فہرست مضامین
مقدس لمحے
نوید رزّاق بٹ
ٹائٹل :خرم امتیاز
پاکستان کے نام
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
(احمد ندیم قاسمی)
تعارف
صبح چودہ اگست تھی۔ ایک عجیب سی خوشی اور انتظار اگست شروع ہوتے ہی سبھی دلوں میں پھوٹ پڑا تھا اور جوں جوں چودہ اگست قریب آ رہی تھی، بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ بے چینی کس بات کی ہے۔ بہر حال وہ خوش تھا اور دوسروں کی طرح وہ بھی اپنے نئے کپڑے تیار کر کے سو گیا۔ صبح چھٹی تھی اور سب معمول کے خلاف کافی جلدی اٹھ گئے۔ ناشتے کے بعد ٹیلیفون کالز کا سلسلہ شروع ہوا۔ کبھی کسی دوست کا فون تو کبھی کسی رشتے دار کا، سب کی زبان پر ایک ہی فقرہ تھا "آزادی مبارک”۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھا اپنے بیگ میں سے کچھ تلاش کر رہا تھا کہ اُس کی ننھی سی بہن ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھما کر بولی
"بھائی جان! آزادی مبارک”۔
اِس چھوٹے سے کاغذ پر پاکستان کا جھنڈا بنا کر اس میں بے ربط سے رنگ بھر رکھے تھے اور ایک تنکے پر پورے کاغذ کو چپکایا ہوا تھا۔ وہ اس’جھنڈی’ کو آنکھوں کے قریب لا کر نہایت غور سے دیکھنے لگا۔ اس ننھے سے پرچم کے چاند ستارے میں، جن میں کہیں کہیں سبز رنگ بھی غلطی سے بھر دیا گیا تھا، اُسے جیسے پورا مینارِ پاکستان نظر آنے لگا، جس پر پاکستانی پرچم بڑے فخر سے لہرا رہا تھا۔ نیچے کچھ ہلچل تھی اور ایک آواز گونج رہی تھی۔ "اے میرے ہم وطنو!” مینارِ پاکستان کے سائے تلے ایک نوجوان نہایت پر جوش خطاب کر رہا تھا۔ اسکے چاروں طرف خوش و خرم چہرے نظر آ رہے تھے۔ ہر چہرے پر ایک نئی امنگ اور تازگی تھی۔ سبھی ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور اس نوجوان کی تقریر سُن رہے تھے۔”اے وہ قوم! جس نے اس مقام پر کھڑے ہو کر جناح کی قیادت میں پاکستان بنانے کی قسم کھائی تھی۔ اے وہ قوم! جس نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر غلامی کی زنجیورں توڑ ڈالی تھیں۔ اے وہ قوم! جس نے اس مٹی کو اپنے خون سے سینچا تھا۔ اے وہ قوم! جس نے اسلام کی خاطر اپنے گھر، جان، مال سب ٹھکرا دیئے تھے”، نوجوان کا جوش بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ "میں تم میں سے ایک ایک کو مبارکباد دیتا ہوں، کہ تم نے اور تمھارے آباء نے جس گلشن کے لئے جدوجہد کی تھی، تم نے جس وطن کا عہد کیا تھا اور تم نے جس پاکستان کے لئے دعائیں مانگی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں ‘آزاد’ پاکستان ہمیں مل چکا ہے!”۔ سامعین کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور ایک پر زور آواز گونجی "پاکستان!”، خوشی سے لبریز دلوں نے جواب دیا "زندہ باد”۔ نوجوان نے اپنی تقریر جاری رکھی، "آپ جانتے ہیں کہ اِس دہائی کے آغاز سے اللہ تعالی نے ہم پر خاص کرم فرمایا،ہم سب نے بالآخر اپنے اس گھر کو بہتر بنانے کی ذمہ داری قبول کی، ہمارے نوجوانوں اور دانشوروں نے کمر باندھی اور تعلیم عام کرنے کی قسم کھائی۔ علم کا نور دھیرے دھیرے اندھیر دریچوں سے جھانکنے لگا۔ علم سے بے بہرہ اور دنیا کی نظر میں ‘عقل کے اندھے’ اب کھلی آنکھوں سے زمانے کے تیور دیکھنے لگے، اور جس طرح انیس سو سینتالیس میں ایک غلام قوم نے آزادی حاصل کی تھی، اب ایک آزاد قوم عظمت حاصل کرنے لگی۔ اور۔۔۔
"بھائی جان اب یہ واپس بھی کر دیں”
ایک معصوم آواز نے اس کے خیالات کا ربط توڑ دیا۔ ننھی بہن اس کے ہاتھ سے اپنی محنت سے بنائی ہوئی جھنڈی لے کر باہر بھاگ گئی۔ مگر وہ اب بھی کھویا کھویا سا بیٹھا تھا۔ وہ شاید حقائق کی دنیا میں لوٹنے سے ڈر رہا تھا۔ بچی کا معصوم جذبہ اسے اچانک ایک ایسی دنیا میں لے گیا تھا جہاں تمنائیں حسیناؤں کی طرح قطار اندر قطار رقص کیا کرتی ہیں۔ وہ اِس دنیا میں صرف چند لمحوں کے لئے ہی تو گیا تھا۔ مگر اتنا سکون؟ اتنی ٹھنڈک؟ یہ لمحے واقعی بڑے مقدس تھے۔ اُسے پتا بھی نہ چلا اور ایک ننھا سا قطرہ اس کی آنکھ سے ٹپک کر فرش پر پڑی ہوئی گرد میں ایسے جا ملا جیسے امنگیں انسان کے ساتھ ہی مٹی میں دفن ہو جایا کرتی ہیں۔
٭٭
بسم اللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ۔
‘مقدس لمحے’ کے عنوان سے میرا دوسرا مجموعہ کلام پیشِ خدمت ہے۔ اس میں وہ اشعار شامل ہیں جو پہلے مجموعے ‘نادان لاہوری’ کی الیکٹرانک اشاعت (فروری ۲۰۱۳) سے اب تک لکھے۔ عنوان اور انتساب کے حوالے سے افسانوی تمہید کے بعد چند مختصر باتیں پیش کرنا چاہوں گا۔ میرا اندازہ ہے کہ تقریباً ہر پاکستانی زندگی میں کبھی نہ کبھی چند لمحوں کے لیے آرزوؤں کی دنیا میں کھو کر ایک ایسے پاکستان کی جھلک ضرور دیکھتا ہے جو امن و آشتی، علم و ہنر، انصاف، محبت، اور اخوت کا گہوارا ہو، اور جہاں ہر فرد کے جان مال اور عزت محفوظ ہوں۔ کبھی غور کریں تو ایسے امنگوں بھرے لمحوں میں ایک عجیب سا سکون اور تقدس ہوتا ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ ہم کسی طرح اِن مقدس لمحوں کو حقیقت کا روپ دے کر اپنی آئندہ نسلوں کے لیے امر کر دیں، اور اِسی تمنا کی باز گشت آپ کو اس کتاب میں جا بجا ملے گی۔ سمجھنے کی بات یہی ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے کو عزت نہیں دیں گے تو دنیا بھر میں ہمیں کہیں بھی عزت نہیں ملے گی، ایک دوسرے کے جان و مال کا احترام نہیں کریں گے تو کسی طرح بھی ایک پُر امن معاشرہ قائم نہیں کر پائیں گے، اپنے بجٹ کا اچھا خاصہ حصہ تعلیم پر خرچ نہیں کریں گے تو اپنے عہد کی نا اہل قوموں میں شمار ہوں گے، اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ معاشرتی ذمہ داری اور مشترکہ اثاثوں کا احترام نہیں سکھائیں گے تو وہ کسی طور بھی وطنِ عزیز کے لیے مفید ثابت نہیں ہوں گے، اور اگر ہم اپنے معاملات میں بددیانتی سے کام لیتے رہیں گے تو ہم پر بالکل ہمارے ہی جیسے حکمران مسلط رہیں گے۔ اے کاش کہ ہم سمجھ لیں کہ ہمارا معاشرہ ہمارے ہی اعمال کا مجموعہ ہے!
کتاب اور اِس کے پیغام کے بارے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔
بہت شکریہ،
نوید رزّاق بٹ
جولائی ۲۰۱۴
مناجات
خداوندا
تِرا بندہ
تِری تعریف کرتا ہے
کہ تُو مالک جہانوں کا
کہ تُو خالق جہانوں کا
کہ تُو رحمان ہے مولا
تُو عالی شان ہے مولا
مُصور تُو
جہاں تیرا
زمیں تیری
زماں تیرا
تِرے در پر
جھُکا کر سر
تِرا بندہ
تجھے مانگے
دِکھا دے راہ وہ مولا
جو تجھ تک لے چلے مجھ کو
کہ تیری دید کو ترسیں
یہ آنکھیں رات دن برسیں!
٭٭
تین درویش
(پہلا)
امیری آزمائش
فقیری آزمائش
اسیرِ زندگی تُو
اسیری آزمائش
(دوسرا)
محبت بےقراری
تمنا بے قراری
خلیلی امتحاں ہے
کلیمی آزمائش
(تیسرا)
توجہ آزمائش
حقارت آزمائش
نگاہِ یار کی ہر
شرارت آزمائش
(پہلا)
مکان و لامکاں میں
صدائے حق ہو ہے
وہی ہے درمیاں اور
وہی جو چار سُو ہے
(دوسرا)
وہی زادِ سفر ہے
وہی بانگِ سحر ہے
وہی ہے رہنما اور
اُسی کی جستجو ہے
(تیسرا)
نہیں محبوب اُس بِن
نہیں مطلوب اُس بِن
وہی دل کی تڑپ اور
وہی رازِ سُکوں ہے
٭٭
حضرت لقمان کی وصیت
اُدھار تیرے لشکری، اُدھار تیری سلطنت
جو مرتبہ ملے تجھے، تو عاجزی سے بات کر!
اَحَد ہے وہ صَمَد ہے وہ، غنی ہے، بے نیاز ہے
شریک اُس کی ذات میں نہ شاملِ صفات کر!
خدا سے جوڑ سلسلے، مِٹا دے نقش یاس کے
بھلے عمل کو تھام لے، نفیِ منکرات کر!
٭٭
سلطان محمد فاتح کی وصیت
قدم زمیں میں گاڑ کر
گُماں کی دھُول جھاڑ کر
وہ بانگ دے کہ آسماں
تڑپ اُٹھے
لرز اُٹھے!
٭٭
اقبال کی وصیت
نوشتۂ رُخِ بشر
نویدِ راہ ِبیکراں
عذابِ فکر و آگہی
عذاب وہ کہ الاماں
نگاہِ شوق مضطرب
حجابِ ہوش درمیاں
سپاہِ عقل بے خبر
نگاہِ عشق راز داں
سکونِ قلب ذکرُہُ
غفور و عَفو و مہرباں
انا شہیدِمرگِ دل
خودی حیاتِ جاوداں
رہین ِذات ضو بجیب
ندیم ِخلق ضوفشاں!
٭٭
فیض کی وصیت
اے مظلومو، اے محکومو، اے نادارو، اے نا چارو
اِک راز سنو، آواز سنو، ہوتا ہے کہاں آغاز سنو!
خاموش لبوں کی جنبش سے
دنیا کے خدا سب ڈرتے ہیں
سجدوں میں پڑے سر اُٹھ جائیں
مسند پہ جمے رب ڈرتے ہیں
پابندِ سلاسل روحیں جب
بیزارِ جفا ہو جائیں گی
مقتل سے صدائیں آئیں گی
لبیک کہیں گے دِیوانے
اِک حشر کھڑا ہو جائے گا!
مجروح گُلوں کی چیخوں سے
گلچیں کا کلیجہ تڑپے گا
ہر منصب جھُوٹا لرزے گا
سفاک خدا گِر جائیں گے!
ہر جاں جو فروزاں ہو جائے
ظلمت نہ مٹے، وہ رات نہیں
زنجیر و سلاسل، زنّاری
یہ نسلوں کی سوغات نہیں!
آغاز تمہی سے ہونا ہے
غم سہنے والو چُپ کب تک؟
"اے ظلم کے مارو لب کھولو!
چپ رہنے والو چپ کب تک؟”
٭٭
سپنے دیکھو
سپنے دیکھو
پَر اپنے دیکھو
گھر گھرکی چھوڑو
گھر اپنے دیکھو
جھکنے نہ پائیں
سر اپنے، دیکھو!
اشکوں سے سینچو
تھر اپنے دیکھو
افلاک تمھارے
پر اپنے دیکھو!
٭٭
جلیں گے کتنے چراغ تم سے، چراغ اِک تم جلا کے دیکھو
نئی سحر کا پتہ ملے گا، پرانے چہرے ہٹا کے دیکھو!
فضا میں نغموں کی گونج ہو گی، تمام خاکوں میں رنگ ہو گا
کھلیں گے تازہ گلاب پھر سے، چمن سے ظلمت مِٹا کے دیکھو!
سبھی مسافر ہیں اِس نگر میں، سبھی کو چاہت کی آرزو ہے
دلوں کے نغمے سنو کبھی تم، نظر نظر سے ملا کے دیکھو!
کہا قلندر نے راز مجھ سے، کہ خود کو کھونا ہے خود کو پانا
متاعِ دنیا ہوِس ہے بابا! متاعِ دنیا لُٹا کے دیکھو!
غریب ماں نے سُلا دیا ہے بلکتے بچوں کو پھر سے بھوکا
مِرے خلیفہ، محل سے نکلو، خدا کی بستی میں جا کے دیکھو!
٭٭
نشانہ آزمایا جا رہا ہے
ہمیں ناحق ستایا جا رہا ہے
جلا کر چل دیے جو آشیاں کو
اُنہیں پھر سے بلایا جا رہا ہے
جسے لکھا ہمارے دشمنوں نے
وہ نغمہ گنگنایا جا رہا ہے
چراغِ راہ تو بجھ ہی چکے تھے
چراغِ جاں بجھایا جا رہا ہے!
یہاں جمہوریت کا نام لے کر
تماشا کیا دکھایا جا رہا ہے؟
نوالہ چھین کر محنت کشوں سے
نوابوں کو کھلایا جا رہا ہے
غضب خالی خزانہ ہے جسے یوں
دو ہاتھوں سے لُٹایا جا رہا ہے
خلیفہ نرم دل ہیں ،رو پڑیں گے
غریبوں کو بھگایا جا رہا ہے
عجب کھانے کی عادت ہو گئی ہے
کہ اِک دوجے کو کھایا جا رہا ہے
خدا کے نام پر کر کے تجارت
سکونِ قلب پایا جا رہا ہے!
زباں بندی کی قیمت لگ رہی ہے
قلم سولی چڑھایا جا رہا ہے
نہیں دنیا سِوا اِک رہگزر کے
رُکا نہ اِک، جو آیا، جا رہا ہے!
٭٭
جو ہوتی دیس میں عزت ہنر کی
نہ کھاتے ٹھوکریں ہم در بدر کی!
کہا مرتے ہوئے بیکس نے مجھ سے
سخاوت دیکھ لی تیرے نگر کی!
جو حج میں ایک اُمت لگ رہی ہے
سُنو اِس کی کہانی سال بھر کی!
انا نے لوُٹ لی اِس کی خلافت
شکایت کی فرشتوں نے بشر کی
تمھارے شہر میں سب بے وفا ہیں
خطا اِس میں نہ تھی کچھ نامہ بر کی
جو سوئیں اب قیامت کو اُٹھیں گے
تھکن اُترے یونہی شاید سفر کی!
کسی طوفان کی آمد ہے شاید
بہت خاموش ہیں گلیاں نگر کی
ہمارے درمیاں سے ہی اُٹھا ہے
شکایت کیا کریں ہم راہبر کی؟
مِلا دیتی ہے بندے کو خدا سے
پہنچ افلاک تک آہِ سَحَر کی
٭٭
اے روحِ قائد
اے روحِ قائد
مری دُعا ہے
خدا تجھے اپنی رحمتوں میں لپیٹ رکھے، سمیٹ رکھے
مگر یہ سچ ہے کہ ہم نے تیرا پیام یکسر بھُلا دِیا ہے
شرم کا ایسا مقام ہے یہ،بیاں ہو کیسے؟، زباں نہیں ہے!
کہ تیرے گھر کو جلا کے ہم نے، تِرا مکاں بھی جلا دیا ہے!
٭٭
پھر معصوموں کا خون بہا، پھر آگ لگی ہے گلشن میں
پھر پیار نے بازی ہاری ہے، پھر خون کے پیاسے جیت گئے
کچھ روز چلی الفت کی ہوا، پھر اشکوں کی برسات ہوئی
اِس پیار کا قصہ کیا لکھنا، دو موسم تھے جو بِیت گئے!
وہ گیت جو بُلّھا گاتا تھا، جو پیار ہمیں سکھلاتا تھا
کچھ یاد تو ہے پر یاد نہیں، کب بھول ہمیں وہ گیت گئے!
٭٭
ایک سوال
کِیا ہے کس نے خراب لوگو؟
بتاؤ کر کے حساب لوگو
ہمی تو ہیں اِس چمن کے باسی
ہمی نے روندے گلاب لوگو!
ترستے پنچھی نے جان دے دی
ملی نہ پانی کی بوند اُس کو!
چُرا کے سارے چمن کے چشمے
سجائے کس نے سراب لوگو؟
کِیا ہے کس نے خراب لوگو؟
بتاؤ کر کے حساب لوگو
ہمی تو ہیں اِس چمن کے باسی
ہمی نے روندے گلاب لوگو!
یہ رشوتوں کا نظام، ہائے
یہ جھوٹا سچا کلام، ہائے
یہ منصبوں کو سلام، ہائے
یہ ‘تیز’ دولت کے خواب لوگو!
کِیا ہے کس نے خراب لوگو؟
بتاؤ کر کے حساب لوگو
ہمی تو ہیں اِس چمن کے باسی
ہمی نے روندے گلاب لوگو!
ہمی نے نفرت کے بیج بوئے
ہمی نے پالا ہے ظلمتوں کو
ہمی نے لُوٹا ہے اپنے گھر کو
ہمی ہیں اپنا عذاب لوگو!
ِکیا ہے کس نے خراب لوگو؟
بتاؤ کر کے حساب لوگو
ہمی تو ہیں اِس چمن کے باسی
ہمی نے روندے گلاب لوگو!
٭٭
بیماری
پنچھی جو پَلے ہوں پنجروں میں
پرواز کو سمجھیں بیماری!
جو ہونٹ سِلے ہوں صدیوں سے
آواز کو سمجھیں بیماری!
جو تار کبھی نہ تڑپے ہوں
وہ ساز کو سمجھیں بیماری!
٭٭
غلامی ترانہ
کھڑے ہیں گردن جھکا کے آقا، جو حکم ہو گا بجا کہیں گے
ہماری نسلیں تمھاری خادم، تمھاری نسلیں نواب سائیں!
ہماری کٹُیا جلا کے پھر سے، کرو اُجالا محل میں اپنے
خدا کا سایہ ہو تم زمیں پر، تمھاری خدمت ثواب سائیں!
چمن میں جب ہو خزاں کا موسم، کرو بسیرا نئے جہاں میں
ہماری قسمت میں جو ہے لکھاّ، تمہیں وہ کیوں ہو عذاب سائیں!
٭٭
۲۳ مارچ– اِک عہد
اِک عہد کیا تھا لاکھوں نے
اِس پاک وطن کی مٹی سے
وہ عہد ہمیں پھر کرنا ہے
اِس دیس کی خاطر جینا ہے
اِس دیس کی خاطر مرنا ہے
اِک عہد ہمیں پھر کرنا ہے!
ہوں طاقتور نادار یہاں
اور لیڈر ہوں خوددار یہاں
ہر شہری کو انصاف ملے
ہو امن محبت پیار یہاں
اب پیار کے تازہ پھُولوں سے
خدمت کے نئے اصولوں سے
اِس دیس کا دامن بھرنا ہے!
اِک عہد ہمیں پھر کرنا ہے!
٭٭
اُستاد
پڑھانا کاروبارِ زندگی لاکھوں کا ہے لیکن
تڑپنا جو سکھاتے ہیں، وہی اُستاد ہوتے ہیں
سبق پڑھ کر پڑھا دینا ہنر ہے عام لوگوں کا
جو دل سے دل جلاتے ہیں، وہی اُستاد ہوتے ہیں!
٭٭
کیسی تاویل مرے دوست، بہانہ کیسا
زخم جاگیرِ محبت ہیں، چھُپانا کیسا
حدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو
پہلوئے یار میں دامن کو بچانا کیسا
شعر در شعر ٹپکتا ہے قلم سے میرے
ڈھونڈ رکھا ہے تِرے غم نے ٹھکانا کیسا!
آ کے اِک روز بچا لے گا مسیحا کوئی
دیکھ بیٹھے تھے سبھی خواب سہانا کیسا
دن کے ڈھلتے ہی تِری یاد کی خوشبو بن کر
جاگ اٹھتا ہے کوئی درد پرانا کیسا
ہم نے ہر موڑ پہ بیچا ہے اصولوں کو نوید!
اور اب ہم کو شکایت، ہے زمانہ کیسا
٭٭
تُو شریکِ سفر ہُوا نہ مگر
تیری خوشبو ہے ہمسفر میری
ذِکر تیرا ہے رُوح میں رقصاں
تجھ کو مانگے ہے چشمِ تَر میری
ایک ذرّہ ہُوں ایک ذرّے پر
ذات کتنی ہے معتبر میری؟
پوچھتا پھر رہا ہوں تاروں سے
کیا کسی کو ملی خبر میری؟
چشمِ ساقی کو بھُول بیٹھا ہُوں
دستِ ساقی پہ ہے نظر میری
کل وہ چُپکے سے مُسکرائیں گے
آج برہم ہیں بات پر میری
آج پھر اِس اندھیر نگری میں
لوُٹ لی شاہ نے سَحَر میری
اپنے انجام کی طرف صاحِب
عمر بڑھتی ہے عمر بھر میری!
٭٭
بھری محفل میں وہ تنہا رہا ہے
کہ جس دل کو تِرا سودا رہا ہے
ِکیا ہے جس نے مذہب عشق اپنا
زمانے بھر میں وہ رُسوا رہا ہے
ثنا خوانوں کی سازش ہے یقیناً
بُرا ہر دور میں اچھا رہا ہے
لکیریں ہاتھ کی وِیران ہیں اب
کبھی اِن میں تِرا چہرہ رہا ہے
اُسے کہنا تمہارے بعد یہ دل
کوئی دو چار پل زندہ رہا ہے
حقیقت جانتا ہے ہر بَلا کی
مُصیبت میں بھی جو ہنستا رہا ہے
سبھی کردار سہمے پھر رہے ہیں
نہ جانے موڑ کیسا آ رہا ہے
بجھے گی پیاس اِک دن، اِس ہوس پر
لبِ ساحل لبِ دریا رہا ہے
وفا کے گیت گاتا حُسن صاحب
یونہی دل آپ کا بہلا رہا ہے
اگر بدلی رَوِش ہم نے نہ اپنی
وہی ہو گا ، کہ جو ہوتا رہا ہے!
٭٭
صفحَہ صفحَہ گزر رہے ہیں دن
ہم ہیں کردار اِک فسانے کے
حالِ دل پوچھتے ہیں محفل میں
دیکھ انداز آزمانے کے!
کھل گئی آنکھ جب مریدوں کی
کھل گئے بھید آستانے کے
لب پہ شکوہ، نہ اشک آنکھوں میں
سیکھ آداب دل لگانے کے!
تنکا تنکا لُٹا دیا تم نے
تم محافظ تھے آشیانے کے!
٭٭
نہ تڑپ ہی دل میں ہوتی نہ ہی انتظار ہوتا
جو بہشت میں ہی ہوتے تو کہاں قرار ہوتا
یہ بدن جو خاک و خوں ہے یہ اگر غبار ہوتا
تِری خاکِ پا میں شامل تِرا خاکسار ہوتا!
کہیں راہبر نے لوٹا، کہیں راہزن نے تھاما
جو سفر نہ یوں گزرتا تو نہ یادگار ہوتا
رہے بیخودی سلامت، رہے میکشی سلامت
تجھے ہم بھُلا نہ پاتے اگر اختیار ہوتا!
یہ نصیب کی ہیں باتیں کہ چلے ہیں سوئے مقتل
جو قلم جھُکا کے لکھتے تو گلے میں ہار ہوتا
٭٭
سوچ کا سلسلہ ہے، اور میں ہوں
عکس ہے، آئینہ ہے، اور میں ہوں
دیکھیئے کیا سفر میں گزرے ہے
دشت ہے، رہنما ہے، اور میں ہوں!
لوَٹتے سب ہیں اپنی فطرت کو
پھر وہی راستہ ہے، اور میں ہوں
توڑ کر آئینے نظر آیا
چار سُو اِک خلا ہے، اور میں ہوں
پھر سے ٹُوٹے گا دل یہ بے چارہ
پھر وہی بے وفا ہے، اور میں ہوں
٭٭
بے خودی اور بھی بڑھے اِس سے
تیری خوشبو شراب لگتی ہے
اپنی قسمت پہ اب نہ چھوڑیں گے
اپنی قسمت خراب لگتی ہے
جن کو تڑپائے بھوک راتوں میں
اُن کو روٹی عذاب لگتی ہے
جس کو انجام تک پڑھے نہ بنے
زندگی وہ کتاب لگتی ہے
ہو گئی ختم دل کی بے چینی
اب بُرائی ثواب لگتی ہے
چوٹ دے دے کے پوچھتے ہیں نوید
"آپ کو بھی جناب لگتی ہے؟”
٭٭
محوِ گریہ ہے تِری یاد میں شاعر تیرا
کیسا بکھرا ہے تری یاد میں شاعر تیرا!
تُو تو پنہاں ہے نگاہوں سے زمانے بھر کی
اور رُسوا ہے تِری یاد میں شاعر تیرا
لفظ ہیں، پھول ہیں، موتی ہیں، خدا ہی جانے
کیا کیا لکھتا ہے تِری یاد میں شاعر تیرا
روز کرتا ہے چراغاں کہ گھٹے وحشتِ جاں
روز جلتا ہے تِری یاد میں شاعر تیرا
٭٭
ہر پل دلِ ناشاد تجھے یاد کرے ہے
بسمل تِرا، حسرت تِری، صیاد! ،کرے ہے
لٹکا ہُوا زنجیر سے ملتا ہے محل میں
اِس دَور میں مظلوم جو فریاد کرے ہے
ِملتا ہے درِ یار سے اِکسیر کی صُورت
وہ درد جو ہر درد سے آزاد کرے ہے
٭٭
بین السطور
گو بظاہر ذِکر تھا اِک بے وفا کا شعر میں
اُن کو جو کہنا تھا ہم سے، کہہ گئے بَین السُّطور
لکھ دیا ہم نے جواباً ، ” کیا ہی عمدہ شعر ہے!”
چوٹ ہم بھی مسکرا کر سہہ گئے بَین السُّطور
٭٭
سو فیصد
اب صحبتِ یاراں کی خاطر پیتے ہیں یہاں جو پیتے ہیں
ہم نشۂ مے سے واعظ جی! آزاد ہوئے ہیں سو فیصد!
تعمیر کے جذبے مِٹ جائیں، تخریب جہاں پر گھر کر لے
وہ گھر اے پیارو لکھ رکھو! برباد ہوئے ہیں سو فیصد!
٭٭
استحصال
‘مال نہیں تو جینا ناحق، جا مِٹ جا خاموشی سے!’
ہاسپٹل کے دروازے پر لکھ ڈالا مجبوروں نے
لالچ اُن کی دیکھ کے توبہ کرتے تھے سرمایہ دار
اپنے کام کی پُوری اُجرت مانگی تھی مزدوروں نے!
٭٭
رسمِ غلامی
ہم کو عادت ہے جھُک کے رہنے کی
صدقِ دل سے خراج دیتے ہیں
ایک گرتا ہے مُنہ کے بل جونہی
دُوسرا ہم تراش لیتے ہیں!
٭٭
دنیا اور دیوانہ
وہ کہتی ہے
جو کہتی ہے
میں سُنتا ہوں
جو سُنتا ہوں
وہ دنیا ہے
میں دیوانہ
باتوں سے اُس کی بیگانہ!
وہ دانا ہے
میں نادانی
وہ خواہش ہے، میں حیرانی!
وہ خواب دکھائے پھولوں کے
میں دشت میں کانٹے چُنتا ہوں!
٭٭
متفرق اشعار
کتابِ حسرت میں خاص ہو گا کمالِ حسرت کا یہ فسانہ
نہ صبح پھوٹی، نہ آس ٹوٹی، نہ تُو ہی آیا، نہ دل ہی مانا
٭٭
کلیہ عام ہے اُلفت کی کتابو ں میں نوید
دو سے جب ایک نکالا تو بچا اِک بھی نہیں!
٭٭
چھوڑ جاتے ہیں سبھی راہ میں تنہا یارو
رسمِ اُلفت میں کہاں رسمِ وفا ہوتی ہے!
٭٭
دیکھ کے تیری شوخ ادا
بسمل بولے،”بسم اللہ!”
٭٭
اب یہ دل، زندگی، اور ہم
آپ کا، آپ کی، آپ کے
٭٭
رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ
ہو جس سے اختلاف، اُسے مار ڈالیے
٭٭
جو عزت دے نہیں سکتے اُنہیں عزت نہیں ملتی
کہ مغروروں کی بستی میں مکرم کون ہوتا ہے؟
٭٭
جن جبینوں میں صرف سجدے ہوں
کیا کمی اُن کو آستانوں کی!
٭٭
ایک ڈگری تو کچھ نہیں صاحب!*
آپ کہیے، خدا بنا دیں گے
٭٭
آپ ‘استاد’ ہیں بڑے صاحب*
یہ سَنَد آپ کی امانت ہے!
٭٭
تھام لیتی ہے تِری یاد کی خوشبو جس دم
دل کی دنیا ہی الگ ہوتی ہے!
٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید