فہرست مضامین
پاکی کا بیان
پاکیزگی کا بیان
لغت میں طہارۃ کے معنی نظافت اور پاکی کے آتے ہیں جو نجاست کی ضد ہے طہور بضم طاء مصدر ہے اور ان چیزوں کو بھی طہور فرماتے ہیں جو پاک کرتی ہیں جیسے پانی اور مٹی طہور، لفتح طاء بھی مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
اصطلاح شریعت میں طہارت کا مفہوم ہے نجاست حکمی یعنی حدث سے اور نجاست یعنی خبث سے پاکیزگی حاصل کرنا۔
٭٭حضرت ابی مالک شعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ کے نام میں اختلاف ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کا نام کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے اور بعض کعب بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، عبیدہ ، حارث اور عمرو بھی بیان کیے جاتے ہیں ، کنیت ابو مالک ہے ، مشہور صحابی ہیں۔ حضرت عمر فاروق اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور الحمد اللہ کہنا (اعمال کی) ترازو کو بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ و الحمد اللہ بھر دیتے ہیں یا فرمایا ایک کلمہ بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے نماز نور ہے صدقہ دلیل ہے ، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے لیے یا تمہارے اوپر دلیل ہے ہر آدمی (جب) صبح کرتا ہے (یعنی سو کر اٹھتا ہے ) تو اپنی جان کو اپنے کاموں میں بیچتا ہے (یعنی لگاتا) ہے لہٰذا وہ اپنی جان کو آزاد کرتا ہے یا ہلاک کرتا ہے۔ (مسلم اور ایک روایت میں ہے کہ لا الہٰ الا اللہ اکبر بھر دیتے ہیں اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے اس روایت کو نہ صحیح البخاری میں پایا ہے نہ مسلم میں اور نہ ہی کتاب حمیدی و کتاب جامع الاصول میں مجھے یہ روایت ملی ہے البتہ دارمی نے اس روایت کو بجائے سبحان اللہ والحمد اللہ کے ذکر کیا ہے۔ (لہٰذا صاحب مصابیح کا اس روایت کو فصل اول میں نقل کرنا درست نہیں ہوا)۔
تشریح
اس حدیث میں پاکیزگی و طہارت کی انتہائی عظمت و فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام میں طہارت کو کیا مقام حاصل ہے چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور وجہ ظاہر ہے کہ ایمان سے چھوٹے اور بڑے سب ہی گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور وضو سے صرف چھوٹے گناہ ہی بخشے جاتے ہیں اس لیے طہارت کو آدھے ایمان کا درجہ حاصل ہے۔
درمیان روایت میں راوی کو شک ہو رہا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے لفظ تملاء مفرد فرمایا تملان تثنیہ کے ساتھ فرمایا ہے اس لیے انہوں نے دونوں کو نقل کر دیا ہے ، اس جملہ کا مطلب ہے کہ سحان اللہ والحمد اللہ پڑھنا اور ان کا ورد رکھنا اتنی فضیلت کی بات ہے اور اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر ان دونوں کلموں کو ایک جسم فرض کر لیا جائے تو اتنے عظیم ہیں کہ آسمان اور زمین کے درمیانی حصہ کو بھر دیں۔
نماز کو نور فرمایا گیا ہے اس لیے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جو قبر کے اندھیرے اور قیامت کی ظلمت میں روشنی کی مانند ہے جو مومن کو گناہوں اور بری باتوں سے بچاتی ہے اور نیکی و بھلائی اور ثواب کے کاموں کی طرف راہنمائی کرتی ہے یا پھر نماز کو نور اس لیے کہا گیا ہے کہ مومن کے قلب کو ذات خداوندی کے عرفان کی روشنی سے منور کرتی ہے اور عبادت خداوندی کی ادائیگی و اطاعت الہٰی کی بنا پر نماز پڑھنے والے کے چہرہ پر سعادت و نیک بختی کی چمک پیدا کرتی ہے۔
صدقہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو دلیل اس لیے کہا گیا ہے کہ مومن کے دعویٰ ایمان کی صداقت اور پروردگار عالم سے محبت پر دلالت کرتا ہے یا یہ معنی کہ جب قیامت میں مالدار سے اللہ سوال کرے گا کہ ہم نے تمہیں مال و دولت میں اتنی وسعت بخشی تھی تو تم نے اس مال و دولت کو کہاں خرچ کیا؟ اور اس کا مصرف کیا تھا؟ یعنی تم نے ہماری بخشی ہوئی اس نعمت کو اچھی راہ میں خرچ کیا یا برے راستہ میں لٹا دیا؟ تو اس کے جواب میں صدقہ بطور دلیل پیش ہو گا کہ رب قدّوس تیرا دیا ہوا مال برے راستہ میں نہیں لٹایا گیا ہے بلکہ اسے تیری ہی راہ میں اور تیری ہی خوشنودی کے لیے خرچ کیا گیا ہے
صبر اس کو فرماتے ہیں کہ گناہوں سے بچا جائے ، طاعات پر مستعد رہا جائے اور کسی مصیبت و تکلیف کے موقعہ پر آہ بکا اور جزع و فزع نہ کیا جائے چنانچہ اس کے بارہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ کامل روشنی کا سبب ہے اس لیے کے صابر کا قلب و دماغ ایمانی عزم و یقین کی روشنی سے ہمیشہ منور رہتا ہے اور وہ دین و دنیا کے ہر مرحلہ پر کامیاب ہوتا ہے۔
قرآن کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ تمہارے لیے یا تمہارے او پر دلیل ہے یعنی تم قرآن پڑھو گے اور اس پر اگر عمل کرو گے تو قرآن تمہیں نفع بخشے گا اور اگر عمل نہ کرو گے تو تمہارے لیے ضرر کا باعث ہو گا۔
جان کو بیچنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جس کام کی طرف آدمی متوجہ ہو اس میں اپنی ذات کو کھپا دے ، اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی سو کر اٹھتا ہے تو اپنے کام میں لگ جاتا ہے اور دنیا میں مشغول ہو جاتا ہے لہٰذا اب اس نے اگر اس کام کے بدلے آخرت خرید لی بایں طور کہ اس کام پر آخرت کو ترجیح دی تو اس نے اپنے نفس کو عذاب آخرت سے آزاد کر لیا، اور اگر خدانخواستہ اس نے دنیا اور دنیا کے اس کام کو آخرت کے بدلے خرید لیا بایں طور کہ اس کام کو آخرت پر ترجیح دی تو اس نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا اور اپنے نفس کو عذاب میں ڈال دیا
بد نیا توانی کہ عقبے خری
بخر جان من ورنہ حسرت بری
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتا دوں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو دور کر دے اور جس کے سبب (جنت میں ) تمہارے درجات کو بلند کرے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مشقّت کے وقت (یعنی بیماری یا سخت جاڑے میں ) وضو کو پورا کرنا، مسجد کی طرف (گھر سے دور ہونے کی وجہ سے ) کثرت سے قدموں کا رکھنا اور (ایک) نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا پس یہ رباط ہے ، اور مالک بن انس کی حدیث میں پس یہ رباط ہے پس یہ رباط ہے دو مرتبہ ہے اور جامع ترمذی کی روایت میں تین مرتبہ ہے۔
تشریح
اس حدیث میں ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے رب قدوس اپنے بندوں پر اس طرح فضل و کرم فرماتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور جنت میں ان کے مراتب و درجات میں ترقی عطا فرماتا ہے چنانچہ سب سے پہلی چیز وضو ہے۔ یوں تو وضو نماز کے لیے شرط اور ضروری ہے لہٰذا جو نماز پڑھے گا وہ وضو بھی کرے گا خواہ کیسا ہی موسم ہو مگر اس جگہ ایک خاص بات کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی سخت وقت میں مثلاً کسی بیماری کی حالت میں یا شدید سردی کے موسم میں عموماً وضو کے معاملہ میں بڑی تساہلی برتی جاتی ہے اور اول تو زبردستی اور صحت کے منافی طریقوں کو اختیار کر کے دو اور تین وقت وضو کو باقی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر اگر وضو کیا جاتا ہے تو ایسے طریقے سے کہ نہ تو اس میں وضو کے آداب اور اس کے سنن و مستحبات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ وضو پورے طریقہ سے مکمل کیا جاتا ہے۔
ایسے ہی مواقع کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے سخت اور شدید وقت میں اگر وضو پورے آداب و طریقے ملحوظ رکھ کے اور تمام سنن و مستحبات کا خیال کر کے کیا جائے اور تمام اعضاء وضو پر پانی اچھی طرح پہنچایا جائے اور ان کو تین تین مرتبہ دھویا جائے تو یہ فضل خداوندی کا سبب ہو گا۔
دوسری چیز مسجد کی طرف کثرت سے قدموں کا رکھنا ہے ، یعنی ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا جو گھر سے دور ہو اس لیے کہ جتنے زیادہ قدم مسجد کی طرف اٹھیں گے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔
نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار یہ ہے کہ مسجد میں ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے یا اگر مسجد سے نکلے بھی تو دل وہیں دوسری نماز میں لگا رہے اس کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان فرمائی جا رہی ہے چنانچہ اس کو رباط کہا گیا ہے۔
رباط اسے فرماتے ہیں کہ کوئی مسلمان اسلامی مملکت کی سرحد پر دشمنان اسلام کا مقابلہ پر نگہبانی کی خاطر بیٹھے تاکہ دشمن سرحد پار کر کے اسلامی ملک میں داخل نہ ہو جائیں اس کا ثواب ہے اور بڑی فضیلت ہے جو خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم بھی فرمایا ہے
آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا) 3۔ آل عمران:200)
اے ایمان والو! (تکلیف پر) خود صبر کرو اور مقابلہ میں صبر کرو اور مقابلہ کے لیے مستعد رہو۔
چنانچہ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نماز کے انتظار میں بیٹھنا اصل رباط ہے کہ جیسے وہاں تو کفار مقابلہ میں بیٹھے ہیں یہاں شیطان کے مقابلہ میں بیٹھے ہیں جو دین کا سب سے بڑا دشمن ہے اس لیے جیسی فضیلت و سعادت رباط میں ہے ویسی ہی فضیلت و سعادت نماز کے انتظار میں بیٹھنے کی ہے اس حدیث میں چونکہ وضو کا ذکر آگیا ہے اس لیے اس کے متعلقات کا یہاں بیان کر دینا مناسب ہے۔
وضو میں چار چیزیں فرض ہیں (١) تمام منہ کا دھونا (٢) ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا (٣) چوتھائی سرکا مسح کرنا (٤) پاؤں کا ٹخنوں تک دھونا وضو میں پورے چہرے کا دھونا فرض ہے اور اسی میں ڈاڑھی بھی شامل ہے ، البتہ ڈاڑھی کی تعین میں تھوڑا بہت اختلاف ہے چنانچہ متون میں لکھا ہے کہ ڈاڑھی کے ان بالوں کا مسح کرنا جو منہ کی جلد سے ملے ہوئے ہیں فرض ہے فتاویٰ عالمگیری اور در مختار میں صحیح اور مفتی بہ قول یہ لکھا ہے کہ ڈاڑھی کے ان بالوں کا مسح کرنا جو منہ کی جلد سے ملے ہوئے ہیں فرض ہے اور لٹکی ہوئی کا دھونا فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے و اللہ تعالیٰ اعلم وضو میں سنت یہ چیزیں ہیں (١) ہاتھوں کا پہنچوں تک دھونا (٢) ابتدائے وضو میں بسم اللہ کہنا (٣) مسواک کرنا (٤) کلی کرنا (٥) ناک میں پانی دینا (٦) ڈاڑھی اور انگلیوں کا خلال کرنا (٧) ہر عضو کو تین بار دھونا (٩) اسی ترتیب سے وضو کرنا جس ترتیب سے قرآن میں مذکور ہے (١٠) تمام سرکا مسح کرنا (١١) اعضاء وضو کو پے در پے دھونا (١٢) سر کے پانی کے ساتھ ہی کانوں کا مسح کرنا (یعنی ہاتھ پر پانی ڈال کر جب سر پر مسح کیا جائے تو اسی ہاتھ سے کانوں کا مسح کیا جائے ، کانوں کے مسح کے لیے الگ سے پانی کی ضرورت نہیں۔
وضو کے مستحبات یہ ہیں (١) اعضاء وضو کو دھونے کے لیے دائیں طرف سے شروع کرنا (مثلاً پہلے دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں ) (٢) گردن کا مسح کرنا (٣) وضو کے لیے قبلہ رخ بیٹھنا (٤) اعضاء کا (دھوتے وقت) پہلی بار ملنا (٥) غیر معذور کا وقت سے پہلے وضو کر لینا (٦) ڈھیلی انگوٹھی کو گھمانا پھرانا اسی طرح غسل میں قرظ یعنی بالی کو گھمانا پھرانا، لیکن اس کے بارہ میں اتنی بات یاد رکھ لینی چاہئے کہ اگر غسل اور وضو کے وقت ان چیزوں کے متعلق یہ خیال ہو کہ ان کے نیچے بدن پر پانی پہنچ رہا ہے تو پھر یہ عمل مستحب ہو گا اور یہ جانے کے پانی ان کے نیچے نہیں پہنچتا تو پھر ان کو ہلا لینا فرض ہو گا (٧) خود وضو کرنا مستحب ہے کسی دوسرے سے وضو نہ کرایا جائے (٨) وضو کے وقت کوئی دنیاوی گفتگو نہ کرنا چاہئے ہاں اگر کوئی مجبوری ہو کہ بغیر کلام و گفتگو کے مقصد اور حاجت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو کر سکتا ہے (٩) ہر عضو کو دھونے کے وقت اور مسح کرتے وقت بسم اللہ پڑھیے (۱۰) ان دعاؤں کا پڑھنا جو عضو کے دھونے کے وقت پڑھنے کے لئے منقول ہیں (۱۱) وضو مکمل کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجنا، مگر کتاب زیلعی میں لکھا ہے کہ ہر عضو کو دھونے کے بعد درود و سلام بھیجنا مستحب ہے (١٢) وضو کے بعد شہادتین اور وہ دعائیں جو حدیث میں وارد ہیں پڑھنا (آگے حدیث میں یہ دعائیں آ رہی ہیں ) (١٣) وضو کا بقیہ پانی قبلہ رخ کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پینا (١٤) بھوؤں اور مونچھوں کے نیچے ، گوشۂ چشم پر اور پاؤں کے کونچوں پر پانی پہنچانے کے لیے تعاہد یعنی خبر گیری کرنا کہ یہ حصے خشک نہ رہ جائیں۔
مکروہات وضو یہ ہیں : (١) منہ پر زور سے پانی مارنا (٢) اسراف کرنا ضرورت اور حاجت سے زیادہ پانی بہانا (٣) اعضاء کو تین تین مرتبہ سے زیادہ دھونا (٤) نئے پانی سے تین مرتبہ مسح کرنا۔
اور منہیات وضو یہ ہیں : (١) عورت کے وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو نہ کرنا چاہئے (٢) نجس جگہ وضو نہ کرنا چاہئے تاکہ وضو کے پانی کی بے حرمتی نہ ہو (٣) مسجد میں وضو نہ کرنا چاہئے البتہ کسی برتن میں یا اس جگہ جو وضو کے لیے خاص طور پر مقرر ہے وضو کرنا درست ہے (٤) تھوک اور رینٹھ وغیرہ وضو کے پانی میں نہ ڈالنا چاہئے۔
٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کرے اور اچھی طرح کرے (یعنی اس کے سنن و مستحبات کی رعایت کے ساتھ) تو اس کے (صغیرہ) گناہ اس کے بدن سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں بھی وضو کی فضیلت اور طہارت کی بڑائی بیان کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وضو کرنا درحقیقت اپنے گناہوں کو اپنے جسم سے دھونا ہے جو جتنا زیادہ جتنی اچھی طرح وضو کرے گا اس کے اتنے ہی گناہ ختم کر دئیے جائیں گے اور پھر بطور مبالغہ کے فرمایا گیا ہے کہ وضو کرنے والے کے ناخنوں کے نیچے کے گناہ بھی وضو کرنے سے نکل جاتے ہیں یعنی وضو کرنے کے بعد اس کو نہ صرف یہ کہ ظاہری پاکی اور طہارت حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ گناہوں سے بھی خوب پاک ہو جاتا ہے ، یہ جملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے یہاں یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ تمہاری شیخی ناک کی راہ نکال دیں گے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی بندہ مسلمان یا فرمایا مومن وضو کا ارادہ کرتا ہے اور اپنے منہ کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا فرمایا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کے وہ تمام گناہ جن کی طرف اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کے منہ سے نکل جاتے ہیں (یعنی جو گناہ آنکھوں سے ہوئے ہیں جھڑ جاتے ہیں ) پھر جب دونوں ہاتھوں کو دھوتا ہے تو ہاتھوں کے تمام گناہ جن کو اس کے ہاتھ نے پکڑا تھا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کے ہاتھوں سے خارج ہو جاتے ہیں (یعنی جو گناہ ہاتھ سے ہوئے جھڑ جاتے ہیں ) پھر جب وہ دونوں پاؤں کو دھوتا ہے تو اس کے وہ تمام گناہ جن کی طرف وہ پاؤں سے چلا تھا پانی کے ساتھ یا فرمایا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اچھی طرح وضو کرے اور نماز میں خشوع و خضوع کرے تو (اس کی یہ نماز) ان گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جو اس نے نماز سے پہلے کئے تھے ، بشرطیکہ وہ گناہ کبیرہ نہ ہوں اور ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے (یعنی وہ نماز جو گناہوں کا کفارہ ہے کسی زمانہ میں مخصوص نہیں ہے یہ فضیلت ہر زمانہ میں قائم رہتی ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
نماز کی اصل روح خشوع اور خضوع ہے اس لیے کہ نماز ہی وہ عبادت ہے جو بندہ کی انتہائی بے چارگی اور اس کے عجز کو ظاہر کرتی ہے لہٰذا نماز کے اندر جتنا زیادہ خشوع و خضوع ہو گا اتنی ہی اعلیٰ درجہ تک رسائی ہو گی نماز میں خشوع کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی نماز پڑھے تو نماز کے جتنے ظاہری و باطنی آداب ہیں سب کو بجا لائے اور سب کی رعایت کرے تاکہ دل ترساں رہے جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو نہایت سکون کے ساتھ رہے نظر سجدہ کی جگہ پر ہو، سوائے نماز کے کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہو اپنا دھیان نماز ہی میں رکھے کسی دوسری طرف دھیان نہ بٹے ، بدن کپڑے اور ڈاڑھی وغیرہ سے کھیلے نہیں ، دائیں بائیں طرف دیکھے نہیں اور آنکھ نہ بند کرے ، یہ تمام چیزیں اگر نماز میں حاصل ہو جائیں تو پھر انشاء اللہ حضور قلب کی دولت بھی میسر آ جائے گی جو عند اللہ نماز کی مقبولیت کا سبب ہے۔
حدیث میں صرف رکوع کا ذکر کیا گیا ہے سجدہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رکوع صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی نماز میں مشروع ہے یہود و نصاریٰ کی نماز و عبادت میں علی العموم رکوع نہیں ہوتا اس لیے اس کو بیان کر کے اس کی امتیازی حیثیت کو اجاگر کیا گیا ہے ، آخر میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ ایسی نماز صرف صغیرہ گناہوں کے لیے کفارہ ہوتی ہے اور صغیرہ گناہوں کو ختم کر دیتی ہے ، کبیرہ گناہوں کا کفارہ نہیں ہوتی۔
٭٭حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ وضو کیا چنانچہ انہوں نے پہلے اپنے ہاتھوں میں تین مرتبہ پانی ڈالا پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک جھاڑی (یعنی ناک میں پانی دینے کے بعد ناک سن کی پھر تین مرتبہ منہ دھویا، پھر تین مرتبہ اپنا داہنا ہاتھ کہنی تک دھویا (یعنی کہنی سمیت دھویا) پھر تین مرتبہ اپنا بایاں ہاتھ کہنی تک دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پیر تین مرتبہ دھویا، پھر بایاں پیر تین مرتبہ دھویا اور پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے جس طرح اب میں نے وضو کیا ہے پھر فرمایا جو آدمی میرے اس وضو کی مانند وضو کرے (یعنی فرائض و سنن اور مستحبات و آداب کی رعایت کے ساتھ) پھر دو رکعت نماز پڑھے اور نماز کے اندر اپنے دل سے کچھ باتیں نہ کرے (یعنی پورے دھیان سے نماز پڑے تو اس کے تمام پچھلے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اس روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں۔
تشریح
اعضاء وضو کا تین مرتبہ سے زائد دھونا تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پورے عضو تین مرتبہ دھو چکا ہے تو اب اس پر زیادتی نہ کرے یعنی تین بار سے زائد نہ دھوئے اگر ایسی شکل ہے کہ ایک چلو سے آدھا عضو دھویا اور پھر دوسرے چلو سے آدھا دھویا تو یہ ایک مرتبہ ہی کہلائے گا مثلاً اسی طرح کسی عضو کو چھ چلوں سے دھو کر تین بار کو پورا کیا تو یہ زیادتی نہ ہو گی بلکہ تین مرتبہ ہی ہو گا وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا انتہائی درجہ نہیں ہے بلکہ ادنیٰ درجہ ہے اگر زیادہ بھی پڑھے تو افضل ہے بہر حال یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وضو کے بعد نماز یعنی تحیۃ الوضو پڑھنی مستحب ہے اگر فرض یا سنت مؤکدہ ہی پڑھے تو یہ بھی کافی ہے۔
آخر حدیث میں اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ نماز میں حضور قلب اور خشوع و خضوع بہت زیادہ مطلوب ہے چنانچہ آخری جملہ کا یہ مطلب یہ ہے کہ جب نماز شروع کرے تو پھر اپنے دل کو نماز میں لگائے خیالات نماز سے باہر کہیں دوسری جگہ بھٹکنے نہ پائیں اور قلب میں دنیا کے خیالات او ایسے تفکرات کو جو نماز کے منافی ہیں جگہ نہ دے خیال اللہ ہی کی طرف لگائے رکھے اگر خطرات و وساوس دل میں آئیں تو ان کو دفع کر لے ہاں اگر دل میں ایسے خطرات پیدا ہوتے ہیں جو نماز میں حضور قلب کے منافی نہیں پھر کچھ مضر نہیں۔
٭٭اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عقبہ ابن عامر جنبی ہے کنیت میں بہت زیادہ اختلاف ہے کچھ لوگ فرماتے ہیں کہ ابو حماد تھی بعض نے ابولبید، ابو عمر وغیرہ بھی کہا ہے مصر میں انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان وضو کرے اور اچھا وضو کرے پھر کھڑا ہو اور دو رکعت نماز پڑھے دل اور منہ سے متوجہ ہو کر (یعنی ظاہر و باطن کے ساتھ متوجہ ہو کر) تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
فرمایا گیا ہے کہ جب اچھی طرح وضو کرے تو کھڑا ہو اور دو رکعت نماز پڑھے تو یہ کھڑا ہونا یا حقیقۃً ہو یعنی واقعی کھڑا ہو کر نماز پڑھے یا کھڑا ہونا حکماً ہو مثلاً بیٹھ کر پڑھے خصوصاً جب اس کو کوئی عذر اور مجبوری ہو کہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا یہ دونوں شکلیں مراد ہیں۔
٭٭اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں جو آدمی وضو کرے اور (اس کی خوبیوں ) کو انتہاء پر پہنچا دے یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ فرمائے کہ اور پورا وضو کرے پھر کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہٗ (یعنی میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں اور ایک روایت میں ہے (کہ اس طرح کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہ، وَرَسُوْلُہٗ یعنی میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور شہادت دیتا ہوں اس بات کی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں ، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس دروازے میں سے اس کا جی چا ہے جنت میں داخل ہو (مسلم ، حمیدی، جامع الاصول) اور امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے مسلم کی حدیث کے آخر میں جس کو ہم نے روایت کیا ہے کہ ذکر کیا ہے کہ جامع ترمذی نے (شہادتین پر اس دعا کے ) یہ الفاظ زیادہ لکھے ہیں اے اللہ ! مجھ کو توبہ کرنے والوں میں سے بنا اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر (یعنی مسلم کی روایت جس طرح ہم نے ذکر کی ہے وہی روایت امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے مسلم کی شرح میں نقل کی ہے اور اس کے آخر میں رواہ الجامع ترمذی الخ کی عبارت بڑھا دی ہے ) اور وہ حدیث جس کو امام محی السنتہ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے صحاح میں روایت کی ہے یعنی مَنْ تَوَضَّأَ فَاَحْسَنَ الْوُضُوْءَ الخ (جس نے وضو کیا آخر تک) اس کو
امام ترمذی نے رحمۃ اللہ تعالیٰ اپنی جامع میں بعینہ اسی طرح نقل کیا ہے اَنَّ مُحَمَّداً سے پہلے اَشْھَدُ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تشریح
مراتب اور درجات کے اعتبار سے جنت کے آٹھ حصے ہیں چنانچہ اس حدیث میں آٹھوں دروازوں کا جو ذکر کیا گیا ہے ان سے حقیقۃً دروازے مراد نہیں بلکہ ان آٹھ حصوں کو ایک ہی اعتبار کیا ہے اور ہر ایک کو دروازے سے تعبیر کیا ہے کبھی ایک کو بھی بہشت فرماتے ہیں ، اس حساب سے ہشت بہشت بولتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی الخ یعنی اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں تو اس کی توفیق عنایت فرما کہ جب ہم سے کبھی بتقاضائے بشریت کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور ہم سے کوئی لغزش ہو جائے تو ہم اس سے فوراً توبہ کر لیں اور اپنے عیوب سے رجوع کر لیں۔
اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سے گناہ زیادہ واقع ہوں بلکہ یہاں یہ مراد ہے کہ جب گناہ سرزد ہو جائے تو ہمارے دلوں میں توبہ کرنے کا داعیہ پیدا کر دے خواہ گناہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں تاکہ اس آیت کے مطابق تیرے پسندیدہ اور محبوب بندوں کی جماعت میں شامل ہو سکیں۔
(اِنَّ اللّٰہ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَہرِيْنَ) 2۔ البقرۃ:222)
یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
یعنی اللہ اپنے ان بندوں کو پسند کرتا ہے جو بارگاہ الوہیت سے منہ نہیں پھیرتے اور کسی موقعہ پر اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے دعا کے آخری جملہ اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں باطنی پاکیزگی کی دولت سے نواز دے اور ہمارے اندر جتنے برے اخلاق اور بد خصائل ہیں سب سے ہمیں پاک و صاف کر دے چنانچہ اس طرف اشارہ ہے کہ جسم اور اعضاء ظاہری کی طہارت و صفائی ہمارے اختیار میں تھی اس کو ہم نے پورا کر لیا، اب باطنی احوال کی طہارت اور اندرونی صفائی تیرے ہاتھوں میں ہے لہٰذا اپنے فضل و کرم سے باطنی پاکیزگی بھی عنایت فرما دے۔
(رباعی)
اے درخم چوگان تو دل ہم چو گوے :: بیروں نہ فرمان تو جاں یک سرموئے
اے ! کہ تیرے خم چوگان میں ہمارا دل ایک گیند کی طرح ہے ، ہم تیرے فرمان سے ایک موئے بدن بھی باہر نہیں ہیں۔
ظاہر کے بدست ماست شستیم تمام:: باطن کہ بدست تست آن راہ تو بشوئے
ظاہر جو ہمارے قبضہ میں تھا ہم اسے دھو چکے ہیں۔ باطن جو تیرے قبضہ میں ہے اسے تو ہی دھو سکتا ہے۔
آخر میں مشکوٰۃ کے مولف صاحب مصابیح پر ایک اعتراض فرما رہے ہیں ، اعتراض یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے جو حدیث فاحسن الوضو ثم قال اشھد ان لا الہ الا اللہ وحد لا شریک لہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین فتحت لہ ثمانیۃ ابواب الجنۃ یدخل من ایھا شاء کو صحاح میں نقل کیا ہے حالانکہ اس حدیث کو صحاح میں نقل کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں نہیں ہے بلکہ یہ روایت جامع ترمذی کی ہے ، لہٰذا یہ روایت صحاح کے بجائے حسان میں نقل کرنی چاہئے تھی ، پھر دوسری بات یہ ہے کہ جامع ترمذی نے بھی اپنی روایت میں ان محمداً سے پہلے اشھد کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے۔
اتنی بات اور جان لینی چاہئے کہ جزری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے حصن حصین میں ابن ماجہ،ابن ابی شیبہ، اور ابن سنّی کے حوالہ سے شہادتین کے بعد لفظ ثلاث مرات کا ذکر کیا ہے ، یعنی شہادتیں تین مرتبہ پڑھنی چاہئے اور سنن نسائی و حاکم کی روایت میں اللھم اجعلنی الخ کے بعد یہ بھی منقول ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ لِہٰذَا اولیٰ اور بہتر ہے کہ جتنی دعائیں منقول ہیں وضو کے بعد سب ملا کر پڑھی جائیں نیز نہانے والے کے لیے بھی یہ دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے روز میری امت اس حال میں پکاری جائے گی کہ وضو کے سبب سے ان کی پیشانیاں روشن ہوں گی اور اعضا چمکتے ہوں گے لہٰذا تم میں سے جو آدمی چا ہے کہ وہ اپنی پیشانی کی روشنی کو بڑھائے تو اسے چاہئے کہ وہ ایسا ہی کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
غُرَّ جمع ہے اغر کی جس کے معنی ہیں سفید چہرہ اور محجل اس آدمی کو فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ پاؤں سفید ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز وضو کے اثر یہ تمام اعضاء روشن ہوں گے اور جب محشر میں نمازیوں کو جنت میں جانے کے لیے پکارا جائے گا تو وہ لوگوں کے درمیان سے اس طرح آئیں گے کہ ان کے اعضاء وضو روشن و چمک دار ہوں گے۔
آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جس آدمی کی خواہش ہو کہ قیامت کے روز اس کی پیشانی چمکدار اور اس کے اعضاء کی سفید دراز ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس عمل اور فعل کے کرنے میں پوری احتیاط سے کام لے جو اس سعادت کا سبب ہو گا یعنی وضو پوری رعایت سے کرے ، چہرہ کو پیشانی کے اوپر سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک خوب اچھی طرح دھوئے۔
تحجیل کی درازگی یہ ہے کہ پاؤں کو خوب اچھی طرح اور ٹخنوں کے اوپر تک دھوئے یہاں تحجیل کی درازگی کا ذکر نہیں فرمایا گیا ہے اس لیے کہ یہ دونوں یعنی غر اور محجل آپس میں لازم اور ملزوم ہیں جب ایک کی درازگی کا ذکر فرما دیا تو دوسرا خود بخود مفہوم ہو جائے گا۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا (جنت میں ) مومن کو زیور (وہاں تک) پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ وضو کا پانی جن اعضاء پر پہنچتا ہے یعنی جو اعضاء وضو میں دھوئے جاتے ہیں جنت میں ان سب اعضاء کی زیورات سے زیب و زینت کی جائے گی، اسی طرح جس کا وضو جتنا زیادہ بہتر اور مکمل یعنی سنت کے مطابق ہو گا جنت میں اس کے اعضاء وضو کی آرائش اتنے ہی اعلیٰ پیمانہ پر ہو گی۔
٭٭حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی ثوبان ابن بجد ہے کنیت ابو عبد اللہ ہے بعض حضرات نے ابوعبدالرحمن بھی لکھی ہے آپ نے حمص میں ٥٤ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا سیدھے رہو اور سیدھے رہنے کی ہر گز طاقت نہ رکھ سکو گے ، اور جان لو کہ تمہارے اعمال میں بہترین چیز نماز ہے اور وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے۔ (مالک، مسند احمد بن حنبل ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
سیدھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعمال پر مستقیم رہو اور ہمیشہ سیدھی راہ پر چلتے رہو، ادھر ادھر برے راستوں کی طرف میلان نہ کرو، اور چونکہ یہ امر مشکل تھا اس لیے آگے فرمایا کہ لن تحصوا یعنی پورے کمال اور رسوخ کے ساتھ تم استقامت اختیار نہیں کر سکتے اور جب یہ فرما دیا گیا کہ استقامت کی طاقت نہیں رکھ سکتے اور اعمال و افعال میں استقامت کے جو حقوق ہیں وہ پوری طرح ادا نہیں ہو سکتے تو آگے ایک نہایت آسان اور سہل راہ کی طرف راہنمائی کر دی گئی یعنی عبادت کی جڑ اور خلاصہ نماز پر آگاہ کر دیا کہ اگر صرف اسی ایک عمل اور ایک عبادت یعنی نماز میں استقامت اختیار کر لو گے تو تمام تقصیرات کا تدارک ہو جائے گا لہٰذا چاہئے کہ نماز پر مداومت اختیار کرو۔ اس کے جو شرائط و آداب ہوں ان کا خیال رکھو اور اس کے جو حقوق ہیں ان کو پوری طرح سے ادا کرو۔
بعد میں نماز کے مقدمہ اور شرط یعنی وضو اور طہارت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے جس کو نصف ایمان کہا گیا ہے چنانچہ فرمایا گیا کہ وضو کی محافظت تو مومن کا خاصہ ہے اس لیے کہ وہ مومن کامل کا قلب و دماغ توجہ الیٰ اللہ کی شعاعوں سے ہر وقت منور رہتا ہے وہ اپنے قلب و بدن دونوں کے ساتھ یعنی ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ بارگاہ الوہیت میں حاضری بغیر ظاہر و باطن کی صفائی و پاکیزگی اور بدون طہارت کے آداب کے منافی چیز ہے اور شان عبودیت کے خلاف بھی ہے اس لیے مومن وضو کی محافظت کرتا ہے اور وضو کے جو آداب و شرائط اور سنن و مستحبات ہیں ان سب کی رعایت کرتا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کے اوپر وضو کرے تو اس کے واسطے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (جامع ترمذی)
تشریح
ایک تو مطلقاً وضو کرنے کا ثواب و اجر مقرر ہے وہ تو ملنا ہی ہے لیکن جو آدمی وضو پر وضو کرے تو اس کے واسطے اس مقررہ اجر و ثواب کے علاوہ مزید دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ اجر و ثواب اس وقت ملتا ہے جب کے پہلے وضو کے بعد فرض یا نقل نماز پڑھ چکا ہو، اور اس کے بعد پھر دوسرا وضو کرے۔
شرح السنۃ میں منقول ہے کہ تجدید و ضو اس وقت مستحب ہے جب کہ پہلے وضو سے کوئی نماز پڑھ چکا ہو اور بعض علماء کے نزدیک اگر پہلے وضو کے بعد نماز نہ پڑھی ہو تو وضو کرنا مکر وہ ہے۔
٭٭حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی وضو ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
جیسے کہ مقفّل دروازہ بغیر کنجی کے نہیں کھل سکتا اسی طرح بغیر وضو کے نماز نہیں ہو سکتی اور بغیر نماز کے جنت میں داخلہ نہیں ہو سکتا، اس حدیث میں محافظت نماز کی اہمیت کو بطور نمونہ بیان کیا گیا ہے ، کہ گویا نماز کا حکم ایمان میں ہے کہ بغیر اس کے جنت میں جانا میسر نہیں ہو گا لہٰذا چاہئے کہ نماز خوب اچھی طرح ادا کی جائے اور کبھی نماز ترک و قضا نہ کی جائے کیونکہ دخول جنت کا سبب یہی ہے۔
٭٭اور حضرت شبیب بن ابی روح رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب میں سے کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک مرتبہ) صبح کی نماز پڑھی اور اس کے اندر سورہ روم کو پڑھا (اثناء نماز میں ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو متشابہ ہوا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ہمارے ساتھ پڑھتے ہیں اور اچھی طرح وضو نہیں کرتے اور اس وجہ سے یہ لوگ ہم پر قرآن میں متشابہ ڈالتے ہیں۔ (سنن نسائی)
تشریح
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ کسی عمل اور کسی عبادت کے جو سنن و آداب ہوتے ہیں وہ واجب کو کامل کرتے ہیں اور برکت کا سبب ہوتے ہیں ، اسی برکت کا اثر نہ صرف یہ کہ عامل ہی کی ذات تک محدود رہتا ہے ، بلکہ وہ برکت دوسروں میں بھی سرائیت کرتی ہے جیسے کہ کوتاہی اور قصور عامل کی ذات کے علاوہ دوسرے کے ضرر کا بھی باعث ہوتے ہیں نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنن و آداب پر عمل نہ کرنے سے فتوحات غیبیہ کا دروازہ بند ہوتا ہے۔
یہ حدیث درحقیقت ان بے بصیرت لوگوں کے لیے تازیانہ عبرت ہے جو صحبت کی تاثیر کے منکر اور اس سے غافل ہیں لہٰذا ایسے لوگوں کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ سرکار دو عالم، سید الرسل صلی اللہ علیہ و سلم پر باوجود اس رتبہ کے اور قرآن پڑھنے کی حالت میں جو تقرب الی اللہ کا وقت ہے ایک ادنیٰ امتی کی صحبت نے اثر کیا جس سے وضو کے آداب و سنت میں کوئی کوتاہی یا قصور ہو گیا تھا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرأت میں متشابہ لگا تو ایسے لوگوں کا کیا حشر ہو گا جو شب و روز اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت کو اختیار کئے رہتے ہیں۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں کہ اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت و ہم نشینی کو بالکل ترک کر کے علماء حق، صوفیائے کرام اور اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کی جائے تاکہ ان کی ہم نشینی اور صحبت کے اثرات و برکات اپنے اندر پیدا ہوں جو دین و دنیا دونوں جگہ کی بھلائی کے لیے ضامن ہیں۔
ابتداء روایت میں راوی نے اس صحابی کا نام ذکر نہیں کیا ہے جس سے یہ حدیث حاصل کی گئی ہے مگر حضرت میرک شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ وہ صحابی حضرت ابوذر غفاری ہیں۔
٭٭اور قبیلہ بنی سلیم کے ایک آدمی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے باتوں کو (جو آگے مذکور ہیں ) میری ہاتھ پر یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا (چنانچہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سبحان اللہ کہنا (یعنی اس کا ثواب) آدھی ترازو بھر دیتا ہے اور الحمد اللہ (سبحان اللہ کے ساتھ) کہنا (یا فقط الحمدللہ کہنا ہی پوری ترازو کو بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے اور روزہ آدھا صبر ہے اور پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔ جامع ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے )
تشریح
حدیث کو بیان کرتے وقت راوی کو شک ہو گیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان باتوں کو میرے ہاتھ پر شمار کیا ہے یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا ہے بہر حال ان کو شمار اس طرح کیا کہ یا تو آپ نے صحابی کی انگلی پکڑی اور ان کو ہتھیلی پر بند کرے ان پانچ باتوں کو شمار کیا۔
حدیث میں روزے کو آدھا صبر فرمایا گیا ہے ، اس لیے کہ پورا صبر تو یہ ہے کہ نفس کو طاعت پر رو کے یعنی احکام کو بجا لائے اور گناہوں سے روکے یعنی ممنوع چیزوں کو نہ کرے اور روزہ نام ہے صرف نفس کو طاعت پر روکنے یعنی حکم الہٰی کو بجا لانے کا لہٰذا اس اعتبار سے روزہ آدھا صبر ہوا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ صنابحی (ان کے صحابی ہونے اور نام میں اختلاف ہے یحییٰ ابن معین کا قول تو یہی ہے کہ ان کا نام عبداللہ یا ابو عبداللہ بیان کیا جاتا ہے ) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب بندہ مومن وضو کا ارادہ کرتا ہے اور کلی کرتا ہے تو گناہ اس کے منہ سے خارج ہوتے ہیں اور جب ناک جھاڑتا ہے تو گناہ اس کی ناک سے خارج ہو جاتے ہیں اور جب اپنا منہ دھوتا ہے تو گناہ اس کے منہ سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو گناہ اس کے ہاتھوں سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں ، اور جب اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو گناہ اس کے دونوں پاؤں سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں ، پھر مسجد کی طرف اس کا چلنا ہوتا ہے اور اس کی نماز اس کے واسطے (اعمال میں ) زیادتی ہے۔ (مالک و سنن نسائی)
تشریح
جیسا کہ اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کرنے والا اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں پھر آگے فرمایا گیا ہے کہ یہاں تک کہ اس کے دونوں کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اس جملہ سے اس بات کی وضاحت ہو گئی کہ کان سر میں داخل ہیں بائیں طور کہ جو حکم سر کا ہو گا وہی حکم کان کا ہو گا چنانچہ حنفی مسلک یہی ہے اس لیے یہ مسئلہ ہے کہ جب مسح کے لیے پانی لیا جائے تو اس پانی سے کانوں کا مسح بھی کر لیا جائے کانوں کے مسح کے لیے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اس کی نماز اس کے واسطے (اعمال میں ) زیادتی ہے یعنی جب یہ وضو سے فارغ ہوا تو گناہوں سے وضو کی وجہ سے پاک و صاف ہو چکا تھا، اب نماز زائد ہے جو بلندی درجات کا سبب ہو گی۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مقبرہ (یعنی جنت البقیع) میں (دعاء مغفرت کے لیے ) تشریف لائے ، چنانچہ (وہاں پہنچ) کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اے مومنین کی جماعت! تم پر سلامتی ہو (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل قبور کو سلام کیا اور فرمایا) ہم بھی انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اور میں اس بات کی تمنا رکھتا ہوں کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میرے دوست ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو ابھی (دنیا میں ) نہیں آئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں سے جو لوگ ابھی نہیں آئے انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم (قیامت میں کس طرح پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر کسی آدمی کے پاس سفید پیشانی اور سفید ہاتھ اور پیر والے گھوڑے ہوں اور وہ نہایت سیاہ گھوڑوں میں ملے ہوئے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑے کو پہچان لے گا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا ہاں (یا رسول اللہ ! ان امتیازی اوصاف کی بنا پر تو وہ یقیناً پہچان لے گا) آپ نے فرمایا (وہ قیامت میں ) وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے (لہٰذا اس علامت سے میں انہیں پہچان لوں گا) اور میں حوض کوثر پر ان کا میر سامان ہوں گا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور ان کے بعد ہونے والے مسلمانوں میں نہ صرف یہ کہ بڑا دلچسپ اور لطیف فرق بیان فرمایا ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو امتیازی شان بھی بخش دی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ تم میرے دوست ہو اور بعد میں پیدا ہونے والے مومنین میرے بھائی ہیں ، یعنی تمہارے ساتھ تعلقات کی دو نوعیتیں ہیں ایک تو یہ کہ تم میرے بھائی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ رفیق خاص بھی اور جو بعد میں آنے والے ہیں یعنی تابعین وغیرہ ان کے ساتھ ایک ہی تعلق ہے کہ وہ صرف میرے اسلامی بھائی ہیں۔
میر سامان کا مطلب یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے پہلے ہی اللہ کے یہاں جا کر ان کی مغفرت و بخشش اور بلندی اور درجات کے اسباب درست کروں گا۔
٭٭اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ کی اجازت دی جائے گی اور (پھر) ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ سے سر اٹھانے کی اجازت دی جائے گی چنانچہ میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہو گی (یعنی مخلوق کا مجمع) اور میں امتوں کے درمیان اپنی امت کو پہچان لوں گا، پھر میں اپنے پیچھے کی طرف اسی طرح اور اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف (بھی) اس طرح دیکھوں گا (یعنی چاروں طرف اژدہام خلق دیکھوں گا اور میں اپنی امت کو پہچان لوں گا) ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! اپنی امت سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام کی امت تک کی تمام امتوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو کیونکر پہچان لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میری امت کے لوگ وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ہوں گے اس امت کے علاوہ کوئی دوسری امت اس طرح (امتیازی وصف کے ساتھ) نہیں ہو گی اور میں اپنی امت کو اس طرح بھی پہچان لوں گا کہ (میری امت کے لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے ، نیز اس وجہ سے شناخت کر لوں گا کہ ان کی (خورد سال) اولاد ان کے آگے دوڑتی ہو گی۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
محشر میں جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم بارگاہ صمدیت میں حاضر ہوں گے تو شفاعت کے لیے سجدہ میں جائیں گے اور بمقدار ایک ہفتہ سجدہ میں رہیں گے پھر بعد میں بارگاہ الوہیت سے حکم ہو گا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)! اپنا سر مبارک اٹھائیے اور اے میرے محبوب مانگئے کیا مانگتے ہیں؟ ہم آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) درخواست کو شرف قبولیت بخشیں گے اس کے بعد شافع محشر، آقائے نامدار، سرور کائنات، فخر موجودات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ روحی) اللہ کی مخلوق کی شفاعت کے لیے اپنی لسان مبارک سے بارگاہ خداوندی میں درخواست پیش فرمائیں گے ، حدیث کے ابتدائی حصہ میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔
اس حدیث میں میدان حشر میں امت محمدیہ کی کثرت و زیادتی اور ان کے مراتب میں تفاوت کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے چنانچہ فانظر الی ما بین یدی (یعنی میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہو گی ایسے ہی عن شمالی مثل ذلک(یعنی اور بائیں طرف اس طرح دیکھوں گا) تک یہی مراد ہے کہ میرے چاروں طرف میری ہی امت پھیلی ہو گی اور پھر ان میں مختلف مراتب و درجات کے لوگ ہیں گے۔
صحابی رضی اللہ عنہ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے آج تک ایک بڑی لمبی مدت ہے اور ایک بڑا طویل زمانہ ہے اس دوران میں ایک دو نہیں بہت زیادہ امتیں گزری ہیں ، پھر تعداد شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بے انتہاء اللہ کی مخلوق اس زمانہ میں پیدا ہوئی اور مری ہے تو اتنے اژدہام اور اتنی امتیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو کس طرح پہچان لیں گے ، اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امتیازی صفت کا ذکر فرمایا جس سے امت محمد یہ کے افراد متصف ہوں گے اور تمام امتوں میں ممتاز ہوں گے۔
اس سلسلہ میں حضرت نوح علیہ السلام کا نام بطور خاص لینے کی وجہ یہی ہے کہ اوّل تو اس زمانہ کا طول مراد ہے دوسرے چونکہ یہ تمام نبیوں میں بہت زیادہ مشہور ہیں اس لیے ان کا نام لیا۔
وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
اس باب میں ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو وضو کو توڑتی ہیں چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ کے مسلک کے مطابق ان چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(١) پاخانہ اور پیشاب کے راستہ سے نکلنے والی ہر چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے پاخانہ، پیشاب اور ریاح وغیرہ مگر جو ہوا مرد یا عورت کے آگے کے سرے سے نکلتی ہے اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
(٢) اس چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جو نجس ہو (جیسے خون اور پیپ وغیرہ) اور بدن میں خود بخود نکل کر اس حصہ تک پہنچ جائے جس کو غسل یا وضو میں دھونا لازم ہو، یعنی اگر ناک کے بانسے اور آنکھ کے اندر رہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا کیونکہ ان کا دھونا لازم نہیں ہے۔
(٣) قے کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے منہ بھر قے کرنے میں خواہ اناج نکلے ، پانی نکلے ، جما ہوا خون یعنی سودا نکلے ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اگر بلغم نکلے تو وضو نہیں ٹوٹتا، اگر پتلے خون یا پیپ کی قے ہو تو اس میں منہ بھرنے کی شرط نہیں بلکہ تھوک کے برابر ہو یا تھوک پر غالب ہو جائے تب بھی وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر کم ہو گا تو نہیں ٹوٹے گا اگر ایک ہی متلی میں تھوڑی قے اتنی مقدار میں ہوئی کہ اگر اسے جمع کیا جائے تو منہ بھر جائے تو اس سے وضو جاتا ہے جس چیز سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے وہ نجس نہیں ہوتی مثلاً تھوڑی سے قے کی یا بدن سے خون اس طرح نکلا کہ وہ جسم پر بہا نہیں تو یہ ناپاک نہیں ہے۔
(٤) وضو ٹوٹ جاتا ہے دیوانہ ہونے سے۔
(٥) نشے سے۔
(٦) بے ہوش ہو جانے سے۔
(٧) اور بالغ کے قہقہے سے اس نماز میں جو رکوع و سجود والی ہو۔
(٨) مباشرت فاحشہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، مباشرت فاحشہ اسے فرماتے ہیں کہ انتشار اور جنسی ہیجان کے ساتھ مرد کا ستر عورت کے ستر سے اور عورت کا ستر مرد کے ستر سے مل جائے یا دو عورتوں یا مردوں کے ستر مل جائیں۔
(٩) لیٹ کر اپنے بدن پر یا دیوار وغیرہ پر تکیہ لگا کر سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن یہ سونا اس طرح ہو کہ اگر تکیہ کی وہ چیز جس پر ٹیک لگا کر سویا ہوا ہے ہٹا لی جائے تو گر پڑے۔
(١٠) اگر اس طرح سو جائے کہ مقعد زمین سے اٹھ جائے یعنی پہلو پر یا کولھوں پر یا چت یا منہ کے بل، یا کولھے کو دیوار سے لگا کر یا پیٹ پاؤں پر لگا کر جھکا ہوا سو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کھڑا کھڑا سو جائے یا رکوع اور سجدہ کی حالت میں سو جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا مگر شرط یہ ہے کہ رکوع و سجود ہیئت مسنونہ پر ہوں ، اگر زخم میں کیڑے نکلیں یا گوشت کٹ کر گر جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
(١١) اگر جونک لگائی جائے اور وہ خون پی کی کر بھر گئی یا بڑی چیچری نے پیٹ بھر خون پیا تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
(١٢) اگر کسی کی آنکھ دکھنے آتی ہے اور آنسو نکلتے ہیں تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اس سلسلہ میں اکثر لوگ غافل ہیں اس کا خیال نہیں کرتے اس لیے اس کا خیال رکھنا چاہئے ہاں اگر کوئی آدمی ایسا ہے جس کی آنکھیں ہمیشہ جاری رہتی ہیں تو وہ صاحب عذر ہو جاتا ہے۔
(١٣) اگر کان دکھتا ہے اور اس سے پیپ یا کچھ لہو نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ان میں سے دو چیزیں یعنی پیشاب اور پاخانہ کے راستہ سے نکلنے والی چیزوں اور نیند پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ چیزیں ناقض وضو ہیں باقی چیزیں مختلف فیہ ہیں۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا بے وضو کی نماز قبول نہیں کی جاتی جب تک کہ وضو نہ کرے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس کا تعلق اس آدمی سے ہے جو پانی رکھتا ہو اور اس کے استعمال کی قدرت بھی اس کے اندر ہو یعنی جس آدمی کے پاس پانی اور اس پانی کے استعمال کرنے میں اس کو کوئی عذر شرعی نہ ہو تو اس کو نماز کے لیے وضو کرنا ضروری ہے اگر اس نے وضو نہیں کیا تو اس کی نماز ادا نہیں ہو گی۔
اگر کوئی آدمی پانی نہ پائے یا اس کے استعمال کی قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ بجائے وضو کے پاک و صاف مٹی سے تیمم کرے ایسا آدمی جو نہ تو پانی پائے اور نہ پاک و صاف مٹی ہی اسے ملے اور نہ وہ ان کے استعمال کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے آدمی کو اصطلاح شریعت میں فاقد الطھورین فرماتے ہیں اس آدمی کے بارہ میں یہ حکم ہے کہ وہ نماز نہ پڑھے ، ہاں جب پانی وغیرہ پائے تو وضو کر کے نماز پڑھے۔
اس مسئلہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کا مسلک دوسرا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی یعنی فاقدا الطہورین کو چاہئے کہ اس شکل میں بھی وقت نماز کے احترام میں بغیر وضو اور تیمم ہی کے نماز پڑھ لے جب اسے پانی یا مٹی دستیاب ہو جائے تو وضو یا تیمم کر کے قضا کر لے۔
ہمارے علماء رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی قصداً بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور پھر یہ کہ اس سے اس کا مقصد احترام وقت بھی نہ ہو تو یہ آدمی کافر ہو جاتا ہے ، یا اگر لوگوں کی شرم کی وجہ سے محض دکھلانے کے لیے بھی بغیر طہارت کے نماز پڑھے تو بھی کافر ہو جاتا ہے کیونکہ ان دونوں شکلوں میں اس نے شرع کی تحقیر کی ہے اس لیے ایسا آدمی جو اپنے قول سے یا فعل سے شریعت کی تحقیر کا سبب بنتا ہے وہ اس قابل نہیں ہے کہ دائرہ اسلام اور ایمان میں رہ سکے۔
٭٭اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا بغیر طہارت نماز قبول نہیں کی جاتی اور مال حرام کی خیرات قبول نہیں کی جاتی۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حرام مال میں صدقہ خیرات کرنا چونکہ صدقہ و خیرات کی توہین و تحقیر ہے اس لیے اس کو بہت زیادہ قابل نفرت شمار کیا گیا ہے چنانچہ ہمارے علماء نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو آدمی مال حرام میں سے صدقہ و خیرات کرتا ہے اور پھر اس کی امید بھی رکھتا کہ اس سے ثواب ملے گا تو کافر ہو جاتا ہے۔
(٣) وَعَنْ عَلِیٍّ صقَالَ کُنْتُ رَجُلاً مَذَّآئً فَکُنْتُ اَسْتَحْیِیْ اَنْ اَسْأَلَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و سلم لِمَکَانِ ابْنَتِہٖ فَاَمَرْتُ الْمِقْدَادَ فَسَأَلَہُ فَقَالَ ے َغْسِلُ ذَکَرَہُ وَے َتَوَضَّاُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میرے نکاح میں تھی اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا حکم دریافت کرتے ہوئے شرماتا تھا (کہ آیا اس سے غسل واجب ہوتا ہے یا وضو) اس لیے میں نے (اس مسئلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کرنے کے لیے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو مامور کیا، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا (اس طرح سے کہ ایک آدمی ایسا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ) تو آپ نے فرمایا کہ (مذی نکلنے پر) پیشاب گاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ حدیث ایک اخلاقی معاملہ میں بڑی لطیف تنبیہ کر رہی ہے کہ داماد کو اپنے سسر سے شہوت کی باتوں کا ذکر کرنا، ایسی چیزوں کا تذکرہ کرنا جن کا تعلق مباشرت عورت سے ہو یا جن کا بیان اخلاق و تہذیب اور شرم و حیا کے منافی ہو مناسب نہیں۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس چیز کو آگ نے پکایا ہو اس کے کھانے کے بعد وضو کرو۔ (صحیح مسلم)
تشریح
امام محی السنتہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے منسوخ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بکری کا شانہ کھایا پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
پہلے حکم کی منسوخی تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث سے ہو گئی لیکن اس سلسلہ میں اس حدیث کی ایک دوسری تاویل اور کی جاتی ہے وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کی کہ آگ کی پکی ہوئی چیز کو کھانے کے بعد وضو کرو سے مراد یہ ہے کہ جب تم کوئی پکی ہوئی چیز کھاؤ تو چکنائی وغیرہ دور کرنے کے لیے ہاتھ منہ دھولیا کرو، کیونکہ نہ صرف یہ کہ نظافت و صفائی کا یہی تقاضا ہے بلکہ یہ سنت بھی ہے چنانچہ اسی کو وضو طعام بھی کہا جاتا ہے ، اس صورت میں حدیث کو منسوخ کہنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔
٭٭اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی جابر بن سمرۃ اور کنیت ابوعبد اللہ عامری ہے سن وفات میں اختلاف ہے بعض لوگ فرماتے ہیں کہ ٦٦ھ میں انہوں نے وفات پائی کچھ حضرات کی تحقیق ہے کہ ان کا سن وفات ٧٤ھ ہے۔) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کیا ہم بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تمہارا جی چا ہے تو وضو کرو اور نہ چا ہے تو نہ کرو پھر اس آدمی نے پوچھا کیا اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرو پھر اس آدمی نے سوال کیا کیا بکریوں کے رہنے کی جگہ میں نماز پڑھ لوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! پھر اس آدمی نے دریافت کیا کیا اونٹوں کے بندھے کی جگہ نماز پڑھوں آپ نے فرمایا نہیں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ چونکہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہیں اس لیے انہوں نے تو یہ حدیث دیکھ کر حکم لگا دیا کہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہئے کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے کہ یہ حضرات اس حدیث کا محل وضو کے لغوی معنے ہاتھ منہ دھونے کو قرار دیتے ہیں یعنی یہ حضرات فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ اونٹ کے گوشت میں بساندہ اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کو کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھو لینا چاہئے چونکہ بکری کے گوشت میں بساندھی اور چکنائی کم ہوتی ہے اس لیے اس کے بارے میں فرما دیا کہ اگر طبیعت چا ہے اور نظافت کا تقاضا ہو تو ہاتھ منہ دھو لیا کرو اور اگر طبیعت نہ چا ہے تو کوئی ضروری نہیں ہے۔
اونٹوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے سے منع فرمانا نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور منع اس لیے فرمایا کہ وہاں نماز پڑھنے میں سکون و اطمینان اور خاطر جمعی نہیں رہتی، اونٹوں کے بھاگ جانے یا لات مار دینے اور تکلیف پہنچانے کا خدشہ رہتا ہے بخلاف بکریوں کے چونکہ وہ بیچاری سیدھی سادی اور بے ضرر ہوتی ہیں اس لیے ان کے رہنے کی جگہ نماز پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔
اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ نماز پڑھنے کے سلسلہ میں یہ جواز او عدم جواز اس صورت میں ہے جب کہ مرابض (بکریوں کے رہنے کی جگہ) اور مبارک (اونٹوں کے بندھنے کی جگہ) نجاست و گندگی سے خالی ہوں اگر وہاں نجاست ہو گی تو پھر مرابض میں بھی نماز پڑھنی مکروہ ہو گی۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ کے اندر کچھ پائے (یعنی قراقر) اور اس پر یہ بات مشتبہ ہو کہ کوئی چیز خارج ہوئی یا نہیں تو اس وقت تک وضو کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے جب تک آواز کو نہ سنے یا بو نہ پائے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
جب تک کوئی آواز نہ سنے یا بو نہ پائے یہ غالب کے اعتبار سے ہے ورنہ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جب ریاح کا خارج ہونا یقینی طور پر معلوم ہو جائے خواہ آواز سنے یا نہ سنے بو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو تو سمجھ لے کہ وضو ٹوٹ گیا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے دودھ پیا (اس کے بعد) کلی کی اور فرمایا دودھ میں چکناہٹ ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چکنی چیز کھانے کی بعد کلی کرنا مستحب ہے ، اس لیے کہ اگر کلی نہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ جو چیز کھائی گئی چکناہٹ کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ منہ میں لگا رہ جائے ، جب نماز پڑھی جائے تو حالت نماز میں پیٹ میں پہنچ جائے اس پر ہر اس چیز کو قیاس کیا جاتا ہے جو منہ میں لگی ہو اور حالت نماز میں اس کے پیٹ میں پہنچ جانے کا خوف ہو تو اس سے بھی کلی کرنا مستحب ہے۔
اس حدیث سے علماء کرام نے مسئلہ بھی مستنبط کیا ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے صفائی اور ستھرائی کے لیے ہاتھوں کو دھو لینا چاہئے ، ہاں اگر ہاتھ پہلے سے صاف ستھرے ہیں اور نجاست و میل نہیں لگی ہے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے ، اسی طرح کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھوں کو دھونا چاہئے اگر کھانا خشک ہونے کی وجہ سے یا چمچہ وغیرہ سے کھانے کی وجہ سے ہاتھ میں کچھ نہ لگے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
آخر میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بظاہر تو اس باب سے اس حدیث کی کچھ ماسبت نظر نہیں آتی ہے اس لیے یہ اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ مصنف مشکوٰۃ نے اس حدیث کو اس باب میں کیوں ذکر کیا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں کلی کا ذکر کیا گیا ہے وہ متعلقات وضو سے ہے اس لیے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا گیا ہے۔
٭٭اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی بریدہ بن حصیب ہے ان کی کنیت جو مشہور ہے وہ ابو عبداللہ ہے ، یہ مدینہ کے باشندہ تھے مقام مرد میں یزید بن معاویہ ٦٣ھ میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں (یعنی ایک ہی وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں ) اور موزوں پر مسح کیا (یہ دیکھ کر) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے آج وہ چیز کی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی نہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! میں نے ایسا قصداً کیا ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پہلے تو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا معمول یہ تھا کہ ہر نماز لیے تازہ وضو کرتے تھے ، مگر آج آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے خلاف معمول ایک وقت وضو کر لیا پھر اسی وضو سے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے پانچوں نمازیں ادا فرمائیں اور پھر ایک نئی چیز کی کہ موزوں پر مسح بھی فرمایا حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) ایسا کبھی نہیں کرتے تھے۔
اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ میرا عمل کسی دوسری وجہ سے نہیں بلکہ میں نے قصداً کیا ہے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ دونوں صورتیں بھی جائز ہیں اور دوسرے بھی ایسا کر سکتے ہیں۔
٭٭اور حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حضرت سوید ابن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے آپ کا شمار اہل مدینہ میں ہے۔) راوی ہیں کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ خیبر (کے فتح) کے سال سفر پر گئے جب صہباء کے مقام پر پہنچے جو خیبر کے نزدیک ہے ، عصر کی نماز پڑھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے توشہ (زاد راہ) منگوایا، چنانچہ ستو کے علاوہ کچھ نہ تھا جو حاضر کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے اس کو گھولا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور ہم نے اس کو کھایا اور پھر مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کلی کی اور ہم نے بھی کلی کی اور وضو نہیں کیا۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اس حدیث نے اس مسئلہ کی وضاحت کر دی کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کو کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ستو کھایا جو آگ ہی سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد صرف کلی کر کے مغرب کی نماز پڑھ لی اور وضو نہیں کیا۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا وضو کرنا آواز با بو سے واجب ہوتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ وضو شک سے نہیں ٹوٹتا، جب تک یقین نہ ہو جائے وضو باقی رہتا ہے یعنی پیٹ میں اگر محض قراقر ہو تو اس شبہ سے کہ شاید ریاح کا اخراج ہو گیا ہو وضو نہیں ٹوٹے گا ہاں جب آواز کے نکلنے یا بو سے یقین ہو جائے کہ ریاح خارج ہو گئی ہے تو جب وضو ٹوٹ جائے گا۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ میں نے (حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطہ سے ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے مذی کے بارہ میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مذی نکلنے سے وضو لازم آتا ہے اور منیٰ نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی)
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز کی کنجی وضو ہے نماز کی تحریم تکبیر (یعنی اللہ اکبر کہنا) ہے اور نماز کی تحلیل سلام پھیرنا۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی، ودارمی اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت ابی سعید سے روایت کیا ہے )
تشریح
تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کھانا پینا اور جتنے کام نماز کے منافی ہیں اب سب حرام ہو گئے ہیں اور سلام پھیرنے سے نماز ختم ہو جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نماز شروع کر دینے سے جتنی چیزیں حرام کر لی گئی تھی ں اب وہ سب حلال ہو گئیں ہیں اسی کو فرمایا گیا ہے کہ نماز کی تحریم تکبیر اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے۔
٭٭اور حضرت علی بن طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی حدث کرے (یعنی بغیر آواز کے ہوا خارج ہو) تو اسے وضو کرنا چاہئے اور تم عورتوں سے (خلاف فطرت) ان کی مقعد (یعنی پاخانہ کی جگہ) میں جماع نہ کرو۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد)
٭٭اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کنیت ابوعبدالرحمن اور والد کا نام ابوسفیان ہے۔ آپ کاتب وحی ہیں ٦٠ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا آنکھیں سرین کا سر بند ہیں چنانچہ آنکھ سو جاتی ہے تو سر بند کھل جاتا ہے۔ (دارمی)
تشریح
جب انسان جاگتا رہتا ہے تو گویا اس کے مقعد پر بند لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے ہوا خارج نہیں ہوتی بلکہ رکی رہتی ہے اور اگر خارج ہوتی ہے تو اس کا احساس ہوتا ہے جب سو جاتا ہے تو چونکہ وہ بے اختیار ہو جاتا ہے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں تو ہوا کے خارج ہونے کا گمان رہتا ہے جس کا اسے یقینی احساس نہیں ہو سکتا اسی لیے نیند کو ناقض وضو کہا جاتا ہے۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سرین کا سر بند آنکھیں ہیں لہٰذا جو آدمی سو جائے اسے چاہئے کہ وضو کرے۔ (ابوداؤد)
اور حضرت امام محی السنۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حکم اسی آدمی کے واسطے ہے جو بیٹھا نہ ہو (بلکہ لیٹ کر سویا ہو) اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب عشاء کی نماز بیٹھے ہوئے ) انتظار کیا کرتے تھے یہاں تک کے نیند کے سبب سے ان کے سر جھک جاتے تھے ، اسی حالت میں وہ اٹھ کر نماز پڑھ لیتے تھے وضو نہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) مگر جامع ترمذی نے اپنی روایت میں یَنْتَظِرُوْنَ الْعِشَاءَ حَتَّی تَخْفِقَ رُؤُوْسُھُمْ کے بجائے لفظ ینامون ذکر کیا ہے۔
تشریح
حضرت امام محی السنۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کا حکم سونے والوں کے بارہ میں نہیں ہے بلکہ ایسے آدمی کے بارہ میں ہے جو لیٹ کر سو جائے ، کیونکہ لیٹ کر سونے سے تمام اعضاء ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور اپنے اوپر پوری طرح اختیار نہیں رہتا اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس حالت میں ریاح خارج ہو جائے اور اس کا احساس بھی نہ ہو۔
ہاں جو آدمی لیٹ کر نہیں بلکہ بیٹھا بیٹھا اس طرح سو جائے اس کی مقعد زمین پر رکھی رہے اور پھر جب وہ جاگے تو مقعد اسی طرح زمین پر ٹھیری ہوئی ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا چا ہے وہ جتنا بھی سوئے ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیٹھے ہوئے سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، بیٹھنے کی اقسام فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں ، جن کو قیاس یا دیگر احادیث سے ثابت کیا گیا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا وضو اس آدمی پر لازم ہوتا ہے جو لیٹ کر سو جائے اس لیے کہ جس وقت آدمی لیٹتا ہے تو اس کے (بدن کے جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں ) اور پھر ہوا خارج ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
حضرت میرک شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حدیث منکر ہے کیونکہ اس کے راویوں میں ایک راوی یزید دالانی بھی ہے جو کہ کثیر الخطاء اور فاحش الوہم اور ثقات کے مخالف ہے۔
٭٭حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو آدمی اپنے ذکر (عضو خاص) کو ہاتھ لگائے تو اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔ (مالک، ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، دارمی)
تشریح
پیشاب گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جانے میں اختلاف ہے ، بلکہ اس مسئلہ میں خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف تھا چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے ذکر کو ننگی ہتھیلی سے چھو دیا تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا، ان کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ذکر کو چھو دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل ما بعد کی حدیث ہے جو قیس بن علی کی روایت کے ساتھ جسے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے ، مسند ابی حنیفہ میں مذکور ہے اس کے علاوہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ کی دلیل میں اور بہت سی حدیثیں وارد ہیں اس سلسلہ میں مزید تشفی کے لیے شرح ملا علی قاری اور مشکوٰۃ کا ترجمہ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں حدیثیں یعنی بسرہ کی یہ حدیث جو شوافع کی دلیل ہے اور طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جو آگے آ رہی ہے اور حنیفہ کی دلیل ہے ، درجہ حسن سے باہر نہیں ہیں لیکن حضرت طلق ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کو حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث پر ترجیح ہو گی اس لیے کہ حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عورت اور حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد ہیں اور ظاہر ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کی حدیث قوی ہوتی ہے کیونکہ وہ عورت کی نسبت علم اور حدیث کو خوب اچھی طرح یاد رکھتے ہیں اور ان کی قوت حافظہ عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے۔
٭٭اور حضرت طلق بن علی المرتضیٰ) اسم گرامی طلق بن علی اور کنیت ابو علی ہے ان کی حدیثیں ان کے بیٹے قیس سے مروی ہیں۔ (فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ وضو کرنے کے بعد اگر کوئی آدمی اپنے ذکر کو چھوئے (تو کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ بھی تو آدمی کے گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ابو داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے امام محی السنۃ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لیے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کے بعد اسلام لائے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث منقول ہے کہ جب تم میں سے کسی کا ہاتھ اپنے ذکر پر پہنچ جائے اور ہاتھ و ذکر کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو تو اس کو چاہئے وضو کرے۔ (شافع دار قطنی اور سنن نسائی نے بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ روایت نقل کی ہے جس میں لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْیئٌ کے الفاظ مذکور ہیں۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدن کے گوشت کے دیگر ٹکڑے مثلاً ہاتھ پاؤں کان ناک وغیرہ ہیں اسی طرح ذکر بھی بندہ کے گوشت ہی کا ایک ٹکڑا ہے اور جب ان دوسرے ٹکڑوں اور حصوں کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو پھر ذکر کے چھو جانے سے کیوں وضو ٹوٹے گا لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مس ذکر ناقص وضو نہیں ہے۔
امام محی السنہ رحمۃ اللہ تعالیٰ کا قول در اصل حضرات شوافع کی ترجمانی ہے اس کا مطب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ و طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بہت بعد اسلام لائے ہیں ، کیونکہ حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کے فوراً بعد جب کہ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سن ٧ھ میں غزوہ خبیر کے موقع پر اسلام لائے ہیں اس لیے حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے حدیث سننا پہلے ہوا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سننا بعد میں ہوا ہو گا، لہٰذا حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث منسوخ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ناسخ ہوئی۔
حنفیہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت طلق کے اسلام لانے کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث سنی بھی بعد میں ہو شوافعہ کا یہ دعویٰ تو جب صحیح ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ثابت ہو کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے ہی حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتقال فرما چکے تھے یا یہ کہ اپنے وطن کو چلے گئے تھے کہ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھی کبھی حاضر نہیں ہوئے ، اس لیے کہ اگر حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے انتقال فرما جاتے ہیں یا اپنے وطن کو واپس لوٹ جاتے تو پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد کچھ نہیں سن سکتے تھے مگر اب تو یہ ممکن ہے کہ حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد ہی سنی ہو لہٰذا شوافع کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔
حضرت مظہر نے ایک اچھی اور فیصلہ کن بات کہہ دی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہو گیا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے تو ثابت ہو رہا ہے کہ مس ذکر ناقض وضو ہے اور حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث مس ذکر کو ناقض وضو نہیں کہتی لہٰذا اس تعارض کی شکل میں ہمیں چاہئے کہ ہم دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کی طرف رجوع کریں چنانچہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثلاً حضرت علی، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت ابودرداء حضرت حذیفہ اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال ثابت ہیں کہ ذکر چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حنفیہ ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مس ذکر ناقض وضو نہیں ہے ، و اللہ اعلم بالصواب۔
٭٭اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیتے تھے اور بغیر وضو کے (پہلے ہی وضو سے ) نماز پڑھ لیتے تھے (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ابن ماجہ) جامع ترمذی نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کے نزدیک کسی حال میں عروہ کی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نیز ابراہیم تیمی کی بھی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحیح نہیں ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے اس لیے کہ ابراہیم تیمی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نہیں سنا ہے۔
تشریح
اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام مسند احمد بن حنبل کے نزدیک غیر محرم عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹا جاتا ہے ، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ غیر محرم عورت کو اگر شہوت کے ساتھ چھوئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں ٹوٹے گا ہمارے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل یہی حدیث ہے ، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک دوسری حدیث بھی جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں مذکور ہے حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب رات میں تہجد پڑھنے کے لیے بیدار ہوتے تو میں سوتی رہتی اور میرے دونوں پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سجدہ کی جگہ پڑھے رہتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کے وقت میرے پیروں میں ٹھونکا دیتے تھے تو میں اپنے پیر سمیٹ لیتی تھی لہٰذا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، امام جامع ترمذی کا یہ کہنا عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سماعت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت نہیں ہے بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ صحیحین میں (صحیح البخاری و صحیح مسلم) میں اکثر احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سماع ثابت ہے معلوم ہوتا ہے کہ جامع ترمذی کے اس قول کو نقل کرنے میں مصنف مشکوٰۃ سے کچھ چوک ہو گئی ہے کیونکہ جامع ترمذی کے اس قول کا یہ مطلب نہیں لیا جاتا جو مصنف مشکوٰۃ نے اخذ کیا ہے۔
ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ کہنا کہ یہ حدیث یعنی مرسل کی ایک قسم منقطع) ہے دراصل حنفیہ کی اس دلیل کو کمزور کرتی ہے کہ جب یہ حدیث مرسل ہے تو حنفیہ کا اس کو اپنی دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک حدیث مرسل بھی حجت ہوتی ہے اور نہ صرف ہمارے نزدیک بلکہ جمہور علماء بھی مرسل حدیث کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں ، لہٰذا اس حدیث کو مرسل کہہ کر اسے ناقابل استدلال قرار نہیں دیا جا سکتا۔
٭ز اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے بکری کا شانہ (یعنی بکری بریاں کے شانہ کا گوشت) کھایا، پھر اپنا ہاتھ ٹاٹ سے پونچھ لیا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نیچے بچھا ہوتا تھا اور پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھ لی۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث نے بھی حنفیہ کے اس مسلک کی توثیق کر دی ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کھا لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانا کھانے کے بعد اگر منہ پر چکنائی وغیرہ لگے تو اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک بھنا ہوا پہلو لے گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے کھایا پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور وضو نہیں کیا (نہ ہاتھ منہ دھویا۔ (مسند احمد بن حنبل)
٭٭حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس بات کی قسم کھاتا ہوں کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے بکری کا پیٹ (یعنی کے اندر کی چیزیں مثلاً دل کلیجی وغیرہ) بھونتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اس میں سے کھاتے ) پھر نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور وضو نہ کرتے۔ (صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) میرے پاس تحفہ کے طور پر بکری بھیجی گئی، چنانچہ میں نے اس (کے گوشت) کو (پکانے کے لیے ) ہانڈی میں ڈال دیا (اسی اثناء میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور فرمایا ابورافع یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا (یا رسول اللہ ! بکری کا گوشت ہے جو میرے پاس ہدیہ کے طور پر آیا تھا اسی کو میں نے ہانڈی میں پکا لیا ہے آپ نے فرمایا ابورافع! ایک دست دو ! میں نے دست خدمت اقدس میں پیش کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دوسرا دست دو میں نے دوسرا دست بھی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا ایک دست اور دو میں عرض کیا یا رسول اللہ ! بکری کے تو دو ہی دست ہوتے ہیں (اور وہ دونوں ہی آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں اب کہاں سے لاؤں ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا ابورافع! اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دئیے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگوایا اور منہ دھویا (یعنی کلی کی) پھر انگلیوں کے پورے دھوئے اور کھڑے ہوئے اور پھر نماز پڑھ کر ابورافع کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے نزدیک ٹھنڈا گوشت دیکھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے کھایا اس کے بعد مسجد تشریف لے گئے اور (شکرانہ) کی نماز پڑھی اور اس حدیث کو دارمی نے بھی روایت کیا ہے مگر ثم دعا بماء سے آخر تک ذکر نہیں کیا ہے۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دست کا گوشت بہت زیادہ مرغوب تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دست کا گوشت زیادہ قوت بخش ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے پسند فرماتے تھے تاکہ جسمانی طاقت و قوت زیادہ حاصل ہو جس کی وجہ عبادت خداوندی بخوبی ادا ہو سکے۔
ارشاد اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دیئے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم چپ رہتے اور میں جس طرح مانگتا جا رہا تھا تم اسی طرح اٹھا (اٹھا کر دیتے رہتے تو تم دیکھ لیتے کی خداوند کریم اپنی قدرت سے معجزہ کے طور پر بے حد و بے حساب دست مہیا فرماتا، لیکن چونکہ تمہاری نظر صرف ظاہر پر تھی اور تم نے یہ سوچ کر کہ بکری کے صرف دو ہی دست ہوتے ہیں اب کہاں سے لا کر دوں گا اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اور جب تم نے خود ہی ہاتھ کھینچ لیا اور یہ جواب دے دیا تو ادھر سے بھی امداد غیبی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واقعی سب دست ختم ہو گئے یہاں ایک ہلکا سا خلجان واقع ہو سکتا ہے کہ جب باری تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خواہش کی تکمیل کی خاطر غیبی طور پر بکری کے دست کا انتظام کیا جا رہا تھا تو محض ابو رافع کے جواب دے دینے سے وہ سلسلہ رک کیوں گیا اور پھر دست ظاہر کیوں نہیں فرمائے گئے۔ جواب یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی جانب سے تمام اعزاز و کرامات اور فضل و عنایات محض خالص نیت اور توجہ الی اللہ کی بناء پر ہوتی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی توجہ الی اللہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضوری قلب میں ابو رافع کے جواب سے کچھ فرق آگیا ہو اس لیے آپ ان کے جواب کے رد کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ، چنانچہ ادھر سے بھی ہاتھ روک لیا گیا اور دست ختم ہو گئے۔
٭٭اور حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ، ابی بن کعب اور ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیٹھے ہوئے تھے ، ہم نے گوشت روٹی کھائی (کھانے سے فارغ ہو کر) میں نے وضو کے لیے پانی منگوایا ابی بن کعب اور طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا تم وضو کیوں کرتے ہو میں نے کہا اس کھانے کی وجہ سے جو میں نے ابھی کھایا ہے ان دونوں نے کہا کیا تم پاک چیزوں کے کھانے سے وضو کرتے ہو ان چیزوں کو کھا کر اس آدمی نے وضو نہیں کیا جو تم سے بہتر ہیں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم)۔ (مسند احمد بن حنبل)
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ مرد کا اپنی عورت سے بوسہ لینا یا اس کو اپنے ہاتھ سے چھونا یہ بھی ملامست ہے اور جس آدمی نے اپنی عورت کا بوسہ لیا یا اس کو ہاتھ سے چھوا تو اس پر وضو واجب ہے۔ (مالک، شافعی)
تشریح
قرآن مجید میں جس جگہ ان چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو وضو کو توڑنے والی ہیں انہیں ایک چیز ناقض وضو یہ بھی بتائی گئی ہے کہ
اَوْلَمَسْتُمُ النِّسَآءَ۔ یعنی تم عورت سے ملامست کرو۔
ملامست کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ اور اس کا محل کیا ہے؟ اسی میں اختلاف ہو رہا ہے ، امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تو یہ فرماتے ہیں کہ ملامست کے معنی عورت کو ہاتھ لگانا ہے ، تو گویا اس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت کو محض ہاتھ لگانے کے بعد اگر کسی آدمی کا وضو ہے تو وہ ٹوٹ جائے گا لہٰذا اگر وہ نماز پڑھنا چا ہے تو اس کو دوبارہ وضو کرنا ضروری ہو گا۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد کا مفہوم بھی یہی ہے جو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تصدیق کر رہا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرما رہے ہیں کہ عورت کو صرف ہاتھ لگانا، یا عورت کا بوسہ لینا ملامست میں داخل ہے جس کو قرآن میں ناقض وضو فرمایا گیا ہے۔
ہمارے امام صاحب ملامست کے معنی قرار دیتے ہیں جماع اور ہمبستری یعنی قرآن میں ملامست عورت کا جو ذکر کیا گیا ہے اور جسے ناقض وضو کہا گیا ہے اس سے جماع اور ہمبستری مراد ہے۔ امام اعظم نے اپنے اس مسلک کی تصدیق میں دلائل کا ایک ذخیرہ جمع کر دیا ہے جو فقہ کی کتابوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔
٭٭اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مرد کو اپنی عورت کا بوسہ لینے سے وضو لازم آتا ہے۔ (مؤطا امام مالک)
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا کہ بوسہ لینا لمس میں داخل ہے (جو قرآن میں مذکور ہے ) لہٰذا بوسہ لینے کے بعد وضو کیا کرو۔
تشریح
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔
ہمارے امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چونکہ عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے ان روایتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اوّل تو یہ تمام روایتیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر موقوف ہیں یعنی یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال ہیں اس لیے ان کا حکم حدیث مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد جیسا نہیں ہو سکتا دوسرے ان کے نزدیک یہ روایتیں درجہ صحت کو بھی نہیں پہنچی ہوئی ہیں۔
پھر اس سے قطع نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث موجود ہے جو پہلے ذکر کی گئی اور جس کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روایت کیا ہے کہ اس سے بصراحت یہ مفہوم ہوتا ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز اس کے علاوہ مسندابی حنیفہ میں ایک دوسری حدیث مذکور ہے جسے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضوء یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا جسے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضو یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا گویا اس حدیث نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی کہ عورت کو چھونے یا اس کا بوسہ لینے کو ناقض وضو کہا گیا ہے۔ و اللہ اعلم۔
٭٭حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (امیر المومنین حضرت عمر ابن عبدالعزیز اموی رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور خلیفہ ہیں اور رجب ١٠١ھ میں اس جہاں فانی سے رحلت فرما گئے۔) تمیم داری (اسم گرامی تمیم بن اوس الداری ہے ٩ھ میں مشرف باسلام ہوئے ہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد شام میں ان کی وفات ہوئی۔) سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے کہ ان دونوں روایتوں کو دارقطنی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ ہی انہیں دیکھا ہے نیز اس روایت کے دو راوی یزید ابن خالد اور یزید ابن محمد مجہول ہیں۔
تشریح
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے یعنی اگر بدن کے کسی بھی حصہ سے خون نکلا اور نکل کر اس حصہ تک بہہ گیا جس کا دھونا وضو اور غسل میں ضروری ہوتا ہے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا چنانچہ یہ حدیث امام صاحب کے مسلک کی دلیل ہے ، امام صاحب کے علاوہ دیگر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر خون، پیشاب یا پاخانہ کے راستہ سے نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نکلا تو نہیں ٹوٹے گا۔
حضرت دار قطنی اس حدیث میں کلام فرما رہے ہیں ، ان کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے اس لیے حدیث مرسل ہے ، نیز اس حدیث کے دو راوی یزید بن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول میں گویا ان کا مقصد اس کلام سے یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ کلام ہواس کو امام صاحب کا اپنے مسلک کی دلیل بنانا کوئی وزنی بات نہیں ہے۔
ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حدیث مرسل نہ صرف یہ کہ ہمارے ہی نزدیک بلکہ جمہور علماء کے نزدیک بھی دلیل اور حجت بن سکتی ہے اسی طرح یزید ابن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول ہونے میں بھی اختلاف ہے بعض حضرات نے تو انہیں مجہول قرار دیا ہے جیسا کہ دارقطنی فرما رہے ہیں مگر بعض حضرات نے انہیں مجہول نہیں کہا ہے اس سے قطع نظر امام صاحب کی اصل دلیل تو یہ حدیث ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے
مَنْ قَاءَ اَوْرَعُفُ اَوْ اَمْذَی فِی صَلٰوتِہٖ فَلْیَنْصَرِفْ وَلْیَتَوَضَّأ وَلْیَبْنِ عَلَی صَلٰوتِہٖ مَالَمْ یَتَکَلَّمْ۔ (کذافی الھدایہ)
اگر کسی آدمی نے اپنی نماز میں قے کی یا اس کی نکسیر پھوٹی یا مذی نکلی تو اس کو چاہئے کہ وہ نماز سے نکل کر آئے اور پھر وضو کرے اور جب تک کہ کلام نہ کرے اسی نماز پر بناء کرے۔
نیز ابوداؤد میں بھی اس مضمون کی حدیث منقول ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب اور پاخانہ کے مقام کے علاوہ بدن کے کسی دوسرے حصہ سے بھی خون نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
پاخانہ کے آداب کا بیان
آداب ان چیزوں کو کہتے ہیں کہ جس کا ذکر کرنا اچھا اور بہتر ہو وہ چیزیں خواہ عمل سے تعلق رکھتی ہوں خواہ قول سے چنانچہ اس بات میں ان احادیث کو ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق استنجاء کے آداب سے ہے یعنی ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جو استنجاء کے سلسلے میں ممنوع و مکر وہ ہیں اور ان چیزوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو استنجاء میں مطلوب و مستحب ہیں۔
٭٭ حضرت ابو ایوب انصاری (اسم گرامی خالد ابن زید ہے اور کنیت ابو ایوب ہے ٥٠ھ یا ٥١ھ میں ان کا انتقال ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم بیت الخلاء جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرو بلکہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت رکھو (صحیح البخاری و صحیح مسلم) حضرت امام محی السنۃ فرماتے ہیں کہ یہ جنگل کا حکم ہے ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی ضرورت سے حفصہ کے مکان پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو (بیت الخلاء میں ) قضاء حاجت کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حدیث میں جہت اور سمت کا جو تعین فرمایا گیا ہے وہ اہل مدینہ کے اعتبار سے یا ان لوگوں کے لیے جو اسی سمت رہتے ہیں اس لیے کہ مدینہ میں قبلہ جنوب کی طرف پڑتا ہے اس لیے ان کو تو مشرق اور مغرب ہی کی طرف منہ اور پشت کرنی ہو گی، ہمارے ملک والوں کے لیے یا ان ممالک کے لیے جو اس سمت میں واقع ہیں ان کو مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت نہ کرنی چاہئے کیونکہ یہاں کے اعتبار سے قبلہ مغرب کی طرف پڑتا ہے۔
بہر حال۔ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے ، ہمارے امام صاحب تو فرماتے ہیں کہ پیشاب، پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف نہ منہ کرنا چاہئے خواہ جنگل ہو یا آبادی و گھر ہو، اگر کرے گا تو مرتکب حرام ہو گا۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنا جنگل میں تو حرام ہے آبادی و گھر میں حرام نہیں ہے۔
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل پہلی حدیث ہے جو ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے اس حدیث میں قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم مطلقاً ہے اس میں جنگل و آبادی و گھر کی کوئی قید نہیں ہے لہٰذا جو حکم جنگل کا ہو گا وہی حکم آبادی کا بھی ہو گا یہ حدیث نہ صرف یہ کہ حضرت ابو ایوب ہی سے منقول ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد اس کی روایت کرتی ہے۔
پھر امام صاحب کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم قبلہ کی تعظیم و احترام کے پیش نظر دیا ہے لہٰذا جس طرح جنگل میں تعظیم قبلہ ملحوظ رہے گا اسی طرح آبادی و گھر میں بھی احترام قبلہ کا لحاظ ضروری ہو گا جیسا کہ قبلہ کی طرف تھوکنا اور پاؤں پھیلانا ہر جگہ منع ہے۔
امام محی السنۃ نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو حدیث روایت کی ہے وہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پشت کرنا گھر میں جائز ہے۔
ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اول تو یہ ہو سکتا ہے کہ عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گھر میں بیت الخلاء کے اندر قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے اس حکم کے نفاذ سے پہلے دیکھا ہو گا، لہٰذا یہ حکم پہلے کے لیے ناسخ ہے ، پھر دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قبلہ کی طرف منہ کئے ہوئے نہیں بیٹھے ہوں گے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس انداز سے گھوم کر بیٹھے ہوں گے کہ حقیقت میں قبلہ کی طرف پشت نہ ہو گی اور ظاہر ہے کہ موقع کے نزاکت کے پیش نظر عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں کھڑے ہو کر بغور تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا نہیں ہو گا، بلکہ جب یہ چھت پر چڑھے تو ان کی نظر اچانک ادھر بیت الخلاء کی طرف اٹھ گئی ہو گی اس لیے اس میں سرسری طور پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نشست کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے اس حدیث کے بارے میں جب یہ احتمال بھی نکل سکتا ہے تو پھر حضرت شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے مسلک کی دلیل کے لیے اس کا سہارا لینا کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
٭٭اور حضرت سلمان (اسم گرامی سلمان فارسی اور کنیت ابوعبد اللہ ہے۔ ان کی وفات ٣٥ھ حضرت عثمان کی خلافت کے آخری زمانہ میں ہوئی ہے بعض لوگوں نے کہا کہ٣٦ھ کے اوائل میں ہوئی ہے۔) فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں منع کیا ہے اس سے کہ ہم پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں اور اس سے کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجاء کریں اور اس سے کہ ہم تین ڈھیلوں سے کم استنجاء کریں اور اس سے کہ ہم گوبر یا ہڈی سے استنجاء کریں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
ہمارے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھنا مکروہ تحریمی ہے اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا مکروہ تنزیہی ہے گویا پہلی نہی تو تحریمی ہے او دوسری تنزیہی ہے۔
اتنی بات جان لینی چاہئے کہ استنجاء کرنے کے وقت پیشاب گاہ کو دایاں ہاتھ نہ لگانا چاہئے بلکہ طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ ڈھیلا بائیں ہاتھ میں لے کر اس پر پیشاب گاہ کو رکھ لے مگر دائیں ہاتھ سے پکڑ کر نہ رکھے کیونکہ یہ بھی مکروہ ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین ڈھیلوں سے استنجاء کرنا واجب ہے مگر ہمارے امام صاحب فرماتے ہیں کہ استنجاء کے لیے تین ڈھیلے لینا شرط نہیں ہے اگر تین سے کم ہی میں پاکی حاصل ہو جائے تو یہ بھی کافی ہے ان کی دلیل صحیح البخاری کی یہ حدیث ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم پاخانہ کیلئے تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ تین ڈھیلے لاؤ مجھے ڈھیلے تو دو ہی ملے اس لیے میں اس کے ساتھ گوبر کا ایک ٹکڑا بھی لایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں ڈھیلے تو لے لیے اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ میں داخل ہوتے (یعنی داخل ہونے کا ارادہ کرتے ) تو یہ دعا پڑھتے اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ناپاک جنوں اور جنیوں (یعنی نرما و مادہ دونوں سے )۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
آداب پاخانہ میں سے یہ ہے کہ جب کوئی آدمی پاخانہ کے لیے بیت الخلاء میں جائے تو اندر داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھ لینی چاہئے ، اگر پاخانہ کے لیے جنگل میں جائے تو عین ارادہ کے وقت یعنی دامن وغیرہ سمیٹ کر بیٹھنے لگے اس وقت یہ دعا پڑھ لے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم دو قبروں کی پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (انھیں دیکھ کر) فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں پر عذاب نازل ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑی چیز پر نہیں نازل ہو رہا ہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہو) ان میں ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کی ایک تر شاخ لی اور اس کو بیچ سے آدھوں آدھ چیرا انہیں ایک ایک کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (یہ دیکھ کر) پوچھا یا رسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید (اس عمل سے ) ان کے عذاب میں (اس وقت تک کے لیے ) کچھ تخفیف ہو جائے جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مسلم کے الفاظ کی مناسبت سے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پہلا آدمی جس پر اس کی قبر میں عذاب نازل ہو رہا تھا وہ تھا جو پیشاب سے بچتا نہیں تھا یعنی پیشاب کرتے وقت اس بات کی احتیاط نہیں کرتا تھا کہ چھینٹیں اس کے اوپر نہیں پڑتیں ایک دوسری روایت میں لا یستبراء کے الفاظ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آدمی پیشاب سے پاکی طلب نہیں کرتا تھا نیز ایک روایت میں لا یستنتر کے الفاظ مذکور ہیں استنا کے معنی آتے ہیں عضو تناسل کو زور سے جھاڑنا یا کھنچنا تاکہ پیشاب کے جو قطرے اندر رہ گئے ہوں وہ نکل جائیں اس طرح معنی یہ ہوں گے وہ آدمی پیشاب گاہ کو اچھی طرح جھاڑ کر پیشاب کے قطروں کو نکالتا نہ تھا۔
بہر حال ان تمام الفاظ کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے ، مطلب سب کا یہی ہے کہ وہ پیشاب سے پاکی اور صفائی حاصل نہیں کرتا تھا اور چونکہ پیشاب سے پاکی حاصل نہ کرنا گناہ کبیرہ اور نماز کے بطلان کا سبب ہے اس لیے اسے اللہ کی جانب سے عذاب میں گرفتار کیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک خاص بات ضروری ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ غلط اور گمراہ کن خیال پیدا ہو گیا ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ڈھیلے سے پیشاب خشک کرتے تھے اس لیے ہر آدمی کو چاہئے کہ پیشاب کے بعد ڈھیلے کا استعمال نہ کرے ، یہ انتہائی گمراہی اور کم عقلی کی بات ہے ، اگر کسی آدمی کا مزاج ہی اتنا قوی اور مضبوط ہو، نیز اسے اس بات کا یقین ہو کہ پیشاب سے فارغ ہو جانے کے بعد قطرے نہیں آئیں گے تو البتہ اس کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ صرف پانی سے استنجاء کر لے ڈھیلے کا استعمال کرنا اس کے لیے ضروری نہیں ہو گا اور جس کے قطرہ دیر تک آتا ہو جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اگر وہ ڈھیلے کا استعمال کرنا اس کے لیے ضروری نہیں ہو گا اور جس کے قطرہ دیر تک آتا ہو جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اگر وہ ڈھیلے کا استعمال نہ کرے صرف پانی سے پاک کرے گا تو اس کے پائجامہ اور کپڑا وغیرہ گندا اور ناپاک ہو گا، جہاں تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کا سوال ہے تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مزاج مبارک مضبوط اور قویٰ انتہائی طاقتور تھے اس لیے آپ ڈھیلے کا استعمال نہیں فرماتے تھے صرف پانی ہی سے استنجاء پاک کر لیتے تھے۔
پھر دوسرے یہ کہ وہ فعل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خود ثابت نہ ہو مگر اس کا کرنا کسی نہ کسی وجہ سے مطلوب اور ضروری ہو تو اسے یہ کہہ کر نا قابل اعتناء قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یہ فعل چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے اس لیے ہم بھی اسے نہیں کرتے مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فصد نہیں کرائی ہے اب اگر کسی دوسرے کو فصد کی حاجت ہو اور وہ یہ کہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فصد نہیں کرائی ہے اس لیے میں فصد نہیں کراتا تو ظاہر ہے کہ یہ بات اسی کے لیے نقصان دہ ہو گی۔
بہر حال مقصد یہ ہے کہ نظر شارع کی غرض پر ہونی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ شارع کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ ظاہر ہے کہ طہارت ہے جس کی ہمیں تاکید کی گئی ہے اس لیے ہمیں تو طہارت حاصل کرنی چاہئے خواہ وہ کسی طرح حاصل ہو پانی سے حاصل ہو یا ڈھیلے سے اس قسم کے بیہودہ احتمالات نکال کر اور غلط حیلہ و بہانہ کر کے اپنے کپڑوں کو گندہ کرنا اور نجاست میں اپنے آپ کو ملوث کرنا اور پھر اسی طرح نماز پڑھنا انتہائی غلط اور گمراہی کی بات ہے ، پیشاب سے بچنے اور اس سے احتیاط کرنے کی کتنی اہمیت ہے؟ اس کا اندازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے ہو سکتا ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عذاب قبر اکثر پیشاب کی بناء پر ہوتا ہے (اس لیے ) پیشاب سے پاکی حاصل کرو۔
یا اسی طرح فرمایا پیشاب سے پرہیز کرو اس لیے کہ وہ اس چیز کا اول ہے جس کی وجہ سے بندہ قبر میں حساب (کی سختی) میں گرفتار ہو گا (طبرانی) پھر اس کے علاوہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ پیشاب کے بعد ڈھیلا استعمال کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ صحابی کا فعل حجت ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفائے راشدین کی سنت کو بھی لازم پکڑو۔
چنانچہ حضرت عمر کے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مصنف ابن ابی شیبہ میں منقول ہے کہ
ابوبکر عن یسار، بن نمیر کان عمر اذا بال مسح زکرہ بحائط او حجرلم یمسہ ماء۔
حضرت عمر فاروق جب پیشاب کرتے تھے تو اپنا عضو تناسل دیوار پر یا پتھر پر پھیر تے تھے اور اس پر پانی لگاتے بھی نہیں تھے۔
نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ پر کہ پیشاب کے بعد ڈھیلا استعمال کرنا چاہئے اہل سنت کا اتفاق و اجماع ہے ، و اللہ علم تمیمۃ کے معنی ہیں سخن چینی، یعنی کوئی آدمی ایسے دو آدمیوں کی بات جن میں آپس میں دشمنی ہو ایک دوسرے تک فساد پھیلانے کے لیے پہنچائے یا کوئی آدمی دو آدمیوں میں دشمنی پیدا کرائے اس طرح کہ ایک کی بات دوسرے کے پاس قسم اور گالی وغیرہ اس انداز سے نقل کرے جس سے اشتغال پیدا ہو۔
امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نمیمہ کہ معنی یہ ہیں کہ کسی کی گفتگو کسی دوسرے آدمی سے ضرر پہنچانے کے لیے نقل کی جائے بہر حال آج کل عرف عام ہے جسے چغل خوری فرماتے ہیں وہی معنی نمیمہ کے ہیں چغل خوری چونکہ انسانی اور اخلاقی نقطہ نظر سے انتہائی بدترین اور کمینی خصلت ہے اور اس لیے اسلام بھی چغل خور کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور چغل خوری کو ایک بدتر برائی قرار دیتا ہے چنانچہ صحیحین میں منقول ہے کہ جنت میں چغل خور داخل نہیں ہو گا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کعب احبار سے جو ایک بڑے یہودی عالم تھے اور بعد میں اسلام لائے ، پوچھا کہ تم نے توریت میں سے سب سے بڑا گناہ کون سا پڑھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ چغل خوری۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کہ اس کا گناہ قتل کے گناہ سے بھی زیادہ ہیبت ناک ہے ! انہوں نے کہا قتل بھی چغل خوری ہی سے ہوتے ہیں اور دوسری برائیاں بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔
حدیث کے آخر میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کی ترشاخ لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ان دونوں قبروں پر گاڑ دیا اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی وجہ یہ فرمائی کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی اس وقت کے لیے ان کے عذاب میں شاید کچھ تخفیف ہو جائے تو عذاب کے تخفیف کا سبب علماء یہ لکھتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ اللہ کے عذاب میں گرفتار ہیں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان رحمت اسے برداشت نہ کر سکی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بارگاہ الوہیت میں ان کے لیے رحم و کرم کی درخواست کی، ادھر غفور الرحیم نے بھی اپنے حبیب کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا اور فیصلہ صادر فرمایا دیا کہ جب تک ان پر گاڑی ہوئی شاخیں خشک نہ ہوں اس وقت تک ان دونوں پر عذاب میں کمی کر دی جائے۔
چنانچہ اس کی وضاحت بھی ایک دوسری روایت میں موجود ہے جسے مسلم نے نقل کیا ہے اس کے آخری الفاظ یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری شفاعت قبول فرما لی ہے کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی یہ عذاب میں گرفتار نہیں رہیں گے۔
بہرحال بظاہر تو اس کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے جس کی تصدیق بھی مسلم کی اس روایت سے ہو جاتی ہے ، ویسے علماء نے اس کے علاوہ بھی بہت سے اسباب لکھے ہیں جو دیگر کتابوں اور شروح میں وضاحت کے ساتھ منقول ہیں چنانچہ کرمانی کا قول ہے کہ تخفیف عذاب کا سبب وہ تر شاخ تھی کہ اس کے اندر رفع عذاب کی خاصیت تھی مگر یہ خاصیت اس کی بنفسہ نہیں تھی بلکہ یہ خاصیت اسے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کی برکت کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء اور صلحاء اور اللہ کے نیک بندوں کو چاہئے کہ وہ قبور پر جایا کریں تاکہ ان کی وجہ سے اہل قبور کے عذاب میں تخفیف ہو کیونکہ صالحین کا قبروں پر جانا مردوں کے عذاب میں تخفیف کا باعث ہوتا ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ان دو چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں صحابہ نے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک تو یہ ہے کہ کوئی آدمی لوگوں کے راستہ میں پاخانہ کرے ، دوسرے یہ کہ کوئی آدمی لوگوں کے سایہ کے نیچے پاخانہ کرے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
علماء کرام نے اس ارشاد کی یہ وضاحت کی ہے کہ راستہ سے مراد شاہراہ ہے یعنی ایسا راستہ اور ایسی سڑک وغیرہ جس پر لوگ اکثر چلتے پھرتے ہوں یہاں وہ راستہ مراد نہیں ہے جو ویران پڑا رہتا ہو یا کبھی کبھی اس پر کوئی اکا دکا آدمی چلتا پھرتا ہو۔
سایہ مراد وہ سایہ دار درخت ہے یا سائبان ہے جس کے نیچے لوگ اٹھتے بیٹھے ہوں ، یا وہ لوگوں کے سونے کی جگہ ہو بہر حال ان دونوں جگہوں پر پاخانہ کر کے گندگی اور غلاظت پھیلانے سے منع کیا جا رہا ہے ، اس لیے کہ اس سے اللہ کی مخلوق کی ایذاء رسانی کا سامان ہوتا ہے اور لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک مومن و مسلمان کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کسی دوسرے آدمی کی تکلیف و پریشانی کا سبب بنے۔
٭٭اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حارث بن ربعی ہے انصاری اور خزرجی ہیں آپ اپنی کنیت ابوقتادہ سے مشہور ہیں۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی پانی پیئے تو (پانی پینے کے ) برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانہ میں جائے تو داہنے ہاتھ سے عضو مخصوص کو نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں دو ادب بتائے جا رہے ہیں پہلی چیز تو یہ بتائی جا رہی ہے کہ جب کوئی آدمی پانی پئے تو اسے چاہئے کہ وہ پانی پینے کے دوران اسی برتن میں سانس نہ لے جس میں وہ پانی پی رہا ہے جب اسے سانس لینا ہو تو برتن کو منہ سے جدا کر دے تاکہ منہ یا ناک سے کوئی چیز نکل کر پانی میں نہ گر پڑے۔
دوسرے چیز یہ بتائی جا رہی ہے کہ جو کوئی آدمی پاخانہ جائے تو اسے چاہئے کہ وہ داہنے ہاتھ سے نہ تو اپنے عضو مخصوص کو چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجا کرے ، اس لیے کہ داہنے ہاتھ سے کھانا وغیرہ کھایا جاتا ہے اور یہ چیز صفائی اور پاکیزگی کے خلاف ہے کہ جس ہاتھ سے کھانا وغیرہ کھایا جائے اسی ہاتھ سے ایسے اعضاء کو چھوا جائے جس سے گندگی اور غلاظت لگتی ہو۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کرے تو اسے چاہئے کہ وہ ناک کو بھی جھاڑ دے اور جو آدمی (پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے ) استنجاء کرے اسے چاہئے کہ طاق ڈھیلے لے (یعنی تین، یا پانچ، یا سات۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ کے لیے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا (یعنی حضرت بلال یا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پانی کی چھاگل اور ایک برچھی لیتے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم(ڈھلیوں سے صفائی کے بعد) پانی سے استنجاء کرتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب آپ پاخانہ کے لیے تشریف لے جاتے تو ایک خادم پانی کا برتن اٹھاتے اور دوسرے خادم ایک برچھی ساتھ لے کر چلتے ، برچھی اس لیے ساتھ لے جاتے کہ اس سے زمین کو کھود کر نرم کر دیا جائے تاکہ پیشاب اس میں کریں جس کی وجہ سے چھینٹیں نہ پڑیں یا زمین پر بہہ کر پاؤں وغیرہ میں لگنے کا خدشہ نہ رہے۔
دوسری غرض یہ ہوتی تھی کہ بوقت ضرورت اس سے ڈھیلے اکھاڑے اور توڑے جا سکیں یا پھر یہ کہ وقت پر کوئی دوسری ضرورت پیش آئے جس میں اس کی ضرورت پڑے تو اس میں کام آ سکے۔
٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب بیت الخلاء تشریف لے جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار دیا کرتے تھے (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) اور جامع ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ، اور ابوداؤد نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے نیز ان کی روایت لفظ نزع کے بجائے لفظ وضع ہے۔
تشریح
بیت الخلاء میں داخل ہونے کے وقت آپ انگوٹھی اس لیے اتار دیا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگوٹھی میں محمد رسول اللہ کھدا ہوا تھا، اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ استنجاء کرنے والے پر واجب ہے کہ جب وہ بیت الخلاء جائے تو اپنے ہمراہ کوئی ایسی چیز نہ لے جائے جس پر اللہ اور اس کے رسول کا نام نقش ہو نیز قرآن بھی نہ لے جائے۔ (طیبی)
بلکہ ابہری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر صرف دوسرے رسولوں ہی کا نام لکھا ہوا ہو تو اسے بھی اپنے ہمراہ بیت الخلاء میں نہ لے جائے ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی آدمی استنجاء کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ اپنے بدن سے ایسی چیزوں کو اتار دے یا الگ کر دے جن پر کوئی قابل تعظیم چیز لکھی ہو، خواہ اللہ تعالیٰ کا نام ہو یا نبی اور فرشتے کا نام لکھا ہو۔
اگرچہ اس حدیث میں سنن ابوداؤد نے کلام کیا ہے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے اس سلسلہ میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے ایک مفصل بحث کی ہے ، نیز یہ حدیث جامع صغیر میں بھی حاکم وغیرہ سے منقول ہے۔
٭٭اور حضرت جابر رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ کے لیے (جنگل میں ) جانے کا ارادہ کرتے تو (اتنی دور) تشریف لے جاتے کہ آپ کو کوئی نہ دیکھتا۔ (ابوداؤد)
٭٭اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشاب کرنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک دیوار کی جڑ میں (یعنی اس کے قریب) نرم زمین پر پہنچے اور پیشاب کیا ، پھر پیشاب سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ پیشاب کے لیے نرم زمین تلاش کرے تاکہ چھینٹیں نہ پڑیں۔(ابوداؤد)
تشریح
خطابی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جس دیوار کے پاس بیٹھ کر پیشاب کیا وہ دیوار کسی کی ملکیت میں نہیں ہو گی اس لیے کہ دیوار کی جڑ میں پیشاب کرنا دیوار کے نقصان کا سبب ہوتا ہے کیونکہ دیوار کی مٹی کو شورا لگ جاتا ہے اس لیے یہ مسئلہ ہے کہ جو دیوار کسی کی ملکیت میں ہو اس کے نیچے بیٹھ کے مالک کی اجازت کے بغیر پیشاب نہیں کرنا چاہئے اب اس میں وسعت ہے کہ اجازت خواہ حقیقۃً ہو یا حکماً۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب استنجاء کا ارادہ فرماتے تو جب (بیٹھنے کے لیے ) زمین سے قریب نہ ہو جاتے کپڑا نہ اٹھاتے تھے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد ، دارمی)
تشریح
یہ بھی استنجاء کے ادب اور شرم و حیا کا تقاضہ ہے کہ بغیر ضرورت ستر نہ کھولے اور ظاہر ہے کہ ضرورت جب ہی پڑتی ہے جب کہ استنجاء کے لیے بیٹھنے کے وقت زمین کے بالکل قریب ہو جائے چنانچہ رسول اللہ و صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھنے کے وقت زمین سے بالکل متصل نہ ہو جاتے کپڑا اوپر نہ اٹھاتے تھے۔
چنانچہ یہ مسئلہ ہے کہ بیٹھنے سے پہلے یعنی کھڑے ہی کھڑے ستر کا کھول دینا جائز نہیں ہے ، خواہ گھر کے بیت الخلاء کے اندر پاخانہ کرنا ہو یا جنگل میں کرنا ہو۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا (تعلیم و نصیحت کے سلسلہ میں ) تمہارے لیے ایسا ہی ہوں جیسے باپ بیٹے کے لیے ہوتا ہے ، چنانچہ میں سکھاتا ہوں کہ جب تم پاخانہ میں جاؤ تو قبلہ کی طرف نہ تو منہ کرو اور نہ پشت کرو (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (پاخانہ کے بعد) تین ڈھلیوں سے استنجاء کرنے کا حکم فرمایا اور لید (یعنی تمام نجاستوں ) اور ہڈی سے استنجاء کرنے کو منع فرمایا نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے۔ (ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
اس حدیث سے جہاں اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ امور دین اور نصیحت کے سلسلہ میں اپنی امت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کتنا شغف اور تعلق تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آپ کو باپ اور امت کو اولاد کی مثل قرار دیا، وہیں حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد کو باپ کی اطاعت کرنی لازم ہے اور باپ پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ان چیزوں کے آداب سکھائیں جو ضروریات دین سے ہیں۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا داہنا دست مبارک وضو کرنے اور کھانے کے لیے تھا اور بایاں ہاتھ استنجاء اور ہر مکروہ کام کے استعمال کے لیے تھا۔ (ابوداؤد)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم دائیں ہاتھ سے وضو کرتے تھے اور اس سے کھانا بھی کھاتے نیز جتنے اچھے کام ہیں سب دائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے مثلاً یہ، صدقہ و خیرات کرنا یا دوسری چیزیں لینا دینا وغیرہ وغیرہ اور بائیں ہاتھ کو استنجاء کرنے یا ایسی چیزوں کی انجام دہی میں استعمال فرماتے جو مکروہ ہوتیں یعنی ایسی چیزیں جو طبعاً مکروہ ہوں ، جیسے ناک سنکنی یا ایسے ہی دوسری چیزیں جنہیں نفس مکروہ سمجھتا ہو۔
اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ وضو وغیرہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم ناک میں پانی دائیں ہاتھ سے دیتے ہوں گے اور ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرتے ہوں گے ، مگر۔ افسوس کہ جس طرح آج کے دور میں عقل و دین سے بیگانہ لوگوں نے دوسری اسلامی چیزوں کو ترک کر دیا اور دینی آداب کو فیشن پرستی کے بھینٹ چڑھا دیا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی اکثر لوگ بالکل برعکس عمل اختیار کئے ہوئے ہیں مثلاً آج کل یہ بہت بڑا مرض عام طور پر لوگوں میں سرایت کر چکا ہے کہ کتاب تو لوگ بائیں ہاتھ میں رکھتے ہیں اور اپنے جوتے دائیں ہاتھ میں اٹھاتے ہیں اب اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ یا تو ایسے لوگ آداب شریعت سے قطعاً نا واقف ہوتے ہیں یا پھر نفس کی گمراہی میں پھنس کر غفلت اختیار کئے ہوئے ہیں۔
٭٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی پاخانہ کے لیے جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ تین پتھر (یا ڈھیلے ) لے جائے جو کافی ہوں گے (یعنی پانی کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی)
تشریح
اصل مقصد تو نجاست سے پاکی حاصل کرنا ہے ، اور جب تین ڈھیلے سے استنجاء کرے گا اور نجاست صاف کرے گا تو پانی سے استنجاء کی حاجت نہیں رہے گی کیونکہ اصل طہارت اس سے حاصل ہو جائے گی جس سے نماز پڑھنی بھی جائز ہو جائے گی، البتہ ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی سے بھی استنجاء کر لے تو یہ اچھی بات ہو گئی کیونکہ پانی سے استنجاء کرنا مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ لید اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ (ہڈی) تمہارے بھائی جنات کی غذا ہے۔ (جامع ترمذی سنن نسائی مگر سنن نسائی نے زاد اخو انکم من الجن کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں )
تشریح
جس طرح شریعت محمدی کے مخاطب انسان ہیں اسی طرح جنات بھی ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح انسانوں کی دنیوی اور دینی رہبری فرماتے ہیں اسی طرح جنات کی دینی و دنیوی امور کی بھی رعایت فرماتے ہیں چنانچہ اس حدیث کے ذریعہ انسانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ لید اور ہڈی سے استنجاء نہ کیا جائے کیونکہ ہڈی تو جنات کی غذا ہے اور لید ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔
٭٭اور حضرت رویفع بن ثابت (رویفع بن ثابت بن سکن بن عدی بن حارثہ بنی مالک نجار سے ہیں ان کا شمار اہل مصر میں ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے رویفع! شاید میرے بعد تمہاری زندگی دراز ہو، لہٰذا تم لوگوں کو خبردار کرنا کہ جس آدمی نے اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگائی یا (گلے میں ) تانت کا ہار ڈالا یا جانور کی نجاست (لید اور گوبر وغیرہ) اور ہڈی سے استنجاء کیا تو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اس سے بیزار ہیں۔ (ابوداؤد)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت رویفع کو اس انداز سے مخاطب کرنے کا یہ معنی ہیں کہ شاید میرے انتقال کی بعد تمہاری زندگی دراز ہو اور تم دوسرے لوگوں کو گناہ کرتے اور رسوم جاہلیت میں انہیں مبتلا دیکھو تو ان باتوں سے انہیں خبردار کر دینا ڈاڑھی میں گرہ لگانے کے کئی معنی ہیں ، چنانچہ اکثر علماء یہ لکھتے ہیں کہ ڈاڑھی میں گرہ لگانا یہ ہے کہ کوئی آدمی تدابیر اور تکلّف اختیار کر کے مثلاً گرہ وغیرہ لگا کر ڈاڑھی کے بالوں کو گھنگر یالے بنائے چنانچہ ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے ، اس سے سنت کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے کے ڈاڑھی کے بالوں کو سیدھا چھوڑنا سنت ہے۔
بعض علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو یہ عادت تھی کہ جنگ کے وقت اپنی ڈاڑھی کے بالوں میں گرہ دے لیتے تھے چنانچہ اس سے منع فرمایا گیا ہے کیونکہ اس سے عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔
کچھ علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ اہل عجم کی بھی عادت تھی کہ وہ اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگا لیتے تھے اس لیے اس سے منع فرمایا کیونکہ اس سے خلقت الہٰی میں تغیر لازم آتا ہے۔ (و اللہ اعلم)
لفظ وتر کے بھی کئی معنی ہیں ، یا تو اس کے معنی دورے کے ہیں جس میں زمانہ جاہلیت کے لوگ دفع نظر اور آفات نظر سے محافظت کی خاطر تعویذ اور گنڈے وغیرہ باندھ کر بچوں اور گھوڑوں کے گلوں میں ڈال دیتے تھے ، اس منع فرمایا گیا ہے ، بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس سے ڈورے مراد ہیں جن میں کفار گھنٹی اور گھنگرو باندھ کر لٹکاتے تھے یا اس سے کمان کے وہ چلے مراد ہیں جو گھوڑے کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں تاکہ نظر نہ لگے ، بہر حال، ان تمام رسموں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے کافروں کی مشابہت ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کافروں کی مشابہت سے بیزار ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کفار کی ایسی چھوٹی چھوٹی رسمیں اختیار کرنا گناہ کبیرہ میں شامل نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیزاری و ناراضگی کا سبب ہے ، تو کفر کی وہ بڑی بڑی رسمیں جن میں بد قسمتی سے آج مسلمان مبتلا ہیں اور جن کا شمار بھی کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے ان سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو کتنی زیادہ نفرت ہو گی اور ان رسموں کے کرنے والوں کا اللہ کے یہاں کیا انجام ہو گا؟
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی سرمہ لگائے تو اسے چاہئے کہ طاق سلائیاں لگائے جس نے ایسا کیا (یعنی طاق سلائیاں لگائیں ) اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا تو کچھ گناہ نہیں ! اور جو آدمی استنجاء کرے تو اسے چاہئے کہ طاق ڈھیلے استعمال کرے (یعنی تین پانچ یا سات) جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھا گناہ نہیں ! اور جو آدمی کچھ کھائے جو چیز خلال میں نکلے تو اسے چاہئے کہ پھینک دے اور جو چیز زبان سے نکلے تو اسے چاہئے کہ نگل لے ، جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھ گناہ نہیں اور جو آدمی پاخانہ کے لیے جائے تو اسے چاہئے کہ پردہ کرے ، اگر کوئی چیز پردہ کی نہ ملے تو (کم از کم) ریت کو جمع کر کے اس کا تودہ اپنے پیچھے کر لے اس لیے کہ شیطان بنی آدم (انسان) کے پاخانہ کے مقام پر کھیلتا ہے جس نے ایسا کیا اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
طاق سلائیوں سے سرمہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگائے ، زیادہ بہتر یہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں بھی ایسا ہی معمول منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے آپ سرمہ اس طرح لگاتے تھے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگاتے اور تین سلائی دوسری آنکھ میں لگاتے۔
بعضوں نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ تین سلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے ، نیز کچھ حضرات نے کہا ہے کہ پہلے دو سلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے اور اس کے بعد پھر ایک سلائی دائیں آنکھ میں لگائے تاکہ ابتدا بھی دائیں آنکھ سے ہو اور اختتام بھی دائیں ہی آنکھ پر ہو، جو آدمی طاق سلائی لگائے گا اس کے لیے بہتر اور اچھا ہو گا، اور جو آدمی طاق سلائی نہ لگائے گا اس میں کوئی حرج اور گناہ بھی نہیں ہے کیونکہ طاق سلائی لگانا مستحب ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے طاق ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نہ ایسا نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں ، اس سے حنفیہ کے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ تین یا طاق ڈھیلے لینے واجب نہیں ہیں اس سے کم اور زیادہ بھی لیے جا سکتے ہیں البتہ طاق ڈھیلے لینا مستحب ہے ، کھانا کھانے کے بعد خلال سے نکالی ہوئی چیز کو منہ سے پھینک دینے کو بہتر قرار دیا جا رہا ہے اور زبان سے نکالی ہوئی چیز کو نگل لینے کے لیے کہا جا رہا ہے اس لیے کہ تنکے سے خلال کرنے میں اکثر خون بھی نکل آتا ہے اس لیے احتیاطاً اس کو پھینک دینا ہی بہتر ہے زبان سے چونکہ خون نکلنے کا احتمال نہیں ہوتا اس لیے اس کو نگل لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مگر اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ جو فرمایا کہ جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں تو یہ حکم اسی صورت میں ہو گا جب کہ خون نکلنے کا یقین نہ ہو بلکہ احتمال ہو اگر خون نکلنے کا یقین ہو تو پھر خلال میں ہر طرح کی نکلی ہوئی چیز کا نگلنا حرام ہوا، اس کا پھینک دینا واجب ہو گا۔
آخر حدیث میں فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی پاخانہ کے لیے جائے تو پاخانہ کے وقت اسے پردہ کر کے بیٹھنا چاہئے یعنی ایسی جگہ بیٹھے جہاں لوگ نہ دیکھ سکیں اگر پردہ کے لیے کچھ نہ پائے بایں طور کے نہ تو ایسی جگہ ہے جو گھری ہوئی اور لوگوں کی نظروں سے محفوظ ہو اور نہ اپنے پاس ایسا کوئی کپڑا یا یا کوئی دوسری چیز ہے جس سے پردہ کیا جا سکے تو اس وقت یہ کرنا چاہئے کہ ریت کا تودہ جمع کر لے اور اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ جائے اس طرح کسی نہ کسی حد تک پردہ ہو جائے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو آدمی پاخانہ کے وقت پردہ کا لحاظ نہیں کرتا تو شیطان اس کے پاخانہ کے مقام سے کھیلتا ہے کھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور انہیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس آدمی کے ستر کو دیکھیں جو بے پردہ بیٹھا ہوا پاخانہ کر رہا ہے ، نیز یہ کہ اگر پردہ نہ کیا جائے تو اس کا بھی خطرہ رہتا ہے کہ جب ہوا چلے تو اس کی وجہ سے ناپاک چھینٹیں اڑ کر بدن اور کپڑے پر پڑیں گی اس لیے پاخانہ کے وقت پردہ کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
اس کے بارہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی پردہ کا لحاظ کرے تو یہ اچھا ہے اور اگر نہ کرے تو کوئی گناہ کی بات بھی نہیں ہے مگر احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ پردہ کا خیال رکھا جائے بلکہ اگر اس بات کا یقین ہو کہ پردہ نہ کیا گیا تو لوگ دیکھیں گے تو ایسی شکل میں پردہ کرنا لازم اور ضروری ہے ، اگر پردہ نہ کرے تو گناہ گار ہو گا۔
اگر بحالت مجبوری کوئی آدمی بغیر پردہ کے پاخانہ کے لیے بیٹھ جائے تو پھر اس کی ستر کی طرف قصداً دیکھنے والوں کو گناہ ہو گا، مجبوری سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا موقع آپڑے جب کہ پردہ کا کوئی انتظام ممکن نہ ہو اور اس کو شدید حاجت ہو تو اس صورت میں اسے مجبوری ہے۔ ریت کے تودہ کو پشت کی طرف کرنے کو اس لیے فرمایا گیا ہے کہ آگے کے ستر کو تو دامن وغیرہ سے بھی چھپایا جا سکتا ہے بخلاف پیچھے کے ستر کے کہ اس کو چھپانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت عبداللہ بن مغفل کی کنیت ابو سعید ہے پہلے مدینہ میں سکونت اختیار فرمائی پھر آپ بصرہ چلے گئے آپ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ میں مسائل دین کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا تھا آپ کی وفات بمقام بصرہ ٥٩ھ میں ہوئی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوئی آدمی اپنے غسل خانے میں پیشاب نہ کرے جس میں پھر وہ نہائے یا وضو کرے (یعنی یہ عقل سے بعید ہے کہ نہانے کی جگہ پیشاب کرے اور پھر وہیں نہائے یا وضو کرے ) اس لیے کہ اس سے اکثر وساوس پیدا ہوتے ہیں (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) جامع ترمذی اور سنن نسائی نے ثم یغتسل فیہ او یتوضا فیہ کہ الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔
تشریح
غسل خانہ میں پیشاب کرنے سے وساوس اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ جب وہاں پیشاب کیا جاتا ہے تو وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے اور پھر وضو یا غسل کے وقت جب اس پر پانی پڑتا ہے تو دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں چھینٹیں تو نہیں پڑ رہے ہیں اور پھر یہ شبہ رفتہ رفتہ دل میں جم جاتا ہے جس سے ایک مستقل خلجان واقع ہو جاتا ہے۔
ہاں اگر غسل خانہ کی زمین ایسی ہو کہ اس پر سے چھینٹیں اچھل کر اوپر نہ پڑتی ہوں مثلاً وہاں کی زمین ریتلی ہو اس کا فرش اور اس میں نالی ایسی ہو کہ پیشاب کا ایک قطرہ بھی وہاں نہ رکتا ہو سب نکل جاتا ہو تو پھر وہاں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔
اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں غسل خانہ میں پیشاب کرنے کو جو منع کیا گیا ہے تو نہی تنزیہی ہے نہی تحر یمی نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی آدمی کسی سوراخ میں پیشاب نہ کرے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
سوراخ میں پیشاب کرنے سے اس لیے روکا جا رہا ہے کہ اکثر و بیشتر سوراخ کیڑے مکوڑوں اور سانپ بچھو کا مسکن ہوتے ہیں چنانچہ ہو سکتا ہے کہ پیشاب کرتے وقت اس میں سے سانپ یا بچھو یا تکلیف دینے والا کوئی دوسرا کیڑا نکل کر ایذاء پہنچائے یا اگر اس سوراخ کے اندر کوئی ضعیف اور بے ضرر جانور ہو تو پھر پیشاب کی وجہ سے اسے تکلیف پہنچے گی۔
بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوراخوں میں جنات رہتے ہیں چنانچہ ایک صحابی سعد بن عبادہ خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے زمیں حوران کے ایک سوراخ میں پیشاب کر دیا تھا تو ان کو جنات نے مار ڈالا اور اس میں یہ شعر پڑھتے تھے۔
نَحْنُ قَتَلْنَا سَیِّدَ الْخَزْرَجَ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ
وَرَمِیْنَاہُ بِسَھْمَیْنِ فَلَمْ نَخُطُّ فَؤَادَہُ
ہم نے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کیا ہم نے اس کی طرف دو تیر مارے اور اس کے دل کو نشانہ بنانے میں خطا نہیں کی اور بعض علماء کرام لکھتے ہیں کہ اگر کوئی سوراخ خاص طور پر پیشاب ہی کے لیے ہو تو اس میں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم تین چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں (١) گھاٹوں پر استنجاء (یعنی پیشاب پاخانہ) کر نے سے (٢) راستہ کے درمیان اور (٣) سایہ میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے۔ (ابوداؤد و ابن ماجہ)
تشریح
یہ تین افعال ایسے ہیں جو لعنت کا سبب ہیں یعنی جب کوئی آدمی کسی راستہ پر، یا گھات پر ، یا سایہ کی جگہ پر پاخانہ کرتا ہے تو جو لوگ اس راستہ سے گزرتے ہیں یا گھاٹ کو استعمال کرتے ہیں ، یا سایہ دار جگہ پر آتے ہیں وہ اس آدمی پر لعنت بھیجتے ہیں یا اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ آدمی ان افعال بد کی بنا پر لوگوں کی ان منفعت اور آرام کو جوان جگہوں سے مختص ہیں فاسد کرتا ہے ، لہٰذا یہ ظالم ہوا اور ظالم آدمی ملعون ہوتا ہے۔
موارد ان مکانوں کو فرماتے ہیں جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر آپس میں بات چیت کرتے ہیں ، بعض علماء کرام نے کہا ہے کہ موارد جمع مورد گھاٹ کو کہتے ہیں جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے۔ سایہ ، عام ہے خواہ درخت کا سایہ ہو یا کسی اور چیز کا جہاں لوگ سوتے اور بیٹھتے ہوں ، نیز اپنے جانوروں کو باندھتے ہیں۔
٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا (ایک ساتھ) دو آدمی پاخانہ کے لیے (اس طرح) نہ جائیں کہ دونوں اپنی شرم گاہ کھولے ہوئے ہوں اور باتیں کرتے ہوئے ہوں کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ غصب ناک ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، و ابن ماجہ)
تشریح
مردوں اور عورتوں کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ پاخانہ کے لیے اس طرح بیٹھیں کہ ایک دوسرے کی شرم گاہیں دیکھیں اسی طرح ایسی حالت میں آپس میں باتیں کرنا بھی مکروہ ہے یہ دونوں چیزیں غضب خداوندی کا سبب اور اس کے عتاب کا باعث ہیں۔
اس موقع پر اس تکلیف دہ صورت حال کی وضاحت ضروری ہے کہ آج کل عورتوں میں خصوصیت سے ایسی بد احتیاطیاں پائی جاتی ہیں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ عورتیں آپس میں ایک دوسری کے سامنے ستر کھولنے کو قطعاً معیوب نہیں سمجھتیں خصوصاً غسل اور پاخانہ کے وقت اس قسم کی شرمناک حرکتیں عام طور پر کرتی ہیں ، ایسی عورتوں کو چاہئے کہ وہ اس حدیث کو غور سے پڑھیں اور پھر سمجھیں کہ وہ ایسی ناشائستہ اور شرم و حیا کے منافی چیزوں کے ارتکاب سے اللہ کا غضب مول رہی ہیں اور اس کے عتاب کا باعث ہو رہی ہیں۔
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ پاخانہ کرتے وقت اور جماع (ہم بستری) کے وقت زبان سے ذکر اللہ نہ کیا جائے بلکہ دم کے ساتھ کیا جائے۔
٭٭اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ انصاری ہیں اور کنیت ابو عمرو ہے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سترہ غزوات میں شرکت کی ہے آپ کوفہ میں رہتے تھے اور وہیں ٦٨ھ انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا پاخانے شیاطین اور جنات کے حاضر ہونے کی جگہ ہیں ، اس لیے جب تم میں سے کوئی بیت الخلا جائے تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے اعوذ با اللہ من الخبث و الخبائث یعنی میں ناپاک جنوں اور جنیوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
جنات اور شیاطین پاخانہ میں آتے ہیں اور اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ جو آدمی پاخانہ میں آئے اس کو ایذاء پہنچائیں اور تکلیف دیں کیونکہ پاخانہ جانے والا آدمی وہاں ستر کھول کر بیٹھا ہے اور ذکر اللہ کر نہیں سکتا اس لیے یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو آدمی پاخانہ جاتے وقت یہ دعا پڑھ لے گا وہ جنات اور شیاطین کی ایذاء و تکلیف سے محفوظ رہے گا۔
اس باب میں جو حدیث نمر ٣ گزری ہے اس میں اس دعا کے الفاظ اس طرح ہیں۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ چونکہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اس لیے اختیار ہے کہ چا ہے وہ دعا پڑھی جائے لیکن بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ کبھی وہ دعا پڑھ لے اور کبھی یہ پڑھ لے یا دونوں کو ساتھ ساتھ پڑھے۔
٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی آدمی پاخانہ میں داخل ہو تو جن (شیطان) کی آنکھوں اور انسان کی شرم گاہ کے درمیان کا پردہ یہ ہے کہ بسم اللہ کہے۔ (اس حدیث کو جامع ترمذی نے روایت کیا اور کہا ہے ) کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے )
تشریح
ارشاد کا مطلب ہے کہ جب انسان بیت الخلاء میں جاتا ہے ، تو چونکہ وہاں ستر کھول کر بیٹھتا ہے اس لیے شیاطین اس کی شرم گاہ دیکھتے ہیں ، لہٰذا جب کوئی آدمی پاخانہ جائے تو اسے چاہئے کہ بسم اللہ کہہ کر بیت الخلاء جائے کیونکہ اس سے شیاطین ستر نہیں دیکھ سکتے علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں سنت یہ ہے کہ جب کوئی آدمی بیت الخلاء جائے تو پہلے بسم اللہ اور پھر اس کے بعد وہ دعا پڑھے جو اس سے پہلے حدیث میں گزر چکی ہے ، لیکن ان دونوں یعنی بسم اللہ اور مذکورہ دعاؤں میں سے کسی ایک کو بھی پڑھ لیا جائے تو سنت ادا ہو جائے گی مگر افضل یہی ہے کہ دونوں پڑھی جائیں یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے ، لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ سے باہر تشریف لاتے تو فرماتے غفر انک یعنی اے اللہ ! میں تیری بخشش کا خواست گار ہوں۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
علماء نے اس وقت بخشش چاہنے کی دو وجہیں لکھی ہیں ، اول تو یہ کہ چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم زبان سے ذکر اللہ کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑتے تھے سوائے اس کے کہ کسی شدید حاجت اور مجبوری مثلاً پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت ترک فرما دیتے تھے اس کی وجہ سے آپ اللہ سے بخشش کے خواستگار ہوتے تھے۔
دوسرے یہ کہ جب انسان کوئی غذا کھاتا ہے ، تو وہ غذا معدہ میں پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک حصہ تو خون بن کر قوت و طاقت پیدا کرتا ہے اور دوسرا حصہ فضلہ ہو کر پاخانہ کی شکل میں نکل جاتا ہے ، اگر قدرت کے اس نظام کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بندوں پر اللہ کا بہت بڑا انعام اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا شکر بندے سے کماحقہ، ادا نہیں ہو سکتا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بخشش چاہتے تھے کہ اے اللہ ! مجھ سے تیری اس عظیم نعمت کا شکر ادا نہیں ہوا اس لیے تو مجھے اس کوتاہی پر بخش دے۔
بعض مشائخ نے لکھا ہے کہ ایسے موقع پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ اپنی احتیاج اور اس بات کا خیال کیا جائے کہ انسان کی ذات کی حیثیت ہی کیا ہے جس میں نجاست ہی نجاست بھری ہوئی ہے اور اس کے مقابلہ میں رب قدوس کی ذات پاک اور اس کے تقدس کا تصور کرے ، افضل یہ ہے کہ لفظ غفرانک کے بعد یہ دعا پڑھ لی جائے الحمد اللہ الذی اذھب عنی الاذی وعافنی۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پاخانہ جاتے تو آپ کے لیے پیالہ یا چمڑے کی چھاگل میں پانی لاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے استنجاء کرتے پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑتے پھر اس کے بعد میں (پانی کا) دوسرا برتن لاتا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو فرماتے۔ (دارمی ،سنن نسائی)
تشریح
تور عرب میں پیتل یا پتھر کا ایک چھوٹا سا برتن پیالہ کی طرح ہوتا ہے ، اس میں کھانا کھاتے ہیں ، اور بوقت ضرورت اس میں پانی بھر کر اس سے وضو بھی کر لیتے ہیں رکوۃ چمڑے کی چھاگل کو فرماتے ہیں جو پانی رکھنے کے کام آتا ہے۔
استنجاء سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم زمین پر ہاتھ رگڑ کر اس لیے دھوتے تاکہ ہاتھ سے بدبو نکل جائے اور ہاتھ خوب پاک و صاف ہو چنانچہ پاخانہ سے آ کر اس طرح سے ہاتھ دھونا سنت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضوء کے لیے دوسرے برتن میں پانی اس لیے نہیں لاتے تھے کہ استنجے کے بقیہ پانی یا اس برتن سے وضو درست نہیں تھا بلکہ اس برتن میں چونکہ پانی صرف استنجے کی ضرورت کی مطابق ہی رہتا ہو گا اس لیے وضو کے لیے دوسرے برتن میں پانی لانے کی ضرورت ہوتی تھی ، اس حدیث میں بعض علماء کرام نے یہ اخذ کیا ہے کہ اگر استنجے اور وضو کے پانی کے لیے الگ الگ برتن ہوں تو یہ مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت حکم ابن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب پیشاب کر چکتے تو وضو فرماتے اور اپنی شرم گاہ پر چھینٹا دیتے !۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
پیشاب کرنے کے بعد جب آپ وضو فرماتے تو دفع وساوس کے لیے تھوڑا سا پانی لے کر ستر کی جگہ ازار پر چھڑک لیتے تھے تاکہ پیشاب کے قطرہ کا وہم باقی نہ رہے۔
ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس و ساوس و خطرات سے پاک و صاف تھی اس لیے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ طرز عمل امت کی تعلیم کے لیے تھا کہ پیشاب کرنے کہ بعد جب وضو کیا جائے تو تھوڑا سا پانی ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر چھڑک لیا جائے ، اس لیے کہ اگر پانی نہ چھڑکا جائے اور ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر تری کا احساس ہو تو اس سے پیشاب کے قطروں کا وہم ہو گا اور پانی چھڑک لیا جائے تو اس کے بعد اگر تری کا حساس ہو گا بھی تو یہی سمجھا جائے گا کہ اسی چھڑ کے ہوئے پانی کی تری ہے چنانچہ اس سے وسوسہ کی راہ بند ہو جائے گی اور مقصد یہی ہے کہ وساوس و خطرات کی راہ روک دی جائے تاکہ اطمینان قلب کے ساتھ عبادت میں مصروف رہا جا سکے۔
ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ وضوء کے بعد شرم گاہ کے اوپر پانی چھڑکنے کی ایک وجہ تو یہ دفع وساوس ہو سکتی ہے مگر ایک دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے پیشاب وغیرہ کے قطرے رک جائیں باہر نہ آئیں۔
٭٭اور حضرت امیمہ بنت رقیقہ (امیمہ بنت رقیقہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہمشیرہ کی صاحبزادی ہیں۔) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چارپائی کے نیچے رکھا رہتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو اس میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
چونکہ رات میں سردی وغیرہ کی بناء پر اٹھنا تکلیف دہ اور پریشانی کا سبب ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیالہ اس کام کے لیے مخصوص کر لیا تھا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رات میں پیشاب کی حاجت ہوتی تھی تو اس پیالہ میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔ اور اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت ہی مقصد سامنے آئے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے طرز عمل سے امت کے لیے یہ آسانی پیدا کر دی ہے کہ جب رات میں پیشاب کی حاجت ہو اور سردی وغیرہ کی تکلیف کی بناء پر باہر نکلنا دشوار ہو تو کسی برتن وغیرہ میں پیشاب کر لیا جائے اور صبح اٹھ کر اسے پھینک دیا جائے تاکہ ایک طرف تو تکلیف اور پریشانی میں مبتلاء ہونے سے بچا جائے اور دوسری طرف رات میں بیت الخلاء جانے سے بچ جائیں جو شیاطین کا مسکن ہے اور شیاطین دن کے مقابلہ میں رات کو زیادہ ضرر اور تکلیف پہنچانے کا سبب ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ امت کے لیے یہ تعلیم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی جذبہ رحمت و شفقت کی مرہون منت ہے جو اعمال و افعال میں ہر مرحلہ پر آسانی و سہولت کی صورت میں نظر آتی ہے۔
منقول ہے کہ ایک صحابی نا دانستہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیشاب اسی پیالہ میں سے پی گئے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ جب تک وہ زندہ رہے ان کے بدن سے خوشبو آتی رہی اور نہ صرف ان کے بدن سے بلکہ کئی نسلوں تک ان کی اولاد کے بدن میں بھی وہی خوشبو باقی رہی۔
٭٭اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک روز) مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ عمر! کھڑے ہو کر پیشاب نہ کیا کرو چنانچہ اس کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا (ابن ماجہ ،جامع ترمذی) امام محی السنۃ فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک قوم کی کوڑی پر گئے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا (صحیح البخاری و صحیح مسلم) کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فعل (کھڑے ہو کر پیشاب کرنا، کسی عذر کی بناء پر تھا۔
تشریح
متفقہ طور پر تمام علماء کرام کے نزدیک کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے ، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی چنانچہ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ مکروہ تحریمی ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔
جہاں تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں کہ چونکہ ایام جاہلیت میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا طریقہ رائج تھا اور ان کو وہی عادت پڑی ہوئی تھی اس لیے انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کر لیا، یا ہو سکتا ہے کہ کسی عذر کی بنا پر انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہو۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بھی حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے اس سلسلہ میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی کسی عذر کی بنا پر ایسا کیا ہو گا، اور علماء کرام نے وہ اعذار بھی لکھے ہیں چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ چونکہ وہاں نجاست کی وجہ سے آپ نے بیٹھنے کی جگہ نہیں پائی اس لیے کھڑے ہو کر پیشاب کر لیا۔
بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیر مبارک میں درد تھا اور بعض حضرات کی تحقیق کے مطابق پیٹھ میں درد تھا ، اس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھ نہیں سکتے تھے اس لیے کھڑے ہو کر پیشاب کر لیا۔
٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جو آدمی یہ حدیث بیان کرے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اسے سچ نہ مانو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کیا۔
تشریح
امام محی السنۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت نقل فرمائی ہے اس سے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث اس بات کی بالکل نفی کر رہی ہے ، اب ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح ہو گی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے علم کے مطابق خبر دے رہی ہیں یعنی انہوں نے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے کبھی گھر میں نہیں دیکھا تھا اس لیے انہوں نے اس بات کی سرے سے نفی کر دی اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ باہر سے متعلق ہے اور وہ بھی عذر کی بناء پر نادر ہے ، اور ظاہر کہ نادر شی معدوم کی مانند ہے نیز عذر کی بنا پر اسے مستثنی بھی قرار دیا جا سکتا ہے لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔
٭٭اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی زید بن حارثہ، کنیت ابواسامہ ہے عظیم صحابی ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا متبنیٰ بننے کا شرف حاصل ہوا ہے غزوہ موتہ کے موقع پر سر زمین شام میں آٹھ ہجری کو آپ نے شہادت پائی شہادت کے وقت آپ کی عمر ٥٥ سال کی تھی۔) سرکار دو عالم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (جب) سے پہلی وحی کے موقع پر آپ کے پاس تشریف لائے تو آپ کو وضو کرنا سکھایا، پھر نماز پڑھنی سکھائی چنانچہ جب وہ وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چلو پانی لیا اور اس کو اپنی شرم گاہ پر چھڑک لیا۔ (مسند احمد بن حنبل، دارقطنی)
تشریح
حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آدمی کی شکل میں آئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے وضو کیا اور نماز پڑھی تاکہ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی سیکھ جائیں اسی طرح انہوں نے اللہ کی جانب سے ان دونوں چیزوں کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دی پھر اس کے ساتھ ساتھ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے وضو کے بعد شرم گاہ پر یا ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر وضو کے بعد پانی چھڑک کر بھی آپ کو دیکھا یا تاکہ دفع وساوس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کریں تو تھوڑا سا پانی (شرم گاہ پر دفع وساوس کے لیے چھڑک لیا کیجئے (جامع ترمذی) اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے اور میں نے محمد (یعنی عبداللہ بن اسماعیل صحیح البخاری) کو یہ کہتے سنا ہے کہ اس حدیث کے ایک راوی حسن بن علی ہاشمی منکر الحدیث ہیں۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشاب کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی کا لوٹا لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا عمر یہ کیا ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے وضو کے لیے پانی ہے۔ آپ نے فرمایا مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب میں پیشاب کروں تو وضو بھی کروں ، اگر میں ایسا کروں تو یہ (میرا فعل سنت ہو جاتا)۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ مجھے بطریق وجوب اور فرض کے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب بھی پیشاب کروں تو اس کے بعد وضوء بھی کروں اور اگر میں اپنی طرف سے یہ فعل اختیار کر لیتا ہوں تو پھر ہر مرتبہ پیشاب کے بعد وضو کرنا سنت موکدہ ہو جائے گا، بہر حال یہاں سنت سے مراد سنت موکدہ ہی ہے ، کیونکہ ویسے تو پانی سے استنجاء کرنا اور ہر وقت با وضو رہنا تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مستحب ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ادنیٰ چیزوں کو اپنی امت کی آسانی او سہولت کی خاطر کبھی ترک فرما دیتے تاکہ وہ چیزیں امت کے لیے کہیں ضروری نہ ہو جائیں۔
٭٭حضرت ابوایوب، جابر، حضرت انس رضوان اللہ علیہم راوی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی آیت (فِيْہ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَہرُوْا ۭوَاللّٰہ يُحِبُّ الْمُطَّہرِيْنَ) 9۔ التوبہ:108) یعنی مسجد قبا میں ایسے مرد (انصاری) ہیں جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ خوب پاکی حاصل کریں اور اللہ خوب پاکی حاصل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے انصار کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے پاکی کے معاملہ میں تمہاری تعریف کی ہے تمہاری پاکی کیا ہے؟ اور انہوں نے عرض کیا ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں جنابت (ناپاکی) سے غسل کرتے ہیں (جیسا کہ دوسرے مسلمان کرتے ہیں ) اور (ڈھیلے کے بعد) پانی سے استنجاء کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! وہ یہی ہے ، لہٰذا اسے لازم پکڑو۔ (ابن ماجہ)
تشریح
انصاری کی عادت تھی کہ وہ پیشاب و پاخانہ کے بعد ڈھیلوں سے صفائی کے بعد پانی سے بھی استنجاء کرتے تھے ، اس بنا پر ان کی فضیلت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی اور انصار کی اس فضیلت کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ کونسی پاکیزگی ہے جسے حاصل کرنے کے بعد تم اس سعادت کے حقدار ہوئے ہو، جب انہوں نے پاکیزگی کی تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی تصدیق کر دی کہ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی سبب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں تمہاری تعریف کی ہے اور پھر بعد میں اس طرف اشارہ کر دیا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں ہے کہ اس سعادت کو ہمیشہ باقی رکھو یعنی جس طرح تم لوگ پاکی حاصل کرتے ہو اسی طرح ہمیشہ حاصل کرتے رہو۔
٭٭اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی نے بطور استہزاء یہ کہا کہ میں تمہارے سردار (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کو دیکھتا ہوں تو وہ تمہیں ہر چیز سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پاخانہ بیٹھنے کی صورت بھی؟ میں نے کہا! ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ (استنجے کے وقت) ہم قبلہ کی طرف رخ کر کے نہ بیٹھیں ، اپنے دائیں ہاتھوں سے استنجاء پاک نہ کریں ، تین پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کریں اور ان پتھروں میں نجاست (یعنی پاخانہ، لید گوبر) اور نہ ہڈی ہو۔ (مسلم مسند احمد بن حنبل الفاظ مسند احمد بن حنبل کے ہیں )
تشریح
اگر مذہب کی بنیاد پر حقیقت کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہو گی کہ مذہب اور دین دراصل نام ہے ایک مکمل ضابطہ حیات کا اور ایک دستور کامل ہے نظام زندگی کا جس میں انسانوں کے لیے دین اور دنیا دونوں جگہ کے لیے مکمل رہبری، کامل راہنمائی اور ہمہ گیر ہدایات ہوں۔
اگر چند مخصوص اعتقادات پر چند مخصوص عبادات اور چند اعمال کا نام، مذہب اور دین، رکھ دیا جائے تو وہ کامل و مکمل مذہب وہ دین ہی نہیں بلکہ انسانی دماغ کے اختراعات اور نظریات کا مجموعہ ہے۔
اسلام دوسرے تمام مذاہب میں اگر اپنی کوئی امتیازی شان رکھتا ہے اگر دوسرے دینوں پر کوئی تفوق و برتری رکھتا ہے اور اگر دوسری شریعتوں میں اکملیت کا کوئی درجہ رکھتا ہے تو وہ اسلام کی شان ہمہ گیریت اور اس کی شان جامعیت ہے مسلمانوں کو چھوڑئیے وہ تو اسلام کی پیروی کرنے والے ہیں ہیں ، دنیا کے وہ دانشور اور عقلاء بھی اسلام کے اعتقادات و احکامات کے پابند و متبع نہیں ہیں ، آج اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں اور دنیا کی تمام شریعتوں میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب اور دین ہے جو انسانوں کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ایک نظام زندگی اور کائنات کے ہر شعبہ پر حاوی ایک مجموعہ ہدایات ہے جو انسانی زندگی کے ہر چھوٹے و بڑے مسئلہ کی رہبری کرتا ہے۔
چنانچہ اسلام اگر ایک طرف اعتقادات و نظریات کی انتہائی بلندی تک جن و انس کی راہنمائی کرتا ہے ، عبادت و احکامات کے بلند و بالا نظام کا تفوق بخشتا ہے ، تو دوسری طرف زندگی کی ان چھوٹی راہوں کی بھی معرفت عطا کرتا ہے جو دنیا والوں کی نظر میں حقیر ہیں ، جن کی طرف دوسرے مذاہب آنکھ بھی نہیں اٹھاتے۔
دیکھئے ایک بے بصیرت اور عقل و دانائی کا دشمن مشرک مسلمانوں کا یہی تو مزاق اڑا رہا ہے کہ شارع اسلام کی شان و شوکت کا بھی کوئی تقاضا ہے کہ وہ ہر چیز کو سکھاتے پھریں ، یہاں تک کہ وہ پیشاب و پاخانہ تک کے مسائل اور ان کے طور طریقے بتاتے ہیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اسی کا جواب دے رہے ہیں کہ اے بے خبرادر، نادان انسان! یہ ہنسنے کی بات نہیں ہے ، استہزاء کا مقام نہیں ہے ، تجھے کیا معلوم کہ ہمارے سردار ہم پر کتنے شفیق ہیں ہم پر کتنے مہربان ہیں؟ امت پر انتہائی شفقت و محبت ہی کی یہ وجہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر مرحلہ پر ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔
اگر ایک طرف صلی اللہ علیہ و سلم توحید و رسالت کے عقائد اور نماز روزہ ، زکوٰۃ اور حج جیسے دینی اصول کے احکام و مسائل ہمیں بتاتے ہیں تو دوسری طرف پیشاب و پاخانہ جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے آداب بھی بتائے ہیں اور ہدایات اور راہنمائی کا یہی تو وہ مقام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت ہم قبلہ کی طرف پشت و رخ کر کے نہ بیٹھیں کہ اس سے قبلہ کے احترام پر حرف آتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا جائے یہ چیز پاکیزگی و نظافت کے منافی ہے کہ جس ہاتھ سے کھانا کھایا جائے اسی ہاتھ سے گندگی و غلاظت کی صفائی کی جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بہتر قرار دیا ہے کہ تین ڈھیلوں یا پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کیا جائے کہ صفائی و پاکیزگی کا تقاضا یہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ استنجاء کے ڈھیلوں میں لید و گوبر اور دوسری نجاست نہ ہو کہ اس سے بجائے پاکیزگی حاصل ہونے کے اور زیادہ غلاظت و گندگی لگے گی اور ہڈی سے استنجاء نہ کیا جائے کیونکہ ہڈی جنات کی خوراک ہے۔
٭٭اور حضرت عبدالرحمن ابن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (گھر سے ) نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں ڈھال تھی ، اسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اپنے سامنے زمین پر) رکھ دیا پھر اس کے سامنے بیٹھ کر پیشاب کیا (یہ دیکھ کر) ایک مشرک نے کہا ان کی طرف دیکھو اس طرح پیشاب کرتے ہیں جسے عورت پیشاب کرتی ہے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سن لی اور فرمایا تجھ پر افسوس ہے کیا تو اس چیز کو نہیں جانتا جو بنی اسرائیل کے ساتھی کو پہنچی (یعنی عذاب) بنی اسرائیل (جب پیشاب کرتے اور ان) کے (جسم یا کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو اس کو قینچی سے کاٹ ڈالتے تھے چنانچہ (بنی اسرائیل میں اس ایک) آدمی نے (اس حکم کو ماننے سے ) لوگوں کو روکا، لہٰذا اسے قبر کے عذاب میں مبتلا کیا گیا۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ اور سنن نسائی اس حدیث کو عبدالرحمن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ سے روایت کیا ہے )
تشریح
بنی اسرائیل کی شریعت میں تھا کہ اگر کسی آدمی کے بدن میں نجاست لگ جاتی تو اتنے حصہ کے گوشت کو چھیل ڈالتے تھے اور اگر کپڑے پر لگ گئی تو اس جگہ سے کپڑا کاٹ ڈالتے تھے مگر ان میں سے ایک آدمی نے اپنی شریعت کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور وہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکا کرتا تھا لہٰذا اس بنا پر اسے عذاب قبر میں مبتلا کیا گیا۔
اسی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ فرمایا کہ بنی اسرائیل کی شریعت کا وہ قاعدہ اگرچہ شرعی اعتبار سے پسندیدہ تھا مگر چونکہ اس میں مال اور جان کا ضرر ہوتا تھا اس لیے خلاف عقل و دانائی تھا مگر اس کے باوجود شریعت کے اس حکم کو نہ ماننے اور دوسرے لوگوں کو اس سے روکنے پر جب اس آدمی پر عذاب قبر نازل کیا گیا تو شرم و حیا نہ کرنا بطریق اولیٰ عذاب کا سبب ہے کیونکہ پیشاب کے وقت پردہ کرنا اور شرم کرنا نہ صرف یہ کہ از راہ شریعت پسندیدہ اور بہتر چیز ہے بلکہ عقل و دانائی کے اعتبار سے بھی اولیٰ و افضل ہے۔
٭٭اور حضرت مروان اصفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنا اونٹ قبلہ کی طرف بیٹھایا پھر خود بیٹھے اور اونٹ کی طرف پیشاب کیا میں نے (یہ دیکھ کر) عرض کیا ابوعبدالرحمن!(یہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ہے ) کیا اس طرح قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے سے منع فرمایا گیا انہوں نے فرمایا ہاں جنگل میں اس سے منع فرمایا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فعل سے دلیل پکڑتے تھے جسے اس باب کی پہلی حدیث میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قبلہ کی طرف پشت کر کے پاخانہ کرتے ہو دیکھا تھا اور یہ اسی موقع پر بتایا جا چکا ہے کہ اس فعل میں کئی احتمالات پیدا ہوتے ہیں لہٰذا فعل محتمل کو دلیل کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اور پھر اس کی بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اکثر احادیث سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کرنے کا حکم عام ہے اس میں جنگل کی تخصیص نہیں ہے اسی لیے امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ اس حکم میں جنگل و آبادی سب برابر ہیں قبلہ کی طرف منہ و پشت کرنا ہر جگہ ممنوع ہے خواہ جنگل کا کھلا میدان ہو یا آبادی میں گھرے ہوئے مکانات۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب بیت الخلاء سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنِیّ الْاَذٰی وَعَافَانِی یعنی تمام تعریفیں خدا ہی کو زیبا ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز (یعنی پاخانہ) کو دور کیا اور مجھے عافیت بخشی۔ (ابن ماجہ)
تشریح
یوں تو اگر کوئی انسان یہ چا ہے کہ وہ اللہ کی نعمت کو دائرہ شمار میں لے آئے جو اس پر اللہ کی جانب سے ہیں تو یہ مشکل ہیں نہیں بلکہ ناممکن ہے ، پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی ساری زندگی اور اس کی حیات کا ایک ایک لمحہ اللہ رحیم و کریم کی بے شمار نعمتوں ہی کا مرہون منت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان اللہ کی ان بے شمار اور لا محدود نعمتوں کا شکر بھی بجا طور پر ادا نہیں کر سکتا۔
اب آپ پیشاب و پاخانہ ہی کو لے لیجئے بظاہر تو کتنی معمولی سے چیز ہے ، اور کتنی غیر اہم ضرورت مگر ذرا کسی حکیم و ڈاکٹر سے اس کی حقیقت تو معلوم کر کے دیکھ لیجئے ، ایک طبی ماہر آپ کو بتائے گا کہ ان معمولی چیزوں پر انسان کی زندگی کا کتنا دار و مدار ہے اور انسان کی موت و حیات سے اس کا کتنا گہرا تعلق ہے؟ اگر کسی آدمی کا کچھ عرصہ کے لیے پیشاب بند ہو جائے ، یا کسی کا پاخانہ رک جائے تو اس کی زندگی کے لالے پڑھ جاتے ہیں اور خدانخواستہ اگر اس عرصہ میں غیر معمولی امتداد پیدا ہو جائے تو پھر اس کی زندگی موت کی آغوش میں سوتی نظر آتی ہے۔
تو کیا؟ یہ اللہ کا ایک عظیم انعام اور اس کا بہت بڑا فضل و کرم نہیں ہے کہ وہ اس تکلیف دہ چیز کو انسان کے جسم سے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کتنی آسانی سے خارج کرتا رہتا ہے ، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ زبان جو اس کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں پر ہر وقت ادائے شکر و سپاس میں مشغول رہتی تھی اس کی عظیم الشان نعمت پر شکر سے قاصر رہتی۔
چنانچہ یہ حدیث یہی بتا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی بیت الخلاء سے باہر نکلتے ، اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اے الٰہ العلمین! دنیا کی تمام تعریفیں تیرے ہی لیے زیبا ہیں ، تمام حمد و ثنا کا تو ہی مستحق ہے ، اور کیوں نہ ہو؟ جب کے تیری ذات اپنے بندوں کے لیے سراسر لطف و کرم اور رحمت و شفقت ہے۔۔۔ جس کا ایک ادنیٰ سا اظہار یہ بھی ہے کہ تو نے اس وقت محض اپنے فضل و کرم سے ایک تکلیف دہ چیز کو میرے جسم سے خارج کیا اور اس طرح مجھے سکون و اطمینان عطا فرمایا اور عافیت بخشی۔
بعض احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دعا بھی منقول ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت الخلا سے باہر آنے کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ اَلحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنِّی مَایُؤْ ذِیْنِی وَاَبْقَی عَلَیَّ مَایَنْفَعُنِی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے زیبا ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کیا اور وہ چیز باقی رکھی جو میرے لے فائدہ منہ ہے۔
غذا ہضم ہونے پر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ، ایک بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جو فضلہ بن جاتا ہے ، دوسرا حصہ جو غذا کا اصل جوہر ہوتا ہے وہ خون وغیرہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اس پر زندگی کی بقا منحصر ہوتی ہے ، چنانچہ اس دعا میں غذا کی انہی دونوں حصوں کی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے۔
اگر ان دونوں نعمتوں کا کوئی آدمی خیال کرے تو اسے احساس ہو کہ یہ کتنی اہمیت کی حامل ہیں لیکن افسوس کہ آج ایسے کتنے ہی بے حس و لا پرواہ انسان ملیں گے جن کے دماغ و شعور میں ان کا تصور بھی نہیں ہو گا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جنات کی جماعت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اپنی امت کو منع فرما دیجئے کہ وہ گوبر، ہڈی اور کوئلہ سے استنجاء نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارا رزق پیدا کیا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ان (چیزوں کے استعمال) سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد)
تشریح
ہڈی جنات کی خوراک ہے جس سے وہ غذا حاصل کرتے ہیں ، اسی طرح لید ان کے جانوروں کی خوراک ہے نیز کوئلے سے بھی چونکہ جنات فائدہ اٹھاتے ہیں مثلاً کوئلہ سے کھانا وغیرہ پکاتے ہیں یا اس سے روشنی کرتے ہیں اس لیے اس کو بھی رزق میں شمار کیا گیا ہے۔
مسواک کرنے بیان
یوں تو مسواک کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کرام کے نزدیک سنت ہے مگر حنفیہ کے نزدیک خاص طور پر وضو کے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وضوء و نماز کے وقت مسواک کرنا مسنون ہے ، نیز نماز فجر اور نماز ظہر سے پہلے بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ، مسواک کرنے میں بڑی خیر و برکت اور بہت فضیلت ہے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ مسواک کرنے کی فضلیت میں چالیس احادیث وارد ہوئی ہیں ، پھر نہ صرف یہ کہ مسواک کرنا ثواب کا باعث ہے بلکہ اس سے جسمانی طور پر بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں چنانچہ مسواک کرنے سے منہ پاک و صاف رہتا ہے ، منہ کے اندر بدبو پیدا نہیں ہوتی، دانت سفید و چمک دار ہوتے ہیں ، مسوڑھوں میں قوت پیدا ہوتی ہے اور دانت مضبوط ہو جاتے ہیں۔
ویسے تو ہر حال میں مسواک کرنا مستحب اور بہتر ہے مگر بعض حالتوں میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے مثلاً وضو کرنے کے وقت، قرآن شریف پڑھنے کے لیے ، دانتوں پر زردی اور میل چڑھ جانے کے وقت اور سونے ، چپ رہنے ، بھوک لگنے یا بدبو دار چیز کھانے کے سبب منہ کا مزہ بگڑ جانے کی حالت میں مسواک زیادہ مستحب اور اولیٰ ہے۔
مسواک کرنے کے کچھ آداب و طریقے ہیں چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ کسی مجلس و مجمع میں اس طرح مسواک کرنا کہ منہ سے رال ٹپکتی ہو مکروہ ہے خصوصاً علماء اور بزرگوں کے قریب اس طرح مسواک کرنا مناسب نہیں ہے۔
مسواک کڑوے درخت مثلاً نیم وغیرہ کی ہونی چاہئے ، پیلو کے درخت کی مسواک زیادہ بہتر ہے چنانچہ احادیث میں بھی پیلو کی مسواک کا ذکر آیا ہے نیز حضرت امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ پیلو کی مسواک کی جائے مسواک کا سرا چھنگلیا کی طرف ہونا چاہئے اور مسواک کی لمبائی ایک بالشت کے برابر ہونی چاہئے ، مسواک دانتوں کی چوڑائی پر کرنی چاہئے لمبائی پر مسواک نہ کی جائے کیونکہ اس طرح مسواک کرنے سے مسوڑھے چھل جاتے ہیں۔
مسواک کرنے کے وقت کے بارے میں اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جب وضو شروع کیا جائے تو کلی کے وقت مسواک کرنی چاہئے مگر بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ وضو کرنے سے پہلے ہی مسواک کر لینی چاہئے ، نیز مسواک کرنے میں مستحب ہے کہ مسواک دائیں طرف سے شروع کی جائے۔
اگر کسی آدمی کے پاس مسواک نہ ہو یا دانت ٹوٹے ہوئے ہوں تو ایسی حالت میں انگلی سے دانت یا مسوڑھوں کو صاف کرنا چاہئے یا اسی طرح مسواک کو نرم کرنے کے لیے اگر کوئی پتھر نہ ملے اور ایسی شکل میں مسواک کرنا ممکن نہ ہو تو دانت کو ایسی چیزوں سے صاف کر لیا جائے جو منہ کی بد مزگی کو دور کر دیں جیسے موٹا کپڑا اور منجن وغیرہ یا صرف انگلی ہی سے صاف کر لے۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر میں اپنی امت پر اس بات کو مشکل نہ جانتا تو مسلمانوں کو یہ حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز دیر سے پڑھیں اور ہر نماز کے لیے مسواک کریں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنا مستحب اور بڑی فضیلت کی بات ہے اسی طرف یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میری امت دشواری میں مبتلا ہو جائے گی تو میں یہ فرض قرار دیتا کہ تمام مسلمان عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھا کریں اب تاخیر کی حد کیا ہے؟ اس بارے میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ تہائی یا آدھی رات تک عشاء کی نماز پڑھنا مستحب ہے۔
دوسری بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسواک کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ اگر اس معاملہ میں بھی تنگی و مشکلات کا خوف نہ ہوتا تو اس بات کا اعلان کر دیتا کہ ہر نماز کے وقت یعنی ہر نماز کے وضو کے وقت مسواک کرنا فرض ہے۔
لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ امت کے حق میں سراپا رحمت و شفقت ہیں اس لیے آپ نے ان چیزوں کو فرض کا درجہ نہیں دیا کہ فرض ہونے کی شکل میں مسلمان تنگی اور تساہلی کی بناء پر ان فرائض پر عمل نہیں کر سکیں گے نتیجے کے طور پر گناہ گار ہوں گے ، لہٰذا ان کو صرف مستحب ہی قرار دیا کہ اگر کوئی آدمی ان پر عمل نہ کرے اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا اور کوئی اللہ کا بندہ اس پر عمل پیرا ہو جائے تو یہ اس کے حق میں سرا سر سعادت و نیک بختی کی بات ہو گی۔
٭٭اور حضرت شریح ابن ہانی راوی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنے گھر میں تشریف لاتے تو پہلے کیا کرتے؟ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسواک کرتے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر میں تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے اور یہ آپ و کے مزاج اقدس کی انتہائی نظافت کی دلیل تھی کہ اگر مجلس مبارک میں خاموش بیٹھنے یا لوگوں سے گفتگو کرنے کی وجہ سے منہ کے اندر کچھ تغیر آگیا ہو تو وہ دور ہو جائے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فعل مبارک کی حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت کا مقصد سامنے آئے گا لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ انتہائی پاکیزگی و صفائی کے ساتھ رہا کریں یہاں تک کے آپ میں گفتگو و کلام کرنے اور ملنے جلنے کے لیے مسواک کر لیا کریں تاکہ کوئی آدمی منہ کی بدمزگی یا بو کے تغیر کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کرے۔
مسواک کی فضیلت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے منقول ہے کہ مسواک کرنے کے ستر فائدے ہیں جن میں سب سے ادنیٰ اور کم درجہ فائدہ یہ ہے کہ مسواک کرنے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت کو یاد رکھے گا جس کی بناء پر اس کا خاتمہ یقیناً خیر پر ہو گا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ افیون کھانے کے ستر نقصان ہیں جن میں سب سے ادنی اور کم تر نقصان یہ ہے کہ افیون کھانے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت بھول جائے گا ، العیاذ با اللہ
حضرت علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر آدمی کے لیے یہ تاکید ہے کہ وہ جب گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سب سے پہلے مسواک کرے کیونکہ اس سے منہ میں بہت زیادہ خوشبو پیدا ہو جاتی ہے جس سے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں اضافہ ہوتا ہے۔
٭٭اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب رات تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے ملتے اور دھوتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
٭٭اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا دس چیزیں فطرت میں سے ہیں (یعنی دین کی باتیں ) (١) لبوں کے بال کٹوانا (٢) داڑھی کا بڑھانا (٣) مسواک کرنا (٤) ناک میں پانی دینا (٥) ناخن کٹوانا (٦) جوڑوں کی جگہ کو دھونا (٧) بغل کے بال صاف کرنا (٨) زیر ناف بالوں کو مونڈنا (٩) پانی کا کم کرنا یعنی استنجاء کرنا راوی یعنی مصعب یا زکریا کا بیان ہے کہ دسویں چیز کو میں بھول گیا، ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو۔ (صحیح مسلم) اور ایک روایت میں (دوسری چیز) داڑھی بڑھانے کے بجائے ختنہ کرانا ہے اور (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ روایت نہ صحیحین یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں ملی ہے اور نہ کتاب حمیدی میں (جو صحیحین کی جامع ہے ، البتہ اس روایت کو صاحب جامع الاصول نے (اپنی کتاب میں ) ذکر کیا ہے ، اسی طرح خطابی نے معالم السنن میں ابوداؤد کے حوالہ سے حضرت عمر ابن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے ساتھ نقل کیا ہے۔
تشریح
اس حدیث میں جن دس چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ تمام چیزیں پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت میں سنت تھی ں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت یعنی دین اسلام میں بھی سنت ہیں چنانچہ اکثر علماء کرام کے نزدیک فطرت کے یہی معنی ہیں ، دوسری شروحات میں اس کے علاوہ علماء کے دوسرے اقوال بھی منقول ہیں لیکن طوالت کی بناء پر یہاں سب کو ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
پہلی چیز لبوں کے بال یعنی مونچھوں کا کٹوانا ہے ، اس سلسلہ میں مختار مسلک یہی ہے مونچھیں کتروائی جائیں اور اس طرح کتروائی جائیں کہ اوپر کے ہونٹ کا کنارہ معلوم ہونے لگے۔
امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ کی ایک روایت یہ ہے کہ مونچھیں بھوؤں کی برابر رکھنی چاہئیں۔ البتہ غازیوں اور مجاہدوں کو زیادہ مونچھیں بھی رکھنی جائز ہے کیوں کہ زیادہ مونچھیں دشمن کی نظر میں دہشت کا باعث ہوتی ہیں اور اس سے ان پر رعب چھا جاتا ہے ، مونچھوں کا زیادہ کٹوانا کہ ان کا نشان بھی باقی نہ رہے یا بالکل منڈوانا مکروہ ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک حرام ہے مگر بعض علماء نے اسے سنت بھی کہا ہے۔
دوسری چیز داڑھی کا بڑھانا ہے ، اس کے بارے میں علماء کا فیصلہ ہے کہ داڑھی کی لمبائی ایک مٹھی کے برابر ہونا ضروری ہے اس سے کم نہ ہونا چاہئے اگر مٹھی سے زیادہ بھی ہو جائز ہے بشرطیکہ حد اعتدال سے نہ بڑھ جائے۔
داڑھی کو منڈوانا یا پست کرنا حرام ہے کیونکہ یہ اکثر مشرکین مثلاً انگریز و ہندو کی وضع ہے ، اسی طرح منڈی ہوئی یا پست داڑھی ان لوگوں کی وضع ہے جنہیں دین سے کوئی حصہ نصیب نہیں ہے کہ جن کا شمار گروہ قلندری رمد مشرب میں ہوتا ہے۔
داڑھی کے بال ایک مٹھی کے برابر چھوڑنا واجب ہے اسے سنت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت سنت سے ہے جیسے نماز عید کو سنت فرماتے ہیں حالانکہ عید واجب ہے۔
اگر لمبائی یا چوڑائی میں کچھ بال آگے بڑھ کر بے ترتیب ہو جائیں تو ان کو کتروا کر برابر کرنا جائز ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ انہیں بھی نہ کتروایا جائے ، اگر کسی عورت کی داڑھی نکل آئے تو اسے صاف کر ڈالنا مستحب ہے۔
تیسری چیز مسواک کرنا ہے ، اس کے متعلق پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ مسواک کرنا بالاتفاق علماء کرام کے نزدیک سنت ہے ، بلکہ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تو اسے واجب کہا ہے ، حضرت شاہ اسحٰق صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہی ہے کہ اگر کوئی آدمی مسواک کو قصداً چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل ہو گی،
چوتھی چیز ناک میں پانی دینا ہے ، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وضو کے لیے ناک میں پانی دنیا مستحب ہے اور غسل کے لیے ناک میں پانی دینا فرض ہے یہی حکم کلی کا بھی ہے کہ وضو میں کلی کرنا سنت ہے اور غسل میں فرض ہے۔
پانچویں چیز ناخن کا کٹوانا ہے ، ناخن کسی طرح بھی کٹوائے جائیں اصل سنت ادا ہو جائے گی لیکن اولٰی اور بہتر یہ ہے کہ ناخن کٹوانے کے وقت یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے ناخن کٹوائے جائیں اس کے بعد بیچ کی انگلی کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی کے پھر چھنگلیا کے پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں ، اس کے بعد بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے ناخن اس طرح کٹوائے جائیں کہ سب سے پہلے چھنگلیا کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی اس کے بعد بیچ کی انگلی اس کے بعد شہادت کی انگلی اور پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں۔
بعض علماء کرام نے یہ طریقہ بھی لکھا ہے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے ناخن کٹوانا شروع کرے اور چھنگلیا پر پہنچ کر روک دے پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے شروع کرے اور اس کے انگوٹھے تک پہنچ کر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کر دے۔
اسی طرح پیر کے ناخن اس طرح کٹوانا چاہئے کہ پہلے دائیں پیر کی چھنگلیا سے کٹوانا شروع کرے اور آخر میں بائیں بیر کی چھنگلیا پر لے جا کر ختم کرے بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ جمعہ کے روز ناخن کتروانا مستحب ہے ، کچھ حضرات نے ناخن کٹوا کر ان کو زمین میں دفن کر دینے کو بھی مستحب لکھا ہے ، اگر ناخن پھینک دیئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ان کو پاخانہ میں یا غسل کی جگہ میں پھینکنا مکروہ ہے۔
چھٹی چیز براجم یعنی جوڑوں کی جگہ کو دھونا ہے ، براجم فرماتے ہیں انگلیوں کی گانٹھوں (جوڑوں ) کو اور اس کی اوپر کی کھال کو جو چنٹ دار ہوتی ہے اس میں اکثر میل جمع ہوتا ہے۔ خصوصاً جو لوگ ہاتھ سے کام کاج زیادہ کرتے ہیں ان کی انگلیاں سخت ہو جاتی ہیں اور ان میں میل جم جاتا ہے ، لہٰذا ان کو دھونے کی تاکید فرمائی جا رہی ہے ، اسی طرح بدن کے وہ اعضاء جن میں میل جم جانے کا گمان ہو جیسے کان، بغل، ناف ان کو بھی دھونے کا یہی حکم ہے۔
ساتویں چیز بغل کے بالوں کو صاف کرنا ہے ، اس سلسلہ میں نتف استعمال فرمایا گیا ہے ، نتف بال اکھاڑنے کو فرماتے ہیں ، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ بغل کے بالوں کو منڈوانا سنت نہیں ہے بلکہ ان کو ہاتھ سے اکھاڑنا سنت ہے مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ بغل کے بالوں کو ہاتھ سے اکھاڑنا اس آدمی کے لیے افضل ہے جو اس کی تکلیف کو برداشت کر سکتا ہو، ویسے بغل کے بالوں کا منڈوانا یا نورے سے صاف کرنا بھی جائز ہے۔
آٹھویں چیز زیر ناف بالوں کو مونڈنا ہے ، یہ بھی سنت ہے ، زیر ناف بال، اگر منڈانے کی بجائے اکھاڑے جائیں ، یا نورے سے صاف کئے جائیں تو بھی ان کے حکم میں شامل ہوں گے مگر قینچی سے کاٹنے میں سنت ادا نہیں ہوتی۔ مقعد (پاخانہ کے مقام) کے گرد جو بال ہوتے ہیں ان کو بھی صاف کرنا مستحب ہوتا ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زیر ناف بالوں نورے (نورہ ایک خاص مرکب چیز کو فرماتے ہیں جو ہڑتال اور چونے سے ملا کر بنائی جاتی تھی جس سے بال اڑ جاتے ہیں۔) سے صاف کیا کرتے تھے وا اللہ اعلم۔
عورتوں کو زیر ناف بال اکھاڑنا اولیٰ ہے کیونکہ اس سے خاوند کو رغبت زیادہ ہوتی ہے ، نیز عورت کے اندر چونکہ خواہشات نفسانی اور شہوت ننانوے حصہ ہوتی ہے اور مرد میں صرف ایک حصہ ہوتی ہے اور یہ طے ہے کہ زیر ناف بال اکھاڑنے سے شہوت کم ہوتی ہے اور مونڈنے سے قوی ہوتی ہے ، لہٰذا عورت کے مناسب حال یہی ہے کہ وہ بال اکھاڑے اور مرد کے مناسب حال یہ ہے کہ وہ مونڈے۔
زیر ناف بال مونڈنے ، بغل کے بال اکھاڑنے ، مونچھیں کتروانے اور ناخن کٹوانے کی مدت زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہونی چاہئے ، چالیس دن کے اندر اندر ان کو صاف کر لینا چاہئے اس سے زیادہ مدت تک انہیں چھوڑے رکھنا مکروہ ہے۔
نویں چیز پانی کا کم کرنا یعنی پاکی کے ساتھ استنجاء کرنا ہے۔ انتقاص الماء کے دو مطلب ہیں ایک تو یہی جو راوی نے بیان کئے ہیں یعنی پانی کے ساتھ استنجاء کرنا چونکہ استنجاء کرنے میں پانی خرچ ہوتا ہے اور کم ہو جاتا ہے اس لیے اس انتقاص الماء (پانی کا کم کرنا) سے تعبیر کیا گیا ہے ، دوسرے معنی یہ کہ پانی کے استعمال یعنی استنجاء کرنے کی بناء پر پیشاب کو کم کرنا، مطلب یہ ہے کہ پانی سے استنجاء کرنے کی وجہ سے پیشاب کے قطرے رک جاتے ہیں اس طرح پیشاب میں کمی ہو جاتی ہے۔
ایک دوسری روایت میں انتقاص کی جگہ لفظ انتقاض آیا ہے اس کے معنی ہیں ستر کے اوپر پانی چھڑکنا جیسا کہ پہلی حدیثوں میں گزر چکا ہے ، بہر حال یہ دونوں چیزیں بھی سنت ہیں۔
ختنہ چونکہ شعائر اسلام میں سے ہے اس لیے اگر کسی شہر کے تمام لوگ ختنہ ترک کر دیں تو امام وقت کو ان کے ساتھ جنگ کرنی چاہئے تا آنکہ وہ لوگ اس اسلامی شعائر کو اختیار کر لیں جیسے اذان کے بارے میں حکم ہے۔
ختنہ کرنے کی عمر اور وقت کے تعین میں علماء کے یہاں اختلاف ہے ، بعض علماء کے نزدیک پیدائش کے ساتویں دن ختنہ کر دینا چاہئے جیسے عقیقہ ساتویں دن ہوتا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک سال اور بعض کے نزدیک نو سال کی مدت ہے ، بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی قید نہیں ہے ، جب چا ہے ختنہ کر دیا جائے ، گویا بالغ ہونے سے پہلے پہلے جب بھی وقت اور موقع ہو ختنہ کرایا جا سکتا ہے ، امام اعظم کے نزدیک اس صورت میں بلوغ سے پہلے کی شرط بطور خاص ہے کیونکہ ختنہ کرنا سنت ہے اور بالغ ہونے کے بعد ستر چھپانا واجب ہے اس لیے اگر کوئی آدمی بالغ ہونے کے بعد ختنہ کرائے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے ایک سنت کو ادا کرنے کے لیے واجب کو ترک کر دیا حالانکہ سنت کی ادائیگی کے لیے واجب کو ترک کر دینا جائز نہیں۔
٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسواک کرنا، منہ کی پاکی کا سبب ہے اور پروردگار کی خوشنودی کا باعث ہے شافعی، مسند احمد بن حنبل، دارمی، سنن نسائی) اور امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح (جامع صحیح البخاری) میں بغیر سند کے نقل کیا ہے۔
٭٭حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں (١) حیا کرنا (ایک روایت میں ) ختنہ کرنا مروی ہے (یعنی اس روایت میں تو الحیاء کا لفظ ہے اور بعض روایت میں اس کے بجائے الختان کا لفظ آیا ہے۔ (٢) خوشبو لگانا (٣) مسواک کرنا (٤) نکاح کرنا۔ (جامع ترمذی)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں کہ اکثر کے اعتبار سے ہے کیونکہ بعض انبیاء کرام علیہم السلام ایسے بھی تھے جن کے یہاں ان میں سے کچھ چیزیں نہیں پائی جاتی تھی ں مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام نے نکاح نہیں کیا تھا۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم، حضرت شیث، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت سلیمان، حضر زکریا، حضرت عیسیٰ علیم السلام اور حضرت حنظلہ بن صفوان علیہ السلام جو اصحاب الرس کے نبی تھے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مختون ہی اس دنیا میں تشریف لائے تھے ، یعنی انبیاء و رسول ختنہ کئے ہوئے پیدا ہوئے تھے۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں بعض علماء کرام کا قول ہے کہ پیدا ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ختنہ ہوا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ نظافت و لطافت کے انتہائی بلند مقام پر تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوشبو زیادہ مرغوب تھی ، چنانچہ منقول ہے کہ آپ خوشبو کے لیے مشک استعمال فرماتے تھے۔
شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم میں نکاح کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعلان فرما دیا ہے کہ جو آدمی میری اس سنت سے اعراض کرے گا یعنی نکاح نہیں کرے گا تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔
حضرت علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے نکاح کے فضائل و مناقب میں منقول جو احادیث جمع کی ہیں ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔
٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب رات اور دن میں سو کر اٹھتے تو وضو کر نے سے پہلے مسواک کرتے۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دن میں بھی قیلولہ کے وقت آرام فرماتے تھے ، چنانچہ دن میں تھوڑا بہت سو لینا اور قیلولہ کے وقت آرام کرنا سنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے رات میں اللہ کی عبادت کے لیے اٹھنے میں آسانی ہوتی ہے جیسے کہ سحری کھا لینے سے روزہ آسان ہو جاتا ہے۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنا سنت موکدہ ہے کیونکہ سونے کی وجہ سے منہ میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور بو میں فرق آ جاتا ہے اس لیے مسواک کرنے سے منہ صاف ہو جاتا ہے۔
اب اس میں احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پھر وضوء کے لیے دوبارہ مسواک کرتے تھے یا نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ اسی مسواک پر اکتفا فرماتے ہوں اور وضوء کے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وضو کے ارادہ کے وقت یا وضو میں کلی کرتے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مسواک کرتے اور پھر مجھے دے دیتے تاکہ میں اسے دھو ڈالوں چنانچہ میں (آپ سے مسواک لے کر) پہلے اس سے خود مسواک کرتی پھر دھوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے دیتی۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
یہ حدیث اس بات کے لیے دلیل ہے کہ مسواک کرنے کے بعد اس کو دھونا مستحب ہے ، حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ تین مرتبہ مسواک کی جائے اور ہر مرتبہ اسے پانی سے دھو لیا جائے تاکہ اس کا میل کچل دور ہوتا رہے اور یہ کہ مسواک نرم ہونی چاہئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسواک لے کر دھونے سے پہلے اپنے منہ میں اس لیے پھیرتی تھی ں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی لعاب مبارک کی برکت حاصل ہو، پھر اسے دھو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے دیتی تھی ں تاکہ مسواک پوری طرح نہ کی ہو تو اسے مکمل کر لیں۔
یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی دوسرے کی مسواک اس کی رضا مندی سے استعمال کر لینا مکروہ نہیں ہے ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صالحین اور بزرگوں کے لعاب وغیرہ سے برکت حاصل کرنا اچھی بات ہے۔
٭٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں (اس اثناء میں ) دو آدمی میرے پاس آئے ، ان میں سے ایک آدمی دوسرے سے بڑا تھا، میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دینے کا ارادہ کیا مگر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو مسواک دو، چنانچہ میں نے ان میں سے بڑے کو مسواک دی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے مسواک کی بزرگی اور فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے اس لیے کہ اسے بڑے کو دینے کا حکم کیا جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک افضل اور بہترین چیز ہے جب ہی تو بڑے کو جو چھوٹے سے افضل و اعلیٰ تھا، دئیے جانے کا حکم کیا گیا۔
اس حدیث نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ کھانا وغیرہ دینے ، خوشبو لگانے یا ایسی ہی دوسری چیزوں میں ابتداء بڑے سے ہی کرنی چاہئے۔
٭٭حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آتے مجھے مسواک کرنے کا حکم دیتے (یہاں تک کہ) یہ مجھے خوف ہوا کہ (کہیں مسواک کی زیادتی سے ) میں اپنے منہ کے اگلے حصہ کو چھیل نہ ڈالوں۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
مسواک کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تشریف لاتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مسواک کرنے کا حکم دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس حکم کی بنا پر کثرت سے مسواک کرتے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہی فرما رہے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بار بار حکم اور اس شدت سے تاکید کی بناء پر مسواک اتنی کثرت سے استعمال کرتا ہوں کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ مسواک کی زیادتی سے کہیں میرا منہ نہ چھیل جائے۔
٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تم سے مسواک کے متعلق بہت کچھ بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
اس ارشاد کا مقصد مسواک کی فضیلت و اہمیت کو بتانا ہے اور اس پر تاکید فرمانی ہے کہ مسواک زیادہ سے زیادہ کرنی چاہئے اس لیے کہ کسی چیز کو بار بار بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ چیز بڑی اہمیت و فضیلت کی حامل ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مسواک کر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دو آدمی تھے جن میں ایک دوسرے سے بڑا تھا چنانچہ مسواک کی فضیلت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ وحی نازل فرمائی گئی کہ بڑے کو مقدم رکھو اور ان دونوں میں سے بڑے کو مسواک دو۔ (ابوداؤد)
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ نماز جس کے لیے مسواک کی گئی (یعنی وضو کے وقت) اس نماز پر جس کے لیے مسواک نہیں کی گئی ستر درجے کی فضیلت رکھتی ہے۔ (بیہقی)
تشریح
اس حدیث سے بھی مسواک کی فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے کہ مسواک کی وجہ سے نماز کے مراتب و درجات کی کمی پیشی ہوتی ہے ، چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کسی آدمی نے ایک نماز تو اس طرح پڑھی کہ اس نے اس نماز کے لیے وضو کے وقت مسواک اور ایک نماز اس طرح پڑھی کہ اس کے لیے وضو کے وقت مسواک نہیں کی تو پہلے نماز جس کے لیے مسواک کی گئی ہے اس نماز کے مقابلہ میں جس کے لیے مسواک نہیں کی گئی فضیلت اور ثواب کی زیادتی ستر درجہ زیادہ ہو گی گویا دوسری نماز کے مقابلہ میں پہلی نماز کا ثواب ستر گناہ زیادہ ملے گیا۔
٭٭حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت ابو سلمہ تابعی ہیں ، بعمر ٧٢ سال ٩٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) حضرت زید ابن خالد الجہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت زید ابن خالد جنہی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی ہیں کنیت ابو عبدالرحمن بعمر ٨٥ سال بعہد عبدالملک ٧٨ھ میں اور بعض کے خیال کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری زمانہ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میں اپنی امت کے لیے اسے مشکل نہ جانتا تو میں ان کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا (یعنی یہ اعلان کرتا کہ ہر نماز کے وقت مسواک کرنا واجب ہے اور عشاء کی نماز میں تہائی رات یا تاخیر کرنا۔ راوی کا بیان ہے کہ (اس کے بعد) زید ابن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کے لیے مسجد میں آتے تو مسواک ان کے کان پر رکھی ہوتی جس طرح کاتب کے کان میں قلم رکھا رہتا ہے ، جب وہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے فوراً مسواک کر لیتے اور پھر کان پر رکھ لیتے (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی) ابوداؤد نے لَاَخَّرْتُ صَلٰوَۃَ الْعِشَآءِ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی)
وضو کی سنتوں کا بیان
یہاں وضو کی سنتوں سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ افعال و اقوال ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے وضو کے بارے میں منقول ہیں خواہ ان کا تعلق وضو کے فرائض سے ہو یا سنت یا آداب وضو سے۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی سو کر اٹھے تو (اسے چاہئے کہ) اپنے ہاتھ کو پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک اسے (پہنچوں تک) تین بار دھو نہ لے ، اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ رات بھر اس کا ہاتھ کہاں رہا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وضو سے پہلے ہاتھوں کو دھونا سنت ہے ، جہاں تک سو کر اٹھنے کے بعد کی قید کا سوال ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں پانی کی قلت ہوتی ہے ، خاص طور پر زمانۂ نبوت میں تو پانی بہت ہی کم مقدار میں دستیاب ہوتا تھا، اس لیے اکثر و بیشتر لوگ پانی سے استنجاء نہیں کرتے تھے پہلے ڈھیلوں سے یا پتھروں سے صاف کر لیا کرتے تھے ، اور یہ ظاہر ہے کہ گرم ہوا کی بنا پر سوتے میں استنجاء کے مقام پر پسینہ آ جاتا ہے ، اس صورت میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ رات میں سوتے وقت ہاتھ استنجاء کے مقام پر پہنچ جائے جس سے ہاتھ گندے ہو جائیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سونے والے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا ہاتھ رات کو سوتے وقت کہاں رہا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ جب کوئی آدمی سو کر اٹھے تو چاہئے کہ وہ پہلے اپنے ہاتھوں کو پانی کے برتن میں نہ ڈال دے بلکہ ہاتھ تین مرتبہ دھو ڈالے تاکہ وہ پاک و صاف ہو جائیں اس کے بعد برتن سے پانی لے کر وضو کر لے۔
بہر حال یہاں نیند کی قید تو اس لیے ہے کہ اس میں ہاتھوں کو نجاست لگنے کا احتمال ہے ورنہ ہر ایک وضو کرنے والے کو پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھونا چاہئے اس لیے کہ علماء لکھتے ہیں کہ اس طرح ہاتھ دھونا اس آدمی کے لیے بھی سنت ہے جو سو کر نہ اٹھا ہو کیونکہ ہاتھ دھونے کا سبب یعنی ہاتھ کو نجاست و میل لگنے کا احتمال جاگنے کی حالت میں بھی موجود ہے۔
ہاتھ دھونے کا یہ حکم فرض اور واجب نہیں ہے بلکہ مسنون کے درجہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا حکم احتیاط کے طور پر دیا ہے اگر کوئی آدمی ہاتھ نہ دھوئے تو بھی وہ پاک ہے کہ اگر بغیر دھوئے ہاتھ پانی میں ڈال دے تو اس سے پانی ناپاک و نجس نہیں ہوتا کیونکہ سوتے میں ہاتھ کا ناپاک ہونا یقینی نہیں ہے بلکہ احتمال کے درجہ کی چیز ہے مگر حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ کا دھونا واجب ہے ، اگر کوئی آدمی سو کر اٹھا اور اس نے بغیر دھوئے ہاتھ پانی میں ڈال دیا تو پانی ناپاک ہو جائے گا۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے اور وضو کا ارادہ کرے تو تین مرتبہ (ناک میں پانی دے کر) ناک کو جھاڑے اس لیے کہ اس کی ناک کے بانسے پر شیطان رات گزارتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
انسان کی ناک کے بانسے پر شیطان کا رہنا اور اس پر رات گزارنے کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی حقیقت و کیفیت کا علم تو اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے اس کے رموز و اسرار کی معرفت سے ہماری عقلیں قاصر ہیں۔ لہٰذا ایسے امور کے معاملہ میں جن کی خبر شارع نے دی ہے۔ بہتر اور اولیٰ طریقہ یہی ہے کہ صرف ان کی صداقت کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر ایمان لایا جائے اور ان کی حقیقت و کیفیت کے بیان کرنے میں سکوت اختیار کیا جائے۔
بعض حضرات نے اس کی بڑی دلچسپ تاویل بھی کی ہے ، مثلاً یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان سو جاتا ہے تو بخارات، رینٹھ اور گرد و غبار ناک میں جمع ہو جاتے ہیں جو دماغ کا قریبی حصہ ہے اس کی بنا پر دماغ جو حواس و شعور کی جگہ ہے مکدر ہو جاتا ہے اور یہ چیز تلاوت قرآن کے آداب کو کماحقہ، ادا کرنے اور اس کے معنی و مطلب کے سمجھنے میں مانع ہوتی ہے ، نیز یہ عبادات کی ادائیگی میں سستی اور کسل کا باعث بھی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں شیطان کی منشاء کے عین مطابق اور اس کی خوشی کا باعث ہیں ، اس لیے اس مشابہت سے کہا گیا ہے کہ سونے والے کی ناک کے بانسہ کے اوپر رات بھر شیطان بیٹھا رہتا ہے۔ بہر حال یہ احتمالات ہیں ، ان پر بھی کوئی یقینی حکم نہیں لگایا جا سکتا اس لیے بہتر اور اولیٰ طریقہ وہی ہے جو پہلے ذکر کیا گیا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عبداللہ بن زید بن عاصم ہے ابن ام عمارہ کے نام سے مشہور ہیں ، ابو محمد کنیت ہے ، آپ بزمانہ یزید ٦٤ھ میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔) سے پوچھا گیا کہ سر کاردو عالم کس طرح وضو فرمایا کرتے تھے (یہ سن کر) حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کا پانی منگوایا (جب پانی آگیا تو) انہوں نے دونوں ہاتھوں پر (پانی) ڈالا اور انہیں پہنچوں تک) دو دو مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور پانی ڈال کر ناک کو جھاڑا تین مرتبہ پھر اپنا منہ تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک لائے یعنی انہوں نے اپنے سر کی اگلی جانب سے شروع کیا اور دونوں ہاتھوں کو گدی تک لے گئے پھر ان کو (پھیر کر) اسی جگہ واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا اور پھر دونوں پاؤں کو دھویا۔ (مالک، سنن نسائی، ابوداؤد) اور صحیح البخاری و صحیح مسلم میں یہ روایت اس طرح ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کرتے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے سامنے وضو کریں چنانچہ عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (پانی کا) برتن منگوایا (جب پانی کا برتن آگیا تو) انہوں نے اسے جھکایا اور اس سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انہیں تین مرتبہ دھویا پھر ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس سے پانی نکالا پھر (اسی) ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اس طرح انہوں نے تین مرتبہ کیا، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر پانی نکالا اور تین مرتبہ منہ دھویا، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر نکالا اور سر کا مسح (اس طرح) کیا کہ اپنے دونوں ہاتھ آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی طرف لائے ، اور پھر اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا، پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی وضو تھا اور صحیح البخاری و صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ (مسح کے لیے ) اپنے ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی طرف لائے یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا اور (ہاتھوں کو) گدی کی طرف لے گئے پھر گدی کی طرف سے وہیں لے آئے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا اور پھر اپنے پاؤں کو دھویا صحیحین کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ کلی کی ناک میں پانی دیا اور ناک تین مرتبہ جھاڑی تین چلوؤں سے ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ پس کلی کی اور ایک ہی چلو سے ناک میں پانی ڈالا۔ اس طرح تین مرتبہ کیا۔صحیح البخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ پس سر کا مسح کیا (اس طرح کہ) اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور آگے سے پیچھے کی طرف لے آئے اور یہ ایک مرتبہ کیا پھر دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا بخاری ہی کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں بس کلی کی اور ناک جھاڑی تین مرتبہ صرف ایک چلو سے۔
تشریح
اس حدیث کے پہلے جزء سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے ہاتھوں کو دو مرتبہ دھویا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں دوسری روایتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ہاتھ تین مرتبہ دھوتے تھے ، اس سلسلہ میں علماء کرام یہ تاویل کرتے ہیں کہ سنت تو تین ہی مرتبہ دھونا ہے مگر چونکہ دو مرتبہ بھی دھو لینا جائز ہے اس لیے حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان جواز کے لیے اپنے ہاتھوں کو پہنچوں تک دو مرتبہ دھویا۔ تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ دو مرتبہ دھونا جائز ہے۔
اس سلسلہ میں مرتین کا لفظ دو مرتبہ آیا ہے ، حالانکہ ایک ہی مرتبہ لانا کافی تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لفظ مرتین صرف ایک ہی مرتبہ ذکر کیا جاتا تو اس سے یہ وہم پیدا ہو سکتا تھا کہ دونوں ہاتھ متفرق طور پر دو مرتبہ دھوئے ہوں گے ، یعنی ایک مرتبہ ایک ہاتھ دھویا اور ایک مرتبہ ایک دھویا، لہٰذا اس وہم سے بچانے کے لیے مرتین کو دو مرتبہ ذکر کیا تاکہ یہ بات صاف ہو جائے کہ دونوں ہاتھ ملا کر دو مرتبہ دھوئے۔
سر کے مسح کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی تین انگلیاں سر کے آگے کی جانب رکھی جائیں اور دونو ہاتھوں کے انگوٹھوں کو اور شہادت کی انگلیوں کو نیز ہتھیلیوں کو سر سے جدا رکھا جائے اس طرح چھ انگلیوں کو گدی کی طرف لے کر جائیں پھر، دو ہتھیلیاں سر کے پچھلے حصہ پر رکھ کر آگے کی طرف لائی جائیں اور پھر دونوں کانوں کے اوپر کے حصہ پر دونوں انگوٹھوں سے اور کانوں کے دونوں سوراخوں میں شہادت کی انگلیوں سے مسح کیا جائے۔
وفی المقفق علیہ کے بعد جو روایتں نقل کی گئی ہیں وہ صاحب مصابیح کی نقل کردہ نہیں ہیں بلکہ صاحب مشکوٰۃ نے ان کا اضافہ کیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ما قبل کی روایت باوجودیکہ صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول نہیں ہے مگر صاحب مصابیح نے انہیں صحاح یعنی فصل اوّل میں نقل کیا ہے اس لیے مصنف مشکوٰۃ ان روایتوں کو جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول ہیں آگے اضافہ کر دیا ہے تاکہ ترتیب صحیح رہے۔
صحیح البخاری کی آخری روایت جس کے الفاظ یہ ہیں۔ پس کلی کی اور ناک جھاڑی تین مرتبہ ایک چلو سے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی چلو سے ناک میں تین مرتبہ پانی دے کر اسے جھاڑے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین دفعہ میں ہر مرتبہ ایک ایک چلو سے ناک میں پانی دے کے اسے جھاڑا یعنی تین مرتبہ کے لیے تین چلو بھی استعمال کئے۔
اس سلسلہ میں اتنی بات جان لینی چاہئے کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کے بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں ، چنانچہ بعض احادیث میں کلی کرنا اور پھر تین چلو سے ناک میں پانی دینا اور بعض روایات میں ایک ہی چلو سے فصل و وصل کے ساتھ منقول ہے یعنی تین چلو سے کلی کرنا اور پھر تین چلو سے ناک میں پانی دینا بھی حدیث سے ثابت ہے اور یہ دونوں ایک ہی چلو سے بھی ثابت ہے ، اس طرح اس کی کئی صورتیں ہیں ، چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک قول صحیح کے مطابق یہ ہے کہ دونوں تین چلو میں کئے جائیں اس طرح کے پہلے ایک چلو پانی لیا جائے اور اس میں تھوڑے پانی سے کلی کر لی جائے اور بقیہ پانی ناک میں ڈالے پھر دوسرا چلو اور تیسرا چلو لے کر اسی طرح کیا جائے۔
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ کا مذہب یہ ہے کہ ہر ایک تین تین چلو سے کئے جائیں یعنی کلی کے لیے تین چلو استعمال کئے جائیں اور پھر ناک میں پانی دینے کے لیے بھی تین ہی چلو الگ سے استعمال کئے جائیں۔
امام اعظم علیہ الرحمۃ نے اس طریقہ کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ قیاس کے مطابق ہے اس لیے کہ منہ اور ناک دونوں علیحدہ علیحدہ عضو ہیں لہٰذا جس طرح دیگر اعضاء وضو کو جمع نہیں کیا جاتا اسی طرح ان دونوں عضو کو بھی جمع نہیں کیا جائے گا اور اصل فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ جو حدیث قیاس کے موافق ہوا سے ترجیح دی جائے۔
جہاں تک شوافع و حنفیہ کے مذہب میں تطبیق کا تعلق ہے اس سلسلہ میں شمنی نے فتاوی ظہریہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کے یہاں وصل بھی جائز ہے یعنی امام شافعی علیہ الرحمۃ کا جو مسلک ہے وہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک بھی صحیح ہے ، اسی طرح امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے یہاں فصل بھی جائز ہے ، یعنی جو مسلک امام اعظم کا ہے وہ امام شافعی کے یہاں بھی صحیح اور جائز ہے۔
نیز امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کو ایک ہی چلو کے ساتھ جمع کرنا جائز ہے لیکن میں اسے زیادہ پسند کرتا ہوں کہ ان دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ چلو استعمال کئے جائیں ، اس قول سے صراحت کے ساتھ یہ بات ثابت ہو گئی کہ حنفیہ اور شوافع کے مسلک میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا (یعنی تمام اعضاء وضو کو صرف ایک ایک مرتبہ دھویا اور اس پر زیادہ نہیں کیا۔ (صحیح البخاری)
٭٭اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عبداللہ بن زید بن عبدربہ ہے اور کنیت ابو محمد ہے آپ انصاری ہیں اور آپ صحابی ہیں۔ ٣٢ھ میں بعمر ٦٤سال آپ کی وفات ہوئی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو ، مرتبہ وضو کیا (یعنی اعضاء وضو کو دو دو بار دھویا)۔ (صحیح البخاری)
٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے مقام مقاعد میں وضو کیا اور کہا کہ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وضو نہ دکھلاؤں؟چنانچہ انہوں نے تین تین مرتبہ وضو کیا (یعنی انہوں نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھو کر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس طرح وضو فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اعضاء وضو کو کبھی ایک ایک مرتبہ دھوتے تھے کبھی دو دو مرتبہ دھوتے تھے اور کبھی تین تین مرتبہ دھوتے تھے ، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ اکثر تین تین مرتبہ ہی دھوتے تھے۔
ان میں تطبیق اس طرح ہو گی کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اعضاء وضو کو کبھی کبھی ایک ایک مرتبہ دھونا بیان جواز کے لیے تھا یعنی اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک ایک مرتبہ دھونا جائز ہے اور اس طرح وضوء ہو جاتا ہے کیونکہ یہ ادنی درجہ ہے اور فرض بھی ایک ایک مرتبہ ہی دھونا ہے ، اسی طرح دو دو مرتبہ بھی بیان جواز کے لیے دھوتے تھے کہ اس طرح بھی وضو ہو جاتا ہے اور اکثر و بیشتر تین تین مرتبہ اس لیے دھوتے ہیں کہ یہ طہارت کا انتہائی درجہ ہے ، لہٰذا عضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھونا سنت ہے اور اس پر زیادتی کرنا منع ہے ، بعض احادیث میں بعض اعضاء کو تین تین مرتبہ بعض اعضاء کو دو دو مرتبہ اور بعض اعضاء کو ایک ایک مرتبہ بھی دھونا ثابت ہے چنانچہ یہ سب طریقے بھی بیان جواز کے لیے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونا گناہ ہے کیونکہ اس طرح سنت مشہورہ ترک ہوتی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ جب خود احادیث سے ایک ایک مرتبہ دھونا ثابت ہے اسے گناہ کہنا مناسب نہیں ہے۔
آخر حدیث کے یہ الفاظ کہ تین تین مرتبہ وضو کیا یعنی اعضاء وضو کو تین بار دھویا۔ اس سے بظاہر تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ سر کا مسح بھی تین مرتبہ کیا ہو گا لیکن جن روایتوں میں اعضاء وضو کے دھونے کی تفصیل اور وضاحت کی گئی ہے جیسے کہ صحیحین کی روایتیں گزری ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک ہی مرتبہ ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ جس وقت ہم پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لیے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے ، چنانچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھی ں (یعنی خشک رہ گئی تھی ں کیونکہ) ان تک پانی نہیں پہنچا تھا (ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ویل(خرابی) ہے ایڑیوں کے لیے آگ سے !وضو کو پورا کرو۔ (صحیح مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لیے واپس لوٹ رہے تھے درمیان سفر عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، راستہ میں ایک جگہ پانی کے قریب یہ قافلہ رک گیا، کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ نماز عصر کا وقت ہو رہا ہے ، وضو کرنے کے لیے پانی کی طرف لپکے چنانچہ وہ لوگ تیز چل کر اس جماعت سے جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ تھے آگے نکل گئے اور پانی پر پہلے پہنچ کر وقت کی تنگی کے سبب جلدی جلدی وضو کر لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ جلدی کی وجہ سے ان کی پیر پوری طرح دھلے نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایڑیاں خشک رہ گئی، اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایڑیوں کے لیے ویل (خرابی ہے ) آگ سے۔
بعض علماء نے ویل کے معنی شدت عذاب لکھے ہیں۔
کچھ علماء کی تحقیق ہے کہ ویل دوزخ میں پیپ اور لہو کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔
بعض محققین لکھتے ہیں کہ ویل ایک ایسا کلمہ ہے جسے رنج رسیدہ آدمی بولتا ہے اور اصل میں اس کے معنی ہلاکت اور عذاب کے ہیں۔
بہر حال ان تمام معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب اور صحیح یہ ہے کہ اس لفظ کا محل اصل ہی کو قرار دیا جائے۔ یعنی ایڑیوں کے لیے عظیم ہلاکت اور درد ناک عذاب ہے خاص طور پر ایڑیوں ہی کے لیے یہ وعید اس لیے ہے کہ وضو میں دھوئی نہیں گئی تھی ں جس کی بناء پر وہ خشک رہ گئی تھی ں۔
گو! بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں ایڑیوں سے مراد ایڑیوں والے ہیں یعنی یہ وعید ان لوگوں کے لیے جن کی ایڑیاں وضو میں خشک رہ گئی تھی ں۔
آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ وضو کو پورا کرو یعنی وضو کے جو فرائض و سنن اور مستحبات و آداب ہیں ان سب کو پورا کرو اور سب کی ادائیگی کا خیال رکھو چنانچہ دوسری حدیث میں وارد ہے کہ (اعضاء وضو کا کوئی حصہ) اگر ایک ناخن کے برابر بھی خشک رہ جائے گا تو وہ وضوء درست نہیں ہو گا۔
یہ حدیث اس بات کے لیے دلیل ہے کہ وضو میں پاؤں کا دھونا فرض ہے کیونکہ اگر پاؤں دھونا فرض نہ ہوتا تو ایڑیوں کے خشک رہ جانے کی وجہ سے اتنی بڑی وعید نہ فرمائی جاتی، چنانچہ ہر دور کے تمام علماء اور فقہاء کا یہی عقیدہ اور مسلک رہا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا فرض ہے مسح کافی نہیں ہے ، اس مسئلہ میں کسی بھی ایسے عالم کا اختلاف جو لائق اعتبار اور قابل استناد ہو ثابت نہیں ہے ، نیز صحابہ کرام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کی کیفیت و تفصیل بیان کرتے ہیں جیسے حضرت علی، حضرت عثمان غنی اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہم جنہیں حاکی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کو بیان کرنے والا کہا جاتا ہے یہاں اسی طرح حضرت جابر حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔
پھر ایسی بے شمار احادیث جو مرتبہ تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بے شمار احادیث میں مذکور ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔
پھر ایسی بے شمار احادیث جو مرتبہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بے شمار احادیث میں مذکور ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (پیروں کو دھو کر) وضو کو پورا کرنے کا حکم فرمایا اور اس کے ترک پر و عید فرمائی چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسح چھوڑ دیا اور وہ منسوخ ہو گیا۔
امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، حضرت عبدالملک بن سلیمان کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء خراسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے جو جلیل القدر تابعی ہیں ، پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی ایک روایت بھی ایسی ملی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی بھی صحابی، اپنے پیروں پر مسح کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! نہیں۔
بہر حال اس سلسلہ میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ وضو میں پیر کے بارے میں جو حکم قرآن مجید میں مذکور ہے وہ محمل اور مشتبہ ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت نے خواہ وہ قولی ہو یا فعلی جو حد شہرت و تواتر کو پہنچتی ہے اس کی تشریح اور وضاحت کر دی ہے کہ قرآن پاک میں اس حکم سے اللہ کی مراد یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کو دھونا چاہئے لہٰذا پاؤں کو دھونا ہی فرض ہے۔
جہاں تک شیعہ فرقہ کے مسلک و معمول کا تعلق ہے کہ وہ لوگ وضو میں پیر پر مسح کرتے ہیں ، اس بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتنی زیادہ تفصیل و تشریح اور اتنے کھلے ہوئے حکم کے باوجود ان کا پیروں کا نہ دھونا انتہائی غلط اور غیر شری فعل ہے۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت مغیرہ شعبہ کے لڑکے ہیں آپ کی کنیت ابوعبد اللہ اور ابو عیسیٰ ہے آپ نے بعمر ستر سال ۵۰ھ ہجری میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پیشانی کے بالوں اور پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
سر کے مسح کی مقدار میں علماء کرام کے یہاں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہے ، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہے خواہ وہ تین بال ہی کیوں نہ ہوں ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چوتھائی سرکار مسح فرض ہے ، حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل یہی حدیث ناصیہ (ناصیہ سر کے آگے کی جانب حصہ کو فرماتے ہیں ) اسی بنا پر حنفیہ فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ دو ہی شکلیں ہو سکتی ہیں ، اوّل تو یہ کہ امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق مسح پورے سر کا فرض ہے ، مگر یہ ظاہر ہے کہ پورے سر کا مسح اگر فرض ہوتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسح ناصیہ پر ہی اکتفا نہ فرماتے ، بلکہ ادائے فرض کے لیے پورے ہی سر کا مسح فرماتے ہیں ، لہٰذا معلوم ہوا کہ پورے سر کا مسح تو فرض نہیں ، دوسری شکل یہ ہے کہ چوتھائی سر سے بھی کم پر مسح فرض ہو جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مذہب ہے ، اس سلسلہ میں بھی یہی بات ہے کہ اگر چوتھائی سر سے کم بھی مسح فرض ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیان جواز کے لیے اسے بھی اختیار فرماتے مگر یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چوتھائی سر سے کم پر کبھی مسح نہیں کیا ہے ، لہٰذ اس سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسح چوتھائی سر کا ہی فرض ہے۔
پگڑی پر مسح کرنے کے معنی شارحین نے یہ لکھے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چوتھائی سرکا مسح جو فرض ہے کر لیا تو تکمیل وضو اور ادائے سنت کے لیے (کہ تمام سر کا مسح کرنا سنت ہے ) بجائے اس کے سر کے بقیہ حصہ پر مسح فرماتے ، سر کے اوپر بندھی ہوئی پگڑی پر مسح کر لیا۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پگڑی طہارت کے بعد پہنی ہو اور پگڑی نے پورے سر کو ڈھانک لیا ہو جیسا کہ موزہ پر مسح کرنے کا مسئلہ ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم حتی الامکان اپنے تمام کاموں کو سیدھے ہاتھ سے شروع کرنا محبوب رکھتے تھے اور (مثلاً) اپنی طہارت میں ، اپنا جوتا پہننے میں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں اچھے کاموں کو داہنے ہاتھ سے شروع کرنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے بارے میں اسے پسند فرماتے اور عزیز رکھتے تھے کہ جہاں تک اپنا بس چلے تمام کام داہنے ہاتھ سے انجام دیئے جائیں چنانچہ لفظ ماستطاع (حتی الامکان) سے اسی محافظت اور تاکید کی طرف اشارہ ہے۔
طہارت دائیں طرف سے شروع کرنے کی یہ شکل تھی کہ وضو میں دایاں ہاتھ اور دایاں پیر پہلے دھوتے تھے اور بایاں ہاتھ و بایاں پیر بعد میں دھوتے تھے ، اسی طرح نہانے کے وقت دائیں جانب پہلے دھوتے اور بائیں جانب بعد میں دھوتے تھے۔
بہر حال اس حدیث میں تین چیزیں ذکر کی گئی ہیں ، جو مثال کے طور ہیں ورنہ تو ہر وہ چیز جو از قبیل بزرگی ہوتی تھی اسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم دائیں ہاتھ سے شروع کرتے تھے ، جیسے کپڑے پہننا، ازار زیب تن کرنا، موزہ پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، بیت الخلاء سے باہر آنا (یعنی بیت الخلاء سے پہلے دایاں پیر باہر نکالتے تھے ، سرمہ لگانا ، ناخن کتروانا، بغل کے بال صاف کرنا، لب کے بال کتروانا، سر منڈوانا، زیر ناف بال صاف کرنا، مصافحہ کرنا، کھانا پینا اور کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح جو چیز از قبیل بزرگی نہیں ہیں ان کو بائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے ، مثلاً بیت الخلاء (یعنی بیت الخلاء میں پہلے بایاں پیر رکھنا، بازار میں جانا، مسجد سے نکلنا ، ناک سنکنا، تھوکنا، استنجاء کرنا اور کپڑے اور جوتے اتارنا یا ایسے ہی دوسرے کام، ان کاموں کو بائیں طرف سے شروع کرنے میں ایک لطیف اور پر حقیقت نکتہ بھی ہے یہ کہ ایسی چیزوں کی ابتداء بائیں طرف سے کرنے کی وجہ دائیں طرف کی تکریم و احترام کا مظاہرہ ہوتا ہے مثلاً جب کوئی آدمی مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں قدم باہر نکالے گا تو دائیں قدم کی تکریم ہوئی بایں طور کہ دایاں قدم محترم جگہ میں باقی رہا۔ اسی پر دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے ، یہی وجہ کہ انسان کے ہمراہ جو دو فرشتے ہوتے ہیں ان میں سے دائیں ہاتھ کا فرشتہ دائیں طرف کی فضیلت و احترام کی بناء پر بائیں ہاتھ کے فرشتے پر شرف و فضیلت رکھتا ہے ، نیز اسی نقطہ کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ دائیں طرف کا ہمسایہ بائیں طرف کے ہمسایہ پر مقدم ہے۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم لباس وغیرہ) پہنو یا وضو کرو تو اپنے دائیں طرف سے شروع کرو۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد)
٭٭اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی سعید بن زید اور کنیت ابو الاعور ہے آپ قریشی عدوی ہیں اور آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں آپ کا انتقال ٥٠ ھ یا ٥١ ھ میں بعمر ۷۰ سال بمقام عتیق ہوا۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے (وضو کے وقت) اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا اس کا وضو نہیں ہوا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور دارمی نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے ، نیز ان لوگوں نے اپنی روایت کے شروع میں یہ الفاظ زائد ذکر کئے کہ اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جس نے وضو نہیں کیا )
تشریح
اس حدیث سے وضو کے ابتداء میں بسم اللہ کہنے کی فضیلت و اہمیت کا اظہار ہو رہا ہے ، حدیث کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے ابتداء وضو میں اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا یعنی بسم اللہ نہیں کہی تو اس کا وضو درجہ تکمیل کو نہ پہنچا جس کی بنا پر اسے ثواب نہیں ملا۔ ویسے اس مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعلایٰ علیہ کے نزدیک ابتداء وضو میں بسم اللہ کہنا واجب ہے ، مگر جمہور علماء کے کرام کے نزدیک سنت یا مستحب ہے۔
ابتداء وضو میں علماء سلف سے یہ الفاظ منقول ہیں سُبْحَانَ اﷲ الْعَظِیْم وَبِحَمْدِہٖ بعض علماء نے کہا ہے کہ اَعُوْذُ بِاﷲ پڑھنے کے بعد بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنا افضل ہے اور مشہور یہ الفاظ ہیں۔ بِسْمِ اﷲ وَالحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی دِیْنِ الْاِسْلَامِ۔
روایت کے آخر میں ایک لفظی غلطی ہے ، جو ہو سکتا ہے کہ کاتب وغیرہ سے سہو ہو یعنی آخر میں یہ الفاظ ذکر کئے گئے ہیں والدارمی عن ابی سعید الخدری عن ابیہ غلط ہے بلکہ صحیح ابی سعید الخدری عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم یعنی درامی نے اس حدیث کو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور ابی سعید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے۔
٭٭اور حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے وضو کے بارے میں آگاہ فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم وضو کو پورا کرو، انگلیوں میں خلال کرو، اور اگر تمہارا روزہ نہ ہو تو ناک میں اچھی طرح پانی پہنچاؤ۔ (سنن ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی سنن ابن ماجہ اور دارمی نے اس حدیث کو بین الا صابع تک روایت کیا ہے )
تشریح
سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے کمال وضو کا طریقہ بتا دیجئے تاکہ اسے اختیار کر کے ثواب کا مستحق ہو سکوں اس کا جواب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیا کہ وضو کو پورا کرو، یعنی وضو کے جو فرائض اور سنن و مستحبات ہیں انہیں پورا کرو۔
وضو میں انگلیوں کے درمیان خلال کرنا حضرت امام اعظم اور امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سنت ہے مگر یہ حکم اس شکل میں ہے جبکہ انگلیاں خلقی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا اور کشادہ ہوں لیکن آپس میں اگر اس طرح ملی ہوں کہ آسانی اور بے تکلفی سے پانی انکے درمیان نہ پہنچا ہو تو پھر انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہو گا۔
حنفیہ کے یہاں انگلیوں کے درمیان خلال کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر دائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر خلال کیا جائے۔ یہی طریقہ اولیٰ ہے۔
پاؤں کی انگلیوں کا خلال بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے کرنا چاہئے اس طرح کہ اسے دائیں پاؤں کی چھنگلیا کے نیچے داخل کر کے خلال کرنا شروع کیا جائے ، یہاں تک کہ بائیں پاؤں کی چھنگلیا پر ختم کیا جائے۔
ناک میں پانی دینے کی حد یہ ہے کہ پانی ناک کے نرم حصہ تک پہنچایا جائے اور اس میں مبالغہ جو حدیث کا منشا ہے یہ ہے کہ پانی اس سے بھی آگے گزر جائے ، مگر جیسا کہ خود حدیث نے وضاحت کر دی ہے کہ یہ مبالغہ یعنی ناک کے نرم حصہ سے بھی آگے پانی پہنچانا اس وقت ہے جب کہ وضو کرنے والا روزہ دار نہ ہو، اگر وضو کرنے والا روزہ دار ہو تو پھر اس کے لیے یہ مبالغہ مکروہ ہے۔
اس موقع پر یہ بھی سمجھ لیجئے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی دینا حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وضو میں سنت ہے اور غسل میں فرض مگر امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک غسل اور وضو میں یہ دونوں چیزیں سنت ہیں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں اور اپنے پیروں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔ (جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور جامع ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔)
تشریح
ہاتھ کی انگلیوں کے درمیاں خلال تو ہاتھوں کو دھونے کے بعد کرنا چاہئے اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال پاؤں کو دھونے کے بعد کرنا چاہئے ، یہی طریقہ افضل اور اولیٰ ہے۔
٭٭اور حضرت مستور بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو فرماتے تو اپنے پاؤں کی انگلیوں کو (بائیں ہاتھ کی) چھنگلیا، سے ملتے (یعنی پاؤں کی انگلیوں کے درمیان بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے خلال فرماتے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، ابن ماجۃ)
تشریح
لفظ یدلک کا مطلب یہ ہے کہ آپ (بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان) خلال کرتے تھے۔ چنانچہ اس کی تصدیق اس روایت سے ہوتی ہے جسے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے روایت کیا ہے جس میں لفظ (یعنی خلال کرتے تھے ) صراحت کے ساتھ آیا ہے اس شکل میں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا مستحب ہے یا یدلک کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اپنے دائیں ہاتھ کی چھنگلیا پاؤں کی انگلیوں پر) پھیرتے تھے ، اس صورت میں یہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ تمام اعضاء کا ملنا مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب وضو فرماتے تو ایک چلو پانی لیتے ، پھر اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے پہنچاتے اور اس سے اپنی داڑھی میں خلال کرتے اور پھر فرماتے کے میرے پروردگار نے (وحی خفی کے ذریعہ) اسی طرح سے حکم فرمایا۔) (ابوداؤد)
تشریح
وضو میں داڑھی کا اس طرح خلال کرنا مستحب ہے ، یہ خلال منہ دھونے کے بعد کرنا چاہئے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ انگلیاں داڑھی کے نیچے سے داخل کر کے اوپر کی طرف کا باہر نکالی جائیں۔
٭٭حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (وضو کرتے وقت) اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔ (جامع ترمذی ، دارمی)
٭٭حضرت ابوحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عمرو بن نصر انماری الہمدانی اور کنیت ابو عیسیٰ سے مشہور ہیں تابعی ہیں۔) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، چنانچہ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو دھویا یہاں تک کہ انہیں پاک کیا، پھر تین مرتبہ ناک میں پانی دیا، تین مرتبہ اپنا منہ دھویا، تین مرتبہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے ، ایک مرتبہ اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے ، پھر کھڑے ہوئے اور وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا اور پھر فرمایا کہ میں نے یہ پسند کیا کہ تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وضو کس طرح تھا۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی)
تشریح
وضو کے بچے ہوئے پانی میں چونکہ برکت آ جاتی ہے اس لیے حضرت علی کرم اللہ وجہ نے وضو کے بقیہ پانی کو پی لیا، چنانچہ حصول برکت کے لیے وضو کے بقیہ پانی کو پی لینا چاہئے ، یہ پانی کھڑے ہو کر پینا بھی جائز ہے۔
٭٭اور حضرت عبد خیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (اسم گرامی عبد خیر یزید اور کنیت ابو عمارہ ہمدانی ہے ، آپ تابعی ہیں کوفہ میں سکونت پزیر تھے۔) فرماتے ہیں کہ ہم بیٹھے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے چنانچہ انہوں نے برتن میں داہنے ہاتھ سے پانی لیا اور منہ بھر کر کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور بائیں ہاتھ سے ناک سینکی اسی طرح تین مرتبہ کیا پھر فرمایا جس کے لئے یہ بات خوش کن ہو کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کو دیکھے تو وہ دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وضو یہ ہے (یعنی اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وضو فرماتے تھے۔ دارمی)
تشریح
یہاں راوی کا مقصد یہ تھا کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کی کیفیت بیان کرے اس لیے انہوں نے صرف اسی قدر بیان کیا، باقی وضو چونکہ معلوم تھا اس لیے اسے بیان نہیں کیا۔
٭٭اور حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی)
تشریح
حدیث کے آخر جملہ میں دو احتمال ہیں یعنی اس کے معنی یا تو یہ ہیں کہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور اس طرح تین مرتبہ کیا یا یہ کہ تین چلو سے تین مرتبہ کلی کی اور پھر تین چلو سے تین مرتبہ ناک میں پانی دیا۔ دوسرے معنی زیادہ مناسب اور اکثر روایات کے مطابق ہیں۔
ان کے علاوہ ایک تیسرا احتمال اور بھی ہو سکتا ہے وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہی چلو سے تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی بھی دیا، دوسرا چلو نہیں لیا۔ یہی تمام احتمالات اس سے پہلے گزرنے والی حدیث میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا اور کانوں کے اندر کا مسح اپنی شہادت کی انگلیوں سے اور اوپر کا انگوٹھوں سے کیا۔ (سنن نسائی)
٭٭اور حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (اسم گرامی ربیع ہے معوذ کی لڑکی ہیں ، آپ جلیل القدر صحابیہ ہیں اور انصاریہ ہیں آپ بیعت رضوان میں شامل تھی ں۔) سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو وضو کرتے دیکھا چنانچہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سر کے اگلے حصہ پر، پچھلے حصہ پر، کنپٹیوں پر اور کانوں پر ایک مرتبہ مسح کیا، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا چنانچہ (مسح کے لیے ) اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں کے سوراخوں میں داخل کیا۔ (ابوداؤد) جامع ترمذی نے پہلی حدیث کو اور سنن ابن ماجہ نے دوسری حدیث کو روایت کیا ہے۔)
تشریح
لفظ صدغیہ اور اذنیہ لفظ راسہ پر عطف ہیں اسے عطف خاص علی العام فرماتے ہیں یعنی سر کے پانی کے ساتھ مسح کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ پر پانی لے کر سر کا مسح کیا تو اسی پانی سے کنپٹیوں اور کانوں پر بھی مسح کر لیا اور ان دونوں کے مسح کے لیے علیحدہ سے پانی نہیں لیا، چنانچہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔
صدغ کان اور آنکھ کے درمیانی حصہ کو فرماتے ہیں اردو میں کنپٹی کہا جاتا ہے ، نیز جو بال اس جگہ پر لٹکے رہتے ہیں اسے بھی صدغ فرماتے ہیں۔ (قاموس) اور (امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ صدغ ان بالوں کو فرماتے ہیں جو سر کے دونوں طرف کان اور ناصیہ (پیشانی کے بال) کے درمیان ہوتے ہیں ، یہی معنی حنفی مسلک کے مطابق اور مناسب ہیں۔
شرح السنتہ میں منقول ہے کہ علماء کے یہاں مسئلہ میں اختلاف ہے کہ تین مرتبہ مسح کرنا سنت ہے یا نہیں؟ چنانچہ اکثر علماء یہ فرماتے ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے ، یہی مسلک حضرت امام اعظم، امام احمد، امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ تین مرتبہ مسح اس طرح کرنا کہ ہر مرتبہ نیا پانی لیا جائے سنت ہے ، چنانچہ اکثر علماء کا یہی خیال ہے مگر خود امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تین مرتبہ مسح کرنے کو مستحب فرماتے ہیں ، امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں حضرت عثمان غنی سے جو احادیث مروی ہیں وہ سب صحیح ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے۔
شمنی فرماتے ہیں کہ ہر دفعہ نئے پانی کے ساتھ تین مرتبہ کرنا بدعت ہے مگر ہدایہ میں لکھا ہے کہ ایک ہی پانی سے تین مرتبہ مسح کرنا مشروع ہے اور یہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی منقول ہے۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سرکا مسح اس پانی سے کیا جو ہاتھوں کا بچا ہوا نہ تھا (یعنی نیا پانی لے کر مسح کیا۔) (جامع ترمذی ، اور مسلم نے اس روایت کو زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جس میں دیگر اعضاء وضو کے دھونے کا بھی ذکر ہے )۔
تشریح
فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مثلاً ایک آدمی نے وضو کے وقت ہاتھ دھویا اور ہاتھ دھونے کے بعد جو تری اس کے ہاتھوں میں باقی رہ گئی تھی تو اس سے سر کا مسح کر لیا تو مسح ہو جائے ، اور اگر کسی عضو پر مسح کرنے کے بعد اس کے ہاتھوں میں تری رہ گئی تو اس سے سر کا مسح کیا تو یہ درست نہیں ہو گا۔ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک حدیث بھی نقل کی جاتی ہے ، نیز اس مذکورہ حدیث کو بھی ابن لہیعہ کی روایت سے نقل کیا گیا ہے جس میں بماء غبر فضل یدیہ یعنی لفظ غبرنا کے ساتھ غبر ہے جس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ اس پانی کے ساتھ مسح کیا جو ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا، یعنی مسح کے لیے از سر نو پانی نہیں لیا بلکہ پورے ہاتھ دھونے کے بعد جو تری ہاتھوں میں رہ گئی تھی اس سے مسح کر لیا۔ اس طرح حدیث کے معنی بالکل برعکس ہو گئے کیونکہ اس حدیث کے الفاظ سے جو یہاں نقل کی گئی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر کا مسح ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے نہیں کیا بلکہ نیا پانی لے کر کیا لیکن مذکورہ بالا شکل میں صرف ایک نقطہ کے تغیر سے معنی بالکل برعکس ہو گئے۔
مگر جہاں تک سوال کی تحقیق کا ہے تو بات یہی ہے کہ حدیث یہ صحیح ہے جو یہاں نقل کی گئی ہے ، لہٰذا۔ اولیٰ یہ ہوا اگر مسح کے لیے نیا پانی لیا جائے اور یہ بھی جائز ہو کہ ہاتھ کے باقی بچے ہوئے پانی سے مسح کیا جا سکتا ہے۔
٭٭اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم آنکھ کے کونوں کو بھی ملا کرتے تھے اور کہا کہ دونوں کان بھی سر میں داخل ہیں (ابی داؤد، جامع ترمذی) اور امام ابو داؤد و امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا میں یہ نہیں جانتا کہ الاذنان من الراس (یعنی دونوں کان سر میں داخل ہیں ) ابوامامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اپنا قول ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔
تشریح
ماق ناک کی طرف کے گوشہ چشم کو فرماتے ہیں (قاموس) اور جوہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ ماق دونوں طرف کے گوشہ چشم کو فرماتے ہیں ، لہٰذا اولیٰ یہی ہے کہ دونوں طرف کے گوشہ چشم (کونوں ) کو منہ دھوتے وقت ملنا مستحب ہے تاکہ آنکھ کے اندر کا میل کچیل جو گوشۂ چشم میں جمع ہو جاتا ہے ملنے سے نکل جائے اور آنکھیں صاف ہو جائیں۔
روایت کے اس جز الا ذنان من الراس (دونوں کان سر میں داخل ہیں ) سے دو حکم ثابت ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ کانوں کا مسح بھی سر کے مسح کے ساتھ کرنا چاہئے ، دوسرے یہ کہ سر کے مسح کے لیے جو پانی لیا ہے اس پانی سے کانوں کا مسح بھی کر لیا جائے کانوں کے مسح کے لیے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
چنانچہ پہلے حکم پر تو چاروں ائمہ متفق ہیں ، دوسرے حکم میں کچھ اختلاف ہے ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ تینوں کا مسلک یہ ہے کہ کانوں کا مسح سر کے مسح کے بچے ہوئے پانی سے ہی کر لینا چاہئے ، اس کے لیے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے ، اس مسلک کی تائید بھی کثیر احادیث سے ہوتی ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ کانوں کا مسح نئے پانی سے کرنا چاہئے یعنی سر کے مسح کے بچے ہوئے پانی سے کانوں کا مسح کرنا کافی نہ ہو گا، چنانچہ ایک حدیث میں بھی اس سلسلہ میں منقول ہے جو امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید کرتی ہے۔
بہرحال یہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر و بیشتر سر اور کانوں کا مسح ایک ہی پانی سے کرتے ہوں گے ، مگر ایسی شکل میں جب کہ ہاتھ میں تری باقی نہ رہتی ہو گی کبھی کبھی کانوں کے مسح کے لیے لیتے ہوں گے۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭اور حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے وضو کی کیفیت پوچھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اعضاء وضو کو تین مرتبہ دھو کر دکھلایا اور فرمایا کہ (کامل) وضو اس طرح ہے لہٰذا جس نے اس پر زیادہ کیا (یعنی تین مرتبہ سے زیادہ دھویا) اس نے برا کیا، تعدی کی اور ظلم کیا۔ (سنن نسائی و سنن ابن ماجہ اور ابوداؤد نے بھی اسی مطلب کی حدیث روایت کی ہے۔)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سائل کے جواب میں اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھو کر دکھایا اور اسے بتا دیا کہ اگر تم کامل وضو چاہتے ہو اور اس پر ثواب کے متمنی ہو تو پھر وضو اسی طرح کرو۔ اس پر زیادتی کرنا یعنی اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے زیادہ دھونا وضو کرنے والے کے حق میں کوئی مفید بات نہیں ہو گی بلکہ نقصان دہ ہو گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے آدمی کے بارے میں تین الفاظ، استعمال فرمائے ہیں۔
(١) برا کیا۔ اس لیے کہ اس نے سنت کو ترک کیا۔
(٢) تعدی کی۔ یعنی زیادتی کر کے حدود سنت سے تجاوز کیا۔
(٣) ظلم کیا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ اور سنت کے خلاف عمل کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ میں تجھ سے جنت کی دائیں طرف سفید محل مانگتا ہوں تو انہوں نے کہا اے میرے بیٹے ! تم اللہ سے جنت مانگو اور (دوزخ کی) آگ سے پناہ چاہو۔ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں غلو کریں گے۔ (مسند احمد بن حنبل ، ابن ماجۃ، سنن ابوداؤد)
تشریح
صاحبزادہ کو عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تنبیہ کا مقصد یہ تھے کہ تم جس طرح اور جن قیود کے ساتھ دعا مانگ رہے ہو یہ غلط اور شان عبودیت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ایک طرف اگر تحکم کا پہلو ہے تو دوسری طرف بہشت میں ایک مخصوص صفت کی طلب یا کسی مخصوص جگہ کا تعین ایک لا یعنی اور نامناسب چیز ہے۔ ہاں۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ سے صرف بہشت مانگو اور دوزخ کی آگ سے پناہ چاہو۔ اب آگے اللہ کا کام ہو گا کہ وہ جنت میں اپنے فضل و کرم سے تمہیں مراتب و درجات کی جس بلندی پر چا ہے گا پہنچائے گا۔
حد سے تجاوز اور غیر مطلوب زیادتی ہر چیز میں ناپسندیدہ اور غیر مناسب ہو، خواہ وہ چیز شریعت کا مطلوب ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ کیا جا رہا ہے ، اور لسان نبوت سے پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ سے الگ ہو کر اور حدود شریعت سے تجاوز کر کے طہارت اور دعاء میں زیادتی کریں گے۔
طہارت میں زیادتی یہ ہے کہ دعا اس انداز اور اس طریقہ سے مانگی جائے جس سے بے ادبی کا اظہار ہوتا ہو اور وہ شان عبودیت کے خلاف ہو، یا دعا میں غیر ضروری و نا مناسب قیود لگائی جائیں یا ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے جو انسانی اعتبار سے احاطہ امکان سے خارج یا عادۃً محال ہوں۔
٭٭اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وضو کا ایک شیطان ہے جسے ولہان کہا جاتا ہے لہٰذا پانی کے وسوسہ سے بچو (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور محدثین کے نزدیک اس کی سند قوی نہیں ہے اس لیے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ خارجہ (ایک عالم) کے علاوہ کسی نے اس کی سند بیان کی ہو اور وہ (خارجہ) ہمارے محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔
تشریح
ولھان کے معنی ہیں عقل کا جاتے رہنا اور متحیر ہونا۔ یہ نام اس شیطان کا اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں متحیّر اور بے عقل کر دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا اس چکر میں پھنس کر وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ جب وضو کرتا ہے تو یہ وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ نامعلوم فلاں عضو پر ٹھیک سے پانی پہنچا ہے یا نہیں؟ فلاں عضو کو ایک مرتبہ دھویا ہے یا دو مرتبہ؟
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پانی کے وسوسہ سے بچو یعنی وضو کے وقت پانی استعمال کرنے میں جب اس قسم کے وسوسے اور وہم پیدا ہوں تو انہیں قائم نہ رہنے دو بلکہ انہیں اپنے دل سے باہر نکال پھینکو تاکہ حدود سنت سے تجاوز نہ کر سکو، کیونکہ اس شیطان کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا ان وسوسوں اور اوہام میں مبتلاء ہو کر اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے بھی زیادہ دھو ڈالے یا ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے جس کی بنا پر وہ مسنون طریقہ سے ہٹ جائے۔
٭٭اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو فرماتے ہیں تو اپنے کپڑے کے کونے سے اپنا منہ پونچھتے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
جب آپ وضو سے فارغ ہو جاتے تو پانی خشک کرنے کے لیے اپنے کپڑے یعنی چادر وغیرہ کے کونے سے اپنا منہ پونچھ لیتے تھے۔ زیلعی نے شرح کنز میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد رومال سے (پانی) خشک کر لینا جائز ہے چنانچہ جیسا کہ حضرت عثمان، حضرت انس، اور حسن ابی علی رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی یہی منقول ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ صاحب منیہ نے وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا مستحب لکھا ہے۔
حنفی مسلک کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد پانی خشک کرنے کے لیے اعضاء وضو کو (کسی کپڑے یا رومال اور تولیہ وغیرہ سے ) پوچھنا اگر از راہ تکبر و غرور ہو تو مکروہ ہے اور غرور و تکبر کی بنا پر نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں نہ تو وضو کرنے والے کے لیے اور نہ غسل کرنے والے کے لیے کپڑے سے پانی خشک کرنا سنت ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب وضو فرما چکے تو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک رومال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بھیگے ہوئے اعضاء پونچھ لیں مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے واپس کر دیا اور اعضاء وضو پر لگے ہوئے پانی کو ہاتھ سے کے ذریعہ ٹپکانے لگے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعضاء وضو کو رومال سے پونچھنے سے اس لیے انکار نہیں کیا تھا کہ یہ چیز مناسب نہیں تھی بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی خاص عذر کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رومال واپس فرما دیا ہو۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے وضو کے بعد اپنے بھیگے ہوئے اعضائے وضو پونچھا کرتے تھے (جامع ترمذی) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے اور اس کے ایک راوی، ابو معاذ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں
تشریح
نہ یہ کہ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ وضو کے بعد بھیگے ہوئے اعضاء کو کپڑے سے پونچھے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک حمایت اور تابعین نے وضو کے بعد اعضاء کو پونچھ لینے کی اجازت دی ہے اور ان کی یہ اجازت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی قول و فعل سے مستنبط نہیں ہے بلکہ یہ خود ان لوگوں کی اپنی رائے ہے ، چنانچہ سید جمال الدین شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مضمون کو نقل کیا ہے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ یہ دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ جواز ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کی ذاتی رائے ہے غلط ہے ، بلکہ اس کے برعکس آپ کا یہ قول خود آپ کے ذہن کی پیداوار ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام مثلاً حضرت عثمان، حضرت انس اور حضرت حسن بن علی رضوان اللہ علیہم کی جلالت شان اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے جذبہ صادق کے پیش نظر اس کا وہم بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دینی معاملات میں کوئی چیز ان کے اپنے ذہن کی پیدا کردہ ہو سکتی ہے لہٰذا ان کا فعل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کی اصل ضرور ہے۔
اس کے علاوہ اس کلیہ کو بھی ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ حدیث پر عمل کرنا خواہ وہ حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے بنسبت اس کے کہ کسی رائے پر عمل کیا جائے ، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط اور قوی کیوں نہ ہو۔
٭٭اور حضرت ثابت بن ابی صفیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (حضرت ثابت بن ابی صفیہ تابعی ہیں ، آپ کی کنیت ابوحمزہ تھی۔ ١٤٨ھ میں انتقال ہوا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد سے جن کا نام محمد باقر حضرت امام محمد باقر حضرت امام زین العابدین رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے ہیں ٥٦ھ میں آپ کی ولادت ہوئی تھی ، آپ کا انتقال ١١٧ھ یا ١١٨ھ بمقام مدینہ منورہ ہوا اور جنت البقیع میں دفن ہیں۔) ہے کہا کہ آپ سے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (کبھی) ایک ایک مرتبہ (کبھی) دو دو مرتبہ اور (کبھی) تین تین مرتبہ وضو کیا: انہوں نے فرمایا ہاں۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
محدثین کی عادت ہے کہ جب شاگرد اپنے شیخ (استاد) سے کوئی حدیث سنتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ حدثک فلان عن فلان (اس طرح شاگرد اپنی سند کے سلسلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچاتا ہے اور استاد خاموشی سے اس سلسلہ سند کو سنتا رہتا ہے ) یعنی کیا آپ سے یہ حدیث فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے (یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فلاں نے ) سنی ہے اس کے جواب میں شٰخ کہتا ہے کہ نعم! (یعنی ہاں ) گویا روایت حدیث کا یہ ایک طریقہ ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ استاد اپنے شاگرد کے سامنے جب کہتا ہے کہ حد ثنی فلاں الخ (یعنی مجھ سے یہ حدیث بیان کی فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فلاں نے سنی ہے ) تو شاگرد بیٹھا سنتا رہتا ہے۔
بہر حال۔ اسی طرح سے حضرت عثمان بن ابی صفیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے استاد حضرت امام محمد باقر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ حدثک جابر الخ یعنی کیا یہ حدیث آپ سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کی ہے۔ اس کے جواب میں محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اقرار کیا کہ ہاں مجھ سے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو، دو مرتبہ وضو فرمایا (یعنی اعضاء وضو کو دو ، دو بار دھویا) اور پھر فرمایا کہ یہ نور کے اوپر نور ہے۔
تشریح
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ اعضاء وضو کو دھویا تو اس سے فرض اداء ہوا اور ایک نور ہوا، پھر اس کے بعد جب دوسری مرتبہ دھویا تو سنت اداء ہوئی اور چونکہ یہ بھی نور ہے اس لیے نور کے اوپر نور ہوا۔
٭٭اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے تین تین مرتبہ وضو کیا اور پھر فرمایا کہ یہ میرا اور مجھ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کا وضو ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وضو ہے (یہ دونوں حدیثیں رزین نے روایت کی ہیں اور امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے شرح مسلم میں دوسری حدیث کو ضعیف کہا۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو ذکر کیا ہے اسے تخصیص بعد تعمیم فرماتے ہیں یعنی انبیاء علیہم السلام کا عمومی طور پر ذکر کرنے کے بعد پھر بطور خاص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسم گرامی کا ذکر کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام طہارت اور نظافت کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ہر (فرض) نماز کے لیے وضو فرمایا کرتے تھے اور ہم کو ایک وضو اس وقت تک کافی ہوتا تھا جب تک کہ وضو نہ ٹوٹتا تھا۔ (دارمی)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا پہلے واجب تھا مگر بعد میں وجوب کا یہ حکم منسوخ ہو گیا، جب کہ اس کے بعد آنے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، کچھ علماء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اولیٰ اور عزیمت سمجھ کر ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے تھے۔
٭٭اور حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ مجھے یہ بتائیے کہ کیا حضرت عبداللہ ابن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے خواہ وہ با وضو ہوں یا بے وضو اور انہوں نے یہ عمل کس سے حاصل کیا تھا؟ حضرت عبید اللہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت اسماء بنت زید بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن حنظلہ ابی عامر الغسیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے یہ حدیث بیان کی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو ہر نماز کا وضو کرنے کے لیے حکم دیا گیا تھا خواہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم با وضو ہوں یا بے وضو جب آپ کے لیے یہ مشکل ہوا تو ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیا گیا اور وضو کو موقوف کیا گیا (یعنی ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا واجب نہ رہا، جب تک وضو ٹوٹ نہ جائے حضرت عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ خیال تھا کہ مجھ میں ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کی قوت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسی پر موت کے وقت تک عمل کیا۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
لفظ غسیل کے معنی ہیں نہلایا گیا یہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفت ہے ، حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسیل اس لیے کہا جاتا ہے کہ انتقال کے بعد انہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔ چنانچہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا کہ ان کا کیا حال تھا؟(یعنی جب وہ گھر سے نکلے تو کیا کام کر رہے تھے ) انہوں نے جواب دیا کہ وہ حالت ناپاکی میں تھے اور (نہانے کے وقت) اپنے سر کا ایک ہی حصہ دھو پائے تھے کہ اتنے میں انہوں نے صدا سنی (کہ جہاد کے لیے بلایا جا رہا ہے ، چنانچہ وہ اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کھڑے ہوئے اور (غزوہ احد میں ) جام شہادت نوش فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ فرشتے انہیں نہلا رہے تھے۔ (طیبی)
بہر حال طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسواک بہت زیادہ فضیلت اور بزرگی رکھتی ہے کہ جب ہی تو اسے واجب وضو کا قائم مقام قرار دیا گیا۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو اس لئے کرتے تھے کہ انہوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اگرچہ اس کا وجوب منسوخ ہو گیا ہے مگر اس آدمی کے لیے جو اس پر عمل کی طاقت و قوت رکھتا ہے اس کی فضیلت باقی ہے اس لیے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ میرے اندر اتنی قوت و ہمت ہے کہ میں اس عمل کو بخوبی پورا کر سکتا ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس فضیلت و سعادت سے محروم رہوں۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنا معمول بنا لیا کہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے اور جب تک موت کی آغوش نے انہیں اپنے اندر چھپا نہ لیا وہ اس معمول پر قائم و دائم رہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضوء میں اسراف بھی کر رہے تھے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے )؟ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے ) ہو۔ (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)
تشریح
یہ حدیث اس بات پر تنبیہ کر رہی ہے کہ وضو و غسل میں پانی ضرورت سے زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اسراف ہے اور اسراف شریعت کی نگاہ میں کوئی محبوب چیز نہیں ہے
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وضو میں پانی زیادہ خرچ کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں تنبیہ فرمائی اس پر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بڑا تعجب ہوا کہ پانی کوئی نایاب اور کم یاب چیز تو ہے نہیں پھر اس میں اسراف کے کیا معنی؟ اسی بنا پر انہوں نے سوال بھی کیا کہ کیا وضوء میں بھی اسراف ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اسراف تو اسے بہی کہیں گے کہ تم نہر جاری پر بیٹھ کر وضوء کرو اور پانی زیادہ خرچ کرو جب کہ نہر یا دریا وغیرہ سے کتنا بھی پانی خرچ کر دیا جائے اس میں کوئی کمی واقعی نہیں ہو سکتی۔
اس جملہ کی تشریح علماء کرام یہ کرتے ہیں کہ نہر جاری پر اسراف اس لیے ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی حدود شریعت سے تجاوز کر کے ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرتا ہے تو اس میں عمر اور وقت یوں ہی ضائع ہو تا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اسراف ہے۔
علامہ طیبی نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اس سے اس بات میں مبالغہ منظور ہے کہ جس چیز میں اسراف متصور نہیں ہے جب اس میں بھی اسراف ہو سکتا ہے تو پھر ان چیزوں کا کیا حال ہو گا جس میں اسراف واقعۃً ہوتا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ وضو اور غسل وغیرہ میں ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرنا اسراف میں شامل ہے اور یہ چیز مناسب نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس آدمی نے وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا (یعنی پوری بسم اللہ پڑھ کر وضو شروع کیا) تو اس نے اپنا تمام بدن (گناہوں سے ) پاک کیا اور جس نے وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا تو اس نے صرف اعضاء وضو کو پاک کیا۔
تشریح
اس حدیث میں وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنے کی فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے کہ جو آدمی بسم اللہ کہہ کر وضو شروع کرتا ہے اس کا تمام بدن گناہ صغیرہ کی غلاظتوں سے پاک ہو جاتا ہے اور جس آدمی نے بغیر بسم اللہ کہے ہوئے وضو کیا تو اس کے اسی اعضاء سے گناہ صغیرہ دور ہوتے ہیں جنہیں وضو میں دھویا گیا ہے۔
نیز اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ وضو میں بسم اللہ کہنا سنت یا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کے لیے وضو فرماتے تو اپنی انگلی کی انگوٹھی کو بھی گھما پھیرا لیتے۔ (ان دونوں حدیثوں کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور سنن ابن ماجہ نے صرف دوسری حدیث نقل کی ہے )۔
تشریح
اس کا مسئلہ یہ ہے کہ انگوٹھی ڈھیلی ہو اور اس بات کا گمان ہو کہ وضو کے وقت پانی انگوٹھی کے نیچے انگلی تک پہنچ جاتا ہے تو اس صورت میں انگوٹھی کو ہلا لینا سنت ہو گا، ہاں اگر انگوٹھی تنگ ہو اور یہ یقین ہو کہ انگوٹھی کو ہلائے بغیر اس کے نیچے پانی نہیں پہنچے گا تو پھر انگوٹھی کو ہلا لینا واجب ہو گا تاکہ پانی اس کے نیچے انگلی تک پہنچ جائے۔