فہرست مضامین
- مختصر تفسیر قرآن
- تعارف تفسیر عتیق
- 1 – الم
- 2 – سَیَقُولُ
- 3 – تِلْکَ الرُّسُلُ
- 4 – لَن تَنَالُواْ
- 5 – وَالْمُحْصَنَاتُ
- 6 – لاَ یُحِبُّ اللہُ
- 7 – وَاِذَا سَمِعُواْ
- 8 – وَلَوْ أَنَّنَا
- 9 – قَالَ الْمَلَأُ
- 10 – وَاعْلَمُواْ
- 11 – یَعْتَذِرُونَ
- 12 – وَمَا مِن دَآبَّۃٍ
- 13 – وَمَا أُبَرِّیءُ
- 14 – رُبَمَا
- 15 – سُبْحَانَ الَّذِی
مختصر تفسیر قرآن
حصہ اول۔ جز ۱ تا ۱۵
مفتی عتیق الرحمن شہید
تعارف تفسیر عتیق
قرآن کریم کتاب ہدایت اور دستور انسانیت ہے۔ یہ انقلاب آفریں کتاب ہے۔ آج سے سوا چودہ سو سال پہلے اس کتاب نے انسانی زندگیوں میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ صحرائے عرب کے خانہ بدوشوں اور چرواہوں کو دنیا کا امام بنا کر کھڑا کر دیا، جو لوگ اس قرآن کے دامن میں آنے کے لئے تیار نہ ہوئے، جہالت ان کے نام کا لازمہ اور ان کی شناخت بن کر رہ گئی۔ ابو جہل کوئی مخصوص فرد اور زمانہ جاہلیت، تاریخ کا کوئی گزرا ہوا زمانہ نہیں ہے بلکہ قیامت تک ہر وہ شخص ابو جہل ہے جو قرآن کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے پر آمادہ نہ ہو اور ہر وہ زمانہ، جاہلیت کا زمانہ ہے جو قرآنی نظام کو اختیار کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ قرآن کریم وہ زندہ جاوید کتاب ہے جو کسی دور میں بھی پرانی نہیں ہوتی اور بار بار دہرانے سے بھی انسانی طبیعت اس سے اکتاتی نہیں ہے اور اس کے معانی و مطالب ہر دور میں ترو تازہ رہتے ہیں۔
یہ کلام الٰہی ہے جس کی وسعتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور جس کی حکمتوں کے سمندر کا کوئی کنارہ نہیں ہے۔ یہ عربی زبان کا اعزاز ہے جس نے کلام اللہ کو اس کی وسعتوں کے با وصف اپنے دامن میں سمیٹ کر نوع انسانی تک پہنچانے کا شرف حاصل کیا ہے۔ اسے سمجھنے اور اس سے استفادہ کرنے کے لئے عربی زبان کی گہرائی و گیرائی کا ادراک ضروری ہے اور قرآن فہمی کا صحیح لطف اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک عربی زبان میں پوری مہارت حاصل نہ ہو۔ ترجمہ اور تفسیر کی مدد سے قرآن کریم کے ساتھ ایک گونہ مناسبت ضرور پیدا ہو جاتی ہے اور قرآنی علوم و معارف کے حصول کا ولولہ اور شوق انگڑائیاں لینے لگتا ہے، اس بناء پر یہ مناسب خیال کیا گیا ہے کہ نزول قرآن کے مبارک مہینہ رمضان شریف کی مبارک ساعات میں قرآن کریم کے ساتھ اپنے تعلق کو بڑھایا جائے اور اس پر عمل کرنے کے جذبہ کو تازہ کرنے کے لئے قرآنی مضامین کو انتہائی مختصر انداز میں قارئین اسلام تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی جائے۔ اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ روزانہ تراویح میں تلاوت کی جانے والی آیات قرآنیہ میں بیان شدہ مضامین کا خلاصہ روزنامہ اسلام کے اسلامی صفحہ پر شائع کر دیا جایا کرے تاکہ تراویح میں ان آیات کی سماعت کا شوق و جذبہ دوبالا ہو اور حفاظ و قراء حضرات اگر مناسب خیال کریں تو تراویح سے فراغت کے بعد نمازیوں کے سامنے اس خلاصہ کو پڑھ کر سنانے کا اہتمام کر لیا کریں تاکہ قرآنی علوم کی نشر و اشاعت کے ساتھ تذکیر المؤمنین کے فریضہ کی ادائیگی کی سعادت بھی حاصل ہو جائے۔ اس طرح ان شاء اللہ ماہ مبارک کے تیس ایام میں تیس پاروں کا خلاصہ ہماری نظروں کے سامنے سے گزر جائے گا جو کہ قرآن کریم کے ساتھ ہمارے تعلق میں اضافہ کا باعث بنے گا اور مطالعہ قرآن کے وسیع آفاق کی طرف ہماری رہنمائی کا ذریعہ بنے گا۔
قرآن کریم کی تقسیم دو طرح کی گئی ہے۔
۱۔ سورتوں کے اعتبار سے
۲۔ سیپاروں کے اعتبار سے
۱۔ سورتوں کے اعتبار سے تقسیم میں معانی و مفاہیم کی رعایت رکھی گئی ہے۔ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور اس اعتبار سے قرآن کریم ایک سو چودہ چھوٹی بڑی سورتوں پر مشتمل ہے۔
۲۔ سیپاروں کے اعتبار سے تقسیم میں تلاوت کرنے اور حفظ کرنے کی رعایت رکھ کر پورے قرآن کریم کو تیس مساوی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر حصہ کو عربی میں ’’جزو‘‘ کہتے ہیں جبکہ اردو میں ’’سیپارہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جو دو لفظوں ’’سی‘‘ اور ’’پارہ‘‘ سے مرکب ہے۔ ’’سی‘‘ کے معنی ’’تیس‘‘ اور ’’پارہ‘‘ کے معنی ’’ٹکڑا‘‘ یا ’’حصہ‘‘ ہیں، سیپارہ کے معنی ہوئے ’’تیسواں حصہ‘‘ اس لحاظ سے ہر حصہ چونکہ تیسواں حصہ بنتا ہے اس لئے اسے ’’سیپارہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ تقسیم حفظ کرنے اور تلاوت کرنے والوں کی سہولت کے پیش نظر تجوید و قرأت کے ماہرین نے کی ہے۔ چونکہ تراویح میں قرآن کریم سیپاروں کی رعایت کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اس لئے ہم تفسیری خلاصہ میں اسی تقسیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے روزانہ ایک پارہ کے مضامین کا خلاصہ بیان کیا کریں گے اور طرح تیس دنوں میں ان شاء اللہ پورے قرآن کریم کے مضامین کا خلاصہ پیش کر دیا جائے گا۔
علماء تفسیر فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں کچھ اوامر ہیں اور کچھ نواہی ہیں، باقی تمام مضامین اسی کی تقویت اور وضاحت کے لئے ہیں۔ تمام اوامر کے لئے جامع عنوان الصبر ہے جس کے معنی ہیں الثبات علی طاعات اللہ۔ اطاعت خداوندی پر استقامت کا مظاہرہ اور تمام نواہی سے بچنے کے لئے جامع عنوان التقویٰ ہے جس کے معنیٰ ہیں الاجتناب عن محارم اللہ۔ محرمات سے بچنے کا اہتمام۔ اس لئے اگر کوئی مختصر ترین الفاظ میں قرآن کریم کا خلاصہ بیان کرنا چاہے تو وہ صرف دو لفظوں میں بیان کرسکتا ہے اور وہ ہیں :
۱۔ الصبر۲۔التقویٰ
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اگر ریل گاڑی پلیٹ فارم پر وسل دے کر روانگی کے لئے تیار ہو، میرا ایک پاؤں پلیٹ فارم پر اور دوسرا پائیدان پر ہو اور مجھ سے کوئی شخص یہ کہے کہ احمد علی! مجھے قرآن کا خلاصہ سمجھا دو تو میں گاڑی کی روانگی سے پہلے ہی اس کے سامنے پورے قرآن کا خلاصہ بیان کر دوں گا کہ اللہ کو عبادت سے، رسول اللہ کو اطاعت سے اور مخلوق خدا کو خدمت سے راضی رکھو۔‘‘ حدیث شریف میں سورہ فاتحہ کو ام الکتاب کہا گیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام قرآنی مضامین کا خلاصہ سورہ فاتحہ کے اندر موجود ہے اور بعض عارفین نے کہا ہے کہ سورہ فاتحہ کا خلاصہ بسم اللہ میں اور بسم اللہ کا خلاصہ اس کے پہلے حرف باء میں موجود ہے کہ باء وصل کرنے اور ملانے کے لئے ہے اور پورا قرآن کریم انسانوں کو اللہ تعالیٰ سے ملانے کے لئے ہے۔ بعض صوفیاء کرام نے تو یہاں تک فرما دیا کہ باء کے ایک نقطہ میں پورے قرآن کریم کے خلاصہ کی طرف اشارہ موجود ہے کہ توحید خداوندی ہی تمام قرآنی تعلیمات کا خلاصہ اور لب لباب ہے۔
1 – الم
سورہ فاتحہ
قرآن کریم کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی گئی ہے اور حدیث شریف میں ہر اچھے اور مفید کام کو بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس میں نہایت لطیف پیرائے میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا وجود اللہ کی رحمتوں کا مظہر ہے، لہٰذا احسان شناسی کا یہ تقاضا ہے کہ منعم و محسن کے انعامات و احسانات سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے نام سے اپنی زبان کو ترو تازہ رکھا جائے۔
سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے۔ مفسرین کرام نے اس کے بہت سے نام شمار کرائے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں سورہ فاتحہ کے بائیس نام شمار کرائے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے کثرت الاسماء تدل علی عظمۃ المسمی کسی چیز کے زیادہ نام اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کے بہت سارے نام بھی اس مبارک سورت کی عظمتوں کے غماز ہیں۔اہمیت کے پیش نظر اس سورت کے چند نام ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس کا مشہور نام سورۃ الفاتحہ ہے کیونکہ مصحف عثمانی کی ابتداء اس سورت سے ہوئی ہے۔ نیز نماز کی ابتداء بھی اسی سورت سے ہوتی ہے۔ اس کا نام ام الکتاب بھی ہے جس کا مطلب ہے قرآن کریم کی اساس اور بنیاد۔ قرآن کریم میں بیان کئے جانے والے مضامین و مقاصد کا خلاصہ اس چھوٹی سی سورت میں ذکر کر کے دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔ توحید و رسالت، آخرت، احکام شریعت اور قرآنی نظام کے وفا داروں کا قابل رشک انجام۔۔۔ اور اس کے باغیوں کا عبرتناک انجام یہ وہ پانچ مضامین ہیں جنہیں پورے شرح و بسط کے ساتھ قرآن کریم کی باقی ۱۱۳ سورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضامین معجزانہ انداز میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس سورت میں بیان کر دیئے گئے ہیں۔ اسی لئے اس سورت کو ام الکتاب اور اساس القرآن کہا گیا ہے۔ مفسرین کرام نے سورت الفاتحہ کو قرآن کریم کا مقدمہ یا پیش لفظ بھی کہا ہے۔ اس کے مضامین کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر نماز میں اس کی تلاوت کا حکم دیا تاکہ شب و روز میں کم از کم پانچ مرتبہ پورے قرآن کا خلاصہ ہر مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے۔ اس سورت کا ایک نام تعلیم المسئلۃ ہے کہ اس میں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے اور کس طرح مانگنا چاہئے۔ یہ سورت الشفاء بھی ہے کہ روحانی و جسمانی امراض کے لئے پیغام شفاء ہے۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے موت کے علاوہ ہر جسمانی مرض سے صحت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مضامین پر عمل کرنے سے روحانی امراض سے شفا یابی ہوتی ہے۔
سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور خوبیوں کے اعتراف کے لئے حمد کا عنوان اختیار کیا گیا ہے اور تمام کائنات کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لئے رب العالمین کی صفت کا بیان ہے، کیونکہ رب وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائے اور اس کی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور اس کی تربیت کے تمام وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کائنات کا وجود و عدم اس کی صنعت رحمت کا مرہونِ منت ہے۔ قیامت کے دن انسانی اعمال کی جزاء و سزا کا حتمی فیصلہ کرنے والا مالک و مختار وہی ہے۔ ہر قسم کی وفاداریوں کا مرکز اور مالی و جسمانی عبادات کا مستحق وہی ہے۔ ہر مشکل مرحلہ میں اسی سے مدد طلب کی جانی چاہئے۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی کے مطابق سرانجام دینے کا سلیقہ ہدایت کہلاتا ہے۔ اس لئے بندہ صراط مستقیم کی ہدایت انبیاء و صدیقین و شہداء و صالحین جو اپنے خالق سے وفاداریوں کی بناء پر انعامات کے مستحق قرار پا چکے ہیں ان کے راستہ کی ہدایت، اپنے مالک سے طلب کرتا ہے اور قرآنی نظام کے باغی یہود و نصاریٰ اور ان کے اتحادیوں کے راستہ سے بچنے کی درخواست پیش کرتا ہے اور آخر میں آمین کہہ کر اس عاجزانہ درخواست کی قبولیت کے لئے نیاز مندانہ معروض پیش کرتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب سورہ فاتحہ ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’میرے بندے نے مجھ سے جو مانگا، میں نے اسے عطاء کر دیا۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’امام جب نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ تم بھی آمین کہا کرو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
ایک حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’میں نے سورہ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کر لیا ہے۔ آدھی سورہ فاتحہ میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے۔ جب بندہ الحمد ﷲ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حمدنی عبدی میرے بندے نے میری حمد بیان کی جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اثنی علی عبدی میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت و بزرگی کا اعتراف کیا۔ جب ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا بینی و بین عبدی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم سے آخر تک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا العبدی والعبدی ماسأل یہ میرے بندہ کے لئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ہے میں نے اسے عطاء کر دیا ہے۔
سورہ بقرہ
پہلے پارہ کی ابتداء سورہ بقرہ سے ہوتی ہے۔ بقرہ گائے کو کہتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں جرم و سزا اور سراغ رسانی کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا تھا جس میں مجرم کی نشاندہی معجزانہ طریقہ پر کی گئی تھی، جو بنی اسرائیل کے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہے۔ اس سورت میں دوسرے مضامین کے علاوہ زیادہ تر روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف ہے۔ ان کے دلوں میں اسلام کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے اس معجزانہ واقعہ کی طرف اشارہ کے طور پر پوری سورت کو بقرہ سے موسوم کر دیا گیا۔ سورہ بقرہ قرآن کریم کی طویل ترین سورت ہے جس میں متنوع اور مختلف مضامین کا بیان ہے۔ حروف مقطعات سے سورت کی ابتداء کر کے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ قرآنی علوم و معارف سے استفادہ کے لئے اپنی جہالت اور کم علمی کا اعتراف اور علمی پندار کی نفی پہلا زینہ ہے، کلام الٰہی پر غیر متزلزل یقین اور اسے ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر سمجھنا دوسرا زینہ ہے۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی تھی وہ قرآن کریم کی شکل میں آپ کو عطا کر رہے ہیں۔
ابتدائی بیس آیتوں میں انسان کی تین قسموں کا بیان ہے: پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لئے اپنے مالی و جسمانی اعمال کو قرآنی نظام کے تابع لانے کے لئے تیار ہیں۔ یہ لوگ قرآن کریم اور اس سے پہلی آسمانی کتابوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کافر ہیں، وہ اپنی زندگی کی اصلاح اور اس میں قرآنی نظام کے مطابق تبدیلی کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ تیسری قسم ان خطرناک لوگوں کی ہے جو دلی طور پر قرآنی نظام کے منکر ہیں مگر ان کی زبانیں ان کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ قرآن کریم کو ماننے میں اگر کوئی مفاد ہے تو اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور اگر اس سے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے تو اس کا انکار کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ ان کے دل و زبان میں مطابقت نہیں ہے، اسے منافقت کہتے ہیں۔ منافقت کے ذریعہ انسانوں کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے مگر دلوں کے بھید جاننے والے اللہ کو دھوکہ دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ لوگ اصلاح کے نام پر دنیا میں فساد برپا کرتے ہیں اور قرآنی نظام کے وفادار اہلِ ایمان کو عقل و دانش سے محروم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ خود شعور و آگہی سے بے بہرہ اور محروم ہیں۔ یہ لوگ ہدایت و روشن خیالی کے مقابلہ میں تاریک خیالی اور گمراہی کی تجارت کر رہے ہیں اور یہ بڑے خسارہ کا کاروبار ہے۔ قرآن کریم نے دو مثالوں کے ذریعہ منافقت کی دو قسموں کو واضح کیا ہے۔
۱: کسی شخص نے ٹھٹھرتی، اندھیری رات میں سردی سے بچنے اور روشنی حاصل کرنے کے لئے آگ جلائی اور جیسے ہی چاروں طرف روشنی پھیلی تو وہ آگ ایک دم بجھ گئی اور وہ گھپ اندھیرے میں کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ رہا۔
۲: رات کے وقت اندھیرے کے اندر کھلے میدان میں موسلادھار بارش میں کچھ لوگ پھنس کر رہ گئے، بجلی کی کڑک ان کے کانوں کو بہرہ کئے دے رہی ہو اور چمک سے ان کی آنکھیں خیرہ ہو رہی ہوں اور اس ناگہانی آفت سے وہ موت کے ڈرسے کانوں میں انگلیاں ٹھوسے ہوئے ہوں۔ بجلی کی چمک سے انہیں راستہ دکھائی دینے لگے مگر جیسے ہی وہ چلنے کا ارادہ کریں تو اندھیرا چھا جائے اور انہیں کچھ بھی سجھائی نہ دے۔ یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں کیونکہ آیات خداوندی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔
اس کے بعد انسانیت سے پہلا خطاب کیا گیا اور ایک وحدہٗ لاشریک لہٗ رب کی عبادت کا پہلا حکم دیا گیا۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔ جس میں انسان کو عدم سے وجود بخشنا اور اس کی زندگی کی گزر بسر کے لئے آسمان و زمین کی تخلیق اور بارش اور سبزیوں اور پھلوں کی پیدائش کا تذکرہ ہے۔ پھر قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کی عقلی دلیل دی گئی ہے کہ اگر تم اسے بشر کا کلام سمجھتے ہو تو تم بھی بشر ہو۔ ایسا کلام بنا کر دکھا دو ورنہ جہنم کا ایندھن بننے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ قرآن کریم کی ایک سورت بلکہ ایک آیت بنانے سے بھی عاجز آ جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ محمد علیہ السلام کا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس کے بعد قرآنی نظام کے منکرین کے لئے جہنم کے بدترین عقوبت خانہ کی سزا اور اس کے ماننے والوں کے لئے جنت کی بہترین نعمتوں اور پھلوں کے انعام کا تذکرہ ہے۔ قرآن کتاب ہدایت ہے، انسانی ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی بھی اسلوب بیان اپنا سکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے مکھی یا مچھر یا کسی دوسرے چھوٹے یا بڑے جانور کی مثال دے سکتا ہے، مسئلہ مثال کا نہیں اس سے حاصل ہونے والے مقصد کا ہے۔
تخلیق انسانی کی ابتداء کا تذکرہ آیت نمبر ۳۰ سے ۳۹ تک ۹ آیتوں میں ہے۔ انسان اس سرزمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ ہے اور اس کی وجہ انسان کا حصول علم کی صلاحیت رکھنا ہے۔ انسانی بلندی و عظمت کی بنا پر اسے سجود ملائک بنایا گیا۔ ناپاک نطفہ سے تخلیق دے کر عظمت و بلندی کے تمام مراحل آناً فاناً طے کرا کے اسے سجود ملائک بنا دیا۔ پستی سے عظمت کے بام عروج تک پہنچا دیا۔ آدم سے حوا کی پیدائش سے نر اور مادہ کے ملاپ کے بغیر ایک انسان سے دوسرا انسان پیدا کرنے (clone) کا امکان ثابت ہو سکتا ہے بلکہ آدم کی مٹی سے تخلیق سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس مٹی سے سبزیوں اور پھلوں کی شکل میں ’’مادہ حیات‘‘ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے اس سے براہِ راست وہ مادہ لے کر بھی انسان کو وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ انسان اس سرزمین پر بطور سزا نہیں بلکہ بطور امتحان بھیجا گیا ہے۔ قرآن کریم کی شکل میں آسمانی ہدایت کی پیروی اس کی کامیابی کی علامت اور اس کی مخالفت اور کفر اس کی ناکامی و نامرادی کی علامت قرار دی گئی۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے جو آیت نمبر ۴۰ سے شروع ہو کر نمبر ۱۲۳ تک ۱۸۳ آیات پر مشتمل ہے۔ بنی اسرائیل دنیا کی ایک منتخب قوم تھی۔ انبیاء کی اولاد تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دور کی سیاسی اور مذہبی قیادت و سیادت سے نوازا ہوا تھا مگر ان کی نا اہلی اور اپنے منصب کے منافی حرکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں معزول کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ اس منصب کے اہل اور حقیقی وارث امت محمدیہ کی شکل میں اس سرزمین پر تیار ہو چکے ہیں۔ تقریباً آدھے سیپارے پر محیط اس قوم کے جرائم اور عادات بد کی ایک طویل فہرست ہے جو چالیس نکات پر مشتمل ہے۔ یہ وہ ’’فرد جرم‘‘ ہے جو بنی اسرائیل کے اس منصب عالی سے معزولی کا سبب ہے۔ آیت نمبر ۴۰ سے نمبر۴۶ تک سات آیتوں میں ان ذمہ داریوں کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل کو سونپی گئی تھیں۔ انعامات خداوندی کا استحضار، عہد الٰہی کی پاسداری، خوفِ خدا، تقویٰ، آسمانی تعلیمات پر یقین کامل، اپنے مفادات کو دین کا تابع بنا کر زندگی گزارنے کی تلقین، حق و باطل کو خلط ملط کرنے کی بجائے حق کی پیروی اور باطل سے دو ٹوک انداز میں برأت کا اظہار، نماز کی ادائیگی کے ذریعہ اللہ سے اپنی وفاداری کا اظہار اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ذریعہ غرباء و مساکین سے تعاون، خیر اور شر میں تمیز کر کے نیکی پر کاربند رہتے ہوئے دوسروں کو نیکی کی تلقین اور آسمانی تعلیمات کی روشنی میں عقل و دانش کا استعمال، بنی اسرائیل ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر رہے جس کی تفصیل ۷۶ آیتوں میں مذکور ہے۔
بنی اسرائیل کو دریا میں معجزانہ طریقہ پر راستہ بنا کر فرعونی مظالم سے نجات دی۔ دشمن کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کیا، موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دینے کے لئے چالیس دن کے لئے کوہ طور پر بلایا تو یہ لوگ بچھڑے کی عبادت میں مصروف ہو گئے۔ اس مشرکانہ حرکت پر سزا کے طور پر انہیں باہمی قتل کا حکم دے کر ان کی توبہ قبول کی گئی۔ ان کے بے جا مطالبے پورے کئے۔ اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور بالمشافہ ملاقات کرائی گئی مگر یہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ تیہ کے چٹیل اور کھلے میدان میں انہیں بادل کے ذریعہ سایہ اور ’’من و سلویٰ‘‘ کی شکل میں کھانا فراہم کیا گیا مگر انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی۔ پتھر سے معجزانہ طریقہ پر بارہ چشمے جاری کر کے ان کے بارہ خاندانوں کے سیراب کرنے کا انتظام کیا گیا مگر یہ سرزمین پر فساد پھیلانے سے باز نہ آئے۔ اللہ کی عظیم الشان نعمتوں کے مقابلہ میں لہسن پیاز اور دال روٹی کا مطالبہ کر کے ذہنی پستی اور دیوالیہ پن کا مظاہرہ کیا۔ اللہ کے احکام کا کفر کرنے اور انبیاء علیہم السلام (اپنے مذہبی پیشواؤں ) کو قتل کرنے کے عظیم جرم کا ارتکاب کیا، جس پر انہیں ذلت و رسوائی اور غضبِ خداوندی کا مستحق قرار دیا گیا۔ قرآنی ضابطہ ہے کہ اللہ کے نزدیک کامیابی قومی یا مذہبی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر ملتی ہے، خوف اور غم سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ ان کے سروں پر پہاڑ بلند کر کے تجدید عہد کرایا گیا، مگر انہوں نے اس کی پاسداری نہ کی۔ دل جمعی اور یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے کے لئے ہفتہ کے دن کی چھٹی دی گئی، مگر اس کی پابندی نہ کرنے پر عبرتناک انجام کے مستحق ٹھہرے اور ان کی شکلیں بگاڑ کر ذلیل و قابل نفرت بندر بنا دیا گیا۔
سورہ جرم و سزا اور سراغ رسانی کا انوکھا واقعہ
بنی اسرائیل میں ایک شخص بے اولاد تھا۔ وراثت حاصل کرنے کے لئے اس کے بھتیجے نے اسے قتل کر کے دوسروں پر الزام لگایا اور قصاص کا مطالبہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قاتل کا پتہ چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بڑی پس و پیش کے بعد یہ لوگ ذبح پر آمادہ ہوئے۔ گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا جب میت کے جسم سے لگایا گیا تو وہ زندہ ہو گیا اور اپنے قاتل کا نام بتا کر پھر مرگیا۔ اس طرح اصل مجرم گرفت میں آ گیا اور سزا کا مستحق قرار پایا اور کسی بے گناہ کی ناجائز خونریزی سے وہ لوگ بچ گئے۔ عقل و دانش کے نام پر کلام الٰہی میں تحریف اور رد و بدل کی بدترین عادت کے مریض تھے۔ اپنے مفادات اور دنیا کی عارضی منفعت کے لئے اللہ کی آیتوں کو بیچ ڈالتے تھے اور اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم جو چاہیں کریں ہمیں آخرت میں کوئی عذاب نہیں ہو گا اور ہم جہنم میں نہیں جائیں گے۔ قرآن کریم نے ضابطہ بیان کر دیا کہ جو بھی جرائم اور گناہوں کا مرتکب ہو گا وہ جہنم سے بچ نہیں سکے گا اور ایمان و اعمال صالحہ والے دائمی جنتوں کے حقدار قرار پائیں گے۔
بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں۔ والدین، عزیز و اقارب، غرباء و مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ لوگوں سے خوش اخلاقی کے ساتھ معاملہ کریں۔ دنیا میں فساد پھیلانے اور خونریزی کرنے سے باز رہیں، مگر یہ لوگ تخریب کار اور جنگ کے ذریعہ لوگوں کو قتل کرنے، ان کے گھروں سے بے گھر کرنے اور انہیں گرفتار کر کے ان کی آزادی سلب کرنے جیسی بدترین حرکات کے مرتکب پائے گئے۔ تورات کی جو باتیں ان کے مفادات کے مطابق ہوتیں انہیں مان لیتے اور جو مفادات کے خلاف ہوتیں انہیں رد کر دیتے۔ اس لئے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت کے بدترین عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ آخرت میں تمام نعمتیں اور جنت صرف ہمارے ہی لئے ہے۔ قرآن کریم نے کہا کہ پھر تو تمہیں موت کی تمنا کرنی چاہئے تاکہ وہ نعمتیں تمہیں جلدی سے حاصل ہو جائیں۔ یہ لوگ جبریل علیہ السلام کے مخالف تھے کہ وہ عذاب اور سزا کے احکام لے کر کیوں آتے ہیں ؟ وہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جبریل تو ایک قاصد اور نمائندہ ہے۔ جزا یا سزا کے احکام اللہ تعالیٰ نازل کرتے ہیں۔ کسی کے نمائندہ کی مخالفت دراصل اس کی مخالفت شمار ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جبریل تو میرے حکم سے قرآن کریم نازل کر رہے ہیں، لہٰذا جبریل کی دشمنی درحقیقت اللہ، اس کے رسول اور تمام فرشتوں کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ یہودیوں کی عادات بد میں جادوگروں کی اطاعت اور ان کی اتباع بھی تھی۔ اس کی مذمت آیت ۱۰۲ میں کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی زبانی کلامی دل آزاری اور گستاخیٔ رسول بھی یہودیوں کی گھٹی میں داخل ہے۔ آیت ۱۰۴ میں اسی بات کی مذمت ہے۔ قرآنی تعلیمات میں انسانی نفسیات، ماحول اور معاشرتی ضرورتوں کے پیش نظر جس طرح تدریجی احکام اور مرحلہ وار تبدیلیاں کی گئی ہیں آیت ۱۰۶ میں ان کا بیان ہے۔
یہود و نصاریٰ اپنے کفر اور حسد کی بناء پر مسلمانوں کو ایمانی تقاضوں پر کاربند دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ان کی فطرتی خباثت ہے لہٰذا انہیں نظر انداز کر کے اپنے کام سے کام رکھیں۔ دلائل کو نظر انداز کر کے محض اپنے مذہب یا نظریہ کی بنیاد پر کسی بات کو اختیار کرنا تعصب کہلاتا ہے۔ اس کی مذمت آیت ۱۱۳ میں بیان ہوئی ہے۔ مسجدیں اللہ کے گھر ہیں ان میں اللہ کی بات کرنے سے روکنا ظلم کی بدترین مثال ہے۔ ایسی حرکت کے مرتکب افراد دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی بدترین عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی مذمت آیت ۱۱۶ میں ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ یہود و نصاریٰ کے تعصب کی بدترین شکل کو بیان کیا کہ اس وقت تک مسلمانوں سے خوش نہیں ہوں گے جب تک مسلمان اسلام سے دستبردار ہو کر یہودیت یا عیسائیت کو اختیار نہ کریں۔ آسمانی کتاب کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی تلقین کے ساتھ بنی اسرائیل پر انعامات کا ایک مرتبہ پھر تذکرہ اور یوم احتساب کی یاد تازہ کر کے یہودیوں کے بارے میں گفتگو پوری کر دی۔ پھر انسانیت کے لئے مثالی شخصیت حضرت ابراہیم کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ ان کی آزمائش و ابتلاء اور اس میں کامیابی کی شہادت کے ساتھ ہی انہیں امامتِ انسانیت کے منصب پر فائز کرنے کا اعلان اور ابراہیمی زندگی اپنانے والے ہر شخص کو اس عہدہ کا اہل قرار دینے کا فیصلہ۔ ابراہیم علیہ السلام کی دینی خدمات خاص طور پر تعمیر کعبہ کا کارنامہ جو انسانوں کے لئے مرکز وحدت ہے۔ پھر دعاء ابراہیمی جس کے نتیجہ میں بعثت نبوی اور امت مسلمہ کو وجود ملا۔
پھر اس مثالی شخصیت کے مثالی خاندان کا تذکرہ اور بیان کہ اگر آباء و اجداد حق و انصاف کے علمبردار ہوں تو ان کی اتباع و تقلید ہی کامیابی کی اصل کلید ہے۔ آخر میں اس ضابطہ کا اعلان کہ ’’وہ لوگ جو گزر چکے، ان کے اعمال کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ ہو گا اور تمہارے اعمال کے مطابق تمہارے ساتھ معاملہ ہو گا۔‘‘ ع
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
2 – سَیَقُولُ
مسلمان پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، پھر بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے اعتراض کیا۔ پارہ کی ابتداء میں اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: تحویل قبلہ کے حکم خداوندی پر ناسمجھ لوگ اعتراض کریں گے کہ مسلمان بیت المقدس کو چھوڑ کر بیت اللہ کا رخ کیوں کرنے لگے؟ اس کا جواب دیا کہ تمام جہات: مشرق و مغرب اللہ ہی کی ہیں، وہ جس طرف چاہے اپنے بندوں کو رخ کرنے کا حکم دے۔ کسی بندہ کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ اللہ نے فرماں برداروں اور نا فرمانوں میں تمیز کے لئے تحویلِ قبلہ کا حکم دیا ہے کہ فرماں بردار فوراً اسے مان لیں گے اور نافرمان ماننے کی بجائے اعتراضات پر اتر آئیں گے اور اس طرح مخلص مسلمان اور کافر و منافق کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ اس کے بعد امت مسلمہ کے اعتدال اور میانہ روی کا تذکرہ اور فضیلت کا بیان ہے کہ قیامت کے دن جب کافر اپنے نبیوں پر تبلیغ رسالت میں کوتاہی کرنے کا اعتراض کریں گے تو امت محمدیہ کے لوگ انبیاء علیہم السلام کے فریضۂ نبوت کی ادائیگی پر گواہ کے طور پر پیش ہوں گے اور حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام ان سب کی گواہی دیں گے اور تصدیق کریں گے۔
آپ کتنے دلائل پیش کر دیں ان اہل کتاب پر تعصب و ہٹ دھرمی کا ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ یہ کسی قیمت پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ نماز میں قبلہ کی طرف سفر و حضر میں رخ کرنا ضروری ہے۔ اہل کتاب حضور علیہ السلام کے نبی برحق ہونے کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو جانتے ہیں مگر حق کو چھپانے کے مرض میں مبتلا ہیں اس لئے آپ پر ایمان نہیں لاتے۔ اللہ کا ذکر اور اس کا شکر ادا کرنے کی عادت بنائیں۔ نماز اور صبر کے ذریعہ مشکلات پر قابو پانا چاہئے اور اسلام کے لئے جانی و مالی ہر قسم کی بڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار رہیں۔ اللہ کے راستہ میں جانی قربانی دینے والے مردہ نہیں ہیں، وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔حج و عمرہ کے موقع پر کئے جانے والے اعمال خصوصاً صفا و مروہ کی سعی اسلامی شعائر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دلائل اور ہدایت کے واضح احکام کو چھپانے والے لعنت خداوندی کے مستحق ہیں لیکن توبہ تائب ہو کر اپنا رویہ درست کر کے احکامِ خداوندی کو بیان کرنے لگیں تو وہ لعنت سے بری ہو سکتے ہیں۔ معبود حقیقی ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کی رحمت تمام مخلوقات کے لئے عام ہے اور اہل ایمان کے لئے اس کی رحمت تام ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق، دن رات کی ترتیب اور انسانی نفع کے لئے پانی میں چلنے والی کشتیاں، بادل، بارش، زمین سے نکلنے والے پھل اور سبزیاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے عقلی دلائل ہیں۔اللہ کے مقابلہ میں معبودان باطل کے ماننے والے قیامت کے دن پچھتائیں گے اور ایک دوسرے سے برأت کا اظہار کریں گے مگر جہنم سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکیں گے۔ قرآن کریم کے اتباع کی تلقین ہے اور قرآن کے مقابلے میں آباء و اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو اندھے بہرے کہہ کر جانوروں کی مانند قرار دیا گیا ہے۔
پاکیزہ اور حلال کھانے کا حکم ہے۔ مردار، جاری خون، خنزیر اور غیر اللہ کے لئے نامزد اشیاء کی حرمت کا اعلان ہے۔ نیز اس ضابطہ کا بیان بھی ہے کہ جان بچانے کے لئے ضرورت کے وقت حرام کا استعمال بھی گناہ نہیں ہے۔ نیکی اور اس کی مختلف اقسام کی فہرست بیان کی گئی ہے۔ نیکی دراصل ایمانی بنیادوں پر سر انجام پانے والے اعمال ہیں۔ عزیز و اقارب،یتیم و مسکین کے ساتھ مالی تعاون، نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام، ایفاء عہد، مشکلات میں حق پر صبر و ثابت قدمی کا مظاہرہ، سچائی کا التزام کرنے والے ہی متقی کہلا سکتے ہیں۔ قصاص و دیت کے قانون کو بیان کر کے بلا امتیاز اس پر عمل درآمد کی تلقین ہے۔ قصاص حیات انسانی کے تحفظ کا ضامن ہے۔ وصیت کی تلقین کرتے ہوئے کسی پر ظلم و نا انصافی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ روزہ کے احکام اور اس کی حکمتوں کا بیان ہے۔ رمضان المبارک کی فضیلت کا سبب اس مہینہ میں قرآن کریم کا نازل ہونا ہے۔ رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور بیویوں سے ملنے کی اجازت ہے۔ نیز اعتکاف کے عمل کا تذکرہ ہے، روزہ کے ابتدائی اور انتہائی وقت کا بیان ہے۔ دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانے اور لوگوں کو ناجائز مقدمات میں الجھانے سے باز رہنے کی تلقین ہے۔
قمری مہینہ کے مختلف ایام میں چاند کے چھوٹا بڑا ہونے کی حکمت بتائی گئی ہے کہ اوقات کے انضباط اور حج وغیرہ کی تاریخوں کے تعین کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔ دنیا سے برائی ختم کرنے کے لئے قتال فی سبیل اللہ اور اس کے احکام کا تذکرہ ہے، احترام کے ضابطہ کا بیان ہے۔ حرمت بدلہ کی چیز ہے لہٰذا احترام کروانے کے لئے دوسروں کے مقدسات کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ اللہ کے دین کے دفاع میں مال خرچ کرنا ہی تباہی سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ عمرہ اور حج کے احکام ہیں۔ اگر حالت احرام میں خانہ کعبہ تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے تو ’’دم‘‘ دے کر احرام کھول سکتے ہیں۔ حج تمتع یا قران کی صورت میں ’’دم شکر‘‘ دینا ہو گا۔ احرام کی حالت میں غیر اخلاقی حرکتوں سے گریز کیا جائے۔ جنسی موضوع پر گفتگو نہ کریں، مساوات کو مد نظر رکھ کر تمام افعال حج کی ادائیگی ہونی چاہئے۔ جمرات کی کنکریاں تین دن واجب ہیں۔ چوتھے دن حاجی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کیا جائے اور دنیا و آخرت کی خیر اور بھلائی مانگی جائے۔
دو قسم کے انسانوں کا تذکرہ
کبر و نخوت، فساد و ہٹ دھرمی کے خوگر جو اللہ کی بات کسی قیمت پر بھی تسلیم نہ کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ عجزو اخلاص کے پیکر جو اپنی جان و مال اللہ کے لئے خرچ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں وہ اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں کے مستحق ہیں۔ شیطان کی اتباع چھوڑ کر پورے پورے اسلام میں داخل ہونے کی تلقین۔بنی اسرائیل اور ان پر انعامات خداوندی کا تذکرہ۔ مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت کے لئے ضابطہ کا بیان کہ دلائل کی بنیاد پر حق کی اتباع کرنے والے ہدایت یافتہ اور پسندیدہ لوگ ہیں جبکہ دلائل سے تہی دامن اپنے من مانے نظریات پر چلنے والے قابل مذمت اور گمراہ ہیں۔ جنت کے حصول کے لئے قربانیوں کے لمبے سلسلے اور تکالیف و مشقت کی پر خطر وادی سے گزرنا پڑتا ہے۔ جہاد طبیعتوں پر گراں گزرتا ہے مگر انسانیت کا اس میں فائدہ ہے۔ دوسروں پر اعتراض کرنے والوں کو خود اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ مسلمانوں پر جہاد کے حوالہ سے اعتراض کرنے والے اپنے ظلم و نا انصافی پر بھی غور کریں کہ وہ مسلمانوں کو بیت اللہ سے روکتے ہیں۔ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے راستہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے ہیں۔ ایسی فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ہے۔ شراب اور قمار کے بارے میں ابتدائی ذہن سازی کرتے ہوئے ان کے فوائد و نقصانات میں تقابل کی تلقین کی گئی ہے۔ یتیموں کی کفالت کی تعلیم ہے اور نکاح میں توحید پرست کو بت پرستوں پر ترجیح دینے کا حکم ہے۔ خواتین کے مسائل جن میں حالت حیض میں اپنی بیویوں سے دور رہنے کا حکم ہے۔
جھوٹی قسم سے بچنے کی ترغیب ہے۔ بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم (ایلاء) کے حکم کا بیان ہے۔ طلاق اور عدت گزارنے کا خاص طور پر تین طلاق کا حکم اور حلالہ شرعی کا بیان ہے۔ بچوں کو دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی گئی ہے اور زچہ و بچہ کی کفالت شوہر کے ذمہ رکھی گئی ہے۔ شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت کو چار ماہ دس روز عدت گزارنے کا حکم ہے۔ عدت کے ایام میں نکاح یا منگنی کے موضوع پر گفتگو کی ممانعت کی گئی ہے۔ نکاح کے بعد اگر بیوی سے ملاقات سے پہلے ہی طلاق اور علیحدگی کی نوبت آ جائے تو مہر متعین ہونے کی صورت میں نصف مہر کی ادائیگی لازم ہو گی۔ ان شرعی ضوابط کی پابندی اللہ کا حق ہے، لہٰذا ایک دوسرے کے لئے پریشانیاں اور مسائل پیدا کرنے کے لئے شرعی ضوابط کو پامال نہ کیا جائے۔
نماز کی پابندی اور اس کے اہتمام کی تلقین ہے کہ کسی خوف و خطرہ کی وجہ سے اگر کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکیں تو سواری پر ہی ادا کر لیں۔
جہاد کی ترغیب دینے کے لئے ایک قوم کا تذکرہ ہے، جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے محض اس لئے نکل بھاگے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی اور بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت حزقیل کی دعا سے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ پھر جہاد کا حکم اور اس کے ساتھ ہی اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی تلقین ہے۔ پھر مسلم حکمران طالوت اور کافر حکمران جالوت کے درمیان مقابلہ کا تذکرہ ہے۔
بنی اسرائیل کے جہاد سے راہِ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے ایک ظالم قوم عمالقہ کو اللہ تعالیٰ نے ان پر مسلط کر دیا تو انہیں جہاد کی فکر لاحق ہوئی۔ حضرت شمویل علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلم بادشاہ طالوت کی زیر قیادت جہاد کا حکم دیا۔ طالوت کی امارت پر بنی اسرائیل نے اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جسمانی قوت اور جنگی علوم میں مہارت کو اس کی اہلیتِ امارت کی دلیل کے طور پر بیان کیا اور بنی اسرائیل کے مذہبی مقدسات اور حضرت موسیٰ و ہارون کے تبرکات پر مشتمل تابوت جو کہ دشمنوں کے قبضہ میں تھا۔ انہیں واپس دلا کر ان کی تسلی اور دل جمعی کا انتظام کر دیا۔ بنی اسرائیل نے کچھ پس و پیش کے بعد جہاد پر آمادگی ظاہر کر دی۔ طالوت نے جنگی نقطۂ نظر سے کچھ پابندیاں عائد کیں، جن میں راستہ میں آنے والے دریا سے پانی پینے کی ممانعت بھی شامل تھی۔ بہت سے لوگ اس کی پابندی نہ کرسکے اور جہاد میں شرکت کے لئے نا اہل قرار پائے۔ ایک قلیل تعداد جو کہ بعض روایات کے مطابق تین سو تیرہ تھی جہاد میں شریک ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست دے کر اہل ایمان کو غالب کر کے ہمیشہ کے لئے یہ ضابطہ بتا دیا کہ اللہ کی مدد قلت و کثرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے اور دوسرا ضابطہ یہ بتایا کہ جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بعض مؤمن بندوں کو استعمال کر کے ظالموں کا صفایا کر دیا کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی امی ہونے کے باوجود ان تاریخی واقعات کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کی نازل کردہ حق کتاب ہے اور آپ اللہ کے رسول برحق ہیں۔
3 – تِلْکَ الرُّسُلُ
شروع میں انبیاء علیہم السلام اور ان کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کی گئی ہے۔ درجات کا یہ فرق کسی نبی یا رسول کی کمی یا کوتاہی کا غماز نہیں ہے بلکہ ان کے منصب اور ذمہ داری میں فرق اور اہمیت کے پیش نظر ہے۔ دنیا میں ہی صدقہ و خیرات کر کے اپنی عاقبت سنوار لو ورنہ قیامت کے دن کوئی سودے بازی، تعلقات یا سفارش کام نہیں دے گی۔ قرآن کریم کی آیات میں مرتبہ اور مقام کے اعتبار سے آیت الکرسی سب سے بڑی آیت ہے۔ یہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ ہے اور اس کی عظمت کا راز یہ ہے کہ اس میں توحید کو بھرپور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ جاوید اور کائنات کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس پر اونگھ یا نیند کا غلبہ نہیں ہوتا۔ آسمان و زمین اور ان میں پائی جانے والی ہر چیز کا وہی مالک ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش کرنے کی کوئی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ ان لوگوں سے پہلے کیا تھا اور ان کے بعد میں کیا ہو گا؟ اس سب کچھ کا علم اسی کے پاس ہے۔ یہ لوگ اتنا ہی جانتے ہیں جتنا وہ انہیں سکھاتا ہے۔ اس کے علم کی معمولی مقدار کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے۔ اس کی کرسی کی وسعت اور بڑائی کا یہ عالم ہے کہ وہ آسمان و زمین پر حاوی ہے اور آسمان و زمین کی حفاظت، اس کے لئے کسی قسم کی مشکلات کا باعث نہیں ہے۔ وہ نہایت بلند ہے اور عظمتوں کا مالک ہے۔ ہدایت اور گمراہی واضح ہو چکی ہے، لہٰذا دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے کوئی جبر یا زبردستی نہیں ہے۔ جو باطل قوتوں سے بغاوت کر کے اللہ کا وفادار بن گیا تو ا س نے ایسی مضبوط کڑی کو تھام لیا جو ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے اور انہیں کفر کی ظلمتوں سے ایمان کے نور کی طرف لاتا ہے جبکہ کافروں کے دوست طاغوت (باطل قوتیں ) ہیں جو انہیں ایمان کی روشنی سے کفر کے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس کے بعد تین تاریخی واقعات بیان کئے جو توحید پر دلالت کرتے ہیں اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کے قرآنی عقیدہ کو اجاگر کرتے ہیں۔ پہلا واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا ہے جس کا دعویٰ تھا میں مار بھی سکتا ہوں اور موت سے بچا بھی سکتا ہوں لہٰذا میں اس کائنات کا رب ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے نکالتے ہیں تم مغرب سے نکال کر دکھاؤ۔ اس پر وہ لاجواب ہو کر حیران رہ گیا۔ دوسرا واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے کہ کسی سفر میں ان کا گزر ایک تباہ شدہ بستی پر ہوا جس کے باشندے لاشوں کی صورت میں پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان کی تباہ شدہ کیفیت اور بوسیدگی اور اللہ تعالیٰ کی دوبارہ پیدا کرنے کی قوت پر تعجب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کی سواری پر موت طاری کر کے سو سال کے بعد زندہ کیا۔ سواری کی بوسیدہ ہڈیوں کو ان کے سامنے جمع کر کے ان پر گوشت پوست چڑھایا اور ان کے زاد سفر (کھانے) کو سو سال تک باسی ہونے سے بچا کر ترو تازہ رکھا اور اس طرح اپنی قدرت کا انہیں عملی مشاہدہ کرا دیا۔ تیسرا واقعہ: ابراہیم علیہ السلام نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کی کیفیت کا مشاہدہ کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اطمینان قلب کے لئے مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت کو عملی شکل میں دیکھنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ چار پرندے لے کر انہیں اپنے ساتھ مانوس کریں، پھر انہیں ذبح کریں اور بالکل قیمہ بنا کر ان کے ذرات آپس میں خلط ملط کر کے مختلف پہاڑیوں پر رکھ کر ان پرندوں کا نام لے کر پکاریں۔ ابراہیم علیہ السلام کے پکارنے پر ہر پرندے کی ہڈی سے ہڈی، پَر سے پَر، خون سے خون سب مل ملا کر اپنی اصلی شکل و صورت میں بن کر ان کے پاس آ گئے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی زبردست قوت اور حکمت کا عملی مشاہدہ ہو گیا۔
صدقہ و خیرات کے حوالے سے آیت نمبر ۲۶۱ سے آیت نمبر ۲۶۶ تک چار مثالیں بیان کی ہیں، دو مثالیں اخلاص کی اور دو مثالیں ریاء کاری کی۔ اخلاص کے ساتھ اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے زمین میں ایک بیج ڈال کر سینکڑوں دانے حاصل کر لینا اور ریاء کار کا صدقہ ایسا ہے جیسے چٹان پر غلہ اگانے کی ناکام کوشش۔ اچھی بات کہنا اور درگزر کر دینا ایسی مالی امداد سے بہتر ہے جس میں ریا کاری اور احسان جتلانے کا عنصر شامل ہو۔ اللہ کے لئے صدقہ و خیرات کی دوسری مثال زرخیز خطۂ زمین میں باغ لگانے کی ہے جو سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہو اور دکھاوے کے طور پر خیرات کرنے کی مثال اس شخص کی ہے جو اپنی جوانی میں محنت کر کے بہترین باغ اور فصل اگائے مگر اس کے بڑھاپے میں جب وہ محنت کے قابل نہ رہے، وہ اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے غلہ اور پھلوں کے محتاج ہوں تو یہ باغ کسی ناگہانی آفت سے تباہ ہو کر رہ جائے، اسی طرح ریا کار کا اجرو ثواب آخرت میں تباہ ہو جاتا ہے اور اسے کچھ نہیں ملتا۔
اللہ کے عطا کردہ مال و جائیداد اور زمین سے حاصل شدہ غلوں اور فصلوں میں سے پاکیزہ چیزیں اللہ کے نام پر دینی چاہئیں، گھٹیا اور بیکار چیزیں جب اپنے لئے پسند نہیں کرتے تو اللہ کے نام پر کیوں دیتے ہو؟ صدقہ و خیرات کرنے پر شیطان غربت اور پیسہ کی کمی سے ڈراتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ مال میں برکت اور گناہوں کی معافی کا وعدہ کرتے ہیں۔ حکمت و دانائی اللہ کی عطاء ہے جسے حکمت مل جائے اسے بہت بڑی خیر میسر آ گئی۔ کھلے عام اور چھپا کر موقع محل کے مطابق دونوں طرح صدقہ کرتے رہنا چاہئے۔ دین دار غرباء جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے مانگتے نہیں ہیں وہ آپ کے مالی تعاون کے زیادہ مستحق ہیں۔ عدل و انصاف پر مشتمل معاشی نظام کے لئے رہنما اصول، غریب اور چھوٹے تاجروں کے لئے زہر قاتل اور تجارت کے لئے ’’رِستا ہوا ناسور‘‘ یہودی ذہنیت کی بدترین پیداوار ’’سودی نظام‘‘ کے تباہ کن عواقب و نتائج سے آیت نمبر ۲۷۵ سے آیت نمبر ۲۸۰ تک خبردار کرتے ہوئے سختی کے ساتھ اس سے باز رہنے کا حکم دیا ہے اور سود خوری سے بچنے کو ایمان کا تقاضا قرار دیا اور سودی نظام کو جاری رکھنے کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ یوم احتساب یعنی قیامت کی یاد دہانی کراتے ہوئے آیت نمبر ۲۸۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو نیک و بد اعمال کا پورا پورا حساب دینا ہو گا۔ کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یہ قرآن کریم کی نزول کے اعتبار سے آخری آیت ہے اور اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس دنیا سے ارتحال کا اشارہ بھی موجود ہے۔ آیت نمبر ۲۸۲ کمیت کے اعتبار سے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت ہے۔ اسے آیۃ المداینہ بھی کہتے ہیں۔ اس میں ادھار لین دین کے قرآنی ضوابط، ادائیگی کی مدت کا تعین، تحریری وثیقہ کی تیاری اور گواہوں کی موجودگی وغیرہ کا بیان ہے۔ رہن رکھنے کے احکام کا تذکرہ ہے۔ آسمان و زمین کے اندر سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے، وہ دلوں کے ظاہر اور خفیہ تمام بھیدوں سے واقف ہے۔ اللہ کے نازل کردہ قرآن پر رسول اور مؤمنین سب کا ایمان ہے۔ اللہ پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر اور تمام انبیاء و رسل پر بلا تفریق ایمان لانا ضروری ہے۔ اپنی اطاعت شعاری اور فرماں برداری کا عاجزانہ اعتراف کر کے اپنی کمی و کوتاہی پر اللہ سے مغفرت طلب کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ انسانی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے لہٰذا شریعت کے جتنے احکام ہیں وہ انسانی وسعت و قدرت کے اندر ہی ہیں اور ہر شخص کو اپنے برے بھلے اعمال کا نتیجہ بھگتنا ہو گا اس لئے فدویانہ طریقہ پر اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے درخواست کریں۔ اے ہمارے رب! ہماری غلطی اور کمی پر ہماری گرفت نہ فرما۔ ہماری طاقت سے زیادہ ہم پر ذمہ داریاں نہ ڈال، ہمارے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ فرما۔ رحم فرما، تو ہی ہمارا مولا ہے، کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔ آیت نمبر ۲۸۵ اور ۲۸۶ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں ان کی بہت فضیلت ہے۔ حدیث شریف میں ہے جس نے رات کو سوتے وقت یہ دو آیتیں پڑھ لیں تو یہ اس کے لئے کافی ہیں۔
سورہ آل عمران
قرآن کریم کی طویل ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ مدنی ہے دوسو آیتوں اور بیس رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ میں عقائد پر گفتگو کرتے ہوئے زیادہ تر روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے۔ عیسائیت کے مذہبی تقدس کے حامل خاندان کا تذکرہ اس میں موجود ہے۔ عمران حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا تھے۔ عیسائیوں کے دلوں میں قرآن کریم کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی خاطر پوری سورہ کو ’’آل عمران‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا۔ یہ سورہ ایک واقعہ کے پس منظر میں نازل ہونا شروع ہوئی۔ نجران کے عیسائیوں کا ساٹھ افراد پر مشتمل ایک بڑا وفد مدینہ منورہ میں حضور علیہ السلام سے ملاقات کے لئے آیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے مرتبہ سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کبھی کہتے کہ وہ ’’اللہ‘‘ ہیں کبھی کہتے کہ وہ ’’ابن اللہ‘‘ ہیں اور کبھی کہتے کہ الوہیت کے مثلث (باپ، ماں اور بیٹا) کا ایک حصہ ہیں۔ حضور علیہ السلام نے انہیں مسکت جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ زندہ جاوید ہیں ان پر موت طاری نہیں ہو سکتی جبکہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہو کر رہے گی۔ بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت نہیں، اللہ تعالیٰ کھاتے پیتے نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پنہائیوں میں کوئی چیز مخفی نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام سے بے شمار چیزیں مخفی ہیں۔ اس پر وہ لاجواب ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں یہ سورہ نازل فرمائی۔ ابتداء میں اللہ کی وحدانیت اور قرآن کریم، تورات اور انجیل کی حقانیت کو بیان کیا اور اللہ کی آیات کے منکروں کو عذاب شدید سے ڈرایا۔ علم الٰہی کی وسعتوں کو بیان کیا۔ قدرت کے تخلیقی شاہکار انسان کے رحمِ مادر میں تیاری کے مرحلہ کو بیان کیا اور بتایا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ ہی نے نازل فرمایا ہے، جس میں محکم اور واضح معنی و مفہوم رکھنے والی آیات بھی ہیں اور متشابہات بھی ہیں، جن کے معنی و مفہوم ہر شخص پر واضح نہیں ہوتے، لیکن اگر متشابہ آیات پر حضور علیہ السلام کے بیان کردہ ضوابط کی روشنی میں غور کریں تو ان کے معنی واضح ہو سکتے ہیں، مگر جو لوگ ضلالت و گمراہی کے مریض ہیں وہ ان آیات کو من مانے معنی پہنا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی آیات کو اللہ کی طرف سے یقین کر کے ان پر مکمل ایمان رکھنا چاہئے۔
اللہ سے ہدایت کی دعا مانگنی چاہئے اور روز جزاء کے تصور کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ کافروں کا مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آ سکے گا۔ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ فرعون اور اس سے پہلے اقوام کے واقعات سے یہ بات ظاہر ہے۔ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا، ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کر کے انہیں عبرت کا نشانہ بنا دیا۔ بدر کے واقعہ میں غور کرو جب دو جماعتیں مقابلہ پر آئیں۔ ایک جماعت اللہ کے لئے جہاد کرنے والی اور دوسری جماعت کافروں کی تھی، جن کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ نظر آ رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دے کر ایمان والوں کو اپنی مدد سے غالب کیا۔ اس سے اہل بصیرت درس عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ انسانوں کو بیوی، بچے، مال و دولت کے خزانے، سونا چاندی، سواریاں، چوپائے، جانور اور کھیتیاں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی عارضی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پاس بہترین انجام ہے۔ متقی لوگوں کے لئے باغات، نہریں، پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی رضا ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو خوب جانتے ہیں۔ وہ بندے گناہوں پر استغفار اور جہنم سے حفاظت کے طلبگار ہیں۔ صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، فرماں برداری کرنے والے، صدقہ و خیرات کرنے والے اور تہجد کے وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اور تمام اہل علم، توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ انسانی زندگی کے لئے نظام حیات جو اللہ تعالیٰ کے یہاں مستند و مسلم ہے وہ صرف اسلام ہے اور اس سے اختلاف رکھنے والے ہٹ دھرم اور ضدی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ہی ان کافروں کا احتساب کریں گے۔ بحث بازی اور جھگڑا کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی ہدایت ہے۔
انبیاء اور عدل و انصاف کے داعی مذہبی پیشواؤں کا قتل یہودی ذہنیت کا غماز ہے۔ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب ہو گا۔ ہر قسم کی حکمرانی اللہ ہی کی ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل و رسوا کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ دن کو رات میں داخل کرتا ہے، رات کو دن میں داخل کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور جب چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ ایمان والوں کے لئے کافروں سے گہری دوستی لگانا جائز نہیں۔ اللہ کی محبت اور مغفرت کے حصول کا آسان اور کامیاب راستہ اتباعِ رسول ہے۔ انبیاء کی بعثت درحقیقت انتخاب ربانی ہوتا ہے۔ آدم و نوح اور ابراہیم و عمران کے خاندانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی منتخب فرمایا تھا۔ حضرت مریم کی ولادت ان کی کراماتی نشوونما اور انہیں بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کرنے کی تفصیل کا بیان ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ پن کے باوجود یحییٰ جیسے پاکباز اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل بیٹے کی خوشخبری کا تذکرہ ہے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولادت، بچپن اور بڑھاپے میں گفتگو کے امتیاز کا تذکرہ۔ آپ کی نبوت و رسالت کے ساتھ ہی آپ کے معجزات، مردوں کو زندہ کرنا، مٹی کے پرندے بنا کر اڑا دینا، اندھوں اور کوڑھیوں کو صحت مند کر دینا وغیرہ کو ذکر کر کے بتایا ہے کہ یہ تاریخی باتیں ایک نبی امی کے ذریعہ لوگوں کے سامنے آنا، اس نبی کی حقانیت کی واضح دلیل ہیں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے اور ان کو نبی برحق مان کر ان کی پیروی کرنے والوں کے دنیا پر غلبہ اور قیامت تک ان کی حکمرانی کو بیان کیا ہے۔
پھر عیسائیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مباہلہ کا تذکرہ ہے، جس میں دو مقابل فریق اپنے اہل و عیال کے ساتھ میدان میں نکل کر بددعا کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں باطل فریق ہلاک ہو جاتا ہے۔ عیسائی مباہلہ کی بجائے فرار ہو گئے، جس سے ان کا بطلان واضح ہو گیا۔ قرآن کا اعلان ہے کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی، عیسائی یا مشرک نہیں بلکہ یکسوئی کے ساتھ اللہ کی اطاعت کرنے والے مسلمان تھے۔ پھر یہودیوں کی خامیوں اور کمزوریوں کا تذکرہ ہے۔ خود راہِ راست پر آنے کی بجائے دوسروں کو بھی اپنے جیسا گمراہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ حق و باطل کو خلط ملط کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ سازش کے تحت اسلام کا اظہار کر کے پھر انکار کر دیتے ہیں تاکہ دوسروں کو بھی اسلام سے برگشتہ کریں۔ مسلمانوں کا مال ناجائز طریقہ پر کھانے کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں، دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کے کلام کو بیچ ڈالتے ہیں۔ نبی و رسول کی شان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنا پرستار بنانے کی بجائے اللہ کی عبادت پر آمادہ کرتے ہیں۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے حوالے سے انبیاء کرام سے لئے جانے والے میثاق کا ذکر ہے، جس کی رو سے تمام انبیاء علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کرنے کے پابند قرار دیئے گئے۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین قابل قبول نہیں۔ اللہ کے نزدیک، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کے نزدیک کافر ملعون ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اگر زمین کے بھراؤ کے برابر سونا بھی فدیہ میں دے دیں تب بھی انہیں جہنم کے عذاب سے نجات حاصل نہیں ہو گی۔
4 – لَن تَنَالُواْ
اعلیٰ ترین نیکی اپنی محبوب چیز کو اللہ کے نام پر خرچ کرنا ہے۔ اللہ کے بارے میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لینا بدترین ظلم ہے، اللہ سچے ہیں۔ کفر و شرک اور تمام ادیان باطلہ سے بیزار ہو کر ایک اللہ کے بن جانے والے ابراہیم علیہ السلام کا طرز زندگی اپنانے کا حکم دیتے ہیں۔بیت اللہ تک پہنچنے کی گنجائش رکھنے والوں پر حج فرض ہونے کا حکم بیان کر کے بتایا کہ انسانیت کے لئے سب سے پہلا گھر کعبۃ اللہ تعمیر ہوا ہے جس سے زمین کو پھیلایا گیا ہے اور یہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ بہت بابرکت اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس میں اللہ کی واضح نشانیاں موجود ہیں جن میں سے مقام ابراہیم بھی ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو خود بخود اوپر نیچے ہوتا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کعبہ کا عمل سر انجام دیا تھا۔ اللہ کا گھر امن کی علامت ہے اس میں جو بھی داخل ہو گیا اسے امن دے دیا جاتا ہے۔
اہل کتاب کی کچھ خرابیاں ذکر کرنے کے بعد ان کی گندی ذہنیت کو بیان کیا کہ اگر مسلمان ان کی بات ماننے لگ گئے تو وہ انہیں ایمان سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیں گے! پھر تقویٰ کی تعلیم دے کر مرتے دم تک اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی۔ فرقہ واریت کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کے لئے اللہ کی رسی (قرآن کریم) کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔ ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا جو خیر کی داعی ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والی ہو۔ ایسے ہی لوگ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ قیامت کے دن کافروں کے چہرے کالے سیاہ ہوں گے جبکہ اہل ایمان کے چہرے روشن اور چمکدار ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ امت مسلمہ بہترین امت ہے کیونکہ یہ اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نفع رسانی کا کام کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں، یہود و نصاریٰ بھی اگر یہ صفات اپنے اندر پیدا کر لیں تو وہ بھی خیر کے حامل قرار دیئے جائیں گے، زبانی کلامی تمہاری دل آزاری کے علاوہ یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، ان پر ذلت و رسوائی کی چھاپ لگائی جا چکی ہے۔ اللہ کا ان پر غضب نازل ہوا ہے کیونکہ یہ لوگ انبیاء علیہم السلام کے ناجائز قتل کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ گناہوں کے عادی اور انتہا پسند ہیں۔ تمام اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں بعض ان میں معتدل مزاج بھی ہیں جو راتوں میں اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے ہیں۔ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتے ہیں۔ کافروں کے مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آ سکیں گے، وہ دائمی طور پر جہنم میں رہیں گے، یہ اگر کسی نیک راہ میں مال خرچ بھی کرتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ظالم شخص کی لہلہاتی کھیتی کو سردی اور پالا لگ جائے اور سوکھ کر تباہ ہو جائے، درحقیقت ایمان سے انکار کر کے انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی ازلی دشمنی اور بغض بیان کر کے بتایا ہے کہ تمہیں فائدہ ہو تو انہیں تکلیف پہنچتی ہے اور تمہیں نقصان ہو تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دوستی لگانے کے قطعاً قابل نہیں ہیں، تم نے اگر صبر و تقویٰ اختیار کئے رکھا تو یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
بدر میں قلیل تعداد ہونے کے باوجود اللہ کی مدد و نصرت سے کامیابی ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۲۱ سے ۱۸۰ تک ۵۹ آیتوں میں غزوہ احد کا تذکرہ نہایت شرح و بسط کے ساتھ کیا ہے۔ مدد تو اللہ ہی کرتے ہیں مگر فرشتوں کا نزول مؤمنین کی تسلی اور دل جمعی کے لئے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تین ہزار فرشتے بھیج رہے ہیں اگر کفار نے اچانک حملہ کر دیا تو ہم پانچ ہزار فرشتے بھیجیں گے، جب کفار کے حملہ میں آپ کے دندان مبارک شہید ہو گئے تو آپ نے کفار قریش کے لئے بددعاء کی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ آپ کا اختیار نہیں بلکہ میری مرضی پر منحصر ہے میں چاہوں تو انہیں عذاب دوں اور چاہوں تو معاف کر دوں ! اللہ بہت غفور رحیم ہے۔ سود خوری سے بچنے کے حکم کے ساتھ ہی تقویٰ اختیار کرنے اور جہنم سے بچنے کی تلقین ہے اور اللہ کی رحمت سے محظوظ ہونے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تاکید ہے۔ جنت کے مستحقین متقی ہوتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کے نام پر خرچ کرتے ہوں۔ غصہ کو پینے والے، لوگوں کو معاف کرنے والے اور اپنے گناہوں پر اصرار کی بجائے ندامت کے ساتھ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اقوام عالم کے جرائم پر ان کی گرفت کا نظام جاری و ساری ہے دنیا میں چل پھر کر اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ قرآن کریم انسانوں کے لئے بیان، ہدایت اور متقین کے لئے نصیحت ہے۔ میدان جہاد میں پیش آنے والی ناپسندیدہ صورتحال پر دل گرفتہ ہو کر کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ایمان کامل کے تقاضے پورے کرنا ہی اہل ایمان کے غلبہ کی ضمانت ہے۔ جہاد میں جانی و مالی نقصان اس عمل کا حصہ ہے اور ہر فریق کے ساتھ یہ صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ میدان احد میں مسلمانوں کو پیش آنے والے مصائب کے تین بڑے مقاصد تھے، مسلمانوں کی ایمانی قوت کا امتحان، مسلمانوں اور کافروں (منافقوں ) میں امتیاز اور بعض خوش نصیبوں کو شہادت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنا۔ جہاد پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والے جنت کے مستحق ہیں۔ غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلانے والوں کا مقصد اگرچہ منفی تھا اور وہ مسلمانوں میں بددلی پھیلا کر انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے مگر قرآن کریم نے اس سے مثبت مقاصد حاصل کرتے ہوئے اسے تربیت کا حصہ قرار دے کر مستقبل میں آپ کے انتقال کی صورت میں پیدا ہونے والے ممکنہ انتشار کے سد باب کے طور پر استعمال کیا اور بتایا کہ محمد علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں، خدا نہیں ہیں۔ان کے انتقال کی خبر سے دل برداشتہ ہو کر اسلام سے روگردانی کرنے والے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وہ اپنا ہی نقصان کریں گے۔ ایسے موقع پر کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں حصہ لینا چاہئے اور اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر مغفرت مانگتے ہوئے، اللہ سے ثابت قدمی اور کافروں کے مقابلہ میں نصرت کی دعاء مانگنی چاہئے۔ غزوہ احد میں پیش آمدہ بعض مناظر کی قلبی تصویر کشی کرتے ہوئے، کافروں پر مسلمانوں کا رعب ڈال کر اہل ایمان کو مستقبل میں کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ جن اہل ایمان سے میدان احد میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمزوری کا مظاہرہ ہوا تھا انہیں معاف کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور جن منافقین نے جہاد پر اعتراضات کر کے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ان کی سخت گرفت کی گئی ہے۔
منافقوں کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد اور اسلحہ میں کمی اور کافروں کی تعداد اور اسلحہ میں برتری کے پیش نظر میدان قتال میں اترنا کوئی دانشمندی نہیں ہے بلکہ یہ جہاد ہی نہیں ہے اگر یہ لوگ ہماری طرح گھروں میں بیٹھے رہتے تو قتل ہونے اور زخمی ہونے سے بچ جاتے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ تم پر جب گھروں میں موت کا فرشتہ مسلط ہو کر تمہیں موت کے منہ میں دھکیلے گا تو اس وقت موت سے تم کیسے بچو گے؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام کے ساتھ نرم، برتاؤ جاری رکھنے اور تمام معاملات کو مشورہ سے طے کرتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نصرت خداوندی کا ضابطہ کہ توکل کرنے والوں کی اللہ ضرور مدد کرتے ہیں۔ بعثت نبوی اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے عظیم احسان ہے۔ نبی کا فرض منصبی کلام اللہ کی آیات کی تلاوت، مسلمانوں کی تربیت اور انہیں قرآن و حدیث کی تعلیم ہے۔ انسان پر آنے والی مشکلات و مصائب اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ شہداء مردہ نہیں بلکہ اسلام کے غلبہ اور دفاع کی جنگ میں اپنی جانیں لگا کر حیات ابدی سے ہمکنار ہو کر جنت میں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد غزوہ حمراء الاسد کا تذکرہ ہے جو غزوۂ احد کے فوراً بعد پیش آیا۔ کفار نے دوبارہ حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا تو حضور علیہ السلام تھکے ماندے اور زخموں سے چور چور مجاہدین کو لے کر ان کے تعاقب میں نکلے تو کافروں نے فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی اور مسلمانوں کو حمراء الاسد کے مقام پر لگنے والے تجارتی بازار میں خریدو فروخت سے اتنا منافع ہوا کے احد کی پریشانی اور نقصان کا تدارک ہو گیا۔ اس نازک موقع پر نبی کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کے ایمان و ثابت قدمی کی قرآن کریم نے تعریف کی ہے اور کافروں کی طاقت اور اسلحہ سے خوفزدہ ہونے والوں کو شیطان اور اس کے حمایتی قرار دیا ہے۔ کافروں کی کامیابیوں سے متاثر ہونے والوں کو بتایا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت اور ڈھیل ہے۔ ان کے لئے ذلت آمیز عذاب تیار ہے۔
اللہ کے نام پر خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں کو جان لینا چاہئے کہ یہ ان کے لئے خیر نہیں بلکہ شر ہے۔ اللہ کے راستہ سے جو مال بچا کر رکھیں گے اسے جہنم میں تپا کر ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔
غلبۂ اسلام کی جدو جہد اور دینی مقاصد کے لئے چندہ کرنے پر یہودیوں نے اعتراض کیا کہ مسلمانوں کا خدا (نعوذ باللہ) فقیر ہو گیا ہے اور ہم مالدار ہیں تبھی تو ہم سے چندہ مانگ رہا ہے۔ حضرت ابو بکر نے اس گستاخانہ بات کہنے والے یہودی کو زدو کوب کیا اور اسے قتل کی دھمکی دی جس پر یہودی تلملا اٹھے اور حضور علیہ السلام کے سامنے اپنی گستاخانہ گفتگو سے انکار کر کے حضرت ابو بکر کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کی تائید اور یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے ان کی گستاخانہ گفتگو سن لی ہے اور یہ عادی مجرم ہیں پہلے بھی اس قسم کی نازیبا حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگ انبیاء علیہم السلام کے قتل جیسے بدترین جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور ہم انہیں قیامت کے دن آگ میں جلانے کا عذاب دیں گے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے ایمانی غیرت و حمیت کے پیش نظر جو قدم اٹھایا تھا وہ بالکل جائز اور مبنی بر انصاف تھا۔
حضور علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم نہ کرنے پر یہودی یہ جواز پیش کرتے تھے کہ ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ کسی بھی نبی پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ اپنی نبوت کے ثبوت کے طور پر خاص نشانی نہ دکھا دے اور وہ نشانی یہ ہے کہ قربانی کر کے کسی پہاڑ پر رکھے اور آسمانی آگ اسے جلا دے تو ہم اس کی صداقت کو تسلیم کریں گے ورنہ نہیں۔ درحقیقت یہ ان کی بہانہ بازی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کا بھی تم انکار کرتے رہے ہو لہٰذا تمہاری بات قابل اعتماد نہیں ہے۔ ہر انسان پر موت کا آنا برحق ہے۔ روز قیامت تمہارے اعمال کا محاسبہ ہو گا اور جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والے ہی کامیاب قرار پائیں گے! اہل کتاب سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کے مضامین کو وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان کریں گے۔ کسی بات کو نہیں چھپائیں گے، مگر انہوں نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی اور اپنے مفادات کی خاطر اللہ کی آیات میں رد و بدل کرنے کی بدترین حرکت میں مبتلا ہو گئے۔ یہ لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہو رہے ہیں اور نا کردہ اعمال کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنی تعریف کرانا چاہتے ہیں۔ یہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ ان کے لئے دردناک عذاب تیار کر لیا گیا ہے۔ آسمان و زمین پر اللہ کی حکمرانی اور کوئی چیز اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔
اہل دانش و بینش کو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات آسمان و زمین اور دن رات میں غور و خوض کی دعوت دی گئی ہے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کی پانچ دعاؤں کا تذکرہ ہے، جنہیں شرف قبولیت حاصل ہے۔ مرد و عورت کی تخلیق اور ان کی ذمہ داریوں میں اختلاف کے باوجود انہیں اجر و ثواب میں برابری اور مساوات کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور بتایا ہے کہ ہجرت اور جہاد جیسے عظیم الشان اعمال جو بھی کرے گا اس کے لئے گناہوں کی معافی، اللہ کے ہاں بہترین اجر و ثواب اور جنت کا وعدہ ہے۔ کافروں کے پاس مالی وسائل کی فراوانی اور عیش و عشرت کو دیکھ کر دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ عارضی اور معمولی فوائد ہیں۔ آخرت میں ان کا بدترین ٹھکانہ جہنم ہے۔ متقین کے لئے نہریں اور باغات اور اللہ کے ہاں بہترین مہمانی ہے۔ اہل کتاب میں بعض انصاف پسند بھی ہیں، جو قرآن اور نبی اسلام پر ایمان لانے کی نعمت سے سرفراز ہیں۔
سورہ کی آخری آیت میں دین پر ثابت قدمی اور میدان جہاد میں مورچوں میں کفر کے مقابلہ میں ڈٹ جانے والوں کو دائمی فلاح و کامرانی کی نوید سنائی گئی ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور علیہ السلام تہجد کے وقت جب بیدار ہوتے تو سورہ آل عمران کی آخری گیارہ آیتیں آسمان کی طرف رخ کر کے تلاوت فرمایا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو ان آیتوں کی تلاوت کے باوجود کائنات کے اندر اللہ کی نشانیوں میں غور و خوض نہ کرے!
سورہ النساء
یہ مدنی سورہ ہے۔ ایک سو چھہتر آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ امرأۃ عورت کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع نساء ہے، جس کے معنی ’’عورتیں ‘‘ یا ’’خواتین‘‘ ہے۔ اس سورہ میں منجملہ دوسرے مسائل کے عورتوں کے انتہائی اہم اور حساس مسائل زیر بحث آئے ہیں، اس لئے اس کا نام سورہ النساء رکھا گیا ہے۔ سورہ بقرہ کے بعد متنوع اور بھرپور طریقہ پر مسائل کا بیان اس سورہ کے اندر ہے۔ معاشرتی اور قومی مسائل کے ساتھ تشریعی مسائل اور ہجرت اور جہاد پر سیر حاصل گفتگو، غیر مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، میراث کے احکام، کلالہ کا مسئلہ، عقائد پر بحث، منافقین کا تذکرہ اور یہود و نصاریٰ کے مکروہ چہرہ کی نقاب کشائی جیسے اہم موضوعات پر مفصل بات کی گئی ہے۔
تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کے ساتھ سورہ کی ابتداء کی گئی ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ آدم و حوا علیہما السلام کی معجزانہ تخلیق کے بعد بے شمار انسانوں کو اس جوڑے کی صلب سے پیدا کر کے اس سرزمین پر پھیلا دیا۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے تمام انسانوں کو ایک گھرانے کے افراد کی طرح باہمی اتفاق و اتحاد سے زندگی بسر کرنی چاہئے۔
پھر یتیموں کی کفالت اور ان کے اموال کی دیانتداری کے ساتھ حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت اور ان میں عدل و انصاف قائم رکھنے کا بیان ہے۔ مہر کی ادائیگی بطیبِ خاطر کی جائے اور خواتین چاہیں تو اپنا مہر معاف بھی کرسکتی ہیں۔ معاشرہ میں ناسمجھ افراد کی نگہداشت اور ان کی مالی سرپرستی کا حکم دیا گیا ہے، پھر وراثت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو اور تمام وارثوں کے حصے متعین کر کے بتایا گیا ہے کہ وارثوں کے استحقاق کو اللہ تم سے بہتر جانتے ہیں۔ وراثت کی تقسیم سے پہلے میت کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل درآمد کی تلقین ہے۔ زنا اور لواطت کے لئے ابتدائی قانون سازی کی گئی ہے۔ عورتوں کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی کسی کے نکاح میں دینے اور ان کے مہر میں خورد برد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ والد کے انتقال کے بعد اس کی منکوحہ سے نکاح پر پابندی لگائی گئی ہے اور محرمات کی فہرست ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ ان خواتین سے نکاح حرام ہے۔ ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی، رضاعی ماں، رضاعی بہن، ساس، بہو، جس منکوحہ کا شوہر موجود ہے۔ ان خواتین سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
5 – وَالْمُحْصَنَاتُ
عفت و عصمت اور نسل انسانی کے تحفظ اور شہوت کی تسکین کے لئے زنا کی بجائے نکاح کا راستہ اختیار کیا جائے، اگر غیر منکوحہ آزاد عورت میسر نہ آئے تو مالکان کی اجازت سے باندیوں کے ساتھ بھی نکاح کیا جا سکتا ہے۔ زنا میں مبتلا ہونے کی صورت میں باندی کی سزا آزاد عورت سے نصف ہو گی۔ کسی کا مال ناجائز طریقہ سے کھانا حرام ہے البتہ باہمی رضامندی کے ساتھ تجارتی بنیادوں پر قیمت ادا کر کے استعمال کرسکتے ہیں، خودکشی حرام ہے۔ کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کے صغیرہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی جسمانی صلاحیتوں میں جو فرق رکھا ہے اس کے پیش نظر ایک دوسرے سے برابری کی تمنا نہ کریں۔ ہر ایک کے عمل کے مطابق اجر و ثواب میں سے حصہ ملے گا۔ اللہ سے اس کا فضل مانگنا چاہئے۔ مردوں کو عورتوں پر دو وجوہ سے برتری عطا کی گئی ہے۔ (۱)انہیں خِلقی طور پر جسمانی فضیلت حاصل ہے۔ (۲)گھریلو معاملات میں مالی اخراجات کی ذمہ داری ان پر عائد ہے۔ پاکیزہ خواتین وہ ہیں، جو اطاعت شعار اور اپنی عفت و پاکدامنی کی محافظ ہوں۔ نافرمانی کرنے والی عورتوں کو وعظ و نصیحت کریں، زن و شوئی کے تعلقات منقطع کریں اور مناسب سزا دے کر انہیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ فرماں برداری اختیار کر لیں تو انہیں ستایا نہ جائے۔ اگر میاں بیوی کے اختلافات حد سے تجاوز کر جائیں تو جانبین کی طرف سے ایک ایک نمائندہ کو باہمی مذاکرات سے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مقرر کر دیا جائے۔ اگر دونوں مخلص ہوں گے تو اختلافات کو ختم کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی اہتمام کرو۔ اللہ کی عبادت کرو۔ شرک سے گریز کرو۔ والدین، رشتہ دار، یتیم، مسکین، پڑوسی، مسافر وغیرہ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے اگر کوئی شخص نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر اسے اجر عطا فرماتے ہیں۔ ہر امت میں سے گواہ لائے جائیں گے اور ان سب پر محمد علیہ السلام کو بطور گواہ پیش کیا جائے گا۔ شراب کی حرمت کے حوالہ سے ذہن سازی کرتے ہوئے فرمایا کہ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ تاکہ مدہوشی کے عالم میں کوئی غلط اور نازیبا بات منہ سے نہ نکل جائے۔
اس کے بعد جنابت اور تیمم کے بعض مسائل ذکر کئے اور پھر یہودیت کی مکروہ ذہنیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ان کی بعض سازشوں اور خرابیوں کو بیان کیا۔ امانت کو اس کے مستحقین تک پہنچانے کا حکم دیا۔ اللہ اور اس کے رسول اور اولو الامر کی اطاعت کی تلقین فرمائی۔ بعض لوگ ایمان کے دعوے کے باوجود طاغوت (اللہ کے باغی رہنماؤں ) سے اپنے فیصلے کراتے ہیں جبکہ انہیں طواغیت سے براءت کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انہیں بہت دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے۔ جب انہیں اللہ کے کلام کے مطابق فیصلہ کرانے کی دعوت دی جاتی ہے تو یہ لوگ اس راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگتے ہیں۔ پھر ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ایک منافق اور ایک یہودی میں اختلاف ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائل کی روشنی میں فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا۔ منافق نے حضرت عمر سے انصاف مانگا۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا کہ جو شخص رسول خدا کے فیصلہ کو انصاف کے منافی خیال کرے انصاف کا تقاضا ہے کہ اسے زندگی کی قید سے آزاد کرا دیا جائے۔ اس پر قرآن کریم نازل ہوا کہ تمہارے رب کی قسم ہے کہ وہ شخص ایمان سے خالی ہے جو اپنے اختلافات میں آپ کے فیصلہ کو بلا چوں و چرا تسلیم نہ کرے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے، اللہ کے انعام یافتہ بندوں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ جنت میں ہوں گے۔ ایسے پاکیزہ لوگوں کا ساتھ میسر آ جانا اللہ کے فضل کا آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب علم رکھنے والے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کی فضیلت بیان کر کے سب سے بڑی اطاعت اور نیکی کا حکم دیا اور وہ غلبۂ اسلام کے لئے اپنی جان و مال لگا کر جہاد میں حصہ لینا ہے۔ فرمایا: اے ایمان والو! جہاد کے لئے میدانی جنگ یا چھاپہ مار جنگ جو بھی وقت کا تقاضا ہو اسے اختیار کرو۔ تمہاری صفوں میں ایسے منافقین بھی موجود ہیں جو جہاد کے مخالف اور محاذ جنگ سے پیچھے رہنے والے ہیں۔ ان کی صورتحال یہ ہے کہ اگر تمہیں محاذ پر کوئی ناگواری پیش آئے تو خوشیاں مناتے ہیں کہ اچھا ہی ہوا کہ ہم ان کے ساتھ نہیں تھے اور اگر تمہیں کوئی کامیابی حاصل ہو تو انہیں افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ کاش مال غنیمت کے حصول میں ہم بھی شریک ہوتے۔ دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والوں کو قتال فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے کیونکہ اللہ کے راستہ میں قتال کے دوران اگر کوئی شخص شہید ہو جاتا ہے یا کافروں پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو دونوں صورتوں میں اجر عظیم کا مستحق قرار پاتا ہے۔ پھر قتال فی سبیل اللہ کے لئے جواز کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تم آخر جہاد کے لئے کیوں نہیں نکلتے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ضعیف اور مظلوم بچے، بوڑھے اور عورتیں کفار کے ظلم سے تنگ آ کر تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ ہمارے لئے ظلم و ستم سے نجات دہندہ اور کوئی مددگار پیدا کر دیجئے۔ ان حالات میں بھی اگر جہاد نہیں کرو گے تو پھر کب کرو گے؟ جب کافر طاغوت کی حمایت میں لڑتے ہیں تو ایمان والوں کو اللہ کے دین کی حمایت میں لڑنا چاہئے۔ شیطان کے حمایتیوں سے تمہیں جنگ کرنی چاہئے۔ شیطانی سازشیں انتہائی کمزور ہوا کرتی ہیں، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب نماز روزہ کی بات ہو تو جہاد شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور جب جہاد کا وقت آتا ہے تو موت کے ڈر سے راہِ فرار اختیار کر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ موت تو ہر جگہ آ کر رہے گی۔ مضبوط قلعوں کے اندر بند ہو کر بھی موت سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ اگر انہیں کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے تو اسے اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی نقصان ہو جائے تو نبی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ فائدہ کو اللہ کی طرف منسوب کریں اور نقصان کو اپنی کوتاہی اور کج تدبیری کا نتیجہ قرار دیں۔ ہم نے رسول کو اسی لئے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے کیونکہ اطاعتِ خداوندی اطاعتِ رسول میں مضمر ہے۔ منافقین آپ کے سامنے اطاعت کی باتیں کرتے ہیں اور آپ کی مجلس سے اٹھ کر آپ کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ آپ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ان سے صرفِ نظر کرتے رہیں اللہ بہترین کارساز ہیں۔ اس کے بعد قرآن کریم میں غور و خوض کی دعوت دیتے ہوئے اس کے حق و صداقت پر مبنی ہونے کے لئے دلیل یہ دی ہے کہ اس میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں پایا جاتا۔ پھر معاشرہ کا امن و سکون تباہ کر دینے والی بدترین عامل ’’افواہ سازی‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اس کے سدباب کا طریقہ بیان کیا ہے کہ متعلقہ شخص سے رابطہ کر کے تحقیق کر لی جائے تو ’’افواہیں ‘‘ اپنی موت آپ مر جاتی ہیں اور اگر دین کی کوئی بات سامنے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین کے ماہرین سے رجوع اور تحقیق کے بغیر اس پر عمل نہ کیا جائے۔ جہاد کے لئے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دوسروں کو ہدفِ تنقید بنانے کی بجائے اپنے آپ کو پیش کر دے اور دوسرے مسلمانوں کو جہاد میں شریک کرنے کے لئے ترغیب دیتا رہے۔ یہی وہ راستہ ہے، جس سے کافروں کا زور توڑا جا سکتا ہے۔ اللہ بڑی طاقت کے مالک ہیں اور وہ دشمنان اسلام کو عبرت کا نشان بنا سکتے ہیں۔
جائز اور ناجائز سفارش کا ضابطہ بیان کیا اور سلام کرنے کے آداب سکھائے کہ سلام کا جواب بہتر سے بہتر انداز میں دیا جائے۔ پھر قیامت کے محاسبہ کی یاددہانی کے لئے فرمایا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تمہیں ایسے دن میں جمع کرے گا، جس کے آنے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اللہ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہو سکتی ہے۔ پھر منافقین کے بارے میں دو ٹوک پالیسی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ منافقین کے بارے میں دہری ذہنیت کا کیوں شکار ہو؟ اللہ نے انہیں مستردکر دیا ہے، جسے اللہ گمراہ قرار دے دیں، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا! تم ان کے بارے میں متردد ہو جبکہ وہ تمہیں کافر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ تم اور وہ ایک جیسے ہو جاؤ۔ یہ لوگ تو اس قابل ہیں کہ ان سے کسی قسم کی دوستی نہ رکھی جائے بلکہ یہ جہاں بھی ملیں انہیں قتل کر کے جہنم رسید کر دیا جائے، البتہ ان میں سے اگر کسی نے تمہارے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہو یا وہ قتل و غارت گری سے باز آنے کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہو تو اس سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے، پھر اس کے بعد کسی بے گناہ کے قتل کی صورت میں دیت کی ادائیگی کا ضابطہ بیان کیا اور کسی مؤمن کے ناجائز قتل کی صورت میں دائمی جہنمی ہونے کی وعید بیان فرمائی، پھر بلا تحقیق کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی اجنبی شخص تمہیں سلام کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی علامت ہے محض شک و شبہ کی بنیاد پر اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔ پھر محاذ جنگ پر مصروفِ عمل مجاہد کی فضیلت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مجاہدین‘‘ اور ’’قاعدین‘‘ ہمسر نہیں ہیں یعنی جہاد سے پیچھے رہنے والے، جہاد کرنے والوں کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے، ہر مسلمان سے اللہ نے اجر و ثواب کا وعدہ کر رکھا ہے مگر مجاہدین کا مرتبہ اور مقام بہت بڑا ہے، پھر ہجرت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعویدار ہو کر بھی ایسی جگہ سے ہجرت نہ کرے جہاں اسے دین پر عمل کرنے کی اجازت نہ ہو تو اس کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اللہ کے نام پر ہجرت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بڑی وسعت اور فارغ البالی نصیب فرماتے ہیں۔ پھر جہاد اور نماز کی اہمیت کے ایک قرآنی حکم کا تذکرہ ہے۔ مسلمان غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر جب ظہر کی نماز پڑھنے لگے تو کافروں نے کہا کہ ہمیں اگر پہلے سے معلوم ہوتا تو اس حالت میں ایک دم حملہ آور ہو کر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا بہت آسان تھا۔ انہوں نے عصر کی نماز میں حملہ کرنے کی پلاننگ کر لی، جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کافروں کی اس خفیہ تدبیر کی اطلاع بھی دی اور اس کے سدباب کے لئے ’’صلوٰۃ الخوف‘‘ کا طریقہ بھی بیان کر دیا کہ اگر دشمن سے جان کا خطرہ ہو تو نماز کے لئے اس طرح صف بندی کریں کہ ایک صف امام کے ساتھ نماز کی ایک رکعت مکمل کر لے۔ دوسری صف نیت باندھ کر کھڑی رہے اور دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے پھر دوسری صف ایک رکعت امام کے ساتھ مکمل کر لے اور پہلی صف پیچھے ہٹ کر دشمن کے اچانک حملہ کی صورت میں جوابی کارروائی کے لئے تیار رہے پھر امام اپنی نماز مکمل ہونے پر سلام پھیر دے اور دونوں صفیں باری باری اپنی باقی ماندہ نماز پوری کر لیں۔ اس طرح نماز کے فریضہ کی بروقت اور با جماعت ادائیگی بھی ہو جائے گی اور جہاد کے فریضہ کی ادائیگی میں بھی کوتاہی اور غفلت نہیں ہو گی۔ اسی ضمن میں حالت سفر میں ’’قصر نماز‘‘ کا حکم بھی عنایت کیا گیا۔ چنانچہ دشمنوں کی تدبیر دھری کی دھری رہ گئی اور نماز اور جہاد کی مشترکہ اہمیت بھی واضح ہو گئی کہ نماز جیسے عظیم الشان عمل کی وجہ سے جہاد کو مؤخر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور جہاد جیسے اہم عمل کی بناء پر نماز میں غفلت اور کوتاہی کی اجازت نہیں دی گئی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی دوران جہاد ذکر میں مشغولیت رہے۔ نماز کو وقت مقرر پر ادا کرنا فرض ہے۔ پہاڑی علاقہ میں ننگے پاؤں کافروں کا پیچھا کرنے سے مجاہدین کے پاؤں زخمی ہو کر خون رِسنے لگا تھا، جس پر حکم ہوا کہ کافروں کے تعاقب میں کسی قسم کی سستی کا مظاہرہ نہ کرو۔ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو کافر بھی آرام سے نہیں بیٹھے ہوئے انہیں بھی اپنا بچاؤ کرتے ہوئے زخم سہنے پڑ رہے ہیں، مگر مسلمان اور کافر کی تکلیف میں بنیادی فرق ہے کہ تمہیں ہر تکلیف اور زخم پر اللہ کے ہاں سے اجر و ثواب ملے گا، جبکہ ان کی تکلیف اور دکھ انہیں مزید جہنم کے قریب کر دے گا۔ اس کے بعد ہر حال میں عدل و انصاف کا مظاہرہ کرنے کی تلقین ہے واقعہ یہ ہوا تھا کہ کسی گھر میں چوری ہو گئی تھی چور انتہائی چالاک اور چرب لسان تھے۔ انہوں نے کسی بے گناہ کو پھنسا کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کی۔ بعض لوگ ان کی چرب لسانی سے متاثر ہو کر انہیں بری کرانا چاہتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کے جرم کو طشت از بام کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ بلا تحقیق کسی خائن مجرم کی حمایت کرنے کی بجائے عدل و انصاف کے قانون کے مطابق فیصلہ کر کے مجرمین کو سزا دینی چاہئے۔ دنیا میں اگر تم نے کسی مجرم کو بچا بھی لیا تو کل قیامت میں اللہ کی گرفت سے اسے کون بچائے گا۔ جس نے جرم کیا سزا بھی اسی کو ملنی چاہئے۔ اپنے گناہ کا الزام دوسرے پر تھوپنا بہت بڑا جرم ہے اور بہتان تراشی کے زمرہ میں آتا ہے۔ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے خفیہ تدبیروں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی خفیہ تدبیر کرنی ہی ہے تو کسی نیک کام، صدقہ و خیرات یا مفاد عامہ کے لئے کرنی چاہئے۔ اس پر اجر عظیم نصیب ہو گا۔
نبی کی مخالفت کرتے ہوئے جمہور مسلمانوں سے ہٹ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنانے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اجماع کے خلاف کرے گا، اسے اللہ تعالیٰ دنیا میں تو ڈھیل دے دیں گے، مگر کل قیامت میں اسے جہنم کے بدترین ٹھکانہ سے سابقہ پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کرسکتے ہیں، مگر شرک کے گناہ کو کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس کے بعد شیطانی چالوں کا کچھ تذکرہ پھر جنت و جہنم کی باتیں اور ہر شخص کو اپنے عمل کا بدلہ بھگتنے کے لئے تیار رہنے کی تلقین اور مساوات مرد و زن کا قرآنی ضابطہ اور پھر ابراہیم علیہ السلام کے طرز زندگی کو اختیار کرنے کا حکم اور کائنات پر اکیلے اللہ کی بلا شرکتِ غیرے حکمرانی کا بیان ہے۔ پھر خواتین کے مسائل کی طرف رجوع کرتے ہوئے ان کے ضعف و کمزوری کی بناء پر ان کے ساتھ ظلم و ناانصافی سے منع کیا گیا ہے۔ میاں بیوی کے اختلاف کی صورت میں خلع کا ضابطہ بیان کیا گیا ہے، پھر اللہ کی قدرت و حکمرانی کو بیان کرنے کے بعد عدل و انصاف کا دامن تھامنے اور سچی گواہی دینے کی تلقین ہے۔ اگرچہ اپنی ذات یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ پھر منافقین کے لئے دردناک عذاب کی دھمکی کے ساتھ ہی ایسے لوگوں کی مجلسوں سے بچنے کی تلقین ہے، جو احکام قرآنی میں ترمیم و تنسیخ کرنا چاہتے ہوں۔ منافقین اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش میں اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ لوگ نماز میں سستی اور اللہ کے ذکر سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ تذبذب کا شکار رہتے ہیں نہ ادھر کے نہ ادھر۔ ایسے گمراہوں کو ہدایت بھی نہیں ملا کرتی۔ یہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ڈالے جائیں گے، مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں سے دوستی اور گٹھ جوڑ کی اجازت نہیں ہے۔ کافروں کو مسلمانوں پر کسی طرح بھی فوقیت نہیں دی جا سکتی، یہ لوگ اگر تائب ہو کر اپنا طرز عمل درست کر لیں تو ان کا شمار بھی مؤمنین کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اگر تم ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہو اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہو تو اللہ تمہیں عذاب دیکر کیا کریں گے؟ اللہ تو دلوں کا بھید جاننے والے بڑے ہی قدر دان ہیں۔
6 – لاَ یُحِبُّ اللہُ
مظلوم کو ظالم سے بدلہ لینے کی اجازت ہے لیکن در گزر کرنے والے سے اللہ بھی درگزر کر دیتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کو مانیں اور رسولوں کا انکار کریں یا کچھ رسولوں کو مانیں کچھ کا انکار کریں وہ پکے کافر اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں اور جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو تسلیم کریں وہ کامل ایمان والے ہیں اور قیامت میں اجرو ثواب کے مستحق ہیں۔ اس کے بعد یہود اور ان کی فطری خباثتوں کا تذکرہ آیت نمبر ۱۵۳ سے آیت نمبر۱۶۱ تک آٹھ آیتوں میں کیا گیا ہے۔ یہودِ مدینہ نے حضور علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہم آپ پر اس وقت ایمان لائیں گے جب آپ ہمارے نام پر اللہ تعالیٰ سے ایک خط لے کر آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ اس قسم کے بیجا مطالبات سے دل برداشتہ نہ ہوں، ان کے آباء و اجداد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا کہ ہم سے اللہ کی بالمشافہ ملاقات کراؤ! ان پر ایک کڑک مسلط کی گئی۔ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے واضح دلائل اور معجزات عطاء کئے تھے۔ مگر اس کے باوجود یہ بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہو گئے۔ ان کے سروں پر کوہ طور معلق کر کے ان سے عہدو پیمان لیا گیا۔ انہیں بیت المقدس میں عجز و انکساری کے ساتھ داخلہ کا حکم دیا، سنیچر کا دن ان کی عبادت کے لئے مقرر کیا مگر یہ کسی بات پر بھی پورے نہیں اترے۔ ان کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ان کی نازیبا حرکات کی بناء پر اللہ نے ان کے دلوں پر ایسا ٹھپہ لگا دیا ہے کہ اب یہ ایمان لاہی نہیں سکتے۔ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا دعویٰ کیا جبکہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے یا سولی پر چڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے شبہ کے اندر کسی دوسرے کو پھانسی پر لٹکا دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا، اللہ بڑے زبردست اور حکمت والے ہیں۔عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی موت سے پہلے پہلے تمام اہل کتاب کو ضرور ایمان لانا پڑے گا۔ ان یہودیوں کی ظالمانہ حرکتوں کی بناء پر پاکیزہ اور حلال چیزوں کو ان پر حرام کیا گیا۔ منع کرنے کے باوجود سود کھانے، لوگوں کا مال ناجائز طریقہ پر ہڑپ کر جانے کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ لیکن ان میں ایسے اعتدال پسند علم و فضل والے بھی ہیں جو علم کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ پر، اس کے نازل کردہ کلام پر اور آخرت پر ایمان لاتے ہوئے اسلام کو قبول کر کے نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم عظیم الشان جزا دیں گے۔ پھر اختصار کے ساتھ سلسلۂ انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے نوح، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون، سلیمان کو نبی بنایا۔ ان سب کو بشیر و نذیر بنا کر ہم نے بھیجا تھا تاکہ لوگوں کے پاس کوئی بہانہ باقی نہ رہ جائے، آپ کو بھی انہی انبیاء علیہم السلام کی طرح نبی برحق بنایا گیا ہے۔ اگر آپ کی نبوت کی گواہی یہودی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی گواہی کافی و شافی ہے۔ اس کے بعد قرآن کریم کا روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہو گیا۔ فرمایا دین میں مبالغہ آمیزی نہ کیا کرو۔ ادب و احترام کے جذبات کو اپنی حدود میں رکھنا چاہئے۔ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کہنا یا اللہ کا بیٹا کہنا کوئی دین داری نہیں ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام یا اللہ کے مقرب فرشتوں نے اللہ کا بندہ کہلانے میں کبھی کسی قسم کا عار محسوس نہیں کیا۔ معبود تو ایک ہی اللہ ہے، وہ اولاد سے پاک ہے۔ اس کے ہاں قرب کا معیار اعمال ہیں۔ جو ایمان اور اعمال صالحہ کرے گا اسے پورا پورا اجرو ثواب ملے گا اور اللہ اپنی طرف سے اضافی جزا بھی دیں گے اور بندگی سے شرم محسوس کرنے والے متکبرین کو دردناک عذاب دے گا اور اللہ کی گرفت سے انہیں بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ سورہ نساء کے آخر میں کلالہ (ایسی میت جس کے والدین اور اولاد موجود نہ ہوں ) کی وراثت کے باقی ماندہ مسائل ذکر کر کے فرمایا کہ تمہیں گمراہی سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہیں۔
سورہ المائدہ
یہ سورہ مدنی ہے ایک سو بیس آیات اور سولہ رکوعات پر مشتمل ہے۔ اس سورہ میں تشریعی مسائل، چوری، ڈاکہ اور قتل یا زخمی کر دینے کے حوالہ سے قانون سازی کی گئی ہے اور قیامت کا تذکرہ ہے اور یہود و نصاریٰ کی طرف بھی روئے سخن رکھا گیا ہے۔ سورہ کی ابتداء میں ہر قسم کے عہود و مواثیق کی پاسداری کا حکم ہے خصوصاً کلمہ شہادت پڑھنے کی وجہ سے ایمانی بنیادوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں نبھانے کا حکم ہے۔ ایک موقع پر کافروں نے مسلمانوں کے جانور چھین لئے اور احرام باندھ کر بیت اللہ کی طرف عمرہ کے لئے چل دیئے۔ مسلمانوں نے ان پر حملہ آور ہو کر ان سے اپنے جانور واپس لینے کا ارادہ کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا حالتِ احرام میں کسی پر حملہ درحقیقت شعائر اللہ کی توہین ہے۔ کسی کی دشمنی میں اس حد تک تجاوز درست نہیں کہ تم ظلم و زیادتی پر اتر آؤ۔ تمہیں تو نیک کام میں تعاون اور برے کام میں عدم تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ حلال و حرام جانوروں کا تذکرہ اور حالت احرام میں شکار سے ممانعت کا بیان ہے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر دین اسلام کے مکمل اور اللہ کے پسندیدہ نظام حیات ہونے کا اعلان ہے۔ پرندوں، چوپایوں اور درندوں کی مدد سے شکار کے لئے اصول و ضوابط وضع کئے گئے ہیں۔ اہل کتاب کے ذبیحہ کا حکم اور ان کی خواتین سے نکاح کے جواز کا بیان ہے۔ پھر طہارت حاصل کرنے کے لئے وضو اور تیمم کا طریقہ اور اس کے بعض مسائل کا تذکرہ ہے۔ شرعی احکام میں آسانی اور سہولت کے پہلو کو مد نظر رکھنے کی نوید سنائی گئی اور نِعَم خداوندی پر شکر ادا کرنے کی تلقین ہے۔ حدیبیہ کے موقع پر کافروں نے حملہ آور ہونے کا پروگرام بنایا اللہ تعالیٰ نے انہیں مرعوب کر کے حملہ کرنے سے باز رکھا، اس انعام خداوندی کا شکر ادا کرنے اور توکل کا اہتمام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کا تذکرہ آیت نمبر ۱۲ سے ۸۲ تک ستر آیتوں میں کیا گیا ہے اور اس ضمن میں فوجداری معاملات کے لئے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ یہودیوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ ان کے آباء و اجداد کو عہدو میثاق کا پابند بنا کر ان کے بارہ قبیلوں پر بارہ نگران مقرر کئے گئے تھے مگر انہوں نے عہد شکنی کی جس کی وجہ سے وہ سنگدل ہو گئے اور اللہ کے کلام میں رد و بدل اور خیانت کے جرم میں مبتلا ہو گئے۔ عیسائیوں کو بھی عہدو پیمان کا پابند بنایا گیا مگر وہ بھی عہد شکنی کے مرتکب ہوئے جس کی نحوست اور برے اثرات نے ان کے اندر بغض و عداوت کی خطرناک بیماری پیدا کر دی۔ اہل کتاب سے خطاب ہے کہ تمہارے پاس ہم نے اپنا رسول بھیج دیا ہے جو تمہاری خیانتوں پر تمہیں مطلع کرتا ہے اور نور ہدایت اور کتاب مبین لے کر آیا ہے۔ اس کی اتباع سے تم سلامتی کے راستے پا سکتے ہو اور کفر کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں صراط مستقیم پر گامزن ہو سکتے ہو۔
عیسائیوں کے ’’الوہیت مسیح‘‘ کے عقیدہ کی مدلل تردید اور یہودیوں کے من گھڑت عقیدہ پر گرفت ہے کہ اگر وہ اللہ کے بیٹے اور محبوب ہوتے تو اللہ انہیں عذاب میں کیوں مبتلا کرتے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو جہاد کے لئے تیار کرتے ہوئے فرمایا کہ ا للہ تعالیٰ نے تمہیں ’’مذہبی اور سیاسی قیادت‘‘ کے منصب پر فائز فرما کر تمہارے خاندان میں انبیاء و رسل اور بادشاہ و ملوک پیدا کئے۔ تمہیں بیت المقدس کو عمالقہ کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لئے پیش رفت کرنی ہو گی۔ اللہ نے تمہیں فتح و کامرانی سے ہمکنار کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے مگر وہ لوگ اپنی بزدلی اور طبعی خباثت کے پیش نظر جہاد سے پہلو تہی کرنے لگے اور عمالقہ کی طاقت و قوت سے مرعوب ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ آپ اپنے رب کے ساتھ مل کر جہاد کر کے بیت المقدس کو آزاد کرا لیں ہم تو اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے باہمی اختلاف اور ان کی قربانی کا تذکرہ کر کے بتایا ہے کہ خیر و شر کی قوتیں روز اول سے باہم دست و گریبان ہیں۔ اللہ تعالیٰ متقی کی قربانی قبول کیا کرتے ہیں۔ قابیل دنیائے انسانیت کا پہلا قاتل ہے، جس نے اپنی ضد اور عناد کی خاطر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔ دنیا میں قیامت تک جتنے قتل ہوں گے ان کا گناہ قاتل کے ساتھ ساتھ قتل کی طرح ڈالنے والے پہلے قاتل قابیل کو بھی ملے گا اور یہ ضابطہ بھی بیان کر دیا کہ انسانی جان اللہ کی نگاہ میں اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ ایک انسان کے قتل کا گناہ پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے اور کسی انسانی جان کو بچا لینے کا اجر و ثواب پوری انسانیت کو بچا لینے کے برابر ہے۔ اسلامی حکومت کے باغی اور ڈاکو چونکہ معاشرہ میں بدامنی اور فساد پھیلانے کے مرتکب ہوتے ہیں اس لئے انہیں ملک بدر کر دیا جائے یا مخالف سمت کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھانسی پر لٹکا کر قتل کر کے ان کے وجود سے اسلامی سرزمین کو پاک کر دیا جائے۔ یہ تو دنیا کی رسوائی ہے۔ آخرت میں بھی ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔ البتہ گرفتاری سے پہلے اگر تائب ہو کر اپنی اصلاح کر کے ان جرائم سے باز آنے کی ضمانت دیں تو انہیں معافی دی جا سکتی ہے۔ اہل ایمان کو تقویٰ پر کاربند رہنے، اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنانے اور جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہو کر فلاح و کامیابی حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے کر چوری کے سدباب کا بہترین انتظام کیا ہے کہ ہاتھ کٹ جانے کے بعد وہ چور بھی اس جرم سے تائب ہو جائے گا اور دوسرے چوروں کے لئے بھی عبرت کا سامان پیدا ہو جائے گا۔ یہودیوں کے اعتراضات کرنے اور حضور علیہ السلام پر ایمان نہ لانے سے آپ دل گرفتہ اور پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں اور یہودیوں کی نازیبا حرکات سے آپ پریشان اور غمگین نہ ہوں۔ یہ لوگ عادی مجرم ہیں۔ اللہ کے کلام میں تحریف، جھوٹ اور حرام خوری ان کی گھٹی میں داخل ہے۔ یہ ایسے لاعلاج مریض ہو چکے ہیں کہ اللہ ا نہیں پاک و صاف کرنا ہی نہیں چاہتے۔ دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب عظیم ان کا مقدر بن چکا ہے، پھر فوجداری قانون بیان کر دیا کہ جان کے بدلہ جان، آنکھ کے بدلہ آنکھ، کان کے بدلہ کان، دانت کے بدلہ دانت ہو گا، لیکن اگر کوئی متأثر فریق درگزر اور معافی کا فیصلہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے گناہوں کی معافی کا وعدہ کر رہے ہیں۔ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی مخالفت کی نوعیت دیکھتے ہوئے ان پر عمل درآمد نہ کرنے والے کافر و فاسق ہیں۔ قرآن کریم سابقہ کتب سماویہ کی تعلیمات کا جامع اور محافظ ہے لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم دیا گیا کہ یہود و نصاریٰ کی خواہش کے مطابق قرآنی نظام سے انحراف نہ کیا جائے۔ ہر قوم کے لئے اللہ نے نظام حیات وضع کیا ہوا ہے۔ ہم چاہتے تو دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پابند بنا دیتے مگر دنیا دار الامتحان ہے اس میں کئے جانے والے پر ہی اخروی جزاء و سزا کا انحصار ہے۔ اس لئے ہر شخص کو اعمال صالحہ میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انسانوں کے وضع کردہ قوانین جاہلیت پر مبنی ہوتے ہیں جو فسق و فجور کی ترویج کا باعث ہوتے ہیں۔ یقین و ایمان کے حاملین کے لئے اللہ سے بہتر قانون سازی کون کرسکتا ہے؟ یہود و نصاریٰ سے تعلقات ایمان کے منافی ہیں۔ اہل کتاب سے دوستی چاہنے والے قلبی مریض ہیں۔ دنیا کا عارضی نفع و نقصان ان کے پیش نظر ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت سے ہماری معیشت تباہ ہو جائے گی حالانکہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو غلبہ عطا فرما کر ان کے معاشی حالات درست فرما سکتے ہیں، جو ان کے حمایتیوں کے لئے ندامت و شرمندگی کا باعث ہو سکتا ہے۔
اگر کوئی اسلامی نظام حیات کو چھوڑ کر مرتد ہو جائے تو اس سے اسلام کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اللہ ایسے لوگوں کو منظر سے ہٹا کر کسی دوسری قوم سے اپنے دین کا کام لے سکتے ہیں۔ وہ لوگ آپس میں محبت کرنے والے، اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے، کافروں کے لئے سختی کرنے والے، جہاد فی سبیل اللہ میں سردھڑ کی بازی لگانے والے اور کسی کی طعن و تشنیع کو خاطر میں لانے والے نہیں ہوں گے۔ اہل کتاب کو مسلمانوں سے دشمنی کی وجہ صرف ان کا اللہ پر ایمان اور آسمانی نظام پر غیر متزلزل یقین ہے۔ مسلمان قابل اعتراض نہیں بلکہ قابل اعتراض تو وہ بدترین لوگ ہیں، جن پر اللہ کی لعنت اور غضب ہوا اور سزا کے طور پر انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا۔ یہ لوگ اس حد تک ہٹ دھرمی اور ضد میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اللہ پر اعتراض کرنے سے بھی نہیں چوکتے، یہ کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ بخیل ہے۔ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہاتھ تو ان کے بندھے ہوئے ہیں اور انکی زبان درازی کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ہے۔ اللہ کے ہاتھ تو کھلے ہوئے ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے اپنے بندوں پر خرچ کرتا ہے۔ یہ لوگ بدزبانی اور سرکشی میں روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ یہ قوموں کو لڑانے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ اللہ ان جنگوں کی آگ کو ٹھنڈا کرتے رہتے ہیں۔ پھر حضور علیہ السلام کو تبلیغ رسالت کے فریضہ کی ادائیگی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرنے کا حکم ہے اور دشمنانِ اسلام سے آپ کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے بعد نصاریٰ کے عقیدۂ تثلیث پر رد اور مریم وعیسیٰ علیہما السلام کی الوہیت کا بطلان واضح کر کے بتلایا ہے کہ عیسیٰ کیسے خدا ہو سکتے ہیں وہ تو اپنی والدہ مریم کے ہاں پیدا ہوئے اور وہ دونوں کھانے پینے کے محتاج ہیں۔ بنی اسرائیل کے ملعون قرار پانے کی وجہ ممنوعات و محرمات سے اجتناب نہ کرنا ہے۔ نصاریٰ کے مقابلہ میں مشرکین اور یہود مسلمانوں کے ساتھ زیادہ دشمنی رکھتے ہیں۔
7 – وَاِذَا سَمِعُواْ
ابتداء میں عیسائیت کے منصف مزاج اور معتدل طبقہ کی تعریف کی گئی ہے۔ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ قریش مکہ کے مظالم سے تنگ آ کر حضور علیہ السلام کی اجازت سے مسلمانوں کی ایک جماعت ہجرت کر کے عیسائیوں کے ملک حبشہ چلی گئی۔ مشرکین نے ان کا تعاقب کیا اور غلط بیانی کے ساتھ نجاشی شاہ حبشہ کو مسلمانوں سے بد ظن کرنے کی کوشش کی۔ نجاشی نے انہیں طلب کر کے سوالات کئے۔ مسلمانوں کے نمائندہ جعفر رضی اللہ عنہ نے جواب میں قرآن کریم کی سورہ مریم پڑھ کر سنائی۔ نجاشی اور اس کے ساتھیوں پر قرآن کریم سن کر رقت طاری ہو گئی۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبانے لگیں اور کلام الٰہی سے متأثر ہو کر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور مسلمانوں کو سرکاری مہمان کے طور پر اپنے ملک میں ٹھہرانے کا اعلان کر دیا۔ ان کی اور اس قسم کے دوسرے عیسائیوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کو سنتے ہیں تو حق کو پہچان کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر اسلام کی حقانیت کے گواہ بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد حلال و حرام کے حوالے سے کچھ گفتگو اور انتہا پسندی کی مذمت کی گئی ہے۔ قسم کی اقسام اور کفارہ کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ شراب اور جوئے (قمار) کی حرمت کا حتمی فیصلہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ شیطان اس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کے افراد میں نفرتیں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کو ام الخبائث کے استعمال سے باز آ جانا چاہئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عمر نے جب فہل انتم منتہون (کیا تم باز نہیں آؤ گے؟) کا قرآنی جملہ سنا تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بے اختیار پکار اٹھے انتہینا یا ربنا (اے ہمارے رب! ہم باز آ گئے)
حالت احرام میں شکار کی ممانعت اور اس کی جزا کا بیان ہے۔ محرم کو مچھلی کے شکار کی اجازت دی گئی ہے کہ سمندر میں حجاج کے قافلہ کو ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ کعبۃ اللہ کی مرکزیت اور بقاء انسانیت کی علامت ہونے کا بیان ہے۔ خبیث اور طیب میں امتیاز برتنے کی تلقین ہے کہ کسی چیز کی قلت و کثرت اچھائی کا معیار نہیں ہے۔ حلال و حرام، مطیع و عاصی، بھلا اور برا کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ بیجا سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ مختلف حوالوں سے جانور مخصوص کرنے کی مذمت کی گئی ہے کہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی یا اس قسم کے ناموں سے جانوروں کے تقدس کی اسلامی تعلیمات میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآنی تعلیمات کے خلاف آباء و اجداد کی ناجائز تقلید سے منع کیا گیا ہے۔ فساد زدہ معاشرہ میں تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہ ہونے کے باوجود اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہے تو گمراہ اور نافرمانوں کے غلط اثرات سے محفوظ رہو گے۔ قیامت کے دن کے بے لاگ محاسبہ کی یاددہانی کراتے ہوئے بتایا کہ اس ہولناک دن میں انبیاء علیہم السلام بھی جوابدہی کے لئے اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے صاحب عزیمت رسول جنہیں مردوں کو زندہ کرنے، بینائی اور برص کے لاعلاج مریضوں کو چنگا کرنے اور مٹی کے جانوروں میں اللہ کے حکم سے روح پھونکنے کے معجزات عطاء کئے گئے تھے۔ انہیں بھی احتساب کے عمل سے گزرنا پڑے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ عیسائیوں نے تمہیں اور تمہاری والدہ کو اپنا معبود کیوں بنا رکھا تھا۔ وہ نہایت عجز و انکساری سے عرض کریں گے کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نے تو آپ کی توحید و الوہیت کی تبلیغ کی تھی۔ میرے بعد لوگوں نے اپنی طرف سے میری اور میری والدہ کی عبادت شروع کر دی تھی۔ یہ آپ کے بندے ہیں آپ ان کے ساتھ جو بھی معاملہ فرمائیں، معاف کریں یا عذاب دیں یہ آپ کا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے آج کے دن سچائی کے علمبردار ہی عظیم الشان کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکیں گے۔ ان کے لئے دائمی طور پر باغات اور بہتی نہریں تیار ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہیں وہ اللہ سے راضی ہیں۔
اس سے پہلے مائدہ (دسترخوان) کا واقعہ بیان کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے کہنے لگے: اے عیسیٰ! اپنے رب سے کہئے کہ ہمیں جنت کے کھانے کھلائے۔ اللہ نے ایک دسترخوان اتارا، جس میں انواع و اقسام کے جنتی کھانے تھے۔ خیانت کرنے اور بچا کر رکھنے سے انہیں روکا گیا تھا، مگر انہوں نے بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے خیانت کے مرتکب افراد کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیا۔
سورہ الانعام
یہ مکی سورہ ہے۔ چونکہ اس سورہ میں انعام (چوپائے) اور ان سے متعلقہ انسانی منافع کا تذکرہ ہے۔ نیز جانوروں سے متعلق مشرکانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی تردید کی گئی ہے۔ اس لئے اس سورہ کا نام ’’الانعام‘‘ رکھا گیا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک ہی رات میں بیک وقت اس شان سے اس سورہ کا نزول ہوا کہ اس کے جلوس میں ستر ہزار فرشتے تسبیح و تحمید میں مشغول تھے۔ اس کا مرکزی مضمون توحید کے اصول و دلائل کا بیان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رسالت و آخرت کے موضوع پر بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو دلائل و براہین کے تیز دھار اسلحہ سے مسلح کیا گیا ہے۔ دلائل کا انداز کہیں الزامی ہے تو کہیں مطمئن کرنے کے لئے عقل و خرد کے استعمال کی دعوت دی گئی ہے۔
سورہ کی ابتداء سے ہی دو خداؤں (یزدان واھرمن) کے عقیدے کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین کا خالق اور ظلمت و نور کا خالق ایک ہی ہے اور وہ قابل تعریف ’’اللہ‘‘ ہے۔ پھر رسالت محمدی کے منکرین کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی حقانیت کا اثبات کیا اور دھمکی دیتے ہوئے فرمایا کہ کتنی ہی قومیں ہیں جنہیں ہم نے اقتدار سے نوازا اور پھر بارشیں برسا کر ان کے باغات کو سرسبز و شاداب بنایا اور انہیں معاشی خوشحالی عطا کی مگر وہ ہماری نافرمانی اور بغاوت سے باز نہ آئے تو ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کر کے تباہ و برباد کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لے آئے لہٰذا تمہیں ہلاک کر کے دوسروں کو تمہاری جگہ دے دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ یا تو فرشتہ ہم سے آ کر آپ کو نبی تسلیم کرنے کے لئے کہے یا ہمارے نام پر اللہ تعالیٰ خط بھیج دیں تو آپ کی نبوت کو تسلیم کر لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر ہم نے خط بھیج بھی دیا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے چھوکر اسے دیکھ بھی لیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور اگر ہم فرشتے کو بھیجیں تو وہ بھی انسانی شکل میں ہی آئے گا اور ان کا اعتراض پھر بھی برقرار رہے گا۔ حضور علیہ السلام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا اگر آپ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو آپ سے پہلے انبیاء کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے۔ دنیا میں نکل کر دیکھیں وہ لوگ کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر دلائل جاری رکھتے ہوئے فرمایا اگر آپ پر کوئی مصیبت آ جائے تو اسے اللہ ہی ٹالتے ہیں اور اگر وہ آپ کو فائدہ پہنچائیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر قیامت کا تذکرہ شروع کر دیا کہ ہم جب انہیں قیامت میں جمع کر کے پوچھیں گے تو یہ صاف انکار کر دیں گے کہ ہم شرک نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ آپ کی بات سنتے ہیں مگر ان کی بد عملی کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردہ چڑھا ہوا ہے اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں اس لئے قرآن کی باتوں کا یہ اثر قبول نہیں کرتے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس زندگی دنیا ہی کی ہے۔ قیامت کے دن ہم انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر کے پوچھیں گے اب بتاؤ یہ سچ ہے یا نہیں ؟ پھر انہیں اپنے کفر کی سزا برداشت کرنی پڑے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کی ہدایت کے لئے اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں ظاہر کر دی جائیں تو شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں، لیکن اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ یہ ہٹ دھرم ایمان نہیں لائیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر آپ ان کا اعراض برداشت نہیں کرسکتے تو زمین کے اندر کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر ان کی مطلوبہ نشانی کہیں سے ڈھونڈ کر لے آئیے۔ یہ لوگ ہدایت پر نہیں آئیں گے اور ہم زبردستی کسی کو ہدایت نہیں دیتے۔ آپ ان سے کہئے! اگر اللہ کا عذاب تم پر آ جائے یا قیامت برپا ہو جائے تو کیا پھر بھی تم غیراللہ کو پکارو گے؟ ظاہر ہے کہ ایسے مشکل وقت میں اپنی مصیبتیں دور کرنے کے لئے تم اللہ ہی کو پکارتے ہو اور اپنے شرکاء کو بھول جاتے ہو۔ پہلی اقوام پر ہم نے تنگدستی اور بیماری ڈالی مگر وہ راہ راست پر نہیں آئے پھر ہم نے انہیں آرام و راحت دی اس پر بھی وہ اپنی شرارتوں سے باز آنے کی بجائے سرکشی و ضلالت میں مزید ترقی کر گئے تو ہم نے اچانک انہیں ایسا پکڑا کہ وہ مبہوت ہو کر رہ گئے۔ ان کا نام و نشان مٹ گیا اور ظالموں کی جڑیں کٹ کر رہ گئیں۔
آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ کے خزانے میرے اختیار میں نہیں ہیں اور نہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں فرشتہ ہونے کا دعویدار ہوں، میں تو اپنے رب کی وحی کا پابند ہوں۔ جن لوگوں کو اللہ کا خوف ہے اور اپنے رب کے سامنے جمع ہونے سے ڈرتے ہیں آپ انہیں قرآن کریم کے ذریعہ ڈراتے رہئے۔ اللہ کے علاوہ اس دن کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں بن سکے گا۔ مشرکین مکہ کے متکبر اور ہٹ دھرم سرداروں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے اور ہدایت کے راستہ پر لانے کی امید میں آپ ایسے مخلص اور غریب اہل ایمان کو اپنی مجلس سے نہ دھتکاریں جو اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے صبح و شام اس کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بھی امتحان کا ایک حصہ ہے کہ کافر و متکبر لوگ غریب مسلمانوں کو دیکھ کر حقارت سے ایسے جملے کسیں کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہم پر ترجیح دی ہے؟ اللہ شکر گزاروں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، ایمان والے جب آپ کے پاس آئیں تو ان کے لئے سلامتی کی دعاء کریں اور انہیں اپنے رب کی رحمتوں کی خوشخبری سنائیں اور اگر نادانی کے ساتھ کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے توبہ اور اپنی اصلاح کی تلقین کر کے امید دلائیں کہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں۔ ہم اسی طرح وضاحت سے اپنی آیات بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا طریقہ کار واضح ہو جائے۔ پھر نظام کفر سے دو ٹوک براءت کے اظہار کی تلقین ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مطلوبہ نشانیاں نبی کے اختیار میں نہیں ہیں۔ یہ اللہ کا اختیار ہے۔ غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں بحر و بر کی ہر چیز کا علم اسی کے پاس ہے۔ درختوں سے گرنے والا ایک پتہ یا زمین کی پنہائیوں میں کوئی دانہ اور کوئی بھی خشک و تر اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔ اللہ کی قدرت اور اس کے حفاظتی نظام کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور یہ بتایا کہ اللہ کے عذاب کی مختلف صورتیں ہیں۔ آسمان سے بھی نازل ہو سکتا ہے۔ زمین سے بھی نکل سکتا ہے اور فرقہ واریت میں شدت کی بناء پر باہمی جنگ و جدل کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنی ستارہ پرست قوم کے ساتھ مناظرہ کا بیان ہے کہ ستارے، چاند، سورج ڈوب جاتے ہیں اور ڈوبنے والا محتاج اور کمزور ہے رب نہیں ہو سکتا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی امتیازی خوبی کا بیان ہے اور وہ ان کا یہ اعلان ہے ’’میں نے اپنا رخ ہر طرف سے موڑ کر یکسوئی کے ساتھ آسمان و زمین کے خالق کی طرف کر لیا اور میں مشرکین میں سے نہیں ‘‘ پھر کمال اختصار کے ساتھ تین سطروں میں اٹھارہ انبیاء و رسل کا تذکرہ اور تعریف بیان کی گئی ہے اور ان کی طرز زندگی کو اپنانے کی تلقین ہے۔
پھر قرآن کریم کے عموم و شمول اور اس کی حقانیت کا بیان ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کو روز قیامت ذلت و رسوائی اٹھانی پڑے گی۔ پھر قدرت خداوندی کی کائناتی حقائق میں مشاہدہ کرنے کی دعوت ہے۔ اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر درخت اور پودے پیدا کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکالتا ہے۔ (مادی طور پر جیسے مرغی سے انڈہ اور انڈے سے مرغی اور روحانی طور پر جیسے کافر کے گھر میں مسلمان اور مسلمان کے گھر میں کافر پیدا کرنا) دن وہی نکالتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کے لئے رات کو لے آتا ہے۔ سورج چاند کو حساب کے لئے مقرر کیا ہے۔ خشکی و تری میں راستہ متعین کرنے کے لئے ستارے اسی نے بنائے ہیں۔ اسی نے ایک جان (آدم علیہ السلام) سے تمام انسان پیدا کر کے ان کی عارضی رہائش گاہ (دنیا) اور ان کی مستقل رہائش گاہ آخرت کو بنایا۔ آسمان سے پانی برسا کر کھیتیاں اور باغات پیدا کئے جن کے اندر سبزیاں، پھل، کھجوریں اور انگور بنائے جو گچھے والے بھی ہیں اور بغیر گچھے کے پیدا ہونے والے پھل بھی ہیں۔ پھلوں کے موسم میں دیکھو کیسے خوشنما اور بھلے لگتے ہیں۔ علم، سمجھ بوجھ اور ایمان رکھنے والوں کے لئے قدرت الٰہی اور وحدانیت کے واضح دلائل ہیں۔ مشرکین مکہ کی تردید کی جن کا عقیدہ تھا کہ جنات کے سرداروں کی بیٹیاں اللہ کی بیویاں ہیں اور فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور عیسائیوں کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کی بیوی ہی نہیں ہے۔ اس کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وحی کی اتباع کی تلقین کی اور مشرکین کے معبودوں کی برائی کرنے سے روکا کیونکہ وہ ضد اور مقابلہ میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔ یہ لوگ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ہماری مطلوبہ نشانی دکھا دی جائے تو ضرور ایمان لے آئیں گے۔ نشانیاں دکھانا تو اللہ کیلئے کوئی مشکل نہیں مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ لوگ نشانی دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے۔
8 – وَلَوْ أَنَّنَا
قریش مکہ کا کہنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرنے کے بعد زندہ ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اس کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لئے عرب کے بڑے دادا قُصَی (جو کہ نیک اور محترم شخصیت تھے) کو زندہ کر کے دکھا دیں، وہ اگر آپ کی تصدیق کر دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر ہم ان پر فرشتے نازل کر دیں جو ان سے باتیں کرنے لگیں اور آج تک مرنے والی ہر چیز کو زندہ کر کے ان کے سامنے اکٹھا کر دیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ صرف آپ ہی کی مخالفت نہیں ہو رہی ہے بلکہ آپ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو بھی ایسی ہی صورتحال سے سابقہ پڑتا رہا ہے۔ شیطان کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہر نبی کے مخالفین ایسے ہی بنا سنوار کر دھوکہ دینے کے لئے ہر دور میں اعتراضات کرتے رہے ہیں مگر ایسی باتوں سے بے ایمان، منکرین آخرت ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اللہ اگر چاہتے تو یہ ایسی نازیبا حرکتیں نہ کرتے۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر اپنے کام میں لگے رہئے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جب اللہ نے واضح کتاب نازل فرما دی تو میں فیصلہ کرنے کے لئے کسی اور کو کیوں تلاش کروں ؟ تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف کی آئینہ دار ہیں انہیں کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ لوگوں کی بے دلیل باتوں کو مان کر انسان گمراہ ہو سکتاہے، اللہ ہدایت یافتہ اور گمراہوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ مردار اور ذبیحہ میں فرق کرنے پر مشرکین کہتے تھے کہ اللہ کا مارا ہوا کھاتے نہیں ہو اور اپنا مارا ہوا کھا لیتے ہو۔ قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ شیطان کے ایجنٹ کٹ حجتی کے لئے اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے، لہٰذا مردار جانور کا کھانا گناہ ہے جبکہ اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر ان کی باتوں سے متاثر ہو گئے تو تم بھی مشرکین کے زمرے میں شمار کئے جاؤ گے۔ جس طرح مردہ اور زندہ برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے والے اور ایمان کی روشنی میں چلنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ جب انہیں کوئی آیت سنائی جائے تو اسے ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ان آیتوں کی وحی اللہ ہم پر کیوں نہیں اتارتا؟ اللہ بہتر جانتے ہیں کہ کس پر وحی اتارنی ہے کس پر نہیں۔ مجرموں کو ان کے جرائم کی وجہ سے ذلت ورسوائی اور عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسے اللہ ہدایت دینا چاہیں اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں اور جس کی گمراہی کا فیصلہ کریں اس کا سینہ تنگ کر دیتے ہیں جیسے کوئی شخص بلندی پر چڑھ رہا ہو۔
بلندی پر چڑھتے ہوئے سینہ تنگ ہونے کی مثال اعجازِ قرآنی کی معرکۃ الآراء مثال شمار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ طب جدید کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دَم گھٹنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آج سے سوا چودہ سو سال پہلے اس سائنسی حقیقت کی طرف اشارہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تمام جنات و انسانوں سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی اور ہر ایک کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہو گا جبکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کی طرح جنات بھی قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کے پابند ہیں، پھر یہ بتایا کہ مجرموں کی گرفت کے لئے اللہ کا ضابطہ ہے کہ ظالم کی بے خبری میں گرفت نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے مستغنی اور رحیم ذات ہے۔ وہ اگر انسانوں کو ختم کر کے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر کھیتیوں اور جانوروں میں مشرکانہ رسوم و رواج کی مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ قدرت خداوندی کا بیان ہے کہ اللہ زمین سے کیسے کیسے باغات پیدا کرتا ہے، جن میں سہارے کی محتاج بیلیں اور بغیر سہارے کے پروان چڑھنے والے پودے ہوتے ہیں۔ کھجوریں، مختلف ذائقہ والے ملتے جلتے اور غیر متشابہ پھل ہوتے ہیں۔ یہ سب انسانی خوراک اور صدقہ و خیرات کے لئے اللہ نے پیدا کئے ہیں۔ ان میں اسراف نہ کیا جائے۔ چھوٹے بڑے جانور بھی کھانے کے لئے اللہ نے پیدا کئے۔ ان کے بارے میں شیطانی تعلیمات کی پیروی نہ کریں۔ نر اور مادہ کو شمار کر کے عام طور پر آٹھ قسم کے پالتو جانور ہیں۔ بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ۔ اللہ نے ان میں سے کسی کو حرام قرار نہیں دیا تو تم لوگ ان کے نر یا مادہ یا ان کے حمل کو حرام کیوں کرتے ہو؟ مشرک کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی اجازت سے شرک کرتے ہیں۔ کیا یہ اپنے دعوی پر کوئی دلیل یا دست آویز پیش کرسکتے ہیں ؟ اس کے بعد تمام انبیاء علیہم السلام کا دس نکاتی مشترکہ پروگرام پیش کیا جو حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ اللہ کی عبادت، والدین کے ساتھ حسن سلوک، تنگی کے خوف سے اولاد کے قتل سے گریز، برائی کے کاموں سے پرہیز، بے گناہ کے قتل سے بچنا، یتیم کے مال کو ناجائز استعمال نہ کرنا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، قول و فعل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنا، اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرنا اور صراط مستقیم کی پیروی کرنا پھر موسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان کی کتاب کا تذکرہ پھر نزولِ قرآن کی بشارت کہ اس میں برکت بھی ہے، رحمت بھی اور ہدایت بھی۔ پھر دین میں تفرقہ اور دھڑے بندی کرنے والوں کی مذمت، پھر امت محمدیہ کی فضیلت کہ نیکی پر دس گنا اجر اور گناہ پر ایک سے زیادہ کی سزا نہیں ملے گی۔ محمدی تعلیمات کے ملت ابراہیمی کے عین مطابق ہونے کا اعلان۔ ابراہیمی طرز زندگی کی وضاحت کہ تمام بدنی و مالی عبادت اور جینا اور مرنا بھی اللہ ہی کے لئے ہے۔ ’’جو کرے گا وہی بھرے گا‘‘ کا ضابطہ اور سورہ کے آخر میں امتحان کے نقطہ نظر سے انسانوں میں فرقِ مراتب اور زمین کی خلافت کا استحقاق اور اللہ کے سریع العتاب ہونے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ غفور رحیم ہونے کی خوشخبری بھی شامل ہے۔
سورہ الاعراف
جنت اور جہنم کے درمیان واقع ایک چبوترا ہے، جس پر ان لوگوں کو عارضی طور پر ٹھہرایا جائے گا، جن کی حسنات و سیئات برابر ہوں گی۔ أعراف کا تذکرہ اس سورہ میں موجود ہے اس لئے اسی نام سے پوری سورہ کو موسوم کر دیا گیا۔
یہ سورہ دو سو چھ آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ ایک طویل مکی سورہ ہے جو تقریباً سوا پارہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے پہلی سورہ الانعام کا مرکزی مضمون ’’توحید‘‘ تھا اور اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’رسالت‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنت و جہنم اور قیامت کے موضوع پر بھی گفتگو موجود ہے۔ سورہ کی ابتداء میں قرآن کریم کی حقانیت کو ایک انوکھے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس میں ایک طرف حضور علیہ السلام کی ہمت افزائی ہے تو دوسری طرف آپ کی تسلی کے لئے ’’وحی الٰہی‘‘ کے منکرین کا انجام ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر نازل شدہ قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں تو آپ دل برداشتہ نہ ہوں۔ یہ لوگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر رہیں گے کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسی قومیں گزری ہیں جنہیں ’’وحی الٰہی‘‘ کے انکار پر پلک جھپکتے میں نیست و نابود کر دیا گیا۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ آج کے دور کا فرقہ بندیوں، پارٹی بندیوں اور جنگ و جدل کا شکار ہونے والا انسان درحقیقت ایک ہی باپ کی صلب سے پیدا ہونے والا اور ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ہے۔ یہ سب کالے اور گورے، امیر و غریب، شاہ و گدا ایک ہی گھرانے کے افراد اور ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور انہیں باہمی افتراق و نزاع کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ خالقِ انسان کی نگاہ میں اس انسان کی قدر و منزلت کیا ہے؟ اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانیت کے جد امجد آدم علیہ السلام کو مسجود ملائکہ بنا کر اعزاز و اکرام کے ساتھ اس کے اصلی گھر جنت میں بھیج دیا اور شیطان کی ازلی دشمنی بتانے کے لئے شجر ممنوعہ کو استعمال کروا کر جدوجہد اور معرکۂ حق و باطل کے طویل اور صبر آزما امتحان کے لئے اسے زمین پر اتار دیا۔ چار مرتبہ اس انسان کو یا بنی آدم ’’اے آدم کی اولاد‘‘ کہہ کر پکارا۔ یہ نداء اس سورہ کے ساتھ خاص ہے۔ شیطان کے شر سے بچنے کے لئے انتہائی پر حکمت خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’اے بنی آدم! جس شیطان نے تمہارے والدین کا لباس اتروا کر انہیں جنت سے نکلوا دیا تھا کہیں تمہیں بھی فتنہ میں مبتلا کر کے جنت سے محروم نہ کر دے۔‘‘ اس کے بعد قیامت کے دن کی منظر کشی کرتے ہوئے اصحاب الجنۃ، اصحاب النار اور اصحاب الأعراف کے نام سے تین گروہ ذکر کئے۔ اس گروہ کا تذکرہ صرف اسی سورہ میں ہے۔ اس کے بعد وہ منظر پیش کیا گیا، جس میں جنت والے، جہنم والوں کا ویسے ہی مذاق اڑائیں گے جیسے وہ لوگ دنیا میں ان کی نیکی اور صلاح و تقویٰ پر مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ کیسا منظر ہو گا جب جنت والے انعامات اور عیش و عشرت کے مزے لے رہے ہوں گے اور جہنم والے عذاب کی اذیت و کربناکی میں مبتلا ہوں گے اور جنتیوں سے کھانے کے ایک نوالہ اور پانی کے دو گھونٹ بھیک مانگ رہے ہوں گے اور اصحاب الأعراف اپنی فصیل سے دائیں بائیں جھانک کر جنت و جہنم والوں میں اپنے جاننے والوں کو پہچانیں گے اور ان سے گفتگو کریں گے۔ اہل جنت کے چہرے روشن اور چمکدار ہوں گے جبکہ اہل جہنم بد شکل، سیاہ اور ذلت و رسوائی کے عالم میں ہوں گے۔ اسی اثناء میں اللہ کا منادی آواز لگائے گا:’’اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ نیکیوں کا بدلہ جنت ہے جو صلحاء کو مل گئی اور اللہ کے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے اور من مانے طریقہ پر اللہ کے احکام کو اپنی خواہشات کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے ظالم اور منکرین آخرت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب کا طوق ان کے گلے میں ڈالا گیا‘‘۔ اس کے بعد آسمان و زمین کے پیدا کرنے، دن رات کے آنے جانے، ہواؤں کے چلنے اور بارش کے برسنے اور درختوں اور پودوں کے زمین سے نکلنے میں غور و خوض کرنے کی دعوت دے کر پہلے انبیاء علیہم السلام کا طویل تذکرہ شروع کر دیا۔
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی۔ قوم نے انہیں گمراہ قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا۔ ان کی رسالت کا انکار کیا، جس پر اللہ نے پانی کا عذاب مسلط کر کے انہیں ہلاک کر دیا اور اپنے نبی کو کشتی کے اندر بچا لیا۔ ہود علیہ السلام کا تذکرہ کہ انہوں نے قوم عاد کو دعوت توحید دی انہوں نے ہود علیہ السلام کو بے وقوف اور ناسمجھ قرار دے کر انکار کیا۔ اللہ نے ان پر آندھی اور طوفان کا عذاب مسلط کر کے ہلاک کر دیا اور اپنے نبی اور ان کے متبعین کو بچا لیا۔ پھر قوم ثمود کا تذکرہ، صالح علیہ السلام نے انہیں دعوت توحید دی۔ انہوں نے انکار کیا اور بیجا مطالبے شروع کر دیئے۔ کہنے لگے کہ پہاڑ سے اونٹنی پیدا کر کے دکھاؤ جو نکلتے ہی بچہ جنے۔ جب اونٹنی معجزانہ طریقہ پر ظاہر ہو گئی تو انہوں نے اسے قتل کر کے اپنے اوپر عذاب مسلط کر لیا۔ ان کی بستی پر ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ ان کا نام و نشان مٹ کر رہ گیا۔
پھر قوم لوط اور ان کی بے راہ روی کا تذکرہ۔ لوط علیہ السلام نے انہیں بد فعلی جیسے گھناؤنے جرم سے منع کیا تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے کہ تم بہت پاکباز بنتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کر کے انہیں تباہ کر دیا۔
پھر قوم مدین کا تذکرہ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور تجارت میں بددیانتی سے منع کر کے ناپ تول پورا کرنے کی تلقین فرمائی اور انہیں راہ گیر مسافروں کو ڈرانے دھمکانے سے باز رہنے کا حکم دیا، جس پر وہ لوگ بگڑ گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر اتر آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ میری قوم تمہارے دو گروہ بن چکے۔ ایک ایمان والا اور دوسرا کفر والا۔ لہٰذا اپنے انجام کا انتظار کرو عنقریب ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ فیصلہ کر دیں گے۔
9 – قَالَ الْمَلَأُ
آٹھویں پارے کے آخر میں حضرت شعیب علیہ السلام کا یہ مقولہ تھا کہ آسمانی نظام کو تسلیم کرنے والی اور انکار کرنے والی مؤمن و منکر دو جماعتیں بن چکی ہیں۔ اب خدائی فیصلہ کا انتظار کرو۔ نویں پارہ کی ابتداء میں ان کی قوم کے سرداروں کی دھمکی مذکور ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی اپنے خیالات سے تائب ہو کر اگر ہمارے طریقہ پر نہ لوٹے تو ہم آپ لوگوں کو ملک بدر کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ اہل ایمان نے اس کے جواب میں کہا کہ ہمیں اللہ نے ملتِ کفر سے نجات دے کر ملتِ اسلامیہ سے وابستہ ہونے کی نعمت سے سرفراز کیا ہے تو ہم کیسے غلط راستہ کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ ہم اللہ سے دعاء گو ہیں کہ وہ ہمارے اور تمہارے درمیان دو ٹوک فیصلہ کر کے حق کو غالب کر دے۔ چنانچہ بڑی شدت کا زلزلہ آیا اور حضرت شعیب علیہ السلام کی نبوت کے منکر اس طرح تباہ ہو گئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا اور مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ نے عافیت کے ساتھ بچا لیا جس پر حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے تو قوم کی خیرخواہی کرتے ہوئے اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا مگر اسے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ تباہ ہو گئے اب ان پر میں کیسے رحم کھا سکتا ہوں ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ضابطہ بیان کر دیا کہ خوشحالی اور تنگدستی کن حالات میں عذاب خداوندی کا مظہر ہوتی ہے اور کن حالات میں اللہ کی طرف سے ابتلاء و آزمائش ہوتی ہے۔ اگر اچھے یا برے حالات کی تبدیلی اعمال میں بہتری پیدا کر کے اللہ کا قرب نصیب کر دے تو یہ تبدیلی امتحان ہے اور اللہ کی رضا کا باعث ہے اور اگر اعمال صالحہ میں ترقی نہ ہو بلکہ وہی سابقہ صورتحال رہے یا نافرمانیوں میں اور اضافہ ہو جائے تو یہ تبدیلی عذاب ہے اور اللہ کی ناراضگی اور غضب کا موجب ہے۔ اللہ کے عذاب سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہونا چاہئے وہ صبح و شام کسی وقت بھی اچانک آ سکتا ہے۔ ہم ان تباہ شدہ بستیوں کے حالات اس لئے سنارہے ہیں کہ انبیاء و رسل کی آمد کے باوجود بھی ان لوگوں نے اپنے اعمال میں بہتری پیدا نہ کر کے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا مستحق ٹھہرا لیا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا کر ان کا نام و نشان مٹا کر رکھ دیا۔
اس کے بعد معرکہ خیر و شر کا مشہور واقعہ ’’قصۂ موسیٰ و فرعون‘‘ کا بیان ہے جو آیت ۱۰۳ سے ۱۰۶ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں بعض جزئیات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ قرآن کریم میں بار بار دہرائے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے اور جتنی تفصیل اس واقعہ کی بیان کی گئی ہے، اتنی کسی دوسرے واقعہ کی تکرار کے ساتھ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے۔ یوں تو اکثر سورتوں میں کسی نہ کسی انداز میں اس کا حوالہ مل جاتا ہے مگر سورہ بقرہ، اعراف، طٰہٰ اور قصص میں مختلف پہلوؤں سے اس واقعہ کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی بھرپور نمائندگی حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کرتے ہیں جبکہ شر کی بھرپور نمائندگی فرعون، ہامان، قارون اور یہودی قوم کرتی ہے۔ یہ لوگ اقتدار اعلیٰ، نوکر شاہی، سرمایہ داری کے نمائندہ ہیں۔ سورہ الاعراف میں فرعون اور قوم یہود کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ہم نے اپنی آیات دے کر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے حمایتیوں کی طرف بھیجا انہوں نے ان آیات کو ٹھکرا کر فساد برپا کیا۔ آپ دیکھیں ان مفسدین کو کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ موسیٰ علیہ السلام جب رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس تشریف لے گئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو اس نے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ’’عصا کا اژدھا‘‘ اور ’’ہاتھ کو چمکتا‘‘ ہوا بنا کر دکھا دیا۔ فرعون نے اسے ’’جادو‘‘ قرار دے کر مقابلہ کے لئے ’’جادوگر‘‘ بلوا لئے۔ انہوں نے رسیوں اور لکڑیوں سے سانپ بنائے۔ موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدھا ان سب کو نگل گیا۔ جادوگر چونکہ اپنے فن کے ماہر تھے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ نبی کا معجزہ ہے۔ وہ مسلمان ہو کر سجدہ ریز ہو گئے۔ فرعون نے یہ کہہ کر کہ موسیٰ جادوگروں کا استاد ہے۔ یہ چھوٹے شاگرد ہیں انہوں نے سازباز کر کے یہ ڈراما رچایا ہے اس نے سب جادوگروں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انہیں سولی پر چڑھا دیا وہ مرتے مر گئے مگر ایمان سے منحرف نہیں ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام نبی تھے، فرعون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مگر بنی اسرائیل پر اس نے عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ مظالم سے تنگ آ کر قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: آپ کی نبوت تسلیم کرنے سے پہلے بھی ہم ستائے جا رہے تھے آپ کے آنے کے بعد اس میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مظالم پہلے سے بڑھ گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھروں میں ہی قبلہ رو ہو کر نماز اور صبر کی مدد سے اللہ کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کرو۔ دنیا میں آزمائش کے طور پر اللہ جسے چاہیں اقتدار پر فائز کریں، لیکن آخرت میں متقیوں کو بہتر انجام ملے گا۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر مختلف عذاب مسلط کئے۔ قحط سالی اور سبزیوں اور پھلوں کی قلت کا عذاب آیا۔ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو وہ کہتے کہ ہماری ’’حسن تدبیر‘‘ کا کرشمہ ہے اور جب انہیں کوئی نقصان یا تکلیف پہنچتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے مؤمن ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ ہم پر اپنا جادو آزمانے کے لئے تم بڑے سے بڑا معجزہ دکھا دو ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ ان پر اللہ نے طوفان، مکڑی، جوؤں، مینڈکوں اور خون کا پے در پے عذاب بھیجا مگر وہ تکبر کے ساتھ اپنے جرائم میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ جب ان پر عذاب کی کوئی شکل ظاہر ہوتی تو وہ جھوٹے عہد و پیمان کر کے موسیٰ علیہ السلام سے دعاء کرا لیتے، مگر عذاب کے ختم ہوتے ہی پھر نافرمانیوں پر اتر آتے۔ ہماری آیات سے غفلت برتنے اور جھٹلانے کا ہم نے انتقام لے کر انہیں سمندر میں غرق کر دیا۔ ہم نے دنیا میں کمزور اور ضعیف سمجھی جانے والی قوم کو ان کے محلات، باغات اور اقتدار کا وارث بنا دیا اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی خاطر کتاب دینے کے لئے حضرت ہارون کو جانشین قرار دے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام ’’کوہِ طور‘‘ پر ریاضت کرنے کے لئے بلائے گئے، جہاں وہ چالیس روز تک مقیم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شرف ہمکلامی بخشا اور تورات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا ایسا مزہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی زیارت کی درخواست کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی کی جس کی تاب نہ لا کر پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا، جس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنے دنیاوی قویٰ کے ساتھ اللہ کی زیارت نہیں کرسکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم شرک میں مبتلا ہو کر بچھڑے کی پوجا کرنے لگی۔ موسیٰ علیہ السلام واپس آ کر قوم پر بہت ناراض ہوئے، بھائی ہارون کو بھی ڈانٹا اور پھر تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے، اپنے بھائی کے لئے اور پوری قوم کے لئے معافی طلب کرتے ہوئے مغفرت، رحمت اور ہدایت کی دعا مانگی۔ اللہ نے فرمایا میری رحمت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ تقویٰ اور ایمان کو اختیار کریں اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم جن کا تذکرہ ان کی کتابوں تورات اور انجیل میں ہے اور وہ انہیں امر بالمعروف، نہی عن المنکر کرتے ہیں، ان کی خودساختہ پابندیوں کو ان پر سے ختم کر کے ان کے گناہوں کے بوجھ سے انہیں آزاد کراتے ہیں، ان پر ایمان لا کر ان کی مدد و نصرت کریں تو یہ لوگ کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گے۔ پھر حضور علیہ السلام کی رسالت کی عمومیت کو بیان کیا کہ آپ تمام انسانیت کے لئے نبی بن کر تشریف لائے ہیں۔ پھر بنی اسرائیل پر مزید احسانات کا تذکرہ فرمایا کہ بارہ قبیلوں کے لئے پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے۔ بادل کا سائبان اور من و سلویٰ کی خوراک عطاء کی۔ بیت المقدس میں داخلہ کے لئے جہاد کا حکم دیا اور مخالفت پر آسمانی عذاب کے مستحق قرار پائے۔ پھر سمندر کے کنارے بسنے والوں کا تذکرہ جنہوں نے سنیچر کا دن عبادت کے لئے مقرر کیا، مگر اس کی پابندی کرنے کی بجائے اس دن شکار میں مشغول ہو گئے، جس کی وجہ سے ذلت آمیز عذاب میں مبتلا ہو کر بندروں کی شکل میں مسخ ہو گئے۔ پھر پہاڑ سروں پر معلق کر کے بنی اسرائیل سے میثاق لینے کا تذکرہ ہے کہ اتنے اہتمام کے باوجود بھی انہوں نے پابندی نہیں کی۔ پھر پوری انسانیت سے لئے جانے والے ’’عہد ألست‘‘ کا تذکرہ ہے جو عالم ارواح میں آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام روحوں کو ’’بھوری چیونٹیوں ‘‘ کی شکل میں نکال کر لیا گیا۔ تمام روحوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا، مگر دنیا میں آ کر بہت سے لوگ اس سے منحرف ہو گئے۔ پھر ایک اسرائیلی عالم کا تذکرہ جس نے اپنی بیوی کے بہکاوے میں آ کر مالی مفادات کے لئے اللہ کی آیات کی غلط تعبیر و تشریح کی، اسے کتے کی مانند بنا کر اس کی زبان سینے تک لٹکا دی گئی اور وہ کتے کی طرح ہانپتا ہوا جہنم رسید ہو گیا۔ جسے اللہ ہدایت دیں وہی ہدایت یافتہ بن سکتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دیں وہ خسارے میں ہے۔
جنات اور انسانوں میں جو لوگ اپنے دل و دماغ اور آنکھ اور کان کا صحیح استعمال کر کے توحید باری تعالیٰ کو نہ مانیں وہ لوگ گمراہی میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ کو اس کے اسماء حسنیٰ کے ساتھ یاد کیا جائے۔ ملحدین کے خودساختہ نام اللہ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ پھر قیامت کا تذکرہ کہ وہ اچانک کسی بھی وقت آ جائے گی۔ اس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ پھر نبی سے اعلان کروایا گیا ’’میں اپنے لئے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو مجھ پر کبھی کوئی تکلیف نہ آتی اور تمام بھلائیاں میں اپنے لئے جمع کر لیتا۔ میں تو اہل ایمان کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں ‘‘ پھر قدرتِ خداوندی کے بیان کے لئے ایک جان آدم علیہ السلام سے انسانی تخلیق کا تذکرہ اور پھر ازدواجی زندگی کے فائدہ کا بیان کہ اس کا مقصد زوجین کا ایک دوسرے کے ذریعہ سکون حاصل کرنا ہے۔ پھر شرک کی مذمت کہ ایسے کمزوروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو دوسروں کو تو کیا پیدا کریں گے خود اپنی پیدائش میں اللہ کے محتاج ہیں۔ جن بتوں کو یہ اپنا معبود سمجھتے ہیں وہ چلنے پھرنے اور دیکھنے سننے سے بھی محروم ہیں۔ جو اپنی مدد نہ کرسکیں وہ دوسروں کی کیا مدد کریں گے؟ ایک داعی الی اللہ کو اخلاق فاضلہ کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ’’عفو و درگزر کرتے ہوئے نیکی کا حکم دیتے رہیں، اگر کبھی شیطان کے اثرات سے کوئی نازیبا حرکت سرزد ہو جائے تو اللہ کی پناہ میں آ کر تقویٰ اور نصیحت کو اختیار کر لینا چاہئے۔ اتباع اور پیروی کے لئے وحی الٰہی کا ہونا ضروری ہے۔ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنیں اور صبح و شام اللہ کو یاد کرتے رہیں۔ اللہ کے برگزیدہ بندے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ وہ اس کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے اس کے حضور سجدہ ریز رہتے ہیں۔
سورہ الانفال
انفال کے معنیٰ مال غنیمت کے ہیں، اس سورہ میں غنیمت کے احکام کا بیان ہے۔ اس میں غزوہ بدر کا تفصیلی تذکرہ ہے اس لئے بعض مفسرین نے اسے سورہ بدر بھی کہا ہے۔ پچھتر آیات اور دس رکوعات پر مشتمل یہ مدنی سورہ ہے۔ اس سورہ میں چھ مرتبہ یا ایہا الذین اٰمنوا کہہ کر خطاب کرتے ہوئے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ دیئے جانے والے احکام پر عمل ایک مسلمان کے ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ لوگ مال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے وہ جس طرح چاہے اس کی تقسیم کا حکم جاری کرے۔ پھر کامل ایمان والوں کی صفات، اللہ کے ذکر سے متاثر ہونا، کلام اللہ کو سن کر دلوں کا نرم ہو جانا اور اللہ پر توکل کرنا مذکور ہے۔ پھر بدر کے ابتدائی مرحلہ کا تذکرہ ہے کہ نکلتے وقت تمہارے بعض لوگ پوری طرح تیار نہ ہونے کی وجہ سے جہاد پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن جب نبی کے ساتھ مل کر کافروں سے مقابلہ کے لئے میدان میں آ گئے تو اللہ نے فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائی۔ کافر قتل اور زخمی ہوئے اور میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ مجاہدین کی عظمت کا بیان ہے کہ تم نے جو کافر قتل اور گرفتار کئے یا ان پر تیر برسائے تو درحقیقت وہ اللہ نے سب کچھ کیا۔ پھر بتایا کہ میدان جہاد سے بھاگنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے البتہ اگر مزید تیاری کر کے دوبارہ حملہ آور ہونے کے ارادے سے پیچھے ہٹا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کا جب بھی کوئی حکم آئے تو اس پر عمل کرنے میں تاخیر نہ کریں اس میں تمہاری حیات کا راز مضمر ہے۔ کافر لوگ نبی کو گرفتار یا قتل کرنا چاہتے ہیں یا انہیں علاقہ بدر کرنے کے لئے کوشاں ہیں مگر ان کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی اور ان کی سازشوں کا توڑ کرتے رہیں گے۔ اسلام کا راستہ روکنے کے لئے کافر اپنا مال خرچ کر رہے ہیں مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ جتنا مال چاہیں خرچ کر دیں آخر کار انہیں اپنا مال ضائع ہونے پر حسرت اور افسوس ہی ہو گا۔ دشمنان اسلام کو یہ پیغام دے دو کہ اگر وہ اسلام دشمن ہتھکنڈوں سے باز آ جائیں تو انہیں معافی مل سکتی ہے ورنہ پہلی قوموں کی گرفت، نظام دنیا کے سامنے موجود ہے۔ قتال فی سبیل اللہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دنیا سے فتنہ و فساد ختم ہو کر دین اسلام کا نظام پوری دنیا پر غالب نہ آ جائے۔
10 – وَاعْلَمُواْ
پارے کی ابتداء میں بتایا گیا ہے ’’مال غنیمت‘‘ میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لئے نکال کر باقی چار خمس مجاہدین میں تقسیم کر دیئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کسی تیاری کے بغیر غزوہ بدر میں کفر و اسلام کو مدمقابل لانے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر تم مقابلہ کا وقت مقرر کر لیتے تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ مسلمان اپنی تعداد و اسلحہ کی قلت کے پیش نظر پس و پیش کا مظاہرہ کرتے یا کافر مرعوب ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ سے گریز کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں سے جنگ چاہتے تھے تاکہ بے سروسامانی کے باوجود انہیں کامیاب کر کے حق و باطل کا فرق واضح کر دیں اور جو مسلمان ہونا چاہے علی وجہ البصیرت ہو اور جو کافر رہنا چاہے وہ بھی سوچ سمجھ کر ہو۔ اس کے بعد جہاد میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی تلقین ہے، اس بات کا بیان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ باہمی اختلاف و نزاع سے بھی بچنا ضروری ہے۔ ورنہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ کافر ریاکاری اور تکبر کے ساتھ میدان میں اس لئے نکلے تھے تاکہ اہل ایمان کو اللہ کے راستہ سے روکیں اور شیطان انسانی شکل میں ان کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا مگر جب اس نے فرشتوں کی شکل میں اللہ کی مدد اترتی ہوئی دیکھی تو بھاگ اٹھا اور کہنے لگا کہ میں جس صورتحال کا مشاہدہ کر رہا ہوں وہ تمہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ اس وقت بعض منافق اور دلوں میں مرض رکھنے والے لوگ یہ کہہ رہے تھے، ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور انہوں نے اللہ کے بھروسہ پر اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے پر توکل کرنے والوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں کامیابی عطا فرمایا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس سے پہلے کافروں کے عبرتناک انجام کو بیان کیا اور بتایا کہ کافر بھی اسی صورتحال سے دوچار ہو کر رہیں گے۔ اس کے بعد قوموں کے عروج و زوال کا ناقابل تردید ضابطہ بیان فرمایا۔ اللہ کسی قوم کو اس وقت تک زوال پذیر نہیں کرتے جب تک وہ اپنی عملی زندگی میں انحطاط کا شکار نہ ہو جائیں۔ حضرت محمد علیہ السلام پر ایمان نہ لانے والے لوگ بدترین جانور ہیں۔ یہودیوں نے اس موقع پر میثاق مدینہ کی مخالفت کرتے ہوے مشرکین مکہ کی حمایت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :عہد شکنی کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور خیانت کرنے والوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری لازمی نہیں رہ جاتی ایسے معاہدے توڑ دینے چاہئیں۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دشمنان اسلام پر رعب ڈالنے کے لئے تم لوگ جس قدر ہو سکے قوت اور مضبوط گھوڑے تیار رکھو۔ اللہ کے راستہ میں تم جو بھی اخراجات کرو گے اللہ تمہیں واپس کر دیں گے۔ تم کافروں کے مقابلہ میں کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرنا البتہ اگر وہ تمہارے ساتھ صلح کرنا چاہیں تو پھر صلح کر لینا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ نے اپنی مدد اور ایمان والوں کی قوت سے آپ کو مضبوط کیا ہوا ہے اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے باہم شیر و شکر بنا کر آپ کے گرد جمع کر دیا ہے۔ ساری دنیا کا مال دولت خرچ کر کے بھی آپ انہیں اس طرح جمع نہیں کرسکتے تھے جس طرح اللہ نے انہیں جمع کر دیا ہے۔ جہاد میں کامیابی کے لئے اللہ کی مدد اور مسلمانوں کا تعاون آپ کے لئے بہت کافی ہے۔ خود بھی جہاد کریں اور اہل ایمان کو بھی جہا دکی ترغیب دیں۔ ابتداء میں جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی تو، اگر مسلمانوں اور کافروں میں ایک اور دس کا تناسب ہو تو میدان سے ہٹ جانے کو فرار عن الزحف اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا پھر جب تعداد زیادہ ہو گئی تو ایک اور دو کا تناسب باقی رکھا گیا اور اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں میدان چھوڑ دینے کی اجازت دے دی گئی۔
غزوہ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے اور ستر ہی گرفتار ہوئے تو قیدیوں کا مسئلہ درپیش آ گیا۔ اس سلسلہ میں دو رائے سامنے آئیں کہ مسلمانوں کا رعب پیدا کرنے کے لئے انہیں قتل کر دیا جائے یا ان کے ایمان لانے کی امید پر فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے۔ دوسری رائے کو اختیار کیا گیا مگر اس میں شبہ تھا کہ یہ قیدی رہائی کے بعد پھر اسلام کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رائے کے مطابق فیصلہ پسند نہیں فرمایا مگر بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اس لئے اللہ نے فدیہ کا فیصلہ کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی۔
اس کے بعد ہجرت و نصرت کا حکم بیان کیا کہ جب کسی علاقہ میں رہ کر اپنا ایمان و عمل بچانا مشکل ہو جائے تو رشتہ داروں اور وطن کی محبت میں وہاں رہنے کی اجازت نہیں بلکہ وہاں سے ہجرت کر کے اپنے ایمانی رشتہ داروں کے ساتھ جا کر مقیم ہو جانے کا حکم ہے۔ ایمانی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہجرت نہ کرنے پر بہت سخت وعید سنائی گئی کہ اس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔
سورہ توبہ
مدنی سورت ہے۔ ایک سو انتیس ۱۲۹ آیتوں اور سولہ رکوع پر مشتمل ہے۔ اس میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا اعلان ہے۔ اس لئے اس کا نام توبہ رکھا گیا ہے اور اس سورت کا مضمون پہلی سورت سے جہاد کے حوالہ سے ملتا جلتا ہے اور اس میں کفار کے لئے مہلت ختم کر کے کھلا ہوا اعلان جنگ ہے اس لئے اس کے شروع میں بسم اللہ نہیں لائی گئی۔
یہ سورت غزوہ تبوک کے بعد واپسی پر نازل ہوئی۔ جہاد اور زکوٰۃ کے حوالہ سے منافقین کی خباثتوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقاب ہٹا کر انہیں معاشرے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ صلح اور امن کے معاہدوں سے کافروں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ان کے اسلام دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا ان معاہدوں کو چار مہینہ کی مہلت دے کر ختم کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے اور حکم دیا جا رہا ہے کہ جس طرح یہ کافر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ کافر جہاں بھی ملیں انہیں تہِ تیغ کریں۔ اللہ ان کافروں پر آسمان سے کوئی عذاب اتارنے کی بجائے میدان جہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں سزا بھی مل جائے، یہ ذلیل و رسوا بھی ہوں اور مسلمانوں کے دلوں کا غصہ بھی اتر جائے اور بعض کافر اس عبرتناک انجام سے سبق حاصل کر کے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرسکیں۔ دو مسلمانوں کی آپس میں گفتگو ہوئی، ایک نے کہا حضور علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں شرکت کے بہت سے مواقع مل چکے ہیں۔ اب تو میں کعبۃ اللہ میں رہ کر عبادت کرنے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ جہاد کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا میں تو اللہ کے نبی کے ہمراہ جہاد کی سعادت حاصل کرتا رہوں گا۔ حضور علیہ السلام نے آیت قرآنی پڑھ کر سنائی۔ کیا تم نے کعبۃ اللہ کی عبادت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھ لیا ہے؟ یہ اللہ کی نگاہ میں کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ رشتہ داریوں، کاروباری مفادات اور اپنے گھروں کو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد پر ترجیح دینے والے اللہ کے عذاب کے لئے تیار ہو جائیں۔ ایسے فاسقوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتے۔ اس کے بعد غزوۂ حنین اور اس میں کثرت تعداد کے باوجود مسلمانوں کے نقصان اٹھانے اور پھر اللہ کی مدد سے کامیاب ہونے کا تذکرہ ہے۔ آئندہ کے لئے کافروں کے حرم شریف میں داخلے پر پابندی کا قانون بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ توحید و آخرت پر ایمان نہ لانے والے اور اسلامی نظام حیات سے پہلو تہی کرنے والے اسلامی معاشرہ کے افراد بن کر نہیں رہ سکتے۔ انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ جزیہ ادا کر کے اپنے رہنے کے لئے جواز پیدا کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرنے کے عقیدہ کی تردید ہے اور بتایا گیا ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو اتنا تقدس نہیں دیا جا سکتا کہ اللہ کی بجائے اسی کو معبود بنا لیا جائے اور عبادت سے مراد احکام کی پابندی ہے۔ مذہبی رہنماؤں کے احکام اسی وقت تک قابل عمل ہیں جب تک وہ قوم کو آسمانی وحی کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتے رہیں۔ اس کے بعد مال و دولت اور سونے چاندی میں اللہ کے احکام کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ سونا چاندی جہنم میں تپا کر انہیں داغا جائے گا۔ پھر مہینوں اور تاریخوں میں تبدیلی کر کے حرام کو حلال کرنے کی کافرانہ حرکت پر تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر جہاد کے لئے نہ نکلنے پر وعید بیان کی ہے اور دردناک عذاب کا پیغام دیا گیا ہے اور اس اٹل حقیقت کا اعلان ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہے گا اور کفر کو اللہ نے مغلوب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تبوک کے پر مشقت اور طویل جہادی سفر میں شریک نہ ہونے والے منافقین نے امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی مجاہدین پر مختلف اعتراض اٹھائے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ خوبصورت رومی عورتوں کی وجہ سے ہم بد نظری کے فتنہ میں پڑسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاد سے انکار بڑا فتنہ ہے، جس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ کوئی جہاد کے لئے چندہ اور صدقات جمع کرنے پر اعتراض کرتا، کوئی حضور علیہ السلام کی گستاخی کرتے ہوئے کہتا کہ یہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چندہ پر اعتراض کرنے والوں کو اگر اس میں سے ’’مال‘‘ مل جائے تو ان کا سارا اعتراض ختم ہو جائے گا اور سنی سنائی باتوں کے حوالہ سے فرمایا کہ وہ اللہ سے سنی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور ایمان و رحمت کے پھیلانے اور بدی کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کے لئے باغات اور نہریں ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ کفار و منافقین کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا دو ٹوک اعلان کیا گیا ہے۔ ایک شخص نے حضور علیہ السلام سے دعاء کرائی کہ اللہ مجھے مال و دولت دے تو میں فی سبیل اللہ خرچ کروں گا۔ جب اس کے پاس بہت مال و دولت ہو گیا تو اس نے زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے صدقہ و خیرات کا عہد و پیمان کرتے ہیں اور جب اللہ انہیں عطاء کر دے تو وہ بخل کرتے ہیں اور صدقہ سے انکار کر دیتے ہیں۔ منافقین کو ہمیشہ کے لئے مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لئے معافی کی درخواست کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں معاف نہیں کریں گے۔ گرمی اور راستہ کی مشقت کا بہانہ بنا کر یہ لوگ جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہ کی مخالفت کر کے خوش ہو رہے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ جہنم کی گرمی بہت سخت ہے اور جہاد پر نہ جانے کی وجہ سے تمہیں جہنم میں جانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو منافقین کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر جا کر دعاء مغفرت کرنے سے منع کر دیا، نبی پیغمبرانہ تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کے لئے نرم دل ہیں اور نبی کے گستاخوں اور دل آزاری کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب تیار ہے۔ ایمان والے کبھی جہاد سے نہیں بھاگتے۔ جہاد سے راہِ فرار تو بے ایمان اور کافر ہی اختیار کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی جہاد کے لئے نکلنے کو تیار ہیں۔ تیاری کا مطلب تو یہ ہے کہ تربیت اور اسلحہ کے ساتھ تیار ہوں (جبکہ ان لوگوں نے ایسی کوئی تیاری نہیں کی)۔ ان منافقین کو بد عملی اور دوغلی پالیسی کے پیش نظر آئندہ بھی جہاد کے سفر میں شریک نہیں کیا جائے گا۔
آپ نے انہیں جہاد سے پیچھے رہ جانے پر معافی دے دی ہم اس بات پر آپ کو معاف کر رہے ہیں ورنہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تاکہ مخلص ایمان والے اور منافق سامنے آ جاتے۔ پھر زکوٰۃ و صدقات کے مستحقین کی آٹھ اقسام کو بیان کیا ہے کہ فقراء، مساکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل، مؤلفۃ القلوب، غلاموں کو آزاد کرانے، قرض دار، مسافر اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پھر منافقین کے متعلق بتایا کہ برائی کی نشر و اشاعت اور نیکی کے راستہ میں رکاوٹ ہیں ان کے لئے جہنم کی سزا ہے جبکہ مؤمنین ایک دوسرے کے دوست، نیکی پھیلانے والے ہیں جبکہ منافقین نے جہاد کے مقابلہ میں گھروں میں رہنے کو ترجیح دے کر نسوانیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ اگر کوئی شرعی معذور، غربت و مسکنت کا شکار جہاد سے پیچھے رہ گیا تو کوئی حرج نہیں ہے کچھ لوگ سواری طلب کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، آپ کے پاس سواری کا انتظام نہ پا کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ وہ سواری نہ ہونے کی وجہ سے جہاد کے عظیم الشان عمل سے محروم ہو جائیں گے۔ اللہ نے ان کی تعریف کی اور صاحبِ حیثیت کے سفر خرچ کی گنجائش رکھنے کے باوجود جہاد کے لئے نہ جانے پر مذمت کی گئی ہے۔
11 – یَعْتَذِرُونَ
اس پارہ کی ابتداء میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اپنے نفاق کی وجہ سے تبوک کے سفر جہاد میں حضور علیہ السلام کے ساتھ شریک نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ عذر بیان کریں گے اور قسمیں کھا کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ ان کی بات کا اعتبار نہ کریں۔ یہ لوگ چاہیں گے کہ آپ صرفِ نظر کر کے ان سے راضی ہو جائیں۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، اگر آپ ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ایسے نافرمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ دیہاتیوں میں بھی دونوں قسم کے لوگ ہیں۔ کفر و نفاق میں پختہ کار اور اللہ کے نام پر خرچ کرنے کو جرمانہ سمجھنے اور مسلمانوں پر تکلیف و مشکلات کا انتظار کرنے والے اور توحید و قیامت پر ایمان کے ساتھ اللہ کے نام پر پیسہ لگا کر خوش ہونے والے۔ یہ اللہ کے قرب اور رحمت کے مستحق ہیں۔ دین میں پہل کرنے والے اور نیکی میں سبقت لے جانے والے انصارو مہاجرین اور ان کے متبعین کے لئے جنت کی دائمی نعمتوں کی خوشخبری اور عظیم کامیابی کی نوید ہے۔ اور ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ نیک اعمال سر انجام دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتے ہیں۔ اس کے بعد مسجد ضرار کا تذکرہ ہے۔ قبا کے مخلص مسلمانوں نے مسجد بنا کر اللہ کی عبادت اور اعمالِ خیر کی طرح ڈالی تو کافروں نے ان کے مقابلہ میں فتنہ و فساد کے لئے ایک مرکز بنا کر اسے مسجد کا نام دیا۔ انہیں خفیہ طور پر عیسائیوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ لوگ حضور علیہ السلام کو بلا کر افتتاح کرانا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کی نگاہ میں مسجد مقدس بن جائے اور وہ در پردہ اس مسجد کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار اور فساد پھیلانے کی سازشیں کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپسی پر اس مسجد کے افتتاح کی حامی بھری جس پر اللہ نے آپ کو منع کر دیا اور اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا۔ اللہ کے نبی نے اسے مسجد ضرار (مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی مسجد) قرار دے کر بعض صحابہ کو بھیجا اور اسے آگ لگا کر جلانے اور پیوند زمین کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اسلامی معاشرہ میں فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے کوئی مسجد بھی تعمیر کی جائے تو اس کا تقدس تسلیم نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی واضح ہوا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے مذہبی رنگ میں کوشاں رہتے ہیں اور ایسی کارروائیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد قبا اور اس میں جمع ہونے والے مخلصین کی تعریف فرمائی اور ان کی ظاہری و باطنی طہارت کے جذبہ کو سراہا۔
مسلمانوں کی مجاہدانہ کارروائیوں کو اللہ کے ساتھ تجارت قرار دے کر بتایا کہ جنت کی قیمت میں اللہ نے اہل ایمان کی جانیں خرید لی ہیں۔ یہ لوگ کافروں کو قتل کرتے ہیں اور خود بھی مرتبہ شہادت پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان کی مزید خوبیاں یہ ہیں کہ یہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، اللہ کی تعریف کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع سجدہ کرنے والے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے اور اللہ کی حدود کے محافظ ہیں۔ ایسے مسلمان بشارت کے مستحق ہیں، مسلمانوں کو منع کیا کہ مشرکین کے لئے استغفار نہ کریں۔ غزوہ تبوک میں شرکت سے تین مخلص مسلمان بھی بغیر کسی عذر کے پیچھے رہ گئے تھے۔ پچاس دن تک ان کا مقاطعہ کیا گیا، ان سے بات چیت اور لین دین بند رکھا گیا پھر ان کی توبہ قبول فرما کر ان کے تذکرہ کو قرآن کریم کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت اور پیچھے رہ جانے والے مخلصین کی سچی توبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سچائی کو ہر حال میں اپنانے کی تلقین ہے اورکسی بھی حال میں نبی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی تاکید ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے دوران بھوک پیاس اور تھکن برداشت کرنے اور مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ عام حالات میں جہاد کے فرض کفایہ ہونے کا بیان ہے۔کافروں کے ساتھ مقابلہ میں کسی قسم کی سستی اور نرمی اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ قرآن کریم کی تائید کا بیان ہے کہ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور ترقی کا باعث ہے جبکہ منافقین کے نفاق اور بغض میں اضافہ کرتا ہے۔ سورت کے آخر میں حضور علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے کہ وہ عظیم الشان رسول مسلمانوں کی تکلیف سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور انہیں فائدہ پہنچانے کے خواہاں رہتے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کے اعلان کے ساتھ ہی عرش عظیم کے رب پر توکل کی تعلیم پر سورت کا اختتام ہوتا ہے۔
سورہ یونس
مکی سورت ہے۔ ایک سو نو آیتوں اور گیارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ حروف مقطعات سے آغاز ہے اور قرآن کریم کے حکیمانہ کلام ہونے کا بیان ہے اور منکرین قرآن کی ذہنیت کی نشاندہی کی ہے کہ وہ محض اس لئے اسے تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ایک انسان پر کیوں نازل ہوا۔ پھر توحید باری تعالیٰ اور آسمان و زمین میں اس کی قدرت کے مظاہر کا بیان ہے۔ اس کے بعد قیامت کا تذکرہ اور اس بات کی وضاحت کہ دنیا کا سارا نظام ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو جزا دینے اور کافروں کو کھولتے ہوئے پانی اور دردناک عذاب کی سزا دینے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ چاند اور سورج رات اور دن کی روشنی اور ماہ و سال کے حساب کے لئے بنائے گئے ہیں۔ دن رات کے آنے جانے میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ جس طرح لوگ خیر کے لئے جلدی مچاتے ہیں ایسے ہی اگر شر کو بھی اللہ تعالیٰ جلدی نازل کر دیتے تو دنیا کا سارا نظام ختم ہو جاتا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کافروں پر عذاب اتارنے میں جلدی نہیں کرتے۔ انسان کا مزاج ہے کہ جب تکلیف میں مبتلا ہو تو اٹھتے بیٹھتے اللہ کو یاد کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی تکلیف ہٹا دی جائے ویسے ہی اللہ کو بھلا دیتا ہے جیسے کسی مشکل میں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ پہلی قوموں کے گناہوں پر ان کی گرفت کی گئی پھر اللہ نے تمہیں ان کی جگہ دی تاکہ تمہارے اعمال کو دیکھ کر ان کے مطابق تمہارے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
منکرین آخرت کو جب ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ اس میں تبدیلی اور ترمیم و تنسیخ کا مطالبہ کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ یہ تبدیلی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں وحی کا پابند ہوں۔ تم دیکھ چکے ہو کہ چالیس سال کا طویل عرصہ میں نے تمہیں قرآن نہیں سنایا کیونکہ اللہ کا حکم نہیں آیا تھا۔ اب سنانے کا حکم آ گیا ہے اس لئے سنا رہا ہوں میں اپنی طرف اگر کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کرنے لگا تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے، تمہارے معبودان باطل تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، نہ ہی اللہ کے سامنے کسی قسم کی سفارش کرسکتے ہیں۔ کفر کے اندھیرے میں تمام لوگ متحد نظر آتے ہیں جیسے ہی ایمان کی روشنی آتی ہے تو اختلاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب ہم تکلیف کے بعد انہیں راحت دیتے ہیں تو یہ اپنی فطری کجروی کے باعث شرارتوں پر اتر آتے ہیں، آپ انہیں بتا دیجئے کہ ہمارے فرشتے سب کچھ لکھ رہے ہیں اور اللہ بہت جلدی تمہاری بد عملی پر سزا دے سکتے ہیں۔ بحر و بر میں اللہ کے حکم پر تمام نقل و حرکت ہوتی ہے۔ باد بانی کشتیاں ہوا کے زور پر تمہیں منزل مقصود تک لے جائیں تو تم خوش ہوتے ہو اور شرک میں مبتلا رہتے ہو اور طغیانی میں پھنس کر بادِ مخالف کی زد پر آ جائیں تو مایوس ہو کر اللہ سے مدد طلب کرنے لگتے ہو۔ جیسے ہی اللہ نجات دیتے ہیں تم پھر شرک میں مبتلا ہو جاتے ہو۔ دنیا کی فانی اور عارضی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے بارش برسے اور کھیتیاں لہلہانے لگیں اورکسان خوش ہونے لگیں اسی اثنا میں کوئی آفت آ کر اسے اس طرح تباہ کر کے رکھ دے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے ہم ایسی ہی آیات کو واضح کرتے ہیں۔ اللہ جنت کی طرف بلاتے ہیں۔ نیک و صالح لوگوں کے لئے بہترین بدلہ، ان کے چہروں پر ذلت و رسوائی یا کدورت نہیں چھائے گی اور گناہ گاروں کو ان کے گناہ کا بدلہ ملے گا۔ ان کے چہروں پر ذلت اور سیاہی چھا رہی ہو گی۔ ہم قیامت میں ان سب کو جمع کر کے پوچھیں گے تو یہ اپنے معبودان باطل کا انکار کریں گے اور ان کے معبود انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔ وہاں ان لوگوں کو اپنے اعمال کے غلط ہونے کا پتہ چل جائے گا۔ پھر اللہ کی قدرت کے دلائل اور ہدایت و ضلالت کے اللہ کی مشیت کے تابع ہونے کا بیان ہے۔ قرآن کریم کی حفاظت کا تذکرہ ہے کہ ایسا کلام کوئی شخص اپنے طور پر گھڑ نہیں سکتا۔ اگر تم میں ہمت ہے تو ایسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو۔ اگر یہ لوگ جھٹلاتے ہیں تو ان پر جبر نہیں کیا جائے گا۔ آپ انہیں کہہ دیجئے کہ تمہارے اعمال کا بدلہ تمہیں ملے گا اور میرے اعمال کا بدلہ مجھے ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے۔ ہر قوم کے پاس اللہ کا پیغام پہنچانے والا بھیجا گیا ہے۔ اگر اللہ کا عذاب اچانک آ جائے تو پھر جلدی مچانے والے کیا کریں گے۔ ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب دائمی عذاب کا مزہ چکھ لو۔ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ سب باتیں سچی ہیں ؟ آپ کہئے میرے رب کی قسم یہ تمام برحق اور سچ ہے۔ تم اس عذاب کی ہولناکی سے بچنے کے لئے تمام دنیا کے خزانے فدیہ میں دینے کی تمنا کرو گے۔ عذاب دیکھ کر تم پر ندامت چھا جائے گی مگر اس وقت انصاف کیا جائے گا کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔
اے انسانو! تمہارے رب کی طرف سے وعظ و نصیحت کا پیغام آ گیا۔ اس میں شفا اور ہدایت و رحمت ہے۔ اللہ کے فضل و رحمت پر ایمان والوں کو خوشیاں منانی چاہئیں۔ یہ اس سے بہت بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کر رہے ہیں تم کسی حالت میں ہو کوئی بھی عمل کرو اللہ اس پر گواہ ہیں کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی آسمان و زمین کے اندر اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اللہ کے دوستوں پر کوئی اندیشہ و غم نہیں ہو گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقویٰ والے ہیں دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت ہے۔ اللہ کی بات بدلی نہیں جا سکتی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ کی قدرت کا بیان اور اولاد کے باطل عقیدہ کی تردید ہے۔ پھر نوح علیہ السلام کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کہ انہوں نے اپنی قوم کے متکبر سرداروں کے مقابلہ میں اللہ پر توکل کیا اور اللہ کا پیغام سنانے کے عوض کوئی تنخواہ طلب نہیں کی، اللہ نے انہیں اپنے پیروکاروں کے ساتھ کشتی میں بچا لیا اور مخالفین کو طوفان میں غرق کر کے عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا۔پھر موسیٰ و ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجنے کا تذکرہ۔ انہوں نے متکبرانہ انداز میں جھٹلایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے معجزات دکھائے۔ انہوں نے اسے جادو قرار دے کر مقابلے کے لئے اس دور کے بڑے جادوگر بلا لئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا جادو میرے معجزہ کے مقابلے میں ناکام ہو کر رہے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بددعا کی جس پر اللہ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ فرعون نے غرق ہوتے وقت کلمہ پڑھا۔ اللہ نے اسے رد کر دیا کہ زندگی بھر گناہ اور فساد مچا کر اب مرتے وقت ایمان لاتے ہو۔ حالت نزع کا ایمان قبول نہیں۔ البتہ انسایت کی عبرت کے لئے فرعون کے جسد خاکی کو باقی رکھ کر دنیا کو بتایا گیا کہ اتنا بڑا مقتدر اور متکبر بادشاہ کس طرح بے بس اور ذلت کی موت کا شکار ہوا۔ پھر یونس علیہ السلام اور انکی قوم کا تذکرہ کہ ان کی نافرمانیوں پر عذاب آ گیا اور آیا ہوا عذاب کبھی نہیں ٹلتا مگر ان کی الحاح و زاری پر اللہ نے عذاب ٹال دیا۔ کسی کو زبردستی اللہ ہدایت نہیں دیتے انسان کی چاہت اور اپنے اندر تبدیلی کا فیصلہ ضروری ہے۔ کفرو شرک سے برأت کا اظہار اور دین حنیف پر غیر متزلزل اعتماد کا اعلان کرنے کی تلقین ہے اور بتایا گیا کہ نفع نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہدایت کا پیغام انسانیت کے لئے آ چکا ہے جو اسے اختیار کرے گا اپنا نفع کرے گا اور جو اس سے منکر ہو گا اپنا نقصان کرے گا۔وحی کی اتباع اور ثابت قدمی کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے۔
سورہ ہود
مکی سورت ہے، اس میں ایک سو تئیس آیتیں اور دس رکوع ہیں۔ اس سورت میں رسالت کا موضوع مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے انبیاء کے علاوہ قوم عاد، ان میں مبعوث کئے گئے نبی حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ ہے اس لئے سورت کا نام ’’ہود‘‘ رکھا گیا۔ ابتداء میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے کہ یہ مفصل اور پر حکمت کتاب ہے پھر توحید باری تعالیٰ کا بیان اور توبہ و استغفار کی تلقین کے ساتھ آخرت کے یوم احتساب کا تذکرہ اور محاسبہ کے عمل کی یاددہانی ہے اور اللہ کے علم کی وسعت و شمول کا بیان کہ وہ خفیہ و علانیہ ہر چیز کو جانتا ہے اور سینوں کے تمام بھید اس کے علم میں ہیں۔
12 – وَمَا مِن دَآبَّۃٍ
ابتداء میں تمام مخلوقات کی معیشت کا مسئلہ حل کرتے ہوئے اعلان کیا زمین پر چلنے والے تمام جانوروں کی روزی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عارضی اورمستقل قیام گاہ کو جانتا ہے۔ چھ دن میں آسمان و زمین پیدا کر کے انسان کو دنیا میں بھیجا تاکہ بہتر سے بہتر عمل کرنے والے کو منتخب کیا جا سکے۔ اللہ کے یہاں مقدار کی کثرت کی بجائے ’’معیار کا حسن‘‘ مطلوب ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ انسان زندہ کئے جائیں گے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ مردوں کو زندہ کرنا تو جادو کے عمل سے ہی ممکن ہو سکتا ہے اور ہم اگر ان کی نافرمانیوں پر مصلحت کے پیش نظر عذاب نہیں اتارتے تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے عذاب موعود کو کس نے روک لیا ہے وہ آتا کیوں نہیں ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ عذاب کی جلدی نہ مچائیں جس دن ہم نے عذاب اتار دیا تو تم اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھو گے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ اسے خوشحالی کے بعد اگر کچھ تنگی آ جائے تو مایوس ہو جاتا ہے اور اگر تکلیف کے بعد راحت مل جائے تو اپنے گناہوں کو بھول کر اترانے اور تکبر کرنے لگتا ہے۔ اچھے انسان وہ ہیں جو دین پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعمال صالحہ پر کاربند رہیں۔ ان کافروں کے بیجا مطالبات سے آپ پریشان نہ ہوں اور محض اس لئے وحی الٰہی سے دستبردار نہ ہوں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر خزانے کیوں نہیں نازل ہوتے یا اس کی حفاظت کے لئے فرشتے اس کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ ایسے مطالبات کا شریعت کی پابندی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد علیہ السلام نے یہ کلام خود بنایا ہے، اگر یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو یہ بھی چند سورتیں بنا کر دکھا دیں۔ قرآن کریم جیسی سورتیں بنانے سے ان کا عاجز آ جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کا نازل کردہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ انسانوں کا ایسا کلام بنانے سے عاجز آ جانا اس کی حقانیت کا داخلی ثبوت ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مثال دے کر بتایا کہ قرآن کریم کو تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے کر رہا ہے، اس لئے وہ بینا ہے اور نہ تسلیم کرنے والا اپنی بصارت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ نابینا ہے اور قرآن پر ایمان لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے کرتا ہے اس لئے وہ سننے والا ہے اور ایمان نہ لانے والا اپنی سماعت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس لئے وہ بہرا ہے اور یہ لوگ آپس میں کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا سبق آموز واقعہ بیان ہوا ہے۔ نوح علیہ السلام نے قوم کو توحید و رسالت کی بات سمجھائی اور نہ ماننے کی صورت میں انہیں درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قوم میں اونچی سوسائٹی کے لوگ، سردار اور ارباب اقتدار کہنے لگے کہ آپ ہمارے جیسے عام انسان ہیں اور آپ کا ساتھ دینے والے معاشرہ کے نچلے طبقے کے لوگ ہیں، دنیا کے اعتبار سے آپ کے اندر وہ کون سی خوبی ہے جس کی بنیاد پر ہم آپ پر ایمان لائیں۔ ہمیں تو آپ جھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہدایت کے لئے مفادات اور مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دلائل اور رحمت خداوندی درکار ہوتی ہے اور یہ نعمت ہمیں حاصل ہے۔ پھر داعی الی اللہ کے لئے کچھ ضوابط بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین کے نام پر مالی مفادات کا طلبگار نہیں ہوں اور دین میں سب غریب و امیر برابر ہیں، لہٰذا میں غریبوں کو محض غربت کی بنیاد پر اپنے آپ سے جدا نہیں کرسکتا۔ میں نہ تو مال و دولت کے خزانوں کا دعوے دار ہوں نہ ہی غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں نہ ہی فرشتہ ہونے کا مدعی ہوں اور غریب مسلمان جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو صرف تمہیں خوش کرنے کے لئے میں یہ بھی نہیں کہتا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کوئی اجرو ثواب نہیں دیں گے، اللہ کا معاملہ تو نیت اور عمل کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ سردار جو اقتدار اور مال کے نشہ میں بدمست ہو رہے تھے اور اپنی طاقت اور پیسہ کے زور پر انہوں نے پورا معاشرہ یرغمال بنایا ہوا تھا، ہٹ دھرمی اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو بتا دیا کہ چند مخلص ایمان والوں کے علاوہ باقی قوم ضلالت و گمراہی کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہو چکی ہے لہٰذا ان پر عذاب آ کر رہے گا آپ کشتی بنانا شروع کر دیں اور ان لوگوں کی کسی قسم کی سفارش نہ کریں۔ نوح علیہ السلام کشتی بناتے رہے اور قوم کے گمراہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ نافرمانوں کو غرق کرنے کا فیصلہ فرما چکے تھے لہٰذا حکم دیا کہ ہر جانور کا ایک جوڑا اور تمام اہل ایمان کو کشتی میں سوار کر لو۔ آسمان سے پانی برسنے لگا اور زمین سے پانی ابلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے سفینۂ نوح سیلاب کے پانی میں پہاڑ کی مانند تیرتی ہوئی نظر آنے لگی۔ کشتی کے سواروں کے علاوہ باقی سب غرق ہو گئے، نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا بھی نہ بچ سکا۔ ایمان سے محرومی کی وجہ سے باپ کی نبوت بھی اس کے کسی کام نہ آ سکی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ اسلامی معاشرہ کے اجزائے ترکیبی قوم، وطن یا نسبی رشتہ داری نہیں بلکہ ایمان اور اعمال صالحہ ہیں، ایک نبی امی کا اس تاریخی واقعہ کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نبی برحق ہیں لہٰذا ایمان والوں کو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بہتر انجام متقیوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد حضرت ہود علیہ السلام کا واقعہ ہے جنہوں نے اپنے دور کی ’’سپر پاور‘‘ قومِ عاد سے ٹکر لی تھی۔ یہ قوم ڈیل ڈول اور جسمانی طاقت میں بہت زیادہ تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ دنیا میں ہم سے طاقت ور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں سوچنا چاہئے کہ جس اللہ نے انہیں بنایا ہے وہ یقیناً ان سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہود علیہ السلام نے قوم کو توحید کا پیغام سنایا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے معافی مانگنے کی ترغیب دی اور بتایا کہ تم اگر توبہ و استغفار کر لو گے تو اللہ تمہیں معاشی اعتبار سے خود کفیل کر دے گا اور بارش برسا کر تمہاری کھیتیوں کو سیراب کر دے گا اور تمہاری طاقت و قوت میں مزید اضافہ کر دے گا، قوم نے ایمان لانے کی بجائے مذاق اڑانا شروع کر دیا، کہنے لگے، ہم تمہاری باتوں کو مان کر اپنے بتوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے بتوں نے تم پر اثر انداز ہو کر تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے تبھی تم اس قسم کی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کی باتوں پر مشتعل ہونے کی بجائے انہیں بتا دیا کہ وہ بھی اللہ پر ایمان سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اللہ کی طاقت و قوت کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر بھروسہ اور توکل میں اضافہ کر دیں گے اور پھر قوم کو اللہ کے حکم سے یہ وعید بھی سنادی کہ اگر تم باز نہ آئے تو میرا رب تمہیں ہلاک کر کے تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اس سرزمین کا مالک بنا دے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ہماری رحمت کا مظہر تھا کہ ہم نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچا لیا۔ قوم کی ہٹ دھرمی اور آیات خداوندی کا انکار اور اللہ کے فرستادہ رسول کی نافرمانی نے انہیں تباہ و ہلاک کر کے رکھ دیا۔ یہ ضدی اور عناد پرست قومِ عاد تھی جن پر عذاب آیا اور دنیا و آخرت میں لعنت کے مستحق قرار پائے۔ یہ سب قومِ عاد کے کفر کا نتیجہ تھا۔ حضرت ہود کی قوم ’’عاد‘‘ اللہ کی رحمت سے دور قرار دے دی گئی۔ اس کے بعد قوم ثمود کا تذکرہ ہے کہ صالح علیہ السلام نے انہیں پیغامِ توحید دیا اور انہیں غیر اللہ کی عبادت سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ انہیں بتایا کہ تمہیں اللہ نے ہی پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا اس اللہ کے سامنے توبہ و استغفار کر لو مگر وہ لوگ باز نہ آئے۔ بلکہ کہنے لگے کہ صالح! ہمیں تو آپ سے بڑی توقعات تھیں مگر آپ نے تو ہمارے آباء و اجداد کی ہی مخالفت شروع کر دی اور ہمیں تو آپ کی نبوت میں شک ہے۔ ہم آپ کی نبوت کا اقرار صرف اس صورت میں کریں گے جب آپ سامنے والی پہاڑی سے اونٹنی نکالیں جو فوراً ہی بچہ دیدے۔ حضرت صالح نے فرمایا: میری قوم میں تو دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت دے رہا ہوں اور تم بیجا مطالبات کر رہے ہو میں تمہارے کہنے سے اللہ کی رحمت کو نہیں چھوڑوں گا ورنہ میری مدد کون کرے گا۔ تمہارے مطالبہ کے مطابق یہ رہی اونٹنی۔ اب تم اسے اللہ کی نشانی سمجھ کر حق کو تسلیم کر لو اور اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچاؤ ورنہ تم پر عذاب خداوندی بہت جلد آ جائے گا۔ ان لوگوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا جس پر انہیں تین دن کی مہلت دے کر ذلت آمیز عذاب کا نشانہ بنا دیا گیا۔ جبریل علیہ السلام نے زور دار چیخ ماری جس کی دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ اوندھے منہ گر کر ایسے ختم ہوئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا۔ جب ہمارا عذاب آیا تو ہم نے حضرت صالح اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ اس دن کی رسوائی سے بچا لیا۔
اس کے بعد ابراہیم اور لوط علیہما لسلام کا تذکرہ ہے کہ ہمارے فرشتے قاصد بن کر انسانی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مہمانی کے طور پر بچھڑا ذبح کر کے بھونا اور انہیں کھانے کی دعوت دی۔ مگر انہوں نے کھانے میں کسی رغبت کا مظاہرہ نہیں کیا تو ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ لوگ کہیں دشمنی کی وجہ سے کھانے سے گریز نہ کر رہے ہوں، لہٰذا ان سے خوف زدہ ہو گئے تو انہوں نے بتا دیا کہ ہمارے نہ کھانے کی وجہ دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم فرشتے ہیں اس لئے نہیں کھا رہے۔ ہم تو قوم لوط کے لئے عذاب کے احکام لے کر آئے ہیں۔ہم راستہ میں آپ کو اولاد کی خوشخبری دینے آئے ہیں۔ اللہ تمہیں اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی پوتا عطا فرمائیں گے۔ ان کی بیوی قریب ہی کھڑی ہوئی یہ گفتگو سن رہی تھیں۔ عورتوں کے انداز گفتگو میں اپنے چہرہ پر دو ہتڑ مارتی ہوئی کہنے لگیں کہ میں بانجھ اور میرا شوہر بڑھاپے کی آخری عمر میں ہے۔ ہمارے ہاں کیسے اولاد ہو سکتی ہے۔ فرشتوں نے کہا اس میں تعجب اور حیرانی کی کون سی بات ہے۔ اللہ تمہارے گھرانے پر اپنی رحمتیں اور برکتیں اتارنا چاہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل تھے اس خوشخبری کو سن کر لوط علیہ السلام کی قوم کی سفارش کرنے لگے۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کی ہلاکت کا اٹل فیصلہ ہو چکا ہے، آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔ جب فرشتے لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کے روپ میں پہنچے تو وہ لوگ ’’اِغلام بازی‘‘ کے شوق میں جمع ہو کر لوط علیہ السلام سے نووارد مہمانوں کو اپنے حوالہ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے، حضرت لوط نے انہیں بہت سمجھایا کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو مگر وہ اپنے بیجا مطالبہ پر بضد رہے تو مہمانوں نے کہا: اے لوط! آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں اور عذاب کا حکمنامہ لے کر آئے ہیں، اس لئے یہ لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔انہیں صرف ایک رات کی مہلت ہے، آپ فوراً یہاں سے نکلنے کا بندوبست کر کے چلے جائیں۔ آپ کی بیوی چونکہ اس مجرم قوم کے ساتھ شریک ہے لہٰذا وہ بھی نہیں بچ سکے گی۔ جب ہمارا عذاب آیا تو انہیں الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا اور ان پر نشان زدہ پتھروں کی بارش کر کے انہیں تباہ کر دیا گیا۔ پھر قوم مدین کی حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ کٹ حجتی کا تذکرہ کر کے ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد موسیٰ و فرعون کے واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ، پھر جنت و جہنم کا ذکر اور آخر میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے کچھ سنہری اصول (۱)استقامت کا مظاہرہ۔ (۲)حدود کی پابندی۔ (۳)ظالموں کی حمایت سے دست کشی۔ (۴)صبح و شام عبادت میں مشغولی۔ (۵)صبر کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین۔ اگر قوم میں اصلاح کی جدوجہد کرنے والے افراد پیدا ہو جائیں تو وہ ہلاکت سے بچ سکتی ہے۔
سورہ یوسف
مکی سورت ہے جو ایک سو گیارہ آیات اور بارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ منفرد سورت ہے جس میں صرف ایک ہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو قرآن کریم نے ’’احسن القصص‘‘ بہترین واقعہ قرار دیا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے اور اپنوں کے مظالم اور ان کے مقابلہ میں اللہ کی مدد کا منظر دکھا کر حضور علیہ السلام کو اپنی قوم کے مظالم کے مقابلہ میں نصرت خداوندی حاصل ہونے کی بشارت ہے۔ سورت کے شروع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے۔ پھر یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر ہے کہ انہوں نے گیارہ ستارے اور چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا جس کی تعبیر واضح تھی کہ ان کے گیارہ بھائی اور والدین ان کے سامنے جھکیں گے اور ان سب کے درمیان یوسف علیہ السلام کو امتیازی مقام حاصل ہو گا۔ اس خواب کے بعد بھائیوں نے حسد کرنا شروع کر دیا اور یوسف علیہ السلام کے قتل کا پروگرام بنا کر اپنے والد کو راضی کر کے جنگل میں لے گئے۔ انہیں کنویں میں پھینک کر کپڑوں کو کسی جانور کے خون سے آلودہ کر کے والد کو بتا دیا کہ ہم جنگل میں کھیلتے رہے اور بھائی کو بھیڑیا کھا گیا۔ یعقوب علیہ السلام ان کی سازش کو سمجھ گئے اور یوسف علیہ السلام کے فراق میں پریشان رہنے لگے اور دن رات روتے رہے۔ ایک تجارتی قافلہ نے کنویں سے یوسف علیہ السلام کو نکال کر مصر کے بازار میں فروخت کر دیا۔ یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی کے چرچے پھیل گئے، بادشاہ نے انہیں خرید کر اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے دیا اور اس طرح یوسف کنویں سے نکل کر شاہی محل میں رہنے لگے۔ شاہ مصر کی بیوی حسنِ یوسف پر ریجھ گئی اور انہیں ’’دعوت گناہ‘‘ دینے لگی، یوسف نے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی۔ شوہر کو معلوم ہونے پر اس عورت نے بدکاری کا الزام لگا دیا۔ اللہ نے اسی کے خاندان کے بچے سے حضرت یوسف کی بے گناہی کی شہادت دلوا کر انہیں با عزت بری کروا دیا۔ جب مصر کی عورتوں نے بادشاہ کی بیوی پر ملامت کی تو اس نے حسن یوسف کا مظاہرہ کرنے کے لئے عورتوں کی دعوت کر کے یوسف علیہ السلام کو سامنے بلوایا۔ تمام عورتیں حسن یوسف کو دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گئیں اور پھلوں کو کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ بھی کاٹ بیٹھیں اور ان کے حسن کی تعریف کر کے انہیں دعوت گناہ دینے لگیں۔ یوسف علیہ السلام نے گناہ پر قید کو ترجیح دی اور بادشاہِ وقت نے اپنی عزت بچانے کی خاطر انہیں قید کر دیا۔ یوسف علیہ السلام جیل میں بھی تبلیغ و تعلیم کے فریضہ سے غافل نہ رہے۔ دو قیدیوں نے خواب دیکھا یوسف علیہ السلام نے تعبیر دی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی۔ ایک قیدی قتل ہوا دوسرا رہا ہو کر بادشاہ کا خادم بنا بادشاہ نے خواب دیکھا، اس خادم نے یوسف علیہ السلام سے تعبیر پوچھی انہوں نے بتایا کہ سات موٹی تگڑی گایوں کو دبلی پتلی گایوں کا کھانا اور سات خشک بالیوں کا تر و تازہ بالیوں کو، مستقبل میں سات سالہ قحط کا اشارہ ہے۔ قحط کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی بیان کر دیا۔ بادشاہ نے تعبیر سے متاثر ہو کر رہائی کا فیصلہ کیا مگر یوسف علیہ السلام نبوت کے دامن کو داغدار ہونے سے بچانے کے لئے تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر انہیں بے گناہ قرار دے کر رہائی ملی اور شاہ مصر نے اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔
13 – وَمَا أُبَرِّیءُ
حکومت وقت کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمہ سے برأت ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو خود پنداری اور عجب میں مبتلا کرسکتا تھا اس لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ گناہ سے بچنے میں میرا کوئی ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ کا فضل و کرم شامل حال تھا۔ آپ کو وزارت خزانہ کی ذمہ داری سونپ دی گئی اور یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظہر تھا کہ جیل کی پستیوں سے اقتدار کی بلندیاں نصیب فرما دیں۔ کنعان سے آنے والے تاجروں میں برادران یوسف بھی شامل تھے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ ان کا بھائی وزارت خزانہ کے منصب پر فائز ہے مگر یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کو پہچان چکے تھے۔ بادشاہ کے خواب کے مطابق حضرت یوسف نے اناج کا مناسب ذخیرہ کیا ہوا تھا۔ قحط سالی شروع ہو چکی تھی اور یہ لوگ کنعان سے اناج خریدنے کے لئے آئے تھے، حضرت یوسف نے پہچاننے کے باوجود ان سے ان کے حالات معلوم کئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم بارہ بھائی ہیں ایک جنگل میں ہلاک ہو گیا تھا۔ والد اس کے صدمہ سے پریشان ہے اور اس نے چھوٹے بھائی کو اپنی تسلی اور تسکین کے لئے اپنے پاس روکا ہوا ہے اور ہم تجارت کی غرض سے آئے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے انہیں کافی خیرات دے کر واپس روانہ کیا اور آئندہ چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لانے کا وعدہ لے لیا۔ انہوں نے واپس جا کر بادشاہ کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا اور سامان کھول کر دیکھا تو ان کا مال بھی پورا موجود تھا اور ان کی ضرورت کا غلہ و سامان بھی تھا۔ انہوں نے والد صاحب کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ چھوٹے بھائی (بنیامین) کو بھی بھیج دیں تاکہ ایک مزید آدمی کا راشن بھی مل سکے۔ والد نے کہا کہ تم پہلے یوسف کے بارے میں میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا چکے ہو مگر گھریلو اخراجات کی مجبوری ہے اس لئے اللہ کی حفاظت میں اسے تمہارے ساتھ بھیجتا ہوں۔ جب برادران یوسف چھوٹے بھائی کے ہمراہ دوبارہ پہنچے تو یوسف علیہ السلام نے موقع پا کر اپنے بھائی بنیامین کو ساری صورتحال سے آگاہ کر کے اسے اپنے پاس روکنے کا حیلہ یہ کیا کہ مصر کے قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اسے غلام بنا کر اپنے پاس رکھ لیا جاتا تھا۔ شاہی کارندوں نے بنیامین کے سامان میں ایک پیمانہ چھپا کر تلاشی کے دوران برآمد کر لیا۔ برادران یوسف پریشان ہو گئے ہم پہلے ہی والد کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اب کیا جواب دیں گے۔ مجبوراً واپس جا کر یعقوب علیہ السلام کو بنیامین کے سامان سے پیمانے کی برآمدگی اور مصری قانون کے مطابق اس کی گرفتاری کی خبر دی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم بے انتہا بڑھ گیا اور یوسف کی یاد کے ساتھ بنیامین کا غم بھی شامل ہو گیا۔ برادران یوسف نے کہا کہ یوسف کب کا مر کھپ چکا اور اس کی یاد میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ والد نے کہا میرے بیٹو! مجھے یقین ہے کہ یوسف اور اس کا بھائی مجھے مل کر رہیں گے۔ میں اللہ سے مایوس نہیں اللہ سے مایوس تو کافر ہوا کرتے ہیں۔ جاؤ دونوں کو تلاش کرو اور گھر کے اخراجات کا انتظام بھی کر کے آؤ۔ قحط سالی کی شدت میں ان کے پاس تجارت کے لئے بھی کچھ نہیں بچا تھا۔ یہ لوگ پھر مصر پہنچ گئے اور شاہ مصر کے انتقال کے بعد یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے عہدہ پر فائز ہو چکے تھے۔ انہوں نے جا کر اپنی بپتا سنائی اور خیرات و غلہ کے لئے درخواست گزار ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع پر ان کی حالت زار اور والد کی پریشانی کے پیشِ نظر صورتحال واضح کرنے کے لئے انہیں یاد دلایا کہ یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کو تم کیسے بھول گئے ہو؟ ان کا ماتھا ٹھنکا اور وہ حیران ہو کر پوچھنے لگے کہ آپ یوسف ہی تو نہیں ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے بتا دیا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں دوبارہ اکٹھا کر دیا۔ یوسف علیہ السلام جو کہ مصر کے اقتدار اعلیٰ پر متمکن ہونے کے ساتھ ساتھ نبوت کے منصب اعلیٰ پر بھی فائز تھے، ایمان اور تحمل کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھائیوں کی پریشانی اور جرم کے طشت از بام ہونے پر گھبراہٹ کو بھانپ لیا اور فرمایا کہ آپ لوگوں سے کسی قسم کا انتقام نہیں لیا جائے گا۔ میں تمام زیادتیوں اور مظالم کو معاف کرتا ہوں۔ اس حلم و بردباری نے ان پر بڑا اثر کیا اور انہوں نے بھی اعتراف جرم کے ساتھ اپنے لئے عفو و درگزر کی درخواست پیش کر دی۔ بیٹے کے غم میں رو رو کر حضرت یعقوب اپنی بینائی سے محروم ہو چکے تھے۔ یوسف علیہ السلام نے معجزانہ تاثیر کی حامل اپنی قمیص روانہ کر دی کہ باپ کے چہرہ پر ڈالو گے تو ان کی بینائی واپس آ جائے گی۔ جیسے ہی قاصد قمیص لے کر مصر سے روانہ ہوا کنعان میں حضرت یعقوب نے حاضرین مجلس سے کہا کہ مجھے یوسف کی مہک آ رہی ہے۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ نے پھر یوسف کی رٹ لگا لی ہے۔ مگر اتنی دیر میں قاصد پہنچ چکا تھا اور قمیص کا کرشمہ ظاہر ہو کر ان کی بینائی مل چکی تھی۔ بیٹوں کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہونے لگا، انہوں نے والد صاحب سے معافی کی درخواست کی والد صاحب نے خود بھی معاف کر دیا اور اللہ سے بھی ان کے لئے مغفرت طلب کی اور مصر کے لئے روانہ ہو گئے۔ شہر سے باہر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا اور دربار شاہی میں پہنچتے ہی والدین اور گیارہ بھائی یوسف کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے خواب کی عملی تعبیر پالی اور تشکر آمیز جذبات سے اللہ کے حضور دست بہ دعا ہو گئے کہ اللہ تو نے مجھے نبوت و حکمرانی سے سرفراز فرمایا اور میرے جان کے دشمن بھائیوں کے دل صاف کر کے مجھے میرے ساتھ ملایا تو ہی میرا سرپرست اور ولی ہے، مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھ اور اپنے نیکو کار بندوں میں شامل رکھ۔ اس واقعہ میں بہت سے دروس و عبر موجود ہیں۔ باپ کی محبت سے بھائیوں کی عداوت اور اندھے کنویں سے شاہی محل اور وہاں سے جیل اور پھر اقتدار مصر پر فائز ہو کر والدین اور بھائیوں کے سامنے سرخروئی اس سارے منظر میں مکہ مکرمہ کے اندر حضور علیہ السلام اور اپنوں کے مظالم کا شکار آپ کے ساتھیوں کے لئے بشارت موجود تھی کہ ایک دن مشرکین مکہ بھی آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گے اور دس رمضان کو تاریخ نے ہمیشہ کے لئے منظر محفوظ کر لیا کہ کعبۃ اللہ کی دہلیز پر کھڑے ہو کر حضور علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام والا جملہ لا تثریب علیکم الیوم (آج تم پر کوئی گرفت یا انتقامی کارروائی نہیں ہو گی) کہہ کر اپنی قوم کو معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔ پھر قرآن کریم نے ’’جمہوریت‘‘ کی بنیاد ’’اکثریت و اقلیت‘‘ پر ضرب کاری لگاتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں اچھے لوگ کبھی اکثریت میں نہیں رہے جس سے یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’جمہوری‘‘ نظام سے پاکیزہ معاشرہ اور اچھی حکومت کبھی بھی تشکیل نہیں پا سکتی۔ نبوت کا راستہ دلائل کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، نصرت خداوندی تب آتی ہے جب اللہ کے علاوہ تمام سہاروں سے مسلمان برأت کا اظہار کر دے اور ہر طرف سے مایوس ہو کر ایک اللہ سے اپنا رشتہ استوار کر لے۔ قرآن کریم قصے کہانیاں سنا کر جی نہیں بہلاتا بلکہ تاریخی واقعات سے کارکنوں کی تربیت کرتا ہے اور مسلمانوں کو اس سے ہدایت و رحمت کی دولت میسر آتی ہے۔
سورہ الرعد
مدنی سورت ہے۔ چھیالیس آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔ مدنی سورت ہونے کے باوجود اس میں قانون سازی کی بجائے عقیدۂ توحید و آخرت پر بحث کی گئی ہے۔ پہلی آیت میں حقانیت قرآن کو بیان کیا اور توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد پیش فرمائے۔ منکرین کو قیامت کے دن طوق اور بیڑیاں ڈال کر جہنم رسید کر دیا جائے گا۔ نشانیوں کا مطالبہ کرنے والوں کو بتا دو کہ میں تو ڈرانے اور انسانیت کو پیغامِ ہدایت سنانے والا ہوں، پھر اللہ کے علم و قدرت کا مزید بیان ہے۔ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ اسے اللہ ہی جانتے ہیں۔ جدید طب زیادہ سے زیادہ بچہ کی جنس (Sex) اور صحت کے بارے میں الٹراساؤنڈ کی مدد سے اندازہ لگا سکتی ہے، لیکن نیکی بدی، غربت و امارت، علم و جہالت اور زندگی کے ماہ و سال ان تمام باتوں کا علم بچہ کے بارے میں اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ انسانی حفاظت کے لئے فرشتوں کے ذریعہ اللہ نے سیکیورٹی نظام بنایا ہوا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ کہ جب تک کسی قوم کی عملی زندگی نہیں بدلتی اللہ اس کی حالت کو نہیں بدلتے۔ بارش سے بھرے ہوئے بادل، بجلی کی چمک اور کڑک اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں۔ فرشتے بھی خوف اور ڈر کے ساتھ اللہ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔
صحیح معنی میں دعا تو اللہ ہی سے مانگی جا سکتی ہے۔ غیر اللہ سے مانگنے والوں کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی پیاسا دور سے ہاتھ پھیلا کر پانی اپنے منہ تک پہنچانے کی ناکام کوشش کرے۔ پھر حق و باطل کی دو مثالیں : آسمان سے بارش برسی جس نے سیلاب کی شکل اختیار کر لی، غیر مفید جھاگ اور کوڑا کباڑ اوپر ہوتا ہے اور مفید پانی نیچے ہوتا ہے۔ آگ میں زیور پگھلایا تو غیر مفید کھوٹ اوپر آ جاتی ہے اور مفید سونا چاندی نیچے رہ جاتا ہے، ایسے ہی حق و باطل کے مقابلہ میں باطل کے اوپر آ جانے سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ حق کے ماننے والے اور منکرین کی مثال ایسی ہے جیسے آنکھوں والا اور اندھا۔ عقل والے ہی درس عبرت حاصل کیا کرتے ہیں پھر مالی اور جسمانی نیکی اور برائی کرنے والوں کا تذکرہ کر کے جنت و جہنم میں ان کے ٹھکانے کو بیان کیا۔ رزق میں کمی زیادتی اللہ ہی کرتے ہیں۔ دنیاوی نعمتیں تو عارضی فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ کے تذکرہ سے ہی سکون ملتا ہے۔ ان کے لئے مبارک اور بہترین ٹھکانہ ہے۔ لوگوں کی ہدایت کو کرامات اور معجزات کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا بلکہ ہر قوم کی ہدایت کے لئے انبیاء و رسل نے مستقل محنت کی ہے۔ اگر کسی کلام کی تاثیر سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا کر چلایا جا سکے، زمین کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکے یا مردوں کو زندہ کر کے ان سے گفتگو کی جا سکے تو وہ کلام یہ قرآن ہی ہو سکتا ہے۔ نشانیاں طلب کرنے والوں کے لئے اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پہلے انبیاء و رسل کا مذاق اڑانے والوں کو مہلت دے کر عبرتناک طریقہ سے پکڑا گیا لہٰذا آپ کا مذاق اڑانے والے بھی بچ نہیں سکیں گے۔ نبی کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں ہوتی وہ تو عام انسانی زندگی گزارنے والے افراد ہوتے ہیں۔ بیوی بچے اور بشری تقاضے ان کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی دکھانے کا انہیں اختیار نہیں ہوتا۔ انہیں غور کرنا چاہئے کہ جب سے نزول قرآن شروع ہوا ہے اہل ایمان پھیلتے جا رہے ہیں اور کفر کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے اور یہ تنگ جزیرہ میں محصور ہوتے جا رہے ہیں۔ اللہ کے فیصلہ کے بعد کسی دوسرے کا فیصلہ نہیں چل سکتا۔ اے میرے نبی! ان کافروں کی طرف سے آپ کی رسالت کا انکار کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اور اہل علم بھی آپ کی رسالت کی گواہی دینے کے لئے کافی ہیں۔
سورہ ابراہیم
مکی سورت ہے۔ باون آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ ہے جبکہ جنت اور جہنم کا تذکرہ اور ظالموں کی عبرتناک گرفت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ انبیاء کے اختصار کے ساتھ تذکرہ ہے مگر ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کی اپنے معصوم بچے اور بیوی کو لق و دق صحراء میں چھوڑنے کا خصوصیت کے ساتھ تفصیل سے تذکرہ ہے۔ ابتداء سورت میں نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان اس سے کفر کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں آ جاتا ہے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ ہر قوم میں اس کی زبان میں سمجھانے والے نبی ہم نے مبعوث کئے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل پر نعمتیں اتاریں فرعون کے بدترین تعذیب کے طریقوں سے نجات دی۔ شکر کرنے سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ناشکری سے نعمت چھن جاتی ہے۔ قوم نوح، عاد، ثمود کا مختصر تذکرہ اور نبیوں کے خلاف ان کے گھسے پٹے اعتراض کا بیان ہے کہ تم ہمارے جیسے انسان ہو نبی کیسے ہو سکتے ہو؟ ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے طریقہ سے ہٹانا چاہتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے جواب میں فرمایا کہ ظالم اور معاند و متکبر ہلاک ہوں گے اور ان کی جگہ انبیاء کے متبعین زمین کے اقتدار کے وارث بنا دئے جائیں گے۔ کافروں کے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے جب تیز ہوا چلتی ہے تو اسے اڑا کر لے جاتی ہے۔ قیامت کے دن جب مجرمین کو آپس میں بات چیت کا موقع ملے گا تو وہ ایک دوسرے پر اعتراضات کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے ہم سے گناہ کروائے اب عذاب کو بھی ہم سے ہٹواؤ۔ تو وہ کہیں گے کہ ہم تو خود عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں تمہیں کس طرح بچا سکتے ہیں۔ پھر جہنمی شیطان کی طرف متوجہ ہو کر اسے ملامت کریں گے، وہ کہے گا کہ مجھے کیوں ملامت کرتے ہو میں نے تو ذرا سا اشارہ کیا تھا تم خود ہی ا س پر چل کر گناہوں کے مرتکب بنے ہو لہٰذا نہ تو میں اپنے آپ سے عذاب کو ہٹا سکتا ہوں اور نہ ہی تم سے ہٹا سکتا ہوں۔ پھر ایمان اور کفر کی مثال دی کہ کلمۂ طیبہ کی بدولت ایمان کا مضبوط اور تناور درخت بن جاتا ہے جسے آندھی اور طوفان بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے جبکہ کلمۂ خبیثہ کے نتیجہ میں کفر کی کمزور جھاڑیاں اگتی ہیں جو معمولی اشارہ سے زمین سے اکھڑ جاتی ہیں۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی اور دعاء کا تذکرہ ہے کہ معصوم بچے اور بیوی کو اللہ کے حکم سے جنگل بیابان میں سکونت پذیر کر دیا اور اللہ سے دعاء مانگی، لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما۔ پھلوں اور سبزیوں اور ہر قسم کی ضروریات زندگی میں برکت عطاء فرما۔ مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا اور ہمارے ساتھ تمام اہل ایمان کی مغفرت فرما۔ اس کے بعد ظالموں کی گرفت کے آسمانی نظام کا تذکرہ ہے کہ ظالموں کو آزادی کے ساتھ دندناتے ہوئے پھرتا دیکھ کر دھوکا میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اور جب اچانک ان کی گرفت کے لئے نظام الٰہی متحرک ہو گا تو انہیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔
14 – رُبَمَا
سورہ الحجر
مکی سورت ہے۔ اس میں ننانوے آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ اس سورت کی دوسری آیت سے چودھواں پارہ شروع ہو رہا ہے۔ اس مختصر سورت میں عقیدۂ اسلام کے تینوں بنیادی مضامین توحید و رسالت اور قیامت پر منفرد انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ پہلی آیت میں قرآن کریم کے عظیم اور واضح کتاب ہونے کا بیان ہے۔ چودھویں پارے کی ابتداء میں کہا گیا ہے کہ کافر اگرچہ آج مسلمان ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں مگر ایک وقت آنے والا ہے جب یہ تمنا کریں گے کہ کاش! یہ لوگ مسلمان ہوتے۔ لہٰذا آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں یہ کھاتے پیتے رہیں اور دنیا کے عارضی مفادات میں مگن رہیں اور امیدوں اور آرزوؤں کے دھوکے میں پڑے رہیں عنقریب انہیں دنیا کی بے ثباتی کا پتہ چل جائے گا۔ یہ لوگ حضور علیہ السلام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس شخص پر قرآن اتارا گیا ہے وہ تو مجنون اور دیوانہ ہے۔ اگر یہ سچا رسول ہوتا تو ہر وقت فرشتوں کو اپنے ساتھ رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم فرشتوں کو بھیجیں گے تو عذاب دے کر بھیجیں گے پھر ان لوگوں کو کسی قسم کی مہلت بھی نہیں مل سکے گی۔ اس قرآن کریم کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ حضور علیہ السلام کی تسلی کے لئے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ کافروں کی طرف سے مذاق اڑانے اور نشانیوں کا مطالبہ کرنے پر آپ دل گرفتہ نہ ہوں۔ رسالت کی ’’وادی پُر خار‘‘ ایسی ہی ہے کہ پہلے بھی جتنے انبیاء آتے رہے ان کے ساتھ بھی استہزاء و تمسخر کیا گیا۔ مجرمین کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ یہ ہٹ دھرم ہیں نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر ہم آسمان کا دروازہ کھول کر انہیں اوپر چڑھنے کا موقع فراہم کر دیں اور یہ لوگ ہماری نشانیوں اور مظاہر قدرت کا بچشم خود مشاہدہ بھی کر لیں تو یہ کہنے لگیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم پر محمد علیہ السلام کا جادو چل گیا ہے۔ پھر قدرت خداوندی اور توحید باری تعالیٰ کے کائناتی شواہد پیش کرنے شروع کر دیئے۔ ہم نے آسمان کو دیکھنے والوں کے لئے خوبصورت بنایا ہے اور اس میں چوکیاں قائم کر کے شیطانوں سے محفوظ بنا دیا ہے اور اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ’’شہاب مبین‘‘ اس کا پیچھا کرتا ہے، زمین کو ہم نے پھیلا کر اس میں پہاڑ گاڑ دیئے ہیں تاکہ یہ ڈانواں ڈول ہونے سے بچی رہے اور اس میں مناسب چیزیں ہم نے اگا دی ہیں۔ تمہاری معیشت کا سامان ہم نے اس زمین کے اندر ہی رکھا ہے۔ ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں دنیا میں ہم ایک مقررہ اندازہ کے مطابق ہی اتارتے ہیں۔ بار آور کرنے والی ہوائیں ہم ہی چلاتے ہیں جس کے نتیجہ میں آسمان سے پانی برسا کر تمہیں سیراب کرتے ہیں۔ ہم نے تمہارے لئے پانی ذخیرہ کر رکھا ہے تم اسے محفوظ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہو۔ زندگی اور موت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم پہلوں اور پچھلوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور قیامت میں ان سب کو جمع کر لیں گے۔ پھر تخلیق جن و انس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: انسان کو بدبو دار چکنی مٹی سے پیدا کیا جو خشک ہونے کے بعد ٹھن ٹھن بجنے لگتی ہے اور جنات کو تپتی ہوئی آگ سے تخلیق کیا۔ انسان کو پیدا کر کے مسجود ملائک بنایا۔ شیطان نے سجدہ سے انکار کیا تو اسے راندۂ درگاہ کر دیا اور قیامت تک کے لئے لعنت کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا۔ شیطان نے قیامت تک کے لئے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم کھا لی مگر ہم نے بتا دیا کہ مفاد پرست ہی تمہاری گمراہی کا شکار بنیں گے۔ مخلصین پر تمہارا زور نہیں چلے گا۔ وہ لوگ ہماری عالی شان صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں گے۔ پھر جنت و جہنم اور رحمت خداوندی کے تذکرہ کے بعد حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی بدکردار قوم اور اس کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا اور اس کے بعد قوم ثمود اور ان کی تباہ شدہ بستی ’’حجِر‘‘ کو درس عبرت کے لئے ذکر فرمایا۔ پھر عظمت قرآن اور خاص طور پر بار بار دہرائی جانے والی سورہ فاتحہ کی سات آیتوں کا ذکر کیا۔ کافروں کے سامانِ تعیش کو للچائی ہوئی نظروں کے ساتھ نہ دیکھنے کی تلقین اور اپنے پیروکار مؤمنین کے لئے نرم رویہ اختیار کرنے کا حکم دے کر فرمایا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر ڈٹے رہئے اور کافروں کے استہزاء کی پرواہ نہ کیجئے ان کے لئے ہم ہی کافی ہیں انہیں عنقریب پتہ چل جائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کی دل آزاری ہوتی ہے مگر آپ صبر سے کام لیتے ہوئے تسبیح و تحمید میں مشغول رہیں اور مرتے دم تک سجدہ ریز ہو کر اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیں۔
سورہ النحل
مکی سورت ہے، اس میں ایک سو اٹھائیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔ نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں نحل کے محیر العقول طریقہ پر چھتہ بنانے اور شہد پیدا کرنے کی صلاحیت کا تذکرہ ہے۔ اس لئے پوری سورت کو اس کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ مشرکین کی طرف سے قیامت کے مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت آیا ہی چاہتی ہے۔ تمہیں جلدی کس بات کی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اپنا پیغام دے کر بھیج رہے ہیں کہ لوگوں کو ڈرائیں کہ میں ہی معبود ہوں میرے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش نہ کریں۔ میں نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور انسان کو نطفہ سے تخلیق کیا پھر بھی وہ جھگڑالو بن گیا۔ انسان کی خوراک، اس کے منافع خاص طور پر سردیوں میں گرمائش کے حصول کے لئے جانور پیدا کئے۔ صبح و شام جب ان کے ریوڑوں کے ریوڑ چرنے کے لئے آتے اور جاتے ہیں تو کتنے خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔ تمہارے بھاری سامان کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے میں کام آتے ہیں۔ گدھے، گھوڑے، خچر اسی نے تمہاری سواری کے لئے پیدا کئے اور تمہارے لئے ایسی سواریاں ( مثلاً ہوائی جہاز وغیرہ) بھی مستقبل میں پیدا کرے گا جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو۔ پھر بارش اور اس کے اثرات سے انسانوں اور جانوروں کی سیرابی اور چراگاہوں کی آبادی، فصلوں، زیتون، کھجور، انگور اور ہرقسم کے پھل پھول کے ظاہر ہونے میں عقل استعمال کر کے غور و خوض کرنے اور نصیحت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔ سمندری دنیا کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ بحری جہازوں اور کشتیوں کی مدد سے پانی میں سفر کرنے اور سامان منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جبکہ اس سے تمہیں مچھلیوں کا ترو تازہ گوشت اور زیورات بنانے کے لئے موتی اور جواہر بھی فراہم ہوتے ہیں۔ مظاہر قدرت کا مستقل تذکرہ جاری ہے اور اس سے خالقِ کائنات تک رسائی حاصل کرنے کی تعلیم ہے۔ انسان کی نفسیات میں احسان شناسی کا مادہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے احسانات و انعامات کا تذکرہ کر کے فرما رہے ہیں کہ ہماری نعمتیں بے حد و حساب ہیں اگر تم شمار کرنا بھی چاہو تو نہیں کرسکتے ہو۔ تمہیں چاہئے کہ خفیہ و علانیہ ہر ڈھکی چھپی کا علم رکھنے والے رب کی خالقیت و عبودیت کا اقرار کر لو۔ تم سے پہلے لوگوں نے بھی سازشیں کر کے آسمانی تعلیمات کا انکار کیا تھا۔ ان پر ایسا عذاب مسلط کیا گیا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور ان کی بستیاں چھتوں کے ساتھ تہس نہس کر کے رکھ دی گئیں۔ پھر ان لوگوں کو قیامت کی ذلت و رسوائی سے الگ واسطہ پڑے گا۔ وہاں ان کے شرکاء بھی کسی کام نہیں آئیں گے۔ ایسے ظالموں کو بدترین ٹھکانہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ جلنا پڑے گا۔ جبکہ نیکوکار اور متقی لوگوں کا بہترین ٹھکانہ جنت ہو گا، جس میں باغات اور نہریں ہوں گی اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے۔ مشرک لوگ اپنے جرائم کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اسے اللہ کی مشیت کا کرشمہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ پہلی مجرم قومیں بھی ایسا ہی کرتی رہی ہیں حالانکہ ہمارے رسول ہر امت کو یہ تعلیم دیتے رہے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ بعض لوگوں نے ہماری بات کو تسلیم کیا اور بعض نے انکار کیا تو ان پر ہمارا عذاب آ کر رہا۔ دنیا میں چل پھر کر ایسے جھوٹوں کے انجام سے تم عبرت حاصل کرسکتے ہو۔ یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم زندہ کر کے دکھائیں گے۔ مردوں کو زندہ کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے ہم ’’کن فیکون‘‘ کے ایک حکم سے تمام انسانوں کو زندہ کر دیں گے۔ اللہ کے نام پر ہجرت کرنے والوں کو بہتر ٹھکانہ فراہم کرنے کی نوید اور انہیں صبر و توکل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین ہے۔ انبیاء و رسل انسان ہوتے ہیں اور دلائل و شواہد کی روشنی میں توحید بیان کرتے ہیں۔ گناہوں کو دنیا میں پھیلانے کی سازشیں کرنے والے اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ یہ لوگ دائیں بائیں جھکنے اور بڑھنے والے سائے میں غور کر کے اس نتیجہ پر کیوں نہیں پہنچ جاتے کہ زمین و آسمان کی ہر مخلوق حتی کہ فرشتے بھی اللہ ہی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور کسی قسم کا تکبر نہیں کرتے۔ بلندیوں کے مالک اپنے رب کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی حرف بہ حرف پابندی کرتے ہیں۔بعض مشرکین کے تصور کی نفی کی گئی ہے کہ پوری کائنات کو دو خدا چلا رہے ہیں۔ خیر کا خدا ’’یزدان‘‘ ہے اور شر کا خدا ’’اہرمن‘‘ ہے اور اسی سے یہ نظریہ بھی باطل قرار پاتا ہے کہ آسمانوں کا خدا ’’احد‘‘ ہے اور زمین کا خدا ’’میم‘‘ کے پردہ میں ’’احمد‘‘ ہے۔ پھر اللہ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی دندان شکن انداز میں تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ مشرکین کہتے ہیں کہ فرشتے چونکہ نظر نہیں آتے، عورتوں کی طرح چھپے رہتے ہیں اس لئے وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم خود تو بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے اگر کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی جائے تو اس کے چہرہ پر مایوسی چھا جاتی ہے اور وہ منہ چھپائے پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں ذلت و رسوائی اٹھانے کے لئے بیٹی کی پرورش کروں یا اسے ’’زندہ درگور‘‘ کر دوں ؟ اس کے باوجود اللہ کے لئے بیٹیوں کا عقیدہ قائم کر کے تم نے بدترین فیصلہ کیا ہے۔ انسانوں کے جرائم اور مظالم اس قدر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرنے پر آ جائیں تو کوئی جاندار زمین پر زندہ نہ بچ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جرائم پر محاسبہ کے نظام کو قیامت کے دن تک مؤخر کیا ہوا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا۔ پھر اللہ نے کائناتی شواہد سے توحید و رسالت کے مزید دلائل پیش کر کے جانوروں کی مثال شروع کر دی۔ چوپایوں میں تمہارے لئے عبرت کا سامان موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ خون اور گوبر کے بیچ میں سے خالص مزیدار دودھ تمہیں پلاتے ہیں۔ شہد کی مکھی میں مظاہر قدرت کا مطالعہ کر کے دیکھو، اسے ہم نے پہاڑوں گھروں کی چھتوں اور درختوں پر چھتہ بنانے کا سلیقہ عطاء فرمایا ہے۔ پھر ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے رس چوس کر دور دراز کا سفر طے کر کے اپنے چھتہ تک پہنچنے کی سمجھ عطاء فرمائی پھر مکھی کے پیٹ سے مختلف رنگوں اور ذائقوں کا شہد نکالا جو انسانوں کے مختلف امراض کے لئے شفاء اور صحت عطاء کرنے والا ہے۔ سوچ و بچار کرنے والوں کے لئے اس میں دلائل موجود ہیں۔ اللہ ہی تمہیں مارتے اور جِلاتے ہیں اور تم میں سے بعض کو بڑھاپے کی عمر تک پہنچا دیتے ہیں کہ اس کی یاد داشت کمزور ہو جاتی ہے اور وہ معلومات رکھنے کے باوجود کچھ سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اللہ بڑے علم و قدرت والے ہیں۔ اس کے بعد توحید کے مزید دلائل پیش کرنے کے بعد معبود حقیقی اور معبودان باطلہ کا فرق دو مثالوں سے سمجھایا ہے۔ (۱)ایک غلام ہے جو اپنے جان و مال کے معاملے میں بالکل بے اختیار ہے مالک کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ دوسرا آزاد شخص ہے جو وسیع مال و دولت رکھتا ہے اور شب و روز فقراء و مساکین کی مدد کرتا ہے۔ جس طرح ان دونوں افراد کو برابر سمجھنے والا عدل و انصاف کے تقاضوں کا خون کرنے والا ہے اسی طرح معبود حقیقی کے ساتھ بتوں کو شریک سمجھنے والا عقل و خردسے عاری ہے۔ (۲)ایک غلام گونگا، بہرا، کسی کام کا نہیں ہے۔ اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہے اور دوسرا معتدل طرز زندگی رکھنے والا اور معاشرہ میں خیر اور نیکی کو پھیلانے والا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ دلائل توحید اور روز قیامت کا تذکرہ جاری ہے۔ قیامت کے دن مشرکین اپنے معبودوں سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عہد وفا باندھنے کی کوشش کریں گے مگر وقت گزر چکا ہو گا اور اللہ کے دین کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے کافروں کو ان کے فساد پھیلانے کے جرم میں سزا پر سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد قرآن کریم کے ہدایت و رحمت ہونے کا بیان ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور غریب پروری کی تعلیم دیتے ہیں اور ظلم و بے حیائی اور منکرات سے باز رہنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ اللہ کا عہد پورا کرو اور ایمان و اعمال صالحہ کی نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد اس کو چھوڑ کر کفر و ارتداد کا راستہ اختیار کرنا ایسا ہے جیسے کوئی عورت روئی کاتنے کے بعد تیار ہونے والے ’’سوت‘‘ کو الجھا کر اپنی ساری محنت کو ضائع کر دے، مساوات مرد و زن کا ضابطہ کہ جسمانی ساخت کے پیش نظر فرائض و حقوق کے اختلاف کے باوجود ایمان و اعمال صالحہ کے نتیجہ میں پاکیزہ زندگی اور اجر و ثواب کے حصول میں دونوں برابر ہیں۔ قرآن کریم کی حقانیت بیان کرتے ہوئے مشرکین کے اس لغو اعتراض کا جواب دیا کہ شام کے سفر میں عیسائی راہب سے ملاقات کے موقع پر اس سے یہ قرآن سیکھ کر محمد علیہ السلام ہمیں سناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی باتیں یقیناً آپ کی دل آزاری کا باعث بنتی ہیں، مگر موٹی عقل رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ عجمی راہب آپ کو عربی قرآن کی تعلیم کیسے دے سکتا ہے؟ پھر ہجرت و جہاد اور استقامت کا پیکر اہل ایمان کو مغفرت و رحمت کی بشارت سنائی ہے اور بتایا ہے کہ کسی شہر یا علاقہ پر اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں سے امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ ہو تو اللہ اس وقت تک اس میں تبدیلی نہیں لاتے جب تک وہاں کے باشندے نافرمانی اور گناہوں پر نہ اتر آئیں۔ اس کے بعد محرمات کی مختصر فہرست کا اعادہ ہے اور اللہ کے حلال کردہ کو کھانے اور حرام کردہ سے گریز کرنے کا حکم ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کے پسندیدہ طرز زندگی کو اپنانے کا حکم اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے والوں کے لئے زرین ضوابط کا تذکرہ ہے کہ حکمت، موعظہ حسنہ اور سنجیدہ بحث و مباحثہ کی مدد سے اللہ کی طرف لوگوں کو بلایا جائے۔ پھر انتقام اور بدلہ لینے کا قانون بتایا کہ اس میں مساوات پیش نظر رہے اور حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اللہ کی مدد اور توفیق سے دین اسلام پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کے ساتھ آخر میں خوشخبری سنادی کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ اور احسان (اعلیٰ کردار) کے حاملین کی ہر قدم پر مدد و نصرت فرمایا کرتے ہیں۔
15 – سُبْحَانَ الَّذِی
سورہ الاسراء
اس سورت کے مضامین میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید اور قیامت کے اثبات کے ساتھ اخلاق فاضلہ کی تعلیم بھی ہے مگر مرکزی مضمون اثبات رسالت اور خاص طور پر ’’رسالت محمدیہ‘‘ کا اثبات ہے۔ جس ذات نے اپنے بندہ کو رات کے تھوڑے سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر کرا دیا وہ ہر قسم کی کمزوری اور نقص سے پاک ہے۔ مسجد اقصیٰ جس کے چاروں طرف مادی اور روحانی برکتیں پھیلی ہوئی ہیں کہ پھل پھول اور باغات کی سرزمین ہونے کے علاوہ نبیوں اور فرشتوں کی بعثت و نزول کی جگہ ہے۔ ’’عبد‘‘ چونکہ جسم و روح کے مجموعہ کو کہتے ہیں اس لئے معراج نبی عالم بیداری میں بہ نفس نفیس پیش آیا تھا۔ آیت نمبر ۶۰ میں معراج کے سفر کو مؤمن اور کافر میں امتیاز اور فرق کا ذریعہ قرار دیا ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب جاگتے ہوئے جسمانی سفر کی شکل میں ہو۔ ورنہ خواب تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔
ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے کتاب عطا فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ تم اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی بجائے زمین میں سرکشی اور بغاوت پھیلاؤ گے اور دو مرتبہ بڑا فساد کرو گے۔ پہلی مرتبہ حضرت زکریا علیہ السلام کو قتل کر کے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے بغاوت میں حد کر دی تو شاہ بابل بخت نصر کی شکل میں تم پر عذاب مسلط کیا جس نے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا۔ پھر جب تم نے توبہ کی تو ہم نے دوبارہ تمہیں اقتدار اور مال و دولت سے نواز دیا۔ اس کے بعد ضابطۂ خداوندی کو بیان کیا کہ اگر کوئی قوم اپنا رویہ درست رکھے تو اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے اور اگر بغاوت و سرکشی کرے تو اس میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔ پھر تم نے اللہ کے نبی یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی صورت میں قتل و بربریت اور فساد کی آگ بھڑکائی، مجوسیوں کے اقتدار کی شکل میں تم پر عذاب اتارا جنہوں نے قتل و غارت گری کے ذریعہ تمہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ پھر اللہ نے اپنے رحم و کرم سے تمہیں بچایا لیکن اگر تم نے اپنی حرکتیں نہ چھوڑیں تو ہمارے عذاب کی شکل پھر لوٹ سکتی ہے۔ جب کسی آبادی کے مقتدر لوگ سرکشی و نافرمانی پر اتر آئیں تو ہم انہیں عذاب اتار کر ملیا میٹ کر دیا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اخلاق فاضلہ کی تعلیم دیتے ہوئے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور فضول خرچی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ پھر روزی کی کمی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تمہاری روزی بھی اللہ کے ذمہ ہے اور تمہاری اولاد کی روزی بھی اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ زنا کاری سے بچو ناحق قتل نہ کرو، یتیم کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ، عہد شکنی نہ کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، بغیر تحقیق کے کسی بات کو نقل نہ کرو، زمین پر متکبرانہ انداز میں نہ چلو۔ یہ سب برائی کے ناپسندیدہ کام ہیں۔ تمہارے رب کی طرف سے حکمت سے بھرپور وحی بھیجی جا رہی ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ورنہ جہنم میں قابل ملامت اور ملعون بن کر پڑے رہو گے۔قرآن کریم میں ہر بات کو مختلف انداز میں ہم بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کر لیں مگر یہ لوگ حق سے اور بھی دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و تحمید کرتی ہے۔ تم اسے سمجھنے سے قاصر ہو۔ جب آپ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے ہیں تو آپ کے اور بے ایمانوں کے درمیان میں ایک حد فاصل قائم ہو جاتی ہے ان کے دلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے ان کے کانوں میں ڈاٹ لگ جاتے ہیں اور اکیلے وحدہٗ لاشریک رب کا تذکرہ سن کر یہ لوگ دور بھاگنے لگتے ہیں اور قرآن سنتے ہوئے یہ ظالم باہمی سرگوشیوں میں کہنے لگتے ہیں کہ یہ مسلمان تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہڈیوں کو بوسیدہ اور پرانا دیکھ کر کہتے ہیں کہ انہیں کس طرح زندہ کیا جائے گا۔ یہ لوگ اگر سخت ترین چیز لوہے اور پتھر میں بھی تبدیل ہو جائیں تو جس ذات نے انہیں پہلے پیدا کیا تھا وہ دوبارہ بھی پیدا کر لے گا۔ تمہارا رب تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہے وہ جانتا ہے کہ کس کو عذاب دینا ہے کس پر رحم کرنا ہے۔ تیرے رب کے عذاب سے ڈرنا ہی چاہئے، جس بستی کی ہلاکت یا عذاب قیامت سے پہلے مقدر ہے وہ ہمارے پاس لکھی ہوئی ہے۔ ہم اپنی نشانیاں اس لئے ظاہر نہیں کرتے کہ لوگ انہیں دیکھ کر ماننے کی بجائے انکار پر اتر آتے ہیں اور اس طرح وہ عذاب کے مستحق قرار پا جاتے ہیں۔ ہم نے قوم ثمود کی مطلوبہ نشانی اونٹنی کی شکل میں بھیج دی تھی انہوں نے ا س پر ظلم کر کے اپنی ہلاکت کو خود ہی دعوت دی۔ ہم تو ڈرانے اور راہِ راست پر لانے کے لئے نشانیاں اتارا کرتے ہیں۔ اس کے بعد خیر و شر کے ازلی معرکہ کا آئینہ دار قصۂ آدم و ابلیس ذکر کر کے انسان کو شیطان کے گمراہ کن داؤ پیچ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ بحرو بر میں انسانی مشکلات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں حل کرسکتا۔پھر بتایا کہ تمام مخلوقات میں انسان کو خصوصی فضیلت اور اعزاز کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ قیامت کے دن انسان کے نامۂ اعمال کے مطابق اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جو شخص دنیا میں اپنی آنکھوں سے دلائل قدرت کا مشاہدہ کر کے بھی کفر کے اندھے پن سے نجات حاصل نہ کرسکا وہ ان دیکھی آخرت کے بارے میں زیادہ اندھے پن کا مظاہرہ کرے گا۔ یہ لوگ دوستی کا دم بھر کر آپ کو وحی الٰہی کے مقابلہ میں خود ساختہ باتیں بیان کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری دی ہوئی توفیق سے آپ حق پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر آپ ان کافروں کی طرف میلان کا اظہار کرتے تو ہم دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں آپ کو عذاب میں مبتلا کر دیتے۔ جس طرح پہلے لوگوں نے اپنے رسولوں کو اپنے وطن سے نکال کر عذاب کو دعوت دی تھی مکہ والے بھی ایسا ہی کرنا چاہتے تھے مگر ہم نے آپ کے اعزاز میں آپ کی قوم کو عذاب سے بچانے کے لئے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔ آپ صبح و شام نماز پڑھیں اور قرآن کریم کی تلاوت کریں۔ فجر کے وقت قرآن سننے کے لئے دن رات کے فرشتوں کا خصوصی اجتماع ہوتا ہے۔ رات کو تہجد کا اہتمام جاری رکھیں۔ آپ کو ’’مقام محمود‘‘ عطا کرنے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ حق آنے پر باطل زائل ہو جایا کرتا ہے۔ قرآن کریم مؤمنین کے لئے شفاء و رحمت ہے اور ظالموں کے لئے خسارہ اور نقصان کا باعث ہے۔ روح اللہ کا ایک امر ہے، اس کی حقیقت کو جاننے کی علمی صلاحیت تمہارے اندر مفقود ہے۔ ساری دنیا کے جنات و انسان مل کر بھی قرآن کریم جیسا کلام بنانے پر قادر نہیں ہو سکتے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے ساتھ مباحثہ اور انہیں عطا کی جانے والی نو نشانیوں کا اجمالی تذکرہ کیا اور فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو ملک بدر کرنا چاہا تو ہم نے فرعونیوں کو غرق کر کے ان کا قصہ ہی تمام کر دیا۔ قرآن کریم حق کے ساتھ اترا ہے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے اتارنے کی حکمت یہ ہے کہ آپ انہیں ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناتے رہیں اور ان کی دل جمعی کا باعث بنتا رہے۔ اپنی دعا میں نہ زیادہ چلاؤ اور نہ ہی بالکل خفیہ آواز رکھو بلکہ میانہ روی اختیار کرو۔ سورت کے آخر میں فرمایا آپ اعلان کر دیں کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں، جس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کے ملک میں کوئی شریک ہے۔
سورہ الکہف
الکہف عربی میں غار کو کہتے ہیں، اس سورت میں چند ایمان والے نوجوانوں کا ذکر ہے، جنہیں ایمان کے تحفظ کے لئے غار میں پناہ لینی پڑی تھی اس لئے پوری سورت کو کہف کے نام سے موسوم کر دیا۔ مشرکین کے تین سوالوں کے جواب میں یہ سورت اتری تھی۔ روح کیا ہے اس کا جواب سورۂ بنی اسرائیل میں ہے۔ کہف میں پناہ لینے والے نوجوانوں کے ساتھ کیا بیتی اور مشرق و مغرب میں فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑنے والے بادشاہ کا کیا واقعہ ہے ان دونوں سوالوں کا جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔ اس سورت میں چار واقعات (۱)اصحاب کہف (۲)آدم و ابلیس (۳)موسیٰ و خضر (۴)ذوالقرنین کا ذکر ہے جبکہ دنیا کی بے ثباتی کے بیان کے لئے دو مثالیں دی گئی ہیں۔
ابتداء میں تمام تعریفوں کا مستحق اللہ کو قرار دے کر بتایا ہے کہ اسی نے واضح اور ہر قسم کی کجی سے پاک و صاف قرآن اتارا ہے پھر اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس سرزمین پر ہر قسم کی نعمتیں اور آسائشیں اتار کر انسان کی آزمائش مقصود ہے۔ پھر اصحاب کہف کا واقعہ شروع کر دیا۔ ان کا واقعہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے اس مرحلہ کو بیان کرتا ہے جس میں حکمت عملی کے تحت کارکنوں کو زیرِ زمین ہونا پڑتا ہے۔ حضور علیہ السلام سے تقریباً تین سو سال قبل اردن کے ملک میں دقیانوس نامی بادشاہ تھا، اس نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے ملک کے ہر علاقہ سے نمائندے طلب کئے، جن میں چند نوجوان ایسے نکلے جو اس کے کفر و شرک اور ظلم و ستم میں اس کی حمایت کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے بادشاہ سے مہلت طلب کی اور باہمی مشورہ کر کے طے کیا کہ ایمان و کفر میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو گا۔ لہٰذا ایمان بچانے کے لئے یہ لوگ رات ہی رات خاموشی سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک کتا بھی ان کے پیچھے ہولیا۔ لمبا سفر کر کے یہ لوگ تھک گئے اور ایک غار میں آرام کے لئے لیٹ گئے اور کتا غار کے دہانے پر بیٹھ کر سوگیا۔ جب یہ لوگ دوسرے روز بادشاہ کو نہ ملے تو انہیں تلاش کرایا گیا اور پھر مایوس ہو کر ان کے نام ایک تختی پر لکھ کر رکھ دیئے گئے۔ یہ لوگ غار میں پڑے سوتے رہے سردی گرمی، دن رات ہر حال میں اللہ نے ان کی حفاظت کی۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور یہ کروٹیں بھی بدلتے تھے۔ دیکھنے والا انہیں بیدار خیال کر کے مرعوب ہو کر بھاگ جاتا۔ کتا بھی غار کے دہانہ پر ایسے بیٹھا ہوا سورہا تھا جیسے وہ گھات لگا کر کسی پر حملہ آور ہونا چاہتا ہو جب اللہ نے انہیں بیدار کیا تو آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہمیں سوتے ہوئے کتنا وقت گزرا ہو گا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک دن یا آدھا دن ہوا ہو گا مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شمسی حساب سے تین سو سال اور قمری حساب سے تین سو نوسال تک یہ لوگ سوتے رہے تھے۔ بیدار ہونے پر انہیں بھوک نے ستایا۔ رقم جمع کر کے ایک آدمی کو احتیاط کے تمام پہلو مد نظر رکھتے ہوئے کھانا لینے کے لئے شہر بھیجا، جس ہوٹل سے اس نے کھانا لیا اس کے مالک نے پرانے سکے دیکھ کر اسے پولیس کے حوالہ کر دیا۔ اس طرح اسے بادشاہ کے دربار میں پہنچا دیا گیا۔ ان دنوں وہاں کا بادشاہ مسلمان تھا مرنے کے بعد زندہ ہونے کا قائل تھا۔ لوگ اس کے عقیدہ کو نہیں مانتے تھے وہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ اللہ کی کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو کہ وہ اپنی قوم کو صحیح عقیدہ کا قائل کرسکے۔ جب اس نوجوان کو اس کے سامنے پیش کیا گیا اور تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ان نوجوانوں کا ساتھی ہے، جن کے نام آج سے تین صدیاں قبل ایک تحریر کی شکل میں محفوظ کر دیئے گئے تھے تو بہت خوش ہوا۔ لوگ اس واقعہ کو سن کر ایمان لے آئے اور جہاں اصحاب کہف دریافت ہوئے تھے ان کی یادگار کے طور پر مسجد تعمیر کر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دوبارہ زندہ کرنے سے ہم لوگوں کو یہی پیغام دینا چاہتے تھے کہ قیامت برحق ہے اور مرنے کے بعد ہر انسان کو زندہ ہونا ہے۔ یہ لوگ تین تھے چوتھا کتا تھا۔ پانچ تھے چھٹا کتا تھا یا سات تھے آٹھواں کتا تھا۔ اللہ ہی جانتے ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کتنی تھی اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ اللہ کی قدرت ہر حال میں ظاہر ہو جاتی ہے۔
کافروں کے سوالوں کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرما دیا تھا کہ کل جواب دے دوں گا اور ان شاء اللہ نہیں کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند ہوئی اور فرمایا کہ آئندہ جب بھی کوئی کام کرنا ہو تو ان شاء اللہ کہا کریں۔ پھر قرآن کریم پر غیر متزلزل ایمان رکھنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا اور غریب اہل ایمان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی تلقین فرمائی۔ پھر جنت جہنم کا تذکرہ کیا اور دو دوستوں کی مثال دی جن میں ایک کافر، متکبر اور مال و دولت کا پجاری دوسرا غریب متواضع اور اللہ کی مشیت پر راضی۔ اللہ نے کافر کا مال و دولت تباہ کر کے بتا دیا کہ جب اللہ کی پکڑ آ جائے تو اس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ پھر دنیا کی زندگی کی بے ثباتی کی مثال دے کر بتایا کہ بارش کے نتیجہ میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں مگر اچانک کسی آفت سے تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں اور کسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ پھر آدم و بلیس کا قصہ ہے۔ قرآن کریم میں ہر قسم کے انسانوں کی رہنمائی کے لئے مختلف پیرائے اور اسالیب میں دلائل پیش کرنے کا تذکرہ اور اس بات کا بیان ہے کہ اللہ اگر دنیا کو ہلاک کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا۔ مگر اس نے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اور اس کی رحمت کے تقاضے کے پیش نظر گناہ گاروں کو مہلت دی ہوئی ہے۔ پھر حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ کا بیان ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بڑی زبردست تقریر فرمائی، جس سے لوگ بہت متأثر ہوئے اور پوچھنے لگے کہ آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ آپ نے اپنی معلومات کے مطابق فرما دیا کہ مجھ سے بڑا اس وقت کوئی عالم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کے سب سے بڑے عالم سے ملاقات کے لئے رخت سفر باندھنے کا حکم دیا اور زاد راہ کے طور پر ایک بھنی ہوئی مچھلی ساتھ لینے کے لئے فرمایا۔ حضرت موسیٰ ارشاد خداوندی کے مطابق ایک شاگرد کو ساتھ لے کر مقررہ سمت میں روانہ ہو گئے۔ ساحل سمندر پر آپ کا سفر جاری رہا۔ ایک جگہ تھک کر آرام کرنے کے لئے ٹھہرے تو مچھلی سمندر میں چلی گئی اور ایک سرنگ نما راستہ بناگئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس سرنگ میں پانی کے اندر چلے گئے، جہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات پر ان سے تحصیل علم کے لئے درخواست کی، انہوں نے فرمایا کہ میرا علم آپ کی قوت برداشت سے باہر ہے۔ آپ میری باتوں پر صبر نہیں کرسکیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صبر کرنے اور کسی قسم کے سوالات نہ کرنے کا دعویٰ کیا، جس پر موسیٰ و خضر علیہما لسلام ’’علمی سفر‘‘ پر سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہو گئے۔
٭٭٭
تشکر: کاشف مجید، جن کے قران مع تفسیر سافٹ وئر سے اس کا مواد حاصل کیا گیا۔
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید