فہرست مضامین
سال اقبال ۲۰۰۲ء
مطالعۂ اقبال کے سو سال
علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر منتخب مقالات
(۱۹۰۱ء۔ ۲۰۰۰ء)
مرتبین
رفیع الدین ہاشمی محمد سہیل عمر وحید اختر عشرت
اکادمی ادبیات پاکستان
پطرس بخاری روڈ، اسلام آباد
یہ کتاب سال اقبال ۲۰۰۲ء کے موقع پر شائع کی گئی
مضمون نگاران
شیخ عبدالقادر
پروفیسر حمید احمد خاں
ممتاز حسن
سید ابوالاعلیٰ مودودی
ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر
مجنوں گورکھپوری
احمد ندیم قاسمی
ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی
سلیم احمد
ڈاکٹر سید شوکت سبزواری
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا
ڈاکٹر اسلم انصاری
بسم اللہ الرَّ حمن الرَّ حیم
دیباچہ
بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو اگرچہ ’’شیخ محمد اقبال صاحب اقبال‘‘ بعض مقامی مشاعروں میں شرکت کے سبب اور انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے (۲۴فروری ۱۹۰۰ء) میں پیش کردہ نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ کے ذریعے، ایک محدود حلقے میں تو متعارف ہو چکے تھے، مگر اردو شعر و ادب کے بیشتر قارئین، ان سے واقف نہیں تھے، چنانچہ مخزن کے مدیر شیخ سر عبدالقادر نے، ان کی نظم ’’ہمالہ‘‘ شائع کرتے ہوئے تمہیداً، اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ: ’’شیخ محمد اقبال صاحب اقبال، ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور، علوم مشرقی و مغربی دونوں میں صاحبِ کمال ہیں ‘‘ (مخزن اپریل ۱۹۰۱ء)
ایک اور معروف ادبی جریدے خدنگِ نظر کے مدیر بھی چاہتے تھے کہ وہ اپنے قارئین کو اس ہونہار نوجوان سے متعارف کرائیں۔ اُنھوں نے شیخ عبدالقادر کو ’’بار بار مجبور کیا کہ وہ اپنے قابلِ فخر دوست۔ ۔ مسٹر محمد اقبال ایم اے کی شاعرانہ لائف ……قلم بند فرمائیں ‘‘ چنانچہ شیخ صاحب نے ایک مضمون لکھا جس میں اقبال کے حالات اور مختصر سوانح کے ساتھ، ان کی شاعری کے بارے میں بتایا کہ ان کا کلام ’’قوت بیان اور جوش سخن کے ساتھ اعلیٰ درجے کی علمی معلومات کا ثبوت دے رہا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’جو کچھ اقبال نے اب تک لکھا ہے، وہ اس اعتبار سے،[کہ] ایک نوجوان انگریزی خواں کا کلام ہے جس نے اپنی عمر کا بیشتر حصہّ علوم انگریزی کی تحصیل میں صرف کیا ہے اور جسے اہل زبان ہونے کا دعویٰ نہیں ، نہایت بے بہا ہے اور [اہل وطن کے لیے] مایۂ فخر و ناز ہے۔ ‘‘ (خدنگِ نظر مئی ۱۹۰۲ء، بہ حوالہ: اقبال، جادوگرِ ہندی نژاد از عتیق صدیقی، علی گڑھ ، اگست ۱۹۸۰ء، ص ۱۳۷، ۱۴۴) ۔ ۔ شیخ عبد ا لقادر کا یہی مضمون اقبال پر قدیم ترین دستیاب مضمون ہے۔ شیخ صاحب مرحوم نے، بعد ازاں اقبال پر متعدد سوانحی اور تنقیدی مضامین لکھے۔ انھیں بانگِ درا کا دیباچہ لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
اقبال کے ایک اور قریبی دوست اور رفیق منشی محمد الدین فوق نے بھی ۱۹۰۱ء میں اقبال کا چند سطری تعارف شائع کیا تھا۔ پھر اپریل ۱۹۰۹ء کے کشمیری میگزین میں ، انھوں نے اقبال کے مفصّل حالات لکھے جس کے متن میں متعدد بار اضافے کیے گئے۔ یہ مضمون نیرنگِ خیال کے
اقبال نمبر ۱۹۳۲ء میں چھپا اور فوق کی مشاہیرِ کشمیر (۱۹۳۲ء) میں بھی شامل ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر اور محمد الدین فوق سوانح و تنقید اقبال کے سلسلے میں ’’بارش کے پہلے قطرے‘‘ تھے۔ ان کے بعد اسرار خودی کی اشاعت (۱۹۱۷ء) پر علامہ اقبال کی حمایت اور مخالفت میں کئی اصحاب نے قلم اٹھایا۔ پھر ۱۹۲۲ء میں علامہ کے عزیز دوست نواب سر ذوالفقار علی خاں نے ایک مختصر کتاب A Voice from the East کے نام سے شائع کی، جو علامہ پر پہلی انگریزی کتاب ہے۔ چند سال بعد علامہ کے ایک اور ہم نشین مولوی احمد دین وکیل نے، ان پر پہلی اردو کتاب اقبال (۱۹۲۴ء) شائع کی۔ اس زمانے میں مضامین و مقالات کی صورت میں بھی تنقیداتِ اقبال کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، خصوصاً جب علامہ کا کوئی شعری مجموعہ منظرِ عام پر آتا تو دو چار قریبی احباب اور اقبال شناس تو ضرور ہی قلم اٹھا کر اس تصنیف کا تعارف و تجزیہ لکھ ڈالتے۔ ایسے جائزہ نگاروں میں سیّد سلیمان ندوی، محمد اسلم جیراج پوری اور چودھری محمد حسین کے نام نمایاں ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور رفتہ رفتہ اقبال پر لکھنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔
اور جب بیسویں صدی اختتام کو پہنچ رہی تھی تو وہی ’’مسٹر محمد اقبال ایم اے‘‘ جو صدی کے آغاز میں ، ادبی حلقوں میں محتاجِ تعارف سمجھے گئے، اب انھیں اس صدی کا سب سے بڑا اردو شاعرتسلیم کیا جا چکا تھا اور ان کی شہرت و مقبولیت نصف النّہار تک پہنچ چکی تھی۔
یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ اقبال پر اتنی کثرت اور اتنے تواتر کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ کسی اور شاعر یا ادیب پر، معیار و مقدار، دونوں لحاظ سے اتنا کچھ نہیں لکھا گیا۔ اس کے نتیجے میں ، ان سو برسوں میں ، اقبالیاتی ادب کا ایک عظیم الشان ذخیرہ وجود میں آ چکا ہے۔
اب ’’اقبالیاتی ادب‘‘ یا ’’اقبالیات‘‘ بہ ظاہر تو ایک صنفِ ادب یا شعبۂ علم ہے، مگر اس علمی و ادبی شعبے میں اس قدر تنوع آ 7 ِ طوالت محض سادہ امثال کو فو لگ ای بک کے طور پر شائع کیا گیا ہےچکا ہے اور کی حدود اتنی وسعت اختیار کر گئی ہیں (اور وقت کے ساتھ یہ حدود وسیع تر ہو رہی ہیں ) کہ اب اقبالیات کو ایک ہمہ جہت تحریک کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ’’ہر وہ مضمون یا مقالہ، جو اس عظیم فلسفی و مفکر کی زندگی، شاعری یا فکر و فلسفے کے کسی پہلو سے متعلق ہو، ہر وہ کتاب (نظم ہو یا نثر، طبع زاد ہو یا ترجمہ) جس کا موضوع شعر و فکر اقبال ہو، اقبال کی یاد میں کسی اخبار یا رسالے کی خصوصی اشاعت، ریڈیو یا ٹی وی کا کوئی پروگرام، کسی ادبی حلقے یا علمی مجلس کی کوئی خصوصی نشست، طلبہ کے لیے کسی اقبالی موضوع پر تحریری یا تقریری انعامی مقابلہ۔ ۔ غرض ہر وہ کاوش، جس کا کسی نہ کسی حیثیت سے اقبال سے تعلق ہو، اقبالیات کے زُمرے میں شمار ہو گی۔ ‘‘
اگر صرف اقبالیاتی کتابوں پر ہی نگاہ ڈالیں تو اس میں بھی خاصی رنگا رنگی اور تنوع نظر آئے گا،
مثلاً:
٭ کلام اقبال کے متداول/ انتخاب کلام کے/ اور باقیاتِ کلام کے مجموعے۔
٭ اقبال کی نظم و نثر کے تراجم
٭ سوانح اور مطالعہ شخصیت پر کتابیں ، ملفوظاتِ اقبال کے مجموعے
٭ حوالہ جاتی کتابیں (فرہنگیں ، اشاریے، کتابیات)
٭ کلام اقبال کی شرحیں
٭ اقبال کے افکار و تصورات اور فن پر تحقیقی و توضیحی اور تنقیدی کتابیں۔
٭ اقبال پر منظوم کتابیں
٭ متفرق کتابیں (بچوں کے لیے، نصابی، کوئز، سووینیر وغیرہ)
٭ ادبی و علمی مجلات کے اقبال نمبر
٭ یونی ورسٹیوں کے امتحانی تحقیقی مقالے (Dissertations)
گویا اقبالیات کا تحریری ذخیرہ بھی کم و بیش دس شاخوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ان سو برسوں میں اقبالیات کی دیگر شاخوں میں بھی بہت اچھے کام ہوئے ہیں۔ کہنا چاہیے کہ یہ سب شاخیں بھی خوب برگ و بار لائی ہیں ، لیکن سب سے زیادہ خامہ فرسائی ان کے فکر و فلسفے پر کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے فکر و فلسفے کے اساسی تصورات اور ان کی ہفت رنگ شاعری کے تجزیے اور اس پر نقد و انتقاد پر مبنی کتابوں اور مضامین و مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ وجود میں آ چکا ہے۔ زیر نظر مجموعے میں اقبالیات کی صرف ایک دو شاخوں یعنی سوانح و شخصیت اور فکر و فن پر بیسوی صدی کے تحقیقی و تنقیدی مضامین و مقالات کا ایک انتخاب پیش کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ یہ مجموعہ پیش کرتے ہوئے،ہمیں ’’بہترین‘‘ مقالوں کے انتخاب کے انتخاب یا ’’جامع ترین‘‘ مجموعے کی پیش کش کا دعویٰ نہیں ، یہ ضرور ہے کہ یہ ایک ایسا متوازن انتخاب ہے جس سے اقبال کی شاعری اور فکر کی طرح، سو سالہ تنقید اقبال کی ہمہ جہتی، اس کی وسعت و جامعیّت اور تنوع کا اندازہ ہو سکے گا۔
زیر نظر انتخاب میں اقبال کے فکر و فن کے اہم تر موضوعات کا احاطہ کرنے کوشش کی گئی ہے۔ بیشتر صدی کے نمایاں اقبال شناسوں اور نقادوں کی تحریریں ہیں۔ چوں کہ یہ مضامین کسی سکیم یا باقاعدہ منصوبے کے تحت نہیں لکھے یا لکھوائے گئے، اس لیے ان میں کہیں کہیں تکرار کا احساس ہو گا، لیکن اس تکرار میں بھی ایک تنوع موجود ہے۔ بسا اوقات مختلف لکھنے والے، ایک ہی نکتے کی تعبیر و توضیح اپنے اپنے زاویۂ نظر کے مطابق اور اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں ، (فکری مباحث میں اس کی گنجائش ہوتی ہے، اور جواز بھی) اسی سے تکرار کا جواز نکلتا ہے۔
زیر نظر مقالات کا متن حتی الامکان صحت کے ساتھ پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں آیات قرآنی، احادیث نبویؐ، عربی و فارسی اقوال و ضرب الامثال ،اردو اور فارسی اشعار ممکنہ حد تک درست کر دیے گئے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ نامور نقّادوں اور اقبال شناسوں میں سے شاذ ہی کسی کا مقالہ ایسا ہو گا جس میں اشعار اقبال پوری صحت کے ساتھ نقل کیے گئے ہوں۔
اس مجموعے سے اندازہ ہو سکے گا کہ ادب اور اقبالیات کے عالموں اور نقادوں نے ہمارے قومی اور ملّی شاعر کو کن کن زاویوں سے دیکھا، سمجھا، پرکھا اور پھر کس کس نقد و انتقاد کے کن پیمانوں سے اس کی تعبیر و تفسیر کرنے کی کوشش کی۔ امید ہے قارئین کو ان مضامین کے ذریعے علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن کا ایک واضح نقش قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
مرتّبین
اقبال
شیخ عبدالقادر
چند سال پہلے لاہور میں ایک بزم مشاعرہ قائم تھی، اور پنجاب کے اکثر نامور شعرا اس میں غزلیں کہہ کر لاتے تھے اور دادِ سخن پاتے تھے۔ کچھ کہنہ مشق حضرات تھے جو دہلی یا لکھنؤ سے تعلق رکھتے تھے۔ یا اساتذہ دہلی و لکھنؤ کی صحبت سے مستفید ہو چکے تھے۔ کچھ نو آموز تھے جو ان حضرات میں سے کسی نہ کسی کے معّرف تھے۔ مشاعرہ کیا تھا سخن وروں کا ایک خاصہ دنگل تھا پہلے تلامذہ غزلیں پڑھتے تھے اور ایک دوسرے کے استادوں پر کوئی چوٹ کر جاتے تھے اور اپنے اپنے استاد کو بڑھا جاتے تھے۔ پھر استادوں کی نوبت آتی تھی۔ وہ بھی حریفوں کو پہچانتے تھے اور باہمی اشارے کنایہ سے رک نہ سکتے تھے۔ یہ دل لگی شاعری کو تو ڈبو رہی تھی، مگر مشاعرہ کے لیے باعثِ فروغ تھی۔ تماشائی جوق در جوق آتے تھے اور گھنٹوں یہ تماشا دیکھتے رہتے تھے۔ اس گروہ میں کبھی کبھی ایک کثیر تعداد سرکاری کالجوں کے طلبہ کی آ جاتی تھی۔ ان میں سے اکثر انگریزی تعلیم کی وجہ سے ایشیائی شاعری کے مذاق سے نا آشنا ہوتے تھے۔ مگر تقاضائے سِن تھا کہ ایسے مشغلے کو دلچسپ سمجھیں۔ آتے تھے اور اپنے اپنے دوستوں کو بلا لاتے تھے۔ ایک دن مقابلہ سخن گستری حدِّ جدال پر پہنچنے کو تھا کہ اچانک طلبہ کے گروہ میں سے ایک نوجوان اٹھا۔ عمر بیس سے کچھ متجاوز ہو گی۔ رواج وقت کے مطابق داڑھی چٹ۔ موچھیں بڑھائی ہوئی۔ لباس نئے اور پرانے فیشن کے بین بین۔ سیدھا اس کرسی کی طرف بڑھا جس پر بیٹھ کر شعرا غزل خوانی کرتے تھے۔ اور بیٹھتے ہی یہ مطلع پڑھا۔
تم آزماؤ ہاں کو زبان سے نکال کے
یہ صدقے ہو گی میرے سوالِ وصال کے
مطلع کا پڑھنا تھا کہ کئی سخن آشنا کان متکلم کی طرف لگ گئے۔ اور کئی آنکھیں اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ مشاعرہ میں یہ رسم تھی کہ دبیر مجلس ہر سخن ور کی تعریف کر کے اس سے حاضرین کی شناسائی کرا دیتا تھا۔ مگر اس نوجوان منچلے شاعر سے خود دبیر مجلس نا واقف تھا۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ پہلے حضرت کی تعریف تو فرمائیے۔ نوجوان شاعر نے کہا ’’لیجیے میں خود عرض کیے دیتا ہوں کہ میں کون ہوں ، خاکسار کو اقبال کہتے ہیں ، اور یہی میرا تخلص ہے۔ سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں اور یہاں کے سرکاری کالج میں بی۔ اے کی جماعت میں پڑھتا ہوں۔ حضرت داغؔ سے تلمذ کا فخر حاصل ہے۔ یہاں کے کسی بزرگ سے نہ خصوصیت ہے نہ خصومت۔ چند شعر لکھ کر لایا ہوں اگر اجازت ہو تو پڑھ سناؤں ‘‘۔ مختلف آوازیں آئیں کہ فرمائیے۔ اور ہمارے نوجوان شاعر نے غزل کے باقی شعر پڑھنے شروع کیے۔ قریب قریب ہر شعر پر بیساختہ داد ملی۔ یہاں تک کہ اس شعر تک پہنچا:
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
مرزا ارشد گور گانی دہلوی تشریف رکھتے تھے بے اختیار واہ واہ کہہ اٹھے اور بولے ’’میاں اقبال اس عمر میں۔ اور یہ شعر! ‘‘ اور واقعی اس رنگ کی کہنے والے کی عمر اور وضع سے توقع نہیں ہو سکتی تھی۔ غرض اس طرح غزل ختم ہوئی اور مقطع میں شاعر نے دہلوی اور لکھنوی پارٹی کے جھگڑے پر اپنے خیال کا اظہار نہایت خوبی سے کر دیا۔ اور اس میں شک نہیں کہ اس جھگڑے کے متعلق اہل پنجاب کا جو دونوں مقامات کے اصحاب فن کے خرمن کے خوشہ چیں ہیں ، یہی مسلک ہونا چاہیے۔ مقطع یہ تھا ؎
اقبال لکھنؤ سے نہ دلی سے ہے غرض
ہم تو اسیر ہیں خمِ زلف کمال کے
یہ پہلا موقع تھا کہ لاہور کے سخن دانوں کو اس ابھرتے ہوئے شاعر سے شناسائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد کبھی کبھی مشاعرہ ہوتا رہا۔ اور سخن فہم حضرات اقبال کی غزلوں پر پسندیدگی کا اظہار کرتے رہے لیکن کچھ تو رفتہ رفتہ مشاعرے کی گرم بازاری نہ رہی، کچھ امتحانات وغیرہ نے کالجوں کے طلبہ کو مصروف کر دیا، اور کچھ عرصے کے لیے اقبال کی طباعی کا چرچا گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ اور ان کے ملنے والوں تک محدود ہو گیا۔ پہلا عام جلسہ جس میں دوستوں کے اصرار نے اقبال کو پبلک کے روبرو کھینچ بلایا انجمن حمایت اسلام کا عظیم الشان جلسہ بابت ۱۸۹۹ء تھا جہاں اس نے ’’نالہ یتیم‘‘ کے عنوان سے ایک دل گداز نظم پڑھی۔ یہ نظم ایسی مقبول ہوئی کہ جلسے میں بار بار اس کے پڑھنے کی فرمائش ہوئی تھی اور اس پر یتیم خانے کے لیے چندے کی بارش ہو رہی تھی۔ اس نظم نے اس شہرت کی بنیاد رکھی جو اب اطراف ہند کو گھیرتی جا رہی ہے۔ اس سے قبل خود کارکنان انجمن کو ان کے نام اور جوہر سے یہاں تک ناواقفیت تھی کہ انھوں نے یہ دیکھ کر کہ شیخ محمد اقبال صاحب اقبال ایم۔ اے پاس کر چکے ہیں یہ قیاس کر لیا کہ وہ نظم انگریزی فرمائیں گے اور پروگرام میں ان کے نام کے مقابل نظم انگریزی چھاپ دیا۔ ان کے احباب کو یہ کیفیت دیکھ کر ہنسی آئی۔ مگر انھوں نے کہا کہ خیر لوگ خود ہی دیکھ لیں گے کہ کم از کم اس شخص کی حالت میں انگریزی خوانی مذاق زبان اور علوم مشرقیہ کے پڑھنے میں سدِّ راہ نہیں بنی۔ اور ایسا ہوتا بھی کیوں۔ کیونکہ اس کی انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی علوم مشرقیہ کی تعلیم میں بھی پوری کوشش کی گئی تھی۔ اور وہ ان چند آدمیوں میں ہیں جو اعلا درجے کی انگریزی دانی کے ساتھ فارسی اور عربی سے بھی اچھی واقفیت رکھتے ہیں اور مزید لطف یہ ہے کہ سنسکرت سے بھی نا آشنا نہیں۔
’’نالہ یتیم‘‘ کے پڑھے جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ حاضرین جلسہ جس میں پنجاب اور ہندوستان کے اکثر اضلاع سے لوگ آئے ہوئے جمع تھے۔ اپنے اپنے ہاں اس نظم کے اثر کو لے گئے اور اس دن سے آج تک نہ صرف انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کے پروگرام میں نظم اقبال ایک جزو ضروری بن گئی ہے، بلکہ لاہور میں کوئی اور بھی عظیم الشان جلسہ بغیر نظم اقبال کے مکمل نہیں ہوتا۔ اپریل ۱۹۰۱ء سے رسالہ مخزن کے اجرا نے اقبال سے اخبار بیں دنیا کو شناسا کر دیا ہے۔ اور جو کلام ان کا اس رسالے میں شائع ہوا ہے وہ قوت بیان اور جوش سخن کے ساتھ اعلیٰ درجے کی علمی معلومات کا ثبوت دے رہا ہے۔ اور صاف بتا رہا ہے کہ کہنے والا انگریزی عربی اور فارسی علم ادب پر اچھا عبور رکھنے کے علاوہ سنسکرت اور بھاشا کے علم ادب کے بھی قدردانوں میں ہے۔ اور اپنے کلام کو ایسا گلدستہ بنا دیتا ہے جس میں مختلف گلشنوں کے پھول تربیت سے جمع کیے ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ ایسا پختہ اور وسیع مذاق پچیس چھبیس سال کی عمر میں کیونکر پیدا ہو گیا۔ ضرورت ہے کہ شیخ محمد اقبال کی ابتدائی عمر اور تعلیم اور تربیت پر مختصراً نظر ڈالی جائی۔
ہمارے خیال میں اس میں وراثت کو بھی دخل ہے اور تربیت کو بھی۔ شیخ صاحب کاشمیری الاصل ہیں اور انھیں کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تعلق ہے۔ جس کی ایک شاخ اب تک وطن اصلی میں موجود ہے۔ خاندان کی وہ شاخ جس میں شیخ صاحب ہیں دوسو سال ہوئے مسلمان ہو گئی۔ گوت ان کی ’’سیفرو‘‘ ہے اور ان کے بزرگوں کا اسلام پر ایمان لانا ایک ولی کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے ہوا، جو بزرگ اول میں مسلمان ہوئے ان کے پوتے پنجاب میں آ کر آباد ہوئے اور اس نقل مکان کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ خاندان سادات کے ایک بزرگ کے بیٹے کو پنجاب کی سیر کرانے کی تقریب سے یہاں آئے اور آخر یہیں کے ہو رہے ؎
غربت کے مشغلوں نے وطن کو بھلا دیا
خانہ خراب خاطر الفت شعار کا
اس حکایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اہل اللہ سے ارادت اور مشائخ اور اولیا کی نسبت حسن عقیدت اس خاندان کی طبیعتوں کا جزو ہو چکے ہیں اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ شیخ محمد اقبال کے والد اگرچہ امّی ہیں تصوف کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور صوفیا کے اکثر حالات پر حاوی ہیں اور ان کے اقوال انھیں یاد ہیں۔ یہ موروثی مذاق ہمارے نوجوان شاعر میں بھی موجود ہے اور اس کی شاعری کا ضروری جزو بن گیا ہے۔
شیخ محمد اقبال کے زمانہ تعلیم میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں جو خصوصیت سے قابل ذکر ہو۔ اکثر مسلمان بچوں کی طرح کچھ دنوں مکتب کی ہوا کھائی۔ پھر مدرسے میں داخل ہوئے انگریزی شروع کی پھر کالج کے مدارج میں پہنچے اور زینہ بزینہ چڑھتے گئے۔ ہاں مدرسے میں پڑھنے اور سیالکوٹ کالج میں ایف، اے کے درجے میں تعلیم پانے کے متعلق یہ جتانا ضروری ہے کہ وہاں ایک استاد مشفق کی توجہ خاص نے ان کی طبیعت اور مذاق کے بنانے میں معتد بہ حصہ لیا۔ سیالکوٹ کے اسکاچ مشن کالج کو حسن اتفاق سے زبان عربی اور فارسی کی تدریس کے لیے ایک ایسے بزرگ دستیاب ہو گئے ہیں جن کی ذات نہ صرف اس تعلیم گاہ اور شہر سیالکوٹ کے لیے بلکہ پنجاب بھر کے لیے مغتنمات سے ہے۔ نام نامی ان کا مولیٰنا سید میر حسن صاحب ہے اور اعلا درجے کے با مذاق اصحاب میں ہیں۔ علم اور اہل علم کے شیدائی، ذوق کلام کے فدائی اور جویا۔ مولوی سید میر حسن اب تک ایسے طالب علم ہیں کہ جو ملے، جہاں ملے، جس سے ملے اور جب ملے، حاصل کرتے جاتے ہیں اور چھوڑتے نہیں۔ اس بات کا نتیجہ یہ ہے کہ جس شخص کو ان کی صحبت سے فیض پہنچا ہے وہ کچھ بن کے نکلا ہے۔ متعدد ہندو نوجوان ان کے شاگردوں میں ایسے ہیں جو اردو فارسی تو خیر معمولی بات ہے، عربی زبان میں اعلا درجے کا مذاق لے کر نکلے ہیں اور یونیورسٹی کے امتحانوں میں مسلمانوں سے بڑھ کر نمبر پا گئے ہیں۔ مولوی صاحب کی یہ عادت ہے کہ اگر کسی شاگرد کو ہونہار دیکھیں تو اسے معمولی درس تعلیم تک محدود نہیں رہنے دیتے۔ بلکہ خارج از وقت مدرسہ اسے بعض دلچسپ اور مفید کتابوں پر عبور کرا دیتے ہیں۔ پس جب سید میر حسن جیسے استاد کو اقبال سا شاگرد مل گیا تو انھوں نے کوئی دقیقہ ان جوہروں کو جِلا دینے میں جو قدرت نے طبیعت میں امانت رکھے تھے اٹھا نہیں رکھا۔ سید صاحب کا خاصہ تھا کہ باوجود خود ذوق شعر میں سرشار ہونے کے اکثر طلبہ کو شاعری سے روکتے تھے۔ مگر اقبال کی طبیعت کا اندازہ انھوں نے شروع سے ہی کر لیا تھا۔ اور اس کے ذوق شعر کی قدرتی ترقی کو چپکے چپکے دیکھتے گئے۔ اور کبھی اس کے گھٹانے کی کوشش نہیں کی۔ شعر کا شوق تو اقبال نے بچپن سے پایا تھا۔ اس کے والد کی زبانی ایک دوست کو معلوم ہوا ہے کہ بچپن میں جو پیسے جیب خرچ کے لیے گھر سے ملتے تھے ان کے منظوم قصے خرید لاتا تھا اور زبانی یاد کر لیتا تھا۔ مگر سید میر حسن صاحب کے فیضان صحبت کے زمانے میں اس شوق کو بے حد ترقی ہوئی۔ سید صاحب کو بے شمار اچھے اچھے شعر اساتذہ کے زبانی یاد ہیں۔ جو شعر وہ پڑھتے۔ اقبال اسے لکھ لیتا اور یاد کر لیتا۔ دیوان غالب سبقاً ان سے پڑھا اور ’’ناصر علی ہندی‘‘ کے دلآویز فارسی شعر بھی اسی زمانے میں نظر سے گزرے۔
امتحان انٹرنس پاس کرنے کے بعد اقبال نے جناب نواب فصیح الملک نواب مرزا خاں صاحب داغؔ دہلوی استاد حضور نظام دکن خلد اللہ ملکہ سے بذریعہ خط و کتا بت تلمذ کی ٹھہرائی۔ اور کچھ عرصے تک غزل میں ان سے اصلاح لیتے رہے۔ جب سے نئے رنگ میں مخمس اور مسدس اور ترجیع بند لکھنے شروع کیے ہیں اس وقت سے خود اپنی اصلاح کرنے لگے ہیں۔ گو طبیعت کی روانی بسا اوقات نہایت عجلت میں شعر زبان سے نکلواتی ہے اور کبھی اپنے شوق اور کبھی احباب کی فرمائش سے وہ قلم بند بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مہینوں کھٹائی میں پڑے رہتے ہیں۔ جب ذرا فرصت ملی انھیں پڑھا۔ اور جہاں کوئی لفظ کھٹکا تھوڑی اصلاح کر دی۔ پھر پڑھا اور پھر کہیں کچھ کر دیا۔ کبھی بہت ضرورت محسوس ہوئی تو کسی با مذاق دوست کے سامنے پڑھ کر اس کی تنقید سن لی اور اگر کچھ کام کی بات تنقید میں مل گئی تو اس سے فائدہ اٹھا لیا۔
جس سال حضرت داغؔ سے اصلاح لینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی سال اقبال کی زندگی میں ایک اور واقعہ پیش آیا جسے ہمارے اہل ملک عموماً معمولی سمجھتے ہیں مگر جس کا ہر شخص کی زندگی پر عظیم الشان اثر پڑتا ہے۔ یعنی ان کی شادی ہو گئی۔ پنجاب کے ایک معزز خاندان میں انھیں نسبت فرزندی حاصل ہوئی۔ گو بظاہر یہ تعلق بہمہ وجوہ جانبین کے لیے مفید اور مناسب تھا مگر چونکہ یہاں رشتہ داریاں نو عمر لڑکوں کی است رضا کے بغیر ہی کر دی جاتی ہیں۔ اس لیے شیخ محمد اقبال باعتبار شادی بہت خوش قسمت ثابت نہ ہوئے۔ اور اس واقعے نے طبیعت کی بشاشی اور شگفتگی کو اداسی سے بدل دیا۔ انھیں ایام میں ایک پیارے دوست کے انتقال نے غم کی آگ پر اور تیل ڈال دیا۔ اور طبیعت کا رنج اشعار سے ٹپکنے لگا اور اس درد نے شاعری کا وہ حصہ عطا کر کے جسے گداز کہتے ہیں اقبال کو پورا شاعر بنا دیا۔ ہندوستان میں شاعری کی ستّۂ ضروریہ میں لاگ یا لگاؤ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ حالی جیسے متین شاعر نے اسے ’’چیز وہ مضمون سمجھانے والی‘‘ لکھا ہے۔ اور دیگر اساتذہ نے بھی کسی نہ کسی رنگ میں کسی نہ کسی کے ساتھ لگاؤ پیدا کیا ہے اور اس سے کلام میں واقفیت اور جوش کی چاشنی پیدا کی ہے جس کے بغیر کلام پھیکا رہ جاتا ہے۔ ہمارے اقبال بھی اس سے خالی نہ رہے کسی کی شوخی کے قائل ہوئے اور کلام میں رندانہ رنگ کی جھلکیاں نظر آنے لگیں۔ اور بہت سے معاملے کے اشعار نکلنے لگے۔ یہ رنگ اب تک باقی ہے مگر فلسفہ کا رنگ اس پر غالب آ جاتا ہے۔ طبیعت فلسفیانہ پائی تھی۔ اس لیے بی اے کے امتحان میں فلسفہ کا مضمون لے کر پاس ہوئے۔ بعد میں ایم اے میں بھی فلسفہ پڑھنے کا شوق ہوا۔ اور اس شوق کا زیادہ تر باعث یہ تھا کہ اس زمانے میں مسٹر ٹی، ڈبلیو، آرنلڈ صاحب جو علی گڑھ کالج کے مشہور پروفیسر تھے گورنمنٹ کالج لاہور میں چلے آئے۔ فلسفہ دانی میں ان کی شہرت عالمگیر ہے۔ محتاج بیان نہیں۔ اور اس شہرت نے اقبال کو بے اختیار اپنی طرف کھینچا۔ مگر قابل ذکر یہ امر ہے کہ شاگرد کی طبیعت یہاں بھی شفقت استاد کے لیے اچھا خاصہ مقناطیس ثابت ہوئی۔
جادو عجب نگاہ خریدار دل میں تھا
بکتا ہے ساتھ بیچنے والا بھی مال کے
خود آرنلڈ صاحب بھی اقبال کی تیز فہمی اور اس کے فلسفیانہ دماغ کے معترف ہو گئے انھوں نے اسے شاگردی کے مرتبت سے رفتہ رفتہ دوستی کے اعزاز تک پہنچا دیا ہے اور اقبال کے بہترین دوستوں اور عنایت فرماؤں میں ہیں۔ وہ ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایسا شاگرد استاد کو محقق بنا دیتا ہے اور محقق کو محقق تر۔ کئی مسئلے دوران تعلیم میں ایسے آئے جن کی تحقیقات مزید کی غرض سے آرنلڈ صاحب بہادر کو یورپ کے نامور فلسفہ دانوں سے خط و کتابت کرنی پڑی۔ اور یہ خط و کتابت استاد شاگرد دونوں کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ فلسفہ کے شوق کا یہ بھی نتیجہ ہوا کہ اقبال کچھ دنوں ہند و فلسفے کے مطالعے میں مستغرق رہا۔ اور اس نے ایک دوست کو بتایا کہ اس فلسفے کے مطالعے سے طبیعت میں ایک قسم کا سکون محسوس ہونے لگا اور شانتی کے معنیٰ سمجھ میں آ گئے۔ اور اسی سبب سے اب مذہب میں تعصب کی گنجائش نہیں رہی اور سب مذاہب کی دل سے تعظیم کرتے ہیں اور ان کو بھلا جانتے ہیں۔ مگر یہ بھلا جاننا اپنے مذہب کے عشق کے منافی نہیں گو میدان عمل میں ابھی صفِ عشاقِ مذہب میں نہیں آ سکتے۔
ایم اے پاس ہونے کے بعد شیخ محمد اقبال اوریئنٹل کالج لاہور میں تاریخ و فلسفہ و سیاست مدن کے مضامین پر لکچر دینے کے لیے مقرر کر دیے گئے۔ اس عہدے کی میعاد دو سال ہوتی ہے۔ اب وہ دو سال ختم ہو چکے ہیں۔ مگر افسران کالج ان کی خدمات کو ایسا قیمتی سمجھتے ہیں کہ انھوں نے توسیع میعاد کے لیے سفارش کی ہے اور انھیں غالباً اور دو سال کے لیے وہاں رہنا ہو گا۔ اس کے بعد یا اسی اثنا میں اغلب ہے کہ انھیں صیغۂ تعلیم میں کوئی معقول ملازمت مل جائے۔ کیونکہ اکثر عہدہ داران تعلیم کی رائے ان کی نسبت اچھی ہے۔ اور وہ ان سے تعلیمی خدمت لینے کے خواہشمند ہیں۔ آج کل علمی مشاغل میں انہماک ہے۔ نثر میں مضمون سیاست مدن پر ایک بیش بہا اور جامع کتاب زیر تصنیف ہے۔ اور نظم میں عموماً انگریزی شعرا کی طرز پر معنی خیز نظمیں لکھتے ہیں جن میں سے اکثر بذریعہ مخزن اشاعت پا چکی ہیں۔ فرمائشی کلام سے بہت گھبراتے ہیں۔ اور کم ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ محض فرمائش سے شعر کہہ دیں اور حقیقت یہی ہے کہ شعر وہ چیز نہیں کہ کسی کے اصرار سے ہو جائے۔ یہ تو طبیعت کا ایک بے اختیار جوش ہے اور دل کا ابال ہے۔ اور پورا لطف اسی میں ہے کہ بی ساختہ زبان پر جاری ہو۔
اقبال کے حالات زندگی کے اس مختصر خاکے کو ختم کرنے سے پہلے شاید بے جا نہ ہو گا کہ اس کے کلام پر نگاہ ڈالی جائے۔ اقبال کا کلام ابھی کمیت میں اکثر مشہور شعرا کے برابر نہیں پہنچا۔ مگر کیفیت میں انداز خاص رکھتا ہے۔ اول تو بھرتی کے اشعار اس کے کلام میں کم پائے جائیں گے۔ بقول داغؔ۔ ع اس کے ہر شعر میں ترکیب نئی بات نئی، نظر آتی ہے۔ غزل کے اکثر اشعار واقفیت کا رنگ لیے ہوتے ہیں اور تصنع ان میں بہت کم نظر آتا ہے۔ مگر طبیعت اپنے جوہر اصلی مسلسل نظموں میں دکھاتی ہے۔ گو ان میں بعض بند مشکل پسندی کے نمونے ہیں۔ کئی سخن فہم حضرات نے اس مشکل پسندی پر اعتراض کیا ہے۔ اور ایک حد تک یہ اعتراض بجا بھی تھا مگر اس کا اثر اقبال کی طبیعت پر ابتدا میں اچھا نہیں پڑا۔ بجائے اس کی اصلاح کی فکر کے اس کا قصد ہوا کہ شعر گوئی ترک کر دے۔ چنانچہ ایک دو بے تکلف دوستوں کے روبرو اس خیال کا اظہار بھی کر دیا۔ مگر انھوں نے سمجھایا کہ اگر کہیں ایک شعرا ایسا نکلتا ہے جس پر کوئی درست اعتراض وارد ہو سکے تو دس ایسے نکلتے ہیں جن کی خوبی کو سب مانتے ہیں اور ترک شعر گوئی ملک کی شاعری کو نقصان رساں ہو گا اور اسی زمانے میں دور دور سے دادیں آنے لگیں۔ منجملہ دیگر اصحاب کے مولیٰنا شبلی نعمانی جیسے نکتہ رس مشہور عالم نے بدین الفاظ داو دی کہ ’’جب آزاد اور حالی کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ آپ کو ڈھونڈھیں گے‘‘۔ ان باتوں نے اقبال کی ہمت پھر بندھا دی۔ اعتراض کا ایک حصہ جو اختیاری تھا رفع ہو جاتا ہے۔ اور اب پہلے سے زیادہ ایسے اشعار اقبال کے قلم سے نکلتے ہیں جو زور کے ساتھ سادگی اور سلاست کی خوبیوں سے بھی آراستہ ہوتے ہیں۔ مگر اعتراض کا ایک حصہ غیر اختیاری تھا اور وہ رفع نہیں ہوا اور نہیں ہو سکتا۔ اردو زبان بھی بمقابلہ انگریزی کے ابتدائی حالت میں ہے انگریزی شاعری میں اور خصوصاً فلسفہ میں اکثر خیالات ایسے ہیں جو موجودہ اردو الفاظ اور سیدھی سادھی ترکیبوں کی ضرورت ہے یا ذرا پیچیدہ ترکیبوں کی۔ اس لیے ع اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے، ایک طرف تو شاعر اپنے سامعین کی طرف جھکے اور ان کی سطح پر اترنے کی کوشش کرے، اور اس سے زیادہ سامعین اپنے مذاق کو بڑھاتیں اور معلومات کو وسیع کریں اس کی بلند پردازی کا تتبع کریں۔ اصل اندازہ تو کسی کے کلام کا اس کے بعد کی نسلیں لگاتی ہیں اور اس لیے اس کے معاصرین کے لیے موقع صحیح اندازے کا نہیں ہو سکتا۔ مگر اتنا کہنے میں ہمیں تامل نہیں کہ جو کچھ اقبال نے اب تک لکھا ہے وہ اس اعتبار سے کہ ایک نوجوان انگریزی خوان کا کلام ہے جس نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ علوم انگریزی کی تحصیل میں صرف کیا ہے اور جسے اہل زبان ہونے کا دعویٰ نہیں ، نہایت بے بہا ہے اور اس حصہ ملک کے لیے جسے اب وہ اپنا وطن کہتا ہے مایہ فخر و ناز ہے
خدنگِ نظر، مئی ۱۹۰۲
بہ حوالہ : اقبال جادوگر ہندی نژاد
مکتبہ جامعہ ، نئی دہلی۔ ۱۹۸۰ء
٭٭٭
اقبال کی لفظی تصویر
پروفیسر حمید احمد خاں
ہر بڑے آدمی کا نام ایک طلسم ہے جسے زبان پر لاتے ہی نظر کے سامنے ایک نیا جہان اُبھر آتا ہے۔
محمد اقبال !یہ نام پچھلی صدی تک کسی خاص مفہوم سے آشنا نہ تھا۔ ہزاروں دوسرے ناموں کی طرح یہ بھی ایک نام تھا، غیر متحرک اور منجمد ، جیسے زید اور بکر اور عمرو!آخر کار صدیوں کی بے سر و سامانی کے بعد خود ہمارے عہد میں اِس نام نے حیاتِ جاوید کا خلعت پہنا۔ اِس کو زندہ کرنے کے لیے ایک مسیح آیا اور یہ نام علامت قرار پایا فلسفہ زندگی کی ایک ہمہ گیر حرکت اور وسعت اور اضطراب کی۔ آنے والی نسلیں اِس نام کے پیچھے صرف اِسی حرکت اور وسعت اور اضطراب کی جھپٹ دیکھیں گی۔
لیکن موجودہ نسل یہ نام سُنتی ہے تو زندگی کے اِس طوفان انگیز تخیل کے پیچھے اُسے ایک پر سکون اور عزلت پسند انسانی پیکر کی تصویر نظر آتی ہے۔ محمد اقبال ! پیغمبرِ اُمید، پیغمبرِ حیات! بے شک ! مگر اِس سے پہلے ہماری طرح ہنسنے بولنے والا، کھانے پینے والا ایک انسان ! جب تک موجودہ نسل زندہ ہے یہ متحرک شبیہ اس کے تصور میں زندہ رہے گی۔ لیکن اس نسل کے گزر جانے کے ساتھ عالمِ خیال کی یہ تصویر بھی گزر جائے گی۔
اقبال کے سراپا کی لفظی تصویر کھینچنا آسان نہیں۔ اگر انھیں کشیدہ قامت کہا جائے تو یہ کچھ مبالغہ سا معلوم ہوتا ہے، مگر اِس کے ساتھ ہی انھیں محض میانہ قد کہنا صریحاً کوتاہی ہو گی۔ یہی حال اُن کے ڈیل ڈول کا تھا۔ اُن کا جسم بھرا بھرا تھا مگر فربہی کے شبہے سے پاک۔ چنانچہ جب گرمی کے موسم میں باتیں کرتے کرتے پنڈلی پر سے کپڑا ہٹا دیتے تھے تو اہلِ مجلس کو تعجب سا ہوتا تھا کہ اُن کی پنڈلیوں پر کچھ زائد گوشت کیوں نظر نہیں آتا۔ یہ اس لیے کہ اُن کے بھرے ہوئے پُر رُعب چہرے کا لحاظ کر کے دیکھنے والا قدرتی طور پر زیادہ پُر گوشت اور بھری ہوئی پنڈلیوں کی توقع رکھتا تھا۔ اُن کا رنگ گورا تھا جس میں سرخی کی جھلک آخری دنوں تک قائم رہی۔ مرض کی حالت سے قطع نظر، اُن کے چہرے کی سرخی، روشنی اور دھوپ میں خاص طور پر نمایاں ہو جاتی تھی۔ یہ گویا اُن کے اُس کشمیری خون کا اثر تھا جو اُن کے شفاف خد و خال سے چھپائے نہیں چھپتا تھا۔
اقبال اپنے سر کے بال سنوارنے میں صرف یہ کرتے تھے کہ انھیں کنگھی سے سلجھا کر پیچھے ہٹا دیتے تھے (کم از کم میں نے اُن کے بالوں میں کبھی مانگ نہیں دیکھی) ۔ باتیں کرتے ہوئے کبھی کبھی اپنا ہاتھ اسی انداز سے پیچھے کی طرف بالوں پر پھیر لیتے تھے۔ پیشانی اگرچہ کشادہ تھی مگر جہاں سر کے بال شروع ہوتے تھے وہاں کچھ تنگ تنگ بلکہ ایک گوشہ سا بناتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ابرو بہت گھنے تھے اور شاید اس لیے کچھ زیادہ گھنے معلوم ہوتے تھے کہ اُن کے نیچے آنکھیں گہری بلکہ ذرا اندر کو دبی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ اُن کی آنکھیں بڑی نہ تھیں مگر گہری اور ذہین آنکھیں ضرور تھیں جن کے اوپر گھنے ابروؤں کے چھجے جھکے ہوئے تھے۔ گفتگو کرتے وقت اُن کی صرف دائیں آنکھ پوری کھلی رہتی تھی۔ دوسری آنکھ نا دانستہ طور پر ذرا بند کرتے تھے۔ دراصل اُن کی یہ آنکھ بینائی سے محروم تھی۔
اقبال ڈاڑھی عمر بھر منڈاتے رہے لیکن مونچھیں رکھتے تھے۔ مونچھیں رکھنے کے بھی کئی فیشن ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں بعض حضرات صرف اپنی ’’زور دار‘‘ مونچھوں کے دم خم سے پہچانے جاتے ہیں۔ اقبال کا تعلق اِس گروہ سے نہیں تھا۔ اُن کی مونچھیں ذرا چھدری تھیں اور خاموش، مگر اس خاموشی کے باوجود جان دار معلوم ہوتی تھیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال کی مونچھوں میں اگر قیصر ولیم کی مونچھوں کی اکڑ نہیں تھی تو مسٹر چیمبر لین کی مونچھوں کا عجز و انکسار بھی نہ تھا۔
یہ ایک دلچسپ سوال ہے کہ جو لوگ اقبال کے پاس بیٹھتے تھے، اُن پر اقبال کی شخصیت کا مجموعی طور پر کیا اثر ہوتا تھا۔ ہم اپنی جان پہچان کے لوگوں میں سے ہر شخص کے ساتھ بالعموم ایک نہ ایک خصوصیت منسوب کر دیتے ہیں جو ہمارے نزدیک اس کی شخصیت کی امتیازی نشانی بن جاتی ہے۔ اگر ایک شخص بالطبع خاموش ہے تو دوسرا بہت باتونی ہے، ایک کا کام دن رات ہنسی دل لگی ہے، دوسرا ذرا سی بات پر مشتمل ہو کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ غرض کوئی نہ کوئی نمایاں صفت ایسی ہوتی ہے جسے ہم اُس کی شخصیت کا جوہر قرار دیتے ہیں۔ اقبال کو میں نے بار ہا ہنستے دیکھا ہے اور کبھی کبھی غصے کی حالت میں بھی۔ لیکن اُن کی شخصیت کا محور نہ ہنسی تھی اور نہ غصہ۔ اصل میں انسان پر مختلف اوقات میں بہت سی ذہنی اور جسمانی کیفیتیں طاری ہوتی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی زندگی میں غور و فکر کو جو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ وہ کسی اور شخصیت کو کبھی حاصل نہ ہوئی۔ خاموشی اور گفتگو، سکون اور اشتعال، ہر رنگ میں اُن کی اصل حیثیت ایک مفکر کی تھی۔ یہ نا ممکن تھا کہ کوئی شخص تھوڑی دیر اُن کے پاس بیٹھے اور یہ محسوس نہ کرے کہ اقبال کی پوری ہستی کی بنیاد غور و فکر پر قائم ہے۔ گفتگو میں ذرا وقفہ آیا اور اقبال کا ذہن ایک جست میں کائنات کی حدود کو عبور کر کے وہاں جا پہنچا جہاں ہمارا تمام شور و شغب قدرت کے سرمدی سکوت میں گم ہو جاتا ہے۔ اُس وقت دیکھنے والے کو صرف ایک نظر بتا دیتی کہ یہ اپنے آپ میں سمٹا ہوا انسان سیاسی پلیٹ فارم کی تقریرِ شرر بار اور منبر کے وعظِ ستم اندوز کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ اُس وقت اُس کا پیکرِ خاک اِسی عالمِ رنگ و بو میں موجود ہوتا لیکن اُس کی روح ستاروں کے نور سے الجھتی ہوئی، پاتال کے اندھیرے سے ٹکراتی ہوئی، کسی نئی دنیا میں جا نکلتی۔
مگر اقبال کی اِس حیاتِ فکری کا ایک پہلو اور بھی تھا ؛اپنے ذہن کی اِسی کیفیت کی وجہ سے اقبال عام انسانی تعلقات سے بے نیاز تھے۔ اپنے ملنے والوں سے اُن کا تعلق معاشرتی تعلق نہیں تھا، فلسفیانہ تھا۔ میں برسوں اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا لیکن مجھے پورے عجز کے ساتھ اعتراف ہے کہ انھیں مجھ سے کوئی ذاتی تعلق نہیں تھا،میں تو خیر ایک عقیدت مند کی حیثیت سے اُن کے پاس جاتا تھا، مگر اُن کے مقربین بھی اُن کے دلی تعلق سے غالباً محروم تھے۔ جب اقبال خلوص اور گرم جوشی سے بات کرتے تھے تو اِس لیے نہیں کہ اُن کا مخاطب اُن کے اِس اخلاص کا مستحق ہوتا، بلکہ اِس لیے کہ وہ تمام جوش اور خلوص انھیں اپنے اُس خیال کے متعلق محسوس ہوتا تھا جس کے اظہار سے انھیں اُس وقت غرض ہوتی۔ جن لوگوں سے اقبال بے تکلف تھے وہ لوگ بھی، روحانی طور پر، اُن کے لیے اشخاص نہیں تھے بلکہ محض چند ’’کھونٹیاں ‘‘ جن پر مختلف قسم کے خیالات بالکل مناسب طور پر لٹکائے جا سکتے تھے۔ اقبال اِس معاملے میں ہمیشہ تنہا اور آزاد رہے۔
روح کی اِس تنہائی کے باوجود اقبال کو ایک مختصر حلقے کی گفتگو اور وہاں اپنے خیالات کے اظہار میں خاص لطف آتا تھا۔ وہ خود بھی خاموش رہ کر دوسروں کی بات سن سکتے تھے، اور انھیں باتونی کہنا تو کسی طرح بھی درست نہیں ہو گا لیکن مختلف سوالات کے جواب میں اپنی تشریحات پیش کرتے ہوئے جو لذت انھیں ملتی تھی وہ ہر شخص پر ظاہر تھی۔ دراصل اُن کی فطرت مشرقی وضع کے پرانے اُستاد کی فطرت تھی جس کا محبوب تریں مشغلہ اپنے شاگردوں کے درمیان بیٹھ کر بات بات میں نکتے پیدا کرنا تھا۔
آج وہ شمع خاموش ہے اور وہ محفل بھی باقی نہیں رہی، لیکن ہمارا تخیل اِس مٹتی ہوئی تصویر کو ایک بار پھر زندہ کر سکتا ہے۔ آئیے پھر ایک مرتبہ ڈاکٹر اقبال سے ملنے چلیں۔ میکلوڈ روڈ سے مڑتے ہی ڈاکٹر صاحب اپنی کوٹھی کے برآمدے میں آرام کرسی پر بے تکلفی سے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اگر سردی کا موسم ہے تو ڈاکٹر صاحب قمیص اور شلوار میں ملبوس ایک بادامی دھُسا اوڑھے ہوئے ہیں۔ اگر گرمی ہے تو قمیص کے ساتھ ایک تہبند ہے اور قمیص کے بجائے بھی کئی مرتبہ صرف بنیان ہی ہے۔ آرام کرسی پر ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھے ہیں اور کبھی کبھی اپنے پاؤں کے بے حد سفید تلوے کو ہاتھ سے سہلا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی آرام کرسی کے برابر حقہ پڑا ہے۔ چلم بجھ جاتی ہے تو ایک ایسے انداز میں ، جو کبھی نہیں بدلا، آواز دیتے ہیں :’’علی بخش ! ‘‘ اتنے میں ہم برآمدے کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہیں اور انھیں سلام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر کے لیے اِدھر توجہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں :’’آؤ جی …صاحب ‘‘۔ جس شخص کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اُس کا خیر مقدم اِسی مختصر جملے سے کرتے ہیں ، جس کو نہیں پہچانتے اُس کے متعلق کبھی نہیں پوچھتے کہ یہ کون ہے۔ ناواقفوں کے لیے یہی کافی ہے کہ سلام کریں اور بیٹھ جائیں۔ اِس کے بعد تکلف برطرف، وہ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو میں پوری آزادی سے شامل ہو جاتے ہیں۔
اب باتیں شروع ہوتی ہیں اور علم و حکمت کا چشمہ اُبلنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دماغ سے ہر رنگ کی موج اُٹھتی ہے اور اجنبی چہروں کا سامنا بھی ان کی گفتگو کی بے باک روانی کو تکلّف کی کسی زنجیر کا پابند نہیں کر سکتا۔ اُن کی تشریحات اُستادانہ ہیں۔ وہ سوالات کا جواب دینے سے تھکتے نہیں بلکہ ایک ایک نکتہ کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ کچھ سمجھاتے ہیں تو ہاتھ کی صرف ایک انگلی ہی نہیں اُٹھاتے بلکہ داہنے ہاتھ کا پورا پنجہ حرکت میں آتا ہے۔ گفتگو ہمیشہ پنجابی میں ہوتی ہے۔ کبھی کسی علمی نکتے کے بیان میں انگریزی کے دو ایک جملے بھی بے تکلف استعمال کر جاتے ہیں۔ اُردو میں صرف اُس وقت بات کرتے ہیں جب بیرونِ پنجاب سے کوئی صاحب شریکِ مجلس ہوں۔ مذہب اور سیاست دو ایسے مضمون ہیں جن سے بحث کرتے ہوئے کبھی کبھی اُن کا لہجہ پر جوش ہو جاتا ہے۔ جوں ہی کوئی ایسا موقع آتا ہے، ڈاکٹر صاحب کرسی پر ذرا سیدھے ہو بیٹھتے ہیں۔ یہ میکلوڈ روڈ کے دنوں کی کیفیت ہے۔ میو روڈ کی کوٹھی کے زمانے میں امراض نے آ گھیرا ہے۔ بستر پر لیٹے رہتے ہیں اور ملاقاتیوں کو خواب گاہ ہی میں بلا لیتے ہیں۔ اِسی حالت میں گھنٹوں تک پر لطف باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن جوں ہی گفتگو میں ذرا گرمی پیدا ہوئی، ڈاکٹر صاحب ایک دم اٹھ کر بستر پر بیٹھ گئے اور پھر اُس وقت تک نہیں لیٹے جب تک وہ بات ختم نہیں ہو گئی۔
اب ہمیں اُن کے پاس گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ہے۔ ہمارے سوالات ختم ہو چکے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کا ذہن بھی ایک اور پرواز کے لیے ذرا دم لیتا ہے۔ دونوں طرف خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب ایک اور ہی عالم میں ہیں ؛ وہ کمرے میں موجود ہیں مگر پھر بھی موجود نہیں ہیں۔ اُن کی ظاہر کی آنکھیں کچھ بند کچھ کھلی ہیں لیکن باطن کی آنکھ کسی اور سمت میں سراپا نگاہ ہو رہی ہے۔ اِسی کیفیت میں کچھ وقت گزر جاتا ہے۔ اُن کے خیالات کی موجیں انھیں بہاتی ہوئی کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ آخر کار حواسِ ظاہری کا دیدبان دفعۃً واپسی کا اشارہ کرتا ہے اور اُن کا سفینۂ خیال گہرے سمندروں کے سفر کے بعد پھر زندگی کے پرانے ساحلوں کی طرف رخ پھیرتا ہے۔ اُس وقت وہ اپنا سر ذرا اوپر کو اٹھاتے ہیں اور اُن کے منہ سے کبھی ’’یا اللہ ! ‘‘اور کبھی فقط ’’ہوں !‘‘کی ہلکی سی آواز نکلتی ہے۔ یہ آواز اس بات کی علامت ہے کہ جہاز ساحل پر آ پہنچا اور اُس کے لنگر کا قلابہ پھر ایک بار عالمِ اسباب کی مضبوط زمین میں پیوست ہو گیا۔ اِس قسم کے وقفوں کے بعد بالعموم اُن کی یہی لمبی اور پر سکون ’’ہوں !‘‘ ان کے ذہن کی دور و دراز اُڑان سے اُن کی بازگشت کی نقیب ہوتی ہے پھر اُسی پہلے انہماک سے باتیں شروع ہو جاتی ہیں تا آنکہ سہ پہر کے سائے ڈھل کر شام میں غائب ہونے لگتے ہیں اور سورج غروب ہو جاتا ہے۔ آخر ہم اپنی کرسیوں پر ایک بے معنی سی جنبش کرتے ہیں اور پھر اُٹھ کر اجازت چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ’’اچھا چلتے ہیں آپ !‘‘ اور پھر ہمارے سلام کا جواب ہاتھ اُٹھا کر دیتے ہیں۔ یہ اُن کا ہمیشہ کا معمول تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے جب رحلت کی تو اہلِ لاہور کو ایک ایسا ’’شخصی ‘‘ نقصان پہنچا جس کی تلافی خود ڈاکٹر صاحب کا کلام بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اُن کے انتقال کے موقع پر میں اتفاق سے لاہور میں موجود نہیں تھا۔ میرے ایک دوست نے، جن کے ساتھ مل کر میں بار ہا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، مجھے ایک خط لکھا جس میں لاہور کی زبان بن کر انھوں نے وہ جذبات قلم بند کر دیے جو بہت سے دلوں کو بے تاب کر رہے تھے مگر لب تک نہیں آ سکے تھے۔ انھوں نے لکھا:
ڈاکٹر اقبال چل بسے۔ افسوس کہ ہمیں آخری دنوں میں اُن کا نیاز حاصل نہ ہو سکا۔ یہ حسرت ہمیشہ میرے دل میں رہے گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال مرا نہیں کیونکہ اُس کا کلام اُسے زندۂ جاوید بنانے کے لیے کافی ہے۔ لیکن میں اِس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے کلام میں اُس کی مکمل شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ اُس کی نظم تو انسانی زندگی کی اعلیٰ ترین اقدار سے موزوں (یعنی پر معنی اور متین) زبان میں بحث کرتی ہے لیکن خود اقبال کی شخصیت کا ایک اور نہایت دل چسپ پہلو بھی تھا؛ یعنی اس کی خوش کلامی جو بعض دفعہ بذلہ سنجی سے جا ملتی تھی۔ اُس کی نظم میں تو اُس کا تخیل عرش بریں کو اپنی بلند پروازی کی پہلی سیڑھی سمجھتا ہے لیکن کیا ہم نے اس کو اپنی زندگی میں بے علموں اور وہم پرستوں سے انھی کی سطح پر نہایت انہماک سے بحثیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ اُس کے کلام سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ’’دانائے راز‘‘ سے ہم سخن ہونا مجھ جیسے ہیچ مداں کے بس کی بات نہ تھی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ میں نے گھنٹوں اُس کی صحبت میں بصیرت افروز باتیں سنتے ہوئے گذار دیے مگر اُس اللہ کے بندے نے کبھی ایک دفعہ بھی اشارے یا کنائے سے یہ جتانے کی کوشش نہ کی کہ بھئی تمھاری تنگ نظری وبال جان ہو رہی ہے، اب ختم بھی کرو۔ الغرض وہ اقبال جو لوگوں سے گویا پکار پکار کر کہتا تھا کہ آؤ میرے علم و فضل کے خزانے کھلے پڑے ہیں ، جھولیاں بھر بھر کے لے جاؤ، مرگیا ہے۔ اقبال کا کلام برحق، لیکن ہم اپنے بظاہر لاینحل مسئلوں کو اب کس کے پاس لے جائیں گے کہ وہ ایک جنبش لب سے مشکل سے مشکل گتھی کو سلجھا دے۔ یہ اقبال مر گیا ہے۔ افسوس!
اقبال کی شخصیت اور شاعری۔ مجلس ترقی ادب، لاہور۱۹۷۳ء
٭٭٭
علامہ اقبال :زندگی کا ایک دن
(علی بخش سے انٹرویو ــــــ گفتگو:ممتاز حسن )
ترجمہ :محمد سہیل عمر
جناب ممتاز حسن نے ۲۲ستمبر ۱۹۵۷ء کو علامہ اقبال کے دیرینہ خادم علی بخش سے ایک انٹرویو کیا تھا، جسے انھوں نے مرتب کر کے انگریزی میں شائع کیا، ذیل میں اس کا اُردو ترجمہ دیا جا رہا ہے۔
س) اقبال صبح کو عموماً کب بیدار ہوتے تھے؟
ج) بہت سویرے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت کم خواب تھے۔ نماز فجر کی بہت پابندی کرتے اور نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔
س) وہ قرآن کس انداز میں پڑھتے تھے ؟
ج) جب تک ان کی آواز بیماری سے متاثر نہیں ہوئی تھی وہ قرآن کی تلاوت بلند آہنگ میں خوش الحانی سے کرتے تھے۔ آواز بیٹھ گئی تو بھی قرآن پڑھتے ضرور تھے مگر بلند آواز سے نہیں
س) نماز اور تلاوت سے فارغ ہو کر کیا کرتے تھے؟
ج) آرام کرسی پر دراز ہو جاتے۔ میں حقہ تیار کر کے لے آتا۔ حقے سے شغل کرتے ہوئے اس روز کے عدالتی کیسوں کے خلاصوں پر بھی نظر ڈالتے رہتے۔ اس دوران میں گاہ گاہ شعر کی آمد بھی ہونے لگتی۔
س) آپ کیسے پہچانتے تھے کہ علامہ پر شعر گوئی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے؟
ج) وہ مجھے پکارتے یا تالی بجاتے اور کہتے ’’میری بیاض اور قلمدان لاؤ‘‘ میں یہ چیزیں لے آتا تو وہ اشعار لکھ لیتے۔ اطمینان نہ ہوتا تو بہت بے چین ہو جاتے۔ شعر گوئی کے دوران میں اکثر قرآن مجید لانے کو کہتے۔ شعر گوئی کے علاوہ بھی دن میں کئی بار مجھے بلا کر قرآن مجید لانے کی ہدایت کرتے رہتے۔
س) عدالت جانے کا وقت عموماً کیا ہوتا تھا؟
ج) عدالتی اوقات سے دس پندرہ منٹ قبل روانہ ہوتے تھے پہلے بگھی میں ، اور آخری زمانے میں گاڑی خریدلی تھی۔
س) وکالت کا کیا عالم تھا، بہت کام کرتے یا تھوڑا؟
ج) وکالت میں ایک حد سے زیادہ اپنے آپ کو مصروف نہیں ہونے دیتے تھے۔ عام طور پر یوں تھا کہ ۵۰۰روپے کے برابر فیس کے کیس آ جاتے تو مزید کیس نہیں لیتے تھے۔ دیگر سائلین کو اگلے ماہ آنے کا کہہ دیتے۔ اگر مہینے کے پہلے تین چار دنوں میں چار پانچ سو روپے کا کام مل جاتا تو باقی سارا مہینہ مزید کوئی کیس نہیں لیتے تھے۔
س) یہ پانچ سو روپے کی حد کیوں لگائی گئی تھی؟
ج) ان کا تخمینہ تھا کہ انہیں ماہانہ اخراجات کے لیے اس سے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس زمانے میں اس رقم میں گھر کا کرایہ، نوکروں کی تنخواہیں منشی کی تنخواہ اور گھر کے عمومی اخراجات سب شامل تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب علامہ صاحب انار کلی اور میکلوڈ روڈ پر رہا کرتے تھے۔
س) علامہ صاحب نے کتنے عرصے تک وکالت کی؟
ج) جب تک انہیں گلے کی بیماری لاحق نہیں ہوئی تھی ،وکالت کرتے رہے۔ یہ اندازاً ۳۳۔ ۱۹۳۲ء کا زمانہ تھا۔
س) گلے کی بیماری کیسے شروع ہوئی تھی؟
ج) وہ عید کی نماز پڑھنے گئے۔ سردی کا موسم تھا گھر واپس آ کر سویوں پر دہی ڈال کر کھایا جو انہیں بہت مرغوب تھا۔ اگلے ہی روز گلے کی تکلیف شروع ہو گئی۔ اس رات کے دو اڑھائی بجے تک کھانستے رہے۔ اگلے دن ان کی آواز بیٹھ گئی اور وفات تک آواز کی یہی کیفیت رہی۔
س) اب ذرا ان کے روز مرہ کے معمول پر دوبارہ بات ہو جائے۔ عدالت سے لوٹ کر آتے تو کیا کیا کرتے تھے؟
ج) سب سے پہلے تو مجھے کہتے کہ میرا لباس تبدیل کرواؤ، رسمی دفتری لباس انہیں کبھی پسند نہ تھا۔ عدالت جانے کے لیے مجبوراً پہن لیتے اور گھر آتے ہی سب سے پہلے اس سے چھٹکارا حاصل کرتے۔
س) لباس بدل کر کے کیا کیا کرتے تھے؟
ج) اگر شعر کہنا ہوتے تو اس کے لیے حسب معمول بیاض، قلمدان اور قرآن مجید لانے کو کہتے ؟
س) کیا وہ اپنی وکالت پر سنجیدگی سے توجہ دیتے تھے؟
ج) اگر اگلے دن عدالت میں کوئی مقدمہ ہوتا تو اس مقدمے کی مسل دیکھ لیتے تھے۔ ورنہ مقدمے کے کام میں اپنے آپ کو نہ الجھاتے۔
س) کیا وہ گھر پر عدالت کا کام کیا کرتے تھے؟
ج) اگلے روز کے مقدمات سے متعلق کاغذات پر نظر ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
س) سہ پہر میں سونے کی عادت تھی۔
ج) معمول تو نہیں تھا، کبھی سو بھی جاتے۔
س) ان کی نیند کیسی تھی؟
ج) نیند کچی تھی، ذرا سی آواز سے چونک جاتے تھے۔
س) جسمانی تکلیف اور بے آرامی برداشت کرنے میں کیسے تھے؟
ج) بہت نرم دل تھے۔ تکلیف کی برداشت بہت کم تھی۔ کسی اور کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ خون بہتا دیکھنے کی بالکل تاب نہ تھی۔ ایک مرتبہ پاؤں پر بھڑ نے کاٹ لیا، اس سے وہ ایسے لاچار ہوئے کہ حرکت کرنے کے لیے بھی میرے سہارے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ ایک مرتبہ جاوید کو بچپن میں ابرو کے قریب چوٹ لگ گئی جس سے تھوڑا سا خون بہ نکلا خون دیکھ کر علامہ کو غش آ گیا۔
س) کھانا کس وقت کھاتے تھے؟
ج) بارہ ایک بجے کے درمیان ایک ہی مرتبہ کھانا کھاتے۔ رات کے کھانے کا معمول نہ تھا۔
س) کھانے میں کیا پسند تھا؟
ج) پلاؤ، ماش کی دال، قیمہ بھرے کریلے، اور خشکہ
س) کھانے پر کئی طرح کی غذائیں ہوتی تھیں کیا؟
ج) جی نہیں ایک وقت میں زیادہ کھاتے نہ تھے، خوراک خاصی کم تھی۔
س) کسی خاص کھانے کو ناپسند کرتے تھے؟
ج) جی ہاں۔ سری پائے اور ٹنڈے گوشت۔
س) ورزش کیا کرتے تھے؟
ج) ابتدا میں تو ورزش کرتے تھے۔ مگدر گھماتے اور ڈنڑ پیلتے تھے۔ انار کلی کے قیام تک یہ معمول رہا۔ اِس کے بعد ورزش چھوٹ گئی۔
س) کھیلوں سے دلچسپی تھی؟
ج) کشتیوں کے دنگل شوق سے دیکھتے تھے۔
س) دیگر دلچسپیاں کیا تھیں ؟
ج) شروع کے دنوں میں کبوتر پالنے کا شوق رہا، کبھی کبھار تاش بھی کھیل لیتے۔
س) شام کو کبھی کہیں باہر جایا کرتے تھے؟
ج) شام کو کہیں باہر نکلنا ان کے لیے تقریباً نا ممکن تھا۔ جس زمانے میں قیام بھاٹی دروازے کے اندر تھا تو بسا اوقات حکیم شہباز الدین کے گھر کے باہر کے چبوترے تک ٹہل لیتے تھے۔ کبھی کبھار سر ذوالفقار علی اپنی موٹر لیکر آ جاتے اور انہیں باہر گھمانے لے جاتے۔
س) رات کو سوتے کس وقت تھے؟
ج) شام کو احباب کی محفل جمتی تھی۔ چودھری محمد حسین ہمیشہ سب سے آخر میں رخصت ہوتے تھے۔ مجلس عموماً دس بجے برخاست ہو جاتی اور اس کے بعد علامہ چودھری محمد حسین کے ساتھ بیٹھ کر انھیں اس روز کے تازہ اشعار سنایا کرتے تھے۔
س) چودھری صاحب عموماً کتنی دیر ٹھہرتے تھے؟
ج) رات کے بارہ ایک بجے تک، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سونے کے لیے لیٹ جاتے۔ لیکن بمشکل دو تین گھنٹے سو کر تہجد کے لیے بیدار ہو جاتے۔
س) طیش میں آتے تھے یا نہیں ؟
ج) بہت نرم دل اور طبیعت کے مہربان تھے شاذ و نادر ہی غصے میں آتے۔ لیکن اگر اشتعال میں آ جاتے تو اپنے اوپر قابو پانا مشکل ہو جاتا۔ مجھے ان کی نرم دلی کا ایک واقعہ یاد ہے۔ ایک مرتبہ گھر میں ایک چور گھس آیا۔ ہم میں سے کسی نے پکڑ کر اس کی پٹائی کر دی۔ علامہ اقبال نے اس کا ہاتھ روک دیا اور کہا کہ چور کو مت پیٹو۔ یہی نہیں بلکہ اسے کھانا کھلایا اور آزاد کر دیا۔
س) تہجد پابندی سے پڑھتے تھے کیا؟
ج) جی ہاں پابندی سے پڑھتے تھے۔
س) تہجد کے بعد کیا معمول تھا؟
ج) اس کے بعد ذار دیر کو لیٹ رہتے،تاوقتیکہ فجر کا وقت آن لیتا اور وہ نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔
س) کیا شعر کی آمد رات کو بھی ہوتی تھی؟
ج) جی ہاں۔ راتوں کو بھی شعر گوئی کرتے۔ عموماً یہ کیفیت ان پر رات کے دو اور اڑھائی کے درمیان طاری ہوتی تھی۔ جب بھی ایسا ہوتا مجھے آواز دے کر بیاض اور قلمدان طلب کرتے۔
اقبالیات ،لاہور، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۰
٭٭٭
حیاتِ اقبال کا سبق
سید ابوالاعلیٰ مودودی
دنیا کا میلان ابتدا سے جدید ترین دور تک اکابر پرستی (Hero worship) کی جانب رہا ہے۔ ہر بڑی چیز کو دیکھ کر ہٰذا ربّی ہٰذا ربّی اکبر کہنے کی عادت جس کا ظہور قدیم ترین انسان سے ہوا تھا آج تک اس سے نہیں چھوٹی ہے۔ جس طرح دو ہزار برس پہلے بدھ کی عظمت کا اعتراف اس مخلوق کے نزدیک بجز اس کے اور کسی صورت سے نہ ہو سکتا تھا کہ اس کا مجسمہ بنا کر اس کی عبادت کی جائے۔ اسی طرح آج بیسویں صدی میں دنیا کی سب سے زیادہ سخت منکرِ عبدیت قوم (روس) کا ذہن لینن کی بزرگی کے اعتراف کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں سوچ سکتا کہ اس کی شخصیت کے آگے مراسم عبودیت بجا لائیں۔
لیکن مسلمانوں کا نقطۂ نظر اس باب میں عام انسانوں سے مختلف ہے۔ اکابر پرستی کا تصور اس کے ذہن کی افتاد سے کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ وہ بڑوں کے ساتھ برتاؤ کرنے کی صرف ایک ہی صورت سوچ سکتا ہے یعنی اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَیٰ اللّٰہُ فَبھُُِدٰ ھُمْ اقْتَدِہْ (اللہ نے ان کو زندگی کا سیدھا راستہ بتایا تھا جس پر چل کر وہ بزرگی کے مراتب تک پہنچے لہٰذا ان کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور اس کے مطابق عمل کرو) ۔
اسی نقطہ نظر سے میں اس مختصر مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس اقبال کی عظمت کا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے، اس کی زندگی کیا سبق دیتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ اقبال نے یہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصاً فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفر تک کر چکے ہیں۔ جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں یہ مرحوم اس کے سمندر پیئے بیٹھا تھا۔ پھر مغرب اور اس کی تہذیب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیں دیکھا تھا جس طرح ہمارے ۹۹فیصدی نوجوان دیکھتے ہیں بلکہ وہ اس دریا میں غوطہ لگا کر تہہ تک اتر چکا تھا، اور ان سب مرحلوں سے گزرا تھا جن میں پہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں نوجوان اپنے دین و ایمان ، اپنے اصول ، تہذیب و تمدن اور اپنے قومی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی قومی زبان تک بولنے کے قابل نہیں رہتے۔
لیکن اس کے باوجود اس شخص کا حال کیا تھا؟ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی ہی نہیں رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے، اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہو گیا تھا کہ اس کے دور کے علماء دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امام فلسفہ اور اس ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا سے لگا کھاتا ہو۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ وہ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہے اور یہ جس کے ہاتھ آ جائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے، اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے، کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلوا کر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے، مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں ، اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھنے بیٹھ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی ذات مبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے، مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی تمام عقلیت کو رسولؐ عربی کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کر کے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں ، یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اصحابِ ثلاثہ کے ساتھ کوہ احد پر تشریف رکھتے تھے، اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضورؐ نے فرمایا کہ ٹھہر جا تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہو گیا۔
اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں ، اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں ، اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آ کر مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں ، مجازی طور پر نہیں واقعی لرز اٹھتے ہیں۔
اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیال کی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں ان کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے لیے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہے۔ اقبال نہ صرف ان کو مانتا اور ان پر عمل کرتا تھا بلکہ برملا ان کی حمایت کرتا تھا۔ اور اس کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا۔ ان کی ایک معمولی مثال سن لیجئے۔ ایک مرتبہ حکومت ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا، مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے، سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لے کر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور خود لارڈ لنگڈن کو کہا کہ میں بے شک ایک گناہ گار آدمی ہوں ، احکامِ اسلام کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں ، مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کر سکتا کہ محض آپ کا عہدہ حاصل کر نے کے لیے شریعت کے حکم کو توڑ دوں۔
اقبال کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھے، عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بدگمانی کے پیدا کرنے میں خود ان کی افتادِ طبیعت کا بھی بہت کچھ دخل ہے۔ ان میں کچھ فرقۂ ملامتیہ کے سے میلانات تھے، جن کی بناء پر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انہیں کچھ مزا آتا تھا ورنہ درحقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے۔
قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاص شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ مگر اخیر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہو گیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ گو نرا گفتار کا غازی ہوں۔
ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے حالات ان کی وفات ہی کے بعد لوگوں میں شائع ہوئے۔ ورنہ عام خیال یہی تھا کہ جیسے اور ’’سر صاحبان‘‘ ہوتے ہیں ، ویسے ہی وہ بھی ہوں گے، اور اسی بناء پر بہت سے لوگوں نے یہاں تک بلا تحقیق لکھ ڈالا تھا کہ ان کی بارگاہ عالی تک رسائی کہاں ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص حقیقت میں اس سے بھی زیادہ فقیر منش تھا جتنا اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اخبارات میں بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ سن لیجئے جس سے اس نائٹ اور بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کر سکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورہ کے لیے اقبال اور سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لئے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسولؐ پاک کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں ، اس نے بوریے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے نا ممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانہ میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چار پائی اس غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانہ ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ جب باہر کی دنیا ان کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہوا ہے اس کی اصلی شخصیت کیا ہے؟ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا کہ جو سیاسی اغراض کے لیے سادگی و فقر کا اشتہار دیتے ہیں ، اور سوشلسٹ بن کر غریبوں کی ہمدردی کا دم بھرتے ہیں ، مگر پبلک کی نگاہوں سے ہٹ کر ان کی تمام زندگی رئیسانہ اور عیش پسندانہ ہے۔
اقبال کے نائٹ ہڈ اور سر شفیع مرحوم جیسے حضرات کے ساتھ ان کے سیاسی رشتہ کو دیکھ کر عام خیال یہ تھا اور اب بھی ہے، کہ وہ محض شاعری ہی میں آزاد تھے عملی زندگی میں آزاد خیالی ان کو چھو کر بھی نہ گزری تھی، بلکہ وہ نرے انگریز کے غلام تھے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے قریب جو لوگ رہے ہیں اور جن کو گہرے ربط و ضبط کی بناء پر ان کی اندرونی زندگی اور ان کے اندرونی خیالات کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ انگریزی سیاست سے ان کو خیال اور عمل دونوں میں سخت نفرت تھی۔ بارگاہ حکومت سے وہ کوسوں دور بھاگتے تھے۔ سرکار اور اس کے پرستار دونوں ان سے سخت بدگمان تھے۔ اور ان کی ذات کو اپنے مقاصد میں حارج سمجھتے تھے۔
سیاسیات میں ان کا نصب العین محض کامل آزادی ہی نہ تھا بلکہ وہ آزاد ہندوستان میں ’’دار الاسلام‘‘ کو اپنا مقصودِ حقیقی بنائے ہوئے تھے۔ اس لیے کسی ایسی تحریک کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھے۔ جو ایک دار الکفر کو دوسرے دار الکفر میں تبدیل کرنے والی ہو۔
صرف یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عملی سیاسیات میں ان لوگوں کے ساتھ مجبوراً نہ تعاون کیا، جو برٹش گورنمنٹ کے زیر سایہ ہندو راج کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے، گو مقاصد کے اعتبار سے ان میں اور ان میں اور اس طبقہ میں کوئی ربط نہ تھا مگر صرف اس مصلحت نے ان کو اس طبقہ کے ساتھ جوڑ رکھا تھا کہ جب تک مسلمان نوجوانوں میں ’’دار الاسلام‘‘ کا نصب العین ایک آتشِ فروزاں کی طرح پھڑک نہ اٹھے اور وہ اس کے لیے سرفروشانہ جدوجہد پر آمادہ نہ ہو، اس وقت تک کم از کم انقلاب کے رخ کو بالکل دوسری جانب پلٹ جانے سے روکے رکھا جائے۔ اس بنا پر انہوں نے ایک طرف اپنی شاعری سے نوجوانانِ اسلام کے دلوں میں وہ روح پھونکنے کی کوشش کی جس سے سب لوگ واقف ہیں اور دوسری طرف عملی سیاسیات میں وہ روش اختیار کی جس کے اصل مقصود سے چند خاص آدمیوں کے سوا کوئی واقف نہیں ، اور جس کے بعض ظاہری پہلوؤں کی وجہ سے وہ خود اپنے بہترین عقیدت مند معترفین تک کے طعنے سنتے رہے۔
رسالہ جوہر… اقبال نمبر۱۹۳۸، بہ حوالہ : اقبال اور مودودی
مرتبہ: ابو راشد فاروقی مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور ۱۹۸۰ء
٭٭٭
اقبال: ایک آفاقی شاعر
ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر
ڈاکٹر اقبال فوت ہو چکے ہیں مگر اب ان کا چرچا پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ گویا مر کر وہ اور بھی زندہ ہو گئے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، ان کے اثر اور ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ شہرت تو کئی بڑی بڑی شخصیتوں والے لوگوں کی مرنے کے بعد زیادہ ہو جاتی ہے مگر اثر زیادہ محض مصنفوں اور دیگر تخلیقی کام کرنے والوں ہی کا ہو سکتا ہے۔ موت کے بعد زندگی نام کو تو بادشاہوں اور جرنیلوں کو حاصل ہو سکتی ہے مگر اصلی زندگی، مسلسل اثر ڈالنے والی زندگی، ادیبوں اور صناعوں کے لیے ممکن ہے۔ بقول اقبال:
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو
آئندہ کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ، محض رائے کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ اپنی زندگی میں بڑی بڑی شہرتوں کے مالک آج ایسے بھلائے جا چکے ہیں کہ ان کے متعلق تحقیقات کرنے والے لوگوں پر کھودا پہاڑ اور نکلی چوہیا کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ ذوق جو شاید اپنے وقت میں غالب سے بہت بلند سمجھا جاتا تھا، آج غالب سے اس کا مقابلہ کرنا بھی بد ذوقی کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ اس سے ادبی تنقید کی بے بضاعتی واضح ہوتی ہے۔ مگر کبھی کبھار صدیوں کے بعد کوئی ایسا شاعر بھی پیدا ہو جاتا ہے جس کے متعلق پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ صدیوں تک اس کا نام زندہ رہے گا اور اس کا کلام اثر انداز رہے گا۔ اقبال ان چند شاعروں میں سے ہے، اور یہی نہیں کہ اس کا اثر ہندوستان میں بڑھتا جائے گا بلکہ قیاس یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں جب اس کا کلام ترجمہ ہو کر پہنچے گا تو اس کا انداز خیال بہت مقبول ہو گا۔ اردو میں اور کوئی شاعر ایسا نہیں جس کے اثر کے متعلق ایسے عالمگیر امکانات کی توقع کی جا سکے۔
لیکن اقبال تو محض اسلامی شاعر ہے۔ یہ سوال بار بار کیا جا چکا ہے۔ اقبال کی زندگی میں اور بعد بھی۔ تاسف سے، غصے سے، طعنے کے طور پر اور بڑے ناز و افتخار سے اس سوال کا جواب بھی کئی طرح سے دیا گیا ہے اور صداقت کے مختلف پہلوؤں کا مختلف طریقوں سے اظہار کیا گیا ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ جو لوگ اقبال کی حمایت کرتے ہوئے معذرت کے انداز میں کہتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں وہ صداقت سے بہت دور ہیں۔ اقبال کی شاعری صحیح معنوں میں اسلامی شاعری ہے اور اقبال صحیح معنوں میں مومن شاعر تھا۔ اور یہ بیان اس کے اپنے پیش کردہ معیار اسلام کے مطابق بالکل صحیح ہے۔ یہ اور بحث ہے کہ اس کا معیار مسلمہ عقائد سے مختلف تھا یا مطابق۔ لیکن اس کا آخری معیار قرآن اور اسلام ہے!۔ ۔
تو پھر اقبال کی شاعری عالمگیر کیسے ہوئی؟ بالکل اسی طرح جس طرح ہومر اور دانتے، کالی داس اور ٹیگور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کے شاعر ہیں۔ ہومر کا کلام پڑھیے، بسم اللہ ہی دیوتاؤں کے نام سے ہوتی ہے اور پھر قدم قدم پر یونان کے توہمات اور عقیدوں کا تذکرہ ہے۔ دانتے کٹر عیسائی ہی نہیں بلکہ اس قدر متعصّب اور تنگ نظر ہے کہ وہ اپنی کتاب میں دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو بد ترین گالیاں دیتا ہے۔ اگر آج کوئی مصنف ایسی کتاب ہندوستان میں لکھے تو اس کی کتاب ضبط ہو جائے اور نہ ہو تو جا بجا بلوے ہو جائیں ، فرقہ وار فساد برپا کرا دیے جائیں۔ کالی داس ہندو مذہب کے دیوتاؤں کا داس ہے اور ٹیگور بھی اپنی مذہبی روایات کا ترجمان ہے، دیوی دیوتاؤں کا نام لیوا ہے۔ اقبال بھی ان سب کی طرح ان روایات کو استعمال کرتا ہے جن میں وہ پھولا پھلا۔ پروان چڑھا۔ مگر ایک بات میں اقبال ان سب سے ممتاز ہے اور وہ یہ کہ وہ پرانی روایات کو اس طرح برتتا ہے کہ ان کا مفہوم بدل جاتا ہے اور ان میں نئے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب کبھی اقبال ابراہیم خلیل اللہ کا ذکر کرتا ہے، تو وہ یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ایک نبی نہیں ہوتے بلکہ شاعر کا تصور انھیں جنگ آزادی کا مجسمہ بنا دیتا ہے اور آزر کے بت غلامی اور توہمات کی تمثیل بن جاتے ہیں جنھیں توڑ کر انسان صحیح انسانیت کا دعویٰ دار ہو سکتا ہے!۔ ایسے ’’خلیل‘‘ کو فرقہ واری کا نشان سمجھنا بد ترین فرقہ وارانہ ذہنیت کی نشانی ہے۔ یہ تو وہ خلیل ہے جو عشق کا مجسمہ ہے، وطن کا، آزادی کا، عشق کا جس کے متعلق اقبال نے کہا ہے:
بے خطرہ کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
میں نے ابھی ابھی وطن کے عشق کا ذکر کیا تھا۔ ایک دن پہلے بھی میں نے کچھ اس قسم کی بات کہی تھی تو ایک بڑے سمجھدار فارسی دان بزرگ نے مجھے ٹوکا تھا۔ کہنے لگے کہ اقبال تو وطنیت کا دشمن ہے اور تم کہتے ہو کہ وہ وطن کے عشق کی باتیں کرتا ہے۔ بحث کی خاطر تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ اقبال وطن کے عشق کی باتیں کرتا ہے۔ میں نے تو فقط یہ کہا تھا کہ اقبال کی شاعری میں خلیل مجازی نشان ہے عشق کا اور عشق وطن کا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن میری نیت بحث کی نہیں ، میں تو محض تبادلہ خیالات کر رہا ہوں اور جو کوئی مجھے میری غلطی پر ٹوک دے تو یہ اس کی نوازش ہے۔ اقبال واقعی وطنیت کے دشمن تھے لیکن وطن کے عاشق تھے۔ یہ محض فقرہ بازی نہیں۔ سچی پتے کی بات ہے۔ کئی بوجھ بجھکڑوں نے یہ اڑا رکھی ہے کہ اقبال ہندی ترانہ لکھ کر ہندوستان سے پھر گیا اور انگلستان کے مشہور ادیب فوسٹر نے تو اور ہی کمال کر دیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اقبال نے پہلے اسلامی ترانہ لکھا اور جب اس کے ہندو دوستوں نے اسے مجبور کیا تو اس نے قومی ترانہ لکھ دیا۔ گویا یہ محض فرمائشی چیز تھی۔ حالانکہ قومی ترانہ برسوں پہلے لکھا گیا اور یہ ہمالیہ اور نیا شوالہ کا دور ہے۔ وہ میٹھے میٹھے بول! ع
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
یہ اقبال کے آغاز شباب کا زمانہ ہے، بڑھتی جوانی کا دور ہے اور یہ ہندوستان کی قومی تحریک کا بھی ابتدائی عہد تھا۔ یہ وہ دن تھے جب بندے ماترم کا نعرہ لگانا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ اقبال نے ان دنوں پورے جوش سے قومی اشعار لکھے اور ان دنوں کا لکھا ہوا ترانہ آج بھی اپنی قسم کا ایک ہی ترانہ ہے۔ اس وقت تک ہندوستان کی کسی زبان میں اور کوئی گیت ایسا نہ لکھا گیا جو اس انداز سے بہتر ہو، گویا وطن پرستی میں بھی اقبال ہی اول نمبر رہتا ہے۔ لیکن اقبال کو وطن کی محبت نے اندھا نہیں کیا بلکہ اسے اس محبت سے زیادہ وسعت قلب حاصل ہوئی اور ہندوستان کی محبت نے اسے سارے جہان کی محبت سکھائی۔ اسے یورپ میں جا کر معلوم ہوا کہ کس طرح وطن پرستی عالم دشمنی سکھا سکتی ہے اور وہ اس قسم کی وطنیت کا دشمن ہے جو انسان کو انسان کا بیری بناتی ہے۔ یہ وہ وطنیت ہے جسے دیکھ کر اقبال نے یورپ میں ایک خطرناک جنگ کی پیش گوئی کی تھی۔ بعینہ اسی طرح جس طرح کئی سال پہلے مشہور جرمن فلسفی شاعر نطشے نے کہا تھا کہ یورپ ایک مہلک جنگ کی طرف بھاگم بھاگ جا رہا ہے۔
اقبال کا وہ شعر مشہور۔
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہو گا
میں یہ ہو کر رہا اور اب پھر یہ ہو کر رہے گا۔
میں نے نطشے کا نام لیا ہے… اور ایک معاملے میں دونوں کے خیالات کے یکساں ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اقبال اور نطشے کئی باتوں میں ملتے جلتے ہیں اور پہلے پہل تو اقبال پر اس کے خیالات کا بڑا اثر تھا۔ اس قدر کہ کئی اوپری نظر سے دیکھنے والے لوگ کہہ اٹھتے ہیں کہ اقبال، نطشے اور برگساں وغیرہ مغربی فلسفیوں کے خیالات نظم میں بیان کر دیتا ہے اور بس!… میں کہتا ہوں کہ اقبال اگر یہی کچھ کرتا تو بھی اس کا درجہ آج کل کے شعرا سے بہت بلند ہوتا کیونکہ فلسفے جیسی خشک خیالی کو نظم کی رنگینی بخشنا بے مثال کام ہے اور پھر فلسفہ بھی کسی اور کا یہ تو قریباً محال ہے۔ مگر اقبال فقط یہ نہیں کرتا اور اس کے کئی مداح اس جھوٹے دعوے سے جسے وہ الزام سمجھتے ہیں اور جو الزام سمجھ کر ہی اقبال پر لگایا جاتا ہے، اس قدر بگڑتے ہیں کہ وہ ضد میں آ کر کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اقبال نے کسی مغرب کے فلسفی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، اس پر یورپ کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ گویا اقبال جو انگریزی میں لکھتا، انگریزی بولتا، دن رات انگریزی کتابیں پڑھتا، انگریزی لباس پہنتا اور اپنے بچوں کی تربیت کے لیے مغربی معلم تجویز کرتا، وہ اقبال مغرب سے متاثر نہیں ہوا اور بالکل خلا میں رہ کر سوچتا لکھتا رہتا تھا۔ اس سے اقبال کی عظمت ثابت نہیں۔ اقبال کی عظمت تو یہ ہے کہ وہ یورپ کے بہترین خیالات کو لیتا ہے، جانچ تول کر لیتا ہے، ان میں کھرے کھوٹے کی تمیز کرتا ہے اور پھر اس دولت کو اپنا مال بنا لیتا ہے۔ وہ کھلے بندوں پکار کر کہتا ہے کہ آج کل علم و دانش یورپ میں ہے۔ آج سے ہزار سال پہلے علم و حکمت کا منبع ایشیائی تھے اور ان سے یورپ نے بے دریغ یہ دولت حاصل کی۔ اب یہ وقت ہے کہ استاد شاگرد بنا ہوا ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس اپنے پرانے ورثے کو پھر اپنا بنا لیں۔ اوچھے پن سے نہیں کہ علم اس طرح حاصل نہیں ہوتا، یہ لوٹ کھسوٹ کا کام نہیں ، بلکہ غور و فکر سے، محنت سے، نیاز مندی سے، یورپ کا علم ہمارا علم ہے، ہمارا علم یورپ کا علم ہے۔ ہمیں اس میں وطنیت کی تفرقہ پردازی سے بچنا چاہیے۔ اقبال حکما یورپ کے خیالات سے اپنا دامن بھرتا ہے مگر اس کا دامن اس بوجھ سے پھٹ نہیں جاتا۔ میرے ایک جاٹ دوست کے بقول، اقبال کا شاعرانہ معدہ بہت مضبوط ہے، اسے بد ہضمی نہیں ہوتی۔ وہ ثقیل سے ثقیل خیالات کو ہضم کر لیتا ہے۔ اور وہ اپنے مشہور انگریزی لیکچروں میں ہم سب کو دعوت دیتا ہے کہ ہم بھی ایسا کریں اور پچھلے سات آٹھ سو سال سے جو ایشیا علم کی دوڑ میں پیچھے رہا جاتا ہے، اس کی تلافی کریں اور ہمیں اپنے سے آگے آگے چلنے والے مغربی متلاشیان علم کی کوششوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ ہے اقبال کا پیغام علمی لوگوں کے لیے۔ یہ ہے صحیح عمل کا پیغام اور اقبال کا شاعرانہ نظام تمام تر دعوت عمل ہے۔ اس کے نزدیک صداقت کا معیار بھی عمل ہے۔ وہ بار بار پکار کر کہتا ہے کہ نیکی اور سچائی وہ ہے جس سے شخصیت کی تقویت ہو اور جس سے خودی کمزور ہو وہ بدی ہے، جھوٹ ہے، فریب کاری ہے۔ اس میں وہ کسی خاص مذہب کا نام نہیں لیتا۔ یہ ایک عالمگیر معیار ہے جس سے صداقت پرکھی جا سکتی ہے۔ یہ خودی کا نام کوئی نئی اختراع نہیں مگر اقبال کا بیشتر کمال اس میں ہے کہ اس نے اس نام سے جو بڑی حد تک محض فلسفیانہ اصطلاح بن کر رہ گیا تھا، ایک مکمل تصور وضع کیا۔ اس خالی خول میں جان ڈالی۔ اس بے رنگ انگارے میں صوت گری کی اور اس ایک خودی کی بنیاد پر اس نے اپنا سارا نظریۂ حیات استوار کیا۔ زندگی کیا ہے؟ خودی کا ثبات۔ نیکی کیا ہے؟ خودی کی پختگی۔ بدی کیا ہے؟ خودی کی خامی۔ موت کیا ہے؟ خودی کی بیماری۔ اس مسئلے میں اقبال کا خیال بہت نرالا ہے اور وہ لوگ جو ہر وقت نئے خیال کی تلاش میں رہتے ہیں ، ان کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث ہو گا۔
اقبال کہتے ہیں کہ شخصیت کی بیماریاں بہت طرح کی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’متعدد شخصیتوں کی بیماری‘‘ کہ جس میں ایک شخص دو دو تین تین چار چار حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ اگر رات کے وقت وہ خونخوار ڈاکو ہے تو دن کو بڑا متقی، پارسا بزرگ ہے۔ رات کے وقت اسے دن کی حالت یاد نہیں ہوتی اور دن کے وقت، رات کی حالت بھول چکا ہوتا ہے۔ ایک شخصیت کئی ٹکڑے ہو جاتی ہے۔ پاش پاش ہو جاتی ہے۔ اس طرح نیند بھی شخصیت کی بیماری ہے اور انسان آدھی عمر نیم مردہ سا رہتا ہے! لیکن یہ بیماریاں ہلکے ہلکے جھٹکے ہیں ، مدھم مدھم زلزلے ہیں مگر خودی کی قیامت موت ہے۔ موت سے ٹکرا کر بہت کم شخصیتیں صحیح سالم رہتی ہیں اور اقبال کے نزدیک موت کے بعد زندگی ہر انسان کا حق نہیں بلکہ اس کی شخصیت کی پختگی کا ثمرہ ہے۔ اگر خودی محکم ہے تو موت پر غلبہ حاصل کر لے گی۔ نہیں تو موت اسے مٹا دے گی۔ یہی خیال جرمنی کے مشہور فلسفی شاعر گوئٹے کا بھی تھا مگر اس نے اقبال کی طرح اس کی وضاحت نہیں کی۔ مجھے یاد ہے میں نے علامہ اقبال سے پوچھا تھا کہ اگر فقط چند مستحق لوگ ہی مرنے کے بعد زندہ ہوں گے تو پھر جہنم اور جنت کی تفریق کیا ہوئی۔ انھوں نے فرمایا اول تو دوزخ اور جنت مقامات نہیں بلکہ ذہنی حالت کے دو نام ہیں اور پھر یہ کہ جہنم کا حق دار ہونا بھی خودی کی قوت کا نتیجہ ہے۔ ابو جہل دوزخ کا ایندھن بنے گا، خالد اور طارق وغیرہ جنت کی کیفیت میں ہوں گے اور عام انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح تلف ہو جائیں گے۔
یہ خیال جیسے میں ابھی عرض کر چکا ہوں بہت نرالا ہے مگر اقبال کے فلسفہ خودی کا لازمی نتیجہ ہے اور آپ چاہے میری طرح اسے صحیح نہ سمجھیں یا اس کے قائل ہوں ، میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر ہمارے عہد میں کوئی شخصیت موت کے بعد زندہ رہنے کی حق دار ہے تو وہ اقبال کی شخصیت ہے۔ اسے زندگی سے اس قدر وابستگی تھی، زندگی کا اس قدر یقین تھا کہ موت نے اس کے بدن کو پے بہ پے حملوں سے چور چور تو ضرور کر دیا مگر اس کے دماغ کو ہراساں نہ کر سکی اور یہی موت کی شکست تھی۔ کہتے ہیں بزدل مرنے سے پہلے سو بار مر چکا ہوتا ہے اور بہادر جیتا جاگتا جان دیتا ہے۔ اقبال مرتے دم تک زندہ رہے اور جہاں تک ہماری زندگی پر اثر ڈالنے کا تعلق ہے، وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ زندہ ہیں اور وہ تعلیم جو انھوں نے ہمیں دی ہے وہ عارضی سیاسی ہنگامے کی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کی ضرورت ہمیں مدتوں رہے گی اور ہمیں ہی نہیں تمام دنیا کو اس کی ضرورت ہے اور دنیا میں ہر مذہب ہر خیال کے لوگ موجود ہیں۔ سادے الفاظ میں وہ تعلیم غیرت، خود اعتمادی، سربلندی کی تعلیم ہے۔ کس قدر سیدھے سادے الفاظ ہیں۔
من کی دنیا؟ من کی دنیا …صاحب یہ شعر کس طرح ہے، بھول گیا مجھے، بھئی ذرا خوش الحانی سے پڑھ دو!۔ سوزو مستی، جذب و شوق! ہاں اس طرح۔
من کی دنیا؟ من کی دنیا، سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا؟ تن کی دنیا، سود و سودا مکر و فن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
یہ وہی تعلیم ہے جو لا الٰہ الا اللہ میں موجود ہے کہ کوئی انسان خدا نہیں۔ کسی انسان کے سامنے کوئی انسان سر نہ جھکائے اور اقبال تو اس قدر سر بلند ہے کہ وہ انسان کو خدا سے بھڑا دیتا ہے۔ کہتے ہیں :
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
یہ ہے اقبال کی تعلیم —- اب اس میں بتائیے ہندو مسلمانوں کا جھگڑا کہاں ہے؟ یہ پیغام ہر انسان کے لیے ہے۔ اقبال نے اوّل اوّل کہا ہے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
لیکن انہیں جلد ہی احساس ہوا کہ ایک ہی سر زمین میں جہاں کے لوگ مختلف ہو سکتے ہیں ، جو ایک دوسرے کے اساسی طور پر مخالف ہوں ، ایک کا فائدہ دوسرے کا لازمی نقصان ہو، اس لیے سرزمین نہیں بلکہ خیال کا ایک ہونا انسانوں کے اتحاد کے لیے ضروری ہے۔ تو انھوں نے کہا:
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
مگر انہیں اس میں بھی جماعتی اختلافات کی گنجائش نظر آئی تو انھوں نے اپنی آخری تصنیفوں میں ساری دنیا کو اپنا مخاطب بنایا اور خدا کی زبانی فرشتوں کا یہ پیغام سنایا کہ … اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو۔
سوچیے یہاں نہ ہندو ہیں نہ مسلمان، ساری دنیا کے غریبوں سے خطاب ہے۔ یہ تھا اقبال کی وطنیت سے نفرت اور وطن بلکہ جہاں دوستی کا راز۔ مجھے یاد ہے پیام مشرق کے چھپنے کے بعد مسز سروجنی نائڈو نے اقبال کو ایک مفصل خط لکھا تھا جس میں اقبال کا شکریہ ادا کیا تھا کہ اس نے بلبل ہند کو وطنیت کے قفس سے آزاد کرا کے سارے جہاں کا چمنستان بخش دیا۔ آج ہندوستان کے اور رہنما بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں … وہ آج وہی باتیں کر رہے ہیں جو اقبال کئی دن پہلے پکار پکار کر کہہ رہا تھا اور اقبال کی کہی ہوئی بہت سی باتیں آئندہ بھی دہرائی جائیں گی۔ جن صداقتوں کو اس نے آشکار کیا ہے، بے نقاب کیا ہے، وہ ہمیں بھی صاف صاف نظر آنے لگیں گی۔ یہی اقبال کی دعا تھی:
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
اقبال کا فکر و فن مرتبہ : افضل حق قرشی ، بزم اقبال لاہور ، ۱۹۹۴ء
٭٭٭
اقبال
مجنوں گورکھپوری
ہمارے ادب اور ہماری معاشرت کی تاریخ میں اقبال کا شمار اُن دانایانِ راز میں ہو گا جو مستقبل کی جھلک دِکھا کر فکر و عمل کا رُخ نئی سمتوں کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ اس سے تو کبھی بھی کسی کو انکار نہیں ، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہی ان کی ساری شخصیت اور ساری حیثیت ہے۔ اگر ہم اُن کے فلسفے اور پیغام کو نظرانداز کر دیں یا کسی ایسے زمانے کا تصور کر سکیں جب کہ اُن کے افکار و میلانات کا کوئی عنصر بھی زندہ نہ رہے گا، تو اس حالت میں بھی ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ محض صنّاع اور شاعر کی حیثیت سے اقبال دُنیا کے بڑے بڑے شاعروں کے ساتھ جگہ پا سکتے ہیں۔ افکار و جذبات سے برطرف ہو کر اقبال نے اُردو شاعری میں جو نئے اسالیب و صور تراشے ہیں اور پرانے اسالیب کو نئے انداز سے استعمال کر کے جو نئے آہنگ پیدا کیے ہیں ، وہ ہماری شاعری کی زبان میں یقیناً اختراعات کا حکم رکھتے ہیں اور مستقل اضافے ہیں ـ۔
شاعر کے لغوی معنی ایک ایسے صاحبِ شعور کے ہیں جو دوسروں میں بھی شعور پیدا کر سکتا ہو۔ اگر ہم شاعری کی صرف اسی قدر تعریف مان لیں تو اقبال کے متعلق کبھی دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ جو کچھ اس سے پہلے کہا جا چکا ہے، وہ اقبال کو صاحبِ شعور اور شعور آفریں ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اُنہوں نے دُنیا کو نئی آگاہیاں دیں ، اُن میں زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں کا احساس پیدا ہوا اور اُنہوں نے دوسروں میں بھی اس کا شدید احساس پیدا کیا۔ لیکن بعض نقادوں کے خیال میں شاعر کی تعریف صرف اس قدر نہیں ہے۔ اس جماعت کا خیال ہے کہ شاعری میں صرف یہ دیکھنا نہیں چاہیے کہ کیا کہا گیا ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کس عنوان اور کس انداز سے کہا گیا ہے۔ یعنی شاعری کے عناصر دو ہیں : معنی اور صورت— دیکھنا چاہیے کہ صوری اعتبار سے اقبال کی شاعری کیا درجہ رکھتی ہے۔
اقبال کی اس حیثیت پر نظر ڈالتے وقت ہم کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی شاعری کی ابتدا، جیسا کہ عام طور سے ہوا کرتا ہے، غزل سے ہوئی اور اوّل اوّل داغ کو اُنہوں نے اپنا استاد منتخب کیا۔ بظاہر یہ کوئی بڑی اہم بات نہیں معلوم ہوتی اور اقبال کے اکثر تنقید نگار ان کی شاعرانہ زندگی کے اس واقعے کو اعتنا کے قابل نہ سمجھیں گے۔ لیکن ہماری رائے میں اقبال کی خالص فن کارانہ اہمیت کی بنیاد یہی واقعہ ہے۔ اگر ہم صحیح ذوق کے ساتھ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں تو کیا نظم میں اور کیا غزل میں ، جو کیفیت سب سے زیادہ نمایاں اور موثر طور پر محسوس ہوتی ہے، وہ وہی ہے جس کو مبہم اور مجموعی طور پر تغزل کہا جا سکتا ہے۔ ہم کو تو کبھی کبھی ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اقبال فطرتاً غزل گو تھے اور اتنے بڑے نظم نگار ہونے کے بعد اور اس کے باوجود بھی وہ غزل گو ہی رہے۔ نظموں میں بھی اُنہوں نے ایک قسم کی غزل گوئی ہی کی ہے۔ اس کا ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ ان نظموں میں شاید گنتی کے اشعار ایسے نکلیں گے جو فرداً فرداً اپنی جگہ معنی اور اسلوب دونوں کے اعتبار سے مکمل نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اقبال کی نظموں کے بند کے بند بغیر ارادہ اور کوشش کے زبان پر چڑھ جاتے ہیں اور ہر شعر اپنے اندر ضرب المثل ہو جانے کی قوی صلاحیت رکھتا ہے۔
اچھی شاعری کی ایک زبردست اور لازمی علامت ترنم اور موسیقیت ہے۔ موسیقیت سے شاعری کا خمیر ہوا۔ ہر چھوٹے بڑے شاعر کے کلام میں کسی نہ کسی قسم کی موسیقیت ضرور پائی جاتی ہے۔ ورنہ شعر اور نثر کے اثرات برابر ہوں۔ میر سے لے کر داغ تک اور داغ سے لے کر اب تک ہر شاعر کے وہاں موسیقیت ملے گی اور ہر شاعر کی موسیقیت کا انداز جدا ہو گا۔ اقبال کی شاعری کا بھی ایک غالب عنصر اس کی انفرادی موسیقیت ہے، جس کی سب سے نمایاں خصوصیت ہمواری اور بلاغت ہے۔
اس اعتبار سے اُردو کا کوئی دوسرا شاعر ان کا پورا حریف نظر نہیں آتا۔ اگر داغ ہمواری میں ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو بلاغت اور معنوی قدر کا ان کے یہاں پتا نہیں ہے۔ اور اگر غالب بلاغت میں اقبال کے ہمسر کہے جا سکتے ہیں تو ان کے کلام کی موسیقیت میں ایسی ہمواری نہ ملے گی۔
اقبال کے اشعار ہماری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں ، یا ان کے افکار و نظریات سے ہم کو اتفاق ہو یا نہ ہو، لیکن جس خصوصیت کا ان کے حامی اور مخالف دونوں کو قائل ہونا پڑے گا، وہ یہ ہے کہ ان کا ایک مصرع ایسا نہیں ہوتا جو نازک سے نازک ساز پر گایا نہ جا سکتا ہو۔ اور یہ خصوصیت محض غنائی نہیں ہے یعنی وہ محض خوش آہنگ الفاظ کے حسنِ ترتیب سے نہیں پیدا ہوئی ہے۔ اقبال کے اشعار میں جو موسیقیت ہوتی ہے، وہ ایک مرکب آہنگ ہے جس کو الفاظ و افکار دونوں سے بہ یک وقت ایک اصلی اور اندرونی تعلق ہوتا ہے اور ہم کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ اور معنی باہم مل کر ایک ایسی دھُن پیدا کر رہے ہیں جس کا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اقبال کا ترنم کبھی سطحی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر تہ بہ تہ گہرائیاں ہوتی ہیں۔
جہاں تک الفاظ اور ترکیبوں کے حسنِ انتخاب کا تعلق ہے، اقبال ہم کو جدید شعرائے اُردو میں سب سے زیادہ ممتاز نظر آتے ہیں۔ ان کا اسلوب بحیثیتِ مجموعی وہی ہے، جس کو غزل کا روایتی اسلوب کہہ سکتے ہیں اور جس کا جوہر رومانیت ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ہم اقبال کے اسلوب کو ’’کلاسیکی اسلوب‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اقبال کا اصل اجتہاد یہ ہے کہ اُنہوں نے پرانے الفاظ اور فقرات اور پرانے اسالیب و روایات کو بالکل نئے انداز سے استعمال کیا ہے اور ہماری زندگی کی نئی ضرورتوں کے لیے کام میں لائے ہیں۔ چنانچہ اگر ٹھہر کر غور کے ساتھ ان کے اسلوب پر نظر ڈالی جائے تو اقبال کا اسلوب ہمارے اندر ایک ہی وقت میں قدامت اور جدت، پختگی اور تازگی دونوں کا ایک مرکب احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ بڑا مشکل کام تھا اور اس کو اقبال کا معمولی اکتساب کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا۔
ایک گروہ ایسا ہے جو اقبال پر اعتراض کرتا ہے کہ ان کے وہاں فارسی الفاظ اور ترکیبوں اور ایران و عرب کی تواریخی زندگی سے متعلق روایات و تلمیحات اور انہی سے ماخوذ تشبیہات و استعارات کی بھرمار ہے۔ یہ شکایت ایک خاص نقطۂ نظر سے اور ایک حد تک بجا بھی ہے۔ اقبال کی بڑھی ہوئی فارسیت نے ان کو عوام کا شاعر ہونے نہیں دیا اور اس لحاظ سے وہ یقینا خسارے میں رہے۔ مگر پھر ایسا مفکر اور ایسا صاحبِ شعور شاعر عوام کی اور پھر ہندوستان کے عوام کی چیز نہیں ہو سکتا۔ اقبال کی فارسیت سے ان کو صرف اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ ان کے سمجھنے والوں اور ان کے پیغام سے موافق یا مخالف اثر قبول کرنے والوں کا دائرہ محدود ہو گیا۔ لیکن اس سے ان کی شاعری کو فائدہ بھی بہت پہنچا۔ ان کے کلام میں ایک حلاوت، ایک متنوع ترنم، ایک بلیغ خوش آہنگی بھی پیدا ہو گئی ہے جو داغ یا امیر کی سلیس اور عام فہم اور رواں اور سہل زبان کے استعمال سے نہیں پیدا ہو سکتی تھی۔ اقبال کی شاعری میں جو صوتی حسن ہے، اس کی ترکیب میں جہاں اور بہت سے عناصر داخل ہیں ، وہاں ایک عنصر فارسی الفاظ کا صحیح اور کامیاب انتخاب اور ان کا قرینے کے ساتھ استعمال بھی ہے۔
اقبال کی فطرت کو موسیقی سے پیدائشی لگاؤ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اشعار گنگنا کر نہیں بلکہ باقاعدہ گا کر کہا کرتے تھے۔ یہ ایک زبردست اشارہ ہے، جس سے ہم ان کے مزاجِ شعری کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اقبال جیسا مفکر اور پیغامبر نظم لکھنے والا ایسا کامیاب اور اثر انگیز غزل گو بھی رہ سکا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جیسا کہ پہلے اشارتاً کہا جا چکا ہے، ان کی اصلی فطرت تغزل اور ان کا اصلی فن غزل تھا۔ ان کا ایک شعر ہے جس سے ان کے اصلی اور ایک حد تک دبے ہوئے میلان کا پتا چلتا ہے:
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
اقبال کی غزلیات اور نظمیات کا شروع سے آخر تک سلسلے اور ترتیب کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو موسیقیت اور خوش آہنگی کی خصوصیت ان کے وہاں برابر ملے گی۔ البتہ مختلف ادوار میں اس موسیقیت کی گہرائی اور معنویت میں فرق ہو گا۔ ابتدائی دور میں اقبال کی شاعری میں جو صوتی حسن ہے وہ زیادہ تر بالائی ہے اور اس کا حجم کم ہے۔ رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ اقبال کی موسیقیت میں گہرائی اور اندرونی کیفیت بڑھتی گئی اور وہ روز بروز ان کے افکار کی طرح زیادہ بلیغ اور زیادہ مستقل ہوتی گئی۔
اب آئیے اس نقطۂ نظر سے اقبال کے کچھ اشعار پر نظر ڈالی جائے، بلا لحاظ اس کے کہ وہ غزل کے ہیں یا نظم کے، جو اشعار اس سے پہلے مختلف موقعوں پر منتخب کیے جا چکے ہیں ، ہمارے دعوے کی تائید کے لیے کافی ہیں ، مگر اب کچھ اور اشعار پیش کیے جاتے ہیں ، جن سے ہم اپنے اس دعوے کو ثابت کر سکتے ہیں کہ اقبال ایک خالص فنکار کی حیثیت سے بھی اپنا ایک شخصی مقام رکھتے ہیں اور ان کی شاعری محض جمالیاتی محاسن کی بنا پر بھی گراں قدر اور بلند مرتبہ ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے:
در جہاں مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ستم
نے نصیبِ محفلے، نے قسمتِ کاشانۂ
ــــــــــــ
تھا جنہیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدۂ دیدارِ عام آیا تو کیا
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
ــــــــــــ
آج ہیں خاموش وہ دشتِ جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلا رہی، لیلا کے دیوانے رہے
ــــــــــــ
خیر تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے؟
اب نہ وہ مے کش رہے باقی، نہ مے خانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اُسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
ــــــــــــ
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاکِ جادوے سامری، تو قتیلِ شیوۂ آزری
میں نواے سوختہ درگلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو
میں حکایتِ غمِ آرزو، تو حدیثِ ماتمِ دلبری
ــــــــــــ
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
ــــــــــــ
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر
ــــــــــــ
اُٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
اُڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری
ــــــــــــ
انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
ــــــــــــ
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
محبت کے لیے دل ڈھونڈھ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
ــــــــــــ
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے، اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
ــــــــــــ
کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنا
الٰہی تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا
ــــــــــــ
دیارِ مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
ــــــــــــ
تنک بخشی کو استغنا سے پیغامِ خجالت دے
نہ رہ منّت کشِ شبنم، نگوں جام و سبو کر لے
نہیں یہ شانِ خود داری چمن سے توڑ کر مُجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیبِ گلو کر لے
ــــــــــــ
ہنوز ہم نفسے در چمن نمی بینم
بہار می رسد و من گلِ نخستینم
ــــــــــــ
کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و مے خانہ ہیں مدت سے خموش
ــــــــــــ
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریّت کی زد میں ہے گردوں
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے زار و زبوں
میرِ سپاہ نا سزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
ــــــــــــ
رہ و رسمِ حرم نامحرمانہ
کلیسا کی ادا سوداگرانہ
تبّرک ہے مرا پیراہنِ چاک
نہیں اہلِ جنوں کا یہ زمانہ
ــــــــــــ
پریشاں کاروبارِ آشنائی
پریشاں تر مری رنگیں نوائی
کبھی میں ڈھونڈتا ہوں لذتِ وصل
خوش آتا ہے کبھی سوزِ جدائی
ــــــــــــ
چمن میں رختِ گل شبنم سے تر ہے
سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے
ــــــــــــ
تو اے کودک منش خود را ادب کن
مسلماں زادہ ای؟ ترکِ نسب کن
برنگِ احمر و خون و رگ و پوست
عرب نازد اگر، ترکِ عرب کن
ــــــــــــ
ربودی دل ز چاکِ سینۂ من
بغارت بردہ ای گنجینۂ من
متاعِ آرزویم با کہ دادی؟
چہ کر دی باغمِ دیرینۂ من؟
ــــــــــــ
یمِ عشق کشتیِ من، یمِ عشق ساحلِ من
نہ غمِ سفینہ دارم، نہ سرِکرانہ دارم
ــــــــــــ
شرار از خاکِ من خیزد، کجا ریزم، کراسوزم
غلط کر دی کہ در جانم فگندی سوزِ مشتاقی
ــــــــــــ
گہے رسم و رہِ فرزانگی ذوقِ جنوں بخشد
من از درسِ خردمنداں گریباں چاک می آیم
گہے پیچد جہاں برمن، گہے من بر جہاں پیچم
بگرداں بادہ تا بیروں ازیں پیچاک می آیم
نہ ایں جا چشمکِ ساقی، نہ آنجا حرفِ مشتاقی
ز بزمِ صوفی و ملا بسے غمناک می آیم
ــــــــــــ
مرا براہِ طلب بار در گل است ہنوز
کہ دل بقافلہ و رخت و منزل است ہنوز
کجا است برقِ نگاہے کہ خانماں سوزد
مرا معاملہ باکشت و حاصل است ہنوز
نگاہ شوق تسلی بہ جلوۂ نشود
کجا برم خلشے را کہ در دل است ہنوز
حضورِ یار حکایت دراز تر گردید
چنانکہ ایں ہمہ ناگفتہ در دل است ہنوز
ــــــــــــ
تو عیارِ کم عیاراں ، تو قرارِ بے قراراں
تو دواے دل فگاراں مگر ایں کہ دیر یابی
ـــــــــــــ
من اے دریاے بے پایاں بہ موجِ تو درافتادم
نہ گوہر آرزو دارم، نہ می جویم کرانے را
ــــــــــــ
چو پرویں فروناید اندیشۂ من
بدریوزۂ پرتوِ مہر و ماہے
ــــــــــــ
درگزر از خاک و خود را پیکرِ خاکی مگیر
چاک اگر در سینہ ریزی آفتاب آید بروں
ــــــــــــ
مثلِ شرر ذرہ را تن بہ تپیدن دہم
تن بہ تپیدن دہم، بال پریدن دہم
ــــــــــــ
یوسفِ گم گشتہ را باز کشودم نقاب
تا بہ تنک مایگاں ذوقِ خریدن دہم
ــــــــــــ
ہنگامۂ ایں محفل از گردشِ جامِ من
ایں کوکبِ شامِ من، ایں ماہِ تمامِ من
ــــــــــــ
یہ اشعار یوں ہی اِدھر اُدھر سے چن لیے گئے ہیں اور ان میں کسی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ طوالت کے خیال سے اتنے ہی اشعار پر اکتفا کیا جا رہا ہے، ورنہ حسنِ صوتی اور خوش آہنگی کے اعتبار سے اقبال کا کلام، کیا اُردو اور کیا فارسی، شروع سے آخر تک انتخاب کا حکم رکھتا ہے۔
اقبال از مجنوں گورکھپوری، بحوالہ: اقبال بحیثیت شاعر
مرتبہ رفیع الدین ہاشمی، لاہور، ۱۹۷۶ء
٭٭٭
ستیِٔ
اقبال کا نظریۂ شعر
(بانگ دراکی چند نظموں کی روشنی میں )
احمد ندیم قاسمی
شاعر کے جملہ نظریاتِ حیات اور نظریۂ فن کا مستند ترین ماخذ اس کا کلام ہوتا ہے۔ بعض محققین نے تو شعرا کے کلام میں سے ان کے حالات زندگی بھی مرتب کر لیے ہیں اور بعد کی تحقیق شاہد ہے کہ یہ حالات بیشتر درست ثابت ہوئے۔ شاعر اپنے آپ سے جھوٹ بول ہی نہیں سکتا۔ جب وہ شعر کہتا ہے تو ایک ایسے عالم میں پہنچ جاتا ہے جہاں آفتاب حقیقت و صداقت کی شعاعیں کسی دور دراز کے کونے کھدرے کو بھی منور کیے بغیر نہیں رہتیں۔ یوں شاعر اپنے شعر میں ہمیشہ سچ بولتا ہے۔
علامہ اقبال کے نظریۂ فن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، مگر کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ سب سے پہلے ہم انہی کے کلام سے رجوع کریں اور ان کے اشعار ہی سے ان کے نظریۂ فن کا کھوج لگائیں۔ آج میں صرف بانگ درا کو پیش نظر رکھوں گا۔ علامہ کے اس اولین مجموعۂ کلام میں اردو، فارسی اور انگریزی کے چھ شعرا پر پانچ نظمیں شامل ہیں۔ ایک نظم ’شبلی و حالی‘ میں دونوں پر بیک وقت اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ان نظموں کی مدد سے اقبال کا نظریۂ شعر بڑی آسانی سے مرتب ہو سکتا ہے۔ یہ سب ان کے ابتدائی دورِ شاعری کی تخلیقات ہیں ، مگر جس نظریے کا خاکہ ان سے مرتب ہوتا ہے، اس کا اطلاق، بعض معمولی تبدیلیوں کے ساتھ، ان کے آخری دورِ شاعری پر بھی ہو سکتا ہے۔ بانگ درا میں دو نظمیں ایسی بھی شامل ہیں جن میں شاعر کے منصب کی وضاحت کی گئی ہے۔ ان دونوں کا عنوان ’شاعر‘ ہے۔ پھر ’سید کی لوحِ تربت‘ اور ’عبدالقادر کے نام‘ میں بھی ان کے نظریۂ شعر کی چند جھلکیاں موجود ہیں۔ اس نظم میں ، جس کا عنوان ’عبدالقادر کے نام‘ ہے، علامہ اقبال نے جیسے اپنی شاعری کا منشور مرتب کر دیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے بال جبریل، ضرب کلیم، ارمغان حجاز اور اپنے فارسی کلام میں اسی منشور کے مطابق شاعری کی ہے۔ جو حضرات شاعر کے حوالے سے ’منشور‘ کے لفظ سے بِدکتے ہیں انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص کا اپنا ایک منشور ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ منفی منشور کے حامل حضرات منشور کے وجود ہی سے انکار کرنے میں عافیت دیکھتے ہیں۔ اقبال کا منشور زندگی کے اثبات کا منشور ہے۔
جس طرح مرزا غالب نے کہا تھا کہ:
بیا کہ قاعدۂ آسماں بگردانیم
اسی طرح اقبال نے شیخ عبدالقادر سے مخاطب ہو کر کہا تھا:
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
اور:
شمع کی طرح جئیں بزم گہِ عالم میں
خود جلیں ، دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں
اقبال اس نظم میں کہتے ہیں کہ اپنی بساط فریاد ہی تو ہے، مگر یہ ایسی فریاد ہے جو محفل کو تہ و بالا کر سکتی ہے۔ آؤ کہ ہم عشق کی قوت…لگن کی قوت…مقصد کی قوت سے سنگ امروز کو اتنا صیقل کریں کہ وہ فردا کا آئینہ بن جائے، قوم کو اس کی کھوئی اور لٹی ہوئی قوت و حشمت کا احساس دلائیں ، چمن کو آئین نمو سکھائیں تا کہ شبنم کا ایک ایک قطرہ، ایک ایک دریا کی روانی اور بیکرانی اختیار کر لے۔ اقدار بدل رہی ہیں
(ع قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں ) ہم نے یورپ کے یخ ماحول میں بیٹھ کر جو کچھ سوچا تھا، اور اپنے ذہنوں کو ان سوچوں سے گرمایا تھا، انھیں یہاں مشرق میں عام کریں اور اس اعتماد کے ساتھ اپنی ان سوچوں کی آگ میں جلیں کہ ہمارے جلنے سے روشنی پھیلے گی اور لوگوں کی آنکھوں میں ، جنھیں اندھیرے نے بظاہر اندھا کر دیا ہے، بینائی لوٹ آئے گی۔
اقبال کا کلام گواہ ہے کہ انھوں نے جو کچھ اپنے انتقال سے تیس بتیس برس پہلے کہا تھا، وہ محض جوانی کے جوش یا جذباتیت کی زد میں آ کر نہیں کہا تھا بلکہ پورے غور و فکر کے بعد انھوں نے شاعر کا منصب معین کیا تھا۔ پھر انھوں نے اس منصب کو اپنے دور کے سیاسی حالات اور تاریخ کے حوالے سے پرکھا تھا، اور محض اندھیرے میں تیر نہیں چلایا تھا بلکہ انھیں اپنے ہدف کا شعور کامل حاصل تھا، اور وہ بڑی خود اعتمادی کے ساتھ ایک ایسی راہ پر گامزن ہوئے تھے جس پر بعد میں پوری قوم نے چلنے کا فیصلہ کیا اور اپنی پہلی منزل پا لی۔
’عبدالقادر کے نام‘ میں تو علامہ اقبال نے بہت کھل کر اپنے فنی عزائم کا اظہار کیا ہے مگر دیگر (متذکرہ صدر) نظموں میں بھی (بالواسطہ طور پر ہی سہی) وہ اپنے نظریۂ شعر کو غیر مبہم انداز میں بیان کرتے چلے گئے ہیں ، اور کسی ایک مقام پر بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ انھوں نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہو جس پر بعد میں وہ عمل نہ کر سکے ہوں۔ ممکن ہے اس وضاحت سے بعض لوگوں کو یہ گمان گزرے کہ اقبال نے اپنی بے ساختگی پر پہرے بٹھا لیے تھے اور اپنے آپ کو پابند کر لیا تھا…مگر گزارش یہ ہے کہ بڑے شاعر، خود کو بعض نظریات کا (مثبت نظریات کا) پابند کر لینے کے باوجود، اپنی بے ساختگی کو مجروح نہیں کرتے، اور جو شاعر کسی فنی یا تہذیبی نقطۂ نظر کا پابند نہیں ہوتا، وہ اپنی بے ساختگی کو صرف اس حد تک کام میں لاتا ہے کہ آخری دم تک اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہتا رہا ہے۔
’شاعر‘ کے عنوان سے دو نظمیں بانگ درا میں شامل ہیں۔ پہلی نظم حصہ اول میں ہے اور ۱۹۰۵سے قبل کی تخلیق ہے۔ دوسری حصہ سوم میں ہے اور ۱۹۰۸ء کے بعد کی تخلیق ہے۔ مگر خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں جگہ شاعر کے مناصب مربوط ہیں۔ پہلی نظم میں اقبال نے قوم کو جسم قرار دیا ہے، افراد کو اس جسم کے اعضا کہا ہے (یہ اعضا ’منزل صنعت‘ کے رہ پیما ہیں ) ۔ ’محفل نظم حکومت‘ قوم کا ’چہرۂ زیبا‘ ہے اور شاعر قوم کا ’دیدۂ بینا‘ ہے۔ شاعر کو پیکر قوم کی آنکھ قرار دینے کے بعد اقبال نے نہایت فن کارانہ حسن کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ شاعر قوم کے کسی دکھ، کسی مصیبت، کسی آزمائش سے بے توجہ نہیں رہ سکتا۔
مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
’شاعر‘ کے عنوان کی دوسری نظم میں اسی نقطۂ نظر کو ذرا وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اور قوم سے ہمدردی اور اس کے مصائب میں شرکت کے علاوہ شاعر پر فرض کر دیا گیا ہے کہ وہ (ان مصائب کے خاتمے کے لیے) کھری بات کہے۔ وہ کھری بات کہے گا تو جبھی ویرانۂ حیات میں بہار آئے گی۔ جب قوم بت سازی اور بت گری پر اتر آئے تو شاعر کے کلام کو شانِ خلیل دکھانی چاہیے اور کار خلیل کرنا چاہیے۔ اقبال نے اس نظم میں یہ بھی کہا ہے کہ جو شاعری خون جگر سے پرورش پاتی ہے، وہ عالم انسانیت کے لیے زندگی دوام کا نسخہ ثابت ہوتی ہے۔ اگر پہلی نظم میں شاعر کا منصب معین کیا گیا ہے تو دوسری نظم میں اس منصب کا حق ادا کرنے کے لیے شاعر کے لیے راہ عمل مقرر کی گئی ہے اور اسی شاعری کو (جس میں شاعر اپنی نوع اور اپنی قوم اور اپنے معاشرے کی بعض ذمہ داریاں قبول کرتا ہے) زندگی کی چہل پہل، اس کی شادابی اور بالیدگی کی بنیاد قرار دیا ہے۔
گلشن دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو
پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو
’سید کی لوح تربت، میں اقبال شاعر کو اپنے وقار اور ’آبرو‘ کا تحفظ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
ہو نہ جائے، دیکھنا، تیری صدا بے آبرو
یہ ’صدا‘ کی ’بے آبروئی‘ بہت ہی بڑا سانحہ ہے جو کسی شاعر پر گزر سکتا ہے۔ شاعر کی صدا کی آبرو صرف اس طرح محفوظ رہ سکتی ہے کہ بقول ایک شاعر:
جو کچھ کہوں ، یقیں سے کہوں ، برملا کہوں
وہ جو کچھ کہے، اپنے اعلیٰ اور پاکیزہ اور مثبت منصب کو پیش نظر رکھ کر کہے۔ پھر وہ جانتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اسے علم ہو کہ اس کی صدا صرف اس تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے دنیا میں پھیلنا ہے، اور دنیا کو رنگ و بو کی، شادابی و نمو کی ضرورت ہے۔ اقبال نے اس نظم میں شعرا کو یہ احساس بھی دلایا ہے کہ جو اقدار مر گئیں ، وہ مر چکیں ، اور نئی قدروں ، نئے معیاروں سے بدکنا بیکار ہے۔ اس خیال کو اقبال نے ایک اور جگہ (بانگ درا ہی میں ) بڑی خوبصورتی کے ساتھ نظم کیا ہے:
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں
’سید کی لوح تربت‘ میں انھوں نے واشگاف اور براہ راست انداز میں کہہ دیا ہے کہ:
محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اب نہ آئیں ، ان فسانوں کو نہ چھیڑ
انھوں نے شاعر سے کہا ہے کہ پرانی لکیروں کو پیٹنے کی بجائے :
سونے والوں کو جگا دے شعلۂ آواز سے
خرمنِ باطن جلا دے شعلۂ آواز سے
یہ شعر و شاعری کی باتیں تھیں مگر جب علامہ اقبال شاعروں کا ذکر کرتے ہیں تو جب بھی اپنے فنی نقطۂ نظر پر پوری پامردی سے قائم رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ان نظموں میں ان کا نظریۂ فن شعر بھی پوری جزئیات کے ساتھ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ یہ نظمیں داغ، شبلی و حالی، غالب، عرفی اور شیکسپئر کے متعلق ہیں۔ داغ کے مرثیے میں انھوں نے داغ کے بانکپن اور شوخی بیان کا ذکر کیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ پیری میں بھی ان کے رنگ ڈھنگ جوانوں کے سے تھے، عشق کی ہو بہو تصویر کھینچتے تھے، ہر شخص کے دل کی بات کہتے تھے اور تخیل کی پرواز کے دوران میں بھی زمین سے اپنا رشتہ ٹوٹنے نہیں دیتے تھے۔ اس سے زیادہ اقبال نے داغ کے بارے میں کچھ نہیں کہا، اور انھیں کہنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ ان کا نظریۂ فن داغ کے نظریۂ فن سے سراسر مختلف تھا۔ بہر صورت داغ کے اس مرثیے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ بیان کی شوخی، اظہار کا بانکپن اور معاملات عشق کی شاعری اقبال کے نزدیک کوئی گناہ نہیں تھی۔ بصورت دیگر ہم اقبال کے بعد کے کلام میں اس طرح کے سراپا جمال اشعار کہاں پاتے کہ:
آج بھی اس دیس میں ، عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تیر، آج بھی ہیں دل نشیں
شبلی و حالی کا مرثیہ دراصل اس شعر کی تضمین ہے:
اکنوں کرا دماغ کہ پرسد ز باغبان
بلیل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد
اس مرثیے میں اقبال مسلمان سے کہتے ہیں کہ تو منفرد ہے۔ نئے نئے علوم دراصل تیرا سرود رفتہ ہیں۔ تیرے پرانے قافلوں کی گرد کا نام تہذیب قرار پایا ہے۔ تو نے مردانہ وقار و آبرو کے معیار قائم کیے ہیں۔ پھر آج کل جو تیرے گلشن پر خزاں کی یلغار ہے تو اس کا راز گلشن کے پرانے راز داروں سے پوچھ کہ مردان کار مصائب پر محض روتے رلاتے نہیں ہیں بلکہ حادثات کے اسباب ڈھونڈ کر ان مصائب کا مداوا کرتے ہیں۔ اس پر مسلمان جواب دیتا ہے کہ کس سے پوچھوں ، جب کہ گلشن کے وہ سبھی پرانے راز دار خاموش ہو گئے ہیں جن کی نوائے درد ملت اسلامیہ کے لیے سرمایۂ گداز تھی:
شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں
حالی بھی ہو گیا سوے فردوس رہ نورد
یہ مرثیہ اقبال کے اس منشور شاعری (’عبدالقادر کے نام‘) کے عین مطابق ہے جس میں وہ کہتے ہیں :
جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو
تیش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں
اقبال کا نظریۂ شعر ان نظموں میں بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتا ہے جن کے عنوان عرفی، شیکسپیئر اور مرزا غالب ہیں۔ عرفی کے بیان میں وہ کہتے ہیں کہ اس نے تخیل کا ایک ایسا ایوان تعمیر کیا جس کی عظمت و حشمت پر سینا و فارابی کے ’حیرت خانے، قربان کیے جا سکتے ہیں۔ پھر:
قضائے عشق پر تحریر کی تو نے نوا ایسی
کہ جس سے آج بھی درد کے سوتے ابل رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ روحِ عرفی سے کہتے ہیں کہ اب لوگوں میں وہ اضطراب، وہ بے تابی، وہ بے قراری ڈھونڈے سے نہیں ملتی، اس سیمابی کیفیت کا کہیں نام نہیں ہے جو ارتقائے حیات کے لیے ضروری ہے اور تو جس کا ایک بلیغ نمائندہ تھا:
کسی کا شعلۂ فریاد ہو ظلمت ربا کیونکر
گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی
اس پر روح عرفی شاعر سے کہتی ہے:
نوا را تلخ ترمی زن، چو ذوق نغمہ کم یابی
حدی را تیز ترمی خواں ، چو محمل را گراں بینی
اور کون انکار کر سکتا ہے کہ روحِ عرفی کا یہ مشورہ اقبال کے نظریۂ فن کا عنوان ہے!
شیکسپیئر کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح دریا شفق صبح کا آئینہ ہے، اور حسن حق کا آئینہ ہے، اور دل حسن کا آئینہ ہے، اسی طرح تیرا حسن کلام دل انسان کا آئینہ ہے۔ تیری فکر فلک رس تھی۔ تیری آنکھ نے عالم کو عریاں دیکھا (حالانکہ چشم عالم تجھے نہ دیکھ سکی کیونکہ تو تو خورشید میں تابِ خورشید کی طرح پوشیدہ تھا) اور :
حفظ اسرار کا، فطرت کو ہے سودا ایسا
راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
یوں اقبال نے اس نظم میں اعلیٰ شاعری کو محسوسات و تصورات انسانی کا آئینہ، فکر کی بلندی کو اعلیٰ شاعری کا لازمہ اور اسرار فطرت کی راز دانی کو اعلیٰ شاعری کی پہچان قرار دیا ہے، اور یہی عناصر اقبال کے نظریۂ شعر کے لازمی اجزا ہیں۔
مرزا غالب کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے اقبال نے تخیل کی بلند پروازی، روح و بدن کے رشتوں کے ادراک اور حسن کی اس جستجو کی اہمیت واضح کی ہے جو زندگی کو جامد نہیں رہنے دیتی بلکہ ہمہ وقت بیدار و بے قرار رکھتی ہے، اور انسان کو نئی سے نئی دنیاؤں سے متعارف کراتی ہے۔
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار
پھر اس نظم میں اقبال نے اس نکتے (اپنے منشور شاعری کی اس شق) پر بھی زور دیا ہے کہ غالب کی طرح سچا شاعر وہ ہے جس کی نوا زندگی سے کچھ چھینے نہیں بلکہ اس کے سرمائے میں اضافہ کرے۔ اس کا شعر زندگی کا عکاس ہو، شاعر کا حسن گویائی ایسا مسحور کن ہو کہ تصویریں بول اٹھیں اور جمود چٹخ کر ابلنے لگے۔ پھر اقبال نے متذکرہ نظم میں یہ نازک نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ محض تخیل کی بلند پروازی عظیم شاعری کی تخلیق پر قادر نہیں ہو سکتی۔ غالب کی سی عظیم شاعری تخلیق کرنے یا غالب کی پیروی کرنے کے لیے تخیل کی بلندی میں فکر کی بلندی کو بھی شامل کرنا ہو گا۔
اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اقبال نے ان نظموں میں شعر و شاعری کے بارے میں جو بھی نظریات پیش کیے ہیں ، ان پر عمر بھر عمل بھی کیا اور یوں وہ دنیا کی عظیم شاعری کے علاوہ زندگی کے سرمائے میں بھی بے پناہ اضافے کر گئے؟ ان کا یہ نظریۂ شعر زندگی اور اس کے حسن، انسان اور اس کی توانائیوں ، کائنات اور اس کی پہنائیوں اور انسانی فکر کی رسائیوں کا نظریہ ہے، اور یہی وہ نظریہ ہے جس سے ’منفیت‘ بے معنویت اور لایعنیت کے ان نظریوں کو شکست دی جا سکتی ہے جنھوں نے آج کے جدید انسان کو اپنی گرفت میں لینے اور اس سے اس کا انفرادی شرف چھیننے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔
مجلّہ اقبال، لاہور، اپریل ۱۹۷۴ء
٭٭٭
کلام اقبال میں خون جگر کی علامتی حیثیت
ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی
اقبال کے نظریۂ فن کے سلسلے میں ’’خون جگر‘‘ کی اصطلاح اکثر زیر بحث آتی ہے، لیکن عموماً سر سری طور پر۔ بعض حضرات نے ’’خون جگر‘‘ کے زیر عنوان اقبال کے نظریۂ فن کے مختلف غیر متعلق پہلوؤں کا ذکر کیا ہے، اور کہیں کہیں عنوان کے پاس خاطر سے ادھر ادھر خون جگر کے چھینٹے ڈال دیے ہیں۔ اگر کسی نے بحث کی حدود کا خیال رکھا تو لفظی موشگافی میں پڑ کر، اس اصطلاح کی معنوی وسعت و اہمیت کو نظر انداز کر دیا ہے۔ مثلاً پروفیسر عزیز احمد نے ’’خون جگر‘‘ کے ضمن میں فارسی و اردو شعرا کے حوالے سے ’’جگر‘‘ اور ’’ خون جگر‘‘ پر ایک طویل بحث چھیڑ دی ہے۔ میری رائے میں جس طرح غالب کا یہ شعر:
دل سے تری نگاہ، جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر گئی
خیالی مضمون آفرینی کی ایک مثال ہے۔ اسی طرح ’’دل ‘‘ و ’’جگر ‘‘ کے مرتبہ و مقام کی تعین و تخصیص کی کوشش، اور جگر کو دل کے بعد ’’عشق کا دوسرا مورچہ ‘‘ قرار دینا بھی محض شاعرانہ نکتہ سنجی کے سوا اور کچھ نہیں۔ عزیز احمد نے اپنی تاویلات کی توثیق و تائید کے لیے، جاوید نامہ سے ’’زندہ رود‘‘ اور غالب کے اس مکالمے کا حوالہ دیا ہے، جس میں اقبال نے غالب سے ان کے اس شعر کی وضاحت طلب کی ہے:
قمری کف خاکستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے!!
اور غالب کی زبان سے یہ تشریح کی گئی ہے:
نالہ کو خیزد از سوز جگر
ہر کجا تاثیر او دیدم دگر
قمری از تاثیر او واسوختہ
بلبل از وے رنگ ہا اندوختہ
لیکن اگر غالب کے شعر میں ’’جگر سوختہ ‘‘ کی جگہ ’’دل سوختہ‘‘ کی ترکیب ہوتی تو کیا غالب کا جواب اس سے مختلف ہوتا؟ اگرچہ جگر کو مجازاً حوصلہ و ہمت سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جسد انسانی میں دل ہی باطنی احساسات و کیفیات کا مرکز مانا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی جہاں حواس ظاہر کے لیے ’’سمع و بصر‘‘ کا ذکر آیا ہے، وہاں حواس باطنی کے لیے ’’فواد‘‘ یا قلب کی تخصیص کی گئی ہے۔ صوفیا اور شعرا بھی بالعموم اسی روایت کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ فن اور کمالِ فن کے سلسلے میں کیا غالب اور کیا اقبال، سب نے دل کے سوز و گداز کو کمال فن کا منبع قرار دیا ہے۔ غالب کہتے ہیں :
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
اور اقبال:
آیا کہاں سے نالۂ نے میں سرورِ مے
اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے
جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے!
اس میں شک نہیں کہ اقبال نے خون جگر، سوز جگر اور درد جگر کی تراکیب بکثرت استعمال کی ہیں ،کہیں کہیں تو وزن و قافیہ کی مجبوری یا ضرورت شعری کا تقاضا ہو سکتا ہے، لیکن ہر جگہ یہ تاویل درست نہیں۔ اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ ’’دل‘‘ کے مقابلے میں ’’جگر ‘‘کی صوتی قدر و قیمت زیادہ ہے۔ لفظوں کے انتخاب و ترتیب میں ، اقبال صوت و آہنگ کا اس حد تک خیال رکھتے تھے کہ کوئی ’’متجسس الفاظ چرب و شیریں ‘‘ اس معاملے میں ان کا مدمقابل نہیں ہو سکتا!
اس بحث کے سلسلے میں قابل غور نکتہ صرف یہ ہے کہ ’’خون جگر‘‘ کی اصطلاح سے اقبال کی کیا مراد ہے؟ اس ضمن میں عزیز احمد کی یہ رائے درست ہے کہ ’’جگر ‘‘ کا دردِ عشق سے خون ہو جانا، انسان کے عشق کی تکمیل ہے۔ خون جگر کی اصطلاح میں فنکار کے تخلیقی جذبے کی پوری کلیت ہے۔ اس کی اندرونی تپش، اس کا ’’سوز و گداز‘‘ اس کی اعلیٰ ترین تصوریت اور سخت ترین محنت۔ ۔ ۔ خون جگر ہی سے تمام فنون کی تخلیق ہوتی ہے۔
اقبال نے ’’دل‘‘ کو عشق اور وجدان کے معنی میں استعمال کیا ہے (مثلاً ملاحظہ ہو : نظم ’’عقل و دل‘‘) ان کے کلام میں عشق اور کیفیات عشق کے لیے جتنے الفاظ آئے ہیں ، مثلاً ’’سوز و ساز‘‘ درد داغ، جذب و شوق، تڑپ، آرزو وغیرہ، سب کا تعلق خلوص کی گہرائی سے ہے، لہٰذا اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ ’’خون جگر‘‘ سے مراد فنکار کا خلوص ہے۔ کیونکہ خلوص کے مفہوم میں تجربے کی صداقت، نصب العین کی سچی لگن اور اندرونی تپش، اعلیٰ ترین تصوریت، اور سخت ترین محنت، یہ تمام باتیں شامل ہیں۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعد اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اقبال کے تصور فن میں ’’خون جگر‘‘ کی کیا اہمیت ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کے مختلف ادوار میں ، کہیں اجمالاً اور اشارۃً اور کہیں صراحتہً اپنے نظریۂ فن کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کیا ہے، لیکن جس تکرار و تواتر کے ساتھ ’’خون جگر ‘‘کا ذکر آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصطلاح ان کے نظریۂ فن میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اقبال کا شمار، فن کی مقصدیت، اور ’’فن برائے زندگی ‘‘کے پر جوش مبلغوں میں ہوتا ہے۔ مقصدیت فن کے حامیوں میں افلاطون سے لے کر رسکن اور ٹالسٹائی تک، سب نے فن کے اصلاحی و اخلاقی مقاصد اور اعلیٰ انسانی اقدار کے مقابلے میں ، فن کے دیگر عوامل و عناصر، مثلاً فن کار کی شخصیت اور فنی آداب و اقدار کو عموماً نظر انداز کر دیا ہے۔ اسی طرح سماجی اور مارکسی دبستان کے نقاد بھی ’’روح عصر ‘‘اور اجتماعی و افادی قدروں پر اتنا زور دیتے ہیں کہ فن اور فنکار کی انفرادیت معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔ گویا ’’فن برائے فن‘‘ کی طرح ’’فن برائے زندگی‘‘ کے علم بردار بھی انتہا پسندانہ یک رخے نظریات کے حامل ہیں۔ فن میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اگر چہ اخلاقیات کا ایک حصہ ایسا ہے جو مختلف زبانوں اور قوموں کے آداب و رسوم کے تابع ہے اور جسے اضافی، ہنگامی اور علاقائی قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن بہت سے اخلاقی تصورات، فطرت انسانی کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ اور زبان و مکان کے اختلافات سے ماورا، ہیں۔ زندگی اور ادب و فن میں ایسی مستقل، آفاقی اور ابدی اقدار اخلاق کی اہمیت سے انکار کرنا بڑی ہٹ دھرمی ہو گی لیکن کسی ادبی تخلیق کو، فن پارہ بننے کے لیے، سب سے پہلے، فن کی جمالیاتی اقدار کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی شعر، اخلاق آموزی کے باوجود، فن کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا،تو وہ محض ایک منظوم وعظ ہے، شعر نہیں۔ مثلاً کوئی ایسا شعر لیجئے جو اخلاقی عنصر سے عاری، لیکن فنی حسن سے بھرپور ہو، مثلاً غالب ہی کا یہ شعر:
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے باد پیمائی!
یہاں یقیناً اس شعر کو اول الذکر پر ترجیح دی جائے گی۔
زندگی کی عکاسی، رہنمائی تعمیر و تنقید کے لیے فن کار کا معاشرتی شعور سے بہرہ مند ہونا لازم ہے، لیکن اگر کوئی فنکار، محض خارجی تحریک کے زیر اثر،کسی پنچ سالہ ترقیاتی منصوبے یا کسی سیاسی یا معاشی نظریے کا مبلغ بن جائے، تو اس کی تخلیق پروپیگنڈے کی ادنیٰ سطح سے بلند ہو کر فن کا درجہ نہیں حاصل کر سکتی۔ فن برائے زندگی کے حامیوں میں اقبال نے اس خطرے کو سب سے زیادہ محسوس کیا اور اسی لیے وہ بار بار فنکار کی شخصیت یا خودی کو فن کی تخلیق کا سر چشمہ قرار دیتے ہیں۔ فن، نمود ذات کے فطری جذبے اور خودی کی تخلیقی قوت کا اظہار ہے۔ لیکن جب تک اس قوت کی تحریک جذبۂ عشق سے نہ ہو، شخصیت کا اظہار بھی بھر پور نہیں ہوتا۔ عشق انسانی خودی کی تمام پوشیدہ قوتوں اور صلاحیتوں کو برانگیختہ کر دیتا ہے:
از محبت اشتعال جوہرش
ارتقائے ممکنات مضمرش
فن کی دنیا میں بھی جوہر خودی کا مکمل انکشاف عشق کی تحریکی قوت کا مرہون منت ہے۔
عشق صیقل می زند فرہنگ را
جوہر آئینہ بخشد سنگ را
اہل دل را سینۂ سینا دہد
با ہنر منداں ’’ید بیضا‘‘ دہد
افلاطون نے شاعر کے ’’ملہمانہ جنوں ‘‘ (Inspired madness) کا ذکر کیا ہے۔ اس کے نزدیک شعرا، شعر و موسیقی کی دیویوں کے سحر زدہ ہوتے ہیں اور اسی جذب و جنوں کے عالم میں شعر کہتے ہیں۔ نظریۂ نقل کی طرح، اس کا یہ نظریۂ جنوں بھی فنکار کی شخصیت کی تخلیقی قوتوں کی نفی کر کے، اس فن کو کسی خارجی یا ماورائی طاقت کے تابع کر دیتا ہے۔ اقبال یہاں بھی افلاطون سے اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے جس جنوں کو فن کا محرک قرار دیا ہے، وہ عبارت ہے اس والہانہ کیفیت، اس جذبۂ بے اختیار سے جو دل پر عشق کے کامل تسلط سے پیدا ہوتا ہے۔ گویا جب وہ ’’الہام ‘‘ یا ’’جنوں ‘ کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد وہی ’’سوز دروں ‘‘ ہے جس سے دل و جگر خون ہو کر کسی منظوم فن پارے یا شعر کو نغمگی اور رنگینی عطا کرتا ہے۔
برگ گل رنگیں ز مضمونِ من است
مصرعِ من قطرۂ خونِ من است
نغمہ می باید جنوں پروردہٖ
آتشے در خونِ دل حل کردہٖ
جب تک کوئی نظریہ یا فلسفہ دل کی گہرائیوں میں اتر کر جذبے کی آنچ سے پگھل نہ جائے، فن کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتا:
فن اگر سوزے نہ دارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
یا مردہ ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے!
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ایک فنکار محض شہرت یا نام و نمود کی آرزو میں ایسے بلند لیکن مستعار خیالات کا اظہار کرتا ہے جو ذہنی ادراک کی سطح سے اتر کر، اور اس کی باطنی شخصیت میں جذب ہو کر، اس کے دل کی آواز نہیں بن پاتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی نمائشی شاعری، محض قادر الکلامی کے بل پر، ابدیت سے ہم کنار نہیں ہو سکتی۔ اقبال کے معاصرین میں حضرت سیماب اکبر آبادی، ایک ماہر فن استاد تھے۔ اپنی شاعری کے آخری دور میں انھوں نے ’’شاعر ملت‘‘ کے مقابلے میں ، ایک بین الاقوامی شاعر بننے کا خواب دیکھا اور اس زعم میں بہت سے فلسفیانہ مقولے اور اخلاقی فارمولے نظم کیے لیکن اس منصوبہ بندی کا نتیجہ کیا نکلا؟ آج اقبال کے صدہا شعر، اہل ذوق کی زبان پر ہیں اور سیماب کا ایک آدھ شعر بھی شاید ہی کسی کو یاد ہو۔ سیماب کے کلام میں اُستادانہ ہنر مندی اور کاریگری کے تمام تیور موجود ہیں ، کمی صرف ’’خون جگر‘‘ کی ہے، جس کے بغیر ’’معجزۂ فن کی نمود‘‘ ممکن نہیں۔
ہماری غزل گوئی، روایتی اور تقلیدی روش کی وجہ سے ہمیشہ بد نام رہی ہے۔ اقبال نے ابتدا ہی میں اس خرابی کو محسوس کیا اور رسمی و پنچائتی غزل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی:
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈھ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو، تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
لیکن جدید نظم بھی مغرب کی اندھی تقلید کی علت میں گرفتار ہے۔ مغرب کی ذہنی غلامی کی بدولت وہاں کی ادبی تحریکیں اور مغربی شعرا کی فکری و فنی بدعتیں ہمارے یہاں فیشن کے طور پر رائج و مقبول ہو جاتی ہیں۔ تقلید کی یہ روش، فن کے تمام شعبوں میں عام ہے۔ اقبال اس اندھی تقلید کو ’’مرگِ تخیل‘‘ کی علامت سمجھتے ہوئے احتجاجاً کہتے ہیں :
کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگِ تخیل
ہندی بھی فرنگی کا مقلد، عجمی بھی
مجھ کوتو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد
کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی
اقبال کے نزدیک فن کی بنیاد حقائق زندگی کے شعور پر ہونی چاہئے۔ حقیقت شناسی کے لیے ضروری ہے کہ فنکار، مستعار نظریوں پر بھروسا نہ کرے بلکہ اپنی نظر سے، اپنے نور خودی کی روشنی میں زندگی کا مشاہدہ کرے:
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
پھر نظر نظر میں بھی فرق ہوتا ہے۔ ظاہر بیں نگاہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی:
اے اہل نظر، ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟
جو فن کار چشم ظاہر کے ساتھ، نور بصیرت بھی رکھتا ہو، وہی حال کے آئینے میں مستقبل کی تصویر دیکھتا ہے۔ جب اس کی نگاہ سوز دل میں ڈوب کر ابھرتی ہے تو’’ عالم نو کی سحر‘‘ کو بھی بے نقاب دیکھ لیتی ہے۔ یہ جہاں بینی اور دیدہ وری، ایک درد آشنا دل کی تڑپ اور سوز و گداز کا حاصل ہوتی ہے:
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
اس بحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’’خون جگر‘‘ فنکار کی شخصیت کے توسط سے فن پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس میں تاثیر اور سوز کی کیفیت پیدا کرتا ہے، لیکن خون جگر کا فن سے براہ راست تعلق بھی ہے۔ یہاں ’’خونِ جگر‘‘ سے مراد، فن سے فنکار کی گہری لگن ہے اور گہری لگن، احترام فن اور کاوش فن دونوں پر مشتمل ہے۔ اقبال نے جا بجا جذبے کو فن کی روح کہا ہے، لیکن اس روح کی نمود کے لیے الفاظ کا موزوں ترین قالب بھی درکار ہے اور اس قالب کی ساخت و پرداخت میں فنکار کے شعور و ادراک، تفکر و تخیل،مشق و مہارت، چابک دستی اور ہنر مندی، ان سب عوامل کا حصہ ہوتا ہے۔ اقبال ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’شاعری کی جان تو شاعر کے جذبات ہیں۔ جذبات انسانی اور کیفیات قلبی، ’’اللہ کا دین ہے‘‘۔ مگر اس کے ساتھ یہ جملہ بھی موجود ہے: ’’ہاں یہ ضرور ہے کہ طبع موزوں اس کے ادا کرنے کے لیے پر اثر الفاظ کی تلاش کرے‘‘۔ الفاظ تلاش اور تراش خراش کا عمل بڑی جاں کا ہی چاہتا ہے۔ بقول امیر:
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعے تر کی صورت
جو فنکار لفظوں کی مختلف دلالتوں ، ان کے معانی کی مختلف تہوں کو پہچانتا ہو، جو یہ جانتا ہو کہ لہجے کے فرق سے لفظوں کے تیور کس طرح بدل جاتے ہیں ، جو لفظوں کے آہنگ اور سر کے تال میل سے نغمہ گری کا گر جانتا ہو، اس کے کلام میں ہر لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہوتا ہے کہ اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جا سکتا:
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا!
مختصر یہ کہ ہر فن کی ایک تکنیک اور اس کو برتنے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے۔ یہ سلیقہ مسلسل مشق و مزاولت اور کسب و ریاض سے پیدا ہوتا ہے۔ گویا فن پر پوری قدرت حاصل کرنے کے لیے بھی ’’خون جگر‘‘ صرف کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے:
ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خداداد
کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد
خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
مے خانۂ حافظ ہو کہ بت خانۂ بہزاد
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شررِ تیشہ سے ہے خانۂ بہزاد
دراصل فنکار کی طبیعت کا فطری رجحان اور اندرونی تقاضا خود بخود اسے اکتساب فن کی ’’محنت پیہم‘‘ پر اکساتا ہے۔ فن اس کے لیے محض دل لگی نہیں ، یہ اس کے دل کی لگی اور ’’لگن‘‘ ہے۔ اگر کوئی شخص اس سچی لگن اور جذب و شوق کے بغیر، محض اپنی علمیت اور موزونیت طبع کے بل پر شعر کا مشغلہ تفریحاً اختیار کر لے تو خواہ لاکھ سخن وری کا دم بھرے، وہ سچے فنکار کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ ہر دور میں ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ اچھے خاصے، عالم فاضل، ادیب و خطیب، جب شعر کے میدان میں طبع آزمائی کرنے چلے تو صرف متشاعر بن کر رہ گئے۔ قریبی زمانے کی ایک عبرتناک مثال ہمارے پیش نظر، حضرت علامہ مشرقی مرحوم کی شاعری ہے۔ موصوف کے کلام کے تین مجموعے، ’’حریم غیب‘‘، ’’دہ الباب‘‘ اور ’’ارمغان حکیم‘‘ جو ساڑھے چار ہزار اشعار پر مشتمل ہیں ، ۱۹۵۲ء میں مرتب ہو کر شائع ہوئے تھے۔ فروری ۱۹۵۱ء تک کے درمیان علامہ مرحوم کو پیہم چھ چھ ماہ کی قیدیں بھگتنا پڑیں۔ ایام اسیری میں نوشت و خواند کی سہولتیں میسر تھیں۔ ناچار شعر گوئی اختیار کی۔ آخر جب قید سے رہا ہو کر نکلے تو ملت کے لیے یہ تینوں مجموعے بطور ارمغان لائے، جیسا کہ پہلے مجموعے کی ابتدائی نظم میں فرماتے ہیں :
امت شعر زدہ سن کہ یہ کیا لایا ہوں
نہ نبی ہو کے میں پیغام خدا لایا ہوں
شاعری اور وہ پیغام عیاذاً باللہ
جبرائیل اس کے گواہ، طرفہ ہدیٰ لایا ہوں ‘‘
یہ تینوں مجموعے ’’طرفہ ہدیٰ ‘‘ تو ضرور ہیں لیکن فن شعر کے لحاظ سے کلام موزوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ، کیونکہ خود مصنف کا رشتہ بھی فن شعر سے منفی قسم کا ہے۔ ان کی رائے میں شعر و شاعری نکمے اور ناکارہ لوگوں کا مشغلہ ہے۔ انھوں نے اس متبذل فن کو اصلاح قوم کے لیے ’’علاج بالمثل‘‘ کے طور پر گوارا کیا:
امت شعر زدہ کا ہے یہ بالمثل علاج
زندہ کر شعر سے، جس شعر سے مردار ہوئی
تاہم وہ اپنی مصلحانہ شاعری کو بھی اپنے لیے کسر شان سمجھتے ہیں :
ہے مشرقی تو بلند اس قدر کہ اور ہے کچھ
وگرنہ قوم کی ہے موت شاعری کیا ہے
ان کے تیسرے مجموعے کلام :’’ارمغان حکیم ‘‘ میں پچاس اشعار کی ایک غزل ہے، جس کے آخری چند قطعہ بند اشعار میں انھوں نے اس مبتذل فن کو اختیار کرنے کی توجیہ کی ہے:
میں حکم رب سے شاعر قید میں ہوں
سمجھتا ہوں کہ کیا حکمت چھپی ہے
مری توہین ہے بن جاؤں شاعر
کہ ناکاروں کا پیشہ شاعری ہے
کہاں ہو گا کوئی مجھ سا بھی شاعر
کہ جس کا شعر قہر کاہلی ہے
کہے لمحوں میں یہ سب شعر میں نے
ازل کی بارگاہ میں کیا کمی ہے
کوئی لاؤ تو اس کے ہی برابر
غزل یہ سادہ کار مشرقی ہے
ایام اسیری کی مجبوریوں کے علاوہ علامہ مشرقی کی شعر گوئی کا ایک نفسیاتی محرک بھی تھا۔ انھیں اس امر کا شدید احساس تھا کہ قوم کی صحیح قیادت صرف انہی کا حصہ ہے۔ ان کی ذہانت و قابلیت کے آگے اقبال کی کوئی ہستی نہیں ، لیکن کلام اقبال کا سحر دلوں پر ایسا چھایا ہوا ہے کہ انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔ اس ’’نا قدریِ ابنائے زمان‘‘ کی شکایت پردے پردے میں جا بجا کی ہے۔ ایک جگہ ذرا کھل کر فرماتے ہیں :
مرا تھرڈ، اقبال کا فسٹ دیکھو
دفاتر میں اس کے لگے ’’بسٹ‘‘ دیکھو
کیا میں نے پل میں ، لگی عمر اس کو
نہ ڈالو مرے کام پر ’’ڈسٹ‘‘ دیکھو
علامہ صاحب کا خیال ہے کہ اس ’’امت شعر زدہ‘‘ کو اقبال کی شاعری نے ڈبویا ہے لہٰذا جب تک کلام اقبال کو ذہنوں سے محو نہ کر دیا جائے بلکہ مزار اقبال کو بھی منظر عام سے نہ ہٹایا جائے، اس وقت تک قوم راہ راست پر نہیں آسکتی :
یہ قبر اقبال کی بن کر رہے گی قبر پاکستان
گماں شاید تمہیں ہو کہہ رہا ہوں بات میں کد سے
میں اس تک ہوں ہٹا دو قبر کو سرحد سے مسجد کی
سند لاؤ تو بدعت کی ہاں کوئی سی مسند سے
بناؤ قبر کو اور شاعری کو ذہن سے القط
کہ شاید پھر تعلق ہو خدا کا ذہن مرتد سے
اقبال کے فلسفہ و پیغام کی تردید و تضحیک تو علامہ مشرقی کے کلام کا خاص موضوع ہے، لیکن اقبال کی مفکرانہ حیثیت کے بارے میں ان کے اعتراضات پر سر دست کوئی بحث مقصود نہیں ، البتہ اقبال کے فن پر ان کے مندرجہ ذیل اعتراضات ہر صاحبِ ذوق کے لیے موجب حیرت ہیں :
’’بہت کم شعر ہیں اقبال کے برجستہ ہر رو سے
ادب کے نقص یاں ہیں تو وہاں الجھن زباں میں ہے
جو شوکت ہے کہیں الفاظ میں تو خبط ہے مطلب
نپٹ پختیدگی نے قول ایں میں ہے نہ آں میں ہے
بہت کچھ وہ ہے، معنی جس کے ہوں گے بطن شاعر میں
بہت کچھ قافیہ رانی جو شعر ناتواں میں ہے
ہے اس کی فارسی اس درجے تک ناقص کہ ایرانی
کہا کرتے ہیں ، کہتا ہم نہ جانیں کس زباں میں ہے‘‘
اہل نظر جانتے ہیں کہ ان اعتراضات کا اقبال کے کلام سے تو کوئی واسطہ نہیں ، البتہ یہ ساری باتیں خود معترض کے کلام پر حرف بہ حرف پوری اترتی ہیں۔ ان کے ’’شعر ناتواں ‘‘میں ’’قافیہ رانی‘‘ تو بہت کچھ ہے لیکن ’’نپٹ پختیدگی‘‘ کا کہیں نشان نہیں ملتا، اور ملے کیسے کہ اس فن سے نہ تو انھیں کوئی لگاؤ ہے اور نہ اس کے لیے کاوش فکر کی انھوں نے ضرورت سمجھی۔ انھیں تو یہ زعم تھا کہ جب میری ذہانت نے مغربی علوم کے بڑے بڑے معرکے سر کر لیے تو شعر کیا چیز ہے۔ یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
شعر تو ادنیٰ اشارہ ہے تیری چٹکی کا
مغربی علموں میں بھی جب نہ تجھے ہار ہوئی!
اس سہل انگاری کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہونا تھا کہ ان کی شاعری (بقول خود) ’’ قہر کاہلی‘‘ بن کر رہ جائے۔
اگرچہ اقبال بھی از اول تا آخر ایک پیغام گو شاعر ہیں ، لیکن مشق سخن کے ابتدائی دور سے لے کر لگ بھگ ۱۹۱۰ء تک (کم و بیش، بیس سال) انھوں نے اکتساب فن کے تمام مرحلے اس خلوص و انہماک سے طے کیے کہ بعد میں جب انھیں اپنے مقصد و پیغام کا احساس شدید تر ہوتا گیا، تب بھی فن سے ان کا رشتہ منقطع نہ ہو سکا اور ’’فن پرستی‘‘ سے اظہار بے نیازی کے باوجود، انھیں ایک سچے فنکار کی طرح ہمیشہ اس بات کا احساس رہا کہ :
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
چنانچہ تزئین کلام کی مصنوعی کوشش کے بغیر، ان کا کلام تغزل و ترنم کی کیفیات اور فنی لطافتوں سے معمور ہے۔ اقبال کے اس دعوے پر خود ان کا کلام گواہ ہے:
آنچہ من در بزم آوردہ ام، دانی کہ چیست؟
یک چمن گل، یک نیستاں نالہ، یک خمحانہ مے!!
فروغِ اقبال۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۶ء
٭٭٭
اقبال کا معجزۂ فن
سلیم احمد
محمد حسن عسکری نے کسی جگہ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کو اُردو شاعری کا تاج محل کہا ہے۔ تاج محل سے میرا ذہن خود بخود دلی کی شاہی مسجد کی طرف جاتا ہے اور یاد آتا ہے کہ اقبال نے اسے مسجدوں کی دلہن کہا تھا۔ یہ مسجد واقعی ہے بھی دلہن کی طرح۔ نفیس، نازک، خوبصورت۔ لیکن اس میں وہ صلابت، سنگینی، اور پختگی نہیں جو مسجدِ قرطبہ میں پائی جاتی ہے۔ کیا یہ دو قوموں کے مزاج کا فرق ہے؟ میں نے دلی، آگرہ اور فتح پور سیکری میں شاہی تعمیرات دیکھی ہیں۔ مجھے عہدِ غلاماں کے بعض بچے کھچے آثار میں جو مردانہ قوت نظر آئی وہ عہدِ شاہ جہانی کی تعمیرات میں کم ہوتی چلی گئی ہے۔ یہاں تک کہ خود مغلیہ دور کی ابتدا کے آثار بعد کی تعمیرات سے مختلف معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمایوں کے مقبرے میں وہ نفاست نہیں ہے، جو عہدِ شاہ جہانی کی تعمیرات میں پیدا ہو گئی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جیسے جیسے ہندوستان کی مٹی میں ملتے گئے، کمزور ہوتے گئے؟ یا ہم یہ کہیں کہ ان میں قوت کے ساتھ حسن کا اضافہ ہو گیا؟ سلطنتِ دہلی کے دور تک مسلمان ہندوستان میں پوری طرح جمے نہیں ہیں۔ ابھی باہر سے آمد و رفت بھی لگی ہوئی ہے اور اندر سے جڑیں بھی مضبوط نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن بعد کے ادوار میں وہ یہاں زمین پکڑنے لگتے ہیں اور عہدِ مغلیہ سے وہ واضح طور پر ہندوستانی بن جاتے ہیں۔ عہدِ مغلیہ کا آغاز بابر سے ہوتا ہے۔ اب بابر کی شخصیت کو دیکھیے تو وہ قوت اور حسن کے توازن کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ ایک طرف وہ ایسا فاتح ہے، جس نے صرف بارہ ہزار سپاہیوں سے ابراہیم لودھی اور رانا سانگا کے ٹڈی دل لشکر کو شکست دی اور ایک عظیم الشان سلطنت کا بانی بنا۔ دوسری طرف وہ شاعر ہے اور ترکی عروض پر رسالہ لکھتا ہے۔ اس کی شخصیت کی قوت اور خوبصورتی کا داخلی اندازہ لگانا ہو تو اس کی ’تزک‘ کا مطالعہ کیجئے جس کے اسلوب میں ایک فاتح کا کردار ایک شاعر کے حسنِ طبیعت سے گلے ملتا نظر آتا ہے۔ جسمانی قوت میں اس کا یہ حال ہے کہ اس نے ہندوستان کے سارے دریا خود پیر کر پار کیے اور قلعے کی دیوار پر دو آدمیوں کو بغل میں دبا کر دوڑ سکتا ہے۔ لیکن دل کی نزاکت کا یہ عالم ہے کہ بیٹے کی بیماری برداشت نہیں کر سکتا اور اس کو بچانے کے لیے اپنی جان صدقے کے طور پر دے دیتا ہے۔ بابر فاتح میں شاعر کی ایک کمزوری بھی ہے— شراب نوشی۔ یہ کمزوری اس لیے ہے کہ بابر خود اسے کمزوری سمجھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رانا سانگا کے مقابلے پر اسے فتح اس وقت نصیب ہوئی جب اس نے اپنی فوج کے سامنے آخری تقریر کر کے جام توڑ دیا اور کبھی شراب نہ پینے کا عہد کیا۔ ذہن خود بخود بھٹکتا ہوا محمد شاہ رنگیلے سے سقوطِ ڈھاکہ تک جاتا ہے اور نہ جانے کیسے کیسے کردار یاد آنے لگتے ہیں۔ مغلیہ خاندان میں بابر کی یہ کمزوری عہد بہ عہد چلتی ہے۔ ہمایوں شراب نہیں پیتا، لیکن افیون کھاتا ہے۔ ویسے بھی وہ ایک کمزور شخصیت کا مالک ہے جس کی واحد خوبی یہ ہے کہ رحم اور حسنِ سلوک میں بابر کے حسنِ طبیعت کا نمونہ ہے۔ اکبر میں بابر کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔ وہ فاتح ہے، شہنشاہ ہے، اکبرِ اعظم ہے، لیکن اس کے دل کو دیکھو تو شاعرانہ نزاکت سے دھڑک رہا ہے۔ وہ ہندوستان میں مغلیہ خون کا شاہکار ہے اور وہ پہلا ہندوستانی ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کے حقیقی مسائل کا سب سے زیادہ شعور رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مسئلے کے حل کا جو طریقہ وہ اختیار کرتا ہے، اس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہے اور ان میں میں بھی شامل ہوں۔ پھر اس حقیقت کو بھولنا نہیں چاہیے کہ اکبر کی پالیسی کا سنگِ بنیاد ہمایوں نے رکھا تھا اور بسترِ مرگ پر اکبر کو نصیحت کی تھی کہ ترکوں کو آپس میں لڑنے دو اور سلطنت کی بنیاد مقامی لوگوں کی مدد سے استوار کرو۔ جہانگیر مغلیہ خاندان کے داخلی توازن میں ایک نمایاں عدم توازن کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس پر بابری شخصیت کی کمزوری کا غلبہ ہے۔ باپ سے بغاوت، شراب نوشی کی کثرت اور عشق و عاشقی کے وہ افسانے جو اس سے منسوب ہیں ، اس کی شخصیت کو ایک افسانہ تو بناتے ہیں لیکن اس میں فاتحانہ قوت، مردانہ صلابت کی نمایاں کمی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اسے بابر اور اکبر کا وہ دل بھی نہیں ملا جو رحم اور حسنِ سلوک کے جذبات سے دھڑکتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر وہ ایک ایسی سخت دلی کا مظاہرہ کرتا ہے جو اس سے پہلے خاندانِ مغلیہ میں ظاہر نہیں ہوئی۔ وہ شیرافگن اور ابوالفضل کو قتل کراتا ہے۔ اپنے بیٹے کو اندھا کرا دیتا ہے اور اپنے دودھ شریک بھائی کو قلعے کی دیوار سے سر کے بل پھنکوا کر مروا ڈالتا ہے۔ لیکن اس سنگ دلی کے ساتھ ’’دل کی کمزوری‘‘ بھی اندر ہی اندر کہیں موجود ہے۔ کشمیر میں ایک مزدور پہاڑی سے گر گیا، لاش گوشت کا لوتھڑا بن گئی۔ لوگ اس لوتھڑے کو کپڑے میں باندھ کر جہانگیر کے سامنے لے آئے۔ جہانگیر نے اس لوتھڑے کو دیکھا تو مزاج مکدر ہو گیا۔ اتنا اثر لیا کہ بیمار ہو گیا اور اسی بیماری میں چل بسا۔ شاہ جہاں ایک بار پھر بابری توازن کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن اب کے اس فرق کے ساتھ کہ بابر کی شخصیت کا جزوِ غالب اس کی قوت ہے۔ شاہ جہاں کی شخصیت کا جزوِ غالب حسن ہے۔ اب مسلمان ہندوستان میں پورے طور پر جم چکے ہیں۔ اندرونی و بیرونی طاقتیں ایک دوسرے سے ہم آہنگی میں ایک ایسا توازن حاصل کر چکی ہیں جس میں مقامی اور غیر مقامی کی تفریق گویا ایک وحدت کا حصہ بن چکی ہے۔ ایرانی اور ترک عناصر، جن کی پیکار عہدِ جہانگیری میں سلطنتِ مغلیہ کے لیے ایک نمایاں خطرہ تھی، اب ایک ہم آہنگ مرکب کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ دور خارجی فتوحات کا دور نہیں ہے، مگر اس کی داخلی فتوحات اتنی بڑی ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی عظمت کی زندہ نشانیاں اسی دور کی دین ہیں۔ اور نگ زیب عالمگیر نمایاں طور پر پھر خارجی اور داخلی پیکار کا اظہار کرتا ہے۔ مقامی عناصر کی بغاوتیں دوبارہ شروع ہو جاتی ہیں اور اپنے اثر و نفوذ کی بنا پر خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ ایرانی اور ترکی افتراق پھر سر اُٹھاتا ہے اور خطرے پر خطرے کا اضافہ کرتا ہے۔ اور نگ زیب کی شخصیت داخلی طور پر بھی ایک پیکار کا شکار ہے۔ وہ شاعر ہے، ادیب ہے، شاعری کا ایک پرستار ہے کہ بیدل کا دیوان سفر میں بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے، لیکن اس کی یہ خوبیاں ایک شہنشاہ کی حیثیت سے اس کی کمزوریاں بن سکتی ہیں۔ وہ خارجی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی شخصیت کے ان عناصر کو دباتا ہے اور اس شدت کے ساتھ کہ اس کی خارجی تصویر اس کی داخلی تصویر سے بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ مجھے اور نگ زیب کو دیکھ کر ایسے ہی سپاہی کا خیال آتا ہے جو اندر سے زخموں سے چور چور ہو، لیکن انہیں چھپانے کے لیے زرہ پوش ہو گیا ہو اور لوگ اس کی زرہ کو دیکھ کر اس کے زخموں کا اندازہ نہ لگا سکتے ہوں۔ اور نگ زیب میں بابر کا شاعر اور شہنشاہ مساوی قوت رکھتے ہیں۔ مگر اور نگ زیب کے حالات کا تقاضا ہے کہ شاعر کو قتل کیا جائے اور شہنشاہ کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ اور نگ زیب کا المیہ بھی ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں کا بھی۔ اور نگ زیب ہندوستان میں سلطنتِ مغلیہ اور مسلمانوں کی قوت کے تحفظ کی اس پیکار کا آخری سپاہی ہے، جو اس کی وفات کے ساتھ ہی مسلمانوں کی شکست کو ظاہر کرنے لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک شدید انتشار اندر اور باہر سے اُنہیں توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ سلطنتِ مغلیہ کو بھی اور مسلمانوں کے اقتدار کو بھی۔ اور نگ زیب اس انتشار کا المیہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمارے دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہندی مسلمان ہندوستان میں کمزور کتنے ہی ہو گئے ہوں ، مٹے بالکل نہیں۔ جب کہ عرب اندلس میں فنا ہو گئے۔ یہ فرق کیوں ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کی بقا کا کیا راز ہے؟ یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے۔
معاف کیجیے گا، بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ذکر تھا شاہی مسجد اور مسجدِ قرطبہ کے فرق کا۔ مسجدِ قرطبہ عربوں کی تخلیق ہے، شاہی مسجد ہندی مسلمانوں کی۔ مسجدِ قرطبہ میں صلابت اور قوت کا وہ اظہار ہے جو اقبال کو حد درجہ پسند ہے، لیکن شاہی مسجد ہندی مسلمانوں کی اس سادہ مردانگی کا اظہار ہے جس میں قوت حسن سے گل مل رہی ہے۔ اقبال نہ شاہی مسجد سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، نہ میر کی شاعری سے اور شاید میر امن کی نثر بھی اُن کے دل کو نہیں چھوتی، کیونکہ اس میں انہیں وہ چیز نہیں ملتی یا اُس درجے میں نہیں ملتی جس کی طرف ان کا دل کھنچتا ہے، یعنی وہ قوت جو اپنے اندر نفاست کے بجائے صلابت کا انداز رکھتی ہو۔ بہرحال اقبال کی ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ایک ہندی کی طرف سے عرب مسلمانوں کے لیے عقیدت اور محبت کے ان جذبات کی تخلیق ہے جو ہندی مسلمانوں کے دل کو عربوں کے لیے ہمیشہ آغوشِ عاشق کی طرح کشادہ رکھتے ہیں۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کا مرکزی موضوع کچھ لوگوں کے نزدیک زمانہ ہے، کچھ لوگوں کے نزدیک عشق اور کچھ لوگوں کے نزدیک موت۔ لیکن میرے نزدیک ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کا موضوع وہ حیاتِ شاعرانہ ہے جو معجزہ ہائے ہنر میں اپنی نمود کرتی ہے۔ اس حیاتِ شاعرانہ کے دو مرکز ہیں۔ ایک داخلی دوسرا خارجی۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں اقبال داخلی مرکز کو ’’قلب‘‘ کہتے ہیں اور خارجی مرکز علامتی طور پر مسجدِ قرطبہ ہے۔ یعنی وہ معجزۂ فن جو قلب سے خارج میں نمود کے لیے رنگ و چنگ، خشت و سنگ اور حرف و صوت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ حیاتِ شاعرانہ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ انفرادی حیاتِ شاعرانہ فن کے شخصی نمونوں میں اپنا اظہار کرتی ہے، جب کہ اجتماعی حیاتِ شاعرانہ سے اجتماعی فنی کارنامے ظہور میں آتے ہیں اور اس کا اظہار بیشتر قوموں کے فنِ تعمیر میں ہوتا ہے۔ اجتماعی حیاتِ شاعرانہ کا ایک اور مظہر قوموں کی تاریخ ہے جس میں وہ اقدار کی تخلیق کرتی ہیں اور انفرادی قلب کی طرح ان کا بھی ایک داخلی مرکز ہے۔ ذکر چونکہ مسلمانوں کا ہے اس لیے ہم کہیں گے کہ مسلمانوں کے اجتماعی قلب کی علامت حرمِ کعبہ ہے جو مسلمانوں کے نزدیک قلبِ عالم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کا موضوع اپنے داخلی تقاضوں سے ایک سہ ابعادی کائنات کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کائنات کا ایک بُعد قلب ہے، دوسرا بُعد مسجدِ قرطبہ، تیسرا بُعد حرمِ کعبہ۔ اقبال کی نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ اسی کائنات کی لفظی صورت گری ہے۔
پہلے حیاتِ شاعرانہ کے داخلی مرکز کو دیکھے۔ یہ قلب ہے۔ حیاتِ شاعرانہ کا وجود قلب کے اعماق میں ہے، جہاں وہ خونِ جگر سے ہم آمیز ہو کر معجزۂ فن کی تخلیق کرتی ہے۔ یہ معجزہ جب حرف میں اپنا اظہار کرتا ہے تو شاعری بن جاتا ہے، صوت میں اپنا اظہار کرتا ہے تو موسیقی بن جاتا ہے، رنگ میں اپنا اظہار کرتا ہے تو مصوری بن جاتا ہے اور سنگ و خشت میں اپنا اظہار کرتا ہے تو فنِ تعمیر بن جاتا ہے۔ خونِ جگر عشق سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ معجزۂ فن کی نمود عشق کے ذریعے فن کار کے قلب سے ہوتی ہے۔ معجزے سچے بھی ہوتے ہیں اور جھوٹے بھی۔ اقبال کے نزدیک سچے معجزے کی ایک پہچان ہے۔ وہی جو اقبال کی شاعرانہ شخصیت کا مرکزی موضوع ہے، موت کے مقابلے پر دوام۔ زمانے کی حقیقت تغیر ہے، اس لیے وہ موت کا نمائندہ ہے۔ اس کا کام کائنات کی ہر چیز کو پرکھنا ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ اپنے وجود میں وہ سچی ہے یا جھوٹی، یعنی موت کا مقابلہ کر سکتی ہے یا نہیں۔ اس لیے اقبال عشق کو زمانے کے مقابلے پر رکھتے ہیں اور دونوں کی قوتوں کا موازنہ کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک ایسی قوت ہے جو زمانے کو شکست دے سکتی ہے۔ یعنی موت پر قابو پا سکتی ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کے دو ثبوت ہیں ، ایک خود ان کی شاعری اور دوسرا مسجدِ قرطبہ۔ اقبال دونوں کا مقابلہ کرتے ہیں :
تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور، مُجھ سے دِلوں کی کشُود
اور اس طرح شاید اقبال یہ کہتے ہیں کہ اگر عربوں نے مسجدِ قرطبہ کی تخلیق کر کے اپنی صداقتِ عشق یا صداقتِ حیات کو ظاہر کیا ہے تو ہندی مسلمان بھی ان سے کم نہیں ہیں۔ ہندی مسلمانوں نے اقبال کی شاعری پیدا کی ہے۔ نظم میں اچانک ’’کافرِ ہندی‘‘ کا لفظ اتفاقیہ نہیں آیا۔ یہ اتنا معنی خیز ہے کہ نظم کی پوری معنویت کو متاثر کرتا ہے۔
اقبال فن کار کے قلب کا تقابل عرشِ معلی سے کرتے ہیں۔ عرشِ معلی اس کائنات کا چوتھا بُعد ہے جو ماورائے کائنات ہے۔ عرشِ معلی لامحدود قوت اور دوامِ حیات کا مظہر ہے لیکن فن کار کا قلب بھی اس سے کم نہیں ہے۔ یہ بھی اس قوت و حیات کا مظہر ہے جو زمانے اور موت سے شکست نہیں کھاتی۔ اقبال اس قلب کو ذاتی تجربے سے جانتے ہیں اور میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ جیسی نظم، جو بظاہر اتنی معروضی معلوم ہوتی ہے، اس کی تخلیق اقبال کے داخلی تجربے سے ہوئی ہے۔
حیاتِ شاعرانہ کا خارجی مرکز علامتی طور پر مسجدِ قرطبہ ہے۔ اس لیے یہ مسلمانوں کی حیاتِ شاعرانہ کے داخلی مرکز یعنی قلب کا خارجی اظہار ہے۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں جو چیز ظاہر ہوئی ہے، وہ مسلمانوں کی وہ داخلی زندگی ہے جس سے مسلمان تاریخ میں ابدیت حاصل کرتے ہیں :
تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز
اس کے دِنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم
اس کا سرور، اس کا شوق، اس کا نیاز، اس کا ناز
مسلمانوں کی یہ داخلی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ اس کے مقابلے پر خارجی کائنات ’’وہم و طلسم و مجاز‘‘ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔
اب فن کار کے قلب اور مسجدِ قرطبہ کے مقابلے پر ایک تیسری علامات حرمِ کعبہ ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی قلب کی علامت ہے۔ اقبال مسجدِ قرطبہ کا رشتہ حرمِ کعبہ سے جوڑتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کی نظریں مسلمانوں کے اجتماعی تاریخی عمل کو دیکھنے لگتی ہیں۔ مسلمانوں کا اجتماعی تاریخی عمل ان کے اجتماعی قلب سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ حرمِ کعبہ کی دین ہے۔ مسلمانوں کی وہ اجتماعی زندگی، جو اقدار کی تخلیق کرتی ہے، اس قلب سے وابستہ ہے اور تاریخ میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ اس زندگی کے پہلے علم بردار عرب ہیں :
آہ وہ مردانِ حق، وہ عربی شہسوار
حاملِ خلقِ عظیم، صاحبِ صدق و یقیں
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب
سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے، شاہی نہیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب
ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
مسلمانوں کا اجتماعی تاریخی عمل حرمِ کعبہ سے ان کی وابستگی کا ثمر ہے اور یہ عمل انسانیت کے لیے خیر ثابت ہوا ہے۔ اقبال اس کے ثبوت کے لیے خود اندلس کو پیش کرتے ہیں ، جہاں مسلمانوں کے لہو کا فیض آج بھی جاری ہے، جب کہ خود مسلمان اندلس سے ختم ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اقبال کو یہ تلخ حقیقت یاد آ جاتی ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی تاریخی عمل، جو انسانیت کے لیے خیر تھا، ہر جگہ جمود کا شکار ہو چکا ہے۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں ، زوال اور فنا سے دوچار ہیں۔ ان کی حکومتیں ختم ہو چکی ہیں۔ جو باقی ہیں وہ موت کے گھاٹ اُتر رہی ہیں۔ محکومی اور غلامی نے ان کی روحوں کو پیس کر رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ خود مسجدِ قرطبہ، جو مسلمانوں کے اجتماعی تاریخی عمل کی ایک علامت ہے، صدیوں سے ویران اور غیرآباد ہے اور اس کی فضائیں بانگِ اذاں کو ترس رہی ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ساتھ اقبال کو اپنی ذات بھی یاد آتی ہے یا نہیں ، لیکن نظم کے آخر میں وہ عہدِ شباب کو ضرور یاد کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُنہوں نے مسلمانوں کی اجتماعی حالت کے پس منظر میں اپنی ذاتی حالت کو بھی دیکھا ہے؟ وہ بھی اب بوڑھے ہو رہے ہیں۔ بوڑھے، کمزور اور بیمار۔ اقبال کو یاد آتا ہے کہ زمانہ منقلب ہے اور حیات کو موت سے اور موت کو حیات سے بدل رہا ہے۔ زمانے کے انقلابات قوموں کو بدل رہے ہیں۔ جرمنی بدل گیا، فرانس بدل گیا، اٹلی بدل گیا۔ وہ قومیں جو زوال اور موت کا شکار تھیں ، از سرِ نو جوان ہو رہی ہیں ، زندہ ہو رہی ہیں۔ اقبال اس تبدیلی کو بڑی اُمید کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ زمانے کی یہ تبدیلیاں مسلمانوں کو بھی دوبارہ زندہ کر دیں ؟ قومیں کس چیز سے زندہ ہوتی ہیں ؟ اپنے قلب و روح کے اضطراب سے۔ جس طرح قطرۂ خونِ جگر معجزۂ ہنر کی تخلیق کرتا ہے اسی طرح قومیں بھی قطرۂ خونِ جگر کی شورش سے بیدار ہوتی ہیں۔ اقبال اپنے دل میں دیکھتے ہیں۔ ان کے دل کے اضطراب نے ان کی شاعری کو پیدا کیا ہے۔ کیا یہی اضطراب اجتماعی طور پر روحِ مسلماں میں موجود نہیں ہے؟ نظم کے آخری بند میں اس خواب کا ذکر ہے جب عالمِ نو پردۂ تقدیر سے ظہور میں آئے گا اور مسلمان حیاتِ نو حاصل کر لیں گے۔ مسلمان اور ان کے ساتھ شاید اقبال بھی۔
نظم کا آغاز زمانے کے بارے میں چند خیالات سے ہوا تھا۔ ہم اسے پہلے ذہن کے ذریعے پڑھنا شروع کرتے ہیں ، لیکن نظم جوں جوں آگے بڑھتی ہے اس میں جذبہ، ایک گہرا جذبہ، شامل ہوتا جاتا ہے۔ پہلا بند ختم ہوتے ہوتے ہم اس جذبے کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اب خیالات خیالات نہیں رہتے، اب وہ صرف ذہن کی چیز نہیں ہیں ، اب ان میں اقبال کا دل بھی شامل ہو گیا ہے۔ ہمیں اس دل کی دھڑکن صاف سنائی دینے لگتی ہے۔ اور ہم اس کی دھڑکن کے نغمے سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ وہ مستی جو اقبال کے دل میں ہے اور نظم کی تخلیق کا باعث ہے، ہمارے دلوں میں بھی سرایت کرنے لگتی ہے۔ نظم کی نغمگی اور بحر کا آہنگ اس مستی کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے ذریعے ہم اقبال کے تجربے میں زیادہ سے زیادہ شریک ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ طبلِ جنگ کی طرح ہے جس کی آواز سے مست ہو کر لوگ جان دینے پر تیار ہو جاتے ہیں ، یا اُس حدی کی طرح جس کی لے پر جنگل میں بھٹکے ہوئے اونٹ بھی کارواں میں واپس آ جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم اقبال کے تجربے میں ڈوب جاتے ہیں۔ ان کے محسوسات کی گہری زندگی ہمارے رگ و پے میں اُترنے لگتی ہے۔ اب ہم اقبال کے خیالات سے واقف نہیں ہوتے، اب ہم اقبال کے دل میں اتر جاتے ہیں اور اس کی گہرائیوں میں ہمیں ایک ایسی زندگی محسوس ہونے لگتی ہے جو اس سے پہلے ہم نے محسوس نہیں کی تھی۔ ہم اپنے وجود میں زیادہ حساس، زیادہ مضطرب، زیادہ زندہ ہو جاتے ہیں۔ اب نظم کا آہنگ ہمارے لہو کا آہنگ بن جاتا ہے۔ اور نظم ہمارے سر سے نیچے اُتر کر ہمارے پورے وجود کو پگھلاتی ہوئی ہمارے تلوؤں میں گونجنے لگتی ہے۔ ہم نظم کے سامنے برہنہ ہو جاتے ہیں ، جس طرح بچہ اپنی ماں کے سامنے برہنہ ہو جاتا ہے اور روحِ شاعری ہمارے وجود کو نہلانے لگتی ہے۔ ہمارے وجود کی ساری کثافتیں دھُل جاتی ہیں اور ہم ایک دھڑکتے ہوئے دل کی طرح اقبال کے تجربے سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اور جب اقبال کی نظم ختم ہوتی ہے اور ہم ہوش میں آتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے— ہم اسے بیان کر سکیں یا نہ کر سکیں ، کہہ سکیں یا نہ کہہ سکیں — کہ ابدیت کی تاریخ میں ایک معجزۂ فن کا اِضافہ ہو چکا ہے۔
اقبال: ایک شاعر، قوسین، لاہور، ۱۹۸۷ء
٭٭٭
اقبال : آفاقی شاعر
ڈاکٹر سید شوکت سبزواری
اقبال کا ہمارے یہاں گہرا، وسیع اور تفصیلی مطالعہ ہوا ہے۔ اس عظیم شاعر کی شاعری، حکمت، پیغام، سیرت و شخصیت کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو بحث میں نہ آیا ہو اور جس کا ہر پہلو روشن نہ ہو گیا ہو۔ چنانچہ ایک عام ناظر جب اقبال کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہے، اور بقول شخصے پیسے کو پیسنا گوارا نہیں ہوتا تو اسے سخت حیرانی ہوتی ہے کہ اقبال کے متعلق کیا کہے اور اس کے کلام و پیام کے کس گوشے یا پہلو کو روشنی میں لائے۔ عرب کے اس شاعر کی طرح جسے اپنے شعری سرمایہ کو دیکھ کر احساس ہوا تھا۔
ھل غاورالشعرا من متر دم۔ (شاعروں نے ہمارے کہنے کے لیے چھوڑا ہی کیا ہے کہ ہم کہیں )
اقبال پر اظہار خیال کرنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے کہنے کے لیے اب کچھ نہیں رہا۔ اس سلسلے میں افکار و خیالات کے لوگ اقبال کے کلام و پیام سے متعلق مختلف اثر لے رہے ہیں تو اس کا یہ احساس شدید سے شدید تر ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اقبال کا مطالعہ عموماً ہمارے یہاں ضروری انداز سے ہوا مختلف خانوں میں بانٹ کر اور بعض صورتوں میں ایک خانے کو دوسرے سے الگ رکھ کر۔ اقبال کو پڑھایا گیا۔ اس پر جامع تجزیاتی بحثیں ضرور ہوئیں لیکن مجموعی طور پر کل کی حیثیت سے اس طرح کی کوشش کہ اس کی فنی اور ادبی شخصیت آئینہ ہو جائے اور پیام و الہام کی مکمل تصویر ایک نظر میں سامنے آ جائے کم سے کم میری نظر سے نہیں گزری۔ کسی نے اقبال پر قومی شاعر کی حیثیت سے بحث کی کسی نے ملی شاعر کی حیثیت سے ،کسی نے اسے اسلامی شاعر قرار دیا کسی نے آفاقی شاعر، کسی نے اس کے تصور خودی پر زور دیا کسی نے فلسفہ بے خودی پر۔ اس بحث کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جس نے اقبال کو ملی شاعر قرار دیا تھا اس نے اس کے قومی شاعر ہونے سے انکار کیا اور جس نے اسے اسلامی شاعر بتایا تھا اس نے اس کی شاعری کے عالمی پہلو کی نفی کی۔ اسی طرح جِس نے تصور خودی پر زور دیا تھا۔ اس نے اقبال کو انفرادیت پسند کہا اور جس نے فلسفہ بے خودی پر زور دیا تھا اس نے اس کو اجتماعیت پسند ٹھہرایا۔
جزئیاتی بحث کا نتیجہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ناظر کے سامنے پوری حقیقت نہیں آتی حقیقت کے چند پہلوؤں پر اس کی نظر جاتی ہے (مشہود حکیم شاعر سنائی نے حدیقۃ الحقیقۃ میں جزئیاتی انداز نظر کو ایک مثال سے سمجھایا ہے کہ چار نابینے ایک ہاتھی دیکھنے گئے کسی نے سونڈ کو چھوا، کسی نے پاؤں کو۔ ایک کے ہاتھ میں دُم آ گئی۔ ایک ایسا بھی تھا جس نے پیٹ کو مس کر کے ڈیل ڈول کا اندازہ لگایا۔ ہاتھی کے اس جزوی مطالعے کے بعد جب یہ واپس ہوئے تو ان کے تاثرات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک کہتا تھا ہاتھی ستون کی طرح ہے، دوسرا کہتا تھا ہر گز نہیں ہاتھی لٹھ کی طرح ہے۔ ہر ایک مثال بے تشبیہ نہیں۔ سنائی کا مطلب یہ ہے کہ مطالعہ کرنے والا اپنی نظر کو کسی ایک پہلو تک محدود رکھے گا تو حقیقت کے صرف اسی ایک پہلو تک اس کی رسائی ہو گی۔ کل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام پہلو نظر میں رکھے جائیں ) ۔
اقبال کی شاعری کا موضوع بہت وسیع ہے۔ اس میں اتنی ہی وسعت ہے جتنی اس رنگا رنگ کائنات میں ہے۔ اقبال نے حیات و کائنات کے حقائق و مسائل کو فکر کی جنگاہ بنایا۔ اور ان میں پیچیدگی تھی اس لیے اس پیچیدگی کا پرتو اقبال کے کلام پر پڑا لیکن وقت نظر سے کام لے کر بظاہر متضاد کیفیات و احوال میں جس انداز سے اس نے توازن قائم رکھا اس کی داد نہیں دی جا سکتی۔ اقبال نے ہر چیز کو اس کی جگہ دی وہ صرف فلسفہ خودی کا مبلغ نہیں بے خودی کا مبلغ بھی ہے۔ دونوں کی حدود ہیں۔ دونوں کی قیود ہیں۔ خودی کی حدیں ختم ہوتے ہی بے خودی کی حدیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اقبال نے ان حدوں کی تعیین کی ہے یہ اور بات ہے کہ ان کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی ہم نہ کر سکیں ، اور گریباں کے چاک کو داماں کے چاک سے ملا دیں۔
یہ جزوی انداز نظر کا اثر ہے کہ بعض حضرات اقبال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اسلامی شاعر ہیں اور اسلامی شاعر کے وہ یہ معنی بتاتے ہیں کہ ان کے مخاطب صرف مسلمان ہیں۔ ان کا پیغام مسلمانوں کے لیے ہے۔ انھوں نے دنیا کو مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم کر کے مسلمان کی صلاح و فلاح کی کوشش کی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اقبال نے مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی صلاح و فلاح کی کوشش کی لیکن یہ صحیح نہیں کہ ان کے مخاطب صرف مسلمان ہیں یا ان کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے ہے یا مسلم و غیر مسلم کے امتیاز کی نوعیت اقبال کے یہاں کالے گورے، سامی غیر سامی،مشرقی و مغربی، ہندی و چینی کی طرح لازمی اور ابدی ہے۔ فلسفہ اقبال کی روح توازن ہے۔ یہ توازن حیات و کائنات کی متضاد اور متصادم کیفیات کا مزاج ہے جو ان میں اعتدال قائم رکھنے سے حاصل ہوا۔ اقبال نے مسائل حیات میں توازن رکھ کر گویا کائنات کا مزاج پیش کیا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے اقبال کی نظم ’’شعاع امید‘‘ پر نظر جاتی ہے۔ اس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ آفتاب نے اپنی شعاعوں سے کہا کہ جب تم ظلمت کدہ عالم کو جگمگا نہیں سکتیں تو آوارہ گردی سے فائدہ؟ آؤ میرے دل میں سما جاؤ۔ اس پر ایک شوخ کرن بولی۔ مجھے تنویر کی اجازت مرحمت ہو میں اس ظلمت کدے کو نور اور روشنی میں نہلاؤں گی۔ اس نظم کا آخری شعر ہے:۔
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
اس شعر سے اقبال کے کلام و پیام کا رخ متعین ہوتا ہے۔ شوخ کرن اقبال کا کلام ہے کرن کا کام ہے تاریکی کے پردوں کو چاک کرنا اور شب کو پھاڑ کر سحر کرنا۔ اس میں مشرق و مغرب کی تمیز نہیں۔ جہاں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہو۔ کرن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہاں چمکے اور اس اندھیارے کو دور کرے۔ چنانچہ اول اول اقبال نے برصغیر پاک ہند کو جو آویزشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور یہ کہہ کر اہل وطن کے دل میں حب وطن کی شمع روشن کی:
اجاڑا ہے تمیز ملت و آئین نے قوموں کو
مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے
اس کے بعد اسلامی دنیا کی زبوں حالت نے شاعر کو ملت مسلم کی طرف متوجہ کیا:۔
یہی مقصودِ فطرت ہے یہی رمزِ مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت و مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوڑا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہُوئی رخصت تو ملّت بھی گئی
اسلامی ممالک میں رنگ، نسل، خون، تہذیب اور قومیت کے محدود تصور کی بنا پر پھوٹ پڑی تھی اس لیے اقبال نے ان کی بڑھی ہوئی لے کو مُسکر قرار دے کر کہا:۔
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ۔ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مُسکرات رنگ و نسل کا امتیاز اپنی جگہ معیوب نہیں۔ واختلاف السنتکم والوانکم
زبانوں کا اختلاف اور رنگوں کا اختلاف سے زبانوں اور رنگوں کے اختلاف کی مصلحت معلوم ہوتی ہے اور :
وجعلنا کم شعوباً وقبائل لتعارفوا ہم نے تمہارے گروہ اور قبیلے بنائے تاکہ تمہاری شناخت ہو۔
میں نے عرض کیا تھا کہ اقبال کے فلسفہ حیات کی روح توازن ہے۔ اقبال نے ہر شے کو خاص جگہ دے کر اور حدود و قیود میں محصور رکھ کر اپنے پیش کردہ نظام حیات میں توازن قائم کیا ہے۔ وطن دوستی اپنی جگہ مستحسن جذبہ ہے اس صورت میں قابلِ قدر ہے جب اپنی مقرر کردہ حدود سے آگے بڑھ کر بالاتر اور برتر جذبہ ملت پرستی سے نہ ٹکرائے۔ ٹکراؤ کائنات کے ہم آہنگ صد رنگ نظام کی روح کے منافی ہے۔ اس وسیع پہناور اور نا محدود فضا میں بے شمار سہارے اپنے اپنے محوروں پر گردش کر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی دوسرے کی حدوں میں قدم نہیں رکھتا۔
لاالشمس ینبغی لھاان تدرک القمر ولااللیل سابق النھار سورج چاند کا راستہ نہیں روکتا اور نہ رات دن سے آگے جانے کی کوشش کرتی ہے
قوم و ملت میں وہی نسبت ہونی چاہیے جو چاند اور سیارے میں ہے۔ قوم اپنے مرکز پر رہے اور ملت اپنے مرکز پر۔ دونوں اپنے اپنے دائروں میں رہیں۔ اپنے اپنے محوروں پر گردش کریں تو نظامِ حیات نظام شمسی کی طرح خطرے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ قومیت نے اپنے دائرہ سے نکل کر ملت کی حدود میں قدم رکھا یا نسل نے مذہب سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو اس کا انجام تباہی ہے۔
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی !
اڑ گیا دنیا سے تو ماند خاکِ رہ گزر
اقبال کا نقطۂ نگاہ عالمی ہے۔ ملک پر بھی ان کی نظر ہے اور ملت پر بھی۔ وہ نسل کو بھی دیکھتے ہیں اور اصل کو بھی۔ نظر کی یہ عالمیت، عمومیت، بلندی، اور بے باکی اقبال نے جہاں رنگ، نسبت سے برأت کی ہے:
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
وہاں مذہب کے اس تصور کو بھی مستحق نہیں سمجھا۔ جو انسان کو انسان سے جدا کرے۔
آنکھ میری اور غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو
اخوت اقبال کا مسلک ہے اور محبت اس کا ایمان۔
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
اخوت اور محبت انسانی رشتوں کی بنیاد ہے۔ ایک ملک کے باشندے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ یہ فطری جذبہ ہے،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے ملک کے باشندوں سے نفرت کی جائے۔ اسی طرح ایک عقیدہ رکھنے والوں میں بھائی چارہ ہوتا ہے۔ یہ تقاضائے فطرت ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ صحیح اور سچے مذہب کا ماننے والا ہرگز اس شخص سے نفرت نہیں کر سکتا جو خلوص کے ساتھ اس سے اختلاف کرے کیوں ؟ اس لیے کہ
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
انسانیت کا رشتہ ایک مُقدّس رِشتہ ہے جس کی عظمت کا اسلام بھی قائل ہے اور اقبال بھی۔ اقبال کی یہ دلی آرزو تھی.
سر میں جز ہمدردیِ انساں کوئی سودا نہ ہو
اقبال اس معنی میں آفاقی نہیں .
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمر قند
اور نہ اس معنی میں آفاقی ہے کہ وہ مسلمانانِ عالم کو قید مقام سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے.
نہ چینی و عربی وہ نہ رومی و شامی
سما سکا نہ دو عالم میں مردِ آفاقی
وہ اپنے وسیع بالاتر اور بلند تر نقطۂ نگاہ کے اعتبار سے آفاقی ہے۔ ملک و ملت کے رنگارنگ استوار رشتوں کے باوجود اقبال نے وحدت انسانیت کا خواب دیکھا۔ اس نے اپنے ملک کو بھی چاہا۔ اپنی ملت سے بھی لو لگائی اور انسان سے بھی استوار رہا۔ اس کے ثبوت میں اقبال کے آخری مجموعہ کلام ’’ضرب کلیم‘‘ کی جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا تھا۔ ایک چھوٹی سی نظم ’’مکہ اور جنیوا‘‘ پیش کی جا سکتی ہے۔ فرماتے ہیں :۔
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریق ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم
آخری شعر خاص طور سے غور کے قابل ہے:
مکہ نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام یا جمعیت آدم
اقبال مخلوق خدا کی کسی ایسی تقسیم کے قائل نہیں جس سے وحدتِ انسانی کی جڑ کٹے اور انسان انسان سے بچھڑ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹے۔ وطنیت سے جو جذبہ اقبال کے نزدیک ایک فطری جذبہ ہے محض اس بنا پر اقبال نے برأت کی تھی:
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
یہ امر ایک سیاسی بصیرت رکھنے والے کے لیے شاید دلچسپی کا باعث ہو کہ مخلوقِ خدا کی اس تفریق کا ذمہ دار اقبال کے نزدیک مغرب ہے۔ مغرب نے اوّل اوّل محدود قومیت کا سبق پڑھا کر ملت کو جو ایک اٹوٹ وحدت ہے، ٹکڑیوں میں بانٹا جس طرح قینچی سونے کے ٹکڑے کرتی ہے.
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
اور آخر آخر ملتوں میں پھوٹ ڈلوا کر وحدتِ انسانیت کو پارہ پارہ کیا.
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اقبال کی خار اشگاف نظر گہری عمیق، عام اور جامع تھی۔ اس نے حیات و کائنات کا حکیمانہ مطالعہ کیا۔ ذرّے ذرّے کا دل چیر کر حقیقت تک رسائی حاصل کی اس لیے اقبال کی شاعری میں وسعت بھی ہے۔ اور گہرائی بھی۔ اس کا پیغام عام ہے۔ اس کا خطاب کسی خاص ملکیت و ملت سے نہیں۔ دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والا انسان اس کا مخاطب ہے اس کی زبان بستہ رنگ خصوصیت نہیں۔ نوعِ انسان کی رہنما اور ترجمان ہے :۔
بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں۔ ۔ ۔ نوعِ انساں قوم ہو میری وطن میرا جہاں
خیابان اقبال ،پشاور،مرتبہ:محمد طاہر فاروقی ، خاطر غزنوی، ۱۹۶۶ء
٭٭٭
اقبال کی اُردو شاعری میں ہیئت کے تجربے
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا
ہم نے جہاں اُردو تنقید میں انگریزی سے بہت استفادہ کیا ہے، وہیں اس استفادے میں کچھ ٹھوکریں بھی کھائی ہیں۔ انگریزی میں ہیئت اور صنف دونوں کے لیے ایک ہی لفظ مستعمل ہے، اور وہ ہے فارم (Form) مگر اُردو میں ہیئت اور صنف کے الفاظ الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ بہت سے زود نویس نقادوں نے اکثر ہیئت اور صنف کو متبادل الفاظ سمجھ کر استعمال کیا ہے، حالانکہ یہ درست نہیں ، اور میں مضمون کے شروع میں ہی یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہیئت اور صنف دو الگ الگ اصطلاحیں ہیں۔ ہیئت کسی نظم کی ظاہری شکل و صورت کو کہتے ہیں ؛ جیسے مثلث، مربع، مخمّس، مسّدس، مثمّن، معشّر، ترکیب بند، ترجیع بند وغیرہ۔ اور یہ ساری شکلیں ، ترتیبِ قوافی سے پہچانی جاتی ہیں اور مواد یا موضوع کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف ’’صنف‘‘ کا مطلب نوع اور قسم وغیرہ ہے؛ جیسے غزل، قطعہ، قصیدہ اور رباعی وغیرہ۔ ہیئت کے مقابلے میں صنف ایک وسیع تر لفظ ہے۔ چنانچہ اصناف یعنی غزل، قصیدے، رباعی اور قطعے وغیرہ کو ظاہری شکل کے علاوہ بعض دوسری خصوصیات کی بنا پر بھی شناخت کیا جاتا ہے۔ حالانکہ غزل، قصیدہ اور قطعہ ظاہری شکل میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں مگر بعض داخلی خوبیوں کی وجہ سے اُنہیں الگ الگ اصناف کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہیئت ظاہری شکل ہے مگر صنف ظاہری شکل اور داخلی خصوصیات کا مجموعہ ہے۔
دوسری بات بھی، جسے میں شروع ہی میں واضح کر دینا چاہتا ہوں ، یہ ہے کہ کسی صنف میں تجربے سے مراد داخلی خصوصیات یا موضوع میں تبدیلی ہوتی ہے، ظاہری شکل میں تبدیلی نہیں۔ مثال کے طور پر غزل کی صنف میں موضوع اور اسلوب کے بہت سے تجربات ہوئے ہیں مگر اس کی ترتیبِ قوافی جوں کی توں قائم رہی ہے۔ اس کے برخلاف اگر ایک ہیئت میں تبدیلی کی جائے تو وہ فوراً کسی دوسری ہیئت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اقبال کے بارے میں ہم اکثر یہ سنتے آئے ہیں کہ ’’موضوع اور مواد میں وہ روایتی شاعری سے الگ ہٹے ہوئے ہیں مگر ہئیتوں میں اُنہوں نے روایت سے سر مو انحراف نہیں کیا۔ ‘‘ یہ بات درست نہیں ہے۔ ان کے ہاں متعدد نظمیں ایسی ملتی ہیں جن میں روایتی ہئیتوں کو ترک کر کے نئی ہیئتیں تراشی گئی ہیں ، مگر ان نظموں کی طرف آج تک کسی نقاد نے توجہ نہیں کی۔ اس معاملے میں آدھا قصور تو سطحی نظر سے پڑھنے والے اور آنکھ بند کر کے لکھنے والے نقادوں کا ہے اور آدھا قصور خود اقبال کا۔ کوتاہ اندیش نقاد تو شاید معذور ہیں لیکن اقبال بے چارے کسرِ نفسی کا شکار ہوئے ہیں :
نہ بینی خیر ازاں مردِ فرو دست
کہ بر من تہمتِ شعر و سخن بست
’’شاعری بحیثیتِ فن کبھی میرا مطمحِ نظر نہیں رہا۔ ‘‘
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
نغمۂ کجا و من کجا، سازِ سخن بہانہ ایست
سوئے قطار مے کشم ناقۂ بے زمام را
اس قسم کے بیانات سے اقبال کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان کے کلام میں شعری نفاستیں ہی تلاش کرتے نہ رہ جائیں کیونکہ اُنہیں احساس تھا کہ اُن کے ہاں فنی باریکیاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ اس خوف نے کہیں کہیں انکسار کی صورت بھی اختیار کر لی ہے اور اُنہوں نے اپنے کلام میں اپنے افکار کے مقابلے میں فنی اہمیت کو بہت گھٹا کر پیش کیا ہے، جس سے بے شمار لوگ گمراہ ہوئے ہیں۔ مگر میں یہ کہوں گا کہ اقبال اتنا ہی بڑا مفکر ہے جتنا بڑا فن کار اور فنکار اقبال اپنے افکار کو پیش کرنے کے لیے نئی نئی شعری شکلیں تراشتا رہا ہے۔
اقبال کے ہاں جن روایتی ہئیتوں کا استعمال زیادہ ہے، وہ مثنوی، مسدس اور ترکیب بند ہیں مگر ان روایتی ہئیتوں کے درمیان اقبال کی طبع زاد ہیئتیں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ ان نئی ہئیتوں میں سے بعض تو بالکل نادر ہیں مگر بیشتر پرانی ہئیتوں کے باہمی امتزاج یا جزوی ترمیم سے تراشی گئی ہیں۔
ہیئت کے تجربے سب سے زیادہ بانگِ درا میں ہیں۔ اس کی سترہ نظمیں روایتی ہئیتوں سے مختلف ہیں۔ بالِ جبریل میں ایسی نظموں کی تعداد سات ہے اور ضربِ کلیم میں آٹھ۔ ارمغانِ حجاز میں اُردو نظموں کا حصہ بہت کم ہے مگر اس میں بھی تین نظمیں ہیئت کے اعتبار سے تجربات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس طرح اقبال کے اُردو کلام میں بحیثیتِ مجموعی پینتیس نظمیں ہیئت کے تجربات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جن شاعروں کی کُل کائنات ہی ہیئت کے تجربات ہیں ، ان کے ہاں بھی غیر روایتی ہیٔتیں اس بڑی تعداد تک نہیں پہنچتیں۔
اب اقبال کے کلام میں ہیئت کے بعض تجربات پر ایک نظر ڈالیے۔ بعض اوقات اقبال کسی ایک نظم میں دو یا تین مختلف ہیئتوں کو جمع کر دیتے ہیں۔ مثلاً کہیں ترکیب بند اور مثمّن کو ملا دیا ہے، کہیں مثنوی اور مسّدس کا امتزاج کر دیا ہے، کہیں ایک ہی نظم میں مثنوی، ترکیب بند اور قطعے کو جمع کر دیا ہے۔ اس طرح کی چند نظمیں ملاحظہ ہوں۔
سب سے پہلے بانگِ درا کی نظم ’’غرّۂ شوال یا ہلالِ عید‘‘ ملاحظہ فرمایئے
غُرّۂ شوال اے نورِ نگاہِ روزہ دار
آ، کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
تیری پیشانی پہ تحریرِ پیامِ عید ہے
شام تیری کیا ہے، صبحِ عیش کی تمہید ہے
سرگذشتِ ملتِ بیضا کا تُو آئینہ ہے
اے مہِ نو! ہم کو تجھ سے اُلفتِ دیرینہ ہے
اسی طرح مثنوی کی سی ترتیبِ قوافی میں سات اشعار رقم کیے گئے ہیں۔ ساتویں شعر میں چاند سے یوں خطاب کیا گیا ہے:
اوجِ گردوں سے ذرا دُنیا کی بستی دیکھ لے
اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے
اس شعر کے بعد نظم کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہے اور مثنوی کی بجائے ترکیب بند کا ایک بند تحریر کر دیا گیا ہے:
قافلے دیکھ اور اُن کی برق رفتاری بھی دیکھ
رہروِ درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
دیکھ کر تجھ کو اُفق پر ہم لٹاتے تھے گہر
اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زُنّاری بھی دیکھ
بارشِ سنگِ حوادث کا تماشائی بھی ہو
اُمّتِ مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ
اور آخری شعر ہے:
صورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ، اور خاموش رہ
شورشِ امروز میں محوِ سرودِ دوش رہ
اس طرح نظم ’’بزمِ انجم‘‘ میں پہلے دو بند ’’ترکیب بند‘‘ کے انداز میں لکھے گئے ہیں اور آخری بند قطعے کی ہیئت میں ہے کیونکہ اس میں اختتامی بیت موجود نہیں ہے۔ اقبال کے ہاں ہیئت کو تبدیل کرنے کا ایک اور طریقہ بھی رائج ہے؛ وہ یہ کہ مثنوی کی ہیئت میں نظم لکھتے لکھتے جہاں خیال کی لہر میں تیزی آئی، وہاں ایک مسدس کا بند آ گیا۔ چونکہ مسدس کے بند کے پہلے چار مصرعوں میں چار قافیے یکے بعد دیگرے آتے ہیں ، اس لیے تیزی کا تاثر قافیے کی ترتیب سے بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس کی عمدہ مثال ’’گورستانِ شاہی‘‘ میں ہے جو مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے:
آسماں بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے
کچھ مکّدر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے
چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں
صبحِ صادق سو رہی ہے، رات کی آغوش میں
اس ترتیبِ قوافی میں بائیس اشعار کے بعد اچانک مسدس کا یہ بند آ جاتا ہے:
شورشِ بزمِ طرب کیا، عود کی تقدیر کیا
درد مندانِ جہاں کا نالۂ شبگیر کیا
عرصۂ پیکار میں ہنگامۂ شمشیر کیا
خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبیر کیا
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں
سینۂ ویراں میں جانِ رفتہ آ سکتی نہیں
نظم ’’ستارہ‘‘ کا پہلا بند بالکل مثمّن کا بند معلوم ہوتا ہے مگر دوسرا بند ترکیب بند کا ہے:
قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو
مآلِ حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو؟
متاعِ نور کے لُٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو؟
ہے کیا ہراسِ فنا صورتِ شرر تجھ کو؟
زمیں سے دور دیا آسماں نے گھر تجھ کو
مثالِ ماہ اُڑھائی قبائے زر تجھ کو
غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے
تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے!
دوسرے بند میں قافیے کی ترتیب کا اختلاف دیکھیے۔ مگر ذہن میں رہے کہ پہلے بند کے ابتدائی چھ مصرعے ہم قافیہ ہیں جبکہ دوسرے بند میں یہ صورت باقی نہیں رہی:
چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے
جو اَوج ایک کا ہے، دوسرے کی پستی ہے
اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اِک ولایتِ مہر
فنا کی نیند مئے زندگی کی مستی ہے
وِداعِ غنچہ میں ہے رازِ آفرینشِ گل
عدم عدم ہے کہ آئینہ دارِ ہستی ہے
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اب بانگِ درا ہی سے ایک اور نظم ملاحظہ فرمایئے۔ اس میں قافیوں کی ترتیب کا ایک نرالا تجربہ کیا گیا ہے۔ نظم کا عنوان ’’حسن و عشق‘‘ ہے۔ یہ نظم تین بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند سات مصرعوں پر۔ سات مصرعوں کا بند لکھنے کا رواج اُردو میں نہیں ہے۔ اور پھر ترتیبِ قوافی دیکھیے تو اور بھی نادر ہے۔ ہر بند میں چھ مصرعے (تین شعر) مثنوی کے انداز میں لکھے گئے ہیں اور ساتواں مصرع الگ۔ ہر بند کا ساتواں مصرع ہم قافیہ ہے:
جس طرح ڈوبتی ہے کشتیِ سیمینِ قمر
نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر
جیسے ہو جاتا ہے گم، نور کا لے کر آنچل
چاندنی رات میں مہتاب کا ہمرنگ کنول
جلوۂ طور میں جیسے یدِ بیضائے کلیم
موجۂ نکہت گلزار میں غنچے کی شمیم
ہے ترے سیلِ محبت میں یونہی دل میرا
تو جو محفل ہے تو ہنگامۂ محفل ہوں میں
حسن کی برق ہے تُو، عشق کا حاصل ہوں میں
تو سحر ہے تو مرے اشک ہیں شبنم تیری
شامِ غربت ہوں اگر میں ، تو شفق تُو میری
مرے دل میں تری زلفوں کی پریشانی ہے
تری تصویر سے پیدا مری حیرانی ہے
حسنِ کامل ہے ترا، عشق ہے کامل میرا
ان کے علاوہ بانگِ درا کی بعض اَور نظمیں ؛ مثلاً پرندے کی فریاد، گلِ پژمردہ، اخترِ صبح، نوائے غم، انسان، فلسفۂ غم، بزمِ انجم، ’’میں اور تُو‘‘ اور عرفی وغیرہ بھی ہیئت کے بعض تجربات کی وجہ سے قابلِ ذکر ہیں۔
بالِ جبریل میں ان تجربات نے ایک مختلف صورت اختیار کر لی ہے۔ اس میں اقبال نے بعض نظمیں کئی کئی حصوں میں لکھی ہیں اور ہر حصے کے ذیلی عنوان قائم کیے ہیں۔ مختلف حصوں میں نہ صرف ہیئت کا فرق نظر آتا ہے بلکہ ان کی بحر بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کا آغاز بانگِ درا کی ایک نظم ’’رات اور شاعر‘‘ سے ہوا تھا۔ اس نظم کے دو حصے ہیں۔ دونوں کے ذیلی عنوان ’’رات‘‘ اور ’’شاعر‘‘ ہیں۔ اگرچہ اس نظم میں ہیئت مثنوی کی اختیار کی گئی ہے مگر دونوں حصوں میں بحر مختلف ہے۔ رات یوں شاعر سے مخاطب ہوتی ہے:
کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تو پریشاں
خاموش صورتِ گل، مانندِ بُو پریشاں
مگر شاعر دوسری بحر میں یوں گویا ہوتا ہے:
میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانندِ سحر روتا ہوں
بالِ جبریل میں ’’لینن خدا کے حضور میں ‘‘، ’’فرشتوں کا گیت‘‘ اور ’’فرمانِ خدا‘‘ ایک ہی ڈرامائی نظم کے تین حصے ہیں۔ ان میں کہیں بحر مختلف ہے اور کہیں ہیئت۔ یہی کیفیت اُس نظم کی ہے، جس کے دو ذیلی عنوان ہیں : ’’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں ‘‘ اور ’’روحِ ارضی آدم ؑ کا استقبال کرتی ہے‘‘۔ پہلا حصہ قطعے کی ہیئت میں ہے اور دوسرا مخمس کی ہیئت میں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال ’’یورپ سے ایک خط اور جواب‘‘ کی ہے۔ ایسی نظموں میں ہیئتوں اور بحروں کی تبدیلی سے اقبال مختلف کرداروں کے مزاج کا فرق واضح کرنا چاہتے ہیں۔
بالِ جبریل کی دو اور نظمیں ایسی ہیں ، جن کا ذکر کیے بغیر موضوع تشنہ رہے گا۔ ایک نظم کا عنوان ہے ’’ایک نوجوان کے نام‘‘ بظاہر تو یہ نظم مسدس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کے دو بند ہیں اور ہر بند چھ مصرعوں پر مشتمل ہے، لیکن اس کے قافیوں کی ترتیب مسدس سے مختلف واقع ہوئی ہے:
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل؟
نہ زورِ حیدری تجھ میں ، نہ استغنائے سلمانی
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلّی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی
لہٰذا ترتیبِ قوافی کے لحاظ سے اُسے قطعہ کہنا چاہیے۔ اب دوسرا بند ملاحظہ ہو:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
یہ بند بھی ترتیبِ قوافی کے لحاظ سے قطعہ ہے۔ لیکن روایتی ہیئتوں میں کسی ایک نظم میں اوپر تلے ایک ہی بحر کے قطعات لکھنے کا رواج نہیں ہے۔ یہ طریقہ مسدس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے اس نظم کے بارے میں کہنا چاہیے کہ اس میں مسدس اور قطعے کی ہیئتوں کا امتزاج ہے۔
دوسری نظم کا نام ہے ’’فقر‘‘۔ اس نظم کے قافیوں کی ترتیب کا خیال اقبال کو شاید پنجابی شاعری کی بعض کتابوں سے ہوا ہے۔ مثلاً ’’ہیر وارث شاہ‘‘ میں ایک بند میں جتنے بھی مصرعے لکھے جائیں ، وہ سب آپس میں ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ اقبال نے قافیوں کا یہی انداز اس نظم میں اختیار کر لیا ہے۔ اُردو نظم میں قافیوں کی یہ ترتیب بھی موجود نہیں ہے:
اِک فقر سکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری
اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری
اِک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اِک فقر سے مٹی میں خاصیّتِ اکسیری
اِک فقر سے شبیری، اِک فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبیری
ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں بھی ہیئت کے یہ تجربے برابر ملتے ہیں لیکن ان کتابوں میں سے بالخصوص چند نظموں کا حوالہ کافی رہے گا۔ اقبال کے ہاں آہنگ اس قدر تند و تیز ہے کہ سارے اُردو ادب میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ ترانوں وغیرہ کی قسم کی نظموں کا ضروری جز آہنگ ہے۔ ایسا پُر جوش آہنگ جو پڑھنے والے کو بیدار کری۔ اس انداز میں اقبال نے دو نظمیں لکھی ہیں۔ ضربِ کلیم کی نظم ہے ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘:
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستاں ! اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
اونچی جس کی لہر نہیں ہے، وہ کیسا دریا
جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں ، وہ کیسا طوفان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں ، اپنا دین ایمان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
اس نظم کے ہر بند کو چار مصرعوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر بند کے پہلے دونوں مصرعے سات سات ارکان کے ہیں اور بعد کے دو مصرعے تین تین ارکان کے۔ اس نظم کے پانچ بند ہیں۔ ان پانچوں بندوں کے تین تین ارکان والے مصرعے ترجیع کے مصرعے ہیں۔ یعنی بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ پانچوں بندوں کے پہلے دو دو مصرعے آپس میں قطعے کی ہیئت رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ نظم مربع، قطعہ بند اور ترجیع بند کی ترکیب سے اختراع کی گئی ہے۔
ارمغانِ حجاز میں ’’مُلّا زادہ ضیغم لولائی کشمیری کا بیاض ‘‘ بھی قابلِ غور ہیں۔
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغانِ سحر تیری فضاؤں میں ہیں بے تاب
اے وادیِ لولاب
گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دیں بندۂ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
اے وادیِ لولاب
مُلّا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانۂ صوفی کے مئے ناب
اے وادیِ لولاب
اس نظم کے چھے بند ہیں۔ ہر بند تین مصرعوں کا ہے۔ تیسرا مصرعہ ترجیع کا ہے۔ ہر بند میں پہلے دونوں مصرعے چار رکنی ہیں اور تیسرا مصرع دو رُکنی ہے۔ یہ نظم ہیئت میں ’محراب گل‘ والی نظم سے ذرا آسان ہے مگر اسے بھی مثلث، قطعہ اور ترجیع بند کا امتزاج کہا جا سکتا ہے۔
اقبال کے دَور کے متوازی رومانی تحریک کا آغاز، ارتقا اور زوال ہوا۔ رومانی شاعر باغی ہوتا ہے، ماحول کا، نظریات کا اور روایات کا۔ اس لیے رومانی شعرا مروجہ ہیئتوں سے بھی بغاوت کرتے ہیں اور اپنے لیے نئی ہیئتیں تراشتے ہیں ، مگر رومانی شعرا عموماً آہستہ آہستہ ہیئت پرستی کی طرف مائل ہوتے رہتے ہیں۔ اُردو ادب میں بھی حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی وغیرہ شعرا کی رومانیت قیوم نظر، مختار صدیقی اور مجید امجد (۱) تک پہنچ کر ہیئت پرستی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مگر اقبال کے لیے ’’رومانی‘‘ کی اصطلاح بہت چھوٹی ہے۔ ان میں بیک وقت کلاسیکی تنظیم اور رومانی بغاوت ہے۔ وہ افکار کے اعتبار سے رومانیت سے ہٹ جاتے ہیں ، مگر ہیئت کے نئے پن میں رومانیوں سے ان کی سطحی مشابہت ضرور ہے اور یہ مشابہت واقعی سطحی ہے۔ اقبال ہیئت پر سوار ہیں اور رومانیوں پر ہیئت سوار ہے۔ اقبال اپنے افکار کے اظہار کے لیے ہیئت کو ظروف ساز کی مٹی کی طرح جدھر چاہتے ہیں ، موڑ دیتے ہیں ، جب کہ رومانی شعرا نئی نئی شکلیں بنا کر اُنہیں پوجنے لگتے ہیں۔ اقبال جیسے بُت شکن کا ہیئت پرستی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے! اقبال کے ہاں ہیئت کے جس تجربے کو بھی دیکھیں ، اس کا موضوع سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہو گا۔ اقبال کا نظریہ تھا:
کبک پا از شوخی ٔ رفتار یافت
بلبل از سعی ٔ نوا منقار یافت
یعنی زندگی ماحول کے مطابق نہیں ڈھلتی بلکہ ماحول کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اقبال نے اس کا ثبوت اپنی شاعری کے ذریعے یوں دیا کہ اُنہوں نے ہیئتوں کو اپنے افکار کے مطابق ڈھال لیا۔
اقبال بحیثیت شاعر، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۶ء
حواشی
۱۔ دوسری دفعہ پڑھنے پر محسوس کرتا ہوں کہ یہاں مجید امجد سے زیادتی ہو گئی ہے۔ ان کے ہاں ہیئت موضوع سے پوری طرح ہم آہنگ ہوتی ہے۔ (م۔ ز)
٭٭٭
اقبالِ عہد آفریں
ڈاکٹر اسلم انصاری
فنونِ ادب میں شاعری کی ہمہ گیر تاثیر کو ہر عہد میں تسلیم کیا گیا ہے، شاعروں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی پر بعض حیرت انگیز اثرات مرتب کیے ہیں ، اسی لیے شاعروں کو انسانی تمدن کے معماروں میں شامل کیا جاتا ہے، اثر انگیزی کے اعتبار سے شاعری کو بعض صورتوں میں موسیقی پر بھی فوقیت حاصل ہے، موسیقی کا اثر کیفیات تک محدود ہے، شاعری انسانی زندگی میں جس نوع کے تحولات پیدا کرنے پر قادر ہے، اس کی کوئی مثال موسیقی کی تاریخ میں شاذ ہی ملے گی، شاعری انسان کے فکر، جذبے اور تخّیل کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے، اور بعض اوقات ایک غیر معمولی محرک عمل کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے، دنیا کے تمام بڑے شاعروں نے اپنے عہد کو کسی نہ کسی طرح ضرور متاثر کیا ہے، شاعری کی فوری اثر انگیزی کی جو مثالیں تاریخ میں محفوظ رہی ہیں ، تاثیر شعر کے ثبوت میں بہت کافی ہیں ، مثلاً امیر نصر بن احمد سامانی، کا رودکی کے اشعار سے متاثر ہو کر اپنے وطن بخارا کی محبت میں بے قرار ہو جانا اور عرب شاعر میمون بن قیس کے کلام کا لوگوں کے لیے شہرت یا رسوائی کا باعث ہونا وغیرہ، لیکن بلند پایہ شاعری کے اثرات اس سے کہیں زیادہ دیر پا اور دور رس ثابت ہوتے ہیں ، فردوسی، سعدی، رومی اور حافظ کئی صدیوں سے اہل مشرق کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں ، بقولِ کارلائل اطالوی شاعر دانتے نے اپنے شعری شاہکار ’’طربیۂ ایزدی‘‘ کے ذریعے گیارہ گنگ اور بے زبان صدیوں کو زبان بخش دی۔ اکثر بڑے شعرا نے اپنے فکر تخیل اور حسنِ کلام کی بدولت انسانوں کے ذوق و شوق کے ساتھ ساتھ فکر و فن کو بھی متاثر کیا، نظامی عروضی سمر قندی نے شاعری کی جو تعریف وضع کی ہے، اس کی رو سے شاعری ان مقدماتِ موہومہ (متخیلہ) سے عبارت ہے۔ جن کے ذریعے چھوٹی چیز کو بڑا، اور بڑی چیز کو چھوٹا، اور اسی طرح خوب کو زشت اور زشت کو خوب دکھایا جا سکتا ہے، اسی لیے شاعری دنیا میں بڑے بڑے امور کے وجود میں آنے کا سبب بن جاتی ہے [وامورِ عظام را در نظامِ عالم سبب شود (۱) ] مشرق کے علمائے شاعری میں نظامی عروضی سمر قندی پہلا نقاد ہے جس نے ’’نظامِ عالم‘‘ میں ’’ امورِ عظام‘‘ کے اسباب میں شاعری کو بھی شامل کیا ہے، لیکن اس کی نظر میں بھی شاعری کے فوری اثرات ہیں جو قصیدہ گو شعرا بادشاہوں کی طبائع پر اپنی بدیہہ گوئی اور لطفِ کلام سے پیدا کر دکھاتے تھے، البتہ بعض متقدمین نے عرب قبائل کی اجتماعی زندگی میں شاعر کی اہمیت اور تاثیر کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (۲) لیکن شاعری کی تاثیرات معنوی کو آج کے علوم و انتقاد کی روشنی میں زیادہ صراحت اور قطعیت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے، یہ عکس حیات و نقد حیات ہی نہیں تخلیق حیات بھی ہے، اسی لیے تاریخ انسانی کے بعض عظیم تحولات کے پس منظر میں دوسرے بڑے عوامل کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کار فرما نظر آتی ہے، بیشک شاعری نے انقلاب برپا کر دکھائے ہیں ، لیکن دنیا میں بہت کم شعرا ایسے گذرے ہیں جنھیں ہم شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی طرح صحیح معنوں میں ’ عہد آفریں ‘ شاعر کہہ سکیں۔
یوں تو دنیا کے اکثر بڑے شعرا اپنے عہد کی زندگی پر اثر انداز ہوئے ہیں ، لیکن شعر اقبال نے بیسویں صدی میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر جو گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عصرِ حاضر کے مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ کی تشکیل میں جو اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مثالیں نایاب نہیں تو کم یا ب ضرور ہیں ، اقبال کے فکر و فن نے تاریخ، سیاست اور ادب پر یکساں طور پر اثرات چھوڑے ہیں ، انھوں نے اُردو شاعری میں ایک ایسی روش اختیار کی جس کی کوئی مثال اس سے پہلے موجُود نہیں تھی، اُنھوں نے شاعری میں تاریخی شعور کو شامل کر کے زندگی اور شاعری دونوں کے آفاق کو حیرت انگیز طور پر وسیع کیا، انھوں نے اردو شاعری کو اس رفعت و شکوہ سے آشنا کیا جو دنیا کی بہت کم زبانوں کے حصے میں آسکے ہوں گے، انھوں نے اردو نظم و غزل پر فکر، خیال، جذبے اور اظہار کے یکسر نئے ابواب وا کر دئیے، وہ اپنے ساتھ ایک نیا طرز فکر اور نیا طرز احساس لائے، اس فکر و احساس کی جڑیں تو ماضی کی علمی، ادبی اور تہذیبی روایات میں تھیں ، لیکن اس کا دامن زندگی کے نئے سے نئے تجربے کے لیے وا تھا، اقبال نے اُردو شاعری کی لفظیات میں ایک عظیم تغیر پیدا کر دیا، اور شعری معنویت کے رشتے عصری حقائق اور تاریخ و تہذیب کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ استوار کر دئیے، انھوں نے شاعری کو فلسفہ اور فلسفے کو زندگی عطا کی اور مغربی افکار کے مقابلے میں مشرقی فکر کے حیات بخش عناصر کو اس طرح نمایاں کیا کہ اس سے مشرق اور مغرب دونوں کو نئی روش میّسر آسکے۔ انھوں نے شاعری کو استدلال دیا اور استدلال کو منطق کے بے جان کلیوں سے نکال کر زندگی کی حقیقتوں کے قریب لے آئے، شعری معنویت کے جن نئے امکانات کو انھوں نے اپنی شاعری میں منکشف کیا، وہ صرف اردو شاعری ہی نہیں ، پوری دنیائے ادب میں کم نظیر ہیں ، اقبال نے مشرقی ادب کی تاریخ میں شاید پہلی بار یہ تصّورِ شعر پیش کیا کہ شاعری مقصُود بالذات نہیں ، بلکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مقاصدِ عالیہ کی تشریح و تکمیل کا ایک موثر ذریعہ ہے، لیکن شاعری کو ایک وسیلہ یا ذریعہ قرار دینے کے باوجود انھیں نے شاعری کو فکر و تخیل اور اسلوب بیان کی جن بلندیوں سے آشنا کیا، انھیں اُردو شاعری میں یکسر ایک نئے جہان معنی کے انکشاف کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو شاعر ی اور برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں بنیادی اور اصولی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں ، وہ ایک نئے جہان معنی کے پردہ کشا اور ایک نئے آہنگ شاعری کے علمبردار تھے،انھوں نے اردو شاعری کو فکر و خیال اور اسلوب و آہنگ کی اس بلندی سے مالا مال کیا جسے صدیو ں پہلے ایک رومی نقاد لان جائی نس (Longinus) نے ’’ارفعّیت‘‘ (Sublimity) سے تعبیر کیا تھا۔ اس ارفعیت نے شعر و ادب کو نئی جہتیں عطا کیں ، اور بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک نیا تاریخی، علمی، انسانیاتی تخلیقی اور سیاسی شعور عطا کیا۔ انھوں نے شاعری کو ایک ایسی علمی جہت عطا کی جو کلیتہً کم نظیر تھی، انھوں نے ثابت کر دیا کہ عصر حاضر میں ایک بہت وسیع اور رچے ہوئے علمی شعور کے بغیر بلند پایہ شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔ انھوں نے شاعری کو علم کی وسعت کے ساتھ مشروط کر دیا اور عصر حاضر کی علمی صداقتوں کو اس فنی شعور کے ساتھ شاعری میں لے آئے کہ علم و فنون کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہ رہا۔ چھٹی صدی ہجری میں صاحب چہار مقالہ نے شاعری کو نظامِ عالم، میں جن امور عظام، کا سبب قرار دیا تھا وہ چودھویں صدی ہجری میں اقبال کی شاعری کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے۔
اقبال نے شاعر کی زبان کو بالخصوص اور علم و ادب کی زبان کو بالعموم ایک نئی تبدیلی سے روشناس کیا۔ اُردو زبان کو علمی طور پر جو قو ت سرسید اور ان کے رفقا نے عطا کی تھی، شاعری میں اس کا اثر ابھی اتنا نمایاں نہیں تھا۔ اگرچہ مولانا حالی نے شاعری کی زبان کو بہت حد تک تبدیل کیا، لیکن حالی کی زبان مجموعی طور پر کس نئی لسانی تشکیل کے مترادف نہیں تھی۔ اقبال نے زبان میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس پیدا کیا۔ اور اپنی شاعری کے ذریعے ایک ایسی شعری زبان تخلیق کی جو مستقبل کی علمی اور ادبی ضرورتوں کے علاوہ معاشرتی اور عمرانی تبدیلیوں کا ساتھ بھی دے سکتی تھی۔ اقبال نے اپنی لسانی تشکیل کی بنیاد محاورے اور قدیم تلازمات کی بجائے زبان کے فطری علم پر رکھی۔ اس نئی شاعرانہ زبان میں محسوسات اور خیالات (مجردات) کے ساتھ ساتھ خارجی حقائق کو بیان کرنے کی بھی پوری پوری صلاحیت تھی، اس کے باوجود یہ زبان علم و ادب کی قدیم روایات سے یکسر منقطع نہیں تھی۔ عصر حاضر کی تمام بڑی شعری تحریکات میں اقبا ل کے اثر کو کسی نہ کسی صورت میں ضرور کار فرما دیکھا جا سکتا ہے۔
اقبال سے پیشتر اردو میں بلند پایہ شاعری کے تمام تر اجزا غزل ہی میں ملتے ہیں۔ اقبال کے شاعرانہ نبوغ نے نظم کو غزل کے علاوہ دوسری تمام شعری اصناف کا ہم پلہ بنا دیا۔ اگرچہ اردو نظم اقبال سے پہلے وجود میں آ چکی تھی لیکن Poemکے معنوں میں نظم کا جدید تصور اتنا واضح نہیں ہوا تھا۔ بلکہ نظم اپنی ہیئتوں سے پہچانی جاتی تھی، مثلاً قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، ترکیب بند، ترجیع بند، مسدس مخمس رباعی اور قطعہ وغیرہ، البتہ قدیم شاعروں میں نظیر اکبر آبادی ضرور ایک ایسے شاعر ہیں جو ان تمام ہیئتوں کو نظم یا Poem کے جدید تصور کے قریب لے آئے تھے، اسی لیے ان کی نظموں میں اصل اہمیت ہیئت کی نہیں بلکہ موضوع اور اس سے متعلق جذبات و احساسات کی ہے، یعنی نظیر کی نظم کے مختلف النوع اجزاء میں ایک ایسی تعمیر اتی وحدت ضرور پیدا ہو جاتی ہے جو نظم کا اصل فنی تقاضا ہے، یہی وجہ ہے کہ سودا کے قصائد یا میرحسن کی مثنویات کو ان معنوں میں نظم نہیں کیا جا سکتا جن معنوں میں نظیر کی نظمیں ، نظمیں کہلاتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اردو میں نظم کے جدید یا مغربی تصور کو رائج کرنے کا سہرا حالی اور آزاد کے سر ہے، جنہوں نے انجمن پنجاب کے زیر اہتمام جدید مشاعروں کی بنیاد ڈالی، ان مشاعروں نے جدید نظم گوئی کے رجحان کو جس پر جوش ادبی تحریک کی ضرورت دے دی، اس کے روح رواں خود حالی اور آزاد تھے، جنہیں ہر حال میں جدید نظم کے اولیں معمار تسلیم کیا جانا چاہیے۔ حالی اور آزاد نے جدید نظم کو اس کا ابتدائی فنی تصور دیا، اس ابتدائی فنی تصور میں نظم کے لیے موزوں ترین ہیئت مثنوی ہی کو خیال کیا گیا، لیکن اقبال کی شاعری نے اردو نظم کی دنیا میں ایک حقیقی انقلاب برپا کر دیا۔ جس طرح مرزا غالب نے اردو غزل کو آفاقی شاعری کا لب و لہجہ عطا کیا تھا۔ اسی طرح اقبال نے بھی بیک جست اردو نظم کو دنیا کی بلند پایہ شاعری کا ہم عنان وہم زبان بنا دیا، اس کارنامے میں اردو کا کوئی اور شاعر ان کا شریک نہیں ہے،اردو نظم جو ابھی یک رخی، سادہ اور نقشِ معریّٰ تھی، اقبال کے ہاتھوں پہلو دار پیچیدہ اور رنگین بن گئی۔ اقبال نے نظم کو بیان واقعہ کی سادہ اور مستقیم صورت حال سے نکال کر اسے جذبے اور تخیل کی پیچیدہ تر صورت حال سے آشنا کیا، اور نظم کے اجزا کو فنی تہ داری کے ساتھ سہ البادی بنا دیا۔ نظم جو اقبال سے پیشتر ایک حرفِ سادہ تھی۔ اقبال کے جوہرِ تخلیق کی بدولت ایک ایسا نغمہ بن گئی جس میں حیات و کائنات کی کئی صداقتوں کو سمو دیا گیا تھا۔ اقبال نے نظم کو خط مستقیم کا مسافر ہونے کی بجائے نغماتی تحرک اور آہنگ کے خم و پیچ سے آشنا کیا۔ اور نظم کو ایک بیج کی طرح نقطۂ آغاز سے بڑھنا اور پھلنا اور پھولنا سکھایا، اردو نظم پہلی بار اقبال ہی کے ہاں نامیاتی وحدت کے طور پر رونما ہوئی جس میں تعمیراتی وحدت کا حسن بھی موجود ہے۔ اقبال سے پہلے کی نظم، وہ جو کچھ بھی تھی، صرف خارج کی ترجمان تھی، اور شاعری کی لطافت اور وسعت سے بہت حد تک عاری تھی اقبال نے اسے خارج کے ساتھ ساتھ داخل کی دنیا سے بھی آشنا کیا اور اسے ان شعری لطافتوں سے بھی مالامال کیا جن کے بغیر شاعری، شاعری کہلانے کی حق دار نہیں ہو سکتی، اسی طرح اقبال نے نظم کو ایک ایسا ڈکشن عطا کیا جو اگرچہ بہت حد تک روایت کے ذخیروں سے مستفاد تھا تاہم وہ بہ حیثیت مجموعی زندگی کی نئی حقیقتوں کی ترجمانی کی صلاحیت بھی رکھتا تھا اور ایک نئے طرز احساس کا حامل بھی تھا، یہی وہ حقیقت ہے جسے اقبال کے اولیں مبّصر سر عبدالقادر نے ان کی اولیں مقبول نظم، ہمالہ، پر تبصرہ کرتے ہوئے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں ‘‘ انگریزی خیالات سے مراد مغربی افکار نہیں بلکہ ایک نیا طرز احساس ہے جو وجود میں نہ آتا اگر اقبال مغربی افکار اور انگریزی شاعری کی اسالیب سے متعارف نہ ہوتے۔ اقبال کے زیر اثر اردو نظم نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہمہ گیر ادبی تحریک کی صورت اختیار کر لی، نظم گوئی اور نظم نگاری کی جو متنوع صورتیں جوش ملیح آبادی،سیماب اکبر آبادی، ساغر نظامی، اختر شیرانی، احسان دانش اور اسی عہد کے دوسرے شعرا کے ہاں نمودار ہوئیں ان سب کا رشتہ کسی نہ کسی شکل میں اقبال کے فنِ نظم سے جاملتا ہے۔ اگرچہ نظم کے لے مسدس کی ہیئت کا احیا مولانا حالی نے کیا، لیکن یہ اقبال کی نظمیں شکوہ اور جوابِ شکوہ تھیں جن کی حیران کن مقبولیت نے مسدس کو نظم کی ایک مصدقہ ہیئت بنا دیا تھا۔ اسی طرح اقبال نے نظم کو جو رفعت خیال اور لہجے کا شکوہ عطا کیا تھا۔ اس نے بھی نظم کے لیے ایک مروجہ اور معیاری لہجے کی حیثیت اختیار کر لی تھی، گویا اقبال نے اردو نظم میں ایک پورے عہد کو جنم دیا۔ اور اردو نظم کی تاریخ پر بہت گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے۔ لیکن نظم کے عناصر ترکیبی میں جلال و جمال اور فکر و غنائیت کا جو خوبصورت امتزاج اقبال نے پیدا کیا، اس کی تقلید ایسی آسان نہ تھی، لیکن اقبال کے اثرات اس کے باوجود ہمہ گیر تھے، اور ان اثرات کی یہی ہمہ گیری تھی جس نے اقبال کے طرز کو واضح طور ایک دبستان نہ بننے دیا، وگرنہ جدید شاعری پر اُن کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے تو بیسویں صدی کی اُردو شاعری کا ایک معتدبہ حِصّہ ’دبستانِ اقبال‘ کی شاعری کہلانے کا مستحق ہے۔
کچھ ایسی ہی قلبِ ماہیئت اقبال نے اردو غزل کی بھی کی، جس کی تاریخ نظم کی تاریخ سے کہیں طویل اور تہ دار تھی۔ غزل جس کی رمزیات کے رستے ہمارے تمدن کی تاریخ میں بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں ، دنیا کی ایک انوکھی اور منفرد طرز شاعری ہے جس میں الفاظ لازمی طور پر تہ دار معنویت کے حامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تلازمانی رشتوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ غزل کی اشاریت و رمزیت اور غنائیت و لطافت نے اسے ہر عہد کی مقبول ترین صنف سخن بنائے رکھا ہے، اس صنف شاعری میں ، جس میں عمومیت کے امکانات ہر حال میں موجود رہتے ہیں ، ایک انفرادی لب و لہجہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا اسلوب پیدا کرنا غیر معمولی شاعرانہ صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اقبال نے غزل میں ابتدائی طور پر جس شاعر سے اثر قبول کیا، اس کے اسلوب کا طرہ امتیاز ہی زبان تھا، یعنی داغ جو لہجے کی کاٹ اور زبان کے معاشرتی اطلاقات کے اعتبار سے اپنے استاد ذوق سے بھی کچھ آگے ہی نظر آتے ہیں۔ اقبال نے آغاز میں اپنے استاد ہی کے لسانی دبستان کی پیروی کی، لیکن اُن کی ابتدائی غزلیں جن پر روایتی غزل اور داغ کی زبان کا رنگ نمایاں ہے، اس حقیقت کی طرف ضرور اشارہ کرتی ہیں کہ اقبال زبان کے روایتی سانچوں کو نئی اطلاقی صورتوں میں برتنے کے خواہاں ہیں داغ سے انھوں نے زبان پر ماہرانہ گرفت حاصل کرنے کا ہنر ضرور سیکھا، اور وہ ارتجال و بداہت (Spontaneity) جو داغ کی شاعری میں روانی پیدا کرتی ہے، اقبال کے ہاں اسلوب بیان پر کامل گرفت کی صورت اختیار کر گئی۔ لیکن اقبال کی یہ کامل گرفت صناعانہ سے زیادہ خلاقانہ ہے جس کی بدولت انھوں نے اردو غزل کو ایک نیا انبساط، ایک نئی وسعت خیال اور فکر کی ایک نئی جہت عطا کی۔ اس نئے اسلوب غزل میں ، جو اقبال کی اختراعی صلاحیتوں کا رہین منت ہے، اقبال نے غزل کے تمام اشارات اور رموز و علائم کی ماہیت کو بدل کر رکھ دیا۔ غزل کا من و تو، جو صرف عاشق و معشوق کی طرف اشارہ کرتا تھا، نئی سے نئی انسانی صداقتوں کا آئینہ دار بن گیا۔ غزل کا’ میں ‘ (من) جو صرف ایک ناکام عاشق تھا، اقبال کی غزل میں عشق جلیل کا نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کا انسان بن گیا جو کائنات کے حسن کا معترف بھی ہے، اور اس کی قوتوں کا حریف بے باک بھی ؛یہ دہ ہے جو آدم اور ابن آدم دونوں کی نمائندگی کا حق ادا کرتا ہے یہ ’میں ‘ مشرق کی انا بھی ہے، اور اسلامی تمدن کا نفس ناطقہ بھی، اسی واحد متکلم میں مشرق و مغرب کے انسان کی درماندگیاں بھی سمٹ آئی ہیں اور نوعِ انسانی کے تخلیقی امکانات بھی؛ واحد متکلم کے مطالب کی یہی بوقلمونی اور وسعت ہے جو اقبال کی غزل کو عصر حاضر کے انسان کا نغمہ تخلیق بنا دیتی ہے۔ اقبال نے غزل کو ایک نئی جغرافیائی دُنیا عطا کی، جس کی وسعتوں میں کوہِ الومذ و کوہِ دماوند سے لے کر ساحل نیل و خاک کاشغر سمٹے ہوئے ہیں۔ یہ دنیا بیک وقت اسلامی مشرق کی دنیا بھی ہے، اور عصر حاضر کے انسان کی رزم گاہ فکر و تخیل بھی۔ اقبال نے غزل کو دائروں میں تکرار کرتی ہوئی زبان کی بجائے ایک ایسی زبان دی جو آگے کی طرف پھیلتی اور حرکت کرتی ہے، خیال کی اس پیش قدمی (Progression) نے غزل کی زبان کی قدیم گچھے دار صورتوں کو توڑ کر شعری زبان کا ایک نیا سانچہ تیار کیا۔ اقبال نے غزل میں الفاظ کی مرتکز تہ داری (Concentrated Centrality) کی بجائے الفاظ کی نامیاتی پیش رفت (Progressive Organic Growth) کو اہمیت دی، اور یوں اردو غزل کو لسانی اور فکری پھیلاؤ کی نادر فنی صورتیں میسر آئیں۔ اقبال نے اردو غزل کو لہجے کی تازگی، فکر کی بلندی، جذبے کی سچائی اور خارجی کائنات سے ایک نئی نسبت عطا کی، اردو غزل جو اپنے تکراری پیمانوں کی بدولت ایک جوئے تنک آب بن کر رہ گئی تھی اور جس میں عشق و عاشقی کے فرسودہ کھیل اور بے مایہ صوفیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہا تھا، اقبال کی بدولت ایک دریائے تند و تیز بنی، جس نے عصر حاضر کی تمام صداقتوں کوسینے سے لگایا اور انھیں ایک نئے نظامِ علائم میں منتقل کر دیا۔
ایلیٹ نے کہا ہے کہ ہر بڑا شاعر ناگزیر طور پر اپنے لیے ایک نیا اسلوب شاعری تخلیق کرتا ہے جو اس کی تخلیقی وار دات کو بیان کر سکے، یوں شاعری میں ایک نئے معیار اور شاعری کی تعریف میں ایک نئے عنصر کا اضافہ ہوتا ہے اور ہمیں (یعنی نقادوں کو) شاعری کے مجموعی تصور میں تبدیلی اور شاعری کی تنقید کے معائیر میں ردّ و بدل کرنا پڑتا ہے۔ اردو شاعری میں غالب اور اقبال نے یقیناً ایسا ہی کیا، انھوں نے اپنے لیے نئے اسالیب شاعری کی تخلیق کی، اردو شاعری کے مروجہ اسالیب و تصورات کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا، جب اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تو اردو میں حالی اور آزاد کی بدولت قومی اور فطرت پسندی کی شاعری وجود میں آ چکی تھی۔ اس روایت کو آگے بڑھا کر عظیم آفاقی شاعری کی وسعتوں اور عظمتوں سے آشنا کرنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس کے لیے اقبال جیسے خلاق شاعر کا فکر و تخیل درکار تھا، جس میں گندگی کی بڑی سے بڑی صداقت بھی آسانی کے ساتھ طرز جلیل کی بلاغت اور شاعرانہ لطافت و نغمگی کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اقبال نے اردو شاعری کو زبان و بیان اور فکر و تخیل کے اعتبار سے جو کچھ دیا، اس کی بدولت پوری اردو شاعری دو حصوں میں منقسم نظر آتی ہے، ایک وہ جو اقبال سے پہلے تھی اور ایک وہ جو اقبال کے بعد صورت پذیر ہوئی۔
فکرِ مجرد کو شاعری سے ہمیشہ بعد رہا ہے، اس لیے فکر مجرد اپنی مصدقہ صورتوں کو منطق کے سانچوں میں ظاہر کرتی ہے۔ جب کہ شاعری تخیل کی آزاد پرواز سے وجود میں آتی ہے، اسی لیے شاعری کی ابتدائی تعریفوں میں فکر (Thought) کو شاعری کے عناصر ترکیبی میں شامل نہیں کیا گیا۔ اگر فکر و تخیل کی اس لفظی نزاع سے قطعِ نظر کر لیا جائے۔ اور ان میں بعد المشرقین تسلیم کرنے پر زور نہ دیا جائے تو اس حقیقت کو پہچاننے میں زیادہ دقت پیش نہیں آسکتی کہ شاعری بھی فکر کا ایک منفرد اسلوب یاسانچہ ہے، جو منطق سے مختلف ضرور ہے، لیکن منطق اور اس شاعرانہ تفکر میں ضدین کا رشتہ نہیں ، بلکہ ایک ہی قوت کے اظہار کے دو مختلف پیرائے ہیں البتہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی کو تامل نہیں ہو سکتا کہ منطق فکر کی تنظیم ہے اور شاعری فکر کی تخلیقی حرکت ہے۔ بہر حال فلسفہ (جو فکر کے منطقی لوازمات سے مشروط ہے) اور شاعری کو کبھی ایک نہیں سمجھا گیا یہ اور بات ہے کہ دنیا کی عظیم شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ فلسفیانہ فکر کی دولت سے مالامال ہے، اس کے باوجود اگر ہم دنیا کے بڑے شاعروں کو فلسفی یا مفکر کہیں تو یہ زیادہ مجازاً ہو گاحقیقتاً نہیں ، جب کہ اقبال دنیا کے وہ منفرد شاعر ہیں جو فی الحقیقت ایک مفکر بھی ہیں ، اور انھوں نے فلسفے کے فکر بارد کو جس طرح شاعری کے تخیل رنگیں اور جذبہ گرم کے ساتھ پیوند کیا ہے، اس کی صورت عالمی ادب میں صرف جرمن شاعر گوئٹے یا اقبال کے عظیم پیش رو غالب کے ہاں نظر آتی ہے (اقبال نے غالب اور گوئٹے کی مشابہتوں پر خود بھی بہت زور دیا ہے) ، البتہ غالب کے بر عکس اقبال کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ (اقبال ) فلسفیانہ افکار کو تمثیل اور استعارے کی بجائے راست انداز میں بھی بیان کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے ہاں تمثیل واستعارے کا پردہ موجود نہیں ، بلکہ وہ جب چاہتے ہیں تمثیل و استعارہ کو چھوڑ کر راست انداز بیان اختیار کر لیتے ہیں ، اور اس کے باوجود ان کے ہاں شعریت کی سطح برقرار رہتی ہے۔ اقبال کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے شاعری کے اجزائے ترکیبی میں سنجیدہ تفکر کا اضافہ کیا اور میتھیو آرنلڈ کے الفاظ میں شاعری کو نقدِ حیات کا ذریعہ بنایا۔ تنقیدِ حیات اور سنجیدہ تفکر کی اس خوبی نے اقبال کو بیک وقت ایک عظیم مفکر، تہذیب و تمدن کا ایک نقاد اور ایک معلّمِ حیات بنا دیا۔
اگر تاریخ فلسفہ کے مغربی مولفین اور مورخین کے معیار تدوین کو آخری اور قطعی نہ سمجھا جائے تو اقبال کو جدید فلسفے کی تاریخ میں بھی ایک اہم مقام ملنا چاہیے۔ یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے کہ تاریخ فلسفہ کے مغربی مولفین نے مسلمان مفکرین کے افکار کو انسانی فکر کی تاریخ کا حصہ کبھی نہیں سمجھا۔ وہ سٹوری آف فلاسفی، کے مولف ول ڈیورانٹ ہوں یا تاریخ فلسفہ کے مولف اسٹیس،مسلمان فلسفیوں کے خیالات یا فلسفیانہ نظاموں کو انسانی فکر کے رواں دھارے میں شامل نہیں سمجھتے اور اپنی تاریخ فلسفہ میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ، یہاں تک کہ غزالی، ابن رشد، ابن عربی، ابن خلدون، بوعلی سینا اور فارابی جیسے عظیم الشان مفکرین اور معلمین کو بھی انسانی فکر کے ارتقا کی تاریخ میں چنداں اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جاتا، اس لیے اگر اقبال کو عصر حاضر کے فلسفیوں میں شامل نہیں کیا جاتا تو اس میں حیرت کی بات نہیں ، عام طور پر فلسفہ کے مغربی مورخین اپنی تالیفات کو مغربی فکر کی تاریخ تک محدود رکھتے ہیں ، اور اپنے موضوع کی حدود کو اپنے اس رویے کا جواز بناتے ہیں ،لیکن وہ تالیفات جو مغربی فکر کی تاریخ، تک محدود نہیں رکھی جاتیں ان میں بھی مسلمانوں کے افکار کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ بہر حال بیسویں صدی کے مفکرین میں اقبال اصولاً ایک امتیازی مقام کے مستحق ہیں۔ اس لیے کہ انھوں نے جدید فلسفے کے ارتقائی عمل کی آخری کڑی کو مکمل کیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی فلسفی کے تمام تر خیالات کلی طور پر طبع زاد نہیں ہوتے۔ ہر فلسفی اپنے خیالات کا تانا بانا اپنے پیش روؤں کے خیالات اور فلسفے کے مسلمات سے تیار کرتا ہے۔ افلاطون یا ہیگل جیسے فلسفی دنیا میں چند ایک ہی ہیں جنہوں نے انسانی فکر کی کایا پلٹ دی ہو یا ایسا نظام فکر پیش کیا ہو جس میں متقدمین و معاصرین سے استفادہ نہ ہونے کے برابر ہو۔ اسی لیے کسی بھی قابل ذکر یا بڑے فلسفی کی اصل اہمیت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانی فکر میں کسی نئے تصور کا اضافہ کر دے۔ اس اعتبار سے اقبال کا شمار یقیناً عصر حاضر کے بڑے فلسفیوں میں ہونا چاہیے کہ انھوں نے فلسفے کو ایک نئی مابعد الطبعیاتی تعبیر کا مواد فراہم کیا اور انسانی فکر کی تاریخ میں ’خودی ‘یا ’انا‘ کی تخلیقی فعلیت کو اس قدر شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا۔ یہ کہنا تو مبالغہ ہو گا کہ اقبال سے پہلے خودی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال سے پیشتر کسی مفکر نے اپنے فلسفے کی اساس خودی یا انا کی تخلیقی فعلیت کے تصور پر نہیں رکھی، اگرچہ اس تصور کے آثار ہمیں مغربی فکر کی تاریخ میں کانٹ ہی سے ملنا شروع ہو جاتے ہیں ، اسپینوزا کا تصور ارادہ بھی انا کی تخلیقی فعلیت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے، برگسان کا عقلِ تجربی یا عقل منطقی کے مقابلے میں وجدان کو اہمیت دنیا بھی اسی رجحان کا آئینہ دار ہے، لیکن مغربی فلسفے کے اس میلان یا رجحان کی منطقی تکمیل اقبال کے تصور خودی ہی میں ہوتی ہے، اسی طرح اقبال نے اسلامی تصورات کے حوالے سے زندگی اور کائنات کی روحانی اور اخلاقی تعبیر کا جو منہاج استوار کیا ہے، وہ انھیں عصر حاضر میں ایک مابعد الطبعیاتی مفکر کے طور پر ضرور خصوصی اہمیت کا حامل بناتا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات میں اقبال نے مذہب،فلسفہ اور سائنس کے درمیان مشترکہ اقدار اور خصوصیات تلاش کرنے اور انھیں بہت حد تک ہم آہنگ کرنے کی جو سعی کی ہے، وہ بھی بذاتِ خود کم اہمیت کا کارنامہ نہیں ہے ان کی یہ سعی انھیں مذہبی مفکروں کی صف میں بھی ممتاز کرتی ہے۔ اور اسلامی فکر کی تاریخ میں اُنھیں غیر معمولی امتیاز بھی عطا کرتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ مشرق میں ان کے افکار و خیالات کی اصل اہمیت اور قدر و قیمت زیادہ تر اسلامی فکر کے حوالے سے ہے، اور یہ حوالہ ایسا ہے جو انھیں غالباً دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھا۔ اسلامی مشرق میں ان کا اصل کارنامہ قدیم افکار کی تنقیح اور انتخاب کے علاوہ عصر حاضر کے اسلامی تفکر کے لیے بعض اساسی خطوط فراہم کرنا ہے۔ ان کے تفکر نے مسلمانوں کے فکر کے لیے مہمیز کا کام دیا ہے، اس میں شک نہیں کہ ان کے بعد اسلامی مشرق کو ابھی تک ان سے بڑا یا ان جیسا کوئی مفکر نصیب نہیں ہوا لیکن تفکر کے جس عمل کو انھوں نے جاری کیا ہے اسے ایک عظیم فکری کارنامے سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا جن عوامل نے جدید دنیا میں اسلامی تمدن کے احیا اور اسلامی تفکر کی پیش رفت کو ایک ہمہ گیر تحریک کی صورت دے دی ہے ان میں اقبال کے فکر اور شاعری کو اولین اور موثر ترین حیثیت حاصل ہے۔ مشرق اور اسلام سے محبت اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی آرزو کو اقبال نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک طرزاحساس اور نصب العین بنا دیا ہے ان کے عہد آفریں شاعر اور مفکر ہونے کے لیے اس سے بڑی شہادت کیا ہو گی کہ ان کا فکر عصر حاضر کے مسلمانوں کے طرز فکر اور طرز احساس کی اساس بن گیا ہے۔
اقبال نے شاعری کو ایسے علوم و فنون کا حوالہ بنا دیا ہے، جن کے بغیر عصرِ رواں میں انسانی زندگی کی کوئی تشریح یا تعبیر مکمل نہیں ہو سکتی، فلسفہ جو ہمارے قدیم مکتبوں میں اشارات بو علی سینا، شمس بازغہ یا سلم العلوم تک محدود تھا، اقبال اسے عملی زندگی کی بساط پر لے آئے اور ثمریت یا نتائجیت کا ایک ایسا منہاج پیدا کیا جو بیک وقت تصوریت یا عینیت (Idealism) اور حقیقت پسندی (Realism) کا ایک متوازن امتزاج پیش کرتا تھا۔ انھوں نے برصغیر کی علمی دنیا میں فلسفے کے آفاق کو ایک طرف مولانا روم، بیدل، عراقی اور مجددِ الف ثانی تک اور دوسری طرف برگساں ،وہائٹ ہیڈ، نطشے اور گوئٹے تک وسیع کیا اور مسلمانوں کے لیے نیزانسانی فکر کے ارتقا کے ہرسنجیدہ طالب علم کے لیے مسائل و معارف کا ایک ایسا تناظر (Perspective) ڼ فراہم کیا، جس کی روشنی میں حیات انسانی کے دقیق اور اہم مسائل کو زیادہ آسانی اور صراحت کے ساتھ دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انھوں نفسیات میں میکڈ وگل اور ولیم جمیز کے خیالات کو عام علمی دنیا میں متعارف کرایا، اور وجدانی فلسفے کی مقبولیت اور تشریح کے لیے نئے خطوط و اشارت مرتب کئے۔ انھوں نے مذہب سائنس اور فلسفے کی ممکنہ تطبیق تلاش کرتے ہوئے مذہب کے ان مسائل کو چھوا جن کا مسلمانوں کے لیے ایک ایسانظام حوالگی (Fram of References) ترتیب دیا، جس میں ماضی کے بعض ایسے فکری حوالوں کو زندہ کیا گیا تھا، جو عمومی فراموش گاری کا شکار ہو کر طاقِ نسیاں کی زینت بن چکے تھے۔ بالخصوص مولانا روم کے افکار پر ان کا زور ایک ایسا عمل تھا جس نے مولانا روم ہی کو نہیں بلکہ اسلامی فکر کی پوری روایت کو ایک زندہ حوالے کے طور پر ذہنوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اگرچہ مولانا روم کے کلام اور افکار سے دلچسپی اقبال کے افکار کی اشاعت سے پہلے بھی موجود تھی۔ اور مولانا شبلی نعمانی نے سوانح عمری مولانا روم لکھ کر اس عمومی دلچسپی کو تاریخی اور فکری اساس بھی فراہم کر دی لیکن اقبال نے مولانا روم کو پورے اسلامی تمدن کے ایک عظیم اور مثالی شاعر کی حیثیت سے جدید اسلامی دنیا کے سامنے پیش کیا اور فکر رومی سے استفادے کی عملی صورتیں بھی پیش کیں ، غرض اقبال نے جدید اسلامی فکر کو ایک نئی تحریک بھی دی اور اسے حوالوں کا نظام بھی دیا تاکہ وہ خود مکتفی بھی رہے اور اس کے رشتے اپنے اصل سرچشموں کے ساتھ بھی برقرار ہیں۔ اقبال نے اپنی فارسی شاعری کے ذریعے برصغیر کے اسلامی تمدن کو اس کے قدیم تہذیبی اور علمی سرچشموں سے مربوط کیا اور اردو شعر و ادب کو بھی، دہلی لکھنو اور اکبر آباد کی نفی کیے بغیر، شیراز و تبریز کی طویل شعری، ادبی اور فکری روایت کی یاد دلائی، انھوں نے ایشیا میں ایک عظیم تر اسلامی تمدن کے نشو و ارتقا کا خواب دیکھا اور اس خواب کو پیرایۂ تعبیر دینے کے لیے ایک ایسا فکری سانچہ بھی دیا جسے ہم اس مثالی اسلامی تمدن کی فکری اور تہذیبی اساس کہہ سکتے ہیں۔
اکثر فلسفیوں کو معلمین بھی کہہ دیا جاتا ہے، اقبال کو بھی اگر ایک معلم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا بلکہ لفظ کا صحیح ترین اطلاق ہو گا، اگر برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے طویل عمل میں اقبال کے کردار کا تجزیہ کریں تو وہ صحیح معنوں میں ایک معلم قوم کی حیثیت میں اپنا تاریخی کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں ، بلکہ اگر انھیں عصر حاضر کا ایک عظیم معلم قوم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ انھوں نے ایک مثالی معلم قوم کی طرح اپنی قوم کی ذہنی، جذباتی، فکری اور اجتماعی ضرورتوں کو محسوس کیا، ان کے مسائل کا دقتِ نظر سے تجزیہ کیا، ان کے سرد و خنک سینوں میں مقصد حیات کا شعلہ بھڑکایا،ان کے دلوں میں زندہ رہنے کی مانگ بیدار کی، انھیں بتایا کہ جذبے کی حرارت، کردار کی صلابت اور ارادے کی قوت قوموں کی زندگی میں کیا معنی رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنی قوت تخلیق، تاثیر سخن اور اخلاص فکر سے ایک پوری قوم کی قلب ماہیت کر دی، انھوں نے قوم کو جو نصب العین دیا وہ بیک وقت مثالی بھی تھا اور حقیقت پسندانہ بھی۔ جنوب مغربی ایشیا میں ایک آزاد اسلامی مملکت کی تشکیل، ایشیا میں ایک نئے اسلامی تمدن کی صورت پذیری اور عالم اسلام کا اتحاد۔ اقبال کے نصب العین کے تین بنیادی زاویے ہیں۔ جنوب مغربی ایشیا میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا قیام ان کی وفات کے صرف نو سال بعد عمل میں آ گیا، اور عالم اسلام کے واقعات کی رفتار اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اقبال کا مرتب کیا ہوا نصاب فکر و عمل شعوری اور لاشعوری، دونوں پر، ایک نئی اسلامی دنیا کی تشکیل میں نہایت گہرے اور دور رس اثرات کا حامل ثابت ہو رہا ہے:
گماں مبر کہ بیایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ نا خوردہ در رگِ تاک است!
عصر حاضر میں تاریخ کے عمل کی جدلیت کو سمجھنے میں اقبال نے جس بصیرت کا اظہار کیا، وہ حیران کن بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ وہ صمیم قلب سے مشرق اور ایشیا کی مظلوم و محکوم اقوام کی بیداری اور آزادی کے خواہاں تھے۔ اگرچہ ان کا پیغام عالمگیر ہے، اور وہ ادبیات عالم میں پورے مشرق کی نمائندگی کرتے ہیں ، تاہم ان کی نظریں خاص طور پر ایشیا کی بیدار ہوتی ہوئی اقوام کی صورت احوال پر مرکوز تھیں۔ ان کی شاعری میں بیسویں صدی کے اوائل کی ایشیا کی بہت سی اہم تحریکات کا پرتو ملتا ہے۔ وہ ایشیائی اقوام کے ہر نئے اقدام کو دلچسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ آزادی کی ہر تحریک میں انھیں ایشیائی تہذیب کی برتری اور تاریخ عالم میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے امکانات کا سراغ ملتا ہے۔ ان کا یہ کارنامہ کم اہمیت کا حامل نہیں کہ انھوں نے بیسویں صدی میں اردو شاعری کو پورے ایشیا کے احساسات اور امنگوں کا ترجمان بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اسلامی دنیا کو بالخصوص ایک نئی زندگی کا پیغام دینے کے علاوہ اسے ایک نیا فکری، انسانی اور تاریخی تناظر بھی عطا کیا۔ ان کی شاعری میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی آرزو کے ساتھ ساتھ مظلوموں اور محکوموں کی صورت حال کا تجزیہ بھی ملتا ہے۔ انھوں نے نہایت واضح انداز اور موثر ترین پیرائے میں مغرب کے استعماری نظاموں سے اپنی بیزاری کا اظہارکیا، انھوں نے مشرقی اور ایشیائی اقوام کو خود شناسی، خود گری اور خود نگری اور انھیں قوت اور توانائی کے حصول کی راہ دکھائی، لیکن قوت اور توانائی کو عالمگیرانسانی اخوت اور انسانی فوز و فلاح کے بلند مقاصد کے لیے صرف کرنے کا سبق بھی صراحت کے ساتھ دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قُوّت پسندی کے باوجود انھوں نے ہر نوع کے استعمارو استبداد کو رد کر دیا اور صِرف انھیں مقاصد عالیہ کی نشان دہی کی جو مجموعی طور پر پوری انسانیت کے لیے قابل آرزو ہو سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کا فکر و فن آج بھی حیات آفرین تصورات کا سر چشمہ ہے انھوں نے جس طرح مشرقی اور ایشیائی اقوام کو ایک نئے فکری انقلاب سے دو چار کیا، اس کی پیش بینی خود ان کے ہاں بھی موجود تھی،
پس از من شعیر ان خونند ومی رقصند ومی گویند
جہانے را دگر گوں کر دیک مردِخود آگاہے!
اقبال عہد آفرین، مکتبہ کاروان ادب، ملتان، ۱۹۸۷ء
حواشی
۱۔ ’’شاعری صناعتی ست کہ شاعربداں اتساقِ مقدمات موہومہ کند و التیام قیاسات منتجہ را براں وجہ کہ معنی خردرا بزرگ گرواند و معنی بزرگ راخرد، نیکوراور خلعتِ بزرگ باز نکاید و زشت را در صورتِ نیکو جلوہ کند، بہام و قوت ہای عقباتی و حسیاتی رابر انگیزد تابداں ابہام طبائع را انقباضی وانبساطی بودو امور عظام را در نظام عالم سبب شود‘‘ (چہار مقالہ:مقالہ دوم)
۲۔ مقدمۂ شعر و شاعری اور شعر العجم جلد پنجم
٭٭٭
تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اعجاز عبید صاحب کا شکریہ
ان کی وجہ سے یہ کتاب اون لائن پڑھنے کو مل رہی ہے۔