فہرست مضامین
- مقالات و مضامین جلالی
- اپریل فول کیا ہے ؟
- میرے حضور حافظ الحدیث اصحاب علم و دانش کی نگاہ میں
- فضائل و مسائل رمضان
- کھانے بعد انگلیاں چاٹنے اور وضو کے سائنسی فوائد
- امام اعظم ابو حنیفہ علماء فقہا ء کی نظر میں
- عید الفطر
- پردہ اسلام اور عورت
- جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم شاہ ابو سعید المظفر
- اسلام کے بارے میں اغیار کے پروپیگنڈے
- شانِ افضل البشر بعد الانبیاء بزبانِ علیُؓ المرُتضیٰ شیرِ خدا
- معاشرے میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان، نقصانات اور احتیاطی تدابیر
- نوافل و وظائف لیلۃ القدر
- کیا نقش نعلین پاک متبرک ہے …؟؟
- شرم و حیا ء قرآن و حدیث کی روشنی میں
- بادشاہ اور قیدی کے درمیان مکالمہ
- بسنت کی حقیقت
- امام اعظم ابو حنیفہ اور فقہی بصیرت
- نام
- ولادت
- حضور ﷺ کی بشارت
- تحصیل علم کی طرف توجہ اور تعلیم و تربیت
- امام اعظم اور حماد بن سلیمان رضی اللہ عنہم
- آپ کے اساتذہ
- صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ملاقات
- امام اعظم اور امام باقر کا مکالمہ
- امام اعظم کے تدریس و افتاء کی ابتدا
- بنائے مذہب حنفی
- آئمہ کرام کے ارشادات
- تحصیل حدیث
- تصانیف امام اعظم
- لباس
- وفات امام اعظم
- بعد وصال غیبی آوازیں
مقالات و مضامین جلالی
محمد برہان الحق جلالی
جلد اوّل
اپریل فول کیا ہے ؟
یکم اپریل کو ہماری نیو جنریشن اپریل فول کے طور پر مناتی ہے اس دن کو عموماً لوگ ایک دوسرے کو پریشان کرنے کے لئے جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں یا کسی شخص کو حیران کرنے کے لئے ایسی بات پھیلا دیتے ہیں جو بالکل جھٹ پر مبنی ہوتی ہے اس طرح پریشانی و حیرانی میں مبتلا کر کے خود خوش ہوتے ہیں اس دن کو لوگ عام طور پر اپریل فول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
جھوٹ بولنا جھوٹی افواہیں پھیلانا کسی کو حیران و پریشان کرنے کے لئے جھوٹی خبر اڑانا لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹی باتیں سنانا یا جھوٹ بولنا ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا یا جھوٹا وعدہ کرنا یہ سب باتیں شرعاً ممنوع اور حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے اور اپریل فول میں یہی باتیں پائی جاتی ہیں تو یہی حکم اس پر لاگو ہو گا۔
انسان کے اخلاق کے زمرے میں سب سے بری عادت جھوٹ ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ جتنا مذموم عمل ہے اتنا ہی زیادہ آجکل عام ہے گھر ہو یا بازار، دفتر ہو یا دوکان، سیاست ہو یا صحافت دنیا کا کوئی بھی شعبہ اس سے بچا ہوا نہیں۔
گوئبلز نے کہا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ جھوٹ بھی سچ معلوم ہو اور آج دنیا اسی کے قول کو سچ کر کے دکھا رہی ہے قرآن و حدیث میں جھوٹ کی سخت مذمت آئی ہے آج انسان سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی کا راز جھوٹ میں پوشیدہ ہے اور آج یہ باتیں عام سننے میں آتی ہیں کہ اس دنیا میں دیانتدار کا ٹھکانہ نہیں در اصل یہ باتیں اس لئے سننے میں آتی ہیں کیونکہ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے اگر ہم نے اسلام کی تعلیمات کو اپنایا ہوتا تو آج اس معاشرے میں جھوٹوں کی کوئی جگہ نہ ہوتی۔
لعنت اسلام کی لغت میں انتہائی سخت ترین لفظ ہے قرآن عظیم نے اس لعنت کا مستحق شیطان کو قرار دیا ہے اور اس کے بعد کافروں منافقوں یہودیوں کو لعنت کی وعید سنائی گئی ہے اور مسلمانوں میں سے سوائے جھوٹے کے بارے میں اور کسی کو قرآن پاک میں لعنت کا مستحق نہیں کہا گیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جھوٹ کتنا مذموم عمل ہے۔
اب ہم قرآن و حدیث کی رو سے جانتے ہیں کہ آخر جھوٹ کی اسلام میں حیثیت کیا ہے ؟
اللہ رب العزت نے جھوٹوں پر لعنت کی۔
اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ یایھا الذین آمنوا اتقواللہ وقولوا قولا سدیدا
اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور ہمیشہ سیدھی اور کھری بات کیا کرو۔
آئیے اب ہم احادیث کی رو سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی کیا حیثیت ہے ؟
۱: -محدث ابو یعلیٰ اپنی اسناد کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لا یبلغ العبد صریح الایمان حتی یدع المزاح والکذب و المرآء وان کان محقا
بندہ ایمان خالص تک نہیں پہنچتا جب تک کہ وہ مزاح اور جھوٹ اور جھگڑے کو چھوڑ نہ دے اگر چہ جھگڑا کرنے میں وہ برحق ہو۔
(الحدیقہ الندیہ جلد دوم ص 202)
۲: -امام احمد و ترمذی و ابو داؤد و دارمی نے بروایت بھزین حکیم عن ابیہ عن جدہ روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ویل لمن یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم ویل لہ ویل لہ۔
یعنی ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہے اس کے لئے ہلاکت ہے۔
(الترغیب والترہیب جلد دوم حصہ اول ص 428ضیاء القرآن) (مشکوٰۃ شریف جلد دوم ص127) (بہار شریعت حصہ شانزدہم ص135) (جامع الصغیر جلد دوم ص 198) (نزہت الناظرین ص212)
آپ نے دیکھا کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنے والے کے لیے آپ نے اس کی ہلاکت کا ذکر کیا۔ کیا کسی کو دکھ دینے کیلیے یہ جائز ہو جائے گا؟اور وہ بھی جو یہود و نصاریٰ کی رسم ہے۔
۳: -امام ترمذی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اذا کذب العبد تباعدعنہ الملک میلا من نتن ما جاء بہ
جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بد بو سے فرشتے ایک میل دور ہو جاتے ہیں۔
(ترمذی جلد دوم ص27)(مشکوٰۃ شریف جلد دوم ص128) (بہار شریعت حصہ شانزدہم ص134) (الحدیقہ الندیہ جلد دوم ص203)(جامع الصغیر جلد اول ص34)
(الترغیب والترہیب جلد دوم حصہ اول ص427 ضیاء القرآن)
۴: -طبرانی معجم الاوسط میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ لایبلغ العبد حیقیق الایمان حتی یحزن من لسانہ۔
بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچتا جب تک کہ وہ اپنی زبان کو قابو میں نہ کرے۔
(جامع الصغیر جلد دوم ص204)
۵: -ابو داؤد حضرت سفیان بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا۔
کبرت خیانت ان تحدث اخاک حدیثا ہو لک بہ مصدق وانت لہ بہ کاذب
بڑی خیانت کی بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جانے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔
(جامع صغیر ج 2ص90، مشکوٰۃ شریف ج 2ص129)
۶: -امام احمد حضرت ابو بکر سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جھوٹ سے بچو کیونکہ ایمان کے مخالف ہے (بہار شریعت حصہ شانز دہم ص135)
دعوت غور و فکر
ہم نے صرف 6 احادیث مبارکہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ملاحظہ کیں ان کے علاوہ بھی بے شمار احادیث جھوٹ کی مذمت میں موجود ہیں بہرحال میں انہی پر اکتفا کروں گا بہرحال ان احادیث سے جھوٹ کی حرمت ثابت ہو جاتی ہے میں نے ان کو نقل کیا تاکہ اپریل فول منانے والے مسلمانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے اب اس قسم کے مسلمانوں کو ان احادیث مبارکہ پر غور کرنا چاہیے اور یکم اپریل کے دن لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے غلط افواہیں پھیلانے سے بچنا چاہیے یہ در اصل تین گناہوں کا سبب بنتی ہے ایک جھوٹ، کفار کی پیروی، اور مسلمانوں کو تکلیف دینا۔
جھوٹ کے بارے میں آپ نے احادیث ملاحظہ کیں اور کفار کی پیروی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا من تشبہ بقوم فہو منہم(ابوداود)
اور مسلمانوں کو تکلیف دینے کے حوالے سےشرح الصدور میں ہے کہ برے خاتمہ کے اسباب میں ایک مسلمانوں کو تکلیف دینا ہے۔(شرح الصدور ص 27 دارالکتب بیروت)
ہم کیوں اتنے گناہوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں اس کو منا کر خدارا اس سے بچیے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے (آمین)
٭٭٭
میرے حضور حافظ الحدیث اصحاب علم و دانش کی نگاہ میں
عمدۃ الکاملین، سراج السالکین، مقدامُ الفضلاء الکاملین، شیخُ المحدثین، جلال الملۃ والدین، قطب وقت، مفتی اعظم پاکستان، حافظ القرآن والحدیث پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادری نور اللہ مرقدہٗ کی ذات مبارکہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ کا شمار اُن باکمال اور اعلیٰ شخصیات میں ہوتا ہے جو آسمان علم و فضل پر آفتاب نمروز کی طرح چمکیں آپ کی وجہ سے جہان روشن ہوا وہ کہ جن کی زہد و تقویٰ، تدریس و افتاء، تبلیغ و اصلاح کا ہر ایک نے اعتراف کیا جن سے ہر خاص و عام نے فیوض و برکات حاصل کیے جنہوں نے درس و تدریس کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے جن کی ذات ستودہ صفات علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں۔ بہرحال آپ کو اصحاب علم و دانش نے اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
ممدوح العلماء جناب تقدس علی خان صاحب قادری ؔ(سابق مہتمم دارالعلوم منظر الاسلام بریلی شریف انڈیا)
جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے جامعہ سے بہترین مدرس پیدا کیے مسلک حقہ اور اہلسنت کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں جناب موصوف کی دیگر خدمات دینی ایسی ایسی ہیں کہ جو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کی جا سکتیں۔
مجاہد ملت مولانا عبد الستار خان نیازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔
جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جہاں علم و معرفت کا بحر ذخائر، دعوت و ارشاد میں نابغہ روزگار اور احقاق حق و ابطال باطل میں شمشیر آبدار تھے وہاں سیاسیان اسلامیہ میں بھی استقامت اور مینارہ نور تھے آپ نے باطل پرستوں کے ساتھ مناظرے کیے اور گستاخوں کو شکست فاش دی۔
حضرت علامہ مولانا پروفیسر مفتی منیب الرحمان صاحب دامت برکاتہم القدسیہ (چیئرمین روئیت ہلال کمیٹی، سربراہ دارالعلوم نعیمیہ کراچی)۔
استاذالعلماء مفتی جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دنیائے اہلسنت کی عظیم محسن و مربی تھے وہ مایہ ناز مفسر، عظیم محدث، فقیہ العصر اور ژرف نگاہ جامع معقول تھے۔
فخر المصنفین محترم سید نور محمد قادری صاحب (ممبر آل سنی رائٹر گلڈ)۔
آپ کی شخصیت کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے قلم خون کے آنسو روتا ہے گوندل بار جیسے بے حس اور علمی لحاظ سے بنجر علاقہ میں انہوں نے نصف صدی تک دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو پھیلانے اور عام کرنے کیلئے بھرپور کوشش کی ہے۔ تحریک پاکستان کے زمانہ میں آپ نے جو ملی اور سیاسی خدمات سرانجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
حضرت صاحبزادہ سید سلطان علی شاہ صاحب دامت برکاتہم القدسیہ (مہتمم جامعہ حسینیہ ہمدانیہ بھنگالی شریف راولپنڈی)۔
حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک برگزیدہ، نہایت درویش و بزرگ اور عاشق رسولؐ تھے۔
حق و صداقت کی نشانی، مجاہد ختم نبوت امام الشاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ: ۔
آپ نے لاہور میں منعقدہ حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کانفرنس میں حضور حافظ الحدیث کو جلال العلم و العلماء کا لقب عطا ء فرمایا۔
قطب مدینہ جناب مولانا ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ: ۔
آپ نے اپنے ایک خادم مولانا محمد حسین کو خط لکھ کر فرمایا حضور حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کا وجود اہلسنت کے لئے مینارۂ نور ہے۔
ابوالحقائق مولانا عبدالغفور ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے۔
آپ کا وجود مسلک اہلسنت کی حقانیت کی دلیل ہے کیونکہ آنکھوں سے ظاہری معذوری کے باوجود اتنا معتبر عالم با عمل کسی اور جماعت میں موجود نہیں۔
محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد خان رحمۃ اللہ علیہ۔
استاذالعلماء محقق اہلسنت حافظ محمد احسان الحق صاحب نے آپ کی وفات کے بعد ایصال ثواب کی محفل میں برملا اعلان فرمایا کہ جب کبھی حضور حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں فیصل آباد تشریف لاتے تو محدث اعظم پاکستان آہستہ آہستہ مسند تدریس سے پیچھے کھسکتے جاتے اور حضرت شاہ صاحب کو مسند تدریس پر بٹھاتے۔ اور جب ہم بعد میں پوچھتے حضرت یہ کیا ماجرا ہے ؟تو حضرت محدث اعظم فرماتے ہیں قبلہ شاہ صاحب اگرچہ میرے شاگرد ہیں لیکن پھر بھی وہ عالم دین اور آل رسول ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ حافظ قرآن بھی ہیں اس لئے میں ان کا احترام کرتا ہوں۔
استاذالاساتذہ مولانا حافظ کریم بخش صاحب (سابق شیخ الفقہ جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف)
آپ امام تھے، بلند پایہ خطیب تھے، اعلیٰ درجہ کے مفتی، بہترین قاضی، مایہ ناز مدرس، نفیس ترین اور موزوں ترین شیخ الحدیث اور جامعہ کے بانی اور مہتمم تھے۔
جانشین فقیہ اعظم مولانا صاحبزادہ محب اللہ نوری صاحب بصیر پور
آپ نے تمام عمر جس طرح علمی اور روحانی فیض پہنچایا وہ اظہر من الشمس ہے۔ آپ ایک بلند پایہ عالم دین، محدث اور ظاہری و باطنی علوم کے پیکر جمیل تھے حضرت والا کی سادگی، بے نفسی اور تقویٰ و انکساری کو دیکھ کر سلف کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔
بانی منہاج القرآن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری۔
آپ کی صلابت فکر، تبحر علمی، فقہی بصیرت اور زہد و تقویٰ کے غیر بھی معترف تھے۔
مناظر اسلام استاذالعلماء استاذی حضرت علامہ مولانا عبدالتواب صدیقی اچھروی صاحب شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور۔
غزالی زماں، محقق العصر، فاضل اجل، عالم بے بدل، محدث دوراں، شیخ المحدثین و المفسرین، شیخ الحدیث والتفسیر، امام العلماء، سید الاصفیاء، پیر طریقت، رہبر شریعت حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کی بے مثل، انفرادی شان کی مالک شخصیت اور اہلسنت کے مایہ ناز عالم دین تھے۔ آپ کی شخصیت پورے عالم اسلام کیلئے باعث فخر تھی۔
ابو البیان خطیب بے بدل جناب حضرت علامہ مولانا سعید احمد مجددی صاحب رحمۃ اللہ علیہ گوجرانوالہ۔
حضرت العلامہ حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ملت اسلامیہ کے لئے مینارۂ نور تھے۔ جن کے فیضان ظاہری و باطنی سے ایک جہاں بہرہ یاب ہوا۔ مسلک حقہ اہلسنت کے لئے انہوں نے ایسی بے مثال اور لا جواب خدمات جلیلہ انجام دیں جو قیامت تک سینہ گیتی پر ثبت رہیں گی۔
حضرت علامہ مولانا صاحبزادہ پیر عتیق الرحمان صاحب فیض پوری۔ ڈھانگری شریف میرپور: ۔
حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں فروغ دین و اشاعت اسلام کے لئے آپ کی زندگی وقف تھی۔ نہ صرف پاکستان، آزاد کشمیربلکہ دنیا کے کئی ممالک میں آپ کے تلامذہ خدمت دین میں مصروف ہیں بلاشبہ حضرت شاہ صاحب ایک بے بدل عالم دین تھے۔
صاحبزادہ سلطان فیاض الحسن شاہ صاحب قادری سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ: ۔
حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پورے ملک میں کثیر تعداد میں شاگرد آپ کے روشن کئے ہوئے چراغ کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہیں آپ کی علمی وجاہت آج بھی اہلسنت و جماعت کے اندر ہی نہیں بلکہ اغیار میں ایک خصوصی امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔
حضرت علامہ مولانا پیر حامد علی شاہ صاحب گجراتی رحمۃ اللہ علیہ: ۔
حضرت قبلہ محترمی و مکرمی، فاضل اجل، عالم با عمل، واجب الاحترام، استاذالعلماء حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات سے جو خلا پیدا ہوا ہے شاید پُر نہ ہو سکے آپ بلا شبہ ایک عالم اجل، با عمل عالم دین اور عاشق رسولؐ تھے۔
حضرت علامہ مولانا پیر حسِین الدین شاہ صاحب جامعہ رضویہ راولپنڈی۔
مخدوم المشائخ، استاذالافاضل، مقبول بارگاہ رسالت، حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے زندگی بھر حب رسالت مآبؐ کی جو مئے پلائی اور نبی کریمؐ کی جو احادیث کی جلیل خدمات خدمات انجام دیں ان کی مقبولیت کے شواہد عدلی موجود ہیں۔
سرچمن میں پھول کھلنا تو کوئی بات نہیں۔
رہے وہ پھول جو گلشن بنائے صحرا کو
غزالی زماں حضرت علامہ مولانا سید احمد سعید کاظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ملتان۔
زبدۃ الافاضل، عمدۃ الاماثل، حضرت شیخ المحدثین حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ یکتائے روزگار، عالم با عمل، جامع الشریعۃ والطریقہ بزرگ تھے۔
: ۔ ثنا خوان مصطفیؐ جناب الحاج محمد علی ظہوری صاحب بانی مجلس حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصور: ۔
جناب شیخ المحدثین، حافظ الحدیث پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے مسلک کے لئے ایک انمول سرمایہ تھے ان کی وفات سے پیدا شدہ خلا ء مشکل سے پُر ہو گا۔
ممدوح علماء عرب و عجم مولانا مفتی سید شجاعت علی قادری جسٹس اسلامی شرعی عدالت اسلام آباد: ۔
عظیم فقیہ اہلسنت، استاذ العلماء، حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی خدمت اسلام میں صرف کی اور اپنی تمام صلاحیتیں عظمت مصطفیٰ کے اُجاگر کرنے میں صرف کیں۔ وہ بے مثال فقیہ اور عظیم محدث، شب زندہ دار عابد اور تیغ و سپر مجاہد تھے۔
محسن اہلسنت مولانا مفتی عبد القیوُم ہزاروی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور:۔
پاکستان میں سے اسلاف کی یادگار اور ان کے مشن کو تابندہ رکھنے والی شخصیات میں سے استاذالعلماء، حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنی معذوری کے باوجود علوم اسلامیہ کو بالاستعیاب پڑھا اور پڑھایا بلکہ آپ نے فن تدریس کا ایک معیار قائم فرمایا میرے نزدیک قبلہ شاہ صاحب حضور ؐ کا معجزہ تھے۔
حضرت علامہ مولانا محمد اکرم سیالکوٹی خطیب اعظم دوبئی: ۔
استاذالعلماء، حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ ایک صاحب کرامات ولی تھے۔
حضرت علامہ مفتی عزیز اللہ مجددی صاحب رحمۃ اللہ علیہ: ۔
حضور خواجہ عالم، شہنشاہ ولایت، فخرالسادات، استاذالاساتذہ، استاذالعلماء، حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان اقدس میں وہ اثر تھا کہ ڈاکو کو کہا تہجد پڑھا کرو تو وہ تہجد گزار ہو گیا آج ہر آدمی ان کی تعریف کیلئے بے قرار ہے۔ میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ شاہ صاحب کے اندر نور محمدیؐ کی وہ کرن تھی ان کی زبان سے جو نکلا وہ تیرے چہرے پہ رنگ اور سینے میں نور مصطفیٰؐ لایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا فیض جاری رکھے آمین ثم آمین۔
مناظر اسلام حضرت علامہ مولانا ضیاء اللہ قادری صاحب رحمۃ اللہ علیہ: ۔
حضور قبلہ عالم، جلال الملۃ والدین استاذالعلماء، حافظ الحدیث جناب پیر سید جلال الدین شاہ صاحب نقشبندی قادریؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے ہر مسلمان کا دل اور ایمان تر و تازہ ہو جاتا تھا۔ آپ ایک ولی کامل تھے۔ آپ کے تمام شاگرد متشرع نظر آتے ہیں۔ اور شریعت مطہرہ کی پابندی کرتے ہیں۔
مناظر اسلام حضرت علامہ مولانا سعید احمد اسعد صاحب دامت برکاتہم القدسیہ (ناظم اعلیٰ جامعہ امینیہ فیصل آباد): ۔
آپ استاذالاساتذہ تھے۔ مجھے اس بات پر فخر و ناز ہے کہ آپ کے تلامذہ میرے استاد ہیں۔
استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا غلام رسول صاحب شیخ الحدیث جامعہ رویہ فیصل آباد: ۔
حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طالب علمی کے زمانے میں بھی لوگ آپ کے ثناء خوان تھے یہ کہنا بجا ہو گا کہ ایسا مدرس جو کتب ازبر پڑھائے کبھی میسر نہیں ہو سکتا اگرچہ شاہ صاحب رات کو مطالعہ فرماتے تھے لیکن آنکھیں بند کر کے پڑھانا ہمیں معلوم ہے کہ کتنا مشکل ہے۔
استاذالعلماء حضرت علامہ مولانا محمد نواز صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ گوجرانوالہ: ۔
سراج السالکین، زبدۃ العارفین، حافظ القرآن والحدیث علوم و معارف کا خزینہ تھے۔ آپ بھی اپنے اکابر کی طرح اخفاء پسند تھے اس لئے ان کے کمالات روحانیہ صفحہ قرطاس پر نہیں لایا جا سکتا۔
پیر طریقت الحاج خواجہ محمد معصوم صاحب رحمۃاللہ علیہ موہری شریف (گجرات): ۔
آپ اسوۂ رسولؐ کا عملی نمونہ اور اتباع مصطفیٰ کا مجسمہ پیکر تھے۔ گویا آپ کی زندگی کی ہر ہر اداسنت مصطفیؐ تھی۔ آپ ملت اسلامیہ کے لئے مینارۂ رشد و ہدایت تھے۔
علامہ مولانا سید محفوظ الحق شاہ صاحب خطیب جامع مسجد غلہ منڈی بُو رے والا: ۔
مسلک حق کے لئے حضرت والا کا وجود پیکر استقامت اور ابر کرامت تھا۔ بلاشبہ آپ نمونہ اسلاف اور ہدایت خلق کے لئے حجت خداوندی تھے۔
مفسر قرآن مولانا غلام رسول سعیدی صاحب دارالعلوم نعیمیہ کراچی: ۔
آپ کی مجلس میں بیٹھنا میں اپنے لئے شرف سمجھتا تھا کئی با کئی علمی گتھیاں آپ نے سلجھائیں اور مجھ جیسے کم حیثیت پر کرم فرمایا۔
مولانا غلام رسول سیالوی صاحب چینیوٹ: ۔
آپ کی شخصیت عزت اسلامی کی تصویر، سراپا سوز و گداز، فیضان رضا کے مظہر، شریعت و طریقت کے حسین و جمیل مرقع تھی۔
مولانا مفتی محمد رفیق صاحب میانی: ۔
اس سے بڑھ کر آپ کے استقلال کا کیا مقام ہو سکتا ہے کہ آپ کمزوری، پیری (بڑھاپا)، معذوری(نابینا پن) کے باوجود کبھی تدریس سے ناغہ نہ کیا آپ قضاء و تدریس میں بے مثال تھے افتا ء واستفتاء میں بے نظیر تھے۔
حاجی محمد حنیف طیب صاحب سابق وفاقی وزیر: ۔
ان کا دنیا میں کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ حضرت قبلہ حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تنظیم کی تمام سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ کی طبیعت جذبہ و ایثار کی مظہر تھی۔
(اللہ ان کی قبر انور پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے آمین ثم آمین)
٭٭٭
فضائل و مسائل رمضان
مالک کون مکاں خدائے وحدہ لا شریک نے بارہ مہینے ہمیں عطا کیے ہیں ان سب کی اپنی اپنی جگہ پر شان و فضیلت ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے مگر رمضان کی بہت زیادہ فضیلت ہے روزہ کے بارے میں حدیث قدسی ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا –
اس ماہ مبارک میں اگر کوئی نوافل ادا کراتا ہے تو اس کا ثواب فرض اور اگر کوئی فرض ادا کرتا ہے تو اس کا ثواب ستر گنا کر دیا جاتا ہے اس میں سونا بھی عبادت ہے نیز روزہ دار کی دعا پر فرشتے آمین کہتے ہیں اور روزے دار کیلئے پانی میں مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں۔(الترغیب والترہیب جلد 2 صفحہ نمبر 20)۔
روزہ عبادت کا دروازہ ہے۔(کنزالعمال جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 209)
نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ کہ اس مہینے کا نام رمضان رکھا گیا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔(کنزالعمال جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 230)۔
فاتح خیبر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ عز و جل کو امت محمدی پر عذاب کرنا مقصود ہوتا تو امت محمدی کو سورۃ الاخلاص اور رمضان المبارک عطاء نہ کرتا۔(نزہۃ المجالس جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 163)
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف نظر فرماتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی کی طرف نظر فرماتا ہے تو اسے کبھی عذاب نہیں دیتا اور ہر روز دس لاکھ گناہگار بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور جب رمضان کی انتیسویں رات ہوتی ہے تو مہینے بھر میں جتنے آزاد کیے ہوتے ہیں ان کے مجموعے کے برابراس ایک رات میں آزاد فرماتا ہے پھر جب عید کی رات آتی ہے ملائکہ خوشی کرتے ہیں اور خداوند قدوس اپنے نور کی تجلی فرماتا ہے اور فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اے گروہ ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے کہ جس نے پورا کام کر لیا؟فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اس کو پورا پورا اجر دیا جائے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کو بخش دیا (کنزالعمال جلد 8ص 219)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے روزہ دار کو چاہیے کہ وہ جماع نہ کرے اور نہ ہی جاہلوں والی باتیں کرے اور اگر کوئی آدمی اس سے لڑائی کرے اسے گالی گلوچ کرے تو روزہ دار دو مرتبہ یہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں اس ذات باری کی قسم کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ عزیز تر ہے کہ روزہ دار کھانے پینے اور خواہشات نفسانیہ کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا باقی نیکیوں کا اجر دس گنا ہے۔ (صحیح بخاری ج 1ص 254)
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔
جس کسی نے ایمان اور خلوص نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس پچھلے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔(مشکوٰۃ شریف ص173)
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ روزہ دار کا سونا بھی عبادت ہے روزہ دار کی سانسیں تسبیح کرتی ہیں روزہ دار دعا مقبول ہے اس کے گناہ بخشے ہوئے ہیں روزہ دار کے اعمال صالحہ دو گنا ہو جاتے ہیں (نزہۃ المجالس جلد 1ص 328)
حضور نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی ہر شب میں بوقت افطار ساٹھ ہزار گناہگاروں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے اور عید کے دن سارے مہینے کے برابر گناہگاروں کی بخشش کی جاتی ہے۔(الدر المنثور جلد نمبر 1ص164)
حضور نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ (ماہ رمضان میں ) جمعۃ المبارک کے دن و شب ہر گھڑی میں ایسے ہی دس دس لاکھ افراد کو جہنم سے آزاد کرتا ہے کہ(جن پر جہنم واجب ہو چکی ہوتی ہے )جو عذاب کے حقدار قرار دیے جا چکے ہوتے ہیں۔(کنزالعمال جلد8س 223)
حضور خیر الناس امام الانبیاء روؤف الرحیم نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن قیامت والے دن بندے کے لیے شفاعت کریں گے روزہ بارگاہ الٰہی میں عرض کرے گا کہ اے رب کریم میں نے کھانے اور خواہشوں سے اس کو دن میں روکا میری شفاعت اس بندے کے حق میں قبول فرما جبکہ قرآن عرض کرے گا کہ اے پروردگار میں رات کو سونے سے اس بندے کو باز رکھا میری شفاعت اس بندے کے حق میں قبول فرما پس اللہ تعالیٰ دونوں کی شفاعتیں اس بندے کے حق میں قبول فرمائے گا(مسند امام احمد ج 1ص 586)
حضور خیر الناس امام الانبیاء روؤف الرحیم نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ رمضان المبارک ایسا بابرکت مہینہ ہے کہ کہ اس کا اول حصہ رحمت درمیانی مغفرت اور آخری عشرہ آگ سے آزادی کا ہے (بہیقی شریف)
حضور خیر الناس امام الانبیاء روؤف الرحیم نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ رمضان میں اللہ تمہاری دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور خطاؤں کو معاف فرماتا ہے (طبرانی)
حضور خیر الناس امام الانبیاء روؤف الرحیم نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اس سے بچا تو جو اس سابقہ گناہ ہیں یہ ان کا کفارہ ہو گا
معزز قارئین، ہم رمضان المبارک کا احترام نہیں کرتے اگر ہم روزہ رکھ بھی لیتے ہیں تو بھی ہم برائی سے باز نہیں آتے کیونکہ یہ ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہے ہم فحش کام کرنے سے باز نہیں آتے گانا بجانا ہم نہیں چھوڑتے فلم دیکھنا ہم نہیں چھوڑتے بے حیائی کے کام ہم نہیں چھوڑتے پھر کہتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوتی اور جب ان سے پوچھا جائے کہ تم ایسا کام کیوں کرتے ہو؟ تو جواب ملتا ہے کہ ہم روزہ کو بھلا رہے ہیں تعجب ہے تم پراور اس کے ساتھ ساتھ ہماری مائیں بہنیں بھی اس مہینے میں بھی پردہ کا لحاظ نہیں رکھتی باریک لباس پہنتی ہیں جسم کو اچھی طرح نہیں ڈھانپتیں وہ بھی ہماری مائیں بہنیں تھیں کہ جو پانچ وقت کی نمازی تھیں روزہ رکھتی تھیں پردہ کا لحاظ رکھتی تھیں قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھیں جو عشق مصطفیٰ سے سر شار ہوتی تھیں آپ سب اچھے ہیں اگر ان با توں کو بھی ہم سب اپنا لیں تو ہم تحت الثریٰ سے اوج ثریا پہ پہنچ جائیں گے آج کا نوجوان بھی اسلام کو بھلا بیٹھا ہے جو والدین کے نافرمان ہے جو تارک نماز ہے وغیرہ وغیرہ۔
ان کے بارے میں شاعر مشرق حضرت عاشق رسول حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ
غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں
ہم تو مائل با کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈھنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
کس قدر گراں تم پہ صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبع آزاد پہ قید رمضان بھاری ہے
تم ہی کہ دو کہ یہی آئین وفاداری ہے
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلمان نا بود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلمان موجود
وضع میں تم نصاریٰ ہو تو تمدن میں تم ہنود
یہ مسلمان ہیں کہ جہنیں دیکھ کہ شرمائیں یہود
حقیقی روزہ کیا ہے ؟
روزہ در اصل آنکھوں کو ناجائز نظارے سے زبان کو مکروہ اور فحش اور جھوٹی با توں سے کانوں کا غیبت اور لغویات سننے سے اور پیٹ کو خوب بھر کر کھانے سے بلکہ تمام اعضائے جسمانی کو خلاف شرع افعال سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے –
حضور نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ: ۔
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (ابن ماجہ شریف)
مسائلِ رمضان المبارک
رمضان المبارک آ رہا ہے لہذا لازمی ہے کہ ہم رمضان المبارک کے مسائل کا حل شریعت محمدیہ کی روشنی میں جانیں۔
نوٹ: ۔ تمام مسائل فقہ حنفی کے تحت لکھے گئے ہیں۔
سحری و افطاری
۱: ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ۔
سحری کرنے میں تاخیر کرو اور افطاری کرنے میں جلدی کرو۔مگر اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ اذان فجر کا وقت شروع ہو جائے یاد رہے کہ اذان فجر کا وقت سحری کے وقت کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور وہ لوگ جو سحری میں فجر کی اذان کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور کھاتے رہتے ہیں وہ اپنے روزے کو ضائع کر رہے ہیں۔ اگر سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد آپ نے ایک لقمہ بھی کھایا تو آپ کا روزہ نہ ہوا۔(فتاویٰ عالمگیری جلد نمبر 1صفحہ نمبر 203)
۲: ۔ افطاری کے وقت کئی مساجد کے مؤذنین غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اذانیں جلد دے دیتے ہیں لہذا لوگ اُن کی پیروی نہ کریں اپنی گھڑیوں کا وقت درست رکھیں۔ اور مقر رہ وقت پر ہی روزہ افطار کریں ابھی سورج کی کرنیں باقی ہوتی ہیں کہ لوگ روزہ افطار کر دیتے ہیں یہ لوگ اپنے روزوں کو ضائع کر رہے ہیں۔
سورج ڈوب جانے کا اطمینان ہو جائے تب روزہ افطار کریں۔(قانون شریعت صفحہ نمبر 174)
۳: ۔ اگر کسی نے دوران روزہ مباشرت کر لی تو اس کا روزہ جاتا رہا۔ قانونِ شریعت صفحہ نمبر 167، دُرِّ مختار جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 150، دُرِّ مختار جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر 142)
۴: ۔ اگر کسی نے بھول کر کھا لیا اور روزہ دار ہونا یاد نہ تھا تو روزہ نہ گیا مگر جونہی روزے دار ہونا یاد آیا تو ایک لقمہ بھی کھایا یا جو منہ کے اندر نو آلہ تھا اس کو نگل گیا تو روزہ جاتا رہا۔(قانونِ شریعت صفحہ نمبر 171، نورُالایضاح صفحہ نمبر 154، عالمگیری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر179، قدوری شریف صفحہ نمبر 52)
۵: ۔ بے اختیار قے ہوئی اور خود بخود اندر لوٹ گئی تو روزہ نہ ٹوٹا چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ۔ روزہ یاد ہو یا نہ یاد ہو اگر روزہ یاد تھا اور جان بوجھ کر اندر نگل گیا تو روزہ جاتا رہا اگر قصداً قے کی اور روزہ دار ہو نا یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا اگر منہ بھر سے کم تھی تو روزہ نہ ٹوٹا۔(قانونِ شریعت صفحہ نمبر168، فتاویٰ رضویہ، کنزُالعمال جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 230، دُرِّ مختار جلد نمبر 3 صفحہ 392)
۶: ۔ کھٹی ڈکا ریں آنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔(فتاویٰ رضویہ جلد 10 صفحہ نمبر 482)
۷:۔ رمضان المبارک میں اگر کسی نے قصداً روزہ توڑا تو کفارہ لازم آئے گا کفارہ یہ ہے کہ(پہلی صورت) ایک رقبہ(غلام)کو آزاد کرے، (یہ صورت اب ختم ہو چکی ہے کیونکہ غلام اب نہیں رہے )، (دوسری صورت)یا وہ لگا تار ساٹھ روزے رکھے گا، یا (تیسری صورت)ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے گا۔(نورُالایضاح صفحہ نمبر ۱۵۷، (قانونِ شریعت صفحہ نمبر170)
۸: ۔ سرمہ ڈالنے یا تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(نورُالایضاح صفحہ 155، فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 10صفحہ 510، قدوری شریف صفحہ نمبر 52)
۹:۔ اگر کوئی بوڑھا ہے جس میں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں یا آئندہ امید نہیں وہ دونوں وقت مسکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔(قدوری شریف صفحہ 53، کنزُالدَّقائق، جنتی زیور)
اگر اس تحریر میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی بھی غلطی کوتاہی ہوئی ہو تو اللہ رب العزت کی بارگاہ عالی مقام میں معافی کا طلب گار ہوں۔
(زکوٰۃٰ و فطرانے کے فضائل و مسائل)
فضا ئل ز کوۃ
زکوۃٰ مالی عبادت ہے۔ زکوٰۃ مال کو پاک کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ فلاح پاتے ہیں جو زکوٰۃٰ ادا کرتے ہیں۔ ”اور مزید ارشاد فرمایا ہے کہ ”اور جو تم خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اور دے گا اور اللہ بہتر روزی دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”جو لوگ بخل کرتے ہیں، اس کے ساتھ جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے۔ بلکہ یہ ان کے لیے برا ہے اسی چیز کا قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق ڈالا جائے گا۔ جس کے ساتھ بخل کیا۔ ”
زکوٰۃٰ نہ دینے والوں کے لئے سزا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ”جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔ جس دن جہنم کی آگ تپائی جائے گی اس دن ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے اپنے نفس کے لیے جمع کیا تھا اب اس کو چکھو جو جمع کرتے تھے۔ ”
رسول کریمﷺ نے فرمایا! جو مال برباد ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہیں دینے کی وجہ سے برباد ہوتا ہے۔
طبرانی میں ہے ” جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ ” زکوٰۃٰ فرض ہے اور اس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق، اور ادا کرنے میں دیر کرنے والا گنہگار اور مردود الشھادت ہے۔ ”(قانونِ شریعت حصہ اول صفحہ نمبر 180)
زکوٰۃٰ کے مسائل
زکوٰۃٰ واجب ہونے کی چند شرائط ہیں۔ مسلمان ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، آزاد ہونا، صاحب نصاب ہونا، مالک ہونا، نصاب پر ایک سال گزرنا، نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو نا،۔
(حاجتِ اصلیہ سے مراد زندگی بسر کرنے میں جس چیز کی ضرورت ہو اس میں زکوٰۃٰ نہیں )۔
(قدوری شریف ص 42مطبوعہ مکتبہ الحسن، نورالایضاح ص 168مطبوعہ ضیا ء العلوم)
نصاب
ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا یا اس کی کی قیمت پر بھی زکوٰۃٰ فرض ہے۔
اگر آدمی نصاب کا مالک ہے مگر اس پر اتنا قرض ہے کہ اگر وہ ادا کرے تو نصاب میں نہیں رہتا تو اس پر مطبوعہ نہیں۔(قانونِ شریعت حصہ اول صفحہ نمبر 181)
زکوٰۃٰ دیتے وقت یا اس کا مال الگ کرتے وقت نیت کا ہونا ضروری ہے اگر پوچھا جائے تو بلا جھجک بتا دے کہ زکوٰۃ ہے۔
مصارفِ زکوٰۃ
زکوٰۃ کے مصارف سات ہیں۔
فقیر، مسکین، عامل، رقاب (غلام)مدیون (جس پر اتنا قرض ہے کہ اس کو نکالنے سے نصاب باقی نہ رہے )فی سبیل اللہ(طالب علم جو دین کا علم حاصل کرتے ہیں اور مدارس دینیہ وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اس زمانے میں مدارس دینیہ اس کے زیادہ حقدار ہیں )اور مسافر۔ (ایسا مقروض بھی جو قرض ادا نہ کر سکتا ہو)(قانون شریعت صفحہ نمبر 191، غنیۃُ الطالبین مترجم صفحہ 25، نورالایضاح صفحہ نمبر 169، قدوری شریف صفحہ نمبر48)
فطرانہ
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تک فطرانہ ادا نہ کیا جائے بندہ کا روزہ زمین و آسمان کے درمیان معلق ہو جاتا ہے صدقہ فطر کا وقت عمر بھر ہے سنت عید کی نماز سے قبل ادا کرنا ہے۔(در مختار، بہار شریعت حصہ پنجم صفحہ 386، عالمگیری جلد اول صفحہ 192)
صبح صادق شروع ہونے سے قبل جو بچہ پیدا ہوا اس کا بھی فطرانہ ادا کیا جائے۔(قانونِ شریعت صفحہ 194)
مقدار صدقہ فطر
صدقہ فطر کی مقدار گندم یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع کھجور یا منقیٰ یا جو یا اس کا آٹا ایک صاع (یا ان کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے )۔(قدوری شریف صفحہ 50، نورالایضاح صفحہ 171)
اور صاع چار سیر اور سوا چھ چھٹانک کا ہوتا ہے۔ فطرانہ گھر کا سربراہ ادا کرے گا اس اس کا جو اس کے زیر سایہ ہیں۔(غنیۃ الطالبین، قدوری شریف صفحہ 50، نورالایضاح صفحہ 171)
مصارف
صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں سوائے عامل کے۔(در مختار، رد المختار، بہار شریعت حصہ پنجم صفحہ 388)
اگر اس تحریر میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی بھی غلطی کوتاہی ہوئی ہو تو اللہ رب العزت کی بارگاہ عالی مقام میں معافی کا طلب گار ہوں۔ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو بھی آپ سب سے معذرت کرتا ہوں۔
٭٭٭
کھانے بعد انگلیاں چاٹنے اور وضو کے سائنسی فوائد
گو کہ سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے مگر سائنس جو کچھ آج بتلا رہی ہے اسلام نے آج سے ۱۴۰۰سال قبل ہی بتا دیا تھا۔ آجکل سائنس کی طرف لوگوں کا بہت رجحان ہے سائنسی علوم حاصل کرنا بھی ضروری ہے مگر ایسے بھی افراد اس معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو انگریز سائنسدانوں سے کافی مرعوب ہیں حالانکہ حقیقتاً دیکھا جائے تو جو ایجادات گوروں نے اپنے نام سے منسوب کی ہیں اکثر و بیشتر مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات ہیں کسی چیز کو بنانے سے قبل بنیادی کام اس کا ڈھانچہ ہے اگر ڈھانچہ بنا ہو تو اگلے مراحل مشکل نہیں اسی اکثر چیزوں کے ڈھانچہ مسلمان سائنسدانوں نے بنائے مگر ان کو انگریز سائنسدانوں نے اپنے نام سے منسوب کیا مسلمان سائنسدانوں کی کتب کو جلا دیا گیا مسلمان سائنسدانوں کا نام بھی نہیں بہرحال وہ افراد جو گوروں سے مرعوب ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے بھی سائنس میں کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں بہرحال ہمارے آقا کریم رووف الرحیم باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہر سنت مبارکہ میں بہت سی خصوصیات ہیں آپ کا کوئی بھی فرمان حکمت سے خالی نہیں میں تو کہتا کہ اگر آدمی آقا کریم رووف الرحیم باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کسی ایک سنت پر ریسرچ کرے تو اتنی ریسرچ کر سکتا ہے کہ پی ایچ ڈی کا تھیسز تیار ہو سکتا ہے آقا کریم رووف الرحیم باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنتوں میں سائنسی اور طبی خصوصیات پوشیدہ ہیں لہذا اب کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے اور وضو کے بارے میں سائنسی فوائد پر بالکل مختصر سی روشنی ڈالتے ہیں۔
کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کے فوائد
حکیم طارق محمود صاحب ماہنامہ رضائے مصطفی شمارہ ربیع الاول بمطابق جولائی ۱۹۸۹کے صفحہ نمبر ۸پر رقم طراز ہیں کہ ’’اگر کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹیں گے تو پیچوٹری گلینڈ کے تابع بعض ایسے انزائم جو رطوبت کی شکل میں انگلیوں سے نکل کر کھانے میں شامل ہوتے رہتے ہیں اور جوں جوں کھانے میں مزہ زیادہ آتا ہے یہ ہاضم رطوبت انگلیوں کو کیونکہ لگی ہوتی ہے اس لیے اس کا چاٹنا کھانے کے ہضم ہونے میں مدد دیتا ہے نیز یہ دماغی تقویت اور نگاہ کہ کمزوری کا اکسیری علاج ہے۔
حکیم صاحب کی با توں سے معلوم ہوا کہ اس سنت پر عمل کرنے سے دنیا وی فوائد کافی حاصل ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اخروی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں سنت پر عمل کرنے کا بے حد ثواب ملتا ہے معلوم ہوا کہ سنت پر عمل کرنے سے دنیاوی فوائد بھی ملتے ہیں اور اخروی بھی۔
وضو کے چند طبی اور سائنسی طبی فوائد
اب وضو کے چند طبی اور سائنسی طبی فوائد جانتے ہیں۔
دنیا اس وقت آلودگی جیسے مسائل میں گرفتار ہے اور اربوں روپے اس پر قابو پانے کے لئے خرچ کیے جا رہے ہیں پھر بھی آلودگی ختم نہیں ہونے پاتی اور اس کے مضر اثرات سے بچنے میں وضو بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ہاتھ دھونا
وضو میں سب سے قبل ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس لئے کہ جب کلی کرنے لگیں تو ہاتھوں پر لگے جراثیم منہ کے اندر نہ چلے جائیں بقول سائنسدانوں کے جب ہم ہاتھ دھوتے ہیں تو انگلیوں کے پوروں سے شعاعیں نکل کر ایسا حلقہ بناتی ہیں کہ جس سے ہمارا اندرونی برقی نظام متحرک ہو جاتا ہے اور ایک حد تک برقی رو ہمارے ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے اس سے ہمارے ہاتھوں میں حسن آ جاتا ہے۔
کلی کرنا
اس کے بعد کلی کی جاتی ہے جس سے منہ کے اندر، دانتوں کے اندر کھانے کے اٹکے ذرات نکل جاتے ہیں مغربی جرمنی میں ڈپریشن کا مرض ہوتا جا رہا ہے اور جب انہوں نے مسلمانوں پر تحقیق کی تو انہوں نے کہا کہ یہ دن میں ۵ بار ہاتھ منہ دھوتے ہیں یعنی وضو کرتے ہیں اسی وجہ سے ان میں ڈپریشن کی بیماری بہت کم پائی جاتی ہے۔
کلی کرنے سے ہاتھ دھونے سے انسان متعدد بیماریوں سے بچ جاتا ہے غذا کے ذرات اور ہوا کے ذریعے متعدد مہلک جراثیم ہمارے منہ اور دانتوں میں لعاب کے ساتھ چپک جاتے ہیں چنانچہ وضو میں مسواک اور کلیوں کے ذریعہ منہ کی بہترین صفائی ہو جاتی ہے پابندی کے ساتھ غرارے کرنے والا کولے کے بڑھنے (Tonsil)اور گلے کے بہت سے امراض حتیٰ کہ گلے کے کینسر سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ وضو حفظان صحت کے زریں اصولوں میں سے ہے یہ روز مرہ کے جراثیم کے خلاف بہت بڑی ڈھال ہے وضو کے ذریعے جراثیم سے نجات ملتی ہے بہت سی بیماریاں صرف جراثیموں کی وجہ سے پھیلتی ہے یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوتے ہیں ہم ہاتھوں کو دھو کر ہاتھوں کے اوپر لگے جراثیم سے نجات پاتے ہیں اور کلی کر کے ہم مختلف بیماریوں سے تحفظ حاصل کرتے ہیں۔
ناک میں پانی ڈالنا
کلی کے بعد ناک میں پانی ڈالا جاتا ہے انسان سانس لیتا ہے اور سانس کیلئے پھیپھڑوں کو ایسی ہوا درکار ہوتی ہے جو جراثیم اور گردو غبار سے پاک ہو اس میں اسی فیصد رطوبت ہو ایسی ہوا فراہم کرنے کے لئے ہمیں مالک ارض و سماء نے ہمیں ناک کی نعمت عطا کی ہے ناک میں صفائی او دیگر سخت کام نتھنوں کے بال سرانجام دیتے ہیں ناک کے اندر دفاعی نظام(Yesozium)موجود ہوتا ہے ناک اس کے ذریعے آنکھوں کو(Infection)سے محفوظ رکھتا ہے ناک میں پانی ڈالنے سے انسان ناک کی کئی بیماریوں سے بچ جاتا ہے دائمی نزلے اور ناک کے زخم کے مریضوں کیلئے ناک کاغسل بے حد مفید ہے۔
ہم وضو میں کم از کم دن میں ۵ بار ناک صاف کرتے ہیں اس لئے کسی قسم کے جراثیم ناک میں پرورش نہیں پاتا اور مسلمان وضو کی برکت سے ناک کے بے حد پیچیدہ امراض سے محفوظ رہتا ہے۔
چہرہ دھونا
اس کے بعد چہرہ دھویا جاتا ہے آجکل آلودگی کا مسئلہ بہت عام ہے فضاء میں کارخانوں کے دھوئیں، گاڑیوں کے دھوئیں کے بہت سے اثرات پائے جاتے ہیں مختلف کیمیاوی مادے سیسہ وغیرہ میل کچیل کی صورت میں آنکھوں اور چہرے پر جمتا ہے اگر چہرہ نہ دھویا جائے تو چہرہ اور آنکھیں مختلف امراض کا شکار ہو سکتی ہیں۔ ایک یورپین ڈاکٹر نے ایک مقالہ لکھا جس کا نام Eye, Water, Healthتھا اس میں اس نے لکھا کہ دن میں آنکھوں کو کئی مرتبہ دھویا جائے ورنہ خطرناک بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں اسی طرح امریکن کونسل فار بیوٹی کی ایک سر کردہ ممبر بیچر کہتی ہے کہ مسلمانوں کو کسی قسم کے کیمیاوی لوشن کی حاجت نہیں وضوسے ان کا چہرہ دھل کر کئی بیماریوں سے محفوظ ہو جا تا ہے –
وضو میں چہرہ دھونے سے انسانی چہرہ سے میل کچیل اتر جاتا ہے اور چہرہ دھونے کے دوران انسان کی آنکھوں کی بھنویں بھی اتر جاتی ہیں جس کی وجہ سے انسان کافی حد تک اندھا پن سے محفوظ ہو جاتا ہے داڑھی میں تری کی وجہ سے انسان گردن کے پٹھوں، تھائی گلیڈڑ اور گلے کے امراض کی حفاظت ہوتی ہے۔
داڑھی کا خلال کرنا
چونکہ داڑھی گھنی اور گنجان ہوتی ہے اس لئے اس کی جڑوں تک پانی پہچانے کا حکم دیا گیا اس سے بالوں کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں اور وہ افراد جوسنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے چہروں پر سجاتے ہیں وہ خوش نصیب ہیں کہ ڈاکٹر پروفیسر جارج اپل کہتا ہے کہ منہ دھونے سے داڑھی کے بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتیں ہیں خلال کرنے سے جوؤں کا خطرہ ختم ہو جاتا ہے نیز داڑھی میں پانی کے ٹھہراؤ سے گردن کے پٹھوں، تھائی رائیڈ گلینڈ اور گلے کے امراض سے حفاظت ہوتی ہے۔
کہنیوں تک بازو دھونا
پھر کہنیوں تک بازو دھوئے جاتے ہیں یہ وہ حصہ ہے جو عموماً ڈھکا ہوتا ہے اور اس تک پانی نہ پہنچایا جائے تو امراض پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے اور مسلمان وضو کرتے وقت کہنیوں کو دھوتے ہیں تو اس طرح وہ اس خطرہ سے محفوظ ہو جاتے ہیں وضو میں کہنیاں دھونے سے دل، جگر اور دماغ کو تقویت ملتی ہے کہنیوں کو دھونے سی سینے کے اندر ذخیرہ شدہ روشنیوں سے براہ راست انسان کا تعلق ہوتا ہے اور روشنیوں کا ہجوم ایک بہاؤ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس عمل سے ہاتھوں کے عضلات یعنی کل پرزے مزید طاقتور ہو جاتے ہیں۔
سبحان اللہ وضو سے دنیاوی فائدہ بھی اخروی فائدہ بھی اس سے نہ صرف جسمانی بیماریوں کو ختم کرنے کا فائدہ پہنچتا ہے بلکہ ذہن کے ناپاک خیالات کا اجتماع، نا امیدی، ذہنی کمزوری، بے جا خوف جو ہر وقت پریشان کئے رکھتا ہے یا ایسا خوف جس کی حقیقت ہی نہ ہو ان تمام چیزوں سے آرام مل جاتا ہے۔
بقول حکیم قدرت اللہ حسامی کے دونوں ہاتھ کہنیوں تک رگڑ کو دھونے سے بڑی آنت، دل، چھوٹی آنت اور دوران خون پر اثر پرتا ہے جس سے بے شمار بیماریوں سے نجات ملتی ہے مثلاً کھانسی، دم پھولنا، بخار، پھوڑے پھنسیاں، عام کمزوری، قبض، پیشاب کی زیادتی، بواسیر، چکر بلڈ پریشر وغیرہ۔
مسح کرنا
سر انسان کے تمام اعضا ء سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے تمام اعضا کے افعال کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے وضو سے دماغی ارتعاشات (تحریکات) Vibrations سب سے زیادہ طاقتور ہونے لگتے ہیں بقول حکماء کے سر کے مسح سے گنٹھیا، چکر، زکام، نیند کی کمی وغیرہ کی تکالیف میں کمی آتی ہے اور بینائی تیز ہو جاتی ہے۔ دماغی ٹھنڈک سے سکون محسوس ہوتا ہے۔
ضمناً واقعہ
مسح کے بارے میں سائنسی تجربات کے سلسلے میں ایک واقعہ رقم ہے کہ ایک صاحب فرانس گئے وہ کہتے ہیں کہ میں وضو کر رہا تھا اور ایک آدمی مجھے گھور کر دیکھ رہا تھا جب میں وضو سے فارغ ہوا تو اس نے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں تو ان صاحب نے کہا کہ پاکستان تو اس نے پوچھا کہ وہاں کتنے پاگل خانے ہیں کہنے لگے کہ دو چار ہوں گے وہ بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کہ دماغ سے باریک رگیں موصل بن کر ہماری گردن کی پشت سے سارے جسم کو جاتی ہیں اور اگر بال بہت بڑھا دئے جائیں یا گردن کی پشت خشک رہ جائے تو خشکی پیدا ہوتی ہے بارہا ایسا ہوا ہے کہ انسان پاگل ہو جا ہے۔ لہذا میں نے سوچا کہ گردن کو دن میں چار بار دھویا جائے ابھی میں نے دیکھا کہ آپ نے گردن پر کچھ کیا واقعی آپ لوگ پاگل نہیں ہو سکتے۔
روزانہ گردن کا مسح کرنے سے ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز کی خرابی سے پیدا ہونے والے امراض سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
پاؤں دھونا
پاؤں زیادہ دھول آلودہ ہوتے ہیں پہلے پہل Infectionپاؤں کی انگلیوں سے شروع ہوتا ہے وضو میں گردو غبار اور بچے کھچے جراثیم پاؤں کی انگلیوں کے خلال سے نکل جاتے ہیں پاؤں سنت کے مطابق دھونے سے ڈپریشن، بے چینی، بے سکونی، دماغی خشکی اور نیند کی کمی جیسے مہلک امراض ختم ہو جاتے ہیں۔
پیروں سے پیٹ، مثانہ، گردے، تلی، پتے، جگر کا تعلق ہوتا ہے۔ پیر کے تلوؤں کا ہتھیلیوں کی طرح تمام اعصاب خاص طور پر تمام غدود سے تعلق رہتا ہے جس کی وجہ بھوک کی کمی، تیز بخار، عرق النسائ، اسہال، نکسیر، یرقان، گنٹھیا، بواسیر، چکر، جنسی کمزوری، قبض، دم پھولنا، سے آرام رہتا ہے۔ اس کے علاوہ گھبراہٹ، پریشانی، ایسا خیال کہ خوفناک کام کروں گا(پاگل پن) وغیرہ ان تکالیف سے نجات مل جاتی ہے۔
یورپ امریکہ کے (Physiotherapist)وہاں پر مالش کے ذریعہ (Physiotherapy)کے ذریعہ علاج کرتے ہیں اور اس سے فالج، لقوہ، دمہ، بواسیر، خون کی کمی، وغیرہ کی بیماریاں یا تو ختم ہو جا تی ہیں یا ان کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔
وضو کی ترتیب
وضو کی ترتیب یہ ایک ایسا امتزاج ہے کہ اس کے ذریعے فالج لقوہ وغیرہ سے بچا جا سکتا ہے۔
سبحان اللہ ایک چھوٹا سا عمل جس کے دنیاوی فوائد بے شمار اور اخروی فوائد بھی بے شمار ہیں اسلام میں مسلمان کے ہر عمل میں کوئی نہ کوئی بہتری پوشیدہ ہوتی ہے جیسا کہ اس قول سے اندازہ لگا لیں کہ غرض اسلام کی ہر ہدایت میں انسانی بہتری پوشیدہ ہے جس سے ہماری روحانی زندگی کے علاوہ مادی زندگی بھی منور ہو سکتی ہے اور ہم اپنی تمام برادری اور پوری انسانیت کے لئے بھی مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
دعا ہے اللہ رب العزت ہم سب کو پابندی سے پانچ وقت وضو اور نماز کی توفیق عطا فرمائے اور ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ملک پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو تباہ و برباد فرمائے سب مسلمانوں کی مشکلات کو حل فرمائے آمین ثم آمین
اگر اس تحریر میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی بھی غلطی کوتاہی ہوئی ہو تو اللہ رب العزت کی بارگاہ عالی مقام میں معافی کا طلب گار ہوں۔
مآخذ و مراجع: ۔
اسلام اور میڈیکل سانس، ماہنامہ رضائے مصطفیٰ، ماہنامہ سوز و گداز، وضو اور سائنس، اسلام کے معاشرتی زندگی پر اثرات، زہدی ڈائجسٹ، طب اور اسلام، آداب صحت اور پاکیزگی وغیرہ
٭٭٭
امام اعظم ابو حنیفہ علماء فقہا ء کی نظر میں
اس عالم آب و خاک میں کچھ ایسی شخصیات کا ظہور ہوتا ہے جن کا وجود مسعود آئندہ نسلوں کیلئے مینارۂ نور ہوتا ہے۔ ان کی نگاہ صرف اپنے عہد کے نشیب و فراز کی زاویہ پیمائی پر نہیں ہوتی بلکہ وہ مستقبل کی محراب فکر کیلئے بھی راست سمت کا تعین کرتے ہیں جن کے علم کے بحر بیکراں سے آنے والوں نے استفادہ کیا ان عظیم ہستیوں میں جانا پہچانا نام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کا ہے۔ جن کی فراست مومنانہ تیر بہدف تھی جنہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں لاکھوں مسائل کا استنباط کیا جن سے بعد میں آنے والے استفادہ کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
ہیں حق تعالیٰ کی خاص رحمت امام اعظم ابو حنیفہ
اللہ اللہ یہ شان امام اعظم ابو حنیفہ
ہے مقتضائے قرآن وسنت امام اعظم ابو حنیفہ
تمہاری صورت تمہاری سیرت امام اعظم ابو حنیفہ
قرآن و سنت کے راز مخفی تمہارے صدقے ہوئے نمایاں۔
تمہارے صدقے ملی ہدایت امام اعظم ابو حنیفہ
انہی امام الائمہ کاشف الغمہ امام اعظم کے بارے میں مختلف شخصیات کے اقوال درج ذیل ہیں چنانچہ
(۱): ۔ المیزان الکبریٰ جلد۱ص ۶۳، الامام الشعرانی المناقب للموفق جلد 2ص13 میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کو اس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ کہ
ان الناس عیال لابی حنیفہ فی فقہ
یعنی تمام لوگ فقہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کے دست نگر ہیں۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ علم و شریعت کے مہرو ماہ بن کر آسمان طریقت پر روشن ہوئے۔ آپ نہ صرف رموز طریقت سے آگاہ تھے بلکہ دقیق سے دقیق مسام و علوم کے معانی اور مطالب واضح کر دینے میں مکمل درک رکھتے تھے۔
(۲): ۔ صاحب در مختار تنویرالابصار کے مقدمے میں رقم طراز ہیں کہ
’’قال لوکان فی امتی موسیٰ وعیسیٰ مثل ابو حنیفہ لما تھودواولما تنصروا‘‘
یعنی اگر حضرت موسیٰ اورعیسیٰ کی امتوں میں ابو حنیفہ جیسے لوگ ہوتے تو وہ یہودی اور عیسائی نہ بنتے۔
(۳): ۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے آپ کی ذہانت و ذکاوت اور حاضر جوابی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا
’’امام صاحب رحمۃاللہ علیہ اگر چاہیں تو اس ستون کو طلائی کا ستون ثابت کر سکتے ہیں ‘‘۔
(۴): ۔ آپ کے استاد حضرت حماد رحمہ اللہ علیہ نے آپ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اے ابو حنیفہ!تو نے مجھے خالی کر دیا‘‘۔
(۵): ۔ شیخ فرید الدین عطار رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تذکرہ الاولیاء کے صفحہ نمبر 125 (فرید مبین پبلیشرز ناظم آباد کراچی)پر رقم طراز ہیں کہ
(۱): ۔ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ علیہ شرح محمدی کے آفتاب اور امت محمدیہ کے امام و پیشوا تھے ‘‘
(۲): ۔ آپ کی عبادت و ریاضت کا صحیح علم تو خدا کو ہے آپ تین سو نفل ہر شب پڑھتے آپ کی ریاضت و مجاہدہ کی کوئی حد نہیں۔
(۳): ۔ آپ کو بڑے بڑے صحابہ کرام سے شرف نیاز حاصل رہا۔ آپ کی تعریف کے غیر مسلم بھی معترف تھے۔ آپ حضرت فضیل، حضرت ابراہیم بن ادہم، حضرت بشر حافی اور حضرت داؤد طائی وغیرہم جیسی ہستیوں کے استاد ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ علیہ مکتوبات شریف دفتر دوم ص۱۵۴ مکتوب پنجاہ و پنجم میں فرماتے ہیں کہ
’’مثل روح اللہ امام اعظم کوفی است رحمہ اللہ علیہ کہ ببرکت ورع و تقویٰ وبدولت متابعت سنت درجہ علیادراجتھاد واستنباط یافتہ است کہ دیگراں در فھم آں عاجز وقاصر اند مجتھدات اورا بواسطہ دقت معانی مخالف کتاب وسنت دانندواوراصحاب رائے پندارند کل ذالک لعدم الوصول الیٰ حقیقۃ علم ودرایۃ وعدم الاطلاع علیٰ فھمہ۔
یعنی امام اعظم ابو حنیفہ کوفی رحمہ اللہ علیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ہیں کہ انہوں نے تقویٰ و پرہیزگاری اور اتباع سنت کی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں وہ بلند مقام پایا ہے کہ اسے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور انہیں ان کی دقیقہ فہمی کے باعث کتاب وسنت کا مخالف جانتے اور انہیں ان کے شاگردوں کو اصحاب رائے خیال کرتے ہیں سو یہ سب کچھ اس بنا پر ہوا کہ انہیں امام صاحب کے علم و دانش کی حقیقت اور ان کے فہم و فراست پر اطلاع نہ ہوئی۔
پھر ارشاد فرماتے ہیں کہ: ۔
بے شائبہ تکلف و تعصب گفتہ مے شود کہ نورانیت ایں مذھب حنفی بنظر گشتی در رنگ دریائے عظیم می نمایدوسائر مذاھب درنگ حیاض وجداول بنظری درآیند وبظاھر ہم کہ ملاحظہ نمودہ می آید سواد اعظم ازاہل اسلام متابعان ابی حنیفہ اند علیہم الرضوان۔
یعنی تکلف و تعصب سے کام نہ لیا جائے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ کشف کی نظر میں اس حنفی مذہب کی نورانیت ایک بڑے دریا کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ اور باقی تمام مذاہب حوضوں اور نالیوں کی شکل میں نظر آتے ہیں اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ مسلمانوں کاسواد اعظم امام اعظم ابو حنیفہ کا مقلد ہے۔
پھر فرماتے ہیں۔
وائے ہزار وائے از تعصبائے بار دانیشاں واز نظر ھائے فاسد ایشاں بانی فقہ ابو حنیفہ ست وسہ حصہ از فقہ اورا مسلم داشتہ اندودر ربع باقی ھمہ شرکت در اند باوے۔ در فقھہ صاحب خانہ اوست و دیگراں ھمہ عیال وے اند۔
مخالفین کے سرد تعصب اور فاسد نظر پر ہزار افسوس ابو حنیفہ فقہ کے بانی ہیں فقہ کے تین حصے انہیں سونپے گئے ہیں اور باقی ایک چوتھائی میں لوگ ان کے شریک ہیں فقہ کے گھر والے امام صاحب ہیں اور تمام لوگ ان کے عیال ہیں۔
(۷): ۔ حضرت داتا علی ہجویری رحمہ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب مستطاب کشف المحجوب کے صفحہ ۳۷ میں رقم طراز ہیں۔
’’وفہم امام اماں ومقتدائے خلقاں شرف فقھا وعز علمائابوحنیفہ نعمان بن ثابت الخزاز رضی اللہ عنہ۔ ‘‘
اور اولیائے امت میں سے اماموں کے امام مخلوق خدا کے مقتداء، فقہاء کا شرف اور علماء کی عزت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت خزار رضی اللہ عنہ ہیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ
’’میں دمشق میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ معظمہ میں ہوں پیغمبر خداﷺ باب بنو شیبہ سے اس حال میں تشریف لائے کہ آپ اپنی بغل میں ایک بوڑھے کو اس حال میں اٹھائے ہوئے تھے جس طرح لوگ شفقت سے بچوں کو اٹھاتے ہیں میں دوڑ کر آگے بڑھا اور آپ کے قدموں کو بوسہ دیا میں حیران تھا کہ وہ شخص کون ہے اور ان کا یہ حال کیسا ہے ؟ پیغمبر خداﷺ میرے اس خیال پر آگاہ ہو کر فرمانے لگے۔
’’ایں امام تو واہل دیارتست‘‘
یہ تیرا اور تیرے شہر والوں کا امام ہے یعنی امام ابو حنیفہ ہیں۔
(۸): ۔ حضرت یحییٰ بن رازی فرماتے ہیں کہ
’’میں نے حضور نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھا تو میں نے پوچھا یارسول اللہ اﷺم یں آپ کو کہاں تلاش کروں فرمایا
’’عند علم ابی حنیفہ‘‘
ابوحنیفہ کے علم کے پاس مجھے تلاش کرو۔
(۹): ۔ علامہ خوارزمی اپنی کتاب سیف الائمہ میں فرماتے ہیں کہ
’’امام اعظم از چھار ہزار تابعی علم آموختہ وبسبب کمال احتیاط چون مسئلہ از قرآن و حدیث برمی آورد ما دامیکہ ھمہ استادن پسندکردند آں مسئلہ راجاری نہ کر دے ‘‘
یعنی امام اعظم نے چار ہزار تابعین سے علم دین حاصل کیا اور بسب کمال احتیاط کے آپ جب بھی کوئی مسئلہ قرآن و حدیث سے نکالتے تو جب تک ان کے تمام استاد اسے پسند نہ فرماتے اس کو جاری نہ فرماتے۔
اور اس طرح کتب معتبرہ مثل ارشادالطالبین اور فتاویٰ برہنہ میں یہ منقول ہے کہ
ترجمہ: ۔ یعنی امام اعظم کوفہ کی مسجد میں تعلیم وتدریس اور فیض رسانی کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے تو آپ کے ارد گرد ایک ہزار شاگرد بیٹھتے آپ کے چالیس جلیل القدر فقہا شاگرد آپ کے نزدیک بیٹھتے اور مسائل شرعیہ استخراج فرماتے تھے جب کسی مسئلے کی درستگی پر سب کا اتفاق ہو جاتا تو امام المسلمین بہت خوشی میں ’’الحمد للہ واللہ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند کرتے اور آپ کی موافقت میں حاضرین مجلس اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے اور مسئلہ کو کتاب میں نقل کر لیتے۔
(۱۰): ۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا جب آپ سے امام صاحب کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ
’’میں نے امام اعظم جیسا (آج تک)کوئی نہیں پایا‘‘
(۱۱): ۔ حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ
’’امام صاحب سب سے بڑے فقہیہ تھے میں نے کسی کو آپ سے بڑھ کر نہیں پایا(الخیرات الحسان ص 70)
(۱۲): ۔ حضرت اسعد بن حکم فرماتے ہیں کہ ’’جاہل کے سواء کوئی شخص امام اعظم کی بد گوئی نہیں کرتا‘‘
(۱۳): ۔ حضرت داد طائی فرماتے ہیں کہ
میں نے 20 سال تک آپ کو تنہائی یا مجمع میں ننگے سر اور ننگی ٹانگیں پھیلائے نہیں دیکھا میں نے عرض کیا کہ تنہائی میں تو اپنی ٹانگیں سیدھی کر لیا کریں تو فرمایا میں مجمع میں بندوں کا احترام کروں اور تنہائی میں خدا کا احترام ختم کر دوں یہ میرے لیے ممکن نہیں۔
(۱۴): ۔ حضرت اسماعیل بن اورجاءنے فرمایا کہ میں نے خواب میں امام محمد کو دیکھا تو میں نے پوچھا اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا فرمایا اس نے مجھ کو بخش دیا اور یہ فرمایا کہ اگر میں تمہیں عذاب میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرتا تو تمہیں علم دین عطا نہ کرتا پھر پوچھا امام ابو یوسف کا کیا حال ہے ؟ وہ دو درجے بلند ہیں پھر میں نے کہا کہ ابو حنیفہ کا کیا حال ہے فرمایا
’’ہیہات ذاک فی اعلیٰ علیین کیف وقد صلی الفجر بوضوئالعشائاربعین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یعنی آھا وہ تو اعلیٰ علیین میں ہیں ایسا کیوں نہ ہو انہوں نے تو چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی 55حج کیے اور 100مرتبہ رب تعالیٰ کی زیارت کی اور پھر فرماتے ہیں کہ ایک رات امام صاحب نے کعبہ کے اندر دو رکعت نوافل میں پورا قرآن مجید ختم کیا۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے وسیلے سے ہم کو بخشے اور پاکستان کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنائے اور ہمیں ان کے اسوۂ پر چلنے کی توفیق دے (آمین)
٭٭٭
عید الفطر
اللہ رب العزت نے اپنی کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ
قل بفضل اللہ وبرحمۃ فبذالک فلیفرحوا(پارہ نمبر ۱۱سورہ یونس آیت نمبر 58)
تم فرماؤ اللہ عز و جل ہی کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی کیجیے۔
عید کا لفظ عود سے مشتق ہے جس کا معنیٰ ہے ” خوشی”اور” لوٹنا”کیونکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتا ہے اور ان کے درمیان خوشیاں بکھیرتا ہے۔
المفردات میں حضرت علامہ راغب اصفہانی رقم کرتے ہیں کہ لفظ عید لغت کے اعتبار سے اس دن کو کہا جاتا ہے جو بار بار لوٹ کر آئے۔ اور اصطلاح میں عید الفطر اور عید الضحیٰ کو کہا جاتا ہے یہ دن شریعت میں خوشی منانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جسطرح حضور نبیؐ نے اپنے فرمان میں اس پر متنبہ کیا ہے کہ ایام منیٰ کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات کے دن ہیں (غیر حجاج کے لئے )۔ چنانچہ عید کا لفظ خوشی اور مسرت حاصل کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ (المفردات)
علامہ ابن عابدین شامی حنفی ارشاد فرماتے ہیں کہ”عید کو عید اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہرسال اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں پر انواع و اقسام کے انعامات و احسانات لوٹاتا ہے۔ اس دن فرخ و سرور اور نشاط و انبساط منانا لوگوں کی عادت ہے ”نیز آپ فرماتے ہیں کہ ”نیک شگون کے طور پر اس دن کو عید کہا جاتا ہے ”۔
رمضان المبارک کا مہینہ رحمت و مغفرت اور آزادی جہنم کا مہینہ ہے۔ لہذامسلمان اللہ تعالیٰ کے ان پر انعامات و احسانات کی خوشی میں عید کا دن مناتے ہیں۔
عید کا دن وہ دن ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ یہ دن مسلمانوں کے لئے خوشی و مسرت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا دن ہے۔ عید کے دن سارا سال غموں کی چکی میں پسنے والے عوام خوشیاں مناتے ہیں۔ عید کا دن بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کے لئے یکساں طور پر شگفتگی و تازگی اور معاصیوں کے لئے مغفرت الغرض اہل اسلام کیلئے جنت کا پیغام لے کر آتا ہے۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا
کہ”ماہ رمضان المقدس کی ہر شب طلوع صبح تک ایک منادی کرنے والا نداء کرتا ہے کہ اے بھلائی کے طلب گار نیکی کو پورا کرو اور خوش ہو اور شر کے طلب گاروں گناہوں سے رک جاؤ اور عبرت کیلئے غور سے دیکھ۔ اور ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا جس کی مغفرت کی جائے ہے کوئی توبہ کرنے والا جس کی توبہ قبول کی جائے ہے کوئی دعا کرنے والا جس کی دعا قبول کی جائے ہے کوئی سوالی (سائل) جس کا سوال پورا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی ہر شب ۶۰ہزار آدمیوں کو آزادی جہنم سے نوازتا ہے اور جب شوال المکرم آتا ہے تو جس قدر سارے ماہ میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے اس کے برابر عید کے دن لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے ”۔(زواجر جلد 1ص 101)
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہا اللہ تعالیٰ رمضان المعظم کے ہر دن ساٹھ ہزار افراد کو جہنم سے آزادی عطاء فرماتا ہے اگر اسلامی مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دنوں کا ہوتا ہے اگر ہم انتیس دن ہی لیں اور انتیس کو ساٹھ سے ضرب دیں تو معلوم ہو گا کہ’۱۷۴۰۰۰۰’ افراد کو آزادی جہنم کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے اور اگر تیس دنوں کا ہو تو پھر اٹھارہ لاکھ افراد بنیں گے لہذا معلوم ہوا کہ عید کے دن اس تعداد بلکہ اپنے فضل و کرم سے اس سے زائد افراد کو اللہ تعالیٰ آزادی دوزخ سے نوازتا ہے اسلئے اسے ”لیلۃ الجائزہ”اور” لیلۃ الانعام” کہا جاتا ہے۔
حضور نبی کریم روؤف الرحیم باعث تخلیق دوجہاں مختار کون و مکاںؐ نے ارشاد فرمایا کہ
” جس نے عیدین کی رات کو قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا جس دن لوگوں کے دل مر جائیں گے ”۔(سنن ابن ماجہ جلد 2ص 365)
جناب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ”وہ افراد جو پانچ را توں کو قیام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس انعام و اکرام ہیں اللہ ان کے لئے جنت کو واجب کرتا ہے اور جہنم کو حرام کرتا ہے اور پانچ راتیں یہ ہیں ماہ ذوالحج کی آٹھویں، نویں اور دسویں رات، عید الفطر کی رات اور پانچویں رات شعبان المعظم کی پندرھویں رات ہے (شب برات)”۔(الترغیب والترہیب جلد2 ص96)
عید کے دن شیطان بڑا روتا ہے واویلے کرتا ہے جس طرح حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ ابلیس (دشمن انسان) عید کے دن نوحہ زاری کرتا ہے تو شیطان کی ساری ذریت اس کے سامنے جمع ہو جاتی ہے تو دشمن انسان گویا ہوتا ہے کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے امت مصطفیٰ کو بخش دیا ہے لہذا اے میری ذریت تم انہیں دوبارہ گناہوں اور خواہشات نفسانیہ میں مشغول کرو”۔(درۃالناصحین ص 271، مکاشفۃ القلوب ص 651)
کیا ہمارے ساتھ اسی طرح نہیں ہوتا کہ کچھ افراد اسے ہوتے ہیں کہ رمضان المبارک کی عزت کا لحاظ نہیں رکھتے رمضان المبارک کی بے حرمتی کرتے ہیں اس کے گواہ ہمارے اخبارات ہیں صرف ایک اخبار کی ایک خبر لیتے ہیں کہ 2005رمضان مبارک (آٹھ اکتوبر کو زلزلہ آیا اس کے دو تین دن بعد )جناح اخبار میں بمع تصاویر یہ خبر شائع ہوئی کہ”رمضان المبارک میں دن کے وقت لڑکے لڑکیاں اکٹھے مشروبات پی رہے ہیں اور بوس کنار اور خوش گپیوں میں مشغول ہیں ”یہ حرکت سرعام اسلام آباد کے ہاٹس سپاٹ ہوٹل پر ہو رہی تھی جناح کی ٹیم نے چھاپہ مارا گاڑیوں کے نمبروں کی تصاویر بھی کھینچیں جن گاڑیوں پر وہ آئے اور بھاگے اور اخبارات میں شائع کیں۔ اس قسم کی خبریں رمضان المبا رک کے مقدس اور متبرک مہینے میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ہمارے اسلامی ملک کا حال ہے۔ جہاں ہر طرف فحاشی اور عریانی کا بازار گرم ہے۔ جو کہ ماہ مقدس میں گرم رہتا ہے۔
یہی عناصر عید کے دن اور بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ بے حیائی اور فحاشی میں شامل ہوتے ہیں۔ ہر طرف رقص وسرود کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ جہاں تک ہمارے گھروں کی عورتیں (ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں )کی بات ہے تو وہ سرعام مردوں کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں ان کی عادات و اطوار ان کا لباس شرم ناک ہوتا ہے۔ سنبھلیے اور سوچیئے اور فحاشی و عریانی کے خلاف جہاد کیجیے۔
حضور نبی کریم روؤف الرحیم باعث تخلیق دوجہاں مختار کون و مکاںﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
”جب عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کے سامنے اپنے بندوں کی عبادت پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جو اپنی مزدوری پوری پوری ادا کرے ؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری پوری ادا کی جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ میرے غلاموں اور میری باندیوں نے میرا فریضہ پورا کیا پھر دعا کے لئے چلاتے ہوئے عید گاہ کی طرف نکلے ہیں میری عزت و جلال اور بلندی مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا پھر فرماتا ہے اے لوگوں واپس جاؤ میں نے تمہارے گناہ بخش دیے ہیں اور تمہاری بدیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے ”۔
عید الفطر اور عید الضحیٰ ہمارے لیئے عید سعید ہیں ہم ان عیدوں کو وعید بنا رہے ہیں ارے اللہ کے بندو، عید میٹھا کھانا کھانا، نئے کپڑے پہننے کا نام نہیں۔ دین اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے اس نے سب کے ساتھ بھلائی کرنے کا درس دیا ہے اس میں امیر و غریب گورا یا کالا رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہیں ہے اس نے عید سعید کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت صرف محود طبقہ کو نہیں دی ہے بلکہ اپنے تمام پیروکاروں کو اس نعمت عظمیٰ کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہوں گے مگر جو غربا ء و مساکین ہیں وہ عید سے کس طرح لطف اندوز ہوں گے ؟
اسلام نے مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے اور اس نے امراء کو یہ درس دیا ہے کہ تم خوشیاں ضرور مناؤ مگر اپنے قرب و جوار کے غرباء کو دیکھو ان کا جائزہ لو ان کا مشاہدہ کرو مذہبی لحاظ سے وہ تمہارے بھائی ہیں مگر غریبی و مفلسی کی بنیاد پر اس نعمت کی خوشیاں منانے سے قاصر ہیں نئے کپڑے خود پہننے سے قبل ان کو پہناؤ ان کو اچھے اچھے کھانے کھلاؤ میرے بھائیو! تم خود تو اچھے کپڑے پہنو اچھے کھانے کھاؤ مگر تمہارا بھائی ان نعمتوں سے محروم ہو تو اس صورت میں تم ہی محفل کے روح رواں ہو گے مگر تمہارا بھائی عید کے جشن میں تمہارے ساتھ شریک نہ ہو سکے گا۔
عید وہ نعمت عظمیٰ ہے کہ کہ جس کے بارے میں حضور نبی کریم روؤف الرحیم باعث تخلیق دوجہاں مختار کون و مکاںﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضور نبی کریم روؤف الرحیم باعث تخلیق دوجہاں مختار کون و مکاںؐ نے ارشاد فرمایا کہ”عید کے دن اللہ تعالیٰ زمین پر فرشتوں کا نزول کرتا ہے جو منادی کرتے ہیں کہ اے غلامان محمدؐ چلو اور اپنے رب کے حضور میں آؤ جو کہ لازوال ہے تھوڑے سے تھوڑا عمل بھی قبول فرماتا ہے اور بڑے سے بڑا گناہ معاف بھی کرتا ہے پھر سب لوگ میدان عیدگاہ میں جمع ہوتے ہیں رب کریم خوش و خرم ہو کر ملائکہ سے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو دیکھا کہ امت محمد یہ پر میں نے رمضان کے روزے فرض کیے انہوں نے مہینے بھر کے روزے رکھے مسجدوں کو آباد کیا اور میرے کلام مجید کی تلاوت کی اپنی خواہشوں کو روکا شرمگاہوں کی حفاظت کی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی اب اظہار تشکر کے لئے میری بارگاہ میں حاضر ہیں میں ان کو بہشت میں ان کے اعمال کا بدلہ دوں گا تم عیدگاہ سے پاک صاف ہو کر نکلو گے تم مجھ سے خوش رہو میں تم سے راضی ہوں اور یہ ارشادات سن کر ملائکہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں اور اس کی امتیان محمدؐ کو بشارت سناتے ہیں۔(تذکرۃ الواعظین ص362)
عید کے دن نئے نئے کپڑے پہننا، اچھے اچھے کھانے کھانا یہ مفہوم عید نہیں بلکہ نادار لوگوں کو بھی اپنے ساتھ خوشیوں میں شامل کرنا اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا در اصل یہی اصل خوشی ہے کہ اللہ ہم سے راضی و خوش ہو جائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ملاحظہ کریں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عید کے دن اپنے بیٹے کو پرانی قمیض پہنے دیکھا تو رو پڑے بیٹے نے کہا کہ ابا جان آپ کس لئے روتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اے بیٹے مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا بیٹے نے جواب دیا دل اس کا ٹوٹے گا جو رضائے الٰہی کو نہ پا سکا یا اس کا جس نے ماں باپ کی نافرمانی کی اور مجھ کو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رضامندی کے طفیل مجھ سے راضی ہے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور بیٹے کو گلے لگا لیا اور اس کیلئے دعا کی۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
قالوا غدا العید ماذا انت لا بسہ قلت خلعۃ ساق عبدہ الحرعا
فقر و صبر ثوبان بینھما قلب یریٰ ربہ اعیادا والجمعا
العید لی ماتم ان غبت یا اقلی والعید ان کنت لی ترا مستمعا
انہوں نے کہا کہ کل عید ہے تم کیا پہنو گے ؟ میں نے کہا ایسی پوشاک جس نے رفتہ رفتہ بندے کو بہت کچھ دیا فقر اور صبر دو کپڑے ہیں ان کے درمیان دل ہے جس کو اس کا مالک عیدوں اور جمعوں میں دیکھتا ہے تب میری عید نہیں ہو گی اے امید اگر تو مجھ سے غائب ہو جائے اور اگر تو میرے سامنے اور کانوں کے قریب ہو ئی تو میری عید ہے۔(مکاشفۃ القلوب مترجم ص652،ص 104)
عید الفطر ایک متبرک دن ہے یہ دلوں کی کدورتیں اور نفرتیں دور کرنے کا دن ہے عید ہمیں عالمگیر اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتی ہے۔ عید کے دن دشمنیاں، نفرتیں، کدورتیں محبت و الفت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
برادران اسلام! غور کریں کہ ہماری زندگیوں کا مقصد کیا ہے ؟ ہماری زندگیوں کا مقصد بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنا نہیں کھانا پینا سونا نہیں بلکہ ہماری زندگی کا مقصد قرآن بتاتا ہے کہ
”وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون”میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر عبادت کے لئے۔
اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سے کونسا شخص زیادہ مطیع و فرمانبردار ہے ؟کونسا زیادہ مخلص اللہ کی عبادت کرنے والا ہے کون اللہ کی رضا کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے والا ہے کون اللہ کی رضا کی خاطر دوسروں کو دوست رکھتا ہے اور اللہ کی رضا کی خاطر دوسرے افراد سے دشمنیاں رکھتا ہے ؟
لہذا میرے بھائیو: ۔ بے حیائی فحاشی و عریانی اور خرافات کا ارتکاب کر کے عید کو یوم وعید نہ بنائیں۔
شاعر نے کہا ہے کہ
لیس العید لمن لبس الجدید
انما العید لمن خاف الوعید
عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہنے۔
عید اس کی ہے جو عذاب الٰہی سے ڈر گیا۔
آج ہم اپنے نہایت برے اعمال کے سبب عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں آج پھر کسی محمد بن قاسم کی ضرورت ہے کسی محمود غزنوی کی ضرورت ہے ہمیں بے حیائیوں کے خلاف اٹھنا ہو گا ہمیں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت کی حفاظت کرنا ہو گی ان کے ننگے سروں کو ڈھانپنا ہو گا ان کے ننگے سروں کو ڈھانپنے کے لئے کوئی آسمان سے نوری پیکر نہیں ائے گا بلکہ اس بار کو ہمیں اپنے کندھوں پر اٹھانا ہو گا اگر ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو ہمیں ڈوب مرنا چاہیئے جب کسی قوم کی بیٹیاں ننگے سر ہو جائیں تو اصل میں بیٹیاں ہی ننگے سر نہیں ہوتیں بلکہ اس قوم کی غیرت کا جنازہ نکل جاتا ہے خدارا عید کو عید ہی رہنے دیں وعید نہ بنائیں۔
آجکل کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے عید الفطر کے چاند کا مذاق بنا دیا ہے۔ سب سے الگ تھلگ ہو کر ہمیشہ الگ عید منانے کا شوق ہے اگر کسی کو بھی چاند نظر نہ آئے تو ان نا ہنجاروں کو چاند نظر آ جاتا ہے مگر یہ معلوم نہیں کونسا چاند؟ انہوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائی ہوئی ہے۔ خدا راہ ایک عید منائیں کیا اسلام کو بدنام کرنا ہے ؟عید الفطر ہی الگ کیوں ؟عید الضحیٰ کیوں نہیں ؟ صرف ایک ہی مسجد والوں کو مسئلہ ہوتا ہے جبکہ باقیوں کو نہیں باقی صوبوں کو نہیں ؟محکمہ موسمیات اور فلکیات والے بار بار کہتے ہیں کہ چاند نظر نہیں آ سکتا اس کی عمر ہی پوری نہیں مگر پتہ نہیں کہ اس کی عمرکیسے پوری کر لیتے ہیں۔ جب پورے جنوبی ایشیا میں چاند نظر نہ آئے مگر یہاں چاند نظر آ جاتا ہے۔ کبھی تو ۲۸روزے رکھ کر نئی روایت رقم کی جاتی ہے جبکہ اسلامی مہینہ ۲۹یا۳۰ کا ہوتا ہے کبھی یہ روزے پہلے رکھ لیتے ہیں کبھی عید پہلے کر لیتے ہیں ایک اسلامی ملک میں ۳، ۳ عیدیں منائی جا رہی ہیں۔ آخر ان کو مسئلہ کیا ہے ؟ ان کے مقاصد کیا ہیں ؟خدارا ایک ہو جائیں۔ اکٹھی عید منائیں اور خوشیاں بانٹیں۔ پہلے ہی بہت کچھ بگڑ چکا ہے۔
یا اللہ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما اور ہماری غیرت ایمانی کو زندہ کر۔ اور ہمیں شیطان کے جال سے بچا۔ یا اللہ مسلمان ممالک کی نظریاتی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فرما۔ اور ہمیں ایک اور نیک بنا۔ یا اللہ برما کے مسلمانوں پر رحم فرما۔ یا اللہ مسلمانوں کو ہنود و یہود کے ناپاک عزائم سے بچا۔ ہم سب کو اکٹھی عید کرنے اور اس کی برکتیں لوٹنے کی توفیق عطاء فرما۔ یا اللہ ہمیں غیرت مند حکمران عطا فرما۔ آمین ثم آمین
٭٭٭
پردہ اسلام اور عورت
آج ہر روز اخبارات عصمت فروشی کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں کہ آج فلاں علاقہ میں عصمت فروشی کا واقعہ رونما ہو گیا، پولیس مصروف تفتیش ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات رونما ہونے کے بعد تو ہماری آنکھ کھلتی ہے۔ تو اس سے بہتر ہوگا کہ ہم اس طرح کے واقعات ہونے کی جو وجہ ہے اس کو جان کر ہم اس کا سدباب کریں۔ تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہونے پائیں۔ مگر اب روشن خیالی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہر طرف حیاء اور غیرت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ بہرحال المختصر ان عصمت فروشی کے واقعات کا سدباب نہیں کیا جا رہا۔ اس قسم کے واقعات کی وجہ صرف بے پردگی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
فیشن کی چلی کچھ ایسی ہوا
کہ عورت کے رخ سے پردہ اٹھ گیا
ہمارے اندر غیرت ختم ہو چکی ہے اور حیاء بھی ختم ہو چکی ہے۔ ہمارے اسلاف میں ہمارے آباء و اجداد میں جو غیرت شرم و حیاء تھی۔ اب وہ ہمارے اندر دم توڑ چکی ہے۔ اب ہر طرف بے حیائی و بے شرمی کا دور دورہ ہے۔ آج تقریباً ہر ملک کے ہر کوچے ہر گلی میں سینما گھر بن گئے ہیں۔ آج وہی نوجوان جو کل تک تلاوت قرآن کرتے تھے۔ وہ ہر وقت گانا گانے، موسیقی، لہو و لعب، سینمابینی میں مصروف نظر آتا ہے۔ ہم نے اپنی اسلامی تہذیب و تمدن کو بلا دیا ہے۔ اسلامی شکل و صورت کو چھوڑ کر اغیار کی شکل و صورت کو اپنا لیا ہے۔
بقول حضرت علامہ اقبال: ۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں تم ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
آج مغربی استعمار کی آزاد خیالی، مادہ پرستی، عریانی و فحاشی کے طوفان پرنٹ میڈیا اور آن دی میڈیا کی سحر انگیزی اور دل فریبی کی یلغار نے اسلامی ورثہ کو بڑا متاثر کیا ہے۔ اور ڈرامہ کلچر اور فلمی کلچر نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ جتنی بے حیائی و فحاشی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پھیلا رہا ہے۔ اس کی حد نہیں اس لیے توسونیا گاندھی نے کہا تھا کہ اب پاکستان سے ہمیں جنگ کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ کیونکہ ہمارے ڈش اور ٹی وی کلچر نے یہ جنگ جیت لی ہے۔
آج ہر طرف عورت ماڈرن لباس پہنے نظر آتی ہے۔ آج ہر طرف عورت باریک لباس پہن کر برہنہ پھرتی نظر آئے گی۔ اور بے شرم و بے حیاء لڑکیاں، بے حیاء لڑکوں کے ساتھ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر گشت کرتی ہیں۔
جب کبھی غیرت انسان کا سوال آتا ہے۔
اے فاطمہ مجھے تیرے پردے کا خیال آتا ہے۔
آئیے دیکھیں کہ اسلام پردہ کے بارے میں کیا کہتا ہے !
پہلے آیات قرآنی کو دیکھتے ہیں۔
آیات مبارکہ:۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔
1: واذاساًلتموھن متاعا فسئلوھن من وراء حجاب۔(پارہ 22، سورہ احزاب، آیت نمبر 53)
اے ماہ نبوت کے پروانو! اگر تمہیں اپنے محبوب کے اہل خانہ سے کوئی چیز مانگنی ہی پڑے تو پردہ کے پیچھے سے مانگو۔
ان آیات میں اگرچہ یہ الفاظ خاص امہات المومنین کے لیے ہیں۔ تاہم دلالت کے اعتبار سے یہ احکام تمام عورتوں کے لیے ہیں۔
مفسرین کرام کہتے ہیں کہ، کسی آیت کا شان نزول خاص اور اس کا حکم عام ہوتا ہے۔
اب پردہ کا حکم نص قطعی سے ثابت ہو گیا۔
دوسری آیہ کریمہ:۔
2: یایھا الذین اٰمنوا لاتدخلوابیوت النبی الا ان یوذن لکم(پارہ 22، سورہ احزاب آیت نمبر 53)
اے ایمان والو: نبی کے گھر میں نہ داخل ہونا مگر یہ کہ تمہیں اجازت دی جائے۔
3: ولا یضربن بارجلھن(پارہ 18، سورۃالنور، آیت نمبر 31)
وہ عورتیں جنہوں نے پازیب پہنی ہوئی ہو وہ زوردار طریقے سے پاؤں زمین پر نہ ماریں۔
4: یایھا الذین اٰمنوا لاتد خلوا بیوتا غیر بیوتکم۔(پارہ 18، سورۃالنور، آیت نمبر 27)
اے ایمان والو: اپنے گھروں کے علاوہ اور گھروں میں داخل نہ ہوا کرو
5: یایھا النبی قل لازواجک وبنتک ونساء المومنین ید نین علیھن من جلابیبھن
اے غیب دان نبیﷺ آپ اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے اوپر چادر یا برقعہ ڈال دیا کریں۔
یہ چند آیات مبارکہ تھیں اس کے علاوہ اور بھی آیات مبارکہ ہیں کہ جن میں پردہ کا حکم ہے۔ بہرحال اب ہم احادیث نبویہ ؐ کی طرف آتے ہیں۔ کہ احادیث مبارکہ اس بارے میں کیا کہتیں ہیں ؟
احادیث نبویۃﷺ:
1: فرمان نبویﷺ ہے۔ الحیاء من الایمان۔حیاء ایمان سے ہے۔
(ابوداود، جلد دوم، صفحہ 305، مطبوعہ مجتبائی کتب خانہ)، (بخاری شریف، جلد دوم، صفحہ 903، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)
آقا کریمﷺ نے ارشاد فرمایا
2: حیاء خیر کو لاتا ہے:۔(صحیح بخاری شریف، جلد دوم، صفحہ 903مطبوعہ قدیمی)
3: حیاء زینت ہے۔(کتسف الخفاء للعجلونی، حدیث2244)
اسلام میں عورت کے بارے میں اتنی احتیاط ہے کہ حدیث نبویﷺ ہے۔
4: حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جن کے شوہر گھر پر نہ ہوں ان عورتوں پر داخل نہ ہو۔ کیونکہ شیطان تمہارے خون میں گردش کرتا ہے۔(ترمذی شریف جلد اول صفحہ 140مطبوعہ فاروقی کتب خانہ)
وہ عورتیں جو زیب و زینت کر کے نکلتی ہیں ان کے بارے میں ارشاد نبویﷺ ہے۔
5: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کا زیب و زینت کر کے نکلنا ان کی مثال قیامت میں ایسی ہے جس کے لئے کوئی نور نہ ہو گا۔(ترمذی شریف۔ جلد اول۔ صفحہ 139مطبوعہ ایضاً)۔
6: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک وہ عورت جو خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ ایسی ایسی ہے یعنی زانیہ ہے۔(ترمذی شریف، جلد 4۔صفحہ321 حدیث 2795 دار الفکر)
مفسرقرآن حضور حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں اس حدیث کے تحت کہ: کیونکہ وہ خوشبو کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے کیونکہ زنا حرام ہے لہذا اسباب زنا بھی حرام ہیں۔(مراۃالمناجیح جلد دوم صفحہ 171ضاءالقرآن)
7: حضور ﷺ نے قیامت کی نشانیوں میں ایک زنا کے ظاہر ہونے کا بھی ذکر کیا ہے۔(مسلم شریف، جلد دوم، ص340قدیمی)
8: آقا کریمﷺ نے دیور سے بھی پردہ لازمی قرار دیا ہے۔(صحیح مسلم شریف، حدیث نمبر3307)
9: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا عورت سراپا شرم کی چیز ہے سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک اپنے گھر کی تہہ میں ہوتی ہے جب باہر نکلے شیطان اس پر نگاہ ڈالتا ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ ٰعنہما جمعہ کے دن کھڑے ہو کر کنکریاں مار کر عورتوں کو مسجد سے نکالتے۔(جامع ترمذی حدیث نمبر 2305)۔
10: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا حضورﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں کہ اچانک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت ؐ میں حاضر ہوئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پردے کا حکم ہو چکا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ان سے پردہ کرو۔ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہﷺ یہ نابینا ہیں ہمیں یہ نہ دیکھ رہے ہیں اور نہ کوئی ہم کلامی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو۔(جامع ترمذی، جلد4، صفحہ 356، حدیث نمبر 2787، دار الفکر بیروت)
اب ایک صحابی رسول کی غیرت کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت ابو السائب فرماتے ہیں کہ ایک نوجوان صحابی رسول کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ایک بار جب وہ اپنے گھر تشریف لائے تو یہ دیکھ کر انہیں بڑی غیرت آئی کہ ان کی دلہن گھر کے دروازے پر کھڑی تھی مارے جلال کے نیزہ تان کر اپنی دلہن کی طرف لپکے وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئیں اور رو کر پکاریں اے میرے سرتاج مجھے مت مارئیے میں بے قصور ہوں ذرا اندر جا کر دیکھیں کہ مجھے کس چیز نے باہر نکالا ہے ؟ چنانچہ جب وہ صحابی اندر تشریف لے گئے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خطرناک سانپ کنڈلی مار کر بیٹھا ہے۔ تو آپ نے زوردار وار کر کے سانپ کو زخمی کر دیا سانپ نے آپ کو ڈس لیا سانپ تڑپ تڑپ کر مر گیا وہ صحابی اس سانپ کے زہر سے فوت ہو گئے۔(ابوداود، جلد4، صفحہ 465 حدیث نمبر 5257، دار الحیاء بیروت)
ہم نے صحابی رسول کی غیرت کا واقعہ ملاحظہ کیا انہوں نے اپنی بیوی کا گھر کے دروازے پر کھڑا ہونا بھی برداشت نہ کیا اور آج ہم ہیں کہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بازاروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔
ساغر صدیقی نے کہا تھا کہ
کل جہنیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتی ہیں۔
اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا تھا کہ
بے پردہ مجھ کو آئیں نظر چند بیبیاں۔
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ کدھر گیا
کہنے لگیں کہ”عقل”پہ مردوں کے پڑ گیا۔
(اسلامی زندگی،ص 93)
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی زیب و زینت دیکھ کر ارشاد فرمایا تھا کہ اگر رسول اللہ ؐ اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتے تو عورتوں کا مسجد میں آنا بند کر دیتے۔(مسلم شریف، جلد اول۔ کتاب الصلوٰۃ، حدیث نمبر 903)
حضرت علامہ ابن حضر مکی ہیتمی نقل فرماتے ہیں۔ معراج کی رات سرور کائنات شاہ موجوداتﷺ نے جو بعض عورتوں کے عذاب کے ہولناک مناظر ملاحظہ فرمائے ان میں یہ بھی تھا کہ ایک عورت بالوں سے لٹکی ہوئی تھی اس کا دماغ گھول رہا تھا سرکارﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ عورت اپنے بالوں کو غیر مردوں سے نہیں چھپاتی تھی۔(الزواجر جلد 2، ص97۔ 98، دار المعرفہ بیروت)
با حیاء و باشرم ماں کا واقعہ:۔
حضرت ام خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہا پردہ کیے منہ پر نقاب ڈالے اپنے شہید بیٹے کی معلومات حاصل کرنے کے لیے بارگاہ نبوت ؐ میں آئیں تو کسی نے کہا کہ آپ اس حالت میں اپنے بیٹے کی معلومات لینے آئیں ہیں کہ آپ کے چہرے پر نقاب ہے وہ فرمانے لگیں !اگر میرا بیٹا جاتا رہا تو کیا ہوا میری حیا تو نہیں گئی (سبحان اللہ)(سنن ابو داود، جلد 3، ص9، حدیث نمبر 2488، دار الحیاء بیروت)
میری معزز ماؤ بہنو!حضرت ام خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان میں ہمارے لیے بہت سبق ہے اگر غور کیا جائے تو:۔
زیب و زینت کرنے والیوں کیلیے گڑھا:۔
سرکار کون و مکاںﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کچھ لوگ ایسے دیکھے جن کی کھالیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں میرے استفسار پر بتایا گیا(آپ کا پوچھنا تعلیم امت کے لیے تھا ورنہ آپ کو کس چیز کا علم نہیں )یہ وہ لوگ ہیں جو ناجائز اشیائسے زینت حاصل کرتے تھے اور میں نے ایک گڑھا دیکھا جس سے چیخ پکار کی آواز آ رہی تھی میرے دریافت کرنے پر بتایا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جو ناجائز اشیاء کے ذریعے زینت کیا کرتی تھیں۔(تاریخ بغداد، جلد 1ص 415)
یاد رہے کہ آجکل عورتیں مردوں (نامحرموں )کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نکلتی ہیں اور بے حیائی پھیلاتی ہیں اور ہماری مائیں، بہنیں کچھ نام نہاد پیروں (جو شریعت سے نابلد ہوتے ہیں)کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتی ہیں اور ان کے پاؤں دباتی ہیں ان کے ہاتھ دباتی ہیں یہ سب حرام ہے۔
آقا کریمﷺ کا بیعت لینا:۔
آقا کریمﷺ عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بغیر فقط زبان سے بیعت لیتے تھے۔(بہار شریعت، حصہ 16، ص78)
مرد اور عورت آپس میں ہاتھ نہیں ملا سکتے آجکل پارکوں میں شاپنگ سینڑوں میں، کالجوں میں، سوئمنگ پولوں میں، کلبوں میں مرد و عورت ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر، بغلوں میں بغلیں ڈال کر پھرتے ہیں یہ سب حرام ہے۔
سر میں کیل کا ٹھونکا جانا بہتر:۔
آقائے دو جہاںﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کے سر میں کیل ٹھونک دیا جانا بہتر ہے اس سے کہ کسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں۔(المعجم الکبیر جلد 35، ص212، حدیث نمبر 487)
آجکل بے پردگی کی جو خرابیاں سامنے آ رہی ہیں وہ بیان سے باہر ہیں کچھ خرابیاں میں حسب ذیل درج کیے دیتا ہوں۔
خرابیاں: ۔
1۔ عورتوں کا بالکل باریک لباس پہننا اور نیم برہنہ حالت میں ہونا۔
2۔ عورتوں کا رقص کرنا اور مردوں کے ساتھ رقص کرنا یہ مکروہ ترین کام ہے۔
3۔ ساحل سمندر پر اور دریاؤں اور نہروں کے کنارے پر مردوں کے ساتھ مخلوط ہو کر پھرنا خوش گپیوں میں مشغول ہونا۔
4۔ بیویوں کا خاوندوں پر حکم چلانا ان کو اپنے ماتحت کرنا۔
5۔ ٹرین، ہوائی جہاز میں بے پردگی کے ساتھ اجنبی مردوں کے ساتھ سفر کرنا۔
6۔ کلبوں میں جانا سینماؤں میں جانا۔
7۔ عورتوں کا بطور سوسائٹی گرل مخرب اخلاق کاموں میں مشغول رہنا
8۔ اجنبی مردوں کے ساتھ کھیل کھیلنا۔
9۔ دوپٹہ کو بطور سکارف استعمال کرنا۔
10۔ عورتوں کا خوشبو وغیرہ لگا کر بازاروں میں جانا۔ (وغیرہ، وغیرہ)
بہرحال اس کے علاوہ اور بہت سی خرافات، خرابیاں بے حیائی و فحاشی و عریانی کے کام پاکستان میں ہو رہے ہیں حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ ان کا سدباب کرے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اسوۂ رسولﷺ پر عمل کرنے کی توفیق دے بے حیائی و فحاشی کو رو کنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین
٭٭٭
جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم شاہ ابو سعید المظفر
شاہ ابو سعید المظفر (متوفی 630ہجری) عظیم فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی تھے۔سلطان کی حقیقی ہمشیرہ ربیعہ خاتون ملک ابو سعید المظفر کے عقد میں تھیں اور سلطان بادشاہ سے بغایت درجہ محبت رکھتے تھے وہ دونوں خدمتِ اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ دل و جان سے شریک تھے۔ بادشاہ خادمِ اسلام ہونے کے با وصف بہت متقی، پرہیزگار اور فیاض واقع ہوئے تھے۔ بادشاہ کا عظیم دینی و روحانی مقام اور خدمتِ اسلام کی تڑپ دیکھ کر ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی ہمشیرہ حضرت ربیعہ خاتون کی شادی ان سے کی تھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے حوالے سے ملک ابو سعید المظفر کا یہ تعارف کرانے کے بعد امام ابن کثیر نے تین چار سطور میں موصوف کے سیرت و کردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور دریا دلی پر روشنی ڈالی ہے اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حوالے سے تفصیلات شرح و بسط کے ساتھ رقم کی ہیں انہوں نے اس موضوع پر بالتفصیل لکھا ہے کہ بادشاہ کس جوش و جذبہ اور مسرت و سرور سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تقریب کا اہتمام کیا کرتا تھا امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شاہ مظفر ابو سعید کو کبری بن زین الدین علی بن تبکتکین ایک سخی، عظیم سردار اور بزرگ بادشاہ تھا، جس نے اپنے بعد اچھی یادگاریں چھوڑیں اس نے قاسیون کے دامن میں جامع مظفری تعمیر کروائی وہ برزہ کے پانی کو اس کی طرف لانا چاہتا تھا تو معظم نے اسے اس کام سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ سفوح کے مقام پر مسلمانوں کے قبرستان سے گزرے گا وہ ماہ ربیع الاول میں میلاد مناتا تھا اور عظیم الشان محفلِ میلاد منعقد کرتا تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ بہادر، دلیر، حملہ آور، جری، دانا، عالم اور عادل بھی تھا اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے اور اسے بلند رتبہ عطا فرمائے شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ نے اس کے لیے میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھا۔ شاہ نے اس تصنیف پر اُسے ایک ہزار دینار انعام دیاس کی حکومت حکومتِ صلاحیہ کے زمانے تک رہی، اس نے عکا کا محاصرہ کیا اور اس سال تک وہ قابلِ تعریف سیرت و کردار اور قابلِ تعریف دل کا آدمی تھاسبط نے بیان کیا ہے کہ مظفر کے دستر خوانِ میلاد پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس میں پانچ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ مٹی کے دودھ سے بھرے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال ہوتے تھے۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ جلد 9 صفحہ 182۔ محبی، خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر جلد 3 صفحہ 2333۔ سیوطی، حسن المقصد فی عمل المولد صفحہ 42-444۔ سیوطی، الحاوی للفتاویٰ صفحہ 2005۔ احمد بن زینی دحلان، السیرۃ النبویہ جلد 1 صفحہ 53-54اِس کے بعد امام ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ فرمائیں: میلاد کے موقع پر اُس کے پاس بڑے بڑے علماء اور صوفیاء حاضر ہوتے تھے، وہ انہیں خلعتیں پہناتا اور عطیات پیش کرتا تھا اور صوفیاء کے لیے ظہر سے عصر تک سماع کراتا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ رقص کرتا تھا ہر خاص و عام کے لیے ایک دارِ ضیافت تھا اور وہ حرمین شریفین و دیگر علاقوں کے لیے صدقات دیتا تھا اور ہر سال بہت سے قیدیوں کو فرنگیوں سے چھڑاتا تھا کہتے ہیں کہ اس نے ان کے ہاتھ سے ساٹھ ہزار قیدیوں کو رہا کرایا اس کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب کہتی ہے کہ اس کے ساتھ میرا نکاح میرے حضرت بھائی صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ نے کرایا تھا اس خاتون کا بیان ہے کہ شاہ کی قمیص پانچ درہم کے برابر بھی نہ ہوتی تھی پس میں نے اسے اس بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے: میرا پانچ درہم کے کپڑے کو پہننا اور باقی کو صدقہ کر دینا اس بات سے بہتر ہے کہ میں قیمتی کپڑا پہنوں اور فقراء اور مساکین کو چھوڑ دوں اور وہ ہر سال محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر تین لاکھ دینار اور مہمان نوازی پر ایک لاکھ دینار اور حرمین شریفین اور حجاز کے راستے میں پانی پر خفیہ صدقات کے علاوہ تیس ہزار دینار خرچ کرتا تھا، رحمہ اللہ تعالی۔ اس کی وفات قلعہ اِربل میں ہوئی اور اس نے وصیت کی کہ اسے مکہ لے جایا جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اِجتماع گاہ میں دفن کیا گیا-
حوالہ جات
ابن کثیر، البدایہ والنہایہ جلد 9 صفحہ 182۔ سیوطی، حسن المقصد فی عمل المولد صفحہ 443۔ سیوطی، الحاوی للفتاوی 2004۔ صالحی، سبل الھدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیرالعباد صلی اللہ علیہ و سلم جلد 1 صفحہ 362-363 5۔ نبہانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم صفحہ 2366۔ دفیات الاعیان صفحہ 536-5407۔ البدایہ والنہایہ جلد 13 صفحہ 1478۔ العبر فی خبر من غبر جلد 2 صفحہ 2249۔ تاریخ الاسلام صفحہ 402-40510۔ سیر اعلاء والنبلاء جلد 16 صفحہ 25711۔ آثار البلاد واخبار العباد صفحہ 29012۔ شذرت الذہب جلد 5 صفحہ 14013۔ البراہین الجلیہ صفحہ 9214۔ الفتح القسی فی الفتح القدسی صفحہ 5115۔ مراۃ الزمان صفحہ 392-39316۔ کتاب الروضتین صفحہ جلد 3-919117۔ العسجد السبوک والجواہر المحکوک جلد1 صفحہ 49218۔ التکملۃ لوفیات النقلہ جلد 3 صفحہ 35419۔ دول الاسلام صفحہ 34120۔ الباعث۔
٭٭٭
اسلام کے بارے میں اغیار کے پروپیگنڈے
اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اسلام اخوت محبت کا دین ہے اسلام لازوال دین ہے اور اس کے خلاف کفار ہمیشہ نبرد آزما رہے ہیں ہمیشہ کفار اسلام کو ختم کرنے کیلیے سوچتے رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں اور سوچتے رہیں گے آج ہم کفار کے طریقے پر چل رہے ہیں۔ پاکستانی عوام خصوصاً ً اور عالم اسلام عموماً کفار کے رسم و رواج کو اپنا رہے ہیں۔ اپریل فول (انگریزوں کا تہوار)، بسنت(ہندوؤں کا تہوار)، آتش بازی(ہندوؤں کا)، ویلنٹائن ڈے (انگریزوں کا تہوار) ان سب کو پاکستانی قوم منا رہی ہے۔ مگر کیا انہوں نے اہل اسلام کے تہواروں کو اپنایا ہے ؟ کیا انہوں نے عیدُ الفطر۔ عیدُ الضحیٰ، عید میلاد النبیؐ منائی ہے۔ نہیں بالکل نہیں تو ہم کیوں ان کے تہوار مناتے ہیں بہرحال یہ لمبا مضمون ہے ہم مختصراً کفار کے پروپیگنڈے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
صرف چار اقوال ملاحظہ فرمائیں: ۔
سابق اسرائیلی وزیر اعظم کا بیان: بن گوریان کہتا ہے کہ”میں بڑی شدت سے ایک چیز کا خطرہ محسوس کرتا ہوں اور ہم میں سے کون ہے جو اس کا خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ ایسا نہ ہو کہ کل کلاں کوئی عالم عرب یا عالم اسلام میں نیا محمد ظہور پذیر ہو جائے ”(جزیرۃ الکفاح الاسلامی شمارہ اپریل دوسرا ہفتہ 1955
شہرہ آفاق مغربی محقق گارڈنز لکھتا ہے کہ: ۔”اسلام کے اندر وہ غیر معمولی قوت و طاقت پوشیدہ ہے جو یورپ کیلیے حقیقی اور اصلی خطرہ کی حیثیت رکھتی ہے (ہمیں اسلام کو ختم کرنا ہو گا)”(البشیر ص 29)
ایک یورپی دانشوراشعیا بومان نے ”مجلۃُالعالم الاسلامی التبشریہ ”میں لکھا ہے کہ۔”یورپ کیلیے واجب ہے کہ وہ اسلام کو اپنے لیئے خوف و خطرہ کا حقیقی سبب قرار دے کیونکہ اسلام اپنے آغاز سے لے کر آج تک مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور باقاعدگی کے ساتھ تمام براعظموں پر پھیلتا جا رہا ہے۔(لم ھذا لرعب کلہ من الاسلام ص55)
امریکی پروفیسر ہرز کہتا ہے: ۔کہ ”مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کے دل رسول عربی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت سے بھرے ہوئے ہیں اور یہ یہی وہ جذبہ ہے جو عالمی صیہونیت کے لئے بڑا خطرہ ہے اور جو اسرائیل کی توسیع کے راستے میں زبردست رکاوٹ ہے لہٰذا یہودیوں کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہ محمد کے ساتھ مسلمانوں کے اس جذبہ محبت کے تمام وسیلوں کو کمزور تر کر دیں تبھی وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔(الفلسطین بیروت جنوری 1972)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ اسلام کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں ؟ تو پھر آپ کیوں ان کے تہذیب و تمدن کو اپنا رہے ہیں یہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ ”یہود نصاریٰ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے ”
اور باعث تخلیق کائنات مختار کل حضور نبی کریمؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ ”من تشبہ بقوم فھو منہم”
لہٰذا میرے مسلمان بھائیو!اغیار کی سازشوں کو ناکام بنا دیں اللہ ہمیں اسلام کا صحیح معنوں میں سپاہی بنائے اللہ ہمیں اسوۂ نبیؐ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور اللہ تمام مسلمان ممالک کی حفاظت فرمائے تمام مسلمان ممالک کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنائے (آمین)
٭٭٭
شانِ افضل البشر بعد الانبیاء بزبانِ علیُؓ المرُتضیٰ شیرِ خدا
صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ ساری امت سے افضل و اعلیٰ ہے اب قیامت تک کوئی کتنی ہی عبادت کرے مگر وہ کسی صحابی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا یوں تو سارے صحابہ آسمان ہدایت کے ستارے ہیں مگر ان سب سے افضل مخزن تصدیق کے گوہر، آفتاب صبح ایمان حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں امام الصحابہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے برابر کون ہو سکتا ہے جنہوں نے مردوں میں سب سے پہلے ایمان قبول کیا پھر تبلیغ میں حائل مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا سفر ہجرت میں حضور ﷺ کی معیت نصیب ہوئی اور اسی وجہ سے یار غار کے لقب سے معروف ہوئے باذن اللہ بارگاہ رسالت مآبﷺ سے صدیق کا خطاب ملا اور عشرہ مبشرہ میں بھی ہیں اور خلافت بلا فصل کا تاج آپ رضی اللہ عنہ کے سر سجا اور انہی سعادتوں اور فضیلتوں کی وجہ سے اہل سنت کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انبیاء و رسل کے بعد ساری امت سے افضل ہیں –
قرآن مجید کی کئی آیات اور سرکار دو عالمﷺ کی بیسوں احادیث طیبہ سے یہ عقیدہ ثابت ہے –
عبدالرزاق صاحب مصنف جیسے جلیل القدر محدث فرماتے ہیں کہ (الصواعق المحرقہ میں امام ابن حجر عسقلانی اور غایۃ التحقیق میں امام احمد رضا خان بریلوی نے نقل کیا ہے )کہ مجھے یہ گناہ کیا تھوڑا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے محبت کروں اور علی رضی اللہ عنہ کا خلاف کروں یعنی میں سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کروں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال کی مخالفت کروں ؟
مزاج دان رسالت، غمخوار نبوت، مصدق اول، یار غار و مزار خلیفۂ اول امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے جو نص قطعی ہے اور اس کا انکار کفر ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں آیات ربانی نازل ہوئیں ان کی تفسیر شیر خدا، باب مدینۃ العلم، فاتح خیبر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں –
ارشاد ربانی ہے۔والذی جائبالصدق وصدق بہ اولئک ہم المتقون۔
اس آیت کی تشریح میں باب۔ ۔ الحکمت، شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’والذی جائبالحق محمد وصدق بہ ابو بکر الصدیق‘‘۔(تاریخ دمشق،ص ۲۲۲ مطبوعہ دار الاحیاء بیروت)(تاریخ الخلفاء،ص ۴۹ مطبوعہ انتشارات الشریف)
فرمایا کہ جو حق لے کر آئے ہیں وہ حضرت محمدﷺ ہیں اور جو تصدیق کرنے والے ہیں وہ حضرت ابو بکر الصدیق ہیں –
اب جن کو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود صدیق کہہ رہے ہیں تو ان کی خلافت و صداقت پر شک کرنے والے اپنا انجام خود سوچ لیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تو وہ ہیں کہ جن کے بارے میں آقا کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی محبت اور شکر تمام امت پر واجب ہے -(تاریخ الخلفاء ص ۸۶مطبوعہ شبیر برادرز)
حضرت حکیم بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئی بار قسم اٹھا کر یہ فرمایا کہ۔انزل اللہ اسم ابی بکر عن السمائالصدیق۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کا نام آسمان سے صدیق نازل کیا ہے۔(تاریخ الخلفا ء ص ۴۷ مطبوعہ انتشارات الشریف)
دار قطنی اور حاکم نے ابو یحییٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا تین دفعہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے سنا کہ اللہ رب العزت نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام نبی کی زبان پر صدیق رکھا ہے آپ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں کہ جن کا نام اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام اور آنحضرتؐ کی زبان مبارک سے صدیق کہلوایا ہے۔(ایضاً ص ۴۶)
اب آئیے ایک اور روایت ملاحظہ کرتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تمام لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یوں تعریف کی ہے۔
الاتنصروہ فقد نصرہ اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اذھما فی الغار(ایضا، کنزالعمال جلد۱۲ص ۵۱۵مطبوعہ دارالسلام)
اب آئیے وہ احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں کہ جن کو روایت کرنے والے علی المرتضیٰ شیر خدا ہیں اور وہ سیدنا ابو بکر صدیق کی شان میں وارد ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ رحم اللہ ابابکر زوجنی بنتہ وحملنی الیٰ دار الھجرت واعتق بلالا من مالہ۔(تاریخ الخلفاء ص۷۷، تاریخ دمشق جزو ۳۲ص۴۲، مسند ابی یعلیٰ جلد ۱ص ۲۸۱)
اللہ تعالیٰ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے انہوں نے مجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور مجھے دار الہجرت کی طرف پہنچایا اور اپنے مال سے بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے کریمؐ نے فرمایا کہ۔اس امت میں نبی کے بعد ابو بکر و عمر سب سے بہتر ہیں۔(تاریخ الخلفاء ص ۸۷، کنزالعمال جلد ۱۳ ص۲۰)
الحمد للہ تمام مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے کریمﷺ نے فرمایا (حضرت علی سے ) میں نے تجھے مقدم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا مگر اس نے ابو بکر کی تقدیم کے ساء کسی اور کی تقدیم سے انکار کر دیا(تاریخ دمشق جزو ۴۸ص ۲۱۷)(تاریخ الخلفاء ص۹۴)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آقائے کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آتے نظر آئے تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ اہل جنت کے سردار ہیں یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے سواء سب اولین و آخرین ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں۔(مسند ابی یعلیٰ جلد نمبر ۱ص ۲۷۳)(ترمذی شریف ص ۲۰۷ مطبوعہ مجتبائی)(مصنف ابن شیبہ جلد ۱۲ص ۱۱)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن مجھ سے حضرت محمدؐ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے ایک کے ساتھ جبرائیل علیہ السلام اور ایک کے ساتھ میکائیل علیہ السلام تھے۔
(آپﷺ نے یہ ارشاد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا) (تاریخ دمشق، ابن عساکرجزو ۳۲ ص۸۲مطبوعہ دارالاحیاء بیروت)
قیامت تک مسلمانوں کا ثواب و جزا خداوند کریم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو عطا فرما دیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام سے سنا وہ ابو بکر کو فرما رہے تھے۔ یا ابابکر ان اللہ اعطانی ثواب من امن بی منذ بعثنی اللہ الی ان تقوم الساعۃ (تاریخ بغداد جلد ۵ ص۱۰، تاریخ دمشق جزو ۳۲ ص۷۹)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اطاعت و پیروی ہدایت کی ضمانت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ۔اطیعوابعدی ابابکر الصدیق ثم عمر ترشدوا واقتدوابھما ترشدوا،،۔میرے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پھر عمر کی اطاعت کرو ہدایت پا جاؤ گے اور ان دونوں کی پیروی کرو ہدایت پا جاؤ گے۔
اب آئیے ذرا فضائل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں ارشادات مرتضوی رضی اللہ عنہ کو ملاحظہ کریں۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اول من اسلم من الرجال ابو بکر،،۔
مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔
(تاریخ الخلفاء، علامہ سیوطی ص ۳۲مطبوعہ انتشارات الشریف)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کو ظاہر فرمایا اور لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف بلایا(ایضاً ص۳۸)
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے امت کی اصلاح و فلاح و بہبود اور بہتری کیلئے جو جد و جہد کی اس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
کانا امامی ھدی راشدین مرشدین مصلحین منجین خرجا من الدنیا خمصین،،۔(تاریخ دمشق جزو۳۲ ص۲۵۱)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ہدایت کے امام اور رہبر تھے (قوم کی)اصلاح کرنے والے تھے (مقاصد خیر میں ) کامیاب و کامران تھے دنیا سے بھوکے رخصت ہوئے۔
یعنی آپ نے حرص و لالچ نہیں کیا مال جمع نہیں کیا دنیا اکٹھی نہیں کی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جنت میں ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوں گے۔(کنزالعمال جلد ۱۳ص۲۱)
: ۔ شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انا الاحسنۃ من الحسنات ابی بکر۔ (تاریخ دمشق جز ۳۲ص ۲۵۲) میں تو ابو بکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔
شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان اعظم الناس اجرا فی المصاحف ابو بکر ان ابابکر کان اول من جمع بین اللوحین۔(ایضاً ۲۵۰)
قرآن پاک کے سلسلے میں سب سے بڑھ کر اجر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ملے گا کہ سب سے پہلے آپ ہی نے اس کو کتابی صورت میں جمع کیا۔
7: ۔ شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اپنی محبت اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغض کے بارے میں فرمایا۔ لا یجتمع حبی و بغض ابی بکر و عمر فی قلب مومن ولایجتمع بغضی وحب ابی بکر و عمر فی قلب مومن۔(کنزالعمالج 13ص 21)
کسی مومن کے دل میں میری محبت اور حضرت ابو بکر و عمر کا بغض جمع نہیں ہو سکتا اور اس طرح کسی مومن کے دل میں میری دشمنی اور حضرت ابو بکر و عمر کی محبت جمع نہیں ہو سکتی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین)
8: ۔ محبت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں شیر خدا خلیفۂ چہارم حضرت علی المرتضی ٰ فرماتے ہیں ’’جس نے ابو بکر سے محبت کی قیامت کے دن وہ ان کے ساتھ کھڑا ہو گا اور جہاں وہ جائیں گے ان کے ساتھ جائے گا اور جس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کی وہ ان کے ساتھ ہو گا جہاں وہ جائیں گے ان کے ساتھ ہو گا اور جس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کی وہ ان کے ساتھ ہو گا اور وہ جہاں جائیں گے وہ وہاں جائے گا۔(ایضاً ص 9)
9: ۔ شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ اے لوگوں بتاؤ کہ مومن آل فرعون اچھے تھے یا کہ ابو بکر اچھے ہیں ؟لوگ خاموش ہو گئے آپ نے کہا کہ تم بولتے کیوں نہیں اللہ کی قسم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایک گھڑی آل فرعون کے مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر ہے کیونکہ۔ ذالک رجل یکتم ایمانہ وھذا رجل اعلن ایمانہ
اس مرد نے اپنے ایمان کو چھپایا اور اس مرد نے اپنے ایمان کو ظاہر کیا۔(تاریخ الخلفاء ص 37)
ان روایات کے علاوہ اور بھی کافی روایات ہیں مگر طوالت کو مد نظر رکھ کر آخر میں صرف تین اقوال شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پیش کروں گا جو انہوں نے گستاخان سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمائے۔
عبداللہ بن سباء حضرت ابو بکر و عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کا گستاخ تھا آپ نے فرمایا کہ اسے اس شہر سے نکال دو جس شہر میں میں ہوں اس میں یہ نہیں ٹھہر سکتا پس اسے شام کی طرف نکال دیا گیا۔(کنزالعمالج 13ص26)
شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ۔لا یفضلی احد علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حدالمفتری۔جس نے مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت دی میں اسے مفتری کی سزا دوں گا یعنی اسے اسی کوڑے لگاؤں گا۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ عنقریب زمانہ ایسے لوگ ہوں گے جو ہماری محبت کا دعویٰ کریں گے اور ہمارے گروہ میں سے ہونا ظاہر کریں گے وہ شریر بندوں میں سے ہیں جو ابو بکر و عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کو برا کہتے ہیں۔(کنزالعمال ج 13 ص9)
المختصر ہمیں اقوال شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے یہ معلوم ہوا کہ ان کے درمیان بے انتہا محبت و الفت تھی سب ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اہل بیت اطہار صحابہ کرام سے محبت کرتے تھے اور صحابہ کرام اہل بیت اطہار سے محبت فرمایا کرتے تھے سب بارگاہ مصطفیٰؐ کے چمکتے دمکتے ستارے ہیں اور سب حضرات ایک دوسرے سے انس اور بے انتہا الفت رکھتے ہیں۔(رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین)
آخر میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ان عظیم و اعلیٰ ہستیوں کے واسطے ہم پر رحم و کرم فرمائے ہمارے گناہ معاف فرمائے اور پاکستان کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائے اور ہمارے اس ملک کو کہ جس کو ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اس کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے تمام عالم اسلام کو ہنود و یہود کے پنجے سے آزادی عطاء فرمائے اور ہمیں اسوۂ رسولؐ پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے نہ کہ ہنود و یہود کے چال چلن اور ان کے تہواروں پر۔
٭٭٭
معاشرے میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان، نقصانات اور احتیاطی تدابیر
شادی ایک خوبصورت بندھن ہے مگر یہ جس قدر پیارا اور مضبوط بندھن ہے اسی قدر نازک بھی ہے۔ ہلکی ہلکی ضربیں بھی اس کی مضبوط ڈور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بندھن کو توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا ناسور ’’طلاق‘‘ ہے۔ اللہ کے نزدیک حلال کاموں میں ناپسندیدہ کام طلاق ہے اس کی وجہ کئی خاندان تباہ و برباد ہو جاتے ہیں صحیح ہے کہ اسلام نے اس کو حلال قرار دیا ہے لیکن یہ ایک ایسا فعل ہے جس کی وجہ سے عرش الٰہی بھی کانپ جاتا ہے، مگر لوگ بڑے آرام سے طلاق دے دیتے ہیں آخرایسا کیوں ؟طلاق ہوتی کیوں ہے ؟ وہ رشتہ جو اتنی خوشی سے طے کیا جاتا ہے اسے ختم کرنے کا منصوبہ کیوں بنایا جاتا ہے ؟چند سالوں پہلے ہمارے معاشرے میں لفظ ’’طلاق‘‘ ایک گالی سمجھا جاتا تھا۔ طلاق کو ہر زمانے میں برا سمجھا جاتا رہا ہے۔ پہلے کسی خاندان میں طلاق کا سانحہ ہوتا تو پورا خاندان اور برادری دہل جاتی تھی، طلاق کی خبر سننے والے حیرت و تاسف کے مارے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیتے تھے۔ مگر آج آئے دن طلاق کے قصے سننے میں آتے ہیں، طلاق ہو جانا عام سی بات بن گئی ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کا تناسب دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے جو دیمک کی طرح اس معاشرے کے سکون کو چاٹ رہا ہے۔
اسباب
طلاق کے اسباب میں سے ایک اہم سبب دین اسلام سے دوری ہے، اس کے بعد دیگر وجوہات آتی ہیں۔ کاش! ذرا توجہ اس طرف بھی ہوتی کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو دین سے آشنا کیا جاتا، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بیٹی کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنے کی بجائے قرآنی تعلیمات دے کر رخصت کرو گے تو اس کی زندگی زیادہ اچھی گزرے گی۔ کاش لڑکے اور لڑکی کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جاتا مثلاً: زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے ؟ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں ؟ شادی کا مطلب کیا ہے ؟، شادی کا مقصد کیا ہے ؟ اس رشتے کو نبھانا کتنا ضروری ہے ؟ وغیرہ۔ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر قائم رہتا ہے جب کبھی دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں ہلتی ہیں تو اس رشتے کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہے اور یہ رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ عدم برداشت بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہے۔ دو شادی شدہ افراد میں علیحدگی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی بھی شامل ہے۔ قربانی دینے کے عزم میں کمی، زبردستی شادی، مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت، سماجی اسٹیٹس، حرص و ہوس، بیوی یا شوہر کا شکی مزاج ہونا، دوسری یا جلد بازی میں محبت کی شادی، ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے اثرات، معاشی مسائل، شوہر کا نشہ کرنا، سٹہ، جُوا یا خراب عادتیں طلاق کے اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں مادیت پرستی، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، بے اعتمادی، دیگر لوگوں کی میاں بیوی کے معاملات میں بے جا مداخلت اور دوسروں کی با توں پر بلا تصدیق یقین کر لینا شامل ہیں جبکہ ڈراموں میں طلاق کو اہم ترین موضوع کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو کہ گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کی بجائے طلاق کے لیے ماحول سازگار بنانے کی نئی تراکیب متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ اس بارے میں میڈیا کو اپنی روش بدلنی پڑے گی۔
نقصانات
طلاق خانگی زندگی کی تباہی کے ساتھ سب سے زیادہ اولاد کو متاثر کرتی ہے۔ طلاق کی آگ کی لپیٹ میں دو خاندان بری طرح جلتے اور جھلستے رہتے ہیں۔ ایک بچی کے طلاق کے سبب بقیہ بہنوں کو رشتے نہیں آتے اور ایسے گھرانوں میں لوگ اپنی بیٹیاں دینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ لڑکی دیندار اور پاکباز ہے تو ٹھیک ورنہ نفسانی خواہش کی تکمیل متعلقہ عورت کو برائیوں کے دلدل میں ایسا پھینک دیتی ہے جہاں نہ اسے اپنی عزت کا خیال ہوتا ہے اور نہ ہی خاندان کی آبرو کا۔ پھر جنسی بیماریوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور معاشرہ تعفن سے بھر جاتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بچے ہو جانے کے باوجود معمولی معمولی وجوہات کی بنا پر علٰیحدگیاں ہو رہی ہیں، علیحدگی کے بعد عورت اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی ہے، مرد بھی نئی زندگی شروع کر دیتا ہے، متاثر ہوتی ہے صرف اولاد۔ جو کبھی کسی کے ہاتھوں پلتی ہے اور کبھی کسی کے۔ طلاق جیسا قدم اٹھانے والے لمحے بھر کے لیے بھی اس نکتے پر غور نہیں کرتے، نتیجتاً اُن کے بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے اور وہ کبھی نہ ختم ہونے والی احساس کمتری اور نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچپن میں والدین کی شفقت سے محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے، اکثر اوقات طلاق خودکشی اور قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے، ایسے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے، عدم توازن اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں، اُن کی تعلیمی اور معاشرتی کار کردگی متاثر ہوتی ہے اور اُن میں اعتماد اور خود داری کا فقدان رہتا ہے جو معاشرے کو ایک مفید اور کار آمد شہری سے محروم کر دیتا ہے۔
احتیاطی تدابیر
کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا، ہر ایک میں کچھ خامیاں ہوتی ہیں تو کچھ خوبیاں بھی ضرور ہوتی ہیں۔ چنانچہ ٹھنڈے دل و دماغ سے ایک دوسرے کی خامیوں، کوتاہیوں کو نظر انداز کر کے خوبیاں اور اچھائیاں تلاش کرنی چاہئیں۔ ایک پرسکون زندگی کے لیے عورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ گھر صرف عورت بناتی ہے، جب میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہئیے تصور کیا جاتا ہے تو دونوں کو مل کر گھر بنانے اور بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، عورت کو بھی چاہیے کہ وہ تحمل سے کام لے۔ سب سے پہلے تو میاں بیوی کو اپنے مسائل کی نشاندہی خود کرنی چاہیے اور اس کا حل جہاں تک ممکن ہو خود سوچنا چاہیے بجائے اس کے کہ کوئی تیسرا شخص ان کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔ طلاق کے شرح کو کم کرنے کے لئے سمجھوتہ اور قوت برداشت پیدا کرنی چاہئے۔ شادی کو مجبوری نہیں بلکہ روح کا رشتہ ہونا چاہئے۔ باہمی رواداری اور میاں بیوی کے درمیان سمجھوتہ طلاق کی شرح کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
موجودہ ضرورت
بدقسمتی سے مغربی تہذیب کے اثرات اور مادر پدر آزاد معاشرے کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہمارے ہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق کی شرح خطرناک حد تک پہنچ کر ایک سماجی مسئلہ بن چکی ہے جو ہمارے اسلامی معاشرے میں موجود آئیڈیل خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے، لہٰذا ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اسلام کے قانونِ طلاق کو قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کرنے کی سعی کی جائے تاکہ اس کا ناجائز استعمال روکا جا سکے اور فرد، خاندان اور معاشرے کو بہت سے سماجی مسائل اور الجھنوں سے بچایا جا سکے، اس کام کیلئے معاشرے کے حساس اور ذمہ دار طبقات اور علما کو خصوصی توجہ دینے اور اس کے اسباب و علل کا جائزہ لے کر تدارک کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ یاد رکھیں طلاق ایک ناپسندیدہ فعل ہے جس معاشرے میں طلاق کی کثرت ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے۔
٭٭٭
نوافل و وظائف لیلۃ القدر
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کہ میری امت میں جو مرد یا عورت خواہش کرے کہ میری قبر روشنی سے منور ہو جائے اسے چاہیئے کہ وہ رمضان المبارک کی شب قدروں میں کثرت کے ساتھ عبادت بجا لائے تا کہ مبارک اور متبرک را توں کی بدولت اللہ پاک اس کے نامہ اعمال سے برائیوں کو مٹا کر نیکیوں کا ثواب لکھ دے شب قدر کی عبادت ستر ہزار را توں سے افضل ہے۔
پہلی شب قدر
اکیسویں شب کو چار رکعت نماز دوسلام سے پڑھے ہر رکعت میں بعد سورۃ الفاتحہ ایک بار سورۃ القدر اور ایک بار سورۃالاخلاص اور بعد سلام کے ستر بار درود شریف پڑھے انشاء اللہ تعالیٰ اس نماز پڑھنے والے کے حق میں فرشتے دعا کریں گے۔
2: ۔ اکیسویں شب کو دو رکعت نماز نفل پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے سورۃ القدر ایک بار اور تین بار سورۃ الاخلاص پڑھے سلام کے بعد ستر مرتبہ استغفار پڑھے انشاء اللہ اللہ اس نماز اور شب قدر کی برکت سے اس کو بخش دے گا۔
دوسری شب قدر
رمضان المبارک کی تیئیسویں شب کو چار رکعت نماز دوسلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص 3 بار پڑھے انشاء اللہ واسطے مغفرت کے یہ نماز بہت افضل ہے۔
2؛۔ اسی شب کو آٹھ رکعات نماز چار سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ قدر ایک بار اور اخلاص ایک بار پڑھے سلام کے بعد ستر مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے انشاء اللہ مغفرت فرمائے گا۔
تیسری شب قدر
رمضان المبارک کی پچیسویں شب کو چار رکعت نماز دو سلام سے پڑھے اور سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص پانچ بار پڑھے اور سلام کے بعد سو بار کلمہ طیبہ پڑھے انشاء اللہ اللہ بے شمار عبادت کا ثواب دے گا۔
2: ۔ رمضان المبارک کی پچیسویں شب کو چار رکعت نماز دوسلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص 3بار پڑھے اور سلام کے بعد ستر مرتبہ استغفار پڑھے یہ نماز بخشش گناہ کیلئے بہت افضل ہے۔
3: ۔ رمضان المبارک کی پچیسویں شب کو دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص 15بار پڑھے اور سلام کے بعد ستر مرتبہ کلمہ پڑھے یہ نماز عذاب قبر سے نجات کیلئے بہت افضل ہے۔
چوتھی شب قدر
1: ۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو بارہ رکعت نماز تین سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص ۳ بار پڑھے اور سلام کے بعد ستر مرتبہ استغفار پڑھے نبیوں کی عبادت کا ثواب ہے: ۔
2: ۔ اسی شب کو آٹھ رکعات نماز چار سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص 27بار پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے انشاء اللہ مغفرت فرمائے گا۔
3: ۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ التکاثرر ایک بار اور سورہ اخلاص ۳ بار پڑھے اور سلام کے بعد ستر مرتبہ کلمہ پڑھے یہ نماز عذاب قبر سے نجات کیلئے بہت افضل ہے۔ اس کے پڑھنے سے اللہ قبر کی سختی سے محفوظ رکھتا ہے۔
