FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

محبس نامہ

               سعدی

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچائے۔

آج بھی ’’جیل‘‘ اور قید خانے کی بات کرتے ہیں۔یہ وہ موضوع ہے جو قرآن پاک نے اٹھایا ہے اور ’’قرآن مجید‘‘ میں ’’اَلسِّجْنْ‘‘ یعنی جیل کا لفظ چھ ﴿۶﴾ بار آیا ہے۔

اس لئے کم از کم چھ کالم اس موضوع پر لکھنے چاہئیں۔فی الحال دو پر اکتفاء کرتے ہیں۔کوشش ہو گی کہ آج ان شاء اللہ یہ موضوع سمٹ جائے۔

وحشت ناک سزائیں

یورپ کے دو ٹانگوں والے حیوانات نے یہ شور مچا رکھا ہے کہ۔اسلامی سزائیں وحشت ناک ہیں۔جبکہ ’’جیلوں‘‘ کا موجودہ نظام انسانی حقوق کے عین مطابق ہے۔

استغفر اللّٰہ، استغفر اللّٰہ، استغفر اللّٰہ

اب سنئے! ایک شخص نے چوری کی۔کیا چوری کرنا وحشت ناک عمل نہیں ہے؟

اسلامی حکم کے مطابق اس شخص کو پکڑا گیا،چند دن الزام کی تحقیق کے لئے اسے ’’قید‘‘ رکھا گیا، الزام ثابت ہوا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا۔کیا یہ وحشت ناک عمل ہے؟یہ شخص اپنے اس ہاتھ سے تو ضرور محروم ہوا جو ہاتھ ’’خائن‘‘ ہو چکا تھا۔ایسا ہاتھ سلامت رہتا تو معلوم نہیں کتنے گھر اجاڑ دیتا،کتنے عزت مندوں کو رسوا کر دیتا، کتنی معصوم بیٹیوں کو بھکاری بنا دیتا۔ہاتھ کٹ گیا خود اس کے لئے بھی عبرت کا سامان ہوا اور دیکھنے والوں کے لئے بھی۔اب کوئی چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔اور یہ شخص واپس اپنے بیوی بچوں میں آ گیا۔ایک شرمندگی اس کے ساتھ ضرور لگی ہے لیکن اگر وہ اپنی حالت بدل لے تو لوگ اس کے کٹے ہاتھ کو بھی چومیں۔کتنے بڑے بڑے گناہگاروں نے جب سچی توبہ کر لی تو مخلوق کے ’’محبوب‘‘ بن گئے۔اب یہ شخص اپنے گھر والوں اور بچوں کی دیکھ بھال کر سکتا ہے۔ان کی تعلیم و تربیت اور روزی کا بندوبست کر سکتا ہے۔اور یوں درجنوں افراد بے آسرا اور بے سہارا ہونے سے بچ گئے۔

اب دوسرا منظر دیکھیں۔اس چور کو پکڑ لیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔چار پانچ سال اس کا کیس ٹرائل ہو گا۔یہ چور اس دوران جیل میں کئی دیگر افراد کو چوری کا فن سکھادے گا۔مقدمہ لڑنے اور وکیلوں کی فیس دینے کے لئے اس کے گھر والے یا تو زیور بیچیں گے یا مکان فروخت کریں گے یاکسی جرم کے ذریعے پیسہ کمائیں گے۔وہ آٹھ دس سال جیل میں گذارے گا۔اس دوران اگر اس کے گھر کا ماحول دینی اور خاندان کا نظام مستحکم نہیں تو اس کے زیر کفالت افراد طرح طرح کے جرائم اور برائیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔اس کے بچے معاشرے میں مجرم بن جائیں گے۔اور یوں چوری کے ایک جرم سے ہزار جرائم جیل کے اندر اور باہر جنم لیتے جائیں گے۔ہاں!جب دین فطرت سے ہٹ کر حیوانی طریقوں کو ’’انسانی حقوق‘‘ سمجھ لیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے اور آج ساری دنیا اسی طرح کے نتائج کو بھگت رہی ہے۔اور چوری اتنی عام ہو گئی کہ کئی حکمران تک چور بن گئے ہیں۔کیا یہ سب کچھ خوفناک اور وحشت ناک نہیں ہے؟۔

پہلی جیل

ہمارے اسلامی مورخین اور فقہاء کرام کے ہاں یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے کہ اسلام میں ’’جیل‘‘ کا تصور ہے یا نہیں؟۔اور اگر ہے تو کسی انسان کو زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ قید میں رکھا جا سکتا ہے؟۔سبحان اللہ! کیسا پیارا دین ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک دو ماہ ۔یا جب بھی مجرم توبہ کر لے۔

ترمذی کی روایت ہے: رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو کسی الزام میں روک لیا اور پھر اسے چھوڑ دیا۔بس اتنی سی قید۔علامہ ابن الہمام(رح) نے ’’فتح القدیر‘‘ میں تحقیق فرمائی ہے کہ۔رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں ’’جیل‘‘ نہیں تھی۔سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں صفوان بن امیہ کا گھر چار ہزار درہم میں خرید کر اسے ’’قید خانہ‘‘ بنایا۔کچھ دن کے لئے بعض جرائم پر کسی انسان کو کسی جگہ روک لینا یا پابند کر دینا۔یہ اسلام میں منع نہیں ہے۔مثلاً کسی پر الزام لگا۔اب الزام کی جلد تحقیق تک اسے پابند کرنا۔کسی نے قرضہ لیا اور اب ادا نہیں کر رہا حالانکہ ادائیگی کی طاقت رکھتا ہے۔ایسے شخص کو چند دن کے لئے یا قرض کی ادائیگی تک ’’بند‘‘ کر دینا۔کوئی شخص فتنہ فساد اور گمراہی پھیلا رہا ہے،اسے چند دن بطور تنبیہ ’’بند‘‘ کر دینا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شاعر ’’حطیئۃ‘‘ کو اس کے غلط اشعار پر تنبیہ کے لئے ’’بند‘‘ فرما دیا۔شاعر جی کا دماغ فوراً ٹھیک ہو گیا،چند اشعار لکھ کر حضرت کی خدمت میں بھیجے۔مفہوم یہ تھا کہ۔حضرت ! اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے،ان چھوٹے چھوٹے چوزوں کا کیا بنے گا،جن کے پاس نہ خوراک ہے،نہ پانی اور ان کا کھلانے پلانے والا بند کر دیا گیا ہے۔یعنی اس نے اپنے بچوں کا رونا رویا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فوراً رہا فرما دیا۔

دوسری جیل

کہتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک جگہ بطور وقتی قید خانہ تعمیر کروائی۔بالکل کھلی،روشنی والی اور ہر طرح سے با سہولت۔اور اس کا نام ’’النافع‘‘ رکھا یعنی نفع پہنچانے والی جگہ۔کیونکہ مقصد قیدیوں کی اصلاح تھا۔خلافت راشدہ کے دور میں بس یہی نظام چلتا رہا۔حضور پاکﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں۔کسی کی وقتی قید کے لئے کوئی خاص جگہ نہیں تھی۔

بعض افراد کو مسجد میں بند کر دیا جاتا تھا۔اسلام میں ’’مسجد‘‘کا بہت وسیع نظام ہے۔ایک بزرگ نے اس پر بہت تفصیلی کتاب لکھی ہے۔اسلام کا نظام مساجد از قلم مفتی ظفیر الدین صاحب۔حیرت ہے ان مسلمانوں پر جو مسجد میں اپنی مخصوص اجارہ داری قائم کر کے لوگوں کو عبادات سے روکتے ہیں۔درس شروع ہو گیا تو اب ہر کوئی ذکر چھوڑے،نماز بند کرے،تلاوت روک دے اور درس میں حاضر ہو۔کیا کوئی درس فرض کے درجے تک جا پہنچا ہے؟؟۔تعلیم شروع ہوئی تو اب نہ کوئی نماز پڑھے،نہ ذکر و تلاوت کرے۔کیا تعلیم فرض ہے؟۔یاد رکھیں! کسی بھی عمل کی اہمیت اس کی شرعی حدود سے بڑھانا ’’الحاد‘‘ اور بد دینی ہے۔رسول کریمﷺ کے زمانہ میں مسجد نبوی شریف میں کوئی نماز میں لگا رہتا،کوئی ذکر میں گم ہوتا،کوئی تعلیم و تعلم کا حلقہ سجاتا اور کوئی تلاوت میں مست رہتا۔کوئی بھی کسی کو نہیں روکتا تھا۔اور مسجد کی شان یہی ہے کہ اس میں جہادی تشکیلات سمیت یہ تمام اعمال زندہ رہیں۔کسی پانچ وقت کے پختہ نمازی کو اس لئے حقیر سمجھنا یا طعنہ زنی کا نشان بنانا کہ وہ ’’تعلیم‘‘ میں نہیں بیٹھتا۔یہ خود ایک خطرناک جرم ہے۔اور ایسا کرنے والے لوگ’’مساجد‘‘ پر ظلم کرتے ہیں۔مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اور مساجد پر ظلم کرنا بہت ہی برا عمل ہے۔آپ درس دیتے ہیں،یا تعلیم کراتے ہیں تو بہت اچھا۔آپ لوگوں کو مثبت ترغیب دیں کہ وہ آپ کے ساتھ بیٹھیں۔کوئی نہیں بیٹھتا اور دوسری عبادات میں لگا رہتا ہے تو آپ اسے تنگ نہ کریں اور نہ ہی اسے اپنے سے کم تر سمجھیں۔یاد رکھیں اگر آپ کی ناجائز شدت کی وجہ سے کوئی ایک شخص بھی مسجد سے محروم ہوا تو یہ جرم آپ کے سارے نیک اعمال کو کھانے کے لئے کافی ہے۔اسی طرح آپ مسجد میں کوئی ایسا عمل نہ کریںجس سے نمازیوں کو تکلیف ہو یا ان کی نمازوں میں خلل ہو۔تلاوت آہستہ آواز سے کریں۔ذکر میں بھی آواز ایسی بلند نہ کریں کہ نمازیوں کی نماز خراب ہو۔گندے اور بدبو دار لباس کے ساتھ مسجد نہ جائیں۔کوئی سخت کراہیت آمیز بیماری لگی ہو۔ایسی بیماری جس سے لوگ گھن کھاتے ہیں تو آپ گھر میں ہی نماز ادا کر لیں مسجد نہ جائیں۔آپ کا یہ عمل مسجد آباد کرنے کے ثواب میں لکھا جائے گا،حالانکہ آپ نے نماز اپنے گھر میں ادا کی ہے۔لیکن اگر اس بیماری کے ساتھ مسجد گئے اور آپ کی وجہ سے کچھ لوگ مسجد آنا بند ہو گئے تو آپ نے مسجد کو ویران کرنے والا عمل کر ڈالا۔بھائیو! مساجد سے دل جوڑو،مساجد سے رشتہ بناؤ،مساجد سے محبت کرو،مساجد کو آباد کرو اور مساجد کی ہر طرح سے خدمت کرو۔عارضی قیدیوں کو رکھنے کا ایک طریقہ تو یہی تھا کہ مساجد میں رکھ لیا جاتا تھا۔دوسرا طریقہ گھروں کی دہلیز میں رکھنے کا تھا۔اس زمانے گھر کے دروازے اور صحن کے درمیان کچھ جگہ ہوتی تھی اسے ’’دہلیز‘‘ کہتے تھے۔تیسرا طریقہ اپنے گھر میں نظربندی کا تھا جس کا تذکرہ سورۃ النساء میں موجود ہے۔اور ایک طریقہ ترسیم کا تھا۔اس میں دائرہ بنایا جاتا تھا۔اور ایک طریقہ لزوم کا تھا کہ حقدار کو مسلسل اس کے پیچھے لگا دیا جاتا تھا۔یہ بس مختصر خاکہ ہے تفصیل آپ تاریخ اور فقہ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

اسلامی قید خانوں کا اصل دستور۔حضرت عمر بن عبد العزیز(رح) کے دور میں بطور ’’دیوانی قانون‘‘  جاری کیا گیا۔اس کے چند اہم نکات یہ تھے۔

﴿۱﴾ قیدیوں کو ان کے جرم کے مطابق الگ الگ رکھا جائے۔مثلاً قرض ادا نہ کرنے والوں کو چوری کرنے والوں کے ساتھ ہرگز خلط نہ کیا جائے۔

﴿۲﴾ تمام قیدیوں کو گرمی اور سردی کی الگ غذا اور ان موسموں کے موافق لباس دیا جائے۔

﴿۳﴾ بیمار قیدیوں کا خاص خیال رکھا جائے، ان کے علاج وغیرہ کی ترتیب رہے

﴿۴﴾ کسی قیدی کو اس طرح سے نہ قید کیا جائے کہ اسے ’’اقامت صلوۃ‘‘میں دشواری یا تنگی ہو۔وغیرہ

خوفناک جیلیں

آپ نے پڑھ لیا کہ۔اسلام میں لمبی قید اور آج کل جیسی جیلوں کا کوئی تصور نہیں۔بس کسی شخص کو بہت تھوڑے اور محدود وقت کے لئے ’’بند‘‘ رکھا جا سکتا ہے، پہلے اس کے لئے کوئی جگہ مخصوص نہیں تھی۔مگر بعد میں افراد اور آبادی کے اضافے کی وجہ سے بعض جگہیں مخصوص کی گئیں۔ہم ایسی جگہوں کو ’’سجن‘‘کی جگہ’’محبس‘‘ کہہ سکتے ہیں۔اور اسلام میں ان جرائم کی تعداد بہت محدود ہے جن میں کسی کو تھوڑے عرصے کے لئے بھی بند رکھا جا سکے۔کسی نے کل تین جرائم لکھے ہیں اور کسی نے پانچ سات۔حضرت امام احمد بن حنبل(رح) سے بعض مجرموں کو قید کرنے کی اجازت کا فتوی مانگا گیا تو انکار فرما دیا۔لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا: ان کے گھروں میں ان کی بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔

یہ تو ہے اصل اسلام۔لیکن خود کو مسلمان کہنے والے بعض حکمرانوں نے بڑی خوفناک جیلیں بنائیں۔حجاج بن یوسف کے مظالم میں سے ایک ظلم اس کی وہ ’’جیل‘‘ بھی ہے جس میں وہ ہزاروں مسلمانوں کو بند رکھتا تھا اور ان قیدیوں کی تسبیح اور آہ و بکا سے پورا شہر لرزتا تھا۔مصر پر جب رافضیوں کے فرقے ’’فاطمیہ‘‘ کی حکومت آئی تو انہوں نے بڑی دہشت ناک جیلیں بنائیں لوگ ان جیلوں کو ’’سرخ جہنم‘‘ کہتے تھے۔گوانتاناموبے اور ابو غریب جیسی۔وہاں قیدیوں کو بڑے دردناک حالات میں رکھا جاتا تھا اور ان سے سخت مشقت لی جاتی تھی۔شام میں بشار الاسد نے آج کل ایسی ہی جیلیں قائم کر رکھی ہیں۔

قصہ مختصر

یہ سب ہوئی عام باتیں۔اصل یہ کہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے ان تفصیلات میں کیا سبق ہے؟۔ لیجیے ایک مختصر نصاب:

﴿۱﴾ ہم پر لازم ہے کہ ہم دنیا بھر میں موجود جیلوں کے موجودہ ’’غیر انسانی‘‘نظام سے نفرت کریں۔گناہ اور برائی سے نفرت کرنا ایمان کا تقاضا ہے

﴿۲﴾ ہم خصوصی طور پر اسیر مجاہدینِ اسلام کی با عزت رہائی کے لئے دعاء کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں۔کوئی دن ایسا نہ گزرے جس میں ہم نے’’اسیران اسلام‘‘کے لئے دعاء نہ کی ہو۔اسی طرح تمام بے گناہ قیدیوں کی رہائی کی دعاء بھی کرتے رہیں۔اور اسیران اسلام کی رہائی کے لئے۔جہادی اور مالی طور پر جو کچھ کر سکتے ہوں کر گزریں۔اس عظیم عمل کے فضائل آپ۔فضائل جہاد میں پڑھ سکتے ہیں

﴿۳﴾ اسیران اسلام۔اور مسلمان قیدیوں کے گھر والوں اور بچوں کا حرمت اور احترام کے ساتھ خیال رکھیں۔جس طرح کہ ہم اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔آج اس بارے میں مسلمانوں میں بہت کوتاہی پائی جاتی ہے

﴿۴﴾ ہم جیل،ہتھکڑی اور کوڑوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دعا ہے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُ بِکَ مِنَ السِّجْنِ وَالْقَیْدِ وَالسَّوْطِ

یا اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں قید خانے،ہتھکڑی اور کوڑے سے

﴿۵﴾ ہم جیل اور قید کا خوف اپنے دل میں نہ بٹھائیں۔حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام نے جیل کاٹی،حضرات صحابہ کرام نے قیدیں کاٹیں۔امت کے ائمہ کرام جیلوں میں بند رہے۔ان سب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ فضل اور رحمت والا تھا۔معلوم ہوا کہ بعض اوقات یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا ایک رنگ ہوتا ہے کہ انسان جیل چلا جائے۔اس لئے جیل اور قید کے خوف سے دین کا کام چھوڑنا،جہاد فی سبیل اللہ سے محروم ہونا یا حق کے بارے میں مداہنت اختیار کرنا درست نہیں۔

﴿۶﴾ کبھی جیل جانا پڑے تو’’حسن یوسف‘‘ سے روشنی لیں۔حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام نے خود ’’جیل‘‘ مانگی۔کیونکہ گناہ اور بد دینی میں مبتلا ہونے سے جیل جانا بہتر ہے۔اور جیل میں دین کی دعوت کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

بس جیل کو خوبصورت بنانے اور اپنی قید کو ’’اعتبار افزا‘‘ بنانے کا ایک نکاتی نصاب ’’دین کی دعوت‘‘ ہے۔جو یہ کر لے جیل اُس کے لئے نعمت۔اور جو یہ نہ کرے جیل اُس کے لئے بڑی مصیبت۔سورۃ یوسف میں غور فرمائیں یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے گا۔ان شاء اللہ

﴿۷﴾ آپ میں سے اللہ تعالیٰ کسی کو کبھی حکومت یا اقتدار دے تو اپنے زیر انتظام علاقے میں جیلوں کے موجودہ غیر انسانی نظام کو ختم کرنے اور اسلام کا پاکیزہ نظام مقرر کرنے کے اقدامات کرے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www۔alqalamonline۔com/index۔php/colorpage/rangonoor-saadi-k-qalam-say-urdu#sthash۔XHlX7mSJ۔dpuf

 تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید