فہرست مضامین
- مرے حصے میں دکھ کا خزانہ
- حسن عباس رضا
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- گئے دنوں سا پیار تو اب نئیں ہونے کا
- سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا
- انا کو مار کر اپنی مذمّت کر رہے ہیں
- بدن میں قطرہ قطرہ زہر اُتارا جا رہا ہے
- خواہشِ دلداریِ دنیا نے رُسوا کر دیا
- ہم تو یوں اُس کے دھیان سے نکلے
- ٭٭٭
- کیا خبر، کس کی وہ داستاں ہوئے گی
- ہمیشہ مُجھ تک آنے کے بہانے ڈھونڈھ لیتا ہے
- ہمیں اک دوسرے سے غم چھپانا آ گیا ہے
- آنکھوں سے کوئے یار کا منظر نہیں گیا
- وقت نے جب سے اُتارا خاک پر
- میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے
- اب کے خزاں نے ایسے اُڑایا اِدھر اُدھر
- زیاں کاروں کو ہوتا ہے بہت نشّہ خسارے کا
- آنکھوں سے خواب، دل سے تمنّا تمام شُد
- غم ایک رات کا مہمان تھوڑی ہوتا ہے
- صدا دیتی ہیں گلیاں، اور اپنا گھر بُلاتا ہے
- ہم علامت تھے کبھی بحر میں طغیانی کی
- باندھا ہے کب سے رختِ سفر ، یارِ من بیا
- زمیں سرکتی ہے ، پھر سائبان ٹوٹتا ہے
- عجیب کارِ زیاں پر لگا دیا تُو نے
- میں اپنی ذات سے انکار کرنا چاہتا ہوں
- آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- حسن عباس رضا
- ہڈسن اور کورنگ
- اپنے لیے ایک نظم
- نئے نینوا کا المیہ
- وزیر خانم
مرے حصے میں دکھ کا خزانہ
حسن عباس رضا
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
گئے دنوں سا پیار تو اب نئیں ہونے کا
تم سے بھی دریا پار تو اب نئیں ہونے کا
ہم تو نیندیں بھی تاوان میں دے آئے
خوابوں کا بیوپار تو اب نئیں ہونے کا
ممکن ہے وہ بڑے تپاک سے مِلے، مگر
سینہ ٹھنڈا ٹھار تو اب نئیں ہونے کا
تم جو مری گردن میں بانہیں ڈالتے تھے
ویسا گلے کا ہار تو اب نئیں ہونے کا
شکر ہے شہر میں میرا ایک بھی دوست نہیں
مجھ پر چھپ کے وار تو اب نئیں ہونے کا
وہ مری آنکھ کا ہر آنسو پی جاتی تھی
ماں جیسا غم خوار تو اب نئیں ہونے کا
حسن رضاؔ، تمثیل وہی ہے، پر ہم سے
پہلے سا کردار تو اب نئیں ہونے کا
یوں تو شہر میں سب کچھ ہے، پر حسن رضاؔ
جوہرؔ سا دلدار تو اب نئیں ہونے کا
٭٭٭
سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا
ہم نے اُسے چراغ جلانے نہیں دیا
دُزدانِ نیم شب نے بھی حیلے بہت کیے
لیکن کسی کو خواب چُرانے نہیں دیا
اب کے شکست و ریخت کا کچھ اور ہے سبب
اب کے یہ زخم تیری جفا نے نہیں دیا
اِس بار تو سوال بھی مشکل نہ تھا، مگر
اِس بار بھی جواب قضا نے نہیں دیا
کیا شخص تھا، اُڑاتا رہا عمر بھر مجھے
لیکن ہوا سے ہاتھ ملانے نہیں دیا
ممکن ہے وجہ ترکِ تعلق اُسی میں ہو
وہ خط جو مجھ کو بادِ صبا نے نہیں دیا
اُس حیرتی نظر کی سمٹتی گرفت نے
اُٹھتا ہوا قدم بھی اُٹھانے نہیں دیا
شامِ وداع تھی، مگر اُس رنگ باز نے
پاؤں پہ ہونٹ رکھ دئیے، جانے نہیں دیا
کچھ تو حسنؔ وہ داد و ستد کے کھرے نہ تھے
کچھ ہم نے بھی یہ قرض چکانے نہیں دیا
٭٭٭
انا کو مار کر اپنی مذمّت کر رہے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں ہم جن کی خدمت کر رہے ہیں
مشقّت کے بغیر اُجرت ملا کرتی تھی ہم کو
سو، اب کے ہم بغیر اُجرت مشقّت کر رہے ہیں
کسے اتنی فراغت دل زدوں کا حال پوچھے
سو، ہم بیمار، خود اپنی عیادت کر رہے ہیں
محبت کرنے والوں سے محبت کر نہ پائے
اور اب اُن کے تصوّر سے محبت کر رہے ہیں
کبھی صحراؤں کی وسعت بھی ناکافی تھی ہم کو
اور اب چھوٹے سے اک کمرے میں وحشت کر رہے ہیں
حسنؔ اِک میں اور اِک ہمزاد ہے ساری رعایا
ہمی اِک دوسرے پر اب حکومت کر رہے ہیں
٭٭٭
بدن میں قطرہ قطرہ زہر اُتارا جا رہا ہے
کہ ہم کو آج کل قسطوں میں مارا جا رہا ہے
بظاہر تو بہت ہی دور ہیں گرداب ہم سے
مگر لگتا ہے ہاتھوں سے کنارہ جا رہا ہے
جہاں کچھ روز پہلے راندۂ دہلیز تھے ہم
انہی گلیوں سے اب ہم کو پکارا جا رہا ہے
محلّے سے کرایہ دار کیا جانے لگے ہیں
کہ اُن کے ساتھ گویا دل ہمارا جا رہا ہے
قدم زینے پہ رکھا اُس نے، اور ہم نے یہ سمجھا
کہ سُوئے آسماں کوئی ستارا جا رہا ہے
ہم اہلِ درد جوئے میں لگی ایسی رقم ہیں
جسے دانستہ ہر بازی میں ہارا جا رہا ہے
حسنؔ اب تو وہاں کچھ بھی نہیں جُز کرچیوں کے
تُو کس آئینہ خانے میں دوبارہ جا رہا ہے
٭٭٭
خواہشِ دلداریِ دنیا نے رُسوا کر دیا
ہم بہت تنہا تھے، اِس نے اور تنہا کر دیا
ضبط ایسا تھا کہ صحرا ہو گئے گُم آنکھ میں
اور جب روئے تو سارا شہر دریا کر دیا
آئنے میں ڈھونڈتے ہیں اب تو اپنے خد و خال
ہم کبھی ایسے نہیں تھے، تُو نے جیسا کر دیا
عشق میں پہلے ہوئے تقسیم در تقسیم ہم
آخرِ کار اپنا دل بھی خود سے منہا کر دیا
سوچتے ہیں بند ہو کر اب حصارِ ذات میں
ہم کو بزم آرائی نے کتنا اکیلا کر دیا
اپنی آنکھیں بھی میں چھوڑ آیا تری دہلیز پر
مجھ کو اس دیدار کی خواہش نے اندھا کر دیا
اُس کی چاہت تو امانت تھی مِرے دل میں حسنؔ
’’کیا کیا میں نے کہ اظہارِ تمنا کر دیا‘‘
٭٭٭
ہم تو یوں اُس کے دھیان سے نکلے
تِیر جیسے کمان سے نکلے
پھر کہیں بھی انہیں اماں نہ ملی
جو خود اپنی امان سے نکلے
کاش اک دن وہ ہم سے ملنے کو
ساتویں آسمان سے نکلے
حوصلہ ہو تو جوئے شِیر ہے کیا
پورا دریا چٹان سے نکلے
جیسی دھج سے گئے تھے اُس دل میں
ویسی ہی آن بان سے نکلے
بد نصیبی بھی ساتھ ہو لی تھی
ہم جب اپنے مکان سے نکلے
داستاں گو کو بھی خبر نہ ہوئی
کیسے ہم داستان سے نکلے
اصل میں ہم تھے مرکزی کردار
اور ہمی داستان سے نکلے
جانے کب جسم کا اسیر پرند
دکھ کے اس خاکدان سے نکلے
٭٭٭
کیا خبر، کس کی وہ داستاں ہوئے گی
جو ترے آنسوؤں سے بیاں ہوئے گی
سرحدِ جاں سے جس روز گزریں گے ہم
جانے اُس شامِ غم تُو کہاں ہوئے گی
دیکھ پائے گا کون آگ کے اُس طرف
اِس طرف زندگی جب دھواں ہوئے گی
یہ تو ممکن ہے ہم شہرِ جاں میں نہ ہوں
پر وہاں ہوں گے ہم، تُو جہاں ہوئے گی
میری سانسوں میں اک سانس تیری بھی ہے
جب یہ تھم جائیں گی، وہ رواں ہوئے گی
چاند ابھرے گا اب تیری پا زیب سے
تیرے پیروں کی خاک آسماں ہوئے گی
مجھ کو تقسیم کر دے گی اطراف میں
اور تُو خود کہیں درمیاں ہوئے گی
خواب اُتریں گے تیری ہتھیلی پہ جب
تُو بھی اُس روز خود پہ عیاں ہوئے گی
وہ نگر آرزوؤں کا ہو گا، جہاں
ہم عوام، اور تُو حکمراں ہوئے گی
دل بچھا دیں گے آنگن سے دہلیز تک
جب کبھی تُو وہاں میہماں ہوئے گی
خود ہدف اُڑ کے پہنچیں گے تِیروں تلک
تیرے ہاتھوں میں جس دن کماں ہوئے گی
ہم کھنچے آئیں گے مسجدِ عشق میں
جب بھی مینارِ جاں سے اذاں ہوئے گی
چوم لیتی تھی وہ میرے آنسو حسنؔ
میری ماں جیسی کیا کوئی ماں ہوئے گی !
٭٭٭
ہمیشہ مُجھ تک آنے کے بہانے ڈھونڈھ لیتا ہے
مرا ہمزاد میرے سب ٹھکانے ڈھونڈھ لیتا ہے
کسی دیوار سے لگ کر کبھی گِریہ نہیں کرتا
وہ رونے کے لیے بھی میرے شانے ڈھونڈھ لیتا ہے
مجھے، مجھ سے ملانے کے لیے میرے تعاقب میں
جہاں جاتا ہوں وہ آئینہ خانے ڈھونڈھ لیتا ہے
میں دل کی ساتویں تہہ میں چھپا لیتا ہوں یادوں کو
مگر وہ حیلہ گر میرے خزانے ڈھونڈھ لیتا ہے
میں ترکش میں پڑے اُس تِیر سے بچ کر کہاں جاؤں
جو چِلّے پر نہ ہو پھر بھی نشانے ڈھونڈھ لیتا ہے
بھرے گھر میں جسے تنہائیوں کی شام ڈستی ہو
وہ طاقوں میں دھرے وعدے پرانے ڈھونڈھ لیتا ہے
حسنؔ، میں نیند میں چلتے ہوئے بھی کب بھٹکتا ہوں
کہ دل یاروں کے سارے آستانے ڈھونڈھ لیتا ہے
٭٭٭
ہمیں اک دوسرے سے غم چھپانا آ گیا ہے
ہمارے درمیاں شاید زمانہ آ گیا ہے
تمہاری گفتگو پھر ہو گئی ہے جارحانہ
تمہارے ہاتھ پھر کوئی بہانہ آ گیا ہے
مری آنکھوں سے نیلم آنسوؤں کے گِر رہے ہیں
مرے حصے میں پھر دکھ کا خزانہ آ گیا ہے
کبھی ہم نے نشانے پر نظر رکھی ہوئی تھی
اور اب خود تِیر پر اُڑ کر نشانہ آ گیا ہے
رہائی کے لیے سر پھوڑتے رہتے تھے، لیکن
ہمیں اب راس تیرا آب و دانہ آ گیا ہے
یہاں پر مرکزی کردار خود سوزی کرے گا
کہ اب ایسے دوراہے پر فسانہ آ گیا ہے
فقط اک سانس کی دُوری پہ ہے شہرِ تمنّا
اب آنکھیں کھول دو، میں نے کہا نا، آ گیا ہے
ہمارے روگ اور اسباب بھی ہیں میرؔ جیسے
سو، ہم کو بھی حسنؔ اب رنج اٹھانا آ گیا ہے
٭٭٭
آنکھوں سے کوئے یار کا منظر نہیں گیا
حالانکہ دس برس سے میں اُس گھر نہیں گیا
اُس نے مذاق میں کہا، میں روٹھ جاؤں گی
لیکن مرے وجود سے یہ ڈر نہیں گیا
بچوں کے ساتھ آج اُسے دیکھا تو دکھ ہُوا
اُن میں سے کوئی ایک بھی ماں پر نہیں گیا
سانسیں ادھار لے کے گزاری ہے زندگی
حیران وہ بھی تھی کہ میں کیوں مر نہیں گیا!!
شامِ وداع لاکھ تسلّی کے باوجود
آنکھوں سے اُس کی دکھ کا سمندر نہیں گیا
کوشش کرو ضرور، مگر اتنا جان لو
اِس دل میں جو بھی آیا، وہ آ کر نہیں گیا
اُترا نہ اُس کے بعد کوئی اور آنکھ میں
معیارِ حُسن، یار سے اُوپر نہیں گیا
پَیروں میں نقش ایک ہی دہلیز تھی حسنؔ
اُس کے سوا میں اور کسی در نہیں گیا
٭٭٭
وقت نے جب سے اُتارا خاک پر
ہو رہے ہیں خوار و رُسوا خاک پر
کچھ ہمارے خواب خُفتہ خاک میں
اور کچھ خوابوں کا ملبہ خاک پر
دل کسی جا پر ٹھہرتا ہی نہیں
چاہے سینے میں رکھیں، یا خاک پر
ہو گئی اس بات پر برہم ہوا
کیوں دیا ہم نے جلایا خاک پر
نقص تو کُوزہ گری میں تھا، مگر
رکھ دیا الزام سارا خاک پر
دل ہمارا بھی تو مُشتِ خاک تھا
جس نے جب چاہا گرایا خاک پر
اُس گھڑی کوئی تماشائی نہ ہو
جب ہمارا ہو تماشا خاک پر
اتنا تکیہ تو فلک پر بھی نہیں
ہے ہمیں جتنا بھروسہ خاک پر
اور خوں پینے کا اِس میں دم نہیں
رحم کر کچھ تو خدایا خاک پر
خاک زادے پوچھتے ہیں اِن دنوں
ہو گا کس دن حشر برپا خاک پر
آسماں پر کیا خبر ہو گی تجھے ؟
ایک دن چھوڑ آسماں، آ خاک پر
جب کبھی دریا میں اُترے ہم حسنؔ
ایڑیاں رگڑے گا دریا خاک پر
’’ ق‘‘
جانے اُس شب کون اُترا خاک پر
جھوم اٹھا کرنوں کا میلہ خاک پر
چاند بھی اُس وقت تک نکلا نہیں
جتنے عرصے تک وہ ٹھہرا خاک پر
آسماں کی آنکھ بھی پتھرا گئی!
پیرہن جب اُس نے بدلا خاک پر
ہو بھی سکتی تھی مری خاک آسماں
وہ جو اک شب اور رُکتا خاک پر
خواب ٹوٹا تو حسنؔ، مجھ پر کھُلا
رہ گیا ہوں پھر اکیلا خاک پر
٭٭٭
میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے
کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہیں رہے
پوچھا گھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم ہو گئیں ؟
بولی کہ اب وہ جھانکنے والے نہیں رہے
پوچھا کہاں گئے مرے یارانِ خوش خصال
کہنے لگی کہ وہ بھی تمہارے نہیں رہے
اگلا سوال تھا کہ مری نیند کیا ہوئی؟
بولی تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے
پوچھا کرو گی کیا جو اگر میں نہیں رہا؟
بولی یہاں تو تم سے بھی اچھے، نہیں رہے
آخر وہ پھٹ پڑی کہ سنو اب مرے سوال
کیا سچ نہیں کہ تم بھی کسی کے نہیں رہے
گو آج تک دیا نہیں تم نے مجھے فریب
پر یہ بھی سچ ہے تم کبھی میرے نہیں رہے
اب مدتوں کے بعد یہ آئے ہو دیکھنے
کتنے چراغ ہیں ابھی، کتنے نہیں رہے !
میں نے کہا مجھے تری یادیں عزیز تھیں
ان کے سوا کبھی کہیں الجھے نہیں رہے
کیا یہ بہت نہیں کہ تری یاد کے چراغ
اتنے جلے کہ مجھ میں اندھیرے نہیں رہے
کہنے لگی تسلّیاں کیوں دے رہے ہو تم
کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے
بہلا نہ پائیں گے یہ کھلونے حروف کے
تم جانتے ہو ہم کوئی بچے نہیں رہے
بولی کریدتے ہو تم اُس ڈھیر کو جہاں
بس راکھ رہ گئی ہے، شرارے نہیں رہے
پوچھا تمہیں کبھی نہیں آیا مرا خیال؟
کیا تم کو یاد، یار پرانے نہیں رہے
کہنے لگی میں ڈھونڈتی تیرا پتہ، مگر
جن پر نشاں لگے تھے، وہ نقشے نہیں رہے
بولی کہ سارا شہرِ سخن سنگ ہو گیا
ہونٹوں پہ اب وہ ریشمی لہجے نہیں رہے
جن سے اتر کے آتی دبے پاؤں تیری یاد
خوابوں میں بھی وہ کاسنی زینے نہیں رہے
میں نے کہا، جو ہو سکے، کرنا ہمیں معاف
تم جیسا چاہتی تھیں، ہم ایسے نہیں رہے
ہم عشق کے گدا، ترے در تک تو آ گئے
لیکن ہمارے ہاتھ میں کاسے نہیں رہے
اب یہ تری رضاؔ ہے، کہ جو چاہے، سو، کرے
ورنہ کسی کے کیا، کہ ہم اپنے نہیں رہے
٭٭٭
اب کے خزاں نے ایسے اُڑایا اِدھر اُدھر
پتّوں کی طرح ہم کو بکھیرا اِدھر اُدھر
اک دن ٹھہر گئی تھی کسی پر ہماری آنکھ
اُس دن کے بعد ہم نے نہ دیکھا اِدھر اُدھر
دینارِ عشق جس طرح چاہے اچھال لو
لکھا ملے گا نام ہمارا اِدھر اُدھر
سر پیٹتی پھرے گی ہر اک سُو شبِ فراق
روتی پھرے گی صبحِ تمنا اِدھر اُدھر
پَیروں بھی سفر کے نشاں جاگتے رہے
دل بھی تری تلاش میں بھٹکا اِدھر اُدھر
اک مستقل عذاب کی صورت تھا بارِ عشق
پھر ہم نے بھی یہ بوجھ اُتارا اِدھر اُدھر
جس روز ہم اِدھر سے اُدھر ہو گئے کہیں
ڈھونڈے گی پھر ہمیں یہی دنیا اِدھر اُدھر
کچھ اور کھڑکیاں بھی کھُلی تھیں، مگر حسنؔ
ہم نے قسم خدا کی نہ جھانکا اِدھر اُدھر
٭٭٭
زیاں کاروں کو ہوتا ہے بہت نشّہ خسارے کا
سمجھتے بُوجھتے کرتے ہیں وہ سودا خسارے کا
دکھوں کی رات لمبی ہو، تو غم بے معنی لگتے ہیں
خسارے کی رُتوں میں غم نہیں ہوتا خسارے کا
مِرے ہاتھوں کی اُلجھی اور مٹ میلی لکیروں میں
یقیناً کوئی پوشیدہ نشاں ہو گا خسارے کا
اُسے ناراض کر کے خود سے بھی ہم روٹھ جاتے ہیں
خسارہ در خسارہ ہو، تو غم دُگنا خسارے کا
ہم اُن جیسے نہیں جو سُود پر دیتے ہیں نقدِ جاں
نہ اُن جیسے ہیں، ہوتا ہے جنہیں صدمہ خسارے کا
کہاں دل خرچ کرنا ہے، کہاں پر جان دینی ہے
لگا لیتے ہیں ہم پہلے ہی تخمینہ خسارے کا
نہ جس نے خواب دیکھے، اور نہ کاٹیں ہجر کی راتیں
اُسے ہو ہی نہیں سکتا ہے اندازا خسارے کا
ملال اب کیوں، جو یاد آنے لگی ہے خاکِ شہرِ جاں ؟
چُنا تھا آپ ہی تو ہم نے یہ رستہ خسارے کا
حسن ؔ، اس کاروبارِ دل میں ہم کیا کیا گنوا بیٹھے !
کبھی تفصیل سے بتلائیں گے قصّہ خسارے کا
٭٭٭
آنکھوں سے خواب، دل سے تمنّا تمام شُد
تم کیا گئے کہ شوقِ نظارا تمام شُد
کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہُوا !
دریا پہ ہونٹ رکھّے، تو دریا تمام شُد
دنیا تو ایک برف کی سِل سے سوا نہ تھی
پہنچی ذرا جو آنچ، تو دنیا تمام شُد
عشّاق پر یہ اب کے عجب وقت آ پڑا
مجنوں کے دل سے حسرتِ لیلیٰ تمام شُد
شہرِ دلِ تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھُلے
کیا بچ گیا ہے راکھ میں، اور کیا تمام شُد
ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سُنا چکے
سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شُد
اک یادِ یار ہی تو پس انداز ہے حسنؔ
ورنہ وہ کارِ عشق تو کب کا تمام شُد
٭٭٭
غم ایک رات کا مہمان تھوڑی ہوتا ہے
کہ اس کے جانے کا امکان تھوڑی ہوتا ہے
ہزار طرح کے روگ اس کے ساتھ آتے ہیں
یہ عشق بے سر و سامان تھوڑی ہوتا ہے
تمہیں جو دیکھنے ہم آ گئے، تو حیرت کیوں
خود اپنے آپ پہ احسان تھوڑی ہوتا ہے
جس ایک حرفِ طلب پر دل آ کے جھکتے ہوں
وہ بادشاہ کا فرمان تھوڑی ہوتا ہے
یہ دکھ تو چپکے سے آ بیٹھتے ہیں سینوں میں
کہ ان کے آنے کا اعلان تھوڑی ہوتا ہے
عذاب ہوتا ہے اُن کے لیے، جو سوچتے ہیں
بتانِ سنگ کو سرطان تھوڑی ہوتا ہے
رہِ وفا میں کہاں فاصلوں کو ماپتے ہیں
عیارِ عشق میں میزان تھوڑی ہوتا ہے
محبتیں تو فقط نقدِ جاں ہی مانگتی ہیں
یہاں پہ مال کا تاوان تھوڑی ہوتا ہے
کمال یہ ہے کہ میں نے بھُلا دیا اس کو
وگرنہ کام یہ آسان تھوڑی ہوتا ہے
اِسے تو مجنوں و فرہاد ہی سے نسبت دو
یہ عشق خسرو و خاقان تھوڑی ہوتا ہے
کچھ اہلِ زر، سرِ بازار آئے ہیں، لیکن
ضمیر، نیلم و مرجان تھوڑی ہوتا ہے
میں تار تار تو کر دوں حسنؔ زمانے کو
مگر یہ میرا گریبان تھوڑی ہوتا ہے
٭٭٭
صدا دیتی ہیں گلیاں، اور اپنا گھر بُلاتا ہے
مجھے شہرِ تمنّا کا ہر اک منظر بلاتا ہے
مرے سینے میں کچھ دن سے مقیم اک شخص ہے ایسا
جو خود باہر نہیں آتا، مجھے اندر بلاتا ہے
عجب ضدّی ہے، خود توسائے میں رہتا ہے، اور مجھ کو
برہنہ پاؤں تپتی دھوپ میں چھت پر بلاتا ہے
شکست و ریخت اتنی ہو چکی ہے وقت کے ہاتھوں
کہ پھر اک بار مجھ کو میرا کُوزہ گر بلاتا ہے
یہی ہے کاروبارِ جاں میں اب تک تجربہ اپنا
کہ دل جس کو صدائیں دے، اُسی کو در بلاتا ہے
حسنؔ، آؤ چلیں اُس کوچۂ جاں میں، جہاں اب بھی
دریچے سے لگا کوئی، بہ چشمِ تر بلاتا ہے
٭٭٭
ہم علامت تھے کبھی بحر میں طغیانی کی
اب ہیں تصویر فقط بے سر و سامانی کی
ہم نے کچھ خواب ، کچھ اندیشے یہاں بوئے تھے
اور اب چاروں طرف فصل ہے حیرانی کی
قریۂ دل ، جہاں دریائے تمنّا تھا رواں
اب وہ اک دشت ہے ، اور بوند نہیں پانی کی
اُس نے اک بار کہا تھا کہ چلو مر جائیں
میں ہی بزدل تھا ، کہ مانی نہیں مر جانی کی
وہ تو ضدی تھی ، کسی آمرِ مطلق کی طرح
اور کم بخت نے مرنے میں بھی من مانی کی
اب تو خود سے بھی ملاقات نہیں کر پاتے
ایسی حالت کہاں ہو گی کسی زندانی کی
خود کو گر بیچ بھی آتے تو ہمیں ملتا کیا؟
بات عزت کی نہیں ، بات ہے ارزانی کی
اُس کو سوداؔ کی طرح دیکھا ہے جن حالوں میں
بات وہ کہہ دوں ، مگر بات ہے عریانی کی
اب خرابہ ہے یہ دل ، پھول کبھی کھِلتے تھے
ہم نے خود ہی نہ حسنؔ اپنی نگہبانی کی
٭٭٭
باندھا ہے کب سے رختِ سفر ، یارِ من بیا
اِس بار لیت و لعل نہ کر ، یارِ من بیا
لگنے کو ہے ہجومِ دل آزردگاں کی آنکھ
بجھنے کو ہے چراغِ نظر ، یارِ من بیا
نادیدہ منزلوں کی خبر دے گی جس کی خاک
ہے منتظر وہ راہ گزر ، یارِ من بیا
طے کر لیے ہیں تُو نے کئی ہفت خواں ، مگر
اب کے بس اِس فقیر کے گھر ، یارِ من بیا
اُڑنے کو صرف دل ہی نہیں مبتلائے شوق
کچھ اس سے بھی سوا ہیں یہ پر ، یارِ من بیا
دہلیزِ جاں پہ نذر کروں گا بصد خلوص
اشکوں کے دیپ ، دکھ کے گہر ، یارِ من بیا
ان رتجگوں نے درد کے معنی بدل دیئے
لے کر ذرا سی نیند اِدھر ، یارِ من بیا
جانِ حسنؔ ، گر اب بھی نہیں ہے پیامِ جاں
پھر لے کے کوئی دکھ کی خبر ، یارِ من بیا
٭٭٭
زمیں سرکتی ہے ، پھر سائبان ٹوٹتا ہے
اور اُس کے بعد سدا آسمان ٹوٹتا ہے
میں اپنے آپ میں تقسیم ہونے لگتا ہُوں
جو ایک پَل کو کبھی تیرا دھیان ٹوٹتا ہے
کوئی پرند سا پَر کھولتا ہے اُڑنے کو
پھر اک چھناکے سے یہ خاکدان ٹوٹتا ہے
جسے بھی اپنی صفائی میں پیش کرتا ہُوں
وہی گواہ ، وہی مہربان ٹوٹتا ہے
نہ ہم میں حوصلۂ خود کُشی ، کہ مر جائیں
نہ ہم سے قفلِ درِ پاسبان ٹوٹتا ہے
میں وجہِ ترکِ تعلق بتا تو دُوں ، لیکن
اِس انکشاف سے اک خاندان ٹوٹتا ہے
زکوٰۃِ عشق اگر بانٹنے پہ آ جاؤں
تو اک ہجومِ طلب مُجھ پہ آن ٹوٹتا ہے
کسی نے داغِ جدائی نہیں دیا ، لیکن
میں اتنا جانتا ہوں ، کیسے مان ٹوٹتا ہے
جو آندھیاں سرِ صحرائے ہجر اُٹھتی ہیں
اُنہی میں شیشۂ دل ، میری جان ٹوٹتا ہے
٭٭٭
عجیب کارِ زیاں پر لگا دیا تُو نے
تماشہ گر تھا ، تماشا بنا دیا تُو نے
میں عین خواب میں تجھ سے مُکرنے والا تھا
مجھے خبر ہی نہیں ، کب جگا دیا تُو نے
ابھی تو رات کی اندھی گلی کے وسط میں تھا
کہاں پہ لا کے بجھایا مِرا دِیا تُو نے
گریز پا مِرا ہمزاد مجھ سے تھا ، لیکن
اُسے تو اب مِرا دشمن بنا دیا تُو نے
پلٹ کے آنا بھی چاہوں تو آ نہیں سکتا
یہ کن ہواؤں کے رُخ پر اُڑا دیا تُو نے
سوال یہ نہیں ، میں نے تجھے بھُلایا کیوں ؟
سوال یہ ہے ، مجھے کیوں بھُلا دیا تُو نے
میں ذات سے انکار کر بھی سکتا ہوں
گر اب کے بھی نہ مجھے آسرا دیا تُو نے
مِرے فراق میں شاید تجھے بھی ہو احساس
کہ میں وہ لعل تھا ، جس کو گنوا دیا تُو نے
٭٭٭
میں اپنی ذات سے انکار کرنا چاہتا ہوں
کہ جو موجود ہے، اس سے مکرنا چاہتا ہوں
مرے کاسے میں شاید اک دلاسے کی جگہ ہے
سو اس کو آخری وعدے سے بھرنا چاہتا ہوں
مری انگشتری میں آخری نیلم بچا ہے
سو تیری مسندِ دل سے اترنا چاہتا ہوں
مرے ہاتھوں میں اب بھی تین یکے ہیں، مگر میں
بہ پاسِ یار یہ باری بھی ہرنا چاہتا ہوں
حسن اب آخری پھیرا ہے دستِ کوزہ گر میں
مگر میں چاک پر کچھ دن ٹھہرنا چاہتا ہوں
٭٭٭
آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے
اس بت سے عشق کیجیے لیکن کچھ اس طرح
پوچھے کوئی تو صاف مُکر جانا چاہیے
مجھ سے بچھڑ کے ان دنوں کس رنگ میں ہے وہ
یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہیے
جس شام شاہزادی فقیروں کے گھر میں آئے
اُس شام وقت کو بھی ٹھہر جانا چاہیے
رِبّ وصال، وصل کا موسم تو آچکا
اب تو مرا نصیب سنور جانا چاہیے
جب ڈوبنا ہی ٹھہرا تو پھر ساحلوں پہ کیوں
اس کے لیے تو بیچ بھنور جانا چاہیے
بیٹھے رہو گے دشت میں کب تک حسن رضا
پاؤں میں جاگ اٹھا ہے سفر جانا چاہیے
٭٭٭
ہڈسن اور کورنگ
ہڈسن اور کورنگ کے بیچ
اک لمبی دُوری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جانے کتنے دریا،
کتنے صحرا اور سمندر
ان دونوں کی راہ میں حائل ہیں ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ دونوں میں پانی کا بہاؤ
اک جیسا ہے
دونوں ایک ہی رخ بہتے ہیں
پھر بھی کسی دو آبے
کسی بھی موڑ پہ آ کر مل نہیں پاتے۔ ۔ ۔
اور یہی تو دکھ ہے اپنا
۔ ۔ ۔ ۔ جب تک دونوں
کسی بھی موڑ پہ نہیں ملیں گے
ہجر کے گھاؤ،
زخم فراق کے نہیں سلیں گے
وصل کے غنچے
نہیں کھلیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ! !
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۱) ہڈسن ۔ نیویارک کا دریا
۲) کورنگ۔ اسلام آباد کے مضافات میں بہنے والا چھوٹا سا دریا
٭٭٭
اپنے لیے ایک نظم
تمہیں کس بات کی جلدی ہے ،
کن راہوں پہ جانا ہے
جو یوں رختِ سفر باندھے ہوئے
تیار بیٹھے ہو۔ ۔ ۔ !
ابھی کچھ دیر رک جاؤ،
ٹھہر جاؤ
کہ آنکھوں کی تجوری میں
ابھی کچھ خواب باقی ہیں
اُنہیں بھی خرچ کرنا ہے۔ ۔ ۔
ابھی بھونچال کی زد پر زمیں ہے
اور کارِ آشیاں بندی ادھورا ہے
اسے تکمیل دینی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ابھی کچھ دیر رک جاؤ
ابھی تو منزلِ آخر تک اپنے ہم سفر کا
ساتھ دینا ہے۔ ۔ ۔
صدا اک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے
ابھی سے اتنی جلدی کیا۔ ۔ِ ؟
ابھی تو آسمانِ جاں پہ روشن
چاند اور تارے کی کرنوں سے
گھر آنگن جگمگانا ہے
ابھی کچھ دیر رک جاؤ۔ ۔ ۔
ابھی ان خواب زادوں کی
جواں آنکھوں میں جتنے خواب ہیں
ان کی حسیں تعبیر سے
دل شاد کرنا ہے
انہیں آباد کرنا ہے۔ ۔ ۔
ابھی سے اتنی جلدی کیا۔ ۔ ۔ ! ؟
ابھی تو چاہنے والوں کی آنکھیں
اپنے پیارے رفتگاں کے غم سے بوجھل ہیں
ابھی ان میں نمی باقی ہے،
دل ٹھہرے ہیں ،
اور سینوں پہ رکھا رنج کا پتھر
ابھی سرکا نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس گراں پتھر کو اُن سینوں سے ہٹنے دو
انہیں تازہ ہوا میں
ٹھنڈی میٹھی سانس لینے دو
تمہیں اتنی بھی جلدی کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
ابھی بازارِ جاں میں
گل فروشوں کی دکانیں بھی مقفل ہیں
اُنہیں آباد ہونے دو
کہ پھولوں سے تمہارے عشق کا رشتہ پرانا ہے
اسے یوں توڑنا اچھا نہیں
کچھ دیر رک جاؤ
کہ شاید ان میں کوئی اک دکاں کھل جائے
اک چادر ہی مِل جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بھلا ایسی بھی جلدی کیا
ابھی کچھ دیر رک جاؤ
ٹھہر جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
نئے نینوا کا المیہ
وہ شہر
جس کی کنواریوں کے گلاب پنڈے
اصیل خواجہ سراؤں کے
بے صفات جسموں سے منسلک ہوں
وہ شہر
جس میں بدن کا سونا
رفاقتوں کی بجائے
سورج کی حدتوں سے پگھل رہا ہو
وہ شہر
جس میں صداقتوں کو شہید کرنے
قدم قدم پر
ستم صلیبیں گڑی ہوئی ہوں
جہاں جہالت،
ذکاوتوں سے خراج مانگے
تو ایسے شہرِ غنیمِ جاں کو
تباہ ہونے سے کوئی
کیونکر
بچا سکے گا!
٭٭٭
وزیر خانم
( شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ کا ایک کردار)
(۱)
سُنا یہی ہے
اُس من موہنی صورت،
اور ملکوتی حسن کے چرچے
سارے بازاروں سے درباروں تک
پھیلے ہوئے تھے۔
اُن کجراری آنکھوں،
ریشمی گالوں میں
کچھ ایسی کشش تھی
جس کی رَو میں
ایک جہان کھنچا آتا تھا۔
( ۲ )
یوسف سادہ کارؔ کے صحن میں
اُگنے والے
اِس خوش قامت برگ نے جانے
کتنے آنگن مہکائے تھے
کتنے تپتے دلوں پہ اپنی چھاؤں اُتاری
کیسی کیسی بادِ سموم کے وار سہے تھے ! !
قسمت نے اس ہرے بھرے
خوش قامت برگ کو
کس کس مٹی میں پہنچایا
کیسی کیسی خاک میں اس کی جڑیں اتاریں۔ ۔
پھر بھی اس گلپوش نے ہر جا
اپنی ہی مہکاروں کی سوغاتیں بانٹیں
اپنی ہی خوشبو پھیلائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ لیکن وقت اور موسم نے
کچھ اپنے فیصلے کر رکھے تھے۔ ۔ ۔
جن کی بنا پر ، رفتہ رفتہ
محرومی اور دکھ کی دیمک
اُس گلبرگ کی جڑوں میں
ڈیرے ڈال چکی تھی۔ ۔ ۔ ۔
آخر، اک دن
وہ خوش قامت
اپنے ٹھنڈے سائے سے محروم
فقط اک داغِ تمنا لیے ہوئے
گمنام زمیں کا رزق ہُوا۔
٭٭٭
ماخذ: ’جدید ادب‘ جرمنی اور انٹر نیٹ سے مختلف ویب سائٹس
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید