FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

                تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

 

تقدیر پر ایمان لانا فرض اور لازم ہے یعنی وجود ایمان کے لیے یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ بندوں کے تمام اعمال خواہ وہ نیک ہوں یا بد، ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھ دیئے گئے ہیں، بندہ سے جو عمل بھی سر زد ہوتا ہے وہ اللہ کے علم و اندازہ کے مطابق ہوتا ہے ، لیکن اللہ نے انسان کو عقل و دانش کی دولت سے نواز کر اس کے سامنے نیکی اور بدی دونوں راستے واضح کر دیئے ہیں اور ان پر چلنے کا اختیار دے دیا اور بتا دیا کہ اگر نیکی کے (راستہ کو) اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہو گا جس پر جزاء و انعام سے نوازے جاؤ گے اور اگر بدی کے راستہ کو اختیار کرو گے تو یہ اللہ کے غضب اور اس کی ناراضگی کا باعث ہو گا جس کی وجہ سے سزا اور عذاب کے مستحق گردانے جاؤ گے۔ اب اس واضح اور صاف ہدایت کے بعد جو آدمی نیکی و بھلائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ از راہ فضل و کرم اللہ کی رحمت سے نوازا جائے گا اور اس پر اللہ کی جانب سے فلاح و سعادت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اگر کوئی عقل کا اندھا اپنے کسب و اختیار سے برائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ از راہ عدل سزا کا مستوجب ہو گا اور اسے عذاب و تباہی کے غار دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تقدیر کا مسئلہ عقل و فکر کی رسائی سے باہر ہے کیونکہ یہ اللہ کا ایسا ایک راز ہے جس کا انسانی عقل میں آنا تو درکنار اسے نہ تو کسی مقرب فرشتہ پر ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا بھید کسی پیغمبر اور رسول کو معلوم ہے۔ اس لیے اس مسئلہ میں زیادہ غور و فکر کرنا اور اس میدان میں عقل کے گھوڑے دوڑانا جائز نہیں ہے بلکہ تحقیق و جستجو کے تمام راستوں سے ہٹ کر صرف یہ اعتقاد رکھنا ہی فلاح و سعادت کا ضامن ہے کہ اللہ نے یہ مخلوق پیدا کر کے ان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے ، ایک گروہ وہ ہے جو اچھے اعمال اور نیک کام کرنے کی بنا پر اللہ کی جنت اور اس کی نعمتوں کا مستحق ہو گا جو محض اس کا فضل و کرم ہو گا۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جو برے اعمال کرنے کی وجہ سے دوزخ میں ڈالا جائے گا جو عین عدل ہو گا۔ منقول ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے قضا و قدر کے بارہ میں سوال کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا  یہ ایک بڑا راستہ ہے اس پر نہ چلو اس آدمی نے  پھر یہی سوال کیا   انہوں نے فرمایا  یہ ایک گہرا دریا ہے ، اس میں نہ اترو وہ آدمی نہ مانا اور اس نے پھر سوال کیا۔ آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ اللہ کا ایک راز ہے جو تم سے پوشیدہ ہے اس لیے اس کی تفتیش و تحقیق میں مت پڑو۔ لہٰذا اخروی سعادت اسی میں ہے کہ اس مسئلہ کے بارہ میں اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ بتایا ہے اور جن اعتقادات کو ماننے کے لیے کہا ہے اس پر عمل پیرا ہو جائے ، ورنہ اپنی عقل کے تیر چلانا درحقیقت گمراہی کا راستہ اختیار کرنا اور تباہی و بربادی کی راہ پر لگنا ہے۔

 

                    تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

 

اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا ہے۔ اور  فرمایا  (اس وقت) اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات اجسام ظاہری اور مادیات کی ثقاوت سے پاک ہے اس لیے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے تقدیریں لکھ دی تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ خدا نے تمام مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ان کی تقدیریں قلم کو جاری ہونے کا حکم دے کر اس کے ذریعہ لوح محفوظ میں ثبت کر دی تھیں، یا یہ کہ فرشتوں کو حکم دے کر ان سے تقدیریں لکھوا دی تھیں۔

منقول ہے کہ زمین و آسمان اور تمام مخلوق کے پیدا ہونے سے پہلے پانی ہی پانی تھا اور کہا جاتا ہے کہ پانی کا استقرار ہوا پر تھا اور ہوا اللہ کی قدرت پر قائم تھی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ اس عالم میں ازل سے لے کر ابد تک ہونے والے تمام واقعات و اعمال اسی وقت اللہ کے علم میں تھے۔ جب کہ یہ زمین و آسمان بھی پیدا نہیں ہوئے تھے اور اس کا عرش پانی پر تھا جس کے درمیان کوئی دوسری چیز حائل نہیں تھی۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ہر چیز تقدیر سے ہوتی ہے ، یہاں تک کہ دانائی اور نادانی۔ (صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا (عالم رواح میں) آدم و موسیٰ علیہما السلام نے اپنے پروردگار کے سامنے مناظرہ کیا اور حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ وہی آدم ہیں جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا آپ میں اپنی روح پھونکی تھی، فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا تھا، اور اپنی جنت میں آپ کو رکھا تھا اور پھر آپ نے اپنی خطاء سے لوگوں کو زمین پر اتروا دیا تھا (یعنی اگر آپ خطا نہ کرتے تو یہاں زمین پر نہ اتارے جاتے اور آپ کی اولاد اس دنیا میں نہ پھیلتی بلکہ جنت میں رہتی) آدم علیہ السلام نے کہا تم وہی موسیٰ ہو جن کو اللہ نے اپنے منصب رسالت سے نواز کر برگزیدہ کیا اور ہم کلامی کے شرف سے مشرف فرمایا تھا اور تم کو وہ تختیاں دی تھیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور پھر تم کو سر گوشی کے لیے تقرب کی عزت بخشی تھی ، اور کیا تم جانتے ہو اللہ نے میری پیدائش سے کتنے عرصہ پہلے تورات کو لکھ دیا تھا؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا  چالیس سال پہلے ! آدم علیہ السلام نے پوچھا  کیا تم نے تورات میں یہ لکھے ہوئے الفاظ نہیں پائے (آیت وعصی آدم ربہ فغوی) (یعنی آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہاں ہاں۔ آدم علیہ السلام نے کہا پھر تم مجھ کو میرے اس عمل پر کیوں ملامت کرتے ہو جس کو اللہ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے لیے لکھ دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  اس دلیل سے) آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غائب آ گئے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جو دلیل پیش کی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے چونکہ میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے یہ لکھ دیا تھا کہ میں شیطان کے گمراہ کرنے کی وجہ سے بہک جاؤں گا اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے شجر ممنوع کا استعمال کر لوں گا۔ لہٰذا اس میں میرے کسب و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ گمراہی میرے مقدر میں لکھی گئی تھی اس لیے اس کا مجھ سے صادر ہونا لازم و ضروری تھا لہٰذا میں مورد الزام نہیں ٹھہر سکتا۔

علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس گمراہی کو میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے لوح محفوظ میں مقدر فرما دیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ضرور بروقت وقوع پذیر ہو گی، لہٰذا جب وقت مقدر آ پہنچا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ امر مقدر اور اللہ تعالیٰ کے علم کے خلاف دہ عمل ممنوع سر زد نہ ہوتا چنانچہ تم مجھ پر یہ الزام تو ڈال رہے ہو اور تمہیں سبب ظاہری یعنی میرا کسب و اختیار تو یاد رہا لیکن اصل چیز یعنی مقدر سے تم صرف نظر کر گئے۔

حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کا مناظرہ اس عالم دنیا میں نہیں ہوا جہاں اسباب سے قطع نظر درست نہیں ہے بلکہ یہ مناظرہ عالم بالا میں ان دونوں کی روحوں کے درمیان ہوا تھا۔ اسی لیے یہاں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر کوئی عاصی و گناہ گار اس قسم کی دلیل کا سہارا لینے لگے تو وہ اس کے لیے کار آمد نہیں ہو گی، کیونکہ حضرت آدم کا معاملہ اس جہاں میں تھا جہاں وہ اسباب کے مکلف نہیں تھے اور پھر ان کی یہ خطاء بارگاہ الوہیت سے معاف بھی کر دی گئی تھی، لہٰذا یہاں تو کسب و اختیار اور ابواب کی بنا پر مواخذہ ہو گا کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ پر جو تختیاں اتری تھیں وہ زمرد کی تھیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ستر اونٹوں پر لادی جاتی تھیں، ان تختیوں میں ان کی قوم کے لیے اللہ کی جانب سے احکام و مسائل لکھے ہوئے تھے ، ان تختیوں میں جو مضامین مذکور تھے وہ قدیم ہیں لہٰذا چالیس سال کی تحدید ان مضامین کے بارہ میں نہیں ہو گی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ وہ مضامین جو ان تختیوں پر لکھے گئے تھے ، ان کے لکھنے کی مدت آدم کی پیدائش سے چالیس سال قبل ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ صادق و مصدوق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے فرمایا۔ تم میں سے ہر آدمی کی تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ (پہلے) اس کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے ، پھر اتنے ہی دنوں یعنی چالیس دن کے بعد وہ جما ہوا خون بنتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے بعد وہ لوتھڑا ہو جاتا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ کو چار باتوں کے لکھنے کے لیے بھیجتا ہے ، چنانچہ وہ فرشتہ اس کے عمل اس کی موت (کا وقت) اس کے رزق (کی مقدار) اور اس کا بدبخت و نیک بخت ہونا اللہ کے حکم سے اس کی تقدیر میں لکھ دیتا ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تم میں سے ایک آدمی جنت والوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا ہوا آگے آتا ہے۔ اور وہ دوزخیوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے ، اور تم میں ایک آدمی دوزخیوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا سامنے آتا ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ایسا کم ہوتا ہے کہ لوگ بھلائی کے راستہ کو چھوڑ کر برائی کا راستہ اختیار کرتے ہوں لیکن اللہ کی رحمت کاملہ کے صدقے اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو لوگ بد بختی و برائی کے راستہ کو اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھلائی کی طرف آ جاتے ہیں اور نیکی کے راستہ کو اختیار کر لیتے ہیں۔

اس حدیث نے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ابدی نجات و عذاب کا دار و مدار خاتمہ پر ہے ، اگر کسی کی پوری زندگی گناہ و معصیت یا کفر و شرک میں گزری لیکن اس نے آخر وقت میں صدق دل سے اپنی بداعمالیوں اور گمراہی پر نادم و شرمسار ہو کر نیک بختی و سعادت کے راستہ کو اختیار کر لیا تو وہ نجات پا جائے گا۔

اسی طرح اگر کوئی آدمی تمام عمر نیکی و بھلائی کرتا رہا اور اس کی تمام زندگی اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزری لیکن آخر وقت میں وہ شیطان کی گمراہی یا اپنے نفس کی شرارت سے گمراہ ہو گیا اور اس نے اپنی حیات کے آخری لمحوں کو برائی و بدبختی کی بھینٹ چڑھا دیا تو وہ اپنی زندگی بھر کی نیکیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

لہٰذا اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ بھلائی و بہتری اور اخروی نجات اسی میں ہے کہ بندہ ہمیشہ اطاعت الہٰی اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی بجا آوری میں مصروف رہے ، اس کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی حدود شریعت سے تجاوز کرنے نہ پائے اور ہر آنے والے لمحہ کو یہ سوچ کر کہ شاید میری زندگی کا یہ آخری لمحہ ہو نیکی و بھلائی میں صرف کرتا رہے تاکہ خاتمہ بالخیر کی سعادت سے نوازا جائے۔

اس موقع پر اتنی بات اور بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو لوگ قضا و قدر کے مسئلوں کو دیکھ کر یہ نظریہ قائم کر بیٹھے ہیں کہ جب نجات و عذاب، نیک بختی و بدبختی اور جنت و دوزخ کا ملنا تقدیری چیز ہے تو عمل کی کیا ضرورت ہے؟ وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی جو اس مسئلہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ پائے تھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس قسم کی بات کہی تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم عمل کئے جاؤ کیونکہ جس کے مقدر میں جو کچھ لکھا ہے اس پر اس کو اختیار بھی دیا گیا ہے۔

یعنی قضا و قدر پر بھروسہ کر کے تمہارا عمل میں توقف کرنا یا عمل سے انکار کرنا کوئی کار آمد نہیں ہو گا اس لیے کہ احکام شارع کی جانب سے وارد ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تم کو سوچنے سمجھنے کی قابلیت اور نیکی و بدی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بھی دی گئی ہے ، نیز تمہارے اندر قصد و جہد کا مادہ بھی پیدا کیا گیا ہے تاکہ تم ان اسباب کے ذریعہ عمل کر سکو، لہٰذا اب اگر تم قضا و قدر کا سہارا لے کر اسباب سے قطع نظر کرو گے اور اعمال کو چھوڑ دو گے تو تباہی و بربادی کے غار میں جا گرو گے۔ ہاں یہ اللہ کی یقیناً کوئی مصلحت ہو گئی جس کی حقیقت و حکمت کو تو وہی جانتا ہے کہ ایک طرف تو اس نے قضا و قدر کے مسئلہ کو سامنے کر دیا دوسری طرف اعمال و افعال کے کرنے کا حکم دیا اور پھر اس مسئلہ میں تحقیق و تفتیش کرنے سے بھی منع فرما دیا، اور پھر قضا و قدر کے سہارے اعمال کی ضرورت سے انکار کر دیا جائے تو اس کا کیا جواب ہو گا کہ اللہ کی جانب سے شریعت کا اتارنا، احکام بھیجنا اور رسولوں کی بعثت جن کا مقصد احکام خداوندی پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا تھا بلا وجہ ہوئی کیونکہ جب محض تقدیر پر بھروسہ ہو گا کہ جس کے مقدر میں جنت میں جانا لکھا ہو گا وہ جنت میں یقیناً جائے گا اور جس کے مقدر میں دوزخ لکھی ہو گی اور دوزخ میں یقیناً جائے گا تو ان رسولوں کی بعثت اور احکام و اعمال کی بجا آوری کی تاکید کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی ، لہٰذا اس حیثیت سے بھی دیکھا جائے تو یہ خیال غلط ثابت ہو گا۔

بہر حال جس طرح اور بہت سے اسرار الہٰی ہیں کہ ان کی بندوں کو خبر نہیں ہے اسی طرح یہ بھی ایک راز ہے جو بندوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے ، اس لیے کسی کے ظاہری عمل کو دیکھ کر اس کے جنتی یا دوزخی ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا بلکہ یہ اللہ کی مرضی پر موقوف ہے کہ (آیت یعذب من یشاء و یرحم من یشاء) (یعنی وہ جس کو چا ہے (بداعمالیوں کی بنا پر) عذاب میں مبتلا کر دے اور جس کو چا ہے اپنے فضل و کرم سے بخش دے)۔

 

 

٭٭ اور حضرت سہل بن سعد (سہل بن سعد بن مالک کا پہلا نام حزن تھا لیکن بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سہل رکھا، کنیت ابو العباس اور بعض نے ابو یحیی بھی لکھی ہے مدینہ میں ٨٨ھ میں بعمر ٩٦ سال آپ کا انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے لیکن وہ جنتی ہوتا ہے اور جنت والوں کے سے کام کرتا ہے لیکن وہ دوزخی ہوتا ہے کیونکہ (نجات و عذاب کا) دار و مدار خاتمہ کے عمل پر ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث نے پہلی حدیث کی توثیق کر دی ہے کہ اعمال سابق کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ ان اعمال کا اعتبار ہو گا جس پر کا خاتمہ ہوا ہے اس لیے کسی کی نجات و عذاب کا دار و مدار اس کے خاتمہ پر ہو گا، خاتمہ بالخیر ہو گا تو اللہ کی نعمتوں اور اس کی جنت کی سعادت سے نوازا جائے گا اور اگر خدانخواستہ خاتمہ خیر پر نہیں ہوا تو پھر عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

چنانچہ اس حدیث نے صراحۃً یہ بات واضح کر دی کہ بندہ کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعت الہٰی میں مصروف رہے اور ہر وقت معاصی و گناہ سے بچتا رہے اس لیے کہ نا معلوم اس کا وقت آخر کب آ جائے ، اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو کہ اچانک موت کا زبردست پنجہ اس کا گلا دبوچ لے اور اسے توبہ کی بھی مہلت نہ ملے جس کے نتیجہ میں وہاں کے دائمی خسران و عذاب میں گرفتار ہو جائے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ (ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت ابوبکر صدیق کی ذی شان صاحبزادی اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے چہیتی اور محبوب زوجہ مطہرہ ہیں جن کا لقب صدیقہ ہے۔ آپ کی وفات کے وقت حضرت عائشہ کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ ٥٧ھ،٥٨ میں آپ کا انتقال ہوا ہے اور جنت البقیع میں مدفون ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔) فرماتی ہیں کہ ایک انصاری بچہ کے جنازہ پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو بلایا گیا، میں نے کہا، یا رسول اللہ ! اس بچہ کو خوشخبری ہو، یہ تو جنت کی چڑیوں میں کی ایک چڑیا ہے ، جس نے کوئی برا کام نہیں کیا اور نہ برائی کی حد تک پہنچا۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  عائشہ ! کیا اس کے سوا کچھ اور ہو گا؟ یعنی اس کے جنتی ہونے کا جزم و یقین نہ کرو کیونکہ اللہ نے جنت کے لیے مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے اور دوزخ کے لیے بھی مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جنت اور دوزخ میں داخل ہونا نیک و بد عمل پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ تقدیری معاملہ ہے اللہ نے ایک جماعت کے لیے ازل ہی سے جنت لکھ دی ہے اس لیے وہ جنت میں جائے گی خواہ وہ نیک اعمال کریں یا نہ کریں، اسی طرح ایک گروہ دوزخ کے لیے پیدا کیا گیا ہے جو دوزخ میں یقیناً جائے گا خواہ اس کے اعمال بد ہوں یا نہ ہوں۔ لہٰذا یہ لڑگا اگر دوزخ کے لیے پیدا کیا گیا تھا تو وہ دوزخ میں یقیناً جائے گا اگرچہ اس سے اب تک اعمال بد صادر نہیں ہوئے ہیں۔

لیکن اس کے برخلاف اکثر آیات و احادیث اور علماء کے متفق علیہ اقوال ایسے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مسلمان بچہ اگر کمسنی کی حالت میں انتقال کر جائے تو وہ یقیناً جنتی ہے بلکہ کفار و مشرکین کے کمسن بچوں کے بارہ میں بھی صحیح یہی مسئلہ ہے کہ وہ بھی جنت میں داخل کئے جائیں گے۔

لہٰذا اب اس حدیث کی توجیح یہی کی جائے گی کہ چونکہ حضرت عائشہ نے اس کے جنتی ہونے پر اس عزم و یقینی کے ساتھ حکم لگایا تھا کہ گویا انہیں غیب کا علم ہے اور اللہ کی مصلحت و مرضی کی راز دان ہیں، اس لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس جزم و یقین پر یہ تنبیہ فرمائی کہ تم اپنے اس وثوق کی بنیاد پر گویا غیب دانی کا اقرار کر رہی ہو، جو کسی بندہ کے لیے مناسب نہیں ہے یا زیادہ صحیح توجیہہ اس حدیث کی یہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد اس وقت تک ہو گا جب تک بچوں کے جنتی ہونے کا حکم وحی کے ذریعہ معلوم نہیں ہوا تھا (اللہ علم)

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم وجہ (امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی، آپ کی سب سے لاڈلی صاحب زادی حضرت فاطمہ کے شوہر اور چوتھے خلیفہ راشد ہیں ان کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے آخر عشرہ رمضان ٣٠ھ میں آپ نے انتقال فرمایا اور شہادت کا درجہ پایا۔ اس وقت آپ کی عمر واقدی کی تحقیق کے مطابق ٦٣ برس کی تھی تین دن کم پانچ سال تک آپ خلیفہ رہے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے ہر آدمی کی جگہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ میں لکھ دی ہے۔ (یعنی یہ معین ہو گیا کہ کون لوگ جنتی ہیں اور کون لوگ دوزخی ہیں) صحابہ نے عرض کیا  یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنے نوشتہ تقدیر پر بھروسہ کر بیٹھیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم عمل کرو اس لیے کہ جو آدمی جس چیز کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس پر اسے آسانی اور توفیق دی جاتی ہے لہٰذا جو آدمی نیک بختی کا اہل ہوتا ہے اللہ اس کو نیک بختی کے اعمال کی توفیق دیتا ہے اور جو آدمی بدبختی کا اہل ہوتا ہے اس کو بدبختی کے اعمال کا موقع دیا جاتا ہے اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ) جس نے اللہ کر راہ میں دیا، پرہیزگاری کی اور اچھی بات (دین و اسلام) کو سچ مانا، اس کے لیے ہم آسانی کی جگہ (جنت) آسان کر دیں گے لیکن جس نے بخل کیا اور (خواہشات نفسانی و دنیاوی چمک دمک میں پھنس کر) آخرت کی نعمتوں سے بے پروائی کی، نیز عمدہ بات (دین و اسلام) کو جھٹلایا تو اس کے لیے ہم مشکل جگہ (دوزخ کی راہ) آسان کر دیں گے۔ الخ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا منشاء یہ تھا کہ تم لوگ تقدیر پر بھروسہ کر کے عمل چھوڑنے کو جو کہتے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ جنت و دوزخ کا پہلے مقدر میں لکھا جانا اور ہر ایک کے بارہ میں معین ہو جانا کہ کون نیک بخت ہے اور کون بد بخت، اعمال کو ترک کرنے کا باعث نہیں ہے اس لیے کہ اللہ نے اپنی ربوبیت و الوہیت کے اظہار کے طور پر جو کچھ احکام دیئے ہیں اور جو فرائض بندوں پر عائد کئے ہیں اس پر عمل کرنا اور احکام کی پیروی کرنا بمقتضائے عبودیت بندوں پر لازم و ضروری ہے کیونکہ عمل ہی کو نیک بختی و بدبختی کا نشان قرار دیا گیا ہے کہ جو کوئی عمل کرے گا اس کو نیک بخت سمجھا جائے اور جو عمل نہیں کرے گا اس کو بدبخت سمجھا جائے گا اور پھر یہ بھی تقدیری معاملہ ہے کہ اللہ نے جس کے مقدر میں نیک بخت ہونا لکھ دیا ہے وہ یقیناً اعمال کو پورا کرے گا اور جس کے مقدر میں بد بخت ہونا لکھا گیا ہے وہ اعمال کو چھوڑ کر گمراہی میں جا پڑے گا۔

جہاں تک ثواب و عذاب کا معاملہ ہے وہ اللہ کی مرضی اور اس کی مصلحت پر موقوف ہے وہ جو بھی معاملہ کرے گا اس پر اسے اختیار ہو گا اس میں کسی کے جبر و اکراہ کو دخل نہیں ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  اللہ نے انسان کی تقدیر میں جتنا حصہ زنا کا لکھ دیا ہے وہ ضرور اس سے عمل میں آئے گا، آنکھوں کا زنا تو نامحرم کی طرف دیکھنا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورتوں سے شہوت انگیز باتیں کرنا، اور نفس آرزو و خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس آرزو کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کی ایک روایت ہے کہ  آدمی کی تقدیر میں زنا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے اس کو وہ ضرور عمل میں لائے گا۔ آنکھوں کا زنا (نامحرم کی طرف) دیکھنا ہے ، کانوں کا زنا (نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں سننا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورت سے شہوت انگیز) باتیں کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا (نامحرم عورت کو برے ارادہ سے) چھونا ہے اور پاؤں کا زنا (بدکاری کی طرف) جانا ہے اور دل خواہش و آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

 

تشریح

 

اصل زنا تو یہی ہے کہ کسی نا محرم عورت سے بدکاری میں مبتلا ہو، لیکن اصطلاح شریعت میں ان حرکات و اعمال کو بھی مجازاً زنا کہا جاتا ہے جو حقیقی زنا کے لیے اسباب کا درجہ رکھتے ہیں جو اس تک پہنچاتے ہیں، مثلاً کسی نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں کرنا، یا بری نظر سے اس کی طرف دیکھنا، یا گندے خیال کے ساتھ اس کی باتیں سننا، یا برے ارادہ سے اس کا ہاتھ چھونا، یا اسی طرح گندے خیالات کے ساتھ کسی نامحرم عورت کے پاس جانا، یہ سب چیزیں چونکہ حقیقی زنا کی محرک بنتی ہیں جو آگے چل کر بدکاری میں مبتلا کرا دیتی ہیں اس لیے ان کو بھی مجازاً زنا کہا جاتا ہے ، تاکہ ان حرکات و اسباب کی نفرت و کراہت دلوں میں بیٹھ جائے اور لوگ ان سے بھی بچتے رہیں۔

بہر حال حدیث سے معلوم ہوا کہ جس آدمی کے مقدر میں زنا کا جنتا حصہ لکھ دیا جاتا ہے وہ اسے عمل میں لاتا ہے ، اب چا ہے تو اس کے مقدر میں محض مجازی زنا لکھا ہو یا حقیقی زنا، لیکن اللہ جن کو ان قبیح افعال سے محفوظ رکھتا ہے وہ ان سے باز رہتے ہیں اور وہ ان چیزوں سے بھی پرہیز کرتے رہتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی معصیت و گناہ کے خیال کا بھی شائبہ پایا جاتا ہو جو گناہ و معصیت کی طرف لے جانے کا سبب بنتے ہوں۔

شرم گاہ کی تصدیق و تکذیب کا مطلب یہ ہے کہ جب نفس انسانی ہوا و ہوس کا غلام بن جاتا ہے اور وہ غلط و حرام فعل کی خواہش کرتا ہے تو اگر شرم گاہ اس کے اس غلط و نا جائز خواہش پر عمل کرتی ہے اور زنا میں مبتلا ہو جاتی ہے تو یہی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، یا اگر کسی احساس و شعور اور ضمیر اللہ کے عذاب سے لرزاں اور اس کے خوف سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو شرمگاہ نفس کی خواہش کی تکمیل سے انکار کر دیتی ہے اور وہ بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتا یہ اس کی تکذیب ہوتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عمران بن حصین(آپ کا اسم گرامی عمران ابن حصین اور کنیت ابو نجید ہے آپ فتح خیبر کے سال اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے تھے بمقام بصرہ٥١ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ ایک مرتبہ قبیلہ مزینہ کے دو آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں یہ بتائیے کہ آج (دنیا میں) لوگ عمل کرتے ہیں اور اعمال کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کیا یہ وہی شے ہے جس کا حکم ہو چکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے یا یہ عمل ان احکام کے موافق ہیں جو آئندہ ہونے والے ہیں جن کو اس کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم لایا ہے اور جن پر دلیل قائم ہو چکی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہیں یہ وہی شے ہیں جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے اور اس کی تصدیق کتاب اللہ کی اس آیت سے ہوتی ہے وَنَفْسِ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوَاھَا (القران الحکیم،پارہ ۳۰۔رکوع ١٦)۔ قسم ہے (انسان کی) جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بنایا پھر اس کی بد کرداری اور پرہیزگاری (دونوں کا) القاء کیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

سوال یہ تھا کہ یا رسول اللہ ہمیں یہ بتلا دیجئے کہ دنیا میں لوگ جتنے اعمال کرتے ہیں خواہ وہ اعمال خیر ہوں یا عمال بد کیا یہ وہی ہیں جو ان کے لیے ازل ہی میں مقدر ہو چکے تھے اور اب وقت پر وقوع پذیر ہوتے ہیں یا یہ وہ چیزیں ہیں جو ازل میں تو ان کے لیے نوشتہ تقدیر نہیں بنی تھیں بلکہ اب جب رسول آئے اور انہوں نے اللہ کی جانب سے دیئے گئے معجزات کے ذریعہ اپنی صداقت کا اعلان اور ان احکام و اعمال کے کرنے کا حکم دیا تو یہ اعمال وقوع پذیر ہونے لگے تو ایسی شکل میں کیا یہ کہا جائے گا کہ یہ اعمال بندوں کے مقدر میں پہلے سے نہیں لکھے ہوئے تھے بلکہ اپنے اختیار سے یہ اعمال کرتے ہیں چا ہے وہ اچھے اعمال ہوں یا برے اعمال؟

بارگاہ رسالت سے جواب دیا گیا کہ یہ اعمال وہی ہیں جو ازل ہی سے بندوں کے مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں اور اب اسی نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنے اپنے وقت پر صادر ہوتے رہتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا،  یا رسول اللہ میں ایک جوان مرد ہوں اور میں اپنے نفس سے ڈرتا ہوں کہ بدکاری کی طرف مائل نہ ہو جائے اور میرے اندر اتنی استطاعت نہیں ہے کہ کسی عورت سے شادی کر لوں گویا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے اندر سے قوت مردمی ختم کر دینے کی اجازت مانگتے تھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر سکوت فرمایا، میں نے دوبارہ یہی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پھر خاموش رہے ، میں نے پھر عرض کیا اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ نہیں فرمایا میں نے پھر اسی طرح عرض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ابوہریرہ! جو کچھ ہونا ہے (اسے تمہارے مقدر میں لکھ کر) قلم خشک ہو چکا ہے لہٰذا تمہیں اختیار ہے کہ قوت مردمی ختم کرو یا نہ کرو۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ تمہارے مقدر میں جو کچھ ہونا لکھا ہے وہ پورا ہو گا، اگر خدانخواستہ کسی بدکاری میں مبتلا ہونا تمہارے لیے نوشتہ تقدیر بن چکا ہے تو یہ قبیح فعل تم سے ضرور ہو گا، اور اگر قضا و قدر نے تمہاری پاکدامنی اور معصیت سے حفاظت لی ہے تو چا ہے تم اپنی قوت مردمی ختم کر کے نامرد بن جاؤ، یا اس فعل سے باز رہو، تمہارا نفس تمہیں نہیں بہکا سکتا اور تم پاک دامن رہو گے اسی طرف جف القلم کہہ کر اشارہ فرمایا گیا۔

اس حدیث میں اصل میں اس طرف تنبیہ اور تہدید مقصود ہے کہ اسباب و تدبیر کو تقدیر کے مقابلہ پر لانا اور نوشتہ تقدیر سے لا پرواہ ہو کر اس سے بھاگنا جائز نہیں ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تمام انسانوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کی درمیان اس طرح ہیں جیسے ایک انسان کا دل ہے اور وہ (اپنی انگلیوں سے) جس طرح چاہتا ہے قلوب کو گردش میں لاتا ہے اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کے طور پریہ فرمایا۔  اے دلوں کو گردش میں لانے والے خدا! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے اللہ کے کمال قدرت کا اظہار مقصود ہے کہ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے اور سب پر متصرف ہے یہاں تک کہ قلوب کے رخ اور دل کی دھڑکنیں تک بھی اسی کے اختیار میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انگلیوں کا استعمال یہاں مجازا ہوا ہے کیونکہ اس کی پاک و صاف ذات مادیات اور اجسام کی ثقالت سے پاک ہے۔

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمام قلوب اللہ کے قبضہ و تصرف میں ہیں، وہ جس طرف چاہتا ہے دلوں کو پھیر دیتا ہے کسی قلب کو گناہ و معصیت اور بدکاری کی طرف مائل کر دینا بھی اسی کی صفت ہے اور کسی قلب کو عصیان و سرکشی کے جال سے نکال کر اطاعت و فرمانبرداری اور نیکو کاری کے راستہ پر بھی اسی کا کام ہے وہ جس طرح چاہتا ہے گمراہی و ضلالت کے اندھیرے میں پھینک دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ، ہدایت و راستی کے مرغزاروں میں چھوڑ دیتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کو فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے (یعنی امر حق کو قبول کرنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح ایک چار پایہ جانور پورا چار پایہ بچہ دیتا ہے ، کیا تم اس میں کوئی کمی پاتے ہو پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ) یہ اللہ تعالیٰ کی اس بنائی کے موافق ہے جس پر اللہ نے آدمیوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی خلقت میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا یہ دین مستحکم ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق فطرت پر کی ہے اور فطرت صرف امر حق یعنی ایمان و اسلام کو قبول کر سکتی ہے۔ لہٰذا جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے۔تو وہ اس فطرت پر ہوتا ہے لیکن خارجی اثر سے وہ فطرت کے تقاضوں سے دور ہو جاتا ہے اور خلاف اصول و فطرت طریقوں پر چلنے لگتا ہے یعنی اگر اس کے ماں باپ مجوسی ہوتے ہیں تو وہ بھی ان کے مذہب میں رنگ جاتا ہے۔

چنانچہ مثال کے طور پر فرمایا کہ جس طرح کسی جانور کے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی اصلی حالت میں پیدا ہوتا ہے اس کے اندر کسی قسم کی کوئی کمی یا کوئی نقصان نہیں ہوتا، ہاں اگر خارجی طور پر کوئی اس کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالے یا اس کے جسم میں کوئی عیب پیدا کر دے تو وہ اپنی اصلی اور تخلیقی حالت کھو دیتا ہے ، اسی طرح انسان پیدا کے وقت اپنی اصلی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کا ماحول، اس کی سوسائٹی یعنی ماں باپ وغیرہ اس کے احساسات و شعور اور اس کے عقائد پر اپنے مذہب کا رنگ چڑھا کر اس کے ذہن و فکر اور قلب و دماغ کو غلط راستہ پر موڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی اصلی اور تخلیقی فطرت پر قائم نہیں رہتا بلکہ کافر ہو جاتا ہے ، ہاں اگر ایسا نہیں ہوتا اور اس کے ماں باپ مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان رہتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیا اور پانچ باتیں ارشاد فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ سوتا نہیں ہے ، اور سونا اس کی شان کے مناسب نہیں ہے۔ وہ ترازو کو بلند و پست کرتا ہے ، دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل اور رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جاتے ہیں اور اس کا حجاب نور ہے جسے اگر وہ اٹھا دے تو اس کی ذات پاک کا نور مخلوقات کی تا حد نگاہ تمام چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ترازو کو بلند و پست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خداوند قدوس کسی بندہ پر رزق کی وسعت کرتا ہے اور اسے مال و زر کی فراوانی سے نوازتا ہے اور کس پر اسباب معیشت اور رزق کے دروازے تنگ کر کے اسے محتاجی و تنگدستی میں مبتلا کر دیتا ہے ، اسی طرح کسی بندہ کو وہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیکو کاری کی بدولت عزت و عظمت اور شرف و فضیلت سے نوازتا ہے اور کسی گناہ گار بندہ کو اس کی سرکشی و نافرمانی اور بدکاری کی بنا پر اسے ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور اسے تباہی و بربادی کے غار میں ڈال دیتا ہے۔

ایسے ہی  دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ سے جو کوئی عمل سرزد ہوتا ہے وہ فوراً بلا تاخیر بارگاہ الوہیت تک پہنچ جاتا ہے یعنی ابھی سورج بھی نہیں نکلتا اور کوئی عمل صادر ہونے بھی نہیں پاتا کہ رات کے عمل جو بندہ سے سرزد ہوئے ہیں اوپر پہنچ چکے ہوتے ہیں ، اسی طرح رات شروع بھی نہیں ہوتی کہ دن کے عمل وہاں پہنچ جاتے ہیں، اب جو نیک عمل اور اچھا ہوتا ہے اسے قبولیت کے شرف سے نواز کر اس پر جزاء و انعام کا پروانہ صادر کر دیا جاتا ہے اور اس پر عذاب و سزا کا حکم دے دیا جاتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ (یعنی اس کا خزانہ) بھرا ہوا ہے ، دن اور رات ہر وقت خرچ کرنا بھی اس میں کمی پیدا نہیں کرتا، کیا تم نہیں دیکھتے؟ کہ جب سے کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور جب کہ اس کا عرش(بھی) پانی پر تھا، کتنا خرچ کیا ہے ، لیکن (اتنا زیادہ) خرچ کرنے کے باوجود جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے (یعنی اس کا خزانہ) اس میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں ترازو ہے جسے وہ بلند و پست کرتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی روایت ہے اللہ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ اور ابن نمیر کی روایت میں ہے (اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا، اور ہمیشہ دینے والا ہے ، رات اور دن خرچ کرنے کے باوجود) اس میں کوئی چیز کمی نہیں کرتی۔

 

تشریح

 

ابن نمیر حضرت امام مسلم کے استاد ہیں، ان کی سند سے جو حدیث ہے اس میں بجائے ملای کے ملان کا لفظ ہے اور ان الفاظ میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے ویسے ازروئے لغت ملای ہی صحیح ہے اور یہی الفاظ مناسب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں پوچھا گیا (کہ مرنے کے بعد دوزخ میں جائیں گے یا جنت میں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے (اگر زندہ رہتے تو وہ کیا عمل کرتے)۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یعنی یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اگر وہ اس صغر سنی کی حالت میں نہ مرتے اور زندہ رہتے تو بڑے ہو کر کیا عمل کرتے ، لہٰذا اب ان کے ساتھ جو معاملہ ہو گا اسی کے مطابق ہو گا اور یہ کہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ آیا وہ جنت میں جاتے ہیں یا دوزخ میں، وہاں کی حالت کسی بندہ کو کیا معلوم!۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اس وقت فرمایا ہو گا جب کہ ابھی تک مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں وحی کے ذریعہ کچھ معلوم نہیں ہوا تھا۔

اس مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں لیکن صحیح اور اولیٰ یہی ہے کہ اس بارہ میں توقف کرنا چاہیے یعنی نہ تو ان کو دوزخی کہا جائے اور نہ جنتی۔

 

 

٭٭حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم تھا، پھر اس (قلم) کو لکھنے کا حکم دیا۔ قلم نے کہا،  الہٰ العالمین! کیا لکھوں  بارگاہ الوہیت سے جواب ملا  تقدیر لکھو! لہٰذا اس قلم نے ان چیزوں کو لکھا جو (اب تک) ہو چکی ہیں اور ان چیزوں کو لکھا جو آئندہ ہونے والی ہیں۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے غریب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت مسلم بن یسار راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اس آیت (وَاِذْاَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بنی آدم من ظہورھم ذریتھم؟ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْ ایَوْاَم الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِیْنَ۔ (الاعراف ١٧٢) ترجمہ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کا نکالا اور (سب کچھ سمجھ عطا کر کے) ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں! ہم سب (اس واقعہ کے) گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس (توحید سے محض بے خبر تھے) کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب اس آیت کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا کہ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا پھر ان کی پیٹھ پر داہنا ہاتھ پھیرا اور اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا کہ میں نے ان کو جنت کے لیے اور جنت والوں کے سے اعمال کرنے کے لیے جو وہ کریں گے پیدا کیا ہے۔ پھر اپنا ہاتھ آدم کی پشت پر پھیرا اور اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا کہ میں نے ان کو دوزخ کے لیے اور دوزخیوں کے سے کام کرنے کے لیے جو وہ کریں گے پیدا کیا ہے۔ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا  یا رسول اللہ ! پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنت والوں ہی کے سے عمل کراتا ہے یہاں تک کہ اس (بندہ) کی وفات جنت والوں جیسے اعمال پر ہو جاتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کی بنا پر اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے اور جب کسی بندہ کو دوزخ کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے دوزخیوں کے سے اعمال صادر کراتا ہے یہاں تک کہ وہ اہل دوزخ جیسے اعمال پر مر جاتا ہے لہٰذا اسے ان اعمال کی بناء پر دوزخ میں ڈال دیتا ہے۔ (مؤطا مالک،جامع ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

یہ عہد میثاق عالم ارواح میں ہوا تھا جیسا کہ دیگر احادیث میں آتا ہے کہ رب قدوس نے تمام روحوں کو جو ازل سے لے کر ابد تک دنیا میں آنے والی تھیں ننھی ننھی چیونٹیوں کی شکل میں جمع کیا اور پھر ان کو عقل و دانائی بھی عنایت فرمائی اور اپنی ربوبیت و الوہیت کا سب سے اقرار کرایا۔

اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ ازل سے ابد تک دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوں گے سب کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی تھی مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی ان کی پشت سے ان کی اولاد اسی طرح قیامت تک جتنے انسان پیدا کئے جائیں گے سب کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی۔

داہنے ہاتھ کے پھیرنے کے معنی یہ ہیں کہ خداوند قدوس نے فرشتہ کو داہنا ہاتھ پھیرنے کا حکم دیا تھا ورنہ اللہ تعالیٰ کی نورانی ذات ہاتھ پیر کی ظاہری ثقالت سے پاک و صاف ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ اس سے اپنی قوت و قدرت کا اظہار مقصود ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں اور (صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے) فرمایا جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا معلوم آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی بتا دیجئے (یہ کتابیں کیا ہیں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کتاب کے بارہ میں فرمایا جو داہنے ہاتھ میں تھی کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے جس میں اہل جنت ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہوئے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کر دی گئی ہے لہٰذا اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی ، اس کے بعد بائیں ہاتھ والی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک ایسی کتاب ہے جس پر اہل دوزخ ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کر دی گئی ہے۔ لہٰذا اب نہ تو اس میں کمی ہوتی ہے اور نہ زیادتی۔ یہ (سن کر) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگرچہ یہ چیز پہلے سے ہی طے ہو چکی ہے (کہ جنت و دوزخ کا مدار نوشتہ تقدیر پر ہے تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (دین و شریعت کے مطابق اپنے اعمال کو) اچھی طرح مضبوط کرو اور (حق تعالیٰ کا) تقرب حاصل کرو۔ اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ اہل جنت کے اعمال پر ہوتا ہے خواہ (زندگی میں) اس نے کیسے ہی (نیک یا بد) عمل کئے ہوں اور دوزخمی کا خاتمہ اہل دوزخ کے عمل پر ہوتا ہے خواہ اس کے اعمال جیسے بندوں کے بارے میں یہ پہلے سے طے کر چکا ہے کہ ایک جماعت جنتی ہے اور ایک جماعت دوزخی ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

کتابوں کو پیچھے ڈال دینا اہانت کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس طرف اشارہ مقصود تھا کہ بارگاہ الوہیت سے اس معاملہ میں کہ دوزخی و جنتی کون کون لوگ ہیں ازل ہی میں حکم ہو چکا ہے اور جو نوشتہ تقدیر بن چکا ہے۔

ظاہری طور پر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک میں واقعی کتابیں تھیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو دکھلا بھی دیا تھا۔ لیکن ان کے اندر جو مضمون لکھے ہوتے تھے وہ نہیں دکھلائے تھے ، لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حقیقت میں کتابیں نہیں تھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مثال کے طور پر اس انداز سے فرمایا تاکہ یہ مسئلہ صحابہ کے ذہن نشین ہو جائے۔

 

 

 

٭٭اور ابی خزامہ (ابی خزامہ تابعی ہیں ان کے والد کا نام عمیر ہے جو صحابی ہیں اور جن سے ابو خزامہ روایت کرتے ہیں ابی خزامہ سے زہری روایت کرتے ہیں۔) اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ عملیات جن کو ہم (شفاء کے لیے) پڑھواتے ہیں اور وہ دوائیں جن کو ہم (حصول صحت کے لیے) استعمال کرتے ہیں اور وہ ہر چیزیں جن سے ہم حفاظت حاصل کرتے ہیں (مثلاً ڈھال اور زرہ وغیرہ ان کے بارے میں مجھے بتائیے کہ کیا یہ سب چیزیں نوشتہ تقدیر میں کچھ اثر انداز ہو جاتی ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ یہ چیزیں بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہیں)۔  (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بیماری وغیرہ امر مقدر ہیں، اسی طرح ان کا علاج اور ان سے حفاظت کے اسباب بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہوتے ہیں یعنی جس طرح کسی آدمی کے مقدر میں کوئی بیماری لکھ دی گئی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نوشتہ تقدیر بن چکا ہے کہ یہ بیمار فلاں وقت میں اپنی بیماری کا علاج کرے گا اور یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ اس علاج و معالجہ سے اسے فائدہ ہو گا یا نہیں، اگر فائدہ ہونا لکھا ہے تو فائدہ ہو جائے گا اور فائدہ ہونا نہیں لکھا ہے تو نہیں ہو گا، اس لیے اگر کسی بیمار نے اپنی بیماری کا علاج کیا اور اسے فائدہ نہیں ہوا تو اسے سمجھنا چاہیے کہ تقدیر میں شفا نہیں لکھی تھی ! لہٰذا معلوم ہوا کہ بیماری میں علاج کرنا، یا اپنی حفاظت کے لیے خارجی اسباب کا سہارا لینا نوشتہ تقدیر کے خلاف نہیں ہے۔

تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کا مسئلہ یہ ہے کہ تعویذ گناہ ہے اگر قرآن کی آیتوں اور احادیث کی دعاؤں کے مطابق ہوں یا جھاڑنا، پھونکنا اور دم کرنا اگر اسماء و صفات الہٰی اور قرآن و حدیث کے مطابق ہو۔ نیز ان کو موثر حقیقی سمجھنے کا عقیدہ بھی نہ ہو یعنی یہ یقین نہ رکھتا ہو کہ ان چیزوں سے یقیناً فائدہ ہو گا خواہ مرضی الہٰی ہو یا نہ ہو بلکہ یہ عقیدہ ہو کہ شفا و صحت کا عطا کرنے والا تو اللہ ہے یہ صرف اسباب و تبرک کے درجہ میں ہیں تو ایسی شکل میں یہ چیزیں جائز ہوں گی، اگر اس کے برخلاف ہو کہ جھاڑنا پھونکنا اور تعویذ گنڈے غیر شرعی ہوں یعنی اس میں غیر اللہ کی مدد لی جاتی ہو تو یہ حرام ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) ہم قضا و قدر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے (ہمیں اس مسئلہ میں الجھا ہوا دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ انور غصہ کی وجہ سے سرخ ہو گا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انار کے دانے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رخسار مبارک پر نچوڑ دیئے گئے ہیں (اسی حالت میں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہیں اس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میں اسے لیے تمہارے پاس (رسول بنا کر بھیجا) گیا ہوں؟ جان لو! تم سے پہلے کے لوگ اس لئے ہلاکت کی وادی میں پھینک دئیے گئے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں الجھنا اپنا مشغلہ بنا لیا تھا لہٰذا میں تمہیں بات کی قسم دیتا ہوں (اور پھر دو بار) قسم دیتا ہوں کہ تم اس مسئلہ پر بحث نہ کیا کرو (جامع ترمذی) اور ابن ماجہ نے اسی طرح کی روایت عمر و بن شعیب سے نقل کی ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے۔

 

تشریح

 

صحابہ آپس میں تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے بعض صحابہ تو یہ کہہ رہے تھے کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر ثواب و عذاب کا ترتب کیوں ہوتا ہے؟ جیسا کہ معتزلہ کا مذہب ہے اور کچھ حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ اس میں اللہ کی کیا مصلحت و حکمت ہے کہ بعض انسانوں کو تو جنت کے لیے پیدا کیا اور بعض انسانوں کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے؟ کچھ صحابہ نے اس کا جواب دیا کہ یہ اس لیے ہے کہ انسانوں کو کچھ اختیارات بھی اعمال کے کرنے اور نہ کرے کا دے دیا ہے ، کچھ نے کہا یہ اختیار کس نے دیا؟

بہر حال اس قسم کی گفتگو ہو رہی تھی اور اپنی عقل و دانش کے بل بوتہ پر اللہ کے اس رازو مصلحت کے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان کو اس بحث مباحثہ میں مشغول پایا تو غصہ و غضب سے چہرہ مقدس سرخ ہو گیا اس لیے صحابہ کو بتلا دیا گیا کہ یہ تقدیر کا مسئلہ اللہ کا ایک راز و بھید ہے جو کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے لہٰذا اس میں اپنی عقل لڑانا اور غور و تحقیق گمراہی کی راہ اختیار کرنا ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں اس لیے دنیا میں نہیں بھیجا گیا ہوں کہ تقدیر کے بارہ میں بتاؤں اور تم اس میں بحث و مباحثہ کرو، میری بعثت کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ و تعالیٰ کے احکام تم لوگوں تک پہنچا دوں اور اطاعت فرمانبرداری کی راہ پر تمہیں لگاؤں۔ دین و شریعت کے فرائض و اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں، لہٰذا ایک سچے و مخلص ہونے کے ناطے پر صرف اتنا ہی فرض ہے کہ تم ان احکام فرائض پر عمل کرو اور جن اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں اس کی بجا آوری میں لگے رہو، تم اس تقدیر کے مسئلہ میں مت پڑو پس اتنا ہی اعتقاد تمہارے لیے کافی ہے کہ یہ اللہ کا ایک راز ہے جس کی حقیقت و مصلحت وہی جانتا ہے ، اس کو اسی کی مرضی پر چھوڑ دو۔

آخر حدیث میں صاحب مشکوۃ نے ابن ماجہ کی اسی طرح کی روایت کردہ حدیث کی سند کا ذکر کیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث شعیب نے اپنے دادا سے نقل کی ہے جو عبداللہ بن عمرو بن العاص ہیں اور شعیب سے ان کے صاحبزادے عمرو روایت کرتے ہیں اس طرح عن ابیہ کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہو گی اور  عن جدہ کی ضمیر شعیب کی طرف راجع ہو گی اس لیے کہ عمر اپنے دادا سے روایت نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے دادا محمد بن عبداللہ سے وہ روایت منقول نہیں ہے ، یہ سلسلہ نسب اس طرح ہے عمر بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص۔

اس کی فائدہ اس لیے یہاں ضروری ہے کہ دوسری احادیث میں اس طرح کی عبارات میں عن جدہ کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہوتی ہے لیکن یہاں سے اس کے برخلاف ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوموسیٰ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ایک مٹھی (مٹی) سے کی جو ہر جگہ کی زمین سے لی گئی تھی لہٰذا آدم کی اولاد (انہیں) زمین کے موافق پیدا ہوئی چنانچہ (انسانوں میں) بعض سرخ، بعض سفید، بعض کالے ، بعض درمیانہ رنگ کے ، بعض نرم مزاج، بعض تند مزاج بعض پاک اور بعض ناپاک ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

حضرت آدم کی تخلیق کے وقت ایک فرشتہ حضرت عزرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک مٹھی بھر کے مٹی لے آئیں چنانچہ وہ تمام روئے زمین سے ہر خطہ و ہر جگہ کی تھوڑی مٹی اپنی مٹھی میں بھر لائے اسی سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی اسی لیے آدم کی اولاد میں مختلف رنگ و نسل اور مختلف طبائع کے انسان پیدا ہوتے ہیں کوئی کالا ہوتا ہے تو کوئی گورا اور کسی کا رنگ گندمی ہوتا ہے اسی طرح کچھ انسان اپنی طبیعت و مزاج کے اعتبار سے نرم خو، خوش اخلاق اور میٹھی زبان کے ہوتے ہیں کچھ لوگوں کی طبیعت سخت و تیز اور غیر معتدل ہوتی ہے ، بعض انسان فطرتاً پاک و صاف ہوتے ہیں اور بعض گندگی و نجاست سے ملوث رہتے ہیں اور یہ فرق و اختلاف اسی بنیادی مادہ کی وجہ سے ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی تھی۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق (جن و انس) کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر ان پر اپنے نور کا پرتو ڈالا، لہٰذا جس کو اس نور کی روشنی میسر آ گئی وہ راہ راست پر لگ گیا اور جو اس کی مقدس شعاعوں سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہا، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ تقدیر الہٰی پر قلم خشک ہو چکا ہے (کہ اب تقدیر میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔  (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی)

 

 

تشریح

 

اندھیرے سے مراد نفس امارہ کی ظلمت ہے کہ انسان کی جبلت میں خواہشات نفسانی اور غفلت کا مادہ رکھا تھا لہٰذا جس کا قلب و دماغ ایمان و احسان کی روشنی سے منور ہو گیا اور اس نے طاعت الہٰی سے اللہ کی ذات کا عرفان حاصل کر لیا تو وہ نفس امارہ کے مکر و فریب اور اس کی ظلمت سے نکل کر اللہ پرستی و نیکو کاری کے لالہ زار میں آگیا اور جو اپنے نفس کے مکر و فریب میں پھنس کر طاعت الہٰی کے نور سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا۔

 

ﷲﷲ اور حضرت انس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اکثر بیشتر بطور دعا کے یہ فرمایا کرتے تھے۔ اے قلوب کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ! میں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے لائے ہوئے دین و شریعت پر بھی ایمان لائے تو کیا اب بھی ہمارے بارہ میں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) ڈرتے ہیں (کہ کہیں ہم گمراہ نہ ہو جائیں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک قلوب اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں (یعنی اس کے تصرف و اختیار میں ہیں اور جس وہ طرح چاہتا ہے ان کو گردش میں لاتا رہتا ہے)۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

فائدہ

حضرت انس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو بالک معصوم اور محفوظ ہیں۔ نعوذ باللہ کسی گمراہی کا شائبہ نہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر نہیں آ سکتا ظاہر ہے کہ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے لیے ہی کرتے ہوں گے کہ کہیں ہم دنیا کے چمک دمک میں پھنس کر اپنے دین و ایمان سے گمراہ نہ ہو جائیں تو کیا ایسی شکل میں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کی صداقت کا اعتقاد رکھتے ہیں، نیز ہمارے قلوب ایمان و ایقان کی حقیقی کیفیت سے سرشار ہیں ہمارے گمراہ ہونے کا کیا خدشہ ہو سکتا ہے اس پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ قلوب کے رخ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیرتا رہتا ہے ، نہ معلوم کس کے قلب کا رخ گمراہی کی طرف کب ہو جائے اس لیے دعا مانگی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دل کو ہمیشہ سلامتی کی راہ پر لگائے رہے اور گمراہی کی طرف نہ مڑنے دے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، دل کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پرَ کسی میدان میں پڑا ہو اور ہوائیں اس کی پیٹھ سے پیٹ اور پیٹ سے پیٹھ کی طرف پھرتی رہتی ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

اسی طرح دلوں کا حال ہے کہ کبھی وہ برائی سے بھلائی کی طرف رخ کر لیتے ہیں اور کبھی بھلائی سے برائی کے راستہ پر جا لگتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ چار چیزوں پر ایمان نہ لائے۔ (١) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (٢) اور میں بلاشبہ اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور حق (دین اسلام) لے کر اس دنیا میں آیا ہوں۔ (٣) موت اور مرنے کے بعد (میدان حشر میں) اٹھنے پر ایمان لانا۔ (٤) اور تقدیر پر ایمان لانا۔  (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

موت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو یقینی جانے کہ اس دنیا کی تمام زندگی عارضی اور فانی ہے جو اپنے وقت پر ختم ہو جائے گی۔ اور اس دنیا میں جو کچھ ہے سب ایک دن فنا کے گھاٹ اتر جائے گا یا اس سے یہ مراد ہے کہ اس بات پر صدق دل سے یقین و اعتقاد رکھا جائے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ خداوند کے حکم سے آتی ہے کوئی بیماری، حادثہ یا تکلیف موت کا حقیقی سبب نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں بادی النظر میں ظاہری اسباب ہوتے ہیں کسی انسان کی زندگی اور موت کلیۃً اللہ کے ہاتھ میں ہے جب تک اس کا حکم ہوتا ہے زندگی رہتی ہے اور جب وہ چاہتا ہے موت بھیج کر زندگی ختم کر دیتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میری امت میں دو فرقے ایسے ہیں جن کو اسلام کا کچھ بھی حصہ نصیب نہیں ہے اور وہ مرجیہ و قدریہ ہیں، جامع ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

اسلام میں ایک گروہ مرجیہ کے نام سے مشہور ہے ، یہ فرقہ اعمال کے سلسلہ میں اسباب کا قائل نہیں ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ کسی عمل اور فعل کی نسبت بندہ کی جانب ایسی ہی ہے جیسے کسی فعل کی نسبت جمادات کی طرف کر دی جائے یعنی جس طرح ایک لکڑی پتھر، روڑہ ہے کہ اس کو جس طرف پھینک دیجئے یا جدھر کو لڑھکا دیجئے وہ لڑھکتا چلا جائے گا اس کو اپنے پھینکے جانے اور لڑھکائے جانے میں کوئی دخل و اختیار نہیں ہے ، بلکہ وہ پھینکنے والے اور لڑھکانے والے کے قبضہ و قدرت میں ہے ، اسی طرح ایک بندہ ہے کہ اس کو اپنے کسی عمل اور فعل میں کوئی دخل اور اختیار نہیں ہے بلکہ وہ محض اور بے اختیار ہے ، قدرت اس سے جیسے عمل صادر کراتی ہے وہ کرتا ہے وہ نہ کسی عمل کے از خود کرنے پر قادر ہے اور نہ کسی عمل سے باز رہنا اس کے اختیار میں ہے۔

اس کے مد مقابل ایک دوسرا فرقہ  قدریہ ہے جو سرے سے تقدیر ہی کا منکر ہے ، اس جماعت کا مسلک یہ ہے کہ بندہ کے اعمال میں تقدیر الہٰی کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ بندہ خود اپنے اعمال کا خالق اور اپنے افعال میں مختار و قادر ہے۔ وہ جو کچھ عمل کرتا ہے اپنی قدرت و اختیار کی بنا پر کرتا ہے۔ یہی مسلک  معتزلہ اور  روافض  کا بھی ہے

یہ دونوں فرقے اسلامی نقطہ نظر سے اپنے اپنے مسلک میں راہ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں اس لیے کہ اگر مرجیہ کے اعتقادات کو مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جب بندہ سے اختیار و قدرت اور ارادہ و مشیت کی نفی کر کے اسے اینٹ پتھر اور لکڑی اور غیر ذی ارادہ مخلوق کی طرح مان لیا گیا اور بندہ کے ہر فعل میں اختیار و قدرت کلیۃً اللہ کا مانا گیا یا صاف لفظوں میں یہ کہا جائے کہ گویا صفات خالق کو سامنے رکھ کر صفات عبد سے انکار کر دیا گیا تو قدرتی طور پر یہ بات ماننی پڑے گی کہ بندہ سے سرزد شدہ افعال خود بندہ کے نہیں کہلائے جائیں گے بلکہ ان کو اللہ کے افعال کہا جائے گا خواہ وہ فعل کسی قسم کا ہو اور کسی بھی عضو سے صادر ہوا ہو لہٰذا جب بندہ دیکھے گا تو کہا جائے گا کہ وہ نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ خدا دیکھ رہا ہے جب بندہ کھائے گا تو ماننا پڑے گا کہ وہ نہیں کھا رہا ہے ، بندہ جب سنے گا تو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ نہیں سن رہا ہے بلکہ اللہ سن رہا ہے ، بندہ جب سوئے گا تو یہی کہا جائے گا کہ وہ نہیں سو رہا ہے بلکہ اللہ سو رہا ہے تو گویا بندہ سے کوئی فعل بھی جب سرزد ہو گا تو یہی کہنا ہو گا کہ وہ اس بندہ سے نہیں بلکہ درحقیقت اللہ سے سرزد ہو رہا ہے۔ اور چونکہ یہ سب وجود کے آثار ہیں جن سے غافل کے موجود ہونے کا پتہ چلتا ہے تو خلاصہ یہ نکلے گا کہ بندہ اگرچہ موجود ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے ، بلکہ وہ خالق اور افعال کے درمیان ایک ایسا ذریعہ ہے جو ان افعال کے اظہار کے لیے واسطہ بن رہا ہے بلکہ موجود تو صرف اللہ کی ذات ہے ورنہ تمام کا تمام کالعدم ہے۔

لہٰذا یہ ساری حجت وحدۃالوجود اور کثرت موجودات کی نفی پر آ کر ختم ہو جائے گی جس کو بعض جاہل صوفیاء کی اصطلاح میں  ہمہ اوست فرماتے ہیں جسکا حاصل کثرت موجودات اور اعیان ثابت کا برملا انکار اور ساری کثرتوں کو ایک فرضی اور وقتی کارخانہ تصور کر لینا نکل آتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ گویا اس کائنات میں ہر چیز موجود ہو کر بھی کالعدم اور معدوم ہی ہے ، موجود صرف ذات واحد ہی ہے اور کوئی نہیں اس کا نتیجہ اصطلاحی الفاظ میں یہ ہے کہ دائرہ وجود کی صرف ایک ہی نوع رہ جائے جسے واجب الوجود فرماتے ہیں اور ممکن الوجود کو کوئی نشان و پتہ ہی نہ رہے بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے معدوم محض ہو کر رہ جائے۔

اب ظاہر ہے کہ ایجاد خداوندی یا فیضان وجود جسے تخلیق فرماتے ہیں ممکن ہی پر ہو سکتا ہے اس لیے کہ اسی میں قبول وجود کی صلاحیت ہے لیکن چونکہ وہ معنی معدوم محض ہو گیا ہے جس پر آثار وجود اور آثار زندگی ظاہر نہیں ہو سکتے ، تو اب ایجاد کس پر واقع ہو اور تخلیق کس چیز کی عمل میں آئے؟ نیز ایجاد کے بعد ابقاء خداوندی یعنی تدبیر و تصرف اور ربوبیت وغیرہ ایسی وہ تمام صفات حق جن کا تعلق مخلوق سے تھا کس پر واقع ہوں گی؟ اور کہاں اپنی تجلیات دکھلائیں گی؟ جب کہ ذات خداوندی کے سوا کسی غیر کا پتہ نہیں کہ وہ ان صفات کا مورد و مظہر بن سکے ، لہٰذا اس شکل میں مانند پڑے گا کہ ایجاد و ابقاء کی تمام صفات معاذ اللہ معطل و بیکار ثابت ہو گئیں ہیں اور تعطل اگر عدم نہیں تو کالعدم ضرور ہے ، یا بالفاظ دیگر افعال باری کا عدم ہے جو انتہائی نقص ہے۔

اور جب کہ یہ تمام فعلی کمالات صفات وجود کے آثار تھے جو ذات حق سے منتفی ہو گئے تو بلا شبہ اللہ کا وجود ان کی نفی سے ناقص ٹھہرا اور اللہ کی بے عیب ذات کتنے ہی کمالات مثلاً ظہور صفات اور افعال سے کوری رہ گئی جن پر معبودیت کا کارخانہ قائم تھا اور ظاہر ہے کہ نقص صفات اور نقص افعال کے ساتھ خدائی جمع نہیں ہو سکتی، تو ایسی ناقص ذات کو اللہ نہیں کہہ سکتے ، نتیجہ یہ نکلا کہ نہ خالق رہا اور نہ مخلوق رہی۔

غور کیجئے کہ مرجیہ کے نظریات نے بندہ کو مجبور محض اور بے اختیار تصور کیا اور اس کے تمام افعال و اعمال کی ذمہ داری تقدیر الہٰی کے سر ڈال دی ، نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بندہ کے اختیار و قدرت کا انکار کیا تھا تو انجام کار اللہ کی صفات افعال ایجاد ، ترزیق اور قیومیت و تدبیر وغیرہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اب ذرا  قدریہ کے مسلک کی تنقیح بھی کر لیجئے اس جماعت نے مرجیہ کا رد عمل کرتے ہوئے اس سلسلہ میں محض صفات عہد کو سامنے رکھا، اور صفات معبود سے صرف نظر کر لیا، یعنی بندہ کے اختیارات و قدرت ، ارادہ مشیت اور فعل اور عمل کو اس درجہ میں مستقل اور آزاد بتلایا کہ اس میں اللہ کے ارادہ قدرت اور اختیار و فعل کو دخل ہی نہیں حتی کہ بعض غالی قدریہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ کو بندہ کے افعال کا علم بھی اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اسے کر لیتا ہے ، گویا بندہ کے استعمال اختیار کی حد تک نہ اللہ میں ارادہ ہے ، نہ قدرت کو اختیار ہے نہ مشیت ، حتی کہ نہ سابق علم نہ خبر۔

لہٰذا مرجیہ نے تو تقدیر سے مثلاً صفات خالق ارادہ ، علم، قدرت، اختیار وغیرہ کو اللہ سے وابستہ کر کے بندے کو ان سے کورا مان لیا اور قدریہ نے ان صفات کو بندہ سے مستقلاً وابستہ کر کے اللہ کو ان سے خالی مان لیا۔

غور کیجئے ! اس لیے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ بندہ منٹ بھر میں سینکڑوں اچھے برے افعال اور حرکات و سکنات مختلف اندازوں سے کر گزرتا ہے جس کے عمر بھر کے افعال و حرکات کی گنتی ناممکن ہے ، پھر انسانی تصرفات کی حدود اسی عالم تک نہیں ہیں، اس لیے کہ بعض ایسے متعدی افعال بھی ہیں جن میں انسان دوسری اشیاء کائنات کو مفعول بناتا ہے ظاہر ہے ان اشیاء عالم میں جو اس کے تسخیر و تصرف میں آتی ہیں، زمین سے لے کر آسمان تک ساری ہی مخلوقات داخل ہیں۔

لہٰذا سارے انسانوں کے یہ تمام افعال جو سارے ہی عالموں میں پھیلے ہوئے ہیں اور بقول قدریہ یہ انسانوں کی ایسی مخلوقات ہیں جن کی ایجاد و تخلیق میں اللہ کا دخل تو کیا ہوتا ان پر اس کا نہ زور چل سکتا ہے اور نہ ہی اسے ان کی پیدائش سے پہلے ان کا علم ہی ہوتا ہے گویا انسان جو خود اپنی تخلیق میں بے بس ہے اسے تو ان کی تخلیق کا ارادہ کرتے وقت علم ہو جاتا ہے کہ اسے کیا اور کب پیدا کرنا ہے ، مگر نعوذ باللہ اللہ اتنا بے خبر اور لا علم کہ اسے یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ کون سی چیز کب پیدا ہوئی اور کون سا فعل کب صادر ہوا۔

اس صورت میں یقیناً انسان کی تخلیق کا شمار اللہ کی مخلوقات کے شمار سے بڑھ جائے گا، اس لیے کہ اللہ تو انسان کا خالق ہے اور انسان تمام افعال و اشیاء کا خالق ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کی نسبت سے ان کا افعال بلا شبہ کروڑوں گنا زیادہ ہیں، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ انسانی مخلوقات اللہ کی مخلوقات سے زیادہ نہیں نہ ہو جائے اور پھر مخلوقات بھی ایسی کہ خدائی سرحد سے بالکل خارج جس پر اس کو کوئی بس نہ ہو بلکہ علم قدیم بھی نہ ہو پس اس معاملہ میں کہنا پڑے گا کہ اللہ تو بے بس ہو گیا اور انسان مختار کل ہو گیا، بندہ تو خدائی حدود میں آگیا اور اللہ بندوں کی صف میں جابیٹھا، یعنی بندہ کا زور تو اللہ کی خدائی پر چل گیا کہ اس نے افعال و اشیاء کی تخلیقات کر ڈالیں اور اللہ کا بس اپنی خدائی پر بھی نہ رہا کہ اس ان مخلوقات کے وجود میں آنے کا علم بھی نہ ہو سکا اور اس مقام پر آکر اس کا ارادہ، قدرت، مشیت اور اختیار وغیرہ سب بے کار اور معطل ہو کر رہ گئے۔ (ماخوذ از مسئلہ تقدیر مصنفہ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب مدظلہ)

یہ ہے ان دونوں فرقوں کے مسلک کی حقیقت اور اس کا انجام ظاہر ہے کہ یہ دونوں نظریے اپنی اپنی جگہ اسلامی نقطہ نظر سے نہ صرف یہ کہ حد اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں بلکہ گمراہی کی طرف بڑھے ہوئے بھی ہیں جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور خسران آخرت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

ان دونوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک بالکل صاف اور صحیح ہے علماء حق فرماتے ہیں کہ تمام افعال و اعمال کا خالق رب قدوس ہے اور کا سب بندہ ہے یعنی دنیا میں جتنی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں یا ہونے والی ہیں وہ سب اللہ کے حکم اور اس کے ارادہ و علم سے ہوتی ہیں، اسی طرح بندوں سے جو کچھ افعال سرزد ہوتے ہیں خواہ وہ افعال نیک ہوں یا افعال بد سب نوشتہ تقدیر کے مطابق دونوں راستے واضح کر دیئے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ اگر نیکی و بھلائی کے راستے کو اختیار کرو گے تو سعادت و نیک بختی سے نوازے جاؤ گے اور اگر کوئی برائی و بدی کے راستے کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار کئے جاؤ گے لہٰذا بندہ اسباب کسب کے اعتبار سے اپنے ہر عمل و فعل میں مختار ہے۔

گویا اہل سنت و الجماعت بندہ کو بیک وقت مختار بھی فرماتے ہیں اور مجبور بھی مگر درمیانی انداز سے کہ اسے نہ مختار مطلق جانتے ہیں نہ مجبور محض یعنی ایک طرف سے اسے مختار مان کر زنجیر تقدیر سے پا بستہ بھی فرماتے ہیں اور دوسری طرف اسے مجبور کہہ کر اینٹ و پتھر کی طرح بے حس بھی تسلیم نہیں کرتے۔

بہر حال اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فرقے یعنی مرجیہ اور قدریہ کافر ہیں لیکن حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تحقیق کے مطابق علماء کا قول مختار یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے کافر نہیں ہیں البتہ فاسق ہیں کیوں کہ یہ فرقے بھی قرآن و حدیث ہی سے تمسک کرتے ہیں اور اپنے نظریات میں تاویل و توضیح کر کے کفر کے دائرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کے بارہ میں کہا جائے گا کہ اس سے ان فرقوں کی زجر و ملامت مقصود ہے اور ان کے غلط عقائد کی گمراہی کو واضح کرنا ہے جس میں اس شدت و سختی کے ساتھ ان کے مذہب کا رد کیا جا رہا ہے۔ بعض حضرات اس حدیث کی صحت میں بھی کلام کیا ہے۔

حضرت شاہ اسحٰق کی تحقیق اس کے برخلاف ہے وہ فرماتے ہیں کہ علماء محققین ان فرقوں پر کفر کا حکم لگاتے ہیں اور ان کو خارج الاسلام مانتے ہیں لیکن اس میں اختلاف ہے کہ ان کا کفر آیا تاویلی ہے یا ارتدادی۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ، کہ میری امت میں (اللہ کے درد ناک عذاب) زمین میں دھنس جانا اور صورتوں کا مسخ ہو جانا بھی ہو گا اور یہ عذاب ان لوگوں پر ہو گا جو تقدیر کے منکر ہیں (ابوداؤد) امام جامع ترمذی نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

زمین میں دھنس جانا اور صورتوں کا مسخ ہو جانا اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت سخت عذاب ہیں جو اس امت سے پہلے دوسری امتوں پر ان کی سرکشی اور حد سے زیادہ نافرمانی کی بنا پر ہو چکے ہیں ، اس امت میں بھی آخر زمانہ میں اللہ سے تمرود سرکشی اور بغاوت و نافرمانی حد سے زیادہ بڑھ جائے گی تو ان فرقوں پر یہ عذاب ہو سکتا ہے۔

لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسخ و خسف جیسے درد ناک عذاب میری امت پر ہوئے تو ان دونوں فرقوں پر ہوں گے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، فرقہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں لہٰذا اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کے لیے نہ جاؤ اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازہ میں شریک مت ہونا۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث سے قدریہ کی صریح گمراہی اور ان کی ضلالت واضح ہے کہ ان کو اس امت کا مجوس قرار دیا گیا مجوس ایک آتش پرست قوم ہے جو دو اللہ مانتی ہے ایک وہ اللہ جو نیکی و بھلائی کا پیدا کرنے والا ہے ، اس کو یزداں کہتے یں۔ دوسرا وہ اللہ جو برائی و بدی کا پیدا کرنے والا ہے ، اس کو اہرمن یعنی شیطان فرماتے ہیں۔

لہٰذا جس طرح مجوسی تعداد الٰہ کے قائل ہیں اسی طرح قدریہ بھی بے انتہا خالقوں کے قائل ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک ہر بندہ اپنے افعال کا خالق ہے اسی طرح جتنے بندے ہوں گے اتنے بھی خالق ہی ہوں گے ، نیز جس طرح قدریہ خالق خیر الگ اور خالق شر الگ مانتے ہیں اسی طرح قدریہ بھی فرماتے ہیں کہ خیر و بھلائی کا پیدا کرنے والا تو اللہ ہے اور شر و برائی کا پیدا کرنے والا شیطان اور انسانی نفس ہے۔

حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اس فرقہ سے کلیۃً اجتناب کرنا ضروری ہے اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت کے لیے نہیں جانا چاہیے اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا چاہیے گویا غمی خوشی کسی موقع پر بھی ان کے ساتھ نہ رہنا چاہیے اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا معاشرتی میل جول رکھنا جائز ہے۔

چنانچہ وہ حضرات جو اس جماعت کو کافروں کے زمرہ میں داخل کرتے ہیں اس حدیث کو اپنے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں یعنی مسلمانوں کو ان کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع کرتے ہیں۔

اور جو حضرات ان کو کافر نہیں بلکہ فاسق فرماتے ہیں وہ اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصد اس جماعت کی گمراہی و ضلالت کو بیان کرنا اور ان کی زجر و ملامت میں شدت کا اظہار کرنا ہے۔

لیکن حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی فرماتے ہیں کہ محققین کا قول یہی ہے کہ نہ تو ان کی عیادت میں جائے اور نہ ان کے جنازہ میں شریک ہوا اور جہاں تک ہو سکے ان سے قطع تعلق رکھے۔

 

 

٭٭حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ قدریہ کی ہم نشینی اختیار نہ کرو اور نہ ان کو اپنا حکم (ثالث) بناؤ۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

قدریہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان سے مجالست کرنا اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کی مجلسوں میں شریک ہونے سے یہ ظاہر ہو گا کہ ان سے محبت و موانست ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ کسی گمراہ جماعت سے تعلق قائم کریں اور ان سے انس و محبت کا برتاؤ کریں۔

اس لیے کہ جب ان کے ساتھ رہنا سہنا ہو گا اور ان کی ہم نشینی اختیار کی جائے گی تو ان کے غلط نظریات اور گمراہ اعتقادات کا اثر ان پاس بیٹھنے والوں پر بھی ہو گا اور ان کی گمراہی اہل مجلس کی اعتقاد و اعمال پر بھی اثر انداز ہو گی۔ اور ہو سکتا ہے کوئی شیطانی مکر و فریب میں آکر ان کے اعتقادات کو تسلیم کرے ، اس لیے بنیادی طور پر ان کی مجالست و موانست سے بھی منع فرما دیا گیا ہے۔

اسی طرح حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کسی تنازعہ میں اہل قدر کو حاکم نہ بنائیں اور نہ ان کو اپنا ثالث مقرر کریں لاتفاتحوھم کے معنی بعض حضرات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ پہلے سلام کرو اور نہ از خود ان سے بات چیت شروع کرو۔ و اللہ اعلم۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ چھ آدمی ایسے ہیں جن پر میں لعنت بھیجتا ہوں اور اللہ نے بھی ان کو ملعون قرار دیا ہے اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (پہلا) کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا (دوسرا) تقدیر الہٰی کو جھٹلانے والا۔ (تیسرا) وہ آدمی جو زبردستی غلبہ پانے کی بنا پر ایسے آدمی کو معزز بنائے جس کو اللہ نے ذلیل کر رکھا ہو اور اس آدمی کو ذلیل کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے عزت و عظمت کی دولت سے نواز رکھا ہو۔ (چوتھا) وہ آدمی جو (حدود اللہ سے تجاوز کر کے اس چیز کو حلال جانے جسے اللہ نے حرام کیا ہو۔ (پانچواں) وہ جو میری اوالاد سے وہ چیز (قتل) حلال جانے جو اللہ نے حرام کی ہے۔ اور (چھٹا) وہ آدمی جو میری سنت کو چھوڑ دے۔ (بیہقی، رزین)

 

تشریح

 

حدیث میں جن اشخاص کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنے ان غلط عقائد اور گمراہ کن اعمال کی بنا پر شریعت کی نظر میں اتنے مجرم ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر لعنت فرمائی ہے اور نہ صرف یہ کہ دربار رسالت سے ان پر پھٹکار برسائی گئی ہے بلکہ وہ بارگاہ الوہیت سے بھی راندہ درگاہ کر دیئے گئے۔ چنانچہ کسی آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں پر لعنت کیوں بھیجتے ہیں؟ تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ جواب دیا کہ چونکہ خداوند قدوس نے ان کو اپنے اعمال کی بنا پر ملعون قرار دیا ہے اس لیے یہ اسی کے مستحق ہیں کہ رسول بھی ان کو ملعون قرار دے اور ظاہر ہے نبی کی لسان مقدس سے نکلی ہوئی ہر دعا اور ہر بد دعا باب قبولیت تک پہنچ کر رہتی ہے اس لیے جس پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم لعنت بھیجیں اس کی دنیا بھی برباد ہو گئی اور دین میں تباہ ہو جائے گا اسی طرف کل نبی یجاب کہہ کر اشارہ فرمایا گیا ہے۔

ویسے تو اس حدیث میں جس ترکیب کے اعتبار سے یہ جملہ معترضہ واقع ہو رہا ہے اور اس کے مقصد لعنت میں شدت ہے۔ پہلا آدمی جسے ملعون قرار دیا جا رہا ہے وہ قرآن میں زیادتی کرنے والا ہے ، خواہ وہ قرآن میں الفاظ کی زیادتی کرے یا قرآن کی آیتوں کے ایسے معنی بیان کرے جو کتاب اللہ کے مفہوم کے خلاف اور منشاء الہٰی کے برعکس ہوں۔

تیسرا آدمی وہ ہے جو زبردستی غلبہ حاصل کرے اور اپنی ظاہری شان و شوکت کے بل بوتہ پر ان لوگوں کو معزز کرے جو اللہ کی نظروں میں ذلیل ہیں اور ان لوگوں کو ذلیل کرے جو اللہ کے یہاں بڑا مرتبہ رکھتے ہیں اور اس تیسرے آدمی سے مراد ایسے بادشاہ اور ظالم حاکم ہیں جو اپنے اغراض و مقاصد کی بنا پر حکومت و دولت کے نشہ میں اللہ کے ان صالح و نیک بندوں اور مسلمانوں کو ذلیل خوار کرتے ہیں جو اللہ کے نزدیک بڑی عزت و عظمت کے مالک ہوتے ہیں اور ایسے کافروں، جاہلوں اور بدکار لوگوں کو عزیز رکھتے ہیں جو اللہ کی نظر میں سخت ذلیل ہوتے ہیں۔

چوتھا آدمی وہ ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے یعنی ان چیزوں کو حلال سمجھتا ہے جو اللہ کی جانب سے حرام کر دی گئی ہیں مثلاً بیت اللہ مکہ میں جن باتوں کو اللہ نے ممنوع قرار دیا ہے جیسے کسی جانور کا شکار کرنا، درخت وغیرہ کاٹنا، یا بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا، ان کو وہ حلال سمجھتا ہو، ایسے ہی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد کے بارہ میں جن چیزوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ان کو حرام کرتا ہو یعنی رسول اللہ صلی اللہ عنہ کی اولاد کی عزت و تعظیم کرنا ضروری ہے لیکن کوئی آدمی نہ کرنے کو جائز سمجھے یا ان کو تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا گیا ہے ان کو تکلیف پہنچانا حلال جانے تو اس پر بھی لعنت فرمائی گئی۔

یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی میری اولاد میں سے ہونے کے باوجود ان افعال کو حلال جان کر کرتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے اس طرح اس کا مقصد سیدوں کو تنبیہ کرنا ہے کہ یہ لوگ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد میں ہونے کے ناطے گناہ و معصیت سے بچتے رہیں، اس لیے کہ دوسری قوموں کے مقابلہ میں اس قوم کو گناہ و معصیت زیادہ برائی و تباہی کا باعث ہیں کیونکہ ان کا نسبی تعلق براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔

اسی طرح پانچواں ملعون وہ آدمی قرار دیا گیا ہے جو ان چیزوں کو حرام سمجھتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہو۔

چھٹا ملعون آدمی کو قرار دیا گیا ہے جو سنت نبوی کو ترک کرتا ہو۔

اس کا مسئلہ یہ ہے کہ جو آدمی سستی اور کسل کی بنا پر سنت کو ترک کرتا ہو وہ گناہ گار ہے اور جو آدمی سنت کو نعوذ باللہ ناقابل اعتناء سمجھ کر چھوڑتا ہو تو وہ کافر ہے لیکن اس لعنت میں دونوں شریک ہیں۔ مگر یہ کہا جائے گا کہ جو آدمی از راہ کسل و سستی سنت چھوڑتا ہے اس پر لعنت کرنا زجر و توبیخ کے لیے ہے اور جو آدمی ناقابل اعتناء سمجھ کر سنت کو ترک کرتا ہے اس پر حقیقۃً لعنت ہو گی ہاں اگر کوئی آدمی کسی وجہ سے کسی وقت سنت کو ترک کر دے تو اس پر گناہ نہیں ہو گا لیکن یہ بھی مناسب نہیں ہے۔

حضرت شاہ محمد اسحٰق دہلوی فرماتے ہیں کہ یہ وعید سنت موکدہ کے ترک کرنے پر ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت مطر بن عکامس (مطر ابن عکامس السلمی کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے ان سے صرف یہی ایک حدیث منقول ہے ، ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کی موت کو کسی زمین پر مقدر کر دیتا ہے تو اس زمین کی طرف اس کی حاجت کو بھی پورا کر دیتا ہے تاکہ وہاں جانے پر مجبور ہو اور وہاں جا کر موت کا شکار ہو۔ (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی)

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ (جنت و دوزخ کے سلسلہ میں) مسلمان بچوں کا کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے تابع ہیں یعنی وہ اپنے باپوں کے ساتھ جنت میں ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے ، میں نے پھر پوچھا اچھا مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ بھی اپنے باپوں کے تابع ہیں۔ میں نے (تعجب سے) پوچھا ، بغیر کسی عمل کے؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی بہتر جانتا ہے وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا منشاء ان مومنین اور مشرک بچوں کے بارہ میں معلوم کرنا تھا جو حالت کمسنی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے اور جن سے کوئی عمل خیر یا عمل بد صادر نہیں ہوا تھا۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کے بعد حضرت عائشہ کو تعجب ہوا کہ مسلمان بچے بغیر کسی عمل کے بہشت میں کس طرح داخل ہو جائیں گے تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے و اللہ اعلم بما کانواعاملین (یعنی اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے) کہہ کر قضا و قدر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ وہ جو کچھ عمل کرنے والے تھے وہ نوشتہ تقدیر میں محفوظ ہو چکا ہے ، گو اس وقت بالفعل ان سے عمل سرزد نہیں ہوئے ہیں لیکن جو کچھ عمل وہ زندگی کی حالت میں کرتے وہ اللہ کے علم میں ہوں گے اس لیے ان کے جنتی ہونے پر تعجب نہ کرو۔

مشرک بچوں کے بارے میں علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ یہاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنے باپوں کے تابع ہیں، آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور وہی جانتا ہے کہ وہاں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ ہو گا اس لیے ان کے بارہ میں کوئی حکم یقین کے ساتھ نہیں لگایا جا سکتا۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ زندہ بچہ کو گاڑنے والی (عورت) اور وہ جس کو گاڑا گیا دونوں دوزخ میں ہیں۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

زمانہ جاہلیت میں زندہ بچوں کو دفن کر دینے کا درد ناک طریقہ جاری تھا، خصوصاً لڑکی کو تو پیدا ہوتے ہی منوں مٹی کے نیچے اندوہ ناک طریقہ پر دبا دیا جاتا تھا جب اسلام کی مقدس روشنی نے ظلم و جہل کی تمام تاریکیوں کو دور کیا تو یہ غیر انسانی طریقہ بھی ختم کر دیا گیا، اس کے بارے میں یہ حدیث وعید ہے اور زندہ بچوں کو دفن کر دینے والوں کو دوزخی قرار دے رہی ہے۔

گاڑنے والی سے مراد وہ عورت ہے جس نے بچہ کو زمین میں دفن کیا مثلاً دائی یا نوکرانی وغیرہ اور موؤدہ، جس کو گاڑا گیا ، سے مراد وہ عورت ہے جس نے اسے جنا ہے یعنی اس بچہ کی ماں جس کے حکم سے اس کو زمین میں دفن کیا گیا ہو۔

یا اس سے مراد وہی بچی ہے جس کو گاڑ دیا گیا ہے کہ جس طرح اس کے والدین دوزخی ہیں اسی طرح جب وہ بھی کمسنی کی حالت میں اس دنیا سے ختم کر دی گئی تو اپنے باپ کی طرح دوزخی ہوئی جیسا کہ اس سے پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت کمسنی میں جو بچہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے وہ اپنے باپ کے تابع ہوتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابودرداء (آپ کا نام عویمر ہے لیکن اس میں بہت اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے اصل نام عامر بن مالک ہے اور عویمر لقب ہے لیکن یہ اپنی کنیت ابودرداء سے مشہور ہیں۔ حضرت عثمان کی شہادت سے دو سال قبل دمشق میں آپ کی وفات ہوئی ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر ایک بندے کے متعلق پانچ باتوں سے (تقدیر لکھ کر) فارغ ہو گیا۔ (١) اس کی موت (کہ کب آئے گی) (٢) اس کے (نیک و بد) اعمال۔ (٣) اس کے رہنے کی جگہ۔ (٤) اس کی واپسی کی جگہ۔ (٥) اس کا رزق۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

ہر انسان کی پیدائش سے بھی بہت پہلے ازل ہی میں اس کے مقدر میں پانچ چیزیں لکھ دی گئی ہیں جن میں اب نہ کمی بیشی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی تغیر و تبدل ممکن ہے چنانچہ ہر انسان کی تقدیر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس کی عمر کتنی ہے اور موت کب آئے گی اب جو وقت اور جو لمحہ موت کا لکھ دیا ہے اس میں ایک سیکنڈ اور ایک پل بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی، اسی طرح انسان کے نیک و بد اعمال بھی اس کی پیدائش سے پہلے ہی نوشتہ تقدیر ہو چکے ہوتے ہیں، کہ اس سے اعمال کیسے صادر ہوں گے ، جتنے نیک اعمال لکھ دئیے گئے ہیں وہ یقیناً صادر ہوں گے اور جتنے بد اعمال لکھ دیئے گئے ہیں وہ بھی اپنے وقت پر وقوع پذیر ہوں گے۔

ہر انسان کے قیام کی جگہ اور اس کے حرکات و سکنات کا مقام بھی پہلے سے متعین ہو چکا ہوتا ہے کہ کس زمین اور کس خطہ میں اس کا وجود و قیام ہو گا اور کس روئے زمین پر اس کی زندگی کے اعمال و افعال صادر ہوں گے ، انسان کا رزق بھی اس کی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی حصہ میں آتا ہے جس کے مقدر میں جتنا اور جس قسم کا رزق لکھ دیا گیا ہے وہ ضرور اس تک پہنچے گا اگر تھوڑا ہی رزق لکھا ہے تو کم ہی ملے گا اور زیادہ لکھ دیا گیا ہے تو زیادہ ملے گا اسی طرح کسی کے مقدر میں حلال رزق لکھا گیا ہے تو وہ حلال رزق ہی کھائے گا اور اگر حرام رزق لکھ دیا گیا ہے تو وہ حرام رزق کھائے گا۔ یا رزق سے مراد یہ ہے کہ بندہ کو اس کی زندگی میں جو کچھ منافع و آسانیاں اور راحت و آرام سے پہنچنے والے ہیں سب اس کی تقدیر میں پہلے ہی لکھ دیئے گئے ہیں۔

 

 

٭٭حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص تقدیر کے مسئلے میں بحث و مباحثہ کرے گا قیامت میں اس سے باز پرس ہو گی اور جو (شخص اس پر ایمان لاکر) خاموشی اختیار کرے گا وہ اس مواخذہ سے بچ جائے گا۔

 

تشریح

 

اس حدیث کا مقصد تقدیر کے مسئلہ میں غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے منع کرنا ہے کہ اللہ کے اس راز میں جو بندوں پر ظاہر نہ کرنا ہی مصلحت خداوندی ہے زیادہ بحث و مباحثہ کرنا یا اپنی عقل کی پیروی کرنا آخرت کے لیے کوئی کار آمد نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ میں کسی قسم کا غور و فکر یا تحقیق و تجسس خسران آخرت اور قیامت میں باز پرس کا باعث ہے اس لیے فلاح و سعادت اسی میں ہے کہ تقدیر پر ایمان لایا جائے اور خاموشی اختیار کر کے عمل میں مصروف رہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابن دیلمی رحمۃ اللہ (تابعی) (حضرت ابن دیلمی رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں اسم گرامی ضحاک بن فیروز دیلمی ہے آپ کا شمار یمن کے تابعین میں ہوتا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابی کعب (صحابی) (حضرت ابی بن کعب انصاری و خزرجی ہیں کنیت ابوالمنذر ہے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے رکھی تھی آپ کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی۔) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے دل میں تقدیر کے بارہ میں کچھ شبہات پیدا ہو رہے ہیں (کہ جب تمام چیزیں نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر یہ ثواب یا عذاب کیسا؟) اس لیے آپ کوئی حدیث بیان کیجئے تاکہ (اس کی وجہ سے) شاید اللہ تعالیٰ میرے دل کو اس شبہ (کی گندگی) سے پاک کر دے۔ (یہ سن کر) انہوں نے فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کرے تو وہ ان پر کسی طرح کا ظلم کرنے والا نہیں ہے (یعنی وہ اہل زمین اور اہل آسمان کو کتنا ہی عذاب دے اسے ظالم نہیں کہا جائے گا) اور اگر وہ ان کو اپنی رحمت سے نواز دے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے یقیناً بہتر ہو گی، اور اگر تم اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو تمہارا یہ عمل خیر اللہ کے نزدیک اس وقت تک قبول نہیں ہو گا جب تک کہ تم تقدیر پر کامل اعتقاد و ایمان نہ رکھو اور یہ سمجھ لو کہ جو کچھ تم کو پہنچا ہے وہ (رکنے) اور خطا کرنے والا نہ تھا اور جو چیز رک گئی اور تمہیں نہیں پہنچی تو (سمجھو کہ) وہ تمہارے مقدر میں نہیں تھی ، اور اگر تم اس حالت میں مر جاؤ کہ اس کے خلاف عقیدہ ہو (یعنی تقدیر پر کامل ایمان نہ ہو) تو یقیناً دوزخ میں جاؤ گے ، ابن دیلمی فرماتے ہیں کہ ابی بن کعب کا یہ بیان سن کر میں عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے بھی یہی بیان کیا پھر حذیفہ بن یمان کے پاس گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا اور پھر میں زید بن ثابت کے پاس پہنچا انہوں نے اس قسم کی حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا۔ (مسند احمد بن حنبل ، ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ الخ کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو کچھ حاصل ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ اسے میں نے اپنی سعی و کوشش سے حاصل کیا ہے اور اگر کوئی چیز تمہیں نہ ملے تو یہ مت کہو کہ اگر یہ کوشش اور جدوجہد کرتا تو ضرور اسے حاصل کر لیتا اس لیے کہ جو کچھ تم تک پہنچا ہے اس میں تمہاری سعی و کوشش کو دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق پہنچتا ہے اور جو چیز تمہیں نہیں ملی وہ چونکہ ہمارے تمہارے مقدر میں نہیں تھی اس لیے وہ تمہاری کوشش سے بھی نہیں ملتی اس لیے یہ جان لینا چاہیے کہ کسی چیز کا حاصل ہونا اور نہ ملنا سب تقدیر الہٰی کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت نافع رضی اللہ عنہ (حضرت نافع کا شمار جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے ١١٠ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) کی روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ فلاں آدمی نے آپ کو سلام کہا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس آدمی نے دین میں (کوئی) نئی بات نکالی ہے اگر واقعی اس نے دین میں (کوئی) نئی بات پیدا کی ہے۔ تو میری طرف سے (جواب میں) اسے سلام نہ پہنچاؤ، اس لیے کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں سے یا یہ فرمایا کہ اس امت میں سے (اللہ کے درد ناک عذاب زمین میں دھنس جانا، اور صورت کا مسخ ہو جانا یا سنگساری اہل قدر) (یعنی تقدیر کا انکار کرنے والوں) پر ہو گا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)، اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح و غریب ہے۔

 

تشریح

 

آنے والے نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تک جس آدمی کا سلام پہنچایا تھا اس کے بارہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا ہو گا کہ اس نے اپنی طرف سے دین میں نئی باتیں پیدا کی ہیں یعنی وہ تقدیر کا انکار کرتا ہے۔ لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے سلام کے جواب میں میرا سلام اس تک نہ پہنچانا کیونکہ ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے سلام کلام نہ کریں اور نہ ان سے تعلقات قائم کریں جو بدعتی ہوں اور خدا، اللہ کے رسول کے قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتے ہوں۔

چنانچہ علماء اسی حدیث کی بنا پر اس بات کا حکم لگاتے ہیں کہ فاسق و فاجر و اہل بدعت کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے بلکہ سنت بھی نہیں ہے اور چونکہ ان کے ساتھ یہ معاملہ ان کی تنبیہ کے لیے ہے اس لیے ان سے ترک ملاقات بھی جائز ہے

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ حضرت خدیجہ (ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری خدیجہ بنت خویلد قریشیہ اور اسدیہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں حضرت خدیجہ کا سب سے بڑا امتیازی شرف یہ ہے کہ آپ تمام مردوں اور عورتوں میں سب سے پہلے اسلام لائیں ہیں۔ آپ کا انتقال ہجرت سے تین سال پہلے مکہ مکرمہ رمضان کے مہینہ میں ٦٥ سال کی عمر میں ہوا۔) آپ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے دونوں بچوں کے بارہ میں پوچھا جو زمانہ جاہلیت میں (اسلام سے پہلے) فوت ہو گے تھے (کہ وہ جنتی ہیں یا دوزخی) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ دونوں (بچے) دوزخ میں ہیں، حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خدیجہ کے چہرہ کا رنگ (اپنے بچوں کے بارہ میں سن کر) بدلا ہوا (یعنی ان کو رنجیدہ) دیکھا تو فرمایا، اگر تم ان (بچوں) کے ٹھکانے اور ان کا حال دیکھو کہ وہ کس طرح اللہ کی رحمت سے دور ہیں تو تم کو ان (بچوں) سے نفرت ہو جائے ، پھر حضرت خدیجہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! اچھا میری وہ اولاد جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پیدا ہوئی ہے (قاسم اور عبد اللہ)  آپ نے فرمایا  وہ جنت میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ مومنین اور ان کی اولاد جنت میں ہیں اور مشرکین کی اولاد دوزخ میں ہیں، اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہمْ ذُرِّيَّتُہمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہمْ ذُرِّيَّتَہمْ) (52۔ الطور:21) ترجمہ  جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اطاعت کی (تو) ہم ان کی اولاد کو (جنت میں) انہیں کے ساتھ رکھیں گے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ، جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا (تو ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا (یعنی فرشتہ کو ہاتھ پھیرنے کا حکم دیا) چنانچہ اس کی پشت سے وہ تمام جانیں نکل پڑیں جن کو آدم علیہ السلام کی اولاد میں اللہ تعالیٰ قیامت تک پیدا کرنے والا تھا اور ان میں سے ہر ایک آدمی کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور کی چمک رکھی، پھر ان سب کو آدم علیہ السلام کے رو برو کھڑا کیا (ان سب کو دیکھ کر) آدم علیہ السلام نے پوچھا، پروردگار! یہ کون ہیں؟ پروردگار نے فرمایا، یہ سب تمہاری اولاد ہیں۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا جس کی آنکھوں کے درمیان غیر معمولی چمک ان کو بہت بھلی لگ رہی تھی، پوچھا پروردگار! یہ کون ہے؟ فرمایا  یہ داؤد علیہ السلام ہیں۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا ، میرے پروردگار! تو نے ان کی عمر کتنی مقرر کی ہے؟ فرمایا  ساٹھ برس حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا، میرے پروردگار! اس کی عمر میں میری عمر سے چالیس سال زیادہ کر دے راوی فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم نے فرمایا جب حضرت آدم کی عمر میں چالیس سال باقی رہ گئے تو موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا، حضرت آدم نے اس سے کہا، کیا ابھی میری عمر میں چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ ملک الموت نے کہا، کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنی عمر میں سے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دیے تھے؟ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے انکار کیا اور ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے اور آدم علیہ السلام (اپنے عہد کو) بھول گئے اور انہوں نے شجر ممنوعہ کو کھا لیا اور ان کی اولاد بھی بھولتی ہے اور حضرت آدم علیہ السلام نے خطاء کی تھی اور ان کی اولاد بھی خطاء کرتی ہے۔ (جامع ترمذی)

 

 

٭٭اور حضرت ابودرداء راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کے داہنے مونڈھے پر ہاتھ (دست قدرت) مارا یا (مارنے کا حکم دیا) اور اس سے سفید اولاد نکالی جیسے کہ وہ چیونٹیاں تھیں، پھر بائیں مونڈھے پر ہاتھ مارا اور اس سے سیاہ اولاد نکالی جیسے کہ وہ کوئلہ تھے ، پھر اللہ نے دائیں طرف والی اولاد کے بارہ میں فرمایا کہ جنتی ہیں اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہے اور ان (آدم) کے بائیں مونڈھے والی اولاد کے بارہ میں فرمایا کہ یہ دوزخی ہیں اور مجھ کو اس کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

٭٭اور حضرت ابونضرہ (حضرت ابونضرہ بن منذر بن مالک العبدی کا شمار بصرہ کے جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے آپ کا انتقال حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ دنوں پہلے ہوا ہے۔) راوی کہتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی جن کا نام عبداللہ تھا،ان کے پاس ان کے دوست ان کی عیادت کے لیے گئے (تو انہوں نے دیکھا) کہ وہ (ابوعبدا اللہ) رو رہے تھے۔ انہوں نے کہا، کہ آپ کو کس چیز نے رونے پر مجبور کیا (کیونکہ) آپ سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا تھا کہ تم اپنے لب (مونچھوں) کے بال پست کرو اور اسی پر قائم رہو یہاں تک کہ تم مجھ سے (جنت میں) ملاقات کرو۔ ابو عبداللہ نے کہا، ہاں!لیکن میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ (بھی) فرماتے سنا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر نے اپنے داہنے ہاتھ کی مٹھی میں ایک جماعت لی اور فرمایا کہ یہ (داہنے ہاتھ کی جماعت) جنت کے لیے ہے اور بائیں ہاتھ کی جماعت دوزخ کے لیے ہے اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے ، یہ کہہ کر ابوعبد اللہ نے فرمایا، میں نہیں جانتا کہ میں کس مٹھی میں ہوں (یعنی داہنی مٹھی ہوں یا باہنی مٹھی میں ہوں)۔  (مسند احمد بن حنبل)

 

فائدہ

حضرت ابو عبداللہ صحابی بیمار ہوئے ان کے کچھ دوست و احباب مزاج پرسی کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، ان لوگوں نے یہ کیفیت دیکھ کر کہا کہ آپ کو تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحابیت کا شرف حاصل ہے اور پھر مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ تم اپنی مونچھوں کو پست ہلکی کراتے رہنا اور اسی پر قائم رہنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر یا جنت میں مجھ سے تم ملاقات کرو تو گویا آپ کو جنت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی خوشخبری دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ جنت میں داخل ہونا اور اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہونا بغیر اسلام کے ہو نہیں سکتا، تو معلوم ہوا کہ آپ کا خاتمہ بالخیر ہوا اور آپ ایمان و اسلام کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کریں گے ، لہٰذا پھر رونا کیوں؟ اور یہ فکر و غم کیسا؟ اس کو جواب مرد حق آگاہ نے یہ دیا کہ صحیح اور بجا ہے اور اس خوشخبری کی صداقت کا اعتقاد بھی لیکن پروردگار عالم بے نیاز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اس کی مرضی میں کسی کا دخل نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہے کہ میں جس کو چاہوں جنت کی سعادت سے نواز دوں اور جس کو چاہوں دوزخ کے حوالہ کر دوں اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ تو مجھے بھی یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ نا معلوم میرا کیا حشر ہو؟ اور دل اس خوف سے لرزاں اور آنکھیں ڈر سے اشک بار ہیں کہ نہ جانے اللہ نے میرے مقدر میں کیا لکھ رکھا ہے۔یہ ان کے جواب کا حاصل تھا ، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے تصور اور خوف اللہ کے غلبہ سے اس خوشخبری کو بھول گئے ہوں اور انہیں اس کا احساس نہ رہا ہو کہ لسان نبوت نے مجھے اس خوشخبری جیسی عظیم سعادت سے بھی نواز رکھا ہے۔

علامہ طیبی علیہ الرحمۃ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مونچھیں ہلکی کرانا سنت موکدہ ہے اور اس عمل پر قائم رہنا اور ہمیشہ اس کو کرتے رہنا جنت میں دخول اور وہاں سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے زیر سایہ ہونے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اس ایک سنت کو ترک کرنے سے یعنی مونچھیں پست و ہلکی نہ کرانے سے ایسی عظیم سعادت اور اتنی بڑی فلاح ہاتھ سے جاتی ہے چہ جائیکہ سنت کو ہمیشہ ترک کرتا رہے ، اس لیے کہ ترک سنت پر اصرار ، الحاد و زندقہ تک پہنچاتا ہے۔ (نعوذ با اللہ)۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے میدان عرفہ کے قریب مقام نعمان میں آدم کی اس اولاد سے جو ان کی پشت سے نکلی تھی عہد لیا چنانچہ آدم کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا جن کو (ازل سے ابد) تک پیدا کرنا تھا اور ان سب کو چیونٹیوں کی طرح آدم کے سامنے پھیلا دیا پھر اللہ نے ان سے روبرو گفتگو کی، فرمایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ آدم کی اولاد نے کہا، بیشک آپ ہمارے رب ہیں پھر اللہ نے فرمایا، یہ شہادت میں نے تم سے اس لیے لی ہے کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے غافل و نا واقف تھے یا تم یہ نہ کہہ دو کہ ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے شرک کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے ہم نے ان کی اطاعت کی تھی ، کیا تو باطل پرستوں کے اعمال کے سبب ہلاک کرتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم قیامت میں یہ دلیل نہیں دے سکتے کہ چونکہ ہمارے باپ دادا نے شرک کیا تھا اس لیے ہم بھی انہیں کے ساتھ رہے ، یا ہم تو اپنے باپ دادا کے پیروکار اور ان کے تابع ہیں انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہوا تھا ہم بھی اسی پر چل رہے تھے لہٰذا اس کفر و شرک کے اصل ذمہ دار ہمارے باپ دادا ہیں جنہوں نے ہمیں اس راستہ پر ڈالا اس اعتبار سے مورد الزام وہ ٹھہر سکتے ہیں، ہم ان کی وجہ سے عذاب و دوزخ کے مستحق نہیں ہو سکتے اس لیے کہ عذاب کے حقیقی مستحق تو وہی لوگ ہیں جو اس راہ کے پیش رو تھے۔پس اے شرک و کفر کرنے والو! جان لو کہ قیامت کے دن یہ حجت تمہارے لیے کار آمد نہیں ہو سکے گی کیونکہ اسی لیے ہم نے تم سے اپنی توحید کا اقرار پہلے ہی کر الیا ہے اور تم اس پر شہادت دے چکے ہو، نیز اسی عہد و اقرار کی توثیق اور اس کی یاد دہانی کے لیے ہر دور میں دنیا کے تمام حصوں اور تمام طبقوں میں انبیاء علیہم السلام تشریف لائے تاکہ وہ بنی نوع انسان کو اس کا اپنا عہدہ اقرار یاد دلائیں اور ان کو صحیح راستہ پر لگائیں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابی بن کعب اس آیت: (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہوْرِہمْ ذُرِّيَّتَہمْ) 7۔ الاعراف:172) (جب تمہارے پروردگار نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد نکالی)۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے (اولاد آدم کو) جمع کیا اور ان کو طرح طرح کا قرار دیا (یعنی کسی کو مالدار کسی کو غریب کرنے کا ارادہ کیا پھر ان کو شکل و صورت عطا کی اور پھر گویائی بخشی، اور انہوں نے باتیں کیں پھر ان سے عہد و پیمان کیا اور پھر ان کو اپنے اوپر گواہ قرار دے کر پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اولاد آدم نے کہا، بے شک !(آپ ہمارے رب ہیں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں سات آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو تمہارے سامنے گواہ بناتا ہوں اور تمہارے باپ آدم کو بھی شاہد قرار دیتا ہوں اس لیے کہ قیامت کے دن کہیں تم یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے نا واقف تھے (اس وقت) تم اچھی طرح جان لو کہ نہ تو میرے سوا کوئی معبود ہے اور نہ میرے سوا کوئی پروردگار ہے ، (اور خبردار) کسی کو میرا شریک قرار نہ دینا، میں تمہارے پاس عنقریب اپنے رسول بھیجوں گا، جو تمہیں میرا عہد و پیماں یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں نازل کروں گا (یہ سن کر) اولاد آدم نے کہا، ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے اور تو ہی ہمارا معبود ہے ، تیرے سوا نہ تو ہمارا کوئی پروردگار ہے اور نہ تیرے علاوہ ہمارا کوئی معبود ہے ، چنانچہ آدم کی ساری اولاد نے اس کا اقرار کیا اور حضرت آدم کو ان کے اوپر بلند کر دیا گیا وہ (اپنی نگاہیں بلند کئے ہوئے) اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کی اولاد امیر بھی ہیں اور فقیر بھی اور خوبصورت بھی ہیں اور بد صورت بھی (یہ دیکھ کر انہوں نے عرض کیا، پروردگار اپنے تمام بندوں کو تو نے یکساں کیوں نہیں بنایا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میرے بندے میرا شکر ادا کرتے ہیں پھر آدم نے انبیاء کو دیکھا جو چراغ کی مانند روشن تھے اور نور ان کے اوپر جلوہ گر تھا ان سے خصوصیت کے ساتھ رسالت و نبوت کے لیے عہدو پیماں لیے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے : آیت (واذاخذ من النبین میثاقہم ومنک ومن نوح وابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ بن مریم) (قرآن حکیم) ترجمہ: اور جب ہم نے پیغمبروں سے ان کا عہد و پیمان لیا اور آپ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) سے اور نوح اور ابراہیم سے اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (بھی) عہد و پیمان لیا، ان روحوں کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے چنانچہ ان کی روح کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بھیج دیا۔ حضرت ابی بیان کرتے ہیں کہ یہ روح حضرت مریم علیہا السلام کے منہ کی طرف سے ان کے جسم میں داخل ہو گئی۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

تشریح

 

حضرت آدم علیہ السلام نے جب ان ارواح میں فرق دیکھا کہ انہیں کی اولاد میں سے کوئی تو سرمایہ دار اور صاحب دولت ہے اور کوئی غریب و مفلس تو انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے بارگاہ الوہیت میں عرض کیا کہ الہ العلمین ! سب میری اولاد میں سے ہیں اور یہ سبھی تیرے بندے ہیں پھر ان میں یہ فرق کیوں؟ کوئی صاحب حیثیت ہے او کوئی لاچار، کسی کو عزت و دولت دے رکھی ہے اور کسی کو غربت و مفلسی!۔

اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان میں فرق پیدا کرنے کی ایک حکمت ہے اور اس میں ایک مصلحت ہے اور وہ یہ کہ اگر میں سب کو یکساں پیدا کر دیتا تو یہ شکر ادا نہ کرتے اور جب ایک انسان میں وہ صفات و خصائل پیدا کر دیے جائیں گے جو دوسرے انسانوں میں نہیں ہوں گے تو وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر شکر ادا کیا کریں گے مثلاً تنگدست اور مفلس میں تقویٰ ، اطاعت الٰہی کا مادہ ، سکون قلب و دماغ اور دنیا سے بے فکری ہوتی ہے ، جو کسی غنی اور مالدار میں نہیں ہوتی اسی طرح غنی و مالدار کو دولت کی فراوانی اور اسباب معیشت کی آسانیاں حاصل ہوتی ہیں جو غریب و محتاج کو میسر نہیں۔ لہٰذا! جس کے اندر جو خصائل ہوں گے اور وہ ان کی لذت سے نا آشنا ہو گا، دوسرے کے اندر اس کا فقدان دیکھ کر اس نعمت پر شکر گزار ہو گا جس کی بناء پر اللہ کی رحمت کا مستحق قرار دیا جائے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے آئندہ وقوع پذیر ہونے والی باتوں پر گفتگو کر رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ہماری باتوں کو سن کر) فرمایا۔ جب تم سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا ہے تو اسے سچ مان لو لیکن جب تم یہ سنو کہ کسی آدمی کی خلقت بدل گئی ہے تو اس کا اعتبار نہ کرو اس لیے کہ انسان اسی چیز کی طرف جاتا ہے جس پر وہ پیدا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

تشریح

 

صحابہ آپس میں بیٹھے ہوئے یہ بحث کر رہے تھے کہ جو چیز آئندہ ہونے والی یا جو باتیں وقوع پذیر ہونے والی ہیں، کیا وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہوتی ہیں یا از خود بغیر قضاء قدر کے واقع ہوتی ہیں، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بحث سن کر فرمایا کہ ہر چیز نوشتہ تقدیر کے مطابق بر وقت وقوع پذیر ہوتی ہے اور مثال کے طور پر فرمایا کہ ایک انسان اپنی جس جبلت اور خلقت پر پیدا ہوتا ہے اسی پر ہمیشہ قائم رہتا ہے اور اسی کی طرف اس کا حقیقی میلان رہتا ہے۔ مثلاً جس کو اللہ نے عقلمند و دانا پیدا کیا اور اس کی سرشت و فطرت میں عقل و دانش کا مادہ و دیعت فرمایا اور اس کی تقدیر میں فہم و فراست کے جوہر رکھ دیئے گئے تو وہ کبھی بے وقوف احمق نہیں ہو سکتا، اسی طرح جس آدمی کی جبلت و حماقت کے سانچے میں ڈھلی ہو اور جس کو فطرتاً بیوقوف و پلید پیدا کیا گیا ہو وہ عقل مند و دانشور نہیں ہو سکتا۔

ہاں ایسے افراد جو اپنی ریاضت و مشقت اور ذاتی محنت و کوشش کی بنا پر عقل کی دولت حاصل کر لیتے ہیں یا اصحاب عقل و دانش کی صحبت اختیار کر کے ان اوصاف کے حامل ہو جاتے ہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، اس لیے کہ یہاں بحث جبلت اور خلقت کی ہے کہ جس انسان کو جس خصلت و فطرت پر پیدا کر دیا گیا وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتا اور نہ اس جبلت و خصلت میں تغیر و تبدل ممکن ہے۔ رہا اپنی ذاتی محنت و کوشش یا اصحاب عقل و فہم کی صحبت، تو یہ ایک دوسری چیز ہے کیونکہ یہ بھی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی ہے یعنی جس آدمی کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ یہ اپنی محنت و کوشش یا کسی عقل مند و دانشور کی صحبت و قربت کی بنا پر صاحب عقل بنے گا وہ یقیناً اس وصف کو حاصل کر لے گا لیکن جس کی تقدیر میں بے وقوف رہنا ہی لکھ دیا گیا ہے یا جس کی جبلت میں حماقت رکھ دی گئی ہے اس میں نہ اپنی محنت و کوشش کام کرتی ہے اور نہ کسی عقل مند کی قربت و صحبت۔

 

 

٭٭اور حضرت ام سلمہ (ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریشیہ اور مخزومیہ ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطھرہ ھیں ۵۹ھ میں آپ کا انتقال ہوا اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔) سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے جو زہر آلود بکری کھائی تھی (جو خیبر میں ایک یہودیہ نے کھلائی تھی) ہر سال اس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو تکلیف ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا جو چیز (یعنی اذیت و تکلیف یا بیماری) مجھ کو پہنچتی ہے وہ میرے لیے اسی وقت لکھی گئی تھی جب کہ آدم مٹی کے اندر تھے (یعنی میری تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا)۔ (ابن ماجہ)

 

                    عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

 

عذاب قبر قرآن و احادیث سے ثابت ہے اس میں کوئی شبہ اور کلام نہیں، یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہاں قبر سے مراد محض ڈیڑھ دو گز کا گڑھا نہیں ہے بلکہ قبر کا مطلب عالم برزخ ہے جو آخرت اور دنیا کے درمیان ایک عالم ہے اور یہ عالم ہر جگہ ہو سکتا ہے جیسے بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں، جلا دیئے جاتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو ان پر بھی عذاب مسلط کیا جاتا ہے یہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں دفن کیا جاتا ہے صرف ان پر ہی عذاب ہوتا ہے اور جو لوگ دوسرے طریقے اختیار کرتے ہیں وہ عذاب سے بچ جاتے ہیں۔

عذاب قبر کی تصدیق کے درجات میں صحیح اور اولیٰ مرتبہ اس بات کا اعتقاد و یقین رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں دفن کرنے کے بعد اللہ کے نیک بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور جو لوگ بد کار و گناہ گار ہوتے ہیں ان پر اللہ کا سخت عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں منکر نکیر، عذاب دینے والے فرشتے اور سانپ و بچھو جو بدکردار و لوگوں پر مسلط کئے جاتے ہیں اور جن کا وجود احادیث سے ثابت ہے۔ یہ سب صحیح اور واقعی چیزیں ہیں ان پر ایمان لانا ضروری ہے۔

یہ جان لینا چاہئے کہ کسی چیز کو دیکھ لینا اور اس کا مشاہدہ میں آ جانا ہی اس کی صداقت کی دلیل نہیں ہوتا، اس لیے ان چیزوں کے بارہ میں یہ بات دل میں جاگزیں کر لینا کہ جب ان چیزوں کو آنکھ سے دیکھا نہیں جاتا اور یہ مشاہدہ میں نہیں آتیں تو ان کا اعتبار کیسے کیا جائے؟ بالکل غلط اور خلاف عقل ہے ، اس لیے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ عالم بالا کی چیزوں کا مشاہدہ کر لینا، عالم ملکوت کو بچشم دیکھ لینا ان ظاہری آنکھوں کے بس کی بات نہیں ہے ، ان کو مشاہدہ کرنے کے لیے چشم حقیقت کی ضرورت ہے ہاں یہ بات بھی ناممکن نہیں ہے کہ اگر اللہ چا ہے تو ان دونوں ظاہری آنکھوں سے بھی عالم ملکوت کو دکھلا سکتا ہے۔

پھر دوسرے یہ کہ اسی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم بظاہر دیکھ نہیں پاتے اور نہ آنکھیں ان کا مشاہدہ کرتی ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کا ادراک بھی ہوتا ہے اور اس کی حقیقت بھی تسلیم ہوتی ہے مثلاً ایک آدمی عالم خواب میں دنیا بھر کی چیزیں دیکھ اور سن لیتا ہے ، ہر طرح کے غم و مصیبت اور لذت و آرام محسوس کرتا ہے لیکن دوسرا اسے نہیں دیکھ سکتا، یا اسی طرح کسی آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا اسے لذت حاصل ہوتی ہے یا وہ کسی غم و چین کا احساس کرتا ہے لیکن اس کے پاس ہی بیٹھا ہوا ایک دوسرا آدمی اس سے بے خبر رہتا ہے اور وہ اس کا ادراک و احساس نہیں کر سکتا۔

نیز زمانہ نبوت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس وحی آتی تھی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتے تھے لیکن وہیں مجلس میں بیٹھے ہوئے صحابہ نہیں دیکھتے تھے اور نہ ان کی ظاہری آنکھیں حضرت جبرائیل کا مشاہدہ کرتی تھیں، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام ان پر ایمان لاتے تھے۔

ٹھیک اسی طرح عذاب قبر کا معاملہ ہے ، وہاں جو کچھ بندے کے ساتھ ہوتا ہے اس دنیا میں اس کا ادراک کیا جا سکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے اسے دیکھا جا سکتا ہے ، بس یہ ایمان لانا ضروری ہے کہ عذاب قبر کے بارہ میں اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ بتایا ہے وہ سب مبنی بر حقیقت اور یقینی چیزیں ہیں۔

 

 

٭٭حضرت براء بن عازب (اسم گرامی براء بن عازب اور کنیت ابو عمارہ ہے مدینہ کے باشندہ اور انصاری ہیں جنگ بدر میں آپ شریک نہیں ہو سکے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صغر سنی کی وجہ سے روک دیا تھا سب سے پہلے غزوہ احد میں شریک ہوئے ہیں۔) راوی ہیں کہ سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جس وقت قبر میں مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شبہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں اور یہی مطلب ہے اس ارشاد ربانی کا یُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فَی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وِفِیْ الْاٰخِرَۃِ (القرآن) ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت و قائم رکھتا ہے جو ایمان لاتے ہیں مضبوط و محکم طریقہ پر ثابت رکھنا دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں، اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ) 14۔ ابراہیم:27) عذاب قبر کے بیان میں نازل ہوئی ہے (چنانچہ قبر میں مردہ سے) سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔  (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

آیت مذکورہ میں بالقول الثابت سے مراد کلمہ شہادت ہے یعنی جب مومن سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا پروردگار کون ہے ، اور تیرا پیغمبر کون ہے اور تیرا دین کیا تو ان تینوں سوالوں کا جواب اسی کلمہ شہادت میں ہے۔

آیت کے دوسرے جز کا مطلب یہ ہے جو لوگ ایمان و یقینی کی روشنی سے اپنے قلوب کو منور کر لیتے ہیں اور جن کے دل میں ایمان و اسلام کی حقانیت راسخ اور پختہ ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دونوں جگہ ان پر رحمت خداوندی کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

دنیاوی زندگی کا اس کا فضل تو یہ ہے کہ وہ اپنے ان نیک بندوں کو کلمہ اسلام کی حقانیت کے اعتقاد پر قائم رکھتا ہے اور ان کے دل میں ایمان و اسلام کی وہ روح اور طاقت بھر دیتا ہے کہ دنیاوی امتحان و آزمائش کے سخت سے سخت موقع پر بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی وہ اپنی جانوں کو قربان کر دینا اور آگ میں ڈالے جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنے ایمان و اعتقاد میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنا گوارہ نہیں کرتے۔

اخروی زندگی میں اس کی رحمت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی بے شمار نعمتوں سے نوازے جاتے ہیں اور عالم برزخ میں جب قبر کے اندر ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ ٹھیک ٹھیک جواب دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کی نجات اور اکرام خداوندی کے مستحق قرار دے دیے جاتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت انس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اعزا و احباب واپس آتے ہیں تو وہ (مردہ) ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے اور اس کے پاس (قبر میں) دو فرشتے آتے ہیں اور ان کو بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ کیا کہتے تھے؟ اس کے جواب میں بندہ مومن کہتا ہے ، میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) بلاشبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس بندہ سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنا ٹھکانا دوزخ میں دیکھو جس کو اللہ نے بدل دیا ہے اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں جگہ دی گئی ہے۔ چنانچہ وہ مردہ دونوں مقامات (جنت و دوزخ) کو دیکھتا ہے۔ اور جو مردہ منافق یا کافر ہوتا ہے اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ اس آدمی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کے بارہ میں تو کیا کہتا تھا؟ وہ اس کے جواب میں کہتا کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو لوگ (مومن) کہتے تھے وہی میں بھی کہہ دیتا تھا اس سے کہا جاتا ہے نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ تو نے قرآن شریف پڑھا؟ یہ کہہ کر اس کو لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے کہ اس کے چیخنے اور چلانے کی آواز سوائے جنوں اور انسانوں کے قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم الفاظ صحیح البخاری کے ہیں)

 

تشریح

 

جب انسان اس دنیا کی عارضی زندگی ختم کر کے دوسری دنیا میں پہنچتا ہے تو اس کی سب سے پہلی منزل قبر ہوتی ہے ، جسے عالم برزخ بھی کہا جاتا ہے ، مردہ کو قبر میں اتارنے کے بعد جب اس کے عزیز و اقارب واپس لوٹتے ہیں تو اس میں اللہ کی جانب سے وہ قوت سماعت دے دی جاتی ہے جس کے ذریعہ وہ ان لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا رہتا ہے اس کے بعد منکر نکیر قبر میں آتے ہیں اور اس سے دوسرے سوالات کے علاوہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں پوچھتے ہیں کہ ان کے متعلق تمہارا اعتقاد کیا ہے ، اگر مرد مومن صادق ہوتا ہے تو وہ صحیح جواب دے دیتا ہے اور اگر وہ کافر ہے تو جواب نہیں دے پاتا بعد میں نتیجہ سنا دیا جاتا ہے کہ صحیح جواب دینے والا اللہ کی رحمت اور اس کی نعمتوں کا مستحق قرار دے دیا گیا ہے چنانچہ اس کی آخری منزل جنت کی طرف اس کی راہنمائی کر دی جاتی ہے ، غلط جواب دینے والا اللہ کے غضب کا مستحق قرار دے دیا جاتا ہے اور اسے اس کی آخری منزل دوزخ کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔

حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ مردہ سے پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں کیا کہتے تھے تو اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شہرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف معنوی اشارہ ہوتا ہے یا پھر یہ اس وقت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو مثالی صورت میں مردہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ ایک مومن کے لیے موت کی آرزو سب سے بڑی نعمت ہو گی اس لیے کہ وہ اس کی وجہ سے اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہو گا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار سے منور و مشرف ہو گا اور حقیقت تو یہ ہے کہ عاشقان رسول کے بے تاب و بے چین قلوب کے لیے اس کے اندر ایک زبردست بشارت ہے۔

بقول شاعر

شب عاشقان بیدل چہ قدر دراز باشد

تو بیا کہ اول شب در صبح باز باشد

ترجمہ عشاق کی شب ہجر کس قدر طویل ہوتی ہے۔ تو جلدی آ۔ یہ اول شب ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ صبح ہو جائے۔

اس سوال و جواب کے بعد کامیاب مردہ یعنی مسلمانوں کو دونوں جگہیں یعنی جنت و دوزخ دکھلائی جاتی ہیں اور وہ دونوں مقامات دیکھتا ہے تاکہ اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اگر اللہ کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہوتی اور وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا تو اس دوزخ میں ڈال دیا جاتا جہاں اللہ کے درد ناک عذاب میں مبتلا ہوتا لیکن اس نے دنیا میں چونکہ نیک کام کئے اور سچا مخلص مومن بن کر رہا اس کے نتیجے میں اللہ کے فضل و کرم سے اسے جنت کی نعمت عظمی سے نوازا جا رہا ہے نیز ایک طرف تو وہ دوزخ اور اس کے ہیبت ناک منظر کی طرف دیکھے گا دوسری طرف جنت اور اس کی خوشگوار و مسرور کن فضا کی طرف نظر اٹھائے گا تاکہ اس کے دل میں جنت کی نعمت کی قدر ہو۔

اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب قبر میں معذب مردہ پر عذاب نازل کیا جاتا ہے یعنی فرشتے لوہے کے گرزوں سے اس کو مارتے ہیں تو اس کے چیخنے چلانے کی آواز انسان نہیں سن پاتے ، اس کی حکمت یہ ہے کہ جن و انس غیب کی چیزوں پر ایمان لانے کے مکلّف ہیں اگر ان کو آواز سنائی دے ، یا وہاں کے حالات کا علم اس دنیا میں ہو جائے تو پھر ایمان با لغیب جاتا رہے گا۔ نیز اگر قبر کے حالات کا احساس انسانوں کو ہونے لگے تو خوف و ہیب ناکی کی وجہ سے دنیا کے کاروبار میں ہلچل مچی رہے گی اور سلسلہ معیشت منقطع ہو جائے گی۔

صحیح احادیث میں مومنین کی نجات اور کافروں و منافقین کے عذاب کے بارہ میں یہی ذکر کیا جاتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اس نجات کا تعلق مومنین صالحین سے ہے لیکن فاسق و گناہ گار مومنین کے بارہ میں احادیث میں کچھ مذکور نہیں ہے کہ آیا ان پر عذاب کیا جاتا یا ان کی بھی نجات ہو جاتی ہے ، البتہ علماء فرماتے ہیں کہ فاسق مومن جواب میں تو مومن صالحین کا شریک ہے لیکن نعمتوں کی خوشخبری، جنت کے دروازے کھلنے وغیرہ میں ان کا شریک نہیں ہے یا اگر ان چیزوں میں بھی ان کا شریک ہو تو پھر مرتبہ و درجہ میں ان سے کم تر ہو گا بلکہ اس پر تھوڑا بہت عذاب بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں جس فاسق و گناہ گار کو اللہ تعالیٰ چا ہے تو اسے بخش دے اور اس کی مغفرت کر دے۔

 

 

٭٭اور عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر کے اندر) صبح اور شام اس کا ٹھکانہ اس کے سامنے لایا جاتا ہے اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہے تیرا ٹھکانہ اس کا انتظار کر، یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے اٹھا کر وہاں بھیجے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور پھر اس نے حضرت عائشہ سے کہا  عائشہ ! اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے ! حضرت عائشہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عذاب قبر کا حال پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ہاں قبر کا عذاب حق ہے ! حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عائشہ صدیقہ کو عذاب قبر کا حال معلوم نہیں ہو گا چنانچہ جب اس یہودی عورت نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو وہ بڑی حیران ہوئیں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا جس کا جواب دیا گیا کہ قبر کا عذاب حق اور یقینی ہے ، یعنی اس بات کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں گناہ گار لوگوں پر اللہ کی جانب سے طرح طرح کے عذاب مسلط کئے جاتے ہیں اور اس کا احساس و ادراک اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پناہ مانگنے کے بارے میں احتمال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی پہلے سے قبر کے عذاب کا حال معلوم نہ ہوا ہو، اس کے بعد بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم ہوا ہو جس کے بعد سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پناہ مانگنی شروع کر دی اور ظاہر ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تو قبر میں اس قسم کو کوئی معاملہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پناہ مانگنا محض امت کی تعلیم کے لیے تھا کہ جب اللہ کا محبوب و برگزیدہ بندہ اور اس کا پیارا رسول بھی عذاب قبر سے پناہ مانگ رہا ہے تو امت کے تمام لوگوں کو چاہئے کہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔

یا پھر یہ کہا جائے گا کہ عذاب قبر کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے سے معلوم تھا اور پوشیدہ طور پر اس سے پناہ بھی مانگتے ہوں گے جس کی حضرت عائشہ کو خبر نہیں ہو گی، بعد میں حضرت عائشہ کے سوال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھلے طور پر پناہ مانگنی شروع کر دی ہوتا کہ دوسرے بھی متنبہ ہوں اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔

 

٭٭ اور حضرت زید بن ثابت(زید بن ثابت انصاری خزرجی ہیں آپ کاتب وحی ہیں۔ آپ کی وفات ٤٢ھ یا ٤٥ میں ہوئی۔) راوی ہیں کہ (ایک روز) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گرا دے ، ناگہاں پانچ چھ قبریں نظر آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا،  میں جانتا ہوں! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ یہ کب مرے ہیں؟ (یعنی حالت کفر میں مرے ہیں یا ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں) اس آدمی نے عرض کیا۔ یہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے (یعنی ان لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے) اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر (کی اس آواز) کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قبر کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا

ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

نبی کا احساس و شعور اور اس کی قوت ادراک دنیا کے تمام لوگوں سے بہت زیادہ قوی ہوتی ہے چونکہ اس کے احساس ظاہری و باطنی میں وہ قدرتی طاقت ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ اس دنیا سے بھی آگے عالم غیب کی چیزوں کا ادراک کر لیتا ہے اس لیے اس کی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ باطنی آنکھیں بھی اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ غیب کی ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اسے دکھانا چاہتا ہے۔

چانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کہیں سفر میں جا رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ایک قبرستان پر ہوا تو وہاں آپ کی چشم بصیرت نے ادراک کر لیا کہ قبروں میں مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو تلقین کی کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں عذاب قبر کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تمہاری آنکھیں ااس کا مشاہدہ کر لیں اور تمہارے کان اس کو سن لیں تو تم اپنی عقل و دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھو اور تم اس کی شدت و سختی کا محض احساس ہی کر کے بے ہوش ہو جاؤ گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اس خوف و ہر اس کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنا بھی چھوڑ دو گے اگر مجھے اس کا خدشہ نہ ہوتا تو میں یقیناً تمہیں اس عذاب کا مشاہدہ بھی کر ادیتا اور تمہیں سنوا بھی دیتا۔

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جب مردہ کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالی کیری آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں جن میں سے ایک کو منکر اور دوسرے نکیر کہتے ہیں وہ دونوں اس مردہ سے پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت کیا کہتے تھے؟ اگر وہ آدمی مومن ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (یہ سن کر) وہ دونوں فرشتے فرماتے ہیں۔ ہم جانتے تھے کہ تو یقیناً یہی کہے گا، اس کے بعد اس کی قبر کی لمبائی اور چوڑائی میں ستّر ستّر گز کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس مردہ سے کہا جاتا ہے کہ (سو جاؤ) مردہ کہتا ہے (میں چاہتا ہوں) کہ اپنے اہل و عیال میں واپس چلا جاؤں تاکہ ان کو (اپنے اس حال سے) باخبر کر دوں۔ فرشتے اس سے فرماتے ہیں تو اس دولہا کی طرح سوجا جس کو صرف وہی آدمی جگا سکتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے محبوب ہو یعنی ہر کسی کا جگانا اچھا نہیں لگتا کیونکہ اس سے وحشت ہوتی ہے البتہ جب محبوب جگاتا ہے تو اچھا لگتا ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔ اور اگر وہ مردہ منافق ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا تھا وہی میں کہتا تھا لیکن میں (اس کی حقیقت کو) نہیں جانتا (منافق کا یہ جواب سن کر) فرشتے فرماتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یقیناً تو یہی کہے گا، (اس کے بعد) زمین کو مل جانے کا حکم دیا جاتا ہے ، چنانچہ زمین اس مردہ کو اس طرح دباتی ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں اور بائیں پسلیاں دائیں نکل آتی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

قبر میں فرشتے ہیبت ناک اور خوفناک شکل میں آتے ہیں تاکہ ان کے خوف اور شکل کی وجہ سے کافروں پر ہیبت طاری ہو جائے اور وہ جواب دینے میں بد حواس ہو جائیں لیکن یہ مومنوں کے لیے آزمائش و امتحان ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھتا ہے اور وہ نڈر ہو کر صحیح جواب دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اس لیے کہ وہ دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قبر میں ہر قسم کے خوف و ہراس سے نڈر ہو جاتے ہیں۔

مردہ کے جواب میں فرشتوں کا یہ کہنا کہ ہم جانتے ہیں کہ تو یقیناً یہی کہے گا  یا تو اس بناء پر ہو گا کہ پروردگار عالم کی جانب سے ان کو خبر دی جاتی ہو گی کہ فلاں مردہ یہ جواب دے گا اور فلاں مردہ وہ جواب دے گا، یا وہ مردہ کی پیشانی اور اس کے آثار سے یہ معلوم کر لیتے ہیں۔ کہ مومن کی پیشانی پر نور ایمانی کی چمک اور سعادت و نیک بختی کا نشان ہوتا ہے اور کافر و منافق کے چہرہ پر پھٹکار برستی ہے۔

مومن جب صحیح جواب دے دیتا ہے اور اس پر اللہ کی رحمت اور اس کی نعمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو اس اچھے معاملہ اور عظیم نعمت کی خبر دے دے جیسا کہ جب کوئی مسافر کسی جگہ راحت و سکون پاتا ہے اور وہاں عیش و آرام کے سامان اسے ملتے ہیں تو اس کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ کاش اس وقت میں اپنے اہل و عیال اور اعزا و اقرباء کے پاس جاتا تاکہ انہیں اپنے اس آرام و راحت سے اور چین و سکون سے مطلع کر دیتا۔ اس لیے مومن مردہ اپنے اہل و عیال کے پاس واپس جانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت براء بن عازب راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (قبر میں) مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ  تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے  میرا رب اللہ ہے ! پھر فرشتے پوچھتے ہیں  تیرا دین کیا ہے وہ جواب میں کہتا ہے ،  میرا دین اسلام ہے پھر فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں، جو آدمی (اللہ کی طرف سے) تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں یہ تجھے کس نے بتایا وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ جانا، (یعنی جو کلام اللہ پر ایمان لائے گا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر پہلے ایمان لائے گا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا۔ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ) 14۔ ابراہیم:27) (الایۃ) یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت قدم رکھتا ہے جو ثابت بات پر ایمان لائے (اخیر آیت تک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ آسمان سے پکارنے والا (یعنی اللہ تعالیٰ یا اس کے حکم سے فرشتہ) پکار کر کہتا ہے میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا اس کے لیے جنت کا فرش بچھاؤ اور اس کو جنت کی پوشاک پہناؤ، اور اس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، چنانچہ جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (جنت کے دروازہ سے) اس کے پاس جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں اور حد نظر تک اس قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے اب رہا کافر! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور اس کے بعد فرمایا کہ، پھر اس کی روح اس کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھا کر پوچھتے ہیں،  تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے ، ہاہ  ہاہ میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں  تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے ، ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا پھر وہ پوچھتے ہیں، یہ آدمی کون ہے (جو اللہ کی جانب سے) تم میں بھیجا گیا تھا، وہ کہتا ہے  ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا  پھر آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا، یہ جھوٹا ہے اس کے لیے آگ کا فرش بچھاؤ، آگ کا لباس اسے پہناؤ اور اس کے واسطے ایک دروازہ دوزخ کی طرف کھول دو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ دوزخ سے اس کے پاس گرم ہوائیں اور لوئیں آتی ہیں ، اور فرمایا اور اس کی قبر اس کے لیے تنگ کر دی جاتی ہے ، یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھر نکل آتی ہیں، پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایسا گرز ہوتا ہے کہ اس کو اگر پہاڑ پر مارا جائے تو پیھاڑ مٹی ہو جائے اور وہ فرشتہ اس کو اس گرز سے اس طرح مارتا ہے کہ (اس کے چیخنے چلانے کی آواز مشرق سے مغرب تک تمام مخلوقات سنتی ہے مگر جن و انسان نہیں سنتے اور اس مارنے سے وہ مردہ مٹی ہو جاتا ہے اس کے بعد پھر اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے۔  (مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد)

فائدہ

ہاہ ہاہ ایک لفظ ہے جو عربی میں دہشت زدہ اور متحیر آدمی بولتا ہے جیسے اردو میں حیرت و دہشت کے وقت آہ، ہائے اور وائے وائے بولا جاتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اس وقت کافر اتنا خوف زدہ ہو جاتا ہے کہ اس کی زبان سے ہیبت ناکی سے خوف و حسرت کے الفاظ نکلتے ہیں اور وہ صحیح جواب نہیں دے پاتا اور وہ کہتا ہے کہ  میں نہیں جانتا  اس کے اس جواب پر ندائے غیب سے اس کو جھوٹا قرار دیا جاتا ہے ، اس لیے کہ دین اسلام کی آواز مشرق سے لے کر مغرب تک پہنچی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا مشن چار دانگ عالم میں پھیلایا اور تمام دنیا اس آفاقی و آسمانی مذہب سے باخبر تھی، اس کے باوجود اس کا یہ کہنا کہ میں کچھ نہیں جانتا یا مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا، سراسر کذب اور جھوٹ ہے۔

قبر میں عذاب کے جو فرشتے مقرر کئے جاتے ہیں وہ اندھے اور بہرے ہوتے ہیں، اس کی حکمت یہ ہے کہ وہ نہ تو مردہ کے چیخنے چلانے کی آواز سن سکیں اور نہ اس کے حال کو دیکھ سکیں تاکہ رحم نہ آ سکے۔

نیز اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ معذب مردہ کے جسم میں بار بار روح ڈالی جاتی ہے تاکہ اس پر عذاب شدید سے شدید ہو سکے اور یہ اس چیز کا انجام ہے کہ وہ دنیا میں عذاب قبر کا انکار کیا کرتا تھا اور اس کو جھٹلایا کرتا تھا۔ (نعوذ با اللہ)۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ جب وہ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو (خوف خدا سے) اس قدر روتے کہ ان کی ڈاڑھی (آنسوؤں) سے تر ہو جاتی، ان سے کہا گیا کہ آپ جب جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور اس جگہ کھڑے ہو کر روتے ہیں (اس کے جواب میں) انہوں نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے ، آخرت کی منزلوں میں سے قبر پہلی منزل ہے لہٰذا جس نے اس منزل سے نجات پائی اس کو اس کے بعد آسانی ہے اور جس نے اس منزل سے نجات نہیں پائی اس کو اس کے بعد سخت دشواری ہے  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کہ میں نے کبھی کوئی منظر قبر سے زیادہ سخت نہیں دیکھا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، اور جامع ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔)

 

 

فائدہ

یعنی قبر پر کھڑے ہو کر انسان عیش و عشرت کو بھول جاتا ہے اور دنیا کی بے ثباتی پر اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خوف خدا سے اپنے قلب کو لرزاں پاتا ہے اور آخرت سے لگاؤ محسوس کرتا ہے نیز قبر عیش و عشرت سے متنفر کرتی ہے اور محنت و مشقت اور یاد الہٰی میں مصروف رکھتی ہے۔ اسی کو فرمایا گیا ہے سب سے زیادہ سخت جگہ قبر ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو قبر کے پاس کھڑے ہو کر (لوگوں سے) فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو، یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت اس کو ثابت قدم رکھے اس لیے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جاتا ہے۔(ابوداؤد)

 

فائدہ

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندوں کی طرف سے مردہ کے لیے دعائے استغفار کارآمد اور مفید ہے چنانچہ اہل سنت و الجماعت کا یہی مسلک ہے۔

یہ دعا نیز مردہ کی استقامت و اثبات کے لیے دعا، تلقین میت کے علاوہ ہیں جو دفن کرنے کے بعد کرتے ہیں تلقین میت کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تلقین اکثر حنفیہ کے یہاں ثابت نہیں ہے لیکن اکثر شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک مستحب ہے ، چنانچہ دفن کرنے کے بعد تلقین میت کے سلسلے میں ایک حدیث ابوامامہ صحابی سے وارد ہوئی ہے جسے علامہ سیوطی نے جمع الجوامع میں طبرانی سے ذکر کیا ہے اور ابن نجار، ابن عساکر اور دیلمی نے بھی ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی انتقال کر جائے اور اسے دفن کر چکو تو ایک آدمی قبر کے سرہانے کھڑا ہو اور کہے  اے فلاں ابن فلاں مردہ یہ الفاظ سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا، وہ آدمی پھر کہے اے فلاں ابن فلاں اس مرتبہ مردہ کہتا ہے اللہ آپ رحم کرے ، ارشاد فرمائیے ، لیکن تم اسے نہیں سنتے۔ اس کے بعد اس آدمی کو کہنا چاہئے ، اے فلاں! اس کلمہ کو یاد کرو جس پر تم اس دنیا سے سدھارے اور وہ لا الہ الا اللہ وان محمد اعبدہ ورسول کی شہادت ہے نیز تم اس پر راضی ہوئے کہ اللہ تمہارا پروردگار ہے محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے ساتھی پیغمبر ہیں، اسلام تمہارا دین ہے اور قرآن تمہارا راہبر امام ہے جب یہ کہا جاتا ہے تو منکر و نکیر میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ چلو اس بندہ کے سامنے باہر نکلو! اس سے ہمیں کیا سروکار کیونکہ حق تعالیٰ کی جانب سے اس کو تلقین کی جار ہی ہے۔

ایک صحابی نے عرض کیا ! یا رسول اللہ اگر ہم میت کی ماں کا نام نہ جانتے ہوں تو کیا کہیں اور اس کی نسبت کس طرف کریں؟ رسول اللہ نے فرمایا، حوا کی طرف نسبت کرو اس لیے کہ وہ سب کی ماں ہیں۔

نیز تلقین میت کے سلسلہ میں اس کے علاوہ قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر سورہ بقرہ کا  مفلحون اور آمن الرسول سے آخر سورت تک پڑھنا بھی منقول ہے اور اگر قرآن شریف پورا پڑھا جائے تو یہ سب سے افضل و بہتر ہے بعض علماء نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر وہاں کسی بھی مسئلہ کا ذکر کیا جائے تو یہ بھی فضیلت کا باعث اور رحمت خداوندی کے نزول کا سبب ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، کافر کے اوپر اس کی قبر میں ننانوے اژدھا مسلّط کئے جاتے ہیں جو اس کو قیامت تک کاٹتے اور ڈستے ہیں اور وہ اژدھا ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک اژدہا زمین پر پھنکار مارے تو زمین سبزہ اگانے سے محروم ہو جائے ، دارمی اور جامع ترمذی سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے لیکن اس میں بجائے ننانوے کے ستّر کا عدد ہے۔

 

 

٭٭حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ان کے جنازہ پر گئے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنازہ کی نماز پڑھ چکے اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبر میں اتار کر قبر کی مٹی برابر کر دی گئی تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم تسبیح (یعنی سبحان اللہ) پڑھتے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہی ہم نے بھی تکبیر کہی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) آپ نے تسبیح کیوں پڑھی اور پھر تکبیر کیوں کہی؟ فرمایا اس بندہ صالح پر اس کی قبر تنگ ہو گئی تھی پھر اللہ نے ہماری تسبیح و تکبیر کی وجہ سے اسے کشادہ کر دیا۔  (مسند احمد بن حنبل)

 

 

 

فائدہ

تسبیح و تکبیر سے اللہ کا غضب رحمت میں اور اس کا غصہ شفقت میں بدل جاتا ہے اور وہاں مقدس کلموں کی بدولت اپنی رحمت و نعمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔

چنانچہ اسی لیے خوف و دہشت کے موقع پر یا کسی خوفناک چیز کو دیکھ کر تکبیر مستحب ہے۔ تسبیح و تکبیر کا جنتا ورد رکھا جائے گا اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب ہوتا جائے گا اور دنیاوی آفات و بلا نیز غضب خداوندی سے دور ہوتا ہو جائے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ (یعنی سعد ابن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) وہ آدمی ہیں جن کے لیے عرش نے حرکت کی (یعنی ان کی جب پاک روح آسمان پر پہنچی تو اہل عرش نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا) اور ان کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ان کے جنازے پر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوئے اور ان کی قبر تنگ کی گئی۔ پھر یہ تنگی دور ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی برکت سے ان کی قبر کشادہ ہو گئی۔

 

 

٭٭اور حضرت اسماء بنت ابی بکر راوی ہیں کہ ایک دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور قبر کے فتنہ کا ذکر فرمایا جس میں انسانوں کو مبتلا کیا جاتا ہے چنانچہ اس ذکر سے مسلمان (خوف زدہ ہو کر روتے) اور چلاتے رہے ، یہ روایت صحیح البخاری کی ہے اور سنن نسائی نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ (خوف و دہشت کی وجہ سے) مسلمانوں کے چیخنے اور چلانے کے سبب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ کو نہ سن سکی، جب یہ چیخنا چلانا بند ہوا تو میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے پوچھا، اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے (یعنی تمہارے علم و حلم میں زیادتی ہو، آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا فرمایا؟) اس آدمی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھ پر یہ وحی آئی ہے کہ تم قبروں کے اندر فتنہ میں ڈالے جاؤ گے یعنی تم کو آزمایا جائے گا اور یہ آزمائش و امتحان فتنہ دجال کے قریب قریب ہو گا۔

 

فائدہ

مطلب یہ ہے کہ جس طرح فتنہ دجال اپنی تباہی و بربادی اور نقصان و خسران کی بناء پر سخت ہلاکت آفریں اور تباہ کن ہو گا، اسی طرح فتنہ قبر بھی ہول و دہشت اور اپنی شدت و سختی کی بنا پر بہت زیادہ خوفناک ہو گا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ایسے سخت و نازک وقت میں اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور اس امتحان و آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جب مردہ (مومن) کو قبر کے اندر دفن کر دیا جاتا ہے تو اس کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کیا جاتا ہے ، چنانچہ وہ مردہ ہاتھوں سے آنکھوں کو ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے مجھے چھوڑ دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں۔ (سنن ابن ماجہ)

 

فائدہ

با عمل مومن مردہ جس وقت قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو وہ جس طرح دنیا میں ایمان و اسلام پر قائم رہا اور فرائض اسلام کی ادائیگی سے کبھی غافل نہ رہا، اسی طرح قبر میں بھی اسے سب سے پہلے نماز ہی یاد آتی ہے چنانچہ جب منکر و نکیر اس کے پاس قبر میں حاضر ہوتے ہیں تو وہ سوال و جواب سے پہلے نماز ادا کرنے کے لیے کہتا ہے کہ پہلے نماز پڑھ لوں اس کے بعد تمہیں جو کچھ کہنا سننا ہو کہو سنو یا سوال و جواب کے بعد وہ یہ الفاظ کہتا ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے درمیان بیٹھا ہوں، اس کے شعور و احساس میں سب سے پہلے نماز ہی آتی ہے۔ یہ حالت اس کی رعایت حال پر دلالت کرتی ہے کہ گویا وہ ہنوز دنیا میں ہی ہے اور سو کر ابھی اٹھا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ جو بندہ دنیا میں پکا نمازی ہو گا، اور جس کی نماز کبھی قضا نہیں ہوتی ہو گی، قبر میں بھی حسب عادت اسے پہلے نماز ہی یاد آئے گی۔

دفن کے بعد مردہ کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کرنا اس کی حالت مسافر اور تنہائی کی مناسبت کی وجہ سے ہے چنانچہ جب کوئی مسافر کسی شہر میں شام کو پہنچتا ہے تو وہ حیرانی و پریشانی کے عالم میں چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کہاں جاؤں اور کیا کروں؟ جیسا کہ شام غریباں مشہور ہے۔

تو زلف راکشا دی و تاریک شد جہاں

اکنوں فتاد شام غریباں کجا روند

اور

نماز شام غریباں چوگریہ آغازم

بہائے ہائے غریبانہ گر بہ پردازم

 

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب مردہ قبر کے اندر پہنچتا ہے (یعنی اسے دفن کر دیا جاتا ہے) تو (نیک) بندہ قبر کے اندر اس طرح اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے کہ نہ تو وہ لمحہ بھر خوفزدہ ہوتا اور نہ گھبرایا ہوا، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ  تم کس دین میں تھے؟ وہ کہتا ہے میں دین اسلام میں تھا! پھر اس سے پوچھا جاتا ہے  یہ آدمی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کون ہیں؟ وہ کہتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں جو اللہ کے پاس سے ہمارے لیے کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آئے اور ہم نے ان کی تصدیق کی۔ پھر اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ، اللہ تعالیٰ کو تو کوئی نہیں دیکھ سکتا! اس کے بعد اس کے لیے ایک روشن دان دوزخ کی طرف کھولا جاتا ہے اور وہ ادھر دیکھتا ہے اور آگ کے شعلوں کو اس طرح بھڑکتا ہوا پاتا ہے گویا اس کی لپیٹیں ایک دوسرے کو کھا رہی ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے ، اس چیز کو دیکھو جس سے اللہ نے تجھے بچایا ہے ، پھر اس کے لیے ایک کھڑکی جنت کی طرف کھول دی جاتی ہے ، وہ جنت کی تر و تازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے ، یہ تمہارا ٹھکانہ ہے کیونکہ (تمہارا اعتقاد مضبوط اور اس پر) تمہیں کامل یقین تھا اور اسی (یقین و اعتماد) کی حالت میں تمہاری وفات ہوئی اور اسی حالت میں تمہیں (قیامت کے دن) اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور بدکار بندہ اپنی قبر میں خوف زدہ اور گھبرایا ہوا اٹھ کر بیٹھتا ہے پس اس سے پوچھا جاتا ہے تو کس دین میں تھا؟ وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے یہ آدمی (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کون تھے  وہ کہتا ہے میں لوگوں کو جو کچھ کہتے سنتا تھا وہی میں کہتا تھا، اس کے بعد اس کے لیے بہشت کی طرف ایک روشن دان کھولا جاتا ہے جس سے وہ بہشت کی تر و تازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے ، اس چیز کی طرف دیکھ جسے اللہ نے تجھ سے پھر لیا ہے پھر اس کے لیے دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ آگ کے تیز شعلے ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں۔ اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانہ ہے اس شک کے سبب جس میں تو مبتلا تھا اور جس پر تو مرا اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ (سنن ابن ماجہ)

 

 

               کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان

 

کتاب سے مراد کتاب اللہ یعنی قرآن مجید ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ و کے اقوال، افعال اور احوال ہیں جن کے مجموعہ کا نام حدیث ہے ان کو شریعت ، طریقت، حقیقت فرماتے ہیں۔

٭٭  اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

فائدہ

مومن و مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اعتقاد و ایمان پختہ اور کامل ہو کہ قرآن و سنت نے جو راستہ بتا دیا ہے اس پر پورے یقین کے ساتھ چلنا اور شریعت نے جو حدود قائم کر دی ہیں ان کے اندر پورے اعتقاد کے ساتھ رہنا ہی عین فلاح و سعادت سمجھے ، اپنی طرف سے ایسے راستے پیدا کرنا جو سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہوں، یا ایسے طریقے اختیار کرنا جو قرآن و سنت کے صحیح راستے سے الگ ہوں نہ صرف یہ کہ ایمان و اعتقاد کی سب سے بڑی کمزوری ہے بلکہ دعویٰ اسلام کے برخلاف بھی ہے۔

چنانچہ اس حدیث میں ان لوگوں کو مردود قرار دیا جا رہا ہے جو محض اپنی نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض کی بنا پر دین و شریعت میں نئے نئے طریقے رائج کرتے ہیں اور ایسی غلط باتوں کا انتساب شریعت کی طرف کرتے ہیں جن کا اسلام میں سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔

مثلاً کوئی آدمی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور اپنی فہم کے مطابق اسلام میں ایسی نئی چیزیں پیدا کرتا ہے جس کا ثبوت نہ تو قرآن و سنت سے ظاہرا ہے اور نہ معناً اور نہ اس کی سند کسی اسلامی نظریہ سے مستنبط ہے تو اسے مردود قرار دیا جائے گا۔ ہاں حدیث کے الفاظ مالیس منہ نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ایسی چیزیں پیدا کرنا، یا ایسے نظریے قائم کرنا جو کتاب سنت کی منشاء کے خلاف اور ان کے برعکس نہ ہوں ان پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور نہ ان پر کوئی نکیر قائم کی جا سکتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا۔ بعد ازاں جاننا چاہئے کہ بے شک سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے ، سب سے بہترین راستہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کا راستہ ہے اور سب سے بد ترین چیز وہ ہے جس کو (دین میں) نیا نکالا گیا ہو اور ہر بدعت (اپنی طرف سے دین میں پیدا کی ہوئی نئی بات) گمراہی ہے۔ (صحیح مسلم)

 

فائدہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے ہوں گے ، چنانچہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی حمد و تعریف کی ہو گی پھر اما بعد یعنی بعد ازاں کہہ کر یہ حدیث اس طرح ارشاد فرمائی۔

بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کا وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں نہ رہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مختلف زمانوں میں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ بدعت کی دو قسمیں ہیں  بدعت حسنہ اور  بدعت سیۂ  یعنی اگر ایسی چیزیں نکالی گئی ہیں جو اسلامی اصول و قواعد کے مطابق ہوں اور قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہوں تو ان کو بدعت حسنہ فرماتے ہیں، اور جو چیزیں منشاء شریعت کے برعکس اور قرآن و حدیث کے برخلاف ہوں ان کو بدعت سیۂ  فرماتے ہیں اور یہی بدعت گمراہی و ضلالت اور خداوند کے رسول کی ناراضگی کا باعث ہے ، چنانچہ حدیث میں کل بدعۃ ضلالۃ سے مراد یہی بدعت سیۂ  ہے ایسی بدعت سے اجتناب ضروری ہے۔

اس کے برخلاف بعض بدعات حرام ہیں مثلاً قدریہ و جبریہ کے مذاہب اور ان کے افکار و نظریات جو قرآن و سنت کے بالکل برخلاف ہیں بلکہ ان کے مذاہب کا رد کرنا بدعت واجبہ ہے۔

بعض بدعات مستحب ہیں جیسے خانقاہیں قائم کرنا اور وہاں معرفت الی اللہ کے لیے لوگوں کے قلوب کو راہ حق پر لگانا، یا مدرسے قائم کرنا جہاں مسلمان بچوں کو دینی تعلیم و تربیت دینا، یا اسی طرح ایسے تمام کار خیر اور اچھی چیزیں جن کی فی الوقت ضرورت مسلم ہوا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں موجود نہ رہی ہوں۔

کچھ بدعات مکروہ بھی ہیں مثلاً کلام اللہ اور مساجد پر نقش و نگار بنانا اور ان کی تزئین و آرائش کے لیے غیر مسنون طریقے اختیار کرنا، بعض بدعات مباح بھی ہیں، جیسے صبح کے بعد مصافحہ کرنا لیکن یہ امام شافعی کا مذہب ہے حنفیہ کے یہاں صبح کے بعد کا مصافحہ کرنا مکروہ ہے۔

بدعت کے سلسلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ نے بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں جو نئی بات پیدا کی جائے یعنی بدعت اگر وہ کتاب کے مخالف صحابہ کے اقوال کے منافی اور اجماع امت کے برعکس ہو تو وہ ضلالت و گمراہی ہے اور جو چیزیں ایسی نہ ہوں ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب (وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہے) تین ہیں۔ (١) حرم میں کجروی کرنے والا۔ (٢) اسلام میں ایام جاہلیت کے طریقوں کو ڈھونڈھنے والا۔ (٣) کسی مسلمان کے خون ناحق کا طلب گار تاکہ اس کے خون کو بہائے۔ (صحیح البخاری)

 

فائدہ

اس حدیث میں تین آدمیوں کو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مغضوب قرار دیا جاتا ہے ، پہلا آدمی تو وہ ہے جسے اللہ نے اپنے گھر یعنی بیت اللہ میں حاضری کی سعادت بخشی مگر وہ بیت اللہ کی نہ تو عظمت کرتا ہے اور نہ حدود حرم میں ممنوع چیزوں سے پرہیز کرتا ہے بلکہ وہ حرم میں کجروی کرتا ہے یعنی ایسی چیزیں اختیار کرتا ہے جو ایک طرف تو اس مقدس جگہ کی شان عظمت کے منافی ہیں اور دوسری طرف احکام شریعت کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہیں مثلاً وہاں لڑائی جھگڑا کرنا، شکار کرنا، یا کوئی بھی مطلق گناہ اور قانون شریعت کی خلاف ورزی کرنا۔

دوسرا آدمی وہ ہے جس کو اللہ نے ایمان و اسلام کی دولت سے نوازا اور اس کے قلب کو یقین و اعتقاد کی روشنی سے منور کیا مگر وہ اسلام میں ان چیزوں کو اختیار کرتا ہے جو خالص زمانہ جاہلیت کا طریقہ اور غیر اسلامی رسمیں تھیں جیسے نوحہ کرنا، یا مصائب و تکالیف کے وقت چاک گریبان ہونا، برے شگون لینا، اور نو روز کرنا، یا ایسی رسمیں کرنا جو خالص کفر کی علامت ہوں (جیسے اولیاء اللہ کے مزار پر عرس کرنا، وہاں چراغاں کرنا، قبروں پر روشنی کا انتظام کرنا، غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز کرنا محرم و شب برات میں غلط رسمیں ادا کرنا۔ وغیرہ وغیرہ)۔

تیسرا آدمی وہ ہے جو کسی مسلمان کا ناحق خون بہانے کا طلب گار ہو یعنی کسی مسلمان کو قتل کرنے کا مقصد محض خون ریزی ہو اور کوئی دوسرا مقصد نہ ہو، اگرچہ محض قتل ہی کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے اس پر بھی بڑی وعید ہے مگر جب مقصد صرف خون ریزی ہو تو یہ جرم شریعت کی نظر میں اور زیادہ قابل نفرت ہو جاتا ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب محض خون ریزی کی خواہش اور طلب ہی اتنا بڑا جرم ہے تو اس جرم کو کر گزرنا یعنی واقعۃً کسی کا ناحق خون بہا دینا کتنا بڑا جرم ہو گا اور اس کی کتنی سخت سزا ہو گئی؟

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میری امت جنت میں داخل ہو گی مگر وہ آدمی جس نے انکار کیا اور سرکشی کی وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا، پھر پوچھا گیا  وہ کون آدمی ہے جس نے انکار کیا اور سرکشی کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس آدمی نے میری اطاعت و فرمانبرداری کی وہ جنت میں داخل ہوا۔ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا اور سرکشی کی۔ (صحیح البخاری)

 

فائدہ

صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ قبول کرنے والا اور سرکشی اختیار کرنے والا کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضاحت فرمائی کہ جس نے میری اطاعت نہیں کی اور میرے احکام و فرمان سے رو گردانی کی وہ سرکش ہے جو جنت کا مستحق نہیں ہو گا بلکہ اپنی سرکشی اور نافرمانی کی بناء پر اللہ کے عذاب کا مستوجب گردانا جائے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (کچھ) فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس وقت آئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سو رہے تھے فرشتوں نے آپس میں کہا۔ تمہارے اس دوست یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ایک مثال ہے اس کو ان کے سامنے بیان کرو، دوسرے فرشتوں نے کہا، وہ سوئے ہوئے ہیں (لہٰذا بیان کرنے سے کیا فائدہ) ان میں بعض نے کہا، بے شک آنکھیں سو رہی ہیں لیکن دل تو جاگتا ہے ، پھر اس نے کہا، ان کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے گھر بنایا اور لوگوں کے کھانا کھانے کے لیے دستر خوان چنا اور پھر لوگوں کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا لہٰذا جس نے بلانے والی بات کو مان لیا وہ گھر میں داخل ہو گا اور کھانا کھائے گا اور جس نے بلانے والے کی بات کو قبول نہ کیا وہ نہ گھر میں داخل ہو گا اور نہ کھانا کھائے گا یہ سن کر فرشتوں نے آپس میں کہا، اس کو (وضاحت کے ساتھ) بیان کرو تاکہ یہ اسے سمجھ لیں، بعض فرشتوں نے کہا بیان کرنے سے کیا فائدہ کیونکہ وہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ دوسروں نے کہا، بے شک آنکھیں سو رہی ہیں لیکن دل تو جاگتا ہے اور پھر کہا، گھر سے مراد تو جنت ہے اور بلانے والے سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری کی اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

اس آدمی سے مراد جس نے گھر بنایا اور دستر خوان چنا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، اسی طرح دستر خوان اور کھانے سے مراد بہشت کی نعمتیں ہیں چونکہ یہ ظاہری طور پر مفہوم ہو رہے ہیں اس لیے ان کی وضاحت نہیں کی گئی آخر میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی لوگوں کے درمیان فرق کرنے والی ہے یعنی کافر و مومن حق و باطل اور صالح و فاسق میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرق کرنے والے ہیں۔

 

 

 

٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ تین آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال دریافت کریں، جب ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال بتلایا گیا تو انہوں نے آپ کی عبادت کو کم خیال کر کے آپس میں کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں ہم کیا چیز ہیں اللہ تعالیٰ نے تو ان کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے ہیں، ان میں سے ایک نے کہا، اب میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا ، دوسرے نے کہا، اور میں دن کو ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا، ان میں آپس میں یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے اور فرمایا، تم لوگوں نے ایسا ویسا کہا ہے ، خبردار ! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں، اور تم سے زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہوں (لیکن اس کے باوجود) میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں میں (رات میں) نماز بھی پڑھتا ہوں او سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں (یہی میرا طریقہ ہے لہٰذا) جو آدمی میرے طریقہ سے انحراف کرے گا وہ مجھ سے نہیں (یعنی میری جماعت سے خارج ہے)۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

تین صحابی یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ازواج مطہرات کی خدمت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال معلوم کرنے کے لیے حاضر ہوئے جب ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال معلوم ہوا تو اسے انہوں نے کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ کہاں ہم اور کہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ یعنی عبادت کے مقابلہ میں ہمیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سے کیا نسبت؟ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنی بھی عبادت کی حاجت نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سراپا معصوم اور مغفور ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اگلے پچھلے تمام گناہ بار گاہ الوہیت میں سے پہلے ہی بخش دیے گئے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔

آیت (لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ) 48۔ الفتح:2)

تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اگلے پچھلے تمام گنا بخش دے۔

چنانچہ ان تینوں نے حسب طبیعت ایک ایک چیز کو اپنے اوپر لازم کر لیا اور یہ خیال کیا کہ عبادت میں اتنی زیادتی عرفان حق کا باعث اور تقرب الی اللہ کا واحد ذریعہ ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا اس لیے کہ عبادت وہی معتبر اور قابل تحسین ہو گی جو اللہ اور اللہ کے رسول کی قائم کردہ حدود کے اندر ہو اور جتنی عبادت کے لیے بندہ کو مکلف کیا گیا ہے اتنی عبادت ہی تقرب الی اللہ کا باعث ہو گی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں تم سے زیادہ ڈرتا ہوں، تقویٰ تم سے زیادہ اختیار کئے ہوئے ہوں، خوف خدا میرے دل میں تم سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی میری عبادت اور میری ریاضت ان ہی حدود کے اندر ہے جو اللہ نے قائم کر دی ہے ، اسی لیے میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سونے کے وقت سوتا بھی ہوں اور بتقاضائے فطرت عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔

چنانچہ کمال انسانیت یہی ہے کہ بندہ علائق سے تعلق رکھے ، عورتوں سے نکاح بھی کرے لیکن اس شان کے ساتھ کہ ایک طرف تو ان کے حقوق میں ذرہ برابر بھی کمی نہ ہو اور دوسری طرف حقوق اللہ میں بھی فرق نہ آئے اور نہ توکل کا دامن ہاتھ سے چھوٹے ، اسی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پورے کمال کے ساتھ عملی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کر دیا تاکہ امت بھی اسی طریقہ پر چلتی رہے۔

اور پھر آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صاف طور پر اعلان فرما دیا کہ یہ میرا طریقہ ہے اور یہی میری سنت ہے ، اب جو آدمی میری سنت سے انحراف کرتا ہے ، میری بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ میری سنت اور میرے طریقہ سے بیزاری و بے رغبتی کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسا آدمی میری جماعت سے خارج ہے اسے مجھ سے اور میری جماعت سے کوئی نسبت نہیں۔

اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ علائق دنیا سے بالکل منہ موڑ لینا اور رہبانیت کا طریق اختیار کر لینا جائز نہیں ہے اس لیے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ انسانی زندگی کا شیرازہ بکھر جائے گا بلکہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں بھی کوتاہی ہو گی اور عبادت کا جو اصلی حق ہے وہ ادا نہیں ہو گا۔

حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق حمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس حدیث سے بعض علماء نے یہ استنباط کیا ہے کہ اس حدیث میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو بدعت حسنہ کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ تینوں صحابہ نے جن چیزوں کو اپنے اوپر لازم کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ عبادت ہی کی قسم سے تھیں لیکن چونکہ یہ سنت کے طریقہ کے خلاف اور اس سے زیادہ تھیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو پسند نہیں فرمایا اور اس سے منع فرما دیا، لہٰذا اولیٰ یہی ہے کہ جو عبادت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہو، اور جس طرح ثابت ہو اسی طرح ادا کرے اس میں اپنی طرف سے کمی زیادتی نہ کرے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک کام کیا اور اس کی اجازت دے دی لیکن کچھ لوگوں نے اس سے پرہیز کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و تعریف کے بعد فرمایا۔ لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ اس چیز سے پرہیز کرتے ہیں جسے میں کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم ! میں اللہ تعالیٰ کی مرضی و نا مرضی کو ان سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

روزہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا ہو گا یا سفر میں روزہ نہ رکھا ہو گا چونکہ ان چیزوں کی اجازت ہے اور شریعت نے اس کی رخصت دی ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی اس پر عمل فرمایا اور لوگوں کو بھی اس کی اجازت دے دی کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے از راہ احتیاط ان کو جائز نہ سمجھا ہو گا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ اس کے باوجود کہ میں لوگوں سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور کمال اخلاق میرے اندر موجود ہے لیکن میں شریعت کی طرف سے دی گئی آسانی اور رخصت پر عمل کرتا ہوں تو وہ لوگ کون ہوئے ہیں جو اس رخصت و اجازت پر عمل نہ کریں۔

اگر معنوی حیثیت سے ان آسانیوں اور رخصت کی حقیقت پر غور کیا جائے جو شریعت نے ایسے مواقع پر دے رکھی ہیں تو اس میں بڑی عجیب حکمتیں نظر آئیں گی۔ مثلاً ! یہ کہ ایسے مواقع پر دراصل بندہ کے عجز و نا چارگی اور ضعف بشریت نیز رفاہیت نفس کا اظہار ہوتا ہے جو اللہ کے نزدیک بہت محبوب شے ہے اسی لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اللہ اسے پسند کرتا ہے کہ رخصتوں یعنی آسانیوں پر عمل کیا جائے جیسا کہ وہ عزیمتوں یعنی اولیٰ چیزوں پر عمل کئے جانے کو پسند کرتا ہے۔

 

 

٭٭حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت رافع بن خدیج انصاری اوسی ہیں جس وقت حق و باطل کے درمیان جنگ بدر ہوئی اس وقت یہ بہت کم سن تھے ٤٢ھ میں بعمر ۵۶ سال انتقال فرمایا۔ اسد الغابہ) بیان کرتے ہیں کہ (جب) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے اس وقت مدینہ کے لوگ کھجور کے درختوں میں تابیر کیا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا، تم یہ کیا کرتے ہو؟ اہل مدینہ نے عرض کیا، ہم ایسا ہی کرتے رہے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید بہتر ہو، چنانچہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد سن کر اسے چھوڑ دیا اور اس سال پھل کم آیا، راوی فرماتے ہیں کہ اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میں بھی ایک آدمی ہوں لہٰذا جب میں تمہیں کسی ایسی چیز کا حکم دوں جو تمہارے دین کی ہو تو اسے قبول کر لو، اور جب میں کوئی بات اپنی عقل سے تمہیں بتاؤں تو سمجھ لو کہ میں بھی انسان ہوں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

کھجور کے درختوں میں ایک درخت نر ہوتا ہے اور دوسرے مادہ ہوتے ہیں۔ مدینہ والے یہ کیا کرتے تھے کہ نر درخت کا پھل مادہ درختوں پر جھاڑتے یا ان میں لگا دیتے تھے اس سے ان کا خیال تھا کہ پھل زیادہ آتے ہیں اسی کو تابیر کرنا کہا جاتا ہے ، آخر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ میں بھی ایک انسان ہوں دنیاوی اسباب کے سلسلہ میں مجھ سے خطا بھی واقع ہو سکتی ہے اور صواب بھی، مگر میں کسی دنیاوی معاملہ میں اپنی کسی ایسی اجتہادی رائے کا اظہار کروں جو وحی کے زیر حکم نہ ہو تو اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے چنانچہ اس معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب دیکھا کہ یہ چیز امور جاہلیت میں سے ہے اور اس کی تاثیر پھلوں کی کمی و زیادتی میں کچھ معقول نظر نہیں آتی اور اس کا خیال نہیں فرمایا کہ شاید اس کی تاثیر کچھ منجانب اللہ ہی سے ہوتی ہو اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ترک کر دینے کے لیے فرمایا لیکن حکم نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ اگر یہ عمل نہ کرو تو بہتر ہو گا۔

جب تجربہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ لیا کہ یہ تو ایک قدرتی چیز ہے کہ جب نر درخت کے پھلوں کو مادہ درخت میں لگا دیتے ہیں تو اس سے پھل کثرت سے آتے ہیں اور اس عمل کے خلاف اللہ کی جانب سے کوئی وعید نہیں آئی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سکوت فرمایا۔

یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا کی طرف التفات نہ تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی غرض دنیا تھی بلکہ امور آخرت کے مسائل و احکام اور دینی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زیادہ اہتمام تھا۔

بعض دوسری احادیث میں اس واقع کے بیان کے سلسلہ میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اتنم اعلم بامور دنیاکم یعنی تم اپنی دنیا کے امور کو خوب جانتے ہو ! اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ دنیاوی اموری کی طرف مجھے التفات نہیں ہے ورنہ جہاں تک رائے و عقل کا معاملہ ہے اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں سب سے زیادہ عقل مند و صائب الرائے تھے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری اور اس چیز کی مثال جسے دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے (یعنی دین و شریعت) اس آدمی کی سی ہے جو ایک قوم کے پاس آیا اور کہا، اے قوم ! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے اور میں ننگا (یعنی بے غرض) ڈرانے والا ہوں، لہٰذا تم اپنی نجات کو تلاش کرو، چنانچہ اس کی قوم کی ایک جماعت نے اس کی فرمانبرداری کی اور راتوں رات آہستہ آہستہ نکل گئی اور نجات پالی ان میں سے ایک گروہ نے اس کو جھٹلایا اور صبح تک اپنے گھروں میں رہا صبح کو لشکر نے آ کر ان کو پکڑ لیا اور ہلاک کر ڈالا (یہاں تک کہ) ان کی جڑیں کھود ڈالیں یعنی ان کی نسل تک کا خاتمہ کر دیا، چنانچہ یہی مثال ہے اس آدمی کی جس نے میری فرمانبرداری کی اور جو (احکام) میں لایا ہوں ان کی پیروی کی، اور اس آدمی کی بھی یہی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق بات (یعنی دین و شریعت میں لے کر آیا ہوں اس کی تکذیب کی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ننگا ڈرانے والے کی اصل یہ ہے کہ عرب میں قاعدہ تھا کہ جب کوئی آدمی کسی لشکر کو اپنی قوم پر حملہ کے لیے آتا ہوا دیکھتا تو کپڑے اتار کر سر پر رکھ لیتا اور بالکل ننگا ہو کر چلاتا ہوا اپنی قوم کی طرف آتا تاکہ لوگ خبردار ہو جائیں اور دشمن کی اچانک آمد سے بچاؤ کی شکل پیدا کر سکیں۔ اسی کو ننگا ڈرانے والا کہا جاتا تھا، اس کے بعد سے یہ کسی ناگہانی اور خوفناک حادثہ کے پیش آنے میں صرف ایک ضرب المثل بن گیا۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ مثال بالکل صحیح و صادق تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمانبردار اور اطاعت گزار کو جنت اور رضاء مولی کی خوشخبری اور نا فرمانبردار و سر کش جماعت کو اللہ کے عذاب و غضب کی خبر دینے میں بالکل سچے تھے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میری مثال اس آدمی کی مانند ہے جس نے آگ روشن کی چنانچہ جب آگ نے چاروں طرف روشنی پھیلا دی تو پروانے اور دوسرے وہ جانور جو آگ میں گرتے ہیں آ کر آگ میں گرنے لگے آگ روشن کرنے والے آدمی نے ان کو روکنا شروع کیا لیکن وہ (نہیں رکتے بلکہ اس کی کوششوں پر) غالب رہتے ہیں اور آگ میں گر پڑتے ہیں اسی طرح میں تمہاری کمریں پکڑ کر تمہیں آگ میں گرنے سے روکتا ہوں اور تم آگ میں گرتے ہو۔

یہ روایت صحیح البخاری کی ہے اور مسلم میں بھی ایسی ہی روایت ہے البتہ مسلم کی روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ بالکل ایسی ہی مثال میری اور تمہاری ہے میں تمہاری کمریں پکڑے ہوں کہ تمہیں آگے سے بچاؤں اور یہ کہتا ہوں کہ دوزخ سے بچو میری طرف آؤ، دوزخ سے بچو میری طرف آؤ لیکن مجھ پر تم غالب آتے ہو اور آگ میں گر پڑتے ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

رسول اللہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میں نے حرام اور ممنوع چیزوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کر دیا ہے لیکن جس طرح کوئی آدمی آگ جلائے اور اس آدمی کے روکنے کے باوجود پروانے آگ میں گرتے ہیں وغیرہ۔ اسی طرح باوجودیکہ میں تمہیں برے راستہ سے ہٹاتا ہوں اور برے کام سے روکتا ہوں لیکن تم اس ممنوع اور غیر پسندیدہ چیزوں کو کرتے ہو ! اسی طرح دوزخ کی آگ میں گرنے کی کوشش کرتے ہو۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اس چیز کی مثال جسے اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے یعنی علم اور ہدایت کثیر بارش کی مانند سے جو زمین پر بوئی چنانچہ زمین کے اچھے ٹکڑے نے اسے قبول کر لیا یعنی اپنے اندر جذب کر لیا، اس سے بہت زیادہ خشک و ہری گھاس پیدا ہوئی اور زمین کا ایک ٹکڑا ایسا سخت تھا کہ اس کے اوپر پانی جمع ہو گیا اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا اور لوگوں نے اسے پیا اور پلایا اور کھیتی کو سیراب کیا اور یہ (بارش کا پانی) زمین کے ایسے ٹکڑے پر بھی (پہنچا) جو چٹیل سخت میدان تھا نہ تو اس نے پانی کو روکا اور نہ گھاس کو اگایا لہٰذا یہ سب (مذکورہ مثالیں) اس آدمی کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے میری وساطت سے بھیجی تھی اس نے اس سے نفع اٹھایا پس اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور اس آدمی کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھنے کے لیے تکبر کی وجہ سے سر نہیں اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو جو میرے ذریعہ بھیجی گئی تھی قبول نہیں کیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس میں دو قسم کے آدمی ذکر کئے گئے ہیں ایک تو دین سے فائدہ اٹھانے والے اور دوسرے دین سے فائدہ نہ اٹھانے والے ، اسی طرح مثال مذکورہ میں زمین دو قسم کی بیان کی گئی ہے ، زمین کی ایک قسم تو وہ ہے جو پانی سے فائدہ اٹھاتی ہے ، دوسرے وہ جو پانی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتی پھر فائدہ اٹھانے والی کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک اگانے والی اور دوسری نہ اگانے والی۔

ٹھیک اسی طرح علم دین سے بھی فائدہ اٹھانے والے دو طرح کے ہوتے ہیں، پہلا وہ آدمی جو عالم بھی ہو اور عابد و فقیہ اور معلم بھی۔ اس پر زمین کے اس ٹکڑے کی مثال صادق آتی ہے جس نے پانی کو اپنے اندر جذب کر لیا، خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسروں کو بھی نفع پہنچایا نیز گھاس بھی اگائی۔ اسی طرح اس آدمی نے علم دین سے خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسروں کو بھی اپنے علم سے مستفیض کیا۔ دوسرا وہ آدمی ہے جو عالم و معلم ہو مگر عابد و فقیہہ نہ ہو، نہ تو وہ نوافل وغیرہ میں مشغول ہوا اور نہ اس نے اپنے علم میں تفقہ یعنی سمجھ بوجھ پیدا کی، اس کی مثال زمین کے اس حصہ کی مانند ہے جس میں پانی جمع ہو گیا اور لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ یا پھر زمین کا وہ حصہ جس نے پانی کو جذب بھی کیا اور گھاس بھی اگائی وہ مجتہدین کی مثال ہے کہ جنہوں نے علم حاصل کیا، پھر بہت سے مسائل کا استنباط کیا اس سے خود بھی منتفع ہوئے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا۔

اور زمین کے اس حصہ کی مثال جس میں پانی جمع ہوا، محدثین ہیں کہ انہوں نے علم حدیث حاصل کیا اور اس علم کو بعینہ دوسرے لوگوں تک پہنچا دیا، ان دونوں کے مقابلہ میں تیسرا آدمی وہ ہے جس نے از راہ غرور و تکبر اللہ کے دین کے سامنے اپنی گردن نہیں جھکائی، نہ اس نے علم دین کی طرف کوئی توجہ والتفات کی اور نہ اس نے خدا اور خدا کے رسول کے پیغام کو سنا اور نہ اس پر عمل کیا اور نہ علم کی روشنی دوسروں تک پہنچائی، اب چا ہے یہ دین محمدی میں داخل ہو یا نہ ہو اور یا کافر ہو، اس کی مثال زمین شور کی ہے کہ جس نے نہ پانی کو قبول کر کے اپنے اندر جذب کیا، نہ پانی کو جمع کیا اور نہ کچھ اگایا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْہ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ) 3۔ آل عمران:7) ترجمہ: یہ وہ (خدا) ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب نازل کی کہ جس کی بعض آیات محکم ہیں۔ اور آخر آیت  وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ (3۔ آل عمران:7) اور نہیں نصیحت پکڑتے مگر صاحب عقل، تک پڑھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ آیت پڑھ کر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس وقت تو دیکھے اور مسلم کی روایت میں ہے جب تم دیکھو کہ لوگ ان آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں جو متشابہ ہیں تو (تم سمجھو کہ یہ) وہ لوگ ہیں جن کا نام اللہ تعالیٰ نے (کج رو یا گمراہ) رکھا ہے لہٰذا ان لوگوں سے بچتے رہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے آیت (ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہ مِنْہ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِہٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَہٓ اِلَّا اللّٰہ  ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا  ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَاب) 3۔ آل عمران:7)

اور وہی (آیات محکمات) اصل کتاب ہیں اور بعض آیات متشابہ ہیں۔ ایسے لوگ کہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں ، حالانکہ مراد اصلی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور جو لوگ علم میں کامل دسترس رکھتے ہیں وہ یہ فرماتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ آیات متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں اور ان کی اصل مراد کو پانے کے لیے اپنی عقل کے تیر چلاتے ہیں ان کو اللہ نے کجرو یعنی گمراہ کہا ہے جیسا کہ آیت بالا (فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہمْ زَيْغٌ) 3۔ آل عمران:7) سے معلوم ہوا۔

حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیتیں ہیں اول  آیات محکمات یہ وہ آیتیں ہیں جس کے معنی و مطلب ظاہر ہوتے ہیں ان میں اخفاء و ابہام نہیں ہوتا، دوسری آیات متشابہات ہیں یعنی جن کے معنی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ان کی حقیقی مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے جیسے آیت (يَدُ اللّٰہ فَوْقَ اَيْدِيْہمْ) 48۔ الفتح:10) وغیرہ۔

لہٰذا جو لوگ نیک اور صالح ہوتے ہیں اور جن کے قلوب ایمان و ایقان کی روشنی سے پوری طرح منور ہوتے ہیں وہ آیات محکمات کے معنی و مطالب کو سمجھتے بھی ہیں اور ان پر ایمان بھی لاتے ہیں اور آیات متشابہات پر پوری رسوخ و ایقان کے ساتھ ایمان لا کر ان کے معنی و مطالب اور حقیقی مراد کا علم اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں کہ وہی بہتر جاننے والا ہے۔

لیکن جن لوگوں کے قلوب میں کجی ہوتی ہے اور جن کے ذہن گمراہ ہوتے ہیں وہ آیات متشابہات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ان میں اپنی طرف سے غلط تاویلیں کر کے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس حدیث اور مذکورہ بالا آیات شریفہ کا یہی خلاصہ اور مطلب ہے

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں جو ایک (متشابہ) آیت میں اختلاف کر رہے تھے یعنی اس کے معنی میں جھگڑ رہے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان تشریف لائے (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار نمایاں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تم سے پہلے کے لوگ کتاب (الہٰی) میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس سے مراد وہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے قلوب شک میں گرفتار ہوں، یا ایمان میں کمزوری پیدا ہو اور آپس میں فتنہ وفساد اور دشمنی کا سبب نیز کفر و بدعت کا باعث ہو، جیسے نفس قرآن میں اختلاف کرنا، اس کے معنی و مطالب میں فرق پیدا کرنا، ظاہر ہے کہ ان چیزوں میں نہ تو اجتہاد جائز ہے اور نہ اختلاف کرنا صحیح ہے ، ہاں علمائے مجتہدین کے اختلاف صحیح ہیں جو اللہ کی رحمت کا باعث اور دین و شریعت میں وسعت کا ذریعہ ہیں، چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے اس طرح کا اجتہادی اختلاف جو فائدہ مند ہے ، منقول ہے جو جائز تھا اور جس کی وجہ سے بے شمار مسائل کا استنباط ہوا اور امت ان سے منتفع ہو گئی۔

 

 

٭٭اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، مسلمانوں میں سب سے بڑا گناہگار وہ آدمی ہے جس نے کسی ایسی چیز کا سوال کیا جو حرام نہ تھی مگر اس کے سوال کرنے سے وہ حرام ہو گئی ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہ وعید آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کے بارے میں فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے از راہ سرکشی سوالات کرتے تھے یا ان کا سوال کرنا محض تصنع کی وجہ سے ہوتا تھا جیسا کہ بنی اسرائیل نے گائے کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا تھا۔ ہاں جن لوگوں کا سوال کرنا واقعۃً علم حاصل کرنے یا کسی ضرورت کی بنا پر ہوتا تھا وہ اس میں داخل نہیں ہیں کیونکہ ان کو تو اپنے صحیح سوالات کی بنا پر ثواب ملتا تھا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ آخری زمانہ میں ایسے فریب دینے والے اور جھوٹے لوگ ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہو گا اور نہ تمہارے باپوں نے سنا ہو گا لہٰذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں نہ گمراہ کریں اور نہ فتنہ میں ڈالیں۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زہد و تقدس کا پرفریب لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بہکائیں گے ، عوام سے کہیں گے کہ ہم علماء اور مشائخ میں سے ہیں اور تمہیں اللہ کے دین کی طرف بلاتے ہیں، نیز جھوٹی حدیث اپنی طرف سے وضع کر کے لوگوں کے سامنے بیان کریں گے ، یا پچھلے بزرگوں کی طرف غلط باتیں منسوب کر کے لوگوں کو دھوکا دیں گے ، باطل احکام بتلائیں گے اور غلط عقیدوں کا بیج لوگوں میں بوئیں گے۔

لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اگر وہ ایسے لوگوں کو پائیں تو ان سے بچیں، ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے مکر و فریب سے نیک لوگوں کو فتنہ میں ڈال دیں یعنی شرک و بدعت میں مبتلا کر دیں۔

اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ دین کے حاصل کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے ، نیز بدعتی اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہئے جو ذاتی اغراض اور نفسانی خواہشات کی بنا پر دین و مذہب کی نام پر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان سے ربط و ضبط نہ رکھنا چاہئے

چوں بسا ابلیس آدم روئے ہست

پس بہر دستے نباید داد دست

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب تو رات کو عبرانی زبان میں پڑھا کرتے تھے (جو یہودیوں کی زبان ہے اور مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کیا کرتے تھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا یہ عمل دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا)۔ تم اہل کتاب کو نہ تو سچا جانو اور نہ ان کو جھٹلاؤ (صرف) یہ کہ کہو کہ ہم اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم پر نازل کی گئی، ایمان لائے (آخر آیت تک)۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

پوری آیت یہ ہے آیت (قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَہ مُسْلِمُوْنَ)  2۔ البقرۃ:136) (مسلمانو !) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو عطا ہوئیں ان پر اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں ان (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (اللہ واحد) کے فرمانبردار ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے سامنے اہل کتاب (یعنی یہودی) تو رات کی کسی عبارت کا ترجمہ و تفسیر کریں تو ان کو نہ جھٹلاؤ اور نہ ان کو سچ جانو بلکہ یہ آیت کریمہ پڑھو اور ان کو سچا اس لیے نہ جانو کہ یہ لوگ کتاب الہٰی میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ تمہارے سامنے جس عبارت کا ترجمہ و تفسیر کر رہے ہیں، اس کو انہوں نے بدل دیا ہو، اور ان کو جھٹلاؤ اس لیے نہیں کہ اگرچہ انہوں نے تورات میں تغیر و تبدل کر رکھا ہے لیکن پھر بھی وہ کتاب ہے الہٰی ہے اور حق ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ شاید وہ سچ اور صحیح عبارت نقل کر رہے ہوں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، انسان کے جھوٹ بولنے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جس بات کو سنے (بغیر تحقیق کے) اسے نقل کر دے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی جھوٹ نہ بولتا ہو لیکن اس کی عادت یہ ہے کہ جو کچھ سنے بغیر تحقیق و تفتیش کے اسے نقل کر دیتا ہے اور لوگوں میں اسے مشہور کر دیتا ہے تو جھوٹ بولنے کے یہی بہت ہے ، کیونکہ سنی سنائی باتوں پر اعتماد کر لینا اور بغیر تحقیق کے اس کو پھیلا دینا جھوٹ کا پہلا زینہ ہے ، جو آدمی ایسی عادت میں مبتلا ہو گا وہ یقیناً جھوٹ کی لعنت میں گرفتار ہو گا کیونکہ وہ جو کچھ سنتا ہے اس میں سب سچ نہیں ہوتا کچھ جھوٹ بھی ہوتا ہے اور جب وہ سچ کے ساتھ جھوٹ کو نقل کرتا ہے تو وہ بھی جھوٹ ہوتا ہے۔

دراصل اس کا مقصد اس بات سے منع کرنا ہے کہ جس چیز کی حقیقت معلوم نہ ہو اور اس کی صداقت کا علم نہ ہو تو اسے بیان کرنا یا اس کی تشہیر کرنا نہیں چاہیے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ مجھ سے پہلے کسی قوم میں اللہ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کے مددگار اور دوست اسی قوم سے نہ ہوں جو اسی (نبی) کے طریقہ کو اختیار کرتے اور اس کے احکام کی پیروی کرتے پھر ان (دوست و مددگار) کے بعد ایسے نا خلف (نالائق) لوگ پیدا ہوتے جو لوگوں سے ایسی بات کہتے جس کو خود نہ کرتے اور وہ کام کرتے جن کا انہیں حکم نہیں ملا تھا (جیسا کہ علماء سوء اور امراء و سرداروں کا طریقہ ہے) لہٰذا (تم سے)۔ جو خاص لوگوں سے اپنے ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو آدمی ان لوگوں سے اپنی زبان سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو آدمی ان لوگوں سے اپنے دل سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور اس کے علاوہ (جو آدمی ان کے خلاف اتنا بھی نہ کر سکے اس) میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

ہاتھ سے جہاد کا مطلب تو ظاہر ہے زبان سے جہاد کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کے غلط عقائد و اعمال کی بنا پر ان کو تنبیہ کرے اور ان کو اس سے منع کرے اور ان کی برائی بیان کرتا رہے اسی طرح دل سے جہاد کے معنی یہ ہیں کہ ایسی غلط چیزوں کو برا جانے جو دین و شریعت کے خلاف ہوں اور دل میں ان کے کرنے والوں سے بغض و نفرت رکھے۔

آخر میں فرمایا گیا کہ جس آدمی کا احساس اتنا مردہ ہو جائے کہ وہ غلط چیزوں کو دل سے بھی برا نہ جانے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ اس کے دل میں ایمان کی ہلکی سی روشنی بھی موجود نہیں ہے اس لیے کہ کسی غلط عقیدہ و عمل کو برا نہ جاننا گویا اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ وہ اس بری بات سے راضی اور خوش ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کفر کا خاصہ ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جس آدمی نے (کسی کو) ہدایت کی طرف بلایا اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس کو جو اس کی پیروی اختیار کرے ، اور اس (پیروی کرنے والے) کے ثواب میں کچھ بھی کم نہ ہو گا۔ اور جو (کسی کو) گمراہی کی طرف بلائے اس کو اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا کہ اس کو جو اس کی اطاعت کریں اور ان کے گناہ میں کچھ بھی کم نہ ہو گا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یعنی جو آدمی کسی بھلائی کا باعث اور ذریعہ ہو گا اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس بھلائی پر عمل کرنے والے کو، لیکن ہدایت و راستی کی طرف بلانے والے کو جو ثواب ملے گا اس کی وجہ سے اس کی پیروی کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہو گی، کیونکہ اطاعت کرنے والوں کو جو ثواب ملے گا اور ان کے عمل صالح بنا پر ہو گا اور جو ثواب و بھلائی کی طرف بلانے والے کو ہو گا وہ اس کی دعوت و تبلیغ کی بناء پر ہو گا۔ یہی حال ان لوگوں کے گناہ کا ہے جو لوگوں کو غلط عقائد و اعمال کے طرف بلاتے ہیں اور خلاف شرع طریقہ پر عوام کو چلاتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اسلام غربت میں شروع ہوا اور آخر میں بھی ایسا ہی ہو جائے گا لہٰذا غرباء کے لیے خوشخبری ہے۔ (صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اسلام کی ابتداء غریبوں سے ہوئی اور آخر میں بھی اسلام غریبوں میں ہی رہ جائے گا۔ یعنی ابتداء اسلام میں مسلمان غریب اور کم تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنی پڑی، اسی طرح آخر میں بھی ایسا ہی ہو گا کہ اسلام غریبوں ہی کی طرف لوٹ آئے گا، لہٰذا ان غرباء کے لیے جن کے قلوب ایمان و اسلام کی روشنی سے پوری طرح منور ہوں گے خوش بختی و سعادت ہے۔ اس لیے کہ آخر زمانہ میں یہی بے چارے اسلام پر ثابت قدم رہیں گے اور کتاب و سنت کے علوم و معارف سے اپنی زندگیوں کو منور کریں گے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ ایمان مدینہ کی طرف اس طرح سمٹ آئے گا جس طرح سانپ بل کی طرف سمٹتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (ذرونی ماتر کتکم) ہم کتاب مناسک (حج) میں ذکر کریں گے نیز حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و جابر کی دونوں حدیثیں (لایزال من امتی الخ) اور لا یزال طائفۃ من امتی۔ بھی اس امت کے ثواب کے باب میں ذکر کریں گے انشاء اللہ یعنی یہ حدیثیں صاحب مصابیح نے اسی باب میں ذکر کی تھیں لیکن ہم نے ان کو ان بابوں میں ذکر کیا ہے۔

 

تشریح

 

دشمنان اسلام کے مصائب اور مظالم سے اہل ایمان کے بھاگنے اور ایمان پر ثابت قدم رہنے کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سانپ سے دی ہے اس لیے کہ دوسرے جانوروں کے مقابلہ میں سانپ تیز بھاگتا ہے اور بہت سمٹ کر بل میں جاتا ہے اور پھر مشکل ہی سے وہ بل سے نکالا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیشین گوئی یا تو ابتدائے ہجرت کے وقت کے لیے تھی یا پھر آخر زمانہ کے بارہ میں جب مسلمان بہت کم رہ جائیں گے اور سب سمٹ سمٹا کر مدینہ چلے جائیں گے۔

 

 

٭٭حضرت ربیعہ الجرشی (آپ کا اسم گرامی ربیعۃ بن التمار ہے کچھ لوگوں نے انہیں ربیعہ بن عمرو بھی لکھا ہے ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے خرج راہط کے دن انتقال ہوا تھا۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں فرشتے دکھلائے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا (یعنی فرشتوں نے کہا) چاہئے کہ آپ کی آنکھیں سوئیں،

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے کان سنیں اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا دل سمجھے ، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا، تو میری آنکھیں سوئیں، میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے سمجھا، پھر آپ نے فرمایا کہ مجھ سے کہا گیا (یعنی مثال کے طور پر فرشتوں نے میرے سامنے بیان کیا) کہ ایک سردار نے گھر بنایا اور کھانا تیار کیا پھر ایک بلانے والے کو بھیجا (تاکہ وہ لوگوں کو بلائے) لہٰذا جس نے بلانے والے کی دعوت کو قبول کیا وہ گھر میں داخل ہوا اور کھانے میں سے کھایا اور سردار خوش ہوا ، اور جس نے بلانے والے کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ گھر میں داخل ہوا اور نہ کھانے میں سے کھایا اور نہ ہی اس سے سردار خوش ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اس مثال میں سردار سے مراد اللہ ہے ، بلانے والے سے مراد محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ہیں، گھر مراد اسلام ہے اور کھانے سے مراد جنت ہے۔ (دارمی)

 

تشریح

 

چاہئے کہ آپ (صل اللہ علیہ و سلم) کی آنکھیں سوئیں یعنی اپنی آنکھوں سے اور کچھ نہ دیکھئے ، نہ کسی بات پر کان رکھئے اور نہ دل میں کوئی دوسرا سوال جمائیے فرشتوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ خوب غور و خوض اور حضور دل کے ساتھ اس مثال کو سنیے جو ہم بیان کرنے والے ہیں تاکہ یہ خوب اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ فنامت عینای یعنی میری آنکھیں سوئیں الخ، اسی مضمون کی وہ حدیث جو پہلی فصل میں گزری اس کی مذکورہ مثال میں گھر سے جنت اور کھانے سے بہشت کی نعمتیں مراد لی گئی تھیں، اس حدیث میں گھر سے مراد اسلام لیا گیا ہے اور کھانے سے جنت مراد لی گئی ہے اس لیے کہ مکان بہشت میں داخل ہونے کا سبب اور ذریعہ ہے اس لیے اسے گھر کی تمثیل دی گئی ہے مادبۃ کے معنی مہمان کے کھانے کے ہیں، دونوں حدیث میں اس سے مراد جنت کی نعمتیں ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ(آپ کا اسم گرامی اسلم ہے ابو رافع کنیت ہے یہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ‏، میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے چھپر کھٹ (مسہری) پر تکیہ لگائے ہوئے اور میرے ان احکام میں سے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جس سے منع کیا ہے کوئی حکم اس کے پاس پہنچے اور وہ (اسے سن کر) یہ کہہ دے کہ میں کچھ نہیں جانتا ، جو کچھ ہمیں اللہ کی کتاب میں ملا ہم نے اس کی اطاعت کی۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، بیہقی)

 

تشریح

 

چھپر کھٹ پر لگائے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی از راہ غرور و تکبر بے فکر ہو کر بیٹھا نہ رہے اور نہ طالب علم و حصول حدیث میں کوتا ہی کرے اور نہ دینی علوم کو ترک کرے اور از راہ جہالت و نادانی میرے کسی ایسے حکم کے بارے میں جو قرآن میں صراحت کے ساتھ موجود نہ ہو یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتا اور نہ اس کے سوا کسی دوسری چیز کی پیروی کرتا ہوں اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جاہل اور متکبر و بے فکرے لوگوں کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی ہے جو ان احکام پر عمل کرنے میں شک و شبہ کا اظہار کریں گے یا ان کی اطاعت میں کسل و سستی کا اظہار کریں گے جو صراحت کے ساتھ قرآن میں موجود نہ ہوں گے اور ان کی ظاہر بین نظریں قرآنی علوم کے اسرار و معانی کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہیں گی۔

چنانچہ وہ لوگ یہ خیال کریں کہ دین و شریعت کے احکام و مسائل صرف قرآن ہی میں منحصر و مذکور ہیں حالانکہ وہ عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ بہت سے مسائل و احکام قرآن مجید میں موجود نہیں ہیں وہ صرف حدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں، اسی لیے علماء اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جس طرح احکام شرائع کے لیے قرآن دلیل و حجت ہے اسی طرح حدیث بھی دلیل و حجت ہے کیونکہ جس طرح قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا ہے ، اسی طرح احادیث کے علوم و معارف بھی بارگاہ الوہیت ہی سے نازل ہوئے ہیں اور دونوں وحی ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ(اسم گرامی مقدام بن معدیکرب اور کنیت بھی معدیکرب ہے ، آپ صحابی ہیں شام میں ٨٧ھ میں بعمر ٩١ سال آپ کا انتقال ہوا ہے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، آگاہ رہو ! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کا مثل، خبردار، عنقریب اپنے چھپر کھٹ پر پڑا ایک پیٹ بھرا آدمی کہے گا کہ بس اس قرآن کو اپنے اوپر لازم جانو (یعنی فقط قرآن ہی کو سمجھو اور اس پر عمل کرو) اور جو چیز تم قرآن میں حلا ل پاؤ اس کو حلال جانو اور جس چیز کو تم قرآن میں حرام پاؤ اسے حرام جانو حالانکہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام فرمایا ہے وہ اس کے مانند ہے جسے اللہ نے حرام کیا، خبردار تمہارے لیے نہ اہلی (گھریلو) گدھا حلال کیا اور نہ کچلی رکھنے والے درندے ، اور نہ تمہارے لیے معاہد یعنی وہ قوم جس سے معاہدہ کیا گیا ہو کا لقطہ حلال کیا ہے جس کی پرواہ اس کے مالک کو نہ ہو، اور جو شخص کسی قوم کا مہمان ہو اس قوم پر لازم ہے کہ اس کی مہمانی کریں۔ اگر وہ مہمانی نہ کریں تو اس آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ مہمانی کے مانند اس سے حاصل کرے۔ (ابوداؤد) دارمی نے بھی ایسی روایت نقل کی ہے اور اسی طرح حدیث بھی مجھے بارگاہ الوہیت سے عطا ہوئی ہے۔

 

تشریح

 

قرآن کا مثل حدیث ہے یعنی جس طرح قرآن مجید مجھ پر نازل کیا گیا ہے اسی طرح حدیث بھی مجھے بارگاہ الوہیت ہی سے عطا ہوئی ہے لیکن فرق یہی ہے کہ قرآن وحی ظاہر ہے اور حدیث وحی پوشیدہ۔ لہٰذا واجب العمل دونوں میں الا لا یحل سے بطور مثال کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان چیزوں کی حرمت قرآن میں کہیں مذکور نہیں ہے میں نے ہی ان کی حرمت بیان کی ہے جس پر عمل کرنا واجب و ضروری ہے۔

اہلی گدھا اسے کہتے ہیں جو گھر میں رہتا ہے یہ حرام ہے گدھا وحشی جسے گورخر کہتے ہیں۔ ان سب کی حرمت احادیث ہی سے ثابت ہے معاہد اس کافر کو کہتے ہیں جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ صلح و امان ہوا ہو، خواہ وہ کافر ہو یا غیر ذمی، اس کے بارہ میں فرمایا کہ اس کا لقطہ حلال نہیں ہے ، ہاں اگر لقطہ ایسی چیز ہے جس سے اس کا مالک بے نیاز و بے پرواہ ہو جیسے گٹھلی، چھلکے ، گاجر، مولی یا ایسی ہی کوئی حقیر چیز تو اس کے لیے لینا جائز ہے لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو راستہ میں گری پڑی پائی جائے۔

آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جو آدمی کسی کے یہاں مہمان جائے تو میزبان پر اس کی مہمانداری لازم ہے علماء فرماتے ہیں کہ یہ حکم فرض نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا مستحب و اولیٰ ہے ، اسی طرح یہ حکم دینا کہ اگر میزبان مہمان نوازی نہ کر سکے تو میزبان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس میزبان سے مہمانداری کا عوض وصول کر لے یعنی اس سے روپیہ پیسہ لے۔

اس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ یا تو ایسی شکل میں جائز ہوا جب کہ مہمان ایسا مضطر ولا چار ہو کہ اگر میزبان سے وہ کچھ نہ لے تو اس کے ہلاک ہو جانے کا خطرہ ہو۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جواز کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا لیکن اب منسوخ ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ(حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت او نجیح ہے اور سلمی ہیں آپ اہل صفہ سے تھے۔ ان سے تابعین کی ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے ۷۵ہ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (خطبہ کے لیے) کھڑے ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کوئی آدمی اپنے چھپر کھٹ پر تکیہ لگائے ہوئے یہ خیال رکھتا ہے کہ اللہ نے وہی چیزیں حرام کی ہیں جو قرآن میں ذکر کی گئی ہیں، خبردار ! اللہ کی قسم ! بلاشک میں نے حکم دیا، میں نے نصیحت کی اور میں نے منع کیا چند چیزوں سے جو مثل قرآن کے ہیں بلکہ زیادہ ہیں‏، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ حلال نہیں کیا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں اجازت حاصل کئے بغیر چلے جاؤ اور نہ تمہارے لیے ان عورتوں کو مارنا حلال ہے اور نہ تمہارے لیے ان کے پھلوں کا کھانا جائز کیا ہے جب کہ وہ اپنا مطالبہ ادا کر دیں جو ان کے ذمہ تھا۔ (ابوداؤد) اور ان کی سند میں اشعث بن شعبہ مصیصی ہیں جن کے بارے میں کلام کیا گیا ہے وہ ثقہ ہیں یا نہیں؟۔

 

تشریح

 

ان اللہ لم یحل سے آخر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چند احکام دیے ہیں وہ یہ کہ اہل کتاب کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہو کر ان کو نہ ستاؤ اور نہ ان کو پریشان کرو اور نہ ان کے گھر والوں کو ستاؤ اور نہ تکلیف پہنچاؤ اسی طرح ان کے مال کو نہ لو جب کہ وہ جزیہ ادا کریں۔

ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ یہ احکام قرآن میں مذکور نہیں ہیں بلکہ میں نے دیے ہیں اور ان چیزوں سے میں نے منع کیا ہے اور ان پر عمل کرنا واجب و ضروری ہے۔ ان احکام سے یہ کہہ کر اعراض نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قرآن میں چونکہ موجود نہیں ہیں اس لئے واجب العمل بھی نہیں ہیں۔

آخر روایت میں لفظ رواہ کے بعد مشکوۃ کے اصل نسخہ میں جگہ خالی ہے اس لیے کہ صاحب مشکوٰۃ کو اس حدیث کے راوی کا علم نہ ہوا ہو گا۔ لیکن بعد میں میرک شاہ نے مذکورہ عبارت لکھ دی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عرباض بن ساریہ (حضرت عرباض ابن ساریہ کی کنیت ابو نجیح ہے اور سلمی ہیں آپ اہل صفہ سے تھے۔ ان سے تابعین کی ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے ٧٥ھ ہیں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں نماز پڑھائی ہماری طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے اور ہم کو نہایت موثر انداز میں نصیحت کی کہ ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور دلوں میں خوف پیدا ہو گیا، ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ !(ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) گویا نصیحت کرنے والے کی یہ (آخری نصیحت ہے) لہٰذا ہم کو وصیت فرما دیجئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم کو مسلمان سردار جو کہے سننے اور بجا لانے کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ وہ (سردار) حبشی غلام ہو تم میں سے جو آدمی میرے بعد زندہ رہے گا وہ اختلاف بھی دیکھے گا ا یسی حالت میں تم پر لازم ہے کہ میرے اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ کو لازم جانو اور اسی طریقہ پر بھروسہ رکھو اور اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑے رہو اور تم (دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچو اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) مگر اس روایت میں جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں کیا ہے یعنی ان کی رعایت میں حدیث کے الفاظ صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مذکور نہیں ہیں بلکہ حدیث وعظنا موعظۃ سے شروع ہوتی ہے۔

 

تشریح

راوی کے قول کَأَنَّ ھٰذِہٖ مُوَعِظَۃُ مُوْدِّعِ (گویا کہ رخصت کرنے والے کی آخری نصیحت ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی آدمی کوچ کرنے والا ہوتا ہے تو بر وقت رخصت وعظ و نصیحت کے بیان میں کمال کوشش کرتا ہے تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس وقت اس انداز سے وعظ و نصیحت بیان فرمائی ہے گویا آپ کا وقت رحلت قریب ہے لہٰذا اس سے پہلے آپ اس دنیا سے تشریف لے جائیں ہمیں ایسی وصیتیں فرما دیجئے جو دین و دنیا دونوں جگہ ہمارے لئے رہبر ہوں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان سردار و حاکم کی اطاعت و فرمانبرداری ہر حال میں ضروری، الا یہ کہ خلاف شریعت باتوں کا حکم نہ دے چنانچہ بطور مبالغہ فرمایا کہ اگرچہ مسلمان سردار حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو اس کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری ہے۔ دانتوں سے پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو پورے عزم و یقین اور پختگی کے ساتھ اپنے اوپر لازم کر لیا جائے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ہمیں سمجھانے کے لیے) ایک (سیدھا) خط کھینچا اور فرمایا۔ یہ اللہ کا راستہ ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خط کے دائیں اور بائیں کئی (چھوٹے اور ٹیڑھے) خطوط کھینچے اور فرمایا۔ یہ بھی راستے ہیں جن میں سے ہر ایک راستہ پر شیطان (بیٹھا ہوا) ہے جو اپنے راستہ کی طرف بلاتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوْہ  ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ) 6۔ الانعام:153) ٖ ترجمہ: اور بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا اس کی پیروی کرو اور (دوسرے) راستے کی پیروی نہ کرو تاکہ اس کے راستے تمہیں منتشر نہ کریں۔  (مسند احمد بن حنبل ، سنن نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

خط مستقیم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے کھینچا تھا وہ راہ خدا کی مثال ہے جس سے صحیح عقائد اور نیک و صالح، اعمال مراد ہیں اور دوسرے چھوٹے و ٹیڑھے خطوط راہ شیطان کی مثال ہیں جن سے گمراہی و ضلالت کے راستے مراد ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمر ر راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک پورا مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز(دین و شریعت) کی تابع نہیں ہوتیں جس کو میں (اللہ کی جانب سے لایا ہوں یہ حدیث شرح السنۃ میں روایت کی گئی ہے اور امام نووی نے اپنی  چہل حدیث میں لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے جس کو ہم نے کتاب الحجۃ میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)۔

 

تشریح

 

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کامل اس آدمی کا ہوتا ہے جو دین و شریعت کا پوری طرح پیری اور ان کی صداقت و حقانیت کا ایقان و اعتقاد پورے رسوخ کے ساتھ رکھتا ہو، نیز اس کی زندگی کے ہر پہلو میں خواہ اعتقادات و عبادات ہوں یا اعمال و عادات سب میں کمال رضا و رغبت اور بخوشی دین و شریعت کار فرما ہوں اور ظاہر ہے کہ روحانی پاکیزگی و لطافت اور عرفانی عروج کا یہ مرتبہ اس آدمی کو حاصل ہو سکتا ہے جس کا قلب و دماغ خواہشات نفسانی کی تمام گندگی و ثقالت سے پاک و صاف ہو کر نور الہٰی کی مقدس روشنی سے جگمگا اٹھے ، چنانچہ اولیاء اللہ اور صالحین حقیقت و معرفت کے اسی عظیم مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت بلال بن حارث مزنی (اسم گرامی بلال بن حارث اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے ، آخر میں آپ نے بصرہ میں سکونت اختیار فرمائی تھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخر زمانہ میں ٩٠ھ بعمر اسی سال آپ کا انتقال ہوا۔ (راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا (یعنی رائج کیا) جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس (سنت پر عمل کرنے والوں) کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ اور جس آدمی نے گمراہی کی کوئی ایسی نئی بات (بدعت) نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں ہوتا تو اس کو اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو گناہ ہو گا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے۔ (جامع ترمذی) اور اس روایت کو سنن ابن ماجہ نے کثیر بن عبداللہ بن عمر سے اور عمر نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ سنت پر عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی اور سنت کو رائج کرنے والے کو بھی اس کے برابر ثواب ملتا ہے ، اسی طرح بدعت پر عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں ہوتی اور بدعت پیدا کرنے والے کے نامہ اعمال میں اس کے برابر گناہ لکھا جاتا ہے۔

یہاں سنت سے مراد مطلق دین کی بات ہے خواہ وہ فرض ہو یا واجب وغیرہ جیسے کہ نماز جمعہ کہ لوگوں نے اسے چھوڑ رکھا ہو اور اسے تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ قائم کیا جائے یا ایسے ہی مصافحہ اور دیگر مسنون چیزیں جو متروک العمل ہو چکی ہوں، ان سب کو رائج کرنا بے شمار حسنات کو موجب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عمر بن عوف راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ بلاشبہ دین (اسلام) حجاز (مکہ و مدینہ اور اس کے متعلقات) کی طرف اس طرح سمٹ آئے گا جس طرح کہ سانپ بل کی طرف سمٹ آتا ہے ، اور دین حجاز میں اس طرح جگہ پکڑ لے گا جیسے کہ بکری پہاڑ کی چوٹی پر جگہ پکڑ لیتی ہے اور دین ابتداء میں غریب پیدا ہوا تھا اور آخر میں ایسا ہی ہو جائے گا جیسا کہ ابتداء میں تھا، چنانچہ خوشخبری ہو غریبوں کو وہی اس چیز(یعنی میر ی سنت) کو درست کر دیں گے جس کو میرے بعد لوگوں نے خراب کر دیا ہو گا۔ (جامع ترمذی)

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ بلاشبہ میری امت پر (ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا اور دونوں میں ایسی مماثلت ہو گی) جیسا کہ دونوں جوتے بالکل برابر اور ٹھیک ہوتے ہیں یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بد فعلی کی ہو گی تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی اور وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! جنتی فرقہ کون سا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس میں میں اور میرے اصحاب ہوں گے۔ (جامع ترمذی) اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے جو روایت معاویہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ بہتر گروہ دوزخ میں جائیں گے اور ایک گروہ جنت میں جائے گا اور وہ جنتی گروہ  جماعت ہے اور میری امت میں کئی قومیں پیدا ہوں گی جن میں خواہشات یعنی عقائد و اعمال میں بدعات اسی طرح سرائیت کر جائیں گی جس طرح ہڑک والے میں ہڑک سرایت کر جاتی ہے کہ کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس سے باقی نہیں رہتا۔

 

تشریح

 

بنی اسرائیل اور اس امت کی مماثلت کو جوتوں کی برابری سے تشبیہ دی گئی ہے جس طرح بنی اسرائیل کے لوگ اپنے زمانہ میں بداعمالیوں میں مبتلا تھے اسی طرح ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ جب اس امت کے لوگ بھی بالکل بنی اسرائیل کی طرح ہو جائیں گے اور ان کے عقائد و اعمال میں ان سے بالکل مطابقت ہو جائے گی۔

یہاں ماں سے حقیقی ماں مراد نہیں بلکہ باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں مرادی ہے اس لیے کہ حقیقی ماں سے اس قسم کا معاملہ بالکل بعید ہے کیونکہ اس میں شرعی رکاوٹ کے ساتھ طبعی رکاوٹ بھی ہوتی ہے۔

اسی طرح  امتی  سے مراد اہل قبلہ ہیں یعنی جو مسلمان سمجھے جاتے ہیں۔ اس شکل میں کلھم فی النار یعنی وہ تمام فرقے دوزخ میں ہوں گے کہ معنی یہ ہوں گے کہ وہ سب اپنے غلط عقائد اور بداعمالیوں کی بنا پر دوزخ میں داخل کئے جائیں گے ، لہٰذا جس کے عقائد و اعمال اس حد تک مفسد نہ ہوں گے کہ وہ دائرہ کفر میں آتے ہوں تو اللہ کی رحمت سے وہ اپنی مدت سزا کے بعد دوزخ سے نکال لئے جائیں گے۔

آخر حدیث میں جنتی گروہ کو  جماعت کہا گیا ہے اور اس سے مراد اہل علم و معرفت اور صاحب فقہ حضرات ہیں ان کو  جماعت کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ حضرات کلمہ حق پر جمع ہیں اور دین و شریعت پر متفق ہیں، اس موقع پر مناسب ہے کہ حدیث میں مذکورہ تہتر فرقوں کی تفصیل کر دی جائے۔

اہل اسلام میں بڑے گروہ آٹھ ہیں۔ (١) معتزلہ (٢) شیعہ (٣) خوارج (٤) مرجیہ (٥) بخاریہ (٦) جبریہ (٧) مشبہہ (٨) ناجیہ، پھر یہ آٹھوں گروہ چھوٹے چھوٹے فرقوں پر اس طرح منقسم ہیں۔

(١) معتزلہ کے بیس فرقے ہیں۔ (٢) شیعہ کے بائیس فرقے ہیں (٣) خوارج کے بیس فرقے ہیں۔ (٤) مرجیہ کے پانچ فرقے ہیں (٥) بخاریہ کے تین فرقے ہیں اور (٦) جبریہ (٧) مشبہہ صرف ایک ایک ہی فرقے ہیں ان میں کئی فرقے نہیں ہیں اور آٹھواں فرقہ ناجیہ بھی صرف ایک ہے اور وہ اہل سنت و الجماعت ہیں جو جنتی ہیں۔ اس موقع پر ان فرقوں کے عقائد بھی اجمالی طور پر سن لیجئے۔

معتزلہ فرماتے ہیں کہ بندہ اپنے تمام اعمال کا خالق ہے ، کا سب نہیں ہے نیز ان کا عقیدہ ہے کہ بندہ صالح کو ثواب دینا اور بد کار بندہ کو عذاب دینا اللہ پر واجب اور ضروری ہے اسی طرح اس فرقہ کے لوگ باری تعالیٰ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں، مرجیہ کا عقیدہ ہے کہ جس طرح کافر کے لیے اس کے صالح اور نیک اعمال کار آمد نہیں ہیں اسی طرح مومن کو اس کے اعمال بد کچھ نقصان و ضرر نہیں پہنچاتے اور نہ اس کے ایمان میں کوئی نقص پیدا ہوتا ہے ، بخاریہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال کا انکار کرتے ہیں اور کلام الہٰی کو حادثات مانتے ہیں۔ جبریہ کا عقیدہ ہے کہ بندہ مجبور محض ہے اسے اپنے کسی عمل پر کوئی اختیار نہیں ہے ، مشبہہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو مخلوق کے مشابہ مانتے ہیں اور ذات باری تعالیٰ کی جسمیت کے قائل ہیں، نیز ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق میں حلول کرتا ہے ، اور شیعہ اور خوارج کے عقائد مشہور ہی ہیں، یعنی شیعہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی تفصیل کے قائل ہیں، اب ان میں بھی کئی فرقے ہیں، شیعہ کے بعض فرقے تو حضرت علی کرم اللہ وجہ کو شیخین یعنی حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر فضیلت و فوقیت دیتے ہیں لیکن شیخین کی تکفیر نہیں کرتے مگر دوسرے فرقے حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تکفیر کے بھی قائل ہیں۔ (نعوذبا اللہ) نیز بعض شیعہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قرآن اپنی مکمل صورت میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کی بعض وہ آیتیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی منقبت میں تھیں، حذف کر دی گئی ہیں، خوارج حضرت علی کرم اللہ وجہ کی دشمن جماعت کو کہتے ہیں یہ لوگ حضرت علی کرم وجہ اللہ کی تکفیر کے قائل ہیں (نعوذ با اللہ)۔

اس موقع پر ایک خاص اشکال کی طرف اشارہ کر دینا بھی ضروری ہے

ایک ایسا آدمی جو جاہل تھا اسلام کی دولت سے مشرف ہوا، اس کے سامنے اہل سنت و الجماعت بھی ہیں اور شیعہ کی جماعت بھی ہے دونوں اس کے سامنے اپنے حق پر ہونے کے دلائل قرآن و سنت سے پیش کرتے ہیں، وہ نو مسلم حیران ہے کہ وہ دونوں میں سے کسے حق جانے اور کس کے دلائل کی تصدیق کرے جب کہ وہ علم سے بالکل بے بہرہ ہے ، اس کا سیدھا حل یہ ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جو صراحت کے ساتھ اہل سنت و الجماعت کے حق ہونے کی دلیلیں پیش کرتی ہیں اور وہ چیزیں ایسی صاف اور ظاہر ہیں کہ ان کا مشاہدہ عام لوگوں کو بھی ہوا کرتا ہے لہٰذا وہ ان میں غور کرے تو اس کے سامنے اہل سنت کی حقانیت آشکارا ہو جائے گی۔

مثلاً ایک سب سے بڑی کھلی نشانی جو آج سب کے سامنے مشاہدہ میں ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اور وہ اہل سنت و الجماعت کے حصہ میں ہے یعنی قرآن کریم کے جتنے بھی حافظ ہوتے ہیں وہ سنی ہوتے ہیں آج تک کسی شیعہ کو حافظ نہیں دیکھا گیا اس لیے کہ ان کی قسمت میں اس عظیم نعمت سے محرومی لکھی ہوئی ہے ، ہو سکتا ہے کہ لاکھوں میں کوئی ایک شیعہ حافظ نکل آئے تو یہ نادر ہے جس کا اثر کلیہ پر نہیں پڑتا کیونکہ النادر کا لمعدوم نادر نہ ہونے کے درجہ میں ہے۔

دوسرے یہ بھی ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ دین محمدی اور شریعت مصطفوی کے ائمہ اور رکن دین جتنے علماء اور اولیاء تھے وہ سب سنی تھے اور ان میں بعض ائمہ و علماء کے شیعہ بھی معتقد ہیں۔ اگر مسلک اہل سنت و الجماعت میں کوئی کجی یا نقص ہو تو وہ حضرات یقیناً اس مسلک کو اختیار کئے ہوئے نہ ہوتے۔

تیسرے اسلامی شعار مثلاً جمعہ، جماعت عیدین وغیرہ علی الاعلان اور کھلے بندوں صرف سنی ہی ادا کرتے ہیں اور شیعہ ان نعمتوں سے محروم و بے نصیب ہیں۔

چوتھے مکہ و مدینہ جو دین اسلام کا مبداء اور مرکز ہے اور وہاں کے باشندے اپنی بزرگی و عظمت کے لحاظ سے ضرب المثل ہیں وہاں کے لوگ بھی اسی مسلک کے پابند ہیں اگر شیعہ مسلک اچھا ہوتا تو وہ لوگ یقیناً سنی نہ ہوتے بلکہ شیعہ مسلک کے پابند ہوتے۔

اسی طرح دوسرے فرقے بھی اپنی حقانیت کے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کا جواب یہی ہے کہ کسی کی حقانیت و بطلان پر محض دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک اس دعویٰ کی قوی دلیل نہ ہو۔

اہل سنت و الجماعت کی حقانیت کی دلیل یہ ہے کہ یہ دین اسلام جو ہم تک پہنچا ہے وہ نقل کے ساتھ پہنچا ہے اس میں محض عقل کافی نہیں ہے لہٰذا تواتر اخبار اور احادیث و آثار میں تلاش و جستجو اور تنقیع کے بعد یہ بات متیقّن ہو گئی ہے کہ صحابہ اکرام رضون اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ اسی مسلک و اعتقاد پر تھے ، دوسرے باطل فرقے سب بعد میں پیدا ہوئے ، نہ تو صحابہ ان باطل فرقوں کے مسلک کے پابند تھے اور نہ دیگر نیک و صالح لوگ ان فرقوں کے ساتھ تھے اگر صحابہ اور تابعین کے زمانوں میں ان میں سے بعض باطل فرقے پیدا ہوئے تو ان لوگوں نے ان سے اپنی انتہائی نفرت و بیزاری کا اظہار کیا یہاں تک کہ ایسے غلط عقائد و مسلک کے لوگوں سے ان حضرات نے تمام تعلق و رابطے منقطع کر ڈالے ، نیز صحاح ستہ کے حضرات مصنفین و دیگر محدثین علمائے ربانین اور اولیائے کاظمین تمام کے تمام اہل سنت و الجماعت کے عقائد و مسلک کے پابند تھے۔

لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اہل سنت الجماعت کا مسلک حق نہ ہوتا اور ان کے عقیدے صحیح نہ ہوتے تو کروڑہا پدم ہا پدم لوگ اس مسلک حق کے پابند نہ ہوتے جن میں صحابہ بھی تھے اور تابعین بھی، بڑے بڑے اولیاء اللہ بھی تھے اور علمائے محدثین بھی، عقلاء و دانش مند بھی تھے اور عوام بھی۔

بہر حال مسلک اہل سنت و الجماعت کے حق ہونے کی چند مثالیں ہیں ان کے علاوہ بھی بے شمار مثالیں ہیں جو اہل سنت و الجماعت کی حقانیت پر شاہد عادل ہیں، اگر نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض سے الگ ہٹ کر تلاش حق کے حقیقی جذبہ سے اہل حق کی اس جماعت کے عقائد کو دیکھا جائے تو ان کی حقانیت عیاں ہو جائے گی ورنہ بقول شاعر

ہشیار کو اک حرف نصیحت ہے کافی

نادان کو کافی نہیں دفتر نہ رسالہ

اس حدیث کے ان تمام فرق باطلہ کے لوگوں کو ہڑک والوں سے مشابہت دی گئی ہے اس لیے کہ جس طرح ہڑک والے پر ہڑک غالب ہوتی ہے اور پانی سے بھاگتا ہے نتیجہ میں وہ پیاسا ہو جاتا ہے اسی طرح جھوٹے مذاہب اور باطل مسلک والوں پر بھی خواہشات نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے وہ علم و معرفت کے لالہ زاروں سے بھاگ کر جہل و گمراہی کی وادیوں میں جا گرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی روحانی موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ دین و دنیا دونوں جگہ اللہ کی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ میری امت کو یا (بجائے میری امت کے) یہ فرمایا کہ امت محمدیہ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو آدمی جماعت پر ہے اور جو آدمی جماعت سے الگ ہے وہ جنت والوں کی جماعت سے الگ کر کے تنہا دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

اللہ کے ہاتھ  سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے توفیق و تائید اور حفاظت و مدد جماعت پر ہوتی ہے اس امت مرحومہ پر اللہ کی جانب سے جہاں بہت سے احسانات ہیں وہیں اس کا یہ بھی بڑا کرم ہے کہ امت کے تمام لوگ کبھی ناحق اور غلط باتوں پر جمع نہیں ہوتے یہ جب بھی کسی چیز پر اتفاق کرتے ہیں وہ حق بات ہوتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ بڑی جماعت کی پیروی کرو ! اس لیے کہ جو جماعت سے الگ ہوا وہ تنہا آگ میں ڈالا جائے گا ابن ماجہ نے یہ حدیث کتاب السنۃ سے حدیث انس و ابن عاصم سے روایت کی ہے۔

 

تشریح

 

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ انہی اعتقادات کی پیروی کرنی چاہئے جو اکثر علماء کے نزدیک حق ہوں اسی طرح ایسے اقوال و افعال کو قبول کرنا چاہئے جو جمہور علماء سے ثابت ہوں۔ اس حدیث میں لفظ رواہ کے بعد اصل مشکوٰۃ میں جگہ خالی تھی اس لیے کہ صاحب مشکوٰۃ کو اس کتاب کا نام معلوم نہیں ہوا تھا جس سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے بعد میں میرک شاہ نے مذکورہ عبارت نقل کی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت انس راوی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا۔ اے میرے بیٹے ! اگر تم اس پر قدرت رکھتے ہو کہ صبح سے لے کر شام تک اس حال میں بسر کرو کہ تمہارے دل میں کسی سے کینہ نہ ہو تو ایسا ہی کرو ! پھر فرمایا، اے میرے بیٹے ! یہی میری سنت ہے لہٰذا جس آدمی نے میری سنت کو محبوب رکھا اس نے مجھ کو محبوب رکھا اور جس نے مجھ کو محبوب رکھا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ کو پسند کرنا اور اسے محبوب رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت رکھنے کا سبب اور جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت جیسی نعمت عظیم کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو پسند کرنے پر یہ خوشخبری ہے تو سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر عمل کرنا کتنی بڑی سعادت و خوش بختی کی بات ہو گی۔ ذرا غور کرنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو پسند کرنے والوں کا کتنا بڑا مرتبہ ہے وہ یہ ہے کہ انہیں جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت و معیت کا شرف حاصل ہو گا، حقیقت یہ ہے کہ دونوں جہان کی تمام نعمتیں اگر ایک طرف ہوں اور دوسری طرف یہ نعمت ہو تو یقیناً سعادت و خوشی کے اعتبار سے یہ نعمت بڑھ جائے گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مقدّس سنت کو محبوب رکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم سب اس نعمت سے بہرہ ور ہو سکیں۔ (آمین)۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری امت کے بگڑنے کے وقت جس آدمی نے میری سنت کو دلیل بنایا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ تو بیہقی نے یہ روایت اپنی کتاب زہد میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

ایسے عظیم اجر کے ملنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ایک شہید دین اسلام کو زندہ رکھنے اور اس کی شان و شوکت کو بڑھانے کی خاطر دنیا کی تمام مصیبتیں جھیلتا ہے یہاں تکہ کہ اپنی جان بھی قربان کر دیتا ہے ، اسی طرح جب کہ دین میں رخنہ اندازی ہونے لگے اور فتنہ فساد کا دور دورہ ہو تو سنت کو رائج کرنے اور علوم نبوی کو پھیلانے میں بے شمار مصائب و تکالیف کا سامنا ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں اس لیے اس عظیم اجر کی خوشخبری دی جا رہی ہے اس حدیث میں بھی لفظ رواہ کے بعد مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں جگہ خالی ہے مگر مذکورہ عبارت میرک شاہ نے بڑھا دی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم یہود کی حدیثیں سنتے ہیں اور وہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتی ہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کو لکھ لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، کیا تم بھی اسی طرح حیران ہو جس طرح یہود اور نصاریٰ حیران ہیں۔ (جان لو کہ) بلاشبہ میں تمہارے پاس صاف و روشن شریعت لایا ہوں، اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو وہ بھی میری پیروی پر مجبور ہوتے۔ (مسند احمد بن حنبل ، بیہقی)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ حیران ہیں کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو اور اپنے پیغمبر کی حقیقی تعلیم کو چھوڑ دیا ہے اور اپنے خود غرض و لالچی علماء کی خواہشات کے مطیع ہو گئے ہیں، کیا اسی طرح تم بھی متحیر ہو کہ اپنے دین کو ناقص و نامکمل سمجھ کر دوسروں کے دین و شریعت کے محتاج ہو رہے ہو، حالانکہ میری لائی ہوئی شریعت اتنی مکمل اور واضح ہے کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی میری شریعت کے پابند اور میرے احکام کے مطیع ہوتے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جس آدمی نے حلال (رزق) کھایا، سنت کے طریقہ پر عمل کیا اور اس کی زیادتیوں سے لوگ امن میں رہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایسے لوگ تو آج کل بہت ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اور میرے بعد بھی ایسے لوگ ہوں گے۔  (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

حلال رزق کا مطلب یہ ہے کہ خواہ تجارت ہو یا ملازمت یا کوئی دوسرا ذریعہ معاش، ہر جگہ ایماندار و دیانت کے دامن کو پکڑے رہے اور شریعت کی حدود سے تجاوز نہ کرے نیز ایسی کوئی صورت اختیار نہ کرے جس سے اس کی کمائی حرام ہو جائے جیسے اگر کوئی آدمی تجارت میں خرید و فروخت کے وقت میں ایسے طریقے اختیار کرتا ہے جو شریعت کی نظر میں جائز نہیں ہیں تو اس کا کمایا ہوا مال پاک و حلال نہیں رہے گا۔ ہاں اگر اس کا طرز عمل خلاف شریعت نہیں ہوتا تو اس کی کمائی حلال ہو گی۔

شرعی نقطہ نظر سے تجارت میں حلال کمائی کے لیے یہ شرط ہے کہ کسی مال کو فروخت کرتے وقت نہ تو عقد بیع سے پہلے نہ عقد بیع کے وقت اور عقد بیع کے بعد کوئی ایسی شکل اختیار کرے جو شرعی طور پر مفسد بیع ہو تو اس کا کمایا ہوا مال حلال و طیب ہو گا اور اگر اس کے برخلاف عمل کیا تو اس کی کمائی حلال نہیں ہو گی۔ مثلاً کسی تاجر نے کسی چیز کو فروخت کرنے کا ارادہ کیا اور عقد بیع سے پہلے دھوکہ اور فریب دینے کا خیال کیا۔ جیسے جس چیز کو فروخت کر رہا ہے اس میں کوئی عیب ہے لیکن اس نے اس کو نہ ظاہر کرنے کا ارادہ کیا تو اگرچہ عقد بیع کے وقت ایجاب و قبول شرعی طور پر ہوا ہو مگر اس کی اس فاسد نیت کی وجہ سے اس کا کمایا ہوا مال حلال نہیں ہو گا۔ یا اسی طرح فروخت کے وقت جب کہ عقد بیع واقع ہو رہا تھا یا عقد بیع کے بعد تاجر نے کوئی فاسد شرط لگا دی جو جائز نہیں ہے تو اس صورت میں بھی اس کا کمایا ہوا مال حلال نہیں ہو گا جیسے دکاندار نے کسی چیز کو فروخت کیا اور خریدار سے کہا کہ بیع ہو گی لیکن شرط یہ ہے کہ ایک بوتل شراب مجھے دیا کرنا تو چونکہ یہ شرعی طور پر جائز نہیں ہے اس لیے اس کا حاصل کیا ہوا مال حلال نہیں ہو گا۔

بہر حال مطلب یہ ہے کہ خرید و فروخت کے سلسلہ میں ان تینوں اوقات میں ایسا طریقہ اختیار نہ کرنا چاہئے جو خلاف شریعت ہوتا کہ اس کا کمایا ہوا مال حلال رہے۔ پھر یہ تجارت ہی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ اسی طرح ملازمت اور زراعت وغیرہ کا معاملہ بھی ہے کہ وہاں ایسے طریقے اختیار نہ کئے جائیں جو حلال رزق کے حصول میں رکاوٹ بنیں۔

بہرحال مطلب یہ ہے کہ خرید و فروخت کے سلسلہ میں ان تینوں اوقات میں ایسا طریقہ اختیار نہ کرنا چاہئے جو خلاف شریعت ہو تاکہ اس کا کمایا ہوا مال حلال رہے۔ پھر یہ تجارت ہی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ اسی طرح ملازمت اور زراعت وغیرہ کا معاملہ بھی ہے کہ وہاں ایسے طریقے اختیار نہ کئے جائیں جو حلال رزق کے حصول میں رکاوٹ بنیں۔

حدیث میں دخول بہشت کے لیے دوسرا وصف یہ قرار دیا گیا ہے کہ سنت کی پیروی پوری پوری ہو یعنی جو بھی کام کیا جائے یا جو بھی بات کہی جائے وہ سنت نبوی کے مطابق ہو۔ گویا انسانی زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو خواہ وہ عبادات کا ہو یا معاملات یا معاشرت کا، سب میں سنت نبوی کی جھلک اور اتباع رسول کا جذبہ موجود ہو۔

چنانچہ جن اعمال کے بارہ میں احادیث وارد ہوئی ہیں ان کے مطابق ہی عمل کیا جائے یہاں تک کہ بیت الخلاء جانے اور راستہ کو کسی تکلیف دہ چیز سے صاف کرنے کے بارہ میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں یا جو سنت منقول ہے اس پر عمل کرے اور ان کے احکام کو بجا لائے۔

آخر حدیث میں صحابی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں تو ایسے لوگ بکثرت موجود ہیں جو مذکورہ اوصاف سے متّصف ہونے کی وجہ سے اس خوشخبری کے مستحق ہیں لیکن ہمارے بعد ایسے لوگ پائے جائیں گے یا نہیں؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہمارے بعد بھی ایسے لوگ ہوں گے یعنی اس امت سے خیر و بھلائی بالکل ختم نہیں ہو جائے گی۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ آخر زمانہ میں جب کہ فتنہ و فساد کا دور دورہ ہو گا، ایسے لوگوں کی کمی ہو جائے گی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسے اللہ والے لوگ اس دنیا میں رہیں گے جو حدیث و سنت کے طریقہ پر اپنی زندگی گزاریں گے اور ایمان و دین پر پورے یقین کے ساتھ قائم و دائم رہیں گے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، تم ایسے زمانہ میں ہو کہ اگر تم میں سے کوئی آدمی ان احکام کا دسواں حصہ بھی چھوڑ دے جو دیے گئے ہیں تو وہ ہلاک ہو جائے لیکن ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اگر کوئی آدمی ان احکام کے دسویں حصہ پر بھی عمل کرے گا تو نجات پا جائے گا۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

اس حدیث سے عہد رسالت اور مابعد کے فرق کا پتہ چلتا ہے ، عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کا چرچا اتنی شدت اور کثرت کے ساتھ تھا کہ ذرا سی لغزش بھی ہلاکت و تباہی کا باعث بن سکتی تھی لیکن زمانہ آخر میں جب کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں اضمحلال پیدا ہو جائے گا تو اس وقت اتنا فرق ہو جائے گا کہ اگر کوئی آدمی احکام کے دسویں حصہ پر بھی عمل کرے تو یہ اس کی نجات کے لیے کافی ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، ہدایت پانے اور ہدایت پر قائم رہنے کے بعد کوئی قوم گمراہ نہیں ہوئی مگر اس وقت جب کہ اس میں جھگڑا پیدا ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی آیت (مَا ضَرَبُوْہ لَكَ اِلَّا جَدَلاً ۭ بَلْ ہمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ) 43۔ الزخرف:58) (قرآن) ترجمہ: وہ تمہارے لیے نہیں بیان کرتے مثال مگر جھگڑنے کے لیے بلکہ وہ جھگڑالو قوم ہی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل،جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دینی معاملات اور شرعی مسائل میں جھگڑنا نہیں چاہئے اور نہ ہر کس و ناکس کو ان میں اپنی عقل کے تیر چلانے چاہیں کیونکہ زمانہ ما سبق میں ہدایت یافتہ اقوام کی گمراہی کا بیشتر سبب یہی ہوتا تھا کہ لوگ دینی معاملات میں جھگڑتے رہتے تھے اور یہ حرکت علماء سوء اور نفسانی خواہشات کے تابع لوگ کیا کرتے تھے اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ دینی معاملات میں تفرقہ پیدا ہو اور لوگ آپس میں لڑنے جھگڑنے لگیں تاکہ غلط عقائد اور باطل مذاہب کو فروغ دیں اور حق کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکیں۔

مشرکین کے اس غلط نظریہ کے رد میں آیت مذکورہ آیت (ماضربوہ لک) الایۃ نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مشرک لوگ اس آیت کو سن کر تم سے جو بحث کرتے ہیں اور اپنی طرف سے غلط معنی مراد لے رہے ہیں وہ محض ان کی ہٹ دھرمی اور ضد ہے اور یہ مخاصمت و مجادلت کے طور پر ایسی غلط بات کہہ رہے ہیں حالانکہ یہ صاحب زبان ہیں اور عربی زبان کے اصول و قواعد انہیں معلوم ہیں اور وہ بھی جانتے ہیں کہ ماتعبدون سے پتھر وغیرہ کے بت مراد ہیں اس لیے کہ لفظ ماخود اس پر دال ہے کہ یہ حکم غیر ذوی العقول معبودوں یعنی پتھروں وغیرہ کے بتوں کے بارہ میں ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اللہ کے دیگر نیک بندے اس میں شامل ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے ، تم اپنے نفس پر سختی نہ کرو اس لیے کہ پھر اللہ بھی تم پر سختی کرے گا، ایک قوم (یعنی بنی اسرائیل) نے اپنے نفس پر سختی کی تھی چنانچہ اللہ نے بھی اس پر سختی کی۔ پس آج جو لوگ صومعوں اور دیار میں پائے جاتے ہیں یہ انہیں لوگوں نے پیدا کیا ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اپنی جانوں کو خواہ مخواہ زیادہ محنت و مشقت میں مبتلا نہ کرو یعنی ریاضت و مجاہدہ میں ایسے طریقے اختیار نہ کرو جن کو تمہارے قوی برداشت کرنے کے اہل نہ ہوں اور نہ تمہارا نفس اتنی محنت و مشقت برداشت کر سکتا ہو اور اسی طرح ایسی چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لیے مباح قرار دی ہیں اس لیے کہ اگر تم اپنی طرف سے اپنی جانوں پر سختی کرو گے اور زیادہ محنت و مشقت میں پڑو گے تو اللہ انہیں چیزوں کو تمہارے اوپر فرض کرے گا لیکن تمہارے اندر اتنی طاقت نہیں ہو گی کہ تم ان کے حقوق ادا کر سکو، نتیجہ میں آخرت کی تباہی و ہلاکت اپنے ذمہ لے لو گے۔

صومہ اس جگہ کو فرماتے ہیں جہاں عیسائی عبادت کیا کرتے ہیں جسے گرجا کہا جاتا ہے اور دیار یہود کے عبادت کرنے کو جگہ کو کہتے ہیں اسی طرح رہبانیت اسے کہتے ہیں کہ عبادت و ریاضت بہت زیادہ کی جائے اپنے نفس کو مشقّتوں اور تکلیفوں میں ڈالا جائے دنیا سے بالکل بے تعلق ہو جائے تمام لوگوں سے اپنے کو منقطع کر لے ٹاٹ کے پیراہن استعمال کرے ، گردن میں زنجیر باندھ لے قوت مردانگی کو ختم کرنے کے لیے نفسانی خواہشات کو مار ڈالنے کے لیے بالکل غیر فطری طور پر جنسی محرکات کو منقطع کر ڈالے اور دنیاوی زندگی کو یکسر چھوڑ کر جنگل و پہاڑ پر جا کر بسیرا ڈال لے ، جیسا کہ رہبانیت اہل کتاب نے اپنے اوپر ضروری کر رکھی تھی اور ان کے عابد و زاہد لوگ ایسا کیا کرتے تھے لیکن چونکہ رہبانیت اسلام کے فطری اصولوں سے بالکل جدا اور الگ ہے اس لیے شریعت نے کبھی اس کا جائز قرار نہیں دیا۔

لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رہبانیت اسلام میں نا جائز قرار دی ہے اور فرمایا ہے الحدیث (لارھبانیۃ فی الاسلام) یعنی اسلام میں رہبانیت جائز نہیں ہے ، بلکہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رہبانیت کسی بھی آسمانی دین میں ضروری نہیں تھی بلکہ خود اس دین کے ماننے والے رہبانیت کو اپنی دینی و دنیاوی فلاح و کامیابی کا ذریعہ سمجھتے تھے ، چنانچہ یہود و نصاریٰ میں بھی لوگوں نے خود ہی ان چیزوں کا اختراع کیا تھا اور ایسی مشقیتں و تکلیفیں اپنے اوپر لازم کر لی تھیں جو شریعت کی جانب سے ان پر فرض نہ کی گئی تھیں لیکن یہ قومیں چونکہ فطرتاً غیر مستقل مزاج، خواہشات نفسانی کی پابند اور آزاد طبع واقع ہوئی ہیں اس لیے وہ اپنے اوپر خود فرض کی ہوئی چیزوں کو بھی پورا نہ کر سکیں ان کے ذہن و قوی نہ ان کے حقوق ادا کر سکے اور نہ وہ ان پر مستقل مزاجی سے قائم رہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے دین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا چنانچہ اکثر نہ ان کے حقوق ادا کر سکے اور نہ وہ ان پر مستقل مزاجی سے قائم رہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے دین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا چنانچہ اکثر عیسائی اپنے دین سے منحرف ہو گئے اور انہوں نے یہودی مذہب قبول کر لیا بہت سے یہودی رہبانیت کو چھوڑ چھاڑ کر نصرانیت کی طرف مائل ہو گئے کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے دین پر قائم رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ پایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے۔

بہر حال آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اسی طرح تم رہبانیت کو اختیار نہ کرو اور نہ غیر شرعی فطری مشقتوں میں اپنی جانوں کو مبتلا کرو بلکہ شریعت نے جو حدود متعین کر دی ہیں انہیں کے اندر اپنی زندگی کزارو اور خداوند کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فرائض بتائے ہیں وہی ادا کرتے رہو۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، قرآن کریم پانچ صورتوں پر نازل ہوا ہے۔ (١) حلال۔ (٢) حرام۔ (٣) محکم۔ (٤) متشابہ۔ (٥) امثال۔ لہٰذا تم حلال کو حلال جانو، حرام کو حرام جانو، محکم پر عمل کرو، متشابہ پر ایمان لاؤ، اور امثال (قصوں) سے عبرت حاصل کرو، یہ الفاظ مصابیح کے ہیں اور بیہقی نے جو روایت شعب الایمان میں نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں۔ لہٰذا حلال پر عمل کرو، حرام سے بچو اور محکم کی پیروی کرو۔

 

تشریح

 

قرآن شریف اپنے اسلوب و بیان کے اعتبار سے پانچ طرح کی آیتوں پر مشتمل ہے۔ (ا) ایسی آیتیں جن میں حلال کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے احکام بتائے گئے ہیں۔ (٢) ایسی آیتیں جن میں حرام کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے احکام بتائے گئے ہیں۔ (٣) ایسی آیتیں جن کے معنی و مطالب میں کوئی ابہام و اشتباہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنے مقصد و مراد کو صاف واضح کرتی ہیں جیسے آیت (اَقِیْمُو الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ) 2۔ البقرۃ:43) (یعنی نماز پڑھو اور زکوٰۃ ادا کرو) اس حدیث میں ایسی ہی آیتوں کو محکم کہا گیا ہے۔ (٤) ایسی آیتیں جن کی مراد واضح نہیں ہے اور نہ ان کے معنی و مطالب کسی پر ظاہر کئے گئے ہیں جیسے آیت (يَدُ اللّٰہ فَوْقَ اَيْدِيْہمْ) 48۔ الفتح:10) (یعنی اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے) حدیث میں ایسی ہیں ہی آیتوں کو متشابہ کہا گیا ہے ان کے بارہ میں فرمایا گیا ہے کہ ایسی آیتوں کے معنی و مطالب کے کھوج کرید میں نہ لگو بلکہ ان پر صرف ایمان لاؤ اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے جو معنیٰ مراد ہیں وہی حق اور صحیح ہیں اگرچہ ہماری رسائی ان تک نہیں ہے۔ (٥) ایسی آیتیں جن میں پچھلی آیتوں کے حالات و واقعات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی نیک اقوام کی فلاح و کامرانی اور بد اقوام کی تباہی و بربادی کے واقعات بتائے گئے ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان واقعات سے تم عبرت پڑو اور دیکھو کہ اللہ نے اپنے نیک و صالح بندوں پر اپنی رحمتوں و نعمتوں کی کیسی بارش کی اور بدکار و سرکش قوموں کو تباہی و بربادی اور ہلاکت کی وادیوں میں کس عبرت ناک طریقہ سے پھینک دیا۔

 

 

٭٭اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، امر تین طرح کے ہیں۔ (١) وہ امر جس کی ہدایت ظاہر ہے اس کی پیروی کرو۔ (٢) وہ امر جس کی گمراہی ظاہر ہے اس سے بچو۔ (٣) وہ امر جو مختلف فیہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

وہ امر جس کی ہدایت ظاہر ہے ایسی چیزیں ہیں جن کا حق و صحیح ہونا واضح طور پر آیات و احادیث سے ثابت ہو جیسے نماز روزہ، زکوٰۃ و حج، وغیرہ کا فرض واجب ہونا، ان کے بارہ میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی پیروی کرو، اسی طرح وہ امر جس کی گمراہی ظاہر ہے ایسی چیزیں ہیں جن کا باطل و فاسد ہونا واضح طور پر معلوم ہو جیسے کفار کی رسموں اور ان کے طور طریقوں پر عمل کرنا، ان سے بچنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔

تیسرا امر مختلف فیہ ہے یعنی ایسی چیزیں جن کا حکم واضح طور پر کچھ ثابت نہ ہو بلکہ پوشیدہ مشتبہ ہو، بعض لوگوں نے اس کی تعریف یہ کی ہے امر مختلف فیہ وہ چیزیں ہیں جن کے احکام اللہ اور اللہ کے رسول نے نہ بتائے ہوں بلکہ لوگ اس کی تعیین میں اختلاف کرتے ہوں جیسے آیات متشابہات یا وقت قیامت کا تعین وغیرہ، اس کے بارہ میں حکم دیا گیا ہے کہ ایسی چیزوں میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو بلکہ ان کے حقیقی مراد و مفہوم کا تعین اللہ کے سپرد کرو وہی بہتر جاننے والا ہے۔

 

 

٭٭حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، شیطان آدمی کا بھیڑیا ہے جس طرح بکری کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ اس بکری کو اٹھا کر لے جاتا ہے جو ریوڑ سے بھاگ نکلی ہو یا ریوڑ سے دور چلی گئی ہو یا ریوڑ کے کنارے پر ہو اور تم پہاڑ کی گھاٹیوں (یعنی گمراہی) سے بچو نیز جماعت اور مجمع کا ساتھ پکڑے رہو۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس طرح بھیڑیا جب کسی ایسی اکیلی بکری کو پا لیتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو گئی ہو تو وہ اس پر بہت دلیر ہو جاتا ہے اور اسے اٹھا کر لے جاتا ہے اسی طرح جب کوئی آدمی علماء دین کی جماعت اور ان کے گروہ سے انحراف کر کے الگ ہوا جاتا ہے اور اپنی عقل و فہم کے بل بوتے پر نئے نئے مذاہب نکالتا ہے اور نت نئے مسلک پیدا کرتا ہے تو اس پر شیطان کو پوری طرح اختیار و تسلط ہو جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا آدمی شیطان کے چنگل میں پوری طرح آکر گمراہی کی انتہائی گہری گھاٹیوں پر جا گرتا ہے۔

اس لیے آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ پہاڑ کی گھاٹیوں سے بچو یعنی اسلام کی صاف و سیدھی راہ کو چھوڑ کر ایسی گھاٹیوں میں نہ جا بیٹھو جو ضلالت و گمراہی سے بھری ہوئی ہوں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی جماعت سے بالشت بھر بھی (یعنی ایک ساعت کے لیے بھی) جدا ہوا، اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے نکال دیا۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد)

 

تشریح

 

یعنی جو آدمی کسی مرحلہ پر بھی جماعت سے الگ ہوا ہو گا تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ وہ اب اسلام کی قیود اور احکام کی پابندی سے بھی آزاد ہو جائے گا اور اپنی ذہنی و فکری اور عملی طاقتوں کو ایسے رخ پر موڑ دے گا جہاں نہ کوئی قید ہو گی اور نہ کسی کی پابندی بلکہ وہ خود رو، آزاد اور دین شریعت کا غیر پابند بن جائے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہو سکتے۔ وہ کتاب اللہ (قرآن مجید) اور سنت رسول اللہ (احادیث) ہیں۔ (موطا)

 

 

٭٭اور حضرت غضیف بن حارث الثمالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی غضیف ابن حارث شمالی ہے اور کنیت ابواسماء ہے آپ صحابی ہیں اور انصار سے ہیں۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ، جب کوئی قوم (دین میں) نئی بات نکالتی ہے (یعنی ایسی بدعت جو سنت کے مزاحم ہو) تو اس کے مثل ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے۔ لہٰذا سنت کو مضبوط پکڑنا نئی بات نکالنے (بدعت) سے بہتر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

سنت پر عمل کرنا اگرچہ وہ معمولی درجہ کی ہو بدعت پیدا کرنے اور بدعت پر عمل کرنے سے بہتر ہے اگرچہ وہ بدعت حسنہ ہو اس لیے کہ سنت نبوی کے اتباع و پیروی سے روح میں جلا پیدا ہوتا ہے جس کے نور سے قلب و دماغ منور ہوتے ہیں اس کے برخلاف بدعت ظلمت و گمراہی کا سبب ہے مثلاً بیت الخلاء میں آداب سنت و شرع کے مطابق جانا، سرائیں بنانے اور مدرسے قائم کرنے سے بہتر ہے۔ کیونکہ اگر کوئی آدمی ان آداب کی رعایت کرتا ہوا بیت الخلاء جاتا ہے جو حدیث سے منقول ہیں تو وہ سنت پر عمل کرنے والا کہلائے گا۔ برخلاف اس کے کہ اگرچہ مدرسے قائم کرنا اور خانقاہیں بنانا بہت بڑا کام ہے۔ لیکن چونکہ وہ بدعت حسنہ ہے ، اس لیے اس معمولی سی سنت پر عمل کرنے والا اتنے بڑے کام کرنے والے سے افضل ہو گا اس لیے کہ آداب سنت کا خیال کرنے والا اور سنت کی پیروی کرنے والا مقام و عروج اور قرب الہٰی کی طرف ترقی کرتا ہے مگر سنت کو ترک کرنے والا مقام علیا سے نیچے گرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی چیزیں جو افضل و اعلیٰ ہوتی ہیں وہ انہیں ترک کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک مقام آ جاتا ہے کہ وہ قساوت قلبی کے مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جسے رائن اور طبع کہتے ہیں۔

سید جمال الدین سے بھی یہی منقول ہے نیز وہ لکھتے ہیں کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ جس نے آداب سنت کی رعایت کی مثلاً اس کا بیت الخلاء جانا بھی آداب سنت کے مطابق ہے تو اللہ کی جانب سے یہ توفیق دی جاتی ہے کہ وہ اس سے اعلیٰ سنت پر عمل کرے۔ چنانچہ توفیق الہٰی کا وہی نور اعلیٰ مقامات کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا رہتا ہے آخر کار وہ منزل مقصود تک جا پہنچتا ہے۔ اور جو آدمی کسی معمولی سنّت کو بھی ترک کرتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ خامی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوسری اعلیٰ و افضل چیزوں کو بھی ترک کرتا رہتا ہے اور اس کی سلامتی قلب ترک سنت کی ظلمت میں پھنس کر تنزل کرتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ مقام رین و طبع تک جا گرتا ہے۔

ملا علی قاری نے اس موقع پر بڑی اچھی بات کہی ہے کہ کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ کسل وسستی کی وجہ سے سنت کو ترک کرنا ملامت و عتاب کا باعث ہے اور سنت کو ناقابل اعتناء سمجھ کر اس پر عمل کرنا معصیت اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب ہے اور سنت کا انکار بد عتی ہونے کا اظہار ہے لیکن اگر کسی بدعت کو خواہ وہ بدعت حسنہ کیوں نہ ہو ترک کر دیا جائے تو یہ تمام باتیں لازم نہیں آیتیں۔

گویا سنت کو ترک کرنا بے شمار نقصان و فساد کا باعث ہے مگر بدعت کو ترک کرنا کوئی اثر نہیں ڈالتا اس لیے اس سے معلوم ہوا کہ سنت پر عمل کرنا خواہ کتنی ہی معمولی ہو، فلاح و سعادت اور بہتری کا باعث ہے اور بدعت پر عمل کرنا خواہ وہ حسنہ ہوا اس کے مقابلہ میں بہتر نہیں ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حسان ابن ثابت ہے اور کنیت ابو الولید ہے انصاری اور خزرجی ہیں بعض حضرات نے کہا ہے کہ کنیت ابوالحسام ہے حضرت حسان کی وفات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں ٤٠ھ میں ہوئی ہے بعض لوگ فرماتے ہیں کہ وفات پچاس ہجری میں ہوئی ہے۔) فرماتے ہیں، کہ جب کوئی قوم اپنے دین میں نئی بات (یعنی ایس بدعت سیۂ  جو سنت کے مزاحم ہو) نکالتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی سنت میں سے اس کا مثل نکال لیتا ہے (یعنی جب کوئی بدعت سیۂ  پیدا ہوتی ہے تو اس کے مثل سنت دنیا سے اٹھالی جاتی ہے) اور پھر وہ سنت قیامت تک اس کی طرف واپس نہیں کی جاتی۔ (درامی)

 

 

٭٭اور حضرت ابراہیم بن میسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی نے بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کے ستون کو گرا دینے میں مدد کی۔ (بیہقی)

 

 

تشریح

 

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی کسی بدعتی کی توقیر و عزت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں اس سنت کی عزت و احترام کا کوئی خیال نہیں ہے اس طرح وہ سنت کی تحقیر کا باعث ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ سنت کی تحقیر اسلام کی عمارت کو اجاڑنا ہے اسی پر اہل سنت کی تحقیر کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی پابند شرع و سنت کی توہین کرتا ہے تو وہ دین و سنت کی عمارت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی آدمی بدعتی کی تحقیر و تذلیل کرے تو یہ اس بات کا اظہار ہو گا کہ اسے سنت سے محبت ہے جو دین اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب ہے جس پر اسے بے شمار حسنات کا مستحق قرار دیا جائے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کتاب اللہ کا علم حاصل کیا اور پھر اس چیز کی پیروی کی جو اس (کتاب اللہ) کے اندر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں گمراہی سے ہٹا کر راہ ہدایت پر لگائے (یعنی اس کو ہدایت کے راستہ پر ثابت قدم رکھے گا اور گمراہی سے بچا لے گا) اور قیامت کے دن اس کو برے حساب سے بچا لے گا (یعنی اس سے مواخذہ نہیں ہو گا) اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہو گا اور نہ آخرت میں بدبخت ہو گا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت (فَمَنِ اتَّبَعَ ہدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي) 20۔طہ:123) ترجمہ: جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہو گا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہو گا۔ (رزین)

 

تشریح

 

چونکہ قرآن کریم کا پڑھنا باعث سعادت اور اس پر عمل کرنا ذریعہ نجات ہے اس لیے جو آدمی قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھے اور قرآن کو سمجھنے کی جو شرائط ہیں ان کے مطابق اس کے علوم و معارف کو حاصل کرے اور پھر قرآن کریم نے جو احکام بتائے ہیں ان پر عمل کرے اور ہدایت کا جو راستہ متعین کر دیا ہے اس پر چلتا رہے تو اس کے لیے دین و دنیا دونوں جگہ سعادت و رحمت کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ دنیا میں اس پر اللہ کی جانب سے رحمت ہو گی کہ وہ چونکہ قرآن کو اپنا راہبر بنا رکھے گا اس لیے گناہ و معصیت سے بچتا رہے گا برائی کے راستے کو چھوڑ دے گا جس کا نتیجہ آخرت میں یہ ہو گا کہ وہاں اس پر اللہ کی بے شمار رحمتوں کا سایہ ہو گا نہ تو حساب و کتاب کی سختی ہو گی اور نہ عذاب میں مبتلا ہو گا اور یہی بندہ کے حق میں سب سے بڑی فلاح و سعادت ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے (وہ یہ کہ) ایک سیدھا راستہ ہے اور اس کے دونوں طرف دیواریں ہیں۔ ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور راستہ کے سر پر پکارنے والا کھڑا ہے جو پکار پکار کر کہتا ہے ، سیدھے راستہ پر چلے آؤ، غلط راستے پر نہ لگو ! اس پکارنے والے کے اوپر (یعنی اس کے آگے کھڑا ہوا) ایک دوسرا پکارنے والا ہے ، جب کوئی بندہ ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ (دوسرا پکارنے والا) پکار کر کہتا ہے ، تجھ پر افسوس ہے ! اس کو نہ کھول اگر تو اسے کھولے گا تو اس کے اندر داخل ہو جائے گا (اور وہاں سخت تکلیف میں ہو گا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مثال کی وضاحت کی اور فرمایا، سیدھا راستہ سے مراد اسلام ہے (جس کو اختیار کر کے جنت میں پہنچتے ہیں) اور کھلے ہوئے دروازوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے (جس کو اختیار کرنا تکمیل اسلام کے منافی ہے) اور (دروازوں پر) پڑے ہوئے پردوں سے مراد اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حدود ہیں اور راستہ کے سرے پر جو پکارنے والا کھڑا ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت کرنے والا فرشتہ ہے جو ہر مومن کے دل میں ہے۔ زرین، مسند احمد بن حنبل اور بیہقی نے اس روایت کو شعب الایمان میں نواس بن سمعان سے نقل کیا ہے اور جامع ترمذی نے بھی انہیں سے روایت کی ہے مگر جامع ترمذی نے اختصار ساتھ بیان کیا ہے۔

 

تشریح

 

شرعی احکام زیادہ تر دو ہی قسموں سے متعلّق ہیں یعنی حلال و حرام اور ان دونوں کو شریعت نے وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے جو چیزیں حلال ہیں ان کے بارہ میں بھی اعلان کر دیا گیا ہے اور جو چیزیں حرام ہیں ان کی بھی تصریح کر دی گئی ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ جس طرح حلال چیزوں پر عمل کر کے اللہ کی خوشنودی و رضا کے مستحق ہو گے اسی طرح حرام چیزوں کو اختیار کر کے سزا کے مستوجب گردانے جاؤ گے جو چیزیں حرام قرادی گئی ہیں ان کے اور بندوں کے درمیان اللہ نے اپنے احکام سے حدیں قائم کر دی ہیں تاکہ بندے اس سے تجاوز کر کے محرمات کے ارتکاب کے مجرم نہ ہوں، انہی حرام چیزوں اور حدود کو جو احکام الہٰی ہیں اس مثال میں دروازوں اور پردوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

اسی طرح مثال مذکورہ میں فرمایا گیا ہے کہ ہر مومن کے دل پر ایک فرشتہ ہوتا ہے جو قلب کا محافظ ہوتا ہے جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بندہ کو نیکی کے راستہ پر لگانے کی سعی کرے اس کو تائید الہٰی اور توفیق خداوندی کہتے ہیں اگر کسی بندے کے ساتھ تائید الہٰی و توفیق خداوندی نہ ہو تو انسان کتنا بھی چا ہے ہدایت کے راستہ پر نہیں لگ سکتا۔ چنانچہ مثال میں قرآن کو راہبر بتایا گیا ہے مگر اس کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے کہ قرآن کی ہدایت بھی اسی وقت کارآمد ہوتی ہے جب کہ بندہ کے ساتھ تائید الہٰی اور توفیق خداوندی بھی شامل ہو۔ قرآن تو راستہ بتا دیتا ہے اور سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے مگر اس سے نصیحت حاصل کرنا اور اس راہ پر چل کر منزل مقصود تک پہنچنا اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب بندہ کے دل میں اللہ کی جانب سے ہدایت ڈال دی جائے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی کسی طریقہ کی پیروی کرنا چا ہے تو اس کو چاہئے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرے جو فوت ہو گئے ہیں کیونکہ زندہ آدمی (دین میں) فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو فوت ہو گے ہیں (اور جن کی پیروی کرنی چاہئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب ہیں، جو اس امت کے بہترین لوگ تھے ، دلوں کے اعتبار سے انتہا درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل اور بہت کم تکلّف کرنے والے تھے ، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے منتخب کیا تھا لہٰذا تم ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان سے آداب و اخلاق کو اختیار کرتے رہو (اس لیے کہ) وہی لوگ ہدایت کے سیدھے راستہ پر تھے۔ (رزین)

 

تشریح

 

مرے ہوئے لوگوں سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور زندوں سے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ کے لوگ اور تابعین مراد ہیں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ارشاد تابعین کے سامنے از راہ نصیحت فرمایا تھا اور ہو سکتا ہے کہ ان دور میں چونکہ باطل فرقے جنم لینے لگے تھے جو صحابہ کرام کی ذات اقدس کے پاک دامن پر گندگی و غلاظت کے چھینٹے ڈالتے تھے جیسا کہ رافضی اور ملحدین کے گروہ اس ناپاک مشغلہ میں لگے ہوئے تھے اس لیے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے غلط الزامات اور صحابہ پر باندھے گئے بہتان کی رد میں صحابہ کرام کی عظمت و بزرگی اور ان کی فضلیت کا اظہار فرمایا۔

چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہادت دے رہے ہیں کہ صحابہ کرام امت کے بہترین اور انتہا درجہ کے نیک لوگ تھے۔ یعنی ان کے قلوب ایمان و اسلام کی روشنی سے پوری طرح منوّر تھے خلوص و استقامت کے اوصاف سے متصف تھے ایمان کامل کی دولت سے مشرف تھے اور زہد و تقدس و خشیت الہٰی سے ان کی زندگیاں معمور تھیں۔

پھر دوسری بات یہ کہ یہی وہ مقدس جماعت تھی جس نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز پر لبّیک کہا اور اللہ کے دین کو پھیلانے میں معین و مددگار رہے ، جس کے نتیجہ میں انہیں جن جانکاہیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ ظلم و ستم اور تشدّد و بربریّت کے جس دور سے گزرے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت و بقاء کے سلسلہ میں جو قربانیاں دیں وہ اسلامی تاریخ کا سب سے تابناک باب ہے۔

چنانچہ اسلامی تاریخ کے جاننے والے جانتے ہیں کہ ان مقدّس حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معاونت اور رفاقت اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے صلہ میں کتنی سختیوں اور مشکلات سے دو چار ہو نا پڑا، زندگی کی کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جس میں یہ مبتلا نہ کئے گئے ہوں، کوئی ایسی آزمائش نہ تھی جس سے انہیں سابقہ نہ پڑا ہو اور یہ سب اللہ کی جانب سے محض اس لیے تھا کہ ان قلوب کو خوب جانچ، پرکھ لیا جائے اور دیکھ لیا جائے کہ جس عظیم مشن کے چلانے کے لیے ان کو منتخب کیا جا رہا ہے اور جس رسول کی رفاقت جیسے عظیم منصب کے لیے ان کو پسند کیا جا رہا ہے ان کے ذہن و فکر اور دل و دماغ اس کے اہل ہیں یا نہیں، ان کے قلوب سختیوں کو برداشت کرنے کے قابل اور مشکلات پر صبر و شکر کرنے والے ہیں یا نہیں، چنانچہ ان کو امتحان میں ڈالا گیا ہے ، آزمائش کی گئی اور وہ حضرات امتحان و آزمائش کے ہر مرحلہ سے کامیاب گزرے اور مصیبت و سختی کی ہر بھٹی سے کندن ہو کر نکلے ، ان کے صبر و رضا کا جب امتحان لیا گیا تو ایسے صابر و شاکر نکلے کہ بڑی سے بڑی سختی اور سخت مصیبت پر بھی ان کے قدم میں لغزش آنے کی بجائے اور استقامت پیدا ہوئی اور وہ اپنے ایمان و اسلام پر پورے ایقان و اعتماد کے ساتھ قائم و مضبوط رہے ان کے اسی عظیم وصف کی شہادت قرآن نے اس طرح دی ہے کہ

آیت (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰہ قُلُوْبَہمْ لِلتَّقْوٰى۔ (49۔ الحجرات:3)

یہ صحابہ وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے ادب کے واسطے جانچ لیا ہے۔

اگر علم و فضل کی کسوٹی پر ان سختیوں کو پرکھا جائے تو بلا مبالغہ نتیجہ یہی قائم کرنا پڑے گا کہ ہر صحابی علم و معرفت، فہم و فراست ، تدبر و فکر، عقل و دانش کا مینارہ نور تھا جن سے دنیا نے ظلم و جہل کے اس ماحول میں تعلیم و ترقی و تہذیب و شرافت اور انسانیت کی روشنی حاصل کی۔ چنانچہ کوئی حدیث و تفسیر میں یکتا تھا تو کوئی فقہ و قراءت کا امام کسی کے اندر تصوّف و فرائض کا علم پورے کمال کے ساتھ تھا تو کسی کے اندر معانی و ادب کا بحر بیکراں موجزن تھا، غرض کہ ہر ایک اپنی جگہ علمی حیثیت سے بھی کامل و اکمل تھا۔ اور پھر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شرف و صحبت کا اثر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نگاہ کرشمہ ساز کا کمال تھا کہ نہ صرف مرد صحابی بلکہ عورت صحابیہ بھی اپنی اپنی جگہ علم و معرفت کے آفتاب ہدایت تھے جن سے بڑے بڑے صحابی روشنی حاصل کرتے تھے۔

روحانی و اخروی عظمت و سعادت کے اس عظیم مرتبہ پر ہوتے ہوئے ان مقدس حضرات کی بے تکلّفی کا یہ عالم تھا کہ عملی دنیا میں بھی دولت و ثروت ، اقتدار حکمرانی اور ملک و وجاہیت کے باوجود انہیں ننگے پاؤں پھرنے میں عار تھا اور نہ زمین و فرش پر نماز پڑھنے ، لیٹنے بیٹھنے میں کوئی شرم محسوس ہوتی تھی۔ سادگی کی حد تھی کہ مٹی لکڑی کے برتن و باسن میں انہیں کھانے پینے میں کوئی تکلّف نہیں ہوتا تھا، دوسرے لوگوں کا جھوٹا کھانا اور پینا ان کے نزدیک کوئی معیوب چیز نہ تھی، آداب گفتگو کی یہ کیفیت تھی کہ ہر ایک کی نجی بات چیت نے بھی کبھی شرافت و تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا، بیکار گفتگو، لا یعنی باتیں، لغو باتوں سے کوسوں دور رہتے کلام و گفتگو وہی کرتے جو ضروری اور با مقصد ہو صاف گوئی اس درجہ کی تھی کہ جو مسئلہ انہیں معلوم نہ ہوتا نہایت صفائی سے کہہ دیتے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے آج کل کی طرح خواہ مخواہ تکلّف کر کے لچھے دار تقریریں کر کے مسئلے کو غلط سلط بیان نہیں کرتے تھے بلکہ وہ جسے اپنے سے افضل سمجھتے تھے نہایت خلوص کے ساتھ سائل کو ان کے پاس بھیج دیتے کہ ان سے دریافت کر لو، حصول علم کا اتنا شوق تھا کہ جس کو وہ علم میں اپنے سے بڑا سمجھتے ، خواہ وہ عمر میں کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، استفادہ کے لیے اس کے پاس جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔

جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ان کے یہاں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں تصنع و بناوٹ نام کو بھی نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ وہ لوگ اگر قرآن پڑھتے تو وہ بھی کسی تصنع و بناوٹ کے بغیر اس کے پورے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھ کر خالص عربی لہجہ میں پڑھتے تھے یہ نہیں تھا کہ خواہ مخواہ آواز بنا کر راگ و سر کے ساتھ پڑھتے ہوں۔

یہی حال ان کے باطن کا تھا چونکہ انہیں براہ راست سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے قرب و صحبت کا شرف حاصل تھا اس لیے ان کے قلوب پوری طرح مجلیٰ و مصفا ہو کر ہمہ وقت یاد الہٰی اور ذکر اللہ میں مصروف رہتے تھے ، ان کے افکار عرفان و حقیقت کی انتہائی بلندیوں پر تھے ، آج کل کے جاہل صوفیاء اور پیروں کی طرح وہ دکھلانے کے لیے حال میں آکر رقص نہ کرتے تھے نہ ہو ہا کا شور و شغب کرتے تھے اور نہ وہ اپنے قلوب کی صفائی کے لیے ہارمونیم کے ساز پر، طبلہ کی تھاپ پر اور قوالی کی تان پر حصول معرفت کا دعویٰ کرتے تھے جیسا کہ آج کے دور میں اہل اللہ کے مزارات پر ان لغویات سے تصوّف و طریقت کے نام پر سرور و کیف حاصل کیا جاتا ہے اور نہ وہ کسی اسکیم و تنظیم کے باعث حلقہ وغیرہ بنا کر مسجد و گھر میں ذکر جہر کرتے تھے بلکہ نہایت سادگی کے ساتھ جسے جہاں موقع مل جاتا وہیں یاد الہٰی میں نہایت صبر و سکون کے ساتھ مشغول ہو جانا ان کی اسی سادگی اور خلوص کی وجہ سے بظاہر تو ان کے اجسام فرش پر نظر آتے مگر ان کی روحیں عرش پر سیر کرتی ہوتیں، ان کے ظاہری بدن لوگوں کے ساتھ ہوتے مگر ان کے قلوب مقام قرب کی انتہائی بلندیوں پر ہوتے۔

صحابہ کا طرز معاشرت بھی تصنع و بناوٹ اور تکلّف سے بالکل پاک و صاف تھا، انہیں جو میسر آتا وہی کھا لیتے جو مل جاتا وہی پہن لیتے ، موٹا چھوٹا کپڑا ہو وہ پہن لیا، عمدہ ملا اسے استعمال کر لیا، یہ نہیں تھا کہ دنیا کو دکھلانے کے لیے یا اپنے زہد و تقدّس کا رعب جمانے کے لیے حرقہ، گڑری یا ایسے ہی لباس اپنے اوپر لازم کر رکھے ہوں، ہاں جسے یہی لباس میسر ہوتا وہ اسے بھی استعمال کرتا، کھانے پینے میں یہ تامل تھا نہایت ذوق و شوق سے کھاتے اور اگر روکھا سوکھا دال دلیا ہی اللہ دے دیتا تو اسے بھی نہایت صبر و شکر سے کھا لیتے۔

بہر حال عبادات ہوں یا معاملات، اخلاق و عادات ہوں، یا معیشت و معاشرت، زندگی کے ہر پہلو میں ان کے یہاں خلوص اور بے تکلّفی و سادگی تھی اور انہوں نے اپنے نظام حیات کو ایسے سانچے میں ڈھال رکھا تھا جو خالص اسلامی دینی اور اخلاقی تھا اور یہ سب نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی اور اس ذات اقدس کی صحبت کا اثر تھا جو خود اپنے قول الحدیث (ادبنی ربی فاحسن تادیبی) (یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے ادب سکھایا اور ادب کے انتہائی درجہ بر پہنچایا) کے مطابق ادب و اخلاق اور تہذیب و شرافت کے تمام جواہر ازل ہی سے اپنے اندر سموئے ہوئے تھے کہ جو قوم دنیا کی سب سے زیادہ غیر مہذب، غیر متمدن، اور غیر ترقی یافتہ تھی اور اصلاح و تربیت کے ذریعہ اسے تہذیب و تمدن اور اخلاق و احسان کے اس مقام رفیع تک پہنچا دیا جہاں نہ صرف یہ کہ وہ خود ایک کامل اور عظیم قوم ثابت ہوئی بلکہ دنیا کی دوسری قوموں نے اس کے نقش قدم کو اپنے لیے جادہ منزل بنا کر تہذیب و تمدن کی انتہائی بلندیوں پر بسیرا کیا۔

چنانچہ اس حدیث میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو یہی ہدایت فرما رہے ہیں کہ اگر تم ہدایت کا راستہ چاہتے ہو، فلاح کی منزل کے خواہش مند ہو، عرفان الہٰی اور حبّ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے انتہائی مقام پر پہنچنا چاہتے ہو تو تمہارے لیے ضروری ہے کہ اسی مقدّس جماعت کے راستہ کو اختیار کرو، انہی کے اخلاق و عادات کو اپنے لئے جادہ منزل جانو، انہی کی متابعت و پیروی کو کامیابی و کامرانی کا ذریعہ سمجھو اور ان کی عقیدت و محبت سے زندگی کے ہر گوشہ کو منور کرو۔

اس جگہ اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انتقال فرما گئے ہیں انہیں کی پیروی و اطاعت کرنی چاہئے۔ حالانکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ پیروی کے لائق صحابہ کرام کی جماعت ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں مردوں کی تخصیص صرف اس لیے کی گئی ہے کہ اکثر صحابہ کرام اس وقت انتقال فرما چکے تھے ورنہ یہاں زندہ اور مردہ دونوں مراد ہیں۔

اس حدیث سے صحابہ کی انتہائی عظمت اور فضل و کمال کا اظہار ہوتا ہے چونکہ تمام مخلوق اور تمام انسانوں میں یہ سب سے افضل تھے اور حق و صداقت کے قبول کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم ان میں موجود تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کے لیے منتخب فرمایا اور قرآن میں بایں طور پر ان کے فضل و کمال کی شہادت دی کہ

آیت (وَاَلْزَمَہمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَكَانُوْٓا اَحَقَّ بِہا وَاَہلَہا) 48۔ الفتح:26)

اور ان (صحابہ) کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا اور وہ اس کے مستحق اور اہل تھے۔

بعض آثار میں آیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام بندوں کے قلوب پر نظر فرمائی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قلب مبارک سب سے زیادہ منوّر و روشن اور پاک و صاف تھا تو نور نبوت اس میں ودیعت فرمایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب بھی بہت زیادہ پاک و صاف اور اہل و لائق تھے تو ان کو اپنے نبی کی صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کے لیے پسند فرمایا۔

اور اتنی بات تو ہم آج خود جانتے ہیں کہ ایک آدمی جب کسی پیر برحق کا مرید ہوتا ہے تو باوجودیکہ وہ پہلے سے بالکل خالی اور کورا ہوتا ہے مگر پیر کی صحبت اور اس کی خدمت و اطاعت گزاری کی وجہ سے وہ کتنا اعلیٰ مقام حاصل کر لیتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی زندگیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں اور اپنی عمریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں صرف کر دیں اور فضل و کمال حاصل نہ کریں۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لائے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ تورات کا نسخہ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (تورات کو) پڑھنا شروع کر دیا۔ ادھر غصہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک متغیر ہونے لگا (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا عمر! گم کرنے والیاں تمہیں گم کریں۔ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ اقدس (کے تغیر) کو نہیں دیکھتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرۂ منوّر کی طرف نظر ڈالی اور (غصہ کے آثار دیکھ کر کہا) میں اللہ کے غضب اور اس کے رسول کے غصہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی جان ہے اگر موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے درمیان ظاہر ہوتے تو تم ان کی پیروی کرتے اور مجھے چھوڑ دیتے (جس کے نتیجہ میں) تم سیدھے راستہ سے بھٹک کر گمراہ ہو جاتے اور (حالانکہ) اگر موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے اور میرا زمانہ نبوت پاتے تو وہ (بھی) یقیناً میری (ہی) پیروی کرتے۔ (درامی)

 

 

تشریح

 

جملہ ثکلتک الثواکل (گم کرنے والیاں تمہیں گم کریں) اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے موت کے لیے بد دعا ہے لیکن یہ ایک اہل عرب کا محاورہ ہے جو اپنے اصل معنی و مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے جب اپنے کسی بے تکلف دوست سے کسی کو تعجب کا اظہار مقصود ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی اپنے بے تکلف مخاطب سے ایسے موقع پر جب کہ وہ کسی ظاہری بات کو بھی نہیں سمجھ رہا ہوتا یہ کہے کہ مجھے بڑا تعجب ہے کہ یہ کھلی ہوئی بات بھی تم نہیں سمجھ رہے ہو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ اور حکماء اور فلاسفہ کی کتابوں کی طرف بے ضرورت رجوع کرنا اور ان کی طرف التفات کرنا مناسب نہیں بلکہ یہ گمراہی کی بات ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کر دیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔

 

تشریح

 

نسخ کے معنی لغت میں کسی شے کو مٹانے یا نقل و تحویل کے آتے ہیں جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ نسخت الریح اثار القوم۔ کہ ہوا نے لوگوں کے پاؤں کے نشان مٹا دیے یا اسی طرح بولتے ہیں نسخ الکتاب الی کتاب کہ ایک جگہ سے کتاب کو دوسری طرف نقل کیا۔ علماء کی اصطلاح میں نسخ اسے کہتے کہ کسی حکم شرعی کا اصلاح دین کی خاطر کسی دوسرے حکم کے ذریعہ تغیر و تبدل کیا جائے۔ یا کسی حکم کو نافذ کرنا کہ جس کے اور اس سے پیشتر کا حکم جو مقدم تھا اٹھ جائے اوّل حکم کو منسوخ اور دوسرے حکم کو ناسخ کہتے ہیں۔

نسخ کی چار قسمیں ہیں۔ (١) کتاب اللہ کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ (٢) حدیث کا نسخ حدیث کے ساتھ(۱) کتاب اللہ کا نسخ حدیث کے ساتھ(٤) حدیث کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ۔

اس کی توضیح یہ ہے کہ مثلاً پہلے کوئی حکم قرآن میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتارا گیا لیکن بعد میں کسی خاص مصلحت کی وجہ سے قرآن کی کسی دوسری آیت نے آکر اس حکم کو منسوخ کر دیا، اب اس کی بھی دو شکلیں ہوں گی، یا تو وہ آیت قرآن میں باقی رہے اور صرف تلاوت کی جاتی رہے مگر اس کا حکم کالعدم قرار دیا گیا۔ یا یہ کہ حکم کے ساتھ آیت بھی منسوخ کر دی گئی اور اسی طرح نسخ کی دوسری شکل یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو حدیث ہی کے ذریعہ منسوخ کر دیا گیا ہو، تیسری شکل نسخ کی یہ ہے کہ قرآن کے کسی حکم کو حدیث کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منسوخ فرمایا ہو لیکن اس میں کسی قسم کا یہ اشکال پیدا نہیں ہو سکتا کہ حکم الہٰی کو رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو ایک انسان ہوتا ہے کس طرح کالعدم قرار دے سکتا ہے یہ اشکال وہیں رفع ہو گیا ہے جہاں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ حدیث بظاہر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے مجموعہ کا نام ہے لیکن حقیقت میں حدیث بھی وحی من اللہ ہے فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن ایسی وحی ہے جس کی تلاوت نہیں کی جاتی اور جس کا مضمون براہ راست بار گاہ الوہیت سے اترتا ہے لیکن الفاظ رسول کے ہوتے ہیں اس صورت میں یہ حدیث متعارض نظر آئے گی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث قرآن کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اس کا جواب یہی ہو گا کہ حدیث میں لفظ کلامی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ ارشاد ہے جو خود رسول اللہ کی ذاتی رائے اور اجتہاد کے طریقہ پر وارد ہو، نہ کہ وہ ارشاد جو بطور وحی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب پر القاء فرمایا گیا ہے اس تاویل کے بعد یہ تعارض رفع ہو جائے گا۔ یا پھر یہ تاویل کی جائے گی کہ یہ حدیث خود منسوخ ہے لہٰذا اس سے اس کلیہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

چوتھی شکل نسخ کی یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو کتاب اللہ کے ذریعہ منسوخ قرار دے دیا گیا، یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ کسی قانون میں تبدیلی یا کسی حکم کی منسوخی دو وجہ سے ہوتی ہے اوّل تو یہ کہ قانون بناتے وقت بانی قانون سے کوئی فروگزاشت یا غلطی ہو گئی جس کی وجہ سے بعد میں اس قانون میں تبدیلی اور منسوخی ضروری قرار دی گئی۔

ظاہر ہے کہ کلام اللہ میں یہ محال ہے اس لیے کہ اللہ کی علیم و خبیر ذات کسی قسم کی غلطی، بھول چوک یا فروگزاشت سے بالکل منزّیٰ و پاک و صاف ہے اس لیے جو بھی قانون بنائے گا یا جو بھی حکم دے گا وہ بالکل صحیح و کامل ہو گا اس میں کسی غلطی کا امکان بھی نہیں ہو سکتا اسی طرح رسول کے بتائے ہوئے احکام میں بھی یہ چیز نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے احکام جن کا تعلق دینی امور سے ہوتا ہے وہ براہ راست بارگاہ الوہیت سے نازل ہوئے ہیں اور دربار رسالت سے ان کا انعقاد عمل میں آتا ہے گویا وہ خود بھی احکام اللہ کے مرتبہ کے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اسی طرح حدیث کے احکام کی پیروی کرنا بھی ضروری و لازم ہے لہٰذا حدیث کے احکام میں بھی کسی حکم کی تبدیلی کا سبب یہ نہیں ہو سکتا۔ کسی قانون و حکم کی تبدیلی و منسوخی کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ محکوم کی حالت بدلنے سے مصلحت بھی بدل گئی ہے اس لیے قانون بھی بدل گیا جیسے کہ مریض کی حالت بدل جانے پر نسخہ بھی بدل دیا جاتا ہے۔

مثلاً ایک قانون بنایا گیا یا کوئی حکم دیا گیا اس وقت ماحول اس قسم کے قانون کا متقاضی تھا، یا محکوم کے ذہن مزاج اسی حکم کے لائق تھے مگر بعد میں جب ماحول میں تبدیلی آ گئی، محکوم کے ذہن و مزاج بھی دوسرا رخ اختیار کر گئے تو اب بانی قانون کی مصلحت بھی بدل گئی لہٰذا اس نے محکوم اور ماحول کی بھلائی اور اصلاح کی خاطر اس سے پہلے قانون کو بدل دیا اور اس جگہ کسی دوسرے قانون کو لاگو کر دیا ظاہر ہے کہ ایسا نسخ صحیح اور جائز ہو گا اس میں کسی قسم کا کوئی عقلی و نقلی اشکال پیدا نہی ہو سکتا اور یہی تبدیلی و تفسیر اور نسخ قرآن و احادیث کے احکام میں ہوتے ہیں لہٰذا ان میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، ہماری (بعض) احادیث بعض کو اس طرح منسوخ کرتی ہیں جیسا کہ (قرآن کے بعض حصہ کو) قرآن منسوخ کرتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو ثعلبہ خشنی (آپ کے نام میں بہت زیادہ اختلاف ہے بعض نے جرہم بن ثابت کہا ہے اور بعض نے جرثوم بن ثابت اور عمر ابن جرثوم لکھا ہے بہر حال یہ اپنی کنیت ابو ثعلبہ سے مشہور ہیں ٧٥ھ میں بعہد عبدالملک بن مروان کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے چند فرائض کو فرض کیا ہے لہٰذا تم ان کو ضائع نہ کرو (یعنی ان کو نہ چھوڑو یا ان کے شرائط و ارکان کو ترک نہ کرو، یا یہ کہ ان فرائض میں نمائش و ریا، شک و شبہ اور غرور و تکبر نہ کرو) اور چند چیزیں اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہیں (یعنی ان کو اختیار کرنا گناہ قرار دیا ہے) لہٰذا تم ان کے نزدیک بھی مت جاؤ اور چند حدود مقرر کی ہیں (مثلاً قصاص وغیرہ) لہٰذا تم ان سے تجاوز نہ کرو (یعنی ان میں اپنی طرف سے کمی و زیادتی نہ کرو) اور چند چیزوں کے بارہ میں بھول کر نہیں (بلکہ دانستہ) اختیار کیا ہے (یعنی کتنی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارہ میں وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ حرام ہیں یا حلال اور یا واجب ہیں، لہٰذا ان چیزوں میں تم اپنی طرف سے) بحث نہ کرو۔ مذکورہ تینوں حدیثیں دار قطنی نے روایت کی ہیں۔

 

تشریح

 

روایۃً منقول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوعاً ہی روایت کی ہے۔ لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ چونکہ یاد نہیں رہے اس لئے انھوں نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا۔

اونٹوں کے جگر کو پھاڑنے کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان علم کا چرچہ پڑھے گا اور حصولِ علم کا شوق افزوں ہو گا تو لوگ دور دراز کا سفر کریں گے اور علم کی خاطر دنیا بھر کی خاک چھانٹتے پھریں گے ، یا یہ کہ درِ علم تک جلد پہنچ جانے کے لیے اونٹوں کو تیزی سے چلائیں گے اور تیزگامی کے ساتھ علم کی منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔

حدیث کے الفاظ کے مصداق میں کلام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ مدینہ کے عالم سے زیادہ کوئی بڑا عالم نہیں ملے گا تو مدینہ کے عالم سے کون مراد ہے؟

حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ جو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ کے اصحاب اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے مراد حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ محترم ہے۔ اسی طرح حضرت عبدالرزاق رحمۃ اللہ تعالیٰ جو حدیث کے جلیل القدر اور مشہور امام ہیں یہی فرماتے ہیں کہ حدیث میں جس  عالم مدینہ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔

لیکن حضرت ابن عیینہ کے ایک شاگرد حضرت اسحٰق بن موسیٰ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عیینہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  عالم مدینہ سے مراد حضرت عمری زاہد ہیں۔ جن کا اسم گرامی عبدالعزیز بن عبداللہ ہے۔ چونکہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں اس لیے عمری کہا جاتا ہے اور  زاہد ان کی صفت ہے اس لیے کہ یہ اپنے زمانہ میں مدینہ کے ایک جلیل القدر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پائے کے زاہد و  متفی آدمی تھے ان کا نسب اس طرح ہے۔ عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمرو بن حفص بن عاصم بن عمر فاروق۔

بہر حال امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ کے واسطہ سے ابن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ کا جو قول نقل کیا ہے وہ اس قول کے مخالف ہے جو ابن عیینہ سے اسحٰق بن موسیٰ نقل کرتے ہیں اس طرح حضرت ابن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ کے اقوال میں اختلاف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں حضرات نے عیینہ سے جو قول نقل کیا ہے ، وہ بااعتبار ظن کے ہے یقینی اور حتمی طور پر ان لوگوں نے نقل نہیں کیا ہے۔

یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ تعالیٰ کے دور کے اعتبار سے ہے کہ ان کے زمانوں میں مدینہ کے عالم سے زیادہ بڑا عالم کسی دوسری جگہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد جب علم کی مقدّس روشنی مدینہ سے نکل کر اطراف عالم میں پھیلی تو اس کے نتیجہ میں دیگر ممالک اور دوسرے شہروں میں ایسے ایسے عالم و فاضل پیدا ہوئے جو اپنے علم و فضل اور دینی فہم و فراست کے اعتبار سے مدینہ کے عالموں سے بڑھے ہوئے تھے۔

اس حدیث کے ظاہری معنی جو ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ قریب اور انسب ہیں یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد اس ارشاد سے اس بات کی خبر دینا ہے کہ آخر زمانہ میں علم اپنی وسعت و فراخی کے باوجود صرف مدینہ منورہ میں منحصر ہو جائے گا جیسا کہ دیگر احادیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے۔ وا اللہ اعلم۔

 

٭٭٭  اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مجھے جو کچھ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کے نفع کے واسطے ہر سو برس پر ایک آدمی کو بھیجتا ہے جو اس کے دین کو تازہ کرتا ہے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

اکثر علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حدیث سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ ہر زمانہ میں امت کے اندر اپنے علم و فضل کے اعتبار سے سب میں ممتاز ایک ایسا آدمی موجود ہوتا ہے جو دین کو نکھارتا اور تجدید کرتا ہے جسے مجدّد کہا جاتا ہے۔ مجدّد اپنے زمانہ میں دین کے اندر ہر پیدا ہونے والی برائی اور خرابی کو دور کرتا ہے۔ بدعت اور رسم و رواج کے جو گہرے پردے دین کی حقیقت پر پڑ جاتے ہیں وہ اپنے علم و معرفت کی قوّت سے انھیں چاک کرتا ہے اور امت کے سامنے پورے دین کو نکھار کر اور صاف و ستھرا کر کے اس کی اپنی شکل میں پیش کر دیتا ہے۔

چنانچہ بعض حضرات نے تعین بھی کیا ہے کہ فلاں مجدّد پیدا ہوا تھا اور فلاں صدی میں فلاں مجدّد موجود تھا۔ بعض علماء نے حدیث کے معنی کو عمومیت پر محمول کیا ہے ، یعنی خواہ دین کی تجدید کرنے والا کوئی ایک آدمی واحد ہو خواہ کوئی جماعت ہو جودین میں پیدا کی گئی برائیوں اور خرابیوں کو ختم کرے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابراہیم بن عبدالرحمن عذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ ہر آئندہ آنے والی جماعت میں سے اس کے نیک (یعنی ثقہ اور معتمد) لوگ اس علم (کتاب و سنت) کو حاصل کریں گے اور وہی لوگ اس (علم) کے ذریعہ (آیات و احادیث میں) حد سے گزرنے والوں کی تحریف کو باطلوں کی افتراء پردازی کو اور جاہلوں کی تاویلات کو دور کریں گے ، (اس حدیث کو بیہقی نے اپنی کتاب  مدخل میں حدیث بقیۃ ابن ولید سے نقل کیا ہے اور انھوں نے معان بن مرفاعہ سے اور انھوں نے ابراہیم بن عبدالرحم عذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے) اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (جس کی ابتداء یہ ہے) فانما شفاء العی السوال ہم باب تیمّم میں بیان کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

 

٭٭حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ سے بطریق مرسل روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی کی موت اس حال میں آئے کہ وہ علم حاصل کر رہا ہو اور (وہ علم) اس غرض سے (حاصل کر رہا ہو) کہ وہ اس کے ذریعہ اسلام کو رائج کرے گا تو جنت میں اس کے اور انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہو گا اور وہ مرتبہ نبوت ہے۔ (درامی)

 

 

٭٭اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ (حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ تابعی ہیں آپ کی پیدائش مدینہ میں ہوئی تھی۔ ١١٠ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) سے بطریق مرسل روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کے بارے میں سوال کیا گیا، ان میں سے ایک تو عالم تھا جو فرض نماز پڑھتا تھا پھر بیٹھ کر لوگوں کو علم سکھاتا تھا۔ اور دوسرا آدمی وہ تھا جو دن کو تو روزے رکھتا تھا اور تمام رات عبادت کیا کرتا تھا (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا) کہ ان دونوں میں بہتر کون ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اس عالم کو جو فرض نماز پڑھتا ہے اور بیٹھ کر لوگوں کو علم سکھلاتا ہے اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات میں عبادت کرتا ہے ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی کہ مجھے تمہارے میں سے ایک ادنیٰ آدمی پر فضیلت حاصل ہے۔ (درامی)

 

تشریح

 

بنی اسرائیل کے مذکورہ دونوں عالم یوں تو اپنے علم و فضل کے اعتبار سے ہم رتبہ تھے مگر فرق یہ تھا کہ ایک عالم نے تو اپنی زندگی کا مقصد صرف عبادت خداوندی بنا لیا تھا چنانچہ وہ دن رات ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہا کرتا تھا بندگان خدا کی اصلاح و تعلیم سے اسے غرض نہیں تھی، مگر دوسرا عالم فرض عبادت بھی پوری طرح ادا کرتا تھا اور اپنے اوقات کا بقیہ حصہ لوگوں کی اصلاح و تعلیم میں بھی صرف کیا کرتا تھا۔ لہٰذا دونوں میں افضل اسی آدمی کو قرار دیا گیا ہے جو خود بھی اپنے علم پر عمل کرتا تھا اور دوسروں کو بھی علم سکھلا کر انھیں راہِ ہدایت پر لگاتا تھا۔

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ بہتر آدمی وہ ہے جو دین کی سمجھ رکھتا ہو۔ اگر اس کے پاس کوئی حاجت لائی گئی تو اس نے نفع پہنچایا اور اگر اس سے بے پروائی برتی گئی تو اس نے بھی اپنے نفس کو بے پرواہ رکھا۔ (رزین)

 

تشریح

 

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک عالم کی یہ شان ہونی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں کا محتاج کر کے اپنی حیثیت کو کمتر نہ کرے ، نیز غلط اغراض و مقاصد کی خاطر عوام کی مصاحبت کی طرف میلان نہ رکھے اور نہ ان سے کسی دنیاوی غرض و منافع کی طمع کرے۔

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اپنے آپ کو عوام سے بالکل بے تعلق کر لیا جائے اور اپنے علم سے اللہ کی مخلوق کو محروم رکھا جائے۔ بلکہ اگر عوام دینی ضروریات کے سلسلے میں صرف اسی کے محتاج ہوں اور اس کے علاوہ کسی دوسرے عالم کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی رجوع اس کی طرف ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے درمیان جائے اور ان کی دینی و اسلامی ضروریات کو پورا کر کے انہیں نفع پہنچائے۔ ہاں اگر عوام خود اس سے لاپرواہی برتیں کہ انھیں اس سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہو اور نہ وہ اس کے محتاج ہوں تو چاہئے کہ وہ بھی ان سے بے پروائی برتے اور ان سے ترک تعلق کر کے اپنے اوقات کو عبادت خداوندی میں مشغول رکھے یا پھر خدمت علم دین کی خاطر دینی کتابوں کے مطالعہ اور تصنیف و تالیف میں منہمک ہو کر اس ذریعہ سے علم کی روشنی پھیلائے۔

 

 

٭٭  اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔ تم ہر جمعہ کو ایک بار لوگوں کے سامنے حدیث بیان کرو۔ اگر اسے قبول نہ کرو (یعنی ہفتہ میں ایک بار وعظ نصیحت کو کافی نہ جانو تو ہفتہ میں) دو بار اور زیادہ چاہو تو (ہفتہ میں تین بار وعظ و نصیحت کر سکتے ہو) اور تم لوگوں کو اس قرآن سے تنگ نہ کرو (یعنی ہفتہ میں تین بار سے زیادہ وعظ و نصیحت بیان کر کے لوگوں کو ملول نہ کرو) اور میں تمہیں اس حالت میں نہ پاؤں کہ تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ اپنی باتوں میں مشغول ہوں اور تم ان کی باتوں کو منقطع کر کے ان کے سامنے وعظ و نصیحت شروع کر دو اور (اس طرح) تم ان کو کبیدہ خاطر کرو۔ ایسے موقع پر تمہیں چاہئے کہ تم خاموش رہو البتہ وہ اگر تم سے وعظ و نصیحت کی فرمائش کریں تو جب تک اس کے خواہش مند ہوں تم ان کے سامنے حدیث بیان کرو اور تم دعا میں مقفیٰ عبارت سے صرف نظر کرو اور اس سے بچو، چنانچہ میں نے معلوم کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اصحاب ایسا نہیں کرتے تھے (یعنی دعا میں مقفیٰ عبارت استعمال نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

جیسا کہ پچھلے صفات میں گزر چکا ہے اس حدیث میں بھی اس پر زور دیا جا رہا ہے کہ وعظ و نصیحت کے معاملہ میں اعتدال اور موقع و ماحول کی رعایت ضروری ہے اور اثر اندازی کے اعتبار سے دعوت و تبلیغ کا یہ بنیادی پتھر ہے جس پر تبلیغ کی کامیابی کا پورا دار و مدار ہے۔

اس سلسلہ میں خاص طور پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر کچھ لوگ کسی بات چیت اور آپس کی گفتگو میں مشغول ہوں تو ایسے موقع پر پہنچ کر وعظ و نصیحت شروع نہیں کر دینی چاہئے ، چا ہے ان کی بات چیت دنیاوی امور سے متعلق ہو یا دینی باتوں پر مشتمل ہو۔ اگر وہ دین کی بات میں مشغول ہیں تو ظاہر ہے کہ بدرجہ اولیٰ ان کی بات کو منقطع کرنا اور اس میں خلل انداز ہونا خواہ وہ تبلیغ ہی کی خاطر کیوں نہ ہو مناسب نہیں ہو گا۔ اگر بات چیت کا موضوع خالص دنیا بھی ہو تو ایسا کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ جب ایک آدمی اپنی کسی ضروری گفتگو میں مشغول ہو اور وہاں پہنچ کر وعظ و نصیحت شروع کر دی جائے تو گفتگو میں خلل پڑنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ بتقاضائے بشریت اسے گوارہ نہ کرے اور وہ ایسے موقع پر قرآن و حدیث کی باتیں سننا پسند نہ کرے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ وہ خواہ مخواہ گناہ میں مبتلا ہو گا بلکہ اس کے قلب پر دین کی عظمت و اہمیت کا نقش بھی قائم نہ ہو گا۔

ہاں اگر مصلحت کا تقاضا ہی یہ ہو کہ انھیں اس گفتگو سے باز رکھا جائے تو پھر ایسا انداز اور طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے انھیں ناگواری بھی نہ ہو اور وہ اس کلام و گفتگو سے رک بھی جائیں ، غرض کہ نظر مصلحت ضرورت وقت پر رکھنی چاہئے۔

ویسے جہان تک عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ ان کا عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دینا اکثر کے اعتبار سے تھا یعنی یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ اکثر و بیشتر لوگ محض دنیاوی باتوں ہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔

دعامیں مقفیٰ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ دعا تاثیر کے اعتبار سے وہی بہتر ہوتی ہے جو بغیر تصنع و بناوٹ کے سیدھی سادھی ہو اور دل کی گہرائیوں سے نکلی ہو۔ اس لیے دعا کی عبارت کو شعر و شاعری کا رنگ دینا، الفاظ میں قافیہ اور تکلف نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ان دعاؤں پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ جو مقفی و مسجع ثابت ہیں اور جن میں قفیہ بندی بھی ہے۔ اس لیے یہ چیزیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بے تکلف اور از خود صادر ہوتی تھیں ان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تکلف اور کوشش کو دخل نہیں ہوتا تھا۔

 

 

٭٭حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو آدمی علم کا طالب ہو اور اسے علم حاصل بھی ہو گیا تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا اور اگر اسے علم حاصل نہ ہو تو اس کو ایک حصہ ثواب ملے گا۔ (درامی)

 

تشریح

 

دو ثواب اس طرح ملیں گے کہ ایک ثواب تو طلب علم اور اس کی مشقت و محنت کا ہو گا جو اس نے حصول علم کے سلسلے میں اٹھائی ہیں اور دوسرا ثواب علم کے حاصل ہونے کا اور پھر دوسروں کو علم سکھلانے کا ہو گا یا دوسرا ثواب عمل کا ہو گا جو اس نے علم پر کیا ہے۔ ہاں اس آدمی کو جسے اس کی طلب اور کوشش کے باوجود حاصل نہیں ہوا صرف ایک ثواب اس کی محنت و مشقت ہی کا ملے گا۔

بہر حال اتنی بات تو طے ہے کہ بہتر تقدیر طلب علم میں لگے رہنا چاہئے۔ اگر علم حاصل ہو گیا تو نور علیٰ نور کہ اسے دو ثواب ملیں گے اور اگر علم حاصل نہ ہوا تو یہی کیا کم ہے کہ طلب علم میں مر جانا بھی سعادت ہے

گرچہ نہ تواں بد دست رہ برون

شرط یاری ست در طلب مردن

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مومن کو اس کے جس عمل یا جن نیکیوں کا مرنے کے بعد ثواب پہنچتا ہے اس میں ایک تو علم ہے جس کو اس نے سیکھا اور رواج دیا تھا، دوسرے نیک اولاد ہے جس کو اپنے بعد چھوڑا۔ تیسرے قرآن ہے جو وارثوں کے لیے چھوڑا ہو۔ چوتھے مسجد ہے جس کو اپنی زندگی میں بنا لیا گیا ہو، پانچویں مسافر خانہ ہے جس کو اس نے تعمیر کیا ہو، چھٹے نہر ہے جس کو اس نے جاری کیا ہے اور ساتویں وہ خیرات ہے جس کو اس نے اپنی تندرستی اور زندگی میں اپنے مال سے نکالا ہو، ان تمام چیزوں کا ثواب اس کے مرنے کے بعد اس کو پہنچتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، بیہقی)

 

 

٭٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف یہ وحی (خفی) بھیجی ہے کہ جو طلب علم کے لیے راستہ اختیار کرے تو میں اس پر جنت کے راستے کو آسان کر دوں گا اور جس آدمی کی میں نے دونوں آنکھیں چھین لی ہوں (یعنی کوئی آدمی نابینا ہو گیا ہو) تو اس دنیاوی نعمت سے محرومی اور اس پر صبر و شکر کی بناء پر میں اس کا بدلہ اسے جنت دوں گا اور علم کے اندر زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے اور دین کی جڑ پرہیز گاری ہے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ جو آدمی علم دین کے حصول کے لیے کسی راستہ کو اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی راہ آسان کر دے گا یعنی دنیا میں معرفت و حقیقت کی دولت سے نوازا جائے گا اور عبادت خداوندی کی توفیق عنایت فرمائی جائے گی تاکہ وہ اس کے سبب جنت میں داخل ہو سکے ، یا اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے آدمی پر آخرت میں جنت کے دروازے کا راستہ اور جنت میں جو محل اہل علم کے لیے مخصوص ہے اس کی راہ آسان کر دی جائے گی۔

گو اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں علم کی جو راہ ہے وہی آخرت میں جنت کی بھی راہ ہے اور علم کے دروازوں کے علاوہ جنت کی تمام راہیں بند ہیں یعنی بغیر علم کے جنت میں داخل ہونا مشکل ہے مگر شرط یہی ہے کہ علم خلوص نیت اور للّٰہیت کے جذبہ سے حاصل کیا گیا ہو اور پھر اس عمل کی توفیق بھی ہوتی ہو ورنہ علم بغیر خلوص اور بغیر عمل کے کوئی حقیقت نہیں رکھے گا اور اس کا مصداق ہو گا کہ

چار پایہ بروکتا بے چند

آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ دین کی اصل اور جڑ ورع (یعنی پرہیزگاری) ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حرام، منکرات اور طمع سے بچنا چاہئے تاکہ عبادات میں ریاء اور عدم اخلاص پیدا نہ ہو۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ رات میں تھوڑی دیر علم کا درس دنیا کی تمام رات کو زندہ رکھنے سے بہتر ہے۔ (دارمی)

 

تشریح

 

یعنی تمام رات نماز پڑھنے اور عبادت خداوندی میں مشغول رہنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ تھوڑی دیر تک آپس میں تعلیم و تعلّم اور درس و تدریس کا مشغلہ رکھا جائے اسی حکم میں حصول مقصد کے لیے علم کا لکھنا یعنی تصنیف و تالیف اور دینی و علمی کتابوں کا مطالعہ کرنا بھی داخل ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر دو مجلسوں پر ہوا، جو مسجد نبوی میں منعقد تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ دونوں بھلائی پر ہیں لیکن ان میں سے ایک (نیکی میں) دوسرے سے بہتر ہے۔ ایک جماعت عبادت میں مصروف ہے ، اللہ سے دعا کر رہی ہے اور اس سے اپنی رغبت کا اظہار کر رہی ہے (یعنی حصول مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف امید ہے اور حصول مقصد خواہش الہٰی پر موقوف ہے) لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ چا ہے تو انھیں دے اور اگر چا ہے نہ دے اور دوسری جماعت فقہ یا علم حاصل کر رہی ہے اور جاہلوں کو علم سکھا رہی ہے ، چنانچہ یہ لوگ بہتر ہیں اور میں بھی معلّم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی ان میں بیٹھ گئے۔ (دارمی)

 

 

تشریح

 

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ صحابہ کی دو جماعتیں الگ الگ بیٹھی ہوئی ہیں ایک جماعت تو ذکر و دعا میں مشغول تھی اور دوسری جماعت مذاکرہ علم میں مشغول تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں میں سے اس جماعت کو بہتر قرار دیا جو مذاکرۂ  علم میں مشغول تھی اور پھر نہ صرف یہ کہ زبان ہی سے ان کی فضیلت کا اظہار فرمایا بلکہ خود بھی اس جماعت میں بیٹھ کر علماء کی مجلس کو مزید عزّت و شرف کی دولت بخشی۔

علم اور عالموں کی اس سے زیادہ اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ سردار انبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے عابدوں کی مجلس کو چھوڑ کر عالموں ہی کی ہم نشینی اختیار فرمائی ہے اور اپنے آپ کو ان ہی میں سے شمار کیا

گدایان را ازیں معنی خبر نیست

کہ سلطان جہاں باما ست امروز

 

 

٭٭اور حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ علم کی مقدار کیا ہے کہ جب انسان اتنا علم حاصل کرے تو فقیہہ (عالم) ہو جائے اور آخرت میں اس کا شمار زمرہ علماء میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی میری امت کو فائدہ پہنچانے کے لیے امر دین کی چالیس حدیثیں یاد کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت میں فقیہ اٹھائے گا اور قیامت کے دن میں اس کا شفاعت کرنے والا اور (اس کی اطاعت پر) گواہ بنوں گا۔

 

تشریح

 

علماء لکھتے ہیں کہ اس سے مراد چالیس حدیثوں کا دوسرے لوگوں تک پہنچاتا ہے اگرچہ وہ یاد نہ ہوں چنانچہ اس حدیث کے پیش نظر بہت سے علماء نے چالیس احادیث جمع کر کے لوگوں تک پہنچائی ہیں اور اس طرح وہ قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت اور گواہی کے امیدوار ہوئے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ سخاوت کے معاملہ میں سب سے بڑا سخی کون ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سخاوت کرنے میں اللہ تعالیٰ سب سے بڑا سخی ہے اور بنی آدم میں سے سب بڑا سخی میں ہوں، پھر لوگوں میں میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ آدمی ہو گا جس نے علم سیکھا اور اسے پھیلایا۔ وہ آدمی قیامت کے دن ایک امیر یا فرمایا کہ ایک گروہ کی طرح آئے گا۔

 

تشریح

 

آخر روایت میں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے امیر اوحدہ فرمایا یا امۃ واحدۃ فرمایا یعنی ایسا آدمی جس نے علم سیکھا اور اس کو لوگوں کے درمیان پھیلایا تو اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ آخرت میں ایک امیر کی مانند آئے گا کہ وہ کسی کے تابع نہیں ہو گا بلکہ اس کے ساتھ تابع اور خدام ہوں گے یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ وہ تن تنہا آدمی ایک گروہ جماعت کی مانند ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اللہ کی مخلوق کے درمیان معزز و مکرم ہو گا اور آخرت میں بصد شوکت و حشمت آئے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ حرص کرنے والے دو آدمی ہیں جن کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ایک علم میں حرص کرنے والا کہ اس کا پیٹ کبھی علم سے نہیں بھرتا، اور دوسرا دنیا کی حرص کرنے والا کہ اس کا پیٹ دنیا سے کبھی نہیں بھرتا۔ مذکورہ بالا تینوں حدیثیں بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہیں۔ حضرت امام مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ نے سنن ابوداؤد کی حدیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کا متن لوگوں میں مشہور ہے مگر اس کی اسناد صحیح نہیں ہے۔

 

تشریح

 

امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کے طرق متعدد ہیں جن میں بعض کو دوسرے بعض کی بناء پر تقویت ملی ہے لیکن ویسے بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال کے سلسلہ میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عون رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ دو حریص ہیں جن کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، ایک عالم اور دوسرا دنیا دار لیکن یہ (درجہ میں) برابر نہیں ہیں کیونکہ عالم تو اللہ کی خوشنودی و رضا مندی کو زیادہ کرتا ہے اور دنیا دار سرکشی میں زیادتی کرتا ہے۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دنیا دار کے حق میں (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھی۔ (آیت کا ترجمہ) خبردار ! انسان البتہ سرکشی کرتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو (کثرت مال کی بنا پر لوگوں سے) غنی دیکھتا ہے حضرت عون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوسرے یعنی عالم کے حق میں یہ آیت پڑھی۔ (آیت کا ترجمہ) اللہ کے بندوں میں عالم اللہ سے ڈرتے ہیں۔ (درامی)

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ میری امت میں بہت سے لوگ دین میں سمجھ یعنی دین کا علم حاصل کریں گے اور قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم امراء کے پاس جا کر ان کی دنیا اور (دولت) میں سے اپنا حصّہ حاصل کریں گے اور اپنے دین کو ان سے یکسو رکھیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا (کہ دین و دنیا ایک جگہ جمع ہو جائیں اور امراء کی صحبت میں بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے) جیسا کہ جس طرح خاردار درخت سے صرف کانٹا ہی حاصل ہو سکتا ہے اسی طرح امراء کی صحبت سے نہیں حاصل ہوتا مگر! حضرت محمد ابن صباح رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد (لفظ الا کے بعد) خطایا تھی۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے الا کے بعد کسی لفظ کا تکلّم نہیں فرمایا چنانچہ حضرت محمد بن صباح رحمۃ اللہ تعالیٰ جو ایک جلیل القدر محدّث اور حضرت عبداللہ بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ و امام مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ جیسے ائمہ حدیث کے استاد ہیں۔ اس کی وضاحت فرما رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد الفاظ الا کے بعد خطایا ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے حذف فرمایا اور اس کا تکلّم نہیں کیا۔ اس طرح حدیث کے آخری الفاظ اب اس طرح ہو جائیں گے لَا یُجْتَنِی من قربھم الا الخطایا یعنی امراء کی صحبت سے حاصل نہیں ہوتا مگر گناہ۔

بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں ایسے بھی عالم پیدا ہوں گے جن کا مقصد حصول علم سے محض یہ ہو گا کہ وہ علم حاصل کر کے اور قرآن پڑھ کر امراء کے پاس جائیں اور ان کے سامنے اپنی بزرگی و فضیلت کا اظہار کر کے ان سے مال و دولت حاصل کریں اور علم کی جو حقیقی منشاء و مدعا ہو گی یعنی اللہ کی مخلوق کی ہدایت اور عوام الناس کی بغیر کسی لالچ اور طمع کے دینی راہبری اس سے انھیں قطعاً کوئی مطلب نہ ہو گا۔ اور جب ان سے کہا جائے گا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بیک وقت تفقہ فی الدّین اور امراء کی قربت و صحبت جمع ہو جائے؟ تو وہ جواب میں یہ کہیں گے کہ ہم ان سے مال و دولت تو حاصل کریں گے مگر اپنے دین کو ان سے بچائیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے حالانکہ یہ امر محال ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا اگر اہل علم (یعنی علماء) علم کی حفاظت کریں اور علم کو اس کے اہل ہی (یعنی قدر دانوں) کے سامنے رکھیں تو وہ بے شک اپنے علم کے سبب دنیا والوں کے سردار بن جائیں لیکن (علماء) نے اگر ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے علم کو دنیا داروں پر خرچ کیا تاکہ اس کے ذریعہ وہ دنیا (یعنی جاہ و جلال) کو حاصل کریں اور علم کا حقیقی مقصد یعنی دنیا والوں کی ہدایت و نصیحت کو موقوف کر دیں تو وہ دنیا والوں کی نظر میں ذلیل ہوئے۔ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس آدمی نے اپنے مقاصد میں سے صرف ایک مقصد یعنی آخرت کے مقصد کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی مقصد کو پورا کر دیتا ہے جس آدمی کے مقاصد پراگندہ ہوں جیسے کہ دنیا کے حالات ہیں تو پھر اللہ کو پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ خواہ کسی جنگل (یعنی دنیا کی کسی حالت) میں ہلاک ہو۔ (ابن ماجہ، بیہقی نے اس حدیث کو شعب الایمان میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قول  من جعل الھموم سے آخر تک روایت کیا ہے۔

 

تشریح

 

یہ حدیث علماء کو احساس و شعور کی ایک دولت بخش رہی ہے اور علم کے سب سے اعلیٰ و بلند مقام کی نشاندہی کر رہی ہے چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ علماء اپنا مرتبہ و مقام پہچانیں اور وہ جس عرفانی مقام پر فائز ہیں اس کی اہمیت و نزاکت کا احساس کریں۔ اس لیے کہ علم دین جن بلند و اعلیٰ احساسات کا حامل ہے اسی طرح وہ اپنا ظرف بھی بلند و اعلیٰ چاہتا ہے۔ علم کی شان عظمت ہی یہ ہے کہ وہ قدر دانوں اور با شعور اشخاص کے پاس رہے۔ اگر حصول جاہ و جلال کی خاطر علم کو دنیا دار سرداروں اور ظالموں کی چوکھٹ کا سجدہ ریز بنایا جاتا ہے تو یہ علم کی سب سے بڑی توہین اور عالم کی سب سے بڑی ذلت ہے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بات اس سے بڑی فرما رہے ہیں۔ وہ کہتے کہ دنیاوی اعتبار سے سرداری، شوکت و حشمت اور عزت و عظمت کوئی بڑی چیز نہیں ہے بلکہ اصل اور حقیقی سرداری و امارت تو وہ ہے جو فضل و کمال اور بزرگی کے اعتبار سے ہو یہی وجہ ہے کہ علماء کی یہ شان نہیں ہوا کرتی کہ وہ بادشاہ و امیر بنیں یا حاکم و سردار ہوں، وہ تو علم و فضل اور بزرگی کی طاقت سے دنیا کے روحانی تاجدار ہوتے ہیں اور لوگوں کے دل و دماغ پر حکمران ہوتے ہیں اور ان کے ماسواء ان کے زیر قدم، زیر قلم اور ان کی عقل و احکام کے تابع دار ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شاہد ہے

آیت (يَرْفَعِ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ)۔ (58۔ المجادلۃ:11)

یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے ان کے جو ایمان لائے اور جن کو علم دیا گیا درجات بلند کرتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ بندہ کا احساس اور اس کا شعور اتنا پاکیزہ اور لطیف ہو جانا چاہئے کہ اس کے دل و دماغ کے ایک ایک گوشہ میں صرف ایک ہی مقصد کی روشنی ہو اور وہ مقصد آخرت ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہ ہو اور کوئی غرض نہ ہو تو پھر اللہ کی جانب سے اس پر دنیاوی وسعت کے دروازے بھی خود بخود کھول دیئے جاتے ہیں۔

لیکن بندہ کا دل و دماغ اگر اتنا پراگندہ ہو کہ وہ ہمہ وقت دنیا کی چیزوں میں تو لگا رہے اور دنیا کے تفکرات میں مستغرق رہے تو اللہ کی جانب سے اس کے ساتھ کوئی اچھا معاملہ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اللہ اس سے اتنا بے تعلق ہو جاتا ہے کہ اگر وہ بندہ دنیا کی کسی تکلیف اور کسی بھی مصیبت میں ہلاک ہو جائے تو اللہ کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی اور نہ دنیاوی اعتبار سے اور نہ دینی اعتبار سے رحمت خداوندی کی نظر کرم اس کی طرف ہوتی ہے۔ اس طرح وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ کے خسران و نقصان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت اعمش رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا علم کی آفت بھولنا ہے اور علم کا ضائع کرنا یہ ہے کہ اس کو نا اہل کے سامنے بیان کیا جائے۔ (دارمی نے بطریق ارسال کیا)

 

تشریح

 

علم کے حاصل ہونے سے پہلے تو بہت آفات اور مصیبتیں ہوتی ہیں لکل شئی آفۃ والعلم اٰفات یعنی ہر چیز کی ایک ہی آفت ہوتی ہے مگر علم کے لیے بہت سے آفات ہیں لیکن حصول علم کے بعد ایک ہی آفت ہے اور وہ نسیان یعنی بھولنا ہے اور یقیناً کسی چیز کا حاصل ہو جانے کے بعد زائل ہو جانا اور ذہن میں آ کر پھر محو ہو جانا زبردست روحانی اذیت ہے۔

دراصل اس حدیث سے اس پر تنبیہ مقصود ہے کہ طالب علم اور اہل علم کو چاہئے کہ وہ ایسی باتوں سے اجتناب کریں جو نسیان کا سبب ہیں یعنی گناہ و معصیت سے بچیں اور ان چیزوں میں دل نہ لگائیں جو ذہن و فکر کو غافل کر دیتی ہیں جیسے دنیا کی سحر آفرینیوں اور خواہشات نفسانی میں دلچسپی لینا چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے

شکوت الی وکیع سوء حفظی

فاوصانی الی ترک المعاصی

ترجمہ میں نے اپنے استاد وکیع سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو انھوں نے مجھے ترک معصیت کی نصیحت کی۔

فان العلم فضل من الٰہ

وفضل اللہ لا یعطی لعاص

ترجمہ کیونکہ علم تو اللہ کا ایک فضل ہے اور اللہ کا فضل گناہ گار کے حصہ میں نہیں آتا۔

آخر حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ علم کو اس کے نااہل اور ناقدردان کے سامنے پیش کرنا دراصل علم کو ضائع کرنا ہے اور نا اہل وہ آدمی ہے جو نہ تو علم کو سمجھتا ہے اور نہ علم کی قدر جانتا ہے لہٰذا جب اس کے سامنے علم پیش کیا جائے گا تو علم ضائع ہو گا۔ اس لیے علم انھی کو سکھانا چاہئے جو اس کے اہل اور قدردان ہوں، یعنی وہ علم سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ بھی ان کے اندر موجود ہو۔

 

٭٭  اور حضرت سفیان رحمۃ اللہ تعالیٰ راوی ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا (تمہارے نزدیک) صاحب علم کون ہے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا وہ لوگ جو اپنے علم کے موافق عمل کریں، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کون سی چیز عالموں کے دلوں سے علم کو نکال لیتی ہے؟ حضرت کعب نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ جواب دیا۔ لالچ (دارمی)

 

تشریح

 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ علماء کے دلوں سے نور علم اور علم کی عظمت و برکت کو نکالنے والی کونسی چیز ہے اور وہ کیا شے ہے جس کی موجودگی علم کے منافی ہے؟ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ  لالچ۔ وہ بری خصلت ہے جو علم کے نور کو عالم کے دل سے ضائع کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب کسی عالم کے اندر جاہ و جلال کی محبت اور لالچ اور دنیاوی اسباب عیش و عشرت کی طمع پیدا ہو جائے گی تو پھر علم کا نور اور علم کی برکت اپنی جگہ چھوڑ دیں گے اور عالم کے دل و دماغ علم کی حقیقی روشنی سے منوّر نہ رہ سکیں گے۔

 

 

٭٭اور حضرت احوض بن حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے  برائی کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ سے برائی کے بارے میں مت پوچھو بلکہ بھلائی کے بارے میں سوال کرو۔ اور ان جملوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار ادا فرمایا۔ خبردار ! بد لوگوں میں بد ترین برے عالم ہیں اور بھلے لوگوں میں سب سے بہتر بھلے علماء ہیں۔  (دارمی)

 

 

تشریح

 

صحابی کے سوال کا مقصد یا تو نفسِ برائی کے بارے میں دریافت کرنا تھا جیسا کہ ترجمہ سے معلوم ہوا یا وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ بد ترین آدمی کون ہے َ اور جواب کو دیکھتے ہوئے یہی مقصد زیادہ واضح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کے سوال سے منع فرمایا، اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سراپاءِ رحمت اور سراپاءِ خیر ہے اس لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محض بدی اور برائی کا سوال کیا جاتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے برائی اور بھلائی دونوں کے بارے میں جواب دے کر اسی طرف اشارہ فرمایا۔

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ علماء کی ذات چونکہ عوام کے اندر ایک معیار اور نمونہ ہوتی ہے اور لوگ ان کے تابع و معتقد ہوتے ہیں لہٰذا عالم کی ہر صفت اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے اثرات تک بھی پہنچتے ہیں، عالم اگر نیک اخلاق و عادات اور اچھے خصائل کا ہوتا ہے تو اس کے ماننے والے اور اس کی اتباع کرنے والے بھی نیک اخلاق و عادات کے مالک ہوتے ہیں اور خدانخواستہ بد اخلاق، بد کردار ہو جائے تو پھر اس کے جراثیم دوسرے تک پہنچتے ہیں اور اس کے ماننے والے بھی اسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک مرتبہ میں سب سے بد تر وہ عالم ہے جس نے اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھایا۔ (دارمی)

 

تشریح

 

یا تو اس سے مراد وہ عالم ہے جس نے ایسا علم سیکھا جو فائدہ پہنچانے والا نہیں ہے۔ یعنی غیر شرعی علوم اس نے حاصل کئے جو نفع بخش نہیں ہیں یا پھر وہ عالم مراد ہے جس نے علم تو شرعی اور دینی حاصل کیا مگر اس پر عمل نہیں کیا۔

لہٰذا ایسے عالم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ قیامت کے روز مرتبہ کے اعتبار سے وہ اللہ کے نزدیک سب سے بد تر ہو گا یعنی یہ جاہل سے بھی زیادہ برا ہو گا یہی وجہ ہے کہ اس پر جو عذاب ہو گا وہ جاہل کے عذاب سے سخت ہو گا، جیسا کہ منقول ہے۔

ویل للجاھل مرۃ و ویل اللعالم سبع مرات۔

یعنی جاہل کے لیے ایک مرتبہ بربادی ہے اور عالم کے لیے سات مرتبہ بربادی ہے ، نیز یہ وارد ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ اور سب سے شدید عذاب جس پر ہو گا وہ ایسا عالم ہے کہ جسے اللہ نے علم دیا اور اس نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔

 

 

٭٭اور حضرت زیاد بن حدیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کی عمارت کو ڈھانے والی کیا چیز ہے؟ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم! حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ عالم کا پھسلنا (یعنی کسی مسئلہ میں عالم کا غلطی کرنا اور اس کا گناہ کرنا، منافق کا کتاب اللہ میں جھگڑنا اور گمراہ سرداروں کا حکم جاری کرنا اسلام (کی عمارت) کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ (دارمی)

 

تشریح

 

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو پانچ بنیادی اصول ہیں، یعنی کلمہ، توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ وہ بیکارِ محض ہو کر رہ جائیں، چنانچہ جب عالم اپنے حقیقی فرائض یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی کو اپنی خواہشات نفسانی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے تو ان چیزوں میں سستی اور فساد واقع ہو جاتا ہے۔

اسی طرح منافق یعنی وہ آدمی جو بظاہر تو اسلام کا دم بھرتا ہے مگر اندرونی طور پر وہ کفر و بدعت کا پوری طرح ہمنوا ہوتا ہے۔ جب قرآن میں جھگڑتا ہے بایں طور پر وہ قرآن کے معنی و مفہوم کی غلط تاویلات کر کے احکام شرعیہ کو رد کرتا ہے تو اس سے ارکان اسلام میں سستی اور دین میں فساد پیدا ہوتا ہے۔

اسی زمرہ میں وہ روافض اور خوارج نیز دیگر باطل عقائد کے لوگ بھی داخل ہیں جو اپنی خواہشات نفسانی اور ذاتی اغراض کی خاطر غلط سلط تاویلیں کر کے دین و شریعت میں شک و شبہہ کا بیج بوتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ علم کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ علم جو دل کے اندر ہوتا ہے یہ علم تو نفع دیتا ہے اور دوسرا وہ علم ہے جو زبان کے اوپر ہوتا ہے یہ علم آدمی پر اللہ عزوجل کی دلیل و حجت ہے۔ (دارمی)

 

تشریح

 

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے علم کی جو دو قسمیں کی ہیں ان میں سے پہلے کو علم باطن کہا جاتا ہے اور دوسرے کو علم ظاہر چنانچہ جب تک ظاہر کی اصلاح نہیں ہوتی علم باطن سے کچھ میسر نہیں آتا، اسی طرح جب تک باطن کی اصلاح نہیں ہو جاتی علم ظاہر کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ابوطالب مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں علم اصل اور بنیادی ہیں اور ان دونوں میں اس درجہ کا ارتباط و تعلّق ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا۔ جس طرح ایمان و اسلام کہ ایک دوسرے کے بغیر صحیح نہیں ہوتے یا جیسے دل و جسم کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ٹھیک اسی طرح ان دونوں علوم کا آپس میں ارتباط و تعلق ّہے۔ (ملاقاری)

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ نفع دینے والا علم وہ ہوتا ہے کہ جب اس کی روشنی سے دل منوّر ہو جاتا ہے تو دل کے وہ پردے اٹھ جاتے ہیں جو حقائق اشیاء کی معرفت و فہم کے لیے مانع ہیں۔

علم نافع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو علم معاملہ جو عمل کا باعث ہوتا ہے اور دوسرا علم مکاشفہ جو عمل کا اثر ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے دل میں یہ نورانی علم ڈال دیتا ہے اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے جس علم کو نافع قرار دیا ہے وہ یہی علم ہے اور جو علم زبان کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جو نہ تو تاثیر رکھتا ہے اور نہ دل میں نورانیت پیدا کرتا ہے

علم چوں بردل زند یاری شود

علم چوں برتن زند ماری شود

چنانچہ اسی علم کو کہا جا رہا ہے کہ یہ بندوں پر اللہ کی جانب سے حجت اور دلیل ہے کہ خدا بندوں کو الزام دیتے ہوئے فرمائے گا کہ میں نے تو تمہیں علم دیا تھا تم نے اس پر علم کیوں نہیں کیا؟ اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ جاہل کے لیے ایک بار بربادی ہے اور عالم کے لیے سات بار کیونکہ یہ دیدہ و دانستہ گمراہ ہوا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے دو باسن (یعنی دو طرح کے علم) یاد رکھے ہیں، ان میں سے ایک کو تمہارے درمیان میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا علم وہ ہے کہ اگر میں اسے بیان کروں تو میرا یہ گلا کاٹ ڈالا جائے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

پہلے علم سے مراد تو علم ظاہر ہے جس کا تعلق احکام و اخلاق وغیرہ سے ہے۔ دوسرے علم کے دو مفہوم لیے جا سکتے ہیں اول تو یہی کہ اس سے مراد وہ علم باطن ہے جس کے اسرار و معانی عوام سے ان کے ناقص فہم کی بنا پر پوشیدہ ہیں اور وہ علم خواص علماء عارفین کے ساتھ مخصوص ہے یا دوسرے معنیٰ یہ ہو سکتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا تھا کہ میرے بعد ایک جماعت کی طرف سے ایک زبردست فتنہ اٹھے گا جس سے بدعات کی بنیاد پڑ جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قوم اور قوم کے افراد کے ناموں کا بھی علم تھا چنانچہ ہو سکتا ہے کہ اس سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد یہی علم ہو جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اگر میں اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دوں گا تو میری جان کے لالے پڑ جائیں گے۔

 

 

٭٭اور مروی ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا) اے لوگو! جو آدمی کسی بات کو جانتا ہو تو چاہئے کہ وہ اسے بیان کر دے ، اور جو نہ جانتا ہو تو چاہئے کہ وہ کہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے اس لیے کہ جس چیز کا اسے علم نہیں ہے ، اس کے بارے میں اللہ زیادہ جانتا ہے۔ کہنا بھی علم کی ایک قسم ہے (یعنی معلوم کا غیر معلوم سے تمیز کرنا بھی علم کی ایک قسم ہے) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے فرمایا ہے کہ آیت (قُلْ مَآ اَسَْٔلُكُمْ عَلَيْہ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ) 38۔ص:86) ترجمہ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کہہ دیجئے کہ میں اس قرآن پر تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا اور میں تکلف کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہو۔ (صحیح البخاری)

 

 

تشریح

 

اس آیت کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ خدا نے جو کچھ علم مجھے دیا اور جتنا مجھے سکھا دیا اور پھر اس کو پھیلانے اور لوگوں کو سکھانے کا حکم دیا اسی کو لوگوں تک پہنچاتا اور انھیں سکھاتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں کسی دوسری چیز کا دعویٰ اپنی طرف سے نہیں کرتا اور نہ ان چیزوں سے بحث کرتا ہوں جو مشکل اور سخت ہونے کی وجہ سے عوام کے فہم سے بلند و بالا ہیں کیونکہ ایسا کرنا خواہ مخواہ کا تکلف کرنا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابن سیرین رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ علم (یعنی کتاب و سنت کا علم) دین ہے۔ لہٰذا جب تم اس کو حاصل کرو تو یہ دیکھ لو کہ اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس ارشاد سے دراصل اس بات پر تنبیہ مقصود ہے کہ جب علم حاصل کرنے کا ارادہ کرو یا حدیث حاصل کرو تو اس بات کو خوب اچھی طرح جانچ پرکھ لو کہ تم جس سے علم حاصل کر رہے ہو وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ آیا وہ قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ جب تمہیں اس عالم یا راوی کے حالات کا پوری طرح علم ہو جائے اور سمجھ لو کہ واقعی وہ دیندار، پرہیزگار اور قوی الحافظہ ہے تو اس سے علم حاصل کرو۔ اس طرح ہر کس و ناکس کو اپنا استاد نہ بناؤ اور ہر آدمی سے حدیث کی روایت نہ کرو خصوصاً اہل بدعت، نفسانی خواہشات کے غلام اور غیر دیندار لوگوں سے اس معاملہ میں اجتناب برتو۔

 

 

٭٭اور مروی ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاریوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے قاریوں کی جماعت سیدھے رہو! اس لیے کہ تم سبقت لے گئے ہو دور کی سبقت اگر تم (سیدھے راستہ سے ہٹ کر) ادھر ادھر ہو گئے تو البتہ بڑی گمراہی میں پڑ جاؤ گے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

یہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خطاب ہے جو ابتداء ہی میں اسلام کی دولت سے مشرف ہو گئے تھے۔ چونکہ ان لوگوں نے شروع ہی میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ اس لیے یہ اپنے فضل و کمال کی بناء پر ان لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں جو بعد میں مسلمان ہوئے ہوں گے اگرچہ ان کے اعمال بھی ان ہی جیسے ہوں گے لیکن بعد کے لوگ پہلے والوں کے مرتبہ و درجہ کو ان کی سبقت اسلام کی بناء پر نہیں پہنچ سکتے۔

بہر حال انھیں مقدّس حضرات کو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مخاطب فرما رہے ہیں کہ تم لوگ شریعت، طریقت اور حقیقت کی راہ پر مستقیم رہو اس لیے کہ استقامت کرامت سے بہتر ہے۔

استقامت کے معنیٰ یہ ہیں کہ اچھے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہا جائے ، نفع دینے والے علم اور صالح پر مداومت اختیار کی جائے ، اخلاص خالص رکھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمام چیزوں سے دھیان ہٹا کر حق تعالیٰ کے ساتھ لو لگائے رہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم(صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا۔ تم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو حب الحزن یعنی غم کے کنویں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! غم کا کنواں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ دوزخ میں ایک نالہ ہے جس سے دوزخ دن میں چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! اس میں کون داخل ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ قرآن پڑھنے والے جو اپنے اعمال کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں۔ (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ) اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں اللہ کے نزدیک مبغوض ترین وہ قاری ہیں جو سرداروں سے ملاقات کرتے ہیں اس حدیث کے راوی حاربی نے کہا ہے کہ سرداروں سے مراد ظالم سردار ہیں۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

جب الحزن دوزخ کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور کنوئیں کے مشابہ ہے یہ اتنی زیادہ ہیبت ناک اور وحشت ناک ہے کہ دوزخی تو الگ رہے خود دوزخ دن میں چار سو مرتبہ اس سے پناہ مانگتی ہے۔ چنانچہ فرمایا جا رہا کہ وہ قاری جو اپنا عمل یعنی قرآن پڑھنا محض دکھلا وے و ریاء کے لیے کرتے ہیں اسی وحشت ناک وادی میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ اسی حکم میں ریاکار عالم اور عابد بھی داخل ہیں، کیونکہ علم کی اصل بنیاد تو قرآن ہی ہے اسی طرح عبادت بھی قرآنی احکام ہی کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے عالم اور عابد جو ریاء کار ہیں وہ انھیں قاریوں کے ہمراہ اسی کنواں کا لقمہ بنیں۔

سرداروں سے ملاقات  کا مطلب یہ ہے کہ جو قاری سرداروں سے محض حب جاہ و مال اور دنیاوی طمع و لالچ کی خاطر ملتا ہے وہ اللہ کے نزدیک مبغوض ترین ہے۔ ہاں اگر سرداروں سے ملنا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ہو یا بطریق جبر اور ان کے شرک کے دفعیہ کے لیے ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

نیز یہاں سرداروں سے بھی وہی سردار مراد ہیں جو ظالم اور جابر ہوں، نیک بخت سردار یا عادل امیر و حاکم کا یہ حکم نہیں ہے۔ کیونکہ ایسے امراء و سردار جو اللہ کے نیک بندے ہوں ان سے ملاقات کرنا عبادت میں داخل ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انھیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے) دین میں فتنہ پیدا ہو گا اور انھیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انھیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔ (بیہقی)

 

 

تشریح

 

یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے ، کہنے کے لیے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کوسوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لیے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لیے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لیے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں  رسم قرآن سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے ، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہو گا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔

مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہو گا۔

اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے ، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔

 

 

٭٭اور حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی چیز (یعنی فتنہ اور ابتلاء) کا ذکر کیا۔ پھر فرمایا یہ اس وقت ہو گا جبکہ علم جاتا رہے گا۔ (یہ سن کر) میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) علم کس طرح جاتا رہے گا؟ حالانکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں گے ، ہمارے بچے اپنے بچوں کو پڑھائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ زیاد! تمہیں تمہاری ماں گم کر دے ! میں تو تمہیں مدینے کے لوگوں میں بڑا سمجھ دار سمجھتا تھا کیا یہود و نصاریٰ توریت و انجیل کو نہیں پڑھتے ہیں۔ لیکن ان کی کتابوں کے اندر جو کچھ ہے۔ (یعنی احکام) اس میں وہ کسی چیز پر عمل نہیں کرتے (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ) اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی ہی روایت زیاد سے اور اسی طرح دارمی نے ابی امامہ سے نقل کی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی کہ تم نے میرے کلام کا منشاء جانے بغیر یہ خیال کر لیا کہ صرف قرآن کا پڑھ لینا اور اس کا علم حاصل کر لینا ہی کافی ہے یعنی جس نے قرآن پڑھ لیا اور اس کا علم حاصل کر لیا گویا اس نے اس پر عمل بھی کر لیا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ محض قرآن کو پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اصل چیز تو اس کا اتباع اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے اور یہی چیز اس وقت مقصود ہو گی، چنانچہ قرآن کو مسلمان پڑھیں گے اور اس کا علم حاصل کریں گے مگر ان کا عمل قرآن کے مطابق نہیں ہو گا جس طرح کہ یہود و نصاریٰ کہ وہ بھی اپنی کتابوں یعنی تو ریت و انجیل کو پڑھتے ہیں اور اس کا علم بھی حاصل کرتے ہیں لیکن ان کے احکام پر ذرہ برابر بھی عمل نہیں کرتے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا۔ علم کو سیکھو اور سکھلاؤ، علم فرائض (یا فرض احکام) کو سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھلاؤ (اسی طرح) قرآن کو سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھلاؤ۔ اس لیے کہ بے شک میں ایک آدمی ہوں جو اٹھایا جاؤں گا اور علم بھی اٹھا لیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی ایک فرض چیز میں اختلاف کریں گے اور کسی کو ایسا نہ پائیں گے جو ان دونوں کے درمیان فیصلہ کرے (یعنی علم کے کم ہو جانے اور فتنوں کے بڑھ جانے) سے یہ حال ہو جائے گا۔  (دارمی ، دار قطنی)

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اس علم کی مثال جس سے نفع نہ اٹھایا جائے (یعنی نہ دوسروں کو پڑھایا جائے اور نہ اس پر عمل کیا جائے ، اس خزانہ کی مانند ہے جس میں سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا جائے۔ (مسند احمد بن حنبل، دارمی)