FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

کتاب: جنازہ کے مسائل

 

باب : بیماروں کی عیادت کرنے کا بیان۔

451: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ انصار ی صحابی آیا اور آپﷺ کو سلام کیا اور پھر واپس جانے لگا تو آپﷺ نے پوچھا کہ اے انصار ی بھائی! میرا بھائی سعد کیسا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ اچھا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون ان کی عیادت کرتا ہے ؟ (یہ کہہ کر) آپﷺ کھڑے ہو گئے اور ہم بھی آپﷺ کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ہم سے زیادہ آدمی تھے ، نہ ہمارے پاس جوتے تھے اور نہ موزے اور نہ ٹوپیاں اور نہ کُرتے (یہ کمال زہد تھا صحابہ  کا اور دنیا سے بیزاری تھی) اور ہم اس کنکریلی زمین میں چلے جاتے تھے یہاں تک کہ ان تک پہنچے۔ اور جو لوگ سیدنا سعدؓ  کے پاس تھے وہ ہٹ گئے اور رسول اللہﷺ اور وہ لوگ جو آپﷺ کے ساتھ آئے تھے ان کے پاس گئے۔

باب : مریض اور میت کے پاس کیا کہا جائے ؟

452: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم بیمار یا میت کے پاس آؤ تو اچھی بات کہو۔ اس لئے کہ فرشتے اس بات پر آمین کہتے ہیں جو تم کہتے ہو۔ کہتی ہیں کہ جب ابو سلمہؓ  کا انتقال ہوا تو میں رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ابو سلمہ کا انتقال ہو گیا۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ یوں دعا کرو کہ ”اے اللہ! مجھے اور اس کو بخش دے اور مجھے ان سے نعم البدل عطا فرما“ کہتی ہیں کہ میں نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نعم البدل عطا کیا یعنی محمدﷺ۔

باب : قریب المرگ کو ”لا الٰہ الا اللہ“ کی تلقین کرنا۔

453: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (اپنے بیماروں کو) جو مرنے کے قریب ہوں، ”لا الٰہ الا اللہ“ کی تلقین کرو (ترغیب دلاؤ)۔

باب : جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے۔

454: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جوا للہ سے ملنا نہیں چاہتا اللہ بھی اس سے ملنا نہیں چاہتا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! موت کو تو ہم میں سے سب ناپسند کرتے ہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ میرا یہ مطلب نہیں، بلکہ جب مومن (کا آخری وقت ہوتا ہے تو اس) کو اللہ کی رحمت اور رضامندی اور جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے۔ (اور بیماری اور دنیا کے مکروہات سے جلد خلاصی پانا چاہتا ہے ) اور اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے۔ اور جب کافر (کا آخری وقت ہوتا ہے تو اس) کو اللہ کے عذاب اور اس کے غصہ کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنا پسند نہیں کرتا اور اللہ عزوجل بھی اس سے ملنا پسند نہیں کرتا۔ ایک دوسری روایت میں شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو کوئی اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ میں یہ حدیث سیدنا ابو ہریرہؓ  سے سن کر اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا کہ اے اُمّ المؤمنین! ابو ہریرہؓ نے ہم سے رسول اللہﷺ کی وہ حدیث بیان کی کہ اگر وہ حدیث ٹھیک ہو تو ہم سب تباہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے فرمانے سے جو ہلاک ہوا وہی حقیقت میں ہلاک ہوا، کہو تو وہ (حدیث) کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جواللہ سے ملنا نہیں چاہتا اللہ بھی اس سے ملنا نہیں چاہتا، اور ہم میں سے تو کوئی ایسا نہیں ہے جو مرنے کو بُرا نہ سمجھے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بیشک رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے جو تو سمجھتا ہے۔ بلکہ جب آنکھیں پھر جائیں اور دَم سینہ میں رک جائے اور روئیں (یعنی بال) بدن پر کھڑے ہو جائیں اور انگلیاں تشنج زدہ ہو جائیں (یعنی نزع کی حالت میں۔ تو) اس وقت جو اللہ سے ملنا پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرے اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔

باب : موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے حسن ظن (نیک گمان) رکھنے کا بیان۔

455: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اپنی وفات سے روز قبل یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کوئی آدمی نہ مرے مگر اللہ کے ساتھ نیک گمان رکھ کر (یعنی خاتمہ کے وقت اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو بلکہ اپنے مالک کے فضل و کرم کی امید رکھے اور اپنی نجات اور مغفرت کا گمان رکھے )۔

باب : میت کی آنکھیں بند کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے کا بیان۔

456: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ابو سلمہؓ  کی عیادت کو آئے اور اس وقت ان کی آنکھیں چڑھ گئی تھیں، (یعنی فوت ہو چکے تھے ) تو آپﷺ نے ان کی آنکھیں بند کر دیں اور فرمایا: جب جان نکلتی ہے تو آنکھیں اس کے پیچھے لگی رہتی ہیں۔ ان کے گھر والوں میں سے لوگوں نے رونا شروع کر دیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے لئے اچھی ہی دعا کرو اس لئے کہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔ پھر آپﷺ نے دعا کی کہ ”اے اللہ! ابو سلمہؓ کو بخش دے اور ان کا درجہ ہدایت والوں میں بلند کر اور تو ان کے باقی رہنے والے عزیزوں میں خلیفہ ہو جا اور ان کی قبر ان کے لئے کشادہ اور روشن کر دے۔ اے تمام جہانوں کے پالنے والے ! ہمیں بھی بخش دے اور ان کو بھی۔

باب : میت کو کپڑے سے ڈھانپ دینا۔

457: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے وفات پائی تو آپﷺ پر ایک یمنی چادر ڈال دی گئی۔

باب : مومنوں اور کافروں کی روحوں کا بیان۔

458: سیدنا ابو ہریرہؓ  (نبیﷺ سے بیان کرتے ہوئے ) کہتے ہیں کہ جب ایمان دار کی روح بدن سے نکلتی ہے تو اس کے آگے دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو آسمان پر چڑھا لے جاتے ہیں۔ حماد (راوی حدیث) نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے اس روح کی خوشبو کا اور مشک کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ آسمان والے (فرشتے ) کہتے ہیں کہ کوئی پاک روح زمین کی طرف سے آئی ہے ، اللہ تجھ پر رحمت کرے اور تیرے بدن پر جس کو تو نے آباد رکھا۔ پھر رب العالمین کے پاس اس کو لے جاتے ہیں۔ پھر رب العالمین فرماتا ہے کہ اس کو لے جاؤ (اپنے مقام میں یعنی علیّین میں جہاں مومنوں کی ارواح رہتی ہیں) قیامت تک (وہیں رکھو) اور کافر کی روح جب نکلتی ہے (راوی حدیث) حماد نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے اس کی بدبو اور اس پر لعنت کا ذکر کیا، کہ آسمان والے کہتے ہیں کہ کوئی ناپاک روح زمین کی طرف سے آئی ہے۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اس کو لے جاؤ (اپنے مقام سجین میں جہاں کافروں کی روحیں رہتی ہیں) قیامت ہونے تک۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ایک باریک کپڑا جو آپﷺ اوڑھے ہوئے تھے (جب کافر کی روح کا ذکر کیا اس کی بدبو بیان کرنے کو)اپنی ناک پر ڈال کر دکھاتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح سے۔

باب : شروع صدمہ میں مصیبت پر صبر کرنے کا بیان۔

459: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے (فوت شدہ) بچے پر رو رہی تھی۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ تو وہ عورت کہنے لگی کہ تمہیں میری مصیبت کا کیا اندازہ ہے۔ پس جب آپﷺ چلے گئے تو عورت سے کہا گیا کہ بیشک وہ (کہنے والے ) اللہ کے رسولﷺ تھے۔ تو اسے موت کے برابر (صدمے ) نے آ لیا۔ چنانچہ وہ عورت نبیﷺ کے دروازے پر آئی تو اس نے آپﷺ کے دروازے پر دربان نہ پائے۔ کہنے لگی اے اللہ کے رسولﷺ میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ بیشک صبر تو صدمے کی ابتداء کے وقت ہوتا ہے۔ (راوی کو شک ہے کہ آپﷺ نے عند اول صدمۃکا لفظ بولا یا عند اول الصدمۃکے الفاظ استعمال کئے )

باب : اولاد کے مرنے پر ثواب کی نیت سے صبر کرنے پر اجر و ثواب۔

460: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انصار کی عورتوں سے فرمایا کہ تم میں سے جس کے تین لڑکے مر جائیں اور وہ (عورت) اللہ کی رضامندی کے واسطے صبر کرے ، تو جنت میں جائیگی۔ ایک عورت بولی کہ یا رسول اللہﷺ! اگر دو بچے مریں تو؟ آپﷺ نے فرمایا کہ دو ہی سہی۔ ایک دوسری سند سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس مسلمان کے تین بچے مر جائیں اس کو جہنم کی آگ نہ لگے گی مگر قسم اتارنے کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو دوزخ پر سے نہ گزرے “ اس وجہ سے اس کا گزر بھی دوزخ پر سے ہو گا لیکن اور کسی طرح عذاب نہ ہو گا)۔

باب : مصیبت کے وقت کیا کہا جائے ؟

461: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ جب کسی بندے کو تکلیف پہنچے اور وہ یہ دعآپڑھے ”اِنَّا للهِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ … واخلف لی خیرا منہا“ یعنی یقیناً ہم بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور یقیناً ہم (بھی) اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ مجھے میری اس مصیبت میں اجر دے اور اس کے بعد مجھے (ضائع شدہ چیز سے ) بہتر چیز عطا فرما۔ (اس دعا کے پڑھتے رہنے سے ) اللہ تعالیٰ اُس کو اس مصیبت کا ثواب دیتا ہے اور (ضائع شدہ چیز سے ) بہتر چیز بھی عطا فرماتا ہے۔ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب (میرا پہلا خاوند سیدنا ) ابو سلمہؓ  فوت ہو گیا تو میں نے (مذکورہ دعا) پڑھی جیسا کہ رسول اللہﷺ نے مجھے حکم دیا تھا، تو (اس دعا کی برکت سے ) اللہ تعالیٰ نے مجھے (پہلے خاوند) سے اچھے خاوند (یعنی محمدﷺ) عطا فرما دیئے۔

باب : میت پر رونے کے بیان میں۔

462: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن عبادہؓ  بیمار ہوئے تو رسول اللہﷺ ان کی عیادت کو آئے اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف ، سعد اور عبد اللہؓ ان کے ساتھ تھے۔ جب آپﷺان کے پاس آئے تو انہیں بے ہوش پایا، تو آپﷺ نے پوچھا کہ کیا انتقال ہو گیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپﷺ رونے لگے۔ لوگوں نے جب آپﷺ کو روتے دیکھا تو سب رونے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ سنتے ہو، اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسوؤں پر اور دل کے غم پر عذاب نہیں کرتا، وہ تو اس (آپﷺ نے زبان کی طرف اشارہ کیا) کی بنا پر عذاب کرتا ہے یا رحمت کرتا ہے۔ (یعنی جب کلمہ خیر منہ سے نکالے تو رحم کرتا ہے اور جب کلمہ شر نکالے تو عذاب کرتا ہے )۔

باب : نوحہ کرنے پر سخت وعید۔

463: سیدنا ابو مالک اشعریؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: میری امت میں جاہلیت (یعنی زمانہ کفر) کی چار چیزیں ہیں کہ لوگ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ ایک اپنے حسب پر فخر کرنا۔ دوسرا ایک دوسرے کے نسب پر طعن کرنا۔ تیسرے تاروں سے بارش کی امید رکھنا اور چوتھے یہ کہ بین کر کے رونا۔ اور بین کرنے والی اگر اپنے مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس پر گندھک اور خارش (لگانے ) والی قمیض ہو گی۔

باب : جو شخص (صدمے کی وجہ سے ) منہ پر تھپیڑے مارے اور گریبان چاک کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

464: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں، جو گالوں کو پیٹے اور گریبانوں کو پھاڑے یا جاہلیت (کفر) کے زمانے کی باتیں کرے۔ ایک اور روایت میں(اَوْ)کی جگہ (و) کا لفظ ہے۔

باب : زندہ کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔

465: سیدہ عمرہ بنت عبد الرحمنؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا (اور ان کے سامنے اس بات کا ذکر ہوا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مُردے پر زندہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے تو) اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ ابو عبد الرحمنؓ  کو بخشے ، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا مگر بھول ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ ایک یہودی عورت پر گزرے کہ لوگ اس پر رو رہے تھے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اس پر روتے ہیں اور اس کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔

باب : آرام پانے والے اور جس سے لوگوں کو آرام ملے ، اس بارے میں جو کچھ وارد ہوا ہے اس کا بیان۔

466: سیدنا ابو قتادہ بن ربعیؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا: خود آرام پانے والا ہے اور اس کے جانے سے اور لوگوں نے آرام پایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ خود آرام پانے والا ہے اور لوگوں کو اس سے آرام ہو گا، کا مطلب کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مومن دنیا کی تکلیفوں سے آرام پاتا ہے (یعنی موت کے وقت) اور بد آدمی کے جانے سے بندے ، شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں۔

باب : میت کو غسل دینے کا بیان۔

467: سیدہ اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپﷺ نے ہم سے فرمایا کہ اس کو طاق مرتبہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دو۔ اور پانچویں بار کافور یا (فرمایا کہ) تھوڑا سا کافور ڈال دو۔

باب : میت کے کفن کا بیان۔

468: اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو سحول کی بنی ہوئی تین سفید روئی کی بنی ہوئی چادروں میں کفن دیا گیا۔ ان میں نہ کرتہ تھا، نہ عمامہ اور حلہ کا لوگوں کو شبہ ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حلہ آپﷺ کے لئے خریدا گیا تھا کہ آپﷺکو اس میں کفن دیا جائے ، پھر نہ دیا گیا اور تین چادروں میں دیا گیا جو سفید سحول کی بنی ہوئی تھیں۔ اور حلہ کو عبد اللہ بن ابی بکرؓ  نے لیا اور کہا کہ میں اسے رکھ چھوڑوں گا اور میں اپنا کفن اسی سے کروں گا۔ پھر کہا کہ اگر اللہ کو یہ پسند ہوتا تو اس کے نبیﷺ کے کفن کے کام آتا سو اس کو بیچ ڈالا اور اس کی قیمت خیرات کر دی۔

باب : میت کو بہترین کفن پہنانے کا بیان۔

469: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کا ذکر کیا جن کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کو ایسا کفن دیا گیا تھا جس سے ستر نہیں ڈھانپا جاتا تھا اور شب کو دفن کر دیا گیا تھا۔ پس رسول اللہﷺ نے انہیں رات میں دفن کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ آپﷺ نے ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔ مگر جب انسان لاچار ہو جائے۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے (تاکہ اس کے تمام بدن کو خوب اچھی طرح ڈھانپ لینے والا ہو)۔

باب : جنازہ جلدی لے جانے کا بیان۔

470: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جنازہ لے جانے میں جلدی کرو۔ اس لئے کہ اگر نیک ہے تو اسے خیر کی طرف لے جاتے ہو اور اگر بد ہے تو اسے اپنی گردن سے اتارتے ہو۔

باب : عورتوں کے جنازے کے ساتھ جانے کے منع کا بیان۔

471: سیدہ اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں جنازہ کے ساتھ چلنے سے روکا جاتا تھا مگر تاکید سے نہیں۔

باب : جنازہ کے لئے کھڑے ہونے کا بیان۔

472: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ایک جنازہ گزرا تو رسول اللہﷺ کھڑے ہو گئے تو ہم بھی آپﷺ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ تو یہودی عورت کا جنازہ ہے آپﷺ نے فرمایا کہ موت گھبراہٹ کی چیز ہے ، جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔

باب : جنازہ کے لئے کھڑا ہونا منسوخ ہے۔

473: سیدنا علیؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کو کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا تو ہم بھی آپﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور وہ بیٹھنے لگے پھر ہم بھی بیٹھنے لگے یعنی جنازہ میں۔

باب : میت پر نماز جنازہ پڑھنے کے وقت امام کہاں کھڑا ہو؟۔

474: سیدنا سمرہ بن جندبؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے پیچھے سیدنا کعبؓ  کی ماں پر نماز جنازہ پڑھی جو نفاس میں فوت ہو گئی تھیں اور رسول اللہﷺ ان کے جنازہ کے وسط میں کھڑے ہوئے۔

باب : نمازِ جنازہ کی تکبیروں کا بیان۔

475: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نجاشی کی موت کی خبر دی، جس دن کہ ان کا انتقال ہوا۔ اور صحابہ کرام کے ساتھ عیدگاہ میں گئے اور ان کی (نماز جنازہ پر) چار تکبیریں پڑھیں)۔

باب : پانچ تکبیروں کے بیان میں۔

476: سیدنا عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زیدؓ  ہمارے جنازوں کی نماز میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک جنازہ پر پانچ تکبیریں کہیں تو میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ (بھی کبھی کبھی پانچ تکبیریں) کہا کرتے تھے۔

باب : (نمازِ جنازہ میں) میت کے لئے دعا کرنا۔

477: سیدنا عوف بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی اور میں نے آپ کی دعا میں سے یہ الفاظ یاد رکھے ”اے اللہ! اس کو بخش دے ، اس پر رحم کر، اس کو عافیت میں رکھ، اس کو معاف کر، اپنی عنایت سے مہربانی کر، اس کا گھر (قبر) کشادہ کر دے ، اس کو پانی، برف اور اولوں سے دھو دے ، اس کو گناہوں سے صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف ہو جاتا ہے ، اس کو گھر کے بدلے اس سے بہتر گھر دے ، اس کے لوگوں سے بہتر لوگ دے ، اس کی بیوی سے بہتر بیوی دے ، جنت میں لے جا اور عذاب قبر سے بچا“ یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ یہ مرنے والا میں ہوتا۔

باب : مسجد میں میت پر نمازِ جنازہ پڑھنے کا بیان۔

478: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب (فاتحِ ایران) سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  نے انتقال فرمایا تو رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں سے لے آؤ کہ ہم بھی نماز پڑھ لیں، سو ایسا ہی کیا گیا۔ اور ان کے حجروں کے آگے جنازہ رکھ دیا کہ وہ نماز پڑھ لیں اور جنازہ کو باب الجنائز سے جو مقاعد کی طرف تھا، وہاں سے باہر لے گئے۔ لوگوں کو یہ خبر پہنچی تو عیب کرنے لگے اور کہا کہ جنازہ کہیں مسجد میں لاتے ہیں؟ اس پر اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ لوگ کیا جلدی عیب کرنے لگے اس چیز کے متعلق جس کا ان کو علم نہیں ہے۔ انہوں نے ہم پر عیب کیا کہ جنازہ کو مسجد میں لائے حالانکہ بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے بیضاء کے بیٹے سہیل کی نماز جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھی تھی۔

باب : قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنا۔

479: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ ایک حبشی عورت مسجد کی خدمت کرتی تھی یا ایک جوان تھا اور اس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے پوچھا تو لوگوں نے عرض کیا کہ وہ مر گئی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ کہا گویا کہ انہوں نے اس کو حقیر جان کر نبیﷺ کو تکلیف دینا مناسب نہ جانا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کی قبر بتاؤ۔ لوگوں نے بتائی تو آپﷺ نے اس پر نماز پڑھی اور فرمایا: یہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ میری نماز کی وجہ سے ان کو روشن کر دیتا ہے۔

باب : خودکشی کرنے والے کے بارے میں۔

480: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے پاس ایک شخص (کا جنازہ) لایا گیا، جس نے اپنے آپ کو ایک چوڑے تیر سے مار ڈالا تھا۔ تو آپﷺ نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔

باب : میت پر نمازِ جنازہ پڑھنے اور اس کے پیچھے جانے کی فضیلت۔

481: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص جنازہ پر حاضر رہے یہاں تک کہ نماز پڑھی جائے (اور اس میں شریک ہو تو) اس کو ایک قیراط کا ثواب ہے اور جو شخص (نمازِ جنازہ کے بعد) دفن تک حاضر رہے تو اس کو دو قیراط کا ثواب ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ دو قیراط کا کیا مطلب ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ دو بڑے پہاڑوں کے برابر ثواب۔

باب : جس پر سو آدمی جنازہ پڑھیں ، ان کی شفاعت قبول ہو گی۔

482: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: کوئی مردہ ایسا نہیں کہ اس پر مسلمانوں کا ایک گروہ، جس کی گنتی سو تک پہنچتی ہو، نماز جنازہ پڑھے اور پھر سب اس کی شفاعت کریں، (یعنی اللہ سے اس کی مغفرت کی دعا کریں) مگر یہ کہ ان کی شفاعت قبول ہو گی۔

باب : جس پر چالیس (40) مسلمان نمازِ جنازہ پڑھیں تو ان کی سفارش قبول کر لی جاتی ہے۔

483: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ ان کا ایک فرزند (مقامِ) قدید یا عسفان میں فوت ہو گیا تو انہوں نے (اپنے غلام سے ) کہا کہ اے کریب! دیکھو کتنے لوگ (نمازِ جنازہ کے لئے ) جمع ہیں؟ کریب نے کہا کہ میں گیا اور دیکھا کہ لوگ جمع ہیں تو انہیں خبر کی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنما نے کہا کہ تمہارے اندازے میں چالیس ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ کہا کہ جنازہ نکالو، اس لئے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ جس مسلمان کے جنازے میں چالیس آدمی ایسے ہوں، جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں ان کی شفاعت ضرور قبول کرتا ہے۔

باب : جن مُردوں کی اچھائی یا برائی بیان کی گئی۔

484: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ایک جنازہ گزرا اور لوگوں نے اسے اچھا کہا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ واجب ہو گئی تین بار (یہی) فرمایا۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اسے بُرا کہا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ واجب ہو گئی تین بار (یہی) فرمایا۔ سیدنا عمرؓ  نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہو، ایک جنازہ گزرا اور لوگوں نے اسے اچھا کہا آپﷺ نے تین بار فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا گزرا تو لوگوں نے اسے بُرا کہا، آپﷺ نے تین بار فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ (اس کا کیا مطلب ہے ، کیا چیز واجب ہو گئی)؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جس کو تم نے اچھا کہا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور جس کو بُرا کہا اس پر دوزخ واجب ہو گئی۔ تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو، تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو، تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔

باب : نمازِ جنازہ سے فراغت کے بعد سوار ہونے کا بیان۔

485: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ابن دحداح کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر آپﷺ کے پاس ایک ننگی پیٹھ والا گھوڑا (بغیر زین کے ) لایا گیا۔ اس کو ایک شخص نے پکڑا پھر آپﷺ سوار ہوئے اور وہ کودتا تھا اور ہم سب آپﷺ کے پیچھے تھے اور دوڑتے تھے۔ سو قوم میں سے ایک شخص نے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ابن دحداح کے لئے جنت میں کتنے خوشے لٹک رہے ہیں۔

باب : قبر میں چادر ڈالنے کا بیان۔

486: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی قبر مبارک میں سرخ چادر ڈالی گئی تھی۔

باب : لحد کا بیان اور کچی اینٹیں کھڑی کرنے کا بیان۔

487: عامر بن سعد سے روایت ہے کہ (فاتحِ ایران سیدنا ) سعد بن ابی وقاصؓ  نے اپنی اس بیماری میں، جس میں ان کا انتقال ہوا یہ فرمایا کہ میرے لئے لحد بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا جیسے رسول اللہﷺ کے لئے بنائی گئی۔

باب : قبروں کو برابر کرنے کا حکم۔

488: ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا علیؓ  نے کہا کہ میں تمہیں اس کام کے لئے بھیجتا ہوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہﷺ نے بھیجا تھا کہ ہر تصویر کو مٹا دو اور ہر اونچی قبر کو (زمین کے ) برابر کر دو۔

باب : قبروں پر عمارت بنانا یا پختہ کرنا مکروہ ہے۔

489: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قبر کو پختہ کرنے ، اس پر بیٹھنے (مجاوری کرنے ) اور اس پر عمارت (گنبد وغیرہ) بنانے سے منع فرمایا ہے۔

باب : جب آدمی مر جاتا ہے تو صبح و شام اُس پر اُس کا جنت یا دوزخ کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے۔

490: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مر جاتا ہے تو صبح و شام اس کے سامنے اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے۔ اگر جنت والوں میں سے ہے تو جنت والوں میں سے اور جو دوزخ والوں میں سے ہے تو دوزخ والوں میں سے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے قیامت کے دن اس (ٹھکانے کی) طرف بھیجے گا۔

باب : فرشتوں کا سوال ک0631نا جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے۔

491: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب بندہ اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا (یعنی محمدﷺ کے بارے میں آپﷺ کا نام تعظیم سے نہیں لیتے تاکہ وہ سمجھ نہ جائے ) مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔(ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو)۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں سے دیکھ لے اس (ٹھکانے ) کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں ٹھکانہ دیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ قتادہ نے کہا کہ سیدنا انسؓ  نے ہم سے ذکر کیا کہ اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور سبزہ سے بھر جاتی ہے (یعنی باغیچہ بن جاتا ہے ) قیامت تک (یونہی رہے گا)۔

باب : اللہ تعالیٰ کا فرمان ”یثبت اللہ الذین آمنوا …“ قبر کے بارے میں ہے۔

492: سیدنا براء بن عازبؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: یہ آیت ”اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات پر قائم رکھتا ہے “ قبر کے عذاب کے بارے میں اتری ہے۔ میت سے پوچھا جاتا ہے ، تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور میرے نبی محمدﷺ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول ”اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت میں پکی بات پر قائم رکھتا ہے “ سے یہی مراد ہے۔

باب : عذاب قبر اور اس سے پناہ مانگنے کے بارے میں۔

493: سیدنا زید بن ثابتؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بنی نجار کے باغ میں اپنے ایک خچر پر جا رہے تھے اور ہم آپﷺ کے ساتھ تھے۔ اتنے میں وہ خچر بدکا اور قریب تھا کہ آپﷺ کو گرا دے وہاں پر چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں۔ آپﷺ نے پوچھا کہ کوئی جانتا ہے کہ یہ قبریں کن کی ہیں؟ ایک شخص بولا کہ میں جانتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ کب مرے ؟ وہ شخص بولا کہ شرک کے زمانہ میں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس امت کا امتحان قبروں میں ہوتا ہے۔ پھر اگر تم (اپنے مُردوں کو) دفن کرنا نہ چھوڑ دو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تم کو قبر کا عذاب سنا دیتا، جو میں سن رہا ہوں۔ اس کے بعد آپﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ جہنم کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ چھپے اور کھلے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم چھپے اور کھلے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

باب : یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیئے جانے کا بیان۔

494:سیدنا ابو ایوبؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے آفتاب کے ڈوبنے کے بعد ایک آواز سنی تو فرمایا کہ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔

باب : قبروں کی زیارت اور مردوں کے لئے استغفار کرنے کا حکم۔

495: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپﷺ رو پڑے۔اور آپﷺ نے اپنے ارد گرد لوگوں کو بھی رُلا دیا۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کے لئے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی۔ اور میں نے قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت دے دی گئی۔ لہٰذا تم قبروں کی زیارت کیا کرو، یہ موت یاد دلاتی ہیں۔

496: سیدنا بریدہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کرتا تھا، پس اب تم زیارت کیا کرو۔ اور میں تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کرتا تھا، پس اب جب تک چاہو رکھو۔ اور میں تمہیں مشکوں کے سوا اور برتنوں میں نبیذ (پینے ) سے منع کرتا تھا، پس اب پینے کے برتنوں میں سے جس میں چاہو پیو مگر نشہ کی چیز نہ پیو۔

باب : قبر والوں کو سلام کہنا، ان پر رحم کھانا اور ان کے لئے دعا کرنے کا بیان۔

497: محمد بن قیس نے ایک دن کہا کہ کیا میں تمہیں اپنی بات اور اپنی ماں کی بات نہ سناؤں؟ ہم نے یہ خیال کیا کہ شاید ماں سے وہ مراد ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ پھر انہوں نے کہا اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں تم کو اپنی اور رسول اللہﷺ کی بات سناؤں؟ ہم نے کہا کہ ضرور۔ انہوں نے کہا کہ ایک رات نبیﷺ میرے پاس تھے کہ آپﷺ نے کروٹ لی اور اپنی چادر رکھی اور جوتا نکال کر اپنے پاؤں کے آگے رکھا اور چادر کا کنارہ اپنے بچھونے پر بچھایا اور لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر اس خیال سے ٹھہرے رہے کہ گمان کر لیا کہ میں سو گئی ہوں۔ پھر آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا، نکلے اور پھر آہستہ سے اس کو بند کر دیا۔ میں نے بھی اپنی چادر لی اور سر پر اوڑھی اور گھونگھٹ، اور آپﷺ کے پیچھے چل پڑی یہاں تک کہ آپﷺ بقیع پہنچے اور دیر تک کھڑے رہے۔ پھر دونوں ہاتھ تین بار اٹھائے اور پھر لوٹے تو میں بھی لوٹی۔ اور آپﷺ جلدی چلے تو میں بھی جلدی چلی اور آپﷺ دوڑے اور میں بھی دوڑی اور آپﷺ گھر آ گئے اور میں بھی آ گئی مگر آپﷺ سے آگے آئی اور گھر میں آتے ہی لیٹ گئی۔ جب آپﷺ گھر میں آئے تو فرمایا کہ اے عائشہ! تمہیں کیا ہوا کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے اور پیٹ پھولا ہوا ہے ؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ بتا دو نہیں تو وہ باریک بین خبردار (یعنی اللہ تعالیٰ) مجھے خبر کر دے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ پھر میں نے آپﷺ کو خبر دی (یعنی ساری بات بتا دی) تو آپﷺ نے فرمایا کہ ایک سایہ سا جو میرے آگے نظر آتا تھا، وہ تم ہی تھیں؟ میں نے کہا جی ہاں، تو آپﷺ نے میرے سینے پر گھونسا مارا (یہ محبت سے تھا) کہ مجھے درد ہوا اور فرمایا کہ تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق دبا لے گا؟ (یعنی تمہاری باری میں میں اور کسی بیوی کے پاس چلا جاؤں گا) تب میں نے کہا کہ جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے (یعنی اگر آپ کسی اور بیوی کے پاس جاتے تو بھی اللہ تعالیٰ دیکھتا تھا) آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے جب تو نے (مجھے اٹھتے ہوئے ) دیکھا۔ انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، تو میں نے بھی چاہا کہ تم سے چھپاؤں۔ اور وہ تمہارے پاس نہیں آئے تھے کہ تم نے (سونے کی غرض سے ) اپنا زائد کپڑا اتار دیا تھا اور میں سمجھا کہ تم سو گئیں، سو میں نے بُرا جانا کہ تمہیں جگاؤں اور یہ بھی خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گئی کہ کہاں چلے گئے۔ پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ تمہارا پروردگار حکم فرماتا ہے کہ تم بقیع کو جاؤ اور اہل بقیع کے لئے مغفرت مانگو۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں کیسے کہوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کہو ”اہل اسلام اور ایمان دار گھر والوں پر سلام ہے اور اللہ تعالیٰ رحمت کرے ہم سے آگے جانے والوں پر اور پیچھے جانے والوں پر اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی (فوت ہو کر) تم سے ملنے والے ہیں“۔

باب : قبروں پر بیٹھنا اور ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا بیان۔

498: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایک انگارے پر بیٹھے جو اس کے کپڑوں کو جلا دے اور اس کی کھال تک (اس کا اثر) پہنچے ، تو بھی قبر پر بیٹھنے (یعنی مجاوری کرنے ) سے بہتر ہے۔

499: سیدنا ابو مرثد غنویؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نہ قبر پر بیٹھو اور نہ اس کی طرف نماز پڑھو۔

باب : اس نیک آدمی کے متعلق جس کی تعریف کی گئی ہو۔

500: سیدنا ابوذرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو اچھے اعمال کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بالفعل خوشخبری ہے مومن کو (یعنی آخرت میں جو ثواب اور اجر ہے وہ تو الگ ہے یہ اس کے لئے دنیا ہی میں خوشی ہے کہ لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں)۔

 

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل

باب : زکوٰۃ کے فرض ہونے کا بیان۔

501: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبلؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے مجھے (یمن کی طرف حاکم کر کے ) بھیجا تو فرمایا: تم کچھ اہل کتاب لوگوں سے ملو گے تو ان کو اس بات کی گواہی کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں (یعنی محمدﷺ) اللہ کا بھیجا ہوا ہوں، اگر وہ اس کو مان لیں تو ان کو یہ بات بتلانا کہ اللہ نے ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس بات کو مان لیں تو ان کو یہ بات بتلانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے ، جو ان کے مالداروں سے لے کر پھر انہی کے فقیروں اور محتاجوں کو دی جائے گی۔ اگر وہ اس بات کو مان لیں تو آگاہ رہو کہ ان کے عمدہ مال نہ لینا (یعنی زکوٰۃ میں متوسط جانور لینا، عمدہ دودھ والا اور پر گوشت فربہ چھانٹ کر نہ لینا) اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ مظلوم کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں۔

باب : اموال (کی مقدار ) کا بیان جن پر زکوٰۃ فرض ہے یعنی نقدی، کھیتی اور جانور۔

502: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: غلہ اور کھجور میں زکوٰۃ نہیں جب تک کہ پانچ وسق (بیس من) تک نہ ہو اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ ہے اور نہ پانچ اوقیہ (52.50 تولے ) سے کم چاندی میں زکوٰۃ ہے۔

باب : جس (مال) میں عشر یا عشر کا نصف ہے اس کا بیان۔

503: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جس (کھیت) میں نہروں اور بارش (کے ذریعے ) سے پانی دیا جائے اس میں عشر (یعنی دسواں حصہ) زکوٰۃ ہے اور جو اونٹ لگا کر سینچی جائے اس میں نصف العشیر (یعنی بیسواں حصہ زکوٰۃ) فرض ہے

باب : مسلمان کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ نہیں۔

504: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان کے غلام اور گھوڑے پر زکوٰۃ (فرض) نہیں۔

باب : زکوٰۃ (سال سے ) پہلے ادا کر دینا اور زکوٰۃ نہ دینے کے متعلق۔

505: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا عمرؓ  کو زکوٰۃ وصول کرنے کو بھیجا۔ پھر آپ کو بتایا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور (رسول اللہﷺ کے چچا) عباسؓ، ان لوگوں نے زکوٰۃ نہیں دی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ابن جمیل تو اس کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ محتاج تھا اور اللہ نے اس کو امیر کر دیا اور خالدؓ پر تم زیادتی کرتے ہو اس لئے کہ اس نے تو زرہیں اور ہتھیار تک اللہ کی راہ میں دے دئیے ہیں (یعنی پھر زکوٰۃ کیوں نہ دے گا) اور رہے عباسؓ تو ان کی زکوٰۃ اور اتنی ہی مقدار اور میرے ذمہ ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے عمر ص! کیا تم نہیں جانتے کہ چچا تو باپ کے برابر ہے۔

باب : اس آدمی کے بارے میں جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا۔

506: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں آپﷺ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب آپﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا کہ رب کعبہ کی قسم وہی نقصان والے ہیں۔ تب میں آپﷺ کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور نہ ٹھہر سکا کہ کھڑا ہو گیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں، وہ کون (لوگ) ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ بہت مال والے ہیں۔ مگر جس نے خرچ کیا ادھر اور ادھر اور جدھر مناسب ہوا اور دیا آگے سے اور پیچھے سے اور داہنے اور بائیں سے اور ایسے لوگ تھوڑے ہیں۔ (یعنی جہاں دین کی تائید اور اللہ اور رسولﷺ کی مرضی دیکھی وہاں بلا تکلف خرچ کیا) اور جو اونٹ، گائے اور بکری والا ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا تو قیامت کے دن وہ جانور ، جیسے دنیا میں تھے اس سے زیادہ موٹے اور چربیلے ہو کر آئیں گے اور اپنے سینگوں سے اس کو ماریں گے ، اور اپنے کھروں سے اس کو روندیں گے۔ جب ان جانوروں میں سب سے پچھلا گزر جائے گا تو آگے والا پھر اس پر آ جائے گا۔ اور جب تک بندوں کا فیصلہ نہ ہو جائے ، اس کو یہی عذاب ہوتا رہے گا۔

507: سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کوئی چاندی یا سونے کا مالک ایسا نہیں کہ اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر وہ قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ اس کے لئے آگ کی چٹانوں کے پرت بنائے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ میں گرم کئے جائیں گے جس سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ داغی جائے گی۔ جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو پھر گرم کئے جائیں گے۔ اس وقت جبکہ دن پچاس ہزار برس کے برابر ہے ، بندوں کا فیصلہ ہونے تک اس کو یہی عذاب ہو گا اور یہاں تک کہ اس کی راہ جنت یا دوزخ کی طرف نکلے۔ آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! پھر اونٹ (والوں) کا کیا حال ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جو اونٹ والا اپنے اونٹوں کا حق نہیں دیتا اور اس کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دودھ دوھ کر غریبوں کو بھی پلائے جس دن ان کو پانی پلائے (عرب کا معمول تھا کہ تیسرے یا چوتھے دن اونٹوں کو پانی پلانے لے جاتے وہاں مسکین جمع رہتے اونٹوں کے مالک ان کو دودھ دوہ کر پلاتے حالانکہ یہ واجب نہیں ہے مگر آپﷺ نے اونٹوں کا ایک حق اس کو بھی قرار دیا ہے ) جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ ایک ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور وہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئیں گے کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے۔ پھر جب ان میں کا پہلا جانور روندتا چلا جائے گا تو پچھلا آ جائے گا۔ یونہی سدا عذاب ہوتا رہے گا سارا دن جو کہ پچاس ہزار برس کا ہو گا یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہو جائے اور پھر اس کی جنت یا دوزخ کی طرف کچھ راہ نکلے۔ پھر عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! گائے بکری کا کیا حال ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی گائے بکری والا ایسا نہیں جو اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ ایک ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور اُن گائے بکریوں میں سے سب آئیں گی، کوئی باقی نہ رہے گی اور ایسی ہوں گی کہ ان میں سینگ مڑی ہوئی نہ ہوں گی نہ بے سینگ اور نہ ٹوٹے ہوئے سینگوں والی اور آ کر اس کو اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی۔ جب اگلی اس پرسے گزر جائے گی تو پچھلی پھر آئے گی، یہی عذاب اس کو پچاس ہزار برس کے سارے دن میں ہوتا رہے گا یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہو جائے اور پھر جنت یا دوزخ کی طرف اس کی کوئی راہ نکلے۔ پھر عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اور گھوڑے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے تین طرح کے ہیں ایک اپنے مالک پر بار (یعنی وبال) ہے ، دوسرا اپنے مالک کا عیب ڈھانپنے والا ہے اور تیسرا اپنے مالک کے لئے ثواب کا سامان ہے۔ اب اس وبال والے گھوڑے کا حال سنو جو اس لئے باندھا گیا ہے کہ لوگوں کو دکھائے اور لوگوں میں بڑھکیں مارے اور مسلمانوں سے عداوت کرے ، سو یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے۔ اور وہ جو عیب ڈھانپنے والا ہے وہ گھوڑا ہے کہ اس کو اللہ کی راہ میں باندھا ہے (یعنی جہاد کے لئے ) اور اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس چارہ میں کمی کرتا ہے ، تو وہ اس کا عیب ڈھانپنے والا ہے۔ اور جو ثواب کا سامان ہے اس کا کیا کہنا کہ وہ گھوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں اور اہل اسلام کی مدد اور حمایت کے لئے کسی چراگاہ یا باغ میں باندھا گیا ہے۔ پھر اس نے اس چراگاہ یا باغ سے جو کھایا اس کی گنتی کے موافق نیکیاں اس کے مالک کے لئے لکھی گئیں اور اس کی لید اور پیشاب تک نیکیوں میں لکھا گیا۔ اور جب وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک دو ٹیلوں پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں اور اس کی لید کی گنتی کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور جبﷺ سکا مالک کسی ندی پر سے گزرے اور وہ گھوڑا اس میں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ مالک کا پلانے کا ارادہ بھی نہ تھا، تب بھی اس کے لئے ان قطروں کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس نے پئے ہیں۔ (یہ ثواب تو بے ارادہ پانی پی لینے میں ہے پھر جب پانی پلانے کے ارادہ سے لے جائے تو کیا کچھ ثواب نہ پائے گا) پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ! گدھے کا حال بیان فرمائیے تو آپﷺ نے فرمایا کہ گدھوں کے بارے میں میرے اوپر کوئی حکم نہیں اترا سوائے اس آیت کے جو بے مثل اور جمع کرنے والی ہے کہ ”جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے (قیامت کے دن) دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھ لے گا“۔

باب : خزانہ جمع کرنے والوں اور ان پر سخت سزا کے بیان میں۔

508: احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں قریش کے چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا ابو ذرؓ  آئے اور کہنے لگے کہ بشارت دو خزانہ جمع کرنے والوں کو ایسے داغوں کی جو ان کی پیٹھوں پر لگائے جائیں گے اور ان کی کروٹوں سے نکل جائیں گے۔ اور ان کی گدیوں میں لگائے جائیں گے تو ان کی پیشانیوں سے نکل آئیں گے۔ پھر ابو ذرؓ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ سیدنا ابو ذرؓ  ہیں۔ میں ان کی طرف کھڑا ہوا اور کہا کہ یہ کیا تھا جو میں نے ابھی ابھی سنا کہ آپ کہہ رہے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا تھا جو میں نے ان کے نبیﷺ سے سنا۔ پھر میں نے کہا کہ آپ اس عطا کے بارے میں (یعنی جو مالِ غنیمت سے امراء مسلمانوں کو دیا کرتے ہیں) کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ تم اس کو لیتے رہو کہ اس میں ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ پھر جب یہ تمہارے دین کی قیمت ہو جائے تب چھوڑ دینا (یعنی دینے والے تم سے مداہنت فی الدین چاہیں تو نہ لینا)۔

باب : زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرنے کا حکم۔

509: سیدنا جریر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ دیہات کے چند لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ بعض تحصیلدار (زکوٰۃ وصول کرنے والے ) ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں۔ (یعنی جانور اچھے سے اچھا لیتے ہے حالانکہ متوسط لینا چاہئیے ) تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے تحصیلداروں کو راضی کر دیا کرو (یعنی اگرچہ وہ تم پر زیادتی بھی کریں) سیدنا جریرؓ  نے کہا کہ جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سنا تب سے کوئی تحصیلدار میرے پاس سے نہیں گیا مگر خوش ہو کر۔

باب : صدقہ لانے والے کے لئے دعا کرنا۔

510: سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی قوم صدقہ لاتی تھی تو آپﷺ ان کے لئے فرماتے تھے کہ اے اللہ! ان پر رحمت فرما۔ پھر میرے والد ابو اوفیؓ صدقہ لے کر آئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! ابو اوفی کی آل پر رحمت فرما۔

باب : اس آدمی کو عطیہ دینا جس کے ایمان میں خطرہ ہو۔

511: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کچھ مال بانٹا تو میں نے عرض کیا یہ یا رسول اللہﷺ! فلاں کو دیجئے کہ وہ مومن ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یا وہ مسلمان ہے۔ میں نے تین بار یہی کہا کہ وہ مومن ہے اور آپﷺ نے ہر بار یہی فرمایا کہ ”یا مسلمان ہے “ پھر آپﷺ نے فرمایا: میں ایک شخص کو دیتا ہوں حالانکہ دوسرے کو اس سے زیادہ چاہتا ہوں اس ڈر سے (اس شخص کو دیتا ہوں) کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ جہنم میں نہ گرا دے۔

باب : جن کے دل اسلام کی طرف راغب ہیں، ان کو دینا اور مضبوط ایمان والوں کو چھوڑ دینا۔

512: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ جب حنین کا دن ہوا تو (قبیلہ) ہوازن اور غطفان اور دوسرے قبیلوں کے لوگ اپنی اولاد اور جانوروں کو لے کر آئے اور نبیﷺ کے ساتھ دس ہزار غازی تھے اور مکہ کے لوگ (جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے ) بھی، جن کو طلقاء کہتے ہیں۔ پھر یہ سب ایک بار پیٹھ دے گئے یہاں تک کہ نبیﷺ اکیلے رہ گئے۔ سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ اس دن آپﷺ دو آوازیں دیں کہ ان کے بیچ میں کچھ نہیں کہا، پہلے دائیں طرف منہ کیا اور پکارا کہ اے گروہِ انصار! تو انصار نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپﷺ نے بائیں طرف منہ کیا اور پکارا کہ اے گروہِ انصار! تو انہوں نے پھر جواب دیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپﷺ کے ساتھ ہیں۔ اور آپﷺ اس دن ایک سفید خچر پر سوار تھے ، آپﷺ اترے اور فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں (مقامِ بندگی سے بڑھ کر کوئی فخر کا مقام نہیں شیخ اکبر نے اس کی خوب تصریح کی ہے کہ مقام عبدیت انبیاء کے واسطے خاص ہے اور کسی کو اس مقام میں مشارکت نہیں۔ سبحان اللہ اللہ کا بندہ ہونا اور اس کا رسول ہونا کتنی بڑی نعمت ہے ) اور رسول ہوں۔ پس مشرک شکست کھا گئے۔ اور رسول اللہﷺ کو بہت زیادہ مالِ غنیمت ہاتھ آیا تو آپﷺ نے سب مہاجرین اور مکہ کے لوگوں میں تقسیم کر دیا اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا۔ تب انصار نے کہا کہ مشکل گھڑی میں تو ہم بلائے جاتے ہیں اور لوٹ کا مال اوروں کو دیا جاتا ہے۔ آپﷺ کو یہ خبر ہوئی تو آپ نے انہیں ایک خیمہ میں اکٹھا کیا اور فرمایا کہ اے گروہِ انصار! یہ کیسی بات ہے جو مجھے تم لوگوں سے پہنچی ہے ؟ تب وہ چپ ہو رہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے گروہِ انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیں اور تم محمدﷺ کو اپنے گھروں میں لے جاؤ؟ انہوں نے کہا کہ بیشک اے اللہ کے رسولﷺ! ہم راضی ہو گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں تو میں انصار کی گھاٹی کی راہ لوں گا۔ ہشام(سیدنا انس کے شاگرد) نے کہا کہ میں نے کہا کہ اے ابو حمزہ! تم اس وقت حاضر تھے ؟ تو انہوں نے کہ کہ میں آپﷺ کو چھوڑ کر کہاں جاتا؟

513: سیدنا رافع بن خدیجؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ابو سفیان، صفوان، عُیینہ اور اقرع بن حابسؓ کو سو سو اونٹ دئیے اور عباس صبن مرداس کو کچھ کم دئیے تو عباسؓ  نے یہ اشعار کہے : (ترجمہ) ”آپﷺ میرا اور میرے گھوڑے کا حصہ جس کا نام عبید تھا عُیینہ اور اقرع کے بیچ میں مقرر فرماتے ہیں حالانکہ عُیینہ اور اقرع دونوں مرداس سے (یعنی مجھ سے ) کسی مجمع میں بڑھ نہیں سکتے اور میں ان دونوں سے کچھ کم نہیں ہوں۔ اور آج جس کی بات نیچے ہو گئی وہ پھر اوپر نہ ہو گی۔ سیدنا رافعؓ  کہتے ہیں کہ تب رسول اللہﷺ نے ان کے سو اونٹ پورے کر دئیے۔

514: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ  نے رسول اللہﷺ کے پاس یمن سے کچھ سونا ایک چمڑے میں رکھ کر بھیجا جو ببول کی چھال سے رنگا ہوا تھا اور ابھی (وہ سونا) مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ اسے رسول اللہﷺ نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عیینہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیلؓ۔ آپﷺ کے صحابہ میں سے کسی شخص نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبیﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے ؟ حالانکہ میں اُس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں کے اوپر ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، ابھری ہوئی پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ سے ڈرو۔ آپﷺ نے جوا ب دیا کہ تیری خرابی ہو، کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپﷺ نے فرمایا ”نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو“ (معلوم ہوا کہ وہ اکثر حاضر باش خدمت مبارک بھی نہ تھا ورنہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی) سیدنا خالدؓ  بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو اُن کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں کسی کا دل چیر کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔ پھر آپﷺ نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا، اور کہا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو اچھی طرح پڑھیں گے حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے کہ تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے (راوی کہتا ہے ) میں گمان کرتا ہوں کہ آپﷺ نے یہ بھی کہا کہ اگر میں اس قوم کو پا لوں تو میں انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔

باب : رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اہل بیت کے لئے صدقہ حلال نہیں۔

515: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ حسن بن علیﷺ نے ایک صدقہ کی کھجور لیکر اپنے منہ میں ڈالی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: تھو۔ تھو!۔ اس کو پھینک دے کیا تو نہیں جانتا کہ ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے۔

باب : صدقات کی وصولی پر آل نبیﷺ کو مقرر کرنے کی کراہت۔

516: عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث کہتے ہیں کہ ربیعہؓ  بن حارث اور عباسؓ  بن عبدالمطلب دونوں جمع ہوئے اور کہا کہ اللہ کی قسم ہم ان دونوں لڑکوں (یعنی مجھے اور فضل بن عباس) کو رسول اللہﷺ کے پاس بھیج دیں، اور یہ دونوں جا کر عرض کریں کہ رسول اللہﷺ ان کو زکوٰۃ پر تحصیلدار بنا دیں۔ اور یہ دونوں رسول اللہﷺ کو لا کر ادا کر دیں جیسے اور لوگ ادا کرتے ہیں اور ان کو کچھ مل جائے جیسے اور لوگوں کو ملتا ہے۔ غرض یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ سیدنا علیؓ  بن ابی طالبؓ  بھی آ کر ان کے پاس کھڑے ہو گئے تو ان دونوں نے سیدنا علیؓ  سے اس کا ذکر کیا۔ سیدنا علیؓ  نے کہا کہ انہیں مت بھیجو، کہ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ ایسا نہیں کریں گے۔ (اس لئے کہ آپ کو معلوم تھا کہ زکوٰۃ سیدوں کو حرام ہے ) پس ربیعہ بن حارث سیدنا علیؓ  کو بُرا کہنے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم تم ہمارے ساتھ حسد سے ایسا کرتے ہو۔ اور اللہ کی قسم کہ تم نے جو شرف رسول اللہﷺ کی دامادی کا پایا ہے تو اس کا ہم تو تم سے کچھ حسد نہیں کرتے۔ تب سیدنا علیؓ  نے کہا کہ اچھا ان دونوں کو بھیج دو۔ تو ہم دونوں گئے اور سیدنا علیؓ  لیٹ رہے۔ پھر جب رسول اللہﷺ ظہر کی نماز پڑھ چکے تو ہم دونوں جلدی سے حجرے میں آپﷺ سے پہلے جا پہنچے اور حجرے کے پاس کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آپﷺ تشریف لائے اور ہم دونوں کے کان پکڑے (یہ آپﷺ کی شفقت اور ملاعبت تھی کہ لڑکے اس سے خوش ہوتے ہیں) اور فرمایا کہ ظاہر کرو جو تم دل میں چھپا کر لائے ہو۔ پھر آپﷺ بھی حجرے میں گئے اور ہم بھی، اور اس دن آپﷺ اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تھے۔ پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم بیان کرو۔ غرض ایک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور قرابت داروں سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں، اور ہم نکاح (کی عمر) کو پہنچ گئے ہیں۔ پھر ہم اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں ان زکوٰتوں پر عامل بنا دیں کہ ہم بھی آپﷺ کو تحصیل لا دیں جیسے اور لوگ لاتے ہیں اور ہمیں بھی کچھ مل جائے جیسے اوروں کو مل جاتا ہے۔ (تاکہ ہمارے نکاح کا خرچ نکل آئے ) پھر رسول اللہﷺ بڑی دیر تک چپ ہو رہے یہاں تک کہ ہم نے چاہا کہ پھر کچھ کہیں،اور اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا ہم سے پردہ کی آڑ سے اشارہ فرماتی تھیں کہ اب کچھ نہ کہو۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ زکوٰۃ آلِ محمدﷺ کے لائق نہیں یہ تو لوگوں کا میل ہے۔ (شاید یہ مثل یہیں سے ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھوں کی میل ہے ) تم میرے پاس محمیہؓ  (یہ آپﷺ کے خزانچی کا نام تھا) جو خمس پر مقرر تھے اور نوفلؓ بن حارث بن عبدالمطلب کو بلا لاؤ۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ دونوں حاضر ہوئے اور آپﷺ نے محمیہؓ سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے فضل بن عباس کو بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی۔ اور نوفل بن حارث سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے (یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ سے ، جو راوی حدیث ہیں) بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی میرے نکاح میں دے دی۔ اور محمیہ سے فرمایا کہ ان دونوں کا مہر خمس سے اتنا اتنا ادا کر دو۔ زہری نے کہا کہ مجھ سے میرے شیخ عبد اللہ بن عبد اللہ نے مہر کی تعداد بیان نہیں کی۔

باب : جو صدقہ کے مال سے بطور ہدیہ آل نبیﷺ کے لئے بھیجا جائے ، وہ مباح ہے۔

517: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے نبیﷺ کو کچھ گوشت ہدیہ دیا جو کہ اس کو کسی نے صدقہ میں دیا تھا تو آپﷺ نے لے لیا اور فرمایا کہ ان کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔

518: سیدہ اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے صدقہ کی ایک بکری بھیجی تو میں نے اس میں سے تھوڑا گوشت اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھیج دیا۔ پھر نبیﷺ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں مگر نسیبہ (یعنی اُمّ عطیہ) نے ہمارے پاس اس بکری میں سے گوشت بھیجا ہے جو آپﷺ نے ان کے پاس بطور صدقہ کے بھیجی تھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنی جگہ پہنچ گئی۔ (یعنی ان کے لئے صدقہ تھا اب ہمارے لئے ہدیہ ہے )۔

باب : نبیﷺ کا ہدیہ قبول کرنا اور صدقہ واپس کر دینا۔

519: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کھانا آتا تو پوچھ لیتے ، اگر ہدیہ ہوتا تو کھاتے اور اگر صدقہ ہوتا تو نہ کھاتے۔

 

 

کتاب: صدقۂ فطر کا بیان

 

باب : مسلمانوں پر کھجور یا ”جو“ سے صدقہ فطر ادا کرنے کا بیان۔

520: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر رمضان کے بعد لوگوں پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کیا ہے ہر آزاد اور غلام مرد و عورت پر جو مسلمان ہو۔

باب : صدقہ فطر، کھانے ، پنیر اور منقہ (خشک انگور) سے ادا کرنے کا بیان۔

521: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دَور میں صدقہ فطر ہر چھوٹے بڑے ، آزاد اور غلام کی طرف سے ایک صاع گندم یا ایک صاع پنیر یا ’جو‘ یا کھجور یا انگور نکالتے تھے پھر جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ حج کو یا عمرہ کو آئے تو لوگوں سے منبر پر (کھڑے ہو کر) وعظ کیا اور اس میں کہا میرا خیال ہے کہ شام کی گندم کے دو مُد (یعنی نصف صاع) ایک صاع کھجور کے برابر ہوتا ہے۔ (یعنی قیمت میں) سو لوگوں نے اس کو لے لیا۔ اور سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو وہی نکالتا رہوں گا جو نکالتا تھا (یعنی ایک صاع) جب تک جیوں گا۔ (سبحان اللہ یہ اتباع تھا حدیث کا اور نفرت تھی رائے اور قیاس سے )۔

باب : نماز (عید) سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم۔

522: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نماز (عید) کو نکلنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔

باب : صدقہ کرنے میں ترغیب دلانا۔

523: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مجھے یہ آرزو نہیں ہے کہ یہ احد کا پہاڑ میرے لئے سونا ہو جائے اور تین دن سے زیادہ میرے پاس ایک دینار بھی باقی رہے مگر یہ کہ وہ دینار اپنے کسی قرض خواہ کو دینے کے لئے بچا رکھوں۔

524: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ دو اور استغفار کرو، کیونکہ میں نے دیکھا کہ جہنم میں زیادہ تعداد میں عورتیں ہیں۔ ایک عقلمند عورت بولی کہ یا رسول اللہﷺ! کیا سبب ہے ، عورتیں کیوں زیادہ جہنم میں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ لعنت بہت کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔میں نے عقل اور دین میں کم اور عقلمند کو بے عقل کرنے والی تم سے زیادہ کسی کو نہ دیکھا۔ وہ عورت بولی کہ ہماری عقل اور دین میں کیا کمی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ عقل کی کمی تو اس سے معلوم ہوتی ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔ اور دین میں کمی یہ ہے کہ عورت کئی دن تک (ہر مہینے میں حیض کی وجہ سے ) نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں (حیض کے دنوں میں) روزے نہیں رکھتی۔

باب : (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے پر شوق دلانا۔

525: سیدنا ابو ہریرہؓ  نے نبیﷺ سے روایت کی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم! خرچ کر کہ میں بھی تیرے اوپر خرچ کروں اور (نبیﷺ نے ) فرمایا کہ اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے ، رات دن خرچ کرنے سے کچھ کم نہیں ہوتا۔

باب : قبل اس کے کہ کوئی صدقہ قبول کرنے والا نہ ملے ، صدقہ کی ادائیگی میں رغبت دلانا۔

526: سیدنا حارثہ بن وھبؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکو سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ صدقہ دو۔ قریب ہے کہ ایسا وقت آ جائے گا کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا اور جس کو دینے لگے گا وہ کہے گا کہ اگر تم کل لاتے تو میں لے لیتا مگر آج تو مجھے ضرورت نہیں ہے۔ غرض کوئی نہ ملے گا جو اسے قبول کر لے۔

527: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ﷺقیامت کے قریب[ زمین اپنے جگر پاروں کو باہر ڈال دے گی جیسے بڑے بڑے ستون ہوتے ہیں، سونے سے اور چاندی سے۔ پھر قاتل آئے گا اور کہے گا کہ اسی کے لئے میں نے خون کیا تھا۔ اور رشتہ داری کاٹنے والا ائے گا اور کہے گا کہ اسی کے لئے میں نے اپنی رشتے داری توڑ لی۔ اور چور آئے گا اور کہے گا اسی کے واسطے میرا ہاتھ کاٹا گیا۔ پھر سب کے سب اسے چھوڑ دیں گے اور کوئی اس میں سے کچھ نہ لے گا۔

باب : خاوند اور اولاد پر صدقہ کرنا۔

528: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت! صدقہ دو اگرچہ اپنے زیور سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں اپنے شوہر عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس آئی اور میں نے کہا کہ تم مفلس خالی ہاتھ آدمی ہو، اور رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم لوگ صدقہ دیں، سو تم جا کر نبیﷺ سے پوچھو کہ اگر میں تم کو دیدوں اور صدقہ ادا ہو جائے تو خیر ورنہ اور کسی کو دیدوں گی۔ تو عبد اللہؓ  نے کہا کہ تم ہی جا کر نبیﷺ سے پوچھو۔ پھر میں آئی اور ایک انصاری عورت رسول اللہﷺ کے دروازے پر کھڑی تھی، اس کا بھی یہی کام تھا جو میرا تھا۔ اور رسول اللہﷺ کا رُعب بہت تھا۔سیدنا بلالؓ  نکلے تو ہم نے کہا کہ تم رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور ان کو خبر دو کہ دو عورتیں دروازے پر پوچھتی ہیں کہ اگر اپنے شوہروں اور ان یتیموں کو دیں جن کو وہ پالتے ہیں، کو صدقہ دیں تو ادا ہو جائے گا یا نہیں؟ اور نبیﷺ کو یہ نہ بتانا کہ ہم لوگ کون ہیں۔ سیدہ زینب نے کہا کہ سیدنا بلالؓ  گئے اور رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ کون ہیں؟ تو سیدنا بلالؓ  نے عرض کیا کہ ایک انصار کی عورت ہے اور دوسری زینب رضی اللہ عنہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کون سی زینب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ عبد اللہؓ  کی بیوی۔ تب آپﷺ نے سیدنا بلالؓ  سے فرمایا کہ ان کو اس میں دوگنا ثواب ہے۔ ایک تو قرابت والوں سے سلوک کرنے کا اور دوسرا صدقہ کرنے کا۔

باب : قریبی رشتہ داروں میں خرچ کرنا۔

529: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ابو طلحہ انصاریؓ  مدینہ میں بہت مالدار تھے اور بہت محبوب مال ان کا بیر حاء ایک باغ تھا، جو مسجد نبوی کے آگے تھا۔اور رسول اللہﷺ اس میں جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ جب یہ آیت اتری کہ ”نہ پہنچو گے تم نیکی کی حد کو جب تک کہ نہ خرچ کرو گے اپنی محبوب چیزوں کو اللہ کی راہ میں“ تو سیدنا ابو طلحہؓ  نے کھڑے ہو کر رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”تم نیکی کی حد کو نہ پہنچو گے جب تک اپنے محبوب مال نہ خرچ کرو“ اور میرے سب مالوں سے زیادہ محبوب بیرحاء ہے ، وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے اور میں اللہ سے اس کے ثواب اور آخرت میں اس کے ذخیرہ ہو جانے کا امیدوار ہوں۔ سو آپﷺ اس کو جہاں چاہیں رکھ دیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بڑے نفع کا مال ہے۔ یہ تو بڑے نفع کا مال ہے۔ میں نے سنا جو تم نے کہا اور میں مناسب جانتا ہوں کہ تم اسے اپنے عزیزوں میں بانٹ دو۔ پھر اس کو سیدنا ابو طلحہؓ  نے اپنے عزیزوں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا۔

باب : ماموؤں پر صدقہ کرنا۔

530: سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ایک لونڈی آزاد کی اور رسول اللہﷺ کے سامنے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا: اگر تم اسے اپنے ماموں کو دے دیتیں تو تمہارے لئے زیادہ اجر کا باعث بنتا۔

باب : مشرکہ ماں سے صلہ رحمی کرنا۔

531: سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ  کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ میری ماں آئی ہے اور وہ دین سے بیزار ہے (دوسری روایتوں میں آیا ہے کہ وہ مشرکہ ہے ) تو کیا میں اس سے سلوک اور احسان کروں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔

باب : فوت شدہ والدہ کی طرف سے صدقہ کرنا۔

532: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نبیﷺ سے پوچھا کہ میری ماں فوراً مر گئی اور وصیت نہ کرنے پائی، اگر بولتی تو صدقہ دیتی۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو اسے ثواب ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں۔

باب : ضرورت مندوں پر صدقہ کرنے کی ترغیب اور اچھا طریقہ جاری کرنے والے کا ثواب۔

533: سیدنا جریر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ دن کے شروع حصہ میں ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے۔ کچھ لوگ آئے جو ننگے پیر، ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی چادریں پہنی ہوئیں، اپنی تلواریں لٹکائی ہوئیں، اکثر بلکہ سب ان میں قبیلہ مضر کے لوگ تھے۔ ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک بدل گیا۔ آپﷺ اندر آ گئے پھر باہر آئے۔ (یعنی پریشان ہو گئے ، سبحان اللہ کیا شفقت تھی اور کیسی ہمدردی تھی) اور سیدنا بلالؓ  کو حکم فرمایا کہ اذان کہو پھر تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی کہ اے لوگو! اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے بنایا (اس لئے پڑھی کہ معلوم ہو کہ سارے بنی آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں) …… آخر آیت تک۔ پھر سورۂ حشر کی یہ آیت پڑھی کہ ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور غور کرو کہ تم نے اپنی جانوں کے لئے آگے کیا بھیج رکھا ہے جو کل (قیامت کے دن تمہارے ) کام آئے۔ (پھر صدقات کا بازار گرم ہو گیا) کسی نے اشرفی دی، کسی نے درہم کسی نے ایک صاع گیہوں اور کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کی، یہاں تک کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ایک ٹکڑا بھی کھجور کا ہو (تو وہ بھی بطور صدقہ کے لاؤ)۔ پھر انصار میں سے ایک شخص تھیلی لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا۔ پھر تو لوگوں نے تار باندھ لیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے کھانے اور کپڑے کے یہاں تک (صدقات جمع ہوئے ) کہ رسول اللہﷺ کے چہرہ مبارک کو میں دیکھتا تھا کہ چمکنے لگا تھا گویا کہ سونے کا ہو گیا ہو جیسے کندن۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اسلام کی نیک کام کی ابتداء کرے (یعنی کتاب و سنت کی بات) اس کے لئے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد عمل کریں (اس کی دیکھا دیکھی) ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ ثواب گھٹے۔ اور جس نے اسلام میں آ کر بُری چال ڈالی (یعنی جس سے کتاب و سنت نے روکا ہے ) تو اسکے اوپر اس کے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ بار گھٹے۔

باب : مسکینوں اور مسافروں پر صدقہ کرنے کے بارے میں۔

534: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ایک آدمی نے میدان میں بادل میں سے یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی پلا دے۔ (اس آواز کے بعد)بادل ایک طرف چلا اور ایک پتھریلی زمین میں پانی برسایا۔ ایک نالی وہاں کی نالیوں میں سے بالکل لبالب ہو گئی۔ سو وہ شخص برستے پانی کے پیچھے پیچھے گیا، اچانک ایک مرد کو دیکھا کہ اپنے باغ میں کھڑا پانی کو اپنے پھاوڑے سے اِدھر اُدھر کرتا ہے۔ اس نے باغ والے مرد سے کہا کہ اے اللہ کے بندے ! تیرا نام کیا ہے ؟اس نے کہا فلاں نام ہے ، وہی نام جو بادل میں سنا تھا۔ پھر باغ والے نے اس شخص سے کہا کہ اے اللہ کے بندے ! تو نے میرا نام کیوں پوچھا؟ وہ بولا کہ میں نے بادل میں سے ایک آواز سنی، کوئی کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی پلا دے ،ﷺاور اس کہنے والے نے [ تیرا نام لیا۔ سو تو اس باغ میں اللہ تعالیٰ کے احسان کی کیا شکر گزاری کرتا ہے ؟ باغ والے نے کہا کہ جب کہ تو نے یہ کہا تو اب میں بیان کرتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں جو اس باغ سے آمدنی ہوتی ہے ، اس کا ایک تہائی صدقہ کرتا ہوں اور ایک تہائی میرے بیوی بچے کھاتے ہیں اورایک تہائی باغ پر لگاتا ہوں۔ (حدیث سے معلوم ہوا کہ مال کا تہائی حصہ اللہ کی راہ میں صرف کرنا بہتر ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق پانی برساتے ہیں ایک ہی مقام میں ایک جگہ زیادہ اور ایک جگہ کم برستا ہے )۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک تہائی میں مسکینوں، سائلوں اور مسافروں میں صرف کرتا ہوں۔

باب : (صدقہ کر کے ) دوزخ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرو۔

535: سیدنا عدی بن حاتمؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جہنم کا ذکر فرمایا اور ناپسندیدگی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔پھر فرمایا کہ آگ (جہنم کی آگ) سے بچو۔ پھر ناپسندیدگی سے منہ پھیر لیا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپﷺ اس (نارِ جہنم) کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جہنم سے بچو (اگر جہنم سے بچنے کے لئے کوئی اور چیز نہ ہو تو) کھجور کے دانے کا ایک حصہ ہی ہو (وہی صدقہ کر کے بھی بچنا پڑے تو بچ جاؤ)۔ اگر کسی کو یہ بھی نہ ملے تو اچھی بات ہی کہہ کر (ہی جہنم کی آگ سے بچو)۔

باب : دودھ والا جانور عاریۃ(صدقہ) تحفہ دینے کی ترغیب۔

(نوٹ:۔ امام منذری رحمۃ اللہ نے صدقہ کا باب باندھا ہے جبکہ حدیث میں دودھ والا جانور عاریتا تحفہ دینا مراد ہے۔ جب تک جانور دودھ دیتا ہے لینے والا اسے چارہ ڈالے بعد میں جانور واپس کر دے )۔

536: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک جو کسی گھر والوں کو ایسی اونٹنی دیتا ہے جو صبح اور شام ایک بڑآپیالہ بھر دودھ دیتی ہے تو اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔

باب : پوشیدہ صدقہ کرنے کی فضیلت۔

537: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: سات قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے سایہ میں جگہ دے گا (یعنی عرش کے نیچے ) جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ ایک تو حاکم منصف (جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرے خواہ بادشاہ ہو خواہ کوتوال ہو)، دوسرے وہ جوان جو اللہ کی عبادت کے ساتھ بڑھا ہو، تیسرے وہ شخص جسکا دل مسجد ہی میں لگا رہے ، چوتھے وہ دو شخص جو آپس میں اللہ کے واسطے محبت کریں اور اسی کے لئے ملیں اور اسی کے لئے جدا ہوں، پانچویں وہ شخص (جو مرد ایسا متقی ہو) کہ اسے کوئی حسب نسب والی مالدار عورت زنا کے لئے بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں (اور زنا سے باز رہے )، چھٹے وہ شخص جو صدقہ ایسے چھپا کر دے کہ دائیں کو خبر نہ ہو کہ بائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا (اس عبارت میں اضطراب ہے۔ صحیح یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ) ساتویں جو اللہ کو اکیلے میں یاد کرے اور اسکے آنسو ٹپک پڑیں (اللہ کی محبت یا خوف کی وجہ سے )

باب : تندرست اور حریص ہونے کی صورت میں صدقہ کرنے کی فضیلت۔

538: سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! افضل اور ثواب میں بڑا صدقہ کونسا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تو صدقہ دے اور تو تندرست اور حریص ہو، محتاجی کا خوف کرتا ہو اور امیری کی امید رکھتا ہو۔ اور تو یہاں تک صدقہ دینے میں دیر نہ کرے کہ جب جان (حلق یعنی) گلے میں آ جائے تو کہنے لگے کہ یہ فلاں کا ہے ، یہ مال فلاں کو دو اور وہ تو خود اب فلاں کا ہو چکا (یعنی تیرے مرتے ہی وارث لوگ لے لیں گے )۔

باب : پاکیزہ کمائی سے صدقہ کی قبولیت اور اس کے بڑھنے کے بارے میں

539: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی پاکیزہ (حلال) کمائی سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر اس کی اس طرح تربیت کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے یا جوان اونٹنی کو پالتا ہے۔ حتی کہ وہ (ایک کھجور کا صدقہ) پہاڑ کی طرح ہو جاتا ہے یا اس سے بھی بڑھ جاتا ہے

540: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ پاک ہے (یعنی صفات حدوث اور صفات نقص و زوال سے ) اور نہیں قبول کرتا مگر پاک مال (یعنی حلال کو) اور اللہ پاک نے مومنوں کو وہی حکم کیا جو مرسلین کو حکم کیا اور فرمایا کہ ”اے رسولوں کی جماعت! کھاؤ پاکیزہ چیزیں اور نیک عمل کرو میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں“ اور فرمایا کہ ”اے ایمان والو کھاؤ پاک چیزیں جو ہم نے تمہیں دیں“ پھر ذکر کیا ایسے مرد کا جو کہ لمبے لمبے سفر کرتا ہے ، پراگندہ حال ہے ، گرد و غبار میں بھرا ہے اور پھر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے رب، اے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے ، پینا حرام ہے ، اس کا لباس حرام ہے اور اس کی غذا حرام ہے پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو؟

باب : تھوڑے صدقہ کو حقیر نہ جاننے کا بیان۔

541: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: اے مسلمان عورتو! کوئی تم میں سے اپنے ہمسائے کو حقیر نہ جانے اگرچہ بکری کا ایک کھر ہی دے۔ (یعنی نہ لینے والا اس کو حقیر سمجھ کر انکار کرے نہ دینے والا شرمندہ ہو کر دینے سے باز رہے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے قول ﴿الذین یلمزون المطوعین﴾ کے بیان میں

542: سیدنا ابو مسعودؓ  کہتے ہیں کہ ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا، اور ہم بوجھ ڈھویا کرتے تھے۔ سیدنا ابو عقیلؓ نے آدھا صاع صدقہ دیا (یعنی سوا سیر)، اور ایک شخص نے اس سے زیادہ دیا۔ تو منافق کہنے لگے کہ اللہ کو اس کے صدقہ کی کچھ پرواہ نہیں ہے اور اس دوسرے نے تو صرف دکھانے کو ہی صدقہ دیا ہے۔ پھر یہ آیت اتری کہ ”جو لوگ طعن کرتے ہیں خوشی سے صدقہ دینے والے مومنوں کو اور ان لوگوں کو جو نہیں پاتے ہیں مگر اپنی مزدوری“۔

باب : جس نے صدقہ اور دیگر نیکی کے اعمال کو اکٹھا کر لیا۔

543: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایک جوڑا خرچ کیا (یعنی دو پیسے یا دو روپیہ یا دو اشرفی) تو جنت میں اسے پکارا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے ! یہاں آ تیرے لئے یہاں خیر و خوبی ہے۔ پھر جو نماز کا عادی ہے وہ نماز کے دروازہ سے پکارا جائے گا، اور جو جہاد کا عادی ہے وہ جہاد کے دروازہ سے پکارا جائے گا، اور جو صدقہ کا عادی ہے وہ صدقہ کے دروازہ سے پکارا جائے گا اور جو روزہ کا عادی ہے وہ روزہ کے دروازہ سے پکارا جائے گا۔ تو سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! کسی کے تمام دروازوں سے پکارے جانے کی ضرورت تو نہیں ہے ، پھر بھی کیا کوئی ایسا ہو گا جو سب دروازوں سے پکارا جائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور میں (اللہ کے فضل سے ) امید رکھتا ہوں کہ تم انہی میں سے ہو گے۔

543م: سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص آج روزہ دار ہے ؟ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ میں ہوں۔پھر آپﷺ نے فرمایا کہ آج جنازہ کے ساتھ کون گیا ہے ؟ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ میں گیا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ میں نے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کون آج مریض کی عیادت کو گیا تھا؟ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ میں گیا تھا۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ سب کام ایک شخص میں جب جمع ہوتے ہیں تو وہ ضرور جنت میں جاتا ہے۔

باب : ہر نیکی صدقہ ہے۔

544: سیدنا حذیفہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ہر نیکی صدقہ ہے۔

باب : سبحان اللہ کہنا، لا الٰہ الا اللہ کہنا اور دیگر نیکی کے کام، صدقہ ہیں۔

545: سیدنا ابو ذرؓ  سے روایت ہے کہ چند اصحاب نبیﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! مال والے تو اجر و ثواب مال لوٹ لے گئے۔ اس لئے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جیسے ہم روزہ رکھتے ہیں اور اپنے زائد مالوں میں سے صدقہ دیتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لئے بھی تو اللہ تعالیٰ نے صدقہ کا سامان کر دیا ہے کہ ہر تسبیح (یعنی سبحان اللہ کہنا) صدقہ ہے ، ہر تکبیر صدقہ ہے ، ہر تحمید (یعنی الحمد للہ کہنا) صدقہ ہے ، ہر بار لا الٰہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے ، اچھی بات سکھانا صدقہ ہے ، بُری بات سے روکنا صدقہ ہے اور ہر شخص کے حق زوجیت ادا کرنے میں صدقہ ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہم میں سے کوئی اپنی شہوت سے حق زوجیت ادا کرے (یعنی اپنی بیوی سے صحبت کرتا ہے ) تو کیا اس میں بھی ثواب ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کیوں نہیں؟ دیکھو تو اگر اسے حرام میں صرف کر لے تو گناہ ہو گا کہ نہیں؟اسی طرح جب حلال میں صرف کرتا ہے تو ثواب ہوتا ہے۔

باب : ہر جوڑ پر صدقہ کے وجوب کا بیان۔

546: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر آدمی کے بدن میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں۔ سو جس نے اللہ اکبر کہا، الحمد للہ کہا، لا الٰہ الا اللہ کہا، سبحان اللہ کہا، استغفر اللہ کہا، پتھر لوگوں کی راہ سے ہٹا دیا یا کوئی کانٹا یا ہڈی راہ سے ہٹا دی یا اچھی بات سکھائی یا اس کا حکم دیا، یا بُری بات سے روکا تو یہ تین سو ساٹھ جوڑوں کی گنتی کے برابر ہے (یعنی شکر ادا کرنے کے برابر ہے ) اور اس دن وہ اس حال میں چل رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان کو جہنم سے آزاد کروا چکا ہوتا ہے۔ ابو توبہ نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا کہ وہ اسی حال میں شام کرتا ہے (کہ وہ جہنم سے آزاد ہوتا ہے )۔

باب : وہ صدقہ جو بے جا واقع ہو اس کی قبولیت کے بیان میں۔

547: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے کہا کہ میں آج کی رات کچھ صدقہ دوں گا۔ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا (یہ صدقہ کو چھپانا منظور تھا کہ رات کو لے کر نکلا) اور ایک زناکار عورت کے ہاتھ میں دے دیا۔ پھر صبح کو لوگ چرچا کرنے لگے کہ آج کی رات ایک شخص زنا کار عورت کے ہاتھ صدقہ دے گیا۔ اس نے کہا کہ اے اللہ!سب خوبیاں تیرے لئے ہیں کہ میرا صدقہ زناکار کو جا پڑا۔ پھر اس نے کہا کہ آج اور صدقہ دوں گا۔ پھر نکلا اور ایک غنی مالدار کو دے دیا۔ اور لوگ صبح کو چرچا کرنے لگے کہ آج کوئی مالدار کو صدقہ دے گیا۔ اس نے کہا کہ اے اللہ! سب خوبیاں تیرے لئے ہیں میرا صدقہ مالدار کے ہاتھ جا پڑا۔ تیسرے دن پھر اس نے کہا کہ میں صدقہ دوں گا۔ اور وہ نکلا اور صدقہ ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا۔ صبح کو لوگ چرچا کرنے لگے کہ آج کوئی چور کو صدقہ دے گیا۔ اس نے کہا کہ اے اللہ! سب خوبیاں تیرے ہی لئے ہیں کہ میرا صدقہ زناکار عورت، مالدار شخص اور چور کے ہاتھ میں جآپڑا۔ پھر اس کے پاس ایک شخص آیا (یعنی فرشتہ یا اس زمانہ کے نبی علیہ السلام) اور اس سے کہا کہ تیرے سب صدقے قبول ہو گئے۔ زناکار کا تو اس لئے کہ شاید وہ اس زنا سے باز رہی ہو (اس لئے کہ پیٹ کے لئے زنا کرتی تھی) رہا غنی تو اس کا اس لئے قبول ہوا کہ شاید اسے شرم آئے اور عبرت ہو کہ اور لوگ صدقہ دیتے ہیں تو میں بھی دوں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال میں سے خرچ کرے۔ اور چور کا اس لئے کہ شاید وہ چوری سے باز آ جائے (اس لئے کہ آج کا خرچ تو آگیا)۔

باب : خیرات کرنے والے اور بخیل کے بیان میں۔

548: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسی ہے جیسے دو آدمی کہ جن پر لوہے کی زرہیں ہوں۔ پھر جب سخی نے چاہا صدقہ دے تو اس کی زرہ کشادہ ہو گئی، یہاں تک کہ اس کے قدموں کا اثر مٹانے لگی۔ اور جب بخیل نے چاہا کہ صدقہ دے تو وہ تنگ ہو گئی اور اس کے ہاتھ اس کے گلے میں پھنس گئے اور ہر حلقہ اپنے دوسرے حلقے میں گھس گیا۔ راوئ حدیث (سیدنا ابو ہریرہؓ) نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ کشادہ ہو مگر وہ کشادہ نہیں ہوتی۔

باب : (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والے اور نہ کرنے والے کے بیان میں

549: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر روز دو فرشتے اترتے ہیں۔ ایک تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور دے اور دوسرا یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کے مال کو تباہ کر۔

باب : امانت دار خازن صدقہ کرنیوالوں میں سے ایک ہے۔

550: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: مسلمان امانت دار خزانچی ، جو خرچ کرتا ہو۔ اور کبھی فرماتے کہ وہ دیتا ہو جس کا (اسے ) حکم ہوا ہو اور پوری رقم دیتا ہو (یعنی تحریر بٹہ رشوت نہ کاٹتا ہو) اور پوری خیرات دیتا ہو، اپنے دل کی خوشی کے ساتھ۔ اور جس کو حکم ہوا ہو اس کو پہنچائے (تو) وہ بھی ایک صدقہ دینے والا ہے۔

باب : خرچ کرو۔ نہ شمار کرو اور نہ یاد رکھو۔

551: سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیقؓ  سے روایت ہے کہ وہ نبیﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ میرے پاس کچھ ہے ہی نہیں ماسوا اس کے جو زبیرؓ  مجھے دیتے ہیں۔ اگر میں اس میں سے کچھ صدقہ کر دوں تو مجھے گناہ تو نہیں ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جتنا تم دے سکو دیدو، سینت کر نہ رکھو اور دے کر یاد نہ رکھو ورنہ اللہ بھی سینت کر رکھے گا۔

باب : جب عورت اپنے خاوند کے گھر سے خرچ (خیرات) کرے۔

552: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب عورت اپنے گھر کے اناج سے بغیر فساد کے خرچ کرے (یعنی جتنا دستور ہے جیسے فقیر کو ٹکڑا یا سائل کو ایک مٹھی جس میں شوہر کی رضا عادت سے معلوم ہوتی ہے ) تو اس کو اس کے خرچ کرنے کا ثواب ہوتا ہے ، اور شوہر کو اس کے کمانے کا۔ اور خزانچی کو بھی اسی کی مثل کہ ایک کے ثواب سے دوسرے کا ثواب نہ گھٹے گا (یعنی ہر ایک کو اللہ تعالیٰ ایک ثواب دے گا نہ کہ ایک کے ثواب میں دوسرے کو شریک کر دیگا)۔

باب : جو غلام (نوکر) اپنے مالک کے مال سے خرچ کرے ، اس کا بیان۔

553: سیدنا عمیر جو سیدنا اٰبی اللحمؓ  کے آزاد کردہ غلام ہیں، کہتے ہیں کہ مجھے میرے مالک (اٰبی اللحم) نے مجھے گوشت سکھانے کا حکم دیا۔ ایک فقیر آگیا تو میں نے اسے کھانے کے موافق دے دیا۔ جب مالک کو خبر ہوئی تو انہوں نے مجھے مارا۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے بیان کیا (سبحان اللہ آپ یتیموں اور بیواؤں اور مظلوموں کی امان تھے ) تو آپﷺ نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ تو نے اسے کیوں مارا؟ انہوں نے کہا کہ یہ میرا کھانا میرے حکم کے بغیر دے دیتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ (اس خیرات کا) تم دونوں کو ثواب ہے۔

554: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی عورت (نفل) روزہ نہ رکھے جبکہ اس کا شوہر گھر میں موجود ہو مگر اس کی اجازت سے (رکھے ) اور نہ اس کے گھر میں کسی (اپنے محرم) کو آنے دے جب وہ گھر پر ہو مگر اس کی اجازت سے (پھر جب وہ حاضر نہ ہو تو بدرجہ اولیٰ اس کے حکم اور رضا کے جو پہلے سے معلوم ہو چکی ہو، کسی کو آنے نہ دینا چاہئیے ) اور اس کی کمائی سے اس کی اجازت کے بغیر جو کچھ خرچ کرتی ہے تو اس میں بھی اس کے مرد کو آدھا ثواب ہے (یعنی مرد کو کمانے کا اور عورت کو دینے کا)۔

باب : سوال سے بچنے اور صبر کرنے کے بیان میں۔

555: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ انصار کے چند لوگوں نے رسول اللہﷺ سے کچھ مانگا تو آپﷺ نے انہیں دیا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپﷺ نے پھر دیا یہاں تک کہ جو کچھ آپﷺ کے پاس تھا، جب ختم ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا: میرے پاس جو مال ہوتا ہے تو میں تم سے بچا کر نہیں رکھتا۔ اور جو شخص سوال سے بچے اللہ تعالیٰ اسے بچاتا ہے اور جو اپنے دل کومستغنی بے پرواہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کو مستغنی (بے پرواہ) کر دیتا ہے۔ اور جو صبر کی عادت ڈالے ، اللہ تعالیٰ اس پر صبر آسان کر دیتا ہے۔ اور کوئی عطائے الٰہی صبر سے زیادہ بہتر اور کشادگی والی نہیں ہے۔

باب : ضرورت کے مطابق رزق دیئے جانے اور قناعت کے بیان میں۔

556: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک (دنیا و آخرت میں) کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام لایا اور ضرورت کے موافق رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اسے دیا اس پر قانع کر دیا

باب : سوال سے بچنا۔

557: سیدنا معاویہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم سوال میں چمٹنے سے بچو۔ اس لئے کہ اللہ کی قسم جو مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے اور اس کے سوال کے سبب سے میرے پاس سے چیز خرچ ہوتی ہے اور میں اس کو بُرا جانتا ہوں (یعنی نا خوشی سے دوں) تو اس میں برکت کیسے ہو گی؟۔

باب : لوگوں سے سوال کرنا مکروہ ہے۔

558: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہمیشہ ایک آدمی مانگتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ سے ملے گا اور اس کے منہ پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہو گا۔

559: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اگر کوئی صبح کو جا کر لکڑی کا ایک گٹھا اپنی پیٹھ پر لادے اور اس سے صدقہ دے اور اپنا کام بھی نکالے کہ لوگوں کا محتاج نہ ہو، یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے مانگتا پھرے کہ وہ دیں یا نہ دیں اور بلاشبہ اوپر کا (دینے والا) ہاتھ نیچے (لینے ) والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے صدقہ اُس کو دے جس کا خرچ تیرے ذمہ ہے۔

باب : اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نچلے ہاتھ (لینے والے ) سے بہتر ہے۔

560: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اور آپﷺ (اس وقت) منبر پر صدقہ کا اور کسی سے سوال نہ کرنے کا ذکر کر رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اوپر کا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والا ہے۔

561: سیدنا حکیم بن حزامؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے مال مانگا تو آپﷺ نے مجھے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپﷺ نے پھر دیا، میں نے پھر مانگا تو آپﷺ نے پھر دیا، پھر فرمایا کہ یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ پس جس نے اس کو بغیر مانگے لیا یا دینے والے کی خوشی سے لیا (نہ کہ آپ زبردستی تقاضا کر کے لیا) تو اس میں برکت ہوتی ہے اور جس نے اپنے نفس کو ذلیل کر کے (یعنی سوال کر کے یا چمٹ کر) لیا تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اس کا مال ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کھاتا تو ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے عمدہ ہے۔

باب : (اصل) مسکین وہ ہے جو ضرورت کے مطابق نہیں پاتا اور لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا۔

562: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسکین وہ نہیں ہے جو گھومتا رہتا ہے اور ایک دو لقمہ یا ایک دو کھجور لے کر لوٹ جاتا ہے۔ صحابہ عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! پھر مسکین کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جس کو اتنا خرچ نہیں ملتا جو اسکی ضرورت بشری کی کفایت کرتا ہو اور نہ لوگ اسے مسکین جانتے ہیں کہ اس کو صدقہ دیں اور نہ وہ لوگوں سے کچھ مانگتا ہے۔

باب : امیر وہ نہیں جس کے پاس سامان زیادہ ہو۔

563: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: امیری سامان بہت ہونے سے نہیں ہے بلکہ امیری دل کی بے نیازی ہے۔

باب : دنیا کی حرص مکروہ ہے۔

564: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابن آدم (انسان) تو بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس میں دو چیزیں جوان ہوتی رہتی ہیں۔ ایک (مال کی) حرص اور دوسری (لمبی) عمر کی حرص۔

باب : اگر ابن آدم کو دو میدان مال کے مل جائیں تو تیسرے کی ضرور خواہش کرے گا۔

565: سیدنا ابو الاسود نے کہا کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  نے بصرہ کے قاریوں کو بلوایا تو وہ سب تین سو قاری ان کے پاس آئے جو قرآن پڑھ چکے تھے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے ان سے کہا کہ تم بصرہ کے سب لوگوں سے بہتر ہو اور وہاں کے قاری ہو، پس قرآن پڑھتے رہو اور بہت مدت گزر جانے سے سست نہ ہو جاؤ کہ تمہارے دل سخت ہو جائیں جیسے تم سے پہلوں کے دل سخت ہو گئے اور ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جو طول میں اور سخت وعیدوں میں ”برأت“ کے برابر تھی۔ پھر میں اسے بھلا دیا گیا مگر اتنی بات یاد رہی کہ اگر آدمی کے لئے مال کے دو میدان ہوتے ہیں تب بھی تیسرا ڈھونڈتا رہتا ہے اور آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا مگر مٹی سے۔ اور ہم ایک سورت اور پڑھتے تھے اور اس کو مسبحات میں سے ایک سورت کے برابر جانتے تھے میں وہ بھی بھول گیا مگر اس میں سے یہ آیت یاد ہے کہ ”اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں“ (جو ایسی بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے تو) وہ تمہاری گردنوں میں لکھ دی جاتی ہے گواہی کے طور پر کہ اسکا تم سے قیامت کے دن سوال ہو گا۔

باب : دنیا کی زینت سے نکلنے کا بیان۔

566: سیدنا ابو سعید خدریؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے کھڑے ہو کر لوگوں میں وعظ کیا اور فرمایا کہ اے لوگو! اللہ کی قسم، میں تمہارے لئے کسی اور چیز سے نہیں ڈرتا ہوں مگر اس سے جو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے دینا کی زینت نکالتا ہے۔ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے ؟ (یعنی دنیا کی دولت اور حکومت کا ہو نا اور اسلام کی ترقی ہونا تو خیر ہے ، اس کا نتیجہ بُرا کیونکر ہو گا) پھر رسول اللہﷺ تھوڑی دیر چپ ہو رہے۔ پھر فرمایا کہ تم نے کیا کہا؟ (پھر اس کے سوال کو پوچھ لیا کہ کہیں بھول نہ گیا ہو تو مطابقت جواب کی سوال کے ساتھ اس کی سمجھ میں نہ آئے ) اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں خیر کا نتیجہ تو خیر ہی ہوتا ہے۔ کیا یہ خیر ہے ؟ (یعنی آپﷺ کا مقصود یہ تھا کہ یہ تو امتحان اور آزمائش ہے اور امتحان اور آزمائش میں خیر کہاں ہوتی ہے۔ پھر مثال دے کر سمجھایا کہ) موسم بہار میں جو سبزہ اگتا ہے ، وہ سبزہ جانور کو ہلاک کر دیتا ہے سوا اُن جانوروں کے جو صرف سبزہ (ضرورت کے مطابق) کھاتے ہیں۔ وہ اس قدر کھا لیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی کوکھیں پھول جاتی ہیں۔ پھر دھوپ میں آ کر لید یا پیشاب کرتے ہیں، جگالی کرتے ہیں اور پھر جا کر چرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پس جو شخص تو مال حق کے ساتھ لیتا ہے ، تو اس میں اس کے لئے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ اور جو شخص ناحق لے گا، اس کی مثال اس جانور کی مثال ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا (اور اپنی ہلاکت کا ساماں پیدا کر لیتا ہے )۔

باب : جس آدمی کو بغیر سوال اور لالچ کے مال ملے ، تو لے لینے کا جواز۔

567: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ، سیدنا عمر بن خطابؓ  کو کچھ مال دیا کرتے تھے تو جناب عمرؓ  عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہﷺ مجھ سے زیادہ احتیاج رکھنے والے کو عنایت کیجئے۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ مال لے لو اور خواہ اپنے پاس رکھو، خواہ صدقہ دے دو۔ اور جو اس قسم کے مال سے تمہارے پاس آئے اور تم نے اس کی خواہش نہیں کی اور نہ سوال کیا ہو تو اس کو لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ ہو، اس کے پیچھے اپنے نفس کو مت لگاؤ۔ سالم نے کہا کہ اسی وجہ سے عبد اللہ بن عمرؓ  کسی سے کچھ نہ مانگتے تھے اور اگر کوئی دیتا تھا تو ردّ نہ کرتے تھے۔

باب : کس کے لئے سوال کرنا حلال ہے۔

568: سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالیؓ  کہتے ہیں کہ میں ایک بڑی رقم کا قرضدار ہو گیا (یعنی دو قبیلوں کی اصلاح وغیرہ کے لئے یا کسی اور امر خیر کے واسطے ) تو رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم ٹھہرو کہ ہمارے پاس صدقات کا مال آئے گا تو ہم اس میں سے تمہیں کچھ دینے کا حکم دیں گے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے قبیصہ سوال حلال نہیں مگر تین شخصوں کو۔ ایک تو وہ جو قرضدار ہو جائے (کسی امر خیر میں) تو اس کو سوال حلال ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو اتنا مال مل جائے کہ اس کی گزران درست ہو جائے ، پھر سوال سے باز رہے۔ دوسرے وہ شخص کہ اس کے مال میں آفت پہنچی ہو کہ اس کا مال ضائع ہو گیا ہو تو اس کو سوال حلال ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ اس کو اتنی رقم مل جائے کہ اس کی گزران درست ہو جائے۔ (یا لفظ ”سِدادًا“ فرمایا) تیسرا وہ شخص کہ اس کو فاقہ پہنچا ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند شخص گواہی دیں کہ بیشک اس کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کو بھی سوال جائز ہے جب تک کہ اپنی گزران درست ہونے کے موافق نہ پائے۔ اور سوا ان لوگوں کے اے قبیصہ! سوال حرام ہے (اور ان کے سوا جو سوال کرنے والا ہے ) وہ حرام کھاتا ہے۔

باب : جو شخص سختی سے مانگے ، اسے دینے کا بیان۔

569: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ چلا جا رہا تھا اور آپﷺ نے ایک نجران (نامی شہر) کی چادر اوڑھی ہوئی تھی جس کا کنارہ موٹا تھا۔ اچانک ایک بدوی اور آپﷺ کو چادر سمیت اس زور سے کھینچا یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کی گردن کے موہرے پر چادر (کے کھینچنے ) کا نشان دیکھا۔ پھر کہا کہ اے محمدﷺ! میرے لئے اس مال میں سے کچھ دینے کا حکم کرو جو اللہ کا دیا آپ کے پاس ہے۔ پس رسول اللہﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور ہنسے اور اس کو کچھ دینے کا حکم کیا۔

570: سیدنا مسور بن مخرمہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے چادریں تقسیم کیں اور سیدنا مخرمہؓ  کو کوئی نہ دی۔ تب سیدنا مخرمہؓ  نے کہا کہ اے میرے بیٹے ! رسول اللہﷺ تک میرے ساتھ چلو۔ پس میں ان کے ساتھ گیا اور انہوں نے کہا کہ تم گھر میں جا کر آپﷺ کو بلاؤ۔ میں نے نبیﷺ کو بلایا آپﷺ نکلے اور ان (چادروں) میں سے ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے ، اور فرمایا کہ یہ میں نے تمہارے واسطے رکھ چھوڑی تھی اور پھر آپﷺ نے مخرمہ کو دیکھا اور فرمایا مخرمہ خوش ہو گئے۔

 

 

 

کتاب: روزہ کے مسائل

 

باب : روزے کی فضیلت۔

571: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”بنی آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے ، کہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزہ (گناہوں سے ) سپر (ڈھال) ہے۔ پھر جب کسی کا روزہ ہو تو اس دن گالیاں نہ بکے اور آواز بلند نہ کرے پھر اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑنے کو آئے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ بیشک روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے اور روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک تو وہ اپنے افطار سے خوش ہوتا ہے اور دوسرا وہ اس وقت خوش ہو گا جب وہ اپنے روزے کے سبب اپنے پروردگار سے ملے گا۔

باب : ماہِ رمضان کی فضیلت۔

572: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں کس (کر باندھ) دئیے جاتے ہیں۔

باب : ماہ رمضان سے پہلے ایک دو روزے (پیشگی کے ) نہ رکھو۔

573: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رمضان سے پیشگی ایک یا دو روزے مت رکھو سوائے اس شخص کے جو ہمیشہ ایک (مقررہ) دن میں روزہ رکھا کرتا تھا اور وہی دن آ گیا تو وہ اپنے مقررہ دن میں روزہ رکھ لے۔ (مثلاً جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھتا تھا اور انتیس اور تیس تاریخ میں شعبان کے وہی دن آ گئے تو وہ روزہ رکھ لے )۔

باب : روزہ چاند دیکھنے پر ہے۔

574: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے چاند کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو۔ اور جب تم اس کو دیکھو تب ہی افطار کرو۔ پھر اگر بادل آ جائیں تو تیس روزے پورے رکھ لو (اس کے بعد عید کرو)۔

باب : مہینہ انتیس (29) کا بھی ہوتا ہے۔

575: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے قسم اٹھائی کہ وہ اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہ جائیں گے (لیکن )جب انتیس (29) دن گزرے تو آپﷺ صبح یا شام کے وقت اپنی بیویوں کے پاس گئے تو آپﷺ سے کہا گیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے تو قسم اٹھائی تھی کہ آپ ہم پر ایک مہینہ تک داخل نہ ہوں گے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے۔

576: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ہم لوگ اُمّی (ان پڑھ) ہیں، نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ تو ایسا ہوتا ہے ، ایسا ہوتا ہے ، ایسا ہوتا ہے۔ اور تیسری بار انگوٹھا بند کر لیا اور مہینہ ایسا ہوتا ہے ، ایسا ہوتا ہے ، ایسا ہوتا ہے۔ یعنی تیس دن پورے ہوتے ہیں۔

باب : بیشک اللہ نے اسے لمبا کر دیا ہے (یعنی چاند کو دیکھنے کے لئے لمبا کر دیا ہے )

577: سیدنا ابو البختریؓ  کہتے ہیں کہ ہم عمرہ کو نکلے اور جب (مقامِ) نخلہ کے درمیان میں پہنچے تو سب نے چاند دیکھنا شروع کر دیا اور بعضوں نے دیکھ کر کہا کہ یہ تین رات کا چاند ہے (یعنی بڑا ہونے کی وجہ سے ) اور بعضوں نے کہا کہ دو رات کا ہے۔ پھر ہم سیدنا ابن عباسؓ ملے اور ان سے ذکر کیا کہ ہم نے چاند کو دیکھا اور کسی نے کہا کہ تین رات کا ہے اور کسی نے کہا دو رات کا ہے۔ تب ابن عباسؓ  نے پوچھا کہ تم نے کونسی رات میں دیکھا؟ تو ہم نے کہا کہ فلاں فلاں رات میں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دیکھنے کے لئے بڑھا دیا۔ وہ اسی رات کا تھا جس رات تم نے دیکھا۔

باب : ہر شہر (ملک) کے لئے ان لوگوں کی رؤیت ہے۔

578: کریب کہتے ہیں کہ سیدہ اُمّ فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے انہیں سیدنا معاویہؓ  کے پاس (ملک) شام بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ میں شام گیا اور ان کا کام کر دیا اور میں نے جمعہ (یعنی پنجشنبہ کی شام) کی شب کو رمضان کا چاند دیکھا۔ پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا۔ اور سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  نے مجھ سے پوچھا اور چاند کا ذکر کیا کہ تم نے کب دیکھا؟ میں نے کہا کہ جمعہ کی شب کو۔ انہوں نے کہا کہ تم نے خود دیکھا؟ میں نے کہا ہاں اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا سیدنا معاویہؓ  نے اور لوگوں نے بھی، تو سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ ہم نے تو ہفتہ کی شب کو دیکھا اور ہم پورے تیس روزے رکھیں گے یا چاند دیکھ لیں گے۔ تو میں نے کہا کہ آپ سیدنا معاویہؓ  کا (چاند) دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں جانتے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہمیں رسول اللہﷺ نے ایسا ہی حکم کیا ہے۔ اور یحییٰ بن یحییٰ کو شک ہے کہ حدیث میں ”نکتفی“ کا لفظ ہے یا ”تکتفی“ کا۔

باب : عید کے مہینے (اجروثواب کے اعتبار سے ) کم نہیں ہوتے۔

579: سیدنا ابو بکرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: عیدوں کے دو ماہ ناقص نہیں ہوتے ایک رمضان شریف اور دوسرا ذی الحجہ۔

باب : روزہ کے لئے سحری کا بیان۔

580: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔

باب : سحری میں تاخیر کا بیان۔

581: سیدنا زید بن ثابتؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ سحری کی، پھر صبح کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے۔ میں (راوی) نے کہا کہ (سحری اور نماز) دونوں کے درمیان کتنی دیر ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ پچاس آیات کے موافق۔ (سحری سے فراغت اور نماز کی تکبیر کے درمیان تقریباً دس منٹ کا فاصلہ تھا)۔

باب : اس فجر کا بیان جو روزے دار پر کھانا حرام کر دیتی ہے۔

582: سیدنا سمرہ بن جندبؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہیں سحری سے بلالﷺ کی اذان اور آسمان کی لمبی سفیدی دھوکا میں نہ ڈال دے جب تک کہ وہ اس طرح چوڑی نہ ہو جائے۔ اور (راوی حدیث) حماد نے اپنے ہاتھوں کو اس طرح (دائیں بائیں) پھیلا کر دکھایا۔

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول﴿حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود﴾ کے بارے میں۔

583: سیدنا سہل بن سعدؓ  کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ ”کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ممتاز نہ ہو جائے “ﷺالبقرة: 178 [ تو آدمی جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتا تو دو دھاگے اپنے پیر میں باندھ لیتا، ایک سفید اور دوسرا سیاہ اور کھاتآپیتا رہتا یہاں تک کہ اس کو دیکھنے میں کالے اور سفید کا فرق معلوم ہونے لگتا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد ”فجر سے “ کا لفظ اتارا، تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ دھاگوں سے مراد رات اور دن ہے۔

باب : بیشک بلالؓ رات کو اذان دیتے ہیں، پس تم کھاؤ اور پیو۔

584: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دو مؤذن تھے۔ ایک سیدنا بلالؓ  اور دوسرے سیدنا ابن امّ مکتومؓ  جو کہ نابینا تھے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ بلال رات کو اذان دیتے ہیں، پس تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن اُمّ مکتوم اذان دیں۔ راوی نے کہا کہ ان دونوں کی اذان میں کچھ (زیادہ) دیر نہ ہوتی تھی اتنا ہی وقت تھا کہ یہ اترے اور وہ چڑھے۔

باب : اس آدمی کے روزے کا بیان جس نے جنابت کی حالت میں صبح کی۔

585: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ اور اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رمضان میں رسول اللہﷺ کو بغیر احتلام کے ، جماع کی وجہ سے صبح ہو جاتی تھی اور پھر آپﷺ روزہ رکھتے تھے۔

586: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور پوچھا اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دروازے کی اوٹ سے سنتی تھیں۔ غرض اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے نماز کا وقت آ جاتا ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں، تو کیا میں روزہ رکھوں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے بھی نماز کا وقت آ جاتا ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں، پھر میں روزہ رکھتا ہوں۔ اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ اور ہم برابر نہیں ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی میں امید رکھتا ہوں کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ ان چیزوں کا جاننے والا ہوں جن سے بچنا ضروری ہے۔ (غرض اس سائل کو یہ گمان ہوا کہ شاید یہ حکم آپﷺ کے ساتھ خاص ہے مگر آپﷺ نے فرمایا کہ یہ حکم مجھے اور تم سب کو برابر ہے اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندہ کسی حالت میں تکلیفِ شرعی اور لوازمِ عبدیت سے باہر نہیں ہو سکتا اور نبیﷺ نے فرمایا کہ ”میں امید رکھتا ہوں“ یہ کمال عبدیت ہے ورنہ حقیقت میں نبیﷺ کا مرتبہ ایسا ہی ہے کہ سارے جہاں سے اعلم و اتقی ہیں)۔

باب : اس روزہ دار کا بیان جو بھول کر کھا پی لے۔

587: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو روزہ دار بھول کر کھا لے یا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کر لے۔ اس لئے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کھلا پلا دیا۔

باب : روزہ دار کو جب کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔

588: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب کسی روزہ دار کو کھانے کے لئے بلایا جائے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔

باب : جو شخص رمضان میں اپنی عورت سے جماع کر بیٹھے ، اس کے کفارہ کا بیان۔

589: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! میں ہلاک ہو گیا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ تجھے کس چیز نے ہلاک کیا؟ اس نے کہا کہ میں رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو ایک غلام یا لونڈی آزاد کر سکتا ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ دو مہینے کے روزے لگاتار رکھ سکتا ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ (سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں) پھر وہ بیٹھا رہا یہاں تک کہ نبیﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جا یہ مسکینوں کو صدقہ دے دے۔ اس نے کہا کہ مدینہ کے دونوں کنکریلی کالے پتھروں والی زمینوں کے درمیان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی مسکین ہے ؟ بلکہ اس علاقہ میں کوئی گھر والا مجھ سے بڑھ کر محتاج نہیں تو نبیﷺ ہنس پڑے (قربانت شوم وفدایتگرم درگرد سرت گردم) یہاں تک کہ آپﷺ کے مبارک دانت ظاہر ہو گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو لے اور اپنے گھر والوں کو کھلا۔

590: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میں جل گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیوں؟ اس نے کہا کہ میں رمضان شریف میں دن کے وقت اپنی عورت سے جماع کر بیٹھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ صدقہ دے ، صدقہ دے۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ موجود نہیں ہے۔ اتنے میں آپﷺ کے پاس دو ٹوکرے (غلہ یا کھجور) کھانے کے آئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ لے یہ صدقہ کر دی۔

باب : روزہ دار کے بوسہ دینے (کے جواز) کے متعلق۔

591: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ روزے کی حالت میں (اپنی ازواج کو) بوسہ دیتے اور مباشرت کر لیتے (یعنی ساتھ چمٹا لیتے ) تھے۔ لیکن آپﷺ تم سب سے زیادہ اپنے جذبات پر قابو رکھنے والے تھے۔

باب : جب رات آ جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار افطار کر لے

592: سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ رمضان کے مہینے میں سفر میں تھے۔ پھر جب آفتاب غروب ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے فلاں! اترو اور ہمارے لئے ستو گھول دو۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ابھی تو دن ہے (یعنی ان صحابی کو یہ خیال ہوا کہ جب غروب کے بعد جو سرخی ہے وہ جاتی ہے جب رات آتی ہے حالانکہ یہ غلط ہے ) آپﷺ نے پھر فرمایا کہ اترو (یعنی اونٹ پر سے ) اور ہمارے لئے ستو گھولو۔ پھر وہ اترے اورستو گھول کر آپﷺ کے پاس لائے اور آپﷺ نے نوش فرمائے اور پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ جب سورج اس طرف غروب ہو جائے (یعنی مغرب میں) اور اس طرف (یعنی مشرق سے ) رات آ جائے تو روزہ دار کو روزہ کھول لینا چاہئیے۔

باب : افطار میں جلدی کرنے کا بیان۔

593: سیدنا سہل بن سعدؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک خیر پر رہیں گے جب تک افطاری میں جلدی کرینگے۔

594: ابو عطیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں اور مسروق اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور مسروق نے ان سے کہا کہ اے اُمّ المؤمنین! رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سے دو شخص ایسے ہیں جو نیکی اور بھلائی میں کمی نہیں کرتے ، ان میں سے ایک تو اوّل وقت افطار کرتے ہیں اور اوّل وقت ہی نماز پڑھتے ہیں اور دوسرے افطار اور نماز میں دیر کرتے ہیں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ کون ہیں جو اوّل افطار کرتے ہیں اور اوّل وقت نماز پڑھتے ہیں؟ تو ہم نے کہا کہ وہ عبد اللہ (بن مسعود)ؓ  ہیں تو اُمّ المؤمنین نے کہا کہ رسول اللہﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

باب : صومِ وصال (یعنی پے در پے روزے رکھنے ) سے ممانعت۔

595: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے وصال سے منع کیا تو ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ تو وصال کر لیتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون میرے برابر ہے ؟ میں تو رات کو رہتا ہوں کہ مجھے میرا پروردگار کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ پھر بھی لوگ وصال سے باز نہ آئے ، (یہ رسول اللہﷺ کے اصحاب کی کمال محبت اور اطاعت تھی اور انہوں نے اس نہی کو براہِ شفقت سمجھا) تو آپﷺ نے ان کے ساتھ ایک روز وصال کیا، پھر دوسرے روز (بھی وصال کیا) پھر انہوں نے چاند دیکھ لیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر چاند نہ ہوتا تو میں زیادہ وصال کرتا (اور آپﷺ کا یہ فرمانا زجر و توبیخ کی راہ سے تھا، جب وہ لوگ وصال سے باز نہ رہے )۔

باب : سفر میں روزہ اور افطار (دونوں کی اجازت)۔

596: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان میں سفر کیا اور روزہ رکھا یہاں تک کہ عسفان کے مقام پر پہنچے۔ پھر آپﷺ نے ایک پیالہ منگوایا، اس میں پینے کی کوئی چیز تھی تو آپﷺ نے اس کو دن میں پیا تاکہ سب لوگ دیکھیں۔مکہ میں پہنچنے تک افطار کرتے رہے۔ سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا، پس جس کا جی چاہے وہ روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے افطار کرے۔

597: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے سال رمضان میں مکہ کی طرف نکلے اور روزہ رکھا، یہاں تک کہ جب (مقامِ) کراع غمیم تک پہنچے اور لوگوں نے بھی روزہ رکھا ہوا تھا۔ پھر آپﷺ نے ایک پانی کا پیالہ منگوایا اور اس کو بلند کیا، یہاں تک کہ لوگوں نے ان کی طرف دیکھا۔ پھر آپﷺ نے پی لیا۔( اس کے بعد لوگوں نے بھی پی لیا) اس کے بعد آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ بعض لوگ ابھی تک روزہ رکھے ہوئے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہی نافرمان ہیں وہی نافرمان ہیں۔

باب : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔

598: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک سفر میں تھے کہ ایک شخص پر لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور لوگ اس پر سایہ کئے ہوئے تھے تو آپﷺ نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ایک روزہ دار ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔

باب : (سفر میں) روزہ رکھنے اور نہ رکھنے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیئے۔

599: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ رمضان کی سولہ تاریخ کو جہاد کیا تو کوئی ہم میں سے روزہ دار تھا، اور کوئی افطار کئے ہوئے (بے روزہ دار) تھا اور روزہ دار افطار کرنے والے پر عیب نہ کرتا تھا اور نہ افطار کرنے والا روزہ دار پر۔

باب : اس افطار کرنے والے کے اجر کا بیان جو سفر میں کام کرے۔

600: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں تھے ہم میں سے کوئی روزہ دار تھا اور کوئی بے روزہ دار۔ سخت گرمی کے وقت ایک منزل میں اترے۔ اور ہم میں سے سب سے زیادہ سائے میں وہ تھا جس کے پاس چادر تھی اور کتنے تو ایسے تھے کہ ہاتھ ہی سے دھوپ روکے ہوئے تھے۔ روزہ دار جتنے تھے ، سب منزل پر جا کر پڑ رہے اور جن لوگوں کا روزہ نہیں تھا انہوں نے کھڑے ہو کر خیمے لگائے اور اونٹوں کو پانی پلایا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ افطار کرنے والے آج بہت سا ثواب لے گئے۔

باب : دشمن کے مقابلہ میں طاقت حاصل کرنے کے لئے افطار (روزہ نہ رکھنے ) کا بیان۔

601: قزعہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابو سعید خدریؓ  کے پاس آیا اور ان پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ پھر جب بھیڑ چھٹ گئی تو میں نے کہا کہ میں آپ سے وہ بات نہیں پوچھتا جو یہ لوگ پوچھتے تھے اور میں نے ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ کا سفر کیا اور ہم روزہ دار تھے۔ پھر ایک منزل میں اترے اور آپﷺ نے فرمایا کہ تم اب دشمن سے قریب ہو گئے ہو اور افطار میں تمہاری قوت بہت زیادہ ہو گی۔ پس روزہ نہ رکھنے کی رخصت مل گئی۔ تب بعض ہم میں سے روزہ دار تھے اور بعض بے روزہ دار۔ پھر آگے کی منزل میں اترے تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم صبح کو اپنے دشمن سے ملنے والے ہو اور افطار تمہاری قوت بڑھا دے گا۔ پس تم سب افطار کرو۔ آپﷺ کا یہ فرمانا قطعی طور پر حکم تھا، پھر ہم سب لوگوں نے افطار کیا۔ اس کے بعد (یعنی دشمن سے مقابلہ کے بعد) ہم نے اپنے لشکر کو دیکھا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں روزہ رکھتے تھے۔

باب : سفر میں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا اختیار ہے۔

602: سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمیؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں اپنے آپ میں سفر کی حالت میں روزہ رکھنے کی قوت پاتا ہوں، تو اگر میں (سفر میں) روزہ رکھوں تو کیا کچھ گناہ ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے۔ پس جس نے اس کو لیا، اس نے اچھا کیا اور جس نے روزہ رکھنا چاہا تو اس پر گناہ نہیں۔

603: سیدنا ابو درداءؓ  کہتے ہیں کہ ہم رمضان میں رسول اللہﷺ کے ساتھ سخت گرمی کی حالت میں نکلے ، یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی گرمی کی سختی کی وجہ سے اپنا ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھا اور ہم میں سے کوئی روزہ دار نہ تھا سوائے رسول اللہﷺ اور سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ  کے۔

باب : رمضان کے روزوں کی قضاء شعبان میں۔

604: سیدنا ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا آپ کہتی تھیں کہ مجھ پر جو رمضان کے روزے قضا ہوتے تھے ، تو میں ان کو قضا نہ کر سکتی تھی مگر شعبان میں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں مشغول ہوتی تھی (اور فرصت نہ پاتی تھی)۔

باب : میت کے روزے کی قضاء۔

605: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزے (کی قضا) ہو تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔

606: سیدنا بریدہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا کہ میں نے ایک لونڈی خیرات میں اپنی ماں کو دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ، آپﷺ نے فرمایا کہ تیرا ثواب ثابت ہو گیا اور پھر وہ لونڈی میراث کی وجہ سے تیرے پاس آ گئی۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (قضا) تھے ، کیامیں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں اس کی طرف سے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا کہ میری ماں نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے حج بھی کرو۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ﴾ کے متعلق۔

607: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ”جن لوگوں کو روزے کی طاقت نہیں ہے وہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دیں“ (البقرہ: 184) نازل ہوئی تو جو شخص روزہ چھوڑنا چاہتا تو چھوڑ کر فدیہ دے دیتا، حتی کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی جس سے یہ منسوخ ہو گئی۔ (یعنی اگر استطاعت ہو تو پھر فدیہ دے کر افطار نہیں کر سکتا)۔

باب : دیگر مہینوں میں روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا بیان۔

608: سیدنا عبد اللہ بن شقیقؓ  کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ نبیﷺ کسی ماہ کے پورے دنوں کے روزے رکھتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتی کہ آپﷺ نے رمضان کے سوا کسی مہینہ کے پورے روزے رکھے ہوں اور نہ کوئی پورا مہینہ افطار کیا بلکہ ہر مہینہ میں سے کچھ نہ کچھ روزے ضرور رکھتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ دنیا سے تشریف لے گئے (اللہ تعالیٰ کا سلام اور رحمت ان پر)۔

باب : اللہ کی راہ (جہاد) میں روزہ رکھنے کی فضیلت۔

609: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ (جہاد) میں ایک دن روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے منہ کو دوزخ سے ستر برس کی راہ تک دُور کرتا ہے۔

باب : ماہِ محرم کے روزے کی فضیلت۔

610: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رمضان کے روزوں کے بعد سب روزوں میں سے افضل محرم کے روزے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور فرض نماز کے بعد افضل نماز رات (تہجد) کی نماز ہے۔

باب : یومِ عاشورہ کے روزے کا بیان۔

611: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورے (دس محرم) کے دن روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہﷺ نے بھی اس (دن) کے روزے کا حکم فرمایا، یہاں تک کہ جب رمضان فرض ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو چاہے اس دن (عاشورہ) کا روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔

باب : عاشورہ کے کونسے دن روزہ رکھے ؟

612: حکم بن اعرج سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عباسؓ  کے پاس پہنچا اور وہ اپنی چادر پر زمزم کے کنارے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ پس میں نے کہا کہ مجھے عاشورہ کے روزے کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا کہ جب تم محرم کا چاند دیکھو تو تاریخیں گنتے رہو۔ پھر جب نو (9) تاریخ ہو تو اس دن روزہ رکھو۔ میں نے کہا: کیا رسول اللہﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔

باب : عاشورہ کے دن کے روزے کی فضیلت۔

613: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں تو آپﷺ نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم یہ روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ وہ عظیم دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ  اور بنی اسرائیل کو (فرعون سے ) نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا، اس لئے موسیٰؑ  نے شکرانے کا روزہ رکھا اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰؑ  کے دوست اور قریب ہیں۔ پھر آپﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

614: عبید اللہ بن ابی یزید سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن عباسؓ  سے سنا۔ ان سے عاشورہ کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ نے کسی دن کا روزہ رکھا ہو اور دنوں میں سے اس دن کی بزرگی ڈھونڈنے کو، سوا اس دن کے اور کسی مہینے کا سوا رمضان کے مہینے کے (یعنی دنوں میں عاشورہ کا دن اور مہینوں میں رمضان کو بزرگ جانتے ہیں)۔

باب : جس نے یوم عاشورہ کو کچھ کھا لیا، وہ بقیہ دن (کھانے پینے سے ) باز رہے۔

615: سیدہ ربیع بنت معوّذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عاشورہ کی صبح کو مدینہ کے گرد انصار کی بستیوں میں حکم بھیجا کہ جس نے روزہ رکھا وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے صبح سے افطار کیا ہو وہ باقی دن (روزہ) پورا کرے (یعنی اب کچھ نہ کھائے )۔ پھر اس کے بعد ہم روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اللہ چاہتا روزہ رکھواتے تھے اور مسجد میں چلے جاتے اور بچوں کے لئے روئی کی گڑیاں بناتے تھے۔ پھر جب کوئی (بچہ) روٹی کے لئے رونے لگتا تھا تو اس کو وہی (گڑیا) کھیلنے کو دے دیتے تھے یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا تھا۔

باب : شعبان کا روزہ۔

616: سیدنا ابو سلمہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کے روزے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا آپﷺ اتنے روزے رکھتے کہ ہم کہتے تھے کہ آپﷺ نے بہت روزے رکھے اور اتنا افطار کرتے کہ ہم کہتے تھے کہ آپﷺ نے بہت افطار کیا۔ اور میں نے ان کو جتنا شعبان میں روزے رکھتے دیکھا، اتنا اور کسی ماہ میں نہیں دیکھا۔ گویا آپﷺ شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے۔ آپ چند دنوں کے سوا پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے۔

باب : شعبان کے پہلے پندرہ دنوں میں روزہ رکھنے کے متعلق۔

617: سیدنا عمران بن حصینؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے یا کسی دوسرے سے فرمایا کہ کیا تم نے شعبان کے شروع میں کچھ روزے رکھے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم افطار کر لو تو دو دن روزہ رکھو۔ (یعنی جب رمضان کے مہینے سے فارغ ہو جاؤ تو دو روزے رکھنا)

باب : رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا۔

618: سیدنا ابو ایوب انصاریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو رمضان کے روزے رکھے اور اس کے ساتھ شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ سارا سال روزہ رکھنے کی مثل ہے۔

باب : ذوالحجہ کے دس دنوں میں روزہ نہ رکھنے کا بیان۔

619: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزے سے نہیں دیکھا۔

باب : عرفہ کے دن کے روزے کا بیان۔

620: سیدنا ابو قتادہؓ  سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپﷺ کیسے روزہ رکھتے ہیں؟ اس پر آپﷺ غصہ ہو گئے (اس لئے کہ یہ سوال بے موقع تھا اس کو لازم تھا کہ یوں پوچھتا کہ میں روزہ کیسے رکھوں) پھر جب سیدنا عمرؓ  نے آپﷺ کا غصہ دیکھا تو عرض کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے ، اسلام کے دین ہونے ، اور محمدﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے اور ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے غصہ سے پناہ مانگتے ہیں۔ غرض سیدنا عمرؓ  بار بار ان کلمات کو کہتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ کا غصہ تھم گیا۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! جو ہمیشہ روزہ رکھے وہ کیسا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔ پھر کہا کہ جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ایسی طاقت کس کو ہے۔ پھر پوچھا کہ جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے ، وہ کیسا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ روزہ داؤد علیہ السلام کا ہے۔ پھر پوچھا کہ جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں آرزو رکھتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت ہو (یعنی یہ بھی خوب ہے اگر طاقت ہو)۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہر ماہ تین روزے اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک، یہ ہمیشہ کا روزہ ہے (یعنی ثواب میں)۔ اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورہ کے روزہ سے امید رکھتا ہوں کہ ایک سال پہلے کا کفارہ ہو جائے۔

باب : میدان عرفات میں حاجیوں کو عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھنا چاہیئے۔

621: سیدہ اُمّ فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس چند لوگوں نے عرفہ کے دن (عرفات میں) رسول اللہﷺ کے روزے کے بارے میں اختلاف کیا۔کسی نے کہا کہ آپﷺ روزے سے ہیں اور کسی نے کہا کہ نہیں۔ تب اُمّ الفضل نے دودھ کا ایک پیالہ آپﷺ کی خدمت میں بھیجا اور آپﷺ عرفات میں اپنے اونٹ پر ٹھہرے ہوئے تھے تو آپﷺ نے اسے پی لیا۔

باب : عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت۔

622: ابو عبید مولیٰ ابن ازہر سے روایت ہے کہ میں عید میں سیدنا عمر بن خطابؓ  کے ساتھ حاضر ہوا، آپ آئے اور نماز پڑھی۔ پھر فارغ ہوئے اور لوگوں پر خطبہ پڑھا اور کہا کہ یہ دونوں دن ایسے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ان (دونوں دنوں) میں روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ایک دن رمضان کے بعد تمہارے افطار کا ہے اور دوسرا وہ دن جس میں اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔

باب : ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی کراہت۔

623: سیدنا نبیشہ ھذلیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایام تشریق (گیارہ بارہ تیرہ ذوالحجہ کے دن) کھانے پینے کے دن ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ … اور اللہ تعالیٰ کو (گوشت) سے یاد کرنے کے۔

باب : پیر کے دن کا روزہ۔

624: سیدنا ابو قتادہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے دو شنبہ (پیر) کے روزہ کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: میں اسی دن پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی اتری۔

باب : صرف جمعہ کے دن کے روزہ کی ممانعت۔

625: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی شخص صرف جمعہ کے دن کا روزہ (خاص کر کے ) نہ رکھے ، مگر یہ کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی روزہ رکھے۔

626: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: کوئی شخص جمعہ کی رات کو سب راتوں میں جاگنے اور نماز کے ساتھ خاص کرے اور نہ اس کے دن (یعنی جمعہ) کو سب دنوں میں سے روزے کے لئے خاص کرے مگر یہ کہ وہ ہمیشہ (کسی خاص تاریخ میں مثلاً ہر ماہ کی پہلی یا آخری تاریخ وغیرہ میں) روزہ رکھتا ہو اور اس میں جمعہ آ جائے۔

باب : ہر ماہ تین دن روزے رکھنے کا بیان۔

627: سیدہ معاذہ العدویہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا رسول اللہﷺ ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر پوچھا کہ کن دنوں میں (روزے رکھتے تھے ؟) انہوں نے کہا کہ کچھ پرواہ نہ کرتے ، کسی بھی دن روزہ رکھ لیتے تھے۔

باب : لگاتار روزہ رکھنے کی کراہت۔

628: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ میں لگاتار (مسلسل) روزے رکھتا ہوں اور ساری رات نماز پڑھتا ہوں تو آپﷺ نے کسی کو میرے پاس بھیجا یا میں آپﷺ سے ملا تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم لگاتار روزے رکھتے ہو درمیان میں افطار نہیں کرتے اور ساری رات نماز پڑھتے ہو، ایسا مت کرو۔ اس لئے کہ تمہاری آنکھوں کا بھی کچھ حصہ ہے اور تمہاری ذات کا بھی حصہ ہے اور تمہاری بیوی کا بھی۔ پس تم روزہ رکھو اور افطار بھی کرو اور نماز (نفلی) بھی پڑھو اور نیند بھی کرو اور ہر دس دن میں ایک روزہ رکھ لیا کرو کہ تمہیں اس سے (باقی) نو دن (روزہ رکھنے ) کا ثواب بھی ملے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے آپ میں اس سے زیادہ قوت پاتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم داؤدؑ  کا روزہ رکھو۔ میں نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ! ان کا روزہ کیا تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور جب دشمن کے مقابل ہوتے تو کبھی (جہاد سے ) نہ بھاگتے تھے۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ! یہ دشمن سے نہ بھاگنا مجھے کہاؑ نصیب ہو سکتا ہے (یعنی یہ بڑی قوت و شجاعت کی بات ہے )۔ عطا (راوئ حدیث) نے کہا کہ پھر میں نہیں جانتا کہ ہمیشہ روزوں کا ذکر کیسے آیا، اور نبیﷺ نے اس پر فرمایا کہ جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے روزہ ہی نہیں رکھا (یعنی مطلق ثواب نہ پایا) جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔

باب : سب روزوں سے افضل روزہ داؤدؑ  کا روزہ ہے کہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔

629: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ روزہ سیدنا داؤدؑ  کا روزہ ، اور سب سے پسندیدہ نماز داؤدؑ  کی ہے۔ (سیدنا داؤدؑ  ) آدھی رات تک سوتے تھے اور تہائی حصہ قیام کر کے (یعنی تہجد پڑھ کر) رات کے چھٹے حصہ میں پھر سو جاتے تھے۔ اور ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔

باب : جس نے نفلی روزہ کی نیت سے صبح کی پھر افطار کر لیا۔

630: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن نبیﷺ میرے پاس آئے اور فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ (کھانے کے لئے ) ہے ؟ ہم نے کہا کہ کچھ نہیں ہے تو آپﷺ نے فرمایا تب میں روزے سے ہوں۔ پھر آپﷺ ہمارے پاس کسی اور دن آئے تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہمارے پاس ہدیہ میں حیس آیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے دکھاؤ اور میں صبح سے روزے سے تھا پھر آپﷺ نے کھایا۔

باب : روزہ اور ایک دن افطار۔

629: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ روزہ سیدنا داؤدؑ  کا روزہ ، اور سب سے پسندیدہ نماز داؤدؑ  کی ہے۔ (سیدنا داؤدؑ  ) آدھی رات تک سوتے تھے اور تہائی حصہ قیام کر کے (یعنی تہجد پڑھ کر) رات کے چھٹے حصہ میں پھر سو جاتے تھے۔ اور ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔

باب : جس نے نفلی روزہ کی نیت سے صبح کی پھر افطار کر لیا۔

630: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن نبیﷺ میرے پاس آئے اور فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ (کھانے کے لئے ) ہے ؟ ہم نے کہا کہ کچھ نہیں ہے تو آپﷺ نے فرمایا تب میں روزے سے ہوں۔ پھر آپﷺ ہمارے پاس کسی اور دن آئے تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہمارے پاس ہدیہ میں حیس آیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے دکھاؤ اور میں صبح سے روزے سے تھا پھر آپﷺ نے کھایا۔

 

 

کتاب: اعتکاف کے مسائل

 

باب : جو شخص اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہو وہ جائے اعتکاف میں کب داخل ہو؟

631: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جاتے۔ اور ایک بار آپﷺ نے (مسجد میں) اپنا خیمہ لگانے کا حکم فرمایا۔ وہ لگا دیا گیا اور آپﷺ نے رمضان کے عشرۂ اخیر میں اعتکاف کا ارادہ کیا تھا تو اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے لئے خیمہ لگانے کا کہا تو ان کے لئے بھی خیمہ لگا دیا گیا۔ پھر دوسری امہات المؤمنین نے کہا تو ان کے خیمے بھی لگا دئیے گئے۔ پھر جب رسول اللہﷺ فجر کی نماز پڑھ چکے تو سب خیموں کو دیکھا اور فرمایا کہ ان لوگوں نے کیا نیکی کا ارادہ کیا ہے ؟ (اس میں بوئے ریا پائی جاتی ہے ) چنانچہ آپﷺ نے اپنا خیمہ کھولنے کا حکم دیا تو اسے کھول دیا گیا اور آپ نے رمضان میں اعتکاف ترک کر دیا یہاں تک کہ پھر شوال کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا۔

باب : پہلے عشرے اور درمیانی عشرے کا اعتکاف۔

632: سیدنا ابو سعید خدریؓ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ میں ایک ترکی خیمہ میں کہ جس کے دروازے پر چٹائی لٹکی ہوئی تھی، اعتکاف کیا۔ (تیسرے عشرہ کے شروع میں)(سیدنا ابو سعید خدریؓ  ) بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے چٹائی کو پکڑ کر خیمے کے ایک کوے میں کر دیا اور اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے مخاطب ہوئے تو لوگ آپﷺ کے قریب ہو گئے تو آپﷺ نے فرمایا: میں نے رات (لیلۃ القدر) کی تلاش میں پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس کوئی (فرشتہ) آیا اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ (لیلۃ القدر کی) یہ رات آخری عشرہ میں ہے۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہے تو وہ اعتکاف کرے۔ چنانچہ لوگوں نے آپﷺ کے ساتھ اعتکاف کیا۔ آپﷺ فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا کہ وہ طاق راتوں میں ہے اور میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جب آپﷺ کو اکیسویں شب کی صبح ہوئی اور اس رات آپﷺ صبح تک نماز پڑھتے رہے۔ اور بارش ہوئی تو مسجد ٹپکی اور میں نے مٹی اور پانی کو دیکھا۔ پھر جب آپﷺ صبح کی نماز پڑھ کر نکلے تو آپﷺ کی پیشانی اور ناک کی چوٹی پر مٹی اور پانی کا نشان تھا اور وہ آخری عشرۂ رمضان کی اکیسویں رات تھی۔

باب : رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف۔

633: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ ہمیشہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ نے وفات پائی۔ پھر آپﷺ کے بعد آپﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ نے اعتکاف کیا۔

باب : آخری عشرہ میں (عبادت و ریاضت میں) محنت و کوشش۔

634: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپﷺ رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے ، (عبادت میں) نہایت کوشش کرتے نا اور کمر، ہمت باندھ لیتے تھے۔

باب : لیلۃ القدر اور اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرنے کا بیان۔

635: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈھو پھر اگر کوئی کمزوری دکھائے یا عاجز ہو جائے تو آخر کی سات راتوں میں سست نہ ہو۔

باب : لیلۃ القدر اکیسویں رات ہو سکتی ہے۔

اس باب کے بارے میں سیدنا ابو سعید خدریؓ  کی حدیث گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 632)۔

باب : لیلۃ القدر تیئس کی رات ہو سکتی ہے۔

636: سیدنا عبد اللہ بن انیسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی۔ اور میں نے (خواب میں) دیکھا کہ اس رات کی صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ راوی نے کہا کہ ہم پر تئیسویں شب کو بارش برسی اور رسول اللہﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی۔ جب آپﷺ نماز پڑھ کر پھرے (یعنی صبح کی) تو آپﷺ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور کیچڑ کا اثر تھا۔ اور سیدنا عبد اللہ بن انیسؓ  تئیسویں رات کو شبِ قدر کہا کرتے تھے۔

باب : (لیلۃ القدر کو) 21 ویں، 23ویں اور 25 ویں رات میں تلاش کرو۔

637: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، جس میں آپﷺ لیلۃ القدر کا عالم دیئے جانے سے قبل اسے ڈھونڈھتے تھے۔ جب درمیانی عشرہ گزر گیا تو آپﷺ نے خیمہ کھولنے کا حکم دیا تو وہ کھول دیا گیا۔ پھر آپﷺ کو معلوم کروا دیا گیا کہ یہ آخری عشرہ میں ہے تو آپﷺ نے خیمہ لگانے کا حکم کیا تو دوبارہ لگا دیا گیا۔ پھر آپﷺ صحابہ کے پاس آئے تو فرمایا: اے لوگو! مجھے لیلۃ القدر کا علم دے دیا گیا تھا اور میں تمہیں بتانے کے لئے نکلا تھا کہ دو آدمی لڑتے ہوئے آئے جن کے ساتھ شیطان بھی تھا، تو (اس کی تعیین) مجھے بھلا دی گئی۔ اب تم اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو(آخری عشرے کی) نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے کہا کہ اس عدد کے بارے میں تم ہم سے زیادہ علم رکھتے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہاں! ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ راوی کہتے ہیں، میں نے کہا کہ نویں، ساتویں اور پانچویں سے کونسی راتیں مراد ہیں؟ (انہوں نے ) کہا کہ جب اکیسویں رات گزر جائے کہ جس کے بعد بائیسویں رات آتی ہے ، یہی نویں سے مراد ہے۔ اور جب تئیسویں گزر جائے تو اس کے بعد والی آتی ہے ، یہی ساتویں سے مراد ہے اور جب پچیسویں رات گزر جائے تو جو اس کے بعد والی ہے ، یہی مراد ہے پانچویں سے۔

باب : لیلۃ القدر ستائیسویں کی رات بھی ہو سکتی ہے۔

638: سیدنا زِرّ بن حبیشؓ  کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابی بن کعبؓ  سے پوچھا کہ تمہارے بھائی عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ جو سال بھر تک جاگے گا، اس کو شبِ قدر ملے گی تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے ، یہ کہنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگ ایک ہی رات پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (بلکہ ہمیشہ عبادت میں مشغول رہیں) ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ وہ رمضان میں، آخری عشرہ میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ پھر انہوں نے بغیر ان شاء اللہ کہے قسم اٹھا کر کہا کہ کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو منذر! تم یہ دعویٰ کس بنا پر کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک نشانی یا علامت کی وجہ سے جس کی خبر ہمیں رسول اللہﷺ نے دی ہے ، وہ یہ کہ اس کی صبح کو آفتاب جو نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی (مگر یہ علامت اس رات کے ختم ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے )۔