FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

مقصود کائنات

حافظ محمد ایوب دہلوی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

….. مکمل کتاب پڑھیں

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی

سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی

زیبا منظر 1، شرف آباد 5، شہیدِ ملت روڈ کراچی

علامہ حافظ محمد ایوب صاحب مرحوم و مغفور کی خدمت میں جن اہل علم کو حاضری کا موقع ملتا تھا، وہ ان کے تبحرِ علمی کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔  اس کا سبب یہ تھا کہ علامہ موصوف کو علوم معقول و منقول میں حیرت انگیز دستگاہ تھی، اس زمانے میں ایسے علماء جو علم الکلام میں اس درجہ امتیازی قابلیت کے حامل ہوں نظر نہیں آتے۔ منطق و فلسفہ اور قرآن و حدیث کے علوم کا ایسا امتزاج دوسروں کی تصانیف میں مشکل سے ملتا ہے، اس پر مستزادیہ کہ مولانا کا علم اس قدر حاضر تھا کہ ان کی تقریر معانی و معارف سے لبریز ہوتی تھی، وہ بے تکان مسلسل ایسی علمی تقریر کرتے تھے کہ دوسروں کو غرق ریزی اور مطالعے کے بعد بھی تحریر تک میں وہ بات پیدا کرنی دشوار ہوتی تھی۔  ان کے برجستہ ارشادات نکات و حقائق کا خزینہ ہوتے تھے۔  ان کی تقریروں کے ملحض دو کتابیں ’ختمِ نبوت اور ’فتنہ انکارِ حدیث‘ اگرچہ مختصر ہیں لیکن ہرچہ بقامت کمتر بہ قیمت بہتر کی پوری طرح مصداق ہیں۔ مکتبہ رازی نے ان دونوں کتابوں کو شائع کر کے کثیر تعداد میں تقسیم کیا ہے اور ان سے ہزاروں مسلمان فیض یاب ہوئے ہیں۔

اوّل الذکر (ختمِ نبوت) کا انگریزی ترجمہ بھی ہوا ہے اور نظر ثانی کے بعد انشاء اللَّہ عنقریب شائع ہو جائے گا۔ اور فرانسیسی زبان میں ترجمہ کی پوری کوشش ہو رہی ہے۔ حضرت علامہ کی تقریروں کے ٹیپ ریکارڈ موجود ہیں جن سے بہت سے قابل اشاعت اور گراں قدر رسالے مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان کے معتقدین میں علماء اور دیگر مخلص افراد کی ایسی جماعت موجود ہے جو اس خدمت کو عبادت سمجھ کر انجام دے رہی ہے۔ اس جذبہ خدمت کا ایک ثمر ’مقصودِ کائنات‘ بھی ہے جو بہت سے دینی حقائق پر مشتمل ہے۔ لیکن جس کا ماحصل یہ ہے کہ ’مقصودِ کائنات‘ حضورِ ختمی مرتبت کی ذات گرامی تھی، اس لئے کہ انہی پر اعلیٰ ترین افضالِ الٰہی کا خاتمہ ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو ایمان کے ذریعہ سے ضلالت و گمراہی کی ظلمت سے نکال کر رشد و ہدایت کے نور میں داخل کرنے کاجو اہتمام مشیت الٰہی کی طرف سے ہوا تھا، اس کا کمال حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی وساطت سے عالَم شہود میں آیا۔

میں نے اس کتاب کے مسودہ کا بالاستعیاب مطالعہ کیا ہے، اس میں قول و فعلِ الٰہی کے رشتے اور مقامِ اسلام اور دیگر ادیان کا تعلق و امتیاز تمام مخلوقات بالخصوص ملائکہ پر انسان کی برتری اور اس قسم کے دوسرے مباحث پر قرآن کریم کی روشنی میں فلسفیانہ بحثیں ہیں، جن سے مسلمانوں کے کلاسیکی علمِ کلام کی عظمت دلنشین ہوتی ہے۔  اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن طبائع کے لئے یہ علمِ کلام عالَم وجود میں آیا تھا اس میں فلسفیانہ مسائل اور عوامق کو سمجھنے کی کس درجہ صلاحیت موجود تھی فی زمانہ منطق و فلسفہ کی کساد بازاری کی وجہ سے۔ نیز فکر کی افتاد بدل جانے کے باعث ان کتابوں کی تصنیف نا ممکن ہو گئی ہے۔ اس عمق کے باوجود تحریر ایسی نہیں ہے جو معمولی استعداد کے قاری کے فہم سے بالاتر ہے اور اس سے استفادہ نہ کر سکے۔ البتہ یہ کتاب ایسی نہیں ہے کہ اس سے سرسری طور پر پڑھ لیا جائے، بلکہ اس کے مطالب فکر کی دعوت دیتے ہیں اور ذہن کو مزید جستجو کی طرف راغب کرتے ہیں، لیکن فکر و جستجو کو دونوں کو وہی نہیں چھوڑ دیتے بلکہ ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔

ہر زمانے میں حقائق کا فہم اس عہد کے فکر کے ماتحت ہوتا ہے جس میں عصری رجحانات کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے لیکن حقیقت نہیں بدلتی نہ اس کا ادراک بدلتا ہے، صرف محاورہ اور الفاظ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس کتاب کا طرزِ تخاطب کلاسیکی ہے لیکن حقائق وہ ہیں جو ہر زمانے میں دعوتِ مطالعہ دیتے رہیں گے اور استوری عقیدہ میں معاون ہوں گے۔  اسلام کی عظمت اور تعلیم کی عمدگی پوری طرح سمجھ میں اس وقت آتی ہے جب اس کی ہمہ گیری اور رفعت کا گہرے مطالعے کے ذریعے سے اندازہ لگایا جائے۔  میرا خیال ہے کہ ’مقصودِ کائنات‘ کے مطالعہ سے اس مطالعہ کے اسلوب واضح ہوں گے۔

(17 اگست 1973ء)

٭٭٭

گزارش

زیرِ نظر کتاب کی افادیت کا اندازہ ناظرین کو ہو جائے گا، حضرت علامہ رحمۃ اللہ علیہ کے بیش بہا مضامین کا ایک بڑا ذخیرہ ٹیپ ریکارڈ کی شکل میں بحمد للہ محفوظ ہے، اس ذخیرے میں متعدد عنوانات پر بحث کی گئی ہے اور بڑے نادر مضامین آ گئے ہیں۔ یہ ذخیرہ حاجی محمد صدیق صاحب، طیبی سینٹر شاہراہِ لیاقت کراچی، کے پاس محفوظ ہے اور اس کی مجموعی تعداد 300 ٹیپوں پر مشتمل ہے۔ اہلِ خیر اور اہلِ نظر حضرات جن کو دینی علوم کی اشاعت کا ذوق ہو، درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان بیش بہا مضامین کی اشاعت کا انتظام اپنی ذمے لیں اور ثوابِ دارین حاصل کریں۔ قوم کی بڑی بد قسمی ہو گی اگر ایسے فاضل علامہ کے افکار اور خیالات عوام الناس تک نہ پہنچ سکیں اور یہ ذخیرہ تلف ہو جائے۔  مولانا موصوف کی حیثیت مسلمانانِ عالَم کے لئے فردِ واحد تھی، جواب ہم سے ہمیشہ کے لئے جُدا ہو گئی۔ امید کی جاتی ہے کہ صاحبِ ذوق حضرات متوجہ ہوں گے اور اس عظیم اور بیش بہا علم کی قدر کریں گے۔

حضرت علامہ اس دار فانی سے رحلت پا چکے ہیں، اس لئے قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ حضرت کے لئے ایصالِ ثواب کریں۔ (ادارہ) یہ کتابچہ مولوی صاحب کے ٹیپ ریکارڈ کی ہوئی تقریر سے نقل کیا گیا ہے۔

ہمارا مقصد

خالص علمی سطح پر دلائل و براہین کے ساتھ مخالفینِ اسلام کے پھیلائے ہوئے مغالطوں کا جواب دینا اور اسلامی عقائد و تعلیمات کی حقیقی روح سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا۔

٭٭٭

اَعُوْذُ بِاللّٰہ

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمْ: ’میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں شیطان مَردود سے۔‘ یہ اَعُوْذ جو ہے یہ عُوذ سے مشتق ہے، اس کے معنی چمٹنے اور فریاد کرنے کے ہیں۔  اَعُوْذ کے یہ معنی ہوئے کہ میں چمٹتا ہوں یا فریاد کرتا ہوں دونوں معنی لگتے ہیں۔ چمٹنا تو وہ ہے کہ نابالغ بچہ کسی بُری شئے سے جب ڈر جاتا ہے وہ باپ کو، استاد کو یا کسی بڑے کو جا کر چمٹ جاتا ہے۔  اور جو بڑا ہوتا ہے، بالغ ہوتا ہے وہ فریاد کرتا ہے کہ اس کے شر سے مجھے بچاؤ دونوں معنی ہو سکتے ہیں۔  اللہ سے میں چمٹتا ہوں یا فریاد کرتا ہوں، کس سے؟ شیطانِ مَردود سے۔  شیطان تو اس قابل نہیں ہے کہ اس سے پناہ مانگی جائے یا اس سے ڈرا جائے یا وہ کوئی بُری چیز نہیں ہے، کیونکہ وہ بہت عرصے جنت میں فرشتوں کے ساتھ رہا اس لیے بذاتہٖ وہ بُری چیز نہیں تھا۔ بلکہ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم میں شر کا لفظ محذوف ہے مِنَ الشَّرِ الشَّیطَانِ الرَّجِیم یعنی شیطان کے شر سے جو شر اس سے بعد میں ظاہر ہوا اس شر سے میں پناہ مانگتا ہوں، نفسِ شیطان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔  اس لئے کہ جس قدرت سے شیطان بنا ہے یہ وہی قدرت ہے جس سے ملائکہ اور انبیاء علیہم السلام بنے ہیں، ایک ہی قدرت کے دونوں نتیجے ہیں۔  جہاں تک قدرت کا تعلق ہے دونوں کے دونوں ہی ایک قدرت سے بنے ہیں، اس لئے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، خرابی اس کے شر میں ہے۔

اور وہ شر کیا ہے؟ جس وقت یہ حکم ہوا:  وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕکَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (سورت البقرہ 2 آیت 34) ’اور جب کہا ہم نے فرشتوں سے سجدہ کرو آدم علیہ السلام کو۔  فَسَجَدُوْۤا پس سب نے سجدہ کیا۔ اِلَّاۤ اِبْلِیسَ بجز ابلیس کے۔ لَمْ یکُنْ مِّنَ السّٰجِدِینَ (سورت الاعراف 7 آیت 11) ’وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں تھا۔‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ (سورت الاعراف 7 آیت 12) ’اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تجھے کس چیز نے منع کیا سجدہ کرنے سے میرے امر کے بعد؟‘ قَالَ اَنَا خَیرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِینٍ (سورت الاعراف 7 آیت 12) ’شیطان نے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں اور اپنے اس دعوے کے ثبوت میں یہ کہا کہ تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔‘

اور یہ مقدمہ یہاں محذوف ہے کہ آگ، مٹی سے بہتر ہے اور بہتر سے جو چیز بنائی جائے گی وہ بہتر ہو گی، اس شئے سے جو بدتر سے بنائی جائے۔  چونکہ ’میں آگ سے بنا ہوں اور آدم مٹی سے بنا ہے اس لئے میں آدم سے بہتر ہوں‘ یہ مقدمہ یہاں مذکور نہیں ہے۔  اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ کہا کہ کوئی شئے مانع نہیں ہے، پھر بتا کس وجہ سے تُو نے سجدہ نہیں کیا؟ شیطان نے کہا، در حقیقت یہ امر جو ہوا ہے یہ لا قانونی ہے، خلافِ قانون ہے، قاعدہ تو یہ تھا کہ میں بہتر تھا مجھ کو سجدہ کرایا جاتا، یہ بدتر تھا یہ ساجد ہوتا اور اس نے اپنے بہتر ہونے کی یہ دلیل بیان کی کہ میرا مادہ اس کے مادہ سے بہتر ہے۔  چونکہ یہ دلیل غلط تھی کہ اس نے استدلال کیا اپنے مادہ کی خوبی سے اپنی خوبی پر، یہ اس کی شیطنت ہے، یہ اس کا شر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کوئی شئے مانع نہیں ہے۔

دِقّت اس میں کیا تھی؟ اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ یہ جتنے محاسن ہیں اور حُسن ہیں یہ سب اشیاء کی صفتیں ہیں فلاں شئے اچھی ہے، فلاں شئے بُری ہے، چیزوں کی اچھائی اور بُرائی، اچھے اور بُروں کی خصلتوں کی صفت ہے۔  اور یہ جتنے واقعات ہیں، جتنے حقائق ہیں یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے افعال ہیں اللہ ان کا فاعل ہے۔ اور یہ آیت جو ہیں الم ذَالِکَ الْکِتَاب سے وَالنَّاس تک یہ اللہ تعالیٰ کے اقوال ہیں، یہ زمین اور آسمان، سورج، چاند وغیرہ یہ سب اشیاء ہیں یہ سب اس کے افعال ہیں۔  تو شیطان نے قولِ الٰہی کو فعلِ الٰہی کے تابع کر دیا کہ جو فعل اچھا ہو اس کے تحت حکم اور قول ہونا چاہیئے، یہاں معاملہ اُلٹا ہو گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو حکم دیا کہ ’آدم کو سجدہ کر‘ اس حکم کو اس نے نہیں مانا اور یہ کہا کہ چونکہ یہ حکم بے قاعدہ ہے۔  قاعدہ یہ ہونا چاہیئے تھا کہ جو اچھی چیز ہے اسے سجدہ کیا جائے اور جو بُری چیز ہے وہ سجدہ کرنے والوں میں ہو، یہ بات شیطان نے بیان کی۔  تو اس نے کیا کیا؟ اس نے یہ کیا کہ قولِ الٰہی کو فعلِ الٰہی کے تابع کر دیا۔  وہ جو اللہ تعالیٰ کا قول تھا کہ ” آدم کو سجدہ کرو ” اس حکم کو اس نے حقائق کے واقعات کے تابع کر دیا جو فعلِ الٰہی ہیں، اسی غلطی کا نام شیطنت ہے:  وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِینَ (سورت البقرہ 2 آیت 34) ’یوں وہ کافروں میں سے ہوا۔‘ پہلے وہ ملائکہ میں شامل تھا، سجدہ کے حکم میں بھی شامل رہا، جنت میں بھی شامل رہا اور جو ملائکہ کی حالت تھی وہ اس کی بھی حالت تھی۔  اس کی شیطنت اور اس کا شر یہ ہوا کہ اس نے قولِ (امر) الٰہی کو فعلِ الٰہی کے تابع کر دیا، یہ اس سے غلطی ہوئی ہے اور یہی غلطی تمام حکماء کو اور تمام عقلاء کو اس نے سکھائی ہے، جس سے فلسفہ بنا ہے۔  در حقیقت فلسفیت جو ہے اصل میں شیطنت ہے، کیونکہ یہ جتنے بھی احکام علوم ہیں یہ عقل کے ماتحت ہیں۔  عقل کے ماتحت ہونے کے معنی یہ ہیں کہ واقعات کے ماتحت۔  واقعات کیا ہیں؟ یہ افعالِ الٰہی ہیں جن کے تابع قولِ الٰہی کو کر دیا، یہی تعلیم اس نے اپنے تمام متبعین کودی ہے۔ اور جتنے بھی مذاہبِ باطلہ ہیں سب اسی سے بنے ہیں کوئی باطل مذہب ایسا نہیں ہے کہ شیطان کے ان خیالات سے بچا ہوا ہو بلکہ انہی سے بنا ہے۔

اب آپ غور کریں اور اس کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس میں غلطی کیا ہے؟ یہاں اس نے گفتگو استدلال میں نہیں کی، اس کے مقدمات جو تھے وہ سب مشکوک ہیں، اگر ان کو حق تسلیم کر لیا جائے تب بھی وہ غلط ہیں۔  پہلی بات اس نے یہ کہی ہے کہ ’مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے پیدا کیا۔‘ دوسری یہ کہ ’آگ مٹی سے بہتر ہے۔‘ یہ مقدمہ یہاں مذکور نہیں ہے یہ مقدمہ مشکوک ہے اور غلط ہے۔  اس نے اس پر استدلال کیا کہ آگ کا حیر الطبعی جو ہے وہ اُوپر ہے، خفیف ہے، ہلکی چیز ہے مٹی مرکز میں ہے، بھاری چیز ہے خفیف، ثقیل اور بھاری چیز سے افضل ہوتی ہے، یہ دونوں مقدمے مشکوک ہیں صحیح نہیں ہیں۔

قُلْ اَفَاُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکُمْ اَلنَّارُ (سورت الحج 22 آیت 72) آگ کو فرمایا کہ بدترین چیز ہے۔ اس نے آگ کو بہتر سمجھا ان تمام مقدمات میں گفتگو نہیں کی جا رہی ہے۔ یہ اگر صحیح بھی ہوں تب بھی یہ استدلال جو ہے غلط ہے۔  اس کے اندر کیا خرابی ہے؟ کہ اس قولِ الٰہی کو فعلِ الٰہی کے تابع کر دیا۔ یہ غلطی ہوئی ہے کہ فعل کے تابع حکم ہونا چاہیئے، یعنی حُسن و قبح کے ماتحت احکام ہونے چاہئیں۔  نماز میں حُسن ہے تو اس کے ماتحت حکم ہونا چاہیئے، نماز پڑھو۔ جھوٹ بولنے میں عیب ہے، نقص ہے اس کے ماتحت حکم ہونا چاہیئے، جھوٹ نہ بولو۔  یہ بات نہیں ہے کسی خوبی کی بناء پر نماز کا حکم نہیں ہوا ہے، کسی بُرائی کی بناء پر جھوٹ کی ممانعت نہیں ہوئی ہے، کسی حُسن کے ماتحت کوئی امر نہیں ہوا ہے اور کسی قباحت کے ماتحت کوئی نہی اور ممانعت نہیں ہوئی ہے۔  بلکہ اگر ایسا ہو گا تو قدرتِ الٰہیہ یعنی حکمِ الٰہی جو ہے وہ مادہ کے تابع ہو جائے گا اور یہ نقصِ عظیم ہے قدرت کے منافی ہے، اس لئے ایسا نہیں ہو سکتا، وہ قادر مطلق ہے جو چاہے حکم دے۔ پس جو حکم دے دے وہ اچھا ہے، جس شئے کا حکم دے وہ اچھی ہے، یہ نہیں ہے کہ جو اچھی شئے ہو اس کا حکم دے، جس شئے کو منع کرے وہ بُری ہے۔  جیسے چوری ہے، جھوٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔  یہ جتنی چیزیں ہیں ان کی بُرائی کی بناء پر ممانعت نہیں ہے بلکہ بعض جگہ یہ چیزیں جو ہیں حُسن قرار دے دی ہیں۔  جھوٹ کی بُرائی کی بناء پر جھوٹ کی ممانعت نہیں ہے بلکہ جھوٹ کی ممانعت کی بناء پر جھوٹ کی بُرائی ہے۔  جیسے اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دشمن گھیر لے، کسی مکان میں وہ جا کر چھپ جائیں اور لوگ سچ بول دیں کہ ہمارے یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم چھپے ہوئے ہیں، اگر دشمن گرفتار کر لیں تو ایسا صادق القول شخص جو ہے وہ فرعون اور ابو جہل سے بھی بدتر ہے جو سچ بول کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑوا دے، اس سے پتہ چل گیا کہ خود جھوٹ میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔  اگر اللہ تعالیٰ منع نہ کرتا تو کوئی بات نہ تھی اس کے منع کرنے سے بُرا ہوا، کسی چیز میں بھی کوئی خرابی نہیں تھی۔  جس شئے کا نام اس نے خراب رکھ دیا وہ خراب ہو گئی، جس کا نام اچھا رکھ دیا وہ اچھی ہو گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی بات سچی اور حق اور اچھی نہیں کہتا اللہ تعالیٰ اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔  آپ سمجھ گئے؟ اللہ تعالیٰ جو بات کہتا ہے اس کے کہتے ہی وہ سچ ہو جاتی ہے۔  وہ سچ نہیں کہتا پہلے سے کوئی شئے سچی نہیں ہوا کرتی جس کے ماتحت اس کا قول ہو، بلکہ قولہ الحق اِدھر اس نے کہہ دیا ’ہو جا‘ بس وہ ہو جاتی ہے۔  اس نے لکڑی کو کہہ دیا کہ اژدھا بن جا، اژدھا بن گئی، یہ واقعہ کے خلاف بات ہوئی۔  اس نے آگ کو کہا ٹھنڈی ہو جا، وہ ٹھنڈی ہو گئی، جو بات وہ کہتا ہے وہ قطعی سچی ہے۔  لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سچی پہلے سے ہو اور اس کے ماتحت اس کا قول ہو بلکہ قول الحق اس کا قول ہی حق ہے۔  یہی حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے دونوں ایک ہی لائینیں ہیں، اللہ اور اللہ کے رسول کا جو قول ہے۔  یہ نہیں ہے کہ پہلے سے کچھ سچ، کچھ حقانیت موجود ہو اس میں سے اُٹھا کروہ پیش کر دیتے ہیں۔  نہیں، بلکہ جو وہ پیش کر دیتے ہیں وہ حق ہو جاتا ہے، اِدھر کہا اور اُدھر وہ حق بنا۔

سچ اس کو کہتے ہیں جو واقعہ کے مطابق ہو، اس مطابقت کا نام سچ ہے اور وہ بات سچی کہلاتی ہے۔  واقعہ کسے کہتے ہیں؟ یہ اشیاء، یہ کائنات یہ یہی حقائق ہیں، حکایت کا واقعہ کے مطابق ہونا اس مطابقت ہی کا نام سچ ہے۔  گویا سچ واقعات کے تابع ہو گیا تو یہ ہمارے یہاں رائج ہے مکلفین میں، انسانوں میں، ملائکہ میں، جنوں میں، مخلوقات میں۔  خدا کے ہاں یہ رائج نہیں ہے کہ اس کا قول جو ہے وہ واقعات کے تابع ہو، بلکہ واقعات اس کے قول کے تابع ہوتے ہیں: اِنَّمَاۤ اَمْرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیٴًا اَنْ یقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیکُوْنُ (سورت یٰس 36 آیت 82) ’اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کو بنانا چاہتا ہے شیئیت اور حقیقت دینی چاہتا ہے وہ کہہ دیتا ہے اس شئے سے کہ "ہو” مجرد اس کے کہتے ہی کہ” ہو” وہ ہو جاتی ہے۔ "تو واقعیت ہمیشہ اس کے قول کے تابع رہی ہے اس کا قول کبھی واقع کے تابع نہیں رہا۔ شیطان اس اصول کو نہیں سمجھا کہ افعال ہمیشہ قول”کُنْ” کے تابع رہے ہیں اس کا قول جو ہے وہ کیسے واقعات کے تابع ہو گا؟واقعات اور حقائق کتنے ہی حَسن ہوں، کتنے ہی حَسین ہوں ہمیشہ وہ اس کے قول کے تابع رہے ہیں اس کا قول تابع نہیں رہا۔

"قول”مخلوقات کی عِلت ہے یعنی قولِ کُنْ جو ہے وہ مخلوقات کی عِلت ہے، وہ واقعات سے مقدم ہے، اس لئے مقدم مؤخر کے تابع ہونہیں سکتا مؤخر مقدم کے تابع ہو گا، فعل مؤخر ہے قول مقدم ہے۔  شیطان اس بات کو نہیں سمجھا، ہزاروں برس ہو گئے اتنی مدت میں اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی، یہی ناسمجھی کی باتیں تمام حکماء اور عقلاء کو اس نے سکھائی۔  اور جو اس علم سے اچھی طرح واقف نہیں تھے ان پر ان کی دھونس جم گئی، وہ تمام ان سے دبنے لگے، حقیقت یہ ہے کہ یہ کچھ نہیں جانتے۔ میں نے آپ کو بتا دیا کہ شیطنت کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ شیطنت اور فلسفہ ایک ہی چیز ہے۔  اور فلسفہ کے جو تفصیلی علوم ہیں ان سب کے متعلق ہماری پوری رائے یہ ہے اور ہمیں اس کا تجربہ ہے، اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو حق ہو سب دھوکہ اور گمراہی ہے اور وہی شیطنت ہے۔

خدا نے کہا کہ جب میں نے حکم دیا، تو میرے امر کے بعد کون مانع ہو سکتا ہے؟ کیونکہ جس شئے کو امر کیا ہے وہ خود امتثال امر میں مشغول ہے، ہر شئے کو حکم دیا ہر شئے امتثالَ امر میں مشغول ہے، ہر شئے سے وہ کہہ رہا ہے کہ ’ہو‘ کُنْ خطاب کر رہا ہے، ہر شئے خطاب کے سُننے میں اور واقعیت کے حاصل کرنے میں مشغول ہے۔  اس خطاب کا سُننا ہی واقعیت ہے اس واقعیت کے حاصل کرنے میں سب مشغول ہے، وہ اپنے آپ سے تو مدافعت کر نہیں سکتیں وہ دوسرے کی کیا مدافعت کریں گی؟ وہ کیا مانع ہو گی؟ اس نے کہا: مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ (سورت الاعراف 7 آیت 12) ’جب میں نے حکم دے دیا تو کون مانع ہو سکتا ہے؟‘ یہ جتنی چیزیں ہیں یہ خود امتثالِ امر کر رہی ہیں یہ اپنے آپ نہیں روک سکتیں، تجھے کیا روکیں گی؟ تو یہ شیطان کا شر ہے، اپنی رائے کے تابع ہونا۔  جیسا کہ عوام جو ہیں یہ فرما دیا کرتے ہیں کہ ہم بھی ایک رائے رکھتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ تھوڑا سا شر شیطنت کا ان کے قلب کے اندر ہے۔  جو شخص یہ کہے کہ ’میں رائے رکھتا ہوں‘ اَرَءَیتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰىہُ (سورت الفرقان 25 آیت 42) ’بھلا دیکھا تُو نے اس شخص کو کہ جس نے اپنی رائے کو اپنا معبود بنا رکھا ہے، اپنی ہَوا کو، اپنی خواہش کو۔‘ رائے جو ہے معبودِ باطل ہے، جھوٹی چیز ہے وہ انبیاء علیہم السلام اسی چیز کی تبلیغ کرنے آئے ہیں، اعمال بعد کی چیز ہے، سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ معبودِ برحق ایک ہی ہے اور یہ جو معبودِ باطل ہے ’رائے‘ اصل بڑا بُت یہ ہے۔  پتھر کے بُت کو بہت جلدی سمجھ لیتا ہے کہ یہ اس قابل نہیں ہے کہ شریکِ باری تعالیٰ ہو۔  اصل میں جھگڑا کرنے والی چیز ہے وہ ’رائے‘ ہے کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی، مجھے اس سے اختلاف ہے، ایسا کیوں کہا؟

اس نے کہا:  اِذَا جَآءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ (سورت المنٰفقون 63 آیت 1) ’جو بھی منافق تیرے پاس آئے کہنے لگے، ہم شاہد ہیں اس بات کے کہ البتہ تُو اس وقت اللہ کا رسول ہے۔‘ یہ بات انہوں نے صحیح کہی، رسول تھے یہ حق بات تھی۔ وَ اللّٰہُ یعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ (سورت المنٰفقون 63 آیت 1) اللہ نے تصدیق کر دی کہ ’بیشک اللہ جانتا ہے کہ تُو اللہ کا رسول ہے۔‘ وَ اللّٰہُ یشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِینَ لَکٰذِبُوْنَ (سورت المنٰفقون 63 آیت 1) ’خدا اس بات کا شاہد ہے کہ یہ منافق جو بات کہہ رہے ہیں جھوٹے ہیں۔‘  ان کی سچ کو میں تسلیم نہیں کرتا اور میں نے ان کی سچ کا نام جھوٹ رکھا۔ اِذَاۤ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۤ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ (سورت یونس 10 آیت 90) ’فرعون غرق ہونے لگا کہنے لگا کہ میں ایمان لایا اس معبود پر اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور جو بنی اسرائیل کا معبود ہے۔‘ یہ بات اس نے سچی کہی تھی ایمان صحیح لایا تھا۔  وہ کہا میں ایمان کو تسلیم نہیں کرتا، تو اگر وہ ایمان کو تسلیم نہیں کرے، وہ ایمان نہیں۔  ایمان وہ ہے جسے وہ تسلیم کرے: ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ (سورت یٰس آیت 52) ’یہی تو ہے وہ دن جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور تمام رسول سچے تھے۔‘ اب قبروں سے اُٹھ کر کافر یہ کہیں گے، یہ بات قطعی سچی ہے لیکن یہ کہتے ہی سیدھے جہنم میں چلے جائیں گے۔ جہنم جو ہے وہ دار المصدقین ہو گیا۔  گویا اس نے کہا میں ان کی تصدیق کو تسلیم نہیں کرتا یہ جو میری تصدیق کرتے ہیں۔  فَلَمْ یکُ ینْفَعُہُمْ اِیمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا (سورت المؤمن 40 آیت 85) ’یہ جب میرا عذاب دیکھ لیں گے تو ان کا ایمان ان کو نفع نہیں دے گا۔‘ ایمان وہ جسے میں ایمان کہوں، فسق وہ ہے جسے میں فسق کہوں، کذب وہ ہے جسے میں کذب کہوں۔

جَعَلَ السِّقَایةَ فِی رَحْلِ اَخِیہِ (سورت یوسف 12 آیت 70) ’یوسف علیہ السلام نے ایک برتن اپنے بھائی کے سامان میں چھپا دیا تھا۔‘ یہ کذب نہیں بلکہ بہتان ہے کذب سے بھی بدتر فعل ہے۔  خود فعل کرنا اور بھائیوں کی طرف منسوب کرنا سخت بہتان ہوا نا؟ جو انہوں نے بھائیوں پر لگایا، یہ کذب کا بھی باوا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا۔  کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیوْسُفَ (سورت یوسف 12 آیت 76) ’یہ مکر کرنا میں نے یوسف کو سکھایا تھا۔‘ وہاں فعلِ نبوت ہوا۔  بس جس کو میں سچ کہہ دوں وہ سچ ہے، جسے میں کذب کہہ دوں وہ کذب ہے۔  منافق سچی تصدیق کر رہے ہیں تو وہ کہہ رہا ہے ’تم جھوٹے ہو‘ نبی بہتان کا فعل کر رہے ہیں تو وہ کہتا ہے ’میری مہربانی ہے کہ میں نے یہ مکر اس کو سکھایا۔‘ تو اللہ جو چاہے سو کہے اور جو چاہے سو کرے، اس بات کو شیطان نہیں سمجھا۔ کیونکہ وہ خدا ہی کیا رہا جو کسی ضابطہ کے تحت ہو گیا۔ ضابطہ جب گھیر لے گا تو مضبوط و مجبور بن جائے گا، وہ محصور ہو جائے گا۔  وہ حاضر ہے تمام مخلوقات کو وہ خود گھیرے ہوئے ہے کوئی شئے اس کو گھیر نہیں سکتی، شیطان اس کو گھیرے میں لانا چاہتا تھا، یہ شیطنت ہے۔

یہ محفلِ میلاد شریف ہے لیکن پہلے چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف کرنا، مقصود تھی اس لئے ہم نے خداوند تعالیٰ کی تعریف کرنا شروع کی اور وہ بغیر اَعُوذ اور بِسْمِ اللہ کے نہیں ہو سکتی تھی، اس لئے میں نے اَعُوْذُ بِاللہ کے متعلق کچھ بیان کر دیا۔  اب بِسْمِ اللہ کے متعلق بیان کرتا ہوں۔

٭٭٭

بِسْمِ اللّٰہِ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم:  اس کے معنی ہیں ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے، یہ اس کا ترجمہ ہے۔  یہ فقرہ پورا نہیں ہے۔  شروع، آغاز، ابتدا ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے ہے، یہاں ابتدا محذوف ہے۔  میں ابتدا کرتا ہوں ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے یا میں شروع کرتا ہوں ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے یا شروع  ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے یا ابتداء ’اللہ، رحمٰن، رحیم‘ کے نام سے ہے۔

یہاں غور کرنا چاہیئے کہ ابتداء جو ہے ہر شئے کی ابتدا اللہ، رحمٰن، رحیم کے نام سے ہے اللہ، رحمٰن، رحیم کی ذات سے ابتداء نہیں ہے۔ جیسے یہ روشنی فرش پر پڑ رہی ہے اس کی ابتداء کس سے ہے؟ سورج سے۔ سورج میں جو روشنی ہے اس کی ذات سے ہے، جونہی اس کی ذات یہاں محقق ہو گی ویسے ہی یہ روشنی یہاں محقق ہو جائے گی۔  اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے ابتداء ہوتی تو جس وقت سے اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اسی وقت سے یہ ہر شئے موجود ہو جاتی۔

ہمارا اور کائنات کا وجود خدا کی ذات سے وابستہ نہیں ہے۔ یاد رکھو یہ اُنہیں دھوکوں میں سے ایک دھوکا ہے جو شیطان نے دیئے ہیں۔ انہیں دھوکوں میں سے ایک یہ قسم ہے جس میں بڑے بڑے جلیل القدر عُقلاء مبتلا ہوئے اساطینِ حکمت، فیثاغورث، سقراط، افلاطون ہے، جلیل القدر حکماء اور سب اسی گمراہی میں مبتلا ہوئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کا یہ کائنات نتیجہ ہے، یہ غلط ہے ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ذات سے ہو گا تو جب سے وہ شئے ہو گی جس کا یہ اثر ہے اسی وقت سے یہ اثر ہو گا، یہ نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تھا اور کوئی شئے نہیں تھی، عالَم نہیں تھا تو معلوم ہو گیا کہ خدا کی ذات کا یہ نتیجہ نہیں ہے۔  دوسری چیز یہ ہے کہ ابتداء جو ہو گی خدا لا ابتداء ہے، لا ابتداء سے ابتداء کیسے ہو سکتی ہے؟ مخلوق میں ابتداء کی صلاحیت نہیں، کیونکہ جس جگہ سے آپ شروع کریں گے یہاں اس سے قبل جو ہو گی کوئی شئے موجود ہو گی یا اگر معدوم ہو گی تو اس شئے کا عدم اس پر مقدم ہو گا۔  کائنات میں سلسلہ کہیں تک لے جائیں جس جگہ سے وہ شروع ہو گا اس کی ابتداء سے قبل ضرور ہو گی، اس لئے اس میں تو ابتداء کی قابلیت ہی نہیں اور خدا میں یوں ابتداء کی قابلیت نہیں کہ وہ لا ابتداء ہے۔

تو اب ابتداء ہو تو کیسے ہو؟ کائنات کا وجود محقق ہو تو کیسے ہو؟ تو اس نے کہا کہ یہ تدبیر کرو کہ ایک بین بین چیز نکالی جو اسم ہے جو اس کا اسمِ مبارک ہے، وہ کیا ہے؟ واحد اور احد یہ اس مقدس وحدہ لاشریک کا اسم ہے، بغیر واحد کے کوئی شئے متحقق نہیں ہو سکتی۔  یہ لکڑی جب تک ایک نہ ہولے ہونے ہی کی نہیں، یہ ٹوپی جب تک یہ ایک نہ ہو پہلے اس کا وجود نہیں ہو سکتا جہان میں کہیں نہیں پائی جا سکتی۔ یعنی بغیر واحد کے وہ شئے بغیر وحدت کے ہو ہی نہیں سکتی، وجود ہو ہی نہیں سکتا۔ تو ہر شئے کے وجود کو وحدت گھیرے ہوئے ہے، گھیرے ہوئے نہیں بلکہ وہ اس کا عین ہے، اس کی حقیقت ہے اس واحد کے بغیر وہ شئے متحقق نہیں ہونے کی۔ تو ہر شئے کی ابتداء اور وجود اور تحقق اسی واحد کے اسم مبارک یعنی واحد سے ہے اور جہان میں کہیں بھی حقیقی واحد نہیں ہے، اصلی واحد وہی ہے۔

یہ ایک اُنگلی ہے لیکن یہ حقیقی ایک نہیں ہے، یہ تین پوروں کا مجموعہ ہے۔  تو اگر ’اُنگلی‘ اور ’ایک‘ دونوں ایک ہوں تو جو ’ایک‘ ہے وہ اُنگلی ہو جائے گا۔ یہ ایک ہے، یہ لکڑی تو یہ ایک لکڑی بھی بن جائے گی، تو معلوم ہوا کہ یہ حقیقی واحد نہیں ہے وہ تین ہیں۔ ایک تو ’ایک‘ اور ایک وہ شئے جس کی طرف آپ ’ایک اشارہ‘ کر رہے ہیں یعنی ’اُنگلی‘ اور ایک، واحد اور اُنگلی کے درمیان جو علاقہ اور نسبت ہے۔ تو جس شئے کو بھی آپ کہیں گے کہ یہ ایک ہے تو در حقیقت وہ تین ہوں گی۔  تو حقیقی واحد یہاں ہے ہی نہیں اور واحد ہونا ضرور چاہیئے۔  کیونکہ بغیر واحد کے کثرت ہو ہی نہیں سکتی، تو لابُد واحد اس کائنات سے باہ رہے، ان تمام کثرتوں کا وہی خدا ہے، وہی اس کائنات کا مالک و خالق اور رب ہے۔  اسی کے "اسمِ مبارک” کی برکت ہے کہ یہ کائنات کا وجود ہو گیا، وہ نہ ہوتا تو یہ نہیں ہوتی۔

٭٭٭

حمد پانچ طریقوں سے ہو سکتی ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ، الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، مٰلِکِ یوْمِ الدِّینِ: ’اَلْحَمْد‘ میں جو یہ’اَلْ‘ ہے اس کو لامِ تعریف کہتے ہیں۔ ’حَمْد‘ کے چار معنی ہیں ؛(اوّل) ایک معنی اس جنس کے لئے آتے ہیں (دوم) ایک معنی عام افراد کے لئے آتے ہیں (سوم) ایک معنی بعض بعض معین فرد کے لئے آتے ہیں (چہارم) ایک معنی بعض غیر معین فرد کے لئے آتے ہیں۔  حَمْد کی جنس اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، ہر ہر حَمْد کا فرد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ حَمْد کا فردِ معین اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔  حَمْد کا غیر معین فرد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔  وہ معمولی چیز ہے ایسا اسے سمجھنا بھی نہیں چاہیئے، کیونکہ خدا کی بڑائی اس میں ہے کہ جو حَمْد ہے وہ اس کے لئے ہے، تمام جتنی ’حَمْد‘ ہو رہی ہے کُل کی کُل اس کے لئے ہے۔  یا حَمْد کا معین فرد خاص ہو وہ اللہ کے لئے ہے، وہ کونسا فرد ہے؟ وہ، وہ ہے کہ جس کو وہ خود کہہ رہا ہے، وہ اپنی تعریف خود کر رہا ہے وہ حمد ہوئی نا، یہ فرد معین ہے یہ اللہ کے لئے۔ اور باقی غیر اللہ جتنی حمدیں کر رہے ہیں وہ سب کچھ بھی اللہ کے لئے خاص ہیں اس نے کہا ہر حیثیت سے حمد اس کے لئے ہے۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے پانچ لفظ بولے ہیں ؛ اَللّٰہ، رَبِّ الْعٰلَمِین، الرَّحْمٰن، الرَّحِیم، مٰلِکِ یوْمِ الدِّین یہ کہا کہ تمام جہانوں میں تعریف کی جتنی بھی صورتیں ہو سکتی ہیں وہ پانچ طریقہ سے ہو سکتی ہیں؛

(اوّل) یا تو اس شئے کی ذات میں کچھ خوبی ہے، ذاتی خوبی یعنی کمالات کی بناء پر تعریف ہوا کرتی ہیں۔  صورت شکل اچھی ہے، جسم میں توازن ہے، تناسب ہے وغیرہ وغیرہ علم ہے، امر صالح ہے، جو بھی نیکیاں، خوبیاں ہیں ذاتی خوبیوں کی بناء پر آپ تعریف کریں گے۔ حافظ ہے، عالِم ہے وغیرہ ذاتی کمالات کی بناء پر تعریف ہوتی ہے۔

(دوم) یا احسان کی بناء پر تعریف ہوتی ہے، آپ کے ساتھ کسی شخص نے کچھ بھلائی کی اس کی تعریف کی جائے گی۔

(سوم) بالفعل کسی شخص نے احسان کیا اور فائدہ پہنچ رہا ہے آپ اس کی تعریف کریں گے۔

(چہارم) یا بالفعل کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا آئندہ فائدہ پہنچنے کی اُمید ہے تو آپ ابھی سے اس کی تعریف شروع کر دیں گے۔

(پنجم) بالفعل نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو تعریف کرتے ہیں تاکہ اس کے نقصان سے بچیں، آئندہ نقصان کا اندیشہ ہے، نقصان پہنچنے کے اندیشے سے آپ تعریف کرتے ہیں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ تو اس نے کہا کہ اگر تم ذاتی حُسن کی بناء پر تعریف کرتے ہو اور تعریف ہونی چاہیئے تو میں ’اللّٰہ‘ ہوں۔ اور اگر احسان کی بناء پر تعریف کرتے ہو تو میں ’رَبِّ الْعٰلَمِین‘ ہوں۔  تمام جہانوں پر احسان کر رہا ہوں، بالفعل تمام چیزوں پر میرا احسان ہے۔ اور اگر آئندہ فائدہ اور احسان کی توقع ہے تو میں ’الرَّحْمٰن‘ ہوں۔ اور اگر بالفعل نقصان سے بچنے کی بناء پر تعریف کی جاتی ہے تو ’الرَّحِیم‘ ہوں۔ اور اگر آئندہ نقصان سے بچنے کے لئے تعریف کی جاتی ہے تو میں آئندہ کا یعنی روزِ جزا کا ’مَالِک‘ ہوں ’مٰلِکِ یوْمِ الدِّین۔‘ بس یہ پانچ ہی طریقے ہو سکتے تھے، اس نے پانچوں نام لے لئے کہ میں ہر حیثیت سے مستحقِ حمد ہوں۔

٭٭٭

اللہ کیا چیز ہے؟

’اللّٰہ‘ کیا چیز ہے؟ لفظ اللّٰہ عربی زبان میں کس معنی کے لئے بنایا گیا؟ یہ لکڑی ہے آپ لکڑی کا لفظ بولتے ہیں، کرسی کا لفظ بولتے ہیں، آسمان کا لفظ بولتے ہیں، اللہ کا لفظ بول کر کیا چیز سمجھی جاتی ہے؟ وہ شئے ہے جس سے دو حقیقتیں مقتضی ہوتی ہیں ؛

(اوّل) ایک کا نام حُسن ہے

(دوم) ایک کا نام کمال ہے۔

حُسن اور کمال کی جامعیت کا نام ’اللّٰہ‘ ہے، کمال اور حُسن ان دونوں کے مجموعے کا نام اللہ ہے۔  کمال اور حُسن حقیقی آپ ان دونوں لفظوں کے معنی سمجھ لیں حُسن طبعیت کی مناسبت کو کہتے ہیں، حسین وہ ہے جو آپ کی طبیعت کے مناسب ہے تناسبِ اعضاء کی ضرورت نہیں۔  دوسرے کا بچہ کتنا ہی خوبصورت ہو اور اپنا کیسا ہی چیچک زدہ ہو، ناک بہ رہی ہو، مگر طبیعت کے مناسب ہے اس کو گلے سے لگا لے گا دوسرے کے خوبصورت بچے کو دھکیل دے گا، کیونکہ دوسرے کے بچے طبیعت سے وہ مناسب نہیں ہے۔ طبیعت کے حقیقی تناسب کے معنی یہ ہیں کہ کسی وقت بھی غیر مناسب نہ ہو وہ اصل ہوا۔  اسی طرح ’کمال‘ کے معنی میں بڑائی، حقیقی بڑائی وہ ہے جس بڑائی میں اضافہ نہ ہو سکے۔  جیسے یہ پِنڈال بہت بڑا ہے لیکن اس سے بڑا ہو سکتا ہے تو حقیقت میں یہ بڑا نہیں ہوا، ہر وہ بڑا کہ جس پر اضافہ ہو سکے وہ حقیقی بڑا نہیں۔ حقیقی بڑا وہ ہے جس پر اضافہ نہ ہو سکے، اس کے لئے اردو میں کہتے ہیں بڑے سے بڑا۔  تو اللہ تبارک و تعالیٰ میں حُسنِ حقیقی ہے یعنی ایسی مناسبت ہے کہ اس مناسبت میں کسی وقت بھی غیر مناسبت نہیں ہونے کی۔

دیکھئے آپ کے یہاں مناسب چیز یں کیا ہیں؟ کھانا ہے، لذیذ کھانا طبیعت کے مناسب ہے، پیٹ بھرنے کے بعد اس سے بہتر غذا بھی آ جائے گی نہیں کھانے کے۔  عمدہ لباس، عمدہ مکان ہر چیز کو آپ دیکھ لیجئے کچھ مدت کے بعد وہ غیر مناسب ہو جاتی ہے۔  سب سے زیادہ مناسب بیٹا ہے، بیٹے سے زیادہ کوئی شئے مناسب نہیں ہے، بیوی، بیٹا، محبوبہ ہے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ بیوی کو طلاق دیتا ہے، بیٹے کو قتل کر دیتا ہے یا عَاق کر دیتا ہے، ذرا سی تکلیف پاتے ہی بیوی کو چھوڑ دیتا ہے، بیٹے کو چھوڑ دیتا ہے، عشق کو بھول جاتا ہے۔

لیکن یہ دن رات کساد بازاری ہو رہی ہے لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی، طوفان چلے آ رہے ہیں، محنت کرتے کرتے مرا جا رہا ہے، ہیضہ پھیل رہا ہے، چوبیس گھنٹے بلائیں بھیج رہا ہے، سارے عالَم میں دیکھئے اتنی مصیبتیں اللہ تبارک و تعالیٰ نازل کر رہا ہے خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ وہ ہر سال ہمارے اُوپر مصیبتیں بھیجتا ہے، چلو اس کے متعلق سب مل کر سازش کریں یہ خیال بھی کبھی نہیں آتا۔ اُلٹا اسی سے فریاد کر رہا ہے سمجھتے ہوئے فریاد کر رہا ہے، دُکھ پہنچتے ہوئے فریاد کر رہا ہے، تو معلوم ہوا کہ اس سے زیادہ طبیعت کے مناسب کوئی ذات نہیں ہے۔

پڑھیں اپنے رب کی تحمید اَلحَمْدُ لِلّٰہ

ہر وقت جان نکل رہی ہے، گلا کٹ رہا ہے، کینسر ہو رہا ہے کسی وقت بھی خدا کو بُرا نہیں کہتا حتی کہ مر جاتا ہے یہ نہیں کہتا کہ کیا ظلم ہے؟ تو دُکھ پہنچنے کے وقت بھی وہ اتنا طبعیت کے مناسب ہے کہ اُلٹا اُسی سے فریاد کر رہا ہے۔  کوئی آپ کو تھپڑ مارے تو آپ کہیں گے کہ ہماری مدد کرنا، اس کی جان کے دشمن ہو جائیں گے۔  وہ برابر طمانچے مار رہا ہے، چھڑیاں مار رہا ہے، طاعون بھیج رہا ہے، ہیضہ بھیج رہا ہے، کساد بازاری بھیج رہا ہے، دنیا کی تکلیفیں، مصیبتیں نازل کر رہا ہے ہر وہ مصیبت کے وقت یہ کہتا ہے کہ تُو اَرْحَمُ الرَّاحِمِین ہے ہمارے اُوپر رحم کر۔ طبیعت کے مناسب کوئی ذات سوائے اس کے نہیں ہے، لہذا حُسنِ حقیقی وہی ہے، طبیعت کے مناسب وہی ہے۔

کمالِ حقیقی کیا چیز ہے؟ جو بڑے سے بڑا ہو۔  یہاں کوئی شئے اس جہان میں بڑی سے بڑی نہیں ملے گی جو شئے ملے گی اس پر اضافہ ہو سکتا ہے اس پر اور بڑائی ہو سکتی ہے۔  آپ کے خیال میں بڑی سے بڑی کیا شئے ہے؟ زیادہ سے زیادہ دیکھیں گے تو وہ آسمان ہے اس سے کوئی بڑی شئے نہیں ہے۔  سورج جو تقریباً زمین سے 159 گنا ہے جو مہندسین نے تحقیق کی ہے وہ آسمان کے اندر ایک ٹکیہ سا معلوم ہوتا ہے، حقیقت میں یہ بھی بڑا نہیں ہے۔  آپ آسمان کی طرف نظر ڈال کر دیکھیں آپ کی آنکھ سے جو شعاع نکل رہے ہے جو آسمان کی سطح تک پہنچ رہی ہے اس کی مسافت کے مقدار کے برابر یہ چھوٹا ہے، اگر بڑا ہوتا تو یہاں آنکھ تک آ جاتا، تو معلوم ہوا کہ حقیقی بڑے کی صلاحیت ہی اس جہان میں نہیں ہے۔

وہ اس جہان سے باہر ہے وہ سب سے بڑے اور چھوٹے کا تو حقیقت میں خالق ہے۔ اللّٰہ وہ ہے کہ جو حُسنِ حقیقی ہے اور کمالِ حقیقی ہے۔ اللہ کی تعریف ہم نے اپنے قیاس کے مطابق، اپنے شعور کے مطابق پہلے کر دی، جو لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں وہ اس سے زیادہ بیان کر دیں گے اور یہ سلسلہ لا انتہا جائے گا کسی جگہ بھی نہیں ٹھہر سکتا اور حقیقی تعریف ہو نہیں سکے گی، حقیقی تعریف وہی ہے جو وہ خود کرے اس کی تعریف کوئی نہیں کر سکتا۔

پہلے تمہید آپ کے سامنے یہ بیان کر دوں کہ ایک تو ہے عقل کا علم جس کو عقلی علم کہتے ہیں، یعنی وہ علم جو عقل سے حاصل ہو۔  مثلاً یہ مکان ہے، آپ کی عقل یہ بتا رہی ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے یہ عقلی چیز ہے۔  یا ذرا سا دھواں آپ دیکھ لیں تو آپ کی عقل یہ بتائے گی کہ یہ دھواں قرینہ ہے اس کے ساتھ کوئی اور شئے مقرون ہے جس کا نام آگ ہے۔ ہمیشہ آپ یاد رکھیں کہ عقلی علم کتنا ہی یقینی کیوں نہ ہو وہ حالی علم ہے بہت کمزور ہوتا ہے۔  کسی شخص کو یہ علم ہو جائے کہ اسے کَل یا تین دن کے بعد پھانسی ہو گی اس کے بعد اس کا کھانا پینا بند ہو جاتا ہے اور بہت پریشانی ہوتی ہے اور آپ لوگوں کو بھی یقین ہے کہ موت آئے گی اور موت کا اس کو بھی یقین ہے۔ لیکن آپ خوب سمجھ لیں کہ آپ کبھی بھی موت سے نہ بچ سکیں گے اور وہ پھانسی کا حکم پانے کے بعد ممکن ہے بچ جائے اور پھانسی کے تختے پر نہ لٹکایا جائے، تو یہ کتنا زبردست یقین ہے جو آپ کو، مجھ کو، سب کو ہے، لیکن یہ حالی نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مریں گے سب کو اپنی موت کا یقین ہے لیکن اس کو اپنی موت کا یقین حالی ہے اور وہ یقین اس یقین سے کمزور ہے، کیونکہ اس میں بچنے کا امکان ہے نا۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بچ گیا لیکن حالت میں تبدیلی ہے جو اس کی حالت ہے جو ہیبت موت کی اس پر طاری ہے وہ آپ پر نہیں ہے۔  یہ بات سمجھ میں آ گئی تو یقین کافی نہ ہوا۔  علم حالی جو ہے وہ کم درجہ کا بھی علمِ عقلی سے بہت قویٰ ہوتا ہے اور بہت با اثر ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں پر اثر نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ علم حالی نہیں ہوا کرتا، وہ علم ظاہری اور عقلی ہوا کرتا ہے۔

یہاں سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کا صدر فلاں ہے ہر شخص کو یقین ہے لیکن شناخت ہر شخص کو نہیں ہے، بہت قلیل تعداد ہو گی جو صدر کو پہچان لے گی اور بہت بڑی اکثریت نہ پہچان سکے گی لیکن یقین سب کو ہے شناخت نہیں کر سکے گی۔  یقین اور چیز ہے اور شناخت اور معرفت اور چیز ہے۔

اب ایک جماعت عارفوں کی نکلے گی جو عوام کے مقابلہ میں بہت قلیل ہو گی، صدر صاحب اگر کہیں موٹر میں جائیں تو جو جانتے ہوں گے پہچان لیں گے کہ صدر جا رہا ہے۔  لیکن علاقہ ان عارفین میں سے کسی کو بھی نہیں ہو گا، تعلق کسی کو بھی نہیں ہو گا، تو تعلق معرفت سے بھی بڑی اور اونچی چیز ہے۔ جیسے حجام ہے روزانہ دس بجے صدر کی حجامت بناتا ہے، صدر کے پاس حجامت کے لئے نہ پہنچے تو صدر کو پریشانی ہو گی، کہیں گے تلاش کرو کیوں نہیں آیا؟ جب وہ آیا تو کہنے لگا کہ صاحب! کیا کریں ہماری جھُگی پر برابر والوں نے قبضہ کر لیا، مصیبت میں مبتلا ہیں، تم کو حجامت کی پڑی ہے، ہم کیسے آتے؟ فوراً سپاہیوں کو بھیج کر کہے گا کہ جاؤ اس کی مدد کرو، امداد فوراً ہو جائے گی۔  اس حجام کا جو علاقہ ہے وہ بڑے بڑے وزیروں اور منسٹروں کو بھی نہیں ہے۔  یہ سب عرفاء ہیں تو یہ اربابِ یقین جو ہے وہ سارا پاکستان ہے اربابِ معرفت بھی جو ہیں، وہ لاکھ دو لاکھ ہوں گے، لیکن اربابِ تعلق چند ہی ہوں گے۔  تو تعلق سب سے قویٰ چیز ہے اصل شئے تعلق ہے۔

دلائل سے یقین کا حاصل کر لینا یہ دشوار چیز ہے ہر شخص نہیں کر سکتا، اسی طرح معرفت بھی دشوار چیز ہے ہر شخص نہیں کر سکتا، لیکن تعلق بہت آسان چیز ہے۔  شریعت میں جہاں پر بھی حکم ہوا ہے، جو بھی حکم نازل ہوا ہے خواہ اس کا تعلق عقیدہ سے ہو یا عمل سے ہو، سب میں تعلق رکھا ہے، زیادہ زور علوم و فنون پر نہیں دیا۔  اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اتنے علوم و فنون نہیں جانتے جتنے سو یا دوسو برس بعد کے لوگ جانتے تھے۔  بعد کے دور میں جتنے علوم و فنون کا زور تھا وہ اس زمانے میں نہیں تھانہ وہ فقہ جانتے تھے، نہ اصولِ فقہ جانتے تھے، نہ کلام جانتے تھے، نہ منطق جانتے تھے، نہ ہندسہ، فلسفہ کچھ نہیں جاتے تھے۔ ہم تو اُمتی لوگ ہیں نہ ہم حساب جانیں، نہ کتاب جانتے ہیں، تو اصل شئے ’تعلق‘ نکلا۔  وہ تعلق جو ہوتا ہے وہ اعتماد کا مبدا ہوتا ہے، سبب ہوتا ہے۔ غور کرو۔

سب سے زیادہ مہلک آلہ کیا ہے؟ چھری ہے؟ تلوار ہے؟ نہیں، بلکہ اُسترا ہے۔ استرے سے زیادہ تیز دھار کسی آلہ کی نہیں ہے اور سب سے زیادہ نازک مقام یہ شہ رگ ہے اس کے کٹنے کے بعد پھر نہیں بچتا۔  حجام کیا کرتا ہے؟ سب سے زیادہ مہلک آلہ کو سب سے زیادہ نازک جگہ پر رکھ دیتا ہے اور وہ کٹواتا رہتا ہے اس کو ذرہ برابر بھی خوف و ہراس نہیں ہوتا، اطمینان سے باتیں ہوتی رہتی ہیں۔  کتنا مہلک آلہ اور کتنے نازک مقام پر رکھا ہوا کچھ خوف و ہراس نہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ حجام سے پورا تعلق ہے اور صحیح اعتماد ہے کہ یہ گلا نہیں کاٹے گا۔ اگر آپ کو جتنا حجام سے تعلق ہے اتنا تعلق اپنے رب سے ہو جائے سارا عالَم بھی مل کر تلوار رکھ دے کبھی خوف و ہراس نہیں ہونے کا صحیح تعلق ہونا چاہیئے۔  اور اتنے تعلق کے بعد یہاں کوئی ایسا نہیں ملے گا کہ جس کو اللہ سے اتنا تعلق ہو جتنا کہ اس کو حجام سے ہے، ساٹھ (60) برس میں میرے علم میں ایک آدمی نہیں آیا۔  اور جب ایسا ہو گا تو وہ بھی گھٹیا قسم کا مشرک ہو گا کہ اس کو اپنے رب پر اتنا اعتماد ہے جتنا کہ ایک حجام پر ہے۔  دوست ہیں، احباب ہیں، استاد ہیں، پیر ہیں، مُرشد ہیں، ماں باپ، بھائی بہن ہیں یہ تمام اعتماد کے لوگ ہیں اگر اتنا اعتماد ہو جائے گا تو پھر کتنا شدید تعلق اپنے رب سے ہو گا۔ ادنیٰ تعلق کی یہ حالت ہے کہ اُسترا رکھوا لیتا ہے اسی طرح تمام عالَم تلوار رکھ دے ادنیٰ تعلق سے کبھی خوف و ہراس نہ ہو تو صحیح تعلق کے بعد آپ کچھ اندازہ ہی نہیں کر سکتے کیا حالت ہو گی؟ اپنے رب سے صحیح تعلق ہونا چاہیئے۔

٭٭٭

خدا سے تعلق کے صحیح معنی کیا ہیں؟

آپ سمجھ لیں کہ خدا سے تعلق کے صحیح معنی کیا ہیں؟ اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے تعلق ہی کا نام خدا سے تعلق ہے، خدا سے کوئی مستقل تعلق کسی کو نہیں ہوا کرتا۔ جن لوگوں نے یہ براہِ راست تعلق کا دعویٰ کیا ہے ان کے علم میں کمی تھی، وہ سمجھے نہیں تھے۔  خدا کی اطاعت کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے ہیں، خدا کی رضا کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا کے ہیں، خدا کے دُکھ دینے کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دُکھ دینے کے ہیں: یخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ (سورت البقرۃ 2 آیت 9) ’اللہ کو فریب دیتے ہیں۔‘ معمولی ہشیار آدمی کو فریب دینا مشکل ہے، اللہ کیا فریب میں آئے گا؟ اس کے معنی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو فریب دیتے ہیں۔  اِنَّ الَّذِینَ یؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِینًا (سورت احزاب 33 آیت 57) کمزور کو دُکھ دے لیں لیکن آپ کسی تگڑے آدمی کو دکھ نہیں دے سکتے، خدا کو کیا دُکھ دیں گے؟ خدا کی ایذاء کیا ہے؟ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ایذاء: وَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗۤ اَحَقُّ اَنْ یرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِینَ (سورت توبہ 9 آیت 62) ’اللہ اور اللہ کا رسول ہی حقدار ہیں، زیادہ مستحق ہیں اس بات کے کہ ان کو راضی کیا جائے۔‘ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا راضی کرنا ہی خدا کا راضی کرنا ہے۔

ایک چیز میں فرق ہے باقی کسی چیز میں فرق نہیں ہے، رسول کی عبادت تو خدا کی نہیں ہے: وَ لَا یشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا (سورت الکہف 18 آیت 110) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبولیت جو ہے وہی اللہ کی قبولیت ہے۔  کوئی نماز پڑھ رہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آواز دے تو فوراً نماز کو توڑا جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز پر جایا جائے گا۔  خدا سے تعلق کے معنی کیا ہوئے؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تعلق۔ اور جس کو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے تعلق نہیں ہے اس کو خدا سے تعلق نہیں ہے۔

٭٭٭

رسول اکرم سے کیسے تعلق ہو؟

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیسے تعلق ہو؟ اس تعلق کی تدبیر اور تصویر کیا ہے؟ تعلق کی تدبیر وہی ہے جو یہاں دو اجنبی آدمیوں میں ایک دوسرے سے تعلق پیدا کر دیتی ہے۔ سب سے پہلی چیز تعلق پیدا کرنے کی یہ ہے کہ اگر میں آپ سے تعلق پیدا کرنا چاہتا ہوں، میں سب سے پہلے آپ سے جا کرک ہوں گا: اَلسَّلَامُ عَلَیکُم! پہلے سلام کرتا ہوں۔  تعلق کی ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجنا ہے اور کوئی شئے نہیں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت امیر کبیر آدمی موٹر میں جا رہا ہے ایک غریب پان والے نے اسے جھک کر سلام کیا، اس نے دھیان بھی نہیں کیا۔ پھر جو اُدھر سے گزرا، پھر سلام کیا پھر دھیان نہیں کیا۔  چند دفعہ کے بعد اس کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہوا نکل گیا۔ پھر اس کے بعد اس نے سلام کیا کچھ تو مسکرایا اور مسکراتا ہوا چلا گیا۔  ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ وہ پان والا وہاں نہیں تھا اس نے موٹر کو وہاں روکا اور پوچھا کہ ایک بڈھا یہاں بیٹھا رہتا تھا وہ کہاں ہے؟ جواب ملا ابھی نماز کو گیا ہے ابھی آتا ہے، آپ سمجھے؟ ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ پوچھنے لگتا ہے۔ نبی پر درود و سلام جو ہے یہ تعلق کی عِلت ہے۔ آپ بھی درود بھیجئے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیدِنَا مَحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ سَیدنَامُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓىٕکَتَہٗ یصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِی یٰۤاَیہَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیمًا

(سورت الا احزاب 33 آیت 56) ’بیشک اللہ اور اس کے تمام فرشتے (’مَلٰٓىٕکَۃ ملک کی جمع ہے، جمع کا لفظ جب مضاف ہوا کرتا ہے تو عام ہو جاتا ہے تو ’مَلٰٓىٕکَۃ‘ کی طرف مضاف ہے اس کے معنی ہوئے اس کے تمام فرشتے۔ ’یصَلُّوْنَ۔‘ یہ مضارع کا صیغہ ہے حال اور مستقبل دونوں کے لئے آتا ہے، حال تو منقطع ہو جاتا ہے جیسے ماضی حال سے منقطع ہو جاتا ہے، حال مستقبل سے منقطع ہو جایا کرتا ہے۔ مستقبل لا انقتاع ہے یہ کبھی منقطع نہیں ہو گا قیامت تک جائے گا، اس لئے کہ مضارع کا صیغہ ہے، اللہ پاک ابد تک لا انتہا درود و سلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجتا رہے گا، درود سے زیادہ بڑی کوئی چیز نہیں۔

قاعدہ کی بات بتا رہا ہے:  یٰۤاَیہَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا  ’اے یمان والو! اور قیامت تک کے کُل ایمان والو! صَلُّوْا عَلَیہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیمًا ’تم سب دُرود و سلام اس پر بھیجو۔‘ اور تَسْلِیم کا جو لفظ ہے یہ مبالغہ کے لئے آتا ہے، تکثیر کے لئے آتا ہے ’بہت زیادہ سلام پڑھو‘: ۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیدِنَا مَحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ سَیدنَامُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیمَ وَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِید

٭٭٭

افض

کلماتُ الرَّب

ل عبادت کونسی ہے؟

سب سے بڑی چیز ہے اس سے بڑی کوئی چیز نہیں، اس سے بہتر کوئی ذکر ہو نہیں سکتا، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عادت ہے۔  اللہ جو ہے وہ درود بھیجتا ہے، درود بھیجنا یہ اللہ تعالیٰ کا فعل، عادت اور سنت ہے اور نماز پڑھنا یہ کسی کی عادت ہے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سُنت ہے۔ خدا نماز نہیں پڑھتا، خدا روزہ نہیں رکھتا جتنی عبادتیں ہم کرتے ہیں یہ سب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی عادتیں، خصلتیں اور سُنتیں ہیں۔  جو نسبت خدا کو رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے وہی نسبت خدا کی سُنت کو رسول صلی علیہ و سلم کی سُنت سے ہے اور خدا کی سُنت درود شریف ہے اور نبی کی سُنت عبادت ہے۔  جتنا خدا رسول سے افضل ہے اتنی ہے اس کی سُنت رسول کی سُنت سے افضل ہے۔  اور اس کی سُنت درود اور نبی کی سُنت عبادت، تودرود شریف سب عبادتوں سے بھی افضل ہو گیا۔

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مَحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَابَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیمَ وَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِید

کوئی چیز دنیا اور دین میں نجات دلانے والی نہیں ہے، درود ہی ایسی شئے ہے جو ہر وقت اِس عالَم میں بھی اور اُس عالَم میں بھی نفع دے گی۔  اس مضمون کا تعلق کسی فرقہ سے نہیں ہے نہ کبھی اس کا تخیل کیجئے۔ مجھے بڑی اذیت ہوتی ہے جو بات علمی ہے میرے خیال میں بیان کر رہا ہوں۔ دلیل کا مقدمہ آپ نے سمجھ لیا۔ غور کریں۔

ہر عبادت میں نامقبولیت کا امکان ہے، آپ نے نماز پڑھی ضروری نہیں ہے کہ قبول ہی ہو جائے، کبھی قبول ہو جائے گی، کبھی قبول نہیں ہونے کی، ہو سکتا ہے نہ ہویا چاہے قبول ہو جائے لیکن مَردود ہونے کا امکان ہے، ناقبول ہونے کا امکان ہر عبادت میں موجود ہے۔  اور درود شریف ہی ایسی چیز ہے کہ ہر وقت قبول ہے، تو یہ یقینی ہے کہ قبول ہو اور عبادت ظنی القبول ہے اور یقینی یہ ظنی سے افضل ہے، درود شریف ہر عبادت سے افضل ہو گیا۔  یہ وجہ ہے کہ جب آپ اپنی حاجت کے لئے دعا مانگتے ہیں تو لازم اور واجب ہے کہ پہلے درود شریف پڑھیں اور پھر اللہ سے اپنی حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے دعا مانگیں، پھر درود شریف پڑھیں، وہ غفور الرحیم ہے۔  جب اس کے سامنے یہ خوان جائے گا تین قابیں رکھی ہوئی ہوں گی؛ پہلی درود شریف کی، دوسری آپ کی حاجت کی، پھر درود شریف کی یہ نہیں ہو سکتا کہ اِدھر اُدھر سے اُٹھا لے اور بیچ کی قاب چھوڑ دے، رحیم کی شان سے یہ بعید ہے وہ یہ سب ہی لے لے گا۔

آپ غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سورت واقعہ میں تین گروہوں کا ذکر کیا: وَ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً (سورت الواقعہ 56 آیت 7) ’جونہی یہ واقعہ پیش آ جائے گا یعنی قیامت آ جائے گی۔  تو تم تین گروہ ہو جاؤ گے ؛ایک اَلْمُقَرَّبِین، دوسرے اَصْحٰبُ الْیمِین، تیسرے اَصْحٰبُ الشِّمَال۔  معاذ اللہ! تین گروہ ہوں گے ان تینوں گروہوں کے واقعات اور حالات اللہ تعالیٰ نے تقریباً ڈھائی رکوع میں بیان فرمائے ہیں، تین رکوع کی سورت ہے۔  جب سورت کو ختم کیا تو ان تین گروہوں کے حالات کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کیا ہے: ۔

فَاَمَّاۤ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ (88) فَرَوْحٌ وَّ رَیحَانٌ وَّ جَنَّتُ نَعِیمٍ

(سورت الواقعہ 56 آیت 89) ’جو مُقَرَّبِین  میں سے ہے کیا ہے، اس کا انجام حشر اس کی جزا کیا ہو گی؟ راحت بہت راحت، رَیحَان خوشبو میں معطر، باغ و بہار یہ اس کا انجام ہو گا، تو یہ کیفیت پہلے گروہ کی۔  اور دوسرا گروہ: وَ اَمَّاۤ اِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیمِینِ (سورت الواقعہ 56 آیت 90) اللہ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اسی گروہ میں شامل کر دے۔ اَصْحٰبُ الْیمِین ان لوگوں کو کہتے ہیں کہ جن کو سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال دیئے جائیں گے۔  مُقَرَّبِین تو بڑا درجہ ہے۔  اَصْحٰبُ الْیمِین ہی میں ہمارا انجام ہو۔  خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انجام بخیر کرے۔ ان کو کیا جزا ملے گی؟ ان کو کیا انعام ملے گا؟ فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیمِینِ (سورت الواقعہ 56 آیت 91) ’اللہ کی طرف سے ان کو سلام ہو۔‘ اتنے معزز آدمی کا سلام کرنا، اس سے بڑی کیا جنت اور راحت ہو گی؟ جن کے نصیب میں یہ نعمت ہو گی سلام اتنی بڑی چیز ہے، اَصْحٰبُ الْیمِین، تو خود بڑی چیز ہے یہ خود جزا ہے۔

آپ یہ درود و سلام کا تحفہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جناب میں خود پیش کر دیں یا آپ کسی کے ہاتھ سے بھجوا دیں، اس کے دونوں معنی ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُھَا النَّبِّی آپ خود پیش کر دیجئے یا اللہ سے کہہ دیجئے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیدِنَا مَحَمَّدٍ ہماری طرف سے دونوں طرح سے یا خود پہنچا دے یا اس کے ہاتھوں سے پہنچا دیں یہ آپ کو اختیار ہے۔

اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی فضیلت کے متعلق کیا بیان کیا جا سکتا ہے؟ ہمیشہ یاد رکھیئے جب تعریف کسی کی کی جاتی ہے جو شخص کرتا ہے اگر وہ اس کے متعلق پوری معلومات رکھتا ہے جب تو صحیح تعریف کر سکتا ہے ورنہ نہیں کر سکتا۔ مثلاً مؤرخ کو مؤرخ سے زیادہ واقف ہونا چاہیئے، زیادہ آگاہ ہونا چاہیے نبی کے برابر یا نبی سے زیادہ کسی کو علم ہو، معرفت ہو تو وہ نبی کا تعارف کرا سکتا ہے، وہ نبی کی معرفت کرا سکتا ہے۔  اور کسی شخص کو نبوت کا علم نہیں ہے کسی صدیق میں یہ بات نہیں ہے یا جو رؤساءِ صدیقین ہیں ان میں بھی یہ بات نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح تعریف سمجھے ہوئے ہوں یا بیان کر سکیں۔ نبی کر سکتا ہے یا خدا کر سکتا ہے غیر نبی میں قابلیت نہیں ہے۔  یہ عقلی دلیل میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے۔

٭٭٭

کلماتُ الرَّب

شرعی دلیل بھی آپ کو سمجھا دوں سمجھ میں آ جائے گا آپ غور کریں۔  اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا:

اِنَّمَا الْمَسِیحُ عِیسَى ابْنُ مَرْیمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ

(سورت النساء 4 آیت 171)

’یہ اللہ کا کلمہ ہیں۔‘ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے کلمہ کے کیا معنی؟ کَلِمَۃُ اللہ جو ہے وہ لفظ کُنْ ہے اور کوئی کلمہ نہیں ہے، یاد رکھیں۔  چونکہ یہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے کوئی ظاہری سبب نہیں تھا اس لئے ان کی طرف کُنْ کی نسبت کی گئی اس خصوصیت کی بناء پر ان کو ’کَلِمَۃُ اللہ‘ کہا گیا۔ لیکن حقیقت ’کَلِمَۃُ اللہ‘ کی یہ ہے کہ ہر وہ شئے جو منجانب اللہ ہو وہ ’کَلِمَۃُ اللہ‘ ہے جیسے الٓمّٓ، ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیبَ (سورت البقرۃ 2 آیتان 2، 1)

یہ من جانب اللہ ہے، لہذا یہ ’کَلِمَۃُ اللہ‘ ہے، معجزہ ’کَلِمَۃُ اللہ‘ ہے، ہر نبی ’کَلِمَۃُ اللہ‘ ہے یہ سب منجانب اللہ ہے۔  ان کو مخصوص طور پر اس لئے کہا گیا کہ ان کے باپ نہیں تھے اس لئے ان کے لئے یہ لفظ شریعت کی زبان میں شامل ہو گیا ورنہ حقیقت میں کَلِمَۃُ اللہ کے معنی منجانب اللہ ہیں، ہر وہ شئے جو منجانب اللہ ہے کَلِمَۃُ اللہ ہے۔  یہ بات سمجھ میں آ گئی؟

اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ وَہَبْنَا لَہٗۤ اِسْحٰقَ وَ یعْقُوْبَ کُلًّا ہَدَینَا وَ نُوْحًا ہَدَینَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیمٰنَ وَ اَیوْبَ وَ یوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ ہٰرُوْنَ وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ (84) وَ زَکَرِیا وَ یحْیٰى وَ عِیسٰى وَ اِلْیاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِینَ (85) وَ اِسْمٰعِیلَ وَ الْیسَعَ وَ یوْنُسَ وَ لُوْطًا وَ کُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِینَ

(سورت الانعام 6 آیت 86)

یہ سولہ نبی ہیں نو علیہ السلام کو لگایئے سترہ (17) ہوئے۔ اس رکوع میں سولہ (16) سترہ نبیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان نبیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

اُولٰٓىٕکَ الَّذِینَ ہَدَى اللّٰہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ

(الانعام 6 آیت 90)

’یہ وہ حضرات انبیاء علیہم السلام ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی ہے، یہ اللہ سے ہدایت پائے ہوئے ہیں اللہ کے ہدایت یافتہ ہیں۔‘ ان کا معلم اور اُستاد اور ہدایت کنندہ صرف اللہ ہے، یہ وہ حضرات ہیں۔  آگے اللہ فرماتا ہے: اقْتَدِہْ اے نبی! ’تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔ ان کی ہدایت کی اتباع و اقتداء کرو۔‘ یہ خاتم النبین ہیں تمام شریعتوں کے یہ ناسخ ہیں، یہ ان نبیوں کی کیا اتباع کریں گے؟ اگر اتباع کریں گے عقائد میں تو مقلد ہو جائیں گے، اگر شریعت کی اقتداء کریں گے تو ناسخ نہیں رہ سکیں گے۔  اقتداء کس چیز میں کریں گے؟ کیا اتباع کریں گے؟ لہذا شرائع مراد نہیں ہو سکتے، عقائد مراد نہیں ہو سکتے، اعمال و افعال یہ تو قطعی مراد نہیں ہیں کہ وہ اتباع کر سکتے، وہ ناسخ نہیں ہونے کے تمام شریعتیں منسوخ ہو چکیں۔ پھر کس چیز کی اتباع کریں گے؟ ہر ہر نبی میں جو کمالات ہیں ان میں ایک ایک کمال ایسا ہے جو ہر نبی کے ساتھ مخصوص ہے ایک فعل ایسا ہے وہ اخلاقِ حسنہ، اخلاقِ جمیلہ میں سے ایک ایک نبی متخلق ہے، کمالات جتنے بھی تھے وہ انبیاء علیہم السلام میں علیحدہ اور متفرق طور پر تھے۔  تو اے نبی! ان میں جو اخلاق اور کمالات ہیں متفرق طریقہ پر وہ سب تم میں ہونے چاہئیں تم جامع کمالاتِ انبیاء ہو اور وہ جو کمالِ خاص ہے وہ سب منجانب اللہ ہے۔ تو ہر نبی تو "کلمۃ رب "ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو جامع کمالاتِ انبیاء ہیں یہ جامعِ کمالات ہیں یعنی یہ کلماتِ رب ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کلماتِ رب، نوح کلمۃُ الرَّب، موسیٰ کلمۃُ الرَّب، عیسیٰ کلمۃُ الرَّب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کلمۃُ الرَّب نہیں بلکہ کلماتُ الرَّب یہ کلمے ہیں، وہ کلمہ ہیں۔

قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّی وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا

(سورت الکہف 18 آیت 109)

’کہہ کہ اگر بحر کو روشنائی قرار دے دیا جائے کلماتُ الرَّب کو رقم کرنے کے لئے اور اوصاف کو بیان کرنے لے لئے ختم ہو جائے گا بحر کلماتُ الرَّب رقم ہونے سے پہلے۔  بحر میں صلاحیت ہی نہیں ہے کہ جو کلماتُ الرَّب کو رقم کر سکے۔  محمد صلی اللہ علیہ و سلم الرسول اللہ کلماتُ الرَّب ہیں اور کلماتُ الرَّب ناقابلِ رقم ہیں۔  تو محمد الرسول اللہ ناقابلِ بیان، کون بیان کر سکتا ہے؟ جو بیان کرے گا وہ یا تو جھوٹا ہو گا یا اس کے اپنے خیال کے مطابق ہو گا کوئی نہیں بیان کر سکتا۔ کوئی ہو، ولی ہو، ابدال ہو، قطب ہو، صدیق ہو، رئیس الصدیق ہو، کیسا ہی قدسی اعظم ہو وہ گھٹ کر فاسق ہو سکتا ہے کیسا ہی فاسق ہو وہ ترقی کر کے وہ بڑھ کر قطب ہو سکتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کتنا ہی کم کر دیا جائے وہ ابو بکر نہیں ہو سکتے۔  نبوت کا تجزیہ کرتے کرتے کتنا ہی ننھا سا جز نکال لیجئے وہ صدیقین سے افضل رہے گا، اور جو بڑے سے بڑا نیک اُمتی ہے اس کا آپ تجزیہ کریں گے وہ فِسق پر آ کر ٹھہر جائے گا۔  اور فسق میں اگر رحمت خدا کی شامل ہو کوئی چور، ڈاکو، زانی وہ قطب، ولی اور ابدال بن جائے گا، مگر نبی میں یہ بات نہیں تمام جہان کے اولیاء جتنے ہیں وہ سب مل کر بھی اس درجہ پر پہنچ ہی نہیں سکتے، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف کرنا محال اور نا ممکن ہے۔

یہاں تو ایک سمندر ہے، یہی مضمون دوسری آیت میں ہے

وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ

(سورت لقمان 31 آیت 27)

اس آیت میں سات (7) سمندر ہیں اور بحر کو مدد دینے کے لئے اور بحر لایا جائے یہاں تک کہ خدا لا انتہا بحر لا سکتا ہے پھر بھی رقم نہیں ہو سکتا اور محمد الرسول اللہ کلماتُ الرَّب ہیں، لہذا کلماتُ الرَّب جو ہیں وہ ناقابل رقم ہیں۔  محمد الرسول کے اوصاف اور صفات جو ہیں وہ ناقابلِ رقم ہیں کوئی انسان نہیں بیان کر سکتا۔  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یا علی رضی اللہ عنہ یہ آ جائیں اور کُل انسان یہ سب مل کر بیان کریں یا ملائکہ کوئی نہیں کر سکتا نہ ان کے علم کا نہ عمل کا حال بیان کر سکتے ہیں۔  آپ کیا بیان کر سکتے ہیں؟ ازل سے ابد تک کے انسان مل کر خلائق بیان نہیں کر سکتے۔  ہاں بیشک اللہ قادر ہے وہ بیان کرتا ہے ٹھیک ہے وہ بیان کر سکتا ہے اور کوئی نہیں بیان کر سکتا۔  مگر اس کے سمجھنے کے لئے بھی تو کچھ چاہیئے نا؟ بچہ کو آپ کتنا ہی بلوغ کی کیفیات سمجھا دیں بیان سچ ہو گا، حق ہو گا مگر کبھی بھی وہ سمجھ کر نہیں دے گا۔  نہیں آیا سمجھ میں؟ جو نابالغ ہے وہ کیسے بلوغ کی کیفیات سمجھ سکتا ہے؟ خدا تعالیٰ کا بیان قطعی سچا ہے وہ صحیح تعریف بیان کرے گا لیکن آپ سمجھ نہیں سکیں گے نہ قرآن کو، نہ حدیث کو صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا۔  اسی طرح نابالغانِ معرفت جو ہیں وہ عرفاء کے صحیح حالات کو نہیں سمجھ سکتے، کیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف کردار ہے؟ میں آپ سے کیا بیان کروں؟ نا ممکن اور محال ہے۔  تم چاہو تو میں اپنی عقل کے مطابق کچھ بیان کر دوں، وہ تو جتنا میرا علم ہے اس کو بیان کر رہا ہوں، جو مجھ سے زیادہ جانتا ہے وہ اس سے زیادہ بیان کر دے گا۔  مجھے تو اتنا ضرور پتہ چل گیا کہ کچھ پتہ نہیں چلا، بس اس سے زیادہ نہیں معلوم ہو سکتا۔ بس اتنا ہی بیان کر سکتے ہیں، ہم کچھ نہیں بیان کر سکتے۔

٭٭٭

نبی کی تعریف و اسلام کیا چیز ہے؟

آپ غور کر کے دیکھیں آپ کے سامنے میں ایک بات بیان کر سکتا ہوں۔  دینِ اسلام! اسلام کیا چیز ہے؟ ’دین‘ کا جو لفظ آیا کرتا ہے اور مذہب کا، اس کے اندر تین جُز ہوا کرتے ہیں ؛ ایک عقیدہ ہوتا ہے، ایک عمل ہوتا ہے، ایک اخلاق ہوتا ہے تین چیزوں سے یہ چیز مرکب ہوا کرتی ہے، اس مرکب چیز کا نام مذہب اور دین ہے۔  آپ ہر مذہب کو دیکھ لیجئے اس میں کچھ عقائد ہوتے ہیں جسے ہم لوگ ایمانیات کہتے ہیں۔ کچھ اعمال ہوا کرتے ہیں جو جوارح سے کئے جاتے ہیں، اعضاء سے کئے جاتے ہیں، کچھ عادات اور خصلتیں ہوا کرتی ہیں ان کو ’اخلاق‘ کہا کرتے ہیں بس ان تین چیزوں کے مجموعہ کا نام مذہب ہوتا ہے۔  اسلام میں بھی یہی تین چیزیں ہونی چاہئیں اور یہ تینوں چیزیں ہیں۔

پہلا جُز اس کا عقیدہ ہے عقیدے جتنے ہیں ان سب میں سے بڑا جو عقیدہ ہے وہ اسلام کے اندر توحید کا مسئلہ ہے، ٹھیک ہے نا؟ سب مسلمان کلمہ گو جانتے ہیں عقیدہ کے اعتبار سے توحید کے مسئلہ سے بڑا کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ سب سے بڑا عقیدہ ہے یہ اسلام کا عقیدہ ہے۔  اس عقیدہ کو اگر آپ دیکھیں گے تو بہت سے غیر اسلامی مذاہب میں جوں کا توں موجود ہے۔ براہمہ کا ایک گروہ ہے ہندوستان میں ان کے ہاں ایسی توحید ہے جیسی مسلمانوں کے ہاں ہے کوئی فرق نہیں ہے، ماتھے پر تین نشان لگایا کرتے ہیں، آپ نے قشقہ ہندوستان میں دیکھا ہو گا وہ براہمہ کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے ہاں توحید کامل ہے نبوت کے منکر ہیں توحید کامل ہے۔ جتنے آسمانی مذاہب ہیں سچے سب میں توحید موجود ہے۔  اور آسمانی مذاہب کے ماننے والے اس وقت اس دنیا میں موجود ہیں اور کُل مسلمانوں کے نزدیک وہ جہنمی ہیں یا نہیں؟ جو اس وقت سچی انجیل پر عمل کرے وہ بھی آپ کے نزدیک کافر ہی ہے نا؟ سچی توریت پر عمل کرے تو کافر، صحف ابراہیم پر عمل کرے تو کافر، انجیل کو سچا جانے تو کافر۔  تو توحید کا مسئلہ اکثر غیر اسلامی مذاہب میں موجود ہے۔  آپ جو اسلام کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہمارا مذہب حق ہے جب آپ ان لوگوں کے پاس جا کر کہیں گے تو وہ کہیں گے۔ ’یہ ہمارے پاس موجود ہے، آپ نئی حقانیت کیا لائے؟ ہمارے ہاں یہ موجود ہے۔‘  سمجھ میں آ گیا نا؟ نبوت کا مسئلہ جو ہے جو تمام آسمانی مذاہب میں موجود ہے۔

عمل کے لئے جزا کا مسئلہ ہے۔ تقریباً تمام مذاہب میں سوائے دہریہ کے موجود ہے، دہریے خدا کے قائل نہیں ہیں باقی ہر مذہب خدا کا قائل ہے۔  عمل کے لئے بدلہ ہے وہ بدلہ خواہ تناسخ کے ذریعہ ہو، خواہ روحانی ہو، کسی اور ذریعہ سے ہو یا جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں میرا بھی یہ عقیدہ ہے، خدا میرا اور آپ کا اسی عقیدہ پر انجام کرے کہ قیامت کے ذریعہ دوبارہ اُٹھنا پڑے گا۔ تو قیامت کے بھی بہت کثیر کافر قائل ہیں عیسائی بھی، موسائی بھی، بہت سے لوگ ہیں تو جتنے بھی اعتقادی مسئلہ آپ لیں گے وہ کُل کے کُل یا اجزاء کی حیثیت سے متفرق غیر اسلامی مذاہب موجود ہیں۔  آپ کہیں گے کہ اسلام قرآن ہے، ٹھیک ہے، یہ حق ہے۔  آپ کہیں گے، قرآن کو ہاتھ میں لے کر کہیں گے کہ: الٓمّٓ (1) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیبَ (سورت البقرۃ 2 آیت 2) ’اس کتاب میں شک نہیں ہے۔‘ یہی معنی ہیں نا ٹھیک ہے، اگر کوئی یہودی توریت غیر محرف ہاتھ میں لے کر کہے:  ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیبَ  تو آپ کیا کہیں گے؟ کچھ تو بولو ایسا ہی ایمان لانا پڑے گا جیسا قرآن پر ہے ذرا سا فرق کرتے ہی کافر ہو جائے گا۔  عیسائی غیر محرف انجیل ہاتھ میں لے کر کہے: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیبَ مسلمان کیا کہے گا؟  ’اٰمَنَّا‘ ٹھیک ہے نا۔ کیا بات ہوئی؟ کتاب وہاں بھی موجود ہے، قرآن میں اور اس میں کیا فرق ہوا؟ ہُدًى لِّلْمُتَّقِینَ ہدایت ہے متقیوں کے لئے، اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیہَا ہُدًى وَّ نُوْرٌ (سورت المائدہ 5 آیت 44) ’ہم نے توریت نازل کی تھی اس میں بھی ہدایت اور روشنی تھی۔‘ تو قرآن جو چیز پیش کر رہا ہے وہ دوسری جگہ غیر مسلموں میں موجود ہے جن کو آپ کافر اور جہنمی بتا رہے ہیں۔ تو اوّل سے لے کر آخر تک جتنے بھی عقائد ہیں یا متفرق طور پر یا مجتمع طور پر دوسری جگہ موجود ہیں۔

اب رہ گیا اخلاق، اخلاق کُل کے کُل جتنے ہیں جوں کے توں مذہب اور لا مذہب دہریہ اور غیر دہریہ سب میں مشترک ہیں۔  کسی شخص کے نزدیک ماں باپ کا ستانا اچھی چیز نہیں ہے، کسی شخص کے بھی نزدیک مُحسن کشی، احسان کرنے والے کے ساتھ بُرائی کرنی خواہ دہریہ ہو، فلسفی ہو سب بُرا سمجھتے ہیں۔  غرض ’اخلاقی‘ جتنے علوم ہیں وہ سب کے سب تمام مذاہب میں موجود ہیں۔

اب رہ گئے ’عبادات اور معاملات‘ جو ہیں تقریباً سب مذاہب میں موجود ہیں، عبادات کے ادا کرنے کا جو طریقہ ہے وہ کچھ مختلف ہے اور باقی نوعیت سب جگہ موجود ہے۔  نماز ہمارے ہاں بھی پڑھی جاتی ہے اور کلیسا میں دوسرے طریقہ سے پڑھی جاتی ہے، روزہ ہمارے ہاں جس طریقہ سے رکھا جاتا ہے ان کے یہاں بھی دوسرے طریقہ سے رکھا جاتا ہے، حج کرنے کے لئے ہمارے ہاں مکہ جانا پڑتا ہے وہاں کاشی اور سومنات جاتے ہیں سب کے ہاں یا ترا ہے۔  آپ سمجھ گئے؟ کونسی چیز آپ پیش کر رہے ہیں جو ان کے ہاں نہیں ہے؟ جو آپ کہیں یہ اچھی چیز ہے، جو چیز آپ کے پیش کریں گے وہ کہیں گے یہاں موجود ہے۔  تو اسلام تو وہ ہونا چاہیئے جو غیر مسلم کے پاس نہ ہو تو قرآن کو اوّل سے آخر تک الم سے والناس تک آپ اُٹھا کر دیکھیں تمام اغیار میں مذاہبِ باطلہ میں وہ تقسیم ہو گیا کچھ نہیں بچا، کوئی چیز آپ نہیں بتا سکتے۔  قصصِ اوّلین و آخرین آپ کہیں گے وہ بھی دوسروں کے ہاں موجود ہیں، تو پھر قرآن کیا چیز رہا؟ اسلام کیا چیز رہا؟ کوئی چیز نہیں ہے۔  آپ سمجھ گئے نا؟ خدا آپ کو توفیق دے اور ہدایت دے کوئی غلط بات نہ سمجھو۔

صرف ایک ہی قضیہ ہے اسلام اور قرآن میں جو غیر مسلم کے ہاں نہیں ہے، وہ ہے ’محمد الرسول اللّٰہ‘ بس یہ ایک ہی قضیہ ہے اسی کا نام قرآن، اسی کا نام اسلام ہے یہی غیر مسلم کے ہاں پیش ہو گا یہ اس کے ہاں نہیں ہے اس کا وہ منکر ہے۔  جس چیز کا وہ منکر ہے وہ چیز آپ کی نہ رہی جس چیز کا وہ منکر ہے وہ ہے آپ کی حقیقت وہ ہے اسلام۔ وہ کیا ہے؟ بس ’محمد الرسول اللّٰہ‘ صلی اللہ علیہ و سلم۔ توحید کوئی چیز نہیں ہے اگر محمد الرسول اللہ کذب کی دعوت دے دیں وہ حق ہوتا۔  لہذا انہوں نے کہا ’خدا واحد ہے‘ ان کے کہنے سے توحید عقیدہ بنا۔  عیسیٰ رسول اللہ اور روح اللہ ہیں ان کے کہنے سے عیسیٰ علیہ السلام کو رسول اللہ اور روح اللہ مانا ہے اگر وہ نہیں کہتے تو نہیں مانتے۔ انہوں نے کرشن جی کے متعلق کچھ نہیں کہا اس لئے نہیں مانتے، اگر وہ ان کے متعلق کہتے کہ نبی اللہ ہیں ہم ان کو بھی عیسیٰ علیہ السلام کی طرح مان لیتے۔ انہوں نے کہا موسیٰ کلیم اللہ اور رسول اللہ، ابراہیم خلیل اللہ ہر نبی کو ان کے کہنے سے مانا، ہر عقیدہ کو ان کے کہنے سے مانا، خدا کو وحدہ لاشریک ان کے کہنے سے مانا۔  انہوں نے کہا کہ ’یہ کتاب مجھ پر نازل ہوئی‘ مجرد ان کے کہنے سے ہم نے مان لیا۔ قرآن پاک کا جو حصہ مکہ میں نازل ہوا تھا وہ پہلے ہونا چاہیئے تھا جو مدینہ میں نازل ہوا تھا وہ پیچھے ہونا چاہیئے تھا مدنی سورتوں کو مقدم کر دیا۔ سورت البقرۃ پہلی سورت مدنی ہے، سورت آل عمران مدنی یہ ترتیب و ترکیب کے بالکل خلاف ہے، انہوں نے کہا یونہی حق ہے ہم نے کہا ٹھیک ہے، جو یہ کہیں وہ حق، کہا کہ ’خدا کی طرف سے یہ قرآن نازل ہوا‘ ہم نے کہا بالکل حق ہے، انہی کے کہنے سے ’خدا کو وحدہ لاشریک مانا” انہی کے کہنے سے ’مُردہ کا زندہ ہونا مانا‘ انہیں کے کہنے سے ’کُل اخلاق کو مانا‘ بس یہی اصل الاصول ہے جو پورے اسلام اور حقائق کو گھیرے ہوئے ہے۔  اگر یہ بندش نکال دی جائے جس طرح جھاڑو میں سے تیلیاں منتشر ہو کر اِدھر اُدھر چلی جاتی ہیں آپ کا سارا مذہب منقسم ہو جائے گا کچھ باقی آپ کے پاس میں نہیں رہے گا۔  اصل الاصول ہے جڑوں کی جڑ ’محمد الرسول اللّٰہ‘  صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ نَبِی الْکَرِیم

یہ ہے نبی کی تعریف، یہ ہے اصلِ اسلام جو بھی آپ فرمائیں، خواہ وہ عقل کے مطابق ہو، خواہ وہ عقل کے خلاف ہو مجرد آپ کے کہنے سے مانا جائے گا۔  کبھی بھی عقل میں آتا ہے کہ آدمی کی گردن کٹ جائے، وہ زندہ ہو؟ دنیا کی طاقت اس کی زندگی ثابت نہیں کر سکتی، وہ مُردہ ہے اس کو دفن کر دیا جاتا ہے، نہیں کرتے دفن؟ انہوں نے کہا وہ زندہ ہے بَلْ اَحْیآءٌ ’وہ زندہ ہیں‘ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (سورت البقرۃ 2 آیت 154) ’تمہیں پتہ نہیں ہے۔‘ اس بات کا تو پتہ ہے کہ وہ مُردہ ہے دفن ہو گیا۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا نہیں، بالکل متضاد ہو گئی مُردہ کو زندہ کہہ رہا ہے۔  نبی کی یہی شان ہے جو تمہاری عقل میں نہ آئے وہ حق ہے اور عقل میں آنے کے بعد مانا تو پھر ضرورت کیا رہی نبی کی؟ عقل میں علم حاصل کرنے کی تو صلاحیت ہی نہیں ہے عقل بالکل ناقص چیز ہے۔

یہ نہیں سمجھے کہ عقلی علوم کیا ہیں اور ان کے کیا نتائج ہیں؟ عقل سے جو اب تک علم مُدون ہوئے ہیں حساب ہے، الجبرا ہے، اقلیدس ہے یہ علوم ریاضیہ ہیں۔  علم صحیح ہے جس کو سائنس کہتے ہیں جس کا رواج آج کل یورپ میں ہے۔ ایک علم ہے جس کو فلسفہ الٰہیات کہتے ہیں جس میں مابعد الطبیعت حالات بیان کئے گئے ہیں، یہ سب عقلی علوم کہلاتے ہیں، ان سب کے جو انجام ہیں ان سے اس دنیا کی زندگی کو سنوارنا ہے۔  انجینئرنگ ہے وہ مکانوں کے کام میں آ رہی ہے، عدد کا علم ہے آرتھمیٹک وہ لین دین اور قیمتوں کے تقرر میں کام آ رہا ہے، علمِ طب ہے ڈاکٹری کا علم وہ بدن کی صحت میں کام آ رہا ہے ہر علم کو آپ دیکھیئے طبعیات کے جو علوم ہیں سفر کو آسان کرنے کے لئے اصول مہیا ہو رہے ہیں یا موت کے اسباب مہیا کرنے کے اصول وضع ہو رہے ہیں۔  بہتر حال جو بھی ہے اس زندگی سے تعلق رکھتے ہیں عقل کے جتنے علوم ہیں۔

لیکن آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ بہت بڑی اکثریت ہے زندوں کی جن میں حیات ہے ذی حیات لوگوں کی بڑی اکثریت ہے کہ جن کی اکثریت کے مقابلے میں انسان کی اقلیت ہے، حیوانات کی اتنی اکثریت ہے کچھ انداہ ہی نہیں ہے حیوانات کے مقابل میں انسان کتنا قلیل ہے اتنی بڑی اکثریت جو ذی حیات نفوس کی بغیر عقل کی زندگی کو بسر کر رہی ہے، انسان تو بڑا بدنصیب ہے کہ ایک عقل کا بوجھ اور اپنے سر پر لاد کر زندگی بسر کر رہا ہے یہ تو بغیر عقل کے بھی گزر سکتی تھی انتہائی بے عقلی ہوئی ہے۔  مجھے تو معلوم ہو کہ عقل کا وجود لغو ہے، لیکن لغو نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہی مابین امتیاز ہے اگر لغو قرار دے دو تو انسان حیوان کی مثل ہو گیا۔  اگر اس سے صحیح کام نہ لیا تو اس سے بدتر ہو گیا، مابین امتیاز عقل ہی تو ہے۔ تو عقلی مضمون کے ذریعے تو مابین امتیاز ہو نہ سکی، صحیح کام نہ لیا جا سکا تو لابُد اس کو بتانے کے عقل سے باہر کوئی معلم ہونا چاہیئے، اسی معلمِ عقل کا نام نبی ہے۔  نبی کسے کہتے ہیں؟ معلمِ عقل کو۔

تجربے سے بھی آپ کو معلوم ہو جائے گا ہم نے بہت سی کتابوں کو دیکھا ان سے ہمارے دماغ میں مضمون آ یا اس کو ہم نے کتاب میں درج کر دیا، آپ اس کتاب کو دیکھیں اس سے آپ کے دماغ میں ایک مضمون آ جائے گا آپ اپنا مضمون دوسرے رسالے میں درج کر دیں۔ یہی ہو رہا ہے کتاب سے مضمون دماغ میں آ رہا ہے، دماغ سے کتاب میں جا رہا ہے برابر یہی ہو رہا ہے۔ یہ کتاب یہ دماغ، یہ دماغ یہ کتاب برابر یہ سلسلہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آپ کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ ہر دماغ دو کتابوں کے بیچ میں آ گیا ایک کتاب سے تو ایک مضمون لیا اور دوسری کتاب کو دیا اور ہر کتاب دو دماغوں کے بیچ میں آ گئی۔  جیسے میں نے آپ کو کتاب دی ایک تو میرے دماغ کے بعد آئی اور ایک آپ کا دماغ دو (2) کے بیچ میں آ گیا۔  تو ہر کتاب دو دماغوں کے بیچ میں، اور ہر دماغ دو کتابوں کے بیچ میں اور بیچ کا تصور ہو نہیں سکتا جب تک پہلا کا تصور نہ ہو۔ بیچ جو ہے وسط نہیں معلوم ہو سکتا جب تک کہ ابتداء نہ ہو، وہ بیچ کیسے کہلائے گا؟ بیچ تو اوّل کے اعتبار سے ہے اگر اوّل نہیں تو بیچ کچھ بھی نہیں، تو لابُد اول ہونا چاہیئے، پہلی کتاب ہونا چاہیئے، پہلا دماغ ہونا چاہیئے۔  پہلی کتاب اللہ ہے، پہلا دماغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے، یہ وہ دماغ ہے کہ جس نے کسی انسانی کتاب میں سے مضمون نہیں لیا اور یہ وہی کتاب ہے کہ جو کسی انسانی دماغ کا نتیجہ نہیں۔

آپ غور کیجئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنی چیزیں بنائی ہیں انسانوں کی ضروریات کے اعتبار سے بنائی ہیں، جس شئے کی انسان کو زیادہ ضرورت ہے اس کا وجود زیادہ بنایا ہے جس شئے کی ضرورت کم ہے اس کا وجود کم بنایا ہے۔  جیسے غلہ کی ضرورت زیادہ ہے اسے زیادہ بنا دیا، پھلو کی ضرورت کم ہے اس لئے کم بنا دیا، تانبے، پیتل کی ضرورت زیادہ ہے اسے زیادہ بنا دیا، چاندی، سونے کی ضرورت کم ہے اسے کم بنا دیا، نمک کی ضرورت زیادہ ہے لا مرچ اور دیگر مصالحوں سے اسے زیادہ بنا دیا، پانی کی ضرورت کھانے سے زیادہ تھی پانی کے دریا کے دریا بہا دیئے، کنوئیں بنا دئے، ہوا کی ضرورت اس سے بھی زیادہ تھی اس کو زیادہ مہیا کر دیا۔ اس استقرار سے، اس تجسس سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ جتنی ضرورت زیادہ ہو گی اس شئے کا وجود اتنا ہی زیادہ ہو گا۔  اب یہ نعمتیں ہیں، محاسن ہیں جو جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ضرورت کی نعمتیں مہیا کی ہیں اگریہ آپ کو حاصل نہ ہوں کیونکہ یہ انسانی قدرت میں شامل نہیں ہیں، انسان کی قدرت میں اگر شامل ہوتے تو نعمتیں اپنے لئے ہر شخص حاصل کر لیتا۔ ایک پچاس روپے مہینہ پارہا ہے، ایک پانچ سو روپے مہینہ پا رہا ہے اگر پچاس روپے والے کی قدرت میں وہ ہزار روپے ہوتے تو وہ مہیا کر لیتا یا نہیں کر لیتا؟ہر شخص ان نعمتوں تک پہنچنے پر قادر نہیں ہے یا وہ نعمتیں اس حد تک پہنچنے کے لئے گویا تیار نہیں قدرت سے باہر ہے۔ تو جو شئے قدرت سے باہر ہو اور پہنچنا ضروری ہے اس نعمت تک خواہ وہ نعمت ہم تک پہنچے یا ہم اس نعمت تک پہنچیں یہ ضروری ہو گیا نا، اس کی زیادہ ضرورت ہوئی نا۔  جتنی بھی چیزیں ہیں بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہے نا؟ پیدا تو کر دیئے دریا کے دریا، لیکن پیاس کے وقت ایک گلاس ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔ تو زیادہ ضرورت اس کی ہوئی کہ وقتِ ضرورت مل جائے تو اس نعمت تک پہنچنا سب سے زیادہ ضروری ہو گیا۔ اس کی ضرورت سب سے زیاد ہو گئی تو نعمت تک پہنچنا سب سے زیادہ ضرورت کی چیز ہوا یا نعمت کا اس تک پہنچنا سب سے زیادہ ضروری چیز ہوا؟

بحکم استقراء آپ سمجھ چکے ہیں کہ جس شئے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے اسے سب سے زیادہ ہونا چاہیئے۔ تو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ نعمت تک پہنچے اور نعمت تک پہنچنا یا نعمت کو منعم تک پہچانا اسی کے معنی ’رحمت‘ کے ہیں، اس کے معنی یہی ہیں کہ نعمت منعم تک پہنچ جائے، تو سب سے زیادہ ضرورت اس چیز کی تھی تو سب سے زیادہ اس کو ہونا چاہیئے۔  تو رحمت کا وجود سارے عالَم سے زیادہ ہونا چاہیئے کہ سب سے زیادہ اس کی ضرورت ہے:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِینَ

(سورت الانبیاء 21 آیت 107) ’ہم نے تمہیں تمام عالَم کے لئے عالَموں کے لئے رحمت بنا کر بھیج دیا۔‘ اس نے کہہ دیا تو وہ سب سے زیادہ اہم چیز اور سب سے زیادہ بڑی چیز ہو گیا۔ ’رحمتُ اللعالمین‘ ہو گیا اس کی کیا تعریف کی جا سکتی ہے؟ کیا کہا جا سکتا ہے؟

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیدِنَا وَمَوْلَنَا مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ

مسلمان قوم کا زوال کسی وجہ سے نہیں ہوا ہے کوئی وجہ نہیں ہے، صرف اس کو اپنے نبی سے علاقہ کمزور ہو گیا ہے، بے تعلقی سی ہو گئی ہے اور اس کے مختلف سبب بنے، تباہی کا سبب صرف یہی ہے اور کوئی سبب نہیں ہے۔  کسی وقت میں بھی مسلمان کے پاس اتنا روپیہ نہیں تھا جتنا اب اس کے دور میں ہے، کسی مدرسہ میں جتنا روپیہ اب تقسیم ہو رہا ہے کبھی کسی دور میں بھی نہیں ہوا اس کی آپ تحقیق کر لیں۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی علاقہ مسلمان کو باقی نہیں رہا یا بہت کم ہو گیا۔

علاقہ کی مثال کے لئے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ حدیث شریف میں یہ آیا ہے کہ ایک یہودی نے یہ کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو مصطفیٰ بنا کر بھیجا، ایک صحابی تھے انہوں نے اس کو تھپڑ مار دیا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی اصطفیٰ کیا ہے؟ انہیں یہ بات ناگوار ہوئی کہ موسیٰ کی ذات کو اس نے مقصود کیا، اس نے استغاثہ کیا کہ میں ذِمِّی ہوں اس نے میرے ساتھ یہ ظلم کیا تو مسلمان اس کی بات برداشت نہ کر سکا۔  حالانکہ وہ واقعہ اپنی جگہ صحیح تھا لیکن مسلمان اس کے لئے تیار نہیں تھا کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے پر کسی نبی کو مصطفیٰ سمجھے۔

٭٭٭

کوثر کے کیا معنی ہیں؟

اب اللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم کرے۔ میں آپ کے سامنے ایک یا دو باتیں اور بیان کر دیتا ہوں۔ مجھ میں اتنی استقامت نہی، مریض ہوں، تھوڑا تھوڑا جو مجھ سے ہو سکتا ہے بیان کر دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّاۤ اَعْطَینٰکَ الْکَوْثَرَ

(سورت الکوثر 108) ’بیشک ہم نے تجھ کو دیا، عطا کیا، عطیہ ہے‘ اَعْطَینَا میں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ دیتا ہو، اس کے لئے اَعْطَینَا کا لفظ آ سکتا ہے۔ یہ اَعْطَا کا لفظ ہے یہ محض عطیہ کے طور پر تجھ کو کوثر دے دیا۔  ’عطا کوثر‘ کوثر کا عطیہ دیا۔ کوثر کے کیا معنی؟ کو ثر کی تفسیریں متعدد ہیں: ۔

عام طور پر یہ کہا جا تا ہے کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے اور ایک حوض ہے۔  بعضوں نے کہا کہ حوض ہے۔ بعضوں نے کہا کہ نہر ہے۔ دونوں معنی بیان کئے ہیں، عام طور پر مشہور ہے حوضِ کوثر، نہرِ کوثر۔  مفسرین کی یہ رائے ہے کوثر سے مراد نہر ہے یا وہ حوض ہے۔ اس جگہ پر یہ محل احسان، ایثار، عطیہ اور امتنان کا ہے، اس موقعہ پر حوضِ کوثر کا دینا زیادہ سمجھ میں نہیں آتا، اس لئے کہا نہرِ کوثر یا حوضِ کوثر بہر حال جنت کا ٹکڑا ہے، ایک جز ہے۔  جیسے مسجد کا ایک ٹکڑا ہے کنواں مسجد میں کنواں ہوتا ہے، وہ تمام مسجد کے رقبہ سے بہت چھوٹا ہوتا ہے، مسجد میں حوض ہوتا ہے جامعِ مسجد دہلی کا حوض آپ نے دیکھا ہے وہ جامعِ مسجد سے کتنا چھوٹا ہے۔  اسی طرح جنت میں جو نہر ہے وہ جنت سے چھوٹی ہے اگر وہ حوض ہے تو وہ بھی جنت سے چھوٹا ہے اور ایک جنت دو جنتوں سے چھوٹی ہے۔ کیونکہ ایک تو آدھا ہے دوکا، دو سے ایک چھوٹا اور ایک سے حوضِ کوثر چھوٹا، تو دو  (2) سے حوضِ کوثر اور نہرِ کوثر بہت چھوٹی ہو گئی۔  وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (سورت رحمٰن 55 آیت 46) ’جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔‘ خائفِ رب کے لئے تو دو جنتیں اور افضل الانبیاء کے لئے جنت کا ننھا سا ٹکڑا، یہ نہیں سمجھ میں آیا؟

بعض علماء نے یہ فرمایا کہ اس سے مراد قرآن ہے۔ یہ بھی دل کو نہیں لگتا کہ وہ قرآن ہو، کیونکہ جس طرح قرآن منجانب اللہ ہے اسی طرح توریت بھی منجانب اللہ ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن دیا اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو توریت دی ان کی بھی یہی پوزیشن ہے۔  بس ایک فرق ہے ذرا سا باقی سب میں برابر ہیں ان کی عبادت معجزہ ہے، ان کی عبادت معجزہ نہیں تھی۔  ان کو ’بَین‘ معجزے دئے گئے تھے آسمانی کتاب ہونے میں ضرور برابر ہیں یہ توریت بھی، انجیل بھی، صحیفہ ابراہیم بھی وغیرہ۔

بعض لوگوں نے کہا کہ کوثر سے مراد اولاد ہے:

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَ جَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیةً

(سورت الرعد 13 آیت 38) سوائے عیسیٰ اور حضرت یحییٰ کے تمام انبیاء کی بیویاں بھی تھی اور اولاد بھی تھی۔  یہ بھی کوئی نرالا عطیہ نہیں ہے۔  بہر حال علماء نے یہ فرمایا کہ اس سے مراد متبعین ہیں۔ ٹھیک ہے یہاں سب سے زیادہ ہیں لیکن ان کے ہاں بھی ہیں قلت سہی لیکن نوعیت مشترک ہے۔  علماء ہیں ان کے ہاں بھی ہم نے امام پیدا کئے ہمارے احکام کی ہدایت کیا کرتے تھے موسیٰ علیہ السلام کے ہاں یہاں بھی علماء ہیں، اس میں کوئی شک نہیں زیادہ ہیں یہ ٹھیک ہے کمی بیشی ضرور ہے نوعیت ایک ہے۔  بہر حال تقریباً پندرہ تفسیریں کی ہیں جو مجھے یاد آتی جا رہی ہیں میں آپ کے سامنے بیان کرتا جا رہا ہوں۔ جو چیزیں تفسیر میں بیان کی گئی ہیں وہ سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر انبیاء میں مشترک ہیں، خواہ وہ اشتراک کُلّی ہو یا جُزوی مشترک ضرور ہے۔  اور مشترک عمل اس قابل نہیں ہے کہ اس کو امرِ مختص بنایا جائے اور اس کو خصوصیت دی جائے۔

کوثر کی یہ تفسیریں جو ہیں، بعضوں نے کہا اسلام۔ جیسے اسلام ویسے عیسائیت اور ہر زمانے کے نبی کا جو مذہب ہے جو اس مذہب کی حیثیت ہے وہی اس کی ہے اسلام کی خصوصیت نہیں۔  سب مذاہب منجانب اللہ ہیں اور حق ہیں تمام انبیاء کے معجزات وہاں بھی ہیں یہاں بھی ہیں۔  بلکہ بَین معجزے وہاں زیادہ ہیں یہاں کم ہیں۔  معجزات جو انبیاء علیہم السلام کو دیئے گئے تھے قدیم انبیاء کو اس نوعیت کے معجزے یہاں نہیں ہیں ان کے تو بَین تھے اتنا بَین معجزہ یہاں نہیں ہے، محمد صلی اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا معجزہ بین نہیں ہے۔

میرے ہاتھ ایک کتاب لگی جہانگیر کے شاہی کُتب خانہ کی مہر لگی ہوئی تھی، اس میں میں ایک عیسائی کا اور مُلّا کا مناظرہ تھا، قلمی نسخہ تھا وہ میں نے حکیم اجمل خاں کو دے دیا۔  وہ کتاب نواب فیض احمد خاں کے ہاں پڑھی جایا کرتی تھی اس میں بہت بحثیں تھیں عیسائی اور مسلمان کی بحث ہو رہی تھی دونوں بحث کر رہے تھے۔  اس نے یہ جواب دیا کہ ہمارے نبی کے معجزات بڑے بَین ہیں احیائے موتا، مُردے کو زندہ کرنا، کوڑی کو تندرست کر دینا ایسے ہی ان کے معجزات بہت سے ہیں۔  ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں ایسے معجزے نہیں ہیں ہمارے علمائے نے ان معجزات کی کثرت کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ:  اِنَّاۤ اَعْطَینٰکَ الْکَوْثَر، کی جو سورت ہے یہ تین آیتوں کی ہے اور اس کے ساتھ چیلنج ہوا ہے: فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (سورت البقرۃ 2 آیت 23) یہ سورت بھی اس قابل ہے کہ اس کے ساتھ چیلنج ہو، اس کی مثل نہیں لا سکتے، گویا تین آیتوں کی مثل نہیں لا سکتے۔ اور قرآن شریف میں تقریباً چھ ہزار آیتیں ہیں چھ ہزار آیتوں کی ایسی تین تین آیتوں کے اگر ٹکڑے کئے جائیں تو دو ہزار بن گئے ہر آیت کے ساتھ معجزہ ہے تو ہمارے نبی کے دو (2000) ہزار معجزے ہیں۔  اس قسم کے جوابات اس لئے دیئے۔  بہت اہل علم لوگ جمع تھے آج سے (50) پچاس سال پہلے بڑے ذی علم لوگ جمع تھے۔ یہ واقعہ تقریباً چالیس پینتالیس برس کا ہے یہ ذکر ہو رہا تھا چلتا آ رہا تھا۔  میں نے بہت بڑے اماموں کی کتابوں میں بھی یہ مضمون دیکھا جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں۔  تو یہ بات جو ہے صحیح نہیں ہے غیر صحیح دلیل سے ثابت کرنا ثابت نہ کرنا، اس سے بہتر ہے یعنی غلط قدم اُٹھانے سے نہ اُٹھانا بہتر ہے۔  قدمائے علماء یہ بیان کرتے چلے آ رہے ہیں ہزار ہزار برس کے یہ ٹھیک نہیں ہے۔

ایک تو یہ بات ہے اس کے اندر کہ وہ نوعیت ایک ہے، موسیٰ علیہ السلام سے عصاء کا معجزہ دس (10) دفعہ ہو تو اسے ایک ہی معجزہ سمجھا جائے گا، معجزہ عصاء حالانکہ کئی دفعہ ہوا ان سے تو وہ کئی آیتوں سے شمار نہیں ہوا۔  ایک ہی آیت ہے وہ، وہ نوعیت ایک ہی ہے، معجزہ ایک ہی رہے گا۔ اس کے علاوہ پھر وہی دِقت ہوئی، پھر اس کا حل کیا ہے؟ آپ سمجھے اسے وہ غلط فہمی ہوئی ہے۔

معجزے کی جو کثرت ہے وہ فضیلت نبی کی نہیں ہے یہ نئی بات ہے ہمیشہ یاد رکھیں کہ معجزہ تائید کے لئے اور تصدیق کے لئے آیا کرتا ہے، یہ تصدیق ہو جائے کہ یہ اللہ کا بھیجا ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کے پاس آئے اور اگر یہ کہے کہ وزیر کا، سفیر کا، یا صدر کا یہ حکم ہے اور وہ معمولی آدمی ہو تو آپ کو اس کی بات کی تصدیق نہیں ہونے کی۔  آپ اس سے پوچھیں گے کہ کوئی نشانی، کوئی سند لاؤ تو وہ مونوگرام لگا ہوا، چھپا ہوا کاغذ دکھائے گا تو آپ کو اطمینان ہو جائے گا۔  وہی بات اگر یہاں کوئی انتہائی معزز سفیر بیٹھا ہو وہ کہہ دے تو اس سے آپ کچھ نہیں پوچھنے کے یقین کر لیں گے، تو جتنا کمزرسفیر ہو گا اتنی ہی قویٰ سند اس کو لانا پڑے گی۔ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کے تو نسب میں شک ہو رہا تھا اس لئے ان کو نہایت قویٰ معجزہ دینا پڑا اور ہر وقت ان کی تائید کے لئے اپنا آدمی مقرر کر دیا: وَ اَیدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِِ (سورت البقرۃ 2 آیت 87) ملازم کو ساتھ رکھا کہ اس کے ساتھ رہو کمزور بچہ ہے۔  اور آپ کے لئے حکم ہوا کہ یہ پہاڑ جو ہیں سونے کے کر دیئے جائیں ارشاد ہوا کچھ نہیں، میں ان سے سلٹ لوں گا، میں آؤں تمہاری مدد کو، کہا نہیں، نہیں۔  جوان بیٹا جاتا ہے اس کے لئے امداد کی ضرورت نہیں، چھوٹا بچہ جاتا ہے اس کے لئے نوکر ساتھ بھیجنا پڑتا ہے۔  تو محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نبوت میں اتنے قوی تھے ان کو اتنی تائید کی ضرورت نہیں تھی:  یعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَہُمْ (سورت البقرۃ 2 آیت 146) ’وہ اتنے نمایاں تھے کہ جس طرح اپنے بچوں کو، بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔‘ اس طرح نبوت کے آثار نمایاں تھے اسی لئے تو کثرت کی ضرورت نہیں۔  اس لئے تو وہ کہتے تھے:  فَلْیاْتِنَا بِایَٰةٍ کَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ (سورت الانبیاء 21 آیت 5) ’ایسا معجزہ لاؤ نا جیسے اگلے لائے تھے۔‘ مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْیةٍ اَہْلَکْنٰہَا اَفَہُمْ یؤْمِنُوْنَ (سورت انبیاء 21 آیت 6) ’جو پہلے نبی بڑے بڑے معجزے لائے تھے کیا وہ لوگ ایمان لے آئے تھے جو تم ایمان لاؤ گے؟‘ ایسے معجزے دیکھ کر وہ پالیسی بھی فیل ہو گئی۔ یہاں فیل کرنا نہیں ان کو برباد کرنا تھا انکار کرتے ہی وہ برباد ہو گئے، انہیں برباد کرنا نہیں اس لئے بَین معجزہ لانا نہیں۔  دیکھتے ہی صورت سے معلوم ہو گیا وہ ایمان لے آئے (دوسری بحث میں چلے گئے، اب آیت کی تفسیر کریں اور مضمون کو ختم کر دیں)

بہر حال یہ تفسیریں میرے نزدیک یہاں چسپاں نہیں ہیں فی نفسہٖ اپنی جگہ پر ٹھیک ہوں، لیکن یہاں محل احسان ہے اور امتنان ہے اس لئے یہاں یہ مناسب نہیں ہیں۔  حقیقی تفسیر اس کی یہ ہے میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں یہ ’کوثر‘ کا جو لفظ ہے یہ کثرت سے مشتق ہے جیسے ’جوہر‘ کا لفظ جہر سے مشتق ہے۔  ’جہر‘ کے معنی ظہور۔ ’جوہر‘ اس کو کہتے ہیں جس میں زیادہ ظہور ہو۔ مبالغہ کا صیغہ ہے غایت درجہ ظہور ہو، جوہر کو جوہر اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں بہت ظہور ہوتا ہے، چمک بہت ہوتی ہے مبالغہ کا صیغہ ہے۔  اسی طرح ’کوثر‘ جو ہے بر وزنِ فعل ہے یہ مبالغہ کے لئے آیا کرتا ہے غایت درجہ کی کثرت۔ اور کثرت کی غایت جو ہوا کرتی ہے وہ اس شئے سے جس کی وہ غایت ہے خارج ہوا کرتی ہے، خارج نہ ہو تو داخل ہو کر جُز بن جائے گی۔  داخل کے معنی جُز کے کثرت کی غایت جو ہے وہ کثرت سے خارج ہے، خارجِ کثرت صرف وحدت ہے اور کوئی شئے نہیں۔  اور وحدت کا جو حقیقی مصداق ہے وہ وحدہٗ لاشریک ہے جو شئے بھی خدا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دے گا وہ نبی سے گھٹیا ہے اور گھٹیا دے کر احسان نہیں جتا سکتا۔  لوح و قلم، عرش و کرسی، ملائکہ، حور و قصور کیا دے گا؟ وہ سب چیزیں ان سے گھٹیا ہیں، گھٹیا چیز دے کر کیا احسان جتا رہا ہے؟ وہ چیز نبی کو دینی چاہیئے جو عمدہ سے عمدہ ہو، وہ صرف اس کی اپنی ذات ہے: اِنَّاۤ اَعْطَینٰکَ الْکَوْثَر، کا مطلب ہے ’میں تیرا ہو گیا۔‘

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَسَلَّمْ

’الصَّلٰوةَ‘ کی حقیقت کیا ہے؟

جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ’میں تیرا ہو گیا‘ تو اب تجھے کیا کرنا چاہیئے؟ پہلے آپ ’الصَّلٰوة‘ کی حقیقت سمجھ لیں۔ نماز تمام عبادات کو سوائے مالی عبادت کے شامل ہے حج اس کے اندر موجود ہے، روزہ اس کے اندر موجود ہے، جو حج میں ممنوع وہ اس میں ممنوع اور اس کے علاوہ اور اذکار درود شریف تسبیح و تحمید سب کچھ ہے صرف زکوٰۃ مالی عبادت شامل نہیں ہے باقی کُل ہے۔  جامع عبادات ہے نماز بہت بڑی چیز ہے پوری دنیا سے افضل ہے۔  یہی وجہ ہے کہ جب انسان نماز پڑھتا ہے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتا ہے، جو ہاتھ اُٹھانا ہے یہ اظہار بے اعتنائی ہے۔  مثلاً میرا لڑکا نا اہل ہے آپ کہیں کہ میں نے فلاں بُری جگہ اسے دیکھا ہے میں اتنا نالاں ہوں اس لئے دور ہوں۔  میں نے کہا کہ میں نے تو اس سے ہاتھ اُٹھا لیا کہیں جائے کہیں رہے، ہاتھ اُٹھانے کے معنی بے پروائی، بے تعلقی ہیں۔  دونوں ہاتھ اُٹھانے کے یہ معنی ہیں کہ میں نے اِس دنیا سے اور اُس دنیا سے، اِس جہان سے اور اُس جہان سے، دنیا اور عقبیٰ دونوں سے ہاتھ اُٹھا لئے:  اللّٰہُ اَکْبَر!

اب میں ان دونوں سے ہٹ کر بڑے کی طرف متوجہ ہوا، دونوں صغیر اور اصغر کو چھوڑ دیا، اتنی بڑی عبادت ہے یہ ایک ہی عبادت اس قسم کی ہے۔  اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ (سورت العنکبوت 29 آیت 45) دنیا کے جتنے عیب اور بُرائیاں ہیں ظاہری و باطنی سب ترک ہوئیں۔ ’فَصَلِّ لِرَبِّکَ‘ کے معنی یہ ہیں کہ پوری بدنی عبادت اور قلبی و زبانی عبادت گویا پوری ذات کی عبادت آ گئی۔  ذکر میں دل سے اس کی یاد میں مشغول ہو گیا۔ ہاتھ یوں بندھے ہوئے جہت کوئی بھی نہیں بدل رہا تُو پورا کا پورا جھُک جا۔ ’وَ انْحَرْ‘ اور قربان کر۔ قربانی کا جو مصرف ہے کیونکہ وہاں اونٹ بڑی قیمتی چیز تھا تو خرچ جو تھا سب سے زیادہ قربانی میں ہوا کرتا تھا۔  یعنی تُو جان اور مال سے میرا ہو جا میں تیرا ہو گیا اور تُو میرا ہو جا۔ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْاَبْتَرُ۠ شَانِئَکَ کے معنی معارض، مقابل، مخالف جو تیرا مخالف ہے وہ ابتر ہے، وہ مصنوعی وجود ہے اسے موجودات کی نشستوں میں سے کوئی نشست نہیں ملنے کی۔  وہ دنیا کی جو یہ موجودات میں گھٹیا سے گھٹیا وہ شئے ہے جو تیرے خلاف ہوا وہ میرا نہیں ہے میں کوئی نشست اس کو نہیں دوں گا، مٹی کے برابر بھی نہیں:  یٰلَیتَنِی کُنْتُ تُرٰبًا (سورت النباء 78 آیت 40) ’وہ کہے گا کاش! مٹی کی نشست مجھ کو مل جاتی۔‘ اس نشست سے بھی اسے خارج کر دیا۔ تو میں تیرا ہو گیا تُو میرا ہو جا، جو تیرا نہیں ہے وہ میرا نہیں ہے۔  یہ شان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہے۔  ان کی کیا تعریف کوئی کر سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر بہت درود بھیجا کرو، آخرت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے کام آئے گا۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ نَبِینَا وَ مُرْشِدنَا وَمَوْلَنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِین

٭٭٭

وجود عالَم کس کے لئے ہے؟

ایک اصولی چیز آپ سمجھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالَم کو ایجاد کیا، پیدا کیا اور کوئی موجود ایسا نہیں ہے جو وحدت سے خالی ہو حقیقی وحدت ازل سے ابد تک موجود تھی، تو کسی واحد کو بنانا مقصود نہیں ہونے کا وہ حاصل کی تحصیل ہو گی۔  مصنوعی وحدت کی ضرورت کیا ہے؟ جب حقیقی وحدت موجود ہے اللہ تبارک تعالیٰ وحدتِ حقیقی ہے۔  اب کسی واحد کو وہ پیدا کرے تو اس کا پیدا کرنا بے معنی ہے اس لئے کہ حقیقی واحد موجود ہے، نقلی اور مصنوعی واحد کے پیدا کرنے کا فائدہ کیا؟ اس لئے مقصودِ کائنات وحدات نہیں ہیں۔  اللہ تعالیٰ نے جو مفرد چیزیں بنائی ہیں وہ مقصود نہیں ہیں۔ یہاں بھی صناعوں کے ہاں دیکھیئے کاریگر جو بڑے ہیں ان کے ہاں بھی جو مفردات ہوا کرتے ہیں وہ مقصود نہیں ہوا کرتے بلکہ ان کے مرکب مقصود ہوا کرتے ہیں۔  معمار ہیں، اینٹ، پتھر، روڑا مفرد شکل میں ہر وقت ہر جگہ موجود ہوا کرتے ہیں وہ مقصود نہیں ہوا کرتے، ان کو جو مہیا کیا جاتا ہے ان سے کوئی مرکب بنایا جاتا ہے۔  مثلاً عمارت بنائی جاتی ہے دواؤں میں دو جو مفردات ہوتے ہیں وہ مقصود نہیں ہوتے بلکہ ان کے مرکبات معجون مقصود ہوتے ہیں۔  موٹر ہے اس کے چھوٹے چھوٹے سے پُرزے اسی لئے مہیا کئے جائیں گے کہ آخر میں موٹر بنانا ہے۔  گویا صنعت سے مقصد ترکیب ہے، مرکب ہے۔  مفردات جو ہوا کرتے ہیں وہ مقصود بالغرض ہوتے ہیں مرکبات کے لئے ان کو پیدا کیا جاتا ہے یا مرکب کے لئے مہیا کیا جاتا ہے خود وہ مقصود نہیں ہوا کرتے۔  ہر چیز میں آپ دیکھ لیں گے سالن مقصود ہے اس کے جو مفردات ہیں گوشت، گھی وغیرہ وہ در حقیقت سالن کے ذریعہ ہیں وہ مقصود نہیں ہیں، اگر وہ مقصود ہوتے تو پکانے کی مشقت نہ کی جاتی۔

خّلاقِ عالَم نے سب سے پہلے ملائکہ کو پیدا کیا۔ وہ مفرد تھے وہ مرکب نہیں تھے جس طرح اور انسان وغیرہ، اگر ملائکہ مقصود ہوتے تو صنعت کا کام وہیں ختم ہو جاتا۔  معمار کا مقصد مکان بنانا ہے جب بلڈنگ بن گئی تب اجزاء کی ضرورت نہیں رہتی، کسی شئے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔  اگر مقصدِ تخلیق ملائکہ ہوتے تو جونہی ملائکہ کو پیدا کیا تھا اس کا کام ختم ہو جاتا اور تخلیق عالَم وہیں بند ہو جاتی لیکن تخلیق جا رہی رہی، اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کا پیدا کرنا مقصود نہیں تھا۔  سمجھو بڑی بات ہے، غور کرو۔  افلاک اور ملائکہ اور جنتے بھی مفردات ہیں یہ مقصود نہیں ہیں کُل کائنات میں سے کوئی مفرد مقصود صنعت نہیں ہے، صانع کا مقصد یہ مفردات نہیں ہیں بلکہ مرکبات ہیں۔

اب عناصرِ اربعہ یہ بھی مفرد ہیں یہ بھی مقصود نہیں ہیں بلکہ ان سے جو مرکب ہیں جمادات کو مفردات کے مقابلے میں ضرور یہ مقصود ہیں، لیکن یہ کسی اور مرکب کے اجزاء ہیں یعنی نباتات کے آگے چل کر یہ بھی مقصود نہ رہے۔  کیونکہ در حقیقت نباتات حیوانات کے اجزاء ہیں مگر آگے یہ بھی مقصود نہ رہے۔  حیوانات نباتات کے مقابل میں بیشک مقصود ہیں لیکن در حقیقت یہ انسان کے اجزاء ہیں یہ انسان میں خرچ ہو رہے ہیں۔ تو جو شئے دوسرے میں خرچ ہو رہی ہے وہ شئے مقصود نہیں بلکہ وہ شئے مقصود ہے کہ جس میں وہ شئے صَرف ہو رہی ہے۔  اس اصول کو سمجھ گئے؟ جو شئے کسی دوسری شئے میں خرچ ہو رہی ہے وہ شئے مقصود نہیں ہے بلکہ جس میں خرچ ہو رہی ہے وہ مقصود ہے۔  تو اشیاء برابر صَرف ہوتے ہوتے انسان آ گیا۔  انسان کسی چیز میں خرچ نہیں ہو رہا کسی میں کام نہیں آ رہا کُل اشیاء اسی میں صَرف ہو رہی ہیں یہ تجربہ آپ کو عقل سے ہو رہا ہے۔

وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ

(سورت الجاثیہ 45 آیت 13) ’کائنات سماوی اور کائناتِ ارضی سب تمہارے واسطے مسخر ہوئیں۔‘

وَخَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیعًا

(سورت البقرۃ 2 آیت 29) ’اور تمہارے لئے تمام روئے زمین کی چیزوں کو پیدا کر دیا۔‘  کُل اشیاء تمہارے لئے ہیں تم ان میں سے کسی شئے کے لئے نہیں ہو۔ اس کائنات کی سب چیزیں تمہارے لئے ہیں تم کسی شئے کے لئے نہیں ہو، اس کائنات سے باہر کسی اور کے لئے ہو تم خالقِ کائنات کے لئے ہو۔  کُل اشیاء انسان کے لئے بنیں، انسان خالقِ انسان کے لئے بنا۔  جتنے بھی انواعِ موجودات ہیں وہ کُل کی کُل نوعِ انسان میں خرچ ہو رہی ہیں۔  بالواسطہ یا بلا واسطہ سو سو واسطے سے۔ وَ لٰکِنَّ لَا یعْلَمُوْنَ ’کچھ ایسے وسائل ہیں جن کو تم نہیں جانتے۔‘ ایسے ذرائع بھی ہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ انسان کے کس کام آئے گی؟ لیکن یہ ہے کہ ضرور کسی نہ کسی توسط سے جا کر کام آئے۔  کُل مخلوقات انسان کے کام کے لئے بنیں ہیں انسان کسی کے کام کے لئے نہیں بنا:  اِلَّا لِیعْبُدُوْنِ (سورت الذاریات 51 آیت 56) ’سوائے اپنے رب یعنی خالق کے کام کے لئے۔‘

٭٭٭

کائنات میں افضل کونسی چیز ہے؟

تو اب اس کائنات میں غور کریں افضل کونسی چیز ہوئی؟ انسان! نوعِ انسانی تمام انواعِ موجودات سے انسان افضل ہو گیا، کُل مخلوقات میں ہر مخلوق سے، کُل انواع میں ہر نوع سے افضل ہو گیا، ملائکہ سے بھی افضل ہو گیا گویا مقصودِ کائنات انسان ہے۔  اب انسان کی تین قسمیں ہیں ؛(اوّل) ایک انسان کافر ہے۔  (دوم) ایک انسان مومن ہے۔ (سوم) ایک انسان نبی ہے۔  تینوں قسم کے انسان ہیں، جبکہ نوعِ انسانی تمام کائنات سے افضل ہو گئی۔

کافر:  ان میں ایک فرد یعنی کافر موجود ہے۔  کافر کے کیا معنی؟ کہ وہ انسان کہ جو جس کام کے لئے بنایا گیا تھا اس کام میں وہ صَرف نہیں ہوا وہ اپنے خالق کے لئے بنایا گیا تھا اختتام میں خالق پر نثار نہیں ہوا، خالق کے کام میں وہ نہیں آیا اس کا بننا نہ بننے کے برابر ہو گیا وہ بگڑ گ       یا۔ جیسے کہ سالن کی دیگ سڑ جائے پھینکی جاتی ہے کھانے کے کام میں نہیں آئے گی، حالانکہ ننھا سا جز گھٹیا سا جُز جو نمک ہے وہ رکھ لیا جائے گا مگر دیگ پوری پھینک دی جائے گی۔  اس میں اگر چوہا پڑ جائے یا سڑ جائے تو پورا قورمہ یا پوری بریانی کی دیگ بے کار ہو گئی پھینک دی جائے گی اور ننھا سا جُز جو مٹی ہے یعنی نمک جو بچ گیا ہے وہ رکھ لیا جائے گا کہ وہ کام کا ہے۔  اسی طرح کافر کہے گا:  یٰلَیتَنِی کُنْتُ تُرٰبًا (سورت النباء 78 آیت 40) ’کاش! میں گھٹیا سے گھٹیا جُز یعنی مٹی ہوتا۔‘ میں گھٹیا جُز بننے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ سیب کتنی عمدہ چیز ہے ذرا بگڑ جائے، سڑ جائے تو سارا پھینک دیا جائے گا لیکن دوسرا کچا سا بھی ہے وہ رکھ لیا جائے گا۔  کافر کے معنی یہ ہیں کہ وہ قطعی بہترین موجودات میں سے تھا۔  لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیۤ اَحْسَنِ تَقْوِیمٍ (سورت التین 95 آیت 4) ’بہترین قوام میں سے ہم نے بنایا انسان کو۔‘ اس کا قوام بہت اچھا تھا چونکہ وہ سڑ گیا اس لئے وہ بیکار ہو گیا۔ اُوْلٰٓىٕکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ (سورت الاعراف 7 آیت 179) ’وہ ہر جُز سے گھٹیا ہو گیا تمام کائنات سے بدتر ہو گیا۔‘ اُولٰٓىٕکَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیةِ (سورت البینہ 98 آیت 6) ’وہ بدترین خلائق ہو گیا۔‘ جس طرح وہ دیگ بدترین خلائق ہو گئی اپنے سب جُزوں سے بدتر ہو گئی۔  اسی طرح وہ انسان جو اپنے رب کے کام میں نہیں آیا تمام کائنات کی ہر گھٹیا سے گھٹیا نوع سے بدتر ہو گیا، سڑ گیا۔ جس کام میں اس کو آنا تھا اس کام میں وہ نہیں آ سکا یعنی کافر خارج ہو گیا۔

اب دو گروہ رہ گئے؛ ایک مومن دوسرا نبی:

مومن، نبی:  مومن کا خود مستقل وجود نہیں ہے مستقل وجود ایمان کا نہیں ہے، اس کی روشنی ایسی ہے جیسے کہ ظِل یا سایہ روشنی کا یہ اس سورج کی روشنی کے تابع ہے اگر وہ روشنی نہ ہو تو یہ نہ ہو۔  ایمان جو ہے مومن کا یہ در حقیقت نبوت کے تابع ہے اگر نبوت نہ ہو ایمان نہ ہو، تو مومن مستقل شئے نہیں ہے۔  تو مستقل انسان جو ہوا وہ نبی ہے نبی تمام موجودات سے افضل ہو گیا، انبیاء علیہم السلام تمام کائنات سے افضل ہیں۔ اب اس نے نبوت بنائی۔  نبوت کسے کہتے ہیں؟ خطابِ ربانی کو، یاد رکھو۔ اللہ تعالیٰ جس بشر سے خطاب کرے بس اس خطاب ہی کا نام نبوت ہے اور وہ بشر جو ہے وہ نبی ہے۔  اس نے کہا کہ: یٰۤاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّةَ (سورت البقرۃ 2 آیت 35) ’اے آدم! رہو سہو جنت میں۔‘ اب نبی بنایا اس نے نبوتِ آدم متحقق ہوئی متحقق ہونے کے بعد اس کو ختم کر دیا وہ ختم ہو گئے، ختم ہونے کے بعد اس نے دوسری نبوت بنائی۔  اس سے یہ پتہ چل گیا کہ وہ نبوت مقصود نہیں تھی اگر وہ مقصود ہوتی تو آگے کاریگری جا رہی نہیں رہتی۔  اگر نبوتِ آدم مقصود ہوتی جو متحقق کی تھی اور دیگر نبوتوں کی ایجاد کی ضرورت باقی نہیں رہتی آگے کوئی اور نہ بنتی۔  پھر کہا:  یٰۤاِبْرٰہِیمُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا (سورت ھود 11 آیت 76) ’اے ابراہیم! جانے بھی دے۔‘ ابراہیم علیہ السلام کی نبوت ہوئی، اسے بھی ختم کیا۔  پھر کہا ’یا یعقوب، یا یوسف‘ یا فلاں، فلاں، پھر کہا: یا مُوْسیٰ اِنِّی اَنَا ’اے موسیٰ! میں، میں ہی ہوں۔‘ اگر ان کی نبوت مقصود ہوتی تو آگے نبی نہ بنتا۔  پھر کہا:  یا یحیی، یا ذکر، یا داؤد، یا عیسیٰ سب نبوتوں کو بناتا رہا اور ختم کرتا چلا گیا، تو معلوم ہو گیا کہ ان نبوتوں میں سے کوئی سی بھی نبوت مقصدِ تخلیق نہیں ہے گویا مقصدِ کائنات نہیں ہے، کیونکہ اگر مقصد حاصل ہو جائے تو اس کے بعد کام ختم ہو جانا چاہیئے۔  حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کو کہا یا عیسیٰ وہ بھی ختم ہوئے۔

پھر آگے سب کے بعد محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کو بنایا اور کہا کہ:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیمًا

(سورت احزاب 33 آیت 40) نبوت کا کام ختم ہو گیا، نبوت ہو چکی۔ تو معلوم ہوا کہ یہی نبی مقصود ہے، یہی مقصودِ کائنات ہے، اسی کا پیدا کرنا تھا تمام عالَم کو اسی کے لئے پیدا کیا ہے، یہی نبی مقصود ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ اس نبی کو نام لے کر نہیں پکارا، سب کا قرآن میں نام آیا: یا آدم، یا نوح، یا ابراہیم، یا داؤد، یا موسیٰ، یا عیسیٰ ان کو کہا:  یٰۤاَیہَا الرَّسُوْلُ (سورت المائدہ 5 آیت 67) اتنا معزز نبی ہے یہی مقصدِ کائنات ہے، یہی تخلیقِ عالَم کا مقصد ہے اسی نبوت پر ختم ہوا۔ اور اسی مضمون پر ہم نے اپنے بیان کو ختم کر دیا۔  اب سب لوگ اپنے نبی پر دُرود و سلام بھیجو۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ مَعْدَنَ الْجُوْدِ وَ الْکَرَمْ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَ بَارِکْ وَسَلَّمْ

ہزاروں سال نرگِس اپنی بے نوُری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دِیدہ وَر پیدا

(علامہ اقبال)

٭٭٭

ٹائپنگ اور  فائل کی فراہمی: حفیظ الرحمٰن

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید