FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

                   امی کی تحقیق

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی کو یہ پسند ہو (یعنی اس کی خواہش ہو) کہ اسے بھر پور (اور زیادہ سے زیادہ) ثواب ملے تو اسے چاہئے کہ ہم اہل بیت پر اس طرح درود بھیجے اللہم صل علی محمد النبی الامی وازواجہ امھات المومنین وذریتہ واھل بیتہ کما صلیت علی ال ابراہیم انک حمید مجید۔ اے بار خدایا! محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر جو نبی امی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات پر جو سب مومنوں کی مائیں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد و اہل بیت پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی بیشک تو بزرگ و برتر ہے۔ (ابوداؤد ،)

 

تشریح

 

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے جہاں اور بہت سے اسماء ہیں کہ جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مختلف خصوصیات و صفات پر دلالت کرتے ہیں۔ وہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک خاص اور عظیم لقب امی بھی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ لقب توریت و انجیل اور آسمان سے اتری ہوئی تمام کتابوں میں مذکور ہے۔

امی لغت میں اس آدمی کو کہتے ہیں جو نہ تو لکھنا جانتا ہو اور نہ لکھے ہوئے کو پڑھنا جانتا ہو اور نہ کبھی مکتب و مدرسہ گیا ہو اور نہ کسی سے تعلیم حاصل کی ہو اور چونکہ امی منسوب ہے ام یعنی ماں کی طرف لہٰذا اس مناسبت سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسا آدمی ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچہ کی طرح ہے اسے کسی نے نہ لکھنے کی تعلیم دی ہے اور نہ پڑھنے کی۔

چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا میں آخری نبی کی حیثیت سے مبعوث فرمائے گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی استاد، کسی مکتب اور کسی معلم کا محتاج نہیں رکھا بلکہ خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دین و دنیا کے تمام علوم سے پوری طرح مکمل کر کے اس دنیا میں بھیجا چنانچہ اس دنیا میں نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مکتب میں قدم رکھا اور نہ کسی استاد کی شاگردی کی بلکہ بظاہر نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم لکھتے تھے اور نہ لکھے ہوئے کو پڑھتے تھے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو امی کہا گیا

نگار من کہ بہ مکتب نہ رفت و خط نہ نوشت

بغمزہ مسئلہ آموز صد مدرس شد

یتیمے کہ ناکردہ قرآن درست

کتب خانہ چند ملت بشست

بہ تعلیم و ادب اور اچہ نسبت

کہ خود زآغاز او آد مودب

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ امی دراصل ام القری یعنی مکہ کی طرف منسوب ہے جو تمام زمین کی اصل ہے۔

 

                   درود نہ بھیجنے والا بخیل ہے

 

اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  بخیل وہ آدمی ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا (یعنی میرا نام لیا گیا) اور اس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا (جامع ترمذی) اس حدیث کو امام احمد نے حسین ابن علی سے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ایک بخیل تو مال کا ہوتا ہے کہ وہ مال کی خواہش کی وجہ سے اپنی جبلت طبعی کے تقاضہ پر بخل کرتا ہے کہ کسی کو اپنا مال نہیں دیتا مگر بڑا بخیل وہ آدمی ہے جوا پنی طبعی کسل و غفلت اور سستی کے غلط تقاضے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر اپنی زبان اور اپنے دل سے درود کا ایک کلمہ نہیں نکالتا اور اس طرح وہ اداء حق اور شکر نعمت کا لحاظ بھی نہیں کرتا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا امت پر وہ احسان و انعام ہے کہ اگر امت کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر اپنی جانیں بھی قربان کر دیں تو کم ہے چہ جائیکہ مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مبارک ذکر ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام لیا جائے اور اس آدمی کی زبان سے اور اس کے دل سے درود کے چند الفاظ بھی نہ نکلیں؟

مرحبا اے پیک مشتاقان پیغام دوست

تاکنم جال از سر رغبت فرائے نام دوست

 

                   درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچتے ہیں

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی میری قبر کے پاس  کھڑا ہو کر مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اس کو سنتا ہوں اور جو آدمی دور سے مجھے پر بھیجتا ہے وہ میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو میری قبر کی زیارت کی سعادت میسر آتی ہے اور وہ وہاں حاضر ہو کر سلام بھیجتا ہے تو میں بغیر کسی واسطہ کے اس کے سلام کو سنتا ہوں اور جس کو یہ سعادت میسر نہیں آتی بلکہ وہ جہاں کہیں سے بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام ملائکہ سیاحین میرے پاس پہنچا دیتے ہیں اور سلام کا جواب میں دونوں صورتوں میں دیتا ہوں۔

اس حدیث سے اندازہ لگا نا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجنے کی فضیلت و سعادت ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجنے والے کو اور خاص طور پر اس آدمی کو جو برابر اور کثرت سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجتا ہے کیا شرف و مرتبہ حاصل ہے؟ اگر کسی کے ایک سلام کا جواب بھی بارگاہ نبوت سے حاصل ہو جائے تو بہت بڑی سعادت ہے چہ جائکہ برابر اور ہر سلام کا جواب ملتا ہے۔

بہر سلام مکن رنجہ درجواب آن لب

کہ صد سلام بس یکے جواب از تو

 

                   درود کی فضیلت

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  جو آدمی رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک مرتبہ درود بھجتا ہے اس پر اللہ اور اس کے فرشتے ستر مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے ہے کہ ایک مرتبہ درود بھیجنے کا یہ ثواب جمعہ کے دن سے متعلق ہے اس لیے کہ یہ ثابت ہے کہ جمعہ کے روز اعمال کا ثواب ستر گنا زیادہ ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حج اکبر (جو جمعہ کو ہوتا ہے) ستر حج کے برابر ہوتا ہے۔

اگرچہ حدیث موقوف ہے یعنی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے لیکن پھر بھی مرفوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد کے حکم میں ہے کیونکہ کوئی بھی صحابی اعمال کا ثواب از خود بیان نہیں کر سکتا جب تک وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سن نہ لے اس لیے یقینی بات ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہو گا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت رویفع رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجے اور (درود بھیجنے کے بعد یہ بھی کہے) اَللّٰہُمَّ اَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اے پروردگار ! محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس مقام پر جگہ دے جو تیرے نزدیک مقرب ہے قیامت کے دن تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

تشریح

 

مقام مقرب سے مراد مقام محمود ہے جہاں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر اللہ جل شانہٗ کی ثنا و تعریف بیان فرمائیں گے اور بندوں کے حق میں شفاعت کریں گے۔

یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت تمام مسلمانوں کے لیے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر امتی کے لیے شفاعت فرمائیں گے یہ نہیں ہو گا کہ کسی امتی کے لیے شفاعت فرمائیں اور کسی کے لیے نہیں پھر بھی اس آدمی کو (جو درود کے بعد مذکورہ دعا پڑھتا ہے) ایک خاص درجہ حاصل ہو گا کہ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت واجب ہو گی۔ یا اس کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس ارشاد سے درحقیقت ایسے آدمی کے خاتمہ بالخیر کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ آدمی حسن خاتمہ کی دولت سے نوازا جائے گا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم (مسجد سے یا مکان سے) نکل کر کھجوروں کے ایک باغ میں داخل ہو گئے اور وہاں (بارگاہ خداوندی) میں) سجدہ ریز ہو گئے اور سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اتنا طول کیا کہ میں ڈرا کہ (خدانخواستہ) کہیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وفات تو نہیں دے دی، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھنے کے لیے آیا کہ آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم زندہ ہیں یا واصل بحق ہو چکے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (میری آہٹ پاکر) (اپنا سر مبارک (زمین سے) اٹھایا اور فرمایا کہ  کیا ہوا۔۔۔؟ (یعنی ایسی کیا بات پیش آ گئی ہے جو تم پر اس قدر (گھبراہٹ اور غم کی علامت طاری ہے) تب میں نے صورت حال ذکر کی (کہ نصیب دشمناں میں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ڈر ہی گیا تھا) راوی فرماتے ہیں کہ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے کہا ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خوشی خبری نہ سنا دوں کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ جو آدمی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجے گا میں اس پر رحمت بھیجوں گا اور جو آدمی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلام بھیجوں گا۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

امام احمد نے اپنی دوسری روایات میں آخر کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور سجدہ شکر کے سلسلہ میں اس سے زیادہ صحیح حدیث میری نظر میں نہیں ہے اور یہ روایت متعدد طریق سے مروی ہے۔

 

                   قبولیت دعا درود پر موقوف ہوتی ہے

 

اور امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  دعا اس وقت تک آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے اور اس میں سے کوئی چیز اوپر نہیں چڑھتی جب تک کہ تم اپنے نبی پر درود نہ بھیجو (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت درود پر موقوف ہے کیونکہ درود خود مقبول ہے اس لیے اس کے توسط اور وسیلے سے دعا بھی مقبول ہوتی ہے

مور مسکین ہو سے داشت کہ درکعبہ رسد

دست در پائے کبوتر زدہ ناگاہ رسید

حصن حصین میں منقول ہے کہ حضرت شیخ ابوسلیمان درانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا  جب تم اللہ کے سامنے اپنی کسی حاجت کی تکمیل کے لیے دست دعا دراز کرو تو ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے سے کرو اس کے بعد تم جو کچھ چاہتے ہو اس کے لیے دعا مانگو اور دعا کو درود پر ختم کرو (یعنی دعا سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجو اور دعا کے بعد بھی) کیونکہ اللہ جل شانہ اپنے فضل و کرم سے دونوں درودوں کو قبول کرتا ہے اور وہ اس چیز سے بزرگ و برتر ہے کہ اس دعا کو چھوڑ دے جو ان دونوں درودوں کے درمیان ہے۔ (یعنی اللہ کے رحم و کرم سے یہ بات بعید ہے کہ وہ دونوں کو تو قبول کر کے ان کے درمیان مانگی جانے والی دعا کو قبول نہ کرے)

علامہ طبیی اس حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ  یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہو اس شکل میں یہ حدیث موقوف ہو گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہو اس صورت میں یہ حدیث مرفوع ہو گی اور صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی ارشاد ہے۔

لیکن محققین علمائے حدیث فرماتے ہیں کہ اس قسم کی بات کوئی راوی اپنی طرف سے کہہ نہیں سکتا (جیسا کہ اسی باب کی حدیث نمبر ١٧ کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے) اس لیے یہ حدیث روایۃ تو موقوف ہی ہے لیکن حکما مرفوع ہے۔

 

                   تشہد میں دعا پڑھنے کا بیان

 

آخری قعدے میں التحیات اور درود کے بعد دعا مانگنا سنت ہے ، فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ نمازی التحیات اور درود پڑھنے کے بعد اپنی خواہش و پسند کے مطابق دعا مانگے لیکن دعا عام لوگوں کے کلام کے مشابہ نہ ہو جیسے کہ کوئی دعا مانگنے لگے یا اللہ ! مجھے روٹی دے مجھے کپڑا دے وغیرہ وغیرہ اس قسم کی دعا مانگنی ذرا مناسب نہیں ہے۔

ابھی باب التشہد بھی آپ نے وہ حدیث پڑھی! جو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اس میں بھی یہ الفاظ منقول ہیں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے التحیات کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ  پھر ان دعاؤں کو اختیار کرو جو تمہیں پسند ہوں۔ اور چونکہ تشہد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خاص دعائیں منقول ہیں کہ آپ تشہد میں وہ دعائیں پڑھا کرتے تھے۔ لہٰذا  پسندیدہ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے وہی منقول دعائیں ہو سکتی ہیں۔

بہر حال۔ حاصل یہ ہے کہ تشہد میں انہیں دعاؤں کو پڑھنا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو منقول ہیں زیادہ اولیٰ اور افضل ہے کیونکہ وہ دعائیں دنیا اور آخرت دونوں کے مقاصد کو جامع ہیں چنانچہ اس باب کے تحت وہ دعائیں نقل کی جائیں گی جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشہد میں پڑھا کرتے تھے یا جن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے لوگوں کو فرمایا کرتے تھے۔

 

                   تشہد میں رسول اللہ کی دعا

 

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں (تشہد کے بعد) یہ دعا مانگتے تھے : اللہم انی اعوذ بک من عذاب القبر و اعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذ بک من فتنۃ المحیا و فتنہ الممات اللہم انی اعوذبک من الماثم والمغرم اے اللہ میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور کانے دجال کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور زندگی کے فتنوں اور موت کے فتنوں سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں اے پروردگار ! میں تجھ سے گناہوں سے اور قرض سے پناہ چاہتا ہوں۔

(راوی کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا سن کر کسی کہنے والے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرض سے پناہ مانگنا بڑے تعجب کی بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب آدمی قرضدار ہوتا ہے تو باتیں بناتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

دجال آخر زمانے میں قیامت کے قریب پیدا ہو گا جو خدائی کا دعویٰ کرے گا اور لوگوں کو اپنے مکر و فریب اور شعبدہ بازیوں سے گمراہ کرے گا۔ اس کا مفصل ذکر انشاء اللہ مشکوٰۃ کے آخری ابواب میں آئے گا۔

دجال کو مسیح کیوں کہتے ہیں: دجال کو مسیح اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک آنکھ ملی ہوئی ہو گی یعنی وہ کانا ہو گا چونکہ ممسوح ہو گا اس لیے اس مناسبت سے اسے مسیح کہا جاتا ہے۔ ممسوح کا مطلب ہے تمام بھلائیوں، نیکیوں اور خیر و برکت کی باتوں سے بالکل بعید، نا آشنا اور ایسا کہ جیسے اس پر کبھی ان چیزوں کا سایہ بھی نہ پڑا ہو گا۔ اور ظاہر کہ اتنی بری خصلتوں کا حامل دجال کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے۔؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیح کہنے کی وجہ: اسی کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب بھی  مسیح ہے جس کی اصل مسیحا ہے اور مسیحا عبرانی زبان میں  مبارک کو کہتے ہیں یا یہ کہ مسیح کے معنی ہیں  بہت سیر کرنے والا  چونکہ قرب قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں آسمان سے اتارے جائیں گے اور دنیا سے گمراہی وضلالت اور برائیوں کی جڑ اکھاڑنے اور پھر تمام عالم پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے حکمرانی کرنے پر مامور فرمائے جائیں گے اور اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو امور مملکت کی دیکھ بھال کرنے اور اللہ کے دین کو عالم میں پھیلانے اور کانے دجال کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے تقریباً پوری دنیا میں پھرنا پڑے گا۔ اس لیے اس مناسبت سے مسیح علیہ السلام کا لقب قرار پایا ہے۔

بہر حال لفظ مسیح کا اطلاق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دجال ملعون دونوں پر ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ جب صرف  مسیح لکھا اور بولا جاتا ہے تو اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی مراد لی جاتی ہے اور جب دجال ملعون مراد ہوتا ہے تو لفظ مسیح کو دجال کے ساتھ قید کر دیتے ہیں یعنی مسیح دجال لکھتے اور بولتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دعا میں چھ چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی ہے (١) عذاب قبر (٢) فتنہ دجال (٣) فتنہ زندگی (٤) فتنہ موت (٥) گناہ (٦) قرض۔ یہ چھ چیزیں اپنی ہیبت و ہلاکت اور دینی و دنیاوی خسران و نقصان کے باعث بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان چیزوں سے اگر اللہ تعالیٰ نے نجات دی اور اپنا فضل و کرم فرما دیا تو دینی و دنیاوی دونوں زندگیاں کامیابی و کامرانی سے اور رحمت و سعادت کی ہم آغوش ہو گی اور اگر خدانخواستہ کہیں کسی بد نصیب کا ان میں سے کسی ایک سے بھی پالا پڑ گیا تو جانئے کہ اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہو جائے گی اور آخرت کی تمام سہولتیں و آسانیاں اور وہاں کی رحمتیں و سعادتیں بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ہو گا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ان چیزوں سے پناہ مانگ کر امت کے لیے تعلیم کا دروازہ کھولا ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار سے ان سخت وہیبت ناک چیزوں سے پناہ مانگتا رہے تاکہ پروردگار اس کو ان سے محفوظ و مامون رکھے۔

عذاب قبر اور فتنہ دجال یہ تو بالکل ظاہر ہیں ان کی کسی فائدہ و توضیح کی ضرورت نہیں ہے البتہ  فتنہ زندگی یہ ہے کہ صبر و رضا کے فقدان کی وجہ سے زندگی کی مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہو اور نفس ان چیزوں میں مشغول و مستغرق ہو جائے جو راہ ہدایت اور راہ حق سے ہٹا دیتی ہوں اور زندگی کو گمراہیوں وضلالتوں کی کھائی میں پھینک دیتی ہوں۔

فتنہ موت کا مطلب یہ ہے کہ  شیطان لعین حالت نزع میں اپنے مکروفریب کا جال پھینکنے اور مرنے والے کے دل میں وسواس و شبہات کے بیج بو کر اس کے آخری لمحوں کو جن پر دائمی نجات و عذاب کا دارومدار ہے برائی و گمراہی کی بھینٹ چڑھا دے تاکہ اس دنیا سے رخصت ہونے والا نعوذ باللہ ایمان و یقین کے ساتھ نہیں بلکہ کفر و تشکیک کے ساتھ فوت ہو جائے (العیاذ با اللہ) اسی طرح منکر و نکیر کے سوالات کی سختی، عذاب قبر کی شدت اور عذاب عقبی میں گرفتاری بھی موت کے فتنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے ہر مسلمان کو محفوظ و مامون رکھے۔ آمین

لفظ ماثم یا تو مصدر ہے یعنی گناہ کرنا، یا اس سے مراد وہ چیز ہے جو گناہ کا باعث ہے۔

بہر حال اس کا مطلب یہ ہے کہ ان گناہوں سے اللہ کی پناہ، جس کے نتیجے میں بندہ عذاب آخرت اور اللہ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ یا ان چیزوں سے اللہ کی پناہ جو گناہ صادر ہونے کا ذریعہ ہیں، یا جن کو اختیار کر کے بندہ راہ راست سے ہٹ جاتا ہے اور ضلالت و گمراہی کی راہ پر پڑ جاتا ہے۔

قرض سے پناہ مانگنے کی وجہ: قرض سے پناہ مانگنے پر ایک صحابی کو تعجب ہوا کہ قرض میں ایسی کونسی برائی ہے جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے بلکہ اس سے تو بہت سے ضرورت مندوں کے کام پورے ہوتے ہیں اور دنیاوی حالات میں اس سے بڑی حد تک مدد ملتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی قباحت اور برائی کی جس کی بنیادی حقیقت کی طرف توجہ دلائی وہ یقیناً ایسی ہی ہے کہ اس سے پناہ مانگی جانی چاہئے۔ اول تو دنیاوی اعتبار سے بھی کسی کا قرضدار ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے پھر دین و آخرت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی وجہ سے ایسی چیزوں کا ارتکاب ہوتا ہے جو شریعت کی نظر میں نہ صرف یہ کہ معیوب بلکہ عذاب آخرت کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً جب کوئی آدمی کسی سے قرض مانگنے جاتا ہے تو پہلا مرحلہ یہی ہوتا ہے جب وہ گنہگار ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات قرض مانگنے والا سینکڑوں بہانے تراشتا ہے سیکڑوں غلط سلط باتیں بناتا ہے اور مقصد برآری کے لیے بڑے سے بڑا جھوٹ بولنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔

اس کے بعد دوسرا مرحلہ قرض کی ادائیگی کا آتا ہے کہ قرض دار قرض لیتے وقت ایک وقت و عرصہ متعین کرتا ہے جس میں وہ قرض کی ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے مگر تجربہ شاہد ہے کہ کوئی ایک آدھ ہی قرضدار ایسا ہو گا جو وقت معینہ پر ادائیگی کر دیتا ہو گا ورنہ اکثر و بیشتر وعدہ خلافی کرتے ہیں اس موقع پر بھی نہ صرف یہ کہ وعدہ خلافی ہوتی ہے بلکہ عدم ادائیگی کے عذر میں ہر طرح کا جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ اس طرح قرضدار وعدہ خلافی اور جھوٹ کا ارتکاب کر کے گناہ گار ہوتا ہے۔ پھر عدم ادائیگی کا یہ عذر ایک دو مرتبہ ہی پرختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو بہت دنوں تک چلتا رہتا ہے اس طرح قرضدار مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے ، ہر مرتبہ وعدہ خلافیاں کرتا ہے اور اس طرح وہ گناہوں کی پوٹ اپنے اوپر لادتا رہتا ہے۔ ظاہر کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور مواخذہ آخرت کا سبب ہیں اس لیے ایسی غلط چیز سے پناہ مانگی گئی ہے۔

 

                   نماز میں کن چیزوں سے پناہ مانگنی چاہئے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی آدمی (نماز میں) آخری تشہد (یعنی التحیات) سے فارغ ہو جائے تو اسے چاہئے کہ وہ چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کا طلب گار ہو۔ (١) عذاب دوزخ (٢) عذاب قبر (٣) فتنہ زندگی و موت (٤) مسیح دجال کی برائی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد سے فراغت کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہئے۔

اللہم انی اعوذبک من عذاب جھنم ومن عذاب القبر ومن فتنۃ المحیاء والممات ومن شرالمسیح الدجال۔

اے اللہ ! میں دوزخ کے عذاب ، قبر کے عذاب ، زندگی اور موت کے فتنوں اور دجال کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

 

                   نماز میں کن چیزوں سے پناہ مانگنی چاہئے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم ہم صحابہ اور اہل بیت کو یہ دعا اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں قرآن کی کوئی سورۃ سکھایا کرتے تھے کہ (کہ دعا اس طرح پڑھو اللہم انی اعوذ بک من عذاب جھنم واعوذبک من عذاب القبر واعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات اے اللہ ! میں عذاب جہنم سے تیری پناہ مانگتا ہوں، عذاب قبر سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں، مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ چاہتا ہوں اور زندگی و موت کے فتنہ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم)

 

                   تشہد و درود کے بعد کی دعا

 

اور امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق (آپ کا نام عبداللہ اور کنیت ابوبکر ہے لقب آپ کا صدیق و عتیق ہے۔ بعض محققین کے مطابق آپکا اصل نام عبدالکعبہ تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ تھی۔ سب مسلمان مردوں میں سے آپ پہلے ایمان لائے اور ہجرت میں یار غار تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد آپ کو خلیفہ بنایا گیا ١٣ھ میں ٦٣ سال کی عمر میں وفات پائی اور روضہ اطہر میں مدفون ہوئے۔) فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے ، عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئے کہ جسے میں اپنی نماز میں (تشہد و درود کے بعد) پڑھ لیا کروں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ پڑھ لیا کرو: اللہم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا و لا یغفر الذنوب الا انت فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم اے پروردگار ! بیشک میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے علاوہ کوئی دوسرا گناہوں کو نہیں بخشا سکتا لہٰذا تو مجھے بخش دے خاص طور سے بخشا اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

اس روایت میں لفظ کثیراً ثاء مثلہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور صحیح مسلم کی بعض روایات باء موحدہ کے ساتھ یعنی کبیراً ذکر کیا گیا ہے لہٰذا اس دعا کو دونوں الفاظ کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے یعنی کبھی کثیراً پڑھا جائے اور کبھی کبیراً پڑھ لیا جائے۔

 

                   سلام پھیرنے کا بیان

 

اور حضرت عامر ابن سعد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) اپنے والد مکرم (حضرت سعد ابن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (یعنی حضرت سعد نے) فرمایا کہ میں دیکھتا تھا کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دائیں اور بائیں (اس طرح) سلام پھیرتے تھے کہ میں آپ کے رخساروں کی سفیدی دیکھ لیتا تھا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیرنے کے وقت اپنا چہرہ مبارک اتنا پھیرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا منور رخسار نظر آنے لگتا تھا۔

قربان جائیے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس سعادت پر کہ ان کو نماز میں رحمت عالم سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا پہلوئے مبارک نصیب ہوتا تھا۔

کاش کے اندر نمازم جاشود پہلوئے تو

تابہ تقریب سلام افتد نظر برروئے تو

 

                   نماز کے بعد امام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے

 

اور حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز پڑھ کر فارغ ہو جاتے تھے تو ہماری طرف اپنا مبارک منہ متوجہ کر کے بیٹھے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب جماعت ختم ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو لیتے تھے تو اپنا روئے اقدس مقتدیوں کی طرف متوجہ کر کے بیٹھ جاتے تھے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد (کبھی) اپنی دائیں طرف پھر کر بیٹھے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنی نماز میں شیطان کا حصہ مقرر نہ کرے (یعنی) اس چیز کو لازم جانے کہ (نماز کے بعد) دائیں جانب ہی سے پھرے ، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم اکثر بائیں جانب سے پھرا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیرنے کے بعد کبھی تو دائیں جانب سے پھیرتے تھے اور بائیں طرف بیٹھتے تھے ، اور بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیر کر دعا مانگتے اور اپنے حجرہ شریف کی جانب (جو بائیں طرف تھا) تشریف لے جاتے تو کبھی اس کے برعکس کرتے تھے بائیں طرف سے پھر کر دائیں طرف بیٹھ جاتے تھے۔

پہلے طریقے کو عزیمت یعنی اولیت پر محمول کیا گیا ہے کیونکہ اس میں دائیں طرف سے ابتداء ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فعل اکثر اسی طرح ہوتا ہے ، لیکن حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ دوسری صورت یعنی بائیں طرف سے پھرنا اگرچہ رخصت یعنی جائز ہے اور اس صورت کو کم ہی اختیار بھی کیا جاتا تھا لیکن سنت کو واجب کا درجہ دینا چونکہ ٹھیک نہیں ہے اس لیے صرف پہلی صورت یعنی دائیں طرف سے پھرنے کو لازم و واجب قرار نہ دیا جائے اور شارع کی جانب سے دی گئی رخصت (یعنی اجازت) کو کہ وہ دوسری صورت سے ناقابل اختیار نہ جانا جائے اس لیے کہ حدیث شریف میں وارد ہے  حق تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی جانب سے عنایت کی گئی رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسا کہ وہ عزیمتوں پر عمل کرنے کو پسند کرتا ہے۔

یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ چیز پسندیدہ اور محبوب ہے کہ اس عمل کو اختیار کیا جائے جس میں عزیمت یعنی اولیت ہے ، اسی طرح اس کے نزدیک یہ چیز بھی قابل قبول اور پسندیدہ ہے کہ ان اعمال کو بھی اختیار کیا جائے جن کو حق تعالیٰ نے اولیٰ و افضل نہ سہی بہر حال جائز مقرر کر رکھا ہے۔

حضرات شوافع نے ان احادیث سے مصلی کے لیے یہ درمیانی طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت و سہولت جس طرف دیکھے ، اسی طرف پھرے یعنی اگر اس کا مکان وغیرہ اس کے دائیں جانب ہے تو اسے دائیں طرف پھرنا چاہیے اور اگر بائیں طرف ہو تو اسے بائیں طرف پھرنا ہے چاہیے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے بھی منقول ہے کہ  رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کبھی مقتدیوں کی طرف بھی منہ کر کے اور پشت قبلے کی طرف کر کے بیٹھتے تھے جیسا کہ اوپر والی حدیث میں گذرا۔

نماز میں شیطان کا حصہ اس لیے کہا گیا ہے کہ جب کوئی آدمی ایک غیر لازم چیز کو اپنے اوپر واجب و لازم ہونے کا اعتقاد کرے گا تو گویا وہ شیطان کا تابع ہوا لہٰذا اس کی نماز کا کمال جاتا رہے گا۔

علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ جس آدمی نے کسی امر مستحب کو مستقل طریقہ سے اختیار کئے رکھا اور اسے لازم کا درجہ دے دیا اور رخصت (یعنی جواز) پر عمل نہ کیا تو سمجھو کہ شیطان اسے گمراہ کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچ گیا ہے۔

کاش کہ، اہل بدعت اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ انہوں نے امر مستحب تو کجا خلاف شرع چیزوں اور بدعات کو اپنے اوپر لازم و واجب گردان کر اپنے آپ کو ضلالت و گمراہی کی کس وادی میں پھینک رکھا ہے اور اپنے اوپر شیطان کو کتنا مسلط کر رکھا ہے۔

یہ چاروں حدیثیں یعنی حدیث عامر ، حدیث سمرہ ، حدیث انس اور حدیث عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس باب کے موضوع سے متعلق تو نہیں ہیں البتہ اس کے متعلقات سے ہیں۔

 

                   نماز کے بعد مقتدیوں کا امام سے پہلے اٹھ جانا غیر مستحب ہے

 

اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں عورتیں (جب مردوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتی تھیں تو، فرض نماز کا سلام پھیر کر فوا اٹھ جاتی تھیں اور اپنے گھروں کو چلی جاتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مردوں میں سے جو لوگ نماز میں شامل ہوتے تھے جتنی دیر اللہ کو منظور ہوتا بیٹھے رہتے تھے ، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوتے تو سب مرد کھڑے ہو جاتے (اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے۔) (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک زمانہ میں جب کہ عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتی تھیں اس وقت عورتوں کا یہ دستور ہوتا تھا کہ جوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیر کے فارغ ہوتے وہ اس وجہ سے کہ راستے میں مردوں سے مڈبھیڑ نہ ہو اور ان کے ساتھ راستے میں چلنا نہ پڑے فوراً اٹھ جاتیں اور اپنے گھروں کو چل دیتی تھیں۔

نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیٹھنے کے بارے میں میں کوئی دائمی معمول مذکور نہیں کہ آپ تمام نمازوں کے بعد ہمیشہ اتنی دیر تک بیٹھتے تھے بلکہ اس کا انحصار اختلاف اوقات پر ہوتا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیر کر کبھی تو اللہم انت السلام الخ پڑھنے تک بیٹھتے تھے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اتنا بیٹھتے تھے کہ دعا وغیرہ سے فارغ ہو کر قرآن کریم پڑھتے اور صحابہ کو احکام الٰہی کی تعلیم دیتے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی نماز میں مصلے پر طلوع آفتاب تک بیٹھے رہے تھے۔

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امام کے لیے اس قسم کی ضرورت کے وقت نماز کے بعد مصلی پر کچھ دیر تک بیٹھے رہنا مستحب ہے۔ نیز مقتدیوں کے لیے یہ مستحب ہے کہ جب تک امام مصلے سے نہ اٹھے وہ بھی نہ اٹھیں۔

وسنذکر حدیث جابر بن سمرۃ فی باب الضحک انشاء اللہ تعالیٰ۔

اور جابر ابن سمرہ کی (وہ) حدیث جس میں نماز کے بعد سے طلوع آفتاب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بیٹھنا مذکور ہے اور جسے صاحب مصابیح نے یہاں نقل کیا تھا، ہم انشاء اللہ باب الضحک میں نقل کریں گے۔

 

                   نماز کے بعد کی دعا

 

اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو اسے پسند کرتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دائیں جانب ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (سلام کے وقت سب سے پہلے) ہماری طرف متوجہ ہوں، برا فرماتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو (سلام کے بعد دعا کے طور پر) یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رب قنی عذابک یوم تبعث او تجمع عبادک اے پروردگار۔ مجھے اپنے عذاب سے بچا اس روز جب کہ تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا یا جمع کرے گا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا از راہ تواضع اور انکساری فرماتے ہوں گے یا اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد امت کو تعلیم دینا تھا کہ لوگ نماز کے بعد اس دعا کو پڑھا کریں۔

تبعث اور تجمع میں راوی کو شک واقع ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو یوم تبعث فرمایا ہے یا  یوم تجمع فرمایا ہے۔ بہر حال اس دعا کو ان دونوں الفاظ کے ساتھ کسی بھی ایک لفظ کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔

 

 

٭٭حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا کہ : معاذ! میں تمہیں دوست رکھتا ہوں۔  میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دوست رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (جب تم مجھے دوست رکھتے ہو تو) کسی بھی نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنا ترک نہ کرو رب اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک  اے پروردگار! تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اپنی اچھی عبادت میں میری مدد کر!۔

اس روایت کو احمد، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی نے نقل کیا ہے مگر سنن ابوداؤد نے معاذ کے یہ الفاظ وانا احبک نقل نہیں کیے ہیں۔

 

تشریح

 

اچھی عبادت  کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی عبادت ہو خواہ بدنی ہو یا مالی، پورے کمال اور حضور قلب کی اس کیفیت کے ساتھ کی جائے گویا کہ عبادت کرنے والا اللہ جل شانہ، کو دیکھ رہا ہے اور اس کی عبادت کر رہا ہے۔ کتاب الایمان کی بھی ایک حدیث میں  اچھی عبات کا یہی مطلب بیان کیا گیا ہے وہاں اس کی وضاحت اچھی طرح کی جا چکی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی کو دوست رکھتا ہے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنی دوستی اور محبت کا اظہار اس سے کر دے۔

یہ حدیث اس فعل و قول (اخذ بیدی و یقول انا احبک) کے ساتھ مسلسل ہے۔ اس اصطلاح کی تعریف علماء و محدثین بخوبی سمجھتے ہیں چونکہ عوام سے اس کا تعلق نہیں ہے اس لیے ان کے سامنے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔

 

                   سلام پھیرنے کا طریقہ

 

اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی دائیں جانب السلام علیکم و رحمۃ اللہ (یعنی تم پر اللہ کی سلامتی اور اللہ کی رحمت) کہتے ہوئے سلام پھیر تے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دائیں رخسار کی سفیدی نظراتی اور اپنی بائیں جانب بھی السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بائیں رخسار کی سفیدی نظر آتی۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی)

ترمذی نے اپنی روایت میں حتی یری بیاض خدہ کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں اور ابن ماجہ نے اس روایت کو عمار ابن یاسر سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

ابوداؤد اور نسائی نے تو اس روایت کو انہیں الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ مگر امام ترمذی نے اپنی روایت میں حتی یری بیاض خدہ (یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی نظر آئی) نقل کیا ہے بلکہ انہوں نے صرف اس قدر نقل کیا ہے کہ کان یسلم عن یمینہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وعن یسارہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابن ماجہ نے عمار ابن یاسر سے یہ حدیث پوری اسی طرح نقل کی ہے نہ کہ ترمذی کی طرح اس کا کچھ حصہ نقل کیا ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے بعد اکثر بائیں جانب پھر کر بیٹھتے تھے

 

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے بعد اکثر بائیں جانب اپنے حجرے کی طرف پھر جاتے تھے۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرہ مبارک کا دروازہ مسجد میں بائیں محراب کی طرف تھا۔ اس لیے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو جاتے تھے تو اکثر و بیشتر بائیں جانب پھرتے تھے اور اپنے حجرے میں تشریف لے جاتے تھے۔

 

                   فرض کے بعد سنتیں پڑھنے کے لیے جگہ بدل لینی چاہئے

 

حضرت عطاء خراسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، امام اس جگہ نماز نہ پڑھے جہاں نماز پڑھ چکا ہے بلکہ وہاں سے سرک جائے اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ عطاء خراسانی کی ملاقات حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ حدیث منقطع ہے۔

 

تشریح

 

یہاں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جس جگہ فرض نماز پڑھی گئی ہے اسی جگہ سنتیں نہ پڑھی جائیں بلکہ اس جگہ سے ذرا ہٹ کر اور جگہ بدل کر دوسری جگہ سنتیں پڑھی جائیں اس سلسلہ میں یہ بات جان لیجئے کہ اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم خاص طور پر امام ہی کے لیے ہے مقتدی اس میں شامل نہیں ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ حکم مجموعی طور پر امام اور مقتدی سب کے لیے ہے۔

فرض اور سنتیں دونوں ایک ہی جگہ پڑھنے سے منع یا تو اس لیے کیا گیا ہے کہ کوئی آنے والا یہ گمان نہ کرے کہ نمازی ابھی فرض نماز ہی پڑھ رہا ہے یا اس لیے کہ دونوں جگہیں قیامت کے روز پروردگار کے سامنے نمازی کی اطاعت گزاری کی گواہی دیں جس سے اس کے مرتبے میں اضافہ ہو۔

ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ حکم ان فرض نمازوں کے بارے میں ہے جن کے بعد سنت موکدہ ہیں اور جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں نہیں پڑھی جاتیں جیسے فجر و عصر تو ان کے بارے میں یہ حکم نہیں ہے مگر بعض علماء کی یہی رائے ہے کہ حکم تمام نمازوں کے بارے میں یکساں طور پر ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کو نماز پڑھنے کی رغبت دلاتے تھے اور ان کو اس بات سے منع فرماتے تھے کہ وہ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اٹھنے سے پہلے اٹھیں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو مطلقاً نماز پڑھنے کی تاکید فرماتے تھے یا انہیں اس بات کی رغبت دلاتے تھے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب نماز ختم ہو جائے اور دعاء وغیرہ سے فارغ ہو جائے تو جب تک میں نہ اٹھ جاؤں مقتدی نہ اٹھیں تاکہ راستے میں مرد عورتوں سے مل نہ جائیں جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں گزر چکا ہے کہ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور دوسرے لوگ بیٹھے رہتے تھے یہاں تک کہ جب عورتیں اٹھ کر چلی جاتی تھیں تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اٹھتے تھے اس کے بعد دوسرے لوگ اٹھ کر اپنے گھروں کو چل دیتے تھے۔ اس صورت میں یہ نہی تنزیہی ہے۔

یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں  پہلے اٹھنے سے مراد مسبوق کا اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ اس صورت میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ جب تک امام سلام نہ پھیرے اس وقت تک مسبوق اپنی بقیہ رکعتیں پڑھنے کے لیے کھڑا نہ ہو بلکہ جب امام سلام پھیرے تب مسبوق(مسبوق اس آدمی کو کہتے ہیں جو جماعت میں ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہو جانے کے بعد آ کر شریک ہوا ہو۔) کھڑا ہو۔ اس سلسلے میں اتنی بات جان لیجئے کہ یہ شکل یعنی مسبوق کا امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ کھڑا ہونا حنفیہ کے نزدیک حرام ہے۔

 

تشہد کے بعد رسول اللہ کی دعا

 

حضرت شداد ابن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی نماز میں (تشہد کے بعد) یہ دعا پڑھا کرتے تھے اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ الثُّبَاتَ فِی الْاَمْرِ وَ الْعَزِیْمَۃَ عَلَی الرُّشْدِ وَاَسْأَلُکَ شُکْرَ نِعْمَتِکَ وَحُسْنَ عِبَادَتِکَ وَاَسْأَلُکَ قَلْباً سَلِیْماً وَلِسَاناً صَادِقَا وَاَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَاتَعْلَمْ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّمَا تَعْلَمُ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا تَعْلَمُ اے پروردگار ! میں تجھ سے دین میں ثابت قدمی اور راہ راست کے قصد کا سوال کرتا ہوں اور میں تجھ سے تیری نعمت کے شکر اور تیری عبادت کے حسن کی درخواست کرتا ہوں اور تجھ سے قلب سلیم اور سچی زبان مانگتا ہوں اور تجھ سے وہ بھلائی چاہتا ہوں جس کو تو جانتا ہے اور اس برائی سے پناہ مانگتا ہوں جس کو تو جانتا ہے اور معافی چاہتا ہوں ان گناہوں سے جن کو تو جانتا ہے۔ (سنن نسائی، مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

یہ دعا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی لسان مقدس سے تعلیم امت کے پیش نظر ارشاد ہوئی ہے کہ امت کے لوگ اس طرح دعا مانگا کریں۔ ورنہ تو جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی کا تعلق ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ تمام بھلائیاں اور سعادتیں حاصل تھیں جن کی طرف اس دعا میں اشارہ کیا گیا ہے اور تمام گناہوں سے آپ محفوظ تھے ، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخشے جا چکے تھے۔

راہ راست کے قصد کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! مجھے اس بات کی توفیق عنایت فرما کہ تو نے ہدایت کا جو راستہ دکھلایا ہے اس پر ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہوں اور ہدایت کو اپنی زندگی کے لیے لازم پکڑوں۔

تجھ سے تیری نعمت کے شکر اور تیری عبادت کے حسن کی درخواست کرتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ مجھے اس بات کی توفیق عنایت فرما کہ تیری ان نعمتوں کو جن سے تو نے مجھے سرفراز فرمایا ہے تیری اطاعت و فرمانبرداری میں اس طرح صرف کروں کہ تیرے احکام و فرمان کا پابند رہوں اور جن چیزوں سے تو نے منع کیا ہے ان سے بچتا رہوں اور تیری عبادت کو اس کی پوری شرائط و آداب اور پورے ارکان کے ساتھ ادا کروں۔

قلب سلیم اس دل کو کہتے ہیں جو برے عقائد، کمزور خیالات اور غلط اعتقادات و نظریات سے پاک وصاف ہو اور خواہشات نفسانی کی طرف اس کا میلان نہ ہو نیز یہ کہ وہ ماسوا اللہ سے خالی ہو۔

دعا کے جملے وَاَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا تَعْلَمُ میں لفظ ماموصولہ ہے یا موصوفہ اور عائد محذوف ہے۔ اسی طرح اس جملہ میں لفظ من زائد ہے یا بیانیہ اور مبین محذوف ہے۔ گویا اصل میں یہ عبارت اس طرح ہے اسالک شیئا ھو خیر ما تعلم یعنی میں تجھ سے اس اچھی چیز کی درخواست کرتا ہوں جس کے بارے میں تو جانتا ہے کہ وہ اچھی ہے یعنی میں ایسی چیز کی درخواست نہیں کرتا جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ اچھی چیز ہے کیونکہ بندہ تو کسی چیز کو اچھی سمجھ لیتا ہے حالانکہ حقیقت میں وہ اچھی نہیں ہوتی۔ اس لیے میں وہی چیز مانگتا ہوں جو تیرے نزدیک اچھی ہے۔ اسی طرح (واعوذبک من شرما تعلم) کا مطلب بھی یہی ہے کہ میں اس بری چیز سے پناہ مانگتا ہوں جو تیرے نزدیک بری اور جس کے بارے میں تیرا فیصلہ ہے کہ یہ بندے کے حق میں برائی کا باعث ہے۔

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی نماز میں التحیات کے بعد فرماتے تھے ، بہترین کلاموں کا کلام اللہ کا ہے اور بہت بہترین طریقوں کا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے روایت کیا اس کو نسائی نے۔

 

                    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلام کا طریقہ

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں ایک سلام پھیرتے تھے سامنے کے رخ پھر تھوڑا سا منہ کو دائیں جانب پھیرتے تھے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام پورا فرماتے تھے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیرتے تھے تو یہ طریقہ اختیار فرماتے تھے کہ سلام کی ابتدا قبلہ رخ کرتے تھے درمیان میں دائیں جانب اس قدر چہرہ مبارک پھیرتے تھے کہ رخسار مبارک کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی جیسا کہ پہلی روایتوں میں گذر چکا ہے اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں صرف ایک ہی سلام دائیں جانب پھیرتے تھے چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی حدیث کے پیش نظر فرماتے ہیں کہ نماز میں صرف ایک ہی سلام مشروع ہے۔

حضرت امام اعظم ابوحنفیہ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے ہاں متفقہ طور پر نماز میں دو سلام یعنی دائیں اور بائیں دونوں جانب مشروع ہیں۔ کیونکہ اس سلسلہ میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دائیں اور بائیں دونوں طرف سلام پھیرنا چاہیے۔

اب اس حدیث کی تاویل ان ائمہ ثلاثہ کی جانب سے یہ کی جاتی ہے کہ ایک سلام تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بلند آواز سے کہتے تھے اور دوسرا سلام آہستہ آواز سے ، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہاں بلند آواز سے کہے جانے والے سلام کا اعتبار کیا ہے اور صرف اسی ایک کو ذکر کیا۔

 

                   سلام پھیرتے وقت جواب کی نیت

 

اور حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ سلام پھیرتے وقت امام کے سلام کے جواب کی نیت کریں، ہم آپس میں محبت رکھیں اور ایک دوسرے کو سلام کریں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

پہلے حکم کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی جب سلام پھیریں تو اس وقت وہ یہ نیت کریں کہ ہم امام کے سلام کا جواب دے رہے ہیں، اس کی شکل یہ ہو گی جو مقتدی امام کے دائیں جانب ہوں وہ تو دوسرے سلام میں، جو مقتدی بائیں جانب ہوں وہ پہلے سلام میں اور جو مقتدی امام کے مقابل ہوں وہ دونوں سلام میں امام کے سلام کے جواب کی نیت کریں اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب امام سلام پھیرے تو وہ بھی اس وقت یہ نیت کرے کہ میں مقتدیوں کو سلام کر رہا ہوں۔

دوسرے حکم کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان آپس میں یعنی نمازیوں اور اللہ کے تمام بندوں سے محبت کریں، ان کے ساتھ خوشی خلفی، مروت اور اچھے اخلاق سے پیش آئیں۔

تیسرے حکم کا مطلب یہ ہے کہ  جس طرح امام سلام پھیرتے وقت مقتدیوں پر سلام کی اور مقتدی سلام پھیرتے وقت امام کے سلام کے جواب کی نیت کرتے ہیں اسی طرح تمام مقتدی نماز میں سلام پھیرتے وقت آپس میں ایک دوسرے کو سلام کی نیت کریں۔ اس طرح کہ دائیں طرف سلام پھیرتے وقت دائیں جانب کے مقتدیوں کی نیت کریں اور بائیں طرف سلام پھیرتے وقت بائیں جانب کے مقتدیوں کی نیت کرنی چاہیے۔ اور ہر نمازی کو چاہئے کہ وہ دونوں سلام میں ملائکہ کی بھی نیت کرے کیونکہ احادیث میں اس کا حکم بھی دیا گیا ہے اور حنفیہ کے بعض علماء نے تو کہا ہے کہ یہ سنت ہے گو دوسرے حضرات نے اسے ترک کیا ہے۔

 

 

نماز کے بعد کے ذکر کا بیان

 

اس باب کی تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے نماز کے بعد دعا اور دیگر اور اوراد  و وظائف  کے پڑھنے کی اہمیت اور فضیلت ظاہر ہوتی ہے ، یہاں ذکر  کا لفظ عام ہے جو دعا اور اور اوراد و وظائف  سب پر حاوی ہے۔

اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان کے بعد نمازی دعا اور اور اوراد و وظائف  کے لیے کتنی دیر تک بیٹھ سکتا ہے ، چنانچہ در مختار میں لکھا ہے کہ فرض نماز پڑھ لینے کے بعد سنتوں کے پڑھنے میں تاخیر کرنا مکروہ ہے البتہ اللھم انت السلام (آخر تک) کے بقدر دعا وغیرہ پڑھنے کے لیے کچھ دیر بیٹھنا ثابت ہے۔

علامہ حلوانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول یہ ہے کہ اوراد و وظائف  پڑھنے کی غرض سے فرض و سنتوں کے درمیان وقفہ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اسی قول کو کمال نے بھی اختیار کیا ہے۔

علامہ حلبی نے ان دونوں اقوال میں تطبیق یوں پیدا کی ہے کہ اگر یہاں مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی نہ لیا جائے بلکہ مکروہ تنزیہی مراد لیا جائے تو ان دونوں اقوال میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا کیونکہ پہلے قول کا مطلب پھر یہ ہو گا کہ اور اوراد و وظائف پڑھنے کے لیے سنتوں کے پڑھنے میں تاخیر کرنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے البتہ مکروہ تنزیہی ہے یعنی اگر تاخیر نہ کی جائے تو بہتر ہو گا۔ اسی طرح علامہ حلوانی کے قول کا مطلب یہ ہو گا کہ فرض نماز پڑھنے کے بعد اوراد و وظائف پڑھنے کے لیے سنتوں میں تاخیر کرنے میں اگرچہ کوئی مضائقہ نہیں ہے ، لیکن مناسب یہی ہے کہ تاخیر نہ کی جائے ، اس طرح یہ دونوں قول اپنی اپنی جگہ صحیح رہے اور دونوں میں کوئی تضاد بھی باقی نہیں رہا۔

صاحب درمختار کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے کہ  یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرض و سنت کے درمیان دعا اور اور اوراد پڑھے جائیں تو تعارض دور ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد موصوف فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ نماز کے بعد (نمازوں میں سنتیں نہیں پڑھی جاتیں۔ ان میں فرض کے بعد اور جن کے بعد سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان میں سنتوں کے بعد یہ اور اوراد پڑھے جائیں ١٢۔) تین مرتبہ استغفر اللہ پڑھا جائے ، آیتہ الکرسی اور معوذات (یعنی سورہ قل ہو اللہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) پڑھی جائے اور سبحان اللہٗ الحمد اللہٗ اور اللہ اکبر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھے جائیں اور پھر ایک مرتبہ تحلیل(لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ الخ) پڑھ کر سو کے عدد کو پورا کیا جائے پھر اس کے بعد دعا مانگی جائے اور دعا کو اس جملے پر ختم کیا جائے سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین والحمد للہ رب العلمین۔

جماعت ختم ہو جانے کے بعد جب سنتیں پڑھی جائیں تو مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو توڑ دیں یعنی سنت پڑھنے کے لیے صف بندی کے ساتھ کھڑے نہ ہوں بلکہ آگے پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوں۔ اور امام کو بھی چاہئے کہ وہ بھی امامت کے مصلے سے ہٹ کر آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہو جائے تاکہ بعد میں آنے والے نمازیوں کو یہ خیال نہ ہو کہ ہنوز جماعت کھڑی ہے اور کوئی نمازی اسی خیال میں امام کی اقتدا کر کے نماز کے لیے کھڑا ہو جائے اور پھر اس کی اقتداء فاسد ہو۔

اس چیز میں بھی اختلاف ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد دعا اور اوراد وغیرہ پڑھنے کے لیے امام کے لیے دائیں طرف گھوم کر بیٹھنا افضل ہے یا بائیں طرف؟ چنانچہ صحیح قول یہ ہے کہ اسے اختیار ہے چا ہے دائیں طرف گھوم کر بیٹھے اور چا ہے بائیں طرف لیکن اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ بائیں طرف گھوم کر بیٹھنا ہی متفقہ طور پر سب کے نزدیک افضل ہے کیونکہ حجرہ شریف اسی سمت ہے۔

اگر کوئی آدمی فرض نماز کے بعد سنتیں پڑھ لے اور اس کے بعد احادیث میں مذکورہ اوراد و وظائف پڑھے تو یہ اس بعدیت کے منافی نہیں ہو گا جو احادیث میں مذکور ہیں (یعنی احادیث میں مذکور ہے کہ نماز کے بعد فلاں فلاں دعا یا وظیفہ پڑھا جائے تو اگر کوئی آدمی فرض نماز پڑھ کر پہلے سنتیں پڑھے اور پھر اس کے بعد مذکورہ اوراد و وظائف پڑھے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اس فضیلت سے محروم رہا۔ کیونکہ حدیث کا مقصد تو یہ ہے کہ یہ اوراد و وظائف نماز کے بعد پڑھے جائیں خواہ سنتوں کے بعد بلکہ سنتوں کے بعد ہی پڑھنا زیادہ مناسب ہے۔

اس طرح صحیح احادیث سے چونکہ یہ ثابت ہے کہ فجر اور مغرب کی نماز کے بعد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شییء قدیر دس مرتبہ پڑھا جائے ، یا ان نمازوں کے بعد آیت الکرسی پڑھنا احادیث سے ثابت ہے تو اگر کوئی آدمی مغرب کی فرض نماز کے بعد پہلے سنتیں پڑھ لے اور پھر اس کے بعد آیت الکرسی یا مذکورہ بالا تہلیل پڑھے تو حدیث کے مطابق اسے وہی فضیلت حاصل ہو گی جو فرض نماز کے بعد انہیں پڑھنے پر حاصل ہوتی۔

بعض لوگ سوچ کر کہ جلدی بھی ہو جائے اور مذکورہ بالا چیزوں کو پڑھنے کی فضیلت بھی حاصل ہو جائے ، مغرب کی سنتوں میں آیۃ الکرسی پڑھ لیتے ہیں یہ محض وہم ہے کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کی سنتوں میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھا کرتے تھے۔

 

                   نماز کے اختتام پر اللہ اکبر کہنا

 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کے ختم ہونے کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اللہ اکبر کہنے سے پہچان لیتا تھا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

نماز کے اختتام پر  اللہ اکبر کہنے کی مراد کے تعین میں شارحین کے مختلف اقوال ہیں، چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنے سے مراد  ذکر ہے جیسا کہ صحیحین میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں فرض نماز سے فراغت کے وقت لوگوں کے لیے بآواز بلند ذکر مقرر تھا۔ پھر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، کہ میں نماز کے اختتام کو اسی کے ذریعہ پہچانتا تھا (یعنی جب لوگ بلند آواز سے ذکر کرتے تھے تو میں جان لیتا تھا کہ نماز ہو چکی ہے)۔ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد محمد بن اسماعیل البخاری نے پھر عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کو نقل کیا ہے جو یہاں ذکر کی گئی ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ تکبیر سے مراد مطلق  ذکر ہے۔

لیکن اتنی بات بھی سمجھتے چلئے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ذکر بالجہر کو تعلیم امت پر محمول کیا ہے چنانچہ بیہقی وغیرہ نے آہستہ آواز سے ذکر کرنے پر صحیحین کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ تہلیل و تکبیر بلند آواز سے نہ کریں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  تم بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو، وہ (یعنی خدا) تو تمہارے ساتھ ہے اور قریب ہے

بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہاں  تکبیر سے مراد وہ تکبیر ہے جو نماز کے بعد تسبیح و تحمید کے ساتھ دس مرتبہ یا تیس مرتبہ پڑھتے ہیں۔ کچھ محققین کی رائے ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں نماز کے بعد ایک بار یا تین بار تکبیر کہی جاتی تھی۔

بعض علماء کا قول ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا تعلق ایام منیٰ سے ہے کہ وہاں تشریق کی تکبیرات کہتے تھے ، بہر حال۔ ان تمام اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے بھی سب سے بڑا اشکال حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول پر یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ کیا وجہ ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سلام سے تو نماز کے اختتام کو نہ جانتے تھے اور تکبیر سے جانتے تھے کہ نماز ہو چکی ہے۔؟

اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت صغیر السن تھے اس لیے ممکن ہے کہ وہ ہمیشہ جماعت میں شریک نہ ہوتے ہوں گے ، یا پھر یہ احتمال ہے کہ وہ جماعت میں شریک تو ہوتے ہوں گے لیکن پچھلی صف میں کھڑے ہوتے ہوں گے اس لیے وہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز نہ پہنچنے کے سبب وہ سلام پر نماز کے اختتام کو نہ پہچانتے ہوں گے بلکہ جب مقتدی بآواز بلند تکبیر کہتے ہوں گے تو وہ یہ جان لیتے ہوں گے کہ نماز ختم ہو گئی ہے۔ وا اللہ اعلم۔

 

                   فرض کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیٹھنے کی مقدار

 

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب (فرض نماز کا) سلام پھیر لیتے تھے تو صرف اس دعا کے بقدر بیٹھتے تھے اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یاذای الجلال و الاکرام۔ (رواہ صحیح مسلم) اے اللہ ! تو سالم ہے (یعنی تمام عیوب سے پاک ہے) اور تجھی سے (بندوں کی تمام آفات سے) سلامتی ہے۔ اے بزرگی و بخشش والے تو برتر ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان کے سلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صرف اسی قدر بیٹھتے تھے کہ یہ دعا پڑھ لیں۔ لیکن جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں۔ جیسے فجر، عصر ، ان کے سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اس سے زیادہ بیٹھنا بھی ثابت ہے ، چنانچہ اسی بناء پر علماء کرام لکھتے ہیں کہ ان نمازوں کے بعد طلوع آفتاب و غروب آفتاب تک ذکر میں مشغول رہنا مستحب ہے۔

سلام کے بعد  نہ بیٹھنے کی ایک توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہیئت نماز میں صرف اتنی ہی دیر تک بیٹھے رہتے کہ یہ دعا پڑھ لیں یا یہ کہ آپ اکثر و بیشتر صرف اسی قدر بیٹھتے تھے۔

یہاں جو دعا ذکر کی گئی ہے اس میں یہ الفاظ بھی پڑھے جاتے ہیں والیک یرجع السلام فحینا ربنا بالسلام وادخلنا دار السلام حالانکہ یہ الفاظ احادیث سے ثابت نہیں ہیں بلکہ بعد میں ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم جو اپنی نماز سے فارغ ہو لیتے تو (پہلے) تین مرتبہ استغفار کرتے اور (پھر) یہ دعا پڑھتے اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال و الاکرام۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیر لیتے تھے تو پہلے تین مرتبہ استغفار کرتے یعنی استغفر اللہ تین مرتبہ کہتے اس کے بعد مذکورہ بالا دعا پڑھتے۔

بعض روایتوں میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم استغفار کے لیے تین مرتبہ اس طرح کہتے تھے استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ۔

 

                   فرض نماز کے بعد کی دعا

 

اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شییء قدیر اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ کہتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ہر قسم کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! جو چیز تو نے عطا کی ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اور جس چیز کو تو نے روک دیا ہے اس کو کوئی دینے والا نہیں ہے اور دولت مند کو اس کی دولت تیرے عذاب سے بچانے والی نہیں ہے۔ (صحیح البخاری ، صحیح مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا اور دیگر دعائیں و کلمات اذکار جو مختلف احادیث میں مذکور ہیں نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے علماء کرام لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بعض اوقات تو سلام پھیرنے کے بعد بغیر کچھ پڑھے ہوئے کھڑے ہوتے تھے اور بعض اوقات مذکور دعا و اذکار میں سے کچھ یا سب پڑھا کرتے تھے۔

چونکہ احادیث سے نماز کے بعد پڑھنے کے لیے مختلف دعائیں ثابت ہیں اس لیے بعض علماء نے ان کے پڑھنے کی ترتیب اس طرح قائم کی ہے کہ اول تو استغفار کیا جائے اس کے بعد اللہم انت السلام آخر تک پڑھا جائے پھر اس کے بعد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہٗ آخر تک پڑھا جائے۔ ان دعاؤں کے علاوہ اور بہت سی دعائیں بھی احادیث میں مذکور ہیں جن کے بارے میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ  بعد سے یہ مراد نہیں کہ یہ دعائیں فرض نماز کے بعد متصلاً ہی پڑھنی چاہئیں بلکہ اگر سنتوں کے بعد بھی یہ دعائیں پڑھی جائیں گی تو  نماز کے بعد پڑھنا ہی کہلائے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنی نماز سے سلام پھیرتے تھے تو (سلام کے بعد) بلند آواز سے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے لَآ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ وحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہ لَہ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئ قَدِیر لَّا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیاہُ لَہ النِّعْمَۃُ وَلَہ الْفَضْلُ وَلَہ الثَّنَآءُ الْحَسَنُ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُخْلِصِینَ لَہ الدِّینَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ہر قسم کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، گناہوں سے باز رہنے اور عبادت کرنے کی قوت صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں، اللہ ہی کے لیے اس کی بندگی کو خالص کرنے والے ہیں اگرچہ کافر اسے برا سمجھیں۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

علماء لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کلمات دعائیہ کو بھی تعلیم امت کے پیش نظر بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے۔ امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب مہذب میں لکھا ہے کہ  اس دعا کو اور اس کے علاوہ دیگر دعاؤں کو آہستہ آواز سے پڑھنا افضل ہے خواہ امام ہو یا منفرد، ہاں اگر اس بات کی ضرورت ہو کہ کوئی دعا کسی کو سکھانا ہے تو اس کو بلند آواز سے پڑھ لینا چاہئے ، چنانچہ اس دعا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بلند آواز سے پڑھنے کو اسی پر محمول کیا گیا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد، صحابہ کرام کو یہ دعا سکھانا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بلند آواز سے پڑھتے تھے اور جب لوگوں کو دعا یاد ہو گئی تو اسے آہستہ آواز سے پڑھنا ہی افضل ہوا۔

 

                   نماز کے بعد کن چیزوں سے پناہ مانگنی چاہئے

 

اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کلمات دعائیہ کے یہ الفاظ سکھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی نماز کے بعد انہیں الفاظ کے ذریعے پناہ مانگا کرتے تھے۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیا و عَذَابِ الْقَبْرِ(رواہ البخاری)

 

تشریح

 

یہاں  جبن سے مراد  طاعت کی جرات نہ کرنا  ہے اور  بخل سے مراد یہ ہے کہ کسی غیر کو مال علم اور خیر خواہی سے فائد نہ پہنچایا جائے۔  ناکارہ عمر کا مطلب یہ ہے کہ انسان زندگی کے اس اسٹیج پر پہنچ جائے جہاں عقل میں خلل آ جاتا ہے اعضا ضعیف ہو جاتے ہیں طاقت و قوت یکسر جواب دے دیتی ہے اور ایسا آدمی بالکل اپاہج و معذور ہو کر دین و دنیا کے کاموں کے لیے ناکارہ بن جاتا ہے۔ اسی عمر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ کیونکہ انسانی زندگی کا حاصل اور مقصود تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا جائے اس کی نعمتوں کا اچھی طرح شکر ادا کیا جاتا رہے اور ظاہر کہ اسی ناکارہ عمر میں کوئی آدمی نہ پوری طرح عبادت کر سکتا ہے اور نہ اداء شکر میں مشغول رہ سکتا ہے۔ اس طرح زندگی اور عمر کا جو اصل مقصد ہے وہ فوت ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ناکارہ زندگی سے بچائے

 

نماز کے بعد کی تسبیح اور اس کی فضیلت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن فقراء مہاجرین رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! دولت مند لوگ بلند درجات (یعنی ثواب، قرب الہٰی اور رضائے حق) اور دائمی نعمت) یعنی بہشت کی نعمت کو حاصل کرنے میں ہم سے سبقت) لے گئے (یعنی وہ اپنے مال و دولت کی وجہ سے بڑا ثواب حاصل کرتے ہیں اور بہشت کی نعمتوں کے مستحق ہوتے ہیں اور ہم تو اپنی غربت و افلاس کی وجہ سے بلندی درجات میں ان سے پیچھے رہ جاتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ کیسے؟ انہوں نے عرض کیا وہ اسی طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں اور وہ اسی طرح روزہ رکھتے ہیں جس طرح ہم رکھتے ہیں (ان اعمال میں تو وہ اور ہم برابر ہیں لیکن مال و زر کی وجہ سے) وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور) غربت و افلاس کی وجہ سے) ہم صدقہ و خیرات کر نہیں سکتے ، وہ غلام آزاد کرتے ہیں ہم غلام آزاد نہیں کر سکتے) (اس طرح وہ ان اعمال کے ثواب کے حق دار ہو جاتے ہیں اور ہم محروم رہتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کہ میں تم لوگوں کو ایسی بات نہ بتا دوں کہ اس پر عمل کر کے تم ان لوگوں کے درجات کو پہنچ جاؤ جو تم سے پہلے اسلام لا چکے ہیں اور ان لوگوں کے مرتبے سے بڑھ جاؤ جو تمہارے بعد کے ہیں (یعنی تمہارے بعد اسلام لائے ہیں یا تمہارے بعد پیدا ہوں گے) اور (مال دار لوگوں میں سے) کوئی آدمی تم سے بہتر نہ ہو گا بجز اس آدمی کے جو تم ہی جیسا عمل کرے (یعنی اگر مالدار لوگوں نے میری بتائی ہوئی بات پر تمہاری طرح علم کیا تو پھر مرتبہ کے اعتبار سے وہی تم سے بہتر ہوں گے) فقراء نے عرض کیا  یا رسول اللہ ! بہتر ہے ، فرمائیے (وہ کیا بات ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم لوگ ہر نماز کے بعد سبحان اللہ اللہ اکبر اور الحمد للہ تینتیس مرتبہ پڑھ لیا کرو۔

(حدیث کے ایک راوی) ابو صالح فرماتے ہیں کہ (کچھ دنوں کے بعد) فقراء مہاجرین (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ہمارے دولت مند بھائیوں نے ہمارے عمل کا حال سنا اور وہ بھی وہی کرنے لگے جو ہم کرتے ہیں (اس طرح پھر وہی لوگ ہم سے افضل ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

اور روایت کے آخری الفاظ جو ابو صالح کا قول ہے صرف صحیح مسلم ہی نے نقل کئے ہیں نیز صحیح البخاری کی ایک روایت میں تینتیس مرتبہ پڑھنے کے بجائے یہ ہے کہ  ہر نماز کے بعد دس دس مرتبہ سبحان اللہ ، الحمد اللہ اور اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔

 

تشریح

 

پہلی روایت میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ  ہر نماز کے بعد سبحان اللہٗ اللہ اکبر اور الحمد اللہ تینتیس مرتبہ پڑھو تو اس میں دو احتمال ہیں اول تو یہ کہ ان تینوں کلمات کو مجموعی طور پر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھا جائے چنانچہ مشائخ کا عمل اسی پر ہے اور یہی افضل بھی اور یہ کہ اس کی صراحت بھی بعض روایات میں تو موجود ہے۔ دوم یہ کہ ان تینوں کلمات کو ملا کر تینتیس مرتبہ پڑھا جائے ، اس طرح ان میں سے ہر ایک کو بھی تینتیس مرتبہ پڑھنا ہو جائے گا۔

 

شکر کرنے والا امیر صبر کرنے والے غریب سے افضل ہے

حدیث کے آخری لفظ ذلک فضل اللہ الخ (اس دارالفناء میں جنتے ازم پیدا ہوئے وہ فانی ہیں صحیح اور باقی رہنے والی بات یہی ہے کہ انسانی جدوجہد اور تدابیر تقدیر الہٰی سے پابستہ زنجیر ہیں۔) کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ نے دولت مند لوگوں کو تم پر فضیلت دی ہے تو یہ محض اس کا فضل و کرم ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نواز کر اس کے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر ڈال دیتا ہے لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اس معاملے میں صبر کا دامن پکڑے رہو اور تقدیر الہٰی پر راضی رہو کہ اس نے بعض بندوں کو بعض بندوں پر فضیلت و بزرگی عطا فرما دی ہے۔

اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شکر کرنے والا دولت مند صبر کرنے والے غریب سے افضل ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اتنی بات بھی ہے کہ دولت مند اپنے مال و دولت کے معاملے میں مختلف قسم کے گناہ کے خوف سے خالی نہیں ہوتا جب کہ فقیر و غریب ان گناہوں کے خوف سے جو مال و دولت کی بناء پر صادر ہوتے ہیں امن میں رہتا ہے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ علماء کرام نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے چنانچہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور دیگر اکثر اہل اللہ فضیلت فقر کے قائل ہیں اور ابن عطاء کا قول ہے کہ شاکر دولت مند جو دولت کا حق ادا کرتا ہو صابر غریب سے افضل ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابن عجرۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کے چند کلمات ہیں جن کو کہنے والا، یا فرمایا کہ کرنے والا (حصول ثواب سے) محروم نہیں رہ سکتا (اور وہ کلمات یہ ہیں) سبحان اللہ تینتیس بار، الحمد اللہ تیتنیس اور اللہ اکبر چونتیس بار کہنا۔ (صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو آدمی ہر نماز کے بعد سبحان اللہ تینتیس مرتبہ، الحمد اللہ تینتیس مرتبہ اللہ اکبر تینتیس مرتبہ کہے جن کا مجموعی عدد ننانوے ہو اور سو کے عدد کو پورا کرنے کے لیے ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شییء قدیر کہے تو اس کے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر (یعنی بہت زیادہ) ہوں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بعض روایات میں ولہ الحمد کے بعد یحی و یمیت اور بعض میں بیدہ الخیر کے الفاظ بھی منقول ہیں، مذکورہ بالا کلمات جو نماز کے بعد پڑھے جاتے ہیں ان کے مختلف عدد منقول ہیں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی انہیں مختلف عدد کے ساتھ پڑھتے تھے اس لیے ان کلمات کو احادیث میں مذکور اعداد میں سے جس عدد کے ساتھ بھی پڑھا جائے گا۔ اصل سنت ادا ہو جائے گی۔ حافظ زین عراقی فرماتے ہیں کہ مذکورہ تمام اعداد بہتر ہیں اور جو عدد سب سے بڑا ہے وہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

ان تسبیحات کے ورد کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر پڑھتے تھے اور یہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ انہیں انگلیوں پر شمار کرو کیونکہ قیامت کے روز انگلیوں سے (بندے کے اعمال کے سلسلہ میں) سوال کیا جائے گا اور (جواب کے لیے) انہیں گویائی کی قوت دی جائے گی۔صحابہ کرام کے بارے میں منقول ہے کہ وہ انہیں کھجور کی گٹھلیوں پر پڑھتے تھے۔ بہر حال ان تسبیحات کو انگلیوں پر پڑھنا ہی افضل ہے اور گٹھلیوں وغیرہ پر پڑھنا بھی جائز ہے۔

 

                    قبولیت دعا کا وقت

 

حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ کسی وقت دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رات کے آخری حصے میں (یعنی سحر کے وقت) اور فرض نمازوں کے بعد۔ (جامع ترمذی)

 

                   ہر نماز کے بعد معوذات پڑھنے کا حکم

 

اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں ہر نماز کے بعد معوذات پڑھوں۔ (مسند احمد بن حنبل و سنن ابوداؤد، سنن نسائی، بیہقی)

 

تشریح

 

معوذات قرآن کی ان سورتوں کو کہتے ہیں جن کی ابتداء میں  اعوذ کا لفظ ہے یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس یہاں ان دونوں سورتوں کے لیے  معوذات جمع کا صیغہ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اقل جمع دو ہیں اور بعض علماء نے کہا ہے کہ قل ھو اللہ اور قل یا ایھا الکافرون بھی معوذات میں تغلیباً داخل ہیں یعنی قل اعوذ برب الناس کو امتیاز دے کر سب کو معوذات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگرچہ ان دونوں سورتوں کی ابتداء میں  اعوذ کا لفظ نہیں ہے۔ گویا اس قول کے مطابق آپ نے چار سورتوں یعنی قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس، قل ھو اللہ اور قل یا یھا الکافرون کے پڑھنے کا حکم دیا تھا۔

 

                   طلوع و غروب آفتاب تک ذکر میں مشغول رہنے کی فضلیت

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک ایسی جماعت کے ساتھ میرا بیٹھنا جو نماز فجر سے طلوع آفتاب تک اللہ کے ذکر میں مشغول ہو میرے نزدیک حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے اور عصر کی نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک ایسے لوگوں میں میرا بیٹھنا جو اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں چار غلام آزاد کروں۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے آخری الفاظ میں بھی چار غلام سے مراد حضرات اسمعیل کی اولاد سے چار غلام ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں چار غلام مطلق مراد ہوں۔ حضرت اسمعیل کی اولاد کی تخصیص آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لیے کہ وہ افضل عرب ہیں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی اولاد میں سے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی فجر کی نماز جماعت سے پڑھے اور طلوع آفتاب تک اللہ کی یاد میں مشغول رہے اور پھر دو رکعت نماز پڑھے تو اسے حج و عمرے کی مانند ثواب ملے گا راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پورے حج و عمرے کا پورے حج و عمرے کا پورے حج و عمرے کا ثواب اسے ملے گا۔  (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو آدمی فجر کی نماز جماعت سے پڑھ کر اسی مسجد میں اور اسی مصلی پر طلوع آفتاب تک ذکر خداوندی میں مسلسل مشغول رہے اور پھر اس کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھے تو اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ ایک پورے حج و عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی حالت ذکر میں طواف کے لیے یا طلب علم کے لیے اور یا مسجد ہی میں مجلس و عظ میں جانے کے لیے مصلے سے اٹھایا اسی طرح کوئی آدمی وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر چلا آئے مگر ذکر خداوندی میں برابر مشغول بھی رہے تو اسے بھی مذکورہ ثواب ملے گا۔

ذکر سے فارغ ہو کر طلوع آفتاب کے بعد دو رکعت نماز سورج کے ایک نیزے کے بقدر بلند ہو جانے کے بعد پڑھنی چاہئے تاکہ وقت کراہت ختم ہو جائے اس نماز کو نماز اشراق کہتے ہیں اور اکثر احادیث میں اس کا نام صلوۃ الضحٰی بھی منقول ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں جن کے الگ الگ یہ دو نام ہیں۔ اس کا ابتدائی وقت آفتاب کے بلند ہو جانے کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور انتہائی وقت سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے ہے۔ ابتدائی وقت بھی پڑھی جانے والی نماز کو  نماز اشراق کہتے ہیں اور انتہائی وقت میں پڑھی جانے والی نماز نماز چاشت کے نام سے تعبیر کی جاتی ہے۔

فرمایا گیا ہے کہ ایسے آدمی کو حج و عمرے دونوں کا ثواب فرض نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی بناء پر ملتا ہے اور عمرے کا ثواب نفل نماز (یعنی نماز اشراق) پڑھنے کی وجہ سے ملتا ہے۔

 

                   دو نمازوں کے درمیان وقفہ کرنا چاہیے

 

اور حضرت ازرق ابن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہمارے امام نے کہ جن کی کنیت ابو رمثہ تھی ہمیں نماز پڑھائی اور (نماز کے بعد) انہوں نے فرمایا کہ  میں نے (ایک روز) یہ نماز یا اس کی مانند نماز رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ پڑھی، حضرت ابور مثہ کہتے تھے کہ (اس نماز میں) حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر رضی اللہ عنہما (بھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دائیں طرف پہلی صف میں کھڑے تھے ، ایک آدمی (پیچھے سے آ کر) نماز کی تکبیر اولیٰ میں شریک ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی اور سلام (کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے چہرہ مبارک کو اتنا) پھیرا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک رخساروں کی سفیدی دیکھ لی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابو رمثہ کی یعنی میری طرف پھر کر بیٹھ گئے وہ آدمی جو تکبیر اولیٰ میں شریک تھا کھڑا ہو گیا اور دو رکعت نماز پڑھنے لگا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ دیکھ کر) فوراً اٹھے اور اس آدمی کے دونوں کندھے پکڑ کر ہلائے اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ! کیونکہ اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ) اسی لیے ہلاکت کی وادی میں جا گرے کہ اپنی نمازوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے تھے ، (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ بات سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نظر مبارک اوپر اٹھائی اور فرمایا کہ اے خطاب کے بیٹے ! اللہ نے تمہیں راہ حق پر پہنچایا (یعنی تم نے سچ کہا)۔ (ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

ابتداء حدیث میں حضرت ابو رمثہ نے اپنے قول  یہ نماز  سے اس نماز کی طرف اشارہ کیا تھا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ پڑھی تھی اور وہ ظہر یا عصر کی نماز تھی۔

الفاظ او مثل ھذہ الصلوٰۃ (یا اس کی مانند نماز) میں حرف او راوی کے شک کو ظاہر کر رہا ہے ، یعنی اس روایت کے راوی کو شک ہے کہ حضرت ابو رمثہ نے ہذہ الصلوٰۃ فرمایا تھا یا مثل ہذہ الصلوۃ۔

فرمایا گیا ہے کہ  ایک آدمی (پیچھے سے آ کر) نماز کی تکبیر اولیٰ میں شریک ہوا یہاں   تکبیر اولیٰ کی قید اس مقصد کے تحت لگائی گئی ہے تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ آدمی مسبوق نہیں تھا کہ اپنی بقیہ نماز پوری کرنے کے لیے سلام کے بعد اٹھا ہو بلکہ وہ جماعت کے ساتھ پہلی ہی رکعت میں شامل ہو گیا تھا اور وہ سلام کے بعد سنت مؤکدہ پڑھنے کے لیے اٹھ گیا تھا۔

فرق سے مراد یا تو سلام پھیر نے کے ساتھ فرق کرنا ہے یا جگہ بدل کر فرق کرنا مراد ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک حدیث میں منقول ہے کہ  تم میں سے جو آدمی نماز اداء کرتا ہے اسے کیا دشواری ہے کہ وہ آگے بڑھ جائے یا پیچھے ہٹ جائے یا دائیں طرف ہٹ کر کھڑا ہو جائے (یعنی ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز پڑھنے کے لیے پہلی جگہ سے ہٹ جانا چاہئے) یا گفتگو کرنے اور مسجد سے نکلنے کے ساتھ فرق کرنا مراد ہے جیسا کہ مسلم کی ایک روایت میں حضرت سائب سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا  ہمیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا تھا کہ ہم (دو نمازوں کے درمیان وصل نہ کریں تا وقتیکہ کوئی گفتگو کریں یا باہر نکلیں اور اس طرح دونوں نمازوں کے درمیان وقفہ کریں۔

اس حدیث کو مصنف کتاب نے اس باب یعنی باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں ذکر کر کے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ  فرق سے مراد نماز فرض ہے کے بعد ذکر کا ترک کرنا ہے یعنی فرض نماز کے بعد چا ہے کہ ذکر کیا جائے جو کہ (اس موقع کے لیے دعاؤں کی شکل میں) احادیث میں مذکور ہے۔ اس کے بعد اٹھ کر سنتیں پڑھی جائیں۔

نیز یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فرض کے ساتھ نفل کو ملانا نہیں چاہیے یعنی دونوں نمازوں کے درمیان اتنا توقف کرنا چاہئے کہ دونوں میں کوئی اشتباہ نہ ہو۔

 

 

                   نماز کے بعد کی تسبیح

 

اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ہر نماز کے بعد سبحان اللہ تینتیس مرتبہ الحمد اللہ تینتیس مرتبہ اللہ اکبر چونتیس مرتبہ کہیں (حضرت زید فرماتے ہیں کہ ایک دن) ایک انصاری نے ایک فرشتہ خواب میں دیکھا فرشتے نے اس نصاریٰ سے کہا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم ہر نماز کے بعد اتنی تسبیح پڑھو؟ اس انصاری نے کہا کہ ہاں ! فرشتے نے کہا کہ  ان تینوں کلمات (کے پڑھنے) کی تعداد پچیس مقرر کرو اور اس کے ساتھ لا الہ الا اللہ بھی پچیس مرتبہ مقرر کر لو (تاکہ سو کا عدد پورا ہو جائے) جب صبح ہوئی تو انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے خواب سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر عمل کرو۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد  اس پر عمل کرو کی مراد غالباً یہ ہو گی کہ جس طرح تمہیں تسبیح پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اس طرح بھی پڑھو اور جس طرح فرشتہ نے خواب میں بتایا ہے اس طرح بھی پڑھ لیا کرو اور یہ بھی چونکہ ذکر کا ایک طریقہ ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی توثیق فرما دی، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تقریر یعنی توثیق نہ فرماتے تو محض خواب اس سلسلے میں حجت نہ ہوتا۔

 

                   آیۃ الکرسی کی فضیلت

 

اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو لکڑی کے اس منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  جو آدمی ہر نماز کے بعد آیتہ الکرسی پڑھتا ہے اسے بہشت میں جانے سے سوائے موت کے اور کوئی چیز نہیں روک سکتی اور جو آدمی (آیت الکرسی کو) اپنی خواب گاہ میں جاتے وقت (یعنی سونے کے وقت) پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مکان میں اور اس کے ہمسائے میں (یعنی جو مکانات اس کے مکان سے ملے ہوئے ہوں) اور اس کے اردگرد مکانات میں (جو اگرچہ اس کے مکان سے متصل نہ ہوں) امن دیتا ہے اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد ضعیف ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کے ابتدائی جملوں سے ایک خلجان واقع ہوتا ہے وہ یہ کہ موت دخول جنت سے مانع نہیں ہے بلکہ موت تو خود جنت میں جانے کا ذریعہ ہے لہٰذا چاہیے تو یہ تھا کہ بجائے اس کے یہ فرمایا جائے لم یمنعہ من دخول الجنۃ الاالموت (یعنی اس کے بہشت میں جانے سے سوائے حیات کے اور کوئی چیز نہیں روک سکتی، کیونکہ انسان اس دنیا میں حیات کے جال میں پھنسا ہوا ہے جب زندگی ختم ہو گی اور موت آئے گی جنت میں اس وقت ہی دخول ممکن ہو گا لہٰذا دخول جنت کی مانع موت نہیں بلکہ حیات ہے۔

اس کا مختصر جواب علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ دیا ہے کہ بندے اور جنت کے درمیان موت ایک پردہ ہے کہ ایک طرف تو حیات ہے اور دوسری طرف جنت ہے جب یہ پردہ ہٹے گا یعنی بندے کو موت آئے گی تو فوراً جنت میں داخل ہو جائے گا۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ  یہاں موت سے مراد بندے کا قیامت کے روز قبر سے اٹھنے سے پیشتر قبر میں بند رہنا ہے چنانچہ جب بندہ قبر سے اٹھے گا فوراً جنت میں داخل ہو جائے گا۔

یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے فضائل اعمال کے سلسلے میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا جائز ہے حدیث کے پہلے جزو کو نسائی ابن حبان اور طبرانی نے بھی نقل کیا ہے ایک روایت میں آیت الکرسی کے ساتھ قل ہو اللہ پڑھنا بھی مذکور ہے۔

 

                   نماز فجر و مغرب کے بعد ذکر کی فضیلت

 

اور حضرت عبدالرحمن ابن غنم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ  رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے  جو آدمی فجر اور مغرب کے بعد (نماز کی) جگہ سے اٹھنے سے پیشتر اور پاؤں موڑنے سے پہلے (یعنی جس طرح التحیات کے لیے بیٹھنا ہے اس ہیئت کے ساتھ) ان کلمات کو پڑھے لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لہٗ لَہ الْمُلْکُ وَ لَہ الْحَمْدُ بِیَدِہٖ الْخَیْرِ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ عَلَی کُلِّ شَیْیءٍ قَدِیْرٌ  اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے ، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے واسطے تمام تعریفیں ہیں اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے ، وہی (جسے چاہتا ہے) زندہ رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے) موت دے دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے تو اس کے لیے ہر ایک بار کے بدلہ میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اس کے (مرتبے کے) دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں اور یہ کلمات اس کے لیے ہر بری چیز اور شیطان مردود سے امان کا باعث بن جاتے ہیں (یعنی نہ تو اس پر کسی دینی دنیاوی آفت و بلا کا اثر ہوتا ہے اور نہ مردود شیطان اس پر حاوی ہوتا ہے۔ اور شرک کے علاوہ کوئی گناہ (توفیق استغفار اور رحمت پروردگار کی وجہ سے) اسے ہلاکت میں نہیں ڈالتا (یعنی اگر شرک میں مبتلا ہو جائے گا تو پھر اس عظیم عمل کی وجہ سے بھی بخشش نہیں ہو گی) اور وہ آدمی عمل کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے بہتر ہو گا سوائے اس آدمی کے جو اس سے زیادہ افضل عمل کرے گا یعنی (یہ اس آدمی سے تو افضل نہیں ہو سکتا جس نے یہ کلمات) اس سے زیادہ کہے ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل) اس روایت کو امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی ابوذر سے صرف الا الشرک تک نقل کی ہے نیز ان کی روایت میں صلوۃ المغرب اور بیدہ الخیر کے الفاظ بھی منقول نہیں ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

 

                   نماز فجر کے بعد ذکر کی فضیلت

 

اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک موقع) رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا چنانچہ وہ لشکر (فتح و کامیابی کے بعد) بہت زیادہ مال غنیمت لے کر بہت جلد (مدینہ) واپس لوٹ آیا، ہم میں سے ایک آدمی نے جو لشکر کے ساتھ نہیں گیا تھا کہا کہ  ہم نے تو ایسا کوئی لشکر نہیں دیکھا جو اس لشکر کی طرح اتنی جلدی واپس آیا ہو اور اپنے ساتھ اتنا مال غنیمت بھی لایا ہو!(یہ سن کر) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  کیا میں تمہیں ایک ایسی جماعت کے بارے میں نہ بتلاؤں جو مال غنیمت میں اور جلد واپسی میں اس لشکر سے بھی بڑھی ہوئی ہے تو سنو وہ جماعت وہ ہے جو فجر کی نماز (کی جماعت) میں حاضر ہوئی ہو اور پھر سورج نکلنے تک بیٹھی ہوئی اللہ کا ذکر کرتی رہی ہو، یہی وہ لوگ ہیں جو جلد واپس آنے اور مال غنیمت لانے میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں۔ (یہ روایت ترمذی نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی حماد ابن ابو حمید ضعیف ہیں)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اس لشکر کے لوگوں کو صرف دنیا کی دولت ملی جو فانی ہے اور اس جماعت کے لوگوں کو تھوڑی سی دیر میں بہت زیادہ ثواب ملا جو باقی رہنے والا ہے جیسا کہ رب العزت کا ارشاد ہے۔

آیت (مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہ بَاقٍ ) 16۔ النحل:96)

جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے اور جو کچھ اللہ جل شانہ کے پاس ہے وہ باقی ہے۔

لہٰذا اس جماعت کے لوگ نہ صرف یہ کہ مال غنیمت کے اعتبار سے اس لشکر کے لوگوں سے افضل ثابت ہوئے بلکہ جلد واپس لوٹنے میں بھی ان سے بڑھے رہے۔

 

                    نماز میں جائز اور نا جائز چیزوں کا بیان

 

اس باب میں ان چیزوں کا ذکر کیا جائے گا جن کو نماز میں اختیار کرنا جائز ہے نیز ایسی چیزوں کو بھی ذکر کیا جائے گا جن کو نماز میں اختیار کرنا حرام، مکروہ اور مباح ہے اور جن سے نماز پر کسی بھی حیثیت سے اثر پڑتا ہے۔

 

                    نماز میں چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا مفسد نماز ہے

 

حضرت معاویہ ابن حکم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ (درمیان نماز) اچانک جماعت میں سے ایک آدمی کو چھینک آ گئی میں نے (جواب میں) یرحمک اللہ کہا (یہ سن کر) لوگوں نے مجھ کو گھورنا شروع کیا (کہ نماز میں چھینک کا جواب دیتے ہو) میں نے کہا کہ  تمہاری ماں تمہیں گم کر دے تم لوگ مجھے کیوں گھور رہے ہو لوگوں نے (میری گفتگو سن کر مجھے چپ کرانے اور اظہار تعجب کے لیے) اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے شروع کئے (جب) میں نے دیکھا کہ لوگ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں (تو مجھے بہت غصہ آیا کیونکہ مجھے اس فعل کی برائی کا علم نہ تھا) لیکن میں خاموش رہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھا چکے (تو کیا کہوں) میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قربان میں نے تو ایسا اچھا تعلیم دینے والا نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں دیکھا اللہ کی قسم ! نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا، اور نہ برا بھلا کہا، (ہاں اتنا) فرمایا کہ  نماز میں انسان کی بات مناسب نہیں ہے ، نماز تو تسبیح و تکبیر اور قرآن پڑھنے کا نام ہے یا آپ نے اس کی مانند کچھ اور فرمایا (یعنی راوی کو شک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی الفاظ فرمائے تھے یا اس کے مانند دوسرے الفاظ تھے میں نے عرض کیا  یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) میں ایک نو مسلم ہوں (ابھی تک دین کے تمام احکام مجھے معلوم نہیں تھے ہاں (اب) اللہ نے ہمیں اسلام کی دولت سے مشرف فرمایا ہے ، (تو دین کے تمام احکام سیکھ لوں گا پھر میں نے عرض کیا کہ) ہم میں سے بہت لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں (اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟) فرمایا  تم ان کے پاس ہر گز نہ جایا کرو میں نے عرض کیا ہم میں سے بہت لوگ بد فالی (بھی) لیتے ہیں۔ فرمایا  یہ ایک ایسی چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں (یعنی یہ ان کا محض وہم اور ذہن کی اختراع ہے جو کاموں کے نفع و نقصان میں کوئی اثر نہیں رکھتا) انہیں اپنے کام سے رکنا نہیں چاہئے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے پھر عرض کیا  ہم میں سے بعض لوگ خط کھینچتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ غیب کی کچھ باتیں بتاتے ہیں) فرمایا انبیاء میں سے ایک نبی تھے جو خط کھینچتے تھے لہٰذا جس آدمی کا خط کھینچنا اس نبی کے خط کھینچتے کے موافق ہو وہ اس بات کو حاصل کر لیتا ہے۔ (صحیح مسلم) مؤلف مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ لٰکِنِّیْ سَکَتُ کو صحیح مسلم اور کتاب حمیدی میں اسی طرح دیکھا ہے (البتہ) صاحب جامع الاصول نے لفظ لکنی کے اوپر لفظ  کذا) لکھ کر اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

 

تشریح

 

و اثکل امیاہ (یعنی تمہاری ماں تمہیں گم کرے) ان الفاظ کی تشریح  پہلے بھی کسی موقع پر کی جا چکی ہے چنانچہ وہاں بتایا جا چکا ہے کہ اہل عرب کے ہاں یہ الفاظ ایسے موقع پر استعمال کئے جاتے تھے کہ مخاطب کی کوئی بات یا اس کا کوئی فعل قابل تعجب ہوتا تھا۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں چھینکنے والے نے الحمد اللہ کہا ہو گا اس کے جواب میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یرحمک اللہ کہا۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا حرام ہے جس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اب اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مفسد نماز فعل کا ارتکاب کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں نماز لوٹانے کا حکم کیوں نہیں دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ وہ نو مسلم تھے اسلام قبول کئے ہوئے انہیں زیادہ دن نہیں گذرے تھے اس لیے انہیں معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ نماز میں گفتگو کرنا منسوخ ہو چکا ہے اب گفتگو کرنے سے نماز باطل ہو جاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی ناواقفیت کی بناء پر انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔

حضرت امام نووی فرماتے ہیں کہ  اگر کوئی آدمی نماز میں یرحمک اللہ  کہے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں دوسرے آدمی کو خطاب کرنا پایا جاتا ہے اور اگر کوئی  یرحمۃ اللہ  کہے تو نماز اس کی باطل نہیں ہوتی

حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ اگر کوئی اپنے نفس کے لیے یرحمک اللہ  کہے تو نماز فاسد نہیں ہوتی جیسا کہ یرحمنی اللہ کہنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔

ارشاد نبوت اِنَّ ھٰذِہِ الصَّلٰوۃَ لَا یَصْلُحْ فِیْھَا شَیْیءٌ مِنْ کَلاَمِ النَّاسِ (نماز میں انسان کی بات مناسب نہیں ہے) میں  کلام الناس اس لیے فرمایا گیا ہے تاکہ اس حکم سے وہ تسبیحات و اذکار نکل جائیں جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں جو اگرچہ انسان کا کلام ہی ہیں لیکن ان سے انسانوں کو خطاب کرنے یا ان کو سمجھانے کا ارادہ نہیں ہوتا لہٰذا یہاں  کلام الناس (انسان کی بات) سے مراد وہ کلام ہے جس میں لوگوں کو خطاب کیا گیا ہو یا خود مخاطب بننے کا ارادہ ہو۔

فقہاء لکھتے ہیں کہ  اگر کوئی آدمی کسی نمازی سے حالت نماز میں پوچھے کہ  تمہارے پاس کیا اور کس قسم کا مال ہے؟ اور وہ نمازی جواب میں یہ آیت پڑھے (وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ) 16۔ النحل:8) (گھوڑے ، خچر اور گدھے) یا کسی نماز پڑھنے والے کے آگے کوئی کتاب رکھی ہو اور ایک آدمی یحییٰ نامی سامنے کھڑا ہوا ہو اور اس آدمی کو خطاب کرنے کی نیت سے یہ آیت پڑھے (يٰيَحْيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ  ۭ) 19۔ مریم:12) (اے یحییٰ یہ کتاب لے لو) تو ان صورتوں میں نمازی نے اگرچہ قرآن کی آیتیں پڑھی ہیں لیکن یہ پڑھنا چونکہ ایک دوسرے آدمی کو خطاب کرنے کے ارادے سے ہے اس لیے نماز فاسد ہو جائے گی۔ ہاں اگر خطاب کا ارادے نہ کرے بلکہ قرأت کے ارادہ سے پڑھے گا تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔

کاہن کی تعریف : عرب میں کاہن ان لوگوں کو کہتے ہیں جو جنات شیاطین اور ارواح خبیثہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور شیاطین جھوٹی سچی خبریں ان کو بتا تے تھے ، اس طرح وہ لوگ علم غیب کا دعوی کر کے شیاطین و جنات کی پہنچائی ہوئی انہی باتوں کو غیب کی بات کہہ کر دوسرے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ ایسے لوگوں کے پاس جانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روکا ہے چنانچہ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی کسی عراف یا کاہن کے پاس جائے اور ان کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جانے تو اس نے بیشک محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اتاری گئی چیز (یعنی قرآن) سے کفر کیا۔  اس روایت کو امام احمد نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔

عراف کسے کہتے ہیں: کاہن کی تعریف تو معلوم ہو گئی، اب یہ بھی جان لیجئے عراف کسے کہتے ہیں۔ عراف اس آدمی کو کہتے ہیں جو کسی عمل یا جادو و منتر کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت بیان کرتا ہے ، چوری کی چیزوں کا پتہ بتاتا ہے اور مکان کی کسی گم شدہ چیز کا حال بتاتا ہے ان کے پاس بھی جانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔

عمل رمل: جس طرح جنات و شیاطین کے ذریعے یا علم نجوم کے ذریعہ غیب کی باتوں کا پتہ لگانے کی کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح رمل کے ذریعے بھی کچھ لوگ غیب کی باتوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

چنانچہ رمل اس علم کا نام ہے جس میں خطوط کھینچ کر اور ان کے ذریعے حساب لگا کر پوشیدہ باتوں کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حدیث کے الفاظ سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمل کے بارے میں ایک ایسا کلمہ بیان فرما دیا ہے جس سے کسی نہ کسی حد تک علم رمل کا جواز نکلتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

پہلے تو سمجھ لیجئے کہ وہ نبی جو علم رمل جانتے تھے اور خط کھینچتے تھے حضرت ادریس یا حضرت دانیال علیہما السلام تھے اس کے بعد حدیث کی طرف آئیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے علم رمل کا جواز نہیں ہوتا کیونکہ بقول خطابی یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تعلیق بالمحال کی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فَمَن وَّافَقَ خُطُّہ از راہ زجر فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کا خط کھینچنا اس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خط کھینچنے کے موافق نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ان نبی کا معجزہ تھا اور معجزہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات تک محدود رہتا ہے اور پھر یہ کہ اگر کوئی آدمی خط کھینچے اور کہے کہ یہ اس نبی کے خط کھینچنے اور کہے کہ یہ اس نبی کے خط کھینچنے کے موافق ہے تو یہ غلط ہو گا۔ اس لیے کہ خط کی موافقت صحیح طور پر تواتر یا نص سے ثابت ہو سکتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہو۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ منقول نہیں۔ لہٰذا ارشاد نبوت سے حاصل یہ نکلا کہ جب کسی رمال (علم رمل جاننے والا) اور اس نبی کے خط میں موافقت نہیں ہو سکتی تو بھی عمل رمل کو اختیار کرنا بھی درست نہیں۔

اسی طرح کہ دو اور سلسلے ہیں ان کا مدار حساب پر ہے جنہیں اصطلاحی طور پر عمل تکسیر اور عمل تخریج سے موسوم کیا جاتا ہے ان کے بارے میں بھی محققین علماء اور مشائخ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ اعمال بھی شرعاً جائز نہیں ہیں اور ان کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر مذکور ہو چکا ہے۔ آخر عبارت کا مطلب یہ ہے کہ لفظ  کذا  علامت صحت ہے یعنی اگر یہ ضرورت محسوس ہو کہ عبارت میں کسی ایسے لفظ پر کہ جس کے بارے میں عدم صحت کا گمان ہو گیا ہے کوئی ایسی علامت لگا دی جائے جس کے ذریعہ سے اس لفظ کا صحیح ہونا ثابت ہو جائے تو اس موقع پر اس لفظ پر کذا لکھ دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لفظ اس طرح صحیح ہے ، چونکہ اس حدیث کا لفظ  لکنی اصول میں ہے ، مگر مصابیح میں نہیں ہے ، اس صورت میں یہ ممکن تھا کہ اس لفظ کے عدم صحت کا گمان ہو جاتا۔ اس لیے صاحب جامع الاصول نے اس لفظ پر کذا لکھ کر اس بات کی تصحیح کر دی ہے کہ یہ لفظ اصول میں یوں ہی ہے اور یہ صحیح ہے۔

 

                   نماز میں سلام کا جواب دینا حرام ہے

 

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں ہوتے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے پھر کچھ دنوں کے بعد جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے (حسب معمول) ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے سلام کا جواب نہیں دیا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تو) ہم نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! ہم آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو نماز میں سلام کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم جواب دیتے تھے آج آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب کیوں نہیں دیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز خود ایک بڑا شغل ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت ملک حبشہ کا بادشاہ ایک عیسائی تھا جس کا لقب نجاشی تھا چونکہ یہ ایک عالم تھا اس لیے جب توریت و انجیل کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نبی برحق ہونا معلوم ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لا کر اللہ کے اطاعت گزار بندوں میں شامل ہو گئے ، جب ٩ھ میں ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت افسوس ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کے ہمراہ کھڑے ہو کر ان کے جنازے کی غائبانہ نماز پڑھی۔

چونکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت زیادہ عقیدت تھی اس لیے جب مسلمان مکہ میں کفار کے ہاتھوں بڑی اذیت ناک تکالیف میں مبتلا ہو گئے اور ان کی جانوں کے لالے پڑ گئے تو اکثر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایماء پر ان کے ملک کو ہجرت کر گئے انہوں نے اپنے ملک میں صحابہ کی آمد کو اپنے لیے دین و دنیا کی بہت بڑی سعادت سمجھ کر صحابہ کی بہت زیادہ خدمت کی اور ان کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے بعد میں جب صحابہ کو علم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے جا چکے ہیں تو وہ بھی مدینہ چلے آئے۔

چنانچہ اسی وقت کا واقعہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرما رہے ہیں کہ حبشہ سے واپس آنے والے قافلے میں میں بھی شریک تھا جب ہم لوگ مدینے پہنچ کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت نماز پڑھ رہے تھے ہم نے حسب معمول آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے استفسار پر فرمایا کہ نماز خود ایک بہت بڑا شغل ہے یعنی نماز میں قرآن و تسبیحات اور دعا مناجات پڑھنے کا شغل ہی اتنی اہمیت و عظمت کا حامل ہے کہ ایسی صورت میں کسی دوسرے آدمی سے سلام و کلام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے یا یہ کہ نمازی کا فرض ہے کہ نماز میں پورے انہماک کے ساتھ مشغول رہے اور جو کچھ نماز میں پڑھے اس پر غور کرے اور نماز کے سوا کسی دوسری جانب خیال کو متوجہ نہ ہونے دے اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں کسی کے سلام کا جواب دینا یا کسی سے گفتگو کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔

سر یا ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دینا مفسد نماز نہیں: شرح منیہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی نمازی کسی کے سلام کا جواب ہاتھ یا سر کے اشارے سے دے یا اسی طرح کوئی آدمی نمازی سے کسی چیز کو طلب کرے اور وہ سر یا ہاتھوں سے ہاں یا نہیں کا اشارہ کرے تو اس کی نماز فاسد تو نہیں البتہ مکروہ ہو جائے گی۔

 

                   نماز میں زمین کو برابر کرنے کا مسئلہ

 

اور حضرت معیقیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جس نے اپنے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تھا کہ (نماز میں) سجدے کی جگہ سے مٹی برابر کرتا ہوں اس کا کیا حکم ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم برابر کرنا ضروری ہی سمجھو تو صرف ایک مرتبہ ایسا کر لیا کرو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

شرح منیہ میں لکھا ہے کہ حالت نماز میں سجدے کی جگہ سے کنکر وغیرہ ہٹانا یا زمین برابر کرنا مکروہ ہے ہاں اگر صورت یہ ہو کہ سجدے کی جگہ سے کنکر ہٹائے بغیر نشیب و فراز کی وجہ سے زمین برابر کئے بغیر اس جگہ سجدہ کرنا ممکن نہ ہو تو وہاں سے کنکر ہٹا لیا جائے یا زمین برابر کر لی جائے مگر ایسا صرف ایک مرتبہ یا زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔

 

                   نماز میں خصر ممنوع ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں خصر (کوکھ پر ہاتھ رکھنے) سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس روایت میں لفظ خصر ہے بعض روایتوں میں نھی عن الاختصار اور ان یصلی مختصرا کے الفاظ بھی منقول ہیں۔

خصر کی تعریف: لغت میں خصر انسان کی کمر اور کوکھ کو کہتے ہیں ، علماء کے ہاں  خصر و اختصار کی تعریف کمر یا کوکھ پر ہاتھ رکھنا  کی جاتی ہے حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نماز میں کوئی آدمی اپنی کوکھ یعنی پہلو پر ہاتھ رکھ کر کھڑا نہ ہو۔

نماز میں خصر ممنوع کیوں ہے : سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے سے منع کیوں فرمایا گیا؟ جواب یہ ہے کہ اس کی مختلف وجوہ ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا سماجی حیثیت سے کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی جاننے والے جانتے ہیں کہ اکثر و بیشتر کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونا یا چلنا دنیا کے ان بد نصیب لوگوں کا شیوہ ہے جنہیں دنیا و سماج کے ہر طبقے میں انتہائی ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یعنی  زنخے اور ہیجڑے

اس کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں صراحت کے ساتھ اس کی توجیہ یہ فرمائی گئی ہے کہ اختصار اہل نار کی حالت آرام کا ایک ذریعہ ہے جس کی تشریح  یوں کی جاتی ہے کہ قیامت کے روز میدان حشر میں جب تمام لوگ حساب کتاب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے تو اس وقت کثرت مشقت اور لعب کی وجہ سے وہ لوگ جن کے حصے میں دوزخ کی آگ ہو گی اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوں گے تاکہ اس طرح کچھ دیر کے لیے آرام مل جائے جیسا کہ عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی آدمی ایک طویل عرصہ تک کھڑا کھڑا تھک جاتا ہے تو ایک ٹانگ پر پورے بدن کا بوجھ ڈال کر اور کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو جاتا ہے یا یہ کہ اس حدیث میں اہل نار سے مراد یہودی ہیں کہ ان کی عادت اسی طرح کھڑے ہونے کی ہے۔

تیسری توجیہ ایک روایت کی روشنی میں یہ ہے کہ جس وقت شیطان مردود کو زمین پر اتارا گیا اور اسے ملعون قرار دیا گیا اس وقت وہ اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا تھا۔

لہٰذا ان تمام توجیہات کے پیش نظر کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونا چونکہ اہل نار اور شیطان ملعون کی صفت ہے اس لیے ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے نہ ہوں نھی عن الخصر کا صحیح مطلب اور تشریح  جو صحابہ اور علمائے سلف سے منقول ہیں مذکورہ بالا ہے لیکن بعض حضرات نے اس حدیث کی تشریح  یہ بھی کی ہے کہ خصر (مخصرہ) کے معنی میں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں عصا پر ٹیک لگا کر کھڑا نہ ہونا چاہئے اس کے علاوہ دیگر تشریحات بھی کی گئی ہیں مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے صحیح تشریح اور توضیح وہی ہے جو پہلے ذکر کی گئی۔ (اشعۃ اللمعات)

 

                   نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں پوچھا کہ آیا یہ مفسد نماز ہے یا نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ اچک لینا ہے کہ شیطان بندے کی نماز میں سے اچک لیتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی نماز میں پوری توجہ اور پورے آداب کی ساتھ نہیں کھڑا رہتا بلکہ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو شیطان مردود ایسے نمازی کی نماز کے کمال کو اچک لیتا ہے یعنی اس طرح نماز کا کمال باقی نہیں رہتا یہاں ادھر ادھر دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ نماز میں کوئی آدمی گردن گھما کر ادھر ادھر اس طرح دیکھے کہ منہ قبلے کی طرف سے پھر جائے تو اس کا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے آدمی کی نماز مکروہ ہو جاتی ہے۔

اور اگر کوئی آدمی نماز میں ادھر ادھر اس طرح دیکھے کہ منہ کے ساتھ ساتھ سینہ بھی قبلے کی طرف بالکل پھر جائے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ کن انکھیوں سے ادھر ادھر دیکھنے سے نہ تو نماز فاسد ہوتی ہے اور نہ مکروہ ہوتی ہے البتہ یہ بھی خلاف اولیٰ ہے۔

 

 

                   نماز میں دعا کے وقت نگاہ آسمان کی طرف نہ اٹھانی چاہئے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ لوگ نماز میں دعا کے وقت اپنی نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھانے سے باز رہیں ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے از راہ زجر یہ فرمایا ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ نماز میں دعا مانگنے کے وقت اپنی نگاہوں کو آسمان کی طرف نہ اٹھائیں ورنہ ان کی بینائی چھین لی جائے گی۔

اس سلسلے میں یہ مسئلہ ہے کہ یوں تو نماز میں مطلقاً اور خاص طور پر دعا کے وقت آسمان کی طرف نگاہ اٹھانی مکروہ ہے کیونکہ اس طرح اس بات کا وہم پیدا ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے لیے آسمان میں مکان متعین ہے کہ وہ صرف آسمان ہی پر موجود ہے حالانکہ وہ مکانیت سے پاک ہے وہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے۔

نماز کے علاوہ دوسرے مواقع پر آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کے بارے میں اختلاف ہے بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ بھی مکروہ ہے اور بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ جائز ہے مگر صحیح یہ ہے کہ نماز کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی دعا کے وقت نگاہ اوپر نہ اٹھانی چاہیے

ایک روایت میں منقول ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں اپنی نظر مبارک آسمان کی طرف اٹھاتے تھے مگر جب یہ آیت نازل ہوئی آیت (الَّذِيْنَ ہمْ فِيْ صَلَاتِہمْ خٰشِعُوْنَ) 23۔ المومنون:2) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی نگاہ مبارک نیچے رکھنے لگے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی نواسی کو نماز میں کندھے پر بٹھانا

 

اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم (ایک روز) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے (اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نواسی) امامہ بنت ابوالعاص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک کندھے پر بیٹھی تھیں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع کرتے امامہ کو (اشارے سے نیچے) بٹھا دیتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ابوالعاص سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے داماد تھے جن کی شادی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی حضرت زینب سے رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوئی تھی انہیں کی بیٹی کا نام امامہ تھا۔

ایک اشکال اور اس کا جواب: یہاں یہ ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا امامہ کو اٹھانا اور نیچے بٹھانا اور پھر اٹھا کر کندھے پر رکھنا فعل کثیر ہوا اور اگر فعل کثیر نہ بھی ہو (فعل کثیر وہ ہے جو بار بار کیا جائے اور خصوصاً دونوں ہاتھوں سے کیا جائے۔) تو قلیل فعل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اس لیے حالت نماز میں یہ فعل مکروہ ضرور تھا لہٰذا سمجھ میں نہیں آتا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کیوں کیا؟

خطابی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا امامہ کو اٹھانا اور بٹھانا قصداً نہ تھا چونکہ امامہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت زیادہ مانوس تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک کندھے پر چڑھ کر بیٹھ جاتی تھیں اور پھر رکوع کے وقت کندھے سے گر پڑتی تھیں گویا اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں اتارتے تھے لہٰذا ان کو کندھے سے اتارنا یا کندھے پر بٹھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فعل نہیں ہوا بلکہ اس فعل کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف مجازاً کر دی گئی اس توجیہ کے پیش نظر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فعل کثیر تھا کیونکہ فعل کثیر تو اس فعل کو کہتے ہیں جو پے در پے کیا جائے اور یہاں پے در پے نہیں پایا جاتا۔ ایک توجیہہ یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل اس وقت کا ہے جب نماز میں فعل کثیر حرام نہیں ہوا تھا یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مخصوص تھا۔

 

                   نماز میں جمائی کے وقت منہ بند کر لینا چاہیے

 

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اسے چاہئے کہ وہ حتی الامکان اسے روکے کیونکہ (جمائی کے وقت) شیطان(منہ میں) گھس جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)

اور بخاری کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ  جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو حتی الامکان اسے روکنا چاہئے اور  اور  ہا  نہ کہے (جیسا کہ جمائی کے وقت بے اختیار منہ سے یہ لفظ نکل جاتا ہے) اس لیے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے اور وہ اس سے ہنستا ہے۔

 

تشریح

 

پیٹ بھر نے حواس کی کدورت اور بدن کے ثقل کی وجہ سے جمائی آتی ہے اور یہ عبادت میں کسل و سستی کا باعث بنتی ہے اس لیے اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے کہ جمائی لیتے وقت شیطان منہ میں گھس جاتا ہے یعنی ایسی حالت میں اس کے لیے نمازی کو بہکانے اور عبادت سے روکنے کا موقعہ بہت اچھی طرح میسر آتا ہے اور اس کے ہنسنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسی حالت میں نمازی کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے کیونکہ اس سے عبادت میں کسل اور سستی پیدا ہو جاتی ہے۔ جو شیطان کا عین منشاء ہے۔ لہٰذا فرمایا گیا ہے کہ نماز میں جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ حتی الامکان جمائی کو روکے اور ایسی صورت میں منہ بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہونٹ بھینچ لئے جائیں اور نچلا ہونٹ دانتوں میں پکڑ لیا جائے یا جب جمائی آئے تو بائیں ہاتھ کی پشت منہ پر رکھ لی جائے۔

بعض فرماتے ہیں کہ جمائی روکنے کی سب سے بہتر ترکیب یہ ہے کہ جب جمائی آئے تو فوراً دل میں یہ خیال پیدا کر لینا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی جمائی نہیں آئی۔ محض اس خیال میں جمائی رک جائے گی کہا جاتا ہے کہ یہ طریقہ مجرب ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جن کے ساتھ ایک واقعہ

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آج رات جنوں میں سے ایک دیو (یعنی ایک سرکش شیطان) چھوٹ کر میرے پاس آیا تاکہ میری نماز میں خلل ڈالے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس پر حاوی کر دیا چنانچہ میں نے اسے پکڑ لیا اور چاہا کہ مسجد (نبوی) کے ستونوں میں سے کسی ستون سے اسے باندھ دوں تاکہ تم سب لوگ اسے دیکھ لو پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا یادآ گئی آیت (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَہبْ لِيْ مُلْكاً لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ) 38۔ص:35) اے پروردگار مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لیے مناسب نہ ہو چنانچہ میں نے اسے ذلیل بنا کر چھوڑ دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا میں بادشاہت سے مراد جنات و شیاطین کو مسخر کرنا اور ان پر تصرف حاصل کرنا ہے چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا اپنے لیے کی تھی اور یہ مرتبہ صرف اپنے لیے ہی چاہا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں چاہا کہ اس شیطان کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر ایسا طریقہ اختیار کریں کہ جس سے حضرت سلیمان کی اس خصوصیت پر کچھ اثر پڑے اور اپنے تصرف کا اظہار ہو ورنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خود بھی یہ خصوصیت اور مرتبہ اور شیاطین و جنات پر تصرف کی قدرت حضرت سلیمان علیہ السلام سے زیادہ حاصل تھی۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ شیطان کو چھونا نماز کو نہیں توڑتا۔

 

                   نماز میں کسی خاص موقعہ پر اشارہ کیا جا سکتا ہے

 

اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس آدمی کو نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے چاہئے کہ وہ سبحان اللہ کہے اور دستک دینا یعنی تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ فرمایا سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے مخصوص ہے اور تالی بجانا عورتوں کے لیے (مخصوص) ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ حالت نماز میں اگر کوئی خاص واقعہ پیش آ جائے مثلاً کوئی آدمی گھر میں نماز پڑھ رہا ہے اور باہر دروازے پر اسے کسی نے آواز دی یا کسی نے گھر میں آنے کی اجازت طلب کی اور اسے معلوم نہیں کہ صاحب خانہ نماز پڑھ رہا ہے اور باہر دروازے پر اسے کسی نے آواز دی پھر یہ کہ گھر میں کوئی دوسرا آدمی ایسا موجود نہیں ہے جو باہر کی آواز کا جواب دے تو ایسی صورت میں مرد نمازی کو چاہئے کہ وہ بآواز بلند  سبحان اللہ  کہہ کر نماز میں مشغول ہونے کا اشارہ کر دے۔

اسی طرح اگر کوئی عورت نماز پڑھ رہی ہو تو مذکورہ بالا صورت میں اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ سبحان اللہ نہ کہے بلکہ تالی بجا دے تاکہ باہر سے آواز دینے والا سمجھ لے کہ گھر میں صرف عورت موجود ہے اور وہ بھی نماز پڑھ رہی ہے۔ عورتوں کو سبحان اللہ کہنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ جس طرح وہ خود غیر مردوں کے سامنے نہیں آسکتی اسی طرح وہ اپنی آواز بھی غیر مرد کو نہیں سنا سکتی۔

اور ایسے موقعہ پر عورتوں کے لیے تالی بجانے کا بھی ایک طریقہ ہے وہ یہ کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر ماری جائے۔ ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر نہ مارا جائے جیسا کہ گانے والیاں تالی بجاتی ہیں کیونکہ اس طرح تالی بجانے سے نماز فاسد ہو جائے گی۔

 

                    نماز میں سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے

 

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ملک حبشہ سے واپسی سے قبل ہم سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں ہوتے تھے سلام کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے سلام کا جواب دے دیا کرتے تھے پھر جب ہم ملک حبشہ سے واپس ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب نہیں دیا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا  اللہ تعالیٰ اپنے جس حکم کو چاہتا ہے ظاہر کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اب یہ حکم ظاہر کیا ہے کہ نماز میں بات چیت نہ کیا کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے سلام کا جواب دیا اور اس کے بعد فرمایا نماز صرف قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لیے ہے لہٰذا جب تم نماز کی حالت میں ہو تو تمہارا بھی یہی حال ہونا چاہئے یعنی صرف قرآن پڑھو اور اللہ کا ذکر کرو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد سلام کا جواب دینا مستحب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی استنجاء کرتا ہوا ہو یا قرآن پڑھتا ہوا ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسی حالت میں اسے سلام کرے تو اس کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ ان امور سے فراغت کے بعد سلام کا جواب دے۔

 

                   نماز میں اشارے سے سلام کا جواب دینے کا مسئلہ

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ جب سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم حالت نماز میں ہوتے تھے اور اس وقت کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام کا جواب کس طرح دیتے تھے؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دیا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی) اور نسائی میں ایک روایت بجائے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اچھی طرح منقول ہے (یعنی ترمذی کی روایت میں تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ سوال کیا اور نسائی کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سوال کیا تھا)۔

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر حالت نماز میں ہوتے اور اس وقت کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے سلام کا جواب اپنے ہاتھ کے اشارے سے دیا کرتے تھے اور اشارہ کرنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ہاتھ کا پنجہ کھول کر ہتھیلی کو زمین کی طرف لے جاتے تھے جیسا کہ ابوداؤد وغیرہ کی روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم صرف انگلی سے اشارہ کر لینے پر اکتفا کر لیا کرتے تھے۔

نماز میں سلام کا جواب ہاتھ یا سر کے اشارے سے دینا مکروہ ہے : فتاویٰ ظہیر میں مذکورہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حالت نماز میں کسی کے سلام کے جواب میں ہاتھ یا سر کا اشارہ کرے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔

خلاصہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی سر یا ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دے گا۔ تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ صحیح اور مفتی بہ قول جو شرح منیہ اور شامی وغیرہ میں مذکور ہے وہ یہ ہے کہ نمازی کو کسی کے سلام کا جواب ہاتھ یا سر کے اشارہ سے دینا مکروہ تنزیہی ہے لہٰذا اب اس حدیث کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حالت نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارہ سے اس وقت دیا کرتے تھے جب نماز میں بات چیت ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا جب نماز میں کسی قسم کی کوئی بھی گفتگو ممنوع قرار دے دی گئی تو سلام کا جواب بھی زبان یا اشارہ سے دینا منسوخ ہو گیا کیونکہ اشارہ کرنا بھی ایک طرح کلام ہی کے معنی ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ (ایک روز) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گذر ایک آدمی پر ایسی حالت میں ہوا کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آدمی کو سلام کیا اور اس نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلام کا جواب زبان سے دیا، حضرت عبداللہ ابن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی طرف لوٹے اور فرمایا کہ  جب تم میں سے کسی کو نماز پڑھنے کی حالت میں سلام کیا جائے تو اس کو بولنا نہیں چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ سلام کا جواب دینے کے لیے) اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دے۔ (مالک)

 

تشریح

 

اسی باب میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت (نمبر ١٢) گذر چکی ہے۔ اس کے فائدہ کے ضمن میں نماز کی حالت میں ہاتھ یا سر کے اشارے سے سلام کا جواب دینے کا مسئلہ بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ حکم پہلے تھا پھر بعد میں اشارے سے بھی سلام کا جواب دینا منسوخ ہو گیا۔

 

                   نمازی چھینکنے کے بعد حمد بیان کرنا

 

اور حضرت رفاعہ ابن رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی نماز کے درمیان مجھے چھینک آ گئی میں نے یہ کلمات حمد کہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْداً کَثِیْراً طَیِّباً مُبَارَکاً فِیْہِ مُبَارَکاً عَلَیْہ کَمَا یُحِبُّ رَبَّنَا وَ یَرْضٰی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے بہت زیادہ تعریف بہت پاکیزہ یعنی خالص بابرکت) اور برکت کی گئی جیسی (تعریف) کہ دوست رکھتا ہے ہمارا رب اور پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز پڑھ چکے تو (ہماری طرف) متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ نماز میں باتیں کرنے والا کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ناراضگی کے خوف) سے کوئی نہیں بولا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری مرتبہ یہی فرمایا جب بھی کوئی نہیں بولا جب تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی فرمایا تو رفاعہ نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) میں ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے (میں نے دیکھا ہے) کہ تیس سے زیادہ فرشتے ان کلمات کو لے جانے میں جلدی کر رہے تھے کہ ان میں سے کون پہلے اس کو لے جائے۔ (جامع ترمذی ، ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں چھینکنے والے کے لئے حمد بیان کرنا جائز ہے لیکن اولیٰ یہ ہے کہ حمد دل میں کہے یا خلاف اولیٰ سے بچنے کی خاطر چھینک کے بعد سکوت اختیار کرے جیسا کہ شرح منیہ میں مذکور ہے۔

 

                   جمائی شیطانی اثر ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نماز میں جمائی لینا شیطان (کے اثر) سے ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اسے حتی الامکان روکنا چاہئے۔ جامع ترمذی کی ایک دوسری روایت اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں (کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ نماز میں جسے جمائی آئے تو اسے اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لینا چاہئے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ جمائی کا آنا شیطانی اثر کی وجہ سے ہے کیونکہ جمائی عبادت میں کسل و سستی اور نیند و غفلت کا باعث بنتی ہے اور شیطان ان چیزوں سے خوش ہوتا ہے اس لیے جمائی کو شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

 

                   نماز کے راستے میں انگلیوں کے درمیان تشبیک نہ کرنے کا حکم

 

اور حضرت کعب ابن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اچھی وضو کرے پھر نماز کا ارادہ کر کے مسجد کی طرف چلے (تو اسے چاہیے کہ راستے میں انگلیوں کے درمیان تشبیک نہ کرے کیونکہ وہ اس وقت سے گویا نماز میں ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، جامع ترمذی ، ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی وضو کرے تو اسے چاہئے کہ وہ وضو کی تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھے اور حضور قلب کے ساتھ وضو کرے تاکہ وضو پورے کمال اور حسن کے ساتھ ادا ہو۔ چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ جس قدر توجہ اور حضور قلب وضو میں حاصل ہو گا اسی قدر نماز میں خشوع و خضوع اور توجہ پیدا ہو گی۔

تشبیک کیا ہے؟ حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی وضو کے بعد نماز کے ارادے سے مسجد کی طرف چلے تو راستے میں انگلیوں کے درمیان تشبیک نہ کرے یعنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر کھیلتا ہوا نہ چلے کیونکہ جب وہ نماز کی نیت سے گھر سے نکلا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں ہے اور خشوع و خضوع کے منافی ہونے کی وجہ سے تشبیک چونکہ نماز میں ممنوع ہے اس لیے نماز کے راستے میں بھی یہ ممنوع ہے اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جو چیز نماز میں ممنوع ہے وہ نماز کے لیے مسجد آتے ہوئے راستے میں بھی ممنوع ہو گی۔

اس حدیث سے اس بات پر تنبیہ مقصود ہے کہ بندے کو چاہئے کہ وہ نماز کے راستے میں حضور اور خشوع و ادب اور وقار کے ساتھ چلے محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب صحیح البخاری میں ایک باب  مسجد میں تشبیک کے موضوع پر قائم کیا ہے جس کے تحت انہوں نے دو حدیثیں نقل کی ہیں  دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسجد میں انگلیوں کے درمیان تشبیک جائز ہے لہٰذا علماء کرام نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے ثابت شدہ ممانعت کا تعلق اس صورت میں ہے کہ جب کوئی آدمی انگلیوں کے درمیان تشبیک محض کھیل اور تفریح طبع کی خاطر کرے اور کوئی آدمی بطریق تمثیل کرے تو جائز ہے یا پھر صحیح البخاری کی روایت کردہ احادیث کی یہ توجیہ بھی کی جا سکتی ہے کہ ان احادیث کا تعلق اس وقت سے ہے جب کہ انگلیوں کے درمیان تشبیک کی ممانعت کا حکم نہیں ہوا تھا۔ وا اللہ اعلم۔

 

                   نماز میں ادھر ادھر دیکھنے سے ثواب میں کمی ہو جاتی ہے

 

اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جب کوئی بندہ نماز میں ہوتا ہے تو اللہ عز و جل اس بندے کی طرف اس وقت تک متوجہ رہتا ہے جب تک وہ ادھر ادھر (گردن پھیر کر نہیں دیکھتا چنانچہ جب بندہ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے منہ پھیر لیتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منہ پھیرنے سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی نمازی حالت نماز میں گردن پھیر کر ادھر ادھر دیکھتا ہے تو اس کے ثواب میں کمی ہو جاتی ہے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک صحیح روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جب بندہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے۔ تو پروردگار اپنی بزرگ و برتر ذات کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوتا ہے (مگر) جب وہ بندہ (نماز میں) ادھر ادھر دیکھتا ہے اور اپنی نظر کو غیر کی طرف متوجہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم تو کس کی طرف دیکھ رہا ہے کیا تیرے لیے مجھ سے بھی کوئی بہتر ہے کہ جس کی طرف تیری نظر متوجہ ہو رہی ہے؟ میری طرف اپنا منہ پھیر جب بندہ دوبارہ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو پروردگار پھر یہی فرماتا ہے اور جب تیسری مرتبہ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو اللہ جل شانہ اپنے روئے مبارک جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے اس بندے کی طرف سے پھیر لیتا ہے۔

 

                   نماز میں نظر سجدے کی جگہ پر رکھنی چاہیے

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس نماز میں تم اپنی نگاہ وہاں رکھو جہاں سجدہ کرتے ہو اس روایت کو بیہقی نے سنن کبیر میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق حسن نقل کیا ہے جس کو جزری نے مرفوع کیا ہے۔

 

تشریح

 

اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پوری نماز میں نظر سجدے کی جگہ رکھنی چاہئے چنانچہ شوافع کا عمل اسی پر ہے مگر علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے  کہ مستحب یہ ہے کہ حالت قیام میں نظر سجدے کی جگہ، رکوع میں پشت قدم پر، سجدے میں ناک کی طرف اور بیٹھنے کی حالت میں زانو پر رکھنی چاہئے یہی مسلک حنفیہ کا بھی اتنے اضافے کے ساتھ ہے کہ سلام کے وقت نظر کندھوں پر رکھنی چاہئے بعض علماء کا یہ بھی قول ہے کہ حرم شریف میں نماز پڑھتے ہوئے نظر کعبہ پر رکھنی چاہئے۔

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے اصل مشکوٰۃ میں روایت کے بعد جگہ خالی ہے بعد میں کسی شارح نے  البیہقی سے آخر تک کی عبادت کا اضافہ کیا ہے۔

 

 

                   نماز میں ادھر ادھر دیکھنے پر وعید

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے سے بچو کیونکہ نماز میں (گردن پھیر کر) ادھر ادھر دیکھنا (آخرت میں) ہلاکت کا سبب ہے اور اگر دیکھنا ضروری ہو تو نفلوں میں (تو خیر مضائقہ نہیں) مگر فرضوں میں (ہرگز درست) نہیں۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

نماز میں گردن ادھر ادھر پھیر کر دیکھنا آخرت میں ہلاکت کا سبب اس لیے ہے کہ ایسا کرنے والا دراصل شیطان کی اطاعت کرنا ہے کیونکہ شیطان کا بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ بندہ نماز میں پوری توجہ اور لگن کے ساتھ نہ رہے بلکہ ان کی نظر اور اس کاخیال ادھر ادھر بھٹکتا رہے۔

حدیث کے الفاظ فان کان لا بد کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارا احساس و شعور اور تمہاری سعادت اس بات سے متاثر نہیں ہوتی کہ تمہاری نماز میں نقصان ہو جائے یا نماز کا کمال ختم ہو جائے تو کم از کم فرض نماز میں تو ایسا نہ کرو کہ ادھر ادھر دیکھ کر اس نماز کے کمال کو ختم کرو ہاں نفل نماز میں تو کسی نہ کسی حد تک انگیز بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ نفل نماز فرض نماز کے مقابلے میں کچھ سہل ہے کہ فرض نماز کے لیے بہت زیادہ اور کامل اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں ذرا سا بھی نقصان اخروی حیثیت سے تباہی و ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے اور عقلمندی اور سعادت کا تقاضا تو یہ ہونا چاہئے کہ ادھر ادھر دیکھ کر نفل نماز میں کوئی نقصان نہ پیدا کرنا چاہیے حقیقت میں نفل نماز کا نقصان فرض نماز کے نقصان کا باعث ہے اس لیے کہ نوافل در حقیق فرائض کی تکمیل کرنے والے ہیں لہٰذا حدیث کے اس جملے سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ نفل نماز میں ادھر ادھر دیکھنا مکروہ نہیں بلکہ اس کا مقصد اس بات کی طرف رغبت دلاتا ہے کہ فرض نماز اپنی عظمت و اہمیت کے اعتبار سے اس بات کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اس قسم کے افعال کا ارتکاب کر کے نماز میں نقصان پیدا کیا جائے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کی کراہت فرض نماز کی بہ نسبت نفل نماز میں کم ہے۔

 

                   نماز میں کن انکھیوں سے ادھر ادھر دیکھنا مکروہ نہیں ہے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں کن انکھیوں سے دائیں بائیں دیکھتے تھے مگر پیچھے پیٹھ کی طرف اپنی گردن کبھی نہیں موڑ تے تھے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں دائیں بائیں کن انکھیوں سے یا تو اس لیے دیکھتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز میں اس طرح دیکھنا نماز کو باطل نہیں کرتا یا پھر اپنے پیچھے کھڑے ہوئے مقتدیوں کے احوال دیکھنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس طرح دیکھا کرتے تھے۔

بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنا تو مکروہ ہے مگر کن اکھیوں سے اس طرح دیکھنا کہ گردن کا رخ تبدیل نہ ہو مکروہ نہیں ہے اگرچہ اس طرح نہ دیکھنا بھی اولیٰ ہے۔

 

                   نماز میں شیطانی اثرات

 

اور حضرت عدی ابن ثابت اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے والد یعنی عدی کے دادا سے جنہوں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا ہے نقل کرتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نماز میں چھینکنا، اونگھنا ، جمائی کا آنا اور حیض کا آنا اور قے کا ہونا اور نکسیر کا پھوٹنا شیطان کے (اثر) سے ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں جب نماز میں پیدا ہوتی ہیں تو شیطان بہت زیادہ خوش ہوتا ہے کیونکہ ان چیزوں سے نماز پر اثر پڑتا ہے۔ یہاں چھینک سے مراد بکثرت چھینکنا ہے لہٰذا یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چھینکنے کو پسند کرتا ہے کیونکہ اس چھینکنے سے مراد معتدل طریقے پر چھینکنا ہے اور معتدل کا اطلاق تین سے کم پر ہوتا ہے۔

ان دونوں احادیث کے درمیان ظاہری وجہ تطبیق یہ ہو سکتی ہے کہ  نماز کے علاوہ دوسرے اوقعات میں چھینکنے کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور مکروہ چھینک وہ ہے جو نماز میں آئے۔

ان چیزوں سے شیطان اس لیے خوش ہوتا ہے کہ چھینکنا قرأت و حضور کے لیے مانع ہے اور اونگھ اور جمائی عبادت میں کسل و سستی کا باعث ہیں اور حیض و نکسیر و قے مفسد صلوٰۃ ہیں۔

حدیث میں پہلی تین چیزوں (چھینک ، اونگھ ، جمائی کے) ذکر کے بعد  فی الصلوٰۃ ذکر کے آخر کی تین چیزیں (یعنی حیض، قے ، نکسیر) کو جدا کر دیا گیا ہے اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ پہلی تین چیزیں مفسد صلوٰۃ نہیں ہیں بلکہ مکروہ ہیں جب کہ آخری تینوں چیزیں مفسد صلوٰۃ ہیں یعنی ان سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔

 

                   رونے سے نماز باطل نہیں ہوتی

 

اور حضرت مطرف ابن عبداللہ بن شخیر اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں ایک روز سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر سے دیگ کے جوش جیسی آواز آ رہی تھی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رو رہے تھے ، اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ سے چکی کی سی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رونے سے نماز باطل نہیں ہوتی ہدایہ میں اس مسئلے کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز میں بہت روئے اور دوزخ یا عذاب وغیرہ کے ذکر اور یاد سے متاثر ہو کر آہ کرے یا بآواز روئے تو اس کی نماز باطل نہیں ہو گی اور اگر کوئی آدمی کسی جسمانی درد اور تکلیف کی شدت کی وجہ سے آہ کرے یا بآواز بلند روئے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔

 

                   نماز میں کنکریاں نہ ہٹانے کا حکم

 

اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی نماز کے لیے کھڑا ہو جائے تو اسے ہاتھ سے کنکری نہیں ہٹانی چاہیے کیونکہ رحمت اس کے سامنے ہوتی ہے۔  (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ِ سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

رحمت سامنے ہوتی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی دنیا سے منہ موڑ کر نماز کی حالت میں اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے سامنے رحمت الہٰی کا نزول ہوتا ہے اس لیے ایسے مقدس و باعظمت موقع پر نمازی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کنکریوں سے کھیل کرے یا اس قسم کا کوئی دوسرا فعل کر کے بے ادبی کا معاملہ کرے کہ جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے انوار فضل و رحمت سے محروم ہو جائے۔

 

                   سجدے کی جگہ کو صاف کرنے کے لیے پھونک نہ ماری جائے

 

اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے ایک غلام جس کا نام افلح تھا دیکھا کہ وہ جب سجدہ کرتا ہے تو سجدے کی جگہ کو صاف کرنے کے لیے پھونک مارتا ہے تاکہ منہ خاک آلود نہ ہو جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ  افلح اپنے منہ پر مٹی لگنے دو۔ (جامع ترمذی)

 

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ سجدے کی جگہ کو پھونک مار کر صاف نہ کرو بلکہ اپنے منہ کو خاک آلود ہو جانے دو کیونکہ بار گاہ خداوندی میں حاضری کے وقت اظہار عجز و بے کسی کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ اس سے بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے۔

 

                   کوکھ پر ہاتھ رکھنا دوزخیوں کے آرام لینے کی صورت ہے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز میں اختصار (یعنی کوکھ پر ہاتھ رکھنا) دوزخیوں کے آرام لینے کی صورت ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس باب کی حدیث نمبر ٤ کے فائدے کے ضمن میں خصر و اختصار کی وضاحت کی جا چکی ہے وہاں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ میدان حشر میں جب دوزخی کھڑے کھڑے بہت زیادہ تکلیف محسوس کریں گے تو وہ اپنے کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جائیں گے اور اس طرح وہ کچھ دیر کے لیے آرام اور سکون کی خواہش کریں گے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونے کو منع فرمایا ہے کہ دوزخیوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

 

                   نماز میں سانپ و بچھو مارنے کا مسئلہ

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ نماز میں دو کالوں یعنی سانپ اور بچھو کو مار ڈالو۔ احمد ، ترمذی اور نسائی بالمعنیٰ)

 

تشریح

 

ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے سانپ یا بچھو سامنے آ جائے تو ان کو ایک چوٹ یا دو چوٹ کے ساتھ مارنا چاہیے اس سے زیادہ چوٹ نہ مارنی چاہیے کیونکہ یہ عمل کثیر ہو جائے گا جس سے نماز فاسد ہو جائے گی۔ شرح منیہ میں بعض مشائخ کا قول مذکور ہے کہ یہ (یعنی نماز میں سانپ بچھو مارنے کا حکم) اس صورت میں ہے جب کہ نمازی کو بہت زیادہ یعنی تین قدم پے در پے چلنا نہ پڑے اور نہ زیادہ مشغولیت ہو یعنی تین چوٹ پے در پے مارنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اگر کوئی نمازی سانپ یا بچھو مارنے کی غرض سے پے در پے تین قدم چلے گا یا پے در پے چوٹیں مارے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ کیونکہ اتنا زیادہ چلنا یا اتنی مقدار مشغولیت اختیار کرنا عمل کثیر ہے۔ سرخسی نے اسے مبسوط میں ذکر کیا ہے اور پھر کہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ اس سلسلے میں یہ فرق نہ کیا جائے کہ تین قدم چلنے سے یا تین چوٹیں مارنے سے نماز فاسد ہو جائے گی کیونکہ جس طرح حدیث پیش آ جانے (یعنی وضو ٹوٹ جانے کی شکل میں زیادہ چلنے کی سہولت دی گئی ہے اسی طرح اس مسئلے میں بھی سہولت دی گئی ہے۔ لیکن تحقیقی طور پر صحیح بات یہی ہے کہ تین قدم چلنے یا تین چوٹ مارنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔

البتہ اتنی سہولت ہے کہ ایسے موقع پر جب کہ سانپ یا بچھو نماز میں سامنے آ جائے اور اس کا مارنا ضروری ہو تو ایسی صورت میں ان کو مارنے کے لیے نماز توڑ دینا مباح ہے جیسا کہ کسی مظلوم کی فریاد رسی یا کسی کو ڈوبنے اور ہلاکت سے بچانے کی خاطر نماز توڑ دینا مباح ہے یعنی اگر کسی کے چھت سے گر جانے یا آگ میں جل جانے یا کنویں وغیرہ میں ڈوب جانے کا قوی خطرہ ہو اور قریب ہی ایک آدمی نماز میں ہو تو اس نمازی کو چاہئے کہ نماز کو توڑ دے اور انہیں بچانے کی کوشش کرے یا اسی طرح کسی نمازی کو حالت نماز میں اپنی یا غیر کی کسی چیز کے ضائع ہو جانے کا خوف ہو اور اس کی قیمت ایک درہم تک ہو تو اسے اس چیز کو بچانے کے لیے نماز توڑ دینا جائز ہے۔

اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف کالے سانپ ہی کو مارا جا سکتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حدیث میں کالے سانپ کی تخصیص محض تغلیباً کی گئی ہے چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ ہر قسم کے سانپوں کو مارنا جائز ہے کالے سانپوں ہی کی تخصیص نہیں ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے حالت میں دروازہ کھولتے تھے

 

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں نفل نماز میں مشغول ہوتے اور دروازہ بند رہا کرتا تھا میں (گھر میں آتی تو دروازہ کھلواتی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم چل کر میرے لیے دروازہ کھول دیا کرتے تھے پھر مصلے پر واپس آ جاتے (اور اپنی نماز میں مشغول ہو جاتے) اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ دروازہ قبلے کی جانب تھا۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ دروازہ چونکہ قبلے کی طرف تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دروازہ کھولنے کے لیے تشریف لاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک قبلے کی طرف سے پھرتا نہیں تھا کیونکہ قبلہ سامنے ہی ہوتا تھا پھر جب مصلے پر واپس تشریف لاتے تو پچھلے پاؤں ہٹ کر آتے تھے تاکہ پشت قبلے کی طرف نہ ہو۔

علماء لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حجرہ مبارک زیادہ وسیع و عریض نہیں بلکہ بہت تنگ تھا اس لیے ایک دو قدم سے زیادہ چلنا نہیں پڑھتا تھا کہ یہ عمل کثیر ہوتا لیکن اس کے باوجود ایک اشکال پھر بھی واقع ہوتا ہے کہ دو قدم چلنا دروازہ کھولنا پھر مصلے پر واپس آنا یہ سب مل کر تو عمل کثیر ہو جاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ افعال پے در پے نہیں ہوتے تھے کہ عمل کثیر ہو سکیں۔

 

                   نماز میں وضو ٹوٹ جانے کا مسئلہ

 

اور حضرت طلق ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نماز کی حالت میں جب تم میں سے کسی کی بغیر آواز کے ریح خارج ہو تو اسے چاہیے کہ جا کر وضو کرے اور نماز کو دوبارہ پڑھے۔ اس روایت کو ترمذی نے بھی کچھ کمی زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر نماز کی حالت میں کسی کی ریح خود بخود خارج ہو جائے تو اسے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھنا افصل ہے لیکن فقہی شرائط کے مطابق اگر کوئی آدمی وضو کر کے نماز از سر نو شروع نہ کرے بلکہ جہاں سے نماز چھوڑی تھی اسی پر بقیہ نماز کی بناء کرے تو جائز ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے اور انہوں نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے لیکن حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے۔

یہ مسئلہ تو خود بخود ریح خارج ہونے کا ہے ، اگر کوئی آدمی حالت نماز میں قصداً ریح خارج کرے تو اس کے لیے دوبارہ وضو کر کے از سر نو نماز پڑھنا واجب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کسی کا وضو حالت نماز میں ٹوٹ جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ناک پکڑ کر نماز سے نکل آئے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر حالت نماز میں کسی آدمی کی ریح خارج ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ ناک پکڑ کر وضو کے لیے چلا جائے تاکہ لوگ یہ گمان کریں کہ نکسیر پھوٹی ہے۔ ناک پکڑ کر نماز سے نکلنے کا حکم اس لیے فرمایا گیا تاکہ ایسا آدمی ایسے موقعہ پر شرمندگی و ندامت سے بچ جائے۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ جس آدمی کی ریح خارج ہوئی ہے عام طور پر شرمندگی و ندامت کا باعث بنتا ہے پھر یہ کہ لوگ اس کے بارے میں کوئی چہ میگوئی نہ کریں گے بلکہ یہ جانیں گے کہ اس کی نکسیر پھوٹ گئی ہے جس کی وجہ سے نماز سے نکل گیا ہے۔

اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی آدمی سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جائے جو لوگوں کی نظروں میں معیوب اور محل اعتراض بنتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس فعل کو پوشیدہ رکھے اور لوگوں پر ظاہر نہ کرے تاکہ لوگ نہ اس کے بے آبروئی کے درپے ہوں اور نہ کھلم کھلا اس کی طرف وہ عیب منسوب کیا جائے جسے وہ چھپائے رکھنا چاہتا ہے اور اس کا یہ فعل چھپانا جھوٹ میں شمار نہیں ہو گا بلکہ معاریض (کسی واقعہ کو اس طرح بیان کرنا کہ واقعہ کی پوری صراحت نہ ہو ایسے انداز کو تعریض فرماتے ہیں۔١٢۔) کی قسم سے ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر تم میں سے کسی کا وضو اس وقت ٹوٹے جب کہ وہ اپنی نماز کے آخری قعدے میں (بمقدار تشہد بیٹھ چکا) ہو اور سلام نہ پھیرا ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کی اسناد مضبوط نہیں ہے اور انہوں نے اس کی اسناد میں اضطراب ہونا بیان کیا ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کی مذکورہ صورت میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قصداً وضو توڑے گا تو اس کی نماز پوری ہو جائے گی کیونکہ اس کے نزدیک نمازی کا اپنے کسی بھی فعل کے ذریعے نماز سے نکلنا فرض ہے یعنی اگر کوئی آدمی نماز کے پورے ارکان ادا کرنے کے بعد نماز کو مکمل طور ختم کرنا چا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا فعل اختیار کرے جو نماز کے خاتمے کا ذریعہ بن جائے جیسا کہ سلام پھیرنا۔

چنانچہ اتنی بات سمجھ لیجئے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک نماز کو محض سلام کے ذریعے ہی ختم کرنا فرض نہیں ہے بلکہ اگر کوئی آدمی نماز کے ارکان کے بعد بجائے سلام پھیرنے کے کوئی ایسا دوسرا فعل اختیار کرے جو نماز کے منافی ہو تو اس کی نماز پوری ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی آخری قعدے میں تشہد وغیرہ پڑھنے کے بعد قصداً اپنا وضو توڑ ڈالے تو اس کی نماز پوری ہو جائے گی کیونکہ اس نے نماز کے ارکان پورے کرنے کے بعد ایسا طریقہ اختیار کیا ہے جو نماز کے خاتمہ کا ذریعہ بن گیا ہے اگرچہ وہ ترک واجب کا گنہ گاہ ہو گا مگر فرض ادا ہو جائے گا کیونکہ امام اعظم کے نزدیک سلام کے ذریعہ نماز کو پورا کرنا واجب ہے۔ صاحبین یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک قصداً وضو توڑنے کی شرط نہیں ہے بلکہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا صورت میں کسی کا وضو خود بخود ٹوٹ جائے تو اس کی نماز تمام ہو جائے گی یعنی فرض پورا ہو جائے گا۔

لہٰذا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ حدیث قصداً وضو توڑنے پر محمول ہے اور صاحبین کے نزدیک مطلق ہے خواہ کوئی قصداً وضو توڑ دے یا اس کا وضو خود بخود ٹوٹ جائے۔ چنانچہ یہ حدیث حنفیہ خصوصاً صاحبین کے مسلک کی موید ہے بخلاف حضرات امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کہ ان کے نزدیک نماز کو صرف سلام کے ذریعے پورا کرنا فرض ہے۔

حدیث مضطرب وہ حدیث کہلاتی ہے جو مختلف الفاظ اور مختلف وجوہ سے نقل کی گئی ہو اور یہ چیز حدیث کے ضعف کی علامت ہوتی ہے کیونکہ حدیث کا اس طرح مروی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ راویان حدیث کو حدیث پوری طرح یاد نہیں رہی۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو مضطرب و ضعیف تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے جن کو امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نقل کیا ہے اور اصول حدیث میں یہ بات مسلم ہے کہ کسی حدیث ضعیف کا متعدد طرق سے مروی ہونا اسے حسن کے قریب کر دیتا ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک واقعہ

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے لیے (مسجد میں) تشریف لائے۔ جب تکبیر کہنے کا ارادہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیچھے مڑے اور صحابہ کرام کو یہ اشارہ کر کے کہ تم اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو، مسجد سے باہر نکلے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل کیا اور اس حال میں واپس تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا کہ  مجھے غسل کی حاجت تھی مگر میں غسل کرنا بھول گیا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل) امام مالک نے بھی اس حدیث کو عطاء ابن یسار سے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

 

                   سجدے کی جگہ کو گرمی سے بچانے کے لیے حضرت جابر کا طریقہ

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ظہر کی نماز سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ پڑھا کرتا تھا اور ایک مٹھی میں کنکریاں لے لیتا تھا کہ وہ میرے ہاتھ میں ٹھنڈی ہو جائیں۔ چنانچہ (سجدے کی جگہ کی) شدت گرمی سے بچنے کی خاطر میں ان کنکریوں کو سجدے کے وقت اپنی پیشانی کے نیچے رکھ لیتا تھا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نماز میں اس قدر فعل اختیار کرنا معاف ہے اور اتنا فعل کثیر بھی نہیں ہے۔

 

                   نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ شیطان کا ایک عجیب معاملہ

 

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے (نماز کے درمیان) میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما رہے ہیں  میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں  پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین مرتبہ یہ فرمایا کہ  میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں، اللہ کی لعنت  اور (یہ فرماتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک اس طرح پھیلائے گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی چیز کو پکڑ رہے ہوں، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ہم نے کہا کہ  رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! ہم نے آج آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز میں ایسی بات کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کویہ کہتے نہیں سنا اور آج ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہاتھ پھیلاتے ہوئے بھی دیکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس ملعون آگ کا شعلہ لے کر آیا تھا تاکہ اسے میرے منہ میں ڈالے چنانچہ میں تین مرتبہ یہ کہا کہ  میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں  پھر میں نے کہا کہ  میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں اللہ کی پوری لعنت، وہ نہیں ہٹا تو میں نے (یہ الفاظ) تین مرتبہ کہے ، جب وہ پھر بھی نہ ہٹا تو میں نے (اپنے ہاتھ پھیلا کر) اسے پکڑانا چاہا لیکن اللہ کی قسم ! اگر ہمارے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو وہ (مسجد کے ستون) سے صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اسی باب کی حدیث نمبر ٩ کے ضمن میں اس کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کے تابع ہونے اور ان پر تصرف کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی اور جنات ان کے فرمانبردار ہوئے چنانچہ یہ سوچ کر کہ اس معاملے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی امتیازی حیثیت پر اثر پڑے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اپنا تابع کرنا نہیں چاہا اس حدیث سے یہ بات پوری قوت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ ابلیس یقیناً جنات کی قوم سے ہے۔

 

                   سجدہ سہو کا بیان

 

نماز کے سنن و مستحبات اگر ترک ہو جائیں تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی یعنی نماز صحیح ہو جاتی ہے اور نماز کے فرائض میں سے کوئی چیز اگر سہواً یا عمداً چھوٹ جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے جس کا کوئی تدارک نہیں جس کی وجہ سے نماز کا اعادہ ضروری ہوتا ہے۔ نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی چیز عمداً چھوڑی جائے تو اس کا بھی تدارک نہیں ہو سکتا اور نماز فاسد ہو جاتی ہے اور اگر نماز کے واجبات میں سے کوئی چیز عمداً نہیں بلکہ سہواً چھوڑ دی جائے تو اس کا تدارک ہو سکتا ہے اور وہ تدارک یہ ہے کہ قعدہ اخیر میں التحیات درود شریف اور دعا حسب معمول پڑھ کر سلام پھیرا جائے انہیں سجدوں کو سجدہ سہو کیا جاتا ہے۔

اتنی بات سمجھ لیجئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان اقوال میں جو شرعی چیزوں کی خبر دینے اور دینی احکام کے بیان سے متعلق ہیں نہ تو کبھی سہو ہوا ہے اور نہ یہ ممکن ہے ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال میں سہو ہوتا تھا وہ بھی اس حکمت و مصلحت کے پیش نظر۔ تاکہ امت کے لوگ اس طرح سہو کے مسائل سیکھ لیں۔

 

                    رکعتوں کی تعداد بھول جانے کی صورت میں سجدۂسہو کا حکم

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے شک و شبہ میں مبتلا کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس (نمازی) کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں، لہٰذا تم میں سے کسی کو اگر یہ صورت پیش آئے تو اسے چاہیے کہ وہ آخری قعدے میں) بیٹھ کر دو سجدے کرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث میں جو صورت بیان کی گئی ہے وہ سہو سے متعلق نہیں ہے بلکہ شک کی صورت ہے اور شک و سہو کے درمیان فرق یہ ہے کہ سہو میں ایک جانب کا تعین ہوتا ہے (کہ فلاں چیز بھول گیا) اور شک میں تردد ہوتا ہے کہ آیا یہ صحیح ہے یا وہ اور شیطان ملعون کی کیا مجال تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو شک و شبہ میں مبتلا کر دیتا۔ ہاں غلبہ استغراق اور آخرت کی طرف بے انتہا توجہ کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سہو ہو جاتا تھا۔ سجدہ سہو واجب ہونے کے سلسلہ میں شک اور سہو دونوں کا یکساں حکم ہے ، اس مسئلے کی پوری وضاحت آئندہ حدیث کے فائدہ میں ملا حظہ فرما یے۔

 

 

٭٭اور حضرت عطاء ابن یسار حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی آدمی درمیان نماز شک میں مبتلا ہو جائے اور اسے یاد نہ رہے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار رکعتیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا شک دور کرے اور جس عدد پر اسے یقین ہو اس پر بناء کرے (یعنی کسی ایک عدد کا تعین کر کے نماز پوری کر لے) اور پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کر لے۔ اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ پانچ رکعتیں ان دو سجدوں کے ذریعے اس کی نماز کو جفت کر دیں گی اور اگر اس نے پوری چار رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ دونوں سجدے شیطان کی ذلت کا سبب بنیں گے مسلم اور مالک نے اس روایت کو عطاء سے بطریق ارسال نقل کیا ہے نیز امام مالک کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں  کہ نمازی ان دونوں سجدوں کے ذریعے پانچ رکعتوں کو جفت کر دے گا۔

 

تشریح

 

صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے درمیان نماز وہ شک و شبہ میں مبتلا ہو گیا یعنی اسے یاد نہیں رہا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو اسے چاہئے کہ وہ کمتر عدد کا تعین کرے اور اسی کا گمان غالب کر کے نماز پڑھ لے مثلاً اسے یہ شبہ ہو کہ نہ معلوم میں نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار رکعتیں تو اس صورت میں اس تین رکعتوں کا تعین کر کے نماز پوری کرنی چاہیے اور پھر آخری قعدے میں التحیات پڑھنے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے دائیں طرف سلام پھیر کر سہو کے دوسجدے کرنا چاہئے۔ صحیح البخاری کی روایت میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنے کی قید نہیں ہے چنانچہ اسی وجہ سے ائمہ کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ سجدے سلام پھیرنے سے پہلے کرنے چاہئے یا سلام پھیرنے کے بعد۔ اس مسئلے کی تفصیل ہم آئندہ کسی حدیث کے فائدہ کے ضمن میں بیان کریں گے۔

حدیث میں سہو کے دونوں سجدوں کا فائدہ بھی بتایا گیا ہے چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی آدمی نے مذکورہ صورت میں تین رکعت کا تعین کر کے ایک رکعت اور پڑھ لی حالانکہ حقیقت میں وہ چار رکعتیں پہلے پڑھ چکا تھا اس طرح اس کی پانچ رکعتیں ہو گئی تو پانچ رکعتیں ان دونوں سجدوں کی وجہ سے اس کی نماز کو شفع (جفت کر دیں گی کیونکہ وہ دونوں سجدے ایک رکعت کے حکم میں ہیں یعنی یہ پانچ رکعتیں ان دونوں سجدوں سے مل کر چھ رکعت کے حکم میں ہو جائیں گی اور اگر اس نے حقیقت میں تین ہی رکعتیں پڑھی ہیں اور سہو کی صورت میں اس نے تین ہی کا تعین کر کے ایک رکعت اور پڑھی اور اس کی چار رکعتیں پوری ہو گئیں تو اس کے وہ دونوں سجدے شیطان کی ذلت کا سبب بن جائیں گے۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس آدمی نے چار ہی رکعتیں پڑھی ہیں تو دونوں سجدوں کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ نماز کو جفت کر دیں جیسا کہ پہلی صورت (پانچ رکعتیں پڑھنے کی صورت) میں ان دونوں سجدوں کی ضرورت تھی لیکن ان دونوں سجدوں کو جو بظاہر زائد معلوم ہوتے ہیں یہ فائدہ ہوا کہ ان سے شیطان کی ذلت و ناکامی ہوئی۔ کیونکہ شیطان کا مقصد تو یہ تھا کہ وہ نمازی کو شک و شبہ میں مبتلا کر کے اسے عبادت سے باز رکھے حالانکہ نمازی نے اس کے برعکس دو سجدے اور کر کے عبادت چھوڑنے کی بجائے اس میں زیادتی کی جو یقینی بات ہے کہ شیطان کی ناکامی و نامرادی کا باعث ہے۔

اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شک کی صورت میں اقل (کمتر) کو اختیار کرنا چاہئے تحری (غالب گمان) پر عمل نہ کیا جائے چنانچہ جمہور ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔

امام ترمذی کا قول یہ ہے کہ اہل علم میں سے بعض حضرات کا مسلک یہ ہے کہ شک کی صورت میں نماز کا اعادہ کرنا چاہیے یعنی اگر کسی کو درمیان نماز میں رکعتوں کی تعداد کے بارے میں شک ہو جائے تو اسے چاہیے کہ نماز کو از سر نو پڑھے۔

اس مسئلے میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کا حاصل یہ ہے کہ  اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہو جائے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو اگر اس آدمی کی عادت شک کرنے کی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ پھر نئے سرے سے نماز پڑھے اور اگر اس کو شک ہونے کی عادت ہو تو اپنے غالب گمان پر عمل کرے یعنی جتنی رکعتیں اس کو غالب گمان سے یاد پڑیں تو اسی قدر رکعتیں سمجھے کہ پڑھ چکا ہے اور اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو کمتر عدد کو اختیار کرے مثلاً کسی کو ظہر کی نماز میں شک ہوا کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار اور غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو اسے کو چاہیے کہ تین رکعتیں شمار کرے اور ایک رکعت اور پڑھ کر نماز پوری کر لے پھر سجدہ سہو کر لے۔

اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ غالب گمان پر عمل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شریعت میں غالب گمان کو اختیار کرنے کی اصل موجود ہے جیسا کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسی جگہ نماز پڑھنا چا ہے جہاں سے قبلے کی سمت معلوم نہ ہو سکے تو اس کے لیے حکم ہے کہ وہ جس سمت کے بارے میں غالب گمان رکھے کہ ادھر قبلہ ہے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے اس کی نماز ہو جائے گی۔ غالب گمان کو اختیار کرنے کے سلسلے میں احادیث بھی مروی ہیں۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح رائے قائم کر کے (یعنی کسی ایک پہلو پر غالب گمان کر کے) نماز پوری کر لے اس حدیث کو شمنی نے بھی شرح نقایہ میں نقل کیا ہے نیز جامع الاصول میں بھی نسائی سے ایک حدیث تحری (غالب گمان) پر عمل کرنے کے صحیح ہونے کے بارے میں منقول ہے۔

امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب موطا میں تحری کی افادیت کے سلسلے میں یہ کہتے ہوئے کہ  تحری کے سلسلے میں بہت آثار وارد ہیں  بڑی اچھی بات یہ کہی ہے کہ  اگر ایسا نہ کیا جائے یعنی تحری کو قابل قبول نہ قرار دیا جائے تو شک اور سہو سے نجات ملنی بڑے مشکل ہو گی اور پہر شک و شبہ کی صورت میں اعادہ بڑی پریشانی کا باعث بن جائے گا۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس موقع پر مسئلہ مذکورہ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ  اس موقع پر حاصل کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں تین احادیث منقول ہیں۔ پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں جب بھی کسی کو شک واقع ہو جائے تو وہ نماز کو از سر نو پڑھے دوسری حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ جب کسی کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو اسے چاہئے کہ صحیح بات کو حاصل کرنے کے لئے تحری کرے۔ یعنی غالب گمان پر عمل کرے۔ تیسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ  جب نماز میں شک واقع ہو تو یقین پر عمل کرنا چاہیے یعنی جس پہلو پر یقین ہو اسی پر عمل کیا جائے

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان تینوں حدیثوں کو اپنے مسلک میں جمع کر دیا ہے اس طرح کہ انہوں نے پہلی حدیث کو تو مرتبہ شک واقع ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے ، دوسری حدیث کو کسی ایک پہلو پر غالب گمان ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے اور تیسری حدیث کو کسی بھی پہلو پر غالب گمان نہ ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے۔

حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ  حضرت امام اعظم کے مسلک کے کمال جامعیت اور انتہائی محقق ہونے کی دلیل ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ  کیا نماز میں کچھ زیادتی ہو گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کیا ہوا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ  آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام پھیر لینے کے بعد دو سجدے کئے۔ اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  میں انسان ہی تو ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو اس طرح میں بھی بھول جاتا ہوں جب میں کچھ بھول جایا کروں، مجھے یاد دلایا کرو اور جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح رائے قائم کرے اور اس رائے کی بنیاد پر نماز پوری کر لے اور پھر سلام پھیر کر دو سجدے کر لے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث میں کمتر پر عمل کرنے کو نہیں کہا گیا گو مراد یہی ہے کہ اگر تحری فائدہ نہ دے یعنی کسی بھی عدد کے بارے میں غالب گمان نہ ہو سکے تو کمتر عدد کو اختیار کر کے نماز پوری کر لی جائے چونکہ حضرات شوافع تحری کے قائل نہیں ہیں اس لیے وہ بھی اس حدیث کے الفاظ فلیتحر الصواب سے مراد  کمتر عدد کو اختیار کرنا  لیتے ہیں۔

حنفیہ کے ہاں پانچ رکعت ادا کر لینے کی صورت میں مسئلے کی کچھ تفصیل ہے۔ چنانچہ ان کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قعدہ اخیرہ بھول کر پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے اور پانچویں رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے اسے یاد آ جائے تو اسے چاہیے کہ فوراً بیٹھ جائے اور التحیات پڑھ کر سجدہ سہو کر لے۔ اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر چکا ہو تو پھر نہیں بیٹھ سکتا اور اس کی یہ نماز اگر فرض کی نیت سے پڑھ رہا تھا تو فرض ادا نہیں ہو گا بلکہ نفل ہو جائے گی۔ اور اس کو اختیار ہو گا کہ ایک رکعت کے ساتھ دوسری رکعت اور ملا دے تاکہ یہ رکعت بھی ضائع نہ ہو اور دو رکعتیں یہ بھی نفل ہو جائیں۔ اگر عصر اور فجر میں یہ واقعہ پیش آئے تب بھی دوسری رکعت ملا سکتا ہے اس لیے کہ عصر و فجر کے فرض کے بعد نفل مکروہ ہے اور یہ رکعتیں فرض نہیں رہی بلکہ نفل ہو گئی ہیں پس گویا فرض سے پہلے نفل پڑھی گئی ہیں اور اس میں کچھ کراہت نہیں۔ مغرب کے فرض میں صرف یہی رکعت کافی ہے دوسری رکعت نہ ملائی جائے ، ورنہ پانچ رکعتیں ہو جائیں گی اور نفل میں طاق رکعتیں منقول نہیں اور اس صورت میں سجدہ سہو کی ضرورت نہ ہو گی۔

یہ شکل تو قعدہ اخیرہ میں بیٹھے بغیر رکعت کے لیے اٹھ جانے کی تھی۔ اگر کوئی آدمی قعدہ اخیرہ میں التحیات پڑھنے کے بقدر بیٹھ کر سلام پھیرنے سے پہلے پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے تو اگر وہ پانچویں رکعت کا سجدہ نہ کر چکا ہو تو فوراً بیٹھ جائے اور چونکہ سلام کے ادا کرنے میں جو واجب تھا تاخیر ہو گئی اس لیے سجدہ سہو کر لے اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر نیکے بعد یاد آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ اب نہ بیٹھے بلکہ ایک رکعت اور ملا دے تاکہ یہ پانچوں رکعت ضائع نہ ہو اور اگر رکعت نہ ملائے بلکہ پانچویں رکعت کے بعد سلام پھیر دے تب بھی جائز ہے مگر ملا دینا بہتر ہے۔ اس صورت میں اس کی وہ رکعتیں اگر فرض نیت کی تھی تو فرض ادا ہوں گی نفل نہ ہوں گی۔ عصر اور فجر کے فرض میں بھی دوسری رکعت ملا سکتا ہے اس لیے کہ عصر اور فجر کے فرض کے بعد قصداً نفل پڑھنا مکروہ ہے اور اگر سہواً پڑھ بھی لیا جائے تو کچھ کراہت نہیں۔ اس صورت میں فرض کے بعد رکعتیں پڑھی گئیں ہیں یہ ان موکدہ سنتوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتیں جو فرض کے بعد ظہر و مغرب اور عشاء کے وقت مسنون ہیں کیونکہ ان سنتوں کا تحریمہ سے ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے۔

یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چار رکعت کے بعد قعدہ اخیرہ میں بیٹھ کر پھر بعد میں رکعت کے لیے اٹھ گئے تھے چونکہ اس حدیث سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانچویں رکعت کے ساتھ چھٹی رکعت نہیں ملائی تھی اور صرف سہو پر اکتفاء کیا جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے اس لیے کہا جائے گا کہ یہاں یہ احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان جواز کی خاطر ایسا کیا ہو گا

 

 

٭٭اور حضرت ابن سیرین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (آپ کا اسم گرامی محمد اور کنیت ابوبکر ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ کے تیس بچے تھے جو آپ کی زندگی ہی میں سوائے ایک کے وفات پا گئے صرف ایک صاحبزادے عبداللہ بن محمد بن سیریں بقید حیات تھے۔ ستر سال کی عمر میں ١۱٠ھ میں ان انتقال ہوا۔) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا  (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر یا عصر کی نماز جس کا نام ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو بتایا تھا مگر میں بھول گیا، ہمیں پڑھائی۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کی بجائے سلام پھیر لیا، پھر اس لکڑی کے سہارے جو مسجد میں عرضاً کھڑی تھی کھڑے ہو گئے اور (محسوس ایسا ہوتا تھا) گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم غصہ کی حالت میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنا بایاں رخسار مبارک اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ لیا۔ جلد باز لوگ (جو نماز کی ادائیگی کے بعد ذکر اور دعا وغیرہ کے لیے نہیں ٹھہرتے تھے) مسجد کے دروازوں سے جانے لگے ، صحابہ کہنے لگے کہ کیا نماز میں کمی ہو گئی ہے؟ (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چار رکعت کے بجائے دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں؟) صحابہ کے درمیان (جو مسجد میں باقی رہ گئے تھے) حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی موجود تھے مگر خوف کی وجہ سے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کلام کرنے کی جرات نہ ہوئی صحابہ میں ایک اور آدمی (بھی) تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور جنہیں (اسی وجہ سے) ذوالیدین (یعنی ہاتھوں والا کے لقب سے) پکارا جاتا تھا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) بھول گئے ہیں یا نماز ہی میں کمی ہو گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے پھر (صحابہ سے مخاطب ہوئے اور) فرمایا  کیا تم بھی یہی کہتے ہو جو ذوالیدین کہہ رہے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ  جی ہاں یہی بات ہے اور یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آگے آئے اور جو نماز (یعنی دو رکعت) چھوٹ گئی تھی اسے پڑھا اور سلام پھیر کر تکبیر کہی اور حسب معمول سجدوں جیسا یا ان سے بھی کچھ طویل سجدہ کیا اور پھر تکبیر کہہ کر سر اٹھایا  لوگ ابن سیرین سے پوچھنے لگے کہ  پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام پھیر دیا ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے عمران بن حصین سے یہ خبر ملی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ  پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام پھیر دیا  اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے مگر الفاظ صحیح البخاری کے ہیں۔

اور صحیح البخاری و مسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ذوالیدین کے جواب میں) لم انس ولم تقصر (یعنی نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے) کے بجائے یہ فرمایا کہ  جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے انہوں نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس میں سے کچھ ضرور ہوا ہے۔

 

تشریح

 

فتح الباری میں اس حدیث کی بہت لمبی چوڑی شرح کی گئی ہے اگر اس کو یہاں نقل کی جائے تو بات بڑی لمبی ہو جائے گی البتہ اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ اس حدیث کے بارے میں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا اشکال تو یہ ہے کہ علماء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ خبر میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سہو ہونا ناممکن ہے اور افعال میں بھی اختلاف ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں ذوالیدین کے جواب میں جو یہ فرمایا کہ نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہی ہوئی ہے  کیا خلاف واقعہ نہیں ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر میں بھی سہو ہو سکتا تھا۔

اس کا جواب مختصر طریقہ پر یہ ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سہو ہونا ان خبروں میں نا ممکن ہے جو تبلیغ شرائع ، دینی علم اور وحی الہٰی سے متعلق ہیں نہ کہ تمام خبروں میں۔

دوسرا یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے افعال بھی سرزد ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گفتگو بھی کی مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے از سر نو نماز نہیں پڑھی بلکہ جو رکعتیں باقی رہ گئیں تھی انہیں کو پورا کر لیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ مفسد نماز وہ کلام و افعال ہیں جو قصداً واقع ہوئے ہوں نہ کہ وہ کلام و افعال جو سہواً ہو گئے ہوں جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔ لیکن چونکہ یہ جواب نہ صرف یہ کہ خود اپنے اندر جھول رکھتا ہے بلکہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق بھی نہیں ہے کیونکہ ان کے ہاں مطلقاً کلام مفسد صلوٰۃ ہے خواہ قصداً صادر ہوا ہو یا سہوا۔ اس لیے علماء حنفیہ کے نزدیک اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ نماز میں کلام اور افعال کا جواز منسوخ نہیں ہوا تھا۔

حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ نماز میں کلام مطلقاً مفسد صلوٰۃ ہے خواہ قصداً ہو یا سہواً مگر ان کے ہاں اتنی گنجائش بھی ہے کہ نماز میں جو کلام امام یا مقتدی سے نماز کی کسی مصلحت کے پیش نظر صادر ہوا ہو گا وہ مفسد نماز نہیں ہو گا جیسا کہ حدیث مذکورہ میں پیش آمدہ صورت ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو جب حضرت ابن سیرین لوگوں کے سامنے بیان کر چکے تو ان سے بطریق استفہام اکثر لوگوں نے پوچھا کہ کیا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ثم سلم بھی کہا تھا گویا ان لوگوں کے پوچھنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا تھا یا پہلے کیا تھا اس کے جواب میں ابن سیرین نے کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں تو یہ الفاظ مجھے یاد نہیں پڑتے ، ہاں حضرت عمران ابن حصین نے یہی حدیث مجھ سے روایت کی ہے ان کی روایت میں ثم سلم کے الفاظ موجود ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا تھا اور میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ثم سلم کے جو الفاظ نقل کئے ہیں وہ عمران ابن حصین ہی کی روایت سے اس جگہ لایا ہوں۔

 

                   سجدہ سہو سلام پھیر کر کرنا چاہیے یا اس کے بغیر؟

 

اور حضرت عبد اللہ ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو ظہر کی نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتیں پڑھ کر (پہلے قعدے میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو گئے ، دوسرے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے ، یہاں تک کہ جب نماز پڑھ چکے اور (آخری قعدے میں) لوگ سلام پھیرنے کے منتظر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹھے بیٹھے تکبیر کہی اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے اور اس کے بعد سلام پھیرا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک میں اس حدیث کے مطابق سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہی کیا جاتا ہے لیکن دوسری روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام پھیرنے کے بعد ہی سجدہ سہو کیا ہے نیز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بھی ثابت ہوا ہے کہ وہ سلام پھیرنے کے بعد ہی سجدہ سہو کیا کرتے تھے لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔

 

                    درود و دعا سجدہ سہو سے پہلے پڑھنی چاہیے یا بعد میں

 

اور حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک روز) لوگوں کو نماز پڑھائی (درمیان نماز) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سہو ہو گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (سلام پھیر کر) دو سجدے کئے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے التحیات پڑھی اور سلام پھیرا ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

حضرت عمران کا قول فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ کا مطلب یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام پھیر کر سہو کے دونوں سجدے کئے جیسا کہ تیسری فصل کی پہلی حدیث سے (جو انہیں سے مروی ہے) بصراحت معلوم ہو جائے گی۔

اس حدیث میں نماز کا وہ رکن ذکر نہیں کیا گیا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سہو ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی ادائیگی کو بھول گئے تھے نیز اس حدیث میں سجدے کے بعد تشہد پڑھنے کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ دوسری روایتوں میں تشہد کا ذکر نہیں ہے۔

حضرت عمران کی اس روایت کی روشنی میں جو تیسری فصل میں آ رہی ہے یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی دلیل ہے کہ پہلے سلام پھیر کر پھر سجدۂ  سہو کرنا چاہیے۔ اسی طرح امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ شوافع و مالکیہ کے بعض حضرات کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس مسئلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ درود و دعا جو التحیات میں پڑھی جاتی ہیں اسے تشہد میں پڑھنا چاہیے جو سجدہ سہو سے پہلے ہے یا سجدے کے بعد کے تشہد میں پڑھنا چاہیے؟ چنانچہ امام کرخی نے تو یہ اختیار کیا ہے کہ درود و دعا سجدہ سہو کے بعد کے تشہد میں پڑھے جائیں اور ہدایہ میں بھی اسی کو صحیح کہا گیا ہے۔ البتہ ہدایہ کی بعض شروح میں یہ کہا گیا ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے تشہد میں پڑھنا بہتر ہے۔ امام طحاوی کا قول یہ ہے کہ دونوں تشہد میں پڑھنا چاہیے۔ شیخ ابن ہمام نے بھی امام طحاوی کے قول کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاط اسی میں ہے۔

حنفیہ کا معمول پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ  التحیات پڑھنے کے بعد دائیں طرف سلام پھیرا جائے اس کے بعد سہو کے دو سجدے کئے جائیں اس کے بعد دوبارہ التحیات اور پھر درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے۔

 

 

٭٭اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب امام دو رکعت پڑھ کر (پہلے قعدہ میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لیے) کھڑا ہو جائے تو اگر سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے اسے یاد آ جائے تو اسے چاہیے کہ وہ (قعدہ کے لیے) بیٹھ جائے اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو چکا ہو (اس کے بعد اسے یاد آئے) تو وہ (اب) نہ بیٹھے اور (آخری قعدہ میں) سہو کے دو سجدے کر لے۔ (سنن ابوداؤد، و سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صورت مذکورہ میں معتبر پوری طرح کھڑا ہونا یا پوری طرح کھڑا نہ ہونا ہے۔ اس سلسلہ میں حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ایسا آدمی اگر بیٹھنے کے قریب تر ہو جائے تو التحیات پڑھے اور اگر کھڑے ہونے کے قریب تر ہو تو نہ بیٹھے بلکہ اپنی بقیہ دونوں رکعتیں پوری کر لے۔

قریب تر بیٹھنے مطلب یہ ہے کہ اٹھتے وقت اس کے نیچے کا بدن (مثلاً ٹانگیں وغیرہ) سیدھا نہ ہو جائے اور اگر نیچے کا بدن سیدھا ہو جائے تو کھڑے ہونے کے قریب تر ہو گا۔

شیخ ابن الہمام نے کہا ہے کہ اقربیت کے سلسلہ میں امام ابو یوسف کی بھی ایک روایت ہے جس کو صحیح البخاری کے مشائخ نے اختیار کیا ہے مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا صحیح مسلک یہی ہے کہ جب تک پورا کھڑا نہ ہو جائے بیٹھا جا سکتا ہے پورا کھڑا ہو جانے کی صورت میں بیٹھنا نہیں چاہیے ، یہی قول صحیح ہے اور اس کی تائید یہ حدیث بھی کرتی ہے۔

اگر کوئی آدمی کھڑا ہونے سے پہلے قعدے کے لیے بیٹھ جائے تو اس کے لیے سجدہ سہو کی ضرورت نہ ہو گی۔ ہاں جو آدمی پورا کھڑا ہو جائے اور اس سے پہلا قعدہ چھوٹ جائے تو اس کو سجدہ سہو کرنا ہو گا۔

اس سلسلے میں اتنی بات اور جان لیجئے جب کوئی آدمی پہلے قعدے میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لیے پوری طرح کھڑا ہو جائے تو اس کو بیٹھنا نہیں چاہیے کیونکہ اگر وہ بیٹھ جائے گا تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔

 

 

٭٭حضرت عمران ابن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور گھر میں تشریف لے گئے۔ ایک آدمی نے کہ جس کا نام خرباق تھا اور اس کے ہاتھ کچھ لمبے تھے انہوں نے (یعنی ذوالید ین) کھڑے ہو کر عرض کیا  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  اور انہوں نے (یعنی ذوالیدین) نے واقعہ بیان کیا (یعنی تین رکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بارے میں ذکر کیا یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غصے میں اپنی چادر مبارک کھینچتے ہوئے باہر نکلے اور لوگوں کے پاس (مسجد میں) پہنچے اور فرمایا کہ  کہ کیا ذوالیدین ٹھیک کہہ رہے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ  جی ہاں !چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رکعت پڑھی، پھر سلام پھیر اور سہو کے دو سجدے کر کے سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تین رکعت کے بعد سلام پھیر کر گھر تشریف لے گئے اور وہاں سے تشریف لائے ، اس عرصے میں قبلے کی جانب سے منہ بھی پھرا، گفتگو بھی ہوئی اور بہت زیادہ چلنا ہوا ، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے از سر نو نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف ایک رکعت جو پڑھنے سے رہ گئی تھی پڑھی، لہٰذا یہ افعال سہواً ہونے کے باوجود (بھی حنفیہ کے مسلک میں چونکہ مفسد نماز ہیں اس لیے حنفیہ کی جانب سے اس حدیث کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ نماز میں گفتگو کی طرح یہ بھی منسوخ ہے یعنی یہ افعال و کلام پہلے نماز میں جائز تھے پھر بعد میں منسوخ ہو گئے۔ اور یہ واقعہ جواز کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے۔

خرباق انہیں ذوالیدین کا نام ہے جن کی حدیث اس سے پہلے (نمبر ٤) گزر چکی ہے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جو اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور وہ واقعہ جو حدیث نمبر ٤ میں ذکر کیا گیا ہے دونوں ایک ہی ہیں لیکن اس حدیث اور حدیث نمبر ٤ میں چونکہ بعض باتوں میں با ہم تضاد ہے اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ دونوں ایک ہی نہیں بلکہ الگ الگ واقعات ہیں اور دونوں واقعوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے گفتگو کر نے والے حضرت ذوالیدین ہی تھے۔

اس حدیث کے آخری جملوں سے یہ بات بصراحت معلوم ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے سلام پھیرا پھر سجدہ سہو کیا، اس کے بعد سلام پھیر کر نماز پوری کی، چنانچہ علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہی مسلک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے کہ ان کے یہاں سلام کے بعد سہو کے دو سجدے زیادتی اور نقصان کے پیش نظر کئے جاتے ہیں اس کے بعد تشہد پڑھا جاتا ہے اور سلام پھیرا جاتا ہے۔

 

                   نماز میں کمی کا شک واقع ہو جانے کی صورت میں کیا کیا جائے

 

اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ (نام عبدالرحمن اور کنیت ابو محمد ہے قریش کی ایک شاخ بنو زہرہ میں پیدا ہوئے جن دس صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنت کی خوشخبری دی تھی ان میں ایک ہیں۔ غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے پیچھے نماز پڑھی ٣٢ھ میں بہتر سال کی عمر میں وفات پائی۔) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  جس آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے کمی کا شک ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اور پڑھ لے تاکہ زیادتی کا شک ہو جائے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

تشریح

 

مطلب یہی ہے کہ شک واقع ہو جانے کی صورت میں اگر کسی جانب غالب گمان نہ ہو اور شک بھی کمی میں واقع ہو مثلاً چار رکعت والی نماز میں شک ہو جائے کہ نہ معلوم تین پڑھی ہیں یا چار تو ایسے آدمی کو چاہیے کہ کہ زیادتی میں شک کرے یعنی کم تر عدد کو اختیار کرے جیسے صورت مذکورہ میں تین رکعت کو اختیار کر کے ایک رکعت اور پڑھ لے تاکہ اب کمی کے شک کے بجائے زیادتی کا شک ہو جائے کہ نہ معلوم چار رکعتیں پڑھی ہیں یا پانچ رکعتیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز میں کتنی جگہوں پر سہواً ہوا تھا: نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے چند مواقع پر سہو ہوا تھا۔ ایک قعدہ اول میں سہواً ہوا تھا جیسا کہ عبداللہ ابن بحینہ کی روایت نمبر ٥ میں مذکور ہے۔ دوسرا سہو آخری دونوں رکعتوں میں ہوا تھا۔ جیسا کہ حضرت ذوالیدین کے واقعہ (حدیث نمبر ٤) سے معلوم ہوا۔ تیسرا سہو آخری رکعت میں ہوا تھا جیسا کہ خرباق والی حدیث (نمبر ٨) میں گزرا اور چوتھا سہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پانچویں رکعت کی زیادتی میں ہوا تھا جیسا کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی (حدیث نمبر ٣) سے معلوم ہوا لہٰذا علماء مجتہدین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل پر قیاس کرتے ہوئے یہ کلیہ بنایا کہ اگر نماز میں کسی آدمی سے نماز کے واجبات میں سے کسی واجب میں سہو ہو جائے تو اس پر سہو کا سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔

اس سلسلے میں جتنی احادیث گزری ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سہو ہو جانے کی صورت میں بعض موقعوں پر تو سجدہ سہو سلام سے پہلے کیا اور بعض مواقع پر سلام پھیرنے کے بعد کیا۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل چونکہ دونوں طرح تھا اس لیے یہی کہا جائے گا کہ دونوں طریقے جائز ہیں لیکن ائمہ نے اس سلسلے میں اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق الگ الگ صورت کو مقرر کر دیا ہے۔

سجدہ سہو کے وقت کے بارے میں ائمہ کے مسلک: چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر موقع پر سجدہ سہو سلام سے پہلے کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ ان احادیث کو کہ جن سے سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا ثابت ہوتا ہے ان احادیث پر کہ جن سے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ثابت ہوتا ہے ترجیح دیتے ہیں۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ تمام مواقع پر سلام پھیر کر سجدہ سہو کرنا چاہیے کیونکہ اس کے ثبوت میں بہت زیادہ صحیح احادیث وارد ہیں۔ نیز کہ ابوداؤد، ابن ماجہ اور عبدالرزاق نے ثوبان کی یہ روایت نقل کی ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہر سہو کے لیے سلام پھیرنے کے بعد دوسجدے ہیں  لہٰذا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل متضاد مروی ہے کہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ کیا ہے اور کبھی سلام پھیرنے کے بعد۔ تو ایسی صورت میں امام اعظم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو بطور دلیل اختیار کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک قول فعل سے قوی ہے جیسا کہ اصول فقہ میں مذکور ہے۔

حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام سے پہلے سجدہ کیا ہے اس موقع پر سلام سے پہلے ہی سجدہ کرنا چاہیے اور جس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام پھیرنے کے بعد سجدہ کیا ہے اس موقع پر سلام پھیر کر ہی سجدہ کیا جائے علماء لکھتے ہیں کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول سب سے قوی اور بہتر ہے۔

اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ سجدیہ سہواً کے بارے میں یہ تمام اختلافات کہ سجدہ سلام کے بعد کرنا چاہیے یا پہلے محض فضیلت سے متعلق ہیں یعنی بعض ائمہ کے نزدیک سلام کے بعد سجدہ کرنا زیادہ افضل ہے اور بعض کے نزدیک سلام سے پہلے افضل ہے لیکن جہاں تک جواز کا تعلق ہے تو جیسا کہ ائمہ اربعہ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے اس بات پر سب متفق ہیں کہ جائز دونوں طرح ہے۔ ہدایہ میں لکھا ہے کہ  صحیح تر یہ ہے کہ دونوں طرف سلام پھیر کر سجدہ سہو کرنا چاہیے۔

 

                    قرآن کے سجدوں کا بیان

 

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق قرآن مجید میں چودہ آیتیں ایسی ہیں جن کے پڑھنے اور سننے سے خواہ قصداً نہ ہو ایک سجدہ واجب ہوتا ہے۔ ان آیتوں کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔ دیکر ائمہ کے نزدیک سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔ سجدہ تلاوت صرف ایک مرتبہ دو تکبیروں کے درمیان (یعنی) ایک تکبیر سجدے میں جاتے وقت اور دوسری تکبیر سجدے سے اٹھتے وقت کیا جاتا ہے اس سجدے کے لیے رفع یدین تشہد اور سلام کی ضرورت نہیں پڑتی۔

سجدہ تلاوت صحیح ہونے کی وہی سب شرطیں ہیں جو نماز کے صحیح ہونے کی ہیں یعنی طہارت ، ستر کی پردہ پوشی، نیت اور استقبال قبلہ تحریمہ اس میں شرط نہیں۔ اس کی نیت میں آیت کا تعین شرط نہیں ہے کہ یہ سجدہ فلاں آیت کے سبب سے ہے۔ اور اگر نماز میں آیت سجدہ پڑھی جائے اور فوراً سجدہ کیا جائے تو نیت بھی شرط نہیں۔

 

 

                   سورہ نجم کا سجدہ

 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے سورۂ  نجم میں سجدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسلمانوں ، مشرکوں جنوں اور سب آدمیوں نے (بھی) سجدہ کیا۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورہ نجم کی تلاوت کرتے ہوئے آیت سجدہ آیت ( فَاسْجُدُوْا لِلّٰہ وَاعْبُدُوْا  53۔ النجم:62) سجدہ کرو اللہ کا اور عبادت کرو۔ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی فرمانبرداری کی غرض سے سجدہ کیا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا تو تمام مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت میں سجدہ کیا، اسی طرح مشرکین نے بھی جب بتوں یعنی لات و منات اور عزی کے نام سنے تو انہوں نے بھی سجدہ کیا، یا پھر مشرکوں کے سجدہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں مسجد الحرام کے اندر جب سورہ نجم کی ان آیتوں۔

آیت (اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى   19ۙ  وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى   20  اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَہ الْاُنْثٰى   21 ) 53۔ النجم:19)

یعنی بھلا تم لوگوں نے لات و عزی کو دیکھا اور تیسرے منات کو (کہ یہ بت کہیں اللہ ہو سکتے ہیں مشرکو!) کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہیں اور اللہ کے لیے بیٹیاں۔

کو پڑھنے لگے تو شیطان ملعون نے اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے مشابہ بنا کر یہ پڑھا

تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی۔

یعنی: یہ بت بلند مرغابیاں ہیں اور بیشک ان کی شفاعت امید بخش ہے۔

مشرکین یہ سمجھے کہ (نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے بتوں کی تعریف کی ہے اس سے وہ بہت زیادہ خوش ہوئے چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا تو انہوں نے بھی سجدہ کر ڈالا۔

بعض مفسرین نے اس موقع پر یہ تفسیر کی ہے کہ یہ الفاظ شیطان نے ادا نہیں کئے تھے بلکہ نعوذ باللہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے سہواً نکل گئے تھے۔ یہ قول بالکل غلط اور محض ذہنی اختراع ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ شیطان ملعون نے اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے مشابہ بنا کر یہ الفاظ ادا کر دئیے جس سے مشرکین یہ سمجھ بیٹھے کہ خود محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) یہ الفاظ ادا کر رہے ہیں۔

حدیث میں  مسلمانوں، مشرکوں ، جنوں اور سب آدمیوں سے مراد وہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس وقت موجود تھے۔ لفظ  اِنْسٌ  تعمیم بعد تخصیص ہے۔

 

                   سورہ انشقاق اور سورہ علق کے سجدے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ (سورہ انشقاق یعنی اِذَا السَّمَاءُ اِنْشَقَّتِ اور (سورہ علق یعنی اِقْرَأْ بِاِسْمِ رَبِّکَ میں سجدہ کیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے امام مالک کے اس قول کا رد ہوتا ہے کہ مفصل میں سجدہ نہیں ہے

 

                    سجدہ تلاوت واجب ہے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سجدے (کی کوئی آیت) پڑھتے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب ہوتے تھے تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کرتے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سجدہ کرتے اور (اس وقت) ہم لوگوں کا اس قدر اژدحام ہوتا تھا کہ ہم میں سے بعض کو تو اپنی پیشانی ٹیک کر سجدہ کرنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سجدے کی کوئی آیت تلاوت فرماتے تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سجدہ کرنے کے لیے اتنے زیادہ لوگوں کا ہجوم ہو جاتا تھا کہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے بعض لوگوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سجدہ کرنا بھی نصیب نہ ہوتا تھا اور وہ پھر بعد میں سجدہ کرتے تھے۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سجدہ تلاوت واجب ہے کیونکہ اگر تلاوت کا سجدہ واجب نہ ہوتا تو لوگ اتنا زیادہ اہتمام اور اژدحام کیوں کرتے۔

ایسے موقع پر جب کہ تلاوت کرنے والے کے پاس لوگ بیٹھے ہوں اور اس کی تلاوت سن رہے ہوں تو سجدے کی کوئی آیت پڑھنے کے بعد سجدہ کرنے کے سلسلے میں سنت یہ ہے کہ تلاوت کرنے والا آدمی آگے ہو جائے اور تلاوت سننے والے اس کے پیچھے ہو کر صف باندھیں اس طرح سب لوگ سجدہ کر لیں۔ یہ اقتداء صورۃ ہے حقیقۃ اقتداء نہیں ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سورۂنجم میں سجدہ نہ کرنا

 

اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سورہ نجم تلاوت کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جانب سے تو یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر سورہ نجم میں سجدہ بیان جواز کے لیے نہیں کیا، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ چونکہ مفصل میں سجدہ نہیں ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ نہیں کیا اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف سے اس حدیث کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقعہ پر سجدہ یا تو اس لیے نہیں کیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم با وضو نہیں تھے ، یا یہ کہ وہ وقت کراہت تھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ اس لیے ترک کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ سجدہ تلاوت فرض نہیں ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ سجدہ تلاوت فی الفور واجب نہیں ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت تو سجدہ نہ کیا ہو البتہ بعد میں کسی وقت کر لیا ہو۔ لہٰذا اس سے کوئی آدمی یہ نہ سمجھے کہ سورہ نجم کا سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ گذر چکا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور دوسرے لوگوں نے بھی سورہ نجم کا سجدہ کیا تھا۔

 

                   سورہ ص کا سجدہ

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا  سورہ ص کا سجدہ بہت تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے اور میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سورۃ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے حضرات عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ  کیا میں سورہ ص میں سجدہ کروں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت (وَمِنْ ذُرِّيَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ) 6۔ الانعام:84) سے فَبِھَدَاھُمْ اقْتَدِہ) پڑھی اور فرمایا  تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی انھی لوگوں میں سے ہیں جنہیں پہلے نبیوں کی اتباع کا حکم تھا۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

(لَیْسَ مِنْ عَزَائِمِ السُّجُوْدِ بہت تاکیدی سجدوں میں سے نہیں) کا مطلب فقہ حنفی کی رو سے یہ ہے کہ یہ سجدہ فرائض میں سے نہیں ہے بلکہ واجبات تلاوت میں سے ہے۔

علماء لکھتے ہیں کہ سورہ ص میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سجدہ کرنا حضرت داؤد علیہ السلام کی موافقت اور ان کی توبہ کی قبولیت کے شکر کے طور پر تھا۔

حضرت ابن عبادہ نے حضرت مجاہد کے سوال کے جواب میں پہلے آیت پڑھی جس سے اس بات کی دلیل دینا مقصود تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنہیں سابقہ انبیاء کرام کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے تو تمہیں بطریق اولیٰ ان کی پیروی کرنی چاہیے یعنی جب حضرت داؤد علیہ السلام نے سجدہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ان کی موافقت و پیروی میں سجدہ کیا تو ہم کو چاہیے کہ ہم بھی سجدہ کریں۔

 

                    قرآن میں کل کتنے سجدے ہیں؟

 

اور حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں (یعنی عمرو ابن العاص کو) قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے ان میں سے تین تو مفصل (سورتوں میں ہیں اور دو سجدے سورہ حج میں ہیں۔ (ابوداؤد ، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں لفظ اقراء کے بجائے لفظ اقرائنی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے سامنے پڑھوں۔ اس حدیث کے مطابق قرآن کریم کی پندرہ آیتیں ایسی ہیں جن کے پڑھنے اور سننے سے ایک سجدہ واجب ہوتا ہے آیتوں کی تفصیل یہ ہے

سورۂ  اعراف کے آخر میں یہ آیت

آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَيُسَبِّحُوْنَہ وَلَہ يَسْجُدُوْنَ   )  7۔ الاعراف:206)

بیشک جو لوگ (یعنی فرشتے) تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے غرور اور انکار نہیں کرتے اور اس کا سجدہ کرتے ہیں۔ (اس آیت میں ولہ یسجدون پر سجدہ ہے۔)

(٢) سورۂ  رعد کے دوسرے رکوع میں یہ آیت

آیت (وَلِلّٰہ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعاً وَّكَرْہاً وَّظِلٰلُہمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ   ) 13۔ الرعد:15)  وہ تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہیں خوشی سے ، کوئی نا خوشی سے اور ان کا سایہ صبح و شام۔ (اس آیت میں بالغد و والاصال سجدہ ہے۔)

(٣) سورۂ  نحل کے پانچویں رکوع کے آخر کی یہ آیت

آیت (وَلِلّٰہ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَہمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ    49) 16۔ النحل:49) اور تمام جاندار جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب اللہ کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور فرشتے بھی، اور وہ ذرا بھی غرور نہیں کرتے اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں نیز انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ (اس آیت میں و یفعلون ما یو مرون پر سجدہ ہے۔)

(٤) سورہ بنی اسرائیل کے بارھویں رکوع میں یہ آیت

آیت (وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُہمْ خُشُوْعاً ) 17۔ الاسراء:109)

اور وہ منہ کے بل گر پڑتے ہیں (اور) روتے جاتے ہیں اور اس سے ان میں اور زیادہ عاجزی پیدا ہوتی ہے (یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے ایماندار لوگ تھے۔) (اس آیت میں ویزیدھم خشوعا پر سجدہ ہے۔)

(٥) سورہ مریم کے چوتھے رکوع میں یہ آیت

آیت (ۭاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّداً وَّبُكِيّاً )

19۔ مریم:58)  جب پڑھی جاتی ہیں ان پر رحمٰن کی آیتیں تو گرتے ہیں وہ سجدہ کرنے کے لیے روتے ہوئے (یہ انبیاء اور ان کے اصحاب کا حال بیان کیا گیا ہے)۔ (اس آیت میں سجدا و بکیا پر سجدہ ہے۔)

(٦) سورہ، حج کے دوسرے رکوع میں آیت

آیت (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہ يَسْجُدُ لَہ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ  ۭ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْہ الْعَذَابُ  ۭ وَمَنْ يُّہنِ اللّٰہ فَمَا لَہ مِنْ مُّكْرِمٍ  ۭ اِنَّ اللّٰہ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ ) 22۔ الحج:18)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو (مخلوق) آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور سورج اور چاند ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے آدمی ایسے ہیں جن پر عذاب ثابت ہو چکا ہے اور جس آدمی کو اللہ ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں، بے شک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

(اس آیت میں یسجد لہ پر سجدہ ہے مگر پوری آیت پڑھنے کے بعد سجدہ ہے۔)

(٧) سورہ حج کے آخری رکوع کی یہ آیت

آیت (يٰٓاَيُّہا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 22۔ الحج:77)

اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرتے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کر و تاکہ فلاح پاؤ۔ (اس آیت میں لعلکم تفلحون پر سجدہ ہے۔)

(٨) سورہ فرقان کے پانچویں رکوع کی یہ آیت

آیت (وَاِذَا قِيْلَ لَہمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ ۚ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ ۤ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَہمْ نُفوراً )  25۔ الفرقان:60) اس آیت میں وزادھم نفوراً پر سجدہ ہے۔)

اور جب ان (عرب کے کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ سجدہ کرو رحمن کا تو کہتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے۔ کیا ہم سجدہ کر لیں اس کو جس کو تم کہتے ہو اور ہم کو نفرت بڑھتی ہے۔ (اس آیت میں لا یسکتبرون پر سجدہ ہے۔)

(٩) سورہ نمل کے دوسرے رکوع میں آیت

آیت (اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰہ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ       25  اَللّٰہ لَآ اِلٰہ اِلَّا ہوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ      26۝۞)  27۔ النمل:25)

اور نہیں سمجھتے کہ اللہ کو جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور تمہارے پوشیدہ و ظاہر اعمال کو جانتا ہے کیوں سجدہ نہ کریں؟ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔

(١٠) سورہ الم تنزیل السجدہ کے دوسرے رکوع میں یہ آیت

آیت (اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِہا خَرُّوْا سُجَّداً وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّہمْ وَہمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ) 32۔ السجدہ:35)

ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ جب انہیں وہ آیتیں یاد دلائی جائیں تو سجدہ کرنے کے لیے گر جائیں اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں اور یہ لوگ غرور نہیں کرتے۔

(١١) سورۃ ص کے دوسرے رکوع میں یہ آیت

آیت (وَخَرَّ رَاكِعاً وَّاَنَابَ    24۞  فَغَفَرْنَا لَہ ذٰلِكَ ۭ وَاِنَّ لَہ عِنْدَنَا لَزُلْفٰى وَحُسْنَ مَاٰبٍ    25 ) 38۔ص:24)

اور (داؤد علیہ السلام) گر پڑے سجدے کے لیے اور توبہ کی۔ پس ہم نے ان کو بخش دیا اور بے شک ہمارے ہاں ان کا تقرب ہے اور عمدہ مقام ہے۔ (اس آیت میں وحسن مآب پر سجد ہے۔)

(١٢) سورہ حم سجدہ کے پانچویں رکوع میں یہ آیت

آیت (فَاِنِ اسْتَكْبَرُوْا فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُوْنَ لَہ بِالَّيْلِ وَالنَّہارِ وَہمْ لَا يَسَْٔمُوْنَ) 41۔فصلت:38) اگر یہ لوگ سرکشی کریں تو (اللہ کو بھی ان کی پرواہ نہیں جو فرشتے) تمہارے پروردگار کے پاس ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور کبھی تھکتے ہی نہیں (اس آیت میں لا یسئمون پر سجدہ ہے یا تعبدون پر ہے)

(١٣) سورہ نجم کے آخر میں یہ آیت

آیت (فَاسْجُدُوْا لِلّٰہ وَاعْبُدُوْا   62)  53۔ النجم:62)

سجدہ کرو اللہ کا اور عبادت کرو۔ (اس آیت میں واعبدوا پر سجدہ ہے۔)

(١٤) سورہ انشقاق میں یہ آیت

آیت (فَمَا لَہمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ   20ۙ  وَاِذَا قُرِئَ عَلَيْہمُ الْقُرْاٰنُ لَا يَسْجُدُوْنَ    21 ) 84۔ الانشاق:24)

تو ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔

(اس آیت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور یہاں رب العرش العظیم اور بعض کے نزدیک لعلکم تغلبون پر سجدہ ہے۔) (اس آیت میں لا یسجدون پر سجدہ ہے۔)

(١٥) سورہ علق میں یہ آیت

(وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ     19ڙ) (ا 96۔ العلق:19) آیت میں واقترب پر سجدہ ہے۔)

(اے محمد!) سجدہ کیجئے اور اللہ کے نزدیک ہو جائیے۔

ائمہ کے ہاں سجدوں کی تعداد: ائمہ کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ قرآن کریم میں کل کتنی آیتیں ایسی ہیں جن کے پڑھنے یا سننے سے ایک سجدہ تلاوت واجب ہو جاتا ہے۔ حضرت امام احمد نے اس حدیث کے مطابق کہا ہے کہ ایسی آیتیں پندرہ ہیں جن کی تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے چنانچہ انہوں نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل کیا ہے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں آیت سجدہ کی تعداد چودہ ہے۔ اس طرح کہ سورہ حج میں تو دو سجدے ہیں اور سورہ ص میں کوئی سجدہ نہیں ہے۔

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں آیت سجدہ کی تعداد گیارہ ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ سورہ ص، سورۂ  نجم، سورۂ  انشقت اور سورۂ  اقرا میں سجدہ نہیں ہے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول قدیم بھی یہی ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ کل سجدوں کی تعداد چودہ ہے اس طرح کہ سورہ حج میں دو سجدے نہیں ہیں بلکہ ایک ہی سجدہ ہے جو دوسرے رکوع میں ہے۔

علماء نے لکھا ہے کہ حضرت عمرو ابن العاص کی یہ حدیث جس سے سجدوں کی تعداد پندرہ ثابت ہوتی ہے ضعیف ہے اور اس کو دلیل بنانا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس کے بعض راوی مجہول ہیں۔

نماز میں بھی سجدہ تلاوت کرنا چاہیے : علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز فرض اور نماز نفل میں اگر کسی آیت سجدہ کی قرأت کی جائے تو نماز ہی میں سجدہ کیا جائے یعنی جو سجدہ تلاوت نماز میں واجب ہو اسے خارج نماز میں ادا نہ کیا جائے۔ آیت سجدہ اگر فرض نماز میں پڑھی جائے تو اس کے سجدے میں نماز کی طرح سبحان ربی الاعلی کہنا ہی بہتر ہے اور اگر نفل نماز میں یا خارج نماز میں پڑھی جائے تو اس کے سجدے میں اختیار ہے کہ سبحان ربی الاعلی کہا جائے اور تسبیحیں جو احادیث میں وارد ہوئی پڑھی جائیں مثلاً یہ تسبیح

سَجَدَ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہ، وَصَوَّرَہ، وَشَقَّ سَمْعَہ وَبَصَرَہ، بِحَوْلِہٖ وَقُوَّتِہٖ فَتَبَارَکَ اﷲاَحْسَنُ الْخَالِقِیْنِ۔

میرے منہ نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو پیدا کیا جس نے اسی کو بنا لیا اور اس میں کان و آنکھ پیدا کیں اپنی طاقت اور قوت سے پس بزرگ ہے اللہ اچھا پیدا کرنے والا ہے۔

نماز میں آخر سورۃ میں سجدہ کی آیت آ جانے کا مسئلہ: بعض علماء کا یہ قول ہے کہ نماز میں سجدہ کی جو آیت آخر سورۃ میں آ جائے تو رکوع کرنا ہی سجدے کے لیے کافی ہو جاتا ہے یعنی رکوع کرنے میں سجدہ تلاوت بھی ادا ہو جاتا ہے۔ یہ قول حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے اور یہی مسلک حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے۔

فقہ کی کتابوں میں اس مسئلے کی تفصیل اس طرح مذکور ہے کہ اگر آیت سجدہ نماز میں پڑھی جائے اور فوراً رکوع کیا جائے یا آیت سجدہ کے بعد دو تین آیتیں پڑھ کر رکوع کر لیا جائے اور اس رکوع میں جھکتے وقت سجدہ تلاوت کی بھی نیت کر لی جائے تو سجدہ ادا ہو جائے گا اور اگر اسی طرح آیت سجدہ پڑھنے کے بعد نماز کا سجدہ کیا تب بھی سجدہ ادا ہو جائے گا اور اس میں نیت کی بھی ضرورت نہ ہو گی مگر شرط یہ ہے کہ کہ ہر دو صوت میں آیت سجدہ کے بعد تین آیتوں سے زیادہ قرأت نہ کی گئی ہو کیونکہ آیتوں کے پڑھنے میں تو اختلاف بھی ہے مگر یہ مسئلہ متفق علیہ ہے کہ تین سے زیادہ آیتیں پڑھنے کی صورت میں نماز کے رکوع یا سجود میں سجدہ تلاوت ادا نہیں ہو گا بلکہ الگ سے سجدہ تلاوت کرنا ضروری ہو گا۔

 

 

                   دو سجدوں کی وجہ سے سورۂحج کی فضیلت

 

اور حضرت عقبہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! سورہ حج کو اس لیے فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں! جو آدمی دونوں سجدے نہ کرے تو وہ ان دونوں سجدوں کی آیتوں کو نہ پڑھے۔ (سنن ابوداؤد جامع ترمذی) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد قوی نہیں ہے اور مصابیح میں مثل شرح السنۃ کے فلا یقراھما (تو وہ دونوں سجدوں کی آیتوں کو نہ پڑھے) کے بجائے فلا یقراھا (تو وہ اس سورۃ کو نہ پڑھے) کے الفاظ ہیں۔

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی سجدے کی ان دونوں آیتوں کو نہ پڑھے تو اسے وہ آیتیں ہی نہ پڑھنی چاہئیں تاکہ وہ ترک واجب کا گنہگار نہ ہو یعنی قرآن کریم پڑھنے والے کے حق میں سجدے کی آیت کی تلاوت کی وجہ سے ایک سجدہ مشروع ہوا ہے اور سجدہ تلاوت کرنا تلاوت کے حقوق سے ہے لہٰذا اگر کوئی آدمی سجدہ تلاوت کو ترک کرنے کے درپے ہو تو اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ ان آیتوں ہی کو نہ پڑھے جن کی وجہ سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے کیونکہ سجدہ واجب ہے اور اس کو چھوڑنے والا گنہگار ہوتا ہے اس لیے ترک سجدہ سے ترک تلاوت اولیٰ ہے۔

مشکوٰۃ کے ایک دوسرے صحیح نسخہ میں بجائے فلا یقراھما کے فلم یقراھا کے الفاظ ہیں اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے معنی یہ ہوں گے کہ جس نے وہ دونوں سجدے نہ کئے گویا اس نے انہیں پڑھا ہی نہیں یعنی جب اس نے اس آیت کے تقاضے پر عمل نہ کیا تو اس کا پڑھنا نہ پڑھنا دونوں برابر ہے۔

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سورہ حج کا دوسرا سجدہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک واجب نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ وہ سجدہ نماز کا ہے کیونکہ وہاں لفظ  ارکعوا  کا مذکور ہونا اس بات کا قرینہ ہے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آخر میں ھذا حدیث لیس اسنادہ بالقوی کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

 

                   سورہ الم تنزیل السجدہ کا سجدہ

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی نماز میں سجدہ کیا اور کھڑے ہوئے پھر رکوع کیا اور لوگوں کو یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ الم تنزیل السجدہ پڑھی ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

صحابہ نے محض سجدے سے معلوم نہیں کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورۃ آلم تنزیل السجدہ پڑھی ہے بلکہ سورت کی ایک آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہو گی اس سے انہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ سورۃ پڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (آہستہ آواز سے پڑھی جانے والی نمازوں میں) کبھی کبھی ایک آیت بآواز بلند بھی پڑھ دیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں سورۃ کی قرأت ہو رہی ہے یا یہ کہ انتہائی شوق اور حضور قلب کی وجہ سے بے اختیار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لسان مقدس سے کوئی آیت بآواز بلند جاری ہو جاتی تھی۔

بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت سجدہ پڑھ کر جب سجدہ کیا اور سجدے سے اٹھے تو بقیہ سورۃ پوری نہیں کی بلکہ رکوع میں چلے گئے چنانچہ یہ جائز ہے اگرچہ افضل یہی ہے کہ سجدے سے اٹھ کر بقیہ سورۃ پوری کی جائے اس کے بعد رکوع کیا جائے لہٰذا یہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا بیان جواز کی خاطر کیا ہو باوجود یہ نص سے بصراحت تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بقیہ سورۃ پوری نہیں کی اور رکوع میں چلے گئے تاہم بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے محض رکوع پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مستقلاً سجدہ کیا جیسا کہ حنفیہ کے ہاں ایسی صورت میں رکوع ہی میں سجدہ ادا ہو جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ افضل اور اولیٰ چونکہ سجدہ کر لینا ہی ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے افضل طریقہ کو اختیار فرمایا۔

 

                   سجدہ تلاوت قاری اور سامع دونوں پر واجب ہوتا ہے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے سامنے قرآن کریم پڑھتے اور جب سجدے کی کسی آیت پر پہنچتے تو تکبیر کہتے اور سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سجدہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہو گئی کہ سجدہ تلاوت قاری (یعنی قرآن کریم پڑھنے والے) اور سامع (یعنی تلاوت سننے والے) دونوں پر واجب ہے۔

صرف سجدے کے وقت تکبیر کہنی چاہیے : یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سجدہ تلاوت کے لیے تکبیر صرف سجدے میں جاتے وقت کہنی چاہیے چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا اسی پر عمل ہے۔

البتہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ مسئلہ ہے کہ جب کوئی آدمی سجدہ تلاوت کرے تو اسے پہلے ہاتھ اٹھا کر تکبیر تحریمہ کہنی چاہیے اس کے بعد سجدے کے لیے دوسری تکبیر کہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت کی روشنی میں یہ ثابت ہے کہ سجدہ تلاوت کے وقت پہلے کھڑے ہونا اور اس کے بعد سجدے میں جانا مستحب ہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے سال (کوئی) آیت پڑھی چنانچہ تمام لوگوں نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ) سجدہ تلاوت کیا سجدہ کرنے والوں میں سے بعض تو سواریوں پر تھے (اور بعض زمین پر تھے سواریوں والے اپنے ہاتھ ہی پر سجدہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو آیت سجدہ کے ساتھ کچھ اور آیتیں بھی ملا کر پڑھی ہوں گی یا پھر محض آیت سجدہ بیان جواز کے لیے پڑھی ہو گی، کیونکہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق صرف آیت سجدہ کی تلاوت کرنا خلاف استحباب ہے۔

سواریوں والے اپنے ہاتھ ہی پر سجدہ کرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی سواریوں مثلاً گھوڑے وغیرہ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ اپنے ہاتھوں کو زین وغیرہ پر رکھ کر ان پر سجدہ کرتے تھے اس طرح انہیں حالت سجدہ میں زمین کی سی سختی حاصل ہو جاتی تھی۔

حضرت ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی گردن جھکا کر اپنے ہاتھوں پر سجدہ کرے تو اس کا سجدہ جائز ہو جائے گا  اور یہی قول حضرت امام ابوحنیفہ کا ہے البتہ حضرت امام شافعی کا یہ قول نہیں ہے۔

ابن ملک نے حضرت امام اعظم کا جو یہ قول ذکر کیا ہے یہ ان کے مسلک میں غیر مشہور ہے چنانچہ شرح منیہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی ہجوم و اژدہام کی وجہ سے اپنی ران پر سجدہ کر لے تو جائز ہو گا اسی طرح ران کے علاوہ کسی دوسرے عضو پر بھی سجدہ کرنا جائز ہے جب کہ اسے کوئی ایسا عذر پیش ہو جو سجدہ کرنے سے مانع ہو، بغیر عذر ایسا کرنا جائز نہ ہو گا نیز اگر کوئی آدمی اپنا ہاتھ زمین پر رکھ کر اس پر سجدہ کر لے تو اگرچہ اسے کوئی عذر نہ ہو یہ جائز ہے مگر مکروہ ہوا۔

ابن ہمام نے لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی بیمار ہو سجدے کی کوئی آیت پڑھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اسے سجدے کا اشارہ کر لینا کافی ہو گا۔

 

                   رسول اللہ کا مفصل سورتوں میں سجدہ نہ کرنا

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لانے کے بعد مفصل سورتوں میں سے کسی سورۃ میں سجدہ نہیں کیا۔ (ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ تشریف لانے سے پہلے مکہ میں تو مفصل سورتوں میں سجدہ تلاوت کیا اور ان کے ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی کیا مگر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لے آئے تو یہاں آپ نے مفصل سورتوں میں سجدہ تلاوت نہیں کیا۔

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے تعارض: اس حدیث سے تو بصراحت یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں مفصل سورتوں میں سجدہ تلاوت نہیں کیا حالانکہ اس سے پہلے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (نمبر ایک) گزر چکی ہے کہ جس میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ اَذَا السَّمَاء انْشَقَّتْ اور اِقْرَأْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ میں سجدہ کیا لہٰذا اب جب کہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض پیدا ہو گیا تو ان میں سے کسی ایک کو راجح قرار دینا ہو گا اور راجح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہو گی کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ میں سات ہجری میں اسلام لائے اور ظاہر ہے کہ ان کی روایت کا تعلق مدینہ ہی سے ہے اور فنی طور پر بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت صحیح تر ہے پھر یہ کہ ان کے علاوہ بہت زیادہ صحابہ کی روایات ہیں کہ مفصل سورتوں میں سجدہ ہے نیز اصول ہے کہ مثبت پہلو منفی پہلو پر فوقیت رکھتا ہے اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے منفی پہلو ثابت ہوتا ہے جب کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت مثبت پہلو کو ظاہر کر رہی ہے۔

لہٰذا حاصل یہ نکلا کہ مفصل سورتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سجدہ کرنا ثابت ہے اس لیے ان سورتوں میں سجدے کی جو آیتیں ہیں ان کی تلاوت یا سماعت پر سجدہ کرنا چاہیے۔

مفصل چھوٹی سورتوں کو کہتے ہیں کہ وہ سورہ حجرات سے آخر تک ہیں۔

 

                   سجدہ تلاوت کی تسبیح

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم رات کو قرآن کے سجدوں میں یہ تسبیح پڑھتے تھے۔ سَجَدَ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہ وَشَقَّ سَمْعَہ وَبَصَرَہ، بِحَوْلِہٖ وَقُوَّتِہٖ میرے منہ نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اور اپنی قوت و قدرت سے کان اور آنکھیں بنائیں (ابوداؤد جامع ترمذی، سنن نسائی) اور حضرت امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ  حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

رات کی قید اتفاقی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ تسبیح رات ہی میں سنی ہو گی چنانچہ اسی کو بیان کیا ورنہ تو رات یا دن کی قید کے بغیر مطلقاً طور پر بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ تسبیح سجدہ تلاوت میں پڑھتے تھے نیز بعض روایات میں یہ تسبیح بھی منقول ہے۔

رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ

میرے پروردگار میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا مجھے بخش دے۔

حنفیہ کا صحیح مسلک یہ ہے سجدہ تلاوت میں سبحان ربی الاعلی پڑھنا کافی ہے جیسا کہ نماز کے سجدوں میں پڑھتے ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ سجدہ تلاوت کی جو تسبیحیں ثابت ہیں ان کا پڑھنا اولیٰ ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک آدمی سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے آج رات خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ گویا ایک درخت کے نیچے میں نماز پڑھ رہا ہوں اور یہ بھی دیکھا کہ جب میں نے سجدہ تلاوت کیا تو اس درخت نے بھی میرے ساتھ سجدے کے وقت سجدہ کیا تو میں نے یہ سنا کہ وہ درخت یہ دعا پڑھتا تھا۔ اَللّٰہُمَّ اکْتُبْ لِیْ بِھَا عِنْدَکَ اُجْرَ وضَعَ عَنِّیْ بِھَا وِزْراً وَاجْعَلَھَا لِیْ عِنْدَکَ زُخْراً وَتَقَبَّلَھَا منیٰ کَمَا تَقَبَّلْتَھَا مِنْ عَبْدِکَ دَاؤْدَ اے اللہ ! میرے لیے اس سجدے کا ثواب اپنے پاس رکھ اور اس کی وجہ سے میرے گناہ معاف فرما اور اس سجدے کو میرے واسطے خیر بنا کر اپنے پاس رکھ اور میرے اس سجدے کو ایسا قبول کر جیسا اپنے بندے داؤد سے قبول کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا پڑھنے کی غرض سے اسی مجلس میں یا بعد میں سجدے والی آیت پڑھ کر سجدہ تلاوت کیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو (دعا کے) وہی کلمات کہتے ہوئے سنے جو اس آدمی نے درخت سے نقل کئے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہی دعا پڑھی۔ (جامع ترمذی)

اس روایت کو ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے مگر ان کی روایت میں وَتَقَبَّلَھَا منیٰ کَمَا تَقَبَّلْتَھَا مِنْ عَبْدِکَ دَاؤْدَ کے الفاظ نہیں ہیں نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی نے سورہ ص کے سجدے کی آیت پڑھی ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی یا تو سور ۃ ص ہی کے سجدے والی آیت پڑھی ہو گی یا پھر سورہ، سجدہ کی تلاوت کی ہو گی۔

 

 

٭٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک روز سورہ النجم کی تلاوت فرمائی اور اس میں سجدہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جو لوگ تھے انہوں نے بھی سجدہ کیا۔ مگر قریش کے ایک بوڑھے نے کنکریاں یا مٹی کی ایک مٹھی لے کر اپنی پیشانی پر لگالی اور بولا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس واقعہ کے بعد دیکھا کہ وہ آدمی کفر کی حالت میں مارا گیا۔ (امام بخاری و مسلم) اور صحیح البخاری نے ایک روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ  وہ بوڑھا امیہ بن خلف تھا۔

 

تشریح

 

یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے امیہ بن خلف قریش کا ایک معزز سردار اور ذی اثر فرد تھا اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کی جانے والی تمام سازشوں میں اس کا پارٹ اہم ہوتا تھا اسے اپنی بڑائی پر بڑا ناز تھا، چنانچہ اس موقع پر جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مجلس میں موجود تمام ہی اشخاص نے کیا مسلمان اور کیا کفار جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سجدہ کیا تو اس آدمی نے از راہ غرور و تکبر سجدہ نہیں کیا بلکہ یہ حرکت کی کہ کنکری یا مٹی کی ایک مٹھی لے کر اسے پیشانی سے لگا لیا۔

 

                   سورۃ ص کا سجدہ

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ ص میں سجدہ کیا اور فرمایا کہ حضرت داؤد نے سورہ ص کا یہ سجدہ توبہ کی قبولیت کے لیے کیا تھا (جس کی تفصیل سورہ ص میں مذکور ہے) اور ہم یہ سجدہ (ان کی قبولیت پر) شکر گزاری کے لیے کرتے ہیں۔ (سنن نسائی)

 

                    ان اوقات کا بیان جن میں نماز پڑھنا ممنوع ہے

 

اس باب کے تحت وہ احادیث نقل کی جائیں گی جو اوقات نہی کو ظاہر کرتی ہیں یعنی جن اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ لہٰذا یہ باب ان تینوں اوقات کو شامل ہے جن میں نماز حرام ہے جیسے طلوع آفتاب کا وقت، غروب آفتاب کا وقت اور استواء کا وقت یعنی نصف النہار کا وقت اور ان اوقات کو بھی شامل ہے جیسے فجر (طلوع صبح صادق سے طلوع آفتاب تک فجر کے پورے وقت میں فجر کی دو سنتوں کے علاوہ دوسرے نوافل مکروہ ہیں البتہ فرض و واجب کی قضا پڑھی جا سکتی ہے مگر عصر کا پورا وقت مکروہ نہیں بلکہ فرض نماز کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہے البتہ فرض و واجب کی قضا عصر کے فرض بعد بھی پڑھ سکتے ہیں۔) اور عصر کی نماز کے بعد کا وقت۔

حنفیہ کے مسلک میں یہ نہی فرض اور نفل دونوں کو شامل ہے چنانچہ پہلے تینوں اوقات یعنی طلوع آفتاب ، غروب آفتاب اور استواء کے وقت نماز جائز نہیں ہے خواہ ادا ہو یا قضا البتہ اسی دن کی عصر کی نماز جائز ہے اسی طرح نہ جنازہ کی نماز جائز ہے اور نہ تلاوت کا سجدہ جائز ہے ہاں اس جنازے کی نماز جائز ہو گی جو انہیں اوقات میں پڑھا گیا ہو اسی طرح وہ سجدہ تلاوت جائز ہو گا جب آیت سجدہ انہیں اوقات میں پڑھی گئی ہو۔ تاہم ان اوقات سے مؤخر کرنا اولیٰ ہو گا۔

نماز جنازہ سجدہ تلاوت اور قضا نماز فجر کے پورے وقت میں اور عصر کی نماز کے بعد بھی جائز ہے نفل نماز ان اوقات میں بھی مکروہ ہے اگر کوئی آدمی ان اوقات میں نفل نماز شروع کر دے گا وہ لازم ہو جائے گی یعنی اس وقت سے اسے نماز توڑ دینی چاہیے اور پھر وقت مکروہ کے نکل جانے کے بعد اس کی قضا پڑھنی چاہیے اور اگر کوئی آدمی نماز توڑے نہیں بلکہ اسی وقت پوری کرے تو وہ اس سے عہدہ برآ ہو جاتا ہے مگر نماز توڑ دینا ہی افضل ہے۔

حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک ان اوقات میں قضا نماز اور اس جنازے کی نماز جو اسی وقت لایا گیا ہو جائز ہے نیز تحیۃ المسجد کی نماز پڑھنی بھی جائز ہے اگر اتفاق سے مسجد میں داخل ہو جائے اور اگر کوئی آدمی قصداً تحیۃ المسجد کی نماز پڑھنے کی خاطر مسجد میں ان اوقات میں آئے یا قضا نماز میں تاخیر اس مقصد سے کرے کہ انہیں اوقات میں پڑھے تو اس صورت میں جائز نہیں کیونکہ ان اوقات میں قصداً یہ نمازیں پڑھنا حدیث کے بموجب ممنوع ہے اسی طرح ان کے نزدیک ان اوقات میں کسوف کی نماز وضو کے بعد کی دو رکعت نماز اور احرام و طواف کی دو رکعت نماز نیز سجدہ تلاوت جس کی آیت انہیں اوقات میں پڑھی جائے جائز ہے۔

ان اوقات میں نماز پڑھنے کی کراہت حنفیہ کے نزدیک ہر وقت اور ہر جگہ ہے لیکن حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان علماء کے نزدیک جو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ ہیں جمعہ کے روز استواء یعنی نصف النہار کے وقت نماز جائز ہے نیز ان اوقات میں مکہ معظمہ میں بھی جائز ہے۔

اتنی بات سمجھ لیجئے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک اس سلسلے میں احوط (یعنی احتیاط پسندی پر مبنی) ہے کیونکہ جب کسی چیز کے بارے میں مباح اور حرام دونوں کے دلائل متعارض ہوں تو حرمت کے پہلو کو ترجیح دی جاتی ہے۔

 

                   طلوع و غروب آفتاب کے وقت نماز نہیں پڑھنی چاہیے

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی آفتاب کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج خوب ظاہر ہو جائے یعنی (ایک نیزے کے بقدر بلند ہو جائے) نیز جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو مطلقاً کوئی بھی نماز خواہ فرض ہو یا نفل چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ بالکل غروب ہو جائے اور آفتاب کے طلوع و غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کرو اس لیے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ قصد نہ کرے سے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی ان اوقات میں قصداً تحیۃ المسجد اور قضا کی نماز پڑھے گا تو اس حدیث کی رو سے خلاف کرے گا ہاں اگر کوئی آدمی اتفاقا پڑھ لے تو جائز ہو گا لیکن حنفیہ فرماتے ہیں کہ حدیث کا مقصد مطلق طور پر ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کرنا ہے اس میں قصداً یا اتفاقاً کی قید لگانا حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔

شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان آفتاب نکلنے کا مطلب:  شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان آفتاب نکلنے کا مطلب اس کے سر کے دونوں جانبوں کے درمیان آفتاب نکلنا ہے یعنی شیطان طلوع آفتاب کے وقت آفتاب کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے تاکہ آفتاب اس کے سر کے دونوں جانبوں کے درمیان نکلے اور اس حرکت سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ آفتاب کو پوجتے ہیں شیطان ان کا قبلہ بن جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے تاکہ اللہ کے ان باغیوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

 

                   وہ تین اوقات جن میں نماز پڑھنا ممنوع ہے

 

اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم تین وقتوں میں نماز پڑھنے اور اپنے مردوں کو دفن کرنے سے منع فرماتے تھے۔ اول آفتاب نکلنے کے وقت یہاں تک کہ بلند ہو جائے ، دوسرے دوپہر کا سایہ قائم ہونے (یعنی نصف النہار) کے وقت یہاں تک کہ آفتاب ڈھل جائے اور تیسرے اس وقت جبکہ آفتاب ڈوبنے لگے یہاں تک کہ غروب ہو جائے۔  (صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

مردوں کو دفن کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان اوقات میں مردے دفن نہ کئے جائیں بلکہ اس کا مطلب جنازے کی نماز سے منع کرنا ہے کیونکہ مردے ہر وقت دفن کئے جا سکتے ہیں۔

 

                   فجر و عصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھنی چاہیے

 

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا صبح (کی نماز) کے بعد اس وقت تک کہ (بقدر نیزہ) آفتاب بلند نہ ہو جائے کوئی نماز نہیں اور عصر کی نماز کے بعد اس وقت تک کہ آفتاب چھپ نہ جائے کوئی نماز نہیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہاں نفی سے مراد نماز کے کمال کی نفی ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں اوقات میں نمازپڑھنا حرام نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے۔

 

                   نماز کے اوقات

 

اور حضرت عمر و ابن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو میں بھی مدینہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا یہ یا رسول اللہ مجھے نماز کے اوقات بتا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ جب تک کہ آفتاب طلوع ہو کر بلند نہ ہو جائے اس لیے کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کافر (یعنی سورج کو پوجنے والے) اس کو سجدہ کرتے ہیں پھر (اشراق کی) نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز مشہودہ ہے (یعنی فرشتے نمازی کی گواہی دیتے ہیں) اور اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ (جب) سایہ نیزے پر چڑھ جائے اور زمین پر نہ پڑے (یعنی ٹھیک دوپہر ہو جائے) تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت دوزخ جھونکی جاتی ہے ، پھر جب سایہ ڈھل جائے تو (ظہر کے فرض اور جو چاہو نفل) نماز پڑھو کیونکہ یہ وقت فرشتوں کے شہادت دینے اور حاضری کا ہے یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو پھر نماز سے رک جاؤں یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو جائے کیونکہ آفتاب شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار (یعنی آفتاب کو پوجنے والے) اس کی طرف سجدہ کرتے ہیں حضرت عمرو ابن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے (پھر) عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! وضو (کی فضیلت) کے متعلق (بھی) بتا دیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے جو آدمی وضو کا پانی لے اور (نیت کرنے اور بسم اللہ پڑھنے اور دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھونے کے بعد) کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے اس کے چہرے (کے اندر) کے منہ کے اور ناک کے نتھنوں کے (صغیرہ) گناہ جھڑ جاتے ہیں پھر جب وہ اپنے چہرے کو اللہ کے حکم کے مطابق دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ اس کی داڑھی کے کناروں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں اور جب وہ اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوتا ہے تو اس کے دونوں ہاتھوں کے گناہ اس کی انگلیوں کے سرے سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں اور جب وہ اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوتا ہے تو اس کے دونوں پاؤں کے گناہ اس کی انگلیوں کے سرے سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں اور پھر (وضو سے فارغ ہو کر) جب وہ کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے نیز (نماز کے بعد) اللہ کی تعریف کرتا ہے ثنا بیان کرتا ہے (یعنی ذکر اللہ بہت زیادہ کرتا ہے) اور اسے اس بزرگی کے ساتھ جس کے وہ لائق ہے یاد کرتا ہے اور اپنے دل کو اللہ کے لیے فارغ(یعنی اس کی طرف متوجہ) کرتا ہے تو وہ (نماز کے بعد) گناہوں سے ایسا پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ  جب سایہ نیزے پر چڑھ جائے اور زمین پر نہ پڑے کا تعلق مکہ و مدینہ اور ان کے گرد و نواح سے ہے کیونکہ ان مقامات پر بڑے دنوں میں عین نصف النہار کے وقت سایہ زمین پر بالکل نہیں پڑتا۔

حدیث کے آخری الفاظ سے یہ مفہوم واضح ہوتا ہے کہ صغیرہ اور کبیرہ دونوں گناہ بخش دیے جاتے ہیں تو اس سلسلے میں تحقیقی بات یہ ہے کہ صغیرہ گناہ تو ضرور بخش دیتے ہیں البتہ کبیرہ گناہوں کی بخشش کا انحصار حق تعالیٰ کی مشیت اور اس کی مرضی پر ہے کہ چا ہے تو وہ کبیرہ گناہ بھی اپنے فضل و کرم سے بخش سکتا ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا

 

اور حضرت کریب (حضرت عبداللہ ابن عباس کے خادم) راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس، مسور ابن مخرمہ اور عبدالرحمن ابن ازہر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے انہیں (یعنی کریب کو) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور ان سے تینوں نے کہا کہ (ہمارے طرف سے) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں سلام پیش کر کے ان سے عصر کے بعد دو رکعت نماز کے بارے میں پوچھنا کریب فرماتے ہیں کہ  میں حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان تینوں نے جس پیغام کو پہنچانے کے لیے مجھے بھیجا تھا میں نے وہ پیغام ان تک پہنچا دیا  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ  حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (کے پاس جاؤ اور ان) سے پوچھو  میں (یہ جواب سن کر) ان تینوں صحابہ کرام کے پاس واپس لوٹ آیا، انہوں نے مجھے (پھر) حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (میرا سوال سن کر) فرمایا کہ  میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں رکعتوں (کے پڑھنے) سے منع فرمایا کرتے تھے۔ پھر میں نے (ایک دن) دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں رکعتوں کو پڑھتے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم (ان دونوں رکعتوں کو مسجد میں پڑھ کر گھر میں یا باہر صحن میں پڑھ کر مکان کے اندرونی حصے میں داخل ہوئے تو میں نے خادمہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجا اور اس سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جا کر کہو کہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں رکعتوں (کے پڑھنے) سے منع فرماتے تھے اور (اب) میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے (اس کی کیا وجہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (خادمہ سے کہا کہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جا کر کہو کہ) ابو امیہ کی بیٹی! تم نے عصر کے بعد دو رکعتوں کے (پڑھنے کے) بارے میں پوچھا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ (اسلامی تعلیمات اور احکام سیکھنے کی غرض سے) میرے پاس آئے تھے چنانچہ (انہیں دینی احکامات بتانے کی مشغولیت میں) ظہر کے بعد کی میری دونوں رکعتیں رہ گئی تھیں انہیں کو میں نے عصر کے بعد پڑھا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

سائلین کا مطلب یہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی نماز کے بعد نفل وغیرہ پڑھنے سے منع فرمایا تھا تو خود عصر کے بعد دو رکعت نماز کیوں پڑھی تھی چنانچہ انہوں نے حضرت کریب کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کی تحقیق کریں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حقیقت حال معلوم کریں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت کریب کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حوالہ دیا کہ ان سے معلوم کیا جائے ، کیونکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس بارے میں پوری طرح واقفیت رکھتی تھیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس عمل کے بارے میں پہلے ہی تحقیق کر لی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب حضرت کریب کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جانے کو کہا تھا تو انھیں قاعدے میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ہی جانا چاہیے تھا لیکن وہ بپاس ادب پہلے ان تینوں صحابیوں کے پاس آئے جن کے پیغامبر بن کر وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے تھے ، جب ان صحابیوں نے انہیں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا تب وہ ان کے پاس گئے اور ان تینوں صحابیوں کا پیغام انہیں پہنچا کر حقیقت حال سے مطلع ہوئے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کے بعد جو دو رکعتوں سے منع فرماتے تھے تو ان دو رکعتوں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد مطلقاً نفل نماز پڑھنا تھا اور اسی کے ضمن میں ان دونوں رکعتوں کی نہی بھی شامل تھی لیکن یہ بھی احتمال ہے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں رکعتوں ہی کے پڑھنے سے منع فرمایا ہو۔

ابوامیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کا نام تھا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خادمہ سے فرمایا کہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس سوال کا جواب اس طرح دینا یا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے براہ راست حضرت ام سلمہ کو جواب دیتے ہوئے ابو امیہ کی بیٹی! کہہ کر مخاطب فرمایا۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ علم دین کی تعلیم احکام شریعت کی تبلیغ اور اللہ کی مخلوق کی ہدایت کرنا نماز نفل پر مقدم ہے اگرچہ سنت غیر موکدہ ہی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی فرض نماز کے بعد کی سنتوں کو موخر کیا اور پہلے وفد عبدالقیس کو دینی مسائل اور احکام شریعت کی تعلیم دی۔

یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر نوافل وقتیہ فوت ہو جائیں تو انہیں دوسرے وقت قضا پڑھ لینا چاہیے جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک میں نوافل وقتیہ کو صرف انہیں کے اوقات میں پڑھنا چاہیے غیر وقت میں ان کی قضاء نہیں ہے چنانچہ ان کی جانب سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی فرض نماز کے بعد ہی سنت کی دونوں رکعتیں پڑھنی شروع کر دی ہوں گی مگر وفد عبدالقیس کو علم دین کی تعلیم دینے کی ضرورت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز توڑ دی ہو گی اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں رکعتوں کی قضا عصر کی نماز کے بعد پڑھی۔

اس موقعہ پر اگر کہ کہا جائے کہ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کے بعد جو دو رکعت نماز پڑھی تھی وہ دراصل ظہر کے فرض کے بعد کی سنتیں تھیں جو وفد عبدالقیس کے ساتھ تعلیم دین کی مشغولی کی بناء پر پڑھنے سے رہ گئی تھیں لیکن ان احادیث کا کیا جواب ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو ہمیشہ ہی عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے چنانچہ صحیح البخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ روایت منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا  اس اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس دنیا سے اٹھایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کے بعد کی دو رکعتیں پڑھنا نہ چھوڑیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پروردگار سے ملاقات کی۔ اس قسم کی دیگر روایتیں بھی منقول ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ عصر کی فرض نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنا مکروہ ہے چنانچہ جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے نیز امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بھی ثابت ہے کہ وہ عصر کی فرض نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ایسے لوگوں کو مارتے بھی تھے جو عصر کے بعد نفل وغیرہ پڑھتے تھے۔

لہٰذا۔ اب یہی کیا جائے گا کہ اس ممانعت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عصر کی نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا دراصل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے تھا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صوم وصال (پے در پے روزے) رکھتے تھے مگر دوسروں کو اس سے منع فرماتے تھے۔

 

                    فجر کی سنتوں کی قضا کا مسئلہ

 

حضرت محمد ابن ابراہیم، قیس ابن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر کی فرض نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھا رہا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ  صبح کی نماز دو کعت ہے (پھر فرمایا کہ) دو رکعت ہی پڑھو!  اس آدمی نے عرض کیا کہ  فجر کی فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں (سنت) میں نے نہیں پڑھی تھیں انہیں کو میں نے اس وقت پڑھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم(یہ سن کر) خاموش ہو گئے۔ (سنن ابوداؤد) امام ترمذی نے بھی اس طرح نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد متصل نہیں ہے کیونکہ محمد بن ابراہیم کا قیس ابن عمرو سے سننا ثابت نہیں ہے ، نیز شرح السنہ اور مصابیح کے بعض نسخوں میں قیس ابن فہد سے اسی طرح منقول ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کے جملہ صَلٰوۃُ الصُّبْحِ رکعتین سے پہلے ایک لفظ مقدر ہے یعنی یہ عبارت پوری طرح یوں ہے اِجْعَلُوا صَلٰوۃُ الصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ۔ لفظ رکعتین نفی زیادیت کی تاکید کے لیے مکرر فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فجر کی فرض دو ہی رکعتیں پڑھو اس کے بعد اور کوئی نماز نہ پڑھو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نمازی کا جواب سن کر خاموش رہے۔ محدثین کی اصطلاح میں اس خاموشی کو تقریر کہا جاتا ہے رسول اللہ کے سامنے کوئی عمل کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر سکوت فرمایا گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس عمل سے راضی ہوئے ، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر فجر کی فرض نماز سے پہلے کی دو سنتیں نہ پڑھی جا سکیں تو فرض پڑھنے کے بعد ان کی قضا پڑھنی چاہیے ، چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک اس سلسلے میں یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کی قضا نہ تو طلوع آفتاب سے پہلے ہے اور نہ طلوع کے بعد ہے لیکن سنتیں اگر فرض کے ساتھ فوت ہوں گی تو وہ بھی فرض کے ساتھ زوال آفتاب سے پہلے پہلے قضا پڑھی جائیں گی۔

حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ محض سنتوں کی بھی قضا پڑھی جا سکتی ہے مگر طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کی دلیل یہ ہے کہ سنتوں میں اصل عدم قضا ہے اور قضا واجب کے ساتھ مخصوص ہے اور حدیث جو سنتوں کے قضا کے اثبات میں وارد ہے وہ ان سنتوں کے بارے میں ہے جو فرض کے ساتھ فوت ہو گئی ہوں بقیہ سنتیں اپنی اصل(عدم قضا پر رہیں گی یعنی ان کی قضا نہیں کی جائے گی جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو محمد ابن ابراہیم کی یہ حدیث چونکہ ضعیف ہے اس لیے اسے کسی مسلک کی بنیاد اور دلیل بنانا ٹھیک نہیں ہے۔

اسی طرح دوسرے اوقات کی سنتوں کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وقت کے بعد تنہا ان کی قضا نہ کی جائے البتہ وہ سنتیں جو فرض کے ساتھ فوت ہو گئی ہوں فرض کے ساتھ ان کی قضا کے بارے میں اختلاف ہے۔

 

                   خانہ کعبہ کا طواف ہر وقت کیا جا سکتا ہے

 

اور حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اے عبد مناف کی اولاد ! کسی کو اس گھر (خانہ کعبہ) کا طواف کرنے سے نہ روکو! اور رات دن میں جس وقت کوئی چاہیے اسے نماز پڑھنے دو۔ (جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

خانہ کعبہ کی خدمت عبد مناف کی اولاد کے سپرد تھی اور وہاں کے انتظامات و نگرانی انہیں کے ذمہ تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں حکم فرمایا کہ رات و دن کے کسی بھی حصے میں کوئی خانہ کعبہ کا طواف کرنا چاہیے تو اسے نہ روکو بلکہ اسے طواف کرنے دو، چنانچہ رات و دن کے ہر حصے میں خواہ آفتاب کے طلوع کا وقت ہو یا استواء (نصف النہار) کا وقت ہو تمام علماء کے نزدیک خانہ کعبہ کا طواف کیا جا سکتا ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

خانہ کعبہ میں ہر وقت نماز پڑھنے کا مسئلہ: البتہ اس بارے میں علماء کا یہاں اختلاف ہے کہ خانہ کعبہ میں رات و دن کے کسی بھی حصہ میں خواہ اوقات مکروہہ کیوں نہ ہوں نماز پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اس حدیث کی بناء پر خانہ کعبہ میں ہر وقت کوئی بھی نماز خواہ وہ طواف کی دو رکعتیں ہوں یا دوسری نماز ہو پڑھی جا سکتی ہے۔

حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں صرف طواف کی دو رکعتیں کسی وقت بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک خانہ کعبہ کے اندر اوقات مکروہ میں کوئی بھی نماز جائز نہیں ہے اوقات کی حرمت اور کراہت کے سلسلے میں مکہ کا حکم بھی دیگر شہروں کی طرح ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اوقات کی حرمت و کراہت کا حکم اور ان میں نماز پڑھنے کی ممانعت کے سلسلے میں جو احادیث منقول ہیں وہ سب عام ہیں ان میں کسی جگہ اور کسی شہر کی کوئی تخصیص نہیں ہے کہ فلاں جگہ تو ان اوقات میں نماز پڑھنی جائز ہے اور فلاں جگہ نا جائز ہے۔ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں جس وقت چا ہے نماز پڑھی جا سکتی البتہ اوقات مکروہ میں وہاں بھی نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اس تاویل سے تمام احادیث میں موافقت اور مطابقت بھی ہو جاتی ہے جو ایک ضروری چیز ہے۔

 

                   جمعہ کے روز نصف النہار کے وقت نماز پڑھنے کا مسئلہ

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹھیک دوپہر کے وقت جب تک کہ آفتاب ڈھل نہ جائے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے البتہ جمعہ کے دن (جائز ہے)۔  (شافعی)

 

تشریح

 

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تو یہی مسلک ہے کہ جمعہ کے روز ٹھیک دوپہر کے وقت بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جمعہ کے روز بھی نصف النہار کے وقت نماز پڑھنی درست نہیں (امام اعظم کا مسلک تو یہی ہے جو یہاں نقل کیا گیا ہے مگر امام ابو یو سف کا قول صحیح ہے اور معتمد کذا فی الاشباہ۔) ہے اس لیے کہ وہ احادیث جن میں مطلقاً نہی ثابت ہے اس حدیث کے مقابلے میں زیادہ مشہور ہیں اور یہ حدیث ضعیف ہے ان احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی یا پھر یہ کہا جائے گا کہ قاعدے کے مطابق کسی چیز کے بارے میں حرام اور مباح دونوں کے دلائل ہوں تو حرام کے دلائل کو ترجیح دی جائے گی۔

 

                   جمعہ کے روز نصف النہار کے وقت نماز پڑھنے کا مسئلہ

 

اور حضرت ابو الخیل حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ  سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم ٹھیک دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج نہ ڈھل جائے نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے علاوہ جمعہ کے دن کے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ  علاوہ جمعہ کے دن کے روزانہ (دوپہر کے وقت) دوزخ جھونکی جاتی ہے۔ اسی روایت کو امام ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت ابوقتادہ ر سے ابوالخلیل کی ملاقات ثابت نہیں ہے (لہٰذا اس حدیث کی اسناد متصل نہیں ہے۔)

 

                   اوقات مکروہ

 

حضرت عبداللہ صنابحی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کا سینگ ہوتا ہے پھر جب وہ بلند ہو جاتا ہے تو وہ الگ ہو جاتا ہے پھر جب دوپہر ہوتی ہے تو شیطان آفتاب کے قریب آ جاتا ہے اور جب آفتاب غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے تو شیطان اس کے قریب آ جاتا ہے اور جب آفتاب غائب (یعنی غروب) ہو جاتا ہے تو شیطان اس سے جدا ہو جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان اوقات میں (یعنی آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت اور ٹھیک دوپہر کے وقت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (مالک ، مسند احمد بن حنبل، سنن نسائی)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے نماز خواہ حقیقۃً ہو یا حکماً جیسے نماز جنازہ یا سجدہ تلاوت اور امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے باوجود اس کے کہ یہ روایت خود نقل کی ہے مگر وہ ٹھیک دوپہر کے وقت نماز کے حرام ہونے کے قائل نہیں ہیں بلکہ انہوں نے فرمایا ہے کہ  ہم نے اہل فضل کو دیکھا ہے کہ وہ کوشش کرتے تھے اور دوپہر میں نماز ادا کرتے تھے۔

 

                   نماز عصر کے بعد کوئی نماز جائز نہیں

 

اور حضرت ابو بصرہ غفاری فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے مقام مخمص میں ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور پھر فرمایا کہ یہ نماز تم سے پہلے لوگوں پر لازم کی گئی تھی لیکن انہوں نے ضائع کر دیا (یعنی نہ تو انہوں نے اس پر مداومت کی اور نہ اس کے حقوق ادا کئے) لہٰذا جو آدمی اس نماز کی حفاظت کرے گا (یعنی اس کو ہمیشہ پڑھتا اور اس کے حقوق ادا کرتا رہے گا) اس کو دوگنا ثواب ملے گا اور (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ) عصر کے بعد کوئی نماز نہیں جب تک کہ شاہد نہ نکلے اور شاہد ستارہ ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

دوگنا ثواب کا مطلب یہ ہے کہ ایک ثواب تو اس لیے ملے گا کہ یہ (یعنی نماز پڑھنا) نیک عمل ہے اور ہر نیک عمل پر ثواب ملتا ہے اور دوسرا ثواب اس نماز کی محافظت کرنے کی وجہ سے ملے گا برخلاف پچھلی قوموں کے کہ انہوں نے اس کی محافظت نہیں کی، اس لیے وہ مستحق عذاب ہوئے۔

ستارہ کو شاہد اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ رات کو حاضر ہوتا ہے یعنی طلوع ہوتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک غروب نہ ہو جائے عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔

 

                   عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کی ممانعت

 

اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ تم لوگ نماز پڑھتے ہو اور ہم سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں رہے لیکن ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ دو رکعتیں پرھتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ان سے (یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے سے) منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

دیگر روایات میں تو صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے لیکن یہاں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے انکار کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کی تاویل یہ کی جائے گی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کی مراد آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دو رکعتیں باہر لوگوں کے سامنے تو پڑھتے نہیں تھے۔ البتہ گھر میں عام لوگوں کی نگاہوں سے الگ ہو کر پڑھتے ہوں گے تاکہ دوسرے لوگ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی نہ کریں کیونکہ عصر کے بعد یہ دو رکعتیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کو پڑھنی درست تھیں دوسرے لوگوں کے لیے جائز نہیں تھیں۔ حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس مسئلے میں کہ آیا عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا جائز ہیں یا نہیں؟ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے متواتر احادیث ثابت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی فرض نماز پڑھ لینے کے بعد کوئی دوسری نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے نیز صحابہ کا عمل بھی اسی پر رہا ہے اس واسطے یہ کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اس کے کچھ خلاف کرے یعنی عصر کے بعد نماز پڑھنے کو جائز قرار دے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے کعبہ کے زینے پر چڑھ کر فرمایا کہ جس آدمی نے مجھے پہچانا (یعنی میرا نام جان لیا) اس نے مجھے (یعنی میری سچائی کو) پہچان لیا اور جس نے مجھ کو نہیں پہچانا تو (میں اس کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ  میں جندب ہوں میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد جب تک آفتاب طلوع نہ ہو جائے کوئی نماز نہیں ہے اور نہ عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز ہے جب تک آفتاب غروب نہ ہو جائے مگر مکہ میں مگر مکہ میں مگر مکہ میں (مسند احمد بن حنبل، رزین)

 

تشریح

 

خانہ کعبہ کا ردوازہ چونکہ بلند ہے اس لیے اس پر چڑھنے کے لیے زینہ تھا چنانچہ اب بھی ایک چوبی زینے منبر کی شکل میں ہے جو خانہ کعبہ کے سامنے چاہ زمزم کے پاس رکھا رہتا ہے جب خانہ کعبہ کے اندر داخلہ ہوتا ہے تو اس کو دروازے کے سامنے لگا دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد اس زینے کو وہاں سے ہٹا کر اپنی جگہ رکھ دیتے ہیں لہٰذا احتمال ہے کہ اس وقت بھی اس قسم کا یا کسی دوسری طرح کا زینے ہو گا جس کے ذریعے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہوں گے۔

بہر حال حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ جن کا نام جندب تھا۔ خانہ کعبہ کے زینے پر چڑھ کر یہ بات کہی تاکہ لوگ ان کی صداقت شعاری اور سچائی کی بناء پر حدیث کو صحیح جانیں۔ اس طرح حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ ابوذر سے زیادہ کسی راست گو اور سچے انسان پر نہ تو آسمان نے سایہ کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر اٹھایا۔

مکہ مکرمہ میں اوقات مکروہہ میں نماز کے جائز ہونے کے مسئلے کو اس سے پہلے حدیث نمبر سات میں بتایا جا چکا ہے اس موقعہ پر تو صرف اتنی بات جان لیجئے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

 

                    جماعت اور اس کی فضیلت کا بیان

 

جماعت کی فضیلت اور تاکید میں صحیح احادیث اس کثرت سے وارد ہیں کہ اگر سب کو یکجا کیا جائے تو ایک دفتر تیار ہو سکتا ہے اس باب کے تحت اسی قسم کی احادیث نقل کی جائیں گی جن سے جماعت کی فضیلت و تاکید اور اس کے احکام و مسائل کا علم حاصل ہو گا۔ ان احادیث کو دیکھنے کے بعد یقینی طور پر آپ یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ جماعت نماز کی تکمیل میں ایک اعلیٰ درجے کی شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی جماعت کو ترک نہیں فرمایا حتی کہ حالت مرض میں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے خود چل کر مسجد میں پہنچنا ممکن نہ تھا دو آدمیوں کے سہارے سے مسجد میں تشریف لے گئے اور جماعت سے نماز پڑھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت محمد یہ میں جماعت کا بڑا اہتمام کیا گیا ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ نماز جیسی عظیم عبادت کی شان اسی کی متقاضی تھی کہ جس چیز سے اس کی تکمیل ہو اسے اعلیٰ درجے پر پہنچایا جائے۔

جماعت فرض و واجب ہے یا نہیں؟: اس بارے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ آیا جماعت سنت ہے یا واجب اور یا فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ چنانچہ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جماعت فرض عین ہے الا کسی عذر کی وجہ سے ، یہ قول امام احمد بن حنبل، داؤد ، عطاء اور ابوثور رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا ہے بعض علماء کا قول یہ ہے کہ جو کوئی نماز کے لیے اذان سنے اور مسجد میں حاضر نہ ہو تو اس کی نماز درست نہیں ، حضرت امام شافعی کے رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جماعت فرض کفایہ ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے متبعین رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ جماعت سنت موکدہ واجب کے قریب ہے لیکن فقہ کی کتابوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت کے بارے میں حنفی فقہاء کے دو قول ہیں بعض کتابوں میں جماعت کو واجب لکھا گیا ہے اور بعض میں سنت موکدہ اور وجوب ہی کا قول راجح اور اکثر محققین حنفیہ کا مسلک بیان کیا گیا ہے چنانچہ مشہور محقق حضرت ابن ہمام لکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر مشائخ کا مسلک یہی ہے کہ جماعت واجب ہے لیکن اس کو سنت اس لیے کہا جاتا ہے کہ جماعت کا ثبوت سنت یعنی حدیث سے ہے نہ یہ کہ خود جماعت سنت ہے جیسا کہ نماز عیدین، وہ واجب ہے مگر اسے سنت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت حدیث سے ہے۔

جماعت کے احکام و مسائل: کتاب بدائع میں لکھا ہے کہ جماعت کے لیے مسجد میں حاضر ہونا ہر عقال بالغ غیر معذور پر واجب اور اگر ایک مسجد میں جماعت نہ ملے تو دوسری مسجدوں میں پھرنا واجب نہیں ہے البتہ جماعت کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر اگر دوسری مسجدوں میں جائے تو یہ اچھی ہی بات ہو گی، قدوری نے لکھا ہے کہ اس صورت میں کہ اگر مسجد میں جماعت نہ ملے ، تو چاہیے کہ اہل و عیال کو جمع کر کے گھر ہی میں جماعت سے نماز پڑھ لی جائے۔

اس مسئلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ محلے کی مسجد میں جماعت افضل ہے یا جامع مسجد میں ، اگر ایک محلے میں دو مسجدیں ہوں تو ان میں سے قدیم مسجد کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر دونوں برابر ہوں تو پھر جو مسجد قریب ہو اسے اختیار کیا جائے ، جماعت نماز تراویح میں اگرچہ ایک قرآن مجید جماعت کے ساتھ ہو چکا ہو اور نماز کسوف کے لیے سنت موکدہ ہے ، رمضان کے وتر میں جماعت مستحب ہے رمضان کے علاوہ اور کسی زمانہ کے وتر میں جماعت مکروہ تنزیہی ہے مگر اس کے مکروہ ہونے میں یہ شرط ہے کہ مواظبت کی جائے اگر مواظبت نہ کی جائے بلکہ کبھی کبھی دو تین آدمی جماعت سے پڑھ لیں تو مکروہ نہیں۔

نماز خسوف میں اور تمام نوافل میں جماعت مکروہ تحریمی ہے بشرطیکہ نوافل اس اہتمام سے ادا کئے جائیں جس اہتمام سے فرائض کی جماعت ہوتی ہے یعنی اذان و اقامت کے ساتھ یا کسی اور طریقے سے لوگوں کو جمع کر کے ہاں اگر بغیر اذان و اقامت کے اور بغیر بلائے ہوئے دو تین آدمی جمع ہو کر کسی نفل کو جماعت سے پڑھ لیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔

جماعت کی حکمتیں اور فائدے : جماعت کی حکمتیں کیا ہیں؟ اور اس کے کیا فائدے مرتب ہوتے ہیں ، اس موضوع پر علماء نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن اس سلسلے میں امام الکبیر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو لطیف و جامع بات کہی ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی چنانچہ اس موقع پر انہیں کی تقریر نقل کی جاتی ہے وہ فرماتے ہیں کہ

(١) کوئی چیز اس سے زیادہ سود مند نہیں کہ کوئی عبادت اس طرح رسم عام کر دی جائے کہ وہ عبادت ایک ضروری عادت ہو جائے کہ اس کو چھوڑنا کسی عادت کو ترک کرنے کی طرح ناممکن ہو جائے اور تمام عبادتوں میں نماز سے زیادہ عظیم و شاندار کوئی عبادت نہیں کہ اس کے ساتھ یہ خاص اہتمام کیا جائے

(٢) مذہب میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں جاہل بھی عالم بھی، لہٰذا یہ بڑی مصلحت کی بات ہے کہ سب لوگ جمع ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اس عبادت کو ادا کریں تاکہ کہ اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو دوسرا اسے بتا دے گویا اللہ کی عبادت ایک زیور ہوئی کہ تمام پرکھنے والے اسے دیکھتے ہیں جو خرابی اس میں ہوتی ہے بتلا دیتے ہیں اور جو عمدگی ہوتی ہے اسے پسند کرتے ہیں پس نماز کی تکمیل کا یہ ایک ذریعہ ہو گا۔

(٣) جو لوگ بے نمازی ہوں گے ان کا بھی اس سے حال کھل جائے گا اور ان کے لئے وعظ و نصیحت کا موقع ملے گا۔

(٤) چند مسلمانوں کا مل کر اللہ کی عبادت کرنا اور اس سے دعا مانگنا حق تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور قبولیت کے لیے ایک عجیب خاصیت رکھتا ہے۔

(٥) اس امت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا یہ مقصود ہے کہ اس کے نام کا کلمہ بلند ہو اور کلمہ کفر پست ہو اور روئے زمین پر کوئی اسلام سے غالب نہ رہے اور یہ بات جب ہی ہو سکتی ہے کہ یہ طریقہ مقرر کیا جائے کہ تمام مسلمان خواہ وہ کسی درجے اور کسی طبقے کے ہوں، عام و خاص مسافر اور مقیم ، چھوٹے اور بڑے سب ہی اپنی کسی بڑی اور مشہور عبادت کے لیے جمع ہوں اور اسلام کی شان و شوکت اور اس کی ترغیب دی گئی اور اس کے چھوڑنے کی ممانعت کی گئی۔ (حجۃ اللہ البالغہ)

(٦) جماعت میں یہ فائدہ بھی ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حال پر اطلاع ہوتی رہے گی، اور وہ ہر ایک کے درد و مصیبت میں شریک ہو سکیں گے جس سے دینی اخوت اور ایمانی محبت کا پورا اظہار و استحکام ہو گا جو اس شریعت کا ایک بڑا مقصود ہے اور جس کی تاکید و فضیلت جا بجا قرآن عظیم اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں بیان فرمائی گئی ہے۔ (علم الفقہ)

موجودہ زمانے کی نظریاتی دوڑ کے مطابق دیکھا جائے تو جماعت اسلام کے نظریہ مساوات کا سب سے اعلیٰ مظہر ہے دن میں پانچ مرتبہ اللہ کے تمام بندے جو دنیاوی اعتبار سے کسی بھی منصب و مرتبے کے ہوتے ہیں اپنی تمام برتری و فوقیت اور اپنے دنیاوی جاہ و جلال کو بالائے طاق رکھ کر اللہ کے حضور میں تمام عام مسلمانوں کے ساتھ مل کر سر بسجود ہو جاتے ہیں اور زبان حال سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

ترک جماعت کے عذر: جیسا کہ بتایا جا چکا ہے ہر عاقل بالغ غیر معذور پر جماعت واجب ہے لیکن اگر ایسا کوئی آدمی ہو یعنی اسے ایسا عذر لاحق ہو جس کی وجہ سے وہ مسجد میں جا کر جماعت میں شریک نہیں ہو سکتا ہو تو اس کے لیے جماعت واجب نہیں رہتی، چنانچہ فقہاء نے ترک جماعت کے پندرہ عذر (ماخوذ از علم الفقہ) بیان کئے ہیں۔

(١) نماز کے صحیح ہونے کی شرط مثلاً طہارت یا ستر عورت وغیرہ کا نہ پایا جانا۔

(٢) پانی کا بہت زوروں کے ساتھ برسنا، اس سلسلے میں حضرت امام محمد نے اپنی کتاب موطا میں لکھا ہے کہ اگرچہ شدید بارش کی صورت میں جماعت کے لیے نہ جانا جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ جا کر جماعت سے نماز پڑھی جائے۔

(٣) مسجد کے راستے میں سخت کیچڑ کا ہونا۔

(٤) سردی اتنی سخت ہو کہ باہر نکلنے میں یا مسجد تک جانے میں کسی بیماری کے پیدا ہو جانے یا بڑھ جانے کا خوف ہو۔

(٥) مسجد تک جانے میں مال و اسباب کے چوری ہو جانے کا خوف ہو۔

(٦) مسجد جانے میں کسی دشمن کے مل جانے کا خوف ہو۔

(٧) مسجد جانے میں کسی قرض خواہ کے ملنے اور اس سے تکلیف پہنچنے کا خوف ہو بشرطیکہ اس کے قرضے کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو اگر قادر ہو تو وہ ظالم سمجھا جائے گا اور اس کو ترک جماعت کی اجازت نہ ہو گی۔

(٨) رات اس قدر اندھیری ہو کہ راستہ نہ دکھائی دیتا ہو ایسی حالت میں یہ ضروری نہیں کہ لالٹین وغیرہ ساتھ لے کر جائے۔

(٩) رات کا وقت ہو اور آندھی بہت سخت چلتی ہو۔

(١٠) کسی مریض کی تیمار داری کرنا ہو کہ اس کے جماعت میں چلے جانے سے اس مریض کی تکلیف یا وحشت کا خوف ہو۔

(١١) پیشاب یا پاخانہ معلوم ہوتا ہو۔

(١٢) سفر کا ارادہ رکھتا ہو اور خوف ہو کہ جماعت سے نماز پڑھنے میں دیر ہو جائے گی اور قافلہ نکل جائے گا، ریل کا مسئلہ بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے مگر فرق اس قدر کہ وہاں ایک قافلے کے بعد دوسرا قافلہ بہت دنوں کے بعد ملتا ہے اور یہاں ریل ایک دن کئی بار جاتی ہے اگر ایک وقت کی ریل نہ ملی تو دوسرے وقت جا سکتا ہے ہاں اگر ایسا ہی سخت حرج ہوا ہو تو جماعت چھوڑ دینے میں مضائقہ نہیں۔

(١٣) فقہ وغیرہ پڑھنے یا پڑھانے میں ایسا مشغول رہتا ہو کہ بالکل فرصت نہ ملتی ہو۔

(١٤) کوئی ایسی بیماری مثلاً فالج وغیرہ ہو یا اتنا ضعیف ہو کہ چلنے پر قادر نہ ہو یا نا بینا ہوا گرچہ اس کو مسجد تک پہنچا دینے والا کوئی مل سکے یا لنگڑا ہو یا دونوں طرف سے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں۔

(١٥) کھانا تیار یا تیاری کے قریب ہو اور ایسی بھوک لگی ہو کہ نماز میں جی نہ لگنے کا خوف ہو۔

 

                    جماعت کی نماز کا ثواب

 

حضرت عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جماعت کی نماز تنہا نماز سے) (ثواب میں) ستائیس درجے زیادہ ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے تو جماعت کی نماز کے ثواب کی زیادتی ستائیس درجے معلوم ہوتی ہے مگر دوسری روایتوں میں پچیس درجے زیادتی مذکور ہے چنانچہ علماء محدثین لکھتے ہیں کہ اکثر روایتوں میں یہی ثابت ہے کہ جماعت کی نماز کا ثواب تنہا نماز کے ثواب سے پچیس درجے زیادہ ہوتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی ایک ایسی روایت ہے کہ جس میں ستائیس درجے کا ذکر کیا گیا ہے ، لہٰذا اس حدیث اور ان احادیث میں یہ تطبیق پیدا کی جائے گی کہ پہلے وحی کے ذریعے پچیس ہی درجے ثواب کی زیادتی معلوم ہوئی ہو گی پھر بعد میں حق تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ستائیس درجے ثواب کی زیادتی کا اعلان فرمایا ہو گا۔

یا تطبیق کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ یہ کہا جائے کہ درجات کا اختلاف نمازی کے احوال کے تفاوت کی بناء پر ہے یعنی کسی نمازی کو جماعت کی نماز کا ثواب اس کے اپنے احوال کی بناء پر ستائیس گنا ملتا ہے اور کسی نمازی کو جماعت کی نماز کا ثواب اس کے اپنے احوال کی بناء پر پچیس گناہ ملتا ہے۔

اس بارے میں اختلاف ہے کہ ثواب کی زیادتی کی یہ فضیلت اس جماعت کی نماز کے ساتھ مختص ہے جو مسجد میں ادا کی جائے گی یا اس جماعت کی نماز کے لیے بھی ہے جو مسجد میں نہیں بلکہ گھر وغیرہ میں ادا کی جائے چنانچہ علماء کے رائے تو یہ ہے کہ یہ فضیلت مسجد کی جماعت کے ساتھ مختص ہے مگر دوسرے بعض علماء کا قول ہے کہ یہ فضیلت عمومی طور پر ہر جماعت کی نماز کے لیے ہے خواہ مسجد میں ادا کی جانے والی جماعت ہو یا مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ۔

 

                   ترک جماعت پر وعید

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ (کسی خادم کو) لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور جب لکڑیاں جمع ہو جائیں تو (عشاء) کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دوں اور جب اذان ہو جائے تو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کسی آدمی کو مامور کروں اور پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو بغیر کسی عذر کے نماز کے لیے جماعت میں نہیں آتے اور ان کو اچانک پکڑوں) ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا) ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا دوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے (جو لوگ نماز کے لیے جماعت میں شریک نہیں ہوتے ان میں سے) اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ (مسجد میں) گوشت کی فربہ ہڈی بلکہ گائے یا بکری کے دو اچھے کھر مل جائیں گے تو عشاء کی نماز میں حاضر ہوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

اس حدیث سے جماعت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو لوگ جماعت کے لیے مسجدوں میں نہیں آتے ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہونے کی وعید کس مبالغے کے ساتھ بیان فرمائی جا رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بذات خود ارادہ فرمایا کہ جماعت ترک کر دیں اور ان لوگوں کو جماعت میں حاضر نہ ہونے کے جرم کی سزا دیں۔

آخر حدیث میں ایسے لوگوں کی ذہنی افتاد اور طبعی کمزوری کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ انہیں اگر یہ معلوم ہو جائے کہ مسجد میں دنیا کی ایسی حقیر شی بھی مل جائے گی تو وہ نماز میں شریک ہونے کے لیے بھاگے ہوئے آئیں مگر آخر کی سعادت و ثواب اور حق جل شانہ، کاقرب عظیم وغیرہ فانی چیز کے حصول کی طرف ان کا میلان نہیں ہوتا۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی عذر کی بناء پر کسی کو اپنا قائم مقام بنا دے اور خود اپنی ضرورت کی وجہ سے چلا جائے۔

 

                   نا بینا آدمی کو بھی جماعت میں شریک ہونے کی تاکید

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نا بینا آدمی (حضرت عبداللہ ابن مکتوم) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے لیے ایسا کوئی رہبر نہیں ہے جو مجھے مسجد میں لے جائے۔ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ انہیں گھر میں نماز پڑھ لینے کی رخصت یعنی اجازت دے دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اجازت دے دی (اس کے بعد) جب وہ مجلس نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے واپس لوٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں پھر بلایا اور ان سے فرمایا کہ کیا تم نماز کی اذان سنتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے لیے مسجد میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ (صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

صحیحین کی حدیث میں منقول ہے کہ  جب حضرت عتبان ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بینائی کا شکوہ کیا (کہ اس کی وجہ سے میں مسجد میں حاضری سے معذور ہوں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ اپنے گھر ہی میں نماز پڑھ لیا کریں۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ نابینا آدمی کو جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے مگر جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں دی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فضلائے مہاجرین میں سے تھے ان کی شان کے لائق یہی بات تھی کہ وہ اولیٰ پر عمل کریں یعنی جماعت میں حاضر ہوا کریں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں پہلے تو اجازت دے دی مگر پھر وحی آ جانے یا اجتہاد کے بدل جانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت واپس لے لی، اس حدیث میں اذان سننے کے بعد مسجد میں حاضری کی ضرورت و اہمیت کو کمال مبالغے کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔

 

                   سخت سردی و بارش کی وجہ سے جماعت چھوڑ دینا جائز ہے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے ایک رات میں جبکہ (سخت) سردی اور ہوا تھی نماز کے لیے اذان دی ، اور (اذان سے فارغ ہو کر لوگوں سے) کہا کہ خبردار ! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو  پھر فرمایا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم اس رات میں جبکہ (سخت) سردی اور بارش ہوتی موذن کو حکم دیتے تھے۔ کہ وہ (اذان سننے کے بعد لوگوں سے پکار کریہ بھی) کہہ دے کہ  خبر دار! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سخت سردی اور بارش بھی ترک جماعت کے لیے عذر ہے ایسے اوقات میں جمات چھوڑ کر اپنے گھر میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔

حضرت ابن ہمام حضرت ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ؟ میں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا کہ کیچٹر وغیرہ کی حالت میں جماعت کے لیے آپ کیا حکم دیتے ہیں تو انہوں نے فرمایا  جماعت کو چھوڑ دینا مجھے پسند نہیں۔

 

                   کھانا سامنے آ جائے تو کھانے سے فارغ ہو کر نماز پڑھنی چاہیے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کسی کے سامنے رات کا کھانا رکھا جائے اور (اسی وقت) نماز کی تکبیر کہی جائے تو وہ کھانا شروع کر دے اور کھانا کھانے میں جلدی نہ کرے بلکہ اس سے اطمینان کے ساتھ فارغ ہو۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ان کے سامنے کھانا رکھا جاتا اور نماز شروع ہو جاتی تو نماز کے لیے اس وقت تک نہ آتے جب تک کہ کھانے سے فارغ نہ ہو لیتے اور امام کی قرأت سنتے رہتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ظاہر ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ نماز پڑھنے والا بھوکا ہو اور وہ جانتا ہو کہ اس بھوک کی حالت میں نماز پڑھوں گا تو دھیان کھانے ہی میں لگا رہے گا اور نماز دل جمعی اور سکون کے ساتھ ادا نہیں کر سکوں گا تو اس کے لیے یہی اولیٰ ہو گا کہ وہ پہلے کھانا کھا لے اس کے بعد نماز پڑھے بشرطیکہ وقت میں وسعت ہو یعنی اتنا وقت ہو کہ وہ کھانے سے فراغت کے بعد اطمینان سے نماز پڑھ سکتا ہو۔

 

                   بول براز کی حاجت کے وقت نماز نہ پڑھنی چاہیے

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کھانا سامنے ہونے کی صورت میں نماز کامل نہیں ہوتی اور نہ اس حالت میں (نماز پوری ہوتی ہے) جب کہ دو خبیث (یعنی پیشاب و پاخانہ) اس (کی نماز میں حضوری قلب) کو ختم کریں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کے سامنے کھانا آیا ہو یا اسے پیشاب و پاخانہ کی حاجت ہو تو اسے اس وقت نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ بلکہ وہ ان چیزوں سے فارغ ہو کر نماز پڑھے۔

علامہ نووی فرماتے ہیں کہ  جب کسی کے سامنے کھانا آ جائے اور اسے کھانے کی خواہش ہو یا اسی طرح بول و براز کا تقاضا ہو تو اسی صورت میں اسے نماز پڑھنی مکروہ ہے اور ریح وقے بھی اس حکم میں ہے یعنی ان کو روک کر نماز نہ پڑھے کیونکہ ان کی وجہ سے نماز میں حضوری قلب اور خشوع و خضوع باقی نہ رہے گا جس کی وجہ سے نماز کامل طو پر ادا نہ ہو گی، مگر ان سب صورتوں میں وسعت وقت کی شرط ہے اگر وقت تنگ ہو تو بہر صورت نماز پہلے پڑھنی چاہیے۔

 

                   فرض نماز کی تکبیر ہو جانے پر دوسری نماز نہیں پڑھنی چاہیے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب نماز کھڑی ہو جائے (یعنی فرض نماز کے لیے تکبیر کہی جائے) تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موذن کے تکبیر کہنے کے بعد فجر کی سنتیں بھی نہ پڑھنی چاہئیں بلکہ امام کے ساتھ فرض نماز میں شریک ہو جانا چاہیے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر فجر کی سنتیں پڑھنے میں فرض کی ایک رکعت بھی ہاتھ لگ جانے کا یقین ہو تو سنتیں پڑھ لی جائیں اس کے بعد جماعت میں شریک ہوا جائے تاکہ سنتوں کا ثواب بھی ہاتھ سے نہ جائے اور جماعت کا ثواب بھی مل جائے۔ لیکن اس صورت میں سنتیں صف سے الگ ایک طرف پڑھنی چاہئیں ہاں اگر سنتیں پڑھنے میں فرض نماز کی دونوں رکعتیں فوت ہو جانے کا خوف ہو تو پھر اس صورت میں سنتیں چھوڑ دیں۔

حضرت ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  اس حدیث میں جو حکم ذکر کیا گیا ہے فجر کی سنتیں اس سے مشثنی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے

صلو ھاوان طردتکم الخیل

فجر کی سنتیں (ضرور) پڑھو اگرچہ تمہیں لشکر ہانکے۔

لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ فجر کی سنتوں کو پڑھنے کی بڑی تاکید ہے انہیں چھوڑنا نہیں چاہیے۔

حضرت علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  فجر کی سنتیں تمام سنتوں میں سب سے زیادہ اہم اور قوی تر ہیں یہاں تک کہ حسن کی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہ روایت ہے کہ  فجر کی سنتوں کو بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں۔

 

                   عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کسی کی عورت مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو اس کو منع مت کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ  یہ نہی کراہت تنزیہی پر محمول ہے اور حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورتوں کا مسجد میں جانا جائز ہیں لیکن موجودہ دور میں فتنے کے خوف سے عورتوں کو مسجد میں جانا مکروہ ہے چنانچہ اس کی موید صحیح البخاری و صحیح مسلم کی یہ روایت ہے کہ  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا  اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس چیز کو دیکھتے جو عورتوں نے پیدا کی ہے تو بے شک آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو (مسجد جانے سے) منع کر دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا۔

نیز حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عورتوں کو (مسجد میں) جانے سے منع فرمایا مگر بوڑھی عورتوں کو (اجازت دی وہ بھی) کاروبار کے یعنی میلے اور پرانے کپڑوں میں۔

اس کا حال یہ ہے کہ اگر بوڑھی عورتیں بغیر بناؤ سنگار اور خوشبو لگائے بغیر مسجد میں جانا چاہیں تو ان کے لیے ایک حد تک اجازت ہے۔ مگر جوان عورتوں کو تو مسجد میں جانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ پھر یہ کہ اس زمانے میں عورتیں مسجدوں میں دینی مسائل و احکام سیکھنے کی خاطر جایا کرتی تھی لیکن اب تو اس کی بھی احتیاج نہیں کیوں کہ دینی مسائل و احکام اتنے مشہورو واضح ہو چکے ہیں کہ گھر میں بیٹھی عورتوں کو بآسانی معلوم ہو جاتے ہیں۔

 

                   عورتیں خوشبو لگا کر مسجد میں نہ جائیں

 

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ مطہرہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے فرمایا کہ  جب تم میں سے کوئی (عورت) مسجد میں جائے تو وہ خوشبو نہ لگائے۔ (صحیح مسلم)

 

                    عورتوں کے لئے گھر ہی میں نماز پڑھنا بہتر ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو عورت بخور (یعنی خوشبو) لگائے وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شریک نہ ہو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

خوشبو دار چیز کا دھواں لینے کو بخور کہتے ہیں جیسے اگربتی وغیرہ۔ اس حدیث میں خاص طور پر عشاء کے وقت کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ اندھیرے کا وقت ہوتا ہے اس میں کسی فتنے و شر کے پیدا ہونے کا زیادہ خوف رہتا ہے۔ ویسے اوپر والی حدیث میں گزر ہی چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مطلقاً خوشبو لگا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم اپنی عورتوں کو مسجدوں (میں آنے) سے نہ روکو لیکن (نماز پڑھنے کے لیے) ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔ (ابوداؤد)

 

                   عورت کا کس جگہ نماز پڑھنا افضل ہے

 

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  عورت کا گھر کے اندر (یعنی دالان میں) نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھری میں نماز پڑھنا کھلے ہوئے مکان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جتنا پوشیدہ اور باپردہ ہو کر نماز پڑھے اس کے لیے افضل اور بہتر ہے کیونکہ اس کا سارا دارو مدار پردے کے اوپر ہے ، یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نَعَمَ الصَّھْرُ الْقَبْرُ (یعنی اچھی سسرال قبر ہے۔)

بہر حال اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو نماز پڑھنے کے لیے جس قدر پردہ زیادہ ہو بہتر ہے۔

 

                   خوشبو لگا کر مسجد میں جانے والی عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  اس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو مسجد جانے کے لیے خوشبو لگائے یہاں تک کہ وہ اگر خوشبو لگائے ہوئے ہو تو اچھی طرح) غسل نہ کرے جیسا کہ ناپاکی کا غسل کیا جاتا ہے۔ (سنن ابوداؤد، مسند احمد بن حنبل ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

اس حدیث میں بھی اسی بات سے شدت کے ساتھ منع کیا گیا ہے کہ کوئی عورت خوشبو لگا کر مسجد میں جانے کی جرأت نہ کرے یہاں تک کہ اگر کسی نے خوشبو لگا رکھی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ مسجد جاتے وقت غسل کر لے یعنی اگر اس نے پورے بدن پر خوشبو لگا رکھی ہے تو سارا بدن پانی سے دھو ڈالے تاکہ اس کے بدن سے خوشبو جاتی رہے اور اگر بدن کے کسی خاص حصے پر خوشبو لگی ہوئی ہو تو صرف اسی حصے کو دھو ڈالے اور اگر خوشبو کپڑوں پر لگی ہوئی ہو تو اس صورت میں وہ کپڑے تبدیل کر دئیے جائیں۔

خوشبو لگے ہوئے بدن کو دھونے یا کپڑے کو بدلنے کا یہ حکم اسی صورت میں ہے جب کہ مسجد میں جانے کا ارادہ کر لے۔ اگر مسجد میں جانے کا ارادہ نہ ہو بلکہ گھر ہی میں نماز پڑھنی ہو تو پھر اس حکم پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔

حضرت ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم خوشبو لگا کر مسجد میں جانے والی عورتوں کو زجر میں مبالغے کے طور پر ہے کیونکہ اس صورت میں فتنہ و شر زیادہ پیدا ہوتا ہے معطر عورت کی طرف لوگوں کی رغبت زیادہ ہوتی ہے۔

 

                   خوشبو لگا کر باہر نکلنے والی عورتوں کے بارے میں وعید

 

اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہر آنکھ زناکرنے والی ہے (جب کہ وہ کسی غیر عورت کی طرف بری نظر سے دیکھے کیونکہ اجنبی عورت کی طرف بری نظر سے دیکھنا آنکھ کا زنا ہے) اور جو عورت خوشبو لگا کر (مردوں کی) مجلس سے گزرے (اور چا ہے کہ لوگ اس کی طرف دیکھیں تو وہ ایسی ہے ایسی ہے یعنی زانیہ ہے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

 

تشریح

 

جس عورت نے خوشبو لگا کر مردوں کی مجلس میں اپنے آپ کو جلوہ گاہ بنایا تو وہ زانیہ ہے کیونکہ اس نے خوشبو لگا کر غیر مردوں کو اس بات کی رغبت دلائی کہ وہ اس کی طرف دیکھیں اور جب انہوں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہوئے اور چونکہ یہ عورت اس فتنے کا خود باعث بنی ہے اس لیے گویا اسی نے زنا کے فعل کا ارتکاب کیا ہے۔

 

                   فجر اور عشاء کی نمازوں کی فضیلت

 

اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیر چکے تو (ایک آدمی کا نام لے کر اس کے بارے میں) فرمایا کہ فلاں آدمی حاضر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک دوسرے آدمی کا نام لے کر اس کے بارے میں) فرمایا کہ فلاں شخص حاضر ہے ، صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں۔ (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تمام نمازوں میں سے یہ دونوں (یعنی فجر و عشاء) کی نمازیں منافقین پر بہت گراں گزرتی ہیں، اگر تم جان لیتے کہ ان دونوں نمازوں کا کتنا ثواب ہے ، تو تم (دوڑ کر اور) گھٹنوں کے بل (یعنی افتاں و خیزاں) آتے اور (ثواب و فضیلت نیز تقرب الی اللہ کے سلسلے میں) پہلی صف فرشتوں کی صف کی طرح ہے اگر تم پہلی صف کی فضیلت جان لو تو اس میں شامل ہونے کے لیے جلدی پہنچنے کی کوشش کرنے لگو اور آدمی کا اکیلے نماز پڑھنے سے دوسرے آدمی کے ساتھ مل کر پڑھنا زیادہ ثواب کا باعث ہے اور دو آدمیوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب کا باعث ہے اور جس قدر زیادہ (نمازی ایک ساتھ یعنی جماعت سے نماز پڑھتے) ہوں اللہ کے نزدیک یہ سب سے محبوب ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

منافق کا ہر عمل ریا پر مبنی ہوتا ہے اور اس کی ہر عبادت نمائش کی خاطر ہوتی ہے چنانچہ فجر و عشاء کے علاوہ دوسری نمازیں تو منافقین پر زیادہ گراں نہیں گزرتیں کیونکہ ان نمازوں میں نہ صرف یہ کہ زیادہ کسل و سستی نہیں ہوتی بلکہ زیادہ نمائش بھی خوب ہو جاتی ہے برخلاف اس کے کہ فجر و عشا کی نماز میں چونکہ محنت زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ کسل بھی ہوتا ہے اور پھر یہ کہ ریا و نمائش کا زیادہ موقع نہیں ملتا اس لئے دونوں نمازیں ان پر بڑی گراں گزرتی ہیں۔ اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ فرمایا گیا ہے اور اس کے بعد ان دونوں نمازوں کی فضیلت کو ظاہر کر دیا گیا ہے تاکہ مخلص و صادق مسلمان ان نمازوں سے کسی بھی وجہ سے محروم نہ رہیں۔

 

                   جماعت سے نماز پڑھنے والوں پر شیطان غالب نہیں ہوتا

 

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس بستی اور جنگل میں تین آدمی ہوں اور جماعت سے نماز نہ پڑھتے ہوں تو ان پر شیطان غالب رہتا ہے لہٰذا تم جماعت کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ اس بکری کو بھیڑیا کھا جاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو (کر تنہا رہ) جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

اجتماعیت میں فلاح و کامیابی ہے اور انفرادیت میں خسران و ناکامی ، چنانچہ اسلام اپنے متبعین کو اجتماعیت کی تعلیم بڑی اہمیت کے ساتھ دیتا ہے اور اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ اگر اپنی قوم و ملی شان و شوکت کو برقرار رکھنا ہے اور اپنی امتیازی حیثیت کو پوری طاقت کے ساتھ دنیا سے منوانا ہے تو پھر اجتماعیت کے راستہ سے کبھی انحراف نہ کرنا، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی اکثر و بیشتر عبادات شان اجتماعیت کی حامل ہیں۔

یہ تو دنیا کی دیکھی بات ہے کہ جو آدمی تن تنہا رہتا ہے نہ تو اس کی کوئی حیثیت و وقعت ہوتی ہے اور نہ اس کی کسی بات میں کوئی طاقت ہوتی ہے جب کوئی چاہتا ہے بڑی آسانی کے ساتھ اس پر قابو پا لیتا ہے لیکن جو افراد اجتماعیت کے ساتھ رہتے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کی ہر بات میں ایک وزن ہوتا ہے بلکہ ان کی قوت و طاقت سے سب ہی لوگ مرعوب رہتے ہیں۔ یہی حالت شیطان کا ہے کہ کسی تنہا مسلمان پر اس کا اثر بہت جلدی ہوتا ہے مگر اس کے برخلاف مسلمانوں کی کسی جماعت پر اس کے مکر و فریب کا جادو نہیں چلتا۔

چنانچہ اس حدیث میں یہی بتایا جا رہا ہے کہ اگر کسی بستی یا کسی جنگل میں تین افراد رہتے ہوں اور اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ جس طرح ایک بھیڑیا بکریوں کے کسی ریوڑ پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرتا مگر جب کوئی بکری ریوڑ سے الگ ہو کر بالکل تنہا رہ جاتی ہے تو بھیڑیا اسے آن واحد میں اپنی غذا بنا لیتا ہے۔

 

                   بغیر عذر جماعت میں شریک نہ ہونے والے نمازی کی نماز قبول نہیں ہوتی

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی اذان کہنے والے (یعنی موذن) کی اذان سنے اور موذن کی تابعداری (یعنی مسجد پہنچ کر جماعت میں شریک ہونے) سے اسے کوئی عذر نہ روکے لوگوں نے پوچھا کہ عذر کیا ہے؟ فرمایا کہ ) (دشمن سے) ڈرنا، بیماری تو اس کی نماز جو بغیر جماعت اگرچہ مسجد ہی میں پڑھے قبول نہیں کی جاتی۔ (ابوداؤد، دارقطنی)

 

تشریح

 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ حدیث بیان فرما رہے تھے کہ لوگوں نے درمیان میں پوچھا کہ وہ کیا عذر ہے جو جماعت سے روک سکتا ہے تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ڈر، خواہ کسی دشمن سے جان کا ہو یا مال و آبرو کا، یا کوئی سخت بیماری ہو حضرت ابن مالک نے ڈر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ڈر خواہ تو کسی کے ظلم کا شکار ہو جانے کا ہو یا ڈر کسی قرضدار کا ہو ایسی صورت میں کہ وہ اپنی مفلسی کی وجہ سے قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہو۔ ان اعذار کے علاوہ اس سے پہلے بقیہ اعذار ذکر کئے جا چکے ہیں مثلاً سخت سردی و بارش یا کھانا سامنے آچکا ہو ، یا استنجے کی حاجت ہو یہ سب چیزیں ترک جماعت کے حق میں معقول عذر ہیں اسی طرح بیماری بھی عذر ہے ، مگر ایسی بیماری جس کی وجہ سے مسجد میں پہنچنا ممکن نہ ہو۔

بہر حال اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو آدمی مؤذن کی اذان سنے اور پھر مؤذن کی تابعداری نہ کرے یعنی جماعت میں بلا عذر شریک نہ ہو تو اس کی نماز قبول نہیں ہو گی۔ ہاں اگر کوئی آدمی کسی عذر کی بنا پر جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کی نماز قبول ہو جائے گی لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہاں  قبول نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی نماز سرے سے ادا نہیں ہو گی بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ اس کے ذمہ سے نماز کی فرضیت تو ساقط ہو جائے گی مگر اسے نماز کا ثواب نہیں ملے گا۔ جیسا کہ اگر کوئی آدمی غصب کی گئی زمین پر نماز پڑھے تو اس کے ذمہ سے نماز کی فرضیت تو ساقط ہو جاتی ہے مگر اسے نماز کا ثواب نہیں ملتا یا اسی طرح اگر کوئی آدمی حرام مال سے حج کرے تو اس کے ذمہ سے فرض تو اتر جاتا ہے مگر اسے ثواب نہیں ملتا۔

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث اور اس سے پہلے گزرنے والی حدیث کے پیش نظر کسی آدمی کے لیے قصداً بلا عذر جماعت ترک کرنے کی مطلقاً اجازت نہیں ہے۔

 

                   جماعت کھڑی ہو جائے اور استنجے کی حاجت ہو تو پہلے استنجے سے فارغ ہو جانا چاہیے

 

اور حضرت عبد اللہ ابن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  اگر نماز (کے لیے) جماعت کھڑی ہو جائے اور تم میں سے کسی کو پاخانے کی حاجت ہو تو اسے چاہیے کہ وہ پہلے پاخانے کو چلا جائے (اگرچہ جماعت ترک ہو جائے)۔ (جامع ترمذی ، مالک، ابوداؤد، سنن نسائی)

 

                   تین چیزوں کی ممانعت

 

اور حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تین چیزیں ایسی ہیں جن کا کرنا کسی کے لیے حلال نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ کوئی آدمی کسی جماعت کا امام بنے اور دعاء میں جماعت کو شریک کئے بغیر اپنی ذات کو مخصوص کرے اگر کسی نے ایسا کیا تو اس نے جماعت کے ساتھ خیانت کی۔

دوم یہ کہ کوئی آدمی کسی کے گھر میں اجازت حاصل کئے بغیر نظر نہ ڈالے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس نے گھر والوں کے ساتھ خیانت کی۔ سوم یہ کہ کوئی آدمی ایسی حالت میں نماز نہ پڑھے کہ وہ پیشاب یا پاخانہ کئے ہوئے ہو یہاں تک کہ وہ (استنجے سے فارغ ہو کر) ہلکا ہو جائے۔ (ابوداؤد،،جامع ترمذی)

 

                   کھانے کی وجہ سے نماز میں تاخیر کی ممانعت

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کھانے کے لیے یا کسی اور وجہ سے نماز کو (اس کے وقت سے) موخر نہ کرو۔  (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

اس سے پہلے ایک حدیث (نمبر ٦) گزر چکی ہے جس سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ (جب کھانا سامنے آ جائے تو) پہلے کھانا کھا لیا جائے اور اس کے بعد نماز پڑھی جائے اور یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ کھانے وغیرہ کی خاطر نماز کو موخر نہ کیا جائے ، چونکہ ان دونوں احادیث میں تعارض واقع ہو رہا ہے کہ اس لیے سمجھ لیجئے کہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ اگر کھانا کھانے کی صورت میں نماز کا وقت ختم ہو جانے کا اندیشہ ہو تو پھر یہی حکم ہے کہ نماز کو موخر نہ کیا جائے۔

اور حدیث نمبر ٦ کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ وقت میں وسعت ہو اور کھانا سامنے آ چکا ہو نیز کھانے کی خواہش بھی ہو تو یہ حکم ہو گا کہ پہلے کھانا کھا لیا جائے اس کے بعد نماز پڑھی جائے۔ اس فائدے سے دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔

 

                   جماعت سے نماز پڑھنے کی تاکید

 

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ نماز با جماعت سے صرف وہی منافق لوگ پیچھے رہتے تھے جن کا نفاق معلوم اور کھلا ہوا تھا (یعنی جن لوگوں کا نفاق پوشیدہ تھا وہ بھی جماعت میں حاضر ہوتے تھے) یا بیمار رہ جاتے تھے (یعنی جس مریض کو مسجد آنے کی کچھ نہ کچھ طاقت ہوتی تھی وہ بھی جماعت میں آتا تھا چنانچہ  جو مریض دو آدمیوں کے درمیان (یعنی ان کے سہارے سے) چل سکتا تھا وہ بھی نماز میں آتا تھا۔ (اس کے بعد) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا  بے شک سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے ہیں اور ہدایت کے ان طریقوں میں سے (ایک طریقہ) اس مسجد میں (جماعت سے) نماز پڑھنا ہے جس میں اذان دی جاتی ہو ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا  جس آدمی کے لیے یہ بات خوش کن ہو کہ وہ کل کے دن اللہ سے کامل مسلمان کی حیثیت سے ملاقات کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ان پانچوں نمازوں کی اس جگہ حفاظت کرے جہاں ان نمازوں کے لیے اذان دی جاتی ہو (یعنی مسجد میں ان پانچوں نمازوں کو جماعت کے ساتھ پابندی سے ادا کرتا رہے ہے) کیونکہ اللہ جل شانہ نے تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہدایت کے (تمام) طریقے مقرر کر دیئے تھے اور ان پانچوں نمازوں کو جماعت سے پڑھنا بھی ہدایت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ اگر تم اپنی نماز کو اپنے گھروں میں (اگرچہ جماعت سے) پڑھو گے جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا (یعنی منافق) نماز پڑھتا ہے تو سمجھ لو کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو چھوڑنے والے ہو گے اور اگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو چھوڑ دو گے تو بیشک گمراہ ہو جاؤ گے۔ اور جو آدمی پاک ہو کر اچھی طرح وضو کرتا ہے (یعنی وضو کے پورے حقوق و آداب کا لحاظ رکھتا ہے اور اس کے تمام واجبات و سنن کو ادا کرتا ہے اور پھر ان مساجد میں سے کسی مسجد میں جاتا ہے تو رب قدوس اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ (مسجد کی راہ میں) رکھتا ہے ایک نیکی لکھتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک برائی کو اس سے دور کر دیتا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ کھلے ہوئے منافق کے علاوہ کوئی آدمی جماعت سے پیچھے نہ رہتا تھا (یعنی جماعت ترک نہ کرتا تھا) یہاں تک کہ بیمار آدمی اس حالت میں نماز میں لایا جاتا کہ وہ (انتہائی ضعف و کمزوری کی وجہ سے دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے ہوتا اور اس کو صف میں لا کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

سنن الھدی (ہدایت کے طریقے) ان طریقوں اور راستوں کو کہتے ہیں جن پر عمل کرنا ہدایت کا موجب اور حق تعالیٰ جل شانہ کے قرب اور اس کی رضا کا باعث ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال کی قسمیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال دو نوعیت کے ہوتے تھے ! ایک قسم کے افعال تو وہ تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بطور عبادت کرتے تھے۔ دوسرے قسم کے افعال وہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بطریق عادت کرتے تھے۔ جن افعال کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بطریق عادت کرتے تھے انہیں  سنن زوائد کہاجاتا ہے اور جن افعال کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بطریق عبادت کرتے تھے انہیں  سنن ہدی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

پھر سنن ہدی کی دو قسمیں ہیں (١) سنن مؤکدہ (٢) سنن غیر مؤکدہ۔

سنن موکدہ۔ وہ افعال ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطریق مواظبت کے کیا اور لوگوں کو ان افعال کے کرنے کی تاکید فرمائی۔

سنن غیر موکدہ۔ وہ افعال ہیں جو نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بطریق مواظبت کے صادر ہوتے تھے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان پر عمل کرنے کے لیے لوگوں کو تاکید فرماتے تھے۔

اس حدیث میں جن سنن ہدی کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد  سنن موکدہ ہیں۔ جو حضرات جماعت کو واجب قرار دیتے ہیں یہ تعریف ان کے نقطہ نظر کے بھی منافی نہیں ہے کیونکہ لغۃً واجب بھی سنن ہدی کی تعریف میں داخل ہے

احمد بن حنبل اور طبرانی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوعاً روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  ظلم پورا ظلم، کفر اور نفاق (کا حامل) وہ (آدمی) ہے کہ اللہ کے پکارنے والے کو سنا کہ وہ مسجد کی طرف (نماز کی جماعت میں شریک ہونے کے لیے) پکارتا ہے مگر اس (آدمی نے) جواب نہیں دیا (یعنی مسجد میں پہنچ کر جماعت میں شریک نہیں ہوا) اس روایت کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ان لوگوں کے بارے میں جو (مسجد میں ہونے والی) جماعت کو ترک کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سخت ترین وعید ہے۔

کما یصلی ھذا المتخلف فی بیتہ (جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا آدمی اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے) سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی خاص آدمی تھا جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتا تھا چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح یہ آدمی جماعت کی سعادت سے اپنے آپ کو محروم کر کے گھر میں نماز پڑھ لیتا ہے ، اسی طرح اگر تم لوگ بھی اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو یہ سمجھ لو کہ اس آدمی کی طرح تمہارا بھی یہ فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو چھوڑنے کے مترادف ہو گا اور ظاہر ہے کہ سنت کو ترک کرنے والا آدمی ضلالت و گمراہی کی تباہ کن کھائی میں گرتا ہے۔

 

                   جماعت کو چھوڑنے والا سخت گناہ گار ہوتا ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر گھر میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں عشاء کی نماز قائم کر کے خادموں کو حکم دیتا کہ (جو لوگ نماز میں حاضر نہیں ہوئے ان کے) گھر بار آگ سے جلا دئیے جائیں۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

 

تشریح

 

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں اور بچوں کے لیے جماعت سے نماز پڑھنا چونکہ واجب نہیں ہے اس لیے ان کو بچانے کا خیال ضروری ہے کہ یہ بے خطا دوسروں کی سزا میں تکلیف نہ پا جائیں۔ اگر عورتوں اور بچے گھروں میں نہ ہوتے تو عشاء کی نماز قائم کرنے کا حکم دیتا اور صحابہ سے کہتا کہ جو لوگ جماعت میں حاضر نہیں ہوئے ہیں ان کو اور ان کے گھروں کے اسباب کو آگ کے شعلوں میں جھونک دیا جائے تاکہ انہیں احساس ہو کہ جماعت کو ترک کرنے کی سزا کیا ہے؟

اس سے معلوم ہوا کہ جماعت چھوڑنے والا سخت گناہ گار ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے جلانے کا قصد فرمایا ہے۔

 

                   اذان ہو جانے کے بعد بغیر نماز پڑھے مسجد سے نہ نکلنے کا حکم

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ تم مسجد میں موجود ہو اور نماز کے لیے اذان ہو جائے تو تم میں سے کوئی آدمی بغیر نماز پڑھے مسجد سے نہ نکلے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

علماء حنفیہ کے نزدیک اذان کے بعد مسجد سے نہ نکلنے کا یہ حکم اس آدمی کے لیے ہے جو کسی دوسری جماعت کا منتظم نہ ہو یعنی اگر کوئی آدمی کسی دوسری مسجد کا امام ہو تو اذان کے بعد مسجد سے جا سکتا ہے اگر کوئی آدمی دوسری مسجد کا امام نہ ہو یا جا کر واپس آنے کا قصد نہ کرے تو اس کا اذان سن کر مسجد سے نکلنا جائز نہیں۔ہاں اگر کوئی آدمی نماز پڑھ چکا ہے تو اس کے لیے مسجد سے نکلنا مکروہ نہیں لیکن ظہر اور عشاء کی نماز کے لئے اگر مؤذن تکبیر کہنی شروع کر دے تو اسے بھی نماز پڑھ لینے کے باوجود جماعت میں شریک ہونا چاہیے تاکہ ترک جماعت کا الزام نہ آئے دوسرے ائمہ کے نزدیک ایسی صورت میں ہر نماز میں شریک ہو جانا چاہیے۔ ان کے ہاں ظہر و عشاء کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو شعثاء فرماتے ہیں کہ (ایک دن) اذان ہو جانے کے بعد ایک آدمی مسجد سے نکلا تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ  اس آدمی نے ابوالقاسم(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کی نا فرمانی کی۔ (صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی مسجد میں ہو اور اذان ہو جائے پھر وہ بغیر کسی ضرورت کے مسجد سے چلا جائے اور (جماعت میں شریک ہونے کے لیے) واپس آنے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو تو وہ منافق ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اگر کوئی آدمی مسجد میں موجود ہو اور اذان ہو جائے اور پھر وہ جماعت کی سعادت سے منہ موڑ کر مسجد سے چلا جائے تو یہ بڑی بد بختی کی بات ہے۔ چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ ایسا آدمی ترک جماعت کا گناہ گار ہونے کی وجہ سے منافق کی طرح ہوتا ہے۔

 

                   زبان و عمل سے اذان کا جواب نہ دینے والے کی نماز کامل نہیں ہوتی

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی نے اذان سنی اور اس کا جواب نہ دیا تو اس کی نماز (کامل یا قبول نہیں ہوتی مگر کسی عذر کی وجہ سے (ایسا کیا تو مضائقہ نہیں۔  (دار قطنی)

 

تشریح

 

اذان کا جواب دینا ایک تو زبان سے ہوتا ہے جیسے مؤذن کلمات اذان کہے تو سننے والا ان کلمات کو دہرائے اور ایک جواب عمل سے ہوتا ہے چنانچہ جو آدمی موذن کی اذان سن کر مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے آتا ہے وہ اپنے عمل سے مؤذن کی اذان کا جواب دیتا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زبان و عمل دونوں کے جواب پر نماز کی قبولیت اور نماز کی تکمیل موقوف ہے یعنی جس آدمی نے اذان سن کر اس کا جواب نہ تو زبان سے دیا اور نہ مسجد میں آ کر عمل سے دیا تو اس کی نماز پائے تکمیل اور باب قبولیت کو نہیں پہنچتی اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اصل جواب عمل یعنی مسجد میں آنا ہی ہے اور اس کی زیادہ تاکید ہے۔

 

                   نابینا آدمی کو بھی جماعت نہ چھوڑنی چاہیے

 

اور حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول ! مدینہ میں موذی جانور اور درندے بہت ہیں اور میں نابینا ہوں (اس عذر کی وجہ سے) کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں جماعت میں نہ آؤں اور اپنی نماز میں گھر ہی پڑھ لوں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن) کر فرمایا کیا تم حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح سنتے ہو؟ میں نے عرض کیا  جی ہاں ! فرمایا  جماعت میں آیا کرو اور انہیں جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں دی۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خاص طور پر حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کا ذکر کیا کیونکہ ان الفاظ میں نماز کی طرف بلانا اور ترغیب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ام درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک روز میرے خاوند) حضرت ابودرد اء رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس غصے میں بھرے بھرے ہوئے آئے (ان کی حالت دیکھ کر) میں نے پوچھا کہ کس چیز نے آپ کو غضبناک بنایا؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے بارے میں (پہلی جیسی) ایک یہی بات جانتا تھا کہ وہ جماعت سے نماز پڑھتے ہیں مگر (اب اسے بھی چھوڑ دیتے ہیں)۔ (صحیح البخاری)

 

                   فجر کی نماز جماعت سے پڑھنا رات بھر عبادت کرنے سے بہتر ہے

 

اور حضرت ابوبکر ابن سلیمان ابن ابی حثمہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) حضرت عمر فاروق نے فجر کی نماز میں (میرے والد) حضرت سلیمان ابن ابی حثمہ کو نہیں پایا۔ حضرت عمر جب صبح کو بازار جانے لگے تو سلیمان کا مکان چونکہ مسجد اور بازار کے درمیان تھا اس لیے وہ سلیمان کی والدہ شفاء کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ (کیا بات ہے) آج میں نے سلیمان کو فجر کی نماز میں نہیں دیکھا؟ سلیمان کی والدہ کہنے لگیں (کہ بات یہ ہوئی) کہ سلیمان نے آج پوری رات نماز پڑھنے میں گزاری اور (صبح ہوتے ہوتے) ان کی آنکھ لگ گئی (اس لیے وہ نماز فجر میں حاضر نہ ہو سکے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا  میں صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لینا رات بھر (عبادت کے لیے) کھڑے رہنے سے بہتر سمجھتا ہوں۔ (مالک)

 

تشریح

 

اس حدیث سے نماز فجر با جماعت پڑھنے کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ لگائیے کہ حضرت سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات بھر عبادت خداوندی میں مصروف رہے اور نماز پڑھتے رہے مگر صبح ہوتے ہوتے آنکھ لگ جانے کی وجہ سے چونکہ وہ فجر کی جماعت میں شریک نہ ہو سکے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی والدہ سے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ افضل نہیں ہے کہ رات بھر عبادت کی جائے مگر فجر کی جماعت چھوڑ دی جائے اگر کوئی آدمی رات بھر عبادت خداوندی میں مشغول رہنے کے باوجود فجر کی جماعت میں شامل ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے افضل کوئی بات ہی نہیں ہے۔ مگر رات بھر عبادت خدا وندی میں مصروف رہنے اور پھر بعد میں بتقاضائے بشریت آنکھ وغیرہ لگ جانے کی وجہ سے فجر کی جماعت ترک ہو جائے تو میں اسے اچھا نہیں سمجھتا۔ یہ بہتر ہے کہ رات بھر آرام کیا جائے اور فجر کی جماعت میں پابندی سے شرکت کی جائے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کو عبادت کرنے اور تہجد کی نماز پڑھنے سے فجر کی جماعت میں شریک ہونا زیادہ فضیلت کی بات ہے۔

 

                   دو آدمیوں کی جماعت ہو جاتی ہے

 

اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  دو آدمی ہوں یا دو سے زیادہ ہوں، ان سے جماعت (ہو سکتی) ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جماعت کے انعقاد کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ ہوں یا کم سے کم تین آدمیوں کا ہونا ضروری ہے بلکہ اگر صرف دو آدمی ہوں اور ان میں سے ایک امام بن جائے اور دوسرا مقتدی، اس طرح دونوں مل کر نماز پڑھ لیں تو جماعت ہو جاتی ہے اور دونوں کو جماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔

 

                   عورتوں کے مسجد جانے کا مسئلہ

 

اور حضرت بلال ابن عبداللہ اپنے والد مکرم (حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک روز) کہا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  جب عورتیں تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو تم انہیں (روک کر) ان کو مساجد کے حصے سے محروم نہ کرو (یعنی مسجد میں جانے کا ثواب انہیں ملتا ہے تو انہیں مسجدوں میں جانے سے روک کر اس ثواب کے حاصل کرنے سے نہ روکو) بلال نے کہا کہ  اللہ کی قسم ہم تو انہیں ضرور منع کریں گے حضرت عبداللہ نے بلال سے فرمایا کہ میں تو کہہ رہا ہوں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے اور تم کہتے ہو کہ تم تو انہیں ضرور منع کرو گے۔ ایک دوسری روایت میں حضرت سالم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ  پھر (اس کے بعد) حضرت عبداللہ بلال کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اس قدر برا بھلا کہا کہ میں نے تو کبھی حضرت عبداللہ کی زبان سے انہیں اس قدر برا بھلا کہتے نہیں سنا اور پھر کہا کہ  میں تو کہتا ہوں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں ضرور منع کریں گے۔

 

تشریح

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلال سے اس لیے ناراض ہوئے اور انہیں برا بھلا کہا کہ انہوں نے بظاہر ایسے الفاظ سے جواب دیا جن سے اپنی رائے کے ساتھ حدیث کا مقابلہ کرنا معلوم ہوتا تھا۔ اگر بلال اس نزاکت کا احساس دلاتے ہوئے کہتے کہ اب اس زمانہ میں عورتوں کا مسجد میں جانا مناسب نہیں ہے تو حضرت عبداللہ ناراض نہ ہوتے ، یہی وجہ ہے کہ علماء نے ماحول کی نزاکت کے پیش نظر عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع کیا ہے چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانے میں امام عورتوں کی نیت نہ کرے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ موجودہ دور کے تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اب اس زمانہ میں جب کہ فتنہ و شر کا دور ہے عورتوں کے لیے مسجد میں جانا مکروہ ہے۔

 

 

 

٭٭حضرت مجاہد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  کوئی آدمی اپنے اہل (یعنی اپنی بیوی) کو مساجد میں جانے سے منع نہ کرے۔ (یہ سن کر) حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزادے (بلال) نے کہا کہ  ہم تو انہیں منع کریں گے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا کہ  میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے سے (آخر عمر تک) گفتگو نہیں کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

تشریح

 

اس حدیث کی وضاحت وہی ہے جو پہلے کی جا چکی ہے کہ اپنے صاحبزادے سے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس قدر شدید ناراضگی کہ آخر عمر تک ان سے گفتگو نہیں کی محض اس بناء پر تھی کہ ان کے صاحبزادے نے اپنے ما فی الضمیر کو اس انداز سے ظاہر کیا جو حدیث نبوی کے مقابل معلوم ہوتا تھا۔ بہر حال اس حدیث سے اتنی بات معلوم ہوئی کہ اگر کسی آدمی کی اولاد سنت کو ترک کر دے یا سنت کے خلاف اپنی رائے کو غلط انداز میں پیش کرے تو اس سے ترک کلام کیا جا سکتا ہے۔

اس باب کی چونکہ یہ آخری حدیث ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے حاصل کرنے میں بعض طریقے اور مسائل جن کا جاننا ضروری ہے نقل کر دئیے جائیں۔

 

                   جماعت کے بعض مسائل

 

اگر کوئی آدمی اپنے محلہ یا مکان کے قریب مسجد میں ایسے وقت پر پہنچا کہ وہاں جماعت ہو چکی تھی تو اس کے لئے مستحب ہے کہ دوسری مسجد میں دوبارہ جماعت کے لیے جائے اور اسے یہ بھی اختیار ہے کہ اپنے گھر واپس آ کر آدمیوں کو جمع کر کے جماعت کر لے۔

اگر کوئی آدمی نفل نماز شروع کر چکا ہو اور فرض جماعت ہونے لگے تو اس کو چاہیے کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اگرچہ چار رکعت نفل کی نیت کی ہو۔ یہی حکم ظہر اور جمعہ کی سنت موکدہ کا ہے کہ اگر شروع کر چکا ہو اور فرض ہونے لگے تو دوہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر ان سنتوں کو فرض کے بعد پڑھ لے۔ ظہر کی سنتیں ان سنتوں کے بعد پڑھی جائیں جو فرض کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔

اگر فرض نماز ہو رہی ہو تو پھر سنتیں وغیرہ شروع نہ کی جائیں بشرطیکہ کسی رکعت کے چلے جانے کا خوف ہو ہاں اگر یقین یا گمان غالب ہو کہ کوئی رکعت نہ جانے پائے گی تو پڑھ لے۔ مثلاً ظہر کے وقت جب فرض شروع ہو جائے اور خوف ہو کہ سنت پڑھنے سے کوئی رکعت جاتی رہے گی تو پھر موکدہ سنتیں جو فرض سے پہلے پڑھی جاتی ہیں چھوڑ دے اور فرض کے بعد دو رکعت سنت موکدہ پڑھ کر ان سنتوں کو پڑھ لے مگر فجر کی سنتیں چونکہ زیادہ موکدہ ہیں لہٰذا ان کے لیے حکم ہے کہ اگر فرض شروع ہو چکا ہو تب بھی ادا کر لی جائیں، بشرطیکہ قعدہ اخیرہ مل جانے کی امید ہو اور اگر قعدہ اخیرہ کے بھی نہ ملنے کا خوف ہو تو پھر نہ پڑھے۔ (ماخوذ از علم الفقہ ١٢۔)

اگر یہ خوف ہو کہ فجر کی سنتیں اگر نماز کے سنن و مستحبات وغیرہ کی پابندی سے ادا کی جائیں تو جماعت نہ ملے گی تو ایسی حالت میں چاہیے کہ صرف فرائض اور واجبات پر اختصار کرے اور سنن وغیرہ چھوڑ دے۔ فرض شروع ہو جانے کی صورت میں جو سنتیں پڑھی جائیں خواہ فجر کی ہوں یا کسی اور وقت کی تو وہ ایسے مقام پر پڑھی جائیں جو مسجد سے علیحدہ ہو اس لیے کہ جہاں فرض نماز ہوتی ہو تو پھر کوئی دوسری نماز وہاں پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ اور اگر کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو صف سے علیحدہ مسجد کے کسی گوشے میں پڑھ لے اور یہ بھی نہ ہو تو نہ پڑھے۔ اگر جماعت کا قعدہ مل جائے اور رکعتیں نہ ملیں تب بھی جماعت کا ثواب مل جائے گا اگرچہ اصطلاح فقہاء میں اس کو جماعت کی نماز نہیں کہتے۔ جماعت سے ادا کرنا جب ہی کہا جائے گا کہ جب کل رکعتیں مل جائیں۔ یا اکثر رکعتیں مل جائیں مثلاً چار رکعت والی نماز کی تین رکعت مل جائیں یا تین رکعت والی نماز کی دو رکعت مل جائیں اگرچہ بعض فقہا کے نزدیک جب تک کل رکعتیں نہ ملیں جماعت میں شمار نہیں ہوتا۔

جس رکعت کا رکوع امام کے ساتھ مل جائے گا تو سمجھا جائے کہ وہ رکعت مل گئی۔ ہاں اگر رکوع نہ ملے تو پھر اس رکعت کا شمار ملنے میں نہ ہو گا۔

 

صفوں کے برابر کرنے کا بیان

 

صفوں کو برابر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگ نماز کے لیے جماعت میں کھڑے ہوں تو صف بندی اس طرح کریں کہ آپس میں بالکل مل کر کھڑے ہوں تاکہ ایک دوسرے کے درمیان خلا نہ رہے اور آگے پیچھے ہٹ کر کھڑے نہ ہوں بلکہ برابر کھڑے رہیں اگر کئی صفیں ہوں تو وہ اس طرح قائم کی جائیں کہ ایک دوسری صف کے درمیان شروع سے لے کر آخر تک یکساں فرق رہے ایسا نہ ہو کہ کسی جگہ سے تو دونوں صفوں کا درمیانی فاصلہ کم ہو اور کسی جگہ سے زیادہ۔ اس باب کے تحت جو احادیث نقل کی جائیں گی ان سے صفوں کو برابر کرنے کی اہمیت و تاکید معلوم ہو گی اور صف بندی کے جو مسائل و احکام ہیں وہ واضح ہوں گے۔

 

 

                   صف برابر رکھنے کا حکم

 

حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہماری صفیں (اس طرح) برابر (سیدھی) کیا کرتے تھے کہ گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جا سکتا تھا یہاں تک کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے (صفوں کی برابر کرنے کی اہمیت) سمجھ گئے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (مکان سے نکل کر) تشریف لائے اور (نماز کے لیے) کھڑے ہو گئے اور تکبیر (تحریمہ) کہنے ہی کو تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے کچھ نکلا ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھ لیا چنانچہ (یہ دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اے اللہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کر دو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

عرب میں تیر کی ہمواری اور سیدھا پن اس قدر مشہور تھا کہ دوسری چیزوں کے سیدھے پن اور ہمواری کو بھی تیر سے تشبیہ دیا کرتے تھے اس طرح گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جاتا تھا۔ یہ جملہ کسی چیز کی ہمواری اور سیدھے پن کے لیے مثل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ تیروں کے ذریعہ دوسری چیزوں کو سیدھا اور برابر کرتے ہیں اور یہاں یہ مبالغے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کہ صفیں اس قدر سیدھی اور ہموار ہوتی تھیں کہ تیر بھی ان کے ذریعہ سیدھے کئے جا سکتے تھے ، بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ عبارت اپنے عکس پر محمول ہے لہٰذا اس کا مطب یہ ہے کہ گویا صفیں تیروں کے ذریعہ برابر کرتے تھے حدیث کے آخری جملے کا مطلب مولانا مظہر نے یہ بیان کیا ہے کہ ظاہری ادب و فرمانبرداری نہیں کرو گے تو تمہاری یہ ظاہری نافرمانی تمہارے باطن یعنی دلوں کے اختلاف کی طرف تمہیں پہنچائے گی۔ جو آگے چل کر آپس کے بغض و عناد اور کدورت و عداوت کا سبب بن جائے گی اور پھر قلوب کے یہ اختلاف اور یہ باطنی بری خصلتیں تمہاری ظاہری زندگی میں بھی اس طرح سرایت کر جائیں گی کہ تمہارے درمیان بغض و  عداوت پیدا ہو جائے گی چنانچہ تم میں سے ہر آدمی ایک دوسرے سے اعراض کرے گا اور کسی کے دل میں کسی کے لیے ہمدردی کا کوئی جذبہ باقی نہ رہ جائے گا بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ صفوں کو سیدھا اور ہموار رکھنے کی بڑی اہمیت ہے جب جماعت کھڑی ہو تو ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو صف کے برابر کر لے اور ایک دوسرے سے آگے پیچھے نہ کھڑا ہونا چاہیے ، اگر صف سیدھا کرنے کے اس حکم کی پیروی نہیں کی جائے گی تو جان لو کہ رب قدوس اس کی سزا تمہیں یہ دے گا کہ تمہارے درمیان بغض و نفرت پیدا ہو جائے گی جس سے تمہارے معاشرتی و سماجی امن و سکون کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔

 

                   جب تک ایک صف پوری نہ ہو دوسری صف قائم نہ کی جائے

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز جب) نماز کھڑی ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف متوجہ کر کے فرمایا کہ  اپنی صفیں سیدھی کرو، اور آپس میں مل کر کھڑے ہو، بیشک میں اپنی پشت کے پیچھے سے بھی تمہیں دیکھ سکتا ہوں (یعنی نماز کی حالت میں مکاشفے کے ذریعے نمازیوں کے احوال پر مطلع رہتا ہوں) اس روایت کو صحیح البخاری نے نقل کیا اور بخاری و مسلم دونوں کی روایت یہ ہے کہ ) (رسول اللہ نے فرمایا  صفوں کو پورا کر لیا کرو، میں تم کو اپنی پشت کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔

 

تشریح

 

دوسری روایت کے الفاظ  صفوں کو پورا کر لیا کرو کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو جائے دوسری صف قائم نہ کرو ایسا نہ ہونا چاہیے کہ آگے صف میں جگہ خالی ہو اور اس میں مزید نمازیوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش ہو لیکن اس کے باوجود پیچھے دوسری صف قائم کر لی جائے ایسا کرنا غلط ہے۔

 

                   صف برابر رکھنا نماز کی تکمیل میں سے ہے

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اپنی صفوں کو برابر رکھا کرو کیونکہ صفوں کو برابر رکھنا نماز کی تکمیل میں ہے۔ (صحیح البخاری) مسلم کی روایت من اقامۃ الصلوٰۃ کی بجائے من تمام الصلوٰۃ کے الفاظ  ہیں)

 

تشریح

 

قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے (اقیمو الصلوٰۃ یعنی) نماز تعدیل ارکان، سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھو لہٰذا یہاں حدیث میں الفاظ اقامۃ الصلوٰۃ سے اسی آیت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ صفوں کو برابر کرنا بھی اقیموا الصلاۃ کے حکم میں داخل ہے۔

 

                   صف برابر نہ رکھنے سے قلوب میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے

 

اور حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (جب نماز پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو) ہمارے کندھوں پر اپنا دست مبارک رکھ کر فرماتے تھے کہ  برابر رہو مختلف (یعنی آگے پیچھے کھڑے) نہ ہو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور تم میں سے جو لوگ عاقل و بالغ ہوں وہ میرے قریب رہیں پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہوں اور پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہوں۔ حضرت ابو مسعود نے (لوگوں کے سامنے یہ حدیث بیان کر کے) فرمایا کہ آج تم لوگوں میں اختلاف بہت زیادہ ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مختلف نہ ہو کا مطلب یہ ہے کہ جب صف بندی کر کے نماز کے لیے کھڑے ہو تو اس بات کا بطور خاص خیال رکھو کہ سب کے بدن برابر رہیں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہو کر کھڑے نہ ہو اور اپنے بدن کا کوئی عضو صف سے باہر نہ نکالو اور اگر تم لوگ صف میں اپنے بدن کے ظاہری اعضاء کو غیر برابر اور ناہموار رکھو گے تو اس کا اثر باطنی طور پر یہ ہو گا کہ تمہارے قلوب میں اختلاف پیدا ہو جائے گا کیونکہ بدن کے ظاہری اعضاء اور قلب کے درمیان بڑا لطیف تعلق ہے اور ایک دوسرے کی تاثیر بڑی عجیب ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے ظاہری اعضاء کی ٹھنڈک باطنی اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور باطنی اعضاء کی ٹھنڈک ظاہری اعضاء کو متاثر کرتی ہے اسی طرح صف میں ظاہری بدن کو غیر برابر رکھنا قلوب پر اثر انداز ہوتا ہے جس کا خاصہ ہے کہ دلوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔

 

صف کی ترتیب

حدیث کے دوسرے جزو میں صف کی ترتیب یہ بتائی گئی ہے کہ میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو صاحب عقل و فہم اور بالغ ہوں، یعنی پہلی صف میں ان لوگوں کو کھڑا ہو نا چاہیے جو بالغ اور عقل و فہم کے مالک ہوں تاکہ وہ نماز کی کیفیت اور اس کے احکام دیکھیں اور یاد کریں اور پھر امت کے دوسرے لوگوں کو ان کی تعلیم دیں، پھر دوسری صف میں وہ لوگ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں یعنی مراہق (جو بالغ ہونے کے قریب ہوں) اور لڑکے اور پھر تیسری صف میں وہ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں یعنی مخنث (جن میں مرد و عورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں) پھر ان کے بعد آخر میں عورتوں کی صف قائم کی جائے یہاں حدیث میں عورتوں کی صف کے بارے میں ذکر نہیں کیا گیا ہے کیونکہ یہ متعین ہے آخر میں عورتوں ہی کی صف ہوتی ہے۔

آخر میں حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ  آج تمہارے اندر افتراق و انتشار پیدا ہو گیا ہے اور آپس میں تم لوگ جو اتنا اختلاف کرتے ہو نیز فتنوں کی جو بھر مار ہو رہی ہے ان سب کی وجہ یہ ہے کہ تم لوگ اگر ان فتنوں اور اختلاف سے بچنا چاہتے ہو تو پہلے اپنے ظاہری اختلاف کو ختم کر ڈالو یعنی صفوں کو برابر رکھو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے باطنی اختلاف کو بھی ختم کر دے گا۔

 

                   مساجد میں شور شرابہ نہیں مچانا چاہیے

 

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے جو لوگ صاحب عقل اور بالغ ہوں وہ (نماز میں) میرے قریب کھڑے ہوں پھر وہ لوگ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں۔ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار فرمائے اور تم (مساجد میں) بازاروں کی طرح شور شرابہ مچانے سے بچو۔ (صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

پہلی حدیث میں عورتوں کی صف کا ذکر نہ پیش نظر تھا اس لیے وہاں ثم الذین یلونھم کے الفاظ دو مرتبہ ذکر فرمائے گئے اور یہاں چونکہ عورتوں کی صف کا ذکر بھی پیش نظر تھا اس لیے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے گئے اس طرح صف کے چار درجے ہو گئے ، یعنی پہلی صف میں بالغ اور صاحب عقل و فہم لوگ کھڑے ہوں اس کے بعد کی صفوں میں مراہق اور لڑکے کھڑے ہوں۔ اس کے بعد صفوں میں مخنث کھڑے ہوں اور پھر آخر میں عورتوں کی صف قائم کی جائے۔

 

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (جب) دیکھا کہ صحابہ کرام (پہلی صف میں آنے میں) تاخیر کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ  آگے بڑھو! اور میری اقتداء کر تاکہ وہ لوگ جو تمہارے پیچھے کھڑے ہیں وہ تمہاری اقتداء کریں (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) ایک جماعت ہمیشہ (پہلی صف میں کھڑے ہونے میں) تاخیر کرتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی (اپنا فضل اور رحمت بھی)

انہیں پیچھے ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کوشش نہیں کرتے تو ان سے فرمایا کہ آگے بڑھو اور پہلی صف میں کھڑے ہو کر میری اقتداء کرو یعنی پیچھے مجھ سے قریب ہو کر کھڑے رہو تاکہ میرے افعال دیکھتے رہو اسی طرح جو لوگ تم سے پیچھے کھڑے ہوں وہ تمہاری متابعت کریں کیونکہ پچھلی صف کے لوگ اگلی صف کے لوگوں کی متابعت بایں طور کرتے ہیں کہ نماز کے جو افعال اگلی صف والے کرتے ہیں وہی افعال پچھلی صف والے کرتے رہتے ہیں لہٰذا یہ متابعت اور اقتداء ظاہر کے اعتبار سے ہے ورنہ تو حقیقت میں سب نمازی امام ہی کے تابع ہوتے ہیں۔

 

                   صفیں پوری اور برابر رکھنی چاہئیں

 

اور حضرت جابر ابن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان تشریف لائے اور ہمیں مختلف حلقوں میں بیٹھے دیکھ کر فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورت میں (بیٹھے ہوئے) دیکھ رہا ہوں (یعنی اس طرح الگ الگ جماعت کر کے نہ بیٹھا کرو کیونکہ یہ نا اتفاقی اور انتشار کی علامت ہے) پھر اسی طرح (ایک روز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ (نماز میں) اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اللہ کے حضور میں (بندگی کے لیے کھڑے ہونے کے واسطے) صف باندھتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرشتے اپنے پروردگار کے حضور میں کس طرف صف باندھتے ہیں؟ فرمایا  پہلی صفوں کو پوری کرتے ہیں اور صف میں بالکل (برابر، برابر) کھڑے ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

                   مرد اور عورت کی بہترین صف کون سی ہے؟

 

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  مردوں کی بہترین صف پہلی صف ہے اور بد ترین صف پچھلی صف ہے عورتوں کی بہترین صف پچھلی صف ہے اور بدترین صف پہلی صف ہے۔ (صحیح مسلم)

 

فائدہ

بہترین سے مراد ثواب کی زیادتی ہے یعنی پہلی صف والے دوسری صف والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ثواب کے حق دار ہوتے ہیں۔

مردوں کے لیے بہترین صف پہلی صف کو اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ اس صورت میں وہ امام سے قریب ہوتے ہیں اور عورتوں سے دور اور پچھلی صف بدترین اس لیے ہوتی ہے کہ اس شکل میں امام سے دوری ہو جاتی ہے اور عورتوں سے نزدیکی۔ اس طرح عورتوں کے لیے پہلی صف اس لیے بدترین ہے کہ وہ پہلی صف میں کھڑے ہونے سے مردوں سے نزدیک ہو جاتی ہیں پچھلی صف ان کے لیے اس وجہ سے بہترین ہے کہ اس صورت میں وہ مردوں سے دور رہتی ہے۔

بہرحال حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مردوں کو تو پہلی صف میں کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے اور عورتوں کو آخری صف میں شامل ہونے کی سعی کرنی چاہیے۔

 

                    صفوں میں خلاء نہ رکھنا چاہیے

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی دو صفوں کے درمیان اس قدر فاصلہ نہ ہو کہ ایک صف اور کھڑی ہو سکے) نیز اپنی گردنیں برابر رکھو (یعنی صف میں تم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو بلکہ ہموار جگہ پر کھڑا ہو تاکہ سب کی گردنیں برابر رہیں) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں شیطان کو بکری کے کالے بچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتا ہوں۔ (ابوداؤد)

 

                   صفیں پوری کرو

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  پہلی صف کو پورا کرو پھر جو اس کے قریب (یعنی اس کے بعد) ہو اسے پورا کرو اور صف میں جو کمی رہے تو وہ سب سے پچھلی صف میں ہونی چاہیے۔ (ابوداؤد)

 

                   پہلی صفوں کی فضیلت

 

اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو لوگ پہلی صفوں کے قریب ہوتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدم سے زیادہ محبوب کوئی قدم نہیں ہے جو چل کر صف میں ملے (یعنی اگر صف میں جگہ خالی رہ گئی ہو تو وہاں جا کر کھڑا ہو جائے)۔  (ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

چونکہ دوسری صف کو بھی ان صفوں پر جو اس کے بعد ہوتی ہیں فضلیت حاصل ہے اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی صف کی بہت زیادہ فضیلت بیان فرمائی تو  پہلی صفوں کی اور دوسری صف کی فضیلت کی طرف بھی اشارہ فرمایا۔

 

                   صف میں دائیں طرف کھڑا ہونا افضل ہے

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  صفوں کے دائیں طرف والے لوگوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

علماء نے لکھا ہے کہ صف میں امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا خواہ امام سے دور ہی کیوں نہ ہو بائیں طرف کھڑے ہونے سے خواہ امام سے کتنا ہی نزدیک کیوں نہ ہو افضل ہے ہاں اگر صف میں بائیں طرف جگہ خالی ہو تو پھر صف کے دونوں جانب کو برابر کرنے کی پیش نظر بائیں طرف ہی کھڑا ہونا افضل ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  جب ہم لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہماری صفوں کو (زبان یا ہاتھ سے) برابر فرماتے چنانچہ جب صفیں برابر ہو جاتیں تو آپ تکبیر تحریمہ کہتے۔ (ابوداؤد)

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (جب نماز شروع کرتے تو پہلے) اپنے دائیں طرف (متوجہ ہو کر) فرمایا کرتے تھے  سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور اپنی صفیں برابر کر لو  پھر بائیں (بھی متوجہ ہو کر یہی) فرماتے تھے کہ  سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور اپنی صفیں برابر کر لو۔ (ابوداؤد)

 

                   نماز میں نرم کندے والے بہتر ہیں

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جن کے کندھے نماز میں بہت نرم رہیں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

نماز میں نرم کندھے کی توضیح و فائدے میں علماء نے بہت کچھ لکھا ہے اس کے کئی معنی ہیں چنانچہ اس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ  اگر کوئی آدمی جماعت میں اس طرح کھڑا ہو کہ صف برابر نہ ہوئی ہو اور پیچھے سے آ کر کوئی آدمی اس کا کندھا پکڑ کے اسے سیدھا کھڑا ہو جانے کے لیے کہے تو وہ ضد و ہٹ دھرمی اور تکبر نہ کرے بلکہ اس آدمی کا کہنا مان لے اور سیدھا کھڑا ہو کر صف برابر کر لے۔

دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی آدمی صف میں آ کر کھڑا ہونا چاہیے اور جبکہ صف میں جگہ بھی ہو تو اسے منع نہ کرے صف میں کھڑا ہو جانے دے۔ اس کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ  کندھوں کو نرم رکھنا  نماز میں خشوع و خضوع اور سکون و قار کے لیے کنایہ ہے۔ یعنی نماز میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے جو نہایت خاطر جمعی حضوری قلب اور اطمینان و وقار کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔

 

 

٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ تم (نماز میں) برابر کھڑا ہوا کرو، برابر کھڑے ہوا کرو، برابر کھڑے ہوا کرو اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں جس طرح اپنے سامنے سے تمہیں دیکھتا ہوں اسی طرح (مشاہدے اور مکاشفے کے ذریعے) اپنے پیچھے سے بھی تمہیں دیکھتا ہوں۔ (ابوداؤد)

 

                   پہلی صف کے مقابلہ میں دوسری صف کی فضیلت کم ہے

 

اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف (والوں) پر رحمت بھیجتے ہیں (یہ سن کر) صحابہ کرام نے عرض کیا  یا رسول اللہ ! دوسری صف (والوں) پر بھی (یعنی اس طرح فرمائے کہ پہلی اور دوسری صف پر رحمت بھیجتے ہیں مگر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس مرتبہ بھی دوسری صف کا ذکر نہیں کیا بلکہ) فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف پر رحمت بھیجتے ہیں صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور دوسری صف پر بھی فرمائیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (پھر یہی فرمایا) کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف پر رحمت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ دوسری صف پر بھی فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اور دوسری صف پر بھی (ا اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ  اپنی صفوں کو برابر کو، اپنے کندھوں کو ہموار رکھو (یعنی ایک سطح اور ہموار جگہ پر کھڑا ہو اور اونچا نیچا ہو کر مت کھڑے ہو) اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ کے آگے نرم رہو۔ (یعنی اگر کوئی آدمی کندھے پر ہاتھ رکھ کر تمہیں صف میں برابر کرے تو اس سے انکار نہ کرو بلکہ برابر ہو جاؤ، نیز صفوں میں خلا پیدا نہ کرو کیونکہ شیطان خذف یعنی بھیڑ کا چھوٹا بچہ بن کر تمہارے درمیان گھس جاتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

صحابہ کے قول و علی الثانی میں جو عطف ہے اسے عطف تلقین فرماتے ہیں یعنی صحابہ کا مطلب یہ تھا کہ پہلی صف کی فضیلت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرما دی دوسری صف کی فضیلت بھی بیان فرما دیجئے کہ دوسری صف پر بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیسری مرتبہ دوسری صف کو بھی پہلی صف کی صف مذکورہ میں شامل فرما دیا جس سے معلوم ہو کہ فضیلت کے اعتبار سے دوسری صف کا درجہ پہلی صف سے کم تر ہے۔

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ صفوں کو سید ھی کرو، اپنے کندھوں کے درمیان ہمواری رکھ۔ صفوں کے خلاء کو پر کرو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم رہو (یعنی اگر کوئی آدمی تمہیں ہاتھوں سے پکڑ کر صف میں برابر کرے تو اس کا کہنا مانو) اور صفوں میں شیطان کے لیے خلا نہ چھوڑو اور (فرمایا) جس آدمی نے صف کو ملایا (یعنی صف میں خالی جگہ پر جا کھڑا ہو گیا) تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنے فضل اور اپنی رحمت سے) ملا دے گا اور (یاد رکھو) جو شخص صف کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے توڑ ڈالے گا (یعنی مقام قرب سے دور پھینک دے گا۔ (ابوداؤد) نسائی نے اس حدیث کو من وصل صفا سے آخر تک نقل کیا ہے (یعنی سنن نسائی کی روایت میں من وصل صفا سے پہلے عبارت نہیں ہے)

 

                   امام کو درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  امام کو درمیان میں رکھو (یعنی صف بندی اس طرح کرو کہ امام کی دائیں اور بائیں جانب کے آدمی برابر ہوں) اور (صف کے) خلا کو بند کرو۔ (ابوداؤد)

 

                   پہلی صف میں شمولیت نہ کرنے پر وعید

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کچھ لوگ ہمیشہ پہلی صف سے پیچھے ہٹتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں دوزخ میں پیچھے ڈالے رکھے گا۔ (ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

حتی یؤخر اللہ فی النار کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ  (جو لوگ پہلی صف میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کریں گے اور برابر پیچھے کی صفوں میں شامل ہوتے رہیں گے تو) اللہ تعالیٰ انہیں آخر الامر دوزخ میں داخل کرے گا یا دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ میں پیچھے رہنے والا کرے گا۔

بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ پہلی صف میں شامل ہونے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے چونکہ اپنی تساہلی اور کاہلی کی بناء پر ہمیشہ پچھلی صفوں میں کھڑا رہ کر اپنے آپ کو اس ثواب سے محروم رکھا اس لیے اس کے بدلہ میں وہ یہ سزا پائیں گے۔

 

                   صف کے پیچھے تنہا کھڑے ہونے والے کا حکم

 

اور حضرت وابصہ ابن معبد فرماتے ہیں کہ (ایک روز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے تنہا (کھڑا ہوا) نماز پڑھ رہا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ (ابوداؤد جامع ترمذی) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔

 

تشریح

 

چونکہ پہلی صف میں جگہ خالی تھی اس کے باوجود وہ آدمی صف کے پیچھے تنہا کھڑا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بطور استحباب دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔

اس سلسلہ میں مسئلہ یہ ہے کہ جو آدمی صف کے پیچھے تنہا کھڑا ہو کر نماز پڑھے گا یعنی پچھلی صف میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا نمازی نہیں ہو گا۔ تو امام احمد کے مسلک کے مطابق اس کی نماز نہیں ہو گی۔ مگر حضرت امام اعظم، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم ان تینوں ائمہ کے نزدیک صف کے پیچھے تنہا پڑھنے والے کی نماز ہو جاتی ہے۔ تاہم ان حضرات کا قول یہ ہے کہ صف کے پیچھے تنہا نماز نہیں پڑھنی چاہیے کیونکہ یہ مکروہ ہے۔

 

                   امام اور مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ کا بیان

 

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نے اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں رات گزاری چنانچہ (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) (تہجد) نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بائیں طرف جا کر کھڑے ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ کر اس طرح پھیرا (کہ) مجھے اپنے پیچھے کی جانب سے لا کر دائیں طرف کھڑا کر لیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے کئی مسائل کا استنباط ہوتا ہے۔

(١) نفل نماز جماعت سے پڑھنا جائز ہے۔ (٢) اگر جماعت صرف دو آدمیوں کی ہو یعنی ایک امام اور ایک مقتدی۔ تو مقتدی کو امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ (٣) نماز میں تھوڑا سا عمل جائز ہے۔ (٤) مقتدی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ امام سے آگے ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آگے کی جانب سے پھیرنے کی بجائے اپنے پیچھے سے پھیر کر دائیں طرف لا کھڑا کیا۔ (٥) ایسے آدمی کے پیچھے اقتداء جائز ہے جس نے شروع سے امام کی نیت نہ کر رکھی ہو۔

ہدایہ میں لکھا ہے کہ  صورت مذکورہ میں اگر تنہا مقتدی امام کے پیچھے یا بائیں طرف نماز پڑھے تو جائز ہے لیکن مناسب نہیں ہے۔

 

 

                   تین آدمیوں کی جماعت

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اپنے پیچھے سے) میرا (داہنا) ہاتھ پکڑا اور (اپنے پیچھے کی جانب سے مجھے لا کر) اپنی دائیں طرف کھڑا کر دیا۔ پھر جبار ابن صخر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بائیں طرف کھڑے ہو گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم دونوں کے ہاتھ اکٹھے پکڑے (یعنی اپنے دائیں ہاتھ سے ایک کا بایاں ہاتھ پکڑا اور ایک بائیں ہاتھ سے دوسرے کا دایاں ہاتھ پکڑا اور ہمیں اپنی اپنی جگہ سے ہٹا کر اپنے پیچھے کھڑا کر دیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقتدی ایک ہو تو وہ امام کے دائیں طرف کھڑا ہو جائے اور اگر ایک سے زیادہ مقتدی ہوں تو پھر سب امام کے پیچھے کھڑے ہوں۔

قاضی نے کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھوں کو ایک مرتبہ یا بغیر وقفے سے دو مرتبہ حرکت میں لانے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

 

                   مقتدی مرد و عورت کس طرح کھڑے ہوں

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اور یتیم نے اپنے مکان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز (جماعت سے) پڑھی اور ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ام سلیم حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ کا نام تھا اور یتیم ان کے بھائی کا نام تھا۔ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ یتیم ہی ان کا نام تھا لیکن کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ان کا نام ضمیرہ تھا۔

اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر امام کے پیچھے مرد و عورت دونوں مقتدی کی حیثیت سے نماز میں شامل ہوں تو مردوں کو اپنی صف آگے قائم کرنی چاہیے اور عورتوں کی صف پیچھے رکھنی چاہیے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے (یعنی حضرت انس کے) اور ان کی والدہ (ام سلیم) یا ان کی خالہ کے ہمراہ نماز پڑھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو اپنی دائیں طرف اور عورت (یعنی ان کی والدہ یا خالہ) کو اپنے پیچھے کھڑا کیا۔ (صحیح مسلم)

 

 

 

٭٭اور حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ (ایک مرتبہ نماز میں شامل ہونے کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس وقت پہنچے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں تھے وہ (اس بات کے پیش نظر کہ رکوع ہاتھ سے چلا نہ جائے نیت اور تکبیر تحریمہ کے بعد) صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے پھر آہستہ آہستہ چل کر صف میں شامل ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ (اطاعت اور نیک کام کے بارے میں) تمہاری حرص اور زیادہ کرے۔ لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا۔ (صحیح البخاری)

 

 

تشریح

 

جس وقت حضرت ابو بکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچے تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں جا چکے تھے یہ بجائے اس کے کہ صف میں شامل ہو کر نیت اور تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں جاتے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی نیت اور تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں چلے گئے اور پھر وہاں سے دو قدموں کے برابر یا دو قدموں سے بھی زیادہ مگر غیر متوالیہ یعنی قدم پے در پے رکھتے ہوئے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر قدم رکھتے ہوئے چلے اور صف میں شامل ہو گئے چنانچہ دو ایک قدم چلنے سے نماز کا اعادہ لازم نہیں آتا لیکن اولیٰ یہی ہے کہ اس سے بھی احتراز کیا جائے۔

حدیث کے آخری لفظ  لا تعد کئی طرح منقول ہے۔ (١) ایک تو اسی طرح جیسا کہ یہاں حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ یعنی تا کے زبر اور عین کے پیش کے ساتھ جو عود سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہیں آئندہ ایسا نہ کرنا۔ (٢) دوسرے عین کے سکون اور دال کے پیش کے ساتھ لا تعد جو عدوم دوڑنا سے ماخوذ ہے۔ اس طرح اس لفظ کا مطلب یہ ہو گا کہ آئندہ نماز کے لیے چلنے میں اس طرح جلد نہ کرنا بلکہ صبر و سکون اور اطمینان و وقار کے ساتھ چلو۔ یہاں تک کہ صف میں شامل ہو جاؤ پھر اس کے بعد نماز شروع کرو (٣) تیسرے تاکہ پیش اور عین کے زیر کے ساتھ یعنی لاتعد جو اعادۃ (لوٹنا) ماخوذ ہے۔ اس شکل میں حدیث کے معنی یہ ہوں گے جو نماز تم پڑھ چکے ہو اسے لوٹاؤ نہیں۔

بہر حال: ان سب میں پہلا قول یعنی لا تعد (آئندہ نہ کرنا) ہی عقل و نقل کی روشنی میں سب سے زیادہ صحیح اور اولیٰ ہے یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ صف کے پیچھے تنہا کھڑا ہونا نماز کو باطل نہیں کرتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نماز لوٹانے کے لیے نہیں فرمایا۔ ہاں کراہت بلا شبہ ہے۔

 

                    تین آدمیوں کی جماعت ہو تو ان میں سے ایک امام بن جائے

 

حضرت سمرۃ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ جب ہم تین آدمی (نماز پڑھنے والے) ہوں تو ہم میں سے ایک آدمی (جو ہم میں بہتر ہو) ہمارے آگے ہو جائے (یعنی ہمارا امام بن جائے)۔  (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

اس حدیث سے تو تین آدمیوں کی جماعت کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک آدمی جو امامت کا مستحق ہو۔ آگے ہو جائے اور امامت کا فریضہ انجام دے۔ یہی حکم دو آدمیوں کی جماعت کا بھی ہے کہ ایک آدمی امام بن جائے اور دوسرا مقتدی ، مگر دو آدمیوں کی جماعت کی صورت میں امام آگے نہیں ہو گا بلکہ دونوں برابر برابر کھڑے ہوں گے یعنی امام بائیں جانب رہے اور مقتدی دائیں طرف۔

 

                   امام کے لیے تنہا جگہ پر کھڑا ہونا مکروہ ہے

 

اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نماز کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے (ایک روز) مدائن میں (جو کوفہ کے نزدیک ایک شہر ہے) لوگوں کی امامت کی چنانچہ وہ نماز پڑھنے کے لیے ایک چبوترے پر کھڑے ہوئے۔ مقتدی ان سے نیچے کھڑے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت حذیفہ  صف سے نکل کر  آگے بڑھے اور عمار کے دونوں ہاتھ پکڑے (اور انہیں نیچے کی طرف کھینچا تاکہ وہ چبوترے سے اتر کر مقتدیوں کے برابر کھڑے ہوں) حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی تعارض نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں (چبوترے سے) نیچے اتار لیا۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز پڑھ کر فارغ ہو چکے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا کہ  کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی جماعت کا امام بنے تو وہ اس جگہ پر نہ کھڑا ہو جو مقتدیوں کے کھڑے ہونے کی جگہ سے بلند ہو۔ یا اس کے مانند الفاظ فرمائے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ  اسی لیے تو جب آپ نے میرے ہاتھ پکڑے تو میں نے آپ کا اتباع کیا۔ (اور کوئی تعارض نہیں کیا یعنی آپ کا کہنا مان کر نیچے اتر آیا۔) (ابوداؤد)

 

تشریح

 

صورت مذکورہ میں مسئلہ یہ ہے کہ امام تنہا بلند مقام پر اس طرح کھڑا ہو کہ کچھ مقتدی تو اس کے ساتھ اسی بلند جگہ پر ہوں اور کچھ نیچے ہوں تو یہ مکروہ نہیں ہے البتہ اگر امام تنہا بلند مقام پر کھڑا ہو اور تمام مقتدی نیچے ہوں تو یہ مکروہ ہو گا چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح کھڑے ہوئے کہ وہ تنہا بلند جگہ پر تھے ان کے ساتھ کچھ مقتدی نہیں تھے اور اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں نیچے اتار کر کھڑا کیا۔

 

اگر امام نیچے اور مقتدی بلند جگہ پر ہوں تو کیا حکم ہے

صورت تو یہ ہے کہ امام بلند جگہ پر ہو اور مقتدی نیچے ہوں، اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی امام تو نیچے کھڑا ہو اور مقتدی بلند مقام پر ہوں تو مسئلے میں مشائخ کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام طحاوی فرماتے ہیں کہ یہ مکروہ نہیں ہے اس لیے کہ اس طرح اہل کتاب (یعنی غیر مسلموں) کے ساتھ مشابہت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے ہاں امام کو بطور خاص بلند جگہ پر کھڑا کیا جاتا تھا لہٰذا امام کا تنہا بلند جگہ پر کھڑا ہونا تو ان کی مشابہت کے پیش نظر مکروہ ہو سکتا ہے لیکن امام کا نیچی جگہ پر اور مقتدیوں کا اونچی جگہ پر کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہو سکتا۔

لیکن جہاں تک ظاہری روایات اور عقلی تقاضہ کا تعلق ہے تو یہ بھی مکروہ ہے کیونکہ اس طرح امام کی حقارت لازم آتی ہے اور اس کی عظمت پر حرف آتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس بلندی پر امام کا تنہا کھڑا ہونا مکروہ ہے اس کی حد کیا ہے؟ یعنی وہ کتنی بلند جگہ ہو کہ اس پر امام تنہا کھڑا نہ ہو؟ چنانچہ اس سلسلہ میں بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ بقدر قد آدمی بلندی پر امام کے لیے تنہا کھڑا ہونا مکروہ ہے لیکن دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ بلندی کی حد ایک ہاتھ ہے یعنی اگر ایک ہاتھ اونچی جگہ پر بھی امام کھڑا ہو گا تو یہ مکروہ ہو گا اور اسی قول پر فتوی ہے یہ تو مسئلے کی وضاحت تھی اب حدیث کی طرف آئیے !

حدیث کے الفاظ وقام علی دکان یصلی سے ظاہری طور پر یہ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ جس وقت حضرت حذیفہ نے حضرت عمار کو ٹو کا اور انہیں نیچے اتارا اس وقت حضرت عمار حقیقۃً نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے تھے یعنی نیت باندھ چکے تھے یا انہوں نے صرف نماز پڑھنے کا ارادہ ہی کیا تھا اور کھڑے ہی ہو رہے تھے کہ حضرت حذیفہ نے انہیں نیچے اتار ا؟

ظاہری طور پر یہی ہے کہ حضرت عمار نے اس وقت تک نیت نہیں باندھی تھی بلکہ نماز کے لیے کھڑے ہو ہی رہے تھے اور نیت باندھنے والے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔

اونحو ذالک حضرت حذیفہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث جب بیان فرمائی تو آخر میں یہ الفاظ فرمائے کیونکہ انہیں حدیث کے الفاظ بعینہ یاد نہیں رہے تھے۔ لہٰذا انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو بعینہ یہی الفاظ فرمائے تھے یا اس کی مانند دوسرے الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔

حدیث کے آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مسئلہ معلوم تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سن چکے تھے کہ امام کو تنہا بلند جگہ پر نہیں کھڑا ہونا چاہیے ، لہٰذا یہاں یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ جب حضرت عمار ارشاد نبوت پر مطلع تھے اور انہیں یہ مسئلہ معلوم تھا تو انہوں نے اس کے خلاف کیوں کیا؟

اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ حضرت عمار کو یہ مسئلہ معلوم تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی ممانعت سن بھی چکے تھے مگر اس وقت ان کے ذہن میں نہ یہ حدیث رہی اور نہ انہیں یہ مسئلہ یاد آیا۔ ہاں جب حضرت حذیفہ نے تعارض کیا اور انہیں نیچے اتارا تو یہ مسئلہ ان کو یا د آیا اور ایک صادق سچے فرمانبردار ہونے کے ناطے انہوں نے فوراً اس پر عمل کیا۔

 

                   تعلیم کے پیش نظر امام تنہا اور نیچی جگہ کھڑا ہو سکتا ہے

 

اور حضرت سہل ابن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے (ایک روز) پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا منبر کس چیز(یعنی کس لکٹر) کا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ  وہ جنگلی جھاؤ کی لکڑی کا تھا۔ جسے فلاں آدمی نے جو فلاں عورت کا آزاد کردہ غلام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے بنایا تھا۔ چنانچہ جب وہ تیار ہو گیا اور (مسجد میں) رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (اس پر کھڑے ہوئے اور) قبلہ رو ہو کر (نماز کے لیے) تکبیر تحریمہ کی اور سب لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  منبر ہی پر قرأت فرمائی اور رکوع کیا، اور دوسرے لوگوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے رکوع کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا سر مبارک رکوع سے اٹھایا اور پچھلے پاؤں ہٹ کر (یعنی منبر سے اتر کر) زمین پر سجدہ کیا۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور بخاری و مسلم کی متفقہ روایت بھی اس طرح ہے اس حدیث کے راوی نے حدیث کے آخر میں یہ (بھی) کہا ہے کہ  (جب نماز سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہوئے تو فرمایا کہ  یہ میں نے اس لیے کیا ہے تاکہ تم لوگ میری پیروی کرو اور میری نماز کی کیفیات اور اس کے احکام و مسائل سیکھ لو۔

 

تشریح

 

مدینہ منورہ سے نو کوس کے فاصلے پر ایک جنگل ہے وہاں درخت بہت کثرت سے تھے وہیں کے جھاؤ کی لکڑی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے منبر بنایا گیا تھا۔

فلاں آدمی سے مراد  یا قوم رومی ہیں اور فلاں عورت سے عائشہ انصاریہ کی ذات مراد ہے۔

مولانا مظہر نے لکھا ہے کہ اس منبر پر چھڑنے اترنے کے لیے تین سیڑھیاں تھیں جو بہت قریب قریب بنائی گئی تھیں ان کے ذریعہ سے منبر پر ایک یا دو قدم کے ساتھ چڑھنا بہت آسان تھا۔ لہٰذا اس وجہ سے فعل کثیر لازم نہیں آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز باطل ہوتی۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر امام اس بات کا ارادہ کرے کہ اس کی نماز کی حرکات و سکنات اور اس کی کیفیات کو دور و نزدیک کھڑے ہوئے سب ہی نمازی دیکھیں اور اس کے ذریعے نماز کے احکام و مسائل سیکھیں تو اس کے لیے بلند جگہ پر تنہا کھڑے ہونا جائز ہے۔

ھذا الفظ البخاری (یہ الفاظ بخاری کے ہیں) کہ الفاظ اور اس کے بعد عبارت نقل کر کے مصف مشکوٰۃ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ حدیث چونکہ بخاری و مسلم دونوں ہی نے نقل کی ہے اس لیے اس کو پہلی فصل میں ذکر کرنا چاہیے تھا لیکن اس حدیث کو اس فصل میں اس لیے نقل کیا گیا ہے۔ اس لیے مصابیح نے اس کو حسان میں (بخاری و مسلم کے علاوہ دوسرے ائمہ حدیث کی روایتوں کے ساتھ نقل کیا تھا اس کے لیے صاحب مصابیح کی اتباع میں ہم نے بھی اس فصل میں نقل کرنا مناسب سمجھا۔

 

                   اعتکاف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امامت

 

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے حجرے کے اندر نماز پڑھی اور لوگوں نے حجرے کے باہر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتداء کی۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث کا تعلق رمضان شریف سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد کے ایک حصہ میں اعتکاف کے لیے بوریے کا ایک حجرہ سا بنا لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حجرہ میں چند شب تراویح کی نماز پڑھی چنانچہ صحابہ اس موقع پر حجرے سے باہر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا کرتے تھے۔

 

                    صف بندی کا طریقہ

 

حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے (لوگوں سے) کہا کہ  کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز (کیفیت) سے آگاہ نہ کروں؟ تو سنو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز(کے لیے لوگوں) کو کھڑا کر کے (اول) مردوں کی صف قائم کی پھر ان کے پیچھے لڑکوں کی صف باندھی اور انہیں نماز پڑھائی۔ ابو مالک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز (کی کیفیت) بیان کی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (نماز پڑھ کر فرمایا  کہ نماز اسی طرح پڑھنی چاہیے۔ عبدالاعلی (جنہوں نے یہ روایت ابو مالک سے نقل کی ہے) فرماتے ہیں کہ  میرا خیال ہے کہ ابو مالک نے  میری امت کی (بھی) کہا ہے یعنی ابو مالک نے حدیث کے آخری الفاظ اس طرح نقل کئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ھٰکَذَا صَلٰوۃُ اُمَّتِی (یعنی میری) امت کی نماز اسی طرح ہونی چاہیے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ  میری امت کے لوگوں کو چاہیے کہ نماز کی جو کیفیت مجھے سے نقل کی گئی ہے اسی طرح نماز میں پڑھیں نیز اس سے یہ تنبیہ بھی مقصود ہے کہ جو لوگ اس طریقے سے یعنی سنت نبوی کے مطابق نماز نہیں پڑھیں گے وہ اپنے اس علم سے یہ ظاہر کریں گے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعدار امت میں سے نہیں ہیں۔

صف بندی کا طریقہ

اور حضرت قیس ابن عباد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں مسجد میں پہلی صف میں کھڑا (نماز پڑھ رہا) تھا۔ ایک آدمی نے پیچھے سے مجھے کھینچا اور مجھ کو ایک طرف کر کے خود میری جگہ کھڑا ہو گیا اللہ کی قسم ! (اس غصے کی وجہ سے کہ اس نے مجھے پہلی صف سے جو افضل ہے کھینچ لیا باوجود اس کے کہ میں وہاں پہلے سے کھڑا تھا) مجھے اپنی نماز کا بھی ہوش نہ رہا۔ (کہ میں نماز کس طرح ادا کر رہا ہوں اور کتنی رکعتیں پڑھ رہا ہوں) جب وہ آدمی نماز پڑھا چکا (اور میں نے بھی نماز پڑھنے کے بعد دیکھا) تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے (مجھے غصے کی حالت میں دیکھ کر) انہوں نے فرمایا کہ  اے جوان (اس وقت میں نے تمہارے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں غمگین نہ کرے۔ (چونکہ) ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ وصیت ہے کہ ہم آپ کے پاس کھڑے ہوا کریں (اس لیے آپ کے بعد اب ہم امام کے قریب کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں) پھر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ فرمایا  رب کعبہ کی قسم ! اہل عقد (یعنی سردار) ہلاک ہو گئے ! اور فرمایا اللہ کی قسم ! مجھے سرداروں کا کوئی غم نہیں ہے ، غم تو ان لوگوں (یعنی رعایا) کا ہے جنہیں سردار گمراہ کرتے ہیں (بایں طور کہ جو کام سردار کرتے ہیں وہی کام ان کی رعایا کرتی ہے) قیس ابن عباد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ  ابو یعقوب ! اہل عقد سے آپ کی کیا مراد ہے؟ فرمایا  امراء (یعنی سردار و حکام)۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

حضرت ابی بن کعب کے الفاظ اِنْ ھٰذَا عَھْدٌ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ و سلم الخ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا

لِیَلنِی مِنْکُمْ اُوْلُوْ الْاَحْلَامِ وَالنُّھٰی

یعنی (نماز میں) تم میں سے صاحب عقل و بالغ میرے نزدیک کھڑے ہوا کریں۔

اس ارشاد کا حاصل چونکہ یہ تھا کہ جو لوگ صاحب عقل و فہم اور بالغ ہوں وہ امام کے قریب کھڑے ہوا کریں اور قیس ابن عباد اس زمرے میں آتے نہیں تھے۔ اس لیے حضرت ابی بن کعب نے انہیں وہاں سے ہٹا دیا اور خود وہاں کھڑے ہو گئے۔

ھَلَکَ اَھْلُ الْعَقْدِ (اہل عقد یعنی سرور و احکام ہلاک ہو گئے) اس کا مطلب یہ ہے کہ رعایا کے اعمال و کردار اور ان کے دینی و دنیاوی احکام و افعال یہاں تک صف بندی کی رعایت اور نگہداشت حکام و سرداروں کے ذمہ ہے لیکن وہ حکام و سردار جو اپنی رعایا کے دینی و دنیوی کاموں کے نگہبان و سربراہ ہونے کی حیثیت سے لوگوں کے افعال و کردار پر نظر رکھتے تھے اور انہیں سنت نبوی پر چلاتے تھے ختم ہو گئے۔ اس لیے نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کو دینی کاموں میں سست رفتاری بے راہ روی ، اور غلط انداز عمل و انداز فکر پیدا ہو گیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعے حضرت کعب نے اپنے زمانے کے حاکم پر طعن کیا ہے مگر حضرت کعب کا انتقال چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ہوا ہے اس لیے یہ کہا جائے گا کہ ان الفاظ کامحمل خود خلیفہ کی ذات نہیں ہے بلکہ حضرت کعب کے پیش نظر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وہ بعض حکام ہوں گے جو اپنے فرائض کو پورے طور سے انجام نہیں دیتے تھے۔

 

                    امامت کا بیان

 

شریعت میں نماز کی امامت کا بڑا اہم اور عظیم الشان کام ہے تمام مقتدیوں کی نمازوں کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے امام مقرر کرنے کے سلسلے میں شریعت نے کچھ شرائط مقرر کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ اس اہم اور عظیم الشان منصب کا حامل کون آدمی ہو سکتا ہے ، اس باب کے تحت اس قسم کی احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ امام مقرر کرنے کے وقت کن باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور یہ کہ امامت کا استحقاق کن لوگوں کو حاصل ہے۔

اس سلسلہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ مقتدیوں کو چاہیے کہ حاضر نمازیوں میں جس آدمی میں امامت کے لائق زیادہ اوصاف ہوں اس کو امام بنائیں اگر کئی آدمی ایسے ہوں جن میں امامت کی لیاقت ہو تو کثرت رائے پر عمل کیا جائے یعنی جس آدمی کی طرف زیادہ لوگوں کی رائے ہوں اسی کو امام بنایا جائے اگر کسی ایسے آدمی کی موجودگی میں جو امامت کا مستحق اور لائق ہو کسی غیر مستحق اور نالائق آدمی کو امام بنا لیا جائے گا تو سب نمازی ترک سنت کے فتنے میں مبتلا ہوں گے۔

(١) امامت کا سب سے زیادہ استحقاق اس آدمی کو ہے جو نماز کے مسائل خوب جانتا ہو بشرطیکہ ظاہری طور پر اس میں کوئی فسق وغیرہ نہ ہو اور کم سے کم بقدر قرأت مسنون اسے قرآن یاد ہو۔ (٢) پھر وہ آدمی جو قرآن مجید اچھا یعنی عمدہ آواز سے قرأت کے قاعدے کے موافق پڑھتا ہو۔ (٣) پھر وہ آدمی جو سب سے زیادہ خوبصورت ہو (٤) پھر وہ آدمی جو سب سے عمر زیادہ رکھتا ہوں۔ (٥) پھر وہ آدمی جو سب سے زیادہ خلیق ہو (٦) پھر وہ آدمی جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو (٧) پھر وہ آدمی جو سب سے عمدہ لباس پہنے ہو (٨) پھر وہ آدمی جس کا سر سب سے زیادہ بڑا ہو (٩) پھر وہ آدمی جو مقیم ہو بہ نسبت مسافروں کے (١٠) پھر وہ آدمی جو اصلی آزاد ہو (١١) پھر وہ آدمی جس نے حدث اصغر سے تییم کیا ہو بنسبت اس آدمی کے جس نے حدث اکبر سے تییم کیا ہو۔

جس آدمی میں دو وصف پائے جائیں وہ امامت کا زیادہ مستحق ہے بہ نسبت اس آدمی کے جس میں ایک ہی وصف پایا جاتا ہے۔ مثلاً وہ آدمی جو نماز کے مسائل بھی جانتا ہو اور قرآن مجید بھی اچھی طرح پڑھتا ہو امامت کا زیادہ مستحق اور اہل ہے بہ نسبت اس آدمی کے جو صرف نماز کے مسائل جانتا ہو قرآن مجید اچھی طرح نہ پڑھتا ہو۔

 

                   امامت کا مستحق کون ہے؟

 

حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قوم کی امامت وہ آدمی کرے جو  نماز کے احکام و مسائل جاننے کے ساتھ  قرآن مجید سب سے اچھا پڑھتا ہو (یعنی تجوید سے واقف ہو۔ اور حاضرین میں سب سے اچھا قاری ہو) اگر قرآن مجید اچھا پڑھنے میں سب برابر ہوں۔ تو وہ آدمی امامت کرے جو (قرأت مسنونہ اچھی طرح پڑھنے کے ساتھ) سنت کا علم سب سے زیادہ رکھتا ہو۔ اگر (قرآن مجید اچھی طرح پڑھنے اور) سنت کا علم جاننے میں سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو (مدینہ میں) سب سے پہلے ہجرت کر کے آیا ہو اگر (علم قرأت اور) ہجرت میں سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو عمر میں سب سے بڑا ہو! اور کوئی دوسرے کے علاقے میں امامت نہ کرے (یعنی دوسرے مقررہ امام کی جگہ امامت نہ کرے) اور کسی کے گھر میں اس کی مسند پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔ (صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ  (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) کہ کوئی آدمی دوسرے کے گھر میں (اس کی اجازت کے بغیر اگرچہ وہ صاحب خانہ سے افضل ہی کیوں نہ ہو) امامت نہ کرے۔

 

تشریح

 

علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ فَاَعْلَمُھُمْ بِالسُّنَۃِ میں سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث ہیں عہد صحابہ میں جو آدمی احادیث زیادہ جانتا تھا وہ بڑا فقیہ مانا جاتا تھا حضرت امام احمد اور امام ابو یوسف کا عمل اسی حدیث پر ہے،  یعنی ان حضرات کے نزدیک امامت کے سلسلہ میں قاری عالم پر مقدم ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ حضرت امام محمد حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ زیادہ علم جاننے والا اور فقیہ امامت کے سلسلے میں بڑے قاری پر مقدم ہے کیونکہ علم قرأت کی ضرورت تو نماز کے صرف ایک ہی رکن میں (یعنی قرأت کے وقت ہوتی ہے ، برخلاف اس کے کہ علم کی ضرورت نماز کے تمام ارکان میں پڑتی ہے)

جن احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم پر سب سے اچھا قرآن پڑھنے والا مقدم ہے اس کا جواب ان حضرات کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں جو لوگ قاری ہوتے تھے وہی سب سے زیادہ علم والے بھی ہوتے تھے کیونکہ وہ لوگ قرآن کریم مع احکام کے سیکھتے تھے اسی وجہ سے احادیث میں قاری کو عالم پر مقدم رکھا گیا ہے اور اب ہمارے زمانے میں چونکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اکثر قاری مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں، اس لیے ہم عالم کو قاری پر مقدم رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان حضرات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مرض الموت میں حضرت ابوبکر صدیق سے لوگوں کو نماز پڑھوائی باوجود اس کے وہ قاری نہ تھے بلکہ سب سے زیادہ علم والے تھے حالانکہ اس وقت ان سے زیادہ بڑے بڑے موجود تھے۔ فاقدمہم ہجرۃ کے بارے میں ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ آج کل ہجرت چونکہ متروک ہے اس لیے اب یہاں حقیقی ہجرت کے بجائے معنوی ہجرت (یعنی گناہوں اور برائیوں سے ترک) کا اعتبار ہو گا یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علم اور قرأت میں برابری کے بعد پر ہیز گاری کو مقدم رکھا ہے یعنی اگر وہ آدمی ایسے جمع ہوں جو عالم بھی ہوں اور قاری بھی ہوں تو ان دونوں میں سے امامت کا مستحق وہ آدمی ہو گا جو دوسرے کی بہ نسبت زیادہ پرہیز گاری کے وصف کے حامل ہو گا۔

اس حدیث میں امامت کے صرف اتنے ہی مراتب ذکر کئے گئے ہیں لیکن علماء نے کچھ اور مراتب ذکر کئے ہیں چنانچہ اگر عمر میں بھی سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق و الا ہو اگر اخلاق میں بھی سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو اچھے چہرے والا ہو یعنی خوبصورت ہو اگر خوبصورتی میں سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو سب سے عمدہ لباس پہنے ہوئے ہو یا سب سے زیادہ شریف النسب ہو اگر تمام اوصاف میں سب برابر ہوں تو اس صورت میں بہتر شکل یہ ہے کہ قرعہ ڈالا جائے جس کا نام نکل آئے وہ امامت کرے یا پھر قوم جسے چاہیے اپنا امام مقرر کرے اور اس کے پیچھے نماز پڑھے۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی سلطنت و علاقے میں امامت نہ کرے اسی طرح ایسی جگہ بھی امامت نہ کرے جس کا مالک کوئی دوسرا آدمی ہو جیسا کہ دوسری روایت کے الفاظ فی اھلہ سے ثابت ہوا۔

لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی مقام پر حاکم وقت امامت کرتا ہے یا حاکم وقت کی جانب سے مقرر شدہ اسی کا نائب جو امیر اور خلیفہ کے ہی حکم میں ہوتا ہے امامت کے فرائض انجام دیتا ہے تو کسی دوسرے آدمی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ سبقت کر کے امامت کرے خاص طور پر عیدین اور جمعہ کی نماز میں تو یہ بالکل ہی مناسب نہیں ہے۔

اسی طرح جس مسجد میں امام مقرر ہو یا کسی مکان میں صاحب خانہ کی موجودگی میں مقررہ امام اور صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر امامت کی طرف سبقت کرنا کسی دوسرے آدمی کا حق نہیں ہے کیونکہ اس طرح امور سلطنت میں انحطاط آپس میں بعض و عناد ترک ملاقات، افتراق و اختلاف اور فتنہ وفساد کا دروازہ کھلتا ہے اور جب کہ جماعت کی مشروعیت ہی انہیں غیر اخلاقی چیزوں کے سد باب کے لیے ہوئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ رویہ قابل تقلید ہے کہ وہ اپنے فضل و شرف اور علم و تقویٰ کے باوجود حجاج بن یوسف جیسے ظالم و فاسق کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔

 

 

 

٭٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب (نماز پڑھنے کے لیے) تین آدمی (جمع) ہوں تو ان میں سے ایک امام بن جائے اور ان میں سے امامت کا زیادہ مستحق وہ ہے جو زیادہ تعلیم یافتہ ہو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

تین آدمیوں کی قید اتفاقی ہے تین سے کم یا زیادہ ہونے کی شکل میں بھی یہی حکم ہے کہ ان میں سے ایک امام بن جائے اور باقی مقتدی علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اکثر صحابہ عمر کا ایک بڑا حصہ طے کر چکے تھے جب اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے اس وجہ سے وہ لوگ قرآن پڑھنے سے پہلے علم دین سیکھتے تھے لیکن بعد میں یہ صورت نہ رہی بلکہ اب تو لوگ عمر کے ابتدائی حصے میں علم دین حاصل کرنے سے پہلے قرآن کریم پڑھنا سیکھ لیتے ہیں۔

بہر حال۔ امامت کے سلسلے میں اچھے قاری پر اس فقیہ اور عالم کو اولیت حاصل ہو گی جو نماز کے احکام و مسائل کا علم جانتا ہو معاملات کا زیادہ علم رکھنے والا قاری پر مقدم نہیں ہو سکتا۔

وَذَکَرَ حَدِیْثٌ مَالِکِ بْنِ اَلْحُوَیْرِثِ فِیْ بَابِ فَضْلِ الْاذَانَ اور مالک بن حویرث کی روایت باب فضل الاذان کے بعد کے باب میں ذکر کی جا چکی ہے (یعنی اس حدیث کو صاحب مصابیح نے یہاں ذکر کیا تھا مگر ہم نے اسے وہاں نقل کر دیا ہے۔

 

 

 

٭٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے جو لوگ بہتر ہیں انہیں اذان دینی چاہیے اور تم میں جو لوگ خوب تعلیم یافتہ ہوں انہیں تمہاری امامت کرنی چاہیے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

نماز و روزے کے اوقات کی ذمہ داری مؤذنوں پر ہی ہوتی ہے نیز جب مؤذن بلند جگہ پر کھڑے ہو کر آذان دیتا ہے تو بسا اوقات اس کی نظر لوگوں کے گھروں پر پڑتی ہے لہٰذا مؤذن اگر صاحب دیانت اور دیندار متقی ہو گا تو وہ نماز روزے کے اوقات کی بھی رعایت کرے گا اور اپنی نظر کو غیر محرم پر پڑنے سے بھی بچائے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو عطیہ عقیلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی) مسجد میں آیا کرتے تھے اور (ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی) حدیث بیان کرتے (اور بات چیت کرتے رہتے) تھے ایک دن (جب کہ وہ ہمارے درمیان مسجد میں موجود تھے) نماز کا وقت ہو گیا۔ ابو عطیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مالک سے (ان کی شان صحابیت کی عظمت و فضیلت کے پیش نظر) کہا کہ آگے ہو جائیے اور ہمیں نماز پڑھائیے حضرت مالک نے فرمایا کہ  تم اپنے ہی میں سے کسی کو آگے کرو تاکہ وہ تمہیں نماز پڑھائے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نماز کیوں نہیں پڑھاتا (تو سنو کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ  جو آدمی کسی قوم سے ملاقات کرے تو وہ ان کی امامت نہ کرے (بلکہ ان میں سے کسی آدمی کو ان کی امامت کرنی چاہیے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) نسائی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے مگر انہوں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ذکر نہیں کیا بلکہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ پر اکتفاء کیا ہے یعنی انہوں نے اپنی روایت میں حضرت مالک کے مسجد میں آنے کا واقعہ اور ان کا امامت سے انکار کرنا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ  من زاد سے آخر تک نقل کیا ہے)

 

تشریح

 

حضرت مالک نے اپنی فضیلت و بڑائی اور ان لوگوں کی اجازت کے باوجود امامت کا فریضہ انجام نہیں دیا کیونکہ ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ اشارہ تھا کہ انہوں نے بظاہر حدیث پر عمل کرنا ہی اپنے حق میں بہتر سمجھا۔

 

                   نا بینے آدمی کی امامت جائز ہے

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر کیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اور وہ نابینا تھے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نا بینے کی امامت بلا کراہت جائز ہے اس سلسلے میں حنفی مسلک میں یہ فقہی روایتیں بھی وارد ہیں کہ اگر نابینا قوم کا سردار ہو تو اس کی امامت جائز ہے بلکہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اگر نابینا بہت زیادہ علم کا حامل ہو تو امامت کے سلسلے میں وہ اولیٰ ہے۔ (شرح کنز ، اشباہ و النظائر)