لالٹین
مختصر ناول
رام پرکاش اننت
ترجمہ عامر صدیقی
’’سو چودھری تمہیں کیا بتائیں، ایسا ملوک، سگھڑ پلّا۔ بالکل روئی کے پھا ہے کی طرح سفید۔۔ ۔۔‘‘ یہی تو خاص ادا ہے رام سنیہی کی۔ پہلے تو معمولی سی بات پر اتنا رس ڈال دیں گے، پھر اچانک ہی خاموش ہو جائیں گے۔ سب بے چینی سے ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پل بھر ٹھہر کر انہوں نے آگے بولنا شروع کیا، ’’ تو چودھری تمہیں کیا بتائیں، تم یقین نہیں کرو گے، بالکل جھک سفید پلّا۔‘‘
رام سنیہی جس اتار چڑھاؤ کے ساتھ بیان کر رہے تھے، وہ لاجواب تھا۔ انہوں نے ’’جھک سفید‘‘ کو جس انداز میں زور دے کر کہا اور اس سے جووجدانی کیفیت پیدا ہوئی، اس کا بیان کر پانا ممکن نہیں ہے۔ ہلکا سا رک لے کر وہ آگے بڑھے، ’’ سو چودھری تم یقین نہیں کرو گے، رات کا تقریباً ایک بجا تھا۔ تم تو جانتے ہی ہو پلیا پر چور اچکے سرِ شام ہی سامان چھین لیتے ہیں۔ سو، دل میں تھوڑا ڈر بھی تھا۔ چچا تیز چال چلے جا رہے تھے کہ دیکھتے کیا ہیں۔۔ ۔ سو چودھری، تمہیں کیا بتائیں، ایسا ملوک، بالکل روئی کے پھا ہے کی طرح ایک دم جھک سفید پلّا۔ پلّا ایسے تول تول کے قدم رکھے کہ چچا سے نہ تل بھر آگے، نہ تل بھر پیچھے۔ چچا نے دیکھا تو ایک دم دنگ رہ گئے۔ انہوں نے پلّے کو اٹھایا اور کندھوں پر رکھ لیا۔ چچا پلّے کو کندھوں پر رکھے تیزچال چلے آ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں لگا ان کے کندھے وزن سے دبے جا رہے ہیں اور وہ مناسب طریقے سے چل نہیں پا رہے ہیں۔ سو چودھری تم یقین نہیں کرو گے، دیکھتے کیا ہیں کہ کتے کی ٹانگیں بڑھتے بڑھتے زمین سے چھو گئی ہیں۔ اچانک انہیں احساس ہوا تو پلّازمین پہ دے مارا اور وہ بھاگے مٹھی باندھ کے۔ ’’سسرا چھروٹا‘‘ ۔ چودھری تم سے کیا کہیں، بھاگم بھاگ میں چچا کا دم پھول گیا۔ ایسا لگے جیسے پیچھے سرسراتی ہوا دوڑتی ہوئی آ رہی ہے۔ پرچچا نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جب گاؤں گونڑے آ گئے، تب بولتے کیا ہیں، ’’خیر منا، بچ گئے آج۔‘‘ ، چچا نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کہیں کوئی نظر نہیں آیا۔ چچا نے للکارا، ’’سسر اچھروٹا، تو میرے پیچھے پڑا ہے۔‘‘
سب لوگ مسرور تھے۔ میں نے بے چینی سے پوچھا۔ ’’ یہ چھروٹا کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’چھروٹا کیا ہوتا ہے!‘‘ رام سنیہی نے مجھے حقارت سے دیکھا جیسے کہ میں نے کوئی بہت ہی بچکانی بات پوچھ لی ہو۔ ’’ چھروٹا چھروٹا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی روپ میں آ سکتا ہے۔ لیکن جب بھی آئے گا، سفید رنگ میں آئے گا۔ سفید کتا بن جائے، گھوڑا بن کے آ جائے، بکرا بن کے آ جائے، آدمی بن کے آ جائے، کسی بھی شکل میں آ سکتا ہے۔ آدمی کو اگر مل جائے، تو اسے الٹا لٹکا کر مارے کہ اس کی ہوا خراب ہو جائے۔‘‘ وہ مجھے چھروٹا کی طاقت کا احساس کرانے والے انداز میں بولے۔
روپ بدلنے والی بات چلی تو چمپت کو بھی ایک واقعہ یاد آ گیا۔ بولے۔ ’’ چھروٹا تو بہت چھلیا ہوتا ہے۔ کب کس شکل میں آ جائے، کچھ پتہ تھوڑے ہی ہے۔ ایک بار میں نانی کے گھر تھا۔ میں اور بڑے ماما کا بیٹا سوئے ہوئے تھے۔ رات کا تقریباً ایک بجا ہو گا۔ رتی رام ہانپتا ہوا آیا۔
بولا، ’’بھیا، بھیا۔‘‘ میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔ اس کا گلا خشک تھا اور طریقے سے بول نہیں پا رہا تھا۔ گھبراہٹ کے مارے گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘
’’تم سو رہے ہو، ابھی وہ میرے پاس آیا اور مجھے گاؤں سے باہراٹھا لے گیا۔‘‘ وہ طریقے سے بول نہیں پا رہا تھا۔
میں نے پوچھا، ’’کون آیا تھا؟‘‘
’’چھروٹا اور کون۔‘‘ وہ بتانے لگا، ’’ابھی میں سو رہا تھا، تو تمہارا روپ دھار کے آ گیا اوربولا۔ ’’رتی رام کھیتوں پر چلو۔ نیل گائیں آ گئی ہیں، سارا کھیت کھا جائیں گی۔‘‘ میں نے لاٹھی اٹھائی اور اس کے ساتھ چل دیا۔ وہ آگے آگے اور میں پیچھے پیچھے۔ گاؤں کے باہر نکل کر وہ پوکھر والے دگڑے کی جانب مڑا، تو میں نے کہا، ’’بھیا ادھر کیوں جا رہے ہو؟ اس سیدھی پگڈنڈی سے چلو جلدی پہنچ جائیں گے۔‘‘ وہ ضد پر اتر آیا آیا۔ ’’نہیں، ادھر ہی سے چلیں گے۔‘‘ میں نے سمجھایا، ’’بھیا یہ سیدھاراستہ ہے، اس سے جلدی پہنچ جائیں گے۔‘‘ ، اس نے مڑ کر میرا بازو پکڑا اور زبردستی کرتا ہوا بولا کہ چلتا ہے کہ نہیں، یہی راستہ صحیح ہے۔ میں بھی ایک دم غصے میں آ گیا۔ بازو چھڑا کر بولا۔ ’’بِنا وجہ کے ضد کر رہے ہو۔ سیدھے راستے تو نہیں چل رہے ہو اور اتنا پھیر کھاتے پھرو گے۔ اب تک تو کھیت پر پہنچ گئے ہوتے۔‘‘ مجھے غصے میں دیکھ کر وہ ایسا کھلکھلا کر ہنسا، ایسا کھلکھلا کے ہنسا کہ میری تو پھونک ہی سرک گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ چمپت بھیا تو زرد کرتہ پہن کر سوئے تھے، یہ تو سفید کرتہ پاجامہ پہنے ہے۔ پاجامے پر نظر گئی، تو میں نے دیکھا اس کے پاؤں پیچھے ہیں۔ ڈر کے مارے میری حالت پتلی۔ میں نے ہمت جٹاکر لاٹھی اٹھائی، تو وہ بھاگتے ہوئے بولا کہ زندہ بچ گیا ہے بیٹا۔ اگر پوکھر تک پہنچ جاتا، تو ساری ہیکڑی بھلا دیتا۔ اس کے بعد میں نے مضبوطی سے لاٹھی پکڑی اور الٹے پیر بھاگ لیا۔‘‘ چمپت کچھ لمحے ٹھہرے۔ پھر انہوں نے اپنی بات ختم کی، ’’ سو بھیا چھروٹا تو بڑا شاطر ہوتا ہے۔ کب کس کا بھیس بدل کر آ جائے، کچھ پتہ تھوڑے ہی ہوتا ہے۔‘‘
تھوڑی دیر تک کوئی کچھ نہیں بولا، تو چودھری نے چھروٹا کے بارے میں اختتامیہ پیش کیا، ’’ شرارتی ہوتے ہیں یہ۔ انہیں آدمی کو پریشان کرنے میں مزہ آتا ہے۔ جب آدمی ڈرتا ہے، اسے چوٹ لگتی ہے، تو انہیں خوشی ہوتی ہے۔ اگر رتی رام پوکھر تک جاتا تو وہ اسے پوکھر میں دھکیل دیتا۔ پانی دیکھ کر تو یہ شیر ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’بھیا لگتا ہے، ادھر والی لائن آ گئی۔‘‘ چمپت ریلوے لائن کے پار ٹمٹماتے بلبوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
’’کیا ٹائم ہو گیا؟‘‘ سنیہی نے پوچھا۔
چودھری گھڑی دیکھ کر بولے، ’’ بارہ بج گئے۔‘‘
’’بارہ بج گئے! ’’میں جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ میں تیزی سے گھر کی طرف بڑھا۔ دماغ پر بری طرح چھروٹا چھایا ہوا تھا۔ ماں یعنی گاؤں دیوی کے مندر سے لے کر پرانے نیم تک پکا اندھیرا رہتا تھا۔ کیا پتہ کس کونے سے چھروٹا نکل آئے اور آن دبوچے۔ ماں کا مندرکے آتے ہی میں نے دونوں مٹھیاں بند کیں اور گہری سانس بھری۔ تقریباً دو ڈھائی سو گز کا وہ فاصلہ جس میں دو موڑبھی شامل تھے، میں نے ایک سانس میں طے کر لیا۔ بھگت جی کی بیٹھک پر لالٹین جل رہی تھی، جس کی روشنی گلی میں پھیلی ہوئی تھی۔ میرے اندر کا ڈر کافی کم ہو گیا تھا۔
گھر کے دروازے تک پہنچتے ہی چھروٹے کا خوف تو اندر سے بالکل نکل گیا، پر دوسرا خوف سما گیا۔ میں نے دھیرے سے کواڑوں کو دھکیلا، تو وہ کھل گئے۔ تسلی ہوئی کہ ماں نے کنڈی نہیں لگائی تھی۔ کسی ماہر سرجن کے سدھے ہوئے ہاتھوں سے میں نے کنڈی لگائی اور بغیر آہٹ کئے، آنگن پار کر کے برآمدے میں پڑی چارپائی پر ٹک گیا۔ تھوڑی دیر تک گھر کے سناٹے کو محسوس کر کے مجھے کچھ سکون ملا۔
’’آ گیا تو۔ اتنی جلدی تیری پنچایت کس طرح ختم ہو گئی۔ جب دن نکل آتا، تب آتا۔‘‘ ممی کی کڑک آواز نے اس سناٹے کو تحلیل کر دیا۔ میں نے سوچا، ممی سو گئی ہوں گی۔ اسی لئے میں بغیر آہٹ کئے دبے پاؤں گھر میں داخل ہوا تھا۔ لیکن ممی کو میرے آنے کا پتہ چل گیا۔ میں ایکدم خاموشی ہو گیا۔ ممی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد غصے میں آ گئیں۔ ’’ آدھی رات ہو گئی اور تیری پنچایت میں آگ نہیں لگتی۔ کواڑ کھلے پڑے ہیں۔ رات گئے، کوئی گھر میں گھس آئے اور سارا سامان باندھ کر لے جائے۔ گھر باہر کی تجھے کچھ فکر تھوڑے ہی ہے۔‘‘
میں دعا کر رہا تھا کہ ممی چاہے جتنا ڈانٹ ڈپٹ لیں، پر چارپائی سے اٹھ کر نہ آئیں۔ اگر وہ اٹھ آئیں، تو اتنے تھپڑ پڑنے طے تھے کہ آدھے ایک گھنٹے تک نیند آنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ مار کے آگے بھوت بھی بھاگتے ہیں، یہ پرانی کہاوت ہے۔ سو، میں بے حدخوفزدہ تھا، پر ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار بھی کر رہا تھا۔ یعنی میں فیصلہ کر چکا تھا کہ ماں اٹھ کر آ ہی گئیں، تو میں سر کو اتنا نیچے جھکا لوں گا کہ انہیں گالوں پر تھپڑ مارنا مشکل لگے گا اور وہ پیٹھ پر ہی چار چھ تھپڑ مار کر اپنا غصہ ٹھنڈا کر لیں گی۔ پیٹھ کی مقابلے میں گالوں پر پڑے تھپڑ زیادہ ظالم ہوتے تھے۔
’’گاؤں کی ہوا ویسے ہی ٹھیک نہیں ہے۔ چار کونے چار دشمن۔ رات برات کوئی پکڑ کر لے گیا، تو ہم اتنے پیسے والے بھی نہیں ہیں کہ چھڑا سکیں۔ ایسے تو چھوڑنے سے رہا، کوئی مار ہی ڈالے گا۔ اگر مرنا ہی ہے تو ایسے ہی کسی کنواں، پوکھر میں ڈوب کے مر جاؤ۔ تم سے نہیں مرا جاتا، تو چلو ہم دھکا دیتے ہیں۔ ایک دن مر جاؤ، تو قصہ تو ختم ہو۔‘‘
میری سانسیں سی رک گئیں۔ ممی نے جس طرح دانت پیستے ہوئے اپنی بات پوری کی تھی، اس سے مجھے لگا، وہ ابھی اٹھ کر آئیں گی اور مجھے گھسیٹتے ہوئے لے جا کر کسی کنواں یاپوکھر میں دھکیل دیں گی۔ خوف آہستہ آہستہ میرے پورے وجود میں پھیلتاجا رہا تھا۔ ہر لمحہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ممی اب اٹھ کر آنے ہی والی ہیں۔ وہ اٹھ کر نہیں آئیں اور تھوڑی دیر تک کچھ بولیں بھی نہیں۔ یہ ان کی پرانی عادت تھی۔ جب ان کا غصہ عروج پر پہنچ جاتا تھا، تب وہ یا تو مجھے پیٹ کر اسے نکل جانے دیتیں یا پھر شدید ڈانٹ ڈپٹ سے شروع کر کے آہستہ آہستہ سمجھانے کا لہجہ اختیار کر لیتیں۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ سمجھانے لگیں۔
’’آدھی رات تک کواڑکھلے پڑے رہتے ہیں۔ کمبخت لہو پی جاتے ہیں ہمارا۔ رات ہوتے ہی سب اپنے اپنے گھروں پر ہوتے ہیں اورتم بیٹھک کرتے پھر رہے ہو۔ پڑھنے لکھنے والے بچے کو پڑھائی لکھائی پر توجہ دینا چاہئے۔ پڑھائی نہیں، تو گھر کا کام دھندہ دیکھو۔ کوئی کام نہیں ہے، تو اپنے گھر بیٹھو۔ کیا ضرورت ہے رات برات ادھر ادھر بیٹھنے کی۔ ادھر ادھر کی باتوں میں کیا رکھا ہے۔ چار اچھی، چار بری۔ کسی کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات نکل جائے، کوئی اپنی طرف سے مرچ مسالا لگا کر ادھر سے ادھر کر دے، لڑائی دنگاہو، پھر صحیح ثابت کراتے پھرو۔‘‘
ماں کچھ لمحے کے لئے رکیں، تو مجھے لگا اب سونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ سب چیزیں میں ان سے سنتا ہی رہتا تھا، اس لئے ان پر توجہ نہ دینا قدرتی تھا۔
’’سارا دن گھر سے باہر کے کاموں میں پسو۔ چوکا برتن، بھینس ڈانگر، کھیتی باڑی، پچاس آفتیں لگی رہتی ہیں جان کو۔ صبح سے شام تک پچاس جھنجھٹ اور شام کو تمہاری جھِک جھِک۔ مار کے دیکھ لیا، ڈرا کے دیکھ لیا، سمجھا کے دیکھ لیا۔ کھانا بنا ہوا رکھا ہے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں۔ بیٹاجی اب آئے، تب آئے۔ دیکھتے دیکھتے جُگ گزر گیا۔ قسم سے ہمارا چولا اتنا دکھی ہے کہ تم تو نہیں مرو گے، پر ہم مر جائیں گے کسی کنوئیں پوکھر میں گر کے۔ آخر ان سبھی جھنجھٹسے تو نجات ملے۔‘‘ ممی کا گلاروندھ گیا اور وہ رو پڑیں۔
میں پانی پانی ہو گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، میں کیا کروں۔ مجھے احساس ہوا، میں نے ابھی کھانا نہیں کھایا ہے۔ اس بات سے اور دکھ ہوا کہ ممی بھی ابھی بھوکی ہیں۔ میرے کھانا کھانے کا وقت طے نہیں تھا۔ اکثر جب وہ کھانا بنا رہی ہوتی تھیں، میں تبھی کھانا کھا لیتا تھا۔ کبھی میں گھیر میں بھینسوں کی سانی پانی، کُٹی کاٹی کر رہا ہوتا تھا، تو وہ پہلے کھانا کھا لیتی تھیں، لیکن کبھی کبھی وہ دیر تک میرا انتظار کرتی رہتیں کہ میں آ جاؤں تو ساتھ کھانا کھائیں۔ خاص کر تب، جب وہ کوئی اچھی اور میری من پسند سبزی بناتی تھیں۔ آج بھی انہوں نے میری پسندیدہ ارہر کی دال بنائی تھی۔ جانے سے پہلے میں کہہ بھی گیا تھا کہ ابھی بھینس باندھ کر آتا ہوں۔
ممی سسک رہی تھیں اور میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کروں؟ میں خود کو ذلیل محسوس کر رہا تھا۔ میری وجہ سے ممی اتنی رات گئے، بھوکی بیٹھی تھیں۔ میں اندر سے بہت شرمندہ تھا۔ وہ مجھے مار پیٹ لیتیں پر روتی تو نہ۔ پہلے بھی ایک دو بار دیر سے آنے کی وجہ سے کھانا نہیں دیا ہے۔ آج بھی خود کھانا کھا لیتیں، مارپیٹ لیتیں، کھانا نہ دیتیں پر اس طرح سے تو نہ روتیں۔ میں نے چارپائی سے اٹھنے کی کوشش کی، پھر ویسے ہی لیٹا رہا۔ بالآخر اٹھ کے میں ممی کے پاس پہنچا۔
’’ممی۔۔ ۔‘‘ میں آہستہ سے بولا۔ وہ خاموش رہیں۔ ’’ ممی۔۔ ۔‘‘
وہ اب بھی کچھ نہیں بولیں۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر تھوڑی اونچی آواز میں بولا، ’’ ممی۔۔ ۔‘‘
’’تمہیں کیا مطلب ممی سے۔ ماں مرے یا جئے۔ تم آدھی رات تک ادھر ادھر بیٹھکیں کرتے پھرو۔‘‘
انہوں نے آنچل سے آنکھیں پونچھیں۔ ’’ میں رجّن کی بیٹھک پر پڑھائی کر رہا تھا۔‘‘ میں نے جان بوجھ کر اس لئے جھوٹا بولا کہ اس سے ممی کی تکلیف کم ہو جائے گی۔ اگرچہ بولتے ہوئے مجھے لگ رہا تھا کہ آواز گلے میں پھنس جائے گی اور ممی صحیح بات جان جائیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ بہت ملائمیت سے بولیں، ’’ پڑھائی لکھائی کی بات دن میں کرنی چاہئے۔ کہہ کے جاتا کہ میں رجّن کی بیٹھک پر پڑھ رہا ہوں، تو مجھے فکر نہ رہتی۔‘‘ ممی پڑھائی کے نام پر سب کچھ معاف کر دیتی تھیں۔
ممی نے اٹھ کر دیا روشن کیا۔ کٹوری میں دال پروسی۔ کٹوردان سے روٹی نکال کر بولیں، ’’ گرم کروں؟ بالکل ٹھنڈی ہو گئیں۔‘‘
’’رہنے دو تھوڑی تھوڑی گرم ہیں تو۔‘‘ میں نے یوں ہی روٹی چھوکر بول دیا۔ وہ آگ جلانے کے لئے اٹھنے ہی والی تھیں، پھر رک گئیں۔
’’گھر باہر کاکتنا کام ہے۔ رات دن لگے رہو، پھر بھی تو فرصت نہیں ملتی۔ تجھے سمجھنا چاہئے کہ میرے ماں باپ کتنی محنت سے پڑھا رہے ہیں۔ پڑھائی لکھائی پر توجہ دینا چاہئے۔ کام میں ہاتھ بٹانا چاہئے۔ اِدھر اُدھر کی فالتو باتوں میں کیا دھرا ہے۔ گاؤں کے لوگ تو گھر بگڑوانے والی باتیں ہی بتائیں گے۔ تم بڑے ہو گئے ہو۔ تمہیں سمجھنا چاہئے، کون اچھی بات بتا رہا ہے اور کون برا مشورہ دے رہا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں، فالتو وقت ہے، تب بھی ادھر ادھر بیٹھنے کی ضرورت ہی بھلا کیا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے لوگوں سے تھوڑی بات چیت کر لی۔ یہ تھوڑے ہی ہے کہ رات رات بھر بیٹھکیں کرتے پھرو۔ دماغ تو دماغ ہی ہے۔ چاہے پڑھائی لکھائی میں لگا لو یا پھر چاہے ادھر ادھر کی باتوں میں لگا لو۔ لوگوں کے پاس ہے ہی کیا، ادھر ادھر کی برائی کرنے کے سوا۔ اچھے لوگوں کی صحبت اختیارکرنی چاہئے۔ دوپہر کو تُو جتّو کے ساتھ گھوم رہا تھا؟‘‘
’’نہیں تو، میں جتّو کے ساتھ کیوں گھوموں گا؟ میں کھیت پر جا رہا تھا، راستے میں وہ مل گیا۔ کراسنگ پار کر کے وہ اپنے کھیت پر چلا گیا، میں اپنے۔‘‘ میں جانتا تھا ماں میرا جتّو کے ساتھ رہنا کبھی پسند نہیں کرتیں، اس لئے میں نے فوری طور پروضاحت کی۔
’’یہ کوئی اچھے لچھّن تھوڑے ہی ہیں۔‘‘ ممی خاموش ہو گئیں۔ مجھے پتہ تھا، تھوڑی دیر بعد وہ پھر بولیں گی۔ وہ کیا بولیں گی، وہ بھی مجھے پتہ تھا۔ ان کی یہ عادت تھی۔ انہوں نے ایک خالی جگہ میرے لئے چھوڑ دی اور میں نے اسے بھر بھی لیا۔ انہیں پیاس لگی تھی یا یوں ہی چھوڑی ہوئی خالی جگہ بھرنے کیلئے، مجھے وقت دینے کیلئے، انہوں نے دو گھونٹ پانی پیا۔ گلاس جگہ پر رکھتی ہوئیں بولیں، ’’ دال کیوں نہیں کھا رہا ہے تو؟ پورے کا پورا کٹورا بھرا ہوا ہے۔ کھائے گا نہیں تو جسم میں جان کہاں پڑے گی؟ چل پی لے اسے۔ اور رکھی ہے بھگونے میں۔‘‘
’’کھا تو رہا ہوں۔‘‘ میں نے جھینپتے ہوئے دال کا کٹورا اٹھا لیا۔ مجھے پتہ تھا، جو بات وہ کہنے جا رہی ہیں، اسے کہنے سے پہلے وہ اسی طرح لاڈ کرتی ہیں۔
’’سب کے گھر میں دھی بیٹی ہوتی ہیں۔ تم کسی کی دھی بیٹی سے غلط بات کہو گے، کوئی تمہاری سے کہے گا۔‘‘ یکایک انہیں کچھ یاد آ گیا، ’’ ارے مجھے یاد نہیں رہا، توتُو نے بھی نہیں کہا۔ چل اٹھ گھی کا ڈبہ اٹھا کے لا۔ بغیر گھی کے دال کیا اچھی لگے گی۔‘‘ میں گھی کا ڈبہ لینے چلا گیا۔ میرے اور ماں کے بیچ میں اَن کہے الفاظ پڑے ہوئے تھے۔ الفاظ بھی کیا، وہ پتھرکی چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں۔ ممی کو ڈر لگا رہتا تھا کہ میرے پاؤں کسی غلط راستے پر نہ مڑ جائیں، اسی لئے وہ پہلے ان کنکریوں کو گھس کر گول کرتی تھیں۔ پھر پیار کا مرہم لگاتیں۔ پھر ٹھیک نشانہ لگاتیں کہ میں دیکھوں، میرے پاؤں ٹھیک راستے پر تو ہیں۔ جیسے ہی مجھے کنکری کا احساس ہوتا، وہ پیار کا دوسرا مرہم لگا دیتیں کہ میں صرف کنکری کو یاد رکھوں، اس کی ٹیس کو نہیں۔
اصل میں میرا دیر تک بیٹھک کرنا ممی کے لئے بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ اس سے بھی بڑے مسائل ان کے لئے دوسرے تھے۔ انہیں یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ گاؤں کا کوئی جل ککڑا ان کے سیدھے سادے شریف بیٹے کو سکھا پڑھا کر بگاڑ نہ دے۔ دوسرے، اس کا شریف بیٹا اپنا سارا دھیان پڑھائی لکھائی پر لگائے اور پڑھ لکھ کر راجابابو بنے۔ تیسرے، ان کا اچھا بیٹا کسی کی دھی بیٹی سے کوئی ایسی ویسی غلط بات نہ کہہ دے یا کر دے کہ گاؤں بھر میں ان کا سر شرم سے جھک جائے۔ چوتھے، وہ سارا دن کام کرتے کرتے اتنی تھک جاتی تھیں کہ رات تک میرے لئے جاگنا انہیں پریشان کرتا تھا۔ اس تکلیف کی وجہ سے وہ کبھی مجھے ڈانٹ ڈپٹ کے مطمئن ہو جاتیں، تو کبھی غصہ بڑھ جاتا تو تھپڑ، لاتیں، گھونسے مار لیتیں اور میں انہیں کوستا ہوا سو جاتا۔ کبھی بے حدبے بس اور دکھی ہو جاتیں۔ پھر وہ ایسی ہی باتیں کرتی تھیں۔ یہ باتیں میں ان سے کئی بار سن چکا تھا۔ مجھے اس وقت یہ باتیں اچھی لگتیں۔ دل ہی دل میں عہد کرتا کہ ممی کی ساری باتیں مانوں گا۔ مگر کمبخت یہی بات تھی، جو میرے بس میں نہیں تھی۔ ہر تیسرے، چوتھے یا پانچویں دن میں اسے بھول جاتا۔ میرا گھر گاؤں کے بالکل درمیان میں تھا اور گھیر جس میں بھینسیں بندھی ہوتی تھیں، گاؤں کے بالکل باہر تھا۔ راستے میں دو جگہیں ایسی تھیں، جہاں گاؤں بھر کے لوگ جمع ہو کر بیٹھک بازی کرتے تھے۔ بھگت جی کی چوپال اور چودھری کا الاؤ۔ میں تھوڑی دیر باتیں سننے کی لالچ میں کھڑا ہو جاتا، پھر پتہ ہی نہیں چلتا، کب بارہ بج گئے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔ میں پورے عزم کے ساتھ گیا تھا کہ راستے میں رکوں گا نہیں۔ گھیر کا تالا لگا کر لوٹا کہ دل میں لالچ آ گئی کہ چودھری کے الاؤ پر تھوڑا ہاتھ سینک لوں۔ میں نے دل میں دوہرایا، بس پانچ منٹ۔ اس کے بعد رام سنیہی اور چمپت نے چھروٹا کی وہ مزیدار کہانیاں چھیڑیں کہ کب بارہ بج گئے، پتہ ہی نہیں چلا۔
………
ماں تو سو گئیں، پر مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ آنکھیں بند کرتا تو دماغ میں چھروٹے کاعکس آ جاتا۔ ایک بار پورا ہنومان چالیسا پڑھا۔ پھر تکیے کے نیچے انگلی سے رام لکھا تو ڈر کافی کم ہو گیا۔ یہ منتر مجھے رام سنیہی نے ہی بتایا تھا کہ تکیے کے نیچے رام لکھنے سے بھوت پریت سے خوف نہیں لگتا۔ سوتے میں بھی بھوتوں کے خواب نہیں آتے اور ڈر بھی نہیں لگتا۔ میں بھی ہنومان چالیسا پڑھنے اور تکیے کے نیچے رام لکھنے کے بعد خوف سے آزاد ہو گیا تھا اور تھوڑی دیر میں مجھے نیند آ گئی تھی۔
صبح اٹھا تو دیکھا چھ بج چکے ہیں۔ میں سیدھا ریلوے لائن کی طرف بھاگا۔ راستے میں مجھے احساس ہو گیا کہ روپ کشور ریلوے لائن پر نہیں پہنچا ہے۔ جو پگڈنڈی گاؤں کو ریلوے لائن سے جوڑتی تھی، اس سے گزرتے ہوئے مجھے پتہ چل جاتا تھا کہ اس سے کوئی گزرا ہے کہ نہیں۔ کچھ فاصلے تک پگڈنڈی کے دونوں اطراف، کھیتوں میں ارہر کھڑی تھی۔ رات کو پگڈنڈی کے اوپر مکڑیاں جالے بن دیتی تھیں۔ صبح پگڈنڈی سے گزرتے وقت جالے صاف ملتے، تو اس کا مطلب ہوتا کہ کوئی وہاں سے گزرا ہے۔ عام طور پر میں یا روپ کشور ہی اس پگڈنڈی سے سب سے پہلے گزرتے تھے۔ میں جالوں کو ہٹاتا ہوا لائن پر پہنچا۔
لائن کے متوازی ایک کچی سڑک تھی۔ وہاں سے تقریباً آدھے کلومیٹر پر ریلوے کراسنگ تھی۔ اسی کے پاس میرا ایک کھیت تھا جسے ہم کراسنگ والا کھیت کہتے تھے۔ میں اور روپ کشور صبح ساڑھے پانچ چھ بجے کے بیچ لائن پر آ جاتے۔ فطری تقاضوں وغیرہ سے فارغ ہو کر، کچی سڑک پر ہم کراسنگ تک چار پانچ چکر لگاتے۔ جسم سے ایک آدھ کلو پسینہ نکل جاتا۔ اس کے بعد ٹھنڈ بالکل دور ہو جاتی۔
کچھ دیر تک میں سڑک سے پگڈنڈی کو دیکھتا رہا۔ لیکن روپ کشور نہیں آیا۔ سورج نکلنے میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا تھا۔ وہ اٹھ نہیں پایا ہو گا یا اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو گی، ایسا سوچ کر میں نے چند منٹ تک جوگنگ کے بعد دوڑ لگائی۔
میں کراسنگ سے تھوڑے فاصلے پر تھا کہ ایک دم سہم کر رک گیا۔ آگے بڑھنے کی میری ہمت نہیں ہوئی اور وہی سے واپس آ گیا۔ ایک خوف برابر میرے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ گاؤں کے قریب آ کر میں نے پگڈنڈی پر اس امید سے نظر ڈالی کہ روپ کشور آتا دکھائی دے جائے گا۔ ایک بار دل کیا کہ گھر چلوں پر دوسرے چکر کے لئے پاؤں خود بخود مڑ گئے۔ جیسے جیسے میں کراسنگ کی طرف بڑھ رہا تھا، میرا ڈر بڑھتا جا رہا تھا۔ میں نے ہمت جٹا نے کی کوشش کی کہ کراسنگ تک پوری دوڑ لگاؤں، پر جٹا نہ سکا۔ میں ٹھٹھک کر وہی رک گیا۔ میری نظر اس سفید چادر پر مرتکز ہو گئی۔
دنیا بھر کے لوگوں کو یہی جگہ ملتی ہے مرنے کو۔ گزشتہ سال پڑوس کے گاؤں کی عورت یہیں ریل سے کٹ کر مری تھی۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تھا، اس کے بعد سے یہ چوتھا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے تین اور لوگ اسی جگہ ریل سے کٹ کر مر گئے تھے۔ گویا مرنے والوں کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی جگہ ہے ہی نہیں۔ مرنے والوں میں سے تین کے بارے میں تو لوگ بڑے پُر یقین تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ گزشتہ سال جو عورت مری تھی، وہ ڈائن بن گئی تھی اور انہوں نے اسے سیاہ لباس میں وہاں گھومتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک شخص جو دھوبی تھا، اس کے بارے میں بتاتے تھے کہ اب بھی وہ صبح صبح وہاں کپڑے دھوتا ہے۔ لوگوں کوکپڑے دھونے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ تیسرے شخص کو لوگوں نے کئی بار کراسنگ کے قریب سفید چادر اوڑھے لیٹے دیکھا تھا۔
میں خاموشی سے کھڑا اس سفید چادر کو دیکھ رہا تھا۔ دل میں ایک ڈر تھا، جو بار بار کہہ رہا تھا، مجھے یہاں سے واپس لوٹ جانا چاہئے۔ اس کے متوازی ایک ضد میرے اندر کھڑی ہو گئی تھی، جو جل کر مجھے روکے ہوئی تھی۔ لائن کے کنارے مجھے سایا سا آتا دکھائی دیا۔ کون ہو سکتا ہے؟ یکایک دھیان میں آیا، پہلی گاڑی کا وقت ہو رہا ہے۔ کوئی سواری اسٹیشن جا رہی ہو گی۔ سایا تھوڑا اور نزدیک آیا تو حقیقت واضح ہو گئی، کوئی شخص گاڑی پکڑنے کے لئے لپکا جا رہا تھا۔ میری ہمت بڑھی۔ میں سست قدموں سے کراسنگ کی جانب چلنے لگا۔ کراسنگ پر پہنچ کر میں نے اس سفید چادر کو غور سے دیکھا۔ میں دنگ سا رہ گیا۔
میں جسے سفید چادر سمجھ رہا تھا، وہ اصل میں کھلے ہوئے کانس تھے۔ کراسنگ کے قریب چارپائی بھر کی جگہ میں کانس کی جھاڑی اگی ہوئی تھی۔ اس وقت اس میں پھول آ رہے تھے۔ رات میں دور سے وہی کانس کے پھول مجھے سفید چادر دکھائی دے رہے تھے۔
پو پھٹنے کو تھی۔ آگے دوڑنے کا خیال چھوڑ کر میں نے گاؤں کی پگڈنڈی پکڑی۔ گھیر پر پہنچ کر میں نے بھینسوں کو سانی لگائی۔ گوبر پلا میں بھر کر اسے کھیت پر ڈالنے چلا گیا۔ یہ بھی ایک جھنجھٹ ہی تھا۔ صبح ہی صبح گوبر کا اتنا بھاری پلا سر پر رکھ کر پون کلومیٹر جاؤ۔ اگر پرکھوں نے کوئی چھوٹا سا ہی کھیت گاؤں کے پاس ہی لے لیا ہوتا، تو یہ پریشانی نہیں ہوتی۔ اس کا المناک پہلو یہ تھا کہ بھینسوں کی سانی پانی اور اتنی دور گوبر کوڑا ڈالنے میں مجھے کافی وقت لگ جاتا اور اسکول کے لئے اکثر دیر ہو جاتی۔ مجھے صبح کے ان کاموں کے لئے جنگی بنیادوں پر ربط بٹھانا پڑتا تھا۔
گوبر ڈال کر لوٹا، تو ممی کو منتظرپایا۔ مجھے دیکھتے ہی بولیں، ’’ بھینس کو دوبارہ سانی لگا دے، وہ آج پھر دودھ نہیں اتار رہی ہے۔‘‘ سانی لگا کر میں نے بالٹی اٹھائی اور نل پر نہانے چلا گیا۔
میں نہا کر لوٹا، اس وقت تک نو بج چکے تھے۔ ممی نے چولہا جلایا اور آٹا گوندھنے لگیں۔ میں نے کپڑے پہنے، بستہ اٹھایا اور بغیر ان کی طرف دیکھے اسکول چل دیا۔
’’بس ابھی روٹی سینکے دیتی ہوں، دس منٹ لگیں گے۔‘‘ مجھے اسکول جاتے دیکھ کرممی بولیں، تو میں بالکل جھنجھلا اٹھا، ’’ سنک گئیں روٹیاں، میں اب جا رہا ہوں۔ روز روز کا یہی ڈراما ہے تمہارا۔‘‘ میں نے جانے کی جلدی دکھائی۔
وہ قائل کرنے کی کوشش کرنے لگیں، ’’ بیٹا کیسا ہے۔ ابھی روٹی ڈالے دے رہی ہوں۔ بس دس منٹ میں۔ تجھے میری قسم ہے۔ بس دس منٹ۔‘‘
جھنجھلا کر میں نے بستہ کھمبے کے سہارے ٹکا دیا۔ ماں تیز تیز ہاتھ چلا رہی تھیں۔ چولہے کی آگ بجھ گئی تھی۔ میں پھونکنی اٹھا کر آگ پھونکنے لگا۔
یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں تھی۔ ہر تیسرے دن یہی ہوتا تھا۔ کمبخت نو بھی اتنی جلدی بج جاتے تھے۔ اس روز روز کی جھک جھک میں کبھی میرا پہلا پیریڈ چھوٹ جاتا، کبھی بغیر کچھ کھائے اسکول جاتا۔
سائیکل کا بھی یہی حال تھا۔ چار دن ٹھیک رہے گی، تو اچانک پنکچر ہو جائے گی۔ اگر جیب میں آٹھ آنے پنکچرلگوانے کو ہیں، تو ٹھیک ہے، نہیں تو گھر تک سائیکل پیدل گھسیٹتے لاؤ۔ پنکچر جیسی چھوٹی موٹی خرابی تو ٹھیک بھی ہو جائیں، پر کوئی بڑا نقصان ہوا، تو دس بیس دن مطلب کتنا وقت لگے، کچھ پتہ نہیں۔ اگر زیادہ کہو گے، تو سننے کو ملے گا، ’’ تمہیں ہی ٹیمپو چاہئے، کتنے بچے ہیں جو پیدل جاتے ہیں۔‘‘
سائیکل بھی پرانی ہو گئی ہے۔ کچھ نہ کچھ خراب ہوتا ہی رہتا ہے۔ اوپر سے صبح کی جلد بازی۔ پندرہ منٹ پہلے گھر سے نکلو گے، تو بغیر کچھ دیکھے سائیکل دوڑانی ہی پڑے گی۔ ایک کلومیٹر کا کچا راستہ، پھر سڑک میں گہرے گڑھے۔ سائیکل بھی کیا کرے۔ پنکچر نہیں ہو گی، تو ٹائر کٹ جائے گا۔ ٹائر ٹھیک رہے گا، تو بریک فیل ہو جائے گا۔ نہیں تو چین ہی ٹوٹ جائے گی۔
آگ پھونک کرمیں نے آسن کھینچا اور جھنجھلا کر بیٹھ گیا۔ ممی آٹا گو ندھ کر روٹی بیلنے لگیں۔ روٹی توے پر ڈالتے ہوئے بولیں، ’’ رات سوتے میں کیا بڑبڑا رہا تھا؟‘‘
ممی کے اندازمیں کچھ ایسا تھا کہ ساری جھنجھلاہٹ اور غصہ چھوڑ کر میں بول پڑا، ’’ ڈر گیا تھا میں۔ کیا بڑبڑا رہا تھا؟‘‘ میں نے کچھ یاد کرتے ہوئے پوچھا۔
’’اور نہیں تو کیا۔۔ ۔ سانپ سانپ کہہ رہا تھا۔ اور بھی جانے کیا کیا بڑبڑا رہا تھا۔‘‘ ممی روٹی پلٹتے ہوئے بولیں۔
میں دماغ پر زور ڈال کر رات کا خواب یاد کرنے لگا۔ یکایک مجھے یاد آیا، ’’ اپنی بھینس کے نیچے مجھے سانپ دکھائی دے رہا تھا۔ شاید اسی کو دیکھ کر میں ڈر گیا ہوں گا۔‘‘
ماں فکر مند ہو اٹھیں، ’’ پتہ نہیں، گھر میں کیا ہو کر رہے گا۔ پرسوں مجھے بھی بھینس دکھائی دی ہے۔ بھینس کے روپ میں تو ’’ بھوگ پور والی میا‘‘ آتی ہے۔ سانپ مردہ ہونا ظاہرکرتا ہے۔ ماں کے ساتھ مردہ ظاہر ہونا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
چولہے سے روٹی نکال کر انہوں نے تھالی میں رکھی۔ میری طرف پلیٹ سرکاتی ہوئی بولیں، ’’ کٹوری میں تھوڑا دہی نکال لے۔‘‘
میں نے گھڑی دیکھی اور جلدی جلدی کھانے پر ٹوٹ پڑا۔
’’پتہ نہیں، کیا ہو کر رہے گا۔‘‘ ممی بڑبڑاتی جا رہی تھیں، ’’ کب سے سوچ رہی ہوں بھوگ پور والی کی جات کرا دوں پر وقت ہی نہیں مل پا رہا۔ اُس پورن ماسی کومردوں کو دودھ رکھا تھا۔ اِس پورن ماسی کو بھی پلا دوں گی۔ پرسوں بھی بھینس نے دودھ نہیں دیا تھا اور آج بھی اتنا لیٹ دیا ہے۔‘‘ ممی کے ماتھے پر فکر کی لکیریں گہری ہوتی جا رہی تھیں۔ ’’ پوجا تو اب ہولی پر ہی ہو پائے گی۔ اس پورن ماسی کو بتاشے بٹوا دوں گی۔ کوئی گیا تو بھوگ پور والی کی جات کے پیسے دوں گی۔ دودھ بھی پلوا دوں گی۔‘‘
ماں بہت دکھی تھیں اورخودکلامی کرتی جا رہی تھیں۔ میں بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا۔ پہلا پیریڈ تو نکل ہی چکا تھا، کہیں دوسرا نہ نکل جائے، اسی لئے میں بڑے بڑے ٹکڑے نگل رہا تھا۔
ممی کی باتیں مجھے اس لئے بھی بور کر رہی تھیں، کیونکہ میں انہیں کئی بار سن چکا تھا اور مجھے یہ باتیں بالکل واہیات لگتی تھیں۔ خاص کر جب ان کی بھینس دودھ نہیں دیتی تھی یا گھر میں کوئی بیمار ہو جاتا تھا، تو وہ مجھے دکان سے سوا روپے کے بتاشے لینے بھیجتیں اور قیاس لگاتیں کہ کون سا دیوتا اُکھڑا ہو سکتا ہے؟ کس سے مدد طلب کی جا سکتی ہے؟ رات کو خواب میں ایسا ویسا کچھ نظر آ جائے اور صبح بھینس دودھ نہ دے، تو وہ اس کی وجوہات کی شناخت میں کوئی بھول نہیں کرتی تھیں۔ وہ خواب علامت کے طور پر مانتی تھیں اور ہر صورت کا اپنا مطلب ہوتا تھا۔ مثلاً ًخواب میں سانپ نظر آنے کا مطلب مردہ، بھینس نظر آنے کا مطلب بھوگ پور والی ماں، چھوٹی لڑکی نظر آنے پر کرنواس والی ماں، کتا نظر آنے پر ملاون والے دیوتا وغیرہ وغیرہ۔
مجھے اس بھینس پر ہمیشہ غصہ آتا تھا۔ آٹھ دن بعد پڑوا کیا مر گیا، دودھ کے لئے اس کی بہت خوشامد کرنی پڑتی تھی۔ زیادہ راتب کھانے کے لالچ میں وہ کافی دیر تک دودھ نہیں اتارتی تھی۔ لگ بھگ دو سانیاں کھا جاتی، اوپر سے بیچ بیچ میں راتب ملاتے رہنا پڑتا۔ جبکہ دوسری بھینس بچہ چھوڑتے ہی پسرا جاتی تھی اور بمشکل بیس منٹ میں، میں بھی اس کا دودھ نکال سکتا تھا۔
………
چار کلومیٹرکا فاصلے تقریباً دوڑتے ہوئے پار کر کے میں اسکول پہنچا۔ یہ دیکھ کر اطمینان ملا کہ پیریڈ خالی تھا، یعنی گروجی آئے نہیں تھے۔ یہ ریاضی دوم یعنی جیومیٹری کا پیریڈ تھا۔ گروجی اکثر دیر سے ہی آتے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ کتاب کھول ہی پاتے تھے کہ گھنٹابج جاتا۔ کبھی کبھی وہ پیریڈ گول بھی کر دیتے تھے۔ در اصل پاس میں ہی گرو جی کا کھیت تھا اور وہ اسکول میں پڑھانے کا کام پارٹ ٹائم کی طرح کرتے تھے۔ مجھے بھی گھر کے کام کاج سے اسکول آنے میں اکثر دیر ہو جاتی۔ سو، میرے لئے یہ اچھی بات تھی۔ اگرچہ میری اس اچھی بات نے میرے امتحان کے نتائج پر بہت برا اثر ڈالا۔ ریاضی کے پہلے پیپر میں، میں نے پچاس میں سے پینتالیس نمبر پائے، وہی اِس پیپر میں صرف تئیس نمبر ہی پا سکا۔
دوسرا پیریڈ سائنس کا تھا اور اس میں تھوڑا وقت بچا تھا۔ میں خاموشی سے اگلے پیریڈ کے لئے سبق کی تیاری کرنے لگا۔ در اصل گھر پر مجھے پڑھائی کے لئے کم ہی وقت ملتا تھا، تو میں اسکول میں ہی کام مکمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اسکول سے لوٹتے ہوئے میں نے دیکھا، مندر پر کافی بھیڑ جمع ہے۔ بھیڑ دیکھ کر میں بھی مندر پر رک گیا۔ لوگ مندر کے ارد گرد جمع تھے۔ میں نے ماجرا جاننے کی کوشش کی، تو پتہ چلا رام کشن کی لڑکی پر تھالی بج رہی ہے۔ مجھے یاد آیا آج جمعہ ہے۔
رام کشن کی بیٹی کئی ماہ سے بیمار تھی۔ قصبے کے ایک ڈاکٹر سے علاج کرایا۔ ٹھیک نہیں ہوئی تو بھگت پاس آئے۔ بھگت جی نے دھیان لگا کر بتایا، ’’جن ہے، مندر پر لانا پڑے گا۔‘‘ رام کشن، لڑکی کو مندر پر لے گئے۔ بھگت جی نے آسن لگایا، تو لڑکی چلانے لگی۔ ’’بڑے پیپل کا جن ہوں، آٹھویں دن اٹھا لے جاؤں گا۔‘‘ رام کشن غش کھا کر گر پڑے۔
بھگت جی نے حوصلہ دیا، ’’فکر نہ کر رام کشن جب تک میں ہوں، لڑکی کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘
بھگت جی نے کہہ دیا، تو رام کشن پر یقین ہوئے۔ ان کا بھگت جی پر بے پناہ اعتقاد تھا۔ رام کشن ہی کیا پورے گاؤں کا بھگت جی پر بے پناہ اعتقاد تھا۔ بھگت جی کے بہت سے چمتکار گاؤں والوں نے دیکھے تھے۔ ایک بار خواب میں بھگت جی کو دیوی کا درشن ہوا تھا۔ اس کے بعد سے بھگت جی پر دیوی آنے لگیں۔
خواب کی بات بھگت جی نے لوگوں کو بتائی۔ کسی نے مانی، کسی نے نہیں مانی۔ ایک دن چندن سنگھ کی لڑکی کا سیڑھی سے پاؤں پھسل گیا۔ اتفاق سے بھگت جی وہاں موجود تھے۔ لڑکی بیہوش پڑی تھی۔ انہوں نے لڑکی کے چہرے پر گنگا جل کے چھینٹے مارے، منتر پڑھے۔ لڑکی تھوڑی دیر میں ہوش میں آ گئی۔ اس واقعہ کا گاؤں والوں پر گہرا اثر پڑا۔ ایک مہینہ نہیں گزرا کہ گاؤں والوں نے چندہ کر کے گاؤں کے باہر دیوی کا ایک مندر بنوا دیا۔
پورے گاؤں میں ہلاہو گیا کہ رام کشن کی لڑکی کو جن آٹھویں دن اٹھا لے جانے کی چنوتی دے گیا ہے۔ لڑکی کو آٹھ دن تک مندر پر رکھا گیا۔ آٹھویں دن خصوصی انتظام کیا گیا۔ ارد گرد کے گاؤں کے لوگوں نے سنا، تو دوڑے چلے آئے۔ مندر پر بہت زیادہ بھیڑ جمع ہو گئی۔ جن کی چنوتی کو بھگت جی کی جانب سے قبول کیا جانا۔ واقعی آج کا دن بھگت جی کے لئے امتحان کا دن تھا۔
بھگت جی نے مندر کے سامنے چبوترہ گائے کے گوبر سے ایک دن پہلے ہی لپوا دیا تھا۔ ہون بھر کی جگہ کو، آج دوبارہ لپوا کر بھگت جی نے گنگا جل چھڑک کر پوتر کیا۔ آم کے خشک لکڑیوں سے ہون کُنڈ تیار کیا گیا۔ پوجاکا سارا سامان کُنڈ کے پاس رکھ دیا گیا۔ کُنڈکے ایک طرف کمبل کو موڑ کر آسن بنا کر لڑکی کو بٹھایا گیا۔ پاس ہی دری بچھی تھی، جس پر رامائن گانے والے بیٹھے تھے۔
رامائن شروع ہوئی۔ چوکی پر بیٹھے بزرگ نے پلیٹ پر تھاپ دی، تو وہ چھنن سے مٹکے پر ناچنے لگی۔ کھڑتال، ڈھولک، مجیرا اور چمٹے والوں نے اس کے ساتھ تال ملائی۔ بھگت جی نے چابک ہاتھ میں لیا اور آنکھیں بند کر کے ہونٹوں میں کچھ بدبدائے۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے رامائن گانے کا حکم دیا۔
آسارام گھٹنوں پر کھڑے ہو گئے اور ایک ہاتھ کان پر رکھ کر انہوں نے منگلا شرن شروع کیا۔
’’توسدا بھمانی داہنے گؤری پتر گنیش۔ تین دیو رچھّا کریں برہما، وشنو، مہیش۔‘‘
منگلا چرن کے بعد انہوں نے رامائن اٹھائی۔ ’’اؤت کے چلو گنگ کے تیر کہ گنگا نہ آوی۔‘‘
دوسرے گویوں نے ان کی پیروی کی۔ وہ ساز کی لے پرسرہلا رہے تھے۔ وہ ایک دم کھوئے ہوئے تھے۔ تھالی کی تھاپ اور ڈھولک کی گمک کے ساتھ ماحول مترنم ہو اٹھا تھا۔ آسارام نے جیسے ہی گانا مکمل کیا، رام رتن فوری طور پر گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے تال کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ ’’کینواس سے چلی رے بھوانی۔ ”
دوسرے گویوں نے ان کی پیروی کی، ’’چلی رے بھوانی۔۔ ۔ چلی رے بھوانی۔۔ ۔ بھوانی۔۔ ۔‘‘
جیسے ایک دم بھونچال آ گیا۔ ہون کنڈ کے پاس بیٹھے تھان سنگھ الٹے پیر موڑ کر، گھٹنوں کے بل جھکے، چھاتی پیٹ رہے تھے -ہوں اُآاُآ اوں۔ ان کی ہنکارسے جیسے سب کچھ سہم گیا۔ بھگت جی نے ان کی منت کی، ’’مہاراج دیا کرو۔‘‘ پھرذرا ادھر ہٹ کے احترام بھرے انداز سے پوچھا، ’’ کون ہو مہاراج؟‘‘
تھان سنگھ ہنکار بھرتے ہوئے طرح طرح کی آوازیں نکال رہے تھے۔ وہ گول گھیرے میں جسم کو گھما رہے تھے اور دونوں ہاتھوں سے زمین اور چھاتی پیٹ رہے تھے۔ بھگت جی نے بتاشے پرکافور کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا رکھ کر جلایا اور تھان سنگھ کے سامنے رکھ دیا۔ تھان سنگھ نے اسے پھونک سے بجھا دیا۔ ’’کون ہو مہاراج؟‘‘ بھگت جی نے دوبارہ منت کی۔ اس بار تھان سنگھ کڑک کر بولے، ’’ میاں بسایا۔‘‘
’’کون سے میاں ہو؟ چھوٹے یا بڑے؟‘‘
’’بڑے۔ ”تھان سنگھ نے جیسے پورابدن توڑ کر رکھ دیا۔ رامائن گانے والوں کی جانب ہاتھ اٹھایا، تو بھگت جی نے فوری حکم دیا، ’’ میاں گاؤ۔‘‘
آسارام نے میاں گانا شروع کیا۔‘‘ کِن نے بنایا دی کُٹا، کِن نے لگائی دی باغ، میاں رے تو سہجادو بڑو اولیائ۔‘‘
ماحول میں جوش پیدا ہو گیا۔ ایک عورت نے بے چینی سے پوچھا، ’’ کون کھیل رہے ہیں؟‘‘
’’میاں۔‘‘ دوسری نے بتایا۔
’’میاں تو بڑے خطرناک ہیں۔ اگر بگڑ جائیں تو اچھے اچھوں کے ہوش ٹھکانے لگا دیں۔‘‘ تیسری نے خوف ظاہر کیا۔
تین گاؤں کے آدمی معمولی نہیں ہوتے ہیں۔ بھیڑ کا تجسس سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا۔ جنہیں پیچھے سے دکھائی نہیں دے رہا تھا، وہ آگے آنے کے لئے جگہ بنانے کی کوشش میں لگے تھے۔ جو جگہ بنانے کی جد و جہد میں پچھڑ گئے، وہ آس پاس کے درختوں پر چڑھ گئے۔
بچوں کے لئے یہ ایک تماشا تھا۔ تومردوں اور عورتوں کے لئے تجسس اورہمدردی ظاہر کرنے کا ایک موقع۔ بھگت جی کے لئے ایک ایڈونچر تھا۔ اور لڑکی کے ماں باپ کے لئے؟ ان کے اندر ہاہاکار مچا ہوا تھا۔ جسم کی تمام طاقت سلب ہو گئی تھی۔ ان کے دل و دماغ کی پوری توجہ لڑکی کے چہرے پر مرکوز تھی۔ دل ٹکڑے ہوا جا رہا تھا۔ رنج کی ساری علامات پورے تسلسل سے ابھر کر ان کے چہرے پر عیاں ہو گئی تھیں۔
بھگت جی نے ہاتھ میں چابک لیا اور تیز آواز میں للکارا، ’’ ہٹ۔‘‘ پھر پچکارنے لگے، ’’ ہاتھ پاؤں بچا کے۔ چل بھائی چل۔‘‘
تھان سنگھ پر اب بھی میاں کھیل رہے تھے۔ بیچ بیچ میں وہ بھی دباؤ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
لڑکی چابک پر ٹکٹکی لگائے تھی۔ بھگت جی نے پچکارا، ’’ جو مانگے گا وہی ملے گا، چل بھائی چل۔‘‘
لڑکی کا سکوت جیسے ٹوٹنے لگا۔ وہ آسن پر پالتی مار کر بیٹھ گئی اورجھومنے لگی۔ وہ اپنے سر اور جسم کو گول گھیرے میں گھما رہی تھی۔ اپنی دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں مارتی، پھر زمین پر مارتی، پھر سینہ پیٹتی۔ وہ بار بار اسی ترتیب کو دوہرا رہی تھی۔ بھگت جی نے دو تین بار پچکارا۔ پھر تیز آواز میں بولے، ’’ بول کیا چاہتا ہے؟‘‘ لڑکی اور تیز گھومنے لگی۔ بھگت جی کے بار بار للکارنے پر اس نے قبول کیا اورلے بنا کر گانے لگی ہے۔ ’’آئی آہا۔۔ ۔ آئی آہا۔۔ ۔ اسے لے جاؤں گا۔۔ ۔ آئی آہا آئی آہا …‘‘ لڑکی پورے جوش و خروش سے جھوم رہی تھی۔
آگے کیا ہو گا؟لوگوں کی بیتابی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔
کسی نے کہا، ’’ اصلی جن ہے، کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘‘
’’بھوت پریت کو تو سب سنبھال لیتے ہیں۔ جنوں کو جھیل پانا، تمام کے بوتے کی بات نہیں ہے۔ یہ تو بھگت جی کی ہی چھاتی ہے۔‘‘
’’بھیا جو جانے، سو تانے۔‘‘ دوسرا بولا۔
’’کورا تماشا ہے۔ اچھا بھلے آدمی کو دو دن ایسے ماحول میں رکھ دو، تو وہ بھی ایسی حرکتیں کرنے لگے گا، پھر لڑکی تو اتنے دنوں سے بیمار بھی ہے۔‘‘ تیسرابولا۔
آواز اس کی ماں کے کانوں تک پہنچی۔ ایک ایک لفظ گرم پارے کی طرح کانوں میں اترتا چلا گیا۔ حواسوں کی طاقت کم ہوئی۔ جسم ٹھنڈا پڑ گیا۔ ان کے لئے الفاظ ناقابل قبول ہوتے جا رہے تھے۔ شعور نے دماغ کا ساتھ چھوڑا، تو وہ بے ہوش ہو گئیں۔ پاس بیٹھی ایک عورت نے انہیں گود میں لٹا لیا۔ ایک عورت نے پنکھے سے ہوادی۔ دوسری نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ تھوڑی دیر میں ہوش واپس لوٹ آیا۔ وہ خلاؤں میں گھورتی جا رہی تھیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہہ رہی تھی۔ پاس بیٹھی عورتیں انہیں ڈھارس بندھا رہی تھیں۔
بھگت جی اورجن میں جھڑپیں ہوتے ہوتے شام ہونے کو آئی۔ مجھے خیال آیا، میں اسکول سے لوٹ کر ابتک گھر نہیں گیا ہوں۔ میں ہڑبڑا کر گھر کے لئے چل دیا۔ راستے بھر میرے ذہن میں طرح طرح کی سوچیں اٹھتی رہیں۔ ماتا، ڈائن، بھوت، چڑیل، جن، برہم دیو، میاں۔ میں سب کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔
بچپن سے دیکھتا آ رہا تھا، تو مجھے اپنے گھر کے دیوی دیوتاؤں کے بارے میں کافی معلومات تھیں۔ گاؤں میں ہولی، دیوالی پر گھر گھرپوجا ہوتی تھی۔ کرنواس، بیلونن، بھوگ پور والی اور گرام دیوی یہ چار ماتائیں تقریباً ہر گھر میں پوجی جاتی تھیں۔ جلیسر کے ’’مامابھانجے (چھوٹے میاں اور بڑے میاں )‘‘ بھی کافی گھروں میں پوجے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ہر گھر کے اپنے دیوی دیوتابھی ہوتے تھے۔
پوجا کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میں سالوں سے دیکھتا آ رہا تھا کہ ممی کے لئے وہ انتہائی چیلنجوں بھرا کام تھا۔ پوجا کی ایک ایک چیز یاد کر کے پہلے سے منگواکر، تیار رکھنا۔ ہون کنڈ، آم لکڑی، سندور، بتاشے، لونگ، جائفل، کافور اور نہ جانے کیا کیا ہوتا تھا۔ ممی صبح اٹھ کر کام ختم کر کے اشنان کرتیں۔ بروسی میں کھیر پکنے رکھ دیتیں۔ چوکے کو دوبارہ لیپتیں۔ جب تک پوجا نہیں ہو جاتی، چوکے میں بچہ بھی نہیں گھس سکتا تھا۔
وہ دن ممی کے لئے ہی نہیں، میرے لئے بھی مشقت بھرا ہوتا تھا۔ ممی صبح سے مشین کی طرح کام میں جٹتیں، پھر بھی پوجا کرنے میں ساڑھے دس گیارہ بج ہی جاتے۔ مجھے دن نکلتے ہی کھانے کی عادت تھی۔ اگر صبح کھانا نہیں ملتا، تو میں نڈھال ہو جاتا تھا۔ جب تک پوجا نہیں ہو جاتی، کھانا تو کیا چوکے میں بھی گھسنے کی اجازت نہیں تھی۔ میرے لئے گیارہ بجے تک بھوکا رہنا انتہائی مشکل تھا۔ کوئی تین چار سال پہلے کا قصہ رہا ہو گا۔ ممی پوریوں کے لئے آٹا گوندھ رہی تھیں۔ دس بج چکے تھے اور ابھی پوجا میں گھنٹے بھرلگنا ہی تھا۔ میرے لئے بھوک ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا ماں کا پورا دھیان دوسرے کاموں پر مرکوز تھا۔ میں نے چپکے سے کٹوردان سے چار پانچ مانڈے نکال لیے۔ اچانک جیسے آسمان سر پر گر پڑا۔ ممی آٹا چھوڑ کر آئیں اور ایک زناٹے دارطمانچہ انہوں نے میرے کان کے نیچے جڑ دیا۔
وہ دن میرے لئے اچھا تھا۔ اس وقت رام پور والی تائی نہیں آئی ہوتیں، تو پتہ نہیں، میری کتنی اور پٹائی ہوتی۔ انہوں نے آتے ہی پوچھا، ’’ کیوں مار رہی ہے ری؟ ایسا کیا کر دیا اس نے؟‘‘
ممی مجھے چھوڑ کرتا ئی سے مخاطب ہوئیں، ’’ کیا بتائیں حجّی، ہم تو اس اولاد سے پریشان ہیں۔ لہو پیئے جاتے ہیں کم بخت ہمارا۔ صبح سے کام میں لگے لگے پاگل ہوئے جا رہے ہیں اور اس نے چوکا جھوٹا کر دیا۔ ذرا سی دیر کو صبر نہیں ہوا۔ سب دوبارہ کرنا پڑے گا کہ نہیں۔‘‘ ممی کے لہجے میں میری شکایت کم، اپنا درد زیادہ تھا۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنے اوپرشرمندگی ہو رہی تھی۔ ہاتھ میں لئے مانڈے گرم انگاروں سے لگ رہے تھے۔
تائی مجھے غور سے دیکھتے ہوئے بولیں، ’’ کھا لئے ہیں کیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے ثبوت کے طور پر مانڈے والا ہاتھ فوری طور پر آگے کر دیا۔
’’نہیں کھائے، پر جوٹھے سوٹھے ہاتھ تو ڈال ہی دیئے کٹوردان میں۔‘‘ ممی بے بس ہو اٹھیں۔
تائی نے سمجھایا، ’’ تو تو ایسی باتیں کرتی ہے۔ ان کی غلطی کون سی گنی جاتی ہے۔ یہ تومعصوم ہیں۔ ان کا تو سب معاف ہے۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں، ’’ ان مانڈوں کو اس ٹوکری میں رکھ دے۔ ابھی پوجا ہو جائے تو کھا لینا۔‘‘
میں نے وہ فوری طور پر ٹوکری میں رکھ کر سکون کی سانس لی۔ گویا میرے ہاتھ کی ہتھکڑی کٹ گئی ہو اور میں آزاد ہو گیا ہوں۔ ممی کے چہرے پر اطمینان جھلک آیا، جسے دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ انہوں نے تائی کے لئے گدا ڈالا، تو وہ بولیں، ’’ نہیں، میں چلتی ہوں۔ گھر پہ کام پڑا ہے۔‘‘ ’’تھوڑا بیٹھ نا۔‘‘ آٹے کی پرات کھینچتے ہوئے ممی بولیں۔ ممی نے جب تک پوریاں تلیں، تائی ان سے بات کرتی رہیں۔ میں دل ہی دل میں گنتا رہا، جلدی پوجا ہو تو کھانا ملے۔ میرا اندازہ تھا، چھ سو تک گنتی گنوں گا، تب تک سارے آٹے کی پوریاں بن چکی ہوں گی۔ جب سب کچھ تیار ہو گیا، تو پوجا کی باری آئی۔ یہ وقت ممی کے لئے بڑے صبر کا ہوتا تھا۔ میں چوکے کی کگر پر بیٹھا ہوتا ہوں۔ تاکہ ممی کو کسی چیز کی ضرورت پڑے، تو مدد کر سکوں۔ ماں پوجا کے لئے دیسی گھی کی چھوٹی چھوٹی پوریاں بناتیں۔ ہاتھ بھر جگہ میں پیلی مٹی کا چوکا لگاتیں۔ ایک کے اوپر ایک آٹھ چھوٹی والی پوریاں جنہیں وہا گیاری کہتی تھیں، اس چوکے میں رکھ دیتیں۔ سب سے پہلے چاروں ماتاؤں کی چارا گیاری رکھتیں۔ ہرا گیاری کے قریب ایک انگارہ رکھتیں۔ اس پردیگر سامان، لونگ، گھی چڑھا کر آگ لگاتیں تو انگارے جلنے لگتے تھے۔ پھر ہرا گیاری سے پوریاں کھونٹ کھونٹ کر انگارے پر چڑھا دیتیں۔ تھوڑی دیر بعدا گیاری کی پوڑیاں اٹھا کر کٹوردان میں رکھ دیتیں اور انگارے جمع کر کے ایک طرف سرکا دیتیں۔ اگلے دیوتا کے لئے ایک بار پھر وہی ہاتھ بھر جگہ کو پیلی مٹی سے چوکا لگاتی۔ کون سا دیوتا ایک ہی چوکے میں پوجا منظور کر سکتا ہے، یہ احتیاط اہم تھی۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ سب سے پہلے چاروں ماتاؤں کی پوجا ہوتی تھی اور وہ ایک ہی چوکے میں پوجا منظور کر لیتی تھیں۔ ہر دیوتا کی پوجا کے ساتھ ممی دل ہی دل دوہراتیں۔ اس عمل کی کوئی چیز چھوٹ نہ گئی ہو۔ ہر دیوتا کی پوجا کے بعد یاد کرتیں، کون سے کی پوجا ہو گئی، کون سا رہ گیا۔ ایک ایک کو یاد کرتیں۔ چاروں ماتاؤں، میاں، نگرسین، ملاون۔۔ ۔ آخر میں ایکا گیاری چڑھاتیں، بھولا بھٹکا جو بھی رہ گیا ہو اس کے نام۔
میں تھوڑا سا بڑا ہو گیا تھا یعنی آٹھویں نویں کلاس میں رہا ہوں گا، اس کے بعد سے ہی مجھے لگنے لگا تھا کہ یہ بھگوان اور اس کی پوجا یہ سب بکواس ہے۔ میں نے ماں سے بھی کہا تھا کہ وہ ان سب کو نہ مانیں، پر اس وقت ماں کے لئے یہ ممکن نہیں تھا۔ اس کی وجہ بھی تھی۔ ایک تو ہر گھر میں یہ سب ہوتا تھا۔ دوسرے کچھ لوگوں نے یہ سب چھوڑ دیا اور جب ان کے گھر طرح طرح کے مسائل نے جنم لیا اور وہ بھگت جی کے پاس گئے، تو بعد میں ان کی پوجا شروع کرنا پڑی۔ بعد میں ممی گاؤں چھوڑ کر دہلی آ گئیں، تو کچھ وقت کے بعد انہوں نے خود ہی یہ سب بند کر دیا۔
………
دن کا وقت تھا پھر بھی میرے ذہن پر جنوں، بھوتوں، پریتوں، ڈائنوں کی دہشتناک شکلیں بن بگڑ رہی تھیں۔ کیونکہ بہت سی باتیں بھوتوں پریتوں کے بارے میں اپنے گھر اور معاشرے سے جان گیا تھا۔
تھوڑا سمجھ میں اضافہ ہوا، تبھی سے مجھے یہ باتیں شک بھری لگتی تھیں، ان میں زیادہ دلچسپی رکھنے کی بڑی وجہ یہی تھی۔ اسی لیے مندر پر لوگوں کی جو باتیں سنی، اس سے مزید نئی نئی سوچیں میرے دماغ میں ابھر کر سامنے آئے لگیں۔ مندر پر میں نے جو کچھ سنا، اس سے اتنا تو واضح تھا کہ بھوتوں کے مقابلے میں جن اوردیو زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
گاؤں میں گھستے ہی میری ساری سوچیں غائب ہو گئیں۔ شام ہونے کو تھی اور میں اسکول سے لوٹ کر ابھی تک گھر نہیں پہنچا تھا۔ بھینس کے دوہنے کا وقت ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے انہیں سانی پانی کرنا پڑتا تھا اور اس کام میں، میں ممی کی مدد کرتا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے ممی کاغصے بھرا چہرا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا، جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوں گا، ممی تھپڑوں سے میرا استقبال کریں گی۔ گلی پار کر میں دروازے تک پہنچا تو دیہری کے اندر پاؤں لے جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ کافی کوشش کے بعد میں گھر میں داخل ہو سکا۔
ممی ہاتھ میں تھالی لئے دال میں سے کنکر بین رہی تھیں۔ میں نے بلی جیسے پاؤں سے آنگن پار کر کے برآمدے میں بستہ ٹانگا اور اسکول کے کپڑے بدلنے لگا۔ ’’کہاں تھا اب تک؟‘‘ ممی نے تھالی سے سر اٹھائے بغیر پوچھا تو میں لرز اٹھا۔
دھیمے سے جواب دیا، ’’ مندر میں۔‘‘
ممی کچھ نہیں بولیں، پر مجھے لگ رہا تھا، ابھی وہ تھالی رکھ کر آئیں گی اور پھر ڈانٹ کر پوچھیں گی۔ مگرممی خاموشی سے دال بینتی رہیں۔ کپڑے تبدیل کر کے میں ان کی مدد کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اطلاع دینے والے انداز میں کہا، ’’ رام کشن کی لڑکی پر تھالی بج رہی ہے۔‘‘
’’کیا ہو رہا ہے وہاں؟‘‘ انہوں نے یوں ہی پوچھا۔
’’اس پرجن کھیل رہا ہے۔‘‘ میں نے بتایا۔
وہ کچھ نہیں بولیں۔
وہ کام کرتے ہوئے کچھ گنگنانے لگیں۔ یہ ان کے بہترین موڈ ہونے کو ظاہر کرتا تھا۔ مناسب وقت دیکھ کر میں نے پوچھا، ’’ ممی یہ جن، بھوت، برم دیو کیا ہوتے ہیں؟‘‘
ممی نے کام سے توجہ ہٹائے بغیر بتایا، ’’ برہمن مرنے پر برم دیو بنتے ہیں، ٹھاکر جن بنتے ہیں اور دوسری ذات کے لوگ بھوت بنتے ہیں۔‘‘
بھوتوں کی اس نئے درجہ بندی نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے ٹھاکر رام پال کی تصویر آ گئی۔ لمبا چوڑا جسم، بڑی بڑی مونچھیں اور گھورتی ہوئی آنکھیں، دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ وہ مرنے کے بعد خطرناک جن بنیں گے۔ گاؤں بھر میں رام پال کے علاوہ اتنی اونچی قد کاٹھی اور اتنی لمبی مونچھیں چوب سنگھ کی ہی تھی، لیکن یہ سوچ کر بڑا عجیب لگا کہ مرنے کے بعد رام پال خطرناک جن بنیں گے اور چوب سنگھ معمولی بھوت۔ یہ سوچ کر، تو میں حیرت میں ڈوب گیا کہ مریل سے پنڈت ودیابھوشن مرنے کے بعد برم دیو بنیں گے جو کہ انتہائی طاقتور اور خطرناک ہوتا ہے۔
اسکول سے دیر سے واپس آنے کے بعد بھی ممی نے مجھے ڈانٹا نہیں تھا، اس سے میں بہت خوش تھا۔ دال صاف ہونے کے بعد چولہا جلانے اور دوسرے کاموں میں، میں ان کی گرم جوشی سے مدد کرتا رہا۔ جب کام ختم ہوا اور ماں روٹیاں سینکنے لگیں، تو میں گھر سے باہر نکلا۔ گلی میں مجھے کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔ میں نے دھیان دیا، آواز جگتی تائی کے یہاں سے آ رہی تھی۔ میں نے اندر جا کر دیکھا، جگتی تائی چارپائی پر لیٹی کراہ رہی تھیں۔
’’کیا بات ہے تائی؟‘‘ میں نے ہمدردی سے پوچھا۔
’’پیٹ میں تیز درد اٹھا ہے، تو بھگت جی کو بلا لا۔‘‘ انہوں نے درخواست کی۔
’’بھگت جی تو مندر پر تھالی بجوا رہے ہیں۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’توروپ سنگھ بھگت کو ہی بلا لا۔‘‘
میں ؎ روپ سنگھ بھگت کو بلانے چل دیا۔
وقت وقت کی بات ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا، جب روپ سنگھ گاؤں کے سب سے زیادہ با اثر بھگت تھے۔
گاؤں ہی کیا، دور دور سے لوگ ان کے پاس آتے تھے۔ گاؤں میں کسی پر بھی ہوا کا اوپری چکر ہوا، دوڑا دوڑا ان کے پاس پہنچ جاتا تھا، لیکن اب پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ اب لوگ اسی صورت میں روپ سنگھ کے پاس جاتے تھے، جب بھگت جی دستیاب نہ ہوں۔ واقعی ان دنوں شیام لال کا مطلب شیام لال تھا اور ’’بھگت جی‘‘ کا مطلب روپ سنگھ۔ اب شیام لال کا مطلب ’’بھگت جی‘‘ تھا اور روپ سنگھ کا مطلب ’’روپ سنگھ بھگت‘‘ ۔ اس تبدیلی کے دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ شیام لال کے دیوی درشن کے بعد لوگوں کا اعتماد اور احترام روپ سنگھ کے بجائے شیام لال پر جم گیا تھا۔ اب لوگوں کے لئے شیام لال کا مطلب ’’بھگت جی‘‘ ہو گیا۔ دوسری، روپ سنگھ کے حل، رسومات کچھ مہنگے پڑتے تھے۔ روپ سنگھ کو کالی قابو تھی، جو ہر رسم میں ایک شراب کی بوتل مانگتی تھی۔
میں روپ سنگھ کولے آیا۔ جگتی تائی کے حکم کے مطابق میں نے پیڑھی ڈال دی، جس پر بھگت جی بیٹھ گئے۔ انہوں نے آنکھیں بند کر کے دھیان لگایا۔ تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول کر بولے، ’’ جن کا چکر ہے۔ دو بھوت بھی ساتھ ہیں۔ دن میں نہا دھو دیکھوں گا۔ ابھی بھبھوت پڑھے دیتا ہوں، درد بند ہو جائے گا۔‘‘ وہ مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’ چولہے سے تھوڑی راکھ لانا۔‘‘
میں نے راکھ لا کر دے دی۔ انہوں نے بائیں مٹھی میں راکھ رکھی اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے ایسے ملنے لگے، جیسے تمباکو ملتے ہیں۔ وہ راکھ ملنے کے ساتھ ساتھ منتر بھی پڑھتے جا رہے تھے۔
او اْون پیٹ پِیر پیٹ پِیرموڑ پِیرموڑ پِیر اُون اُون اُون نمیرے بھائی
او اْون پیٹ پِیر پیٹ پِیرموڑ پِیرموڑ پِیر اُون اُون اُون نمیرے بھائی
روپ سنگھ نے راکھ پڑھ کر جگتی تائی کے پیٹ پر لگا دی۔ ایک چٹکی راکھ انہیں دے کر بولے، ’’ اسے منہ میں ڈال لے۔‘‘ باقی کاغذ پر رکھتے ہوئے بولے، ’’ اگر درد بند نہ ہو، تو دو گھنٹے بعد تھوڑی سی راکھ پھر لگا لینا۔‘‘
روپ سنگھ کے ساتھ میں بھی گھر سے باہر آ گیا۔
بیچاری جگتی تائی کا کرم ہی کھوٹا تھا۔ ایک بار گھر پھیر بگڑا، تو بگڑتا ہی چلا گیا۔ ڈیڑھ سال سے کھٹیا گوڑ رہی تھیں۔ کبھی ٹھیک ہو جاتیں، کبھی بیمار پڑ جاتیں۔ ڈیڑھ سال سے یہی سب چل رہا تھا۔
میں نے بھینس کو سانی لگا کر نل پر ہاتھ منہ دھویا۔ گھر آیا تو ممی نے کھانا پروس دیا۔ میں نے کھانا کھایا۔ چارپائیاں بچھا کر بستر لگا دیئے۔ ممی کھانا کھاکر اپنی چارپائی پر لیٹ گئیں۔ مجھے ہدایت دیتی ہوئی بولیں، ’’اگر پڑھنا ہے تو لیمپ جلا کر پڑھ لو، لیکن رات میں کہیں ادھر ادھر گھومنے مت جانا۔‘‘
شاید ماں میری اندرونی سوچ کو بھانپ گئی تھیں۔ میرا دل بار بار مندر جانے کو کر رہا تھا، لیکن کسی فرمانبردار بیٹے کی طرح، میں نے لیمپ جلایا اور پڑھنے بیٹھ گیا۔
………
’’کیا ٹائم ہو گیا؟‘‘ ممی نے پوچھا۔ میں نے گھڑی دیکھ کر بتایا، ’’ ساڑھے گیارہ۔‘‘
”لیمپ بجھا دو اور بھینس اندر باندھ آؤ۔‘‘ ممی اونگھتے ہوئے بولیں، ’’ اور ہاں کہیں رکنا نہیں۔ انہی پیروں واپس آنا۔‘‘
میں نے کتاب بند کر کے لیمپ بجھایا اور بھینس باندھنے چلا گیا۔
گلی بالکل ویران تھی۔ بھگت جی کے نیم کے نیچے آج محفل نہیں جمی تھی۔ کیونکہ سب لوگ مندر پر تھے۔ ڈرتا سہمتا میں کسی طرح گلی پار کر گیا۔ دگڑے پر پہنچا، تو چودھری کے کھیت میں کھڑے ببول کے درخت پر نگاہیں پڑیں۔ ببول پر مجھے سبھی جنوں بھوتوں کی شکلیں دکھائی دے رہی تھیں۔ میں نے گھبرا کر دوسری طرف گردن پھیر لی اور گھیر کی طرف چل پڑا۔
میں رات کو بھینس باندھنے آتا۔ تواس ببول کی طرف کبھی نہیں دیکھتا تھا۔ کچھ ایسی کہانیاں اس ببول سے منسلک تھیں کہ دیکھتے ہی مجھے خوف لگنے لگتا تھا۔
بتاتے ہیں کہ روپ سنگھ نے بھگتی کا آغاز اس ببول ہی کیا تھا۔ اس ببول پر ایک طاقتور جن تھا۔ پہلے انہوں نے اس قابو کیا۔ اس کے بعد کالی کوقابو کیا۔ ایک دن رام سنیہی بتا رہے تھے، انہوں نے بھی اسے قابو کرنے کی کوشش کی تھی، پر سنبھال نہیں پائے۔
’’کیوں نہیں سنبھال پائے؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا تھا۔
وہ بتانے لگے، ’’ سنبھالنا کیا کوئی آسان کام ہے؟ اتنی آسانی سے قابو تھوڑے ہی ہو جاتا ہے جن۔ پہلے تو وہ بہت ڈراتا ہے، اگر تم ڈرے نہیں، تو وہ تمہارے بس میں ہو جاتا ہے۔ تم جو چاہو گے، وہ کرے گا۔ اگر تم ڈر گئے، تو تمہارا نقصان بھی کر سکتا ہے۔‘‘
’’آپ ڈر گئے تھے کیا؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
’’ڈر گئے تھے کہ اچھوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔ شروع میں تو کچھ نہیں لیکن جیسے جیسے قابو بڑھتا جاتا ہے، ویسے ویسے ڈراؤنے منظر سامنے آتے جاتے ہیں۔‘‘
’’آپ نے قابو کس طرح کیا تھا؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا، تو رام سنیہی نے مجھے جھڑک سا دیا۔
’’تجھے قابو کرنا ہے کیا؟‘‘ پھر خود ہی بتانے لگے، ’’ جن کو قابو کرنا اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ اسے سنبھالنا زیادہ بڑی بات ہے۔ قابو کرنے میں کچھ نہیں ہے۔ ٹٹی کر کے آؤ، تو تھوڑا سا پانی بچا لاؤ۔ جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہو، تو ببول پر آ کر چڑھا دو۔ شروع میں ڈراؤنے منظر دکھائی دیں گے۔ ان سے بغیر ڈرے اکیس دن تک پانی چڑھا لیا، تو جنوں قابو ہو جائے گا۔‘‘
’’آپ نے چڑھایا تھا؟‘‘ مجھے بے چینی ہو رہی تھی۔
’’ہمارا چڑھانا، نہ چڑھانا برابر رہا۔‘‘
’’کیا دکھائی دیا آپ کو؟‘‘ میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔
’’جب تم کچھ دن پانی چڑھا چکے ہو گے، تو ڈراؤنی آوازیں آئیں گی۔ وہ تجھے ڈرائیں گی، دھمکائیں گی۔ ڈراونی شکلیں دکھائی دیں گی۔ اگرتُو پھر بھی نہیں ڈرا، تو اوپر سے جن اتر کے آئے گا۔‘‘
’’جن تو الٹا اتر کے آتا ہے۔ اوپر پیر ہوں گے اور نیچے سر۔ کیوں چچا؟‘‘ چمپت نے اپنی معلومات سے آگاہ کیا۔
رام سنیہی نے مزید وضاحت کی، ’’ اور نہیں تو کیا۔ وہ تو بھیانک روپ میں آئے گا۔ بڑے بڑے بال ہوں گے۔ بڑے بڑے دانت باہر نکلے ہوں گے۔ ایکدم بھیانک روپ۔ اس کا مقصد ہی ہے تمہیں دھمکانا۔ اگر تم ڈرے نہیں تو پھر چولا بدل کر وہ اچھے روپ میں آئے گا۔‘‘
’’چچا تمہاری کوشش آخر تک پہنچ گئی تھی؟‘‘ چمپت نے پوچھا۔
’’کوشش ضائع ہو گئی، تو ہو گئی چمپت۔ پوری گنگا پار کر آئے اور کنارے پر آ کر ڈوب گئے، تو پار کرنے کا کیا مطلب؟‘‘ رام سنیہی آہ بھر کر رہ گئے۔
’’اگر جن قابو ہو جاتا، تو کیا فائدہ ہوتا؟‘‘ میں نے پوچھا تو رام سنیہی ایکدم جذباتی ہو گئے، ’’ فائدہ پوچھتا ہے؟ یہ پوچھ، کیا نہیں ہو سکتا تھا جن قابو ہونے کے بعد۔ جن سے جو کہو، وہ کرے گا۔ یہاں بیٹھے دہلی کے حال جان لو۔ جن آدمی کو مالا مال کر دے۔ جن تو جن ہے، جو کہو، وہ کرے گا۔‘‘
میں بہت خوش ہو گیا۔ جب جن سب کچھ کر سکتا ہے، تو جن کو ہی قابو کرنا چاہئے۔ میں نے سوچ لیا، جن قابو کرنا ہی میری زندگی کا مقصد ہے۔ آخر کرنا ہی کیا ہے، ٹٹی کے بعد تھوڑا سا پانی بچا کے لانا ہے۔ وہ مجھے کتنا ہی ڈرائے، پر میں نہیں ڈروں گا۔ میں پرجوش تھا، اب میں جن قابو کر کے ہی مانوں گا۔
میں نے دوسرے دن ہی سے جن قابو کرنے کی منصوبہ بندی کر لی۔ دوسرے دن رات کو قریب نو بجے میں ٹٹی کرنے گیا تو لوٹے میں تھوڑا سا پانی بچا لایا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا، دگڑے میں کوئی نہیں تھا۔ میں ببول کی طرف بڑھا۔ ابھی کچھ قدم ہی بڑھ پایا ہوں گا کہ میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ میں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی، مگر پاؤں اٹھے نہیں۔ میں ایک ٹک ببول کو دیکھ رہا تھا۔ مجھے لگا وہاں سے طرح طرح کی آوازیں آ رہی ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو ہمت بندھانے کی کوشش کی، لیکن ایک خوف میرے اندر سماتا جا رہا تھا۔ وہ ڈراؤنی آوازیں زیادہ واضح ہوتی جا رہی تھیں۔
آوازوں کے ساتھ طرح طرح کی خوفناک شکلیں مجھے دکھائی دے رہی تھیں۔ ڈرتے ہوئے بھی میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ڈرنا نہیں ہے مگر ہمت میرا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی۔ مجھے ببول کی چوٹی پر ایک بھیانک شکل دکھائی دی۔ کاجل جیسی اس کالی شکل کے بڑے بڑے بال تھے۔ بڑے بڑے دانت ہاتھی کی طرح منہ سے باہر نکلے تھے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے بے انتہا دہشت برس رہی تھی۔ وہ شکل بڑی ہوتی جا رہی تھی۔ اتنی بڑی کہ اس کے پاؤں ببول کی چوٹی پر تھے اور سر تنے کے نچلے حصے پر۔ رام سنیہی نے تو کہا تھا آٹھ دس دن تک تو کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اس کے بعد ڈراؤنے منظر آتے ہیں اور آخر میں سر نیچے کر کے اور بھیانک شکل اختیار کر کے جن نیچے اترتا ہے، لیکن میرے ساتھ پہلے ہی دن ایسا ہو گیا۔
میرے ہاتھ سے لوٹا وہی چھوٹ گیا۔ میں دونوں مٹھیاں باندھ کر بھاگا۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب دگڑا پار کر کے میں چودھری کے گھیر کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں چرن سنگھ کے گھر میں جلنے والے لیمپ کی روشنی آ رہی تھی۔ میں نے اس روشنی میں دیکھا میری سانسیں بہت تیز چل رہی تھیں اور جسم کا رواں رواں کھڑا ہو گیا تھا۔ چودھری کے الاؤ پر بیٹھے لوگ باتیں کر رہے تھے۔ سانس تھوڑی قابو ہوئی، تو میں خاموشی سے آ کر الاؤ پر بیٹھ گیا۔ جب رام رتن اپنے گھر کی طرف چلے، تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ میں لوٹا اٹھا کر الٹے پاؤں لوٹ آیا۔ اس دن سے جب بھی میں گھیر میں بھینس باندھنے جاتا اس ببول کی طرف نگاہ تک نہ ڈالتا۔ کچھ وقت بعد میرا اس ببول سے خوف ختم ہو گیا تھا، لیکن آج جب اچانک میں نے اس طرف دیکھا، تو اس دن کا واقعہ یاد کر کے کچھ خوف سا لگا۔ پر میں نے ادھر سے توجہ ہٹا کر تیزی سے بھینس اندر باندھی اور گھیرکا تالا لگا دیا۔
نکڑ پر آ کر میں ٹھٹھک گیا۔ مندر سے تھالی بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ من ہوا ابھی دوڑ کر مندر جاؤں اور وہاں کی ایک جھلک دیکھ کر چلا آؤں، پر ممی کی ہدایت یاد آ گئی۔ میں نے اپنے آپ کو روکنے کی کوشش کی، پر دل مندر پر لگا تھا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ میں دوڑ کر مندر جاؤں گا، گھڑی دیکھ کر دس منٹ رکوں گا پھر الٹے پاؤں لوٹ آؤں گا۔
مندر پر دن کے مقابلے میں بھیڑ کافی کم رہ گئی تھی۔ رامائن گانے والے کافی بیزار سے لگ رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی عدالت کی طرف سے سنائی جانے سزا کو پورا کرنے لئے گانا گا رہے ہیں۔ تھالی بجانے والے بزرگ اب تھالی پر پہلے جیسے جوش و خروش سے تھاپ نہیں مار رہے تھے۔ صرف بھگت جی تھے جو اب بھی پورے جوش و خروش میں تھے۔ لڑکی خاموش بیٹھی انہیں گھور رہی تھی۔ وہ چابک ہاتھ میں لئے دانت پیس پیس کر بول رہے تھے۔ ’’ ہتّیرے کی۔ بول، بول کیا چاہتا ہے۔‘‘
رات بھر بھگت جی اور جن میں جھڑپیں ہوتی رہیں۔ کئی بار لگا کہ جن بھگت جی پر بھاری پڑ رہا ہے، پر آخر میں جیت بھگت جی کی ہی ہوئی۔ صبح تھالی بجنا بند ہوئی۔ آسارام نے رامائن کے آخر میں گایا جانے والا اختتامی گیت گایا۔
جاکَودھیرے دھیرےے پھاڑو پِچھوار لاڑو کے چاچا
ہرے ہرے لاڑو کے چاچا سوویں انگنا
کھینچو اِینٹ نکالو روڑا
کر دیو آرم پار
ہلّا گلّاکوئی مت کریوجووتا پڑیں گے ہزار لاڑو کے چاچاہرے ہرے
لاڑو کے چاچا سوویں انگنا۔
تھالی بجنا بند ہوئی۔ رام کشن اور ان کی بیوی نے بھگت جی کو ما تھا ٹیکا۔ ماں نے بیٹی کو سینے سے لگایا۔ لڑکی کا بخار بڑھا ہوا تھا۔ لگا گرم توے سے ہاتھ چھو گیا ہو، لیکن اس سے کیا بخار تو ٹھیک ہو جائے گا۔ آخر لڑکی کی جان تو بچ گئی۔
ہاے رے بدقسمتی! غریب کی خوشی بھگوان سے دیکھی نہیں گئی۔ تیسرے دن اچانک رات کو لڑکی کی طبیعت بگڑ گئی۔ وہ چل بسی۔ بھگت جی کسی گاؤں میں تھالی بجوانے گئے تھے۔ یوں جوان ہوتی لڑکی بوجھ ہی ہوتی ہے پر رام کشن کیلئے تو یہ مصیبت پہاڑ ٹوٹنے جیسی تھی۔ بیوی بار بار بیمار ہو جاتی تھی۔ بیٹا چھوٹا تھا۔ کچی عمر میں ہی لڑکی نے گھر باہر کاجس طرح کام سنبھالا، اس سے رام کشن کا دل بیٹی کے لئے محبت سے بھرا رہتا تھا۔ بیٹی کی موت نے اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ بے پناہ کرب سے کراہتے ہوئے رام کشن کو بیٹی کی چتا تیار کرنی پڑی۔ ایسے وقت میں جیسا کہ دنیا کا دستور ہے، لوگ طرح طرح سے تسلی دے رہے تھے۔ کسی نے کہا، ’’ لاکھ جتن کرو، ہونی ٹلتی تھوڑی ہی ہے۔ وہی ہوتا ہے جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔‘‘
دوسرا بولا، ’’ ہونی کی تو بات ہی ہے۔ ہونی نہیں ہوتی تو لڑکی کیسے چلی جاتی۔ شام تک اچھی بھلی تھی اور رات کو طبیعت خراب ہو گئی۔‘‘
تیسرے نے کہا، ’’ سب ہونی کی بات ہے۔ طبیعت تو ایک بہانہ ہے۔ ادھر بھگت جی چھیدی پورہ نکلے اور ادھر لڑکی چل بسی۔‘‘
کسی نے کہا، ’’ لاکھ جتن کرو جی، ہونی ہوتی ہے، ہو کر ہی رہتی ہے۔ اسی نے بھگت جی کو چھیدی پورہ بھیجا اور خود یہاں آ گئی۔ طبیعت خراب ہونے کا بہانہ لے کر۔‘‘
’’بہانہ تو ہے ہی۔ ہونی کوئی کہہ کر تھوڑی ہی آتی ہے۔ بہانہ بنا کر آتی ہے۔ آدمی چھت سے گر جاتا ہے، کچھ نہیں بگڑتا۔ ہونی ہوتی ہے، تو ذرا سی ٹھوکر کھا کر آدمی مر جاتا ہے اور بہانہ بنتا ہے ٹھوکر کا۔ تو یہ سب بہانے ہیں۔‘‘ کوئی اور بولا۔
کسی نے ہونی کو مزیدواضح کیا، ’’ ہونی موت کی ذمہ داری اپنے اوپر تھوڑے ہی لیتی ہے۔ وہ تو بہانے بنا دیتی ہے۔ جو ہونی تھی، سو ہو کر رہی۔ سو بھیا ہونی بھگوان بھی نہیں ٹال پائے۔‘‘
… … …
میں ہائی اسکول کر چکا تھا اور فرسٹ ایئر کیلئے میں نے کاس گنج میں ایڈمشن لے لیا تھا۔ کاس گنج ایک قصبہ ہے، جو میرے گاؤں سے سولہ سترہ کلومیٹر دور ہے۔ میں گھر سے نکلنے لگا تو ممی نے ٹوک دیا، ’’ جگتی تائی کے یہاں یہ کھانا دے آ۔‘‘
میں نے روٹی کی تھالی اور سبزی کی کٹوری اٹھا لی۔ تائی کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ صبح روٹی بنانے کے لئے آٹا دے گئی تھیں۔ ممی نے آٹے کی روٹیاں سینک دی تھیں۔ انہوں نے گھر کے لئے دال بنائی تھی۔ روٹیوں کے ساتھ ایک کٹوری دال دے دی۔
میں کھانا لے کر جگتی تائی کے گھر پہنچا، ’’ تائی کھانا ہے۔‘‘
’’بیٹا چوکے میں رکھ دے۔‘‘ وہ چارپائی پر لیٹے لیٹے بولیں۔
میں کھانا چوکے میں رکھ کر ان کے پاس آیا۔ بیماری سے ان کا جسم بہت کمزور ہو گیا تھا۔ مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر خوشی کا تاثر آ گیا تھا۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا، تو میں پاس کھڑی چارپائی کو بچھا کر اس پر بیٹھ گیا۔‘‘ آج اسکول نہیں گیا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’آج عید کی چھٹی تھی۔‘‘ میں نے بتایا۔
میں نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ جسم بالکل سوکھ گیا تھا اور چہرے سے بالکل بوڑھی لگنے لگی تھیں۔ میں لمبے عرصے سے انہیں ایسے ہی بیمار دیکھتا آ رہا تھا۔ ’’ آپ کب سے بیمار ہیں، علاج کیوں نہیں کرا لیتیں؟‘‘ میں نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
’’علاج کرا تو رہے ہیں۔ بلرام سے دوا لی ہے۔ بھگت جی کو بھی دکھایا ہے۔ کتنی رقم پھونک دی۔‘‘ وہ دکھی ہو گئیں۔
’’اگر بلرام کے علاج سے فائدہ نہیں ہو رہا ہے، تو شہر جا کے دیکھا لو۔‘‘
’’دو چار دن میں پیسے کا انتظام کر لیں۔ تو مجھے مارہرہ بیٹھا لے چلنا۔‘‘ انہوں نے امید کے ساتھ مجھے دیکھا۔
’’میں تو اب کاس گنج پڑھنے جاتا ہوں۔‘‘ میں نے انہیں اطلاع دی۔
’’کیوں یہاں پڑھائی نہیں ہے کیا؟ بڑی بڑی کلاس والے اور بھی تو جاتے ہیں۔‘‘
’’میں نے جو مضمون لیا ہے، وہ یہاں نہیں ہے، سائنس بایولوجی۔‘‘
’’تو شام کو چلنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آپ بتا دینا، میں چلوں گا۔‘‘
مارہرہ میں کوئی بھی سند یافتہ ڈاکٹر نہیں تھا۔ کاس گنج میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے اور کچھ لوگ وہاں سے تب دوا لاتے تھے، جب یہاں بیماری ٹھیک نہیں ہوتی تھی۔ دکھانے کی فیس پچاس روپے ایک مزدور چار دن میں کما پاتا تھا۔
ششماہی امتحانات میں مجھے کافی پریشانی ہوئی تھی۔ وقت پر اسکول پہنچنا، روز پینتیس کلومیٹر سائیکل چلانا، پھر آ کر اگلے پیپر کی تیاری کرنا۔ سب کچھ بہت مشکل تھا۔ مجھے بار بار اس غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ ایک ماہ کے لئے مجھے کاس گنج میں ہی کمرہ کرائے پر لے لینا چاہئے تھا۔ ٹھیک ہے، اب میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ سالانہ امتحان میں ڈیڑھ دو ماہ قبل ہی کمرہ لے لوں گا۔ مہنگا ہوا، تو کسی کے ساتھ مل کر لے لوں گا۔
آج کل جانوروں کی چوری کے کئی معاملے علم میں آ رہے تھے۔ بھینسوں کی حفاظت ضروری تھی۔ اگر چور بھینس کھول لے گیا، تو چھ سات ہزار کا اقتصادی نقصان پریوار کو توڑ سکتا تھا۔ اگر میں کمرہ لے کر پڑھائی کرتا اور ممی کسی دن بھینس کو اندرباندھنا بھول جاتیں، تو کوئی بھینس کھول کر بھی لے جا سکتا تھا۔ اب میرے سوچ کے لئے یہ ضروری مدعا ہو گیا تھا۔ کافی سوچنے کے بعد میں نے غور کیا کہ گھیر میں آگے کی دیوار اٹھا کر ایک گیٹ چڑھوا دیا جائے۔
میں نے ماں سے بات کیا۔ بات ٹھیک تھی۔ وہ بھی مان رہی تھیں کہ جانوروں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے میری بات مناسب تھی، لیکن ان کے سامنے کئی طرح کے شکوک تھے۔ سب سے پہلے، تو یہی کہ اس کام کو کرنے کے لئے ابھی پیسے نہیں تھے۔ دوسرا، یہ کہ مکان بنوانے کا بہت کام ہوتا ہے بھلے پھر ایک دیوار اٹھانے کا کام ہی کیوں نہ ہو۔ یہ سب میں اکیلے کروا پاؤں گا، ماں کو اس میں شک تھا۔ راج مستری کا کام، اینٹیں، بالو، سیمنٹ، چوکھٹ، گیٹ۔، میں کس طرح سب کا انتظام کر پاؤں گا۔ میں نے ماں کو سمجھایا کہ دو مہینے میں پیسے کا انتظام کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ چیزیں جمع کر لیں گے۔ پھر کام اتنا مشکل نہیں رہ جائے گا۔
اگلے سال اگر میں نے انٹرمیڈیٹ پاس کر لیا، تو پتہ نہیں کہاں سے کہاں پڑھنے جانا پڑے۔ مجھے ہر طرح سے یہ ضروری لگا کہ گھیر کیا ٓگے کی دیوار اٹھوا کر گیٹ چڑھوا دیا جائے۔ میں روز دیوار کی لمبائی ناپتا، حساب لگاتا کہ اس کے لئے کتنی اینٹوں کی ضرورت پڑے گی۔ میں نے راج مستری سے سیمنٹ، بالو، لوہے وغیرہ کا حساب پوچھ کر کاغذ پر لکھ لیا تھا۔
میں نے ممی کو سمجھایا، ’’دیوار اٹھوا کر گیٹ چڑھوانا ضروری ہے۔‘‘
ممی نے پہلے مخالفت کی، ’’ اتنا کام ہو گا، تو کس طرح سنبھال پائے گا؟ مکان بنوانے کا کام بہت ہوتا ہے، پھربھلے ایک دیوار ہی کیوں نہ اٹھوانی ہو۔‘‘
’’کام ہوتا ہے، پر میں ضرور کر لوں گا۔‘‘ یہ کام مکمل کرنے کی جیسے میرے اوپر دھن سوار ہو گئی تھی۔ ممی نے بھی بعد میں ’’ٹھیک ہے، تجھے جو کرنا ہے کر‘‘ والے انداز میں کچھ بھی کہنا چھوڑ دیا تھا۔
ایک دن اینٹوں کے بھٹے پر جا کر میں دو ٹرالی اینٹیں بھروا لایا تھا۔ ایک دن گاؤں کا ٹریکٹر آ رہا تھا اس میں گیٹ لدوا لایا تھا۔ اسی طرح آہستہ آہستہ میں نے سارا سامان جمع کر لیا۔ اگلے مہینے تین دن کی مسلسل چھٹیاں آ رہی تھیں۔ میں نے فیصلہ کر لیا، انہی چھٹیوں میں یہ کام کر لینا ہے۔ اگر ضرورت ہوئی تو دو تین دن کی چھٹی اور کر لیں گے۔ ایک راج مستری سے بات کی، تو اس نے کہا کہ وہ اگلے ڈیڑھ مہینے تک مصروف ہے۔ آج کل راج مستریوں کا ایکدم ملنا مشکل ہوتا ہے۔ کوشش کر کے میں نے ایک مستری طے کر دیا۔
دو دن بعد کام شروع ہونا تھا۔ ممی نے ایک مزدور کر لینے کیلئے کہا، لیکن میں نے سوچ لیا ضرورت پڑی تو بعد میں دیکھا جائے گا۔ اس کے لئے میں نے پوری منصوبہ بندی بنا لی تھی۔ چار دن پہلے میں نے بنیاد کھودنی شروع کی۔ ایک دن پہلے گارا تیار کر لیا۔ صبح مستری کے آنے سے پہلے ہی میں نے اینٹیں بنیاد کے ساتھ ساتھ رکھ دی تھیں، تا کہ چنائی کرتے وقت مستری کو اٹھا کر دینے میں مجھے کوئی پریشانی نہ ہو۔ کام شروع ہوا۔ مستری جب تک ڈوری باندھتا، میں تسلے میں بھر کر گارا پلٹ دیتا اور اس کے بعد اینٹوں اٹھا اٹھا کر دیتا جاتا۔
شام پانچ بجے مستری نے کام بند کر دیا۔ میں تھک کر چور ہو گیا تھا۔ میں پانچ چھ دن سے کام میں جٹا تھا، پر آج کے کام میں فرق تھا۔ ایک شخص جسے کام کرنے کے پیسے دیئے جا رہے ہوں، اسے خالی بٹھائے رکھنا بیکار تھا۔ تو میرے لئے مسلسل کام میں لگے رہنا ضروری تھا۔
میں تھکا ہارا گھر پہنچا، تو پتہ چلا دادی کے گھٹنے میں درد ہو رہا ہے۔ ممی بولیں، ’’ شاید اس پورن ماسی کو بتاشے نہیں دیے ہیں۔ میں ابھی سوا روپے اتار کے رکھے دے رہی ہوں۔ تو جا کر بھگت جی سے بھبھوت پڑھوا لا۔‘‘
جب سائیکل میں بہت سی خرابیاں پیدا جاتی تھیں، تب مستری کہتا تھا، اب اس کی اوورہالنگ کرا لیجئے۔ وہ سائیکل کا ایک ایک پرزہ کھول دیتا پھر ٹوٹے پھوٹے خراب پرزوں کو بدلتے ہوئے، صاف صفائی کر کے دوبارہ سائیکل جوڑتا۔ میری حالت بھی اوورہالنگ کے لئے کھولی گئی سائیکل جیسی ہو رہی تھی۔
جسمانی تھکاوٹ اتنی تھی کہ میں کہیں بھی جانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ میں بات ٹال گیا اور چارپائی پر گر گیا۔ ممی نے دوبارہ ٹوکا، تو میں جھلا گیا۔ ’’ پتہ نہیں، ان کے گھٹنوں میں روز دیوتا درد کرتے رہتے ہیں۔ الو کے پٹھوں کو اور کہیں جگہ نہیں ملتی۔‘‘
میرا جھلانا تھا کہ دادی بالکل برانگیختہ ہو اٹھیں اور گھومنے لگیں۔ میں غصے سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ ماں مجھے ڈانٹتے ہوئے بولیں۔ ’’ یہاں بیٹھا کیا کر رہا ہے، چلا جا بھگت جی کے پاس۔‘‘
یوں تومیں بہت تھکا ہوا تھا اور سب کچھ میرے منہ سے ناراضگی میں نکل گیا تھا، پر یہ میرے دل کی آواز تھی۔ مجھے ماں کے اس رویے سے چڑ ہو گئی تھی اور دیوتاؤں سے نفرت۔ آخر یہ کوئی طریقہ تھا کہ بتاشوں کے لئے، لوٹا چڑھوانے کے لئے، جات کروانے کے لئے، پوجا کے لئے دادی کو پریشان کریں۔ بھینس کو دودھ نہ دینے دیں یا گھر میں کسی کو بیمار کر دیں۔
ممی کچھ بدبداتے ہوئے شاید میری ناشائستگی لئے معافی مانگ رہی تھیں۔ مجھے ان دیوتاؤں کے سامنے گڑ گ ڑانا بہت خراب لگتا تھا۔ میں نفرت سے دل ہی دل کہہ رہا تھا کہ اگر تجھ میں طاقت ہو اور میرا کچھ بگاڑ کر سکتے ہیں، تو بگاڑ لے، میں تو ایسے ہی کہوں گا۔
صبح جلدی اٹھنا تھا، تو کھانا کھاکر ساڑھے نو بجے میں سو گیا۔ صبح پانچ بجے سے پہلے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ گارے کے لئے میں نے رات کو ہی مٹی بھگودی تھی۔ فٹافٹ گارا تیار کیا۔ جو ضروری کام لگے، وہ میں نے مستری کے آنے سے پہلے ختم کر لیے۔ مستری کے آتے ہی اسے میں نے کام میں جڑوا دیا۔
ممی دس بجے چائے دے گئی تھیں۔ ایک بجے وہ دوپہر کا کھانا لے کر آ گئیں۔ ممی نے مستری کے ہاتھ دھلائے اور کھانا پروسنے لگیں۔ گھیر کے ایک کونے پر نیم کا ایک چھوٹا سا درخت تھا۔ چھوٹے بھائی نے اس پر جھولا ڈال لیا تھا۔ وہ کہیں گلی میں کھیلنے چلا گیا تھا اور اس وقت جھولا خالی پڑا تھا۔
مجھے پتانہیں کیا سوجھا کہ کھانے کے لئے بیٹھنے کے بجائے میں جھولے پر جا بیٹھا۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں، تو سب سے پہلے ماں پر نظر پڑی۔ ممی کے چہرے پر ایک اضطراب تھا۔ میں نے اپنے ارد گرد دیکھا، تو مجھے احساس ہوا میں چارپائی پر لیٹا ہوں۔ ایک لمحے کے لئے میں نے سوچا، میں یہاں کیوں لیٹا ہوں؟ اور ممی اتنی پریشان کیوں ہیں؟
میں نے پوچھا، ’’ ممی کیا بات ہے؟‘‘
وہ ایک دم بے چین ہو اٹھیں، ’’ منع کرو تو مانیں گے تھوڑے ہی۔ کم بختوں نے لہو پی کر رکھ دیا ہے ہمارا۔‘‘ وہ رونے لگیں۔ پیشانی پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں، ’’ کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘
میں اب بھی کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی، تو میں نے محسوس کیا میرے دائیں کندھے میں تیز درد ہو رہا ہے۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دیکھا نیم کے درخت کے نیچے جھولا ٹوٹ پڑا ہے۔ کچھ کچھ میری سمجھ میں آیا۔ ممی جب کھانا پروس رہی تھیں، تب میں اس جھولے پر جا بیٹھا تھا۔ میں نے ماں سے پوچھا، ’’ کیا ہوا تھا ماں؟‘‘
’’ہوا کیا تھا۔ زمین پر پڑے پیر رگڑ رہے تھے۔ آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں۔ اور کیا ہوا تھا۔‘‘ ممی بالکل برانگیختہ ہو گئیں، ’’ شیخی بگھارنے سے باز تھوڑے ہی آؤ گے۔ رات بغیر کچھ بولے بھگت جی کو بلوا لاتا تو کیوں ہوتا یہ سب؟‘‘
اوہ! جب ممی کھانا پروس رہی تھیں، تب میں اس جھولے پر بیٹھ گیا تھا۔ میں نے پینگ بھری ہو گی اور جھولا ٹوٹ گیا ہو گا۔ تھوڑی دیر کے لئے میں بے ہوش ہو گیا ہوں گا۔ میں جھولے کی رسی اٹھاتے ہوئے بولا، ’’ کھلے میں پڑی رہی ہے۔ بارش میں بھیگ کر سڑ گئی ہے۔ جان نہیں ہے رسی میں۔‘‘
’’نہیں چپ ہو گا تو؟ بولتا ہی جا رہا ہے۔‘‘ ممی نے مجھے ڈانٹتے ہوئے، پکڑ کر پھر چارپائی پر بٹھا دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا، ’’ بتا کہاں چوٹ لگی ہے؟‘‘
’’کہیں نہیں، تھوڑی سی پیٹھ پر رگڑ لگ گئی ہے۔‘‘ میں نے ممی کی پریشانی کو قدرے کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔
میں کھانا کھا رہا تھا۔ دیوار سے ایک بلی نیچے اتری۔ اسے دیکھ کر بھینس نے زور سے سر جھٹکا۔ ڈکرانے کی تیز آواز سے چونک کر، جھٹکے سے میرا سر ادھر مڑ گیا۔ اچانک پیٹھ پر زور پڑا، تو درد بھری کراہ میرے منہ سے نکل گئی۔ ممی کے ہاتھ کانپ گئے اور پانی کا لوٹا ان کے ہاتھوں سے گرگیا۔ لوٹے کو وہی چھوڑ کر وہ میرے پاس آئیں اور پیارسے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔ پھر راج مستری سے بولیں، ’’ آج کا کام یہی روک دیجئے۔ ابھی تو کوئی آدمی ملے گا نہیں، کل کوئی آدمی کر کے کام شروع کر دیں گے۔‘‘
’’ارے نہیں۔ ماں مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔ کام روکنے کا کیا فائدہ۔ دیکھو میں کام کر سکتا ہوں۔‘‘ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’چوٹ تو لگی ہی ہے۔ ابھی پتہ نہیں چلے گا، بعد میں پتہ چلے گا۔ کام کا کیا ہے، کل ہو جائے گا۔ آرام کر، کچھ دوا گولی کھا لے۔‘‘ مستری نے بھی ممی کی بات کی حمایت کی۔ مجھے چوٹ تو لگی تھی، پر کام روکنا مجھے مناسب نہیں لگا۔ کھیتی باڑی کے کام میں اگر آدمی ایسی چوٹوں کی پروا
کرنے لگے، تو وہ کچھ نہ کر پائے۔ میں نے ان کی بات کاٹی، ’’ نہیں چچا، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تھوڑی سی چوٹ ہے، پر میں کام کر سکتا ہوں۔‘‘
کام شروع ہوا۔ میں نے گارے سے بھراتسلا سرپر اٹھایا، تو پیٹھ میں پھر ٹیس ہوئی پر جبڑوں کو بھینچ کر میں نے اپنے آپ کو سہارا دیا۔ ممی درد کی ایک گولی مجھے دے گئیں۔ مستری ایسے ہی ایک حادثے کی کہانی سنانے لگا۔ تھوڑی دیر میں میں اپنا درد بھول سا گیا۔
شام کو کام ختم کرنے ٹیوب ویل پر جا کر دو غوطے لگائے۔ کمر سے تولیہ لپیٹا اور بھیگا چڈابنیان لے کر میں گھر پہنچا۔ کپڑے پہن کر میں جیسے درخت سے ٹپکے پھل کی مانند چارپائی پر گر گیا۔
ممی آٹا گوندھ چکی تھیں۔ انہوں نے چمچے سے دال دیکھی۔ اسے پکنے میں ابھی تھوڑا وقت تھا۔ میں چارپائی پر لیٹا کچھ گنگنا رہا تھا۔ ممی میرے پاس آ کر بولیں، ’’ دکھاؤ کہاں لگی ہے؟‘‘
میں نے گردن گھما کر دیکھا، ان کے ہاتھ میں کٹوری تھی۔ انہوں نے کٹوری میرے سرہانے رکھ دی۔ میں چپ چاپ آرام کرنے کے موڈ میں تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ممی کٹوری میں ہلدی اور تیل لے کر آئی ہیں۔ میں نے انکارکیا، ’’ ممی کہیں نہیں لگی ہے، جاؤ آپ کھانا بناؤ۔‘‘
’’چل ادھر پلٹ۔‘‘ ممی نے میری بات کو سنا ہی نہیں۔ وہ بازو پکڑ کر مجھے پلٹنے لگیں۔
………
میں اسکول سے لوٹا۔ ڈاکٹر بلرام کے کلینک کے آگے بھیڑ لگی تھی۔ میں نے سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور بھیڑ میں جگہ بنا کر اندر گھس گیا۔ ڈاکٹر بلرام جگتی تائی کو بوتل لگا رہے تھے اور تماشبین پلنگ گھیرے کھڑے تھے۔ ’’ آدمی کے پاس پیسہ نہ ہو، سبزی نہ ہو، تو نمک سے کھا لے گا پر بیماری پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ اوپر والا بیماری کسی کو نہ دے۔‘‘ گھیر والی تائی افسوس کا اظہار کر رہی تھیں۔
’’قسمت کی ہیٹھی ہے بیچاری۔ بچہ بھی چلا گیا ہاتھ سے اور بیچاری کھٹیا بھی گوڑ رہی ہے۔ ڈیڑھ دو سال تو ہو ہی گئی ہوں گی بیمار پڑے۔‘‘ بڑی کاکی بولیں۔
واقعی جگت تائی قسمت کی ہی ہیٹھی تھیں۔ بیچاری دو سال سے بیمار تھیں۔ دو سال پہلے لڑکا پیدا ہوا تھا جگت تائی کا۔ چھلے میں ہی چل بسا اور جگت تائی نے کھٹیا پکڑی تو کھٹیا کی ہی ہو کر رہ گئیں۔
یوں توجگت تائی عمر میں ممی سے چھوٹی ہی رہی ہوں گی، پر گاؤں کے رشتے سے ماں انہیں حِجّی کہتی تھیں۔ سجان، پاپا سے عمر میں چار چھ ماہ بڑے ہوں گے، پر بڑا تو ایک دن کا بھی بڑا تصور کیا جائے گا۔ پینتیس کی عمر میں سجان کی شادی اس وقت ہوئی تھی، جب گاؤں والے سوچنے لگے تھے کہ اب ان کی شادی نہیں ہو گی۔ گاؤں میں کہاوت ہے، غریب سے غریب کی بیٹی بھی کنواری نہیں رہتی۔ جگت تائی کے والد بھی غریب تھے اور ان کی بھی شادی ہوئی۔ شوہر انہیں تیرہ سال بڑے ملے۔
شادی کے تین سال تک جگت تائی کی کوکھ نہیں چلی، تو گھر والوں کو فکر ہوئی۔ تجربہ کاروں نے گیانی فقیروں سے گنڈے تعویذ بنوانے کی صلاح دی۔ سجان نے بنوائے بھی۔ تعویذ کا اثر ہو یادعائیں، جگت تائی کی آخر کارچوتھے سال میں کوکھ کھل گئی۔ انہیں لڑکی پیدا ہوئی۔ گھر میں سجان اور ان کی ماں تھیں۔ جو خوشی بیٹے کے پیدا ہونے پر ہوتی ہے، وہ تو نہیں ہوئی، پر گھر کے تینوں افراد میں سے کسی کو خاص افسوس بھی نہیں ہوا۔ آج بیٹی پیدا ہوئی ہے، کبھی بیٹا بھی ہو گا۔ آخر کوکھ تو چلی۔
لڑکی ایک سال کی ہو گئی۔ ان دنوں گاؤں میں ماتا کا غضب آیا ہوا تھا۔ بہت سے بچے ماتا کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ صبح ہو یاشام، بھگت جی کو فرصت نہیں تھی۔ کسی کسی کے گھر وہ جھاڑ آتے۔ تمام لوگ صبح شام مندر یا بیٹھک پر اپنے بچوں کو جھڑوانے کے لئے لاتے۔ سجان کی بیٹی بھی بخار میں تپتی رہتی۔ سارا جسم دانوں سے بھر گیا، پر انہوں نے اس کے حل میں اپنی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ صبح شام فکر سے جھڑواتے۔ بغیر ناغہ دونوں وقت نہا کر، سیندور، بتاشے، گھی ڈال کر ماتا پر لوٹا دھارنے جاتے۔ آدمی اپنی طاقت بھر کی کوشش کرتا ہے، پر دیوی دیوتاؤں کے غضب سے کون بچاپایا ہے۔ اس سال دو بچوں کے ساتھ سجان کی بیٹی کو اٹھا لے جانے کے بعد ہی ماتاکا غضب ٹھنڈا ہوا۔
کوئی دو چار بچے تو تھے نہیں سجان کے۔ اکیلی بیٹی تھی، وہ بھی چل بسی۔ پھر بیٹی ہو یا بیٹا، ماں باپ کے دل میں ہوک تو سب کے لئے اٹھتی ہے۔ جگت تائی کو زیادہ دکھ اس لئے بھی تھا کہ تمام منت مرادوں کے بعد بیٹی کو اس دنیا میں لانے کے لئے انہیں چار سال لگے تھے۔ پورا مہینہ غمگین حالت میں گزر گیا، تو ساس نے سمجھایا، ’’ ہنستی کھیلتی چلی گئی، افسوس تو سب کو ہے، پر ہمت تو باندھنی ہی پڑے گی۔ چار ماہ سے زیادہ چڑھ گئے ہیں۔ ایسے تو بچے پر بھی برا اثر پڑے گا۔ سنبھال اپنے آپ کو۔ ایشور اس بار سب کچھ بھلا کرے۔ اس نے چاہا تو لڑکا ہی ہو گا۔‘‘
اس بار بھی جگت تائی نے لڑکی کو ہی جنم دیا۔ وہ بھی چھ ماہ گزار کر چل بسی۔ سجان کے ساتھ ایک اور حادثہ ہوا۔ ان کی ماں بیمار پڑ گئیں۔ سجان نے پہلے بلرام سے اور بعد میں قصبے جا کر علاج کرایا۔ بڑھاپے کا جسم، اوپر سے بیماری کی مار۔ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ نہیں کھینچ سکیں۔ تھوڑا تھوڑا کر کے بھی علاج میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ ہی خرچ ہو گئے۔ ڈیڑھ ہزار کا غم نہیں ہوتا، اگر ماں بچ جاتیں۔ یہ تو دوہری مار ہو گئی سجان پر۔ علاج میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ خرچ ہو گئے، ماں بھی نہیں بچ سکیں اور اب کریاکرم کی فکر۔ ترکاری پوری کرو، تب بھی دو ڈھائی ہزار خرچ ہو ہی جائیں گے۔ سماج ہے۔ جب وہ لوگوں کے یہاں کھانے جاتے ہیں، تو انہیں بھی لوگوں کو کھلانا ہی پڑے گا۔
اس حادثے نے سجان کے خاندانی تانے بانے کو ہی تہس نہس کر دیا۔ اتنی رقم ان کے گھر پر تو رکھی نہیں تھی۔ جس سے، جیسے بھی اور جتنے پر بھی انہیں ملے، انہوں نے پیسے اٹھائے۔ پانچ فیصد سود۔ یعنی ایک سال میں پانچ ہزار کے آٹھ ہزار۔ ڈیڑھ بیگھہ کھیت تھا سجان کے پاس اور وہ بھی فروخت ہو گیا۔ اب وہ مکمل طور مزدوری پر منحصر ہو گئے۔
دو بیٹیوں کے گزر جانے کے بعد جگت تائی نے لڑکے کو جنم دیا۔ ابھی وہ چھلے میں ہی تھیں کہ لڑکابیمار ہو گیا۔ بچے کے ہاتھ پیرا کڑنے لگے۔ سجان بھگت جی کو بلا کر لائے۔ بھگت جی نے دھیان لگا کر بتایا، ’’ مسان ہے۔ پریم کی لڑکی اور ہردیو کے لڑکے کو بھی مسان نے ہی اٹھایا ہے۔‘‘
جگت تائی کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ بھگت جی نے یقین دلایا، ’’ تو فکر نہ کر بہو۔ میں انتظام کروں گا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
خوب انتظام کیا بھگت جی نے، پر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ بچے کے جبڑے بھینچ گئے، ہاتھ پیر اینٹھے اور جسم اینٹھ کرمڑ گیا۔ دو سال ہو گئے۔ لڑکے کے جانے کے بعد جگت تائی نے ایسی کھٹیا پکڑی کہ پھر وہ اٹھ نہ سکیں۔
گاؤں میں تین بچوں کی موت اسی طرح ہوئی تھی۔ پورے گاؤں میں بحث جاری تھی-گندگی اس کو من بھاتی ہے، لہذا چھلے میں ہی گھس آتا ہے۔ بچے کی گردن اینٹھ دیتا ہے، جبڑے بھینچ دیتا ہے۔ جگت تائی نے پہلے ہی احتیاط برتی تھی اور تمام انتظام کر کے رکھے تھے۔ چاقو، ماچس اور الو کا پنجہ ہر وقت سرہانے رکھا رہتا تھا۔ پر سب بیکار گیا۔
میں نے مسان کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا، پر اس وقت اس پر زوروں کی بحث تھی۔ پتہ چلا جو بچے بولنا شروع کرنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں، وہ مسان بنتے ہیں۔ ان سے چھٹکارامشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک تو وہ بولتے نہیں ہیں اور دوسرے وہ ہمیشہ بچوں پر ہی حملہ کرتے ہیں۔
کچھ دن بعد گاؤں میں یہ بحث چھڑی کہ بچوں کی موت ایک بیماری سے ہو رہی ہے اور یہ بیماری درانتی، کھرپی یا چاقو سے بچوں کی نال کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ بھگت جی نے ہلکا سا انکار کیا۔ ’’بیماری ہوتی ہو گی، پر یہ تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مسان بچوں کا جبڑا بھینچ کر گردن اینٹھ دے رہا ہے۔‘‘
پتہ نہیں، لوگوں نے بچوں کی موت کا سبب بیماری سمجھا یا مسان، پر آہستہ آہستہ اس بات پر لوگوں نے یقین کر لیا کہ درانتی، کھرپی سے بچے کی نال کاٹنے سے تشنج نام کی بیماری ہو جاتی ہے۔
اب عورتیں بچے کی نال کاٹنے کے لئے نیا بلیڈ استعمال کرنے لگیں۔ جیسے ہی مہینے پورے ہونے کو آتے، گھر کی بڑی بوڑھی نیا بلیڈ دکان سے منگا کر رکھ لیتیں۔ کیا پتہ کب ضرورت پڑ جائے، رات برات ہر وقت تو دکان کھلی نہیں رہتی۔
ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے۔ اس وقت میں بہت چھوٹا تھا۔ دادی چارپائی پر لیٹی تھیں اور میں کوئی کہانی سننے کی ضد کر رہا تھا۔ تبھی بھاگتی ہوئی پنیا آئی اور بولی، ’’ تائی تمہیں اماں بلا رہی ہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ دادی اٹھ کر بیٹھ گئیں۔
’’مجھے نہیں معلوم۔ کہا ہے جلدی لے کر لانا۔‘‘
دادی اٹھ پنیا کے ساتھ چل دیں۔ منع کرنے کے باوجود میں بھی نانی کے پیچھے لگ گیا۔ برآمدے سے کسی عورت کے چلانے کی آواز آ رہی تھی۔ بہت سی عورتیں اسے گھیرے ہوئے تھیں۔ دادی انہی عورتوں میں جا کر مل گئیں۔ میں بڑی بے چینی سے وہاں کا ماجرا جاننے کے لئے آگے بڑھا، تو رجّو چاچی نے ڈپٹ دیا، ’’ جے لڑکا کہاں دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ رات میں بھی چین نہ ہے۔ لڈو بنٹ رہے ہیں یہاں؟ ادھر برآمدے میں نہیں کھیلا جاتا۔‘‘
میں کھسیانا سا برآمدے میں پنیا کے پاس چلا گیا۔ وہ مجھ سے باتیں کرنے لگی، پر میرا دھیان تو سامنے والے برآمدہ میں لگا تھا، جہاں ساری عورتیں کھچڑی پکائے ہوئے تھیں۔
اچانک وہاں بھگدڑ مچ گئی۔ بڑی کاکی چلا رہی تھیں، ’’ درانتی، کھرپی، چاقو کچھ تو پڑا ہو گا؟‘‘
پنیا کی اماں پورے مکان میں گھومتی پھر رہی تھیں۔ انہیں کہیں کچھ نہیں ملا۔ ہار کر پڑوسی کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ پڑوسن بولیں، ’’ کھرپی تو سب بیٹھک پر رکھی ہوں گی۔ درانتی ابھی دیکھتی ہوں۔‘‘ اس نے گھر میں ادھر ادھر دیکھا، پر کہیں نہیں ملی۔
پنیا کی دادی بدبدائی ہوئی لوٹی، ’’ سبھی درانتی کھرپی پڑی رہتی ہیں ادھر ادھر، پر وقت پر ایک بھی نہیں مل رہی۔۔ ۔ آگ لگے۔‘‘
بڑی کاکی ایکدم اکھڑ گئیں، ’’ تمہیں تو کچھ ہوش ہی نہیں ہے۔ چار خود جن چکیں۔ بوڑھی ہو گئیں، پھر بھی عقل نہیں آئی۔ شکار کے وقت پر کتیا کو ہگاس۔‘‘
پنیا کی اماں شرمندہ ہو کر ایک دم ڈھیرہو گئیں۔ کاس گنج والی نے ان کا ساتھ دیا، ’’ ان سب باتوں سے کوئی فائدہ؟ انہیں ہوش نہیں تھا، تو اتنی جنی بیٹھی ہیں، کسی نے یاد دلایا ہوتا کہ کچھ چاقو، چھری ڈھونڈ لو تو انہوں نے ڈھونڈ نہیں لیا ہوتا؟‘‘
بڑی کاکی کا حوصلہ بڑھ گیا، ’’ کسی نے یاد نہیں دلایا، تو اب بتاؤ کیا کریں؟ کرنا دھرنا کچھ نہیں، باتیں بنانے کو سب ہیں۔‘‘
’’کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے۔ تم ہی اکیلی پہاڑ کھود رہی ہو، اور تو سب باتیں بنا رہے ہیں۔‘‘ کاس گنج والی بھی جواب دینے سے چوکی نہیں۔
مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ میرا چھوٹا سا چاقو جس سے میں خربوزے کاٹا کرتا تھا، میرے بیگ میں رکھا تھا۔ اگر چاہتا تو دوڑ کے لے آتا۔ میرا گھر تھا ہی کتنی دور۔ پر میں گیا نہیں۔ مت بتاؤ مجھے کچھ۔ مت دیکھنے دو مجھے۔ میں بھی نہیں جاؤں گا اپنا چاقو لینے۔ لڑو ایسے ہی۔
’’چھوڑو ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سوچو کہ اب کیا کرنا ہے۔‘‘ بیٹھک والی تائی اپنے ٹھنڈے لہجے میں بولیں۔
تھوڑی دیر تک کوئی کچھ نہیں بولا، تو بڑی کاکی نے ہی اپنے تیکھے لہجے میں حل پیش کیا، ’’ اب یہ ایسے ہی تو پڑا نہیں رہے گا۔ دیکھ کر کیا رہی ہے۔ گھر میں کوئی چکنا پتھر وتھر پڑا ہو، تو اسی کو اٹھا لا۔‘‘
پنیا کی اماں کہیں سے دو پتھر ڈھونڈ لائی۔ بڑی کاکی نے اپنے آنچل سے انہیں پونچھا۔ ایک خاتون نے نال کو دو جگہ سے دبا لیا۔ بڑی کاکی نے بیچ والے حصے کو ایک پتھر پر رکھا اور دوسرے سے تین چار بار کوٹا تو نال سے بندھا بچے کی ماں سے الگ ہو گیا۔
ڈاکٹر بلرام جگتی تائی کو بوتل چڑھا رہے تھے۔ لوگ ان کی چارپائی کے گردگھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ سجان دکھی دل لئے ایک طرف کھڑے تھے۔ کسی بزرگ نے پوچھا، ’’ سجان کسی اچھے ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتا بہو کو؟‘‘
’’کیا بتائیں چچا کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ دو سال سے تنگ آ گیا ہوں۔ لڑکا پیدا ہوا۔ کوئی کہتا ہے مسان نے پکڑ لیا، کوئی کہتا ہے تشنج بن گیا۔ روز ایک نئی بیماری سننے کو ملتی ہے۔ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا۔‘‘ ایک لمحے کے لئے وہ خاموشی سے جگتی تائی کا مرجھایا چہرہ دیکھتے رہے۔‘‘ بچہ نہیں رہا، کوئی بات نہیں، پر یہ تو ٹھیک رہتی۔ دو سال سے کس کس کو نہیں دکھایا۔ بھگت جی نے کہا، اوپر کا چکر ہے، انہوں نے جو کہا، وہی کیا۔ آپ نے کہا، ڈاکٹر کو دکھاؤ، تو ڈاکٹر کو بھی دکھایا۔ بلرام سے نہیں سنبھلا، تو دو تین بار قصبے بھی لے گیا۔ ہزاروں روپیہ پھونک دیا، پر تسلی کہیں نہیں ملی۔ اب یہاں سے آگے دہلی بمبئی لے جانے کی تو ہماری اوقات ہے نہیں۔‘‘ سجان بے بس ہو اٹھے۔
ڈاکٹر بلرام جگتی تائی کو چیک کر رہے تھے۔ انہوں نے بی پی کا آلہ بازو میں لپیٹا اورپمپ سے ہوا بھرنے لگے۔‘‘ بلڈ پریشر کتنا ہے؟‘‘ ایک نوجوان جو یہ جانتا تھا کہ بلڈ پریشر بڑھنے کی کوئی بیماری ہوتی ہے اور اس آلے سے اسے ناپا جاتا ہے، نے پوچھا۔
ڈاکٹر بلرام اسٹیتھسکوپ کان میں لگائے تھے، پر ان کے لئے اس کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ پمپ سے ہوا بھرتے جا رہے تھے اور جب تک جگتی تائی درد سے کراہ نہ اٹھیں، انہوں نے ہوا بھرنے کا عمل جاری رکھا۔ انہوں نے میٹر ریڈنگ تین سو پر نوٹ کی، پھر کچھ سوچتے ہوئے بلب سے ہوا نکالنا شروع کیا اور ڈھائی سو پر ریڈنگ فکس کرتے ہوئے بولے، ’’ بہت ہے۔ ڈھائی سو ہے۔‘‘ پھر سجان سے مخاطب ہوئے، ’’ بلڈ پریشر کافی بڑھا ہوا ہے۔ پر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بوتل چڑھتے ہی ٹھیک ہو جائیں گی۔‘‘
ارد گرد کے پانچ چھ گاؤں میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا، تو بلرام کی پریکٹس اچھی چلتی تھی۔ قصبے کے اکلوتے ایم بی بی ایس ڈگری ہولڈر ڈاکٹر اجے کے یہاں انہوں نے ایک سال کمپوڈری کی تھی۔ اس کے بعد گاؤں آ کر اپنا کلینک کھول لیا۔ ان کا کلینک چل نکلا۔
………
گاؤں سے تھوڑی فاصلے پر ریلوے لائن تھی۔ ریلوے پٹری کے دونوں طرف کی لائنیں دو مختلف بجلی گھروں سے جڑی تھیں، اس لئے دونوں جانب بجلی آنے جانے کا وقت ایک سا نہیں تھا۔ میرا ایک کھیت جو ریلوے کراسنگ کے قریب تھا، ریلوے لائن کے اُس پار تھا۔ ان دنوں یہ روٹین تھا، بجلی ایک ہفتے دن میں آتی تھی، ایک ہفتے رات میں۔
ان دنوں کراسنگ والے کھیت میں گندم لگے تھے۔ گندم کی بالیوں میں دانے پڑنے لگے تھے۔ اس وقت فارم میں پانی لگنا تھا۔ رات کا روٹین چل رہا تھا۔ رات میں ایک خوبی رہتی تھی کہ بجلی بغیر جھٹکالئے چلتی تھی۔ دن کے بر عکس رات میں وولٹیج بھی اچھے آتے تھے۔ جس سے ٹیوب ویل دن کے مقابلے میں زیادہ پانی پھینکتا تھا۔ اس لئے ہم نے گندم میں پانی لگانے کے لئے رات کا ہی پروگرام بنایا۔
بابا کسی کام سے قصبے گئے ہوئے تھے۔ میں چودھری کے الاؤ پر بیٹھا ہاتھ سینک رہا تھا۔ ہاتھ بھی کیا، وہاں بیٹھا میں یہ دیکھ رہا تھا، لائن پار بجلی تو نہیں آ گئی۔ رام سنیہی اور چمپت کے قصے چل رہے تھے، جس سے وقت اچھا کٹ رہا تھا۔
’’رات کو بارہ بجے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ریلوے کراسنگ سے ایک دیپک چل کر آتا ہے۔ باغ کے برابر آ کر کچھ ٹھہرتا ہے۔ پھر باغ میں جاتا ہے اور وہاں تیز روشنی سی ہوتی ہے۔‘‘ رام سنیہی بتا رہے تھے۔
’’جب ہم چھوٹے تھے تو پِیرانا نکلا کرتا تھا۔ مرگھٹ سے چلتا تھا اور اس کھیت سے ہوتے ہوئے باغ کی طرف جاتا تھا۔ اب تو مدّتیں ہو گئیں، کبھی پِیرانا نہیں دیکھا۔‘‘ دیپک کی بات چلی تو چمپت کو پِیرانا کی یاد آ گئی۔
’’پِیرانا کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے تجسس کا اظہار کیا۔
’’ پِیرانا بھوت پریتوں کی بارات ہوتی تھی۔ بھوت ہاتھوں میں مشعلیں لئے، ناچتے گاتے پِیرانا نکالتے تھے۔‘‘ چمپت نے پِیرانے کے بارے میں بتایا۔
میں نے دیکھا، لائن کے اس پار بلب چمک رہا تھا۔ سات بج کر دس منٹ پر بجلی آ گئی۔ بابا قصبے سے نہیں لوٹے تھے۔ میں نے ان کا انتظار کرنا بیکار سمجھا اور بیلچہ اٹھاکر ٹیوب ویل کے لئے چل دیا۔
کراسنگ کے پاس پہنچ کر میں ٹھٹھک گیا۔ کچھ دیر تک میں اسے دیکھتا رہا۔ تین چار منٹ کشمکش میں نکل گئے ہوں گے۔ کیا کروں، میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ کوئی چور اچکا ہوتا تو یوں اتنی دیر تک کھڑا نہ رہتا، بالکل ساکت۔ تھوڑا بہت تو ہلتا ڈُلتا۔ پھر اس جگہ کھڑے ہونے کا کیا تک؟ لیکن وہ سامنے کھڑا تھا۔ نہیں معلوم کتنی بار میں اندھیرے، اجالے میں یہاں سے گزرا ہوں۔ کبھی کوئی حادثہ میرے ساتھ نہیں ہوا۔ پھر بھی یہاں سے گزرتے وقت لوگوں کی باتیں یاد آ ہی جاتی ہیں۔ باتوں کے ساتھ ہی ایک انجانا خوف بھی دل میں ابھر آتا ہے۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اب تک میرے ہوش میں چار لوگ یہاں ریلوے سے کٹ کر مر چکے ہیں۔ بہت سے لوگوں سے سن چکا ہوں کہ ان لوگوں کو انہوں نے مختلف شکلوں میں دیکھا ہے۔
چمکتا ہوا بلب مجھے جلدی ٹیوب ویل پر پہنچنے کے لئے اکسا رہا تھا اور اندرونی خوف مجھے وہیں ٹکائے ہوئے تھا۔ ہمت کر کے میں نے ہلنے کا سوچا۔ میں نے فیصلہ کیا، کراسنگ سے لائن کو پار نہ کروں گا بلکہ تھوڑا آگے بڑھ کر کے پار کروں گا تاکہ سامنے جو شخص کھڑا نظر آ رہا ہے، اس سے بچ سکوں۔ میں آگے بڑھا، لیکن خوف کی وجہ سے نگاہیں ادھر ہی لگی ہوئی تھیں۔ ابھی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ مجھے اپنے اوپر ہنسی آ گئی۔ وہ سنگِ میل تھا، جس پر شام کو جب بھی میں کھیت کی طرف آتا، تواکثر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مجھے یہ کیوں یاد نہیں رہا کہ یہ وہی پتھر ہے۔ مجھے حیرت ہو رہا تھا کہ وہ پتھر مجھے آدمی کے برابر کیسے لگ رہا تھا۔
میں نے ٹیوب ویل پر پہنچ کرتا لا کھولا اورٹیوب ویل اسٹارٹ کر دیا۔ قریب آدھے گھنٹے بعد بابا آ گئے، تو میں مطمئن ہو گیا۔
بابا کی تیز آواز سن کر میں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔ بابا بولے، ’’ پانی دیکھ آتا، کہیں پھوٹ تو نہیں رہا ہے۔‘‘
میں نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا، ’’ ابھی تو آیا ہوں دیکھ کر۔‘‘
’’ابھی؟ ایک گھنٹہ ہونے جا رہا ہے۔‘‘
تھوڑا کسمساکر میں اٹھا اور بیلچہ اور ٹارچ اٹھا کر پانی دیکھنے چل دیا۔
ٹیوب ویل اور میرا کھیت دونوں سڑک کے کنارے تھے۔ دونوں کے بیچ بمشکل پچاس ساٹھ گز کی دوری تھی، لیکن پانی کی نالی تھوڑا گھوم کر جاتی تھی۔ مجھے نالی کے ساتھ ساتھ جانا تھا، تاکہ دیکھ سکوں، کہیں پانی پھوٹ تو نہیں رہا۔ میں نالی کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ جہاں جہاں نالی کمزور تھی، وہاں ٹارچ لگا کر ٹھیک سے دیکھتا جا رہا تھا۔ مرگھٹ میں پہنچتے ہی میں نے احتیاط برتتے ہوئے چادر اوڑھ لی اور اچھی طرح نالی کا معائنہ کرنے لگا۔ در اصل یہاں آٹھ دس قدم تک پتیل یاسرکنڈے کھڑے تھے۔ اس کی چاقو کی دھار کی طرح کے پتے جسم کو چیر دیتے تھے۔ پتیل کی جڑیں نالی کو پولا کر دیتی تھیں اور یہاں پانی پھوٹنے کا اندیشہ زیادہ رہتا تھا۔ مناسب طریقے سے نالی کا معائنہ کرنے کے بعد میں نے ایک لمحہ رک کر مرگھٹ کی طرف ٹارچ دکھائی۔
دو دن پہلے ہی چوب سنگھ کی موت ہوئی تھی اور ان کی چتا دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی جل کر ٹھنڈی ہوئی ہو۔ چوب سنگھ کی بڑی بڑی مونچھیں اور لمبا چوڑا جسم میرے ذہن میں اترتا جا رہا تھا۔ ایسی بڑی بڑی مونچھیں کہ کوئی بچہ رات کو دیکھ لے، تو ڈر جائے۔ یہ سوچ کر مجھے کچھ تسلی سی ہوئی کہ چوب سنگھ برم دیو یا جن نہیں بلکہ بھوت بنے ہوں گے، جو اتنا خطرناک نہیں ہوتا۔ پھر بھی رہ رہ کر میرے ذہن میں خوف سا طاری ہونے لگا۔ ڈر بڑھا تو ہنومان چالیسا خود بہ خود میری زبان پر آ گیا-
جے ہنومان جنجان گن ساگر، جے کپِیس تِرلوک اُجاگر
مجھے یاد نہیں ہنومان چالیسا میں نے کتنی چھوٹی عمر میں یاد کر لیا تھا۔ ایسے وقت پر ہنومان چالیسا خود بخود میرے ہونٹوں پر آ جاتا تھا۔ پھر ڈر میرے اندر سے نکل جاتا تھا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ خواب میں، میں بھوت دیکھ کر ڈر گیا اور میری آنکھ ہنومان چالیسا پڑھتے ہوئے ہی کھلی۔
گاؤں، کھیت میں رات برات مجھے باہر نکلنا ہی ہوتا تھا اور چور اچکوں سے مجھے کبھی اتنا ڈر نہیں لگا، جتنا بھوت سے۔ تھوڑا بڑا ہوتے ہی میں ایسی باتوں کو مسترد کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا، پر ڈر تو لگتا ہی تھا۔ ان دنوں ہنومان چالیسا نے مجھے بہت سہارا دیا۔ لیکن ایک بار رام سنیہی نے مجھے بڑے شک میں ڈال دیا تھا۔
چودھری کی بیٹھک پر ایک بار انہوں نے ایک کہانی سنائی۔ ایک بار ان کے چچا کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں انہیں بھوت مل گیا۔ انہوں نے فوری طور پر ہنومان چالیسا پڑھنا شروع کیا، توبھوت نے انہیں للکارا، ’’ تو ہنومان چالیسا پڑھتا ہے، میں تجھے سندر کانڈ پڑھ کر سناتا ہوں۔‘‘ بھوت نے کھڑے کھڑے پورا سندر کانڈ پڑھ کر سنا دیا۔ چچا ڈر کے مارے کانپنے لگے، تو وہ بولا، ’’ تو بھی ہنومان کا بھگت ہے، تو چھوڑے دیتا ہوں۔‘‘
میں ٹارچ دکھاتا ہوا چک روڈ پر پہنچا اور نالی کو غور سے دیکھنے لگا۔ چک روڈ سے ہو کر بیل گاڑیاں گذرتی تھیں، لہذا نالی کمزور تھی اور یہاں پانی پھوٹنے کا خوف زیادہ رہتا تھا۔ نالی دیکھتا ہوا، میں کھیت پر پہنچا۔ کیاری بھرنے کے لئے ابھی تھوڑی باقی رہ گئی تھی۔ میں نے کیاری بھرنے کا انتظار کیا۔ کیاری بھر گئی، تو دو کیاریوں میں، میں نے پانی کاٹ دیا تاکہ بار بار مجھے کیاری کاٹنے نہ آنا پڑے۔ میں ٹیوب ویل پر آ کر پھر لیٹ گیا۔
تقریباً ًڈیڑھ گھنٹے بعد مجھے بابا نے جگاکر کہا، ’’ پانی دیکھ آتا، کہیں پھوٹ تو نہیں رہا۔‘‘
میں نے آنکھیں ملتے ہوئے بیلچہ اٹھایا اور نالی کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ مرگھٹ پر پہنچ کر مجھے یاد آیا، میں ٹارچ لے کر نہیں آیا تھا۔ نالی کا معائنہ کرنے کے لئے ہی نہیں، رات میں کیل کانٹے، سانپ کیڑے سے تحفظ کے لئے بھی ٹارچ ضروری ہوتی ہے۔ ایک خیال آیا کہ لوٹ کے جاؤں اورٹارچ لے آؤں، پھر اسے رد کر دیا۔ میں نے سوچا ادھر ادھر ضرورت پڑے گی تو ماچس جلا کے دیکھ لوں گا۔ میں بیڑی نہیں پیتا تھا، لیکن رات کو گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ماچس جیب میں ضرور ڈال لیتا تھا۔
مرگھٹ پار کر کے میں چک روڈ کی طرف بڑھا۔ آگے بڑھتے ہوئے جیسے ہی میں نے دوسری طرف مڑ کر دیکھا تو اچانک میرے قدم رک گئے۔ میں غور سے دیکھنے لگا۔ قریب آدھاکلومیٹر دور مجھے ایک دیپک سا دکھائی دے رہا تھا۔
وہاں کوئی ٹیوب ویل نہیں تھا۔ صاف تھا کہ وہ بلب نہیں تھا۔ میری آنکھیں اتنی کمزور نہیں تھیں۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ دیپک ہے۔ میں ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ میری طرف ہی بڑھتا آ رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، کیا کروں۔ ٹیوب ویل پر بھاگ جاؤں؟ بابا سے کہہ دوں گا، کیاری کاٹ آیا۔ پتہ نہیں، مجھے ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ چک روڈ سے ہو کر کوئی بیل گاڑی گئی ہو گی اور وہ نالی پھوڑ گ ئی ہو گی۔ کچھ بھلے مانس گاڑی روک کر پانی روک جاتے ہیں یا آواز لگا دیتے ہیں، پر کچھ شیطان کے تاؤنالی پھوٹی ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر کوئی بیل گاڑی گئی ہو گی، تو کھیت نہیں بھر پائے گا اور پورے چک روڈ پر پانی ہی پانی ہو جائے گا۔ اگر کیاری بھر گئی ہو گی اور میں نے نئی کیاری نہیں کاٹی تب بھی بہت نقصان ہو جائے گا۔ ابھی ہلکی ہوا چل رہی ہے، ہوا تیز ہو گئی اور پانی زیادہ بھر گیا، تو سارے گندم زمین پر بچھ جائیں گے۔ ٹیوب ویل پر بھاگنے کا خیال میری ذہن سے بالکل نکل گیا۔
میں نے دیکھا، دیپک میری طرف مسلسل بڑھتا آ رہا تھا۔ دماغ میں خوف کے ساتھ ساتھ بہت سارے خدشات بھی اٹھ رہے تھے۔ ابھی تو الاؤ پر رام سنیہی بتارہے تھے کہ کراسنگ سے ایک دیپک چل کر آتا ہے اور باغ میں آ کر تیز روشنی کے ساتھ غائب ہو جاتا ہے۔ کہیں یہ وہی دیپک تو نہیں ہے؟ مجھے لگا وہ کراسنگ سے ہوتا ہوا باغ میں جائے گا اور تیز روشنی کے ساتھ غائب ہو جائے گا۔ میرا خوف بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ باغ کی بھی اپنی ایک تاریخ تھی۔ باغ میں تین پیپل، دو بیل، ایک جامن اور آٹھ دس آم کے درخت تھے۔ لوگوں کا یقین تھا برم دیوی، جنی، بھوتنی، ڈائن، یعنی زنانہ پریتوں کی جتنی قسمیں ہیں، وہ سب کے سب اس باغ میں رہائش پذیر ہیں۔ جانے کتنی ہی کہانیاں اس باغ سے جڑی تھیں۔ چار پانچ دن پہلے ہی چودھری کے الاؤ پر رام سنیہی ایک کہانی سنا رہے تھے۔
’’سات آٹھ سال ہو گئے ہوں گے۔ ہم نے کٹے ہوئے چنوں کی پاڑی باغ میں لگائی تھی۔ ہم رات کو پاڑی کے پاس ہی چادر بچھا کر لیٹے تھے۔ سو چودھری، تمہیں کیا بتائیں، آدھی رات کے قریب دیکھتے کیا ہیں، لائن کے سہارے ایک دیپک چلا آ رہا ہے۔ دیکھتے دیکھتے دیپک باغ کے برابر میں آ گیا۔ ایکدم باغ میں اجالاہی اجالا۔ ہماری آنکھیں چوندھیا گئیں۔ ڈر کے مارے ہماری حالت خراب۔ ہم نے چادر سمیٹی اور چنے کی پاڑی کے بیچ میں چھپ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے باغ میں برات کی برات اکٹھی ہو گئی۔ جنی، بھوتنیاں، بالکل سیاہ کپڑے پہنے چڑیلیں۔ تھوڑی دیر میں وہاں صفائی شروع ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے قالینیں بچھ گئیں۔ عطرپھلیل کی خوشبو کے مارے ہماری ناک پھٹی جائے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں پکوانوں کے ڈھیر لگ گئے۔ چھنن چھنن کرتی برتن لائیں اور ڈھیلے کی طرح قالین پر رکھ جائیں۔ تھوڑی ہی دیر میں تھالیاں بچھ گئیں۔ ان میں چھپن بھوگ پروس دیئے گئے۔ پھر ان میں سے ایک سردار نکل کر آیا۔‘‘
’’سردار تو جن ہو گا یا پھر برم دیو، کیوں چچا؟‘‘ چمپت نے اپنے تجسس کا اظہار کیا۔
’’اب یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ برم دیو تھا یا جن پر اتنا کہتے ہیں کہ وہ شکل سے بالکل سردار ہی لگتا تھا۔‘‘ رام سنیہی نے اس کے تجسس کو دور کیا، تو تو چمپت نے فوراً ًاسے اپنے یقین میں بدل لیا، ’’ میں سمجھ گیا سردار جن یا برم دیو ہی ہو گا۔‘‘
ایک لمحہ رک کر رام سنیہی آگے بڑھے، ’’ سو چودھری تم سے کہتا ہوں کہ تم یقین نہیں کرو گے، سردار نے کڑک آواز میں حکم دیا ایک تھالی اور لگائی جائے۔ فوری طور پر حکم کی تعمیل ہوئی۔‘‘ ایک تھالی اور لگائی گئی۔ سردار پھر کڑکدار آواز میں بولا، ’’ باہر نکل آؤ۔‘‘
سو چودھری ڈر کے مارے ہماری حالت خراب۔ سردار پھر بولا، ’’ رام سنیہی تم سے ہی کہہ رہے ہیں، باہر نکل آؤ۔‘‘
اب کیا کریں؟ ڈرتے ڈرتے ہم باہر نکلے۔ ان کے بیچ آ کر کھڑے ہو گئے۔ سو چودھری ڈر کے مارے ہماری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
سردار نے ہمت بندھائی، ’’ ڈرو مت، ہم تم سے کچھ نہیں کہیں گے۔ تم تو ہمارے مہمان ہو۔‘‘
’’اس نے ایک تھالی کی طرف اشارہ کیا۔ ہم ڈرتے ڈرتے وہاں جا کر بیٹھ گئے۔ سردار نے حکم دیا، تو کھانا شروع کیا۔ سو چودھری تمہیں کیا بتائیں، تم یقین نہیں کرو گے، کیا کھانا تھا۔ اے ہے ایسا کھانا! ’’رام سنیہی نے کھانے کا ذائقہ لیتے ہوئے تھوک نگلا۔
’’ایسا کھانا کہ آج تک ہم نے کھایا تو کیا دیکھا تک نہیں۔ معلوم ہی نہیں پڑتا تھا کہ کیا کھا رہے ہیں۔ بس من کرے کھائے جاؤ، کھائے جاؤ۔
سو چودھری اب تک ہماری ہمت بندھ چکی تھی۔ ہمارے من میں بار بار یہ خیال آئے کہ اس میں سے کچھ رکھ لیتے تو صبح بچوں کو لے جاتے۔‘‘
سردار نے پوچھا، ’’ کیا سوچ رہا ہے؟‘‘
’’تو چچا، سردار تمہارے دل کی بات جان گیا ہو گا۔ میں سمجھ گیا، وہ جان گیا ہو گا۔ سردار سے تم دل کی بات کس طرح چھپا سکتے ہو؟‘‘ چمپت نے اپنی ہوشیاری کا ثبوت دیا۔
’’تو ٹھیک سمجھا چمپت، لیکن وہاں ہماری ڈر کے مارے حالت خراب۔ ڈر کے مارے ہماری زبان نہیں ہلی۔‘‘ سردار ہنسا، ’’ گھر لے جائے گا؟ رکھ لے کرتے کی جیب میں۔‘‘
ہماری پھر بھی ہمت نہ پڑے۔ وہ پھر کڑک کر بولا، ’’ کہہ دیا نہ رکھ لے۔‘‘ ہم نے کانپتے ہاتھوں سے کچھ مٹھائیاں جیب میں رکھ لیں۔
سو چودھری تم سے کہتا ہوں کہ کھانے کے بعد وہ راس لیلا ہوئی کہ تم ہوتے تو دیکھتے، چڑیلیں ایسے ناچیں کہ بس دیکھتے ہی رہ جاؤ۔ پوری رات راس لیلا چلی۔ صبح ہونے کو آئی تو سردار نے حکم دیا، ’’ وقت ہو گیا۔‘‘ ناچ گانا وہی ٹھہر گیا۔ ہم سے سردار بولا، ’’ گاؤں کی طرف دیکھو۔‘‘
ہم نے گاؤں کی طرف دیکھا۔ واپس گردن گھمائی تو ایکدم چمتکار ہو گیا۔ سب کچھ صاف۔ قالین، ڈھولک، مجیرا، سب غائب۔ صبح ہوتے ہی ہم گھر آئے۔ بڑی خوشی سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دیکھا تو اس میں ہڈیاں بھری ہیں۔‘‘
’’مٹھائی کی ہڈیاں بن گئی ہوں گی۔ سردار اسی لیے ہنسا تھا۔‘‘ چمپت نے سردار کی ہنسی کا راز کھول دیا۔
میں نے دیکھا، دیپک میری طرف بڑھتا آ رہا ہے۔ مجھے رام سنیہی کی کہانی یاد آ رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا، دیپک اب میرے پاس آ جائے گا، پھر تیز اجالا ہو گا اور یہاں بھوتوں کی برات اکٹھی ہو جائے گی۔ سارے بھوت ملکر زبردستی مجھے ہڈیاں کھلائیں گے۔
میری نگائیں دیپک پر تھیں۔ جیسے جیسے دیپک میری طرف بڑھتا آ رہا تھا، میرے اندر کا خوف غالب ہوتا جا رہا تھا۔ رام سنیہی کی کہانی اور لوگوں کی باتیں یاد آتیں، جو میرے جسم میں موجود خون کی بوند بوند کو خوف میں بدل رہی تھیں اور وہ خوف میرے پورے جسم میں گھوم رہا تھا۔
میں سمجھ نہیں پا رہا تھا، کیا کروں؟ پھر دل میں آیا، ٹیوب ویل پر بھاگ جاؤں۔ مجھے لگا ٹیوب ویل پر پہنچتے ہی بابا مجھ سے پوچھیں گے، ’’کیاریاں کاٹ آیا؟‘‘ اور میں ان کے سامنے جھوٹ نہیں بول پاؤں گا۔ پھر بھی دل میں شدید خواہش ہوئی کہ ٹیوب ویل پر بھاگ جاؤں۔ شاید میں نے بھاگنے کی کوشش بھی کی یا بھاگنے کی شدید خواہش رہی ہو گی۔ میں جیسے اپنی جگہ پر جم سا گیا تھا۔ بالکل ساکت۔ میری تمام طاقتیں جیسے آنکھوں میں سمٹ آئی تھیں اور آنکھوں ایک ٹک دیپک پر ٹکی تھیں۔
میں اپنے اندر کے خوف سے جد و جہد کرتے ہوئے اپنے آپ کو دلاسہ دے رہا تھا، ’’ بھوت ووت کچھ نہیں ہوتے۔ رام سنیہی تو روز ایسے قصے سناتے ہی رہتے ہیں، جیسے ساری دنیا کے بھوتوں نے ان سے ملنے کا ہی عہد لے رکھا ہو۔‘‘ پر وہ دیپک مجھے دکھائی دے رہا تھا اور میری طرف بڑھتا ہی آ رہا تھا۔ اس کی رفتار کے ساتھ ساتھ میرے اندر کی مزاحمت بھی کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ جو بھی ہو۔ میرے پاس راستہ نہیں تھا اور میں اپنی طاقت جمع کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔
اگر یہاں بھوتوں کی برات جٹ گئی اور رام سنیہی کی طرح انہوں نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا، تب تو ٹھیک ہے۔ اگر کوئی نقصان پہچانے کی کوشش کی، تو میں بھی چوکوں گا نہیں، پر جن اور برم دیو تو بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ کیا میں ان سے مقابلہ کر پاؤں گا؟ جو بھی ہو، اگر مرنا ہی ہے تو مقابلہ کر کے ہی مرنا چاہئے۔ پھر ایک دن سب کو مرنا ہی ہے۔ میرے ہاتھ بیلچے پر کس گئے۔ میرے اندر کا خوف قدرے کم ہو گیا۔ پر وہ ایک دم دور نہیں ہوا تھا۔ مرنے والی بات تو ٹھیک ہے، پر وہ مجھے زخمی کر کے چھوڑ گئے تو؟ نہ معلوم کب تک تکلیف جھیلنا پڑیگی۔ ہڈی پسلی ٹوٹ گئی، تو مہینوں ہاتھ پاؤں پر پلاسٹر چڑھا رہے گا۔
زخمی ہونے کے بعد جسمانی تکلیف کے تصور نے میرے اندر کے خوف کو دوبارہ بڑھا دیا۔ پر میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں برابر خود کو تسلی دے رہا تھا۔ اگر زخمی ہو گیا، تو کیا ہی کیا جا سکتا ہے؟ میں سمجھوں گا اسکول جاتے وقت کسی گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ میں روز اسکول جاتا ہوں اور واقعی میرا ایکسیڈنٹ ہو جائے، تب بھی تو مجھے تکلیف جھیلنا ہی پڑے گی۔ لوگوں کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے، طرح طرح کی بیماریاں ہو جاتی ہیں، کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ کیا وہ اسے برداشت نہیں کرتے؟
اب تک دیپک میرے اور قریب آ چکا تھا۔ میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا، ایک پرچھائیں اس کے ساتھ چل رہی ہے۔ مجھے لگا کہ وہ پرچھائیں بڑی ہوتی جا رہی ہے۔ بہت بڑی۔ ایکدم ڈراؤنی۔ بڑے بڑے ناخنوں والی۔ دانتوں کو باہر نکالے ہوئے۔ لٹیں بکھیرے ہوئے۔ پھر وہ پرچھائیں ایک بھیڑ میں بدل گئی۔ سیاہ لباس پہنے چڑیلیں اور بھوتنے اس بھیڑ میں چلے آ رہے تھے۔ دیپک مشعلوں میں بدل گیا۔ بھوت چڑیلیں ناچتے گاتے پِیرانا یعنی برات نکال رہے تھے۔ میرے کانوں میں ان کے ناچنے گانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
میں نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔ پِیرانا اب بھی مجھے دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے آنکھوں اور بھینچ لیں۔ دونوں مٹھیاں مضبوطی سے بند کر میں زمین پر بیٹھ گیا۔ میں کچھ دیر ایسے ہی بیٹھا رہا۔ پھر میں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ میں نے محسوس کیا، میرا پورا جسم کانپ رہا ہے۔ مجھے پسینہ آ رہا تھا۔ میں نے مٹھیاں کھول کر بیلچہ ہاتھ میں لے لیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
میری نگاہیں پھر دیپک کی طرف اٹھ گئیں۔ اب وہ قریب آ گیا تھا اور یہ بھی واضح ہو گیا تھا کہ وہ دیپک نہیں، ایک لالٹین تھی جسے کوئی شخص پکڑے ہوئے تھا۔ میرا پہلے والا خوف ایکدم دور ہو گیا، پر ایک الگ سا ڈر لگنے لگا۔ اس خوف سے نجات کے لیے میں نے یوں ہی بیلچہ زمین میں مارا۔ بیلچے سے مٹی کھود کر یوں ہی نالی پر رکھنے لگا، گویا وہ پھوٹ رہی ہو۔ میں نے پھر لالٹین کی طرف نگاہ اٹھائی۔
’’کون ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں ہوں، پانی لگا رہا ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’اچھا۔ اکیلا ہی ہے؟ ساتھ نہیں ہے کوئی؟‘‘
’’بھیا بابا ٹیوب ویل پر ہیں۔‘‘
’’فکر کی کوئی بات نہیں۔ پاس میں ہی بھیم سین پانی لگا رہا ہے۔‘‘
وہ گاؤں کے ہی شریف آدمی تھے اور رشتے میں میرے بھائی لگتے تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی میرا سارا خوف ایک جھٹکے میں نکل گیا تھا۔ گاؤں کا راستہ میرے کھیت سے ہو کر ہی گزرتا تھا، سو میں ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
اچانک مجھے یاد آیا، بھوت کسی واقف کار کا بھیس بنا کر بھی آ جاتا ہے اور موقع ملتے ہی حملہ کر دیتا ہے۔ اس کام میں چھروٹا بہت ماہر ہوتا ہے۔ فوری طور پر میری نگاہ ان کے پاؤں کی طرف گئی۔ ان کے پاؤں سیدھے تھے۔ میں نے سکون کی ایک لمبی سانس لی۔ لگ رہا تھا جیسے میں ایک لمبی دوڑ جیت کر آیا ہوں اور تھکا ہوا ہوں۔ میں نے یوں ہی اپنے ماتھے پر ہاتھ پھرایا اور بے حد سکون محسوس کیا۔
………
رزلٹ دیکھ کر مجھے خوشی کے ساتھ تھوڑی سی تکلیف بھی ہوئی۔ گاؤں میں یہی کافی ہے کہ آپ انٹرمیڈیٹ پاس کر جائیں۔ پھر میں نے تو فرسٹ ڈویژن کے قریب نمبر حاصل کر لئے تھے۔ تھوڑی سی تکلیف اس لئے تھی کہ اگر میں نے دو مہینوں کے بجائے تین مہینے قبل کمرہ لے لیا ہوتا، تو شاید فرسٹ ڈویژن آ سکتی تھی۔ روزانہ پینتیس کلومیٹر سائیکل چلانا اور گھر، باہر کے کام۔ کتنی بھی کوشش کرو، پھر بھی پڑھنے کے لئے وقت نکالنا مشکل تو تھا ہی۔ فرسٹ ڈویژن نہ آنے کا تھوڑا دکھ ضرور ہوا، پر اس بات کی بے انتہا خوشی تھی کہ میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔ ہاں، میرے لئے یہ اچھے نمبر تھے۔
میرے پاس آگے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ بی ایس سی کرنے کے لئے گنج ڈُوڈوارہ یا آگرہ، دو چوائس میرے پاس تھیں۔ یوں علی گڑھ بھی پاس ہی تھا، پر اس وقت وہ میرے خیال میں بھی نہیں تھا۔ گنج ڈُوڈوارہ میرے گاؤں سے قریب چالیس پینتالیس کلومیٹر دور تھا اور ریل سے پاس بنوا کر ڈیلی اپ ڈاؤن کیا جا سکتا تھا۔ میں نے وہاں ایڈمیشن کے لئے فارم بھر دیا۔ آگرے کا خیال اس وجہ سے تھا کہ مجھ سے پہلے گاؤں کے جس پہلے لڑکے نے بی ایس سی کیا، وہ آگرے سے ہی کیا تھا۔ بعد میں میرے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ مجھے آگرے بھی فارم ڈال دینا چاہئے اور اگر آگرے میں ایڈمیشن مل جاتا ہے، تو وہی لینا چاہئے۔ در اصل گنج ڈُوڈوارہ میں غنڈہ گردی بہت تھی اور طلباء آئے دن گولی چلاتے رہتے تھے۔ میں نے دوست کی نصیحت مان کر آگرے کا فارم بھی ڈال دیا۔
مجھے آگرہ کالج سے ایڈمیشن کیلئے کال لیٹر ملا، تو میری خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ ایڈمیشن فارم بھرنے جب میں پہلی بار آگرہ گیا تھا، تو اتنا بڑا اور خوبصورت کالج میرے تصور کی دنیا میں بھی کبھی نہیں رہا تھا۔ ایسے کالج میں پڑھنے کا تصور میرے ذوق کی تسکین کو پوراکر دینے کے لئے کافی تھا۔
میں نے بی ایس سی میں ایڈمیشن لے لیا۔ ایڈمیشن لے کر میں واپس گاؤں لوٹ آیا تھا۔ باقاعدگی سے کلاسیں یکم اگست سے شروع ہونا تھیں اور ابھی میرے پاس بارہ دنوں کا وقت تھا۔ اس سے مجھے بندوبست کرنے میں بہت سہولت ہوئی۔ ہاسٹل تو بعد میں ہی الاٹ ہو گا، ابھی تو رہائش کا انتظام بھی کرنا تھا۔ میرا یہ مسئلہ حل ہو گیا۔ گاؤں کے رشتے سے ایک پھوپھی کا آگرہ میں مکان تھا۔
اکتیس جولائی بھی آ گئی۔ مجھے اگلے دن آگرہ کے لئے نکلنا تھا۔ میں سارا دن دوستوں سے ملتا رہا۔ پتہ نہیں، اب کتنے دن بعد لوٹناہو گا۔ شام کو میں کھیتوں کا چکر لگا کر واپس آ رہا تھا کہ چبوترے پر جگتی تائی بیٹھی دکھائی دیں۔ میں ان کے پاس رک گیا۔ وہ بولیں، ’’ ہم نے سنا ہے تو آگرہ جا رہا ہے پڑھنے کو؟‘‘
’’جی ہاں تائی۔ میں صبح نکلوں گا۔‘‘ میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔
’’اتنی دور؟ ایسی کیسی پڑھائی ہے تیری، جو کاس گنج میں نہیں ہے؟‘‘
میں نے انہیں سمجھایا، ’’کاس گنج میں سائنس نہیں ہے۔ میں سائنس پڑھ رہا ہوں۔‘‘
’’اچھی بات۔ ایشور کرے خوب ترقی کرو۔ پڑھو لکھو، پڑھ لکھ کر افسر بنو۔ ماں باپ کا، گاؤں کا نام روشن کرو۔‘‘ جگتی تائی بے حد مہربان ہو اٹھیں اور انہوں نے ڈھیر ساری دعائیں مجھے دے دیں۔ وہ لمحے بھر کو خاموش رہیں۔ پھر بولیں، ’’ گاؤں میں رکھا ہی کیا ہے؟ چار چھ بیگھہ کھیت ہوتے تھے، وہ بھی بنٹ گئے۔ یہی حال رہا تو مزدوری ملنا بھی مشکل ہو جائے گی لوگوں کو۔ اچھا ہے جو یہاں سے نکل جائے۔‘‘
میں نے جگتی تائی کو غور سے دیکھا۔ وہ بے حد کمزور ہو گئی تھیں۔ بالکل سوکھ کر کانٹا۔ بمشکل ان کا وزن تیس بتیس کلو رہ گیا ہو گا۔ لوگ ان کے پیچھے کہتے تھے، اب وہ زیادہ جئیں گی نہیں۔ پتہ نہیں کیوں، مجھے بھی آج ایسا ہی لگ رہا تھا۔ مجھے ان سے بہت ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔ من کر رہا تھا، پوری رات ان کے پاس ہی بیٹھا رہوں۔
مجھے سامان پیک کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ انڈرویئر، بنیان، تولیہ، دو جوڑے کپڑے اور کچھ چھوٹی موٹی چیزیں، سب ایک سوٹ کیس میں آ گیا۔ ممی کو مزید تیاری کرنی پڑی۔ وہ سارا دن تیاری میں مصروف رہی تھیں۔ ایک بیگ میں انہوں نے تل کے لڈو بنا کر رکھ دیے۔ ڈبے میں گھی بھر دیا۔ اس وقت وہ دودھ کا کھویا بنا رہی تھیں۔ صبح سات بجے مجھ پسنجر ٹرین سے آگرہ کے لئے نکلنا تھا۔ بارہ بجے تک ممی نے سب کچھ تیار کر کے رکھ دیا۔ اب صبح اٹھ کر کھانا پکانا باقی رہ گیا تھا۔
میں چند روز پھوپھی جی کے یہاں رہا۔ بعد میں، میں نے نیو آگرہ میں ایک چھوٹا سا اور سستا سا کمرہ تلاش لیا۔ مالک مکان اپنے خاندان کے ساتھ نیچے رہتا تھا۔ میرا کمرہ اوپر تھا۔ میری دائیں طرف والے دونوں کمرے کسی کرایہ دار کے انتظار میں خالی پڑے تھے۔ دوسری طرف والے کمرے میں اپنے دو بچوں کے ساتھ ایک استاد رہتے تھے۔ جیسے ہر شخص کی شخصیت کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، استاد انکل کی بھی تھیں۔ وہ عمدہ رویے والے اور میٹھا بولنے والے تھے، لیکن ان کی ایک خصوصیت اور بھی تھی۔ وہ خود سے منسلک واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر تے تھے اور وہ گفتگو کے دوران ہی کوئی بھی کہانی بنا نے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے بچے بھی ان کے پیچھے کہتے تھے، ’’پاپا بھی جانے کہاں کہاں کی گپ چھوڑتے رہتے ہیں۔‘‘ یہ ایک الگ بات تھی کہ بچے خود بھی اس فن میں ماہر ہو گئے تھے۔ وہ پاس کے ہی کسی گاؤں کے تھے۔ وہ شام کو گھر چلے جاتے تھے اور ان کے بچے کمرے پر رہ جاتے تھے۔ کبھی کبھی وہ بھی کمرے میں رک بھی جاتے تھے۔ جس دن وہ رکتے تھے، اس دن میری ان کے ساتھ ملاقات ہو جاتی تھی۔ جب انہیں اپنی کوئی بات پکی کرنی ہوتی تھی، تبھی وہ گپیں مارتے تھے، ورنہ ان کی گفتگو اچھی اور کبھی کبھی متاثر کن ہی ہوتی تھی۔
انکل نے مجھے بتایا تھا کہ اس مکان میں مالک مکان کے باپ کا بھوت رہتا ہے۔ ان کا دعوی تھا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اسے کئی بار دیکھا ہے۔ چھت پر جھاڑو لگاتے، لیٹرین میں پیشاب کرتے۔ انہوں نے اس کے بارے میں دوقصے بتائے۔ پہلا یہ کہ اس نے ایک بار ان کے بڑے بیٹے کا گلا دبا دیا تھا۔ دوسرا یہ کہ میرے برابر والے کمرے میں کوئی سکسینہ رہتا تھا، مالک مکان کے بھوت کو اس نے اور اس کی بیوی نے دیکھا تھا۔ اس کے بیوی بچے بیمار رہتے تھے۔ تمام ڈاکٹروں سے علاج کرانے کے باوجود وہ اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوئے، جب تک کہ انہوں نے یہ کمرہ خالی نہیں کر دیا۔ انہوں نے اس سے بچاؤ کے کچھ انتظامات بھی کر رکھے تھے۔
میں کئی بار چھت پر بالکل تنہا رہا تھا، پر مجھے کبھی کوئی بھوت نظر نہیں دیا۔ انکل جی بولتے تھے کہ اگر میں رات میں دو بجے نیچے لیٹرین کرنے جاؤں، تو مجھے مالک مکان کا بھوت ضرور دکھائی دے گا۔ میں کئی بار گیا، پر مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا۔
اس دن انکل جی گاؤں گئے ہوئے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے، اس لیے ان کے دونوں بیٹے باہر بستر لگائے ہوئے تھے۔ پڑوس کے دو لڑکے مزیدآ گئے تھے اور وہ سب مل کر گپ بازی کر رہے تھے۔ مجھے کچھ تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی اور ان کی آوازیں بھی آ رہی تھیں، اس لئے میں پڑھائی پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہا تھا۔ کچھ پڑھنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ لہذامیں بتی بند کر کے سو گیا۔
روزانہ کی طرح اس دن بھی میں ساڑھے چار بجے اٹھ گیا۔ دستور کے مطابق میں نے بالٹی، صان دانی اور کپڑے اٹھائے اور باتھ روم کو چل دیا۔ در اصل پورے مکان کے لئے کامن لیٹرین، باتھ روم تھے اور وہ نیچے تھے۔ باہر دیکھا، پوری چھت خالی ہے۔ رات انکل جی کے دونوں بیٹے باہر سو رہے تھے، وہ کہاں گئے؟ میں سوچ ہی رہا تھا کہ چھت کے ایک کونے سے کھڑکھڑ کی آواز آئی۔ میں نے غور سے دیکھا، کوئی انسان مجھے بیٹھا دکھائی دیا۔ کچھ لمحے میں اسے غور سے دیکھتے ہوئے کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر میں نے پوچھا، ’’ کون ہے؟‘‘
’’پاس آ کے دیکھ لو۔‘‘ وہ کسی عورت کی آوازتھی۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
میں نے دوبارہ پوچھا، ’’ کون ہے؟‘‘
’’پاس آ کے دیکھ لو۔‘‘ اس نے پھر وہی جواب دہرایا۔
میں شک میں پڑ گیا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا، کیا کروں؟ خاموشی سے سیڑھیاں اتر کر روزانہ کا کام نبٹاؤں یا پتالگاؤں کہ یہ عورت کون ہے اور یہاں کیا کر رہی ہے؟ وہ دونوں لڑکے باہر سو رہے تھے، اندر کیوں چلے گئے؟ کچھ دیر تک میں ساکت سا کھڑا رہا۔ پھر میں نے مالک مکان کو آواز دی، ’’ انکل جی۔‘‘
’’انکل جی کو کیا بلاتے ہو، انہوں نے تو مجھے بلایا ہی ہے۔‘‘ وہ بولی۔
اب مجھے تھوڑا ڈر سا لگنے لگا۔ میں گیارہ بجے سویا تھا۔ گیٹ ساڑھے نو دس تک بند ہو جاتا ہے۔ رات کو میں نے ان دونوں لڑکوں کو باہر گپیں لگاتے چھوڑا تھا۔ پھر یہ عورت کس طرح اندر آ گئی؟ یہ یہاں بیٹھی بیٹھی کیا کر رہی ہے اور مجھے الٹے سیدھے جواب کیوں دے رہی ہے؟ میں نے سنا تھا، مکان مالکن کی ماں تانترک ہے۔ اوربیٹی کے لئے تنتر منتر کراتی رہتی ہے۔ کہیں مکان مالکن نے ہی تو تنتر منتر کے لئے اسے نہیں بلایا ہے؟
شاید مالک مکان نے میری آواز سنی نہیں۔ میں کمرے سے ماچس نکال کر لایا۔ میں نے تیلی جلا کر دیکھا۔ دور سے صرف اتنا جان پایا، کوئی عورت ہے جو فرش پر کپڑا بچھائے بیٹھی ہے اور کپ کوفرش سے رگڑ رہی ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے نیچے جانے سے پہلے کمرے کا تالا لگانا مناسب سمجھا۔ میں سامان اٹھا کر نیچے چلا گیا۔ میں نہانے دھونے کا اپنا کام کرتا رہا، پر دماغ اس عورت میں ہی اٹکا تھا۔ نہ جانے کیسے کیسے خیال میرے ذہن میں آتے رہے۔
صبح جب اجالا ہو گیا، تو میں نیچے گیا۔ وہ عورت لوگوں کے درمیان بیٹھی تھی اور لوگ اس سے ٹھٹھولی کر رہے تھے۔ مجھے مالک مکان نے بتایا، ’’یہ نیچے والے کرایہ دار کی بہن ہے اور دماغ سے کچھ گڑبڑ ہے۔ رات برات جہاں منہ اٹھ جائے، کبھی بھی اور کسی بھی رشتہ دار کے یہاں چل دیتی ہے۔ ایک ڈیڑھ بجے رات کو گیٹ کھٹکھٹا رہی تھی، تو میں نے اندر بلا لیا۔‘‘
اسکول کی دو دن کی چھٹی تھی، اس وجہ سے انکل جی گاؤں سے نہیں لوٹے تھے۔ اگلے دن شام کو جب انکل جی لوٹے تو رات کو چھت پر محفل جم گئی۔ چھوٹے لڑکے نے چھیڑا، ’’ پاپا رات یہاں ایک ڈائن آ گئی تھی، جس نے بھائی صاحب کو ڈرا دیا۔‘‘ بات شروع ہوئی تو بچوں نے پوری کہانی انہیں سنا دی۔ بالآخر گفتگو بھوت پریتوں کی کہانی پر آ ٹکی۔
’’اب کیا بتائیں تمہیں۔ تم تو بحث کرتے ہو۔ اگر کبھی گاؤں چلتے، تو تمہیں اپنی آنکھوں سے دکھاتے۔‘‘ انکل جی تھوڑا ٹھہرے۔ پھر بولنا شروع کیا، ’’ ہمارا باغ ہے گاؤں میں۔ اس میں ایک آم کا درخت ہے۔ اس پر بھاری جن رہتا ہے۔ اس طرف گاؤں کا کوئی شخص جھانک نہیں سکتا۔ کئی بار لوگ گئے ہیں، کبھی پتے توڑنے، کبھی لکڑی توڑنے، تو کبھی آم توڑنے۔ پر مجال کیا ہے جو کوئی ہاتھ بھی لگا آئے۔ بہت سے نیچے گر گئے۔ بہتوں کو پٹخنیاں لگیں۔ مہینے بھر پہلے کی بات ہے۔ گاؤں کا ہی ایک موڑا، ہوَن کے لئے خشک لکڑی توڑنے درخت پر چڑھ گیا۔ بتا رہا تھا، ایسا لگے کوئی ڈال پکڑ کر ہلا رہا ہے۔ آخر نیچے آ گرا، پر لکڑی نہیں توڑ نہیں پایا۔‘‘
’’آپ نے اسے دیکھا ہے؟‘‘ میں نے یوں ہی پوچھا۔
’’خوب۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں یقین تھا۔
’’کیسا لگتا ہے؟‘‘
’’اب کیا بتائیں، کیسا لگتا ہے۔ گاؤں چلو، تو تمہیں آنکھوں سے خود دکھا دیں۔‘‘
’’رات میں ظاہر ہوتا ہے یا دن میں؟‘‘
’’رات میں بھی دکھائی دے گا اور دن میں بھی۔ آپ بیچ دوپہر ادھر جاؤ گے، توپتوں پر لیٹا دکھائی دے گا۔‘‘
’’بھائی صاحب تو بھوت کو مانتے ہی نہیں ہیں۔‘‘ چھوٹے لڑکے نے پھلجھڑی چھوڑی۔
شاید لڑکا بھوتوں کے قصے سننے کے موڈ میں تھا۔ اسے اس ٹِرک کا پتہ تھا کہ اس کے ایسا کہنے کے بعد پتاجی ابھی کوئی بھوت کی کہانی چھیڑ دیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ وہ سمجھانے لگے، ’’ کبھی پالا نہیں پڑا ہے، اس لئے نہیں مانتے ہیں۔ لیکن ماننا چاہیے۔ پہلے ہم بھی نہیں مانتے تھے۔ جب ہماری آنکھوں کے سامنے ایسے واقعات ہوئے تو ماننے لگے۔‘‘ انکل جی تھوڑا رک کر کوئی واقعہ سوچنے لگے۔‘‘ ہمارے گاؤں میں ایک لڑکا ہے۔ دودھ ڈالتا ہے۔ ایک دن دودھ ڈالنے جا رہا تھا۔ تھوڑا لیٹ ہو گیا۔ دیکھتا کیا ہے، راستے میں سفید دھوتی کرتہ پہنے بابا جی کھڑے ہیں۔ لمبی سی داڑھی۔ ڈر کے مارے اس کی حالت خراب۔ بابا جی نے ایک گلاس دیا۔ بولے ایک گلاس دودھ چاہئے۔ ڈرتے ڈرتے اس نے ایک گلاس دودھ نکالا۔ ڈیری پر جا کر دیکھتا کیا ہے، ٹنکی میں پانچ لیٹر دودھ بڑھ گیا۔ دوسرے دن ڈر کے مارے اس نے راستہ بدل لیا۔ وہاں بھی وہی بابا جی کھڑے ملے۔ بولے، تو نے راستہ کیوں بدل لیا۔ خوف کی کوئی بات نہیں ہے، اسی راستے سے آیا کر۔ انہوں نے گلاس دیا اور بولے دونوں ٹنکیوں میں سے ایک ایک گلاس دودھ نکالو۔ ڈیری پر جا کر دیکھا، دونوں ٹنکیوں پانچ پانچ لیٹر دودھ بڑھا ہوا ہے۔ گھر میں دو وقت کا کھانا مشکل تھا۔ آج پکا مکان بنوا رہا ہے۔‘‘
انکل جی کہانی پوری کر کے رکے۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر بولے، ’’ پتاجی بتاتے تھے، پہلے یہاں ایک جن قابو کرنے والا رہتا تھا۔ وہ مر گیا۔ گاؤں کے باہر آدھے کلومیٹر تک پگڈنڈی ہے، وہی اس کا مسکن ہے۔ سفید دھوتی کرتہ اور لمبی سفید داڑھی میں بہت سے لوگوں نے اسے دیکھا ہے۔ اگر کسی پر مہربان ہو جائے، تو اس کے کہنے ہی کیا۔‘‘ انکل جی مکمل طور پر پریقین تھے، ’’ میں تو کئی بار وہاں سے گزرا ہوں۔ بہت بار منت مانگی ہے۔ مل جائے۔ مل جائے۔ پر وہ کہاں ملنے والا ہے۔ ہاں ایک دن ضرور تھوڑی جھلک ملی تھی۔ میں آگرہ سے گھر جا رہا تھا۔ لیٹ ہو گیا تھا، سو اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا۔ کچھ کچھ اندھیرا ہو گیا تھا اور گاؤں تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا۔ دیکھتا کیا ہوں، وہی داڑھی والا میرے برابر میں چل رہا ہے۔ ڈھائی تین سو گز ساتھ ساتھ چلا۔ میں من ہی من دعا مانگ رہا تھا، کچھ بولے، کچھ بولے۔ پر بیٹی چو … آخر تک کچھ نہیں بولا۔‘‘
میں چپ تھا۔ بچوں میں سے کوئی تجسس ظاہر کر رہا تھا، تو کوئی ٹھٹھولی کر رہا تھا، ’’ آپ اس کی داڑھی پکڑ لیتے، اپنے آپ بول دیتا۔‘‘
انکل جی نے ان کی ٹھٹھولی پر توجہ نہیں دی۔ وہ سنجیدگی سے مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’ یہ بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ اگر انہیں قابو کر لو، تو جی میں آئے وہ کرا لو۔ اگر بگڑ جائیں تو آدمی کو ملیامیٹ کر دیں۔‘‘
پتہ نہیں، کس بچے نے کیا بات چھیڑ دی کہ انکل جی نے ایک اور کہانی سنانی شروع کی، ’’ا یسے ایسے علم ہیں کہ یہاں سے پڑھ کے پھونک مار دیں، تو سو کوس پر بیٹھا آدمی مر جائے۔ ایک بار ہم بیٹھک پر بیٹھے تھے۔ بھگت جی، میں اور دو تین آدمی اور تھے۔‘‘
’’آپ کے گاؤں میں بھی بھگت جی ہیں؟‘‘ میں نے بیچ میں ٹوکا۔ مجھے اپنے گاؤں کے بھگت جی کی یاد آ گئی۔
’’بھگت جی کس گاؤں میں نہیں ہیں؟ وہ تو ہر گاؤں میں ہوتے ہیں۔ جب مسئلے مسائل ہر گاؤں میں ہیں، بھوت پریت ہر گاؤں میں ہیں، تو بھگت جی بھی ہر گاؤں میں ہیں۔ ہمارے گاؤں میں تو چار بھگت ہیں۔‘‘ انکل جی نے میری بات کا جواب دیا۔
’’پھر آپ لوگ، بھگت جی کے پاس بیٹھے تھے، پھر۔۔ ۔؟‘‘ درمیان میں آئی رکاوٹ سے اکتاکر ایک بچہ بولا۔
’’ہم سب بھگت جی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ دیکھتے کیا ہیں، مشعل سی چلی آ رہی ہے۔ ہم حیرت سے دیکھ رہے تھے، یہ کیا ہے اڑن طشتری سی؟ بھگت جی بولے، ’’کسی نے جوگا کے لئے مٹکی پڑھ کر بھیجی ہے۔‘‘ بھگت جی نے زمین پر لکیریں کھینچ کر اپنا تنتر کاٹا۔ مٹکی وہی ٹھہر گئی۔ ٹھہرے ٹھہرے دیر ہو گئی۔ بھگت جی اپنا تنتر منتر کرتے رہے۔ پھر وہ الٹی لوٹ گئی اور گاؤں کے باہر ایک نیل گائے کے اوپر گری۔ ہم نے بھگت جی کو چھوکر دیکھا، قمیض پسینے سے ایسی بھیگی ہوئی تھی، جیسے ابھی نہا کر آئے ہوں۔ جوگا اسی دن سے ٹھیک ہونے لگا۔ مہینوں سے بیمار تھا۔ بھگت جی کے پاس آیا تھا، تو انہوں نے بتایا تھا، ’’ تیرے اوپر تنتر کیا ہوا ہے۔ جب تک وہ نہیں کٹے گا، تو ٹھیک نہیں ہو سکتا۔‘‘ سب علاج کرایا پر ٹھیک نہیں ہوا۔ آج جوگا بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
میں نے گھڑی دیکھی۔ بارہ بجنے والے تھے، ’’اچھا انکل جی اب سوتے ہیں۔‘‘
انکل جی اس سے پہلے کے نئی کہانی شروع کرتے، میں اٹھ کھڑا ہوا۔ کپڑے بدل کر میں نے کنڈی لگائی اور بتی بجھا کر لیٹ گیا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں، پر میری آنکھوں میں سفید داڑھی والا آدمی، مٹکی اور نہ جانے کیا کیا گھوم رہا تھا۔
میں آنکھیں بند کر کے ہر طرف سے توجہ ہٹا کر سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ یکایک میرا دماغ سُن پڑ گیا۔ میں نے بغیر تاخیرکئے اٹھ کربتی جلانی چاہی، پر اٹھ نہ سکا۔ میں چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پورے کمرے میں نظر دوڑائی۔ میں خوف کو ایک طرف جھٹکنے کی کوشش کرنے لگا۔ پہلے سوچا اٹھکر بتی جلا دوں، پھر کسمسا کر لیٹ گیا۔ مجھے اپنی جرات پر شرمندگی ہوئی، آخر میں اتنا کیسے ڈر گیا؟ لیکن وہ تھا کیا؟ میں پورے ہوش و حواس میں تھا۔ آنکھیں بند ضرور تھیں، پر میں نیند میں نہیں تھا۔ وہ ہلکا لمس نہیں تھا۔ اتنا گہرا تھا کہ میں ابھی تک اپنی چھاتی پر اسے محسوس کر رہا تھا۔ کنڈی لگی ہوئی ہے، پھر کوئی اندر کیسے آ سکتا ہے؟ نہیں، یہ میرے دماغ کاوہم نہیں تھا۔ پھر کون تھا؟میں لیٹا ہوا تھا پر آنکھیں کھلی تھیں۔ میں سامنے دیوار کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے دیکھا، نالی سے دو آنکھیں چمک رہی تھیں۔ میں نے اٹھ کر اینٹ سے نالی بند کی تاکہ بلی کے بچے دوبارہ کمرے میں نہ آ سکیں۔ میں نے آنکھیں بند کیں اور جلد ہی مجھے نیند آ گئی۔
………
تین ماہ سے میں گھر نہیں جا پایا تھا۔ ممی کا خط موصول ہوا تھا کہ دیوالی پر دو دن پہلے گھر آ جاؤں۔ میں نے فیصلہ کیا، پورے ہفتے گھر پر رہوں گا۔ تین مہینوں سے میں صرف پڑھائی میں مصروف رہا تھا، اس لئے پڑھائی کی باتیں ہی میرے دماغ میں تھیں۔ میں نے گھر پر پڑھنے کے لئے فزیکل کیمسٹری کی کتاب رکھ لی۔ یکم نومبر کو میں گھر پہنچا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا، جیسا میں چھوڑ کرگیا تھا۔ اگر کچھ بدلا تھا، تو یہ کہ اُس وقت کھیتوں میں مکئی اور جوار کی فصلیں بوئی جا رہی تھیں اور اب گندم کی بوائی کی تیاری کی جا رہی تھی۔ گھروں میں صاف صفائی کا کام چل رہا تھا۔ اتنے دنوں کے لئے میں پہلی بار گھر سے الگ رہا تھا۔ سو ماں مجھے دیکھتے ہی رو پڑیں۔ آج کی ساری شام دوستوں اور گاؤں والوں سے ملنے جلنے میں نکل گئی۔ رات کو ممی نے اگلے دن کے لئے کچھ ضروری کام بتائے۔ گندم کی ایک پرانی نسل کے بیج گھر میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک ٹکڑے میں اسی کو بو دیں گے۔ دوسرے کے لئے کل چودھری سے بیج لینا ہے۔ اس بار چودھری نے نئی نسل بوئی تھی۔ اس سے پیداوار اچھی ہوئی تھی۔ کئی لوگوں نے ان سے ہی بیج لیا ہے۔ یوریا بھی لانا ہے۔
میں شام کو کھاد لے کر واپس آ رہا تھا۔ ہلکا اندھیرا ہونے لگا تھا۔ جگتی تائی کے گھر کے سامنے بھیڑ لگی تھی۔ میں نے کھاد کی بوری آنگن میں پٹخ کر سائیکل دیوار کے سہارے کھڑی کر دی۔ میں تیزی سے جگتی تائی کے گھر پہنچا۔ ان کی طبیعت خراب تھی اور ڈاکٹر بلرام ان کو بوتل لگا رہے تھے۔ وہ ہوش و حواس میں نہیں تھیں۔ ساری عورتیں انہیں گھیرے کھڑی تھیں۔ میں نے ایک نظر ان پر ڈالی اور باہر آ گیا۔ لوگ اندر جگتی تائی کو دیکھنے جاتے اور باہر آ کر چبوترے پر جمع ہو جاتے۔ بے حداداس سے سجان، لوگوں سے گھرے ہوئے تھے۔ میں خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گیا۔
’’اپنی طرف سے تو کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ قصبے کے تمام ڈاکٹروں کو دکھا دیا۔‘‘ سجان کے چہرے پر درد ابھر آیا۔ تھوڑا رک کر وہ آگے بولے، ’’ جس نے جہاں کہا، وہاں دکھایا۔ کسی نے کہا سرکاری ہسپتال میں اچھا ڈاکٹر آ گیا ہے۔ بہت قابل ہے۔ تین چار دن روز بھاگے، تب تو اسے پکڑ پایا۔ یہ ٹیسٹ کراؤ۔ کاس گنج میں ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ پورے دن کا جھمیلا۔ ایک دن ٹیسٹ بھی کرا کے لائے۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔ کہہ رہا تھا ایک سال علاج چلے گا۔ دوائیں کچھ ہسپتال سے مل جائیں گی، کچھ باہر سے خریدنی پڑیں گی۔ اتنی مہنگی دوائیں۔ سال بھر تک علاج چلے گا۔ مریض ٹھیک ہو جائے گا، اس وقت بھی پورے ایک سال تک علاج چلے گا۔ ہماری تو عقل نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔‘‘ بے بس سجان مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ چکے تھے۔
ست پال نے ہمدردی ظاہر کی، ’’ ڈاکٹر کی سمجھ ہے۔ دوا لگے کی ہے۔ ہاتھ جس کی بات ہے۔ کسی کسی کا ہاتھ ایسا ہوتا ہے کہ دو خوراک میں مریض ٹھیک ہو جائے۔‘‘
’’بھیا تم نے بالکل سچی بات کہی۔ اصل بات تو یہی ہے۔ دوا لگے کی ہے۔ بڑے بڑے علاج سے آدمی ٹھیک نہ ہو اور ہاتھ جسے ہے، تو آدمی راکھ پڑھ کے دے دے، اس سے ٹھیک ہو جائے۔ ہماری سکھیا کو ہی دیکھ لو۔ داماد آگرہ، دہلی، دنیا جہان میں علاج کرا لائے۔ ٹھیک ہوئی تو کمل کی دوا سے۔‘‘ چیت رام نے ست پال کی بات کی حمایت کی۔
ست پال نے ان کی بات آگے بڑھائی، ’’ چھوٹی سی بیماری بڑے بڑے ڈاکٹر نہ پکڑ پائیں اور ایک معمولی سا ڈاکٹر پکڑ لے۔‘‘
بال کشن نے اپنے فلسفیانہ انداز میں تشریح کی، ’’ اتنا بڑا جسم ہے۔ اگر مشین میں ایک چھوٹاسا نٹ ڈھیلاہو جائے، تو مشین فیل ہو جاتی ہے۔ جسم بھی ایک مشین ہی ہے۔ بنانے والے نے تو بنا کے کھڑی کر دی۔ آدمی کی تو یہ ہے کہ جتنا اُگھاڑ کھول کے دیکھ پایا، دیکھ لیا۔ جتنا سمجھ پایا ہے، سمجھ لیا۔ ایک سے ایک نازک اور ایک سے ایک چھوٹا پرزہ ہے اس مشین میں۔ آنکھ کو ہی دیکھو۔ چھوٹا سا شیشہ ہے پردنیاجہان سما جاتا ہے اس میں۔‘‘
’’اور نہیں تو کیا۔ ایک آنکھ میں پورا آدمی دکھائی دیتا ہے۔ کسی کی آنکھ کے سامنے کھڑے ہو جائیں، آپ پورا اپنا فوٹو دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ آنکھ کی بات چلی تو چمپت نے بھی اس کی اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کر دیئے، لیکن بال کشن اپنے خیالوں سے اس کی مطابقت بٹھا نہیں پا رہے تھے، اس لئے انہوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔
سب لوگ خاموش تھے۔ لمحے بھر کے لئے سناٹا چھا گیا۔ اسے شری پال نے توڑا۔ شری پال گاؤں کے واحد ایم اے پاس تھے۔ پڑھے لکھے کی وجہ تو تھی، مگر ان کی بات اسلئے بھی موثر مانی جاتی تھی کہ وہ سنجیدہ گفتگو میں بھی بیچ بیچ میں کھڑی بولی کا استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے طب کے بارے میں اپنے خیالات لوگوں کے سامنے رکھے، ’’ سچ تو یہ ہے کہ قصبے میں جھولا چھاپ دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ یہ نہیں جانتے شریر کے بارے میں کچھ بھی۔ دو چار مہینے کہیں کمپوڈری کی اور بن گئے ڈاکٹر۔ میں کبھی ان سے دوا نہیں لیتا۔ سیدھا کاس گنج جاتا ہوں۔‘‘ شری پال اپنی بات کا آدھا حصہ ختم کر کے رکے۔
جیسی کہ تمام لوگوں کی سمجھ ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ ایلوپیتھی ہی علاج کراتے تھے، پر اہمیت آیور ویدک کی بتاتے تھے اور تمام لوگوں کی طرح ایلوپیتھی کو کبھی بھی گرا دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی بات پوری کی، ’’ ایلوپیتھی آرام تو فوری طور پر دیتی ہے۔ پر اس کے ساتھ دقتیں بھی بہت ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس جاؤ بیماری کیا ہے، کیسے ہوئی، کب ہوئی سب پوچھ لیں گے۔ پھر سب ٹیسٹ ہیں۔ تب جا کر دوا لکھیں گے۔ دوا کے اپنے سائیڈ ایفیکٹ ہیں۔ میں تو ہمیشہ ایم بی بی ایس ہی سے دوا لیتا ہوں، اسی لئے سب جانتا ہوں۔ پر کیا کیا جائے اور کچھ چارہ ہی نہیں ہے۔‘‘ شری پال نے اپنی بات کا دوسرا حصہ مکمل کیا اور آخر میں وہ اپنے سب سے اہم خیالات پر آئے، ’’ پہلے وید ہوا کرتے تھے۔ بس نبض دیکھتے تھے اورساری بیماری معلوم کر لیتے تھے۔ نبض دیکھ کر یہ تک بتا دیتے تھے کہ آدمی کیا کھا کر آیا ہے۔ پر آدمی کیا کرے، اب ویسے وید رہے نہیں اور اس ایلوپیتھی کی پناہ میں جانا پڑتا ہے۔‘‘
’’نبض سے تو ساری بیماریاں جڑی ہی ہیں۔ اگر آدمی نبض دیکھنا سیکھ جائے تو سمجھ لو وید ہو گیا۔‘‘ نبض کی بات چلی تو چمپت نے اس کی اہمیت بتائی۔
’’ویدوں کا مقابلہ آج کے ڈاکٹر کیا کر پائیں گے۔ وید تو ایسے ہوتے تھے کہ موت دیکھ کے بیماری بتا دیتے تھے۔ بتاتے ہیں پپریا میں ایک وید تھے۔ کوئی شخص شیشی میں بھینس کا موت بھر کر لے گیا۔ دیکھتے ہی وید جی بولے، بھلی چنگی ہے۔ خوب دانا چارہ کھا رہی ہے اور خوب دودھ دے رہی ہے۔‘‘ ست پال نے ویدوں کی مہارت کا قصہ سنایا، تو کچھ لوگ ہنسنے لگے۔
سجان کے چہرے پر ہنسی نہیں آئی۔ وہ گم سم خلامیں گھورتے رہے تھے۔ بڑے کاکا نے یہ محسوس کیا۔ جتنے لوگ اتنی سوچیں۔ بات شروع کر دیں، تو بات سے بات نکلتی چلی جائے گی۔ لوگ بھول ہی جاتے ہیں کہ یہاں کسی کے دکھ میں کھڑے ہیں۔ اداس لہجے میں انہوں نے پوچھا، ’’ بہو کیسی ہے؟‘‘
سجان اپنی سوچوں سے لوٹ آئے، ’’ ابھی بلرام نے دوا دے دی ہے۔ کہہ رہے ہیں حالت میں بہتری ہے۔ باقی اوپر والا جانے۔‘‘ آواز ان کے روندھے گلے میں پھنس کر رہ گئی۔ انہوں نے ہلکے سے گلے کو کھنکھارا۔
بڑے کاکا نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی، ’’ ہمت رکھ۔ اوپر والا سب ٹھیک کرے گا۔‘‘
’’گھر میں ایک ہنسلی ہے۔ کل سب سے پہلے اسے بیچ کر پیسے کا انتظام کریں گے۔ پھر کاس گنج لے جائیں گے۔‘‘ سجان دل کی بات ہونٹوں تک لانے کی کوشش کر رہے تھے، پرآواز گلے میں ہی پھنس جا رہی تھی۔
’’بھگت جی کیا کہتے ہیں؟‘‘ بال کشن نے پوچھا۔
’’کہتے کیا ہیں۔‘‘ سجان نے جیسے ان کی بات کا جواب نہ دیا ہو اور یوں ہی لفطوں کو اچھال دیا، ’’ برم دیو ہیں، چڑیل ساتھ میں ہے۔ خود تو کچھ نہیں کرتے، ڈائن کو شہ دے دیتے ہیں۔ وہی دوا نہیں لگنے دے رہی۔ جب تک اس کا انتظام نہیں ہو گا، کوئی دوا کام نہیں کرے گی۔ کہہ رہے تھے، پرسوں مندر پر تھالی بجے گی، اسی میں تمہارا بھی انتظام کر دیں گے۔‘‘ ان کے لہجے میں گہری بے یقینی صاف عیاں تھی۔ لگتا تھا ان کا سب باتوں سے اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔
پھر امید کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے۔ ’’ کچھ نہیں کہہ رہے ہیں بھگت جی۔ تمہیں علاج کرانا ہے، تو کل سیدھا کاس گنج لے جاؤ۔ نہ کوئی برم دیو ہے، نہ کوئی چڑیل ہے۔ سب ڈھونگ بازی ہے اور کچھ نہیں۔‘‘ رمیش کو لوگ اجڈ کہتے ہیں۔ ایک بار پانی لگاتے ہوئے، سیاہ اندھیری رات میں تازہ جلی لاش کے پاس آگ تاپتا رہا اور رات بھر اس سے بیڑی جلا کرپیتا رہا۔ کہتے ہیں جو نہیں مانتا ہے، اس سے بھوت بھی ڈرتے ہیں۔
سجان نے اس کی بات کا برا نہیں مانا، بولے، ’’ پتہ نہیں ہوتے ہیں کہ نہیں ہوتے ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں تو مان لیتے ہیں۔ کل کاس گنج تو لے ہی جائیں گے۔ انہیں جو کرنا ہے، وہ کریں۔‘‘
’’جب گھِنّی اٹکتی ہے اچھے اچھے پانی مانگ جاتے ہیں۔‘‘ بال کشن نے رمیش کو نشانہ بنایا۔
رمیش بھی کہاں دبنے والا تھا۔ فوری طور پر جواب دیا، ’’اٹک گئی گھِنّی۔ آج تک نہیں اٹکی تو اب کیا اٹکے گی۔ ہم سے کہو، اُسی تھان پہ چار جوتا لگا دیں۔ نہ گھِنّی اٹکے گی، نہ گھِنّا اٹکے گا۔‘‘
پتہ نہیں، بال کشن پر اس کا کہا کیامعنی رکھتا تھا، پر چمپت ایکدم پر جوش ہو اٹھا، ’’ اتنے ہی بڑے تیس مار خان ہو تو پوکھر والے پیپل پر پیشاب کے ہی دکھا دو۔‘‘
’’چلو، ابھی چلو پیشاب کر کے دکھاتے ہیں۔‘‘ رمیش اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
ست پال نے بات سنبھالی، ’’ بیکار کی باتیں کیوں کر رہے ہو؟ایں؟ ان باتوں سے کوئی فائدہ نکالتا ہے؟ پیشاب کر کے دکھا دو کہ ہگ کے دکھا دو۔ بدتمیزی کی باتیں۔‘‘
ماحول میں ہلکی سی کشیدگی آ گئی۔ سبھی چپ تھے۔ شری پال نے ماحول کو تھوڑا سا ہلکا کرنے کی کوشش کی، ’’ پیشاب بھی کر دے گا، تو تیرا کوئی کیا بگاڑ لے گا۔ تو خود ہی جن ہے۔ جن سے جن تھوڑے ہی ٹکرائے گا۔‘‘
چمپت نے بات آگے بڑھائی، ’’ صحیح کہہ رہے ہو بھیا۔ اتنے بڑے جن کے آگے چھوٹا جن تو ویسے ہی نہیں ٹکرائے گا۔‘‘
ست پال کو لگا، بات کہیں پھر نہ بڑھ جائے۔ انہوں نے بات وہی ختم کرنی چاہی، ’’ اب چھوڑو اس بات کو۔ ان باتوں میں کچھ رکھا ہے؟ بیکار کی باتیں۔‘‘
بال کشن نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ تھوڑے اینٹھ کر بولے، ’’ موہن پور والے ہمارے سمدھی ہیں۔ ان کی ایک ڈاکٹر سے دوستی ہے۔ اُسکی بہو بیمار تھی۔ سمدھی ایسے معاملوں میں تھوڑا بہت جانتے ہیں۔ انہوں نے بتایا اس پر اوپری چکر ہے۔ ڈاکٹرہینکڑی میں تھا۔ بولا کچھ چکروکر نہیں ہوتا۔ اپنا علاج چلایا۔ ایٹہ، آگرہ، دہلی کہاں کہاں نہیں دکھایا اس نے۔ دیکھتے کیا ہیں، ایک دن منہ اندھیرے ہی موٹر سائیکل لئے آ دھمکا اور ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ سو، گھِنّی اٹکتی ہے تو اچھے اچھے ہینکڑی بھول جاتے ہیں۔‘‘ جس طرح بال کشن نے ہینکڑی پر زور دیا، اسے سن کر رمیش خاموش رہنے والا نہیں تھا، لیکن ست پال نے بات مکمل ہوتے ہی سوال کر دیا، ’’ آج شام کو مندر پر ایک آدمی لڑکی کے ساتھ دکھائی دے رہا تھا۔ کوئی کھورکھٹکا والا تھا کیا؟‘‘
”ہو گا کوئی۔ وہاں تو ہر وقت کوئی نہ کوئی آتا ہی رہتا ہے۔‘‘ جواب چمپت نے دیا۔
’’پوری رات یہیں بیٹھا رہے گا؟ سونا نہیں ہے کیا؟‘‘ ممی نے آواز دی، تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔
’’کیا ٹیم ہو گیا؟‘‘ چمپت نے پوچھا۔
’’بارہ بجنے والے ہیں۔‘‘ میں نے گھڑی دیکھ کر بتایا۔
رات کے تین بجے تھے۔ طاق میں ایک دیپ جل رہا تھا۔ سجان، جگتی تائی کا سر گود میں رکھے تھے۔
وہ جگتی تائی کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ بالکل خاموش اور ساکت۔ ان کا دل بے چین تھا۔ تکلیف کے عالم میں کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ ذہن میں طرح طرح کے خدشات اٹھ رہے تھے۔
اگر جگو کو کچھ ہو گیا تو؟ کیسے رہیں گے وہ ان کے بغیر؟ ان کے سوا اس دنیا میں ان کا ہے ہی کون؟ نہیں، جگو کو کچھ نہیں ہو گا۔ ان کے اندر طوفان مچا ہوا تھا۔
سجان کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ بڑے احتیاط سے جگتی کی نبض دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
کندھا جھنجھوڑا، ’’ جگو۔‘‘
”۔۔ ۔‘‘
وہ کبھی نبض دیکھتے۔ کبھی ان کی گردن اور پیشانی کو چھوکر دیکھتے۔ روندھی آواز سے اٹکتے ہوئے میں بولے، ’’ ج۔۔ ۔ ج۔۔ جاگو۔۔ ۔ کچھ بولو۔‘‘
’’پا۔۔ پا۔۔ نی۔‘‘
انہوں نے کھٹیا کے نیچے سے گلاس اٹھایا اور سر اونچا کر کے منہ سے لگا دیا۔ ایک گھونٹ بھر کر انہوں نے منہ ہٹا لیا۔
دیپ کی لو مدھم پڑتی جا رہی تھی۔ شاید اس کا تیل ختم ہو گیا تھا۔ جب کبھی جنگلے سے ہوا کا جھونکا آ جاتا، جیسے تیسے وہ اپنے آپ کو سنبھال پاتی۔ کمرے کا ماحول ایکدم اداس تھا۔ جیسے اس نے اداسی کی چادر اوڑھ لی ہو۔ اچانک سجان کو لگا، ان سے کوئی کچھ کہہ رہا ہے۔ انہوں نے دھیان دیا، کہیں کچھ نہیں تھا۔ انہیں دوبارہ کوئی آواز سنائی دیا۔ انہوں نے پھر کانوں پر دھیان دیا، تو لگا ایک آواز ہے جو ان کے اندر سے آ رہی ہے۔ ’’جگتی میرے سکھ دکھ کی ساتھی۔ میں تیرے بغیر کیسے رہ پاؤں گا؟‘‘
دیپ بجھ چکا تھا۔ سجان کا غم کمرے کے اندھیرے میں ضم ہو گیا تھا۔ دل کے دکھ درد سے ذہنی قوت بھی ڈھ گئی تھی۔ دن کی پہلی کرن نے جنگلے سے جھانکا، تو ان کا شعور واپس لوٹا۔ انہوں نے جگتی کو غور سے دیکھا۔ چہرہ خوفناک ہو گیا تھا۔ ایک تعویذ ان کے سینے پر رکھا تھا، بہت سے گلے میں ادھر ادھر لٹک رہے تھے۔ انہوں نے ہاتھ سے بلاؤز چھوا، انہیں گیلاسا لگا۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ رو رہے ہیں۔ خود کو دلاسہ دیتے ہوئے انہوں نے آنسو پونچھے تو وہ اور تیزی سے امڈ پڑے۔
صبح ممی نے مجھے جگایا۔ اداس ہو کر بولیں، ’’ جگتی مر گئیں۔‘‘
میں چارپائی سے اٹھ کر سیدھا سجان کے گھر پہنچا۔ آنگن میں لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ جگتی تائی کے پلنگ کے پاس خون پڑا تھا۔ ایک عورت نے خیال ظاہر کیا، ’’ سنا تھا بھگت جی کہہ رہے تھے، اوپر کا چکر ہے۔ برم دیو ہیں، پر خون کی الٹیاں تو جن کے کھٹکے میں ہوتی ہیں؟‘‘
’’برا وقت تھا بیچاری کا۔ جب برا وقت آتا ہے، تو برم دیو، جن، سبھی سوار ہو جاتے ہیں۔‘‘ دوسری عورت کی آنکھیں بھر آئیں، تو اس نے آنچل سے آنکھیں پونچھ لیں۔
٭٭٭
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید