FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

                   نا پسندیدہ امام کی نماز قبول نہیں ہوتی

 

اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی نماز ان کے کانوں سے بلند نہیں ہوتی (یعنی درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی) ایک تو اپنے مالک کے ہاں سے بھاگا ہوا غلام جب تک کہ وہ (اپنے مالک کے پاس) واپس نہ آ جائے دوسری وہ عورت جو اس حالت میں رات گزرا دے کہ اس کا خاوند اس سے ناراض ہو تیسرا وہ امام جسے اس کی قوم پسند نہ کرتی ہو۔ (امام ترمذی ، نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے)

 

تشریح

 

غلام کے حکم میں باندی بھی داخل ہے یعنی اگر باندی بھی اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جائے تو اس کا بھی یہی حال ہو گا کہ جب تک وہ اپنے آقا کے پاس واپس نہ آ جائے گی اس کی نماز قبول نہیں ہو گی۔

عورت کے بارہ میں جو فرمایا گیا ہے تو یہ اس شکل میں ہے جب کہ عورت بدخلق ہو اور اس کا خاوند اس کی بد خلقی، نا فرمانبرداری اور بے ادبی کی وجہ سے اس سے ناراض ہو، اور اگر خاوند ہی بدخلق ہو اور اپنی بیوی سے ناحق ناراض و خفا ہے تو عورت گنہگار نہیں ہو گی بلکہ مرد ہی گنہگار ہوں گے۔

امام کے بارے میں حضرت ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ امام پر یہ گناہ اس وقت ہو گا جب کہ اس کی بدعت اور اس کے فسق یا اس کے جہل کی وجہ سے اس کے مقتدی اس سے ناراض ہوں اور اگر مقتدی کسی دنیوی غرض کے تحت اس سے کراہت و عداوت رکھتے ہوں تو امام مطلقاً گنہگار نہیں ہو گا اور نہ ایسے امام کے حق میں حدیث کا مذکورہ بالا حکم ہے بلکہ مقتدی ہی گنہگار رہیں گے۔

اتنی بات سمجھ لیجئے کہ حدیث میں مذکورہ امام سے مراد بھی نماز کا امام بھی ہے اور حاکم و خلیفہ بھی یعنی اگر کسی حاکم اور خلفیہ سے اس کی رعایا اس کی بداعمالیوں اور غلط کاریوں کی وجہ سے نا خوش ہو گی تو وہ بھی ایسا ہی گنہگار ہو گا۔

 

                   تین آدمیوں کی نماز قبول نہیں ہوتی

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی (یعنی انہیں نماز کا ثواب نہیں ملتا) ایک تو وہ آدمی جو کسی قوم کا امام ہو اور قوم اس سے خوش نہ ہو دوسرا آدمی جو نماز میں پیچھے آئے اور پیچھے کا مطلب یہ ہے کہ نمازوں کا (مستحب) وقت نکل جانے کے بعد آئے ، اور تیسرا وہ آدمی جو آزاد کو غلام سمجھے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اعتبد محروۃ (آزاد کو غلام سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ غلام کو آزاد کر دے اور پھر بعد میں زبردستی اس سے خدمت لینے لگے یاغلام کو آزاد کر دیا مگر اس کی آزادی کو خود اس غلام سے چھپائے یا کسی آزاد آدمی کے بارے میں دعوی کرے کہ یہ میرا غلام ہے اور اس کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک بھی کرے۔ یا بردہ (غلام) مول لے کر اس پر مالکانہ تصرف کرے مگر حقیقت میں اس کی خریداری شرعی طور پر نہ ہوئی ہو جیسا کہ لوگ غیر شرعی طور پر غلام اور لونڈی مول لیتے ہیں۔

شرعی غلام اور لونڈی کی تفصیل فقہاء اس طرح لکھتے ہیں کہ  اگر مسلمانوں کی جماعت دارالاسلام سے دارالحرب جا کر غلبہ حاصل کرے اور زبر دستی حربی کافر کو خواہ مرد ہوں یا عورت خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے غلام اور لونڈی بنا کر دارالاسلام میں لائے یا۔ اسی طرح کسی ملک کے حربی کفار دوسرے ملک کے حربی کفار پر غلبہ حاصل کر کے انہیں زبردستی لے آئیں تو ان دونوں صورتوں میں غلام اور لونڈی بنانے والے خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر ان غلاموں اور لونڈیوں کے مالک ہوتے ہیں ان غلاموں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت کرنا ان کو رہن رکھنا ان کو ہبہ کرنا، لونڈیوں کے ساتھ بغیر نکاح کا ہم بستری کرنا اور اسی طرح ان پر تمام مالکانہ تصرفات کرنے جائز ہیں نیز اس صورت میں لونڈی کی اولاد بھی ان ہی کا حکم رکھتی ہے بشرطیکہ وہ مالک یا ذی رحم مالک سے پیدا نہ ہو اور اگر ان میں سے کسی سے پیدا ہو گی تو وہ آزاد ہو گی بہر حال فقہاء نے بردے کی یہ دونوں قسمیں لکھ کر مزید قسمیں بھی لکھی ہیں اور ان میں سے بعض کے بارے میں کہا ہے کہ ان صورتوں میں شرعی بردے نہیں ہوتے اور بعض کے بارے میں اختلاف کیا ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ مذکورہ بالا دونوں قسموں کے علاوہ اور کسی صورت میں شرعی بردے نہیں ہوتے اور نہ ان کی خرید و فروخت شرعی طور پا جائز ہوتی ہے۔

لہٰذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ غلام اور لونڈی کے بارے میں احتیاط سے کام لیں اگر شرعی لونڈی ہو تو اسے خدمت میں لائیں ورنہ ایسا نہ کریں کہ جس پر بھی لونڈی ہو جانے کا داغ لگ جائے اگر وہ شرعی لونڈی نہ ہو تو جانوروں کی طرح اندھا دھند اس سے صحبت نہ کرنے لگیں کہ درحقیقت ایسا کرنا حرام کاری اور زنا میں مبتلا ہونا ہے اسی طرح اس کے ساتھ دیگر مالکانہ تصرفات بھی نہ کئے جائیں۔

 

                   امامت سے عام گریز قیامت کی علامت ہے

 

اور حضرت سلامۃ بنت حر راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کی علامتوں میں سے (ایک علامت یہ ہے کہ مسجد کے لوگ امامت کو دفع کریں گے یعنی امام بننے سے گریز کریں گے) اور کوئی نماز پڑھانے والا ان کو نہ ملے گا۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

یہ دراصل آخری زمانے کے عام جہل و فسق سے کنایہ ہے کہ قیامت کے قریب جہل و فسق عمومی طور پر اس طرح پھیل جائے گا۔ اور لوگ اتنے جاہل و نااہل پیدا ہوں گے کہ کوئی آدمی امامت کا اہل نہیں ہو گا تمام لوگ اپنی نا اہلی و جہالت کے پیش نظر امامت سے گریز کرنے لگیں گے اور آس پاس میں ایک دوسرے سے نماز پڑھانے کے لیے کہیں گے مگر ہر آدمی امام بننے سے انکار کرے گا۔

ہاں اگر کوئی آدمی کسی کو اپنے سے افضل سمجھ کر خود امامت سے گریز کرے اور اس سے نماز پڑھانے کے لیے کہے تو اس کا تعلق اس حدیث سے نہیں ہو گا کیونکہ دوسرے کو افضل اور اپنے سے بہتر سمجھ کر خود امامت سے گریز کرنا اور اس افضل کو امامت کے لیے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

 

                   فاسق کی امامت جائز ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے اوپر جہاد ہر سردار کے ہمراہ خواہ وہ نیک ہو یا بد واجب ہے اگرچہ وہ (سردار) گناہ کبیرہ کرتا ہو اور تم پر نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے خواہ وہ (نماز پڑھانے والا) نیک ہو یا بد واجب ہے اگرچہ گناہ کبیرہ کرتا ہو اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ نیک ہو یا بد اگرچہ گناہ کبیرہ کرتا ہو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

جہاد واجب ہے کا مطلب یہ ہے کہ بعض صورتوں میں تو جہاد فرض عین ہے اور بعض صورتوں میں فرض کفایہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے خواہ وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ اس کا فسق کفر کی حد تک نہ پہنچ چکا ہو فاسق کے پیچھے نماز ادا تو ہو جاتی ہے لیکن اس کے پیچھے نماز پڑھنا بہر حال مکروہ ہے۔

علماء لکھتے ہیں کہ نیک بخت کی موجودگی میں فاسق کو امامت نہیں کرنی چاہیے۔

نماز جنازہ کے واجب ہونے  کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان پر جنازہ کی نماز پڑھنا فرض کفایہ ہے۔

 

                    نا بالغ کی امامت کا مسئلہ

 

حضرت عمرو ابن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پانی کے کنارے رہتے تھے جو لوگوں کی گزر گاہ تھا قافلے ہمارے پاس سے گزرتے ہم ان سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کے واسطے (ایک آدمی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو دین نکالا ہے وہ) کیا ہے؟ اور اس آدمی (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات کیا ہیں؟ وہ لوگ ہم سے بیان کرتے کہ وہ (رسول صلی اللہ علیہ و سلم) دعوی کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں (اپنا نبی برحق بنا) کر بھیجا ہے اور (قافلے کے لوگ قرآن کی آیتیں سنا کر کہا کرتے تھے کہ یہ) ان کے پاس وحی آتی ہے (اس طرح) ان کے پاس وحی آتی ہے چنانچہ میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف کو جو قافلے والے بیان کرتے تھے اور کلام کو) یعنی قافلے والے جو آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے ان کو اس طرح یاد کر لیتا تھا گویا وہ میرے سینے میں جم جاتی تھیں (یعنی قرآن کی آیتیں مجھے خود یاد ہو جایا کرتی تھیں) اہل عرب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جماعت کے علاوہ) اسلام لانے کے سلسلے میں مکہ کے فتح ہونے کا انتظار کر رہے تھے (یعنی یہ کہتے تھے کہ اگر مکہ فتح ہو گیا تو ہم اسلام لائیں گے اور یہ) کہا کرتے تھے تھے ان (رسول صلی اللہ علیہ و سلم) کو ان کی قوم پر چھوڑ دو اگر وہ اپنے لوگوں پر غالب آ گئے اور مکہ کو فتح کر لیا) تو سمجھو کہ وہ سچے نبی ہیں (کیونکہ انکی اس ظاہری بے سروسامانی اور مادی کمزوری کے باوجود اہل عرب پر غالب آ جانا اور مکہ کو فتح کر لینا ان کا معجزہ ہو گا اور معجزہ صرف سچے نبی ہی سے صادر ہو سکتا ہے چنانچہ جب اللہ نے اپنے دین کا بول بالا کیا اور مکہ فتح ہو گیا تو لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے ٹوٹ پڑے میرے والد نے اپنی قوم پر پہل کی اور سب سے پہلے اسلام لے آئے جب وہ یعنی میرے والد لوٹ کر آئے تو اپنی قوم سے کہنے لگے کہ  اللہ کی قسم ! میں سچے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فلاں وقت میں ایسی (اور اتنی) نماز پڑھو اور فلاں وقت میں ایسی (اور اتنی) نماز پڑھو (یعنی آپ نے نماز کی کیفیات اور اوقات بیان کئے) اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور تم میں سے جو آدمی قرآن زیادہ جاننے والا ہو وہ تمہاری امامت کرائے چنانچہ جب نماز کا وقت آیا اور جماعت کی تیاری ہوئی تو لوگوں نے آپس میں دیکھا (کہ امام کسے بنایا جائے !) مجھ سے زیادہ کوئی قرآن کا جاننے والا نہیں تھا کیونکہ میں (پہلے ہی سے) قافلے والوں سے قرآن سیکھ رہا تھا چنانچہ لوگوں نے مجھے آگے کر دیا (اور نماز میں میری اقتداء کی) اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے بدن پر فقط ایک چادر تھی چنانچہ جب میں سجدہ کرتا تو وہ چادر میرے بدن سے سرک جاتی تھی (اور کولھے کھل جاتے تھے) قوم میں سے ایک عورت نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ ہمارے سامنے سے تم لوگ اپنے امام کی شرم گاہ کیوں نہیں ڈھانکتے؟ تب قوم نے کپڑا خریدا اور میرے لیے کرتہ بنوا دیا اس مرتبے کی وجہ سے مجھے جیسی خوشی ہوئی ایسی خوشی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

عام طور پر  سلمہ لام کے زبر کے ساتھ ہے مگر یہ عمرو جو قوم کے امام بنے تھے ان کے والد کے نام  سلمہ  میں لام زبر کے ساتھ ہے۔ اس کے بارہ میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ عمرو ابن سلمہ بھی اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اسلام قبول کرنے گئے یا نہیں؟ اسی وجہ سے اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ صحابی نہیں یا ہیں؟ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والد تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں گئے تھے یہ ان کے ساتھ نہیں گئے تھے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لڑکے کی امامت کے جواز میں اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نا بالغ لڑکے کی امامت جائز ہے البتہ جمعے کی نماز میں نا بالغ لڑکے کی امامت کے سلسلے میں امام شافعی کے دو قول ہیں ایک قول سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ جمعے کی نماز میں بھی لڑکے کی امامت کے جواز کے قائل ہیں اور دوسرے قول سے عدم جواز کا اثبات ہوتا ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم فرماتے ہیں کہ نابالغ کی امامت جائز نہیں ہے البتہ نفل نماز کے سلسلہ میں علماء حنفیہ کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ بلح کے مشائخ نماز میں نا بالغ لڑکے کی امامت کے جواز کے قائل ہیں اور اسی پر ان کا عمل ہے نیز مصر اور شام میں بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے ان کے علاوہ دیگر علماء نے نفل نماز میں بھی نا بالغ لڑکے کی امامت کو نا جائز قرار دیا ہے چنانچہ علماء ماوراء النہر کا عمل اسی پر ہے۔

زیلعی نے شرح کنز میں اس مسئلے کے متعلق کہا ہے کہ  امام شافعی نے اس مسئلے میں کہ نا بالغ لڑکے کی امامت جائز ہے حضرت عمرو ابن سلمہ کے اس قول فقد مونی الخ سے استدلال کیا ہے لیکن ہمارے (یعنی حنیفہ کے) نزدیک حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کی روشنی میں کہ  وہ لڑکا جس پر حدود واجب نہیں ہوئی امامت نہ کرے نا بالغ لڑکے کی امامت جائز نہیں ہے اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بھی یہی ہے کہ لڑکا جب تک محتلم (یعنی بالغ) نہ ہو جائے امامت نہ کرے۔

لہٰذا یہ جائز نہیں ہے کہ فرض نماز پڑھنے والا نابالغ لڑکے کی اقتداء کرے جہاں تک عمرو ابن سلمہ کی امامت کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ ان کی امامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کی بنا پر نہیں تھی بلکہ یہ ان کی قوم کے لوگوں کے اپنے اجتہاد تھا کہ عمرو چونکہ قافلے کے لوگوں سے قرآن کریم سیکھ چکے تھے اس لیے ان کو امام بنا دیا۔

بڑے تعجب کی بات ہے کہ حضرات شوافع حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین کے اقوال سے تو استدلال نہیں کرتے۔ ایک نا بالغ لڑکے (عمرو ابن سلمہ) کے فعل کو مسستدل بناتے ہیں۔

 

                   آزاد کردہ غلام کی امامت

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں پہلے آنے والے مہاجرین آئے تو ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں نماز پڑھاتے تھے اور ان (مقتدیوں) میں حضرت عمر ، حضرت ابو سلمہ ابن عبدالاسد رضی اللہ تعالیٰ عنہم (بھی) ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

حضرت سالم ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام اور بہت اچھے قاری تھے ان کا شمار نہایت بزرگ اور اونچے درجے کے قراء صحابہ میں ہوتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ  قرآن کریم چار لوگوں سے حاصل کرو اور ان چارلوگوں میں حضرت سالم کا نام بھی شمار کیا تھا۔

حضرت عمر حضرت ابو سلمہ ابن عبدالاسد اور ان جیسے دوسرے جلیل القدر اور با عظمت  و فضیلت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امام مقرر ہونے کی وجہ یا تو یہ تھی کہ یہ بہت اچھے قاری تھے یا پھر اس میں کوئی اور مصلحت ہو گی۔

 

                   وہ لوگ جن کی نماز قبول نہیں ہوتی

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کی نماز ان کے سروں سے بالشت بھر (بھی) بلند نہیں ہوتی (یعنی درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی) ایک تو وہ آدمی جو قوم کا امام ہو اور انہیں اس سے (دینی امور) میں نا خوشی ہو۔ دوسرے وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا خاوند (اس کی نافرمانی یا اس کی جانب سے اپنے حق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے) خفا ہو تیسرے ایسے دو بھائی جو آپس میں نا خوش ہوں۔ (سنن ابن ماجہ)

 

                   امام پر لازم چیزوں کا بیان

 

اس باب کے تحت وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ مقتدیوں کی رعایت کے سلسلے میں امام کے لیے کیا چیزیں ضروری ہیں۔

 

                   نماز کو بھاری نہیں بنانا چاہیے

 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز سے زیادہ ہلکی اور کامل نماز کسی امام کے پیچھے نہیں پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی (عادت تھی کہ) جب آپ نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اس اندیشے سے کہ اس کی ماں کہیں فکر مند نہ ہو جائے نماز کو ہلکا کر دیتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے اول جز کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز باوجود پورے کمال و اتمام کے بہت ہلکی ہوتی تھی اور ہلکی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ قرأت اور تسبیحات حد سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور قرأت میں بے محل مدوشد نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کی قرأت بے تکلف اور ترتیل کے ساتھ ہوتی تھی اور یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت کی خاصیت تھی کہ اگرچہ وہ طویل ہوتی تھی مگر لوگوں کو ہلکی معلوم ہوتی تھی۔

حاصل یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت ہلکی ہوتی تھی اور رکوع و سجود نیز تعدیل ارکان وغیرہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔

حنفی مسلک میں یہ مسئلہ ہے کہ امام کے لیے مناسب نہیں ہے کہ تسبیحات وغیرہ کو اتنا طویل کرے کہ لوگ ملول ہوں کیونکہ نماز کو زیادہ طویل کرنا نماز کی طرف سے لوگوں کو بے توجہ بنانا ہے اور یہ مکروہ ہے ہاں اگر مقتدیوں ہی کی یہ خواہش ہو کہ قرأت و تسبیحات وغیرہ طویل ہوں تو پھر ان میں امام زیادتی کر سکتا ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں اس امام کو یہ بھی نہیں چاہیے کہ مقتدیوں کو خوش کرنے کی غرض سے قرأت اور تسبیحات میں اس درجے سے بھی کمی کر دے جو سب سے کم مسنون درجہ ہے۔

حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز ہلکی کر دیا کرتے تھے۔ تاکہ اس بچے کی ماں جو جماعت میں شامل ہوتی، بچے کی طرف سے فکر میں نہ پڑ جائے اور جس کی وجہ سے اس کی نماز کا حضور اور خشوع و خضوع ختم ہو جائے۔

خطابی نے اس جملہ کے فائدے میں کہا ہے کہ  اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ امام رکوع میں ہونے کی حالت میں اگر آہٹ پائے کہ کوئی آدمی نماز میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ رکوع میں اس آدمی کا انتظار کرے تاکہ وہ آدمی رکعت حاصل کرے مگر بعض حضرات نے اسے مکروہ قرار دیا ہے بلکہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے والے کے بارے میں یہ خوف ہے کہ وہ کہیں شرک کی حد تک پہنچ جائے گا۔ چنانچہ یہی مسلک حضرت امام مالک کا بھی ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ امام اگر رکوع کو تقرب الی اللہ کی نیت سے نہیں بلکہ اس مقصد سے طویل کرے گا کہ کوئی آنے والا آدمی رکوع میں شامل ہو کر رکعت پا لے تو یہ مکروہ تحریمی ہو گا۔ بلکہ اس سے بھی بڑے گناہ کے مرتکب ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے تاہم کفر و شرک کی حد تک نہیں پہنچے گا کیونکہ اس سے اس کی نیت غیر اللہ کی عبادت بہر حال نہیں ہو گی۔

بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر امام آنے والے کو پہچانتا نہیں ہے تو اس شکل میں رکوع کو طویل کرنے کا کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کا ترک اولیٰ ہے ہاں اگر کوئی امام تقرب الی اللہ کی نیت سے رکوع کو طویل کرے اور اس پاک جذبے کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ ایسی حالت کا ہونا چونکہ نادر ہے اور پھر یہ کہ اس مسئلے کا نام ہی  مسئلہ الریا  ہے اس لیے اس سلسلے میں کمال احتیاط ہی اولیٰ ہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نماز میں داخل ہوتا ہوں تو نماز کو طویل کرنے کا ارادہ کرتاہوں مگر جب بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو یہ جان کر کہ بچے کے رونے کی وجہ سے اس کی ماں سخت فکر مند ہو گی نماز میں تخفیف کر دیتا ہوں۔  (صحیح البخاری)

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ نماز کو ہلکا کرے کیوں کہ مقتدیوں میں بیمار کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں (ور ان کی رعایت ضروری ہے) اور جب تم میں سے کوئی آدمی تنہا اپنی نماز پڑھے تو اسے اختیار ہے کہ جس قدر چا ہے نماز کو طویل کرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

اس حدیث میں امام کے لیے یہ ہدایت دے دی گئی ہے کہ وہ نماز پڑھاتے وقت مقتدیوں کی رعایت ضرور کرے اس بات کا لحاظ رکھے کہ مقتدیوں میں بیمار بوڑھے اور کمزور لاغر لوگ بھی ہوں گے جو نماز کی طوالت سے تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پریشانی اور تکلیف سے بچنے کی خاطر جماعت میں شریک ہونا ہی چھوڑ دیں اس لیے ان کی رعایت کے پیش نظر نماز ہلکی ہی پڑھانی چاہیے ہاں اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اسے اختیار ہے کہ جس قدر چاہیے طویل نماز پڑھے۔

اسی طرح اگر تمام مقتدی حضور قلب کے حامل ہوں اور نماز کی طوالت سے گھبراتے نہ ہوں نیز مذکورہ بالا لوگوں میں سے یعنی بیمار و ضعیف وغیرہ نہ ہوں تو اس شکل میں بھی امام جس قدر چا ہے طویل نماز پڑھائے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت قیس ابن ابی حازم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ (ایک دن) ایک آدمی نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر) کہا کہ یا رسول اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! میں صبح کی نماز سے اس لیے پیچھے رہ جاتا ہوں کہ فلاں آدمی ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نصیحت کرنے کے بارے میں اس دن جیسے غصے میں بھرے ہوئے کبھی نہیں دیکھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نصیحت کرنے کے بارہ میں اس دن جیسا غصہ میں بھرے ہوئے کبھی نہیں دیکھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  تم میں سے بعض لوگ (طویل نماز پڑھا کر جماعت سے) لوگوں کو نفرت دلانے والے ہیں (خبردار) تم میں سے جو آدمی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور، بوڑھے اور حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں۔  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

                   غلط نماز پڑھانے والا امام اپنی غلطی کا خمیازہ خود بھگتے گا

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہیں امام نماز پڑھائیں گے چنانچہ اگر وہ نماز اچھی پڑھائیں گے تو اس کا فائدہ تمہارے لیے ہے (اور ان کے لیے بھی ہے) اور اگر انہوں نے خطا کی (بے طرح نماز پڑھائی) تو تمہیں (پھر بھی) ثواب ملے گا اور اس کا گناہ ان پر ہو گا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

اگر امام اچھی طرح اور شرعی و مسنون طریقہ سے پڑھائے گا تو ظاہر ہے کہ اس کا ثواب امام اور مقتدی دونوں ہی کو ملے گا اور اگر امام نماز بے قاعدہ اور غیر شرعی و غیر مسنون طریقہ سے پڑھائے گا تو اس کی ذمہ داری مقتدیوں پر نہیں ہے مقتدیوں کو تو اس صورت میں بھی ثواب ملے گا کیونکہ انہوں نے تو نماز اچھی طرح ادا کی اور جماعت میں شریک ہونے کی نیت کی البتہ امام اپنی غلطی اور خطا کا خمیازہ خود بھگتے گا کیونکہ اس نے نماز پڑھانے میں تقصیر کی ہے۔

اس حدیث کے ذریعے داصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو وصیت فرمائی ہے کہ بعد میں جب برے اور غلط کار حاکم پیدا ہوں گے اور امامت کریں گے تو وہ امامت کی ادائیگی میں احکام و آداب کی رعایت نہیں کریں گے۔ لہٰذا اس وقت تم کو چاہیے کہ اپنی نماز درست اور صحیح طریقے پر ادا کرو۔ اگر امام اچھی طرح نماز پڑھائے گا تو اس کا فائدہ امام اور مقتدی دونوں کو ہو گا ورنہ غلط نماز پڑھانے کی شکل میں مقتدیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا غلط نماز پڑھانے کی ذمہ داری تنہا امام پر ہو گی اور نقصان اسی کو ہو گا۔

 

                    بوڑھے اور بیمار مقتدیوں کی رعایت امام کے لیے ضروری ہے

 

حضرت عثمان ابن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے جو آخری وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ  جب تم لوگوں کی امامت کرو تو انہیں ہلکی نماز پڑھاؤ۔ (مسلم) اور کی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اپنی قوم کی امامت کرو۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اپنے دل میں کچھ کھٹک محسوس ہوتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ میرے قریب آؤ۔ (جب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب آگیا تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اپنے آگے بٹھایا اور میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا پھر فرمایا کہ پشت پھیرو (میں نے اپنی پشت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب کر دی) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میری پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان اپنا دست مبارک پھیر کر فرمایا کہ  جاؤ اور اپنی قوم کی امامت کرو اور یہ (یہ یاد رکھو) کہ جب کوئی آدمی کسی قوم کا امام بنے تو اسے چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور بیمار بھی ان میں کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور حاجتمند بھی ہاں جب کوئی تنہا نماز پڑھے تو اسے اختیار ہے جس طرح چاہیے پڑھے۔

 

تشریح

 

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد انی اجد فی نفسی شیا (یعنی مجھے اپنے دل میں کچھ کھٹک محسوس ہوتی ہے) کا مطلب یہ تھا کہ میں امامت کے حقوق کی ادائیگی سے اپنے آپ کو عاجز پاتا ہوں یا کچھ وسوسے اور شبہات ہیں جو دل میں آتے ہیں یا یہ کہ امامت کے وقت میرے دل کے اندر ایک قسم کی برتری اور غرور کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کیفیات کے دفعیہ کے لیے ان کے سینے اور پشت پر اپنا دست مبارک پھیرا جس کی برکت سے ان کی دل کی وہ کھٹک جاتی رہی جس کی موجودگی انہیں امامت پر آمادہ نہیں ہونے دیتی تھی۔

فاذا صلی احد کم الخ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والا اپنی نماز کے معاملے میں مختار ہے چا ہے تو وہ طویل نماز پڑھے چا ہے مختصر لیکن علماء لکھتے ہیں کہ تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ طویل نماز پڑھے۔

اس زمانہ کے ائمہ کا معاملہ بڑا عجیب ہے جب وہ لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں تو بہت زیادہ طوالت سے کام لیتے ہیں مگر جب تنہا نماز پڑھتے ہیں تو صرف اتنے ہی اختصار پر اکتفا کرتے ہیں جس سے نماز ادا ہو جائے۔ ائمہ کو اس طریق کار کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں ہلکی نماز (پڑھا نے) کا حکم دیا کرتے تھے اور آپ ہمیں نماز پڑھاتے تو سورہ صافات کی قرأت کرتے۔  (سنن نسائی)

 

تشریح

 

حدیث کے دونوں جزوں میں بظاہر تو تعارض نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو آپ ہلکی نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے اور دوسری طرف خود امامت کرتے وقت سورہ صافات کی قرأت فرماتے جو ایک طویل سورت ہے ، اس تعارض کو دفع کرنے کے لیے علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ لمبی لمبی سورتیں اور بہت زیادہ آیتیں بہت کم عرصے میں پڑھ لیتے تھے جس سے لوگوں کو کوئی گرانی اور اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی اور یہ خصوصیت دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس طرح دونوں جزء میں کوئی تعارض نہیں رہا۔

 

                    مقتدی کے لیے امام کی تابعداری کے لزوم اور مسبوق کا بیان

 

اس بات کے تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ مقتدی کیلئے امام کی تابعداری کتنی ضروری اور لازم ہے اور یہ کہ مقتدی کو امام کی متابعت کن چیزوں اور کس طرح کرنی چاہیے۔

نیز اس باب میں وہ احادیث بھی نقل کی جائیں گی جن سے مسبوق کا حکم معلوم ہو گا کہ وہ اپنی نماز کس طرح پوری کرے اور اسے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ گذشتہ صفحات میں کسی موقع پر مسبوق کی تعریف کی جا چکی ہے یعنی مسبوق اس نمازی کو کہتے ہیں جو ابتداء سے جماعت میں شریک نہ ہو بلکہ ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہو جانے کی بعد جماعت میں آ کر شریک ہوا ہو۔

امام کی متابعت کے سلسلے میں آنے والی حدیث کے ضمن میں حسب موقع مسائل کی وضاحت کی جائے گی تاہم اس موقع پر اجمالی طور پر اتنی بات جانتے چلئے کہ نماز کے ان ارکان میں جو فرض یا واجب ہیں تمام مقتدیوں کو امام کی متابعت و موافقت کرنا واجب ہے ہاں ان ارکان میں جو سنت وغیرہ ہیں مقتدیوں کے لیے امام کی متابعت ضروری نہیں چنانچہ اگر امام، شافعی المذہب ہو اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرے یعنی دونوں ہاتھوں کو اٹھائے تو حنفی مقتدی کو ہاتھوں کا اٹھانا ضروری نہیں ہے کیونکہ ان دونوں موقعوں پر رفع یدین ان کے نزدیک بھی سنت ہے اس طرح فجر کی نماز میں شافعی المذہب امام قنوت پڑھے تو حنفی مقتدیوں کے لیے قنوت پڑھنا واجب نہیں ہاں رات میں قنوت پڑھنا واجب ہے لہٰذا اسی طرح شافعی المذہب امام اگر اپنے مذہب کے موافق قنوت رکوع کے بعد پڑھے تو حنفی مقتدیوں کو بھی امام کی متابعت و موافقت کے پیش نظر رکوع کے بعد ہی قنوت پڑھنا چاہیے۔ (علم الفقہ)

 

                   امام کی متابعت

 

حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے چنانچہ آپ جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (سجدے کیلئے) اپنی جبیں مبارک زمین پر نہیں رکھتے تھے ہم میں سے کوئی آدمی اپنی پیٹھ جھکاتا (بھی) نہیں تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ہم رکوع سے اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی سجدے میں نہیں چلے جاتے تھے بلکہ کھڑے رہتے تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زمین پر اپنی پیشانی رکھ لیتے تو ہم سجدے میں جاتے۔ مولانا مظہر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مقتدی کے لیے یہ سنت ہے کہ وہ اپنی نماز کے ارکان امام کی نماز کے ارکان کے اس قدر بعد ادا کرے اور اگر امام کے افعال و صلوٰۃ اور مقتدی کے افعال صلوٰۃ کے درمیان ادائیگی کا اتنا وقفہ نہ ہو تو بھی جائز ہے مگر تکبیر تحریمہ کے وقت مقتدی کے لیے اتنا توقف کرنا ضروری ہے کہ جب امام تکبیر تحریمہ کہہ کر فارغ ہو تو مقتدی تکبیر تحریمہ کہیں۔

مگر حنفی فقہ کا مسئلہ یہ ہے کہ مقتدی کے لیے امام کی متابعت بطریق مواصلت واجب ہے یعنی مقتدیوں کو ہر رکن امام کے ساتھ ہی بلا تاخیر ادا کرنا چاہیے ، تحریمہ بھی امام کی تحریمہ کے ساتھ کریں رکوع بھی امام کے رکوع کے ساتھ قومہ بھی امام کے قومہ کے ساتھ سجدہ بھی امام سجدے کے ساتھ غرض کہ ہر فعل امام کے ہر فعل کے ساتھ کریں۔ ہاں اگر قعدہ اولیٰ میں امام اس سے پہلے کھڑا ہو جائے کہ مقتدی التحیات پوری کریں تو مقتدیوں کو چاہیے کہ التحیات پوری کر کے سلام پھیریں۔ ہاں رکوع و سجود میں اگر مقتدیوں نے تسبیح تین مرتبہ بھی نہ پڑھی ہوں اور امام سر اٹھائے تو صحیح مسئلہ یہی ہے کہ مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ تسبیح پڑھے بغیر ہی امام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں ، اگر مقتدی رکوع یا سجدے سے اپنا سر امام کے سراٹھانے سے پہلے اٹھاویں تو ان کو چاہیے کہ وہ دوبارہ رکوع یا سجدے میں چلے جائیں اور پھر امام کے ساتھ ہی اپنا سر اٹھائیں اس طرح یہ رکوع یا سجدے دو نہیں ہوں گے بلکہ ایک ہی شمار ہوں گے۔

 

                   مقتدی امام سے پہلے کوئی رکن ادا نہ کریں

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں نمازپڑھائی جب آپ نماز پڑھ چکے تو اپنا چہرۂ  مبارک ہماری طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ لوگو ! میں تمہارا امام ہوں! لہٰذا تم رکوع کرنے ، سجدہ کرنے کھڑے ہونے اور پھر نے (یعنی نماز سے فارغ ہونے) میں مجھ سے جلدی نہ کیا کرو میں تمہیں اپنے آگے اور (بذریعہ مکاشفہ یا بطور معجزہ بذریعہ مشاہدہ) اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ (صحیح مسلم)

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم اپنے امام پر پہل نہ کیا کرو جب امام تکبیر کہے تو تم (بھی اس کے ساتھ ہی) تکبیر کہو جب امام ولا الضالین کہے تو تم رکوع میں جاؤ اور جب امام سمع اللہ لم حمدہ کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد (اے اللہ ! اے ہمارے رب تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں کہو۔ اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے مگر امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی روایات میں و اذا قال و لا الضالین کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔

 

تشریح

 

فقولوا آمین کہہ کر اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو مقتدی خاموش کھڑے رہ کر اسے سنیں اور سورہ فاتحہ کی قرأت نہ کریں۔

حدیث کے آخری جزو سے یہ معلوم ہوا کہ امام جب رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لم حمدہ کہے تو مقتدی ربنا لک الحمد کہیں جیسا کہ امام اعظم کا مسئلہ ہے۔

 

                   امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں یا کھڑے ہو کر

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  ایک مرتبہ کسی سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گھوڑے پر سوار تھے کہ اتفاقاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم نیچے گر پڑے اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی داہنی کروٹ (ایسی) چھل گئی کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم قادر نہ رہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پانچ فرض نمازوں میں سے کوئی نماز ہمیں بیٹھ کر پڑھائی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے بیٹھ کر ہی نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ کر فارغ ہو گئے تو ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ امام اسی لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے لہٰذا جب امام کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ رکوع سے اٹھے تو تم بھی رکوع سے اٹھو ، جب وہ سمع اللہ لم حمدہ کہے تو ربنا لک الحمد کہو اور جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔  حمیدی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ  جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پہلی بیماری میں تھا اور اس کے بعد (مرض الموت میں انتقال سے ایک دن پہلے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم نہیں فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسی فعل پر عمل کیا جاتا ہے جو آخری ہے (یعنی پہلا فعل منسوخ اور دوسرافعل ناسخ ہوتا ہے۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم بھی لفظ اجمعون تک بخاری کے موافق ہیں (یعنی روایت کو اس لفظ تک بخاری اور مسلم دونوں نے نقل کیا ہے اور ایک دوسری روایت میں مسلم نے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ امام کے خلاف نہ کرو اور جب وہ امام سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔

 

تشریح

 

اس روایت کے آخر میں جس حمیدی کا قول نقل کیا گیا ہے یہ وہ حمیدی نہیں جو جمع بین الصحیحین کے مولف ہیں بلکہ یہ صحیح البخاری کے استاد حمیدی ہیں بہر حال اکثر ائمہ کا مسلک حمیدی کے قول کے مطابق ہی ہے کہ اگر امام کسی عذر کی بناء پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر پڑھیں انہیں بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔

 

                   رسول اللہ کی علالت اور حضرت ابوبکر صدیق کی امامت کا واقعہ

 

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بہت زیادہ بیمار تھے تو (ایک دن) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز کے لیے بلانے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو ان دنوں میں سترہ نمازیں پڑھائیں پھر جب (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی طبیعت کچھ ہلکی محسوس فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم (نماز کے لیے مسجد میں) دو آدمیوں کا سہارا لے کر (اس طرح) آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھ سے صحابہ کے کندھوں پر ٹیک رکھے ہوئے تھے اور (ضعف و کمزوری کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاؤں مبارک زمین پر گھسٹتے جاتے تھے جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کی آہٹ محسوس کی اور پیچھے ہٹنا شروع کیا (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی جگہ کھڑے ہو جائیں اور امامت کریں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم (آگے) بڑھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے چنانچہ حضرت ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  ضعف و کمزوری کی بناء پر) بیٹھ کر نماز پڑھتے رہے حضرت ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کی اقتداء کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

شرح السنہ میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد  کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تمام لوگوں میں سے افضل ہیں نیز یہ کہ تمام لوگوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خلافت کے سب سے زیادہ مستحق اور سب سے اولیٰ ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت کے اس عظیم اور سب سے اہم منصب کا اہل و اولیٰ قرار دئیے جانے کی پیش نظر ہی بعض جلیل القدر صحابہ کا یہ ارشاد بالکل حقیقت پسندانہ اور منشاء رسالت کے عین مطابق تھا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر کو اپنی زندگی میں دین کا سب سے بڑا اور اہم منصب امامت عنایت فرما کر اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا تھا کہ میرے بعدحضرت ابوبکر کو ہمارے دین (کی پیشوائی) کے لیے پسند فرمایا تو کیا ہم انہیں اپنی دنیا کی رہبری کے لیے پسند نہ کریں؟ یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر ہی کی وہ آدمییت ہو سکتی ہے جو مسلمانوں کی دینی پیشوائی اور رہبری کو انجام دے سکے تو حضرت ابوبکر مسلمانوں کی دینوی رہبری اور پیشوائی کے بدرجہ اولیٰ مستحق ہوئے لہٰذا خلافت جیسے عظیم الشان منصب کے سب سے زیادہ اہل وہی ہیں۔

رَجُلَیْنِ (دو صحابہ) سے مراد حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ذات گرامی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی کمزوری و ناتوانی کے سبب حجرہ مبارک سے مسجد نبوی تک ان دونوں جلیل القدر صحابہ کے کندھوں پر سہارا دیکر تشریف لائے۔

حدیث کے الفاظ والناس یقتدون بصلوۃ ابی بکر (اورلوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے) کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے اور حضرت ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلوئے مبارک میں کھڑے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو فعل کرتے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس طرح کرتے تھے اور جو فعل حضرت ابوبکر کرتے تھے دوسرے مقتدی بھی اسی طرح کرتے جاتے تھے۔ لہٰذا یہاں اقتداء کے یہی معنی ہیں یہ معنی مراد نہیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو حضرت ابوبکر کے امام تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے مقتدیوں کے امام تھے کیونکہ مقتدی کی اقتداء کرنا جائز نہیں۔

بہر حال حاصل یہ ہے امام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی تھے حضرت ابوبکر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتداء کر رہے تھے اور دوسرے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے۔

 

کیا نماز کے دوران امامت میں تغیر جائز ہے؟

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نماز کے دوران امامت میں تغیر جائز ہے؟ یعنی نماز شروع چکی ہے ایک امام لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہے اور ایک دوسرا آدمی آتا ہے اور شروع سے نماز پڑھانے والے امام کی جگہ کھڑا ہو جاتا ہے اور امامت شروع کر دیتا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟ جیسا کہ واقعہ مذکورہ میں صورت پیش آئی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بعد میں تشریف لائے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ لوگوں کی امامت شروع فرما دی ! تو اس سلسلے میں علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بارے میں اجماع ہے کہ صورت مذکور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فعل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں تھا ، یعنی دوسروں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس طرح امامت میں تغیر کیا جائے۔

لیکن حضرت امام شافعی نے اس میں اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ بالا صورت کی طرح امامت اور اقتداء جائز ہے (ملا حظہ فرمایئے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)

اس سلسلے میں بعض علماء حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز شروع کر چکے تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت نماز شروع نہیں کی تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور امامت شروع فرما دی۔ وا اللہ اعلم

اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی صاف ہو گیا کہ اگر امام کسی عذر کی بناء پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی جائے۔

نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ ، عیدین نیز زیادہ نمازی ہونے کی صورت میں عام نمازوں میں بھی موذنوں کے لیے جائز ہے کہ وہ امام کے ساتھ تکبیرات بآواز بلند کہتے جائیں تاکہ جو مقتدی امام سے فاصلے پر ہوں وہ بھی تکبیرات سن لیں۔

 

                   امام سے پہلے سر اٹھانے پر وعید

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ آدمی جو امام سے پہلے (رکوع و سجود سے) سر اٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ جل شانہ اس کے سر کو بدل کر گدھے جیسا سر کر دے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

جو آدمی نماز کے ارکان امام کے ساتھ ادا نہیں کرتا بلکہ امام سے پہلے ہی ادا کر لیتا ہے مثلاً رکوع و سجود سے امام کے سر اٹھانے سے پہلے اپنا سر اٹھالیتا ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں مذکورہ بالا حدیث سخت ترین وعید ہے۔

گو علماء لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ اسے گدھے کی مانند کم فہم و عقل کر دے گا کیونکہ تمام جانوروں میں گدھا ہی سب سے زیادہ کم فہم ہوتا ہے لہٰذا یہ مسخ حقیقی نہیں ہو گا بلکہ مسخ معنوی ہو گا تاہم علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس حدیث کو اپنے حقیقی معنی پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس امت میں بھی مسخ ممکن ہے جیسا کہ  باب اشراط الساعۃ میں مذکور ہے اور اس کے موئید ایک روایت ہے کے یہ الفاظ ہیں کہ ان یحول اللہ صورتہ حمار یعنی اللہ تعالیٰ اس سے نہیں ڈرتا کہ اس کی صورت کو گدھے جیسی صورت کر دے۔

خطابی فرماتے ہیں کہ اس امت میں بھی مسخ جائز ہے لہٰذا اس حدیث کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا جائز ہے۔

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مسخ خاص ہے اور امت کے لیے جو مسخ ممتنع ہے وہ مسخ عام ہے چنانچہ احادیث صحیحہ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔

 

                   مسخ صورت کی ایک عبرت ناک مثال

 

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذکورہ بالا قول کی تائید ایک عبرتناک واقعہ سے بھی ہوتی ہے جو ایک جلیل القدر محدث سے منقول ہے کہ وہ طلب علم اور حصول حدیث کی خاطر دمشق کے ایک عالم کے پاس پہنچے جو اپنے علم و فضل کی بناء پر بہت مشہور تھا انہوں نے اس عالم سے درس لینا شروع کیا مگر حصول علم کے دروان یہ واقعہ طالب علم کے لیے بڑا حیرتناک بنا رہا کہ استاد پوری مدت کبھی بھی ان کے سامنے نہیں آیا درس کے وقت استاد اور شاگرد کے درمیان ایک پردہ حائل رہتا تھا ان کو اس کی بڑی خواہش تھی کہ کم سے کم ایک مرتبہ اپنے استاد کے چہرے کی زیارت تو کریں۔ چنانچہ جب انہیں اس عالم کی خدمت میں رہتے ہوئے بہت کافی عرصہ گذر گیا تو اس نے یہ محسوس کر لیا کہ طالب علم حصول حدیث کے شوق اور تعلق شیخ کے بھر پور جذبات کا پوری طرح حامل ہے تو استاد نے ایک دن درمیان میں حائل پردہ کو اٹھایا ان کی حیرت اور تعجب کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ جو جلیل القدر عالم اور ان کا استاد جس کے علم وفضل کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اپنے انسانی چہرے سے محروم ہے بلکہ اس کا من گدھے جیسا ہے استاد نے شاگرد کی حیرت اور تعجب کو دیکھتے ہوئے جو بات کہی اسے سنئے اور اس سے عبرت حاصل کیجئے۔ اس نے کہا اے میرے بیٹے ! نماز کے ارکان ادا کرنے کے سلسلہ میں امام پر پہل کرنے سے بچنا میں نے جب یہ حدیث سنی کہ کیا جو شخص امام سے پہلے سر اٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے جیسا کر دے تو مجھے بہت تعجب ہو اور میں نے اسے بعید از امکان تصور کیا چنانچہ (یہ میری بد قسمتی کہ میں نے تجربہ کے طور پر) نماز کے ارکان ادا کرنے کے سلسلہ میں امام پر پہل کی جس کا نتیجہ میرے بیٹے اس وقت تمہارے سامنے ہے کہ میرا چہرہ واقعی گدھے کے چہرے جیسا ہو گیا۔

بہر حال ملا علمی قاری اس کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشا دراصل شدید تہدید اور انتہائی وعید کے طور پر ہے یا یہ کہ ایسے آدمی کو برزخ اور دوزخ میں اس عذاب کے اندر مبتلا کیا جائے گا۔

 

                    امام کی موافقت کرنے کا حکم

 

حضرت علی اور حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی آدمی جماعت میں شریک ہونے کے لیے نماز میں آئے اور امام کسی حالت میں ہو تو جو کچھ امام کر رہا ہے وہی اسے کرنا چاہیے۔ اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ افعال نماز میں اس آدمی کو امام کی اقتداء کرنی چاہیے اور اسے ارکان نماز کی ادائیگی کے سلسلے میں امام سے مقدم یا موخر نہ ہونا چاہیے۔

ابن ملک فرماتے ہیں ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام جس حالت میں بھی ہو اس کی موافقت اسے کرنی چاہیے ، یعنی جماعت شروع ہو جانے کے بعد اگر کوئی آدمی بعد میں شریک ہونے کے لیے آئے تو امام جس حالت میں ہو تو اسے بھی وہی حالت اختیار کرنی چاہیے اگر وہ رکوع میں ہو تو اسے بھی رکوع میں چلے جانا چاہیے اگر سجدے میں ہو تو اسے بھی سجدے میں چلے جانا چاہیے دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جماعت شروع ہو جانے کے بعد یوں ہی کھڑے رہتے ہیں یا باتوں میں مصروف رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ جب امام رکوع میں جائے تو جا کر نماز میں شریک ہوں یہ طریقہ بہت غلط اور غیر شرعی ہے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے تاہم علماء کا اس حدیث پر عمل ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی کہا ہے کہ حدیث کی اسناد ضعیف ہے لیکن جس حدیث پر علماء کا عمل ہوتا تھا اسے امام ترمذی صحیح قرار دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ حدیث کی صحت علماء کے عمل سے ثابت ہو جائے جیسا کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث پہنچی کہ جو آدمی لا الہ الا اللہ ستر ہزار مرتبہ پڑھے تو اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے اسی طرح جس آدمی کے لیے پڑھا جائے اس کی بھی مغفرت کر دی جاتی ہے چنانچہ میں اس کلمہ کو روایت کردہ عدد کے مطابق خاص طور سے کسی کے لیے نیت کئے بغیر پڑھا کرتا تھا اتفاق سے ایک دن میں ایک جگہ دعوت میں گیا وہاں میرے چند رفیق بھی تھے اس میں سے ایک آدمی جوان تھا جو کشف کے سلسلے میں بہت مشہور تھا کھانے کے دوران اچانک وہ رونے لگا میں نے حیرت زدہ ہو کر اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ میں (کشف کے ذریعہ) دیکھ رہا ہوں کہ میری ماں عذاب میں مبتلا ہے یہ سنتے ہی میں نے کلمہ مذکورہ کا ثواب دل ہی دل میں اس کی ماں کے لیے بخش دیا اب وہ ہنسنے لگا اور اس نے کہا کہ  اب میں اپنی ماں کو جنت میں دیکھ رہا ہوں۔

اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد آدمی محی الدین ابن عربی نے فرمایا کہ اس آدمی کے کشف کے صحیح ہونے سے میں نے اس حدیث کو صحیح جانا اور اس حدیث کے صحیح ہونے سے اس آدمی کے کشف کو صحیح مانا۔

 

                   رکوع میں شریک ہو جانے سے پوری رکعت ہو جاتی ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم (جماعت میں شریک ہونے کے لیے) نماز میں آؤ اور مجھے سجدے کی حالت میں پاؤ تو تم بھی سجدے میں چلے جاؤ اور اس سجدے کو کسی حساب میں نہ لگاؤ ہاں جس آدمی نے (امام کے ساتھ) رکوع پا لیا تو اس نے پوری رکعت پا لی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں آ کر اس حال میں شریک ہو کہ امام سجدے میں ہو اور وہ بھی سجدے میں چلا جائے تو اس کی پوری رکعت نہیں ہوتی ہاں اگر کوئی آدمی اس حال میں شریک ہو کہ امام رکوع میں ہو اور اسے رکوع مل جائے تو اس کی پوری رکعت ادا ہو جاتی ہے چنانچہ اس حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں اس وقت شریک ہو جب امام سجدے میں ہو تو وہ سجدے میں چلا جائے۔ مگر اس سجدے کی وجہ سے وہ اس رکعت کا ادا کرنا نہ سمجھے کیونکہ جس طرح رکوع میں شریک ہو جانے سے پوری رکعت مل جاتی ہے اسی طرح سجدے میں شریک ہونے پر پوری رکعت نہیں ملتی۔

دوسرے جزو کے علماء نے دو مطلب بیان کئے ہیں (١) حدیث میں لفظ  رکعۃ سے رکوع مراد ہے اور  صلوٰۃ سے رکعت یعنی جس نے امام کو رکوع میں پایا اور وہ رکوع اس نے بھی پا لیا تو اس کو پوری رکعت مل گئی (٢) رکعۃ اور صلوٰۃ دونوں اپنے حقیقی معنی میں استعمال کئے گئے ہیں اس طرح حدیث کے اس جزء کا مطلب یہ ہو گا کہ جس آدمی نے جماعت میں ایک رکعت بھی پالی تو اس نے امام کے ساتھ پوری نماز کو پا لیا لہٰذا اسے نماز با جماعت کو ثواب بھی ملے گا اور جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہو گی۔

 

                   چالیس روز تکبیر اولیٰ کے ساتھ با جماعت نماز پڑھنے والے کے لیے خوشخبری

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو آدمی چالیس روز تک اللہ تعالیٰ کے لیے جماعت کے ساتھ اس طرح نماز پڑھے کہ وہ تکبیر اولیٰ بھی پائے تو اس کے لیے دو قسم کی نجات لکھی جاتی ہے ایک تو دوزخ سے نجات اور دوسری نفاق سے نجات۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو مسلسل چالیس روز تک یہ سعادت حاصل ہو جائے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاء کی خاطر جماعت سے نماز اس طرح پڑھے کہ اس کی تکبیر تحریمہ فوت نہ ہو یعنی وہ ابتداء سے نماز میں شریک رہے کہ جب امام تکبر تحریمہ کہے تو وہ بھی تکبیر کہے یا بعض علماء کے قول کے مطابق زیادہ سے زیادہ امام کے سبحانک اللہم پڑھنے تک جماعت میں شریک ہو جائے تو اس کے لیے بارگاہ رب العزت سے دو چیزوں سے نجات کا پروانہ عنایت فرما دیا جاتا ہے ایک تو دوزخ سے کہ اسے انشاء اللہ دوزخ کی آگ دیکھنا نصیب نہیں ہو گی اور دوسری نفاق سے۔

 

                   نفاق سے نجات کا مطلب

 

نفاق سے نجات کا پروانہ دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مرد مومن کو اس بات سے اپنے حفظ و امان میں رکھے گا کہ اس سے منافقوں جیسے عمل سرزد ہوں جیسے نماز میں کسل و سستی اور ریا، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی وغیرہ وغیرہ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے اہل حق اور اہل اخلاص کے سے عمل کرنے کی توفیق دے گا اور آخرت میں اسے اس عذاب سے کہ جس میں منافقین کو مبتلا کیا جائے گا۔ بچائے گا نیز میدان حشر میں اس کے بارے میں یہ گواہی دی جائے گی کہ یہ بندہ منافق نہیں ہے بلکہ بندہ مومن و صادق ہے اور رحم و کرم کی یہ بارشیں محض اس وجہ سے ہوں گی کہ یہ آدمی نماز میں اس قدر پہلے آیا کہ تکبیر اولیٰ میں شریک ہو سکے نیز دل کے پورے خلوص اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز میں کھڑے ہو کر اپنے رب کی خوشنودی اور رضا مندی کو حاصل کیا۔ حق تعالیٰ ہم سب کو اس سعادت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین

 

                   جماعت کی نیت سے مسجد میں جانے والے کو جماعت نہ ملنے کی صورت میں بھی ثواب ملتا ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس آدمی نے وضو کیا اور اچھا (یعنی پوری شرائط و آداب اور حضور دل کے ساتھ) وضو کیا اور پھر (مسجد میں) گیا اور وہاں دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے اس نمازی کے برابر ثواب عنایت فرما دیتا ہے جس نے وہاں جماعت میں حاضر ہو کر نماز پڑھی تھی اور اس کا ثواب دینے سے دوسرے (یعنی جماعت میں حاضر ہونے والوں) کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ (ابوداؤد النسائی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں شریک ہونے کی نیت سے مسجد میں آئے اور اتفاق سے اسے جماعت نہ مل سکے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے جماعت میں شریک ہونے والوں کے برابر ثواب عنایت فرماتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ قصداً دیر کر کے جماعت میں شریک ہونے سے نہ رہ جائے بلکہ اتفاقاً یا کسی عذر کی بناء پر اس کی جماعت جاتی رہے اگر کوئی قصداً جماعت کے وقت حاضر نہ ہو بلکہ جماعت ہو جانے کی بعد آئے تو اسے یہ ثواب نہیں ملے گا۔

حدیث کے آخری جز کا مطلب ہے کہ اسے یہ ثواب ان نمازیوں کے ثواب میں سے جو جماعت میں حاضر تھے کم کر کے نہیں ملے گا کہ جس کی وجہ سے ان کے ثواب میں کمی ہو جائے بلکہ ان نمازیوں کو تو اپنے فعل یعنی جماعت میں شریک ہونے کا بھر پور اجر ملے گا اور اسے جماعت کی نیت اور جماعت کے حاصل کرنے کے غلبہ شوق کی بناء پر ثواب دیا جائے گا۔

 

                    جماعت کی فضیلت

 

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز مسجد میں) ایک آدمی ایسے وقت پہنچا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تھے آپ نے (اس آدمی کو دیکھ کر) فرمایا کہ  کیا کوئی آدمی ایسا نہیں جو اسے اللہ کی راہ میں دے۔ چنانچہ ایک آدمی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد سن کر) کھڑا ہوا اور اس نے اس آدمی کے ساتھ نماز پڑھی۔ (جامع ترمذی و ابوداؤد)

 

تشریح

 

یتصدق (اللہ کی راہ میں دے) کا مطلب یہ تھا کہ کیا کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو اس آدمی کے ساتھ بایں طور احسان کرے کہ وہ اس کے ساتھ نماز پڑھے تاکہ اسے جماعت کا ثواب حاصل ہو جائے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی کو نیک راہ بتائے یا اس کے نیک راستے اختیار کرنے کا باعث بنے تو اسے وہی اجر و ثواب ملے گا جو اللہ کی راہ میں بخشش کا ثواب ملتا ہے۔

مولانا مظہر فرماتے ہیں کہ آنے والے آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے کو صدقہ (خدا کی راہ میں دینے) سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ اس آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے والے نے اس کو چھبیس گناہ زیادہ ثواب صدقہ کیا کیونکہ اگر وہ اس آدمی کے ساتھ نماز نہ پڑھتا تو جماعت نہ ہونے اور تنہا نماز پڑھنے کی وجہ سے ایک ہی نماز کا ثواب ملتا اور اس آدمی کے باعث جماعت حاصل ہونے کی وجہ سے اسے ستائیس نمازوں کا ثواب ملا۔

 

                    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مرض موت میں ابوبکر کی امامت کا واقعہ

 

حضرت عبید اللہ ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ  کیا آپ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری کا حال (کہ جس میں آپ آخری مرتبہ نماز پڑھانے کے لیے مسجد تشریف لے گئے تھے) بیان فرمائیں گی؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ  ہاں (کیوں نہیں ! تو سنو کہ جب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زیادہ بیمار ہوئے تو (نماز کے وقت) پوچھا کہ  کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟ ہم نے کہا کہ  ابھی نہیں یا رسول اللہ ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اچھا میرے لیے لگن (طشت) میں پانی رکھو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  ہم نے لگن میں پانی رکھ دیا  چنانچہ آپ نے غسل کیا اور چاہا کہ کھڑے ہوں مگر  کمزوری کی وجہ سے آپ کو غش آگیا اور) بے ہوش ہو گئے ، جب ہوش آیا تو پھر فرمایا کہ  کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟ ہم نے کہا کہ  ابھی نہیں! لوگ آپ کے منتظر ہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا  لگن میں پانی رکھ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (جب ہم نے لگن میں پانی رکھ دیا تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل فرمایا اور چاہا کہ کھڑے ہوں مگر بے ہوش ہو گئے جب ہوش آیا تو پھر پوچھا کہ  کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟ ہم نے عرض کیا کہ ابھی نہیں لوگ آپ کے منتظر ہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا  لگن میں پانی رکھو۔  (جب ہم نے پانی رکھ دیا تو) آپ بیٹھے اور غسل کیا اور پھر جب اٹھنا چاہا تو بے ہوش ہو گئے جب ہوش آیا تو فرمایا کہ  کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟  ہم نے عرض کیا کہ  نہیں لوگ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے منتظر ہیں یا رسول اللہ ! اور لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتظار کر رہے تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کو (یعنی حضرت بلال کو) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہ کہلا کر بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چنانچہ قاصد (یعنی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک نرم دل آدمی تھے (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم ہی لوگوں کو نماز پڑھادو (کیونکہ میں تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ کھڑا ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا) لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس عظیم مرتبے کے سب سے زیادہ اہل آپ ہیں، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دنوں میں (یعنی رسول اللہ کے ایام مرض میں سترہ نمازیں لوگوں کو پڑھائیں (جب ایک روز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس فرمائی تو دو آدمیوں کا سہارا لے کر ان میں سے ایک حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے نماز ظہر کے لیے (مسجد میں) تشریف لے گئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کی آہٹ سنی تو پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اشارہ کے ذریعہ پیچھے ہٹنے سے منع فرما دیا اور ان دونوں سے (جن کا سہارا لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں آئے تھے) فرمایا کہ  مجھے ابوبکر کے پہلو میں بٹھا دو!  چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے (نماز پڑھاتے) رہے حضرت عبداللہ (اس حدیث کے راوی) فرماتے ہیں کہ میں (حضرت عائشہ سے یہ حدیث سن کر) حضرت عبداللہ ابن عباس کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ کیا میں آپ سے وہ حدیث نہ بیان کر دوں جو میں نے حضرت عائشہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری کے بارے میں سنی ہے؟حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا کہ  ہاں بیان کرو! چنانچہ میں نے ان کے سامنے حضرت عائشہ کی حدیث بیان کی حضرت عبداللہ ابن عباس نے اس میں سے کسی بات کا انکار نہیں کیا البتہ یہ فرمایا کہ کیا حضرت عائشہ نے تم سے اس آدمی کا نام بیان کیا ہے جو حضرت عباس کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا کہ نہیں حضرت عبداللہ ابن عباس  نے فرمایا کہ وہ حضرت علی المرتضیٰ تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام تو لے لیا مگر دوسرے آدمی کا نام نہیں لیا جو ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سہارا دے کر مسجد لے گئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک طرف تو حضرت عباس مستقل طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سہارا دئیے ہوئے تھے مگر دوسرے طرف ایک ہی آدمی مقرر نہ تھا بلکہ نوبت بہ نوبت بدلتے جاتے تھے کبھی تو حضرت علی سہارا دیتے کبھی حضرت اسامہ یا فضل ابن عباس یہی وجہ ہے کہ ایک دوسری طرف روایت میں حضرت عائشہ کے الفاظ کچھ اس طرح منقول ہیں جو بطریق احتمال سب ناموں کو شامل ہیں چنانچہ وہ الفاظ یہ ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دوسری طرف اہل بیت سے میں سے ایک آدمی (سہارا دئیے ہوئے) تھا۔

 

                   سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے ادھورا ثواب ملتا ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے جس نے رکوع پایا اسے پوری رکعت مل گئی اور جو آدمی سورہ فاتحہ پڑھنے سے رہ گیا وہ بہت سارے ثواب سے (بھی محروم) رہ گیا۔ (مالک)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو چونکہ وہ اس وجہ سے بہت زیادہ ثواب سے محروم رہ گی اس لیے اس کی نماز کا ثواب ناقص ہے۔

اس حدیث سے بین طریقہ پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض نہیں ہے کیونکہ اگر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہوتا تو نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے کمی و نقصان نہیں ہوتا بلکہ نماز نہ ہونے کی وجہ سے سرے سے ثواب ملتا ہی نہیں۔

اس حدیث سے بین طریقہ پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض نہیں ہے کیونکہ اگر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہوتا تو نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے کمی و نقصان نہیں ہوتا بلکہ نماز نہ ہونے کی وجہ سے سرے سے ثواب ملتا ہی نہیں۔

 

                   امام پر پہل کرنے کی وعید

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ (یہ بھی) فرماتے تھے کہ  جو آدمی (رکوع و سجود) میں اپنے سر کو امام سے پہلے اٹھائے یا جھکائے تو (سمجھو کہ) اس کی پیشانی شیطان کے ہاتھ میں ہے۔ (مالک)

 

                    دو مرتبہ نماز پڑھنے والے آدمی کا بیان

 

اگر کوئی آدمی ایک ہی نماز دو مرتبہ خواہ حقیقتاً یا صورۃً پڑھتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آیا دونوں مرتبہ کی نمازیں ایک ہی قسم سے ادا ہوں گی یا ان کی حیثیت میں فرق ہو جائے گا؟ یا دونوں مرتبہ فرض ادا ہوں گے یا ایک مرتبہ فرض اور دوسری مرتبہ نفل؟ یہی باتیں بتانے کے لیے یہ باب قائم کیا گیا ہے اور انہیں مضامین پر مشتمل احادیث اس باب کے تحت نقل کی جائیں گی۔

 

                   حضرت معاذ کے دو مرتبہ نماز پڑھنے کی حقیقت

 

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (پہلے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے اور پھر اپنی قوم کے پاس آ کر انہیں نماز پڑھاتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ معمول تھا کہ وہ عشاء کی سنتیں یا نفل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ پڑھتے تھے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت و سعادت حاصل ہو جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز پڑھنے کا طریقہ بھی معلوم ہو جائے پھر وہاں سے اپنی قوم میں آ کر لوگوں کو فرض نماز پڑھایا کرتے تھے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشاء کی نماز (پہلے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ پڑھتے تھے پھر اپنی قوم میں آتے اور ان کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور وہ ان کے لیے نفل ہوتی۔

 

تشریح

 

حضرت معاذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ پہلے تو عشاء کی نماز پڑھتے وقت عشاء کی سنت کی نیت کرتے ہوں گے یا نفل نماز کی نیت کر لیتے ہوں گے پھر اپنی قوم کے پاس آ کر ان کی امامت کرتے اور اس وقت فرض نماز پڑھتے تھے۔

حدیث کے آخری الفاظ وھی لہ نا فلۃ کا مطلب سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ دو مرتبہ نماز پڑھنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ ایک آدمی نے اپنے مکان میں تنہا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھی اس کے بعد مسجد آیا تو دیکھا کہ وہاں اسی نماز کی جماعت ہو رہی ہے تو جو پہلے پڑھ چکا ہے۔ وہ مسجد میں جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے جماعت میں شریک ہو کر دوبارہ نماز پڑھ لیتا ہے اس صورت میں فرض نماز کی ادائیگی چونکہ پہلے ہو چکی ہے اس لیے یہ جماعت کی نماز اس کے لیے نفل ہو جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی کسی مسجد کا امام ہے وہ اپنی مسجد میں نماز پڑھانے سے پہلے کسی خاص موقعہ پر یا کسی خاص آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے بہ نیت نفل نماز پڑھ لیتا ہے پھر اس کے بعد اپنی مسجد میں آ کر لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے ایسی صورت میں بعد کی نماز فرض ادا ہو گی اور پہلی نماز نفل ہو جائے گی۔

اس تفصیل کو سمجھنے کے بعد اس جملے کا مطلب آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ دوسری نماز جو جماعت کے ساتھ فرض یا نفل ادا ہوتی ہے یا پہلی نماز دو مرتبہ پڑھنے والے کے حق میں نافلہ یعنی خیرو بھلائی کی زیاتی اور ثواب کی کثرت کا باعث ہوتی ہے۔

جن لوگوں نے اس جملے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ  وہ دوسری نماز جو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قوم کے ہمراہ پڑھتے تھے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نفل نماز اور ان کی قوم کی عشاء کی فرض نماز ہوتی تھے۔ حقیقت سے دور ہے کیونکہ یہ بات تو اسی وقت صحیح ہو سکتی ہے جب کہ اس مطلب کو بیان کرنے والے حضرت معاذ کا کوئی ایسا قول بھی پیش کریں جس میں حضرت معاذ خود یہ بتائیں کہ ان کی نیت دونوں مرتبہ کیا ہوتی تھی کیونکہ نیت کی حقیقت تو اس وقت تک معلوم نہیں ہوتی جب تک کہ نیت کرنے والا اپنی نیت کے بارے میں خود نہ بتائے کہ اس کی نیت کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت معاذ نماز پڑھتے وقت نیت دل میں کرتے ہوئے گے زبان سے اظہار نہیں کرتے ہوں گے جیسا کہ ابن ہمام نے نقل کیا ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ زبان سے نیت کرتے تھے پھر یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ جملہ  وہی نافلہ حدیث کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ اضافہ ہے جو صحیح روایتوں میں موجود نہیں ہے چنانچہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت امام شافعی نے اپنے اجتہاد و مسلک کے مطابق اس کا اضافہ کیا ہے پھر یہ مشکوٰۃ کے اصل نسخے میں یہ جگہ خالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ نے سنن کے کسی بھی طریق سے یہ جملہ نہیں پایا۔

علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ  علماء حدیث کا یہ قول ہے کہ وھی لہ نافلۃ حدیث جابر میں غیر محفوظ ہے۔

نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں ائمہ کا جو اختلاف ہے اسے پوری وضاحت کہے ساتھ مظاہر حق جدید کی قسط ٩ میں  باب القراۃ فی الصلوٰۃ کی حدیث نمبر ١٠ کے فائدہ کے ضمن میں بیان کیا جا چکا ہے۔

 

                   جماعت کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم

 

حضرت یزید ابن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ حج (حجۃ الوداع) میں شریک تھا چنانچہ (اس موقع پر ایک دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مسجد خیف میں صبح کی نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دو آدمی جماعت کے آخر میں بیٹھے ہوئے جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (انہیں دیکھ کر لوگوں سے) فرمایا کہ  ان دونوں کو میرے پاس لاؤ ! وہ دونوں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اس حال میں حاضر کئے گئے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہیبت کی وجہ سے) ان کے کندھوں کا گوشت تھر تھرا رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ تمہیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم اپنے مکان میں نماز پڑھ چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  آئندہ ایسا نہ کرنا، اگر تم اپنے مکان میں نماز پڑھ چکو اور اس مسجد میں آؤ جہاں جماعت ہو رہی ہو تو لوگوں کے ساتھ (بھی) نماز پڑھ لو، یہ نماز تمہارے لیے نفل ہو جائے گی۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ آخر میں پڑھی جانے والی نماز نفل ہو جائے گی خواہ پہلی نماز جماعت سے پڑھی ہو یا تنہا پڑھی ہو۔

 

 

 

٭٭حضرت بسر ابن محجن اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (یعنی ان کے والد محترم حضرت محجن) ایک مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے کہ نماز کیلئے اذان ہو گئی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے نماز پڑھ کر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہوئے تو دیکھا کہ محجن اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے تمہیں کس چیز نے روک دیا تھا کیا تم مسلمان نہیں ہو؟انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہاں میں مسلمان ہوں لیکن (بات یہ ہوئی کہ) میں اپنے گھر والوں کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ جب تم مسجد میں آؤ اور نماز (اپنے گھروں میں) پڑھ چکے ہو اور مسجد میں جماعت کھڑی ہو تو لوگوں کے ساتھ (دوبارہ) نماز پڑھ لو اگرچہ تم نماز پڑھ چکے ہو۔ (مالک، سنن نسائی)

 

                   دوبارہ نماز پڑھنا باعث ثواب ہے

 

اور قبیلہ اسد ابن خزیمہ کے ایک آدمی کے بارے میں مروی ہے کہ اس نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ  ہم میں سے کوئی آدمی (اپنے گھر میں) نماز پڑھ لیتا ہے پھر وہ مسجد میں آتا ہے اور (دیکھتا ہے کہ) وہاں نماز پڑھی جا رہی ہے تو کیا میں نے ان کے ساتھ (دوبارہ) نماز پڑھ لوں؟ میں اپنے دل میں ایک کھٹک محسوس کرتا ہوں (یعنی میرے دل میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا دوبارہ نماز پڑھنا میرے لیے بہتر ہے یا نہیں؟) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ  میں نے (بھی اس مسئلے کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  یہ (دوبارہ نماز پڑھنا) اس کے لیے جماعت کا نصیبہ ہے۔ (مالک و سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

فَذٰلِکَ لَہ سَھْمُ جَمْعٍ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی ایک مرتبہ مکان میں فرض نماز پڑھ لینے کے بعد پھر دوبارہ مسجد میں جماعت کے ساتھ وہی نماز پڑھتا ہے تو اس کے حق میں سراسر سعادت کی بات ہے کیونکہ اس طرح اس جماعت کی فضیلت اور اس کا ثواب ہاتھ لگتا ہے لہٰذا اس سلسلہ میں دل کے اندر کوئی و سوسہ و شبہ پیدا نہیں کرنا چاہیے۔

 

                   دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم

 

اور حضرت یز ید ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں (ایک روز) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت (لوگوں کے ہمراہ) نماز پڑھ رہے تھے میں (ایک طرف) بیٹھ گیا اور ان لوگوں کے ساتھ جماعت میں شامل نہیں ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور مجھے (ایک طرف) بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ  یزید کیا تم مسلمان نہیں ہو کہ نماز نہیں پڑھی؟ میں نے عرض کیا  ہاں رسول اللہ ! بیشک میں مسلمان ہوں! آپ نے فرمایا تو پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے تمہیں کس چیز نے روک دیا تھا؟ میں نے عرض میں اپنے مکان میں نماز پڑھ چکا تھا اور (اب آتے وقت) یہ خیال تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) بھی نماز سے فارغ ہو چکے ہوں گے پھر فرمایا۔ جب تم نماز کو آؤ اور لوگوں کو (نماز پڑھتے ہوئے) پاؤ تو تم بھی ان کے ہمراہ نماز میں شامل ہو جاؤ اگرچہ تم (پہلے وہ) نماز پڑھ چکے ہو یہ دوسری مرتبہ کی نماز) تمہارے لیے نفل ہو جائے گی اور وہ (پہلی نماز) فرض ادا ہو گی۔ (ابوداؤد)

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے ایک آدمی نے پوچھا  میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیتا ہوں پھر مسجد میں (ایسے وقت پہنچتا ہوں کہ) لوگ امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوتے ہیں تو کیا میں بھی اس امام کے پیچھے نماز پڑھوں؟حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ  ہاں! پھر اس آدمی نے پوچھا کہ (ان میں سے) اپنی (فرض) نماز کسے قرار دوں؟(پہلی یا دوسری کو) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا (کیا یہ تمہارا کام ہے؟ (یعنی ان میں سے کسی ایک کو فرض نماز مقرر کرنا تمہارا کام نہیں ہے) یہ تو اللہ بزرگ و برتر کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے چا ہے تمہاری (فرض) نماز قرار دے۔ (مالک)

 

تشریح

 

یہ حدیث بعض شوافع اور امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس قول کی تائید کرتی ہے کہ ان دونوں نمازوں میں ایک نماز بلا تعین فرض ادا ہوتی ہے خواہ پہلی نماز ہو یا دوسری۔

لیکن اکثر احادیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے کہ ان دونوں میں پہلی نماز فرض ادا ہوتی ہے اور دوسری نماز نفل ہو جاتی ہے اور یہی بات قرین قیاس بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ کوئی آدمی کسی ایسے کام کو جو اس کے لیے ایک وقت میں ایک مرتبہ کرنا ضروری ہو اگر دو مرتبہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ بری الذمہ پہلی مرتبہ ہوتا ہے نہ کہ دوسری مرتبہ، اسی طرح فرض نماز کی ادائیگی پہلی مرتبہ ہوتی ہے اور دوسری مرتبہ کی نماز اس کے حق میں نفل کی صورت میں فضیلت و سعادت کا سرمایہ بن جاتی ہے۔

 

                   ایک نماز کو دوبارہ نہ پڑھنے کا حکم

 

اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ  ایک روز ہم حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مقام بلاط میں آئے لوگ اس وقت (مسجد میں) نماز پڑھ رہے تھے میں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ آپ لوگوں کے ہمراہ نماز نہیں پڑھتے؟ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا  میں نماز پڑھ چکا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  تم ایک دن (یعنی ایک وقت میں) ایک نماز دو مرتبہ نہ پڑھو۔ (ابوداؤد، سنن نسائی ، مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

بلاط مدینہ منورہ میں ایک جگہ کا نام ہے جسے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد سے باہر اس مقصد کے لیے بنایا تھا کہ لوگوں کو باتیں وغیرہ کرنی ہوں تو مسجد سے باہر اس جگہ کیا کریں اور مسجد میں دنیاوی امور پر مشتمل بات چیت نہ ہو۔

 

                   دوبارہ نماز پڑھنے کے حکم کی تطبیق گزشتہ احادیث سے

 

بظاہر یہ حدیث گذشتہ احادیث سے متعارض نظر آتی ہے جو ایک نماز کو دوبارہ پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں لہٰذا اس حدیث کے حکم و گذشتہ احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ دراصل اس حدیث کے حکم کا تعلق اس آدمی سے ہے جو پہلی مرتبہ جماعت سے نماز پڑھ چکا ہو اور گذشتہ احادیث کا تعلق اس آدمی سے ہے جس نے پہلی مرتبہ نماز جماعت سے نہیں بلکہ تنہا پڑھی ہو جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔ یا۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسری مرتبہ نماز بطریق فرضیت نہ پڑھو یعنی دوسری نماز اگر نفل جان کر اور نفل کی نیت سے پڑھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

اس وضاحت کی روشنی میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ قد صلیت (میں نماز پڑھ چکا ہوں) کی یہ تشریح کی جائے گی کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاید جمات سے نماز پڑھ چکے ہوں گے اس لیے وہ دوبارہ نماز میں شریک نہیں ہوئے یا یہ کہ جس وقت کا یہ واقعہ ہے۔ وہ فجر یا عصر و مغرب کا وقت ہو گا۔ کہ ان اوقات میں دوبارہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔

آخر میں اتنی بات بھی سمجھ لیجئے کہ اس سلسلے میں اکثر حدیثیں عام ہیں یعنی ان احادیث سے بظاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ حکم کہ اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ کر مسجد میں آئے اور وہاں جماعت ہو رہی ہو تو وہ جماعت میں شریک ہو جائے اور دوبارہ نماز پڑھ لے تمام اوقات کی نمازوں سے متعلق ہے لیکن مجتہدین اور علماء نے ان احادیث پر بھی نظر رکھی ہے جن سے بعض اوقات میں دوبارہ نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا گیا لہٰذا ان احادیث کے پیش نظر انہوں نے ان اوقات کو متعین کر دیا ہے جن میں دوبارہ نماز پڑھ لینی چاہیے اور ان اوقات کو بھی مختص کر دیا ہے جن میں دوبارہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے چنانچہ اگلی حدیث میں یہ تخصیص مذکور ہے۔

 

                   وہ اوقات جن میں دوبارہ نماز پڑھنا ممنوع ہے

 

اور حضرت نافع راوی ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جس آدمی نے مغرب یا فجر کی نماز (تنہا) پڑھ لی اور پھر ان نمازوں کو امام کے ساتھ پایا (یعنی جہاں جماعت ہو رہی تھی وہاں پہنچ گیا) تو وہ ان کو دوبارہ نہ پڑھے۔ (مالک)

 

تشریح

 

یہ حدیث حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید کرتی ہے کیونکہ ان کے ہاں صرف مغرب اور فجر کی نمازوں کا اعادہ ممنوع ہے مگر حنفیہ کے ہاں عصر کی نماز بھی اس حکم میں ہے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تمام نمازوں میں اعادہ ہو سکتا ہے اس حدیث میں اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا حکم اس آدمی کے بارے میں ہے جس نے پہلی مرتبہ جماعت سے نہیں بلکہ تنہا نماز پڑھی ہو لہٰذا پہلی مرتبہ جماعت سے نماز پڑھ لینے کی شکل میں تو بطریق اولیٰ دوبارہ نماز پڑھنی چاہیے۔

 

 

                   سنتوں اور اس کی فضیلتوں کا بیان

 

شریعت اسلامی میں نماز چونکہ سب سے عمدہ اور اعلیٰ درجے کی عبادت ہے نیز دوسری عبادتوں کے مقابلہ میں اس کی بڑی اہمیت اور رب قدوس کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے اس لیے اس عبادت میں جتنی زیادہ کثرت اور زیادتی اختیار کی جاتی ہے اسی قدر نہ صرف یہ کہ بندے کی سعادت و بھلائی بے پناہ رفعتیں اور عروج و بلندیاں ہوتی ہیں بلکہ وہ اپنی پوری پوری عبودیت اور خداوند عالم کی حاکمیت و کبریائی کا اظہار بھی کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شریعت میں دوسری عبادتوں کو جہاں صرف فرائض تک محدود رکھا ہے وہاں اس عبادت کو فرائض و واجبات کے علاوہ سنن سے بھی نوازا ہے چنانچہ ہر فرض نماز کے ساتھ کچھ سنتیں بھی مقرر کی گئی ہیں تاکہ نہ صرف یہ کہ وہ فرض کے ساتھ آسانی سے ادا ہو جائیں بلکہ فرض نماز کی ادائیگی میں جو نقصان و کوتاہی واقع ہو گئی ہو وہ پوری ہو جائے۔

سنتیں یعنی وہ نماز جو دن و رات میں فرض نمازوں کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں۔

(١) روا تب یہ وہ سنت نمازیں کہلاتی ہیں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مداومت اختیار فرمائی۔

(٢) غیر رواتب یہ وہ سنت نمازیں کہلاتی ہیں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مداومت اختیار نہیں فرمائی جیسے عصر کے وقت کی سنتیں۔

سنتیں پڑھنے کا بھی وہی طریقہ ہے جو فرض نماز پڑھنے کا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ فرض نماز کی صرف دو رکعتوں میں سورۂ  فاتحہ کے بعد دوسری سورت بھی پڑھنے کا حکم ہے اور سنت نماز کی سب رکعتوں میں سورۂ  فاتحہ کے بعد دوسری سورت بھی پڑھی جاتی ہے اور سنت نماز کی رکعتوں میں جو سورتیں پڑھی جاتی ان کا برابر نہ ہونا خلاف سنت نہیں ہے نیز سنت نمازیں دن میں دو رکعت تک اور رات میں چار رکعت تک ایک ہی سلام سے پڑھی جا سکتی ہیں مگر دو رکعت کے بعد التحیات پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ (علم الفقہ)

یہ بات بھی جان لیجئے کہ سنت نفل تطوع، مندوب مستحب، مرغوب فیہ اور حسن یہ تمام الفاظ مترادف ہیں ان سب کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی وہ نماز جس کے پڑھنے کو شارع نے نہ پڑھنے پر ترجیح دی ہے اگرچہ ان نمازوں میں بعض ایسی ہیں جو دوسری بعض کے مقابلہ میں سنت موکدہ ہیں۔

 

                   سنتوں کی تعداد اور ان کی پڑھنے کی فضیلت

 

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی دن و رات میں بارہ رکعتیں نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جاتا ہے اور وہ بارہ رکعتیں یہ ہیں چار رکعت ظہر (کی فرض نماز) سے پہلے اور دو رکعت اس کے بعد، دو رکعت مغرب کی فرض نماز کے بعد ، دو رکعت عشاء کی فرض نماز کے بعد اور دو رکعت فجر کی فرض نماز سے پہلے۔ (جامع ترمذی)

اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ام جیبہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بندہ مسلمان ہر دن میں اللہ جل شانہ کے لیے فرض نمازوں کے علاوہ بارہ رکعتیں (سنت) پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے یا یہ فرمایا کہ  اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جاتا ہے۔

 

تشریح

 

حدیث میں دن و رات کی سنتوں کی جو تعداد مذکورہ تفصیل کے ساتھ بتائی گئی ہے وہ تمام سنتیں مؤکدہ ہیں اور فجر کی دونوں سنت رکعتیں سب سے زیادہ مؤکدہ ہیں حتی کہ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور بعض حنفیہ حضرات نے ان کو واجب تک کہا ہے امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تو مغرب کی دونوں سنتوں کو بھی واجب کہا ہے لیکن اس حدیث کے پیش نظر ان کے قول کی تردید کی گئی ہے کہ وہ واجب نہیں بلکہ سنت ہیں۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ظہر (کی فرض نماز) سے پہلے دو رکعتیں، اس کے بعد دو رکعتیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر (یعنی حضرت حفصہ جو عبداللہ ابن عمر کی بہن تھیں کے حجرے) میں مغرب (کی فرض نماز) کے بعد دو رکعتیں پڑھی ہیں نیز حضرت عبداللہ ابن عمر نے فرمایا۔ کہ حضرت حفصہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو ہلکی رکعتیں اس وقت پڑھا کرتے تھے جب فجر طوع ہوتی تھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ظہر سے پہلے کی سنتوں کے لیے  رکعتین (دو رکعتیں) کا استعمال فرمایا ہے جس کا ظاہری مطلب تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں لیکن اہل علم کا قول ہے کہ تثنیہ (دو) جمع (چار) کے منافی نہیں ہے یعنی اگر یہاں  رکعتین کے معنی بجائے دو رکعت کے چار رکعت مراد لیے جائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اس توجیہ کے ذریعے اس حدیث میں اور اس حدیث میں کہ جس سے ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت سنتیں ثابت ہوتی ہیں تطبیق ہو جاتی ہیں (ملا علی قاری)

حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت امام شافعی کی مستدل ہے کیونکہ ان کے نزدیک ظہر کی فرض نماز سے پہلے سنت دو رکعتیں ہیں مگر حنفیہ کے نزدیک چار رکعتیں ہیں حنفیہ مسلک کی مستدل بھی بہت سی احادیث مروی ہیں جو حضرت علی المرتضیٰ حضرت عائشہ اور حضرت ام حبیبہ وغیرہ سے منقول ہیں نیز حضرت امام ترمذی نے حنفیہ مسلک کے حق میں فرمایا ہے کہ اسی مسلک پر حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ میں سے اکثر اہل علم کا عمل ہے اور یہی قول سفیان ثوری، ابن المبارک اور اسحٰق کا بھی ہے نیز حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا قول بھی چار رکعتوں ہی کے بارے میں منقول ہے لیکن اس طرح کہ چار رکعتیں دو سلام کے ساتھ پڑھی جائیں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کی ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی چار رکعت سنتیں گھر میں پڑھا کرتے تھے لہٰذا ازواج مطہرات نے چار رکعتوں ہی کے بارے میں ذکر کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرض نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف لاتے تو وہاں تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھتے تھے اس لیے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ظہر کی سنتیں سمجھ کر فرمایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ظہر کی فرض نماز سے پہلے دو رکعت سنتیں پڑھی ہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں ظہر، مغرب اور عشاء کی سنتوں کا تذکرہ کیا ہے فجر کی سنتوں کا تذکرہ نہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے فجر کی سنتیں خود ذکر نہیں کیں بلکہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ذکر کر دی تاکہ ان نمازوں کے ساتھ فجر کی سنتیں بھی معلوم ہو جائیں۔

 

                   جمعہ کی سنتیں

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (گھر میں) واپس تشریف لاتے اور مکان میں دو رکعتیں پڑھتے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

حضرت ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں رکعتین سے جمعہ کی سنتیں مراد ہیں چنانچہ ایک قول کے مطابق حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا عمل اسی حدیث میں ہے کہ جمعہ کی سنتیں ظہر ہی کی سنتوں کی طرح یعنی دو رکعتیں ہیں دیگر صحیح احادیث میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کی نماز سے پہلے بھی اور جمعہ کی نماز کے بعد بھی چار چار رکعت سنتیں پڑھتے تھے چنانچہ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز جمعہ کے بعد چھ رکعتیں سنتیں پڑھنی چاہئیں۔

جیسا کہ پہلے کسی موقعہ پر بتایا جا چکا ہے کہ نوافل نماز گھر میں پڑھنے افضل ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کے بعد کی سنتیں گھر ہی میں پڑھا کرتے تھے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نوافل کی تعداد

 

اور حضرت عبداللہ ابن شفیق فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نفل میں نمازوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے میرے گھر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھتے پھر (مسجد) تشریف لے جاتے (اور وہاں) لوگوں کے ہمراہی (ظہر کی فرض) نماز پڑھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم (گھر میں) تشریف لاتے اور دو رکعتیں نماز پڑھتے۔ (اسی طرح) آپ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کی نماز لوگوں کے ہمراہ (مسجد میں) ادا فرماتے اور پھر گھر میں تشریف لا کر دو رکعتیں نماز پڑھتے۔ نیز آپ عشاء کی نماز لوگوں کے ہمراہ (مسجد میں) پڑھتے اور پھر میرے گھر تشریف لا کر دو رکعتیں نماز پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات میں (تہجد کی) نماز (کبھی) نو رکعت پڑھا کرتے تھے ان میں وتر (کی نماز بھی) شامل ہوتی اور رات میں دیر تک کھڑے ہو کر اور دیر تک بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کہ نماز پڑھتے تو کھڑے ہی کھڑے رکوع و سجود میں چلے جایا کرتے تھے اور جب بیٹھ کر نماز پڑھتے تو ہی ہوئے رکوع و سجود میں جایا کرتے تھے اور جب صبح صادق ہوتی تو دو رکعت فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح مسلم) ابوداؤد نے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں۔  (فجر کی دو سنتیں پڑھ کر) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم (مسجد) تشریف لے جاتے اور وہاں لوگوں کے ہمراہ فجر کی فرض نماز ادا فرماتے۔

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات کی صریح طور پر دلیل ہے کہ سنتیں گھر میں ہی پڑھنا افضل ہیں فیھن الو تر کا مطلب یہ ہے  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تہجد کی نماز ادا فرماتے تو اس کے ساتھ وتر بھی تین رکعت (جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے) یا ایک رکعت (جیسا دیگر ائمہ کا مسلک ہے) پڑھ لیا کرتے تھے۔

رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز پڑھنے کے سلسلے میں مختلف روایتیں منقول ہیں کہ کبھی رکعتین پڑھنے کبھی اٹھ اور کبھی نو اسی طرح کبھی دس کبھی گیارہ اور کبھی تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔

رَکَعَ وَ سَجَدَ وَھُوَ قَائِمٌ کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم تہجد کی نماز کھڑے ہو کر پڑھا کرتے تھے تو آپ حالت قیام ہی سے رکوع و سجود میں جایا کرتے تھے یہ نہیں ہوتا تھا کہ قرأت تو کھڑے ہو کر کرتے ہوں اور رکوع و سجود بیٹھ کر کرتے ہوں اسی طرح جب آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے تو رکوع و سجود بھی بیٹھے ہوئے ہی کرتے تھے تاہم اس صورت کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ آپ رکوع و سجود میں کھڑے ہو کر جایا کرتے تھے یعنی قرأت تو بیٹھ کر کرتے پھر کھڑے ہوتے اور تھوڑی سی قرأت کر کے تب رکوع و سجود میں جاتے تھے۔

بہر حال تمام احادیث کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تہجد کی نماز تین طرح سے پڑھتے تھے۔

(١) پوری نماز کھڑے ہو کر پڑھتے تھے۔

(٢) پوری نماز بیٹھ کر پڑھتے تھے۔

(٣) قرأت بیٹھ کر کرتے پھر کھڑے ہوتے اور رکوع و سجود میں جاتے۔

اس تیسری صورت کا عکس نہیں فرماتے تھے۔ یعنی اس طرح نماز نہیں پڑھتے تھے کہ قرأت تو کھڑے ہو کر کرتے ہوں اور پھر بیٹھ کر رکوع و سجود میں جاتے ہوں جیسا کہ یہ حدیث اس کی نفی کر رہی ہے۔

 

                   فجر کی سنتوں کی تاکید

 

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نوافل کے پڑھنے میں کسی کی ایسی محافظت اور مداومت نہیں فرماتے تھے جیسی کہ فجر کی (سنت کی) دو رکعت کے پڑھنے پر مداومت اور محافظت فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ فجر کی سنتیں اتنی زیادہ اہم اور مؤکدہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کسی بھی حال میں خواہ سفر میں ہوتے یا حضر میں انہیں پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے۔

فجر کی سنتوں کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ بغیر کسی عذر کے فجر کی سنتوں کو بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔

 

                   فجر کی سنتوں کی فضیلت

 

اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا فجر کی سنتوں کی دو رکعتیں دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ بہتر ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

فجر کی سنتوں کو دنیا اور دنیا کی چیزوں پر یہ فضیلت اس صورت میں دی گئی ہے کہ دنیا اور دنیا کی چیزیں اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دی جائیں تب بھی فجر کی سنتیں ہی افضل ہوں گی کیونکہ دنیا کی چیزوں میں بخل کرنے اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے میں اچھائی کب ہے کہ فجر کی سنتوں کو ان سے افضل کہا جاتا۔

علماء نے لکھا ہے کہ سب سے زیادہ موکدہ سنتیں فجر کی ہیں اس کے بعد مغرب کی سنتیں اور اس کے بعد ظہر کی فرض نماز کے بعد کی سنتیں اس کے بعد عشاء کی فرض نماز کے بعد کی سنتیں اور پھر سب کے بعد ظہر کی فرض نماز سے پہلے کی سنتیں۔

 

                   مغرب کی فرض نماز سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا حکم

 

اور حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مغرب کی فرض نماز سے پہلے (دو رکعتیں) نماز پڑھو (آپ نے یہ الفاظ دو مرتبہ فرمائے اور پھر) بوجہ اس بات کے مکروہ سمجھنے کے کہ لوگ انہیں سنت نہ قرار دے دیں تیسری مرتبہ یہ فرمایا کہ  جو چا ہے (پڑھ لیا کرے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ مغرب کی فرض نماز پڑھنے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھ لیا کرو مگر پھر یہ جان لو کہ لوگ دونوں رکعتوں کو سنت موکدہ کا درجہ دے دیں گے  لمن شاء (جو چاہے) کہہ کر اس بات کی آگاہی دے دی کہ یہ رکعتیں سنت نہیں ہیں بلکہ ان کا درجہ زیادہ سے زیادہ استحباب تک ہے اگر کوئی آدمی انہیں پڑھ لے گا تو اسے ثواب ملے گا۔ اور جو آدمی نہیں پڑھے گا اس سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔

مغرب کی فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں نفل پڑھنے کے سلسلے میں پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اکثر فقہاء نے انہیں پڑھنے سے منع کیا ہے چنانچہ باب  فضل الاذان کی حدیث نمبر ٩ کے ضمن میں اس کی تفصیل بیان ہو چکی ہے اور اس باب کی تیسری فصل میں بھی اس کی کچھ تفصیل ذکر کی جائے گی۔

 

                   جمعہ کے بعد چار رکعت سنتیں پڑھنی چاہئیں

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے جو آدمی جمعہ کی فرض نماز کے بعد نماز پڑھنے والا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ چار رکعت پڑھے۔ صحیح مسلم اور مسلم ہی کی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی آدمی جمعہ کی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے بعد چار رکعت سنتیں بھی پڑھے۔

 

                    ظہر کی سنتیں پڑھنے کی فضیلت

 

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی ظہر (کی فرض نماز) سے پہلے چار رکعت اور اس کے بعد چار رکعت کی محافظت کرتا ہے (یعنی انہیں پا بندی سے بلا ناغہ پڑھتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے (بایں طور کے اس کو مطلقاً دوزخ میں نہیں ڈالے گا یا یہ کہ اسے دوزخ میں ابدی طور پر نہیں رکھے گا)۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس روایت سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کے بعد چار رکعت نماز ایک ہی سلام سے پڑھی جائے جب کہ دوسری روایت میں منقول ہے کہ ظہر کے بعد کی چار رکعتیں دو سلام کے ساتھ ادا کی جائیں، بہر حال اس موقع پر بحث ہے کہ ظہر کی یہ چار رکعتیں جن کے بارے میں حدیث میں ذکر کیا جا رہا ہے آیا سنت کی دو رکعتوں کے علاوہ ہیں یا سنت کی وہ دونوں رکعتیں بھی اس میں شامل ہیں۔ تو ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار رکعتیں سنت کی ان دونوں کے علاوہ ہیں جو فرض کے بعد پڑھی جاتی ہیں لیکن ملا علی قاری کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان چار رکعتوں میں سنت کی وہ دونوں رکعتیں بھی شامل ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ان چار رکعتوں میں دو رکعت سنت موکدہ ہیں اور دو رکعت مستحب اور اولیٰ ہیں مزید یہ کہ یہ چار رکعت دو سلام کے ساتھ ادا کی جائیں۔

 

 

                   ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنے کی فضیلت

 

اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ظہر سے پہلے کی وہ چار رکعتیں کہ جن (کے درمیان) میں سلام نہیں پھیرا جاتا (یعنی ان چار رکعتوں کے پڑھنے کے سلسلہ میں افضل یہی ہے کہ چار رکعتیں پوری کر کے آخر میں سلام پھیرا جائے) ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ (ابوداؤد ، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

ظہر سے پہلے پڑھی جانے والی چار رکعتوں کی فضیلت ظاہر فرمائی جا رہی ہے کہ جب وہ پڑھی جاتی ہیں تو ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں یعنی وہ بارگاہ رب العزت میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پاتی ہیں اور ان کے سبب سے رحمت الہٰی کے انوار نازل ہوتے ہیں۔

ان چار رکعتوں کے بارے میں اختلاف ہے آیا ان سے مراد سنت راتبہ کی وہی چار رکعتیں ہیں جو ظہر کے فرض سے پہلے پڑھی جاتی ہیں یا ان کے علاوہ ہیں جن کو نماز فی الزوال کہتے ہیَ چنانچہ مختار قول یہی ہے کہ یہ غیر رواتب یعنی فجر کے فرض سے پہلے کی سنت مؤکدہ کے علاوہ نماز فی الزوال کی چار رکعتیں ہیں۔

 

                   نماز فی الزوال کی فضیلت

 

اور حضرت عبداللہ ابن سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورج ڈھلنے کے بعد اور ظہر سے پہلے (فی الزوال کی) چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ  یہ ایسا وقت ہے جس میں (نیک اعمال کے اوپر جانے کے لیے) آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں لہٰذا میں اسے محبوب رکھتا ہوں کہ اس وقت میرا نیک عمل اوپر جائے۔ (جامع الترمذی)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد کا وقت ساعت قبولیت ہے اس وقت جو بھی نیک عمل کیا جائے گاوہ بارگاہ رب العزت میں مقبولیت کا درجہ پائے گا اور ظاہر ہے کہ تمام نیک اعمال میں سے نماز سب سے افضل ہے اس لیے اس وقت نماز پڑھنا افضل ہو گا۔

 

                   عصر کی سنتیں

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحمت نازل فرمائے جو عصر (کی فرض نماز) سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)

 

                   عصر کی سنتیں دو رکعت ہیں یا چار رکعت

 

اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اور ان کے درمیان مقرب فرشتوں اور ان کے بعد میں جو مسلمان اور مومنین ہیں سب پر سلام بھیج کر فرق کرتے تھے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

یہاں  تسلیم  (سلام بھیجنے) سے مراد التحیات پڑھنا ہے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم دو رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے تھے اور پھر چار رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے

 

 

 

٭٭امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر سے پہلے دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

عصر کی سنتوں کے بارے میں متعدد رکعتیں منقول ہیں بعض سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عصر سے پہلے دو رکعتیں سنت کی پڑھا کرتے تھے اور بعض روایتوں سے چار رکعت کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ نمازی کو اختیار چاہیے تو وہ دو رکعت پڑھے اور چا ہے تو چار رکعت، تاہم افضل چار ہی رکعت پڑھنا ہے۔

 

                   صلوۃ الاوابین کی فضیلت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی مغرب کی نماز پڑھ کر چھ رکعت (نفل اس طرح) پڑھے کے ان کے درمیان کوئی فحش گفتگو نہ کرے تو ان رکعتوں کا ثواب اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے ثواب کے برابر ہو جائے گا۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ ہم یہ حدیث صرف عمر ابن خثم کی سند کے (اور کسی سند سے) نہیں جانتے اور میں نے محمد ابن اسمعیل بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ یہ (عمر ابن خثعم) منکر الحدیث ہے نیز انہوں نے اس حدیث کو بہت ضعیف کہا ہے۔

 

 

تشریح

 

مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعت نماز نفل تین سلام کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اسے صلوٰۃ الاوابین کہتے ہیں یہ نماز سنت ہے اور اس نماز کا نماز  صلوٰۃ الاوابین حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے اس نماز کی بہت زیادہ فضیلت ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے۔

حدیث سے بظاہر تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ مغرب کے بعد جو دو رکعت معمولی سنت پڑھی جاتی ہے وہ بھی ان چھ رکعتوں میں شامل ہے ، نیز اگلی حدیث میں صلوٰۃ الاوابین کی چوبیس رکعتیں ذکر کی جا رہی ہیں ان میں بھی یہ دونوں رکعتیں داخل ہیں۔

علامہ یحییٰ نے فرمایا ہے کہ  پہلے دو رکعتیں سنت کی الگ سے پڑھ لی جائیں اس کے بعد میں اختیار ہے کہ چا ہے کوئی چاروں رکعت پڑھ لے ، چا ہے دو ہی پڑھے۔

اس حدیث کو اگرچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے مگر فضائل اعمال کے سلسلے میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے پھر اس کے علاوہ اس حدیث کو ابن خزیمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی صحیح میں اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے ، نیز میرک شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول یہ ہے کہ حضرت عمار ابن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے نیز انہوں نے فرمایا ہے کہ  میں نے اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھتا ہے اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اگرچہ وہ (گناہ) دریا کی جھاگ کے مانند ہوں۔ (طبرانی)

حضرت مولانا شاہ اسحٰق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ  ہماری تحقیق یہ ہے کہ اس حدیث میں صلوٰۃ الاوابین کی جو چھ رکعت ذکر کی گئی ہیں یا اسی طرح اگلی حدیث میں جو بیس رکعتیں ذکر کی جائیں گے۔ یہ دونوں تعداد مغرب کے بعد کی سنت موکدہ کی دو رکعت کے علاوہ ہے۔

 

                   صلوٰۃ الاوابین کی انتہائی تعداد بیس رکعت ہے

 

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی مغرب کے بعد بیس رکعتیں (صلوٰۃ الاوابین کی) پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہشت میں گھر بناتا ہے۔  (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

گو محدثین نے اس حدیث کو بھی ضعیف قرار دیا ہے لیکن علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں ایک حدیث اور منقول ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس نماز کی بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے یہ صلوٰۃ الاوابین ہے لہٰذا جس آدمی نے یہ نماز پڑھی تو (سمجھو کہ) اس کی مغفرت کر دی گئی۔ چنانچہ اکثر علماء سلف اور صلحائے امت اسے پڑھنا اپنی سعادت اور خوش بختی تصور کر تے تھے اور اسے پڑھتے تھے۔

علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ صلوٰۃ الاوابین کی رکعت کی تعداد کے سلسلے میں مختلف احادیث منقول ہیں چنانچہ ایک حدیث تو اس سے پہلے ہی گذر چکی ہے جس میں چھ رکعتیں ذکر کی گئی ہیں ایک حدیث یہ ہے جس میں بیس رکعت منقول ہے اسی طرح بعض روایتوں میں دو رکعت اور بعض روایتوں میں چار رکعت بھی منقول ہے۔ لہٰذا ان تمام احادیث کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ صلوٰۃ الاوابین کی کم سے کم تعداد دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ بیس رکعت جو آدمی دو سے لے کر بیس تک جتنی زیادہ رکعتیں پڑھے گا اس کے حق میں اسی قدر بہتری و بھلائی ہو گی۔

 

                   عشاء کی سنتیں

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی (مسجد میں) عشاء کی (فرض) نماز پڑھ کر میرے پاس آتے تھے تو (سنت کی چار رکعت یا چھ رکعت ضرور پڑھتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

عشاء کے بعد سنتوں کے سلسلے میں جتنی بھی مشہور روایتیں منقول ہیں ان میں یا تو دو رکعت پڑھنا منقول ہے یا چار رکعت، صرف یہی ایک ایسی حدیث ہے جس میں چھ رکعت پڑھنے کا ذکر کیا جا رہا ہے جن احادیث میں دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے ان میں سے کچھ پہلے بھی گزر چکی ہیں جن روایتوں سے چار رکعت پڑھنا معلوم ہوتا ہے ان میں سے منجملہ ایک حدیث یہ بھی ہے جس کو سعید ابن منصور نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس آدمی نے عشاء سے پہلے چار رکعت نماز پڑھی تو گویا اس نے اس رات میں تہجد (کی نماز) پڑھی اور جس آدمی نے عشاء کے بعد چار رکعت نماز پڑھی تو گویا اس نے لیلۃ القدر میں چار رکعت نماز پڑھی۔

بہر حال۔ اس روایت کی وضاحت یہ ہے کہ آپ عشاء کے بعد جو چار رکعتیں پڑھتے تھے اس میں سے دو رکعتیں تو سنت مؤکدہ کی ہوتی تھیں اور دو رکعت مستحب۔ البتہ  او ست رکعات میں حرف او کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ شک کے لیے ہے یا پھر تنویع کے لیے ہے۔

 

                   ارشاد باری ادبار النجوم اور ادبار السجود سے فجر اور مغرب کی سنتیں مراد ہیں

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (تسبیح) اور ادبار النجوم سے فجر سے پہلے کی دو رکعتیں (یعنی فجر کی سنتیں) مراد ہیں اور (تسبیح) ادبار السجود سے مغرب کے بعد کی دو رکعتیں (یعنی مغرب کی سنتیں) مراد ہیں۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

قرآن کریم کی سورہ طور کے آخر میں یہ آیت ہے

آیت (وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ 48ۙ  وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْہ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ 49ۧ)  52۔ الطور:48)

جب تم اٹھا کرو تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کیا کرو اور رات کے بعض اوقات میں بھی اور ستاروں کے پیٹھ پھیرنے (یعنی ڈوبنے) کے وقت بھی اس کی پاکی بیان کرو۔

اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ادبار النجوم ستاروں کے پیٹھ پھیرنے کے وقت پروردگار کی پاکی بیان کرنے سے فجر کی سنتیں پڑھنی مراد ہیں کہ وہ ستاروں کے چھپنے کے وقت یعنی صبح صادق کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔

اس طرح قرآن کریم کی سورۃ ق کی یہ آیت ہے

آیت ( وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ 48ۙ  وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْہ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ 49) 52۔ الطور:48)

اور آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے اور آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو، اور رات کے بعض اوقات میں بھی سجود کے بعد بھی اس کی پاکی بیان کرو۔

حدیث کے دوسرے جزء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ  اس سجود  سے مراد مغرب کی تین رکعت فرض ہیں اور  ادبارالسجود یعنی سجود کے بعد پاکی بیان کرنے سے مغرب کے فرض کے بعد کی دو رکعت سنتیں پڑھنی مراد ہیں۔

 

                   ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنے کا ثواب

 

امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ظہر سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد (ظہر کی سنت یا فی الزوال) کی چار رکعت نماز (ثواب اور فضیلت میں) تہجد کے وقت چار رکعت نماز پڑھنے کے برابر ہوتی ہے اور وقت (یعنی ظہر سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد) تمام چیزیں اللہ رب العزت کی پاکی کی تسبیح کرتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: آیت ( يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُہ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّداً لِّلّٰہ وَہمْ دٰخِرُوْنَ    48) 16۔ النحل:48) تمام چیزوں کے سائے دائیں طرف سے اور بائیں طرف سے اللہ جل شانہ کے لیے سجدہ کرتے ہوئے جھکتے ہیں اور وہ سب حقیر ہیں۔ (جامع ترمذی ، بیہقی)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت نماز پڑھنے کی ترغیب دلانے کے لیے اپنے ارشاد کی دلیل کے طور پر یہ آیت پڑھی آیت میں سجدے سے مراد تابعداری ہے خواہ طبعاً ہو یا اختیاراً۔ اور اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں جس چیز کو جس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اس مقصد کی تکمیل ہی درحقیقت پروردگار کی تابعداری ہے۔

 

                   عصر کے بعد دو رکعت نماز کا ذکر

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی میرے نزدیک (یعنی میرے گھر میں) عصر کے بعد دو رکعت (نماز پڑھنی) نہیں چھوڑی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور بخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی روح مبارک قبض کی، آپ نے یہ دو رکعتیں کبھی نہ چھوڑیں یہاں تک کہ وصال حق فرمایا۔

 

تشریح

 

گذشتہ صفحات میں کسی موقعہ پر عصر کے بعد نماز پڑھنے کے سلسلے میں بتایا جا چکا ہے یہ دو رکعت پڑھنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت تھی اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے جائز تھیں، دوسرے لوگوں کو عصر کے بعد نفل نماز پڑھنا جائز نہیں کیونکہ اس کی مخالفت میں بہت زیادہ احادیث منقول ہیں۔

 

                   غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا مسئلہ

 

اور حضرت مختار ابن فلفل فرماتے ہیں کہ میں نے (ایک دن) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ (اس معاملے میں) امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کا تو اتنا سخت رویہ تھا کہ وہ) عصر کے بعد نفل نماز کی نیت باندھنے والے کے ہاتھ پر مارتے تھے (یعنی انتہائی سختی اور شدت سے اس وقت نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے) اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں آفتاب غروب ہونے کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں (نفل نماز کی) پڑھا کرتے تھے۔ (یہ سن کر) میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں نماز پڑتے دیکھتے تھے لیکن ہمیں اس کے پڑھنے کا نہ تو حکم ہی دیتے تھے اور نہ ہمیں اس کے پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول نہ تو ہمیں حکم ہی دیتے تھے اور نہ منع فرماتے تھے ، سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر ثابت کی یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت نماز پڑھنے کو درست سمجھتے تھے کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک اس وقت نماز پڑھنا مکروہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے ضرور منع فرماتے ، لیکن خلفائے راشدین کے بارہ میں ثابت ہے کہ وہ حضرات اس وقت نماز پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے تھے لہٰذا اس سلسلے میں خلفائے راشدین کی اقتداء کافی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر فقہاء نے اس وقت نماز پڑھنے سے منع کیا ہے کیونکہ اس سے مغرب کی نماز کی تاخیر لازم آتی ہے۔

 

                   غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا مسئلہ

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ میں تھے (اس وقت یہ حال تھا کہ) جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو (بعض صحابہ یا تابعین) مسجد کے ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعت نماز پڑھنے لگتے ، یہاں تک کہ کوئی (مسافر آدمی اگر مسجد میں آتا تو اکثر لوگوں کو (تنہا تنہا) دو رکعت نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہ گمان کرتا کہ نماز ہو چکی ہے (اور اب لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔) (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

علامہ طیبی شافعی فرماتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز کے اثبات کی یہ حدیث ظاہری دلیل ہے۔ اس سلسلہ میں ملا علی قاری حنفی کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ یہ حدیث اس وجہ سے ان دونوں رکعتوں کے اثبات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ اس طریقے کے نادر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عمومی طور پر مغرب کی نماز کی ادائیگی میں جلدی فرماتے تھے جب کہ ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے سے نہ صرف یہ کہ مغرب کی ادائیگی میں تاخیر لازم آتی ہے بلکہ بعض علماء کے قول کے مطابق تو نماز کا اپنے وقت سے خروج ہی لازم آ جاتا ہے۔

لہٰذا اس حدیث کی تاویل یا تو یہ کی جائے گی کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ ہمیشہ کا طریقہ نقل نہیں کر رہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی ایک دن بعض لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا ہو کہ مغرب کی اذان سنتے ہی مسجد آ گئے ہوں اور وہاں نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نماز نفل پڑھ لی ہو یا پھر اس کی سب سے بہتر تاویل جیسا کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ پہلے یہ نماز پڑھی جاتی تھی مگر پھر بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا، لہٰذا اب اس نماز کا پڑھنا مکروہ ہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت مرثد ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عقبہ جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ کیا میں آپ کو ابو تمیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) کا ایک تعجب انگیز فعل نہ بتا دوں؟ (وہ یہ کہ) ابو تمیم مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز (نفل) پڑھتے ہیں؟ حضرت عقبہ نے فرمایا کہ یہ نماز تو ہم (میں سے بعض صحابہ کبھی کبھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں بھی پڑھا کرتے تھے ، جب میں نے پوچھا کہ پھر یہ نماز پڑھنے سے آپ کو کس چیز نے روک رکھا ہے؟ تو فرمایا کہ دنیا کی مشغولیت) مشغولیت زیادہ ہو تو نوافل کو دوسرے وقت پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ (نے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

اس حدیث سے کم سے کم اتنی بات تو ثابت ہو ہی گئی کہ یہ نماز سنت نہیں ہے بلکہ مباح ہے کیونکہ اگر مسنون ہوتی تو حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو صحابیت جیسے عظیم مرتبے پر فائز تھے دنیا کی مشغولیت سنت کی ادائیگی یعنی اس نماز کے پڑھنے سے نہ روکتی۔

 

                   نوافل گھروں میں ادا کئے جائیں

 

اور حضرت کعب ابن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (انصار کے ایک قبیلے) بنی عبد الاشہل کی مسجد میں تشریف لائے اور وہاں مغرب کی (فرض اور سنت) نماز پڑھی، جب (بعض) لوگ (اپنی فرض) نماز پڑھ چکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ وہ فرض نماز ادا کرنے کے بعد نفل نماز (یعنی مغرب کی سنتیں بھی وہیں) پڑھ رہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (دیکھ کر) فرمایا کہ یہ (یعنی مغرب کی سنت یا مطلقاً نفل نماز) گھر میں پڑھنے کی ہے۔ (ابوداؤد) جامع ترمذی و سنن نسائی کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب لوگ (فرض نماز کے بعد) نفل پڑھنے کھڑے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ تم پر لازم ہے کہ یہ نماز (اپنے اپنے) گھروں میں پڑھو۔

 

تشریح

 

حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ نفل نماز خواہ وہ سنت مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ گھر میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ گھر میں نوافل نماز پڑھنے والا ریا و نمائش سے دور اور اخلاص و صدق کے قریب تر ہوتا ہے بلکہ اس سے گھروں میں رحمت خداوندی اور برکت کا نزول ہوتا ہے۔

ویسے جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مسجد میں نفل نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے مسجد اور گھر کے پڑھنے میں صرف افضلیت اور غیر افضلیت کا فرق ہے۔

لیکن اتنی بات بھی سمجھ لیجئے کہ گھروں میں نفل نماز پڑھنے کا یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو فرض نماز کی ادائیگی کے بعد گھروں کو واپس ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں جو لوگ فرض کی ادائیگی کے بعد گھر نہیں جاتے جیسے مسجد کے اندر اعتکاف میں بیٹھنے والے تو وہ مسجد ہی میں نوافل پڑھ لیں۔

بہر حال فرض نماز کے علاوہ نفل نمازیں گھر جا کر پڑھنا افضل ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہی تھا کہ آپ فرض مسجد میں پڑھ کر حجرہ مبارک میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں نوافل پڑھتے تھے۔ ہاں کسی خاص عذر اور سبب کی بات تو الگ ہے کہ ایسے موقع پر مسجد ہی میں نوافل بھی پڑھ لیتے تھے۔ پھر بھی مغرب کی سنتیں گھر میں پڑھنے کا اہتمام تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بطور خاص فرماتے تھے اور اکثر گھر ہی میں پڑھتے تھے یہی وجہ ہے کہ مغرب کی سنتوں کے بارہ میں بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی مغرب کی نماز سنت مسجد میں پڑھے تو وہ مسنون ادا نہیں ہوتی بلکہ بعض علماء تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ مغرب کی سنتیں مسجد میں پڑھنے والا گنہگار ہوتا ہے۔ مگر جمہور علماء کی رائے ہے کہ گنہگار نہیں ہوتا کیونکہ انہیں گھر میں ادا کرنے کا حکم امر وجوبی نہیں ہے بلکہ امر استحبابی ہے۔

ہدایہ کے حاشیہ میں جامع صغیر سے منقول ہے کہ کوئی آدمی مغرب کی نماز مسجد میں پڑھے اور اس کو یہ خوف ہو کہ اگر گھر میں گیا تو کسی مشغولیت کی بناء پر سنت وہاں نہیں پڑھ سکوں گا تو اسے چاہیے کہ وہ مغرب کی سنتیں بھی مسجد کے صحن میں پڑھ لے اور اگر گھر پہنچ کر کسی کام میں مشغول ہو جانے کا خوف نہ ہو تو افضل یہی ہے کہ وہ گھر جا کر نماز سنت پڑھے۔

 

                   مغرب کی سنتوں میں طویل قرأت

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب (کی فرض نماز) کے بعد دو رکعت سنتوں میں کبھی اتنی طویل قرأت فرماتے تھے کہ مسجد کے لوگ (اپنی اپنی نمازوں سے فارغ ہو کر) چلے جاتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کی سنتیں مسجد میں پڑھتے تھے لہٰذا اس سلسلے میں کئی احتمال ہیں اول تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی ایسا عذر پیش آگیا ہو گا جس کی وجہ سے وہ حجرہ مبارک میں تشریف نہیں لے جا سکے ہوں گے اس لیے سنتیں مسجد ہی میں پڑھ لیں۔

دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت اعتکاف میں ہوں گے اس لیے سنتیں پڑھنے کے لیے حجرہ مبارک میں نہیں گئے۔

سوم احتمال یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سنتیں مسجد میں پڑھی ہی نہ ہوں بلکہ اپنے حجرہ مبارک میں پڑھی ہوں جو مسجد سے بالکل ملا ہوا تھا اور اس کا دروازہ بھی مسجد ہی کی طرف تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس نے سامنے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہو اور اسی کو یہاں بیان کیا ہو۔

جہاں تک حدیث کے اس جزء کا تعلق ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب کی سنتوں میں طویل قرأت کی تو اس کے بارے میں بھی ظاہری احتمال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی دن اتنی طویل قرأت کی ہو گی ورنہ تو مغرب کی سنتوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر چھوٹی سورتیں پڑھا کرتے تھے چنانچہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کی سنت میں قل یایھا الکافرون اور قل ھو اللہ کی قرأت کیا کرتے تھے۔

 

                   مغرب کے بعد نفل پڑھنے کی فضیلت

 

حضرت مکحول (تابعی) اس روایت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچاتے ہیں (یعنی) رسول اللہ سے بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو آدمی مغرب کی (فرض یا سنت مؤکدہ) نماز پڑھ کر (دنیاوی) گفتگو کرنے سے پہلے دو رکعت اور ایک روایت میں ہے کہ چار رکعت نماز پڑھے تو اس کی یہ نماز علیین میں پہنچائی جاتی ہے۔

 

تشریح

 

دو رکعت سے سنت نماز بھی مراد ہو سکتی ہے اور اس کے علاوہ بھی اس طرح چار رکعت میں دو رکعت سنت اور دو رکعت اس کے علاوہ چاروں کی چاروں ہی سنت نماز کے علاوہ مراد لی جا سکتی ہیں۔ بہر حال یہ دو رکعت یا چار رکعت جو سنت کے علاوہ ہوں صلوۃ الاوابین کہلاتی ہیں اس نماز کی فضیلت اس سے پہلے بھی نقل کی جا چکی ہے یہاں بھی اس کی فضیلت و عظمت بیان کی جا رہی ہے کہ اس نفل نماز کے پڑھنے والے آدمی کی یہ نماز یا اس نماز کی ساتھ اس کے فرض نماز بھی مقام علیین میں پہنچائی جاتی ہے یعنی اس کی نمازیں قبولیت کے انتہائی مرتبے پر پہنچتی ہیں اور اس آدمی کو بے پناہ اجر و ثواب سے نوازا جاتا ہے۔

 

علیین کیا ہے؟

ساتویں آسمان پر ایک مقام کا نام علیین ہے جہاں مؤمنین کی روحیں پہنچائی جاتی ہیں اور وہاں ان کے عمل لکھے جاتے ہیں۔

 

                   فرض و نوافل کے درمیان فرق کرنا چاہیے

 

اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (بھی) اسی طرح (یعنی اوپر والی حدیث) مروی ہے لیکن ان کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ تم لوگ مغرب کے بعد دو رکعت (سنتیں جلدی پڑھ لیا کرو کیونکہ وہ (دونوں رکعتیں) فرضوں کے ساتھ اوپر (علیین میں) پہنچائی جاتی ہیں ، یہ دونوں روایتیں رزین نے نقل کی ہیں اور بیہقی نے حذیفہ کے زائد الفاظ کو اسی طرح شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں رکعتیں چونکہ فرض نماز کے ساتھ مقام علیین میں پہچائی جاتی ہیں اس لیے ان کو فرض نماز کے بعد زیادہ تاخیر کر کے نہ پڑھو تاکہ وہ فرشتے جو اعمال کو علیین تک پہنچاتے ہیں منتظر نہ رہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ ان اوراد و اذکار کو جنہیں فرض کے بعد جلدی پڑھنا ثابت ہو چکا ہے ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا اس تعجیل (جو احادیث میں فرض کے فوراً بعد اور اورادوذکار کے پڑھنے کے سلسلے میں ثابت ہے) کے منافی نہیں ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ان اوراد و اذکار کو ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا بعدیت (یعنی حدیث کے اس حکم کہ فرض نماز کے بعد اور اوراد و ذکار پڑھے جائیں) کے منافی نہیں ہے اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ پیچھے باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں وہ احادیث گزر چکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض نماز کے فوراً بعد اوراد و اذکار (جن کی تفصیل ان احادیث میں مذکور ہے) پڑھے جائیں۔

تو اب اگر ان اور اوراد و اذکار کو فرض نماز کے بعد پڑھنے کے بجائے اس حدیث کی فضیلت کے پیش نظر دو رکعت سنتوں کے بعد پڑھا جائے تو اس احادیث سے ثابت شدہ تعجیل و بعدیت (یعنی اوراد و اذکار کو فرض نماز کے فوراً بعد پڑھنے کا حکم) کے خلاف نہیں ہو گا۔

لیکن اس بات کے علاوہ یہاں ایک اور اشکال وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ ان دونوں رکعتوں کو گھر میں پڑھنے کی فضیلت بھی احادیث ہی سے ثابت ہے لہٰذا اگر کوئی آدمی ان دونوں رکعتوں کو گھر میں پڑھے اور اس کا گھر بھی مسجد سے دور ہو تو ظاہر ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے میں جلدی نہیں ہو سکتی۔ تو اس صورت میں کیا جائے۔ آیا ان احادیث کے پیش نظر ان دونوں رکعتوں کو گھر ہی میں جا کر پڑھا جائے تاکہ گھر میں پڑھنے کی فضیلت حاصل ہو یا اس حدیث کے پیش نظر مسجد ہی میں پڑھا جائے تاکہ ان کو جلدی پڑھ لینے کی فضیلت حاصل ہو جائے؟۔

اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ نفل نماز گھر میں پڑھنے کی فضیلت چونکہ بہت زیادہ ہے اور پھر یہ کہ اس کی تاکید بھی بہت زیادہ کی گئی ہے اس لیے مناسب یہی ہے کہ سنتوں کو گھر ہی میں پڑھا جائے۔ وا اللہ اعلم۔

 

 

٭٭اور حضرت عمرو ابن عطا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں (یعنی عمرو کو) حضرت نافع ابن جبیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) نے حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی) کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے وہ چیزیں پوچھیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں نماز میں کرتے ہوئے دیکھا تھا (اور اس سے انہیں منع کیا تھا چنانچہ حضرت عمرو حضرت سائب کے پاس گئے اور ان سے اس چیز کی تفصیل معلوم کی تو) انہوں نے فرمایا کہ ہاں (ایک مرتبہ) میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مقصودہ میں جمعہ کی نماز پڑھی جب امام نے سلام پھیرا تو میں اسی جگہ (جہاں جمعہ کی نماز پڑھی تھی) کھڑا ہو گیا اور فرض و سنت میں کوئی امتیاز کئے بغیر جمعہ کی سنتیں پڑھنے لگا ، جب حضرت امیر معاویہ (نماز سے فراغت کے بعد) اپنے مکان پر چلے گئے تو میرے پاس ایک آدمی کو یہ کہلا بھیجا کہ اس وقت تم نے جو کچھ کیا ہے آئندہ ایسا نہ کرنا ، (یعنی جس جگہ نماز پڑھو اسی جگہ امتیاز پیدا کئے بغیر نفل نماز نہ پڑھنا چنانچہ) جب تم جمعہ کی نماز پڑھو تو اس (جمعہ کی فرض نماز) کو کسی (دوسری یعنی نفل یا قضا) نماز سے نہ ملاؤ تاوقتیکہ تم کوئی گفتگو نہ کر لو یا (مسجد سے) باہر نہ نکل جاؤ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ نہ ملائیں تاوقتکیہ (درمیان میں) بات چیت نہ کر لیں یا (مسجد سے) باہر نہ چلے جائیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

پچھلے زمانے میں جب کہ سلاطین و امراء نمازیں پڑھنے کے لیے مسجد میں آتے تھے تو ان کی امتیازی حیثیت وشان کی پیش نظر ان کے لیے مسجد کے اندر ایک مخصوص جگہ بنا دی جاتی تھی جسے مقصورہ کہا جاتا تھا ، بادشاہ یا خلیفہ مسجد میں آ کر اسی جگہ نماز پڑھتا تھا۔

حدیث کے الفاظ اذاصلیت الجمعۃ میں جمعہ کی قید اتفاقی اور مثال کے طور پر ہے کیونکہ جمعہ کے علاوہ بھی تمام نمازوں کا یہی حکم ہے کہ فرض کے ساتھ نفل نماز ملا کر نہ پڑھی جائے چنانچہ اس کی تائید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث کر رہی ہے جس میں کسی خاص نماز کے بارے میں نہیں فرمایا گیا بلکہ ہر نماز کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب فرض نماز پڑھ لی جائے تو نوافل پڑھنے کے لیے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے فرض اور نوافل میں فرق و امتیاز پیدا ہو جائے مثلاً جس جگہ فرض نماز پڑھی گئی ہے اسی جگہ کوئی اور نماز(خواہ سنت مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ) نہ پڑھی جائے بلکہ اس جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ کھڑے ہو کر پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازوں کے درمیان امتیاز پیدا ہو سکے اور اس فرض و نفل کے درمیان التباس پیدا نہ ہو۔

چنانچہ حدیث کے الفاظ او نخرج سے اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اب اونخرج سے مسجد سے حقیقۃً نکلنا بھی مراد ہو سکتا ہے یعنی فرض پڑھ کر مسجد سے نکل کر گھر وغیرہ آ جائے اور وہاں نوافل پڑھے جائیں اور حکماً نکلنا بھی مراد ہو سکتا ہے یعنی جس جگہ فرض نماز پڑھی ہے اس جگہ سے ہٹ کر نوافل دوسری جگہ پڑھے جائیں۔

فرض و نوافل کے درمیان نمازوں کے درمیان فرق و امتیاز پیدا کرنے کی ایک اور صورت ہے اور وہ یہ کہ جب فرض نماز پڑھ لی جائے تو اس کے بعد کسی دوسرے آدمی سے کوئی گفتگو کر لی جائے تاکہ اس سے ان دونوں نمازوں کے درمیان فرق و امتیاز پیدا ہو جائے چنانچہ حتی نتکلم سے یہی بتایا جا رہا ہے۔

اتنی بات ملحوظ رہے کہ فرض و نوافل کے درمیان جس فرق و امتیاز کے لیے کہا جا رہا ہے وہ دنیاوی بات چیت اور گفتگو ہی سے حاصل ہوتا ہے ذکر اللہ وغیرہ سے وہ فرق حاصل نہیں ہوتا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مکہ میں جمعہ کی نماز پڑھ چکتے تو (جس جگہ فرض نماز پڑھتے اس سے) آگے بڑھ جاتے اور دو رکعت پڑھتے اس کے بعد پھر آگے بڑھتے اور جب آپ مدینہ میں ہوا کرتے تو (یہ معمول تھا کہ) جمعہ کی (فرض) نماز پڑھ کر اپنے مکان میں تشریف لاتے اور گھر میں دو رکعت نماز پڑھتے مسجد میں (فرض کے علاوہ کوئی نماز) نہیں پڑھتے تھے ، جب ان سے اس (گھر میں پڑھنے اور مسجد میں نہ پڑھنے) کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ (اس لیے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد) اور جامع ترمذی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عطاء نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر کو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے کہ وہ جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھ کر پھر چار رکعت پڑھتے تھے۔

 

 

تشریح

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرض پڑھ کر سنت پڑھنے کے لیے آگے بڑھ جانا بمنزلہ مسجد سے نکلنے کے تھا جیسا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد میں مذکور ہوا۔

علماء نے لکھا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے معمول کے درمیان فرق غالباً اس لیے تھا کہ مدینہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان مسجد کے قریب تھا اور مکہ میں چونکہ مسافر ہوتے تھے اور قیام گاہ حرم سے فاصلے پر ہوتی تھی اس لیے مدینہ میں تو آپ کا معمول یہ ہوتا تھا کہ فرض پڑھ کر اپنے مکان پر تشریف لے جاتے تھے اور وہاں سنتیں پڑھتے تھے مگر مکہ میں مکان کے دور ہونے کی وجہ سے سنتیں بھی مسجد ہی میں پڑھ لیتے تھے مگر جگہ بدل کر دونوں نمازوں کے درمیان فرق کرتے رہتے تھے۔ اور اس طرح آگے بڑھنے کو گھر کے قائم مقام کر لیتے تھے۔

مکہ اور مدینہ کے معمول کے درمیان دوسرا فرق یہ تھا کہ مکہ میں تو آپ جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھا کرتے تھے اور مدینہ میں دوہی رکعت پڑھتے تھے چنانچہ مکہ میں اس زیادتی کی وجہ یہ تھی کہ حرم میں چونکہ نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہاں زیادہ نماز پڑھتے تھے۔

چونکہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جمعہ کے بعد سنتیں چار رکعت ہیں اس لیے ملا علی قاری نے حدیث کے الفاظ کہ حضرت عبداللہ ابن عمر جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے پھر اس کے بعد (آگے بڑھ کر) چار رکعت پڑھتے تھے کا مطلب یہ لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے چار رکعتیں پڑھنی شروع کر دیں یعنی ان دو رکعتوں میں جو ان کے نزدیک احادیث سے ثابت تھیں اور جنہیں آپ پہلے پڑھا کرتے تھے دو رکعتوں کا اور اضافہ کر دیا اس طرح بعد میں چار رکعت پڑھنے لگے۔

صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک جمعہ کے بعد سنتیں چھ رکعتیں ہی ہیں یعنی وہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کی فرض نماز پڑھ کر پہلے چار رکعت سنت پڑھی جائیں پھر اس کے بعد دو رکعت سنت اور پڑھی جائیں۔

 

 

فقہ حنفیہ میں سنتوں کی تفصیلی تعداد

چونکہ یہ بات ختم ہو رہی ہے اس لیے مناسب ہے کہ اس موقع پر تمام نمازوں کی سنتوں کی تفصیلی تعداد ذکر کر دی جائے تاکہ وہ ذہن میں محفوظ رہیں۔ فجر کے وقت فرض سے دو رکعت سنت موکدہ ہیں ان کی تاکید تمام مؤکدہ سنتوں سے زیادہ ہے یہاں تک کہ بعض روایات میں امام ابو حنیفہ سے ان کا وجوب منقول ہے اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ ان کے انکار سے کفر کا خوف رہتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ فجر کی سنتیں نہ چھوڑو چا ہے تمہیں گھر کچل ڈالیں یعنی جان جانے کا خوف ہو تب بھی نہ چھوڑو، اس سے مقصود صرف تاکید اور ترغیب ہے ورنہ جان کے خوف سے تو فرائض کو چھوڑنا بھی جائز ہے۔

ظہر کے وقت فرض سے پہلے چار رکعت ایک سلام سے اور فرض کے بعد دو رکعت سنت موکدہ ہیں۔

جمعہ کے وقت فرض سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے سنت مؤکدہ ہیں اور فرض کے بعد بھی ایک ہی سلام سے چار رکعتیں سنت ہیں۔

عصر کے وقت کوئی سنت موکدہ نہیں، ہاں فرض سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے مستحب ہیں۔

مغرب کے وقت فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ہیں۔

عشاء کے وقت فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ہیں اور فرض سے پہلے کی چار رکعتیں ایک سلام سے مستحب ہیں۔

وتر کے بعد بھی دو رکعتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہیں لہٰذا وتر کے بعدکی دو رکعت مستحب ہیں۔

رات کی۔

رات کی نماز  یعنی تہجد وغیرہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو روایات ان کے پڑھنے کے طریقے وغیرہ کے بارے میں منقول ہیں اس باب کے تحت نقل کی جائیں گی۔

رات کی نماز پڑھنے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مختلف روایتیں منقول ہیں ان میں سے جس روایت کے مطابق بھی نماز پڑھی جائے گی اتباع نبوی کی فضیلت اور سنت کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہو گی ہاں اگر تمام روایات کی اتباع کے پیش نظر یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ کبھی تو کسی روایت کے مطابق پڑھی جائے اور کبھی کسی روایت کے مطابق، تو یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ انتہائی مناسب اور بہتر بلکہ سنت کے عین مطابق ہو گا۔

رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں مختلف روایتیں منقول ہیں، چنانچہ تیرہ گیارہ نو اور سات رکعتیں منقول ہیں ، بعض علماء نے پانچ رکعتیں بھی روایت کی ہیں، تاہم تیرہ سے زیادہ ثابت نہیں ہے ، پھر یہ کہ بعض علماء نے یہ تعداد فجر کی سنت کے ساتھ ذکر کی ہے اور بعض نے فجر کی سنتوں کے علاوہ اور صحیح قول یہی ہے ، اسی طرح وتر کی تعداد کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، بعض روایتوں میں تو وتر ایک رکعت کے ساتھ منقول ہے اور بعض میں تین رکعتوں کے ساتھ، نیز بعض روایات میں وتر کی رکعت کو بھی نماز تہجد کی رکعتوں میں شامل کر کے انہیں شمار کیا گیا ہے اور بعض روایات میں وتر کی رکعتوں کو ان سے الگ شمار کیا گیا ہے اسی طرح بعض روایات میں وتر کا اطلاق ایک رکعت پر کیا گیا ہے۔ اور بعض میں تین پانچ اور ساتھ تک پر کیا گیا ہے بلکہ بعض روایات میں تو رات کی تمام نماز کو وتر کہا گیا ہے ، انہیں تمام روایات کو آپ تفصیل کے ساتھ اس باب میں پڑھیں گے۔

 

                   عشاء و فجر کے درمیان گیارہ رکعت

 

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نماز عشاء سے فارغ ہو کر نماز فجر تک (اکثر) گیارہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے اور (پھر آخر میں) ایک رکعت کے ساتھ وتر کر لیا کرتے تھے اور اس رکعت میں اتنا طویل سجدہ کرتے جتنی دیر میں کوئی آدمی اپنا سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور فجر طلوع ہو جاتی یعنی صبح کی روشنی پھیلنے لگتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوتے اور دو رکعتیں ہلکی (یعنی فجر کی سنتیں) پڑھتے اور (اس کے بعد تھوڑی دیر کے لیے) اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے تھے یہاں تک کہ موذن تکبیر کے لیے (یعنی تکبیر کہنے کی اجازت حاصل کر نے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے لیے (مسجد) تشریف لے جاتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ ویوتر بواحدۃ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے لیے ایک رکعت علیحدہ پڑھتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم گیارہ رکعتیں اس طرح پڑھا کرتے تھے کہ آخری دونوں رکعتوں یعنی نویں اور دسویں کے ساتھ ایک رکعت بڑھا کر تینوں کو وتر بنا دیا کرتے تھے۔

علامہ ابن حجر شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں، اوّل یہ کہ وتر کی کم سے کم ایک رکعت ہے یعنی وتر کی ایک رکعت علیحدہ سے پڑھی جا سکتی ہے ، دوم یہ کہ تہجد کی نماز میں ہر دو رکعت پر سلام پھیر دینا چاہیے ، چنانچہ حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے۔

فیسجد السجدۃ الخ سے بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر رکعت کا سجدہ بقدر مذکورہ طویل کرتے تھے لیکن اس کا مفہوم یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صرف وتر کے سجدوں میں سے ایک سجدہ یا وتر کے سب سجدے بقدر مذکور طویل کرتے تھے۔

بعض مقامات پر کچھ لوگ وتر کے بعد کیفیت معروفہ کے ساتھ دو سجدے کرتے ہیں اور بعض ضعیف فقہی روایات میں ان کی فضیلت بھی مذکور ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ احادیث میں ان دونوں سجدوں کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ فقہ کی وہ روایت جو معتمد و مختار ہیں ان میں ان کا کوئی ذکر ہے۔ نیز حرمین شر یفین بلکہ پورے عرب میں کہیں بھی یہ سجدے نہیں کئے جاتے۔

اس سلسلے میں ایک حدیث بھی منقول ہے جس میں ان سجدوں کو  اختراع محض کا درجہ دیا گیا ہے پھر یہ کہ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی امام اس کے نہ مسنون ہونے کا قائل ہے اور نہ ہی مستحب ہونے کا بلکہ بلاد عرب کے اکثر حنیفہ تو اسے جانتے بھی نہیں اور بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ، بہر حال اگر کسی جگہ یہ طریقہ رائج ہے تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

رکعتیں خفیفتین یعنی فجر کی سنتیں ہلکی پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سنت کی دونوں رکعتوں میں قل یاایھا الکا فرون اور قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے اور یہی مستحب ہے مگر لازم نہیں ہے۔

فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس لیے لیٹ جاتے تھے تاکہ تمام رات عبادت خداوندی اور نماز میں مشغول رہنے کی وجہ سے جو تکان وغیرہ پیدا ہو جاتا تھا وہ تھوڑی دیر آرام کر لینے سے ختم ہو جائے اور فرض پوری چستی اور بشاشت کے ساتھ ادا ہوں ، لہٰذا مختار یہ ہے کہ جو آدمی رات کو عبادت الہٰی اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہے اس کے لیے فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے بغرض استراحت لیٹ جانا مستحب ہے۔

 

                   فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان بات چیت کرنا

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو مجھ سے بات چیت میں مشغول ہو جاتے اور اگر میں سوتی ہوئی ہوتی تو (آپ صلی اللہ علیہ و سلم) بھی لیٹ جاتے۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان فرق کرنا جائز ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس وقت (یعنی فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان) اپنے اہل خانہ سے بات چیت میں مشغول ہونا مستحب ہے ، گویا حضرت ابن مالک کے ارشاد کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ  فرض اور سنت نمازوں کے درمیان گفتگو کرنا نماز کو یا اس کے ثواب کو ختم کر دیتا ہے یہ قول غلط ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا محور دنیا نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گفتگو دینی اور اخروی موضوع سے متعلق ہوتی تھی، اس لیے اتنا تو ماننا ہی پڑھے گا کہ فرض و سنت نمازوں کے درمیان دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونا خلاف اولیٰ ہے۔ کیونکہ سنت نمازوں کی مشروعیت کی حکمت ہی یہ ہے کہ فرض نماز پڑھنے والا آدمی پہلے سے کچھ نمازیں پڑھ کر  حالت کمال کے لیے تیار ہو اور اس سے غفلت و سستی دور ہو جائے تاکہ فرض نماز میں پورے خشوع و خضوع کمال حضور اور عبادت خداوندی کے حقیقی و پر لطف جذبے کے ساتھ شامل ہو سکے اور اس کا دل و دماغ دنیا سے پوری طرح یکسو ہو کر توجہ الی اللہ میں پوری طرح مستغرق ہو جائے ، برخلاف اس کے کہ سنت نماز پڑھ کر فرض شروع کرنے سے پہلے دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونا اس حکمت کے خلاف ہے کیونکہ اس طرح دل و دماغ شوق و حضوری سے الگ ہو کر دنیا کی باتوں کے چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام وغیرہ سے بعض علماء نے طلوع فجر کے بعد نماز فجر ادا کرنے سے پہلے کسی دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونے کو مکروہ کہا ہے ہاں ذکر اللہ یا ایسا دنیاوی کلام جس کی حقیقت میں اس وقت ضرورت ہو اس سے مستثنی ہے۔چنانچہ احمد، اسحاق کا یہی قول ہے۔

لہٰذا اس حدیث کے بارہ میں کہا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی سنت نماز پڑھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جو کلام کرتے تھے یا تو وہ دینی اور اخروی ہوتا تھا یا پھر کسی حاجت اور ضرورت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے گفتگو میں مشغول ہوتے تھے ، چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ان کانت لہ الی حاجۃ کلمنی  (اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی ضرورت مجھ سے متعلق ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے گفتگو کرتے) بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

 

                   فجر کی سنتوں کے بعد استراحت!

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی دو رکعت سنتیں پڑھ کر اپنی دائیں کروٹ پر (یعنی رو بقبلہ) لیٹ جاتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم رات کو تیرہ رکعتیں نماز پڑھتے تھے ان میں وتر (کی تین رکعتیں) اور فجر کی سنت کی دو رکعتیں بھی شامل ہوتیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو جو تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان میں وتر کی تین رکعتیں اور فجر کی سنت کی دو رکعتیں بھی شامل ہوتی تھیں ، گو حدیث کے الفاظ میں وتر کے ساتھ  تین رکعت کا ذکر نہیں ہے لیکن تمام علماء کے نزدیک چونکہ وتر کی تین رکعتیں ہی پڑھنا افضل ہے اس لیے  تین رکعت کی قید لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پھر یہ کہ دوسری روایات میں تین رکعت کی صراحت بھی ہے۔ چنانچہ ترمذی نے شمائل میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت نقل کی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ثم یصلی ثلثا (پھر آپ تین رکعتیں پڑھتے تھے) اسی طرح صحیح مسلم کی روایت ثُمَّ اَوْتَرَ بِثَلاَثٍ (یعنی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تین رکعت و تر پڑھتے تھے) کے الفاظ منقول ہیں۔

اس حدیث میں  رکعتوں کی تعداد  تیرہ اس طرح نقل کی گئی ہے کہ فجر کی سنت کی دو رکعتوں کو بھی ان میں شمار کیا گیا ہے ورنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو مع وتر کے کل گیارہ رکعتیں نماز پڑھا کرتے تھے جیسا کہ دوسری روایتوں میں مذکور ہے چونکہ تہجد کی نماز پڑھنے اور فجر کی سنتیں پڑھنے کا درمیانی وقفہ زیادہ نہیں ہوتا تھا بلکہ تقریباً دونوں نمازیں ساتھ ہی پڑھتے تھے اس لیے ان دونوں رکعتوں کو بھی ان میں شمار کر لیا گیا ہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سرور کائنات کی رات کی نماز کے بارے میں دریافت کیا (کہ کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟) تو انہوں نے فرمایا کہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سات رکعتیں پڑھتے تھے کبھی نو رکعتیں اور کبھی گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے علاوہ فجر کی سنتوں کے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

ظاہر یہ ہے کہ  علاوہ فجر کی سنتوں کے  کا تعلق احدی عشرۃ رکعۃ (گیارہ رکعتوں سے) ہے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جن روایات میں تیرہ رکعتیں منقول ہیں ان میں دو رکعت فجر کی سنت کی بھی شامل ہیں۔

ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں جو یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رات میں پندرہ رکعتیں بھی پڑھتے ہیں تو اس کا محمول یہ ہے کہ پندرہ میں فجر کی سنت کی دو رکعتیں بھی شمار کی گئی ہیں، یعنی تیرہ رکعت تہجد کی اور دو رکعت فجر کی سنت کی لیکن اس احتمال سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ بارہ رکعتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تہجد کی پڑھی ہوں اور تین رکعتیں وتر کی۔ چنانچہ اس کی دلیل ایک روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نیند کا غلبہ ہو جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم تہجد پڑھے بغیر سو جاتے تھے تو دن میں بارہ رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے۔

 

                   تہجد کی ابتدائی دو رکعتوں کی کیفیت کیا ہوتی تھی؟

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو (تہجد) کی نمازپڑھنے کھڑے ہوتے تو اپنی نماز کی ابتداء دو ہلکی رکعتوں سے فرماتے تھے۔

 

 

تشریح

 

کتاب ازہار  میں لکھا ہے کہ  دو ہلکی رکعتیں وضو کی دو رکعتیں ہیں کہ ان میں تخفیف یعنی ان کو مختصر پڑھنا ہی مستحب ہے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ دونوں رکعتیں تہجد کی ہوتی تھیں جو تحیۃ الوضو کے قائم مقام تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت وضو کے لیے علیحدہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی رات کو نماز پڑھنے کے لیے نیند سے اٹھے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی نماز کی ابتداء دو ہلکی رکعتوں سے کرے۔ (صحیح مسلم)

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں ایک رات گزاری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (بھی اس رات کو) انہیں کے ہاں تھے (یعنی اس رات کو حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں کی باری تھی) کچھ رات گئے تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی زوجہ (حضرت میمونہ) سے باتیں کرتے رہے پھر سو گئے ، جب تہائی یا اس سے بھی کچھ رات باقی رہ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی آیت (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ  ١٩٠) 3۔ آل عمران:190) (آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات و دن کے اختلاف (یعنی کبھی) اندھیرا، کبھی اجالا، کبھی گرمی، کبھی جاڑا، کبھی درازی ، کبھی کمی) میں بے شک عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری سورۃ پڑھی، پھر اٹھ کر مشک کے پاس گئے اور اس کا بند کھول کر پیالہ میں پانی ڈالا، پھر اچھا درمیانہ وضو کیا (یعنی نہ تو پانی اتنا زیادہ بہایا کہ حد اسراف کو پہنچ جاتا اور نہ اتنا کم ڈالا کہ اعضاء بھی تر نہ ہوتے بلکہ درمیانے درجے کا وضو کیا۔چنانچہ حدیث کے راوی فرماتے ہیں کہ درمیانے وضو کا مطلب یہ ہے کہ) بہت زیادہ پانی نہیں بہایا بلکہ (جن اعضاء کا دھونا فرض ہے) پانی ان اعضاء تک پہنچایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے یہ (دیکھ کر) میں بھی اٹھا اور (جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا تھا) میں بھی اسی طرح وضو کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا کان پکڑ کر اپنی بائیں طرف سے مجھے گھما کر اپنی دائیں طرف کھڑا کر دیا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تیرہ رکعت نماز پوری ہو گئی تو لیٹ گئے ، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سوتے وقت خراٹے لیتے تھے اس لیے سو کر خراٹے لینے لگے ، اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آ کر نماز کا وقت شروع ہو جانے اور جماعت کے تیار ہونے کی اطلاع کی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیے بغیر (سنت) نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم (فرض و سنت کے درمیان) دعا میں یہ پڑھتے تھے : اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوراً وَّفِیْ بَصَرِیْ نُوراً وَّفِیْ سَمْعِی نُوْراً وَّعَنْ یَّمِیْنِیْ نُوْراً وَّعَنْ یَّسَارِیْ نُوْراً وَّفَوْقِیْ نُوْراً وَّ تَحْتِیْ نُوْراً وَّ اَمَامِیْ نُوْراً وَّخَلْفِیْ نُوْراً وَّاجْعَلْ لِیْ نُوْراً (اے اللہ میرے دل میں میری آنکھوں میں ، میرے کانوں میں ، میرے دائیں ، میرے بائیں ، میرے اوپر ، میرے نیچے ، میرے آگے اے اللہ ! میرے پیچھے ، نور عطا کر اور میرے لیے نور ہی نور پیدا کر دے) اور بعض راویوں نے یہ الفاظ بھی نقل کئے وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْراً (یعنی میری زبان میں نور پیدا کر دے) بعض راویوں نے یہ الفاظ ذکر کئے ہیں۔ عَصَبِیْ وَلَحْمِیْ وَدَمِیْ وَشَعْرِیْ وَبَشَرِیْ یعنی میرے اعصاب میں، میرے گوشت میں، میرے خون میں، میرے بالوں میں، اور میری جلد میں نور پیدا کر دے (بخاری و مسلم) اور بخاری و صحیح مسلم ہی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں وَاجْعَلْ فِیْ نَفْسِیْ نُوْراً وَّ اَعْظِمُ لِیْ نُوْراً یعنی اے اللہ ! میری جان میں نور پیدا کر دے اور میرے لیے نور میں بڑائی دے۔ مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ نُوْراً یعنی اے اللہ ! مجھے نور عطا فرما۔

 

تشریح

 

جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز کا وقت ہو جانے کی اطلاع دی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نیند سے بیدار ہوئے۔ تو بغیر وضو کئے ہی فجر کی سنتیں پڑھ لیں اس موقع پر یہ اشکال پیدا نہیں کیا جا سکتا کہ آپ نے وضو کئے بغیر نماز کیسے پڑھی کیونکہ علماء لکھتے ہیں کہ سو جانے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو اس لیے نہیں کیا کہ فقط سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا بلکہ نیند سے بیداری کے بعد نماز پڑھنے کے لیے وضو اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ نیند میں وضو ٹوٹ جانے کا احتمال رہتا ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل چونکہ ہمیشہ بیدار رہتا تھا یہاں تک کہ نیند کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل پر کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سونے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وضو ٹوٹ گیا ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم نہ ہوا ہو۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد ایسی بات چیت جس کا موضوع دین و آخرت اور وعظ و نصیحت ہو یا اپنے اہل خانہ سے بطریق اختلاط ہو تو وہ مکروہ نہیں ہے۔

یہ حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گزشہ حدیث سے مخالف نظر آتی ہے کیونکہ یہاں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رات کو جو تیرہ رکعتیں پڑھیں ان میں وتر کی تین رکعت تو شامل تھیں لیکن فجر کی سنت کی دو رکعتیں ان میں شامل نہیں تھیں۔ جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تیرہ رکعتوں میں وتر کے ساتھ ساتھ فجر کی دو رکعتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔

لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں اس تاویل سے مطابقت پیدا کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی تو تیرہ رکعت اس طرح پڑھتے تھے کہ ان میں فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہوتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ذکر کیا ہے اور کبھی اس طرح پڑھتے تھے کہ ان میں فجر کی دو سنتیں شامل نہیں ہوتی تھیں جیسے کہ یہاں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ سے معلوم ہوا۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نیند کی حالت میں خراٹے لیتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ خراٹے لینا سانس کی نالیوں کی کشادگی اور قوائے جسمانی کی صفائی اور صحت کی علامت ہے اور اس سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نہ صرف یہ کہ روحانی اور باطنی طور پر کامل و اکمل تھے بلکہ جسمانی طور پر انتہائی صحت مند، قوی اور مضبوط و صاف اعضاء جسم کے مالک تھے۔

حدیث میں مذکور دعاء  دعائے طویل  کہلاتی ہے یہ دعا اکثر مشائخ کے معمول میں داخل ہے اسے تہجد کے بعد بھی پڑھنا ثابت ہے۔ اس دعا کی بڑی عظمت و فضیلت اور برکت ہے چنانچہ حضرت شیخ امام شہاب الدین سہروردی نے  عوراف میں لکھا ہے کہ جس آدمی کو بھی میں نے اس دعا پر مواظبت و مداومت کرتے دیکھا ہے اس کے پاس ایک برکت محسوس ہوئی ہے۔

 

 

                   وتر کی تین رکعتیں ہیں

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ (ایک رات) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں سوئے چنانچہ (انہوں نے بیان کیا کہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو بیدار ہوئے ، مسواک کی اور وضو کیا پھر یہ آیت پڑھی(اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ١٩٠) 3۔ ال عمرن:190تا200) آخر سورہ تک، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی جس میں قیام ، رکوع اور سجود کو طویل کیا پھر (دو رکعت نماز سے) فارغ ہو کر سو گئے اور خراٹے لینے لگے ، تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی طرح کیا (یعنی دو رکعت مذکورہ طریقہ سے پڑھ کر لیٹ جاتے پھر اٹھ کر دو رکعت پڑھتے اور پھر لیٹ جاتے) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم تین مرتبہ میں چھ رکعتیں پڑھیں اور تینوں مرتبہ میں سے ہر بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسواک بھی کرتے وضو بھی کرتے اور آیتیں بھی پڑھتے تھے۔ پھر آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وتر کی تین رکعتیں پڑھیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کی تین ہی رکعتیں ہیں ، چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ گو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وتر کی ایک ہی رکعت ہو سکتی ہے لیکن اس حد تک تو وہ بھی حنفیہ ہی کے ساتھ ہیں کہ ان کے نزدیک بھی وتر کے لئے صرف ایک رکعت پڑھنا مکروہ ہے۔

 

 

               نماز تہجد کا بیان

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز تہجد کی کیفیت

 

اور حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ میں نے ارادہ کیا کہ) میں آج کی رات سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کو دیکھتا رہوں گا چنانچہ (میں نے دیکھا کہ) پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں ہلکی پڑھیں پھر دو رکعتیں طویل سی پڑھیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھی جو ان دونوں رکعتوں سے کم (طویل) تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پہلے پڑھی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں جو پہلے پڑھی گئی دونوں رکعتوں سے کم (طویل) تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں جو پہلے پڑھی جانے والی دونوں رکعتوں سے کم (طویل) تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وتر پڑھے اور یہ سب تیرہ رکعتیں ہو گئیں (صحیح مسلم) اور زید کا یہ قول کہ پھر دو رکعتیں پڑھیں جو پہلے پڑھی گئی دونوں رکعتوں سے کم تھیں ، صحیح مسلم میں حمیدی کی کتاب میں ہے کہ جس میں انہوں نے فقط مسلم کی ہی روایتیں نقل کی ہیں اور مؤطا امام مالک ، سنن ابی داؤد، نیز جامع الاصول سب میں چار مرتبہ منقول ہے۔

 

تشریح

 

اس حدیث سے صریحی طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وتر کی تین رکعتیں پڑھی تھیں یا ایک ہی رکعت پڑھی تھی اور کیونکہ اگر دو رکعتیں ہلکی اس نماز میں شمار نہ کی جائیں تو وتر کی تین رکعتیں ثابت ہو جائیں گی اور اگر ان دونوں رکعتوں کو بھی اس نماز میں شامل کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وتر کی ایک ہی رکعت پڑھی گئی، تاہم صحیح اور ظاہر یہی ہے کہ دونوں ہلکی رکعتیں اس نماز میں شامل نہیں تھیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وتر کی تین رکعتیں پڑھیں۔

حمیدی کی کتاب  جمع بین الصحیحین  میں تین قسم کی احادیث منقول ہیں۔ (١) متفق علیہ یعنی بخاری اور مسلم دونوں کی روایتیں (٢) افراد صحیح بخاری یعنی وہ روایتیں جنہیں صرف صحیح البخاری نے نقل کیا ہے۔ (٣) افراد مسلم۔ یعنی وہ روایتیں جنہیں صرف مسلم نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ وَ ھُمَادُوْنَ قَبْلَھُمَا متن صحیح مسلم میں چار مرتبہ منقول ہے اسی طرح کتاب حمیدی کہ جس میں صرف مسلم کی روایات منقول ہیں۔ موطا، امام مالک ، سنن ابی داؤد اور جامع الاصول میں بھی چار ہی مرتبہ منقول ہے۔ مؤلف مشکوٰۃ نے اس چیز کو یہاں اتنی شد و مد اور مبالغے کے ساتھ اس لیے بیان کیا ہے کہ صاحب مصابیح کا رد ہو جائے کہ انہوں نے اس عبارت کو تین مرتبہ نقل کیا ہے جس کی بنا پر رکعتوں کی تعداد گیارہ رہ جاتی ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخر عمر میں نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے تھے

 

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب عمر کے آخری حصے کو پہنچے اور (بڑھاپے کی وجہ سے) بدن بھاری ہو گیا تو آپ اکثر نفل نمازیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

                   نماز تہجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کون کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟

 

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو سورتیں آپس میں ہم مثل ہیں اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جنہیں جمع کرتے تھے انہیں جانتا ہوں۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ترتیب کے مطابق بیس سورتیں جو مفصل کے اول میں ہیں گن کر بتائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان سورتوں کو اس طرح جمع کرتے تھے کہ ایک ایک رکعت میں دو دو سورتیں پڑھا کرتے تھے اور (ان بیس سورتوں میں) آخر کی دو سورتیں حم الدخان اور عم یتساء لون ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

فائدہ:  آپس میں ہم مثل سورتوں سے مراد وہ سورتیں ہیں جو طوالت و اختصار میں آپس میں برابر ہیں۔ مفصل کا مطلب باب القرأت میں بیان کیا جا چکا ہے۔ کہ قول مشہور کے مطابق سورہ حجرات سے آخر تک کی سورتوں کو  مفصل  کہتے ہیں وہ سورتیں جو آپس میں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترتیب کے مطابق کہ جنہوں نے کلام اللہ کو جمع کیا تھا ، یکجا کیا تھا ، ان بیس سورتوں کی تفصیل ابوداؤد میں اس طرح مذکور ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ایک رکعت میں دو ، دو سورتیں (اس طرح) پڑھا کرتے تھے کہ سورہ رحمن اور سورۂ  نجم ایک رکعت میں اقتربت الساعۃ اور الحافۃ ایک رکعت میں، طور اور ذاریات ایک رکعت میں، اذا وقعت الواقعۃً اور سورہ نون ایک رکعت میں سال سائل اور والناز عات ایک رکعت میں ، ویل اللمطففین اور عبس ایک رکعت میں، مدثر اور مزمل ایک رکعت میں ، ھل اتی اور لا اقسم بیوم القیامۃ ایک رکعت میں ، عم یتساء لون اور مرسلات ایک رکعت میں دخان اور اذالشمس کورت ایک رکعت میں ابوداؤد نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ یہ ترتیب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جمع کرنے کے مطابق ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ طریقے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورہ دخان اور عم یتساء لون ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں سورتیں نہ صرف یہ کہ ہم مثل اور آپس میں برابر نہیں ہیں بلکہ اس طرح حدیث کے اس آخری جز اور حدیث کے ظاہری معنی و مفہوم میں مطابقت نہیں رہے گی ، چنانچہ اس جزء کی توضیح یہ کی جائے گی کہ حدیث کے ان الفاظ کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ  ان بیس سورتوں میں سے آخری سورتیں حم الدخان اور اس کے ہم مثل یعنی اذا الشمس کورت اور عم یتساء لون اور اس کے ہم مثل یعنی والمرسلات ہیں۔ اس کا مطلب اب یہ ہو جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک رکعت میں حم الد خان اور اذالشمس کورت پڑھتے تھے جو ہم مثل اور برابر کی سورتیں ہیں اسی طرح ایک رکعت میں عم یتساء لون اور والمرسلات پڑھتے تھے جو ہم مثل اور برابر کی سورتیں ہیں۔

قرآن پڑھنے کی ترتیب: علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم اسی ترتیب کے مطابق پڑھا جائے جو اب مروج ہے کسی دوسری ترتیب کے مطابق نہ پڑھا جائے ، ہاں بچوں کو ضرورتاً یعنی تعلیم وغیرہ کی وجہ سے آخر کی طرف سے بھی پڑھا دینا جائز ہے اور اگر نماز میں خلاف ترتیب قرآن پڑھا جائے گا تو یہ خلاف اولیٰ ہو گا بلکہ بعض علماء کے نزدیک تو یہ مکروہ ہے چنانچہ حضرت امام احمد کا یہی مذہب ہے۔

پہلی رکعت میں سورہ وا لناس پڑھ لینے کا مسئلہ: اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی پہلی رکعت میں سورہ والناس پڑھ لے تو دوسری میں کیا پڑھے؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اس شکل میں دوسری رکعت میں بھی سورہ والناس ہی پڑھنی چاہیے ، لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر پہلی رکعت میں سورہ الناس پڑھی گئی ہے تو دوسری رکعت میں سورہ بقرہ شروع کر دی جائے اس طرح اس طرح الم سے لے کر مفلحون تک کی آیتیں پڑھی جائیں ، ایک روایت میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ سے بھی یہی منقول ہے بلکہ یہی قول زیادہ اولیٰ ہے۔

 

 

٭٭حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کو (تہجد کی) نماز پڑھتے دیکھا ہے چنانچہ (ان کا بیان ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر یہ کہا ذوالملکوت والجبروت والکبریاء والعظمۃ (اللہ تعالیٰ، ملک ، غلبہ، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سبحانک اللہم پڑھ کر سورہ بقرہ کی قرأت فرمائی اور اس کے بعد رکوع کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رکوع (تقریباً) قیام کے برابر تھا رکوع میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سبحان رب العظیم کہا اور آپ کا کھڑا ہونا یعنی قومہ (تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا اور (رکوع سے اٹھ کر سمع اللہ لم حمدہ کہنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہتے لربی الحمد (میرے پر رودگار ہی کے لیے ساری تعریف ہے) پھر سجدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سجدہ کی مقدار آپ کے قومے کے برابر تھی اور سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہتے سبحان ربی الاعلی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ سے سر اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں سجدوں کے درمیان (یعنی جلسہ میں) اپنے سجدے کے برابر بیٹھتے اور یہ کہتے رب اغفرلی رب اغفرلی (اے میرے رب میری بخش کر اے میرے رب مجھے بخش دے) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چار رکعتیں پڑھیں۔ اور ان (چاروں رکعتوں میں) سورہ بقرہ، سورہ ال عمران، سورہ نساء اور سورہ مائدہ یا سورہ انعام پڑھیں (حدیث کے راوی) شعبہ کو شک واقع ہو گیا ہے (کہ حدیث میں آخری سورۃ مائدہ کا ذکر گیا تھا یا انعام کا)۔

 

تشریح

 

آپ کا رکوع قیام کے برابر تھا  کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حقیقۃً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رکوع تقریباً قیام کے برابر تھا، یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں اتنی ہی دیر تک رہتے تھے جتنی دیر تک قیام کرتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ نے معمول سے کچھ زیادہ قیام کو طویل کیا تھا اسی طرح رکوع کو بھی مقدار معمول سے زیادہ دراز کیا ، ہاں کبھی دونوں یعنی قیام اور رکوع برابر ہوتے تھے جیسا کہ نسائی نے حضرت عوف بن مالک کی روایت نقل کی ہے۔

رب اغفرلی  دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے اس سلسلے میں یہ احتمال بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رب اغفرلی دو مرتبہ کہتے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے احتمال دو سے زائد بہت مرتبہ کہنا ہو۔ وا اللہ اعلم۔

 

                   نماز تہجد میں زیادہ قیام کی فضیلت

 

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی دس آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو وہ غافلین میں شمار نہیں کیا جاتا (یعنی اس کا نام صحیفہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا) اور جو آدمی سو آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو اس کا نام فرمانبرداروں میں لکھا جاتا ہے اور جو آدمی ہزار آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو اس کا نام بہت زیادہ ثواب پانے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو آدمی تہجد کی نماز میں دس ، سو یا ہزار آیتوں کی قرأت ترتیل اور اطمینان کے ساتھ کرے تو اسے مذکورہ بالا ثواب اور سعادت کی فضیلت حاصل ہو گی اور اگر کوئی آدمی اپنی نماز میں دس آیتیں پڑھے گا تو فضیلت و ثواب کے اعتبار سے وہ آدمی اس سے کمتر ہو گا جو سو آیتیں اپنی نماز میں پڑھے گا ، اسی طرح جو آدمی اپنی نماز سو آیات میں پڑھے گا تو وہ فضیلت و سعادت کے اعتبار سے اس آدمی سے کم تر ہو گا جو اپنی نماز میں ایک ہزار آیتوں کی قرأت کرے گا۔

اس موقع پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں، اوّل تو یہ کہ آیتوں کی مذکورہ تعداد ایک رکعت میں پڑھنے کا اعتبار ہو گا یا ایک سے زائد رکعت میں یہ تعداد پڑھی جائے۔

دوم یہ کہ تعداد سورہ فاتحہ کی آیتوں کو شامل ہے یا اس کے علاوہ ہے۔

پہلے سوال کے متعلق علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آیتوں کی مذکورہ تعداد دو یا دو سے زیادہ رکعتوں میں پڑھی جائے۔

دوسرے سوال کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ تو یہی مراد بتاتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کے علاوہ دس آیتیں ہوں لیکن صحیح اور ظاہر یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ ثواب اس شکل میں بھی حاصل ہوتا ہے کہ مذکورہ تعداد سورہ فاتحہ کو شامل کر کے پڑھی جائے بایں طور کہ سات آیتیں تو سورہ فاتحہ کی ہو جائیں گی اور تین آیتیں مزید کہ جو نماز کی قرأت کا ادنی درجہ ہے۔

قانتین کے معنی ہیں اطاعت پر مواظبت اور مداومت کرنے والے یا عبادت خداوندی میں قیام (یعنی کھڑے ہونے) کو طویل کرنے والے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نماز میں سو آیتیں پڑھتے ہیں ان کا نام اطاعت خداوندی پر مواظبت و مداومت کرنے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ یا عبادت خدا وندی میں قیام کو طویل کرنے والوں کی جماعت میں لکھا جاتا ہے جو انتہائی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے۔

علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے الفاظ سے جو اس حدیث کے فائدے میں ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مطلق ہے ، دن یا رات کے ساتھ مقید نہیں ہے یعنی خواہ کوئی سی بھی نماز ہو، دن کی ہو یا رات کی ہو جس نماز میں بھی آیتوں کی مذکورہ تعداد پڑھی جائے گی ، ثواب حاصل ہو گا، تاہم علامہ بغوی نے اس حدیث کو کامل ترین موقعہ پر یعنی باب  صلاۃ اللیل میں نقل کر کے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ رات کو (یعنی تہجد کی نماز میں) مذکورہ تعداد میں جو آیتیں پڑھی جائیں گی تو اس کا ثواب بہت زیادہ حاصل ہو گا۔

بعض علماء نے لکھا ہے کہ  قیام کرنا  اس بات سے کنایہ ہے کہ مذکورہ تعداد میں آیتیں یاد کی جائیں اور انہیں ہر وقت پڑھا جائے نیز یہ کہ ان کے معنی و مقاصد میں غور و فکر اور ان پر عمل کیا جائے۔ وا اللہ اعلم۔

 

                   نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت کا طریقہ

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رات کی نماز میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی قرات مختلف ہوتی تھی۔ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بلند آواز سے قرأت فرماتے ہیں اور کبھی پست آواز سے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جیسا وقت اور موقع دیکھتے اسی کے مطابق قرأت فرماتے ، چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تنہا ہوتے اور دوسروں کی نیند خراب ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بآواز بلند قرأت فرماتے تھے اور اگر آس پاس کوئی سویا ہوا ہوتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی نیند اچاٹ ہونے کے خوف سے قرأت پست آواز سے فرماتے تھے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم اتنی آواز سے قرأت فرماتے تھے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حجرے کے اندر پڑھتے ہوتے تو باہر صحن میں موجود آدمی سن لیتا تھا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

یعنی نہ تو آپ بہت زیادہ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے اور نہ بالکل ہی پست آواز سے کہ کوئی سن بھی نہ سکے۔ بلکہ اتنی آواز سے پڑھا کرتے تھے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حجرے کے اندر نماز پڑھتے ہوتے تو وہ لوگ جو باہر صحن میں موجود ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت سن لیتے تھے۔

اتنی بات جان لیجئے کہ قرأت کے سلسلے میں یہ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق رات (یعنی تہجد) کی نماز سے ہے کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں نماز پڑھتے تھے تو رات کی نماز کی بہ نسبت زیادہ بلند آواز سے قرأت فرماتے تھے۔

 

                   تہجد کی قرأت میں ابوبکر و عمر کا طریقہ

 

اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم رات کو باہر نکلے تو ناگہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے جو نماز میں پست آواز سے (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے جو نماز میں بلند آواز سے (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے ، ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب (صبح کو) حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں یکجا (حاضر) ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، ابوبکر !(آج کی رات) ہم تمہارے پاس سے گزرے تو تم نماز میں پست آواز سے (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں جس سے مناجات کر رہا تھا اسے ہی سنا رہا تھا (یعنی میں اپنے پروردگار سے مناجات میں مشغول تھا اور وہ سننے کے لیے بلند آواز کا محتاج نہیں ہے وہ ہر طرح سے سنتا ہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ، عمر ! (آج کی رات) ہم تمہارے پاس سے (بھی) گزرے تھے تم نماز میں بآواز بلند (قرآن کریم) پڑھ رہے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں (بآواز بلند قرآن کریم پڑھ کر ان) سوئے ہوئے لوگوں کو جگاتا تھا (جو عبادت خداوندی یعنی تہجد کے وقت اٹھنا تو چاہتے ہیں مگر نیند کے غلبے کی وجہ سے ان کی آنکھیں کھل نہیں پاتیں) اور شیطان کو بھگاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (دونوں کی باتیں سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) فرمایا کہ ، ابوبکر ! تم اپنی آواز کو کچھ اور بلند کر و اور (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ) عمر ! تم اپنی آواز کو پست کرو یعنی اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حد اعتدال کی طرف دونوں کی راہنمائی فرمائی۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی)

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک آیت پڑھتے ہوئے تمام رات کھڑے رہے

 

اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک رات نماز تہجد میں) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم صبح تک کھڑے رہے اور یہ آیت پڑھتے رہے۔ آیت (اِنْ تُعَذِّبْہمْ فَاِنَّہمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١١٨  5۔ المائدہ:118) اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اگر تو انہیں بخش دے تو تو بڑا حکمت والا ہے۔ (سنن نسائی ، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی دن ! باری تعالیٰ کے حضور اپنی امت کے حق میں یہ آیت عرض کریں گے اور رحمت دو عالم شافع محشر، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے تہجد کے وقت اپنی امت کے حسب حال یہ آیت پڑھی یعنی پروردگار کے حضور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کا حال عرض کیا اور اللہ کی بخشش کے طلب گار ہوئے ، صدقے جائیے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر میری جان قربان) کہ نماز تہجد میں کھڑے ہونے کے وقت سے لے کے صبح تک بار بار یہی دعا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے اور اپنی امت کی مغفرت و بخشش چاہتے رہے۔ صلی اللہ علیہ و سلم الف الف صلوٰۃ۔

 

 

                   فجر کی سنتیں پڑھ کی دائیں کروٹ پر لیٹنا چاہیے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی فجر کی سنت کی دو رکعتیں پڑھ لے تو اسے چاہیے کہ جماعت شروع ہونے تک اپنی دائیں کروٹ پر لیٹا رہے۔ (جامع ترمذی و ابوداؤد)

 

تشریح

 

فجر کی سنتیں پڑھ کر جماعت شروع ہونے تک دائیں کروٹ پر لیٹ رہنے کی توجیہ بعض حنفی علماء نے یہ بیان کی ہے کہ نماز تہجد اور رات کو عبادت خداوندی میں مشغول رہنے کی وجہ سے چونکہ سستی اور طبیعت میں گرانی پیدا ہو جاتی ہے اس لیے فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر لیٹے رہنے کا حکم دیا تاکہ کسل و سستی ختم ہو جائے اور کچھ راحت و سکون حاصل ہو جائے جس کی وجہ سے فرض نماز اطمینان و سکون اور قلب و دماغ کی بشاشت و فرحت کے ساتھ ادا ہو۔

ابن مالک فرماتے ہیں کہ جو آدمی رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول رہتا ہے اور نماز تہجد پڑھتا ہے اس آدمی کے حق میں یہ (یعنی فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹ جانے کا حکم) امر استحباب ہے۔

حضرت سید زکریا جن کا شمار حنفیہ کے ہاں علم حدیث کے مشائخ میں ہوتا ہے ، فرماتے ہیں کہ لائق اور بہتر یہ ہے کہ یہ طریق (یعنی سنت پڑھ کر دائیں کروٹ پر لیٹنا) پوشیدہ طور پر اختیار کرے یعنی گھر میں ایسا کرے۔ مسجد میں لوگوں کے سامنے نہ کرے ، نیز یہ کہ یہ لیٹنا محض لیٹنے کی حد تک رہے اور اپنے آپ کو نیند سے بچائے ، ایسا نہ ہو کہ لیٹ کر سو جائے اور اٹھ کر جماعت میں شریک ہو اور اس طرح فرض نماز بغیر وضو پڑھ لے۔

 

                   مداومت عمل

 

اور حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ سے رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون سا عمل تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ مداومت عمل میں نے پھر (یہ) پوچھا کہ رات تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کس وقت کھڑے ہوتے تھے؟ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب مرغ کی آواز سنتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مداومت عمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ نیک اور با مقصد عمل جس کو کرنے والا ہمیشہ پابندی کے ساتھ کرتا رہے اور جیسا کہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ اگرچہ وہ عمل قلیل ہی کیوں نہ ہو۔

ہمارے اطراف میں تو عام طور پر مرغ رات کے بالکل آخر حصے یعنی صبح کے قریب بولتے ہیں مگر عرب میں عمومی طور پر آدھی رات کے بعد مرغ بولتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مرغ کے بولنے کی آواز سن کر اٹھتے تھے اور اس وقت تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا رات معمول

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ، اگر ہم چاہتے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کے وقت نماز پڑھتے ہوئے دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے ہی دیکھتے تھے اور اگر یہ چاہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سوتے ہوئے دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سوتے ہوئے ہی دیکھتے تھے۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو تہجد وغیرہ پڑھنے کے سلسلے میں معتدل رویہ اختیار فرماتے تھے ، نہ تو تمام رات تہجد وغیرہ ہی میں گزار دیتے تھے اور نہ تمام رات سوتے ہی رہتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر رات کو سوتے بھی تھے اور تہجد وغیرہ کی نماز بھی پڑھتے تھے۔

لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ نماز تہجد وغیرہ کے لیے نہ تو تمام رات بیدار ہی رہتے تھے اور نہ تمام رات سوتے ہی رہتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو نماز تہجد وغیرہ میں مشغول بھی دیکھے جاتے تھے اور سوتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جاتا تھا۔

 

 

٭٭ اور حضرت حمید بن عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک صحابی نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) جب کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھا تو (اپنے دل میں یا اپنے بعض احباب سے کہا) کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (جب تہجد کے لیے اٹھیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم) کو میں نماز کے وقت دیکھتا رہوں گا تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال دیکھوں (اور پھر اسی کے مطابق عمل کروں) چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کی نماز کہ جسے عتمہ فرماتے ہیں پڑھ لی تو لیٹ گئے (اور کچھ دیر آرام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیدار ہوئے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کہ یہ آیت (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً) 3۔ آل عمران:191) پڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت تک پہنچے (ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ      ١٩٤ ) 3۔ ال عمران:194) بے شک تو وعدے سے پھرا نہیں کرتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے بستر کی طرف متوجہ ہوئے اور وہاں سے مسواک نکالی، اس کے بعد ایک چھاگل میں سے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رکھی ہوئی تھی (وضو کرنے یا مسواک تر کرنے کے لیے) پیالہ میں پانی نکالا پھر مسواک کرنے کے بعد (وضو کر کے یا پہلے کے وضو کے ساتھ نماز پڑھنے) کھڑے ہوئے اور (جب) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھ لی، میں نے (دل میں) کہا کہ جتنی دیر آپ سوئے تھے اتنی ہی دیر اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم لیٹ گئے اور میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ جتنی دیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی تھی اتنی ہی دیر سوئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیدار ہوئے اور جو کچھ پہلے کیا تھا وہی اب کیا یعنی مسواک وغیرہ کی اور جو کچھ (یعنی آیت مذکورہ) پہلے پڑھا تھا وہی اب پڑھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز فجر سے پہلے اسی طرح تین مرتبہ کیا۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

آیت پڑھنے کے سلسلے میں دو احتمال ہیں، ایک تو یہ کہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رات کو مذکورہ آیت (ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ      ١٩٤ ) 3۔ ال عمران:194) تک ہی پڑھی۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ نے یہ آیتیں آخر سورۃ تک پڑھی ہوں گی مگر سننے والے نے آیت (ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ      ١٩٤ ) 3۔ ال عمران:194) کے بعد کی آیتیں نہیں سنی ہوں گی۔

اسی طرح اس حدیث میں اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (نمبر آٹھ) میں تطبیق بھی پیدا ہو جائے گی جس سے معلوم ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر سورۃ تک تلاوت کی تھی۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا رات معمول

 

اور حضرت یعلی بن مملک کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے (ایک مرتبہ) حضرت ام سلمہ زوجہ مطہرہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت اور نماز کے بارے میں پوچھا (جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو پڑھتے تھے) انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز (اور قرأت بیان کرنے) سے تمہیں کیا (حاصل ہو گا تم میں اتنی قوت کہاں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے برابر قرأت کر سکو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح نماز پڑھ سکو، اور اگر سننا ہی چاہتے ہو تو سنو کہ) آپ نمازپڑھتے ، پھر جتنی دیر تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے اتنی ہی دیر تک سوتے ، پھر (اٹھ کر) اتنی ہی دیر تک نماز پڑھتے جتنی دیر تک سو چکے ہوتے پھر جتنی دیر تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے اتنی ہی دیر تک سوتے یہاں تک کہ (یہ سلسلہ جاری رہتا اور) صبح ہو جاتی، اس کے بعد حضرت ام سلمہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرأت بیان کی یہاں تک کہ انہوں نے خوب واضح اور ایک ایک حرف قرأت کا بیان کیا۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی)

 

                   نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو تہجد (کی نماز) پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ (دعا) پڑھتے اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَیمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالاَ رْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مَلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَ لِقَآئُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَّالنَّارُ حَقٌّ وَّالنَّبِیوْنَ حَقٌّ وَّمُحَمَّدٌ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَیکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ منیٰ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَلَا اِلٰہَ غَیرُکَ۔ (اے میرے رب تیرے ہی لیے تعریفیں ہیں تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور اس چیز کو جو ان کے درمیان ہے اور تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں تو ہی زمین وآسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہیں سب کو روشن کرنے والا ہے اور تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں اور تو ہی زمین و آسمانوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا بادشاہ ہے اور سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں تو ہی حق ہے ، تیرا وعدہ حق ہے ، تیری ملاقات حق ہے تیرا کلام حق ہے بہشت حق ہے ، دوزخ حق ہے ، تمام نبی حق ہیں، محمد صلی اللہ علیہ و سلم حق ہیں اور قیامت حق ہے ، اے پروردگار ً میں تیرا تابعدار ہوں ، میں نے تیرے تمام احکامات قبول کئے ، میں تجھ پر ایمان لایا اور تجھی پر بھروسہ کیا ، تیری طرف میں نے رجوع کیا، تیری ہی مدد سے میں (دین کے) دشمنوں سے جھگڑتا ہوں اور تیرے ہی پاس اپنی فریاد لایا ہوں ، پس تو میرے ان گناہوں کو بھی بخش دے جو میں نے پہلے کئے ہیں اور ان گناہوں کو بھی جو بعد میں مجھ سے سرزد ہوں گے نیز ان گناہوں کو بھی (بخش دے) جو میں نے پوشیدہ طور پر اور ظاہری طور پر کئے اور جو کچھ میری خطائیں ہیں جنہیں تو ہی مجھ سے بہتر جانتا ہے (سب کو معاف کر دے) اور تو ہی (جسے چاہے) آگے کرنے والا اور پیچھے ڈال دینے والا ہے تو ہی معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ظاہر تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا افتتاح یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد یا رکوع کے بعد قومہ میں پڑھتے تھے جیسا کہ بعض روایتوں میں اس کی تصریح ہے۔

 

 

 

٭٭اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو کھڑے ہوتے اور (تہجد کی) نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے۔ آیت (اَللّٰھُمَّ رَبَّ جِبْرَئِیلَ وَمِیکَآئِیلَ وَاِسْرَافِیلَ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیبِ وَالشَّھَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَینَ عِبَادِکَ فِی مَا کَانُوْا فِیہِ یخْتَلِفُوْنَ اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ۔ اے اللہ ! اے پروردگار جبریل ، میکائیل، اسرفیل کے ! اے پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے اور پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز میں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں فیصلہ کرے گا، اے اللہ امر حق میں جو اختلاف کیا گیا ہے اس میں میری راہنمائی کر، کیونکہ جسے تو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے (صحیح مسلم)

 

                   نیند سے بیدار ہونے کے بعد کی تسبیح اور اس کی فضیلت

اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی رات کو بیدار ہو تو یہ تسبیح پڑھے آیت (لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہ لَہ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرٌ وَسُبْحَانَ اللّٰہ وَالْحَمْدُ للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و لا حول و قوۃ الا بااللہ (ا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اس کے لیے بادشاہت ہے اور اس کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور پاک ہے اللہٗ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت بڑا ہے اور گناہوں سے بچنے اور عبادت کی قوت اللہ کی مدد سے ہے) اور اس کے بعد یہ کہے رب اغفرلی (اے میرے رب مجھے بخشش دے) یا فرمایا کہ پھر دعا کرے (یعنی راوی کو شک واقع ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خاص طور پر رب اغفرلی پڑھنے کو فرمایا یا یہ فرمایا کہ جو دعا چا ہے پڑھے) اس کی دعا قبول کی جائے گی، پھر اگر وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کی نماز قبول کی جائے گی۔  (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

تعار کے معنی بعض نے نیند سے بیدار ہونے اور بعض نے کروٹ لینے کے لکھے ہیں اور ابن مالک نے اس کے معنی آواز کے ساتھ جاگنے کے لکھے ہیں جیسا کہ بیدار ہونے کے وقت منہ سے آواز نکلتی ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے پسند اور بہتر فرمایا ہے کہ جاگنے کے بعد جو آواز منہ سے نکلے وہ تسبیح وغیرہ کی آواز ہو چنانچہ اللہ سے تعلق رکھنے والے جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ان کے منہ سے کلمہ یا اسی قسم کی تسبیح و دعا کی آواز نکلتی ہے۔

بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس دعا کو جو نیند سے بیدار ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے درھم الکیس  فرماتے ہیں یعنی جس طرح کوئی آدمی درہم و روپیہ تھیلی میں رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے اس میں سے نکالتا ہے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے اسی طرح یہ دعا ہے جو مومن کے قلب و دماغ میں محفوظ رہتی ہے جب وہ نیند سے بیدار ہوتا ہے اور یہ دعا اس کے منہ سے نکلتی ہے تو وہ بارگاہ رب العزت میں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔

 

                    جاگنے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

 

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو (نیند سے) بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے لَا اِلٰہ اِلَّا اَنْتَّ سُبْحَانَکَ اَللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَسْتَغْفِرُکَ لِذَنْبِی وَاَسْأَلُکَ رَحْمَتَکَ اَللّٰھُمَّ زِدْنِی عِلْماً وَلَا تُزِغْ قَلْبِی بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنِی وَھَبْ لِی مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔) (اے اللہ ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے ، اے اللہ ! میں تیری تعریف کے ساتھ تیرے تسبیح کرتا ہوں، اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ ! میرے علم میں زیادتی عطا فرما اور مجھے ہدایت یا فتہ بنانے کے بعد (حق سے باطل کی طرف میرے دل میں کجروی پیدا نہ ہونے دے اور اپنے پاس سے میرے لیے (ایمان و ہدایت پر ثابت قدمی اور دینی توفیق کی) رحمت عطا فرما بے شک تو ہی بخشنے والا ہے۔

 

                   رات کو بیداری کے بعد ذکر اللہ کی فضیلت

 

اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، جو بھی مسلمان رات کو پاکی کی حالت میں (یعنی وضو یا تیمم کر کے) ذکر اللہ کرتا ہوا سو جائے اور پھر رات کو بیدار ہونے کے بعد اللہ سے بھلائی کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے (دنیا یا آخرت میں ضرور ہی بھلائی دیتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، ابوداؤد)

 

                   نماز تہجد سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تسبیح و دعا

 

اور حضرت شریق الہوزنی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم رات کو بیدار ہونے کے بعد (عبادت) کس چیز سے شروع کرتے تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ تم نے مجھ سے (آج) وہ چیز پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھی (تو سنو کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو بیدار ہوتے تو (پہلے) اللہ اکبر دس مرتبہ الحمد اللہ دس مرتبہ، سبحان اللہ وبحمدہ دس مرتبہ، سبحان الملک القدوس دس مرتبہ کہتے ، دس مرتبہ استغفار کرتے ، لا الہ الا اللہ دس مرتبہ کہتے اور دس مرتبہ یہ کہتے : اللھم انی اعوذ بک من ضیق الدنیا وضیق یوم القیامۃ (اے پروردگار ! میں تجھ سے دنیا کی تنگی (یعنی سختیوں) اور آخرت کی تنگی سے پناہ مانگتا ہوں۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز تہجد شروع فرماتے)  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے ہاں دس تسبیحات ہیں جو سات سات مرتبہ پڑھی جاتی ہیں اور جنہیں ان کی اصطلاح میں  مسبعات عشرۃ  کہتے ہیں ، اس حدیث میں سات تسبیحات ہیں جنہیں دس دس مرتبہ پڑھنا ذکر کیا گیا۔ چنانچہ صوفیاء کی اصطلاح  مسبعات عشرہ کے مقابلہ میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں اس حدیث میں مذکورہ تسبیحات اور ان کے اعداد کو  معشرات سبعہ کہتے ہیں۔

 

 

 

٭٭حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر یہ پڑھتے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّ کَ وَلاَ اِلٰہَ غَیْرکْ (اے اللہ تو پاک ہے ہم تیر حمد کرتے ہیں تیرا نام بابرکت ہے تیری بزرگی بلند ہے اور تیرے سوا کوئی کوئی معبود نہیں ہے) پھر اللہ اکبر کبیرا (ا اللہ بہت بڑا ہے بڑا) کہتے اور یہ دعا پڑھتے۔ اَعُوْذُ بِاﷲ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیَطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمَزَہٖ وَنَفَخَہٖ وَنَفْثِہٖ (میں اللہ سننے والے ، جاننے والے کی شیطان مردود سے ، اس کے وسوسے سے ، اس کے تکبر سے اور اس کے برے شعر سکھانے سے پناہ مانگتا ہوں، (جامع ترمذی و ابوداؤد ، سنن نسائی) ابوداؤد نے اپنی روایت میں حدیث کے الفاظ ولا الہ غیرک کے بعد یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ پھر آپ لا الہ الا اللہ تین مرتبہ کہتے اور آخر حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ پھر پڑھتے یعنی اَعُوْذُ بِاﷲ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ الخ پڑھنے کے بعد قرأت فرماتے۔

 

 

٭٭اور حضرت ربیعہ کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرہ مبارک کے قریب ہی رات بسر کیا کرتا تھا ، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سنا کرتا تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو (تہجد کی) نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دیر تک سبحان رب العالمین (تمام عالم کا پروردگار پاک ہے) کہا کرتے تھے ، پھر دیر تک کہتے سبحان اللہ وبحمدہ (اللہ پاک ہے میں اس کے تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتا ہوں (سنن نسائی) ترمذی نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

                    رات کے قیام پر رغبت دلانے کا بیان

 

قیام اللیل (رات کے قیام) کا مطلب ہے  رات کو عبادت خداوندی مثلاً نماز تہجد اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہنا  اسی مناسبت سے  قائم اللیل ان خوش نصیب اور سعادت لوگوں کو کہا جاتا ہے جو راتوں کو اٹھ کر اپنے پروردگار کی عبادت اور اس کے ذکر و یاد میں مشغول رہتے ہیں۔

 

                    رات کو عبادت خداوندی سے روکنے کے لیے شیطان کی مکاریاں

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔  جب تم میں سے کوئی آدمی (رات کو) سوتا ہے تو شیطان مردود اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے ، ہر گرہ پر (یہ کہہ کر) مارتا ہے (یعنی اس کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے) کہ  ابھی بہت رات باقی ہے سوتا رہ  لہٰذا اگر کوئی آدمی (شیطان کے اس مکر میں نہیں آتا اور عبادت الہٰی کے لیے) جاگتا ہے اور (دل میں ہی یا زبان سے) اللہ کو یاد کرتا ہے تو (غفلت و سستی کی) ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وہ وضو کرتا ہے تو (نجاست کی) دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اس کے بعد جب نماز پڑھتا ہے تو (کسالت و بطالت کی) تیسری گرہ (بھی کھل جاتی ہے چنانچہ ایسا آدمی شادماں اور پاک نفس صبح کرتا ہے ورنہ وہ (جو آدمی نہ جاگتا ہے نہ ذکر کرتا ہے اور نہ وضو کر کے نماز ہی پڑھتا ہے تو وہ) کاہل اور پلید نفس صبح کرتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

گرہ کے معنی و مراد کے تعین میں اختلاف ہے ابن مالک کا قول یہ ہے کہ  گرہ سے مراد  کسل و سستی کی گرہ ہے یعنی شیطان اپنی مکاریوں کے ساتھ رات کو عبادت خداوندی کے لیے اٹھنے والوں کے کسل و سستی کا باعث ہوتا ہے۔

میرک شاہ کے قول کے مطابق بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ  یہ حقیقت پر محمول ہے یعنی شیطان مردود واقعی سونے والے کی گدی پر گرہ لگا دیتا ہے جیسا کہ جادوگر جادو کرتے وقت کسی پر گرہ لگاتے ہیں اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جو مرقات میں منقول ہے۔

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ مجاز پر محمول ہے گویا گرہ لگانا جو ساحر کا فعل ہے کہ وہ اس کے ذریعے مسحور کو اس کی مراد سے روک دیتا ہے اس کے ساتھ سونے والے کو رات کو نماز پڑھنے اور ذکر اللہ میں مشغول ہونے سے شیطان کے روکنے کو مشابہت دی گئی ہے۔ یعنی جس طرح ایک ساحر سحر کے وقت کسی پر گرہ لگا کر اس کو اس کے مقاصد سے روک دیتے ہیں بائیں طور کہ مسحور کی عملی قوتیں مفلوج ہو جاتی ہیں اسی طرح شیطان رات کو سونے والوں کو اپنی مکاریوں کے ذریعے اللہ کے ذکر اور نماز میں مشغول ہونے کے لیے اٹھنے سے روک دیتا ہے۔

کچھ علماء کا قول یہ ہے کہ  اس سے مراد دل کی گرہ اور شیطان کی طرف سے سونے والے کو ایک چیز پر مصمم اور قائم کرنا ہے یعنی شیطان سونے والے کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے اور اس بات کا اسے یقین دلاتا ہے کہ ابھی رات بہت باقی ہے ، سوتا رہ، لہٰذا بندہ شیطان کی فریب کاریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بیدار ہو کر نماز پڑھنے سے رک جاتا ہے۔

حدیث کے آخر جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی رات کو شیطان کے مکر و فریب میں نہیں پھنستا اور اس کے بہکا وے میں نہیں آتا بلکہ وہ وقت پر اٹھ کر نماز تہجد اور ذکر اللہ میں مشغول ہو جاتا ہے تو اس کے لیے صبح اپنی جلو میں شادمانی و خوش نصیبی اور نفس کی پاکی و پاکیزگی کی سعادتیں لیے ہوئے آتی ہے جس کی وجہ سے وہ تمام دن اللہ کی رحمتوں کے سائے میں رہتا ہے اور اس کا دل و دماغ ہر قسم کے خوف و خطر سے لا پروا ہو کر دین و دنیا کے امور میں اطمینان سے لگا رہتا ہے۔

اس کے برخلاف جو آدمی رات کو شیطان کی عیاریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے مکر کے جال میں پھنس جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ رات کو اٹھ کر ذکر اللہ کرتا ہے اور نہ ہی نماز تہجد میں مشغول ہوتا ہے بلکہ سویا رہتا ہے تو اس کے لیے صبح اپنے دامن میں کسالت و بطالت و غفلت و پلید نفسی کے غلیظ ڈھر لے کر آتی ہے جس کی وجہ سے وہ تمام دن پلید نفس، غمگین دل، متفکر اور اپنے امور کی انجام دہی میں حیران و پریشان اور کسل مند رہتا ہے یعنی سستی و غفلت کی وجہ سے وہ اپنے جس کام کو بھی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس میں ناکام اور بد دل رہتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے مکر و فریب کے جال میں مقید اور قرب خداوندی کی رحمتوں سے دور ہوتا ہے۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کثرت عبادت اداء شکر کے لیے ہوتی تھی

 

اور حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے رات کو (نماز پڑھنے کے لیے) اس قدر قیام کیا (یعنی اتنی دیر تک کھڑے رہے) کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک پاؤں پر ورم آگیا (یہ حال دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس قدر عبادت کیوں کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  کیا میں اللہ کا شکر ادا کرنے والا بندہ نہ بنوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے تمام گناہ بخشش دئیے ہیں اور مجھے دین و دنیا کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے تو کیا میرا حق یہی ہے کہ میں عبادت کی محنت و مشقت اٹھا کر اس اللہ کا جس نے مجھے اپنی بیشمار رحمتوں اور نعمتوں سے سرفراز کیا ہے شکر گذار بندہ نہ بنوں؟ نہیں بلکہ اللہ نے مغفرت و بخشش کی جو نعمت مجھے عطا فرمائی ہے۔ اور اپنی جس لا محدود اور بے انتہا نعمتوں سے مجھے نوازا ہے اس کے پیش نظر میرا فرض ہے کہ میں اس کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت و مشقت اٹھاؤں اور زیادہ سے زیادہ عبادت کروں تاکہ اس کا شکر ادا کرنے والا بندہ بن جاؤں۔

عباد کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ کا مقولہ: حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ذات علم و فضل، ذہانت و فراست اور عقل و دانش کے اعتبار سے پوری امت میں امتیازی مقام کی حامل ہے عبادت کے بارے میں انہوں نے جو تجزیہ فرمایا ہے اور جو رائے قائم کی ہے اسے سنئے اور اپنے لیے مشعل راہ قرار دیجئے فرمایا

جن لوگوں نے (نعمتوں کی) طلب یعنی جنت کی آرزو اور ثواب کی تمنا) میں عبادت کی تو ایسی عبادت سوداگروں کی عبادت ہے۔

جن لوگوں نے (اللہ تعالیٰ کا عذاب اور دوزخ کے) ڈر سے عبادت کی تو وہ غلاموں کی عبادت ہے۔

اور  جن لوگوں نے اپنے مولی کی دی ہوئی نعمتوں کی ادائیگی شکر کے لیے عبادت کی تو وہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔ (اور یہی عبادت سب سے اونچے درجے کی عبادت ہے)۔

 

                   رات کو خداوند کی عبادت کے لیے نہ اٹھنے والے کی برائی

 

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک آدمی کا ذکر آیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا کہ وہ آدمی صبح تک سویا رہتا ہے نماز کے لئے نہیں اٹھتا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  وہ ایسا آدمی ہے کہ اس کے کان میں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کے دونوں کانوں میں شیطان پیشاب کرتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

نماز سے مراد تہجد کی نماز بھی ہو سکتی ہے اور فجر کی نماز بھی یعنی یا تو یہ آدمی تہجد کی نماز کے لیے نہیں اٹھتا ہو گا یا یہ کہ فجر کی نماز اس کی قضا ہو جاتی ہو گی۔

بہر حال شیطان کے پیشاب کرنے کے بارے میں بعض علماء نے کہا ہے کہ حقیقۃً ایسا ہوتا ہے چنانچہ بعض صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ (کسی دن) ان کی آنکھ نہ کھلی جس کی وجہ سے (تہجد یا فجر کی فرض) نماز پڑھ سکے چنانچہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی جو سیاہ رنگ کا تھا آیا اور اس نے اپنا پیر اٹھا کر ان کے کان میں پیشاب کر دیا۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ  شیطان کا پیشاب کرنا  اس بات سے کنایہ ہے کہ شیطان ایسے آدمی کو حقیر و ذلیل سمجھتا ہے کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جو آدمی کسی چیز کو حقیر و کمتر سمجھتا ہے تو اس پر پیشاب کر دیتا ہے۔

 

 

                   عورتوں کے لیے نماز تہجد کا ذکر

 

اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ ایک روز رات کو سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم گھبرا کر یہ کہتے ہوئے بیدار ہو گئے کہ سبحان اللہ ! آج کی رات کس قدر خزانے اتارے گئے ہیں اور کس قدر فتنے نازل کئے گئے ہیں، ہے کوئی جو ان حجروں والیوں کو اٹھا دے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد ازواج مطہرات سے تھی کہ وہ (اٹھ کر) نماز پڑھیں تاکہ رحمت خداوندی حاصل کر سکیں اور عذاب و فتنوں سے بچ سکیں کیونکہ اکثر عورتیں دنیا میں تو کپڑے پہننے والی ہیں لیکن آخرت میں ننگی ہوں گی۔  (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ جو خزانے اور مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں مقدر ہو چکے تھے کہ کس امتی کو کتنا مال و زر ملے گا اور کسی امتی کی قسمت میں کتنی دولت لکھی ہے اس رات کو ان کا اترنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہو گیا تھا اس طرح اس رات کو جتنے فتنے مقدر ہو چکے تھے وہ بھی اس رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے ہی سے معلوم ہو گئے تھے۔

ملا علی قاری اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں  خزانے سے مراد رحمت خداوندی اور فتنے سے مراد اس کا عذاب ہے۔

عورتوں کے لیے وعید: حدیث کے آخری جز کے کئی مطلب ہیں اول یہ کہ اکثر عورتیں دنیا میں تو طرح طرح کے اور عمدہ سے عمدہ کپڑے پہنیں اور ان پر فخر و مباہات کریں گی حالانکہ ان کی حالت یہ ہو گی کہ حکم خداوندی کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ آخرت میں نیک اور اچھے اعمال سے خالی ہوں گی۔ دوم یہ کہ اکثر عورتیں دنیا میں نیند کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی یعنی نیند کی غفلت کی وجہ سے اللہ کی یاد سے غافل ہوں گی جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آخرت میں اچھے درجات اور بڑائیوں سے خالی ہوں گی ، سوم یہ کہ اکثر عورتیں جسم کو ظاہر کرنے والے ایسے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی کہ وہ دنیا میں لباس پوش ہوں گی مگر آخرت کے حکم کے اعتبار سے ننگی ہوں گی یعنی جو کپڑے دیکھنے میں عمدہ خوبصورت اور باریک معلوم ہوتے ہیں جیسے کہ جالی اور نائیلون وغیرہ کے کپڑے کہ جن کا عورتوں کے لیے استعمال کرنا ازروئے شرع ممنوع ہے ایسے کپڑوں والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔

اس حدیث سے ان عورتوں کو خاص طور پر عبرت حاصل کرنی چاہیے جو آج کے فیشن زدہ دور میں کپڑوں کے معاملے میں انتہائی بے راہ روی اور غیر شرعی طریقہ اختیار کئے ہوئے اور ایسے ایسے کپڑے استعمال کرتی ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول کی مرضی کے خلاف اور آخرت کے عذاب کا موجب ہیںَ

مائیں اور بہنیں کان کھول کر سن لیں کہ دنیا چا ہے جتنی فیشن زدہ ہو جائے ، تہذیب و تمدن چا ہے جتنے عروج پر پہنچ جائیں اور انسان کی ذہنی و فکری اور عملی جولانیاں چا ہے چاند کو مسخر کر لیں ، اسلام اور پیغمبر اسلام کے وہ فرمان جو آج سے چودہ سو سال پہلے جاری ہوئے تھے آج بھی پوری طرح موجود ہیں، ان کی اہمیت اور ان پر عمل کرنے کی شدت کسی حال میں بھی ختم نہیں ہو سکتی ، اسلامی اور شرع احکام کا دقیانوسیت کے الفاظ سے مذاق اڑا کر ، فیشن کا نام لے کر آج بھلے کوئی عورت اپنی ظاہری زندگی کو اور دنیا کی نظروں میں جاذب نظر دیدہ زیب اور ماڈرن معزز بنا لے مگر اسے یاد رکھ لینا چاہیے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی اور موجودہ فیشن کے فانی رنگ و روپ کو ختم کر کے ایک دن اسے اس اللہ کی بارگاہ میں پہنچنا ہے جو غفار و رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ جبار و قہار بھی ہے اور پھر انہیں وہاں اپنی بد عملیوں کا جواب دینا ہو گا۔

 

                   رحمت خداوندی کے نزول کا وقت

 

اور حضر ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہر رات کو آخر انتہائی رات کے وقت ہمارا بزرگ و برتر پروردگار دنیا کے آسمان (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اسے قبولیت بخشوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت کا طلبگار ہو اور میں اسے بخشوں؟ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ پھر اللہ جل شانہ اپنے (لطف و رحمت کے) دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہے جو ایسے کو قرض دے جو نہ فقیر ہے اور نہ ظلم کرنے والا ہے اور صبح تک یہی فرماتا رہتا ہے۔

 

تشریح

 

یَنْزِلُ رَبَّنَا (ہمارا رب نزول فرماتا ہے) کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ جل شانہ خود آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے کیونکہ وہ جسم کی ثقالت و کثافت سے پاک و صاف ہے اور ایسا نور ہے جو ہمہ وقت کائنات کے ذرے ذرے پر محیط و حاوی ہے اور کسی خاص مقام و کسی وقت کا پابند نہیں ہے۔

چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے اس کی تاویل کرتے ہوئے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ  اللہ جل شانہ کا فرمان، اس کی رحمت یا اس کی ملائکہ اس وقت آسمان دنیا پر اترتے ہیں (ا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکورہ اعلان کرتے ہیں) چنانچہ اس کی تائید ایک حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے جو مرقات میں مذکور ہے ، یا پھر یہ کہا جائے کہ یہ ارشاد متشابہات میں سے ہے جس کے حقیقی معنی و مطلب اللہ جل شانہ ہی جانتے ہیں۔

مَنْ یَّدْ عُوْنِی دعا کے معنی ہیں پکارنا جیسا کہ بندہ کہے  یا رب اس کے مقابلے پر اجابت اور قبولیت ہوتی ہے جیسے کہ پروردگار بندے کے اس پکارنے کے جواب میں کہے لبیک عبدی مَنْ یَّسْاَلَنِیْ سوال کے معنی  کسی کا مانگنا اور اس کا طلب کرنا  اور اس کے مقابلے میں سوال کا پورا کرنا ہے یعنی جو چیز طلب کی جائے اور مانگی جائے اس کا دینا۔

یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں منقول ہے کہ  اللہ جل شانہ (آسمان دنیا پر) اس وقت نزول فرماتا ہے جب اول تہائی رات گذر جاتی ہے  نیز اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں منقول ہے کہ  اس وقت نزول فرماتا ہے جب آدھی رات یا دو تہائی رات گزرتی ہے  کیونکہ احتمال ہے کہ بعض صورتوں میں تو نزول آخری تہائی رات کے وقت، بعض راتوں کو اول تہائی رات کے گزرنے کے بعد اور بعض راتوں کو آدھی یا دو تہائی رات گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔

مَنْ یُّقْرِضُ کون ہے جو قرض دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کون ہے جو بطریق قرض اور جزا لینے کے لیے بدنی اور مالی عبادت اللہ جل شانہ کو دے جو نہ تو فقیر ہے اور نہ عطا و بخشش سے عاجز ہے نیز یہ کہ نہ ظلم کرنے والا ہے کہ اپنے عہد کو پورا نہ کرے یا ناقص ثواب دے۔ یعنی اس پیرائے سے مسلمانوں کو دنیا میں نیک و صالح عمل کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ کون خوش نصیب اور با سعادت مسلمان ہے جو آخرت کی سعادتوں و راحتوں اور وہاں کے ثواب کی امید میں اس غنی پروردگار کے لیے دنیا میں نیک عمل کرے جو اس کے حق یعنی آخرت میں دنیا کے نیک عمل کا ثواب دینے سے عاجز نہیں ہے اور کون خوش نصیب و سعادت مند مومن ہے جو اس عادل اللہ کے لیے دنیا میں نیک عمل کرتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کا ثواب اس کے عمل سے بھی کئی گنا زیادہ کر کے دیتا ہے۔

اس سلسلہ میں یہ بات بطور خاص قابل غور ہے کہ یہاں اللہ جل شانہ کی تعریف بایں طور کی گئی ہے اس کی پاک ذات سے ان دونوں صفات یعنی فقر اور ظلم کی نفی کی گئی ہے کیونکہ قرض کی واپسی کے سلسلے میں یہی دونوں صفتیں حائل ہوتی ہے۔ اگر کوئی عاجز و فقیر ہوتا ہے تو وہ قرض کی واپسی سے معذور ہوتا ہے۔ اگر کوئی آدمی ظالم ہوتا ہے تو اپنے ظلم کی بنا پر قرض کی پوری ادائیگی نہیں کرتا بلکہ اس میں کمی و نقصان کر کے واپس کر دیتا ہے اور اللہ جل شانہ کی ذات ان دونوں صفتوں سے پاک ہے۔

نہ تو وہ ظالم ہے اور نہ عاجز فقیر ہے بلکہ عادل ہے اور غنی ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آدمی دنیا میں بھلائی کرے گا اور نیک عمل کرے گا وہ اللہ جل شانہ کے پاس عقبی میں کامل جزاء اور ثواب پائے گا۔

 

                   ہر رات میں قبولیت کی ایک ساعت ہوتی ہے

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رات کو ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ جو مسلمان اسے پاتا ہے اور اس میں اللہ جل شانہ سے دنیا یا آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے (ضرور) پورا فرماتا ہے اور (قبولیت کی) یہ ساعت ہر رات میں ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ہر شب کو ایک گھڑی ضرور آتی ہے جو قبولیت کی خوشخبری اپنے دامن میں لیے ہوئی آتی ہے جس با سعادت و خوش نصیب مسلمان کو وہ ساعت اور وہ گھڑی نصیب ہو جاتی ہے۔ اور وہ اس میں جل شانہ کے سامنے اپنی جس دنیاوی و اخروی بھلائی کے لیے درخواست پیش کرتا ہے با مراد و کامیاب ہوتا ہے اور اس کی درخواست بارگاہ رب العزت سے قبولیت کا درجہ پاتی ہے ہاں وہ قبولیت اللہ جل شانہ کی طرف سے عطا و بخشش حکما بھی ہو سکتی ہے اور حقیقۃً بھی۔

ساعت قبولیت کے تعین کے بارے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ یہ ساعت مبہم ہے جیسے لیلۃ القدر اور ساعت جمعہ کہ ان میں کسی خاص وقت کے بارے میں تعین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ساعت فلاں وقت اور فلاں ٹائم آتی ہے اسی طرح ہر رات کو بھی قبولیت کی ساعت کا کوئی خاص وقت اور ٹائم مقرر نہیں ہے بلکہ کسی بھی وقت آ جاتی ہے بعض علماء فرماتے ہیں کہ نصف شب کا وقت ساعت قبولیت ہے وا اللہ اعلم۔

 

                   حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز اور روزے

 

اور حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ کو تمام نمازوں میں سے حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز زیادہ پسند اور تمام روزوں میں سے حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے زیادہ پسند ہیں اور ان کی نماز کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ وہ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے (یعنی نماز پڑھتے) اور پھر رات کے چھٹے حصے میں سوتے اور وہ (روزہ اس طرح رکھتے تھے) ایک دن تو روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چونکہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز اور ان کے روزے کا یہ طریقے بہت پسند تھا اس لیے اس طریقہ کے مطابق پڑھی جانے والی نفل نماز اور رکھے جانے والے نفل روزے اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔

مذکورہ بالا طریقے سے رات کو پڑھی جانے والی نماز اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اس لیے ہے کہ جب کوئی آدمی رات کے دو تہائی حصے سوئے گاا ور اس کا نفس اتنی دیر تک آرام کر لے گا تو اس کی عبادت پوری فرحت و بشاشت اور قلب و دماغ کے پورے نشاط کے ساتھ ادا ہو گی۔

اس طرح مذکورہ بالا طریقے سے رکھے جانے والے روزے بھی اس لیے پسندیدہ ہیں کہ اس میں نفس کو بہت زیادہ محنت و مشقت ہوتی ہے جو حاصل عبادت ہے۔

 

                   رات کی عبادت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول

 

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم (رات اس طرح بسر کرتے تھے کہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے ابتدائی حصے میں تو سوتے تھے اور رات کے آخری حصہ کو زندہ رکھتے (یعنی بیدار رہتے اور عبادت کرتے تھے) پھر اگر آپ کو اپنی زوجہ مطہرہ سے (ہم بستری کی) ضرورت ہوتی تو اپنی ضرورت پوری کرتے اور سو جاتے ، چنانچہ اگر آپ (فجر کی) پہلی اذان کے وقت حالت ناپاکی میں ہوتے تو اٹھتے اور اپنے بدن پر پانی ڈالتے (یعنی نہاتے) اور اگر ناپاکی کی حالت میں نہ سوتے تو نماز کے لیے وضو کرتے اور پھر فجر کی سنت کی دو رکعتیں پڑھتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

شمائل میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ روایت تفصیلی طور پر اس طرح بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے ابتدائی حصہ میں (یعنی عشاء کی نماز کے بعد سے آدھی رات تک) سوتے پھر رابع و خامس سادس یعنی چوتھے و پانچویں و چھٹے حصے میں تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے جب سحر کا وقت ہوتا تو وتر پڑھتے پھر بستر پر (آرام فرمانے کے لیے) تشریف لے آتے (کیونکہ نماز تہجد وغیرہ سے فراغت کے بعد اور نماز فجر سے پہلے کچھ دیر تک آرام کرنا مستحب ہے تاکہ فجر کی نماز اور اس کے بعد کے اوراد و وظائف کی ادائیگی کے لیے بشاشت و قوت حاصل ہو سکے) پھر اگر کسی دن آپ کو اپنی زوجہ مطہرہ سے ہم بستری کی ضرورت ہوتی تو اسے پورا کرتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی اذان سن کر اٹھتے اور اگر حالت ناپاکی میں ہوتے تو اپنے بدن پر پانی ڈالتے یعنی نہاتے اور اگر حالت ناپاکی میں نہ ہوتے تو وضو کرتے اور فجر کی سنت کی دونوں رکعتیں گھر ہی میں پڑھ کر نماز کے لیے باہر مسجد میں تشریف لے جاتے۔

اس تفصیل کی روشنی میں حدیث بالا کے ابتدائی جزء  رات کے ابتدائی حصے میں سوتے اور رات کے آخری حصہ کو زندہ رکھتے تھے  کے معنی واضح ہو گے ہیں۔

بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وظیفہ زوجیت سے فراغت کے بعد وضو کرتے ہوں گے ، اس کے بعد پھر سوتے ہوں گئے۔

ندائے اول  (پہلی اذان) سے مراد اذان متعارف ہے اور  دوسری اذان تکبیر کو کہتے ہیں۔

حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آدھی رات تو سوتے تھے اور آدھی رات اپنے پروردگار کی عبادت میں گزارتے تھے ، کیونکہ اول سدس یعنی رات کے ابتدائی چھٹے حصے میں عشاء تک جاگتے تھے پھر عشاء کے بعد دوسرے تیسرے سدس میں آرام فرماتے تھے پھر چوتھے اور پانچویں سدس میں بیدار رہتے اور چھٹے میں سو جاتے اس طرح تین سدس تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سوتے اور تین سدس بیدار رہتے۔ (صلی اللہ علیہ و سلم)

 

                   نماز تہجد پڑھنے کی تاکید و فضیلت

 

اور حضرت ابو امامہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قیام اللیل (یعنی نماز تہجد پڑھنے کو) ضروری جانو کیونکہ (اول تو) یہ طریقہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا ہے اور پھر مزید یہ کہ) قیام لیل تمہارے لیے پروردگار کی نزدیکی اور گناہوں کے دور ہونے کا سبب ہے ، نیز یہ کہ تمہیں گناہوں سے باز رکھنے والا ہے۔ (جامع ترمذی)

 

 

تشریح

 

نیک لوگوں سے مراد پہلے زمانے کے انبیاء اور اولیاء ہیں گویا اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کے لوگوں کو تنبیہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں تو یہ نماز بطریق اولیٰ پڑھنی چاہیے کیونکہ تم تو پہلے کی تمام امتوں سے بہتر اور اعلیٰ ہو۔

یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جو لوگ تمام فرائض کی نماز تو پڑھتے ہیں لیکن تہجد کی نماز نہیں پڑھتے تو وہ صالحین کا ملین کے زمرے میں داخل نہیں ہیں بلکہ ان کا درجہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ظاہری طور پر زکوٰۃ دینے والوں کا درجہ ہوتا ہے ان لوگوں کے مقابلے پر جو پوشیدہ طور پر زکوٰۃ دیتے ہیں۔

 

                   نماز تہجد پڑھنے والوں کی خوش بختی

 

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تین (قسم کے) لوگ ایسے ہیں جن کی طرف (دیکھ کر) اللہ جل شانہ ہنستا ہے (یعنی ان سے بے حد خوش ہوتا ہے اور ان کی طرف اپنی رحمت و عنایت کی نظر فرماتا ہے) (١) وہ آدمی جو رات کو تہجد کی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے (٢) وہ لوگ جو نماز پڑھنے کے لیے اپنی صفوں کو درست کرتے ہیں (٣) وہ لوگ جو دشمنوں سے لڑنے کے لیے (یعنی جہاد کے وقت) صف بندی کرتے ہیں۔ (شرح السنۃ)

 

                   نماز تہجد پڑھنے والوں کی خوش بختی

 

اور حضرت عمرو بن عنبسہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  پروردگار اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب آخری شب میں ہوتا ہے لہٰذا اگر تم بھی اس وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں میں ہو سکتے ہو تو ضرور ہو یعنی اس بات کی کوشش کرو تم بھی ان خوش نصیب مسلمانوں میں شمار کئے جاؤ جو اس وقت اپنے پروردگار کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور سعادت میں خوش بختی کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر پروردگار کی رضا و خوشنودی کو اپنے قریب تر پاتے ہیں) امام ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور سند کی وجہ سے غریب ہے۔

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کا آخر حصہ بایں طور افضل و اشرف ہے کہ وہ اپنے دامن میں پروردگار کی رحمتوں اور اس کی عنایتوں کے خزانے سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ، اب یہ قسمت اور مقدر والوں کی بات ہے کہ کون اس خزانے سے مستفید ہوتا ہے اور کون محروم رہ جاتا ہے۔

چنانچہ جن کی طبیعت سعادت مند ہوتی ہے وہ رات کے اس حصے میں اٹھ کر رحمت خداوندی کے خزانے سے اپنے دامن کو بھرتے ہیں اور جو حرماں نصیب ہوتے ہیں وہ شیطان کی لوریاں کھا کھا کر نہ صرف اپنے دل و دماغ اور جسم کو نیند کے حوالے کئے ہوتے ہیں بلکہ ان کی سعادت اور ان کی خوش بختی بھی غفلت و سستی کی نذر ہو جاتی ہے۔

بہر حال پروردگار کا اپنے بندے سے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رضا و خوشنودی بندے سے قریب تر ہوتی ہے اور اس کی رحمتوں کا سایہ بندے کے اوپر ہوتا ہے۔

آخری نصف رات سے رات کا وہ حصہ مراد ہے جس کی ابتداء ثلث آخر (یعنی آخری تہائی) سے ہوتی ہے اور وہی وقت تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے کا ہوتا ہے۔

حضرت عمرو بن عنبسہ جنہیں لسان نبوت سے حدیث میں مذکورہ سعادت حاصل کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے حضرت حق جل مجدہ کی درگاہ کبریائی کے ایک مجذوب اور دربا رسالت (صلی اللہ علیہ و سلم) کے ایک مقرب اور زی شان خادم تھے ان کی بہت زیادہ عظمت اور فضیلت ہے۔

ابتداء ظہور نبوت میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں کفر و شرک سے اکڑی ہوئی ہوئی گردنوں کو خدائے واحد کے حضور میں جھکانے کی سعی میں مصروف تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تبلیغ کی ابتداء ہو چکی تھی تو حضرت عمرو بن عنبسہ اپنے وطن میں تھے یکایک ان کے دل میں نور توحید ضوفشاں ہوا اور شرک و بت پرستی کی کراہیت و نفرت نے بے چین کر دیا، جب ہی سنا کہ ایک آدمی مکہ میں پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو توحید کی طرف بلاتا ہے اور بتوں کی عبادت سے منع کرتا ہے ، یہ سنتے ہی قلب مضطر نے فوراً ہی مکہ پہنچنے پر مجبور کر دیا ، انہوں نے مکہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں دریافت کیا ، رسول اللہ (فداہ روحی) اس زمانے میں کفار کی شدید مخالفت اور دشمنان دین کی بے پناہ سختیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے دشمنوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اللہ کے دین کی تبلیغ اور اس کی عبادت میں مصروف تھے ، حضرت عمرو بن عنبسہ نے لوگوں سے پوچھا کہ  تم میں کون آدمی پیدا ہوا ہے جو تمہاری روش اور تمہارے راستے سے ہٹ کر دوسرے دین کی طرف دنیا کو بلاتا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہے کہ  ہاں ایک دیوانہ ہے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عقل و دانش پر دونوں جہان قربان) جس نے اپنے باپ دادا کا طریقہ اور راستہ چھوڑ دیا ہے اور ایک نئی رسم نکالی ہے۔

دیوانہ کنی ہر دوجہانش بخشی

دیوانہ تو ہر دوجہاں راچہ کند

انہوں نے پوچھا کہ  اچھا وہ کہاں ملیں گے ؟ لوگوں نے کہا کہ  وہ آدمی آدھی رات کو باہر نکالتا ہے اور اس خانہ کعبہ کے اردگرد گھومتا ہے۔

حضرت عمرو بن عنبسہ آدھی رات کے وقت حرم شریف میں آئے اور کعبۃ اللہ کے پردہ مبارک میں چھپ کر کھڑے ہوئے اچانک دیکھا کہ ایک آدمی ظلمتوں کے پردوں کو چیرتا ہوا نور کی ایک دنیا اپنے جلوؤں میں لیے نمودار ہوا۔ اس آدمی کی سراپا کشش، آدمییت اور نورانی چہرے و جسم کا یہ عالم کہ مہر و ماہ اس کے سامنے شرمندہ اور دنیا کے تمام لوگ اس کے پاک آستانے کی خاک (صلی اللہ علیہ و سلم) عمرو فوراً پردہ سے نکل کر باہر آئے اور نمودار ہونے والے آدمی کو سلام کیا اور پوچھا کہ  آپ کون ہیں اور آپ کا دین کیا ہے۔؟ انہوں نے فرمایا کہ  میں اللہ کا رسول ہوں (صلی اللہ علیہ و سلم) اور میرا دین لا الہ الا اللہ ہے  یہ خوشی سے جھوم اٹھے اور فوراً بولے کہ  میں بھی اس دین کو پسند کرتا ہوں چنانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے جبھی ایمان لائے ، اس طرح حضرت عمرو بن عنبسہ تیسرے یا چوتھے مسلمان ہیں یعنی ان سے پہلے صرف دو یا تین آدمی ہی اسلام کی دولت سے مشرف ہو چکے تھے۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں رخصت کیا اور فرمایا کہ میرے  پروردگار نے مجھ سے ایک وعدہ کیا ہے۔ جب وہ وعدہ پورا ہو گا تو میرے پاس آنا  چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو عمرو بن عنبسہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل کی اور نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو درجۂ کمال پر پہنچا دیا۔

 

                   عبادت میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحمت نازل فرمائے جو رات کو اٹھ کر (خود بھی تہجد کی) نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے تاکہ وہ بھی نماز پڑھے اور اگر بیوی (نیند کے غلبے اور کثرت غفلت و سستی کی وجہ سے) نہ جاگے تو (اس کی نیند ختم کرنے کے لیے) اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے اور اللہ تعالیٰ اس عورت پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو رات کو اٹھ کر (خود بھی تہجد) کی نماز پڑھے اور اپنے خاوند کو جگائے تاکہ وہ بھی نماز پڑھے اور اگر شوہر (غلبہ و نیند و سستی کی وجہ سے) نہ جاگے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے سے مراد تہجد کی ہی نماز ہے لیکن اگر مرد و عورت کسی کی بھی کوئی نماز قضا ہو گئی ہو اور اس وقت اس کے ذمہ قضا ہو تو قضا نماز کا پڑھنا ہی اس وقت اولیٰ ہو گا۔

منہ پر پانی کے چھینٹے دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو نماز پڑھنے اور پروردگار کی عبادت کے لیے بیدار کرنے کے واسطے جس طرح بھی ممکن ہو ، سعی و کوشش کرے۔

بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ خاوند و بیوی جس طرح سماجی زندگی اور دنیاوی امور میں ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہوتے ہیں اسی طرح انہیں دینی امور، طاعت الہٰی اور عبادت خداوندی کے بارے میں ایک دوسرے کا مددگار و معاون بننا چاہیے اور اگر کسی وقت بیوی نماز نہ پڑھے تو شوہر کا حق ہے کہ وہ اسے جس طرح بھی ممکن ہو نماز پڑھنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح اگر خاوند نماز پڑھنے میں تساہل و سستی کرے یا کسی ایسی وجہ سے نماز پڑھنے سے رک جائے جو نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے تو بیوی کا حق ہے کہ وہ اسے پوری قوت سے نماز پڑھنے کے لیے کہے اور جو چیز اس کے نماز پڑھنے میں رکاوٹ بن رہی ہے اسے ختم کرے۔ مثلاً اگر میاں بیوی دونوں میں سے کوئی ایک اس طرح غفلت میں پڑا ہوا ہے کہ اس کی نماز خواہ فرض نماز ہو یا تہجد وغیرہ کی نماز رہی جاتی ہو تو دونوں میں سے جو بھی بیدار ہو وہ دوسرے کو بھی نیند سے اٹھائے اگر وہ نہ اٹھے تو ایسی ترکیب کرے جس سے اس کی نیند ختم ہو جائے اور وہ اٹھ کر نماز پڑھ سکے۔

اسی طرح کسی ایک جگہ اجتماعی طور پر رہنے والے لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں اور رفیقوں میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن کر رہیں اور ایک دوسرے کو نماز پڑھنے اور عبادت خداوندی میں مشغول و مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ کسی آدمی پر بھلائی کے معاملے میں جبر کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔

 

                   قبولیت دعا کا وقت

 

اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ  یا رسول اللہ ! کس وقت کی دعا بہت زیادہ مقبول ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  آخری تہائی رات میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ (جامع ترمذی)

 

                   اعمال صالحہ کرنے والوں کے لیے خوشخبری

 

اور حضرت ابو مالک اشعری راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کے باہر کی چیزیں اندر اور اندر کی چیزیں باہر دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ بالا خانے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے تیار کئے ہیں جو دوسرے لوگوں سے نرمی سے بات کرتے ہیں (غریب و ناداروں کو) کھانا کھلاتے ہیں، پے در پے (یعنی اکثر) نفل روزے رکھتے ہیں اور رات کو ایسے وقت (تہجد) کی نماز پڑھتے ہیں جب کہ (اکثر) لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ نیز جامع ترمذی نے بھی اس طرح کی روایت کو حضرت علی المرتضیٰ سے نقل کیا ہے مگر ان کی روایت میں لمن اطاب الکلام کے الفاظ ہیں (اور دونوں کے معنی ایک ہی ہیں)۔

 

تشریح

 

بعض علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں پے در پے نفل روزے رکھنے کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے تو اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ ہر مہینے میں کم سے کم تین روزے بہ نیت نفل رکھے جائیں۔

 

                    نماز تہجد کو ترک کرنے کی ممانعت

 

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک روز) مجھ سے فرمایا کہ  عبداللہ (دیکھو) فلاں آدمی کی طرح نہ ہو جانا کہ وہ رات کو قیام کرتا تھا (یعنی تہجد کی نماز پڑھتا تھا) پھر بعد میں رات کے قیام کو اس نے چھوڑ دیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

کوئی صحابی ہوں گے جو پہلے تو تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے مگر پھر بعد میں بغیر کسی عذر کے محض نفس کی خواہش میں مبتلا ہو کر اس عظیم سعادت سے کنارہ کشی کر بیٹھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو متنبہ فرمایا کہ دیکھو کہیں تم بھی انہیں کی طرح نماز تہجد کو چھوڑ کر فریب نفس میں مبتلا نہ ہو جانا کیونکہ ایسے لوگ جو نیک عمل کی عادت اور اپنے معمولات دینی کو بغیر کسی عذر و مجبوری کے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان لوگوں کے سلسلے میں داخل ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں صحیح فیصلہ یہی ہے کہ تَارِکُ الْوِرْدِ مَلْعُونٌ (یعنی معمولات دینی کو چھوڑنے والا ملعون ہے۔)

گویا اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عبادت خداوندی کو ترک کر دینا اور عادت یعنی نفسانیت کے غلط راستے کی طرف لوٹنا درحقیقت سعادت مندی اور صلاح و فلاح میں زیادتی کے بعد نقصان کا واقع ہو جانا ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بایں طور پناہ مانگی ہے کہ نعوذ باللہ من الحور بعد الکور (یعنی ہم زیادتی کے بعد نقصان کے واقع ہو جانے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔

لہٰذا راہ طریق و شریعت کے سالک کو چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی عبادت خداوندی اور ذکر اللہ کی عادت کو ترک نہ کرے اور اس میں کمی نہ اختیار کرے بلکہ ان میں زیادتی ہی کا طالب رہے کیونکہ یہ کہا گیا ہے  جو آدمی زیادتی کا طالب نہیں ہے وہ نقصان کے راستے پر ہے۔

 

                   رات کو حضرت داؤد علیہ السلام کی عبادت اور ساعت قبولیت

 

اور حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  حضرت داؤد کے لیے رات (کے آخری نصف حصہ میں) ایک وقت مقرر تھا جس میں وہ اپنے اہل خانہ کو جگاتے اور فرماتے کہ  آل داؤد ! اٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ یہ ایسا وقت ہے جس میں اللہ بزرگ و برتر دعا کو قبول فرماتا ہے سوائے جادوگر اور عشار (کی دعا) کے (یعنی ان دونوں کی دعا اس وقت بھی قبول نہیں ہوتی۔) (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

عشار سے چوکیدار قسم کے وہ راہزن مراد ہیں جو راستوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور لوگوں کے مال از راہ ظلم لے لیتے ہیں اس سے وہ عمال بھی مراد لیے جا سکتے ہیں جو محصول وغیرہ کی وصولیابی کے لیے مقرر ہوتے ہیں اور نا جائز و غلط طریقے پر لوگوں سے ان کے مال و اسباب غصب کرتے ہیں۔

بہر حال حاصل یہ ہے کہ اس مقدس ساعت اور رحمت خداوندی کے عام فیضان کے اس بابرکت موقع پر بھی ساحر یعنی جادوگر اور عشار کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ ان لوگوں سے اللہ کی مخلوق کو بہت تکلیف پہنچتی ہے اور پروردگار عالم ان لوگوں کے ساتھ کبھی بھی بہتر معاملہ نہیں فرماتا جو اس کی مخلوق کے لیے ایذا رسانی اور تکلیف و مصیبت کا سبب بنتے ہیں ، وجہ سے بعض عارفین کا یہ عارفانہ ارشاد ہے کہ  کمال عبودیت یعنی پوری طرح اللہ کا بندہ ہو جانا چاہیے کہ حکم خداوندی کی تعظیم کی جائے اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ شفقت و مہربانی کا برتاؤ کیا جائے۔

 

                   نماز تہجد کی فضیلت

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کو پڑھی جانے والی (یعنی تہجد کی) نماز ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

حضرت میرک شاہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت ابو اسحٰق مروزی شافعی کے اس قول کی دلیل ہے کہ تہجد کی نماز سنن رواتب سے افضل ہے جبکہ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ سنن رواتب افضل ہیں چنانچہ ابو اسحٰق مروزی ہی کا قول قوی تر ہے کیونکہ یہ حدیث صراحت کے ساتھ ان کے قول کی تائید کر رہی ہے۔

بہر حال اس مسئلے کی تحقیق یہ ہے کہ نماز تہجد بایں طور افضل ہے کہ اس نماز میں نفس بہت زیادہ مشقت میں مبتلا ہوتا ہے اور اس نماز کو پڑھنے والا ریا و نمائش سے بعید ہوتا ہے اور سنن رواتب بایں جہت افضل ہیں کہ فرض نمازوں کے ساتھ ان کے پڑھنے کے بہت تاکید کی گئی ہے نیز یہ کہ سنن رواتب فرض نمازوں کے لیے متمم ہیں یعنی ان کے ذریعے فرض نمازیں درجہ کمال و اتمام کو پہنچتی ہیں، لہٰذا اس طرح دونوں کی افضلیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے اور دونوں اقوال میں کوئی منافات نہیں ہے ، یا پھر رات کی نماز کی فضیلت کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ رات کی نماز اس لیے افضل ہے کہ یہ وتر پر بھی مشتمل ہے اور وتر واجب ہے۔

سید الطائف حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ انتقال کے بعد انہیں کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ پروردگار نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ

تاھت العبادات وفنیت الا شارات وما نفعنا الا رکعات صلینا ھا فی جوف اللیل۔

وہ باتیں جو میں حقائق و معارف کے بیان میں کہتا تھا جاتی رہیں اور وہ نکات جو میں بیان کیا کرتا تھا ختم ہو گئے مجھے تو صرف نماز کی ان چند رکعتوں نے فائدہ دیا جو نصف شب کو پڑھا کرتا تھا۔

گویا طالبین راہ حقیقت و شریعت اور سالکین راہ طریقت کو ترغیب دلائی گئی کہ تصوف و طریقت کے حکمات و نکات کے پیچھے نہ پڑو اور گفتار کے نہیں کردار کے غازی بنو، عملی زندگی کو سنوار نے اور اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانے کی پوری پوری کوشش کرو اور عبادت و ریاضت کا پورا پورا اہتمام کرو کیونکہ اسی میں دنیا کی بھلائی ہے اور آخرت کی بھی۔

کارکن کار، بگزر از گفتار

کاندریں راہ کار دارو کار

 

                   تہجد کی نماز برائی سے روکتی ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں آدمی رات کو تو نماز پڑھتا ہے مگر صبح اٹھ کر چوری کرتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  عنقریب اس کی نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تم کہہ رہے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل ، بیہقی)

 

 

تشریح

 

نماز کی خاصیت ہے کہ وہ انسان کو برائی کے راستے سے روکتی ہے اور نیکی کے راستے پر گامزن کرتی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے

آیت ( ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ) 29۔ العنکبوت:45)

 

                    نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے

 

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے جب ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات کو تو عبادت خداوندی یعنی نماز تہجد میں مشغول رہتا اور صبح اٹھ کر چوری جیسے برے فعل کا مرتکب ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی فرمایا کہ اگر وہ خلوص نیت اور جذبہ خالص کے تحت رات کی نماز پر مداومت کرتا ہے تو انشاء اللہ جلد ہی اللہ تعالیٰ اس نماز کی برکت سے اسے اس فعل قبیح سے توبہ کی توفیق عطا فرما دے گا اور اپنے قلب و دماغ میں نماز کی برکت و نورانیت کے اثر کی وجہ سے وہ چوری سے باز رہے گا۔

 

                   اہل خانہ کے ہمراہ نماز تہجد پڑھنے کی فضیلت

 

اور حضرت ابو سعید خدری و حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر کوئی آدمی رات میں بیوی کو جگائے اور وہ دونوں نماز پڑھیں ، یا یہ فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک دو رکعتیں اکٹھی پڑھیں تو وہ (دونو) ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کر نے والی عورتوں (کے زمرے) میں لکھے جاتے ہیں۔ (ابوداؤد و ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

حدیث میں لفظ  اہل سے مراد صرف بیوی بھی لی جا سکتی ہے اور بیوی اولاد، غلام اور لونڈیاں بھی مراد لی جا سکتی ہیں۔ درمیان روایت میں راوی کو شک واقع ہو گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لفظ فَصَلَّیَا (یعنی اور وہ دونوں نماز پڑھیں) فرمایا ہے۔ یا لفظ صلی (یعنی ہر ایک دو رکعتیں اکٹھی پڑھیں) فرمایا ہے۔ بہر کیف یہ صرف لفظی اختلاف ہے دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔

آیت (وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰہ كَثِيْراً وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہ لَہمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْراً عَظِيْماً  35) 33۔ الاحزاب:35)

اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے مرد اور عورتیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مغفرت اور بہت زیاہ ثواب (کا اجر و انعام) تیار کر رکھا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جو آدمی رات کو خود بھی اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھے گا اور ذکر اللہ میں مشغول رہے گا اور اپنی بیوی و دیگر اہل خانہ کو بھی جگا کر اللہ کی عبادت میں مشغول رکھے گا تو ان سب کا شمار ان نیک و با سعادت مرد و عورتوں میں ہو گا جن کی فضیلت اس آیت میں بیان کی جاری ہے۔

 

                   امت میں بلند مرتبہ کون لوگ ہیں

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  میری امت کے اشراف یعنی بلند مرتبہ لوگ قرآن اٹھانے والے (اور رات (میں اٹھنے) والے ہیں۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

قرآن اٹھانے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم یاد کرتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں بایں طور کہ قرآن نے جن امور کو کرنے کا حکم دیا ہے ان کو کرتے ہیں اور جن امور سے منع کیا ہے ان سے بچتے ہیں، آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ میری امت کے بلند مرتبہ اور با سعادت افراد ہیں، چنانچہ قرآن حفظ کرنے والے اور اس کے احکام کے پابند لوگوں کی فضیلت ایک دوسری روایت میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ  جس آدمی نے قرآن حفظ کیا تو بیشک اس پر فیضان نبوت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں مگر اس کے پاس وحی (یعنی وحی جلی) نہیں آتی، البتہ وحی خفی اس کے پاس آتی ہے (یعنی وحی جلی کے مطالب و معارف کا فیضان اس کے قلب و دماغ پر ہوتا ہے) مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم حفظ کرنے والا آدمی اس وجہ سے بہت زیادہ فضیلت و سعادت کا پیکر مانا جاتا ہے کہ اس کے قلب کے اندر قرآن کے الفاظ کی شکل میں نور نبوت و دیعت فرما دیا جاتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وحی خفی یعنی قرآن کے ظاہری الفاظ کے مطالب و معارف کا فیضان اس کے قلب و دماغ کو منور کر دیتا ہے اور قرآن کے الفاظ کے نور کی برکت سے وحی جلی پر (جو کہ انبیاء کا مخصوص حصہ ہے) اس کا ایمان و ایقان قوی تر ہوتا ہے۔

علامہ یحییٰ فرماتے ہیں کہ  قرآن حفظ  کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن یاد کرے اور اپنی عملی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھالے ، بایں طور کہ قرآن نے جو احکام دیے ہیں ان پر پوری قلبی خلوص اور مداومت کے ساتھ عمل کرے ورنہ تو محض قرآن یاد کرنے والا اور اس پر عمل کرنے والا ان لوگوں میں شمار کیا جاتا جن کے بارے میں حق تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ

آیت ( كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَاراً ) 62۔ الجمعہ:5)

یعنی (جو لوگ حافظ قرآن ہوں مگر عامل قرآن نہ ہوں تو) وہ ایسے ہیں جیسے کہ گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں۔

یعنی جس طرح کہ گدھے پر کتابیں لاد دینے سے گدھے کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچتا بالکل اسی طرح قرآن پر عمل کرنے والے حافظ کو بھی قرآن حفظ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہ سعادت و مرتبے کے اعتبار سے کسی بھی حیثیت میں نہیں ہوتا۔

اَصْحَابُ اللَّیْلِ (رات والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جو نماز و قرآن پڑھنے کے شب بیداری پر مداومت کرتے ہیں یعنی پابندی کے ساتھ روزانہ رات کو اٹھتے ہیں اور عبادت خداوندی و ذکر اللہ میں مشغول ہوتے ہیں ایسے لوگ خدا اور اللہ کے رسول کی نظروں میں بڑی فضیلت کے حامل ہوتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق امت مرحومہ کے بلند مرتبہ افراد میں شمار کئے جاتے ہیں۔

 

                   رات کی عبادت کے سلسلے میں حضرت عمر کا معمول

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ ان کے پدر بزرگوار حضرت عمر بن خطاب رات کو جس قدر اللہ چاہتا نماز پڑھتے رہتے اور رات جب آخر ہوتی تو اپنی زوجہ محترمہ کو نماز پڑھنے کے لیے اٹھاتے اور فرماتے کہ  نماز پڑھو ، پھر یہ آیت پڑھتے (وَاْمُرْ اَہلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہا  ۭ لَا نَسَْٔلُكَ رِزْقاً  ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ  ۭ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى ١٣٢ ) 20۔طہ:132) (اور اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) اپنے متعلقین کو بھی نماز کا حکم کرتے رہیے اور خود بھی اس (کی مشقتوں) پر صبر کیجئے ہم آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے رزق نہیں مانگتے ، رزق ہم ہی آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو دیتے ہیں اور آخرت کی بھلائی تو پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے۔ (مالک)

 

تشریح

 

آیت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے متعلقین اور اہل خانہ کو نماز پڑھنے کی ہدایت کرتے رہیے اور خود بھی نماز پڑھنے کی مشقتوں محنتوں پر صبر کیجئے اور اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلقین کو بھی جو محنت و مشقت اٹھانی پڑے اسے بھی برداشت کیجئے اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں مشغول رہیے ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل کیجئے ، اسی سے ظاہری و باطنی غناء کے لیے مدد کے طلبگار رہیے اپنے رزق اور معاش کی فکر نہ کیجئے اور دیکھئے ہم آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے رزق نہیں مانگتے کہ اپنے رزق اور اسباب معیشت کے حصول اور دوسروں کے لیے رزق کی ذمہ داری آپ کو جدوجہد اور محنت و سعی کے ایسے بندھنوں میں باندھ دے جو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے لیے ادائیگی نماز میں رکاوٹ بن جائے جس طرح ہم دوسروں کو رزق دیتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم (صلی اللہ علیہ و سلم) کو بھی رزق بخشتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا کام تو صرف یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے امور سے منہ موڑ کر اپنے قلب و دماغ کو صرف آخرت کی بھلائی اور اپنے متعلقین کی اصلاح میں مصروف رکھیے اور یہ جان لیجئے کہ عاقبت محمودہ یعنی دنیا اور آخرت دونوں جگہ انجام کار بخیر ہونا صرف متقیوں اور اللہ کے نیک بندوں ہی کے لیے ہے

 

                   اعمال میں میانہ روی اختیار کرنے کا بیان

 

اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ جس طرح دنیاوی امور میں افراط و تفریط یعنی حد سے زیادہ زیادتی اور حد سے زیادہ کمی غیر نفع بخش ہے اسی طرح دینی امور یعنی اعمال نفل میں بھی افراط و تفریط مطلوب نہیں ہے بلکہ اس راستے پر بھی میانہ راوی اور ان میں اعتدال اختیار کرنا ضروری ہے۔

 

 

٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم مہینہ (کے اکثر ایام) میں (نفل) روزہ نہ رکھتے ، یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس مہینے میں روزہ نہیں رکھیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مہینہ (اسی مہینے یا دوسرے مہینے کے اکثر ایام) میں روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ اب (اس مہینے کا) کوئی دن بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر روزے کے نہیں چھوڑیں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کو نماز پڑھتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے ہو تو نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھ لیتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کو سوتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے ہی دیکھ لیتے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اعمال نفل میں اعتدال کی راہ اختیار فرماتے تھے چنانچہ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ روزہ ہی رکھتے تھے کہ افراط یعنی زیادتی لازم آتی اور نہ ہمیشہ بغیر روزے کے ساتھ رہتے تھے کہ تفریط یعنی کمی لازم آتی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہ تھا کہ ہر مہینے میں کچھ دن تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم روزے سے رہا کرتے تھے اور کچھ دن بغیر روزے کے۔

اسی طرح نفل نماز کے سلسلے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہ تھا کہ رات کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سوتے بھی تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے نہ تو تمام رات سوتے ہی تھے اور نہ تمام رات نماز ہی میں گزارتے تھے۔ غرضیکہ تمام امور میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل اوسط درجے کا تھا ، نہ زیادہ تھا اور نہ کم تھا۔

 

                   مداومت عمل کی فضیلت

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (بندوں کے نیک اعمال میں) اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ  اہل تصوف و طریقت اسی حدیث کے پیش نظر اوراد و وظائف کو ترک کرنا ایسا ہی برا جانتے ہیں جیسا کہ فرائض کے ترک کو، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ ترک اولیٰ ہے یعنی فرائض کے ترک اور اوراد و وظائف  کے ترک میں فرق ہے ، فرائض کا ترک گناہ کبیرہ ہے جبکہ اوراد و وظائف  کا ترک اولیٰ کا ترک کرنا ہے اور ظاہر کہ اولیٰ کا ترک کرنا فرائض کے ترک کرنے کے درجے میں نہیں آ سکتا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جب بندے نے طاعت بغیر ضرورت کے ترک کی تو گویا اس نے مولی کی عبادت سے اعراض کیا لہٰذا وہ عتاب کا مستحق ہوا ، بخلاف مداومت کرنے والے کے کہ وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ پروردگار کا محبوب ہو۔

وَاِنْ قَلَّ (اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو) کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑا عمل اگر اس پر مداومت و مواظبت اختیار کی جائے تو وہ زیادہ عمل سے جب کہ اس کے آداب و شرائط کی رعایت نہ ہوتی ہو اور ہمیشہ نہ کیا جاتا ہو ، بہتر ہے۔

 

                   بساط سے باہر عبادت نہیں کرنی چاہیے

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم اسی قدر عمل کیا کرو جتنی کہ (ہمیشہ) کرنے کی طاقت رکھتے ہو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے میں) تنگی نہیں کرتا یہاں تک کہ تم خود تنگی نہ کرو (یعنی تنگ آ کر عبادت ہی نہ چھوڑ دو)۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اپنے لیے اتنی زیادہ عبادت ضروری قرار نہ دے دو جسے تم ہمیشہ نباہنے کی طاقت نہ رکھتے ہو بلکہ اسی قدر عبادت کرو کہ جتنی تم ہمیشہ پابندی کے ساتھ کر سکو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے میں تنگی نہیں کرتا یعنی ثواب دینا ترک نہیں کرتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کی زیادتی سے پریشان ہو کر سرے سے عبادت ہی نہ چھوڑ دو۔

حاصل یہ کہ اللہ جل شانہ عبادت کرنے والے کو ثواب دئیے جاتا ہے ہاں اگر کوئی آدمی زیادتی کے سبب تھک کر عبادت چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ثواب دینا بھی چھوڑ دیتا ہے لہٰذا عبادت کے معاملے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہمیشہ عبادت جاری رہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے ثواب کا سلسلہ بھی قائم رہے

 

                   اس وقت تک عبادت کرنی چا ہے جب تک دل لگے

 

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تمہیں چا ہے کہ اسی وقت تک نماز پڑھو جب تک کہ خوش دلی رہے اور جب طبیعت سست ہو جائے تو بیٹھ جاؤ۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آخرت کی راہ سعادت اور بھلائی اختیار کرنے والے کو چاہیے کہ عبادت میں اپنی بساط اور طاقت کے مطابق کوشش کرے طاعت کے معاملے میں میانہ روی اختیار کرے اور تنگ دلی و انقباض کے ساتھ عبادت کرنے سے احتراز کرے۔ عبادت اسی وقت تک کرے جب تک کہ بشاشت قلبی اور سکون و اطمینان حاصل رہے۔ جب طبیعت سست ہو جائے تو عبادت ترک کر دے ، اگر کوئی آدمی عبادت کرتے کرتے تھک جائے اور سست ہو جائے ، نیز عبادت چھوڑ کر اس خیال سے کسی امر مباح میں مشغول ہو جائے مثلاً سو جائے یا گفتگو وغیرہ میں لگ جائے تاکہ آئندہ عبادت کے لیے مزید بشاشت و خوشی اور اطمینان و سکون حاصل ہو سکے تو اس کی یہ مشغولیت عبادت و طاعت ہی میں شمار کی جاتی ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ  عالم کی نیند (بھی) عبادت ہے

کسالت و ملالت اور طبیعت کی تنگی کے وقت نفل اعمال کو ترک کر دینے کے سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ ایسے موقعہ پر جبکہ طبیعت میں اضمحلال اور سستی پیدا ہو جائے نفل اعمال کو ترک کر دینے کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ عمل کا نفس پر گراں ہونا آخر کار عمل کے بالکل چھوٹ جانے یا اس میں نقصان واقع ہو جانے کا سبب بن جاتا ہے۔

لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ نفس کو بہت زیادہ عبادت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ طبیعت عبادت کی مشقت و ریاضت کی خوگر ہو جائے ، کاہل طبیعت ، آرام طلب اور سست مزاج لوگوں کی طرح ہو جانا چاہیے جو کہ مختصر سی عبادت اور تھوڑے سے عمل میں بھی تھک جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عبادت اور ریاضت و مجاہدہ کو ادھورا چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن بہت زیادہ عبادت کرنے کی اگر عادت پڑ جاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ عبادت طبیعت پر گراں نہیں ہوتی، چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو پہلے دو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے ایک پارے کی تلاوت بھی گراں گزرتی تھی اور اس کی وجہ سے ان کی طبیعت میں سستی و اضمحلال پیدا ہو جاتا تھا انہوں نے ہی جب زیادہ عبادات اور ریاضت و مجاہدہ کی عادت پیدا کر لی اور اپنے نفس اور اپنی طبیعت کو راہ خداوندی کی سعادتوں کے حصول کی خاطر مشقت  و محنت کا عادی بنا لیا تو انہیں سو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے دس پاروں کی تلاوت بھی آسان معلوم ہونے لگی۔

 

                   اونگھنے کی حالت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کی حالت میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ سو رہے یہاں تک کہ نیند جاتی رہے کیونکہ جب تم میں سے کوئی اونگھتاہوا نماز پڑھتا ہے تو نیند کے غلبے کی وجہ سے اسے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ وہ تو مغفرت کا طالب ہو مگر (اونگھنے کی وجہ سے) اپنے نفس کے لیے (اس کی زبان سے) بد دعا نکل جائے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ کہ نیند کے غلبے اور اونگھنے کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے کیونکہ ایسے وقت پر نہ تو دل و دماغ حاضر رہتے ہیں اور نہ زبان ہی قابو میں ہوتی ہے یہی وجہ سے کہ ایسی حالت میں انسان کہنا کچھ چاہتا ہے مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھئے کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے اس پر نیند کا غلبہ ہے اور وہ اونگھ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل و دماغ اور زبان پر غفلت و سستی کا قبضہ ہے اب وہ اس حالت میں کہنا چاہتا ہے

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔۔۔اے اللہ میری مغفرت فرما۔

مگر نیند کی غفلت اس کی زبان یہ الفاظ ادا کر رہی ہے۔

اَللّٰھُمَّ اعفِرْلی۔۔۔  اے اللہ مجھے خاک آلود کر دے۔

دیکھا آپ نے؟نیند کی غفلت سے صرف ایک نقطے کے فرق نے کیا گل کھلا دیا  کہاں تو اپنی مغفرت اور آخرت میں اپنی عزت و کامیابی کی دعا مانگنا چاہتا تھا اور کہاں اپنے نفس کے لیے بد دعا کے الفاظ نکال کر ذلت و خواری کا سامان کر بیٹھا، اسی لیے منع کیا جا رہا ہے کہ جب نیند کا غلبہ ہو اور اونگھ کا تسلط ہو تو ایسے وقت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔

 

                   دین آسان چیز ہے اسے اپنے عمل سے سخت اور ہیبت ناک نہ بناؤ

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  بیشک دین آسان ہے لیکن جو آدمی دین میں سختی کرتا ہے دین اس پر غالب آ جاتا ہے لہٰذا (دینی) امور میں میانہ روی اور اپنی طاقت کے مطابق عمل اختیار کرو اور جنت و سلامتی نیز اللہ رب العزت کے انعامات و  اکرامات کے ساتھ خوش رہو (کیونکہ اللہ رب العزت تو تھوڑے ہی سے عمل پر) اگر وہ مداومت اور خلوص نیت کے ساتھ ہو تو بہت زیادہ ثواب دیتا ہے اور صبح کے وقت شام کے وقت نیز کچھ رات کے آخری حصے میں بھی اللہ رب العزت سے مدد مانگو۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

اس حدیث میں صفائی کے ساتھ اعلان کیا جا رہا ہے کہ دین بہت آسان ہے انسانی مزاج و فطرت کے عین مطابق ہے اور انسان کی ذہنی، فکری ، عملی قوتیں بڑے سکون کے ساتھ اس کی ہمنوا بن سکتی ہے۔ ہاں اس کا تو کوئی علاج نہیں کہ کوئی آدمی اپنی طرف سے بے جا پابندیاں عائد کر کے اعمال کی زیادتی کرے اور دین شریعت میں اپنی طرف سے باتیں بڑھا کر خود ہی اپنے اوپر مشکلات و تنگیوں کو مسلط کرے۔

چنانچہ یہاں صراحت کے ساتھ حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ دین کے احکام بہت آسان مقرر کئے ہیں اس لیے رہبانیت کے طور پر ان احکام کو اپنے لیے سخت و ہیبت ناک نہ بناؤ۔

دین اس پر غالب آ جاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنے نفس پر غیر واجب باتیں واجب کر لیتا ہے اور مشکل طریقوں سے عبادت کی مشغولیت اختیار کر لینا ہے تو دین اس پر غالب آ جاتا ہے یعنی وہ بعد میں دین کے حق کی ادائیگی سے عاجز ہو جاتا ہے اس طرح وہ مغلوب اور دین غالب ہو جاتا ہے۔

قَارِبُوْا کا مطلب یہ ہے کہ سہولت اور آسانیوں کے ساتھ دینی امور کے قریب ہو جاؤ اور اپنے اوپر بے جا پابندیوں کو عائد کر کے اور سختی و مشکلات میں اپنے آپ کو مبتلا کر کے دین سے بعد اختیار نہ کرو۔

علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ قَارِبُوْا دراصل سَدِّدُوْا (یعنی میانہ روی اختیار کرو) کی تاکید ہے لہٰذا جو معنی سَدِّدُوْا کے ہیں وہی معنی قَارِبُوْا کے ہیں بعض حضرات نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ اللہ جل شانہم کاقرب ڈھونڈو۔

بہر حال حدیث کا اصل یہ ہے کہ بہت زیادہ عبادت نہ کرو کہ ہر وقت اپنے آپ کو عبادت کی محنت و مشقت ہی میں مبتلا رکھو بلکہ ان تین اوقات میں عبادت کر لینے ہی کو غنیمت جانو یعنی دن کے ابتدائی حصے میں، دن کے آخری حصے میں اور رات کے آخری حصے میں، یہ تہجد کی نماز کی طرف اشارہ ہے۔

 

                   رات کے بقیہ اوراد و وظائف کودن میں پڑھ لینا چاہیے

 

اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (جو آدمی رات کو پورا وظیفہ پڑھے بغیر سو رہا یا وظیفہ کا کچھ حصہ پڑھنے سے رہ گیا اور پھر اس نے اس کو نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان پڑھ لیا تو اس کے لیے یہی لکھا جائے گا کہ گویا اس نے رات ہی کو پڑھا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ کسی آدمی نے کلام اللہ، نماز اور اذکار کی قسم سے کچھ وظیفہ مقرر کر رکھا ہے جسے وہ رات کو پڑھتا ہے مگر کسی دن وہ سو گیا اور اس کا پورا وظیفہ یا اس وظیفے کا کچھ حصہ رات کو پڑھنے سے رہ گیا اور اس نے نماز فجر، اور نماز ظہر کے درمیان یعنی زوال سے پہلے پڑھ لیا تو اس کے لیے رات ہی میں پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔

اسی طرح دن کے وظیفہ کا حکم ہے کہ اگر دن کو وظیفہ پڑھنے سے رہ گیا اور پھر اس رات کو پڑھ لیا تو اس کے لیے دن میں ہی پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے رات دن آپس میں ایک دوسرے کے خلیفے ہیں۔

حدیث میں صرف رات کے وظیفے ہی کے بارے میں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اکثر و بیشتر رات ہی کا وظیفہ رہ جاتا ہے یعنی نیند کے غلبے کی وجہ سے نماز تہجد اوراد و اذکار فوت ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا گیا ہے۔

 

                   معذوری کی حالت میں بیٹھ کر اور لیٹ کر نماز پڑھنے کا حکم

 

اور حضرت عمران بن حصیبن راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نماز کھڑے ہو کر پڑھو ، اور اگر (کسی عذر کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر) قادر نہ ہو سکو تو بیٹھ کر پڑھو ، اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے پر بھی) قادر نہ ہو سکو تو (پھر) کروٹ پر پڑھو۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

اگر کوئی آدمی کسی عذر شدید مثلاً سخت بیماری وغیرہ کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو بیٹھ کر اپنی نماز ادا کرے اور اگر عذر اتنا شدید ہو کہ بیٹھ کر بھی قدرت سے باہر ہو تو پھر آخری مرحلہ یہ ہے کہ (لیٹے لیٹے) کروٹ سے بقبلہ ہو کر پڑھ لے پھر اس میں بھی اتنی آسانی کہ اگر کوئی آدمی قبلے کی طرف منہ نہ کر سکے یا یہ کہ کوئی آدمی ایسا پاس موجود نہ ہو جو معذور کا منہ قبلے کی طرف کر سکے تو جس طرف بھی منہ ہو ادھر ہی کی طرف پڑھ لے ، ایسے موقع پر کسی بھی سمت منہ کر کے نماز پڑھ لینا جائز ہے۔

حنفیہ فرماتے ہیں کہ لیٹ کر نماز پڑھنے کے سلسلے میں افضل یہ ہے کہ رو بقبلہ ہو کر چت لیٹے کندھے کے نیچے تکیہ رکھ کر سر کو اونچا کرے اور اشاروں سے نماز پڑھے۔ چنانچہ دارقطنی نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اس سے چت لیٹ کر ہی نماز پڑھنے کا اثبات ہوتا ہے یہاں جو حدیث ذکر کی گئی ہے اس کے بارہ میں حنفیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم بطور خاص حضرت عمران کے لیے فرمایا تھا کیونکہ وہ بواسیر کے مرض میں مبتلا تھے اور چت نہیں لیٹ سکتے تھے لہٰذا یہ حدیث دوسروں کے لیے حجت نہیں ہو سکتی۔

آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم فرض نماز کے لیے ارشاد فرمایا ہے اس لیے نفل نمازوں میں یہ بطریق اولیٰ جائز ہو گا۔

 

                   بغیر عذر بیٹھ کر نفل نماز پڑھنے والے کو آدھا ثواب ملتا ہے

 

اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو (کھڑے ہونے کی طاقت رکھنے کے) باوجود نفل نماز بیٹھ کر پڑھتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  بہتر تو وہی ہے جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے لیکن جو آدمی (نفل) نماز (بغیر عذر) کے بیٹھ کر پڑھے گا تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت نصف ثواب ملے گا۔  (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

یہ حدیث نفل نماز پر محمول ہے کیونکہ فرض نماز بغیر عذر کے بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے ہاں اگر کوئی عذر ہو تو قیام ساقط ہو جاتا ہے اور معذور بیٹھ کر فرض نماز بھی پڑھ سکتا ہے۔

بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نفل نماز بغیر عذر کے بیٹھ کر پڑھنے والے کو نماز کا پورا ثواب نہیں ملتا بلکہ جتنا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کو ملتا ہے اس کا نصف ثواب اسے ملتا ہے ہاں اگر کوئی عذر ہو کہ کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو تو پھر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا ثواب نہیں ملے گا بلکہ اسے بھی پورا ثواب ملے گا۔

بغیر عذر لیٹ کر نفل نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں: حضرت علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ  جو آدمی کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نفل نماز پڑھ سکتا ہے اور اسے قیام و قعود کی قدرت نہیں ہے تو آیا اس آدمی کے لئے نفل نماز لیٹ کر پڑھنا جائز ہے یا نہیں چنانچہ بعض علماء تو کہتے ہیں کہ بغیر عذر کے لیٹ کر نفل نماز جائز نہیں۔ مگر علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ بغیر عذر لیٹ کر نفل نماز پڑھنا جائز ہے۔

نیز اس جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ بغیر عذر لیٹ کر نفل نماز پڑھنے والے کو بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا ثواب ملتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے چنانچہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول بھی یہی ہے اور حدیث سے ثابت ہونے کی وجہ سے یہی قول صحیح تر اور اولیٰ ہے۔

مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ جائز نہیں ہے اور اس حدیث کے بارے میں ان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ حدیث فرض نماز کے بارے میں ہے کہ اگر کوئی آدمی اس درجے بیمار ہو کہ مرض کی زیادتی اور شدت کے باوجود کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نماز پڑھنا اس کے لیے ممکن ہو تو اسے لیٹ کر نماز پڑھنے کی صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی بہ نسبت آدھا ثواب ملے گا۔

 

                    نیند آتے تک با وضو ذکر اللہ میں مشغولیت

 

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  جو آدمی (وضو یا تیمم کے ذریعے نجاستوں سے یا یہ کہ گناہوں سے) پاک ہو کر اپنے بستر پر لیٹے اور نیند آنے تک (زبان سے یادل سے) ذکر اللہ میں مشغول رہے تو وہ رات کو جب بھی اس حال میں کروٹ بدلے کہ اللہ جل شانہ سے دنیا اور آخرت کی کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ بھلائی ضرور دیتا ہے ، (یہ حدیث علامہ نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب الاذکار میں ابن السنی کی روایت سے نقل کی ہے۔

 

                   وہ دو خوش نصیب جن سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے

 

اور حضرت عبد اللہ بن مسعود راوی ہیں کہ  سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہمارا رب دو آدمیوں سے بہت خوش ہوتا ہے ایک تو وہ آدمی جو رات کو اپنے نرم بستر و لحاف سے اور اپنی محبوبہ اور بیوی کے پاس سے (تہجد) کی نماز کے لیے اٹھتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے  میرے بندے کی طرف دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں (یعنی جنت اور ثواب) کے شوق سے اور میرے پاس کی چیزوں (یعنی دوزخ اور عذاب) کے ڈر کی وجہ سے اپنے فرش و نرم بستر اور اپنی محبوبہ اور بیوی کو چھوڑ کر اپنی نماز پڑھنے کے لیے اٹھا۔ اور دوسرا وہ آدمی جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور (بغیر کسی شدید عذر کے) اپنے ساتھیوں سمیت میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا، مگر جب اسے بلا عذر میدان جہاد سے بھاگ نکلنے کی سزا ، اور پھر جنگ میں واپس آ جانے کا ثواب یاد آیا تو (میدان کار زار میں) واپس آگیا اور (اللہ کے دشمنوں سے) اس قدر لڑا کہ جام شہادت نوش کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ  میرے بندے کی طرف (بنظر تعجب) دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں (یعنی جنت و ثواب) کے شوق میں اور میرے پاس کی چیزوں (یعنی دوزخ و عذاب) کے خوف سے (میدان جنگ میں) لوٹ آیا اور راہ خدا میں یہاں تک لڑا کہ اپنی جان بھی دے دی۔  (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ رات کے پر سکون ماحول اور آرام میں کسی آدمی کے لیے نرم بستر، آرام دہ لحاف اور محبوب بیوی کا قرب ہی سب سے زیادہ پسندیدہ اور پیاری چیزیں ہوتی ہیں مگر اس کے باجود وہ آدمی اپنے رب کی عبادت اور اس کی جزاء و انعام کے شوق میں ان سب چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے اور پروردگار کے حضور اپنی بندگی و عبودیت کا نذرانہ پیش کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی تمام پسندیدہ چیزیں دنیا میں تو قلب و دماغ کے سکون اور انسانی عیش و مسرت کا سامان بن سکتی ہیں مگر نہ تو یہ قبر میں نفع پہنچائیں گی اور نہ حشر میں کامیابی و سرخروئی کی ضامن ہوں گی۔ قبر اور حشر میں تو صرف پروردگار کی اطاعت اور اس کی عبادت ہی کام آئے گی اور وہی سعادت و کامیابی کی منزل سے ہم کنار کریں گی۔

اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے واسطے عبادت کرنا اور اس پر ثواب کی امید رکھنا اخلاص اور کمال کے منافی نہیں ہے اگرچہ یہ اکمل درجے کے منافی ہے کیونکہ عبادت کے سلسلے میں اکمل درجہ یہی ہے کہ عبادت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کی جائے اور اس سے کوئی غرض مثلاً ثواب کا حصول یا عذاب کا خوف وابستہ نہ ہو لیکن ہاں کوئی آدمی اگر عبادت محض ثواب کے واسطے یا عذاب کے خوف سے کرتا ہے تو اسے یہ نہ جان لینا چاہیے کہ اس کی یہ عبادت، عبادت نہیں صرف تضیع اوقات ہے۔

 

 

 

٭٭حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے یہ حدیث بیان کی گئی کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (بغیر عذر) بیٹھ کر (نفل) نماز پڑھنے والے کی نماز (کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھی ہوتی ہے  حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  میں (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا (اتفاق سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے (جب نماز سے فارغ ہوئے تو) میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک پر اپنا ہاتھ رکھا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  عبداللہ بن عمرو! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا  یا رسول اللہ ! مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز آدھی ہوتی ہے اور اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہاں ایسا ہی ہے (یعنی تم نے جو کچھ سنا ہے) صحیح ہے لیکن میں تم جیسا تو نہیں ہوں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اہل عرب کی عادت ہے کہ جب کوئی آدمی کسی سے کوئی تعجب کی بات دیکھتا ہے تو اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اور ان کے نزدیک ایسا کرنا کوئی خلاف ادب نہیں ہے بلکہ یہ کمال محبت اور انتہائی بے تکلفی کے سبب سے ہوتا ہے چونکہ حضرت عبداللہ بن عمرو کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے انتہا درجے کی محبت اور بے تکلفی تھی اس لیے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھ لی تو انہوں نے بھی از راہ تعجب اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک پر رکھا اور انہیں تعجب اس بات پر ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو افضل بات پر عمل کیا کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹھ کر نماز کیوں پڑھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ نہ تو دوسروں پر مجھے اور نہ مجھ پر دوسروں کو قیاس کرو کیونکہ یہ تو صرف میری خصوصیت ہے کہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھتا ہوں تو میری نماز ناقص نہیں ہوتی ہے ، میں چا ہے جس طرح بھی نماز پڑھوں میری نماز پوری ادا ہوتی ہے۔

 

                   نماز میں راحت و سکون ہے

 

اور حضرت سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں کہ (ایک دن) قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی کہنے لگا کہ  کاش میں نماز پڑھتا اور راحت پاتا  جب لوگوں نے اس کے اس کہنے کو برا سمجھا تو اس نے کہا کہ  میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) فرمایا کہ بلال ! نماز کے لیے تکبیر کہو تاکہ ہم اس کے ذریعے راحت حاصل کریں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

نماز کی تاثیر انسانی راحت و اطمینان اور قلبی سکون ہے جو آدمی خلوص قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اسے ایک عجیب قسم کی راحت ملتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں سکون و اطمینان کے خزانے بھر جاتے ہیں چنانچہ قبیلہء خزاعہ کے مذکورہ آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ نماز پڑھوں اور پھر اپنے پروردگار کی عبادت ، اس کی مناجات اور حمد اور اس کے کلام پاک کے پڑھنے کی لذت سے راحت و سکون حاصل کروں۔

لوگوں نے اس کے کہنے کو جو برا سمجھا تو ایک وجہ تھی وہ یہ کہ اس کے قول کے دو معنی محتمل تھے اول تو یہ کہ  نماز کے ذریعے راحت پاؤں دوسرے یہ کہ  نماز سے راحت پاؤں یعنی نمازپڑھ کر آرام سے بیٹھ جاؤں۔ اس کی مراد تو اول معنی تھے لیکن لوگوں نے دوسرے معنی مراد لیے جو انہیں پسند نہیں تھے اس لیے اس نے لوگوں کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے اور مراد کو واضح کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال سے فرمایا تھا نقل کیا کہ  اے بلال تکبیر (اقامت) کہو تاکہ ہم اس کے ذریعے راحت حاصل کریں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تو بس اللہ کی عبادت ہی میں راحت تھی اور نماز میں مشغول رہنا ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے آرام و سکون کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ نماز ہی کے اندر اپنے پروردگار کی بڑائی اور اپنے خالق کی مناجات و حمد بیان کی جاتی ہے کہ ایک کامل و اکمل بندے کا اپنے پروردگار کی مناجات میں مشغول رہنا ہی اس کے لیے سب سے بڑی راحت ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ

قُرَّۃُ عَیْنِی فِی الصَّلٰوۃ

مجھے تو نماز (ہی) میں راحت ملتی ہے۔

 

                        ٭٭

  • ماخذ:
  • ایکسل فائل سے ٹیکسٹ میں تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید