FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

مطالعے کا سفر

 

 

 

 

سلیم انصاری

 

 

 

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

کتاب کا نام:  مطالعے کا سفر

مصنف و ناشر:  سلیم انصاری

ansarisaleem320@gmail.com

پتہ : ایچ آئی جیَ 3 آنند نگر اَدھار تال، جبل پور ایم پی 482004

موبائل نمبر : 07070135643/ 07354308999

 

 

 

انتساب

اپنی بیٹیوں

نبیل، تمثیل

داماد

بشیر

اور نواسی

انوشہ

کے نام

 

 

 

کچھ اپنے بارے میں

 

سلیم انصاری

 

میرا تعلق ۱۹۸۰ء کے بعد کی ادبی نسل سے ہے، جسے بعض ناقدینِ شعر و ادب نے مابعد جدید نسل سے موسوم کیا ہے اور میرا ایسا ماننا ہے کہ اس نسل نے اپنی پیش رو نسل سے الگ اپنے تخلیقی سفر کا آغاز اپنے شعور و ادراک اور تجربات و محسوسات کی روشنی میں کیا ہے۔ میں بنیادی طور پر شاعر ہوں اور غزل و نظم ہر دو اصناف میں طبع آزمائی کرتا ہوں۔ غزلوں اور نظموں پر مشتمل میری شاعری کا اولین مجموعہ ’’فصلِ آگہی‘‘ ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا تھا جسے سنجیدہ ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی جس سے میرے تخلیقی کاموں کو تقویت ملی تھی۔ میرے ادبی دوستوں کے مسلسل اصرار اور میری خواہش اور کوشش کے باوجود اب تک میری شاعری کا دوسرا مجموعہ منظرِ عام پر نہیں آ سکا ہے، جس سے میری سست تخلیقی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے حالانکہ اب امید ہے کہ اس کتاب کے فوراً بعد ہی میری شاعری کی دوسری کتاب شائع ہو سکے گی۔

میری کتاب ’’مطالعے کا سفر‘‘ میرے ان مضامین کا انتخاب ہے جو وقتاً فوقتاً تحریر کئے گئے ہیں اور رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوئے ہیں حالانکہ ان میں سے کئی مضامین اب تک رسائل و جرائد میں اشاعت سے محروم ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مضامین میں نے اپنے ہم عصر تخلیق کاروں کی نگارشات پر تحریر کئے ہیں جو میرے ترجیحی مطالعے کا نتیجہ ہیں اور مجھے یہ خوشی بھی ہے کہ یہ مضامین نہ تو ضرورتاً لکھے گئے ہیں اور نہ ہی کسی فرمائش اور سفارش پر بلکہ اپنے ذہن و ضمیر کی روشنی میں کسی بھی ذہنی تحفظ کے بغیر لکھے گئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کتاب میں شامل میرے مضامین مروجہ تنقیدی اصول و ضوابط کی کسوٹی پر کس قدر کھرے اترتے ہیں مگر یہ اطمینان ضرور ہے کہ میں نے ان مضامین میں کتابوں کے حقیقی مطالعے کے بعد ہی اپنے تاثرات اور رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

میں بنیادی طور پر خود کو شاعر ہی مانتا ہوں اور شاعر کی حیثیت سے ہی اپنی شناخت بھی رکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ خوش گمانی کبھی نہیں رہی کہ مجھ میں کوئی ناقد بھی پوشیدہ ہے۔ مگر میری نثر نگاری کے پیچھے یہ بات ضرور ہے کہ میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا ہوں کہ ہر ادبی نسل کو اپنا ناقد خود پیدا کرنا چاہیے، اس لحاظ سے میں شروع سے ہی اپنی ادبی نسل کی تخلیقی سمت و رفتار کا مطالعہ کرنے میں ایک طرح کی طمانیت محسوس کرتا رہا اور ان پر اپنے تاثرات اور ردِ عمل کا بھی ظاہر کرتا رہا۔

میری اس کتاب میں کئی مضامین ۱۹۸۰ء کے بعد ایوانِ ادب میں اپنی موجودگی نمایاں طور پر درج کرانے والے تخلیق کاروں کے حوالے سے ہیں، ان میں سے غضنفر، خالد جمال، کبیر اجمل، عطا عابدی، شہناز نبی اور جاوید ندیم وغیرہ اہم ہیں، جن پر لکھ کر میں نے اپنی نسل کے تئیں اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، اس کے علاوہ ’’مابعد جدید نظم۔ ایک ناتمام جائزہ‘‘ اور ’’۱۹۸۰ء کے بعد کی شاعری کے تخلیقی خد و خال‘‘ کے عنوان سے بھی دو مضامین شامل ہیں جن کے مطالعے سے مابعد جدید نسل کے کچھ اہم شعراء کی غزلوں اور نظموں کی سمت و رفتار اور امکانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقبال اور غالب کے حوالے سے بھی دو مضامین اس کتاب کا حصہ ہیں، حالانکہ اب ان آفاقی شاعروں پر لکھنے کے لئے کچھ خاص نہیں رہ گیا ہے مگر میں نے اپنے طور پر کچھ نئے زاویے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو یقینی طور پر نئی نسل کے قارئین کے لئے دلچسپی کا سبب ہوں گے۔

اردو کی نئی صدی میں ادھر کچھ عمدہ ناول بھی تخلیق کئے گئے ہیں اور بعض ناقدین اور ناول نگاروں کے نزدیک رواں صدی ناول کی صدی ہے، میں نے بھی اپنے ترجیحی مطالعے کی بنیاد پر ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ (نور الحسنین)، ’’گرداب‘‘ (شموئل احمد) اور ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ (مشرف عالم ذوقی) کے ناولوں پر اپنے تاثرات اور ردِ عمل کو مضامین کی شکل میں رقم کرنے کی کوشش کی ہے، جو فکشن کے قارئین کے لئے توجہ طلب ہیں۔ ستیہ پال آنند اور کرشن کمار طور کی شاعری پر میں نے مضامین نہایت عقیدت سے لکھے ہیں کہ یہ دونوں بزرگ ہماری پیش رو نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور کرشن کمار طور کے یہاں عشق کا تصور اور اس کی تہذیب کی پاکیزگی منفرد اور قلندرانہ ہے، جب کہ ستیہ پال کی نظموں میں غزل سے انحراف کا رویہ کار فرما ہے۔

آخر میں اپنے ان تمام دوستوں اور کرم فرماؤں کا شکر گزار ہوں جن کے اصرار اور تقاضوں کے سبب ہی اس کتاب کی اشاعت کی یہ صورت نکل سکی ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ میں نہ تو کل وقتی تخلیق کار ہوں اور نہ ہی کل وقتی نثر نگار۔ میں سائنس اور انجینئرنگ کا طالب علم رہا ہوں۔ جبل پور انجینئرنگ کالج سے ۱۹۸۴ء میں سول انجینیئرنگ (civil engineering) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد فی الحال مرکزی محکمۂ دفاع میں اکزیکیوٹو انجینئر(executive engineer) کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہوں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہر دو تین برس کے بعد پورے ہندوستان میں تبادلوں کی صعوبتوں اور خانہ بدوشی کے باوجود میں نے اپنے اندر کے تخلیق کار اور نثر نگار کو بساط بھر بچانے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ میرا تبادلہ ناگالینڈ، آسام اور بنگال کے ان علاقوں میں بھی ہوا جہاں دور دور تک اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے تو کجا، اردو بولنے والے بھی نہیں ملے۔ ایسے ماحول میں اپنے اندر کی تخلیقی آگ اور ادبی ذوق کو بچائے رکھنا میرے لئے کسی کمال سے کم نہیں۔ نا مناسب ہو گا اگر میں اپنے چھوٹے بھائی کی طرح دوست ساحر داؤد نگری کا شکریہ ادا نہ کروں جس نے ’’مطالعے کا سفر‘‘ کی اشاعت اور طباعت کے مختلف مراحل کو عبور کرنے میں میری پوری مدد کی ہے۔

اپنے دوست اور فکشن نگار ڈاکٹر محمد افسر خاں کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کی پروف ریڈنگ میں میری خاطر خواہ معاونت فرمائی۔

٭٭٭

 

 

 

اقبال کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر

 

اقبال عظیم اور آفاقی شاعر ہیں، ان کے فکر و فن اور شخصیت پر ہر زاویہ سے لکھا  جا چکا، اور مسلسل لکھا جا رہا ہے اورمستقبل میں بھی ان کی شاعری پر بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا۔ بعض ناقدین شعر و ادب کا خیال ہے کہ اقبال کے فکر و فن پر اتنا کچھ لکھا  جا چکا ہے کہ اب مزید کچھ لکھنے کی گنجائش نہیں اور نہ ہی ان کی شاعری میں کسی نئے گوشے کی دریافت ممکن ہے۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے مگر میرے نزدیک اقبال کی شاعری کبھی حل نہ ہونے والے ایک ایسے سوال کی طرح ہے جسے ہر مزاج اور مکتبۂ فکر کے لوگ اپنے اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

اقبال کبھی فلسفی ہیں، کبھی اسلامی مفکر اور دانشور نظر آتے ہیں، تو کبھی فطرت نگار، محبّ وطن اور نباض قوم دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی علامہ اقبال میں وہ تمام خصوصیات ہیں جو ایک آفاقی اور عظیم شاعر میں ہونی چاہئیں۔ علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن میں ایسی وسعت، گہرائی، تہ داری، انفرادیت اور آفاقیت ہے کہ ہر مزاج و مذاق کا انسان انہیں اپنے زاویۂ نگاہ سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتا ہے اور اپنے طور پر اقبال کی تفہیم میں دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری اور ان کے فلسفہ پر لکھتے رہنے کا ایک طویل سلسلہ مسلسل جاری ہے۔

چونکہ اقبال ایک عظیم شاعر، مفکر اور فلسفی ہیں، لہٰذا ان کے یہاں کئی سطحوں پر thought کا ایک پراسیس (process) مسلسل جاری رہتا ہے، جو کبھی انہیں مفکرِ اسلام بنا دیتا ہے، اور کبھی مصلحِ قوم اور سیاسی رہنما۔ اقبال کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ انہیں نظریۂ پاکستان کا بانی قرار دیا گیا اور چونکہ پاکستان کا قیام مذہب کے نام پر ہوا لہٰذا اقبال کی شاعری کے اس سرمایہ کو شعوری طور پر زیادہ شہرت دی گئی، جس کا تعلق اسلامی تہذیب و تمدن اور مذہبی فلسفے سے ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ اقبال سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں نے انہیں ایک خاص فرقے اور مذہب کا شاعر بنانے کی شعوری کوشش کی جس کے نتیجے میں اقبال کی شعری، فنی، فکری، تخلیقی عظمت اور آفاقیت، مفکرِ اسلام اور شاعرِ مشرق جیسے خطابات کے پیچھے چھپ گئی اس کے علاوہ ان کی شاعری کا وہ حصہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گیا جو جذبۂ حب الوطنی، انسان دوستی، ہندو مسلم اتحاد، امن و محبت اور بھائی چارگی سے عبارت ہے۔ بقول پروفیسر سلیمان اطہر جاوید

’’اقبال سچے ہندوستانی ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں، اپنی آفاقیت، بین قومیت اور گہری مذہبیت کے باوجود وہ ہندوستان کی فلاح و بہبود اور اس کی مسرت و خوش حالی کے دل سے خواہاں اور ممکنہ حد تک کوشاں رہے۔ اقبال کا کلام ہندوستانیت سے بھرپور ہے، آپ ان کے کسی بھی مجموعۂ کلام کا مطالعہ کریں، ہندوستانہت کم یا زیادہ ملے گی ہی‘‘

اقبال کی شاعری کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں پہلے دور کی شاعری (یعنی ۱۹۰۵ء تک) میں حب الوطنی کے جذبات سے بھرپور شاعری نسبتاً زیادہ ہے، جس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اقبال نے جس عہد میں ہوش سنبھالاوہ ہندوستان کی غلامی کا زمانہ تھا اور اقبال غلامی کو، چاہے وہ کسی بھی نوعیت کی ہو، شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اقبال آزادی کے حامی تھے اور ہر قیمت پر ہندوستان کی آزادی کے خواہاں تھے۔ اقبال کے مطابق آزاد انسان ردِ عمل کے نئے چراغ روشن کر سکتا ہے، صحت مند اور صالح فکر کی آزادی سے، انسان کو بہتر انسان بنایا جا سکتا ہے، جب کہ خام آزادیِ فکر انسان کو حیوان بنا سکتی ہے۔

 

ہو بندہ آزاد اگر صاحب الہام

ہے اس کی نگہ فکر و عمل کے لئے مہمیز

 

آزادیِ افکار سے ہے ان کو تباہی

رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

 

ہو فکر اگر خام تو آزادیِ افکار

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

 

علامہ اقبال کی شاعری کثیر الجہت ہے، ان کے افکار و نظریات، کارزارِ حیات و کائنات کی متعدد دشاؤں میں منعکس ہوتے ہیں، ان کے یہاں ادب برائے زندگی کا نہیں بلکہ ادب برائے تعمیرِ زندگی کا تصور کارفرما نظر آتا ہے اور ان کا یہ تصور ان کی شاعری میں جا بہ جا محسوس کیا جا سکتا ہے، ان کی شاعری میں افادیت اور مقصدیت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

 

خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری

وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے

 

مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ

کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ

 

مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو

کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی

 

اقبال کے یہاں فارم سے زیادہ فکر اہم ہے، وہ نہیں چاہتے کہ ان کے یہاں زبان و بیان، فنی خامیوں اور خوبیوں پر گفتگو کی جائے بلکہ وہ شاعری کو communication of thoughts کا وسیلہ سمجھتے ہیں، شاعری کو اپنی شاندار تہذیبی وراثتوں اور پیش رو نسلوں کی فکری توانائی کو نئی نسلوں میں منتقل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اقبال کو ایک خاص مذہب اور فرقہ کا شاعر بنا دینے والے لوگ بھی کسی نہ کسی سطح پر یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب و تمدن کے عناصر موجود ہیں۔ اگر چہ یہ بات سچ ہے کہ ان کی شاعری میں حب الوطنی کے شدید جذبات کا اظہار ان کے یوروپ جانے سے قبل زیادہ ہوا ہے۔ اپنے قیام یوروپ کے دوران انہیں مغربی تہذیب و تمدن کے مطالعے کے مواقع میسر آئے اور انہوں نے ہندوستانی تہذیب و تمدن اور یوروپی معاشرے کی تہذیبی روایات کا تقابلی مطالعہ بھی کیا، جس کے نتیجے میں ان کی فکر کا کینوس بے حد وسیع ہو گیا اور انہوں نے حیات و کائنات کو ایک بالکل نئے نظریے سے دیکھنا شروع کیا۔

اقبال یوروپ میں قیام کے دوران مسلسل غور و فکر اور تہذیبوں کے تقابلی مطالعے کے زیرِ اثر اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان میں صدیوں پرانی تہذیبی روایتوں ، وراثتوں کے علاوہ اسلامی افکار و نظریات کے revival کی ضرورت ناگزیر ہے۔ ہم اقبال کی شاعری کے کسی بھی دور کا مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی مٹی کی خوشبو سے کسی نہ کسی سطح پر ان کی ذہنی وابستگی قائم رہتی ہے، اور یوروپ سے لوٹنے کے بعد اقبال کے یہاں قومیت اور وطنیت کا تصور جغرافیائی قید و بند سے نکل کر آفاقیت کے مدار میں داخل ہو گیا ہے۔ اپنی شدید حب الوطنی کے دور میں جہاں اقبال نے ترانۂ ہندی، ہمالہ، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، آفتاب اور نیا شوالہ جیسی نظمیں لکھ کر اپنی وطن پرستی کا معیار قائم کیا وہیں یوروپ سے واپسی پر رام اور نانک جیسی شہرۂ آفاق نظمیں تخلیق کر کے ہندوستانی تہذیب و تمدن کی عظیم روایتوں اور وراثتوں سے اپنی وابستگی کو اور بھی صیقل کر دیا۔ نظم ہمالہ میں اقبال نے ہمالہ کی عظمت اور ہندوستان سے محبت کے گیت گائے ہیں۔

امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو

پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندوستاں ہے تو

مطلعِ اول فلک جس کا ہے وہ دیواں ہے تو

سوئے خلوت گاہِ دل، دامن کشِ انساں ہے تو

برف نے باندھی ہے دیوارِ فضیلت تیرے سر

خندہ زن ہے جو کلامِ مہرِ عالم تاب پر

نظم ہندوستانی بچوں کا قومی گیت میں اقبال نے صوفیوں، سنتوں اور فقیروں کے حوالے سے اپنی وطنیت کے تصور کو پیش کیا ہے۔

چشتی نے جس زمیں پر پیغامِ حق سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا

جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا

میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

نیا شوالہ میں اقبال لکھتے ہیں۔

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے

خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے

اپنے وطن کی خاک کے ہر ایک ذرہ کو دیوتا سمجھنے والے اقبال نے اپنی ایک نظم آفتاب میں گایتری منتر کا ترجمہ بھی پیش کیا ہے جس سے ان کی وسعتِ ذہنی اور کشادگیِ قلب و نظر کے علاوہ اپنی مٹّی اور اس کی تہذیبی وراثتوں سے وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یوروپ سے واپسی پر اقبالؔ نے نانک اور رام جیسی نظمیں لکھ کر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان کے مشترکہ تہذیب و کلچر کی ترویج و اشاعت ہی در اصل ہندو مسلم اتحاد اور جمہوری قدروں کی بازیافت کا سبب بن سکتی ہے۔ نظم رام میں اقبالؔ نے شجاعت پاکیزگی اور محبت و اخوت کے علمبردار رام کو زوال پذیر مغربی قوموں کے لئے قابلِ تقلید بتایا ہے۔

لبریز ہے شرابِ حقیقت سے جامِ ہند

سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رامِ ہند

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند

تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں جوشِ محبت میں فرد تھا

اپنی نظم نانک میں اقبالؔ فرماتے ہیں۔

قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی

قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یک دانہ کی

برہمن سرشار ہے، اب تک مئے پندار میں

شمعِ گوتم جل رہی ہے محفلِ اغیار میں

 

بت کدہ پھر بعد مدّت کے مگر روشن ہوا

نورِ ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے

اقبالؔ کو احساس ہے کہ ہندوستان کے صوفیوں، سنتوں اور فقیروں نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ قومی یکجہتی، بھائی چارگی اور امن و محبت کا پیغام دیا ہے، مگر ہم لوگ اپنی صدیوں پرانی تہذیبی وراثتوں کو کھوتے جا رہے ہیں جب کہ یہ تعلیمات سرحدوں کے حصار سے نکل کر مغرب میں فیض کا سرچشمہ بنی ہوئی ہیں۔ کاش ہم اقبالؔ کی شاعری کے بنیادی محرکات کو سمجھیں اور ان کی فکر اور پیغام کو صحیح تناظر میں اپنی زندگی کا لازمی حصّہ بنائیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

غالب کی شاعری میں امیجری کی تلاش

 

غالب نے اردو فارسی دونوں زبانوں میں اپنی تخلیقی فکر کے جوہر دکھائے ہیں، لیکن اپنی شاعری کے بارے میں ان کا یہ بیان کہ ’’میرا فارسی کلام نقش ہائے رنگ رنگ سے معمور ہے جب کہ اردو کلام محض بے رنگ ہے‘‘ کسی بھی سنجیدہ قاری کے لئے الجھن پیدا کر سکتا ہے کہ آیا غالب اپنی اردو شاعری میں اپنی پوری تخلیقی صداقتوں کے ساتھ موجود بھی ہیں یا نہیں، مگر یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان کی اردو اور فارسی دونوں طرح کی شاعری کا سر چشمہ اور منبع تو ایک ہی ہے یعنی غالب کا تخلیقی ذہن۔ البتہ یہ بات ضرور قابلِ قبول ہے کہ غالب اپنی فارسی شاعری میں زیادہ آسودہ( (comfort محسوس کرتے ہوں اسی لئے اپنی اردو شاعری کو فارسی شاعری کے مقابلہ میں کم تر گردانتے ہیں۔

ہمارے بعض ناقدین کو یہ شکایت بھی ہے کہ غالب کی اردو اور فارسی شاعری کا مجموعی مطالعہ اور تجزیہ نہیں کیا گیا جس سے ایک نقصان تو یہ ہوا کہ غالب کی ادبی شخصیت دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی، اس سے قطعِ نظر غالب کے تقریباً تمام ناقدین متفق ہیں کہ غالب ایک فطری اور آفاقی شاعر ہے اور اس کی شاعری کا کینوس کثیر الجہت اور اس کے جذبوں کی ساری کیفیات رنگا رنگ ہے۔ غالب کی شاعری کے تقریباً تمام تر پہلوؤں پر لکھا  جا چکا ہے پھر بھی ہر دور میں ناقدینِ شعر و ادب اپنے اپنے طور پر غالب کی شاعری کی تنقیدی تفہیم میں مصروف رہتے ہیں۔ غالب کی شاعری میں امیجری کی تلاش کرنے کی میری کوشش کہاں تک کامیاب ہے اس کا فیصلہ تو قارئین کریں گے۔

امیجری در اصل ایک ایسی اصطلاح ہے جو انگریزی ادب کی تنقیدی تحریروں میں کثرت سے مستعمل ہے، اردو میں اس کا ترجمہ تصویر آفرینی، پیکر سازی اور پیکریت وغیرہ کے معنوں میں ہوتا ہے۔ امیجری کے لغوی معنی لفظوں کی مدد سے تصویر بنانے کا عمل ہے۔ imagery is a picture out of words

گلوسری آف لٹریری ٹرمز (glossary of literary terms) میں ایم۔ ایچ۔ ابراہم نے امیجری کی تعریف یوں بیان کی ہے۔

This term is one of the most common in modern criticism and one of the most variable in meaning.  Its application ranges all the way from the mental pictures which are experienced by the readers.

یعنی امیجری نئی تنقید میں مستعمل ایک بے حد عام اور کثیر المعنی اصطلاح ہے جس کا اطلاق قاری کے ذہن پر بننے والی تصویروں پر ہوتا ہے، اس کے علاوہ ایم۔ ایچ۔ ابرام کے نزدیک میٹافور، سمبلی اور امیجری میں خاص فرق نہیں ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تشبیہ اور استعارہ پیکر سازی کے عمل میں تخلیقی سطح پر ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

امیجری کا تصور اردو ادب میں نیا نہیں ہے، اردو شاعری میں اس کا استعمال متقدمین کے عہد سے ہوتا رہا ہے، قدیم شاعری میں امیجری کی جگہ محاکات کا چلن عام تھا۔ یہاں یہ بات وضاحت طلب ہے کہ محاکات اور امیجری کے مابین بھی خاصا فرق ہے۔ محاکات کسی چیز یا حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ کے مطابق امیجری یا تصویر آفرینی وہ عمل ہے جو محسوس اشیاء کو لفظوں کی مدد سے چشمِ احساس کے سامنے یوں لے آتی ہے، گویا آنکھوں کے سامنے مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔

غالب ایک کامیاب مصورِ جذبات ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کے فکری رجحانات ٹھوس سے مجرد کی طرف ہے، ان کے ذہنی رجحانات مادی زندگی اور اس کی سرشاریوں سے کتنے بھی قریب کیوں نہ ہوں وہ اپنی فنی اور فکری سطح پر مادے سے تجریدی کیفیتوں کی طرف مسلسل مائل بہ پرواز نظر آتے ہیں، غالب کی شاعری میں امیجری کی تلاش کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

 

ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں

میں دشتِ غم میں آہوئے صیاد دیدہ ہوں

 

تھا زندگی کو موت کا کھٹکا لگا ہوا

اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا

 

ہوں گرمی ٔ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج

میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں

 

سب کہاں کچھ لالۂ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

 

عرض کیجئے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

 

پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں تصویر بظاہر visual یعنی مبصّر معلوم ہوتی ہے مگر شاعر نے صیاد دیدہ آہو کی کیفیت کے حوالے سے جو تصویر آفرینی کی ہے، وہ کسی صورت مرئی نہیں بلکہ اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

دوسرے شعر میں غالب نے معلوم اور محسوس کی مدد سے موہوم اور معدوم کا تصور پیش کیا ہے، تیسرے شعر میں غالب نے اظہار کا نیا انداز اختیار کیا ہے، انہوں نے زندگی اور موت کی حالت کو یکساں تصویر سے تعبیر کیا ہے، ان کے مطابق مرنے کے وقت ہی ان کا رنگ زرد نہیں پڑ گیا تھا، بلکہ موت کے خوف سے موت کے پہلے بھی ان کا رنگ زرد تھا، یہ ایک ایسی تصویر ہے جسے داخلی طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ چوتھے شعر میں غالب نے تمام پیاری پیاری تصویروں کے خاک میں مل جانے کے بعد، کچھ صورتوں کے لالۂ و گل کی صورت میں نمایاں ہونے کے عمل کو منفرد انداز میں مصور کیا ہے، بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اس شعر میں پیکر سازی کا عمل غیر مرئی سے مرئی کی طرف ہے لیکن حقیقتاً اس تصویر کا تعلق بھی محسوسات سے ہے۔ پانچویں شعر میں غالب نے اپنے جوہرِ اندیشہ، یعنی اپنی ذات کے اندر گرمی اور سوزش کی شدت کی تصویر کشی کی ہے۔

ان مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ غالب کے یہاں صرف مجرد امیجری ہے اور  visualاور محسوس اشیاء کے علاوہ امیجری یا تصویر آفرینی کی دوسری اقسام سرے سے موجود ہی نہیں، بلکہ اشارات کی ایک ایسی فضا تیار کرنا ہے، جس کی روشنی میں غالب کے یہاں پیکر سازی کے عمل کو مجموعی طور پر سمجھا جا سکے۔

غالب کی شاعری کے تفصیلی مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ایسی تصویر آفرینی بھی ہے جس میں امیج images بالکل ٹھوس اور جسم و جان رکھنے والی ہوتی ہیں، visual images کا تعلق ایسی تخلیقی تصویروں سے ہے، جو آسانی سے حواس، مطالعے اور مشاہدات کی گرفت میں آ جاتی ہیں۔ چند مثالیں حاضر ہیں

حیف اس چار گرہ کپڑے کی قیمت غالب

جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

 

کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالۂ و ساغر نہیں ہوں میں

 

کیا تعجب ہے کہ اس کو دیکھ کر آ جائے رحم

واں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے

 

غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض

ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر

 

وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

ان اشعار میں حالات و کیفیات کو ذہن کے پردے پر منعکس کرنے کے لئے جو تصویریں بنائی گئی ہیں وہ قطعی ٹھوس اور محسوسات اور مشاہدات کی گرفت میں آنے والی ہیں۔ محولہ بالا اشعار اور اس قبیل کے بہت سارے اشعار غالب کی شاعری سے حوالے کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں، جن میں غالب کا محبوب غیر مرئی نہیں بلکہ گوشت پوست کا انسان ہے، اور غالب معاملہ بندی کے اظہار کے لئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو خارجی سطح پر بروئے کار لاتے ہیں۔ غالب نے محبوب کی بے وفائی، ہجر و وصال، امید و نا امیدی اور زندگی کے دیگر مسائل کے اظہار کے لئے غیر شعوری طور پر امیجری کی کئی اقسام کا استعمال کیا ہے، جس میں سادہ امیج، مجرد امیج، معنوی امیج اور منتشر امیج وغیرہ اہم ہیں۔ غالب کے یہاں غزلوں میں ایجاز و اختصار اور خوب سے خوب تر بلکہ غیر معلوم کی جستجو اور غیر مانوس تخلیقی اصطلاحات کو برتنے کی تخلیقی ہنر مندی وغیرہ ایسی خصوصیات ہیں، جو غالب کے یہاں تصویر آفرینی اور پیکر سازی میں نہ صرف معاون ہیں بلکہ ان کی شاعری میں امیجری کو انفرادیت بھی عطا کرتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ستیہ پال آنند کا تخلیقی شعور اور عالمی عصری آگہی

(لہو بولتا ہے کی روشنی میں)

 

آزاد ، نثری نظم اردو شاعری کی ایسی اصناف ہیں جو اپنے جنم سے لے کر آج تک معتوب ہی ٹھہری ہیں جس کی ایک وجہ تو غالباً یہ ہے کہ ہمارے بیشتر ناقدینِ شعر و ادب نے ذہنی طور پر غزل کی صدیوں پرانی تہذیبی روایتوں کے حصار سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کی، دوسری وجہ ہمارے یہاں اچھے نظم نگاروں کا فقدان ہے۔ ہندوستان میں اردو شاعری کے تخلیقی سفر میں نم راشد، میرا جی، قاضی سلیم، بشر نواز، شہر یار، مخمور سعیدی، بلراج کومل، محمد علوی، اختر الایمان، ندا فاضلی اور ستیہ پال آنند وغیرہ کے علاوہ عمدہ نظم نگاروں کی فہرست بہت طویل نہیں ہے جنہیں آزاد، نثری نظموں کے عالمی تخلیقی حوالوں میں خود اعتمادی کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔

نظم شاعری کی آفاقی صنفِ سخن ہے اور اظہار کا پاور فل میڈیم بھی لہٰذا بلا امتیاز زبان اور رنگ و نسل اگر ہم عالمی ادب پر گفتگو کریں تو ہمارا دائرہ نظم تک ہی محدود رہے گا، کیونکہ نظم ہی دنیا کی بیشتر زبانوں میں کسی نہ کسی فارم میں مشترکہ ذریعۂ اظہار ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تکلف نہیں کہ عالمی سطح پر اردو نظموں کو متعارف کرانے میں ستیہ پال آنند کی سنجیدہ کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

’ ’لہو بولتا ہے‘‘ ستیہ پال آنند کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے تفہیم و ترسیل کے عالمی سیاق و سباق میں معتبر حوالے کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے یہاں نظمیں آفاقی اظہار کی تلاش از خود کرتی ہیں اور اپنا ڈکشن خود وضع کرتی ہیں۔ اردو نظموں کے حوالے سے اکثر یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ یہ ابھی تک خود کو غزلوں کے مروجہ ڈکشن اور طے شدہ مزاج سے آزاد نہیں کر سکی ہیں، جبکہ نظموں اور غزلوں کے مزاج، موضوع اور تخلیقی فکر و اظہار کی سطح پر واضح فرق پایا جاتا ہے۔ اگر ہم نظموں کے عالمی تناظر میں بات کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزی اور دیگر یوروپی زبانوں میں تخلیق کی جانے والی نظموں کے موضوع اور اظہار کا کینوس وسیع ہوتا ہے جب کہ اردو نظموں کی صورتِ حال اس کے بر عکس ہے۔

ستیہ پال آنند کی نظموں کے سنجیدہ مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان کے یہاں نظموں کی تخلیقی فضا میں ایک طرح کا کھلا پن ہے، ان کے ڈکشن میں نظموں کے مرکزی خیال کو مختلف جہتوں میں روشن کرنے کی صلاحیت ہے اور ان کی سوچ کی زیریں لہروں میں نظم کے ساتھ سفر کرنے کی ہنر مندی موجود ہے۔ ان کے یہاں جدید اردو نظموں میں مسلسل استعمال ہونے والے لفظ بھی ہر بار نئی معنویت خلق کرنے پر قادر ہیں۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا

’’ستیہ پال آنند کی نظموں میں یہ موجودہ رویہ اپنی تمام تر گہرائی، سندرتا اور تنوع کے ساتھ اس طور پر سامنے آیا ہے کہ شاعر کے شعری امیجز حتیٰ کہ اس کی نظموں میں برتے جانے والے الفاظ بھی جیسے جاگ اٹھے ہوں۔‘‘

ستیہ پال آنند کی فکری اساس ماضی بعید میں روشن اساطیری حوالوں اور ماضی قریب کے وسیع تجربات و مشاہدات کے علاوہ موجودہ عہد کی کرب ناک معاشرتی صورتِ حال اور مستقبل کی عرفان و آگہی پر قائم ہے۔ اپنی نظموں کی تخلیقی صداقتوں کو روشن کرنے کے لئے ستیہ پال آنند کبھی ماضی کے اساطیری کرداروں اور حوالوں سے روشنی کشید کرتے ہیں تو کبھی اپنے بچپن کی معصوم یادوں اور تمناؤں کے تخلیقی عناصر کو بروئے کار لاتے ہوئے اور کبھی تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے ان کی شعری فکر و شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔

’’لہو بولتا ہے‘‘ کے مطالعے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ستیہ پال آنند کی نظمیں جدید سے جدید تر کی طرف ایک معتبر پیش رفت ہیں۔ ان کی نظموں کا سفر اپنے عہد کے تخلیقی عوامل کا سفرہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں سفر ایک خوبصورت اور مضبوط تخلیقی علامت کی صورت نمو دار ہوتا ہے۔ سفر جو کبھی خارج سے باطن کی طرف ہوتا ہے اور کبھی داخلیت سے خارجیت کی طرف، ہر دو صورت میں ستیہ پال آ نند اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی منظر ناموں کی تشکیل و تعبیر کرتے ہیں۔ وہ اپنی نظم ’’راستہ اور میں‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں۔

راستہ ہنس کر مجھے کہتا ہے، میں بھی

تو تمہارے ساتھ چلتا آ رہا ہوں

راستہ ہو تم یہیں ٹھہرے ہوئے ہو

چل سکتے ہو؟ میں پھر پوچھتا ہوں

راستہ کہتا ہے، اچھا یہ بتاؤ

اس طرح تم کب سے چلتے آ رہے ہو؟

کیا تمہیں احساس ہے ہر اک پڑاؤ تم کو منزل سا لگا ہے

عارضی دم بھر ٹھہرنے، سانس لینے کی جگہ سا

تم کہیں ٹھہرے نہیں ہو!

ورنہ میں یعنی تمہارا ہم سفر اس آبلہ پائی سے واقف

جو تمہارے پاؤں کا زیور ہے دیکھو

آج تک بڑھتا چلا آیا ہوں اب بھی

تازہ دم ہوں ( نظم راستہ اور میں)

ستیہ پال آنند کی یہ نظم مکالماتی ہے جس میں راستہ، سفر اور مسافر تینوں لازم و ملزوم ہیں۔ راستہ جو منزل تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، یہاں ہم سفر کی حیثیت سے نمودار ہوا ہے، جو مسافر کی صعوبتوں، مشکلوں اور جد و جہد سے واقف بھی ہے اور مسافر کو مسلسل سفر میں رہنے کا حوصلہ بھی عطا کرتا ہے۔

ان کے یہاں سفر کا ایک ایسا تصور بھی موجود ہے جس میں انسان اپنے وجود کے اندر گذشتہ یادوں اور لمحوں کے ساتھ مسلسل سفر میں رہتا ہے، ان کی ایک نظم ’’یہاں بیٹھیں رکیں دم بھر‘‘میں لمحوں کو پکڑنے اور تحلیل ہونے کے درمیان موجود اور سانس لیتی ہوئی نظم کا جواز پیش کیا گیا ہے۔

یہاں بیٹھیں رکیں دم بھر

ٹہر کر سانس لیں

سستائیں دو گھڑیاں

کہ یہ لمحہ

ہمارا ماضی ٔ مطلق سے حالِ پا گریزاں تک

دبے پاؤں چلا آیا ہے

اپنے ساتھ چپکے سے

یہاں بیٹھیں ٹھہر کر سانس لیں، سستائیں دو گھڑیاں

کہ اس سے پیشتر یہ لمحۂ موجود

مستقبل کی جانب اک قدم آگے بڑھے

تحلیل ہو جائے

کہیں لا وقت کے ازلی تواتر میں

جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ستیہ پال آنند نے اپنی بعض نظموں کا خمیر ہندوستانی وراثت سے تیار کیا ہے، انہوں نے اساطیری کرداروں اور حوالوں کو نئے عصری شعور و آگہی کے تناظر میں نئی معنویت سے آشنا کیا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی نظمیں قیدِ دوام کا ساتھی، زندہ درگور بنتِ زمیں، میں جدِ امجد پتامہ بھیشم، نٹ راج، بالمیکی، سار تھی اہلیہ وغیرہ اس ضمن میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ قیدِ دوام کا ساتھی میں ستیہ پال آنند نے لکشمن ریکھا کو علامت بنا کر ایک ایسی عورت کے کرب و غم کو پیش کیا ہے جو اپنے محبوب کے انتظار میں یگوں یگوں سے اپنی لکشمن ریکھا کے دائرے میں قید ہے، یہاں لکشمن ریکھا عورت کے لئے جذب و ایثار اور وفاداری کی علامت کو پیش کرنے میں کامیاب ہے۔

مگر وہ گم سم

ڈری ہوئی کانپتی غزالہ سی

اپنی لکشمن لکیر کے دائرے کے اندر

کھڑی ہوئی اس اجاڑ رستے پر ٹکٹکی باندھے

تک رہی تھی

نہ جانے کتنے یگوں سے کسی کی وہ منتظر تھی۔۔ (قیدِ دوام کا ساتھی)

نظم ’’زندہ درگور بنتِ زمیں‘‘ میں ستیہ پال آنند نے رام، راون اور دشاسن جیسے اساطیری کرداروں کے حوالے سے یہ بات کہنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ دروپدی ہو کہ سیتا، عورت ہر دور میں محکوم اور مظلوم رہی ہے۔ ’’میں جدِ امجد پتامہ بھیشم‘‘ میں انہوں نے مہان اساطیری کردار پتامہ بھیشم کے حوالے سے دو بھائیوں ، دو ملکوں کے مابین رشتوں کے نشیب و فراز کو عصری تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندو پاک کے موجودہ سیاسی پس منظر میں ستیہ پال آنند کی یہ نظم رشتوں کی تفہیم کے نئے دریچے روشن کرتی ہے۔

جو راستے بند ہو گئے ہیں

جو قفل تم نے لگا دیے ہیں

میں آنے والے دنوں کے بابوں کی

چابیاں تم سے مانگتا ہوں۔ (نظم جد امجد پتامہ بھیشم)

ستیہ پال آنند کے تخلیقی فکر و احساس اور تجربات کی ایک کھڑکی ان کے بچپن کے آنگن میں کھلتی ہے۔ وہ کبھی بچپن کی خود کلامی کی بازگشت سنتے ہیں اور کبھی اپنے بچپن کے آنگن میں کھوئی ہوئی پری شہزادی کی تلاش کرتے ہیں، انہیں اپنے بچپن کے گھر کے آنگن خوب یاد ہیں، جہاں آم کا پیڑ ہے اور اس کے پھلوں کا کھٹا میٹھا ذائقہ اب تک ان کے ذہن میں محفوظ ہے۔ اب جب ان کے بچوں کے قدم ان کے گھر کے کچے آنگن میں پڑے ہیں تو کچا آنگن سکڑ گیا ہے۔

مرے گھروندے کا کچا آنگن

جہاں میرے ننھے ننھے پاؤں کبھی پڑے تھے

جہاں پہ اب میرے اپنے بچوں کے پاؤں کے نقش پڑ رہے ہیں

وہ کچا آنگن سکڑ گیا تھا

پری کو شاید لگا تھا کم ہے زمین گھر کی

اسے کھلے گھر کی ہے ضرورت ( نظم کھوئی ہوئی پری)

ستیہ پال آنند کا گمشدہ بچپن انہیں بار بار آواز دیتا ہے مگر شاید کسی کے لئے بھی اپنے بچپن میں واپس لوٹنا ممکن نہیں ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ بچپن کی خوبصورت یادیں، معصوم جذبے اور بے ضرر تمنائیں کسی بھی انسان کے لئے متاعِ بیش بہا کی حیثیت رکھتے ہیں۔

بچپن سے جوانی کے گزرنے تک

کہیں گم ہو گئے تھے

اب انہیں ایک بار پھر ڈھونڈو

کہ ان گہرائیوں میں تارے اگتے ہیں

چمکتے موتیوں کی کھیتیاں ہیں

اور میں یعنی تمہارا گمشدہ بچپن

ابھی زندہ ہوں آؤ

میں تمہاری واپسی کا منتظر ہوں۔ ( نظم توتلے لفظوں کی بازگشت)

ستیہ پال آنند نظموں کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے، اور تفصیلی مطالعے کی متقاضی ہے، ظاہر ہے ایک مختصر مضمون میں ان کی نظموں کے تمام تر پہلوؤں پر گفتگو ممکن نہیں، ان کے فکر و اظہار میں تنوع کے ساتھ ساتھ نئی علامتیں اور استعارات کے اختراع کا جو عمل ہے وہ انہیں عالمی عصری شعری تناظر میں ایک اہم نظم گو شاعر کی حیثیت سے پیش کرنے کا جواز بھی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ما بعد جدید نظم۔ ایک ناتمام جائزہ

 

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہہ د نیا کی کسی بھی فعال اور زندہ زبان کے تخلیقی ادب میں انحراف و بغاوت اور ردّ و قبول کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے اور چونکہ اردو بھی ایک زندہ، متحرک اور سائنٹفک زبان ہے لہٰذا اس زبان کے تخلیقی ادب کا بھی نئے تجربات، تحریکات اور رجحانات کے ردّ و قبول کے عمل سے گذرنا نا گزیر ہے۔

ادب میں تحریکات اور رجحانات ہمیشہ جمود اور سنّاٹے کو نہ صرف توڑنے کا کام کرتے ہیں بلکہ ادب میں نئے امکانات اور نئی جہتوں کو روشن کرنے میں بھی اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر تخلیق ہونے والے ادب کے سیاسی یعنی مارکسی ایجنڈے سے انحراف کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جدید ادبی رجحانات سے تخلیق کاروں کو کم از کم یہ آسودگی تو میسر ہوئی کہ جدیدیت نے اپنا کوئی منشور نہیں بنایا، کوئی ریزولوشن پاس نہیں کیا، کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا بلکہ اس نے تخلیق کاروں کی مکمل ذہنی آزادی کی وکالت کی، اظہار کے غیر سیاسی اور غیر مشروط رویوں پر زور دیا اور یہ بات بھی کہی گئی کہ ادب اظہارِ ذات کا وسیلہ ہے، اس طرح تخلیق کاروں کو ایک کھلی فضا کا احساس ہوا اور موضوعات اور فارم کی سطح پر نئے تجربات کے مواقع میسر آئے، اس کے علاوہ اسلوب کی سطح پر بھی نئے پن کا احساس ہونے لگا۔ مگر جدیدیت نے بھی رفتہ رفتہ وجودیت اور اجنبیت کے منشور کو غیر شعوری طور پر لاگو کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ذات کے خول میں بند مایوسی، تنہائی، داخلی انتشار اور قنوطیت کے شکار جدیدیت گزیدہ تخلیق کاروں کا رشتہ نہ صرف اپنے عہد کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی شعور و آگہی سے کٹ گیا بلکہ اس نام نہاد فیشن پرست جدیدیت سے بیزار ہو کر ادب کا سنجیدہ قاری بھی کنارہ کش ہو گیا اور یہیں سے شروع ہوا جدیدیت کا زوال۔۔

چونکہ ادب میں ہمیشہ رد ّو قبول کا عمل جاری رہتا ہے لہٰذا زوال پذیر جدیدیت کے انحراف میں تخلیق کاروں کی ایک نئی نسل نے، ایک بالکل نئے رجحان کے تحت لکھنا شروع کیا جسے مابعد جدیدیت کا نام دیا گیا۔

مابعد جدیدیت کے بنیاد گزار ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے مطابق یہ ایک صورتِ حال ہے ’’یہ کسی وحدانی نظریہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ احاطہ کرتی ہے مختلف بصیرتوں اور ذہنی رویوں کا، جس کی تہ میں بنیادی بات تخلیقی آزادی اور معنی پر بٹھائے ہوئے پہرے کو ردّ کرنا ہے‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے علاوہ ڈاکٹر وہاب اشرفی، ڈاکٹر وزیر آغا اور نظام صدّیقی وغیرہ نے بھی مابعد جدید تخلیقی رویوں اور اس کے بنیادی محرکات کی ترویج و اشاعت میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر وہاب اشرفی کے مطابق مابعد جدیدیت ایک ایسی صورت حال ہے جس میں تخلیق کار یاسیت کی فضا سے نکل کر نئے سماجی اور ثقافتی ڈسکورس میں شامل ہو جاتا ہے اس کے علاوہ مابعد جدید تخلیق کار مکمل ذہنی آزادی کو روا رکھتا ہے اور طے شدہ فکری نہج کو قبول نہیں کرتا۔ مابعد جدیدیت جڑوں کی تلاش اور تہذیبی حوالوں کا احساس دلاتی ہے۔

بعض ناقدینِ ادب کا خیال ہے کہ ۱۹۸۰ کے آس پاس اپنا تخلیقی سفر شروع کرنے والی ادبی نسل کا سارا تخلیقی سرمایہ مابعد تخلیقی رویوں کے تحت وجود میں آیا ہے۔ مجھے اس بات سے پورا اتفاق نہیں ہے اور شاید میری اپنی نسل کے بہت سارے تخلیق کار اسے خود بھی تسلیم نہ کریں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ۱۹۸۰ کے بعد کی نسل کے بیشتر شعراء کے یہاں مابعد جدیدیت ایک غالب رجحان کی شکل میں نمو پذیر ہوئی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ نئی نسل اپنی پیش رو نسل سے کئی معنوں میں مختلف اور منفرد ہے اس نسل کے اپنے مسائل ہیں، اپنے دکھ ہیں، اپنے تحفظات اور تعصبات ہیں نیز عصری فکر و شعور کے اپنے زاویے ہیں اس کے علاوہ اس نسل نے سائبر اور انٹرنیٹ عہد کے مسائل و مصائب کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

۱۹۸۰ کے بعد کی شاعری کا تخلیقی جواز فراہم کرتے ہوئے مابعد جدید نسل کے باخبر ناقد ڈاکٹر کوثر مظہری لکھتے ہیں ’’آج کی نسل نے خود کو سمجھا ہے، معاشرے سے اپنی نسبت جوڑی ہے، اس کی شاعری کا مرکز اپنی فکر اور اپنا معاشرہ ہے، آج کی نسل جو شاعری کر رہی ہے اس کا رنگ اپنے پیش رووں سے جدا گانہ ہے کیونکہ آج کی شاعری اپنی لفظیات خود وضع کر رہی ہے جس کے لئے اپنا منطقی جواز ہے۔‘‘

یہ بات خوش آئند ہے کہ ۱۹۸۰ کے بعد کی ادبی نسل میں ایسے جینوئن تخلیق کاروں کی تعداد قابلِ لحاظ ہے جنہوں نے اپنی تخلیقی شناخت کے حوالے خود مرتب کئے ہیں اور اپنی نسل کی شاعری کی چھان پھٹک اور احتساب کی ذمہ داری بھی اسی نسل کے ناقدین نے قبول کی ہے جن میں ڈاکٹر کوثر مظہری، خورشید اکبر، جمال اویسی، خورشید حیات، ابراہیم اشک، ڈاکٹر مولیٰ بخش اسیر، نعمان شوق، آفاق احمد صدیقی، راشد انور راشد، ابرار رحمانی، مشتاق صدف، سرور الہدیٰ، معراج رعنا، سرور ساجد، عمران عظیم، احمد محفوظ اور عطا عابدی وغیرہ شامل ہیں۔

نظموں کے حوالے سے مابعد جدید نسل کے تخلیقی سفر کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کے صورتِ حال قدرے تشویشناک ہے۔ نظموں کی تخلیق میں سنجیدگی اختیار کرنے والے شعراء کی تعداد واقعی بہت کم ہے تاہم اس نسل میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جنہوں نے اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں موجودہ سائبر اور انٹرنیٹ عہد میں درپیش مسائل اور نجی محسوسات کو نظموں کے خوبصورت پیرہن میں بروئے کار لانے کی ایماندارانہ کوشش کی ہے جس کی بہرطور ستائش ہونی چاہیے۔ آج جبکہ دنیا ایک کمرے میں موبائل اور کمپیوٹر میں سمٹ کر رہ گئی ہے، انسان کے مسائل کی نوعیت بھی گذشتہ صدی کے مقابلے یکسر بدل گئی ہے، صارفی سماج میں پروڈکٹ ہی نہیں انسانی سوچ بھی گلوبلائز ہو گئی ہے آج کا انسان زیادہ باخبر اور informed ہے جس کے نتیجے میں عمل اور ردّ عمل کے مابین زمانی وقفہ لمحوں میں سمٹ گیا ہے، اب مابعد جدید تخلیق کار تنہائی، قنوطیت اور انتشار کا شکار نہیں اور نہ ہی اپنی ذات کے خول میں بند ہے۔ اب ہمارے عہد کا انسان تیز رفتار وقت کے ساتھ چلنا چاہتا ہے، وہ کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھ کر، سچائیوں کو اپنے طور پر قبول کرتا ہے اور مسائل و مصائب سے نبرد آزما ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی معاشی، سماجی اور بین الاقوامی صورتِ حال سے ہمارے عہد کا تخلیق کار بھی اچھوتا نہیں ہے، اب اس کی سوچ گلوبلائز ہو گئی ہے، جس کے اثرات اس کے تخلیقی فن پاروں میں بھی واضح طور پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ما بعد جدید نسل کے تخلیق کاروں نے غیر مشروط ذہنی وابستگی کو ہی اپنا تخلیقی حوالہ بنایا ہے اور یہی اس کا سرمایہ بھی ہے۔

آج دنیا کے مختلف حصوں میں نسلی، مسلکی اور طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات، تشدد اور انتہا پسندی کے علاوہ، کمزور ملکوں پر طاقتور ملکوں کے ذریعہ مسلط اقتصادی اور معاشی حکمرانی، جنگ و جدل کی عالمی سیاست، بے روزگاری، تلاشِ معاش کے لئے ہجرت، بے یقینی، بے سروسامانی کی حالت میں جائے اماں کی تلاش میں بھٹکتی انسانیت، ثقافتی اور تہذیبی سطح پر ہونے والے بکھراؤ، کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوتی زرخیز مٹّی، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور گلوبل سرمایہ کاری کے عدم توازن کے سبب پیدا ہونے والی معاشی پریشانیوں سے نبرد آزما انسان کے مسائل کے آزادانہ اور فطری اظہار سے عبارت ہے مابعد جدید نظموں کا تخلیقی منظر نامہ۔۔

مابعد جدید نظموں کے تخلیقی حوالے سے ۱۹۸۰ کے بعد جو نام سامنے آئے ہیں ان میں عالم خورشید، خورشید اکبر، اکرام خاور، خورشید طلب، کوثر مظہری، جمال اویسی، غضنفر، جینت پرمار، ریاض لطیف، ابراہیم اشک، ساجد حمید، شاہد کلیم (مرحوم) شبنم عشائی، شاہد جمیل، عنبر بہرائچی، نعمان شوق، شیخ خالد کرار، معراج رعنا، راشد انور راشد، راشد جمال فاروقی، سہیل اختر، عذرا پروین، ترنم ریاض، عطا عابدی، مشتاق صدف، خالد عبادی، امیر حمزہ ثاقب، شارق کیفی اور عطاء الرحمٰن وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں اس کے علاوہ بھی کئی اور نام ہیں جو اس فہرست میں نہیں آ سکے کہ فہرست سازی اس مضمون کا مقصد نہیں۔

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا  جا چکا ہے کہ مابعد جدید نظم کا کینوس وسیع ہے، اس کے موضوعات زندگی سے عبارت ہیں، ان نظموں میں سیاسی، معاشی اور سماجی شعور و بصیرت کے تخلیقی حوالے ملتے ہیں، ان میں زندگی کے مختلف شیڈس ہیں، ان نظموں میں باطنی سچائی اور وجود کی آزادی کے اظہار کا حوصلہ ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ ۱۹۸۰ کے بعد ادبی افق پر نمایاں ہونے والی نسل کے یہاں نہ تو اپنی پیش رو نسل کی فکر کا عکس ہے اور نہ ہی کسی نظریاتی وابستگی کا احساس ہوتا ہے بلکہ کھلے ذہن اور وسیع تناظر میں مشاہدات اور محسوسات کی ایک نئی تخلیقی سچائی کا احساس ہوتا ہے، اپنے اس خیال کی تائید میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔

ایک نہ ایک دن

گھر کے آگے

نیم کی شاخ پہ

ننگا کر کے لٹکا دوں گا تجھ کو منو

تیری رگوں کو چیر پھاڑ کے دیکھوں گا

تو نے پیا ہے کتنا لہو

میرے بزرگوں کا

ایک نہ ایک دن

تیری کھال ادھیڑوں گا

ہمیں تو صرف/ برہمن، کھشتریہ اور ویشیہ کی

سیوا کرنا تو نے لکھا تھا

چمار بھنگی اور چانڈال کی تو نے لکھی تقدیر

گاؤں کے باہر رہنا/ ٹوٹے برتن میں کھانا

یہاں کا بھینسہ بھی پنڈت

گدھا بھی گنگا جل پیتا ہے

لیکن تجھ کو ہے معلوم

اب میں نے چیل کی مانند اڑنا سیکھ لیا ہے

شیر کی مانند جست لگانا سیکھ لیا ہے

لفظوں کو ہتھیار بنانا سیکھ لیا ہے

ایک نہ ایک دن

تیری کھال ادھیڑ کے تیرے ہاتھ میں رکھ دوں گا

تو نے میرے باپ کو ننگا کر کے مارا تھا ایسے۔۔

(نظم منو جینت پرمار)

اس نظم میں صدیوں پر محیط ذات پات اور طبقاتی فرق کے خلاف ایک شدید غم و غصہ کا اظہار ہے جسے بڑے کھلے پن اور حوصلہ مندی سے جینت پرمار نے تخلیقی حوالہ بنا دیا ہے۔ اور احتجاج کی اس سوچ کو نئی نسل کا وژن بنا دیا گیا ہے۔

اپنی نظم ’’گوشت جلنے کی بو‘‘ میں راشد جمال فاروقی نے بھی احتجاج کا ایسا ہی رویہ اختیار کیا ہے۔

اس برس ہاں مگر

جنگلوں سے درندے برآمد ہوئے

پر سکوں بستیوں پر مسلط ہوئے

ایسا تانڈو ہوا

آگ جنگل کی شرما گئی

اور اب۔۔ ۔۔ ۔

گوشت جلنے کی بو سے مفر ہی نہیں

(نظم۔ گوشت جلنے کی بو۔ راشد جمال فاروقی)

خورشید اکبر کے یہاں سوچ کا کینوس وسیع ہے، سائبر عہد میں ساری دنیا کو ایک موبائل میں سمیٹ کر لانے والی سوشل سائٹ یعنی فیس بک کی بے یقینی کو پرچھائیوں سے تعبیر کرتے ہوئے اپنی نظم فیس بک میں لکھتے ہیں۔۔

اب تو چہرے یقیں سے آگے ہیں

ہاں مگر اعتبار کس کا ہے۔

سامنے میرے فیس بک رکھ دو

جی میں آتا ہے توڑ دوں درپن

روشنی ساتھ جب نہیں دیتی

ون پرچھائیوں سے بات کرے

( نظم۔ فیس بک، خورشید اکبر)

نعمان شوق نے اپنی نظم امن میں عالمی سطح پر موجودہ سیاسی صورت حال کی بے یقینی کو اپنے نظریہ سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

امن

کچھ نہیں

صرف داشتہ ہے تمہاری

جو کسی پرائے مرد کے ساتھ

گذار لے ایک رات بھی

تو بن جاتی ہے جنگ۔۔ ۔۔ ۔۔ (نظم۔ امن۔ نعمان شوق)

شیخ خالد کرار نے اپنی نظم سفر معکوس ہے میں نئی نسل کی بے یقینی، اور بے ثباتی کو نہایت خوبصورتی سے مصور کیا ہے۔

ابھی تو ہم

خود اپنی ہی کھودی ہوئی سرنگیں

پاٹنے میں منہمک ہیں

ہمارے جسم

برگِ خزانی

ہماری رنگتیں دھانی

سفر معکوس، منزل بیکرانی

ہمارے خواب

سب پانی! !! ( نظم۔ سفر معکوس ہے۔ شیخ خالد کرار)

در اصل نئی نسل کی یہی بے یقینی، بے زمینی اور بے بسی ہمارے عہد کا مقدر ہے اور اس سے نبرد آزما نسل کبھی کبھی زندگی سے لڑنے کا حوصلہ کھو دیتی ہے۔ اسی خیال کو جمال اویسی نے اپنی ایک نظم میں یوں پیش کیا ہے۔

خود کشی کرنے گیا اور نہیں کر پایا

اجنبی لوگ تھے

بازار تھا، ہنگامے تھے

ریل کی پٹری بہت گندی تھی

گھر سے نکلا تھا کہ مر جاؤں گا

کٹ جاؤں گا

بھیڑ کو دیکھ کے وحشت ہی ہوئی! (نظم۔۔ جمال اویسی)

اپنی نظم تکمیل میں امیر حمزہ ثاقب نے موجودہ سفاک عہد میں بکھرتے ٹوٹتے انسان کی نامراد خواہشوں اور ناکام آرزوؤں کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے

دیکھو کہ ٹوٹتا ہے مرا کیسے تارِ جاں

دیکھو، بدن کی خاک بکھرتی ہے کس طرح

بجھتے ہیں کس طرح سے دیے چشمِ خواب کے

ہوتا ہے کس طرح سے لہو کا شرار سرد

مرتی ہیں دل کی دھڑکنیں کس سوز و ساز سے

اڑتی ہے کیسے راکھ بدن کے دیار میں

(نظم۔ تکمیل، امیر حمزہ ثاقب)

محولہ بالا نظموں کے اقتباسات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مابعد جدید نظموں کے ان شعراء کے یہاں موضوع کا تنوع ہے، جذبوں کی رنگا رنگی ہے، محسوسات اور مشاہدات کی ایک وسیع کائنات آباد ہے، اسلوب اور اظہار میں سلیقہ مندی ہے، انسان کی ذات اور کائنات سے سروکار اور موجودہ عہد کی بے یقینی اور بیچارگی کے درمیان بکھرتے ٹوٹتے اور مسائل سے نبرد آزما ہونے کی حوصلہ مندی کے باوجود قنوطیت کے شکار آدمی کے جذبات کا اظہار کرنے کی ہنر مندی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان ما بعد جدید نظموں میں علاماتی نظام تو ہے مگر یہ نظمیں ترسیل کے المیے کا شکار نہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کے ان تخلیق کاروں کی کاوشات کا ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے اور ایوان ادب میں گونجتی ان پُر امید آوازوں کو شناخت کے عمل سے گذارا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

۱۹۸۰ء کے بعد کی شاعری کے تخلیقی خد و خال

 

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کسی بھی فعال اور زندہ زبان کے ادب میں انحراف و بغاوت اور رد و قبول کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ چونکہ اردو بھی ایک زندہ اور متحرک زبان ہے، لہٰذا اس زبان کے ادب کا بھی نئے تجربات، تحریکات اور رجحانات کے رد و قبول سے گزرنا نا گزیر ہے۔ ادب میں نئے تجربات اور رجحانات نہ صرف زبان کے سناٹے اور جمود کو توڑنے کا کام کرتے ہیں بلکہ ادب میں نئے امکانات اور نئی جہتوں کو بھی روشن کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔

ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر تخلیق ہونے والے ادب کے سیاسی اور اشتراکی ایجنڈے سے انحراف کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جدیدیت کے رجحان سے تخلیق کار کو کم از کم یہ آسودگی میسر آئی کہ جدیدیت نے اپنا کوئی منشور نہیں بنایا، کوئی ریزولیوشن پاس نہیں کیا، کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا۔ جہاں ایک طرف جدیدیت نے فنکار کی مکمل ذہنی آزادی کی وکالت کی، آزادیِ اظہار کے غیر سیاسی اور غیر مشروط رویوں پر زور دیا وہیں یہ بات بھی کہی گئی کہ ادب اظہارِ ذات کا وسیلہ ہے۔ یعنی جدیدیت نے بھی رفتہ رفتہ غیر شعوری طور پر وجودیت اور اجنبیت کے ایجنڈے کو لاگو کرنا شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں ذات کے خول میں بند، مایوسی، تنہائی، داخلی انتشار اور قنوطیت کے شکار جدید تخلیق کاروں کا رشتہ نہ صرف اپنے عہد کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی شعور و آگہی سے کٹ گیا فیشن گزیدہ جدیدیت سے بیزار ہو کر سنجیدہ قاری ادب سے کٹ گیا اور یہیں سے شروع ہوا جدیدیت کا زوال۔

زوال آمادہ جدیدیت سے بیزار اور مایوس تخلیق کاروں کی نئی کھیپ نے ایک نئے ادبی رجحان کے تحت لکھنا شروع کیا، جسے ما بعد جدیدیت کا نام دیا گیا اور اس کے علمبردار ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہیں۔ ان کے مطابق مابعد جدیدیت ایک صورتِ حال ہے، یہ کسی ایک وحدانی نظریہ کا نام نہیں بلکہ یہ احاطہ کرتی ہے مختلف بصیرتوں اور ذہنی رویوں کا، جن کی تہ میں بنیادی بات تخلیقی آزادی اور معنی پر بٹھائے ہوئے پہرے کو رد کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر وہاب اشرفی، ڈاکٹر وزیر آغا اور نظام صدیقی وغیرہ نے بھی مابعد جدیدیت کو ادب میں رائج کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے، مابعد جدیدیت کے بنیاد گزاروں کے نزدیک یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس میں تخلیق کار یاسیت کی فضا سے نکل کر نئے سماجی اور ثقافتی ڈسکورس میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مابعد جدید تخلیق کار مکمل ذہنی آزادی کو روا رکھتا ہے اور طے شدہ فکری نہج کو قبول نہیں کرتا۔ ما بعد جدیدیت جڑوں کی تلاش اور تہذیبی حوالوں کا احساس دلاتی ہے۔

بعض ناقدین شعر و ادب کا خیال ہے کہ ۱۹۸۰ء کے آس پاس اپنا تخلیقی سفر شروع کرنے والی ادبی نسل کا سارا سرمایۂ ادب مابعد جدید رجحانات کے زیرِ اثر تخلیق ہوا ہے، اس سے جزوی اتفاق کرتے ہوئے مجھے یہ کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء کے بعد کی نسل کے یہاں مابعد جدیدیت ایک غالب رجحان کے طور پر کارفرما ہے لیکن یہ نسل اپنی پیش رو نسل سے کئی معنوں میں مختلف ہے، کمپیوٹر اور سائبر عہد کی تیز رفتار زندگی اور صارفیت کے زیرِ اثر پروان چڑھی اس نسل کے اپنے مسائل ہیں، اپنے دکھ ہیں، اپنے تحفظات اور تعصبات ہیں نیز عصری شعور و آگہی اور تفہیم و ترسیل کے اپنے زاویے۔

۱۹۸۰ء کے بعد کی شاعری کا جواز فراہم کرتے ہوئے نئی نسل کے باخبر نقاد کوثر مظہری نے لکھا ہے۔

’’آج کی نسل نے خود کو سمجھا ہے۔ معاشرے سے اپنی نسبت جوڑی ہے، ان کی شاعری کا مرکز اپنی فکر اور اپنا معاشرہ ہے، آج کی نسل جو شاعری کر رہی ہے اس کا رنگ اپنے پیش رووں سے جداگانہ ہے کیونکہ آج کی شاعری اپنی لفظیات خود وضع کر رہی ہے، جس کے لئے اپنا منطقی جواز ہے۔‘‘

یہ بات اطمینان بخش ہے کہ نئی نسل میں ایسے کئی تخلیق کار ہیں جنہوں نے اپنی نسل کے ذہین اور جینوئن تخلیق کاروں کی نشاندہی اور ان کی شاعری کے چھان پھٹک اور احتساب کی ذمے داری قبول کی ہے اور اس حوالے سے قابل، قدر کام بھی کیا ہے۔ جن میں ڈاکٹر کوثر مظہری، جمال اویسی، ڈاکٹر مولا بخش اسیر، خورشید اکبر، نعمان شوق، سرورالھدیٰ، راشد انور راشد، عالم خورشید، آفاق عالم صدیقی، معراج رعنا، احمد محفوظ اور عطا عابدی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

نئی نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید اکبر لکھتے ہیں۔ ’’اردو ادب میں ایک ذہین، حساس، اور با شعور نسل رفتہ رفتہ سامنے آ رہی ہے، جو تحقیق، تنقید اور تخلیق تینوں سطحوں پر تازہ دم اور حوصلہ مند ہے۔ یہ نئی کھیپ ماضی کے صحت مند اقدار کی بازیافت، حال کے ہمہ جہت عرفان اور مستقبل کی روشن سمت کے لئے مصروفِ ریاضت ہے۔‘‘

ابراہیم اشک نے نئی نسل کے معنوی مسائل پر کار آمد گفتگو کرتے ہوئے تحریر کیا ہے۔ ’’ایک ذہنی رویہ ختم ہونے پر، دوسرا ذہنی رویہ فوری طور پر یا کچھ عرصہ بعد جنم لیتا ہے، ہر نئی نسل کا ذہنی رویہ پرانی نسل سے زیادہ منفرد اور نیا ہوتا ہے‘‘۔ ابراہیم اشک کے مطابق ترقی پسندی اور جدیدیت کے زمانے میں معنی آفرینی سے اردو کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا، اب برسوں بعد وہ رشتہ پھر جڑا ہے اور اعلیٰ ادب کے امکانات روشن دکھائی دینے لگے ہیں‘‘ ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ نئی نسل کو معنویت کی نسل سے تعبیر کرتے ہیں۔

نئی نسل کے قابلِ قدر ناقد اگرچہ اپنی نسل سے بہت زیادہ پر امید نہیں، تاہم انہیں یہ کہنے میں تامّل نہیں کہ نئے شعراء نئے خیالات کا پرتو تو محسوس کرتے ہیں لیکن ان کی زبان نئے خیالات کے اظہار میں ساتھ نہیں دیتی۔ جمال اویسی کی شکایت کسی حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ یہ بات سچ ہے کہ ہماری نسل کے شعراء میں نہ صرف مطالعے اور مشاہدے کا فقدان ہے بلکہ اپنی شہرت اور شناخت کے شارٹ کٹ میں تخلیقی ارتکاز و انہماک سے بھی ان شعراء کا کوئی تعلق نہیں رہا اور یہ ایک افسوس ناک صورتِ حال ہے جو کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔

مجھے خوشی ہے کہ ہماری نسل کے ناقدینِ شعر و ادب نے ۱۹۸۰ء کے بعد کی ادبی نسل کی شاعری میں نہ صرف خامیوں اور تخلیقی بے راہ رویوں پر گرفت کی ہے بلکہ ان کے مختلف ذہنی، فکری اور تخلیقی رویوں پر بھی با معنی گفتگو کی ہے، چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

راشد انور راشد کے مطابق۔۔ ۔۔ ۔ ’’موجودہ عہد کی غزلوں میں تبدیلیوں کی آہٹ ہر لمحہ محسوس کی جا سکتی ہے، جو غزل کے مستقبل کی ضمانت ہے۔‘‘

معراج رعنا کے لفظوں میں۔۔ ۔۔ ۔ ’’۸۰ کے بعد والی نسل کوما بعد جدید کہنا اور اس کے شعری رویے کو جدیدیت مخالف تصور کرنا، در اصل مابعد جدیدیت کے حامیوں کی سازش ہے۔ نئی نسل کے شعراء کے اشعار سچائی منکشف کرنے میں ایک فعال کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘

نعمان شوق کے مطابق۔۔ ۔۔ ۔ ’’ایک سچے فنکار کو اپنے ذہن کے تمام دروازے کھلے رکھنے چاہیے، تاکہ تازہ افکار و نظریات سے نا بلد نہ رہے۔ لیکن اپنے قلم کو کسی خاص نظریے کا تابع نہیں بنانا چاہیے۔‘‘

عالم خورشید کی رائے میں۔ ’’میں شعر و ادب میں کسی رجحان، تحریک یا نظریے کا قائل نہیں، ادب تو ذہن کی آزاد اڑان ہے۔ میں بھی وقت اور حالات کی تبدیلیوں کا احترام کرتا ہوں۔‘‘

شہپر رسول کے مطابق۔۔ ۔۔ ’’نئے شعراء کے بالکل نئے اور بدلے ہوئے طریق نے نئی غزل کے موضوعات، لفظیات اور اس کے مزاج میں جو ندرت، تازگی اور توانائی پیدا کی ہے وہ بھلی معلوم ہوتی ہے اور اہم بھی۔‘‘

نئی شاعری کے حوالے سے نئی نسل کے تخلیق کاروں اور نقادوں کی محّولہ بالا آرا کی روشنی میں میں اگر ہم نئی نسل کے تخلیقی سفر کا جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مابعد جدید شاعری میں فکر اور اسلوب کی سطح پر نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، اگرچہ ہمارے کئی ناقدین کی نظر میں نئی شاعری کی موجودہ صورتِ حال بہت امید افزا نہیں مگر اس سچ سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جدیدیت کی مبہم اور غیر یقینی ادبی فضا سے منحرف اور بیزار گمشدہ قاری کی بازیافت کا اہم کام ہمارے کئی شعراء نے کیا ہے، جس کے نتیجے میں ۱۹۸۰ء کے بعد کی شاعری نے اپنا رشتہ زمین سے استوار کر لیا ہے۔ میرے نزدیک اس نسل نے ذات کی شکست و ریخت اور تنہائی کے عذاب سے نجات حاصل کر لی ہے اور مکمل ذہنی آزادی کے ساتھ عصری مسائل و مصائب اور شعور و آگہی سے اپنی تخلیقی توانائی حاصل کی ہے۔ ۱۹۸۰ء کے بعد اپنی نمایاں شناخت قائم کرنے والے شعراء کے چند تخلیقی نمونے ملاحظہ کریں۔

اک بھیڑ مجھ سے منتظرِ انکشاف تھی

میں تھا مراقبے میں مگر بے حضور تھا

عبد الاحد ساز

کوئی بھی لمحہ کبھی رائیگاں نہ جانے دیا

گزرتے وقت کی ہم نے بڑی حفاظت کی  ابراہیم اشک

 

ذرا جو عظمتِ رفتہ پہ حرف آنے لگے

تو اک بچی ہوئی محراب دیکھ لیتے ہیں

راشد جمال فاروقی

 

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم

نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

شہپر رسول

عجب مشکل ہے کہ آرام سے یہ دن گزرتے ہیں

کوئی ہمدرد ہوتا، آ کے میرا دکھ بڑھا جاتا

کوثر مظہری

انا ہی دوست، انا ہی حریف ہے میری

اسی سے جنگ، اسی کو سپر بھی کرنا ہے

ارشد عبد الحمید

مجھے نہ توڑ میں آئینۂ زمانہ ہوں

ہزار تجھ سے مناسب نہیں کہا میں نے

خورشید اکبر

آیا تھا میں کچھ اور ہی شے کی تلاش میں

الجھا دیا گیا مجھے فکرِ معاش میں

سہیل اختر

کھل گئے سارے دہانِ زخم اے فصلِ نمو

پھول کی صورت بدن کی خاک سے باہر نکل

عالم خورشید

 

اب کے موسم کا حال کیا کہیے

ہر پرندہ لہو میں تر آیا

فاروق انجینئر

چراغوں کو بجھے عرصہ ہوا ہے

ابھی تک ہم زیارت کر رہے ہیں

ملک زادہ جاوید

آنکھوں میں سب کی زندہ ہیں بے رمز رتجگے

کیا جانے ان کے ہاتھ سے کیا لے گیا کوئی

خالد جمال

وقت ہے حد سے پرے اپنی نظر ہونے کا

ورنہ امکاں کہاں دیوار میں در ہونے کا

عطا عابدی

کس نے کہا وجود مرا خواب ہو گیا

میرا لہو تو آپ کی پوشاک ہو گیا

کبیر اجمل

شکم کی آگ نے جھلسا دیا تھا جسم و جمال

ہر ایک شخص پہ تھی بے حسی، انا چپ تھی

عمران عظیم

کتنے تارے آسماں سے گم ہوئے

میں کہاں دنیا سے پوشیدہ رہا

جمال اویسی

ساعتیں، صدیاں، تمدن منتظر میرے ریاض

اور اک میں ہوں کہ خود اپنے ہی اندر لاپتہ

ریاض لطیف

مجھ سے بہتر کون لکھّے گا بھلا تفسیرِ غم

میں نے ہر آیت پڑھی ہے درد کے قرآن کی

نعمان شوق

 

بھٹکتی ہے کہاں اے شامِ ہجراں

ہمارے گھر میں آ کوئی نہیں ہے

احمد محفوظ

شوق سے آئے برا وقت اگر آتا ہے

ہم کو ہر حال میں جینے کا ہنر آتا ہے

رسول ساقی

جب آنکھ اشکِ ندامت میں ڈوب جاتی ہے

دعا کا پیڑ بہت بار ور نکلتا ہے

طارق متین

رہتا ہے بدن اور کہیں روح کہیں اور

ہم خود بھی کہاں ہوتے ہیں حجرے میں ہمارے

خورشید طلب

گھٹن اندر ہی اندر مجھ کو زندہ دفن کر دے گی

حصارِ ذات سے باہر نکلنا چاہتا ہوں میں

راشد انور راشد

 

جس سے میں بھاگ رہا ہوں وہی زنجیرِ ہوس

مری نگاہ میں ہر آن رہا چاہتی ہے

اکرم نقاش

غور سے دیکھو شام کا تیکھا لہجہ ساجد

پھٹی پرانی کتابوں سے ملتا جلتا ہے

ساجد حمید

ہماری راہ میں ہیں دھوپ ریت اور پتھر

تمہارے حصے میں ہیں چاندنی، کلی، تتلی

عاصم شہنواز شبلی

ہے کون معتبر؟ کروں کس پر یقین میں

غاصب بنے وہی، جنہیں سمجھا امین میں

جاوید ندیم

صدیوں سے مرے شہر کی تہذیب ہے عریاں

اچھا ہے مرے جسم پہ پوشاک نہیں ہے

سنجے مشرا شوق

کس کو ہے شوق یہاں در بہ دری کا امجد

چھت تھی کمزور مرے گھر کی تو گھر سے نکلے

غفران امجد

یہاں ان اشعار کو نقل کرنے کا مقصد نئی نسل کے تخلیق کاروں کی فہرست سازی قطعی نہیں، بلکہ یہ واضح کرنے کی کوشش ہے کہ اس نسل کے نمائندہ شاعروں کے یہاں فکر و اسلوب ہر دو سطح پر اپنے پیش رووں کے مقابلے نمایاں تبدیلی محسوس کی جا سکتی ہے، اس نسل کے مسائل غیر مرئی نہیں، اس نے اپنی تخلیق کے لئے خام مواد اپنے گرد و پیش کے روز مرہ کے مسائل و مصائب سے حاصل کیا ہے۔ اس کے یہاں نہ تو ترقی پسندوں کی طرح گھن گرج ہے اور نہ ہی جدیدیوں کی طرح مبہم علاماتی نظامِ تخلیق۔ اس نسل کا لہجہ مثبت ہے اور زندگی سے مکالمہ کرنے کی حوصلہ مندی نے اسے منفرد قوتِ نمو عطا کی ہے۔ اس نسل نے اپنا رشتہ اپنی زمین اور اپنے معاشرے سے نہ صرف جوڑے رکھا ہے بلکہ اپنا تخلیقی سفر اپنے احساس و شعور کی روشنی میں شروع کیا ہے۔

اس نسل کا سب سے بڑا کارنامہ میرے نزدیک یہی ہے کہ اس نے کسی بھی طرح کی نظریاتی وابستگی اور سیاسی کمٹ منٹ کے بغیر نہایت خود اعتمادی کے ساتھ اپنے عہد کی تخلیقی سچائیوں کو بروئے کار لا کر نیا شعری منظر نامہ مرتب کیا ہے، جو لائقِ اعتراف بھی ہے اور قابلِ تحسین بھی۔ اب چونکہ یہ ادبی نسل تین چار دہائیوں سے اپنے تخلیقی سفر پہ رواں ہے، لہٰذا پیش رو نسل کے ناقدینِ شعر و ادب سے یہ مطالبہ غیر مناسب نہیں کہ چشم پوشی کی بجائے اس نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کا غیر جانب دارانہ اور پر خلوص جائزہ لیا جائے، تاکہ ۱۹۸۰ءء کے بعد تخلیق کئے گئے شعری سرمائے کی قدرو قیمت کا تعین کیا جا سکے۔

٭٭٭

 

 

 

خاک خمیر کی تخلیقی کائنات

 

انسانی تاریخ کے لا محدود سفر میں عشق ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور ہجر و وصل ایک فطری تجربہ۔ عشق کے بغیر کائنات کی ترسیل و ترویج اور تفہیم کا تصور ہی ممکن نہیں۔ لہٰذا انسانی زندگی کے ہر شعبۂ حیات میں عشق کی کار فرمائی اور اس کے محرکات و ممکنات اور انسلاکات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عشق کا یہ تصور جب کسی تخلیقی فنکار کی شعری سوچ کا حصہ بنتا ہے تو اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کے حرف و لفظ کی پوری شعری کائنات پر پھیل جاتا ہے۔

کرشن کمار طور ہمارے عہد کے ان چند برگزیدہ تخلیق کاروں میں شمار کئے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے حوالے سے عشق اور ہجر و وصل کا نیا محاورہ ایجاد کیا ہے اور اسے اپنی شاعری میں نئی جہتوں میں روشن کیا ہے۔ خاک خمیر ان کی شاعری کا تازہ ترین تخلیقی اظہار ہے ،ا س سے قبل ان کی شاعری کے دس سے زائد مجموعے منظرِ عام پر آ کر ناقدینِ شعر و ادب سے خراج تحسین وصول کر چکے ہیں۔ کرشن کمار طور ایک ایسے تخلیق کار ہیں جن کی فکر کا کینوس بے حد وسیع ہے، ان کی شاعری میں اسلوب اور اظہار کی سطح پر اگر چہ کلاسیکی رچاؤ کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، مگر لہجے کی تازہ کاری، منفرد ڈکشن اور انوکھی تراکیبِ لفظی کے علاوہ طرزِ اظہار کی شگفتگی اور اسلوب کی ندرت نے شاعری سے ان کے عشق کو نئے رنگ و آہنگ سے ہم کنار کر دیا ہے۔ وہ ایک ایسے مست قلندر اور درویش صفت انسان ہیں، جس کا زیادہ تر شعری سفر بیرونِ ذات سے اندرونِ ذات کی طرف ہے اور خود آگہی اور خود آگاہی کے حوالے سے ان کی ذات کا تخلیقی شناخت نامہ ہے۔ نام و نمود کی خواہش اور اردو مراکز سے دور برسوں کی تخلیقی ریاضت اور شعری مراقبے کے باوجود ناقدینِ شعر و ادب کی کم توجہی بھی انہیں اپنی وضع بدلنے پر مجبور نہ کر سکی اور یہی ایک سچے قلم کار کا منصب بھی ہے۔ ادب میں قدامت اور جدت کی مروجہ اور غیر ضروری بحثوں اور تضادات کی پرواہ کئے بغیر اپنے طور پر شعری سفر کرنے والے کرشن کمار طور کے یہاں عشق ایک طرح کی تخلیقی عبادت سے کم نہیں۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ کرشن کمار طور کے یہاں غیر مانوس شعری اصطلاحات کا استعمال کثرت سے ملتا ہے، جو ان کے ہم عصر تخلیق کاروں کے یہاں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ یہ تراکیب اور اصطلاحات میرے نزدیک ان کے انفرادی فکری اور وجودی تجربات کا اہم حصہ ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی یہ اصطلاحات ادب کے عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں مکمل طور سے کامیاب ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری قدامت اور جدت کے ٹکراؤ اور کسی بھی نظریاتی انحراف اور تحفظات کے بغیر اپنے عہد کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اردو شاعری میں راست اظہار اور اسلوب کے اکہرے پن کی گنجائش نہیں ہوتی۔ شعر کے عمودی اور فکری ارتقا کے لئے رمز و کنایہ اور ایہام و ارتکاز ناگزیر ہے، اپنے شخصی تجربات و مشاہدات اور حقیقت کو مجاز میں تبدیل کر کے عصری جمالیات سے ہم آغوش کرنے کا نام ہی در اصل شاعری ہے، اور کرشن کمار طور اس فن میں پوری طرح کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔

اپنے ما فی الضمیر کے تخلیقی اظہار کے لئے اکثر شاعروں کے یہاں کچھ ترجیحی اور کلیدی الفاظ ہوتے ہیں جو شاعری میں بار بار استعارات کی شکل میں نمو پذیر ہوتے ہیں اور اشعار کی تفہیم کے زاویے مقرر کرتے ہیں، کرشن کمار طور بھی اس سے مبرا نہیں، ان کے یہاں بھی ایسے کلیدی الفاظ وافر مقدار میں موجود ہیں جو اشعار کی معنویت اور ان کی گہری فکری بصیرت کو مختلف دشاؤں میں روشن کرتے ہیں۔ عشق، ہجر، وصل، گماں، یقین، سفر، جنوں، دنیا، آئینہ اور دہر وغیرہ ایسے ہی کچھ الفاظ ہیں جنہیں ان کے شعری ڈکشن میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان لفظیات میں عشق ایک ایسا لفظ ہے جس نے ان کی شاعری کو نہ صرف منفرد تخلیقی جہت و ذائقے سے آشنا کیا ہے بلکہ غیر شعوری طور پر ان کی شاعری میں انفرادی اور اجتماعی شعور کے اظہار و ابلاغ اور ترسیل میں سرنامے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

وفورِ عشق سے کیا ہو گیا ہوں

میں خود ہی چہرہ خود ہی آئینہ ہوں

 

کچھ اس نے بھی رکھنی تھیں حدیں عشق میں اپنی

کچھ ہم کو بھی اب وہم و گماں اور تھا ہونا

 

ہمیں تو کام فقط عشق کا ہی آتا تھا

یہ کاروبار نہ کرتے تو اور کیا کرتے

 

جو پیچ ہیں دنیا میں وہ اوروں کے لئے ہیں

اک گیسوئے پر خم سے ہمیں عشق بہت ہے

 

تیری پہچان کی خاطر جو مٹا دے خود کو

ایسا کرنے کے لئے ہو گا کوئی پیکرِ عشق

 

ہم ہی نہیں رہیں گے اگر اس جہان میں

پھر کس کے درمیان رہے گا اک ان کا عشق

 

نہیں ہے عشق اگر زندہ صفت سارے جہاں میں

ہمارے ہجر میں رنگِ وصال آیا کہاں سے

 

طریقِ عشق میں اپنے علاوہ اس کو بھی

گناہ گار نہ کرتے تو اور کیا کرتے

 

محولہ بالا اشعار میں نے کرشن کمار طور کے شعری مجموعے خاک خمیر سے سرسری طور پر ہی منتخب کئے ہیں۔ ان اشعار میں شاعر نے عشق کی مختلف کیفیات اور واردات کو انسانی نفسیات کے حوالے سے ایک وسیع کینوس پر اس طرح پینٹ کیا ہے کہ عشق ان کی شاعری میں غیر شعوری طور پر ایک انفرادی تجربے سے اجتماعی شعور کی طرف سفر کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور بعض اوقات انکشافِ ذات اور قلبی و ذہنی سرشاری کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ انہوں نے عشق کے جن انسلاکات اور محرکات کو اپنے فن کی تخلیقی اساس پر رکھا ہے وہ ان کی شاعری میں امتیازات کے اعتبار سے خاصی اہمیت کا حامل ہے اور ان کی جمالیاتی حس کو انگیز کرتا ہے۔ وہم و گمان سے ذات کے اثبات اور انکشاف تک کے وسیع سفر میں، چہرے سے آئینہ بننے تک، عشق کرشن کمار طور کے یہاں ہجر و وصل کے نئے معانی و مفاہیم کے ساتھ انسان کے پورے وجود میں پھیل کر بیکراں ہونے کا عمل ہے، لہٰذا یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عشق ان کے یہاں ایک ایسا داخلی اور فکر انگیز استعارہ ہے، جس نے ان کی تمام شاعری کو عشق زار بنا کر نئے ذائقے سے آشنا کر دیا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ کرشن کمار طور کی شاعری میں رمز و کنایہ اور غیر مانوس تراکیب لفظی، منفرد استعارات و تشبیہات اور غیر مستعمل بحروں کی کارفرمائی بھی بہت ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کے اتنے غیر مانوس تخلیقی اور شعری نظام کے باوجود ان کے یہاں تفہیم شعر کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مکرر قرأت سے اشعار کی معنویت کو کئی دشاؤں میں منعکس کر کے مفاہیم کو نیا وژن عطا کرتا ہے۔

مجھے کرشن کمار طور کی شاعری کے مطالعے کا شرف برسوں سے حاصل رہا ہے، کبھی رسائل و جرائد کے صفحات پر کبھی براہِ راست ان کے شعری مجموعوں کے حوالے سے اور مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہے کہ ان کی شاعری میں عشق ایک وسیع تر اور معنی خیز استعارہ ہے، مگر ان کے یہاں داخلی تجربات و محسوسات کی آمیزش سے ایک نئی اور پر اسرار شعری فضا قائم کرنے کا عمل شدید ہے، جو کئی بار ان کی خاموشی اور کلام کے درمیان پھیلی ہوئی بسیط و بے پناہ تخلیقی بصیرت و آگہی کی بشارت دیتا ہے، جو آخر کار ان کی شاعری میں ایک تجسس اور تحیر کی شکل میں منتج اور نمودار ہوتا ہے۔ مجھے دورانِ مطالعہ اکثر یہ محسوس ہوا ہے کہ ان کے یہاں نہ صرف خود سے مکالمہ کرنے کا جذبہ ہے بلکہ زندگی کے مسائل و مصائب سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بھی ہے۔

کوئی بھرم مری تکمیل کا ضروری ہے

کرے نہ کیوں مرا افلاک مجھ کو گردش میں

 

جو کہ تھی وادیِ اسرار، اسے ڈھونڈ لیا

رکھ دیا سارے زمانے کو خبر میں ہم نے

 

تھی اس کی بزم میں موجودگی ضروری مگر

وہاں پہ ہم نہ تھے حاضر جہاں تھا کوئی اور

 

نکل پڑوں اگر اثبات کے طلسم سے میں

یہ اسم میرے نہیں کا، نہیں ہے رہنے کا

 

میں اس کی آنکھ پہ پورا کبھی اترتا نہیں

مرے علاوہ اسے اور کچھ گماں بھی ہے

 

یقیں کو سمجھوں یہاں میں فقط اضافی شئے

کچھ اور طرح سے اب خانۂ گماں کھولوں

 

حیراں ہیں بھلا دنیا میں اب زندہ ہے کیسے

وہ شخص جسے خواہشِ دنیا بھی نہیں ہے

 

اک ذرا سا بھی نہ انکار مرے دل نے کیا

یہ مسافر بڑی جلدی سے سفر میں اترا

مایوسی، قنوطیت، یاس تنہائی موجودہ صارفی عہد میں زندگی کرتے ہوئے انسان کا مقدر ہے، اجنبیت، خود فراموشی اور عدم تکمیلیت اور نا آسودگی کے احساس نے موجودہ عہد میں انسان اور معاشرے کے درمیان ممکنہ رابطوں کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ تہذیبی قدروں کے زوال کے احساس اور اعتبار کو شدید ہی کیا ہے، اور شاید یہی سارے موضوعات ہمارے عہد کی شاعری میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، مگر کرشن کمار طور کی شاعری کے کینوس پر زندگی کے مثبت رنگوں اور جذبوں سے بنائی ہوئی تصویروں میں دلکشی اور شگفتگی کو نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے یہاں اثبات ہے، امکان ہے، خواب ہیں اور یقین ہے۔ وہ اپنی شاعری میں جہاں نظر آتے ہیں وہاں نہیں ہیں، ان کے یہاں شاعری میں ایک ایسے عام آدمی کو پیکر کیا گیا ہے جسے خواہشِ دنیا تو نہیں مگر وہ اپنے خانۂ گماں کو ایک بالکل نئی طرح سے کھول کر اس کے اندر سے یقین کو کشید کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی انفرادیت کرشن کمار طور کی شاعری کی قرأت کو ایک نئے زاویے سے کرنے کا نہ صرف مطالبہ کرتی ہے، بلکہ قاری کو ایک طلسمِ خانۂ معانی میں لے جاتی ہے، جہاں وہ ذہنی آسودگی اور سرشاری کے نئے موسموں اور منظروں سے ہم آغوش اور ہم آہنگ ہوتا ہے، جو میرے نزدیک اچھی اور عمدہ شاعری کا جواز بھی ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ کرشن کمار طور کے یہاں اشعار میں منفرد تراکیبِ لفظی اور نئی شعری اصطلاحات کا خاص التزام پایا جاتا ہے اور میں پورے وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ یہ فنی نظام ان کے یہاں بغیر کسی تصنع اور شعوری کوشش کے فطری طور پر ہی ان کے تخلیقی عمل کا حصہ بنتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ناقدینِ شعر و ادب کرشن کمار طور کی شاعری کو ادب کے کس خانے میں رکھتے ہوں گے، یا جدید شاعری کے مطالبات اور تقاضے کیا ہونے چاہئیں، مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ اچھی شاعری وہ ہے جو قاری کے ذہن و دل پر مثبت اثرات مرتب کرے اور اسے آسودگی اور سرشاری سے ہم آغوش کرے، اس اعتبار سے دیکھیں تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ کرشن کمار کی شاعری کی غیر مشروط قرأت قاری کو ذہنی سرشاری سے ہم کنار کرتی ہے۔ میں چونکہ ان کی شاعری کا دیرینہ قاری ہوں اور میں نے ان کی شاعری کا توجہ اور دلچسپی سے با الستعیاب مطالعہ کیا ہے، لہٰذا یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی شاعری کے بنیادی اسٹرکچر پر موسموں کے سرد و گرم کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے، یعنی ادب میں ہونے والے تغیرات اور تحریکات ان کی تخلیقی سوچ اور اسلوب و بیان پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہے ہیں اور شاعری سے ان کا یہ کمٹمنٹ قابلِ تحسین ہے، وہ اردو ادب کے ایک ایسے درویش ہیں جو برسوں سے اپنے حجرے میں باہر کے موسموں سے بے خبر دھونی رمائے بیٹھا ہے۔

 

کبھی کسی سے طلب کرتے ہیں کہاں درویش

صدائیں دیتے ہی رہتے ہیں بے گماں درویش

 

وجودِ دہر پہ بس اک نگاہ ڈالتے ہیں

ہیں رکھتے ماتھے پہ خوش ہو کے ہر زیاں درویش

 

سنتا ہی نہیں کوئی کسی کی تو یہاں پر

درویش کی ہو عرضِیِ سفاک کہ ہم ہوں

دنیا سے ان کی یہ بے خبری بلکہ بے ربطگی انہیں درونِ ذات کے تمام موسموں اور منظروں کے حوالے سے خارجی دنیا کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے، اور اپنے اس مراقبے سے وہ ایک بالکل نئے طرح کا تخلیقی مواد حاصل کر کے واپس لوٹتے ہیں۔ دنیا جو انسانوں کے لئے ایک عارضی سرائے ہے مگر انسان اپنی جبلی خواہشوں کی تکمیل کی کوشش میں دن رات نہ صرف سرگرداں رہتا ہے بلکہ نا آسودگی کے جنگل میں بھٹکتے بھٹکتے وہ مرنا تک بھول جاتا ہے۔ یہ زندگی کے تئیں ایک عام آدمی کا نظریہ ہو سکتا ہے۔ مگر اہلِ نظر اور درویش صفت انسان دنیا کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی نہ صرف مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں بلکہ دنیا سے فرار کی راہ بھی اختیار کرتے رہتے ہیں۔ کرشن کمار طور کے یہاں ایسے بہت سارے اشعار مل جاتے ہیں جن میں دنیا کے لفظ کو استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے مگر اصل میں اس سے زندگی کے خارجی عوامل کی افہام و تفہیم کا نیا محاورہ وضع کیا گیا ہے۔ ان کے یہاں ہاں اور نہیں، اثبات و نفی بظاہرسب ایک ہی ہیں اور زندگی کے گہرے فلسفے کے بطن سے پیدا ہونے والے امکان و انکشافات کا نہ صرف مظہر ہیں بلکہ عام انسانی تجربات کے ناقابلِ فہم ہونے کا بھی احساس دلاتے ہیں۔

ہے چکا چوندھ تماشے سے مزین سب کچھ

ایک دنیا کو بسا رکھا ہے گھر میں ہم نے

 

مٹی کی طرف ہاتھ نہ پھیلائے کبھی بھی

ہم نے تو کبھی جانبِ دنیا نہیں دیکھا

 

اس سر کو اٹھانے میں کی ہم نے بھی تاخیر

دنیا نے بھی کچھ اپنا ستم دیر سے رکھا

 

نکل بھی آتے ہیں دنیا کے دائرے سے ہم

ہیں چاہتے بھی کسی انتساب میں رہنا

 

کچھ ہم پہ بھی دنیا کا بہت خوف ہے طاری

کچھ ان دنوں اس کی بھی ادا ٹھیک نہیں ہے

 

دنیا کے افق میں ہی ہوئے جاتے ہیں مدغم

ہم لوگ کہاں رکھتے ہیں دن رات الگ سے

 

بس ایک پل کا تماشہ ہے سامنے کی چیز

میں کیا کہوں کہ یہ دنیا ہے سامنے کی چیز

 

اس قبیل کے اور بھی بہت سے اشعار خاک خمیر سے بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں مگر مضمون کی طوالت کے سبب اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں، اپنی اس رائے کے ساتھ کہ کرشن کمار طور کے یہاں دنیا استعارے سے زیادہ ایک ایسے روشن دان کی حیثیت رکھتی ہے جس سے وہ اندرونِ ذات کے علاوہ بیرونِ ذات کے مناظر بھی نہ صرف دیکھ سکتے ہیں بلکہ محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ ان کے یہاں تخلیقی سوچ کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس مضمون میں ان کی شاعری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ انہوں نے اپنا مخصوص ڈکشن از خود وضع کیا ہے اور کسی بھی شاعر کے لئے یہ ایک بڑی بات ہے، اس لحاظ سے بھی کہ یہی ڈکشن اس کی تخلیقی شناخت کا معتبر حوالہ بھی ہوتا ہے۔ کرشن کمار طور اب عمر کی اس منزل میں ہیں جہاں سے اکثر تخلیق کار واپسی کا سفر شروع کر دیتے ہیں مگر کرشن کمار طور ان خوش نصیب تخلیق کاروں میں ہیں جن کے یہاں اب بھی فکر اور اظہار کی سطح پر ایک طرح کی تازہ کاری اور شگفتگی ہے، نوع بہ نوع مضامین ان کے شاعری میں ایک تواتر اور تسلسل سے محسوس کئے جا سکتے ہیں، جس کے لئے وہ یقینی طور پر قابلِ مبارک باد ہیں کہ ابھی ان کی فکر کا سوتا جاری اور رواں دواں ہے۔

شاعری جتنی ہوئی اس کے حوالے سے ہوئی

اس کا اک نام مرے سارے ہنر میں اترا

٭٭٭

 

 

 

شموئل احمد کے ناول ’’گرداب‘‘ پر ایک نظر

 

’’گرداب‘‘ شموئل احمد کا نیا ناول ہے اس سے قبل ان کے تین ناول ’’ندی‘‘، ’’مہاماری‘‘ اور ’’اے دلِ آوارہ‘‘ منصہ شہود پر آ کر ناقدینِ ادب سے خراج حاصل کر چکے ہیں۔ شموئل احمد ایک ایسے versatile تخلیق کار ہیں جو بیک وقت کئی سطحوں پر فکر و عمل اور تخلیق میں مصروف رہتے ہیں اور چونکہ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک سول انجینئر ہیں لہٰذا ان کی تخلیقات میں ایجاز و اختصار کے ساتھ اظہار میں precision اور accuracy کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اپنے مطالعے، مشاہدے، تجربات اورمحسوسات کو بنیاد بنا کر اپنی زند گی رنگ تخلیقی کائنات کو منور کرنے والے شموئل احمد کے یہاں مرد اور عورت کے درمیان جسمانی اور روحانی رشتوں کی سچائی اور تقدس کے اظہار کی خوش سلیقگی اور ہنر مندی ہی ان کا تخلیقی وصف ہے۔ میں نے ان کے پہلے تینوں ناول نہیں پڑھے ہیں مگر ان پر ہونے والے مباحث سے میرے اس خیال کو تقویت ملی کہ ان کا سیاسی، سماجی اور تہذیبی شعور اور بصیرت ان کی تخلیقات میں زندگی کی علامت بن جاتے ہیں، اس کے علاوہ عورت کے اندر ایک نئی عورت کی تلاش انہیں صنف نازک کی جنسی نفسیات اور پیچیدگیوں کی تفہیم اور ترسیل پر آمادہ کرتی ہے، یوں تو شموئل احمد کے افسانے ایک عرصہ سے ادب کے سنجیدہ قارئین کے مطالعے کا حصہ بنتے رہے ہیں مگر سنگھاردان کی اشاعت کے بعد ان کے افسانوں کی تفہیم کا نیا رویہ سامنے آیا ہے، اور پھر اونٹ نے تو کمال ہی کر دیا، ان پر جنسی موضوعات کو شدت سے برتنے کا الزام ہی عائد کر دیا، مگر اس حقیقت کا کیا کیا جائے کہ مردو عورت کے درمیان جنسی رشتہ فطری ضرورت اور عالمگیر تہذیبی صداقت ہے، شرط ہے اس موضوع کو سلیقے اور ہنر مندی سے برتنے کی۔

زیر نظر ناول گرداب بھی عورت اور مرد کے درمیان نا معلوم جنسی رشتوں کی ضرورت اور اس کی نفسیات پر مبنی ہے، جو جسم سے شروع ہو کر ذہن اور پھر روح تک پھیلتا چلا جاتا ہے، مگر اپنی تمام تر پیچیدگیوں اور الجھنوں کے ساتھ۔ یہاں اس بات کا ذکر مناسب ہو گا کہ شموئل احمد ایک ماہر نجومی (پامسٹ) اور ٹیرو کارڈ ریڈر (reader)ہیں لہٰذا اپنے افسانوں اور ناولوں میں اپنی اس علمی لیاقت اور مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے کرداروں کی کنڈلی یا زائچہ بنا کر اس کے ستاروں کی چال اور ان کی پوزیشن کے اعتبار سے رنگ بھرنے میں ماہر ہیں جس سے ان کی تخلیقات کے نئے مظاہر سامنے آتے ہیں اور ان کی کہانیوں کا کینوس کئی دشاؤں میں روشن ہو جا تا ہے۔

زیر نظر ناول گرداب کی کہانی بھی مرد و عورت کے درمیان جنسی ضرورت اور اس کی نفسیات کے سہارے ہی آگے بڑھتی ہے، اپنے اس ناول میں بھی انہوں نے پامسٹری کے علم کا استعمال نہایت عمدگی اور ہنر مندی سے کیا ہے، بلکہ گرداب کے سب سے زیادہ مضبوط کردار ساجی سے ان کی ملاقات اور رشتہ کا ذریعہ بھی ان کا یہی علم ہے۔ در اصل ناول کا مرکزی کردار جو واحد متکلم ہے، جو ناول نگار بھی ہو سکتا ہے، صوبائی حکومت میں ملازم ہے اور اس کا تبادلہ اکثر بہار کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ہوتا رہتا ہے لہٰذا وہ اپنی بیوی اور بچوں کو پٹنہ میں ہی رکھ کر خود آنا جانا کرتا ہے، اس بار اس کا تبادلہ لال گنج میں ہو جاتا ہے جہاں کرائے کے مکان لیتے ہوئے اس کی ملاقات ساجی سے ہو جاتی ہے جو مالک مکان کی بیوی ہے۔ ساجی ناول کا ایک ایسا ضروری کردار ہے جو کہانی کا لازمی حصہ ہے اور اس ساتھ ساتھ آخر تک سفر کرتا ہے اور جس کے بغیر کہانی کا تصور بھی ممکن نہیں، شموئل احمد کا کمالِ فن یہ ہے کہ انہوں نے ساجی کے کردار کو نہایت ہنر مندی اور چابکدستی سے تراشا ہے،

ناول میں ساجی کو ایک کم پڑھی لکھی عورت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس کے پیچھے ناول نگار کی کیا سوچ ہے اس کا اندازہ ناول کو پورا پڑھنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ کہانی کے مطابق ساجی کی شادی ایک ایسے گھر میں ہوئی ہے جہاں سارے لوگ مڈل فیل ہیں مگر شادی سے پہلے خود کو تعلیم یافتہ ظاہر کرتے ہیں خود اس کا شوہر یعنی درجات بھی کم پڑھا لکھا ہے اور ساجی سے یہ جھوٹ بھی بولتا ہے کہ اس کے پاس کتابوں سے بھری الماری ہے، لیکن سچائی یہ ہے کہ ایک اخبار تک گھر میں نہیں آتا شاید اسی لئے درجات کے کردار کو احمق، بیوقوف، گاؤدی اور کم آئی کیو والے شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ناول کے مرکزی کردار سے ساجی کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنی کنڈلی میں ستاروں کا حال جاننے کے لئے آئی تھی مگر ناول نگار کچھ حال بتا کر اس کی کنڈلی کے نامکمل ہونے کی بات کہتا ہے اور خود صحیح کنڈلی بنانے کا وعدہ بھی کرتا ہے، اور یہ تعجب بھی کرتا ہے کہ اسے ناول نگار کے نجومی ہونے کی بات کیسے معلوم ہوئی؟ ۔ درجات نے انکشاف کرتا ہے اسے ناول نگار کے آفس کے ہیڈ کلرک نے یہ جانکاری دی، مگر درجات سے ہیڈ کلرک کی ملاقات کہاں، کب اور کیسے ہوئی یہ پتہ نہیں چلتا؟۔ پھر ساجی سے دوسری اور باقاعدہ ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اپنی بیٹی رینو کی کنڈلی دکھانے آتی ہے اور اس بار اس کا شوہر ساتھ نہیں ہوتا، اور یہیں سے ساجی اور ناول کے مرکزی کردار کے درمیان ایک بے نام سی قربت کا آغاز ہوتا ہے، ساجی کے ساتھ تنہائی میں کچھ وقت گذار کرا سے احساس ہوتا ہے کہ پانچ بچے جننے کے بعد بھی ساجی کے اندر کی عورت مری نہیں تھی، وہ سادہ لوح اور معصوم تھی، وہ ساجی کو چھونا چاہتا ہے اور یہیں سے ساجی کی زندگی میں موجود ادھورے پن اور خالی پن کے اندھیروں کو بھرنے کیلئے جسمانی رشتوں اور ضرورت کے لئے ناول میں سازگار ماحول بنانے لگتا ہے۔ ناول کے صفحہ ۱۴ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

’’مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میرے لئے اس عورت کو چھونا آسان ہے۔ ہر عورت اپنے لاشعور کے نہاں خانوں میں ایک مثالی مرد کی تصویر سجائے رکھتی ہے۔ وہ اس شخص سے قربت محسوس کرتی ہے جس میں مثالی شبیہ نظر آتی ہے، ظاہر ہے درجات میں یہ خوبیاں برائے نام بھی نہیں تھیں اور مجھ میں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔؟ میرے پاس کتابوں سے بھری شیلف تھی۔ میں اس کی نظر میں ہیرو تھا۔۔ ۔۔ ۔ اعلا درجے کا رئیس۔۔ ۔۔ ایک ہاتھ میں کتاب۔۔ ۔۔ ۔ انگلیوں میں سگریٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ خدمت گذار پاؤں دباتے ہوئے اور جالیوں سے تکتی وہ۔۔ ۔۔ ۔!‘‘

ناول کے مرکزی کردار اور ساجی کے درمیان قائم ہوتے رشتوں نے کئی آسانیاں بھی فراہم کر دی ہیں، اب اس کے لئے چائے، ناشتہ اور کھانا وغیرہ بھی گاہے بگاہے ساجی کے یہاں سے آنے لگا ہے، اور اس کے کپڑے وغیرہ بھی ساجی کے یہاں دھلنے لگے ہیں۔

ناول کا مرکزی خیال عورت اور مرد کے درمیان گمشدہ رشتوں کی تلاش اور اس کی بازیافت پر مبنی ہے اور یہ رشتہ ناول میں کئی سطحوں پر نمودار ہوتا ہے، ناول نگار اپنی بیوی نصیب سے بھی بہت محبت کرتا ہے، جو پٹنہ میں اپنے دو بچوں سیفی اور کیفی کے ساتھ رہتی ہے۔ مگر ساجی سے اس کے رشتوں کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ محض جنسی اور جبلی خواہشوں کی تکمیل کی کوشش ہے؟ کیا یہ رشتہ ناول نگار کی اپنی ذاتی زندگی میں کسی کمی یا نا آسودگی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے، یا پھر اس رشتے میں کوئی دوسرا پہلو بھی تلاش کیا جا سکتا ہے، اس کا جواب ناول کے مطالعے سے واضح طور پر مل جاتا ہے۔ چند جملے ملاحظہ فرمائیں۔

میں صرف دوستی چاہتی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ اور بس۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔! صفحہ ۲۷

ایک دیا آپ کے نام کا بھی جلاؤں گی۔ صفحہ ۳۸

میں جانتی ہوں آپ میرے دوست نہیں ہو سکتے صفحہ ۴۸

میں صرف دوستی چاہتی ہوں۔ صفحہ ۴۹

آپ حد سے گذرنا چاہتے ہیں مگر میں شادی شدہ ہوں صفحہ ۴۹

ان جملوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ساجی اپنی زندگی کے خالی پن اور ادھورے پن کو تو بھرنا چاہتی ہے مگر جسم کی قیمت پر نہیں مگر کمار جو ساجی کا نہ صرف مجازی ہیرو ہے بلکہ اس کا آدرش بھی ہے، اس کے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا ہوتا ہے وہ ساجی کو یہ اطمینان دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ دوستی اگر دل سے ہو تو اس میں جسم بھی شامل ہو جاتا ہے، یہی نہیں اس کے مطابق ’’اصل میں عورت سے تعلق استوار ہوتا ہے تو بیچ میں لچھمن ریکھا بھی ہوتی ہے جو فوراً عبور نہیں ہوئی تو وقت کے ساتھ گہری ہونے لگتی ہے اور عمر بھر قائم رہتی ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اس لکیر کو مٹا دینا تھا ورنہ یہ تعلق محض دوستی تک محدود رہتا۔‘‘ یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جس سے ناول نگار آخر تک خود کو الگ نہیں کر پاتا بلکہ اس کو زندگی کا سچ ثابت کرنے کے لئے شعوری کوششیں بھی کرتا ہے۔

ناول میں جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے سارے منظر اپنے آپ صاف اور واضح ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں ناول نگار کی تعریف اس لئے بھی لازم ہے کہ اس نے نہایت ایمانداری اور صاف گوئی سے ساجی کے دل میں روشن اس بے نام رشتے کی نوعیت واضح کر دی کہ وہ اس رشتے کو محض دوستی تک محدود رکھنا چاہتی ہے، ورنہ اس کا اپنا یقین تو یہی ہے کہ جسم کے خلوص سے بڑھ کر کوئی خلوص نہیں اور وہ اپنے اس مشن پر ہی آگے بڑھتا ہے حالانکہ وہ کہیں نہ کہیں اس انجانے خوف سے بھی دو چار ہے کہ ’’عمر کے اس حصے میں اس قسم کے تعلقات۔۔۔۔۔؟ بات کبھی تو طشت از بام ہو گی۔ نصیب پر کیا اثر ہو گا؟۔‘‘

ان سب خوف اور تذبذب کے باوجود ناول نگار ساجی کے جسم کے خلوص کا منتظر ہے، وہ ہر رات اس کا انتظار کرتا ہے مگر کیا عورت اپنا جسم اتنی آسانی سے پیش کر دیتی ہے؟ جتنی آسانی سے مرد خود کو اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے کے لئے پیش کر دیتا ہے۔ ایک رات جب ساجی اس سے ملنے آتی ہے اور یہ شرط رکھتی ہے کہ

’’مجھے سیندور لگاؤ‘‘

’’سیندور؟؟؟‘‘

میں مسکرایا۔ اتنی سی بات؟

’’اتنی سی بات۔۔ ۔۔ ۔۔؟ تم اسے اتنی سی بات کہتے ہو؟‘‘ وہ تقریباً رو پڑی۔

میں نے آسمان کی طرف دونوں ہاتھ پھیلائے۔ ’’اے چاند! تو گواہ ہے۔ میں اس عورت کو اپناتا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔! اور میں نے چٹکی بھر سیندور اس کی مانگ میں بھر دی۔ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

میں تو دروپدی ہو گئی اس نے اپنا سر میرے سینے پر رکھ دیا۔‘‘

ناول میں یہاں سے ایک نیا زاویہ روشن ہوتا ہے، ساجی جو ایک کم پڑھی لکھی اور سادہ سی عورت ہے اسے ایک طرح کے تحفظ کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ بقول ناول نگار اپنے جسم کا خلوص دینے کو راضی ہو جاتی ہے اور اب ناول کا مرکزی کردار ساجی میں اپنی بیوی سے الگ ایک نئی عورت دیکھنے لگتا ہے، ایک ایسی عورت جو مرد کی جنسی تسکین کو نقطۂ عروج تک پہنچا کر خود بھی جنسی تسکین حاصل کرتی ہے، وہ ساجی کے ساتھ اپنی نا آسودہ جنسی خواہشات پوری کرنا چاہتا ہے، وہ سازی کو مکمل طور پر برہنہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اسکی تمام تر منت و سماجت کے باوجود، اس کے اس اعتراف اور انکشاف کے باوجود کہ وہ برہنہ ہو کر کولڈ ہو جاتی ہے، ناول کا مرکزی کردار اسے برہنہ کر کے ہی سیکس کرنے پر آمادہ رہتا ہے، اور اس کے لئے دلائل بھی دیتا رہتا ہے۔

میں نے اسے کپڑوں سے بے نیاز کرنا چاہا۔ وہ مزاحمت کرنے لگی۔۔ ۔۔ ۔۔ پلیز مجھے اور عریاں مت کرو۔ میں پوری طرح برہنہ نہیں ہو سکتی۔۔ ۔۔ ۔۔ کمار۔۔ ۔۔ ۔۔ کمار۔۔ ۔۔ ۔۔ مجھے ننگا مت کرو۔۔ ۔۔ ۔۔!

آخر کار ناول نگار ساجی کو یہ اطمینان دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ عورت ہمیشہ اسی طرح ننگی کی گئی ہے۔ اب اسے اپنی بیوی نصیب اور سازی میں ایک واضح فرق نظر آنے لگا تھا، وہ نصیب کے سامنے سگریٹ اور شراب کا شغل نہیں کر سکتا تھا، جبکہ ساجی اسے خود اپنے ہاتھوں سے سگریٹ کیا شراب کے پیمانے بنا کر پیش کرنے پر راضی رہتی ہے۔

ناول کا مرکزی خیال عورت اور مرد کے درمیان جسمانی اور جنسی رشتوں کے گرد ہی گھومتا ہے، مگر کیا یہ رشتہ پوری کہانی کے درمیان کبھی جسم سے روح کی طرف بھی سفر کرتا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ناول نگار کے اس دعوے کے باوجود بھی نہیں ملتا کہ محبت ہمیشہ روحانی ہوتی ہے۔ جسم وسیلہ ہوتا ہے۔ جسم سے گذرے بغیر کوئی روح تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور کئی بار یہ احساس قوی ہوتا چلا جاتا ہے کہ ساجی اور کمار دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کسی اور ہی ضرورت کے سبب ہم رشتہ ہیں اور اپنے آپ سے بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ جن کا اندازہ ان چند اقتباسات سے ہو سکتا ہے۔

’’میں سوچ رہا تھا کہ ساجی مجھ تک میری محبت میں نہیں پہنچی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس اسے میری بانہوں تک کھینچ لایا ہے۔ میری بازوؤں میں وہ محفوظ ہے لیکن کیا میں بھی اس کے پہلو میں محفوظ ہوں؟‘‘۔۔ ۔۔ ۔۔ صفحہ ۷۰

’’مجھے درجات سے نفرت ہو رہی تھی، اس شخص کا سینہ ناکام آرزوؤں کا مسکن ہے۔ ایک ناکام آدمی، کہیں سے ساجی مل گئی۔ جو اس کے جھوٹ کو جی رہی ہے اور خود بھی جھوٹ ہو گئی۔ ایک نمبر کی ہائپو کریٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ پتی۔۔ ۔۔ ۔۔ پتی۔۔ ۔۔ ۔۔ پتی۔۔ ۔۔ ۔۔ اور خود پرائے مرد سے ہم بستر ہوتی ہے۔‘‘

’’میں مسکرایا لیکن خاموش رہا۔ مجھے یاد ہے میں نے ایسا کیا تھا لیکن یہ میری محبت نہیں تھی یہ میری اداکاری تھی میرے دل نے نہیں کہا تھا اسے سینے سے لگا لو۔‘‘

’’خود تو میری بانہوں میں عیش کرے گی۔۔ ساجی کی حیثیت ایک داشتہ سے زیادہ کیا ہو گی۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ایک بیوی کسی کی داشتہ ہو گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ عورت کی تنزلی کی انتہا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ محبت عورت کو ڈیگریڈ کرتی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔؟

میں کیا کروں ۔۔ ۔۔ ۔۔؟ عورت کا جسم ایک گرداب ہے، جس میں میں اتر چکا ہوں۔

’’ساجی مجھے دل سے چاہتی ہے لیکن میں اسے دماغ سے چاہتا ہوں‘‘

محولہ بالا اقتباسات سے یہ نتیجہ نکالنا کوئی مشکل نہیں کہ ناول کے مرکزی کردار یعنی ساجی کے کمار کے ذہن میں محبت کا جو تصور ہے وہ روحانی بالکل نہیں، بلکہ وہ جسمانی ضرورتوں اور جنسی ضرورتوں کی تکمیل کا خواہش مند ہے اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا جھکاؤ سازی کی طرف محض نوکری میں اکیلے رہنے کے سبب ہوا ہے یا پھر اس کا تعلق کسی گہری نفسیاتی الجھن سے ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ ساجی اور کمار کے درمیان قائم ہوئے رشتے میں شدت اور intimacyضرور تھی۔ اور یہ رشتہ اس سطح پر تھا کہ ایک دونوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر اور لازم و ملزوم ہو گئے تھے۔ اس حقیقت سے قطعِ نظر کہ شادی شدہ مرد اور عورت کے درمیان اس طرح کے رشتے بہت دنوں تک برقرار نہیں رہتے اور جسموں کی ضرورت ختم ہوتے ہی جذباتی سطح پر بھی مر جاتے ہیں اور پھر مرد اور عورت دونوں اپنی اصل زندگی میں واپس چلے جاتے ہیں۔

ناول میں ایک نیا اور گمبھیر موڑ اس وقت آیا جب ساجی نے اپنی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دینے کی غرض سے پٹنہ شفٹ ہونے کا پروپوزل رکھا اور منطق یہ دی کہ پٹنہ میں رہ کر وہ اپنے کمار سے ہمیشہ مل سکے گی اور اپنی بیٹیوں کو بھی اچھے اسکول میں تعلیم دلا سکے گی۔ ظاہر ہے ساجی کی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اپنے بل بوتے پٹنہ میں مکان، تعلیم اور گھریلو اخراجات کا بوجھ برداشت کر سکے۔ لہٰذا یہ سارا بوجھ ناول کے مرکزی کردار کو ہی برداشت کرنا تھا اور یہ سب کچھ understoodتھا۔ مکان کا انتظام، بیٹیوں کے داخلے اور گھر کے اخراجات تک بات محدود رہتی تو الگ بات تھی، ساجی کی شرط اور خواہش یہ تھی کہ اس کا کمار جب بھی پٹنہ آئے تو اپنی بیوی نصیب سے ملنے سے پہلے ایک دو دن اس سے مل کر جائے اور پٹنہ سے لال گنج واپس جاتے ہوئے بھی اس سے ملے۔ شروع میں یہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا، پٹنہ آ کر پہلے ساجی یعنی اپنی داشتہ کے گھر آنا، گھر میں ضروری سامان مہیا کرنا، ساجی اور بچوں کو گھمانا، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر اپنے گھر یعنی نصیب اور اپنے بچوں سے ملنا، ظاہر ہے اب ناول کے مرکزی کردار کی مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں اور وہ جسم کا خلوص حاصل کرتے کرتے خود دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا، جس کے سبب ذہنی پریشانی ناگزیر تھی۔ جس کا اظہار ناول کے آخری حصہ میں کئی بار کیا گیا ہے۔

’’اب ساجی پوری طرح میری دسترس میں تھی تو میں اس کی قربت میں ایک طرح کی الجھن محسوس کر رہا تھا‘‘

’’ساجی میری دسترس میں تھی یا میں اس کے قبضے میں تھا۔‘‘

’’دس دنوں کا راشن خریدا۔ اپنے لئے وہسکی لی۔ گھر آیا تو ایک نا معلوم سا غصہ میرے اندر دھوئیں کی طرح پھیل رہا تھا گویا سارے کنبے کا بوجھ۔۔ ۔۔ ۔۔؟ مجھے زنجیر صاف نظر آ رہی تھی جس کا سرا ساجی کے ہاتھوں میں تھا۔‘‘

ناول نگار کی الجھنیں اور ساجی سے اکتاہٹ کا سبب محض مالی بوجھ نہیں تھا بلکہ اس کے لا شعور میں ایک طرح کا احساسِ شرمندگی بھی تھا کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے اور یہ احساسِ جرم ایک ایسی نفسیاتی الجھن تھا جو کمار کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا کہ ’’کیا میں اس عورت سے محبت کرتا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔؟ یا ہمارے درمیان محض سیکس ہے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ سیکس نے مرد کو بھی ادھورا رکھا ہے اور عورت کو بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ہم دونوں ادھورے ہیں اور ہمیں ملانے والی کڑی سیکس ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ شاید ہم کسی اور طرح ایک نہیں ہو سکتے۔۔ ۔۔ ۔۔ ہماری روح میں سناٹا ہے۔‘‘

اور حقیقت یہ ہے کہ روح کا سناٹا پرائے جسم کی روشنی سے پُر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اپنے آپ کو بہت دن تک اس دھوکے میں رکھا جا سکتا ہے کہ روح تک پہنچنے کا راستہ محض جسم سے ہو کر گزرتا ہے۔ ساجی جو اس ناول میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور اس نے اپنی زندگی کے ادھورے پن کو مکمل کرنے کے لئے ایک پرائے مرد کا سہارا لیا۔ ساجی کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، مطالعے کا شوق تھا، اچھی زندگی گزارنے کی خواہش تھی، ایک پڑھے لکھے شوہر کا خواب دیکھا تھا اس نے، مگر یہ سب کچھ وہ اپنی زندگی میں حاصل نہ کرسی، کمسنی میں اس کی شادی ایک کم پڑھے لکھے اور معمولی آدمی سے ہو گئی، اور پانچ بیٹیوں کی ماں بھی بنی، اپنی تمام تر نا آسودگیوں اور خالی پن کے باوجود اس نے اپنے ادھورے خوابوں کی تعبیر اپنی بیٹیوں کی آنکھوں میں روشن کر دی اور انہیں اچھی تعلیم دلانے کا منصوبہ بنایا جس کے لئے اسے کمار کی صورت میں ایک سہارا مل گیا۔

ناول کا کلائمکس بہت کنونسنگ (convincing) نہیں ہے اور مصنوعی لگتا ہے۔ چونکہ ناول کا ہیرو، ساجی سے اکتا چکا ہے، اور دو کشتیوں میں سوار ہونے کے سبب بہت ساری ذہنی پریشانیوں اور نفسیاتی دباؤ کا شکار بھی ہے لہٰذا ساجی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے، جس کے لئے ساجی کے گاؤں میں ایک شادی میں پہاڑی پر اپنی بیوی نصیب، درجات اور دیگر لوگوں کی موجودگی میں ساجی کے ذریعہ تصویریں لینے کے دوران میسمرزم کے ذریعہ suggestion بھیج کر خودکشی پر آمادہ کرنے کا عمل قابلِ ستائش نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ایک طرح کا فرار ہی ہے۔ ناول نگار کے میسمرزم کے علم کی اطلاع پورے ناول میں کہیں نہیں دی گئی ہے، خیر یہ ایسا ضروری جز بھی نہیں کہ ناول کی کہانی پر اثر انداز ہو سکے۔ اس طرح کے اختتام کو ناول نگار کی مجبوری ہی سمجھنا چاہئے ورنہ ناول کو انجام تک پہچانے کے لئے کئی اور گھماؤ سے گزارنا پڑتا مگر اچھی بات یہ ہے کہ ناول نگار نے ساجی کے شوہر درجات کے سامنے ایمانداری سے یہ قبول بھی کر لیا کہ ’’آتم ہتّیا نہیں تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ ہتّیا تھی ہتّیا۔۔ ۔۔ ۔۔ میں نے اس کی ہتّیا کی احمق آدمی۔‘‘ ناول نگار کا یہ اعتراف بھی کم نہیں۔

شموئل احمد کے اس ناول گرداب کا بیانیہ دلچسپ ہے اور قاری کو پورا پڑھنے پر مجبور کرتا ہے، اور اس ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں واقعات کی کڑیاں قاری کو نہیں جوڑنا پڑتیں، بلکہ کہانی اپنے آپ ہی قاری کے ذہن میں سفر کرنے لگتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مانک موتی کی تخلیقی اساس

 

اردو میں مختصر ترین افسانوں یعنی افسانچوں کی روایت بہت پرانی نہیں اور اس صنف ادب میں طبع آزمائی کرنے والے تخلیق کاروں کی تعداد بھی کچھ زیادہ نہیں۔ پھر بھی ان افسانچوں micro stories کی صنفی حیثیت اس لئے بھی مستحکم ہے کیونکہ افسانچوں کو تخلیق کرنے والے فنکاروں میں صفِ اول کے افسانہ نگار شامل ہیں۔

میرے علم کے مطابق افسانچوں کا تخلیقی آغاز سعادت حسن منٹو نے کیا، اسے صنفی حیثیت سے تسلیم کرانے اور پروان چڑھانے کا کام جوگندر پال نے اور اسے سمت و رفتار دینے کا کام رتن سنگھ نے انجام دیا۔ یعنی افسانچوں پر کوئی بھی گفتگو یا بحث ان تینوں افسانہ نگاروں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اپنی کہانیوں اور افسانوں کی طرح منٹو نے اپنے مختصر ترین افسانوں میں بھی اپنا مخصوص اسلوب اور تخلیقی سوچ برقرار رکھی ہے۔ معاشرے کے غلط رسم رواج، فرد اور معاشرے کے درمیان کشمکش، اور کھوکھلی اور فرسودہ تہذیبی قدروں اور روایتوں سے انحراف کا برہنہ اظہار منٹو کے افسانچوں میں بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک مختصر ترین افسانہ ، افسانچہ رعایت ملاحظہ کریں۔

’’میری آنکھوں کے سامنے میری جوان بیٹی کو نہ مارو۔

چلو اس کی مان لو، کپڑے اتار کر ہانک دو ایک طرف۔‘‘

بظاہر یہ افسانچہ دو بے ربط جملوں پر مشتمل ہے مگر اس میں بھی تقسیم ملک کے بعد رونما ہونے والے فساد اور بربریت کے لکھے گئے منٹو کے کئی افسانوں کا عکس ہے، میری جوان بیٹی کو نہ مارو، ایک بوڑھے، نادار اور بے سہارا باپ کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ ’’کپڑے اتار کر ہانک دو ایک طرف‘‘ درندگی، ظلم، وحشت اور نفرت کی انتہا کی ایک پوری کہانی بیان کرتا ہے۔

اس کے بر عکس جوگندر پال کے افسانچوں کی فضا ان کے افسانوں کے مزاج سے بہت مختلف ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ان کے افسانچوں میں زندگی، موت، شعور، لاشعور اور ذات کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے، ان کا افسانچہ سوانحِ حیات ملاحظہ کریں۔

’’میرا جینا ابھی شروع بھی نہیں ہوا پھر بھی میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔‘‘ یا پھر منطق میں وہ اس طرح گویا ہیں ’’جب میں پیدا ہوا تو ستاون برس کا تھا، پھر ہر سال میری عمر ایک سال کم ہوتی چلی گئی اور اس طرح آج میں نے اپنے ستاون برس پورے کر لئے، آج کے بعد میں جتنا بھی جیوں گا اپنی عمر سے اوپر جیوں گا۔‘‘

محولہ بالا دونوں افسانچوں میں زندگی اور موت کا فلسفہ فنکارانہ چابک دستی سے پیش کیا گیا ہے، ان کے افسانچوں کی فضا بہت گمبھیر ہوتی ہے، ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ قاری کو بھی اپنے تخلیقی عمل میں شریک کر لیتے ہیں۔

رتن سنگھ کا شمار ترقی پسند افسانہ نگاروں کے ہمراہ نہایت خصوصیت سے کیا جا تا ہے، ’’مانک موتی‘‘ ان کے ایک سو ایک افسانچوں پر مشتمل کتاب ہے جسے افسانچوں کے سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، یوں تو رتن سنگھ کے باقاعدہ افسانے بھی مختصر ہی ہوتے ہیں مگر ان کے افسانچوں میں یہ اختصار کمالِ ارتکاز کو پہنچ گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ادب میں اس صنف کا مستقبل کیا ہو گا، آیا یہ بھی آزاد غزل کی طرح چند تخلیق کاروں تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی، یا پھر یہ صنف دیر تک ہمارے افسانہ نگاروں کی تخلیقی ترجیحات کا حصہ رہے گی۔ مگر افسانچوں کی تخلیق کے جواز میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ کمپیوٹر عہد کی تیز رفتار زندگی میں انسان ایک مشین میں تبدیل ہو گیا ہے اور مشین محض چند بندھے ٹکے اصولوں پر کام کرتی ہے اور اس نے انسان سے آسائشوں اور آسودگیوں کی قیمت پر اس کا وقت خرید لیا ہے۔ بڑے شہروں میں ہر طبقہ کا انسان وقت کی قلت کا شکار ہے، اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے گھنٹوں بسوں اور ٹرینوں کا سفر، بھاگ دوڑ، دفتر، شام، گھر، بچے، نیند اور خواب میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ لہٰذا آج کے انسان کے پاس طویل فن پاروں کو پڑھنے کے لئے وقت نہیں ہے، ایسے میں مختصر ترین فن پاروں کی اہمیت اور افادیت ناگزیر ہے۔

رتن سنگھ کے افسانچے بڑے کینوس پر پینٹ کی گئی مائکرو سائز کی تصویریں ہیں، جنہیں سمجھنے کے لئے magnifying glass کی ضرورت ہے، ان کے یہاں سیاسی، سماجی اور نفسیاتی کشمکش، انسانی جبلت اور عالمی مسائل و مصائب کا اظہار نہایت خوبصورتی سے ہوا ہے۔ مانک موتی کا پہلا افسانچہ ملاحظہ کریں۔

’’ریس کورس میں گھوڑے دوڑ رہے تھے اور سانسیں آدمیوں کی اکھڑ رہی تھی۔‘‘

یہ افسانچہ بظاہر ایک ہی جملے پر مشتمل ہے مگر اس کے باطن میں گمبھیر انسانی نفسیات پوشیدہ ہے، جو انسان کی فطری لالچ اور بے جا خواہش کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ہے۔

مانک موتی میں فرد اور معاشرے کے درمیان کمزور ہوتے رشتوں، بے اعتدالی، زوال پذیر تہذیبی قدروں، انسان کی شکست و ریخت، نفرت، تعصب، تشکیک اور سیاسی تحفظات، فلسفۂ حیات و موت اور موجودہ عہد کے انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور اس کی باریکیوں پر کئی کہانیاں موجود ہیں، جو ان کے عصری شعور و آگہی کا پتہ دیتے ہیں۔ مانک موتی میں شامل تیسری کہانی ملاحظہ کریں۔

’’ایک چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے محلے کی ایک تنگ سی گلی میں چھوٹی سی بات پر دو فرقوں کے درمیان فساد ہو گیا۔ آگ ایسی لگی، اتنی پھیلی کہ ایک بڑا ملک تباہ ہو گیا۔‘‘ کہانی نمبر ۲۱ میں رتن سنگھ نے موجودہ سیاسی سباق و سیاق میں زندگی گزارتے عام سے انسان کے دکھ کو یوں بیان کیا ہے۔

’’ایک نیتا لوگوں کے دکھ درد کا حال جاننے کے لئے گاؤں کے لوگوں سے مل رہے تھے۔ کہیے آپ کو کیا پریشانی ہے؟ انہوں نے ایک مسکین آدمی سے پوچھا۔

آپ کے آوے سے مہاراج ہمار دہاڑی ٹوٹ جات ہے اور پھر ایک وکھت (وقت) کھائے کا نہیں ملتا۔ نیتا جی اپنا سا منھ لے کر بڑھ گئے۔‘‘

کہانی نمبر ۳۲ میں انسانی فطرت اور نفسیات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

’’جس ساڑی کو پہنے ہوئے وہ آدی واسی عورت نہا رہی تھی، وہی ساڑی نہانے کے بعد اسے پہننی بھی تھی، اس لئے اس کا کبھی کوئی انگ ننگا ہو جاتا اور کبھی کوئی۔ برآمدے میں بیٹھ کر یہ سب دیکھتے ہوئے میری بیوی نے مجھے ٹوکا۔ اس طرح کھلے میں نہانا، اس آدی واسی عورت کی مجبوری ہے مگر آپ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے جھوٹی شرافت کے بنے ہوئے سارے کپڑے میرے تن سے اتار کر مجھے سرِ عام ننگا کر دیا ہو۔‘‘

موت و حیات کے فلسفے اور زندگی کی سچائیوں پر مشتمل ایک کہانی جو مانک موتی میں شامل ہے، کچھ یوں ہے

’’صبح جب گھر سے باہر نکلا تو اس کا جوان سایہ زندگی کی روشنی بن کر اس کے آگے آگے چل رہا تھا، شام کو جب وہ تھکا ہارا لوٹا تو اس کا بوڑھا سایہ گھسٹتا ہوا اس کے پیچھے چلا آ رہا تھا۔‘‘

ایک اور کہانی۔۔ ۔۔ ۔۔

’’جب میں خیمہ گاڑ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک آدمی جو میرا باپ سا لگتا تھا، اپنا خیمہ اکھاڑ رہا تھا۔ اور جب میں کوچ کی تیاریاں کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جو میرے بیٹے سا لگتا تھا، اپنا خیمہ اتنی مضبوطی سے گاڑ رہا تھا، جیسے وہ یہاں ہمیشہ رہنے کے لئے آیا ہو۔‘‘

ایک اور کہانی۔۔ ۔۔ ۔۔

’’ماں کے پیٹ میں بچہ الٹا ہوا تھا، لیکن پھر بھی اس کے دن بڑے آرام سے گزر رہے تھے، پیدا ہوتے ہی اس نے ماں کے کراہنے کی آواز سنی۔ تو وہ سمجھ گیا کہ یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے، اس لئے اس نے رونا شروع کر دیا۔‘‘

محولہ بالا کہانیوں میں رتن سنگھ کی متنوع سوچ اور مشاہدے کو آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حیات و موت اور آوا گمن کا تصور، اس کے علاوہ حیاتِ انسانی کے تسلسل اور مستقبل کی خوش آئند بشارتوں کو بھی ان کہانیوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مانک موتی کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ رتن سنگھ نے اپنی ان کہانیوں میں اپنی زندگی کے طویل تجربوں کو پیش کر دیا ہے۔ اور ان کی کہانیوں کا اختتام یا کلائمکس مختصر آزاد نظموں کی طرح ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کہانی ختم ہونے کے باوجود بھی ذہن کے پردے پر چلتی رہتی ہے۔ انہیں کہانی بننے اور کہنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ کبھی ان کی کہانیاں سیدھے سادے بیانیہ اسلوب میں بیان ہوتی ہیں، کبھی وہ کہانی کی ترسیل میں علامت اور استعارے کا سہارا لیتے ہیں، تو کبھی ان کی کہانیوں میں داستانوی فضا قائم رہتی ہے، اس کے علاوہ کبھی وہ اپنے افسانچوں کا آغاز دادیوں اور نانیوں کی طرح کرتے ہیں، مثلاً پرانی بات ہے، بڑے دنوں کی بات ہے یا پھر کیا دیکھتا ہوں وغیرہ جملے ان کی کہانیوں میں ضرور ہوتے ہیں۔

رتن سنگھ اپنے طویل قیامِ جبل پور کے دوران وظیفہ یاب ہونے کے بعد ایک عرصہ تک صحافت سے بھی وابستہ رہے، اور ایک بڑے گروپ کے اخبار میں مدیر کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ لہٰذا ان کی کہانیوں کے باطن میں سیاسی اور سماجی شعور و آگہی کو آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کی کہانی میں تعصب، طبقاتی کشمکش اور سماجی عدم مساوات وغیرہ کی شمولیت ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے مانک موتی میں صفحہ ۷۴ پر ایک کہانی ہے جو کسی بھی حساس قاری کو جھنجھوڑ سکتی ہے۔ اس کہانی میں ماسٹر کلاس روم میں بچوں کو ایک کہانی سناتا ہے، جو سرکار کی انصاف پسندی، انتظامیہ کی مستعدی اور عوام کی سیاسی اور سماجی بیداری کی خوبصورت مثال ہے۔ یہ کہانی ایک ٹیچر بچوں کو سناتا ہے، ٹیچر جو نئی نسل کا معمار ہے، بچے جو مستقبل کے ذمہ دار شہری ہیں، کلاس روم جو تہذیبی اور ثقافتی درس گاہ ہے، یعنی ہر لحاظ سے یہ کہانی ایک آدرش ہے، مگر کہانی ختم ہوتے ہی ایک بچہ ٹیچر سے سول کرتا ہے۔ جناب آپ نے جو کہانی سنائی ہے وہ بہت اچھی ہے، میں بھی ایسا ہی شہری بننا چاہتا ہوں، بس ایک سوال پوچھنا تھا۔ ’وہ ۱۹۸۴ء میں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بچے کا یہ سوال سن کر ٹیچر فوراً گھنٹی بجا کر پیریڈ کے اختتام کا اعلان کر دیتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے ہم اس کہانی کو ماضیِ قریب کے ایک انسانیت سوز واقعے سے منسلک کر کے دیکھیں اور یہ سوال خود سے کریں، تو کیا ہم واقعی کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم ابھی تک اپنے ذہنی تعصبات اور تحفظات اور طبقاتی کشمکش اور نفرت سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکے ہیں؟ کیا آدرش، تہذیب اور مساوات کی روشن تعلیمات محض کاغذ کی زینت نہیں ہیں؟ ۔ رتن سنگھ کے یہاں عالمی سیاسی بصیرت اور عالمی عصری شعور و آگہی کا اندازہ اس کہانی سے لگایا جا سکتا ہے۔

’’ایوان کے اندر دو دھڑوں کے درمیان جنگ کو ختم کر کے امن قائم کرنے کی بات چل رہی تھی اور ایوان کی چھت پر لہرا رہے دونوں دھڑوں کے جھنڈے ہوا میں پھڑپھڑاتے ہوئے آپس میں زور زور سے ٹکرا رہے تھے۔‘‘

ایک کہانی اور ملاحظہ کریں۔

’’برلن کی دیوار ٹوٹنے پر مشرقی جرمنی میں رہ رہا ایک ہندوستانی مغربی جرمنی میں رہ رہے پاکستانی سے اس جوش سے بغل گیر ہوا، جیسے ان کے اپنے ملکوں کو تقسیم کرنے والی دیوار ٹوٹ گئی ہو۔‘‘

ان دونوں افسانچوں میں محبت، بھائی چارگی اور امن و اخوت کا عالمی پیغام مضمر ہے۔ مجموعی طور پر رتن سنگھ کے افسانچے زندگی کے وسیع کینوس پر پینٹ کی گئی ایسی تصویریں ہیں، جن میں ہم اپنے احساس و ادراک کی آنکھ سے معاشرے کی موجودہ تہذیبی، سیاسی اور سماجی صورتِ حال کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی تامل نہیں کہ رتن سنگھ کے افسانچے، مختصر ترین کہانیوں کے سفر میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جو نئی نسل کو راستہ دکھانے میں کامیاب ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

لے سانس بھی آہستہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک مطالعہ

 

مشرف عالم ذوقی موجودہ عہد کے بے حد بیباک versatile اور تیز رفتار تخلیق کار ہیں وہ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، نقاد اور سیاسی اور سماجی مبصر ہیں، اس کے علاوہ ان کی جس خصوصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ ہے کہ ان کے یہاں اپنے ارد گرد ہونے والے سیاسی، سماجی، ادبی اور ثقافتی سطح پر والے تغیرات اور واقعات پر اپنی بے باک رائے کے اظہار کی جرأت مندی ہے۔ وہ حکومت کی پالیسیوں اور منصوبوں پر بھی اپنی بے باک اور براہِ راست رائے کے اظہار میں پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ ادب میں عصری سیاسی اور سماجی شعور و آگہی کے قائل ہیں، ان کے مطابق ادب میں احتجاج لازم ہے۔ اور یہ احتجاج مذہب کے لئے بھی، بے راہ رو سیاست کے لئے بھی، نیو کلیائی تجربوں کے لئے بھی اور سارے عالم میں اشانتی کے لئے بھی ہونا چاہئے۔ مگر افسوس ہے کہ موجودہ مشینی عہد میں ہمارے بیشتر تخلیق کاروں کے یہاں احتجاج کا یہ جذبہ سو چکا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو مشرف عالم ذوقی ادب میں relevance، مقصدیت اور صداقت کے طرفدار ہیں۔

مشرف عالم ذوقی نے بہت سارے افسانوں کے علاوہ کئی عمدہ ناول بھی تخلیق کئے ہیں، جن کے موضوعات موجودہ عہد کی سیاسی اور سماجی بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے مطابق اگر آج کا فنکار اپنے موضوعات کا انتخاب سیاسی اور سماجی سطح پر گہرے فکر و شعور کے ساتھ نہیں کرتا ہے تو وہ بڑا ادب تخلیق ہی نہیں کر سکتا، اور یہ فکر ان کے زیادہ تر ناولوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، مثال کے طور پر اپنے اولین ناول ’’عقاب کی آنکھیں‘‘ اور ’’پو کے مان کی دنیا‘‘ میں ذوقی نے بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ سائبر اور انٹرنیٹ عہد کے بچے جو جنک فوڈ کھاتے ہیں اور ماں باپ کی نظریں بچا کر پورن سائٹ دیکھتے ہیں اور پھر ایک دن کسی جرم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کا ناول ’’بیان‘‘ جسے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی، یہ ناول بابری مسجد کے المیہ اور اس کے بعد رونما ہونے والے فساد اور بے یقینی کی فضا پر مبنی ہے۔ ’’آتشِ رفتہ کا سراغ‘‘ مشرف عالم ذوقی کا تخلیق کردہ ایک ضخیم ناول ہے جو آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورتِ حال کی زبوں حالی پر تحریر کیا گیا ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کو اپنی مرضی سے اپنا وطن منتخب کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک، نا انصافی اور ان پر شک و شبہات کرنے والی ذہنیت کو ذوقی نے نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے، جسے ادب کے سنجیدہ قارئین نے بے حد پسند کیا ہے۔

زیرِ نظر ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا مرکزی خیال بھی ان کے عصری، سماجی اور سیاسی شعور و آگہی کا آئینہ دار ہے۔ اس ناول میں ہندوستان کی آزادی کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور تہذیبوں کے تصادم اور نسلوں کے ٹکراؤ اور اخلاقیات سے انحراف کو نہایت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ ذوقی کے مطابق یہ ناول تہذیب کا مرثیہ نہیں بلکہ گلوبل سماج کی بدلتی ہوئی تصویر کا آئینہ ہے۔

مشرف عالم ذوقی کے ناولوں کی زبان سادہ، لہجہ براہِ راست مگر اندازِ بیان اور اسلوب متاثر کن ہے اور موضوع بالکل relevantہے، اور یہی خوبی ہے کہ ان کے ناولوں کو نہ صرف سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے بلکہ ان پر مباحث اور رد عمل بھی ہوتے ہیں۔

زیرِ نظر ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کی کہانی یوں تو تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کی تیزی سے بدلتی ہوئی معاشی اور معاشرتی زبوں حالی کو بیان کرتی ہے مگر اس کے ساتھ برسوں بلکہ صدیوں کی تہذیبی اور خاندانی روایات اور اخلاقیات کا سفر بھی جاری رہتا ہے، اس کہانی کا مرکزی کردار عبد الرحمٰن کاردار ہے، جو ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کی رات کو گیارہ بجے اس عالم رنگ و بو میں نمودار ہوتا ہے، یعنی حصولِ آزادی سے محض ایک گھنٹہ قبل۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ناول نگار نے اپنے مرکزی کردار کی پیدائش کو غلام ہندوستان میں اور اس کی پرورش، تربیت اور زندگی کے سفر کو آزاد ہندوستان میں دانستہ طور پر دکھایا ہے یا پھر یہ غیر شعوری طور پر کہانی کا لازمی حصہ بن گئے۔ اس کا جواب تو کہانی میں آگے ملتا ہے، مگر عبد الرحمٰن کاردار اپنی کمسنی سے ہی کہانی کا ایک بے حد ضروری اور ناقابلِ فراموش مرکزی کردار بن جاتا ہے۔ اس ناول میں بنیادی طور پر نہ صرف تہذیبوں کے تصادم بلکہ نسلوں کے تصادم اور جنریشن گیپ کے نتیجے میں نئی کا نسل کا اپنی پیش رو نسل سے بغاوت اور صدیوں پرانی اخلاقی اور مذہبی روایات کو بھی نہایت خوبصورتی سے تحریر کیا گیا ہے۔ میرے نزدیک آزادی سے ایک گھنٹہ قبل عبدالرحمٰن کاردار کی پیدائش کو رکھنے کا جواز بھی یہیں سے فراہم کیا جا سکتا ہے۔

تہذیبوں کے تصادم اور اس کے نتائج کی تفہیم کے لئے ناول میں پروفیسر نیلے کے کردار کو تراشا گیا ہے۔ پروفیسر نیلے کے مطابق

’’تہذیبیں جانوروں سے زیادہ نوکیلے دانتوں سے ہمیں زخمی کر جاتی ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک تہذیب ۴۷ کے پہلے کی تھی۔ ایک غلام تہذیب ۴۷ کی صبح نمودار ہوتے ہی ہم ایک نئی تہذیب کی دوسری سرنگ میں داخل ہو گئے۔‘‘

اس ناول میں تہذیبوں کے تصادم کے علاوہ ایک اور سوال تیزی سے گردش کرتا ہے وہ یہ کہ آخر جائز اور ناجائز کی تشریحات کیا ہیں؟ کیا جو ہم سوچتے ہیں وہی سچ ہے؟ یعنی ہمارا مذہب۔۔ ۔۔ ۔۔ ہماری تہذیب۔۔ ۔۔ ۔۔ اور ہمارا لباس۔۔ ۔۔ ۔۔؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان بھی نہیں۔ دو عورتیں ہیں، دونوں بچے پیدا کرتی ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک شادی شدہ ہے تو بچہ جائز۔۔ ۔۔ ۔۔ دوسری غیر شادی شدہ ہے تو بچہ ناجائز۔۔ ۔۔ ۔۔؟ یعنی مذہب کی اخلاقیات ہی سب سے بڑا سچ ہے۔۔ ۔۔ ۔۔

کہانی بلند شہر میں اپنا وجود تلاش کرتی ہے، جہاں دو حویلیاں ہیں، انگریزوں کے زمانے کی ہیں اور مکینوں کی شان و شوکت اور خاندانی عظمت کی علامتیں۔۔ ۔۔ ۔۔ حویلی کے مکینوں کے شاندار ماضی اور خاندانی شرافت کی گواہ۔ آزادی کے بعد کی بے یقینی اور مشکوک فضا میں چھوٹے موٹے فسادات کے باوجود دونوں فرقوں کے لوگ آپس میں سکون سے زندگی کر رہے تھے اور آزادی کے بعد بھی کافی دنوں تک کوئی بھی یہاں سے وہاں آ جا سکتا تھا۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’اس زمانے میں ہندوستان اور پاکستان کو لے کر اتنی مشکلات نہیں تھیں۔ اکثر یہاں کے لوگ پاکستان جا کر بس جایا کرتے تھے، پاکستان سے کچھ لوگ ہندوستان آئے، پھر واپس نہیں گئے یہ سلسلہ آزادی کے بعد بھی بہت دنوں تک چلتا رہا۔‘‘

اسی طرح عبد الرحمٰن کاردار کے ماموں سفیان بھی پاکستان چلے گئے تھے مگر بیوی کے انتقال کے بعد اپنی بچی نادرہ کے ساتھ واپس بلند حویلی واپس لوٹ آئے تھے۔ ان سب کے درمیان حویلیوں کی شان و شوکت اور جاگیرداری ختم ہو رہی تھی اور مکینوں کے لئے معاشی پریشانیوں کا دور شروع ہو چکا تھا، جو شاید انگریزی دورِ حکومت میں نہیں تھا، اب حویلیوں کے مکینوں کے سامنے survival کا مسئلہ سب سے بڑا تھا۔ بدلتی ہوئی تہذیب اور بدلتے ہوئے ماحول میں جو لوگ جہاں دیدہ اور دور اندیش تھے انہوں نے اپنی حویلیاں فروخت کر کے اپنے چھوٹے موٹے کام بھی شروع کر دیے تھے، مگر جن لوگوں کو خاندانی شرافت اور عظمت کا پاس و لحاظ تھا ان کے نزدیک حویلیوں کو فروخت کرنا اپنے بزرگوں کی روحوں کو ایذا پہچانے کے برابر تھا۔ حالانکہ ان مکینوں میں برسوں سے حویلیوں کو رنگ و روغن کرانے کی استطاعت بھی نہ رہی تھی اور حویلیاں مسلم تہذیب کی طرح خستہ حال اور اپنے شاندار ماضی پر نوحہ کناں تھیں۔

’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں جن دو حویلیوں کو کہانی میں بیان کیا گیا ہے ان میں ایک نظر محمد کی تھی دوسری بلند حویلی وسیع الرحمٰن کاردار یعنی عبد الرحمٰن کاردار کے والد کی تھی۔ کہانی کے مطابق نظر محمد کی بیوی پر جنات سوار تھا جس کا علاج مولوی محفوظ اپنے عمل اور جھاڑ پھونک سے کر رہے تھے، جس پر بلند حویلی کے مکینوں کا کوئی عقیدہ نہ تھا بلکہ وہ اسے توہمات سے تعبیر کرتے تھے مگر جب ایک دن مولوی محفوظ بلند حویلی کے مکینوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ بلند حویلی میں گمشدہ خزانہ دفن ہے تووسیع الرحمٰن کے دل میں زندگی کرنے کی ایک نئی امید روشن ہو گئی، انہیں یقین ہو گیا کہ خزانہ برآمد ہونے کے بعد ان کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے مگر جب کھدائی کے بعد کوئی خزانہ برآمد نہیں ہوا، بلکہ کسی کی شکایت پر حویلی میں پولس آئی تو مانو جیسے وسیع الرحمٰن کاردار کی عزت اور خاندانی شرافت مجروح ہو گئی اور اس کا اثر ان کے ذہن و دل پر اسقدر ہوا کہ وہ شدید طور پر بیمار ہو گئے اور یہیں سے شروع ہوتا ہے کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ، جس کے نتیجے میں عبد الرحمٰن کاردار کی ماں جو ہمیشہ پردے میں رہی اوراس نے کسی غیر محرم کی صورت بھی نہ دیکھی تھی، اچانک اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر نقاب سے بے پروا کوتوالی پہنچ کر انسپکٹر بانکے بہاری کی خوب خبر لیتی ہے۔

حویلی میں برسوں سے اپنی مرضی سے قید ایک عورت کا اس طرح کوتوالی جانا در اصل ایک علامت ہے تبدیلی کی، تہذیب کے نئے سفر کی، سماجی اخلاقیات کی نئی شروعات کی، روایات اور قدروں کے ٹوٹنے کی، اور نئی قدروں کے جنم لینے کی، جس کا گواہ عبدالرحمٰن کاردار بنا اور اس نے بھی بالآخر خود کو نہ صرف نئی قدروں سے ہم آغوش کیا بلکہ تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرے میں اپنے وجود کو بچانے کے لئے نئی قدریں بھی مرتب کیں۔ کہانی کا ایک اور بے حد اہم کردار نور محمد ہے جو بچپن سے ہی عبد الرحمٰن کاردار کا دوست ہے اور کہانی کے ساتھ متواتر سفر کرتا ہے، جس کے بغیر کہانی ادھوری ہی رہے گی۔ نور محمد کی شادی، عبد الرحمٰن کاردار کے ماموں سفیان کی بیٹی نادرہ سے ہو جاتی ہے جو نگار کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ہی فوت ہو جاتی ہے۔ نور محمد کی بیٹی نگار ایک عجیب سی بیماری کا شکار ہو کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتی ہے اور اکثر اوقات ابنارمل حرکتیں کرتی ہے یہاں تک کہ لباس سے بے نیاز بھی ہو جاتی ہے۔

مشرف عالم ذوقی کے ناول میں حالات و واقعات بہت تیزی سے بدلتے ہیں یعنی ان کی کہانی کا سفر اس تیز رفتاری سے ہوتا ہے کہ اگر قاری کہیں سست پڑ جائے تو کہانی سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں کہانی کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے، مثلاً کہانی جس عہد میں سفر کرتی ہے اس میں رونما ہونے والے تاریخی اور سیاسی واقعات بھی کہانی کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزادی کے بعد رونما ہونے والا سب سے بڑا سیاسی واقعہ یعنی سقوطِ بنگلہ دیش اور عالمی دہشت گردی کے نتیجے میں ۱۱، ۹ کو twin tower پر ہونے والے حملے بھی غیر شعوری، شعوری طور پر ناول کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بابری مسجد کے تنازعے کے بعد نکلنے والی رتھ یاترا اور اس کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کی زہر افشانی کا ذکر بھی کہانی کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے، جس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ذوقی کا مطالعہ بے حد وسیع اور گلوبل ہے اور دوسرے وہ اپنے گرد و پیش ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا گہرا شعور و ادراک رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ ذوقی کی کہانی نویسی کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ ان کے یہاں جنس کی نفسیات اور اس کے محرکات کے مطالعے کا بھی احساس ہوتا ہے، ان کی کئی کہانیوں میں مجھے جنس کی نفسیات کے افہام و تفہیم کا عمل محسوس ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ فرائڈ کے فلسفۂ جنس اور تحلیلِ نفسی کے فلسفے سے کتنا متاثر ہیں مگر یہ بات سچ ہے کہ ان کی کئی کہانیوں میں تحلیل نفسی اور انسانی جبلت کے فکری اور فطری عناصر کی آمیزش کا احساس ہوتا ہے۔ اس ناول میں بھی ان کے یہاں family incest کا تجربہ ملتا ہے، حالانکہ یہ مغرب میں کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے مگر مشرق میں family incest اب بھی ناقابل قبول ہے اور گناہ تصور کیا جاتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ علت کسی نہ کسی حد تک ہمارے معاشرے کا بھی حصہ ہے۔ زیرِ نظر ناول میں بھی اس نفسیاتی الجھن کو ذوقی نے نہایت تخلیقی ہنر مندی سے پیش کیا ہے، جس کی گرہیں پروفیسر نیلے نے کھولیں۔

نور محمد کی بیٹی نگار جو اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہے، اپنی ماں نادرہ کی بے وقت موت کے بعد جنسی خواہشات سے عاری اپنی بے رنگ آنکھوں اور بے طلب جسم کے ساتھ اپنے والد کی ریکھ دیکھ میں اپنی کم سنی کی حدوں کو لانگھ رہی ہے، جس کو نہلانے، دھلانے کے ساتھ اس کے دیگر سا رے کام بھی نور محمد ہی کرتا ہے، پھر ایک دن نور محمد کا ایک دور کا رشتہ دار ان کے گھر آ کر ٹھہرتا ہے اور پھر اس کے قیام کے دوران نگار لذتِ کام و دہن سے آشنا ہو جاتی ہے اور پھر اس کی آنکھوں میں ایک چمک اور رنگ نظر آنے لگتا ہے جسے نور محمد واضح طور پر محسوس کرتا ہے اور اس کا ذکر عبد الرحمٰن کاردار سے بھی کرتا ہے، مگر ایک دن پھر رات کے کسی حصہ میں نگار، نور محمد سے ہی اپنی جنسی تسکین حاصل کرتی ہے، جس کے نتیجے میں نور محمد بھی نگار کے ساتھ مسلسل جنسی لذت حاصل کرنے لگتا ہے اور پھر ایک دن نگار حاملہ ہو جاتی ہے، پھر نگار شرمندگی کے سبب اپنی شہر کی حویلی فروخت کر کے ایک گمنام سے گاؤں میں رہائش پذیر ہو جاتا ہے۔ نور محمد اپنے اس عمل پر شرمندہ تو ہوتا ہے مگر اپنی جنسی اور جبلی خواہشات کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے اور خودکشی کی شدید خواہش کے باوجود نگار کے ساتھ بیوی کی حیثیت سے رہنے لگتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ نگار اس کے بعد نارمل حالات کی طرف بھی لوٹنے لگتی ہے مگر وہ بھی ایک بیٹی جینی کو جنم دے کر جلد ہی داعیِ اجل کو لبیک کہ دیتی ہے۔

نور محمد کی زندگی میں اتنی تیزی سے اتنے بھیانک بدلاؤ ہوتے ہیں کہ کہانی کا پہیہ بہت تیز رفتاری سے گھوم جاتا ہے۔ در اصل مشرف عالم ذوقی اپنے اس ناول کے ذریعہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تہذیبوں کے تصادم میں مذہبی اخلاقیات اور قدروں کے پیمانے بہت تیزی سے مغرب کی طرف بھاگتے ہیں اور پھر جائز اور ناجائز کی تشریح اور تفریق مشکل ہو جاتی ہے۔ نور محمد جو ناول میں ایک بے حد مہذب اور اخلاقیات کے آدرش کے طور پر سامنے آتا ہے آخر کار اپنی تہذیب اور اخلاقیات کی جڑوں کو خود ہی مسمار کر دیتا ہے، اور شاید اسی لئے مشرف عالم ذوقی یہ کہنے کو مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہے یہاں لمحہ ایک نئی دنیا تعمیر ہو رہی ہے۔

زیرِ نظر ناول کا شمار ایک کامیاب ناول کے طور پر کیا جائے گا کیوں کہ اس میں کہانی کا سفر بیک وقت کئی سطحوں اور متعدد دشاؤں میں ہوتا ہے اور خاص بات یہ ہے کی ذوقی کہانی کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی تہذیبی، سیاسی اور سماجی تاریخ بھی رقم کرتے چلے جاتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اچھے ناول کو پڑھنے کا تجربہ زندگی سے روبرو ہونے کا تجربہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ہم اپنے گرد و پیش کے اندھیروں کو دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اتنے عمدہ ناول کے لئے مشرف عالم ذوقی قابلِ مبارک باد ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

وحشی سعید کے افسانوں میں زندگی کی تلاش

(سڑک جا رہی ہے کے حوالے سے)

 

میرے نزدیک، تقریباً ایک صدی کے اپنے طویل سفر کے بعد اردو افسانہ ایک نئے تخلیقی پڑاؤ پر نظر آتا ہے۔ روایتی، ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید جیسے لاحقوں سے آزاد اردو افسانہ قاری اور انسانی زندگی سے مکالمہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ متعدد سماجی، سیاسی، تخلیقی اور ذاتی تجربات سے گزر کر اردو افسانہ نسبتاً ٹھہراؤ کا حامل ہو گیا ہے اور بیانیہ کی طرف واپسی کے سبب قاری سے اپنا رشتہ از سرِ نو قائم کرنے میں کامیاب بھی۔

موضوعات کی سطح پر بھی سیاسی، سماجی، معاشی سروکار اور تہذیبی مسائل کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سیاسی اور دیگر تبدیلیوں کو بھی اپنے موضوعات کا حصہ بنانے میں نیا افسانہ کامیاب رہا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جدیدیت کے نام پر لکھے جانے والے مبہم، پیچیدہ اور ترسیل کے المیہ کا شکار افسانے بعض ناقدین کی کوششوں کے باوجود افہام و تفہیم سے عاری ہی رہے ہیں مگر بیانیہ کی طرف واپسی کے بعد اردو افسانہ اور قاری کے درمیان رابطہ بحال کرنے میں کشمیر کے جن افسانہ نگاروں نے اہم رول ادا کیا ہے ان میں وحشی سعید کا نام بیحد نمایاں ہے۔

وحشی سعید کے افسانوی مجموعہ ’’سڑک جا رہی ہے‘‘ کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار یہ احساس ہوا ہے کہ ان کے افسانوں میں زیریں لہر کے طور پر ایک طرح کا استعاراتی اور علاماتی نظام کارفرما ہے جو ان کے افسانوں کی معنویت میں اضافہ تو کرتا ہے مگر انہیں ترسیل کے المیے کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ یہ خصوصیت اس لئے بھی اہم ٹھہرتی ہے کہ ان کے یہاں بیانیہ کے نام پر سپاٹ، کھردرے اور اکہرے پن کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ان کے یہاں افسانوں میں کئی سطحوں پر معنویت کا احساس ہوتا ہے جس سے افہام و تفہیم کی نئی پرتیں کھلتی ہیں۔

وحشی سعید کے افسانوی مجموعے ’’سڑک جا رہی ہے‘‘ میں تیس افسانے شامل ہیں۔ اور خاص بات یہ ہے کے ان کے بعض افسانے مختصر ہوتے ہوئے بھی اپنے موضوعات، تکنیک، کرافٹ اور ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے بڑے کینوس پر بنائی ہوئی ایسی پینٹنگ کی طرح ہیں جو عام انسان کی زندگی کے مسائل و مصائب اور ان کی نفسیاتی الجھنوں کو مصور کرنے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ اور میرے نزدیک یہ افسانے عام قاری سے رشتہ استوار کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں اور افسانہ نگار کی تخلیقی توانائی اور اسلوب کی انفرادیت کے مظہر ہیں۔

زیرِ نظر افسانوی مجموعے کا پہلا افسانہ ’’سائے کی لاش‘‘ ہے۔ جو زندگی سے بھر پور ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ایک مصوّر ہے جو ایک بھر پور زندگی جینے کا خواہش مند ہے اور کینوس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کے ورق پر بھی خوبصورت تصویریں بناتا ہے مگر ایک ایک کر کے یہ ساری زندہ و جاوید تصویریں اس کی زندگی سے بچھڑ تی چلی جاتی ہیں۔ اور جب تصویروں کی ایک نمائش میں ایک خوبصورت چہرہ اس کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اور وہ اس کی مکمل اور خوبصورت تصویر بنانے کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے تو نگار اسے احساس دلاتی ہے کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ تب اسے پہلی بار احساس ہوتا ہے کہ وہ پچاس سال کی عمر پر پہنچ گیا ہے اور اب دوسروں کے لئے اس کی زندگی میں کچھ نہیں بچا ہے۔ اس افسانے میں خوابوں کو مسلسل تعبیر کرنے والے مصوّر کے یہاں تصویریں زندگی سے محبت کا استعارہ ہیں اور قاری کو آخر تک باندھے رکھتی ہیں اور انتم سانس تک زندگی کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔

اس کتاب کا دوسرا افسانہ ’’جمود کا جنازہ‘‘ ہے جو اپنے پلاٹ کے اعتبار سے بے حد نازک ہے۔ جمود کا جنازہ در اصل ہمارے معاشرے میں انسانی رشتوں کی شکست و ریخت ان کی ارزانی اور تہذیبی قدروں کے زوال کا اعلامیہ ہے۔ یہ افسانہ یوں تو خاصا مختصر ہے مگر قاری کے ذہن و دل پر دیر پا اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار جمال جس کی زندگی جمود کا شکار ہے اس کی زندگی میں قریبی رشتوں کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے، وہ یتیم ہے اور پھر ایک دن اس کے دل میں یہ جذبہ جنم لیتا ہے کہ کاش اس کی بھی کوئی بہن ہوتی۔ اس کی یہ خواہش پوری بھی ہو جاتی ہے اور اس کی زندگی میں شبنم داخل ہوتی ہے جو خود اس کی طرح یتیم ہے اور فٹ پاتھ پر ملی تھی اسے۔ جمال کی زندگی کا خلا پر ہو جاتا ہے اور وہ بہن جیسے پاکیزہ رشتے کی پرورش اور پرداخت میں مصروف ہو جاتا ہے۔ حالانکہ دنیا اس رشتے کی پاکیزگی اور معصومیت کو قبول نہیں کرتی بلکہ سچائی جانے بغیر اس میں گناہ اور گندگی کا الزام دھرتی ہے۔ جمال ان سب الزامات کی پرواہ کئے بغیر اپنی منھ بولی بہن کے ساتھ مسرور نظر آتا۔

جوان ہوتی اس بہن کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر بھی ہوتی ہے اسے اور جب اپنی بہن کے لئے رشتہ تلاش کر کے وہ ایک دن شبنم سے کہتا ہے کہ اب وہ ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں کیونکہ لڑکیاں تو پرائی ہی ہوتی ہیں۔ مگر شبنم کے غیر متوقع جواب اور رد عمل میں اس نے جو سنا اس نے ایک بار پھر جمال کی زندگی پر جمود طاری کر دیا۔ شبنم کا یہ جملہ کہ ’’تم ہی میرے جسم و روح کے مالک ہو۔ میرے خوابوں کے شہزادے ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ کیوں نہ ہم دونوں شادی کر لیں۔‘‘ یہ سن کر جمال ایک مجسمے کی طرح ساکت کھڑا رہ گیا۔ اور رشتوں کی بے ثباتی اور بے یقینی کے درمیان اس نے شبنم کو پھر اسی فٹ پاتھ پر چھوڑ دیا جہاں سے اٹھا کر اس نے شبنم کو ایک سچے رشتے میں باندھنے کی کوشش کی تھی۔

وحشی سعید کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے یہ احساس بار بار ہوتا ہے کہ ان کے یہاں موضوعات میں جہاں ایک طرف نیا پن اور تنوع ہے وہیں افسانے کے ٹریٹمنٹ اور زبان و بیان پر بھی انہیں دسترس حاصل ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے افسانوں کے عنوانات بھی اپنے اندر افسانوں جیسی ہی معنویت کے حامل اور معنی خیز ہیں اور قاری کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور یہ ایک ایسی انفرادیت اور تخلیقی ہنر مندی ہے جو انہیں دیگر ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز اور منفرد بناتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کی ان کے بعض افسانوں کا اختصار ان کے یہاں جملوں کی ساخت اور غیر ضروری لفظوں کے استعمال سے پرہیز کے سبب بھی ہے اور یہ خصوصیت بہت کم افسانہ نگاروں کے یہاں پائی جاتی ہے۔

’’سودا‘‘ میں وحشی سعید نے ایک بے حد عام سے مسئلے کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے جس میں میجر دُرّانی ایک کروڑ روپئے اور پرموشن کا لالچ دے کر اپنے ہی ماتحت ایک سپاہی شوکت کو، اپنی اپاہج اور اندھی بہن سے شادی کا آفر دیتا ہے مگر شوکت کے منع کرنے کے بعد میجر درانی اپنی شکست کے احساس سے بوجھل ہو جاتا ہے۔ اس افسانے میں خاص بات یہ ہے کہ افسانہ نگار نے انحطاط پذیر قدروں اور زوال آمادہ معاشرے میں بھی ان لوگوں کے یہاں خود داری اور عزتِ نفس کے محفوظ ہونے کا احساس دلایا ہے جو معاشی طور پر کمزور ہیں اور یہ بات واقعتاً سچ بھی ہے۔

’’بھنگی‘‘ وحشی سعید کا ایک بے حد اہم اور نازک افسانہ ہے جو نہ صرف اپنے موضوع کے لحاظ سے بلکہ اپنی بنت اور تکنیک کے لحاظ سے بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار صمد بھنگی ہے اور بھنگی ایک ایسا لفظ ہے جسے سن کر ہی سماج کے نام نہاد شریف اور ذات پات میں یقین رکھنے والے افراد کے منھ کا ذائقہ کڑوا ہو جاتا ہے۔ صمد بھنگی اگرچہ سڑکوں کو صاف کرنے کا کام کرتا تھا مگر اس کلیے کو بدلنا چاہتا تھا کہ بھنگی کا بیٹا صرف بھنگی ہی ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ ہزار منتوں اور مرادوں کے بعد خدا نے جب اسے بیٹا عطا کیا تو اس نے یہ ارادہ کر لیا کی وہ اپنے بیٹے کو بھنگی نہیں بنائے گا۔ صمد بھنگی نے اپنے بیٹے کو اسکول میں داخل کرا دیا اور اسے بڑا آدمی بنانے کی ٹھان لی مگر صمد بھنگی کے بیٹے نے نہ معلوم وجوہات کے سبب ایک سال کے بعد اسکول چھوڑ دیا اور آخر کار اپنے والد صمد کے ساتھ ہی بھنگی کے کام پر لگ گیا۔ ایک دن لال چوک کی سڑک صاف کرتے ہوئے صمد بھنگی کا بیٹا ایک گاڑی کی زد میں آ کر دنیا سے رخصت ہو گیا اور اس کا خون سڑک پر پھیل گیا۔ افسانہ نگار نے اس افسانے کا اختتام بہت عمدہ اور مؤثر طریقے سے کیا ہے بالکل نظموں کے کلائمکس کی طرح۔

’’میں اس کو وہ نہ بنا سکا جو وہ بننا چاہتا تھا اس لئے خدا نے اس کوواپس بلا لیا۔‘‘ دوسرے دن میں نے صمد کو اپنے ہی بیٹے کے خون کے دھبوں کو صاف کرتے ہوئے دیکھا۔۔ ۔۔ ۔۔ کیونکہ۔۔ ۔ وہ۔۔ ۔۔ ۔ بھنگی تھا۔‘‘ افسانے کا یہ کلائمکس واقعی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے کہ کیا واقعی ہمارا معاشرتی نظام ایک بھنگی کے بیٹے کو بھنگی ہی دیکھنا چاہتا ہے۔

اس کتاب کا ایک اور اہم افسانہ ’’سڑک جا رہی ہے‘‘ ہے جو اپنے موضوع کے لحاظ سے دیگر افسانوں سے یکسر مختلف ہے۔ اس افسانے میں وحشی سعید نے انسانی رشتوں اور جسمانی ضرورتوں کے درمیان جنم لیتی ہوئی کہانیوں کو نہایت خوبصورتی سے مصور کیا ہے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے انسانی رشتوں کی پاکیزگی کو سماج کی تہذیبی قدروں کی صحت کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔

ایک امیر اور بظاہر با عزت شہری بانکے لال اور ایک طوائف چاند بائی کے درمیان قائم ہوئے ناپاک رشتوں کے نتیجے میں نینا کی گمراہی اور بھٹکاؤ کو وحشی سعید نے اس افسانے کا موضوع بنایا ہے۔

نینا جو ایک ناجائز رشتے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے جب اسکول میں داخل ہوتی ہے تو وہاں اس کی دوستی رمیش سے ہوتی ہے اور بعد میں جنسی رشتے کی صورت میں سامنے آتی ہے اور جب اس کی ماں چاند بائی رمیش کو نینا کے منھ کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھ لیتی ہے اور اسے تھپڑ رسید کر کے اس طرح کے رشتے سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور گھر میں قید کر دیتی ہے۔ مگر جب بانکے لال کا نوکر موہن نینا سے جنسی رشتے قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بانکے لال بری طرح متاثر ہوتا ہے اور پھر ایک دن وہ موہن کے باپ سور داس سے موہن کا ہاتھ اپنی بیٹی کے لئے مانگتا ہے مگر جب سور داس یہ کہتا ہے کہ ’’تم شاید یہ بھول گئے ہو کہ تم اور تمھاری بیوی اپنے ساتھ کوئی ماضی رکھتے ہو۔‘‘ تو بانکے لال بری طرح ٹوٹ جاتا ہے اور اسی صدمے کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔

آخر کار چاند بائی مجبور ہو کر ایک دن نینا کا ہاتھ ایک بوڑھے آدمی ہری رام کے ہاتھ میں سونپ دیتی ہے۔ جہاں اس کی جنسی خواہشات کی تسکین نہیں ہوتی ہے۔ اپنی جنسی آسودگی کی خاطر نینا، ہری رام کے نو جوان بیٹوں شیکھر اور برج سے ناجائز رشتے قائم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ جب اس حقیقت کا پتہ ہری رام کو ہوتا ہے تو وہ گھر چھوڑ کر جلا جاتا ہے اور پھر برج اور نینا ایک دوسرے کے ساتھ میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور اسی خونی بنگلے میں منتقل ہو جاتے ہیں جہاں بانکے لال اور چاند بائی کے درمیان ناجائز جنسی تعلقات پروان چڑھے تھے اور جس کے نتیجے میں نینا پیدا ہوئی تھی۔

’’سڑک جا رہی ہے‘‘ وحشی سعید کا قدرے طویل افسانہ ہے مگر اپنے پلاٹ، کرافٹ اور زبان و بیان کی خوبصورتی اور بنت کے سبب یہ افسانہ، زیرِ نظر افسانوی مجموعے کا بے حد اہم افسانہ قرار پاتا ہے۔

’’نیلام‘‘ دو ایسے دوستوں کی کہانی ہے جن کے سفر کا آغاز تو ایمانداری، سچائی اور اصولوں کے راستے پر ہوتا ہے مگر درمیان سفر ایک دوست فاروق مصلحت اندیشی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کر کے زندگی میں آسودگیاں اور آسائشیں حاصل کر لیتا ہے یہاں تک کہ اپنے دوست کے پیار پر بھی قبضہ کر لیتا ہے جبکہ دوسرا دوست اصول اور ایمانداری کے راستے پر چل کر اپنی بے کیف زندگی میں مست رہتا ہے اور جب کافی عرصہ بعد شہر لوٹتا ہے تو حیران ہوتا ہے اور سوچتا ہے کہ اب اگر وہ اپنی ایمانداری اور سچائی کو نیلام بھی کرے تو کوئی اس کا خریدار بھی نہ ملے گا۔

’’خدا کون ہے‘‘ وحشی سعید کا ایک ایسا افسانہ ہے جو غربت، ضرورت اور لالچ کے درمیان انسانی نفسیات کو نہایت خوبصورتی سے پینٹ کرتا ہے۔ اس افسانے کے مرکزی کردار کو ایک دن سڑک پر پڑا ہوا ایک ہزار روپئے کا نوٹ ملتا ہے اور وہ اسے اٹھا لیتا ہے۔ مگر نوٹ اٹھانے کے بعد اس کے ذہن میں خیالات تیزی سے گردش کرنے لگتے ہیں۔ افسانے کا یہ کردار غریب اور ضرورت مند ہے پانچ ہزار روپئے کی تنخواہ پانے والا معمولی ملازم جس پر ایک بڑے کنبے کی ذمے داری ہے اور ضرورت مند بھی۔ نوٹ پا کر وہ اپنے ذہن میں اپنی ضرورتوں کا حساب کرنے لگتا ہے مگر دوسرے ہی پل اس کے ذہن میں یہ خیال بھی سر اٹھانے لگتا ہے کہ ممکن ہے ہزار روپئے کا یہ نوٹ کسی بچے سے کھو گیا ہو اور وہ اسے تلاش کر رہا ہو اور نہ ملنے کی حالت میں وہ گھر کس طرح جائے گا۔ یہ خیال آتے ہی وہ گھر کے باہر سے وہیں لوٹ آتا ہے جہاں سے یہ نوٹ اسے ملا تھا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کے آدمی کو کچھ تلاش کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ وہ روپیہ تلاش کر رہا ہے یا کچھ اور۔ اور جب کہانی کا دوسرا کردار اسے بتاتا ہے کہ اس سے ہزار روپیے کا نوٹ کھو گیا ہے اور وہ ایک غریب آدمی ہے، اس کی بیٹی کی شادی ہے اور وہ یہ نوٹ کسی دوست سے ادھار مانگ کر لایا ہے اور جب وہ اپنے دوست سے روپئے کھو جانے کی بات کہے گا تو وہ یقین نہیں کرے گا۔

افسانے کے دوسرے کردار کی پریشانی اور غریبی دیکھ کروہ ہزار روپئے کا نوٹ واپس کر دیتا ہے۔ اس کہانی میں وحشی سعید نے سماج کے ایک ایسے حساس کردار کی تشکیل کی ہے جو غریب اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی ایمانداری اور شرافت کا راستہ نہیں چھوڑتا۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اب بھی ہمارے معاشرے کے مڈل کلاس طبقے میں تہذیبی وراثتیں اور اقدار باقی ہیں۔ وحشی سعید کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں سماجی سروکار اور عام آدمی کے مسائل و مصائب کو نہایت خوبصورتی سے پیش کرنے کی ہنر مندی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں انسانی دردمندی اور تہذیبی شکست و ریخت کو بھی بعض افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے۔

’’جب ممبئی جھک جائے گی‘‘ ایک تیز رفتار بڑے اور میٹرو شہر کی کہانی ہے جس میں وحشی سعید نے امیری اور غریبی کے درمیان موجود کھائی کو نہایت خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔ افسانے کا عنوان در اصل اشارہ ہے بھونچال کا جو ممبئی میں تو ذرا سی دیر کو آتا ہے مگر انسانی خود غرضی و خلوص اور امیری و غریبی کے درمیان ایک دیر پا اور واضح خلا چھوڑ جاتا ہے۔ اس افسانے کے ذریعہ اس سچائی کو نہایت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے کہ تیز رفتار شہروں میں تہذیبی قدروں، خلوص اور انسانی ہمدردی کی تلاش اور پیشکش دونوں فضول ہیں، کہ جہاں دولت کی فراوانی ہوتی ہے وہاں ضمیر سب سے پہلے مر جاتا ہے۔

’’یہ تہذیب یافتہ لوگ‘‘ میں بھی وحشی سعید نے انسانوں کے درمیان اونچ نیچ اور رنگ و نسل کوافسانے کا موضوع بنایا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ انسان چاہے جتنا بھی تہذیب یافتہ اور ترقی پسنداور تعلیم یافتہ ہو جائے رنگ و نسل کے فرق اور سماجی رسم و رواج اور معاشرتی بندھنوں سے رہائی حاصل نہیں کر سکتا۔

’’الجھے لمحے‘‘ انسانی جبلت اور اس کی پیچیدہ نفسیات پر مشتمل ایک ایسی کہانی ہے جسمیں ایک کردار طاہر اپنے دوست کی بیوی کو برہنہ دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے ہزار ہا بوسے لینا چاہتا ہے۔ اس کہانی میں افسانہ نگار نے ایک ایسے موضوع کو چھونے کی کوشش کی ہے جو سماجی اقدار کے خلاف ہے اور اسے ہمارا معاشرہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا مگر وحشی سعید اپنی تخلیقی ہنر مندی کے سہارے اس اچھوت موضوع کو بھی نہایت عمدگی سے پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

وحشی سعید کا افسانوی مجموعہ ’’سڑک جا رہی ہے‘‘ کے افسانوں کا غیر جانبدار مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں پلاٹ اور موضوعات کا قحط نہیں ہے ان کی سوچ کا کینوس وسیع ہے اور وہ اپنے مطمحِ نظر کو کاغذ پر منعکس کرنے پر پوری طرح قادر ہیں۔ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے حالات و واقعات کو مشاہدات اور تجربات کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے، افسانوں کے مروجہ اسلوب سے ہٹ کر کہانی کہنے کا نیا انداز اختیار کرتے ہیں جو یقینی طور پر موجودہ عہد میں مضمحل اور غبار آلودہ ادبی فضا میں ایک طرح کی تازگی کا احساس کراتے ہیں ان کے یہاں بھلے ہی منظر نگاری اور کردار نگاری کا فقدان ہو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے عام موضوعات کو بھی اپنے پاور فل ڈکشن اور زبان و بیان کی انفرادیت سے متاثر کن افسانوں کا پیرہن عطا کیا ہے جس کے سبب وہ یقینی طور پر اپنے ہم عصروں میں الگ پہچان بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔

وحشی سعید کے افسانوں کی ایک اور خصوصیت جو مجھے نظر آئی وہ ان کے جملوں کی ساخت اور معنی خیزی ہے۔ ان کے یہاں افسانوں کا اختصار، موضوع کے عدم پھیلاؤ کے سبب نہیں بلکہ جملوں کے کساؤ، استعاروں کے استعمال اور کرداروں کے درمیان مکالموں سے کسی حد تک پرہیز کی وجہ سے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بڑی خوبی ہے جو بہت کم افسانہ نگاروں کے حصے میں آتی ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ وحشی سعید کے یہاں افسانوں میں بعض جملے بے حد معنی خیز ہوتے ہیں۔ چند مثالیں اپنے اس خیال کی تائید میں پیش کرتا ہوں۔

’’فرشتے بے حس ہوتے ہیں۔ عمل کے دائرے میں قید حکم کے غلام‘‘ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

( افسانہ الجھے لمحے)

’’کیا یہ پتھر کی مورتی صدیوں اسی طرح کھڑی رہے گی‘‘ ۔۔ ۔۔ ۔ (افسانہ دل والی)

اس طرح کے اور بہت سارے جملے پیش کئے جا سکتے ہیں مگر طوالت کے سبب گریز کرتا ہوں۔ وحشی سعید کے افسانوی سفر کا یہ مختصر سا جائزہ اس امید اور یقین کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے کہ چونکہ ان کا تخلیقی سفر جاری ہے لہٰذا وہ ان افسانوں کے آگے کا سفر اختیار کریں گے موضوعات کی سطح پر بھی اور اسلوب اور ڈکشن کی سطح پر بھی۔

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل