FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

مختصر تفسیر قرآن

حصہ دوم ۔  جز ۱۶ تا ۳۰

               مفتی عتیق الرحمن شہید

 

16 – قَالَ أَلَمْ

(ماخذ میں ہی اس جز کا متن دستیاب نہیں)

17 – إِقْتَرَبَ

               سورہ الانبیاء

سورہ الانبیاء سے اس پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے۔ یہ مکی سورت ہے۔ ایک سو بارہ آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ دوسری مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید و رسالت اور قیامت کے عقیدہ پر گفتگو کی گئی ہے مگر ’’رسالت‘‘ کا موضوع خاص طور پر اجاگر کیا گیا ہے اور مختلف انبیاء و رسل کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ قیامت اور اس کی تیاری کی طرف متوجہ کرنے کے لئے سورت کی ابتداء میں فرمایا: لوگوں کے حساب و کتاب کا وقت قریب آ رہا ہے، لیکن وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور جب بھی اللہ کی طرف سے ان کی ہدایت کے لئے کوئی قرآنی آیت اترتی ہے تو یہ اسے مذاق میں ٹالتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہیں قرآن سنانے والا تمہارے جیسا بشر ہے۔ جادو کر دیتا ہے یا بد خوابی کی باتیں کرتا ہے۔ قرآن اس نے خود ہی گھڑ لیا ہے بلکہ یہ شاعرانہ کلام ہے۔ اگر سچا ہوتا تو کوئی معجزہ دکھاتا جیسے پہلے انبیاء معجزات دکھاتے رہے۔ پہلے انبیاء کے معجزات سے ان کی قوموں نے کوئی فیض حاصل نہیں کیا، جس کی بناء پر وہ ہلاک ہو کر رہے، اب کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے؟ پہلے انبیاء بھی بشر ہی تھے ان پر وحی اتاری گئی تھی، ہم نے انہیں کوئی ایسے ڈھانچے میں تو نہیں بنایا تھا جنہیں کھانے پینے کی حاجت ہی نہ ہو۔ ہم نے ان کی ہدایت کے لئے ایسی کتاب اتاری ہے، جس میں ان کا تذکرہ موجود ہے کہ یہ کتاب جس قدر لوگوں تک پہنچے گی اس کے ساتھ ان کا ذکر بھی پہنچے گا اور پھر اس میں ہر شعبہ زندگی کے اچھے برے لوگوں کے واقعات موجود ہیں، ان کے ضمن میں یہ اپنا تذکرہ بھی اس کتاب میں تلاش کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد قوموں پر عذاب الٰہی کے نزول اور ان کی عبرتناک ہلاکت کا تذکرہ اور پھر معرکۂ حق و باطل اور اس کا نتیجہ بتایا ہے کہ حق و باطل باہم ٹکراتے ہیں تو باطل پاش پاش ہو کر رہ جاتا ہے۔ باطل ہے ہی زائل ہونے والی چیز۔ آسمان و زمین کے نظام کا نہایت نظم و نسق سے چلتے رہنا اس بات کا غماز ہے کہ اس نظام کا خالق و مالک ایک وحدہٗ لاشریک ہے۔ اگر ایک سے زیادہ با اختیار شخصیات اس نظام کو چلا رہی ہوتیں تو ان کے اختیارات کی جنگ میں کائنات میں فساد برپا ہو چکا ہوتا اور سارا نظام منتشر ہو کر رہ جاتا۔ فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھنے والے غلطی پر ہیں، وہ تو اللہ کے بندے اور اس کے فرماں بردار ہیں۔ وہ اللہ کے سامنے نہ بول سکتے ہیں نہ سفارش کرسکتے ہیں۔ وہ تو اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی دعویٰ کرے کہ اللہ کے مقابلہ میں بھی الٰہ ہوں تو ہم اسے ظالموں کے انجام سے دوچار کر کے جہنم کا ایندھن بنا دیں گے۔ یہ لوگ غور کیوں نہیں کرتے؟ آسمان و زمین کا خام مادہ ایک ہی تھا ہم نے الگ الگ کر کے اوپر آسمان اور نیچے زمین کو بنا دیا، پھر آسمان و زمین بالکل بند تھے کہ نہ بارش برسے اور نہ ہی نباتات پیدا ہوں۔ ہم نے آسمان سے بارش برسائی اور زمین سے پودے اور درخت اگائے، کیا ان کی عقلیں کام نہیں کرتیں ؟ پھر دن رات کا نظام، سورج اور چاند کا اپنے مدار میں چکر لگاتے رہنا، پہاڑ اور ان کے بیچ انسانی نقل و حمل کے لئے راستے، یہ سب قدرت خداوندی کے مظاہر ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد علیہ السلام کی موت پر ان کا پیغام ختم ہو کر رہ جائے گا اور بعد میں ان کا دین نہیں چل سکے گا۔ کیا یہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی صورت میں یہ لوگ نہیں مریں گے؟ کیا انہوں نے دنیا میں بقاء دائمی کا کوئی معاہدہ کر رکھا ہے؟ ہر انسان نے موت کے مرحلہ سے گزرنا ہے اور اس کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ اسے مل کر رہے گا۔ اگر آپ کا استہزاء اور تمسخر کیا جا رہا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہے پہلے انبیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور ان مذاق اڑانے والوں کو ان کا مذاق ہی تباہی کا شکار کر دیا کرتا تھا۔ اللہ کا عذاب اگر رات دن میں کسی وقت اچانک آ جائے تو انہیں کون بچائے گا؟ ہمارا عذاب ایسا زبردست ہوتا ہے کہ اس کی ذرا سی جھلک دیکھ کر ہی یہ چلانے لگیں گے۔ قیامت کے دن اعمال کے وزن کے لئے انصاف کے ترازو قائم ہو جائیں گے کسی پر کوئی زیادتی اور ظلم نہیں ہو گا۔ اگر انہوں نے رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی عمل کیا ہو گا تو اس پر بھی جزاء یا سزا کے نظام کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بت پرست قوم کا تذکرہ کہ عید کے موقع پر وہ پکنک منانے اور کھیل کود کرنے شہر سے باہر چلے گئے اور اپنے بتوں کے آگے نذرو نیاز کے چڑھاوے چڑھا گئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں کو کلہاڑے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور جب مشرک قوم لوٹ کر آئی اور اپنے خداؤں کی حالت زار دیکھی تو ابراہیم علیہ السلام کو بلا کر باز پرس کرنے لگی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم سمجھتے ہو کہ بت کچھ کرسکتے ہیں اور بولتے بھی ہیں تو انہی سے پوچھ لو۔ بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سب کو کاٹ پیٹ کر برابر کر دیا ہے۔ وہ بے اختیار پکار اٹھے کہ یہ پتھر کے بت تو بول ہی نہیں سکتے۔ یہ حقیقت حال کیسے بیان کریں گے؟ ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے افسوس کا مقام ہے کہ ایسے بے اختیار معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو؟ وہ لوگ لاجواب ہو کر انتہائی نادم اور شرمندہ ہوئے اور ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کا الاؤ جلا کر اس میں پھینک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی حفاظت فرمائی اور ان کی مشرک قوم کو ناکام و نامراد کیا۔ ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی نامور پوتا عطاء فرمایا اور ان کے بھائی لوط کو بدکار قوم سے نجات دلا کر اس قوم کی خباثت کے نتیجہ میں ہلاک کر دیا۔ نوح علیہ السلام کو مشکلات سے نجات دی اور ان کے منکرین کو بدترین عذاب میں مبتلا کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ داؤد و سلیمان علیہما السلام کی نبوت و حکمرانی کے ساتھ ان کی فیصلہ کرنے کی بہترین صلاحیتوں کا ذکر اور جنگ سے بچاؤ کے لئے داؤد علیہ السلام کی زرہ سازی کو بیان کر کے بتایا کہ دستکاری اور مزدوری کر کے کمانا کوئی عیب نہیں ہے اور اپنا دفاع کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ پھر ایوب علیہ السلام کی بیماری اور ان کے صبر و شکر کے ساتھ اسے برداشت کرنے اور اللہ سے دعائیں مانگنے کا تذکرہ ہے، جس کے نتیجہ میں اللہ نے انہیں صحت عطا فرمائی اور بیماری کے زمانہ میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ فرمایا۔ پھر اسماعیل و ادریس اور ذوالکفل کا مختصر تذکرہ اور ان کی ثابت قدمی کا بیان ہے۔ اس کے بعد مچھلی والے نبی یونس علیہ السلام کا ایمان افروز ذکر کہ قوم پر عذاب کے آثار دیکھ کر وہ یہ سمجھ کر اپنے مقام سے ہٹ گئے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر میری کسی قسم کی گرفت نہیں کریں گے مگر جب انہیں کشتی سے سمندر میں پھینکا گیا اور مچھلی نے نگل کر اپنے پیٹ میں انہیں اتار لیا تو وہ اپنے رب کو پکارنے لگے، جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات عطا فرمائی اور ساحل پر پہنچا دیا۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی اپنے ایمان والے بندوں کی مدد فرمایا کرتے ہیں۔ پھر حضرت مریم کے عظیم کردار اور ان کی عفت و عصمت کی حفاظت اور ان کے ہاں بیٹے کی کراماتی ولادت کی طرف اشارہ کر کے انبیاء علیہم السلام کی صالح جماعت کا تذکرہ ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سب ایک ہی جماعت کے افراد ہیں اور تم لوگوں کے لئے ہم نے ایک ہی دین ’’اسلام‘‘ تجویز کیا ہے، لہٰذا مجھے اپنا رب تسلیم کرو اور میری ہی عبادت کرو۔ پھر علامات قیامت میں بڑی علامت یاجوج و ماجوج کے ظہور کا تذکرہ فرما کر قیامت اور اس کے ہولناک منظر کا بیان شروع کر دیا اور بتایا کہ ’’رسالت محمدیہ‘‘ تمام کائنات کے لئے باعث رحمت ہے اور تلقین فرمائی کہ حق و باطل کا فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے، لہٰذا اسی سے دین اسلام کی حقانیت کا فیصلہ طلب کرنا چاہئے۔

 

               سورہ الحج

یہ مدنی سورت ہے۔ اٹھتر آیتوں اور دس رکوع پر مشتمل ہے۔ قیامت اور توحید باری تعالیٰ کے بیان کے ساتھ اس میں حج اور جہاد کے کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں۔ اے انسانو! اللہ سے ڈرو قیامت کا جھٹکا بڑا ہولناک ہو گا۔ دودھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی جبکہ حاملہ عورتیں اس دن کی دہشت اور خوف سے اپنے بچے ساقط کر دیں گی۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا برحق ہے۔ اپنی پیدائش میں غور کرنے سے یہ عقیدہ تمہیں بہت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے۔ مٹی سے نطفہ، نطفہ سے لوتھڑا، پھر گوشت کا ٹکڑا جس کی تخلیق کبھی مکمل ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی۔ ایک متعینہ مدت کے لئے رحم مادر میں پڑا رہنا، پھر کمزور و بے کس بچہ کی شکل میں پیدا ہونا، پھر بھرپور جوانی کو پہنچنا، پھر قویٰ کی کمزوری کے ساتھ بڑھاپے کی منزل تک پہنچنا اس بات کا غماز ہے کہ قادر مطلق تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ زمین کو دیکھو! بنجر و ویران ہوتی ہے،بارش برستی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کھیتیاں اور باغات اگنے لگتے ہیں اور پھر پھلنے پھولنے اور لہلہانے لگتے ہیں۔ اس سے اللہ کی قدرت کا اندازہ کر کے سمجھ لو کہ وہ ہر چیز پر قوت رکھتا ہے۔ پھر قیامت کے مزید تذکرہ کے ساتھ نیک و بدکا انجام ذکر کیا اور پھر حرم شریف اور کعبۃ اللہ میں حاضری، عبادت اور اعتکاف سے روکنے والوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت اور ان کے عمل کو ظلم و الحاد قرار دے کر دردناک عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کعبہ کے شاندار کارنامہ کا تذکرہ اور نماز اور طواف کرنے والوں کے لئے اسے پاک و صاف رکھنے کا حکم ہے اور لوگوں کو دنیا بھر سے کعبۃ اللہ کی زیارت کے لئے آنے کی دعوت دینے کا حکم ہے۔ حج کے عظیم الشان اجتماع میں قربانی اور صدقہ و خیرات سے غرباء و مساکین کی کفالت اور تجارت اور کاروبار کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کے تمام افراد کے مفادات و منافع کی حفاظت کی نوید ہے۔ پھر اہل ایمان کے دفاع کے نظام سماوی کا تذکرہ اور مؤمنین کو جہاد کے لئے قدم اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ جب ظلم و ستم حد سے تجاوز کرنے لگے تو مسلمانوں کو اپنے دفاع اور تحفظ کے لئے قتال فی سبیل اللہ کا عمل اختیار کرنا ہو گا۔ اللہ اپنے ایسے بندوں کی مدد ضرور کیا کرتے ہیں جو زمین پر با اختیار ہو کر نماز اور زکوٰۃ کے نفاذ کے ساتھ ہی اچھائیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے کا نظام نافذ کرتے ہیں۔ پوری انسانیت کے لئے محمد رسول اللہ کے بشیر و نذیر ہونے کا بیان کرتے ہوئے مؤمنین و منکرین کے انجام کا تذکرہ ہے۔ پھر شیاطین کی دستبرد سے دین اسلام کے محفوظ ہونے کا اعلان ہے۔ پھر کفر کی ذہنیت کی وضاحت ہے کہ وہ دلائل پر یقین نہیں رکھتے۔ ڈنڈے کے یار ہیں۔ قیامت کا جھٹکا ہی انہیں ایمان کا راستہ دکھا سکے گا۔ ہجرت اور اس کے لازمی نتیجہ جہاد کے ذریعہ شہادت کے مرتبہ پر فائز ہونے والے یا طبعی موت مرنے والوں کے لئے بہترین رزق اور پسندیدہ رہائش یعنی جنت میں داخلہ کی نوید سنائی گئی ہے۔

پھر کائناتی شواہد میں غور و خوض کر کے اللہ کی وحدانیت تسلیم کرنے کی تعلیم ہے۔ موت اور زندگی اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہر امت کو علیحدہ نظام حیات دیا گیا ہے۔ اختلاف کرنے کی بجائے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ جب انہیں قرآن سنایا جاتا ہے تو ان کے چہروں پر مردنی چھا جاتی ہے۔ انہیں بتائیے کہ تمہارے لئے اس سے بھی بدترین خبر جہنم کی آگ ہے جس کا وعدہ اللہ نے کافروں کے لئے کر رکھا ہے۔ پھر معبود حقیقی اور معبودان باطل کے امتیاز کے لئے معرکۃ الآراء مثال بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے علاوہ جن کی پرستش کرتے ہو وہ ایک مکھی پیدا کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ مکھی جیسی کمزور ترین مخلوق اگر ان کے کھانے کا کوئی ذرہ اٹھا کر لے جائے تو یہ سب مل کر اس سے واپس لینے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔ طالب و مطلوب سب کمزور اور ضعیف ہیں۔ یہ لوگ انبیاء ور سل کا انکار کر کے اللہ کی ناقدری کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے منتخب نمائندے ہیں۔ اللہ کے راستہ میں جہاد کا حق ادا کر دو۔ اس نے تمہارے دین میں کوئی مشکل احکام نہیں دیئے ہیں۔ ملت اسلامیہ ہی دراصل ملت ابراہیمی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت مسلمہ کے اعمال پر گواہ بنیں گے اور امت مسلمہ دوسری امتوں کی گواہی دے گی۔ لہٰذا تم نماز اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ وہ بہترین حمایتی اور بہترین مددگار ہے۔

 

18 – قَدْ أَفْلَحَ

               سورہ المؤمنون

یہ مکی سورت ہے۔ ایک سو اٹھارہ آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔ ابتداء میں مؤمنین کی اعلیٰ صفات کا تذکرہ ہے، اس لئے سورت کو المؤمنون کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ ایسے مؤمن کامیابی کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوں گے جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کا مظاہرہ کرتے ہیں، بے مقصد باتوں سے گریز کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ قابل ملامت ہیں اور نہ ہی حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ جو اپنے عہد و پیمان کے محافظ اور امانتدار ہیں۔ پنج وقتہ نمازوں کے پابند ہیں، یہی لوگ جنت الفردوس کے دائمی وارث ہیں۔ اس کے بعد تخلیق انسانی کے مختلف مراحل کو ایسے معجزانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ تعصب اور ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر مطالعہ کیا جائے تو بے اختیار قدرت خداوندی اور حقانیت قرآنی کا اعتراف زبان پر جاری ہو جاتا ہے۔ مٹی کے جوہر سے انسان کی تخلیق کی ابتداء ہوئی پھر نطفہ، علقہ، مضغہ کے مراحل پھر ہڈیاں اور گوشت بننے کا مرحلہ (اس کے بعد شکم مادر سے باہر آنے کا کراماتی مرحلہ پھر دنیا کی عارضی زندگی پھر موت کے بعد قبر میں دفن ہونے کا مرحلہ) ان تمام مراحل کے بعد قیامت کے دن کے احتساب کے لئے بوسیدہ ہڈیوں اور گوشت کے بکھرے ہوئے ذرات کو جمع کر کے پھر سے زندہ کرنے کا آخری مرحلہ۔ آپ غور تو کریں کہ اس مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ انسانی تخلیق کا کارنامہ سر انجام دینے والا کس قدر برکتوں والا ہے۔ اللہ نے ساتوں آسمان بنائے، پانی برسایا، زمین کے اندر جذب کرنے کی صفت کے پیش نظر اس پانی کے جذب ہو کر غائب ہو جانے کا یقینی امکان تھا مگر اللہ نے مخصوص فاصلہ پر اس پانی کو جمع فرما کر انسانی ضروریات کے لئے زمین کے اندر روک کر محفوظ کر لیا۔ پھر اس پانی سے باغات پھل پھول اور پودے پیدا فرمائے۔ بلندیوں پر پیدا ہونے والا زیتون کا درخت اگایا جس سے چکنائی والا تیل حاصل ہوتا ہے اور کھانے والوں کا لقمہ اس سے تر کیا جاتا ہے۔ جانوروں میں بھی سبق آموز نشانیاں موجود ہیں۔ ان کے پیٹ سے تمہیں دودھ کی شکل میں بہترین مشروب اور دوسرے فوائد بھی عطاء کئے جاتے ہیں۔ تمہاری خوراک کی ضروریات ان سے پوری ہوتی ہیں ان جانوروں اور کشتیوں سے تمہاری سواری اور بار برداری کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سلسلۂ نبوت کا تذکرہ شروع ہو گیا۔ ابو البشر ثانی حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت توحید دی تو وہ بھونڈے اعتراض کرنے لگے۔ آپ کی ایک انسان سے زیادہ حیثیت ہی کیا ہے؟ آپ دین کے نام سے ہم پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اللہ نے رسول بنانا ہی تھا تو کسی فرشتے کو رسول بنا دیتے۔ نوح علیہ السلام نے قوم کے جھٹلانے کی شکایت اللہ کے دربار میں پیش کی، اللہ نے کشتی بنانے کا حکم دیا۔ آسمان سے پانی برسا کر سیلاب کا عذاب بھیجا۔ نوح علیہ السلام اور ایمان والوں کو کشتی میں بحفاظت تمام بچا لیا اور کافروں کو غرق کر کے آنے والوں کے لئے عبرت کا سامان بنا دیا۔ پھر دوسری قومیں اللہ نے پیدا کیں۔ ان میں توحید کا پیغام دے کر رسول بھیجے۔ انہوں نے جھٹلایا اور اعتراضات کئے، ان پر بھی عبرتناک عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا گیا اور ان کے سبق آموز تذکرے بعد میں آنے والوں کے لئے چھوڑ دیئے۔ موسیٰ و ہارون علیہمالسلام کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ اس نے تکبر اور بڑائی کی وجہ سے ان کی بات ماننے سے انکار کیا۔ ہر قسم کے وسائل اور مضبوط حکومتی نظام کے باوجود وہ ہلاک ہو کر رہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو بھی ہم نے اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر بھیجا۔ انہیں بہترین ٹھکانہ عطاء کیا۔ انبیاء و رسل کو پاکیزہ خوراک کے استعمال اور نیک اعمال سرانجام دیتے رہنے کی تلقین کے ساتھ بتایا کہ ہماری نعمتیں استعمال کرنے کے باوجود منکرین اپنی سرکشی اور طغیانی سے باز نہیں آتے۔ مگر جب ہم عیش و عشرت میں رہ کر گناہ کرنے والوں کی گرفت کرتے ہیں تو پھر یہ ہماری پناہ حاصل کرنے کے لئے دوڑتے ہیں۔ ایسے وقت میں ان کی کوئی مدد نہیں کی جاتی۔ حق کو اگر ان کی خواہشات کا تابع بنا دیا جائے تو کائنات میں فساد برپا ہو جائے۔ پھر قدرت خداوندی اور توحید کے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ اللہ ہی نے آنکھ کان اور دل عطاء فرما کر انسان کو اس سرزمین میں پیدا کیا۔ زندگی اور موت اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ دن اور رات کو وہی لاتا ہے مگر یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے یہ کہتے ہیں کہ مر کر ہم پیوند زمین اور بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے کیا پھر بھی ہمیں دوبارہ پیدا کر لیا جائے گا۔ ایسے وعدے ہمارے آباء و اجداد سے بھی کئے جاتے رہے۔ یہ سب افسانہ تراشیاں ہیں۔ آپ ان سے پوچھئے آسمان و زمین اور اس پر بسنے والوں کا مالک کون ہے۔ یہ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے مگر نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ ان سے پوچھئے! ساتوں آسمان اور عرش عظیم کس کا ہے یہ کہیں گے اللہ ہی کا ہے پھر بھی یہ تقویٰ اختیار نہیں کرتے۔ ان سے کہئے کہ ہر چیز پر کس کی حکمرانی ہے جو پناہ دے سکتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ یہ کہیں گے کہ اللہ ہی ہے مگر پھر بھی سحر زدہ افراد کی طرح کہاں بہکے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود شریک ہے۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں اللہ ان سے پاک ہے دین کے داعیوں کے لئے کچھ رہنما اصول بیان کرتے ہوے فرمایا تواضع اور انکساری کے ساتھ اللہ سے مانگو کہ تمہیں ظالموں کا ساتھی نہ بنائے۔ کافروں کے ساتھ بھی خوش گفتاری اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرو اور شیطانی وساوس سے اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔ اس کے بعد قیامت اور اللہ کے دربار میں پیشی کا منظر دکھایا کہ اعمال اور ایمان کی بنیاد پر جن کے نامۂ اعمال کا وزن بھاری ہو جائے گا وہ کامیاب ہوں گے جبکہ ہلکے نامۂ اعمال والے ناکام و نامراد ہوں گے۔ انہیں ذلت و رسوائی کا سانا کرنا پڑے گا۔ قیامت کے دن ایسا محسوس ہو گا کہ دنیا کی زندگی ایک آدھ دن سے زیادہ نہیں تھی۔ اللہ نے انسانوں کو بے مقصد اور بے کار پیدا نہیں کیا ہے جو اللہ کے ساتھ بلا دلیل معبودانِ باطل کو شریک کرے گا اس کا سخت محاسبہ ہو گا ایسے کافر بھی فلاح نہیں پا سکیں گے۔ آپ اللہ سے اس کی رحمت و مغفرت طلب کرتے رہیں وہ بہترین رحم کرنے والا ہے۔

 

               سورہ النور

یہ مدنی سورت ہے۔ چونسٹھ آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے، اس سورت میں پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے کے زرین اصول بیان کئے گئے ہیں اور بھرپور انداز میں قانون سازی کا عمل سر انجام دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی توحید کے موضوع پر بھی دلائل و شواہد پیش کئے گئے ہیں۔ زنا کار مردوں عورتوں کو بے رحم قانون کے شکنجہ میں کسنے کا حکم دیا ہے اور سزا کو مؤثر بنانے کے لئے عوام کے مجمع کے سامنے سزا نافذ کرنے کی تلقین ہے تاکہ زانی کو زیادہ سے زیادہ تکالیف اور ذلت و رسوائی ہو اور سزا کا مشاہدہ کرنے والوں کے لئے بھی عبرت و موعظت کی صورت پیدا ہو۔ غیر شادی شدہ مرد و عورت ارتکاب زنا کی صورت میں سو کوڑوں کے مستحق قرار دیئے گئے ہیں اور زانی اور مشرک کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا گیا ہے۔ زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی شرط عائد کی گئی ہے اور زنا کی جھوٹی تہمت لگانے پر اسی کوڑوں کی سزا کا اعلان کیا گیا ہے اور مستقبل میں ایسے شخص کو مردود الشہادۃ قرار دیا گیا ہے۔ میاں بیوی میں اگر اعتماد کا فقدان ہو جائے اور شوہر کو بیوی پر زناکاری کے حوالہ سے اعتراض ہو مگر اس کے پاس گواہ موجود نہ ہوں اور بیوی اعتراف نہ کرتی ہو تو اس بے اعتمادی کی حالت میں خاندانی زندگی مشکلات کا شکار ہو جائے گی، اس لئے ایسی شادی کو ختم کرنے کے لئے ’’لعان‘‘ کے نام سے قانون وضع کیا گیا ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر عدالت کے اندر اپنے الزام کو حلفیہ طور پر چار مرتبہ دہرائے اور اپنی صداقت کا اعتراف کرے اور پانچویں مرتبہ یوں کہے کہ میرے جھوٹا ہونے کی صورت میں مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ جبکہ بیوی چار مرتبہ حلفیہ طور پر شوہر کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹا قرار دے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر شوہر اپنی بات میں سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس کے بعد عدالت ان میں علیحدگی کا فیصلہ کر دے اور آئندہ انہیں میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے کے حق سے محروم کر دے۔ اس کے بعد واقعہ افک اور اس کے متعلق احکام کا بیان ہے۔ جہاد کے ایک سفر میں حضرت عائشہ حضور علیہ السلام کے ہمراہ تھیں، ایک جگہ پڑاؤ کے موقع پر وہ قضاء حاجت کے لئے گئی ہوئی تھیں کہ لشکر کو روانگی کا حکم دے دیا گیا اور وہ لشکر سے پیچھے رہ گئیں۔ پیچھے رہ جانے والے سامان کی دیکھ بھال کے لئے مقرر شخص صفوان بن معطل بعد میں حضرت عائشہ کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو منافقین نے یہودیوں کے ساتھ مل کر افواہوں اور جھوٹے الزامات کا ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی پاکبازی اور برأت کا اعلان کیا اور ایسی صورتحال کے لئے رہنما اصول بیان فرمائے۔ قرآن کریم نے فرمایا کہ زنا کے الزام کی صورت میں اگر چار گواہ پیش نہ کئے جا سکیں تو الزام لگانے والے کو جھوٹا شمار کر کے ’’حد قذف‘‘ کا مستحق قرار دے کر کوڑوں کی سرعام سزا جاری کی جائے تاکہ آئندہ کے لئے ایسی افواہوں اور الزامات کے پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور دوسروں کی کردار کشی کی ناجائز حرکتوں کا سد باب ہو سکے۔ دوسروں پر الزام لگانے کو معمولی نہ سمجھا جائے، اس سے معاشرہ میں بے حیائی کا حجاب اٹھتا ہے اور اسلامی معاشرہ کے ایک معزز شخص کی عزت کی پامالی اور کردار کشی ہوتی ہے، لہٰذا اگر بلا ثبوت ایسا کوئی الزام سامنے آئے تو یہ سوچ لو کہ ایسی کوئی بات اگر تمہارے بارے میں کہی جائے تو تمہارا رویہ کیا ہو گا اور اس جھوٹے الزام کو اپنے بارے میں تم کس حد تک تسلیم کرو گے۔ اگر اپنے بارے میں تسلیم نہیں کرتے تو دوسرے کے باروں میں اس طرح تسلیم کر لینے کا کیا جواز ہے۔ تمہیں تو اس قسم کی باتوں کا تذکرہ بھی زبان پر لانے سے گریز کرنا چاہئے۔ فحاشی اور عریانی کی باتیں پھیلانے والوں کے لئے دنیا میں کوڑوں کی شکل میں آخرت میں جہنم کی آگ کی شکل میں دردناک عذاب ہے۔ اس واقعہ میں حضرت ابوبکر کی زیر کفالت ان کا ایک رشتہ دار مسطح بن اثاثہ بھی ملوث تھا جب ان کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت عائشہ کی برأت کے لئے آیات قرآنیہ نازل ہو گئیں تو صدیق اکبر نے ان کی کفالت سے دستکشی اختیار کر لی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مالی وسعت رکھنے والوں کو زیب نہیں دیتا کہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر کسی کی روزی کو بند کرنے کی کوشش کریں۔ عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ بھی تم سے عفو و درگزر کا معاملہ فرمائیں۔ اس ارشاد قرآنی کے بعد صدیق اکبر نے فوراً ہی ان کا وظیفہ بحال کر دیا۔ اس کے بعد قرآن کریم نے بتایا کہ بے حیا اور بدکار مرد و عورتیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے لئے ہیں۔ جبکہ پاکیزہ اور صالح مرد و عورتیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے لئے ہیں۔ لہٰذا عائشہ صدیقہ جب حضور علیہ السلام جیسے پاکیزہ اور نیک لوگوں کے سردار کی بیوی ہیں تو ان کی پاکبازی میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ گھروں میں داخلہ کے وقت سلام کرنے اور اجازت لے کر اندر جانے کی تلقین اور عورتوں کو اپنی زیب و زینت ظاہر کرنے سے منع کرنے اور پردہ کا اہتمام کرنے کی ترغیب اور مردوں عورتوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ پھر آسمان و زمین کی نشانیوں میں غور کر کے اللہ کی قدرت کا اعتراف کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا۔ کافروں کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دے کر بتایا ہے کہ جس طرح سخت گرمی میں صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر پانی کا گمان ہونے لگتا ہے جبکہ اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی اسی طرح کافروں کے اعمال قیامت کے دن بے حقیقت قرار پائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ کرنے والوں کو زمین میں اقتدار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ایسے مخصوص اوقات جن میں گھر کے اندر زوجین عام طور پر شب خوابی کے لباس میں ہوتے ہیں ایسے وقت میں گھر کے افراد کو بھی بغیر اجازت کے کمرے میں جانے کی ممانعت کی گئی ہے۔ گھر کی استعمال کی اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں دوسرے کی اجازت کے بغیر استعمال کرنے کے لئے ضابطہ بیان کر دیا کہ معذور حاجتمند ہو یا قریبی رشتہ داری اور تعلق ہو جس کے پیشِ نظر اس بات کا یقین ہو کہ مالک برا نہیں منائے گا تو اس کی چیز کو بلا اجازت استعمال کی اجازت ہے۔

 

               سورہ الفرقان

یہ مکی سورت ہے، ستتر آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔ قرآن کریم حق و باطل میں امتیاز کی تعلیم دیتا ہے اور دنیا کو اللہ کی طاقت سے ڈرانے کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ اللہ کی نہ بیوی ہے نہ اولاد وہ تمام کائنات کا بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ معبودان باطل نہ زندگی اور موت کا اختیار رکھتے ہیں نہ ہی نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی عبادت بے سود ہے۔ پھر کافروں کے قرآن کریم پر بے جا اعتراضات اور نبی سے بے جا مطالبات کا تذکرہ کر کے بتایا گیا ہے کہ ان کے مطالبے پورے کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے لیکن یہ ہٹ دھرم ماننے والے نہیں ہیں اس لئے ان کی مطلوبہ باتیں پوری کر دینا ان کے کفر میں اضافہ کا باعث بنے گا اور اس سے ان پر ہلاکت اور عذاب اترنے کی راہ ہموار ہو گی اس لئے انہیں اپنے حال پر رہنے دیں۔ قیامت کے دن ان کے معبود ان سے برأت کا اظہار کرنے لگیں گے اور یہ اپنے معبودوں سے برأت کا اظہار کریں گے۔قیامت کے دن انہیں نجات کا کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ نہ مالی رشوت سے کام چلے گا اور نہ ہی کوئی معاون و مددگار وہاں پر ہو گا۔ وہاں پر ہم ظالموں کو دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ آپ سے پہلے انبیاء و رسل بھی بازاروں میں جاتے اور کھانا کھاتے تھے ان کی قوم ان پر بھی اعتراضات کرتی تھی۔ ہم نے لوگوں کو ایک دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے ان سے کہئے۔ کچھ صبر کریں اور ہمارے عذاب کا انتظار کریں آپ کا رب سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

 

19 – وَقَالَ الَّذِینَ

مشرکین کے دو مطالبوں کا جواب ہے، ایک تو یہ کہ فرشتہ صرف محمد علیہ السلام پر ہی کیوں اترتا ہے ہم پر کیوں نہیں اترتا اور اللہ تعالیٰ ہم سے کیوں ملاقات نہیں کرتے؟ قرآن کریم نے اس کا جواب دیا کہ اس مطالبہ کی وجہ تکبر و سرکشی ہے اور قیامت کا انکار ہے۔ عام انسانوں پر فرشتوں کے اترنے کا مطلب ہوتا ہے کہ ان کا یوم احتساب آ گیا، جس دن بادل پھٹیں گے اور فرشتے اتریں گے اس دن مجرمین کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہو گی، ان کے اعمال فضاء میں تحلیل ہو کر رہ جائیں گے۔ کافروں پر وہ دن بہت بھاری ہو گا۔ ظالم افسوس اور ندامت سے اپنا ہاتھ چبا رہے ہوں گے، اس دن ایک اللہ کے علاوہ کسی کا حکم نہیں چلے گا۔ رسول علیہ السلام شکوہ کریں گے کہ میری قوم نے اس قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے کیوں نازل ہو رہا ہے؟ ایک دم سارا کیوں نازل نہیں ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے حاکمانہ انداز میں فرمایا: ہم قادر مطلق ہیں، ہم اسی طرح نازل کریں گے پھر حکیمانہ توجیہ بیان کر دی، آپ کے قلبی اطمینان کے لئے اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنے اور ہر موقع کی بہترین تشریح و توضیح کے لئے ہم نے ایسا کیا ہے۔ پھر موسیٰ و ہارون کا تذکرہ کر کے بتایا کہ ہم نے منکرین توحید و رسالت فرعونیوں کو ہلاک کر کے رکھ دیا، پھر نوح علیہ السلام اور ان کی جھٹلانے والی قوم کے سیلاب میں غرق ہونے کا تذکرہ پھر قوم عاد و ثمود اور ان کے علاوہ بہت سی اقوام کی ہلاکت کا تذکرہ پھر یہ بتایا کہ یہ لوگ ہمارے نبی کا انکار کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس قسم کی حرکتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو خواہشات کو اپنا معبود بنالیں اور عقل و شعور سے کام لینا چھوڑ دیں، یہ لوگ جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں۔ یہ لوگ کائناتی شواہد اور واقعاتی دلائل میں غور کر کے دیکھیں کہ سورج کی نقل و حرکت سائے کو کس طرح بڑا چھوٹا کرتی ہے۔ رات انسانوں کو ڈھانپ لیتی ہے اور نیند تھکن کو ختم کر کے سکون کا باعث بنتی ہے اور دن چلنے پھرنے اور روزی کمانے کا ذریعہ ہے۔ بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں پانی برسنے کا پیغام لے کر آتی ہیں اور آسمان سے صاف ستھرا پانی برستا ہے جو مردہ زمین کی زندگی کا باعث بنتا ہے اور بے شمار انسانوں اور جانوروں کو سیراب کر دیتا ہے۔ ہم اسی طرح مختلف انداز اور اسالیب سے بات کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ سمجھ کر نصیحت حاصل کرسکیں۔ لیکن پھر بھی اکثر لوگ انکار پر اتر آتے ہیں۔ آپ ان کی اطاعت نہ کریں بلکہ قرآن کریم کی روشنی میں ان کے ساتھ جہاد کرتے رہیں۔ یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ ہے کہ میٹھے اور کھارے پانی کی لہریں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ اسی اللہ نے پانی سے انسانی زندگی کو تخلیق فرما کر اس کے نسبی اور سسرالی رشتہ بنا دیئے اور تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کے بعد بے اختیار معبودوں کو قابل عبادت سمجھنے کی مذمت اور رسول کے فرض منصبی ’’نذیر و بشیر‘‘ ہونے کا بیان، کسی بھی قسم کے مفادات سے بالاتر ہو کر قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کا حکم اور دائمی حی و قیوم ذات کی تسبیح و تحمید اور اسی پر توکل کی تلقین ہے اور آیت نمبر ۶۴ سے سورت کے اختتام تک ’’عبادالرحمن‘‘ کی خوبیاں اور صفات بیان کی ہیں کہ وہ تواضع اور انکساری کے خوگر اور جاہلوں سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ ان کی راتیں تہجد میں گزرتی ہیں اس کے باوجود جہنم سے پناہ مانگتے ہیں۔ فضول خرچی اور بخل سے دور رہتے ہیں۔ توحید کے علمبردار، شرک سے بالاتر اور بے گناہ معصوموں کے قتل سے باز رہنے والے، اپنے گناہوں پر توبہ کر کے اپنے قصور کا اعتراف کرنے والے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر ان کے گناہوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ بے مقصد زندگی نہیں گزارتے۔ ناجائز کاموں اور جھوٹی گواہی دینے سے بچتے ہیں۔ اپنے رب کی باتوں پر سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں سمیت ایسی زندگی اختیار کرنے کے لئے دعا گو رہتے ہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور متقیوں میں سر فہرست رہنے کے متمنی رہتے ہیں۔ انہی لوگوں کو جنت میں سلامیاں دی جائیں گی اور جنت کے بالا خانے ان کا مقدر ہوں گے۔ سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی شان استغناء کا بیان ہے کہ اگر تم مشکلات و مصائب میں اللہ کے سامنے رونے دھونے اور گِڑ گڑانے میں مشغول نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ تمہاری قطعاً کوئی پرواہ نہ کرتے اور دنیا میں ہی تمہیں ہلاک کر کے رکھ دیتے۔

 

               سورہ الشعراء

سورت کے آخر میں شعراء اور ان کی ذہنیت کا تذکرہ ہے، اس لئے پوری سورت کو شعراء کے نام سے معنون کر دیا گیا ہے۔ یہ مکی سورت ہے اور اس میں دوسو ستائیس آیتیں اور گیارہ رکوع ہیں۔ اس سورت کا مرکزی مضمون اثبات رسالت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے واقعات اور ان کے منکرین کے انجام سے اس مضمون کو تقویت دی گئی ہے۔ سورت کی ابتداء میں قرآن کریم کے برحق اور واضح کتاب ہونے کا اعلان اور حضور علیہ السلام کی انسانیت کی ہدایت کے لئے شدت حرص کا بیان ہے۔ اللہ اگر چاہیں تو ان کی مطلوبہ نشانیاں دکھا کر ان کی گردنیں جھکا سکتے ہیں مگر اسلام کے لئے کسی پر زبردستی اور جبر نہیں کیا جاتا۔ ان جھٹلانے اور استہزاء و تمسخر کرنے والوں کے ساتھ سابقہ قوموں والا معاملہ کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ انہیں پہلی قوموں کے حالات میں غور کر کے اس سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے۔ پھر قرآن کریم نے اکثریت(Majority) اور اقلیت (Minority) کے نظریہ کا بطلان واضح کرنے کے لئے آٹھ مرتبہ اسی بات کو دہرایا اور ہر نبی کے تذکرہ کے آخر میں کہا ہے کہ اچھے اور پاکباز کبھی بھی اکثریت میں نہیں رہے اور معرکۂ حق و باطل میں نصرت خداوندی حق کے ساتھ ہوا کرتی ہے، اگرچہ وہ اقلیت میں ہو اور باطل کو تباہ کر دیا جاتا ہے اگرچہ وہ اکثریت میں ہو۔ اس حقیقت کو قصۂ موسیٰ و فرعون میں آشکارا کیا، پھر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کے ساتھ ان کی باطل شکن اور ایمان افروز گفتگو میں واضح کیا اور بتایا کہ انسانی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے محسن کو فراموش نہ کرے۔ اللہ نے انسان کو عدم سے وجود بخشا اس کی موت و حیات، بیماری و صحت اور کھانا پینا سب اس کی عنایات کا مظہر ہے۔ قیامت کے دن مال و اولاد کسی کام نہیں آ سکیں گے۔ وہاں تو ’’قلب سلیم‘‘ کے حامل متقی انسان ہی نجات پا سکیں گے۔ ابلیس اور اس کا پورا لشکر قیامت کے دن اپنی ناکامیوں اور نامرادیوں پر نوحہ کناں ہو گا انہیں وہاں پر کوئی سفارشی اور حمایتی میسر نہیں آئے گا۔ پھر نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان توحید و شرک کا معرکہ اور اس میں اہل ایمان کی اقلیت کی کشتی میں نجات اور اہل کفر و شرک کی اکثریت کی پانی کے سیلاب میں غرقابی اس نظریہ کو واضح کر دیتی ہے کہ تعداد کی کثرت کامیابی کی ضامن نہیں بلکہ اعمال کی صورت و حسن حقیقی کامیابی کی ضامن ہے۔ پھو قوم عاد، ان کی طاقت و قوت، صنعت و حرفت میں ان کی ترقی کے باوجود اپنے نبی ہود علیہ السلام کی دعوت کا انکار اور تکذیب ان کی تباہی کا باعث بنا اور دنیوی وسائل ان کے کسی کام نہ آ سکے اور ہود علیہ السلام ان کے ساتھیوں کی وسائل سے محرومی عذاب خداوندی سے نجات کے راستہ میں رکاوٹ نہ بن سکی۔

پھر قوم ثمود اور ان کے فرستادہ نبی صالح علیہ السلام کے درمیان معرکہ حق و باطل۔ باغات اور کھیتوں کی سرسبزی و شادابی، سنگتراشی کی ٹیکنیک میں ان کی مہارت اور ان کی بستی میں امن و امان کی مثالی حالت بھی نبی کے مقابلہ میں انہیں عذاب الٰہی سے نہ بچا سکی اور مفسدین کی اکثریت کو تباہی سے دوچار کر کے مومنین کی اقلیت کو اللہ نے بچا لیا۔ پھر لوط علیہ السلام اور ان کی فحاشی و عیاشی میں ڈوبی ہوئی قوم کے درمیان شرافت و شیطنت کے معرکہ میں لوط علیہ السلام کی کامیابی اور ان کے مخالفین کی عبرتناک ہلاکت نے شریف اقلیت کو شریر اکثریت پر غلبہ کی نوید سنادی ہے۔پھر شعیب علیہ السلام کا مقابلہ ایک مستحکم معیشت و تجارت کی حامل قوم کے ساتھ۔ جس میں ایک طرف ناپ تول میں کمی، جھوٹ اور فساد کی گرم بازاری اور دوسری طرف امانت و دیانت اور صدق و صلاح کے ساتھ وسائل سے محروم اقلیت کی کامیابی و کامرانی اہل حق کے لئے نصرت خداوندی اور اہل باطل کے لئے آسمانی پکڑ کا واضح اعلان ہے۔

پھر قرآن کریم کے ’’کلام رب العالمین‘‘ ہونے کا واشگاف اعلان، امانت دار فرشتے جبریل کے ذریعہ اس کا نزول، واضح عربی زبان میں اس کی ترکیب و تنسیق اور پہلی کتابوں میں اس کے کلام برحق ہونے کی بشارتوں کے باوجود مشرکین مکہ کی طرف سے اس کا انکار ان کے تعصب اور مجرمانہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ ایک لمبے زمانہ تک بھی اگر یہ لوگ دنیا کی عارضی نعمتوں میں سرشار رہیں تب بھی یہ عذاب خداوندی سے کسی طرح نہیں بچ سکیں گے۔ اصلاح کے عمل کا آغاز اپنے گھر اور خاندان سے کیا جائے۔ اللہ پر توکل اور اس کے سامنے ’’جبین نیاز‘‘ جھکا کر رکھنا کامیابی کی دلیل ہے۔قادر الکلام دانشوروں اور شعراء نے اسلامی نظام کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں نہایت شرمناک مکروہ کردار ادا کیا تھا۔ قرآن کریم ان کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شعراء کی پیروی کرنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں کیونکہ شاعر ہر وادی میں سرگرداں اور ہر کھیت میں منہ مارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ البتہ ان میں ایمان و اعمال صالحہ اور اللہ کے ذکر سے سرشار لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے شاعرانہ کلام سے مظلومین کے ساتھ معاون اور ان کا حق دلانے میں مددگار ہوتے ہیں اور آخر میں ظالموں کو ان کے عبرتناک انجام پر متنبہ فرما کر سورت کو ختم کر دیا گیا۔

 

               سورہ النمل

مکی سورت ہے، اس میں ترانوے آیتیں اور سات رکوع ہیں۔ سورت کی ابتداء میں قرآن کریم کے اہل ایمان کے لئے بشارت اور ہدایت کی واضح کتاب ہونے کا اعلان ہے۔ پھر منکرین آخرت کے انجام بد کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس کے بعد قصۂ موسیٰ و فرعون کی شکل میں معرکۂ حق و باطل کو دل آویز اختصار کے ساتھ بیان کر کے بتایا کہ اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتے ہیں اور انہیں خوف اور ہر قسم کی مشکلات سے بچاتے ہیں جبکہ ظالموں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرتے ہیں۔ پھر داؤد و سلیمان علیہما لسلام کے واقعہ کی شکل میں اقتدار و بادشاہت اور نبوت و رسالت کے حسین امتزاج اور مادی و روحانی ترقی کے بام عروج پر پہنچ کر بھی عبدیت و ایمان کے روح پرور مناظر کو بیان کیا ہے۔

دونوں باپ بیٹوں کو بے پناہ وسائل، جنات پر حکمرانی اور پرندوں کی گفتگو سمجھنے کا سلیقہ بھی عطاء کیا گیا تھا۔ سلیمان علیہ السلام ایک مرتبہ جن و انس اور پرندوں پر مشتمل اپنے لشکر کے ساتھ جا رہے تھے کہ ’’وادی النمل‘‘ چیونٹیوں کے علاقہ سے ان کا گزر ہوا۔ ایک چیونٹی کے متوجہ کرنے پر چیونٹیاں اپنے بچاؤ کے لئے بلوں میں گھسنے لگیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام اس منظر سے بہت محظوظ ہوئے اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس کی رحمت کے طلبگار ہوئے۔ پھر ہدہد پرندہ کے ذریعہ موصول ہونے والی خبر پر ملک سباء کے سورج پرست عوام اور ان کی ملکہ بلقیس کے نام حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے تذکرہ کے ساتھ ہی حضرت سلیمان کی جاہ و حشمت اور وسائل کی فراوانی کو بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ قوم سباء کے نخوت و تکبر کے مقابلہ میں سلیمان علیہ السلام کی عجز و انکساری کو فتح نصیب ہوئی۔ حضرت سلیمان کے جنات نے ملکہ سباء کا تخت پلک جھپکتے میں منتقل کر دیا اور ملکہ بلقیس دربار سلیمانی میں حاضر ہو کر آپ کی شان و شوکت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور کلمہ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ پھر قوم ثمود اور ان کے نبی صالح علیہ السلام کے روپ میں اسلام اور کفر کا معرکہ وسائل و انتظامات کے مقابلہ میں ایمان و اعمال صالحہ کی جیت کو بیان کیا گیا ہے۔ پھر قوم لوط اور ان کی بدکرداری کے مقابلہ میں اللہ کے نبی لوط علیہ السلام کی فتح اور نا فرمانوں کی تباہی کی منظر کشی کی گئی ہے۔اور پارہ کے آخر میں اللہ کی حمد و ثناء اور منتخب بندگانِ خدا پر سلامتی کی نوید سنائی گئی ہے اور معبود حقیقی اور معبودان باطل میں تقابلی مطالعہ کے ذریعہ حق تک رسائی حاصل کرنے کی راہ سجھائی گئی ہے۔

 

20 – أَمَّنْ خَلَقَ

توحید باری تعالیٰ پر ’’تقریری اسلوب‘‘ سے دلائل پیش کرتے ہوئے بیسویں پارہ کی ابتداء ہوتی ہے کہ تم جتنی بھی کوشش کر لو، غور و خوض کر لو، اس سوال کا جواب یہی ہو سکتا ہے، قرآن کریم کہتا ہے آسمان و زمین کو پیدا کر کے بارش برسا کر پُر رونق سرسبز و شاداب باغ اور باغیچے کس نے پیدا کئے؟ کیا تم ایسے درخت بنا سکتے تھے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے معبودوں کے پیچھے بھٹکنے لگ جاتے ہیں۔ کس نے زمین کو ہچکولے کھانے سے روک کر جانداروں کے لئے قرار گاہ بنایا۔ اس میں نہریں اور پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کو آپس میں مخلوط ہونے سے بچانے کے لئے درمیان میں حد فاصل بنائی، کیا ایسے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود شریک کار ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ مشرک لوگ علم کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ پریشان حال جب پکارتا ہے تو اس کی تکلیف دور کرنے اور تمہیں زمین پر اختیارات سونپنے والا کون ہے؟ خشکی اور تری کے اندھیروں میں ہدایت دینے والا اور بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلانے والا کون ہے۔ تمہاری پہلی تخلیق کے بعد دوبارہ پیدا کرنے اور آسمان و زمین سے تمہیں روزی بہم پہنچانے والا کون ہے؟ آسمان و زمین کے چھپے ہوئے بھید جاننے والا کون ہے؟ ان مشرکین کے پاس شرک کے لئے کوئی دلیل نہیں جس سے اپنی سچائی ثابت کرسکیں۔ یہ بے سوچے سمجھے بہکے چلے جا برہے ہیں۔ دراصل آخرت کے بارے میں ان کا ’’علم‘‘ ان سے کھو گیا ہے بلکہ یہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو کر بینائی کے تقاضوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ پھر مشرکین کے گھسے پٹے اعتراض کی بازگشت سنائی گئی ہے کہ بوسیدہ ہڈیوں اور پیوند زمین ہو جانے کے بعد ہمیں دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے گا ایسے مجرموں کا انجام سب کے سامنے ہے۔ جس عذاب کے لئے جلدی مچا رہے ہیں وہ اگر اچانک آ گیا تو انہیں کون بچا سکے گا؟ ہر قسم کے اختلافات کا حل قرآن کریم میں ہے۔ اس میں ہدایت بھی ہے رحمت بھی ہے، کافر سماعت کے تقاضے پورے نہیں کرتے اس لئے انہیں بہرے بلکہ مردے قرار دیا گیا ہے۔ پھر قرب قیامت کی بڑی نشانی ’’دابۃ الارض‘‘ کے ظہور کا بتایا گیا ہے۔ پھر صور پھونکا جانا، پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑتے پھرنا اور لوگوں کا ٹولیوں کی شکل میں احتساب کے لئے پیش ہونا اور نیکی سر انجام دینے والوں کا گھبراہٹ سے محفوظ رہنا اور ’’بدی‘‘ کے مرتکبین کا قیامت کے دن اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جانا بیان ہوا ہے۔ مسلمان بن کر رب کعبہ کی عبادت کی تلقین اور قرآن کریم کی تلاوت کا حکم ہے۔ ہدایت یافتہ انسان اپنا فائدہ کرتے ہیں جبکہ گمراہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ اللہ اپنی قدرت کے دلائل کا مشاہدہ کراتے رہیں گے جنہیں تم اچھی طرح پہچان لو گے تمہارے اعمال سے تمہارا رب غافل نہیں۔

 

               سورہ القصص

مکی سورت ہے۔ اٹھائیس آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے۔ پوری سورت ہی قصۂ موسیٰ و فرعون کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کر رہی ہے۔ اس لئے اس کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ ہے۔ باطل کا انداز کہ وہ حق کے ماننے والوں کو فرقوں اور دھڑوں میں تقسیم کر کے ان کی طاقت توڑتا ہے اور پھر ان پر بلا روک ٹوک مشقِ ستم کرتا ہے۔ فرعون اپنی فسادی ذہنیت کے پیش نظر اپنی ماتحت رعایا کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے ان کے لڑکوں کو قتل کرا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ رکھ کر ان سے خدمت لیتا۔ اللہ نے کمزوروں اور ضعیفوں پر احسان کر کے انہیں دنیا کی قیادت پر فائز کرنے اور فرعون کو اس کی غلطیوں اور مظالم کی سزا دینے کا فیصلہ کر کے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں پیدا کیا۔ فرعون کے گھر میں سرکاری خرچہ پر ان کی پرورش کرائی۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کا ایک فرعونی فوجی پر حملہ اور اسے جان سے مار دینے کا واقعہ شہر مدین میں روپوشی کا زمانہ گزارنے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہونے اور ان کی خدمت کرنے کا تذکرہ پھر ان کی صاحبزادی سے عقد نکاح اور وطن واپسی کے وقت راستے میں نبوت سے سرفرازی اور فرعون کے دربار میں حق و صداقت کا ڈنکا بجانے کی ذمہ داری کو ذکر کرنے کے بعد بتایا ہے کہ فرعون کے مطلوب ترین ملزم کو اس کے دربار میں برملا چیلنج کرنے کا حوصلہ عطاء فرما کر اسے مرعوب کر کے موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کی۔ فرعون کی بچکانہ حرکت کہ اونچی عمارت کی چھت سے آسمانی معبود پر تیر اندازی کر کے اپنی بڑائی کے جذبہ کی تسکین اور پھر خدائی پکڑ کا عبرتناک منظر کہ جن دریاؤں اور محلات و قصور پر اسے فخر تھا انہیں میں رہتے ہوئے اسے غرق کر کے اس کی جائیداد و حکومت بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کے حوالہ کر کے بتایا کہ اقتدار و دولت آنی جانی ہے۔ اور اللہ اس کے ذریعہ بندوں کی آزمائش کیا کرتے ہیں، امم ماضیہ کے واقعات کا ایک نبی امی کی زبان سے تذکرہ یہ اس کے نبی برحق ہونے کی واضح دلیل ہے۔پھر اہل حق اور اہل باطل کی ذہنیت اور ان کی عملی استعداد کو بیان کر کے واضح کیا کہ قوموں کی ہلاکت و بربادی ان کے آسمانی نظام سے بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ ہدایت کا اختیار اللہ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔ ان کافروں کا کہنا کہ اگر ہم حق پر عمل پیرا ہوئے تو دنیا کی کافر قومیں ہمیں اچک کر لے جائیں گی بالکل بے وزن بات ہے۔ یہ لوگ حرم محترم کے باشندے ہیں جو امن کے لئے مثالی خطہ ہے اور ہر قسم کے پھل اور مصنوعات دنیا کے کونے کونے سے انہیں مہیا کی جاتی ہیں پھر یہ اس قسم کی بے سروپا باتیں یہ کیوں کرتے ہیں ؟ پھر قیامت کا دن اور معبودان باطل کی بے بسی اور بے رحم محاسبہ کا تذکرہ اور اس حقیقت کا بیان کہ اس دن ایمان اور اعمال صالحہ والے ہی کامیاب و کامران ہو سکیں گے۔ پھر مخلوقات کی تخلیق و تربیت کے تمام اختیارات اللہ کے پاس ہونے اور سینوں میں چھپے اور خفیہ بھیدوں سے واقف ہونے کا اعلان ہے۔ پھر اس کی حکیمانہ تربیت کے مظہر کو واضح کیا گیا کہ رات کا اندھیرا سکون و آرام کے لئے، دن کا اجالا کام کاج اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے۔ اگر اللہ رات لمبی کر کے اجالے کی آمد کو روک دے یا دن لمبا کر کے اندھیرے کا راستہ بند کر دے تو کون ہے جو تمہارے آرام اور نقل و حرکت کی ضروریات کا انتظام کرسکے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دور نبوت میں ہر محاذ پر باطل کے خلاف سرگرم رہے اور منکرین آخرت کے ساتھ ’’چومُکھی‘‘ لڑائی لڑتے رہے۔ ان کا یہ کردار فرعون و ہامان کے مقابلہ اور ’’الملاء‘‘ کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے، سرمایہ داری کے نمائندہ قارون کی سرزنش و فہمائش اور قوم کی بے اعتدالیوں پر صبر و تحمل کی شکل میں سامنے آتا ہے، قارون سے موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کو قرآن کریم نے نہایت حسین پیرائے میں یہاں بیان فرمایا ہے۔ قارون، موسیٰ علیہ السلام کا رشتہ دار اور ایک غریب انسان تھا۔ کاروبار میں ایسی برکت اور ترقی ہوئی کہ وہ بے بہا خزانوں کا مالک بن گیا۔ اس کی چابیاں سنبھالنے کے لئے پہلوانوں کی ایک جماعت کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔ اس سے یہ کہا گیا کہ تکبر و اتراہٹ کوئی اچھی صفات نہیں ہیں جس طرح اللہ نے مال و دولت کی فراوانی عطاء فرما کر تم پر احسان کیا ہے تم غریبوں، مسکینوں کے ساتھ تعاون کر کے مخلوق خدا پر احسان کا مظاہرہ کرو اور اپنے مال و دولت کی بنیاد پر فتنہ و فساد پھیلانے سے باز رہو، مگر اس نے اللہ کی عطاء و احسان کو تسلیم کرنے کی بجائے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ سب مال و دولت میرے تجربہ اور کاروباری سوجھ بوجھ کا نتیجہ ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب اسے فہمائش کی تو اس نے انتقامی کارروائی کے طور پر ایک فاحشہ بدکار عورت کو پیسے دے کر موسیٰ علیہ السلام کی کردار کشی کرنے کے لئے بدکاری کا الزام لگوانے کی کوشش کی، جس پر موسیٰ علیہ السلام نے بد دعا دی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قارون کو سوچنا چاہئے کہ اس سے پہلے کتنے بدکردار افراد اور قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں وہ طاقت و قوت میں اس سے بھی زیادہ تھے۔ ایک مرتبہ قارون غرور و نخوت کا پیکر بن کر خوب بن سنور کر نکلا لوگ اس کے وسائل کی فراوانی اور شان شوکت کو دیکھ کر بہت متأثر ہونے لگے۔ اللہ نے اس حالت میں اس پر اپنا عذاب مسلط کر کے زمین کو حکم دیا کہ اس بدبخت کو نگل جائے اور اس طرح اسے اس کے مال و دولت اور محلات سمیت زمین دھنسا دیا گیا۔ اس کے حشم و خدم اور حمایتی اسے اللہ کی پکڑ سے نہ بچا سکے اور دنیا پر یہ واضح ہو گیا کہ مالی وسعت و آسائش بھی اللہ کے حکم سے ملتی ہے اور رزق میں تنگی اور کمی بھی اللہ کے حکم سے آیا کرتی ہے۔

آخرت کی زندگی میں کامیابی کے لئے تکبر اور فساد جیسے رذائل سے پاک ہونا ضروری ہے، کیونکہ بہتر انجام متقیوں کے لئے مخصوص ہے۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے ہجرت کے وقت آپ اپنے وطن مولوف کے چھوٹ جانے پر رنجیدہ خاطر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی وجہ سے آپ پر یہ پریشانی آ رہی ہے، آپ تسلی رکھیں، ہم آپ کو اپنے وطن میں با عزت واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ قرآن کریم آپ کی تمناؤں اور کوششوں سے آپ کو نہیں ملا بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے یہ نعمت غیر مترقبہ آپ کو عطا فرمائی ہے لہٰذا آپ منکرین کے ساتھی اور مددگار نہ بنیں۔

اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو شریک نہ کیجئے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، ہر چیز فانی ہے، اسی اللہ کے فیصلے کائنات میں نافذ ہوتے ہیں اور تم سب لوٹ کر اسی کے پاس جاؤ گے۔

 

               سورہ العنکبوت

مکی سورت ہے، انہتر آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ عنکبوت مکڑی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں عنکبوت کا تذکرہ ہے۔ ابتداء سورت میں حق کے راستہ میں مشکلات و مصائب جھیلنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان کا دعویٰ کرنے سے ان پر کسی قسم کی آزمائش نہیں آئے گی۔ پہلی قوموں پر بھی ابتلاء و آزمائش کے دور آتے رہے ہیں۔ سچوں اور جھوٹوں میں فرق کرنے کے لئے ہم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ بدکردار لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے سبقت لے جائیں گے۔ اللہ سے ملاقات کا وقت مقرر ہے۔ اگر کوئی دین کے لئے تکلیف اٹھائے گا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی فرمانبرداری کی حدود بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کفر و شرک میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ایمان کو چھوڑ کر ہمارے طریقہ پر چلنے لگ جاؤ، تمہارے گناہوں کے ہم ذمہ دار ہیں۔ یہ لوگ ان کے گناہ تو کیا اٹھائیں گے اپنے ہی گناہوں کے بوجھ تلے دب کر قیامت کے بے رحم احتساب میں الجھ کر رہ جائیں گے۔ پھر نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سالہ طویل جدوجہد کے نتیجہ میں ان کے ساتھیوں کی طوفان سے کشتی کی مدد سے نجات اور قوم کی ہلاکت کا تذکرہ پھر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی دعوت توحید کا تذکرہ اور قوم کی ہٹ دھرمی اور بے اختیار معبودان باطل کی عبادت پر کاربند رہنے کا بیان اور اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر دور میں مفاد پرست، اللہ کے سچے رسولوں کا انکار کرتے آئے ہیں اور دنیا میں چل پھر کر منکرین کے انجام کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر لوط علیہ السلام اور ان کی بدکردار ملعون قوم کی ہلاکت کا بیان ہے اور قوم مدین و عاد و ثمود اور فرعون و ہامان کی ہلاکت کو بیان کر کے قوموں کی تباہی کا ضابطہ بیان کیا ہے کہ وسائل سے محرومی انبیاء کی دعوت کا انکار اور گناہوں کی زندگی کو اختیار کرنے پر قوموں کو مختلف انداز میں ہلاکت کیا گیا ہے۔ کبھی پانی کے سیلاب اور آندھی کے طوفان سے، کبھی زور دھماکہ اور زلزلہ سے، کبھی زمین دھنسا کر یا دریا میں غرق کر کے، حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کا ظلم ہی ان کی ہلاکت کا باعث بنا کرتا ہے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتے۔

اللہ کے علاوہ معبودان باطل کی طاقت و قوت ایک مکڑی اور اس کے جالے کے برابر بھی نہیں ہے۔ یہ تمام مثالیں لوگوں کو سمجھانے کے لئے دی جاتی ہیں اور علم رکھنے والے ہی انہیں سمجھتے ہیں۔ آسمان و زمین کی بہترین تخلیق اہل ایمان کے لئے اللہ کی قدرت کی عظیم الشان دلیل ہے۔

 

21 – أُتْلُ مَا أُوحِیَ

قرآن کریم کی تلاوت کے حکم کے ساتھ اکیسویں پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے۔ نماز کی پابندی کی تلقین کے ساتھ نظام صلوٰۃ کا سب سے بڑا فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بے حیائی اور ناشائستہ حرکتوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اہل کتاب سے اگر بحث و مباحثہ کی نوبت آ جائے تو اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور توحید باری تعالیٰ اور آسمانی نظام سے اپنی وفاداری برقرار رکھتے ہوئے اہل کتاب کے ظالموں کو دو ٹوک جواب دینے کی اجازت ہے۔ اللہ کی آیتوں کے منکر کفر اور ظلم کے علمبردار ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی حقانیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ایک امی ایسا معجزانہ کلام سنارہا ہے۔ اگر آپ اس سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تو باطل پرست شکوک و شبہات پیدا کر دیتے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آسمان سے نشانیاں کیوں نہیں اترتیں ؟ ان سے پوچھئے: قرآن کریم سے بڑی اور کون سی نشانی ہو سکتی ہے؟ پھر قدرت خداوندی کے کائناتی شواہد پیش کر کے دنیا کی حقیقت واضح کر دی کہ دنیا کی زندگی کھیل تماشے کی طرح ختم ہونے والی ہے اور حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ یہ لوگ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ سے وفاداری کا دم بھرنے لگتے ہیں اور جب نجات پا کر مطمئن ہو جاتے ہیں تو شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے امن وسکون کے خطے حرم محترم میں سکونت عطاء فرمائی ہے، جہاں ہر قسم کے دشمن کی دستبرد سے یہ محفوظ ہیں جبکہ ان کے اطراف کے بسنے والوں کو ان کے دشمن اچک کر لے جاتے ہیں۔ کیا یہ پھر اللہ کے انعامات کی ناشکری کرتے ہوئے باطل پر ایمان لاتے ہیں۔ آخر میں حق و صداقت کی جدوجہد کرنے والوں کو خوشخبری سنا کر سورت کا اختتام کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ ہمارے راستہ کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت سے سرفراز فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد یقیناً مخلصین کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔

 

               سورہ الروم

ابتدائی آیات کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ رومی باشندے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی وجہ سے آسمانی نظام کے قائل تھے اور مسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ رہتی تھیں اور فارسی باشندے آتش پرست ہونے کی وجہ سے آسمانی نظام کے منکر تھے اور مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ روم کے عیسائیوں اور فارس کے مجوسیوں کے درمیان جنگ میں مجوسی غالب آ گئے اور عیسائی مغلوب ہو گئے، اس پر مشرکین مکہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ جس طرح ’’ہمارے والوں ‘‘ نے ’’تمہارے والوں ‘‘ کو شکست دی ہے ایسے ہم بھی تمہیں شکست دیں گے۔ قرآن کریم اتر آیا کہ تمہاری یہ خوشیاں عارضی ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ رومیوں کو فتحیاب کر کے مسلمانوں کے لئے خوشیاں منانے کی صورت پیدا کر دیں گے۔ اس قرآنی پیشگوئی کے مطابق سات سال کے عرصہ کے اندر اندر مجوسی مغلوب ہوئے اور رومی غالب آ گئے اور اللہ کی قدرت دیکھئے کہ ادھر معرکۂ بدر میں مسلمان بھی مشرکین پر غالب آ گئے اور اس طرح قرآنی پیشگوئی حرف بہ حرف سچی ثابت ہو کر اہل ایمان کی خوشیوں کا باعث بنی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کا وعدہ برحق اور سچا ہے، لیکن اکثر لوگ حقیقت کو نہیں جانتے۔ ظاہری اسباب کو دیکھ کر فتح و شکست کے فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ آسمانی علوم کے جاننے والے قرآن کی نگاہ میں عالم ہیں جبکہ دنیوی سوجھ بوجھ رکھنے والے بے علم اور غافل ہیں۔ پھر کائناتی شواہد میں غور و خوض، توحید باری تعالیٰ کو تسلیم کرنے اور زمین میں گھوم پھر کر مکذبین کے عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔ اس کے بعد قیامت میں مجرمین کے حیران و پریشان اور بے یار و مددگار رہ جانے اور عذاب میں مبتلا ہو جانے اور اہل ایمان و اعمال صالحہ کے جنت میں شاداں و فرحاں رہنے کی نوید سنائی ہے۔ آسمان و زمین کے اندر صبح دوپہر شام اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے کی تلقین کی۔

آیت ۱۷،۱۸،۱۹ کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ یومیہ اوراد  وظائف میں اگر کمی رہ جائے تو ان تین آیات کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ پوری کر دیتے ہیں۔ اللہ کی قدرت کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ تمہیں مٹی سے انسان بنا کر دنیا میں پھیلا دیا۔ پھر سکون حاصل کرنے کے لئے تمہارا جوڑا پیدا کر کے باہمی الفت و محبت پیدا کر دی۔ آسمان و زمیں کی تخلیق، تمہاری رنگت اور زبانوں کا اختلاف دنیا والوں کے لئے بہت بڑی دلیل ہے۔ دن اور رات میں تمہارا سونا اور روزی کمانا بھی قدرت الٰہی پر ایک دلیل ہے۔ آسمانی بجلی کی چمک اور گڑگڑاہٹ سے تمہارے اندر امید و بیم کے ملے جلے جذبات کا پیدا ہونا اور آسمان سے پانی برس کر زمین کا لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل ہو جانا بھی عقل والوں کے لئے بہت بڑی آیت اور نشانی ہے۔ آسمان و زمین کا بغیر کسی سہارے کے اللہ کے حکم سے فضاء میں معلق رہنا بھی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ اللہ تمہاری ہی ایک مثال پیش کر کے تمہیں سمجھاتے ہیں کہ تمہارا ایک غلام ہو۔ ہم نے جو نعمتیں تمہیں عطاء فرما رکھی ہیں، کیا تم اسے ان نعمتوں میں برابر کا شریک ماننے کے لئے تیار ہو جاؤ گے؟ اگر نہیں تو پھر تم میری مخلوق کو میرا شریک کیوں بناتے ہو؟ پھر آیت ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۲ میں مشرکوں اور ظالموں کی مذمت کرتے ہوئے جو قرآنی گفتگو کی گئی ہے اس کی روشنی میں ’’فرقہ واریت‘‘ کی تعریف اور اس کے سدباب کے لئے زرین اصول اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو بغیر کسی دلیل کے اپنا مذہب قرار دے لینا ایک ظالمانہ فعل اور گمراہی کی بات ہے۔ ایسا کرنے والوں کو نہ ہدایت ملتی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی حمایتی اور مددگار ہوتا ہے۔ ایسی حرکت کے مرتکب مشرکانہ ذہنیت کے حامل لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دین میں فرقہ واریت کو رواج دے کر دھڑے بندیاں اور گروہ بنا لیتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے نظریات میں مگن رہتا ہے کہ اس سے اس کا تشخص برقرار رہتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ انسانی فطرت کے عین مطابق دین کو یکسوئی کے ساتھ اختیار کر لیا جائے۔ اللہ کا نظام کسی بھی دور میں تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ سیدھا اور مضبوط نظام حیات ہے، جس کے بنیادی عوامل انابت الی اللہ، تقویٰ اور اقامت صلوٰۃ ہیں۔ رزق میں فراخی و تنگی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ عزیز و اقارب، غریب و مسکین اور مسافروں پر خرچ کرنا چاہئے۔ اللہ کی رضا کے طلبگار اور فلاح پانے والوں کا یہی وطیرہ ہے۔ واپسی میں زیادہ ملنے کی نیت سے رشتہ داروں یا دوسرے لوگوں پر خرچ کرنا سود خور ذہنیت کا عکاس ہے۔ اس سے مال میں کوئی ترقی نہیں ہوتی البتہ پاکیزہ ذہن کے ساتھ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے جو زکوٰۃ دیتے ہو اس میں اضافہ اور ترقی ضرور ہوتی ہے۔ بحر و بر میں فساد کا برپا ہونا انسانی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ کفر کا وبال خود کافر پر ہی ظاہر ہوتا ہے جبکہ اعمال صالحہ کرنے والے اپنے عمل کے پھل سے مستفید ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن کی کمزوری سے تمہاری ابتداء کرنے کے بعد تمہیں جوانی کی قوت سے نوازا اور پھر تمہیں بڑھاپے کی کمزوری سے دوچار کر دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ بڑا علم اور قدرت والا ہے۔ قیامت کے دن ظالموں کی عذرخواہی ان کے کسی کام نہیں آئے گی اور نہ ہی ان کی مشکلات میں کمی کا باعث بنے گی۔ لوگوں کو سمجھانے کے لئے قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں دے دی گئی ہیں، لیکن باطل پرست اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ بے علم لوگوں کے دلوں میں مہریں لگی ہوئی ہیں۔ آپ دین پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہیں۔

 

               سورہ لقمان

حکمت و دانائی کے پیکر حضرت لقمان حکیم کے تذکرہ کی بناء پر یہ سورت ’’لقمان‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ ابتداء سورت میں قرآن کریم کے کامل اور حکمت و دانائی سے بھرپور ہونے کے تذکرہ کے ساتھ اس سے استفادہ کرنے والوں کی صفات اور خوبیوں کا تذکرہ ہے۔ ان کے ہدایت و فلاح پانے کی نوید ہے اور قرآنی ہدایت کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے اور روڑے اٹکانے والوں کی مذمت ہے۔ اس کے بعد جنت و جہنم کے مستحقین کا تذکرہ اور اللہ کی بے پایاں قدرت کے دلائل کا بیان ہے۔ پھر چیلنج کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ تو اللہ کی تخلیق ہے۔ آپ لوگ بتائیں کہ غیر اللہ نے کیا پیدا کیا ہے؟ پھر لقمان کی حکمت و دانائی کو عطاء خداوندی قرار دے کر ان کی پند و نصائح کو بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے شرک سے بچنے کی تعلیم دیتے ہوئے بتایا کہ ماں اپنے بچے کو دو سال تک جب دودھ پلاتی ہے تو کمزوری در کمزوری کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔ والدین کی اطاعت کی حدود بھی بیان کر دیں کہ شرک اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔ البتہ دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی اور خیر کے معاملات میں تعاون جاری رہے گا، مگر اتباع ایسے افراد کی کی جائے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہوں۔ انسان کی محنت پر بدلہ ملتا ہے۔ اگر رائی کے دانے کے برابر عمل آسمان و زمین کی وسعتوں میں بکھرا ہوا یا کسی چٹان کی تہہ میں چھپا ہوا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی نکال کر لے آئیں گے اور اس کے مطابق بدلہ مل کر رہے گا۔ اقامت صلوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے رہو اور مشکلات و مصائب میں صبر سے کام لو۔ یہ بڑے عزم و ہمت کی بات ہے۔ تکبر و غرور کی بجائے عجز و انکساری کا پیکر بن کر زندگی گزارو، اللہ تعالیٰ کو مغرور و متکبر لوگ پسند نہیں ہیں۔ زندگی میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرو اور نرم گفتاری کی عادت بناؤ اور گدھے کی طرح بے ہنگم آواز نکالنے سے بچنے کی تلقین کی۔ پھر کائنات کے دلائل و شواہد میں غور و خوض کے ساتھ توحید باری تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ کی بے حد و حساب خوبیوں اور صفات کو ایک حسین پیرائے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر دنیا کے تمام درختوں کی قلمیں بنا کر اور ساتوں سمندروں کی سیاہی بنا کر اللہ کی تعریف لکھنی شروع کر دی جائے تو قلم اور سیاہی ختم ہو جائے گی مگر حمد باری تعالیٰ ختم نہیں ہو گی۔ اس کے بعد قیامت کے دن کی ہولناکی اور انسانی بے چارگی کو بیان کیا کہ وہاں پر ہر انسان اپنی پریشانیوں میں اس قدر الجھا ہوا ہو گا کہ باپ اولاد کے کام نہیں آئے گا اور اولاد اپنے باپ کے لئے کچھ نہیں کرسکے گی۔ لہٰذا دنیا کی عارضی زندگی اور شیطان کے دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ قیامت کب آئے گی؟ بارش کب برسے گی؟ رحمِ مادر میں کیا ہے؟ کوئی شخص کل کو کیا کرے گا؟ اور کون کس سرزمین میں آسودۂ خاک ہو گا؟ اللہ ہی ان باتوں کا علم رکھتے ہیں وہ یقیناً بہت زیادہ علم اور خبر رکھنے والے ہیں۔

 

               سورہ السجدۃ

سورت کے شروع میں قرآن کریم کے کلام رب العالمین ہونے اور تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہونے کا بیان ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد اور تخلیق انسانی کے مختلف مراحل سے استدلال کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان بوسیدہ ہو کر زمین کی وسعتوں میں گم ہو جائے گا تب بھی اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ کر لیں گے۔ پھر مجرمین کی مذمت اور قیامت کے دن ان کی بے کسی اور بے بسی کو ذکر کرتے ہوئے انہیں جہنم کی ذلت و رسوائی کا مستحق قرار دیا ہے جبکہ ایمان والے جن کی زندگیاں عجز و انکساری کا پیکر بن کر رکوع، سجدے اور تسبیح و تحمید میں گزرتی ہیں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور جنت کے باغات میں بہترین مہمانی اور عمدہ ترین جزا کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب ہدایت بنی اسرائیل کے لئے نظام حیات کے طور پر عطاء کی گئی، اس سلسلہ میں کسی قسم کے شکوک و شبہات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ حق کی فتح کا دن کون سا ہو گا؟ آپ بتا دیجئے کہ فتح کا دن جب آئے گا تو تمہارا ایمان کام نہیں آ سکے گا۔ لہٰذا ان سے چشم پوشی کرتے ہوئے اللہ کے فیصلہ کا آپ بھی انتظار کیجئے۔ وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔

 

               سورہ الاحزاب

الاحزاب سے گروہ اور جماعتیں مراد ہیں۔ مشرکین مکہ نے تمام عرب کے قبائل کو اسلام کے خلاف آمادۂ جنگ کر کے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ حضور علیہ السلام نے مسلمانوں کے مشورہ سے اپنے دفاع کے لئے خندق کھود لی تھی اس لئے اسے غزوہ احزاب یا غزوۂ خندق کہا جاتا ہے۔ اس سورت میں مدنی سورتوں کی طرح قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کا بھی تذکرہ ہے۔ اس لئے اسے ’’الاحزاب‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ سورت کی ابتداء میں ’’تقویٰ‘‘ کے حکم کے ساتھ کافروں اور منافقوں کی عدم اطاعت اور وحی الٰہی کے اتباع اور توکل کی تلقین ہے۔ اس کے بعد بتایا کہ کسی کے سینہ میں اللہ نے دو دل نہیں رکھے۔ ظہار یعنی اپنی بیویوں کی کمر کو اپنی ماؤں کی کمر کے مشابہ قرار دینے کی مذمت کرتے ہوئے ’’منہ بولے‘‘ رشتوں کے احکام بیان کئے ہیں کہ کسی کو بیٹا، بیٹی، بہن یا ماں کہہ دینے سے یہ رشتے ثابت نہیں ہو جاتے۔ لہٰذا متنبی کو اس کے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور اپنے بھائی یا اتحادی قرار دیا جائے۔ ایمان والوں پر نبی کا حق سب سے زیادہ ہے اور نبی کی زوجات مطہرات ’’امہات المؤمنین‘‘ ہیں۔ پھر غزوہ احزاب میں پورے عرب کے کفر کا اجتماع اور ہر طرف سے یلغار کے مقابلہ میں اللہ کی مدد و نصرت کا تذکرہ ہے کہ اللہ نے تیز ہوا چلا کر نصرت فرمائی اور مشرکین کے قدم اکھاڑ دیئے۔ منافقین اور یہودیوں کی مذمت ہے، جنہوں نے اس موقع پر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ پھر غزوہ بنی قریظہ میں یہود کے مقابلہ میں اللہ کی نصرت اور ان کی جائیدادوں اور زمینوں پر مسلمانوں کے قبضہ کو یاد دلا کر ہر چیز پر اللہ کی قدرت و غلبہ کی تمہید بنائی گئی ہے اور آخر میں ’’آیت تخییر‘‘ ہے، جس میں ازواج مطہرات کے سالانہ نفقہ میں اضافہ کے مطالبہ پر انہیں مطالبہ سے دستبردار ہو کر حرم نبوی میں رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا حکم دیا گیا، جس پر تمام امہات المؤمنین نے حرم نبوی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے مالی مطالبہ سے دستبرداری کا اظہار کر دیا، جس پرا للہ نے ان مخلص خواتین کے لئے اجر عظیم کا وعدہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

 

22 – وَمَن یَقْنُتْ

ازواج مطہرات کے اعمال صالحہ پر دُہرے اجر اور رزق کریم کی نوید سنائی گئی ہے۔ امہات المؤمنین اور ان کے توسط سے تمام دنیا کی خواتین مؤمنات کو پیغام دیا گیا ہے کہ کسی نامحرم سے گفتگو کی ضرورت پیش آ جائے تو کُھردرے پن کا مظاہرہ کریں۔ نرم گفتاری کا معاملہ نہ کریں ورنہ اخلاقی پستی کے مریض اپنے ناپاک خیالات کو پورا کرنے کی امید قائم کرسکتے ہیں۔ گھروں میں ٹھہری رہا کرو۔ سابقہ جاہلیت کے طور طریقوں کے مطابق بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ نبی کے اہل بیت سے ناپاکی دور فرما کر انہیں پاکیزہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں اہل بیت کا مصداق اوّلی ازواج مطہرات ہیں۔ پھر ازواج مطہرات کے خصوصی اعزاز کا تذکرہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و حکمت کا نزول ہوتا ہے تمہیں اس کا اعادہ اور تکرار کرتے رہنا چاہئے۔ اس کے بعد صفات محمودہ میں مردو زن کی مساوات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام، ایمان، اطاعت شعاری، سچائی، صبر، عجز و انکساری، صدقہ و خیرات کی ادائیگی، روزہ کا اہتمام، عفت و پاکدامنی اور اللہ کے ذکر میں رطبِ لسان رہنے والے تمام مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہوا ہے۔ پھر کسی بھی مؤمن مرد و عورت کے ایمان کے تقاضے کو بیان کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سامنے آ جانے کے بعد اسے رد کرنے کے حوالہ سے کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنّٰی حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد ان کی مطلقہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح کر کے یہ مسئلہ واضح کر دیا کہ متبنّٰی کی بیوی ’’بہو‘ نہیں بن سکتی۔ پھر آپ کے خاتم النبیین ہونے اور مسلمان مردوں میں سے کسی کے باپ نہ ہونے کا واضح اعلان ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو تسبیح و تحمید اور ذکر کی کثرت کرنے کی تلقین ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کچھ امتیازی خوبیوں کا تذکرہ کہ آپ مشاہد، بشیر و نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ پھر رخصتی سے پہلے طلاق پانے والی عورت کے متعلق بتایا کہ اس کی کوئی عدت نہیں ہوتی اور اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو جوڑا کپڑوں کا دے کر اسے فارغ کر دیا جائے۔ پھر نبی کے لئے عام مؤمنین کے مقابلہ میں زیادہ بیویاں رکھنے کا جواز اور ’’باری‘‘ مقرر کرنے کے حکم کے ساتھ ہی مزید شادیاں کرنے پر پابندی کا اعلان کیا گیا۔ نبی کے گھر میں بے مقصد بیٹھ کر آپ کے لئے پریشانی پیدا کرنے سے بچنے کی تلقین، پردے کے بارے میں دو ٹوک اعلان کہ اگر کوئی ضرورت پیش آ ہی جائے تو نامحرم سے گفتگو پردہ کے پیچھے رہ کر کی جائے۔ نبی کے انتقال کے بعد کسی کو ازواج مطہرات سے کسی بھی حالت میں نکاح کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف سے نبی پر صلاۃ و سلام کی خوشخبری سنا کر اہل ایمان کو بھی آپ پر صلاۃ و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کی ایذا رسانی کا باعث بننے والے ملعون اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں۔ پھر اسلامی معاشرہ کی خواتین کو پردہ کرنے کے لئے ’’گھونگھٹ‘‘ نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قیامت کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ کافر جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے کسی کے گناہوں کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا ہر ایک کو اپنے جرائم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ناجائز الزام سے بری قرار دے کر اللہ کی نگاہ میں ان کے معزز و محترم ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پھر اہل ایمان کو تقویٰ اور پختہ بات کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے پر مغفرت اور عظیم کامیابی کی خوشخبری سنائی ہے۔ اسلام کی عظیم الشان امانت جسے زمین و آسمان اور پہاڑ اٹھانے سے قاصر رہے اس انسان کے حصہ میں آنے کی خبر دے کر بتایا ہے کہ اس سے منافق و مؤمن اور مشرک و موحد کا فرق واضح ہو گا اور ہر ایک کو اپنے کئے کا بدلہ مل سکے گا۔ اللہ بڑے غفور رحیم ہیں۔

 

               سورہ سبأ

قوم سبأ کے تذکرہ کی بناء پر سورت کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ مکی سورت ہے اس میں چوّن آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ ابتداء میں اس بات کا بیان ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرتی ہے۔ اس کا علم بڑا وسیع ہے۔ زمین سے نکلنے یا داخل ہونے اور آسمان سے اترنے یا چڑھنے والی ہر چیز کو وہ جانتا ہے زمین و آسمان کی وسعتوں میں پائی جانے والی کوئی چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔ وہ عالم الغیب ہے قیامت قائم ہونے پر ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو مغفرت اور اجر عظیم کی شکل میں بدلہ ملے گا جبکہ اللہ کی آیتوں میں عاجز کرنے کی کوشش کرنے والوں کو دردناک عذاب دیا جائے گا۔ کافر لوگ اللہ کے نبی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آؤ تمہیں ایسا آدمی دکھائیں جو کہتا ہے کہ ریزہ ریزہ ہو کر منتشر ہو جانے کے بعد بھی ہمیں نئے سرے سے پیدا کر دیا جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے یہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے یا پاگل ہو چکا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ منکرین آخرت کے لئے کھلی گمراہی اور عذاب مقدر ہو چکا ہے۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے فضل و عنایت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایسی خوش الحانی عطا کی گئی تھی کہ وہ جب زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تلاوت میں مشغول ہو جاتے۔ لوہا ان کے ہاتھوں میں ایسا نرم کر دیا گیا تھا کہ اس سے وہ ’’زرہ بکتر‘‘ بنا لیا کرتے تھے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ سے مزدوری عیب نہیں اعزاز ہے اور وسائل کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ سلیمان علیہ السلام کو سفر کی ایسی سہولت عطاء فرما رکھی تھی کہ ہوا کی مدد سے صبح کی منزل میں ایک ماہ کی مسافت طے کر لیتے اور شام کی منزل میں بھی ایک ماہ کی مسافت طے کر لیتے اور برتن وغیرہ بنانے کے لئے یہ آسانی تھی کہ تانبے کا چشمہ بہتا تھا، اس سے جیسے برتن چاہیں ڈھال لیتے تھے اور ان کے لئے جنات بھی مسخر کر دیئے گئے تھے کہ وہ بڑے بڑے تعمیری کام اور وسیع پیمانہ پر کھانا پکانے میں تندہی سے کام کرتے تھے۔ جب سلیمان علیہ السلام کی موت آئی تو وہ ایک تعمیری کام کی نگرانی کر رہے تھے اور جنات تعمیرات میں مصروف تھے۔ وہ اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑے کھڑے انتقال کر گئے۔ جنات کو ان کی موت کا علم نہ ہو سکا اور وہ نہایت محنت و جانفشانی سے کام میں لگے رہے جب کام مکمل ہو گیا تو ان کی لاٹھی دیمک لگ جانے کے سبب سے ٹوٹ گئی اور سلیمان علیہ السلام گر گئے جس سے جنات کے علم میں یہ بات آ گئی کہ آپ انتقال کر چکے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جنات غیب کا علم نہیں جانتے ورنہ وہ اس طرح تعمیری مشقت میں مبتلا نہ رہتے۔

قوم سباء کی بستی بھی اپنے اندر درس عبرت لئے ہوئے ہے وہ زراعت پیشہ لوگ تھے اس بستی کے دائیں بائیں سرسبز و شاداب باغات تھے۔ انہیں چاہئے تھا کہ اللہ کا رزق کھاتے اور اس کا شکر ادا کرتے۔ مگر انہوں نے اعراض کیا اور کفران نعمت میں مبتلا ہو گئے۔ چنانچہ ہم نے ان پر ’’عرم‘‘ کا بند توڑ کر سیلاب مسلط کر دیا اور بہترین باغات کے بدلہ بدمزہ پھل، جھاؤ اور تھوڑے سے بیری کے درختوں پر مشتمل بیکار باغ پیدا کر دئے اور ان کی بابرکت اور پر امن بستیوں کو تباہ کر کے انہیں تتر بتر کر کے رکھ دیا اور ان کی داستانوں کو ’’افسانہ‘‘ بنا دیا۔ شیطان نے اپنے نظریات کے پیچھے انہیں چلا لیا حالانکہ اسے کوئی ظاہری اختیار تو حاصل نہیں تھا مگر ہم چاہتے تھے کہ شکوک و شبہات میں مبتلا اور پختہ ایمان والے ظاہر ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت پر دلائل کے ساتھ ساتھ حضور علیہ السلام کی نبوت و رسالت کی تائید کر دی اور بتایا کہ قیامت کے بارے میں بار بار پوچھنے والوں کا جب متعین وقت آ گیا تو انہیں ذرہ برابر بھی مہلت نہیں مل سکے گی۔ پھر میدانِ قیامت میں لیڈروں اور عوام کی گفتگو بتائی کہ اللہ کے سامنے پیشی کے موقع پر یہ آپس میں ایک دوسرے پر اعتراضات کریں گے وہ کہیں گے کہ تمہاری وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنے پڑے اور یہ کہیں گے کہ سارا قصور تمہارا ہے۔ ہم ان کے گلے میں طوق ڈال کر انہیں اپنے اعمال بد کی سزا اٹھانے کے لئے جہنم رسید کر دیں گے۔ لوگ مال و دولت کے گھمنڈ میں اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ پیسے کی فراوانی و تنگی کا نظام بھی اللہ ہی کے پاس ہے۔ مال و اولاد لوگوں کو اللہ کے قریب نہیں کرتے بلکہ ایمان و اعمال صالحہ سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

 

               سورہ فاطر

مکی سورت ہے۔ اس میں پینتالیس آیتیں اور پانچ رکوع ہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمان و زمین کو نئے انداز سے بنایا اور دو دو، تین تین، چار چار پر والوں کو اپنا قاصد بنایا ہے اور جیسے چاہے اس سے زیادہ پروں والی مخلوق بھی بنا سکتا ہے۔ اگر اللہ کسی کو راحت دینے پر آ جائیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا اور اگر وہ کسی کو محروم کرنا چاہے تو اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور کر کے فیصلہ کرو کہ آسمان و زمین میں اس کے علاوہ کون خالق کہلانے کا مستحق ہے۔ اے انسانو! اللہ کا وعدہ سچا ہے، عارضی دنیا اور شیطان کے دھوکہ میں نہ پڑو، شیطان تمہارا ازلی دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو۔ اگر کسی شخص کے اعمالِ بد اس کے سامنے مزین کر دیئے گئے اور وہ انہیں بہت اچھا سمجھنے لگے تو آپ اس پر حسرت و افسوس کا اظہار نہ کریں اللہ ان کے کرتوتوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر ہواؤں کا چل کر بادلوں کو اڑانا اور بنجر زمین کو سیراب کر کے آباد کر دینا مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی بہت بڑی دلیل ہے۔

ساری عزت اللہ ہی کے لئے ثابت ہے، لہٰذا جو عزت چاہتا ہے وہ عزت والے کے دامن سے وابستہ ہو کر ہی اپنا مقصد حاصل کرسکتاہے۔ پھر انسانی تخلیق کے مراحل کا مختصر تذکرہ اور کارخانۂ قدرت پر کائناتی شواہد پیش کئے جا رہے ہیں۔ میٹھے اور کھارے پانی کے سمندر آپس میں برابر نہیں ہو سکتے، جبکہ دونوں سے زیورات کے لئے موتی، خوراک کے لئے مچھلی کا گوشت حاصل ہوتا ہے اور بار برداری و تجارت کے لئے کشتیاں چلنے پر تمہیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہئے۔

اے انسانو! تم اللہ کے محتاج ہو وہ اگر تمہیں ختم کر کے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اپنا تزکیہ کرنے والا اللہ پر کوئی احسان نہیں کرتا؟ آنکھوں والا اور اندھا، اندھیرا اور روشنی، دھوپ اور سایہ اور مردہ و زندہ کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے آسمان سے پانی برسا کر مختلف ذائقوں اور رنگوں کے پھول اور پھل پیدا کئے اور سفید اور کالے پہاڑ پیدا کئے، چوپائے اور جانور بنائے، صحیح معنی میں اللہ سے ڈرنے والے علماء ہی ہیں۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اقامت صلوٰۃ کرنے والے اور انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اللہ کے ساتھ ایسی تجارت کر رہے ہیں جس میں کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر عطا فرما کر اپنے فضل سے اس میں اضافہ بھی کر دے گا۔ وہ بہت قدردان اور بڑا ہی معاف کرنے والا ہے۔ جنت میں جانے والے نہایت خوشی و انبساط کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کر رہے ہوں گے، جبکہ کافر جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر چلا رہے ہوں گے کہ ہمیں یہاں سے نکال دو۔ ان کے عذاب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تمہیں مناسب مہلت دے دی گئی تھی اور تمہیں ڈرانے والا بھی آ گیا تھا۔ اب تمہیں یہی عذاب چکھنا ہو گا۔ تمہارا کوئی معاون و مددگار بھی نہیں ہو گا۔ غیب کا علم اور دلوں کے بھید اللہ ہی جانتا ہے۔ آسمان و زمین کو بھی اللہ نے ہی گرنے سے بچایا ہوا ہے۔ اگر اللہ نے انہیں زائل کر دیا تو کوئی انہیں بچا نہیں سکے گا۔ کفار کی سازشیں اور تکبر ان کے ایمان لانے کے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ لوگ پہلوں کی سنت کے منتظر ہیں۔ یاد رکھو! اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ دنیا میں چل پھر کر مجرمین کا عبرتناک انجام دیکھ کر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کو عاجز کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے جرائم پر پکڑ کرنے لگ جاتے تو کوئی جاندار زمین پر باقی نہ بچتا، لیکن اللہ نے ایک مقررہ وقت تک انہیں مؤخر کیا ہوا ہے جب وہ وقت آ جائے گا تو یہ لوگ بچ کر نہیں جا سکیں گے۔ اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہے ہیں۔

 

               سورہ یٰس

مکی سورت ہے۔ تراسی آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کو قرآن کریم کا دل قرار دیا ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ دل انسانی حیات کا ضامن ہے اور عقیدۂ آخرت ایمانی حیات کا ضامن ہے اور اس سورت میں عقیدۂ آخرت کو مختلف پیرائے میں منفرد انداز پر پیش کیا گیا ہے، جس سے بعث بعد الموت اور آخرت کے عقیدہ کو تقویت ملتی ہے۔ اس لئے سورہ یٰسٓ کو قلبِ قرآن کہا گیا ہے۔

ابتداء میں قرآن کریم کی حکمتوں کا بیان ہے، پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اثبات ہے اور کافروں پر ان کے کفر کی بناء پر عذاب کے نازل ہونے کی وعید ہے۔ اس کے بعد منکرین قرآن کی کیفیت کو دو مثالوں میں بیان کیا ہے:

(۱)کافروں نے خود ساختہ پابندیوں اور من گھڑت عقائد میں اپنے آپ کو ایسا جکڑا ہوا ہے جیسے کسی شخص کی گردن میں اس کی ٹھوڑی تک طوق ڈال دیا جائے اور وہ نیچے جھانک کر اپنا راستہ دیکھنے کے قابل بھی نہ رہے۔

(۲) جیسے کسی شخص کے آگے اور پیچھے دیواریں کھڑی کر کے اسے نقل و حرکت سے محروم کر کے کسی بھی چیز کو دیکھنے کے قابل نہ چھوڑا جائے یہی حال کافروں کا ہے کہ وہ صراط مستقیم کو دیکھ کر اس پر گامزن ہونے کے قابل نہیں ہیں۔

 

23 – وَمَا لِیَ

اصحاب القریہ کا واقعہ دعاۃ الی اللہ کی تربیت و تسلی کے لئے اور ہر دور کے مشرکین کی ذہنی ہم آہنگی کے اظہار اور وعید سنانے کے لئے بیان کیا ہے۔ انطاکیہ بستی کے مشرکین کے لئے عیسائیت کے تین مبلغین توحید کا پیغام لے کر اس طرح پہنچے کہ پہلے دو مبلغ وہاں آئے۔ انطاکیہ کا ایک باشندہ ’’حبیب نجار‘‘ کسی موذی مرض کا شکار لوگوں سے الگ تھلگ شہر کے کنارے پر رہتا تھا۔ مبلغین کی دعوت قبول کر کے مسلمان ہو گیا، اللہ نے اسے صحت دے کر مال و دولت سے بھی نواز دیا۔ شہر والوں نے مبلغین کی بات نہ مانی، انہیں مارنے پیٹنے اور قتل کی دھمکیاں دینے پر اتر آئے۔ کہنے لگے تمہاری نحوست سے ہم مہنگائی اور باہمی اختلافات کی پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نحوست کی اصل وجہ تمہاری ہٹ دھرمی اور اللہ کے پیغام کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ قوم کی زیادتی اور ظلم کا معلوم ہونے پر اللہ والوں کی حمایت میں حبیب نجار شہر کے کونے سے بھاگتا ہوا آیا اور قوم کو سمجھانے لگا کہ جس اللہ نے ہمیں پیدا کیا اور اسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے ہمیں عبادت بھی اسی کی کرنی چاہئے اور مفادات سے بالاتر ہو کر جو لوگ ہمیں پیغام حق پہنچانے آئے ہیں ہمیں ان کی دعوت پر ’’لبیک‘‘ کہنا چاہئے مگر قوم اپنے ظلم و ستم سے باز نہ آئی اور قاصدین حق کے قتل پر آمادہ ہو گئی۔ حبیب نجار نے قوم کی بجائے اللہ والوں کا ساتھ دیا اور ایمان کے تحفظ اور دین حق کی حمایت میں اپنی جان داؤ پر لگادی اور تینوں اللہ والے شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو گئے۔ حق کے دفاع اور حمایت میں اس عظیم الشان قربانی پر اللہ کا نظام غیبی حرکت میں آ گیا اور فرشتے نے فصیل پناہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر ایک زور دار چیخ ماری جس کی ہولناکی اور دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ ٹھنڈے ہو کر رہ گئے۔ انہیں ہلاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کے لشکر نہیں بھیجنے پڑے، اس لئے مشرکین مکہ کو مشرکین انطاکیہ کے اس عبرتناک انجام سے سبق سیکھ لینا چاہئے۔ پھر مرنے کے بعد زندگی اور اللہ کی قدرت کاملہ کے دلائل کے طور پر بارش سے مردہ زمین کے اندر زندگی کے آثار، لہلہاتی کھیتیاں، کھجور و انگور کے باغات اور نہروں اور چشموں کی شکل میں آب پاشی کا نظام، انسانی خوراک کے لئے پھل اور سبزیاں اور مختلف سبزیوں کی ترکیب سے انواع و اقسام کے نت نئے کھانے۔ کیا یہ لوگ اس پر بھی اللہ کا شکر کرتے ہوئے آسمانی نظام کی افادیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ہر چیز کی ’’جوڑوں ‘‘ کی شکل میں (نر اور مادہ یا مثبت اور منفی) تخلیق، انسانی زندگی میں مظاہر قدرت کی کار فرمائی، شب و روز کی آمد و رفت کا ایک منظم نظام کہ دن کا غلاف اتاریں تو رات کی تاریکی اور رات کا غلاف ہٹائیں تو دن کا اجالا، چاند سورج کا نظام شمسی کے تحت منٹوں اور سیکنڈوں کی رعایت کے ساتھ اپنے مدار میں نقل و حرکت کرنا کہ ایک دوسرے سے آگے نکل کر دن رات کی آمد و رفت میں کوئی خلل پیدا نہ کرسکیں، اللہ کی قدرت کے واضح دلائل ہیں۔ سمندر میں نقل و حمل کی سہولت کے لئے تیری ہوئی کشتیاں جنہیں اللہ تعالیٰ جب چاہیں اس طرح غرق کر دیں کہ تمہاری آواز بھی نہ نکل سکے اور اس قسم کی کتنی ہی جدید انداز کی سواریاں اللہ پیدا کرتے ہیں، یہ سب اس کی رحمت کے تقاضے کے تحت ایک مقررہ وقت تک دنیا سے استفادہ کا سامان ہے۔ اس کے بعد تقویٰ اختیار کرنے اور غرباء و مساکین پر خرچ کرنے کی تلقین کے ساتھ مشرکین کی ہٹ دھرمی اور ضلالت کا تذکرہ اور قیامت قائم کرنے کے فوری مطالبہ پر مخصوص اسلوب میں تنبیہ کہ یہ لوگ ایک زور دار چیخ کے منتظر ہیں جو انہیں بھرپور زندگی گزارتے ہوئے اچانک آلے گی اور انہیں اپنے اہل خانہ تک پہنچنے اور کسی قسم کی وصیت کی مہلت بھی نہ مل سکے گی۔ اس کے بعد قیام قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے کہ جیسے ہی صور پھونکا جائے گا لوگ قبروں سے نکل کر اتنی بڑی تعداد میں اپنے رب کے سامنے حاضری کے لئے چل پڑیں گے کہ وہ پھسلتے ہوئے محسوس ہوں گے اور بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ ہمیں قبروں سے کس نے نکال باہر کیا، پھر خود ہی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ تو رحمان کے وعدہ کی عملی تفسیر ہے اور رسولوں نے بالکل سچ کہا تھا۔ اس کے بعد ظلم سے پاک محاسبہ اور ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کے ضابطہ کے مطابق جزاء و سزا کا عمل ہو گا۔ جنت والے اپنے مشغلوں میں شاداں و فرحاں ہوں گے، گھنے سائے میں اپنی بیگمات کے پہلو بہ پہلو مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جو طلب کریں گے وہ ان کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ رب رحیم کی طرف سے انہیں ’’سلامیاں ‘‘ دی جا رہی ہوں گی۔ اس کے بالمقابل مجرموں کو الگ تھلگ کر کے ان کے اعضاء و جوارح کی گواہی پر جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔ اس کے بعد شعرو شاعری کو شانِ نبوت کے منافی قرار دے کر بتایا کہ یہ واضح قرآن ان لوگوں کے لئے مفید ہے جن میں زندگی کی رمق پائی جاتی ہے۔ پھر کچھ انعامات خداوندی کا تذکرہ کر کے شرک کی مذمت کی گئی ہے اور باطل پرستوں کے اعتراضات سے اثر قبول نہ کرنے کی تلقین ہے اور آخر میں مرنے کے بعد زندہ ہونے پر معرکۃ الآراء انداز میں عقلی دلائل دے کر سورت کو ختم کیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہوا کہ عاص بن وائل نے ایک بوسیدہ ہڈی کو مسل کر فضاء میں تحلیل کرتے ہوئے مذاق کے انداز میں کہا، اس قدر بوسیدہ ہڈیوں کو کون دوبارہ پیدا کرسکے گا؟ اس کا جواب دو طریقہ سے دیا: (۱)جس اللہ نے پہلے اس انسان کو پید اکیا وہی دوبارہ بھی پیدا کر لے گا۔ (۲)جس اللہ نے آسمان و زمین جیسے مشکل ترین اور بڑے بڑے اجسام کو پیدا کیا وہ انسان جیسی چھوٹی مخلوق کو بہت آسانی سے پیدا کرسکتا ہے۔ کسی بھی بڑے یا چھوٹے کام کے لئے اسے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا پڑتا کہ وہ وجود میں آنے کا حکم دیتے ہوئے ’’کُن٘‘‘ کہتا ہے تو وہ چیز وجود میں آ جاتی ہے۔

 

               سورہ الصافات

مکی سورت ہے۔ ایک سو بیاسی آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے، فرشتوں کو صافات کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ دربار خداوندی میں صف بندی کا اہتمام کرتے اور ’’قطار اندر قطار‘‘ حاضری دیتے ہیں۔ اس سے حیات انسانی میں ’’قطار‘‘ کی اہمیت بھی اجاگر ہو جاتی ہے۔ نزول قرآن کے وقت آسمان اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ آسمانوں سے اوپر عرش معلیٰ پر لوح محفوظ سے منتقل ہو کر فرشتوں کے توسط سے زمین پر اتر رہا تھا اور اس بات کا امکان تھا کہ شرارتی جنات و شیاطین قرآن کریم کے بعض کلمات کو لے کر خلط ملط کر دیں اور تحریف کر کے لوگوں میں نشر کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر حفاظتی چوکیاں (بروج) قائم کر کے فرشتوں کو ان پر مامور کر دیا تاکہ شیاطین اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ستارے آسمان کی زینت بھی ہیں اور شیاطین سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہیں، اگر کوئی شیطان چھپ کے سننے کی کوشش کرتا ہے تو ’’شہاب ثاقب‘‘ اس کا پیچھا کر کے اسے راہِ فرار پر مجبور کر دیتا ہے۔ انسان کی تخلیق چپکنے والی مٹی سے کی گئی ہے۔ پھر بتایا کہ مرنے کے بعد یہ انسان دوبارہ زندہ ہو گا اور اسے احتساب کے کڑے عمل سے گزرنا پڑے گا اور ہر شخص کو اپنے کئے کا بدلہ مل کر رہے گا۔ مخلصین کو با عزت طریقہ پر کھانے پینے اور جنسی لذت کا سامان فراہم کیا جائے گا جبکہ ظالم جہنم کے عذاب اور زقوم کے درخت سے اپنی بھوک مٹانے پر مجبور ہوں گے جس سے نہ سیری ہو گی اور نہ ہی صحت حاصل ہو سکے گی۔دو دوستوں کا عبرتناک تذکرہ بھی کیا ہے کہ ایک جنتی اپنے ہم مجلس دوستوں سے کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک دوست تھا جو کہ میرے قیامت کے عقیدہ پر استہزاء و تمسخر کیا کرتا تھا وہ آج یہاں نظر نہیں آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اگر تم اسے دیکھنا چاہو تو نیچے جھانک کر دیکھ لو وہ جب جھانکے گا تو اسے جہنم کے عذاب میں مبتلا نظر آئے گا۔ جنتی اس سے کہے گا کہ تو تو مجھے گمراہ کرنے پر کمربستہ رہتا تھا یہ تو اللہ کا فضل و کرم ہوا کہ اس نے تمہارے بہکاوے سے مجھے بچا لیا ورنہ میں بھی تمہاری طرح جہنم کی گہرائیوں میں پڑا سڑ رہا ہوتا۔ اس کے بعد سلسلہ انبیاء کا بیان شروع ہوتا ہے، سب سے پہلے نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا مختصر تذکرہ، ایمان والوں کی قلت تعداد کے باوجود نجات اور کافروں کی کثرت تعداد کے باوجود غرقابی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ۔ بتوں کی توڑ پھوڑ اور آگ میں ڈالے جانے کا ذکر، پھر بڑھاپے میں اسماعیل علیہ السلام کی ولادت اور ان کی قربانی کا ایمان افروز بیان، باپ کا ایثار اور بیٹے کا صبر، قربانی کی قبولیت، اسماعیل کے بدلہ میں جنتی مینڈھے کی قربانی اور رہتی دنیا تک اس کی یاد مناتے ہوئے پوری ملت اسلامیہ کو قربانیاں پیش کرنے کا حکم۔ پھر اسحاق اور اس کی صالح اولاد کی بشارت پھر موسیٰ و ہارون اور اللہ کی مدد سے فرعونی مظالم کے مقابلے میں ان کی اور ان کی قوم کی نجات۔ ان کے ایمان و اخلاص کی تعریف اور اللہ کی طرف سے انہیں ’’سلامی‘‘ پیش کرنے کا اعلان، اس کے بعد الیاس علیہ السلام اور ان کی مشرک قوم کا ذکر اور حضرت الیاس کے بیان توحید کی تعریف، اس کے بعد حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی بے حیا قوم کا عبرتناک انجام، اس کے بعد حضرت یونس علیہ السلام اور ان کے مچھلی کے پیٹ سے نجات کا واقعہ۔ پھر اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے والوں کی مذمت اور اللہ کے رسولوں اور نیک بندوں کی مدد و نصرت کا وعدۂ الٰہی اور آخر میں اللہ کی تسبیح و تحمید اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی کے نزول کے وعدہ کے ساتھ سورت کا اختتام۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کا ثواب بڑی ترازو میں تولا جائے تو وہ مجلس کے اختتام پر (صافات کی آخری تین آیتیں ) سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمدللہ رب العالمین پڑھ لیا کرے۔

 

               سورہ ص

مکی سورت ہے۔ اٹھاسی آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے، قرآن کریم کے ’’کتاب نصیحت‘‘ ہونے کے بیان کے ساتھ ہی منکرین توحید کے لئے عذاب الٰہی کی وعید اور پھر انبیاء علیہم السلام کا ذکر جس میں اختصار اور تفصیل کی دونوں صنعتوں کی جھلک دکھائی گئی ہے۔ قوم نوح، فرعون، عاد، ثمود کا اپنے انبیاء سے مقابلہ اور ان قوموں کی ہلاکت کا دل آویز اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے بعد داؤد و سلیمان کا تفصیلی ذکر۔ حضرت داؤد کی دستکاری، انابت الی اللہ اور خوش الحانی سے تلاوت زبور جس میں پہاڑ اور پرندے بھی ساتھ چہچہانے لگ جاتے۔ پھر دو افراد کا تمام سرکاری حفاظتی انتظامات کو نظر انداز کر کے دیوار پھلانگ کر آنا اور مسئلہ پوچھ کر آسمان کی طرف چلے جانا، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ عام انسان نہیں فرشتے تھے جو کہ آزمائش کے لئے اترے تھے۔ اس پر داؤد علیہ السلام کا اپنے انتظامات کی بجائے اللہ پر اعتماد و توکل کا بڑھ جانا اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور اچھے انجام کی نوید مذکور ہے۔ پھر سلیمان علیہ السلام ان کے بے پناہ وسائل، اصیل گھوڑے، ہواؤں کی تسخیر اور صبح و شام کا ہوائی سفر اس کے باوجود اللہ کے سامنے ان کی عجز و انکساری اور اللہ کی طرف سے مقربین بارگاہ میں شمولیت اور اچھے انجام کی نوید ہے۔ پھر ایوب علیہ السلام اور بیماری اور تکلیف میں ان کا صبر و استقامت اور اللہ کی طر ف سے ان کے نقصانات کے ازالہ کا تذکرہ اور ان کی رجوع الی اللہ کی صفت کی تعریف کی گئی ہے۔ پھر اختصار کے ساتھ ابراہیم، اسحاق، یعقوب، اسماعیل، یسع، ذوالکفل علیہ السلام کا تذکرہ اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے جنت میں اعزاز و اکرام کا ذکر ہے جبکہ نافرمانوں کے عذاب اور سزا کا تذکرہ ہے۔ پھر دعوت توحید ہے اور قصۂ آدم و ابلیس کو بیان کرنے کے بعد آخر میں قرآن کریم کے ’’کتاب نصیحت‘‘ ہونے کا اعادہ اور قرآنی تعلیمات کی حقانیت روز قیامت ہر شخص کو کھلی آنکھوں نظر آنے کا اعلان ہے۔

 

               سورہ الزمر

مکی سورت ہے۔ پچھتر آیتوں اور آٹھ رکوع پر مشتمل ہے ’’الزمر‘‘ کے معنی جماعتیں اور گروہ۔ سورت کے آخر میں جنت اور جہنم کے لئے لوگوں کی جماعتوں کی روانگی کا ذکر ہے، اس لئے ’’الزمر‘‘ کے نام سے موسو م ہے۔ اس سورت کا مرکزی مضمون توحید ہے۔ قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کے اعلان کے ساتھ سورت کی ابتداء کی گئی ہے۔ اس کے بعد مشرکین پر تابڑ توڑ حملے اور کائناتی شواہد اور واقعاتی دلائل کے ساتھ توحید کا اثبات ہے۔ ایک انسان (آدم) سے ’’دنیائے انسانیت‘‘ کی ابتداء اور اسی سے اس کی بیوی (حوّا) کی تخلیق، خوراک کے لئے آٹھ نرو مادہ چوپائے پیدا کئے۔ شکم مادر کے اندر تین اندھیروں (پیٹ، رحم، جھلی) کے اندر رکھ کر تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی کیفیت کے ساتھ اس انسان کی تخلیق۔ کفر اللہ کا ناپسندیدہ ترین عمل ہے جبکہ پسندیدہ ترین عمل شکر ہے۔ کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ انسانی مزاج کہ تکلیف میں فوراً اللہ کو پکارنے لگتا ہے اور راحت میں منکر اور گمراہ بن جاتا ہے۔ خالص اللہ کی عبادت مسلمانوں میں سرفہرست رہنے اور قیامت کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنے کی تلقین ہے۔ قرآن کریم کی اتباع کرنے والوں کو ہدایت یافتہ اور عقلمند ہونے کی خوشخبری ہے۔ قرآن کریم کی صفات کا تذکرہ کہ بہترین کلام ہے۔ کتابی شکل میں ہے۔ ملتی جلتی آیات ہیں، بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ اسے سن کر خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مشرک و مؤمن کا فرق واضح کرنے کی بہترین مثال کہ ایک شخص غلام ہو اور اس کی ملکیت میں بہت سے لوگ شریک ہوں اور دوسرا ایک ہی شخص کا غلام ہو۔ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح مشرک و مؤمن بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ ان تمام باتوں کی حقانیت کا مشاہدہ کرنے کے لئے آپ بھی مریں گے اور یہ لوگ بھی مریں گے، پھر تم اپنے رب کے حضور تمام صورتحال بیان کر کے فیصلہ حاصل کرلو گے۔

 

24 – فَمَنْ أَظْلَمُ

جھوٹ کے علمبرداروں اور ان کے حمایتیوں کو دنیا کے ظالم ترین افراد قرار دے کر ان کا ٹھکانہ جہنم بتایا ہے اور سچائی کے علمبرداروں اور حمایتیوں کو متقیوں میں شامل فرما کر ان کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی خوشخبری سنا کر بتایا ہے کہ اپنے بندوں کے لئے اللہ ہی کافی و شافی ہے اس کے بعد کسی اور کی حمایت انہیں درکار نہیں رہتی۔ یہ لوگ، اللہ کے علاوہ دوسری طاقتوں سے آپ کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اللہ اگر کسی کو نقصان پہنچانا چاہے یا بیماری میں مبتلا کرے یا کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو یہ اسے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اللہ کی حمایت کو کافی سمجھ کر اسی پر توکل کرنا چاہئے۔ انسانوں کی موت و زیست اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ نیند کی حالت میں اللہ ہی روح نکالتے ہیں پھر جس کی موت کا وقت آچکا ہو اس کی روح واپس نہیں کی جاتی جس کا ابھی وقت نہ آیا ہو اس کی روح واپس کر دی جاتی ہے غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں دلائل موجود ہیں۔ اللہ کے مقابلہ میں انہوں نے اپنے سفارشی ڈھونڈ رکھے ہیں حالانکہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ہر قسم کی شفاعت کا اختیار صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ اکیلے اللہ کے تذکرہ سے ان کے ماتھے پر بَل پڑ جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسروں کا نام لیا جائے تو ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ قیامت کے دن یہ ظالم ساری دنیا سے دُگنا مال و دولت دے کر عذاب سے چھٹکارا پانا چاہیں گے مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو گی ان کے تمسخر و استہزاء کے نتیجہ میں عذاب کی جو صورتحال درپیش ہو گی وہ ان کے وہم و گمان سے بھی بالاتر ہو گی۔ مگر اللہ نے توبہ کے ذریعہ واپسی کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ اگر کسی نے گناہوں میں ساری عمر تباہ کر دی ہو تو اسے بھی مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے توبہ کرنے پر اللہ ہر قسم کے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اللہ کی طرف رجوع کر کے اللہ کے نازل کردہ قرآن پر عملدر آمد کرو تاکہ کل قیامت کے روز حسرت و افسوس کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دنیا میں احکام خداوندی سے روگردانی تکبر کی علامت ہے اور متکبرین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ قیامت کے دن متقی لوگ نجات پائیں گے اور کامیابیاں ان کے قدم چومیں گی۔ اللہ ہر چیز کے خالق و مالک ہیں آسمان و زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اللہ کے منکر گھاٹے اور نقصان میں ہیں۔ غیراللہ کی عبادت کرنے والا کتنا بڑا پڑھا لکھا ہو قرآن کریم اسے جاہل شمار کرتا ہے۔ مشرک کتنا بڑا نیک عمل کر لے اللہ کے ہاں اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ جب صور پھونکا جائے گا تو ہر چیز فنا ہو کر رہ جائے گی اور دوبارہ صور پھونکنے پر سب زندہ ہو کر قیامت کا منظر دیکھنے لگیں گے۔ اللہ کے نور سے پوری سرزمین چمک اٹھے گی۔ نبیوں اور گواہوں کی موجودگی میں عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کر کے ہر انسان کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا۔ کافروں کی ٹولیاں بنا کر انہیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ہمارے رسولوں نے قرآن سنا کر تمہیں قیامت کے دن سے نہیں ڈرایا تھا؟ وہ تسلیم کریں گے لیکن کافروں کے لئے اللہ کے عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہو گا اور وہ متکبرین کے بدترین ٹھکانہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل کر دیئے جائیں گے۔ متقیوں کی جماعتیں بنا کر انہیں جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا ان کے استقبال میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے انہیں سلامی پیش کی جائے گی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ وہ اپنے اعمال پر اترانے کی بجائے اللہ کی تعریف میں رطب اللسان ہو رہے ہوں گے۔ تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ وہ عرش کے چاروں طرف اللہ کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہوں گے۔ عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ ہو چکا ہو گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ تمام خوبیوں اور صفات کے مالک اللہ رب العالمین ہی ہیں۔

 

               سورہ المؤمن

مکی سورت ہے۔ یہ پچاسی آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک ’’مرد مؤمن‘‘ کی حق گوئی و بے باکی کا تذکرہ ہے نیز اللہ کے لئے غافر (گناہوں کو معاف کرنے والا) کی صفت کا اطلاق کیا گیا ہے اس لئے ’’سورہ الغافر‘‘ بھی کہا گیا ہے۔

زبردست قوت اور علم کے مالک اللہ کا یہ کلام ہے وہ گناہوں کو معاف کرنے والا توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف سب لوٹ کر جائیں گے۔ اللہ کی آیات میں جھگڑنے والے کافر ہیں۔ عیش و عشرت کے وسائل کی فراوانی اور دنیا میں آزادانہ نقل و حرکت سے آپ دھوکہ میں نہ پڑ جانا۔ قوم نوح اور ان سے پہلوں اور پچھلوں نے بھی انبیاء کو جھٹلایا۔ انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی انہیں جھگڑا کر کے حق کی آواز دبانے کی کوشش کی مگر ناکام ہو کر ہمارے عذاب کے مستحق قرار پائے۔ حاملین عرش اللہ کے مقرب فرشتے اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول رہتے ہیں اور اہل ایمان اور ان کے متعلقین کے لئے استغفار و دعاء کرتے رہتے ہیں۔ اے ہمارے رب آپ کی رحمت اور آپ کا علم ہر چیز پر وسیع ہے آپ کی تابعداری کر کے توبہ کرنے والوں کی مغفرت فرما کر انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لیجئے۔ انہیں اپنے خاندان کے نیکوکار افراد سمیت دائمی جنتوں میں داخل کر کے ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات عطا فرما دیجئے۔ کافر جہنم میں پڑے ہوئے دوبارہ زندہ ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا اعتراف بھی کریں گے مگر جہنم سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ قیامت کے دن اللہ کی حکمرانی کے مقابلہ میں کوئی جھوٹا دعوے دار بھی پیدا نہیں ہو گا۔ اکیلے اللہ ہی ہر چیز پر غالب ہوں گے۔ بغیر کسی ظلم و زیادتی کے ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔ فرعون، ہامان اور قارون جو کہ اقتدار اعلیٰ، انتظامیہ اور سرمایہ داری کے نمائندے ہیں ان کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ہماری آیات اور معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے۔ مگر انہوں نے ماننے کی بجائے قتل و غارت گری کی مدد سے مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور موسیٰ علیہ السلام کو بھی قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور ’’کلابی تقویٰ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ موسیٰ دراصل لوگوں کا دین بگاڑ رہا ہے اور زمین میں فساد برپا کر رہا ہے اس لئے ہم اس کے خلاف یہ اقدامات کر رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی پناہ اور حفاظت طلب کی تو فرعون کے خاندان کا ایک با اثر شخص کھڑا ہو گیا اس نے لسانی، قومی اور سیاسی تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حمایت کا واضح اعلان کر دیا۔

اس کے ایمان افروز اور طاغوت شکن گفتگو کو قرآن کریم نے آیت ۲۸ سے لیکر آیت ۴۵ تک نہایت تفصیل کے ساتھ ذکر کی ہے، جس میں اس نے موسیٰ علیہ السلام کے حق و صداقت کا اعتراف کیا۔ امم ماضیہ کے اپنے انبیاء کا انکار اور ان پر اللہ کے عذاب کا ذکر کیا۔ قیامت کے دن اللہ کی پکڑ سے ڈرایا اور بتایا کہ وہاں پر گناہوں کی سزا مل کر رہے گی، جبکہ ایمان اور اعمال صالحہ والے مرد و عورت جنت میں بے حساب نعمتوں کے مزے لوٹیں گے۔ آخر میں اس نے نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ کہا کہ تم آج میری بات نہیں مان رہے ہو، مگر عنقریب میری باتیں تمہیں یاد آئیں گی، مگر اس وقت کی ندامت تمہارے کام نہ آ سکے گی۔ میں اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کر رہا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم و ستم سے بچا کر فرعون اور اس کے تمام لاؤ لشکر کو بدترین عذاب میں مبتلا کر دیا۔ روزانہ صبح و شام جہنم کی آگ ان کی قبروں میں پیش کی جاتی ہے۔ قیامت کے دن سخت ترین عذاب چکھنے کے لئے انہیں جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن مجرموں کا باہمی جھگڑا اور اپنے جرائم کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی مذموم حرکت کو ذکر کر کے بتایا کہ وہ ایک آدھ دن کے لئے ہی جہنم کے عذاب میں تخفیف کی درخواست کریں گے، مگر وہ بھی پوری نہیں کی جائے گی۔ اپنے بندوں کی مدد کا برحق وعدہ اور ظالموں کے لئے لعنت اور بدترین عذاب کی خبر دیتے ہوئے آگے فرمایا کہ ’’بعث بعدالموت‘‘ کے منکرین یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آسمان و زمین کی تخلیق کا مشکل ترین کام جس اللہ نے کر لیا اس کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہو گا۔ جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں اسی طرح نیک و بد اور مؤمن و کافر بھی برابر نہیں ہو سکتے۔

ہر مشکل میں اللہ ہی کو پکارنا چاہئے جو اللہ سے دعا مانگنے سے پہلوتہی کرتا ہے وہ متکبر اور اسے انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں جانا پڑے گا۔ پھر دن رات کے آنے جانے اور آسمان و زمین کی تعمیر میں غور و فکر کی دعوت دیکر انسانی تخلیق کا بیان شروع کر دیا کہ انسان کو قدرت کا بہترین اور خوبصورت شاہکار بنایا گیا ہے۔ اسے حسین پیکر میں تبدیل ہونے کے لئے جن تخلیقی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ان کا تذکرہ اور پھر زندگی اور موت کے اللہ کے قبضہ میں ہونے کا بیان ہے، پھر بتایا ہے کہ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے اور قرآن کا انکار کرنے والوں کو طوق ڈال کر بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر جہنم میں گھسیٹا جائے گا اور ان کے غرور و تکبر کی بناء پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کو ان کا ٹھکانہ قرار دے دیا جائے گا۔ اس کے بعد بتایا گیا کہ انبیاء و رسل آپ سے پہلے بھی آتے رہے ہیں۔ مگر ایمان سب پر لانا ضروری ہے کوئی رسول اپنے طور پر کبھی بھی نشانی نہیں لایا کرتا اور پھر انسان اپنے نواح و اطراف میں اگر غور کرے تو پوری کائنات نشانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جب ہمارا عذاب یہ لوگ دیکھتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہیں، لیکن ’’حالتِ نزع‘‘ کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور اس وقت کافروں کو اپنا نقصان واضح نظر آنے لگ جاتا ہے۔

 

               سورہ السجدۃ

مکی سورت ہے۔ اس میں چون آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ قرآن کریم کے رحمان و رحیم کا کلام ہونے کی خبر کے ساتھ ماننے والوں کا انجامِ خیر اور نہ ماننے والوں کا انجام بد مذکور ہے اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والے کو مشرکین کی صف میں کھڑا کیا ہے۔ اس کے بعد آسمان وزمین کو چھ دن کے اندر مکمل کرنے کا بیان ہے۔ دو دن میں زمین بنائی اور دو دن میں اس کے اندر خزانے ودیعت کر کے چار دن میں اس سے فارغ ہو گئے اور پھر مزید دو روز کے اندر آسمان کو دھوئیں سے بنایا۔ اس کی زینت اور حفاظت کے لئے ستاروں کو پیدا کر کے کل کائنات کی تخلیق چھ روز میں مکمل کر دی۔ اگر یہ لوگ پھر بھی اللہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو انہیں قوم عاد و ثمود کی تاریخ سے درس عبرت حاصل کرنے کی تلقین کرو۔ ان کے پاس توحید کا پیغام لیکر رسول آتے رہے قوم عاد تو کہنے لگی کہ ہم بہت طاقتور لوگ ہیں۔ ہم سے زیادہ طاقت والا دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس اللہ نے تمہارے جیسے طاقت ور پیدا کئے وہ تم سے بھی زیادہ طاقتور ہے، مگر انہیں یہ بات سمجھ میں نہ آئی تو اللہ نے شدید آندھی ان پر مسلط کر کے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور ثمود کے انکار پر انہیں بھی ذلت آمیز کڑک سے دوچار کر کے ہلاک کر دیا اور ایمان و تقویٰ والوں کو نجات عطاء فرما دی۔ پھر قیامت میں اٹھائے جانے اور حساب و کتاب کے لئے ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء کی گواہی اور کافروں کے تعجب کو ذکر کر کے بتایا کہ جس اللہ نے تمہاری زبان کو قوت گویائی دی تھی۔ اس کے لئے دوسرے اعضاء کو بلوانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ پھر حق کے مقابلہ میں کفر کا ایک بھونڈا انداز کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اتنا شور مچاؤ کہ ان کی آواز دب جائے اور تم غالب آ جاؤ۔ ایسے کافروں اور اللہ کے دشمنوں کے لئے جہنم کا ذلت آمیز ٹھکانہ ہو گا۔ اللہ کو رب مان کر استقامت کا مظاہرہ کرنے والوں کی دلجوئی اور تسلی کے لئے فرشتے اتریں گے اور انہیں ہر قسم کے خوف اور غم سے نجات کی بشارت سنائیں گے۔ جنت میں ان کی ہر خواہش پوری کی جائے گی۔ یہ غفور رحیم کی مہمانی ہو گی۔

بہترین انسان وہ ہے جو اعلیٰ کردار اور بہترین عملی زندگی کے ساتھ اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتا ہو اور دوسروں کو بھی اچھی زندگی اپنانے کی دعوت دیتا ہو۔ ایسے لوگ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کر کے اپنے دشمن کا دل بھی موہ لیتے ہیں۔ یہ لوگ صبر و شکر کی زندگی گزارنے والے ہوتے ہیں اور یہ خوبیاں بڑے نصیب والوں کو ہی ملا کرتی ہیں۔

اللہ کی قدرت کی نشانیاں دن رات، سورج چاند ہیں۔ لہٰذا انہیں سجدہ کرنے کی بجائے ان کے پیدا کرنے والے کو سجدہ کرو۔ بنجر و ویران زمین بھی اس کی نشانی ہے کہ جیسے ہی پانی برستا ہے تو وہ لہلہانے اور نشوونما پانے لگ جاتی ہے، جس ذات نے اسے زندہ کر دیا وہ مردوں کو بھی زندہ کر دے گا۔ قرآن کریم میں ترمیم و تنسیخ کے خواب دیکھنے والے ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو سکتے اور قرآن کریم پر باطل کسی طرح بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم کو ہم نے عجمی نہیں بلکہ عربی بنایا ہے اس میں ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفاء ہے۔

جو نیکی کرے گا تو اپنا ہی فائدہ کرے گا اور برائی کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ تیرا رب بندوں پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا کرتا۔

 

25 – إِلَیْہِ یُرَدُّ

قیامت کے وقت کو اللہ ہی جانتے ہیں۔ کونپلوں سے کیسا پھل برآمد ہو گا۔ شکمِ مادر میں کیا ہے اور کب جنے گی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تمہارے شرکاء کہاں ہیں ؟ وہ خود کہیں گے کہ ہم ان سے برائت کا اظہار کرتے ہیں۔ انسان خیر طلب کرنے سے کبھی نہیں اکتاتا لیکن جیسے ہی تکلیف یا مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو بہت جلد مایوسی اختیار کر لیتا ہے۔ جب آرام و راحت مل جائے تو قیامت کو ایک دم بھول کر ہر فائدہ کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرنے لگ جاتا ہے۔ تکلیف آ جائے تو لمبی لمبی دعاؤں میں لگ جاتا ہے اور آرام و راحت کے وقت ’’کنّی‘‘ کترا کے نکل جاتا ہے۔ ہم آفاق کے اندر اپنی آیتیں آپ کو دکھلا کر چھوڑیں گے تاکہ حق ظاہر ہو جائے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز پر گواہ ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ سنو! اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔

 

               سورہ الشوری

’’الشوری‘‘ مشورہ کو کہتے ہیں اور اس سورت میں اللہ کے منتخب بندوں کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ اپنے معاملات باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں اس لئے یہ سورت شوری کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ترپن آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے ابتداء سورت میں حقانیت قرآن کا بیان ہے پھر توحید کا تذکرہ اور معبودان باطل کی مذمت ہے۔ پھر قرآن کریم کی عالمگیریت کا بیان ہے کہ یہ مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف میں واقع تمام دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہے۔ اللہ چاہیں تو ہر ایک کو زبردستی اسلام میں داخل کر دیں لیکن یہ ’’سودا‘‘ زبردستی کا نہیں بلکہ اپنے ’’اختیار‘‘ کے مطابق فیصلہ کا ہے تاکہ قیامت کی جزاء و سزاء اس پر نافذ ہو سکے۔

اللہ نے ہر قسم کی نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور اللہ کا مثل کوئی نہیں ہے۔ اس نے تمام انبیاء نوح، ابراہیم، موسیٰ و عیسیٰ کو ایک ہی ’’دین‘ عطاء فرما کر ’’اقامت صلوٰۃ‘‘ اور ’’فرقہ واریت‘‘ سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ دلائل کے آ جانے کے بعد وہ لوگ سرکشی کے طور پر فرقہ واریت کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کی خواہشات کی پیروی کرنے کی بجائے اللہ کے حکم کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کیجئے۔ آسمانی تعلیمات پر ایمان کا اظہار بھی کریں اور عدل و انصاف کے علمبردار رہیں۔ جو لوگ وحدانیت باری تعالیٰ کے ثابت ہو جانے کے بعد بھی بے سرو پا دلائل کی بنیاد پر کٹھ حجتی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کے غضب اور عذابِ شدید کی وعید ہے۔ قیامت کی جلدی وہی لوگ مچاتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے اور ایمان والے تو قیامت کو برحق سمجھنے کے باوجود اس کے آنے سے ڈرتے ہیں۔ قیامت کے بارے میں شک کرنے والے کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اس لئے جو شخص آخرت کے اجرو ثواب کا طلب گار ہوتا ہے اللہ اس کے اجرو ثواب میں اضافہ فرما دیتے ہیں اور دنیا کے طلب گار کو قسمت سے زیادہ نہیں ملتا مگر آخرت کے بدلہ سے وہ بالکل محروم ہو جاتا ہے۔ پھر ظلم و ستم اور نا انصافی کے مرتکبین اور عدل و انصاف کے علمبرداروں کی قیامت کے دن کی کیفیت کو بیان کرنے کے بعد حضور علیہ السلام کے توسط سے امت مسلمہ کو یہ تعلیم ہے کہ قرآنی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں مالی مفادات پیش نظر نہیں رکھنے چاہئیں پھر دنیا کی زندگی میں ایک زبردست خدائی ضابطہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ باطل کو اس کی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ مٹا کر رہتے ہیں اور حق کو اس کے تمام لوازم کے ساتھ ثابت کر کے چھوڑتے ہیں۔ اس کے بعد بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کی خطاؤں سے درگزر کرنے کی خوشخبری بیان فرمائی ہے اور اس کے بعد انسان کی اس فطری کمزوری کا تذکرہ ہے کہ جب اسے مالی آسائش اور وسائل زندگی کی فراوانی حاصل ہو جاتی ہے تو یہ سرکشی اور فساد پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ پھر یہ ضابطہ بھی مذکور ہے کہ انسان پر تکالیف و مصائب درحقیقت اس کے اپنے جرائم اور کرتوتوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں جبکہ بہت سے گناہوں پر تو اللہ تعالیٰ گرفت ہی نہیں کرتے۔ اس کے بعد اللہ کے صابر و شاکر بندوں کی خوبیوں کی ایک فہرست بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ ایمان و توکل سے سرشار ہوتے ہیں، کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ غصہ کے وقت عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہیں۔اپنے رب کی ہر دعوت پر لبیک کہتے اور اقامت صلوٰۃ کرتے ہیں۔ اپنے معاملات کو مشورہ سے طے کرتے ہیں اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں اور انتقام صرف اسی صورت میں لیتے ہیں جب ان پر کوئی زیادتی و ظلم کیا جاتا ہے۔ برائی کا بدلہ برائی سے لینا اگرچہ جائز ہے مگر صبر و تحمل اور عفو و درگزر کرنا بڑے ہی عزم و ہمت کی بات ہے۔ عذاب الٰہی کو دیکھ لینے کے بعد ظالموں کی جو کیفیت ہو گی اسے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے مختار کل ہونے کا بیان ہے کہ آسمان و زمین کی حکمرانی اسی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے بیٹے دے اور جسے چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے دونوں جنسیں عطاء کر دے اور جسے چاہے بانجھ بنا کر دونوں سے محروم کر دے وہ علم و قدرت والا ے۔ پھر وحی کے نزول کے تین طریقے (دل میں القاء کر دینا، پس پردہ بات کرنا یا فرشتہ کی مدد سے پیغام دے دینا) بیان فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی کے لئے واضح کر دیا کہ آپ اللہ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہیں اور تمام کاموں کا مأویٰ و ملجأ ایک اللہ ہی کی ذات ہے۔

 

               سورہ الزخرف

مکی سورت ہے۔ نواسی آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ ’’زخرف‘‘ کے معنیٰ آرائش و زیبائش کے ہیں۔ اس سورت میں کافروں کے لئے ہر طرح کی ’’زخرف‘‘ کا تذکرہ ہے۔ واضح کتاب کی آیتیں اور عربی زبان میں قرآن اس لئے اتارا تاکہ اہل عقل و دانش اس سے استفادہ کرسکیں۔ پھر توحید و رسالت کے موضوع پر گفتگو ہے اور سواریوں کو نقل و حمل کے لئے انسان کے تابع بنانے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تلقین ہے اور تیرہ اور چودہ نمبر آیت میں سواری کی دعاء مذکور ہے پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارا تابع بنا دیا ہم اسے اپنے قابو میں نہیں لا سکتے تھے اور ہم نے لوٹ کر اپنے رب کے پاس ہی جانا ہے۔ پھر فرشتوں کو اللہ کی اولاد قرار دینے اور مشرک و گمراہ آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت کی گئی ہے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم کے مشرکانہ افعال سے بیزاری و برأت اور اپنے خالق و مالک کے لئے یکسوئی اختیار کرنے کا بیان ہے۔ پھر مشرکین کے اعتراض کا تذکرہ ہے کہ ایک غریب اور وسائل سے محروم شخص کو نبی بنانے کی بجائے مکہ یا طائف کے کسی کردار کا انتخاب کیوں عمل میں نہیں لایا گیا۔ نبوت و رسالت اللہ کی رحمت ہے اور اللہ جانتے ہیں کہ اس کا اہل کون ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کو اللہ کی رحمت تقسیم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ باقی رہا مسئلہ امارت و وسائل کی فراوانی کا تو اس کا نبوت و رسالت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے اس سے انسانوں کو امتحان و آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ساری دنیا کے مال و دولت کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر لوگوں کے اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ تمام کافروں کے گھروں کو سونے چاندی سے مزین (Decorate) کر دیتے، یہ تو دنیا کا عارضی متاع ہے اور متقیوں کے لئے آخرت ہے۔ اللہ کے ذکر سے غفلت برتنے والوں کا ساتھی شیطان بن کر انہیں راہ راست سے روکتا ہے۔ یہ لوگ جب قیامت کے دن ہمارے پاس آئیں گے تو شیطان سے بیزاری کا بے فائدہ اظہار کریں گے یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں آپ انہیں قرآن سنا کر گمراہی سے نہیں نکال سکیں گے۔ آپ وحی کی اتباع کرتے ہوئے صراط مستقیم پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیجئے۔ یہ قرآن کریم آپ اور آپ کی قوم کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے اور آپ لوگوں کے تذکرہ کے باقی رہنے کا ذریعہ ہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر مبعوث کئے جانے کا ذکر اور مالی وسائل اور دنیوی جاہ و حشمت سے محرومی کے حوالہ سے فرعون کے اعتراضات مذکور ہیں جب فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ میرا اور موسیٰ کا تقابل کر کے دیکھو میں مصر کا حکمران ہوں۔ حور و قصور کا مالک ہوں، باغات اور نہروں کا نظام میرے اختیار میں ہے جبکہ موسیٰ علیہ السلام غریب، وسائل سے تہی دامن اور بات کرنے کے سلیقہ سے بھی عاری ہیں۔ اگر یہ نبی ہوتے تو ان پر سونے کے زیورات کی بارش ہوتی یا فرشتے اس کے آگے پیچھے جلوس کی شکل میں چلا کرتے۔ اس نے اس قسم کی باتیں کر کے اپنی قوم کو بیوقوف بنا کر اللہ کی نافرمانی پر تیار کر لیا جس سے ہمیں غصہ آیا اور ہم نے انتقاماً انہیں سمندر میں غرق کر کے اگلوں اور پچھلوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام ان کی بندگی اور ان پر اللہ کے انعامات کا نہایت دلنشین پیرائے میں ذکر موجود ہے۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ مؤمنین و متقین کی دوستیاں قیامت میں بھی برقرار رہیں گی اور وہ ہر قسم کی پریشانی اور غم سے نجات پا کر جنت کی نعمتوں سے سرشار ہوں گے۔ جبکہ مجرمین اپنے ظلم کے نتیجہ میں جہنم کے عذاب میں حیران و سرگرداں ہوں گے۔ پھر اللہ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آسمان و زمین میں ایک ہی معبود ہے اسی کی حکمرانی ہے اور وہی قیامت کا صحیح علم رکھتا ہے۔ آپ ان کافروں کے ساتھ بحث بازی میں الجھنے کی بجائے انہیں نظر انداز کریں اور چشم پوشی کا مظاہرہ کریں۔ عنقریب انہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔

 

               سورہ الدخان

مکی سورت ہے۔ انسٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ دخان دھوئیں کو کہتے ہیں۔ قیامت کی نشانی اور عذاب کے طور پر مشرکین مکہ پر مسلط کیا گیا تھا۔ اس سورت میں اس کا تذکرہ ہے۔

قرآن کریم ایسی واضح اور بابرکت کتاب ہے کہ جس رات میں اس کا نزول ہوا اسے بھی بابرکت بنا دیا۔ توحید کا عقیدہ بیان کر کے مشرکین مکہ کے شکوک و شبہات کا تذکرہ کر کے بتایا کہ یہ آسمانی عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں پھر ان پر ایسا دھواں مسلط کیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہ دیتا تھا اس عذاب کے چھٹکارے کی دعائیں مانگنے لگے اور ایمان قبول کرنے کے عہد و پیمان کرنے لگے مگر جیسے ہی عذاب ختم ہوا وہ پھر انکار کرنے لگے اور نبی پر بھونڈے اعتراضات شروع کر دیئے۔ انہیں بدر کی عبرتناک پکڑ کی وعید سنا کر موسیٰ و فرعون کا واقعہ اور فرعون کی عبرتناک گرفت کا تذکرہ کر کے بتایا کہ اسے جب غرق کیا گیا تو اس کے باغات و محلات سب رہ گئے اور بنی اسرائیل اس کے مالک بن گئے۔ اتنی بڑی قوت کے مالک فرعون کا جب خاتمہ ہوا تو اس پر زمین و آسمان میں رونے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ پھر دلائل توحید اور قیامت کا تذکرہ پھر نافرمانوں کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد کی کیفیت کا بیان ہے کہ ان کی خوراک زقوم کا درخت ہو گا جو پیٹ میں ایسے ابال پیدا کرے گا جیسے ہنڈیا میں آگ پر ابال آتا ہے۔ جہنم کے بیچ میں لے جا کر ان پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تم اپنے آپ کو بہت باعزت سمجھا کرتے تھے آج جہنم کا ذلت آمیز عذاب بھی چکھ لو۔ پھر جنت میں متقیوں کے اعزاز و اکرام ریشم و کمخواب کے لباس اور خوبصورت بیگمات کا ذکر کر کے بتایا کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضل سے حاصل ہو گا جو عظیم الشان کامیابی کا مظہر ہو گا۔ قرآن کریم کو ہم نے آپ کی زبان میں نہایت آسان بنا کر اس لئے اتارا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرسکیں۔

 

               سورہ الجاثیہ

مکی سورت ہے سینتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا مرکزی مضمون توحید باری تعالیٰ ہے جبکہ حقانیت قرآن، اثبات رسالت محمدیہ اور قیامت کا بیان بھی موجود ہے۔ ابتداء میں قرآن کے کلام اللہ ہونے کا برملا اظہار ہے اس کے بعد توحید پر کائناتی شواہد پیش کئے گئے ہیں۔ قدرت کے شاہکار آسمان میں دلائل ہیں۔ وسیع و عریض زمین میں، تخلیق انسانی میں، جانوروں اور باقی مخلوقات میں، دن رات کے آنے جانے اور بارشوں اور ہواؤں میں اللہ کی قدرت کے دلائل اور توحید باری کے شواہد موجود ہیں۔ پھر مجرمین کا مزاج بیان کیا کہ وہ دلائل سے استفادہ کرنے کی بجائے ضلالت و گمراہی میں اور ترقی کر جاتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ دردناک عذاب اور جہنم کی گہرائیوں میں دھکیلے جانے کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں اور ان میں غور و فکر کر کے منعم حقیقی کو پہچاننے کی تلقین کے ساتھ قوم بنی اسرائیل کا تذکرہ کہ ان پر بے شمار انعامات کئے گئے۔ فضیلت و اکرام سے نوازا گیا مگر انہوں نے ان نعمتوں کی قدر کرنے کی بجائے بغاوت و سرکشی کا راستہ اپنا کر اپنے لئے ہلاکت و بربادی کو لازم کر لیا۔ پھر گمراہی کی جڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ’’خواہشات نفسانی‘‘ کو معبود کا درجہ دے کر زندگی گزارنا ہی وہ لاعلاج بیماری ہے جو انسان کو گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے اور یہ اندھا اور بہرا ہو کر اس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی کو اصل سمجھ کر آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔ قیامت کے دن کی ہولناکی اور دہشت کا بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ اس دن لوگ گھٹنوں کے بل گرے پڑے ہوں گے اور ان کی دو جماعتیں بن جائیں گی۔ ایمان اور اعمال صالحہ والے اللہ کی رحمت اور واضح کامیابی کے مستحق قرار پائیں گے جبکہ کافر و متکبر اپنی مجرمانہ حرکات کی بناء پر ’’پرِکاہ‘‘ کی حیثیت بھی نہیں رکھیں گے اور بے یارو مددگار جہنم کا ایندھن بنادیئے جائیں گے۔ تمام تعریفیں آسمان و زمین اور ساری کائنات کے رب کے لئے ہیں اور آسمان و زمین کی بڑائی بھی اسی زبردست اور حکمتوں والے اللہ کو سزا وار ہے۔

 

26 – حٰم

               سورہ الاحقاف

مکی سورت ہے۔ پینتیس آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے۔ احقاف اس دور کی سپر پاور قوم عاد کے دار السلطنت کا نام ہے اور اس کی تباہی ایسی ہی بڑی خبر ہے جیسے امریکی ٹاوروں کی تباہی کی خبر۔ زبردست اور حکمت والے رب کا کلام قرآن کریم ہے، پھر آسمان و زمین کی تخلیق سے وحدانیت باری تعالیٰ پر استدلال ہے اور پھر معبود برحق کی طرف سے معبودانِ باطلہ کو چیلنج ہے کہ اس ساری کائنات کا خالق تو اللہ وحدہٗ لاشریک ہے، تم بتاؤ تم نے کیا بنایا ہے؟ گمراہی کی انتہا ہے کہ ایسے معبودوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک بھی جواب دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ہمارا قرآن جب انہیں سنایا جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ’’نرا جادو‘‘ ہے اور اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کے نام پر لگا دیا ہے۔ آپ کہئے کہ اگر میں اللہ کے نام پر جھوٹا کلام گھڑ کر پیش کرنے لگوں تو مجھے اللہ کی گرفت سے کون بچائے گا۔ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے میں تو ’’وحی‘‘ کا پابند ہوں اور میں واضح ڈرانے والا ہوں۔ کافر لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اچھی بات ہوتی تو یہ لوگ اسے قبول کرنے میں ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔ انہیں جب قرآن کی ہدایت نہ مل سکی تو اسے پرانا جھوٹ قرار دینے لگ گئے۔ پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور اولاد کی خاطر والدین خصوصاً ’’ماں ‘‘ کی طرف سے اٹھائی جانے والی تکالیف کا تذکرہ ہے کہ حمل، ولادت اور رضاعت میں کس قدر مصائب برداشت کرتی ہے۔ پھر اولاد دو طرح کی ہوتی ہے: (۱)صالح، فرماں بردار، والدین کے لئے دعاء گو (۲)فاسق و نافرمان، والدین کی گستاخ۔ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق صلہ ملے گا۔ پھر قوم عاد کو ان کے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی طرف سے دعوت توحید اور قوم کے انکار اور ہٹ دھرمی پر اللہ کی طرف سے بادلوں کی شکل میں عذاب۔ قوم اسے بارش برسانے والے بادل سمجھتی رہی مگر ان بادلوں کے ساتھ تیز آندھی اور طوفان تھا۔ ایسی تیز ہوا تھی کہ جس چیز کو لگتی اسے راکھ بنا کر تباہ کر دیتی۔ پھر جنات اور ان کے قرآن سننے کا واقعہ جس سے حضور علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی تسلی کا سامان کیا گیا ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی دوسری مخلوقات آپ کی نبوت کی تصدیق کرنے کے لئے موجود ہیں۔ قیامت کے دن کافروں کو جہنم کے کنارے پر کھڑے کر کے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ تم اس کو ’’جادو‘‘ کہتے تھے کیا یہ حق نہیں ہے؟ تو وہ اللہ کی قسم کھا کر اسے درست تسلیم کریں گے، اللہ کہیں گے کہ اپنے کفر کا آج عذاب چکھ لو۔ حضور علیہ السلام سے کہا جا رہا ہے کہ آپ پہلے انبیاء و رسل کی طرح ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہیں اور ان کافروں کی ہلاکت کے لئے جلدی نہ کریں۔ جب ان پر عذاب آئے گا تو انہیں ایسا ہی محسوس ہو گا جیسے ایک آدھ دن کی مہلت بھی انہیں نہیں ملی ہے۔ نافرمانوں کا مقدر ہلاکت ہی ہوتی ہے۔

 

               سورہ محمد

مدنی سورت ہے۔ اڑتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ اس کا دوسرا نام سورہ القتال ہے۔ غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوئی، اس میں جہاد کے احکام قیدیوں کے بارے میں قانون سازی اور صلح کے متعلق قرآنی تعلیمات مذکور ہیں۔ ابتداء میں خیر و شر اور کفرو اسلام کی بنیاد پر انسانی معاشرہ کی تقسیم اور ان کا انجام مذکور ہے۔ اللہ کے راستہ سے روکنے والے کافروں کے اعمال ضائع ہو کر رہ جاتے ہیں جبکہ ایمان و اعمال صالحہ والے کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اللہ ان کے گناہوں کو معاف فرما کر ان کے حالات کو سنوار دیتے ہیں۔ کافروں سے جب تمہارا مقابلہ ہو تو سستی دکھانے اور راہِ فرار اختیار کرنے کی بجائے ان کی گردنیں مارو اور انہیں قتل کرو۔ جب تم کفر کی شان و شوکت کو توڑ چکو تو پھر ان کے باقی ماندہ افراد کو گرفتار کر کے ان کو رسیوں میں مضبوطی سے جکڑ دو، پھر تم مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر چاہو تو ان پر احسان کر کے آزاد کر دو اور چاہو تو فدیہ وصول کر کے چھوڑ دو مگر مقصد ان کی جنگی قوت کو توڑنا اور حربی صلاحیت کو ختم کرنا ہونا چاہئے۔ اللہ انہیں کراماتی طریقہ پر آسمان سے آفت نازل کر کے بھی ختم کرسکتے ہیں مگر وہ تمہارے ہاتھوں سے سزا دلا کر آزمانا چاہتے ہیں۔ شہداء اسلام کے اعمال ضائع نہیں ہونے دیئے جائیں گے۔ اے ایمان والو! تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد فرمائیں گے اور تمہارے قدم جما دیں گے۔ دنیا میں چل پھر کر مجرمین کا انجام دیکھ لو۔کتنی بستیاں تم سے زیادہ جاہ و حشمت اور طاقت و قوت والی تھیں۔ ہم نے جب انہیں ہلاک کیا تو کوئی ان کی مدد کو بھی نہ آ سکا۔ دین پر علی وجہ البصیرت عمل کرنے والا اور خواہشات پر چل کر اپنے گناہوں کو نیکیاں باور کرنے والا کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ متقیوں کے لئے تیار کردہ جنتوں کے اندر ایسی نہریں ہوں گی جن کا پانی سڑنے اور بدبو مارنے سے محفوظ ہو گا۔ دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا ذائقہ خراب نہیں ہو گا۔ مزیدار شراب کی نہریں اور صاف و شفاف شہد کی نہریں ہوں گی، ہر قسم کے پھل اور مغفرت انہیں ملے گی۔ اس کے بالمقابل جہنم میں اگر کوئی جا کر کھولتا ہوا پانی پئے اور اس کی آنتیں کٹ کر باہر نکل آئیں تو یہ اس کے برابر نہیں ہو سکتا۔ بعض منافقین آپ کی مجلس میں بیٹھ کر قرآن سنتے ہیں مگر بعد میں دوسروں سے کہتے پھرتے ہیں کہ آج کیا بات بیان کی گئی ہے؟ اس سے ان کا مقصد تعریض کرنا ہوتا ہے۔ انہیں اگر آج سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو کیا قیامت کے دن سمجھیں گے۔ مؤمنین تو قرآن کی سورتوں اور آیتوں کے نزول کے متمنی رہتے ہیں۔ اور قرآن نازل ہو کر ان کی تمنا پوری کر دیتا ہے مگر منافقین کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب آیات قرآنیہ جہاد کا حکم لے کر اترتی ہیں تو ان کا نفاق کھل کر سامنے آ جاتا ہے اور موت کے خوف سے یہ لوگ مرے چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ظاہراً اطاعت و فرماں برداری کے دعوے کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشرہ میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں اور قطع رحمی کے داعی ہیں۔ ان پر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہے کہ یہ اندھے اور بہرے ہو کر رہ گئے ہیں۔ منافقین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے یہ لوگ قرآن میں غور و خوض کیوں نہیں کرتے؟ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ منافقین سمجھتے ہیں کہ ان کے دلوں کا کھوٹ ظاہر نہیں ہو گا۔ حالانکہ ان کی شکل و صورت اور لب و لہجہ ان کے دلوں کی بیماری کا پتہ دے رہا ہے، ہم جہاد کی آزمائشی بھٹی میں ڈال کر ثابت قدم مجاہدین کو منفرد و ممتاز بنا کر منافقین کو ان سے جدا کر دیں گے۔ تم کمزوری دکھا کر صلح کا مطالبہ نہ کرو۔ تمہی غالب ہو گے، اللہ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں جانے دیں گے۔ البتہ اگر کافر صلح کی درخواست کریں تو مسلمانوں کے مفاد میں اس پر غور کرسکتے ہو (جیسا کہ سورہ الانفال میں ہے) جب جہاد کے لئے مال خرچ کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے تو یہ بخل کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں حالانکہ بخیل اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اللہ کو تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ غنی ہے اور تم محتاج ہو۔ اگر تم نے جہاد سے پہلو تہی کی تو تمہیں ہٹا کر اللہ کسی دوسری قوم کو لے آئیں گے اور وہ تمہاری طرح سستی اور بخل کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔

 

               سورہ الفتح

مدنی سورت ہے۔ انتیس آیتیں اور چار رکوع پر مشتمل ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی جو بذات خود ایک بہت بڑی کامیابی تھی اور فتح مکہ کے لئے تمہید بھی تھی اس لئے اس سورت کو ’’الفتح‘‘ کا نام دیا گیا۔ جہاد سے پیچھے رہنے والے منافقین کی اس سورت میں کھل کر مذمت کی گئی ہے اور ان کے اندر کی بیماری کو بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بیوی بچوں اور کاروبار کا بہانہ بنا کر جہاد سے راہِ فرار کی کوشش کرتے ہیں۔ اصل میں ان کے دل میں یہ بات ہے کہ مسلمانوں کی تعداد اور وسائل اس قدر کم ہیں کہ کافروں سے مقابلہ میں یہ لوگ مارے جائیں گے اور اپنے گھروں کو زندہ سلامت نہیں لوٹ سکیں گے۔ اس لئے اپنی جان بچانے کے خیال سے پیچھے رہ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان اعزاز اور منفرد خصوصیت کا ذکر ہے کہ آپ جیسا بھی اقدام کریں صلح کا یا جنگ کا اللہ تعالیٰ اس کی حمایت کرتے ہیں اور اگلے پچھلے تمام تصرفات سے درگزر کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ صحابۂ کرام نے اس موقع پر جس طرح آپ کا ساتھ دیا اور آپ کے تمام اقدامات کی حمایت کے لئے آپ کے دست مبارک پر بیعت کر کے اپنی مکمل وفاداری کا اظہار کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان نفوس قدسیہ کی مدح سرائی کی ہے اور اس بیعت کو بیعت رضوان کا نام دے کر ان تمام صحابۂ کرام سے اپنی رضا مندی اور خوشنودی کی نوید سنائی ہے۔ اس میں حضرت عثمان کی خصوصی فضیلت بھی ہے کہ انہیں اس موقع پر ’’قاصد رسول‘‘ اور سفیر اسلام ہونے کا اعزاز ملا۔ ان کی وفات کی خبر پر ان کا بدلہ لینے کے لئے مرنے مارنے کی بیعت لینے کا اتنا بڑا اقدام کیا گیا۔ صلح کے نتیجہ میں جنگ ٹل گئی اور بہت سے بے گناہ جنگ کی لپیٹ میں آنے سے بچ گئے۔ صحابہ کرام کے لئے تقویٰ کی اہلیت کا قرآنی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔ اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ کی نوید سنائی گئی۔ آپ نے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر طواف کرنے کا جو خواب دیکھا تھا آئندہ سال کو اس کی عملی تعبیر کا سال قرار دیا گیا۔ صحابۂ کرام کی امتیازی خوبیوں میں آپس میں رحمدل ہونے اور کافروں کے مقابلہ میں سخت گیر ہونے کا خصوصی تذکرہ اور اس بات کا بیان کہ صحابۂ کرام کی کمزور جماعت کو آہستہ آہستہ تقویت فراہم کر کے ان کے مربی ومرشد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا ذریعہ بنایا گیا اور اس بات کا اشارہ بھی کہ صحابہ کی جماعت کو دیکھ کر غیض وغضب میں مبتلا ہونے والے ایمان سے محروم ہو کر کفر کی وادی میں بھٹکنے لگ جاتے ہیں۔ اس پاکیزہ جماعت کے لئے مغفرت اور اجر عظیم کے وعدہ کے ساتھ سورت کا اختتام کیا گیا ہے۔

 

               سورہ الحجرات

مدنی سورت ہے۔ اس میں اٹھارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں۔ اس سورت کا دوسرا نام ’’سورہ الآداب‘‘ ہے۔ مجلس رسول کا ادب سکھایا گیا کہ آپ کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ آپ سے کوئی آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے، دروازہ پر کھڑے ہو کر چلا چلا کر آپ کو پکارا نہ جائے آپ کے آرام و راحت کا خیال رکھا جائے۔ پھر اسلامی معاشرہ کے آداب کہ افواہوں پر کان نہ دھرا جائے۔ بلا تحقیق کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جو دوسرے کے لئے مالی و جانی نقصان اور اپنے لئے ندامت و پشیمانی کا باعث بن جائے۔ مؤمنین کو آپس میں بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے کی تلقین کے ساتھ ہی باہمی اختلافات کی صورت میں صلح صفائی کی تعلیم دے کر ظالم اور ہٹ دھرم کے خلاف مظلوم کی مدد کا حکم دیا گیا۔ معاشرہ کے کسی بھی فرد یا جماعت کے استہزاء و تمسخر سے باز رہنے اور بدگمانی سے بچنے کی ترغیب دی گئی اور غیبت کو اس قدر بدترین عمل قرار دیا کہ اپنے بھائی کی میت سے گوشت نوچ کر کھانے کے مترادف قرار دیا۔ پوری انسانیت کو ایک گھرانے کے افراد بتا کر خاندانوں اور برادریوں کی تقسیم کو تسلیم کرتے ہوئے اسے فضیلت یا اعزاز کی بنیاد قرار دینے سے باز رہنے کی تلقین کے ساتھ ہی اسلامی معاشرہ میں اعزاز و احترام کی بنیاد ’’تقویٰ‘‘ کی تعریف کی گئی۔ ایمان کو محض اللہ کا فضل قرار دے کر عُجب اور کبر کی بیخ کنی کر دی گئی اور بتایا کہ ایمان کی صداقت کے ثبوت کی علامت ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ میں جانی و مالی شرکت ہے۔

 

               سورہ ق

مکی سورت ہے۔ پینتالیس آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ اس مختصر سورت میں توحید ورسالت اور بعث بعد الموت کے تینوں عقیدے پوری آب و تاب کے ساتھ مذکور ہیں۔ قرآن کریم کی عظمت کے بیان کے ساتھ ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ منکرین کے انکارِ قرآن کی وجہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے عقیدہ کا بیان ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت پوست کے بوسیدہ ہو کر ذرات کی شکل میں ہواؤں کی لہروں، پانی کی موجوں اور زمین کی پنہائیوں اور فضاء کی وسعتوں میں بکھرنے کے بعد ان کے ذرات کو علیحدہ علیحدہ شناخت کر کے کس طرح جمع کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسی محفوظ کتاب ہے جس میں ہر ایک کے اجزاء اور ذرات کی تفصیل اس طرح مذکور ہے کہ وہ زمین میں جہاں بھی چھپ جائے یا بکھر کر غائب ہو جائے تو وہ ہمارے علم میں رہتا ہے اور اسے جمع کر کے دوبارہ انسان بنادینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ پھر توحید پر کائناتی شواہد اور رسالت پر واقعاتی حقائق سے استدلال کر کے بتایا ہے کہ انبیاء و رسل کے انکار پر پہلی قوموں کی طرح مشرکین مکہ کا مقدر بھی ہلاکت و تباہی بن سکتی ہے۔ اس کے بعد جہنم کا تذکرہ اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین جیسی عظیم مخلوقات کو بنا کر بھی وہ نہیں تھکا تو انسان کو دوبارہ بنانے سے وہ کیسے تھک جائے گا۔ موت و حیات اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس بات کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے کہ اپنی وعظ و تبلیغ کی بنیاد قرآن کریم کو بنا کر اللہ کے وعدے اور وعیدیں لوگوں کو سنائی جائیں۔

 

               سورہ الذاریات

مکی سورت ہے۔ ساٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ دوسری مکی سورتوں کی طرح عقیدہ کے موضوع پر ذہن سازی کا عمل اس سورت میں بھی جاری ہے۔ غبار اڑانے والی ہواؤں، بارش برسانے والے بادلوں، پانی پر تیرنے والی بادبانی کشتیوں اور دنیا کا نظام چلانے والے فرشتوں کی قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی برحق ہے۔ پھر منکرین قرآن و آخرت کی ہٹ دھرمی اور عناد اور ان کا بدترین انجام اور ایمان والوں کی صفات فاضلہ اور ان کا انجام خیر ذکر فرمایا ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مہمان بننے والے فرشتوں کا تذکرہ اور بڑھاپے میں انہیں اولاد کی خوشخبری سنائی اور بتایا ہے کہ قادر مطلق کے لئے اولاد عطاء فرمانے کے لئے جوانی اور بڑھاپے کے عوامل اثر انداز نہیں ہوتے، وہ اپنی قدرت کاملہ سے میاں بیوی کے بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود اولاد دینے پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔

 

 27 – قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ

قوم لوط کی ہلاکت کے واقعہ سے اس پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ (حضرت لوط علیہ السلام کا) صرف ایک گھرانہ اسلام کی بدولت عذاب سے نجات پا سکا۔ اس کے علاوہ پوری قوم اپنی بے راہ روی کی بناء پر پتھروں کی بارش سے تباہ کر دی گئی۔ قصۂ موسیٰ و فرعون میں بھی یہی ہوا کہ انہوں نے رسول کا انکار کیا۔ ہم نے اسے سمندر میں ڈال کر غرق کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ قوم ثمود اور اس سے پہلے قوم نوح کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ ان کی سرکشی اور فسق و فجور نے ان کی تباہی کی راہ ہموار کی اور آنے والوں کے لئے نشانِ عبرت بن کر رہ گئے۔ اتنے بڑے آسمان کی چھت بنانے والا اور زمین کا اتنا خوبصورت فرش لگانے والا کتنا بہترین کاریگر اور کتنا وسعتوں والا مالک ہے۔ اس نے ہر چیز کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا (نر اور مادہ، مثبت و منفی کی شکل میں ) اسی اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنانا چاہئے۔ باقی رہا نبی کی کردار کشی کرنے کے لئے اسے دیوانہ و جادوگر کے نام سے بدنام کرنے کی کوشش، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے انبیاء علیہم السلام کو بھی اسی قسم کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے، آپ ان باتوں کی طرف دھیان نہ دیں اور ایمان والوں کو یاد دہانی کراتے رہیں اور جنات و انسانوں کو ان کے مقصد تخلیق کی طرف متوجہ کریں۔ کافروں کے لئے قیامت کے دن ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔

 

               سورہ الطور

مکی سورت ہے، انچاس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے، اس مختصر سی سورت میں عقائد کی تینوں بنیادوں ’’توحید و رسالت اور قیامت‘‘ کے موضوع پر مدلل گفتگو موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ اللہ کا عذاب جب واقع ہو گا تو اسے کوئی روکنے والا نہیں ہو گا۔ اس دن آسمان تھر تھر کانپ رہا ہو گا۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح فضاء میں اڑتے پھر رہے ہوں گے۔ کافروں کو جہنم کے کنارے کھڑے کر کے پوچھا جائے گا کہ جس آگ کے تم منکر تھے وہ تمہارے سامنے ہے۔ کیا اب بھی اسے تم ’’جادو‘‘ ہی سمجھتے ہو یا تمہاری بینائی کام نہیں کر رہی ہے۔ آگ کو برداشت کرسکو یا نہ کرسکو تمہیں اس آگ میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہنا ہو گا۔ پھر متقیوں کے لئے جنات اور ان میں جو انعامات ملیں گے ان کا تذکرہ۔ خاص طور پر جنتیوں کی اولاد اور اہل خانہ کو ان کے ساتھ جنت میں یکجا کرنے کا ذکر ہے۔ پھر رسالت محمدیہ کی صداقت کا بیان ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ مشرکین کے بے جا مطالبات اور نازیبا کلمات سے صرف نظر کر کے آپ نصیحت کی تلقین فرماتے رہیں۔ پھر دلائل توحید اور اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے کی مذمت ہے اور آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام مؤمنین کو تلقین ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔ آپ ہماری نگاہوں میں ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ دن رات اور صبح و شام اللہ کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہا کریں۔

 

               سورہ النجم

مکی سورت ہے۔ باسٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ سورت کی ابتداء میں قسمیں کھا کر اللہ نے سفر معراج کی تصدیق کرتے ہوئے ’’معراج سماوی‘‘ کے بعض حقائق خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے عرش معلیٰ پر ملاقات اور سدرۃ المنتہیٰ پر فرشتہ سے بالمشافہہ گفتگو کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر شرک کی تردید کرتے ہوئے باطل خداؤں کی مذمت کے ساتھ بتایا ہے کہ اللہ کے علاوہ بتوں کی عبادت ہو یا معزز فرشتوں کی وہ ہر حال میں باطل اور قابلِ مواخذہ ہے۔ پھر انسانی زندگی کے ضابطہ کو بیان کیا ہے کہ انسان کی محنت اور کوشش ہی اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

؂عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

آخر میں نہایت اختصار کے ساتھ امم ماضیہ کا تذکرہ کر کے قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ بیان کر دیا کہ قوموں کی تباہی میں وسائل سے محرومی یا معیشت کی تنگی نہیں بلکہ ایمان سے محرومی، عملی بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط سب سے بڑے عوامل ہوا کرتے ہیں۔

 

               سورہ القمر

مکی سورت ہے۔ پچپن آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس سورت کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ سورت کی ابتداء حضور علیہ السلام کے ’’چاند کو دو ٹکڑے کرنے‘‘ کے معجزہ سے کی گئی ہے، جسے قرآن کریم ’’شق القمر‘‘ کہتا ہے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ جادو کا اثر آسمان پر نہیں ہوتا، لہٰذا اگر آپ چاند دو ٹکڑے کر دیں تو ہم آپ کو ’’جادو گر‘‘ قرار دینے کے بجائے نبی تسلیم کر لیں گے۔ مگر وہ ہٹ دھرم اس معجزہ کو دیکھ کر بھی کہنے لگے کہ ’’محمد کا جادو تو آسمان پر بھی چل گیا‘‘ پھر قیامت کے ہولناک دن کی یاد دلا کر مشرکین کو بتایا گیا کہ اس دن تمہاری نگاہیں جھکی کی جھکی رہیں گی اور تمہاری زبانیں اس دن کی شدت کا برملا اعتراف کریں گی۔ پھر مشرکین مکہ کو حق کے انکار کے بدترین نتائج پر متنبہ کرنے کے لئے امم ماضیہ کا تذکرہ شروع کر دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی ’’ہزار سالہ جدو جہد‘‘ قوم کی گستاخی اور تکذیب پر بارگاہ الٰہی میں عاجزانہ دعاء اور مدد کی درخواست جو کسی بھی دور کے پریشان حال انسان کی مشکلات کے حل کے لئے مقبول دعاء کا درجہ رکھتی ہے ’’رَبِّ اِنِّی٘ مَغ٘لُو٘بٌ فَاَن٘تَصِر٘‘‘ اور اس کے نتیجہ میں اہل ایمان کی ’’کشتی کے ذریعے‘‘ نجات اور آسمان سے برسنے اور زمین سے ابلنے والے پانی کے سیلاب میں قوم کی غرقابی اور تباہی کو بیان کیا۔ اس کے بعد عادو ثمود و قوم لوط و فرعون جو اپنے اپنے دور میں طاقت و قوت، ہنر اور ٹیکنالوجی، مستحکم معیشت اور مضبوط سیاسی نظام کے نمائندے تھے۔ ان کی تکذیب و نافرمانی پر ہلاکت و تباہی کی مثال پیش کر کے کافروں کو وعید اور اہل ایمان کو بشارت اور تسلی دی کہ ’’دعوت حق‘‘ کے مخالفین کتنے با اثر اور مستحکم کیوں نہ ہوں اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا مشرکین مکہ پر بھی ایک دن آنے والا ہے جب یہ شکست کھا کر میدان (بدر) سے راہِ فرار اختیار کرنے پر ہی عافیت سمجھیں گے۔ پھر مجرمین کے قیامت کے دن بدترین انجام کے ساتھ بتایا کہ متقی باغات اور نہروں کے خوشنما منظر میں اپنے رب کے ہاں با عزت مقام اور بہترین انجام سے سرفراز ہوں گے۔

 

               سورہ الرحمن

اٹھتر چھوٹی چھوٹی آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل مدنی سورت ہے۔ اس میں قانون سازی کی بجائے توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد قائم کئے گئے ہیں اور قیامت کے مناظر، جہنم کی ہولناکی اور خاص طور پر جنت اور اس کے خوشنما مناظر کو نہایت خوبصورتی اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایک حدیث شریف میں اس سورت کو عروس القرآن یعنی ’’قرآن کریم کی دلہن‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں بالکل منفرد انداز میں ایک ہی جملہ ’’فبأی الٓاء ربکما تکذبان‘‘ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، کو اکتیس مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنات کو جب حضور علیہ السلام نے سورہ الرحمن سنائی تو وہ ہر مرتبہ یہی کہتے رہے ’’لا بشیٔ من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد‘‘ ہم آپ کی کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے، تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں۔ شروع سورت میں بتایا ہے کہ رحمت الٰہیہ کے مظاہر میں ایک بڑا مظہر قرآن کریم کی تعلیم اور انسان کو اس کے پڑھنے کا سلیقہ سکھانا اور اسے قوت بیان کا عطاء کرنا ہے۔ سورج اور چاند حساب کے ایک نہایت ہی دقیق نظام کے تحت چل رہے ہیں، پودے اور درخت بھی اللہ کے نظام کے پابند اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اسی نے آسمان کو بلند کیا اور عدل و انصاف کا مظہر ’’ترازو‘‘ پیدا کیا لہٰذا ناپ تول میں کسی کمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ زمین کو اس انداز پر پیدا کیا کہ تمام مخلوقات اس پر بآسانی زندگی بسر کرسکیں۔ اس میں پھول، خوشہ دار کھجور، غلے اور چارہ اور خوشبودار پھول پیدا کئے۔ ان نعمتوں میں غور کر کے بتاؤ آخر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔ ایسی مٹی جو خشک ہو کر بجنے لگ جاتی ہے ہماری قدرت کا کمال دیکھو کہ ہم نے اس سے نرم و نازک جسم والا انسان پیدا کر دیا اور جنات کو بھڑکنے والی آگ سے پیدا کیا۔ کھارے اور میٹھے پانی کی لہروں کو آپس میں مل کر ایک دوسرے کا ذائقہ اور تاثیر بدلنے سے اس طرح روکتا ہے جیسے ان کے درمیان کوئی حد فاصل قائم ہو۔ ان سے موتی اور مرجان کا خوشنما پتھر بھی حاصل ہوتا ہے اور پہاڑوں جیسی ضخامت کے بحری جہاز بھی ان سمندروں کے اندر تیرتے اور نقل و حمل کے لئے سفر کرتے ہیں۔ کائنات کی ہر چیز کو فنا ہے مگر رب ذوالجلال کے لئے دائمی بقاء ہے۔ اس طرح انعامات خداوندی کے تذکرہ کے بعد قیامت کے ہولناک مناظر اور جہنم کی دہشت ناک سزاؤں کا تذکرہ کیا اور جنت کے روح پرور مناظر کا بیان شروع کر دیا جس میں باغات اور چشمے، انواع و اقسام کے پھل، ریشم و کمخواب کے لباس، یاقوت و مرجان کی طرح حسن و جمال اور خوبصورتی کی پیکر جنتی حوریں جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی ہوں گی اور آخر میں رب ذوالجلال والا کرام کے نام کی برکتوں کے تذکرہ پر سورہ کو ختم کیا گیا ہے۔

 

               سورہ الواقعہ

مکی سورت ہے، چھیانوے چھوٹی چھوٹی آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ سورت کا مرکزی مضمون ’’بعثت بعدا لموت‘‘ کا عقیدہ ہے، قیام قیامت ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلانا ممکن نہیں ہے، اس دن عدل و انصاف کے ایسے فیصلے ہوں گے جس کے نتیجہ میں بعض لوگ اعزاز و اکرام کے مستحق قرار پائیں گے جبکہ بعض لوگوں کو ذلت و رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اس دن زمین شدت کے ساتھ ہل کر رہ جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر فضاء میں اڑنے لگیں گے۔ لوگوں کی نیکی اور بدی کے حوالہ سے تین جماعتیں بنا دی جائیں گی۔ اصحاب المیمنہ (دائیں طرف والے) اصحاب المشأمہ (بائیں طرف والے) اور خاص الخاص مقربین جن کے اندر پہلی امتوں کے نیکو کار لوگ اور امت محمدیہ کے مقربین شامل ہوں گے۔ پھر ان کے لئے انعامات اور حور و قصور کا تذکرہ اور بائیں طرف والوں کے لئے جہنم کے عذاب اور سزاؤں کا تذکرہ، پھر مرنے کے بعد زندہ ہونے پر عقل کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے دلائل کا ایک سلسلہ بیان کیا ہے۔ ہمیں کوئی عاجز نہیں کرسکتا کہ ہم نیست و نابود کر کے تمہاری جگہ دوسری مخلوق پیدا کر کے لے آئیں۔ جب تم نے ہمارے پہلے پیدا کرنے کو تسلیم کر لیا ہے تو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو؟ تم کھیتوں میں بیج ڈالتے ہو، اسے اگانا تمہارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم ہی اسے گاتے ہیں، اگر ہم اس کھیتی کو تباہ کر کے رکھ دیں تو تم کف افسوس ملتے رہ جاؤ گے۔ تمہارے پینے کا پانی بادلوں سے کون نازل کرتا ہے۔ کیا تم اتارتے ہو یا ہم اتارتے ہیں۔ اگر ہم اس پانی کو نمکین اور کڑوا بنا دیں تو تم کیا کرسکتے ہو؟ کیا اس پر تم شکر نہیں کرتے ہو؟جس آگ کو تم جلاتے ہو اس کا درخت کون پیدا کرتا ہے تمہیں اپنے رب عظیم کی تسبیح بیان کرتے رہنا چاہئے۔ قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے نظام شمسی کے مربوط و منظم سلسلہ کو بطور شہادت پیش کرنے کے لئے اس کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس ذات نے اجرام فلکی کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے اسی قادر مطلق نے یہ قرآن کریم نازل فرمایا ہے۔ اسے چھونے کے لئے پاکیزگی اور طہارت کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ پھر ’’جاں کنی‘‘ کا عالم اور جزاء و سزاء کے لئے دربار خداوندی میں حاضری کے موقع پر تین جماعتوں میں لوگوں کی تقسیم کا اعادہ اور آخر میں رب عظیم کی تسبیح بیان کرنے کے حکم پر سورہ کا اختتام کیا گیا ہے۔

 

               سورہ الحدید

مدنی سورت ہے، انتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ ’’حدید‘‘ لوہے اور اسٹیل کو کہتے ہیں اور اس کے منافع اور فوائد ہر دور میں مسلم رہے ہیں، لوہے کو طاقت و قوت اور مضبوطی کا ایک بڑا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے سورت کا نام ’’الحدید‘‘ رکھا گیا ہے۔ آسمان و زمین، عرش و کرسی کی تخلیق، شب و روز کا منظم سلسلہ، ہر چیز پر اللہ کے علم کا احاطہ، اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی کمزوری اور عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور اس پر اجرو ثواب دینے کو قرض کے ساتھ مشابہت دے کر بتایا ہے کہ جس طرح قرض کی ادائیگی ایک فریضہ اور لازمی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کے نام پر اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے مال خرچ کرنے پر بدلہ دیا جانا بھی لازمی اور ضروری ہے۔ پھر مؤمنین کا اپنے ایمان کے نور سے قیامت میں استفادہ اور منافقین کی بیچارگی اور نور ایمان سے محرومی پر حسرت و افسوس کا عبرتناک منظر پیش کیا ہے اور ’’گلو گیر انداز‘‘ میں مومنین کو اپنے ایمانی تقاضوں پر عمل درآمد کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ دنیا کی زندگی کی بے ثباتی اور اسباب و وسائل کی کشش سے دھوکہ میں نہ پڑنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس کے بالمقابل بے پناہ وسعتوں کی حامل جنت کے حصول میں لگنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔’’تقدیر‘‘ کے عقیدہ کی افادیت کو بیان کیا ہے کہ اس سے اہل ایمان مایوسیوں سے محفوظ ہو کر ’’جہد مسلسل‘‘ کے عادی بن سکتے ہیں اور اپنی انتھک کوششوں اور محنتوں سے معاشرہ کو انقلاب سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ ’’لوہا‘‘ اپنے اندر بھرپور انسانی منافع لئے ہوئے ہے، اس سے طاقت و قوت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ طاقت و قوت اللہ کے دین کی حمایت اور اس کے دفاع میں استعمال ہونی چاہئے۔ پھر سلسلہ انبیاء کا مختصر تذکرہ جس میں ابو البشر ثانی حضرت نوح علیہ السلام اور امام الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ اور پھر ’’عبد صالح‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب انجیل کا تذکرہ فرما کر ان کے متبعین کی صفات اور قیامت میں ان کے لئے اجر عظیم کے وعدہ کے ساتھ ان کے پیروکاروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس طرح وہ دُہرے اجر کے مستحق ہو جائیں گے اور یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور اس کی عطا کردہ توفیق سے ہی میسر آ سکتا ہے۔

 

28 – قَدْ سَمِعَ اللَّہُ

               سورہ مجادلہ

المجادلۃ کے معنی ’’بحث و مباحثہ یا جھگڑا‘‘ کرنے کے ہیں، اس سورہ کی ابتداء میں ایک خاتون کی گفتگو اور اس کے ضمن میں ظہار کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کا نام ’’المجادلۃ‘‘ رکھا گیا ہے۔ حضرت اوس بن صامت نے اپنی بیوی حضرت خولہ بنت ثعلبہ سے ظہار کر لیا تھا، ظہار کے معنی اپنی بیوی کی پشت کو اپنی ماں کی پشت کے مشابہ قرار دینا ہے اور زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لئے (طلاق دینے کے لئے) استعمال ہوتا تھا۔ خولہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہایت خوبصورت انداز میں اپنا معاملہ پیش کر کے اس کا شرعی حکم معلوم کیا۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ! اوس نے مجھ سے ظہار کر لیا ہے۔ یہ شخص میرا مال کھا گیا۔ میری جوانی اس نے تباہ کر دی۔ میں نے اپنا پیٹ اس کے آگے کھول کر رکھ دیا۔ جب میں بوڑھی ہو کر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہی تو اس نے مجھ سے ظہار کر لیا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اگر انہیں میں اپنے پاس رکھوں تو بھوکے مرنے لگیں گے اور اگر اوس کے حوالہ کر دوں تو بے توجہی کی وجہ سے ضائع ہو جائیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ تم اپنے شوہر پر حرام ہو چکی ہو۔ خولہ نے کہا، اس نے طلاق کا لفظ تو استعمال ہی نہیں کیا تو میاں بیوی میں حرمت کیسے ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ اپنی بات دہراتی رہی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہی جواب دیتے رہے۔ آخر میں کہنے لگیں : اے اللہ! میں اس مشکل مسئلہ کا حکم آپ سے ہی مانگتی ہوں اور آپ کے سامنے شکایت پیش کرتی ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کمرے کے ایک کونہ میں بیٹھی سن رہی تھی۔ اتنا قریب ہونے کے باوجود مجھے بعض باتیں سنائی نہیں دے رہی تھیں مگر اللہ نے آسمانوں پر اس کی تمام باتیں سن کر مسئلہ کا حل نازل فرما دیا۔ اللہ نے اس کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی۔ پھر ظہار کا حکم بیان کرنا شروع کر دیا۔ پہلے تو بیوی کو ماں کہنے کی مذمت فرمائی اور اسے جھوٹ اور گناہ کا موجب فعل قرار دیا اور پھر بتایا کہ اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ’’زوجیت‘‘ کے تعلقات باقی رکھنا چاہتا ہے تو ایک غلام آزاد کر کے یا ساٹھ روزے رکھ کر یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا کر یہ مقصد حاصل کرسکتا ہے ورنہ اس جملے سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ اس کے بعد دشمنانِ خدا و رسول کے لئے ذلت آمیز عذاب کا تذکرہ اور اللہ کے علم و قدرت کو بیان کرنے کے لئے بتایا کہ خفیہ گفتگو کرنے والے اگر تین ہوں تو چوتھے اللہ، پانچ ہوں تو چھٹے اللہ، کم ہوں یا زیادہ اللہ ان کے ساتھ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ یہودی اپنی سرگوشیوں سے مسلمانوں کے لئے پریشانیاں اور مسائل پیدا کرتے تھے۔ اس لئے خفیہ میٹنگوں پر پابندی لگا دی گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے ہوئے شرارت کی نیت سے نامناسب الفاظ کے استعمال کی بھی مذمت کی گئی۔ مجلس میں نئے آنے والوں کے لئے گنجائش پیدا کرنے اور اختتامِ مجلس کے بعد بے مقصد گفتگو میں لگنے کی بجائے منتشر ہو جانے اور اپنے اپنے کام میں مصروف ہو جانے کی تلقین فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی مجلس کے لئے ادب بیان کیا کہ دربارِ رسالت میں حاضری سے پہلے صدقہ کر لیا کریں تاکہ ’’آدابِ رسالت‘‘ میں کسی کوتاہی کی صورت میں اللہ کی پکڑ سے بچ سکیں۔ یہودیوں سے دوستیاں گانٹھنے والوں کے خبث باطن کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی مذمت بیان کی اور عذاب شدید کی وعید سنائی۔ اس کے بعد ’’حزب اللہ‘‘ اور ’’حزب الشیطان‘‘ کی تقسیم کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ کے ذکر سے غافل ہو کر شیطان کے زیر اثر آنے والے شیطان کی جماعت میں شامل ہیں۔ اللہ نے اپنے رسولوں اور اہل ایمان کو غالب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ مؤمن وہی ہیں جو رشتہ داری کی اسلامی بنیادوں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ خونی، قومی اور لسانی بنیادوں پر اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے تعلقات استوار نہیں کرتے۔ یہ لوگ اللہ کی تائید و نصرت اور جنت کے مستحق ہیں، یہی لوگ ’’حزب اللہ‘‘ میں شامل ہیں اور کامیابیاں اللہ کے لشکر کے قدم چوما کرتی ہیں۔

 

               سورہ حشر

اس سورہ کا دوسرا نام ’’سورہ بنی النضیر‘‘ ہے کیونکہ اس میں قبیلہ بنی نضیر کے محاصرے اور پھر جلاوطن کئے جانے کا تذکرہ ہے۔ یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا، مگر وہ اپنی سازشی طبیعت کے مطابق خفیہ طریقہ پر مشرکین مکہ کی حمایت اور مسلمانوں کی مخالفت میں سرگرداں رہتے۔ غزوۂ احد کے موقع پر مشرکین کے غلبہ سے ان کی سازشیں زور پکڑنے لگی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر کے ان کی جلاوطنی کا فیصلہ کیا جس پر یہ سورہ نازل ہوئی۔ انہیں کہا گیا تھا کہ جاتے ہوئے جو چیز ساتھ لے جا سکتے ہو لے جاؤ، چنانچہ انہوں نے اپنے مکانات کو توڑ کر ان کا ملبہ بھی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ نئی جگہ پر آبادی میں تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کرسکیں اور ان کے چلے جانے کے بعد مسلمان ان کے گھروں کو استعمال نہ کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورتحال کو ان کے لئے دنیا کا عذاب قرار دیا اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہو گا۔ جنگ کے بغیر کافروں کا جو مال مسلمانوں کو ملے وہ ’’فئے‘‘ کہلاتا ہے اور جنگ کے نتیجہ میں جو ملے وہ ’’غنیمت‘‘ کہلاتا ہے۔ ’’فئے‘‘ کا مصرف بتایا کہ اللہ کے نبی کی گھریلو ضروریات اور غرباء و مساکین اور ضرورتمند مسافروں کے استعمال میں لایا جائے گا۔ پھر اسلامی معیشت کا زریں اصول بیان کر دیا کہ مال کی تقسیم کا مقصد مال کو حرکت میں لانا ہے تاکہ چند ہاتھوں میں منجمد ہو کر نہ رہ جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی اہمیت جتلانے کے لئے حکم دیا کہ آپ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہے، لہٰذا اگر وہ آپ لوگوں کو کوئی چیز دینے کا فیصلہ کریں تو وہی لینی ہو گی اور اگر کسی سے منع کر دیں تو اس سے باز رہنا ہو گا۔ پھر انصار مدینہ کی وسعت قلبی کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ ایمان کی بنیاد پر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کو انہوں نے اپنے معاشرہ میں سمونے کے لئے اس قدر محبتیں دیں کہ اپنی ضرورتوں پر مہاجرین کی ضروریات کو ترجیح دی اور اپنے دلوں میں کسی قسم کا بغض یا نفرت نہیں پیدا ہونے دیا۔ پھر منافقین کے یہودیوں کی حمایت کرنے پر مذمت کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عقل و فہم سے عاری ہونے کی بناء پر اس قسم کی ناجائز حرکتوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے بعد تقویٰ اور آخرت کی تیاری کی تلقین فرمائی ہے اور قرآن کریم کی قوت تأثیر کو بیان کیا ہے کہ جب پتھروں اور پہاڑوں پر بھی یہ کلام اثر انداز ہو سکتا ہے تو انسان پر تو بدرجۂ اولیٰ اس کی تاثیر ظاہر ہونی چاہئے۔

 

               سورہ ممتحنہ

’’الممتحنہ‘‘ کے معنی ’’امتحان لینے والی‘‘ اس سورہ میں ان خواتین کے بارے میں تحقیقات کرنے کا حکم ہے جو ہجرت کر کے مدینہ منورہ منتقل ہو رہی تھیں۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’کافروں سے تعلقات کا قیام‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ’’فتح مکہ‘‘ کے لئے روانگی کا ارادہ کیا تو ایک مخلص صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے مخبری کرتے ہوئے مشرکین مکہ کے نام ایک خط تحریر کر دیا تھا۔ اس پر تنبیہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں کے ساتھ دوستی اور تعلقات قائم کرنے کی مذمت فرمائی اور بتایا کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں۔ ان سے کسی چیز کی توقع عبث ہے اور ایک ضابطہ بیان کر دیا کہ جن کافروں کا شر متعدّی نہیں ہے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوشاں نہیں ہیں ان سے حسن معاملہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جو کافر مسلمانوں کے لئے مسائل و مشکلات کا باعث ہیں انہیں نقصان پہنچانے میں کوشاں رہتے ہیں ان سے کسی قسم کے تعلقات استوار نہیں کئے جا سکتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طرز زندگی کو اپنانے کی خصوصی دعوت دی گئی ہے، دیار کفر سے ہجرت کر کے آنے والی خواتین کے بارے میں تحقیقات کی جائیں، اگر ان کا اخلاص و اسلام ثابت ہو جائے تو انہیں کافروں کے حوالہ کرنے کی بجائے اسلامی معاشرہ میں با عزت طریقہ پر رہنے کی صورت پیدا کریں۔ اگر وہ کسی کافر کی بیوی ہے تو اس کی مطلوبہ رقم مہر کی شکل میں دے کر اسے اس کے چنگل سے آزاد کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ کافر اس کے لئے حلال نہیں اور یہ کافر کے لئے حلال نہیں ہے اور حضور علیہ السلام کو ایسی خواتین کو بیعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو مطلوبہ صفات کی پابندی کا عہد کریں۔ شرک، چوری، زنا، الزام تراشی، قتل اولاد اور مخالفت رسول جیسے جرائم سے اجتناب کا عہد کریں۔ آخر میں اللہ کے دشمنوں سے تعلقات کے قائم کرنے پر تنبیہ کا اعادہ کرتے ہوئے سورہ کو ختم کر دیا گیا ہے۔

 

               سورہ صف

اس میں صف باندھ کر جہاد کرنے کا تذکرہ ہے۔ اللہ کی تسبیح کے بیان کی تلقین کے بعد مسلمانوں کو غلط بیانی اور جھوٹے دعوے سے گریز کا حکم ہے اور مضبوط سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کرنے والوں کے لئے محبت الٰہی کا اعلان ہے۔ پھر حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کی دعوت و قربانیوں کا تذکرہ خاص طور پر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ’’بعثت محمدیہ‘‘ کی بشارت کا بیان ہے۔ اسلام کا راستہ روکنے کی کافرانہ کوششوں کو بچگانہ حرکت قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ کے آسمانی فیصلہ کا اعلان ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کو کامیاب تجارت قرار دے کر دردناک عذاب سے نجات، جنت کے باغات و انہار اور عالیشان محلات کی عطاء کے ساتھ دنیا میں فتح و کامرانی کی نوید ہے اور یہ بتایا ہے کہ دین کی جدوجہد کرنے والوں کو ہر دور میں کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر لبیک کہنے والے حواریین کی اللہ نے مدد فرما کر انہیں غلبہ نصیب فرمایا تھا۔ تم بھی حضور علیہ السلام کی حمایت کرو گے تو فتح و غلبہ اور نصرت خداوندی شامل حال ہو گی۔

 

               سورہ جمعہ

اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے بعد حضور علیہ السلام کی بعثت اور اس کے مقاصد کے تذکرہ کے بعد بتایا کہ امت محمدیہ میں آخر تک جاں نثار پیدا ہوتے رہیں گے اور یہ دین صرف عربوں کے لئے نہیں ہے بلکہ سلمان فارسی اور ان کی نسل کے دوسرے لوگ بھی اسلام کے نام لیواؤں میں شامل رہیں گے۔ اس کے بعد یہودیوں کا تذکرہ اور ان کے آسمانی کتاب سے فیض حاصل نہ کرنے کو ایک مثال دے کر سمجھایا کہ جس طرح گدھے پر کتابیں لادنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ایسے ہی یہودی بھی آسمانی کتاب کے فیض سے محروم ہیں۔ یہودیوں کے دعوے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اگر کائنات میں اللہ کے سب سے پیارے ہیں تو انہیں موت کی تمنا کر کے جلدی سے اپنے پیارے رب کے پاس پہنچ جانا چاہئے، مگر یہ موت کی تمنا کبھی نہیں کریں گے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جس موت سے یہ ڈرتے ہیں وہ ایک نہ ایک دن آ کر انہیں عالم الغیب والشہادۃ کے سامنے پیش کر دے گی۔ پھر ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا کہ جب جمعہ کے وقت تجارتی قافلہ کی آمد پر لوگ آپ کو خطبہ کے دوران چھوڑ کر چلے گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جمعہ کی اذان کے بعد سب کام دھندے چھوڑ کر اللہ کی یاد اور نماز میں مشغول ہو جانا چاہئے۔ نماز میں مشغولی رزق میں ترقی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ بہترین رزق عطاء فرمانے والے ہیں۔

 

               سورہ منافقون

اس سورت میں اسلامی معاشرہ کی انتہائی خطرناک قسم، منافقین کا تذکرہ ہے، جن کے قلب و لسان میں اتفاق نہیں۔ وہ قسمیں کھا کر بھی یقین دہانیاں کرائیں تو ان پر اعتماد نہ کریں۔ ایک سفر میں منافقین نے بہت بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہر سے ہجرت کر کے آنے والوں کو ذلیل قرار دے کر اپنے آپ کو بڑا عزت والا یا یہ کہا کہ عزت والے مدینہ پہنچتے ہی ذلیلوں کو نکال باہر کریں گے۔ اللہ نے فرمایا عزت اللہ، رسول اور ایمان والوں کے لئے ہے۔ پھر اللہ کے راستہ میں موت سے پہلے پہلے خرچ کرنے کی ترغیب پر سورہ کو ختم کر دیا۔

 

               سورہ تغابن

توحید خداوندی پر کائناتی شواہد پیش کرنے کے بعد گزشتہ اقوام کی نافرمانیوں اور گناہوں پر ان کی ہلاکت کا تذکرہ، پھر قیامت کا ہولناک دن اور اس میں پیش آنے والے احوال کا مختصر تذکرہ اور پھر جنت والوں کی عظیم الشان کامیابی اور جہنم والوں کے بدترین ٹھکانہ کے بیان کے بعد بتایا کہ ’’بیوی بچے‘‘ انسانی آزمائش کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آخر میں اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی ترغیب کے ساتھ سورہ کا اختتام ہوتا ہے۔

               سورہ طلاق

اس سورہ میں طلاق اور عدت کے احکام، بیوی کی علیحدگی کی صورت میں بچے کو دودھ پلانے اور پالنے کی ذمہ داری اور آخر میں توحید و رسالت کے دلائل پر سورہ کو ختم کیا۔

               سورہ تحریم

ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اختلاف روایات کے مطابق شہد یا اپنی باندی ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام کرنے پر تنبیہ کر کے بتایا کہ حلت و حرمت اللہ کا کام ہے۔ پھر حضور علیہ السلام کا راز فاش کرنے پر ایک ام المؤمنین کو تنبیہ کی ہے۔ اس کے بعد سچی توبہ کی تلقین اور کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کا حکم اور پھر چار عورتوں کا تذکرہ جن میں دو کافر تھیں، ان کے شوہروں کا اسلام بلکہ نبوت بھی ان کے کسی کام نہ آئی۔ دو مسلمان تھیں اور اللہ کی انتہائی فرماں بردار جس سے یہ تعلیم دی کہ اسلام میں رشتہ داریاں اور حسب و نسب نہیں ایمان و عمل کام دیتا ہے۔

 

29 – تَبَارَکَ الَّذِی

               سورہ الملک

مکی سورہ ہے تیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ میں دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ ابتداء سورہ میں بتایا گیا ہے کہ زندگی اور موت کی تخلیق کا مقصد ’’مقدار کی کثرت‘‘ نہیں بلکہ ’’معیار کا حسن‘‘ پیدا کرنا ہے۔ کسی بھی نیک عمل کو بہتر سے بہتر اور خوبصورت سے خوبصورت انداز میں سرانجام دیا جائے۔ اس کے بعد قدرت کے ’’فن تخلیق‘‘ میں کمال مہارت کا بیان ہے وسیع و عریض سات آسمان بنا دئے مگر ان میں کوئی دراڑ یا کہیں پر کوئی جھول نہیں رہنے دیا۔ ستارے پیدا کرنے کا مقصد زینت بھی ہے اور آسمانی نظام کے رازوں کو شیاطین سے تحفظ فراہم کرنا بھی ہے۔ پھر جہنم کے اندر عذاب کی شدت، کافروں کی ندامت و شرمندگی اور بے بسی اور کسمپرسی کی بہترین انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ پھر اخلاص کے ساتھ اللہ کا خوف رکھنے والے جو ایسے مقام پر بھی، جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو، اللہ سے ڈریں ان کے لئے ’’بڑے صلہ‘‘ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پھر زمین پر چلنے پھرنے کی سہولت، روزی کمانے کے مواقع فراہم کرنے کے انعام کا تذکرہ کر کے اس منعم حقیقی کے دربار میں پیشی کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔ پھر اچانک عذاب الٰہی کے ظہور کی صورت میں انسانی بے بسی کی تصویر کھینچی گئی ہے اور ہدایت یافتہ اور گمراہ انسان کو نہایت خوبصورت تعبیر میں واضح کیا گیا ہے۔ ایک شخص فطری انداز میں بالکل سیدھا بیچ راستہ میں چل رہا ہو اور دوسرا فطرت کے خلاف سر کے بل چلنے کی کوشش کر رہا ہو، یقیناً یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ نبی اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کی تمنا و دیندار طبقہ کی ہلاکت کی خواہش اور کوشش پر فرمایا کہ اے نبی آپ فرما دیجئے اگر میں اور میرے ساتھی ہلاک بھی ہو جائیں تو اس طرح تم اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوگے۔ اس لئے اللہ پر توکل کرنا چاہئے اور اس کی نعمتوں میں غور کر کے اسے پہچاننے کی سعی بلیغ جاری رکھنی چاہئے۔ پانی جو کہ زندگی کی ابتداء اور بقاء کا ضامن ہے اسے اگر اللہ تعالیٰ خشک کر دیں اور زمین کی تہہ میں جذب کر دیں تو تمہارے کنوؤں کے ’’خشک سوتوں ‘‘ میں پانی کا بہاؤ اللہ کے سوا کون پیدا کرسکتا ہے۔ اس سورہ کے مضامین اور عقیدہ سے ان کا گہرا تعلق حضور علیہ السلام کے سورہ کی روزانہ سونے سے پہلے تلاوت کرنے کی حکمت کو واضح کرتا ہے۔

 

               سورہ القلم

مکی سورہ ہے، باون آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اثبات رسالت محمدیہ اس سورہ کا مرکزی مضمون قرار دیا جا سکتا ہے۔ قلم اور اس سے لکھی جانے والی سطور کی قسم کھا کر تعلیم اور ذریعہ تعلیم، قلم کی اہمیت و عظمت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پھر ہر دور کے باطل کے اعتراضات جو کہ مشرکین مکہ کی زبان سے ادا ہو رہے تھے، ’’مذہبی جنونی‘‘، ’’اخلاقی اقدار سے عاری‘‘ وغیرہ ان کا تسلی بخش جواب ہے کہ آپ نہ تو مجنون ہیں اور نہ ہی اخلاق سے عاری بلکہ آپ تو اخلاقی اقدار کی بلندیوں کا مظہر ہیں۔ گمراہ اور ہدایت یافتہ کا فرق اللہ سے مخفی نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نرمی اور ’’قابل قبول‘‘ بنانے کے مطالبوں سے آپ متأثر نہ ہوں۔ اس قسم کے مطالبات کرنے والے ہمیشہ بے جا قسمیں کھانے والے، بے وقعت، طعنہ باز اور چغلخور ہوتے ہیں۔ نیک کام سے روکنے والے، انتہاء پسند اور گناہوں کی زندگی میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ تشدد پرست اور حسب و نسب کے اعتبار سے مشکوک ہوتے ہیں مال اور اولاد کے زعم میں مبتلا ہو کر ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ قرآن کریم کو قصے کہانیاں بتاتے ہیں، ایسے لوگوں کی ہم معاشرہ میں ناک کاٹ کر رکھ دیں گے۔ پھر ایک زراعت پیشہ اور سخی انسان اور اس کی بخیل اولاد کا تذکرہ کر کے بتایا کہ اللہ کے نام پر خرچ کرنے سے بچنے والوں کا مقدر ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ پھر جنت کے انعامات اور جہنم کے عذاب اور مصائب کا تذکرہ، پھر نماز کی پابندی نہ کرنے والوں کی مذمت کہ قیامت میں ’’تجلی ساق‘‘ کے موقع پر وہ سجدہ بھی نہیں کرسکیں گے۔ پھر ظالموں اور جھٹلانے والوں کو ڈھیل دے کر اچانک گرفت کرنے کے ضابطہ کو بیان کر کے دین پر ثابت قدمی اور صبر کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کے ساتھ قرآن کریم کے عالم انسانیت کے لئے نصیحت و رہنمائی کا پیغام ہونے کے اعلان کے ساتھ سورہ ختم ہوتی ہے۔

 

               سورہ الحآقہ

مکی سورہ ہے، اس میں باون آیتیں اور دو رکوع ہیں۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’قیام قیامت‘‘ ہے۔ قیامت جو کہ حقیقت کا روپ دھارنے والی ہے اور اعمال کو ان کے حقائق کے ساتھ سامنے لانے والی ہے وہ آ کر رہے گی۔ اس کے بعد قیامت کی ہولناکی اور دنیا میں منکرین و معاندین پر عذاب الٰہی کے اترنے کا بیان ہے اور اختصار کے ساتھ عاد و ثمود اور فرعون کا تذکرہ ہے۔ پھر نامۂ اعمال کے دائیں اور بائیں ہاتھوں میں دئے جانے اور لوگوں کی خوشی و مسرت اور پریشانی و گھبراہٹ کے بیان کے ساتھ ان کے لئے جنت و جہنم کی نعمتوں اور تکلیفوں کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد قسمیں کھا کر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا اعلان کیا اور شاعر یا کاہن کا کلام ہونے کی تردید کی ہے۔ قرآن کریم کو گھڑ کر پیش کرنے والے کے روپ میں ان لوگوں کی مذمت ہے جو قرآن میں تحریف اور اس کے معنی کو من مانے طریقے پر بدلنا چاہتے ہیں اور اللہ کی تسبیح کے حکم پر سورہ مکمل ہوتی ہے۔

               سورہ المعارج

مکی سورہ ہے چوالیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’قیامت اور اس کا ہولناک منظر‘‘ ہے۔ مشرکین مکہ کے اس استہزاء و تمسخر پر کہ قیامت والا عذاب ہمیں تھوڑا سا دنیا میں چکھا دیا جائے تو ہم دیکھ تو لیں کہ وہ کیسا ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو لوگ ہمارے عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب ہمارا عذاب اترا تو انہیں کوئی جائے پناہ بھی نہیں ملے گی اور اس سے بچانے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ پھر قیامت کی ہولناکی اور گناہگاروں کے اس عذاب سے بچنے کے لئے دنیا کا مال و دولت، اپنا خاندان اور عزیز و اقارب دے کر چھٹکارا پانے کی خواہش مذکور ہے۔ پھر انسانی فطرت اور مزاج کا بیان ہے کہ تکلیف و مشقت کی صورت میں جزع فزع کرنے لگتا ہے اور آرام و راحت کی صورت میں بخل اور کنجوسی کرنے لگتا ہے۔ اس انتہاء پسندی سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جو نماز کا اہتمام کریں۔ غریبوں کی مدد کریں قیامت پر ایمان رکھیں۔ اللہ کے عذاب سے خائف ہوں، جنسی بے راہ روی کا شکار نہ ہوں، امانتدار ہوں عہد شکنی کا ارتکاب نہ کرتے ہوں، سچی گواہی پر ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ جنت میں عزت و احترام کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس کے بعد بیان کیا ہے کہ جنت کا داخلہ آرزوؤں اور تمناؤں سے اگر ہو سکتا تو جنت سے کوئی بھی پیچھے نہ رہتا کیونکہ ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ جنت میں چلا جائے۔ پھر مجرمین کے لئے دھمکی اور وعید سنائی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی حرکات بد سے باز نہ آئے تو انہیں ختم کر کے دوسری قوم کو ان کی جگہ لا سکتے ہیں۔

               سورہ النوح

مکی سورہ ہے، اٹھائیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس پوری سورہ میں صرف نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت اور ان کی دعوت توحید کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی طویل اور انتھک جدو جہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ان کے بیان کردہ دلائل توحید کی ایک جھلک دکھا کر بتایا ہے کہ وہ کس طرح قوم کی ہدایت کے لئے مخلصانہ کوششیں کرتے رہے اور قوم اپنی ہٹ دھرمی اور عناد پر اڑی رہی آخر کار نوح علیہ السلام کی بددعاء کے نتیجہ میں قوم کو پانی کے سیلاب میں غرق کر کے بتا دیا کہ ظالموں کا انجام ہمیشہ خسارہ اور ہلاکت کی شکل میں ہی ظاہر ہوا کرتا ہے اور مؤمنین ایمان اور اعمال صالحہ کی برکت سے نجات پایا کرتے ہیں۔

               سورہ الجن

مکی سورہ اٹھائیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے، اس سورہ میں جنات کی جماعت کا تذکرہ ہے جنہوں نے حضور علیہ السلام کی نماز میں تلاوت سن کر ایمان قبول کر لیا اور ان انسانوں کو غیرت دلائی گئی ہے جو قرآن کا انکار کرتے ہیں کہ تم سے تو ’’جن‘‘ ہی اچھے رہے۔ جنات کے اسلام کا مکلف ہونے کی طرف اشارہ بھی موجود ہے پھر جنات کی نیک اور بد میں تقسیم کو بیان کیا اور یہ بتایا گیا ہے کہ توحید کے پرستار ہی بلا امتیاز جن و انس ہمیشہ کامیاب و کامران رہے اور منکرین توحید ناکام و نامراد رہے۔ مساجد اللہ کے گھر ہیں ان میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنا مساجد کے آداب کے منافی ہے۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ دو ٹوک انداز میں توحید کا اعلان کر کے اللہ ہی کو اپنے نفع نقصان کا مالک قرار دے کر دنیا کو بتا دیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔ اللہ اپنے انبیاء و رسل کو توحید بیان کرتے ہوئے اور تبلیغ رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اور منکرین کے اعمال کا احاطہ کر کے اللہ نے ان کی تعداد بھی شمار کر ر کھی ہے اور گن گن کر سب کا حساب چکائیں گے اور اللہ کے عذاب سے کوئی بچ نہیں سکے گا۔

 

               سورہ المزمل

مکی سورہ ہے، بیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’شخصیت رسول‘‘ ہے اس میں حضور علیہ السلام کو المزمل ’’کملی والا‘‘ کے پیار بھرے لفظ سے خطاب کیا گیا ہے اور دعوت الی اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا کام کرنے والوں کو آپ کے توسط سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دن بھر کی جدو جہد میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے شب بیداری اور قیام اللیل بہت ضروری ہے اور رات کی نماز میں تلاوت قرآن کی اثر انگیزی مسلم ہے۔ مخالفین و معاندین سے صرف نظر کر کے انہیں اللہ پر چھوڑنے کی تلقین کر کے قصۂ فرعون و موسیٰ میں معاندین کی پکڑ کی ہلکی سی جھلک دکھا کر تہجد کی نماز کے حوالہ سے نرمی کا اعلان کیا گیا ہے کہ پہلے تہجد فرض تھی مگر دن کی مصروفیات خصوصاً مجاہدین اور تجارت پیشہ احباب کی رعایت میں صوابدیدی اختیار دے دیا گیا ہے کہ جس سے جتنا ہو سکے ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔ جس قدر نوافل کا اہتمام کرو گے اللہ کے یہاں اس کا اجر و ثواب ضرور ملے گا۔ کوشش کے باوجود ادائیگی اعمال میں رہ جانے والے کوتاہی پر اللہ سے استغفار کرتے رہیں اللہ غفور رحیم ہیں۔

               سورہ المدثر

مکی سورہ ہے۔ چھپن چھوٹی چھوٹی آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ فرائض نبوت اور دعوت الی اللہ کی ذمہ داریاں پورے شرح صدر اور نشاط و انبساط کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر قیامت کے دن کی ہولناکی اور شدت کو بیان کرتے ہوئے معاندین و منکرین کو عبرتناک انجام سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کے بعد ولید بن مغیرہ کی شکل میں ہر اس شخص کو جو حقانیتِ قرآن واضح ہو جانے کے باوجود عناد اور تکبر اور لیڈر شپ کے شوق میں قرآن کو تسلیم نہ کرے اسے دھمکی کے انداز میں انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔ پھر جہنم میں داخلہ کے اسباب کو جنتیوں اور جہنمیوں کی ایک گفتگو کی شکل میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کا انجام اس کے اعمال کے مطابق ہو گا۔ وہاں پر رشوت یا سفارش نہیں چلے گی۔ قرآن کریم کے پیغام سے پہلو تہی کرنے والوں کی مثال دے کر بتایا ہے کہ یہ لوگ قرآن سن کر ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیر کی دھاڑ سن کر گدھا بھاگتا ہے۔قرآن کریم ہر ایسے شخص کو نصیحت فراہم کرتا ہے جو نصیحت حاصل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ تم اگر اپنی اصلاح چاہو تو اللہ کی مشیت تمہارے ساتھ ہو گی وہ اللہ اس بات کا اہل ہے کہ اسی سے ڈرا جائے اور اسی سے مغفرت طلب کی جائے۔

               سورہ القیامۃ

چالیس چھوٹی چھوٹی آیتوں پر مشتمل مکی سورہ ہے۔ اس میں دو رکوع ہیں۔ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس سورہ میں قیامت کے مناظر اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ نے قسمیں کھا کر انسان کی اس خام خیالی کی تردید فرمائی ہے کہ بوسیدہ ہڈیوں اور بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ انسان کو وجود میں لانا ممکن نہیں ہے۔ جسم انسانی میں انگلیوں کے پورے اور نشانات شناخت اور امتیاز کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں ہم ان پوروں کو بھی دوبارہ ترتیب دے کر پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پھر روزِ قیامت کی ہولناکی اور شدت بیان کرنے کے لئے بتایا کہ اس دن چاند سورج بے نور ہو جائیں گے۔ نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اب میں بھاگ کر جاؤں تو جاؤں کہاں ؟ پھر قرآن کریم کو یاد کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کے شدۃ اہتمام کو ذکر کر کے قرآنی ادب بھی بیان کر دیا کہ جب قرآن کی تلاوت سنیں تو خاموشی اور انہماک کے ساتھ متوجہ رہیں۔ اس کی برکت یہ ہو گی کہ جب پڑھنے کی ضرورت پیش آئے گی، اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کی زبان پر جاری کر دیں گے۔ پھر بتایا کہ نیک و بد کی تقسیم اور اچھے اور برے میں امتیاز کا تسلسل روزِ قیامت بھی جاری رہے گا۔ پھر سکرات کے عالم اور جان کنی کی شدت کو بیان کر کے اس وقت کی تکلیف و پریشانی سے بچنے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد انسان کو اس کی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں غور و خوض کر کے یہ سمجھایا کہ جب پہلی تخلیق کے مشکل ترین مراحل اللہ نے سر انجام دے لئے تو اب دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل رہ گیا۔

 

               سورہ الدہر

اکتیس آیتوں پر مشتمل مدنی سورہ ہے اس میں دو رکوع ہیں انسانی تخلیق کو جن ابتدائی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اسے شروع سورہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے کہ اسے نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی کسی زبان پر اس کا تذکرہ ہوتا ہے پھر اسے میاں بیوی کے مخلوط نطفہ سے ہم ترکیب دے کر سمیع و بصیر انسان کی شکل دے دیتے ہیں۔ پھر یہ انسان دو قسم کے ہو جاتے ہیں۔ اپنے رب کے شکر گزار اور اپنے رب کے ناشکرے۔

کافروں کے لئے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے اور نیکوکار افراد کے لئے جنت کی بہترین نعمتیں اور خوشبو دار شراب ہے پھر نیک افراد کی کچھ صفات کے بیان کے بعد جنت میں انہیں عطاء کئے جانے والے مزید انعامات جن میں گھنے سائے والے باغات، سونے چاندی کے آبخورے، شیشہ کے گلاس، موتیوں کی طرح حسن و جمال کے پیکر خدمت گزار، ریشم و کمخواب کے لباس اور سونے چاندی کے کنگن اور پینے کے لئے پاکیزہ شراب۔ اس کے بعد قرآنی تعلیمات پر ثابت قدمی کی تلقین، شب بیداری کا حکم اور لمبی لمبی نمازیں پڑھنے کی ترغیب اور آخر میں قرآن کریم سے ہر شخص کو استفادہ کا حکم اور ظالموں کے لئے دردناک عذاب کی وعید پر سورہ کو ختم کیا گیا ہے۔

               سورہ المرسلات

پچاس آیتوں پر مشتمل مکی سورہ ہے۔ اس میں دو رکوع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کی قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت اور اس کا عذاب واقع ہو کر رہے گا۔ پھر قیام قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے کہ ہر چیز اپنی تاثیر کھودے گی اور اجزائے ترکیبی چھوڑ بیٹھے گی۔ پھر کچھ واقعاتی حقائق اور کائناتی شواہد پیش کر کے بتایا کہ ان بڑے بڑے کاموں کو سرانجام دینے والے رب کے لئے قیامت کا دن لانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پہلے جہنم اور اس کی سزاؤں کا تذکرہ کیا پھر جنت اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ کر کے منکرین و معاندین سے سوال کیا ہے کہ اس معجزانہ اسلوب کے حامل قرآن کریم سے بھی اگر تم ایمان کی روشنی حاصل کرنے سے قاصر ہو تو پھر تمہیں ہلاکت اور تباہی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

 

30 – عَمَّ

               سورہ نبأ

مشرکین مکہ استہزاء و تمسخر کے طور پر مرنے کے بعد زندہ ہونے کو اور قرآن کریم کو ’’النبأ العظیم‘‘ یعنی ’’بڑی خبر‘‘ کہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعی بڑی اور عظیم الشان خبر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ کی بات لیکر فرمایا کہ اس ’’بڑی خبر‘‘ پر تعجب یا انکار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں عنقریب اس کی حقیقت کا علم ہو جائے گا۔ پھر اس پر کائناتی شواہد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود چیزیں جن کی تخلیق انسانی نقطۂ نظر سے زیادہ مشکل اور عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی تخلیق فرمائی ہے اور ایسی طاقت و قدرت رکھنے والے اللہ کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ پھر اس اعتراض کا جواب دیا کہ اگر یہ برحق بات ہے تو آج مردے زندہ کیوں نہیں ہوتے؟ ہر چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لئے وقت متعین ہوتا ہے۔ وہ چیز اپنے موسم اور وقت متعین میں آ موجود ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا ’’موسم‘‘ اور وقت متعین یوم الفصل (فیصلہ کا دن) ہے لہٰذا یہ کام بھی اس وقت ظاہر ہو جائے گا۔ پھر جہنم کی عبرتناک سزاؤں اور جنت کی دل آویز نعمتوں کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے جاہ و جلال اور فرشتوں جیسی مقرب شخصیات کی قطار اندر قطار حاضری اور بغیر اجازت کسی قسم کی بات کرنے سے گریز کو بیان کر کے بتایا کہ آخرت کے عذاب کی ہولناکی اور خوف کافروں کو یہ تمنا کرنے پر مجبور کر دے گا کہ کاش ہم دوبارہ پیدا ہی نہ کئے جاتے اور جانوروں کی طرح پیوندِ خاک ہو کر عذاب آخرت سے نجات پا جاتے۔

 

               سورہ نازعات

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اثبات ہے۔ ابتداء ان فرشتوں سے کی گئی ہے جو اس کائنات کے معاملات کو منظم طریقے پر چلانے اور نیک و بد انسانوں کی روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ پھر مشرکین مکہ کے اعتراض کے جواب میں قیامت کی ہولناکی اور بغیر کسی مشکل کے اللہ کے صرف ایک حکم پر قبروں سے نکل کر باہر آ جانے کا تذکرہ اور اس پر واقعاتی شواہد پیش کئے گئے ہیں جو اللہ فرعون جیسے ظالم و جابر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے وسائل سے محروم شخص کے ہاتھوں شکست سے دوچار کر کے سمندر میں غرق کرسکتا ہے اور آسمانوں جیسی عظیم الشان مخلوق کو وجود میں لا سکتا ہے وہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ پھر جنت و جہنم کے تذکرہ اور صبح و شام کسی بھی وقت قیامت اچانک قائم ہو جانے کے اعلان پر سورت کا اختتام عمل میں لایا گیا ہے۔

               سورہ عبس

سرداران قریش کے مطالبہ پر حضور علیہ السلام ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے کہ ان کے اسلام قبول کر لینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ اسلام ہو جائیں گے۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال سے ناواقف تھے۔ حضور علیہ السلام کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورت نازل فرمائی۔ ایک نابینا کے آنے پر منہ بسور کر رخ موڑ لیا۔ جو استغناء کے ساتھ اپنی اصلاح کا خواہاں نہیں ہے اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور جو اللہ کی خشیت سے متأثر ہو کر اپنی اصلاح کی خاطر آپ کے پاس آتا ہے اس سے آپ اعراض کرتے ہیں۔ یہ قرآن کریم نصیحت کا پیغام ہے، کسی بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں کرتا۔ اس سے جو بھی نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کی جھولی علم و معرفت سے بھردیتا ہے۔ غریب علاقوں کو نظرانداز کر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کے ساتھ تفسیر قرآن کی مجالس کو مخصوص کرنے والوں کی واضح الفاظ میں اس سورت میں مذمت کی گئی ہے۔ انسان اگر پہلی مرتبہ اپنی تخلیق پر غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے پر اسے تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ۔ تمہارا پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ایک ہی جیسا ہے۔ زمین، فضاء اور پانی میں منتشر اجزاء کو پھلوں سبزیوں کی شکل دے کر تمہاری خوراک کے ذریعہ تمہارے جسم کا حصہ بنایا۔ مرنے کے بعد تمہارے منتشر اجزاء کو دوبارہ جمع کر کے انسان بنا کر پھر قبروں سے باہر نکال لیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن کی شدت اور دہشت کو بیان کر کے نیک وبد کا ان کے اعمال کے مطابق انجام ذکر فرما کر سورت کو اختتام پذیر کیا ہے۔

               سورہ تکویر

قیام قیامت اور حقانیت قرآن اس کے مرکزی مضامین ہیں۔ قیامت کے دن کی شدت اور ہولناکی اور ہر چیز پر اثر انداز ہو گی۔ سورج بے نور ہو جائے گا۔ ستارے دھندلا جائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، پسندیدہ جانوروں کو نظر انداز کر دیا جائے گا، جنگی جانور جو علیحدہ علیحدہ رہنے کے عادی ہوتے ہیں یکجا جمع ہو جائیں گے۔ (پانی اپنے اجزائے ترکیبی چھوڑ کر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہو کر) سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ انسان کا سارا کیا دھرا اس کے سامنے آ جائے گا۔ پھر کائنات کی قابل تعجب حقیقتوں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح یہ چیزیں ناقابل انکار حقائق ہیں اسی طرح قرآنی حقیقت کو بھی تمہیں تسلیم کر لینا چاہئے۔ پھر قرآن کریم کے اللہ رب العزت سے چل کر حضور علیہ السلام تک پہنچنے کے تمام مراحل انتہائی محفوظ اور قابل اعتماد ہونے کو بیان کر کے واضح کر دیا کہ یہ دنیا جہاں کے لئے بلا کسی تفریق و امتیاز کے اپنے دامن میں نصیحت و ہدایت کا پیغام لئے ہوئے ہے۔

               سورہ انفطار

قیام قیامت کے نتیجہ میں کائنات میں برپا ہونے والے انقلابی تغیرات کو بیان کر کے انسان کی غفلت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اسے محسن حقیقی کے احسانات یاد دلا کر اس کی ’’رگِ انسانیت‘‘ کو پھڑکایا ہے۔ پھر معرکۂ خیر و شر کی دو مقابل قوتوں کا تذکرہ کر کے بتایا ہے کہ شر کی قوت فجار اور نافرمانوں کے روپ میں جہنم کا ایندھن بننے سے بچ نہیں سکیں گے جبکہ ہر چیز کی قوت ابرار و فرماں برداروں کی شکل میں جنت اور اس کی نعمتوں کی مستحق قرار پائے گی۔ اللہ کے نگران فرشتے ’’کراماً کاتبین‘‘ ان کے تمام اعمال کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں اور روز قیامت اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلے گا۔

 

               سورہ مطففین

ناپ تول میں کمی کرنے والے کو مطفف کہتے ہیں۔ اس سے ہر وہ شخص مراد ہو سکتا ہے جو دوسروں کا حق مارتا اور اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرتا ہو۔ مطففین کی ہلاکت کے اعلان کے ساتھ سورت کی ابتداء ہو رہی ہے اس کے بعد بتایا کہ یہ لوگ اپنے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتے جبکہ دوسروں کے حقوق کی دھجیاں بھی بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔ اس انسانی کمزوری کی بڑی وجہ قیامت کے احتساب پر یقین کا نہ ہونا ہے اگر عقیدۂ آخرت کو پختہ کر دیا جائے تو اس خطرناک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے۔ پھر اشرار و فجار کا انجام ذکر کر کے بتایا ہے کہ منکرین آخرت درحقیقت انتہاء پسند اور گناہوں کے عادی لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے دل گناہوں کی وجہ سے ’’زنگ آلود‘‘ ہو جاتے ہیں۔ پھر ابرار و اخیار کا قابل رشک انجام ذکر کر کے بتایا کہ جس طرح کافر لوگ دنیا میں اہل ایمان والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے آج ایمان والے ان کا مذاق اڑائیں گے۔

               سورہ انشقاق

قیامت کے خوفناک مناظر اور عدل و انصاف کے مظہر ’’بے رحم احتساب‘‘ کے تذکرہ پر یہ سورت مشتمل ہے۔ آسمان پھٹ جائیں گے اور زمین پھیل کر ایک میدان کی شکل اختیار کر لے گی اور اللہ کے حکم پر گوش بر آواز ہوں گے۔ انسان کو جہد مسلسل اور مشقت کے پے در پے مراحل سے گزر کر اپنے رب کے حضور پہنچنا ہو گا۔ دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا مل جانا محاسبہ کے عمل میں نرمی اور سہولت کی نوید ہو گی جبکہ پیٹھ کی طرف سے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا ملنا کڑے محاسبہ اور ہلاکت کا مظہر ہو گی۔ اس کے باوجود بھی یہ لوگ آخر ایمان کیوں نہیں لاتے اور قرآن سن کر سجدہ ریز کیوں نہیں ہو جاتے۔ درحقیقت ان تمام جرائم کے پیچھے عقیدۂ آخرت اور یوم احتساب کے انکار کا عامل کار فرما ہے۔ ایسے افراد کو درد ناک عذاب کی بشارت سنادیجئے۔ اس سے وہی لوگ بچ سکیں گے جو ایمان اور اعمال صالحہ پر کاربند ہوں گے ان کے لئے کبھی منقطع نہ ہونے والا اجرو ثواب ہے۔

 

               سورہ بروج

اس سورت کے پس منظر کے طور پر احادیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک نوجوان جو شاہی خرچہ پر بل کر جواں ہوا تھا مسلمان ہو گیا، بادشاہ نے اس کے قتل کا فیصلہ کیا، اس نے ایمان کے تحفظ میں اپنی جان قربان کر دی، اس واقعہ سے متاثر ہو کر بادشاہ کی رعیت مسلمان ہو گئی، اس نے خندقیں کھدوا کر ان میں آگ جلا دی اور اعلان کر دیا کہ جو ایمان سے منحرف نہ ہوا اسے خندق پھینک دیا جائے گا، لوگ مرتے مر گئے مگر ایمان سے دستبردار نہ ہوئے۔ قرآن کریم نے ان کی اس بے مثال قربانی اور دین پر ثابت قدمی کو سراہتے ہوئے قسمیں کھا کر کہا ہے کہ اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر خندقوں میں پھینک کر ایمان والوں کو جلانے والے ان پر غالب ہونے کے باوجود ناکام ہو گئے اور اپنی کمزوری اور بے کسی کے عالم میں خندقوں کے اندر جلنے والے کامیاب ہو گئے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ دنیا کا اقتدار اور غلبہ عارضی ہے، اس پر کامیابی یا ناکامی کا مدار نہیں ہے، اصل کامیابی ایمان پر ثابت قدمی میں ہے۔ پھر خیر و شر کی قوتوں کے انجام کے تذکرہ کے ساتھ ہی اللہ کی طاقت و قوت، محبت و مغفرت اور جلال و عظمت کو بیان کر کے مجرموں پر مضبوط ہاتھ ڈالنے کا اعلان کیا اور پھر فرعون اور ثمود کی ہلاکت کے بیان کے ساتھ قرآن کریم کے انتہائی محفوظ ہونے کا اعلان ہے۔

               سورہ طارق

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ ہے۔ ستاروں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح نظام شمسی میں ستارے ایک محفوظ و منضبط نظام کے پابند ہیں اسی طرح انسانوں کی اور ان کے اعمال کی حفاظت کے لئے بھی فرشتے متعین ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی پر دلیل کے طور پر انسان کو اپنی تخلیق اول میں غور کی دعوت دی اور بتایا کہ جس نطفہ سے انسان بنا ہے وہ مرد و عورت کے جسم کے ہر حصہ (صلب سے پچھلا حصہ اور ترائب سے سامنے کا حصہ مراد ہے) سے جمع ہو کر تیزی کے ساتھ اچھل کر رحم میں منتقل ہو جاتا ہے وہ اللہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ آسمان سے پانی برسا کر اور زمین پھاڑ کر غلے اور سبزیاں نکال کر انسانی خوراک کا انتظام کرنے والا اس بات کو بیان کرتا ہے کہ یہ قرآن کریم حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ کافر سازشیں کر رہے ہیں اور اللہ ان کا توڑ کر رہے ہیں لہٰذا انہیں مہلت دے دو اور یہ اللہ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکیں گے۔

 

               سورہ اعلیٰ

ابتداء میں اللہ تعالیٰ کے ہر عیب و کمزوری سے پاک ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی قدرت کاملہ اور انسانوں پر اس کے انعامات و عنایات کا تذکرہ پھر اس بات کا بیان ہے کہ نبی کو براہِ راست اللہ ہی تعلیم دیتے ہیں جس میں نسیان اور بھول چوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ اگر اللہ کسی مرحلہ پر قرآن پاک کے کسی حصہ کو منسوخ کرنے کے لئے آپ کے ذہن سے محو کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم سے صحیح معنی میں استفادہ وہی کرسکتا ہے جو اپنے اندر خشیت پیدا کرنے کا خواہش مند ہو اور بدبخت و جہنمی اس قرآن سے فیض حاصل نہیں کرسکتے۔ اپنے نفس کی اصلاح کر کے اسے پاکیزہ بنانے والا کامیاب ہے اور یہ کام وہی کرسکتا ہے جو اللہ کے ذکر اور نماز کا عادی ہو۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور یہ بات حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی موجود ہے۔

               سورہ غاشیہ

قیامت کی ہولناکی اور شدت اور کافروں پر اترنے والی مشقت و مصیبت اور مؤمنوں کے لئے جنت کی نعمتوں کے ذکر سے ابتدا کی گئی ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ کے دلائل کا بیان ہے پھر حضور علیہ السلام کو انسانیت کے لئے یاد دہانی اور نصیحت کرانے کا حکم ہے اور قیامت کے احتساب کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی تلقین ہے۔

               سورہ فجر

ابتداء میں پانچ قسمیں کھا کر اللہ نے کافروں کی گرفت کرنے اور عذاب دینے کا اعلان کیا ہے پھر اس پر واقعاتی شواہد پیش کرتے ہوئے قوم عاد و ثمود و فرعون اور ان کی ہلاکت کا بیان ہے۔ پھر مشقت اور تنگی میں اور راحت و وسعت میں انسان کی فطرت کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آرام و راحت میں اترانے اور عُجب میں مبتلا ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس لائق تھا تبھی تو مجھے یہ نعمتیں ملی ہیں اور تکلیف اور تنگی میں اللہ کی حکمت پر نظر کرنے کی بجائے اللہ پر اعتراضات شروع کر دیتا ہے۔ پھر یتیموں اور مسکینوں کی حق تلفی اور حب مال کی مذمت کی ہے۔ اس کے بعد قیام قیامت اور اس کی سختی و شدت بیان کرنے کے بعد بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے لگیں گے، فرشتے صف بندی کر کے کھڑے ہو جائیں گے اور جہنم کو لا کر کھڑا کر دیا جائے گا اس وقت کافروں کو عقل آئے گی اور وہ نصیحت حاصل کرنے کی باتیں کریں گے جب وقت گزر چکا ہو گا اس وقت اللہ ایسا عذاب دیں گے کہ کوئی بھی ایسا عذاب نہیں دے سکتا اور مجرموں کو ایسے جکڑیں گے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں جکڑ سکتا۔ اللہ کے وعدوں پر اطمینان رکھنے والوں سے خطاب ہو گا اپنے رب کی طرف خوش و خرم ہو کر لوٹ جاؤ اور ہمارے بندوں میں شامل ہو کر ہماری جنت میں داخل ہو جاؤ۔

               سورہ بلد

سورت کی ابتداء میں مکہ مکرمہ جس میں نبی علیہ السلام رہائش پذیر تھے اور والد و اولاد کی قسم کہ انسان مشقت اور تکالیف کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ نیکی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نیکی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کے لئے اجرو ثواب ہے جبکہ بدی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کو ثواب کی بجائے عذاب ہو گا۔انسان کی ہٹ دھرمی اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے جرم کے اعادہ پر فرمایا کہ جو کہتا ہے کہ میں نے بہت مال لگا دیا ہے، کیا اسے معلوم نہیں کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے پھر اللہ نے انسان پر اپنے انعامات ذکر فرما کر انسان کو خدمت خلق کی تلقین کی ہے اور نیک و بد کی تقسیم پر سورت کا اختتام ہے۔

               سورہ شمس

سات قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ جس طرح یہ تمام حقائق برحق ہیں اسی طرح یہ بات بھی برحق ہے کہ انسان کو ہم نے نیکی اور بدی میں تمیز کا ملکہ عطاء کیا ہے جو اس سے فائدہ اٹھا کر نیکی کا راستہ اختیار کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے وہ کامیاب و کامران ہے اور جو ’’بدی‘‘ کا راستہ اپنا کر گناہوں کی زندگی اپنا لیتا ہے وہ ناکام و نامراد ہے۔ پھر ایک ایسی ہی سرکش اور گناہگار قوم کا تذکرہ ہے جنہوں نے اپنی قوم کے رئیس و شریف آدمی کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر کے اونٹنی کے قتل پر مجبور کیا جس کی بناء پر یہ شخص قوم کا بدترین اور بدبخت شخص قرار پایا۔ چنانچہ پوری قوم کو ان کی سرکشی اور بغاوت کے نتیجہ میں ایسے عذاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے کوئی ایک فرد بھی نہ بچ سکا اور اللہ تعالیٰ جب کسی کو ہلاک کرتے ہیں تو نتائج سے نہیں ڈرا کرتے۔

               سورہ لیل

تین حقائق کی قسمیں کھا کر فرمایا کہ جس طرح ان حقائق کو تسلیم کئے بغیر چارۂ کار نہیں ہے اسی طرح اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ خیر و شر اور نیکی و بدی کے حوالے سے انسانوں کے اعمال مختلف ہیں جو شخص تقویٰ اختیار کر کے نیکی اور سخاوت کا راستہ اپناتا ہے اللہ اس کے راستہ کو آسان کر دیتے ہیں اور جو شخص نیکی کا منکر ہو کر بخل اور گناہ کا راستہ اپناتا ہے اللہ اس کا راستہ بھی آسان کر دیتے ہیں لیکن جب یہ نافرمان جہنم کے گڑھے میں گرے گا تو بخل سے بچایا ہوا مال اسے بچا نہیں سکے گا۔ جبکہ اللہ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنے والے کا تزکیہ بھی ہو جاتا ہے، جہنم سے حفاظت بھی ہو جاتی ہے اور اللہ اسے اپنی عطاء و انعام کے ذریعہ راضی بھی کر دیتے ہیں۔

               سورہ ضحی

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی وجہ سے چند روز تہجد کے لئے نہ اٹھ سکے تو آپ کی چچی ام جمیل کہنے لگی کہ آپ کے رب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایاجس طرح دن کے ساتھ اجالا ایک حقیقت ہے جُدا نہیں ہوتا اور رات کے ساتھ اندھیرا ایک حقیقت ہے علیحدہ نہیں ہوتا اسی طرح یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی آپ سے بیزار ہوا ہے۔ دنیا و آخرت میں موازنہ کرنے کی تلقین کے ساتھ آخرت کے بہتر ہونے کا اعلان ہے۔ قیامت کے دن امت کے حوالہ سے آپ کو راضی کرنے کی خوشخبری ہے اور پھر گزشتہ انعامات کی یاد دہانی ہے کہ آپ کی یتیمی میں سر پرستی کی، فقر میں غنا عطا فرمائی اور شریعت سے بے خبری میں قرآنی شریعت عطا فرمائی لہٰذا یتیموں اور حاجت مندوں کی کفالت و سرپرستی کرتے ہوئے اللہ کے احسانات و انعامات کا اعتراف اور لوگوں کے سامنے اسے بیان کرتے ہیں۔

 

               سورہ انشراح

حضور علیہ السلام کے اعلیٰ مرتبہ و مقام کا بیان ہے۔ آپ کا سینہ کھول دیا اور نبوت کی ذمہ داریوں کے بوجھ سے آپ کی کمر ٹوٹی جا رہی تھی ان سے عہدہ بر آ ہونے میں آپ کو سہولت بہم پہنچائی اور آپ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر آپ کا ذکر بلند کر دیا حدیث قدسی ہے ’’اینما ذکرت ذکرت معی‘‘ جہاں میرا تذکرہ ہو گا وہیں آپ کا تذکرہ بھی ہو گا۔ مکہ مکرمہ کی مشقت و تکالیف سے بھرپور زندگی میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ مصائب و تکالیف دیر پا نہیں ہیں تنگی کے بعد عنقریب سہولتوں اور آسانیوں کا دور شروع ہونے والا ہے۔ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے بعد اپنے رب سے راز و نیاز کے لئے خاص طور پر وقت نکالا کریں۔

               سورہ تین

تین مقامات مقدسہ کی قسم کھائی کہ جس طرح طور، بیت المقدس اور مکہ مکرمہ کو ’’وحی‘‘ کے ساتھ اعزاز و شرف عطاء فرمایا اسی طرح کائنات کی تمام مخلوقات میں انسان کو ’’شاہکار قدرت‘‘ بنا کر حسین و جمیل اور بہترین شکل و صورت کے اعزاز و اکرام سے نوازا ہے۔ اس کی حیثیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں جب یہ ایمان اور اعمال صالحہ سے اپنی زندگی کو مزین کر لیتا ہے اور اگر کفر اور تکذیب کا راستہ اپناتا ہے تو عز و افتخار کی بلندیوں سے قعرِ مذلت میں جا گرتا ہے۔

               سورہ علق

پہلی وحی میں نازل ہونے والی پانچ آیتیں اس سورت کی ابتداء میں شامل ہیں جن میں قرآنی نصاب تعلیم کے خدو خال واضح کر کے انسان کی سرکشی کے اسباب سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور ابو جہل ملعون کی بدترین حرکت کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ کو اور اپنی حقیقت کو فراموش نہ کرنا قرآنی نصاب تعلیم کی بنیاد ہے اور مجہولات کو معلومات کی شکل میں تبدیل کرنا اس کے مقاصد میں شامل ہے۔ ’’فرعون ہذہ الامۃ‘‘ ابوجہل کی سرکشی اور تکبر کی انتہاء کو بیان کیا کہ محمد علیہ السلام کو نماز جیسے عظیم الشان عمل کی ادائیگی سے روکنے اور آپ کا مبارک سر اپنے ناپاک قدموں کے نیچے کچلنے کی پلاننگ کرتا تھا۔ نازیبا حرکت سے باز نہ آنے کی صورت میں اسے جہنمی فوج کے ہاتھوں گرفتار کرا کے اس کی جھوٹی اور گناہوں سے آلودہ پیشانی کے بالوں سے گھسیٹ کر جہنم رسید کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اور ساتھ ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے سرکش و نافرمانوں کی اطاعت کی بجائے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس کا تقرب حاصل کرتے رہنے کی تلقین ہے۔

               سورہ قدر

اس سورت میں لیلۃ القدر کی فضیلت اور وجہِ فضیلت کا بیان ہے کہ یہ رات ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے زیادہ اجرو ثواب دلانے والی ہے اور اس کی فضیلت کی وجہ اس رات میں نزول قرآن ہے۔ گویا شب قدر کی عظمتوں کا راز نزول قرآن میں ہے اور انسانیت کے لئے یہ پیغام ہے کہ تمہیں بھی عظمتیں مطلوب ہیں تو قرآن کے دامن سے وابستگی میں مضمر ہیں۔ اس رات میں جبریل امین فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور اس رات کے عبادت گزاروں پر سلامتی اور رحمت کے نزول کی دعاء کرتے ہیں اور یہ کیفیت صبح صادق تک برقرار رہتی ہے۔

               سورہ بینہ

اس سورت میں پڑھے لکھے جاہلوں کے بغض و عناد کا تذکرہ ہے کہ دین فطرت اسلام کا راستہ روکنے کے لئے یہودی و عیسائی اور مشرکین باہم متحد ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی عبادت میں بندوں سے اخلاص اور یکسوئی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پھر کفر و شرک کے مرتکب انسانوں کو بدترین خلائق اور ایمان و عمل صالح کے علمبرداروں کو بہترین خلائق قرار دے کر دونوں جماعتوں کے انجام کے تذکرہ پر سورت کا اختتام کر دیا گیا ہے۔

 

               سورہ زلزال

اس سورت میں قیام قیامت کی منظر کشی کے بعد انسانی مستقبل کو اس کے اعمال پر منحصر قرار دے کر بتایا ہے کہ معمولی سے معمولی عمل بھی، چاہے اچھا ہو یا برا، انسانی زندگی پر اپنے اثرات پیدا کئے بغیر نہیں رہتا اور قیامت میں خیر و شر ہر قسم کے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔

               سورہ عادیات

مجاہدین کی سواریوں کی قسمیں کھا کر جہاد فی سبیل اللہ عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح دوڑتے ہوئے گھوڑوں کا ہانپنا، کھروں سے چنگاریاں اڑانا، صبح سویرے دشمن پر حملہ آور ہونا، گرد و غبار اڑانا اور دشمن کے مجمع میں گھس جانا، مبنی بر حقیقت ہے اسی طرح انسان میں ناشکری اور حب مال کے جذبات کا پایا جانا بھی ایک حقیقت ہے۔ اگر قبروں کے کریدے جانے اور سینہ کے بھید کے ظاہر ہو جانے کا یقین ہوتا تو انسان کے اندر یہ منفی جذبات پیدا نہ ہوتے۔

               سورہ قارعہ

اس سورت میں قیام قیامت اور اس کی ہولناکی کے تذکرہ کے ساتھ اعمال کے وزن اور بے وزن ہونے کا تذکرہ اور دونوں صورتوں کا انجام مذکور ہے۔

               سورہ تکاثر

مال میں زیادتی کی حرص قبر تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ جب جہنم کا نظارہ ہو گا تبھی اس مال کی بے ثباتی کا پتہ چلے گا وہی محاسبہ کا وقت ہو گا اور ایک ایک نعمت کا حساب لیا جائے گا۔

               سورہ عصر

زمانہ کی قسم کھا کر دراصل ماضی کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے کہ چار صفات ۱۔ایمان ۲۔اعمال صالحہ ۳۔حق کی تلقین کرنے ۴۔اور حق کے راستہ کی مشکلات پر صبر کرنے والے ہر دور میں کامیاب اور ان صفات سے محروم ہر دور میں ناکام رہے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن کریم میں صرف یہی ایک سورت نازل ہوتی تو انسانی رہنمائی اور ہدایت کے لئے کافی ہو جاتی۔

               سورہ ہمزہ

لوگوں کا استہزاء و تمسخر اڑانے اور طعنہ زنی کرنے والوں کی مذمت اور حب مال میں مبتلا لوگوں کا عبرتناک انجام مذکور ہے۔

               سورہ فیل

ہاتھیوں کے خانہ کعبہ پر حملہ آور ہونے اور ان کے عبرتناک انجام کے تذکرہ سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر انسان اللہ کے دین کے دفاع سے پہلوتہی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ حقیر پرندوں سے یہ کام لے سکتے ہیں۔

               سورہ قریش

قریش مکہ اور ان کے واسطہ سے ہر اس شخص کو غیرت دلائی گئی ہے جو براہ راست اللہ کی نعمتوں، خاص طور پر اللہ کے دین کی برکتوں سے مستفید ہونے کے باوجود اپنے رب کی عبادت اور اس کے دین کے دفاع سے غافل ہو۔

               سورہ ماعون

خدمت خلق کے کاموں سے غفلت برتنے، یتیموں کی کفالت سے دست کش ہونے اور نماز میں سستی کا مظاہرہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔

               سورہ کوثر

حوض کوثر جیسی خیر کثیر اپنے نبی کو عطا فرمانے کے اعلان کے ساتھ ہی دشمنان و گستاخان رسول کا نام و نشان تک مٹا دینے کا اعلان ہے۔

               سورہ کافرون

اسلامی نظام حیات کے علاوہ کسی دوسرے نظام کی طرف نگاہ نہ اٹھانے اور کفر سے بیزاری کا اظہار کرنے کی تلقین ہے۔

               سورہ نصر

اسلامی ترقی کے بامِ عروج ’’فتح مکہ‘‘ کی پیشن گوئی اور لوگوں کے جوق در جوق اسلامی نظام کو اختیار کرنے کے اعلان کے ساتھ تسبیح و تحمید واستغفار میں مشغول ہونے کی تلقین ہے۔

               سورہ لہب

دشمنانِ خدا و رسول کے بدترین نمائندے ابو لہب جو آپ کا چچا بھی تھا اور قریش کا سردار بھی تھا اس کی اپنی بیوی سمیت عبرتناک موت کے اعلان کے ساتھ مخالفین اسلام کو تنبیہ ہے۔

               سورہ اخلاص

عیسائیوں اور مشرکوں کے باطل عقیدہ کی تردید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ اور خالص توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔ حضور علیہ السلام نے اس سورت کو ’’تہائی‘‘ قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔

               سورہ فلق

تمام مخلوقات اور شرارت کے عادی حاسدین کے شر سے اللہ کی پناہ حاصل کرنے کی تلقین ہے۔

               سورہ ناس

توحید کی ’’اقسام ثلاثہ‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن و انس کے قبیل سے تعلق رکھنے والے ہر وسوسہ پیدا کرنے والے سے اللہ کی پناہ میں آنے کی ترغیب ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ سونے سے پہلے اخلاص، فلق اور ناس تینوں سورتیں پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر دم کر کے پورے جسم پر پھیر لیا کرتے تھے اور یہ عمل تین مرتبہ دہرایا کرتے تھے۔

٭٭٭

تشکر: کاشف مجید، جن کے قران مع تفسیر سافٹ وئر سے اس کا مواد حاصل کیا گیا۔

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید