FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مشک پوری کی ملکہ

محمد عاطف علیم

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل


…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

مشک پوری کی ملکہ

ناولا

محمد عاطف علیم

(۱ )

پوری رات کا چاند ایک طویل اور اکتا دینے والے سفر کے بعد افق کی کگر پر ذرا سا ٹکا بیٹھا تھا اور گلیات کی خوابیدہ وسعتوں سے چاندنی کو سمیٹ پاتال میں گم ہونے کی فکر میں تھا۔ رات کا دم واپسی تھا۔ کوئی دیر گذرتی کہ جنگل کے سحر خیز مکین اپنی گہری نیند سے جاگ اٹھتے سو ایک کاہلی سے ٹمٹماتے ستاروں نے بھی ماند پڑنے سے پہلے بوجھل پلکوں یونہی ذرا کی ذرا غار کی تاریک گہرائی میں جھانکا جہاں اندھیرے میں دو بیقرار آنکھیں فروزاں تھیں۔

’’یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا۔۔۔ آہ!‘‘

مشک پوری پہاڑ سے ذرا دورا یوبیہ نیشنل پارک کے ایک سنگلاخ ویرانے کی غار میں وہ بے تکان چکر کاٹے اور اپنے ہی زہر میں گھلے جا رہی تھی۔  ’’میرے ساتھ یہ کیسے ہو گیا؟۔۔۔ میں اتنی کمزور کیسے پڑ گئی؟۔۔۔ کیوں۔۔۔ آخر کیوں؟؟‘‘۔

وہ بے چین تھی اور زخم خوردہ تھی۔

معاملہ محض ایک ملکہ کے کوہ پندار کے ریزہ ریزہ ہو جانے کا ہی نہیں ایک مامتا کو لگنے والے گہرے گھاؤ کا بھی تھا۔ سو چین پڑتا بھی تو کیسے؟

ملکہ ایک دن اور ایک رات سے لڑکھڑاتے وجود اور لنگڑاتی ٹانگ سے مسلسل اپنی غار میں بند چکر کاٹے جا رہی تھی۔  رگ و پے کو رہ رہ کر کاٹتے غصے کی ایک لہر تھی کہ رات بھر غضبناک دھاڑ میں اپنے وجود کا اظہار کرتی رہی تھی۔ ہزیمت کے اس لمحے کی انی ایک بار پھر ملکہ کے دل میں چبھی تو ایک خارا شگاف دھاڑ نے ہمالیاتی وسعتوں میں دور تک خوف کا ارتعاش پھیلا دیا۔

گلیات کے نشیب و فراز میں اس روز ایک طرح سے غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ تھی جس میں ہر ذی روح عدم تحفظ کے احساس سے دوچار بولایا پھر رہا تھا۔ جبھی رات بھر سے گھنے جنگل میں ہر نوع نے جگہ جگہ اپنی وچار سبھا سجا رکھی تھی جس میں سبھی ایک سنسناہٹ کے عالم میں اپنی اپنی کہنے کی بے تابی میں مبتلا تھے۔ تبھی جاسوس فاختہ نے غار کی اور سے اڑان بھری اور منڈلی منڈلی جا اپنا روزنامچہ بیان کیا۔ ایک بلند درخت کی مضبوط شاخ پر جھولتے بندروں کے ایک گروہ نے خطرے سے انہیں آگاہ کیا تو ایکا ایکی سب نے اپنی پر شور سیانپ موقوف کی اور ان کی گردنیں غار کی سمت مڑ گئیں۔ سب نے ایک سہم سے دیکھا کہ کہ رات کے آخری پہر وہ سر اٹھائے غار کے باہر کھڑی تھی۔

گلیات کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے متنوع جنگل کی زخم خوردہ ملکہ گلدار نے کھلے میں آ کر پورا منہ کھولتے ہوئے جمائی لی تو اس کے لمبے مضبوط دانتوں پر چاند چمک اٹھا۔ تب اس نے اپنی اگلی ٹانگیں پھیلا کر اپنے جسم کو تا حد امکان کھینچ طویل انگڑائی لی اور اس رات کی کوکھ میں پلنے والے ایک اور سفاک دن کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو گئی۔

اچانک اسے سامنے دیکھ سارے میں کھلبلی سی مچ گئی۔ پکھوؤں نے ہڑبڑاہٹ میں اڑانیں بھریں اور اپنے اپنے گھونسلوں میں جا دبکے۔ جنگل میں رینگنے والی مخلوق اور گلہری جیسے بے اوقات جانوروں کی تو خیر کیا بساط، ریچھ، گیدڑ اور لومڑی جیسے طرم خان بھی یوں اڑن چھو ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ رہے صدا کے ستم رسیدہ بندر تو انہوں نے بھی ملکہ کے زردی مائل گہرے سنہری جسم کی جھلک دیکھتے ہی اپنی اپنی دانش مندی کو بغل میں دابا اور ڈال ڈال پھدکتے محفوظ ٹھکانوں پر منتقل ہو گئے۔

جنگل کے گھنے پن کے بیچوں بیچ موجود اپنے غیض میں غلطاں اور اپنے احساس شکست سے جھنجلائی ہوئی ملکہ نے گردن گھما کر چاروں اور کسی مانوس باس کا سراغ لگانے کی کوشش کی اور پھر مایوسی سے سر جھٹکتے ہوئے تلاش کے نئے سفر پر روانہ ہو گئی۔ تھمے تھمے قدموں

چلتے رات تمام ہوئی اور ملگجے اندھیرے نے ایک تازہ دن کی آمد کا اعلان کیا۔

اس نئے دن بھی وہ جنگل جنگل بھٹکتی پھری۔ اس کی اگلی بائیں ٹانگ کا زخم ابھی ہرا تھا اور پھر اس کی وحشی جبلت اسے باور کرا رہی تھی کہ جنگل میں تلاش کی کھکھیڑ بیکار ہے اس کے باوجود کلیجے میں گڑی پھانس اسے ایک جا ٹک کر نہیں بیٹھنے دے رہی تھی۔ وہ اپنی زخمی ٹانگ پر کم سے کم دباؤ ڈالتے ہوئے چند قدم چلتی اور پھر دیر تک کسی سائے میں پڑ رہتی۔ وہ کل سے بھوکی تھی کہ زخم خوردگی کے اس عالم میں اس کی دہشت اور شکار پر آناً فاناً جھپٹ پڑنے کی مہارت کسی کام کی نہ رہی تھی۔ اس نے لنگڑاتے ہوئے بہت سے چھوٹے جانوروں پر جھپٹا مارنے کی کوشش کی لیکن پنجے ہوا میں لہرا کر رہ گئے۔ کیا چھوٹے کیا بڑے، خدائی خوار ایک ہی دن میں اس قدر پھرتیلے ہو گئے تھے کہ اس کے ارادوں کی خبر ہوتے ہی اڑن چھو ہو جاتے۔ ادھر کمزوری تھی کہ دم بدم بڑھتی جا رہی تھی سو اس نے اپنی تلاش کو موقوف کیا اور سنجیدگی سے شکار پر توجہ مرکوز کر دی۔ کوئی بڑا نہ سہی چھوٹا موٹا ہی سہی۔ کم بخت پیٹ کا دوزخ تو کسی طور بھرے۔  آخر گھنٹوں کی خواری کے بعد ایک کاہل اور بے وقوف بندر ہاتھ لگ ہی گیا۔ شکم پوری کا سامان ہوا تو کھوئی ہوئی توانائی کسی قدر بحال ہو گئی۔ اب اس کے سامنے ایک طویل اور مایوس کن دن پڑا تھا جسے جیسے تیسے تمام کرنا تھا۔

جنگل میں گھومتے پھرتے دن ڈھلا تو ایک اور رات ملگجے اندھیرے اور گھنے تاریک سایوں سمیت آ موجود ہوئی۔ رات کی تاریکی ایک نئی کھوج کا عنوان تھی مگر اس رات بھی اس کی کھوج نا تمام رہی۔ اس دوران وہ بولائی ہوئی مامتا کا بوجھ اٹھائے بے تکان چلتی رہی۔ مشک پوری سے میران جانی کے فراز کوہ تک اور ایوبیہ سے نتھیا گلی اور پھر ڈونگا گلی سے کوزہ گلی تک اس نے چیڑ اور دیو دار کی جنگلی وسعتوں کو کئی بار پھر چھان مارا۔  بلندیاں تہی داماں نکلتیں تو وہ دم بدم گہرے ہوتے اندیشوں کو جھٹکتی دل گرفتہ سی کگر کگر پھسلتی وادیوں میں اتر جاتی۔  جنگل کی کون ایسا جھاڑی اور گلیات کی کون ایسی گھاٹی ہو گی جس کا ایک انچ بھی اس کی تیز نگاہوں سے بچ رہا ہو لیکن وائے ناکامی کہ اسے اپنے گل گوتھنوں کا سراغ ملنا تھا سو نہ ملا۔ اگلے دن وہ مایوس ہو کر پلٹی اور تھکے قدموں جھاڑیوں سے الجھتی مشک پوری کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔ یہاں سے وہ چہار سمت دور تک دیکھ سکتی تھی۔ سو اب وہ مشک پوری کی سب سے اونچی چٹان پر کھڑی تھی اور دور دھندلائے ہوئے افق کو تکے جا رہی تھی۔ اس دوران کتنے ہی آوارہ بادل اسے بھگوتے ہوئے گذر گئے مگر وہ اپنی لمبی اور پر شکوہ دم کو ایستادہ کیے ایک جا ساکت کھڑی رہی۔

دو دن پہلے تک ملکہ جب ملگجے اندھیروں میں اپنے گل گوتھنوں کو لے کر شکار پر نکلتی تو یونہی اپنی دم کو ایستادہ رکھا کرتی۔ یہ دم ان شرارت کے پتلوں کیلئے نشان راہ کا کام کیا کرتی تھی۔ شکار وکار سے خیر دلچسپی کسے تھی۔ انہیں تو تاریک سایوں میں چھپی سنسناہٹوں اور چاندنی کے مدھم سروں سے اٹھکیلیاں کرنے سے مطلب تھا سو راتوں کی آوارگی کے دوران جب وہ دونوں ملکہ ماں کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تو تاریک پر اسرار سایوں کو پکڑتے اور ایک دوسرے کے ساتھ کتے لاڈیاں کرتے اکثر دور نکل جاتے۔  لیکن ملکہ ماں کی اٹھی ہوئی دم کی سفید پھننگ تھی جو انہیں راہ سے بے راہ نہ ہونے دیتی تھی۔

رات بھر کی مٹر گشت کے دوران جب کوئی شامت کا مارا شکار اچانک سامنے آ جاتا تو ملکہ ماں کی بدن بولی یکسر بدل جایا کرتی۔ تب وہ اپنے حواس کو تیز اور اپنے بدن کو قابو میں کیے کمال ارتکاز توجہ کے ساتھ دم سادھے، چور قدموں اس کی طرف بڑھنے لگتی۔ اس بیچ اچانک کسی فیصلہ کن لمحے اس کی دم شدت سے لہرا اٹھتی۔ یہ دونوں نوآموز شکاریوں کیلئے ایک سخت انتباہ تھا بندے کے پتر بننے کا اور فضول کی بک بک بند کر کے چپ چاپ پیچھے چلتے آنے کا۔

وہ دونوں ایک محفوظ فاصلے پر سانس روکے دیکھتے کہ بدنصیب شکار بے خبری کے عالم میں کھڑا ہے اور موت ان کی ماں کے روپ میں اس سے تھوڑے فاصلے پر دبکی بیٹھی ہے۔ اور پھر جونہی بے خبر شکار دھیان سے بے دھیان ہوتا اچانک سنہری بجلی کا کوندا سا لپکتا اور اگلے ہی ثانئے زندگی سے اس ناطہ کٹ چکا ہوتا۔ انہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ شکار کی گدی پر ملکہ ماں کا نپا تلا ہاتھ پڑا ہو اور اس نے دوسری سانس بھی لی ہو۔ با رہا ایسا بھی ہوا کہ شکار ہونے والے جانور کی معصومیت دیکھ ان کے دل میں دوستانہ جذبات پیدا ہو جاتے۔ وہ اسے مار کھانے کی بجائے اسے کھلونے کی طرح اپنے پاس رکھنا چاہتے۔ ایسے میں وہ ماں کی غراہٹ کی پرواہ کیے بغیر ماں کے اس سفاک مشغلے میں شامل ہونے سے انکار کر دیتے۔  لیکن ماں ان کے بال پنے کو درخور اعتنا نہ سمجھتی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا من موہنا کھلونا گوشت اور خون کا لوتھڑا سا بنا ان کے سامنے پڑا ہوتا۔ کچی عمر کی معصومیت اس کھلی سفاکی پر احتجاج کر اٹھتی لیکن اگلے ہی لمحے وحشت کی جبلت ان کی معصومیت کو صاف پچھاڑ دیتی۔  یوں جب ملکہ ماں شکار کی گردن میں اپنے دانت پیوست کرتی تو یہ دونوں بھی سب کچھ بھول بھال نمبر ٹانکنے کو مرے ہوئے شکار پر جھپٹ پڑتے۔ تب ماں شکار کی گردن کو منہ میں دبوچنے سے پہلے انہیں ڈانٹ پلانا ضروری سمجھتی تھی۔  وہ دونوں بھی ایک لذت بھری ضیافت کا سوچتے ہوئے کان نیچے کیے ماں کی پھٹکار سنتے اور پھر کمال سعادت مندی کے ساتھ ماں کے پیچھے پیچھے چل پڑتے۔

تب باری آتی ضیافت اڑانے کی۔ میلوں کا سفر کر کے ملکہ مشک پوری کے دامن میں اپنے صدر مقام پر پہنچتی اور پھر شکار کو لیے اپنے پسندیدہ درخت پر چڑھ بیٹھتی اور وہ دونوں بے تابی کے عالم میں گوشت کے لذیذ ترین حصے ہتھیانے کیلئے ایک دوسرے پر دانت نکوستے اور جانور کے مردہ جسم کو اپنی اپنی جانب گھسیٹنے لگتے۔ خدایا! کوئی ایسا بد تہذیب بھی نہ ہو۔ کبھی کبھار ماں جھنجھلا کر انہیں مار بیٹھتی اور وہ دونوں منہ پھلائے کسی پتھر کی اوٹ میں چھپ جاتے۔ تب ملکہ ماں کو کس کس جتن سے انہیں منانا پڑتا یہ وہی جانتی تھی۔

مشک پوری کی بلند ترین چٹان پر ساکت کھڑی ملکہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے منظر تیرتے جا رہے تھے۔ اور پھر وہ ہولناک منظر جس نے اس کے گدیلے پاؤں تلے انگارے بچھا رکھے تھے۔

چند ہی روز پہلے موسم سرما مشک پوری سے برف کی آخری دھجی بھی سمیٹ کر اگلے کئی مہینوں کیلئے رخصت ہو چکا تھا جس کے بعد گلیات کے بلند سبزہ زاروں پر مست خرام ہواؤں نے ڈیرہ جما لیا تھا۔ موسم سرما کے دوران گلیات کی وسعتیں برفانی جہنم کا روپ دھارن کر لیتی ہیں۔ بندر جاتی تو اپنی گرم کھال کے طفیل ہنسی خوشی موسم کی شدت برداشت کر لیتے ہیں بلکہ وہ جنگل میں بھی کہاں رہتے ہیں۔ جونہی برف کا پہلا گالا پہاڑ کی چوٹی پر اترتا ہے وہ انسان لوگوں کے ساتھ اپنی اچھی پی آر کو کام میں لاتے ہوئے آبادیوں میں گرمائی ہوئی جگہوں پر جا ڈیرے جماتے ہیں۔ رہی باقی مخلوق تو بیچاری تیز سرد ہواؤں سے اپنے کومل بدنوں کو بچانے کیلئے اپنی پناہ گاہوں میں دبک کر رہ جاتی ہے۔ گلیات کی آٹھ نو ہزار فٹ اونچی پہاڑی وسعتوں میں ٹھنڈے موسم کا محاصرہ ایسا سخت ہوتا ہے کہ اگر کسی نے مشکل دنوں کیلئے کچھ بچا لیا تو واہ بھلا ورنہ شگوفے کھلنے تک بھوک کا عذاب تو ہے ہی۔ اب گلدار لوگ گلہریوں جیسی دور اندیشی کہاں سے لائیں اور پھر باسی تباسی گوشت کو ذخیرہ کون کرے سو تازہ گوشت کے رسیا گلداروں کیلئے موسم کا عذاب کچھ زیادہ ہی سخت ثابت ہوتا ہے۔ کئی کئی روز فاقوں سے کٹ جاتے ہیں۔  جنگل میں حضرت انسان کی مہربانیوں کے طفیل شکار تو خیر پہلے ہی کون ایسا وافر ہوتا ہے مگر اس عذاب ناک موسم میں تو پورا جنگل گویا چیل کا گھونسلا بن جاتا ہے جس میں ماس نام کی کوئی چیز ان کیلئے نہیں رہتی۔ یوں گلدار لوگوں کو اترائیوں میں جانا پڑتا ہے، انسانی بستیوں کی طرف جہاں راتوں کو آوارہ گھومتا کوئی کتا بلا مل گیا تو ٹھیک ورنہ انہیں باڑوں میں بند مویشیوں پر دھاوا بولنا پڑتا ہے جو جانو کسی جان جوکھوں میں ڈالنے والے ایڈونچر سے کم نہیں کہ اس مہم جوئی کے دوران کبھی کبھار باڑوں کے چوکس اور مسلح رکھوالوں سے ان کا ید پڑ جاتا ہے جس کا نتیجہ اکثر گلدار کی ہلاکت کی صورت میں نکلتا ہے۔

سو ایک عذاب ناک جاڑا گذرنے پر موسم بہار نے کومل رنگوں کی سمفنی بکھیر ٹھٹھرے ہوئے جنگل کو جگایا تو ایک روز دن بھر کی نیند پوری کرنے کے بعد یونہی اس کے جی میں آئی کہ چشمے پر جا کر ٹھنڈے میٹھے پانی سے پیاس بجھائی جائے۔  اور پھر اس بہانے جنگل میں ہونے والی سرگرمیوں کا جائزہ بھی ہو جائے گا۔ تب اس نے ان ازلی بدتمیزوں کو پیچھے لگایا اور اپنی راجدھانی کی سیر پر نکل کھڑی ہوئی۔ کھلے میں پہنچ کر وہ یہ دیکھ بشاش ہو گئے کہ بہار رت کے اس شوخ دن سامنے پھیلی ساری کائنات ایک دلنواز مسکان مسکرا رہی تھی جبکہ جنگل کی ہنسی تھی کہ تھمنے میں نہیں آ رہی تھی۔ چیڑ، صنوبر، دیودار اور بن خور کے بلند درختوں پر کھلے تازہ بتازہ سبزے نے لینڈ سکیپ میں زندگی کے رنگوں میں کچھ زیادہ ہی شوخی بھر دی تھی۔ اور پھر وہاں تا حد نگاہ پھولدار جھاڑیاں تھیں جن پر کھلے سفید، سرخ، اودے، نیلے، پیلے اور بنفشی پھولوں نے ایک آفت سی مچا رکھی تھی۔ ایک طرف رنگوں کی چہکار تھی تو دوسری طرف طرح طرح کی آوازوں کا غوغا تھا۔ وہ حیران تھی کہ جنگل کے ان بے وقوف پرندوں کے پاس کرنے کو کون ایسی ضروری باتیں ہوتی ہیں کہ ان کی چونچیں بند ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ملکہ کے دونوں لاڈلے بھی اپنی زندگی کے پہلے برفانی عذاب کے خاتمے پر نہال ہو رہے تھے۔ انہوں نے بھی ایک ترنگ میں چک پھیری لیتے ہوئے سارے میں نگاہ دوڑائی۔ وہ حیران تھے کہ وہ جس جاڑے کو اصل حیات سمجھے ہوئے تھے اسے بہار نے پسپا کر کے یہاں سے جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب وہ تھے اور اس جنگل کا کھلا پن تھا جہاں طرف چہکار سی چہکار اور ہر طرف مہکار سی مہکار تھی۔

وہ چشمے پر پہنچے تو آبشار کی پھوار نے گل گوتھنوں کو بد مست کر دیا، لگے ایک دوسرے کے ساتھ کتے لاڈیاں کرنے۔ وہ انہیں دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کوئی دن کی بات ہے کہ دونوں سردیوں اور گرمیوں کے دو دو موسم پورے کر چکے ہوں گے۔ تب وہ بالغ ہو جائیں گے اور اسے ہمیشہ کیلئے یوں چھوڑ جائیں گے جیسے ان کا آپس میں کبھی کوئی سمبندھ نہ رہا ہو۔ سبھی گلدار بچے ایسا ہی کرتے ہیں۔ بے وفائی کی رسم پر چلتے ہوئے دو سال کی عمر میں نسل کشی کے قابل ہوتے ہی ماں کو بھول بھال کر اپنی اپنی دنیا بسانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ بھی کسی روز اچانک آنکھیں پھیر لیں گے سو جب تک ان کا بچپنا ہے آنکھوں میں ٹھنڈک بھی ہے۔ لیکن اب بچپنا بھی کہاں۔ تب جاڑوں کی آمد آمد تھی جب یہ دونوں ایک ہی زچگی کے دوران پیدا ہوئے تھے۔ اس حساب سے سات آٹھ مہینے سے کم کے کیا ہوں گے لیکن ان کا بچپنا تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ اچھے خاصے لونٹھے ہو چکے تھے لیکن حیف ہے ان کے چلبلے پن پر کہ ابھی انہیں ٹھیک سے شکار کرنا بھی نہیں آیا تھا۔ کس جانور پر کب اور کیسے جھپٹا مارنا ہے۔ کس موقع پر جست لگانی ہے، کیسے لگانی ہے اور کب دم دبا کر اپنی راہ لگنا ہے۔ ان کی بلا جانے۔ انہیں تو بس کیا کرایا شکار چاہیے۔ ہر ماں کی طرح وہ سچ میں ان کیلئے پریشان تھی۔ مصیبت یہ تھی کہ وہ اکیلی جان ساری سوچیں سوچنے کیلئے رہ گئی تھی۔ ان کا باپ سدا کا ہری چگ، ان کی پیدائش کے کچھ ہی دن بعد اسے چھوڑ کر نئی ماداؤں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تھا۔ اس کا ساتھ ہوتا تو یہ دونوں تیر کی طرح سیدھے ہو گئے ہوتے۔ یوں تو وہ شکار کے بہانے اکثر منہ کالا کرنے نکل جایا کرتا تھا لیکن اب کی بار جانے کون کالے منہ والی اس کے متھے لگی تھی کہ واپسی کا راستہ ہی بھول گیا۔

’’بد بخت نہ ہو تو!۔‘‘ ملکہ گلدار نے ایک غصیلی غراہٹ میں اس سنگدل کو ایک نفرت سے یاد کیا۔

چشمے سے واپسی پر اپنے خیالوں میں الجھی وہ غار کی جانب جا رہی تھی کہ اچانک آدم زاد کی مخصوص باس نے اس کے قدم تھام لیے۔ اس نے دیکھا کہ دور سے دو ٹانگوں چلتے آدم زاد ادھر ادھر جھاڑیوں میں جھانکتے پھر رہے تھے۔ وہ تعداد میں چار تھے اور ان کے انداز سے لگتا تھا کہ انہیں کسی خاص چیز کی تلاش ہے۔

آہ بیچارے یہ جنگل باہر کے جانور! جو کسی ازلی حیاتیاتی معذوری کے باعث چار ٹانگوں پر چلنے کے فطری انداز سے محروم تھے۔ چار ٹانگوں پر تمکنت چال چلنے کا زعم رکھنے والی ملکہ نے ان ازلی معذوروں کو ترس اور تحقیر کے ملے جلے احساس کے ساتھ دیکھا اور چاہا کہ انہیں نظر انداز کر کے آگے بڑھ جائے۔

ملکہ کو انسان نام کا یہ جانور کبھی ایک آنکھ نہ بھایا کہ گلداروں سمیت ہر اس جاندار کا ازلی دشمن تھا جو فطری تقاضوں کے مطابق چار ٹانگوں پر چلتا ہے۔ یہ وہی تھا جس نے جانے کتنے معصوم جانوروں کو اپنے گھروں میں باندھ رکھا تھا۔ وہ جو چاہتا ان دکھیاروں کے ساتھ کرتا۔ جسے چاہتا نکیل ڈالے پھراتا، جسے چاہتا ڈگڈگی پر نچاتا پھرتا گویا اس کے بھانویں ان میں کوئی عزت نفس ہی نہ ہو۔  اور پھر سفاکی کی انتہا دیکھو موج میں ہو تو دن دھاڑے ان معصوموں کو لٹال مشق گردن زدنی سے بھی باز نہیں آتا۔ اس عالم میں کوئی اس کے چہرے پر غازیانہ نور ملاحظہ فرمائے۔ ایک ملکہ ہونے کے تئیں اپنی رعایا کے ساتھ اس برتاؤ پر تاؤ کھانا بہرحال بلا جواز نہیں تھا۔ اور پھر وہ کیسے بھولتی خود اپنی جاتی کے مقتولین کو۔ اس کے لاشعور میں ان سب واجب القدر گلداروں کے چہرے محفوظ تھے جو بھوک سے بے تاب ہو کر انسانی بستیوں میں گئے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے کسی دو پائے کو دعوت مبارزت دی ہو۔ یہ بیچارے تو اپنا حق وصولنے گئے تھے، رات کی تاریکی میں دبے پاؤں۔ لیکن آہ۔۔۔۔!

ملکہ نے یاد کیا کہ جنگل میں یہ بات بھی عام تھی کہ لالچ اور لوبھ کی ماری انسان جاتی کے لوگ جنگل جنگل گھوم کر معصوم جانوروں کو مارتے ہیں اور پھر ان کی کھالوں کو دساور میں رہنے والے ہم جنسوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں یا ان میں بھس بھر کر اپنے اطاقوں میں سجا دیتے ہیں۔ جنگل میں شکار کی کمیابی اور گلداروں پر مسلط نیم فاقہ کشی کا باعث بھی یہی نامعقول مخلوق ہے کہ جنگل میں اس کی مسلسل مداخلت اور درختوں کی بے دریغ کٹائی کے سبب روز کتنے ہی جانوروں کو اپنے گھر بار چھوڑ ہجرتوں کے دکھ بھوگنا پڑتے ہیں۔ اور پھر اللہ معافی! کوئی تکبر سا تکبر ہے کہ حضرت کے دماغ میں بھس یہ بھرا ہوا ہے کہ اس سرزمین کا واحد وارث یہی ایک تو ہے۔ دیگر ساری مخلوق تو گویا اس کے گھر میں زبردستی گھس آئی ہے کہ اس کو آخری پناہ گاہ تک سے محروم کر دینا اس پر واجب ٹھہرا ہے۔  بہت بھاری مجبوری تھی کہ جنگل کے اصل وارثوں کو ان قاتل صفت دو پائیوں کے ساتھ رہنا پڑتا تھا، کشادہ دلی سے یہ مانتے ہوئے کہ وہ جیسا بھی ہے بہرحال اسی لینڈ سکیپ کا حصہ ہے۔

ملکہ نے چاہا کہ سامنے سے آتے دو پائیوں سے کترا کر نکل جائے۔ لیکن وہ دونوں کہاں دفعان گئے؟۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا لیکن ان کم بختوں کا کہیں سراغ نہیں تھا۔ اس نے اپنی دم کا پرچم بلند کرتے ہوئے انہیں اپنی موجودگی کے مقام سے آگاہ کیا پر مجال ہے جو انہوں نے ماں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو۔  ’’جوان ہوئے نہیں اور خر مستیاں پہلے شروع ہو گئیں‘‘۔ اس نے دانت پیسے اور دم کو زور زور سے لہرایا۔ تب کہیں بندہ ڈباؤ گھاس کے ایک خشک قطعے سے وہ دونوں کھی کھی کرتے برآمد ہوئے پر ایک ہی کم بخت تھے دونوں کہ اچانک ایک نیلے پروں والے پرندے نے غوطہ لگایا تو وہ دونوں ماں کی گھرکی بھول اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ملکہ کا دل دھک سے رہ گیا کہ وہ بجائے ماں کے ساتھ وہاں سے بچ نکلنے کی فکر کرتے، اس پرندے کی طرف لپک پڑے۔ وہ منحوس بھی انہیں اپنے پیچھے لگائے اس جانب لے گیا جہاں وہ دو پائے مشکوک حرکات میں مصروف تھے۔ ملکہ نے خود کو کبھی اتنا کمزور محسوس نہیں کیا تھا۔ اگر دو پائے انہیں دیکھ لیتے تو!؟۔۔۔ وہ تو خیر گذری کہ ابھی تک دو پائیوں کی نگاہیں آس پاس جھاڑیوں میں الجھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے ملکہ کو دیکھا تھا نا بچوں کو لیکن تابہ کے۔

ملکہ عدم تحفظ کے احساس میں گھری دور سے اپنے بچوں پر نظر جمائے کھڑی تھی۔ اس وقت تو یہی تھا جو وہ کر سکتی تھی۔ اس نے ایک نظر دم بدم اپنی اور بڑھتے موذیوں کو دیکھا تو اچانک خوف کی ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی کو برفاب کر گئی۔ وہ یونہی جنگل میں نہتے نہیں گھوم رہے تھے۔  ان کے ہاتھوں میں عجیب شکل کی چیزیں تھی۔ جیسے درخت کی شاخیں ہوتی ہیں لمبی لمبی۔ ٹھاہ ٹھاہ کرنے والی اور آگ اگلنے والی۔ اس کے بچپن کی یادوں میں محفوظ ایک دہشت ناک یاد کا تعلق اسی منحوس چیز سے بھی تھا جب ایک بار وہ دو دن کا فاقہ کاٹنے کے بعد اپنی والدہ مرحومہ کے ہمراہ رات کی تاریکی میں ایک بستی میں جا نکلی تھی۔  اس کی ماں چلتے چلتے ایک بند دروازے کے سامنے رک گئی تھی۔ تبھی ایک شامت کی ماری بکری اونچی آواز میں منمنائی اور ہمارے قدم جہاں تہاں تھم گئے۔ یقیناً اس دروازے کے پار ہمارا پیٹ بھرنے کو کچھ جانور موجود تھے۔

اس کی والدہ نے کواڑ پر نظریں جمائیں اور اپنی دم لہرا کر مخصوص اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ انہیں اس دروازے کو توڑ کر اپنا رزق کمانا ہے۔ اس نے ماں کا عندیہ پاتے ہیں اس کے ہمراہ دروازے پر ہلہ بول دیا۔ دروازہ کمزور تھا کہ پہلے ہلے میں ہی جھول گیا۔ وہ دونوں ترنت اندھیرے کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہاں بہت سی فربہ بھیڑ بکریاں بند تھیں۔  ان احمقوں نے ہمیں دیکھتے ہی شور مچا دیا۔  ابھی ماں سوچ ہی رہی تھی کہ کس بھیڑ کو اچک لے جائے کہ اچانک باہر شور بلند ہوا۔ دونوں نے تیزی سے پلٹ کر دیکھا تو اسی قبیل کے چند دو پائے ٹوٹے ہوئے دروازے کے پار جمع تھے۔ ان کے ہاتھوں میں بھی یہی کچھ تھا۔ وہ دونوں جونہی گھیرے میں آئیں تو ان شاخ نما چیزوں سے آگ نکلنا شروع ہو گئی۔ سب کچھ آناً فاناً ہو گیا تھا۔ اس کی ماں کو بس ایک دھاڑنے کی مہلت ہی مل پائی۔ اس نے عین اپنے سامنے اپنی ماں کا لال لہو میں بھیگا لاشہ گرتے دیکھا۔ بدحواسی کے اس عالم میں بھی اس نے چاہا کہ کسی طرح سے مہلت مل پائے کہ وہ اپنی ماں کو جبڑوں میں دبا کر وہاں سے نکل جائے لیکن آگ کی نیلی چنگاریاں تھیں کہ برسے جا رہی تھیں۔ اس کا دل دکھ اور طیش سے بھر گیا۔ اس نے چاہا کہ اپنی محبتوں ماری ماں کو الوداعی پیار کر لے اور اس کے ساتھ گذرے دنوں پر تھوڑا بین کر لے لیکن ماں کی لاش پر بین کرنا خود اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ سو اس نے ماں کی ڈوبتی نظروں سے اپنی آنکھیں پھیریں اور ان کے موذیوں کے سروں پر سے چھلانگ لگا یہ جا اور وہ جا۔

وہ خود تو ٹھائیں ٹھائیں کرتی اس آگ سے بچ نکلی تھی لیکن اس کی روح میں اس منحوس آگ کی تپش اب تک تازہ تھی۔ تب سے وہ ان دو ٹانگوں والے وحشیوں سے نفرت کی آگ میں گیلی لکڑی سمان سلگتی رہی تھی۔

ملکہ گھومی کہ ان منحوسوں کی نگاہوں سے بچ کر نکل جائے لیکن بدنصیبی یہ ہوئی کہ دونوں گل گوتھنے نیلے پروں والے پرندے سے مایوس ہو کر اچھلتے کودتے، ایک دوسرے کا تعاقب کرتے اسی جانب بھاگے چلے جا رہے تھے جہاں وہ آدم زاد ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیزیں لیے جانے کس کی بو سونگھتے پھر رہے تھے۔ اس نے بہتیرا اپنی دم کا پرچم لہرایا، بہت غرائی لیکن جانے کس چھچھوندر نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا کہ وہ جیسے اندھے بہرے ہو چکے تھے۔ آخر ملکہ کو احتیاط کے تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے قدرے اونچی آواز میں غرا کر ان کم بختوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا پڑا۔ اس نے دیکھا کہ وہ دونوں ماں کی غراہٹ پر تھوڑے کھسیانے ہوئے اور پھر اپنی دمیں ہلا کر اسے ’’بس ابھی آئے‘‘ کا اشارہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی ہولناک بات یہ ہوئی کہ دونوں آدم زاد بھی ٹھٹک گئے۔ انہوں نے پہلی بار اس کا نوٹس کیا اور پھر ان کی گردنیں ان گل گوتھنوں کی طرف گھوم گئیں۔

ملکہ نے دور سے ہی ان کی آنکھوں میں اس خباثت کو جھلکتے دیکھ لیا تھا جو ان گل گوتھنوں کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں کوندی تھی۔ وہ نپے تلے قدموں آگے بڑھے۔ ان میں سے ایک نے ملکہ کی جانب اس آگ اگلنے والی چیز کو سیدھا کیا ایک اور تھا جس کے ہاتھ میں اسی طرح کی ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیز دبی ہوئی تھی لیکن اس نے ملکہ کی طرف رخ کرنے کی بجائے اسے گل گوتھنوں کی جانب سیدھا کر رکھا تھا۔ ان دونوں کے باقی دو ساتھیوں نے یہ کیا کہ اپنے جسم کے ساتھ لپٹے لمبے چوڑے کپڑوں کو اتارا اور انہیں ہاتھ میں تولتے ہوئے گل گوتھنوں کی جانب بڑھنے لگے۔ ملکہ نے ان کے ارادوں کو بھانپ لیا اور انہیں خوف زدہ کرنے کیلئے دھاڑی۔ اس کی دھاڑ نے جنگل کو ایک بار تو لرزا دیا لیکن مجال ہے جو ان دونوں پر کوئی اثر ہوا ہو۔ الٹا یہ ہوا کہ ملکہ کی طرف بڑھنے والے نے اپنے بازو لمبے کیے اور اچانک اس کے ہاتھوں میں دبی لمبی سی چیز نے ٹھائیں ٹھائیں نیلی چنگاریاں اگلنا شروع کر دیں۔ اچانک دونوں گل گوتھنے بھی اپنا نٹ کھٹ پنا بھول کر سیدھے ہو گئے۔

ایک ناقابل قیاس منظر ان کے سامنے تھا۔ ان کی ماں تڑپ کر فضا میں بلند ہوئی اور پھر قلابازی سی کھا کر زمین پر گر گئی تھی۔ اس دوران اس کے آس پاس نیلی چنگاریاں اڑتی رقص کرتی پھر رہی تھیں۔ وہ اٹھی اور ایک زبردست دھاڑ کے ساتھ ان کی طرف بڑھنے کو ہوئی لیکن اس کے بدن میں پیوست ہوتی نیلی چنگاریوں نے اسے پھر دھول چٹا دی۔ وہ دونوں گل گوتھنے، نیلے پروں والے پرندوں اور رنگ برنگ تتلیوں کے تعاقب میں دوڑتے دوڑتے اچانک بڑے ہو گئے۔ ان کی وحشی جبلت بل کھا کر بیدار ہوئی اور انہوں نے چاہا کہ وہ ان دو ٹانگوں والے

وحشیوں کو ایک ہی جست میں چیر پھاڑ دیں۔ وہ ان کی جانب بھاگے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب آدم زادوں نے نپے تلے انداز میں ان کی جانب بڑے بڑے سوراخوں والے جال اچھال دئیے اور وہ ان میں الجھ کر رہ گئے۔ انہوں نے اس جال کو دانتوں اور پنجوں سے پھاڑ کر آزاد ہونا چاہا تھا کہ اس دوران ان کی نظر ان سے ذرا فاصلے پر کھڑے تیسرے آدم زاد پر پڑی۔ اس نے ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیز ان کی طرف سیدھی کی اور اچانک ان کے سنہری جسموں میں سلگتے ہوئے تیر سے اتر گئے۔ انہوں نے تب بھی پرواہ نہ کی اور خود کو اس سوراخ دار کپڑے کی قید سے آزاد کرنے میں مصروف رہے لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ آہستہ آہستہ ان کا زور مدھم پڑنے لگا اور وہ ایک عجیب سی کیفیت میں ڈوبتے چلے گئے۔ اور پھر یہ ہوا کہ انہیں بہت زوروں کی نیند آنے لگی اور پھر آپ ہی آپ ان کی آنکھیں مند گئیں۔

ملکہ کیلئے یہ ایک ناقابل یقین منظر تھا۔ کوئی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں کو لے جائے، نا ممکن!۔ وہ جسم و جاں کی پوری توانائی سے دھاڑی۔ لیکن اس بار بھی اس کی دھاڑ بے اثر رہی تھی۔ جنگل کا جنگل لرز گیا تھا لیکن ان کم بختوں پر ذرا اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی طرف بڑھتی نیلی چنگاریوں سے بے نیاز بجلی کی سی تیزی سے ان کی جانب بڑھی لیکن وہ جس کے ہاتھ میں ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیز تھی، پہلے سے تیار تھا۔ اس نے نشانہ باندھا اور اچانک ملکہ کے پیٹ میں کوئی چیز کھٹ سے اتر گئی جس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ میں آگ سی سلگ اٹھی۔ اور پھر اگلے ہی لمحے بائیں ٹانگ میں بھی ویسی ہی آگ۔ اس کے جسم میں پہلے سے کئی نیلی چنگاریاں اتر چکی تھیں۔ اب تو جیسے اس کے جسم سے رفتہ رفتہ جان نکلنے لگی ہو۔ یہی وہ بدقسمت لمحہ تھا جب ملکہ پر خوف نے جھپٹا مارا اور وہ زخمی ٹانگ کو گھسیٹتی پسپا ہو گئی۔ اس نے ایک محفوظ فاصلے پر پہنچ کر دیکھا کہ وہ بدبخت اس کے گل گوتھنوں کو ڈنڈا ڈولی کرتے لے جا رہے تھے۔ ملکہ نے پھر چاہا کہ ایک ہی جھپٹے میں وہ انہیں چیر پھاڑ کر رکھ دے لیکن آہ! جسم میں سلگتی ہوئی آگ۔

جنگل میں سب کچھ جوں کا توں تھا لیکن پھر بھی لگتا کہ بہت کچھ بدل چکا ہے۔ مشک پوری سے میران جانی تک کئی کوس بنتے ہیں جہاں ملکہ کی حکمرانی اب بھی قائم تھی لیکن اس کی نوعیت اب بہت حد تک اخلاقی اور ’’آئینی‘‘ سی رہ گئی تھی۔ جنگل کے تمام باسی جان چکے تھے کہ دونوں بیٹوں کی جدائی کے بعد ملکہ میں پہلے سا دم خم باقی نہیں رہا۔ اس کی وہ لپک جھپک، وہ بجلی ایسی کوند اور وہ پر تمکنت انداز گئے دنوں کی بات لگتی تھی۔ یوں بھی اب وہ کچھ گوشہ نشین سی ہو چلی تھی۔  پہلے دن کے اجالے میں یا چاندنی کی نرماہٹ میں وہ اکثر اپنے مخصوص راستوں میں گھومتی دکھائی دے جایا کرتی تھی لیکن اب صرف بھوک کی بے تابی ہی اسے غار سے باہر آنے پر مجبور کرتی تھی۔ دیکھتی آنکھیں دیکھا کرتیں کہ گو ہلکی سی لنگڑاہٹ کے باوجود اب بھی اس کی چال میں سجلتا اور وقار نمایاں تھا لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ اب چلتے ہوئے وہ اکثر عجیب سے انداز میں پیٹ کو جھٹکاتی اور پھر یک لخت رک جاتی جیسے خود کو کمپوز کرنے کے جتن میں ہو۔ اس کے بعد جب وہ دوبارہ چلتی تو اس کے سنہرے جسم میں تکلیف کے احساس میں گندھی لرزش کو صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ جنگل باسیوں نے یہ بھی دیکھا کہ شکار سمے وہ اکثر بے دھیان ہو جایا کرتی تھی یوں شکار کو جان بچانے کی مہلت مل جاتی۔ کہاں وہ وقت کہ وہ ایک سجلتا سے شکار کے تعاقب میں آتی تو اس کا پورا جسم آنکھ بن جاتا اور پھر وہ پلک کی ایک جھپک میں جھپٹا مار اس کا کام تمام کر دیتی اور کہاں یہ بے دلی اور اناڑی پن کہ اب سست الوجود جانور بھی اسے جل دے کر بھاگ کھڑے ہوتے اور اسے میلوں دور تک غیر متوازن چال کے ساتھ ان کے پیچھے خوار ہونا پڑتا تھا۔

ملکہ بھوکی تھی اور زخم خوردہ تھی۔

ملکہ تنہا تھی اور غم زدہ تھی۔

مگر ملکہ پر عزم اور پر وقار تھی۔

وقت کی گذران کے ساتھ جب شمالی افق سے نمودار ہونے والے مسافر پرندے قافلہ در قافلہ نیشنل پارک میں اترنا شروع ہوئے تو ملکہ کا حصار غم کمزور پڑ چکا تھا۔ اس کے پلیٹ میں آگ کی سلگن بھی اب کبھی کبھار ہی دکھن دیتی۔  وہ بھی تب جب ملکہ کو بہت زیادہ بھاگ دوڑ کرنا پڑتی۔ اور اب ملکہ کو بھاگ دوڑ کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑتی تھی۔ قویٰ کے مضبوط ہوتے ہی اس کی چال ہلکی سی لنگڑاہٹ کے باوجود پہلے سی سبک اور سجل ہو چلی تھی۔ گو پہلے سی بات نہ سہی پر اس کی لپک اور جھپٹ اس قدر بہتر ضرور ہو چکی تھی کہ اسے شکار کے پیچھے کچھ زیادہ خوار نہ ہونا پڑتا تھا۔ اس خواری نے اسے اپنی نظروں میں کس قدر نا معتبر کر دیا تھا یہ وہی جانتی تھی۔ جو بات سب جان چکے تھے وہ خود ملکہ نہ جان پائی تھی کہ اس کی قویٰ کی بحالی میں کسی بھی اور عامل سے زیادہ اس نفرت کو دخل تھا جو اس کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔

ملکہ کی بے مقصد زندگی کو اس کی زخمی انا نے ایک عظیم تر مقصد میں ڈھال دیا تھا۔ اب اس کے وجود کا ہر تار اس انتقام کی لے پر بج اٹھتا تھا جو اس نے دو ٹانگوں پر چلنے کی معذوری میں مبتلا نوع سے لینا تھا۔ جنگل کے باسی جس ملکہ سے واقف تھے وہ کوئی اور تھی۔ ایک با وقار اور بھری نیت والی ملکہ جو بھوک کی احتیاج پوری کرنے کے سوا اپنی رعایا سے کوئی تعرض نہ رکھتی تھی۔ اس ملکہ کے راج میں وہ دو ٹانگوں والے نر اور مادہ بھی یکسر محفوظ تھے جو جنگل میں لکڑیاں چرانے یا جنگل کو کسی بھی اور طرح کی چھیڑ چھاڑ کرنے کی نیت سے آیا کرتے تھے۔ لیکن وہ تب کی بات تھی۔ اب کی بات یہ تھی کہ ملکہ اپنی روح کی گہرائیوں تک بدل چکی تھی۔ اب جو ملکہ تھی وہ کوئی اور تھی۔ طیش اور نفرت سے بھرا ہوا وجود، ایک دھکتی آگ کا گولہ جو جہاں سے گذر جائے آگ لگاتا جائے۔ اب اگر وہ کچھ تھی تو صرف ایک غارت گر۔ اب وہ شکم کی تسکین کیلئے شکار نہیں کرتی تھی۔ اپنی جاتی کی فطرت کے برعکس اب اسے ایذا پسندی اور لاشے گرانے سے کام تھا۔ جن چھوٹے چھوٹے بے بضاعت جانوروں کی طرف اس نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا وہ بھی اس کے دست ستم کی زد میں آ چکے تھے۔ اس کے نئے روپ نے بہت سے بندروں کو وداع جنگل پر مجبور کر دیا تھا کہ اس کی غارت گری کا سب سے زیادہ ہدف یہی مخلوق تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ ان دو ٹانگوں پر چلنے والوں کے ساتھ دوستی کا دعویٰ رکھتے تھے اور ان کی صحبت میں خوش رہتے تھے۔ اور تو اور ان کی شباہت اور فطرت تک اس موذی نوع کے اریب قریب تھی۔

اور پھر ایک روز جب ملکہ نے مدت بعد کسی تکلیف کے احساس کے بغیر جسم کو کھینچ کر انگڑائی لی تو وہ مسرت سے جھوم اٹھی۔ اب وہ ایک طویل اور خونریز جنگ کیلئے تیار ہو چکی تھی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل