محرابِ اُفق
فہرست مضامین
- انتساب!
- تمہیدی کلمات
- میں کیسے تجھ سے کروں گا اے دلربا کنارا
- ہمارا عشق بے پایاں ہے تیرا پیار تھوڑا سا
- نیا انداز ہے یہ درد مندوں کو ستانے کا
- غنچۂ لب چٹک رہا ہو گا
- وہ بُرا تھا کہ بھلا جیسا تھا
- فاتحؔ صاحب نام ہے اپنا
- براہِ مہربانی دوستانہ گفتگو کرنا
- یوں کاروبارِ محبت میں انہماک ہوا
- آتا نہیں رو رو کے فریاد ہمیں کرنا
- جب وہ خُلدِ نظر ہمارا تھا
- جو شخص ترے شہر میں خوددار بڑا تھا
- چمن تھا اُس کی ادا پہ حیراں فقیر تیرا عجیب سا تھا
- وہ خود سر جس کو اتنا ناز اپنی برتری پر تھا
- تمہارا عہد ناقص تو نہیں تھا
- گردن میں طوق عشق کا جب تک پڑا نہ تھا
- اس شہرِ بے سکوں میں کیا کرنا ٹھکانہ تھا
- کہاں کہاں کا میں کر کے سفر نہیں آیا
- مِری حیات کے اُفق پہ اس طرح وہ چھا گیا
- یہ کیا ہوا کہ زُلف کا بادل بکھر گیا
- وصل ہو یا ہجر ، پل پل اضطراب
- جنونِ موت سے کچھ کم نہ تھا جنونِ حیات
- جو مہرباں تھا رو بہ ستم ہو گیا وہ ہاتھ
- کتنا تھا ہمیں ناز تِری ہمسفری پر
- ہماری آرزو یہ تھی رہے سب سے نہاں ہو کر
- رہے ہیں زندگی بھر سوچتے کہ کون ہیں ہم
- صحرا صحرا عشق کی وحشت ، حُسن کی شوخی گلشن گلشن
- مجتمع کرتا ہے اتنی آہ میں تاثیر کون
- یہ بات میں نے کہی ہے کہاں مُکرتا ہوں
- اس واسطے رنجیدہ و مغموم رہا ہوں
- میں کہ تھامے دلِ مہجور نکل آیا ہوں
- ڈھلکا ہوا عارض پہ یہ آنسو نہیں ، میں ہوں
- محرومِ ناؤ نوش ہوں شیریں لبوں کے ہجر میں
- معلوم نہیں کیا تجھے رہ کر مِرے دل میں
- جنم دن سے عدم دن تک اذیت میں پلا ہوں میں
- کربِ جاں لکھتا ہوں میں دردِ جگر لکھتا ہوں میں
- یوں نہ دشتِ آرزو میں عمر بھر بھٹکا ہمیں
- کن آنکھوں میں ہم ڈوبے ہیں
- کب ملتے ہیں یار ، چھلاوے ملتے ہیں
- شکستِ ذات کا مجھ کو کوئی ملال نہیں
- وہ زمیں اپنی ہے جس کا آسماں کوئی نہیں
- بے مروت کو محبت آشنا ہونے تو دو
- میرے دل کا درد فزوں کرو کبھی یوں کرو
- حسیں لوگو محبت کے عزا داروں کو مت چھیڑو
- پہلے رنجش کا سبب کوئی بتا دے مجھ کو
- اپنا بھی سمجھتے ہو ناشاد بھی کرتے ہو
- رخِ گلاب کی خاطر صبا ہے آئینہ
- کیا مانعِ فردا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
- جب بھی کوچے سے ترے موجِ ہوا گزرے گی
- ہر دم تیری آس رہے گی
- بلاتی ہے مرے ساقی تجھے موسم کی رنگینی
- بارانِ اشک سے مری صورت نکھر گئی
- صرف الفاظ کی حد تک نہ سراہے کوئی
- اداس کر کے مجھے گو چلا گیا ہے کوئی
- وہ رُت کہ جس میں تھے ہم اشکبار ختم ہوئی
- وہ حسیں خواب وہ راتیں مجھے واپس کر دے
- کون ایسے دلرُبا کی ناز برادری کرے
- ویراں ہے میرا گھر آنگن میرے ساتھ رہو گے کیسے
- کچھ حسن مآب سجیلے سے ، پہنے کپڑے بھڑکیلے سے
- رواں ہوئے ہیں جو آنکھوں سے اشک تھم تھم کے
- اداس ہے دل نہ کوئی جانے
- پائے الزام کبھی کھائے ہیں پتھر ہم نے
- اگرچہ وقت نے دھُندلا دیئے یادوں کے آئینے
- اُجڑتے لالہ زاروں کا نگہباں کون ہوتا ہے
- ہمیں آزاد کرنا چاہتا ہے
- مِری اداؤں میں ہر دم ظہور تیرا ہے
- ہیں منتظر مرنے والے کب سے نجانے قاتل کہاں گیا ہے
- نہ سایہ ہے نہ صبا ہے تو کیا تعجب ہے
- دکھ مسلسل مِرا مقدر ہے
- کسی کو کیا خبر عیّار کتنا میرا قاتل ہے
- نگاہِ شوق تِرے خد و خال میں گم ہے
- وہ شام تھی یا وقتِ سحر یاد نہیں ہے
- چھائی ہے سیہ رات سویرا تو نہیں ہے
- ختم سوز و کاہش و غم کا سفر ہونے کو ہے
- تِری پلکیں ، تِری نظریں کہیں ناوک فگن تُو ہے
- زخم کھانا مِرا وظیفہ ہے
- کبھی حالات پر خوش کامیِ تدبیر ہنستی ہے
- توُ خاکی ہے تِرا پندار ناری ہے نہ نوری ہے
- ساقی تیرے سپنے کی تعبیر ضروری ہے
- یہ بتاؤ کہ ہوئی ہم سے خطا کیسی ہے
- جنوں میں جو کئے گئے وہ فیصلے عجیب تھے
- تُو خوش رہے سُرور کی محفل سجی رہے
- جب سویرا خیال میں آئے
- خود کو دیوانہ بنایا جائے
- شگفتہ بات کرو کچھ کہ وقت کٹ جائے
- تُو اگر بے حجاب ہو جائے
ظہور احمد فاتحؔ
انتساب!
معروف شاعر و خادمِ ادب
سید آفتاب احمد شاہ
کے نام………!
بلند ملکِ وفا میں مقام ہے جس کا
خلوص و مہر و محبت پیام ہے جس کا
بن مانگے بخشنے میں تھا کیا حرج اے خدا
مجھ خستہ حال کو اگر ہوشِ دعا نہ تھا
معتبر ہے ربط کس کا وقت کے یوسف کے ساتھ
دیکھئے لاتا ہے میرے خواب کی تعبیر کون
٭٭
نوائے وقت ہوں کوئی دبا سکتا نہیں مجھ کو
میں اُبھروں گا مساجد کے مناروں سے اذاں ہو کر
تمہیدی کلمات
تمام تعریفیں اللہ مالک القدوس کیلئے ہیں ۔ جس نے اس قدر خوبصورت جہانِ رنگ و بو پیدا فرمائے، پھر اُنہیں لا تعداد مخلوقات ذی روح سے رونق بخشی۔ ان مخلوقات میں حضرت انسان کو تقویمِ احسن کے درجے پر فائز کرتے ہوئے اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا۔ اس حیوانِ ناطق کو بہترین فکری اور شعوری صلاحیتیں عطا کیں ، اُسے علم و عرفان کی روشنی ودیعت فرمائی، متاعِ لوح و قلم کے ذریعے آشنائے حرف و حکایت فرمایا اور اظہار کے شاندار قرینے عطا کئے۔ بطور خاص وہ شخص فرخندہ نصیب ہے جسے حرف کی حُرمت اور لفظ کی مُرصع کاری کا ہنر بخشا گیا۔ اپنا یہ دعویٰ ہے وہ شاعر ہو یا ادیب، امینِ خامہ و قرطاس ہونے کے ناطے عام انسانوں کی نسبت طویل زندگی پاتا ہے اور تا دیر یاد رکھا جاتا ہے۔ اُس کی نگارشات اور کاوشیں اُس کی دیگر یادگاروں مثلاً اموال، اولاد اور عمارات کی نسبت زیادہ پائیدار اور پُر کشش ہوتی ہیں ۔
بے حدو حساب درُود و سلام ہوں جناب رسالت مآب نبی ختمی مرتبتﷺ کی ذات ستودہ صفات پر جنہوں نے ربِّ کریم کا عظیم پیغام بصورتِ الہام برنگِ کلامِ بلاغت نظام یعنی قرآن مجید کی صورت میں ہم تک پہنچایا۔ ہمیں انسان ہونا سکھایا اور خود قرآن پر عمل کر کے دکھایا۔ یوں ایک ایسا عملی نمونہ بہم پہنچایا جو عدیم النظیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ برنگِ حدیث حکمت کے وہ دُرِ مکنون عنایت فرمائے جن کی روشنی میں انجام پانے والے اعمالِ مسنون حضرت انسان کو مسلم و مامون بنا دینے کے لئے کافی ہیں ۔ ہم حضرت محمد مصطفی احمدِ مجتبیٰ ﷺ کے مرہونِ احسان اور زیر امتنان بھی ہیں ۔ دعا ہے کہ خالق حقیقی آپ ﷺ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے اور درجاتِ وسیلہ و فضیلہ مرحمت فرمائے۔
اما بعد ہم رزاقِ عالم کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اُس نے ہمیں انسان بنایا۔ مزید شکریہ ادا کرتے ہیں کہ صاحبِ ایمان بنا دیا اور اس پر مستزادیہ کہ اپنے آخری نبیﷺ کا راسخ العقیدہ اُمتی بنا دیا۔ علاوہ ازیں علم و ادب کا رسیا بنایا اور وابستۂ عرفان و دانش کر دیا۔ ہم جو لکھتے ہیں محض اُسی کی توفیق سے ہے۔ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ تمام تر صائب ہوتا ہے لیکن یہ کوشش ضرور کی جاتی ہے کہ اُس میں ابتذال اور سوقیا نہ پن نہ پایا جائے بلکہ اگر غزل بھی لکھی جائے تو وہ بھی مثبت جذبات پروان چڑھانے والی ہو۔ غزل کا حوالہ اس لئے دیا ہے کہ ہماری زیرِ نظر کتاب تمام تر غزلیات پر مشتمل ہے لہٰذا ہم پیشگی معذرت چاہتے ہیں کہ سابقہ روایت کو برقرار رکھنے سے قاصر ہیں یعنی آغازِ کتاب حمد و نعت سے نہ کرسکیں گے کیونکہ یہ دونوں مبارک اصناف قبیل نظم سے تعلق رکھتی ہیں چنانچہ اس کی کمی ہم نے تمہیدی کلمات کے ابتدائی پیرائیوں میں پوری کر دی ہے۔
غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔ پرانے زمانے میں سُوت کا تنے یعنی دھاگہ تیار کرنے کے لئے چرخہ استعمال کیا جاتا تھا جس کی باریک سلاخ پر دھاگے کے چھوٹے چھوٹے گوٹے تیار ہوتے تھے۔ اُس سلاخ کو ’’تکلہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ جس سے بڑی لطیف سی رُوں رُوں کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ تکلے کی اس رُوں رُوں کی آواز اور سُوت کاتنے کے عمل کو غزل کہا جاتا ہے۔ ہرن کو عربی زبان میں غزال کہتے ہیں ۔ جب ہرن یا ہرنی کو شکار کیا جائے تو اُس کے حلق سے جو پُر درد آواز نکلتی ہے اُسے بھی غزل کہا جاتا ہے۔ عُرفِ عام میں عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کو بھی غزل سے موسوم کیا جاتا ہے۔ محبوب کے حُسن و جمال، اُس کے ناز و ادا، اُس کے شباب اور فراق و وصال کو غزل کے مضامین کی جان قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دامنِ غزل میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔ اس میں اخلاقیات، معاملات اور سماجیات یہاں تک کہ اقتصادیات کے مضامین بھی اپنی بہار دکھانے لگے۔
کچھ یہی رنگ اپنی غزل کا بھی ہے۔ اگرچہ بنیادی فضا رومانوی ہے لیکن حواشی کے طور پر دیگر ہر طرح کے مضامین بھی غزل میں تنوع پیدا کر رہے ہیں ۔ اپنا یہ مجموعۂ کلام جسے’’ محرابِ اُفق‘‘ کا نام دیا گیا ہے، حُسن ترتیب کا بھی ایک پہلو رکھتا ہے۔ قدیم دور میں شعراء اپنا کلام ردیف وار مرتب کرتے تھے جس کی بہترین مثال دیوانِ غالبؔ ہے۔ ہم نے بھی شعوری کوشش کی ہے کہ مشمولہ غزلیات کی ردیف ابجد کے اعتبار سے ہو۔ کتاب ہٰذا میں شامل کلام غیر مطبوعہ کلام کے عشرِ عشیر سے بھی کم ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ نئی کتابوں کی صورت میں سخن ہدیۂ قارئین ہوتا رہے گا۔ ایک طویل و عریض اشاعتی منصوبہ زیر نظر ہے۔ جس میں ملی اور قومی شاعری بھی ہے رومانوی نظمیں بھی ہیں اور سیاسی بھی، مزاحیہ کلام بھی ہے اور بچوں کی نظمیں بھی ہیں ، ذاتی حوالے بھی ہیں اور کائناتی بھی۔
دعا فرمایئے کہ قدرتِ کاملہ اتنا وقت اور اتنی توفیق عطا فرمائے کہ شعرو سخن کے ساتھ ساتھ نثری نگارشات بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہوسکیں ۔ (آمین)
ظہور احمد فاتحؔ
۲۰ جولائی۲۰۱۰ء
فون:0332-6066364
میں کیسے تجھ سے کروں گا اے دلربا کنارا
چمن میں کب کر سکی ہے گل سے صبا کنارا
ہیں ایک منظر سے رونقیں من کے فن کدے میں
وہ تیری قربت وہ شام وہ نہر کا کنارا
اگر مقدر ہی ڈوب جائے تو کیا کرے گا
سفینہ ، پتوار ، بادباں ، ناخدا ، کنارا
ہمارے مابین بہہ رہا ہے انا کا دریا
میں اک کنارا ہوں اور وہ دوسرا کنارا
اگرچہ پیہم یہ کٹ رہا ہے بکھر رہا ہے
مگر سمندر سے کر رہا ہے وفا کنارا
کسی نے کچے گھڑے کی جب داستان چھیڑی
تو سن کے رودادِ عشق رونے لگا کنارا
ہوا ہے یہ تجربہ ہمیں بار بار فاتحؔ
یقیں تھا جس پر بہت وہی کر گیا کنارا
ہمارا عشق بے پایاں ہے تیرا پیار تھوڑا سا
ہمیں برباد کر دے گا تِرا انکار تھوڑا سا
سمجھتے ہیں حیا مانع ہے اظہارِ محبت سے
مگر جانِ وفا کر لیجئے اقرار تھوڑا سا
یہ کاخ و قصر و ایوان و محل کب اپنی قسمت میں
غنیمت ہے مِری جاں سایۂ اشجار تھوڑا سا
اسے بھی کر دیا ہے دشمنوں نے مجھ سے برگشتہ
صراطِ زندگی میں تھا جو اِک غمخوار تھوڑا سا
کریں گے وہ غلامی ، بھول جاؤ گے زمانے کو
ہمیں خدمت کا موقع دیجئے سرکار تھوڑا سا
یہ دھڑکا ہے کہ مثلِ شمعِ لرزاں گل نہ ہو جائے
دھڑکتا ہے جو سینے میں دلِ افگار تھوڑا سا
ابھی سے دل خراشی اس قدر اس کے سُروں میں ہے
ابھی ٹوٹا ہے فاتحؔ ساز کا اِک تار تھوڑا سا
نیا انداز ہے یہ درد مندوں کو ستانے کا
قرارِ وصل کر لینا ، نہ لینا نام آنے کا
ہوا خود ریزہ ریزہ پر اُسے نقصاں نہ پہنچایا
بھرم پتھر نے رکھا ہے تِرے آئینہ خانے کا
نہیں کچھ بے سبب یوں دفعتاً آنسو چھلک پڑنا
ابھی آنکھوں میں منظر ہے اُجڑتے آشیانے کا
ذرا سی گرمیٔ حالات نے کمھلا دیا اس کو
نہیں گویا بشر بلکہ ثمر ہے سرد خانے کا
مجھے بے خانماں رکھا مگر حالات نے فاتحؔ
مِرے دل میں بھی جذبہ موجزن تھا گھر بسانے کا
غنچۂ لب چٹک رہا ہو گا
لالۂ تن مہک رہا ہو گا
بزمِ دل کو اُجالنے کے لئے
رُوپ موتی دمک رہا ہو گا
پیت سنگیت پیش کرنے کو
اُن کا کنگن کھنک رہا ہو گا
تیرا جوگی تلاش میں تیری
قریہ قریہ بھٹک رہا ہو گا
صبح کا ملگجا سا چھایا ہے
اُن کا آنچل ڈھلک رہا ہو گا
ہو کے بے چین منتظر کوئی
راستہ تیرا تک رہا ہو گا
دو دلوں میں وہ پیار کا شعلہ
اب بھی فاتحؔ بھڑک رہا ہو گا
وہ بُرا تھا کہ بھلا جیسا تھا
خوش ادا اہلِ وفا جیسا تھا
وہی مہکار، وہی نرم روی
سارا انداز صبا جیسا تھا
صورتِ ابر تھے گیسو اُس کے
اُس کا آنچل بھی گھٹا جیسا تھا
کیسے اُس بت سے ہماری بنتی
جس کا پِندار خدا جیسا تھا
ایک جھونکا جو چمن سے آیا
تیرے کوچے کی ہوا جیسا تھا
جس کے باعث تیری محفل چھُوٹی
وہ بلاوا بھی قضا جیسا تھا
کیوں نہ ہاتھوں میں رچایا تم نے
خون کا رنگ ، حنا جیسا تھا
وہ تھا اِک مخلص و مونس تیرا
چاہے کھوٹا کہ کھرا جیسا تھا
ہم بھی فاتحؔ سے ملے تھے یارو
ہر سخن جس کا دعا جیسا تھا
فاتحؔ صاحب نام ہے اپنا
پیار محبت کام ہے اپنا
گو پُر درد کلام ہے اپنا
لہجہ دل آرام ہے اپنا
ساجن ، ساجن ، ساجن ، ساجن
وِرد یہ صبح و شام ہے اپنا
ساری عمر پرائی نکلی
ایک یہی ہنگام ہے اپنا
آئے مے شہزادی آئے
کب سے خالی جام ہے اپنا
ترکِ وفا بھی کر کے دیکھیں
طورِ وفا ناکام ہے اپنا
ہجر ہے زندہ ایک حقیقت
وَصل خیالِ خام ہے اپنا
ناممکن اپنی گمراہی
راہنما الہام ہے اپنا
سچ ہے اپنا قبلہ فاتحؔ
عشق خلوص امام ہے اپنا
براہِ مہربانی دوستانہ گفتگو کرنا
تِرا اپنا ہوں مجھ سے محرمانہ گفتگو کرنا
مصائب گرمیِ گفتار لائی میرے سر کیا کیا
مجھے آیا نہ لیکن عاجزانہ گفتگو کرنا
مئے و معشوق کی باتیں سنانا نیک لوگوں کو
جو ہو رندوں کی محفل زاہدانہ گفتگو کرنا
پتنگے جان دے کر پیار کا اظہار کرتے ہیں
کوئی ان کو سکھا دے عاشقانہ گفتگو کرنا
ضرورت سے زیادہ انکساری بھی نہیں اچھی
مِرے فاتحؔ سدا تم فاتحانہ گفتگو کرنا
یوں کاروبارِ محبت میں انہماک ہوا
ہوا نہ علم کہ ملبوس چاک چاک ہوا
نہ کوئی کر سکا مرعوب حق پرستوں کو
سوا خدا کے کسی سے نہ ان کو باک ہوا
دھنسا رہا کوئی رُسوائیوں کی دلدل میں
پیامِ مرگ ملا جب تو قصہ پاک ہوا
کبھی جو شہرِ فراست کا مردِ میداں تھا
بکھر کے دشتِ جنوں میں وہ شخص خاک ہوا
رقم ہے اس کی قضا میں بھی اِک نویدِ بقا
حیات پا گیا جو عشق میں ہلاک ہوا
تھا درد مند بھی ہمدرد بھی مگر فاتحؔ
کچھ ایسی چوٹ سی کھائی کہ دردناک ہوا
آتا نہیں رو رو کے فریاد ہمیں کرنا
تم شوق سے اے جاناں برباد ہمیں کرنا
مطلوب تمہیں ساجن جب موت ہماری ہو
پھر زُلف کے پھندے سے آزاد ہمیں کرنا
لانا نہ کبھی آنسو ہنستی ہوئی آنکھوں میں
ہر اور طریقے سے ناشاد ہمیں کرنا
دیکھے نہ حزیں کوئی اس چاند سے چہرے کو
اے دوست گذارش ہے کم یاد ہمیں کرنا
تم جانِ تمنا ہو تم سے تو ہے ناممکن
آیا نہ کسی سے بھی بے داد ہمیں کرنا
محرومِ جنوں فاتحؔ جینا بھی ہے کیا جینا
یا قیس بنانا یا فرہاد ہمیں کرنا
جب وہ خُلدِ نظر ہمارا تھا
قابلِ دید گھر ہمارا تھا
پوچھنے پر حنا کا نام لیا
خونِ دل ہاتھ پر ہمارا تھا
بابِ تشکیک وا نہ تھا جب تک
ہر بیاں معتبر ہمارا تھا
کوئی آنچل نہ پونچھنے کو بڑھا
چہرہ اشکوں سے تر ہمارا تھا
ہر سُخن میں تھی غم کی آمیزش
ہر سُخن بااثر ہمارا تھا
لوگ سمجھے کہ فصلِ گل آئی
شوخ زخمِ جگر ہمارا تھا
جاں ہماری رہِ وفا میں لُٹی
ہاں سرِ دار سر ہمارا تھا
اپنی پرواز تا بہ سِدرہ تھی
کہکشاں سے گذر ہمارا تھا
آج ٹھہرا ہے اجنبی فاتحؔ
کل یہی ہمسفر ہمارا تھا
جو شخص ترے شہر میں خوددار بڑا تھا
دنیا نے یہ دیکھا کہ سرِدار کھڑا تھا
اُف میرے خدا کتنا بھیانک تھا وہ منظر
انسان تھا انسان کے قدموں میں پڑا تھا
آنسو کا ڈھلکنا ہمیں کیوں ہوتا گوارا
انمول نگینہ تھا انگوٹھی میں جڑا تھا
مل جائے گا حق گوئی کا انعام تجھے بھی
میں بھی اسی پاداش میں زنداں میں سڑا تھا
کیا پورا اُترتا کوئی میزانِ سُخن پر
فاتحؔ تیری تنقید کا معیار کڑا تھا
چمن تھا اُس کی ادا پہ حیراں فقیر تیرا عجیب سا تھا
دمِ تبسم تھا مثلِ غنچہ دمِ فغاں عندلیب سا تھا
نہ جلبِ زر کا جنون اُس کو نہ خود پسندی کی اُس کی عادت
وہ شخص تھا رشکِ اغنیا گو وہ دیکھنے میں غریب سا تھا
نہ دور ہو پائی تیرگی تو ہمارا اس میں قصور کیا ہے
چراغِ دل تو جلایا ہم نے مگر اندھیرا مہیب سا تھا
نہ دشت و بن میں سکون پایا نہ شہر میں تجھ کو چین آیا
تِرا مقدر بھی اے مسافر ہمارے خستہ نصیب سا تھا
مِرے خیالوں کا حُسن اس سے مِری نواؤں کا سوز اس سے
وہ دل کی خاطر حبیب سا تھا تو جاں کی خاطر طبیب سا تھا
رہا وہ خاموش تو خموشی بھی اس کی تقریر سے سوا تھی
مگر وہ جب بولنے پہ آیا تو روح پرور خطیب سا تھا
تھا کنجِ عُزلت میں رنجِ ہجراں سے کس قدر اشکبار فاتحؔ
مگر سرِ انجمن جو پہنچا تو راحتوں کا نقیب سا تھا
وہ خود سر جس کو اتنا ناز اپنی برتری پر تھا
حقیقت میں عمل پیرا طریقِ آزری پر تھا
ہوئے حیران جب چوبِ کلیمی کا اثر دیکھا
وہ دیوانے بھروسہ جن کو سحرِ سامری پر تھا
کھلا اب ، کس قدر مشکل امورِ خانہ داری ہیں
عبث ناشاد اپنی بے کسی پر بے گھری پر تھا
کسی کے آنے جانے پر نہیں تھا معترض کوئی
زمانے کو مگر شکوہ ہماری حاضری پر تھا
تمہاری دل نشیں تصویر آویزاں رہی من میں
تمہارا نام ہی کندہ ہماری بانسری پر تھا
اُنہیں دیکھا تو جیسے ہو گئی اپنی زباں گونگی
ہمیں تکیہ بڑا الفاظ کی بازی گری پر تھا
مرے اشعار فاتحؔ کیوں نہ ہوتے اس قدر دلکش
گذر اُس چاند کا تخیٔل کی بارہ دری پر تھا
تمہارا عہد ناقص تو نہیں تھا
مگر اُس پر ہمیں ہی کم یقیں تھا
سنا ہے ظلمتوں میں کھو گیا ہے
وہ جس کا آشنا اِک مہ جبیں تھا
غزل سمجھے اُسے یارانِ محفل
مِرے لب پر تِرا ذکرِ حسیں تھا
جسے ہم نے سُخن سنجی سکھائی
وہی بڑھ چڑھ کے ہم پر نکتہ چیں تھا
گنوایا ہے کہاں فاتحؔ کو تو نے
ابھی کچھ دیر پہلے تو یہیں تھا
گردن میں طوق عشق کا جب تک پڑا نہ تھا
درجہ جنوں میں اس قدر اُونچا ملا نہ تھا
آیا نہ تُو تو یاد ہی آتی رہی تِری
ہو کر جدا بھی تُو مِرے دل سے جدا نہ تھا
اب آ گئے ہیں آپ تو کیسی شکایتیں
شکوہ اگر تھا آپ سے تو غائبانہ تھا
مرگِ رقیب کا نہ تھا غم اس قدر ہمیں
ملنے کا آپ سے مگر اچھا بہانہ تھا
چاہے شبِ فراق ہو چاہے شبِ وصال
قسمت میں اپنی کون سی شب رتجگا نہ تھا
یہ خوف تھا کہ سجدۂ اُلفت قضا نہ ہو
واللہ میرے دل میں کچھ خوفِ قضا نہ تھا
بن مانگے بخشنے میں تھا کیا حرج اے خدا
مجھ خستہ حال کو اگر ہوشِ دعا نہ تھا
افسوس دے سکے نہ مِرے پاؤں میرا ساتھ
دشتِ جنوں کی سیر سے دل تو تھکا نہ تھا
دنیا کی چشمِ بد اِسے برباد کر گئی
فاتحؔ تِرا حقیقتاً اتنا بُرا نہ تھا
اس شہرِ بے سکوں میں کیا کرنا ٹھکانہ تھا
جس میں خوشی کا ایک بھی لمحہ ملا نہ تھا
وہ پاؤں چھونے کے لئے بچھ بچھ گئے گلاب
ان کا خرامِ ناز تھا رقصِ صبا نہ تھا
تیرا تھا عکس ہر طرف تیری شبیہہ تھی
دل کا یہ فن کدہ تیرا آئینہ خانہ تھا
برباد آج قریۂ احباب میں ہوا
کل دشمنوں کے شہر میں بھی جو لُٹا نہ تھا
مطلب نکل گیا ہے تو انجان بن گئے
مطلب پرست لوگ ہیں میں نے کہا نہ تھا
دل کے بھی پُرزے کر دیئے ظالم نے خط کے ساتھ
ہمراہ خط کے دل بھی ہمارا روانہ تھا
ہم بے کسوں نے جس میں گذاری تھی زندگی
فاتحؔ عجیب دور ، انوکھا زمانہ تھا
کہاں کہاں کا میں کر کے سفر نہیں آیا
مجھے تلاش تھی جس کی وہ در نہیں آیا
ضرور حلقۂ احباب مضطرب ہوتا
ابھی بیان میں شاید اثر نہیں آیا
یہ راہِ راست ملی ہے بھٹک بھٹک کے مجھے
کہ رہنمائی کو میری خضر نہیں آیا
وہ شخص کیسے کسی کا اُٹھائے گا احساں
اُٹھا کے جسم پہ جو بارِ سر نہیں آیا
یہ بے رُخی یہ تصنع یہ کج روی یہ فساد
تمہارے شہر میں کیا کیا نظر نہیں آیا
تمہاری سوچ کی کشتی بھی غرق ہو جاتی
تمہاری راہ میں کوئی بھنور نہیں آیا
بجھا بجھا ہے ابھی سے چراغِ دل فاتحؔ
ابھی تو شام ہے وقتِ سحر نہیں آیا
مِری حیات کے اُفق پہ اس طرح وہ چھا گیا
کہ میری ذات کو مِری نگاہ سے چھپا گیا
ہزار چاہتوں کے باوجود بھی نہ رُک سکا
مثالِ ماہِ عید آیا ، صورتِ صبا گیا
غضب کا کرب ہم نے پایا اُس کے شعر شعر میں
وہ کون تھا ابھی یہاں سے جو غزل سرا گیا
ہمارا اُس کا صرف شب کی ظلمتوں کا سنگ تھا
سحر کا منتظر تھا وہ سحر ہوئی چلا گیا
وہ جس نے مجھ کو ہم کنارِ اضطراب کر دیا
وہی ستم ظریف دے کے عیش کی دعا گیا
زمین و آسماں پہ ہیں محیط جس کی وسعتیں
وہ حُسن میرے دامنِ خیال میں سما گیا
تھیں کتنی نُدرتیں کلامِ فاتحِؔ فنون میں
وہ ایک لفظ میں تمام داستاں سنا گیا
یہ کیا ہوا کہ زُلف کا بادل بکھر گیا
آنکھوں میں اشک آ گئے کاجل بکھر گیا
مدت کے بعد خاک نے اوڑھی قبائے سرخ
کس کا لہو تھا جو سرِ مقتل بکھر گیا
محدود ہو کے رہ گیا گوشہ نشینِ عشق
تیزی جنوں میں آئی تو تھل تھل بکھر گیا
ہر سمت پھیلتے گئے قوسِ قزح کے رنگ
شاید نگاہ میں تیرا آنچل بکھر گیا
خوشبو تِرے خلوص کی تن من پہ چھا گئی
رگ رگ میں تیری یاد کا صندل بکھر گیا
کتنی کڑی سزا ملی ذوقِ جمال کی
پروانہ چوم کر لبِ مشعل بکھر گیا
شورِ ہوا میں ہو گئی تحلیل ہر صدا
صحرا کی ریت میں تیرا پاگل بکھر گیا
دن رات یوں جیا تِرا زحمت کشِ فراق
سمٹا گھڑی گھڑی تو وہ پل پل بکھر گیا
فاتحؔ وفا کی راہ تھی دشوار کس قدر
سمّی کو موت آ گئی راول بکھر گیا
وصل ہو یا ہجر ، پل پل اضطراب
زندگی کیا ہے مسلسل اضطراب
مرحلے کیا کیا دکھائے شوق نے
موسمِ گل ، سرخ آنچل ، اضطراب
خود کو گم کر دے کسی آزار میں
ہے تِری تکلیف کا حل اضطراب
دیدۂ پُرنم سے باہر آگیا
کیا چھپا سکتا تھا کاجل اضطراب
میں ہوں فاتحؔ مائلِ تکمیلِ ذات
جانے کب ہو گا مکمل اضطراب
جنونِ موت سے کچھ کم نہ تھا جنونِ حیات
مگر ہمیشہ رہا ٹوٹتا فسونِ حیات
لہولہان ہوئی روح تیشۂ غم سے
کٹا تو ایسے کٹا ہم سے بے ستونِ حیات
وہ ایک جذبۂ تازہ جو دے گیا ہے کوئی
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے بن کے خونِ حیات
ہماری موت پہ کیوں اس قدر پریشاں ہے
وہ سنگدل جو رہا لُوٹتا سکونِ حیات
گرا ہے خونِ شہیداں جہاں جہاں فاتحؔ
اُبل پڑے ہیں اسی نقش سے عیونِ حیات
جو مہرباں تھا رو بہ ستم ہو گیا وہ ہاتھ
ناآشنائے لطف و کرم ہو گیا وہ ہاتھ
رہتا تھا جس کے لمس کی خواہش میں بے قرار
جب چھو لیا اُسے تو بھسم ہو گیا وہ ہاتھ
خندہ بلب ہے آج اِک خنجر بدست شخص
جس ہاتھ میں قلم تھا ، قلم ہو گیا وہ ہاتھ
تھاما اُسے تو کھُل گئے اَسرارِ شرق و غرب
آئینہ مثلِ ساغرِ جم ہو گیا وہ ہاتھ
جھٹکا تھا تو نے جس کو حقارت سے ایک بار
اے دوست تیرے نام رقم ہو گیا وہ ہاتھ
جس نے کلائی موڑ دی جبر و غرور کی
ہم خوش نصیب ہیں کہ بہم ہو گیا وہ ہاتھ
دیتی تھیں جس کی جنبشیں پیغامِ زندگی
فاتحؔ مشیرِ ملکِ عدم ہو گیا وہ ہاتھ
لے گیا اِک دلرُبا ، دن کا سکوں راتوں کی نیند
پھر رہا ہوں ڈھونڈتا ، دن کا سکوں راتوں کی نیند
عام نادانی میں تھا ، دن کا سکوں راتوں کی نیند
ہوش آتے ہی گیا ، دن کا سکوں راتوں کی نیند
میں انہیں اب کیا بتاؤں پوچھتے ہیں غمگسار
کس لئے جاتا رہا ، دن کا سکوں راتوں کی نیند
میں کہ خود ہوں مضطر و بے خواب دیتا ہوں دعا
ہو تجھے دائم عطا ، دن کا سکوں راتوں کی نیند
کیا تجھے آئے کسی کی بے قراری کا خیال
ہے تجھے حاصل سدا ، دن کا سکوں راتوں کی نیند
کچھ تجھے پروا نہیں ہے لیکن اے جانِ بہار
لُٹ گیا اِک شخص کا ، دن کا سکوں راتوں کی نیند
پاس اپنے آہ فاتحؔ آج کچھ بھی تو نہیں
زندگانی کا مزا ، دن کا سکوں راتوں کی نیند
کتنا تھا ہمیں ناز تِری ہمسفری پر
مجبور کیا تو نے ہمیں دربدری پر
غلطی سے سمجھ بیٹھے تجھے اہلِ مروت
اے کاش نہ جاتے تِری آنکھوں کی تری پر
ہر وقت کا رونا ہوا معمول ہمارا
جس دن سے ہمیں مار گئی ہے وہ پری پر
دوگام ہیں اپنے لئے صحرا ہوں کہ دریا
حیران ہے دُنیا مِری آشفتہ سری پر
خوش نام ہیں فاتحؔ یہی اعزاز بہت ہے
ہر چند کہ تمغے نہ ملے خوش ہنری پر
ہماری آرزو یہ تھی رہے سب سے نہاں ہو کر
مگر اُترا ہے لفظوں میں وہ زیب داستاں ہو کر
بہاتی ہے وہاں چشمِ فلک بھی خون کے آنسو
جہاں غارت گری کرتا ہے کوئی پاسباں ہو کر
نوائے وقت ہوں کوئی دبا سکتا نہیں مجھ کو
میں اُبھروں گا مساجد کے مناروں سے اذاں ہو کر
وہ میرے داغِ دل جن کو ملی دل میں نہ گنجائش
سرِ افلاک تابندہ ہوئے ہیں کہکشاں ہو کر
کبھی تھا شعرِ تَر اپنا تبسم غنچۂ گل کا
مگر اب رہ گیا ہے صورتِ آہ و فغاں ہو کر
نرالی سی کئی کیفیتیں دیکھیں ہیں فاتحؔ میں
بلا کا زور آور ہے یہ مُشتِ استخواں ہو کر
تیری یاد بسنت پوَن ہے میرا جیون سرس کا پیٹر
یوں رہتا ہوں شہر میں تیرے جیسے دشت میں تنہا پیڑ
اس پر بیٹھے پنکھ پکھیرو سو جاتے ہیں میٹھی نیند
شام گئے لگتا ہے مجھ کو گہری سوچ میں ڈوبا پیڑ
فیض رسانی کا انعام یہی کچھ دیتے ہیں کیا لوگ
رو رو کر کہتا تھا مجھ سے بے دردی سے کٹتا پیڑ
تلخ حقیقت کا پرتَو ہے یا منحوس بھیانک خواب
سونی بستی ، ویراں گلشن ، اُجڑی کھیتی ، ٹوٹا پیڑ
درد کے لگتے ہیں پھل جس پر، داغ کے پتے، زخم کے پھول
تو نے میری من دھرتی میں آن لگایا کیسا پیڑ
دونوں کا سنگم ہے لازم راحتِ ہستی پانے کو
میری چاہت ہے اِک جھولا تیرا پیار توانا پیڑ
آ کر فاتحؔ کاش وہ مطرب گائے وصل کا دلکش گیت
اِس سے پہلے کہ گر جائے اپنی آس کا بوڑھا پیڑ
رہے ہیں زندگی بھر سوچتے کہ کون ہیں ہم
نہ خود پر بھی کبھی ہم کھل سکے کہ کون ہیں ہم
تعارف انقلاباتِ جہاں سے ہے ہمارا
بدلتے موسموں سے پوچھئے کہ کون ہیں ہم
ہمارے کارواں سے تو اجل بھی ہے گریزاں
بہ حیرت دیکھتے ہیں حادثے کہ کون ہیں ہم
نہ اتنی دور سے ہم قیدیوں کا جائزہ لے
ذرا نزدیک آ کر دیکھ لے کہ کون ہیں ہم
ہوئے ہم پَر فشاں فاتحؔ تو سورج ہم سے ہارا
تجسس میں مہ و انجم رہے کہ کون ہیں ہم
صحرا صحرا عشق کی وحشت ، حُسن کی شوخی گلشن گلشن
دریا دریا پیار ہمارا رُوپ تمہارا جوبن جوبن
تم تم ، ہم ہم ، فرق بہت ہے ، بجلی بجلی خِرمن خِرمن
پتھر پتھر نقش ہمارے عکس تمہارا درپن درپن
پستی پستی رہن ہمارا ، شان تمہاری اونچی اونچی
تارا تارا پیار ہمارا ، چاہ تمہاری آنگن آنگن
پاگل پاگل ہم ہو بیٹھے دیکھ کہ تم کو سُندر سُندر
محفل محفل ذکر ہمارا یاد تمہاری دھڑکن دھڑکن
کومل کومل شعر ہمارے بول تمہارے میٹھے میٹھے
رنگیں رنگیں جذبۂ اُلفت چہرۂ زیبا روشن روشن
توبہ توبہ کیا ہے عالم شیشۂ دل ہے کِرچی کِرچی
واقف واقف آج نہیں ہے آج نہیں ہے ساجن ساجن
فاتحؔ فاتحِ غم تھا لیکن آج ہے افسردہ افسردہ
زخمی زخمی قلبِ حزیں ہے دیدۂ تر ہے ساون ساون
مجتمع کرتا ہے اتنی آہ میں تاثیر کون
توڑتا ہے اب زجاجِ آسمانِ پیر کون
معتبر ہے ربط کس کا وقت کے یوسف کے ساتھ
دیکھئے لاتا ہے میرے خواب کی تعبیر کون
میں اکیلا رہ گیا ہوں کربلائے عصر میں
پھینکتا ہے میری جانب آج پہلا تیر کون
سخت پہرے ہیں درِ منصف پہ اس کے باوجود
آ گیا ہے کھینچنے کو عدل کی زنجیر کون
جرم کس کا تھا ، خطا کس کی تھی ، لغزش کس کی تھی
پا گیا تیری عدالت سے مگر تعزیر کون
ہو گئے ہم بھی کنارا کش اگر اس کام سے
مصحفِ ہستی کی لکھے گا حزیں تفسیر کون
پردۂ اخفاء میں رکھا کس نے اپنے پیار کو
داستانِ دل کو لیکن دے گیا تشہیر کون
کھلکھلا اُٹھے گی کس کی شوخیوں سے موت بھی
میری صورت مسکرائے گا تہہِ شمشیر کون
کیوں نہ فاتحؔ ہم بنائیں اِک حقیقی جھونپڑا
روز و شب قلعے خیالوں میں کرے تعمیر کون
یہ بات میں نے کہی ہے کہاں مُکرتا ہوں
کہ دشمنوں سے نہیں دوستوں سے ڈرتا ہوں
یہ راز ہے کہ گریزاں ہیں ظلمتیں مجھ سے
میں چاندنی کی طرح شہر میں اُترتا ہوں
بھُلا نہ پاؤ گے مجھ کو کہ چاند کی صورت
تمہارے مطلعِ تخیٔل پر اُبھرتا ہوں
مِری طرف بھی کسی دن ضرور آؤ گے
اسی خیال میں ہر روز میں سنورتا ہوں
ہوائے یاس کی تُندی کی زد میں ہوں کب سے
چلا بھی آ کہ تِرے ہجر میں بکھرتا ہوں
گزند مجھ سے نہ حشرات کو کہیں پہنچے
میں رہگزر پہ بھی دھیرے سے پاؤں دھرتا ہوں
مِرے عمل سے پریشاں ہے اہرمن فاتحؔ
قلم کو نیزہ بنا کر جہاد کرتا ہوں
اس واسطے رنجیدہ و مغموم رہا ہوں
میں قربتِ محبوب سے محروم رہا ہوں
تاخیر سے تُو نے مِرا اعلان کیا ہے
میں کب سے تِری روح میں مکتوم رہا ہوں
لکھے ہیں سدا درد میں ڈوبے ہوئے اشعار
نوحہ گرِ مرگِ دلِ مرحوم رہا ہوں
اک گوہرِ مطلوب کی دھُن میں ہوں ہمیشہ
تم لوگ سمجھتے ہو عبث گھوم رہا ہوں
کیوں محوِ تغافل مِرے احباب نہ ہوتے
موجود بھی ہوتے ہوئے معدوم رہا ہوں
محفوظ تِرے ہاتھ کی مہکار ہے اس میں
کس شوق سے نامے کو تِرے چوم رہا ہوں
کیا عرض کروں مشغلۂ زندگی فاتحؔ
بس محوِ تلاشِ بُتِ معصوم رہا ہوں
میں کہ تھامے دلِ مہجور نکل آیا ہوں
ہو کے حالات سے مجبور نکل آیا ہوں
یہ تِرے ذہنِ رَسا کا ہے کرشمہ سارا
میں کہ تھا نقطۂ مستور نکل آیا ہوں
غیر ممکن ہے کہ سُن پاؤں صدائیں تیری
میں بہت دور بہت دور نکل آیا ہوں
راکھ بن جاؤں گا جب پا نہ سکوں گا تجھ کو
تیری چاہت میں سرِ طور نکل آیا ہوں
دشتِ آلام ہے موجود سواگت کے لئے
چھوڑ کر وادیٔ مسرور نکل آیا ہوں
ایسا بیزار ہوا گوشۂ گم نامی سے
میں لبِ قریۂ مشہور نکل آیا ہوں
میری تقدیر میں ویرانہ رقم تھا فاتحؔ
چھوڑ کر خانۂ معمور نکل آیا ہوں
ڈھلکا ہوا عارض پہ یہ آنسو نہیں ، میں ہوں
اے جانِ وفا آج حزیں تُو نہیں ، میں ہوں
یہ نالۂ بلبل نہیں فریاد ہے میری
افسردہ کسی پھول کی خوشبو نہیں ، میں ہوں
مجروح تِرا دل نہیں زخمی مِرا دل ہے
اے دوست پریشاں تِرے گیسو نہیں ، میں ہوں
قدموں سے اِسے روند ، بنا اس کا بچھونا
یہ سبزۂ آوارہ لبِ جُو نہیں ، میں ہوں
فاتحؔ مِرا غم ہے غمِ عالم سے عبارت
یہ قبضۂ صیاد میں آہو نہیں ، میں ہوں
محرومِ ناؤ نوش ہوں شیریں لبوں کے ہجر میں
آنکھوں سے ہیں آنسو رواں اُن انکھڑیوں کے ہجر میں
وہ بزم آرائی کہاں ، وہ خامہ فرسائی کہاں
بے ذوق سا بیٹھا ہوا ہوں دوستوں کے ہجر میں
محروم عشرت سے ہوں میں ، شاکی سماعت سے ہوں میں
اُن پیار کی سرگوشیوں اُن آہٹوں کے ہجر میں
جن میں نہ تھا کوئی خطر ، جن میں نہ تھا غم کا گذر
پنچھی ہوئے بے آشیاں ان برگدوں کے ہجر میں
اُن کو خبر مطلق نہیں ، کیسے ہیں وہ من کے مکیں
میں ہوں پریشان و حزیں جن مہوشوں کے ہجر میں
احباب کی فرقت کہاں ، تم سہہ سکو گے جانِ جاں
بیٹھے ہو بے تاب و تواں جب دشمنوں کے ہجر میں
نغمات میں لذت نہیں ، جذبات میں حدت نہیں
فاتحؔ یہ عالم ہے مِرا اب ساتھیوں کے ہجر میں
معلوم نہیں کیا تجھے رہ کر مِرے دل میں
برپا ہے غم و درد سے محشر مِرے دل میں
رہتا نہیں اِک شوقِ صنم گر مِرے دل میں
مصروفِ عمل ہیں کئی آزر مِرے دل میں
اِک فکر ہے جو چین سے سونے نہیں دیتی
اِک سوز جواں رہتا ہے اکثر مِرے دل میں
مستی سی برستی ہے مِرے قلب و نظر سے
پیتا ہے کوئی بیٹھ کے ساغر مِرے دل میں
کچھ زخم ابھی سابقہ طعنوں کے ہرے ہیں
پھینکو نہ نئے طنز کے پتھر مِرے دل میں
پروا نہیں تقدیر مِری دربدری ہے
آباد رہے تُو میرے دلبر مِرے دل میں
اس بیتِ مکرّم کا مجھے پاس ہے فاتحؔ
وہ یوں کہ مِرے یار کا ہے گھر مِرے دل میں
جنم دن سے عدم دن تک اذیت میں پلا ہوں میں
نہیں خائف کسی غم سے مصائب آشنا ہوں میں
اگر ہو بارگاہِ شوق تو ظلِ ہما ہوں میں
اگر ہو عرصۂ پیکار تو دستِ قضا ہوں میں
نہیں آئے قرینے دلنوازی کے مجھے اب تک
تجھے ناراض کر دیتا ہوں میں کتنا بُرا ہوں میں
نہیں معلوم گل ہو جاؤں کب اس تیز آندھی سے
کسی کے طاقِ در پر اِک لرزتا سا دیا ہوں میں
کہیں سر ہے ، کہیں دھڑ ہے ، کہیں دل ہے ، کہیں آنکھیں
مثالِ گردِ آوارہ پریشاں جا بجا ہوں میں
یہ کیا سیمابیت سی آ گئی ہے میری ہستی میں
کبھی تجھ سے گریزاں ہوں کبھی تجھ پر فدا ہوں میں
مِرے احباب سنگریزہ سمجھتے ہیں مجھے فاتحؔ
اگر وہ قدر پہچانیں تو دُرِ بے بہا ہوں میں
کربِ جاں لکھتا ہوں میں دردِ جگر لکھتا ہوں میں
جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں ڈوب کر لکھتا ہوں میں
میرا اپنا مسئلہ کوئی نہیں بین السطور
رکھ کے تیری ذات کو مدِ نظر لکھتا ہوں میں
کر نہ دے انکار تُو میرے مؤقف سے کہیں
ڈرتے ڈرتے تجھ کو اپنا ہمسفر لکھتا ہوں میں
اب یہی میرا وظیفہ ہے مِرا معمول ہے
شعر تازہ کچھ غزل کے ہر سحر لکھتا ہوں میں
سوزِ دل کی آنچ ہوتی ہے مِرے الفاظ میں
اس لئے اشعار اکثر پُر اثر لکھتا ہوں میں
جاں چھڑکتا ہے جنوں افکارِ دانش پر مِرے
اس طرح اسرارِ تکریمِ بشر لکھتا ہوں میں
کس قدر ہیں استعارے دل نشیں فاتحؔ مِرے
خون کو یاقوت ، آنسو کو گُہر لکھتا ہوں میں
یوں نہ دشتِ آرزو میں عمر بھر بھٹکا ہمیں
یا عطا کر تخت یا تختے پہ دے لٹکا ہمیں
تُو صبا انداز ، تیرا ہجر ہے مثلِ سموم
صورتِ غنچہ ، سمن اندام آ چٹکا ہمیں
ہو گئی ہم سے بھی دامن گیر ہونے کی خطا
اس پری پیکر نے کانٹے کی طرح جھٹکا ہمیں
پھر اسے باور ہوئی اپنی وفا ، اپنا خلوص
اس نے تڑپایا ہمیں ، چھانا ہمیں ، پھٹکا ہمیں
حشر اِک برپا ہوا ہے روز اپنے سامنے
سختیِٔ محشر کا اب فاتحؔ نہیں کھٹکا ہمیں
کن آنکھوں میں ہم ڈوبے ہیں
نین یہ جھیلوں سے گہرے ہیں
جب تم پہلی بار ملے تھے
زیست کا حاصل وہ لمحے ہیں
جب سے ہم نے پیار کیا ہے
ہر ساعت صدمے جھیلے ہیں
یہ گل ، دیپ ، یہ چاند ، ستارے
تیرے درشن کو آئے ہیں
لازم ہے توقیر دلوں کی
دل موتی ہیں ، دل شیشے ہیں
جیسے کالا بادل برسے
یوں چھم چھم آنسو برسے ہیں
یارب ساتھ نہ چھوٹے اُس کا
جس کو دیکھ کے ہم جیتے ہیں
اور نہ کوئی احساں کرنا
پہلے ہی کافی قرضے ہیں
فاتحؔ کیا اُفتاد پڑی ہے
آپ جو یوں سہمے سہمے ہیں
کب ملتے ہیں یار ، چھلاوے ملتے ہیں
دل کو کیا کیا دُکھ پچھتاوے ملتے ہیں
پاتے ہیں تعبیریں خونِ تمنا کی
خواب میں جب بھی لال کجاوے ملتے ہیں
جسم ہیں انساں کے عاری پوشاکوں سے
قبروں پر زربفت چڑھاوے ملتے ہیں
ایک جواں دل دھڑکے اپنے پہلو میں
دنیا کو ہم بن کر باوے ملتے ہیں
لوگ بظاہر خوش خوش لگتے ہیں فاتحؔ
لیکن دل میں درد کے لاوے ملتے ہیں
شکستِ ذات کا مجھ کو کوئی ملال نہیں
یہی ہے رنج کہ اپنا تمہیں خیال نہیں
گری ہے برقِ تجلی وہ خرمنِ دل پر
کہ ہوش میرے ابھی تک ہوئے بحال نہیں
ابھی سے حجتیں قائم نہ کر دلِ ناداں
ہوا ابھی تو محبت کو ایک سال نہیں
جو سوزِ ہجر میں ہے قرب میں وہ کیف کہاں
شبِ فراق سے بڑھ کر شبِ وصال نہیں
یہ کیسا فقر ملا ہے سفیرِ اُلفت کو
نظر سوالی ہے لب پر مگر سوال نہیں
نظر نظر سے ملی ہو گئی خبر سب کو
مِرے خیال میں یہ کوئی نیک فال نہیں
مٹا کوئی تو ہوا اور معتبر فاتحؔ
رہِ خلوص میں مٹنے کا احتمال نہیں
وہ زمیں اپنی ہے جس کا آسماں کوئی نہیں
اور اگر ہو بھی تو اس میں کہکشاں کوئی نہیں
بے تکلف اس میں در آتے ہیں درد و رنج و غم
دل حرم ایسا ہے جس کا پاسباں کوئی نہیں
ایک عالم زندگی بھر معترف جس کا رہا
مر گیا ہے وہ تو اس کا نوحہ خواں کوئی نہیں
خلوتوں میں جلوتوں کا ہم نے پایا ہے سرور
ہم وہاں پر بزم آراء ہیں جہاں کوئی نہیں
سن رسیدہ گو سمجھتے ہیں جہاں والے ہمیں
پھر بھی فاتحؔ زُعم ہے ہم سا جواں کوئی نہیں
بے مروت کو محبت آشنا ہونے تو دو
کام بن جائے گا تشکیلِ وفا ہونے تو دو
اِس کی ہر دھجی بنے گی پرچمِ اہل وفا
تن کے رِستے خون سے رنگیں قبا ہونے تو دو
درد کی ہر ٹیس ٹھہرے گی صدائے احتجاج
فصلِ گل آئی ہے زخموں کو ہرا ہونے تو دو
دوستوں کا چارہ سازوں کا بھرم کھل جائے گا
دردِ دل کو اِک ذرا سا لادوا ہونے تو دو
گھپ اندھیرے خود بخود سیماب پا ہو جائیں گے
من کے معمورے کو معمورِ ضیاء ہونے تو دو
بند ہو گی آنکھ جب تو بھید سب کھل جائیں گے
روح پنچھی جسم پنجرے سے رہا ہونے تو دو
جب یہ بولے گا تو محفل رنگ پر آ جائے گی
حضرتِ فاتحؔ کو ساقی لب کشا ہونے تو دو
میرے دل کا درد فزوں کرو کبھی یوں کرو
مجھے سرفرازِ جنوں کرو کبھی یوں کرو
مجھے اعتبار ہے تم ہو میرے کرم رساں
میری آرزوؤں کا خوں کرو کبھی یوں کرو
مِرے چارہ ساز ہے ناز تم پہ مجھے مگر
ذرا تیز سوزِ دروں کرو کبھی یوں کرو
مِرے ہوش ، میرے شعور ، میرے دماغ پر
کوئی سحر کوئی فسوں کرو کبھی یوں کرو
مجھے تم سے سُکھ ہی ملا ہے اے میرے گلبدن
مجھے بے نیازِ سکوں کرو کبھی یوں کرو
کبھی بے رُخی سے ملا کرو کبھی شوق سے
میرے ہمسفر کبھی یوں کرو کبھی یوں کرو
رہا سرفراز جہاں میں فاتحِؔ نیم جاں
ذرا اس کے سر کو نگوں کرو کبھی یوں کرو
حسیں لوگو محبت کے عزا داروں کو مت چھیڑو
جواں پھولو یہ بہتر ہے کہ تم خاروں کو مت چھیڑو
کہیں ایسا نہ ہو جھانکے کوئی شعلہ ، کوئی بجلی
مرصع بالا خانوں اور چوباروں کو مت چھیڑو
مبادا ہو کسی ریزے میں پنہاں کوئی چنگاری
حریمِ آرزو کے منتشر پاروں کو مت چھیڑو
اُٹھیں گے اہلِ دل تو ایک محشر سا اٹھائیں گے
انہیں مدہوش ہی رہنے دو بے چاروں کو مت چھیڑو
فنا ہو جائے گا ان میں تمہارا پیکرِ ہستی
گذرتے بادلو مغرور کہساروں کو مت چھیڑو
بھرم رہ جائے گا اِس سے تمہاری چارہ سازی کا
مسیحاؤ مناسب ہے کہ بیماروں کو مت چھیڑو
نہ لو تم امتحاں فاتحؔ کسی کے جذبۂ دل کا
تمہیں چھیڑیں تو چھیڑیں یار تم یاروں کو مت چھیڑو
پہلے رنجش کا سبب کوئی بتا دے مجھ کو
پھر تجھے حق ہے کہ جو چاہے سزا دے مجھ کو
اپنے افسانۂ غم کا تجھے عنواں لکھوں
اس قدر رنج نہ اے جانِ وفا دے مجھ کو
میں کہ سرگرمِ عمل روز نظر آتا ہوں
بیٹھنے دیتے نہیں میرے ارادے مجھ کو
خیر مرنا تو مِرے بس میں نہیں ہے لیکن
زندہ رہنے کا سلیقہ ہی سکھا دے مجھ کو
ساقیا جامِ مئے وصل پلا آج مجھے
یہ اگر ہو نہ سکے زہر پلا دے مجھ کو
کچھ نہ کچھ تو مِری ہستی کے بھی معنی ہوں گے
میں اگر حرفِ غلط ہوں تو مٹا دے مجھ کو
بن کے آنسو تیری پلکوں پہ اگر میں چمکوں
مثلِ شبنم گلِ عارض پہ سجا دے مجھ کو
تو مِرا گیت ہے رو رو کے تجھے گاؤں گا
میں تِرا درد ہوں اشکوں میں بہا دے مجھ کو
میں بھی بیگانۂ تسکین ہوں کب سے فاتحؔ
اِک غزل بہرِ خدا آج سنا دے مجھ کو
اپنا بھی سمجھتے ہو ناشاد بھی کرتے ہو
اُلفت بھی جتاتے ہو برباد بھی کرتے ہو
ناراض بھی ہوتے ہو ظالم جو کہے کوئی
ہر آن ستم تازہ ایجاد بھی کرتے ہو
افراطِ جرائم کے شکوے بھی لبوں پر ہیں
وہ تم ہو کہ مجرم کی امداد بھی کرتے ہو
رہتے ہو گریزاں بھی تعمیل سے کیوں اس کی
گو فیصلۂ دل کو تم صاد بھی کرتے ہو
لکھتے ہو کہانی بھی پوری بھی نہیں کرتے
شیریں بھی نہیں بنتے فرہاد بھی کرتے ہو
جو پیار تمہارے میں مدہوش سا رہتا ہے
سچ کہنا کبھی اس کو تم یاد بھی کرتے ہو
یہ راز ہے کیا بولو بے چارے پرندے کو
تم قید بھی کرتے ہو آزاد بھی کرتے ہو
اربابِ وفا فاتحؔ مر جاتے ہیں چپکے سے
چاہت کا بھی دعویٰ ہے فریاد بھی کرتے ہو
رخِ گلاب کی خاطر صبا ہے آئینہ
تِرے لئے مِرا شہرِ نوا ہے آئینہ
مِرا خیال ہے آئینہ دیکھنے والے
بچشمِ شوق تجھے دیکھتا ہے آئینہ
یہ اور بات کہ دھندلا گیا ہو عصیاں سے
ہر آدمی کے جلو میں سجا ہے آئینہ
میں اس میں دیکھتا ہوں عکس آرزوؤں کا
تمہارا چہرہ بھی مجھ کو لگا ہے آئینہ
وہ جانِ آئنہ میرا ہو خیر سے یارب
یہ آج ہاتھ سے کیوں گر پڑا ہے آئینہ
ترے کرم کا توکل کا عکس ہے اس میں
خدائے پاک! ہماری دعا ہے آئینہ
گری ہے برقِ تجلی کچھ اس طرح فاتحؔ
وہ آئے ہیں تو دھرا رہ گیا ہے آئینہ
کیا مانعِ فردا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
دل درد میں ڈوبا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
ہر سمت سیہ پوش لٹیرے ہیں مسلط
اک حشر سا برپا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
ہے خستۂِ ظلمات کی اب جان لبوں پر
رہ رہ کے یہ کہتا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
مقتل سے صدا آئی سزاوار نہیں تم
قاتل نے جو پوچھا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
بے رحم شبِ ہجر نے کیوں طول ہے کھینچا
کیوں اتنا اندھیرا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
آنا تھا جسے بن کے اجالوں کا پیامی
وہ لَوٹ کے آیا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
ہر بار نظر جانبِ اعمال گئی ہے
میں نے بھی یہ سوچا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
حسرت ہے کبھی ختم بھی ہو گی شبِ تاریک؟
دل نور کا پیاسا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
تو سنتا ہے بندوں کی دعا ربِّ زمانہ
ہر لب پہ تقاضا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
آنا ہے مسیحا نے دمِ فجر ہی فاتحؔ
بیمار اکیلا ہے سحر کیوں نہیں ہوتی
جب بھی کوچے سے ترے موجِ ہوا گزرے گی
اپنے دامن میں لئے میری دعا گزرے گی
میں وہ دیوانہ ہوں اے دوست کہ تیرے دل میں
اب میری یاد بھی زنجیر بپا گزرے گی
گلِ معصوم کو جب دیکھے گی یوں مسلا ہوا
اشک برساتی گلستاں سے صبا گزرے گی
زندگی زندہ دلی سے جو گزاری ہم نے
موت بھی دے کے ہمیں جامِ بقا گزرے گی
ایک ہیجان بپا ہو گا دلوں میں فاتحؔ
گوشِ مخلوق سے جب میری نوا گزرے گی
ہر دم تیری آس رہے گی
تیری دید کی پیاس رہے گی
اُڑ جائیں گی سب خوشبوئیں
پر تیری بُو باس رہے گی
دیکھو دیر اگر کی تم نے
تنہا جان اداس رہے گی
اپنی شاعری درپن جیسی
دنیا کی عکاس رہے گی
فاتحؔ فن کی سچی دھرتی
تیری قدر شناس رہے گی
بلاتی ہے مرے ساقی تجھے موسم کی رنگینی
حسیں رُت نے بڑھا دی پیار کے موسم کی رنگینی
حقیقت میں یہ سارا جذبۂ دل کا کرشمہ ہے
محبت کی کرامت ہے یہ بے موسم کی رنگینی
طلسماتی ادائیں دامنِ دل کھینچ لیتی ہیں
جواں جوڑے ، سہانے راستے ، موسم کی رنگینی
تمہارا قرب ہوتا تو نجانے آج کیا ہوتا
اُمڈ آئی ہے شب کے دو بجے موسم کی رنگینی
حسیں ماحول میں تیری کمی محسوس ہوتی ہے
یہ ہنگامے ، محافل ، قہقہے ، موسم کی رنگینی
فضا دلکش ہے ، دل آویز ہے ، دلدار آ جاؤ
سنو اکسیر ہے دل کے لئے موسم کی رنگینی
کیے دیتے ہیں مجبورِ غزل گوئی مجھے فاتحؔ
یہ بادل ، بوندا باندی ، زمزمے ، موسم کی رنگینی
بارانِ اشک سے مری صورت نکھر گئی
سارا غبار دھُل گیا رنگت نکھر گئی
تھا ڈر کہ مسخ کر نہ دے سیلِ بلا مجھے
افراطِ غم سے اور بھی سیرت نکھر گئی
اے ساقیٔ حسیں تیری صحبت کے فیض سے
انداز دلنشیں ہوئے عادت نکھر گئی
سونا تھا دل تو سوز نے کندن بنا دیا
ہر امتحانِ عشق سے چاہت نکھر گئی
فاتحؔ دکھوں کی دھُول سے جیون اجاڑ تھا
وہ آئے تو مریض کی حالت نکھر گئی
صرف الفاظ کی حد تک نہ سراہے کوئی
ہے یہ حسرت کہ مجھے ٹوٹ کے چاہے کوئی
جس کو ہنسنے کا سلیقہ ہے نہ رونے کا شعور
ایسے ناداں سے بھلا کیسے نباہے کوئی
ضبط کرنے کا بھی ہے مشورہ اچھا لیکن
روح گھائل ہو تو کیسے نہ کراہے کوئی
پیش خیمہ بنا اِک زخم کئی زخموں کا
کاش رکھتا نہ مِرے زخم پہ پھاہے کوئی
ایک ٹوٹی ہوئی تصویرِ اَنا ہوں فاتحؔ
مجھ سے ناراض رہا کرتا ہے کاہے کوئی
اداس کر کے مجھے گو چلا گیا ہے کوئی
مگر حدیقۂ ہستی سجا گیا ہے کوئی
مہک عجیب سی من میں بسا گیا ہے کوئی
ابھی ابھی جو برنگِ صبا گیا ہے کوئی
لہو کے دیپ جلاؤ اگر ہے شوقِ وصال
طریقہ حُسنِ طلب کا سکھا گیا ہے کوئی
حریمِ فکر میں اعلانِ موسمِ گل ہو
ہماری بزمِ تخیل میں آ گیا ہے کوئی
مہک رہے ہیں جگر میں گلاب زخموں کے
مذاقِ درد کی دے کر دعا گیا ہے کوئی
نگارِ موت کا مسکن ہے جس بیاباں میں
کفن بدوش اُدھر بارہا گیا ہے کوئی
بنا گیا ہے غمِ ذات سے وہ بیگانہ
مِرے حواس پہ کچھ ایسا چھا گیا ہے کوئی
سماعتوں کو تھا مطلوب نغمۂ شیریں
سنا کے زمزمۂ خوشنوا گیا ہے کوئی
سمٹ کے رہ گئیں برسوں کی دُوریاں فاتحؔ
وہ رُت کہ جس میں تھے ہم اشکبار ختم ہوئی
وہ شب کہ جس میں تھی ذلت ہزار ختم ہوئی
سحر ہوئی ہے تو اس میں تِری ادائیں ہیں
جو شام تھی مِری آئینہ دار ختم ہوئی
کشیدِ جاں سے چھلکتا ہے میرا جام ابھی
تری شراب تو اے بادۂ خوار ختم ہوئی
تُو اپنا حال سنا میں بھی تیرے دکھ بانٹوں
مِری کہانی تو اے غمگسار ختم ہوئی
قفس کو توڑ کے ہم خستہ حال جب نکلے
تو اطلاع یہ پہنچی بہار ختم ہوئی
بڑا گھمنڈ تھا اے دل تجھے محبت پر
تری یہ پونجی تو قبل از شمار ختم ہوئی
کرو نباہ غم و اضطراب سے فاتحؔ
کہ آج کاوشِ کیف و قرار ختم ہوئی
وہ حسیں خواب وہ راتیں مجھے واپس کر دے
میرے دلبر میری نیندیں مجھے واپس کر دے
دیکھ محروم نہ کر مجھ کو مِری دولت سے
یہ قلم اور کتابیں مجھے واپس کر دے
دے نہ زر تار کفن ، گنبدِ تربت نہ بنا
میرے قاتل میری سانسیں مجھے واپس کر دے
تیری محفل کے تصنع میں جو دم توڑ گئیں
میری آشاؤں کی لاشیں مجھے واپس کر دے
میری آہوں مِرے اشکوں کی قسم ہے تجھ کو
میری ہنستی ہوئی آنکھیں مجھے واپس کر دے
تو مِری منزلِ مقصود نہیں تو نہ سہی
میری الجھی ہوئی راہیں مجھے واپس کر دے
مجھ سے جب پیار نہیں تو ہے گذارش فاتحؔ
میرے فوٹو ، میری غزلیں مجھے واپس کر دے
کون ایسے دلرُبا کی ناز برادری کرے
اک نظر میں جو دل و جاں کی خریداری کرے
آشنا سے بدگمانی ہے کہ ہو گا سنگ زن
دشمنِ جاں سے توقع ہے کہ گلباری کرے
میرے قاتل سے کہو پھر چھوڑ کر اک اور تیر
چھلنی سینے سے ہمارے جوئے خوں جاری کرے
لوٹ لی جس کی جفاؤں نے ہماری زندگی
اب وہی آ کر سرِ جاں گریہ و زاری کرے
وصف ہے اُس کا خوشی میں غم ، سکوں میں اضطراب
جو بھی عالم خود پہ دیوانہ ترا طاری کرے
موت سے جس کو محبت ہو دکھوں سے پیار ہو
چارہ گر اس شخص کی کیا دور بیماری کرے
یہ جہانِ بے بقا فاتحؔ وفا کرتا نہیں
حضرتِ دل سے کہو چلنے کی تیاری کرے
ویراں ہے میرا گھر آنگن میرے ساتھ رہو گے کیسے
وقفِ خزاں ہے میرا گلشن ، میرے ساتھ رہو گے کیسے
میلے کپڑے ، اُلجھے گیسو ، لب پر آہیں ، آنکھ میں آنسو
ٹوٹ چکا ہے دل کا درپن ، میرے ساتھ رہو گے کیسے
یاقوت و الماس نہیں ہے ، کچھ بھی میرے پاس نہیں ہے
پیسے ، کپڑے ، گہنے ، برتن ، میرے ساتھ رہو گے کیسے
ٹوٹا ایک ستارہ ہوں میں ، بے وقعت آوارہ ہوں میں
صحرا صحرا میرا مسکن ، میرے ساتھ رہو گے کیسے
فاتحؔ پیہم تیر لگے ہیں ، زخم ہوئے ہیں ، درد ملے ہیں
چھلنی چھلنی میرا تن من ، میرے ساتھ رہو گے کیسے
کچھ حسن مآب سجیلے سے ، پہنے کپڑے بھڑکیلے سے
کبھی عشوے سے کبھی غمزے سے دل لوٹتے ہیں ہر حیلے سے
اک شوخی ان کے ناز میں ہے اک جادو ہر انداز میں ہے
دراصل ہیں یہ چالاک بڑے ، گو لگتے ہیں شرمیلے سے
انہیں ساز کہیں مضراب کہیں ، مطرب سمجھیں کہ رُباب کہیں
ہیں شہد سے بھی بڑھ کر میٹھے یہ دلکش ہونٹ رسیلے سے
گوہر کی دمک ان پرقرباں ، بجلی کی چمک ان پر قرباں
ہو صدقے چاندنی جب دیکھے ، یہ دانت ترے چمکیلے سے
تا عمر وہ ہوش میں آ نہ سکے ، پھر دل کا پتہ کہیں پا نہ سکے
بھولے سے بھی جو انساں پی لے ، نینوں کے یہ جام نشیلے سے
تم بھول گئے ، ہیں یاد ہمیں ، ممکن ہی نہیں ہم بھول سکیں
وہ وعدے چند ادھورے سے ، وہ مدھم بول سریلے سے
بدلے گئے سب حالات جہاں ، وہ باغ کہاں وہ دشت کہاں
وہ پھول کہاں خوشبو والے ، وہ خار کہاں نوکیلے سے
اک ہم کہ ذرا تن آساں تھے ، تشنہ ہی رہے کچھ پا نہ سکے
مئے ناب مزے سے پیتے رہے ، وہ رِند کہ تھے پھرتیلے سے
ہر چند کہ ماتیں کھاتے ہیں ، پھر بھی فاتحؔ کہلاتے ہیں
گو زندگی اپنی پھیکی ہے ، لگتے ہیں مگر رنگیلے سے
رواں ہوئے ہیں جو آنکھوں سے اشک تھم تھم کے
ہیں شاخسانے تمہارے مزاجِ برہم کے
بہت عزیز مجھے ہے یہ تیرا آنچل بھی
مگر میں جاؤں تصدق وطن کے پرچم کے
تمام حرف جو دلکش الف سے ے تک ہیں
یہ سب کرشمے ہیں دراصل زُلف کے خم کے
نہ کروفر سے نہ عیش و طرب سے آلودہ
ہماری روح پہ احسان ہیں تِرے غم کے
تمہارے قرب و کرم کی دعا سدا مانگوں
اگر حروف ہوں معلوم اسمِ اعظم کے
مِرے مرض مِری تکلیف کا ازالہ ہو
میں انتظار میں کب سے ہوں ابنِ مریم کے
مِرے سخن کی اداسی قرینِ فطرت ہے
کہ میرے دل میں ہیں صدمات سارے عالم کے
ہماری خفتہ تمنائیں جاگ اٹھی ہیں
جناب آ کے تو دیکھو کمال موسم کے
ہے دل ہمارا بھی جامِ جہاں نما فاتحؔ
بہت فسانے ہیں مشہور ساغرِ جم کے
اداس ہے دل نہ کوئی جانے
ہے روح بسمل نہ کوئی جانے
جسے سمجھتا تھا میں مسیحا
وہی ہے قاتل نہ کوئی جانے
ستم کی لہروں کی زد میں آیا
ہے جسم ساحل نہ کوئی جانے
سدا ہے جاری سفر ہمارا
ہماری منزل نہ کوئی جانے
وفا وفا لوگ رٹ رہے ہیں
وفا کا حاصل نہ کوئی جانے
جفا نگر میں ہے کس کے دم سے
فروغِ محفل نہ کوئی جانے
اُنہی سے ہمدردیاں ہیں سب کو
ہماری مشکل نہ کوئی جانے
جو کہہ رہا ہے کہ میں ہوں عالم
وہی ہے جاہل نہ کوئی جانے
وہ ہم فقیروں پہ کیوں ہیں فاتحؔ
ستم پہ مائل نہ کوئی جانے
پائے الزام کبھی کھائے ہیں پتھر ہم نے
عمر کاٹی ہے جہاں مثلِ پیمبر ہم نے
پیار کا راز نہ کھل جائے جہاں والوں پر
اس لئے ہاتھ نہ رکھا کبھی دل پر ہم نے
فصلِ اُلفت نہ اُگی اِس میں کسی بھی رُت میں
دل زمیں پائی نہ ایسی کوئی بنجر ہم نے
اس میں ہمراز تھے ، نغمے تھے ، مہک تھی ، ضو تھی
آہ جھانکا نہ کبھی روح کے اندر ہم نے
کوئی آساں تو نہیں پیت سمندر کا سفر
ڈوبتے دیکھے یہاں کتنے شناور ہم نے
ہائے اُس شہر میں ہی تہمتِ ظلمات لگی
دن گزارے ہیں جہاں صورتِ نیّر ہم نے
حفظِ توقیر بھی تھا حسنِ طلب بھی فاتحؔ
عرض معروض نہ کی ہو کے سبک سر ہم نے
اگرچہ وقت نے دھُندلا دیئے یادوں کے آئینے
مگر شفّاف ہیں اب تک مِری سوچوں کے آئینے
تِری کیفّتِ دل کو سمجھ لینا نہیں مشکل
ترے لہجے پہ حاوی ہیں ترے لفظوں کے آئینے
ہمارا دل بھی جیسے دوستو آئینہ خانہ ہے
جدھر جائے نظر ، آئیں نظر داغوں کے آئینے
مِری صورت کسی میں بھی نظر آتی نہیں مجھ کو
مِرے چاروں طرف ہیں مختلف رنگوں کے آئینے
مجھے ڈر ہے کہیں قاتل مِرا رُسوا نہ ہو جائے
دکھاؤں میں زمانے کو اگر زخموں کے آئینے
صبا مجھ سے سحر دم پوچھتی ہے روز گلشن میں
یہ قطرے اَوس کے ہیں یا حَسیں پریوں کے آئینے
کسی میں عکس تیرا بھی نظر آئے مجھے شاید
لہٰذا رات بھر تکتا ہوں میں تاروں کے آئینے
یہ رَوزن ایک نعمت ہے مِرے تاریک زنداں میں
غنیمت ہیں میرے سورج تِری کرنوں کے آئینے
اسی سے پوچھنے جاؤں گا اب تعبیر میں فاتحؔ
وہ جس نے چُور کر ڈالے مِرے خوابوں کے آئینے
اُجڑتے لالہ زاروں کا نگہباں کون ہوتا ہے
یہ دیکھیں اس خزاں رُت میں غزل خواں کون ہوتا ہے
تمہارے شہر کے لوگوں نے جینا کر دیا دُوبھر
خوشی سے ورنہ پیوندِ بیاباں کون ہوتا ہے
جہاں ہر دم نیا طرزِ ستم ایجاد ہوتا ہو
وہاں اپنی خطاؤں پر پشیماں کون ہوتا ہے
یقیناً کوئی مجبوری ہمیں پردیس لائی ہے
وگرنہ بے نیازِ شہرِ جاناں کون ہوتا ہے
یہ انساں تو نہیں پتھر ہیں فاتحؔ رُوبرو تیرے
تِری رُودادِ غم سن کر پریشاں کون ہوتا ہے
ہمیں آزاد کرنا چاہتا ہے
جنوں سر سے اترنا چاہتا ہے
ہمارا گوسفندِ شوق و مستی
ترے جنگل میں چرنا چاہتا ہے
سوادِ شام کا شاہی مصور
سحر میں رنگ بھرنا چاہتا ہے
نہ کر اے چارہ گر تکلیفِ درماں
تِرا بیمار مرنا چاہتا ہے
مبارک ہو کہ وہ آکاش باسی
زمیں پر پاؤں دھرنا چاہتا ہے
عجب غمخوار ہے جو آنسوؤں کا
مِری آنکھوں میں جھرنا چاہتا ہے
نویدِ جانفزا پہنچے کہ فاتحؔ
جو بگڑا تھا سنورنا چاہتا ہے
مِری اداؤں میں ہر دم ظہور تیرا ہے
جو میرا جرم ہے وہ بھی قصور تیرا ہے
ابھی تو چند قدم ہی اٹھائے ہیں تو نے
بدن تکان سے کیوں چُور چُور تیرا ہے
تجھے جو فکر ہے یوں میری غم رسانی کی
جو میرا رنج ہے شاید سرور تیرا ہے
یہ دوریاں یہ خلیجیں تو بڑھتی جائیں گی
کہ سدِ راہ تقرب غرور تیرا ہے
مِرے نصیب کا عالم ہے تیری زلفوں میں
جو میرے دیدہ و دل میں ہے نور تیرا ہے
کسی کے ہاتھ سے کچھ بھی نہ لے گا تیرے سوا
فقیرِ سوختہ قسمت غیور تیرا ہے
زمانہ سمجھا ہے اس کو کمال فاتحؔ کا
جو کارنامہ ہے بین السطور تیرا ہے
ہیں منتظر مرنے والے کب سے نجانے قاتل کہاں گیا ہے
جنوں کا خرمن تو ہے نمایاں خرد کا حاصل کہاں گیا ہے
ہے چار سُو راج پانیوں کا محیط ہر سمت ہے سمندر
بھٹکتی پھرتی ہے کب سے کشتی سکوں کا ساحل کہاں گیا ہے
اے گلبدن لالہ رخ مسافر تجھے تو اس کا پتہ نہیں ہے؟
میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں کب سے مِرا جواں دل کہاں گیا ہے
کسی کو پروائے راہ کب ہے رہینِ مقصد نگاہ کب ہے
ہے شوقِ آوارگی فزوں تر مذاقِ منزل کہاں گیا ہے
ہے آج ویراں فضائے زنداں لگا نہیں کوئی نعرۂ ہُو
رہے دمکتے بدن پہ جس کے سدا سلاسل کہاں گیا ہے
تھی شاعری دلنواز جس کی ، تھی ناز ساماں نیاز جس کی
وہ شخص تھا جس کے دم قدم سے فروغِ محفل کہاں گیا ہے
کہیں ریاکار زیبِ مسند ، کہیں ہوس کیش میرِ مجلس
تھا زُہد و تقویٰ سے جو مزیّن وہ پیرِ کامل کہاں گیا ہے
سنو کہ وہ شوخ کہہ رہا ہے کوئی تو فاتحؔ کو ڈھونڈ لائے
وہ ایک انساں جو تھا خلوص و وفا کے قابل کہاں گیا ہے
نہ سایہ ہے نہ صبا ہے تو کیا تعجب ہے
یہ دشت ہے جو کڑا ہے تو کیا تعجب ہے
جنون حد سے بڑھے تو یہ حشر ہوتا ہے
نگاہ آبلہ پا ہے تو کیا تعجب ہے
تِرے فقیر کا انداز سرمدی سا تھا
اگر وہ قتل ہوا ہے تو کیا تعجب ہے
کسی کا ناخنِ تدبیر ہو گیا عاجز
زباں پہ حرفِ دعا ہے تو کیا تعجب ہے
عجب تو یہ ہے کہ خود غم کی دھوپ سہتا ہے
جو خود وہ ظلِ ہُما ہے تو کیا تعجب ہے
وہ جس نے دل میں مسرت کے گل کھلائے تھے
وہ زخم دے کے گیا ہے تو کیا تعجب ہے
مسیحِ عصر تھا فاتحؔ نقیبِ احساں تھا
سرِ صلیب سجا ہے تو کیا تعجب ہے
دکھ مسلسل مِرا مقدر ہے
درد پل پل مِرا مقدر ہے
بس اسی آس میں ہی زندہ ہوں
تیرا آنچل مِرا مقدر ہے
مینہ کی اِک بوند بھی نہیں برسی
بانجھ بادل مِرا مقدر ہے
زیست ہے سوگوار سمی سی
رنج راول مِرا مقدر ہے
کب ثریا کی رفعتیں میری
ریگِ مقتل مِرا مقدر ہے
میں کہ دریا مثال ہوں فاتحؔ
پیاس کا تھل مِرا مقدر ہے
کسی کو کیا خبر عیّار کتنا میرا قاتل ہے
وہ کر کے قتل اب میرے عزا داروں میں شامل ہے
بغاوت پھونک دی ہے وقت نے کیا دیدہ و دل میں
کہ اب میرا لہو میرا مخالف ہے مقابل ہے
میں اکثر خواب میں پاتا ہوں خود کو اک سمندر میں
کہ تا حدِ نظر جس میں جزیرہ ہے نہ ساحل ہے
یقیناً انقلابِ حال میں کچھ دیر لگتی ہے
مگر سچ ہے زمانہ محتسب ہے اور عادل ہے
تکلم بھی تغزل ہے تمہارا ذکر ہو جس میں
تمہاری یاد ہو جس میں وہ تنہائی بھی محفل ہے
ہوا عرصہ خلاصی پا چکے ہم طوق و جولاں سے
ابھی تک گونجتی کانوں میں آوازِ سلاسل ہے
نہیں پروا ہمارے درمیاں ہیں دوریاں حائل
یہ کیا کم ہے تصور میں تمہارا قرب حاصل ہے
یہ اک روشن حقیقت ہے یہ اک بھرپور سچائی
سوا مہر و محبت کے یہاں ہر نقش باطل ہے
دلاور ہے مگر محتاج ہے تیرے دلاسے کا
غنی جس کو سمجھتا ہے جہاں ، وہ تیرا سائل ہے
نہیں ساری خطا اس میں دلِ خوش فہم کی فاتحؔ
ستم یہ ہے تِری نہ بھی تِری ہاں کے مماثل ہے
نگاہِ شوق تِرے خد و خال میں گم ہے
شعورِ حسن شگفتِ جمال میں گم ہے
نہ ہے کنائے پہ قانع نہ استعارے پر
وہ بے مثال تلاشِ مثال میں گم ہے
نہ رنجِ دوش ہے اس کو نہ فکرِ فردا ہے
عجیب شخص ہے تہذیبِ حال میں گم ہے
ہوس پرست ہے دشتِ ہوس میں گم گشتہ
خلوص کیش وفا کے وبال میں گم ہے
میں کم نظر ہوں شب و روز میں ہوں مستغرق
ذرا مہان ہے وہ ماہ و سال میں گم ہے
تمہاری یاد کی دولت ہے اس کا سرمایہ
دلِ غریب تمہارے خیال میں گم ہے
گئی شگفتہ مزاجی نہ تیرے فاتحؔ کی
اگرچہ روز عذابِ ملال میں گم ہے
وہ شام تھی یا وقتِ سحر یاد نہیں ہے
لُوٹا گیا کب دل کا نگر یاد نہیں ہے
بجلی تھی کہ پیکانِ نظر یاد نہیں ہے
کچھ باعثِ تخریبِ جگر یاد نہیں ہے
تھم تھم کے برستے ہوئے کیا شرم نہ آئی
اے ابر ، مِرا دیدۂ تر یاد نہیں ہے
ہر چند کہ صد چاک ہے دل فرطِ الم سے
لب پر کوئی شکوہ ، کوئی فریاد نہیں ہے
اک تیرا تجسس لئے پھرتا ہوں شب و روز
تُو یاد ہے جب سے مجھے گھر یاد نہیں ہے
ہر بات تجھے یاد ہے اے جانِ تمنا
اِک وصل کا پیمان مگر یاد نہیں ہے
اِک ذوقِ سفر ہے کہ لئے جاتا ہے فاتحؔ
سچ پوچھو تو مقصودِ سفر یاد نہیں ہے
چھائی ہے سیہ رات سویرا تو نہیں ہے
ظلمت کا تسلط ہے اُجالا تو نہیں ہے
ممکن ہے کہ اب بھی ہو شرارہ کوئی باقی
خاکسترِ جاں تم نے کُریدا تو نہیں ہے
گہنا تو گیا ہے یہ تِرے طرزِ عمل سے
سورج میرے اخلاص کا ڈوبا تو نہیں ہے
بیمار ہوئے جس کی مسیحائی کی خاطر
وہ شخص ہمیں دیکھنے آیا تو نہیں ہے
وہ دلبرِ مغرور ہے مائل بہ عنایات
یہ واقعہ فاتحؔ کوئی سپنا تو نہیں ہے
ختم سوز و کاہش و غم کا سفر ہونے کو ہے
قافلے والوں پہ رحمت کی نظر ہونے کو ہے
یوسفِ گم گشتہ پھر ملنے کو ہے یعقوبِ جاں
مژدہ ہو مژدہ علاجِ چشمِ تر ہونے کو ہے
ہونے والا ہے عصائے موسیٰ پھر معجز نما
سامری کا سحر یکسر بے اثر ہونے کو ہے
ظلمتِ شب ہونے والی ہے گریزاں عنقریب
شب گزیدوں کو خبر کر دو سحر ہونے کو ہے
اہلِ کشتی کو ہو خوشخبری کہ ہے قربِ نجات
ختم بحرِ قہر کا مد و جزر ہونے کو ہے
پیش قدمی ہی کئے جاؤ جلا کر کشتیاں
ساتھیو ہمت کرو میدان سر ہونے کو ہے
اہلِ عالم ہو گئے تذلیلِ انساں کے خلاف
پھر جہاں میں کارِ توقیرِ بشر ہونے کو ہے
ہو بشارت ٹوٹنے کو ہے حصارِ تیرگی
ایک نابینا مسافر دیدہ ور ہونے کو ہے
پانے والے ہیں حقیقی دادِ فن اہلِ سخن
آج فاتحؔ معتبر اپنا ہنر ہونے کو ہے
تِری پلکیں ، تِری نظریں کہیں ناوک فگن تُو ہے
تِرے ابرو گواہی دیں کہ اِک شمشیر زن تُو ہے
تِرے چشم و لب و رخسار و گیسو اس کے شاہد ہیں
مجھے سیمابیت بخشی ہے تُو نے سیم تن تُو ہے
تِرے دم سے ہے رنگ و نور و نگہت کی فراوانی
مہک غنچے کی تُو ہے اور سورج کی کرن تُو ہے
تِرا حُسنِ جہاں آرأ بہر سُو جلوہ پیرا ہے
جمالِ شعر و نغمہ تُو ، گھٹا تُو ہے ، پون تُو ہے
احاطہ کیا کریں اے دل نشیں تیری لطافت کا
نویدِ فصلِ گل ، کیف صبا ، جانِ چمن تُو ہے
رہوں ہر دم نہ کیوں رطب اللساں توصیف میں تیری
مِرا حُسنِ بیاں تُو ہے ، مِرا اعجازِ فن تُو ہے
تِرے صدقے مِری ہر آرزو ہر آس ہر خواہش
حسین انداز تُو ، دلکش ادا ، موہن چلن تُو ہے
کسی کا چین لُٹتا ہے ، کسی کی نیند اُڑتی ہے
خبر کیا ہو تجھے اپنی ہی مستی میں مگن تُو ہے
گریباں چاک ہے فاتحؔ نہ دامن چاک ہے تیرا
تُو دیوانہ ہے کیسا بے نیازِ دشت و بن تُو ہے
زخم کھانا مِرا وظیفہ ہے
غم چھپانا مِرا وظیفہ ہے
سرفروشی ہے میری فطرت میں
جاں لُٹانا مِرا وظیفہ ہے
اس کو آوارگی نہ تم سمجھو
آنا جانا مِرا وظیفہ ہے
پوچھتے ہو سبب تبسم کا
مسکرانا مِرا وظیفہ ہے
چاہے جو حال ہو مِرے دل کا
ہنسنا گانا مِرا وظیفہ ہے
بجلیاں باز رکھ نہیں سکتیں
گھر بسانا مِرا وظیفہ ہے
پیش کرتا ہوں میں بشارت بھی
ڈر سُنانا مِرا وظیفہ ہے
میں ہوں بلبل بہار ہو کہ خزاں
چہچہانا مِرا وظیفہ ہے
ایک ہستی کے سامنے فاتحؔ
سر جھکانا مِرا وظیفہ ہے
کبھی حالات پر خوش کامیِ تدبیر ہنستی ہے
کبھی تدبیر پر جباریِ تقدیر ہنستی ہے
وفا کو وجد آتا ہے شرافت ناز کرتی ہے
ہماری بے گناہی جب دمِ تعزیر ہنستی ہے
فروغ زیست پر فقدانِ مقصد کی ردائیں ہیں
کتابِ زندگی پر بے محل تفسیر ہنستی ہے
ندامت بھی مجھے ہوتی ہے گو عفوِ مسلسل پر
کسی کی زُود رنجی پر مِری تقصیر ہنستی ہے
تصدق تیری زُلفوں پر شبِ تیرہ سہی لیکن
اُتر کر تیرے فرقِ ناز پر تنویر ہنستی ہے
انوکھی فکر ہے جس فکر کا حاصل ہے بے فکری
نرالا خواب ہے جس خواب پر تعبیر ہنستی ہے
یہ ہے لاعلم فاتحؔ عزمِ آہن تاب سے میرے
اگرچہ دیکھ کر نازک بدن شمشیر ہنستی ہے
توُ خاکی ہے تِرا پندار ناری ہے نہ نوری ہے
لہٰذا عاجزی تیرے لئے بے حد ضروری ہے
اثر ہے جوہرِ سیماب کا تیری طبیعت میں
تِری فطرت میں شامل بے قراری ناصبوری ہے
دلوں میں اِک خلش ہے تشنۂ تکمیل رہنے کی
تِرا قصہ مکمل ہے نہ میری بات پوری ہے
اگرچہ تیری کاوش میری محنت سے بہت کم ہے
مِرے حصے میں فاقہ ہے تیرے حصے میں چُوری ہے
نہ پوچھو خواہشِ قربت نے کیا کیا دن دکھائے ہیں
کبھی مخلوق سے دُوری کبھی خالق سے دُوری ہے
جگایا دوستوں کو خود بھی میں جاگا بہت فاتحؔ
مگر صد حیف اب تک داستاں میری ادھوری ہے
ساقی تیرے سپنے کی تعبیر ضروری ہے
اِک شیش محل کرنا تعمیر ضروری ہے
لوہے کی وہ کڑیاں ہوں یا زُلف کے حلقے ہوں
دیوانہ ہے دیوانہ زنجیر ضروری ہے
ابلاغِ مؤثر کے دو ہی تو ذریعے ہیں
تحریر ضروری ہے ، تقریر ضروری ہے
ایسا نہ ہو کہلائے ہر شخص وفا پرور
تقصیرِ محبت پر تعزیر ضروری ہے
تُو اُس کا سہارا ہو ، وہ تیرا سہارا ہو
ہمراہ تِرے کوئی رہگیر ضروری ہے
تارا بھی غنیمت ہے جیسے شبِ تیرہ میں
یوں چشمِ سیہ گوں میں ، اِک نیر ضروری ہے
اے کاش اُنہیں فاتحؔ یہ بات سمجھ آئے
جب شوقِ تغیر ہو تغیئر ضروری ہے
یہ بتاؤ کہ ہوئی ہم سے خطا کیسی ہے
روز و شب تم سے جو ملتی ہے سزا کیسی ہے
کیسے مانوں کہ تِرے دل میں غمِ ہجر نہیں
تیری آنکھوں میں یہ اشکوں کی گھٹا کیسی ہے
اپنے بیمار کی شہہ رگ پہ وہ خنجر رکھ کر
مسکراتے ہوئے کہتے ہیں دوا کیسی ہے
کوئی قدغن کوئی جھڑکی کوئی تعزیر نہیں
سچ بتاؤ مِرے صحرا کی فضا کیسی ہے
بے سبب آج یہ الطاف و عنایت کیوں ہے
اپنے فاتحؔ پہ یہ بے وجہ عطا کیسی ہے
جنوں میں جو کئے گئے وہ فیصلے عجیب تھے
جو لُٹ کے مطمئن رہے وہ منچلے عجیب تھے
کبھی کرم ، کبھی ستم ، کبھی خوشی ، کبھی الم
خلوص کے سفر کے سارے مرحلے عجیب تھے
قصورِ شوق ڈھے گئے نقوشِ حُسن مٹ گئے
بپا تھے کوہِ ذات میں جو زلزلے عجیب تھے
نہ راستوں کا علم تھا نہ منزلوں کی تھی خبر
جو یوں ہی گھومتے رہے وہ قافلے عجیب تھے
جنابِ حُسن کے لئے جو دردِ سر بنے رہے
زمانۂ شباب کے وہ مسئلے عجیب تھے
زیاں پہ اپنے خندہ زن دُکھوں پہ اپنے شادماں
پھنسے تھے دامِ عشق میں جو دل جلے عجیب تھے
خیالِ یار میں مگن وصالِ یار کی لگن
وہ ابتدائے دوستی کے ولولے عجیب تھے
نہ جیت کی خوشی کوئی نہ کچھ ملال ہار کا
اے فاتحؔ فقیر وہ مقابلے عجیب تھے
تُو خوش رہے سُرور کی محفل سجی رہے
پھولوں سے روز و شب تیری منزل سجی رہے
پھر کوئی شب ہو کوئی اندھیرا ہو غم نہیں
نظروں میں صورتِ مہِ کامل سجی رہے
لائے جنوں کو سوز کا سنگیت وجد میں
زنجیرِ ہجر پاؤں میں اے دل سجی رہے
ہو جائے جو محیط محیطِ عمیق پر
وہ تشنگی مِری سرِ ساحل سجی رہے
خنجر بھی سُرخرو رہے مقتل بھی لالہ رنگ
فاتحؔ کے خون سے کفِ قاتل سجی رہے
جب سویرا خیال میں آئے
حُسن تیرا خیال میں آئے
جب بھی دیکھوں دیارِ پسماندہ
اپنا ڈیرا خیال میں آئے
خط میں کچھ راکھ ڈال دوں تاکہ
سوز میرا خیال میں آئے
عمر بھر کا سفر ہے قسمت میں
کیا بسیرا خیال میں آئے
چشم و دل میں دیئے جلیں فاتحؔ
کیوں اندھیرا خیال میں آئے
خود کو دیوانہ بنایا جائے
اہلِ دُنیا کو ہنسایا جائے
قصرِ دل اِس سے ہے روشن روشن
غم کا دیپک نہ بجھایا جائے
اور چوری کوئی اچھی نہ لگے
دل ہی لوگوں کا چُرایا جائے
تُو ہے نزدیکِ رگِ جاں تو کوئی
کیوں سرِ طور خدایا جائے
اب تو ہم تھک بھی چکے ہیں فاتحؔ
بارِ ہستی نہ اُٹھایا جائے
شگفتہ بات کرو کچھ کہ وقت کٹ جائے
کہیں نہ فرطِ الم سے دماغ پھٹ جائے
سمیٹ لوں کبھی یوں اپنے بازوؤں میں تمہیں
چمن میں پھول سے جیسے صبا لپٹ جائے
تُو کر سکے گا مِرے کربِ جاں کا اندازہ
مِری طرح جو تِرا بھی وجود بٹ جائے
میں آہ بھی نہ کروں اشک بھی نہ برساؤں
جگر کا درد مگر شعر میں سمٹ جائے
مجھے ہے منزلِ جاناں کی جستجو فاتحؔ
غمِ جہاں سے کہو راستے سے ہٹ جائے
تُو اگر بے حجاب ہو جائے
چاندنی آب آب ہو جائے
دیدۂ تر سحاب ہو جائے
داغِ حسرت شہاب ہو جائے
غم بڑھے تو شراب ہو جائے
خانۂ دل خراب ہو جائے
اِک حقیقت بنے وصال کا خواب
ہجر کی رات خواب ہو جائے
چاند سورج نہ کیسے گہنائیں
تُو جو زیرِ نقاب ہو جائے
جاں کبھی تو گناہ سے چھُوٹے
کچھ تو کارِ ثواب ہو جائے
ہم تو مانیں گے پھر تجھے فاتحؔ
تُو اگر کامیاب ہو جائے
٭٭٭
تشکر: جلیل ٍحیدر لاشاری اور ناصر ملک جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی
ان پیج سے تبدیلی ، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید