا
سوچتا ہوں کہیں ’’ اس کو‘‘ تو نہیں دیکھ آیا
یہ جو دیکھ آتے ہیں پھولوں میں، ستاروں میں اُسے
کوئی ’’ رخسار‘‘ کوئی اس کی ’’ جبیں ‘‘ دیکھ آیا
شوخیِ رنگِ رُخِ یار سے مسحور تھی بزم
میں غلط بینیِ ’’ اربابِ یقیں ‘‘ دیکھ آیا
راہِ الفت میں تبسم ہے فریبِ منزل
وہی اچھا جو اسے ’’ چیں بہ جبیں ‘‘ دیکھ آیا
کل جہاں دیکھ کے آیا تھا دمِ سیرِ چمن
آج پھر اُس بُتِ کافر کو وہیں دیکھ آیا
یہ ’’ صباحت‘‘ پہ کوئی چوٹ نہیں ہے اے دوست
میں کسی در پہ جو ’’ حُسنِ نمکیں ‘‘ دیکھ آیا
رائے گاں کیوں سفرِ دیر و حرم اے ساقی
دیکھنے سے اُسے مطلب تھا، کہیں دیکھ آیا
زاہدِ خشک کی باتوں میں لچک ملتی ہے
غالباً آج کوئی ’’ بام نشیں ‘‘ دیکھ آیا
ق
تیرے بس کے نہیں یہ رمزِ عبادت اے شادؔ
تو جو میخانہ میں ’’ اک قبلۂ دیں ‘‘ دیکھ آیا
۱ ؎ عابد علی بیگ سحرؔ رامپوری
٭٭٭
اُٹھ گئی اس کی نظر میں جو مقابل سے اُٹھا
ورنہ اٹھنے کے لیے غیر بھی محفل سے اُٹھا
بیٹھ کر لُطف نہ تو سایۂ باطل سے اُٹھا
چل کے آرام اُُٹھانا ہے تو منزل سے اُٹھا
آ کے محفل میں تِری کون کبھی دل سے اُٹھا
کوئی اُٹھا بھی مری طرح تو مشکل سے اُٹھا
ساتھ آتا ہے تو لہروں کے تھپیڑے مت گن
موج سے لطف اُٹھانا ہے تو ساحل سے اُٹھا
ہاتھ میں جام اُٹھانا تو بڑی بات نہیں
کوئی پتّھر کوئی کانٹا رہِ منزل سے اُٹھا
قرب ساحل کے تکبّر میں جو کشتی ڈوبی
کوئی چھوٹا سا ’’ ببولہ‘‘ بھی نہ ساحل سے اُٹھا
بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دُنیا ہے نہ دیں
جس طرف تُجھ کو اُٹھانا ہے قدم، دل سے اُٹھا
وہ جو نو واردِ اُلفت ہیں انھیں کیا معلوم
کس لیے آج میں سنگِ درِ قاتل سے اُٹھا
شیخ پر ہاتھ اُٹھانے کے نہیں ہم قائل
ہاتھ اُٹھانے کی جو ٹھانی ہے تو باطل سے اُٹھا
شادؔ اک رہبرِ مکّار سے رہزن اچھا
کوئی نقصان اُٹھانا ہے تو جاہل سے اُٹھا
٭٭٭
کبھی کوئی کرم، کوئی عنایت ہو بھی جاتی ہے
کبھی بیتابیِ دل، عینِ راحت ہو بھی جاتی ہے
’’وہی صدمات؟‘‘ یا رونے سے فرصت ہو بھی جاتی ہے
’’ وہی حالات؟‘‘ یا صاحب سلامت ہو بھی جاتی ہے
کبھی کوئی گھٹا ایسی بھی اٹھتی ہے کہ بہہ چلیے
کبھی جام و سبو کی ہم سے خدمت ہو بھی جاتی ہے
ہماری بندگی پابندِ کعبہ ہے نہ بُت خانہ
جسارت چاہیے، سجدوں پہ قدرت ہو بھی جاتی ہے
نہ کہنا، خرمنِ پندار پر بجلی نہیں گرتی
نہ رہنا اِس بھروسے میں، محبت ہو بھی جاتی ہے
رو پہلی چاندنی میں شادؔ، شامل ہے دھندلکا بھی
مسرّت، نذرِ انجامِ مسرّت ہو بھی جاتی ہے
٭٭٭
نام جس نے ستم کا کرم رکھ دیا
اُس سے بہتر ہے جس نے قلم رکھ دیا
کیا مشیّت سے یہ بات کہنے کی ہے
کیوں ہمارے مقدر میں غم رکھ دیا
رہروو! پیروی کے یہ معنی نہیں
ہر نشانِ قدم پر قدم رکھ دیا
آپ نے ہم پہ الزامِ دیوانگی
از رہِ التفات و کرم رکھ دیا
صاف توہینِ منشائے جمہور ہے
تم نے ’میں ‘ کے محل پر جو ’ہم‘ رکھ دیا
پھول کی طرح وہ جام کُمھلا گیا
ہاتھ جس پر تمھاری قسم رکھ دیا
اس نے چاہا جسے سرفرازِ سخن
اُس کے حصے میں دُنیا کا غم رکھ دیا
٭٭٭
اس زمانے میں جو رنگین غزل کہتے ہیں
مقبرے کو وہ ابھی تاج محل کہتے ہیں
کم ہیں وہ لوگ جو گرتے کو ’’ سنبھل‘‘ کہتے ہیں
ہاں مگر وہ جنھیں اربابِ عمل کہتے ہیں
آپ نے کچھ نہ سُنا ہو گا تبھی تو یہ لوگ
آپ کے ذوقِ سماعت میں خلل کہتے ہیں
آج ساقی سے یہ معلوم ہوا ہے اے دوست
حضرتِ شیخ کسے وقتِ عمل کہتے ہیں
ہم نے جو شرط لگائی تھی وطن کی بابت
غور کیجے، وہی اسباب و علل کہتے ہیں
آپ کے دوست نئی بات نہیں کہہ سکتے
ہم سے جو آج سُنی، آپ سے کل کہتے ہیں
اپنی واسوخت نوائی پہ جنھیں ناز ہے شادؔ
یہ لطیفہ ہے، وہ جعفر کو زٹل کہتے ہیں
٭٭٭
رنگِ رُخ سُرخیِ پیغام سے وابستہ ہے
میری حالت مرے انجام سے وابستہ ہے
آرزو رسم و رہِ عام سے وابستہ ہے
آپ کا نام مرے نام سے وابستہ ہے
جام کا کام ہے ماحول سے غافل رکھنا
رونقِ بزم طرب جام سے وابستہ ہے
نکہتِ گُل کی طرح عشوۂ بے نام کی مثل
’’ معنویّت‘‘ مرے پیغام سے وابستہ ہے
بھاؤ، انعام، دعا، بھیک، گریباں، خنجر
آج ہر ہاتھ کسی کام سے وابستہ ہے
شام نے صبح کے احساس کو زینت بخشی
زلفِ رُخ، عارض گلفام سے وابستہ ہے
حُسنِ معنی و بیاں، معجزۂ فن ہے جہاں
ندرتِ شعر بھی الہام سے وابستہ ہے
غلطی ہائے مضامینِ سیاست کے سبب
جس کو دیکھو کسی الزام سے وابستہ ہے
اوّل اوّل چمن و گُل کا بھرم ہے بُلبُل
آخر آخر قفس و دام سے وابستہ ہے
جس میں پھولوں کی مہک ہے نہ ستاروں کی دمک
شاد ایسی سحر و شام سے وابستہ ہے
٭٭٭
گزر جاتے ہیں جب دو دل حدودِ عہد و پیماں سے
تو پھر بدنامیوں سے خوف کھاتے ہیں نہ درباں سے
نہیں جب کوئی ہمدردی مرے چاک گریباں سے
تو پھر کیا فائدہ مجھکو ترے قربِ رگِ جاں سے
خیال اچھا تو ہے، کانٹے نکل جائیں گلستاں سے
مگر ایسے تصوّر پر عمل باہر ہے امکاں سے
پیامِ درد میں کیا فرق پڑتا ہے نگہباں سے
پپیہے کی صدا رُکتی نہیں دیوارِ زنداں سے
وطن دشمن بھی ہم ہیں، دشمنوں کے دوست بھی ہم ہیں
گریباں میں بھی جھانکیں، جھانکنے والے گریباں سے
ذرا خاموش رہنے دے کہ ذہنی طور پر ہمدم!
ابھی واپس نہیں آیا ہوں میں اس کی شبستاں سے
ہزاروں کو خدائے بیکَسی موقع نہیں دیتا
ہزاروں بے خبر ہیں لذّتِ حالِ پریشاں سے
یہ انگڑائی کا رُخ سب کی طرف یکساں رہا لیکن
مُجھے ہی کیوں تکے جاتی ہے محفل چشمِ حیراں سے
جہاں اے شادؔ کج فہموں سے شاعر داد پاتا ہے
گویّا اس جگہ مقصود ہوتا ہے غزل خواں سے
٭٭٭
یقین مانیے یہ بات بھی بڑی خوشی کی ہے
عتاب کی نظر سہی، نظر تو آپ ہی کی ہے
وہی ورش بُتانِ کُو بہ کُو سے دوستی کی ہے
کٹی ہوئی پتنگ جو بھی لُوٹ لے اسی کی ہے
جو ما سوا میں عقلِ کم نظر اُلجھ کے رہ گئی
تو اس میں کیا خطا مری جبینِ بندگی کی ہے
تلاشِ امن و عافیت پہ اعتراض کس لیے
تلاشِ امن و عافیت سرشت آدمی کی ہے
جو ماجرائے دردِ دل نے آپ پر اثر کیا
تو میری داستان، داستان ہر کسی کی ہے
غبارِ انقلاب سے اٹَا ہوا ہے آسماں
مگر کوئی کوئی کرن فضا میں روشنی کی ہے
پلائی جا رہی ہے ہر کسی کا نام پوچھ کر
یہ نظم آپ ہی کا ہے یہ بزم آپ ہی کی ہے
ہجوم بیکَسی کا نام ہم نے شکر رکھ لیا
سمجھ لیا ہے صبر جس کو، شکل بے دلی کی ہے
جہاں بہارِ بوستاں نے جائزہ نہیں لیا
وہاں کہیں کہیں رمَق گلوں میں تازگی کی ہے
مجھے بھی شادؔ ریشمین شاعری کا شوق تھا
مگر وہ عمر سر خوشی کی تھی یہ آگہی کی ہے
٭٭٭
عمر، بکر کی شرارتوں پر جو زید کو بزم سے اٹھا دیں
بتائیے، اُن کی اس روش پر جو سر نہ پیٹیں تو مُسکرا دیں
وہ شاعرانِ فرار و رجعت حیاتِ نو کا پیام کیا دیں
جو شہر آشوب کے محل پر حسین و نازک غزل سنا دیں
اگر ہمارا یقیں نہیں ہے تو آئیے آپ کو گِنا دیں
بہار میں جن کے آشیانے لُٹے ہیں وہ اپنے ہاتھ اُٹھا دیں
ہمارے پَلّے ہی کیا رہا ہے تو اے نشیمن جلانے والو!
بطور رشوت کہاں سے تم کو گزک منگا دیں، شراب لا دیں
یہ بیچ کے لوگ ان پہ گہری نظر ہے لازم کہ یہ فریبی
وہاں پہنچ کر یہاں کی جَڑ دیں وہاں کی آ کر یہاں لگا دیں
بہ اعتبارِ لباس یہ شیخِ وقت ہے اور وہ برہمن
بہ اعتبارِ مزاج و طینت اسے اُٹھا دیں اسے بِٹھا دیں
نہ جانے کیوں خادمانِ قوم و وطن ہوئے جا رہے ہیں دُبلے
جہاں دِوالہ نکالنا ہو وہاں کوئی یونیَن بنا دیں
تمھارے ہر اعتراض میں جب نہ وزن کوئی نہ کوئی نُدرت
تو پھر بہی خواہِ مُلک و ملّت سوائے ’ جی ہاں ‘ جواب کیا دیں
وہ بزمِ شعر و سخن میں خاموش رہ کے میری غزل کا مطلب
اگر سمجھ لیں تو مسکرا دیں اگر نہ سمجھیں تو سر ہِلا دیں
اُٹھ اچکے ہیں حلف جو اے شادؔ باغبانوں کی دوستی پر
ہماری خاطر وہ کیوں سُلگتے نشیمنوں کی خبر اڑا دیں
٭٭٭
بہار کی خبر میں احتمال بھی تو چاہیے
کبھی کبھی اجازتِ سوال بھی تو چاہیے
غزل میں طنز، طنزِ حسبِ حال بھی تو چاہیے
برائے ’’ شمعِ فکر ‘‘ اشتعال بھی تو چاہیے
ہمیں سے ہے سلیقۂ سوال کا مطالبہ
انھیں خیالِ حالِ پُر ملال بھی تو چاہیے
وہ بد سلوکیاں کہ جن سے تنگ آ چکے ہیں ہم
تمھیں کچھ ان کی فکر، کچھ خیال بھی تو چاہیے
عتاب کی نگاہ سے جھلک رہی ہیں شوخیاں
کسی بھی فن میں ہو مگر کمال بھی تو چاہیے
یہ قربِ خار و گل بھی کوئی سوچنے کی بات ہے
حفاظتِ جمال کو جلال بھی تو چاہیے
چمکتی اعترافِ جور کی ہیں بجلیاں جہاں
وہاں جبیں پہ ابرِ انفعال بھی تو چاہیے
انھیں اگر لیاقتِ علاجِ حال فرض ہے
ہمیں جسارتِ بیانِ حال بھی تو چاہیے
یونہی تو باغباں نہیں بنا دیے گئے ہو تم
گلوں کا رکھ رکھاؤ، دیکھ بھال بھر تو چاہیے
وہ ہم سے گفتگو کریں، وہ ہم سے ماجرا سُنیں
جو کہہ رہے ہیں ظلم کی مثال بھی تو چاہیے
خلوصِ میکدہ میں شادؔ مجھ کو شک نہیں مگر
شراب کے لیے گِرہ میں مال بھی تو چاہیے
٭٭٭
ہے ذکرِ انقلاب کہیں فکرِ شر کہیں
افواہ تو نہیں ہے مگر یہ خبر کہیں
انصاف کا لہو نہ بہے سر بسر کہیں
لیکن وہ مانتے ہیں ہمیں معتبر کہیں
دھکّے نہ کھائیں صاحبِ املاک و زر کہیں
آئین کے خلاف نہ ہو یہ خبر کہیں
اُلٹی سمجھ کے لوگ ہیں ان سے بعید کیا
کہہ دیں سوادِ شام کو نورِ سحر کہیں
بھٹکے ہوئے بھی آئیں گے اک روز راہ پر
گِر کر کہیں، اُلجھ کے کہیں، بیٹھ کر کہیں
مِل جائے آسماں کو جوازِ شکستِ رنگ
آئے تو بزمِ عیش و طرب رنگ پر کہیں
جیسے کہ باغبانِ چمن آپ لوگ ہیں
ایسے خزاں فریب تو ملتے ہیں ہر کہیں
ہے تیرگی جبیں پہ تو آنکھوں میں شیطنت
ہٹتی ہے پاسباں سے ہماری نظر کہیں
اپنے وطن کی طرح، وہ جس وجہ سے بھی ہو
دیکھی ہے ظالموں کے لیے در گزر کہیں
ہرگز غلط نوازیِ ساقی بغیر شادؔ
ممکن نہیں کہ دَور چلے رات بھر کہیں
٭٭٭
خوف یہ ہے کہ وہ پھولوں پہ نہ آرام میں ہوں
ورنہ دنیا کی بہاریں تو مرے جام میں ہوں
سُونے سُونے سے در و بام ہیں شمعیں مدّھم
کیا تعجب ہے کہ اس وقت وہ آرام میں ہوں
مسکرا دیں گے، مرا نام کوئی لے دیکھے
وہ کسی فکر میں بیٹھے ہوں، کسی کام میں ہوں
یوں بھی الزامِ محبت کوئی الزام نہیں
اور پھر آپ مرے ساتھ جس الزام میں ہوں
عنبریں زلف کی لَٹ اور جبینِ پُر نور
جیسے کُچھ صبح کے آثار کسی شام میں ہوں
آنکھوں آنکھوں میں جو مضمون ادا ہوتے ہیں
گھُٹ کے رہ جائیں اگر نامہ و پیغام میں ہوں
وہ نہیں ہے تو مرے جام پہ قابو ہے مِرا
لغزشیں جام کا حصّہ ہیں تو ہر جام میں ہوں
عقل ہے تشنۂ تکمیلِ جنونِ اُلفت
ہیں وہ آغاز میں صدمے کہ جو انجام میں ہوں
میں چُراتا نہیں مضمونِ شگفتہ اے شادؔ
چھین لیتا ہوں اگر دامنِ الہام میں ہوں
( اصلاح شدہ حضرت فصاحت جنگ جلیلؔ مانک پوری)
٭٭٭
سلیقہ ہی نہ آیا اشک ہائے دیدۂ تر سے
برسنے کی جگہ ٹھہرے، ٹھہرنے کی جگہ برسے
ترے دل تک مرے نالے کی شانِ نارسائی بھی
کچھ ایسی ہے کہ جیسے تیر ٹکرا جائے پتّھر سے
محبت میں خودی کی موت بھی دیکھی نہ جائے گی
اگر میں بارِ خاطر ہوں تو اُٹھ جاؤں ترے در سے
ابھی ہنگامہ آرا دل میں ہے اک عشرتِ رفتہ
ابھی تک تیری خوشبو آ رہی ہے میرے بستر سے
بھرے گھر کو مرے جوشِ جنوں سے خوفِ رسوائی
مجھے افشائے رازِ عشق کا کھٹکا بھرے گھر سے
میں پھر آغازِ الفت کا نتیجہ سوچنے بیٹھوں
مجھے تم گُدگُدا کر پھر نکل جاؤ برابر سے
جلو ہلکی سی مئے پی کر چلے آئیں کہ مے خانہ
بس اتنا دُور ہے جتنا مرا گھر آپ کے گھر سے
تلاشِ عفّتِ حُسنِ جواں مقصودِ بینش ہے
میں پس منظر کی بابت سوچنے لگتا ہوں منظر سے
مجھے تو شادؔ کے ہر شعر میں تائید ملتی ہے
کسی روئے منوّر سے کسی زلفِ معنبر سے
٭٭٭
ایسی شراب جس کی زمانے کو بُو نہ آئے
میری نظر کسی کے تبسّم کو چھُو نہ آئے
وہ سب کے سامنے ہو مرے رُو بہ رو نہ آئے
محفل میں اس لحاظ پہ کچھ گفتگو نہ آئے
آنکھوں کے پاس کوئی خزانہ تو ہے نہیں
پلکوں پہ آنسوؤں میں کہاں تک لہُو نہ آئے
زاہد کی مئے کشی کا سلیقہ نہ پوچھیے
جیسے کوئی نماز پڑھے اور وضو نہ آئے
درکارِ ہر نگار ہے اک سیرتِ جمیل
رنگت پہ منحصر ہو تو پھولوں سے بو نہ آئے
راتیں گزر گئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے
تکیوں سے اب تو اُس کے پسینے کی بو نہ آئے
موسم کو خوشگوار بناتے ہیں لازمات
ساون پہ ظلم ہے جو مئے مُشک بو نہ آئے
تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی ضرور
ظالمّ ترا سلوک ترے رُوبرو نہ آئے
یہ آستیں کا حال گریبان کا یہ رنگ
فریاد کی تو یہ کہ چلو تا گُلو نہ آئے
اظہارِ ظرف و مقصد مقدار چاہیے
ساغر نہ کر قبول تو دیکھوں سبُو نہ آئے
اس انجمن میں جا تو رہے ہیں جنابِ شادؔ
ممکن نہیں سوالِ غمِ آرزو نہ آئے
٭٭٭
نہ عداوت نہ محبّت کا گماں ہوتا ہے
یہیں اندازۂ اسلوبِ بتاں ہوتا ہے
اس تصوّر میں کہ کل کون کہاں ہوتا ہے
مجمعِ اہلِ قفس نغمہ فشاں ہوتا ہے
ہر کثافت کو تب و تاب سے مِلتی ہے جِلا
جو ’’ تب و تاب‘‘ سے بچتا ہے، دھواں ہوتا ہے
حُسن ہر حال میں ڈرتا ہے ہوَسناکوں سے
پھول کھِلتا ہے تو ہر سو نگراں ہوتا ہے
اب پشیمانِ یقیں ہوں، جو کہا کرتا تھا
رازِ دل بھی کہیں چہرے سے عیاں ہوتا ہے
تیرے منصب کے منافی ہے مگر اے ساقی
جامِ سرشار، نصیبِ دِگراں ہوتا ہے
مسکراتا ہوں کہ ہونٹوں پہ نہ فریاد آئے
’’خندۂ گل‘‘ بھی نتیجے میں فغاں ہوتا ہے
تم نے محفل کے جو آئین بنا رکھّے ہیں
صرف ’’ رکھّے ‘‘ ہیں عمل اُن پہ کہاں ہوتا ہے
بات کی بات ہے غیبت ہے نہ بہتان کوئی
ہم بھی ہوتے ہیں وہیں شیخ جہاں ہوتا ہے
اک مصیبت ہے بڑا نام نکل جانا بھی
برقِ گلشن کا ستم درجِ خزاں ہوتا ہے
ضبطِ الفت پہ کوئی آنچ نہ آنے پائے
کہنے والوں کو یہ احساس کہاں ہوتا ہے
میں کسی رنگ میں مجبور نہیں ہوں اے شادؔ
ورنہ ہر شخص کا اک طرزِ بیاں ہوتا ہے
٭٭٭
ہوئی صبح، بسترِ رنگ و بُو سے وہ گلستانِ جواں اُٹھا
یہ خمار آنکھوں میں نیند کا ہے کہ پی کے رطلِ گراں اُٹھا
نہ یہ فال ہے نہ شگون ہے، نہ یہ وہم ہے نہ جنون ہے
مرے پاس تم ہو سکون ہے، تم اُٹھے کہ دردِ نہاں اٹھا
مرے گھر پہ تو جو ہے میہماں، تو یہ وقت جائے نہ رائے گاں
ابھی اور سُن مری داستاں، ابھی اور لطفِ بیاں اُٹھا
مجھے عرضِ غم کا شعور دے، رُخِ نا اُمید کو نور دے
جو پیام دے جو سرور دے، وہ نگاہِ بادہ فشاں اُٹھا
کسی برقِ حُسن سے دل پھُنکا تو دھواں نہ اٹھنے پہ معترض
یہ بتا، کہ بادِ سموم سے جو چمن جلا تو دھواں اُٹھا
جو چھپا رہے وہ شباب کیا، جو عیاں نہ ہو وہ عتاب کیا
مجھے دیکھ کر یہ حجاب کیا، کوئی تیرِ مار، کماں اُٹھا
نہ یہ دَیر ہے نہ یہ میکدہ، نہ یہ خانقاہ نہ مدرسہ
تری انجمن میں جو آ گیا، تری انجمن سے کہاں اُٹھا
مری بے بسی ہو کہ بے کسی، تری بے رُخی ہو کہ دلبری
کوئی کہہ رہا تھا کہ بیٹھ ابھی، تری بزم سے میں جہاں اُٹھا
سحرِ سکوت فروش نے وہ کِیا کہ شادؔ میں کیا کہوں
کسی حُسنِ زلف بدوش نے جو کہا کہ شورِ اذاں اُٹھا
٭٭٭
جو صورت پہ معنیٰ کو قربان کر دے، کوئی اور ہو گا، مرا دل نہیں ہے
بُتوں کی محبت پہ مائل ہے لیکن بتوں کی خدائی کا قائل نہیں ہے
ستاروں میں تمئیز نظم و سلیقہ، نہیں ہے اگر ذوقِ کامل نہیں ہے
جو دنیا کہ شمعوں سے ترتیب پائے وہ کیا ایک بکھرا ہوا دل نہیں ہے
اِدھر میری آنکھیں طلبگارِ جلوہ، اُدھر اس کے انداز سرشارِ جلوہ
کِنائے مبارک، اشارے سلامت، کوئی فکرِ حالات حائل نہیں ہے
انھیں تم وفادار مانو تو مانو، مجھے اس قدر خوش عقیدہ نہ جانو
ہے یہ بھی وفا کے نہ ہونے میں داخل اگر ان کی عادت کو شامل نہیں ہے
اسے اس طرح دیکھتے رہ گئے ہم، نہ تھے ہوش میں ہم نہ بیہوش تھے ہم
جتاتی رہیں وہ جھجکتی نگاہیں کہ سنبھلو یہ تہذیبِ محفل نہیں ہے
سزاوارِ بزمِ شریعت نہیں ہے، یہ ایمائے ساقی یہ ارشادِ ساقی
عبادت میں آتی ہے وہ مئے پرستی اگر مستی و کیف باطل نہیں ہے
گِنانے لگے آپ جن کی مثالیں یہ صبر و تحمل انھیں کو مُبارک
جو توہینِ بزمِ طرب جھیل جائے مگر محترم وہ مرا دل نہیں ہے
نئی چوکھٹیں، غیر مانوس چہرے نظر آتے ہیں شام کو، منہ اندھیرے
یہ سب کیا ہے اے باغبانو، چمن میں اگر لغزشِ مدِّ فاضل نہیں
تغزل کے استاد، فن کے پجاری نہ اس طرح اے شادؔ مانیں گے ہاری
کہیں گے یہ کیسی غزل ہے کہ جس میں کہیں ذکر محبوبِ قاتل نہیں ہے
٭٭٭
دشمنوں سے جو آسرا لے گی
وہ ضرورت سزا بھی پا لے گی
عرضِ غم ظالموں سے کیا لے گی
اور بے چارگی بڑھا لے گی
ہیں بہاریں یہی تو بادِ خزاں
آگے نظمِ چمن سنبھالے گی
بادۂ غیر سے مگر کَے دن
بزمِ عشرت مزے اُڑا لے گی
ہم سے محفل کو فائدہ کیا ہے
ہم جو رُوٹھے تو کیوں منا لے گی
بزمِ بد خلق دبے ادب کب تک
ہم غریبوں پہ مُسکرالے گی
نہ بتائے اُسے نسیمِ چمن
اس کی خوشبو کہاں چھپا لے گی
میں جو دُنیا کا مُنہ تکوں اے شادؔ
کیا مرے حادثے بٹا لے گی
٭٭٭
دیکھ پاتے ہیں جو ہم کو درمیانِ کوئے دوست
کھڑکیوں سے جھول جاتے ہیں بُتانِ کوئے دوست
پاسدارِ لا مکاں ہے ہر مکانِ کوئے دوست
دوست ہی چاہے تو مِل جائے نشانِ کوئے دوست
جھوٹ بھی کیا کہہ رہے ہیں واقفانِ کوئے دوست
کون دیوانوں کو بتلائے نشانِ کوئے دوست
اوّلاً ہر موڑ پر کچھ ناصحانِ کوئے دوست
اور ان کے بعد جرحِ پاسبانِ کوئے دوست
یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کوچۂ دار و رسن
ہم نہ جانے کر رہے تھے کیا گمانِ کوئے دوست
کوئی سوچے تو جبیں سائی کا حاصل کیا رہا
نا مکمل چھوڑنی ہے داستانِ کوئے دوست
جب شفق کی آڑ میں کوئی سرِ بام آ گیا
جگمگا اٹھی فضائے آسمانِ کوئے دوست
ہر صداقت رنگ لاتی ہے مگر تاخیر سے
دوست بنتے جار ہے ہیں دشمنانِ کوئے دوست
آج کل راتیں بڑی ہیں اس لیے دن گھٹ گیا
تھے کبھی ہم لوگ بھی شایانِ شانِ کوئے دوست
شادؔ بیچارے قصیدے بھی تو کہہ پاتے نہیں
تاجرانِ عصمتِ فن، مدح خوانِ کوئے دوست
٭٭٭
دیکھتا ہوں پھول کو کھویا ہوا شبنم میں ہوں
کوئی کیا جانے کہ کس حالت میں کس عالم میں ہوں
راہزن کی فکر میں ہوں رہ نما کے غم میں ہوں
حادثاتِ منزلِ موہوم کے ماتم میں ہوں
عقل والوں کو جنونِ عشق سے کیا واسطہ
کس کو سمجھاؤں خیالِ گیسوئے برہم میں ہوں
پے بہ پے بیتی ملاقاتوں پہ لکھتا ہوں غزل
مستقل گزرے ہوئے حالات کے ماتم میں ہوں
اس طرح اُن سے نظر ملنے کا عالم یاد ہے
جس طرح مدّت سے شغلِ بادۂ پیہم میں ہوں
آپ کو حاصل نہیں پھیکی ہنسی کا تجربہ
آنسوؤں کے بعد آتا ہے جو اُس عالم میں ہوں
خلوتِ رنگین و کیف آور میں ہو آنے کے بعد
میں کہیں بھی جاؤں، گویا محفلِ محرم میں ہوں
کس لیے آخر زبانِ شیخ ہے اور میرا ذکر
کس لیے آخر نگاہِ قبلۂ عالم میں ہوں
(اصلاح شدہ حضرت فصاحت جنگ جلیلؔ مانکپوری)
٭٭٭
مرا قاصد تقاضے پر تقاضہ کر رہا ہو گا
وہی لیکن جوابِ شوق لکھتے ڈر رہا ہو گا
شبِ وعدہ مری خاطر وہ آہیں بھر رہا ہو گا
نہیں، ایسا خلافِ حُسن ہے، مضطر رہا ہو گا
اگر میں آپ کے کوچے میں سرگرداں نہ تھا شب بھر
تر پھر میری گلی میں آپ کا بستر رہا ہو گا
شبِ مہتاب، وہ پھولوں کا زیور منتشر زلفیں
بہ قولِ راز داں کیا خوش نما منظر رہا ہو گا
تڑپ جاتا ہے دل، بیتاب ہو جاتی ہیں امّیدیں
خیال آتا ہے جب، اس وقت وہ کیا کر رہا ہو گا
وہ نظمِ بزمِ گل الزامِ ماضی جس پہ دھرتے ہو
وہ جیسا بھی رہا ہو، آج سے بہتر رہا ہو گا
ہمیشہ کی طرح مغرب سے پہلے کل بھی وہ ظالم
کبھی بالائے منزل اور کبھی در پر رہا ہو گا
سرِ محفل نگاہِ ناز کِس کِس پر نہیں ٹھہری
نگاہِ ناز کا احسان کِس کِس پر رہا ہو گا
کھِنچی رہیے تو سو سو طرح نظّارے لٹائیں گے
بتوں سے آپ کو بھی واسطہ اکثر رہا ہو گا
بِنا نزدیک آئے شادؔ صاحب دل نہیں ملتے
میں اس کے گھر رہا ہوں گا وہ میرے گھر رہا ہو گا
اسے اے شادؔ دنیائے ادب کی رفعتیں حاصل
جلیل ۱؎القدر کے قدموں پہ جس کا سر رہا ہو گا
۱؎ جلیلؔ مانک پوری سے شادؔ مرحوم نے کچھ عرصہ تک مشورۂ سخن کیا تھا ( مظفر حنفی)
٭٭٭
بت خانوں کو یہ آزادی
اینٹ کی خاطر مسجد ڈھا دی
یہ بد نظمی یہ بربادی
زرّیں جنس گدھوں پر لادی
بڑھتے جاتے ہیں فریادی
آزادی حد پر پہنچا دی
ہم نے ان کو ہمدم کہہ کر
جانے بات کہاں پہنچا دی
شیخ و برہمن دونوں ننگے
پردے کی دیوار گرا دی
تم نے عرضِ حال پہ ہنس کر
ظلم کیا ہے، داد تو کیا دی
بڑھیا شاعر بھی دیکھے ہیں
گھٹیا شعر و سخن کے عادی
سلجھانے کی بات بنا کر
’’ داڑھی‘‘ ’’ چوٹی‘‘ میں اُلجھا دی
ہمسایوں کو ذہن میں رکھ کر
اپنے گھر کو آگ لگا دی
بہرے ہیں اربابِ دولت
کون توقع اے فریادی
’’دھنگنا ‘‘ دے کر چھوڑ دیا ہے
یوں بھی ملتی ہے آزادی
اس نے جب سو تیر چلائے
میں نے ایک غزل چِپکا دی
اب اربابِ طریقت جانیں
شادؔ نے میخانے سے لادی ٭٭٭
حیرتِ جلوۂ محبوب بتاؤں
ڈر رہا تھا کہ کہیں جاگ نہ جاؤں
راستیِ قدِ خوباں پہ نہ جاؤں
فائدہ مند نہیں سرو کی چھاؤں ۱؎
شکوۂ حالِ پریشاں پہ کہا
اس کا مطلب ہے کہ زلفیں نہ بناؤں
آپ ہی مجھ سے کھِنچے رہتے ہیں
میں تو کانٹوں سے بھی دامن نہ بچاؤں
قدرِ گلہائے چمن ہے اس سے
کیوں میں گلچیں کو نہ سینے سے لگاؤں
اہلِ گلشن بھی پرائے تو نہیں
اہلِ گلشن سے بہر طور نبھاؤں
آپ کو کتنی اذیّت ہو گی
میں اگر آپ کی باتوں میں نہ آؤں
شعر اشکوں میں ڈھلے ہیں کیا کیا
جب یہ چاہا کہ اُسے حال سُناؤں
حد کا جب کوئی تعیّن ہی نہیں
غیر ممکن، قدم آگے نہ بڑھاؤں
اپنے ماحول کا نقشہ اے شادؔ
زندگی اپنی بگاڑوں تو بناؤں
۱؎ قافیہ بطور تجربہ
٭٭٭
( تجربۂ قوافی بہ اعتبارِ اتّحاد الصّوت)
ابر ہے، التجائے ساقی ہے
اب یہ اخلاق کے منافی ہے
وہ پشیمان ہیں یہ کافی ہے
شکوۂ جور بد مذاقی ہے
آہ اک امرِ التفاتی ہے
غلطی قابلِ معافی ہے
پھول فانی ہے، خار باقی ہے
حُسن ذاتی نہیں اضافی ہے
ضبطِ فریاد کا اثر دیکھا
وقت آمادۂ تلافی ہے
اقتدارِ خزاں سے بحث نہیں
اعتبارِ بہار کافی ہے
باعثِ شدّتِ جنونِ شوق
آپ کی ’’ واعدہ خلافی‘‘ ہے
اُن کی محفل میں اور ہے بھی کیا
بد مذاقی ہی بد مذاقی ہے
وہی اک چال چل رہے ہیں ہم
’’ یہ ملاقات اتفاقی ہے ‘‘
اس کے چہرے پہ آ گئی تھی زلف
میں یہ سمجھا کہ رات باقی ہے
میں کبھی ناپ کر نہیں پیتا
مجھ کو جتنی ملے وہ کافی ہے
ساعد و ساق پر غزل اے شادؔ
ادب و شعر کے منافی ہے
٭٭٭
ہر نشانِ سجدہ کواس کا نقشِ پا کہہ دوں
دوسرے جو کہتے ہیں اس سے کچھ جدا کہہ دوں
کفرِ ماجرا کہہ دوں، جانِ ما سوا کہہ دوں
اور چاہتے کیا ہو، کیا تمھیں خدا کہہ دوں
ملتفت نگاہوں سے دھو دیا رُخِ ماضی
حافظے کے دامن میں کچھ نہ ہو تو کیا کہہ دوں
وہ قریب سے گزرا بن کے صبح کا جھونکا
اس طرح کہ چپکے سے دل کا مدّعا کہہ دوں
معرفت کی یہ منزل مجھ سے طے نہیں ہو گی
جو مجھے برا سمجھے میں اُسے بھلا کہہ دوں
معرفت کے پرتو سے ماسوا کی رنگینی
اس کو محوِ آرائش خود کو آئنہ کہہ دوں
آگ دے کے گلشن کو، بھُس میں ڈال کر چنگی
پہلے کیا ہوا؟ پوچھوں، پھر ’’برا ہوا‘‘ کہہ دوں
کوئی ٹوک دیتا ہے ورنہ اے ثنا خوانو!
میں بھی اس جفا جو کو سر بسر وفا کہہ دوں
جان کھا چکا ناصح، کان کھ اچکا ناصح
کیا یونہی سُنے جاؤں یا بُرا بھلا کہہ دوں
چشمِ نقدِ جلوہ میں خاک جھونکنی ہو گی
ان اداس پھولوں کو میں جو خوشنما کہہ دوں
فرقِ رہزن و رہبر منطقی بھلاوا ہے
عندلیب کوئل کو، چِیل کو ہُما کہہ دوں
ان کو ہر ’’ ہوا کھاتا‘‘ کہہ رہا ہے اَن داتا
میں بھی اس تخاطب پر کھل کے واہ وا کہہ دوں
اتفاق ممکن ہے، ذکر آ ہی جاتا ہے
ان سے آپ کا قصّہ چھِڑ گیا تو کیا کہہ دوں
جس غزل کے شعروں میں ذکرِ خیرِ گلشن ہو
گا کے پھر عنایت ہو تاکہ جی بجا کہہ دوں
شادؔ ہر غزل پر میں اُن سے پوچھ لیتا ہوں
ندرتِ تخیل کو آپ کی ادا کہہ دوں
٭٭٭
یہاں نہیں ہے وہاں نہیں ہے اِدھر نہیں ہے اُدھر نہیں ہے
مگرکسی طرح دل نہیں مانتا کہ وہ جلوہ گر نہیں ہے
جنونِ الفت پہ طعن کرنے کا یہ محل چارہ گر نہیں ہے
نہیں ہے کچھ کم یہی مصیبت کہ شامِ غم کی سحر نہیں ہے
سحر کے سازِ طرب میں کیسے کہوں نشاط و اثر نہیں ہے
یہ دوسری بات ہے کہ نغموں سے دل مِرا بہرہ ور نہیں ہے
کسی بھی در پر علاجِ آویزشِ یقین و گُماں نہ ہو گا
ادھر چلا آ کہ میکدے میں اگر نہیں ہے مگر نہیں ہے
ہزار ہا سامنے کی باتوں سے جان پڑتی ہے شاعری میں
وہ کون سے پیش پا مضامیں ہیں جن پہ میری نظر نہیں ہے
جبیں پہ بِندی، نظر میں جادو، لبوں پہ بجلی، کمر پہ گیسو
وہ میری حیرت کو دیکھتے ہیں انھیں کچھ اپنی خبر نہیں ہے
نہیں جو قاصد کا آنا جانا، فریب کھانے لگا زمانہ
تو یہ حقیقت، کہ ربطِ بے حد کو حاجت نامہ بر نہیں ہے
نقاب اُٹھنے میں دیر کیوں ہے یہ کون سمجھے یہ کون جانے
کسے خبر ہے کہ خواہشِ دید وقت سے پیشتر نہیں ہے
خدائے دولت کی تجھ کو اے دوست اور پہچان کیا بتاؤں
خدائے دولت وہی ہے جس کو خدائے برتر کا ڈر نہیں ہے
غلط بیانی سے شادؔ اہلِ سخن ابھی کام لے رہے ہیں
نہیں ہے ہر چند وہ زمانہ ’’ دہن نہیں ہے، کمر نہیں ہے ‘‘
٭٭٭
اُداسیوں کی چھاؤں کو سمجھ رہے ہیں نور ہے
یہ آپ کی تمیز ہے یہ آپ کا شعور ہے
تغافلِ کمالِ فن مزاجِ رامپور ہے
تو مجھ سے بے رُخی میں دوستوں کا کیا قصور ہے
وطن فروش کہہ کے جس کو ہونٹ کاٹتے ہیں ہم
وہ اپنے فائدے کے سلسلے میں ذی شعور ہے
شگوفۂ جواں کی طرح کھُل کے مُسکرائیے
نہ سوچیے خزاں چمن کے پاس ہے کہ دُور ہے
جو ریزہ چینِ خوانِ اشقیا رہے ہیں عمر بھر
انھیں کے لب پہ بندگانِ عالی و حضور ہے
اگر لحاظِ رسمِ رہ نُما ضرور ہے اُنھیں
تو کارواں کی عافیت کا پاس بھی ضرور ہے
وطن کو بیچ دے جو اپنے فائدے کے واسطے
وہ ذہن کا پلید ہے وہ دل کا نا صُبور ہے
اگر میں اُٹھ چلوں کہیں گے فن کا اہل ہی نہ تھا
اگر میں جام توڑ دوں کہیں گے بے شعور ہے
اک اجنبی کی طرح اپنی زندگی گزار کر
جہاں میں رہ رہا ہوں وہ مرا وطن ضرور ہے
امامِ فن کہیں گے اس غزل کو دیکھ دیکھ کر
یہ کوئی شاعری ہے جس میں ’’حور‘‘ ہے نہ ’’ طور‘‘ ہے
زمانہ اُن کے باب میں کرے گا شادؔ فیصلہ
وہ کھوکھلے کہ جن کو فنِّ شعر پر غرور ہے
٭٭٭
اسلحہ آٹھ پہر بنتے ہیں
اور پئے امنِ بشر بنتے ہیں
عیب جس وقت ہُنر بنتے ہیں
ظلم ڈھلتے ہیں تو شر بنتے ہیں
کسی دشمن نے سُجھایا ہے انھیں
ڈھا دیے جائیں تو گھر بنتے ہیں
آپ دولت کے پجاری رہتے
آپ احساس نگر بنتے ہیں
کوئی دیوانۂ محفل ہو گا
ہم سرِ راہگزر بنتے ہیں
میکدہ چھوڑ کے جائیں بھی کدھر
آخر انسان کدھر بنتے ہیں
باغباں لاکھ توجّہ برتے
کہیں کانٹے گلِ تر بنتے ہیں
سوچتا ہوں جو اندھیروں کے خلاف
ذہن میں شمس و قمر بنتے ہیں
حاصلِ گریۂ محرومی کیا
اشک دامن پہ صفر بنتے ہیں
اب تو بنتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
اور حالات اگر بنتے ہیں
میرے نغمے نہ سمجھنے والے
سب سمجھتے ہیں مگر بنتے ہیں
خدمتِ قوم و وطن میں اے شادؔ
مرنے والے ہی ’’امَر‘‘ بنتے ہیں
٭٭٭
ناصح جو غلط بین و غلط کار رہا ہے
آنکھوں سے ترُپ ذہن سے نادار رہا ہے
اس وقت کہ ماحول بھی للکار رہا ہے
کیا موقعۂ رنگینیِ اشعار رہا ہے
اِن غم کی گھٹاؤں میں پپیہے کی صدا پر
محسوس یہ ہوتا ہے کہ جھَک مار رہا ہے
ہم تھے سو ہُوئے نذرِ تگ و تازِ معیشت
اب کون حریفِ رسن و دار رہا ہے
تاریخ بتاتی ہے کہ انبوہِ لئیماں
ہر دَور میں ظلمت کا طرفدار رہا ہے
رفتار وہی، ٹھاٹ بھی، تیور بھی وہی ہیں
یہ شخص کسی عہد میں سرکار رہا ہے
سستائے جو رہرو تو نہ دیجے کوئی طعنہ
یہ دیکھیے ہمّت تو نہیں ہار رہا ہے
ہر زاہدِ شب زندہ کے افعال پرکھیے
رہنے کو تو عیاش بھی بیدار رہا ہے
کیوں شرکتِ محفل کی نہیں ہم کو اجازت
ہر پھول کے پہلو میں اگر خار رہا ہے
مہمل ہیں، بھروسہ ہے جنھیں چترِ شہی پر
اک حال میں کب سایۂ دیوار رہا ہے
اس شہرِ سخنداں سے نہیں مجھ کو تعلّق
محبوبِ جہاں قسمتِ اغیار رہا ہے
دس پانچ برس حضرتِ حالی کی طرح شادؔ
مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے
٭٭٭
الفت کے بعد سیرِ چمن لازمی ہوئی
منظر کی خواستگار ہے ’’ گہری چھنی ہوئی‘‘
میں آپ کے سبب سے ہوا واقفِ جنوں
میری وجہ سے آپ کی نام آوری ہوئی
احباب کہہ رہے ہیں کہیں، تم یہ مت کہو
ہر وقت فکرِ شعر، بھلی شاعری ہوئی
دنیا کو ذوقِ نقدِ تماشا نہیں رہا
دُنیا گزر گئی ہے مجھے دیکھتی ہوئی
ہم نے کہا تھا تم سے کہ خطرہ قریب ہے
تم ہم سے کہہ رہے ہو ہماری کہی ہوئی
ایسا ہے جیسے تیر کماں سے نکل گیا
رسوائیوں کے بعد اگر آگہی ہوئی
اُمّید کی کرن کا بھروسہ نہیں ہے شادؔ
جگنو کی روشنی بھی کوئی روشنی ہوئی
٭٭٭
سروں پر جو ساماں اٹھائے کھڑے ہیں
نظامِ وطن کے ستائے کھڑے ہیں
یہ گلچیں جو شاخیں جھکائے کھڑے ہیں
ہزاروں نشیمن گرائے کھڑے ہیں
بتانِ عدوئے وطن آج تک بھی
چمن کی زمینیں دبائے کھڑے ہیں
کریں سنگ میلوں سے کیا استفادہ
اندھیرے میں چہرے چھپائے کھڑے ہیں
انھیں آپ ہوتے تو کیا فرض کرتے
جو رستوں میں شمعیں جلائے کھڑے ہیں
یقیں کیجیے، انقلاباتِ ہستی
محلّات کے سائے سائے کھڑے ہیں
بتوں کی محبت میں شیخِ حرم تک
جبینوں پہ قشقے سجائے کھڑے ہیں
نگاہوں کو محتاط رہنا پڑے گا
مناظر نقابیں اُٹھائے کھڑے ہیں
یہ مفلس، وہ اُجڑے ہوئے پیڑ، دونوں
لباسِ تمدّن لُٹائے کھڑے ہیں
برابر بٹھا کر جو پوچھو تو کہہ دیں
وہ حالات جو ہم چھُپائے کھڑے ہیں
تغافل کا پردہ ہے طرزِ تخاطب
وہ اِس طرح نظریں بچائے کھڑے ہیں
سہارے کی باتوں میں آنا غضب ہے
زمانے کو ہم آزمائے کھڑے ہیں
وہاں شادؔ میں نا مناسب رہوں گا
جہاں دوسرے بن بُلائے کھڑے ہیں ٭٭٭
یہ راہزن ہوں کہ رہرَو ذرا گزر جائیں
ہم اِتنی دیر کسی آڑ میں ٹھہر جائیں
جو چاہتے ہیں کہ گیسو ترے سنور جائیں
سنور گئے تو کہیں گے کہ پھر بِکھر جائیں
جب آئے ہیں تو دبے پاؤں کیوں گزر جائیں
انھیں پکار کے سجدے نثار کر جائیں
کہیں پڑوس ، نہ در تک نہ بام پر جائیں
جو ہم پہ ہوں یہی پابندیاں تو مر جائیں
اٹھا رہے ہیں جو لطفِ شبابِ آئینہ
ضمیر اپنے اگر دیکھ لیں تو ڈر جائیں
یہ تشنگیِ نظر ہے عدم تخاطب تک
اُٹھائے آنکھ جو ساقی تو جام بھر جائیں
بھٹک رہے ہیں مگر یہ تو فائدہ ہے اُنھیں
یہ کارواں سے الگ ہیں، کہیں ٹھہر جائیں
اگر عقیدت و پاکیزگی بھی شامل ہو
یقین ہے کہ دعائیں نہ بے اثر جائیں
منافقانِ ادب بعد انقلاب اے شادؔ
منافقوں کی سزائیں سُنیں تو ڈر جائیں
٭٭٭
پوچھو تو رہنما سے یہ کون مرحلہ ہے
منزل سے قافلے کا اُتنا ہی فاصلہ ہے
دامانِ آرزو تک اشکوں کا مشغلہ ہے
ساحل کی جستجو میں موجوں کا قافلہ ہے
نقشِ قدم نہ جادہ، تھکنے لگا ارادہ
کیا جانیے کہاں تک کانٹوں کا مرحلہ ہے
اپنے نشیمنوں میں دورانِ برق و باراں
کانپو تو بُزدلی ہے سنبھلو تو حوصلہ ہے
اربابِ مقتدر پر مشکل ہے نکتہ چینی
رہزن سے بھی زیادہ رہبر کا مسئلہ ہے
اتنے جہاں دیے ہیں، اک جام اور ساقی
اب مجھ سے بیخودی کا تھوڑا ہی فاصلہ ہے
تشبیہہ و استعارہ ہے پردہ دارِ الفت
رُودادِ بلبل و گل اپنا ہی مسئلہ ہے
اُجڑے نشیمنوں کی تاویل کے علاوہ
ہر انقلابِ گُلشن فطرت کا مشغلہ ہے
ذہنی جراحتوں کو کیسے بیاں کریں گے
رنگینیِ تغزّل گر دل کا مشغلہ ہے
جیسے کوئی سفینہ ڈُوبا ہی چاہتا ہو
اب شادؔ اس محَل پر اُردو کا مسئلہ ہے
٭٭٭
فریبِ رسمِ محبت جو پا گیا ہوں میں
خطا معاف اگر بھولنے لگا ہوں میں
تمھارے عشق میں جس دن سے مبتلا ہوں میں
سکونِ قلب و جگر کو ترس گیا ہوں میں
تم اور زیورِ حُسنِ وفا، معاذاللہ
فریبِ دامِ وفا میں پھنسا رہا ہوں میں
خدا کرے تمھیں آغوشِ غیر کی زینت
خدا کرے کہ یہ سچ ہو جو سُن رہا ہوں میں
تم اور چاہنے والے مرے، سراسر جھوٹ
جو بھید تم نے چھپائے ہیں جانتا ہوں میں
جھٹک کے ہاتھ سے دامن کو جانے والے، بس
ترے خیال کا دامن بھی چھوڑتا ہوں میں
غزل کے رنگ میں باتیں پتے کی کہہ کر شادؔ
کسی کے قلب میں نشتر چُبھو رہا ہوں میں
٭٭٭
بیکَسی میں سابقہ پڑنے پہ اندازہ ہوا
آپ کو میں دوست سمجھا تھا بڑا دھوکا ہوا
جب گریباں گیر ہو جاتا ہے ٹھکرایا ہوا
سوچتا ہے تب تو ہر ظالم، ارے یہ کیا ہوا
کر رہے ہیں آج من مانی تو گستاخی معاف
کل جو اس بابت سوال اُٹھا، اگر چرچا ہوا
اس کا دامن چھوڑ دینے کے کوئی معنی نہیں
جب نظر آتا ہے دل بھی ہاتھ سے جاتا ہوا
التماسِ حال پر ہلکی ہنسی کے باوجود
ماننا پڑتا ہے بے شک آپ کو صدمہ ہوا
پھر سوالِ امتحانِ آرزو زیبا نہیں
کیوں دوبارہ دیکھتے ہو آئینہ دیکھا ہوا
حال کو ماضی بنانے کی نہ کوشش کیجیے
جا نہیں سکتا پلٹ کر انقلاب آیا ہوا
کر رہے ہیں جس نتیجے سے مجھے آگاہ آپ
وہ نتیجہ ہے مرا سوچا ہوا، سمجھاہوا
تلخیِ گفتار کی تائید میں خطرہ ہے شادؔ
مجھ سے بچتے ہیں اگر نقادِ فن تو کیا ہوا
٭٭٭
سر سے ٹوپی گر جائے گی گردن دُکھ کر رہ جائے گی
تب میرے اہرامِ معنیٰ تک تنقید پہنچ پائے گی
میرے شعروں پر وہ جس دن بگڑے گی یا شرمائے گی
شادؔ اسی دن ساری محفل رازِ الفت پا جائے گی
سیدھی سادی باتیں کہہ کر فن دانی پر ناز غلط ہے
شہ راہوں پر چلنے والی منڈلی کیا ٹھوکر کھائے گی
تیرے رنگ پہ مرنے والے تجھ کو آج شگوفہ کہہ لیں
تیری آنکھ سے خوں برسے گا تیری زلف غضب ڈھالے گی
خلقی کج بحثی کے باعث اچھے مستقبل کی بابت
وہ کہتے ہیں گھٹا امڈے گی میں کہتا ہوں خبر آئے گی
زاہدِ قبلہ ہوں یا قاضی، ان سے مَیخانے آتے ہی
کوئی لطیفہ سرزد ہو گا کوئی حماقت ہو جائے گی
میرے ہوتے وہ سنجیدہ رہ جائے، حد بھر نا ممکن
آنچل مچلے گا، سنبھلے گا، شوخ نگاہی اِترائے گی
?فن کے جلوہ پاش کلس کو تکتا کیا ہے تو اے حاسد
فن کے جلوہ پاش کلس تک چشمِ زخم نہ جا پائے گی
وہ چاہیں تو ان کی دولت میرے کام نہیں آ سکتی
شادؔ مرے شعروں سے لیکن ان کی شہرت ہو جائے گی
٭٭٭
قدم سنبھل کے بڑھاؤ کہ روشنی کم ہے
اگر یہ بھول نہ جاؤ کہ روشنی کم ہے
گھروں کو آگ لگاؤ کہ روشنی کم ہے
یہیں سے بات بناؤ کہ روشنی کم ہے
جواب یہ کہ کوئی رہنمائے قوم ہیں آپ
اگر کسی کو بتاؤ کہ روشنی کم ہے
سحر کو شام سمجھنا جو بس کی بات نہیں
یہی سوال اٹھاؤ کہ روشنی کم ہے
صدا لگاؤ کہ آنکھیں عجیب نعمت ہیں
انھیں یقین دلاؤ کہ روشنی کم ہے
کہیں جھپٹ نہ پڑیں دن میں مشعلیں لے کر
عوام کو نہ سُجھاؤ کہ روشنی کم ہے
رَوا نہیں کہ کسی ڈوبتے ستارے کو
چراغِ راہ بناؤ کہ روشنی کم ہے
سوادِ شام کے خاموش جگنوؤں سے کہو
تمھیں چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے
ذرا پہنچ کے تو دیکھو سوادِ منزل تک
تم اس خبر پہ نہ جاؤ کہ روشنی کم ہے
ہزار سال تو رہتا نہیں عبوری دَور
فساد خوب اُگاؤ کہ روشنی کم ہے
یہ شاعرانِ غلط بِیں کہیں گے اک دن شادؔ
ہمیں چراغ دکھاؤ کہ روشنی کم ہے
٭٭٭
عہدِ مایوسی جہاں تک سازگار آتا گیا
اپنے آپے میں دلِ بے اختیار آتا گیا
جس قدر خدشہ خلافِ انتظار آتا گیا
وہ مرے نزدیک مثلِ اعتبار آتا گیا
کچھ سکوں، کچھ ضبط، کچھ رنگِ قرار آتا گیا
الغرض اخفائے رازِ قربِ یار آتا گیا
اُڑتے اُڑتے اس کے آنے کی خبر ملتی رہی
بال کھولے مژدۂ گیسوئے یار آتا گیا
مسترد کرتا رہا میں اس کی دل آویزیاں
میری الغرضی کی ضِد میں اُس کو پیار آتا گیا
جستہ جستہ لہلہایا گلشنِ زخمِ جگر
رفتہ رفتہ دستۂ گُل پر نکھار آتا گیا
نیند آنکھوں میں مگر آتی گئی اُڑتی گئی
دوش نگہت پر پیامِ زلفِ یار آتا گیا
اُس نے جس حد تک بھی ہم سے داستانِ غم سُنی
ہم کو اُس نسبت سے فنِّ اختصار آتا گیا
اس کے رجحانِ نظر میں دلکشی پاتے ہوئے
اعتبارِ گردشِ لیل و نہار آتا گیا
غالباً یہ بھی ہے میری کامیابی کا سبب
اپنی ناکامی پہ غصہ بار بار آتا گیا
اُن میں شامل مسکراتے پھول بھی تارے بھی ہیں
جن دریچوں سے شعورِ حُسنِ یار آتا گیا
آگے آگے آشیانے خار و خس چنتے چلے
پیچہ پیچھے تختِ طاؤسِ بہار آتا گیا
رنگ لائے گی ہماری تنگدستی۱؎ ایک دن
مثلِ غالبؔ شادؔ گر سب کُچھ اُدھار آتا گیا
۱؎ فاقہ مستی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ غالبؔ
٭٭٭
مطلع کہا ہے، نظمِ وطن کا گلہ نہیں
’’ پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں ‘‘
پائی ہے وہ نظر جو غلط آشنا نہیں
ہم کو بھی آسرا ہے مگر آپ کا نہیں
باطن ہے آستین میں خنجر لیے ہوئے
اُن کا کوئی سلوک بہ ظاہر بُرا نہیں
منزل کی سمت مرحلۂ اعتماد میں
پہلا قدم یہ ہے کہ کوئی رہ نما نہیں
کیسے کہیں وہ دشمنِ ایمان و آگہی
دانندۂ طریقۂ اہلِ وفا نہیں
جتنا سمجھ رہے ہیں بُتانِ صنم کدہ
اتنا غلط شناس دلِ مُبتلا نہیں
جس باغباں کے ساتھ لڑے تھے خزاں سے ہم
ایسا بدل گیا کہ ہمیں جانتا نہیں
جتنا بھی بچ رہا جو نشیمن، بہت ہے وہ
کتنے ہی آشیاں تھے کہ جن کا پتہ نہیں
وہ محفلِ نشاط جہاں ہم نہ جا سکیں
ایسی غزل ہے جس سے کوئی فائدہ نہیں
الزام دے کے سعیِ تلافی نہ کیجیے
ہم خود ہی کہہ رہے ہیں قصور آپ کا نہیں
پاکیزگیِ نگہتِ گُل بھی تو چاہیے
پردہ ضرور کیجیے، پردہ بُرا نہیں
گزرا گمانِ شکوۂ بے جا حضور کو
ہم عرض کر رہے تھے ہمیں کچھ گِلہ نہیں
بربادیِ چمن سے تعلق ضرور ہے
آزادیِ وطن سے ہمیں واسطہ نہیں
ساقی کو مصلحت ہی برتنی پڑے گی شادؔ
جب تک بھی میکدے کی بقایا ادا نہیں
٭٭٭
کب خس و خاشاک میں بجلی چھُپی رہتی نہیں
ورنہ ہر شاخِ نشیمن کیوں ہری رہتی نہیں
جا کے اشکِ شاد مانی تک ہنسی رہتی نہیں
دل لگی حد سے گزر کر دل لگی رہتی نہیں
سرخوشی ’’آتی ہَوا ہے ‘‘ میکدے کی سمت سے
بیکَسی جاتی گھٹا ہے۔ بیکسی رہتی نہیں
بیخودی کا کوئی بھی گوشہ اگر تشنہ رہے
ایک سی کیفیتِ خود آگہی رہتی نہیں
سامنے افضل کے ادنیٰ پا نہیں سکتا فروغ
صبح کو تاروں کے اندر روشنی رہتی نہیں
آدمی خود رنگ بھر لیتا ہے وقتی طور پر
آدمی کے ذہن میں نیکی بَدی رہتی نہیں
زلف کو زنجیر کہہ دینا بھی کوئی بات ہے
’’ حلقۂ صنعت گری‘‘ میں شاعری رہتی نہیں
صرف اک دلکش تماشا صرف تحریفِ نظر
ہر چمکتی چیز میں تابندگی رہتی نہیں
جس میں ہوتی ہیں تعصّب کی غلط افزائیاں
ہم نے دیکھا ہے کہ وہ محفل جمی رہتی نہیں
اُن کے ہاں جاتے ہوئے حد بھر گھٹن ہوتی ہے شادؔ
جِن کے ہاں میرے نہ ہونے سے کمی رہتی نہیں
٭٭٭
مکمل ڈاؤن لوڈ کریں