4: ۔ ستائیسویں شب کو سورہ ملک کو سات بار پڑھنا بہت فضیلت والا عمل ہے۔
5: ۔ ستائیسویں شب کو دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص سات بار پڑھے بعد سلام ستر مرتبہ یہ تسبیح پڑھے۔
استغفر اللہ العظیم الذی لا الہ الا ہو الحی القیوم وا توب الیہ۔
اس نماز کو پڑھنے والے کو مصلے سے اٹھنے سے پہلے اس کے اور اس کے والدین کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور فرشتوں سے کہا جائے گا کہ اس کے لئے جنت کو آراستہ کر دو۔
6: ۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو بارہ رکعت نماز تین سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الم نشرح ایک بار اور سورہ اخلاص ۳ بار پڑھے اور سلام کے بعد ستائیس با سورہ قدر پڑھے بے شمار عبادت کا ثواب ہے۔
7: ۔ ستائیسویں شب کو چار رکعت نماز دو سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر تین بار سورہ اخلاص پچاس مرتبہ پڑھے اور سلام کے بعد سجدے میں سر رکھ کر یہ تسبیح ایک بار پڑھے۔
سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر
اس کے بعد جو حاجت ہو اسے طلب کرے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ پوری کریں گے۔
پانچویں شب قدر
1: ۔ انتیسویں شب کو چار رکعات نماز دو سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص تین بار پڑھے سلام کے بعد سورہ الم نشرح ستر مرتبہ پڑھے یہ نماز کامل ایمان کیلئے بہت افضل ہے۔
2: ۔ انتیسویں شب کو چار رکعت نماز دوسلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک بار سورہ قدر اور سورہ اخلاص پانچ بار پڑھے سلام کے بعد درود شریف ایک سو مرتبہ پڑھے انشاء اللہ بخشش و مغفرت عطاء ہو گی: ۔
جمعۃ الوداع
رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو نماز جمعہ کے بعد دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ زلزال ایک بار اور سورہ اخلاس دس مرتبہ اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون تین بار پڑھے سلام کے بعد دس مرتبہ درود شریف پڑھے۔
2: ۔ دو رکعت نماز اسطرح پڑھے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ تکاثر ایک بار اور سورہ اخلاص دس مرتبہ اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد آیۃ الکرسی تین بار سورہ اخلاص 25 بار پڑھے سلام کے بعد درود شریف پڑھیں اللہ تعالیٰ قیامت تک بے انتہا عبادت کا ثواب ہے۔
یہ چند ایک نوافل و وظائف ہیں لیلۃ القدر اللہ کی عبادت میں گزاریں۔
نوٹ: ۔جو بندہ خدا ان کو پڑھ کر ان پر عمل کرے اس سے گزارش ہے کہ میرے والدین میرے بھائیو اور بندہ ناچیز کیلئے دعا کرے اللہ میرے والدین اور میرے بہن بھائیو کو صحت و تندرستی اور عمر خضر عطاء فرمائے۔آمین ثم آمین
٭٭٭
کیا نقش نعلین پاک متبرک ہے …؟؟
الحمد للہ وحدہ والصلوٰۃ علی من الانبی بعدہ وعلی من اتبع من الصحابہ
اما بعد۔
عشق کا مسلمہ ضابطہ ہے کہ جس سے ہو جائے اس سے نسبت رکھنی والی ہر شے محبوب ہوتی ہے خواہ عشق حقیقی ہو یا مجازی۔ یہی وجہ ہے کہ سرور دو عالمﷺ سے عشق و محبت کا دم بھرنے والے آپﷺ سے نسبت رکھنے والے شہر مقدس، آپ کے رفقاء یعنی صحابہ کرام، آپ کی آل پاک اور آپ کی سنن سے محبت و وارفتگی رکھتے ہیں۔ آپ کے مبارک قدموں سے لگنے والے پاپوش یعنی نعلین مبارک ان کے سروں کا تاج ہے۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
جو سر پر رکھنے کو مل جائے نعلین پاک حضور ﷺ
تو پھر کہیں گے کہ تاجدار ہم بھی ہے۔
مولانا حسن رضا خان علیہ الرحمہ
اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ عرض گزار ہیں۔
ذرے جھڑ کے تیری پیزاروں کے۔
تاج سر بنتے ہیں سیاروں کے۔
(حدائق بخشش)
جس طرح عشاق کو اپنے آقاﷺ کے اظہار عشق کا بس موقع ہی ملنا چاہئے بعینہ اسی طرح مخالفین بھی ان پروانہ شمع رسالت پر ان کے عشق کے باعث اعتراض کرنے کا موقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ماہ ربیع الاول میں چونکہ مولود نبوت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور مسلمان اپنے نبیﷺ کے عشق کی خاطر نعلین پاک کا نعش اپنے سروں اور دلوں پر آویزاں کرتے ہیں۔ یہ منکرین کو رنج میں ڈالتا ہے ایسے ہی مواقع پر قرآن پاک کا کیا خوب ارشاد مسلمانوں سے ہے چنانچہ ارشاد خداوندی عز و جل ہے۔
ان تمسسکم حسنۃ تسؤہم
ترجمہ: اگر تم (مسلمانوں ) کو کوئی چھوٹی سی بھلائی بھی پہنچے تو انہیں (منافقین) کو بری لگتی ہے۔
(پارہ 4 آل عمران آیت 120)
معلوم چلا کہ مسلمانوں کو خوشی ملنے پر غم کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔ یہ تو نقش و عکس کی بات ہے ہم صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عمل ہدیہ ناظرین کرتے ہیں کہ انہیں اس سے والہانہ کس قدر محبت و الفت تھی۔ آخر میں اس کی برکات و فوائد اور معاندین کے بے تکے اعتراضات کے جوابات بھی قلمبند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔
امام احمد المقری التلمسانی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف فتح المتعال فی مدح النعال میں تحریر فرماتے ہیں۔ محمد بن یحیی حضرت قاسم سے بیان کرتے ہیں۔
جب نبی کریمﷺ بیٹھتے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کھڑے ہو جاتے اور اپنے نعلین مبارک پاؤں سے اتار لیتے اور اپنی آستینوں میں چھپا لیتے اور جب آپﷺ کھڑے ہو جاتے تو نعلین پہناتے اور آپ کے ساتھ عصا پکڑ کر چلتے۔ یہاں تک کہ آپ حجرہ مبارک میں داخل ہو جاتے۔ (فتح المتعال فی مدح النعال مترجم ص171 عالمی دعوت اسلامیہ)
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو صاحب النعلین کا لقب حاصل ہے۔ امام احمد مقری علیہ الرحمہ اسی صفحہ پر حضرت انس رضی اللہ عنہ کے متعلق رقم طراز ہیں کہ ایک جماعت جن میں ابن سعد بھی ہیں، نے روایت کیا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کے کفش بردار اور دیگر اشیائے سنبھالنے اور اٹھانے والے تھے۔(صفحہ نمبر 171)
ضیاء النبی میں پیر کرم شاہ الازہری جلد 5ص 583 پر لکھتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ حضور ﷺ کے پاپوش بردار تھے۔
مسند احمد ابو یعلی، ابن حبان اور مستدرک میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسالت مآبﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے کون ہے جو معانی قرآن پر اس طرح جہاد کرے گا جس طرح میں نے اس کے نزول پر کیا ہے ؟ کسی نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ کیا وہ ابو بکر ہیں ؟ فرمایا نہیں۔ عرض کی کیا وہ عمر ہیں ؟ فرمایا نہیں، اس کے بعد فرمایا یہ کام خاصف النعل ہی کریں گے۔(فتح المتعال فی مدح النعال مترجم ص 3)
خاصف النعل یعنی جوتے گانٹھنے والے چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اقدس علیہ السلام کے نعلین شریف گانٹھا کرتے تھے، اس لئے یہ لقب ان کے حصہ میں آیا۔
یوں تو خدمت اقدس میں عموماً صحابہ کرام حاضر رہا کرتے تھے مگر حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت انس اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم خاص نعلین شریفین کے خدمت گزار تھے۔
یہ تو نعلین پاک کی اصل کے متعلق چند کلمات حوالہ قرطاس کئے۔ اب چند سطور نعلین پاک کے نقش و عکس و شبیہ کے متعلق بھی تحریر کی جاتی ہیں۔
بڑے بڑے فضلاء نے نعلین شریفین کے نقش کی برکتوں کے بارے میں مستقل تالیفات کی ہیں۔ ابو جعفر احمد بن عبدالمجید جو کہ اپنے زمانہ کے بڑے نیک بزرگ گزرے ہیں۔ فرماتے ہیں۔ میں نے ایک طالب علم کو نعلین شریفین کا نقشہ دیا۔ ایک دن وہ آیا اس نے بتایا کہ میں نے کل رات اس نقش کی برکت کو خود ملاحظہ کیا۔ میری بیوی کو شدید درد ہوا۔ قریب تھا کہ وہ جان دے دیتی۔ میں نے اسی نعل شریف کا نقش اسی جگہ رکھا جہاں درد ہو رہا تھا۔ میں نے عرض کی اللھم ارنی برکۃ صاحب ہذا النعل یا اللہ مجھے اس نعل شریف والے کی برکتیں عطا فرما تو اسی وقت وہ تندرست ہو گئی۔
امام ابو اسحاق سلمی الاندالسی جو ابن الحاج کے نام سے معروف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ابو القاسم بن محمد نے فرمایا کہ اس کی برکت تجربات سے پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے جو شخص اس سے تبرک حاصل کرنے کے لئے اسے پکڑتا ہے تو باغیوں کی بغاوت اور دشمنوں کے غلبہ پانے سے اس کو امان مل جاتی ہے۔ ہر سرکش شیطان کے شر سے اور ہر چشم بد کے اثر سے وہ محفوظ ہو جاتا ہے اور وہ عورت جسے زچگی کی تکلیف ہو اگر وہ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لے تو اس کی یہ تکلیف دور ہو جاتی ہے اور بچہ بفضلہ تعالیٰ آسانی سے ہو جاتا ہے۔
امام ابو بکر قرطبی علیہ الرحمہ نے اس کی تمثال کی برکات کے بارے میں پورا قصیدہ نقل کیا ہے۔ اس کے تین اشعار یہاں نقل کئے جاتے ہیں۔
ففعھا علی اعلیٰ المفارق انہا
حقیقتہا تاج و صورتہا نعل
باخمص خیر الخلق حازت مزیۃ
علی التاج حتی باہت المفرق الرجل
شفاء لذی سقم رجاء لبآئس
امان لذی خوف کذا یحسب الفضل
ترجمہ: اس کو اپنے سر کی چوٹیوں پر رکھو۔ حقیقت میں یہ تاج سلطانی ہے۔ اگرچہ اس کی صورت جوتے کی سی ہے، یہ وہ نعل شریف ہے جسے خیر الخلق کے پاؤں کے تلوے کے ساتھ لگنے سے تاج پر بھی فضیلت حاصل ہو گئی۔ یہاں تک کہ وہ پاؤں سروں پر فضیلت لے گئے۔ یہ بیماری کے لئے شفا کا پیغام ہے۔ مایوسی کے لئے امید کی کرن ہے۔ خوفزدہ کے لئے امان کا پیغام ہے اور اسی طرح اس نعلین شریفین کے نقش کے فضائل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔(ضیاء النبی جلد 5ص 603 تا 604، ضیاء القرآن پبلشرز لاہور)
محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ القوی مدارج النبوت میں فرماتے ہیں کہ مواہب میں اس کا تجربہ لکھا ہے کہ مقام درد پر نعلین شریفین کا نقشہ رکھنے سے درد سے نجات ملتی ہے اور پاس رکھنے سے راہ میں لوٹ مار سے محافظت ہو جاتی ہے اور شیطان کے مکرو فریب سے امان میں رہتا ہے اور حاسد کے شر وفساد سے محفوظ رہتا ہے۔ مسافت طے کرنے میں آسانی رہتی ہے اس کی تعریف و مدح اور اس کے فضائل میں قصیدے لکھے گئے ہیں (مدارج النبوت، مترجم ج 1ص 578، ضیاء القرآن پبلشرز لاہور)
امام احمد مقری تلمسانی اس کے برکات و فوائد کے متعلق لکھتے ہیں۔ یہ جس لشکر میں ہو، اس کو کبھی شکست نہ ہو جس قافلے میں ہو وہ قافلہ لوٹ مار سے محفوظ رہے جس گھر میں ہو وہ گھر جلنے سے محفوظ رہے گا جس سامان میں ہو وہ چوری ہونے سے محفوظ رہے گا۔ جس کشتی میں ہو وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی جو کوئی صاحب نقش نعل سے کسی حاجت میں توسط کرے وہ حاجت پوری ہو اور ہر مشکل آسان ہو۔(فتح المتعال فی مدح النعال مترجم ص 247)
اس کی چند برکات ہم نے اکابر کی کتابوں سے نقل کیں، اس کے علاوہ بھی اس کی برکات بے شمار و بے حد ہیں جس نے مزید تفصیل دیکھنی ہو وہ علامہ مقری تلمسانی کی فتح المتعال فی مدح النعال اور علامہ عبدالحی لکھنوی علیہ الرحمہ کے رسالے غایۃ المقال فیما یتعلق بالنعال میں دیکھے۔ یہ رسالہ 158 صفحات پر مشتمل ہے۔
منکرین اس کی روک تھام میں خوب زور لگاتے ہیں۔ ان کی طرف سے ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ تم تو تصاویر سے منع کرتے ہو اور دوسری طرف نعلین کی تصاویر بھی بناتے ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ جس تصویر کے بنانے کو حرام کیا گیا ہے وہ جاندار کی تصاویر ہیں جبکہ نعلین میں جان کہاں ؟لہذا اس کا نقش بالکل جائز ہے۔ یہ اعتراض و جواب فتح المتعال سے نقل کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوا کہ علامہ احمد مقری تلمسانی علیہ الرحمہ کے دور میں بھی اس کے منکرین موجود تھے حالانکہ علامہ کی ولادت 992ھ اور وفات 1041ھ ہے۔
دوسرا اعتراض ان کی طرف سے یہ ہے کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ اسی نعلین کا نقش ہے جو نبی کریمﷺ استعمال فرمایا کرتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ائمہ مشرق کے پاس حضور اکرمﷺ کے نعلین شریفین موجود تھے کیونکہ یہ بنی ابن الحدید کے پاس اور پھر شام کے جامعہ اشرفیہ میں موجود تھے۔ ابن رشید وغیرہ نے جب مشرق کا سفر کیا تو اس نے اس کی مثال بنوا لی۔ اس کے علاوہ صدیوں سے ائمہ اپنی کتابوں میں اس کا نقش نقل کرتے آئے ہیں۔ جن میں علامہ ابن عساکر، ابن الحاج، ابن المرجل، امام عراقی، حافظ زین الدین، سراج الدین بلقینی، امام سخاوی، اور علامہ سیوطی علیہ الرحمہ شامل ہیں۔(فتح المتعال ص 192 اور 195)
تیسرا اعتراض ان کی طرف سے یہ ہے کہ جب تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ یہ اس اصل کا عکس و شبیہ بھی ہے تو اس قدر تعظیم کیوں کرتے ہو، تعظیم تو اصل کی ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک جو پڑھا ہوا نازل کیا گیا وہ تو کلام نفسی ہے اور جو کتابت کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے یہ اس کا عکس و نقل ہے پھر اس کی تعظیم بھی نہ کی جائے حالانکہ اگر بطور تحقیر اس کو گندی جگہ پھینک دیا جائے تو آدمی کافر ہو جاتا ہے۔
اس کے متعلق ان کا چوتھا اعتراض یہ ہے کہ نعل پاک لگے ہونے کی صورت میں آدمی ایسی گلیوں سے بھی گزرتا ہے جہاں گٹر کا گندا پانی کھڑا ہوتا ہے اور گندے پانی کی نالیاں بھی ہوتی ہیں اور بیت الخلاء میں جانا پڑتا ہے، اس سے اس کی بے ادبی ہوتی ہے لہذا یہ نہیں لگانا چاہئے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو جاہلانہ اعتراض ہے کیونکہ ادب کا دارومدار در اصل عرف پر ہے جسے لوگوں کا جم غفیر جو سلیم الطبع اور ذی فہم ہوں، ادب کہے وہ ادب ہے اور جسے بے ادبی کہے وہ بے ادبی ہے۔ نعل پاک کے نقش لگے ہونے کی صورت میں گلیوں سے گزرنے کو جبکہ اس میں نالیاں بھی ہوں کوئی بے ادبی نہیں کہے گا۔ ہاں جہاں تک بیت الخلاء کا تعلق ہے تو ضرور اسے اتار کر جانا چاہئے یا اتار کر جیب میں ڈال لیں۔ ورنہ تو مساجد کے برابر گلیوں میں گٹروں اور نالیوں کا گندا پانی آ ہی جاتا ہے اور بلکہ عین مسجد سے متصل فنائے مسجد میں باتھ روم بنائے جاتے ہیں تو کیا مساجد کی تعمیرات کا سلسلہ روک دیا جائے لوگ قرآن پاک گھر کے لئے خرید کر بھی تو انہی گلیوں سے لاتے ہیں جن کے متعلق تمہارا گندے ہونے کا قول ہے۔
تاج والے بھیک مانگیں آپ کی نعلین کی
تاجور کھاتے ہیں صدقہ آپ کی نعلین کاﷺ
٭٭٭
شرم و حیا ء قرآن و حدیث کی روشنی میں
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے انسان کی تخلیق فرمائی تو اس کی ہدایت و رہنمائی کا بندوبست بھی فرمایا حضرات انبیاؤرسل کی عظیم ہستیوں کو بھیجا اللہ نے روز اول سے ہی انسان کے سامنے دو راستے رکھ دیے ایک نیکی اور دوسرا بدی اور انسان کو اختیار دے دیا کہ چاہے تو وہ نیکی کو اختیار کرے چاہے برائی کو۔ چاہے صراط الجنہ پر چلے چاہے صراط النار پر۔
اللہ رب العزت نے امت محمدیہ پر بہت بڑا انعام فرمایا کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کو ہمارے لیے نمونہ بنایا۔ انسان چاہے کسی بھی فیلڈ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو اس کے لیے حضور ﷺ کی زندگی کامل نمونہ ہے آپﷺ نے ہمیں اخلاقیات کی تعلیم دی ہمیں اخلاقی آداب و خصائل سے آگاہ فرمایا اخلاق کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ
’بروز قیامت مومن کے اعمال میں سے جو چیز میزان پر سب سے بھاری ہو گی وہ ہے اس کے اخلاق اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ بد اخلاق شخص پر ناراض ہو گا‘ اوکما قال علیہ الصلوٰۃوالسلام۔
حوالہ: ۔ سنن ترمذی شریف ج ۲ص ۲۰ قدیمی کتب خانہ
اخلاق حسنہ میں سے ایک شرم و حیاء بھی ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اور یہ شرم و حیاء کو پسند کرتا ہے۔ شرم حیاء کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے شرم و حیاء کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں ؟
شرم و حیاء قرآن کی رو سے: ۔
شرم و حیا کے بارے میں بے شمار آیات ہیں مگر طوالت کے خوف سے صرف تین چار آیات کا ترجمہ رقم کروں گا
اہل ایمان کو قرآن حکیم نے جا بجا شرم و حیاء کی صفت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
2۔ ۱: ۔ ’’اور (کامیاب مومنین)وہ ہیں جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘‘ (سورۃ المومنون 5 نیز سورۃ المعارج 92)
3: ۔ ’’اے حبیبﷺ آپ ایمان والوں کو حکم دیں کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ (سورۃ النور 03)
۴: ۔ وہ حیاء کے ساتھ چلتی ہوئی آ رہی تھی۔ (سورۃ القصص 53)
شرم و حیاء احادیث کی رو سے: ۔
آیات مبارکہ کی طرح احادیث میں شرم حیا ء پر بہت زور دیا گیا ہے۔
1: ۔ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ (سنن ابی داود شریف حدیث نمبر 5974، جلد دوم ص 813 مطبوعہ رحمانیہ)
2: ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہر مذہب کو ماننے والوں کچھ امتیازی صفات و عادات ہوتی ہیں مسلمانوں کی امتیازی صفت شرم و حیاء ہے۔ (سنن ابن ماجہ شریف ص 803)
3: ۔ حضرت سیدنا ابو سائب فرماتے ہیں ایک نوجوان صحابی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ایک جب وہ باہر سے گھر آ رہے تھے تو یہ دیکھ کر انہیں بڑی غیرت آئی کہ ان کی دلہن گھر کے دروازے پر کھڑی ہے جلال میں آ کر نیزہ تان کر اپنی دلہن کی طرف لپکے وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئیں اور رو کر پکاریں اے میرے سرتاج مجھے نہ ماریں میں بے قصور ہوں ذرا گھر کے اندر چل کے تو دیکھیں کہ کس چیز نے مجھے باہر نکالا ہے چنانچہ جب وہ اندر گئے تو زہریلے سانپ کو دیکھا بے قرار ہو کر سانپ پر زور دار وار کیا اس نے آپ کو ڈس لیا وہ غیرت مند صحابی اس سانپ کے زہر کی وجہ سے واصل بحق ہو گئے۔ (سنن ابی داؤد جلد 3ص 564ح 7525 دار الحیا بیروت)۔
جو مقام و مرتبہ اسلام نے عورت کو دیا ہے کسی اور مذہب نے نہیں دیا۔ اسلام نے عورت کو اعلیٰ مقام و رتبہ عطا کیا اسے عظمت و رفعت کا تاج دیا ہے اسلام نے ہمارے لئے درخشندہ اصول و قوانین وضع کئے ہیں اسلام مرد و عورت کو شرم و حیاء کا درس دیتا ہے ہم اسلام کے اصولوں کو اپنا کر اپنی عاقبت کو سنوارسکتے ہیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔
٭٭٭
بادشاہ اور قیدی کے درمیان مکالمہ
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور قیصر کی فوج کے درمیان لڑائی نے طول پکڑ لیا، قیصر مسلمانوں کی بہادر اور ثابت قدمی پر حیران ہوا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کا کوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے۔ عبد اللہ بن حذافہ کو لا کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاوں میں ہتھکڑیاں تھی، قیصر نے ان سے بات چیت شروع کی تو ان کی ذہانت سے حیران رہ گیا، دونوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوا: –
قیصر: نصرانیت قبول کر لے تجھے رہا کر دوں گا۔
عبد اللہ: نہیں قبول کروں گا۔
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تجھے دے دوں گا
عبد اللہ: نہیں۔
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تجھے حکمرانی میں شریک کروں گا
عبد اللہ: نہیں، اللہ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباء و اجداد کی مملکت، عرب و عجم کی حکومتیں بھی دے دو تو میں پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا۔
قیصر غضبناک ہوا اور کہا: تجھے قتل کر دوں گا۔
عبد اللہ: مجھے قتل کر دے۔
قیصر نے حکم دیا کہ ان کو ایک ستون پر لٹکا کر ان کے آس پاس تیروں کی بارش کی جائے (ڈرانے کے لیے ) پھر اس کو عیسائیت قبول کرنے یا موت کو گلے لگانے میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے۔
جب قیصر نے دیکھا کہ اس سے بھی بات نہیں بنی اور وہ کسی حال میں بھی اسلام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو حکم دیا کہ اس کو قید میں ڈال دو اور کھانا پینا بند کر دو۔ ۔ عبد اللہ کو کھانا پینا نہیں دیا گیا یہاں تک کہ پیاس اور بھوک سے موت کے قریب ہو گئے تو قیصر کے حکم سے شراب اور خنزیر کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا گیا۔
جب عبد اللہ نے یہ دیکھا تو کہا: اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ میں وہ مضطر(پریشان حال) ہوں جس کے لیے یہ حلال ہے، مگر میں کفار کو خوش کرنا نہیں چاہتا، یہ کہہ کر کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ یہ بات قیصر کو بتائی گئی تو اس نے عبد اللہ کے لیے بہترین کھانا لانے کا حکم دیا، اس کے بعد ایک حسین و جمیل لڑکی کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ ان کو چھیڑے اور فحاشی کا مظاہرہ کرے۔ اس لڑکی نے بہت کوشش کی مگر عبد اللہ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہے۔
جب لڑکی نے یہ دیکھا تو غصے سے باہر چلی آئی اور کہا: تم نے مجھے کیسے آدمی کے پاس بھیجا میں سمجھ نہ سکی کہ وہ انسان ہے یا پتھر۔ اللہ کی قسم اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ میں مذکر ہوں یا مونث!!
جب قیصر کا ہر حربہ ناکام ہوا اور وہ عبد اللہ کے بارے میں مایوس ہوا تو ایک پیتل کی دیگ منگوائی اور اس میں تیل ڈال کر خوب گرم کیا اور عبد اللہ کو اس دیگ کے سامنے لایا اور ایک دوسرے مسلمان قیدی کو زنجیروں سے باندھ کر لایا گیا اور ان کو اٹھا کر اس ابلتے تیل میں ڈالا گیا جن کی ایک چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہڈیاں الگ ہو گئیں اور تیل کے اوپر تیرنے لگی، عبد اللہ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، اب ایک بار پھر قیصر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور نصرانیت قبول کرنے اور اسلام چھوڑنے کی پیش کش کر دی مگر عبد للہ نے انکار کر دیا۔
قیصر غصے سے پاگل ہونے لگا اور حکم دیا کہ اس دیگ میں موجود تیل اٹھا کر عبد اللہ کے سر پر ڈال دیا جائے، جب قیصر کے کارندوں نے دیگ کھینچ کر عبد اللہ کے قریب کی اور اس کی تپش کو عبد اللہ نے محسوس کیا تو وہ رونے لگے !!
آپ کی ان خوش نصیب آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے جن آنکھوں نے رسول اللہﷺ کا چہرہ انور دیکھا تھا!!
یہ دیکھ کر قیصر خوشی سے جھومنے لگا اور کہا: عیسائی بن جاؤ معاف کر دوں گا۔
عبد اللہ نے کہا: نہیں۔
قیصر: تو پھر رویا کیوں ؟
عبد اللہ: اللہ کی قسم میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میری ایک ہی جان ہے جو اس دیگ میں ڈالی جائے گی۔ ۔ میری یہ تمنا ہے کہ میری میرے سر کے بالوں کے برابر جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے اللہ کی راہ میں نکلیں۔
یہ سن کر قیصر نے مایوسی کے عالم میں عبد اللہ سے کہا: کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سر کو بوسہ دو اور میں تمہیں رہا کروں ؟
عبد اللہ: اگر میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر تے ہو تو میں تیرے سر کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہوں۔
قیصر: ٹھیک ہے۔
عبد اللہ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو رہا کرنے کے لیے اس کافر کے سرکو بوسہ دیا اور سارے مسلمان رہا کر دیے گئے۔
جب واپس عمر بن الخطاب کے پاس پہنچ گئے اور آپ کو واقعہ بتا دیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عبد اللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دینا ہر مسلمان پر ان کا حق ہے اور خود اٹھے اور عبد اللہ کے سر کو بوسہ دیا۔ رضی اللہ عنھم کیسی سیرت تھی صحابہ کی!۔
کیسی قربانیاں تھیں ان کی!۔
کیا یہ اپنے بچوں کو پڑھانا نہیں چاہیے ؟؟
در اصل یہی اصل ہیرو ہیں زندگیوں کے , آج کل ہمارے پاس اپنی اولادوں کو اسلام کے ہیروز کے بارے میں بتانے کا وقت نہیں ہے , ہماری اولادیں یہ تو جانتی ہیں , کہ سپرمین, آئرن مین, بیٹ مین,۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیرو ہیں جو کہ خیالی ہیں , اور اصل ہیرو کون اور کیسے ہوتے ہیں یہ ہی نہیں علم, اللہ سب کو علم دین سیکھنے اور سکھانے کی توفیق عطا کرے۔آمین
٭٭٭
بسنت کی حقیقت
ویلنٹائن ڈے اپریل فول کی طرح بسنت بھی غیر مسلموں کی رسم ہے یہاں پر اس حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ ہندوؤں کی رسم ہے۔ اس کا آغاز کیسے ہوا ؟ مسلمانوں میں کیسے شروع ہوئی ؟ اور علماء و فقہا اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟اور اس غیر اسلامی رسم کو منانے کے نقصانات کیا ہیں ؟
اس غیر اسلامی رسم کو پاکستان میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اس کو بڑی کوریج دیتا ہے۔ اور ہمارے حکمران چہ جائیکہ اس خبیث رسم کو ختم کریں الٹا اس کو سرکاری طور پر منانے کی تیاریاں کی جاتی ہیں بے پردگی بے حیائی عام ہوتی ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی طرح اس میں بھی عورتوں اور مردوں کا عام اختلاط ہوتا ہے۔
آئیے پہلے ہم اس حقیقت سے مطلع ہوتے ہیں کہ یہ کیسے شروع ہوئی ؟اور آخر یہ کس کی رسم ہے ؟
آغاز
1۔ ادھر موسم بہار کا آغاز ہوتا ہے۔ ادھر ہر طرف بو کاٹا کی صدائیں بلند ہو جاتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ محبو بوں کا دن ویلنٹائن ڈے بھی بہار میں بھی منایا جاتا ہے۔ ہر طرف بدتمیزی عام ہوتی ہے۔ لوگ جوش و خروش سے اس کو منانے کیلئے ملک پاکستان سے بلکہ پوری دنیا سے لوگ پاکستان کے دل لاہور شہر میں جمع ہوتے ہیں۔ ہوٹل بک کئیے جاتے ہیں مکانات کی چھتیں بک ہوتی ہیں۔ رات کے وقت لائٹنگ اور ساؤنڈ سپیکر لگا کر اونچی آوازوں سے شرفاء کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس کو بہت زیادہ کوریج دیتا ہے دوسرے الفاظ میں بسنت منانے والوں کو زندہ دلانِ لاہور کہا جاتا ہے۔
پہلے پہل اس رسم یعنی بسنت کا آغاز ہندوستان کے مشہور صو بوں اتر پردیش اور پنجاب میں ہوا۔
پھر یہ لاہور میں گستاخِ رسول ہندو کو جہنم واصل کرنے کے بعد اس کی یاد میں ہندوؤں نے اس کو منایا میں مختصر طور پر اس کا واقعہ رقم کر رہا ہوں۔ حقیقت رائے نامی ہندو نوجوان باکھ مل پوری سیالکوٹ کے کھتری کا لڑکا تھا۔ ایک دفعہ اس طرح ہوا کہ اس کی لڑائی کچھ مسلمان نوجوانوں سے ہوئی اس ہندو نوجوان نے سرورِ کائنات باعث تخلیق کون و مکاں مختار کون و مکاں حضور نبی کریمؐ کی شان اقدس کے اندر کچھ نازیبا گفتگو کی۔ گالیاں نکالیں ساتھ ساتھ خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان اقدس میں بکواسات کئے جس سے برصغیر کے سارے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو گئے۔ اس کا (بادشاہ )گورنر زکریا خان مسلمان حکمران تھا بہرحال اس نے ہندو نوجوان کو اس کے جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ عدالتی کاروائی کیلئے لاہور لایا گیا اس کے گرفتار کرنے سے پنجاب کی ساری غیر مسلم آبادی سوگ منانے لگی۔ اس سے ان کو بڑا شدید دھچکا لگا لہٰذا پھر کچھ ہندو آفیسرز مل کر گورنر پنجاب کے ہاں گئے اور اس نوجوان کیلئے درخواست کی۔ کہ اس کو معاف کر دیا جائے۔ مگر گورنر پنجاب زکریا خان نے صحیح مسلمان ہونے کا حق ادا کر دیا۔ اور معاف نہ کیا۔ بہرحال اس نوجوان کو کوڑے مارے گئے۔ اور پھر تلوار سے گردن اُڑا دی گئی۔ پھر ہندوؤں نے اس کی یاد میں بسنت کا تہوار منانا شروع کر دیا۔ اس نوجوان کی سمدھی لاہور میں ہے۔ لاہور میں واقع بھاٹی گیٹ سے گاڑی جاتی ہے۔
(پنجاب آخری مغل دور حکومت میں۔ سکھ مؤرخ، ڈاکٹر بی۔ ایس نجار) یہی سکھ مؤرخ اپنی اسی کتاب کے صفحہ نمبر 279میں رقم طراز ہے۔ کہ ”پنجاب کا بسنت میلہ حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے ”۔ افسوس کہ ہم ایک گستاخِ رسول کی یاد مناتے ہیں۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و سلم
تاجدارِ مدینہ حضور نبی کریم صلی للہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ”مَن تَشبَہَ بِقَوم فھَُوَمِنہُم”(داؤد شریف )
فرمایا کہ” جو کوئی کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ انہیں میں سے ہے ”
افسوس کہ ہم بسنت منا کر ایک گستاخِ رسول کی یاد مناتے ہیں۔ اس حدیث کو مدِ نظر رکھ کر اپنا انجام خود ہی سوچنا ہو گا۔ اب میں یہاں پر کچھ کتابوں کے حوالے سے یہ حقیقت ظاہر کروں گا کہ یہ کِن کی رسم ہے ؟۔
(1): ۔ مشہور و معروف عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”کلیاتِ نظیر اکبر آبادی”کے صفحہ نمبر 413میں تقریباتِ اہل ہنود کے عنوان سے بسنت کے موضوع پر لکھتے ہوئے اس کو ہندوانہ تہوار قرار دیا ہے۔
(2): ۔ اسی طرح ایک ہندو منشی رام پر شاد ماتھر ہیڈ ما سٹر آف گورنمنٹ ہائی سکول پنشز اپنی کتاب ”ہندو تیوہاروں کی دلچسب اصلیت ”میں رقم کرتا ہے۔ کہ۔
بسنت پنچمی:۔ اب فصل کے بار آور ہو نے کا اطمینان ہو چلا کچھ عرصہ میں کلیاں کھل کر تمام کھیت کی سبزی زردی میں تبدیل ہونے لگی۔ اسلئے کاشتکار کے دل میں قدرتی امنگ اور خوشی پیدا ہوتی ہے اور وہ ماگھ کے آخر ہفتہ میں بسنت پنچمی کے روز زرد پھولوں کو خوش خوش گھر لا کر بیوی بچوں کو دکھاتا ہے اور پھر سب مل کر بسنت کا تہوار مناتے ہیں۔ پھر زرد پھول اپنے کانوں میں بطور زیور لگا کر خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے پرماتما ہماری محنت کا پھل عطا کر اور پھولے ہوئے درختوں میں پھل پیدا کر۔ پھر لکھتا ہے کہ بسنت پنچمی کو وشنو بھگوان کا پوجن ہوتا ہے۔
(ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت، منشی رام پرشاد، مطبوعہ دی فائن پریس لکھنؤ۱۹۴۲ء)
اس ہندو کی تحریر سے بھی ثابت ہو گیا کہ بسنت اہل ہنود کا تہوار ہے لہٰذا میرے بھائی یہ دیکھ کہ مسلمان مصنفین نے تو اسے اہل ہنود کا تہوار قرار دیا ہے مگر دیکھ اس ہندو مصنف نے بھی یہ ظاہر کر دیا ہے کہ بسنت اہل ہنود کا تہوار ہے۔ میرے بھائی ذرا سوچ تو ان کا تہوار مناتا ہے۔ جو کہ مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں۔ تو ان کا تہوار مناتا ہے جو کہ تیرے معاشی دشمن، مذہبی دشمن، معاشرتی دشمن، ثقافتی دشمن ہیں۔ کیا کبھی انہوں نے مسلمانوں کے تہوار بھی منائے ہیں۔
(3): ۔ ایک سکھ مؤرخ ڈاکٹر بی۔ ایس نجار نے اپنی کتاب ”پنجاب آخری فعل دور حکومت میں ” کے صفحہ نمبر 279میں لکھتا ہے کہ’ ‘پنجاب کا بسنت میلہ اس گستاخ رسول اور گستاخ اہل بیت (حقیقت رائے ) ہندو کی یاد میں منایا جاتا ہے ”۔
اب سکھ مؤرخ کی کتاب سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بسنت کا تہوار مسلمانوں کا نہیں بلکہ اہل ہنود کا تہوار ہے جو وہ اس گستاخ رسول کی یاد میں مناتے ہیں۔ اب عاشقانِ رسول۔ نبی کے نام لیوا۔ نبی کا کلمہ پڑھنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان اہل ہنود کے تہوار کو منا کر اپنی عاقبت خراب کریں۔ انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک گستاخ کی یاد منا کر اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائیں۔
(4): ۔ اسلامی تاریخ کے نامور مشہور و معروف و محقق، قابل فخر سائنسدان علامہ ابو ریحان البیرونی نے اپنی شہرہ آفاق و مستند کتاب ”کتاب ہند” کے باب نمبر76میں رقم فرمایا (عیدیں اور خوشی کے دن کے عنوان سے ) کہ بسنت ہندوؤں کا دن ہے۔ ” آپ مزید رقم فرماتے ہیں کہ ” اس دن عید منائی جاتی ہے۔ برہمنوں کو کھلاتے ہیں۔ دیوتاؤں کی نذر چڑھاتے ہیں ”۔
اس سے بھی ظاہر ہو کیا کہ بسنت خالص اہل ہنود کا تہوار ہے۔
(5): ۔ انڈیا کی ایک انتہا پسند ہندو تحریک شیو سینا کے سر براہ بال ٹھاکرے نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ ”لاہور میں بسنت ہندو مذہب کی عظیم کامیابی ہے ”۔
میرے مسلمان بھائیو! اب ذرا ہوش کرو کہ بال ٹھاکرے کیا بیان دے رہا ہے۔ ان کی عظیم کامیابی تو ہے ہی کیونکہ اس سے مسلمان بے دین ہو رہے ہیں۔ شیطان خوش ہو رہا ہے رحمان ناراض ہو رہا ہے۔ مسلمانوں میں حیاء و شرم ختم ہو رہی ہے۔ میرے بھائیوں ابھی بھی وقت ہے کہ تم اپنے آپ کو ان تہواروں سے بچاؤ۔
(6): ۔ ”تاریخ لاہور” کے مشہور مصنف ”سید محمد لطیف” اپنی کتاب میں بسنت کو ہندوؤں کا تہوار قرار دیتا ہے اور مزید کہتا ہے کہ یہ حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ انہوں نے لکھا۔
سمادھ حقیقت رائے: ۔
یہ لاہور سے دو میل کے فاصلے پر مشرقی جانب موضع کوٹ خواجہ سعید کے مشرق میں واقع ہے۔ حقیقت رائے سترہ سال کا ایک ہندو لڑکا تھا۔ اس کا جھگڑا مسلمان لڑکوں سے ہو گیا۔ اس نے ان لڑکوں کی طرف سے دیوتاؤں کو نا شائستہ الفاظ کہنے کے رد عمل میں اسی قسم کے کلمے کہہ ڈالے۔ اس کو قاضی کے پاس لے جایا گیا۔ قاضی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کرنے پر سزائے موت سنا دی۔ حاکم لاہور نے قاضی کے فیصلے کو توثیق کرتے ہوئے اعلان کیا۔ اگر یہ لڑکا اسلام قبول کر لے تو اس کی سزا معاف ہے۔ وہ اپنے آباء و اجداد کے دین پر خلوص دل سے کار بند تھا۔ لہٰذا اس کو پھانسی دے دی گئی۔
ہندو اس کے مقبرے کی بڑی تعظیم کرتے ہیں کثیر تعداد میں جا کر اس کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ اس سمادھ پر بسنت کا سالانہ میلا ہوتا ہے۔
اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بسنت ایسا میلہ ہے جو کہ ہندوؤں کا تہوار ہے اور اس گستاخ رسول کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اب یہ ہماری غیرت کا سوال ہے کہ ہم ایسے گستاخ کی یاد منائیں۔
ذرا سوچئے کہ بسنت ہندو مذہب کا ایک مذہبی تہوار ہے اور اس کی اصل غرض و غایت گستاخی رسول و فاطمہ ہے۔ ہم نہ صرف اس میں دلچسپی لیتے ہیں بلکہ جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں ہمیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں قیامت والے دن ہم گستاخان رسول میں نہ شمار ہو جائیں۔ قیامت والے ہم آقا کریم علیہ الصلوٰۃوالسلام کو کیا منہ دکھائیں گے ؟ ذرا سوچئے کہ ہم ان کی رسومات منا رہے ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: ”یہ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے ”۔ کیا ہم کتاب اللہ کو بھی نہیں مانیں گے۔
اور ہندو یہود کی رسومات منا کر ہم اپنا شمار کن میں کر رہے ہیں جبکہ آقا علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ ”مَن تشبہ بقومٍ فھَُوَ مِنہم ” اپنا انجام سوچ لیجئے۔
علمائے کرام نے بھی پتنگ بازی کو ناجائز قرار دیا ہے۔ پتنگ بازی کا موجد چین کو کہا جاتا ہے اور چین میں پتنگ بازی کا آغاز کچھ مؤرخین کے مطابق 3000(تین ہزار) سال قبل ہوا۔ اس وقت یہ رواج تھا کہ بانس لے کر اس کے فریم میں سلک کے کپڑے جوڑ کر اس کو اڑایا جاتا تھا۔ چین کے بعد پتنگ بازی ایشیا میں آئی۔ اس کے بعد امریکہ، افریقہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں جا پہنچی بہر حال اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ بسنت ہندوانہ رسم ہے۔ جو کہ گستاخ رسول و فاطمہ کو بے قصور سمجھنے والوں کی رسم ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک گستاخ رسول واجب القتل ہے۔
اے غازی علم الدین شہید دیکھ آج پاکستانی قوم ایک گستاخ رسول کی یاد منا رہی ہے۔
اے عامر چیمہ شہید دیکھ کہ تو نے گستاخ رسول کے خلاف ہاتھ اٹھا یا مگر آج یہ پاکستانی قوم گستاخوں کے ساتھ مل کر ہندوانہ رسوم منا رہی ہے۔
آج ایک طرف عالم کفر اسلام کے خلاف، ناموس رسول، ناموس اہل بیت کے خلاف نبرد آزما ہے۔ تو دوسری طرف ہم ہیں کہ ہم خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہم ہنود و یہود کی رسوم منانے میں مشغول ہیں ہم تو نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔
اسی کی عکاسی قلندرِ لاہوری نے یوں کی۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ہندو بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم نے اتنا اہتمام بسنت منانے کا نہیں کیا جتنا مسلمان کر رہے ہیں۔ یہ عاشقانِ رسول ہیں۔ افسوس۔ مسلمان رات بھر پتنگ بازی میں مصروف ہیں ڈیک لگے ہوئے ہیں سپیکر آن ہیں۔ لائٹنگ ہوئی ہے۔ پیلے کلر کے کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہوٹلوں کی چھتیں بک ہیں ہر طرف مرد و عورت کا اختلاط عام ہوتا ہے۔ اسراف ہی اسراف۔ فضول خرچی ہی فضول خرچی۔ اسلامی حدود کو پائمال کیا جاتا ہے۔ آہ یہ مسلمانوں کا حال ہے۔ ڈیک، ساؤنڈ سپیکر لگا کر شرفاء کو اذیت دی جاتی ہے۔ آس پاس کے لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔
شرح الصدور میں ہے کہ بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ برے خاتمہ کے چار اسباب ہیں۔
۱۔ نماز میں سستی، ۲۔ شراب نوشی ۳۔ والدین کی نافرمانی ۴۔ مسلمانوں کو تکلیف دینا۔ (شرح الصدور ص 27مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
اور اس خبیث ہندوانہ رسم میں مسلمانوں کو تکلیف بھی دی جاتی ہے۔ شراب نوشی عام ہوتی ہے۔ شراب پی کر اچھا برا سب کو بھول جاتے ہیں۔ اس خبیث رسم کی وجہ سے نماز رہ جاتی ہے۔ کئی گھروں میں والدین اگر اپنے بچوں کو منع کریں تو یہ فیشن ایبل جنریشن والدین کو گالی گلوچ اور برا بھلا کہتی ہے اس خبیث رسم میں اپنے آرام کا خیال نہیں ہوتا تو ساتھ ساتھ دوسروں کے آرام میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ اگر شرح الصدور کی مندرجہ بالا عبارت کو دیکھا جائے تو سوچنا چاہئے کہ ہم اپنے برے خاتمہ کا سامان تیار کر رہے ہیں۔ میں اپنے بھائیوں کو تکلیف دے کر صرف لفظ Sorryکہہ دیتے ہیں۔ اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ کیا ہر معاملہ میں یہ کہہ دینا کافی ہیں۔
نفس یہ کیا ظلم ہے ہر وقت تازہ جرم ہے۔
نا تواں کے سر پہ اتنا بوجھ بھاری واہ واہ
بہر حال یہ خبیث رسم پاکستان میں بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اس کو بہت کوریج دے رہا ہے۔ ہمارے کچھ بچوں کے والدین ایسے بھی ہیں جو خود بھی اس گناہ میں شامل ہو تے ہیں۔
بسنت ایک کھیل تماشا ہے۔ لہو واجب میں شامل ہے اور قرآن کو رو سے لہو واجب حرام ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد خداوندی ہے کہ: ”وَمِنَ الناس مَن یَشترَی لھَوَ الحَدِیثِ لیُضِلَّ مَن سبیل اللّٰہ بغیر عِلمٍ۔ ویتخذھا ھُزُوًا اولئک لہم عذاب مہین۔ ”۔
ترجمہ: اور کچھ لوگ کھیل کی بات خرید تے ہیں۔ کہ اللہ کی راہ سے بہکائیں بے سمجھے اور اسے بنا لیں ان کیلئے ذلت کا عذاب ہیں۔
بسنت کے موقع پر گانے گائے جاتے ہیں۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں۔ نغمہ کے وقت یا باجے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز۔ (اسی حدیث مبارکہ کو بزاز نے حضرت انس سے روایت کیا ہے )
اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارشاد فرمایا کہ گانے سے دل میں نفاق اگتا ہے جس طرح پانی سے کھیتی اگتی ہے۔(اس کو امام بہقی نے حضرت جا بر سے روایت کی ہے )
اس طرح کی کوئی احادیث مبارکہ ہیں مگر میں انہیں پر ہی اکتفا کروں گا۔
اس پر بہت سی حدیثیں دلالت کرتی ہیں۔ دو احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ ابو داؤد نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہتی ہیں میں گڑیاں کھیلا کرتی تھیں۔ کبھی رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم ایسے وقت تشریف لاتے کہ لڑکیاں میرے پاس ہوتیں جب حضور تشریف لاتے لڑکیاں چلی جاتیں اور جب حضور چلے جاتے لڑکیاں آ جاتیں۔(ابو داؤد شریف جلد دوم ص 675باب فی العب بالبنات)
2۔ صحیح بخاری شریف اور صحیح مسلم شریف میں ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی۔ اور میرے پاس چند دوسری لڑکیاں بھی کھیلتیں جب حضور تشریف لاتے تو وہ چھپ جاتیں۔ حضور ان کو میرے پاس بھیج دیتے۔ وہ میرے پاس آ کر کھیلنے لگتیں۔ (متفق علیہ)
یہ لڑکیوں کا کھیل ہے مگر آج کل وہ چھتوں پر چڑھ کر بسنت منانے میں مشغول ہوتی ہیں۔
بہر حال بسنت بالکل ناجائز ہے۔ ہنود و یہود کیلئے شمار تہوار ہیں۔ جن میں بیساکھی، ہولی اور بسنت وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بسنت کو وہ بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ ملک پاکستان حاصل کرتے وقت مسلمانوں نے نعرہ لگایا۔ کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اس وقت قائدین پاکستان نے فرمایا کہ ہم ایک ایسی اسلامی ریاست چاہتے ہیں جہاں پر مسلمان آزادانہ رب تعالیٰ کی عبادت و ریاضت کر سکیں۔ یہ نہیں کہا کہ جہاں ہم ہندوؤں سے آزادی حاصل کر کے ہندوؤں کے تہوار منائیں گے۔
معذرت سے ! غیر اسلامی رسم و رواج تہواروں کو بڑی بڑی سرکاری پارٹیوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اب کون ہے پوچھنے والا۔ ہر طرح تحفظ فراہم ہو گا۔ ہندو اپنے تہواروں کو منانے کیلئے جتنا اہتمام کرتے ہیں ہم ان سے اس مقابلہ میں سبقت لے گئے ہیں۔ کچھ شرفاء کے گھر اس خبیث رسومات سے بچتے رہتے ہیں مگر دوسرے ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ ایک طرف شرفاء ہیں تو دوسری طرف امراء۔ وہ جلدی جلدی بازار جاتے ہیں اور اپنی بھولی بھالی فیشن ایبل مغربی و ہنود و یہود کی تہذیب و ثقافت کی دلدادہ بچیوں کیلئے سامان تعیش خریدتے ہیں۔ قد آور پتنگیں کیمیکل ڈور وغیرہ خرید کر دیتے ہیں کہ بیٹا تم بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جانا۔
شیطان خوش ہوتا ہے کہتا ہے کہ دیکھو یہ ہیں میرے بھائی۔ فضول خرچی کرنے والے۔ اسراف و تبذیر کرنے والے میرے بھائی ہیں۔ یہ خدا کا فرمان ہے کہ فضول خرچی کرنے والے اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ مغربی تہذیب کی دلدادہ قوم کو اس پر کتنا فخر ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے بھائی بنیں۔ ہم ان کی پیروی کر رہے ہیں جو کہ ہمارے جانی دشمن ہیں۔ جن کے مظالم بیان کرتے قلم و زبان بھی کانپنے لگتے ہیں۔ جو اسلام کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ مساجد کو شہید کر رہے ہیں ہماری پیاری بہنوں کی عزتوں کو لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے پیارے بچوں کے والدین کو نیزوں کی نوک پر چڑھا رہے ہیں۔ جو ہماری پیاری ماؤں کے سہاگ لوٹ رہے ہیں۔ جنہوں نے ہماری بہنوں، بھائیوں کو اپنی جیلوں میں قید کر رکھا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے ؟یہ ہمارے پیارے مسلمان بھائیوں کی تکہ بوٹی کر رہے ہیں۔ جن کے مظالم کو دیکھ کر سب کانپ اٹھتے ہیں۔ جو عراق۔ کشمیر۔ بوسینیا۔ فلسطین وغیرہ میں پیاری وادیوں کو خون سے رنگین کر رہے ہیں۔ بہر حال مسلمانوں کا اپنے انہی دشمنوں کے تہواروں کو بڑے اہتمام کے ساتھ منانا انتہائی افسوسناک ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جانا رہا۔
نقصانات
اب میں اس ناپاک خبیث رسم کے چند نقصانات تحریر کروں گا:۔
(۱): ۔ اس خبیث رسم کی وجہ سے کتنے ہی گھروں میں صف ماتم بچھتی ہے۔
(۲): ۔ اس کی وجہ سے (کیمیکل ڈور سے ) برقی رو معطل ہو جاتی ہے تاریکی چھا جاتی ہے مگر اس رسم کے دلدادہ لڑکے، لڑکیاں، یوپی۔ ایس کے ذریعے اپنی اس شیطانی خواہش کو پورا کرتے ہیں۔
(۳): ۔ اس کی وجہ سے کتنوں کے گلے کٹتے ہیں کتنے زخمی ہوتے ہیں۔
(۴): ۔ بے ہودہ گانوں کی وجہ شرفاء کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔
(۵): ۔ شراب نوشی جیسا حرام فعل ہوتا ہے۔
(۶): ۔ پڑوسیوں کو بے جا تنگ کیا جاتا ہے۔
(۷): ۔ اس میں وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔
(۸): ۔ مال کا ضیاع ہوتا ہے۔ شیطان کے بھائی کا لقب ملتا ہے۔
(۹): ۔ نماز سے لاپرواہی ہوتی ہے۔
(۱۰): ۔ مردوں عورتوں کا عام غیر شرعی اختلاط ہوتا ہے۔
(۱۱): ۔ غیر شرعی رقص و سرود کی محافل ہوتی ہیں۔
(۱۲): ۔ کچھ جگہوں پر اسلامی بہنوں کی عزت لوٹی جاتی ہے۔
(۱۳): ۔ غیر شرعی لباس زیب تن کیا جاتا ہے۔ ہنود کی مشابہت اختیار کی جاتی ہے۔
(۱۴): ۔ حیاء و شرم جاتی رہتی ہے۔
(۱۵): ۔ لڑائی جھگڑے کی نوبت آتی ہے۔
(۱۶): ۔ دوسروں کو نیچا دکھانے کی ذہنیت فروغ پاتی ہے۔
(۱۷): ۔ لاقانونیت فروغ پاتی ہے۔ وغیرہم۔
انداز بیاں اگرچہ میرا شوخ نہیں۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
سعادت مند حکمران
وہ سعادت مند حکمران ہوتے ہیں جو برائی کو روکتے ہیں جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سچے پیکر بنتے ہیں اب یہ حکام بالا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس برائی کو روکنے کی مناسب منصوبہ بندی کریں۔ 12ربیع الاول جو عاشقان مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کیلئے بڑا خوشی و مسرت کا دن ہے۔ اس کا بھی سرکاری آرڈر مرحوم گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان نے دیا تھا۔ جس کے بعد اس کو سرکاری اس طرح پر بھی منایا جانے لگا۔
بہر حال ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا سچا مصداق بننا چاہئے اب علمائے کرام اور مفتیان عظام فتاویٰ جات ملاحظہ کریں کہ وہ بسنت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟
(۱): ۔ استاذ العلماء جناب حضرت علامہ مفتی اللہ بخش سیالوی صاحب آف راوی ریان لاہور
فرماتے ہیں کہ بسنت میں عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہوتا ہے۔ اس میں مال کا اسراف فضول خرچی ہوتی ہے۔ جان کے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا یہ ہر لحاظ سے ناجائز ہے۔ فضول خرچی کرنے والوں کو اخوان الشیاطین کہا گیا ہے۔
واللّٰہ اعلم بالصواب
مفتی اللہ بخش سیالوی
مدرس و مفتی جامعہ سیفیہ راوی ریان، لاہور
(2): ۔ جامع المعقول و المنقول، مصنف کتبِ شہیرہ شیخ الحدیث قبلہ استاذی و استاذالعلماء حضرت علامہ مولانا عبد الستار سعیدی صاحب دامت برکاتہم العالیہ۔
ناظم تعلیمات و شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور۔
بسنت میں فحاشی پائی جاتی ہے۔ عورتوں کا نا محرموں کے ساتھ میل جول ہوتا ہے اس میں سراسر مال اور وقت کا ضیاع ہے لہٰذا یہ سراسر ناجائز ہے۔
عبد الستار سعیدی۔
ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور و خطیب جامع مسجد مسلم بیرون اوہاری گیٹ لاہور
(3): ۔ حضرت علامہ مولانا مفتی تنویر القادری صاحب مفتی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
بسنت معروف اقوال کے مطابق ہندوؤں کا تہوار ہے اور اس میں بے حیائی و فحاشی پائی جاتی ہے لہذا یہ ناجائز ہے۔
مفتی تنویر القادری
دار الافتاء جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
(4): ۔ حضرت علامہ مولانا مفتی ضیاء الدین مدنی دامت برکاتہم العالیہ(انڈیا)
بسنت ہندوانہ تہوار ہے ہندو اس میں پوجا کرتے ہیں شریعت میں اس تہوار کی اجازت نہیں۔
مفتی ضیاء الدین مدنی(انڈیا)
(۵): ۔ عظیم محدث فیض احمد اویسی صاحب رحمہ اللہ
بسنت لہو لعب میں سے ہے اور لہو واجب حرام ہے۔ بسنت خونی کھیل ہے ہندوؤں کی رسم ہے۔ اس کا منانا حرام ہے۔
( ماخوذ: بسنت تہوار یا غضب کردگار)
(۶): ۔ استاذی و استاذالعلماء علامہ علی احمد سندیلوی صاحب رحمہ اللہ لاہور
جب میں نے آپ سے فتویٰ حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا تو آپ نے فرمایا ”کہ میرا وہی فتویٰ ہے جو آقائے دوجہاں کا ارشاد ہے کہ من تشبہ بقوم فھو منہم
(۷): ۔ اب اس ہستی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں کہ جس نے ایک ہزار سے زائد کتب رقم فرمائیں بریلی کے فتاویٰ رضویہ کی صورت میں ایک عظیم الشان انسائیکلو پیڈیا لکھ ہم پر بہت بڑا احسان کیا۔ میری مراد۔
بے تاج بادشاہ مجدد دین و ملت، امام العاشقین مدینہ، ماحی بدعت، حامی سنت، حضور اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمد رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ علیہ بانی جامعہ مظہر السلام بریلی شریف۔ آستانہ عالیہ بریلی شریف انڈیا۔
انڈیا امام اہلسنّت مجدد دین و ملت سید نا اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمد رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ کہ دوڑ لوٹنا حرام ہے۔
امام اہلسنّت نے رائج الوقت پتنگ بازی کا بغور شاہدہ فرمایا اور اس کا ہر زاویے سے تجزیہ کرنے کے بعد اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پر کھا اور اس سے جو نتیجہ نکلا اور اس کو ایک سوال کے جواب میں یوں عنایت فرمایا۔
1۔ کن کیا (پتنگ ) لہو لعب ہے اور لہو ناجائز ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ کل لہو المسلم حرام فی ثلث۔ ۔ ۔۔
ڈور لوٹنا نبھی ہے اور نبھی حرام ہے حدیث شریف میں ہے کہ:۔
نھیٰ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم عن النبھی۔ ترجمہ: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لوٹنے سے منع فرمایا ہے۔
ج: لوٹی ہوئی ڈور کا مالک اگر معلوم ہو تو فرض ہے کہ اسے دیدی جائے۔ (بغیر اجازت (استعمال حرام ہے ) کے اس کپڑا سیا تو اس کا پہننا حرام ہے اور اس کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہے۔ (احکام شریعت جلد اوّل ص 21)
لہٰذا علمائے کرام مفتیان عظام کا اس بات پر اکتفا ہے بسنت امر بالمعروف مانا بالکل ناجائز ہے۔ یہ ہندوانہ رسم ہے۔ جس کے روک تھام کیلئے کام کرنا چاہئے ہمیں و نہی عن المنکر کا حقیقی پیکر بننا چاہئے۔ ایسی رسم جس میں مال کا ضیاع ہے جال کے جانے کا خدشہ ہے جس وقت کا ضیاع ہے۔ فضول خرچی ہے۔ تو ایسی رسم سے خود بھی رکنا چاہئے اور دوسروں کو بھی اس بری رسم سے روکنا چاہئے۔
بسنت کی رسم میں پتنگ بازی کیلئے مؤلف دھا توں کی دوڑیں /تاریں استعمال ہوتی ہیں۔ (جن میں چند ایک یہ ہیں )۔ آج کے دور میں بڑی قد آور پتنگوں کو اڑانے کیلئے جو ڈور استعمال ہوتی ہے اس میں موٹے شیشے کا سفوف۔ ریما ٹپٹاپ، دھاتی برادہ۔ موٹا دھاگا، پلاسٹک جوڑنے والا کیمیکل، لوہا، ڈائمنڈ ڈسٹ اور فائر ایمبری شامل ہے۔ جو کئی چھوٹے برے حادثات کا سبب بنتی ہیں۔
ہمیں ایسی ثقافت، ایسے رسم و رواج کو فروغ دینا چاہئے، کہ جس سے معاشرے، کہ جس سے معاشرے میں اتحاد، یگانگت، بھائی چارہ، اخوت، الفت و محبت پروان چڑھے جو اسلامی قوانین اور ملکی قوانین کے مطابق ہو۔ جس لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کی بو تک نہ آئے۔ اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے۔ دوسروں کی زندگیوں کو اجیرن کرنے کا درس نہیں دیتا۔
پیکر امن و سلامتی داعی امن و سلامتی باعث تخلیق کون و مکان آقائے نامدار مدنی تاجدار مدینہ سرور قلب و سینہ راحت عاشقاں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ:۔
حدیث شریف: جس نے کسی کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا جس نے کسی ایک کو ہلاک کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو ہلاک کیا ( اوکما قال علیہ الصلوٰۃ والسلام )۔
آخر ہم اپنی جان اور دوسروں کی جان کے دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں ؟ ہم امن و سلامتی کا رستہ کیوں اختیار نہیں کرتے ؟ مسلمان اپس میں بھائی ہیں۔
حدیث شریف: ۔
المسلم اخوا المسلم۔
ترجمہ: مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
لہٰذا ہمیں بھائی چارے کو فروغ دینا چاہئے۔ تعصب قتل و غارت لڑائی جھگڑوں اور ان کا سبب بننے والے رسم و رواج ثقافت کا قلع قمع کرنا چاہئے۔ تا کہ مسلمان اتفاق و اتحاد کی فضا میں اپنی زندگیاں بسر کریں۔ اور دشمنان اسلام ان کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھ سکے۔
بسنت کی تباہ کاریاں
بہر حال اب مختصر طور پر ان واقعات اک ذکر کروں جن میں انسانی زندگی میں پتنگ بازی کی وجہ سے داؤ پر لگی۔ اس کی وجہ سے کتنوں کی جانیں داؤ پر لگیں۔ کتنے زخمی ہوئے۔ کتنوں کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ ایک طرف مسلمان برادری کو لہو لہان کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف ہم اپنے مسلمان بھائیوں کا خود خون کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ قتل ہو رہا ہے۔ ہمارے شہر خون سے سرخ ہو گئے ہیں آخر ہم کیوں اپنے ہی ہاتھ سے اپنے مسلمان بھائیوں کا کون کر رہے ہیں ؟ ہم اپنی طاقت کو کیوں داؤ پر لگا رہے ہیں ؟ خدا ہمیں سوچ و سمجھ عطا کرے اور ہمیں غیر شرعی رسومات سے بچنے کی توفیق دے ہمیں یہ سوچنے سمجھنے کی توفیق دے کہ مسلمان کا کون کتنا قیمتی ہے۔ آمین ثم آمین
واقعات
بہر حال ہم ایسے ہی چند واقعات پر مختصر سی نظر ڈالتے ہیں۔
1۔ پاکستان کا مشہور و معروف روزنامہ جنگ 28فروری2004ء میں لکھا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے ہم بہار کے موسم میں عجیب مناطر دیکھ رہے ہیں۔ یہ مناطر غم اور افسوس کے ہیں۔ اب اس موسم میں گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ ہسپتال زخمیوں سے بھر جاتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے گلے کٹنے لگتے ہیں۔ کتنے ہی بچے اور نوجوان بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے لٹک کر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ان لوگوں کا بھی کوئی شمار نہیں جو معذور ہو جاتے ہیں اور ان ماؤں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ جو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں کو موت کی گھاٹ اترتے دیکھتی ہیں بہار کے موسم میں یہ غم بسنت کے خونی تہوار نے دئے ہیں۔ اب تک ہزاروں بچے بسنت کے خونی تہوار کی نذر ہو چکے ہیں۔ لیکن بسنت کی عیاشی میں مبتلا لوگوں کی بہار کی خوشیاں پوری نہیں ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ بہار کے اس پہلو کو کوئی ہوش مند انسان پسند نہیں کرتا ؟ افسوس کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔ بہار کے اس خونی پہلو پر جان چھڑکنے والے کہتے ہیں کہ بسنت ایک خوبصورت تہوار ہے۔ یہ تفریح ہے۔
2۔ روزنامہ انقلاب لاہور 3مارچ2006کی لاہور اور گوجرانوالہ کے متعلق رپورٹ ملاحظہ فرمائیں۔
بسنت بخار نے مزید تین افراد کی جان لے لی۔ جب ڈور پھرتے، پتنگیں لوٹنے کی کوشش اور چھتوں سے گرنے کے باعث درجنوں نوجوان زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق چوہنگ میں محافظ ٹاؤن کے رہائشی محنت کش جاوید کا 7سالہ بیٹا حسن جو دوسری جماعت کا طالبعلم تھا پتنگ کی طرف لپکا اور چھت سے گر گیا اور بری طرح زخمی ہو گیا اور ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ جب لاش گھر پہنچی تو ماں پر غشی طاری ہو گئی۔ خیابان روڈ، گلے پر ڈور پھر نے سے مور سائیکل سوار شدید زخمی ہو گیا اور گوجرانوالہ میں پتنگ بازی کے دوران ہلاک ہونے والوں میں ٹھہری سانس کا رہائشی لڑکا عالم جو کو توالی میں بسنت منانے آیا تھا۔ گزشتہ روز چھت کے کنارے اپنا توازن بر قرار نہ رکھ سکا اور نیچے جا گرا۔
3۔ روزنامہ انقلاب مارچ2006ء میں یہ خبر شائع ہوئی کہ۔
نوشہرہ روڈ پر 15سالہ علی رضا پتنگ بازی کرتے ہوئے مکان کی چھت سے گرا اور موقع پر ہلاک ہو گیا۔
4۔ اسی طرح چند اخباری اطلاعات کے مطابق:۔
12فروری2006ء سے 5مارچ ۲۰۰۶ء تک پتنگ بازی کے ذریعے کرنٹ لگنے، ڈور پھرنے اور چھت سے گرنے کی وجہ سے 9افراد ہلاک ہوئے۔ جن بدنصیبوں میں 2معصوم بچے بھی شامل تھے۔
5۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے سابق صدر مسٹر اکرم چوہدری نے پتنگ بازی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہوئے نشاندہی فرمائی کہ 2000ء سے 2006ء تک 825افراد اس پتنگ بازی کی وجہ سے جان بحق ہوئے۔
اگر اس اوسط نکالی جائے تو تقریباً ہر سال ( 7سالوں میں ) 118افراد ہلاک ہوئے۔
6۔ روزنامہ نیا اخبار17مارچ 2008ء میں یہ افسوسناک خبر شائع ہوئی کہ۔
کامونکی میں پتنگ بازی کرتے ہوئے 9بچے چھت سے گرے اور شدید زخمی ہوئے جن کو بعد ہسپتال داخل کرا دیا۔
7۔ اسی طرح روزنامہ انقلاب 30مارچ2008ء میں یہ خبر شائع ہوئی کہ۔
گجر پورہ لاہور کا نوجوان (جس کا نام آصف تھا) موٹر سائیکل پر اپنی اہلیہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ تیز دھار ڈور اس کی گردن پر پھری خون میں لت پت ہو گیا۔ جس کو ہسپتال داخل کرایا گیا اور وہ وہاں پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ گھر والے بے حد افسردہ تھے۔
بہر حال یہ تو چند اخباری خبریں جن میں اس موت والے کھیل یعنی پتنگ بازی سے ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی نشاندہی کی گئی۔ مگر ایسے بھی تو ہوں گے کہ جن کے بارے میں اخبارات کچھ بتانے سے خاموش ہیں۔ آخر میرے مسلمان بھائیو ایک سوال کا جواب دیجئے کہ آخر آپ ایسے کھیل، ایسی تفریح ایسے رسم و رواج، ایسے تہوار کیوں مناتے ہیں کہ جن سے اپنی جان کو بھی خطرہ، معصوم بچوں کی جانوں کا خدشہ، راہ گذر افراد کی جان کو خطرہ وہ زخمی ہونے کا خدشہ ہو؟
ہمیں لہٰذا اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس برائی سے بچانا اور دوسروں کو بھی روکئے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ربانی ہے کہ۔
قُوا انفسکم واھلیکم نارا
کیونکہ اگر تم گستاخان رسول کی رسم مناؤ گے۔ تو قیامت میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم میں پھینکنے کا اشارہ ہو جائے کیونکہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث شریف ہے۔ کہ۔
فن تشبہ بقوم فھو منہم۔
کہ ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے ”۔
بہر حال ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پیکر بننا چاہئے کیونکہ اس کا حکم قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ ضمناً کچھ آیات و احادیث لکھے دیتا ہوں۔
1۔(پارہ نمبر4سورہ ال عمران آیت نمبر104)تم میں ایک امت ہونی چاہئے جو خیر کی طرف لائے نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔
2(پارہ 4ال عمران آیت نمبر110) تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے نکالی گئی ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔
لہٰذا قرآن کی ان دو آیات مقدسہ سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ثابت ہو گیا ہے۔ اب آئیے امام الانبیاء سرور کون و مکان حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مبارک احادیث کی طرف آتے ہیں کہ جن میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین کی گئی ہے۔
1۔ عن حذیفہ بن الیمان عن النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم قال والذی نفسی بیدہ لتامرن بالمعروف و تنہونن المنکر لیو شکن اللّٰہ من یبعث علیکم عذابا منہ قتد عونہ فلا یستجیب لکم (ترمذی شریف جلد دوم ص 39مطبوعہ فاروقی کتب خانہ لاہور)
حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ ضرور تم نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو۔ یقیناً قریب ہے کہ اللہ تحریر اپنی طرف سے عذاب بھیجے۔ تو پھر تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو گے لیکن تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔
2۔ اسی طرح برائی کو ہاتھ سے یا زبان سے یا دل سے برا جاننے کے بارے میں۔
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ ومن لم یستطع فبلسانہ وفمن لم یستطیع فبقلبہ ذالک اضعف الایمان۔
تم میں سے جو بھی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ ہاتھ سے روکے، اگر استطاعت نہ رکھے تو زبان سے روکے اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔ (ترمذی شریف جلد دوم ص 40مطبوعہ فاروقی کتب خانہ لاہور)
اسی طرح امام شرف الدین بوصیری اپنے شہرہ آفاق قصیدہ بردہ شریف میں ارشا فرماتے ہیں۔
پس ان احادیث سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ثابت ہے۔ احادیث کافی ہیں مگر اس دو پر بھی اکتفا کیا ہے کہ مضمون کے طویل ہونے کا خدشہ ہے اور طوالت سے بیزاری آ جاتی ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی کو فروغ دیں اور برائی کا قلع قمع کرتے ہوئے برے رسم و رواج ثقافت، تہواروں کا ختم کریں۔ تاکہ قیامت والے دن ہم کامیاب لوگوں میں شامل ہوں اور سرور دوجہاں۔ امام الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ خدا ہمیں برائی سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین
٭٭٭
امام اعظم ابو حنیفہ اور فقہی بصیرت
نام
نعمان بن ثابت، کنیت: ۔ ابو حنیفہ، لقب: ۔ امام اعظم
ولادت
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 80 ہجری کو کوفہ میں ہوئی۔
حضور ﷺ کی بشارت
جس دور میں امام اعظم پروان چڑھے علم زیادہ تر موالی میں پایا جاتا تھا وہ نسبی فخر سے محروم تھے خدا نے انھیں علم کا فخر عطاء کیا تھا جو سب کے مقابلے میں زیادہ مقدس اور زیادہ پھیلنے پھولنے والا زیادہ پائیدار نام زندہ رکھنے والا تھا رحمت عالمؐ کی یہ پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی کہ اولاد فارس علم کی حامل ہو گی امام بخاری و مسلم و شیرازی و طبرانی کے الفاظ یہ ہیں۔
لو کان العلم معلقاعند الثریا تناولہ رجال من ابناء الفارس
اگر علم کہکشاں تک بھی پہنچ جائے تو اہل فارس کے کچھ لوگ اسے حاصل کر کے رہیں گے۔
تحصیل علم کی طرف توجہ اور تعلیم و تربیت
امام اعظم کی آنکھ کھلی تو انہوں نے مذاہب و ادیان کی دنیا دیکھی غور و فکر کرنے سے ان سب کی حقیقت آپ پر آشکارا ہو گئی آغاز شباب سے ہی آپ نے مناظرہ بازوں سے معرکہ آرائی شروع کر دیساور اپنی فطرت مستقیم کے حسب ہدایت اہل بدعت و ضلالت کے مقابلے میں اتر آئے مگر اس کے باوجود آپ تجارتی مشاغل میں منہمک تھے اور علماء سے واجبی روابط رکھتے تھے اور بعض علماء نے آپ میں عقل و علم و ذکاوت کے آثار دیکھے اور چاہا کہ یہ بہترین صلاحیتیں تجارت کی ہی نظر نہ ہو جائیں انہوں نے آپ کو نصیحت کی کہ بازاروں میں آمدورفت کے علاوہ علماء کی طرف عنان توجہ ہونی چاہیے امام صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک بار شعبی کے ہاں سے گذرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کا آنا جانا کہاں ہے تو انہوں نے عرض کی میں بازار آتا ہوں آپ نے فرمایا کہ میری مراد بازار نہیں بلکہ علماء کے ہاں آنے جانے سے ہے میں نے کہا کہ میری آمدو رفت علماء کے ہاں بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ غفلت نہ کیجیے علم کا درس اور مطالعہ اور علماء کی صحبت آپ کیلئے بہت ضروری ہے کیونکہ میں آپ میں حرکت و بیداری کے آثار دیکھتا ہوں میرے دل میں بات اتر گئی اور میں نے بازار کی آمد و رفت چھوڑ کر علم حاصل کرنا شروع کر دیا اللہ تعالیٰ نے ان کی بات سے مجھے فائدہ پہنچایا۔ علم و کلام جدل و مناظرہ میں کامل مہارت حاصل کرنے کے بعد علم فقہ آپ کی جولان گاہ اور فکر و نظر بنا۔ آپ کوفہ میں پروان چڑھے اور وہیں رہ کر زندگی کا بیشتر حصہ تعلیم و تعلم اور مناظرہ میں گزارا۔ کتب تواریخ میں آپ کے والد کے بارے میں کچھ اشارات ضرور ملتے ہیں کہ وہ متمول تاجر اور بہت اچھے مسلمان تھے اکثر سیرت نگاروں نے کھا ہے کہ آپ کے دادا کی حضرت علی کرم اللہ وجہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ثابت کی اولاد کیلیے دعا کی امام اعظم کی تربیت ایک خاص اسلامی گھرانے میں ہوئی۔
امام اعظم اور حماد بن سلیمان رضی اللہ عنہم
آغاز فقہ اور حضرت حماد کے حلقہ تلمذ میں آنے کے وقت آپ کی عمر کا صحیح صحیح تعین تو مشکل ہے البتہ امام صاحب کے آغاز تعلیم و تدریس سے یہ اندا زہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ امام حماد کی زندگی کے آخری لمحے تک ان کے دامن سے وابستہ رہیَ
آپ کے اساتذہ
امام ابو حفص کبریٰ نے آپ کے اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے اوردوسروں نے آپ کے استذہ کی تعداد صرف تابعین رضی اللہ عنہم میں چار ہزار بتائی ہے تو غیر تابعین کی تعداد کا کون خیال کر سکتا ہے آپ کے مشہور اساتذہ: ۔ حضرت امام حماد، امام زید ابن علی زین العابدین، حضرت امام جعفر صادق، حضرت عبداللہ ابن حسن بن حسن بن علی، امام شعبی، عکرمہ تلمیذ ابن عباس، نافع تلمیذ ابن عمر
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ملاقات
امام اعظم نے پانچ یا آٹھ صحابہ کرام سے ملاقات کی جن میں چند کے نام یہ ہیں حضرت سیدنا انس بن مالک، حضرت عبداللہ ابن ادفی، حضرت سہل بن سعد، حضرت سیدنا ابو طفیل، حضرت عامر بن واصلہ رضی اللہ عنہم۔ حضرات محدثین کے نزدیک جو شخص صحابی سے ملاقات کرے اگرچہ ساتھ نہ رہے وہ تابعی کہلاتا ہے۔ اور اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ امام اعظم ان معززین تابعین میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ
والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ واعد لہم جنت تجری تحتھا النھار خلدین فیھا ابدا
اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
امام اعظم اور امام باقر کا مکالمہ
محمد باقر بن زین العابدین زید ابن علی کے بھائی تھے امام باقر بہت بڑے عالم دین تھے امام ابو حنیفہ کی ان سے ملاقات اسوقت ہوئی جب ان کی فقہ و رائے کا نیا نیا چرچا ہوا تھا/
ملاقات کا یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں پیش آیا امام باقر نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا آپ نے تو میرے نانا کے دین کو اور ان کی حدیث کو قیاس سے بدل دیا ہے امام اعظم نے کہا معاذاللہ جناب باقر بولے آپ نے ایسا ہی کیا ہے امام اعظم بولے آپ تشریف رکھئے تا کہ میں بھی مؤدب ہو کر بیٹھ جاؤں کیونکہ میری نظر میں آپ اسی طرح لائق احترام ہیں جیسے آپ کے نانا صحابہ کی نظر میں۔ جناب باقر تشریف فرما ہوئے امام اعظم بھی زانوئے ادب طے کر کے آپ کے سامنے بیٹھ گئے امام اعظم بولے میں آپ سے تین باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں ان کا جواب مرحمت فرمائیں۔
سوال نمبر 1: ۔مرد کمزور ہوتا ہے یا عورت؟امام باقر بولے عورت۔ پھر امام اعظم بولے وراثت میں عورت کیا حصہ ملتا ہے آپ نے فرمایا مرد کو دو اور عورت کو ایک۔ امام اعظم بولے یہ آپ کے نانا کا فرمان ہے اگر میں ان کے دین کو بدل دیتا تو قیاس کے مطابق مرد کو ایک حصہ دیتا اور عورت کو دو کیونکہ عورت کمزور ہوتی ہے۔
سوال نمبر 2: ۔فرمائے نماز بہتر ہے یا کہ روزہ؟امام باقر بولے نماز۔ امام اعظم بولے یہ آپ کے نانا کا فرمان ہے اگر میں اس کو قیاس سے بدل دیتا تو تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ حیض سے پاک ہو کر روزہ کی بجائے وہ فوت شدہ نمازیں ادا کرے۔
سوال نمبر 3: ۔فرمائیے پیشاب زیادہ نجس ہے یا کہ نطفہ؟ امام باقر بولے پیشاب۔ امام اعظم بولے اگر میں قیاس کو ترجیح دیتا تو فتویٰ دیتا کہ پیشاب سے غسل کرے اور نطفہ سے وضو معاذاللہ بھلا میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں۔
جناب باقر اٹھے اور اٹھ کر بغل گیر ہو گئے چہرہ کا بوسہ لیا اور آپ کی تکریم بجا لائے۔
امام اعظم کے تدریس و افتاء کی ابتدا
جب کوفہ کے رئیس العلماء اور آپ کے استاد گرامی حضرت حماد کا وصال ہو گیا اور مسند تدریس خالی ہو گئی تو لوگوں کو ضرورت کا احساس ہوا کہ آپ کی جگہ کوئی رونق افروز ہو کر تشنگان علم کو سیراب کرے تو لوگوں نے پہلے حضرت حماد کے صاحبزادے کو بٹھایا لیکن آنے جانے والوں کو تشفی نہ ہوئی کیونکہ زیادہ تر ان کی توجہ فن نحو و علم کلام پر مرکوز تھی پھر موسیٰ بن کثیر بیٹھے لیکن وہ بڑے بڑوں کو ملا کرتے تھے اس لئے لوگوں نے ان کو پسند نہ کیا اس کے بعد باتفاق رائے امام اعظم منتخب ہوئے آپ نے بھی سب کی بات تسلیم کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ علم مر جائے پھر تشنگان علم آپ کے پاس جوق در جوق حاضر ہونے لگے اور آپ کا وسیع ترین علم و حسن اخلاق اور تحمل دیکھ کر لوگوں نے اوروں کو چھوڑ دیا اور وہ سب انہی کے ہو گئے بقول(ایک جاگیر محکم گیر) پھر وہ ترقی کرتے کرتے علوم دینیہ کے ملازم ہوئے یہاں تک کہ آپ کا حلقہ درس تمام درس گاہوں سے وسیع ہو گیا۔ اور لوگوں کے قلوب آپ کی طرف مائل ہو گئے اور امراء آپ کی تعظیم و تکریم کرتے خلفاء ان کو یاد کرتے اس لئے کہ جو مسند تدریس امام حماد کی وفات کے بعد سونی ہو گئی تھی اس کو ہمارے امام اعظم نے زینت بخشی اور یہ ایک تاریخی مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حماد کا انتقال ۱۲۵ھ میں ہوا اور آپ پورے اٹھارہ سال امام حماد کی صحبت میں رہے اس طرح کل تلمذ کی مدت اٹھارہ سال بنتی ہے امام حماد کی وفات کے بعد آپ چالیس سال کے تھے آغاز شاگردی میں ۲۲ سال کے ہوں گے اور چالیس سال تک اخذ واستفادہ کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کے بعد باستقلال مسند تدریس پر فائز ہوئے۔
بنائے مذہب حنفی
تاریخ بغداد جلد نمبر ۱۳ص ۳۶۸میں امام صاحب سے منقول ہے کہ میں کتاب اللہ سے سند لیتا ہوں اور اگر اس میں کوئی مسئلہ نہ ملے تو حدیث رسولؐ سے اور اگر قرآن سنت دونوں سے نہ ملے تو اقوال صحابہ سے اخذ کرتا ہوں متعدد مقامات پر آپ کے اقوال مروی ہیں۔
مطالعہ کے بعد پیہ چلتا ہے کہ امام اعظم کی رائے میں فقہی دلائل سات ہیں کتاب اللہ، سنت رسولؐ، اقوال صحابہ، اجماع امت، قیاس، استحسان، عرف۔ حضرت فضیل بن عیاض، ابن مبارک، مزنی اور ابن حزم نے کہا ہے کہ امام اعظم کتاب اللہ، سنت رسولؐ، اقوال صحابہ اور اجماع امت سے مسئلہ اخذ کرتے اگر ان میں سے نہ ملتے تو قیاس کرتے اور ان کے قیاس دقیق ہوا کرتے اور یہی وجہ ہے کہ امام مزنی کے بھانجے علامہ طحاوی مذہب شافعی چھوڑ کر حنفی ہو گئے۔
آئمہ کرام کے ارشادات
علماء فرماتے ہیں کہ جو مسائل امام اعظم سے حل نہ ہو سکے قیامت تک مضطرب رہیں گے۔
امام ابو یوسف بعض مسائل میں پریشان ہو کر فرماتے جہاں ہمارے استاذ کا کوئی قول نہیں ہمارا بھی یہی حال ہے۔
عن ابی یوسف انہ کان یضطرب فی بعض المسائل وکان یقول فی کل مسئلۃ لیس لشیخنا فیھا قول فتحنا ھکذا
امام عرف باللہ سیدی عبدالوھاب شعرانی قدس سرہ میزان الشریعۃ الکبریٰ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
سمعت علیا الخواص رضی اللہ عنہ یقول مدارک الامام ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ دقیقۃلایکاد یطلع علیھا الا اہل الکشف من کبار الاولیاء
میں نے اپنے سردار حضرت علی خواص کو فرماتے سناکہ امام ابو حنیفہ کے مدارک باریک ہیں قریب ہے کہ ان پر مطلع نہ ہوں مگر اکابر اولیاء اہل مشاہدہ
استاذا لمحدثین امام اعمش شاگرد حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ امام اعظم سے فرماتے ہیں کہ گروہ فقہا تم طبیب ہو اور ہم محدثین عطار ہیں اور امام اعظم ابو حنیفہ تم نے دونوں کنارے لیئے ہیں۔
امام سفیان ثوری کا ارشاد ہے کہ آپ پر وہ علم کھلتا ہے کہ جس سے ہم غافل ہیں۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ تمام جہان میں کسی کی عقل ابو حنیفہ جیسی نہیں۔
امام عاصم بن عاصم نے کہا کہ امام اعظم ابو حنیفہ کی عقل اگر تمام روئے زمین پر بسنے نصف لوگوں کی عقل کے ساتھ تولی جائے تو امام اعظم ابو حنیفہ کی عقل غالب آ جائے گی۔
امام بکر بن حبش فرماتے ہیں کہ اگر ان کی عقل کو تمام اہل زمانہ کی مجموع عقلوں کے ساتھ وزن کیا جائے تو ایک ابو حنیفہ کی عقل آئمہ و اکابر و مجتہدین و محدثین و عارفین سب کی عقل پر غالب آ جائے گی
خطیب نے امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ امام مالک سے پوچھا گیا کہ آپ نے ابو حنیفہ کو کیسا پایا فرمایا کہ اگر اس ستون کو سونے کا کہتے تو اس کو اپنے دلائل سے سونے کا ثابت کر دیتے۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ جو شخص چاہے کہ فقہ میں کمال حاصل کرے وہ ابو حنیفہ کا عیال بنے۔
امام اوزاعی نے ابن مبارک سے فرمایا امام صاحب کی کثرت علم اور کمال عقل پر غبطہ (رشک) کرتا ہوں۔
امام احمد فرماتے ہیں کہ امام صاحب اہل ورع صاحب زہد و ایثار ہیں ان کے رتبہ کو کوئی نہیں پہنچ سکتا
مکی ابن ابراہیم کہتے ہیں کہ امام اعظم اعلم اہل زمانہ تھے فقہا میں امام ابو حنیفہ چکی کے قطب کی مانند ہیں یا ان کی مثل اس نقاد سیے جو سونے کو پرکھتا ہے۔
تحصیل حدیث
حضرت امام اعظم نے زیادہ تر احادیث اجلہ تابعین سے لی ہیں ان تابعین سے احادیث لیں جو مدت تک صحابہ کی صحبت میں رہے اور جو تقویٰ ورع علم و فضل میں اعلیٰ درجے پر فائز تھے کوفہ جو اس وقت مرکز حدیث تھا امام صاحب نے حدیث کی تحصیل کی ابتداء وہیں سے کی
کوفہ کا کوئی ایسا محدث نہ تھا کہ جس سے آپ نے حدیث کی تحصیل نہ کی ہو کوفہ کے ۹۳ محدثین سے احادیث اخذ کیں جن میں اکثر تابعی تھے اس کے علاوہ بصرہ کے تمام محدثین سے احادیث اخذ کیں یہ وہ شہر ہے کہ جس حضرت عمر فاروق نے بسایا تھا اور یہ شہر انس بن مالک کی وجہ سے مرکز حدیث بن گیا امام صاحب نے ان دونوں مراکز سے ہزاروں احادیث حاصل کیں۔
تصانیف امام اعظم
فقہ الاکبر، العالم و المتعلم، کتاب السیر، کتاب الاوسط، الفقہ الابسط، کتاب علیٰ رد القدریہ، رسالۃ الامام ابی عثمان الیتیمی فی الارجائ، کتابالرائے، کتاب اختلاف صحابہ، کتاب الجامع وغیرہم
لباس
آپ کے صاحبزادے حضرت حماد نے فرمایا آپ جامہ زیب تھے خوشبو بہت لگاتے تھے قبل اس کے کہ لوگ آپ کو دیکھیں آپ کو خوشبو کی وجہ سے پہچان لیتے تھے امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ آپ اپنے جوتے کے تسمے کا بھی بہت خیال رکھا کرتے تھے کبھی بھی نہ دیکھا گیا کہ آپ کے جوتے کا تسمہ ٹوٹا ہوا ہو آپ لمبی ٹوپی سیاہ رنگ کی پہنتے تھے آپ کی چادر اور پیرہن کی قیمت تقریباً ۴۰۰ درہم لگائی گئی ہے آپ کا جبہ فنک سنجاب ثعلب تھا جس کو پہن کر آپ نماز پڑھتے تھے اور خط دار چادر تھی اورسات ٹوپیاں تھیں جن میں سے ایک سیاہ رنگ کی تھی
وفات امام اعظم
بنی امیہ کے خاتم کے بعد سفاح اور پھر منصور نے اپنی حکومت جمانے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی ہیبت بٹھانے کیلئے وہ مظالم کیے جو تاریخ کے خونی اوراق میں سرفہرست ہیں اور جس میں امام اعظم کو بھی قید کیا گیا اور قید بھی آپ کی عظمت اور اثر کو کم نہ کر سکی بلکہ آپ کی عظمت اور بڑھ گئی اور لوگ جیل خانہ میں جا کر ان سے فیض حاصل کرتے امام محمد آخری وقت تک آپ سے تعلیم حاصل کرتے رہی جب حضرت امام اعظم کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو خالق بے نیاز کی بارگاہ میں سجدہ کیا اور سجدہ میں ہی آپ کی روح پرواز کر گئی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
بعد وصال غیبی آوازیں
صدقہ مغابری سے منقول ہے کہ جب لوگ امام اعظم کو دفن کر چکے تو تین رات ندائے غیبی سنی گئی کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ
ذھب الفقہ فلا فقہ لکم فاتقواللہ وکونوا خلفا
مات نعمان فمن ھذالذی یحیی اللیل اذا ما سجفا
فقیہ جاتا رہا اب تمھارے لیئے فقہ نہیں ہے تو اللہ سے ڈرو اور ان کے خلف بنو
امام ابو حنیفہ انتقال کر گئے تو کون ہے اس رتبہ کا جو شب کو عبادت کرتا ہو جب رات تاریک ہو جائے۔
اللہم اغفر لقارۂ ولکاتبہ ولسامعہ ولحافظہ و جمیع المومنین و المؤمنات و المسلمین و المسلمات
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید