FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

لفظوں میں احساس

 

(غزلیں )

 

 

                افتخار راغبؔ

 

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

چاند تاروں سے دوستی ٹھہری

دل کے آنگن میں روشنی ٹھہری

 

ان چاند تاروں جیسے احباب کے نام جنھوں نے قلبِ افتخار پر اپنی محبّت اور رفاقت کی بارش کر کے شعر گوئی کی طرف راغب ہونے کے اسباب مہیا کیے اور اُس میں چھپے ہوئے جذبۂ شعر و سخن کے پودے کونہ صرف نمودار ہونے پر مجبور کیا بلکہ مسلسل اُس پر اپنی حوصلہ افزائی کے ابرِ کرم اور تنقید و تبصرے کے تیرو تبر برسا کر جڑ پکڑنے اور اُبھرنے کے مواقع فراہم کرتے رہے۔

 

 

تعارف

 

نام            : افتخار عالم راغبؔ

قلمی نام        : افتخار راغبؔ

والد کا نام       : شیخ محمد ابراہیم بن شیخ محمد سلیم(مرحوم)

والدہ کا نام      : انوری خاتون بنت شیخ عمر علی(مرحوم)

تاریخ پیدائش   : ۳۱/ مارچ ۱۹۷۳ء بروز ہفتہ

آبائی وطن      : نرائن پور، میر گنج، گوپال گنج، بہار

تعلیم           : B. Tech. Civil از جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی (1998)

: I.Sc.(10+2)۔ کالج آف کمرس۔ پٹنہ، بہار (1991)                       :(10) Metric ۔ مولوی اسمٰعیل میِمورِیل اردو ہائی اسکول

نبی گنج، میر گنج، سیوان، بہار (1989)

مجموعۂ کلام      : ۱؎ لفظوں میں احساس (۲۰۰۴ء اور ۲۰۱۱ء) (ہندی میں ۲۰۰۶ء)

۲؎ خیال چہرہ (۲۰۰۷ء)

اعزاز و انعام     : ۱ ؎ جگرؔ مراد آبادی سمّان (۲۰۰۷ء)(بھارتیہ ساہتیہ کار سنسد سمستی پور، بہار)

۲؎ ویر کونْور سنگھ ایوارڈ (۲۰۱۰ء)(انڈین ایسوسی ایشن فار بہار اینڈ جھارکھنڈ قطر )

۳؎ اعزازی سند (۲۰۰۷ء) (انجمن ترقی اردو گوپال گنج، بہار)

قطر میں قیام     : ۶/ مارچ ۱۹۹۹ء سے تا حال

موجودہ پتہ      : پوسٹ بکس نمبر:11671، دوحہ۔ قطر

موبائیل: (+974) 55707870

Email: iftekhar_raghib@hotmail.com

ملازمت               : Arab Engineering Bureau

P.O.Box:1148, Doha-Qatar

مستقل پتہ      : مقام: نرائن پور، پوسٹ : میر گنج، ضلع: گوپال گنج، بہار

رابطہ نمبر               : 974 55707870+(قطر)

+91 9931969250 (ہندوستان)

 

 

 

 

سپاس گزار ہوں

 

٭٭اللہ رب العزّت کا جس نے دولتِ ایمان کے ساتھ ساتھ بے شمار نعمتوں سے نوازا اور لفظوں

میں احساس پِرونے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔

٭٭اپنے والدین، اہلیہ اور بھائیوں ( اظہار اور ذوالفقار) کے ساتھ دیگر رشتہ داروں کا بھی جن کی

دعائیں اور محبتیں ہر لمحہ میرے ساتھ ہیں۔

٭٭محترم امجد علی سروَرؔ کا جنھوں نے اپنے مشوروں سے ہمیشہ میری رہنمائی فرمائی اور اشعار پر

خوب محنت کرنے اور تراش خراش کر بہتر بنانے کی طرف توجہ مبذول کرائی اور قطر کے ادبی

حلقوں سے متعارف کرایا۔ ساتھ ہی محترم عزیزؔ رشیدی، محمد ممتاز راشدؔ اور حیدرؔ اعظمی کا بھی

جنھوں نے میری ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔

٭٭محترم انتظار نعیمؔ، محترم اسلمؔ کولسری اور محترم امجد علی سروَرؔ کا جنھوں نے اپنی گراں قدر تحریروں سے

’’لفظوں میں احساس‘‘ کو پر وقار بنایا اور اپنے مفید مشورے بھی عنایت کئے اور انتظار نعیمؔ صاحب

نے کتاب کی اشاعت میں اپنی تمام مصروفیات کے باوجود میری کافی مدد فرمائی۔

٭٭فریدؔ ندوی، عزیز نبیلؔ، شوکت علی نازؔ، اشفاق قلقؔ، ارشادؔ اعظمی اور منصورؔ اعظمی جیسے انتہائی مخلص

شاعر دوستوں کا جنھوں نے ہمیشہ میری ہمّت بڑھائی اور بعض نے کتاب کی پروف ریڈنگ

کے ساتھ ساتھ اپنے مشوروں سے بھی نوازا۔

٭٭اپنے مخلص دوستوں اشفاق ابراہیم دیشمکھ (دوحہ میں )، محبوب الٰہی (دہلی میں )، فیروز خان

(پٹنہ میں ) اور میرے مشفق رفیق عالم (نرائن پور-گوپال گنج میں ) کا جنھوں نے عام طور سے    میرا تازہ کلام سنا اور کمزور اشعار پر بھرپور تنقید و تبصرہ فرما کر بہتر بنانے کی ترغیب دی۔

٭٭قطر کی ادبی فضا کا، بزمِ اردو قطر کی ماہانہ طرحی اور ہفتہ وار تنقیدی اور دیگر نشستوں کا، حلقۂ ادبِ اسلامی

کے تعمیری اور صالح ادبی اجلاسوں کا، انجمنِ شعراء اردو ہند کی حوصلہ بخش نشستوں کا اور دبستانِ ادب کی

تربیتی نشستوں کے ساتھ دیگر تنظیموں اور ان کے اراکین کا جنھوں نے حوصلہ افزائی فرمائی۔

٭٭ماموں جان محترم ضیاء الدین احمد کا جنھوں نے ابتدائی دور میں تعلیمی رہنمائی کی اور خاص طور سے علم

ریاضی سے آراستہ کیا ساتھ ہی چھوٹے ماموں جناب کلام الدین احمد اور نانا جان شیخ عمر علی

(مرحوم) اور تمام اہلِ خانہ کا جن کی بنیادی تعلیم و تربیت نے میری زندگی پر گہرا اثر چھوڑا۔

٭٭قیامِ پٹنہ کے دوران محترم رمزؔ عظیم آبادی (مرحوم) اور قیامِ دہلی کے دوران پروفیسر آفاق احمد         صدیقی کا جنھوں نے شعر و سخن کے تعلق سے کافی مفید مشورے عنایت کیے۔

٭٭اپنے تمام اساتذہ کا، خاص طور سے اسکول کے زمانے میں اردو کے استاد محترم مہدی حسن اور  سائنس کے استاد محترم ہارون رشید (رمیش چندرا) کا اور ہر اس شخص کا جس نے میرے علم اور  میری معلومات میں اک ذرا بھی اضافہ کیا۔

٭٭اپنے تمام دوستوں کا جن کی رفاقت اور حوصلہ افزائی گوپال گنج- سیوان، پٹنہ، دہلی یا دوحہ میں

نصیب ہوئی۔ خاص طور سے اسکول کے زمانے کے کچھ خاص دوستوں کا جنھوں نے ابتدائی دور

میں میرے ٹوٹے پھوٹے ترانوں اور غزلوں کو سراہ کر شاعری کی طرف راغب ہونے پر مجبور کیا۔

٭٭قطر کے تمام شعراء اور ادب نواز شخصیتوں کا جنھوں نے بے حد خلوص و محبّت کے ساتھ ہر موقع پر

میری ہمت افزائی کی۔

٭٭سیوان اور گوپال گنج کے شعراء کا بھی جنھوں نے میری کافی عزّت افزائی کی ہے خصوصاً محترم

فہیمؔ جوگاپوری، مشتاق احمد مشتاقؔ، زاہدؔ سیوانی اور معراج الدین تشنہؔ وغیرہ۔

٭٭تمام قارئین کا جنھوں نے ’’لفظوں میں احساس‘‘ کی اشاعت کا خیر مقدم کیا اور اُن تمام مخلصین

کا بھی جو اِسے پڑھ کر اپنی تنقید و تبصرے اور مفید مشوروں سے نوازیں گے۔

٭٭٭

اشاعت دوم:

٭ اللہ رب العزّت کا جس کے فضل و کرم کی بدولت کتاب کی دوسری اشاعت کا موقع نصیب ہوا

اور قارئین نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ہمّت افزائی فرمائی۔

٭محترم ڈاکٹر ظفرؔ کمالی اور محترم خورشید اکبرؔ کا جنھوں نے کتاب کی دوسری اشاعت سے قبل انتہائی

مفید مشوروں سے نوازا۔

٭جناب افتخار سہیل کا جنھوں نے سر ورق تیار کرنے اور کتاب کو اشاعتی مراحل سے گزارنے کی

زحمت اٹھائی۔

 

 

 

 

پاکیزہ احساس کا شاعر

 

ہجر اور اس کی کیفیات کا تذکرہ ہندوستانی ادب کی ایک قدیم روایت سی رہی ہے۔ سنسکرت اور فارسی سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ ہندی اور اردو تک بھی پہنچا ہے۔ پہلے پردیس کا مفہوم ملک کے ایک حصّے سے دوسرے دور دراز مقام کا سفر اور وہاں عارضی قیام ہوتا تھا لیکن جب سے یہ سلسلہ سات سمندر پار تک طویل ہوا تو امریکہ، یورپ اور عرب و گلف ممالک میں تلاشِ معاش میں جانے والے افسانہ و ناول نگار اور شعراء نے اردو میں مہجری ادب کے تسلسل کو دراز اور مستحکم کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو گا کہ نوجوان شاعر افتخار راغبؔ نے اس سلسلہ کے انتہائی کرب و اضطراب میں شائستگی و سلیقہ شامل کر کے اس کو با وقار بنایا ہے اور اس پہلو سے وہ بیرونِ ملک مقیم شعرائے ہند میں سب سے آگے نکل گئے ہیں۔ دیکھئے کہ افتخار راغبؔ ہجرت کا آغاز بڑی جنگی کیفیت سے گزرنے کے بعد بھی ہنس کر کر رہے ہیں :

اِک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں میں

ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں میں

لیکن عالی ظرفی اور ضبط و تحمّل کے ساتھ اپنوں کو تسلّی دینے کا فریضہ بھی ادا کرتے جاتے ہیں :

ٹھیک نہیں ہے رونا دھونا سمجھے نا

فرقت میں آنکھیں نہ بھِگونا سمجھے نا

پھر شروع ہوتا ہے راغبؔ کا خلیجی ملک قطر کا سفر جو اصلاً مجبوراً مگر بہ ظاہر خوشی کے ساتھ کرنا پڑا:

دیارِ غیر میں اِک عمر راغبؔ

پڑا اپنی خوشی سے دور رہنا

وہاں شاعر جن کیفیات سے مسلسل گزرتا ہے اس کا تذکرہ اس مجموعہ کی پے در پے ہر غزل میں سنائی دیتا ہے :

گر یہ دھوکہ نہیں ہے تو راغبؔ ہے کیا

تیرے ہونٹوں پہ مُسکان پردیس میں

بہت مغموم ہے مہجور راغبؔ

دِکھاوا ہے جو ہنستا بولتا ہے

 

افتخار راغبؔ وطن سے دوری کا غم جھیلنے والے تنہا نہیں ہیں۔ ان ملکوں کے پارک، چورا ہے، ہوٹل کی شامیں کتنے ہی ہجراں نصیبوں کے درد کا اظہار بنی ہوئی ہوتی ہیں :

دوست، احباب، وطن، اپنوں سے

کتنے حالات کے مارے ہیں جدا

رات کی کیفیت اور دلدوز ہوتی ہے :

ہر طرف ہے تیری یادوں کا ہجوم

اور میری چارپائی بیچ میں

قسمت جن کو چن لے وہ راغبؔ

ہجر کی آگ میں تپنے آتے ہیں

’فارِن‘ کا سفر حسین تمناؤں اور خوبصورت آرزوؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن وہاں شاعر پر جو کچھ گزرتی ہے وہ پتھّر کاٹنے کے مترادف ہے :

اِک اِک لمحہ گِن کر کاٹ رہا ہوں

ہجر کے دن یا پتھّر کاٹ رہا ہوں

پردیسی ہوں دیکھ لے اے تیرہ شب

کتنی مصیبت دن بھر کاٹ رہا ہوں

اور یہ دن رات کسی سزا کاٹنے سے کم نہیں ہیں :

اہلِ فرقت کی زندگی راغبؔ

زندگی ہے کہ اِک سزا ہے جی

اپنی مرضی کی اُڑانیں بھر نہیں سکتے پرند

کٹ گئے ہوں جیسے ان کے بال و پر پردیس میں

حضرتِ داغؔ دہلوی نے کہا تھا:

جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے

آپ بندہ نواز کیا جانیں

راغبؔ یوں رقم طراز ہیں :

فرقت کے موسم میں کیسے زندہ ہوں تم کیا جانو

کیسے اس دل کو بہلا کر میں نے خود کو روکا ہے

رُک تو گئے ہیں مگر وہاں ہر روز ایک قیامت ہے، وطن سے دوری جو ہے :

بے وطن ہو تو پھر پڑے گا ہی

واسطہ روز روز محشر سے

اور جب حالات محشر کے سے ہوں تو اپنوں سے ملنے کے مواقع کا کیا سوال؟

ملنے دیتے نہیں مجھے راغبؔ

میرے حالات بال بچوں سے

پھر حق پسندی سے کام لیتے ہوئے افتخار راغبؔ پردیس کی اس تنہا زندگی کے غیر فطری ہونے کا اعتراف واضح پیرائے میں کرتے ہیں :

کیسے بے کل ہو نہ ہم پردیسیوں کی زندگی

تنہا تنہا جی رہے ہیں غیر فطری زندگی

اور زندگی غیر فطری ہو تو کہاں کا چین، کیسا آرام:

پردیسی کو چین کہاں حاصل راغبؔ

گھر جا کر آرام سے سونا، سمجھے نا

بہر حال ہجر کی مدّت ایک نہ ایک دن کٹتی ہی ہے۔ ایسے موقع پر صحرا نوردوں کی جو کیفیت ہوتی ہے راغبؔ نے دلکش انداز میں اس کا اظہار کیا ہے :

کسی سائے کو ترسا ہوں بہت صحرا نوردی میں

خوشی کے مارے مر جاؤں نہ گھر جانے سے پہلے ہی

مگر گھر پہنچنے سے پہلے پردیس میں جو کچھ گزر گئی ہے اور جس کا درد انگیز اظہار مندرجہ بالا شعروں میں بڑی فنکاری سے ہوا ہے، اس کے پیش نظر شاعر اپنوں کے درمیان، اپنی مٹّی کے قریب رہنے کو ترجیح دے کر قصۂ ہجر ختم کرتا ہے :

یہاں گھُٹ گھُٹ کے مرنے سے ہے بہتر

وہیں چھوٹا سا کاروبار کرنا

افتخار راغبؔ پر وطن سے دورپردیس میں جو کچھ گزری ہے یا گزر رہی ہے اس کا اظہار ان چند شعروں ہی میں نہیں بلکہ ان کی شاید ہی کوئی غزل ہو جس میں اس کرب کا اظہار پہلو بدل بدل کر نہ ہوا ہو، لیکن ان کے کردار کی بلندی ہے کہ وہ اپنے غم کے ساتھ ہی دوسروں کے غم میں بھی برابر کے شریک رہتے ہیں اور ہر طرف روا رکھے جانے والے ظلم پر احتجاج بھی کرتے ہیں :

مظلوموں کی چیخ سنائی دیتی ہے

جب بھی ہم گجرات کی باتیں کرتے ہیں

جگر کے خون سے میں نے ہی اس کو سینچا تھا

چمن میں ہو گیا بے اختیار میں ہی کیوں

کمی نہیں ہے جہاں میں وفا شعاروں کی

تمھارے ظلم و ستم کا شکار میں ہی کیوں

اور جب بات ظلم و ستم کی ہو تو جرأت مند راغبؔ اس دور کے انسانیت دشمن سفاکوں پر نشتر بھی چلاتے ہیں :

خوف و دہشت کو مٹانے کے لیے

قتل و غارت کا یہ منظر دیکھیے

بن رہا ہے دیوتا جو امن کا

اس کا لہجہ اس کے تیور دیکھیے

بلکہ آگے بڑھ کر ظلم پر خاموشی کو کمزوریِ ایمان سے تعبیر کرتے ہیں :

اپنے ایماں کا جائزہ لیجئے

رہ گئے ظلم دیکھ کر خاموش

اور اس ماحول میں وہ فریضۂ اصلاح ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں :

ختم ہو جائے لڑائی بیچ میں

اس لیے پڑتا ہوں بھائی بیچ میں

مگر خود نگری اور خود احتسابی کی جانب بھی توجہ رکھنے کو اہم سمجھتے ہیں :

کاش خود کو بھی دیکھتے راغبؔ

رہ گئے انگلیاں اُٹھانے میں

ساتھ ہی غیرتِ فنکار کی حفاظت کو بھی لازم خیال کرتے ہیں :

ایک فنکار کی راغبؔ یہ نہیں شان کہ وہ

صاحبِ دولت و توقیر کے پیچھے بھاگے

کردار کی اعلیٰ صفات میں وہ عزم و حوصلے کی اہمیت سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں، جس سے بڑے بڑے طوفانوں کا رخ بھی موڑا جا سکتا ہے :

عزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے

موڑ کر دریا کا دھارا رکھ دیا

جذبۂ قناعت سے زندگی میں جو حسن و رعنائی پیدا ہوتی ہے اس سے بھی افتخار راغبؔ بہ خوبی آگاہ ہیں :

چادر ہی کے مطابق پھیلاؤ پانْو راغبؔ

معیارِ زیست رکھو اوقات کے مطابق

اور یہ سب بلند صفات انسان میں نہ ہوں تو اس کے جہل کی پردہ پوشی کسی اور چیز سے نہیں ہو سکتی:

ضروری کیا ہے کہ کچھ ڈگریوں کی برکت سے

دماغ و دل سے جہالت کی گرد چھٹ جائے

افتخار راغبؔ کے کلام میں پاکیزہ اشعار جا بجا بکھرے پڑے ہیں جو ان کے کڑے مشقِ سخن، شرافتِ نفس، احساسِ ذمہ داری، خالقِ کائنات سے گہرے تعلق اور ذاتِ رسولؐ سے بے پناہ عشق کے مظہر ہیں :

دشمن ہے کون، کون ہے راغبؔ ہمارا دوست

سمجھا کر اس نے ہم کو اتارا زمین پر

غبار دل سے نکال دیتے

تو سب تمھاری مثال دیتے

مٹیں گی دہر سے کیسے یہ ظلمتیں راغبؔ

کوئی چراغ جلائے کوئی بجھا جائے

میں تیری آنکھ سے دیکھوں تِری زباں بولوں

مِرے وجود میں اس طرح تو سما جائے

جس کو معلوم ہے دنیا کی حقیقت اے دوست

وہ کبھی طالبِ دنیا نہیں ہونے والا

اِک طرف حد سے زیادہ اپنی طاقت پر غرور

خالقِ کونین پر پورا بھروسہ اِک طرف

راستے یوں تو ہزاروں ہیں مگر اے زندگی

ایک سیدھا راستہ خیر البشرؐ کا راستہ

یہاں پہنچ کر افتخار راغبؔ مزید بلندی پر پرواز کرتے ہیں اور ورن آشرم کے ناقابلِ فہم عقیدہ کے مقابلے میں وحدت بنی آدم ؑ کا صاف ستھرا تصور پیش کرتے ہیں :

سمجھا ہوں میں جس روز سے آدمؑ کی حقیقت

مجھ کو کوئی ادنیٰ کوئی اعلیٰ نہیں ملتا

راغبؔ کے اس شعری مجموعہ ’’لفظوں میں احساس‘‘ میں ایک اور دل کشی بھی قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے اور وہ ہے بہت ہی فطری پیرائے، انتہائی رواں دواں انداز میں ردیفوں کے استعمال  سے نئے شعروں کی تخلیق۔ ایسے کتنے ہی شعر ہیں جو اس مجموعہ کے حسن کو بڑھاتے اور شاعر کی قادرالکلامی کی جانب اشارہ کرتے ہیں :

زندگی کیا چیز ہے پوچھو اسی انسان سے

غیر کی خاطر کی مٹا دی جس نے اپنی زندگی

مِرے حصّے میں ارمانوں کا اِک صحرا ہے

نادیدہ آبلہ پائی ہے مِرے حصّے میں

روئے خوب ٹوٹ کر کبھی ہم

خود میں بھی کبھی سمٹ کے روئے

میرے اُس کے درمیاں یونہی رہیں گی رنجشیں

کوئی جب تک تیسرا ہے میرے اُس کے درمیاں

دِیے رکھ دِیے تھے کہ جگمگ ہو جگ

پہ تم نے چھپا کر دِیے رکھ دِیے

سمندر کی بجھی کب پیاس راغبؔ

ہزاروں پی گیا دریا سمندر

کیا جاتا اگر تھوڑا سا پیار جتا جاتے

ہنس بول کے دل بہلا جاتے تو کیا جاتا

مِرا دل میری ہستی کا خزینہ

مِری دنیا کا محور ہے مِرا دل

بھاگنے کا ہو جسے شوق وہ سب سے پہلے

اپنے کردار کی تعمیر کے پیچھے بھاگے

بھاگتے رہ گئے پیچھے ہی تِرے اے دنیا

جو تِری زلفِ گرہ گیر کے پیچھے بھاگے

اور گویا آخر میں راغبؔ زندگی کی ایک بڑی حقیقت کا اظہار سادہ مگر خوب صورت پیرائے میں یوں کرتے ہیں :

مٹّی کے ہیں مٹّی میں مل جائیں گے

رہ جائے گا چاندی سونا سمجھے نا

جس شاعر کے یہاں ایسی شگفتگی، شائستگی، روانی اور پختہ کاری اور مقصدیت ہو اور ابھی وہ بالکل جوان ہو وہ بجا طور پر بیرونِ ہند مقیم اردو شعراء میں اہم مقام پر فائز کئے جانے کا حق رکھتا ہے بلکہ یقین ہے کہ اس کے اولین مجموعہ کلام کو اندرون ملک بھی تحسین کی نظر سے دیکھا جائے گا اور اس کی ادبی دنیا میں بھرپور پذیرائی ہو گی۔

انتظار نعیمؔ

جنرل سکریٹری، ادارۂ ادبِ اسلامی ہند

دہلی، ۳۱/اکتوبر ۲۰۰۴ء

 

 

 

 

افتخار راغبؔ کی شاعری کے بارے میں چند معروضات

 

سادگی، درد مندی اور راست فکری کو افتخار راغبؔ کے قصرِ سخن میں بنیادی ستونوں کی حیثیت حاصل ہے۔ انھوں نے شاعری کو محض وجہِ شہرت نہیں جانا اور نہ ہی رسماً اپنایا ہے۔ بلکہ ان کے مجموعۂ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک تڑپ ہے، ایک جذبہ ہے اور ایک بے اطمینانی ہے جو انھیں کچھ کہنے پر مجبور کرتی ہے۔

دنیا میں ہم پیڑ لگانا بھول گئے

جنّت کے باغات کی باتیں کرتے ہیں

آلودگیِ ذہن و خیالات کے سبب

دشوار ہو رہا ہے گزارا زمین پر

یوں ہی سایہ فگن میرے مولیٰ

سر پہ ماں باپ کی دعا رہ جائے

اپنے ایماں کا جائزہ لیجئے

رہ گئے ظلم دیکھ کر خاموش

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسے افکار ہی انھیں آمادۂ سخن کرتے ہیں، تاہم انھوں نے ان شعروں کو اپنی غزلوں میں یوں سمویا ہے کہ قاری یا سامع ان کی ’’ سازش‘‘ کو سمجھے بغیر ان کی تاثیر سے لبریز ہو جاتا ہے۔ ان نگینوں کے لیے وہ جو انگشتریاں تیار کرتے ہیں ان میں وہ سب کچھ ہے جو بزمِ سخن میں انھیں توجہ اور عزّت عطا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

راغبؔ نے محبّت کی باتیں بھی کی ہیں مگر پوری سچّائی اور دلداری کے ساتھ:

تم نے رسماً مجھے سلام کیا

لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے

جیسے تم نے تو کچھ کیا ہی نہیں

سارے فتنے کی جڑ رہا ہوں میں

مجھ کو شاعر بنا کے جانِ غزل

اپنے مقصد میں کامیاب ہے تو

روز دیدار تیرا کرتا ہوں

تجھ کو حیرت ہو جان کر شاید

بات نکلی ہے جب بھی پھولوں کی

ایک ہی نام مجھ کو یاد آیا

 

راغبؔ کی شاعری میں روایت کا رچاؤ پوری طرح موجود ہے لیکن وہ اس میں جدے دیت کے پھول کھلانے کے بھی خواہش مند ہیں :

چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی

ہم طرزِ جہاں سے ہٹ کے روئے

اس شعر سے تو ان کی خواہش ٹپکتی ہے تاہم ان کے یہ شعر بھی ہمیں متوجہ کرتے ہیں بلکہ چونکاتے ہیں :

ایک پل کا یقیں نہیں راغبؔ

اِک صدی کا پَلان کر بیٹھے

وہ تو ہمدم دہ تھا کوئی دشمن نہ تھا

آ گیا اس کا بھی نمبر دیکھئے

تاہم اس عمل کو انھوں نے خود پر اتنا حاوی نہیں ہونے دیا کہ آدمی ان جدّتوں میں الجھ کے رہ جائے۔ ان کے یہ اشعار بھی دیکھیے :

جانے کب بجلی گری کچھ یاد نیِں

بن چکا تھا آشیانا یاد ہے

کیسے بے کل ہو نہ ہم پردیسیوں کی زندگی

تنہا تنہا جی رہے ہیں غیر فطری زندگی

درد ایسا ہے کہ پتھّر کا کلیجہ پھٹ جائے

سخت جانی کا تقاضا ہے کہ ہم چپ ہی رہیں

اردو زبان کے بارے میں ان کا شعر بھی قابلِ داد ہے :

گستاخیاں بھی کرنی ہوں گر میری شان میں

یہ التجا ہے کیجیے اردو زبان میں

راغبؔ کی شاعری کا ایک اور حسن ان کا گفتگو کا انداز ہے۔ بعض غزلوں کی ردیفیں خاصہ دلنشیں اور پر لطف ہیں :

کوشش کر لو اتنا بھی آسان نہیں

لفظوں میں احساس پِرونا سمجھے نا

راغبؔ کے کلام کی باقی خوبیاں (اور وہ بہت سی ہیں ) آپ خود تلاش کیجیے۔ میں ان کے ایک شعر میں ذرا سی ترمیم کر کے آپ سے اجازت چاہتا ہوں :

رہ گذارِ غزل میں تابندہ

اے خدا ’’ان کا‘‘ نقشِ پا رہ جائے

اسلمؔ کولسری

اردو سائنس بورڈ، لاہور۔ پاکستان ( یکم نومبر، ۲۰۰۴ء)

 

 

 

 

مرصّع ساز شاعر… افتخار راغبؔ

 

دوحہ بلکہ خلیجی ممالک میں ہونے والی شاعری کے منظر نامے پر ایک با وقار نام جو ابھر کر سامنے آیا ہے، وہ افتخار راغبؔ  ہے۔ جس نے بہت کم عرصے میں اپنی شاعری اور اپنے وجود کو یکساں با  اعتبار کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ریاضت، اپنے احساسات، اپنے نظریات کو اپنے اشعار میں اس طرح پرویا ہے کہ طبیعت مچل اٹھتی ہے۔ اور زبان سے بے ساختہ واہ نکل جاتی ہے۔ شاعری کو زبان عطا کرنے کے لیے ایک ایک شعر پر غور و فکر، افہام و تفہیم، الفاظ کے خوبصورت اور برجستہ استعمال سے شعری پیرہن کو زر نگار کرنا کوئی افتخار راغبؔ  سے سیکھے۔ یہ جب شعر کہتے ہیں تو مضمون کے تحت الثریٰ میں اُتر کر احساس میں ڈوب کر اپنا تخلیقی سفر جاری کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ہم عصروں میں منفرد اور مرصّع ساز شاعر تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اپنی شاعری کی عمر سے بڑی شاعری کر رہے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کی شاعری صالح فکر، جمالیات، منفرد لفظیات، مضمون آفرینی، نفسیاتی کیفیات، اخلاقی علمیت، سنجیدگی و متانت، حسنِ فصاحت و بلاغت، اور شگفتگی و بے ساختگی کے جواہرات سے مزیّن ہے۔ جو ان کی شخصیت کی آئینہ دار بھی ہے۔ نہایت مطیع، سعادت مند، روشن خیال، دیندار اور بے لوث محبّت کا دلدادہ، یہی صفات انھیں ممتاز اور معتبر کرتی ہیں۔ راغبؔ پورے وثوق اور اعتماد سے اپنے شعر کا سہارا لیتے ہوئے ہم کلام ہے :

میرا احوال سنانے کی ضرورت کیا ہے

ایک ہی شعر مرا کوئی سنا دے ان کو

لوگ کہتے ہیں مجھے راغبؔ  تو کہنے دیجیے

آج بھی کل کی طرح ہوں آپ کا میں افتخارؔ

انہوں نے جب غزل کو غزل کے روایتی پیرائے میں برتا تو غزل کو خالص غزل کی زبان عطا کی اور بڑے دلچسپ لہجہ میں اظہار احساس کیا:

مضطرب آپ کے بنا ہے جی

یہ محبّت بھی کیا بلا ہے جی

جی رہا ہوں میں کتنا گھٹ گھٹ کر

یہ مرا جی ہی جانتا ہے جی

جب سے چلی ہے زیست میں فرقت کی سرد لہر

بیٹھا ہوں تیری یاد کے تپتے الاؤ پر

مہجوری کے کرب کو جتنا راغبؔ نے محسوس کیا ہے اور شاعری میں اظہار کیا ہے کہیں اور نظر نہیں آتا۔ معاشرے میں جورو استبداد، ظلم و تشدّد، جبر و جارحیت خاموشی سے سہنا یا تماشائی بنے رہنا، جرمِ عظیم سمجھتے ہیں :

لوگ مجرم تمہیں سمجھ لیں گے

رہ گئے آج تم اگر خاموش

اپنے ایماں کا جائزہ لیجئے

رہ گئے ظلم دیکھ کر خاموش

کہیں بھی ظلم کی تلوار جب برستی ہے

تڑپنے لگتا ہوں بے اختیار میں ہی کیوں

اس تڑپ اور اضطراب کا درماں بھی خود ہی تلاش کرتے ہیں اور زمانہ کو نسخہ ہائے کیمیا پیش کرتے ہیں :

تلوار رہنے دیجیے راغبؔ میان میں

تاثیر پیدا کیجیے اپنی زبان میں

وہی ہیں ہم جنھیں سجدہ کیا فرشتوں نے

کبھی تو ہم کو ہمارا مقام یاد آئے

ایمان و یقین سے لبریز ذہن و دل رکھتے ہیں اور زندگی کی آسائشوں، آرام طلبی اور مال و متاع کی طرف مائل انسانوں میں فلسفۂ حیات عام کرتے ہیں :

خواہشیں بے انتہا ہیں ان گنت ہیں مسئلے

اور ہے مدِّ مقابل مختصر سی زندگی

مٹّی کے ہیں مٹّی میں مل جائیں گے

رہ جائے گا چاندی سونا سمجھے نا

شاعری ریاضت سے نہ حاصل ہوئی ہے اور نہ کسی کو حاصل ہو گی مگر یہ کہ اللہ جسے چاہے۔ فنِ شاعری کو شعر کہتے وقت انہوں نے محسوس کیا ہے اور ان کا کیا مشاہدہ ہے رقم طراز ہیں :

ایک فنکار کی راغبؔ یہ نہیں شان کہ وہ

صاحبِ دولت و توقیر کے پیچھے بھاگے

کہو غزل تو لگاؤ دل و دماغ ذرا

ردیف و قافیہ اچھی طرح نبھا کے کہو

خود سے سننا چاہتا ہوں صرف میں ایسا ہی شعر

دل کہے سن کر جسے ’اچھّا ہے، پھر ارشاد ہو‘

راغبؔ کا خاصہ ہے کہ یہ چست اور برجستہ شعر تخلیق کرتے ہیں۔ اس وقت تک مصرعہ لگاتے رہتے ہیں جب تک شعر میں برجستگی نہ آ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جس خیال جس موضوع کو بھی چھوا وقار عطا کیا۔ غزل ہی نہیں حمد، نعت، قطعہ، دوہے وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن طبیعت غزل کی طرف زیادہ راغب ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ انھیں اور بھی شہرت و بلندی عطا کرے اور نیک نامی ان کے قدم چومے !!

امجد علی سرورؔ

صدر: بزمِ اُردو قطر

بانی و سرپرست : دبستانِ ادب (قطر)

مورخہ : ۴/ نومبر ۲۰۰۴ء بروز : جمعرات

دوحہ۔ قطر

 

 

 

 

 

 

 

اللہ دیتا ہے عزّت بھی ذلّت بھی

جھوٹی شان میں کیا رکھّا ہے سچ بولو

 

 

 

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

 

وہی جو خالق جہان کا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے

جو روح جسموں میں ڈالتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے

 

وہ جس کی حکمت کی سرفرازی، وہ جس کی قدرت کی کارسازی

ہر ایک ذرّے میں رونما ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے

 

وہ بے حقیقت سا ایک دانہ، جو آب و گِل میں تھا مٹنے والا

جو اُس میں کونْپل نکالتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے

 

الگ الگ سب کے رنگ و خصلت، جدا جدا سب کے قدّو قامت

جو سارے چہرے تراشتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے

 

ہے علم میں جس کے ذرّہ ذرّہ، گرفت میں جس کی ہے زمانہ

جو دل کے بھیدوں کو جانتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے

 

وہ جس نے دی مختلف زبانیں، تخیّل و عقل کی اُڑانیں

جو کشتیِ فن کا ناخدا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے

 

کوئی تو ہے جو ہے سب سے اوّل، کوئی تو ہے جو ہے سب سے آخر

جو ابتدا ہے جو انتہا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے

 

مصیبت و درد و رنج و غم میں، حیات کے سارے پیچ و خم میں

وہ جس کو راغبؔ پکارتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نعت

 

کیوں نہ اِس راہ کا ایک ایک ہو ذرّہ روشن

جب ہے سرکارؐ کا ہر نقشِ کفِ پا روشن

 

جس کو حاصل ہو رضا اور شفاعت اُنؐ کی

ہے اُسی شخص کی قسمت کا ستارا روشن

 

آپؐ آئے ہیں اندھیروں کو مٹانے کے لیے

کیوں نہ ہو آپؐ کا ہر طور طریقہ روشن

 

حبِّ سرکارِ دو عالمؐ جو بسالے دل میں

دونوں عالم میں ہو خوش بخت کا چہرہ روشن

 

دیکھ کر ظلم نہ بیٹھے گا وہ بے حس کی طرح

جس کے سینے میں ہے ایمان کا جذبہ روشن

 

زندگی بھر وہ جلائے گا محبّت کے چراغ

آپؐ کے نور سے جس کا ہے عقیدہ روشن

 

آپؐ کے چاہنے والوں کی یہی چاہت ہے

شمعِ ایماں رہے سینے میں ہمیشہ روشن

 

جس کو حاصل نہیں آقاؐ کی غلامی راغبؔ

دین روشن ہے نہ اس شخص کی دنیا روشن

٭٭٭

 

 

مناجات

 

ہو مشعلِ ہدایت قرآن زندگی بھر

قائم رہے خدایا ایمان زندگی بھر

 

تیرا کرم ہے تو نے مومن ہمیں بنایا

بھولیں نہ ہم یہ تیرا احسان زندگی بھر

 

تو ہی ہمارا خالق، رازق بھی تو ہمارا

تو ہی کرے گا مشکل آسان زندگی بھر

 

تیرے کرم سے کشتی جب ہے رواں ہماری

یارب رہے معاون طوفان زندگی بھر

 

بندے جو راہِ حق پر ہیں گامزن خدایا

بھٹکا سکے نہ ان کو شیطان زندگی بھر

 

عہدِ طفولیّت ہو پیری ہو یا جوانی

مجبور و ناتواں ہے انسان زندگی بھر

 

سارے جہان کو ہم پیغامِ حق سنائیں

کوشش یہی ہو اپنی ہر آن، زندگی بھر

 

تیری رضا کی خاطر ہر شَے نثار کر دیں

قائم رہے یہ دل میں ارمان زندگی بھر

 

راغبؔ کو بخش دے تُو صبر و سکوں کی دولت

روشن رہے لبوں پر مُسکان زندگی بھر

٭٭٭

 

 

 

 

جی چاہتا ہے جینا جذبات کے مطابق

حالات کر رہے ہیں حالات کے مطابق

 

جس درجہ ہجر رُت میں آنکھیں برس رہی ہیں

غزلیں بھی اُگ رہی ہیں برسات کے مطابق

 

سُکھ چین اور خوشی کا اندازہ مت لگاؤ

اسباب و مال و زر کی بہتات کے مطابق

 

ہو شہر کے مطابق حاصل ہر اِک سہولت

ماحول پُر سکوں ہو دیہات کے مطابق

 

دیکھو خلوصِ نیّت جذبات اور محبّت

مت چاہتوں کو تولو سوغات کے مطابق

 

چادر ہی کے مطابق پھیلاؤ پانْو راغبؔ

معیارِ زیست رکھّو اوقات کے مطابق

٭٭٭

 

 

 

 

 

حال کہنا تھا دل کا بر موقع

وقت نے کب دیا مگر موقع

 

تم بہت سوچنے کے عادی ہو

تم گنْواتے رہو گے ہر موقع

 

حالِ دل تجھ سے کہہ نہ پاؤں گا

مل بھی جائے کبھی اگر موقع

 

جانے کب ہاتھ سے نکل جائے

زندگی کا یہ مختصر موقع

 

موسمِ ہجر میں برسنا ہے

کم نہیں تم کو چشمِ تر موقع

 

تیرے آنے میں ہو گئی تاخیر

اب کہاں میرے چارہ گر موقع

 

لگ رہا ہے کہ مل نہ پائے گا

تم سے ملنے کا عمر بھر موقع

 

روز فتنہ کوئی اُٹھانے کا

ڈھونڈ لیتے ہیں فتنہ گر موقع

 

اہلِ دانش بھی اب کہاں راغبؔ

بات کرتے ہیں دیکھ کر موقع

٭٭٭

 

 

 

 

 

کتنے دن اور کئی برس یوں ہی

کیا تڑپتے رہیں گے بس یوں ہی

 

ان کی رُسوائیوں پہ حیرت کیا

منھ کی کھاتے ہیں بوالہَوس یوں ہی

 

کم اُپجتی ہیں کام کی چیزیں

اُگتے رہتے ہیں خار و خس یوں ہی

 

ہم ہی کیا کیا گمان کر بیٹھے

اُس نے پوچھا تھا حال بس یوں ہی

 

چاہتے ہو کہ خونِ دل نہ جلے

فن پہ حاصل ہو دسترس یوں ہی

 

وقت آتے ہی توڑ دیتے ہیں

سارے رشتوں کو ہم نفَس یوں ہی

 

یوں ہی یاد آ گیا کوئی راغبؔ

اور آنکھیں گئیں برس یوں ہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاند تاروں سے دوستی ٹھہری

دل کے آنگن میں روشنی ٹھہری

 

سارے الزام آ گئے مجھ پر

اِک خطا بھی نہ آپ کی ٹھہری

 

میں کہ سادہ سا آدمی ٹھہرا

اور جنّت کی وہ پری ٹھہری

 

دل میں دریا ہے موج زن لیکن

میرے ہونٹوں پہ تشنگی ٹھہری

 

اُن سے بچھڑے تھے جس گھڑی راغبؔ

ہے ابھی تک وہیں گھڑی ٹھہری

٭٭٭

 

 

 

 

ڈوب جانا ہی اُس کو تھا آخر

کچّی مٹّی کا تھا گھڑا آخر

 

ہم سے کیا ہو گئی خطا آخر

ساری دنیا ہے کیوں خفا آخر

 

کام آتی نہیں کوئی تدبیر

کیا ہے قسمت میں اے خدا آخر

 

تیری فرقت میں بھی دھڑکنے کا

کر لیا دل نے حوصلہ آخر

 

کس کی فرقت میں دل نڈھال ہوا

کون اتنا قریب تھا آخر

 

ہم نے کوشش ہزار کی راغبؔ

جو لکھا تھا وہی ہوا آخر

٭٭٭

 

 

 

 

 

مضطرب آپ کے بِنا ہے جی

یہ محبّت بھی کیا بلا ہے جی

 

جی رہا ہوں میں کتنا گھُٹ گھُٹ کر

یہ مِرا جی ہی جانتا ہے جی

 

میرے سینے میں جو دھڑکتا ہے

میرا دل ہے کہ آپ کا ہے جی

 

آپ اُس کو بُرا سمجھتے ہیں

اپنا اپنا مشاہدا ہے جی

 

اتنے معصوم آپ مت بنئے

آپ لوگوں کو سب پتا ہے جی

 

کیا بتاؤں کہ کتنی شدت سے

تم سے ملنے کو چاہتا ہے جی

 

چند یادیں ہیں چند سپنے ہیں

اپنے حصّے میں اور کیا ہے جی

 

اہلِ فرقت کی زندگی راغبؔ

زندگی ہے کہ اِک سزا ہے جی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چشمِ تر کو زبان کر بیٹھے

حال دل کا بیان کر بیٹھے

 

تم نے رسماً مجھے سلام کیا

لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے

 

ایک پل بھی کہاں سکون ملا

آپ کو جب سے جان کر بیٹھے

 

پستیوں میں کبھی گرا ڈالا

اور کبھی آسمان کر بیٹھے

 

آس کی شمع ٹمٹماتی رہی

ہم کہاں ہار مان کر بیٹھے

 

ایک پل کا یقیں نہیں راغبؔ

اِک صدی کا پَلان کر بیٹھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں میں

ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں میں

 

جیسے تم نے تو کچھ کیا ہی نہیں

سارے فتنے کی جڑ رہا ہوں میں

 

ایک تیرے لیے رفیقِ دل

اِک جہاں سے جھگڑ رہا ہوں میں

 

زندگانی مِری سنْور جاتی

گر سمجھتا بگڑ رہا ہوں میں

 

کس کی خاطر غزل کی چادر پر

گوہرِ فکر جڑ رہا ہوں میں

 

کوئی چشمہ کبھی تو پھوٹے گا

اپنی ایڑی رگڑ رہا ہوں میں

 

آپ اپنا حریف ہوں راغبؔ

آپ اپنے سے لڑ رہا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

چارہ گر چارہ ڈھونڈتا رہ جائے

درد ایسا کہ لا دوا رہ جائے

 

آرزو ہے کہ اب تِرے در پر

سر جھکا ہے تو پھر جھکا رہ جائے

 

رہ گذارِ غزل پہ تابندہ

اے خدا میرا نقشِ پا رہ جائے

 

آرزوئیں تمام مٹ جائیں

تجھ سے ملنے کا آسرا رہ جائے

 

یوں ہی سایہ فگن مرے مولیٰ

سر پہ ماں باپ کی دعا رہ جائے

 

عشق میں وہ کمال پیدا کر

حسن حیرت سے دیکھتا رہ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شام کو سَو لگے سَویرے سَو

زخم تازہ ہیں دل پہ میرے سَو

 

بھیس میں خواہشوں کے بیٹھے ہیں

دل میں سُکھ چین کے لُٹیرے سَو

 

تیرا دیدار ہو نہ ہو لیکن

تیرے گھر کے لگا لوں پھیرے سَو

 

دل میں ایثار کا تو جذبہ رکھ

دوست بنتے رہیں گے تیرے سَو

 

اپنی آب و ہوا کی فکر کرو

ہم پرندوں کے ہیں بسیرے سَو

 

وقت نے کر دیا مجھے تنہا

ملنے والے کبھی تھے میرے سَو

 

یوں ہی جگمگ نہ ہو گا جگ راغبؔ

روشنی ایک ہے اندھیرے سَو

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل ہے بے بس تجھے بھلانے میں

بن تِرے کچھ نہیں زمانے میں

 

تخت اور تاج کھو دیے ہم نے

بزمِ شعر و سخن سجانے میں

 

پھوٹ پڑتے ہیں آنکھ سے آنسو

موڑ آتے ہیں وہ فسانے میں

 

کس نتیجے پر آپ پہنچے ہیں

کٹ گئی عمر آزمانے میں

 

درد و غم سے اگر ہو دل لبریز

خون جلتا ہے مسکرانے میں

 

چند تنکے ہیں تیری یادوں کے

کیا ہے اس دل کے آشیانے میں

 

کاش خود کو بھی دیکھتے راغبؔ

رہ گئے انگلیاں اٹھانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شامِ غم کی نہیں سحر شاید

یوں ہی تڑپیں گے عمر بھر شاید

 

حالِ دل سے مِرے ہیں سب واقف

صرف تو ہی ہے بے خبر شاید

 

روز دیدار تیرا کرتا ہوں

تجھ کو حیرت ہو جان کر شاید

 

وہ بھی میرے لیے تڑپتے ہوں

ایسا ممکن نہیں مگر، شاید

 

شاخِ اُمّید سبز ہے اب تک

آ ہی جائے کوئی ثمر شاید

 

دل تو کر لے گا ضبطِ غم راغبؔ

ساتھ دے گی نہ چشمِ تر شاید

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

شدّتِ اضطراب مانگے ہے

دل کوئی انقلاب مانگے ہے

 

ان کی جھکتی نظر سے ہے ظاہر

ان کی فطرت حجاب مانگے ہے

 

کون آ آ کے میرے خوابوں میں

اپنے حصّے کے خواب مانگے ہے

 

روح تسکینِ جان و دل کے لیے

ہم سے کارِ ثواب مانگے ہے

 

مجھ سے راغبؔ ادائے جانِ غزل

دل نشیں انتساب مانگے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

لب ہیں خاموش، چشمِ تر خاموش

سب ہیں تیرے سوال پر خاموش

 

ظلم سہتے رہے جہاں بھر کے

ہم اِدھر اور تم اُدھر خاموش

 

لوگ مجرم تمھیں سمجھ لیں گے

رہ گئے آج تم اگر خاموش

 

کوئی طوفان اُٹھ کے رہتا ہے

جب بھی آتے ہیں وہ نظر خاموش

 

اُن پہ کہتا رہا غزل اور وہ

داد دیتے رہے مگر خاموش

 

دل ہمارا دہلنے لگتا ہے

دیکھ کر تجھ کو اِس قدر خاموش

 

سب سمجھتے رہے ہمیں نادان

ہم لگاتے رہے شجر خاموش

 

عمر بھر خواہشوں کے لشکر سے

جنگ لڑتا رہا مگر خاموش

 

اپنے ایماں کا جائزہ لیجئے

رہ گئے ظلم دیکھ کر خاموش

 

کون آتا ہے کون جاتا ہے

’’تکتے رہتے ہیں بام و در خاموش‘‘

 

اہلِ دانش کی بزم میں راغبؔ

اچھّے لگتے ہیں بے ہنر خاموش

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تیرا چہرہ مِرے خیالوں میں

چاند روشن ہو جیسے ہالوں میں

 

بن پڑا اُس سے جب نہ کوئی جواب

مجھ کو الجھا دیا سوالوں میں

 

وہ بھی کیا عمر بھر کریں گے یاد

کوئی تھا اُن کے ملنے والوں میں

 

کوئی تیری مثال کیا دے گا

تو ہے بے مثل بے مثالوں میں

 

میرے اشعار میں اُتر کر دیکھ

کرب کتنا ہے میرے نالوں میں

 

وہ جو ڈرتے نہیں زمانے سے

ہم بھی راغبؔ ہیں اُن جیالوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

لڑتے لڑتے غموں کے لشکر سے

سخت جاں ہو گیا ہوں اندر سے

 

کام آئی نہ ایک بھی تدبیر

کیا لڑے گا کوئی مقدر سے

 

ہجر کی سرد رُت سے واقف تھے

ڈھک لیا دل کو غم کی چادر سے

 

اِک ٹھکانہ نصیب ہو یارب

یوں ہی کب تک رہیں گے بے گھر سے

 

بے وطن ہو تو پھر پڑے گا ہی

واسطہ روز روزِ محشر سے

 

راہِ الفت کا سنگِ میل ہوں میں

کیا ہٹائے گا کوئی ٹھوکر سے

 

چار سر پر سوار ہیں راغبؔ

اِک بلا کیا ٹلی مِرے سر سے

٭٭٭

 

 

 

 

دل میں جب دل نشیں کی خوشبو ہو

ہر طرف یاسمیں کی خوشبو ہو

 

علم و فن کے تمام گوشوں میں

اردوئے انگبیں کی خوشبو ہو

 

فن وہی ہے کہ جس سے ہونٹوں پر

آفریں آفریں کی خوشبو ہو

 

دیں سیاست سے پاک ہو جائے

اور سیاست میں دیں کی خوشبو ہو

 

خاکِ ہستی کی آرزو راغبؔ

آسماں تک زمیں کی خوشبو ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

صاف ستھری فضا بگاڑیں گے

سب کو اہلِ ریا بگاڑیں گے

 

کاٹ دیں گے اگر درختوں کو

اپنی آب و ہوا بگاڑیں گے

 

بیٹھ سکتے نہیں سکون سے وہ

کچھ بنائیں گے یا بگاڑیں گے

 

سرپرستی میں جو ہو شیطاں کی

اُس کو انسان کیا بگاڑیں گے

 

راہ کوئی نہ جن کو راس آئی

وہ ہر اِک راستہ بگاڑیں گے

 

علم جس کا نہ کچھ بگاڑ سکا

اُس کو ہم آپ کیا بگاڑیں گے

 

پھر یہ ماحول امن کا راغبؔ

امن کے دیوتا بگاڑیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کیا خوشامد شعار ہوتے ہیں

صرف مطلب کے یار ہوتے ہیں

 

دولتِ دردِ دل ہے جن کے پاس

وہ بڑے غم گسار ہوتے ہیں

 

زندگی سے جو مطمئن ہیں وہی

اہلِ صبر و قرار ہوتے ہیں

 

قابلِ اعتبار ہی اکثر

قاتلِ اعتبار ہوتے ہیں

 

شعر ہوتے ہیں بے شمار مگر

سب کہاں شاہکار ہوتے ہیں

 

آپ جیسے ہی اہلِ فن راغبؔ

باعثِ افتخار ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نیند آئے تو خواب بھی آئے

ہو ملاقات بال بچّوں سے

 

قدرتی طور پر ہیں وابستہ

سب کے جذبات بال بچّوں سے

 

کوئی ہجرت زدہ رکھے گا کیا

ربط دن رات بال بچّوں سے

 

اتفاقات سے زیادہ ہیں

اختلافات بال بچّوں سے

 

ملنے دیتے نہیں مجھے راغبؔ

میرے حالات بال بچّوں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اچھّے دنوں کی آس لگا کر میں نے خود کو روکا ہے

کیسے کیسے خواب دِکھا کر میں نے خود کو روکا ہے

 

میں نے خود کو روکا ہے جذبات کی رو میں بہنے سے

دل میں سو ارمان دبا کر میں نے خود کو روکا ہے

 

فرقت کے موسم میں کیسے زندہ ہوں تم کیا جانو

کیسے اِس دل کو سمجھا کر میں نے خود کو روکا ہے

 

چھوڑ کے سب کچھ تم سے ملنے آ جانا دشوار نہیں

مستقبل کا خوف دلا کر میں نے خود کو روکا ہے

 

کٹتے کہاں ہیں ہجر کے لمحے پھر بھی ایک زمانے سے

تیری یادوں سے بہلا کر میں نے خود کو روکا ہے

 

واپس جانے کے سب رستے میں نے خود مسدود کیے

کشتی اور پتوار جلا کر میں نے خود کو روکا ہے

 

جب بھی میں نے چاہا راغبؔ دشمن پر یلغار کروں

خود کو اپنے سامنے پا کر میں نے خود کو روکا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آ کر دل کو سمجھا جاتے تو کیا جاتا

بس ایک جھلک دِکھلا جاتے تو کیا جاتا

 

کیا جاتا اگر تھوڑا سا پیار جتا جاتے

ہنس بول کے دل بہلا جاتے تو کیا جاتا

 

برسوں سے تمھارے شہر میں آ کر ٹھہرا ہوں

کبھی مجھ سے ملنے آ جاتے تو کیا جاتا

 

اِس تشنہ لبی کو اِک ڈھارس تو بندھ جاتی

تم بادل بن کر چھا جاتے تو کیا جاتا

 

ویسے تو بہت محفوظ ہو تم دل درپن میں

اِک تازہ عکس بنا جاتے تو کیا جاتا

 

اِس دیوانے کی خاطرداری کی خاطر

اِک پتھّر لے کر آ جاتے تو کیا جاتا

 

راغبؔ کو جلا کر چین سے تم کیوں بیٹھ گئے

غیروں کے دل بھی جلا جاتے تو کیا جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یادوں کی نرم رضائی ہے مِرے حصّے میں

میں تنہا ہوں تنہائی ہے مِرے حصّے میں

 

مِرے حصّے میں ارمانوں کا اِک صحرا ہے

نادیدہ آبلہ پائی ہے مِرے حصّے میں

 

وہاں جشن اُڑاتے گھر والے یہ کیا جانیں

یہاں سوکھی روٹی آئی ہے مِرے حصّے میں

 

مِرے بھائی نے مِرے گھر کا نقشہ بدل دیا

اب آدھی سی انگنائی ہے مِرے حصّے میں

 

خود کو تو ہر اِک انسان سمجھتا ہے راغبؔ

میں سچّا ہوں سچّائی ہے مِرے حصّے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جھوٹے کا انجام برا ہے سچ بولو

سچّائی کا سر اونچا ہے سچ بولو

 

دل میں ہر دم خوف ہے سچ کھل جانے کا

یوں جینا بھی کیا جینا ہے سچ بولو

 

سچ بولو جھوٹے کی صورت کیسی ہے

سچّے کا چہرہ کیسا ہے سچ بولو

 

جھوٹ نہ جانے کتنے رنگ بدلتا ہے

سچ پہ کسی کا رنگ چڑھا ہے سچ بولو

 

جیون کیا ہے آندھی میں اِک ریت کا گھر

کتنے پل قائم رہنا ہے سچ بولو

 

اللہ دیتا ہے عزّت بھی ذلّت بھی

جھوٹی شان میں کیا رکھا ہے سچ بولو

 

باطل کی پہرے داری میں بھی راغبؔ

سارا عالم بول رہا ہے سچ بولو

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنے احساسات کی باتیں کرتے ہیں

شعروں میں جذبات کی باتیں کرتے ہیں

 

نفرت کے ایوانوں میں بھی اہلِ دل

الفت کی برسات کی باتیں کرتے ہیں

 

اپنی حالت کا ان کو کچھ علم نہیں

دنیا کے حالات کی باتیں کرتے ہیں

 

مظلوموں کی چیخ سنائی دیتی ہے

جب بھی ہم گجرات کی باتیں کرتے ہیں

 

دنیا میں ہم پیڑ لگانا بھول گئے

جنّت کے باغات کی باتیں کرتے ہیں

 

آس کے دِیے جلا کر کالی راتوں میں

چاند اور چاندنی رات کی باتیں کرتے ہیں

 

اوروں کی قربانی ان کو یاد نہیں

اپنی ہی خدمات کی باتیں کرتے ہیں

 

کم ظرفوں کی راغبؔ یہ بھی ہے پہچان

ہر دم اپنی ذات کی باتیں کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِک چہرہ نایاب دِکھائی دیتا ہے

خوابوں میں بھی خواب دِکھائی دیتا ہے

 

کون ہے وہ جس کی خاطر یہ پاگل دِل

ہر لمحہ بے تاب دِکھائی دیتا ہے

 

تیرے ہی جلووں سے مِرے افسانے کا

روشن اِک اِک باب دِکھائی دیتا ہے

 

پہلی چاہت کا ننھّا سا پودا بھی

جیون بھر شاداب دِکھائی دیتا ہے

 

بستی کوئی بستی ہے جب سپنوں کی

بے موسم سیلاب دِکھائی دیتا ہے

 

گھٹتی عمر کی دولت کہاں نظر آئے

بس مال و اسباب دِکھائی دیتا ہے

 

آنکھوں میں جب راغبؔ اُن کا چہرہ ہو

پھر کس کو مہتاب دِکھائی دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ٹھیک نہیں ہے رونا دھونا سمجھے نا

فرقت میں آنکھیں نہ بھگونا سمجھے نا

 

تیری ہی یادوں سے جگمگ جگمگ ہے

میرے دل کا کونا کونا سمجھے نا

 

فرقت کا اِک بار مزہ چکھ لو گے تو

آ جائے گا پھوٹ کے رونا سمجھے نا

 

جان چلی جائے گی مری اِک دن یوں ہی

مجھ سے کبھی ناراض نہ ہونا سمجھے نا

 

مٹّی کے ہیں مٹّی میں مل جائیں گے

رہ جائے گا چاندی سونا سمجھے نا

 

کوشش کر لو اتنا بھی آسان نہیں

لفظوں میں احساس پِرونا، سمجھے نا

 

پردیسی کو چین کہاں حاصل راغبؔ

گھر جا کر آرام سے سونا سمجھے نا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

توڑ کے دل کو کیا ملتا ہے بتلاؤ

دل کو تم نے سمجھا کیا ہے بتلاؤ

 

تم کیا جانو وصل کی لذّت ہجر کا غم

تم نے کسی سے پیار کیا ہے بتلاؤ

 

کس کے خواب سے آنکھیں روشن روشن ہیں

کون تصوّر میں رہتا ہے بتلاؤ

 

کس کی غزلیں ذہن پہ چھائی رہتی ہیں

کس کے شعر کا دل شیدا ہے بتلاؤ

 

تم کو کسی سے عشق نہیں یہ سچ ہے مگر

کون تمھیں اچھّا لگتا ہے بتلاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِک اِک لمحہ گِن کر کاٹ رہا ہوں

ہجر کے دن یا پتھّر کاٹ رہا ہوں

 

کاٹ رہا ہوں جیون اِک صحرا میں

میں ہوں بگولا چکّر کاٹ رہا ہوں

 

پردیسی ہوں دیکھ لے اے تیرہ شب

کتنی مصیبت دن بھر کاٹ رہا ہوں

 

بچپن ہی سے دل کی دیواروں پر

نام تِرا لِکھ لِکھ کر کاٹ رہا ہوں

 

دشتِ فرقت میں دکھ کے خار و خس

میں بھی تیرے برابر کاٹ رہا ہوں

 

ایک پہ میرا دل راغب ہے راغبؔ

اِک محور پر چکّر کاٹ رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یاد بہت جب اپنے آتے ہیں

کیسے کیسے سپنے آتے ہیں

 

کچھ آتے ہیں دل کو تڑپانے

اور کچھ لوگ تڑپنے آتے ہیں

 

ریگِ رواں کی صورت اُڑ اُڑ کر

صحراؤں میں کھپنے آتے ہیں

 

جاتے ہیں یادوں کے گہر چننے

یاد کی مالا جپنے آتے ہیں

 

قسمت جن کو چن لے وہ راغبؔ

ہجر کی آگ میں تپنے آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھڑکیاں گم صُم ہیں بام و در اُداس

تیرے جانے سے ہے سارا گھر اُداس

 

کس کو ہے احساس میرے درد کا

کون ہوتا ہے مجھے پڑھ کر اُداس

 

صبح دم پل بھر کو آئی تیری یاد

اور مجھے دیکھا گیا دن بھر اُداس

 

ساری شوخی چھین لی اِک شوخ نے

ہو گیا وہ چہرۂ خوش تر اُداس

 

چار دن کی زندگی ہے ہنس کے جی

عمر یوں ہی مت گنْوا رہ کر اُداس

 

کون ہے راغبؔ اُداسی کا سبب

کس لیے رہتے ہو تم اکثر اُداس

٭٭٭

 

 

 

 

خواب میں دیدار کیا تیرا ہوا

دل اُسی منظر میں ہے اُلجھا ہوا

 

اے غمِ دوراں وہ عشقِ اولیں

اور اُس دیوانگی کو کیا ہوا؟

 

ایسا لگتا ہے مجھے آنسو ہوں میں

جب بھی ملتا ہے کوئی روتا ہوا

 

رکھ یقیں اچھّا ہی ہو گا عمر بھر

اور جو کچھ بھی ہوا اچھّا ہوا

 

ہو گئے اشعار عکسِ زندگی

دل ہمارا جب سے آئینا ہوا

 

کوششِ پیہم ہوئی راغبؔ مگر

جو ہوا تقدیر کا لکھا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دشمنوں کا لاؤ لشکر دیکھیے

دیکھیے حجرے سے باہر دیکھیے

 

دیکھیے اپنی نگاہوں سے ہمیں

اُن کی عینک مت لگا کر دیکھیے

 

خوف و دہشت کو مٹانے کے لیے

قتل و غارت کا یہ منظر دیکھیے

 

بن رہا ہے دیوتا جو امن کا

اُس کا لہجہ اُس کے تیور دیکھیے

 

وہ تو ہمدم تھا کوئی دشمن نہ تھا

آ گیا اس کا بھی نمبر دیکھیے

 

دیکھتے ہی دیکھتے سب مٹ نہ جائے

جو بچا ہے سو بچا کر دیکھیے

 

جال میں اپنے پھنْسانے کے لیے

کیا چلاتا ہے وہ چکّر دیکھیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ختم ہو جائے لڑائی بیچ میں

اِس لیے پڑتا ہوں بھائی بیچ میں

 

میں وطن میں فون کرتا رہ گیا

رہ گئی ساری کمائی بیچ میں

 

بھائی بھائی کو جھگڑتا دیکھ کر

آ گیا دشمن کا بھائی بیچ میں

 

ڈھو رہا ہے کم سنی سے گھر کا بوجھ

چھوڑ کر اپنی پڑھائی بیچ میں

 

ہر طرف ہے تیری یادوں کا ہجوم

اور میری چارپائی بیچ میں

 

کر رہے ہو تم سفر سوئے بہشت

دیکھنا دنیا ہے بھائی بیچ میں

 

ساتھ چلنے کا تھا وعدہ عمر بھر

کر گیا وہ بے وفائی بیچ میں

 

چارہ گر سے کیوں ہے راغبؔ وہ خفا

چھوڑ دی جس نے دوائی بیچ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عکس آنکھوں نے تمھارا رکھ دیا

دل میں گویا ماہ پارا رکھ دیا

 

آسماں نے اِک ستارے سے الگ

میری قسمت کا ستارا رکھ دیا

 

زندگی ہے بوجھ پر ایسا نہیں

جب جہاں چاہا اُتارا رکھ دیا

 

مسکرا کر اپنے خاص انداز سے

دل ہی رکھنا تھا ہمارا رکھ دیا

 

میرا دل ہی تھا مِرا سب کچھ جسے

کر کے اُس نے پارا پارا رکھ دیا

 

میں نے غزلوں کے حسیں جزدان میں

فکر کا روشن سپارا رکھ دیا

 

عزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے

موڑ کر دریا کا دھارا رکھ دیا

 

گردشِ ایّام نے پندار کا

پھوڑ کر اِک اِک غبارا رکھ دیا

 

بے کلی راغبؔ رہے گی عمر بھر

دل میں اُس نے وہ شرارا رکھ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک رشتہ درد کا ہے میرے اُس کے درمیاں

پھر بھی کتنا فاصلہ ہے میرے اُس کے درمیاں

 

میرے اُس کے درمیاں یوں ہی رہیں گی رنجشیں

کوئی جب تک تیسرا ہے میرے اُس کے درمیاں

 

بات ہم دونوں کی ہے ہم خود نمٹ لیں گے کبھی

کیوں زمانہ بولتا ہے میرے اُس کے درمیاں

 

کل تلک تھے ساتھ ہم اِک دوسرے کے اور آج

مدّتوں کا فاصلہ ہے میرے اُس کے درمیاں

 

چھوٹی موٹی رنجشیں ہیں خود بہ خود مٹ جائیں گی

اور ابھی بگڑا ہی کیا ہے میرے اُس کے درمیاں

 

اُس کو بھی ہو جائے گی مجھ سے محبّت پر ابھی

گفتگو کا سلسلہ ہے میرے اُس کے درمیاں

 

آرزو دل کی ہے راغبؔ عمر بھر روشن رہے

جو یقیں کا اِک دیا ہے میرے اُس کے درمیاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب ادائے حسن میں ظالم ادائیں آ گئیں

اِس دلِ بے تاب کے سر پر بلائیں آ گئیں

 

دل جلاتی اور کرتی سائیں سائیں آ گئیں

پھر تمھاری یاد کی پاگل ہوائیں آ گئیں

 

دل ہی دل میں کوئی دل سے یاد کرتا ہے مجھے

دل سے دل تک دل دھڑکنے کی صدائیں آ گئیں

 

پھر خطا مجھ سے ہوئی، پھر بھولنا چاہا تجھے

پھر تری یادیں مجھے دینے سزائیں آ گئیں

 

خوف و دہشت ہے عیاں ان کے ہر اِک انداز سے

زد پہ کس شہباز کی یہ فاختائیں آ گئیں

 

کون ہے جو چاہتا ہے مجھ کو راغبؔ اِس قدر

ہر بلا کو ٹالنے کس کی دعائیں آ گئیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِک طرف باطل کا لشکر میں اکیلا اِک طرف

اور تماشائی بنی ہے ساری دنیا اِک طرف

 

اِک طرف حد سے زیادہ اپنی طاقت پر غرور

خالقِ کونین پر پورا بھروسا اِک طرف

 

اِک طرف کبر و ریا مکر و دغا کی بجلیاں

اُلفت و مہر و وفا کا بول بالا اِک طرف

 

اِک طرف ہیں وقت کے سب اہلِ باطل متّحد

صورتِ کوہِ گراں اِک شخص سچّا اِک طرف

 

اِک طرف جور و جفا، ظلم و ستم کی آندھیاں

جل رہا ہے اِک دیا صبر و رضا کا اِک طرف

٭٭٭

 

 

 

 

رنج و غم ٹوٹے ہیں دل پر اس قدر پردیس میں

جا بجا بکھرا ہوا ہوں ٹوٹ کر پردیس میں

 

اپنی مرضی کی اڑانیں بھر نہیں سکتے پرند

کٹ گئے ہوں جیسے ان کے بال و پر پردیس میں

 

سونے چاندی کے ثمر پیڑوں پہ تو لگتے نہیں

ہر طرف بکھرے نہیں ہیں مال و زر پردیس میں

 

مجھ سے ہے جانِ غزل کا یہ تقاضا ہر گھڑی

تم غزل سے ہو نہ جانا بے خبر پردیس میں

 

دیس ہے پردیس کی مانند اُن کے واسطے

جن کو رہنا ہے گوارا عمر بھر پردیس میں

 

وقت اور حالات نے راغبؔ کیا مجبور یوں

مجھ کو رہنا ہی پڑا تھک ہار کر پردیس میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیسے بے کل ہو نہ ہم پردیسیوں کی زندگی

تنہا تنہا جی رہے ہیں غیر فطری زندگی

 

زندگی کیا چیز ہے پوچھو اُسی انسان سے

غیر کی خاطر مٹا دی جس نے اپنی زندگی

 

خواہشیں بے انتہا ہیں اَن گنَت ہیں مسئلے

اور ہے مدِّ مقابل مختصر سی زندگی

 

گاہے گاہے زندگی سے زندگی ملتی رہی

رفتہ رفتہ کٹ گئی قسطوں میں ساری زندگی

 

موسمِ فرقت میں راغبؔ سب کو حاصل ہے یہی

پیاس میں لپٹی ہوئی خوابوں میں الجھی زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بھول بیٹھا ہوں جنوں میں اپنے گھر کا راستہ

ہاں مگر بھولا نہ تیرے بام و در کا راستہ

 

آپ آ جائیں تو پھر سے آرزوئیں کھِل اُٹھیں

آپ ہی کا منتظر ہے دل نگر کا راستہ

 

ٹوٹ کر برسی ہیں آنکھیں موسمِ فرقت میں یوں

زد میں ہے سیلاب کی خوابوں کے گھر کا راستہ

 

سوچ لو عزمِ سفر سے قبل پھر تم سوچ لو

پُر خطر، پُر خار ہے اہلِ نظر کا راستہ

 

کھو چکے چین اور سکوں دل کا تو اب غم کس لیے

آپ ہی تو دیکھتے تھے مال و زر کا راستہ

 

کچھ نہیں دِکھتا ہے لیکن دیکھتے ہیں رات دن

اپنی بوڑھی آنکھ سے نورِ نظر کا راستہ

 

راستے یوں تو ہزاروں ہیں مگر اے زندگی

ایک سیدھا راستہ خیر البشرؐ کا راستہ

 

فون اور ای میل میں راغبؔ ہے وہ لذّت کہاں

لطف تھا جو دیکھنے میں نامہ بر کا راستہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

ابرِ غم چھٹ جائے اس کی آس کیا کرتا کوئی

میرا دل ہی تھا بہت حسّاس کیا کرتا کوئی

 

ہاتھ میں رکھ کر قلم قرطاس کیا کرتا کوئی

مر گیا انساں کا جب احساس کیا کرتا کوئی

 

تھا مری صحرا نوردی میں یہی رختِ سفر

میرے ہونٹوں سے چرا کر پیاس کیا کرتا کوئی

 

دوسروں کو دوش دینے سے مجھے ملتا بھی کیا

میری قسمت ہی میں تھا بن باس کیا کرتا کوئی

 

تھی جہاں مفقود راغبؔ اصلی نقلی کی پرکھ

رکھ کے اصلی گوہر و الماس کیا کرتا کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اتنا افسردہ نہ اے میرے دلِ ناشاد ہو

بھول جا باتیں پُرانی، شاد ہو، آباد ہو

 

کامیابی اور ناکامی کی باتیں بعد میں

پہلے تم کو عشق کا پہلا سبق تو یاد ہو

 

یہ بھی ممکن ہے کہ شہپر ہی کو میرے دیکھ کر

پَر شکستہ ایک دن خود ہمّتِ صیّاد ہو

 

خود سے سننا چاہتا ہوں صرف میں ایسا ہی شعر

دل کہے سن کر جسے ’اچھّا ہے، پھر ارشاد ہو‘

 

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا پھر بولنا

دل میں اتنا خوف کیوں ہے تم اگر آزاد ہو

 

کیوں تمھاری شوخیِ گفتار پر راغب ہوا

افتخارِؔ کم سخن شاید تمھیں بھی یاد ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی تھی مِری اُمڈے ہوئے دریا کی طرح

بن تِرے ہے کسی جھلسے ہوئے صحرا کی طرح

 

وقت کی ریت پہ حالات کے طوفانوں میں

عمر یہ خاک ہوئی نقشِ کفِ پا کی طرح

 

پیاس ہونٹوں پہ سجا کر میں اِسی آس میں ہوں

جانے کس روز برس جائیں وہ برکھا کی طرح

 

دور اندیش نگاہوں کی بصیرت کی قسم

کوئی دشمن نہیں اندیشۂ فردا کی طرح

 

وقت بدلا ہے مگر ذہن کہاں بدلا ہے

آج بھی ہو گئی تاخیر ہمیشہ کی طرح

 

ناز تھا اِس دلِ خوش فہم کو جس پر راغبؔ

بے وفا ہو گیا وہ شخص بھی دنیا کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مرکزِ فکر ہے منظورِ نظر ہے کوئی

یوں بظاہر تو نہیں کوئی مگر ہے کوئی

 

اُس کی باتیں ہیں کہ شاعر کی مرصّع غزلیں

لحن اُس کا ہے کہ جادو کا اثر ہے کوئی

 

آرزوؤں کی یہاں بھیڑ لگی رہتی ہے

دل ہے میرا کہ تمناؤں کا گھر ہے کوئی

 

جس کی خاطر مِری آنکھیں ہیں بیاکل ہر دم

قرّۃالعین ہے فردوسِ نظر ہے کوئی

 

کشتیِ زیست ڈبونے کے لیے آمادہ

جسم کے بحر میں سانسوں کا بھنور ہے کوئی

 

باعثِ فخر اگر شعلہ بیانی ہے تو کیوں

تیری باتوں میں کشش ہے نہ اثر ہے کوئی

 

کھو گیا ہوں میں تخیّل کی کسی وادی میں

فکر در فکر ستاروں کا سفر ہے کوئی

 

مدّتوں قبل کیا تھا کوئی وعدہ تم نے

منتظر اب بھی سرِ راہ گزر ہے کوئی

 

ایسے اِترائے وہ پھرتا ہے ہمیشہ راغبؔ

جیسے اُس میں لگا سُرخاب کا پر ہے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

جب سے اُس پیکرِ تنویر کے پیچھے بھاگے

پھر کسی خواب نہ تعبیر کے پیچھے بھاگے

 

بھاگتے رہ گئے پیچھے ہی تِرے اے دنیا

جو تِری زلفِ گرہ گیر کے پیچھے بھاگے

 

رات دن بیٹھ کے تقدیر کو رونے والو

کیا کبھی تم کسی تدبیر کے پیچھے بھاگے

 

اس پہ ایمان ہمارا ہے مگر ہم ہرگز

موند کر آنکھ نہ تقدیر کے پیچھے بھاگے

 

قول اور فعل میں کچھ میل نہیں اے واعظ

کوئی کیسے تِری تقریر کے پیچھے بھاگے

 

بھاگنے کا ہو جسے شوق وہ سب سے پہلے

اپنے کردار کی تعمیر کے پیچھے بھاگے

 

ایک فنکار کی راغبؔ یہ نہیں شان کہ وہ

صاحبِ دولت و توقیر کے پیچھے بھاگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دو گھڑی بیٹھ کے دو بات نہیں ہو سکتی

کیا کبھی تجھ سے ملاقات نہیں ہو سکتی

 

اے محبّت نہ برا مان کہ اب اِس دل سے

پہلی چاہت سی مدارات نہیں ہو سکتی

 

دل کو ڈھارس تو میں دیتا ہوں مگر لگتا ہے

عمر بھر تجھ سے ملاقات نہیں ہو سکتی

 

کیا کہوں شعر میں تجھ پر کہ کسی صورت بھی

چھوٹا منہ اور بڑی بات نہیں ہو سکتی

 

بس گیا ہے تو کچھ اِس طرح مِری رگ رگ میں

اب الگ مجھ سے تِری ذات نہیں ہو سکتی

 

دن اگر آج منوّر ہے تِری قسمت کا

مت سمجھنا کہ سیہ رات نہیں ہو سکتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اہلِ باطل کے لیے دین نہ دنیا روشن

دونوں عالم میں ہے سچّائی کا چہرہ روشن

 

کون اُس آہنی دیوار سے ٹکرائے گا

جس کے سینے میں شہادت کا ہے جذبہ روشن

 

مات بھی کھائیں تو ٹوٹے نہ ہماری ہمّت

آس کی شمع رہے دل میں ہمیشہ روشن

 

چاند سورج کی شُعاعوں نہ چراغوں کے سبب

ذہن و دل اور نظر سے ہے یہ دنیا روشن

 

جب بھی چنگاری کوئی یاد کی بھڑکی راغبؔ

کر دیا دل نے دیا ایک غزل کا روشن

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب تلک خود پہ بھروسا نہیں ہونے والا

تیرا مقصد کبھی پورا نہیں ہونے والا

 

جس کو معلوم ہے دنیا کی حقیقت اے دوست

وہ کبھی طالبِ دنیا نہیں ہونے والا

 

لاکھوں اشعار بھی کہہ دوں پہ کبھی بھی شاید

دردِ فرقت کا احاطا نہیں ہونے والا

 

چھو کے گزری ہو جسے آتشِ اُلفت کی ہوا

وہ کسی طور بھی اچھّا نہیں ہونے والا

 

دل تو کہتا ہے کہ ہم لوگ ملیں گے اِک دن

عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا

 

اب ہٹا دو رُخِ تاباں سے گھنیری زلفیں

’’اِن چراغوں سے اُجالا نہیں ہونے والا‘‘

 

کس کو ہے علم بتائے جو یقیں سے راغبؔ

ہونے والا ہے کیا اور کیا نہیں ہونے والا

٭٭٭

 

 

 

 

بے زبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

اِس کہانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

 

درد ایسا ہے کہ پتھّر کا کلیجہ پھٹ جائے

سخت جانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

 

میہماں بن کے ستم گر نے ستم ڈھایا ہے

میزبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

 

کس نے بخشے ہیں اِن آنکھوں کو اُبلتے آنسو

حق بیانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

 

تنگ ظرفی کی علامت ہے جتانا احساں

مہربانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

 

ٹوٹ جائے نہ بھرم پیار کا اِک دن راغبؔ

خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

حسن دے، ناز دے، شوخی دے، ادا دے ان کو

مجھ کو وہ عشق دے جو میرا بنا دے ان کو

 

کیوں نہ ہر گام پہ رُک رُک کے صدا دے ان کو

دل کے بس میں یہ کہاں ہے کہ بھُلا دے ان کو

 

تجھ پہ کرتے ہیں اگر مشقِ ستم کرنے دے

اے مِرے دل تو سدا دل سے دعا دے ان کو

 

دنگ رہ جائے جسے دیکھ کے انسان کی عقل

ایسا انعام حسیں میرے خدا دے ان کو

 

میرا احوال سنانے کی ضرورت کیا ہے

ایک ہی شعر مِرا کوئی سنا دے ان کو

 

آج بھی راہ میں آنکھیں ہے بچھائے راغبؔ

کوئی اے کاش یہ احساس دِلا دے ان کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

روٹھ جائے گی نظر آنکھوں سے

مت بہا خونِ جگر آنکھوں سے

 

مول آنکھوں کا کوئی کیا دے گا

ہیچ ہیں لعل و گہر آنکھوں سے

 

ہم کہ بس دیکھ رہے ہیں اور وہ

کام لیتے ہیں دِگر آنکھوں سے

 

کون سمجھائے اب اس قاتل کو

کُند ہیں تیر و تبر آنکھوں سے

 

ہم کو مَے خوار ہی سمجھو لوگو

ہم بھی پیتے ہیں مگر آنکھوں سے

 

کیسے چین آئے مِری آنکھوں کو

دُور ہے نورِ نظر آنکھوں سے

 

ایک اندھے کی نصیحت راغبؔ

پیار کرنا ہے تو کر آنکھوں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تلخیِ زیست سے ڈر جاؤں میں

اِس سے بہتر ہے کہ مر جاؤں میں

 

خاک چھانوں میں کسی صحرا کی

یا سمندر میں اُتر جاؤں میں

 

ایسے چورا ہے پہ لائی ہے حیات

کشمکش میں ہوں کدھر جاؤں میں

 

کیا کروں میں کہ یہ دل بس میں رہے

جب بھی اُس شوخ کے گھر جاؤں میں

 

تیری یادوں کی گزر گاہوں سے

کیسے چپ چاپ گزر جاؤں میں

 

کل سنور جائے مقدّر شاید

کوئی دن اور ٹھہر جاؤں میں

 

کم سے کم سامنے اُن کے راغبؔ

پونچھ کر دیدۂ تر جاؤں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عشق کے رمز و اِشارے ہیں جدا

ناز و انداز تمھارے ہیں جدا

 

اُن کی چاہت ہے عذابوں کی طرح

جن کی قسمت کے ستارے ہیں جدا

 

ماں کو دیتا ہوں تسلّی کہ یہاں

کتنی ہی ماؤں کے پیارے ہیں جدا

 

غم نہ کرنا ہو خسارہ بھی اگر

یہ محبّت کے خسارے ہیں جدا

 

دوست، احباب، وطن، اپنوں سے

کتنے حالات کے مارے ہیں جدا

 

ایسے راغبؔ وہ جدا ہیں مجھ سے

جیسے دریا کے کنارے ہیں جدا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کہا کہ آپ کو یوں ہی گمان ایسا ہے

وہ بولے جی نہیں سچ مُچ جہان ایسا ہے

 

کہا کہ آئیے بس جائیے مِرے دل میں

وہ بولے آپ کے دل کا مکان ایسا ہے ؟

 

کہا کہ پھولوں میں کیا خوب دل ربائی ہے

وہ بولے کیوں نہ ہو جب باغبان ایسا ہے

 

کہا کہ آپ تو رونے لگے غزل سن کر

وہ بولے آپ کا طرزِ بیان ایسا ہے

 

کہا کہ آپ کے جیسا کوئی حسین نہیں

وہ بولے آپ کو یوں ہی گمان ایسا ہے

 

کہا کہ آپ کے آنچل سی کوئی چیز ہے کیا؟

وہ بولے تاروں بھرا آسمان ایسا ہے

 

کہا کہ آپ تو راغبؔ کو بھی بھلا بیٹھے

وہ بولے وقت ہی نا مہربان ایسا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جلاؤ شوق سے تم علم و آگہی کے چراغ

نہ بجھنے پائیں مگر امن و آشتی کے چراغ

 

تمام قوّتِ باطل کی متّحد پھونکیں

بجھا سکی ہیں کہاں حقّ و راستی کے چراغ

 

شعاعِ شمس کی ممکن نہیں رسائی جہاں

بکھیرتے ہیں وہاں روشنی خودی کے چراغ

 

شکم میں جل نہیں پاتے کسی کے نان و نمک

کسی کی بزم میں جلتے ہیں روز گھی کے چراغ

 

گئے وہ دن کہ گھروں میں بڑے خلوص کے ساتھ

بس اِک چراغ سے جلتے تھے جب سبھی کے چراغ

 

وہ جس کے حسنِ ادا پر فدا ہے دل راغبؔ

عطا کیے ہیں اُسی نے یہ شاعری کے چراغ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ازل سے زیست پہ میری قضا کا پہرا ہے

میں وہ چراغ ہوں جس پر ہوا کا پہرا ہے

 

تمام پہروں پہ پہرا خدا کا پہرا ہے

خدا کا پہرا بھی کیسا بلا کا پہرا ہے

 

تمھاری روح کو تسکین مل نہیں سکتی

تمھارے دل پہ فریب و دغا کا پہرا ہے

 

کہاں ہے خوف اُنھیں گردشِ زمانہ کا

وہ جن کے واسطے ماں کی دعا کا پہرا ہے

 

وہ حق سے خوب ہیں واقف مگر نہ مانیں گے

کہ اُن کے ذہن پہ راغبؔؔ اَنا کا پہرا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

فراق و ہجر کے لمحے شمار کر کر کے

میں تھک گیا ہوں تِرا انتظار کر کر کے

 

خیال و فکر کی پریاں اُڑاتا رہتا ہوں

حسین شعر کے رتھ پر سوار کر کر کے

 

کوئی عروسِ غزل روز و شب مِرے دل کو

لبھاتی رہتی ہے سولہ سنگھار کر کر کے

 

نہ جانے کیا اُسے مطلوب ناتواں سے ہے

یہ دیکھتا ہوں ہر اِک شَے نثار کر کر کے

 

یہ کاروبارِ وفا ہی مِرا مقدّر ہے

سمجھ چکا ہوں کئی کاروبار کر کر کے

 

عجب مزاج کا حامل رہا ہوں میں راغبؔ

فریب کھاتا رہا اعتبار کر کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہت ہے فرق ہماری تمھاری سوچوں میں

خدا کرے کہ نہ ہو اختلاف دونوں میں

 

وہ بس گیا ہے کچھ اِس طرح میری آنکھوں میں

اُسی کو دیکھ رہا ہوں تمام چہروں میں

 

رکھے ہیں شاہوں نے قدموں میں جن کے تخت و تاج

ہوئے ہیں ایسے بھی کچھ بوریا نشینوں میں

 

ہمیں یہ دھُن ہے کہ منزل کو پا کے دم لیں گے

اُنھیں یہ ضد کہ وہ کانٹے بچھائیں راہوں میں

 

میں وادیوں میں بھٹکنے سے بچ کے رہتا ہوں

پِرویا کرتا ہوں احساس اپنے شعروں میں

 

خیال و فکر کے اچھّے شجر کے عمدہ بیج

میں بو رہا ہوں غزل کی حسیں زمینوں میں

 

کبھی بنیں گے ثمر دار و سایہ دار درخت

بہت یقین، بڑا حوصلہ ہے پودوں میں

 

کوئی شجر نہیں ایسا کہ جس کا پھل کھا کر

شمار ہوتا کوئی آدمی فرشتوں میں

 

شناخت شاعرِ اعظم کی یہ بھی ہوتی ہے

سناتے رہئے پُرانی غزل نشستوں میں

 

بس ایک سچ کو دبانے کے واسطے راغبؔ

ہزاروں جھوٹ اُڑائے گئے ہیں لوگوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

رہِ حیات میں مثلِ غبار میں ہی کیوں

بکھر رہا ہوں سرِ رہ گزار میں ہی کیوں

 

جگر کے خون سے میں نے ہی اس کو سینچا تھا

چمن میں ہو گیا بے اختیار میں ہی کیوں

 

کمی نہیں ہے جہاں میں وفا شعاروں کی

تمھارے ظلم و ستم کا شکار میں ہی کیوں

 

کہیں بھی ظلم کی تلوار جب برستی ہے

تڑپنے لگتا ہوں بے اختیار میں ہی کیوں

 

کبھی یہ سوچنا تجھ کو نصیب ہو جاتا

کہ کر رہا ہوں تِرا انتظار میں ہی کیوں

 

یہ پوچھتا ہے مری ذات میں چھپا شاعر

غمِ حیات کا آئینہ دار میں ہی کیوں

 

قصور وارِ محبّت تو کتنے ہیں راغبؔ

عذابِ ہجر کے زیرِ حصار میں ہی کیوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خیال و فکر میں تیرا جمال آ جائے

جہانِ شعر و سخن اور جگمگا جائے

 

میں تیری آنکھ سے دیکھوں تِری زباں بولوں

مِرے وجود میں اِس طرح تو سما جائے

 

تِری گلی سے گزرتے ہوئے نہ جانے کب

ترے دریچے کو مُڑ مُڑ کے دیکھنا جائے

 

یہ ہم سے ہو نہیں سکتا کہ حضرتِ واعظ

بیان کچھ بھی کریں اور سُن لیا جائے

 

مٹیں گی دہر سے کیسے یہ ظلمتیں راغبؔ

کوئی چراغ جلائے کوئی بجھا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نہ ساتھ ساتھ رہے ہر گھڑی حیا سے کہو

کبھی تو کھُل کے کوئی بات ہم نوا سے کہو

 

کہو کچھ ایسے کہ تا عمر دل کو یاد رہے

ذرا سی بات ہے کہنی ذرا ادا سے کہو

 

سناؤ کوئی کہانی اگر محبّت کی

نہ انتہا کی سناؤ نہ ابتدا سے کہو

 

فریب و مکر کی شاید کہ گرد چھٹ جائے

کبھی حقیقتِ شہباز، فاختا سے کہو

 

اِدھر کی بات اُدھر کر رہا ہو جو راغبؔ

سنبھل کے کچھ بھی کسی ایسے آشنا سے کہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بہ صد خلوص، بہ صد احترام یاد آئے

یہ کون ہے جو مجھے صبح و شام یاد آئے

 

وہی ہیں ہم جنھیں سجدہ کیا فرشتوں نے

کبھی تو ہم کو ہمارا مقام یاد آئے

 

جو لوحِ دل پہ ہیں محفوظ ایک مدّت سے

وہ گفتگو، وہ سلام و پیام یاد آئے

 

قفس نصیبی میں جب بھی چمن کی یاد آئی

’’مجھے گلوں کے لیے کچھ پیام یاد آئے ‘‘

 

ضیا پسند مِرے دل کی آرزو راغبؔ

ہر ایک لمحہ وہ ماہِ تمام یاد آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مِری وفاؤں پہ جس کی وفا کا پہرا ہے

دیارِ دل پہ اُسی خوش ادا کا پہرا ہے

 

یہ اُس نے زُلف بکھیری ہے اپنے چہرے پر

کہ ماہتاب پہ کالی گھٹا کا پہرا ہے

 

درونِ گلشنِ ماضی پُکارتا ہے کوئی

سماعتوں پہ اُسی کی صدا کا پہرا ہے

 

ہمارا دل ہے اسیرِ جمالِ ہوش رُبا

خیال و فکر پہ حسنِ ادا کا پہرا ہے

 

ہے یاسمین کی خوشبو تمھاری زُلفوں میں

کہ دستِ ناز پہ بوئے حنا کا پہرا ہے

 

کسی کی جھیل سی آنکھوں میں ڈوبنے کے لیے

تڑپ رہا ہوں کہ ان پر حیا کا پہرا ہے

 

غزل میں عکس نمایاں اُسی کا ہے راغبؔ

متاعِ درد پہ جس دل رُبا کا پہرا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دلوں سے بغض و کدورت کی گرد چھٹ جائے

فضا میں بکھری عداوت کی گرد چھٹ جائے

 

خلوص و انس و محبّت کے نرم جھونکے چلیں

فضائے قلب سے نفرت کی گرد چھٹ جائے

 

ہٹے جو چہرۂ عیّار سے نقابِ وفا

فریبِ ربط و رفاقت کی گرد چھٹ جائے

 

ضروری کیا ہے کہ کچھ ڈگریوں کی برکت سے

دماغ و دل سے جہالت کی گرد چھٹ جائے

 

تھمے یہ ظلم کا طوفاں تو خود بہ خود راغبؔ

بکھر رہی ہے جو دہشت کی گرد، چھٹ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بچھڑ کے تجھ سے ہو محسوس کیسے تنہائی

قدم قدم پہ تِری یاد کی ہے رعنائی

 

جہاں کہیں بھی رہوں تجھ کو دیکھ لیتا ہوں

مِرے خیال نے پائی ہے ایسی بینائی

 

کبھی تو نکھرے گا چہرہ ہماری چاہت کا

کبھی تو لے گا مقدّر ہمارا انگڑائی

 

تمھاری یاد میں اشعار گنگناتے گئے

اور اہلِ درد میں ہوتی گئی پذیرائی

 

چمن کی سیر میسّر ہو کس طرح راغبؔ

اگر لکھی ہو مقدّر میں دشت پیمائی

٭٭٭

 

 

 

 

نہ منھ بگاڑ کے بولو نہ منھ بنا کے کہو

جو بات کہنی ہے اے دوست مسکرا کے کہو

 

کہو کچھ اور سمجھ لیں کچھ اور اہلِ خرد

ذرا سی بات نہ اتنی گھما پھرا کے کہو

 

میں مانتا ہوں کہ تم سچ ہی بولتے ہو مگر

ہر ایک بات نظر سے نظر ملا کے کہو

 

یہ کیا کہ غیبتیں کرتے ہو ہر جگہ میری

تمھیں جو کہنا ہے دو ٹوک مجھ سے آ کے کہو

 

کہو غزل تو لگاؤ دل و دماغ ذرا

ردیف و قافیہ اچھّی طرح نبھا کے کہو

 

مجھے خبر ہے وہ راغبؔ کہیں گے کیا کیا کچھ

نہ کچھ گھٹا کے سناؤ نہ کچھ بڑھا کے کہو

٭٭٭

 

 

 

 

میں چاہتا ہوں کہ دیکھوں نہ تیرے گھر کی طرف

نگاہیں خود چلی جاتی ہیں بام و در کی طرف

 

نگاہِ قلب سے دیکھو مِری نظر کی طرف

چلا ہے ڈوبنے ہر خواب چشمِ تر کی طرف

 

کسی کا دھیان نہ ہو سختیِ سفر کی طرف

ہر ایک شخص مخاطب ہو راہبر کی طرف

 

زوال کیا ہے پتا چل گیا نہ سورج کو

بڑے غرور سے نکلا تھا دوپہر کی طرف

 

کوئی تو ہو کہ جو پوچھے یہ دستِ ظالم سے

یہ سنگ باریاں کیوں شاخِ بے ثمر کی طرف

 

ہمیں بھی آرزو راغبؔ ہے مال و دولت کی

پہ بھاگتے نہیں ہم لوگ مال و زر کی طرف

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمہید میں نہ وقت یوں برباد کیجیے

کیا مدّعا ہے آپ کا ارشاد کیجیے

 

آ کر غمِ فراق سے آزاد کیجیے

ویراں ہے قصرِ دل اِسے آباد کیجیے

 

ہے میرا دل وہی دلِ فولاد آشنا

آماج گاہِ تیرِ ستم، یاد کیجیے

 

ماضی کی اُن کو ساری جفائیں دلا کے یاد

’’میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے ‘‘

 

راغبؔ سنا کے اپنی غزل بزمِ شعر میں

محفل کا یوں سکوت نہ برباد کیجیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دیکھی ہے اتنی راہ تِری ہر پڑاؤ پر

اے دوست لگ گئی مِری منزل بھی داؤ پر

 

ہے مسئلوں کے زخم کا پیکر ہر ایک شخص

مرہم رکھے گا کیا کوئی اوروں کے گھاؤ پر

 

اِک ایسا معجزہ ہو کہ آ جائے لوٹ کے

وہ عمر جو سوار تھی کاغذ کی ناؤپر

 

 

 

منھ کھولتے ہی سب تمھیں پہچان جائیں گے

طاؤسِ خوش لباس کے جتنے لگاؤ پر

 

جب سے چلی ہے زیست میں فرقت کی سرد لہر

بیٹھا ہوں تیری یاد کے تپتے الاؤ پر

 

جب آپ کو خدا پہ مکمّل یقین ہے

حیرت زدہ ہوں آپ کے ذہنی تناؤ پر

 

راغبؔؔ بدلتے جائیے رُخ بادبان کا

چلتا ہے کس کا زور ہوا کے دباؤ پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہو جائے اس کا ایک اشارا زمین پر

جنّت کا رو نما ہو نظارا زمین پر

 

آلودگیِ ذہن و خیالات کے سبب

دشوار ہو رہا ہے گزارا زمین پر

 

مظلوم کی صدا سے نہ ہل جائے آسماں

اتنا کرو نہ ظلم خدارا زمین پر

 

دل کو یقین ہے کہ ملیں گے بروزِ حشر

ممکن نہیں جو ملنا ہمارا زمین پر

 

وہ لوگ خوش نصیب ہیں تیری رضا پہ جو

ہنس کر اٹھا رہے ہیں خسارا زمین پر

 

دشمن ہے کون، کون ہے راغبؔ ہمارا دوست

سمجھا کر اُس نے ہم کو اُتارا زمین پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر اِک قدم پہ رنگ فشانی سفر میں ہے

ہم راہ جب سے دلبرِ جانی سفر میں ہے

 

بچپن کے سارے خواب کچلنے پڑے جسے

آزردہ آج بھی وہ جوانی سفر میں ہے

 

راہِ وفا میں تو نے عطا کی ہے جو مجھے

روشن وہ ایک ایک نشانی سفر میں ہے

 

دیوانوں کا بھی رختِ سفر دیکھ اِک نظر

نان و نمک نہ آگ نہ پانی سفر میں ہے

 

دیکھا سفر میں اِک رخِ تاباں تو یوں لگا

گویا زمیں پہ خاورِ ثانی سفر میں ہے

 

وہ قوم راہِ راست سے بھٹکے گی کس طرح

آباء کی جس کو یاد کہانی سفر میں ہے

 

آگے ہی بڑھتے جانا ہے راغبؔ تمام عمر

دریا کا جس طرح سے یہ پانی سفر میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کوئی شیشہ نہ پتھّر ہے مِرا دل

محبّت کا سمندر ہے مِرا دل

 

مِرے سینے کے اندر ہے مِرا دل

مگر قابو سے باہر ہے مِرا دل

 

مِرا دل میری ہستی کا خزینہ

مِری دنیا کا محور ہے مِرا دل

 

مکیں اِس کو ملا ہے تیرے جیسا

مقدّر کا سکندر ہے مِرا دل

 

کبھی رسوا اِنہیں ہونے نہ دے گا

تمناؤں کی چادر ہے مِرا دل

 

کوئی شاہین ہے میرا تخیّل

اُسی شاہیں کا شہپر ہے مِرا دل

 

ہے صبر و شکر کا کوئی لبادہ

کہ درد و غم کا پیکر ہے مِرا دل

 

چلیں کچھ آپ بھی کر دیں عنایت

بڑا ہی درد پروَر ہے مِرا دل

 

کسی کی یاد کی خوش بو سے راغبؔ

ہر اِک لمحہ معطّر ہے مِرا دل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

غلط ہے ہر جگہ ایثار کرنا

نہ مانے دل تو مت اقرار کرنا

 

میں اِک اعلان ہوں امن و اماں کا

مجھے چسپاں سرِ دیوار کرنا

 

یقیں آتا نہیں وعدوں پہ اُن کے

جنھیں آتا نہیں انکار کرنا

 

یہاں گھُٹ گھُٹ کے مرنے سے ہے بہتر

وہیں چھوٹا سا کاروبار کرنا

 

کسی کا آج کل یہ مشغلہ ہے

کسی کی زندگی دشوار کرنا

 

کوئی آساں نہیں اے کشتیِ دل

تمناؤں کا دریا پار کرنا

 

کہاں ہر شخص کے بس میں ہے راغبؔؔ

کسی سے درد کا اظہار کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی مت آگہی سے دور رہنا

حصارِ تیرگی سے دور رہنا

 

نصیحت مت کرو اے خیر خواہو!

کٹھن ہے شاعری سے دور رہنا

 

کبھی مت ساتھ رہنا بزدلوں کے

ہمیشہ بزدلی سے دور رہنا

 

وہ جس کے ساتھ رہنا ہم نے چاہا

پڑا ہم کو اُسی سے دور رہنا

 

بس اِک کا بندہ بن کر زندگی بھر

ہر اِک کی بندگی سے دور رہنا

 

دیارِ غیر میں اِک عمر راغبؔ

پڑا اپنی خوشی سے دور رہنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مِری تقدیر ہی اچھّی نہیں تھی

تِری شمشیر ہی اچھّی نہیں تھی

 

میں ہر دم قید رہنا چاہتا تھا

تِری زنجیر ہی اچھّی نہیں تھی

 

میں خط لکھتا اُسے تو کیسے لکھتا

مِری تحریر ہی اچھّی نہیں تھی

 

تمھارا وار دانستہ تھا ہلکا

کہ نوکِ تیر ہی اچھّی نہیں تھی

 

ہمارے خواب تو دل کش تھے راغبؔ

مگر تعبیر ہی اچھّی نہیں تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اَنا کے ہات سے باہر تو نکلو

حصارِ ذات سے باہر تو نکلو

 

کسے کہتے ہیں صحرا جان لو گے

حسیں باغات سے باہر تو نکلو

 

قدم بوسی کرے گی کامرانی

کٹھن حالات سے باہر تو نکلو

 

سمجھ لو گے کہ دنیا کیا بلا ہے

کبھی دیہات سے باہر تو نکلو

 

ہمیں بھی کچھ ہو احساسِ جدائی

ہماری ذات سے باہر تو نکلو

 

مِرے افکار کے روشن ستارو!

مِرے جذبات سے باہر تو نکلو

 

سحر دے گی قبائے نور راغبؔ

شبِ ظلمات سے باہر تو نکلو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

سنا تھا میں نے پیسہ بولتا ہے

تِری محفل میں دیکھا بولتا ہے

 

عبث واعظ تِری شعلہ بیانی

کہ بولیں لوگ اچھّا بولتا ہے

 

خرد کی بات سنتے ہی کہاں ہیں

وہ جن کے سر میں سودا بولتا ہے

 

کہاں رہتی ہے خاموشی سفر میں

مسافر چپ تو رستہ بولتا ہے

 

زباں کچھ اور کہتی ہے تمھاری

مگر کچھ اور چہرہ بولتا ہے

 

بہت مغموم ہے مہجور راغبؔ

دِکھاوا ہے جو ہنستا بولتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

مِرا دل ہے محبّت کا سمندر

سمندر ہے مگر پیاسا سمندر

 

کناروں سے مسلسل لڑ رہا ہے

نہ جانے چاہتا ہے کیا سمندر

 

کسی کو بھی تِرے رنج و الم کا

نہیں ہے کوئی اندازا سمندر

 

مِرا ظاہر ہے اِک سیراب صحرا

مِرا باطن کوئی پیاسا سمندر

 

سمندر کی بجھی کب پیاس راغبؔ

ہزاروں پی گیا دریا سمندر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہے ستم اُن کی بھی جان پر دیس میں

اور ہم بھی پریشان پردیس میں

 

جان دیتے تھے جو آن پر دیس میں

مٹ گئی اُن کی پہچان پردیس میں

 

سب کی تقدیر میں شادمانی نہیں

رہ رہے ہیں جو انسان پردیس میں

 

ہے نگاہوں کو ہر دم تِری جستجو

ہر گھڑی ہے تِرا دھیان پردیس میں

 

گر یہ دھوکہ نہیں ہے تو راغبؔ ہے کیا

تیرے ہونٹوں پہ مُسکان پردیس میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہو گئی ہے فدا موت پر زندگی

خوف و دہشت سے ہے بے خبر زندگی

 

ہے تِری راہ میں کوئی تیرا عدو

اس سے رہنا سدا با خبر زندگی

 

جھلکیاں تیری ہر انگ میں ہیں مگر

اس مجسّم میں ہے تو کدھر زندگی؟

 

عقل والوں نے دوڑائے اسپِ خرد

رہ گئی اِک پہیلی مگر زندگی

 

زندگی سے ہزاروں ہیں شکوے گلے

پھر بھی محبوب ہے کس قدر زندگی!

 

دے کے پرواز کی اُس نے قوّت تجھے

کاٹ ڈالے تِرے بال و پر زندگی

 

موت کو دیکھ کر وہ بھی مرنے لگا

جس نے کی تھی بسر بے خطر زندگی

 

کس کو معلوم کس روز سو جائے گی

موت کی گود میں رکھ کے سر زندگی

 

غیر ممکن ہے راغبؔ منا لے کوئی

روٹھ جائے کسی سے اگر زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

جدائی کا موسم یہاں سے وہاں تک

برستا ہوا غم یہاں سے وہاں تک

 

وہاں سے یہاں تک ہے جو بے قراری

وہی کچھ ہے عالم یہاں سے وہاں تک

 

بُجھیں وصل کی شمعِ امّید ساری

اندھیرا ہے پیہم یہاں سے وہاں تک

 

غمِ ہجر میں منتشر منتشر ہیں

کہیں تم کہیں ہم یہاں سے وہاں تک

 

ہے پھیلی ہوئی اُن کی یادوں کی خوشبو

ہواؤں میں ہر دم یہاں سے وہاں تک

 

جنوں میں اُسے جانے کیا لکھ دیا ہے

ہیں سب مجھ سے برہم یہاں سے وہاں تک

 

ملی گر خبر اُن کے آنے کی راغبؔ

تو بچھ جائیں گے ہم یہاں سے وہاں تک

٭٭٭

 

 

 

 

 

پرانے اُکھڑتے چلے جا رہے ہیں

نئے جڑ پکڑتے چلے جا رہے ہیں

 

جو آپس میں لڑتے چلے جا رہے ہیں

مصیبت میں پڑتے چلے جا رہے ہیں

 

مِرے حوصلوں سے قدم دشمنوں کے

مسلسل اُکھڑتے چلے جا رہے ہیں

 

تِری ہی بدولت اے مطلب پرستی

تعلّق بگڑتے چلے جا رہے ہیں

 

مقدّر سے لڑتے چلے آ رہے تھے

مقدّر سے لڑتے چلے جا رہے ہیں

 

ہے پُر خار یہ راستہ راستی کا

مگر گرتے پڑتے چلے جا رہے ہیں

 

ردائے غزل پر خیالوں کے موتی

غزل فہم جَڑتے چلے جا رہے ہیں

 

ہم اہلِ محبّت محبّت میں راغبؔ

زمانے سے لڑتے چلے جا رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

دِکھا کر ہمارا ہی سایا ہمیں

ہماری نظر نے ڈرایا ہمیں

 

نہ آنکھوں میں تم نے بسایا ہمیں

نہ اشکوں کی صورت بہایا ہمیں

 

نہ اچھّی طرح سے جلایا ہمیں

نہ جلنے سے تم نے بچایا ہمیں

 

خرد کی نہ چلنے دی اِس نے کبھی

’’جنوں نے تماشا بنایا ہمیں ‘‘

 

اُسی نے تو بھیجا تھا ہم کو یہاں

سو جب چاہا اُس نے بلایا ہمیں

 

دھواں ہے نہ شعلہ نہ کوئی شر ر

یہ کیسی اگَن میں جلایا ہمیں

 

ہمیشہ غبارِ سفر کی طرح

جہاں چاہا اُس نے اُڑایا ہمیں

 

دیارِ خرد میں وفا کا چلن

کسی طرح راغبؔ نہ بھایا ہمیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

گماں کے ہٹا کر دِیے رکھ دِیے

یقیں کے جلا کر دِیے رکھ دِیے

 

دِیے رکھ دِیے تھے کہ جگمگ ہو جگ

پہ تم نے چھپا کر دِیے رکھ دِیے

 

حفاظت کا تیری یقیں جب ہوا

ہواؤں میں لا کر دِیے رکھ دِیے

 

مسرّت کے تھے یا غم و درد کے

دِیے جو جلا کر دِیے رکھ دِیے

 

تِرے راستے میں شبِ انتظار

نظر کے بچھا کر دِیے رکھ دِیے

 

رہِ شوق میں ہم جہاں بھی گئے

وفا کے سجا کر دِیے رکھ دِیے

 

غزل اُن کی محفل میں ہم نے پڑھی

کہ اندھوں میں جا کر دِیے رکھ دِیے

 

اندھیروں سے رغبت تھی راغبؔ اُسے

سو اُس نے بجھا کر دِیے رکھ دِیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دلِ بیتاب کی نقلِ مکانی یاد آتی ہے

مِری معصوم چاہت کی کہانی یاد آتی ہے

 

جہانِ جسم و جاں کی شادمانی یاد آتی ہے

مِرے دل پر تِری وہ حکمرانی یاد آتی ہے

 

جوانی کے حسیں موسم میں بچپن یاد آتا ہے

جوانی جب نہیں رہتی جوانی یاد آتی ہے

 

یوں لگتا ہے کہ سینے سے کلیجہ آ گیا باہر

دلِ خوش فہم کی جب خوش گمانی یاد آتی ہے

 

ہمیشہ یاد آتا ہے کسی کا شبنمی لہجہ

کسی کی ہر گھڑی شیریں بیانی یاد آتی ہے

 

عذابِ یادِ ماضی میں پھنسی ہے زندگی میری

سو ہر لمحہ تِری اِک اِک نشانی یاد آتی ہے

 

کھِلا کرتی تھیں جب راغبؔ کسی کی دید کی کلیاں

بہارِ وصل کی وہ رُت سُہانی یاد آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

میں کہتا تھا نہ اُن کے سامنے جانے سے پہلے ہی

مجھے مجروح کر دیں گے وہ شرمانے سے پہلے ہی

 

تکلّف اور نفاست سے ہی سب پہچان جاتے ہیں

کراماتِ زبانِ خاص دکھلانے سے پہلے ہی

 

سمجھ کر بھی نہ وہ سمجھیں لگی دل کی تو کیوں سمجھوں

سمجھ جاتے ہیں وہ ہر بات سمجھانے سے پہلے ہی

 

کسی سائے کو ترسا ہوں بہت صحرا نوَردی میں

خوشی کے مارے مر جاؤں نہ گھر جانے سے پہلے ہی

 

اب اُس کا کیا جو ٹھوکر کھا کے بھی ویسے کا ویسا ہے

سنبھل جاتے ہیں کتنے ٹھوکریں کھانے سے پہلے ہی

 

کفِ افسوس اب ملنے سے کچھ حاصل نہیں راغبؔ

کوئی دم سوچتے گھر چھوڑ کر جانے سے پہلے ہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کوئی پَل تو مجھ سے جدا نہیں مجھے علم ہے

کوئی دِل میں تیرے سوا نہیں مجھے علم ہے

 

یہ دلیلِ ترکِ وفا نہیں مجھے علم ہے

مِرا خط ہی اُس کو ملا نہیں مجھے علم ہے

 

چلے اُس کا نام بگاڑنے چلو چُپ رہو

کہ وہ شخص اتنا برا نہیں مجھے علم ہے

 

تجھے پوجنا ہے تو پوج تو، مجھے چھوڑ دے

وہ بھی آدمی ہے خدا نہیں مجھے علم ہے

 

مِری جاں تو کتنی حسین ہے تجھے کیا پتا

تِرے ہاتھ پر یہ حنا نہیں مجھے علم ہے

 

تجھے کیا ہیں مجھ سے شکایتیں مجھے کیا خبر

مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں مجھے علم ہے

 

نہیں مانتا دلِ تشنہ کام تو کیا کروں

تِری زلف کالی گھٹا نہیں مجھے علم ہے

 

میں جلوں گا ہجر کی آگ میں یوں ہی عمر بھر

مِری اور کوئی سزا نہیں مجھے علم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تجھے کیا پتا تجھے کیا خبر مِرے بے خبر

تجھے چاہتا ہوں میں کس قدر مِرے بے خبر

 

مِرے دل کی دیکھنا تشنگی مِری زندگی

کبھی آ ملو کسی موڑ پر مِرے بے خبر

 

مِرے دل کو ہے تِری جستجو مِرے خوب رو

تجھے ڈھونڈتی ہے مِری نظر مِرے بے خبر

 

تجھے چاہنا مِری بھول ہے یہ قبول ہے

نہیں مانتا دلِ فتنہ گر مِرے بے خبر

 

تجھے کون کتنا ہے چاہتا تجھے کیا پتا

کبھی دیکھنا ذرا سوچ کر مِرے بے خبر

 

نہ یوں بات بات پہ ہو خفا مِرے دل رُبا

کہ حیات ہے بڑی مختصر مِرے بے خبر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اے جانِ تمنّا نہیں ملتا نہیں ملتا

بن تیرے کوئی چین کا لمحہ نہیں ملتا

 

یہ دن بھی دکھایا ہے مجھے وحشتِ دل نے

خود مجھ کو پتہ اپنے ہی گھر کا نہیں ملتا

 

سیرت میں، شباہت میں، تکلّم میں، ادا میں

اے جانِ تخیّل کوئی تجھ سا نہیں ملتا

 

تھک ہار کے سب بیٹھ گئے ڈھونڈنے والے

تجھ جیسا کہیں بھی کوئی چہرہ نہیں ملتا

 

سمجھا ہوں میں جس روز سے آدم کی حقیقت

مجھ کو کوئی ادنیٰ کوئی اعلیٰ نہیں ملتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ماضی کے ورق پلٹ کے روئے

یادوں سے تِری لپٹ کے روئے

 

روئے خوب ٹوٹ کر کبھی ہم

خود میں بھی کبھی سمٹ کے روئے

 

چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی

ہم طرزِ جہاں سے ہٹ کے روئے

 

اِک سرسبز شاخ کی طرح ہم

اُلفت کے شجر سے کٹ کے روئے

 

ہم تھکنے لگے تو راستے بھی

قدموں سے لپٹ لپٹ کے روئے

 

اُن کے ساتھ آسماں بھی رویا

جو اپنی زمیں سے ہٹ کے روئے

 

وہ چہرہ تھا اِک کتاب راغبؔ

جس کے ہر ورق کو رٹ کے روئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اِک امتحاں سے گزر رہا ہوں

فصیلِ جاں سے گزر رہا ہوں

 

زمین پر اب قدم کہاں ہیں

میں آسماں سے گزر رہا ہوں

 

کبھی حدودِ یقیں سے آگے

کبھی گماں سے گزر رہا ہوں

 

میں فکر و فن کی اُڑان بھر کر

کہاں کہاں سے گزر رہا ہوں

 

تمھاری یادوں کی انجمن سے

یا کہکشاں سے گزر رہا ہوں

 

وہاں وہاں کوئی نقشِ پا ہے

جہاں جہاں سے گزر رہا ہوں

 

میں زندگی کر رہا ہوں راغبؔ

کہ داستاں سے گزر رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

غبار دل سے نکال دیتے

تو سب تمھاری مثال دیتے

 

تم اپنے زرّیں خیال دیتے

ہم اُن کو شعروں میں ڈھال دیتے

 

چراغِ الفت جلا کے دل میں

ہماری دنیا اُجال دیتے

 

تمھاری آنکھوں کو دیکھ کر بھی

مثالِ چشمِ غزال دیتے ؟

 

نکھر رہی ہے حیات راغبؔ

غزل کو رزقِ حلال دیتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

غیروں کی بات پر ہی بس کان دھرا ہے آپ نے

حالِ دلِ حزیں کہاں ہم سے سنا ہے آپ نے

 

تیرِ نظر سے دل مِرا چھلنی کیا ہے آپ نے

چین اور سکوں سے کب مجھے جینے دیا ہے آپ نے

 

اِتنے تو فاصلے نہ تھے اِتنی تو رنجشیں نہ تھیں

میرے خلاف کچھ نہ کچھ اُن سے کہا ہے آپ نے

 

ذہن تو مان جائے گا دل ہے کہ مانتا نہیں

خود کو نہ جانے کس طرح سمجھا لیا ہے آپ نے

 

کچھ تو عمل میں لائیے کر کے تو کچھ دکھائیے

اِتنا پڑھا ہے آپ نے اتنا لکھا ہے آپ نے

 

کیسے کٹھن نہ ہو بھلا جینا حضور آپ کا

جھوٹے کو سب کے سامنے جھوٹا کہا ہے آپ نے

 

آپ کے حالِ زار پر اشک بہائیں لوگ کیوں

’’اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے ‘‘

 

راغبِؔ تشنہ کام کی اور بڑھا کے تشنگی

چاروں طرف سراب بھی بخش دیا ہے آپ نے

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید