FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

لمبی لڑکی

 

 

 

                راجندر سنگھ بیدی

 

 

 

 

لمبی لڑکی

 

آخر جب مُنّی سو ہی پانچ فٹ آٹھ اِنچ کی ہو گئی، تو دادی رُقمن نے اپنا سر پیٹ لیا۔

’’ارے! —— میں تیرے لیے بَر کہاں سے گھڑا کے لاؤں گی؟‘‘ وہ اپنے ڈھائی بال نوچتے ہوئے بولی، اور اب کے سچ مچ روتی ہوئی وہ اپنے ڈھیلے ڈھالے، بوڑھے اور بیمار پلنگ میں پیچھے کی طرف یوں جا دھنسی جیسے کُلھڑ سے پانی چھلک کر کچّی زمین میں کہیں گُم ہو جاتا ہے۔

مُنّی سو ہی کیا جواب دیتی؟ اس نے پہلے اپنی طرف دیکھا اور پھر بے بسی میں دادی رُقمن کی طرف ۔ جیسے وہ کہہ رہی تھی —— اس میں میرا کیا قصور؟ …… مُنّی تو اپنی لمبان سے آپی شرمندہ تھی ،جیسے جوانی کی ناگہانی یورش کے بعد ہر کنواری گھبرا اٹھتی ہے۔ کوئی پوچھے جب پیڑ پر پھل لگتے، پکتے ہیں تو کیا پیڑ گھبرانے، شرمانے لگتا ہے؟

پلنگ کے پاس اخروٹ کی ایک تپائی رکھی تھی جس پر عقیدت کے رنگوں سے کڑھا ہوا ایئرٹیکس کا ایک کپڑا پڑا تھا اور اس کے اُوپر پانڈوؤں کے زمانے کی، پرانے چھاپے کی ایک گیتا، جس کے پنّے کھلے ہوئے تھے اور ہَوا میں اُڑ رہے تھے۔ گیتا ہمیشہ دادی کے سرہانے پڑی رہتی۔ ہاں، دادی کا کیا پتہ؟—— اب ہو تب نہ ہو ۔ بیاسی برس کی عمر تھی اس کی، اور جہاں گھر اور اس تیلی محلّے کے لوگوں کی بے آسی بڑھتی جا رہی تھی، دادی ماں کی اُمیدیں جوان ہو رہی تھیں۔ وہ کچھ نہیں تو کم سے کم اتنا ہی اور بیاسی سال اور جینا چاہتی تھی، جیسے ابھی کوئی سواد نہیں آیا۔ آیا ہے تو ابھی آیا ہے۔ اس کی دھُندلی مگر بے چین آنکھیں نہ معلوم اور کس وچتر گھٹنا کو ڈھونڈتی تھیں؟ مُنھ کس ذائقے، چٹخارے کی تلاش میں تھا؟ اس کا چہرہ پیڑ پر سے گرے ہوئے پیپل کے پتّے کی طرح تھا، جس میں رگوں اور ریشوں کا ایک جال سا نظر آتا تھا، ہریالی کہیں نام کو نہ تھی۔

دادی رُقمن کی ہریالی کہیں نہ کہیں ضرور اٹکی ہوئی تھی۔ دورے کے سمے وہ کھانستی۔ ہوا سے ہوا ہی میں، ہوا کی تھیلیاں بھرتی، فضا میں پھواریں چھوڑتی ہوئی، بے دم، بے سُدھ ہو کر پیچھے کی طرف لُڑھک جاتی۔ آنکھوں کی پُتلیاں اُوپر کی طرف سمٹتی ہوئی دسم دوار کو دیکھنے لگتیں۔ پر ان پانچ چکروں میں سے نکل کر چھٹے میں چلے آتے گلے کا گھنگھرو بجنے لگتا۔ بھابی شیلا پیٹی کوٹ ہی میں بھاگی آتی۔ دادی کو آخری سواسوں میں دیکھ کر آنکھیں پھیلاتی، چلاّتی —— ’’ہائے! کوئی ان کو خبر کرو‘‘… مُنّی سو ہی دوڑتی — روتی، پکارتی ہوئی۔ ’’باپو! کہاں ہو؟ — دادی گئی!‘‘ اور پھر دادی سے لپٹ جاتی — ’’دادی، میں بے ماں کی بیٹی … مجھے چھوڑ نہ جانا … ‘‘

اور پھر بھابی شیلا اور مُنّی سو ہی مل کر گیتا کے سترھواں ادھیائے کا پاٹھ شروع کر دیتیں۔ سماپتی کے بعد اس کا پھل داری کے نمت دینے لگتیں تاکہ دادی کی جان آسانی سے نِکل جائے۔ ایک تو ویسے ہی موت کے وجود کا احساس، اس پر آوازوں میں ڈرتا، کانپتا ہو اتُرنّم… پوری فضا میں ایک ڈراؤنی، گھناؤنی سی جھنکار پیدا ہو جاتی۔ پھر ایکا ایکی کوئی شُونیہ، جس سے گھبرا کر مُنّی پکار اُٹھتی —— ’’دادی ی ی ی ی ——‘‘ اور اس کی آواز چوکُوٹ گُونج جاتی۔ جبھی بھابی بڑھیا کے بھاگ ہین ماتھے، کرم ہِین ہاتھ اور چرتر ہِین شریر پر ہاتھ دوڑاتے ہوئے کہتی — ’’گئی!‘‘ اور پھر —— ’’ارے کوئی نیچے اُتارو، دَیا کرو—، بے گتی، مر گئی تو خرچان کون کرے گا؟ کون پنڈتوں کو روپئے پوجے گا؟ سترہ روپے نو آنے تو خالی یہاں سے ہردوار کا کرایہ ہے …‘‘

اور دادی کو یُوں گھسیٹ کر پلنگ پر سے نیچے پھینکا جاتا، جیسے مَیلے غلاف کو سرہانے سے اُتار کر دھُلائی میں پھینکتے ہیں۔ اسے زمین پر ڈالتے ہی مُنّی سو ہی رسوئی کی طرف لپک جاتی، اور تھوڑی دیر کے بعد آٹے کا دِیا ، دِیے میں گھی اور گھی میں رسی بسی روئی کی بتّی اور ہاتھ میں ماچس لیے آتی۔ گھبراہٹ اور ہوا میں جلدی جلدی دو چار تیلیاں پھونکتی ہوئی دِیا جلاتی۔ دادی کو روشنی دکھاتی تاکہ بھنور گپھا میں بھی جائے تو ٹھوکر نہ کھائے… ہاتھ پر دِیا رکھنے کے بعد مُنّی ڈری سہمی ہوئی ایک طرف کھڑی ہو کر بھابی کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے، ہری اوم، ہری اوم کا جاپ کرنے لگتی اور پھر گائیتری کا سہارا لیتی — ’’اوم بھُور بھوا سواہ … ‘‘جب شیلا بھابی کو یقین ہو جاتا بُڑھیا کے سواس نکل چُکے ہیں، تو وہ زبردستی کے آنسو بہانے لگتی۔ ہاں مُنّی کے آنسو سچّے موتی ہوتے۔ دادی کے سِوا اس کا سہارا تھا کون؟ ماں گئی، اب دادی بھی گئی تو اس کی پرتیت کون کرے گا؟ اس کے اس جھوٹ کی گواہی کون دے گا جو ہر عورت ، ہر کمزور مرد کو بولنا ہی پڑتا ہے۔ پھر اس کے الّھڑ سے تِریا چرتّر پر کون پردے ڈالے گا؟ … شادی تو ہو گی نہیں۔ کون لڑکا دیکھنے کے لیے گلی محلّے کے ہر آتے جاتے کے پیچھے پڑے گا؟ پھر اتنا لمبا لڑکا ملے گا بھی کہاں سے؟ چھوٹے قد کا کوئی بیا ہے گا نہیں۔ بیا ہے گا تو بسائے گا نہیں۔ مگر دادی رہے گی بھی تو کب تک؟ اس سنسار کے بَھوساگر کی تو کوئی تھاہ ہی نہیں کوئی دوسرا کنارہ ہی نہیں۔ کون انگلی پکڑے گا؟ کون پار کرائے گا؟

… دیو بھیّا ہیں تو اپنی ہی موج، اپنی ہی بہار میں رہتے ہیں۔ سنتے ہیں یہاں سے دو تین بازار پرے، کرم روگ والے اسپتال میں کوئی نرس ہے، جس کے ساتھ رات جاگتے ہیں۔ پہلے تو گھر آتے ہی نہیں، آتے بھی ہیں تو مُنھ سے، شریر سے بھبھاکے چھوٹ رہے ہیں۔ کچھ شراب کے، کچھ نرس کے۔ یوں بھیّا کو نشہ کم ہوتا ہے، پر یہ ثابت کرنے میں کہ انھوں نے نشہ کیا ہی نہیں، پکڑے جاتے ہیں۔ ہاں،  بِن پِیے بھلا کون ہے جو یوں دِھیرے دِھیرے ٹِکا ٹِکا کر پَیر زمین پر رکھتا ہے؟ آدمی، آدمی ہوتا ہے۔ کوئی مور تو نہیں۔ پھر زیادہ ہنستے ہیں، نہ خفا ہوتے ہیں۔ آخر بھابی سے جنگ ہوتی ہے۔ وہ اسے نل کے چوبچے میں پٹخ دیتے ہیں۔ وہ جھوٹے برتنوں میں سے کانسی کا طباق اُٹھا کر ان کے سر پر دے مارتی ہے۔ وہ سوال میں مارتے ہیں، یہ جواب میں دانتوں سے کاٹتی، ناخنوں سے نوچتی ہے۔ جانے یہ عورت مرد کا ناتہ ہی مار پیٹ کا ہے…

… پھر برتن گلی میں پھینکنے جاتے ہیں۔ جو برتن نہیں رہتے، ایک طرح کا نیوتا بن جاتے ہیں۔ کیا بڑے اور کیا چھوٹے، گلی کے سب اس گھر میں آدھمکتے ہیں۔ بڑی بڑی نصیحتیں، بڑے بڑے بھاشن دیتے ہیں۔ لڑائی کیا چکاتے ہیں، اور جھگڑا بڑھاتے ہیں۔ بھلا لڑائی چکانے میں کوئی اپنی آستینیں بھی چڑھاتا ہے؟ … اندر سے وہ کتنے خوش ہوتے ہیں، یہ آپ بھی نہیں جانتے۔ پھر کپڑے پھاڑے جاتے ہیں۔ پہلے تو بھابی بے پردہ ہو جانے کے ڈر سے ہار مانتی ہوئے اندر بھاگ جاتی تھی۔ پر ایک دن ایسا آیا کہ وہ سب کے سامنے کھڑی تھی ——ننگی، اس پر دونوں ہاتھ کولھوں پر رکھے ہوئے، مجسٹریٹ کی طرح … ہے رام! ایک پہراوا بھگوان دیتا ہے، دوسرا انسان۔ انسانوں میں رہنا ہے تو ان کا پہراوا پہننا ہی پڑے گا اور بھابی —— انسان میں بھگوان کا پہراوا پہنے کھڑی تھی… پڑوس میں جینیوں کے دو خاندان ہیں —— شویتامبر جین اور ڈگامبر… اس دن شویتامبروں کی دونوں بہوئیں آئی تھیں اور شرم سے پانی پانی ہوتے ہوئے   بار بار اپنے مُنھ دھوتی کے پلّو سے ڈھک رہی تھیں۔ ان تک بات رہتی تو کوئی بات نہ تھی۔ ڈگامبروں کے سُوکھم مُنّی بھی وہیں تھے، جو بھابی کے اس رعب داب کو دیکھ کر بھاگے۔ لوگ تو سر پر پانو رکھ کر بھاگتے ہیں نا؟ ——سوکھم مُنّی پانو پر سر رکھ کر بھاگے۔ دروازے کے دہلیز کے ساتھ ٹکرائے، پھر لَوٹ کے آئے … پھر گئے سوگئے۔ کیڑوں مکوڑوں سے راستہ صاف کرنے والا ان کا بہارُو بھی وہیں رہ گیا۔ ناک کا کپڑا بھی گِر گیا۔ نہ معلوم کتنے  جِیو ج نتُو ان کے پانو تلے آ کر ہنسا ہو گئے ہوں گے، اور کتنے ناک کے راستے اندر چلے گئے ہوں گے؟ بھابی کو کتنا پاپ لگا ہو گا۔ جب سارے جھگڑے بھول کر دیو بھیّا اس پر دری پھینکتے ، گھسیٹتے ہوئے اندر لے گئے…

یہی بھابی پہلے بات بات پر مائیکے کی دھمکی دیا کرتی تھی، جھٹ سے لہنگا سنبھالتی، اِکّا منگواتی اور چل دیتی۔ پر، اَنت میں وہ سمجھ گئی۔ اب اِکاّ نہیں، دھکاّ بھی ملے تو وہ نہیں جاتی۔ کیوں جائے؟ گھر عورت کا ہوتا ہے۔ مرد مسافر اس بات کو کیا جانیں؟ اس کا باہر ہوتا ہے، اس لیے وہی جائے——

… دوسری طرف باپو ہیں۔ جب پولیس میں ڈپٹی تھے تو کیا کھڑکا دڑکا تھا ان کا۔ مجال ہے جو گھر میں دیر سے بتّی جلے، کھانے میں نمک زیادہ پڑے۔ ایسے میں تھالی سُدرشن چکر کی طرح گھومتی، ٹنٹناتی ہوئی آنگن میں ہوتی تھی، کٹوریوں سمیت اور ایسی گالیاں سننے میں آتیں جو چوک میں بھی نہ بکی جاتیں۔ اُدھر ماں گئی، اِدھر باپو کو نہ جانے کیا ہوا؟ ایسی اُداسی پکڑی جس کی کوئی تھاہ نہیں۔ جیسے کوئی بان پرستھ لے لیا۔ عورت کا راج اپنے مرد سے ہوتا ہے، تو مرد کا بھی عورت ہی سے ہوتا ہے۔ اب وہ صبح سویرے نکل جاتے ہیں اور سیم والی نہر کے پاس اکھاڑے کے بغل میں ایک پھکل، پاکھنڈی مہاتما سے تلسی جی کی چوپائیاں سنا کرتے ہیں۔ یا وہ مہاتما ٹھیک سے ارتھ نہیں کر پاتے، یا باپو اپنے مطلب کا مطلب نکال لیتے ہیں اور پھر اُداس ہو جاتے ہیں۔ رات گھر آتے ہیں تو چوروں کی طرح۔ پیر سنبھال کر زمین پر رکھتے ہوئے ۔ گھر بھر میں ڈر کے مارے کوئی ان سے کچھ نہیں کہتا۔ اکثر تو کوئی کھانا بھی نہیں پُوچھتا۔ جب بولا گرجا کرتے تھے تو کوئی جواب بھی دیتا تھا۔ اب وہ  چُپ ہیں، تو سارا سنسار  چُپ ہے۔ سبھی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ بان پرستھ لیا تو سنیاس بھی لے سکتے ہیں، پھر پنشن گھر میں نہ آئے تو گزارہ کیسے ہو گا؟ —— بھیّا کی سائیکلوں کی دُکان تو چلتی نہیں۔ نرس کے لیے جو بیچ میں گول مال کیا تھا، اس کے کارن ایک دن بیٹھے بٹھائے ان کی ایجنسی بند ہو گئی۔

بھیّا یوں نہیں آتے، باپو گھر میں نہیں رہتے۔ اب یہاں عورتوں کا راج ہے۔ ہم عورتیں سبھی راج کی اِچھّا کیا کرتی ہیں، پر جب مل جاتا ہے، تو سر پیٹ لیتی ہیں۔ نا بابا ! ایسا راج کسی کو نہ ملے۔ وہ گھر ہی کیا جس میں مرد نہ آئے، حکم نہ چلائے، ہر روز کوئی نیا جھگڑا فساد نہ مچائے۔ عورت بیرن آخر تو مرد ہی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مرد کیا ہے؟— دادی سے پوچھو، بھابی سے پوچھو— سامنے والے شاہد میاں کی آپا سے پوچھو، مجھ سے … پر میرا تو وہ آئے گا ہی نہیں۔ آئے گا تو بھی چلا جائے گا۔ تیاگی جات کی ہم عورتوں کی قسمت ہی ایسی ہے ——

جبھی شیلا بھابی کو دادی ماں کا ما تھا گرم دِکھنے لگتا۔

’’یہ تو ‘‘ وہ ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتی — ’’جی رہی ہے۔‘‘

مُنّی سو ہی چھٹپٹا کے لمبے لمبے ہاتھ پَیر مارتی ہوئی سوچ بچار کے ہچکولوں سے نکلتی اور لپک کر دادی ماں کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیتی ،جو اسے اپنی جوانی اور اس کی گرمی کے کارن ویسے ہی برف کا برف معلوم ہوتا اور پھر تھوڑا گرم۔ جبھی دادی کا کانپتا ہوا ہاتھ زندگی کی تائید میں اُٹھ جاتا۔ سو ہی مری مری جی اٹھتی، شیلا جیتے جی مرجاتی۔

’’دادی کو اوپرڈالو، شیلا بھابی ‘‘ مُنّی چلاّتی۔

بھابی ماتھے پر سات ٹھیکرے پھوڑتی ہوئی کہتی ’’تم ڈالو تو ڈالو … مجھ سے نہیں اٹھائی جاتی یہ گیلی لکّڑ۔‘‘

مُنّی اپنے لمبے چوڑے کلاوے میں دادی کو اُٹھاتی اور پھر سے پلنگ پر لٹا دیتی۔ کوئی ہی دیر میں رُقمن بولنے یوگی ہو جاتی۔ ہوش میں آتے ہوئے جس پہلے شبد کا اُچار سُنا کرتی وہ ’’مُنّو‘‘ ہوتا، جس کے جواب میں مُنّی بھی ہمیشہ بڑھیا کو پچکارتے ہوئے بول اُٹھتی —— ’’ودیا!‘‘ جبھی ایسا معلوم ہونے لگتا جیسے دادی مُنّی ہے اور مُنّی دادی۔ دراصل مُنّی اور دادی ایک دوسری کی طرف چلتی ہیں، تو بیچ میں کہیں ایسے موڑ، ایسے نکڑ پہ مل جاتی ہیں،جہاں ماں کھڑی ہوتی ہے، جو کبھی اپنے آپ بوڑھی ہو جاتی ہے اور کبھی بچّی۔ بچّی ہو یا بوڑھی، عورت سے ماں پنے کا الزام تو ٹل ہی نہیں سکتا۔ وہ اس کے مَل موت میں جیتی، اس میں مرجاتی ہے اور مردوے یہی سمجھتے ہیں —— اس کی آئی تھی اس لیے چلی گئی …

’’تُونے مجھے پُکارانا‘‘ دادی، مُنّو سے پُوچھتی۔

’’نہیں تو‘‘ مُنّی جواب دیتی ’’میں نے تجھے نہیں پکارا۔‘‘

دادی سرزنش کے انداز میں اُنگلی اٹھاتے ہوئے کہتی —— ’’دیکھ … میں نے تیرے باپ کو جَنا ہے‘‘ اور پھر … ’’میں سب جانتی ہوں تیرے چلِتّر ۔ عورت میں چار سو چار چلِتّر ہوتے ہیں، پر تجھ میں چار سو پانچ ہیں!‘‘

اس پیاری سی پھٹکار کے بعد مُنّی تھوڑا اور بھی دادی کے پاس سرک آتی — ’’تیری سوں دادی‘‘ اور پھر ایکا ایکی مُنّی کو یاد آ جاتا … ہاں، ہاں، بے بس ہو کر اس نے دادی کو آواز دی تھی۔ شاید —— یہی آواز تھی جو کھنڈوں، برہمنڈوں کو چیرتی ہوئی دادی تک جا پہنچی اور اسے پھر اس سنسار میں لے آئی۔ پر مُنّی جانتی تھی، اوپر جاتی ہوئی دادی بھی تو مڑ مڑ کر نیچے دیکھتی ہو گی۔ وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔ ابھی کچھ کام تھے جو ادھورے رہ گئے تھے، جنھیں وہ نپٹانا چاہتی تھی۔ مُنّی آخر مان جاتی —— ’’ہاں دادی! میں نے پُکارا تھا … میری اور سُنتا کون ہے؟‘‘

گلی محلّے کی کچھ عورتیں مزاج پُرسی کے لیے آ جاتیں۔ شیلا بھابی کچھ دیر کھڑی رہتی اور پھر دادی پوتی کے بیچ یہ انوکھی عشق بازی دیکھ کر، ناک بھوں چڑھاتی ہوئی اندر، رسوئی بھنڈارے کی طرف چل دیتی۔

دادی رُقمن پھر اُٹھنا چاہتی۔ بڑھاپے میں اور تو سب چیزیں انسان اُٹھا لیتا ہے، پر اپنے آپ کو اٹھانا بڑا مشکل ہے۔ اصل میں بوجھ شریر کا نہیں ہوتا، من کا ہوتا ہے … دادی جو کوئی ہی دیر پہلے مر رہی تھی، عورتوں کی مدد لینے سے انکار کر دیتی۔ مُنّی کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو بھی جھٹک دیتی اور اُٹھ کر بیٹھ جاتی اور مُنّی کی طرف دیکھتے ہوئے کہتی —

’’یہی میری دشمن ہے، گُلّو کی ماں۔‘‘

گُلّو کی ماں قریب ہوتے ہوئے پوچھتی ’’کیوں ماں … مُنّی کیسے دشمن ہو گئی؟‘‘

’’میں اچھّی بھلی جا رہی تھی‘‘ دادی رقمن کہتی ’’اس سُڑنّی نے نہ جانے دیا۔‘‘

پیار سے دی ہوئی اس گالی سے مُنّی کے سارے چھوٹے موٹے ڈر، سب دُکھ دلدّر دور ہو جاتے۔ ایسے میں دادی دشمن کی بجائے مُنّی کو سجّن کہہ دیتی تو کیا ہوتا؟ پھر دادی کو وہ سارے درِش یاد آ جاتے جو اس نے تھوڑی دیر کی موت میں دیکھے تھے ——

’’کتنی سندر باٹکا تھی، جمنا‘‘! وہ سامنے دیکھتے ہوئے کہتی ۔ جیسے اب پھر باٹکا دکھائی دے رہی ہو —— ’’چہوں اور ہری بھری بیلیں اور ان بیلوں میں پھُول ، ان پھُولوں میں پرکاش، جس میں بڑے بڑے رشی مُنی بیٹھے اکھنڈ کیرتن کر رہے تھے…‘‘

گُلّو کی ماں، جمنا، مُنّی سب شردھا سے سننے لگتیں۔ دادی کبھی آہستہ، کبھی تیز اندر کا سب وگیان لٹانے لگتی —— ’’کروڑوں سورجوں کا اُجیالا … پھر گرمی نام کو نہیں۔ ایسی ٹھنڈک جو دگدھ سے دگدھ من کو ہرا کر دے۔ ایسا سکھ پہنچائے جو کہنے میں نہ آئے…

بس ایک ہی آگ تھی جو بار بار میری اُور لپک رہی تھی ——‘‘

’’آگ؟ … آگ کیسی ماں؟‘‘

دادی مُنّی کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہتی ’’اس نُپوتی کی آواج…‘‘

جمنا بول اُٹھتی ’’پر آواز تو شبد ہوتی ہے، دادی…‘‘

’’مورکھ ہونا‘‘ دادی جھلاّ کر جمنا سے کہتی ’’اِتنا بھی نہیں معلوم؟ انتر میں شبد اور پرکاش میں کوئی بھید نہیں ہوتا۔‘‘

’’دھنیہ ہو‘‘ جمنا کہتی اور دونوں ہاتھ جوڑ کر نمسکار کر دیتیں۔

’’دھنیہ ہو دادی‘‘ باقی کی بھی پُکار اُٹھتیں۔

اور پھر دادی برابر بولتی جاتی، جیسے کوئی چابی لگ گئی یا جیسے کوئی دیر پہلے کی  چُپ کا گھاٹا پُورا کر رہی ہو۔ پھر اس عمر میں جب کوئی کسی کی نہیں سنتا، جمنا اور گلو کی ماں کے سے شروتا مل جائیں تو اور کیا چاہیے؟ ان سب کو زور زور سے سر ہلاتے دیکھ کر مُنّی ڈر جاتی ۔ پہلے بھائی اور بھابی کے جھگڑے کے کارن گھر بھر لوگوں کو آرجار کا کیندر بنا ہوا تھا، اب دادی کے دیوی بن جانے کی وجہ سے۔ جب اور بھی عورتیں آنے لگتیں تو چارسو پانچ چلِتّر والی مُنّی دادی کی بات کاٹ دیتی——

’’اچھّا دادی … وہاں سُرگ میں تجھے دادا نہ ملے؟‘‘

ایکا ایکی دادی کے ڈال پر سے گِرے ہوئے، سُوکھے پتّے کے رگوں اور ریشوں میں ہریالی دوڑ جاتی۔ اور نوبیاہتا کی طرح وہ شرماتے ہوئے کہتی—— ’’ملے کیوں نہیں ری مُنّی؟‘‘

یک دم پانسہ پلٹ جاتا۔ وہی عورتیں ایک دوسرے کے کولھے میں ٹہوکے دینے لگتیں اور اشارے اشارے میں کہتیں ’’سنو، سنو —‘‘

’’تب وہ کیا بولے؟‘‘  مُنّی پُوچھتی۔

’’پیڑوں کی لسّی مانگ رہے تھے۔‘‘

مُنّی، جمنا اور گُلّو کی ماں اور دوسری عورتوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہتی ’’داداجی کو بہت پسند تھی پیڑوں کی لسّی‘‘ اور پھر دادی سے بولتی ’’کیا وہاں سُرگ میں پیڑے بھی نہیں، وَدیا؟‘‘

’’پیڑے بھی نہیں، کھٹی کڑھی بھی نہیں۔‘‘

—— کھٹّی کڑھی دادی کو بہت پسند تھی!

’’ایسے سُرگ میں جانے کا کیا فائدہ؟‘‘ مُنّی کہتی۔

’’  وُہی تو‘‘ دادی اپنے بھول پنے میں جواب دیتی ’’کل تم دیول کے پجاری جی کو نیوتا دینا اور ساتھ پنڈت رلیا رام کو بھی۔ خوب کھانا کِھلانا اور پیٹ بھر کے پیڑوں کی لسّی پلانا ——‘‘

عورتیں اپنی ہنسی دباتیں۔ مُنّی کہتی ’’ہاں دادی … یہ کوئی سُرگ تھوڑے ہے، جہاں پیڑے بھی نہ ہوں ——‘‘

اور دادی سامنے دیکھتے ہوئے بولتی جاتی ’’کیسے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے … مندر کی ہیروں جواہروں سے جڑت مڑت چَوکھٹ میں۔ ویسے ہی شیر جوان، یہ چوڑی چکلی چھاتی،    لَٹ لَٹ کرتا ہوا چہرہ۔ اس پر یہ بڑے بڑے مونچھوں کے کالے گُپھے…

’’کالے گُپھے؟‘‘ مُنّی کہتی ’’ابھی تک ان کی مُونچھیں کالی ہیں؟‘‘

دادی پوپلے منھ کے ساتھ تھوڑا ہنس دیتی —— ’’پاگل ہے نا … کال بھگوان کا مار وہاں تک نہیں پہنچتی، مُنّو! وہاں جوان بوڑھے نہیں ہوتے۔ میں نے دیکھا ان کے پاس ایک سُندر، سجل لڑکی تھی۔ کیا رُوپ تھا اس پر ——‘‘

’’کیا بات کر رہی ہو ودیا؟‘‘  مُنّی بول اُٹھتی‘‘ وہاں بھی دادا —؟‘‘

’’ہاں… یہ بھی تو پوچھ وہ تھی کون؟‘‘

’’ک —— کون؟‘‘

’’وہ میں تھی —— جب بیاہی آئی تھی۔‘‘

اس پر سب ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہونے لگتیں۔ ان کی ہنسی نہ سنائی دیتی تو دادی کو۔ اور وہ کہے جاتی میرا ہاتھ پکڑ کر بولے … ’’تم آ جاؤ … رقمن … اب نہیں رہا جاتا —‘‘

یہ عورتوں کے صبر کی حد تھی۔

دادی بولتی —— ’’میں نے ہاتھ چھڑا لیا۔ کہا، میں ابھی نہیں آسکتی، جگن کے پتا!ابھی کوئی دیر اور میری راہ دیکھو۔مجھے دنیا میں بڑے کام ہیں —؟ اور دادی کے چہرے پر کی نہروں اور جھیلوں میں جھر جھر بہتے پانی کو دیکھ کر عورتیں ایک دم  چُپ ہو جاتیں۔ دادی ایک ہاتھ تپائی پر پڑی ہوئی گیتا پہ رکھ دیتی اور دوسرے سے دھوتی کا پلّو تھامتی آنکھیں پونچھتی ہوئی، ایک جیوتی  ہِین نگاہ مُنّی پر ڈالتی اور بلبلا اُٹھتی۔

’’ہائے ری سو ہی … تو کسے سو ہے گی؟‘‘

اس ایک ہی بات میں باقی کی عورتوں کا اندر بھی پانی ہو کر آنکھوں میں چلا آتا۔ آخر وہ اُٹھتیں، ہاتھ جوڑ کر نمسکار کرتیں ’’دھنّیہ ہو دھنّیہ ہو ماں‘‘ کہتی ہوئی ایک ایک کر کے چل دیتیں…

جگن ناتھ تیاگی اور ان کے بیٹے دیویندر تیاگی کے مکان ڈپٹی بھون میں کالے بھی آئے اور گورے بھی آئے۔ پر مُنّی سو ہی کے رنگ کا ایک نہ آیا۔ اس کے قد کاٹھ کا کوئی نہ پہنچا۔

مُنّی سو ہی، خالی خولی لمبی ہی نہ تھی، بدن بھی بھرا ہوا تھا اور اس کا رنگ اپنے ہی لہُو کی آگ میں جلتے رہنے سے تانبے کا سا ہو گیا تھا۔ کبھی تو وہ کونارک کے مندر کی، تانترک شلپیوں کے ہاتھ سے بُنی ہوئی، بڑی سی یکشی معلوم ہونے لگتی اور کبھی ایک بڑی سی دیگ ،بیاہ شادیوں میں جس میں حلوہ یا اُڑد پکائے جاتے ہیں اور جس کے نیچے برابر کی آنچ کے لیے مَنوں ہی لکڑیاں ڈالنی پڑتی ہیں، اور پھر کیا حلوہ بنتا ہے، کیا اُڑد ہوتے ہیں …گلی بازار میں نِکلتی سو ہی تو اپنے آپ سے بھی ایک فٹ آگے چلتی، جیسے کہہ رہی ہو — — ہٹ جاؤ ، میں آ رہی ہوں۔ لوگ راستہ دے دیتے، پچھاڑیں کھا کھا کر پیچھے گرتے، جیسے ڈپٹی جگن ناتھ کی نہیں، کسی راجا کی بیٹی ہو!

تیاگی کُل کی سب بیٹیاں ایسی ہی ہوئیں۔ چھ چھ فٹ کی اور بیٹے چھوٹے اور         بے بضاعت سے۔ سب بیٹیوں کی شادی میں یہی مصیبت ہوئی۔ یہی خلجن۔ اُوپر تین چار پشت میں کوئی ایسی بہو آئی کہ پورے کُل کی تباہی لے آئی۔ ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ رُکنے کا نام ہی نہ لیا۔ دادا پہلے آدمی تھے، جنھوں نے خاندان کو اس بربادی سے بچانے کی کوشش کی۔ دادی چھوٹے قد کی لائے۔ مطلب، اپنی بیوی۔ مُنّی کی دادی خود مُنّی کی ماں بیچ کے قد کی تھی۔ دیویندر کی بیوی شیلا بھی ناٹی بلکہ بونی۔ دادا کے حساب سے اس پشت میں اولادوں کے ٹھیک ہونے کی امید تھی۔ پر شیلا نے موتی تو دبوچ ہی لیے، لعل بھی نہ اُگلا۔ سب ڈرتے بھی تھے نا کہ بیٹیاں چھوٹے قد کی ہوئیں تو بیٹوں کا کیا ہو گا؟ … پر اس وقت تو مُنّی کا سوال تھا ،جو اب پانچ فٹ نو انچ کی ہو گئی تھی۔

کئی گرمیاں آئیں اور کئی گئیں۔ کتنی سردیوں نے شل کیا ۔بہاریں گئیں اور پت جھڑیں بھی۔ سامنے شاہد بھیّا کے مکان کے پاس جو کچنار کا پیڑ لگا تھا، اس نے کئی ہرے اُودے کوٹ پہنے اور اُتار بھی دیے۔ ڈپٹی بھون کے باہر بڑھاؤ کے نیچے جو شہتیری ڈالی تھی، اس میں جھُریاں بھی چلی آئیں۔ برسات آٹھ آٹھ، سولہ سولہ ، بتیس بتیس آنسو روئی اور نئے مکانوں پر ہری اور کالی کائی چھوڑ کر جیسے اپنی سسرال چلی گئی۔ پر مُنّی وہیں تھی — —

تیلی محلّے کی رونق، شام گلی کا مذاق … اب کے سال جو گرمی پڑی تو حد ہی ہو گی۔ برسوں میں ایسا اُمس کبھی نہ ہوا تھا۔ جمنا کی دونوں گائیوں کا دودھ تھنوں میں سوکھ گیا۔ پہاڑوں پر چلے جانے کے کارن، گُلّو کی ماں کے گھر اُلّو بولنے لگے۔ دن کی روشنی میں اُڑنے لگے … دھرتی سے غبار اٹھتے اور اپنے دماغ، آسمان پر چھا جاتے۔ بادل آتے بھی تو گرجے برسے بِنا ہی نکل جاتے، جیسے کسی بگیا کی سیر کرنے آئے ہوں۔ ایک دھُول سی تھی، جو ہر وقت چھائی اور عقل کو ماؤف کیے رہتی۔ اس مٹی اور گرد سے یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے دھرتی آسمان کی طرف اُچھل رہی ہے اور آسمان دھرتی کی طرف لپک لپک جاتا ہے۔ اس حبس اور حبس میں ایسی لپک جھپک سے یہ پتہ چلتا، جیسے پوری کائنات کو اختناق ہو رہا ہے۔

اور تو اور، آپا فردوس، شاہد کی بہن جو دو سال سے بھائی کے گھر بیٹھی تھی، چلی گئی۔ دولھا بھائی نے پیر پکڑے، معافیاں مانگیں، توبہ میں کان لال کیے اور آپا کو لے گئے۔ شاہد کوئی ایسے ہی تھوڑے بھیجنے والے تھے۔ بیچ میں اس قاضی کو بھی لے آئے جس نے نکاح پڑھوایا تھا اور حق مہر باندھا تھا۔ آپا فردوس کے رخصت ہوتے وقت مُنّی اتنا روئی کہ تالاب بھر گئے۔ آپا نے بہت پیار کیا، بہت تسلی دی اور کہا  — — ’’میں پھر آؤں گی۔ مُنّو  — — تیری شادی پر تو انشاء اللہ ضرور آؤں گی۔‘‘ منی سوہی نے فریادی نظروں سے آپا فردوس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا  — — ’’تب تو آئی آپا!‘‘

ڈگامبروں کی بہُو ترمبکا بائی نے کہا  — — ’’سہیلی کے جانے پہ تھوڑی کوئی اتنا روتا ہے؟‘‘ جب مُنّی نے اپنے آنسوؤں کو خون بنایا اور پی گئی … پر دادی تھی جو خون کو آنسو بناتی رہتی۔ شیلا اب اس سے تنگ آ چکی تھی۔ اس لیے بھی کہ دادی اب پلنگ ہی پر چادر گیلی کر دیتی۔ دیویندر کتنا بھی شرابی کبابی تھا ،مگر دادی سے پیار کرتا تھا۔ پیار مردوں کو سستا پڑتا ہے، اس لیے کہ مرنا نہیں پڑتا۔ بس خالی خولی ہمدردی جتائی، دنیا کی نظروں میں، اپنی نگاہوں میں اچھے بنے اور چل دیے۔ دادی کے پلید کیے ہوئے کپڑے مُنّی دھوتی تھی۔ اس پر بھی شیلا ناک پہ دوپٹہ رکھے ہوئے اندر آتی، باہر جاتی۔ دیویندر کو یہ نظارہ بہت نک چڑھا معلوم ہوتا۔ ایک دن وہ بولا  — —

’’تم چاہتی ہو دادی مرجائے؟‘‘

’’ہاں‘‘ شیلا بے جھجک بولی۔‘‘

’’اس کا ایک ہی طریقہ ہے۔‘‘

’’کیا طریقہ؟‘‘

’’مُنّی کا بیاہ کر دو۔‘‘

شیلا سٹپٹا گئی۔ ’’میں تو کہتی ہوں، دادی بھی جائے اور اس کی پوتی بھی۔ مجھ سے اب کسی کے مرنے نہیں مرے جاتے‘‘ اور پھر بولی ’’کل بہن تمھاری اونچی ایڑی کا جوتا دیکھ رہی تھی … میں تو کہتی ہوں پہنے۔ سر بادلوں میں چھُپائے، کہیں اُوپر کی اُوپر چلی جائے۔‘‘

دیویندر چُپ رہا۔

’’اور نہیں تو کیا‘‘ شیلا پھر بولی ’’دونوں کے لیے جم راج کیا مجھے ڈھونڈنے ہیں؟‘‘

جم راج ڈھونڈنے کی ذمے داری چونکہ دیویندر کی تھی، اس لیے وہ کچھ نہ بول سکا۔ وہ طبیعت ہی سے کام چور تھا۔ ہر قسم کی ذمّے داری سے گھبراتا تھا۔ جو کام اپنے آپ ہو جائے، سو ہو جائے۔ اپنے پتا جگن ناتھ کی طرح وہ بھی اپنی اس کاہلی اور بے عملی کے سلسلے میں شاستروں اور پرانوں کی مدد لیتا  — — مانس کا سب جتن چُترائی ہے۔ بھگوان نے کہا ہے، تم پُورے طور پر اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو۔ تمھارے سب کارج سدھ ہو جائیں گے …

کام ہو گا یا نہیں ہو گا، اس لیے پچاس فی صدی کے تناسب سے ایسے لوگوں کے کارج سِدّھ ہو بھی جاتے ہیں۔

دیویندر برآمدے سے اُٹھا، صحن میں آیا۔ ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا، جہاں بادل گھر آئے تھے۔ کیوں نہ آتے؟ یہ موسموں کا چکّر بھی ایک سائیکل ہوتا ہے۔ سردی کے بعد گرمی، گرمی کے بعد برسات، اُوپر بھی کبھی کسی گول مال سے ایجنسی بند ہو جاتی ہے… اُدھر برسات کی پہلی بُوند گری ، اُدھر گوتم، دیویندر کے بچپن کا دوست کلکتہ سے چلا آیا، جہاں اس کے پاس ہند سائیکلوں کی ایجنسی تھی اور اب یہاں دینا پور میں سب ایجنسی قائم کرنے آیا تھا۔

گوتم قد کے اعتبار سے مشکل سے پانچ فٹ دو اِنچ کا ہو گا۔ لیکن تن و توش کے اعتبار سے اچھا تھا۔ آکا باکا سا چہرہ۔ لال رنگ۔ معلوم ہوتا تھا گالوں میں دو ٹماٹر دبا کے رکھے ہیں۔ بات بات پر اُچھلتا ،جیسے نہ جانتا ہو اس صحت کا کیا کرنا ہے؟ دیویندر نے گوتم کو چائے پر گھر بُلایا۔

شیلا کے کان گوتم کی باتیں سنتے سنتے پک گئے تھے۔ شیلا نے اُسے دیکھا نہ تھا۔ شاید اس سے پہلے گوتم اس گھر میں کبھی آیا بھی نہ تھا۔ اس لیے بھابی تو سپنے میں بھی نہ دیکھی تھی۔ شیلا اُس سے یوں تپاک سے ملی، جیسے برسوں سے جانتی ہو۔ دیویندر نے شیلا کو چائے لانے کے لیے کہا اور پھر اُٹھ کر اس کے کان میں کھسرپھسر کرتے ہوئے اندر بھیج دیا۔

بس، یہی غلطی ہوئی۔ شیلا اندر گئی تو چائے بناتے ہوئے مُنّی سے کہہ دیا۔ ’’مُنّی ، اندر بیٹھک میں نہ جائیو۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ مُنّی نے پُوچھا’’ وہ آ گئے، بھیّا کے  — —؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

اور پھر شیلا خود کیتلی و تیلی نکالنے لگی۔

بھابی منع نہ کرتی تو شاید مُنّی کو کچھ نہ ہوتا۔ لیکن اب … اس کے تن بدن میں کوئی آگ سی لپک آئی۔ وہ اب اس حالت کو پہنچ گئی تھی جس میں لڑکیاں آنکھیں بند کر کے صرف آوازیں سُنا کرتی ہیں اور پھر بے دم ہو کر گِر جاتی ہیں۔ مُنّی سو ہی کے لیے شاید آواز کافی نہ تھی۔ بھابی کے اندر جاتے ہی وہ برآمدے کی طرف لپکی اور سیڑھیوں پر سے ہوتی ہوئی نیم چھتے پر جا پہنچی۔ جہاں ایک روشندان بیٹھک کے اندر کھلتا تھا  — —

شیلا ٹرے میں چائے اور کچھ دال مُوٹ وغیرہ لیے بیٹھک میں آئی۔ دیویندر نے اُچھلتے ہوئے کہا  — — ’’ٹھہرو … میں کچھ پیڑے لے آؤں۔‘‘

’’ارے نہیں بھائی …‘‘ گوتم نے روکا۔

’’ایک منٹ میں آتا ہوں‘‘ دیویندر نے کہا ’’میں جانتا ہوں تم پیڑے بہت پسند کرتے ہو‘‘ اور اس سے پہلے کہ دیویندر کو کوئی روکے، وہ نکل گیا تھا۔

مُنّی روشندان سے دیکھ رہی تھی۔ گوتم آگے بڑھ بڑھ کر بھابی شیلا سے دیور کا رشتہ جگا رہا تھا۔ دیور بھابی کا رشتہ جو ایک طرح سے ہر دیور کے لیے شادی کی ریہرسل ہوتا ہے … جس میں ادب کی حد سے پرے اور ننگے پن کی سیما سے ورے کی باتیں ہوتی ہیں … بھابی چیز بھی ایسی ہوتی ہے کہ اس کی ہر نس، اس کا ہر پور چھڑنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ گوتم شیلا سے کہہ رہا تھا۔ ’’کوئی زور لگاؤ، بھابی  — — ایک ’’بیٹا جن دو‘‘ نہیں تو یہ بھیّا میرا ،دوسری شادی کرے گا۔‘‘

دیویندر ابھی آئے نہیں تھے۔ بھابی نے دال موٹ والی پلیٹ سامنے رکھ کر چائے انڈیلی اور کہا  — — ’’ہاں دیور جی  — — یہ کہہ بھی رہے تھے۔‘‘

’’کیا کہہ رہے تھے؟‘‘

’’یہی کہ اگلی بیساکھی تک کچھ نہ ہوا تو  — — دوسرا بیاہ کر لیں گے‘‘ اور شیلا نے جان بُوجھ کر مُنھ پرے کر لیا۔ جیسے رونے لگی ہو  — —

گوتم لپک کر اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا  — — ’’سچ بھابی؟‘‘ … اور اس کے ہاتھ اَن جانے ہی میں آستینیں چڑھانے لگے، جبھی اسے ایک کِھلّی سنائی دی … بھابی ہنس رہی تھی!

گوتم سمجھ گیا۔ ایک تسکین کی سانس لیتے ہوئے بولا ’’اوہ بھابی  — — تو نے تو میری جان ہی نکال لی‘‘ اور پھر چارپائی پر دھم سے بیٹھ گیا، جو صوفے کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔

بے وقوف تو گوتم بن ہی گیا تھا، لیکن اس ہزیمت سے بچنے کے لیے برابر ہاتھ پیر مارتا رہا۔ ظاہر ہے گھر آنے سے پہلے دونوں دوستوں میں کچھ تو راز و نیاز کی باتیں ہوئی ہوں گی۔ چائے کی پیالی تھامے ہوئے وہ شیلا کے قریب ہو گیا اور کان کے پاس مُنھ کرتے ہوئے بولا ’’مذاق کی بات نہیں بھابی !  سُنا ہے دیویندر بھیّا نے ایک نرس رکھّی ہے  — —‘‘

شیلا کے من میں آگ کا بھبھکا سا اُٹھا۔سارے بدن میں آگ لگ گئی۔ اب وہ نہ مذاق کرسکتی تھی اور نہ سن سکتی تھی۔ اس کے ’’اہم‘‘ کو جو ٹھیس لگی تھی۔ اس میں اس نے گوتم ہی کا تختہ کر دیا۔ ایک دم ناک پھُلاتے ہوئے بولی  — — ’’ٹھیک ہے … مرد ہے تو رکھتا ہے نا ،اور کیا تم سا چُوہا عورت رکھے گا؟‘‘

دیویندر پیڑے لے کر آیا تو گوتم رومال سے اپنے ماتھے پر سے پسینہ پونچھ رہا تھا!

مُنّی کی تلاش میں دادی رقمن گھسٹتی ہوئی نیم چھتے پر آئی تو دیکھا  — — مُنّی بے ہوش پڑی ہے۔ دادی نے سر پیٹتے ہوئے آوازیں دیں۔ شیلا آئی، پھر گُلّو کی ماں اور سب مل کر ایک چمچے سے مُنّی کی دندن کھولی۔ ہاتھ اور پیر مل مل کر سیدھے کیے۔ بڑا ڈراما ہوتا، مگر گوتم جب تک رخصت ہو چکا تھا — —

کچّی پکّی جگہ، سایہ آسیب کی باتیں ہونے لگیں، لیکن بھیتر سے سب جانتی تھیں۔ یہ سب کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ مُنّی ہوش میں آئی تو شرمندہ تھی، اپنے آپ سے شرمندہ  — — ’’نہ جانے مجھے کیا ہو جاتا ہے؟‘‘ وہ بولی اور دادی کی گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

شام تک مُنّی ٹھیک ہو چکی تھی اور گھر کا کام کاج کر رہی تھی… آج شیلا نے سبزی اور دال دونوں میں غلطی سے دو بار نمک ڈال دیا تھا۔ اب وہ اور مُنّی دونوں ڈر رہی تھیں۔ باپو آئے تو کیا ہو گا؟ وہ تو عام نمک سے بھی کم پسند کرتے ہیں۔ کہیں پرانے ج لال میں آئے تو تھالی کٹوری سب باہر پٹخ دیں گے۔

رات باپو آئے۔ ہمّت کر کے مُنّی نے کھانا پروسا اور باپو نے کھانا شروع کیا۔ شیلا اور مُنّی دونوں کی آنکھیں باپو کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ پہلا ہی گر اس بابو چی کے مُنھ میں رُکا۔ پھر انھوں نے یوں اندر نگل لیا جیسے روٹی نہیں، حلوا کھا رہے ہوں۔ شیلا نے معذرت کرتے ہوئے کہا—

’’آج نمک کچھ زیادہ ہی پڑ گیا ہے، باپو جی۔‘‘

باپو جی نے ایسے کہا، جیسے انھیں کچھ پتہ ہی نہیں،بولے ’’ہیں؟ — —‘‘ نہیں تو بیٹا۔

— — نمک تو ٹھیک ہے، بالکل ٹھیک ہے  — —‘‘

دو چار نوالے اور مُنھ میں ڈالتے ہوئے بولے — — ’’دراصل آج مجھے بھوک ہی نہیں ہے… مہاتما جی نے دُہرا پرساد دے دیا نا۔‘‘

مُنّی نے اپنی آنکھیں پونچھیں اور دوڑ کر جمنا کے ہاں سے تھوڑی دال لے آئی اور باپو کے سامنے رکھی۔ باپو جب تک تھالی پرے سرکا چکے تھے۔ شیلا اندر بستر ٹھیک کرنے کے لیے چلی گئی تھی۔ مُنّی نے کٹوری تھالی میں رکھ کر اسے قریب کرتے ہوئے کہا —— ’’کھانا پڑے گا، باپوجی۔‘‘

باپوجی کو بھُوک تو لگی تھی۔ چپکے سے نوالہ توڑ کر دال میں بھگوتے اور مُنھ میں رکھتے ہوئے اندر کی طرف دیکھا اور بولے — ’’بہُو دیکھے گی تو …‘‘ اور پھر اندر سونے والے کمرے کی طرف جہاں بہُو گئی تھی، دیکھتے ہوئے کھاتے رہے … دوسرے دن گوتم کو آنا تھا —— لڑکی دیکھنے!

مُنّی کو تو کوئی اُمید نہ تھی۔ بھابی نے جو اس کی دُردشا کی تھی، اس کے بعد تو کوئی بھی مرد اس گھر میں نہ گھُستا ۔ پر اُس بات کا نتیجہ اُلٹا نکلا۔ بھابی کے شبدوں نے گوتم میں کا مرد اور بھی تندی سے جگا دیا۔

بیٹھک میں آج باپو تھے، دیویندر بھی اور دادی بھی۔ مُنّی کو سادہ مگر خوبصورت کپڑے پہنا کر ایک طرف بٹھا رکھا تھا اور اسے کڑی ہدایت تھی کہ اُٹھے نہیں، ورنہ سب معاملہ چوپٹ ہو جائے گا۔

گوتم آیا۔ اس کی پگڑی کو بہت کلف لگا تھا۔ شملہ سر پر ایک فُٹ اُوپر اٹھا ہوا تھا۔ اور اپنے ناٹے قد کے باوجود لمبا معلوم ہو رہا تھا۔ آتے ہی اس نے مُنّی کی طرف دیکھا اور سمجھ گیا۔ مُنّی کی محجوب نگاہیں زمین پر گڑی ہوئی تھیں اور وہ کانپ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو رہے تھے۔

ایکا ایکی گوتم کچھ اُکھڑی اُکھڑی باتیں کرنے لگا۔ پھر اس نے مُنّی کی طرف دیکھا اور دیویندر سے بولا —— ’’بھیّا! … تم بھی پانی پیؤ گے؟‘‘

’’ارے ارے ! پانی کیوں؟‘‘ دیویندر نے کہا ’’کوئی شربت لاؤ شیلا ——‘‘

شیلا کی بجائے خود حکم لینے کی عادی مُنّی ایکا ایکی اُٹھی۔ دادی نے دَھپ سے ایک ہاتھ مُنّی کے سر پر مارا—— ’’بیٹھی رہ … تو کہاں جا رہی ہے؟‘‘

اور مُنّی جو آدھی ہی اُٹھی تھی۔ بیٹھ گئی۔ لیکن آدھی ہی میں وہ ساری معلوم ہو رہی تھی… اسے کچھ یاد آیا، کچھ بھول گیا…

اس شام محلّے بھر کے منھ میٹھے ہونے لگے۔ بدھائیاں ملنے لگیں … گوتم نے مُنّی سوہی کو پسند کر لیا تھا ——!

سب کو یقین ہو گیا تھا کہ مُنّی سوہی جا رہی ہے۔ ایک نہیں یقین آ رہا تھا تو دادی رُقمن کو—— میں تو اس دن مانوں گی، جس دن بچّی یہ ڈپٹی بھون کی دہلیز چھوڑے گی۔ اور ڈولی میں بیٹھتے ہوئے پوری ایک پائیلی چاولوں کی اپنے سر کے اوپر سے پھینکے گی… اور پھر جیسے شادی میں ہونے اور نہ ہونے والی باتیں دادی رُقمن اپنے سامنے دیکھ رہی تھی —— ’’دیکھ بہُو، گوتم کا باپ ڈولی پر سے کھوٹے پیسے بھی پھینکنے تو انھیں مُہریں سمجھنا‘‘— پھر اس بات کا ڈر کہ جس بات سے ڈرو، آخر وہی ہوتی ہے ——

دادی نے دیول میں مورتی کے لیے وستروں کی منت تو مانی ہی تھی، بڈھن شاہ کی درگاہ پر حلوے کی دیگ بھی مان آئی۔ ساتھ وہ شاہد کی ماں کو بھی لے گئی تھی، جیسے رشوت کے طور طریقوں کو اچھی طرح سے نہ جاننے والا کسی بچولیے، کسی واقف کار کو ساتھ لے لیتا ہے، تاکہ قانون کہیں اُلٹا ہی نہ پڑے ——

اب بیاہ کے سلسلے میں چاروں طرف سے مُنّی کو ہدایتیں ہونے لگیں۔ جو جانتی تھیں وہ بھی اور جو الّھڑ تھیں وہ بھی، اپنے اپنے طریقے سے مرد کو مطیع کرنے کے طریقے بتانے لگیں اور پھر دادی—— جس کے مرد کو گئے ہوئے پچاس سال سے اُوپر ہونے کو آئے تھے اور جس کے بچاروں میں مرد ،اس کی آنکھوں کی طرح دھندلا سا ہو کر رہ گیا تھا، بولی —— ’’دیکھ بیٹا! —— میں تیرے نِکٹ ہوں گی بھی اور نہیں بھی۔ ہاں، جہاں سہاگن کھڑی ہو سکتی ہے، وہاں بدہوا تو نہیں ہو سکتی—— یہی ہے ساری دنیا کی ریت۔ یہی شاسترپان بھی کہتے ہیں۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں… پھر وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر تی۔ آنکھیں پونچھتی ہوئی شروع کرتی —— ’’اور سُن۔ جب پھیرے ہوں گے نا۔ تو جھک کے چلنا ۔ بہت جھُک کے بیرن! نہیں کیا کرایا سب دھرا رہ جائے گا … دیکھ، یوں … اور پھر دادی رُقمن سر پر اپنے بیٹے جگن کی بندھی بندھائی پگڑی رکھ لیتی اور ہاتھ میں کرپان کی جگہ کپڑے دھونے والی تھپکی اور دولہا بنی ہوئی اپنی طرف سے اکڑاکڑ کر چلتی۔ عورتیں ہنستیں، لڑکیاں لوٹ پوٹ ہوتی ہوئی ایک دوسرے کے دو ہتّڑ مارنے لگتیں۔ مُنّی شرماتی، روتی، پر دادی اسے برابر پیچھے جھک کر آنے کے لیے کہتی۔

گلّو کی ماں پکار اُٹھتی—— ’’چھ پھیرے لینا اماّں… ساتواں مت لینا …‘‘ — گلّو کی ماں کا مطلب تھا ،سات پھیرے ہوئے تو مُنّی کی دادی کے ساتھ شادی ہو جائے گی۔ ایسی شادی جسے وید شاستر تو کیا سوئم بھگوان بھی نہیں توڑ سکتے۔

جب مُنّی پیچھے آتی ہوئی تھوڑا کم جھکتی، دادی مڑکر دھپ سے ایک ہاتھ اس کے سر پر مارتی— ’’نیچی اور نیچی …‘‘ مُنی درد سے بلبلاتی ہوئی روتی بھی اور ہنستی بھی — ’’بھاڑ میں جائے ایسا دولہا ‘‘ وہ دادی کی طرف دیکھتے ہوئے کہتی ’’جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا‘‘ دادی اُسے پھٹکارتی —— ’’نصیبوں جلی، عورت نہ جھکے تو اس دُنیا کا چکر نہیں چلتا—— نِویں سو گورا ہوئے— جو نیچا ہوتا ہے، آخر وہی اُونچا ہوتا ہے اور پھر تُو؟ تجھے تو اور بھی نیچی ہو کر چلنا چاہیے، جسے سوئم بھگوان نے اونچی بنایا… مرد کا سواگت کرنا ہی پڑتا ہے۔ وہ جاچک ہوتا ہے نا، ہمیشہ کوئی دان مانگتا ہے، جو دینا ہی اُچت ہے۔ کبھی دیوی بھی پجاری پر اپنے کواڑ بند کرتی ہے؟‘‘

یہ دادی کو بھی نہ معلوم تھا کہ دیکھنے میں یہ سرکش لڑکی وقت آنے پر جھُک کے چلنا تو ایک طرف، رینگنے، لیٹ جانے کو بھی تیار ہو گی۔

شیام گلی میں ایکا ایکی بیسیوں ہی لڑکیاں پیدا ہو گئیں۔ وہ آج تھوڑی پیدا ہوئی تھیں؟ تھیں وہ یہیں —— برسوں، صدیوں سے۔ بس بیاہ کا شبد اُچارن کرنے کی دیر تھی کہ وہ جیسے کسی جادو ، کسی جنتر کے زور سے بے اختیار، بے بس، ایک دوسری پر گرتی پڑتی ہوئی کہیں سے آ گئیں۔ جیسے آموں کے موسم میں بڑی بڑی، ہری نیلی مکھّیاں کہیں سے اپنے آپ چلی آتی ہیں اور جب تک کوئی آم چُوستا ہے، وہ اِردگرد منڈلاتی بھنبھناتی رہتی ہیں …آتے ہی وہ کوئی ڈھولک ہاتھ میں لے لیتی ہیں اور ایسے ایسے نورانی گانے گاتی ہیں جو دادی کی آنکھوں کی طرح کی دھندلی صدیوں سے، ان کے گلے میں اٹکے ہوتے ہیں … پھر ایک جیجا رار کرنے کو ملتا ہے… جیسے ہر عورت کو بدن سہلوانے، دبوانے سے ایک عجیب طرح کا سُکھ ملتا ہے۔ ایک خاص قسم کا حظ آتا ہے۔ ایسے ہی ان لڑکیوں کو بھی، جب کوئی جیجا یا برات میں آیا ہوا کوئی منچلا ان کے چٹکی کاٹ لیتا ہے اور یا کمر میں اس جگہ چھُو لیتا ہے، جہاں بجلی کے سینکڑوں، ہزاروں کلو واٹ جمع ہوتے ہیں… باہر تو کوئی ڈر کے مارے ان کی طرف اُنگلی اُٹھانے کی ہمت کرتا ہے اور نہ یہ اٹھانے دیتی ہیں، لیکن شادی بیاہ میں ان باتوں کی کھُلی چھُٹی ہوتی ہے۔ بڑے چھوٹے سب دیکھتے ہیں اور مُسکرا کر چُپ ہو جاتے ہیں … جیجا کو بھی تو سالیاں ملتی ہیں۔ ایک ایک سالی، آدھی گھر والی۔ اتنی لڑکیوں کا جھُرمٹ چھیڑنے، پیار کرنے کو پھر زندگی میں کہاں ملتا ہے؟… اور یہ سالیاں، اپنے رُوپ کی کوئی جھلک دکھا کر، قدم قدم پر کوئی انگیخت پیدا کرتی ہوئی کہیں چھپن، کوئی الوپ ہو جاتی ہیں، جیسے یوگیشوروں اور تپیشوروں کے من کی مینکائیں، اللہ والوں کی حُوریں، جو انہی کے داخلی تخیل کی پیداوار ہوتی ہیں، جس کے کارن ان آسمانی عورتوں کے بدن پر ایک بھی تو خط غلط نہیں لگا ہوتا۔ اگر یوگی پتلی عورت کو پسند کرتا ہے، تو وہ پتلی ہوتی ہے۔ بھری پُری کا گرویدہ ہے تو وہ بھری پُری اور یوگیشور انہی کے ساتھ آلنگن، انہی کے ساتھ پریم کھیلن کے لیے مچل جاتا ہے اور آگے بڑھنے ، اوپر جانے سے انکار کر دیتا ہے۔ یوگیشور کو پکارتے پکارتے شبد رُوپی گورو کا گلا بیٹھ جاتا ہے، اور جیوتی سُروپ ایشور کی آنکھوں سے جوت جاتی رہتی ہے… اور یہ اپسرائیں ، یہ حُوریں یوگیوں اور صوفیوں کو اپنے اپنے رُتبے، اپنے اپنے مقام سے گرا کر اس خلوتِ صحیح سے ہمیشہ کے لیے غلط ہو جاتی ہیں…

——مگر یہ دُنیا کتنی پیاری جگہ ہے۔ جہاں کے لوگ خدا نے بنائے اور پھر فرشتوں سے کہا —— ان کو سجدہ کرو… سالیوں کے چلے جانے کے بعد آخر ایک دن، ایک رات عظیم ’’وہ‘‘ سامنے بیٹھی ہوتی ہے، ویدوں کے منتر اور شاستروں کے ارتھ جس کی طرف کبھی واضح اور کبھی مبہم سے اشارے کرتے ہیں۔ بیاہ شادی کے گیت جس کے لیے مرتعش اور بھٹّوں میں جس کے لیے اینٹیں پکتی ہیں۔ مِل میں کام کرنے والا مزدور ،جس کے لیے پان بیڑی کی دکان پر پہنچ کر اپنی جیب کی آخری دونّی سے آنکڑ لگاتا ہے اور سبھاؤں میں شور جس کے لیے بڑھتا ہی جاتا ہے، جسے اُس کے بچوں کی ماں ہونا ہے … اِس لیے وہ اس دھرتی کی طرح ڈرتی، سمٹتی ہے جس میں کسان آتا ہے —— ہل کاندھے پر ڈالے، جس کا تیز اور تیکھا پھل ابھی ابھی کسی لوہار نے تیز آنچ والی بھٹّی میں ڈھالا ہے … سر پر پگڑی باندھے، کلغی سجائے وہ راجا جنک معلوم ہونے لگتا ہے، جو دھرتی کو الٹائے گا تو نہ جانے کب سے اس میں دبی ہوئی کوئی مٹکی پھوٹ جائے گی اور اس میں سے بڑے ہی صبر، بڑے ہی ایثار، بڑے ہی پیار والی، جنک دُلاری سیتا پیدا ہو گی… جس کے لیے اس کا عظیم ’’وہ‘‘ آتا ہے۔ ایک ہاتھ میں مقدّس کتاب، دوسرے ہاتھ میں شراب لیے… تاریخ کے دھُندلے ادوار میں وہ اَن گنت گوپیوں سے کھیلا ہے۔ ان کے ساتھ بے شمار راسیں رچائی ہیں۔ اور اب اس کی آنکھوں میں ڈر ہے اور محبت اور بہیمیت۔ وہ سمجھتا ہے اس بار کی تر و تازہ، حسین و جمیل دوشیزہ کے بدن پر قبضہ جمائے گا، بار بار اپنائے گا، بے ہوش ہو ہو جائے گا۔ اور نہیں جانتا وہ محض ایک تنکا ہے، زندگی کے بحرِ ذخّار میں۔ صرف ایک بہانہ ہے، تخلیق کے اس لامتناہی عمل کو ایک بار چھیڑ دینے، ایک بار حرکت میں لے آنے کا اور پھر بھول جانے کا… دنیا بھر کے گوداموں میں بھرا ہوا اناج کسی وقت ایک دانۂ محض تھا، جو شاید اب اس دانے کو بھی معلوم نہیں کیونکہ موت اسے لوٹ چکی ہے۔ زندگی ایک بار اس کے ہاتھوں سے چھوٹ چکی ہے … کاش انسان کو یہ معلوم ہو جائے تو وہ ایک بھُوکے کی طرح عورت کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے۔ پھر عورت بھی خواہ مخواہ اپنی عصمت نہ بچائے، اس پر سونے چاندی کے ورق نہ لگائے …

شادی کے کچھ ہی دن رہ گئے تو پتہ چلا ،گوتم نے سائیکلوں کی ایجنسی چھوڑ دی ہے۔ اور آسام میں دیما پور سے پچاس ساٹھ میل دُور، کسی جنگل میں کوئی ٹھیکہ لے لیا ہے، جہاں مہینے ایک کے بعد کہیں چٹھی پہنچتی تھی، جیسے ہوائی ڈاک، ریل گاڑی سے نہیں، پیدل چل کر جاتی ہو… شادی ایک غیرمعین عرصہ کے لیے ملتوی ہو گئی۔

دادی کی تو جان ہی نکل گئی۔ اسے پسینے آنے لگے —— ٹھنڈے پسینے، جن کا باہر کی سردی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس سے پہلے جب بھی گوتم کی چٹھی آتی، دادی رقمن نے مُنّی سوہی کو بلایا اور اس کا سر چُوم لیا۔ بُلایا اب کے بھی لیکن چومنے کی بجائے زور کاایک دو ہتّڑ اس کے سر پہ جڑ دیا—— یہ لڑکی ہی منحوس تھی، کسی منحوس گھڑی میں پیدا ہوئی، کوئی منحوس ماں باپ کے گھر جنم لیا۔ اور اب جہاں بھی جائے گی، تباہی اور بربادی لائے گی… دینا پور اور دیماپور تو کیا پُورے بہار، پورے بنگال، آسام، دیس میں کھلبلی مچ جائے گی…پھر گیتا کے پنّے کھلے، پھر سترھویں ادھیائے کا پاٹھ ہوا، پھر دادی مری، پھر جی اُٹھی، کیونکہ پاٹھ کی سماپتی کے ساتھ ہی گوتم کی چٹھی چلی آئی تھی جس میں لکھا تھا اگلے سال مُنّی کی بیس تاریخ کا ساہا نکلا ہے … دادی سمجھ بیٹھی تھی، گوتم نے کہیں مُنّی کو چلتے ہوئے دیکھ لیا ہے اور سوچ لیا ہے۔ لیکن اسے کیا معلوم مُنّی، بیٹھی ہوئی مُنّی کی کثافت نے گوتم کے پورے ذہن کا کچھ یوں احاطہ کر رکھا تھا کہ وہاں اب کسی اور لطیف سی سوچ اور سمجھ کی گنجائش ہی نہ تھی۔ التوا تو ایک مجبوری تھا!

دادی ایک بار پھر مہینے اور دن گننے لگی، جیسے بیوہ چھت کی کڑیاں اور رنڈوا آسمان کے تارے گنتا ہے۔ پھر ایکا ایکی انسان تو کیا وہ بھگوان ، آگ، پانی، ہوا سب کو گالیاں دینے لگتی۔ اس میں صبر تو حد درجے کا تھا لیکن شُکر نام کو نہیں … جب تک مُنّی پانچ فٹ سوا دس انچ کی ہو چکی تھی۔ اس کی کہانی اس قصّے کی طرح ہو گئی تھی جس میں قصّہ کہنے والا اپنا سر بچانے کے لیے بادشاہ کو ایسی کہانی سناتا ہے جو ختم نہیں ہو سکتی—— سُوراخ میں سے چڑیا آئی اور دانہ لے گئی۔ چڑیاپھر آئی اور ایک دانہ اور لے گئی… اور کوٹھڑی دانوں سے بھر پڑی تھی، آسمان ستاروں سے پٹا ہوا تھا۔  شاہد میاں کے گھر کے پاس کچنار میں ہزاروں لاکھوں کونپلیں پھوٹ رہی تھیں … معلوم ہوتا تھا کہ بیاہ اور صرف بیاہ ہی اس طُولانی عمل کو روک سکتا ہے۔ ورنہ کوئی ہی دن میں مُنّی کا سر آکاش میں ہو گا اور وہ اُوپر کی اُوپر چلی جائے گی، جیسے کنس کے نیچے ٹخنے سے مہامایا بجلی بن کر آسمان کی طرف لپک گئی تھی ——

’’جب تک تو گو تُو بھی لمبا ہو چکا ہو گا‘‘ دادی کہتی۔

’’کیا پتہ، میّا؟‘‘ جمنا کہتی۔ پھر ڈگامبروں کی بہُو ترمبکابائی ایک قدم آگے بڑھ کر بول اُٹھتی ’’ہو سکتا ہے انچ دو انچ چھوٹا بھی ہو گیا ہو‘‘ اور پھر وہ ایک دوسرے کو ٹہوکے دیتے ہوئے مسکرانے لگتیں۔

’’ارے!‘‘ دادی ترمبکابائی کو پھٹکارتی ’’میں اتنا بھی نہیں سمجھتی، پلُوتی!… ایک بار جو بڑھ جائے، پھر نہیں گھٹتا‘‘ اور پھر —— ’’میں بوڑھی جرور ہو گئی ہوں، ترمبکا! پر عقل میں تجھ پہ بیس ہوں، بیس۔‘‘

پھر گلّو کی ماں حساب کر کے بتاتی۔ ’’اگر لڑکے کا قد اتنا ہی رہے، دادی! اور لڑکی کا چار پانچ گرہ ، دو تین انگل بڑھ جائے، تو وہ آپی چھوٹا ہو گیا کہ نہیں ہو گیا؟‘‘

اتنا حساب دادی کو کہاں آتا تھا؟ مُنّی سوہی کے دو تین انگل اور لمبی ہو جانے کے خیال ہی سے خون اس کے خشک چہرے کی رگوں اور ریشوں میں دوڑنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا جیسے پیپل سے گرا ہوا پتّہ پھر اپنے ڈال پہ جا لگا ہے اور دوسرے پتّوں سے ٹکرا رہا ہے ، شور مچا رہا ہے۔ وہ ترمبکا کو یا گلّو کی ماں کو گالیاں دینے لگتی —— ’’چھوٹا ہو تیرا باپ ، چھوٹا ہو تیرا بھائی، چھوٹا ہو تیرا خصم——‘‘ اور عورتیں یہ سمجھتی ہوئی کہ دیوی دلوی کی گالیوں سے گرہ ٹلے، ہنسی کھیلتی اپنے گھر چلی جاتیں، جہاں انھیں اپنے مرد، کیا باپ اور کیا بھائی اور کیا شوہر ایکا ایکی چھوٹے معلوم ہوتے لگتے!

مُنّی سو ہی اب تک اپنی ہر نس، اپنے ہرپور سے نفرت کرنے لگی تھی۔ وہ شادی بیاہ کے نام ہی سے خائف ہونے لگی۔ کیا شادی بیاہ ہی رہ گیا ہے، اس دُنیا میں؟ اس کے سِوا اور کوئی راستہ نہیں؟ کہیں بھی جانا ہو، وہاں پہنچنے کے لیے بیسیوں سڑکیں، سینکڑوں پگڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ بیاہ کے لیے کیا ایک ہی جرنیلی سڑک ہے؟ آخر تھک ہار کر مُنّی لیٹ جاتی۔ سو جاتی جہاں اسے خواب میں دُولہے ہی دُولہے دکھائی دیتے——

ایک دن دیویندر انگریزی تصویر ’’مولاں روش‘‘ دیکھ آیا جس میں اداکار، جوزے فیرار اپنے پیر پیچھے باندھ کر فرانس کا بونا مصوّر لوترک بنتا ہے۔ پہلے تو دیویندر نے نو نو کروڑ گالیاں اپنے دیش بھارت کو دیں جس میں اتنا زور لگا نے پر بھی صنعتی ترقی نہیں ہوتی، جہاں سائیکل کے کچھ پُرزے ابھی تک ولایت سے آتے ہیں۔ جہاں میک اَپ کا آرٹ اتنا بھی نہیں پنپ سکا جس سے لمبے قد کا ایک آدمی ٹھگنا اور بونا لگ سکے اور اس بات کو وہ بھول ہی گیا کہ وہ پہلے ہی ٹھگنا ہے، اس سے اور ٹھگنا نہیں ہو سکتا۔

اس پر بھی دیویندر نے جوزے فیرار کی طرح اپنے پیر پیچھے کی طرف باندھے اور گھٹنوں کے بل چل چل کر مُنّی کو دکھانے لگا —‘‘ ایسے ہی پیر باندھ لینا، مُنّی ! تب گوتم کے ساتھ ٹھیک سے پھیرے لے سکے گی‘‘——

’’اگر رسّی کھُل گئی تو‘‘ مُنّی کی سہیلی گوراں پُوچھتی۔

’’تو چُپ کرنا‘‘ دیویندر اسے ڈانٹ دیتا ’’مُنّی کا تو پھر بھی بیاہ ہو جائے گا، ڈہائی فُٹّی !— تیرا کبھی ہو گا ہی نہیں۔‘‘

اور چھوٹے قد کی گوراں دیویندر کو دانت دکھاتے ہوئے ’’ای ای ای‘‘ کرتی اور پھر ایک طرف چھُپ کر رونے لگتی اور پھر آپ ہی اپنے آپ کو منا کر مُنّی کے پاس آ جاتی اور کہتی —— ’’مُنّا ! کہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ تو اپنا کچھ قد مجھے دے دے اور میرا کچھ آپ لے لے ——‘‘

’’ایسا ہو جائے تو پھر —— دُنیا ہی نہ بس جائے‘‘ مُنّی جواب دیتی۔

—— اور پھر دونوں مل کر اس اُجڑی ہوئی دنیا کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگتیں۔ جہاں ابھی تک دیویندر اپنی ہیکڑ میں گھٹنوں کے بل چل چل کر مُنّی کو دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا — ’’ایسے ایسے … کسی کو پتہ بھی نہ چلے گا! اپنے الٹے طریقے سے وہ اس لمبی لڑکی کو وہی بات سمجھا رہا تھا، جو آج سے صدیوں پہلے ارسطو نے عورت کے نیچے گھوڑا بنتے ہوئے سکندر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی، لیکن پوری طرح سے سمجھا نہ پایا تھا … اس ادھورے کام کو دیویندر پورا کرنے کی ناکام کوشش کررہا تھا ۔ اسے اذیت ہو رہی تھی لیکن کرب کا کوئی بھی اثر وہ اپنے چہرے پر نہ آنے دیتا۔ خاصی دیر تک وہ چلتا رہا۔ حتّی کہ اس کے گھٹنے چھل گئے… ترمبکا اور جمنا اس کی طرف دیکھ کر ایک دوسرے کو کہنیاں مار رہی تھیں اور ہنس رہی تھیں اور پُکار ہی تھیں —— ’’شیلا —— اری او شیلا…۔‘‘

آخر ایک دن برات آہی گئی، پھیرے بھی ہو ہی گئے۔

پھیرو ں میں مُنّی دُہری، تہری ہو کر چل رہی تھی۔ لیکن اب اس بات کا کیا علاج کہ اتنے نیچے ہوتے ہوئے بھی وہ گوتم سے لمبی لگ رہی تھی؟ ترمبکا کا خیال صحیح تھا۔ گوتم کا قد اور بھی چھوٹا ہو گیا تھا اور یا —— ’’نیچی ، اور نیچی‘‘ … مُنّی نے دھرتی میں گھُس جانے کی کوشش کی،لیکن دھرتی نے ساتھ نہ دیا۔ وہ آسمان کی طرف لپک سکتی تھی، دھرتی میں نہ سما سکتی۔

آشیرواد کی جگہ کئی بار دادی کے گُپ چُپ دھپّے مُنّی کے سر پر پڑے، جس سے اس کا سر بول اُٹھا۔ وہ تو اسے اپنی آخری مصیبت سمجھتی تھی، لیکن دادی کا خیال ایسا نہ تھا۔ جو جھُوٹ اس نے اور اس کے بیٹے، پوتے اور تیلی محلّے کے سب مرد عورتوں نے مل کر بولا تھا، آخر تو اُسے کھُلنا تھا۔ دادی چاہتی تھی کھُلے تو کھُلے پر ابھی نہ کھُلے … ایک بار شادی ہو جائے، پھر اسے انسان تو کیا بھگوان بھی نہ توڑ سکیں گے۔ لیکن … آخر وہ پھر مُنّی کو اُونچا ہو کر چلتی ہوئی دیکھتی ، تو اپنے کلیجے میں مُکّا مارتے ہوئے کہتی —— ’’ہائے رانڈ، تو نہ بسے گی۔‘‘

پنڈت لوگ منتر پڑھتے رہے، جن کا مطلب تھا … تم جانوروں کی طرح سے نہیں رہو گے… بے موسم کا بھوگ بلاس نہیں کرو گے… تم بیمار اور فاتر العقل بچّے اس دُنیا میں نہیں لاؤ گے … اور اِردگرد کے لوگ بیمار اور فاتر العقل بچوں ہی کی طرح سے بیاہ کی رسم کو دیکھ رہے تھے۔ شاید اس لیے کہ وہ شلوکوں کی زبان، سنسکرت سے واقف نہ تھے۔

بیاہ ہو جانے کے بعد جب بھی گوتم اندر، ڈپٹی بھون کی بیٹھک میں آیا، اس نے مُنّی کو بیٹھے ہوئے پایا۔ مُنّی کو اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے کی سخت مناہی تھی جس سے اس کے بدن کی ہڈیاں تک اکڑ گئیں۔ اتنی دیر بیٹھے رہنے سے اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ پیدا ہی نہیں ہوئی، ابھی تک ماں کی کوکھ میں پڑی ہے … اور باہر آنے، ہاتھ پیر پھیلانے کے لیے تڑپ رہی ہے …

سُوکھم مُنّی نے گوتم کو اپنا داماد اور مُنّی کو اپنی بیٹی جانتے ہوئے اپنے گھر کھانے پر بُلایا، لیکن دیویندر نے اسے سمجھا بُجھا کر لوٹا دیا۔ شام کے قریب گوتم نے سینما دیکھنے کا پروگرام بنا لیا۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ جانا، کوئی موج اُڑانا چاہتا تھا۔ لیکن دادی نے انکار کر دیا۔ وہ خود تو کچھ نہ بولی لیکن اپنے بیٹے جگن ناتھ کو اشارہ کر دیا، جس نے بڑے پیار کے ساتھ گوتم سے کہا … ’’یہاں نہیں بیٹا… ہم تیاگی ذرا پُرانے خیال کے لوگ ہیں۔ تو اسے گھر لے جانا، پھر جو جی چاہے کرنا۔‘‘

اور گوتم خاموش ہو گیا۔

اگلی سویر کو گوتم کا باپ، گوتم اور برات میں آئے ہوئے سب آدمی دیما پور جانے کے لیے روانہ ہونے والے تھے۔ پہلے کلکتہ جانا تھا۔ اس میںر یت تھی کیونکہ بھائی ہونے کے ناطے دیویندر ہی کو مُنّی کو ڈولی میں ڈالنا تھا … کسی کتاب میں لکھا ہے کہ مرد کو شادی اس وقت کرنی چاہیے، جب وہ عورت کو اپنی پٹھّوں کے زور سے ایک ہی ہاتھ سے اٹھا سکتا ہو۔ دیویندر شادی شدہ آدمی تھا ،لیکن اس سے کنواری بہن کو اٹھایا نہ گیا۔ مُنّی یوں اس سے لپٹی ہوئی ڈولی میں جا بیٹھی کہ اس کے اُٹھائے ہونے کا گمان ہو۔ حالاں کہ وہ بیچ بیچ میں چلتی جا رہی تھی۔ مُنّی نے ایک ہی مٹھی چاولوں کی سرکے اُوپر سے پھینکی۔ لیکن دادی جو تھی … جس نے پوری بوری خالی کر دی۔ پھر ڈولی اُٹھی، سُسر نے ڈولی کے اُوپر سے نئے پیسوں کی چھوٹ کی۔ چونکہ وہ خود جا کر بینک سے دس روپئے کے نئے نئے پیسے لایا تھا، اس لیے وہ ڈولی پر سے گرتے ہوئے سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے اور سچ مچ کی چھوٹی چھوٹی مُہریں معلوم ہو رہے تھے… گلی بازار کے بچے پیسے اُٹھانے، ڈولی کی راہ روکنے لگے—— دادی رو رہی تھی اور بچوں سے کہہ رہی تھی ——‘‘لُچّو ، شہدو… جانے دو، ارے ڈولی کو تو جانے دو‘‘ جیسے ڈولی اب بھی واپس آسکتی تھی۔

دادی کے اشارے پر دیویندر بچوں کو مار مار کر راستے سے ہٹانے لگا۔ ایک چھوٹ اور ہُوئی اور لرزتے ہوئے پیسے سامنے زمین پر گرے۔ دیویندر کے من کا بچّہ اُبھر آیا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ بھی لپکے اور چمکتے دمکتے ہوئے پیسے اُٹھا لے اور ان پیسوں کو لگی ہوئی مٹی اور دھُول سے صاف کر کے جیب میں ڈال لے۔ لیکن ——اندر ہی اندر وہ مُسکرا دیا!

شیلا حسبِ معمول جھوٹ موٹ کے آنسو بہا رہی تھی۔ اس کے آنسوؤں سے سچّے تو گوراں، گُلّو کی ماں، جمنا اور ترمبکا کے آنسو تھے، جو اپنے اپنے من میں چھوڑے ہوئے یا چھوڑے جانے والے بھائیوں اور باپوں کو دیکھ رہی تھیں ——پھر بہنوں کو، بھابیوں کو، جیسے سُسرال کے سب رشتے جھُوٹے ہوں۔ کیا نندیں اور کیا ساسیں اور کیا سسرے… شادی کے وقت وہ سب کیسے لپک لپک کر ذہن میں آ رہے تھے …

شیلا کو اندر ایک بہت ہی تسکین، ایک بہت بڑی چھُٹی کا احساس ہوا۔ جبھی اس کی نظر دادی پر پڑی جو تھڑے پر کھڑی، اپنی دھُندلی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ڈولی کو دُور ہی دُور، نگاہوں سے دُور، دل سے دُور بھیجنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دادی کو دیکھتے ہی اس کے ماتھے پر تیور آ گئے، اور اس نے کہا— ’’یہ دوسری ڈولی نہ جانے کب اُٹھے گی——؟‘‘

دیویندر نے دادی کی طرف دیکھا ۔نہ جانے اس کے مَن میں کیا آئی کہ وہ دوڑ کر اس سے لپٹ گیا اور بولا —— ’’ماں!‘‘ اور پھر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر، بلک بلک کر رونے لگا۔ دادی نے اسے چھاتی میں چھپا لیا۔ وہ گرنے ہی والی تھی کہ دیویندر نے دادی کو اپنے بازوؤں میں اُٹھا لیا اور کسی ڈولی کی طرف لے کر چل نکلا…

مُنّی کیا گئی کہ شیام گلی اور تیلی محلّے کی رونق بھی ساتھ ہی لیتی گئی۔ ہر چھوٹا بڑا پُوچھتا تھا — مُنّی کی کوئی چٹھی آئی ہے یا نہیں، اور ہمیشہ جواب ملتا ——آئی تو نہیں، پر آ جائے گی۔ مہینے دو مہینے کے بعد تو وہاں چٹھی پہنچتی ہے۔

لیکن دادی رقمن بھیتر سے ڈری ہوئی تھی ——وہاں ضرور جھگڑے ہو گئے ہوں گے۔ ضرور انھوں نے میری مُنّی کو گھر سے نکال دیا ہو گا اور وہ کہیں جنگلوں میں خاک چانتی پھر رہی ہو گی۔ ان جنگلوں میں جہاں سانپ سانپ جتنی بڑی جونکیں ہوتی ہیں۔ پیروں سے چمٹ جاتی ہیں اور ہولے ہولے یوں خون چوستی ہیں کہ انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ وہ یوں ہی جیسے تھک کر آرام کرنے کے لیے بیٹھتا ہے تو پھر نہیں اُٹھتا…

—— ضرور مُنّی کو کوئی شیر چیتا کھا گیا ہو گا۔ ورنہ مہینوں سے چٹھی نہ لکھنے کا کیا مطلب؟ اور پھر بیچ میں ایک آدھ چٹھی آہی جاتی، جسے دادی پہلے دیویندر سے پڑھواتی۔ پھر شاہد میاں اور پھر سُوکھم ڈگامبر سے… تب کہیں جاکے اس کی تسلّی ہوتی۔ تسلی کہاں؟ اگر مُنّی لمبا خط لکھتی تو دادی کو یوں معلوم ہوتا جیسے کوئی رونے رو رہی ہے، الفاظ جن کا ساتھ نہیں دیتے۔ اگر چھوٹی لکھتی تو کہتی — دیکھا نا! میں تو پہلے ہی کہتی تھی، اسے کوئی منھ نہیں لگائے گا۔ کوئی ایسی بات ہے جو مُنّی چھُپا رہی ہے ورنہ مجھے ایسے دو اکھّر لکھ کے بھیج دیتی؟——یہی ہے نا، اپنے دیش کی بیٹیوں کا۔ مرتی مرجاتی ہیں، پر شکایت کا لفظ بھی منھ پہ نہیں لاتیں… ہے رام! اب کیا ہو گا؟ کہیں میں اُڑ کر دیما پور چلی جاؤں۔ ایک بار میں اپنی سوہی کو ہنستے، بستے ہوئے دیکھ لوں۔ تم سب جھوٹ کہتے جو۔ ضرور وہاں کوئی گڑبڑ ہے ۔پر میری بیٹی کو جس نے تنگ کیا، بھگوان اس کا بھی بھلا نہیں کرے گا… میں مرنا چاہتی تھی۔ ہاں، اب اس دُنیا میں رہ ہی کیا گیا ہے؟ لیکن یہ مجھے مرنے، آرام سے جانے بھی نہیں دیتی۔ ہے بھگوان! انسان دنیا میں جس کو سجّن سمجھتا ہے، وہ کتنا بڑا دشمن ہوتا ہے…

اور پھر،—— یہ ہو کیسے سکتا ہے، چھ فٹ کی لڑکی سے کوئی پانچ فٹ کا لڑکا بیاہ کر لے؟ اور پھر اسے بسا بھی لے؟… اب تک تو گو تو کو پتہ بھی چل گیا ہو گا اور دادی یوں بات کرتی، جیسے شاید نہ بھی پتہ چلا ہو۔ وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتی اور من ہی من میں کئی پرارتھنائیں کرتی۔ ہے بھگوان! کیا یہ نہیں ہو سکتا ،جب گوتو مُنّی کی طرف دیکھے تو وہ اُسے چھوٹی لگے؟…

ایک دن جگن ناتھ گھر میں آیا تو کچھ دیر سے … شاید دیر تک شاستر ارتھ ہوتے رہے۔ گھر پہنچنے پر شیلا سو رہی تھی۔ جگن ناتھ چپکے دبکے رسوئی میں گیا تاکہ بہو کو جگانا نہ پڑے۔ انھوں نے اُوپر نیچے ہاتھ مارے، سر بھی چھینکے سے ٹکرا کر لہو لہان کیا، لیکن کہیں کھانا ہوتا تو ملتا۔ اس بات کا علم نہ دادی کو ہوا اور نہ دیویندر کو۔ سب یہی سمجھتے رہے کہ شیلا نے حسبِ معمول کھانا پکایا ہو گا اور طاق میں رکھ دیا ہو گا——

طاق میں پانی کا ایک گلاس پڑا تھا جو جگن ناتھ کا ہاتھ لگنے سے گرنے لگا۔ لیکن جگن ناتھ نے سنبھال لیا اور وہ سمجھ گیا۔ اس نے گلاس اُٹھایا اور ایک سانس میں پینے کے بعد بولا— ’’تیرا شکر ہے مالک!‘‘

اور پھر وہ اندر جا کر لیٹ گیا۔ پانی اس کے کلیجے کو لگ گیا تھا۔ اتفاق کی بات۔ جگن ناتھ نے صبح سے کچھ نہ کھایا تھا۔ بھوکے پیٹ ہی وہ شاسترارتھ کرتا رہا۔ حالاں کہ شاستروں ہی نے شریرکو ہری مندر قرار دے کر اس کی رکھشا مانس کا پرم دھرم لکھا ہے… دراصل جگن ناتھ تیاگی پرم اُداس ہو چکا تھا اور دنیا کی کوئی چیز اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہ لا سکتی تھی۔ اپنی سمجھ میں وہ بھگوان کی پرستش کر رہا تھا، لیکن بھگوان تو سمجھتے تھے کہ وہ انسان کی پُوجا کر رہا ہے — اپنی مرحوم بیوی کی، جسے محبت اور صرف محبت کی وجہ سے وہ پیٹا کرتا تھا۔ لیکن اس پر بھی بھگوان نے جگن ناتھ کی حاضری لگا لی۔ بھگوان جانتے تھے تاکہ اُن تک پہنچنے کے لیے جس بُت کی پوجا کی جاتی ہے، وہ خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ صرف مجھ تک پہنچنے کا ایک بہانہ ہے۔

پیٹ میں درد ہونے کے باوجود جگن ناتھ دھیان میں بیٹھ گئے، جبھی دادی کی آواز آئی—— ’’بیٹا!۔‘‘

جگن ناتھ نے اندھیرے ہی میں مُنھ آواز کی طرف کر دیا اور بولا —— ’’ہاں ماں۔‘‘

’’نیند نہیں آتی؟‘‘

’’ہاں ماں —— نیند نہیں آتی۔‘‘

’’کھانا کھالیا؟‘‘

’’ہاں ماں —— بہت کھا لیا…‘‘

’’کوئی چُورن پھکّی لاوں، بہو کو جگاؤں۔‘‘

’’نہیں ماں —— میں ایسے ہی سوجاؤں گا۔‘‘

اور جگن ناتھ ایسے ہی سو گیا۔

سویرے بہت شور مچا۔ شیلا تو جانتی تھی کہ اس نے جاتے سمے سسر جی کو کھانا بھی نہیں کھلایا۔ اس لیے وہ سب سے زیادہ اُونچی آواز میں بین کر رہی تھی اور بار بار اپنے مرے ہوئے سسُر کے پیروں پر سر پٹخ رہی تھی۔ درحقیقت اس بات کا علم شیلا کو بھی نہ تھا کہ اس کے پتی دیو کے پتا، اتنی سی بات پر اتنے خفا ہو جائیں گے۔ چھوٹی سی بھُول کی اتنی بڑی سزا دیں گے۔ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتی تھی کہ گھر میں آیا ہوا پنشن کا پیسہ بند ہو جائے۔ پتہ نہیں بھگوان نے کس کی کرنی کی سزا کس کو دی۔ اس کی رمزیں وہی جانے … شیلا ،جسے اس دنیا سے بھیجنا چاہتی تھی، وہ تو جی رہی تھی——

دادی کی وہی حالت ہوئی جو ماں کی ہو سکتی ہے۔ جب جگن ناتھ تیاگی کو لے جانے لگے ، ارتھی اُٹھائی گئی، تو دادی یہ کہتے ہوئے بے ہوش ہو گئی —— ’’ارے! تجھے شرم نہ آئی جگنا۔ میں بوڑھی تیرے کاندھے پر سوار ہو کر جاتی۔ تو جوان ہو کر میرے کندھوں پہ جا رہا ہے۔‘‘

گلی کا ایک آدمی جو دیکھ رہا تھا، شاہد سے بولا——

’’کیا فقرہ ہے… کوئی لکھ دے تو لوگ رو رو کر پاگل ہو جائیں۔‘‘

شاہد نے ایک تیکھی نظر سے اس آدمی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا— ’’کیسے لکھ دیں، بھائی… اس فقرے کو لکھنے کے لیے بیٹا دینا پڑتا ہے۔‘‘

شیلا تو سمجھتی ہو گی، سسُر تو گئے، اب دادی بھی نہ بچ سکے گی۔ دادی کئی دن سکتے میں رہی۔ دیویندر گھر سے نہ گیا۔ اسے دکھانے کے لیے شیلا کو بُڑھیا کی دیکھ ریکھ کرنا ہی پڑتی تھی۔ پہلے تو شیلا نے پاٹھ کرنے کی پروا نہ کی۔ لیکن جب اس نے دادی کا زندہ مُردہ گلے پڑتے دیکھا، تو پاٹھ بھی کیا۔ لیکن دادی پھر وہیں کی وہیں تھی۔ شاید وہ اس منزل پر تھی جہاں گیتا کے پاٹھ بھی اثر نہیں کرتے۔

ہوش میں آتے ہی جو پہلا سوال دادی نے کیا وہ تھا —— ’’مُنّی کی چٹھی آئی ہے؟‘‘

دیویندر نے دادی کے سر پر ہاتھ پھیرتے، پچکارتے ہوئے کہا ’’نہیں دادی ، آ جائے گی تو کیوں فکر کرتی ہے؟‘‘

واقعی وہی ہوا۔ پتا کے مرنے کی خبر مُنّی سوہی کو کہیں ایک ڈیڑھ مہینے کے بعد مِلی، جب کہ داہ سنسکار تو ایک طرف، ہڈیاں بھی گنگا میں بہائی جاچکی تھیں۔ شاید اسی لیے، ابھی بھاگ کر کالے کوسوں سے دینا پور آنا اور آسام کی جونکیں لانا، بیکار کی بات تھی۔ اور جب باپ کی موت کے بعد، مہینوں بعد تک بھی مُنّی نہ آئی تو دادی نے ہنکارتے ہوئے کہا —— ’’ارے! مُنّی ہو تو آئے…‘‘ جیسے وہیں کسی نے مُنّی کا گلا گھونٹ ڈالا۔

دادی کو دل کی اندروں ترین گہرائیوں سے اس بات کا یقین تھا کہ مُنّی اور گوتم کی انمل، بے جوڑ شادی کبھی نبھ ہی نہیں سکتی۔ مُنّی ابھی لوٹ کے آئی کہ آئی۔ روتی، چلاّتی ، سر پیٹتی ہوئی——

برسات ہوکے ہٹی تھی۔ سورج کی گرمی کے راستے میں ایک بھی تو خاکی ذرّہ حائل نہ ہوتا تھا۔ کرنیں زمین کھود کھود کر اس میں سے کھمبییں نکال ری تھیں۔ کچنار کا پیڑ تو سامنے مکان کے سائے میں تھا، اس لیے اس پہ گرمی کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ برسات کی پہلی ریزش اور آخری ریزش بھی پیڑ پر لگے ہوئے پھولوں کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ اُلٹا اُس نے کلیوں کے منھ بھی کھول دیے اور اب پورا کچنار ہنستا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس کی ایک ڈال سامنے کھتریوں کے مکان کی کھڑکی میں جا گھُسی تھی، جہاں لال شنیل کا سوٹ پہنے کھتریوں کی بہو کھڑی تھی، جسے چند ہی دن پہلے وہ لکھنؤ سے بیاہ کر لائے تھے۔ لال  لال کپڑے، مخملی سوٹ پہنے ہوئے وہ بیربہوٹی معلوم ہو رہی تھی جو برسات اور اس کے بعد کے تڑاکے میں سے کہیں سے اپنے آپ نکل آتی ہے۔

شاہد کی بہن، فردوس مُنّی کی شادی پر تو نہ آسکی تھی۔ اب آئی تو مُنّی کے بارے میں پوچھ پوچھ کر اس نے سب کا جینا حرام کر دیا۔ فردوس دادی رقمن کے پاس بیٹھی ہوئی اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہی تھی کہ گوراں بھاگی آئی ——

’’دادی … دادی‘‘ وہ بولی ’’مُنّی آ گئی!‘‘

شیام گلی پُوری کی پُوری اُلٹ پڑی اور مُنّی کو لینے کے لیے آگے بڑھی۔ مُنّی تانگے پر سے اتری اور گوتم کے ساتھ ڈپٹی بھون کی طرف آنے لگی۔ اب وہ چھ فٹ کی تھی اور اس کے ساتھ اس کا پتی گوتم جو سچ مچ ، ترمبکا اور گُلّو کی ماں کہنے کے مطابق پہلے سے بھی ٹھِگنا اور بونا معلوم ہو رہا تھا… وہ دونوں آ رہے تھے … ایک دوسرے کے وجود سے بے خبر، کسی بھی احساسات سے عاری۔ جبھی مُنّی اپنے گھر کے پاس پہنچی تو دھپ سے ایک ہاتھ اس کے سر پر پڑا۔

’’نیچی، موئی—— نیچی۔‘‘

اور مُنّی نے بِلبِلا کر دیکھا —— دادی تھڑے پر کھڑی تھی اور اس کا عضو عضو کانپ رہا تھا۔ مُنّی نے ایکا ایکی چلاّتے ہوئے کہا —— ’’دادی ی ی ی ی‘‘ اور اس سے لپٹ گئی اور بھینچتے ہوئے بولی —— ’’باپو کہاں بھیج دیے دادی؟‘‘

دادی نے جگن ناتھ کے بارے میں کچھ نہ سُنا۔ بولی ’’گوتم آیا ہے؟‘‘

جبھی گوتم نے آ کر دادی کے پیروں پر سر رکھ دیا۔

دادی رقمن نے مُنھ قریب کر کے، آنکھیں سکوڑ کر دیکھا اور بولی —— ’’جیتے رہو، جیتے رہو بیٹا، پرماتما —— ’’اور پھر اندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی ’’آؤ … آؤ میں دادی، آؤ…‘‘

ماتم تو کچھ ہی دیر میں ختم ہو گیا ——دراصل ماتم بھی اُداس ہو گیا تھا اور اب ڈپٹی بھون میں قہقہے لگ رہے تھے۔ صرف شیلا تھی، جسے سسُر کی موت کے بعد اتنی جلدی ہنسنا اچھا نہ لگتا تھا۔

دادی نے دیکھا، مُنّی خوش، بہت خوش ہو رہی تھی۔ گوتم، اس کی ماں، اس کے با پ اسے ہاتھوں سے چھاؤں کرتے تھے۔ ہاں، چھاؤں کرنے کے لیے انھیں سیڑھی ضرور لگانا پڑتی تھی۔ دادی کو یہ بھی پتہ چلا مُنّو کو ساتواں مہینہ ہے۔

گوتم جتنے دن بھی رہا،بہت خوش، بہت ہنستا رہا۔ وہ دادی کے ساتھ مذاق کرتا رہا۔ نہ لمبے ہونے کی بات سامنے آئی، نہ چھوٹے ہونے کی … اور پھر وہ مُنّی کو زچگی کے لیے —— مائیکے چھوڑ کر، دادی ماں کے پیر چھُوتا  ہوا چلا گیا۔

دادی کی بیماری لوٹ آئی ۔ ایک دن رات کے دو بجے کھانسی جو آئی تو کتنی دیر تک دم ہی واپس نہ آیا۔ شیلا اور مُنّی پھر دوڑے۔ شیلا تو اب ان سب باتوں کو بے کار سمجھتی تھی، لیکن مُنّی سوہی کا بھگوان پر پُورا وشواس تھا۔ اس نے گوراں کی مدد سے دادی کو نیچے فرش پر اُتارا اور اس کے کان کے پاس مُنھ کر کے بڑی شردھا کے ساتھ نہ صرف گیتا کا سترھواں ادھیائے، بلکہ مہاتم بھی پڑھا۔اور اس کا پورا پھل دادی کو نمت دیا ۔لیکن دادی ابھی تک جی رہی تھی … اس کے چہرے پہ ایک عجیب قسم کی نورانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ پھر بچّوں کی شرارت چلی آئی۔ اس نے مرگھلے سے انداز میں دائیں اُور دیکھا، جس طرف مُنّی بیٹھی تھی، جو گیتا کو تپائی پر رکھتے ہوئے بڑے غور سے دادی کی سبک سی پرواز دیکھ رہی تھی——

’’مُنّی‘‘ دادی نے نحیف سی آواز میں کہا۔

’’ہاں دادی ماں‘‘ مُنّی بولی اور دادی کے مُنھ کے پاس کان کر دیا۔

دادی نے کچھ کہا۔ مُنّی ایک دم شرمائی اور پیچھے ہٹ گئی۔ شیلا پاس کھڑی تھی۔ بائیں طرف گوراں——

’’کیا پوچھا دادی نے؟‘‘ گوراں بولی۔

’’کچھ نہیں‘‘ مُنّی نے کہا اور پھر اور بھی شرما گئی۔ رنگ لال ہو گیا۔

گوراں نے ضد پکڑ لی تو مُنّی بولی ’’کہہ رہی تھی ’’ہائے ری مُنّو! … وہ تُجھ سے پیار کیسے کرتا ہو گا؟‘‘

اور پھر سب نے مُڑ کر دیکھا، دادی رُقمن جیسے پہلے مُسکرا رہی تی، ویسے ہی اب بھی مُسکرارہی ہے…

اس کے بعد داتاوَرن میں ہوا کا تَتو پَر بل ہو گیا اور تپائی پر پڑی ہوئی گیتا کے پنّے اُڑنے لگے اور اُڑتے اُڑتے وہاں آ کر رُک گئے جہاں شبد سماپت لکھا ہوتا ہے!

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید