FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

قلندر نما بندر

 

 

(طنزو مزاح)

 

 

               ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

اس خیالی داستان  میں  بیان کردہ واقعات اور کرداروں کی مشابہت اتفاقی ہے۔

اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

 

 

 

نہ تخت و تاج میں نہ لشکر و سپاہ میں ہے

جو بات  مردِ قلندر کی بارگاہ  میں  ہے

صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل

یہ نکتہ  وہ ہے کہ پوشیدہ  لا اِلٰہ میں ہے

(حکیم الامت  علامہ اقبال)

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

میرے شفیق بزرگ اور دوست

ڈاکٹرسید قاسم رسول الیاس صاحب

کے نام

جن  کے لاکھ منع کرنے پر بھی

میں اس فضول کام میں اپنا وقت ضائع کرتا رہا

 

 

 

 

 

 

 

شاعر نما بندر

 

نین سکھ کی جائے وفات پر ماروتی مندر کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری تھا۔ پڑوس کی زمین ہتھیانے کا سپنا دیکھنے والے بلڈر کا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوا چاہتا تھا۔ اس نے چند پجاریوں کو کام پر لگا کر ہنومان چالیسا کا پاٹھ شروع کروا دیا۔عوام کا مجمع صبح شام لگنے لگا تھا۔ ہر روز لاؤڈ اسپیکر پر ہنومان جی کے بھجن بجتے تھے اور پون پتر ہنومان کی جئے کے نعروں کی آڑ میں سیا رام کالونی کی تعمیر کا کام تکمیل کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ ویسے ابھی تک بلدیہ سے اس کے نقشوں کی توثیق اور دیگر اجازت نامے حاصل نہیں ہوئے تھے لیکن چونکہ مندر اور کالونی کا سنگِ بنیاد ریاست کے وزیر اعلیٰ نے اپنے دستِ مبارک سے رکھا تھا اس لئے کوئی سرکاری افسر اس تعمیر میں رخنہ کھڑا کرنے کی جرأت نہیں کر پارہا تھا ۔

عوام کا العنام کا اس میں حصہ بس اس قدر تھا کہ صبح کام پر جاتے ہوئے برکت کی توقع میں ماروتی کی مورتی کے سامنے جھک کر پرنام کر جاتے اور شام میں اپنی آتما کی شانتی کیلئے مندر کے صحن میں آ کر بیٹھ جاتے۔ کچھ دیر بھجن کیرتن کرنے کے بعد ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے اور پھر گھر جا کر سوجاتے۔روز بروز عوام کی بڑھتی ہوئی آستھا کے پیشِ نظر کائیاں پجاریوں نے مورتی کے پاس ایک خوبصورت سی دان پیٹی بھی نصب کروا دی تھی جس سے ان کی اوپر کی آمدنی کا بندوبست ہو گیا تھا۔روز بروز کی بڑھتی گرانی کے چلتے سنت مہنت اسے جائز اور ضروری سمجھنے لگے تھے۔ اس کے اندر پولس کا ہفتہ باندھ دیا گیا تھا تاکہ انتظامیہ کا اعتماد بحال رہے اور آگے چل کر کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ سنیچر کی شام سب سے زیادہ  دکشنا جمع ہوتی تھی۔ اتوار کی صبح اس کا حساب کتاب ہوتا۔ پیر کی صبح محلے کے اندر رہنے والا حولدار ا تھانے کا حصہ وصول کر کے اپنے ساتھ لے جاتا اور اسے تھانیدار کے چرنوں میں ارپن کر دیا کرتا۔

اس پونیہ کاریہ (کارِ خیر)میں جنتا کا ایک اور یوگ دان یہ تھا کہ جب وہ کسی اور ہنومان مندر میں جاتے تو وہاں سے ایک آدھ بندر پکڑ کر اپنے ساتھ اس مندر کیلئے لے آتے۔ا س طرح مندر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ وانر سینا کے نرمان کا کام بھی نہایت فطری انداز میں ہو رہا تھا۔ مختلف مقامات سے آنے والے یہ بھانت بھانت کے بندر اور گاندھی جی کے کھدر پوش بندروں کے درمیان نمایاں فرق تھا۔ ان میں سے ایک نین سکھ جو سوتے جاگتے اپنی آنکھوں کو ہاتھوں سے ڈھانپے رہتا تھا جہانِ فانی کو داغِ مفارقت دے کر یہاں سے کوچ کر چکا تھا۔ پسماندگان میں دو تان سین اور مونی بابا کا شمار ہوتا تھا۔ تان سین کی زبان تو ساٹھ گز لمبی تھی لیکن وہ اپنی انگلیاں ہمیشہ کانوں میں ٹھونسے رہتا تھا جبکہ مونی بابا کے ایک منہ پر دونوں ہاتھ ایک کے اوپر ایک رکھے رہتے تھے۔ اپنی زبان کے استعمال کو انہوں نے از خود حرام کر رکھا تھا۔ انسانوں کے ساتھ رہتے رہتے گاندھی جی کے ان نام نہاد مہذب  بندروں نے لکھنا پڑھنا اور بولنا سیکھ لیا تھا۔ وہ اپنی ہی قوم کے دیگر بندروں کو اپنے سے حقیر سمجھنے لگے تھے اور انہیں منہ نہ لگاتے تھے لیکن اس بیچ تنہائی کا احساستان سین کو شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا تھا۔

نین سکھ جب تک زندہ تھا وہ اس کی جھک جھک بک بک کو سنتا بھی تھا اور جواب بھی دیتا تھا۔ گو کہ تان سین نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے اوپر بہرہ پن طاری کئے ہوئے تھا۔ وہ دوسروں کی آواز نہ سننے کی اداکاری ضرور کرتا تھا اس کے باوجود اسے لوگوں کا اس کی بات کو سننا اور اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرنا بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ویسے وہ ان کے لبوں کی حرکات اور چہرے کے تاثرات سے بہت کچھ قیاس آرائی کر لیا کرتا تھا جو بڑی حد تک صحیح ہوتی تھی۔لیکن مونی بابا کا معاملہ یہ تھا کہ وہ سنتے تو سب کچھ تھے مگر کچھ بولتے نہ تھے۔ نہ ان کے ہونٹ ہلتے اور نہ چہرہ بولتا کسی عظیم فلسفی کی مانند شب و روز نہ جانے کس جہاں میں کھوئے رہتے تھے۔

تان سین کے نزدیک اس کا جواز یہ تھا کہ نین سکھ کے غم میں انہوں نے بھی اس جگ سے ناطہ تو ڑ کر سنیاس لے لیا ہے۔کبھی کبھار موڈ میں آتے تو اپنے کمپیوٹر پر ایک آدھ جملہ لکھ کر تان سین کے سامنے اپنے دل کی بات رکھ دیتے۔ ایک دن تان سین نے دیکھا کہ مونی با با چہرے سے بہت خوش نظر آ رہے ہیں تو وہ پھدک کر ان کے قریب ہو گیا سوچا اپنی سمسیا( مسائل )بتانے کا یہ اچھا موقع ہے نہ جانے پھر کبھی یہ بڑے میاں موڈ میں آئیں یا نہ آئیں یا اسی گمبھیر(اداس) مدرا میں پرلوک سدھار جائیں۔ تان سین بولا مونی بابا کیا بات ہے ؟ آج آپ بڑے خوش نظر آ رہے ہیں ؟

مونی بابا مسکرائے اور اپنے آئی پیڈ پر لکھا جی ہاں تمہارا اندازہ درست ہے آج واقعی میں خوش ہوں

اگر ایسا ہے تو اس کی وجہ ؟ کیا انٹر نیٹ پر کوئی خاص چیز پڑھنے کیلئے مل گئی ؟

مونی بابا نے تائید میں سر ہلا کر لکھا یہی سمجھ لو

اچھا کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ کیا پڑھ رہے تھے ؟

کیوں نہیں ؟مونی بابا کی انگلیاں آئی پیڈ پر کھیل رہی تھیں۔ میں دراصل کلیاتِ اقبال پڑھ رہا تھا

تان سین کی ناقص معلومات کے مطابق علامہ اقبال نہایت سنجیدہ شاعر تھے۔ وہ خود بھی ملت کے حال پر روتے تھے اور سامعین کو بھی اپنی شاعری سنا کر رلاتے تھے لیکن یہ مونی بابا بھی عجیب آدمی ہے کہ ان کی شاعری پڑھ کر خوش ہو رہا ہے۔ وہ بولا میں نے تو سنا ہے علامہ اقبال نہایت سنجیدہ انسان تھے۔ شاید کسی اور شاعر نے اپنا مزاحیہ کلام مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر اقبال کے نام سے ویب سائٹ پر ڈال دیا ہو اور آپ اسے علامہ کا کلام سمجھ کر محظوظ ہو رہے ہوں۔

مونی بابا کو تان سین کے اس احمقانہ فقرے پر غصہ آ گیا اس لئے کہ اس میں ان کا تمسخر اڑا یا گیا تھا۔ انہوں نے فونٹ کا رنگ سیاہ سے بدل کر سرخ کیا اور اب لکھنے لگے۔ تمہارا دماغ خراب ہے۔ تم جیسا کوئی چور شاعر اپنی مقبولیت کو بڑھانے کیلئے علامہ اقبال کی شاعری کا سرقہ تو کر سکتا ہے لیکن اگر وہ اپنا کلام ان کے نام سے شائع کرے تو لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ یہ ان کا کلام نہیں ہے ؟

تان سین کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولا جی ہاں لیکن علامہ اقبال کا کلام چرانا اس قدر آسان بھی نہیں۔ ایک تو ان کے اشعار بے حد مشہور ہیں دوسرے ان کا آہنگ خود اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ شعر ان کے سوا کسی اور کا اور ہو ہی نہیں سکتا۔

مونی بابا مسکرائے اور لکھا جب تم یہ جانتے ہو کہ علامہ اقبال کے اشعار خود گواہی دیتے ہیں کہ ان کا خالق کون ہے تو مجھ سے یہ توقع کیوں کرتے ہو کہ میں کسی اور کا کلام ان کے نام پر پڑھوں۔

جی ہاں وہ میری غلطی تھی میں معذرت چاہتا ہوں دراصل آپ کو خوش دیکھ کر مجھے مغالطہ ہو گیا تھا

مونی بابا نے لکھا علامہ ایک فطری شاعر تھے ان کے یہاں حسبِ ضرورت ظرافت بھی موجود ہے کیا تم نے ان کا ظریفانہ کلام نہیں پڑھا۔

تان سین نے سوچا گفتگو کسی اور رخ پر جا رہی ہے اس لئے اسے سنبھالنا ضروری ہے ورنہ اس کا اپنا مسئلہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا اور ملتِ اسلامیہ نیز عالم انسانیت کے مسائل زیرِ بحث آ جائیں گے۔وہ بولا دیکھئے مونی بابا ظریفانہ کلام تو پھر کبھی آپ کے آئی پیڈ پر پڑھ لیں گے فی الحال آپ میرے مسئلہ کا حل بتلائیے

تمہارا مسئلہ؟ تمہارا کیا مسئلہ ہے ؟ تم تو بندر ہو انسان نہیں ؟ مسائل تو انسانوں کے ہوتے ہیں ؟

تان سین حالانکہ بندر تھا اس کے باوجود اسے مونی بابا کے منہ سے اپنے لئے بندر کا لقب  پسند نہیں آیا لیکن اس نے درگذر کر کے بات آگے بڑھائی اور بولا آپ کی بات درست ہے بابا۔ جب تک ہم بندروں کے درمیان ایک آزاد اور فطری معاشرے میں رہتے تھے ہمارے مسائل نہیں تھے لیکن پھر گاندھی جی کی نظرِ انتخاب ہم پر پڑی اور ہم لوگ انسانوں کے ساتھ رہنے بسنے لگے ان کی مانند بولنے سننے لگے نیز انہیں کی طرح سوچنے سمجھنے بھی لگے اس لئے اب ان کے سارے مسائل ہمارے اپنے مسائل بن گئے ہیں۔

مونی بابا اپنے آئی پیڈ پر مسکراتا چہرے والا کارٹون لے آئے اور لکھا کیا بات ہے تان سین آج تم تو بہت اونچی اڑان بھر رہے ہو۔ پیڑ کی کسی اونچی ٹہنی کے پھل کھا کر آ رہے ہو کیا ؟ پرساد میں کسی ہنومان کے بھکت نے تمہیں بادام پستہ اور چلغوزہ سے بنی کوئی مٹھائی تو نہیں کھلا دی جو تمہارا دماغ ہوا میں اڑنے لگا۔

تان سین بولا گولی مارئیے بادام اور چلغوزے کو یہ تو آپ جیسے عالم فاضل فلسفی کی صحبت کا فیضان  ہے۔

یہ سن کر مونی بابا کا دل باغ باغ ہو گیا انہوں نے کسی ماہر طبیب کی مانند لکھنا شروع کیا اچھا اب یہ چکنی چپڑی باتیں چھوڑو اور اپنا مسئلہ بیان کرو۔

میرا مسئلہ ؟ تان سین چونک کر بولا ہاں ہاں میرا مسئلہ۔دراصل آج کل میں بہت پریشان ہوں۔نین سکھ کی موت کے بعد دل اس دنیا سے اچاٹ ہو گیا ہے۔ تنہائی کے شدید احساس نے میرے وجود کو اچک لیا ہے گویا کہ زندگی بالکل ہی بے رنگ ہو کر رہ گئی ہے

مونی بابا نے لکھا ہووووں !!!تمہاری اس مشکل کا حل بھی حکیم الامت نے سجھایا ہے

میری مشکل کا حل ؟؟؟ بھلا ان کو میری اس مشکل کا پتہ کیسے چل گیا ؟

مونی بابا پھر مسکرائے اور لکھا یہ اگر تمہارے اکیلے کا مسئلہ ہوتا تو انہیں یقیناً اس کا علم نہیں ہوتا لیکن یہ تو ایک عام مسئلہ ہے جو ہر دور میں انسانوں کے ساتھ رہا ہے۔اس لئے علامہ اقبال کا اس سے واقف ہونا فطرت کے  عین مطابق ہے۔

تان سین کے تجسس میں اضافہ ہو رہا تھا وہ بولا تو ٹھیک ہے آپ انہیں کا تجویز کردہ نسخہ بتلا دیجئے

مونی بابا نے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی کلیات کو کھولا اور اس پر تلاش والی کھڑکی کو کھول کر ’’زن‘‘ ٹائپ کر دیا۔ پھر کیا تھا کمپیوٹر نے از خود وہ تمام اشعار تلاش کرنے شروع کر دئیے جن میں لفظ ’ زن‘ کا استعمال ہوا تھا اور چند سیکنڈ کے اندر یہ مصرع پردے پر جھلک رہا تھا ’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ ‘

تان سین سوچ رہا تھا کہ اس کیلئے کوئی خاص مشورہ ہو گا یہ تو ایک آفاقی حقیقت کا بیان تھا جس کا بظاہر اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ بولا مونی بابا آپ سے میں نہایت عاجزی کے ساتھ استفسار کر رہا ہوں اور آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔یہ تو ایک ایسی بات ہے جس سے ہرکس و ناکس واقف ہے  لیکن اس میں میرے مسئلے کا کوئی حل کہاں ہے ؟

مونی بابا نے لکھا حل تو ہے لیکن اس کیلئے عقل کا تھوڑا سا استعمال ضروری ہے۔

کیا مطلب ؟

مطلب یہ کہ بقول تمہارے زندگی بے رنگ ہو گئی ہے ٹھیک ہے ؟

بالکل ٹھیک

اور تمہاری اپنی  زندگی تمہارے لئے کل کائنات ہے ؟ درست ہے یا نہیں ؟

جی ہاں یہ بھی درست ہے

اب اقبال کا کہنا یہ ہے کائنات میں رنگ وجودِ زن سے ہے گویا اگر زن غیر موجود ہو تو کائنات بے رنگ ہو جاتی ہے۔ اب بات سمجھ میں آئی ؟ اگر نہیں  تو کچھ دیر تنہائی میں اس مصرع پر غور کرو با ت اپنے آپ سمجھ میں آ جائے گی۔

جی ہاں اب میری سمجھ میں یہ منطق آ گئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میری زندگی وہ رنگ آئے گا کہاں  سے ؟

وہ دیکھو مندر کے سامنے پیڑ پر اور چھجے پر، نیچے صحن میں اور اوپر دیوار پر نہ جانے کتنے رنگ اچھل کود رہے ہیں۔ جاؤ اور ان میں سے کسی کو اپنی زندگی میں لے آؤ۔

ان میں سے ؟ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں بابا۔ ہم نے ان کے ساتھ ایک خاص فاصلہ بنایا ہوا ہے۔ہم ان سے ملتے جلتے بھی نہیں۔ ایسے میں بھلا ان میں سے کوئی ہمارے ساتھ کیسے آ سکتا ہے ؟

مونی بابا نے استفہامیہ انداز میں تان سین کی جانب دیکھا اور اپنے آئی پیڈ پر لکھا۔  وہ ہماری اپنی برادری کے لوگ ہیں کیا انہوں نے تمہیں ملنے جلنے سے منع کیا ہے ؟

نہیں ایسی بات تو نہیں ہے۔ یہ تو ہمارا اپنا فیصلہ ہے جو ہم  نے اپنے آپ کو ان سے دور کر رکھا ہے۔ ان کی جانب سے تو کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا۔ وہ سب آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بند ہیں صرف ہم سے نہیں ملتے۔

تم کیا سوچتے ہو؟ وہ ہم سے کیوں نہیں گھلتے ملتے ؟

شاید اس لئے کہ ہم خود ان سے دور رہتے ہیں۔

تم اگر اپنا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہو تان سین تو تمہیں پہل کرنی ہو گی۔ ان کے پاس  جا کر ان سے گھلنا ملنا  پڑے گا۔ ممکن ہے ایسا کرنے سے تمہاری تنہائی کسی قدر کم ہو جائے نیز اگر ۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سمجھ گیا تان سین نے جملہ مکمل کیا ’ممکن ہے میری زندگی رنگین بھی ہو جائے ‘۔

جی ہاں  تان سین۔ ہمت کر کے آگے بڑھو مجھے یقین ہے کہ کامیابی تمہارا قدم چومے گی۔ یہ لکھنے کے بعد مونی بابا آئی پیڈ کے مانیٹر پر علامہ اقبال کا ایک اور شعر لے آئے     ؎

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

مونی بابا کا آشیرواد لے کر تان سین مندر کے اندر کی جانب چل دیا۔ ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی، ایک شاخ سے دوسری شاخ پر اچھلتا کودتا تان سین بندروں کے اس مجمع کی جانب بڑھ رہا تھا جو صحن کے اندر مونگ پھلیاں کھانے میں مصروف تھا۔ دوپہر کے وقت مندر تقریباً سنسان  پڑا تھا ہر طرف گویا بندروں کا راج تھا۔صحن میں غالباً کوئی ہنومان بھکت بہت ساری مونگ پھلیاں  ڈال گیا تھا جسے یہ بندر نوش فرما رہے تھے۔ ایک طوفانِ  بدتمیزی برپا تھا۔چھینا جھپٹی۔ہنسی مذاق، شور شرابہ اور نہ جانے کیا کیا۔ تان سین نے سوچا یہ اتنی ساری مونگ پھلیاں ہیں کہ اسے سارے بندر مل کر شام تک بھی ختم نہیں کر سکتے پھر بھی یہ چھین جھپٹ کیوں کر رہے ہیں ؟ کیوں نہیں سکون سے کھاتے ؟لیکن اگر سکون سے کھا کر سو جائیں تو بندر ہی کیوں کہلائیں اور پھر جو کچھ کھایا ہے اسے ہضم بھی تو کرنا ہے ؟ اس کا یہی طریقہ شاید یہ بن مانس جانتے ہیں ؟ اس نے سوچا اگر یہ انسان ہوتے تو؟ انسان ہوتے تو بھی یہی کرتے اپنی ضرورت سے زیادہ کی حرص۔ اپنے سے کمزور کا نوالا چھین کر خود کھا لینا۔انسانی برادری کا  بھی یہی طرۂ امتیاز ہے۔ لیکن وہ خود یہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ایک معمولی بندر نہیں بلکہ معمولی انسان سے بھی افضل تھا۔ وہ تو مہاتما گاندھی کے تین مہان  بندروں میں کا ایک تھا۔ بندروں والی حرکات اس کے وقار سے فروتر تھیں۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کس طرح ان لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر سکے گا؟

تان سین پیڑ کی جس شاخ پر بیٹھا یہ سب سوچ رہا تھا اس کے اوپر والی شاخ پر بیٹھی ایک بندریا امرود کھاتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔ بندریا کواس پر حیرت تھی کہ وہ کہاں بھول بھٹک کر ادھر آ گیا۔ اس سے پہلے جب بھی کسی بند ر نے ان کے قریب جانے کی کوشش کی تھی تان سین اور مونی بابا نے ان کی جانب نگاہِ غلط ڈالنے سے بھی گریز کیا تھا۔ اس رویہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مندر کے سارے بندر ان دونوں سے بے نیاز ہو گئے تھے لیکن آج ان میں سے ایک از خود چل کر اپنی برادری کے درمیان آیا تھا۔بندریا نے سوچا پرانے گلے شکوے بھلا کر اس کا استقبال کرنا چاہیے۔وہ نیچے آئی اور بندروں کی  بولی میں گویا ہوئی کیوں ! کیا سوچ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟تان سین کو بے خیالی میں یوں لگا گویا اس کا تعارف حاصل کرنا چاہتی ہے۔ تان سین کے لبوں میں جنبش ہوئی۔

’’تان سین ‘‘ تان سین نے جواب دیا

تان سین ؟ تان سین کا کیا مطلب ؟

کوئی مطلب نہیں ! میرا نام تان سین ہے

بندریا کیلئے یہ حیرت انگیز شہ تھی اس نے چہک کر سوال کیا۔ نام ! یہ نام کیا ہوتا ہے ؟

نام !نام ہوتا ہے بس نام اور کیا ؟ نام جس سے انسان پہچانا جاتا ہے

بندریا ہنسی اور بولی میں انسانوں کے بارے میں نہیں تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھی

تان سین کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ بولا کیوں تمہارا کوئی نام نہیں ہے ؟

ہم سب کا ایک نام ہے اور ہمارے سب نام ہیں ؟

تان سین نے سوچا یہ مونی بابا کی کوئی دور کی رشتہ دار لگتی ہے اس لئے کہ بندریا کی لچھے دار باتیں بھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھیں

وہ بولا ایک نام اور سب نام والی بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی

بندریا کھلکھلا کر ہنس پڑی اور بولی سمجھ میں آئے گی کیسے ؟

کیا مطلب ؟

مطلب یہ کہ انسانوں کی طرح سوچوگے تو بندروں کی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ اگر میری بات کو سمجھنا ہے تو بندر کی مانند سوچنا ہو گا۔

تان سین نے سوچا بڑی تیز بندریا ہے اسے کیسے پتہ چل گیا کہ وہ انسانوں کی طرح سوچ رہا ہے لیکن پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھا لا اور بولا دیکھو میں اب نیا نیا ہوں مجھے تھوڑا سا وقت لگے گا اس لئے فی الحال تم مجھے سمجھا دو کہ ایک نام اور سب نام کا مفہوم کیا ہے ؟

بھئی سیدھی اور سہل بات  یہ ہے کہ ہم سب کا ایک نام ہے بندر۔ اس نام سے ہم سب جانے جاتے ہیں۔لیکن مختلف زبانوں میں لوگ ہمیں مختلف انداز میں پکارتے ہیں مثلاً کوئی کہتا ہے لنگور، کوئی کہتا ہے منکی، کوئی ماکڑ کہتا ہے وغیرہ وغیرہ یہ سب ہمارے نام ہیں۔ اب کیا ہے کہ کوئی کچھ بھی کہے ہم ہیں تو وہی  بند ر کے بندر اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

تان سین نے محسوس کیا کہ وہ جنھیں احمق سمجھتا ہے وہ  ایسے بے وقوف بھی نہیں ہیں اور جنھیں عقلمندسمجھتا ہے وہ بہت سمجھدار بھی نہیں ہیں۔ سب ملا جلا معاملہ ہے۔تان سین نے بات بدلتے ہوئے کہا تم خود بھی تو مونگ پھلی نہیں کھا رہی ہو اور مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ میں کیوں نہیں کھا رہا ؟ یہ سمجھ لو کے جس چیز نے تمہیں روکا وہی میری رکاوٹ کا سبب بھی ہے۔

بندریا بولی نہیں ایسا نہیں ہے۔جس وقت ہنومان کا بھکت مونگ پھلی کا بورا لے کر یہاں آیا  میں امرود کھا رہی تھی میں نے سوچا کہ پہلے امرود ختم کر لوں پھر مونگ پھلی پر ہاتھ صاف کروں۔ اس بیچ میں نے دیکھا تم اس ٹہنی پر بیٹھے کچھ کھا نہیں رہے بلکہ سوچ رہے ہو تو میں نے پوچھ لیا کہ کیا تمہیں مونگ پھلی پسندنہیں ؟ حالانکہ میرا سوال غلط تھا ایسا بھی کوئی بندر ہو سکتا ہے جسے مونگ پھلی پسند نہ ہو  بلکہ ایسی بھی کوئی مونگ پھلی ہو سکتی ہے جو بندروں کو پسند نہ ہو ؟ بندریا گویا اپنے اور تان سین کے حوالے سے بات کر رہی تھی۔

تان سین نے اس بار سوچا یہ مونی بابا کی رشتہ دار نہیں ہو سکتی۔ کس قدر بولتی ہے یہ بندریا، جو شروع ہوتی ہے طوفان میل کی طرح بولے ہی چلے جاتی ہے۔وہ جواب سوچ ہی رہا تھا کہ بندریا نے اپنا جھوٹا امرود اس کی جانب بڑھا یا اور بولی ایسا کرو تم یہ امرود کھاؤ اور میں جا کر مونگ پھلی کھاتی ہوں اور اسے ختم کرنے کے بعد تم بھی مونگ پھلی کھانے کیلئے نیچے آ جانا۔

تان سین یکلخت صادر ہونے والے ان احکامات سے گھبرا گیا اور بولا ارے سنو تم کہاں جا رہی ہو۔یہ نہیں ہو سکتا !

کیا نہیں ہو سکتا ؟

نہ! نہ ! میں امرود کھا سکتا ہوں اور نہ نیچے آ سکتا ہوں۔

کیوں ؟ کیوں نہیں ہو سکتا ؟ یہ امرود! اسے کھا کر تو دیکھو کس قدر میٹھا ہے۔ اور مونگ پھلی کا کیا کہنا وہ تو خیر مونگ پھلی ہے۔

تان سین کا جی چاہا کہ اس بندریا سے کہے کہ میں تمہارا جھوٹا امرود کیسے کھا سکتا ہوں لیکن پھر اسے خیال آیا یہ انسانوں والی سوچ ہے اور اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں بندریا ناراض نہ ہو جائے اس لئے اس نے کہا تمہاری خاطر میں اس میں صرف ایک نوالہ کھاتا ہوں اور پھر امرود کولے کر اس جگہ سے جہاں بندریا کے دانت نہیں لگے تھے ایک ٹکڑا کاٹ کر چبانے لگا۔

بندریا بولی کیوں میٹھا ہے یا نہیں بولو ؟

میٹھا تو ہے بہت میٹھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قدر میٹھا امرود میں نے کبھی نہیں کھایا

بندریا پھر سے خوش ہو گئی اسے تان سین کی باتیں اچھی لگنے لگی تھیں وہ بولی اچھا اگرایسی بات ہے تو اور کھاؤ

جی نہیں بس یہ کہہ کر تان سین نے امرود پھینک دیا

بندریا ناراض ہو بولی ارے یہ کیا کر دیا تم نے ؟ تم نے امرود کیوں پھینک دیا اور کود کر نیچے پہنچ گئی امرود کو گھاس میں سے اٹھا کر جھاڑا اور دور بیٹھ کر کھانے لگی۔

تان سین سمجھ گیا کہ گڑ بڑ ہو گئی۔ بندروں کے اس جمِ  غفیر میں ایک سے دوستی ہوئی تھی سو وہ بھی ٹوٹ گئی۔اس کا جی چاہا کہ بندریا کے پاس واپس جائے لیکن انا آڑے آ گئی۔ اداس تان سین واپس لوٹا تو اس  کے غم میں ایک اور اضافہ ہو چکا تھا۔

مونی بابا نے دیکھا کہ تان سین اپنی عادت کے خلاف بالکل گم سم ایک شاخ پر بیٹھا ہوا ہے۔یہ سب مونی بابا کی توقع کے خلاف تھا۔انہیں توقع تھی کہ تان سین ایک مرتبہ بندروں کے درمیان جائے گا تو بالکل بندر بن کر لوٹے گا بلکہ انہیں خوف تھا کہ ممکن ہے وہ واپس ہی نہ آئے لیکن یہ کیا وہ بالکل سنجیدہ انسان بن گیا تھا۔مونی بابا خاموشی کے ساتھ ممکنہ وجوہات پر غور کر تے رہے۔ انہیں اندیشہ لاحق ہوا ممکن ہے بندروں نے اسے خوار کر کے بھگا دیا ہو؟  اگر ایسا ہوا تھا تو اس رسوائی کی اصل ذمہ داری خود ان پر آتی تھی اس لئے کہ انہوں نے ہی تان سین کو اپنی برادری میں لوٹ کر جانے کی تر غیب دی تھی اور بڑے خوشنما خواب بھی دکھلائے تھے جو سب کے سب چکنا چور ہوچکے تھے۔ان کے مشورے نے تان سین کو اپنی لن ترانی  سے محروم کر دیا تھا۔ مونی بابا نے سوچا وقت ہر زخم پر مرہم بن جاتا ہے ایسا ہی کچھ تان سین کے ساتھ بھی ہو گا لیکن ان کا اندازہ غلط نکلا۔ایک رات اور دن کا وقفہ گزر جانے کے بعد بھی تان سین کی کیفیت میں کوئی قابلِ قدر تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔

مونی بابا کے پہاڑ جیسے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہو گیا تو وہ خود تان سین کے پاس آئے انہوں نے دیکھا تان سین منہ ہی منہ میں کچھ بدبدا رہا ہے۔ مونی بابا نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھنے لگے۔انہوں نے محسوس کیا کہ تان سین کو یہ خلل اندازی ناگوار گز ر رہی ہے۔ یہ بھی عجیب کیفیت تھی ورنہ اس سے پہلے بالکل برعکس  معاملہ ہوتا تھا۔ اپنے بغل سے آئی پیڈ نکال کر مونی بابا نے اس پر ٹائپ کیا کیوں خیریت تو ہے ؟ کیا چل رہا ہے ؟

تان سین نے جواب دیا کچھ نہیں بس یونہی کچھ کام کر رہا تھا۔

مونی بابا کو حیرت ہوئی یہ چپ چاپ بیٹھا ہوا تان سین کیا کام کر رہا ہے بھلا؟ انہوں نے لکھا۔ کام ؟ کیا کام کر رہے ہو ؟

میں ! میں دراصل شاعری کر رہا ہوں۔شاعری !

مونی بابا نے مسکراتے چہرے کا کارٹون آئی پیڈ پر لا کر اس کے نیچے لکھا شاعری بھی کو ئی کام ہے ؟

تان سین بولا کیوں یقین نہیں آتا تو کر کے دیکھئے ۔ دوچار اشعار کہہ کر دیکھئے پسینہ چھوٹ جائے گا۔ اگر دن دہاڑے تارے نہ نظر آ جائیں تو میں اپنی غزل آپ کے نام کر دوں گا ۔

مونی بابا کو یقین ہو گیا کہ تان سین بندروں میں جا کر بندر بننے کے بجائے اچھا خاصہ شاعر بن گیا ہے ورنہ اس قدر نخوت کا مظاہرہ اس نے  پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ تو نہایت محبت بھرے لب و لہجے میں دلنشین باتیں کیا کرتا تھا۔ مونی بابا نے آئی پیڈ پر لکھ کر پوچھا کیوں تمہارا کل کا دورہ کیسا رہا؟ تم واپس کیا آئے کہ پھر پلٹ کر گئے ہی نہیں اور تو اور مجھ سے بھی ملاقات نہیں کی ۔

مونی بابا کی ہمدردی سے تان سین کا دل پسیج گیا اور اس نے اپنی ساری داستان کہہ سنائی

مونی بابا نے پوچھا بے وقوف تم نے ایک غلطی تو یہ کی کہ امرود کو پھینک دیا اور پھر دوسری یہ کی کہ دوبارہ اس بندریا کے پاس واپس نہیں گئے میرا خیال ہے کہ اگر تم اس کے پاس جا کر معذرت کر لیتے تو سارا معاملہ اسی وقت رفع دفع ہو جاتا

جی ہاں میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں لیکن میری انا آڑے آ گئی ۔

مونی بابا کو ہنسی آ گئی وہ بولے تم انسان تو ہو نہیں جو انسانوں کے نفسیاتی امراض کو پالو۔ بندروں کی دنیا   میں انا نہیں بس چنا ہوتا  ہے جس سے وہ اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔

جی ہاں آپ کی بات درست ہے لیکن اتنے سال انسانوں کے ساتھ رہتے رہتے ۔۔۔۔۔۔آپ تو سمجھ سکتے ہیں اس لئے کہ آپ بھی۔۔۔۔۔۔

جی ہاں میں نہیں سمجھوں گا تو اور کون سمجھے گا؟ مونی بابا کو فیض کی مشہور نظم ‘رقیب کا شعر یاد آ رہا تھا  ؎

میں نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے

بن ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

مونی بابا نے ناصحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے لکھنا جاری رکھا دیکھو تان سین اب  تمہیں  اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔

تان سین نے تائید کی اور بولا لیکن مجھے ایک اور اندیشہ تھا، اگر وہ مجھے مونگ پھلی کھانے کیلئے چلنے کی دعوت دیتی تو اس کا قبول کرنا بھی میرے لئے ناممکن تھا۔

کیوں اس میں کیا حرج تھا؟ساتھ چلے جاتے چاہے مونگ پھلی نہ کھاتے۔

نہیں آپ نہیں جانتے وہاں جو ہنگامہ برپا تھا  اگر آپ نے دیکھ لیا ہوتا تو مجھے یہ مشورہ کبھی بھی نہ دیتے۔

مونی بابا نے لکھا دیکھو تان سین ’جیسا دیس ویسا بھیس والا‘ اصول ہمیشہ یاد رکھو، نہ تم انسانوں میں بندروں کی طرح رہ سکتے ہو اور نہ بندروں میں انسانوں کی مانند، جب تک یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آ جاتی خود بھی پریشان رہو گے اور دوسروں کو بھی پریشان کرو گے۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب میں کیا کروں ؟

تم یہ کرو کہ کل سے جو کچھ کر رہے ہو اس کام کو انجام تک پہنچاؤ۔

میں سمجھا نہیں ؟

مونی بابا نے اپنے پیڈ پر لکھا۔ اس بات پر ایک تازہ فی البدیہہ شعر ہی  سن لو  ؎

بندر پھر آخر بندر ہوتا ہے   عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے

تان سین بگڑ کر بولا اس گھٹیا تک بندی کو آپ شاعری کہتے ہیں مجھے حیرت ہے

مونی بابا نے لکھا اچھا یہ تک بندی ہے تو تم اپنے اشعار سناؤ

تان سین جھینپ گیا اور بولا نہیں نہیں جانے دیجئے آپ مجھے کیوں شرمندہ کر رہے ہیں ؟

اس میں شرم کی کیا بات ہے ؟ جب شعر کہا ہے تو سنانے میں کیا تکلف؟

تان سین نے لجاتے اور شرماتے ہوئے ایک شعر سنایا    ؎

مندروں کی چوکھٹ پر، دکشنا تو ملتی ہے

ماروتی کی مورت میں،   آستھا نہیں ملتی

یہ شعر سن کر مونی بابا نے اپنے آئی پیڈ سے تالیوں کی آواز سنانے کے بعد لکھا بھئی بہت خوب تم نے تو بڑا زبردست شعر کہا ہے لیکن شاید یہ شعر تمہاری اس ہنومان بھکت بندریا کو پسند نہ آئے ۔

تان سین بولا بابا یہ شعر تو آپ کیلئے کہا ہے۔ اس کو سنانے کیلئے تو دوسری غزل  ہے

غزل ؟ تم نے غزل بھی کہہ ڈالی یہ تو بہت بڑی بات ہے لیکن اسے اپنے دیرینہ دوست کو تو سناؤ۔ ایسی بھی کیا راز داری؟

تان سین بولا ٹھیک ہے آپ بھی سنیے لیکن اس کا اصل مخاطب کوئی اور ہے۔

جی ہاں میں سمجھ گیا وہی امرود والی بندریا جس کا دل تم  بڑی بے دردی سے زمین پر پھینک آئے تھے۔ اب غزل سناؤ

تان سین نے اپنا گلا صاف کیا اور ترنم میں گویا ہوا    ؎

بندروں کی بستی میں، وہ اگر نہیں ملتے

خواہشوں کی ٹہنی پر، پھول بھی نہیں کھلتے

مونی بابا کو یہ شعر بالکل پسند نہیں آیا لیکن وہ اس نوزائیدہ شاعر کا گلا گھونٹنا نہیں چاہتے تھے اس لئے انہوں نے تالیف قلب کیلئے تعریف کی۔ تان سین کا حوصلہ بلند ہوا۔ اور وہ دوسرا شعر سنانے کیلئے کھنکارنے لگا۔ مونی بابا نے لکھا ارشاد، عطا ہو

پتھروں کی وادی میں، خوفناک سناٹا

ماروتی کے مندر میں، خار و گل نہیں ملتے

اس شعر کو سننے کے بعد مونی بابا کو بہت غصہ آیا لیکن کسی طرح اپنے آپ کو قابو میں رکھ انہوں نے کہا بہت خوب۔ تان سین بولا شکریہ اور اگلا شعر سنایا   ؎

سنگ دل حسینہ کے، بے نقاب ہونے پر

دل دہل تو جاتے ہیں، لب مگر نہیں  کھلتے

مونی بابا کو یہ شعر غنیمت لگا پھر ان پر نسلی عصبیت کا غلبہ ہو گیا اس لئے کہ کسی  بندر کی یہ پہلی غزل تھی اور انہیں اس شاعر کی دوستی کا شرف حاصل تھا اس لئے مونی بابا جھوم اٹھے اور تعریفوں کے ڈونگرے برسانے لگے۔ تان سین خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا جب وہ رک گیا تو مونی بابا نے اپنے پیڈ پر لکھا اتنی خوبصورت غزل اور بے مقطع بھئی مزہ نہیں آیا

تان سین بولا اگر ایسی بات ہے تو یہ لیجئے مقطع حاضر ہے۔ تان سین کا انداز تو ایسا تھا گویا ابھی ابھی آورد ہوئی ہے

ہجرتوں کی راہوں پر، تان سین چلنے سے

ٹھوکریں   تو   ملتی   ہیں،   ہمسفر   نہیں   ملتے

مونی بابا کے نزدیک یہ معیاری شعر تھا۔ تان سین کی غزل سن کر مونی بابا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا  اب وہ اپنے آئی پیڈ پر لکھ رہے تھے تان سین ان اشعار کو لے کر تم یہاں بیٹھے ہوئے ہو مجھے حیرت ہے اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مونی بابا نے لکھنا بند کر دیا

تان سین بولا بابا  آگے لکھئے آپ رک کیوں گئے ؟

مونی بابا نے رک کر کچھ دیر سوچا اور پھر اپنے دل کی بات لکھ دی۔ انہوں نے لکھا اگر  میں یہ اشعار کہتا تو اس کے فوراً  بعد اچھلتا کودتا اس بندریا کے پاس جاتا جس کیلئے یہ غزل کہی گئی ہے اوراس کو یہ اشعار سنا کر ہی لوٹتا۔

تان سین کو مونی بابا کے اس جملے پر حیرت ہوئی وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ نہایت خشک نظر آنے والا یہ قلندر نما بندر اپنے پہلو میں ایک نوعمر عاشق کا دل رکھتا ہے۔مونی بابا سے حوصلہ پا کر تان سین اپنی بندریا کی تلاش میں نکل پڑا اور مونی بابا نے اپنے پیڈ پر اپنا پہلا شعر لکھا    ؎

دو دلوں کا ملنا بھی، اتفاق ہے شاید

مختصر کہانی کے، بال و پر نہیں ہوتے

 

 

 

انقلابِ عشق

 

تان سین بڑے جوش کے عالم میں مندر کے اندر بندروں کے درمیان تو پہنچ گیا لیکن اب دو سنگین مسائل درپیش تھے۔ ایک تو اس بندریا کی تلاش کرنا اور دوسرے اس کو منانا۔ یہ دونوں کام چونکہ وہ پہلی بار کر رہا تھا اس لئے اس کے اندر ایک فطری جھجک پائی جاتی تھی۔تان سین کے دل میں یہ خوف بھی پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں  بندریا کے رشتہ دار اس کی اس جرأت پر کوئی اعتراض نہ کر بیٹھیں حالانکہ یہ سارے بے بنیاد اندیشے تھے بندروں کی معاشرت میں یہ کوئی معیوب بات نہیں تھی۔ ان لوگوں نے آزادی اور روشن خیالی کے نام پر ان تمام خرافات کو نہ صرف مباح بلکہ پسندیدہ قرار دے رکھا تھا۔ تان سین اپنی بندریا کو کھوج رہا تھا کہ اس کی ملاقات  ایک شوخ بندر سے ہو گئی۔ اس نو جوان بندر نے پو چھا کیوں خیریت تو ہے آج کل اس جانب کا رخ کرنے لگے ہو کیا کوئی خاص بات ہے ؟

س سوال کو سنتے ہی تان سین کو محسوس ہوا گویا وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔ لیکن پھر سوچا اس بندر کو کیا معلوم کہ اس کے دل میں کیا ہے ؟ اس لئے بولا بس یو نہی کوئی خاص بات نہیں ہے ۔

اچھا ویسے میں نے تمہیں پہلے بھی اسی شاخ پر بیٹھے ہوئے دیکھا تھا۔

اب تان سین کو یقین ہو گیا کہ اس بندر کو اس پر شک ہو گیا ہے ممکن ہے یہ اس بندریا کا رشتہ دار ہو یا کوئی خود ساختہ خدائی فوجدار؟

تان سین بولا جی ہاں میں پہلے یہاں آیا تھا اور آج پھر آیا ہوں صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔

اس بیچ اور بھی کئی بندر ان کے آس پاس جمع ہو گئے تھے اور گفتگو سے محظوظ ہونے لگے۔ تان سین ڈر رہا تھا کہیں اسے گھیرا تو نہیں جا ریا۔ ممکن ہے یہ سب سی آئی ڈی یا اسپیشل ٹاسک فورس کے ارکان ہوں جو سادہ لباس میں اپنے شکار کو اچک لیتے ہیں اور ان سے نہ جانے کیا کیا اگلوا لیتے ہیں۔ حالانکہ کے تان سین فی الحال بندروں سے گھرا ہوا تھا لیکن قیاس انسانوں پر کر رہا تھا یہی اس کا بنیادی مسئلہ تھا وہ حقیقتِ حال سے اپنے آپ کو جوڑ نہیں پارہا تھا اور بیجا اندیشوں کا شکار ہو رہا تھا۔ بندروں کے درمیان سے ایک آواز آئی اگر اسے بھولا نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں ؟

تان سین نے جھنجلا کر کہا ارے بھئی کہا نا اسے بھولا نہیں کہتے پھر بھی آپ لوگ سوال کئے جا رہے ہو۔

ایک اور بندر بولا اس کا سوال درست ہے آپ نے یہ تو بتلا دیا کہ اسے کیا نہیں کہتے لیکن یہ نہیں بتلایا کہ اسے کیا کہتے ہیں ؟

دلیل معقول تھی جو تان سین کی سمجھ میں دیر سے آئی لیکن اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا وہ ہونقوں کی طرح ہوا میں دیکھ رہا تھا کہ مجمع میں سے ایک اور آواز آئی  میں جانتی ہوں اسے کیا کہتے ہیں ؟

یہ وہی ناراض بندریا تھی جس کی تان سین کو تلاش تھی تمام بندر اس بندریا کی جانب متوجہ تھے گویا پوچھ رہے ہوں بتاؤ  اسے کیا کہتے ہیں ؟

ننھے سے توقف کے بعد وہ اٹھلا کر بولی اسے بندر کہتے ہیں۔ بندر  یہ اور اس کے ساتھ وہاں موجودسارے بندر کلکاریاں مار کر ہنسنے لگے۔ تان سین کو ایسا محسوس ہوا گویا اس بندریا نے سارے لو گوں کے سامنے اسے خوار کر کے اپنا بدلہ چکا لیا ہے۔ اس بیچ ایک اور آواز آئی وہ دیکھو نیچے کوئی ہنومان بھکت پرساد  بانٹ رہا ہے۔چلو دھاوا بول دو اور ٹوٹ پڑو اس پر۔ جملہ ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ سارے بندر ایک ساتھ بھاگے اور پھر ایک بار طوفانِ بد تمیزی برپا ہو گیا۔ تنہا تان سین حیرت سے یہ سب دیکھتا رہ گیا۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ تمام اندیشے جو اس کو ان بندروں سے لاحق ہو گئے تھے وہ اچانک چند کوڑیوں کے پرساد نے کیسے نگل لئے ؟

تان سین کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نادانستہ طور پر ان بندروں کا انسانوں کے ساتھ موازنہ کرنے لگ جاتا تھا۔ان بندروں کو ناچتے کودتے اور کھاتے پیتے دیکھ کر وہ سوچ رہا تھا کہ ان بندروں کی قسمت انسانوں سے بہتر ہے۔انسانوں کو دو وقت کی روٹی کیلئے نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور وہ اس تگ و دو میں دو کے بجائے بیس روٹیاں جمع کر کے بھی غمگین رہتا ہے۔ اس کے بر خلاف یہ بندر بغیر کسی محنت و مشقت  کے کھاتے پیتے اور عیش کرتے ہیں۔ ان کا نہ اپنے ماضی سے کوئی تعلق ہے اور نہ انہیں اپنے مستقبل کی کوئی فکر ہے۔ بس جو کچھ ہے آج اور ابھی۔ یہ لوگ اپنے حال میں مست ہیں اور انسان اپنے ماضی و مستقبل سے پریشان۔ تان سین اسی ادھیڑ بن میں مبتلا تھا کہ اسے وہی صبح والا بندر اپنی جانب آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں پر ساد کا حلوہ  تھا۔ قریب آنے کے بعد اس نے پوچھا کیا تم بھی دیگر ہنومان بھکتوں کی طرح منگل کے دن اپواس رکھتے ہو؟

منگل کے دن اپواس؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔

اچھا تو اس کا مطلب ہے کہ ہنومان جی کے بھکتوں کے بارے میں تمہاری معلومات بہت کم ہے۔

یہی سمجھ لو۔ تان سین نے بے رخی سے جواب دیا

دراصل بات یہ ہے ماروتی کے یہ بے وقوف بھکت منگل کے دن خود تو بھوکے رہتے ہیں میرا مطلب ہے اپواس کرتے ہیں مگر ہمیں اچھے اچھے پکوان لا کر کھلاتے ہیں یہ سمجھ لو کہ منگل کا دن ہمارے لئے تہوار کا دن ہوتا ہے۔ ہم سارے ہفتہ اس کا انتظار کرتے ہیں اور اس دن خوب جشن مناتے ہیں ۔

اچھا لیکن تم نے یہ کیوں سوچ لیا کہ میں نے بھی اپواس رکھا ہوا ہے ؟

اس لئے کہ تم نیچے پرساد لینے کیلئے نہیں آئے۔ کوئی بات نہیں یہ دیکھو میں تمہارے لئے یہ حلوہ لے آیا ہوں۔ تم بھی کھاؤ اور جشن مناؤ۔

اور اگر میں نہ کھاؤں تو؟

کوئی بات نہیں میں کھا لوں گا

تم تو بڑے روادار بندر ہو۔ تمہیں کسی چیز کا برا نہیں لگتا ؟ اچھا اگر میں تم سے یہ لے کر پھینک دوں تو ؟

تب بھی کوئی بات  میں اسے اٹھا کر کھا لوں گا۔

ا س کی وجہ ؟

دراصل ہماری تہذیب میں خوراک کا ضائع ہونا بہت ہی معیوب بات سمجھی جاتی ہے۔اس لئے ہم انسانوں کی طرح غذا ضائع نہیں کرتے۔

لیکن اگر کوئی اوراسے خراب کرے تو اس پر غصہ بھی نہیں ہوتے ؟

دراصل بات یہ ہے کہ غصہ ہونے میں اس شخص کا نقصان کم ہے جس پر غصہ اتارا جاتا ہے اور اس کا زیادہ جو غصہ میں آتا ہے اس لئے ہم لوگ  دوسروں کی ایذا رسانی کیلئے خود کو تکلیف نہیں پہنچاتے۔

تان سین بولا لگتا ہے تم لوگ کسی نہایت مہذب قبیلے سے تعلق رکھتے ہو۔ اچھا یہ بتاؤ تمہارا تعلق کہاں سے ہے اور تمہارا سردار کون ہے ؟

نووارد بولا ایسا کرتے ہیں کہ پہلے اس پرساد سے فارغ ہوتے ہیں پھر بات کرتے ہیں۔ اب یہ بتاؤ کہ تمہیں کھانا ہے یا سب میں کھا جاؤں۔

تان سین بولا یہ بہتر ہے ایسا کرو ایک ہاتھ کا پرساد مجھے دے دو اور دوسرے کا تم خود کھا جاو۔

کھانے پینے سے فارغ ہونے کے بعد اس بندر نے پوچھا ہاں تو تم ہمارے قبیلے کے بارے میں پوچھ رہے تھے کیوں ؟

تان سین نے تائید کی تو وہ بولا بات دراصل یہ ہے کہ ہم سب الگ الگ مقامات سے یہاں آئے بلکہ لائے گئے ہیں۔بندروں کا اصول یہ ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں وہاں اپنے ماضی سے یکسر رابطہ منقطع کر کے  ایک نیا قبیلہ تشکیل دے دیتے ہیں اور ایک اکائی بن جاتے ہیں اسی لئے تم دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جاؤ وہاں بندروں کا صرف ایک قبیلہ آباد پاؤ گے اور سارے بندر اس کے افراد ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے ہم لوگ شروع دن سے تمہیں اور تمہارے اس بوڑھے کھوسٹ ساتھی کو اپنی اجتماعیت کا ایک رکن سمجھتے رہے ہیں لیکن تم لوگوں نے نہ جانے کیوں ہم سے فاصلہ بنائے رکھا خیر ہم نے سوچا آج نہیں تو کل ہم کو ایک ہونا ہی ہے اس لئے جلدی بازی سے کیا فائدہ ؟

اچھا تو تمہارے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے ہمارے قبیلے کا کوئی سردار بھی ہے ؟

ہاں ہاں کیوں نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قبیلہ تو ہو لیکن سردار نہ ہو؟

اچھا تو کون ہے سردار؟

وہ بھورے رنگوں والا موٹا تازہ بندر تم دیکھ رہو جو صحن میں ایک جانب سائے میں لیٹا ہوا ہے اور کچھ بندر اس کے ہاتھ پیر سہلا رہے ہیں۔ وہی ہے ہمارا سردار۔

لیکن یہ تو اپنی شکل و شباہت میں خاصہ مختلف لگتا ہے۔

جی ہاں وہ اپنے افکارو خیالات میں بھی بڑا منفرد ہے لیکن کیا کریں چونکہ سردار ہے اس لئے اس کے احکامات کی بجا آوری کرنی پڑتی ہے۔

کیوں ؟ وہ اس قدر مختلف کیوں ہے ؟

بات دراصل یہ ہے کہ اس مندر کی تعمیر کے دوران یہاں کے کچھ لوگوں نے اپنے امریکہ میں رہنے والے اعزہ و اقربا سے بھی تعاون کیلئے رابطہ کیا۔ وہاں کے لوگوں نے مندر کیلئے چاندی کی مورتی بنوا کر بھیجنے کی ذمہ داری لے لی اور اس مجسمہ کے ساتھ اس بندر کو بھی روانہ کر دیا۔یہ اس وقت کی بات  ہے جب ہما را سماج تشکیل کے مراحل میں  تھا ابھی سردار کا تعین ہوا نہیں تھا۔ اس کا رنگ ڈھنگ دیکھ کر ہم لو گ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ یہ ہم سے زیادہ عقلمند ہو گا اور اسے سردار بنا لیا بعد میں پتہ چلا کہ جلدی بازی میں غلطی ہو گئی خیر چونکہ وہ سردار بن چکا تھا اس لئے اب ہم لوگ اسے نبھا رہے ہیں۔

اس بیچ تان سین کی نظر بندروں کے درمیان اس بندریا پر پڑی جس سے ملنے اور کی خاطر وہ آیا تھا۔ بندریا کو دیکھتے ہی وہ دنیا جہاں کے مسائل بھول گیا اور  اپنے بارے میں سوچنے لگا۔اس نے اپنے دوست سے پوچھا یار یہ بتاؤ یہاں شادی بیاہ کا کیا طریقہ رائج ہے ؟

شادی بیاہ کی ہمارے یہاں باقاعدہ رسوم و رواج ہوا کرتی تھیں لیکن اس سردار نے ان سب کو منسوخ کر دیا

کیوں۔ کیا یہ ہنومان جی کی طرح بال برہما چاری ہے۔

ارے نہیں صاحب کہاں یہ عیاش اور کہاں پون پتر ہنومان ان دونوں میں کچھ بھی  مشترک نہیں ہے۔

اچھا تو اس نے شادی بیاہ پر پابندی کیوں لگا دی۔

پابندی لگائی نہیں بلکہ اٹھا دی۔ اس کا کہنا یہ ہے نکاح ایک فرسودہ ادارہ ہے۔ہمیں اس کے چکر میں پڑ کر اپنے آپ کو پریشان کرنے کی مطلق ضرورت نہیں۔

تان سین بولا یہ تو خطرناک بات ہے۔

جی ہاں یہ بڑا عجیب  بندر ہے کہتا ہے میں ترقی یافتہ ملک سے آیا ہوں وہاں یہ سب نہیں ہوتا بلکہ اب تو یہ آگے بڑھ کر ہم جنس پرستی کو بھی فروغ دینا چاہتا ہے۔

ہم جنسی ؟ یہ تو نہایت غیر فطری عمل ہے۔ اس کو بڑھاوا دینے سے کیا حاصل؟

جی ہاں آپ کے نزدیک یہ غیر فطری ہے لیکن وہ تو اسے عین فطرت کے مطابق بتاتا ہے اور اس کے خلاف بولنے والوں کو سزا دیتا ہے۔

یار ایک بات بتاؤ تمہارا سردار کہیں پاگل تو نہیں ہے ؟

صحیح بات تو  یہ ہے کہ وہ ہم سب کو پاگل سمجھتا ہے۔

اور اپنے آپ کو ؟تان سین نے پوچھا

اپنے آپ کو تو انسانوں سے بھی زیادہ اعلیٰ اور ارفع سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بندر دراصل انسانوں کے آبا و اجداد ہیں۔ انسان بھی کسی زمانے میں بندر ہی تھے بعد میں انسان بنے اور بگڑ گئے۔

بگڑ گئے کیا مطلب ؟

مطلب یہ کہ اخلاقی و معاشرتی پابندیاں اس کے خیال میں  انسانی فطرت سے انحراف ہیں اور بندروں نے ان سے متاثر ہو کر اپنے اندر انسانوں کی مانند شادی بیاہ جیسی رسوم رائج کر لیں۔یہ بیجا بندشیں ہیں جن میں ہم لوگوں نے اپنے آپ کو جکڑ رکھا ہے۔

اچھا تو پھر اب کیا کرنا چاہئے ؟

ان کو چھوڑ کر بلکہ توڑ کر اپنی فطرت کی جانب لوٹنا چاہئے۔

کیا سارے بندر سردار کے ان نظریات سے اتفاق کرتے ہیں ؟ تان سین نے پھر سوال کیا۔

ارے توبہ کیجئے۔ دل سے کوئی اتفاق نہیں کرتا لیکن علی الاعلان کہنے سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ سردار کے جاسوس ساری برادری میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ان سے چھپ چھپا کر اب بھی لوگ شادی بیاہ رچا لیتے ہیں لیکن کوئی اس سرِ عام ایسا کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔

یہ تو عجیب بات ہے کہ جس کام کو معیوب ہونا چاہئے وہ مطلوب ہو گیا اور جسے ناخوب ہونا چاہئے اسے خوب بنا دیا گیا

جی ہاں فی الحال ہم لوگ اسی جبر میں مبتلا ہیں۔

تو کیا اس سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے ؟ تان سین  نے سوال کیا

عام طور پر ہمارا سردار تا عمر ہوتا لیکن اس کے باوجود ہر سال ہنومان جینتی کے دن اس بات کا موقع ہوتا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو سردار بدل دیں۔ لیکن اس سہولت کا استعمال شاذو نادر ہی کیا جاتا۔

اس کی وجہ؟ تان سین اس طرح سوال پر سوال کئے جا ریا تھا گویا اسی وقت سردار کے خلاف بغاوت کر دے گا

کوئی خاص وجہ نہیں۔ بس یونہی ایسا ہی چلتا رہا ہے اور پھر لوگوں کے دلوں میں سردار کی دہشت بھی تو ہے۔لگتا ہے ایسا ہی چلتا رہے گا اور کچھ بھی نہیں بدلے گا۔

نہیں لیکن اس ہنومان جینتی کو ایسا نہیں ہو گا۔سب کچھ بدل جائے گا اس ہنومان جینتی کو۔ تم اس قبیلے کے نئے سردار بنو گے ۔ تان سین نے اس اعتماد کے ساتھ کہا گویا  نئے سردار کو متعین کرنے کا اختیار اسی کے پاس ہے۔

میں ؟ کیسی باتیں کرتے ہو۔ مجھ سے بہتر تو کئی اور ہیں۔ ان کے ہوتے میں کیسے سردار بن سکتا ہوں ؟

اچھا ؟ تو سب سے بہتر کون ہے ؟

سب سے بہتر تو وہی ہے ہمارا سردار۔

اگر ایسا ہے تو وہ کبھی بھی نہیں بدلے گا۔ سردار سب سے بہتر نہیں سب سے بدتر ہے اس لئے اسے بدلنا ہو گا۔ہم یہاں مندر میں اپنا سوراج قائم کر یں گے انقلاب برپا کریں گے۔ انقلاب زندہ باد۔ انقلاب زندہ باد۔ اس نعرے بازی کو سن کر آس پاس کئی بندر جمع ہو گئے تھے اور حیرت سے یہ سب دیکھنے لگے۔ تان سین کے اندر گاندھی جی کی آتما حلول کرگئی تھی۔

مونی بابا کو تان سین میں پہلی مرتبہ دلچسپی پیدا ہوئی تھی وہ جاننا چاہتے تھے کہ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔انہیں توقع تھی کہ تان سین واپس آتے ہی ان کو اپنی داستانِ عشق سنائے گا لیکن ہوا یہ کہ واپس لوٹنے کے بعد تان سین اس سوچ میں غرق ہو گیا کہ اس مندر میں انقلاب کیسے برپا کیا جائے ؟ اورسردار کی تبدیلی آئے تو کیسے آئے ؟ انسانی سماج میں تبدیلی لانے کے تو کئی گر ُاس نے گاندھی جی کی صحبت میں سیکھ رکھے تھے لیکن ان بیوقوف بندروں کو کس طرح منظم کیا جائے ؟ ان کو اپنے سردار کے خلاف بغاوت پر کیسے ابھارا جائے ؟ یہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس بیچ اس کے کانوں سے اچانک شہنائی کی آواز ٹکرائی اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا تو پایا کہ یہ مونی بابا کی شرارت ہے جو اسے اپنے آئی پیڈ سے شہنائی کی آواز سنا رہے ہیں۔ تان سین کو اس بے موقع موسیقی کی کوئی وجہ سجھائی نہیں دی اس لئے اس نے پوچھا کیوں بابا خیریت تو ہے ؟ یہ اچانک سنگیت کا شوق کہاں سے چرایا ؟

مونی بابا نے اپنے آئی پیڈ پر لکھا یار بات دراصل یہ ہے کہ آج کل جب میں تمہارے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یہی سب سوجھتا ہے اب تم بتاؤ کہ کیسا رہا تمہارا دورہ ؟

تان سین جوش میں بھرا ہوا تھا اس نے اپنی داستان آخر سے شروع کی سب سے پہلے انقلاب زندہ باد کا نعرہ بلند کیا اور پھر اپنی ساری روداد مونی بابا کو سنا ڈالی اور پوچھا آپ نے تو گاندھی جی کے ساتھ مجھ سے بھی زیادہ وقت گزارہ ہے اب آپ ہی اس مسئلے کا کوئی حل بتلائیے یہ سارے بندر اس بدمعاش سردار کے ڈیل ڈول سے اس قدر مر عوب ہیں کہ کیا بتاؤں ؟ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ میری معلومات بندروں کے رہن سہن اور نفسیات کے بارے میں بہت کم ہے۔ بچپن میں جو کچھ معلوم تھا وہ جوانی میں انسانوں کے ساتھ رہتے رہتے بھول گیا۔ اس باب میں اب میرے معلومات کی تختی بالکل صاف  ہو چکی ہے۔

مونی بابا کی ساری توقعات پر تان سین نے پانی پھیر دیا تھا حالانکہ وہ اپنے آپ کو بہت بڑا دانشور سمجھتے تھے لیکن  پہلی  مرتبہ انہیں اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہوا۔وہ دن بھر انٹر نیٹ کے ذریعہ دنیا جہان کے بارے میں پڑھتے رہتے تھے لیکن کبھی انہوں نے خود اپنی قوم کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش نہیں کی تھی۔حقیقت تو یہی تھی کہ جس قدر معلومات تان سین اپنی ایک ملاقات میں بٹور کر لایا تھا اس کا عشرِ عشیر بھی انہیں پتہ نہیں تھا۔مونی بابا کے پاس چونکہ تان سین کے کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں تھا اس لئے انہوں نے اپنا سوال آئی پیڈ پر لکھ کر تان سین کی جانب بڑھا دیا۔

تان سین اس سوال کو دیکھ کر چکرا گیا اس میں لکھا تھا تان سین تم تو ایسے انقلابی بن گئے کہ اپنی غزل اور غزالہ دونوں کو بھول گئے ؟  یہ بتاؤ کہ اس بابت کوئی پیش قدمی بھی ہوئی یا نہیں ؟مونی بابا کی بات درست تھی وہ واقعی اس بات کو بھول گیا تھا۔تان سین بولا آپ بجا فرماتے ہیں دراصل میں سردار میں ایسا الجھا کہ شاعری بھول گیا لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب تک انقلاب نہیں آ جاتا میرا آنا جانا تو  لگا ہی رہے گا۔ درمیان میں کبھی موقع ملے گا تو غزل سرائی بھی ہو جائے گی اس میں جلدی کی کیا بات  ہے ؟

مونی بابا کو اس کی بے نیازی پسند نہیں آئی وہ بولے دیکھو تان سین ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے جب وقت گزر جائے تو پھر اس میں کوئی لطف نہیں رہتا۔ یہ سردار تو نہ جانے کب سے ان بندروں پر مسلط ہے اور نہ جانے کب تک رہے گا۔تمہاری اس معاملے میں دلچسپی کی میں قدر کرتا ہوں لیکن یہ بھی درست نہیں ہے کہ تم ان کے چکر میں اپنے آپ سے غافل ہو جاؤ۔ میرے خیال میں تمہاری غزل بہت خوبصورت ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو تم ایک بہت بڑے شاعر بن سکتے ہو اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم اس فن کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہو؟

تان سین نے پہلی مرتبہ مونی بابا کے منہ سے اپنی اس قدر تعریف سنی تھی جس سے اس کا دل بلیوں کی مانند اچھلنے لگا تھا وہ بولا مونی بابا آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ سچ تو یہ ہے کہ میری ساری فنکاری آپ کی صحبت کے مرہونِ منت ہے۔ میں آپ کے مشورے کی قدر کرتا ہوں کل جب دوبارہ جاؤنگا تو اپنی غزل سنا کر ہی  واپس آؤں گا یہ میرا وعدہ ہے۔

مونی بابا نے آئی پیڈ کے ساتھ آنکھیں بند کیں اور محو خواب ہو گئے لیکن تان سین کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں تو بس وہ سردار کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا اور اس پر بس کسی نہ کسی طرح سردار کو بےاقتدار کرنے کی دھن سوار تھی !

رات کے آخری پہر جب تان سین کی آنکھ لگی تو اس نے خواب دیکھا۔مندر کے صحن میں واقع میدان میں زبردست مشاعرہ ہو رہا ہے۔وہ اور مونی بابا بھی اسٹیج کے ایک کونے بیٹھے اس سے محظوظ ہو رہے ہیں کہ اچانک ایک شاعر وحشی لنگوری مائک پر آتا ہے اور  سب سے پہلے اپنے متفرق اشعار کے درمیان تان سین کا یہ شعر بھی سنا دیتا ہے۔

مندروں کی چوکھٹ پر، دکشنا تو ملتی ہے

ماروتی کی مورت میں، آستھا نہیں ملتی

اس شعر سے مجمع میں دھوم مچ جاتی ہے لوگ خوب جی بھر کے داد دینے لگتے ہیں یہ دیکھ کر تان سین کی عجیب حالت ہو جاتی ہے۔ ایک طرف تو اسے خوشی ہوتی ہے کہ اس کے شعر پر داد مل رہی ہے لیکن دوسری طرف اسے دکھ ہوتا ہے کہ داد کوئی اور حاصل کر رہا ہے اور پھر اگر یہ شعر اس بدمعاش کے نام سے مشہور ہو جائے تو اس کیلئے یہ منوانا بھی ناممکن ہو گا کہ یہ اس کا شعر ہے بلکہ ایسا کرنے پر لوگ اسے چور سمجھیں گے۔ عوام کو اس بات کا یقین بھی نہیں آئے گا کہ کوئی بندر بھی ایسا شعر کہہ سکتا ہے لیکن سب سے بڑا معمہ یہ تھا کہ آخر یہ شعر اس چور تک پہنچا کیسے ؟ مونی بابا کے علاوہ کسی کو بھی اس نے ابھی تک اسے سنایا نہیں تھا اس لئے وہ مونی بابا کی جانب مڑا اور ان سے پو چھا یہ کیا ہو رہا ہے ؟

مونی بابا نے جھٹ اپنے آئی پیڈ پر بزمِ شاعری نام کے بلاگ کو کھولا جس پر انہوں نے رات تان سین کی غزل کو اپ لوڈ کر دیا تھا لیکن اسی کے ساتھ تان سین کا نام بلکہ اس کی تصویر بھی چسپاں کر دی تھی۔تان سین یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ اس شاعر نے تان سین کی غزل کو ترنم سے سنانا شروع کر دیا سارا مجمع غزل کے ہر ہر شعر پر جھوم رہا تھا اور ان جھومنے والوں میں وہ بندریا بھی شامل تھی جس کیلئے یہ غزل کہی گئی تھی۔ اس بندریا کو داد دیتے ہوئے دیکھ کر تان سین نے اپنا سر پیٹ لیا اور مونی بابا سے کہنے لگا اس بد معاش نے میرا بیڑا غرق کر دیا۔ میرا سب سے قیمتی سرمایہ اس ڈھٹائی سے چرایا کہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ مونی بابا نے اشارے سے اسے دلاسہ دیا اور خود پھدک کر پیچھے سے جنابِ صدر کے بغل میں پہنچ گئے اور آئی پیڈ ان کے سامنے سرکا دیا۔

صدر صاحب نے آئی پیڈ پر جب اسی غزل کو دیکھا تو مسکرا کر بندر کی عقل کی داد دی۔ لیکن جب مونی بابا نے شاعر کے نام پر انگلی رکھی تو وہ چونک پڑے یہاں تو تان سین لکھا تھا اور مائک پر وحشی لنگوری اسے سنا رہا تھا۔ ان کی سمجھ میں سارا قصہ آ گیا۔انہوں نے پوچھا تان سین کہاں ہے ؟  مونی بابا نے کونے میں بیٹھے اداس تان سین کی جانب اشارہ کیا۔ بلاگ میں وہی تصویر تھی جو مونی نے اپنے آئی پیڈ کے کیمرے کی مدد سے لے کر چپکا دی تھی۔ صدر صاحب کے سامنے عقدہ کھل چکا تھا وحشی اس سے بے خبر غزل سنا رہا تھا اور داد حاصل کر رہا تھا کہ اچانک مائک بند ہو گیا۔لنگوری نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا اور بولا یہ کیا ہو رہا ہے ؟

صدر صاحب بولے ابھی تجھے پتہ چلے گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟  پھر کیا تھا لوگوں اس کو دونوں جانب سے پکڑا اور اٹھا کر مجمع میں لے گئے۔ شامیانے  کے درمیان میں لگے ایک ستون پر ایک رسی پر لنگوری کو اسی طرح لٹکا دیا گیا جیسے کہ بکرے کو ذبح کرنے بعد کھال ادھیڑنے کیلئے لٹکایا جاتا ہے۔ کچھ دیر تو لنگوری چھٹپٹاتا رہا پھر ٹھنڈا ہو گیا۔ انسان تو انسان بندر بھی اس منظر کو دیکھ کر خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس کے بعد تان سین کے نام کا اعلان ہوا اور پہلی مرتبہ کسی انسانوں کے مشاعرے میں ایک بندر کو اپنا کلام سنانے کا موقع ملا۔ساری بندر برادری کا سر تان سین نے اونچا کر دیا تھا۔ ان کا سردار سینہ ٹھونک کر کہہ رہا تھا۔ دیکھ  لو۔ میری بات صحیح نکل گئی۔ بندروں کے بارے میں یہ انسانوں کا غلط پروپگنڈہ ہے کہ وہ نقال ہوتے ہیں آج یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ ایک انسان نے بندر کا کلام چرایا اور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔بندر شاعر سیدھا کھڑا ہو کر اپنا کلام سنا رہا ہے اور انسان شاعرسر کے بل لٹکا ہوا ہے۔سردار کی یہ تقریر صرف اس کے چند چمچے سن رہے تھے بندروں کی اکثریت تان سین کا کلام سن رہی تھی اور بڑھ چڑھ کر داد دے رہی تھی ان میں سب سے پیش  پیش وہ بندریا تھی جس کیلئے یہ غزل کہی گئی تھی۔ تان سین کو ایسا لگ رہا تھا گویا وہ سمجھ گئی ہے اصل مخاطب کون ہے۔ لیکن جب اس نے نہایت سنجیدہ مقطع پڑھا  ؎

ہجرتوں کے راہوں پر، تان سین چلنے سے

ٹھوکریں   تو   ملتی   ہیں،   ہمسفر   نہیں   ملتے

تو سارا مجمع سوگوار ہو گیا  واہ کے بجائے آہ نکل گئی لیکن وہ بے وقوف بندریا اب بھی کلکاریاں مار مار کر داد دے رہی تھی، ۔ تان سین کی ساری غلط فہمی دور ہو گئی وہ سمجھ گیا بندریا تو آخر بندریا ہے وہ کچھ بھی نہیں سمجھتی۔ وہ تو صرف اس بات پر پھولی نہیں سما رہی  ہے کہ ان کی برادری کا کوئی فرد شاعری کر رہا ہے بس۔ سچ تو یہ ہے کہ اس روز تان سین مشاعرے پر چھا گیا تھا اور اس کا سار ا کریڈٹ وحشی لنگوری کو جاتا تھا۔ نہ وہ اس کا کلام چراتا اور نہ تان سین کو اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملتا۔تان سین کے بعد جب دوسرے شاعر کے نام کا اعلان ہوا تو اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا وحشی کی رسی اپنے آپ ٹوٹ گئی اور وہ دھڑام  سے نیچے آ گیا اسی کے ساتھ تان سین کی آنکھ کھل گئی سورج سر پر آ چکا تھا اور اس سے کہہ رہا  تھا آج تو خوب لمبی تان کر سوئے ہو تان سین ؟ تان سین کے سامنے اب بھی وہی مشاعرے کا منظر تھا اور اور اچھلتی کودتی احمق بندریا تھی۔ اس نے سوچا  اس سے پہلے کہ کوئی اس کی غزل چرا کر بندریا کو سنا دے اسے خود اس کام کو کر دینا چاہئے اور اس میں اب بالکل تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ انقلاب پر پھر ایک بار عاشقی غالب آ گئی تھی ۔

تان سین کی نظریں مندر کے صحن میں بندریا کو تلاش کر رہی تھیں وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہی تھی، تان سین نے ایک اونچی شاخ پر چھلانگ لگائی اور دور تک دیکھا اب بھی وہ بندریا کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔اچھلتے کودتے وہ پیپل کے پیڑ کی سب  اونچی ٹہنی پر پہنچ گیا اور دور دور تک دیکھنے لگا اس کا جی چاہ رہا تھا کہ لیلیٰ لیلی ٰ کہہ کر پکارے لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی ایسی حماقت کرتا ایک ہتھوڑا نما ہاتھ اس کے سر پر پڑا۔ تان سین کو بھری دوپہر میں تارے نظر آ رہے تھے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں سردار کھڑا تھا  اور اس کے چمچے اس کے مکے پر اسی طرح داد دے رہے تھے جیسا کہ اس نے خواب میں داد وصول کی تھی۔

مظاہرین پر پولس کا لاٹھی چارج اور دیگر مظالم تان سین نے بارہا دیکھے تھے۔ انگریزوں کے دور میں گورے آقاؤں کے اشارے پر زر خرید مقامی گرگوں کے ہاتھوں جو زیادتی کی جاتی تھی وہی سب ان کے چلے جانے کے بعد انگریزوں کے کالے وارث بھی اپنی عوام پر کیا کرتے تھے لیکن چونکہ گاندھی جی کے ان بندروں کا شمار عوام کے ساتھ نہیں بلکہ خواص میں ہوا کرتا تھا پولس ان کے قریب نہیں پھٹکتی تھی بلکہ لاٹھی چارج اور فائرنگ سے قبل انہیں گرفتار کر کے محفوظ مقامات تک پہنچا دیا جاتا تھا تا کہ انہیں کوئی گزند نہ پہنچے۔ یہ پہلا موقع تھا جب تان سین اس  سرکاری تحفظ سے محروم تھا جو اسے ہمیشہ حاصل رہا تھا۔ آج اسے پہلی بار معلوم ہوا تھا کہ جب سرکاری ہتھوڑا عوام پر برستا ہے تو ان کی کیا درگت بنتی ہے ؟

سردار کہہ رہا تھا۔ کیوں بہت بہادر بنتا ہے۔انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتا ہے ؟ اب میں تجھے بتاتا ہوں کہ انقلاب کیا ہوتا ہے یہ لے انقلاب اور اسی کے ساتھ ایک اور تھپڑ جڑ دیا۔تان سین پر تھپڑ اور مکوں کی برسات ہو رہی تھی گویا کہ سپر سرف کی دھنائی جار ی تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔تان سین شور شرابہ کرنے لگا بندر جمع ہونے لگے۔ اول تو تان سین گھبرا گیا  تھا لیکن جب اسے یقین ہو گیا کہ یہ اس کا آخری دن ہے اور اب موت اس کا مقدر بن چکی ہے تو موت کا ڈر اس کے دل سے نکل گیا اور وہ  ایک دم سے بے خوف ہو گیا۔ اس نے ایک زور دار نعرہ لگا یا انقلاب زندہ باد۔ یہ سنتے ہی  سردار کی آنکھوں میں خون اتر آیا تان سین کی ساری دہشت یکلخت کافور ہو چکی تھی۔ بندروں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔ سردار نے اس کو گردان سے پکڑ کر اٹھایا اور پوچھا کیا ؟ کیا بولتا ہے ؟ خلا میں لٹکے تان سین نے پوری طاقت کے ساتھ  پھر نعرہ بلند کیا انقلاب زندہ باد۔ سردار کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا اس نے تان سین کو ہوا میں اچھا ل دیا۔

تان سین کو پیڑ کی سب سے اونچی شاخ سے نیچے آتا ہوا دیکھ کر سارے بندر گھیرا ڈال کر کھڑ ے ہو گئے  اور تان سین کو زمین پر گرنے سے پہلے تھام لیا گیا۔ اب کیا تھا تان سین کو نئی زندگی مل گئی تھی اس نے پھر ایک بار نعرہ لگایا انقلاب زندہ باد اور سارے بندروں نے اس کی آواز میں آواز ملائی  زندہ باد پائندہ باد۔ سارا جہاں انقلاب زندہ باد کے نعرے سے گونج رہا تھا۔ سردار نے دیکھا کے اس کے چیلے چاپڑ بھی ایک ایک کر کے نیچے اتر چکے ہیں اور باقی بندروں کے ساتھ نعرے لگا رہے ہیں۔ سردار کو اپنی شکست کا احساس ہو گیا۔  اس کے جبر کا طلسم ٹوٹ گیا اس نے بھی انقلاب زندہ  باد کا نعرہ بلند کر دیا اور تان سین کے سامنے نظریں جھکائے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا گویا معافی مانگ رہا ہو۔

مجمع سے آواز آئی  ہمارا قائد تمہارا قائد۔ تان سین، تان سین۔ تان سین نے مجمع کی جانب دیکھ کر کہا۔رہنمائی کیلئے عزم و حوصلہ، عقل و فہم کے علاوہ زورِ بازو کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام صفات کا حسین ترین امتزاج ہمارا یہ دوست ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے اسی دوست کی جانب اشارہ کیا جس سے اس کی ایک روز قبل ملاقات ہوئی تھی۔ سردار ندامت کے ساتھ  آگے بڑھا اور نئے سردار کو سینے سے لگا لیا۔ جب وہ الگ ہوا تو نیا سردار عقیدت کے ساتھ تان سین کی جانب بڑھا اور اسے سینے سے لگا لیا۔ ایک بار پھر انقلاب زندہ باد کے فلک شگاف نعرے سے آسمان گونج اٹھا۔

اس منظر کو دیکھنے کیلئے مونی بابا پہلی بار بندروں کے مجمع میں آئے تھے۔ ان کا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا۔ ایسا انقلاب انہوں نے انسانی تاریخ کے اندر نہیں پڑھا تھا۔ انہیں اپنے بندر ہونے پر پہلی بار فخر محسوس  ہو رہا تھا۔

ماروتی مندر کے اندر آنے والے غیر متوقع انقلاب نے بندروں کے معاشرے میں ہمہ گیر اثرات مرتب کئے تھے۔بندروں کے اندر مسرت و شادمانی کے علاوہ یک گونہ خود اعتمادی پیدا ہو گئی تھی۔اس کا ایک غیر معمولی فائدہ یہ ہوا تھا کہ تان سین اور مونی بابا اپنی اجتماعیت میں لوٹ آئے تھے اور اس سعادت پر وہ دونوں بہت خوش تھے۔تان سین کی تنہائی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئی تھی اور اپنے  ساتھ عاشقی کے بھوت کو بھی اغوا کر کے لے گئی تھی۔ اب تان سین کے آس پاس تنہائی کا کوئی گذر نہیں تھا۔ انقلاب نے اسے اپنی برادری میں بے حد معروف و مقبول بنا دیا تھا۔وہ دن بھر بندروں کے درمیان گھرا رہتا۔ کوئی اس کی خدمت کر رہا ہوتا تو کوئی اس سے کچھ سیکھ رہا ہوتا۔  انسانوں کی صحبت کا کم از کم یہ فائدہ تو ان دونوں کو ہوا ہی تھا کہ ان کی معلوماتِ عامہ میں خاصہ اضافہ ہو گیا تھا اور اس سونے پرسہاگہ تان سین کی خوش بیانی و چرب زبانی تھی۔لوگ پہلے تو اس سے اپنے مسائل پوچھتے تھے لیکن آگے چل کر وہ آپس کے جھگڑے ٹنٹے نمٹانے کا کام بھی اس سے لینے  لگے تھے۔ ویسے اگر کوئی واقعی پیچیدہ مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ اسے مونی  بابا کی جانب رجوع کر دیتا تھا۔

 

 

 

گاندھی جی کی عینک

 

مونی بابا اب گاندھی جی کے تین بندروں میں سے ایک نہیں تھے بلکہ عام بندر بن گئے تھے۔ منہ پر ہاتھ اور دل میں کالک والا پاکھنڈ ختم ہو گیا تھا۔ اب ان کا دل صاف اور زبان پٹر  پٹر بولنے لگی تھی۔ترسیل کی خاطر آئی پیڈ اور کمپیوٹر جیسی بے جان مشینوں پر انحصا ر بھی ختم ہو گیا تھا لیکن اپنے مطالعہ کی خاطر وہ ان کا استعمال اب بھی کرتے تھے اور بیشتروقت پڑھنے لکھنے میں غرق رہتے تھے۔  ایک دن ایک شرارتی بندر نے ان سے سوال کیا بابا یہ مشین آپ کے پاس کہاں سے آ گئی کہیں کسی سے اڑا تو نہیں لی ؟ یہ کہہ کر وہ کھی کھی کر کے ہنسنے لگا۔ بابا بولے بے وقوف سب کو اپنی مانند چوراچکاسمجھتا ہے تجھے شرم نہیں آتی؟ یہ دراصل اس وقت کی بات ہے جب ہم وردھا کے گاندھی آشرم میں رہا کرتے تھے۔ اس زمانے میں گاندھی جینتی کے موقع پر ووڈافون نامی برطانوی کمپنی نے مہاتما کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے آشرم کے سارے لوگوں  کوآئی پیڈ اور تا عمر مفت کنکشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ اکثر ملازمین نے اس آئی پیڈ کو بے فائدہ سمجھ کر بازار میں موٹی قیمت کے عوض فروخت کر دیا لیکن  چونکہ میرے لئے روپیہ پیسہ بے معنی تھا بلکہ علم و عرفان کی اہمیت تھی اس لئے میں نے اس سہولت کا بھر پور استعمال کیا۔

بندر نے سوال کیا یہ گاندھی جی  ہماری برادری کے کوئی مہان ہنومان بھکت تھے ؟

مونی بابا کو اس احمق بندر کے سوال پر بہت غصہ آیا وہ تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ دنیا میں کوئی ایسا انسان بھی ہو سکتا ہے جو گاندھی جی کو نہیں جانتا ہو خاص طور پر ایٹن بورگ کی فلم گاندھی کے بعد تو گاندھی جی کو ساری دنیا جان گئی تھی۔ اس لئے مونی بابا نے چڑ کر پوچھا تم کیسے ناہنجار انسان ہو جو مہاتما گاندھی کو نہیں جانتے ؟

بندر نے نہایت ادب کے ساتھ جواب دیا میں ۔۔۔۔ بابا میں ۔۔۔۔۰ انسان نہیں ایک بندر ہوں اور آپ سے میں نے ایک معمولی سا سوال کیا لیکن آپ سیدھے سیدھے جواب دینے کے بجائے انسانوں کی مانند الٹے مجھ پر برس پڑے۔ کیا وردھا کے گاندھی آشرم آپ کو یہی تعلیم دی گئی۔ اگر ایسا ہے اچھا ہی ہوا جو میں وہاں نہیں گیا۔

مونی بابا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا  وہ بولے جی نہیں میں اپنے اس رویہ کیلئے معافی چاہتا ہوں۔ وہاں تو ہمیں صبر و تحمل کی تربیت دی گئی تھی لیکن وہ کیا ہے ایک عرصہ ہوا آشرم چھوڑے ہوئے اور پھر کیا ہے کہ عمر کا بھی تقاضہ ہے انسان بوڑھا ہوتا ہے تو چڑچڑا ہو جاتا ہے۔

بندر نے پھر ٹوکا لیکن جناب آپ انسان نہیں بلکہ بندر ہیں۔

مونی بابا کو لگا یہ بندر نہایت ذہین ہے وہ بولے ہاں بابا تم تو زبان پکڑ لیتے ہو تمہیں بندر نہیں بلکہ انسان ہونا چاہئے تھا۔

بندر بولا بابا میں ہنوز اپنے جواب کا منتظر ہوں اور اسے بھولا نہیں ہوں۔

مونی بابا نے کہا دراصل ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ہندوستان کی سرزمین پر فرنگی اقتداراسی طرح مسلط تھا جیسے کہ تمہارا سابق سردار۔ اس کے بعد گاندھی جی نے ان کے خلاف بغاوت کی اور آزادی کی جنگ لڑی۔ سمجھ لو کہ انہوں نے ہندوستانی عوام پر وہی احسان  کیا جو تان سین نے تم لوگوں پر کیا۔

بندر کو مونی بابا کی یہ بات اچھی نہیں لگی اس نے سوال کیا اچھا تو کیا اس نے صرف ہم پر احسان کیا آپ پر نہیں۔ کیا آپ اپنے آپ کو ہم سے الگ سمجھتے ہیں ؟

مونی بابا بولے جی نہیں ایسی بات نہیں میں بھی تم میں سے ایک ہوں لیکن ہوا یہ ایک طویل عرصہ گاندھی جی کے ساتھ رہتے رہتے اپنے آپ کو الگ سمجھنے لگا تھا لیکن اب ایسی بات نہیں ہے۔

ننھابندر خوش ہو گیا بولا اچھا تو یہ بتائیے کہ جب گاندھی جی برطانوی اقتدار کے خلاف بر سرِ جنگ تھے تو ایک برطانوی کمپنی نے یہ مشین آپ سب کو ہدیہ کیوں دی؟ اس کو تو چاہئے تھا کہ وہ جو کچھ گاندھی بھکتوں  کے پاس تھا اس سے بھی  انہیں محروم کر دیتے۔

جی ہاں تمہاری بات درست ہے لیکن یہ معمولی سی بات جو تمہاری سمجھ میں آ گئی ہم احمق لوگ اسے نہ سمجھ سکے۔ ہم نے شکریہ کے ساتھ اسے لے لیا اور بڑی محنت سے اس کو چلانے کی تربیت بھی حاصل کی اس وقت یہ مشین اس قدر عام نہیں ہوئی تھی۔

ہاں تو انہوں نے احسانِ عظیم کیا کیوں ؟

مونی بابا بولے ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ ان کی سازش تھی۔ اس کے ذریعہ سے انہیں ہمارا محل و وقوع معلوم ہو جاتا تھا اور ہمارے پیغامات تک بھی ان کی رسائی ہو جاتی تھی گویا ان لوگوں نے ایک چلتا پھرتا جاسوس ہمارے ساتھ لگا دیا تھا۔

تب تو اس سے بڑا نقصان ہوا ہو گا؟

جی نہیں ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ زیر زمین کوئی کام کرتے ہی نہیں تھے اور کوئی ایسی پیغام رسانی نہیں کرتے تھے جس کو پوشیدہ رکھنا ہو۔

بندر نے  کہا یہ تو بڑا اچھا اصول تھا۔

جی ہاں ایسے اور بھی کئی اصول و ضوابط تھے جن کی بدولت ہم لوگ محفوظ و مامون رہے ۔مونی بابا بولے لیکن ایک چیز نے ہمارا بہت نقصان کیا۔

وہ کیا ؟

ہم میں سے بہت سارے لوگوں نے اس پر اپنا بہت سارا وقت لایعنی ویب سائیٹس پر ضائع کیا جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہوئی وہ ذہنی و اخلاقی سطح پر مفلوج ہو کر رہ گئے۔

بندر نے کہا خیر کوئی بات نہیں لیکن پھر بھی   ہندوستان تو آزاد ہو گیا لیکن اب آپ یہ بتائیے کہ گاندھی آشرم کے چنگل سے آپ لوگ کیسے آزاد ہوئے ؟

مونی بابا کو بندر کی ظرافت پر ہنسی آ گئی  وہ بولے یہ ایک طویل داستان ہے جس کی ابتداء گاندھی جی کی عینک کی چوری سے ہوئی۔

گاندھی جی کی عینک کا چوری ہونا اور آپ لوگوں کا رہا ہونا کچھ سمجھ میں نہیں آیا؟

مونی بابا نے کہا  دیکھو میں تمہارے سوالات کے جواب دیتے دیتے تھک گیا ہوں تم ایسا کرو کہ میرے آئی پیڈ پر گاندھی جی عینک نامی ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ دیکھ لو۔ یہ اس رپورٹر راجو کی رپورتاژ ہے جس نے ہمیں رہائی دلائی۔ مجھے یقین ہے کہ تمہیں اپنے سارے سوالات کا جواب اس میں مل جائے گا اور پھر اگر کوئی بات رہ جائے تو پوچھ لینا۔ ننھے بندر نے کہا یہ اچھا ہے اور اپنے کانوں میں ائیر فون لگا کر آئی پیڈ پر یوٹیوب نامی سائٹ پر  ٹی وی پروگرام دیکھنے لگا جس کا عنوان تھا ’’گاندھی جی کی عینک‘‘ اس کے ابتداء میں ایک خوش پوش نوجوان صحافی مائک ہاتھ میں لے کر کہہ رہا تھا :

سامعینِ کرام : رپورٹر راجو آپ کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہے ’’ تول کے بول‘‘ پروگرام کے تازہ ایپی سوڈ میں آپ سب کا سواگت ہے۔ یہ ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر کاوردھا  نامی شہر ہے اور میرے پیچھے جو عمارت آپ لوگ دیکھ رہے ہیں اسے ۱۹۳۶ میں گاندھی جی نے اپنی رہائش گاہ کے طور تعمیر کیا تھا جو آگے چل کر سیوا گرام نام کے آشرم میں تبدیل کر دی گئی۔ جب گاندھی جی حیات تھے تو اس آشرم سے گاؤں والوں کی سیوا کی جاتی تھی اب گاندھی جی کی سیوا بھاونا (خدمتِ خلق کا جذبہ) کی مانند یہ آ شرم بھی پرکھوں کی ایک یادگار بن چکا ہے جہاں ہر سال ۳ لاکھ زائرین گاندھی درشن کیلئے آتے ہیں اور ان کی نوادرات پر حیرت جتاتے ہیں۔ گاندھی آشرم میں ان کے استعمال کی اشیاء فی زمانہ نمائش کا سامان بنی ہوئی ہیں۔مہاتما سے بے پناہ  عقیدت رکھنے والوں کے نزدیک ان کی اہمیت اور ضرورت اس سے زیادہ نہیں ہے۔

ناظرین آپ کو یہ جان کر افسوس ہو گا کہ اس سال سیوا گرام آشرم کے حکام اپنی ڈائمنڈ جوبلی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک ملک کے سب سے زیادہ سنسنی خیز چینل بھارت ٹی وی سے گاندھی جی کی عینک  کے چوری ہونے کی خبرمنصۂ شہود پر آئی ہے اور ذرائع ابلاغ پر چھا گئی۔ بھارت چینل نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ چوری کی اس واردات کو چھ ماہ تک صیغۂ راز میں رکھا گیا تھا۔ ایسی عظیم کوتاہی کیوں کر سرزد ہوئی ؟اس کی تحقیق و تفتیش کر کے ناظرین کو حقیقت سے واقف کرانے کی ذمہ داری ’تول کے بول‘ پروگرام کے پروڈیوسر نے آپ کے اپنے رپورٹر راجو کو سونپی ہے اور اس کام کیلئے ہم سب سے پہلے معروف گاندھیائی مفکر اور دانشور شری سنکی لال اگروال کی خدمت میں پہنچ کر ان سے استفادہ کریں گے۔

اب کیمرے کے سامنے راجو کے علاوہ ایک گول مٹول سی شخصیت سنکی لال بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ راجو ان سے سوال کر رہا تھا۔ گاندھی جی کے چشمے کی چوری کو اس قدر طویل عرصہ کیوں چھپایا گیا ؟

سوال کو سن کر سنکی لال اگروال نے جواب دیا آپ گاندھیائی فلسفۂ حیات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ورنہ یہ سوال ہرگز نہ کرتے ؟

راجو نے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا یہ بات درست ہے کہ ہم نہیں جانتے لیکن گاندھی جی کے اصول و نظریات کو اس دور میں ویسے بھی کون جانتا ہے ؟

سنکی لال ناراض ہو کر بولے ہمارے ہوتے ہوئے آپ کا یہ تبصرہ  ہماری توہین کے مترادف  ہے۔

راجو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اوراس نے شرمسار ہو کر معذرت طلب کی پھر کہا کہ اچھا تو آپ ہی گاندھیائی فلسفۂ حیات کی روشنی میں اس تاخیر کی وجہ بتلا دیں۔

وہ بولے گاندھی جی کی چوکی پر تین بندر رکھے ہوتے تھے اور آج تک انہیں کسی نے چرانے کی جرأت نہیں کی، وہی اس بارے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔

اچھا ! لیکن یہ چوکی کیا ہوتی ہے ؟راجو نے حیرت سے پوچھا

وہ راجو کے اس سوال پر چونک پڑے اور بولے آپ چوکی نہیں جانتے ؟ ارے میز سمجھ لیں ایسی میز جس کے پیچھے کرسی نہ ہو ؟

اچھا تو کیا انسان اس کے پیچھے کھڑا ہو کر کام کرتا ہے ؟

ارے نہیں بیٹھ کر میرا مطلب ہے زمین پر بیٹھ کر۔ گاندھی جی زمینی آدمی تھے  اس لئے زمین پر بیٹھ کر اپنے سارے کام کیا کرتے تھے۔

گویا گاندھی جی کو آج کل کے سیاستدانوں کی طرح کرسی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ؟

جی نہیں وہ تو بے غرض مہاتما تھے۔

لیکن آپ ان کے بندروں کے بارے میں بتلا رہے تھے ؟ کیا وہ اب بھی حیات ہیں ؟ ان کی عمر کیا ہو گی؟راجو نے سوال کیا

یہ سن کر سنکی لال اگروال صاحب کا پارہ چڑھ گیا وہ بولے آپ تو بالکل جاہل اور کندۂ ناتراش معلوم ہوتے ہیں۔ وہ بندر کبھی بھی حیات نہیں تھے وہ تو ان کا مجسمہ تھا جو نہ زندہ ہوتا ہے اور نہ مرتا ہے اس لئے اب بھی موجود ہیں۔

اچھا تو وہ پتھر کے بت  عینک کی چوری  کا راز فاش کریں گے ؟

ارے بھئی وہ بندر نہیں بولیں گے اور اگر بولیں بھی تو ہم ان کی زبان کیونکر سمجھ سکتے ہیں ؟

تو پھر آخر اس سوال کا جواب کون دے گا ؟

میں دوں گا۔

اور وہ بندر کیا کریں گے ؟

وہ! وہ کچھ نہیں کریں گے میں ان کی مدد سے جواب دوں گا ؟

اچھا تو آپ ان سے پوچھ کر جواب دیں گے ؟ لیکن ابھی تو آپ نے کہا کہ ان کی زبان آپ نہیں سمجھتے۔

ارے بھئی مدد کا مطلب پوچھنا نہیں ہوتا یہ کہہ کر انہوں نے اپنے میز کی دراز سے تین بندروں کے مجسموں کو نکالا اس پر کافی گردو غبار چڑھا ہوا تھا اسے صاف کیا اور پوچھا اچھا بتلاؤ کہ یہ کیا ہے ؟

یہ ! یہ تو وہی تین بندر ہیں جن کا ابھی آپ نے ذکر فرمایا۔

اچھا یہ کیا کر رہے ہیں ؟

یہ سوال مشکل تھا راجو نے کہا یہ کچھ بھی نہیں کر رہے۔ اصلی بندر ہوتے تو کچھ نہ کچھ کرتے۔یہ بے جان بندر کر بھی کیا سکتے ہیں ؟

اصل میں تم صرف آنکھوں سے دیکھنے کا کام لیتے ہو دماغ سے سوچنے کا کام نہیں لیتے اسی لئے یہ جواب دے رہے ہو۔

راجوکو ان کی بات پر غصہ آیا اس نے کہا صاحب میرا کا م سوال کرنا ہے اور جواب دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ پچھلے نصف گھنٹے سے میرے ایک معمولی سے سوال کا جواب دینے کے بجائے مجھے الجھائے ہوئے ہیں۔

تم کافی جلد باز اور بے صبر قسم کے انسان  ہو مفکر سنکی لال نے متفکر ہو کر کہا۔ یہ پوری قوم گزشتہ نصف صدی سے ان بھول بھلیوں میں الجھی ہوئی ہے اور مطمئن ہے جبکہ تم صرف آدھے گھنٹے کے اندر بے چین ہو گئے۔

راجو نے کہا صاحب اس سے پہلے کہ میں ان بندروں میں شامل ہو جاؤں آپ میرے سوال کا جواب دے دیں  ورنہ خدا نخواستہ یہ تین کے بجائے چار ہو جائیں گے۔

یہ تم نے پتہ کی بات کہی۔ گاندھی جی یہی چاہتے تھے کہ ساری قوم ان کی مانند ہو جائے۔

ان بندروں کی مانند ؟ راجو نے حیرت سے پوچھا

جی ہاں کیا تم نے ان بندروں کو کوئی معمولی چیز سمجھ رکھا ہے ؟ اگر گاندھی جی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو جاتا تو آج کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوتے بلکہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔

لیکن جناب مجھے اس دور کے سارے مسائل سے کیا غرض میرا تو ایک آسان سا مسئلہ ہے۔ اس بات کا پتہ چلانا کہ آخر گاندھی جی کے عینک کی چوری کی خبر کو اتنے دنوں تک صیغۂ راز میں کیوں رکھا گیا؟ کیا اس سوال کوئی جواب آپ کے یا گاندھی جی کے ان تین بندروں کے پاس موجود ہے ؟

کیوں نہیں ایسا کوئی سوال نہیں ہے جس کا جواب ہم چاروں نہیں جانتے ۔ دانشور سنکی لال نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو ان بندروں کی صف میں کھڑا کر دیا

آپ لوگ تو سب جانتے ہی لیکن میں نہیں جانتا اس لئے  برائے مہربانی مجھے بھی از خود یا ان کے توسط سے  بتلا دیجئے۔

کاش کہ تم میں چھٹانک بھر عقل ہوتی اور تم اس کا استعمال کر کے خودبخود اپنے اس سوال کا جواب جان لیتے۔

یہ سن کر راجو کا پارہ چڑھ گیا اور و ہ بولا ٹھیک ہے جناب ہم تو آپ جیسے دانشور پرشاد ہیں نہیں اور نہ ان بندروں جیسے عقلمند اس لئے اب اجازت دیجئے ہم اس سوال کا جواب معلوم کر نے کیلئے کسی اور سے رجوع کر یں گے۔ دھنیا باد۔خدا حافظ۔

یہ سن کر سنکی لال اگروال آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ یہاں سے سن تشٹ ( مطمئن) ہوئے بغیر چلے جائیں اور ساری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹتے پھریں کے ہم اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔اس سے بڑی ذلت کی بات ہمارے لئے کوئی نہیں ہو سکتی۔ یہ تو ہماری توہین ہے۔

لیکن حقیقت بھی ہے۔راجو نے سر جھکا کر کہا

جی نہیں یہ حقیقت نہیں ہے ہم ہر سوال کا جواب جانتے ہیں ہم نے گاندھیائی فلسفہ کی تحقیق میں اپنی عمر کھپا دی ہے۔

اچھا اگر آپ واقعی جانتے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے ؟

وہ بولے دیکھو یہ پہلا بندر کس حالت میں ہے ؟

راجو نے اسے غور سے دیکھا اور کہا  یہ تو آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ اسے عینک کی کوئی ضرورت نہیں۔

وہ  ڈانٹ کر بولے تم سے یہ کس نے پوچھا کہ اسے کس چیز کی ضرورت ہے اور کس کی نہیں جس قدر سوال کیا جائے اسی قدر جواب دو کیا سمجھے ؟

راجو نے کہا سرکار غلطی ہو گئی کاش کے ان میں سے کسی بندر نے سر پر بھی ہاتھ رکھا ہوتا؟

سر پر ؟سر پر کیا ہے ؟

اوپر تو نہیں اندر دماغ  ہوتا ہے۔ ہم اس کا استعمال نہیں کرتے اور اضافی جواب نہ دیتے۔

خیر کوئی بات نہیں  یہ بتاؤ کہ آنکھوں پر ہاتھ رکھنا کس بات کی علامت ہے ؟

راجو نے جواب دیا کچھ نہ دیکھنے کی علامت ہے صاحب۔ یہ بھی کوئی سوال ہے ؟

تمہارا جواب غلط ہے برخوردار۔ اگر یہ تمہاری طرح معمولی بندر ہوتا تو تمہاری بات درست ہو تی لیکن یہ گاندھی جی کا تربیت یافتہ  بندر ہے اس لئے اس پر یہ اصول صادق نہیں آتا۔

اچھا تو اس بندرکے آنکھوں پر پٹی رکھنے کے معنیٰ کیا ہیں ؟راجو نے ایک بندرانہ سوال کیا۔

اس کے معنیٰ ہیں برا مت دیکھو؟

راجوکو جواب پر حیرت ہوئی اس نے پوچھا کہ صاحب اگر کسی نے اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا  تو اسے کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے سامنے جو کچھ  ہو رہا ہے وہ اچھا ہے یا برا؟

اس سوال پر سنکی لال اگروال کچھ گھبرائے لیکن فوراً اپنے آپ کو سنبھال کر جواب دیا۔ ارے بھئی اس بندر نے اپنی آنکھوں پر ہمیشہ سے ہاتھ نہیں رکھا ہوا ہے بلکہ جب کوئی برائی اس کے سامنے آتی ہے تووہ ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ گاندھی جی کی عینک کا چوری ہونا کوئی اچھی بات تھی یا بری بات؟

وہ تو بہت بری بات تھی جناب اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کی  بابت تفتیش کرنے کیلئے  آپ کو زحمت کیوں دی جاتی؟ ہمارے چینل والے مجھے آپ کے پاس ہر گز نہ بھیجتے۔

تو کیا آپ کا چینل صرف بری باتیں نشر کرنے کیلئے قائم کیا گیا ہے ؟

یہ کس نے کہا؟آپ تو ہمارے چینل پر بیٹھ کر ہمارے ہی چینل پر دشنام طرازی کر رہے ہیں۔

اچھا تو کیا ایسا کرنے کیلئے میں کسی اور چینل پر جاؤں ؟ کیا آپ لوگ اس طرح کا مواد نشر نہیں کرتے ؟سنکی لال نے معصومانہ سوال کیا۔

جی نہیں جناب ایسی بات نہیں ہمارے یہاں اس کی پوری آزادی ہے آپ تو بس یہ کریں کہ ہمارے چینل پر دوسروں پر میرا مطلب ہے ہمارے مسابقین پر من چاہے الزامات لگائیں۔بہتان طرازی فرمائیں۔ہم آپ کے اظہار رائے کی آزادی کا پورا احترام کریں گے لیکن اسی کے ساتھ وہ عینک والا معاملہ۔۔۔۔۔۔۔۔ راجو نے انہیں یاد دلایا۔

وہ بولے جی ہاں ! جب گاندھی آشرم کے ایک ملازم نے یہ برائی دیکھی تو اس نے اپنی آنکھیں موند لیں اور اس طرح دو ماہ کا عرصہ گزر گیا۔پھر اسے کچھ لوگوں نے ڈرایا کہ کہیں تجھ پر چوری کا الزام نہ دھر دیا جائے۔یہ سن کر وہ خوفزدہ ہو گیا اور اپنی ملازمت بچانے کیلئے اس واردات کو آشرم کے سربراہ کے گوش گزار کر دی۔

اچھا تو وہ سربراہ چار ماہ تک کیوں خاموش رہا؟

ارے بھئی وہ بھی گاندھی وادی آدمی ہے اس نے دوسرے بندر کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے کان بند کر لیے۔ گاندھی جی نے بری بات کو سننے سے منع  جوکر رکھا ہے۔

اچھا تو پھر کیا ہوا؟

دو ماہ کا عرصہ دیکھتے دیکھتے گزر گیا اور پھر آشرم کی ڈائمنڈ جوبلی منانے کی خاطر بورڈ آف ڈائرکٹرس کی میٹنگ میں اس خبر کا انکشاف کر کے ڈائرکٹر صاحب اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔ اس لئے کہ وہ صرف اور صرف بورڈ کے سامنے جوابدہ ہیں۔

لیکن بورڈ نے اس سنگین واردات کو سننے کے بعد کیوں چپی سادھ لی ؟

سنکی لال اگروال مسکرائے اور بولے کاش کے تم نے تیسرے بندر کو غور سے دیکھا ہوتا تو یہ سوال نہیں کرتے۔

راجو نے چونک کر تیسرے بندر کی جانب دیکھا تو وہ منہ پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا اسے بڑی شرمندگی ہوئی وہ بو لا اچھا تو پھر یہ راز فاش کیسے ہوا ؟

سنکی لال  نے کہا  وہ تو آشرم میں کام کرنے والے ایک گائیڈ نے زائرین کے سامنے اپنی رٹی رٹائی تقریر کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ جو آپ لوگ سامنے دیکھ رہے ہیں یہ گاندھی جی کی عینک ہے۔ چونکہ عینک وہاں پر موجود نہیں تھی ایک برطانوی  سیاح نے اسے بھانپ لیا وہ کم بخت تو تھا ہی گاندھی جی کے نظریات کا دشمن اس لئے کہ گاندھی جی نے برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک چلائی تھی۔ اس سیاح بغضِ معاویہ میں اخبار والوں کو یہ بات بتلا دی اور تم میرا وقت ضائع کرنے کیلئے چلے آئے۔

راجو نے کہا صاحب اس بات کا فیصلہ کرنا تو خاصہ مشکل ہے کہ کس نے کس کا وقت ضائع کیا ہے ؟خیر میں اس کیلئے ان  بندروں سے رجوع کروں گا۔

سنکی لال اگروال خوش ہو کر بولے بہت خوب  مجھے امید ہے کہ تمہیں اپنے سارے سوالات کا جواب گاندھی جی کے فلسفہ کی روشنی میں مل گیا ہو گا ؟

راجو بولا جناب گاندھی جی تو کجا ان کے بندر بھی صد فی صد حق بجانب ہیں لیکن آپ کے ایک استنباط سے مجھے ایک اختلاف ہے

اچھا ! وہ کیا؟

آپ نے دورانِ گفتگو کہا تھا اگر قوم گاندھی جی کے ان بندروں کی طرح بن جاتی تو نہ مسائل پیدا ہوتے اور نہ ان کے حل کی ضرورت پیش آتی۔

جی ہاں میں اب بھی یہی کہتا ہوں، سنکی لال اگروال نے تائید کی اور کہا لیکن اس میں غلط کیا ہے ؟

میرا خیال یہ ہے آج کے سارے مسائل کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ساری قوم گاندھی جی کے بندروں کی طرح بن گئی ہے وہ برائیوں کو دیکھتی ہے تو ان سے چشم پوشی کرتی ہے وہ بری بات کوسن کر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی ہے اور برائیوں کے خلاف لب کشائی کرنے کے بجائے اپنی زبان پر تالے ڈال لیتی  ہے۔

رپورٹر راجو کی اس بات کو سن کر سنکی لال اگروال صاحب نے اپنا ایک ہاتھ آنکھوں پر اور دوسرا منہ پر رکھ لیا۔راجو نے آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھ ان کے کانوں پر رکھ کر کہا ناظرین کرام برائے کرم اس گفتگو کو اپنے ذہن سے محو کر دیں اور ٹی وی کے سامنے اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے سماج میں پائی جانے والی برائیوں کے خلاف کوئی ٹھوس اور مثبت اقدام کریں۔

سنکی لال اگروال صاحب کے چہرے پر ایک خوش مگیں مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اس لئے کہ وہ نہ دیکھ رہے تھے۔نہ سن رہے تھے اور نہ بول رہے تھے۔ پردہ آہستہ آہستہ گر رہا تھا اور رپورٹر راجو الوداع کہہ رہا تھا۔

 

 

 

 

گاندھی جی کے بندر

 

دوسرے ایپی سوڈ کے ابتداء میں راجو نے اپنا سفر آگے بڑھاتے ہوئے کہا معروف گاندھیائی مفکر اور  دانشور شری سنکی لال اگروال کے دفتر سے جب ہم نکلے تو ان کی میز پر سے تینوں بندر غائب تھے۔ہم وہاں سے اب وردھا کے سیوا گرام پولس تھانے پہنچ گئے  ہیں۔آپ دیکھ رہے ہیں وہ سامنے دروازے پر سپاہی عجیب سنگھ بیٹھا اونگھ رہا ہے وہ  گویا بیک وقت گاندھی جی کے تینوں بندروں کی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔نہ دیکھ رہا ہے نہ سن رہا ہے اور نہ ہی کچھ بول رہا ہے۔ راجو موقع غنیمت  جان کر دبے پاؤں اندر داخل ہو گیا ورنہ اس کی سیوا کے بغیر داخلہ ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔راجو نے اندر جانے کے بعد ناظرین کو بتایا ویسے ہم لوگوں کو اپنے دفتر نے سرکاری افسران کی خدمت پر ایک محدود رقم خرچ کرنے کی پیشگی اجازت دے رکھی ہے اگر کوئی غیر معمولی مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس کی خصوصی اجازت لینی پڑتی ہے۔ پہلے اس کی نوبت کم ہی آتی تھی لیکن اب یہ معمولی بات ہو گئی ہے۔رپورٹ راجو اپنے مخصوص دلفریب انداز میں کہہ رہا تھا ناظرین آپ لوگوں کو یاد ہو گا ہم سیواگرام آشرم سے گاندھی جی کے چشمے کی چوری اور اس کی شکایت میں تاخیر کی تحقیق و تفتیش کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔

پولس تھانیدار کھڑک سنگھ کا دفتر ویران پڑا تھا۔ راجو بولا تھانیدار صاحب بھی شاید اسی مہم پر کہیں باہر نکلے ہوئے ہیں اس خوش فہمی میں گرفتار واپس لوٹتے ہوئے اچانک راجو کے کانوں سے  ایک بھرائی ہوئی  آواز ٹکرائی’’ ابے یہ تو اب بھی سورہا ہے ؟‘‘رپورٹر راجو نے چاروں طرف دیکھا آس پاس نہ کوئی آدم تھا نہ آدم زاد! ایک سپاہی تھا جو سورہا تھا پھر یہ آواز کیسی؟اس سے پہلے کہ و ہ کسی نتیجے پر پہنچتا دوسری آواز آئی ’’اوئے چپ کر ورنہ جاگ جائے گا تو مسئلہ ہو جائے گا ‘‘۔ اس بار راجو نے کان لگا کر آواز کوسننے کی کوشش کی تو پتہ چلا یہ آوازیں جھولے کے اندر سے آ رہی ہیں۔ ناظرین اور راجو دونوں کیلئے یہ دلچسپ انکشاف تھا۔ اس  نے ڈرتے ڈرتے اپنے جھولے میں ہاتھ ڈالا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جھولے کے اندر وہ تینوں بندر براجمان تھے۔اس نے ان میں سے ایک کو باہر نکالا تو وہ کمبخت اپنے کانوں  پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔راجو نے کڑک کر پوچھا تم کون ہو؟

وہ بولا صاحب میں۔ میں تان سین ہوں تان سین۔

اور تمہارے ساتھ یہ دونوں کون ہیں ؟

ان میں سے ایک تو نین سکھ ہے اور دوسرا مونی بابا ؟

اچھا تو یہ اندر باتیں کون کر رہا تھا ؟

بندر بولا صاحب یہ میں کیسے جان سکتا ہوں ؟ آپ تو دیکھ ہی رہے ہیں میں نے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔

بندر کی بات درست تھی سچ تو یہ ہے کہ یہ سوال  ہی نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔راجو نے جھولے میں  ہاتھ ڈال دوسرے بندر کو باہر نکالا۔  اس بندر نے اپنی آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا وہ سمجھ گیا یہ نین سکھ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ پوچھا کیوں تم نے  ابھی ابھی کچھ کہا یا نہیں ؟

نین سنکھ آنکھیں مٹکا کربولا صاحب آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں اس تان سین سے نہیں پوچھتے جو آپ کو بے وقوف بنا رہا ہے ؟

یہ الزام بڑا تضحیک آمیز تھا اس پر راجو کو اس قدر غصہ آیا کہ وہ اپنا بنیادی سوال بھول گیا اور پوچھا کیوں ؟بھلا یہ ہمیں کیوں کر بے وقوف بنا سکتا ہے ہم تو پہلے ہی سے اچھے خاصے احمق آدمی ہیں۔

نین سکھ بولا اچھا تو آپ میری اس آسان سی بات کا مطلب اب بھی نہیں سمجھے خیر اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نہ صرف بے وقوف  بلکہ سچے آدمی بھی ہیں۔

ہو سکتا ہے لیکن یہ تو تم نے ہمیں دو سری بڑی گالی دے دی خیر یہ بتاؤ کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ؟

کامن سینس صاحب کامن سینس ! اگر یہ ہماری باتیں نہیں سن سکتا تو اس نے آپ کا سوال کیسے سن لیا ؟اور آپ کو جواب کیسے دے دیا ؟

ایک معمولی سے بندر نے راجو کے چودہ طبق روشن کر دئیے تھے اوراسے ڈارون کے فلسفے پر یقین آنے لگا تھا لیکن اس پہلے کے و ہ سنبھلتا تان سین بول پڑا۔ صاحب یہ جھوٹا ہے اول درجے کا ریا کار آپ اس کی ایک نہ سنیں آپ تو نہایت عقلمند آدمی ہیں۔تان سین کی زبان  سے اپنی تعریف سن کر راجو پسیج گیا۔اسے محسوس ہوا کہ اس کائنات کی سب سے عقلمند ہستی اس بندر کی ذات ہے جواس کو عقلمندی کا سپاس نامہ عطا کر رہی ہے ورنہ اس سے قبل ایسی غلطی کسی سے سرزد نہیں ہوئی تھی۔راجو نے مسکرا کر پہلے بندر کا شکریہ ادا کیا اور کہا تمہاری بات درست ہے لیکن آخر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ؟

تان سین  مسکرایا اور بولا آپ عقل کے اندھے تو نہیں ہیں لیکن آپ کی بینائی کے بارے میں میرے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ کہیں آپ گاندھی جی کی عینک خود اپنے لئے تو تلاش نہیں کر رہے ہیں ؟

اپنے چہیتے بندر کی اس بات  نے رپورٹر راجو کو چونکا دیا اس نے کہا گاندھی جی کی عینک استعمال کریں میرے دشمن۔ میری تو آنکھیں ابھی تک صحیح سلامت ہیں ماشاء اللہ۔

سو تو میں دیکھ رہا ہوں۔ بڑی خوبصورت غزال آنکھیں ہیں آپ کی لیکن میں اس کے اندر پائی جانے والی قوت بصارت کی  بات کر رہا تھا۔

اپنی آنکھوں کی اس تعریف  کے بعد وہ یکسر شرما گیا اور لجاتے ہوئے اٹھلا کر بولا کیسی باتیں کرتے ہو ؟ میری بصارت کو کیا  ہو گیا ہے ؟ اچھی بھلی تو ہے۔

اچھا اگر ایسا ہے تو آپ دیکھ نہیں رہے کہ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ اب جس کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہو وہ بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا ؟

نین سکھ  بولا جھوٹ اور سچ  بات کے درمیان تمیز کرنے کی خاطر آنکھوں کی نہیں کان کی ضرورت  پڑتی ہے میری تو آنکھیں بند ہیں لیکن اس کاذب نے کانوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود سب کچھ سن رہا ہے اور پٹر پٹر بول بھی رہا ہے۔نین سکھ کی بات نہایت معقول تھی لیکن چونکہ تان سین  کے خلاف تھی جو راجو کی تعریف اور توصیف بیان کر رہا تھا اس لئے اس کی دلیل کو مسترد کر دیا گیا۔ آخر حقِ نمک بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے ؟رپورٹر راجونے کہا کہ بھائیو میں تم دونوں کے دلائل سے خاصہ کنفیوز ہو چکا ہوں  اور فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ کون حق بجانب ہے کون مائل بہ  باطل ؟

یہ سن کر تان سین باغ باغ  ہو گیا گویا اس کی من مراد پوری ہو گئی  ہو۔ وہ بولا آپ واقعی نہایت حق پسند اور صاف گو صحافی ہیں۔ آپ خود اپنے خلاف بھی کسی حقیقت کا اعتراف کرنے سے پس  و پیش  نہیں کرتے۔

راجو نے پھر ایک مرتبہ اپنی پیٹھ تھپتھپائی اور ناظرین کی جانب دیکھ کر بولا کاش کہ یہ بندر حکومت کی اعلیٰ سطحی کمیٹی میں موجود ہوتا جو صحافیوں کیلئے اعزازو تکریم کا اہتمام کرتی ہے اور انہیں تمغات سے نوازتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مجھے بھی صحافت کے میدان پدم بھوشن نہ سہی  پدم شری کا خطاب مل ہی جاتا۔ شکر و احسان کے جذبات سے سرشار ہو کر راجو نے اپنے پسندیدہ بندر کی زلفوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔

اس منظر کو دیکھ نین سکھ جس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا چراغ پا ہو گیا اور بولا جناب یہ آپ کو اپنی باتوں میں الجھا رہا ہے۔آپ کی بیجا تعریف بیان کر کے آپ کی خوشامد کر رہا ہے۔

یہ تہمت راجو کے لئے ناقابلِ برداشت تھی۔وہ بولا دیکھو تم اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہو۔ ڈارون نے تمہارے بارے میں جو بھی کہا ہو لیکن تم یہ نہ بھولو کہ تم آخر ایک بندر ہو حقیر بندر! کیا سمجھے ؟

یہ تضحیک آمیز جھڑکی تان سین پر گراں گزری۔اس لئے کہ وہ جو بھی تھا بالآخر ایک بندر ہی تو تھا اور یہ اس کی ساری برادری کی توہین تھی۔ اس نے رسوائی کے اس کڑوے گھونٹ کو کسی طرح زہر مار کیا اور بولا جناب آپ اس احمق کے باعث ہماری برادری کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کریں اگر اپنے کنفیوژن کو دور ہی کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے تیسرے ساتھی مونی بابا کا تعاون لیں جو آپ کے جھولے میں ہنوز بند ہے ؟

نین سکھ نے اس تجویز پر زوردار قہقہہ لگا کر کہا لو اس کی سنو یہ اس مونی کو اپنے حق میں گواہ بنا رہا ہے جس نے از خود اپنی زبان بند کر رکھی ہے۔  اس کے ایک منہ پر دو دو ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دلیل بھی معقول تھی۔ نین سکھ ویسے تو ساری باتیں معقول کرتا تھا لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف رپورٹر راجو کی تعریف بیان کرنے سے احتراز کرتا تھا بلکہ وقتاً فوقتاً تذلیل بھی کر دیتا  تھا۔اس کے باعث  راجو کے دل میں اس کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑکنے لگے  تھے جو اس کی ہر معقول بات کو جلا کر بھسم کر دیتے تھے۔

اس موقع پر تان سین پھر مدد کیلئے آگے آیا اور کہنے لگا اس عقل کے اندھے کو دیکھئے۔ کیا صحیح بات کو کہنے کیلئے بھلا زبان لازمی ہے ؟

اس سوال کا جواب بھی  نین سکھ  کے حق میں تھا جو دشمن بنا ہوا تھا اوراس تان سین  کے خلاف تھا جو راجو کی  دوستی کا دم بھرتا تھا اس لئے رپورٹر راجو نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی۔لیکن نین سکھ اس موقع پر خاموش نہیں رہا بلکہ  بولا  جناب عالی آپ اس کے سوال پر کیوں ہیں بولتے کیوں نہیں ؟ کیا اپنی زبان پر تالا لگا کر کوئی سچ بات کہہ سکتا ہے ؟

اس سے قبل کہ راجو مجبور ہو کر اپنی من بھر بھاری زبان کو جنبش دیتا تان سین بول پڑا۔ دراصل یہ احمق آج بھی اس پتھر کے زمانے میں جی رہا ہے جب اظہار رائے کیلئے زبان کی مجبوری تھی، سائنسی ترقی سے بالکل بے بہرہ ہے بیچارہ۔

نین سکھ نے جب اپنے بارے میں بے بہرہ کا لقب سنا  تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا اور چیخ کر بولا بہرہ ہو گا تو اور تیرا باپ۔ میری تو سماعت الحمد للہ سلامت ہے۔

تان سین مسکرایا اور بولا اس بیچارے کو اردو بھی ٹھیک سے نہیں آتی یہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ بے بہرہ کسے کہتے ہیں اور بے بہرہ جو بھی ہو کم از کم بہرہ نہیں ہوسکتا۔ بے لگا دینے ہر لفظ اپنی ضد میں تبدیل ہو جاتا ہے مثلاً بے نقاب، بے ایمان، بے ادب، بے عقل،  وغیرہ وغیرہ۔ تان سین کی اس دلیل کو سن کر راجو رپورٹر بھی جھوم اٹھا حالانکہ اسے پتہ نہیں تھا کہ  مونی بابا کے آئی پیڈ کے استعمال پر قدرت رکھتے ہیں۔ راجو بول پڑا کیا بات کہی تم نے تان سین لاجواب دلیل ہے صاحب لاجواب۔

اس تعریف سے کھسیا کر نین سکھ بولا اچھا تو تمہاری  اپنی ذات یعنی بے وقوف اور اپنا شغل بے فضول کے بارے میں کیا خیال ہے ؟

تان سین نے رپورٹر کی جانب اشارہ کر کے کہا  بے وقوف کون ہے اور عقلمند کون ہے اس کا فیصلہ کرنے کے اصل حقدار تو صاحب ہیں لیکن چونکہ وہ ذرا کنفیوژ ہو گئے ہیں اس لئے میں ہمارے بھائی تان سین کی مدد لینا چاہ رہا تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بھائی ہے یا قصائی؟پہلے تو یہ آپ کی توہین کر رہا تھا اب اپنے بزرگ مونی بابا کا مذاق اڑا رہا ہے۔

نین سکھ بولا اوئے چرب زبان بندر اپنی چاپلوس چونچ کو بند کر اور یہ بتلا کہ گونگا بنا بیٹھا مونی کیسے اپنا فیصلہ سنائے گا ؟

تان سین بولا اب ہوئی نا کام کی بات اگر کوئی بات معلوم نہ ہو تو سمجھدار لوگوں سے پوچھا جاتا ہے۔لیکن یہ کام ادب وتمیز کے ساتھ کیا جاتا ہے خیر کوئی بات نہیں جب تو نے پوچھ ہی لیا تو سن۔ فیصلے نہ صرف سنائے جاتے ہیں بلکہ انہیں تحریری شکل میں تم جیسے ڈھیٹ لوگوں کے منہ پر لکھ کر دے مار ا جاتا ہے اور ایسے میں منصف کو  فیصلہ لکھنے کے بعد اپنا قلم توڑ دینا پڑتا ہے۔

پھر ایک بار تان سین کی شاندار دلیل پر ننھا بندر یعنی راجو رپورٹر جھوم اٹھا  اور زور زور سے تالیاں بجانے لگا۔ راجو نے کہا کیا بات ہے ؟کیا بات ہے میرے شیر! تمہیں تو بندر کے بجائے لومڑی ہونا چاہئے تھا۔

نین سکھ  بولا لومڑی کیوں ؟

اس لئے کہ اسی کو  سب سے عقلمند جانور مانا جاتا ہے۔

تان سین  کے چہرے پر اس تعریف سے پھر ایک بار ناگواری کے آثار نمودار ہو گئے وہ بولا صاحب ویسے آپ آدمی تو بہت نیک طبع ہیں لیکن بے جا مرعوبیت کا شکار ہیں۔

راجو نے پوچھا ارے بھئی ہم نے ایسی کون سی بات کہہ دی جو تمہارے حسنِ طبع پر گراں گزری  ؟

تان سین  بولا بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے آگے لومڑی اور شیر کس کھیت کی مولی ہیں۔ اس سے پہلے تو ہم بس حضرت انسان کو اپنے سے اعلیٰ و ارفع خیال کرتے تھے لیکن آپ سے ملنے کے بعد ہم اپنے اس خیال پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

تان سین کی دیگر بہت سی باتوں کی طرح یہ بات بھی احمق رپورٹر راجو کے سر کے اوپر سے نکل گئی لیکن اس نے حسبِ  عادت استفسار کیا بھائی فیصلے تو عدالت میں یقیناً لکھے جاتے ہیں لیکن یہ تمہارا بھائی اپنا فیصلہ کیسے لکھے گا؟

یہ تو بڑا عجیب سوال آپ کر رہے ہیں ارے بھئی جیسے کو ئی پڑھا لکھا انسان لکھتا ہے اسی طرح لکھے گا۔ ہمارے مونی بھی کوئی کم عالم فاضل تھوڑے ہی ہیں وہ تو ان کی انکساری ہے جو انہوں  نے اپنی تھیسس نہیں لکھی ورنہ انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینا آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی درسگاہوں کیلئے اعزاز کی بات ہوتی۔

نین سکھ بولا یار اب تو تم کچھ زیادہ ہی بول گئے کیا کیمبرج وغیرہ کی ڈگری پیڑوں کی شاخوں پر لٹکی ہوئی  ہوتی ہیں جو کوئی لنگور پھدک کر اچک لے ؟

تان سین اس بات پر چراغ پا ہو گیا اور بولا تم جیسے احساسِ کمتری کا شکار لوگوں کی وجہ سے اس دنیا میں ہماری نسل عزت و توقیر سے محروم ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے ساری دنیا کی درسگاہوں پر ہمارا بول بالا ہوتا۔

ان دونوں بندروں کی لڑائی میں راجو کو غور و فکر کرنے کا نادر موقع مل گیا۔اس نے کہا تم کیسے گاندھی وادی بندر ہو جو عدم تشدد کا راستہ چھوڑ کر لڑائی جھگڑے پر تلے ہوئے ہو؟راجو نے بندر بانٹ کا پانسہ ڈالتے ہوئے کہا  میں مانتا ہوں کہ تمہارا بھائی لکھنا پڑھنا جانتا ہے لیکن فی الحال میرے پاس قلم قرطاس بھی تو نہیں جو اس پر فیصلہ لکھوایا جا سکے۔

تان سین بولا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ویسے بھی آج کل لوگ قلم دوات سے لکھتے ہی کب ہیں ؟

نین سکھ نے حیرت سے پوچھا۔اچھا اگر قلم دوات سے نہیں تو کس چیز سے لکھتے ہیں بھلا؟

بھئی زمانہ بدل گیا تان سین اکڑ کر بولا آج کل تو لوگ کمپیوٹر کے یا فون کے ‘کی بورڈ ’سے لکھتے ہیں اور کاغذ کے بجائے مانیٹر پر اسے پڑھ لیتے ہیں۔

ہاں ہاں وہ تو مجھے پتہ ہے لیکن کیا تمہارا مونی بابا کمپیوٹر چلانا جانتا ہے ؟

آپ یہ کیسا سوال کر رہے ہیں صاحب کمپیوٹر تو کیا مونی بابا ہوائی جہاز چلانا بھی جانتے ہیں لیکن چونکہ وہ اپنی زبان کھولتے نہیں اس لئے کوئی ان کی قدردانی نہیں کرتا۔

تان سین اور مونی بابا  کے آگے راجو کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا اس نے کمرے میں ایک جانب اپنا لیپ ٹاپ نکال کر کھولا اور جھولے سے مونی بابا کو نکال کر اس کے سامنے بٹھا دیا۔ مونی بابا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔لپک کر کمپیوٹر چلا دیا اور ایم ایس ورڈ کا صفحہ کھولا۔کی بورڈ کی سیٹنگ کو بدل کر اسے اردو فونیٹک میں تبدیل کیا اور فیصلہ لکھنے کی ابتدا کروی۔ سب سے اوپر درمیان میں لکھا شروع اللہ کے نام سے۔  پھر نیچے بائیں جانب کنارے تمہید لکھا اور اس کے آگے یوں رقمطراز ہوئے۔ ہم سب ریا کار ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں لیکن دیکھتے نہیں۔ ہم سنتے ہیں مگر وہی جو ہم چاہتے ہیں اور ہم بولتے ہیں مگر وہ نہیں بولتے جو ہمیں بولنا چاہئے۔اس بیچ پہرے پر بیٹھے ہوئے سپاہی کی آنکھ کھل گئی اس نے دیکھا سامنے ایک بندر کمپیوٹر پر کچھ لکھ رہا ہے اسے لگا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے، بھیانک خواب، گھبرا کر اس نے پھر اپنی آنکھیں موند لیں اور خوابِ خرگوش میں کھو گیا۔

وردھا کے پولس تھانے میں حوالدار عجیب سنگھ نے اپنی آنکھیں بند کیں تو راجو نے عافیت کی سانس لی اور اپنے چہیتے بندروں کی جانب دیکھا۔ مونی بابا بے تکان اپنا فیصلہ ٹائپ کر رہا تھا۔راجو کو لگا جلد ہی یہ قلم کے بجائے کمپیوٹرکو توڑ دے گا۔جب راجو کی نگاہ نین سکھ کی جانب اٹھی تو دیکھا کہ وہ بھی کنکھیوں میں فیصلے کو پڑھ رہا ہے اور تان سین کے لبوں پر حسبِ  معمول مسکراہٹ رقص کر رہی ہے۔راجو نے اپنی مسکراہٹ سے اس کا جواب دیا تو تان سین بولا صاحب عجیب سنگھ کے دوبارہ جاگ جائے اس کے سونے کو غنیمت جانئے اور یہاں سے بھاگ چلئے۔

کیوں کیا ہم کوئی چور ڈکیت ہیں جو تم ہمیں اس طرح سے ڈرا رہے ہو؟ نین سکھ بولا

کیا تم نہیں جانتے کہ جب دو بڑے لوگ بات کر رہے ہوں تو درمیان میں ٹپک پڑنا بد اخلاقی میں شمار ہوتا ہے۔تان سین نے اپنی لن ترانی جاری رکھی

دیکھو تان سین میں نے ایک سیدھا سا سوال کیا تھا جس کا جواب دینے کے بجائے تم کچھ اور ہی بکواس کرنے لگے

یہ بکواس نہیں حقیقت ہے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ فی الحال ہم لوگ پولس والوں کے نرغے میں ہیں۔کسی بھی وقت کھڑک سنگھ وارد ہوسکتا ہے بلکہ دوبارہ عجیب سنگھ بیدار بھی ہوسکتا ہے۔

ہوتا ہے تو ہو جائے اور آتا ہے تو آ جائے، ہمارے یہاں آنے کا مقصد ہی ان سے ملاقات کرنا ہے ؟راجو نے جواب دیا۔

تان سین بولا صاحب ہمیں احتیاط و ہوشیاری سے کام لینا چاہئے۔

احتیاط کیسا احتیاط؟ہم لوگ پولس تھانے میں ہیں یہاں کون سے خطرات ہوسکتے ہیں۔

اسی لئے تو احتیاط کی ضرورت ہے کہ ہم تھانے میں ہیں اس سے زیادہ خطرناک جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے ؟

کیا مطلب راجو نے حیرت سے پوچھا؟

تان سین بولا صاحب آپ صحافی ہیں اخبار لکھتے ضرور ہیں لیکن لگتا ہے انہیں پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ورنہ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔آپ کو پتہ بھی ہے کہ یہ پولس والے عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ؟

انہیں نہیں پتہ تو میں بتلائے دیتا ہوں نین سکھ بولا حالانکہ نہ میں اخبار پڑھ سکتا اور نہ ہی ٹی وی دیکھ سکتا ہوں

اوہو تم تو بڑے انتریامی ہو گئے ؟تان سین نے فقرہ کسا

اس میں انتریامی ہونے کی کیا بات ہے اگر انسان اپنے کان کھلے رکھے تو یہی کافی سے زیادہ ہے۔ میں نے سنا ہے پچھلے دنوں پولس والوں نے  مدھیہ پردیش کے ضلع ستنا میں بیچ سڑک پر ایک نیم پاگل آدمی کو لاٹھیوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا

اچھا تو گویا پولس والوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ شخص اگر نیم پاگل ہے تو وہ مکمل طور پر پاگل ہیں تان سین نے پھر چٹکی لی

نین سکھ بولا تم عجیب آدمی ہو ایک معصوم انسان کی جان گئی اور تم اس سے لطف اندوز ہو رہے ہو۔تم بندر ہو کر بھی وہاں موجود تماش بین لوگوں سے گئے گزرے ہو گئے ہو۔

کو ن کہتا ہے کہ وہ خاموش تماش بین تھے ؟ میں نے تو سنا ہے اس ظلم کی ابتدا عوام ہی نے کی تھی پولس نے تو صرف یہ کیا کہ اسے انتہا تک پہنچا دیا۔  یہ بات مونی بابا نے اپنے فیصلے کے دوران سرخ رنگ میں لکھی اور راجو کو دکھلا کر مٹا دیا

تان سین بولا لیکن لوگ بیچارے کر ہی کیا سکتے تھے ؟

راجو نے کہا کیسی باتیں کرتے ہو تان سین ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ ایک آزاد ملک ہے وہاں انسانی جان و مال کو دستوری تحفظ حاصل ہے بلکہ ایک ایسا جمہوری نظام رائج ہے جو عوام کا اپنا ہے عوام کے ذریعہ قائم ہوا ہے اور عوام کی خاطر چلایا جاتا ہے۔

یہ آپ کس ملک اور کن لوگوں کی بات کر رہے ہیں یہ تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ گزشتہ دنوں جب چار لوگ آندھرا پردیش کے ایس آر نگر میں ایک ایسے ہی قتل کی رپورٹ لکھوانے کیلئے تھانے پہونچے تو پولس والوں نے انہیں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا اب بھلا ایسے میں کوئی پولس کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت کرسکتا ہے ؟

راجو نے کہا یہ سب اس عظیم ملک کو بدنام کرنے کی خاطر اڑائی جانے والی بے بنیاد خبریں ہیں۔تم نہیں جانتے ہمارے ملک میں عوام کے سامنے بڑے بڑے رہنماؤں کو ہاتھ پسار کر آنا پڑتا ہے۔

یقیناً انتخاب سے پہلے ایسا ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جب یہی عوام ہاتھ پھیلا کر اپنے حقوق کی خاطر میدان میں آتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ؟نین سکھ نے پوچھا

تان سین بولا اب تم ہی بتلاؤ کہ کیا ہوتا ہے ؟

میں کیا بتلاؤں تم خود ہی نالندہ میں  خواتین مظاہرین پر ہونے والی پولس والوں کی بہیمانہ لاٹھی چارج کا مشاہدہ کر لو۔

اچھا یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا تم بھی ان خواتین کے ساتھ زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے ؟تان سین نے فقرہ کسا

نین سکھ بولا تم بھی انسانوں کی چاپلوسی کرتے کرتے بالکل عقل سے پیدل ہو گئے ہو میں نے خود یو ٹیوب پر اس فلم کو دیکھا ۔۔۔۔، نہیں معاف کرنا سنا ہے

فلم دیکھی جاتی ہے یا سنی جاتی ہے ؟تان سین نے پوچھا

دونوں ہی باتیں ہوتی ہیں مجھ جیسے نابینا اسے سنتے ہیں اور تم جیسے بہرے اسے دیکھتے ہیں

یہ کون دیکھنے اور سننے کی باتیں کر رہا ہے ؟ عجیب سنگھ نیند میں منمنایا

تینوں بندر پھدک کر پھر جھولے میں پہنچ گئے اور بولے صاحب نکل چلئے اس سے پہلے کہ یہ ہمیں نیند میں خلل کے سبب دہشت گرد بنا کرپوٹا کے تحت گرفتار کر لے۔ اس کے بعد ہم دہشت گرد ہیں یا نہیں یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ہمارے ہی سر آن پڑے گی۔ آپ کی مدد کیلئے تو صحافیوں کی یو نین آ جائے گی ہم بندروں کا کیا ہو گا ہمارے لئے تو اس کل یگ میں نہ بجرنگ بلی ہے اور نہ بجرنگی سینا۔ یہ مونی بابا بول رہا تھا گھبراہٹ کے مارے اس نے اپنا مون برت تو ڑ دیا تھا۔

راجو بھی ان بندروں کے دلائل سے اچھا خاصہ مرعوب بلکہ خوفزدہ ہو چکا تھا اس لئے پہلے تو باہر آگیا پھر پوچھا اب جانا کہاں  ہے ؟

تان سین بولا کیوں آپ کا کوئی گھر نہیں ہے کیا ؟ اگر نہیں تو گاندھی جی کی طرح کوئی آشرم بنا لیجئے ورنہ وہیں چلئے۔

راجونے جھولے کے اندر ہاتھ ڈال کر اندازے سے تان سین کے سر پر ہاتھ پھیر کر اس کا شکریہ ادا کیا اور مائک ہاتھ میں لے کر اعلان کیا ناظرینِ کرام عجیب سنگھ کے دوبارہ سونے کو غنیمت جانتے ہوئے ہم لوگ  فی الحال یہاں سے نکل  بھاگتے ہیں۔ اگلے ہفتے آج کے دن اور آج ہی کے سمئے ہم لوگ پھر ملیں گے اور عینک کی تلاش کی مہم جاری رکھیں گے۔

راجو نے گھر کے اندر آنے کے بعد بندروں کو دیوان خانے میں چھوڑا اور خود اپنی خوابگاہ میں چلا آیا۔ دن بھر کے تھکے ماندے راجو کو نیند کی آغوش میں پہنچنے کیلئے چند منٹ کافی تھے لیکن یہ کیا بندر اس کے اعصاب سے نکل کر خواب میں چلے آئے۔راجو نے دیکھا راجو دیوان خانے سے بندر تو غائب ہیں ان کی جگہ ایک باریش سوامی بھگوا وستر دھارن کئے بیٹھے ہیں۔ سوامی جی کے بغل میں ایک مضحکہ خیز بزرگ سر پر گاندھی ٹوپی لگائے براجمان ہیں اور ایک کونے میں ایک شخص نصف آستین کا ڈیزائنر کرتا پہنے ہوئے اٹالین عینک میں فون پر گودھرا سے سالگرہ کی مبارکباد وصول کر رہا ہے۔راجو نے سوچا یہ کون لوگ ہیں جو بلا اجازت ہمارے گھر میں گھس آئے اور انہوں نے ہمارے بندروں کو کہاں بھگا دیا؟ اس نے انہیں پرنام کیا اور پوچھا۔ آپ لوگ کب، کیوں اور کہاں سے یہاں آن پہنچے ؟

عینک والے صاحب نے اپنی خش خشی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تم مجھے نہیں جانتے۔ امریکی انتظامیہ نے مجھے ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ کیلئے مناسب ترین امیدوار قرار دیا ہے اور تم تو جانتے ہی ہوہندوستانی عوام امریکہ سے کس قدر مرعوب ہے۔اب تو بس انتخاب کا انتظار ہے جب وہ میرے نام پر مہر لگائیں گے اور میں ہندوستا ن کے تخت طاؤس کو برطانیہ سے واپس لا کر اس پر براجمان ہو جاؤں گا۔

عوام کوتو خیر بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے لیکن تمہاری اپنی جماعت کے خواص کا کیا بنے گا؟راجو نے سوال کیا

بھئی دیگر خواص کی مانند ہمارے خواص بھی بکاؤ مال ہیں انہیں وزارت اور دولت کی قیمت پر خرید لیا جائے گا

وہ بھی ٹھیک ہے لیکن میرے وہ بندر کہاں چلے گئے ؟

حضور آپ نے مجھے نہیں پہچانا میں ہی تو ہوں آپ کا چہیتا تان سین

اچھا اور یہ دونوں حضرات کون ہیں ؟

یہ مونی بابا ہیں جو یوگا کرنے میں مصروف ہیں  اور یہ گاندھی ٹوپی اپنے نین سکھ نے سر پر سجا لی ہے اس لئے آپ اسے پہچان نہیں پا رہے ہیں

لیکن راتوں رات میں یہ سب کیا ہو گیا۔ اس قدر انقلاباتِ زمانہ ایسی تیزی کے ساتھ پہلے تو برپا نہیں ہوتے تھے ؟راجو نے استفسار کیا

نین سکھ بولا آپ نے ٹھیک کہا زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ کل یگ ہے کل یگ۔ پہلے جس کام کو کرنے کیلئے صدیاں درکار ہوتی تھیں اب وہ کام منٹوں میں ہو جاتے ہیں زمانہ جمل کے بجائے جیٹ کی  رفتار سے دوڑ رہا ہے۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن راتوں رات داڑھی و چوٹی کا اگ آنا اور دم کا غائب ہو جانا مجھے تو یقین نہیں آتا کہ یہ سب کیسے ہو گیا ؟

ارے بھئی ڈارون نے اپنی مرگِ مفاجات کے فلسفے میں یہی تو کہا تھا کہ جس چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی وہ جھڑ جاتی ہے اور جس کی ضرورت پیدا ہوتی ہے وہ نمودار ہو جاتی ہے۔

یہ سب فلسفے کی باتیں ہیں ان کا حقیقت سے کیا تعلق ؟راجو نے اپنی بے یقینی پر اصرار کیا

تعلق کیوں نہیں ؟ تان سین بولا پرانے لوگوں کو کتنے پہاڑے یاد ہوتے تھے اب کیلکولیٹر نے ان کی ضرورت کواس طرح ختم کیا کہ پہاڑ جیسے پہاڑے روئی کے گالے بن کر اڑ گئے۔

نین سکھ نے پہلی مرتبہ تان سین کی تائید کی اور بولا جی ہاں اس میں کیا شک ہے آپ ہی بتلائیے کہ پہلے آپ کو اپنے دفتر، گھر اور دوست و احباب تک  کے ٹیلی فون نمبر زبانی یاد ہوتے تھے جبکہ اب آپ کو اپنے موبائل کا نمبر بھی یاد نہیں رہتا جو آپ کا حقیقی شریکِ حیات بن گیا ہے۔ گویا یادداشت کی ضرورت کم ہوئی تو اسے مشینوں نے نگل لیا۔

بندروں کے دلائل کے معقول تھے اس لئے راجو نے قائل ہونے میں عافیت سمجھی اورسوال کیا لیکن یہ مونی بابا تو بہت بولتے بلکہ لکھتے تھے اب انہیں کون سا سانپ سونگھ گیا جو مون برت رکھ لیا۔

تان سین بولا آپ نے صحیح کہا جب آدمی بہت زیادہ بولنے لگے تو اس کی بولتی بند کر دی جاتی ہے۔ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔پہلے زمانے میں ہم لوگ بلیوں کو بانٹ کر اپنا کام چلاتے تھے لیکن آج کل ایک اطالوی بلی ہم لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا رہی ہے۔ بابا ہندوستان کی سیاہ دولت کا شور مچاتے تھے جو ملک کے باہر ہے۔ بلی نے یہ کیا کہ ان سے ان کی سفید دولت کا حساب مانگ لیا جو ملک کے اندر ہے۔پھر کیا تھا ان کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے اور ایسے میں جب ان کا دستِ راست آگے آیا تو پتہ چلا کہ وہ نہ صرف  نیپالی ہے بلکہ غیر قانونی طور پر ان کے آشرم  میں عیش کر رہا ہے۔

تان سین کی باتیں سن کر مونی بابا کو غصہ تو بہت آیا لیکن وہ صبر کر گئے اور اپنے یوگ آسن سے باہر نہیں آئے سب کچھ چپ چاپ دیکھتے اور سنتے رہے لیکن کچھ نہیں بولے اب انہیں اس کی عادت ہو چکی تھی انہوں نے از خود اپنی زبان پر قفل لگا لیا تھا لیکن نین سکھ اسے برداشت نہ کر سکا اور بولا تان سین تم کیسے غدار بندر ہو انسانوں کو خوش آمد میں خود اپنی برادری کو بدنام کرتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہئے۔

شرم مجھ کو نہیں تم لوگوں کو ان کاموں پر آنی چاہئے جس کے عیاں ہونے سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔تان سین  نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ تم خود باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہو لیکن اپنی آنکھوں پرسے اس زعفرانی پٹی کو نہیں ہٹاتے جو تمہارے آقاؤں  نے باندھ رکھی ہے۔ وہ لوگ جو تم سے بولتے ہیں  وہی تم لوگوں سے بولتے ہو۔

ان  الزامات کو سن کر راجو کا دل دہل گیا اس لئے کہ اس نے خود نین سکھ کے ساتھ پاکستان اور امریکہ جانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ راجو نے پوچھا میرے پیارے تان سین ویسے تو تمہاری ہر بات مجھے صحیح لگتی  ہے لیکن پھر بھی ان سنگین الزامات کو میں بغیر ثبوت کے تسلیم نہیں کر سکتا۔

تان سین بولا ویسے تو بے شمار شواہد آفاق و انفس میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن میں دو مثالیں دیتا ہوں۔ اس نین سکھ نے پہلے حقِ معلومات کی تحریک چلا کر اپنی شہرت بڑھائی اور پھر بدعنوانی کا محاذ کھول کر بیٹھ گیا۔اس دوران خود اس کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف شور شرابا کرنے کے بجائے عملاً کام کرنے والی شہلا مسعود کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ بیچاری  شہلا نے اسی کی شہ پر اپنی معلومات کا حق استعمال کر کے بدعنوانوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس ابن الوقت نے شہلا کے بہیمانہ قتل پر اتنا احتجاج بھی نہیں کیا جتنا  کہ وہ کیجریوال پر لگے حقیقی الزامات کی حمایت میں کیا کرتا ہے۔اس لئے کہ شہلا مسعود کے قتل کی سوئی زعفرانی ریاستی سرکار اور سنگھی رہنماؤں کی جانب مڑتی تھی۔ اسے چدمبرم اور اشوک چوہان کی ترنگی بدعنوانی دکھلائی دیتی ہے لیکن امرسنگھ اور شیوراج چوہان نظر نہیں آتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صرف بولتا اور سنتا ہے مگر دیکھتا اور سوچتا نہیں ہے۔ دماغ کے استعمال کو اس نے از خود ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ بس بھوپوں ہے بھوپوں۔

تان سین کی لمبی تان سن کر نین سکھ تو بیچارہ بے ہوش ہو گیا لیکن مونی بابا نے اپنا برت توڑ دیا اور بولے اوئے تان سین میں نے تجھ جیسا نمک حرام نہیں دیکھا تو جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں سوراخ کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو نے کیشو کے پیر چھوئے اور پھر اسی کے قدم اکھاڑ دئے۔ اس کے بعد توگاڑیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر اس کا گلا دبا دیا۔ اپنے بچپن کے دوست ہرین پنڈیا تک کو موت کے گھاٹ اتارنے سے تو نہیں ہچکچایا۔ اڈوانی کی رتھ کا مہا رتھی بنا اور اب اسی کی ہوا نکال دی۔ ونجارہ سے فرضی انکاؤنٹر کرواتا رہا اور پھر اسی کو بلی کا بکرا بنا کر ٹھکانے لگا دیا۔ تجھے مسلمانوں کا ووٹ بنک نظر آتا ہے لیکن عشرت جہاں اور سہراب الدین کے خون کے دھبے نہیں دکھلائی دیتے کل تک تومسلمانوں کے قتل عام کو جائز قرار دے کرہندوؤں کے ووٹ مانگتا رہا اور اب ان کی مسیحائی کا دم بھرنے لگا ہے۔شرم تو تجھے آنی چاہئے بلکہ چلوّ بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے۔ تو صرف اپنے مفادات کو دیکھتا ہے اور اس کیلئے بے تکان بولتا ہے۔ تجھے نہ تو فساد زدگان کی آہ وبکا سنائی دیتی ہے اور نہ ہی سنجیو بھٹ جیسے پولس افسر کے ضمیر کی آواز۔تو سمجھتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دے گا لیکن یہ سب اس قدر آسان نہیں جتنا کہ تو سمجھتا ہے۔

یوگی بابا کی تقریر سن کر نین سکھ کی آنکھیں کھل گئیں اس نے اپنی آنکھوں پر لگی پٹی کو اتارا اور بولا مونی بابا آپ نے میری آنکھ کھول دی دراصل ہم نے بنیادی غلطی یہ کی کہ ہم انسانوں سے مرعوب ہو گئے اور انسان بننے کی کوشش کرنے لگے یہی ہماری سب سے بڑی غلطی تھی یہ دیکھ کر تان سین نے اپنے کانوں سے ہاتھ ہٹایا اور اپنی گاندھی ٹوپی کھڑکی سے باہر ہوا میں اچھال دی مونی بابا نے کہا تم نے صحیح کہا  نین سکھ یہ چوٹی اور یہ چولہ یہ سب کچھ پاکھنڈ(منافقت) ہے۔ یہ ہمیں نہیں  انسانوں ہی کو زیب دیتا ہے۔یوگی بابا نے جیسے ہی سر پر ہاتھ پھیرا چوٹی غائب ہو گئی اور اندرسے وہی پرانا بندر نمودار ہو گیا۔تان سین  بھی ٹوپی کے بعد چولے سے بے نیاز  ہو کر بندر بن گیا۔اپنے دو دیرینہ ساتھیوں کو نین سکھ نے اپنی پرانی حالت میں جاتے دیکھا تو وہ اس صدمے کو برداشت نہ کرسکا اور کھڑکی سے باہر کود گیا۔ اسی کے ساتھ راجو کی آنکھ کھل گئی۔

دوسرے دن اپنے بھیانک خواب کی تعبیر معلوم کرنے کیلئے راجو جب دیوان خانے میں گیا تو کیا دیکھتا ہے مونی بابا اور تان سین ایک طرف سوگوار بیٹھے ہیں۔ راجو نے پوچھا نین سکھ کہاں ہے تو مونی بابا نے کھڑکی کی جانب اشارہ کر دیا۔  راجو نے باہر جھانک کر دیکھا تو نیچے گلی کے نکڑ پر  نین سکھ کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ اس کی لاش کے آس پاس لوگ جمع ہیں ہنومان  چالیسا کا پاٹھ ہو رہا ہے۔ ماروتی  کے نئے مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور بے شمار نئے اور پرانے بندر جمع ہو کر جئے بجرنگ بلی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔

تان سین اور مونی بابا کے علاوہ کسی کو نین سکھ کی موت کا ذرہ برابر افسوس نہیں تھا۔ غم سے نڈھال تان سین نے مونی بابا سے پوچھا بابا یہ سب کیا ہو گیا ہمارا نین سکھ کہاں چلا گیا؟ اس نے یہ انتہائی اقدام کیوں کیا ؟بابا بولے تان سین جب نین سکھ کی آنکھیں  کے اوپر پڑا پردہ ہٹ گیا اوراس نا بینا گاندھی جی کے بندر نے اپنے آس پاس نظر دوڑا کر دیکھا تو اس کا سارا سکھ چین غارت ہو گیا۔اس نے سوچا گاندھی جی کے دیس میں یہ کیا ہو رہا ہے ؟ پہلے تو گاندھی جی کی تصویروں والے چندسکوں کے عوض ایوانِ  زیریں کے انتخابات میں غریب رائے دہندگان کو خریدا جاتا تھا اب ایوانِ بالا کے انتخابات میں عوام کے نمائندوں کی نیلامی ہو رہی ہے اور سرِ عام ان کا ایمان کروڑوں روپیوں میں بک رہا ہے۔ان روپیوں پر بھی گاندھی جی کی مسکراتی ہوئی تصویر چہک رہی ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر نین سکھ کے نین بھیگ گئے اس کے آنسووں کو دیکھ کر نوٹ پر بنی گاندھی جی کی تصویر بھی مرجھا گئی۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد نین سکھ کی سمجھ میں  یہ بھی آ گیا کہ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا میں بنیادی فرق کیا ہے ؟ جس ایوان کی رکنیت کیلئے غریب عوام رائے دیتے ہیں اسے ایوانِ زیریں ہی ہونا چاہیے اور جس میں منتخب ہونے والے ارکان کو عوام کے نمائندے اونچی قیمتوں کے عوض ووٹ دیتے ہوں اس کا ایوانِ بالا کہلانا حق بجانب ہے۔

بابا بولے تمہیں یاد ہے آخری بار غمزدہ اور مایوس  نین سکھ نے ہم سے سوال کیا  تھا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ تم لوگ یہ سب بڑے آرام سے دیکھ رہے ہو تم کو اس پر نہ کوئی حیرت ہے اور نہ پریشانی؟  میری غلطی تھی جو میں نے اپنا مون برت نہیں توڑا اور خاموش اپنے ہاتھ منہ پر رکھے بدستور بیٹھا رہا لیکن تم نے نین سکھ کے لبوں کی حرکات سے اندازہ لگا لیا کہ یہ کیا پوچھ رہا ہے اور بولے۔ دیکھو نین سکھ یہ سب تم پہلی بار اور ا چانک دیکھنے لگے ہو اس لئے تمہیں حیرت بھی ہے اور پریشانی بھی۔ ہم نے ان تبدیلیوں کو جستہ جستہ برسوں میں گھڑتے ہوئے  دیکھا ہے۔ہم تو اب اس کے عادی ہو گئے ہیں بلکہ اس پر راضی ہو گئے ہیں۔ اب تو یہ حالت  ہے کہ اگر اس کے علاوہ کچھ اور ہونے لگے تو ہمیں نہ صرف حیرت بلکہ پریشانی بھی ہو گی۔ تمہارا وہی نادانستہ جواب تھا جس نے نین سکھ کو اس قدر قنوطیت کا شکار کر دیا تھا کہ اس نے گاندھی ٹوپی کو اپنے سر سے اتار کر کھڑکی سے باہر اچھال دی تھی اور خود بھی کود کر خودکشی کر لی۔

تان سین نے پوچھا بابا جو سوال نین سکھ نے پوچھا تھا اب میں آپ سے پو چھتا ہوں مجھے بتائیے کہ یہ سب کیسے ہو گیا ؟ اس عظیم آزادی کی جدوجہد کا یہ انجام کیوں ہوا؟ وہ تمام قربانیاں کیوں رائیگاں چلی گئیں ؟ مجھے بتائیے ورنہ خدا نا خواستہ میں بھی ۔۔۔۔۔۔

مونی بابا بولے نہیں تان سین تم ایسی کوئی  حرکت نہ کرنا جو نین سکھ نے کی ہے ورنہ میں اکیلا زندہ نہ رہ سکوں گا۔ مونی بابا نے سوچا تان سین کا غم غلط کرنے کیلئے اسے کوئی کہانی سنا کر بہلانا چاہئے۔ وہ بولے میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں جس سے اپنے آپ تمہاری سمجھ میں آ جائے گا کی آزادی کس طرح از خود غلامی میں بدل جاتی ہے۔

یہ کہانی آپ کو کہاں سے یاد آ گئی؟ میں نے تو اس سے پہلے کبھی آپ کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مونی بابا نے تان سین کا جملہ کاٹ دیا اور بولے میں نے بھی کبھی تم کو اس قدر غمزدہ نہیں دیکھا۔ جب حقائق بہت تلخ ہو جائیں اور ان کا سامنا مشکل ہو جائے تو وقتی طور پر قصہ کہانی مر ہم کا کام کرتی ہے۔انسان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔

لیکن میں تو انسان نہیں ہوں ؟

جی ہاں طبعی طور پر نہ تم انسان ہو اور نہ بن سکتے ہو لیکن تمہاری ذہنیت بالکل انسانوں جیسی ہو گئی ہے۔اس لئے تمہاری نفسیاتی اذیت بھی انسانی ہے اور اس کا علاج بھی حیوانی نہیں انسانی ہی ہو گا۔  سچ تو یہ ہے کہ جنگل کے جانور نہ تمہاری طرح سوچتے یا پریشان ہوتے ہیں اور نہ ہی نین سکھ کی مانند خودکشی کرتے ہیں یہ رویہ صرف اور صرف نسلِ انسانی کا خاصہ ہیں۔

آپ نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ یہ کہانی آپ کو کیسے پتہ چلی ؟ کیا آپ نے اپنے آئی پیڈ پر اسے پڑھا ؟

نہیں تان سین  یہ بہت پرانی بات ہے تحریک آزادی کے دوران  ایک ترقی پسند افسانہ نگار اپنی تحریک سے منحرف ہو کر ہمارے ساتھ ہو لیا تھا۔

یہ ترقی پسند تحریک کیا ہم سے الگ تھی۔ گاندھی جی بھی تو ترقی کو پسند کرتے تھے ؟

دیکھو ترقی کو پسند کرنا اور ترقی پسند ہونا اس زمانے میں دو الگ الگ باتیں تھیں۔ اشتراکیوں نے اپنے لئے یہ اصطلاح مخصوص کر رکھی تھی۔ وہ اپنے سوا سب کو رجعت پسند کہتے تھے اور حقیر جانتے تھے۔

اچھا تواس افسانہ نگار نے حقارت کو کیوں پسند کیا ؟ کیا اس نے اشتراکیت سے رجوع کر لیا تھا ؟

جی نہیں فکری طور پر تو ہمیشہ ہی اشتراکی رہا لیکن وہ مصنوعی تنظیمی جکڑ بندیوں قائل نہیں تھا جس کے باعث ساری لیڈر شپ اس کی دشمن ہو گئی اور اس سے پہلے کہ وہ اسے باغی قرار دے کر تحریک سے نکال باہر کرتی اس نے از خود باہر کا راستہ ناپ لیا۔

پھر کیا ہوا ؟ہمارے آشرم میں اسے شانتی ملی ؟

جی نہیں وہ یہاں بھی بے چین ہی رہا بالآخر نکل کر چلا گیا؟

نکل کر کہاں چلا گیا ؟

وہ نکل کر پاکستان چلا گیا ؟

پاکستان ؟ لیکن ہم لوگ تو تقسیم کے مخالف تھے ؟

وہ خود بھی تقسیم سے قبل اس کا مخالف تھا لیکن فسادات نے اس کا ذہن بدل دیا

لیکن ہمارا آشرم  تو نہایت محفوظ تھا۔

کیسی بات کرتے ہو۔ ہمارے آشرم میں خود گاندھی جی محفوظ نہیں تھے تو عام آدمی کی کیا حیثیت ؟

تو کیا وہ خوفزدہ ہو گیا تھا۔لیکن کروڑوں مسلمان فساد کے بعد ہندوستان میں رہے۔

میں یہ تو نہیں جانتا کہ وہ ڈرا تھا یا نہیں لیکن وہ مجھ سے کہتا تھا کہ ہمارے آشرم کا ماحول  غیر فطری ہے یہاں  وہ جنسی ہیجان کا شکار ہو جاتا ہے۔

پھر پاکستان جانے کے بعد اس کا کیا ہوا ؟

وہی جو نین سکھ کا ہوا

کیا مطلب ؟ اس نے بھی ۔۔۔۔۔۔۰

جی نہیں اس نے خودکشی تو نہیں کی لیکن ڈاکٹروں نے شراب کو اس کیلئے زہر قرار دے دیا تھا اس کے باوجود وہ اس میں ایسے ڈوبا کے پھر پار نہ نکل سکا۔

گاندھی جی اچھا ہی کرتے تھے جو دارو بندی کے حامی تھے اگر وہ ہمارے آشرم ہی میں رہتا تو اس کا عبرتناک انجام نہ ہوتا۔

میں نے اس سے یہ کہا تھا لیکن اس کا یہ کہنا تھا اس آشرم میں اس کی ساری تخلیقی صلاحیتیں بانجھ پڑ جائیں گی۔ یہاں کسی کو ذوقِ لطیف سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے اس لئے اس کے اندر گھٹ گھٹ کر جینے سے بہتر کھل کر جینا اور مر جانا  ہے۔

خیر اتنے سالوں بعد آپ کو وہ کہانی یاد ہے اس پر مجھے حیرت ہے !

ہو بہو تو یاد نہیں ہاں تھوڑا بہت یاد ہے۔

لیکن آپ درمیان کی کوئی کڑی بھول گئے تو میرے لئے مشکل ہو جائے گی۔

جی نہیں تان سین وہ تمہاری نہیں میری مشکل ہے اور میں اسے کہیں نہ کہیں سے جوڑ دوں گا تم اس کی فکر نہ کرو۔

تو گویا اب یہ آپ کی اپنی کہانی ہو گی ؟

تم جو چاہو سمجھو لیکن یاد رکھو اگر تمہارے ان سوالات کا سلسلہ جاری رہا تو کہانی کا اسقاط حمل ہو جائے گا اور اپنی پیدائش سے قبل وہ موت کی آغوش میں پہنچ جائے گی۔ میں بچا کچھا بھی بھول جاؤں گا۔

معاف کیجئے اب میں کچھ نہیں بولوں گا تان سین بولا بابا آپ مجھے وہ کہانی سنائیے شاید کہ میرا دل بہل جائے اور بات بھی سمجھ میں آ جائے۔ لیکن آخری سوال آپ کی اس کہانی کا نام کیا ہے ؟

کہانی کا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مونی بابا سوچ پڑ گئے اور پھر کہا ’’امیر سلطان اور ننھا غلام ‘‘

یہ کیسا نام ہے ؟مونی بابا ! کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔مونی بابا نے کہا چپ چاپ کہانی  سنو سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔

 

 

 

امیر سلطان اور ننھا غلام

 

ٹک چیں ٹک چیں ۔۔۔۔۔۔کی آواز فوجی بینڈ کی مانند فضا میں گونج رہی تھی۔  امیر سلطان اپنی قدیم حویلی کی بالائی منزل سے اتر کر صدر دروازے کی جانب رواں دواں تھے۔چھڑی اور جوتی کے درمیان بلا کا تال میل تھا۔ ایسا لگتا تھا گویا دونوں نے ایک ساتھ سرسوتی کے چرنوں میں بیٹھ کر ریاض کیا ہے اور یہ مہارت حاصل کر لی ہے۔ کہانی کے پہلے ہی جملہ نے تان سین کو اپنے تانے بانے میں جکڑ لیا تھا وہ خود بھی موسیقی کی دنیا میں پہنچ گیا تھا جہاں طبلہ کی جگہ چھڑی اور ہارمونیم کے بدلے جوتی بجتی تھی لیکن اس کے باوجود ان کے سر اور تال بالکل راگ بھیروی سے ہم آہنگ تھے۔تان سین کے ساتھ ساتھ مونی بابا کو بھی اپنی کہانی میں لطف آنے لگا تھا۔

کسی زمانے میں اس پرانی حویلی کا نام’ عافیت منزل‘ ہوا کرتا تھا۔ اس حویلی کو تعمیر کرنے کی خاطر یہاں پر قائم ’غاصب محل‘ کو زمین دوز کیا گیا تھا اور بڑے تزک و احتشام کے ساتھ اس کی دیواروں کو اٹھایا گیا تھا۔نہایت خوبصورت خواب سجائے گئے تھے  لیکن وہ خواب اپنی تعبیر سے قبل ہی دیواروں میں چن دئیے گئے۔ وقت کے ساتھ لوگ خواب تو کجا حقائق کو بھی بھول بھال گئے تھے۔یہ سب اس قدر پرانا ہو گیا تھا کہ اب ہر کوئی اس ویران مکان کو پرانی  حویلی کے نام سے پکارتا تھا۔ اس نئے نام پر چونکہ اندر والوں کو ئی اعتراض نہیں تھا اس لئے باہر والوں کو کیا دقت ہو سکتی تھی۔ اس لئے راوی چین لکھتا تھا۔

امیرسلطان کے آگے آگے چنگو اپنے ہاتھ میں پرانی قندیل لئے چلا جا ریا تھا۔ ویسے تو حویلی میں لگنے والے بجلی کے قمقموں نے قندیل کی ضرورت سے بے نیاز کر دیا تھا لیکن اب قندیل محض ایک ضرورت نہیں تھی بلکہ اس حویلی کی ایک  مقدس روایت تھی۔اس لئے اسے ضرورت و اہمیت پر فوقیت حاصل ہو چکی تھی۔حویلی میں رائج طور طریقوں کو بدلنا تو دور کی بات ہے ان کے جواز پر غور کرنا بھی جرم عظیم میں شمار ہوتا تھا۔یہ اصول صرف حویلی کیلئے مختص نہیں تھا بلکہ ناظم آباد کے سارے ہی معاملات پراس کا یکساں طور پر اطلاق ہوتا تھا۔ اس شہر کے عوام و خواص اس خام خیالی میں مبتلا تھے جس روز ان فرسودہ اصول و ضوابط پر قائم و دائم نظام سے ذرہ برابر انحراف ہو گا یہ جہانِ ہستی درہم برہم ہو جائے گا۔

دروازے پر پہونچنے کے بعد آقا اور غلام دونوں کو احساس ہوا کہ باہر گرج چمک کے ساتھ بارش ہو رہی ہے۔ حویلی کی بے حس دیواروں نے باہر کی تبدیلیوں کو اپنی موٹی کھال میں پوری طرح جذب کر لیا تھا  اور اپنے پیٹ میں رہنے والوں کو اس کا احساس تک ہونے نہیں دیا۔حویلی کی فلک شگاف فصیل روشنی، ہوا، پانی اور آواز ہر چیز کی دشمن تھی۔ کسی کو بلا تفتیش و اجازت اندر داخل ہونے کا یارا  نہ تھا۔ ان پابندیوں پر کوئی  حیرت کا اظہار نہیں کرتا تھا بلکہ سارے لوگ اسے فخر و امتیاز کی  علامت سمجھ کر ان پر ناز کرتے تھے۔کچھ تو اس اندیشے کا بھی شکار تھے کہ مبادا اگر اسرافیل ؑ بھی حویلی کے باہر کھڑے  ہو کر صور پھونکیں گے تو کون جانے اندر آواز جائے گی بھی نہیں۔ کچھ اور لوگوں کا گمان تھا کہ حضرت اسرافیلؑ اسی عمارت کی چھت پر کھڑے ہو کر صور پھونکیں گے جس سے حویلی سمیت دسارا ناظم آباد تہس نہس ہو کر رہ جائے گا۔اس گاؤں کے لوگوں کی کائنات گاؤں کی حد تک محدود تھی۔ ان کا خیال تھا کہ جس دن اس گاؤں پر قیامت برپا ہو گی دنیا کا چراغ آپ سے آپ بجھ جائے گا۔

آسمان پر کڑکتی بجلی کو دیکھ کر امیر سلطان گرجے۔ اوئے چنگو تیری آنکھیں ہیں یا بے جان آلو؟ دیکھتا نہیں باہر کیا حال ہے ؟جا دوڑ کر چھاتا لا۔

چنگو نے قندیل کو دروازے کی آڑ میں رکھتے ہوئے کہا سرکار غلطی ہو گئی معافی چاہتا ہوں۔ اندر کی جانب دوڑتے ہوئے اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنے آقا سے پوچھے سرکار آپ ہی نے تو باہر جھانکنے سے منع کرتے ہوئے کہا تھا باہر نہ دیکھنا ورنہ آنکھیں پھوٹ جائیں گی۔ حویلی کا ایک ضابطۂ اخلاق یہ بھی تھا کہ ہمیشہ نظر نیچے اور کان کھڑے رکھے جائیں تاکہ احکامات کی تعمیل میں چنداں تاخیر نہ ہو۔

چنگو واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں چھتری کے بجائے بر ساتی تھی۔ امیر سلطان کی آواز پھر گونجی چنگو تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔میں نے تجھے چھاتا لانے کیلئے کہا اور تو برساتی اٹھا لایا ؟لگتا ہے تیرے کان اینٹھنے کا وقت آگیا ہے تجھ سے جو کہا جائے تو وہ نہیں سنتا بلکہ کچھ او رہی سنتا ہے۔

چنگو بولا جی نہیں سرکار اس میں کان کا قصور نہیں ہے اس نے صحیح سنا مگر  میں نے سوچا اس تیز آندھی میں چھاتا آپ کے کس کام آئے گا ؟اس لئے دماغ چلا کر برساتی لے آیا۔

چنگو کو توقع تھی کہ اس کا آقا عقل کے استعمال پر خوش ہو گا شاباشی دے گا مگر اس کے بجائے ڈانٹ کا کوڑا اس کی سماعت پر برسنے لگا۔ اچھا تو تیرا دماغ خراب ہو گیا اور اب اسے درست کرنا ہو گا تو اپنی عقل چلاتا ہے بے وقوف ؟ نہیں جانتا کہ یہاں دماغ نہیں بلکہ امیر سلطان کا حکم چلتا ہے اور پہلے یہ بتا کہ یہ کس کی برساتی تو میرے لئے اٹھا لایا؟

سرکار یہ کسی غیر کی نہیں بلکہ آپ کے منشی عبدالحسیب کی برساتی ہے۔ چنگو نے جواب دیا

تو میری توہین کرے گا ؟ مجھے کسی اور کی برساتی پہنائے گا ؟ کیا تجھے نہیں معلوم کہ حویلی کا ضابطہ کسی کو کسی بھی صورت کسی اور کا سامان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ امیر سلطان کو بھی نہیں ؟

جی ہاں سرکار میں جانتا ہوں لیکن یہ برساتی کسی غیر کی کب ہے ؟یہ حویلی، اس کا سارا سازو سامان، اس میں رہنے اور کام کرنے والے لوگ، سب کے سب آپ کی ملکیت ہیں۔اور ویسے بھی آپ ہی نے دس سال قبل یہ برساتی منشی جی کو دلوائی تھی۔اس طرح یہ آپ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چنگو کا جملہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ اس کے گال پر ایک زوردار طمانچہ پڑا جس کی گونج آسمان میں گرجنے والے بادلوں سے زیادہ تھی۔ چنگو کے چودہ طبق روشن ہو گئے کنارے پڑی قندیل کی لو بجھ گئی۔چاروں طرف تاریکی چھا گئی باڑے میں بندھی بکری اپنی جگہ سہم کر بیٹھ گئی۔بارانِ رحمت ایک لمحہ کیلئے ٹھہر گیا اور خزاں کا ایک تیز جھونکا تیزی کے ساتھ گزر گیا۔امیر سلطان نے چھاتا کھولتے ہوئے چنگو کو ہدایت دی دیکھ چنگو بارش تیز ہے دروازے کو ٹھیک سے بھیڑنا ورنہ پانی اندر آ جائے گا۔چنگو کے منہ پر تالا پڑا ہوا تھا اسلئے اس نے دو تولہ کی زبان ہلانے کے بجائے دو من کا سر ہلانے کو ترجیح دی اور دروازہ بند کر کے اندر آ گیا۔

امیر سلطان جاتے جاتے چنگو کے گالوں پر جو چنگاریاں چھوڑ گئے تھے وہ مسلسل آگ اگل رہی تھیں۔چنگو سوچ رہا تھا گو کہ اسے دماغ کا استعمال کرنے سے منع کیا گیا تھا اس کے باوجود وہ سوچ رہا تھا کہ آخر اس کا قصور کیا تھا؟اسے کس جرم کی پاداش میں یہ سزا دی گئی ؟کیا کسی کی خیرخواہی کرنا  بھی کوئی جرم ہے ؟کیا ہمدردی کی قدردانی اس طرح کی جاتی ہے ؟ اس طرح کے بے شمار سوالات ننھے فرشتہ صفت غلام کے ذہن میں طوفان برپا کئے ہوئے تھے۔حویلی کی دیوار سے ٹیک لگائے وہ مسلسل اپنے جرم کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتا پھر رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ غلطی کا مرتکب تو ضرور ہوا ہے ورنہ اسے سزا سے ہر گز دوچار نہ ہونا پڑتا  لیکن اپنے گناہ کی آگہی کا کرب اسے بار بار امیر سلطان کی چوکھٹ پر لے جاتا تھا اور پھر وہ گھبرا کر پلٹ آتا تھا۔ امیر سلطان اور ان سے کسی نسیان کا تصور بھی چنگو کیلئے محال تھا ان کا مقامِ بلند بھول چوک کی سرحدوں سے پرے تھا۔

امیر سلطان سارے ناظم آباد کے متفقہ سر براہ ہیں۔ وہ اس عوام کے نمائندے ہیں جس نے انہیں منتخب کیا ہے۔اس لئے سربراہ کی غلطی پلٹ کر رعایا کی جانب آ جاتی ہے جس نے اسے منتخب کرنے کی غلطی کی ہوتی ہے۔ ویسے چنگو کے پاس اپنے مجرم ہونے اور سلطان کے معصوم ہونے کا ایک اور جواز موجود تھا۔ اس کے خیال میں سزا اسی کو ملتی ہے جس سے جرم سرزد ہوتا ہے اس منطق کے لحاظ سے چونکہ طمانچہ اسے پڑا تھا اس لئے وہی قصور وار ہوتا تھا۔لیکن پھر گھوم کر وہی پہلا سوال پیدا ہو جاتا تھا کہ آخر اس کا قصور کیا تھا ؟اس لئے کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیشتر اوقات جرم کی آگہی سزا کے کرب کو لذت میں بدل دیتی ہے غالباً نادانستہ طور پر وہ اپنی سزا سے محظوظ ہونا چاہتا تھا  اور شاید اسی لئے  جاننا چاہتا  تھا کہ آخر اس سے کون سی غلطی سرزد ہوئی ہے ؟

اس حویلی کے اندر دماغ کا استعمال چند مخصوص کاموں کی حد تک جائز تھا جس میں سب سے اول امیر سلطان کا حکم سن کر یاد رکھنا۔وقتِ ضرورت اس کی بہترین توجیہ کرنا اور بے چوں و چرا اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔ عقل کا استعمال کر کے اپنے طور سے کوئی فیصلہ کرنا گناہ صغیرہ میں شمار ہوتا تھا اور اس فیصلہ پر بغیر توثیق حاصل کئے عمل در آمد کر گزرنا گناہِ کبیرہ کہلاتا تھا۔  بھولا بھالا چنگو برساتی کے معاملے میں گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوا تھا اس لئے اس پر فوراً حد جاری کر دی گئی۔چنگو کے کان جھنجھنا رہے تھے اور وہ اپنے کان پکڑ کر توبہ واستغفار کر رہا تھا۔ اس ترکیب نے اس کے سینے پر پڑے بوجھ کو ہلکا کر دیا اور پھر سب کچھ بھول کر اس نے کھڑکی کے پٹ کھول دئیے اور برسات کا مزہ لینے لگا۔

ہوا کے شریر جھونکے اس بات سے ناواقف تھے کہ یہ امیر سلطان کی پرانی حویلی ہے اور وہ بے خوف بھی تھے ان پر امیر سلطان کا کوئی اختیار نہیں چلتا تھا، اس لئے وہ بار بار کھڑکی سے بارش سمیت حویلی کے دیوان خانے میں کود جاتے تھے۔۔ اپنی مرضی کی مختار ہوا کبھی الماریوں سے اٹھکیلیاں کھیلتی تو کبھی میز اور کرسی کو گیلا کرتی۔کمرے کا دیگر سازو سامان بھی برسات کے پاک پانی سے تازگی حاصل کر رہا تھا۔فرش کے ساتھ ساتھ قالین کا دامن بھی اس شوخ ماحول نے تر کر دیا تھا لیکن اس محفل کا شہزادہ اگر کوئی تھا تو وہ تھا چاند میاں دستگیر عرف چنگو۔  وہ مستی میں جھوم رہا تھا کہ اچانک ٹک ٹک کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔چیں چیں کی صدا غائب تھی۔وہ سمجھ گیا سرکار کا جوتا بھیگ گیا ہے اس لئے اس کا گلا رندھ گیا ہے  اور چیں چیں کی صدائے احتجاج بند ہو گئی ہے لیکن چھڑی پر خشکی اور تری کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔چنگو فوراً قندیل سنبھال کر دروازے کی جانب لپکا تو کیا دیکھتا ہے سرکار ٹوٹا ہوا چھاتا ہاتھ میں لئے سر سے پیر تک برسات کے پانی میں شرابور تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ چنگو نے قندیل کنارے رکھ کر ہاتھ بڑھایا اور چھاتا اپنے ہاتھوں میں لے کر امیر سلطان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

امیر سلطان کی نظر جیسے ہی دیوان خانے پر پڑی وہ چراغ پا ہو گئے اور بولے اوئے چنگو آج تجھے یہ کیا ہو گیا ہے ؟ میں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ دروازہ ٹھیک سے بند کرنا ورنہ پانی اندر آ جائے گا اور تو بھول گیا۔ یہ دیکھ سارا کمرہ بھیگا ہوا ہے۔ چنگو نے نہایت سعادتمندی کے ساتھ کہا سرکار میں نے کوئی بھول نہیں کی۔ دروازہ خوب اچھی طرح بند کر دیا تھا۔ امیر سلطان نے چونک کر پوچھا اور پھر یہ پانی؟ چنگو نے کھڑکی کی جانب اشارہ کر دیا۔ امیر سلطان بولے اوہو تو تو نے کھڑکی کو کیوں کھلا چھوڑ دیا؟ کیا اسے بند نہیں کر سکتا تھا ؟ کر تو سکتا تھا جناب لیکن چونکہ آپ نے صرف دروازہ بند کرنے کیلئے کہا تھا۔ اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا تھا اس لئے میں نے وہی کیا جو آپ نے کہا تھا۔امیر سلطان بولے لیکن کیا تو نے پانی کو اندر آتے نہیں دیکھا؟کیوں نہیں سرکار  چنگو بولا آنکھوں نے دیکھا اور بہت اچھی طرح دیکھا مگر کان نے کہا  اس حویلی میں عقل کا استعمال ممنوع ہے۔ جتنا کہا جائے اتنا کیا جائے، چاہے جو ہو جائے۔ ویسے اگر آپ کہیں تو میں آپ کے حکم سے ابھی کھڑکی بند کئے دیتا ہوں ؟

امیر سلطان کے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔قالین کی خرابی اور دیگر سازو سامان کے نقصان کا غم ہوا ہو گیا۔ انہیں ایک بار پھر یقین ہو گیا کہ اس حویلی کی بے تاج بادشاہت میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔ان کی مرضی کے بغیر یہاں کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا۔وہ بولے بہت خوب چنگو شاباش آج توتو نے میرا دل خوش کر دیا۔ اب تو  ایسا کر کہ پہلے تو کھڑکی کو بند کر دے  اس کے بعد گرما گرم چائے بنا کر میری خوابگاہ میں لے آ تب تک میں غسل خانے سے کپڑے بدل کر آتا ہوں۔ٹھیک ہے ؟ امیر سلطان کو یقین تھا کہ ان کی خوابگاہ محفوظ ہو گی اس لئے کہ اس میں بارش اور ہوا تو کیا روشنی کی ایک کرن بھی داخل ہونے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ چنگو بھی اپنے آقا کی آرام گاہ کے بارے میں سوچ رہا تھا جو ان کے مزاج کے مطابق ہمیشہ گرم اور خشک رہتی تھی۔فطرت کی تبدیلیوں سے پرے عالمی تغیرات سے بے نیاز امیر سلطان کی محفوظ و مامون آرام گاہ!

ناظم آباد کی موجودہ نسل نے جب سے ہوش سنبھالا تھا انہیں امیر سلطان ہمیشہ ہی اپنے یکساں اور منفرد حلیہ میں نظر آئے تھے۔سر پر اونچی ٹوپی آنکھوں پر موٹی عینک۔تن پر وضعدار شیروانی اور پیروں میں نوکدار جوتی۔جو ہر قدم پر چیں چیں کی صدائے احتجاج بلند کرتی رہتی تھی لیکن بشمول امیر سلطان کے سارا ناظم آباد اس کا درد محسوس کرنے کے بجائے اس کے ترنم سے محظوظ ہوتا تھا۔امیر سلطان نے اپنی جوتی کے ساتھ جگل بندی کی خاطر چھڑی خرید رکھی تھی۔امیر سلطان جب قدم اٹھاتے تو چھڑی زمین سے اپنا سر ٹکراتی اور ٹک کی صدا بلند ہوتی اور پھر جب وہ اپنا قدم زمین پر رکھتے تو جوتی ان کے بوجھ  سے کچل کر چیں بول جاتی۔اس طرح امیر سلطان کی چال  پر اگر نظر رکھنی ہو تو چھڑی اور جوتی کی ٹک چین پر کان دھرنا کافی تھا۔

اس چھڑی کے دونوں سرے آہنی تھے ایک وہ جو ان کے ہاتھ میں ہوتا اور ایک وہ جو زمین کی پیٹھ پر ہوتا تھا لیکن ان دونوں کی بناوٹ میں واضح فرق تھا۔ امیر سلطان کے ہاتھ والا سرا گول، نرم اور ملائم ہوا کرتا تھا اس کے بر عکس وہ سرا جو زمین کے سر پر برستا تھا نوکدار، تیز اور سخت  تھا۔  جب سخت زمین سے ٹکرا ٹکرا کر چھڑی کی نوک بجھ جاتی تواس کا گلا خراب ہو جاتا اورایسے میں بلا تاخیر اس کا گلا گھونٹ کر اسے بدل دیا جاتا۔ چھڑی کے نئی نال لگ جاتی۔ لیکن چھڑی کو بدلا نہیں جاتا۔ امیر سلطان نے اس چھڑی کو عہدِ شباب میں محض رعب ڈالنے کیلئے تھاما تھا۔ اس وقت انہیں اس کے سہارے کی چنداں  ضرورت نہیں تھی لیکن پہلے تو یہ چھڑی ان کی عادت بنی اور پھر ضرورت بن گئی۔ اب تو انقلاب زمانہ نے یہ حال کر دیا  تھا کہ چھڑی کے بغیر چند قدموں کا فاصلہ طے کرنا بھی سلطان کیلئے محال ہو گیا تھا۔ سانس پھولنے لگتی تھی جس پر جوتے کی چیں چیں پردہ ڈالنے کا کام کرتی تھی۔

امیر سلطان کو اس چیں چیں کی اہمیت کا بھی خوب احساس تھا اس لئے جیسے ہی اس کے احتجاج میں کمزوری واقع ہوتی اسے نئی جوتی سے بدل دیا جاتا۔  جوتی کا انتخاب کرتے وقت نہ تو اس کا آرام دہ ہونا اہم قرار پاتا اور نہ ہی اس کی ہئیت و ماہئیت پر توجہ دی جاتی بلکہ کبھی کبھار اس کے باعث ہونے والی آبلہ پائی کو بھی برداشت کر لیا جاتا لیکن  اگر کسی معاملے میں مصالحت نہ ہوتی تو وہ اس کی چیں چیں کی آواز تھی۔اس کی خاطر سلطان بڑی سے بڑی قیمت چکانے پر بڑی آسانی سے راضی ہو جاتے۔ اس حقیقت سے چونکہ ناظم آباد کے سارے ہی جاروب کش واقف تھے اس لئے وہ امیر کی خدمت میں جوتی کو اسی صفت سے مرصع کر کے لاتے اور اپنا من چاہا انعام حاصل کر کے لوٹ جاتے۔اس روز بارش میں بھیگی ہوئی جوتی دعا کر رہی تھی کہ کاش سوکھنے کے بعد جب اسے جانچا جائے تو اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلے تاکہ اسے حقارت کے ساتھ کوڑے دان کی نذر کر دیا جائے  اور اس طرح   وہ ایک سنگدل انسان کے قدموں تلے روندے جانے کے عذاب سے چھٹکارا پا جائے۔ ایک ایسا نادان انسان جو زمین پر اس طرح اکڑ کر چلتا ہے گویا اسے پھاڑ ڈالے گا۔

 

 

 

 

بکری

 

حمام میں کپڑے بدلتے ہوئے امیر سلطان کو محسوس ہوا کہ ان کے جسم کا کچھ حصہ زیادہ بھیگا ہوا ہے اور کچھ کم۔اپنی زندگی میں یکسانیت کے قائل امیر سلطان کیلئے یہ ناگوار صورتحال تھی اس لئے انہوں نے اپنے جسمانی وجود کویکسانیت سے شرابور کرنے کیلئے نہانے کا فیصلہ کیا۔غسل کرتے ہوئے ان کا دماغ سوچ رہا تھا کہ آخر آج ان کا اندازہ کیونکر غلط ہو گیا۔ انہیں برسات کی کوئی توقع نہیں تھی ورنہ وہ باہر جانے کا قصد ہی نہ کرتے۔ اس ادھیڑ بن میں انہیں یاد آیا کہ یہ تو محکمۂ موسمیات کی شرارت تھی۔ صبح چلنے سے قبل انہوں اخبار دیکھا تھا جس میں کھلے آسمان کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔  ان کا قصور تو صرف یہ تھا کہ وہ اس پر ایمان لے آئے تھے۔ اب کیا تھا محکمۂ موسمیات کے ڈیوٹی پر موجود  افسر کو سزا کے طور پر معطل یا کم از کم تبادلہ کرنے کا ارادہ امیر سلطان نے حمام کے اندر ہی کر لیا لیکن کارروائی سے قبل وہ پھر ایک بار اخبار دیکھ لینا چاہتے تھے۔

اخبار پڑھنے کیلئے عینک کی ضرورت تھی اور عینک کے بغیر عینک کو تلاش کرنا ایک کارِ دارد تھا۔گردشِ زمانہ نے ان کی بینائی کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا۔دور اندیش تو وہ کبھی بھی نہیں تھے لیکن قریب کی چیزوں کو بڑی باریک بینی سے دیکھا کرتے تھے۔اب حال یہ تھا کہ دور کی کوئی شہ سرے سے دکھلائی ہی نہیں دیتی تھی اور جو کچھ قریب ہوتا وہ بھی دھندلا نظر آتا تھا مگر عینک کے ساتھ۔ عینک گویا ان کے آنکھوں کی روشنی بن گئی تھی اس کے بغیر ہر سو اندھیرا چھایا رہتا تھا۔امیر سلطان کو یہ غلط فہمی تھی کہ انہیں عینک  پہن لینے پر سب کچھ درست نظر آنے لگتا تھا حالانکہ حقیقت اس سے مختلف تھی۔خالق کائنات نے انسان کو دو آنکھوں سے نوازہ اور وہ ہر چیز پر بیک وقت اس لئے پڑتی ہیں کہ انسان ان کے ذریعہ اپنے سامنے آنے والے حقائق کے مثبت و منفی دونوں پہلو دیکھے۔ وہ خوبیوں اور خامیوں پر یکساں طور پر نگاہ ڈالے اور اس کے بعد اپنی رائے قائم کرے۔ امیر سلطان کی ترتیب اس کے برعکس ہوا کرتی تھی۔  ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ مشاہدے سے قبل اپنی ایک رائے قائم کر لیتے کہ آیاجس شہ کو دیکھنا ہے وہ  اچھی ہے یا بری ؟ اگر ان کی رائے اس کے متعلق اچھی ہوتی تو وہ دونوں آنکھوں سے بس اس کی خوبیاں ہی خوبیاں دیکھتے اور خامیوں سے صرفِ نظر کر جاتے لیکن اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے ان کی رائے خراب ہو جاتی تب تو اپنے آپ وہ شہ خامیوں کا پلندہ بن جاتی۔ عیوب و نقائص کے علاوہ انہیں اس میں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔

امیر سلطان کی عینک دو طرح کے شیشے لگے ہوئے تھے۔ایک قریب کی اشیاء کو دیکھنے کے کام آتا تھا اور دوسرا دور کی چیزوں کیلئے استعمال ہوتا تھا  لیکن ان کا استعمال بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں کیا جاتا تھا اپنے قریب کے لوگوں کو وہ کمتر جانتے تھے۔ان کی صلاحیتوں کو وہ کم کر کے آنکتے تھے۔ دور کے ڈھول انہیں سہانے لگتے تھے مگر اندیشوں کو وہ بڑھا چڑھا کر دیکھتے تھے اس لئے اکثر و بیشتر مایوسی اور حالتِ  خوف میں مبتلا رہتے۔اگر کسی کو اپنے وسائل پر اعتماد نہ ہو اور وہ غیروں کے بیجا اندیشوں میں گرفتار ہو تو اس کے اندر قوت فیصلہ کا فقدان اپنے آپ جنم لیتا ہے  یہی کچھ امیر سلطان کے ساتھ بھی ہوتا تھا ۔

عینک کو آنکھ کے آگے  نصب کرنے کا کام  کان کرتے  ہیں۔عینک لگا لینے پر دونوں کانوں کے درمیان رابطہ  کا ایک پل بن جاتا ہے گویا بجلی کا سرکٹ مکمل ہو جاتا۔ امیر سلطان کو اپنی سماعت پر بصارت سے زیادہ اعتماد تھا۔کانوں کا جغرافیہ کچھ اس طرح ہے کہ ان دونوں کے درمیان رب کائنات نے ایک دماغ کو چھلنی کے طور پر نصب فرما دیا۔ اس کا کام یہ ہے کہ کان پڑی ہر بات کی چھان بین کرے اور کام کی بات کو اپنے اندر محفوظ کر لینے کے بعد باقی فضول باتوں کو دوسرے سے نکال دے۔امیر سلطان نے دماغ کے اس شعبہ کو معطل کر رکھا تھا اس لئے وہ اپنے گوش گزار ہونے والی ساری باتوں کو بلا تحقیق محفوظ کر لیا کرتے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ زبان کا تعلق دل سے ہو اس لئے کہ جیسے ایک دل ویسے ہی ایک زبان لیکن امیر سلطان نے اس رابطہ کو بھی منقطع فرما دیا تھا۔اس لئے وہ لب کشائی سے قبل قلب کی جانب رجوع کرنے کی زحمت نہیں کرتے تھے۔اپنی کمزور آنکھوں اور مضبوط کان پر مکمل انحصار و اعتماد کر کے جو منہ میں آتا  بلا روک ٹوک کہہ ڈالتے۔ اس لئے کہ مخاطب کے پاس ان کی ہر صحیح یا غلط بات کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی اور متبادل تو ہوتا نہ تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا ہر کوئی ان کے آگے مجبور و مقہور تھا اس لئے کسی بات کو کہنے سے قبل اس کے نتائج پر غور کرنے کی عادت انہیں پڑی ہی نہیں تھی۔

امیر سلطان نے اول تو چنگو کو عینک لانے کا حکم دیا جب وہ اسے لے آیا تو اخبار لانے کیلئے کہا  وہ بھی حاضر ہو گیا تو چائے کے بارے میں دریافت کیا۔ اس کی کشتی بھی لنگر انداز ہو گئی۔ امیر سلطان کے کان جو بغیر کسی آلہ کی مدد سے اپنا کام کرتے تھے ان سے کہہ رہے تھے کمرے کی کھڑکی اب بھی کھلی ہوئی ہے۔انہوں نے چنگو سے پوچھا  چنگو کیا میں نے تجھے چائے بنانے سے قبل کھڑکی بند کرنے کیلئے نہیں کہا تھا ؟ جی ہاں سرکار، اور میں نے کھڑکی بند بھی کر دی تھی۔ لیکن وہ تو ہنوز کھلی ہوئی ہے۔  جی ہاں سرکار ہوا نے اسے پھر سے کھول دیا۔ کھول دیا ؟ کیسے کھول دیا ؟ کیا تو چٹخنی چڑھانا بھول گیا تھا ؟جی نہیں سرکار میں ایسی جرأت کیسے کر سکتا تھا ؟ کیا مطلب، میں سمجھا نہیں ؟میرے آقا بات دراصل یہ ہے کہ آپ نے کھڑکی بند کرنے کا حکم تو دیا تھا لیکن چٹخنی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ آپ کہیں تو میں ابھی چٹخنی چڑھائے دیتا ہوں۔ چنگو کی سعادتمندی پر امیر سلطان کی باچھیں کھل گئیں۔وہ ہنستے ہوئے بولے ہاں ہاں میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اب چٹخنی چڑھا دے لیکن کھڑکی بند کرنے کے بعد۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ۔۔۔۔۔۔جی سرکار سرکار۔  چنگو کی آواز کے پیچھے اس کے آقا کا زوردار قہقہہ گونج رہا تھا۔

امیر سلطان نے دیکھا میز پر چائے کی کشتی میں کیتلی، پیالی، شکر دانی اور چھنی کے درمیان دودھ کا پیالہ بھی ادب سے ہاتھ باندھے سرجھکائے حکم کی تعمیل کا منتظر ہے۔ان کیلئے یہ نہایت خوشگوار اور فرحت بخش منظر تھا۔انہوں سب سے پہلے چمچہ کو دستِ شفقت سے نوازہ اور اس کی مدد سے چینی کو پیالی میں ڈال کر اس پر چائے انڈیلی تو عقب سے چنگو کے قدموں کی آہٹ کانوں میں پڑی۔ اپنا سر اٹھائے بغیر سلطان نے سوال کیا چنگو یہ دودھ کہاں سے آگیا؟ چنگو چہک کر بولا سرکار یہ اپنی بکری کا دودھ ہے، اپنی بکری کا۔۔۰ وہ خوشی سے بے قابو ہو رہا تھا۔سلطان بولے کیا بات ہے ؟ کل تک تو بکری بیمار تھی بلکہ مر رہی تھی اور آج اتنا سارا دودھ؟ کہیں یہ چراغ کے بجھنے سے قبل اس کی آخری پھڑ پھڑا ہٹ تو نہیں ہے ؟ چنگو کو اپنے آقا کی یہ بات بہت بری لگی۔ اس کے تن بدن میں آ گ لگ گئی اس کے باوجود چنگو نے اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے کہا جی  ہاں سرکار بکری کی طبیعت گزشتہ ایک ماہ سے خراب چل رہی تھی اور کسی طور سنبھل نہیں پارہی تھی۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہمارے محلے میں دواؤں کی فراہمی کا نظام  متاثر چل رہا تھا۔نظام کیسے متاثر ہوسکتا ہے ؟  میں کچھ سمجھا نہیں۔  وہ در اصل بات یہ ہے کہ میں اپنی بکری کو حکیم شیر خان کے پاس لے گیا تھا اور انہوں نے چار دوائیوں پر مشتمل نسخہ لکھ دیا تھا مگر ان میں سے دو تو ہمارے دوا فروش عبد المتین کے پاس موجود نہیں تھیں اور جو دو دوائیں موجود تھیں وہ بھی ضرورت سے کم مقدار میں۔ اس کے باعث مرض کی صحیح تشخیص کے باوجود علاج نہیں ہو پا رہا تھا۔

امیر سلطان نے اس معاملہ کو اپنی کوتاہی پر محمول کیا اس لئے نظام آباد کے سارے محلوں کے انتظام و انصرام کو وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے اور اس کے بہترین ہونے پر فخر جتاتے تھے۔ انہوں نے چنگو سے پوچھا لیکن یہ اسٹاک کیوں کر ختم ہو گیا؟ کہیں  دوائی بنانے والے کارخانے میں ہڑتال تو نہیں ہو گئی ؟ جی نہیں جناب وہ ہوا یہ کہ انتظامیہ نے  حال میں کچھ نئے ضوابط نافذ کئے۔ عبد المتین بیچارہ ان کی پاسداری میں ضروری کاغذات جمع نہیں کر سکا اس لئے سزا کے طور پر اس کا اجازت نامہ عارضی طور پر معطل کر دیا گیا اور اس کی سپلائی بند کر دی گئی۔ عبد المتین بھی اس سخت اقدام کے جواب میں ناراض ہو کر بیٹھ گیا۔  ان دونوں کی لڑائی کا نتیجہ میں بیچاری بکری کی شامت آ گئی۔ امیر سلطان کو چنگو کا یہ تبصرہ پسند نہیں آیا وہ بولے ٹھیک ہے لیکن پھر یہ چمتکار کیسے ہو گیا ؟ تمہاری پیاری بکری کیونکر صحت یاب ہو گئی؟سرکار ہوا یہ کہ گزشتہ ہفتہ میں نے حکیم صاحب کو دہائیاں دیں اور کہا جناب ایک ماہ سے علاج ہو رہا ہے اس کے باوجود بکری کا حال دن بدن بگڑتا جا ریا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جلد ہی یہ بیچاری اللہ کو پیاری ہو جائے گی۔

میری بات سن کر حکیم صاحب بولے دیکھو بیٹے میں تمہاری چنتا سمجھتا ہوں لیکن تمہیں بھی میری مشکل کو سمجھنا ہو گا۔ میرا کام بس نسخہ لکھنے کی حد تک محدود ہے۔ دوائی فراہم کرنا یہ میرے ذمہ نہیں ہے۔ اب اگر تم میرے نسخہ کے مطابق دوا نہ لاس کو اور اس کیلئے مجھے موردِ الزام ٹھہراؤ تو یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے ؟  امیر سلطان نے خوش ہو کر پوچھا پھر کیا ہوا؟ پھر کیا مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا میں نے ان سے معذرت طلب کی اور گہار لگائی جناب آپ، میں، دوا فروش اور محکمۂ صحت ہر کوئی مجبور ہے لیکن اس کی قیمت کوئی اور میرا مطلب ہے بیچاری بکری چکا رہی ہے۔ اس لئے آپ اس پر رحم فرمائیے اور کوئی راستہ نکالئے۔ حکیم صاحب بولے دیکھو چنگو راستہ تو ہے لیکن اس سے قانون اور ضابطہ کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔یہ سنتے ہی امیر سلطان کے کان کھڑے ہو گئے۔  چنگو نے حکیم صاحب سے پوچھا میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا حکیم صاحب ؟ بات دراصل یہ کہ ناظم آباد کے دستور کے مطابق ہر محلہ کے باشندے پر یہ لازم ہے کہ وہ دوائیں صرف اور صرف اپنے علاقے کے دوا فروش سے حاصل کرے۔ اس کام کیلئے دوسرے محلے سے رجوع کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ اب چونکہ تمہارے اپنے محلہ کا دوا فروش فراہمی سے معذور ہے اس لئے کسی اور مقام پر جانے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ اگر تم چاہو تو پڑوس کے محلے کی مدد لے سکتے ہو۔  مجھے اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ اگر تمہاری بکری کو ساری دوائیں بر وقت مل جائیں تو وہ باذن اللہ شفا یاب ہو جائے گی۔

امیرسلطان کے چہرے کا رنگ یہ سنتے ہی بدل گیا۔ حکیم شیر خان کی تجویز نے ان کی رگوں میں خون کی رفتار تیز تر کر دی انہوں نے غضبناک ہو کر پوچھا پھر؟ چنگو جوش میں بولے جا ریا تھا اس نے کہا میں یہ بات سن کر خوش تو ہوا لیکن پھر استفسار کیا اگر پڑوس کے محلہ کا دوا فروش قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور تعاون سے انکار کر دے تو کیا ہو گا ؟ حکیم صاحب بولے کرنا تو اسے یہی چاہئے لیکن وہ ایک رحمدل انسان ہے۔ اگر تم اس کو اپنی بکری کا حال سناؤگے تو اس کا دل پسیج جائے گا۔ ویسے میں بھی ا س سے سفارش کر دوں گا انشا اللہ تمہارا کام ہو جائے گا۔ حکیم صاحب کی بات سن کر امیر سلطان کا خون کھولنے لگا ان کا پارہ آسمان کو چھونے لگا انہوں نے چیخ کر پوچھا پھر کیا ہوا ؟ اس آواز کو سن کر صحن میں بندھی بکری بھی سہم گئی۔ چنگو سامنے کیتلی میں پڑی سردچائے کی مانند جواب دیا حکیم صاحب کا قیاس صحیح نکلا پڑوسی محلہ کے دوا فروش نے میرا بھرپور تعاون کیا اور مجھے بلا معاوضہ ساری دوائیاں مہیا کر دیں۔میں گزشتہ ایک ہفتہ سے وہ دوا بکری کو دے رہا ہوں اور اس کی صحت دن بدن بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ آج تو اس نے دودھ بھی دیا جو آپ کے سامنے ہے۔

امیر سلطان یہ ماجرا سن کر آپے سے باہر ہو چکے تھے۔ انہوں نے آگ بگولہ ہو کر کہا بکری کے بارے میں تو میں کچھ نہیں جانتا لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ تم تینوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تم لوگوں نے مل کر ناظم آباد کے دستور کو پامال کیا ہے ضابطہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لئے جو دوائی تم نے بکری کو پلائی ہے وہ تریاق نہیں بلکہ زہر ہے زہر۔ چنگو کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا وہ بولا کیسی باتیں کرتے ہیں سرکار زہر کے استعمال سے تو موت واقع ہو جاتی ہے جبکہ اس دوائی نے بکری میں نئی جان ڈال دی ہے۔اگر ہم سب یہ نہ کرتے تو وہ مر جاتی۔۔۔۔۔۔۰ بیچاری بکری ۔۔۔۔۰۔  امیر سلطان نے کڑک کر کہا مر جاتی تو مر جاتی !!! ایک بکری کے فوت ہو جانے سے کون سا آسمان پھٹ پڑتا۔ ہر روز نہ جانے کتنی بکریاں  ذبح کر دی جاتیں اور کتنی اپنی فطری موت مر جاتی ہیں لیکن ناظم آباد کا مقدس دستور ۔۔۔۔۰وہ تو کبھی بھی پامال نہیں ہوتا۔ کبھی بھی نہیں۔ افسوس  صد ہزار افسوس  کہ اس کی پامالی ہوئی بھی تو خود امیر سلطان کی اپنی حویلی میں۔ تجھے کس نے اس کا حکم دیا تھا اے احمق کی اولاد۔  امیر سلطان ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو گئے تھے۔ وہ  پاگلوں کی مانند چلاّ رہے تھے چنگو کو جھنجوڑ رہے تھے اور یہی پوچھے جا  رہے تھے کہ تجھے اس جرم عظیم کے ارتکاب کی اجازت کس نے دی تھی؟ بتا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟کس نے کہا تھا تجھے ایسا کرنے کیلئے ؟

چنگو گھبرا گیا۔ اس نے کہا مجھے ۔۔۔۔۰ مجھے بکری کی بیماری نے کہا تھا سرکار بیماری نے !اب امیر سلطان نے چنگو کے کندھوں کو پکڑ کر کہا۔ بکری بھی کہیں بات کرتی ہے۔  مجھے بے وقوف بناتا ہے۔ اسی لمحہ نہ جانے کیسے چنگو کے دل سے امیر سلطان کی دہشت ہوا ہو گئی۔وہ بولا سرکار بکری تو کیا سارے چرند پرند، ہوا پانی، دریا پہاڑ سب بولتے ہیں بشرطیکہ کہ کوئی ان کی بات پر کان دھرے  اور اگر ان سنی کر دے تو انسان بھی نہیں بولتے۔  ایسا لگتا تھا گویا چنگو کے اندر بکری کی آزاد روح حلول کر گئی ہے اور وہ بے خوف ہو کر اپنے دل کی بات بیان کر رہا ہے۔وہ بے قابو ہو چکا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ کیا بول رہا ہے اور اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے ؟چنگو کا جواب سن کر امیر سلطان نے کہا زبان چلاتا ہے تقریر کرتا ہے میں تجھے اس کا سبق ضرور سکھاؤں گا ایسا سبق کہ جو سارے عالم کیلئے نشانِ عبرت بن جائے  لیکن تو جا اور سب سے پہلے یہ زہر ملا دودھ اور وہ دوائیاں نالی میں بہا کر واپس آ۔ پھراس کے بعد میں تم تینوں باغیوں کا انتظام کرتا ہوں۔سب سے پہلے تو میں فتنہ کی جڑ حکیم شیر خان کو چوہے کے پنجرے میں ڈال کر سمندر کی طہ میں ڈال دوں گا  اور پھر باغی دوا فروش  عبدالحلیم کو اس کی دوکان کے اندر زندہ  چنوا دوں گا تاکہ وہ اپنی دوائیاں کھا تے کھا تے موت کی نیندسوجائے۔ اور تجھے ۔۔۔۔۔۔۰ اور تجھے یہ کہتے کہتے ان کی آواز رندھ گئی تیری سزا میں سوچتا ہوں لیکن تو یہاں کیوں کھڑا ہے ؟ جا دفع ہو اور فوراً  وہ زہر جوتو عبدالحلیم سے لایا تھا پھینک کرواپس یہاں آ۔

چنگو بولا سرکار میں یہ نہیں کر سکتا میں اپنی بکری کا پاک دودھ نالی میں نہیں بہا سکتا اور وہ دوائی تو میں ہر گز ضائع  نہیں کروں گا اس لئے کہ ابھی علاج مکمل نہیں ہوا ہے۔اگر درمیان میں اسے روک دیا گیا تو بکری پھر سے بیمار ہو جائے گی بلکہ ممکن ہے ا س کی موت واقع ہو جائے۔ چنگو کے علی الاعلان بغاوت کا تصور امیر سلطان تو کجا خود چنگو نے بھی کبھی نہیں کیا تھا۔ امیر سلطان کی آواز سے نہ صرف عافیت منزل بلکہ سارا ناظم آباد گونج رہا تھا بادل، بجلی، پہاڑ ہوا فضا ہر کوئی چنگو چنگو کی صدا لگا رہا تھا۔ سلطان نے کہا چنگو دیکھ آج تک اس حویلی میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔ تو ایسا کر کے فوراً یہاں سے نکل جا، اس سے پہلے کہ میں کچھ کر گزروں  میری آنکھوں سے اوجھل ہو جا۔ نکل جا اس حویلی سے ۔۔۰ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔امیر سلطان کی آواز رندھ گئی۔ چنگو نے نہایت اطمینان سے جواب دیا سرکار آپ کا حکم سر آنکھوں پر، اگر آپ کا حکم ہے تو اس کی تعمیل میں یہاں سے میں چلا جاؤں گا لیکن اپنے ساتھ اپنی بکری کو بھی لیتا جاؤں گا۔

چنگو کے اس عزم مصمم نے امیر سلطان کو باؤلا کر دیا وہ بولے کیا؟ بکری کو لے جائے گا؟ کون لگتی ہے تیری یہ بکری؟ اس پر تیرا کیا حق ہے ؟ یہ میری بکری ہے میری! کیا سمجھا؟ تو کون ہوتا ہے اس کو ساتھ لے جانے والا ؟ تیری یہ مجال کہ اس کو اپنے ساتھ لے جائے ؟ چنگو بولا سرکار آپ کی ساری باتیں بجا ہیں لیکن کل کو اگر یہ بکری مر جاتی ہے تو نہ یہ آپ کی ہو گی اور نہ میری اس لئے میں اسے مرنے نہیں دوں گا اور چاہے جو ہو جائے اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤنگا۔  چنگو نے خم ٹھونک کر کہا۔  امیر سلطان کی زندگی میں پہلی بار کسی نے انہیں اس طرح سے چیلنج کیا تھا۔ اس دھماکہ سے ان کی انا اور عزت نفس دونوں بیک وقت پاش پاش ہو گئی تھی۔ امیر سلطان کے آگے اس لب و لہجہ میں بات کرنے کی ہمت عافیت منزل تو کجا سارے ناظم آباد میں کسی کے اندر نہیں تھی۔ وہ بولے چاہے جو ہو جائے ! اس کا مطلب تجھے ابھی پتہ چل جائے گا۔ تو یہیں رک میں ابھی تیرا انتظام کرتا ہوں۔یہ کہہ کر وہ مہمان خانے سے نکل کر دوسرے کمرے میں  چلے گئے۔

چنگو اپنے انجام سے بے پرواہ اپنی بکری کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے باپ کی موت کا منظر تھا۔ چنگو یعنی چاند میاں دستگیر اپنے باپ غلام میاں دستگیر یعنی گلو کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا۔ گلو اپنے معصوم بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا۔وہ کہہ رہا تھا میرے بیٹے اپنا اور اپنی اس بکری کا خاص خیال رکھنا۔ یہ بکری جوہے نا یہ تیری دائی ماں ہے۔ تیری ماں تو تیری پیدائش کے وقت ہی تجھے میرے حوالے کر کے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئی۔ اپنے رب کے فیصلے پر راضی برضا ملکِ  عدم کو کوچ گئی۔ اس کے بعد اس بکری کا دودھ تیرے لئے شیرِ مادر بن گیا۔تیری رگوں میں دوڑنے والا خون اسی بکری کی مرہونِ منت ہے۔یہ تیری دائی ماں ہے۔ تیری دائی ماں دیکھ تو اس کا خیال رکھنا تو مجھ سے وعدہ کر کے اس کا خیال رکھے گا اپنی دائی ماں کا ۔۔۔۔۔۔۰یہ کہتے کہتے غلام میاں دستگیر اپنے چاند کو چھوڑ کر اپنی اہلیہ ستارہ بیگم کی جانب ایسے روانہ ہوئے کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔

اس دن وہ بہت رویا۔ بکری بھی بہت روئی۔ دوسرے دن چائے کی کشتی میں دودھ ندارد دیکھ کر امیر سلطان نے مسکرا کر  پوچھا کیوں چنگو اپنے باپ کے موت سے غمزدہ ہو کر تو نے سارا دودھ خود ہی پی لیا۔اپنے آقا کا زہر سے بجھا جملہ سن کر چنگو کا وجود دہک اٹھا وہ بولا نہیں سرکاربکری نے آج دودھ ہی نہیں دیا۔ دودھ نہیں دیا ؟ یہ کیا بات ہوئی ؟ سرکار کل سے بکری نے چارہ کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اچھا بڑی غمگین ہے بیچاری  لیکن ماتم  کا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنے فرضِ منصبی سے رو گردانی کی جائے۔ جی ہاں سرکار آزاد جانور ہے اپنے فرائض نہیں جانتی۔ لیکن میں نے تجھے بھی کل سے کچھ کھاتے پیتے نہیں دیکھا۔ جی ہاں سرکار بابا کے ساتھ بھوک بھی نہ جانے کہاں چلی گئی۔اچھا تو اب پتہ چلا کہ تم دونوں بھوک ہڑتال پر ہو۔ آج بکری نے دودھ نہیں دیا کل تم کام کرنا بند کر دو گے۔ آخر کہاں جا کر رکے گا یہ سلسلہ ؟جاؤ کھاؤ پیو اور بکری کے آگے بھی چارہ ڈالو۔ دیکھو تمہارے باپ کے مرنے کا غم ہمیں بھی ہے مگر ہمارے معمولاتِ زندگی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔  چنگو کا دل کہہ رہا تھا کہ امیر سلطان اپنے قول میں جھوٹے اور بکری اپنے عمل میں سچی ہے  اس لئے وہی اس کی سچی ہمدرد و غمخوار ہے۔

امیر سلطان کے قدموں کی چاپ سے کمرے کا فرش لرز رہا تھا۔ اس روز ان کے ہاتھ میں چھڑی کے بجائے پشتینی تلوار تھی۔نہ جانے کتنے برسوں بعد اسے نیام سے باہر نکلنا نصیب ہوا تھا۔امیر سلطان نے کڑک کر پوچھا دیکھ چنگو میں تجھ سے آخری بار۔۔۔۔۔۔ چنگو نے جملہ کاٹ دیا اور کہا جی ہاں اب بھی میرا جواب وہی ہے میں بکری کے بغیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امیر سلطان نے اسے اپنا جملہ پورا کرنے کا موقع نہیں دیا۔ تلوار ہوا میں لہرائی۔  خون کا ایک زوردار فوارہ اڑا۔ کھڑکی کا شیشہ ٹوٹنے کی گرجدار آواز گونجی اور چنگو کا سر نیچے باڑے میں بکری کے سامنے جا گرا۔ بکری اس سے قبل اپنے کئی بیٹوں کے کٹے ہوئے سر اور بے جان جسم دیکھ چکی تھی لیکن اپنے چنگو کا   خون رستا بے دھڑ کا سر بھی اسے دیکھنا پڑے گا یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔بکری کی آنکھوں سے خون کے دو آنسو چنگو کی بے جان آنکھوں میں کیا گرے کہ ان میں زندگی کی رمق پیدا ہو گئی  لیکن اسی کے ساتھ بکری کی آنکھیں پتھرا گئیں۔اپنے رضاعی بیٹے کی لاش پر آنسووں کا نذرانہ پیش کر کے وہ خود بھی ملک عدم سدھار گئی۔

امیر سلطان دیوار سے ٹیک لگائے اپنے آنسووں سے تلوار پر لگے خون کے دھبوں کو دھونے کی ناکام کوشش کر رہے تھے  مگر دیکھتے دیکھتے یہ خون کے دھبے شعلوں میں بدل گئے۔ اس آگ نے عافیت منزل سمیت سارے نظام آباد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا  اور پلک جھپکتے اونچی ٹوپی۔موٹی عینک۔ لمبی شیروانی۔نوکیلی جوتی اور آہنی چھڑی سب جل کر خاک گئے۔

مونی بابا نے کہانی ختم کرنے کے بعد پھر سے مون دھارن کر لیا۔ تان سین نے کہا مونی بابا! آ پ کی کہانی تو بڑی درد انگیز تھی۔ اس کو سننے کے بعد میرے دل کا بوجھ ضرور ہلکا ہوا  لیکن اس میں جو عبرت والی بات تھی وہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ مونی بابا بولے اس کیلئے تمہیں علامہ اقبال کے ایک شعر کا مطلب سمجھنا ہو گا اس کے بعد سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا لیکن آج کے لئے اتنا کافی ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے تان سین نے کہا لیکن برائے کرم مجھے آج  وہ شعر تو سنا دیجئے۔ میں پھر کبھی اسے سمجھ لوں گا۔ مونی بابا بولے تو سنو     ؎

آئینِ نو  سے  ڈرنا،  طرزِ کہن  پہ  اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

 

 

 

 

دیوانِ بندر

 

تان سین کی شاعری نے ادبی حلقوں میں اسے خاصہ مقبول و معروف کر دیا تھا۔ تاجر پیشہ مشاعروں کے منتظم اس کے نام سے سامعین کو متوجہ کرتے اور اپنے مشاعرے کو کامیاب بناتے تھے۔ عوام کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ وہ کس معیار کے اشعار کہتا ہے۔ ان کیلئے تو یہی کافی تھا کہ ایک بندر ہو کر وہ نہ صرف انسانوں کی بولی بولتا ہے بلکہ شاعری بھی کرتا ہے۔ ویسے جدید زمانے کے سامعین کا شاعری کے معیار سے ویسے بھی کوئی خاص تعلق نہیں رہا۔ وہ تو بس گلا پھاڑ کر چیخنے چلانے والے ڈرامہ باز شاعروں کی اداکاری پر تالیاں پیٹتے یا سج دھج کر آنے والی شاعرات کو دادِ تحسین سے نوازتے ہیں۔ شاعری کو سمجھنے سمجھانے میں لوگوں کی دلچسپی خاصی کم ہو چکی ہے اس کے چلتے اچھے اچھے شعراء مشاعروں میں پٹ جاتے ہیں ایسے میں تان سین کی کیا بساط ؟ لیکن تان سین کو اس بات کا قلق ہونے لگا تھا۔  وہ جاننے لگا تھا اس کے وہ اشعار جن میں علم و عرفان کی بات ہوتی لوگوں کے سروں کے اوپر سے گذر جاتے ہیں اور ہلکے پھلکے بازاری اشعار پر زبردست داد ملتی۔

تان سین کا جو مسئلہ تھا اسی سے ملتی جلتی صورتحال مونی بابا کی تھی ۔وہ چونکہ فلسفی نما شخصیت کا حامل تھا اس لئے بندر آپس میں  اسے گونگے بابا کہہ کر اس کی تضحیک کیا کرتے تھے لیکن مونی بابا کی قلندرانہ طبیعت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ تان سین نے اپنا مسئلہ حل کرنے کی غرض سے پھر ایک بار اپنے بچپن کے لنگوٹیا یار مونی بابا سے رجوع کیا اور ایک روز پریشان ہو کر مونی بابا کو بولا تم اپنے آپ کو بڑا دانشور سمجھتے تو میرا مسئلہ حل کرو۔  اگر تم عظیم فلسفی ہو تو میں بھی شاعر اعظم ہوں لیکن  میرے اشعار کو ئی نہیں سمجھتا فی زمانہ ساری دنیا میں سب اچھی شاعری میں کرتا ہوں اس کے باوجود میری  حسبِ مرتبہ پذیرائی نہیں ہوتی۔  لوگ مجھے صرف عوام کو بلانے کیلئے بلاتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں  ایک بار سامعین سے ہال بھر جائے تو مجھے کوئی پوچھ کر نہیں دیتا اب تم ہی بتاؤ کہ اس مسئلہ کا کیا حل ہے ؟

مونی بابا کے  جی میں آیا کہ اس سے کہے اس کا آسان سا حل تویہ ہے کہ تم شاعری سے توبہ کر لو لیکن اس طرح کا انتہائی مشورہ دینے کیلئے یہ موقع مناسب نہیں تھا اس نے سوچا تان سین ویسے  ہی بہت دکھی ہے ایسے میں اسے مزید غمگین کرنے سے کیا فائدہ ؟ اس کارِ خیر کو فی الحال مؤخر کر کے اس وقت کا انتظار کرنا زیادہ بہتر  جب کہ وہ بہت خوش ہو۔ ابھی تو اس کا غم غلط کر دینا ہی بہتر ہے۔ اس لئے اس نے اپنے خاص انداز میں منہ بنا کر کہا دیکھو تان سین ہر بڑا شاعر اپنے دور کے آگے کی شاعری کرتا ہے اس لئے اس کے ہم عصروں کو اس کے اشعار سمجھ میں نہیں آتے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی خاطر خواہ قدر دانی نہیں کی جاتی۔ ایسا ماضی میں  بڑے بڑے شعراء  کے ساتھ ہو چکا  ہے اور تمہارے ساتھ بھی ہو رہا ہے لیکن فکر کی کوئی بات نہیں تمہارے مرنے کے سو دوسوسال بعد لوگ تمہاری اہمیت سے واقف ہو جائیں گے اور تمہاری صد سالہ تقریبات بھی دھوم دھام سے منائی جائیں گی۔

سو دو سوسال یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ مونی بابا۔یہ تو غالب والی بات ہو گئی ‘کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘

مونی بابا بولے بالکل درست مثال دی تم نے۔غالب کو اس کے زمانے میں کون پوچھتا تھا؟ گلی قاسم جان میں اس کا گھر ایک کوئلہ کی دوکان والے نے خرید لیا تھا۔ غالب اپنی زندگی میں مغلوب ضرور تھا لیکن آج صحیح معنیٰ میں  غالب  ہو چکا ہے اس کے نام پر اکادمی قائم کی جا رہی ہے ایوان تعمیر کئے جا رہے ہیں اور وہ سب  ہو رہا ہے جو غالب کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

مونی بابا کی اس طول طویل تقریر کا  تان سین پر کوئی اثر نہیں ہوا وہ بولا دیکھیں آپ مجھے لیلیٰ مجنوں کی لافانی داستانِ عشق نہ سناؤ میں صدیوں تک صبر نہیں کر سکتا مجھے تو کوئی جھٹ منگنی پٹ شادی والا نسخہ بتاؤ۔

مونی بابا نے کہا اگر تمہیں ایسی ہی جلدی ہے تو سنجیدہ شاعری چھوڑ کر مزاحیہ شاعری شروع کر دو اور اسٹیج پر شور و غل کرنے کا فن سیکھ لو اپنے آپ شہرت تمہارے قدم چومے گی۔مونی بابا نے یہ سوچ کر مشورہ دیا تھا کہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔ نہ تان سین مزاحیہ شاعری کر سکے گا اور نہ مقبول ہو گا۔

تان سین اپنے دوست کا یہ مشورہ سن کر سنجیدہ ہو گیا اور بولا یار یہ بتلاؤ کہ مجھے  سنجیدہ شاعر ی میں مہارت حاصل ہے اس کے باوجود میری پذیرائی نہیں ہوئی تو مزاحیہ شاعری میں مجھے کون پوچھے گا ؟

مونی بابا بولے کیوں نہیں پوچھے گا ضرور پوچھے گا۔آج کل ہر کوئی سنجیدہ شاعری کرنے پر تلا ہوا ہے حالانکہ شاعری کرنا بذاتِ خود ایک غیر سنجیدہ کام ہے اس لئے سنجیدہ شاعری میں مسابقت بہت زیادہ ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک شاعر پائے جاتے لیکن مزاحیہ شاعری کے میدان میں کمپٹیشن کم ہے۔ویسے چونکہ لوگ آج کل مشاعروں میں تفریح کی غرض سے آتے ہیں اس لئے وہ مزاحیہ شاعری کو خوب داد دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ منتظمین بھی مزاحیہ  شاعروں پر خوش ر ہتے ہیں اور انہیں بار بار بلاتے ہیں تم بھی یہی کرو۔

تان سین بولا سچ تو یہ ہے کہ خلافِ معمول  مجھے آج آپ کی ہر نامعقول بات معقول معلوم ہو رہی ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں تمہارے مشورے پر عمل پیرا نہ ہو جاؤں۔

مونی بابا یہ سن کر بہت خوش ہوے اور کہا تو پھر نیک کام میں دیر کیسی۔گھوڑ اور میدان دونوں سامنے ہیں۔تان سین آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

تان سین خوشی سے پھول کر کپاّ  ہو گیا اور بولا یار میں نے کبھی مزاحیہ شاعری نہیں کی ہے اس لئے تھوڑی سی جھجک ہے۔مجھے مزاحیہ شاعری کا بھی کوئی گر بتلا دیں۔

اب مونی بابا کی اکڑنے کی باری تھی وہ بولے سچ تو یہ ہے کہ تم کو میں نے کبھی سنجیدہ شاعری میں بھی اس قدر سنجیدہ نہیں پایا خیر کوئی بات ہیں۔  میں تمہیں زندہ طلسمات کی مانند ایک کامیاب اور آزمودہ نسخہ بتلاتا ہوں، تمہیں کرنا یہ ہے نیٹ پرجا کر نئے لطیفے پڑھو اور انہیں ردیف قافیہ کے ساتھ منظوم شکل میں ڈھال دوبس ہو گئی تمہاری شاعری اور کیا ؟

تان سین  کے سامنے نیا ہدف لطیفے تلاش کر کے ان پر طبع آزمائی کرنا تھا۔تان سین  چونکہ دھن کا پکا تھا اس لئے جس کام کا ارادہ کرتا اس میں جٹ جاتا۔  تان سین کی مزاحیہ شاعری نے اس کی مقبولیت میں چار چاند لگا دئیے۔ اسے دور دور سے بلاوے آنے لگے۔ لوگ جیسے ہی بندر کو مائک کے پیچھے کھڑا دیکھتے ہنسنے لگتے اور جب اس کے لطیفے سنتے تو ہنس ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ کسی کو اس بات کی مطلق فکر نہیں تھی کہ آیا شعر کا وزن  برابر ہے بھی یا نہیں۔ تان سین کو بھی اس کی فکر کم ہی تھی اس لئے کہ اسے پتہ چل چکا تھا اس بے وزنی کے دور میں عروض و توازن کا کوئی خاص وزن نہیں رہ گیا ہے۔اس بیچ تان سین کی ملاقات اردو اکادمی کے ایک معمر اہلکار شری سیوالال سے ہو گئی جنھیں عظیم تر مصالح کے پیشِ نظر مشاعرے میں صدارت کی دعوت دی گئی تھی۔

سیوالال کا تعلق ادب کے بجائے سیاست سے تھا اس لئے زیادہ تر اشعار تو ان کے سر کے اوپر سے نکل گئے لیکن تان سین کے مزاحیہ شاعری سے وہ بہت محظوظ ہوئے۔ جاتے جاتے سیوالال نے تان سین کو  اپنا تعارفی کارڈ پکڑا تے ہوئے کہا اگر میرے لائق کوئی سیوا ہو تو بلا تکلف یاد فرمائیں۔ سیوالال نے ارادہ کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو انتخابی مہم کے دوران تان سین کو استعمال کرے گا۔ اس بندر کی وجہ سے خوب بھیڑ جمع ہو جائے گی اور اس بھیڑ میں سے کچھ نہ کچھ ووٹ بھی مل ہی جائیں گے۔ تان سین نے واپس آ کر سیوالال سے اپنی ملاقات کا ذکر مونی بابا سے کیا اور کہا کہ وہ بھلا اپنے کس کام آ سکتا ہے ؟ کیا اس کی مدد سے اپنی بندر برادری کی تعلیم و تربیت کا کوئی اہتمام ہو سکتا ہے ؟

مونی بابا نے تان سین کی بات سنتے سنتے ریاستی اردو ترقی بورڈ کی ویب سائٹ کو کھول لیا اور اس کے اغراض و مقاصد نیز سر گرمیوں کو دیکھنے لگا۔ وہاں اسے اردو کی ترقی پر لمبی چوڑی تقاریر تو مل گئیں لیکن کوئی ٹھوس کام سوائے کتابوں کی اشاعت یا انعام و اکرام کے نہیں ملا۔ وہ بولا دیکھو تان سین تعلیم و تعلم کا کام تو وزارتِ تعلیم کے زیر نگرانی ہوتا ہے اس لئے وہ اس بابت کسی کام نہیں آ سکتا لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ اگر سیوالال تم سے خوش ہو جائے تو تمہاری شاعری کا مجموعہ شائع کر دے یا اسے انعام و اکرام سے نواز دے۔

کتاب کا نام سن کر تان سین کے منہ میں پانی آگیا اس لئے کہ اگر ایسا ہو گیا تو وہ کسی بندر کی پہلی کتاب ہو گی لیکن کتاب کی اشاعت میں کئی مراحل تھے۔ ایک تو اس کی کتابت، پھر اس پر نظرِ ثانی  اور اصلاح اس کے بعد دوبارہ نظرِ ثانی، سرِ ورق کا ڈیزائن پھر اس کی رونمائی وغیرہ۔ یہ سارا کام تان سین کے سامنے ایک پہاڑ کی مانند تھا وہ بولا بابا یہ مجھ سے نہیں ہو گا اس جھمیلے میں پڑنے سے تو بہتر یہی ہے کہ ردیف قافیہ میں لطیفے سناؤاور داد وصول کرو۔

مونی بابا نے کہا کیوں تان سین تم تو بڑی جلدی ہمت ہار گئے۔ تمہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تم نہ صرف بندروں کے اولین  نمائندہ شاعر ہو بلکہ ایک انقلابی  رہنما بھی ہو۔تم جن  مشکلات کے بارے میں سوچ رہے ہو ان سب کا حل میرے پا س ہے ۔ تم نے مشاعروں  میں جب بھی اپنا کلام سنایا ہے میں اس وقت سامعین  میں موجود تھا اور اپنے آئی پیڈ میں تمہارا ساراکلام میں نے ٹیپ کر کے ایک خاص فائل میں رکھ چھوڑا ہے۔ اب ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ سارا کلام کسی یو ایس بی یا ڈی وی ڈی میں ڈال کر سیوالال کی سیوا میں پیش کر دیا جائے۔ اگر وہ واقعی تم سے مرعوب ہے تو وہ کسی کاتب کو وہ یو ایس بی دے کر تمہارا کلام ٹائپ کروا لے گا۔ اس کے بعد اس پر نظر ثانی وغیرہ کا کام اپنے پیارے دوست کیلئے  میں کر دوں گا۔

مونی بابا کی اس پیش کش پر تان سین کا دل بہت خوش ہوا وہ بولا سچ تو یہ ہے مونی بابا کہ آپ ے آگے تو ڈارون کا دماغ بھی فیل ہے۔اگر وہ آپ  سے ملا ہوتا تو کہتا بندر کی ابتدا انسان سے ہوئی۔انسان ارتقاء و ترقی کے  مراحل سے گزر کر اب بندر بن گیا ہے لیکن اگر وہ بیوقوف سیوا لال جو ایک انسان ہے اگر آواز کے بجائے مسودے پر اصرار کرے تو کیا کیا جائے ؟

تب بھی کوئی مشکل نہیں جس کام کی توقع ہم اس سے کرتے ہیں وہ بھی خود کر لیں گے ویسے ان معاملات میں تمہارا دوست مونی بابا خاصہ خود کفیل ہے اس لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ضروری نہیں سمجھتا۔

میں آپ کی بات سمجھا نہیں مونی بابا۔ کیا آپ اپنی جیب سے ٹائپنگ کی رقم ادا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ہماری جیب میں تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں پھر کہاں سے لائیں گے یہ روپیہ ؟

میں نے اجرت پر کام کرانے کی بات کب کہی ؟ وہ تمہارا سیوالال کروا دے تو کروا دے ورنہ تمہارا یہ مونی بابا کس مرض کی دوا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس کام کو میں کسی بھی دوسرے ٹائپسٹ سے بہتر اور جلدی کر سکتا ہوں۔

اگر ایسا ہے تو آپ مجھے سیوالال سے بات کرنے کا مشورہ کیوں دے رہے تھے ؟

بھئی اس کی بھی بڑی حکمت ہے جو تم نہیں سمجھو گے۔مونی بابا نے اکڑ کر کہا۔

کیوں نہیں سمجھوں گا۔ آپ بتا کر بلکہ آزما کر دیکھ لیں آپ  اگر سقراط ہیں تو آپ کے ساتھ رہتے رہتے میں بھی اچھا خاصہ بقراط ہو گیا ہوں۔

نہیں تان سین اگر تم بقراط ہو گئے ہوتے تو بنا بتائے سمجھ جاتے خیر بات دراصل یہ ہے کہ جب تم اس کو ٹائپ کروانے کیلئے کہو گے تو اس سے ہمیں اس کی سنجیدگی کا پتہ چل جائے گا۔ہو سکتا ہے اس نے تمہارا دل بہلانے کیلئے یوں ہی کہہ دیا ہو۔ اگر وہ ٹائپ کرواتا ہے تو سمجھو کہ سنجیدہ ہے ورنہ خدانخواستہ میں اتنی محنت کر کے ٹائپ کروں اور وہ شائع کرنے سے انکار کر دے تو ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔

آپ پہلی مرتبہ میرا دل توڑنے والی بات کر رہے ہیں مونی بابا۔مجھے یقین ہے کہ وہ میرا دیوان ضرور شائع کروائے گا۔

اچھا تو ٹھیک ہے ایک بار بات کر کے دیکھ لو اگر صرف کتابت کی رکا وٹ ہے تو بندہ حاضر ہے۔

مونی بابا کی نادرِ روزگار تجویز لے کر تان سین سیوالال کی خدمت میں پہنچ گیا۔ سیوالال نے تو بس تان سین کا دل رکھنے کیلئے یہ کہہ دیا تھا اسے توقع نہیں تھی کہ یہ بندر اس معاملے میں اس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گا۔ اب اسے ٹالنا ایک مسئلہ تھا جس کیلئے سیوالال نے قواعد و ضوابط کا سہارا لیا اور بولا اس میں شک نہیں کہ تان سین تمہاری تجویز نہایت معقول ہے لیکن ہماری اکادمی اب بھی انگریزوں کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط پر کاربند ہے اور سچ تو یہ ہے کہ آج تک کسی انسان کی جانب سے اس قدر شاندار تجویز کو پیش بھی نہیں کیا گیا تاکہ اس پر غور ہوتا۔ ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ جب تحریری مسودہ موصول ہو جاتا ہے تو اس کی طباعت کیلئے رقم فراہم کر دی جاتی ہے باقی چھپنے چھپانے کا کام خود مصنف ہی کو کرنا ہوتا ہے۔سیوالال کو یقین تھا کہ نہ نسخہ آئے گا اور نہ کتاب کی اشاعت کے مرحلے میں داخل ہو گی۔

تان سین بولا کوئی بات نہیں اگر یہی ضروری ہے تو میں اپنی کتاب کا ڈی ٹی پی لا کر دے سکتا ہوں۔ تب تو کوئی دقت نہیں ہو گی۔

یہ سن کر سیوالال کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ عام طور سے لوگ خوش خط مسودہ لا کر جمع کرتے تھے لیکن یہ بندر تو ایک قدم اور آگے نکل گیا۔ وہ سوچنے لگا انسان سے بندر بنا یا بندر سے انسان ؟ خیر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا یہ تو بہت ہی اچھی بات لیکن اس کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ منگیری لال کے حسین سپنے ہیں۔نہ تو نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔جب تان سین واپس ہونے لگا تو سیوالال کو پھر ایک بار اس بندر کے انتخابی مہم میں استعمال کا خیال آیا اس لئے وہ بولا دیکھو تان سین کتاب کی کتابت وغیرہ یہ وقت طلب کام ہے۔ ہم ہر سال کچھ مصنفین و شعراء کی پذیرائی کرتے ہیں لیکن آج تک کسی بندر کو ان میں شامل ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ میری رائے تو یہ ہے کہ تم ان میں سے کئی ایک سے بہتر ہو اس لئے کیوں نہ تمہارا نام اس فہرست میں شامل کر لیا جائے ؟ کیا خیال ہے ؟

سیوالال کی تجویز سن کر تان سین جھوم اٹھا اور بولا زہے نصیب جناب آپ نے اس حقیر فقیر کو اس قابل سمجھا میں اس قدر دانی کیلئے آپ کا  ممنون و شکرگزار ہوں۔

سیوالال  نے اپنی گوناگوں سیاسی مجبوریوں کے پیش نظر اپنا وعدہ نبھایا اور تان سین کو مرزا غالب ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کر دیا۔ اس خبر کے خوب چرچے ہوئے مبصرین اور تنقید نگاروں میں یہ ایک مستقل بحث کا موضوع بن گیا۔ سیوالال بھی یہی چاہتا تھا۔ اس کے خیر خواہوں نے جب تنازعہ سے بچنے کا مشورہ دیا تو وہ بولا سیاست میں نام کی اہمیت ہے بدنامی و نیک نامی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ویسے بھی مثل مشہور ہے بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔سیوالال کے کچھ مخالفین نے اس پر شعرائے کرام کی تضحیک کرنے کا الزام لگایا اور کچھ نے اس حرکت کو مرزا غالب کی توہین قرار دیا۔ سیاسی حریفوں نے اسے نہ صرف ریاستی اکادمی بلکہ حکومت کی بدنامی کے مترادف ٹھہرایا۔ کچھ ایسے بھی لوگ تھے جنھوں نے سیوالال کی اس حرکت کو انسانیت کے ماتھے پر کلنک  قرار دے دیا۔

ان مخالفین سے علی الرغم ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو سیوا لال کے فیصلے کو انقلابی قدم قرار دے کر اس کی حمایت کر رہے تھے اور سیوالال کے ساتھ ساتھ تان سین کی بھی تعریف و توصیف میں مصروف تھے۔ مونی بابا ہر روز اپنے آئی پیڈ پر اخبارات کے ای ایڈیشن میں ان مباحث کو پڑھتا اور تان سین کو سناتا۔تان سین اب عالمی سطح پر مشہور ہو گیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ دن دور نہیں جب امریکہ اور یوروپ سے بھی اس کو مشاعروں کے دعوت نامے موصول ہوں گے اور کچھ نہیں تو عرب ممالک کا دورہ ہو ہی جائے گا۔

اردو اکادمی کے زیر اہتمام تقسیم انعامات کی تقریب ویسے تو ہر سال منعقد ہوتی تھی لیکن اس سے پہلے کسی جلسۂ تہنیت کی کو اس قدر شہرت نہیں ملی تھی۔ تمام زبانوں کے اخبارات اور ٹی وی چینلس کی توجہات کو تان سین کی مددسے اپنی جانب کرنے میں سیوالال کامیاب ہو گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ میں تان سین کی انعام حاصل کرتے ہوئے چھپنے والی تصاویر کے ساتھ اس کے خلاف ہونے والے مظاہرے کی بھی خبر زور و شور سے شائع ہوئی تھی لیکن اس سارے ہنگامے کا کوئی خاص فائدہ سیوالال کو نہیں ہوا۔ اس کی پارٹی نے انتخابات میں اس کا ٹکٹ کاٹ دیا اور وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے پر مجبور ہو گیا۔ اس انتخاب میں اس کا نشان بندر تھا لیکن یہ حربہ بھی اس کے کام نہ آیا۔ سیوالال کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ پارٹی نے اسے نہ صرف جماعت سے نکال دیا بلکہ اردو اکادمی کے عہدۂ صدارت سے بھی ہٹا دیا اور سیوالال ہی کے ساتھ تان سین کی کتاب کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا۔

 

 

 

اردو کتب کا مرثیہ

 

وقت کے مرہم نے تان سین کے زخموں کا بھی مداوا کر دیا اور کتاب کی اشاعت کا خیال اس نے اپنے دل سے نکال دیا اس طرح مونی بابا بھی اس کی شاعری کو سن کر اسے ٹائپ کرنے کی زحمت سے بچ گئے لیکن ایک دن اچانک جب وہ اپنے ای میل چیک کر رہا تھا تو انہیں اردو اکادمی کا ایک میل نظر آ گیا۔تقریباً ڈھائی سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اچانک یہ خط حیرت انگیز طریقہ پر موصول ہوا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ اکادمی نے تان سین کی کتاب شائع کرنے کی غرض سے ایک خطیر رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے لہٰذا وہ اپنی جانب سے ایک شرائط نامہ جمع کروا کر اپنا چیک لے جائے۔ مونی بابا کو یہ خط پڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہوئی اس لئے کہ خط میں فوراً سے پیشتر کتاب کا مسودہ جمع کرانے کی بات کہی گئی تھی اور یہ مصیبت اسی کے گلے آنے والی تھی۔پہلے تو اس نے سوچا کہ اس خط کو بھول جائے اور تان سین سے اس کا ذکر ہی نہ کرے چونکہ وہ ای میل وغیرہ میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا اس لئے اسے خبر ہی نہیں ہو گی اور سرکاری افسران کو کسی بندر میں بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے اس لئے بات آئی گئی ہو جائے گی لیکن مونی بابا ایک کٹھور انسان نہیں بلکہ  ایک نرم دل بندر تھا اس لئے اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے یہ خوشخبری تان سین کو سنا ہی دی۔

تان سین کو بھی  اس خبر پر یقین نہیں آیا سوچا کہیں یہ  مونی بابا کے حسد کی شرارت تو نہیں جس کا مقصد کتاب کے چھپائی سے محرومی کے زخم پر نمک چھڑکنا ہو اس لئے  بہتر ہے کہ پہلے اکادمی کے دفتر فون کر کے تصدیق کروائی جائے۔ تان سین وہاں سے نکل کر چپ چاپ عوامی ٹیلیفون بوتھ پر آیا اور اکادمی کے دفتر میں فون لگا دیا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب سامنے سے بلا توقف تصدیق بھی ہو گئی اب پھر وہ دوڑا دوڑا مونی  بابا کی خدمت میں جا پہنچا اور عرض کیا یار غضب ہو گیا بلکہ چمتکار ہی سمجھو!

مونی بابا نے سوچا یہ کوئی اور نئی خبر لایا ہے اس لئے حیرت سے پوچھا کیا ہوا ؟ اب کیا ہو گیا بتاؤ گے بھی یا پہیلیاں بجھواتے رہو گے ؟

کیسی پہیلی یہ تو خوشخبری ہے ؟

مونی بابا نے بیزار ہو کر کہا تم اپنی بات کو بلاوجہ طول دینے کے بجائے یہ بتاؤ کہ خوشخبری کیا ہے

ویسے تو آپ اس سے واقف ہی ہو بلکہ سب سے پہلے آپ ہی نے مجھے اس کی اطلاع بھی دی تھی اس لئے میں نے سوچا کہ اپنے آپ ہی سمجھ جاؤ گے لیکن میں بھول گیا تھا کہ اشارہ محض سمجھدار کیلئے کافی ہوتا ہے۔ آپ جیسے کندۂ نا تراش کیلئے نہیں۔خیر آپ کا ای میل صحیح ہے جس کتاب کی اشاعت  سے میں بالکل ہی مایوس ہو گیا تھا اس کی چھپائی کیلئے حکومت کی جانب سے امداد کی تصدیق ہو گئی ہے اور میرا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوا چاہتا ہے۔ ویسے مجھے پتہ ہے کہ اس خبر سے آپ کو کوئی خوشی نہیں ہو گی پھر بھی سوچا کہ آپ کے علاوہ میرا اور کون ہے جس سے میں اس خوشی کو شیئر کر سکوں۔ اس لئے آپ کے پاس چلا آیا۔

مونی بابا کو تان سین پر بہت غصہ آیا وہ بولے تو کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو میں آج سے تمہارا دوست نہیں ہوں جاؤ یہاں سے دفع ہو جاؤ اور اس بندریا سے عشق لڑاؤ۔

تان سین بولا اچھا اگر آپ میرے سچے دوست ہو تو مجھے ابھی تک اس خوشخبری پر مبارکباد کیوں نہیں دی۔ ویسے تو اخلاقیات پر لمبی چوڑی تقریریں کرتے ہیں لیکن جب خود اس پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو نانی مر جاتی ہے۔

مونی بابا سوچ رہے تھے عجب احسان فراموش بندر ہے اسے تو انسان ہو نا چاہئے تھا۔ انہیں لگا کہ اگر یہ بات وہ اسے نہیں بتاتے تو وہی اس کے حق میں بہتر تھا کم از کم اس کا دماغ تو خراب نہیں ہوتا۔مونی بابا نے اب تان سین کا دماغ درست کرنے کا ارادہ کیا اور بولے سچ تو یہ ہے تان سین کہ مجھے اس کی کوئی خوشی نہیں ہے اس لئے کہ سرکار کے طفیل تمہاری کتاب چھپ بھی جائے تو اسے پڑھے گا کون ؟

آپ ساری دنیا کو اپنی طرح سمجھتے ہیں اردو ادب کے قدر داں اب بھی بہت ہیں۔ تان سین نے ترکی بہ ترکی جواب دیا  اور پھر میری شاعری بھی کوئی معمولی شاعری نہیں ہے۔

مونی بابا نے اب یہ طے کر لیا تھا کہ تان سین سے بدلا لے کر رہیں گے اس لئے بولے میں اگر یہ مان بھی لوں کہ تم ایک غیر معمولی شاعر ہو حالانکہ ایسا نہیں ہے اور اردو شاعری کے قدر داں بھی بے شمار ہیں تب بھی مسئلہ یہ ہے کہ ان تک تمہاری کتاب پہنچے گی کیسے ؟

تان سین بولا یہ بھی کوئی سوال ہے ؟ دنیا بھر میں کتابیں لکھی جاتی ہیں، شائع ہوتی ہیں اور قارئین تک پہنچ جاتی ہیں۔  اس میں کون سی نئی بات ہے ؟

تمہاری بات درست ہے لیکن فی الحال اردو ادب کی کتابوں کے ساتھ یہ تینوں کام نہیں ہوتے۔

کیا مطلب کتابیں لکھی نہیں جاتیں یا چھپتی نہیں ہیں ؟

جی نہیں یہ دونوں کام تو ہوتے ہیں لیکن تیسرا کام جس کا ذکر تم نے پہلے کیا تھا تقریباًًبند ہو گیا ہے

میں سمجھا نہیں ؟ تان سین نے کہا

مونی بابا نے جواب دیا بھئی بات صاف ہے اردو ادب کی کتابوں کو ڈھنگ سے بیچنے والے  کم ہو گئے ہیں۔  الاّ ماشاء اللہ۔

کیوں اس کی کیا وجہ ہے ؟ سب سے زیادہ منافع تو کتابوں کی فروخت میں ہی ہے۔ اگر ان کی کھپت ہے تو اس کا فروخت کار بھی ہونا چاہئے۔

مونی بابا نے کہا شاید ایسا اس لئے ہوا کہ تم جیسے لوگ تصنیف و تالیف کے میدان میں آ گئے ۔

اگر ایسا ہے تو صرف میری کتاب نہ بکے اور مجھے اس کی ضرورت بھی کب ہے لیکن آپ  تو سارے مصنفوں کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔

جی ہاں تان سین میری بات غلط اور تمہاری بات درست ہے۔ میں تم سے اتفاق کرتا ہوں مسئلہ صرف تمہارا نہیں بلکہ بیشتر مصنفین کا ہے۔

لیکن مسئلہ ہے کیا ؟

وہی کہ جس تم نے ابھی ذکر کیا ’’مجھے اس کی ضرورت بھی کب ہے ؟‘‘

تان سین نے پھر حیرت سے کہا میں کچھ سمجھا نہیں ؟

عجیب آدمی ہو مونی بابا بولے تم دوسروں کی تو کجا خود اپنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ جس طرح تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح کسی کو بھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی کو ؟ یہ کوئی اور کون ہے ؟

چھاپنے والا اور چھپوانے والا۔

چھپوانے والا تو میں خود ہوں اور مجھے اس کی ضرورت ہے۔

جی نہیں چھپوانے والی ریاستی اکادمی ہے جس کے تعاون سے کتاب چھپ رہی ہے۔ تمہاری جیب سے کچھ جاتا نہیں ہے اس لئے اس کی تمہیں کوئی فکر نہیں ہے۔

لیکن ریاستی اکادمی کے خزانے سے تو رقم خرچ ہوتی ہے۔

جی ہاں لیکن ان کا کام صرف کتاب چھپوانا ہے سو وہ کر دیتے ہیں انہیں اس  سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا کتاب کو قاری پڑھتا ہے یا جونک چاٹتی  ہے۔

تان سین نے سوال کیا لیکن کتاب کا شائع کرنے والا بھی تو اسے بیچ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہے ؟

جی ہاں کیوں نہیں کر سکتا؟ لیکن وہ یہ سب کیوں  کرے اس لئے کہ یہ محنت طلب کام ہے۔ کتاب کو مشتہر کرنا۔ اسے کتابوں کی دوکانوں تک پہنچانا۔ دوکان والوں  سے قیمت وصول کرنا ان سے مسلسل رابطے میں رہنا۔ یہ سارے کام ہماری سہل پسندی کے دشمن ہیں۔ بیشتر ناشرین کیلئے تو یہ کافی ہے کہ مصنف نے سرکار سے امداد حاصل کر کے انہیں یکمشت رقم ادا کر دی اور انہوں کے کتاب چھپوا کر مصنف کے گھر روانہ کر دی۔ اس میں نہ کوئی خاص محنت ہے اور نہ دقت ؟ اب یہ مصنف کا کام ہے کہ وہ اسے مفت میں اپنے دوستوں کو بانٹتا پھرے  اور میرا خیال ہے کہ کتاب کے چھپ جانے کے بعد تمہاری پریشانی میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو جائے گا۔

تان سین اب سنجیدہ ہو چکا تھا۔ اس نے سوال کیا کہ مونی بابا یہ بتلائیے کہ ایسا اردو ہی کے ساتھ کیوں ہوتا ہے دیگر زبانوں کے ساتھ کیوں نہیں ہوتا؟ انگریزی کی کتابیں کیونکر لاکھوں کی تعداد میں بکتی ہیں ؟

اس کی وہی وجہ ہے جس کا ذکر تم  نے ابھی کیا تھا  یعنی ’’ضرورت‘‘

’’ضرورت‘‘ میں کچھ سمجھا نہیں

تم نے سنا ہو گا ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے ‘‘ اردو کے اکثر و بیشتر مصنفین اپنی معاش کیلئے تصنیف و تالیف کے علاوہ کوئی اور کام کرتے ہیں لیکن  انگریزی کا مصنف لکھنے پڑھنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتا اس لئے اس کو اپنا گھر چلانے کیلئے اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی کتاب چھپے۔ اسے کوئی سرکاری مدد نہیں ملتی اس لئے وہ ایسا نا شر تلاش کرتا ہے جو اسے خاطر خواہ رقم رائلٹی کے طور پر ادا کرے۔ انگریزی کتابوں  کا ناشر کوئی فنکار نہیں ہوتا جو اپنے ذوقِ طبع کی خاطر کتابیں شائع کرتا ہو بلکہ ایک کامیاب تاجر ہوتا ہے۔ جب وہ  اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے کتاب چھپواتا ہے تو اسے اپنے خرچ سے زیادہ آمد کی ضرورت پڑتی تاکہ کاروبار میں خسارہ کے بجائے فائدہ ہو۔ اس کی خانہ داری اور دوکانداری دونوں جاری و ساری رہے۔ اس لئے وہ کتاب کی خوب تشہیر کرتا ہے۔  ہر اس مقام تک اسے پہنچاتا ہے جہاں اس کے قاری کی رسائی ہوتی ہے۔ قاری کو جب کتاب با آسانی مہیا ہو جاتی ہے تو وہ اسے خرید کر پڑھتا ہے۔ اس کے بعد ناشر کتاب کی دوکان والوں سے وصولی بھی کرتا ہے  اور نئی کتب فراہم بھی کرتا ہے گویا ضرورت کی بنیاد پر ایک زندہ تعلق مصنف سے لے کر قاری تک قائم ہو جاتا ہے لیکن اردو ادب میں یہ تعلق درمیان ہی میں منقطع ہو چکا ہے اس لئے کہ کسی کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔  میرا مطلب ہے کسی کا یہ سب نہ کرنے میں کوئی خسارہ نہیں ہوتا۔

مونی بابا کی معقول مگر تلخ باتوں نے تان سین کا موڈ خراب کر دیا۔ اس کی ساری مسرت خاک میں مل گئی۔ وہ منہ بسور کر  بولا مونی بابا آپ کی بات سن کر تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کام کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور مجھے یہ خیال اپنے دل سے جھٹک دینا چاہئے ؟

مونی بابا کو اب تان سین پر رحم آگیا  اس نے کہا دیکھو میں تمہاری حوصلہ شکنی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ تم نے جو سوالات کئے میں نے ان کا جواب دیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم مایوس ہو کر اپنی کتاب نہ چھپواؤ  اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اس میں کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اچھا ! اس میں فائدہ بھی ہے ؟ وہ کیسے ؟

بھئی جیسے شادی تو لڑکا اور لڑکی کی ہوتی ہے اور کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ دونوں کیلئے خسارے کا باعث ہوتی ہے اس کے باوجود بہت سوں کا اس میں فائدہ ہو جاتا ہے مثلاً رشتہ لگوانے والا، کارڈ چھاپنے والا، منڈپ لگانے والا، کپڑے سلنے والے، چراغاں کرنے والا، کھانا کھلانے والا، شہنائی بجانے والا، قوالی سنانے والا، ڈولی اٹھانے والا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کا نقد فائدہ  فوراً ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مصنف اور قاری کے علاوہ جو لوگ اس کام میں ملوث ہوتے ان سب کا کم و بیش فائدہ ہو ہی جاتا ہے۔

مونی بابا کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ رشتہ لگوانے والے کو بھی ملوث کر کے آپ نے  زیادتی کی ہے ؟

جی نہیں۔ باقی لوگوں کا فائدہ تو رشتہ طے ہو جانے کے بعد ہوتا ہے لیکن اس کا تو قبل از وقت ہو جاتا ہے۔

یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی کہ رشتہ ہوا نہیں اور منافع ہو گیا یہ تو گویا ایسی بات ہے جیسے کتاب چھپی نہیں اور فائدہ ہو گیا۔

جی ہاں ایسا ہی ہے۔ آج کل رشتے اشتہار کے ذریعہ منگوائے جاتے ہیں۔ آپ نے اخبار میں اشتہار دیا کوئی مناسب رشتہ نہیں آیا پھر بھی آپ کو نرخ تو ادا کرنا ہی ہو گا۔ اسی طرح انٹر نیٹ پر کئی دوکانیں کھلی ہوئی ہیں جہاں رشتے دستیاب ہوتے ہیں۔ آپ جب اس دوکان کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ آپ کو رجسٹریشن فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اب جن کی معلومات آپ کو ملی ہے وہ آپ کیلئے مناسب ہیں یا نہیں اس سے انہیں کوئی مطلب نہیں۔

چلئے آپ کی یہ بات بھی تسلیم لیکن کم از کم ریاستی اکادمی کے اخلاص کو تو شک سے بالاتر سمجھنا چاہئے جو ایک ہاتھ سے اس طرح دیتے ہیں کہ دوسرے کو خبر نہیں ہوتی اور پھر پلٹ کر دیکھتے بھی نہیں۔

مونی بابا بولے ان کے اخلاس میں تو کوئی شک شبہ کی گنجائش نہیں لیکن کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ یہ خط تمہیں  ماہِ مارچ کے اواخر میں موصول ہوا۔

جی ہاں یہ درست ہے لیکن ماہِ مارچ کے اواخر میں کیا  قباحت ہے ؟ کیاسارے ستارے اس دوران گردش سے نکل کر باہر آ جاتے ہیں یا آسمانی خزانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

آسمانی تو نہیں لیکن سرکاری خزانوں کے ساتھ یہ ضرور ہوتا ہے۔ان پر بیٹھے سانپ مارچ کے اواخر میں مدہوش ہو کر ناچنے لگتے ہیں۔ پہرے ختم ہو جاتے ہیں اور دھن برسنے لگتا ہے۔شاید اسی کے دوچار چھینٹے تم پر بھی گر گئے ہوں جس سے تم پھولے نہیں سمارہے ہو۔ اس لئے کہ اگر یہ رقم  نئے بجٹ سے قبل خرچ نہیں کی گئی تو وہ نہ صرف ڈوب کر نا مراد واپس چلی جاتی بلکہ اسے محکمہ کی نا اہلی بھی گردانا جاتا ہے۔

تان سین بولا آپ کا یہ الزام نما دعویٰ کسی اٹکل پر ہے یا اس کے پسِ پشت کوئی دلیل بھی ہے ؟

مونی بابا نے اکڑ کر کہا تم نہیں جانتے تمہارا یہ دوست کوئی بات بغیر دلیل کے نہیں کہتا ۔اگر میں تمہیں یہ بتلاؤں کہ وزارتِ پوشاک نے سال ۲۰۱۳؁ میں  ۳۱ مارچ کو کس قدر رقم خرچ کی تو تم آپے سے باہر ہو جاؤ گے۔

اچھا کتنی؟

صرف آٹھ ہزار دو سو کروڑ روپئے

کیا ؟ تان سین چکرا گیا۔ اس قدر خطیر رقم اس میں تو ہندوستان کی ساری آبادی کو مفت میں لباس فراہم کیا جا سکتا ہے۔

جی ہاں لیکن وزارتِ پوشاک کو اس کی نہ فکر ہے اور نہ ضرورت۔ اس کے بعد دوسرا نمبر وزارتِ خزانہ کا ہے جس نے آٹھ ہزار انتالیس کروڑ روپئے خرچ کئے جو دنیا بھر میں ایک ریکارڈ ہے  اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھی وزارت مواصلات نے اپنے بجٹ کا ۶۳ فیصد اور بھاری صنعت نے ۶۰ فیصد ایک دن کے اندر پھونک دیا تھا۔

اوہو شاید یہی وجہ ہے راجہ ٹوجی اور دیشمکھ آدرش بدعنوانی میں ملوث  پائے گئے ۔

جی ہاں یہ ان کی بے خوف قائدانہ صلاحیت کی وجہ سے ہے مونی بابا نے کہا اور یہی دلیری اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ان کے کام آئے گی۔

 

 

 

 

رسمِ رونمائی

 

ریاست کے وزیر اعلیٰ سندر سنگھ بجرنگی کو جب معلوم ہو ا کہ ایک بندر کی کتاب سرکاری خرچ سے شائع ہونے جا رہی ہے تو وہ ابتداء میں تھوڑے سے فکر مند ہوئے لیکن جب انہیں  بتلایا گیا یہ ماروتی مندر میں رہتا ہے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس لئے کہ وہ  بذاتِ خود ہنومان کے بھکت تھے اور سال میں دو چار بار اجتماعی ہنومان چالیسا کے پاٹھ کا اہتمام بھی کر وا دیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے پرنسپل سکریٹری کو بلا کر شہر میں ماروتی مندروں کی تعداد اور وہاں حاضری دینے والے زائرین  کی تفصیل طلب کی۔ یہ جان کر ان کے حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب  انہیں پتہ چلا شہر میں ہنومان کے مندروں کی اچھی خاصی تعداد ہے اور جملہ زائرین کی تعداد دوسرے مندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر کیا تھا انہوں نے ہنومان جینتی کے موقع پر رام لیلا میدان پر کتاب کی رونمائی کیلئے ایک عظیم جلسے کا اہتمام کروایا۔ جس میں شرکت کیلئے نہ صرف رامائن پر مہارت رکھنے والے بڑے بڑے سادھو سنتوں کو بلا یا گیا بلکہ جانوروں کے حقوق کی خاطر سر گرداں دانشوروں کو بھی دعوت دی گئی۔ سارے شہر میں تان سین کی تصویر والے پوسٹر چسپاں کئے گئے بینر بندھوائے  گئے جن میں ایک جانب وزیر اعلیٰ بجرنگی اور اس کے مد مقابل تان سین کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔

تقریب سے ایک روز قبل دو لال بتی والی گاڑیاں ماروتی مندر میں آ کر رکیں اور تان سین کو اپنے ساتھ شہر کے سب سے بڑے ڈیزائنر اسٹائل کنگ درزی کے پاس لے گئیں جہاں تان سین کا ناپ لیا گیا تاکہ اس کی شاندار شیروانی، پاجامہ اور ٹوپی سلوائی جا سکے۔ یہ وہی درزی تھا جو مشہور فلمی ادا کاروں کے کپڑے سلتا تھا۔  اسے بندر کا ناپ لینے میں غصہ تو بہت آیا لیکن وزیر اعلیٰ  بجرنگی کے احکامات کا انکار کرنے کی جرأت اس کے اندر نہیں تھی۔  ذرائع ابلاغ پر اسٹائل کنگ کے مالک  ماہ رخ  نے ایک موٹی رقم اس خبر کو دبانے کیلئے صرف کی کہ تان سین کے کپڑے اس کی دوکان میں سلے ہیں۔ وہ کسی بندر کا لباس سینا اپنے لئے باعثِ توہین سمجھتا تھا۔  درزی کے پاس سے سرکاری گاڑی اسے ایک بہت مشہور فیس لفٹ نامی بیوٹی پارلر میں لے گئی جہاں مردو خواتین دونوں اپنا چہرہ مہرہ سنوارنے کی خاطر آتے تھے۔ تان سین نے وہاں پہنچ کر پوچھا آپ لوگ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں ؟ میرا  چہرہ تو ٹھیک ٹھاک ہے اس میں تو کوئی ایسی خرابی جسے سدھارنے کی خاطر یہاں آنے ضرورت پیش آئے ؟

سرکاری افسر بولا تمہارا مطلب ہے جن کے چہروں پر عیب ہوتا ہے وہ اسے چھپانے کیلئے یہاں آتے ہیں۔ اگر تم یہ سوچتے ہو تو یہ تمہاری بہت بڑی غلطی ہے۔

تان سین نے پوچھا اگر ایسا نہیں ہے تو بھلا لوگ یہاں آ کر اپنا وقت اور روپیہ کیوں ضائع کرتے ہیں ؟

دیکھو تان سین یہاں وہی لوگ آتے ہیں جو عام لوگوں کے مقابلے زیادہ خوبرو ہوتے ہیں لیکن وہ اپنا موازنہ اپنے سے زیادہ خوبصورت لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں اور خود کو ان سے بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

لیکن میں ایسا کچھ بھی نہیں چاہتا۔ تان سین نے گڑگڑا کر کہا اسے ڈر تھا کہ یہ نا تجربہ کار حجام جن کا بندروں سے کبھی بھی سابقہ نہیں پڑا اس کا گلفام چہرہ بگاڑ دیں گے۔

تمہارے چاہنے اور نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ ہم لوگ وزیر اعلیٰ بجرنگی کے ملازم ہیں اور ان کے احکامات بجا لاتے ہیں۔ انہوں نے تمہیں یہاں پہنچانے کیلئے کہا ہے اسی  لئے ہم تمہیں یہاں لائے ہیں۔

لیکن اس کا فائدہ ؟ تان سین نے پھر سوال کیا۔

ایک معمر سرکاری افسرجو کافی دیر سے خاموش بیٹھا ہوا تھا بولا دیکھو تان سین تمہیں کل کی تقریب کا اندازہ نہیں ہے اس لئے تم یہ بحث کر رہے ہو۔ کل ساری دنیا سے ماہرین حیوانات یہاں آنے والے ہیں ان کی جانوروں کے حقوق خاص طور بندروں کے حقوق پر تقریریں ہوں گی۔ ان ماہرینِ عمرانیات میں ڈارون کے پوتے کا بھی شمار ہے جو برطانیہ سے خاص طور تشریف لا رہا ہے۔

وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اس کا اس سے فیس لفٹ سے کیا تعلق ہے ؟

تعلق کیوں نہیں ہے ؟ ان دانشوروں کے خیالات کو سننے اور اسے دنیا بھر میں پہچانے کیلئے تمام ذرائع ابلاغ وہاں موجود ہو گا۔ اینیمل پلانیٹ سے لے کر تو نیشنل جیوگرافی  ٹی وی تک سب تمہاری فلم اپنے اپنے چینل سے نشر کریں گے اور ان کا خاص طور پر اس بات پر اصرار ہے ٹی وی پر تمہاری تصویر جس قدر بھی ممکن ہے صاف اور خوبصورت آئے اسی لئے ہم لوگ تمہیں یہاں لائے ہیں۔ آج تو ابتدائی کارروائی ہو گی۔ کل تمہارے کپڑے یہیں لائے جائیں اور پھر ایک بار تم کوسجا سنوار کر یہیں سے اجتماع گاہ میں لے جایا جائے گا۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں سارے دانشور اور سادھو سنت بھی اجتماع گاہ میں جانے سے قبل یہاں لائے جائیں گے اور اس کے بعد ہی وہ وہاں اسٹیج پر سجائیں گے۔

تان سین کا حوصلہ بڑھا تو اس نے پو چھا اور خود وزیر اعلیٰ بجرنگی ؟

ہز ہائی نیس کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں  بلکہ یہاں کے عملہ میں سے ایک ان کے گھر پہنچ جائے گا اور مرمت کر کے انہیں تیار کر دے گا۔

تان سین نے کہا تو آپ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ کل مجھے بھی ان کے گھر ہی لے جائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بہت شرم آتی ہے۔ تان سین کا یہ جملہ سن کر سارے اہلکار ہنسنے لگے اور ان میں سے ایک بولا بڑا شرمیلا بندر ہے انسانوں سے بھی زیادہ۔

سارے شہر سے لوگوں اور بندروں کو لانے کا خصوصی اہتمام تھا۔ انسانوں کو ٹرکوں اور ٹریکٹروں بھر بھر کر لایا جا ریا تھا اور بندروں کیلئے بسیں مہیا کی گئیں تھیں تاکہ مبادا کوئی بندر اچھل کود کر باہر نہ آ جائے۔ رام لیلا میدان کو اس روز دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ مشرق کی جانب دھرم گرو براجمان تھے اور مغرب کی طرف عالمی شہرت یافتہ دانشور جمع تھے۔ بندروں کی بسوں کو مغرب کی جانب لگایا جاتا تاکہ وہ جا کر سیدھے دانشوروں کے سامنے لگی کر سیوں پر جا بیٹھیں اور عوام کو لالا کر دھرم شیتر میں ہانک دیا جاتا۔  چونکہ سادھو سنتوں نے کر سی کے بجائے فرش پر بیٹھنا پسند کیا تھا جس کے سبب ان کے بھکتوں کو بھی کرسیوں سے محروم ہونا پڑا تھا۔

وزیر اعلیٰ بجرنگی اور تان سین الگ الگ اسٹیج پر براجمان تھے۔ وزیر اعلیٰ کے سامنے انسانوں کا ٹھا ٹیں مارتا ہوا سمندر تھا اور عوام کے سامنے وہ  سادھو سنتوں کے سنگ دھرم کرم کی کشتی میں سوار تھے انہیں امید تھی بدعنوانی کے بھنور سے یہی کشتی ان کی نیاّ پار لگائے گی۔ تان سین کوٹ پتلون والے دانشوروں کے درمیان اپنی شیروانی اور ٹوپی میں نہایت پر وقار معلوم ہو رہا تھا۔ اس کی کتاب کی رونمائی کی خاطر سندر سنگھ بجرنگی نے اپنا اسٹیج بدلا اور بندروں کے پنڈال کی جانب بڑھے تو ان کی تقلید میں سارے سنت مہاتما بھی چل پڑے عوام نے جب یہ منظر دیکھا تو انہوں نے بھی دوسرے  پنڈال کی جانب کوچ کیا۔  اب کیا تھا دیکھتے دیکھتے سارے بندروں کو کرسی سے نیچے ڈھکیل دیا گیا تھا اور انسانوں نے ان کی جگہ لے لی۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے درمیان کتاب کی رونمائی ہوئی اور اس کے بعد تان سین کو شاعری سنانے کی دعوت دی گئی سارے لوگ یکساں طور پر جھوم جھوم کر اس کے اشعار پر داد دے رہے تھے۔ ڈارون کا پوتا اور بندر سماج۔ انگریز دانشور اور سادھو سنت کسی کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا لیکن چونکہ وزیر اعلیٰ بجرنگی بغیر سمجھے داد دے رہے تھے اس لئے باقی افراد بھی ان کی تقلید کر رہے تھے۔

جلسے کے اختتام پر دو اہم اعلانات ہوئے ایک تو اقوام متحدہ کے نمائندے نے سکریٹری جنرل بان کی ٹون کی جانب سے اعلان کیا کہ تان سین کی ایک ہزار کتابیں خرید کروہ انہیں دنیا بھر میں پھیلے  اپنے دفاتر  کے کتب خانوں میں روانہ کرنے کا اہتمام کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ وہاں اردو شاعری کے پڑھنے والے شاذونادر ہی پائے جاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے تمام اسکول اور کالج کے کتب خانوں میں کتاب رکھنے کا اعلان کیا جہاں اردو کم ہی پڑھائی جاتی ہے۔گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں تان سین کے نام کو شامل کروانے کا فیصلہ کیا گیا اس لئے کہ یہ کسی بندر کی اولین تصنیف تھی۔ اس بیچ اردو اکادمی کے سر براہ  نے اعلان کیا کہ اول اشاعت کے نسخے موجودہ ضرورت کیلئے ناکافی ہیں اس لئے جلد ہی اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع کر دیا جائے گا۔

جلسے کے دوسرے دن تان سین نے مونی بابا سے پوچھا کہ اب آگے مجھے کیا کرنا چاہئے پہلا ایڈیشن تو دیکھتے دیکھتے کھپ گیا۔

مونی بابا بولے کرنا کیا دوسرے ایڈیشن کی اشاعت  کا انتظار کرو اور جب چھپ جائے تو اسے تقسیم کرنے کے لئے نکل پڑو  اور اگر اس وقت ضرورت پڑے تو مجھے بھی یاد کر لینا۔کیا سمجھے ؟

کیوں کیا آپ میری کتاب پڑھیں گے ؟

نہیں ایسی بات نہیں۔ میں لوگوں کو بتاؤں گا کہ میرے دوستوں میں سے ایک کتاب کا مصنف بھی ہے اور ثبوت کے طور پر تمہاری کتاب دکھلا دوں گا۔  اگر کوئی مانگے گا تو سخی حاتم بن کر کتاب خیرات کر دوں گا اور تم  پر احسان جتا کر ایک اور کتاب حاصل کر لوں گا۔

تان سین بولا  وہ بھی  ٹھیک ہے آپ اگر کتابیں پڑھ نہیں سکتے تو انہیں تقسیم ہی کرنے کی سعادت حاصل کر لینا لیکن وہ آپ کی اس روز والی بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ سرکاری سانپ اور ماہِ مارچ وغیرہ وغیرہ۔

یہی تو تمہارا مسئلہ ہے تان سین کہ تم دن رات شاعری کرتے رہتے ہو اخبار تک نہیں پڑھتے حالانکہ آج کل مفت میں اخبار پڑھنے کیلئے نائی کی دوکان پر جانے کی بھی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔

اچھا تو کیا وہ مفت میں گھر گھر تقسیم ہونے لگے ہیں ؟

مونی بابا کا اشارہ نیٹ ایڈیشن کی جانب تھا لیکن بیچارہ تان سین سمجھ نہیں پایا۔ مونی بابا نے بات بڑھاتے ہوئے کہا سنا ہے امریکا اور کینیڈا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اردو اخبار سوپر مارکٹ کے باہر مفت میں رکھا رہتا جو چاہے جتنا چاہے لے جائے ؟

جتنا چاہے کیا مطلب؟ وہ کوئی کھانے کی چیز ہے کہ انسان بار بار کھائے ؟

ہاں ہاں میرا مطلب ہے کہ پورا اخبار یا صرف اپنی دلچسپی کا ضمیمہ

تان سین کا دماغ چونکہ سرکاری معاونت سے چلنے لگا تھا اس لئے وہ بولا لیکن وہاں  اخبار نکالنے والوں کو چھپائی کے اخراجات کیا سرکار سے ملتے ہیں ؟

کینیڈا کی سرکار اردو اخبار کیلئے مدد کیوں کر دے سکتی ہے۔ تمہاری عقل تو ماری نہیں گئی ہے ؟ مونی بابا نے جواب دیا

لیکن کسی نہ کسی کوتو خرچ کرنا ہی پڑتا ہو گا؟

مشتہرین کے طفیل چلتے ہیں وہ اخبار۔ اشتہار کے ذریعہ اس قدر رقم جمع ہو جاتی ہے کہ نہ صرف اخبار چھپ جاتا ہے بلکہ سنا ہے کچھ بچ بھی جاتا ہے۔

لیکن وہاں کینیڈا وغیرہ میں تو اردو داں حضرات ملازمت پیشہ ہوتے ہونگے۔اگر  ان کا اپنا کاروبار نہ ہو تو وہ اپنی تیار کردہ چیزوں کا اشتہارکیسے دے سکتے ؟

تم نے صحیح کہا شمالی امریکہ کے اردو داں حضرات کا  بنانے اور بیچنے میں تو کوئی زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا لیکن خریدتے تو وہ ہیں ہی۔ اشتہار دراصل خریداروں کیلئے ہوتے ہیں۔ جن اشیا کی کھپت ان کے درمیان ہوتی ہے اس کے بنانے والے یا انہیں درآمد کرنے والے اپنا اشتہار دیتے ہیں

مثلاً؟

اچار، پاپڑ، مصالحہ، دیسی دوائیاں، فلمی نغموں کے کیسٹ و ی سی ڈی وغیرہ ان سب کی مانگ ہند و پاک کے لوگوں میں خوب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پھر جو رقص و سرود کی محفلیں ہوتی  ہیں۔ان کے بھی بڑے بڑے اشتہار چھپتے ہیں۔ اس لئے کہ ان اشتہارات کی بدولت وہ سارے شو کامیاب ہوتے ہیں اور اشتہار بازی کا پیسہ وصول ہو جاتا ہے۔

یہ سن کر تان سین کو نیا آئیڈیا سوجھا وہ بولا اگر ایسا ہے تو کیوں نہ میں بھی اپنی کتاب کا اشتہار ان اخبارات میں دے ڈالوں ؟

مونی بابا بولے تجویز تو معقول ہے لیکن اس  میں دو مسائل ہیں۔ ان اشتہارات کا نرخ ڈالرس میں ہوتا ہے۔ اس کیلئے تم کو امریکی سرکار کے سامنے جھولی پھیلانی پڑے گی۔

اس کا مسئلہ نہیں میں اقوام متحدہ سے تعاون حاصل کر لوں گا ؟ اور اگر انہوں نے نہیں دی تو کتاب کی آمدنی  سے اشتہار کی رقم چکا دوں گا ؟

مونی بابا بولے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے باوجود تمہاری کتاب نہیں بکے گی۔

یوں کیا وہ اس قدر گئی گزری ہے ؟

یہ میں نے کب کہا۔ بات در اصل یہ ہے کہ ایک تو اردو والوں کی دلچسپی کتابوں سے زیادہ ناچ گانے اور تیل و اچار میں ہے۔ دوسرے  انہیں مفت میں بیٹھے بٹھائے کتابیں مل جاتی ہیں تو وہ خرید کر پڑھنے کی حماقت بھلا کیوں کریں ؟ اسی لئے میں کہتا ہوں اشتہار بازی کے باوجود تمہاری کتاب نہیں بکے گی ؟

اچھا اگر ایسا ہے تو میں اپنی اگلی کتاب کی اشاعت کیلئے کیا کروں ؟

ریاستی اکادمی سے مدد لو اور کیا؟

ان کا ضابطہ یہ ہے کہ وہ ایک کتاب کو انعام دینے بعد تین سال تک دوبارہ مدد نہیں دیتے۔

اگر ایسا ہے تو تم اچار اور مصالحہ جات کینیڈا برآمد کرو اور اس سے جو منافع ملے اس کا استعمال کر کے کتاب چھپو ا کر مفت میں تقسیم کرو !!!!

 

 

 

انا جی کے تین بندر

 

مونی بابا نے ایک دن تان سین سے کہا لگتا ہے اب ہمارے اس ماروتی مندر سے جانے کا وقت آ گیا ہے ؟

تان سین نے کہا وہ کیوں ؟ اب اس عمر میں آپ کہاں جائیں گے یہیں سکون سے پڑے رہئے۔ بندروں کی جانب اشارہ کر کے تان سین بولا کل یگ  میں اس سے اچھا مسکن اور ان سے اچھے ہم سائے آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔

وہ تو صحیح ہے لیکن قوم کی اس نازک گھڑی میں اپنے آپ کو میں روک نہیں سکتا ورنہ کل کو گاندھی جی کو کیا منہ دکھاؤں گا مونی بابا نے روہانسے لہجہ میں کہا۔

تان سین کو لگا یہ تو واقعی سنجیدہ ہیں۔اس نے پوچھا لیکن بابا آپ جائیں گے کہاں ؟ اور کریں گے کیا ؟

وہی عظیم کام جو ہم گاندھی جی کے شانہ بشانہ کیا کرتے تھے  اور کیا؟

تان سین کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں ہے آیا وہ بولا لیکن اب تو نہ انگریز ہیں اور نہ ان کی غلامی۔ اس لئے آزادی کیلئے کسی جدو جہد کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے ؟

مونی بابا بولے تان سین تمہاری نصف بات تو صحیح ہے لیکن نصف غلط ہے۔

کیا مطلب ؟

مطلب یہ کہ انگریز ضرور چلے گئے لیکن اپنی غلامی پیچھے چھوڑ گئے۔اس لئے وہ انگریزوں کے بغیر پھل پھول رہی ہے۔

ہم تو یہ سمجھتے تھے انگریزوں کے نکلتے ہی آزادی کا سورج طلوع ہو جائے گا اور غلامی سر پر پیر رکھ کر اپنے آپ بھاگ جائے گی اسی لئے گاندھی جی نے  بھارت چھوڑو کا نعرہ لگایا تھا لیکن آپ تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔

جی ہاں تان سین وہ ہماری بہت بڑی خوش فہمی تھی۔انگریز بھی ہماری طرح انسان ہی تھے کوئی بھوت پریت تو تھے نہیں۔

لیکن وہ پرائے لوگ تھے پر دیس سے یہاں آئے تھے اور ان لوگوں نے اپنا اقتدار قائم کیا تھا اب تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

مونی بابا نے نہایت گمبھیر انداز میں کہا تان سین غلامی آخر غلامی ہوتی ہے چاہے وہ غیروں کی ہو یا اپنوں کی۔ اس  کے سودیشی یا پر دیسی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جی ہاں آپ کی بات میں سمجھ گیا دنیا کے مختلف ممالک میں یہ ضرور ہوا کہ آزادی کے بعد فوجیوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اپنا آمرانہ اقتدار قائم کر دیا بلکہ آگے چل کر اپنی اولا دکو اپنا جانشین بنانے سے بھی نہیں چوکے۔

مونی بابا بولے تان سین تمہاری منطق بھی خوب ہے اگر کوئی فوجی آمر اپنی اولاد کو قوم پر تھوپ دے تو غلط اور کوئی جمہوری نمائندہ یہی کرے تو صحیح ہے ؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے اقتدار کی باگ ڈور بالواسطہ یا بلا واسطہ نہرو خاندان کے ہاتھوں میں رہی ہے۔

نہرو خاندان یا گاندھی خاندان ؟

بھئی جس گاندھی جی کے ہم بھکت ہیں کم از کم اس مہاتما گاندھی سے تو اس خاندان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ تو بس نام کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں ورنہ مہاتما گاندھی کے اصلی پوتوں اور نواسوں کو کون پوچھتا ہے ؟

تان سین بولا آپ کی بات درست ہے بابا لیکن گاندھی جی بھی تو یہ نہیں چاہتے تھے سامراجیت کے بعد موروثیت آئے اس لئے وہ خود اپنی اولاد کی راہ کا روڈا بن گئے۔

ہاں ہاں مجھے پتہ ہے کہ انہوں نے اس اندیشہ کے تحت اپنے بچوں پر زیادتی تک کی لیکن اس کے بعد کیا ہوا ؟ ان کے نام کی مالا جپنے والے ہر سیاسی رہنما نے اپنی بیوی اور اولاد کو اپنا اقتدار سونپنے کی بھرپور کوشش کی اور اب تو ان کے قاتل بھی اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔

تا ن سین بولا لیکن اس موروثیت کے باوجود  ہمارے مہان بھارت میں آمریت کا بیج کسی صورت  پنپ نہیں سکتا۔

مونی بابا نے کہا یہ دعویٰ تم محض عقیدت کی بناء پر کر رہے ہو یا اس کے پیچھے کوئی دلیل بھی ہے ؟

دلیل کیوں نہیں ہے ؟ ہمارے دیس میں جمہوریت کی فصل چہار جانب لہلہا رہی ہے۔ اس کی جڑیں زمین میں گہرائی تک اتری ہوئی ہیں شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔

مونی بابا نے بات درمیان ہی میں کاٹ دی اور بولے اس کے باوجود کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گزشتہ سالوں میں لاکھوں کسان خودکشی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۷ سے ا ب تک ایک لاکھ کسان خودکشی کر چکے ہیں ہر ۳۲ منٹ کے اندر ایک اپنے آپ کو ہلاک کر دیتا ہے ایسے میں جس جمہوریت کی لہلہاتی فصل کی تم دہائی دے رہے ہو اس کا کیا فائدہ؟

تان سین لا جواب ہو گیا وہ بولا لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ہم ہر پانچ سال میں اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہم نے ایک کسان کے بیٹے کو وزیر اعظم اور دوسرے کو وزیرِ زراعت بنا دیا۔

جی ہاں تم نے صحیح کہا تان سین مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں ؟

وہ کون ؟ میں سمجھا نہیں ؟

وہی کسان کے بیٹے  جن کا ہم انتخاب کرتے ہیں اور جنہیں وزیر بنواتے ہیں۔ کیا انہیں وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد یہ یاد رہتا کہ کن لوگوں نے انہیں منتخب کیا ہے ؟ ہمارے رائے دہندگان کی ہم سے توقعات کیا ہیں ؟ وہ بیچارے کن مشکلات میں گرفتار ہیں ؟ وہ خودسوزی کیلئے کیوں مجبور ہوتے ہیں ؟ اور انہیں ایسا کرنے سے روکنے کیلئے کیا کیا جا سکتا ہے ؟

تان سین کی زبان گنگ ہو چکی تھی اس کے پاس مونی بابا کے سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ بولا مونی بابا مجھ جیسے معمولی شاعر سے آپ اس قدر مشکل سوالات کریں گے تو بھلا میں کیا جواب دوں گا ؟ آپ گیانی آدمی ہیں ؟

کیا کہا آدمی؟

جی ہاں غلطی ہو گئی آپ گیانی ذیل سنگھ کی طرح  گیانی بندر ہیں۔

دیکھو تان سین تم ہندوستان کے صدر کو بندر کہہ کر ان کی توہین کر رہے ہو۔

جی نہیں میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بندر ہیں بلکہ میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ آپ بھی گیانی ہیں۔

لیکن میں ان کی طرح نام کا گیانی نہیں ہوں اب تو تم ان کے بجائے میری توہین کر رہے ہو۔

معاف کیجئے بابا آپ تو بالکل زبان پکڑنے لگے کوئی نام کا گیانی کوئی کام کا گیانی کیا فرق پڑتا ہے ؟

مونی بابا مسکرا کر بولے فرق کیوں نہیں پڑتا۔ نام کے گیانی کو صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز کر دیا جاتا ہے اور کام کے گیانی ہنومان مندر میں خیرات کے چنوں پر گزارہ کرتا ہے۔

تان سین بولا بابا آپ بہت اچھا مذاق کر لیتے ہیں اور گیانی جی کا ذوقِ  لطیف بھی بہت اعلیٰ و و ارفع تھا۔ میرے خیال میں آپ کو صدر نہ صحیح تو کم از کم نائب صدر تو ہونا ہی چاہئے۔

اپنی پے درپے تعریف سن کر مونی بابا پسیج گئے اور بولے دیکھو تان سین تم جس طرح مجھے چنے کے جھاڑ پر چڑھا رہے ہو اگر سونیا یا راہل کے ساتھ یہ کرتے تو وہ تمہیں پی ایم نہ سہی ایم پی ضرور بنا دیتے۔

اب آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں بابا۔ ایم پی بننے کیلئے انتخاب جیتنا پڑتا ہے۔ انسان  اس قدر احسان فراموش ہے کہ ہماری اولاد ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ہم سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ بھلا مجھے ووٹ کیونکر دے گا۔ہائی کمانڈ تو صرف ٹکٹ دے سکتا ہے الیکشن میں کامیاب نہیں کروا سکتا۔

مونی بابا بولے تم نہیں جانتے ایک چور دروازہ بھی ہے جس سے لو گ عوام کے ووٹ حاصل کئے بغیر ایم پی بن جاتے ہیں

جمہوریت میں عوام کی رائے کے بغیر پتہّ بھی نہیں ہلتا مونی بابا آپ کہاں ہیں ؟

میں یہیں تمہارے سامنے ہوں اور تمہیں بتلا رہا ہوں کہ عوام کے ووٹ سے تو لوگ ایوانِ زیریں میں جاتے ہیں لیکن خواص میرا مطلب ہے عوام کے نمائندوں  کے ووٹ سے  لوگ منتخب ہو کر ایوان بالا کے رکن بن جاتے ہیں بلکہ اس چور دروازے سے لوگ نہ صرف ایم پی بلکہ  پی ایم بھی بن جاتے ہیں۔

تو گویا عوامی نمائندوں میں بھی اونچ نیچ پائی جاتی ہے ؟

کیوں نہیں مختلف نمائندوں کے ووٹ کی قیمت مختلف ہوتی ہے۔ وہی لوگ صدر اور نائب صدر مملکت کو بھی منتخب کرتے ہیں۔

تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہائی کمانڈ عوام کے نمائندوں سے مجھے ووٹ دلوا دے گا حالانکہ ان کے رائے دہندگان  مجھے ووٹ دینا اپنی ہتک سمجھتے ہیں ؟ کیا ان کے ایسا کرنے سے ان کے ووٹرس ان سے ناراض نہیں ہو جائیں گے ؟

عوام کو یہ سب کب یاد رہتا ہے میرے تان سین۔ وہ تو انتخاب کی ڈگڈگی بجتے ہی سب بھول جاتے ہیں۔ زندہ باد اور مردہ کے نعرے ان کے جذبات پر طاری ہو جاتے ہیں اور پھر وہ کیا کرتے ہیں خود انہیں بھی پتہ نہیں ہوتا۔ا س کے علاوہ اب عوام کو اپنے نمائندوں سے کسی خیر کی توقع بھی باقی نہیں رہی۔ اس لئے کہ وہ نمائندے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کرتے جو خالصتاً عوام کے مفاد میں ہو۔ ہاں اگر کبھی ان کے اپنے فائدے میں عوام کا کوئی فائدہ ہو جائے تو بات دیگر ہے۔

تان سین کی آنکھوں پر پڑے دبیز پردے اٹھ رہے تھے۔اس نے سوال کیا اگر عوام کے نمائندے اپنے رائے دہندگان کی خدمت نہیں کرتے تو آخر کرتے کیا ہیں ؟

وہی سب کرتے ہیں جو  انگریز حکمراں کیا کرتے تھے۔ میرا مطلب ہے عیش و عشرت۔پہلے جس محل میں لارڈ گورنر رہا کرتے تھے اس میں اب صدرِ مملکت دادِ عیش دیتے ہیں۔ پہلے ہماری غلامی کی زنجیریں لندن سے بن کر آتی تھیں اب دہلی میں انہیں گھڑا جاتا ہے لیکن جکڑے جانے والے کیلئے  اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

چلئے آپ کی بات مانے لیتے ہیں اس لئے کہ عوام پر ہونے والے مظالم اور ان کے استحصال میں واقعی کو تبدیلی نہیں آئی لیکن اس کے باوجود مجھے ڈر ہے کہ اگر کسی نے جمہوریت کو موردِ الزام ٹھہرانے کی غلطی کی تو عوام اور ان کے نمائندے دونوں مل کر اسے زندہ درگور کر دیں گے اور کوئی اس کی فاتحہ پڑھنے کیلئے بھی آگے آنے کی جرأت نہیں کرے گا۔

جی ہاں تمہاری بات درست ہے تان سین۔ جمہوریت تو وہ مقدس گائے ہے کہ جو اقتدار کے مندر میں دروازے پر بندھی رہتی ہے جو صرف چارہ کھاتی ہے مگر دودھ نہیں دیتی اس کے باوجود ہر عقیدتمند اس کے آگے چار ہ ڈالنا ہے اپنے لئے باعث سعادت و عبادت سمجھتا۔ کیا اب بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس سر سبز و شاداب ملک میں محنت کش کسان خودکشی کیوں کرتا ہے ؟

جی ہاں مونی بابا اب میری سمجھ میں یہ معمہ آنے لگا ہے اورجس بے دردی سے اس گئو شالہ کے کرتا دھرتا اصحابِ اقتدار قومی خزانے کو لوٹ رہے مجھے اندیشہ ہے کہ ایک دن یہ  جمہوری گائے سارا  اناج خود ہڑپ کر جائے گی اور جمہور بھوکے مر جائیں گے۔

جی ہاں تم نے صحیح کہا فی الحال بد عنوانی تمام حدود و قیود کو پار کر چکی ہے اور اسی لئے اس کے خلاف ایک اور جنگِ  آزادی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

لیکن مجھے نہیں لگتا ہے اس دورِ پر فتن میں گاندھی جی کے بغیر  یہ کام ہو سکے گا۔

ایسا نہیں ہے تان سین، یہ سمجھ لو کہ گاندھی جی کا پونر جنم ہو چکا ہے اب انا جی اس دوسرے جہادِ آزادی میں قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں۔وہ اپنے شہر سے قریب دھرنا دینے والے ہیں۔ بالکل گاندھی جی کی طرح انہوں نے تا حیات بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ میں اسی میں جانے کی بات تم سے کر رہا تھا تو تم نے کوئی اور ہی قصہ چھیڑ دیا۔

جی نہیں تان سین بولا یہ مباحثہ بہت ضروری تھی ورنہ میں آپ کے ساتھ ہر گز اس نئے گاندھی کی تحریک میں شامل ہونے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔

اچھا تو کیا تم بھی میرے ساتھ چلو گے ؟

کیوں نہیں آپ گاندھی جی کے جتنے بڑے مداح ہیں اس سے دو چھٹانک زیادہ میں ان کا بھکت ہوں۔

مونی بابا نے کہا جی ہاں یہ تو بالکل درست بات ہے۔ تمہاری یہ بات سن کر مجھے آج بڑے دنوں بعد نین سکھ یاد آ گیا اگر وہ آج زندہ ہوتا تو ضرور ہمارے ساتھ چلتا۔

جی ہاں مونی بابا ہمیں آزادی کی اس دوسری جنگ میں اپنے بے بصارت مگر با بصیرت ساتھی کی کمی بڑی  شدت کے ساتھ محسوس ہو گی۔

مونی بابا اور تان سین جب انا جی کے دھرنے میں پہونچے تو وہاں لوگوں کا اژدہام لگا ہوا تھا لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں تھا۔ مونی بابا نے محسوس کیا کہ یہاں تو رہ رہ کر وندے  ماترم کے نعرے لگ رہے ہیں۔بڑے بڑے تلک دھاری بدمعاش بھی مختلف آسنوں پر براجمان ہیں وہ سمجھ گیا اس دوسرے گاندھی کے ساتھ پہلے گاندھی کے قاتلوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔وہ سوچ میں پڑ گیا یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں لیکن تان سین نے دیکھا کہ اس جمِ  غفیر میں بہت سارے مخلص عوام بھی شامل ہیں جو حقیقت میں ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ تان سین بولا بابا اتنی دور سے تو ہمیں کچھ دکھلائی نہیں دے گا اور نہ ٹھیک سے کوئی بات سنائی دے گی۔ کیوں نہ ہم اسٹیج کے قریب پیڑ پر جا بیٹھیں۔  اس کی شاخیں اسٹیج سے اس قدر قریب ہیں کہ ہم ان لوگوں کی سرگوشیاں بھی سن سکیں گے۔ سامنے چوکی پر نہ سہی تو پیچھے شاخ پر کیا فرق پڑتا ہے۔

پیپل کے گھنے پیڑ کی شاخ پر آسن جمانے کے بعد تان سین  بڑے غور سے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھنے لگا۔  ایک زمانہ تھا جب وہ نہ صرف گاندھی جی کے ہمعصروں بلکہ مہمانوں تک کو پہچان لیا کرتا تھا لیکن یہ سب لوگ تو اس کیلئے اجنبی تھے۔ تان سین نے سوچا مونی بابا نے ضرور ان کی تصویریں اپنے آئی پیڈ پر دیکھی ہوں گی اور انہیں پہچانتے ہوں گے اس لئے کہ اس سنیاسی مونی کا سب سے پسندیدہ مشغلہ سیاسی خبریں پڑھنا ہی تو تھا۔ تان سین نے پوچھا بابا کیا آپ ان لوگوں پہچانتے ہیں جو اسٹیج پر براجمان ہیں ؟مونی بولے کیوں نہیں ؟ذرائع ابلاغ کی بدولت ملک کا بچہ بچہ ان سے واقف ہے۔

ہوسکتا ہے لیکن چونکہ میں ذرائع ابلاغ سے نابلد ہوں اس لئے ان بچوں میں شامل نہیں ہوں۔ اگر آپ ان کا تعارف کروانے کی زحمت کریں تو بڑا احسان ہو گا۔

مونی بابا مسکرا کر بولے بڑی مہذب زبان استعمال کر رہے ہو ؟کہیں تمہارا ارادہ بھی تو ڈائس پر جا کر بیٹھنے کا نہیں ہے ؟

جی نہیں فی الحال ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ جو لوگ اسٹیج پر بیٹھے ہیں خود وہ نہ جانے کیا اول فول بک رہے ہیں۔  میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔

جی ہاں مونی بابا بولے اس کی وجہ  یہ ہے کہ تمہیں نہ ہی اس کا پس منظر معلوم ہے اور نہ تم لوگوں کو جانتے اس لئے تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔

تان سین کو اپنا پرانا سوال یاد آ گیا۔وہ بولا اسی لئے تو میں کہہ رہا تھا کہ مجھے ان کے بارے میں بتلائیے لیکن آپ نے بات گھما دی۔

مونی بابا نے کہا تم اناجی کو تو پہچان گئے ہو گے ؟

اب آپ نے مجھے ایسا بھی اناڑی سمجھ لیا ہے۔ تان سین بولا

ارے بھئی میں تو مذاق کر رہا تھا۔مونی بابا بولے۔تو دیکھو وہ انا جی اپنے تین بندروں گووند، کسم اور رمیش کے درمیان گھرے بیٹھے ہیں۔

آپ نے تو اچھے بھلے انسانوں کو بندر بنا دیا۔

تو کیا تمہارا مطلب ہے بندر اچھے بھلے نہیں ہوتے ؟

ہوتے تو ہیں لیکن بہر حال انسانوں سے اچھے کیسے ہو سکتے ہیں ؟

کیوں نہیں ہوسکتے ؟

ارے بھئی آپ ہی نے تو کہا تھا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔

لیکن میں نے یہ بھی تو کہا تھا کہ انسانوں میں اسفل السافلین بھی پائے جاتے ہیں۔

جی ہاں آپ نے پھر بات کو گھما دیا، کیا یہ بھی ہماری طرح کے بندر ہیں۔

جی ہاں یہی سمجھ لوان میں جو انا جی کے دائیں جانب بیٹھا ہے  وہ گووند ہے۔ اس کی آنکھیں مرحوم نین سکھ کی طرح بند ہیں۔

کیسی بات کر رہے ہیں بابا میں تو اس کی آنکھوں میں سب سے زیادہ چمک دیکھ رہا ہوں

جی ہاں چمک تو ہے لیکن اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اس لئے کہ وہ حقائق کو دیکھ نہیں سکتا اور نہ اس کی  سوچ حقیقت پسندانہ ہے۔ نہ جانے یہ بیچارہ کس طلسمی دنیا میں کھویا رہتا ہے۔ کسم  چونکہ خاتون ہے اس لئے بولنا اور بولتے رہنا اس کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے وہ کچھ بھی سننے کی روادار نہیں ہے بلکہ تمہاری طرح بے تکان بولے چلی جاتی ہے۔

یہ سنتے ہی تان سین اکھڑ گیا اور بولا یہ کیا آپ ہر کسی ایرے غیرے کا موازنہ مجھ سے کر دیتے ہیں۔

کیسی باتیں کرتے ہو تان سین۔ کسم کوئی معمولی خاتون ہے۔ آج کی تاریخ میں اس کا شمار ہندوستان کی مقبول ترین خواتین میں ہوتا ہے۔

جی ہاں لیکن ہے تو عورت نا؟ آپ کا ایسا کرنا مجھے ٹھیک نہیں لگتا۔

اچھا تو کیا تم بھی عورتوں کو حقیر فقیر خیال کرتے  ہو۔

جی نہیں ایسی بات نہیں ہے میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ وجودِ زن سے تصویرِ کائنات میں رنگ۔

اگر ایسا ہے تو شکایت کرنے کے بجائے تمہیں میرا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔

جی نہیں یہ نہیں ہو سکتا آپ میرا موازنہ جس مرد سے چاہیں کر دیں لیکن کسی خاتون سے مناسب نہیں ہے۔جیسا کہ کسی خاتون کا مرد کے ساتھ تقابل نامناسب ہے۔

لیکن وہ تو اسے برا نہیں سمجھتیں مثلاً آنگ سی چو کو جب آج کا گاندھی یا منڈیلا کہا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتی ہے۔

دیکھئے مونی بابا کون کیا کرتا ہے میں نہیں جانتا۔ مجھے تو بس یہ پتہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے بابا غلطی ہو گئی معافی چاہتا ہوں مونی بابا بولے۔

خیر کوئی بات نہیں اب آپ مجھے تیسرے بندر کے بارے میں بتلائیے۔

تیسرا بند ر رمیش بالکل میری طرح ہے وہ دیکھتا اور سنتا تو سب کچھ ہے لیکن بولتا بہت کم تھا۔

اگر ایسا ہے تو بہت تیکھا بولتا ہو گا۔تان سین نے طنزیہ انداز میں کہا اور پوچھا انا جی کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں ؟

اناجی اپنی مرضی کے مالک ہیں وہ سوچتے گووند کے دماغ سے ہیں۔  دیکھتے رمیش کی آنکھوں سے اور بولتے ہیں کسم کے الفاظ میں۔ ان کا خیال ہے چونکہ گووند کو بچپن ہی میں  سنگھ  پریوار کے سنسکارمل گئے اس لئے اس کی فکر یقیناً درست ہو گی۔  رمیش ذرائع ابلاغ کی دنیا سے آیا ہے اس لئے اس کا مشاہدہ اچھا ہونا ہی چاہئے اور کسم چونکہ بہت بولتی ہے اس لئے اگر  اس کا انداز دلنشین نہ ہوا تو کس کا ہو گا  ؟

مجھے تو یہ تینوں دلائل احمقانہ معلوم ہوتے ہیں تان سین بولا

تو کیا تم اناجی کو گاندھی جی کی طرح عقلمند آدمی سمجھتے ہو؟

میں سمجھ گیا آپ بھی انہیں بے وقوف سمجھتے ہیں خیر یہ بتائیے کہ ان تینوں کے علاوہ اور کون لوگ ہی جواس تحریک کو چلانے میں انا جی مدد کر رہے ہیں

ان تینوں کے علاوہ ماہرین قانون کا بھی ایک مثلث ہے جن پر اناجی بڑا اعتماد کرتے ہیں۔ دستور کے ماہرین  میں سے ایک باپ اور دوسرا اس کا  بیٹا ہے۔تیسرا بیچارا جنوبی ہند کا ایک سابق جج ہے جسے کبھی کبھار ان سب کی حماقتوں سے الجھن بھی ہوتی ہے لیکن بہرحال وہ تحریک سے اس امید پر وابستہ ہے کہ آج نہیں تو کل لوک پال بل بن جائے گا اور اس کے بنتے ہی ہندوستان سے ساری بدعنوانی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جائے گی۔ ویسے جب اناجی کے تین بندر اپنی بے لگام زبان درازی کے باعث مسائل کھڑے کر دیتے تھے تو ا سے سنبھالنے کا ذمہ داری انہیں تینوں پر عائد ہوتی ہے اور یہ لوگ الٹی سیدھی تو جیہ کر کے عوام کو الجھا دیتے تھے۔

مونی بابا یہ بتائیے کہ اناجی کو کس نے ہیرو بنایا ان کے تین بندروں نے یا دستوری ماہرین نے ؟

مونی بابا بولے سچ تو یہ ہے کہ انا جی کو ہیرو بنانے کا اصل سہرہ نہ ہی ان کے تین بندروں کے سر جاتا ہے اور نہ ہی ماہرین دستور اس کے حقدار ہیں۔ وہ تو مرکزی حکومت کی حماقت تھی کہ اس نے انا کو گرفتار کر کے انہیں ہیرو بنا دیا۔ شاید یہ حکومت کی سوچی سمجھی سازش تھی کہ پہلے انہیں ہیرو بناؤ اور پھر اپنا ہمنوا بنا کر ان کی ساری تحریک کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈال لو۔ اسی لئے انا کو جیل میں بند کر کے ذرائع ابلاغ کے دروازے ان پر کھول دئیے گئے۔ وہ زر خرید میڈیا جو گھوم پھر کر سرکار کی جوتیاں سیدھی کرتا ہے اناجی کے حکومت مخالف بیانات منصوبہ  بند طریقہ پردن رات نشر کرنے لگا۔

مونی بابا یہ تو آپ کا نہایت سنگین الزام ہے !تان سین بولا اس سے تو پوری تحریک کے اخلاص پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے ؟

مونی بابا نے کہا یہ میرا الزام نہیں گمان ہے۔ اس کیلئے کہ میرے پاس کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے۔  مجھے تو لگتا ہے، راتوں رات اناجی کو ملنے والی عالمی شہرت دراصل میڈیا ہی کا کمال ہے۔ انا جی کو گرفتار کرنے  کے بعد حکومت ان پر مہربان ہو گئی۔ رام لیلا میدان کو ان کیلئے سرکاری خرچ پر ہموار کیا گیا۔ اس میں ان کے اور مظاہرین کی خاطر سرخ قالین بچھایا گیا اور جب سارے انتظامات مکمل ہو گئے تو اناجی رہا کر دئیے گئے اور نہایت تزک و احتشام کے ساتھ وہ اسٹیج پر تشریف لے آئے۔

تان سین یہ سب سن کر خاصہ کنفیوز ہو چکا تھا وہ بولا مونی بابا مجھے لگتا ہے کسم کی اوٹ پٹانگ تقریر کا آپ پر بھی اثر ہوا ہے جو آپ اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ انا جی نے حکومت کے خلاف دھرم یدھ چھیڑ رکھا ہے ایسے میں حکومت کی جانب سے ان کی مدد چہ معنی دارد؟

اسی کو جمہوری سیاست کہتے ہیں تان سین !جو تم جیسے بندر کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔

تان سین بولا معاف کیجئے بابا لاکھ عالم فاضل سہی لیکن آخر ہنومان جی کے ونشج تو آپ بھی ہیں۔

جی ہاں ہنومان جی کوئی شاطرسیاستداں تو تھے نہیں۔ رام جی کیلئے پل بنانے سے لے کر جنگ لڑنے کا سارا کام انہوں نے اپنی وانر سینا کے ساتھ کیا۔ راون کی لنکا نگری کو اپنی دم سے جلا کر راکھ کر دیا۔ لکشمن کو بچانے کیلئے سنجیونی بوٹی کے بجائے پہاڑ اٹھا لائے لیکن ان تمام خدمات کا انہیں کیا صلہ ملا؟ آخر بندر کے بندر ہی کہلائے۔

مگر گاندھی جی تو کہا کرتے تھے سماج کی بے لوث خدمت کرنی چاہئے۔ اس سے کسی قسم کا  مفاد وابستہ نہیں ہونا چاہئے۔

مونی بابا بولے کہتے تو سبھی ہیں لیکن کرتا کون ہے ؟ ہر کوئی اپنے مفاد کے پیشِ نظر کام کر رہا ہے۔پھر ہنومان جی نے اخلاص کے ساتھ جو کیا سو کیا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ راون کی شکست کے بعد ہنومان کی ساری خدمات کو یکسر بھلا دیا جائے ؟

تان سین بولا مونی بابا آپ بہت دور تریتہ یگ میں نکل گئے۔ اس وقت جو ہوا سو ہوا لیکن مجھے بتائیے کہ ادھرفی الحال کیا ہو رہا ہے ؟

تان سین میں وثوق کے ساتھ تو کچھ بھی نہیں کہہ سکتا لیکن مجھے ایسا لگتا ہے گویا شطرنج کی بازی بچھائی جاچکی تھی۔ ایک جانب ترنگی سیاست کے ماہر اور دوسری جانب زعفرانی راجنیتی کے دھرندر اپنی اپنی چالیں چال رہے تھے۔ درمیان میں انا جی اور ان کی ٹیم مہروں کی مانند ادھر ادھر اچھل کود رہی ہے۔ کسی کی شہ کسی کی مات کا سلسلہ جاری ہے ۔

یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟

میں نے ان کی گزشتہ بھوک ہڑتال کے وقت یہ اندازہ لگایا تھا۔ اس وقت گووند اس پر تلا ہوا تھا کہ زعفرانی پلہ بھاری ہو۔ حکومت ڈھیل دیتی جا رہی تھی کسم خوش ہو رہی تھی۔ عوام کا جوش بڑھتا  جا ریا اور انا کی صحت بگڑتی جا رہی تھی پھر ایک ایسا موقع آیا کہ ترنگیوں نے رسی کھینچ لی۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ انا جئیں یا مریں یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لوک پال بل کا مسودہ تو پارلیمانی کمیٹی بنائے گی۔ اس پر دونوں ایوان میں بحث ہو گی۔ ترمیمات کے بعد جو کچھ پاس ہو گا وہ لوک پال بل ہو گا اور جب تک یہ سب نہیں ہو جاتا کچھ نہیں ہو گا۔

لیکن آپ تو یہ کہہ رہے تھے حکومت انا کی در پردہ حمایت کر رہی ہے پھر یہ رسی کھینچنے والی بات ؟سمجھ میں نہیں آتی۔

تم در اصل سیاست کے پیچ و خم سے واقف نہیں ہو۔ جب گووند کے اڑیل رویہ کے چلتے حکومت کی توقعات پوری نہیں ہوئیں تو اس نے مجبور ہو کر اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کی گاجر کو چابک سے بدل دیا اور سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔

اس بیچ مائیک پر رمیش کی گرجدار آواز گونجی وہ بول رہا تھا بھائیو اور بہنو آپ لوگوں نے سنا ہو گا کہ سرکار نے ایک نقلی لوک پال بل لوک سبھا یعنی ایوانِ زیریں میں پاس کرنے کا ناٹک کیا ہے۔ ہم اس سیاسی  شعبدہ  بازی کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور ملک کی عوام سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس جھانسے میں نہ آئے اس لئے کہ یہ محض لیپا پوتی ہے۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ اس لئے ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ سرکار کے اس ناٹک کو بے نقاب کرنے کیلئے انا ٹیم کے ہو نہار فنکاروں نے کمار شانو کی نگرانی میں ایک ڈرامہ بنایا ہے۔ آپ لوگ تقاریر سنتے سنتے بور ہو گئے ہوں گے اس لئے یہ مختصر ڈرامہ دیکھئے۔ اس ڈرامے کے سوتر دھار کمار شانو آپ سے بات کریں گے اور درمیان میں فلموں اور اداکاروں کی مدد سے ماضی اور حال کے کچھ مناظر بھی آپ کو دکھلائے جائیں گے۔ اسی کے ساتھ اسٹیج پر ایک دبیز پردہ گرنے لگا اور سارے لوگ اٹھ کر جانے لگے۔ تان سین بولا اب آئے گا نو ٹنکی کا مزہ۔

 

 

 

نو ٹنکی :لوک پال

 

پردہ جب دوبارہ اٹھا تو ڈاکٹر کمار شانو مائیک ہاتھ میں لئے فرما رہے تھے۔ دوستو ! یہ سرکاری لوک پال بل جو ابھی ابھی لوک سبھا میں پاس کیا گیا ہے دراصل  جدیدہندوستان کی سیاسی تاریخ کا ایک نہایت اہم باب  اور عوام کو دھوکہ دینے کی ایک بہت بڑی سازش ہے۔ اگر آج انشاء جی زندہ ہوتے تو اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف اردو کی آخری کتاب میں اس کا تذکرہ ضرور کرتے۔ اردو کی پہلی کتاب تو بہت سوں نے لکھی لیکن آخری کتاب لکھنے کا شرف ابن انشاء کے حصے میں آیا۔ غزل کے مقطع میں اپنا تخلص تو سبھی استعمال کرتے ہیں لیکن مطلع کے اندر تخلص کو موتی طرح پرونے کا کمال غالباً انشاء جی نے پہلی اور آخری بار کیا اور ان کی غزل     ’’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو ’’ اردو ادب کا شاہکار کہلائی۔ اس اعلان کے بعد اسٹیج کے ایک کنارے بیٹھے ہوئے سازندوں نے طبلہ اور سارنگی پر راگ ملہار چھیڑ دیا اور ایک غزل سرا انشا جی کی غزل گانے لگا۔ تان سین بولا مونی بابا لگتا ہے یہ لوگ بھی شاعری کا بڑا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ مونی بابا نے سر ہلا کر تان سین کی تائید کی۔

غزل کے بعد کمار شانو پھر نمودار ہو گئے اور بولے خواتین و حضرات مجھے امید ہے آپ کو یہ غزل پسند آئی ہو گی لیکن اب میں آپ کو اس کلام کے بارے میں چند تلخ حقائق سے آگاہ کرا دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس شہرہ آفاق غزل کو کہنے کے بعد سناہے  انشاء جی ایسے اٹھے کہ دار فانی سے کوچ کر گئے۔راوی تو یہی لکھتا ہے کہ اس غزل کے بعد انشا ء جی نے اس جگ سے زیادہ دن دل نہ لگایا اور ۵۱ سال کی نو عمری میں اپنے شیدائیوں کو داغِ مفارقت دے گئے۔ہماری تحریک کی کامیابی کے بعد موجودہ سرکار کا بھی وہی انجام ہو گا جو انشا جی کا ہوا تھا۔ مونی بابا کو انشا جی کے متعلق کمار شانو کا یہ جملہ مناسب نہیں لگا لیکن وہ حسب معمول  خاموش رہے۔

کمار نے اپنی بات آگے بڑھائی اور بولا  اس واقعہ کو آپ اتفاق کے خانے میں ڈال  سکتے ہیں لیکن سنا ہے استاد امانت علی نے جب اس غزل کو اپنی طلسمی آواز سے زندہ کیا تو ان کی بھی واپسی کا وقت آگیا اور وہ ۵۲ سال کی عمر میں اس جہانِ  فانی سے کوچ کر گئے۔ اسے بھی اتفاق کہہ لیجئے لیکن اس کا کیا کریں گے کہ امانت علی کے بیٹے استاد امجد علی نے کئی سال بعد ڈرتے ڈرتے اس غزل کو گانے کی جرأت کی تو ان کا بھی ۴۹ سال کی عمر میں چل چلاؤ ہو گیا اب لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اتنے سارے اتفاقات یکے بعد دیگرے نہیں ہوسکتے اس غزل میں ضرور کوئی خاص بات ہے جو اچھے اچھوں کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ اسٹیج کے اوپر وائلین پر سوگ کی دھن بجائی جا رہی تھی گویا کوئی جنازہ جا ریا ہو۔

کمار نے اپنی بات آگے بڑھائی غزل میں کیا خاص ہے کوئی نہیں جانتا لیکن  لوک پال بل کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ اسے گزشتہ ۴۲ سالوں میں نو بار پیش کیا گیا اور ہر بار اژدھا صفت سیاستدان اسے نگل جانے میں کامیاب رہے۔جب بھی عوام بدعنوانی سے پریشان ہو کر لوک پال کا مطالبہ کرتی ہے وہ  ایک تماشہ رچا کراسے پیش کرتے ہیں اور پھر اس کو زہر مار کر کے اپنے اپنے بل میں لوٹ جاتے ہیں۔  اتفاقات ایک دو تین بار تو ہوسکتے ہیں لیکن نو بار لگاتار ناممکن ہے گویا کھوٹ کوشش میں نہیں نیت میں ہے۔ اسٹیج کے اوپر سے شرم شرم کے نعرے بلند ہوئے تو عوام نے بھی اس کا ساتھ دیا جس میں تان سین پیش پیش تھا۔

کمار شانو نے مسکرا کر حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بات آگے بڑھا ئی۔ نام نہاد آزاد ہندوستان میں اب تک تین خاندانوں نے حکومت کی ہے۔ نہرو خاندان، جنتا پریوار اور سنگھ پریوار اور ان تینوں نے موقع بموقع اس بل کے معاملے میں عوام کے جذبات سے کھلواڑ کیا لیکن کسی نے اسے پاس کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ ساری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی بھائی بند ہیں۔ مثل مشہور ہے چور چور موسیرے بھائی۔ ماہرینِ  سیاسیات کیلئے  یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے کہ قوم کے خزانے سے کروڑوں کروڑ روپئے ڈکار جانے والے آدم خور سیاستدان اس بے ضرر ر لوک پال سے اس قدر خوف کیوں کھاتے  ہیں ؟ اس کا نام آتے ہی ان کی سٹی پٹی کیوں گم ہو جاتی ہے ؟ اور وہ آئیں بائیں شائیں کس لئے بکنے لگتے ہیں ؟

لوگوں کی دلچسپی لوک پال میں بڑھ رہی تھی کمار نے اس کا فائدہ اٹھا کر اپنا بیان جاری رکھا لوک پال بل کو سب سے زیادہ چار مرتبہ کانگریس پارٹی نے پیش کیا اس لئے کہ اسے سب زیادہ مدت تک حکومت کرنے کا موقع میسر آیا۔ ماں، بیٹے، بہو اور نواسے سب نے اس بہتی گنگا میں ڈبکی لگا کر اپنے پاپ دھوئے یہاں تک رام  جی کی یہ گنگا میلی ہو گئی۔  کمار شانو کے اس فقرے پر سارا پنڈال تالیوں گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ مونی بابا تو صرف تالی بجا رہے تھے مگر تان سین سیٹی بھی بجا ریا تھا۔

کمار نے پھر شکریہ ادا کیا اور بولا لوک پال بل پر زور آزمائی  کرنے والوں کی فہرست میں دوسرا نمبر جنتا  پریوار کا ہے۔مرارجی دیسائی سے لیکر دیوے گوڑا تک بشمول وی پی سنگھ نے  اس آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکیں۔ ایسے میں  سنگھ پریوار کیونکر پیچھے رہتا اس نے بھی دو بار اپنی سی کو شش کی اور ہاتھ ملتے رہ گئے لیکن بل کو پاس نہ ہونا تھا  سو نہ ہوا۔ہر بار اس کے مقدر میں ناکامی ہی آئی۔ افسوس  صد ہزار افسوس کا کورس وشواس کے پیچھے گونج رہا تھا لوگ اس کی دھن پر جھوم رہے تھے۔

کمار نے کہا اس بیچ  یہ ضرور ہوا کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی کو راج نارائن نے پارلیمان کے بجائے الہ باد ہائی کورٹ میں شکست فاش سے دوچار کر دیا لیکن یاد رکھئے  وہ کارنامہ بھی شانتی بھوشن کے سر جاتا ہے جو اپنے فرزند ارجمند پر شانت بھوشن  کے ہمراہ فی الحال لوک پال کے مہا یدھ میں نہا دھو کر اترے ہوئے ہیں۔ مرارجی  نے اس بل کو  اپنے وزیر داخلہ  چرن سنگھ سے پیش کروایا لیکن چرن سنگھ نے کانگریس کی مدد سے بل پاس کروانے کے بجائے مرارجی کو فیل کر دیا اور وزیر اعظم بن گئے۔ اس مکالمے پر زوردار قہقہہ بلند ہوا۔

اٹل جی کی اولین کوشش کو جئے للیتا مار گئی اور دوسری کوشش قبل از وقت انتخاب کروا کر دوبارہ اقتدار سنبھالنے کی نذر ہو گئی۔ وی پی کی پیٹھ میں بل کے پاس ہونے سے پہلے چندر شیکھر نے چھرا گھونپ دیا تو دیوے گوڑا کو گجرال صاحب اقتدار سے بے دخل کر کے بل کو لے ڈوبے۔ گویا جو کوئی اس بل کو لاتا تھا وہ خود چلا جاتا تھا، اس بار منموہن سنگھ نے ہماری تحریک کے دباؤ میں آ کر لوک سبھا میں ایک لنگڑا لولا بل پاس تو کروا دیا لیکن اس کے راجیہ سبھا میں پاس ہونے سے قبل ممکن ہے منموہن جی  بلی چڑھ جائیں اور راہل بابا ان کی جگہ سنبھال لیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس لئے کہ اس بل کو دستوری درجہ دلانا راہل کا خواب ہے جسے وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد یقیناً چکنا چور کریں گے۔ ماضی کی روایت تو یہی رہی ہے۔

تالیوں کا شور جب تھما تو کمار بولا جب ماضی کا ذکر ہوا تو میں آپ کو مغلیہ دور کا ایک واقعہ یاد دلا دوں۔ابن انشاء نے اپنی اردو کی آخری کتاب میں مختلف مایہ ناز ہستیوں کے ہمراہ مغل بادشاہ سلیم جہانگیر کا تذکرہ بھی کیا ہے لیکن بدقسمتی سے  انشاء جی کو شورش کاشمیری کا ڈرامہ انارکلی اور کے آصف کی فلم مغل اعظم دیکھنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی اس لئے انہوں نے غلطی سے جہانگیر کی بیوی کا نام انارکلی کے بجائے نورجہاں لکھ دیا۔ اب اس کا فیصلہ کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ ان تینوں  تاریخ ساز ہستیوں میں صحیح کون تھا؟ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سب کے سب غلطی پر ہوں ۔

اس کنفیوژن کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں نورجہاں کے کئی نام ملتے ہیں ممکن ہے اس کا ایک نام انارکلی بھی رہا ہو جسے مورخ قصداً یا سہواً  رقم کرنا بھول گیا ہو جیسا کہ ہمارے صحیفوں سے بھول چوک ہوتی رہتی ہے۔ گمان غالب  ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی طرح جو موقع بموقع اپنی پارٹی کا نام بدلتے رہتے ہیں  نورجہاں بھی مختلف سیاسی مجبوریوں کے تحت مختلف نا م رکھ لیا کرتی تھی۔ سیاست کی دنیا میں نام چاہے جتنے بدلے جائیں کام نہیں بدلتا۔اندراکانگریس اپنا نام بدل کر انڈین نیشنل  کانگریس رکھ لے تب بھی اس کی آمرانہ فطرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اگر جن سنگھ اپنا چولہ بدل کر بی جے پی کا روپ دھارن کر لے تب اس میں وہی  فسطائی روح کارفرما رہتی ہے۔

جنتا پریوار  چا ہے جس قدر بھیس بدلے اس پر ابن الوقتی کا بھوت ہر صورت سوار  رہتا ہے۔ہندوستانی سیاست میں جنتا پریوار نے جتنے رنگ بدلے ہیں اس کا شمار کر کے تو شاید گرگٹ بھی شرما جائے اگر ان تمام رنگوں کا ذکر مع اسباب کیا جائے تو یہ ڈرامہ  سیاست کی تربت پر آخری کیل بن جائے گا۔ کمار جب یہ کتھا سنا رہا تھا تو استٰج پر مختلف لوگ مختلف سیاستدانوں کا بھیس بدل کر نمودار ہوتے تھے اور غائب ہو جاتے تھے۔ روشنیوں کا یہ کھیل آنکھوں کو بہت سہانا لگتا تھا لیکن اب سارا استٰج مغلیہ سلطنت کے ایک محل میں تبدیل ہو گیا تھا۔

کمار شانو بتدریج اپنے سامعین اور ناظرین کو ڈھائی تین سو سال کی پرانی دنیا میں لے گیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا تاریخ کے صفحات میں نورجہاں کی بڑی تعریف و توصیف ملتی ہے۔ اس کے حسن و جمال کے چرچے تو امراؤجان سے زیادہ ہیں۔ ویسے بھی مغلیہ عہدِ سلطنت میں جبکہ ہندوستان سونے کی چڑیا ہوا کرتا تھا کس مؤرخ کی کیا مجال تھی کہ ملکہ کو بدصورت کہتا؟ جس طرح ہمارے صحافی حضرات آج کل گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر اصحاب اقتدار  کے گن گاتے ہیں یا  خوف کھاتے  ہیں اسی طرح کی آزادی و حریت کا ماحول مغلیہ دور میں بھی تھا اسی لئے راوی بہر صورت چین لکھتا تھا۔

ویسے تاریخی شواہد سے علی الرغم اگر علمِ قیاس سے بھی مدد لی جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا نورجہاں بے حد خوبصورت تھی ورنہ سلیم جہانگیر  اپنے گورنر شیر افگن کا قتل کروا کر اس کی ۳۴ سالہ بیوہ سے نکاح کرنے کی غلطی کیوں کرتا؟اسی کے ساتھ شہنائی کا مدھر میں جودھا اکبر کا نغمہ ’’کہنے کو جشن بہاراں ہے ‘‘گونجنے لگا یہ گویا جہانگیر اور نورجہاں کی شادی کا اعلان تھا لیکن اس کے بعد ہی اچانک گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دینے لگی۔

کمار نے بتایا خواتین و حضرات آگے کی کہانی مغل اعظم کی طرح نہ تو کوئی رومانی داستان ہے اور نہ جنگ جدال کا قصہ بلکہ عدل و انصاف کا درد بھرا افسانہ  ہے۔ اس میں نہ رقص و سرود کی کوئی محفل ہے اور نہ شہنشاہ اکبر کا جاہ و جلال اس لئے کہ  ملکہ نورجہاں بے چاری انارکلی کی طرح رقاصہ نہیں ما ہر شکاری تھی۔ سنا ہے اندرا گاندھی کی مانند اس کا نشانہ کبھی بھی خطا نہ ہوتا تھا۔ اس کا پہلا شکار تو شیر افگن تھا جس نے شیر کے جبڑے میں ہاتھ ڈال کر ڈان کے بچن کی طرح اسے پھاڑ دیا تھا۔شیر افگن کی اس دلیری سے متاثر ہو کر شہنشاہ اکبر نے اسے اپنی ایک ریاست کا گورنر بنا دیا۔ ا س کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ جب  جہانگیر نے دھوکے سے اسے اپنے سوتیلے بھائی قطب الدین کے ذریعہ اسے بلوا بھیجا اور اپنے وفادار فوجیوں سے گھیر لیا تو وہ جاتے جاتے بھی قطب الدین کو اپنے ساتھ ملکِ عدم  لے گیا۔

مگر تاریخ کے صفحات پر یہ بھی درج ہے کہ شیر دل شیر افگن اپنی زوجہ محترمہ نورجہاں کے آگے بھیگی بلی بنا رہتا تھا (جو اس وقت مہرالنساء یعنی عورتوں کی چاند کہلاتی تھی)اور کیوں نہ بنتا وہ اس  کے دل کی ملکہ جو تھی۔ خیر شیر افگن کی مہرالنسا ء نے جب جہانگیر کے محل کو منور کیا تو جہانگیر نے اس کو نور محل کے خطاب سے نوازا لیکن جب نور محل کو پتہ چلا کہ اس کے شوہرِ نامدار  کا لقب جہانگیر ہے تو اس نے بھی اپنے نام میں محل کو ہٹا کر جہاں سے بدل دیا اور نور جہاں کہلانے لگی۔ نور جہاں کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس نے اپنے شوہر کے آخری ایام میں اپنے نام کا سکہ تک جاری کر دیا تھا۔

کمار نے ہنس کر کہا کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ دورِ جدید میں پہلی مرتبہ مغرب کے طفیل  خواتین کو مساوات کا حق حاصل ہوا  ہے اور وہ  طاقتور ہوئی ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی اور رضیہ سلطانہ وغیرہ پرانے زمانے کی خواتین تھیں اور یوروپ سے نہیں آئی تھیں بلکہ اسہ بھارت ماتا کی گود میں پلی بڑھی تھیں۔ اس بات پر بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگنے لگے لیکن جب اسٹیج سے گولیوں کی ٹھائیں ٹھائیں سنائی دینے لگی تو سب کو سانپ سونگھ گیا اور لوگ خاموش ہو گئے۔

کمار بولا یہ جو شور آپ سن رہے ہیں یہ نورجہاں کی بندوق سے نکلنے والی گولیوں کی آواز ہے جسے ہمارے نمائندے نے ٹیپ کر کے اپنے موبائل میں محفوظ کر لیا تھا۔ تان سین بولا مونی بابا جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس زمانے میں کہاں کا موبائل اور کیسا ٹیپ یہ تو کھلی بکواس کر رہا ہے۔  مونی بابا نے منہ پر سے ہاتھ ہٹا کر ہونٹوں  پر صرف انگلی رکھ دی جو خاموش رہنے کا اشارہ تھا۔کمار بول رہا تھا نورجہاں  کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے ایک مرتبہ چار گولیوں سے چھے عدد شیر ڈھیر کر دیئے۔آپ سوچ رہے ہیں ہوں گے کیا نورجہاں کسی فلم کی شوٹنگ کر رہی تھی اس لئے کہ ہندی فلموں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن حقیقت میں بھلا یہ کیونکر ممکن ہے ؟ دیکھئے حضرات حکمرانوں کے بابت  اس طرح کا احمقانہ سوال نہ اُس وقت کیا جاتا تھا اور نہ اب کیا جاتا ہے۔

ان شیر وں میں سے ایک  شیرسنگھ نام کا  دھوبی بھی تھا جو اپنے کتے کے ساتھ عامر خان کی آئندہ فلم دھوبی گھاٹ کے سیٹ پر ایکسٹرا کا رول کرنے کیلئے جا ریا تھا جیسا کہ لو گ ہمارے مظاہرے میں وندے  ماترم کا نعرہ لگانے کیلئے آ جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وندے  ماترم کا ترانہ اسٹیج سے گایا جانے لگا اور لوگ درمیان میں ہرہر مہادیو کا نعرہ لگانے لگے۔ کمار وشوس کی اس حرکت نے ان زعفرانی شرکاء کو باغ باغ کر دیا جو نورجہاں کی تعریف سے پیچ و تاب کھا رہے تھے۔

کمار کو دورانِ ترانہ اطمینان سے بیٹھ کر چائے شائے پینے کا موقع مل گیا۔ نیچے پنڈال میں بیٹھے ہوئے لوگ اسے نہیں دیکھ پا رہے تھے لیکن پیڑ کے اوپر سے تان سین اور مونی بابا کو یہ منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ترانے کے بعد تر و تازہ کمار بولا بیچاری نورجہاں  کا کوئی ارادہ  دھوبی کو ہلاک کرنے نہیں تھا بلکہ اس روز ملکہ اپنی عینک گھر پر بھول گئی تھی جس کی وجہ سے اس نے غلطی سے دھوبی کے کتے کو دور سے شیر سمجھ لیا اور اس کی گولی جب کئی شیروں کے اندر سے کھستی نکلتی کتے کی جانب بڑھی تو کتے نے بڑی صفائی سے اسے جھانسہ دے دیا۔

تان سین نے کہا مونی بابا یہ تو داستان گوئی میں آپ سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ مونی بابا بولے میں نے کب آپ اپنی مہارت کا دعویٰ کیا ہے ؟ تان سین نے کہا ویسے آپ دونوں میں بس ۱۹ اور ۲۰ کا فرق ہے۔ مونی بابا بولے اپنی بکواس بند کرو اور وہ دیکھو اسٹیج پر کیا ہو رہا ہے۔ اس وقت اچانک اسٹیج کرکٹ کا میدان نظر آنے لگا اور اس شعیب ملک کی گیند بازی  پر سچن تندولکر کو چوکے چھکے مارتے ہوئے دکھلایا جانے لگا۔

کمار نے اپنی بات جاری رکھی دیویو اور سجنّو دراصل دھوبی کا کتا کرکٹ کا شوقین تھا اسے پتہ تھا کہ جب راولپنڈی ایکسپریس شعیب ملک باؤنسرگیند پھینکتا ہے تو لٹل ماسٹر سچن تنڈولکر کس طرح اسے ڈک کر  دیتا ہے۔ کتے نے سر جھکا کر گولی کو ڈک کیا اور گولی ٹھک سے دھوبی کے بھیجے میں گھس گئی۔ اس حادثے  میں دھوبی کے علاوہ سارے لوگ  بے قصور تھے۔ دھوبی کا قصور یہ تھا وہ عام آدمی طرح خواب غفلت میں مبتلا تھا۔

بے چاری نورجہاں کو تو نہ یہ پتہ تھا کہ وہ شیر نہیں بلکہ کتا ہے جس پر وہ نشانہ سادھ رہی ہے اور ساتھ ہی اسے اس بات کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ کتا بلا کی پھرتی سے اپنے گووند بھائی کی مانند خود تو بچ کر نکل جائے گا اور دھوبی کو انا جی کی طرح  ہسپتال میں پہنچا دے گا۔ یہ سن کر گووند نے کسم سے کہا تم لوگوں کو نہیں لگتا کہ کمار اپنے حدود کو پھلانگ رہا ہے ؟ رمیش بولا یہ ناٹک ہے اس میں تھوڑا بہت مذاق چلتا ہے۔ اس لئے برداشت کر لینا چاہئے۔

کمار اپنی ترنگ میں بولے جا ریا تھا  انا جی تو خیر خوش قسمت تھے جو وہ اروند بھائی کی چالبازی کے باوجود بچ نکلے لیکن بیچارہ دھوبی ’’دھوبی گھاٹ‘‘ کے سیٹ سے سیدھا پرلوک سدھار گیا تاکہ یم دوت کے لوک پال سے اپنی شکایت درج کرائے ۔عامر خان نے اس  موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دھوبی کے سوگ میں شوٹنگ کو منسوخ کر کے ٹی وی والوں کو بلوا بھیجا۔ایسے میں کسی چینل والے کی مجال نہیں تھی کہ عامر خان کی دعوت کو ٹھکرائے سب کے سب اس کے سیٹ پر تام جھام کے ساتھ جا پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں عامر خان قیامت سے قیامت تک مگر مچھ کے آنسو بہا رہا ہے۔ اسٹیج پر عامر خان کا ہم شکل اخبار نویسوں کے سوالات کا جواب دے رہا تھا۔

اسٹیج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا ایک طرف پارلیمان کے ایوانِ بالا میں لوک پال بل کے نام پر کھیلے جانے تماشے کا انتم سنسکار ہو رہا تھا۔ مختلف سیاستدان اپنے اپنے انداز میں اس کی لاش پرٹسوے بہا رہے تھے دوسری طرف دھوبی گھاٹ کے سیٹ پر دھوبی کی موت کا ماتم ہو رہا تھا۔ ٹی وی والے دونوں مناظر بدل بدل کر دکھلا رہے تھے اور ناظرین اپنے ٹی وی سے فیویکول لگا کر چپکے ہوئے تھے۔ مارنے  والی نورجہاں اور بچنے والا کتا دونوں پیڑ پر بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ تان سین نے چونک کر پوچھا بابا کہیں یہ اشارہ ہماری جانب تو نہیں۔سیاستدانوں کے ساتھ عامر خان کی فلم کے سپر ڈپر ہونے کا راستہ  بھی ہموار ہو رہا تھا۔

ناٹک نہایت دلچسپ موڑ پر پہنچ گیا تھا۔ عامر خان کے ہم شکل نے اپنی ادا کری سے مجمع کا دل جیت لیا تھا۔ سارے لوگ بشمول تان سین اور مونی بابا ڈرامے میں پوری طرح  پہلے غرق ہو گئے  تھے کہ اچانک زور زور سے بجنے والی گھنٹی کی آواز نے سب کو چونکا دیا اور اس کے بعد نورجہاں کی گرجدار آواز گونجی ارے یہ کیا ؟ یہ کون لوک پال تک پہنچ گیا۔ ہمارے وہ سارے پہرے دار کہاں مر گئے جن کو اس خوبصورت انصاف کی گھنٹی کے آس پاس اس غرض سے تعینات کیا گیا تھا کہ وہاں کوئی انسان تو کجا پرندہ بھی پر نہ مار سکے۔تان سین نے حیرت سے مونی بابا کو دیکھا تو وہ سارے عالم سے بے خبر اسٹیج کو گھور رہے تھے۔

نورجہاں کے دستِ راست وزیر اعظم نے اس سنگین معاملے کو فوراً تحقیقات کی خاطر راج دربار گیارہ رتنوں کے سونپ دیا۔ تان سین پوچھا اکبر کے تو نو رتن تھے یہ گیارہ کیسے ہو گئے ؟ مونی بابا نے آئی پیڈ پر لکھا دو کو نورجہاں نے اپنی جانب سے نامزد کر دیا ہو گا؟ اس میں حیرت کی کون سی بات ہے۔ خاموش رہو ورنہ میں اس شاخ سے نو دو گیارہ ہو جاؤں گا۔

کمار کہہ رہا تھا۔راج درباریوں  نے بلا توقف اپنا کام پورا کیا اور تفتیش کر کے بتلایا کہ دھوبی کی بیوی کتے سے بھی زیادہ چالاک نکلی۔ وہ فریادی کے بجائے انارکلی کی بہن چمپا چمیلی کا بھیس بدل کر محل کے اس حصے میں پہنچ گئی جہاں گھنٹی نصب تھی اور ’’تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے ‘‘کی تال پر رقص کرنے لگی۔ محافظوں کو اس پر ذرہ برابر شک نہ ہوا وہ بھی اس کے ساتھ جھوم جھوم کر ناچنے گانے لگے جیسا کہ سلمان خان کی فلموں میں ہوتا ہے (پس منظر میں دبنگ ۲ کا سپر ہٹ گانا بج رہا تھا: تھانہ میں بیٹھے آن ڈیوٹی  بجائے ہائے پانڈے جی سیٹی بج رہا تھا)۔ اس گانے کا بجنا تھا کہ مجمع بے قابو ہو گیا اور ناچنے تھرکنے لگا۔ ایک عجیب طوفانِ بدتمیزی برپا ہو گیا۔

کمار بولا انارکلی جب آپ لوگوں کی مانند جھومتے ناچتے گھنٹی کے قریب آ گئی تو یکلخت رقص چھوڑ کر زور زور سے گھنٹی بجانے لگی جس کا شور ٹیلی ویژن کے توسط سے ہر گھر میں پہنچ گیا۔ اس ناگہانی صورتحال میں  نور جہاں کو لامحالہ  انصاف کا ترازو نکالنے کا حکم دینا پڑا۔ بڑی کھوج بین کے بعد اسے تلاش کیا گیا خوب محنت و مشقت سے اس زنگ آلود میزان کو صاف کر کے چمکایا گیا اور بالآخر گھنٹی کی جگہ اس چمچماتے ہوئے  ترازو کو لٹکا دیا گیا۔ اب اسٹیج پر دیو ہیکل گھنٹی کی جگہ ایک بہت بڑا ترازو جھول رہا تھا اور گانا بج رہا تھا انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے۔

تان سین نے پوچھا بابا یہ کمار شانو پل بھر میں کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ مونی بابا نے آئی پیڈ پر لکھا سمجھنے سمجھانے کے چکر میں نہ پڑو یہ بولو کہ مزہ آ رہا ہے یا نہیں۔ مزہ ؟ مت پوچھئے بابا بہت مزہ آ رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بیچ  بیچ میں سوال کر کے میرا مزہ کیوں خراب کرتے ہو؟ تان سین نے معذرت چاہی اور اسٹیج پر نمودار ہونے والے ایک نئے کیف آگیں منظر کو دیکھنے لگا جہاں مرحوم سہراب مودی کا ہم شکل نریندر مودی کی آپ بیتی پر رتن ٹاٹا کی مدد سے پکار۲ بنا نے کا اعلان کر رہا تھا۔ نریندر مودی کی قد آدم تصویر دیکھ کر زعفرانی مجمع پھر تالی بجانے لگا۔

کمار بولا یہ مودی کی سدبھاؤنا کی مہم کا ایک حصہ ہے اور مسلمانوں کو لبھانے کی ایک نادر کوشش۔ مودی کے چمچوں نے چاپلوسی میں یہ  دلیل پیش کی ہے کہ اگر ڈان ۲ بن سکتی ہے تو عدلِ جہانگیری پر منحصر پکار ۲ کیوں نہیں  بن سکتی۔ ویسے بھی اب لوگ رجنی کانت چھاپ اچھل کود سے بور ہونے لگے ہیں ورنہ شاہ رخ کی راون فلاپ نہیں ہوتی؟مودی اپنی فلم اتار رہا تھا اور ہم لوگ  پھر سے رام لیلا میدان پر ایک اور احتجاج کا منصوبہ بنا رہے تھے لیکن اس  بار چونکہ دہلی  میں سردی بہت زیادہ تھی اور حکومت کی جانب سے بھی کافی سردمہری کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ نہ ہماری مخالفت ہو رہی تھی اور نہ ذرائع ابلاغ میں ہم لوگ موضوع بحث بن رہے تھے  اس لئے ہمارے مغلِ اعظم ا نا جی نے ممبئی کی  مایا نگری کا رخ کیا  اور ہم لوگ آپ لوگوں کی خدمت میں اپنا کنبہ قبیلہ لے کر حاضر ہو گئے۔

گووند نے یہ سنا تو بھڑک کر بولا یہ کمار تو اندر کے راز بیچ چوراہے پر کھول رہا ہے۔ کہیں اس کا دماغ تو خراب نہیں ہے ؟ مجھے تو لگتا ہے ہمیں یہ تماشہ بند کروا دینا چاہئے۔  کسم بولی جی ہاں لیکن ہم اچانک بند بھی کیسے کرسکتے ہیں ؟گووند بولا یہ کون سا مشکل کام ہے ؟ ہم بجلی کا فیوز اڑا دیں گے روشنی اور مائیک دونوں اپنے آپ بند ہو جائیں گے۔ نیز اس کا الزام سرکار پر ڈال کر ایک بڑی خبر بھی بنا لیں گے۔ ر میش نے کہا یار کیا بات کرتے ہو۔ لوگوں کا کچھ تو خیال کرو دیکھو یہ کس دلچسپی اسے دیکھ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہماری کسی تقریر نے انہیں اپنی جانب اس طرح متوجہ نہیں کیا۔ یہ ممبئی ہے یہاں یہ سب ضروری ہے۔

کمار عوام کا انہماک دیکھ کر خوشی پھولا نہیں سما رہا تھا اس نے کہا ہمیں امید تھی کہ ممبئی کی عوام ہمارا یہ کالو بالو کے بہورنگی تماشے کو دیکھنے کیلئے جوق در جوق فلمستان اسٹوڈیو کے قریب ایم ایم آر ڈی اے کے میدان میں پہنچ جائے گی لیکن اسی موقع پرسونیا جی نے کنگ خان کو دھمکی دے کر ڈان ۲ ریلیز کروا دی اور آپ لوگوں کیلئے دھرم سنکٹ کھڑا ہو گیا اکثر لوگوں نے انا جی پر شاہ رخ کو ترجیح دی لیکن مبارکباد کے قابل آپ لوگ ہیں جو اس جھانسے میں نہیں آئے اور ڈان  ۲کی قربانی دے کر انا جی کے دوسرے احتجاج میں تشریف لے آئے۔

ویسے جو لوگ نہیں آئے ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ دراصل ان کا بھی کوئی قصور نہیں  وہ بیچارے انا جی کی ایک  سی تقریر سن سن کر اوب  چکے تھے سچ تو یہ ہے عوام کو انا کے بھاشن یاد ہو گئے ہیں اس لئے غالباً وہ  اپنی زبان کا ذائقہ بدلنے کی خاطر جاوید اختر کے مکالمے سننے کی خاطر ڈان کی جانب نکل گئے لیکن ہمیں امید ہے کہ جب انہیں ہمارے اس ناٹک کی خبر ملے گی تو وہ کل سے اس مفت تفریح سے لطف اندوز ہونے کیلئے ضرور یہاں آنے لگیں گے۔ اب آپ لوگ یہ بتائیں کہ آپ اس کا پرچار کریں گے یا نہیں ؟ سارے لوگوں نے ایک آواز ہو کر کہا ضرور کریں گے اور ہم بھی دوبارہ آئیں گے۔ کمار نے کہا شکریہ  بہت ۔۔۔۔بہت۔۔۔۔۔۔پبلک بولی شکریہ بابا شکریہ۔

اسٹیج کا منظر بدل رہا تھا ہندوستانی پارلیمان کا منظر نمودار ہو گیا تھا اور ایوان میں انصاف کا ترازو ہچکولے کھا رہا تھا۔ پارلیمان کے سیٹ پر نورجہاں کے لباس میں سونیاجی براجمان تھیں۔ جہانگیر کی طرح بیمار و لاغر منموہن بھی لیٹے ہوئے تھے لیکن شرکاء کو اس بار نہ ہی اناجی اور نہ منموہن  میں کو ئی خاص دلچسپی تھی۔ ساری نظریں حیرت سے ترازو کو دیکھ رہی تھیں جہاں سشما جی کی ہم شکل دھوبن کا لبا س پہن کر براجمان تھیں اور انصاف کی دہائی دے رہی تھیں، سونیا جی نے اپنے شاہانہ انداز میں انصاف کا یقین دلایا اور بحث کا آغاز ہو گیا۔

خوب شور شرابے کے بعد آخر میں جب رائے شماری کا وقت آیا تو نورجہاں نے  لاغر و مسکین جہانگیر کی جانب اشارہ کر کے کہا مظلوم دھوبن تمہارے ساتھ انصاف ہو گا۔ تمہارے سرتاج کو ملکہ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے اس لئے انصاف کا تقاضہ ہے کہ تم بھی اسی بندوق سے جس سے کہ دھوبی مارا گیا ہے موجدہ  تاجدار کو بھون دو۔ انصاف کی دیوی کے آگے راجہ اور رنک  سب برابر ہیں۔ سونیا جی بنام نورجہاں کا یہ عدلِ جہانگیری دیکھ کر  پنڈال میں بیٹھے سارے ترنگی ہمنوا فرطِ مسرت سے جھوم اٹھے اور ’’سونیا جی زندہ باد۔ راہل جی آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘کے نعرے لگانے لگے۔

اسی کے ساتھ عامر خان کا ہم شکل اسٹیج پر آیا اور بولا نورجہاں کے اس دھوبی پچھاڑ سے میں اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ میں نے اپنی فلم جس کے سیٹ پر دھوبی شیر سنگھ ہلاک ہوا تھا  کا نام دھوبی گھاٹ سے بدل کر دھوبی پچھاڑ رکھ دیا۔نورجہاں کے تیور دیکھ کر شاہ رخ خان کا ہم شکل سامنے آیا اور بولا کاش کہ میری ڈان ۲ میں بھی کوئی ایسا ٹووسٹ ہوتا تو وہ بھی ڈان ۱ کی مانند سپر ڈپر ہٹ ہو جاتی۔

منموہن  جہانگیر بنے تھر تھر کانپ رہے تھے ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ سشما کیلئے نیا دھرم سنکٹ کھڑا ہو گیا تھا اس نے سوچا اگر اس موقع پر منموہن کی بلی چڑھ جائے تو راہل بابا ان کی ارتھی پر اپنی سیاسی روٹیاں سینک کر اقتدار پر قابض جائے گا اور اپنے باپ راہل سے زیادہ نشستیں پائے گا پھر اسے ہٹانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے سشما جی نے پینترا بدلہ اور اپنے دھوبی کا خون بہا لے کر لوک سبھا میں لوک پال کا قانون توپاس کروا دیا لیکن اسے دستوری درجہ سے محروم ہی رکھا اور ایوانِ بالا میں اس کا قلع قمع کرنے کی منصوبہ بندی میں لگ گئیں ۔

اسٹیج پر بنے ایوانِ زیریں کے سیٹ پر جیسے ہی لوک پال کا قانون پاس ہوا انصاف کا ترازو ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ دوبارہ گھنٹی نصب کر دی گئی جس پر جلی حروف میں لوک پال لکھا ہوا تھا۔  اس گھنٹی کے اطراف سخت پہرے کے علاوہ کیمرے بھی نصب کئے جا رہے تھے تاکہ دوبارہ کسی فریادی کی  فریاد رس گھنٹی تک رسائی ممکن نہ ہوسکے۔ کمار کہہ رہا تھا سیاست کی میزان پر یہ الٹ پھیر کیسے ہوا یہ آپ نے دیکھا۔ اب آگے کیا ہو گا یہ جاننے کیلئے آپ کو تاریخ کی نہیں حساب کی کتاب پڑھنی ہو گی جس کا پہلا سبق خود انشا جی سے پڑھئے۔ اسی لمحہ گول گول عینک لگائے ایک شاعر نما آدمی اسٹیج پر آتا ہے کمار اس کا استقبال کرتے ہوئے کہتا ہے آئیے آئیے ماسٹر انشاء جی۔ اسی کے سا تھ انشاء جی اپنی پر ترنم آواز  میں ایک اور نظم سنانے لگتے ہیں   ؎

حساب کے چار بڑے قاعدے  ہیں

جمع، تفریق، ضرب، تقسیم

پہلا قاعدہ : جمع

جمع کے قاعدے پر عمل کرنا آسان نہیں

خصوصاً مہنگائی کے دنوں میں سب کچھ خرچ ہو جاتا ہے

کچھ جمع نہیں ہو پاتا

جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کیلئے مختلف ہے

عام لوگوں کیلئے ۱+ ۱=۱

کیونکہ ۲/۱ (یعنی آدھا) انکم ٹیکس والے لے جاتے ہیں

تجارت کے قاعدے سے جمع کرائیں تو ۱+۱ کا مطلب ہے گیارہ

رشوت کے قاعدے سے حاصلِ جمع اور زیادہ ہو جاتا ہے

قاعدہ وہی اچھا جس میں حاصلِ جمع زیادہ آئے بشرطیکہ پولیس مانع نہ ہو

ایک قاعدہ زبانی جمع خرچ کا ہوتا ہے

یہ ملک کے مسائل حل کرنے کا کام آتا ہے

آزمودہ ہے

لوگ اس وجد آفرین نظم کے سحرجھوم رہے تھے پردہ گر رہا تھا اور تان سین مونی بابا سئے کہتا ہے بھئی مونی بابا  نو ٹنکی کا مزہ آئے گا پیسہ وصول میں تو اناجی اور ان تین بندروں کے بجائے کمار شانو کا دیوانہ ہو گیا ہوں۔

 

 

 

پہلے بندر یا انسان

 

ناٹک کے بعد جب انا ٹیم دوبارہ اسٹیج پر آئی تو اچانک  رمیش کی تیز نگاہ تان سین اور مونی بابا پر پڑی ۔ رمیش کچھ دیر انہیں دیکھ کر اپنے تئیں غور کرتا رہا جب اس کا شبہ یقین کے حدود میں داخل ہو گیا تو اس نے گووند سے کہا ان بندروں کو دیکھو مجھے لگتا ہے کہ ہمارے دشمنوں نے جلسہ کو درہم برہم کرنے کی خاطر انہیں بھیجا ہے۔

گووند سے پہلے کسم بولی ہمارے آگے حکومت تھر تھر کانپ رہی ہے ایسے میں یہ بندر ہمارا کیا بگاڑ لیں گے ؟

رمیش نے کہا کسم عقل کے ناخن لو اور ہوش میں آؤ ویسے بھی اس بار لوگوں کی دلچسپی بہت کم ہے لگتا ہے گووند کے پریوار نے ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ اب اگر یہ پیڑ سے اسٹیج پر کودتے ہیں تو سب سے پہلے تم ہی یہاں سے بھاگو گی اور مجمع میں گھس کر دوچار کو کاٹ کھاتے ہیں تو دیکھتے دیکھتے میدان صاف ہو جائے گا۔

کسم بگڑ کر بولی تم نے مجھے ایسا بز دل سمجھ رکھا ہے۔ تم نہیں جانتے میں پولس کمشنر کے عہدے پر فائز رہ چکی ہوں۔

جی ہاں مجھے پتہ ہے۔ اور ہمیشہ دس بارہ سپاہیوں کی حفاظت میں اپنی دلیری کے جوہر دکھلاتی پھرتی تھیں لیکن فی الحال ہمیں اپنا تحفظ آپ کرنا ہے۔

اس سے پہلے کہ کسم جواب دیتی گووند نے مداخلت کی اور بولا کسم تم چپ رہو بلکہ جب ہم ان بندروں کو پکڑ لیں تو عوام کو اور پریس والوں کو آگاہ کرو کہ کس طرح حکومت ہمیں زیر کرنے کی سازشیں رچ رہی ہے اور ہم انہیں ناکام بناتے چلے جا رہے۔  مجھے تو رمیش کے خدشات درست معلوم ہوتے ہیں اور اگر غلط بھی ہوئے تو کم از کم اس سے ٹی وی پر ایک لایعنی بحث شروع ہو سکتی جو یقیناً ہماری شہرت کا سبب بنے گی۔

اور اگر ان بندروں کا حکومت سے کوئی تعلق نہ ہوا تو؟ کسم نے سوال کیا

یہ کیسے ثابت ہو گا ؟ بندر تو بولنے سے رہے ان کے بارے میں جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی سچ مانا جائے گا۔میڈیا میں تو یہی ہوتا ہے۔ رمیش نے کہا۔

بات معقول تھی لیکن پھر بھی کسم بولی مجھے لگتا ہے ہم لوگ بلا وجہ ایک غیر ضروری مسئلہ میں اپنے آپ کو الجھا رہے ہیں۔

گووند بگڑ کر بولا کسم میں تم سے جو کہہ چکا ہوں تم وہ کام کرو ان بندروں کا کیا اعتبار۔ ان کے پاس دماغ تو ہوتا نہیں ہے۔  وہ تو خیر ہنومان رام کے ہتھے چڑھ گیا اگر راون کے ہاتھ لگ گیا تو وہ لنکا کے بجائے ایودھیا کو جلا کر خاک کر دیتا۔ اب حکومت کے بجائے ہم انہیں اپنے مفاد میں استعمال کریں گے۔ کل تمام ہی ٹی وی چینلس پر یہ بندر ہوں گے اور ہمارا دھرنا ہو گا۔ رمیش دیکھو ان کو پکڑنے کی کارروائی مختلف زاویوں سے شوٹ ہو نی چاہئے اور کسم تم ان کی حفاظت کا پختہ انتظام کر نا کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت ان کا انکاؤنٹر کر کے سارے شواہد یکلخت مٹا دے۔

مونی بابا سمجھ گئے کہ انہیں زیرِ دام کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں انہوں نے تان سین سے کہا یہ لوگ اب ہمیں گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے۔

کیوں ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ؟ہم تو ان کی تحریک میں شریک ہونے کیلئے آئے ہیں۔

یہ صحیح ہے لیکن انہیں شک ہو گیا ہے۔  وہ ہمارے ذریعہ اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔

تو ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ بھاگ چلیں اپنے ماروتی مندر طرف؟

نہیں مونی بابا نے کہا ہم گاندھیائی طریقہ سے پر امن گرفتاری دیں گے۔

لیکن ایسا کرنے سے کیا فائدہ ؟ اس سے نہ بدعنوانی کا خاتمہ ہو گا اور نہ  اپنا والا جن لوک پال  بل پاس ہو گا۔

جی ہاں بدعنوانی کا خاتمہ تو جن لوک پال بل کے بن جانے کے باوجود نہ ہو گا لیکن ہم لوگ اس تحریک کو قریب سے دیکھ سکیں گے۔ آخر پتہ تو چلے کہ گاندھی جی کی اصلی اور نقلی تحریک میں کتنا فرق ہے۔اب کیا تھا تان سین بھی منصوبہ بند طریقہ پر مونی بابا بن گیا اور دونوں بلا چوں چرا گرفتار ہو گئے۔ انہیں عارضی طور پر انا ٹیم کے رہا ئشی ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں سے ایک میں پہنچا دیا گیا۔

انا ٹیم کو امید نہیں تھی کہ یہ بندر اس قدر آسانی سے دام میں آ جائیں گے۔  ایسے تو کوئی انسان بھی سپر نہیں ڈالتا اور پھر چنچل بندر کی ذات۔ ویسے اس آسانی نے انا ٹیم کیلئے ایک نئی مشکل کھڑی کر دی۔ وہ سارے اندیشہ جو رمیش کو لاحق ہوئے تھے دیکھتے دیکھتے خاک میں مل گئے اور وہ منصوبے جو گووند کے دماغ میں کلبلا رہے تھے ان کی بھی نیا ّ ڈوب گئی۔ کسم بولی اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ کانگریس کے سدھائے ہوئے بندر ہیں۔

گووند اس جملہ کو سن کر چونک پڑا۔ وہ بولا اچھا یہ انکشاف تم پر کیونکر ہو ا؟ مجھے تویہ معمولی قسم کے بندر لگتے ہیں جو کسی مداری سے پیچھا چھڑا کر یہاں پہنچ گئے تھے۔

رمیش نے چٹکی لی بالکل تمہاری طرح جیسے تم سنگھ پریوار سے بھاگ کر ڈگڈگی بجانے کیلئے یہاں چلے آئے ؟

تان سین کا جی چاہا کہ پلٹ کر جواب دے ہم کوئی معمولی بندر نہیں بلکہ گاندھی جی کے تین میں سے دو ہیں اور تم جیسے پاکھنڈیوں سے کہیں بہتر ہیں لیکن چونکہ مونی بابا کی سخت تاکید تھی کہ کسی صورت زبان نہ کھولے اس لئے دل مسوس کر رہ گیا۔

گووند بولا دیکھو رمیش ڈگڈگی بجانے کا کام فی الحال تمہارے ذمہ کیا گیا ہے اس لئے کہ تم زندگی بھر زی ٹی وی پر یہی کرتے رہے ہو۔

اچھا تو کیا تمہارے ذمہ تماشہ دکھانے کا کام ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ڈگڈگی بجانا اچھلنے پھدکنے سے بہتر ہی ہے۔

گووند بولا جی نہیں وہ میرا کام نہیں ہے بلکہ اس کارِ خیر کو فی الحال اناجی کر رہے ہیں

کسم کو اس پر غصہ آگیا وہ بولی گووند تمہارے دل میں اناجی کا کوئی احترام نہیں بلکہ ان کے خلاف کینہ بھرا ہوا ہے جس کا اظہار وقتاً فوقتاً  تمہاری زبان سے ہوتا رہتا ہے۔ اگر میدان میں بیٹھے اناجی کے بھکتوں کو یہ پتہ چل جائے تو وہ تمہیں مار مار کر ہنومان بنا دیں گے۔

یہ لو میں تو اناجی تک محدود تھا اور تم پون پتر ہنومان جی کا مذاق اڑانے لگیں خیر یہ بتاؤ کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ کانگریس کے سدھائے ہوئے بندر ہیں ابھی تک تو انہوں نے  نہ سونیا گاندھی زندہ باد کا نعرہ بلند کیا اور نہ راہل گاندھی کی تعریف و توصیف کی ؟

دیکھو گووند میں تمہاری طرح آئی ای ایس افسر نہیں تھی جو وزیروں کے آگے  پیچھے دم ہلاتے پھرتے ہیں بلکہ میں آئی پی ایس سے آئی ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ تربیت یافتہ مجرم کس طرح کی ادا کاری کرتے ہیں ؟

یہ سنتے ہی تان سین کا پارہ چڑھ گیا اس نے غصہ سے کسم کی جانب دیکھا تو وہ بولی دیکھو چور کی داڑھی  میں تنکا۔یہ بندر کس طرح مجھے کینہ توز نگاہوں سے گھور رہا ہے جیسے کھا جائے گا ہم لو گ مجرمین سے راز اگلوانے کیلئے ایسے ہی حربے استعمال کرتے ہیں۔

تان سین کیلئے کسم کی یہ بکواس ناقابلِ برداشت ہو رہی تھی۔

رمیش بولا یا ر کسم تم تو ان بندروں سے بھی زیادہ بے وقوف ہو۔ یہ کیا تمہاری زبان سمجھتے ہیں جو تم پر غصہ ہو سکتے ہیں۔

کسم بولی میں نے تم سے کہا تھا کہ یہ سدھائے ہوئے بندر ہیں اور ایسے بندروں کے کیلئے انسانی بولی سمجھنا کون سا مشکل کام ہے۔ تم نے وہ  گانا نہیں سنا

گووند بولا تم کس گانے کی بات تم کر رہی ہو کسم۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پولس والوں کو بھی گانے بجانے میں دلچسپی ہوتی ہے۔

کسم بولی بک بک  بندر کرو اگر معلوم نہیں ہے تو گوگل میں تلاش کر کے اسے سنو۔

ارے بھئی وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ تو بتاؤ کہ گوگل میں کیا تلاش کروں۔

وہی سن آف انڈیا کا مشہور نغمہ جسے شکیل بدایونی لکھا  نوشاد نے موسیقی سے سجایا اور محمد رفیع معاف کرنا لتا منگیشکر نے اپنی سریلی آواز میں گایا تھا۔

گووند  بولا کیا سن آف انڈیا؟ میں نے تو مدر انڈیا کا نام سنا ہے سن آف انڈیا کبھی نہیں سنا

رمیش بولا تمہارا بچپن تو آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں لاٹھی گھماتے گھماتے خراب ہو گیا تم نے سنا ہی کیا ہے ؟ خیر وہ گانا کون سا تھا کسم مجھے یاد نہیں آ رہا۔

کسم بولی وہی :

انسان تھا پہلے بندر۔ کہتے تھے استاد ہمارے۔

نام تھا جن کا مچھندر۔ انسان تھا پہلے بندر

لمبی لمبی دم والے تھے۔ سارے اپنی قوم کے اندر

کسم نے ٹھمکا لگا کر جب یہ گانا پیش کیا تو رمیش اور گووند کے ساتھ تان سین بھی خوش ہو گیا۔اس کا جی چاہا کہ کہے کیا بات ہے کسم جی آپ غلطی سے آئی پی ایس میں چلی گئیں اس کے بجائے اگر بالی ووڈ کا رخ کرتیں تو نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتیں۔

رمیش بولا اگر مجھے تمہاری اس فنکاری کا پتہ پہلے چل جاتا تو میں زی ٹی وی پر ایک ایپی سوڈ بنواتا پولس کمشنر کے جھٹکے مٹکے۔

گووند نے کہا کوئی بات نہیں جب ہمارا جن لوک پال بل بن جائے گا تو تم اس کے جشن میں ان سے ٹھمری گنوا لینا۔ لیکن اس موقع پر یہ گانا ہر گز نہیں گا یا جائے گا اس لئے کہ تمہاری قوم کے سارے لوگ لمبی دم والے رہے ہوں تو ہوں لیکن ان کا ہماری قوم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ہم  ہنومان جی کے نہیں بلکہ رام جی کے ونشج ہیں۔

رمیش بولا تم رام جی اولاد کیسے ہو گئے وہ تو راجپوت تھے ہاں راون ضرور تمہارا پوروج رہا ہو گا اس لئے کہ وہ بھی تمہاری طرح  براہمن تھا اور تم سب اسی کی اولاد ہو۔

گووند نے کہا میں سنگھ کی شاکھا میں کیا گیا کہ تم نے مجھے براہمن سمجھ لیا حالانکہ میں براہمن نہیں بنیا ہوں میرا مطلب ہے ویش جاتی کا ہوں۔

کسم بولی اگر ایسا ہے تو ان سے یہ بندر تم سے اچھے ہیں جنہوں نے ہر پل رام کا ساتھ دیا تھا ورنہ ویش جاتی کا تو یہ تاریخ  ہے کہ’’ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘

تان سین کا سینہ تن کر کپاّ ہو گیا۔  اسے نہ جانے کب سے گووند پر غصہ آ رہا تھا۔ کسم کے جواب سے اسے ایسا لگا گویا کسی نے اس کی جانب سے بدلہ چکا دیا ہو۔

گووند نے کہا اب فضول کی بکواس بند کرو اور یہ بتاؤ کہ ان بندروں کا کیا جائے۔ کیا انہیں لات مار کر بھگا دیا جائے اس لئے کہ میرے خیال میں یہ اپنے کسی کام کے نہیں ہیں۔

تان سین کو پھر غصہ آگیا لیکن وہ خاموش رہا

رمیش بولا میرا خیال ہے بندروں کے بابت کسم جی کی جانکاری بہت زیادہ ہے اس لئے انہیں کے مشورے پر اگلا اقدام کیا جائے

جی کسم جی آپ فرمائیے آپ کا پولیسیا گیان اس بابت کیا کہتا ہے ؟ گووند بولا

کسم نے کہا میں تو پہلے ہی بتلا چکی ہوں کہ مجھے یہ سدھائے ہوئے خطرناک قسم کے بندر لگتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو ہماری جاسوسی کیلئے یہاں بھیجے گئے ہیں یا کسی دہشت گردانہ سازش کا حصہ ہیں۔ میری تو رائے یہ ہے کہ انہیں ریمانڈ پر لے کر اور ان سے حقائق اگلوانے کی کو شش کرنی چاہئے۔

آپ نے ان معصوم بندروں کو اچھا خاصہ دہشت گرد بنا دیا کسم جی۔رمیش نے مسکرا کر کہا لیکن اس مشقت سے حاصل کیا ہو گا ؟

یہ تو میں نہیں جانتی لیکن میری چھٹی حس کہتی ہے کہ انہیں کسی مقام پر تنہا رکھنا چاہئے۔ ان کے اندر آتش گیر مادہ بھی ہو سکتا ہے۔ نہ جانے کب وہ پھٹ پڑے اور ہم تمام کا کام تمام کر دے۔

مونی بابا نے سوچایہ عورت تو بڑی دور کی کوڑی لائی ہے۔

گووند نے جھنجھلا کر کہا خیر تمہاری جو مرضی ہے کرو میرے پاس ان بندروں پر ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں ہے۔یہ کہہ کر وہ کمرے کے باہر نکل گیا۔

کسم بولی میرا خیال ہے انہیں اپنے دوست بھوشن کے خالی مکان میں بھجوا دیا جائے اور کسی آدمی کو ان کی نگرانی پر لگا دیا جائے جو انہیں چنے کھلاتا رہے اور ان کی نگرانی کرے۔ آگے چل کر سوچیں گے یہ کون ہیں اور ان سے کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ؟

رمیش بولا ٹھیک ہے میں ان کو چھوڑ کر آتا ہوں۔  چلو بندرو میرے ساتھ چلو۔  رمیش کا جملہ ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ تان سین کود کر اس کے سامنے چلنے کی خاطر تیار ہو گیا۔

کسم چونک پڑی اور بولی دیکھا رمیش یہ ہماری بولی سمجھتا ہے ورنہ اس کا یہ رد عمل کیا معنیٰ ؟

ارے بھئی کسم یہ بولی نہیں اشارہ سمجھ گیا۔ جانور اس معاملے میں انسانوں سے زیادہ تیز ہو تے ہیں۔

رمیش نے اپنے دستِ راست امر اور اکبر کو آواز دی اور ان سے کہا دیکھو ان دونوں بندروں کو تم لوگ اپنے ساتھ لے کر بھوشن صاحب کے غازی آباد والے خالی مکان پر جاؤ اور آج رات وہیں ان کے ساتھ رہو۔ کل میں کوئی اور انتظام کر کے تمہیں یہاں بلوا لوں گا اس لئے کہ یہاں تمہارے لئے بہت کام ہے۔

کسم بولی اور دیکھو یہ بہت ہی وی آئی پی قسم کے بندر ہیں ان کا خاص خیال رکھنا ان کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہئے

گووند جو واپس آ چکا تھا رازدارانہ انداز میں بولا اور ان کی حرکات و سکنات پر بھی نظر رکھنا یہ بھی دیکھنا کہ کیا کچھ کرتے ہیں ان کو کسی حال میں بھاگنے نہ دینا سمجھ لو کہ یہ تمہاری قید میں ہیں اور تم ان کے جیلر ہو۔ مونی بابا کو انا جی کے تینوں بندروں کی حماقت پر ہنسی آ رہی تھی وہ سوچ رہا تھا ہم بندر ہیں تو کیا ان  بے وقوفوں سے تو اچھے  ہی  ہیں۔

 

 

 

امر اکبر اور بندر

 

بھوشن کا مکان نہایت شاندار تھا امر نے تان سین اور مونی بابا کو ایک کمرے میں چھوڑ باہر آتے  ہوئے بے ساختہ کہا اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہمیں بتا دینا۔ تان سین یہ سن کر بہت خوش ہوا مگر جیسے ہی اس نے جواب دینے کی کوشش کی مونی بابا نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا  اور اسے امر اکبر کے نکل جانے کے بعد ہی ہٹایا۔ جب ہاتھ ہٹا تو تان سین کے اندر دبی شاعرانہ حِس بیدار ہو گئی وہ بولا   ؎

یہ دستورِ زبان بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری

مونی بابا بولے ابے بے وقوف بندر تو یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ تو بندر ہے ؟

آپ سے کس نے کہا کہ میں یہ بھول جاتا ہوں کہ میں یہ بندر ہوں بلکہ مجھے یہ بھی یاد رہتا ہے کہ آپ بھی بندر ہیں اور میں آپ کا ہم جنس ہوں۔

ارے ہاں ہاں میں بھی بندر ہوں اور اس پر مجھے فخر ہے اور تو مجھ سے جو من میں آئے بول تجھے کوئی نہیں روکتا  لیکن ان انسانوں کے سامنے تو اپنی چونچ بند رکھا کر ورنہ خود بھی مرے گا اور مجھے بھی مروائے گا۔

لیکن ان کو ہماری بات چیت سے کیا تکلیف ہو سکتی ہے ؟

بظاہر تو کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت شکی قسم کے لوگ ہیں ہمارے بارے میں  مختلف بد گمانیوں کا شکار ہیں اس لئے ہماری بات چیت مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے۔

جی ہاں بابا تان سین نے تائید کی بلکہ مجھے تو یہ خطرناک قسم کے لوگ لگتے ہیں اس لئے آپ کی بات درست ہے۔احتیاط بہتر ہے

مونی بابا نے زور دے کر کہا بہتر نہیں لازم ہے کیا سمجھے ؟

سمجھ گیا۔ جیسے ہی تان سین نے یہ کہا اکبر نے پیچھے سے بالکل مونی بابا کی نقالی کرتے ہوئے کہا کیا سمجھے ؟

تان سین نے جواب دیا سب سمجھ گیا بابا سب سمجھ گیا۔

مونی بابا چونک پڑے یہ تان سین کس سے بات کر رہا ہے انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اکبر کھڑا تھا وہ بولا کیوں مونی بابا کیا چل رہا ہے ؟ یہ تم لوگ کیا سازش کر رہے ہو ؟

اکبر کی زبان سے اپنا نام سن کر مونی بابا نے سمجھ لیا کہ وہ ان کی گفتگو سن چکا ہے اس لئے اب چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں وہ بولے وہی کر رہے ہیں جو تم اور امر کر رہے تھے۔ میرا مطلب ہے گپ شپ۔

میں اور امر تو انسان ہیں لیکن تم لوگ تو ۔۔۔۔۔۔۰ میرا مطلب ہے کہ کیا بندر بھی گپ لڑاتے ہیں ؟

کیوں نہیں ؟ تان سین بیچ میں بولا پڑا وہ کون سا کام ہے جو انسان کرتے ہیں اور ہم نہیں کرتے ؟ ہم بھی ان کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں، سوتے اور جاگتے ہیں بلکہ عشق اور جنگ تک وہ سارے کام جو انسان کرتے ہیں بندر بھی کرتے ہیں۔

امر جو خاموش کھڑا تھا اسے تان سین کے جواب پر ہنسی آ گئی وہ بولا باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن عشق اور جنگ والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔

مونی بابا بولے لگتا ہے تم نے رامائن نہیں پڑھی اور اس میں وانر سینا نے جو کار نامہ انجام دیا کیا تم اسے نہیں جانتے۔

اکبر بولا چلو جنگ کی بات مانے لیتے ہیں لیکن عشق اس کیلئے پردہ اور پردہ نشین کا ہونا ضروری ہے۔

تان سین  نے کہاوہ دراصل بات یہ ہے کہ بجرنگ بلی ہنومان  ہمارے مونی بابا کے سما ن بال برہمچاری تھے اس لئے انہوں نے عشق سے گریز کیا  لیکن مجھ جیسا ۔۔۔۔۔۔۔۔۰

اچھا تو تم بھی میری طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۰اکبر نے امر کی جانب دیکھا۔

امر بولا چھوڑو یار یہ عشق معاشقے کے چکر اب اپنے بچے شادی لائق ہو گئے ہیں  لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے رامائن نہ کبھی پڑھی ہے اور نہ غور سے سنی جب راما نند ساگر نے اسے بنایا اور نشر کیا اس وقت اپنے کاموں میں کچھ ایسا الجھا ہوا تھا کہ کبھی کچھ دیکھا اور کبھی نہیں دیکھا۔اس لئے ٹھیک سے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ مجھے لگتا ہے یہ گیانی بندر ہیں اس لئے کیوں نہ ان سے رامائن سن لی جائے ویسے یہ ہنومان کے ونشج بھی ہیں اس لئے ان کی معلومات اچھی ہی ہو گی۔

تان سین بولا شکریہ لیکن اگر ہم ہنومان کی اولاد ہیں تو تم بھی تو رام کے وارث ہو ویسے تمہارے نام کو تھوڑا سا الٹ پلٹ دیا جائے تو رام بن جاتا ہے۔

جی ہاں یہ بات بھی ہے حالانکہ میں نے اس پہلو پر کبھی غور ہی نہیں کیا  تھا۔

بات چیت نہایت دوستانہ ماحول میں ہو رہی تھی اس لئے مونی بابا نے موقع غنیمت جان کر کہا میں تمہیں رامائن ضرور سناؤں گا لیکن میری ایک شرط ہے۔

اکبر نے پوچھا وہ کیا ؟

اس سے پہلے تمہیں مجھ کو یہ بتانا ہو گا کہ تم کون لوگ ہو اور اس تحریک سے کیوں کر وابستہ ہوئے اس کے بعد میں تمہیں رامائن سناؤں گا۔

امر اور اکبر نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور ایک ساتھ کہا ہمیں آپ کی شرط منظور ہے۔

امر اور اکبر اناجی کی ٹیم کے ان ارکان میں سے تھے جو پردے کے پیچھے رہ کر کام کرتے ہیں  لیکن اس کے علاوہ وہ  بچپن کے دوست بھی تھے۔  ان دونوں کو لڑکپن ہی سے سماجی کاموں میں دلچسپی تھی اس لئے محلہ کے ہر چھوٹے بڑے کام میں پیش پیش رہتے تھے۔وہ ایک دوسرے کے پڑوسی تھے۔ ایک ہی میونسپل اسکول میں پڑھتے تھے۔ فرق یہ تھا کہ ایک اردو اور دوسرا ہندی میڈیم سے تعلیم حاصل کرتا تھا۔ یہ دونوں میڈیم ایک ہی عمارت میں چلتے تھے۔ وقفہ کے دوران کبھی امر اردو میڈیم والے بچوں کے ساتھ کھیلتا اور کبھی اکبر ہندی میڈیم والوں کے درمیان ہوتا لیکن وہ دونوں بہر حال ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے۔  امتحانات ایک ساتھ ہوتے اس لئے تیاری بھی مل جل کر کرتے۔ نصاب یکساں تھا اس لئے ایک دوسرے سے سمجھنے سمجھانے کا بھی کام لیتے۔ ایک ساتھ تعطیلات ہوتیں ایک ساتھ اسکول کھلتے۔ تمام تہواروں میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہو تے اس طرح سال بھر میں ان کی خوشیوں کے مواقع  دوگنا ہو جاتے تھے۔

کالج میں جانے کے بعد ان دوستوں کے درمیان کافاصلہ اور کم ہو گیا اس لئے کہ اب  مشترک میڈیم انگریزی ہو گیا تھا اور دونوں ایک کلاس میں آ گئے تھے۔ اس بیچ محلہ کی سماجی سر گرمیوں میں بھی ان کا حصہ بڑھ گیا تھا۔ وہ دونوں جھگی جھونپڑیوں پر مشتمل بھیم واڑہ نام کی بستی میں رہتے تھے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے غریب لوگ بستے تھے۔ محلہ میں کبھی امبیڈکر جینتی کی تقریب منائی جاتی تو کبھی محرم کے وعظ کا اہتمام ہوتا۔ گنیش چترتھی کے علاوہ کرسمس کے موقع پر بھی ناچ رنگ کا پروگرام ہوتا تھا۔ کبھی نوراتری تو کبھی عید میلاد النبیؐ کا جشن منایا جاتا۔

ان مواقع پرکبھی کبڈی کا ٹورنامنٹ تو کبھی کھو کھو کے مقابلوں کا انعقاد ہوتا۔  تمام اجتماعی سرگرمیوں میں جب کام کرنے والوں کے نام لکھے جاتے تو سب سے اوپر امر اور اکبر کا نام ہوتا تھا۔ اس لئے کہ ان کی مانند محنتی اور خوش مزاج بہت کم لوگ تھے اور قابلِ اعتماد تو ایسے کہ کام دو اور بھول جاؤ۔ ان کی جانب سے معذرت یا بہانے بازی کبھی بھی سامنے نہیں آتی تھی اس لئے سب سے مشکل اور اہم  کام ان کے حوالے کئے جاتے تھے۔

اسی زمانے میں ایک  دن امر اور اکبر کو اپنے کالج کے  دوست علی سے ملاقات کی خاطر ممبئی سینٹرل کے قریب مومن پورہ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر ان دونوں نے عوامی لائبریری کو دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوے۔ یہ ایک دو منزلہ عمارت تھی جسے کمیونسٹ پارٹی کے تعاون سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس میں اوپر نیچے دد بڑے ہال تھے۔ پہلا منزلہ لائبریری  کیلئے مختص تھا۔ دار المطالعہ  میں بہت ساری کتابیں تھیں اسی کے ساتھ ہر زبان کے سارے بڑے اخبارات وہاں آتے تھے۔ صبح و شام عوام کی ایک کثیر تعداد محو مطالعہ رہتی۔ اس میں بچے، جوان اور بزرگ سارے لوگ شامل ہوتے تھے۔

امر اور اکبر نے جب یہ دیکھا  تو انہیں اپنی محرومی کا شدید احساس ہوا۔  ان لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے اپنے محلہ میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ دار المطالعہ ہے۔ممبئی سینٹرل سے واپس آتے ہوئے راستے بھر وہ اسی مسئلہ پر گفتگو کرتے رہے کہ آخر لائبریری کیسے قائم کی جائے ؟ ان کا تعلق کسی بڑی تحریک سے تو تھا نہیں کہ اس کے تعاون سے عمارت تعمیر کروائی جائے۔کتابیں فراہم ہو جائیں۔دیگر لوازمات کا حصول ہو سکے وغیرہ وغیرہ۔ ایک لائبریری کیلئے یہی کافی نہیں تھا بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ اس کا شایانِ شان افتتاح ہو۔ سارے لوگوں کو پتہ چلے کہ اس طرح کا اہتمام موجود ہے اور وہ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ کالج میں زیرِ تعلیم دو نوعمر نوجوانوں کیلئے سارے کام تو آسان تھے لیکن وسائل کی فراہمی ناممکن تھی۔ تمام تر نامساعد صورتحال کے باوجود دونوں دوست خواب بنتے جا رہے تھے اور انہیں یقین تھا کہ ایک دن یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو کر رہے گا۔

خواب جو مستقبل کی علامت ہوتے ہیں، مستقبل جو انسانی زندگی کو آگے بڑھاتا ہے۔جس کے سہارے انسان  ان مقامات کی جانب کوچ کرتا ہے جو بظاہر اس کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔ ان امکانات کو تلاش کو کرتا ہے جن کا شمار ناممکنات میں ہوتا ہے۔ ایسے مراحل سے گزرتا ہے جو اس کی ادراک سے پرے ہوتے ہیں۔ ان منازل کی رسائی حاصل کرتا ہے جو وہم و گمان سے آگے ہوتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ خواب ہی زندگی کی علامت ہیں جس دن انسان خواب دیکھنا بند کر دے اس کی موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ مر جاتا ہے۔ وہ ایک چلتی پھرتی لاش میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

ایسا انسان  اپنے روز مرہ کے محور میں کولہو کے بیل کی مانند گھومتا رہتا ہے۔ دن بھر اپنی قبر کھودتا ہے اور رات میں اس کے اندر دبک کر سوجاتا ہے تاکہ اگلے دن پھر سے اپنے نامکمل کاموں میں جٹ جائے یہاں تک کہ روزوشب کا خزانہ خالی ہو جاتا ہے۔ اب اس میں نہ جاگنے کی سکت ہوتی ہے اور نہ اسے سونے کی حاجت  ہوتی ہے۔ اس مرحلے میں وہ کارگہ ہستی کو سونا کر کے کہیں اور نکل جاتا ہے۔ یہی زندگی کا سراب ہے جس کی تکمیل موت نامی حقیقت سے ہو جاتی ہے۔

انسان خود اپنے خواب بھی دیکھتا ہے اور دوسروں کے خواب بھی اسی طرح دیکھتا ہے جیسے دوسرے اس کے خواب دیکھتے ہیں۔ انسان نہ حقیقت میں اکیلا ہوتا ہے اور نہ خوابوں میں تنہا نظر آتا۔  وہ جن لوگوں کو اپنے خوابوں میں دیکھتا ان کے خوابوں میں بھی اپنی جھلک دکھلاتا ہے اسی لئے انسان شاذو نادر ہی کسی اجنبی کو اپنے خواب میں دیکھتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں اس کا سابقہ جس قدر نئے لوگوں  سے پڑتا ہے خوابوں میں نہیں پڑتا گویا لوگ حقیقت سے خوابوں کا سفر کرتے ہیں نہ کہ خوابوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آتے ہیں۔

امر اور اکبر امتحانات میں کامیابی کا خواب دیکھ رہے تھے اور ان کے والدین ان کی ملازمت کے سپنے بن رہے تھے بلکہ اس سے آگے بڑ ھ کر ان کا گھر سنسار بھی انہیں کبھی کبھار اپنے خوابوں میں نظر آ جاتا تھا اور پھر اپنی گود میں کھیلتے کودتے نواسے  پوتے کسے اچھے نہیں لگتے ؟ وہ اس لئے کچھ زیادہ ہی بھلے معلوم ہوتے ہیں کہ ان کی معاشی ذمہ داری اپنے سر نہیں ہوتی اور نہ ان سے کوئی خاص توقع وابستہ ہوتی ہے اسی لئے غالباً بچوں کو بھی اپنے والدین سے زیادہ محبت و انسیت دادا دادی یا نانا نانی سے ہوتی ہے۔

امر اور اکبر کی زندگی کا یہ مرحلہ خاصہ کٹھن تھا۔ ایسے غریب نوجوانوں کیلئے جن کے پاس تعلیم اور محنت تو ہو لیکن تجربہ اور سفارش  نہ ہو ملازمت کا حاصل کرنا ناممکن نہ سہی تو مشکل ضرور  ہوتا ہے۔اس مشکل نے امر اور اکبر کو وقتی طور پر اپنی  لائبریری کے خواب سے غافل کر دیا اور وہ دن رات نوکری کی فکر میں گھلنے لگے۔ پہلے اکبر کو ایک نجی کمپنی کے شعبہ مالیات میں محاسب کا کام مل گیا اور اس کے چند ہفتوں بعد امر بلدیہ کے دفتر میں انسپکٹر بن گیا اس کا کام مارکٹ میں بکنے والے اشیائے خورد و نوش کی نگرانی و دیکھ ریکھ تھا۔ اسے دیکھنا ہوتا تھا کہ مال اصلی ہے یا اس میں ملاوٹ  ہے۔ اس کی قیمت مناسب ہے یا بھاؤ بڑھا چڑھا کر بیچا جا رہا ہے۔ دوکان کے اندر صاف صفائی اور صحتِ عامہ کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے یا نہیں۔  اکبر کا کام مالک کے نوٹ گن گن کر رکھنا تھا دونوں کچھ روز تو اپنا خواب بھلا کر کولہو کے بیل بنے رہے لیکن جب زندگی سنبھلی تو خواب زندہ ہو گئے۔

امر اور اکبر نے ایک چھٹی  کے دن  دوبارہ مومن پورا کا قصد کیا تاکہ لائبریری کو دیکھ کر عزم کی تجدید کی جائے۔ علی سے ملاقات کی اور اسے اپنے ارادے سے واقف کرایا۔ علی یہ سن کر بہت خوش ہوا وہ بولا تم لوگ ایسا کرو کہ اس لائبریری کو یہاں سے اٹھا کر لے جاؤ اس لئے کہ اس زمین پر کئی بلڈرس کی نظر ہے ان لوگوں نے اس کے ناظم جبار قریشی کو کئی بار اپنے میں جال پھانسنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ تم یہ کام کر دو گے تو وہ بلڈرس بہت خوش ہوں گے اور تمہارا تعاون بھی کریں گے۔ امر بولا یار اگر بلڈرس کا تعاون مل جاتا ہے تو اس سے اچھی اور کیا بات ہوسکتی ہے۔اگر وہ ہمیں لائبریری کی نئی عمارت تعمیر کر کے دے دیتے ہیں تو ہم اس پرانی بلڈنگ کو اپنے ساتھ اٹھا کر کیوں لے جا یا جائے ؟

اکبر کو امر کی بات سن کر غصہ بھی آیا اور ہنسی بھی آئی وہ بولا بے وقوف امر کیا تم نے اپنے آپ کو چراغ کا جِن سمجھ رکھا ہے جو بلڈنگ اٹھا کر لے جاؤ گے علی تو ہم سے مذاق کر رہا ہے اور تم سمجھتے ہی نہیں اگر عمارت یہیں قائم رہے تو بھلا کوئی بلڈر تمہارا تعاون کیونکر کرے گا ؟

امر نہایت سنجیدگی سے بولا میں تمہاری بات سمجھ گیا بلڈنگ کو ہم اٹھا کر لے جا نہیں سکتے اور اسے ہٹانا بھی ضروری ہے تو کیوں نہ کوئی اور ترکیب آزمائی جائے ؟

علی بولا ایک ترکیب بہت آسان ہے تم لوگ بم کے دھماکے سے اسے اڑا دو بلڈنگ ہٹ جائے گی اور بلڈرس کے ساتھ ساتھ تمہارا بھی کام ہو جائے گا ؟یہ علی کا دوسرا مذاق تھا اور اس سے پہلے کہ امر اس کی منصوبہ بندی میں لگ جاتا اکبر نے کہا علی ہنسی مذاق چھوڑو اور کوئی کام کی بات کرو بلڈنگ کو بم سے اڑانے کا کام بلڈرس سے بہتر کوئی اور نہیں کرسکتا لیکن میرے خیال میں اصل مسئلہ عمارت نہیں اس کا ناظم ہے کیا نام بتایا تھا تم نے جبار قریشی؟

امر بولا تو کیا ہمیں اس کا کانٹا نکالنا ہو گا ؟ نا بابا نا یہ مجھ سے نہیں ہو گا چاہے ہماری لائبریری بنے یا نا بنے !

اکبر نے کہا تم سے اس کا کانٹا نکالنے کیلئے کس نے کہا خود ہی مفروضہ قائم کرتے ہو اور پھر اس کی تردید بھی کرتے ہو میں اس کا نٹا نکالنے کی نہیں اس کو پھول پیش کرنے کی بات کر رہا تھا۔ اس کے بعد وہ علی سے مخاطب ہو کر بولا یار تم تو انہیں جانتے ہی ہو بلکہ وہ بھی تمہیں اچھی طرح جانتا ہو گا ایسا کرو کہ ہمیں ان سے ملا دو۔

علی بولا جہاں تک کامریڈ جبار قریشی کا سوال ہے انہیں کون نہیں جانتا ؟ سبھی جانتے ہیں لیکن وہ سب کو نہیں جانتے۔

میں یہ نہیں مانتا کہ وہ تم جیسے اہم آدمی کو نہیں جانتے۔اس بار امر بولا تم بھی کوئی معمولی آدمی تھوڑے ہی ہو۔ہمارے دوست جو ہو؟

علی بولا تمہاری بات صحیح ہے وہ مجھے جانتے ہیں اور پارٹی کے کاموں میں مجھے پھنسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن میں مچھلی کی طرح ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہوں۔ اب اگر تم یہ چاہتے ہو کہ میں از خود جا کر ان کے دام میں گرفتار ہو جاؤں تو یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ میں ان سے نہیں ملوں گا۔

کیوں نہیں ملو گے ؟ اپنے دوستوں کی خاطر اتنا بھی نہیں کرسکتے ؟

بات یہ نہیں ہے۔ مجھے شرم آتی ہے۔ وہ کیا سوچیں گے جب میں بلاتا رہا تو یہ بہانے بنا کر بھاگتا رہا اب اپنا کام پڑا تو میرے دروازے پر آیا ہے۔ ویسے یہ کام بھی میرا نہیں ہے۔  مجھے تمہاری لائبریری سے کیا لینا دینا ؟

یار ایسے بھی بے مروّت نہ بنو آخر تم ہمارے دوست ہو اس کارِ خیر میں تمہیں ہماری مدد کرنی چاہئے۔یہ ثوابِ  جاریہ ہے۔

علی نے پھر پینترا بدل کر کہا یار بات ایسی نہیں ہے لیکن جبار قریشی خود پارٹی کیلئے چندہ جمع کرتا رہتا ہے اور میرا مشاہدہ یہ ہے کہ یا تو لوگ چندہ لیتے ہیں یا دیتے ہیں۔ یہ دونوں کام کم ہی لوگ کر پاتے ہیں اور کم از کم ہمارا کامریڈ تو نہیں کرتا اس لئے اس سے ملنا بے سود ہے۔

فضول سہی امر بولا کوئی نقصان تو نہیں ہے ؟ ویسے بھی ہم لوگ جو کچھ کرتے ہیں اس میں سے بیشتر کا م رائیگاں چلے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی سہی۔

علی نے جواب دیا انجانے میں یہ ضرور ہوتا ہے لیکن کوئی جان بوجھ کر مکھی نہیں نگلتا  دیکھو میں دور سے تمہیں جبار قریشی اور اس کا دفتر دکھلا دوں گا اس سے زیادہ مجھ پر زور نہ کرو۔

اکبر سمجھ گیا اب اس سے زیادہ دباؤ مناسب نہیں ہے اس نے کہا اچھا بابا تم یہی کر دو تو بڑا احسان ہے بس۔

جی ہاں تو سنو ابھی جبار قریشی کو دفتر میں آنے کیلئے تین گھنٹے کا وقت ہے چلو گھر چلتے ہیں کھانا وانا کھائیں گے اتوار کے دن اکثر میری امی بریانی بناتی ہے۔ اس کے بعد آج آئی پی ایل کا ایک اہم میچ ہے وہ دیکھتے ہیں جب تک کھیل ختم ہو گا کامریڈ جبار قریشی اپنے دفتر میں آ جائے گا میں تمہیں اس کے پاس چھوڑ کر نکل لوں گا۔کیوں یہ ٹھیک ہے ؟

بریانی کا نام سن کر امر کے منھ میں پانی آ گیا تھا اس کے خیال میں علی کی ماں کے ہاتھ سے اچھی بریانی کوئی نہیں  بناتا تھا اس لئے اس نے فوراً اس منصوبے کی تائید کی اور وہ لوگ علی کے گھر کی جانب چل پڑے۔

 

 

 

 

خوابوں کا محل

 

کامریڈ جبار قریشی نے اپنے دفتر کی جانب دو اجنبی نوجوانوں کو آتے ہوئے دیکھا تو بہت خوش ہوے۔ ویسے اکثر نوجوان ان کے پاس روزی روزگار کی تلاش میں آتے تھے لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ یہ دونوں بر سرِ روزگار ہیں تواس کی خوشی میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا انہوں نے فوراً  سامنے ہوٹل کے باہر والے کو چائے لانے کا اشارہ کیا اور پوچھا کہیے کیسے آنا ہوا؟

اکبر فوراً مطلب کی بات پر آگیا اور بولا جناب ہمیں آپ کے اس عوامی ادارہ کی لائبریری نے بہت متاثر کیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ سانتا کروز میں بھی ایک ایسا دار المطالعہ قائم کریں۔

اکبر کی بات سن کر جبار قریشی کا دل باغ باغ ہو گیا۔ اس کا مسئلہ یہ تھا کہ آئے دن سوویت یو نین سے کتابوں کے بکس آ جایا کرتے تھے اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کتابوں کا کیا کرے ؟اگر نئی کتابوں کو سجائے تو پرانی کا کیا کرے۔ انہوں نے سوچا چلو اس بہانے یہ بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ چائے آ چکی تھی کامریڈ نے اکبر سے پوچھا لائبریری قائم کرنے کیلئے تمہارے پاس کیا کچھ ہے ؟

امر بولا جناب ہمارے پاس عزم و حوصلہ ہے۔ وقت و محنت ہے۔ اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔

جبار قریشی کو امر کے معصومانہ انداز پر پیارآ گیا وہ بولا بیٹے میں تمہارے حوصلہ کی قدر کرتا ہوں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔

ہمیں پتہ ہے اسی لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں  اکبر نے جواب دیا۔

جبار قریشی نے کہا دیکھو بیٹے میں تمہیں کسی غلط توقع کا شکار نہیں کرنا چاہتا۔ دار المطالعہ سمجھ لو کہ ایک آٹو رکشا کی طرح تین پہیوں والی سواری ہے جس کے دو پیر چلتے ہیں اور تیسرا اپنے سے نہیں بلکہ ان کے چلنے سے چلتا ہے۔ یہ آگے والا پہیہ سمجھ لو کہ دار المطالعہ کی جگہ یعنی مکان ہے۔  اس کے علاوہ دوسرا پہیہ کتابیں  و فرنیچر اور تیسرا وقت و محنت ہے۔  میں تمہیں دوسرا پہیہ فراہم کرسکتا ہوں تیسرا تمہارے پاس بھرپور مقدار میں ہے  رہا پہلے کا سوال تو اس معاملے میں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا تو ایسا کرو کہ تم اس کی فراہمی میں لگ جاؤ اور جب تک وہ نہ ملے یہاں کا رخ نہ کرنا  لیکن جب اس کا بندوبست ہو جائے تو میرے پاس آنا میں کتابیں اور فرنیچر دے دوں گا۔  دراصل عوامی ادارے کی تعمیر نو اور فرنیچر کیلئے ماسکو سے رقم آ چکی تھی اس لئے جبار قریشی نے اپنے دل میں سوچا نیا فرنیچر عوامی ادارے میں رکھ کر پرانا ان کے گلے مار دیں گے اور اوپر سے احسان اضافی۔

امر اور اکبر کامریڈ جبار قریشی کے حسنِ اخلاق اور دستِ تعاون سے بہت متاثر ہوئے۔ اکبر بولا جناب آپ کا بہت بہت شکریہ آپ دعا فرمائیں۔ جبار قریشی نے ہنس کر جواب دیا برخوردار اس دنیا میں کام دعا سے نہیں دوا سے ہوتے ہیں۔ امر کو یہ بات اچھی نہیں لگی وہ بولا آپ نے بجا فرمایا ہم دوا کریں گے آپ دعا کریں میرا خیال ہے ان دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔  جبار نے اپنے من میں سوچا یہ بے وقوف تو ہندو ہو کر بھی بالکل مسلمانوں کی طر ح سوچتا ہے خیر انہیں برگشتہ کرنے میں جلدی کرنا ٹھیک نہیں جب ہمارے لٹریچر کا نسخہ گلے سے اتر جائے گا تو یہ ساری دعائیں اپنے آپ بھول جائیں گے۔

اکبر نے اٹھتے ہوئے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا اور سلام کیا تو جبار قریشی نے جواب دیا لال سلام۔امر اور اکبر جب باہر آ گئے تو امر بولا لگتا ہے یہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے۔کیوں ؟ اکبر نے پوچھا۔ بھئی سلام کا جواب تو وعلیکم السلام ہوتا ہے لیکن یہ کہہ رہا تھا لال سلام۔  اکبر نے جواب دیا بھئی سلام تو سلام ہوتا ہے اب اس کے سرخ یا سبز ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے

امر اور اکبر کا گھر ایک میدان کے سامنے تھا جس کے درمیان میں ایک چھجہ سا بنا ہوا تھا جو چاروں طرف سے کھلا تھا مگر اوپر ناریل کی شاخوں اور پتوں سے بنا ایک سایہ تھا۔ اس کے نیچے دو بنچ پڑی رہتی تھیں۔بچے اس کے آس پاس کھیلتے رہتے تھے اور بوڑھے وہاں بیٹھ کر وقت گزاری کیلئے گپ شپ کیا کرتے تھے۔ یعنی جب بچے جوان ہو جاتے تو وہ چھجے سے دور ہو جاتے اور جب جوان بوڑھے ہو جاتے تو وہ لوٹ کت چھجے کے سائے میں آ جاتے۔  چھجے کو نہ دور جانے والوں سے کوئی گلہ ہوتا اور نہ پاس آنے والوں سے کوئی شکوہ اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ آج جو وقت انہیں  دور لے جا رہا ہے کل وہ از خود انہیں اس کے پاس چھوڑ جائے گا اس لئے بلاوجہ کی فکر مندی لاحاصل ہے۔

ایک روز امر اور اکبر اس روایت کو توڑتے ہوئے اس چھجے کے نیچے آن بیٹھے۔  امر بولا یار اکبر میں نے پچھلے دنوں ایک خواب دیکھا ہے۔  سچ ؟ ویسے میں نے بھی ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پہلے تو اپنا خواب بتا۔ نہیں چونکہ پہلے تو نے خواب کا ذکر کیا اس لئے تجھے بتانا ہو گا۔ لیکن یہ کوئی عجیب خواب نہیں ہے اس لئے تو بتا۔ ہوسکتا ہے جو تجھے عجیب نہ لگتا ہو وہ عجیب ہو اور جو مجھے عجیب لگتا ہو وہ عجیب نہ ہو۔  اس لئے تو بتا۔ امر بولا اگر عجیب ناسہی تو غریب تو ہو گا ہی اس لئے کہ غریبوں کے خواب بھی غریب ہوتے ہیں۔ اکبر نے جواب دیا یار ایسی بات نہیں جہاں تک خوابوں کا سوال ہے اس میں امیر اور غریب کی کوئی تفریق نہیں  اس لئے کہ خوابوں کی دنیا میں نا کوئی غریب ہوتا ہے نا امیر۔ خیر تو اپنا خواب تو بتا۔

امر بولا یار میں نے خواب میں بھی حقیقت کو دیکھا میرا مطلب ہے میں نے ایک آٹو رکشا کو دیکھا جس  میں سب کچھ نیا ہے لیکن اگلا پہیہ ندارد ہے اور ہم دونوں اسے پیچھے سے دھکا لگاتے ہوئے پسینہ پسینہ ہو رہے ہیں لیکن وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اوہو اس میں کیا نیا ہے یہ تو وہی بات ہوئی جو کامریڈ جبار قریشی نے ہمیں بتائی تھی۔ اچھا تو کیا خواب کا نیا ہونا ضروری ہے ؟ کیا خواب پرانا نہیں ہو سکتا ؟ اکبر بولا دوست خواب پرانے نہیں ہوتے وہ تو ہمیشہ ایک نئی دنیا کی سیر کرواتے ہیں۔

امر نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب تو اپنا خواب بتا۔ بھئی میں نے بھی خواب میں آٹو رکشا ہی دیکھی۔ اوہو تو وہی پرانی بات۔ اور ہاں اس کے کوئی پہیہ نہیں تھا۔امر بولا یار تو گویا ہم دونوں نے یکساں خواب دیکھا  بلکہ تمہارا خواب تو مجھ سے بھی بھیانک لگتا ہے ؟ اکبر نے کہا جی نہیں اس آٹو رکشا میں ایک ایک کے بجائے دو اسٹیرنگ تھے جو ہمارے اپنے اپنے ہاتھوں میں تھے۔ اچھا ؟ لیکن پہیوں کے بغیر ان کا کیا فائدہ؟ فائدہ کیوں نہیں ؟ وہ آٹو رکشا در اصل اڑن کھٹولا کی مانند ہو امیں اڑ رہا تھا اور تم تو جانتے ہی ہو کہ ہوا میں اڑنے کیلئے پہیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

امر سنجیدہ ہو گیا وہ بولا جی ہاں اکبر میں جانتا ہوں لیکن ہمیں دار المطالعہ غالباً ہوا میں نہیں بلکہ زمین پر بنانا ہے اس لئے کہ ہوا میں بنے ہوئے کتب خانے میں آنے کیلئے لوگ اڑن کھٹولا کہاں  سے لائیں گے ؟ جی ہاں امر تمہاری بات درست ہے یہ تو صرف خوابوں میں ممکن ہے۔ امر نے کہا تو کیا ہماری لائبریری صرف خوابوں میں رہے گی یا باہر بھی آئے گی مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہم اس کو بھلا نہ دیں ؟اکبر بولا ہم بھولیں گے تو نہیں لیکن ایسے یاد رکھنے سے بھی کیا فائدہ کیوں نہ ہم اسی چھجے کے نیچے اپنے خواب کی تعبیر تلاش کریں انہیں بنچوں کے درمیان ایک ٹیبل لگا کر لائبریری شروع کر دیں ؟

امر بولا کیسی باتیں کرتے ہو اکبر یہاں اپنے اخبارات کو ہوا اڑا کر لے جائے گی۔ بارش کتابوں کو بھگو دے گی اور دھوپ قارئین کو یہاں سے بھگا دے گی۔یہاں آنے والے بچوں کی نظر تو تیز ہوتی ہے لیکن ان کا دل کتابوں میں نہیں لگتا اور بزرگوں کا دل تو بہت چاہتا ہے مگر بینائی ان کا ساتھ نہیں دیتی۔اکبر نے تائید کی تمہاری یہ بات بھی اتفاق سے درست ہے لیکن ہم اس سے ابتدا تو کر ہی سکتے ہیں وقت کے ساتھ دیوار بھی بن جائے گی۔ بجلی آ جائے گی پنکھے لگ جائیں گے اور لوگ بڑے آرام سے یہاں بیٹھ کر مطالعہ کرنے لگیں گے۔

امر نے سردمہری کے ساتھ تائید کی اور پھر بولا دیکھو جب تک یہ عارضی ڈھانچہ ہے میونسپلٹی والوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جب اسے مستقل شکل دینے کی کوشش کی جائے گی تو وہ نہ صرف اعتراض کریں  گے بلکہ ممکن اسے زمین دوز بھی کر دیں اور اگر ایسا ہو گیا تو بڑا ہنگامہ ہو گا۔ بستی والے احتجاج کریں گے پولس ان پر لاٹھی برسائے گی اور اس کی ذمہ داری ہمارے سروں پر آ جائے گی۔

لیکن بلدیہ والے تو خود لائبریری قائم کرتے ہیں اور اسے چلاتے ہیں اس لئے انہیں ہماری لائبریری پر کیونکر اعتراض ہوسکتا ہے ؟

دیکھو بلدیہ کی لائبریری ان کی اجازت سے قائم ہوتی ہے تمہاری لائبریری بغیر اجازت ہو گی۔

تو گویا فرق صرف اجازت کا ہے۔ ہم بلدیہ سے اجازت لے لیں گے۔

اگر تم نے اس کی کوشش کی تو وہ بھی جبار قریشی کی طرح پہلے جگہ کی ملکیت سے متعلق سوال کریں گے۔

لیکن جگہ تو خود ان کی اپنی ہے  بلدیہ اگر بلا اعتراض کا توصیۃ دے دے تو مسئلہ حل

لیکن وہ تو اجازت نامہ دے گی کسے ؟

ہمیں اور کسے ؟

لیکن تم ہو کون ؟ اس طرح تو ہر کوئی ایرا غیرا نتھو  خیرا ہماری مانند اٹھے گا سرکاری املاک کا بلاواسطہ مالک بن جائے گا۔

یار امر تم خود بلدیہ میں کام کرتے ہو اور مسئلہ حل کرنے کے بجائے اس مشکل بنائے جا رہے ہو میری ہر تجویز کو برخواست کر دیتے ہو۔ تم اپنے رسوخ کا استعمال کر کے اس مسئلہ کے حل کی کوئی صورت کیوں نہیں نکالتے ؟

میں اور میرا رسوخ تو ایسے ہی ہے جیسے پدی ّ اور اس کا شوربہ۔ مجھے کون پوچھتا ہے ؟ اور ویسے بھی میں مارکٹ کے شعبہ میں ہوں اور تخریب کا شعبہ ہم سے مختلف ہے۔

ہاں ہاں میں جانتا ہوں لیکن بلدیہ میں ایک تعمیر کا شعبہ بھی تو ہے کیوں نا اس کی مدد لی جائے ؟

ارے بھائی ہمارے یہاں کو ئی کسی کی مدد نہیں کرتا ہر شخص اپنا کام کرتا ہے کوئی تعمیر کرتا ہے تو کوئی تخریب کرتا ہے۔ کسی کے ذمہ شراب کا لائسنس دینے کا کام ہے تو کوئی شراب بندی کے خلاف مہم چلانے میں لگا ہوا ہے

لیکن یہ سب ایک ہی بلدیہ کے تحت کیونکر ممکن ہے ؟

دیکھو اکبر ہم میں سے ہر کوئی اپنی تنخواہ لیتا ہے اور اپنا کام کرتا ہے۔ہم لوگ نہ اپنے بارے میں سوچنے کی زحمت کرتے ہیں اور نہ دوسروں کے بارے اس لئے کہ ہمیں سوچنے کی تنخواہ نہیں ملتی کیا سمجھے ؟

اکبر بولا یار امر ایسا لگتا ہے تم چند ہفتوں کے اندر ہی پکے سرکاری ملازم بن گئے ہو مجھے دیکھو میں تم سے پہلے سے ملازمت کر رہا ہوں لیکن تمہاری طرح نہیں سوچتا۔دفتر کے اندر ہم سب مل کر ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ دوسروں کا تعاون کرتے بھی ہیں اور ان سے تعاون لیتے بھی ہیں اس لئے کہ ایسا کئے بغیر ہماری کمپنی ترقی نہیں کر سکتی۔

تمہارا اصل مسئلہ ترقی کرنے کا ہے ؟ اس لئے کہ تمہاری اپنی ترقی کا سارا دارومدار کمپنی کی ترقی پر ہے لیکن بلدیہ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اول تو بلدیہ کا ترقی سے کوئی واسطہ نہیں ہے دوم  یہ کہ اگر ترقی ہونی بھی ہے تو اس کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ہماری تنخواہ کا اسکیل تو طے ہے وقت کے ساتھ جو ہونا ہے سو ہو گا الاّ یہ کہ درمیان میں کوئی چمتکار ہو جائے یعنی کوئی سفارش وغیرہ۔

باتوں باتوں کے دوران اکبر کی نظر میدان کے کنارے واقع پرائمری اسکول پر پڑی وہ مسکرا کر بولا کیوں نا ہم اس سرکاری اسکول میں اپنی لائبریری قائم کرنے کی کوشش کریں ؟

اچھا تو کیا اپنے خوابوں کا محل اس اسکول کے ملبہ پر تعمیر کرنا چاہتے ہو کچھ تو سوچو ہم نے بھی اس میں چوتھی تک تعلیم حاصل کی ہے ؟تمہارا اسکول بند کروانے کا ارادہ تو نہیں ہے ؟

کیسی باتیں کرتے ہو امر میں بھلا اپنے مادرِ علمی کا دشمن کیوں کر ہو سکتا ہوں ؟ ویسے بھی اسکول کی یہ عمارت شام کے وقت ویران پڑی رہتی ہے اور سچ تو یہ کہ زیادہ تر لوگ شام ہی کے وقت لائبریری میں آئیں گے۔ اس لئے کیوں نا ہم اس وقت اس عمارت استعمال کریں اس سے یہ ہو گا کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آ جائے گا۔ تمہارے بلدیہ کا اسکول، جبار قریشی کی کتابیں اور ہماری محنت یہ سب ملا جلا کر ہماری بستی میں ایک انقلاب برپا کر دے گی۔

امر بولا ایسا لگتا ہے تمہارے اندر کامریڈ جبار قریشی کی روح حلول کر گئی ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم بھی کل سے لال سلام نہ ٹھونکنے لگو۔

اکبر بولا میری تجویز کا مذاق نہ اڑاؤ اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرو اور اس کام میں میرا ساتھ دو اس لئے کہ ویسے بھی یہ بلدیہ کا کام نہیں ہے۔

امر بولا ٹھیک ہے میں سوچوں گا اور پھر تمہیں بتاؤں گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں کیا کیا مسائل ہیں۔

اکبر نے بات کاٹ دی اور بولا میں اب مسائل نہیں بلکہ ان کا حل جاننا چاہتا ہوں۔ ہمارے دفتر میں یہی ہوتا ہے کوئی صرف مسئلہ لے کر اپنے باس کے دفتر میں نہیں جاتا بلکہ حل بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے کیا سمجھے ؟

دیکھو اکبر نہ میں تمہاری نجی کمپنی کا ملازم ہوں اور نہ تم میرے باس ہو کیا سمجھے ؟  اس لئے مجھ پر رعب نہ جماؤ۔ میں سرکاری ملازم ہوں میرا تبادلہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن مجھے نکالا نہیں جا سکتا ورنہ ہماری لال پرچم والی یونین انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگانے کیلئے موجود ہی ہے۔

ٹھیک ہے بابا غلطی ہو گئی میں معافی چاہتا ہوں اکبر بولا مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تم اس اسکول میں جا کر پرنسپل سے لائبریری  چلانے کی اجازت لے سکتے ہو ؟

میں کیوں ؟ تم کیوں نہیں ؟ ہم دونوں ہی اس کے سابق طالب علم ہیں۔

وہ بہت پرانی بات ہے ہم جیسے ہزاروں لوگ اس اسکول کے سابق طالب علم ہیں لیکن ان میں سے تم ایک ایسے ہونہار طالبعلم ہو جو میونسپلٹی میں زیرِ ملازمت ہو اور یہ نہ بھولو کہ یہ ایک میونسپل اسکول ہے اس لئے تم پر زیادہ اعتماد کیا جائے گا۔میرا مطلب ہے تمہاری زیادہ چلے گی۔

بھئی اکبر میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ بلدیہ میں ہم لوگ اپنے شعبہ سے باہر نہیں جھانکتے اور میں شعبۂ تعلیم میں نہیں بلکہ بازار کے شعبہ میں کام کرتا ہوں۔

جی ہاں میں جانتا لیکن ہو تو آخر بلدیہ میں اور تمہیں اگر اس قدر جھجک ہے تو شعبۂ تعلیم کے کسی ملازم کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاو۔

یہ ہوئی نا کام کی بات تم کبھی کبھی بالکل منموہن دیسائی کے اکبر کی طرح دماغ چلاتے ہو خیر میں ایسا کروں گا کہ پہلے تو شعبۂ تعلیم میں کوئی  دوست تلاش کروں گا۔پھر اسے اپنے ساتھ چلنے کیلئے تیار کروں گا اور پھر اس کو اپنے ساتھ لے کر صدر مدرس کے پاس جاؤنگا۔ جب یہ سب ہو جائے گا تو تمہیں بتلاؤں گا بھئی  بڑا لمبا کام بتایا ہے تم نے ! اکبر حیرت سے امر کا منھ تک رہا تھا۔

ایک ماہ بعد اکبر نے امر سے پوچھا یار یہ بتا کہ وہ اجازت کا کیا بنا کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری اجازت سے قبل کامریڈ جبار قریشی کا بلاوا آ جائے اور پھر ہمیں کتابوں اور الماری وغیرہ کیلئے کسی دھنا سیٹھ کی تلاش کرنی پڑے۔

امر بولا یار تم تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات کر رہے ہو۔ ابھی تو بڑی مشکل سے ایک دوست تیار ہوا ہے لیکن اس نے وقت نہیں بتایا جب وقت دے گا تبھی نا میں اس کو ساتھ لے جا سکوں گا ویسے بھی کوئی زور زبردستی تومیں کر نہیں سکتا۔

اس قدر معمولی سے کام کیلئے اتنا وقت میری سمجھ میں نہیں آتا یار ایسا بھی کہیں ہوتا ہے ؟

کیا مطلب ایسا بھی کہیں ہوتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں ایسے نہیں ہوتا تو کیسے ہوتا ہے ؟

ہماری کمپنی میں تو ایسا نہیں ہوتا۔

مگر ہمارے بلدیہ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

میں سمجھ گیا اکبر ے تنک کر بولا۔

کیا سمجھے ؟ تم مجھے بھی بتاؤ اس لئے کہ مجھے یقین ہے تم نے کچھ نہ کچھ غلط سمجھا ہو گا

یہی کہ جہاں دلچسپی نہیں ہوتی وہاں  ایسا ہوتا ہو گا ورنہ ایسا کہیں نہیں ہوتا۔

امر نے ترکی با ترکی جواب دیا بکواس نہ کرو مجھے بھی لائبریری میں اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی تمہیں ہے کیاسمجھے ؟ بلکہ یہ نہ بھولو کہ یہ بنیادی طور پر میرا ائیڈیا ہے جسے تم نے اٹھا لیا

اٹھا لیا کیا مطلب ؟

مطلب ہے میرے ساتھ ہو لئے اور کیا؟

اچھا بابا مان گئے کہ ایسا بھی ہوتا ہے اور یہ تمہارا ہی آئیڈیا ہے۔اب تم نے ابتدا کی تو اسے انجام تک پہنچاؤاور جلدی سے اجازت حاصل کرو۔

ٹھیک ہے اب اگر وہ نہ آئے تو میں اسے اغوا کر کے لاؤں گا بس۔ اب تو خوش ہویا نہیں ؟ امر نے یہ کہا تو دونوں دوستوں نے جم کر قہقہہ لگایا۔

 

 

 

گھرواپسی

 

وقت گزرتا رہا دار المطالعہ کی اجازت اسکول اور بلدیہ دونوں مقامات سے حاصل کر لی گئی اور بڑی دھوم دھام سے اس کا افتتاح ہو ا کامریڈ جبار قریشی نے جلسے کی صدارت کی اور اس کے ساتھ سانتا کروز کی تاریخ میں پہلی بار شاندار مشاعرہ بھی ہوا۔ اس لائبریری میں مختلف زبانوں کے اخبارات آتے تھے ابتدا میں کتابیں صرف جبار قریشی کی طرف سے آئی تھیں لیکن اس میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور وقت کے ساتھ مختلف موضوعات پر بے شمار کتابیں جمع ہو گئیں۔

عوام و خواص کا آنا جانا ہو گیا لوگوں میں پہلے تو مطالعہ کا شوق پیدا ہوا بعد میں ان میں سے لکھنے والے بھی پیدا ہونے لگے کوئی اخبار میں لکھتا تو کوئی شاعری کرتا کسی کو کہانیاں لکھنے کا شوق تھا تو کوئی ڈرامے لکھ رہا تھا گویا افراد کے اندر دبی ہوئی مختلف تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آنے لگیں اور علم و ادب کا چشمہ رواں دواں ہو گیا۔ اس بیچ یہ بھی ہوا کہ امر اور اکبر کی شادیاں ہو گئیں اور وہ بال بچے والے ہو گئے۔

ایک روز یونہی میدان میں  چھجے کے نیچے امر اور اکبر بیٹھے تھے کہ امر نے پو چھا کیوں اکبر آج کل تم خواب نہیں دیکھتے کیا بات ہے ؟

یار کوئی خاص بات نہیں لیکن اتفاق سے میں نے حال ہی میں ایک خواب دیکھا ہے اور میں تمہیں بتا نا چاہتا تھا لیکن پھر سوچا کیا بتاؤں ؟

واقعی گویا اگر میں آج نہیں پو چھتا تو تم مجھ سے یہ بات چھپائے رکھتے ؟

نہیں ایسا تو نہیں ہے کبھی نا کبھی تو بتانا ہی پڑتا لیکن یہ درست ہے کہ اگر تم ابھی یہ سوال نہ کرتے تو کم از کم اس وقت نہ بتلاتا۔

اچھا تو خیر اب اپنا خواب بیان بھی کرو میں بھی تو سنوں کہ میرا دوست آج کل کیسے خواب ُبنتا ہے ؟

اکبر بولا ویسے خواب تو پرانا ہے لیکن اس میں معمولی سی تر میم ہو گئی ہے۔

وہ کیا؟

میں نے برسوں قبل خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک رکشا میں بیٹھ کر تمہارے ساتھ ہوا میں اڑ رہا ہوں لیکن اب کی بار دیکھا کہ میں واقعی ہوائی جہاز میں اڑ رہا ہوں اور میری بیوی بچے میرے ساتھ ہیں۔

اچھا لیکن تم سب مل کر جا کہاں رہے تھے ؟سوئزرلینڈتو نہیں جہاں تمہاری کمپنی کا ہیڈ آفس ہے ؟

نہیں یار یہ کنجوس کمپنی ہمیں سوئزرلینڈ کی سیر کیا کرائے گی اس نے تو ابھی تک ہمیں پنچ گنی جانے کے قابل بھی نہیں بنایا۔

تو پھر کہاں جا رہا تھا تمہارا جہاز؟ امر کی دلچسپی میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا۔

ایسالگتا تھا گویا وہ کسی عرب دیس میں جا رہا ہے۔ تمام اعلانات انگریزی کے علاوہ عربی زبان میں ہو رہے تھے۔

امر بولا یار ایک بات بتاؤں کچھ خواب سچے ہوتے ہیں  تمہارا یہ خواب تو میری حقیقت کا اظہار بن گیا ہے۔

کیا مطلب میں نہیں سمجھا ؟

بات دراصل یہ ہے کہ میں نے بلدیہ کی ملازمت سے استعفیٰ۔۔۔۔۔۔۰ دیا تو نہیں مگر لکھ کر تیار کر دیا ہے۔

کیوں خیریت تو ہے نا؟

جی ہاں سب خیریت ہے۔ مجھے جنرل الکٹرک میں ملازمت مل گئی ہے اور میں جلد ہی تمہاری بھابی کے ساتھ امریکہ روانہ ہونے والا ہوں۔

اچھا تو تم نے یہ راز مجھ سے چھپائے رکھا! کیوں ؟

نہیں ایسی بات نہیں ابھی تک کوئی ٹھوس بات ہوئی نہیں تھی۔ کل ہی ان کی جانب سے اگریمنٹ کے کاغذات آئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے ابھی ان پر دستخط کر کے بھی نہیں بھیجا۔سوچ رہا تھا پہلے تم سے مشورہ کروں پھر آخری فیصلہ کروں۔

بھئی مبارک ہو۔ مجھے بھی اس بیچ سعودی عرب کی آرامکو نامی کمپنی سے ایک ملازمت کی پیش کش آئی ہے اور شاید وہی خواب بن کر آنکھوں میں سمائی ہو۔ میں تم سے کہنے والا تھا کہ میرے بعد تم اس لائبریری وغیرہ کا خیال رکھنا لیکن ایسا لگتا ہے کہ مجھ سے پہلے تم ہوا ہو جاؤ گے۔

کون کب کہاں جائے گا یہ تو کہنا مشکل ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارے بعد ہمارا یہ بچپن کا خواب نہ بکھر جائے ؟

ایسی بات نہیں ہے اکبر پہلے یہ صرف ہم دونوں کا خواب تھا اب یہ اس بستی کی ایک حقیقت ہے اب اسے سنبھالنے والے اور چلانے والے بہت سارے ہاتھ ہیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ جب ہم لوٹیں گے تو اسے پھلتا پھولتا پائیں گے۔

اکبر نے بے یقینی مگر گرمجوشی کے ساتھ کہا ان شاء اللہ۔

امر اور اکبر کے درمیان یوں تو ہزاروں میل کی دوری تھی لیکن بھلا ہو انٹر نیٹ کا کہ جس نے فاصلوں مٹا کر رکھ دیا تھا وہ دونوں اور ان کا پورا خاندان ہمیشہ ہی اسکائپ کی مدد سے ایک دوسرے کے رابطے میں رہتا۔ اسکائپ ایک ایسا جادو تھا جو نہ صرف آواز بلکہ چلتا پھرتا عکس بھی بلا معاوضہ ایک دوسرے تک پہنچا دیا کرتا تھا۔ امریکہ جانے کے بعد امر نے خوب کمایا اور بھرپور عیش کیا لیکن قدرت کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جب اس نے امریکہ کی شہریت حاصل کر لینے کے بعد وہیں رہ جانے کا منصوبہ بنایا تو امریکی معیشت بحران کا شکار ہو گئی۔

امریکہ کی ساری صنعتی  پیداوار تو پہلے ہی چین منتقل ہو چکی تھی بچا کچا سرمایہ بنک والوں کے گھپلوں کی نذر ہو گیا جو کسر رہ گئی تھے اسے سیاستدانوں نے جنگ کے بہانے لوٹ لیا۔ ایسی کساد بازاری چھائی کہ جنرل الکٹرک جیسی دیو ہیکل کمپنی تک چھٹائی پر مجبور ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں امر کو با دلِ ناخواستہ اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا لیکن اس دوران وہ باندرہ کاز وے پر ایک شاندار فلیٹ خرید چکا تھا اس لئے ممبئی واپس آنے کے بعد دوبارہ بھیم واڑہ میں جا کر رہنے کی نوبت نہیں آئی۔

اکبر سعودی عرب کی ادبی سر گرمیوں میں پیش پیش ہوا کرتا تھا۔دمام اور جبیل کے سارے مشاعروں کے انتظام و انصرام میں اس کا بھرپور حصہ ہوتا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے مہمانوں کی میز بانی کا شرف اکثر اسی کو حاصل ہوتا کبھی کبھار اسے ریاض یا جدہ سے بھی بلاوا آ جاتا۔ریاض تو وہ یونہی چلا جاتا لیکن جب جدہ جانا ہوتا تھا تو اس کے ساتھ عمرہ کا پلان جوڑ دیتا۔اس طرح سفر کی افادیت دوگنا ہو جاتی دنیا کا لطف اور آخرت کا ثواب دونوں کا اہتمام ہو جاتا۔

ایک مرتبہ آرامکو کی کسی کانفرنس میں اکبر جدہ گیا ہوا تھا تو اسے پتہ چلا تنظیم ہندوستانی کی جانب سے ایک زبردست مشاعرہ ایک دن بعد منعقد ہوا چاہتا ہے جس میں ہندوستان کے مختلف شاعروں کے ساتھ ندا فاضلی بھی آ رہے ہیں۔ اکبر بہت خوش ہوا اور مشاعرے میں پہنچ گیا۔ ندا نے اس مشاعرے میں کتابوں کی دوکان کے عنوان سے اپنی مندرجہ ذیل نظم پڑھی جو اکبر کے دل  میں اتر گئی۔

یہ رستہ ہے وہی

تم کہہ رہے ہو

یہاں تو پہلے جیسا کچھ نہیں ہے

درختوں پر

نہ وہ چالاک بندر

شرارت کرتے رہتے تھے

جو اکثر

نہ طاقوں پر چھپے صوفی کبوتر

تلاوت کرتے رہتے تھے

جو دن بھر

نہ کڑوا نیم املی کے برابر

جو گھر گھر گھومتا تھا

وید بن کر

’’ کئی دن بعد تم آئے ہو شاید

یہ سورج چاند والا

بوڑھا امبر

بدل دیتا ہے

چہرہ ہویا منظر

یہ عالیشان ہوٹل ہے جہاں پر

یہاں پہلے کتابوں کی دوکاں تھی‘‘

اکبر کو ایسا لگا گویا شاعر ان کی اپنی لائبریری کے بارے میں کہہ رہا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوا گویا کوئی  دیو ہیکل جن ان کی لائبریری کو اٹھا کر فرار ہو گیا ہے اور کسی اور دیو ہیکل مخلوق نے وہاں کوئی اور چیز لا کر نصب کر دی ہے۔ وہ نئی شہ کیا ہے اکبر نہیں جانتا تھا لیکن لائبریری نہیں ہے اس کا اسے یقین تھا۔سعودی عرب سے اکبر کا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔

دوسرے دن اکبر نے دفتر میں جا کر سب سے پہلے تو اپنا استعفیٰ لکھا اور پھر اپنی واپسی کی تیاریوں میں لگ گیا۔اکبر کی اہلیہ اختری بانو نہایت اطاعت گزار خاتون تھی وہ اس کی باہر کی دنیا میں کوئی مداخلت نہیں کرتی تھی اس کے باوجود اکبر کا مزاج کچھ ایسا تھا کہ جب وہ کسی معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ کر لیتا تھا تو کسی سے مشورہ نہیں کرتا تھا۔

اتفاق سے امر اور اکبر دونوں نے اتحاد ائیر لائنز کا ٹکٹ بنایا اور اس کے نتیجے میں دونوں دوست ممبئی سے پہلے ابو ظبی میں یکجا ہو گئے۔امر کی فلائیٹ پہلے آئی اس لئے وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بڑی بے چینی سے اکبر کا انتظار کرنے لگا۔ الکٹرانک ذرائع کی مدد سے ہونے والی میکانکی  ملاقات اور براہِ راست روحانی ملاقات کے درمیان کا فرق امر محسوس کر رہا تھا۔ اس سے قبل ان کے موضوعات مختلف نوعیت کے ہوتے تھے لیکن ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہی ان میں ایک واضح تبدیلی واقع ہو گئی تھی اب وہ اپنے مستقبل کے بجائے اپنی لائبریری کے بارے میں سوچ رہے تھے۔

وطن واپسی کے بعد امر اور اکبر نے سب سے پہلے بھیم واڑہ میں جا کر لائبریری دیکھنے کا منصوبہ بنایا اس لئے کہ عرصۂ دراز سے ان کا منتظمین سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔وہاں پہنچنے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ اس مقام پر جہاں میونسپل اسکول ہوا کرتا تھا بگ بازار نام کا ایک مال کھڑا ہوا ہے۔ تفتیش کے بعد انہیں پتہ چلا کہ پہلے تو اسکول کے اساتذہ نے پڑھانا بند کیا۔وہ تنخواہ تو لیتے تھے لیکن گپ شپ کر کے گھر چلے جاتے تھے اس کے نتیجے میں خوشحال والدین نے اپنے بچوں کو اس اسکول سے نکال کر دوسری نجی اسکولوں میں داخل کر دیا اور مفلوک الحال  والدین نے مہنگائی کے سبب بچوں کو روزی کے حصول ذریعہ بنا لیا۔

جب بچے ہی نہ رہے تو بلدیہ نے اسکول بند کر دیا اور پھر جب وہ عمارت کھنڈر بن گئی تو اسے ایک تاجر کو فروخت کر دیا گیاجس نے وال مارٹ کی طرز پر بڑا بازار تعمیر کر دیا تاکہ خوشحال لوگوں کے بچے اس میں خریداری کریں اور مفلوک الحال اس میں مزدوری کریں۔

امر اور اکبر کئی دنوں تک ایک دوسرے کے ساتھ اس دگر گوں صورتحال پر مختلف زاویوں سے گفتگو کرتے رہے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مسئلہ صرف لائبریری کے رہنے یا اجڑنے کا نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ بدعنوانی ہے جس کی جڑیں نظام حکومت میں بہت گہری ہو گئی ہیں۔  اس بیچ انہیں پتہ چلا کہ انا جی بدعنوانی کے خلاف ملک گیر عوامی تحریک چلا رہے ہیں اور اس کے ذریعہ وہ ملک کا نظام تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ امر اور اکبر اس تحریک میں امید کی ایک کرن نظر آئی اور وہ انا جی کے قافلہ میں شامل ہو گئے۔

 

 

 

 

جگو کمہار

 

رمیش کو امر اور اکبر کی کمی بہت شدت سے محسوس ہو رہی تھی اس لئے کہ وہ دونوں اس کے دست و بازو تھے۔ ان  کابندروں کی خدمت میں تعینات کر دیا جانا اسے بہت کھل رہا تھا اس لئے رمیش نے کسم کو سمجھا منا کر کے اسے جگو کمہار کو فارغ کرنے پر راضی کر لیا۔جگو کمہار کا کام کسم کا ہاتھ بٹا نا تھا وہ کسم کی بہت عزت کرتا تھا اور اور اس کے اشارے پر بجلی کی سرعت سے دوڑ جاتا تھا۔جگو  کو رمیش اپنے ساتھ اجتماع گاہ سے بھوشن کے مکان پر لے گیا جہاں بندروں کے ساتھ امر اور اکبر موجود تھے۔

رمیش جب اپنے ساتھ امر اور اکبر کوواپس لے گیا تو تان سین اور مونی بابا کو اپنے دوستوں کے بچھڑ جانے  کا بہت ملال ہوا۔ وہ بیچارے رامائن کی کتھاسننے سے قبل ہی بن باس پر روانہ کر دئیے گئے تھے۔ اس غم میں موقع پا کر تان سین نے مونی بابا سے پو چھا اب کیا ارادہ ہے۔ اس قید سے تو اچھا ہے چلو اپنے ماروتی مندر میں لوٹ چلیں۔

اور وہ جگو کمہار جو ہماری نگرانی پر متعین ہے اس کا کیا؟ مونی بابا بولے

تان سین نے جواب دیا وہ بھلا ہمیں کیا روک سکے گا ہم کھڑکی سے کود کر بھاگ جائیں گے۔ ویسے ہمارے فرار ہو جانے میں اس کا بھی فائدہ ہے۔

اس کا فائدہ؟ میری سمجھ میں نہیں آیا لگتا ہے آپ بھی گووند کی باتیں سنتے سنتے کم سمجھ ہو گئے ہیں  ورنہ ناممکن ہے کہ اتنی آسان سی بات آپ کی سمجھ میں نہ آئے ؟

کسم کی طرح باتیں نہ بناؤ سیدھے سیدھے میرے سوال کا جواب دو مونی بابا بولے۔

بات یہ ہے کہ جس طرح ہم لوگ یہاں قید ہیں یہ جگو بھی تو اسی قسم کی قید و بند میں گرفتار ہے۔ اگر ہم لوگ بھاگ جائیں گے تو یہ بھی چھوٹ جائے گا۔

مونی بابا بولے یہ تو بڑے پتہ کی بات بتائی تم نے بلکہ اس کی حالت تو ہم سے بھی گئی گزری ہے۔ ہم تو دو ہیں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر کے  امر اور اکبر کی مانند دل بہلا لیتے ہیں یہ تو بیچارہ تنہائی کی قید میں مبتلا ہے نہ کسی سے کچھ بول سکتا ہے اور نہ کسی کی سن سکتا ہے۔

جگو چپ چاپ یہ باتیں سن رہا تھا اس نے محسوس کر لیا  تھا کہ یہ بندر رمیش اور گووند سے زیادہ سمجھداری کی باتیں کرتے ہیں۔ کسم کی بات اور تھی اس کی باتیں جگو کو بہت اچھی لگتی تھیں۔

تان سین نے سوال کیا بابا ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ہم پر تو یہ نگرانی کر رہا ہے اس لئے ہمیں بھاگ نکلنے میں تھوڑی بہت دشواری ہے لیکن اس پر تو کوئی نگراں نہیں ہے  پھر یہ کیوں نہیں فرار ہو جاتا ؟

یہ خاصہ مشکل سوال تھا مونی بابا کی زبان بند ہو گئی جگو نے جب یہ دیکھا تو آہستہ سے بولا بات دراصل یہ ہے کہ انسان غیروں کی غلامی سے تو کسی طرح آزاد ہو جاتا ہے لیکن خود اپنے آپ کی غلامی سے نکلنا اس کیلئے بہت زیادہ دشوار ہوتا ہے۔

تان سین نے جب اپنے پیچھے سے یہ آواز سنی تو چونک کر پیچھے دیکھا جگو مسکرا رہا تھا۔اس نے سوال کیا غلامی تو غلامی ہے اپنی ہو یا پرائی پھر ایک میں آسانی اور دوسرے میں دشواری ؟ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

مونی بابا کو لگا کہ اب ان  کے سارے راز فاش ہو جائیں گے۔ جگو انا جی کی ٹیم کو بتلا دے گا کہ یہ بندر انسانوں کی بولی بولتے ہیں اور پھر سارا منصوبہ خاک میں مل جائے گا۔

جگو بولا اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر کی زنجیروں کا بوجھ بڑی آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن اپنی ذات کے اندر پڑی ہوئی گرہ نہ دکھلائی ہے اور نہ محسوس ہوتی ہے۔ انسان از خود اسے کمزور کرنے کے بجائے مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی باطنی غلامی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

مونی بابا نے محسوس کیا یہ جگو تو نہایت ذہین آدمی ہے۔ اس طرح کا جواب انا ٹیم کا کوئی اور فرد تو کجا خود اناجی بھی نہیں دے سکتے۔وہ بولے جگو تم تو کافی سمجھدار آدمی لگتے ہو۔تم ان احمقوں کے چنگل میں کیسے پھنس گئے ؟

یہ ایک طویل داستان ہے مونی بابا ! جگو نے آہ بھر کر کہا آپ اسے جان کر کیا کریں گے ؟

میں ! میں  اس پر کتاب لکھوں گا لوگ عام طور سے جب قید و بند کا شکار ہوتے ہیں تو اپنی سوانح حیات لکھتے ہیں میں بھی لکھوں گا لیکن اپنی نہیں بلکہ میں تمہاری آپ بیتی تحریر کروں گا۔

جگو نے ایک زوردار قہقہہ لگا کر کہا مونی بابا مجھے یقین ہے کہ آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔میں نہیں جانتا کہ آپ صرف انسانوں کی بولی جانتے ہیں یا لکھنا پڑھنا بھی جانتے ہیں لیکن ممکن ہے آپ جانتے ہوں۔ خیر اگر آپ کو لکھنا ہی ہے تو انا جی کی سوانح عمری لکھئے۔ ساری دنیا اسے پڑھنے کیلئے بیتاب  ہے آپ کی کتاب خوب بکے گی۔

دیکھو جگو! حلوائی میں اور مصنف میں بنیادی فرق یہی ہے کہ حلوائی وہ چیز بناتا ہے جس کی بازار میں کھپت ہوتی ہے۔ اس کی اپنی پسند یا ناپسندکی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ گاہک کی ضرورت کے مطابق سب کچھ ہوتا ہے لیکن میں وہ لکھوں گا جو میں چاہتا ہوں۔ مجھے اس کا کوئی قلق نہیں ہو گا کہ میری مٹھائی کسی نے نہیں کھائی اور ضائع ہو گئی بلکہ اس کی خوشی ہو گی کہ میں جو ادب تخلیق کرنا چاہتا تھا اسے میں نے اس طرح تحریر کیا جیسا کہ میں چاہتا تھا۔ میں نے اپنا کام کیا لوگ اپنا کام کریں یا نہ کریں یا قارئین اس کے ساتھ جو چاہیں معاملہ  کریں۔ مجھے ان سے کوئی غرض نہیں۔

لیکن جناب اس فن کا کیا فائدہ جس کی پذیرائی نہ ہو ؟

تجارت کا انحصار فائدے اور نقصان پر ہوتا ہے لیکن فن کے ساتھ ایسا  نہیں ہوتا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جو کاوش محض عوام کی ضرورت کے پیشِ نظر کی جائے میں اسے سرے سے فن تسلیم ہی نہیں کرتا۔ میرے خیال میں وہ دوسری مادی اشیا کی مانند  ایک  بے روح سامانِ ضرورت ہے فنکاری نہیں ہے۔

تو کیا فن میں بھی زندگی ہوتی ہے ؟ جگو کمہار نے ایک اور سوال کیا

جی ہاں کیوں نہیں۔ اس میں فنکار اپنی روح کا ایک حصہ پھونک دیتا ہے اور وہ حصہ فنکار کی موت کے بعد اس کی کاوش کو زندہ و تابندہ رکھتا ہے۔

تو کیا فنکار کی موت کے باوجود فن نہیں مر تا؟

جی نہیں جگو ہر انسانی تخلیق اپنے نئے قالب میں ایک منفرد وجود ہوتی ہے۔کلون کی طرح اس تخلیق کا اس کے خالق سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔ اس کی اپنی زندگی اور اپنی موت ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اکثر تخلیقات فنکار کے سامنے دم توڑ دیتی ہے لیکن کبھی کبھار وہ اپنے خالق کے بعد صدیوں تک زندہ بھی رہتی ہیں۔ لوگ نسل در نسل اس سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔

جی ہاں یہ تو میرا بھی مشاہدہ ہے لیکن کیا کوئی ایسی تخلیق بھی ہو سکتی جو موت کے چنگل سے آزاد ہو؟ کوئی ایسی بہار جسے خزاں کا خطرہ نہ ہو ؟

مونی بابا جگو کے اس سوال پر مسکرائے اور بولے جگو تم سوچتے بہت ہو اور بہت اچھا سوچتے ہو۔ انسانِ فانی کی کوئی تخلیق ایسی نہیں ہو سکتی جس کا مقدر فنا نہ ہو۔ہاں اس خالقِ حقیقی کی ہر تخلیق لا فانی ہے جو بذاتِ خود لافانی ہے۔ اب یہ اس کی مرضی ہے کہ کب تک کسے زندہ رکھے اور کب کسے فنا کے گھاٹ اتار دے۔

مونی بابا آپ بہت دو ر نکل گئے مجھ جیسا حقیر و فقیر انسان ان اعلی ٰ و ارفع باتوں کا ادراک نہیں کر سکتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہے جگو کی سوانح حیات کوئی غریب بھی پڑھنا نہیں چاہے گا۔

دیکھو جگو تم جیسے لوگوں کی داستانِ  حیات اس لئے نہیں پڑھی جاتی کہ لکھی ہی نہیں جاتی ورنہ جہاں تک دلچسپی کا سوال ہے ہر زندگی دلچسپ ہے۔ویسے تو میں تمہیں کہہ چکا ہوں کہ کوئی پڑھے یا نہ پڑھے میں اسے لکھوں گا لیکن مجھے لگتا ہے لوگ اسے بڑے  ذوق و شوق سے پڑھیں گے اور اسے پڑھتے ہوئے یہ محسوس کریں گے گویا خود اپنی آپ بیتی پڑھ رہے ہیں۔ انہیں اس کتاب کے مطالعہ سے اپنی ذات کی معرفت حاصل ہو گی۔

لیکن بابا کسی غریب کے پاس پڑھنے لکھنے کا وقت کہاں ہے ؟

مونی بابا بولے جگو مجھے تمہاری اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔پڑھنے لکھنے کا زیادہ تر کام غریب لوگ ہی کرتے ہیں۔ غریب کے پاس دولت نہیں ہوتی لیکن وقت ہوتا ہے جو دھن دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس کے باوجود جوسرمایہ اس کے پاس ہوتا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کر کے وہ اپنے پیٹ کے علاوہ اپنے دماغ کی غذا کا بندوبست بھی کر ہی لیتا ہے۔پیٹ تو اناج سے بھر جاتا ہے دماغ کیلئے کتابوں کو چاٹنا پڑتا ہے۔

جگو بولا مجھے غریب کے پاس وقت والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ دو وقت کی روٹی جٹانے سے اسے فرصت ہی نصیب نہیں ہوتی ؟

اچھا اگر ایسا ہے تو یہ بتاؤ دنیا بھر کے کھیل تماشوں میں۔ میلوں ٹھیلوں میں بلکہ دنیا بھر  میں چلنے والی انقلابی تحریکوں میں کون نظر آتا ہے ؟ کون اس پر اپنے وقت کا قیمتی سرمایہ قربان کرتا ہے ؟

جگو لاجواب ہو گیا تو تان سین نے سوال کیا اور امیروں کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے مونی بابا ؟

وہ! اول تو ان کے پاس پڑھنے لکھنے بلکہ سوچنے سمجھنے کیلئے بھی وقت نہیں ہوتا۔ وہ تو دن رات ۹۹ کے چکر میں مگن ہوتے ہیں۔

یہ ۹۹ کا چکر کیا ہے اس بار تان سین  نے سوال کیا۔

وہی ۹۹ کو ۱۔۔ بنانے کا چکر جو کبھی ختم نہیں ہوتا یہاں تک کہ انسان لبِ گور پہنچ جاتا ہے اور پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ ۹۹ اور ۱۔۔ دونوں بیکار ہیں ان میں سے کسی کا سکہ وہاں نہیں چلتا سب پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔

لیکن جو لوگ مختلف تحریکوں کے اندر اپنی زندگی کھپا دیتے  ہیں کیا ان کے بارے میں بھی آپ کا یہی خیال ہے ؟ جگو نے سوال کیا

ایسے لوگوں کی دو قسمیں ایک تو ریاکاری اور شہرت و مفاد کیلئے شامل ہو جاتے اور دوسرے مخلص اور بے لوث لوگ جو خال خال ہوتے ہیں لیکن ہوتے ضرور ہیں۔

جگو بولا مجھے ڈر ہے کہ جب انا ٹیم کے لوگوں کو آپ کی صلاحیتوں کا علم ہو جائے گا تو وہ اس سے فائدہ اٹھانے میں لگ جائیں گے۔پھر آپ کو لکھنے پڑھنے کی فرصت ہی کہاں ہو گی؟

بھئی ان کو پتہ کیسے چلے گا؟ اگر تم نہ بتاؤ تو ہماری بابت وہ کچھ بھی نہیں جان سکتے۔ ہماری خاطر ان کی آنکھ، کان اور زبان تم ہی تو ہو۔

جی ہاں لیکن ابھی کچھ دیر قبل آپ نے یہ کیوں کہا تھا کہ آپ دونوں ساتھ ہیں اور میں قیدِ تنہائی میں ہوں حالانکہ میں بھی تو آپ لوگوں کے ساتھ ہوں۔

یہ میں نے نہیں اس بے وقوف تان سین نے کہا تھا۔ اس وقت تم  سے بات نہیں ہوئی تھی۔ہم طبعی طور پر ساتھ ساتھ تھے اب قلبی تعلق ہو گیا ہے۔

تان سین بولا مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہمارا ساتھی نین سکھ پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔

اس گفتگو کے بعد ان تینوں کے معمولاتِ زندگی میں ایک خاص نظم و ضبط پیدا ہو گیا۔ تینوں کے دن رات تین حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ ۸  گھنٹہ ہر کوئی آرام کرتا۔ اس کے علاوہ ۸ گھنٹہ کھانے پینے اور گپ شپ میں صر ف ہوتے لیکن تیسر ا ایک چوتھائی تینوں کیلئے مختلف تھا۔  تان سین ا س دوران شاعری کرتا کبھی انقلابی شاعری تو کبھی اپنی بندریا کے فراق میں عشقیہ شاعری۔جگو ۴ گھنٹہ اپنی داستانِ حیات مونی بابا کو سناتا اور بقیہ چار گھنٹہ میں صاف صفائی اور دیگر ضروری انتظامات کرتا۔ مونی بابا ۴ گھنٹہ سنتے اور چار گھنٹہ لکھتے۔ وہ تازہ بتازہ  افسانوی انداز میں معلومات کو مرچ مصالحہ لگا کر دلچسپ بنا رہے تھے اور جو کچھ تیار ہو رہا تھا  وہ اس طرح تھا۔

 

 

 

 

جگو کمہار کی آپ بیتی

 

جگو کمہار کی آنکھ کھلی تو وہ اداس تھا اس کی آنکھیں  چار پائی پر پڑے پڑے آسمان پر بادلوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ جگو کی چھت میں کئی ایسے چھوٹے بڑے سوراخ تھے جن کے اندر سے وہ وسیع و عریض فلک کا نظارہ کر سکتا تھا اکثر وہ آسمان پر تاروں کی مدد سے بننے والے نت نئے ڈیزائن دیکھتا اور انہیں اپنے برتنوں پر سجا دیتا۔ جگو کے برتن ان اچھوتے نقوش کے سبب سارے علاقے میں مشہور تھے لوگ انہیں اپنے گھروں میں آرائش و زیبائش کیلئے بھی استعمال کرتے تھے لیکن گزشتہ رات اس کے گدھے کی موت کے بعد یہ سارے مناظر بے معنی ہو چکے تھے۔ اس کے گدھے نے پیاس سے دم توڑ دیا تھا۔

اس حادثے کے بعد وہ ایک گھڑا لے کر رات کے اندھیرے میں راج محل کے اندر سارے حفاظتی عملے سے نظر بچا کر داخل ہو گیا تاکہ اپنے روتے بلکتے بچوں کے لئے پانی لا سکے لیکن جب وہ گھڑا بھر کر لوٹ رہا تھا تو ایک سپاہی نے اسے دیکھ لیا اور آواز لگائی اوئے کون ہے تو؟ اس وقت یہاں کیا کر رہا ہے ؟

جگو ڈر گیا۔ وہ  ان بے معنیٰ سوالات کا جواب دینے کے بجائے دروازے کی جانب تیز تیز چلنے لگا۔پھر سے وہی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ رک جا ورنہ میرا تیر تیرے سینے میں پیوست ہو جائے گا۔ میں راج سرکشا کا اہلکار ہوں میرے لئے سات خون معاف ہیں مجھ سے آٹھویں کی وجہ پوچھی جاتی ہے اور میرے ہر جواز کو من و عن قبول کر لیا جاتا ہے۔جگو پر اس دھمکی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔  اس کی نظریں محل کے صدر دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ جلد از جلد اسے پار کر لینا چاہتا تھا اسے یقین تھا یہ سرکاری پلاّ محل کے باہر نہ بھونک سکتا ہے اور نہ کاٹ سکتا ہے۔ اس کے کانوں میں پھر ایک بار وہی آواز گونجی رک جا مورکھ[ بے وقوف] یہ تیرے لئے آخری تنبیہ ہے اور خوب جان لے کہ میرا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا لیکن یہ فیصلہ کن  دھمکی بھی بے اس پر اثر انداز نہیں ہوئی۔

جگو اپنی جان سے بے پرواہ چلا جا رہا تھا اور جیسے ہی اس نے باہر کی دہلیز پر قدم رکھنے کیلئے پیر بڑھایا تیر کی سنسناہٹ اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ نشانہ چوک گیا پانی کا گھڑا پھوٹ گیا۔جگو نے افسوس کے ساتھ اپنے آپ سے کہا کاش کہ یہ نشانہ خطا نہ ہوتا اور اپنے معصوم روتے بلکتے بچوں کو پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھنے کے کرب سے وہ بچ جاتا۔سپاہی کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی وہ پانی کے ایک گمنام چور کو اپنے گھناؤنے مقصد میں کامیاب ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

جگو واپس آ کر سوگیا تو اس نے خواب میں وہ کہانی  دیکھی جو اس کی دادی نے اسے بچپن میں سنائی تھی۔ ایک دن جب رات میں دادی اسے سلانے کی غرض سے کہانی سنانے جا رہی تھی تو جگو نے اس سے ایک معصومانہ سوال کر دیا۔ دادی امی میرے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں تمہارا اتنا لمبا چوڑا نام ’’ جگت پرشاد اپادھیائے ‘‘ کیوں ہے ؟کمہاروں کے اس محلے میں اس قدر پیچیدہ  نام کسی کا نہیں تھا۔ سیدھے سادے لوگوں کے نام بھی سہل و آسان ہوا کرتے تھے۔ جگو کی دادی نے جواب دیا بیٹے اس کے پیچھے ایک طویل داستان ہے۔ اچھا ہے تو آپ مجھے پریوں کی کہانی کے بجائے وہ داستان کیوں نہیں سناتیں۔ دادی بولی بیٹے ابھی تو چھوٹا جو ہے۔ ان راجنیتی(سیاست) کی باتوں کو نہیں سمجھ پائے گا اسی لئے میں تجھے ۔۔۔۔۰جگو نے اپنی دادی کی بات کاٹ دی اور بولا دادی میں بچہ ضرور ہوں لیکن عقل کا کچا نہیں ہوں آپ مجھے وہی داستان سنائیے میں سب سمجھ جاؤنگا۔

دادی نے کہا تو نہیں مانے گا بالکل اپنے پر دادا یعنی میرے باپ پر گیا ہے۔ جگو بولا جو بھی ہو آپ کو مجھے وہ داستان سنانی ہی ہو گی۔ دادی نے کہا  اچھا تو میری ایک شرط ہے۔  وہ کیا جگو نے سوال کیا۔ تو بیچ میں سوئے گا تو نہیں ؟ جی نہیں میں کیوں سووں گا ؟ لیکن سن اگر تو سو گیا تو میں وہ کہانی پھر دوبارہ نہیں سناؤں گی۔ کبھی نہیں کیا سمجھے ؟جگو بولا مجھے آپ کی شرط منظور ہے۔ میں آج آپ سے وہ کہانی سنوں گا اور کل آپ کو سناؤں گا۔ دادی کو اپنے پوتے پر ہنسی بھی آئی اور پیار بھی آیا وہ بولی جب تیرا باپ چھوٹا تھا نہ تیری عمر کا۔ بالکل تیری طرح نٹ کھٹ تھا۔ اسی طرح باتیں کیا کرتا تھا۔ جگو بولا دادی آپ مجھے اِدھر اُدھر کی باتوں میں  الجھانے کے بجائے کہانی سنائیں۔

دادی نے کہا بیٹے ہمارے آبائی گاؤں بھرت پور کی پرمپرا (روایت)یہ تھی کہ جب کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا تو وہ اسے مندر میں راج پروہت کے چرنوں میں لا کر رکھ دیتا۔ راج پروہت اس بچے کا اس کی ذات برادری کی نسبت سے کوئی نام تجویز کر دیتا اور بچے کے والدین ر اج پروہت کو دکشنا (ہدیہ)دے کر خوشی خوشی لوٹ جاتے لیکن ہمارے  پریوار کو اس روایت سے استثنیٰ حاصل تھا۔ہم اپنے بچوں کے نام رکھنے کی حد تک خودمختار  تھے۔ یہ اور بات ہے کہ وقت کے ساتھ جگت پرساد جگو ہو جاتا اور بھگت پرسادکو لوگ بھِکو کہہ کر پکارنے لگتے تھے اس لئے کہ کمہاروں، دھوبیوں اور موچیوں جیسے پیشہ ور لوگوں کو طول طویل ناموں سے پکارنے کی نہ کسی کو فرصت تھی اور نہ ضرورت۔

جگو نے اپنی دادی سے جو کچھ سنا اسے خواب میں دیکھا۔ اس نے راج محل کو دیکھا جہاں اس کے پر دادا کمل پرشاد اپادھیائے پر راج پروہت یہ الزام لگا رہا تھا کہ انہوں راج پردھان کو اس کی غلطی پر ببانگ دہل ٹوک کر سارے راج دربار کا اپمان (توہین) کیا ہے ؟کمل پرشاد کہہ رہے تھے اصل مسئلہ مان یا اپمان کا ہے ہی نہیں اس لئے میں نے کسی کا اپمان نہیں کیا۔تنازعہ نیایہ سماّن (انصاف کے احترام) کا ہے۔ راج پروہت مہودئے سے میری ونمر ونتی(گزارش )ہے کہ راج دربار کویہ بتلانے کا کشٹ کریں کہ منگلو کا آروپ (الزام)  درست ہے یا نہیں ؟ راج پردھان نے اپنے محل کے وستار(توسیع) کی خاطر بلا اجازت و بیع منگلو کمہار کی زمین استعمال کی یا نہیں ؟ دھرم شاستر کے انوسار (مطابق)راج پردھان غلطی پر ہیں یا نہیں ؟ اس پرشنوں کا جب تک اُترّ (جواب) نہیں مل جاتا اس سمئے تک یہ طہ نہیں ہو سکتا کہ میرا راج پردھان کو ٹوکنا  اُچت (مناسب)تھا یا انوچت (نامناسب)تھا؟

راج پر دھان دوشی ہیں یانہیں اس کانرنیہ بعد میں ہو گا پرنتو سب سے پرتھم پرشن یہ ہے کہ کیا تمہیں ان کو ٹوکنے کا ادھیکار پراپت (حاصل) ہے ؟ دھرم شاستر کے انوسار راج پردھان کو مہاراج کے علاوہ کوئی ٹوک نہیں سکتاتم بھی نہیں۔راج پروہت کا جواب نہایت صاف اور دو ٹوک تھا۔ کمل پرشاد نے پوچھا اگر وہ دوشی ہوں تب بھی؟ جی ہاں ہمارا دھرم شاستر یہی کہتا ہے کہ اگر وہ غلطی کرے تب بھی کوئی راج درباری یا ساماّنیہ ویکتی(عام آدمی)  راج پردھان  پر انگشت نمائی نہیں کر سکتا۔کمل پرشاد نے ڈھٹائی سے پوچھا اگر ایسا ہے تو ان کے دوارا (ذریعہ)ہونے والے انیایہ ( نا انصافیوں )کی روک تھام کیسے سمبھو ہے ؟

راج پروہت نے کہا راج پردھان کے سدھار کا ادھیکار صرف راج گھرانے کے سدسیوں (ارکان) کو پراپت ہے۔ کمل نے پوچھا لیکن راج گھرانے کے سدسیہ اگر اس کاریہ میں سکشم (اہل) نہ ہوں تو؟ ایسا اسمبھو ہے۔لیکن اگر ایسی پرستھیتی(صورتحال)میں  آپ اپنی بات ان سے کہہ سکتے ہیں اگر وہ آپ کے رائے سے سہمت (اتفاق)ہوں گے تو اقدام اویشیہ کریں گے۔ کمل نے پھر سوال کر دیا لیکن اگر وہ  سہمت نہ ہوں  تب؟

کمل پرشاد سوال پر سوال کئے جا رہے تھے۔راج درباریوں اور مہاراج کا پیمانۂ صبر لبریز ہوا جا رہا تھا لیکن کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ راج پروہت کی بات کو کاٹے اس لئے سارے لوگ صبر کا دامن تھامے ہوئے تھے۔ راج پروہت نے سنیم (صبروسکون) کے ساتھ جواب دیا۔تب پھر تمہیں راج گھرانے میں جنم لینا ہو گا اس کے بغیر تمہیں یہ ادھیکار پراپت (حاصل) نہیں ہوسکتا۔

لیکن یہ تو اسمبھو ہے گرودیو۔ کمل پرشاد بولے میں تو جنم لے چکا ہوں اب میں دوبارہ کیسے پیدا ہوسکتا ہوں ؟

راج پروہت کا جواب تھا۔ہم لوگ پونر جنم میں وشواس کرنے والے لوگ ہیں۔ ممکن ہے تمہارا اگلا جنم شاہی خاندان کے اندر ہو۔

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہ ہو؟ لیکن پرشن یہ ہے کہ بھویشیہ [مستقبل] میں جو ہو گا سو ہو گا اس وقت تک میں کیا کروں ؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں ؟

تب تک تمہارے لئے صبر کر لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار بھی تو نہیں ہے۔راج پروہت نے اعتماد بھرے لہجے میں کہا

اور اگر ایسا کرنا میرے لئے ممکن نہ ہو تو؟کمل پرشاد نے سوال کیا

نہ ہو تب بھی تم کر ہی کیا سکتے ہو؟ راج پروہت نے مسکرا کر کہا

کیا کر سکتا ہوں ؟جنتا میں جا سکتا ہوں۔آندولن کر سکتا ہوں (تحریک چلا سکتا ہوں )۔آندولن کا لفظ سارے دربار پر بجلی بن کر گرا۔ راج پروہت بھی اسے سننے کے بعد اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے انہوں نے چیخ کر کہا۔ کیسی بات کرتے ہو کمل پرشاد اپادھیائے۔ میں تو تمہیں پڑھا لکھا اور مہذب آدمی سمجھتا تھا۔ تمہارے مکھ پر یہ شبد شوبھا نہیں دیتے۔کیا تمہیں آندولن کا مطلب معلوم ہے ؟

آندولن کا مطلب تو ایک جاہل گنوار بھی جانتا ہے گرودیو۔

کمل۔ آندولن کا مطلب تو سبھی جانتے ہیں لیکن جو اس کے انجام سے  واقف ہوتے ہیں وہ اس لفظ کو سوچ سمجھ کر اپنی زبان پر لاتے ہیں۔

میں نہ تو آندولن کا انجام جانتا ہوں اور نہ ہی اس کی پرواہ کرتا ہوں۔ کمل پرشاد نے بلا خوف و خطر جواب دیا

ہمارے اس نظام میں آندولن چلانے کا مطلب بغاوت ہے بغاوت اور بغاوت کا انجام ۔۔۔۔۔۔راج پروہت کی زبان گنگ ہو گئی اس لئے کہ کمل پرشاد ان کا سب سے چہیتا شیشیہ( شاگرد) تھا۔

کمل بولا گرودیوآندولن سے آخر ہم لوگ اس قدر گھبراتے کیوں ہیں ؟

اس لئے کہ اس کی چنگاریاں سارے نظام کو خاکستر کر سکتی ہیں۔ اندیشہ ہے کہ  اس سے سارا بنا بنایا مایا جال تتر بتر ہو جائے۔

آپ کی بات درست ہے لیکن آندولن چلانے کیلئے بھی تو ہمیں اس نظام کی ناکامی ہی نے مجبور کیا  ہے۔ اب جو نظام ناکام ہو گیا اس کے درہم برہم ہو جانے کون سا انرتھ ہو جائے گا؟ ممکن اس کا انتم سنسکار(آخری رسومات)عوام کیلئے شبھ سندیش ( خوشیوں کا پیغام) لے کر آئے ؟

اس نظام کے ختم ہو جانے سے عوام کو کیا ملے گا یہ تو ہم نہیں جانتے اور نہ جاننا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو اس بات کی چنتا ہے کہ اس کے ختم ہو جانے کے نتیجے میں ہمارا کیا ہو گا؟ ہمارے سارے مفادات؟ساری ٹھاٹ باٹ جو اس پر منحصر ہے اس کا کیا ہو گا ؟ بدھیمان انسان وہ ہے جو پہلے اپنی فکر کرے  اور اس کے بعد دوسروں کی  چنتا۔راج پروہت نے نصیحت کا انداز اختیار کیا۔

گرودیو اگر آپ آگیہ دیں تو ایک بات کہوں۔

میری آگیہ کے بغیر ہی تم بہت کچھ بول چکے ہو تو اب آگیہ کے انوسار بھی بول دو۔ راج پروہت نے ایک  زہریلی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر بکھیرتے ہوئے کہا۔

میں اس کیلئے کشما[معافی] چاہتا ہوں پرنتو یہ اوشیہ(ضرور) کہوں گا کہ ہماری اس چتورائی نے ہی اس آندولن کی آوشیکتا( ضرورت) پیدا کر دی ہے جس سے ہم آج تھر تھر کانپ رہے ہیں اور مجھے وشواس ہے کہ اب یہ حربہ زیادہ دنوں تک ہمارے کام نہیں آئے گا۔

راج دربار کو موت کی خاموشی نے نگل لیا تھا کہ مہاراج وکرم سنگھ کا پیمانۂ صبر اس جملے کے ساتھ لبریز ہو گیا اور وہ بولے گرودیو یہ باغی اپنی حدوں کو پھلانگ چکا ہے۔ آپ راج دھرم  کے انوسار  مجھے آدیش دیں میں اس کا پالن کرنے میں کوئی سنکوچ نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ تلوار پر رکھ دیا۔

راج پروہت نے صبر سے کام لیتے ہوئے جواب دیا یہ حرکت اگر کوئی شودر جاتی کا منوشیہ کرتا تو اس کے ساتھ منو شاستر کے انوسار وہی ویوہار ہوتا جو تم کرنا چاہتے ہو پرنتو یہ نہ بھولو کہ یہ براہمن جاتی کا راج درباری ہے۔ اس سے پہلے کسی براہمن نے ایسی مورکھتا (حماقت) کا پردرشن نہیں کیا شاید یہ صورتحال منو جی کے کلپنا(خواب و خیال ) سے پرے تھی اس لئے انہوں نے اس بابت ہمارا مارگ درشن نہیں کیا۔اس لئے اب ہمیں خود کوئی اجتہاد کرنا ہو گا

وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا اس وقت تک ہم اس باغی کو فساد پھیلانے کی خاطر کھلا چھوڑ دیں گے ؟ راج پردھان نے راج پروہت سے سوال کیا

نہیں ہم ایسا ہر گز نہیں کر سکتے۔ اسے تین دن کی حراست میں رکھا جائے اس کے بعد منو شاستر کی روشنی میں مناسب فیصلہ کر کے ہم اس پر نافذ کر دیں گے۔اس لئے کہ اس معاملے میں جلد بازی فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت  ہو سکتی ہے۔

پولس کے سپاہی کمل پرشاد اپادھیائے کو گرفتار کر کے جیل لے گئے مہاراجہ وکرم سنگھ نے راج پردھان کی جانب دیکھا اوراس نے  ان کا اشارہ سمجھ کر تخلیہ کا اعلان کر دیا۔ سارے راج درباری اپنا اپنا فرشی سلام کر کے نکل گئے اور مہاراج کے ساتھ راج پروہت اور راج پردھان باقی رہ گئے۔

مہاراجہ وکرم سنگھ راٹھور کو اس روز بے حد صدمہ ہوا تھا وہ کمل پرشاد سے زیادہ راج پروہت سے ناراض تھے جس نے انہیں کمل کی گردن مارنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ وکرم نے تخلیہ کے بعد جب اپنی دائیں جانب مڑ کر دیکھا تو وہاں بیٹھی اپسرائیں سمست (مکمل) مدھو شالہ لے کر حاضر ہو گئیں۔ بائیں جانب بیٹھے کنجر سمجھ گئے کہ اب ان کو بھی بازیابی کا شرف حاصل ہو گا ان کی توقعات  بھی پوری ہوئیں اور رقص و سرود کی محفل میں جام پر جام لنڈھائے جانے لگے۔ راج پروہت نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اجازت طلب کی اور چل دیا لیکن حیرت انگیز طور پر راج پردھان نے بھی اس کی پیروی کی اور باہر نکل آیا۔

راج پردھان کا رتھ تیار کھڑا  تھا لیکن وہ راج پروہت کی بگھی  میں سوار ہو گیا تاکہ اس نئی صورتحال پر گفت و شنید ہو سکے۔ راج پردھان جانتا تھا کہ اس چکرویوہ کا کیندر بندو( مرکز) اس کی اپنی ذات ہے اور رقص و سرود میں اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ راج پروہت اور راج پردھان راستے میں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے لیکن گھر پہنچنے کے بعد اصل موضوع پر آ گئے۔

راج پردھان نے کہا گرودیو میرا خیال ہے کہ آپ نے کمل کے ساتھ کچھ زیادہ ہی نرمی کا مظاہرہ کیا۔ اس کو اس طرح چھوڑ دینے سے راج دربار میں موجود دوسرے ارکان کے حوصلے بھی بلند ہو جائیں گے اور بغاوتوں  کا ایک سیلاب پھوٹ پڑے گا۔

راج پروہت بولے نہیں تمہارا اندیشہ غلط  ہے ہمارے سرکاردربار کے لوگ بڑے ارمانوں سے یہاں آتے ہیں اور پھر ان کے بے شمار مفادات ہم سے وابستہ ہو جاتے ہیں اس لئے مجھے ان  میں سے کسی کی  بغاوت کا امکان نظر نہیں آتا۔اگر اکا دکا اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہے تو ہم اس پر بڑی آسانی سے قابو پا سکتے ہیں لیکن اگر کمل کی سزا اسے عوام کے اندر ہیرو بنا دیتی ہے تو اس سے جو انقلاب آئے گا وہ ہمارے بس سے باہر ہو جائے گا اسی لئے میں جلد بازی سے گریز کر رہا تھا۔

راج پردھان نے راج پروہت کی تائید کی اور بولا آپ مہان ہیں گرو دیو ہم لوگ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے جہاں آپ کی سوچ جاتی ہے لیکن اب آپ اس سمسیہ کا کیا اپائے سجھاتے ہیں ؟(حل بتلاتے ہیں )

میرا خیال ہے ہم کمل کو کوئی کڑی سزا نہ دیں بلکہ اسے  دربار سے نا اہل قرار دے دیا جائے۔ راج درباریوں کو ڈرانے کیلئے یہ سزا کافی ہے۔ اسی کے ساتھ اسے ذات برادری سے بھی الگ کر دیا جائے ایسا کرنے سے عوام میں کوئی خاص غم و غصہ پیدا نہیں ہو گا اس لئے کہ ان کی نظروں میں ویسے ہی نہ تو راج دربار کی کوئی قدر و منزلت باقی ہے اور نہ ذات برادری کی کوئی اہمیت ہے۔ انہیں محسوس ہی نہ ہو گا کہ کمل کسی محرومیت کا شکار ہوا ہے یا وہ  مظلوم  ہے۔ راج پروہت کی حکمتِ عملی بار آور ثابت ہوئی اس کے بعد کچھ بھی نہ بدلا نہ کرانتی آئی اور نہ منگلو کو اس کی زمین واپس ملی ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس دن کے بعد سے کمل پرشاداپادھیائے کملوکمہار اور جگت پرشاد جگو بن گیا۔

 

 

 

 

راج تال

 

بھرت پور میں حسبِ سابق فقر و فاقہ کا دور دورہ تھا۔اس علاقے کے بھولے بھالے باشندے امبر کو آسمانی باپ اور دھرتی کو ماتا کہہ کر پکارتے تھے اس لئے کہ آسمان پانی برساتا اور زمین اسے اپنے پاس جمع کر کے رکھتی تا کہ عوام وقتِ ضرورت اس کا استعمال کرسکیں لیکن یہ اگلے وقتوں کی باتیں تھیں۔ خشکی اور تری میں انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے فساد برپا ہوچکا تھا۔لوگ بھوک اور پیاس کی چکی میں بے دریغ پس رہے تھے ۔ آسمان  اس قدر بے رحم ہو گیا تھا کہ وہ عوام کو روتا بلکتا دیکھتا  تھا لیکن اس کی آنکھ نم نہ ہوتی تھی۔ اس نے نہ جانے کیوں  بارش برسانے کا کام ہی تج دیا  تھا۔

دھرتی کا حال یہ تھا کہ وہ پانی کو محفوظ کر کے تقسیم کرنے کے بجائے اسے جذب کرنے لگی تھی۔  ہر روز ہزار وں لیٹر پانی وہ  عوام کی  پیاسے لبوں سے چھین کر نہ جانے کس  پاتال میں پہنچا دیتی۔آبِ  جو زمین کے نیچے کسی ایسے اندھے کنوئیں کی پیاس بجھا رہا تھا جس  تک کسی کی بھی رسائی ممکن نہیں تھی۔بچا کچا پانی ہر صبح آسمان پر نمودار ہونے والا سورج بھاپ بنا کرچوس لیتا اور بے یار و مددگار لوگ لوٹ کھسوٹ کے اس گرم بازار کوحسرت و یاس سے خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہتے تھے۔ایک ایک کر کے بستی کے سارے ندی نالے، تالاب اور چشمے خشک ہو گئے۔ محل کے اندر موجود  راج تال کو اس معاملے میں استثنا ء حاصل تھا کہ اس کا پانی سوکھنے کا نام لیتا تھا۔

راج محل کے اندر بنے اس راج تال پر سخت پہرا لگا ہوا تھا درباریوں کے سواکسی کو اس کے قریب پھٹکنے کی اجازت نہیں تھی۔راج درباریوں کے گھروں میں لگے ہوئے خودکار نلکوں سے راج تال کا پانی ان کی کو ٹھیوں تک پہنچ جایا کرتا تھا وہ قحط سالی کی اس مہا ماری (وبا) کے باوجود خوشحال اور شادمان تھے ان کی عیش و مستی پر اکال (قحط ) کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا بلکہ لوگوں کو حیرت اس بات پر تھی کہ دن بدن ان کے نام نہاد نمائندوں کی  ٹھاٹ باٹ میں بتدریج  اضافہ نظر آتا تھا اس کے باوجود کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرأت کرے۔

جگو وہ پہلا شخص تھا جو اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر محل میں داخل ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے بچوں کیلئے ایک گھڑا پانی تک حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ محل سے ناکام و نامراد لوٹنے کے بعد جگو یوں تو سو گیا لیکن پردادا نے خواب میں آ کر اسے خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا۔ اب وہ اپنے حالات کا موازنہ پراچین کال(قدیم زمانے ) سے کر رہا تھا۔

جگو کو لگا بظاہر تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ساری راجنیتک ویوستھا (سیاسی نظام) بدل گئی ہے۔راج شاہی (بادشاہت)کی جگہ پرجا تنتر(جمہوریت ) آگیا ہے۔ لیکن زمینی حقائق نہیں بدلے۔راجہ کی جگہ راشٹر پتی(صدر مملکت) نے لے لی اور راج پردھان کی کرسی پر پردھان منتری براجمان ہو گئے۔راج پروہت کا کام بھی بند نہیں ہوا ان کا کردار پکش ادھیکش(ہائی کمانڈ) نے ادا کرنا شروع کر دیا۔

پراچین کال (قدیم زمانے )میں یہ ہوتا تھا کہ ہرسال  ایک بہت بڑی سرکاری تقریب کا اہتمام ہو تا  اس سے قبل مختلف جاتیوں اور پرانتوں کے لوگ کل ُدیوتا بانگڑ بابا کی بھانت بھانت کے مختلف دیو ہیکل مجسمے بنواتے اور انہیں قلبِ شہر میں موجود بڑے سے میدان میں نسب کر دیتے تھے۔دس دنوں کی جترا میں ان کی پوجا پاٹ ہوتی چڑھاوے چڑھائے جاتے۔ مختلف  گروہ اور قبیلے اپنی طاقت اور شان و شوکت  کا مظاہرہ کرتے۔

اس اتھل پتھل کے پس پردہ نئے سیاسی رشتے  عالمِ وجود میں آتے اور کئی پرانے ہمنوا ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہو جاتے۔ ناچ رنگ کی محفلوں کی آڑ میں موقع پرستی اور ابن الوقتی کی بنیاد پر بولیاں لگتیں، سودے بازیاں ہوتیں اور دیکھتے دیکھتے یہ جشن کا ماحول اختتام پذیر ہو جاتا ۔ دسویں دن گاؤں والے ان مورتیوں کوجلوس کی شکل میں اپنے اپنے رتھ میں سوار کر کے راج محل کی جانب ناچتے گاتے چل پڑتے۔اس رتھ کی خصوصیت یہ ہو تی کہ اسے کھینچنے کیلئے عوام اپنی خدمات از خود  پیش کرتے تھے لیکن اس پر سواری کا شرف کل دیوتا  اور سردار ہی کو پراپت (حاصل)ہوتا۔

سال میں ایک مرتبہ راج محل کے دروازے عوام کیلئے کھول دئیے جاتے اور جب مختلف راج رتھ راج تال کے کنارے پہنچ جاتے تواس کے بعد راج پروہت مقدس کتاب کے اشلوک پڑھنے لگتا اور لوگ خاموشی سے انہیں سننے لگتے لیکن جیسے ہی وہ خاموش ہوتا ہر ہر مہا دیو کا فلک شگاف نعرہ بلند ہو جاتا اوراس شور شرابے میں راجہ کا پھر ایک بار راج ابھیشیک (رسمِ تاجپوشی)عمل میں آ تا راجہ کے سر پر سجے تاج کو دیکھ کر عوام خوشی سے پاگل ہو کر ناچنے گانے لگتے۔اس کے بعد راج پروہت کو یہ دیکھنا ہوتا تھا کہ میدان میں موجود کس رتھ کے ساتھ سب سے زیادہ لوگ ہیں۔ اس موقع پراپنی تعداد بڑھانے کی خاطر مختلف گروہ آپس میں اشتراک اور  اتحاد بھی کر لیتے تھے۔

اپنا معائنہ ختم کرنے کے بعد راج پروہت سب سے کثیر حامیوں والے رتھ پر چڑھ کر اس پر سواربت کو تالاب میں ڈھکیل دیتا اوراس پر مسرت ماحول میں راجہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک چمچماتی ہوئی تلوار اس رتھ کے سردار کو تھما کر اسے راج پردھان گھوشت (اعلان) کر دیتا اور جیسے ہی راج پر دھان اس تلوار کو ہوا میں لہراتا لو گوں  کا جوش و خروش آسمان سے باتیں کرنے لگتا انہیں ایسا محسوس ہوتا گویا ان میں سے ہر ایک کو ایک تلوار سونپ دی گئی ہے۔

یہ ایک ایسا احساس تھا جس کا حقیقت سے  دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ سچ تو یہ تھا جس تلوار کو دیکھ کر لوگ خوش ہو رہے ہوتے وہی تلوارسال بھر ان کے سروں پر لٹکتی رہتی اور وقت ضرورت جس کا سر چاہتی گردن سے الگ کر دیتی۔اس طرح کے واقعات سے لوگ وقتی طور پر غمگین ہوتے ضرور تھے لیکن پھر جب سالانہ جشن کا موقع آتا تو سارے گلے شکوے بھول کر رتھ یاترا کے شبھ(مقدس) کام میں جٹ جاتے۔

وہ سردارجوراج پر دھان بننے سے محروم رہ جاتے ان کو راج دربار کی رکنیت سے نواز کر مختلف ذمہ داریاں سونپ دی جاتیں اور پھر آخر میں پوتراسنان (مقدس غسل)کی رسم ادا کی جاتی۔سب سے پہلے راجہ کے ساتھ راج پروہت  اور راج پردھان مقدس تالاب میں ڈبکی لگاتے اور پھر سارے راج درباریوں کو اس کا موقع ملتا تاکہ وہ اپنے سارے پاپ اس تالاب میں انڈیل کر پاک صاف ہو جائیں۔

جنتا جناردھن( عوام کا ا لعنام) کونہ اس کی اجازت تھی اور نہ ضرورت۔ ان بیچاروں سے ایسے بڑے پاپ ( گناہ) سرزد ہی کب ہوتے تھے کہ انہیں  مقدس راج تال میں ڈبکی لگانے کی حاجت پیش آئے۔عوام کا راج دھرم تو صرف یہ تھا کہ جب ان کا سردار تالاب میں اترے  تو وہ نعرے لگائیں اور جب وہ واپس لوٹے تو تالیاں بجائیں۔

جگو کمہار نے جب سنجیدگی کے ساتھ ان واقعات پر غور و فکر شروع کیا اس کے ذہن میں بے شمار سوالات سر ابھارنے لگے مثلاً:

•راج تال میں ایسی کون سی خوبی تھی جس نے اسے مقدس بنا دیا تھا؟

•راج تال کے اندر ڈبکی لگا لینے سے آخر ان کے سرداروں کو کون سے سرخاب کے پر لگ جاتے تھے ؟

•اس کے آبا و اجداد اس بت کو کیوں بناتے تھے جو ان کے کسی کام نہ آتا تھا؟

•بتوں کو بنانا بجائے خود ایک لایعنی فعل تھا لیکن اسے تالاب میں ڈوبا کر خوش ہونا کیا معنیٰ رکھتا تھا ؟

•عوام  اس رتھ کو کیوں کھینچتے جن پر سوار ہونا ان کیلئے ناممکن تھا؟یہ بات بھی اس کی سمجھ سے باہر تھی۔

•تلوار  و اختیار دوسروں کو سونپ کر اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھنے لینے کی منطق کو اس کی عقل قبول نہیں کر پا رہی تھی۔

•اس کے آبا و  اجداد کافی پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ تھے آخر ان کی سمجھ میں یہ باتیں کیوں نہیں آتی تھیں ؟ اس معمہ کا کوئی حل جگو کے پاس نہیں تھا۔

•وہ لوگ صدیوں تک اس فریب کا شکار کیوں رہے ؟

•انہوں نے اس بے فائدہ نظام کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

•ان لوگوں نے جو کیا سو کیا لیکن خود اس نے آج سے قبل ان بنیادی سوالات پر توجہ کیوں نہیں دی؟

آخری سوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا اس لئے کہ وہ اس کے اپنے متعلق تھا۔ سچ تو یہ ہے اس سوال کا جواب سب سے آسان تھا اور اس نے سارے سولات کی دبیز چادر کو تار تار کر دیا تھا۔ جگو کمہار کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ تھا کہ اس نے ابھی تک کبھی سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل  پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی تھی۔ بغیر سوچے سمجھے وہ بت بنانے، رتھ کھینچنے اور تالیاں بجانے کے کام میں غیر شعوری  طور پر جٹ گیا تھا شاید دیگر لوگ بھی  اپنی عقل پر پٹی باندھ کران بیجا رسوم و رواج میں منہمک ہو گئے تھے اور پہلے والوں کا بھی  وہی حال تھا کہ وہ بھیڑ چال کا شکار ہو گئے تھے ۔جگو کمہار نے عزم کیا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک ان  معاملات کی طہ تک نہیں پہونچ جاتا۔

جگو کمہار کے دماغ کا چرکھا بڑی تیزی کے ساتھ گھومنے لگا تھا وہ کسی ایسی شخصیت سے ملنا چاہتا تھا جو اس کی رہنمائی کر سکے ان گتھیوں کو سلجھا سکے اور جن سوالات کے مایا جال میں  وہ ایک محصورِ محض ہو کر رہ گیا تھا ان کی گرفت سے اسے آزاد کر سکے۔اس نے اپنی رہائی کیلئے مختلف پرانتوں کے پرمکھوں کا جائزہ لیا تو اسے محسوس ہوا اترّ پرانت کا وشوا ناتھ بڑا نیک آدمی ہے وہ برسوں تک راج دربار کی سیوا کر چکا ہے اور فی الحال سنیاسی کی سی زندگی گزار رہا ہے۔ اس نے راج دربار کا کوئی ناجائز فائدہ پہلے بھی نہیں اٹھایا تھا جبکہ وہ راج پرددھان تھا اور اب تو اس چکرویوہ سے اس نے اپنے آپ کو علٰحدہ کر لیا ہے۔

جگو نے سوچا چونکہ اس کا کوئی ذاتی یا سیاسی مفاد اس نظام سے وابستہ نہیں ہے۔ اس نے راج تال سے کوئی توقع وابستہ نہیں کر رکھی ہے اس لئے ممکن ہے وہ بلا خوف و خطر اور حرص و طمع اپنے ضمیر کی آواز  پر اس سے گفتگو کرے گا۔ جگو کو یقین تھا کہ وشوناتھ کا علم و تجربہ اسے مطمئن کر سکے گا۔ویسے کسی پر پرانت کے پرمکھ سے ملاقات کر کے اس سے استفادہ کرنا مروجہ پرمپرا کے خلاف تھا مگر فی الحال جگو کیلئے جواب حاصل کر نے کی اہمیت پر مپرا سے زیادہ تھی۔ اس گتھی کو سلجھانا  اس کی زندگی کا اولین ہدف  بن گیا تھا۔

جگو جب وشوناتھ کے گھر پہونچا تو وہ کوئی کتاب لکھ رہا تھا۔بڑے دنوں کے بعد کوئی اجنبی اس سے ملنے آیا اس لئے وہ بہت خوش ہوا اس نے اپنا کاغذ قلم ایک طرف رکھا اور جگو کی جانب متوجہ ہو گیا۔وشوناتھ کی بیوی ان کے سامنے چائے اور ناشتہ رکھ کر چلی گئی لیکن جگواس قدر جوش میں اپنے سوالات رکھ رہا تھا  اور وشوناتھ اس قدر انہماک سے انہیں سن رہا تھا کہ ان دونوں کو اس کا پتہ بھی نہ چلا۔ جب جگو اپنی بات ختم کر چکا تو وشوناتھ نے کہا جگو اس  سے پہلے کہ میں تمہارے سوالات کے جواب دینے کی کو شش کروں ہم چائے پیتے ہیں اور دونوں کھانے پینے میں مصروف ہو گئے۔

اس دوران انہوں نے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کی اور جب وشوناتھ کو پتہ چلا کہ جگو کمل پرشاد اپادھیائے کاپڑ پوتا ہے تو وہ بہت خوش ہوا اور بولا جگو تمہیں یہ جان کر حیرت ہو گی کہ میری اس کتاب کی ابتداء کمل جی کی اس گفتگو سے ہوتی جو انہوں نے آخری بار راج دربار میں کی تھی۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگراس وقت کمل پرشاد کے بجائے راج پردھان کو سزا دے دی جاتی اور منگلو کمہار کی زمین لوٹا دی جاتی جس کیلئے انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی تھی تو آج تمہارے سوالات کی فہرست اس قدر طویل نہ ہوتی خیر جو ہوا سو ہوا۔ان کے خلاف بھی سارے راج درباری اور راج پروہت اسی طرح متحد ہو گئے تھے جس طرح کے میرے خلاف ہو گئے اور ان لوگوں نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔

لیکن آپ دونوں کا قصور کیا تھا؟ جگو نے سوال کیا

ہمارا قصور ؟ ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ہم نے بھی اسی طرح کے سوالات اٹھائے تھے جیسے کہ تم اٹھا رہے ہو۔ وشوناتھ نے جواب دیا

اچھا تو وہ لوگ ان کے جواب دینے کے بجائے چراغ پا کیوں ہو گئے ؟

شاید اس لئے کہ ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا وشواناتھ نے کہا

لیکن اگر جواب معلوم نہ ہو تو اس سے ناراضگی چہ معنی دارد؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ اسے معلوم کرنے کی کوشش کی جائے۔ جگو نے اعتماد کے ساتھ کہا

جی ہاں جگو تمہاری منطق درست ہے۔شاید وہ لوگ اس کا جواب جانتے تھے  لیکن وہ جواب دینا نہیں چاہتے تھے۔

اچھا ایسا کیوں ؟

اس لئے کہ وہ جوابات ان کے اپنے مفادات سے ٹکراتے تھے۔اس سے ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتا تھا اور وہ کسی صورت حکومت سے دستبردار نہیں ہونے کیلئے تیار نہیں تھے۔

وشوناتھ کی صحبت میں جگو کے عقل کی کھڑکیاں کھلنے لگی تھیں۔ روشنی کی ایک ہلکی سی کرن اس کے قلب میں  داخل ہو چکی تھی۔ جس نے اس کے اندرون کو روشن و تابناک کر دیا تھا۔ جگو نے وشوناتھ سے پوچھا اچھا یہ بتلائیں کہ آپ نے کیا اعتراض کیا تھا؟

میں نے ! میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ کہ مجھے اس تالاب کا پانی کچھ گدلا نظر آنے لگا ہے۔ وشوناتھ بولا

بس اتنی سی بات ؟ اس میں تو برا لگنے والی کوئی بات ہی نہ تھی  وہ کسی تجربہ گاہ سے  اس کی تفتیش کروا کر حقیقت تک پہونچ سکتے تھے۔ جگو نے ایک فطری سوال کیا۔

وشوناتھ مسکرائے اور بولے تحقیق و تفتیش کی ضرورت تو اس وقت پیش آتی ہے جب حقائق پوشیدہ ہوں۔ یہ توسب پر عیاں تھا۔

اچھا تو انہوں نے کیا کہا؟ جگو نے سوال

وہ کیا کہتے ؟انہوں نے پہلے تو میرا تمسخر اڑانے کی کوشش کی اور کہا وشوناتھ کی نظر کمزور ہو گئی اس کو اپنی عینک بدل لینی چاہئے۔

میں نے جواب دیا یہ اس قدر روشن حقیقت ہے کہ اس کا مشاہدہ کرنے کیلئے کسی عینک کی ضرورت نہیں اس کیلئے تو معمولی سی بینائی بھی کا فی ہے۔

میرے سوال کے جواب میں سوال کیا گیا۔ اچھا اگر ایسا ہے تو یہ گدلا پن صرف تمہیں کو کیوں نظر آتا ہے ؟ ہمیں کیوں دکھائی  نہیں دیتا؟

یہ سوال تو آپ لوگوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے۔ممکن ہے آپ لوگوں نے اپنی آنکھوں پر کوئی ایسی پٹی باندھ رکھی ہو جواس مشاہدے میں  مانع ہو رہی ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے جس کا علم مجھے نہیں ہے۔

میرے اس جواب کو ایک راج درباری نے اپنی ذات کا مسئلہ بنا لیا اور آپے سے باہر ہو کر کہنے لگا وشوناتھ تم اپنی حدود کو پھلانگ رہے ہو۔ تم راج پردھان بنا دئیے گئے اس کے معنیٰ یہ تو نہیں ہوتے کہ ہمیں عقل کا اندھا کہو؟ کیا تم نے ہمیں بالکل ہی بے وقوف سمجھ رکھا ہے ؟ہم اس طرح کی توہین ہر گز برداشت نہیں کریں گے ؟

اس اوٹ پٹانگ  الزام  کے جواب میں میں نے  مسکرا کر فیض کا یہ شعر پڑھ دیا

وہ بات سارے فسانے میں جس ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

راج پروہت نے اس موقع پر مداخلت کی اور کہا پانی میں دراصل آسمان کا رنگ نظر آتا ہے  اور آج کل فلک گیتی پر کچھ نئے رنگ رونما ہو رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی بھی دیکھے نہ گئے تھے۔ راج تال کا گدلا پن آسمان کا دھندلا سا عکس ہے۔

میں نے راج پروہت کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں اس حقیقت کو کم از کم تسلیم تو کر ہی لیا کہ راج تال فی الحال پہلے کی مانند صاف و شفاف نہیں ہے لیکن ان کی وجہ جواز سے اختلاف کرتے ہوئے کہا جناب راج تال کے اس گدلے پن کیلئے آسمان کو موردِ الزام ٹھہرانا درست معلوم نہیں۔ آسمان سے برسنے والی برسات تو اسے کسی قدر بہتر بنا دیتی ہے۔ مجھے تو یہ زمین والوں کا کارنامہ لگتا ہے۔

زمین والوں سے تمہاری مراد کیا ہم لوگ ہیں ؟ ایک اور درباری بولا وشوناتھ آج تمہیں یہ کیا ہو گیا ہے ؟

اس سے پہلے کہ میں اس کا جواب دیتا ایک معمر درباری رکن اپنی جگہ سے اٹھے اور کہا آپ لوگ بار بار وشوناتھ کی باتوں کو اپنے اوپر کیوں اوڑھ لیتے ہیں۔ اس سے بلا وجہ چور کی داڑھی میں تنکا معلوم ہونے لگتا ہے۔ یہ راج تال ساری قوم کا ہے اور اس کی خوبی اور خرابی میں ہم سب برابر کے شریک ہیں اس لئے میں اپنے فاضل دوستوں سے یہی کہوں گا  ؎

وفا کے نام پے تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے ؟

تمہاری   بات  نہیں  بات ہے  زمانے  کی

میں نے وضاحت طلب کی ہم سب سے مراد کیا ہے ؟ وہ لوگ جو یہاں دربار کے اندر بیٹھے ہیں یا عوام جو اس کے باہر رہتے ہیں۔

سوالات کا شکنجہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا تھا اور راج پروہت کو اس سے گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے کہا سب سے مراد سب ہے۔ وہ لوگ بھی جو اندر ہیں اور وہ بھی جو باہر ہیں۔ اس قوم کا ہر ہر فرد یکساں طور پر اس کیلئے ذمہ دار ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کے سارے تالاب جو بظاہر ایک دوسرے سے جدا جدا نظر آتے ہیں اندر سے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

اگر یہ بات درست بھی ہو تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ان کے درمیان بہنے والے پانی کا رخ کس طرف ہے ؟وشوناتھ ایک نیا مسئلہ چھیڑ دیا۔

راجہ نے پہلی مرتبہ بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا یہ تو بڑا معمولی سوال ہے۔ راج تال ہماراسب سے بڑا تالاب ہے اور یقیناً یہی سارے ندی نالوں اور تالابوں کو سیراب کرتا ہے۔

وشوناتھ بولا مہاراج ممکن ہے ایسا کسی زمانے میں رہا ہو لیکن اب صورتحال  بدل گئی ہے۔

کیوں ؟ سب نے ایک زبان ہو کر سوال کیا

اگر پانی راج تال سے دوسروں کی  جانب جا رہا ہوتا تو دوسرے تالابوں سے قبل راج تال خالی ہو جاتا لیکن اس کے بر عکس  صورتحال ہے۔  دوسرے ذخائرِ  آب خالی ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے برخلاف راج تال کے سطحِ آب میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس کے معنی یہی ہیں کہ جو کچھ آ رہا ہے اس کے مقابلے بہت کم جا رہا ہے۔

لیکن یہ جو پائپ لائن دکھلائی دیتی ہے اس کا کیا؟راج پروہت نے سوال کیا

جی ہاں مہاراج پائپ لائن تو موجود ہے لیکن وہ بھی اندر سے بند ہو چکی ہیں۔جو پائپ ہماری کوٹھیوں کو جاتی ہیں ان کی مرمت اور دیکھ بھال ہوتی رہتی ہے اس لئے ان کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن غریب بستیوں کو جانے والے پائپ میں پانی بہتا نہیں بلکہ رکا رہتا ہے بلکہ اب تو شایدسڑاند پیدا کرنے لگا ہے۔

یہ سب تم کیوں کہہ رہے ہو۔ اگر ایسا ہے تو شکایت عوام کی جانب سے آنی چاہئے وہ کیوں خاموش ہیں ؟ مجھے تو مدعی سست اور گواہ چست کی سی صورتحال دکھلائی دیتی ہے۔

ایسا نہیں ہے عوام کا ایک طبقہ نے اپنی تقدیر کو کوس کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیا ہے۔ اور باقی لوگ ہم سے مایوس ہو چلے ہیں یہ اچھی صورتحال نہیں  ہے  وشوناتھ نے کہا

وشوناتھ کے انتباہ کا الٹا مطلب نکال کر ایک درباری اٹھا اور اس نے کہا اگر یہی بات ہے تو دیر کس بات کی ہے عوام کو پکڑ کر اس کام میں لگا دیا جائے  وہ پہلے تالاب کو صاف کریں اور پھر اپنی پائپ لائن کی درستگی کا کام کریں ۔

وشوناتھ کو اس پر غصہ آگیا بہت خوب ہم گدلا کریں اور وہ  صاف کریں اور یہ خوب سوداگری ہے جس میں دینے والے کو کچھ نہیں ملتا کیوں کہ لینے والا کچھ بھی نہیں لوٹاتا۔وشوناتھ نے ترکی بہ ترکی جواب دیاوہ جو باہر ہیں ان کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے وہ تو نہ ہی اس تالاب سے استفادہ کرتے ہیں اور نہ ہی اسے آلود ہ کرتے ہیں اس لئے ان کو درمیان میں گھسیٹنا کسی درجہ میں درست نہیں ہے۔

اس بات پر  راج دربار میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ہر کوئی بول رہا تھا کوئی کسی کی سن نہیں رہا تھا۔لوگ وشوناتھ کو زندہ چبا جانا چاہتے تھے اس لئے کہ اس نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔اس صورتحال سے پریشان ہو کر راجہ نے راج پروہت  کی جانب دیکھا تو راج پروہت نے مداخلت کی اور کہا آج یہ آپ سب کو کیا ہو گیا ہے ؟ آپ لوگ تو سڑک پر چلنے والی گنوار جنتا سے بھی زیادہ بدنظمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

وشوناتھ نے ایک سوال کیا ہے ہمیں اس پر ہنگامہ کرنے کے بجائے اس کا منطقی جواب دینے کی کوشش کرنا چاہئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس تالاب میں رونما ہونے والی آلودگی کیلئے اگرچہ بالواسطہ عوام ذمہ دار نہیں ہیں تب بھی بلاواسطہ اصل ذمہ داری انہیں کے سر جاتی ہے۔ہم لوگ یہاں پر جو کچھ بھی کرتے ہیں یہ انہیں کی توثیق سے ہو رہا ہے۔ ان لوگوں نے جن کو اپنی حمایت سے راج دربار میں روانہ کیا ان درباریوں کی حرکات کے لئے اگر وہ ذمہ دار نہیں ہیں تو آخر ذمہ دار کون ہے ؟

وشوناتھ نے کہا راج پروہت کی یہ دلیل اسی صورت میں درست ہو گی جبکہ عوام نے ہمیں اس تالاب کو گدلا کرنے کی غرض سے یہاں روانہ کیا ہو یا کم از کم ہم نے ان کے سامنے  یہ واضح کر دیا ہو کہ یہاں آنے کے بعد ہم یہ حرکت کرنے والے ہیں اور اس حقیقت کو جاننے کے باوجود انہوں نے ہماری حمایت کی ہو تو ٹھیک ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ نہ ہی انہوں نے ہم کو یہ کام سونپا اور نہ ہی ہم نے انہیں یہ بتلایا کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں ایسے میں ان کو مجرم کے کٹھہرے میں کھڑا کرنا مجھے سراسر زیادتی معلوم ہوتا ہے۔

راجہ نے کہا تمہاری دلیل درست ہے وشوناتھ لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ سالانہ جشن کے دن عوام آپ لوگوں کا انتخاب کرنے کیلئے راج تال پر آتے ہیں اور چونکہ یہ سب ان کی مرضی سے ہوتا ہے اس لئے ان کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

وشوناتھ بولا جہاں پناہ اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ وہ آتے کب ہیں لائے جاتے ہیں۔

کیا مطلب ؟ کیا ہم انہیں زبردستی کر کے یہاں لاتے ہیں ؟ یہ تو بہتان ہے ہم پر۔ایک درباری بولا۔

ویسے باقاعدہ زبردستی تو نہیں ہوتی لیکن جس طرح کا ماحول بنایا جاتا ہے۔ جس طرح ان کے اندر مختلف قسم کی عصبیتوں کو بھڑکایا جاتا ہے۔ جو سبز باغ دکھلائے جاتے ہیں اگر وہ سب نہ کیا جائے تو کون آئے ؟ مجھے یقین ہے کہ اگر اس سال لوگوں کو بتلا دیا جائے کہ آئندہ سال کی پہلی تاریخ کو انہیں راج تال پر آنا ہے اور جترا کا ہنگامہ نہ کھڑا کیا جائے تو شاید ہمارے قریبی اعزہ و اقارب بھی اپنے طور سے یہاں نہ پھٹکیں ۔

بات کافی پھیل گئی تھی اس لئے اسے سمیٹنے کیلئے ایک اور درباری نے مفاہمت کی صورت نکالتے ہوئے کہا کہ اب جو ہوا سو ہوا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ راج تال کی درگت کیلئے ذمہ دار کون ہے ؟ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس کو پاک وصاف کرنے کی تدبیر نکالی جائے اس لئے کہ کل کو یہ نہ صرف عوام بلکہ خود ہمارے لئے بھی ناسور بن سکتا ہے ؟

دیگر درباریوں کے گلے سے یہ تجویز بھی نہیں اتری انہوں نے اعتراض کیا ہم آج یہ کون سا فضول کا دکھڑا لے کر بیٹھ گئے ؟کیا ہم لوگ راج دربار میں صاف صفائی کرنے کیلئے آتے ہیں کیا حکمرانوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کسی صفائی مہم میں جٹ جائیں ؟قوم کو درپیش سنگین  اور عظیم  تر مسائل پر گفت و شنید کرنے کے بجائے ہمیں اپنا قیمتی وقت اس  طرح کی لایعنی و فضول بحث پر نہیں ضائع کرنا چاہئے۔

وشوناتھ نے کہا میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم راج تال کے امانتدار ہیں قوم نے ہم پر اعتماد کیا ہے۔ اس لئے اب یہ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ ہم اس کو پاک صاف رکھیں اور اگر ایسا کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو اس کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کریں۔ اگر کسی صورت ہم خود اپنے اس فرض منصبی کو ادا کر نے میں ناکام ہو جاتے ہیں  تو ہمیں  بلا جھجک عوام کی جانب  تعاون کے لیے رجوع کرنا چاہئے۔

درباریوں کو محسوس ہوا کہ بلا ان کے سر سے ٹل رہی ہے اس لئے وشوناتھ کی اس تجویز پر انہوں نے چین کا سانس لیا لیکن راج پروہت نے اس سے اختلاف کیا اس نے کہا یہ نازک معاملہ ہے اس میں  ہمیں احتیاط سے کام لیتے ہوئے سوچ سمجھ کر اقدام کرنا ہو گا  ورنہ فائدے کے بجائے بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔

نقصان ؟ کیسا نقصان ؟؟ چہار جانب سے آواز آئی

راج پروہت بولے دراصل یہ سارا نظام اس تالاب کے تقدس پر قائم ہے اگر عوام کو یہ پتہ چل جائے کہ اس کا پانی ناپاک ہو چکا ہے تو اس کا تقدس پامال ہو جائے گا اور یہ  نظام بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں ہماری لٹیا اس تالاب کے گدلے پانی میں ڈوب جائے گی  ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ہمارے ستارے گردش میں آ جائیں گے۔جیسا کہ وشوناتھ نے پہلے کہا تھا عوام کا اعتماد ویسے ہی اس ناٹک سے دن بدن اٹھتا جا رہا ہے۔  ہر سال جترا میں ان کی شمولیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔اس کے باوجود کسی طرح انہیں بہلا پھسلا کر یہاں لانے میں ہم کامیاب ہو رہے ہیں لیکن اس راز کا پردہ فاش ہو جانے کے بعد تو یہ ناممکن ہو جائے گا۔

ہوتا ہے تو ہو جائے۔ اگر عوام ہماری حمایت نہیں کرتے تو نہ کریں  ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہم اسی طرح راج درباری بنے رہیں گے اور راج پاٹ چلاتے رہیں گے ویسے مجھے تو اس جترا کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔ ایک نوجوان راج درباری بولا

تمہارا دماغ خراب ہے راج پروہت نے  چڑ کر کہا۔ اس ڈرامے سے عوام کا تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہے لیکن ہمارا بڑا فائدہ ہے۔ چونکہ ہم ان کی حمایت سے یہاں آتے ہیں اس لئے وہ لا محالہ  اپنے آپ کو ہماری حرکات کیلئے خود کو موردِ الزام ٹھہرا کر احساس جرم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر جب ان کا غم و غصہ قابو سے باہر ہو جاتا ہے تو جترا کی گہما گہمی امید کا ایسا چراغ روشن کر دیتی جس سے معاملہ سرد دفتر میں بند ہو جاتا ہے۔ اسی جترا کی مدد سے ہی عوامی بغاوت کو ٹالنے  میں ہم کامیاب ہوتے رہے ہیں۔دراصل عوام کے استحصال کو جاری و ساری رکھنے کیلئے اس سے زیادہ موثر نسخہ کوئی اور نہیں ہے۔

سارا دربار راج پروہت کے دلائل سے متفق ہو گیا اور چہار جانب خاموشی چھا گئی۔ وشوناتھ نے پوچھا لیکن اب اس مسئلہ کو حل کیسے کیا جائے ؟ اس لئے کہ اگر راج تال کی آلودگی میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو جلد یا بدیر وہ سارے اندیشے سچ ہو جائیں گے جن اظہار ابھی راج پروہت نے کیاہے۔

راج پروہت نے کہا میری تجویز یہ ہے کہ ہم سب آئندہ تین دنوں تک اس پر وچار منتھن (غور و خوض) کریں اور پھر راج دربار کے خصوصی اجلاس میں اس پر بحث و مباحثہ ہو تاکہ مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔

راج پروہت کی تجویز سے سبھی  نے اتفاق کیا اور راجہ نے آئندہ اجلاس کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔

جگو بولا یہ تو نہایت معقول فیصلہ تھا تو پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

وشوناتھ مسکرا کر بولے جگو میں نے بھی یہی سمجھا تھا جو تم سمجھ رہے ہو اور میں بھی اسی طرح خوش ہوا تھا جیسا کہ تم ہو رہے ہو لیکن افسوس کہ وہ میری خوش فہمی دیرپا ثابت نہ ہوسکی۔  جگو نے فورا ً سوال کیا اچھا وہ کیسے ؟

وشوناتھ نے بات آگے بڑھائی دراصل راج پروہت نے میرے خلاف سازش کرنے کیلئے بڑی صفائی سے تین دن کا وقت حاصل کر لیا تھا ان تین دنوں میں اصل مسئلے پر کوئی کام نہ ہوا بلکہ سب سے پہلے تو جو پرپرانتی(خارجی) میری حمایت کر رہے تھے انہیں حاصل مراعات کے چھن جانے کا  خوف دلا کر میرے خلاف کر دیا گیا اور پھر میری اپنی جاتی کے لوگوں کو دولت کا لالچ دے کر خرید لیا گیا۔ اگلے اجلاس میں جب ا چانک ایک ہنگامی جترا کے اہتمام کا اعلان کیا گیا تب سب کچھ میری سمجھ میں آگیا۔اس کے بعد بد دل ہو کر میں نے سیاست سے سنیاس لینے کا فیصلہ کر لیا اور میں اب بھی اس پر قائم ہوں۔

جگو نے پوچھا اگر گستاخی معاف ہو تو ایک سوال کروں ؟

جی ہاں کیوں نہیں بلا تکلف پوچھو وشوناتھ بولے۔

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہ سنیاس ایک راہِ فرار ہے ؟

شاید کہ ایسا ہی ہو۔ جب میرے سارے ساتھیوں نے ایک ایک کر کے میرا ساتھ چھوڑ دیا تو میرے حوصلے پست ہو گئے کاش کہ اس وقت مجھے تم جیسے نوجوان میسر آتے اور اب تو بیماری اور عمر نے مجھے اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اگر چاہوں تو بھی کچھ نہیں کر سکتا۔

لیکن میں تو صحتمند بھی ہوں اور میرے حوصلے بھی بلند ہیں ایسے میں میرے لئے کیا آدیش ہے۔

میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں اور میرا مشورہ یہ ہے تم جا کر ہری دوار کے یوگی بابا کا ساتھ دو وہ فی الحال اس نظام کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جگو نے کہا مجھے نہ جانے کیوں یوگیوں اور باباؤں سے ڈر لگتا ہے اس لئے کیا کوئی اور صورت ممکن نہیں ہے ؟

وشوناتھ نے مسکرا کر کہا اگر ایسا ہے تم جنوب میں وندیا چل کی جانب کوچ کرو۔ وہاں پر اناّ جی سرگرم عمل ہیں ان کے ساتھ لگ جاو۔ مجھے یقین ہے کہ تم کوئی بڑا کام کرو گے۔ جگو نے اٹھ کر احترام و عقیدت کے ساتھ وشوناتھ کے چرن چھوئے اور اپنی اگلی منزل کی جانب نکل کھڑا ہوا

اس رات جگو نے ایک عجیب و غریب خواب  دیکھا اس نے دیکھا کہ دادا کمل پرشاد کی روح اس کے اندر حلول کر گئی ہے۔ اس کے اندر بلاکی پھرتی اور توانائی آ گئی ہے۔ وہ  اپنا چرکھا خوب زور سے گھما رہا ہے۔ اس کے بعد وہ رات بھر کی سنی ہوئی مٹی کو نرم کر رہا۔ چرکھا گھوم رہا ہے اور وہ تیزی کے ساتھ گاؤں کے کل دیوتا بانگڑ مہاراج کے بت بنا بنا کر اس کا ڈھیر لگانے میں مصروف ہو گیا ہے۔ کچھ دیر بعد اس کے گاؤں والوں  کی آمد شروع ہوئی تو گاہک یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہاں پر نہ پیالے تھے، نہ گھڑے اور نہ دیگر کام کے برتن بس بے فائدہ مجسموں کا ایک ڈھیر لگا ہوا ہے جن کی کسی کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی ان کی جانب نہ متوجہ ہوا اور کسی نے  انہیں چھونے تک زحمت گوارہ نہیں کی۔ بانگڑ بابا کی مورتیاں بے مصرف اور بے فائدہ ہو چکی تھیں۔

 

 

 

جگو اور منگو

 

وشوناتھ کا آشیرواد لے کر جگو سیدھے دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہنچا  تو وہاں عجیب ہنگامہ برپا تھا شمال کی جانب سے آنے والی اکثر گاڑیاں تاخیر سے چل رہی تھیں ویسے جگو کو جانا جنوب کی جانب تھا لیکن جب تک کہ شمال سے گاڑی آئے گی نہیں اس وقت تک جنوب میں جائے گی کیسے ؟ بادِ مخالف کی ضرورت اور حکمت جگو کی سمجھ میں اپنے آپ آ گئی تھی۔اسے دہرا دون ایکسپریس سے ناسک کا سفر کرنا تھا تاکہ وہاں سے بس کے ذریعہ رالے گن سدّھی یعنی اّنا جی گاؤں تک پہنچا جا سکے ۔ دہلی سے بن کر جانے والی ساری گاڑیاں چونکہ  ناسک کی بجائے گجرات سے ہو کر جاتی تھیں اس لئے جگو کے پاس انتظار کے سوا کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا۔

پلیٹ فارم پر بیٹھے انتظار کی اذیتوں سے گزر رہے جگو کے کانوں سے اچانک ایک نہایت مدھر آواز ٹکرائی۔بابو جی یہ لیجئے پوڑی سبزی کھا لیجئے ۔یہ منگو حلوائی بول رہا تھا جگو نے اس کی جانب دیکھا تو اس نے بے طرح سے دانت نکال دئے اور مٹی کے کلہڑ میں تنک (تھوڑی ) سبزی اور اس پر رکھی تین پھولی ہوئی پوڑیاں جگو کی جانب بڑھا دیں۔

جگو کے منہ میں پانی بھر آیا لیکن پھر بھی اس نے کہا شکریہ مجھے نہیں چا ہئے۔

منگو بولا صاحب آپ کچھ زیادہ ہی پریشان لگتے ہیں۔یہ سرکاری گاڑی ہے اپنی مرضی سے چلتی ہے ؟ اسے تو جب آنا ہے تب آئے گی آپ کی چنتا  سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جی ہاں لیکن مجھے ابھی بھوک نہیں ہے۔ اس لئے میں معذرت چاہتا ہوں

ارے صاحب بھوک تو اپنی ہے۔ابھی نہیں لگی تو کچھ دیر میں لگ جائے گی اس لئے آپ پیشگی کھا لیجئے۔

جگو کو  منگو کے اصرار سے الجھن ہونے لگی وہ بولا آپ عجیب آدمی ہیں۔ اپنی پوڑی بیچنے کی اس قدر فکر ہے آپ کو کہ بلا ضرورت اسے میرے گلے میں ٹھونسنا  چاہتے ہیں۔

منگو نے پہلے کی سی متانت سے جواب دیا صاحب آپ کو غلط فہمی ہو گئی اس کیلئے میں معذرت چاہتا ہوں۔بات دراصل یہ ہے کہ میں یہ سبزی پوڑی بیچ نہیں رہا ہوں  اور مجھے لگتا ہے آپ کو بھوک لگی ہے۔

تو کیا تم نے مجھے بھکاری سمجھ لیا ہے ؟جو دان دھرم کرنے چلے آئے۔جگو نے بگڑ کر کہا

منگو بولا صاحب بھکاری ہوں آپ کے دشمن ہم تو بھیک منگوں کو بھی بھکاری نہیں سمجھتے ویسے آپ تو مجھے کمہار لگتے ہیں ؟

کمہار ؟ یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا ؟

چلئے آپ نے تصدیق کر دی اس کا شکریہ اب بحث مباحثہ چھوڑ کراس پوتر بھوجن کا سواد(مزہ)  لیں۔

لیکن آپ میرے کیا لگتے ہیں جو مجھے مفت میں یہ کھانا کھلا رہے ہیں ؟

بھائی سچ تو یہ ہے کہ ساتھ مل کر کھانا کھانے کیلئے کچھ لگنا ضروری نہیں ہے۔ویسے اگر آپ اسے ضروری سمجھتے ہیں تو یوں سمجھئے کہ میں آپ کاججمان (میز بان ) ہوں۔

لیکن میں تو آپ کا مہمان نہیں ہوں ؟

منگو نے جملہ کاٹ دیا اور جھٹ سے بولا نہیں ہیں تو ہو جائیں گے۔ گاڑی کے آنے میں تاخیر ہو رہی ہے آپ یہ کر سکتے ہیں کہ اس کے آنے تک ہمارے پنڈال میں وشرام(آرام) کر لیں۔

تمہارا پنڈال؟ تم ہو کون اور کہاں ہے یہ پنڈال ؟

جی  پنڈال میرا نہیں  یوگی بابا کا ہے۔میں تو ان کا ادنی ٰسابھکت ہوں اور پنڈال یہیں قریب کے رام لیلا میدان میں ہے۔ وہاں جانے کیلئے باہر مفت رکشا موجود ہے۔ میری ہی طرح سارے سائیکل رکشا والے بھی بابا کے بھکت ہیں وہ لوگ سواریوں کو رام لیلا میدان تک پہنچانے کی اجرت نہیں لیتے۔

جگو کا دل پسیج چکا تھا اس نے پوڑی کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہایار یہ تو زبردست سہولت ہے کھانا تو کھانا، آنا جانا بھی مفت۔

جی ہاں صاحب اور اسی کے ساتھ رہائش کا بھی بہترین انتظام۔

اور وہ بھی مفت؟ جگو اب بے تکلف ہو گیا تھا۔

جی ہاں صاحب یہ بابا کا دربار ہے کوئی سرکاری دفتر تھوڑی نا ہے جہاں ہر چیز کی قیمت پیشگی ادا کرنی ہوتی ہے۔

جگو بولا سرکار دربار بھی تو مفت خوری کا اڈہ ہی ہے !

جی ہاں صاحب لیکن یہ مفت خوری صرف درباریوں تک محدود ہے۔

یہ بھی صحیح ہے دکشنا کے بغیر عام آدمی کی وہاں کوئی پذیرائی تو کجا رسائی تک ممکن نہیں ہے۔  جگو نے کہا۔

آپ کی بات بالکل درست ہے اس صورتحال کو بدلنے کیلئے ہی یوگی بابا نے اپنا دربار سجایا ہے۔

نادانستہ طور پر جگو  یوگی بابا کے پنڈال کی جانب چل پڑا تھا منگو  نے اسے رکشا میں بٹھانے کے بعد کہا آ پ پرستھان کریں اور مجھے آگیہ دیں۔ میرے ذمے ّ کچھ اور کام ہے۔میں انہیں نمٹا کر دوپہر بعد بابا جی کے درشن کیلئے پہنچ جاؤنگا ہماری ملاقات اسٹیج کی دائیں جانب چار بجے ہو گی۔ رکشا کے پہئے کے ساتھ جگو کے دماغ کی چکری بھی گھومنے لگی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا۔ یہ منگو بھی زبردست جادوگر ہے۔اس نے  جگو کے سفر کا رخ اس خوبی سے موڑ دیا تھا کہ خود اسے بھی پتہ نہ چلا۔ ایسا لگتا تھا گویا اس نے جگو کے دماغ کو اپنے قبضے میں کر لیا تھا اور بغیر سوچے سمجھے جگو وہ تمام کام کرتا جا رہا تھا جو منگو چاہتا تھا۔  منگو سوالات کے مایا جال میں گھرا جا رہا تھا:

  • اس منگو کو یہ کیسے پتہ چل گیا کہ وہ پریشان ہے ؟
  • منگو نے اس کو لگی بھوک کا اندازہ کیسے کر لیا؟
  • اور تو اور سب سے بڑا چمتکار تو یہ انکشاف کہ وہ کمہار ہے ؟

جگو کے ماتھے پر تو یہ کھدا ہوا نہ تھا بلکہ اس کے  چہرے مہرے سے بڑے بڑے قیافہ شناس دھوکہ کھا جاتے تھے اوراسے سورن جاتی کا آدمی سمجھ لیتے تھے لیکن منگو نے اس کے پیشے کا بالکل درست اندازہ  لگا لیا تھا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ خود منگو اس کے ساتھ پنڈال تک بھی نہیں آیا گویا اسے یقین تھا کہ یہ پنچھی پوری طرح زیرِ دام آ چکا ہے۔ اب یہ درمیان سے کسی اور جانب نہیں جا سکتا۔جگو کو منگو کی خود اعتمادی پر رشک آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا آخر کس ذمہ داری نے منگو کو ریلوے اسٹیشن پر روک لیا اور اس کے ساتھ آنے نہ دیا ؟

آخری سوال کے سوا کسی سوال کا جواب جگو کے پاس نہ تھا۔ اسے یقین تھا  کہ دوپہر تک اور کئی  اجنبی  لوگوں کو منگو رام لیلا میدان روانہ کر دے گا۔  اس کا جی چاہا کہ واپس جا کر منگو کی تپسیا میں شامل ہو جائے لیکن اسے لگا یہ کام اس قدر آسان نہیں ہے۔  فی الحال یہ اس سے نہ ہو سکے گا۔ اسے یوگی بابا کے پاس کچھ اور ابھیاس (ریاض) کرنا ہو گا تب جا کر وہ جگوسے منگو بن سکے گا۔ جگو نے فیصلہ کیا کہ وہ اگلے دن منگو کے ساتھ ریلوے اسٹیشن ضرور جائے گا اور شام میں جب منگو سے ملاقات ہو گی تو اس سے اپنے سارے سوالات کے جواب پوچھے گا۔

جگو جیسے ہی رام لیلا میدان میں بنے شامیانے میں داخل ہوا اس کا چہار جانب سے استقبال ہونے لگا۔کوئی مسکرا رہا تھا تو کوئی پرنام کر رہا تھا  ایسا لگتا تھا گویا وہ اپنے پرانے جاننے والوں میں لوٹ آیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہر کوئی اس کی آمد سے خوش تھا بعد میں اسے پتہ چلا کہ اس خوشی کا تعلق اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ یہاں ہر کسی کو ایک دوسرے سے مل کر بے حد خوشی ہوتی تھی۔ ایسا کیوں ہوتا تھا اس کی وجہ کا علم  اسے ابھی نہیں ہوا تھا لیکن سچ یہی تھا کہ وہ خود بھی ان لوگوں سے مل کر بے تحاشہ فرحت و مسرت محسوس کر رہا تھا۔

اس بیچ ایک کارکن نے اپنی گٹھڑی کو کھولا اور اسے کھانے کی دعوت دی۔ویسے تو جگو کو بھوک نہیں تھی اس کے باوجود وہ اس پر خلوص دعوت کو ٹھکرا نہ سکا۔ وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ان کو ایسا کرتے دیکھ ایک اور مندوب دوڑ کر دو پانی کے پیالے لے آیا اور ان کے سامنے رکھ دئیے۔ اس اجنبی نے پانی لانے والے کو بھی اپنے ساتھ شریک کر لیا۔ اب ان کے سامنے پتے پر کچھ ستوّ تھا اور پانی۔ پانی لانے والے نے اپنی جیب سے گڑ کی چند ڈلیاں نکالیں اور ان کو ستوّ پر پھیلا  دیا۔

کھان پان کے بعد ستوّ والے نے پوچھا بابا جی کا پروچن کب ہے ؟ پانی والا بولا ابھی سمے ہے ہم لوگ دو گھنٹہ وشرام کر سکتے ہیں۔ جگو بولا یہ بہت مناسب مشورہ ہے۔ ستوّ والا بولا جی ہاں یہ وقت کا بہترین استعمال ہے باباجی کے پروچن سے پوری طرح مستفید ہونے کیلئے تن اور من دونوں کا تر و تازہ ہونا بہت ضروری ہے۔پانی والا اس بیچ اپنی دری بچھا چکا تھا تینوں اس ایک بڑی سی دری پر اغل بغل لیٹ گئے اور نہ جانے کب گہری نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔

جگو نے پھر ایک بار خواب میں اپنے دادا کمل پرشاد اپادھیائے کو دیکھا وہ نہایت ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے ان کا چہرہ خوشی سی دمک رہا تھا۔ جگو نے آگے بڑھ کر ان کے چرن چھوئے تو انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور پھر اپنے سینے سے لگا لیا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا اس کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے مٹی میں بیٹھ گئے کمل پرشاد نے کہا بیٹے  کیا تم جانتے ہو کہ آج میں یہاں کیوں آیا ہوں ؟ جی دادا جی ! میں نہیں جانتا اور مجھے یہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں آپ کے درشن ہو گئے یہی میرا بہت بڑا سوبھاگیہ ہے۔جگو نے ونمرتا سے کہا

سوتو ہے میں بھی جب تم کو دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے لیکن آج میری تم سے ملاقات کا ایک خاص کارن (وجہ) ہے۔ آگیہ دیں داداجی! آپ کی اِچھاّ(مرضی)ہی میرے لئے آدیش (حکم)ہے۔

بیٹے آج میں تمہیں نہ تو کوئی آدیش دوں گا اور نہ ہی اپدیش۔آج تو میں سیاست کی دنیا میں تمہارا سواگت کرنے کیلئے آیا ہوں۔ دیکھو بیٹے یہ ایک نہایت پوتر دھرم کاریہ (مقدس دینی  ذمہ داری) ہے جس کا لوگوں نے اس قدر دراپیوگ(غلط استعمال) کیا کہ یہ ایک گالی بن گیا لیکن تم اسے دھرم سمجھ کر برتنا۔میری ایک بات گرہ میں باندھ لو کل یگ کے سارے انیایہ اور شوشن کا سروت(ظلم اور استحصال کا سرچشمہ)یہی راجنیتی ہے۔  اس لئے جو اسے سدھار دے گا وہ سب سے بڑا پونیہ کاریہ (خیر کا کام) کرے گا پرنتو یہ نہ بھولنا کہ یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا ہار ہے۔یہ کام آسان نہیں بہت مشکل ہے لیکن بہادر آدمی کی پہچان یہی ہے کہ وہ مشکل کام میں ہاتھ ڈالتا ہے اور اسے بخیر و خوبی نمٹا دیتا ہے۔ اس مہایدھ (جنگِ عظیم)میں میری شبھ کامنائیں ( نیک خواہشات) تمہارے ساتھ ہیں۔ مجھے وشواس ہے کہ اس رن بھومی (میدانِ جنگ)سے تم  وجئے پراپت (کامیاب و کامران ہو کر)کر کے لوٹو گے۔

جگو نے عقیدت کے ساتھ اپنی آنکھوں کو بند کر لیا تو اپنے کندھوں پر کسی ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا۔ اس کی آنکھ کھلی تو اس کے سامنے منگو کھڑا مسکرا رہا تھا۔منگو نے کہا اٹھو بھائی جگو وشرام کا سمے سماپت ہو گیا ہے۔جگو نے دیکھا کہ اس کے پاس سے پانی والا اور ستوّ والا دونوں غائب ہیں۔جگو نے پوچھا کیا پروچن شروع ہونے والا ہے ؟

منگو بولا ابھی بس اتنا وقت ہے کہ تم اپنی ضروریات سے فارغ ہو کر منہ ہاتھ دھولو اس کے بعد ہم لوگ چائے پیتے ہیں تب تک یوگی بابا آ جائیں گے۔

جگو نے جیسے ہی گرم گرم چائے کی چسکی لی اسے اپنے سارے سوالات یاد آ گئے جنھیں وہ منگو سے پوچھنا چاہتا تھا۔ جگو نے کہا اگر آپ برا نہ مانیں  منگو بھیا تو مجھے آپ سے کچھ پو چھنا ہے۔

نسنکوچ(بلا تکلف) پوچھو اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے ؟

دراصل آپ نے ٹیلی پیتھی کا گیا ن سیکھا ہے کیا؟

ہومیوپیتھی اورایلو پیتھی تو سنا ہے یہ لیکن ٹیلی پیتھی کیا ہوتا ہے ؟ کہیں  بیمار ٹیلی ویژن کو صحت یاب کرنے کا کو ئی نسخہ تو نہیں ہے ؟

نہیں بھائی اس سے لوگ مخاطب کا ذہن پڑھ لیتے ہیں۔

ارے نہیں یہ تم سے کس نے کہہ دیا۔ایسا کوئی گیان میں نہیں جانتا منگو نے کہا۔

اچھا اگر ایسا ہے تو تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ میں ریلوے پلیٹ فارم پر پریشان تھا؟

اوہو میں سمجھ گیا۔ دیکھو بات دراصل یہ ہے کہ ویسے بھی ریلوے پلیٹ فارم پر ہر کوئی پریشان ہی ہوتا ہے۔ اب چاہے وہ تیسرے درجے کا مسافر ہو یا پہلے درجے کا۔

تیسر ے درجے والے کی پریشانی تو سمجھ میں آتی ہے۔ اسے نہیں پتہ ہوتا کہ کہاں بیٹھے گابلکہ گاڑی میں سوار بھی ہو پائے گا یا نہیں ؟ لیکن پہلے درجے والے کیلئے ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا وہ کیوں پریشان ہوتا ہے ؟

منگو نے کہا تم بہت ذہین آدمی معلوم ہوتے ہو۔

اچھا وہ کیسے ؟ جگو نے خوش ہو کر پوچھا۔

منگو بولا تمہارا سوال تمہاری ذہانت کی گواہی دیتا ہے۔

یہ سن کر جگو کو اپنا سوال یاد آگیا وہ بولا لیکن آپ نے میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیا میری تعریف کر کے مجھے بہلا دیا۔

بھئی پہلے درجے والے مسافر کے پاس ایک تو سازوسامان بہت زیادہ ہوتا ہے دوسرے اس کی توقعات بھی کم نہیں ہوتیں اس وجہ سے وہ بے حد بے چین اور پریشان ہوتا  ہے۔ اور جو آپ کہہ رہے سبھی لوگ پریشان ہوتے ہیں  اس کی کیا وجہ ہے ؟

وجہ صاف ہے ؟پلیٹ فارم پر ہر انسان سفر میں ہوتا ہے اسے اپنی منزل پر بحفاظت جلد از جلد پہنچ جانے کی فکر لاحق ہوتی ہے اس لئے وہ پریشان ہوتا ہے۔ منگو فلسفیانہ انداز میں بولا۔

لیکن بھیا ّیہ جیون بھی تو ایک یاترا کے سمان ہے یہاں تو ہر کوئی  چنتت (فکرمند) نہیں ہوتا بلکہ بہت سارے لوگ نشچنت جیون ویتیت(اطمینان کی زندگی گزارتے )کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

بھائی جگو تم نے بہت ہی گمبھیر پرشن(سنجیدہ سوال) کر لیا۔دیکھو اس دنیا میں تین پرکار(قسم) کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک تو وہ لوگ جو اس جیون کو پرواس(سفر) نہیں بلکہ منزل سمجھ لیتے ہیں وہ دو انتہاؤں پر زندگی گزارتے ہیں۔جب انہیں کچھ مل جاتا ہے تو وہ غفلت کا شکار ہو کر بے فکر ہو جاتے ہیں اور جب کچھ چھن جاتا ہے تو مایوسی کی ا تھاہ سمندر میں غوطہ لگانے لگتے ہیں۔

جی ہاں ایسے بہت سارے لوگ میں نے بھی دیکھے ہیں شاید اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے ؟

تم نے صحیح کہا اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اس جیون کو پرواس تو سمجھتے ہیں لیکن انہیں نہ ہی ایشور پر پورن وشواس(توکل اللہ) ہوتا ہے اور نہ نروان مارگ کا گیان (راہِ نجات کا علم) ایسے لوگ بہت زیادہ سنکوچ اور چنتا کا شکار ہوتے ہیں۔ جگو نے تائید کی اور بولا یہ تو لازمی امر ہے ایسے لوگوں کی کوئی اور دشا(حالت) ہو ہی نہیں سکتی لیکن پھر تیسری قسم کون سی ہے ؟

تیسرے پرکار کے لوگ دوسرے کے ویپریت(ضد)ہوتے  ہیں ان کو نہ صرف ایش گیا ن پراپت (اللہ کی معرفت) ہوتا ہے بلکہ ان کا ایشور پر پورن وشواس (ایمانِ کامل) بھی ہوتا ہے۔ اس لئے وہ سنتشٹ( مطمئن) ہوتے ہیں ساتھ ہی  چونکہ وہ  اس جیون یاترا میں ہر سمے ایشور کو اپنے آس پاس محسوس کرتے ہیں اس لئے  بھیہ و نراشا(خوف ومایوسی) ان کے قریب نہیں پھٹکتی۔

بھئی آپ تو بڑے گیانی نکلے میں تو آپ کو حلوائی سمجھ بیٹھا تھا  جگو نے مسکرا کر کہا۔

تم ٹھیک سمجھے تھے  جگو میں پیشے سے حلوائی ہی ہوں لیکن یہ سب بابا جی کا کی سنگت کا وردان ہے منگو نے ونمرتا(انکساری) سے کہا۔ منگو نے ایک اور سوال کیا اچھا اب یہ بھی بتا دو کہ جو پوڑیاں تم نے مجھے کھلائیں وہ تم کس کے لئے بنا کر لائے تھے۔

تمہارے لئے اور کس کیلئے ؟منگو قہقہہ لگا کر بولا۔

میرے لئے ؟ تمہیں کیسے پتہ تھا کہ میں وہاں آنے والا ہوں اور تم سے میرا پریچئے (تعارف) بھی تو نہیں تھا۔

اس سے کیا فرق پڑتا ہے ویسے بھی میں نے اسے اپنے کسی پریچت کیلئے بنایا کب تھا ؟

تب پھر کس کیلئے بنایا تھا  ؟یہی تو میرا پرشن  (سوال)ہے

بھئی دیکھو ہم حلوائی لوگ پکوان کا نام تو جانتے ہیں  لیکن کھانے والے کا نام نہیں جانتے اور ہمیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔

اچھا آپ نہیں جانتے تو کون جانتا ہے ؟

وہی جانتا ہے جو ہر دانے پر اس کے کھانے والے کا نام لکھ دیتا ہے اس کے سوا کوئی نہیں جانتانہ بنانے والا، نہ کھلانے والا اور نہ کھانے والا اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی اور جان بھی نہیں سکتا۔

منگو بھائی آپ نے میری بات کو گھما دیا اور یہ نہیں بتلایا کہ وہ پوڑی سبزی کس کیلئے تھی۔ آپ نہیں جانتے اگر اس روز دہرہ دون ایکسپریس وقت پر آ جاتی تو میں نکل چکا ہوتا۔خیر اچھا ہی ہوا ورنہ اس ست سنگت سے ونچت( محروم) رہ جاتا۔

منگو بولا اس سے تو یہی سدھّ (ثابت) ہوا کہ بھائی جیسے دانے دانے ہر لکھا ہوتا ہے اس کے بنانے اور کھانے والے کا نام اسی طرح ہر شبد(لفظ ) پر اس کے بولنے اور سننے والے کا نام بھی لکھا ہوتا ہے۔

وہ کیسے ؟ جگو نے پوچھا۔ اب سنو منگو بولا بابا جی کے سب زیادہ بھکت شمالی ہند میں پائے جاتے ہیں ہم لوگ وہاں سے آنے والے یاتریوں کا سواگت کرنے کیلئے اسٹیشن پہنچے تھے تو معلوم ہوا کہ سرکار نے اس آندولن کو ناکام کرنے کیلئے اس سمت سے آنے والی ساری گاڑیوں میں قصداً  ولمب(تاخیر) کر دیا۔ پہلے تو ہمیں بہت غصہ آیا سوچا پردرشن(احتجاج) کیا جائے لیکن پھر ہمارے ایک مِتر (دوست)نے سجھاؤ دیا یہ بد معاش سرکار ہے اس کے غنڈے ہمارے پردرشن میں شامل ہو کر لوٹ مار مچا دیں گے اور ذرائع ابلاغ ہمیں بدنام کرنے کی مہم میں جٹ جائے گا۔

جگو بولا یہ تو بڑی عقلمندی کا نرنیہ (فیصلہ) تھا

جی ہاں لیکن اس کے بعد جب میں نے یہ پوچھا کہ اب اس کھان پان کا کیا کیا جائے ؟ اسے سرکار کے منہ پر مار دیا جائے ؟تو ایک اور مِتر(دوست) بولا نہیں ہم ان موانع کو مواقع میں بدل دیں گے۔ سب نے ایک زبان ہو کر پوچھا وہ کیسے ؟

جواب ملا سرکار لاکھ رکاوٹ ڈالے جو لوگ اس عظیم کام کیلئے اپنے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں وہ تو یہاں کسی نہ کسی طرح ضرور پہنچیں گے۔کوئی بس سے تو کوئی پیدل لیکن ان گاڑیوں کے نہ آنے کی وجہ سے جو لوگ اسٹیشن پر پھنس گئے ہیں اور آگے نہیں جا پا رہے ہیں کیوں نہ یہ پکوان انہیں کھلا دیا جائے اور آندولن میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے۔ بس پھر کیا تھا ہم سب اس کام میں جٹ گئے اور اسی کوشش میں تم میرے ہتھے چڑھ گئے۔

جگو بولا بھئی واہ تمہارے سہیوگی (ساتھی) تو بڑے سمجھدار لوگ ہیں  لیکن تم بھی تو انتریامی ہو۔ منگو بولا نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں۔ جگو نے سوال کیا اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بتاؤ تمہیں کیوں کر پتہ چل گیا کہ میرا پیشہ مٹی کے برتن بنانا ہے ؟

منگو مسکرایا اور بولا وہ تو میرا اندازہ تھا جو اتفاق سے درست نکل گیا۔

لیکن تم نے اندازہ لگایا کیسے ؟اس کی بھی تو کوئی وجہ ہو گی؟

دراصل جب میں نے تمہیں پوڑی سبزی پیش کی تو دیکھا تمہارا دھیان کھان پان کے بجائے کلہڑ کی طرف ہے میں سمجھ گیا ہو نہ ہو تم کمہار ہو۔

اور اگر میں کمہار نہ ہوتا تو؟

تو کیا لوہار ہوتے یا کچھ اور۔میں تم سے معذرت طلب کر لیتا۔ میرا مقصد تمہیں متاثر کرنا  تو تھا نہیں۔ تم سے بات بڑھانا تھی  سو بڑھ گئی رابطہ استوار ہو گیا بس یہی کافی تھا۔

جی نہیں تمہارا مقصد مجھ سے صرف رابطہ کرنا نہیں تھا بلکہ یہاں روانہ کرنا تھا اور تم اس میں کامیاب ہو گئے۔

منگو بولا بھائی ہمارا کام تو کوشش کرنا ہے کامیابی یا ناکامی ایشور کے ہاتھ ہے اس لئے ہم اپنے کام کی فکر کرتے ہیں باقی نتیجہ اس پر چھوڑ دیتے ہیں۔

جگو نے کہا بھئی ہونا بھی یہی چاہئے کہ جو جس کا کام ہو اسے وہ کرنے دیا جائے۔

منگو  بولا وہ دیکھو بابا جی کی آمد آمد ہے چلو اب ان کا پروچن سنتے ہیں۔

بابا جی کی آمدسے رام لیلا میدان میں زبردست گہما گہمی کا ماحول بن گیا ہر کوئی جوش میں آگیا  یوگی بابا زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے ایسا لگتا تھا گویا دیش ایک  وشال کرانتی کے کگار پر آ کھڑا ہوا ہے۔لوگ یوگی بابا کے پروچن کا انتظار کر رہے تھے اس بیچ جگو بھی ایک طرف آسن جما کر بیٹھ گیا جیسے ہی یوگی بابا اسٹیج پر پدھارے سارہ پنڈال جئے گرودیو کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔

بابا جی نے ہاتھ اٹھا کر سارے لوگوں کو پرنام کیا مسکرا کر لاکھوں کے اس مجمع کو دیکھا تو ان کا  ایک شاگرد آگے آیا اور بولا اب بھی اگر کسی کو شنکا (شبہ )ہے کہ یہ طوفان رک جائے گا تو وہ مورکھ ہے  اور اس سونامی میں بہہ کر غرق ہو جانا اس کا مقدر ہے۔ دوسرے ششیہ نے مائیک ہاتھ میں لے کر کہا اگر بابا کے دربار کی چیتاونی سرکار دربار نے نہیں سنی تو یہ آندھی اپنے ساتھ راج دربار کو اٹھا کرکسی ایسی جگہ پھینک آئے گی کہ لوگ بھول جائیں گے راج دربار نام کی کوئی چیز بھی اس دنیا میں ہوا کرتی تھی۔

یوگی بابا اپنے آسن پر براجمان ہو چکے تھے اور سب لوگ مل کر ایک آواز میں گاندھی جی کا مشہور بھجن ستیہ میو جیتے گا رہے تھے۔ جب بھجن ختم ہوا تو پنڈال کو خاموشی نے نگل لیا  ایک ایسی شانتی چاروں اور پھیل گئی مانو وہاں کوئی موجود ہی نہ ہو  ایسا لگ رہا تھا گویا لوگ سانس روک کر یوگی بابا کے شبدوں کی پرتکشا (انتظار)کر رہے تھے۔

یوگی بابا حسبِ  عادت مسکرائے اور بولے آج میں آپ لوگوں کو ست یگ کی ایک کتھا سنانے والا ہوں لیکن اس کتھا کے بعد میں آپ لوگوں سے کچھ پرشن کروں گا اگر آپ نے سارے سولات کے صحیح جواب دے دئیے تو آپ کی جان چھوٹ جائے گی اور سبھا سماپت ہو جائے گی لیکن اگر آپ لوگ صحیح اترّ دینے میں سپھل نہیں ہوئے تو میں کتھا پھر سے دوہراؤں گا اور پھر باقی ماندہ سوالات کروں گا۔ اس طرح یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مجھے سارے پرشنوں کے صحیح جواب نہیں مل جاتے اس لئے اگر آپ اس مصیبت سے جلد از جلد چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں توکرپیہ( برائے مہربانی )کتھا کو غور سے سنئے اور پہلی ہی بار میں سارے سوالات کے صحیح جواب دے دیجئے اسی میں آپ کی اور میری دونوں کی بھلائی ہے۔ باباجی کی اس ظرافت پر مجمع زعفران زار ہو گیا۔

ست یگ میں بھی ایک وقت ایسا آیا تھا جبکہ اس برہما لوک کی ستّا(اقتدار)خود برہما دیوتا  کے ہاتھ سے نکل آسروں (شیطانوں ) کے ہاتھ میں چلی گئی تھی اور چہار جانب  اسی طرح کی تنگی و قحط سالی  پھیل گئی جیسی کہ آج کل ہے۔ لوگ دانے دانے کو ترسنے لگنے گویا ان سے ساری نعمتیں اور برکتیں چھن گئیں ایسے نازک وقت میں  برہما نے وشنو سے مدد طلب کی اور وشنو نے یہ تجویز رکھی کہ دیو اور دانو جو ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں  متحد ہو جائیں اورایک  دوسرے کے ساتھ مل کر امرت منتھن کریں تاکہ زمین میں چھپے ہوئے خزانوں کو نکالا جا سکے۔ دھرتی کے پیٹ سے امرت (آبِ حیات)نکالنے کی پیش کش دانووں نے سنی تو وہ بہت خوش ہو گئے مندیرا نامی پہاڑ کو دودھ کے سمندر پر کھونٹے کی مانند گاڑ دیا گیا اور پاتال کے اندرسے سانپوں کے راجہ وسوطی اژدہے کو لا کر رسی کی مانند مندیرا کے گرد لپیٹ دیا گیا۔ وسوطی کو دم کی جانب سے دیووں نے پکڑا اور سر کی طرف دانووں نے تھاما تاکہ منتھن کی شروعات کی جا سکے۔

اس منتھن کے دوران  سمندر اور دھرتی اپنی نعمتیں لٹاتی رہی جنہیں معاہدے کے مطابق دونوں گروہ آپس میں تقسیم کرتے رہے  لیکن اس بیچ اچانک وسوطی نام کا اژدھا گرم ہو گیا اور اس نے اپنا زہر اگلنا شروع کر دیا۔ اگر یہ زہر سمندر میں مل جاتا تو سارا پانی زہریلا ہو جاتا لیکن ایسے میں وشنو نے بھولے شنکر کے آگے گہار لگائی  شنکر نے آگے بڑھ کر زہر کو نگل لیا لیکن ان کی پتنی(زوجہ)پاروتی نے ان کا گلا دبا دیا تاکہ زہر پیٹ میں نہ اتر سکے نتیجہ یہ ہوا کہ سارا زہر گلے ہی میں رہ  گیا اور اسی وقت سے بھولے بابا نیل کنٹھ کہلائے۔اس زہر کے باعث جو ان کے حلق میں ٹھہر گیا تھا ان کی گردن نیلی ہو گئی۔

لوگوں کو امرت منتھن کی کتھا میں مزہ آ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ امرت باہر آتا مندیرا پہاڑ سمندر کے اندر دھنسنے لگا یہ دیکھ کر وشنو نے کچھوے کا روپ دھار لیا اور سمندر کی طہ میں جا کر مندیرا کو اپنی پیٹھ پر سنبھال لیا منتھن جاری رہا یہاں تک کہ  جب آسمانی طبیب دھنونتری  امرت کا جگ لے کر نمودار ہوئے تو انہیں  دیکھ کر دونوں گروہ  باؤلے ہو گئے وہ اپنا عہد بھلا کر اس پر جھپٹے۔دانووں نے اسے دیووں سے چھین لیا مگر پھر آپس میں  اس بات پر لڑ پڑے کہ اسے کون پہلے پئے گا؟

اس بیچ وشنو نے ایک اور چالاکی دکھلائی اور موہنی نامی خوبصورت اپسرا کا بھیس بدل کر سامنے آئے نیز اپنی ہاتھ چالاکی سے دانووں کو امرت کے بجائے دھوکہ دے کر شراب کی بوتل پکڑا دی۔امرت جب دیوتاؤں کو ملا تو وہ بھی آپس میں لڑ پڑے اور اس کا فائدہ اٹھا کر برہما کا لڑکا ورون اسے لے اڑا اور پھر ایک بار برہما کا راج قائم ہو گیا۔

اس پراچین کتھا کو سنانے کے بعد بابا نے پوچھا سب سے پہلے تو آپ لوگ یہ بتائیں کہ آج کے دور میں دیوتا کون ہیں ؟ اور دانو کون لوگ ہیں ؟

لوگوں نے ایک زبان ہو کر جواب دیا:

  • عوام دیوتا ہیں اور خواص دانو ہیں۔

اچھا اگر ایسا ہے تو  اس کہانی میں اور آج کے حالات میں کیا مماثلت ہے ؟

لوگوں نے جواب دینا شروع کیا:

  • آج بھی آسروں کا راج ہے۔
  • دیوتاؤں کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔
  • دانوؤں اور آسروں کے درمیان اتحاد کے نتیجے میں  ایک ایسا نظام قائم ہو گیا ہے جس میں دونوں ایک دوسرے سے تعاون و اشتراک کر رہے ہیں۔

تم لوگ تو بڑے سمجھدار ہو گئے ہو اب یہ بھی بتلا دو کہ ان حالات میں فرق کیا ہے ؟ لوگ ایک کے بعد ایک فرق بتلانے لگے :

  • پہلا فرق تو یہ ہے کہ کل یگ میں دیوتاؤں کے بجائے دانووں نے اشتراکِ عمل  کی پیشکش کی ہے۔
  • اور اس یگ میں کوئی شیو نہیں ہے جو دیوتاؤں کی مدد کیلئے آئے اور موہنی کا روپ دھار کر دانووں کو بہکائے بلکہ دانووں نے دیوتاؤں کو ورغلانے کیلئے نہ جانے کتنی مینکاؤں کو چھوڑ رکھا ہے۔

یوگی بابا نے پوچھا اور کوئی فرق؟؟؟ تم لوگ ایک بہت بڑا فرق بھول گئے۔

وہ کیا؟؟؟ لاجواب لوگ سراپہ سوال بنے یوگی بابا کو دیکھ رہے تھے۔

  • کل یگ میں چونکہ وسوطی  نامی اژدہے کے زہر کو نگلنے کیلئے کوئی نیل کنٹھ آگے نہیں آیا اس لئے راج تال کا پانی زہریلا ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ منتھن کے باوجود ساری محنت رائیگاں ثابت ہوئی اور کوئی امرت کا فوارہ نہیں پھوٹا جو دیوتاؤں کو اقتدار سے سرفراز کرسکے۔یوگی بابا کے اس جواب کے بعد لوگوں نے پھر سوال کیا گرودیو جو ہوا سو ہوا لیکن اب کیا کیا جائے ؟

بابا بولے اس کیلئے سمپورن کرانتی کی اوشیکتا(ضرورت) ہے۔ اس کے بنا راج تال پوتر نہیں ہوسکتا۔راج تال کو پوتر کرنا اتی اوشیک (نہایت ضروری)  ہو گیا ہے ورنہ یہ زہر سارے سماج میں سرائیت کر جائے گا۔

لیکن اسے پاک کرنے کیلئے کیا کرنا ہو گا؟ کئی لوگوں نے ایک ساتھ سوال کیا۔ بابا بولے میں اس کیلئے گنگوتری یگیہ کروں گا۔میں ہری دوار سے  پوتر گنگا کی ایک شاخ کو راج تال تک لاؤں گا اور اس کی دوسری شاخ جسے سوئس بنک کی تجوری میں چھپا دیا گیا اس کو بھی واپس لاؤں گا۔ جب یہ مدھر سنگم راجدھانی میں ہو گا ہماری سمسیاکا سمادھان اپنے آپ  ہو جائے گا۔

لیکن اس مہم  میں ہمیں کیا کرنا ہو گا ؟ اس سوال پر بابا نے کہا  سب سے اہم کام تو تمہیں لوگوں کو کرنا ہے۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ؟؟؟

تم سب کو مل کر سرکار سے اس کا پر زور مطالبہ کرنا ہے کہ گنگا جل کو راج تال تک آنے دیا جائے۔ اس لئے کہ مجھے نہیں لگتا وہ لوگ اس کیلئے آسانی سے راضی ہو جائے گی۔

لیکن کیوں ؟ آپ تو اس راج تال کو پوتر کرنے جا رہے ہیں اس پر کس کو اور کیا  اپتیّ(اعتراض) ہو سکتی ہے ؟

کس کو اعتراض ہو گا اور کیا اعتراض ہو گا یہ تو وقت ہی بتلائے گا؟ فی الحال کافی ولمب (تاخیر) ہو گیا اس لئے آپ لوگ بھوجن کرنے کے پشچات(بعد)وشرام (آرام) کریں۔آگے کی یوجنا  کل کے پروچن میں آپ کے سمکش رکھی جائے گی۔

 

 

 

پورن کرانتی

 

اس رات باباجی نے سمپورن کرانتی(مکمل انقلاب) کا نعرہ کیا لگایا کہ ذرائع ابلاغ میں بھونچال آگیا۔وہ میڈیا جو یوگی بابا کی تعریف و توصیف میں لگا ہوا تھا اچانک ان کا دشمن ہو گیا۔ بابا کے خلاف طرح طرح کی بیان بازی اور الزام تراشی شروع ہو گئی۔ کوئی ان کے نجی دھن دولت کی تفصیل بتلا کر انہیں بدنام کر رہا تھا تو کوئی خود انہیں  پر کالا دھن جمع کر کے اس پر عیش کرنے کا الزام لگا رہا تھا۔لوگ سوال کر رہے تھے ایک سنیاسی کا جیون اس قدر پر تعیش کیسے ہو سکتا ہے ؟ وہ پیدل چلنے کے بجائے اپنے ذاتی ہیلی کاپٹر میں کیوں اڑتا پھرتا ہے ؟ اس قدر دولت کی  انہیں ضرورت ہی کیا ہے ؟ اور وہ پراپت کہاں سے ہوتی ہے ؟یہ سچا سنیاسی ہے پاکھنڈی ہے ؟

کچھ اور یوگی بابا پر سنگھ پریوار کے ایجنٹ ہونے کا آروپ لگا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ حکمراں جماعت کو کمزور کر کے حزب اختلاف کو اقتدار میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی اپنے چینل سے سادھوی رتھمبرا کی آندولن میں شرکت کی تفصیل دکھلا رہا تھا حالانکہ اسے آئے گئے کئی دن گزر چکے تھے تو کوئی یوگی بابا کے ذریعہ نریندر مودی کی تعریف و توصیف کا ذکر کر رہا تھا۔ کسی کا الزام  تھا کہ بابا کا آشرم غیرملکی مجرموں کی پناہ گاہ ہے۔

آشرم کے ایک نیپالی ملازم پر قتل کا الزام ہے جس کو بابا نے اپنے آشرم میں پناہ دے رکھی ہے۔ یہ تمام سنگین الزامات ایسے چینلس سے نشر ہو رہے تھے جن کے غیر جانبداری کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔حکومت کی جانب سے یوگی بابا کے خلاف سخت سست بیان نشر ہونے لگے تھے۔ ایسے میں دھرنا پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے اندر ایک خوف و دہشت کا احساس پروان چڑھنے لگا تھا۔

جگو جس وقت یہ داستان مونی بابا کو سنا رہا تھا اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ یہ نیا نمبر تھا اس لئے کہ فون پر کسی کا نام نہیں آیا۔ جگو نے جیسے ہی فون اٹھایا سامنے سے منگو کی آواز آئی۔ منگو بولا جگو تم کیسے ہو؟جگو اپنے دوست منگو کی آواز سن کر خوش ہو گیا  وہ بولا میں تو اچھا ہوں تم اپنی سناؤ تم کہاں ہو فی الحال میری بڑی اچھاّ (خواہش)ہو رہی ہے تم سے ملنے کی؟

منگو بولا میں بھی تم سے ملنا چاہتا ہوں پرنتو(مگر) فی الحال یہ سمبھو(ممکن) نہیں ہے۔ میں تم سے اس وقت زیادہ بات نہیں کر سکتا اگر ممکن ہو تو تم رات دس بجے مجھے اس نمبر پر فون کرنا۔  جگو بولا ضرور، ضرور میں تمہیں آج رات دس بجے فون کروں گا۔ دھنیہ واد کی آواز کے ساتھ فون بند ہو گیا۔مونی بابا نے پوچھا کون تھا ؟ جگو بولا یہ وہی منگو ہے جس کے بارے میں آپ کو میں کئی دنوں سے بتلا رہا ہوں۔ نہ جانے وہ کس مصیبت میں گرفتار ہے مجھے اس کی چنتا ہو رہی ہے ؟

مونی بابا بولے بلاوجہ چنتا گرست ہونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ فی الحال وہ تم سے بات تک نہیں کرسکتا اس لئے رات دس بجے کا  پرتکشا(انتظار)کرو اور اس کیلئے پرارتھنا کرو تم اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کر سکتے۔ مونی بابا بھی منگو کے لہجہ میں بات کر رہے تھے۔ مونی بابا نے پوچھا آخری مرتبہ تم منگو سے کہاں ملے تھے ؟

جگو بولا وہیں رام لیلا میدان پر بابا جی کے پنڈال میں آندولن کے آخری دن ہم لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تھے۔ اس دن بشمول باباجی کے ہر کوئی خو فزدہ لگ رہا تھا۔ پولس کے دستوں نے پنڈال کے ارد گرد ڈیرہ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ میں بھی گھبرا گیا تھا۔ پہلی مرتبہ اس طرح کی صورتحال سے  میرا سابقہ پیش آیا تھا۔میری سمجھ میں آنے لگا تھا کہ انقلاب کے بارے میں سوچنے اور بولنے نیز انقلاب لانے میں کیا فرق ہے ؟

اکثر وبیشتر مظاہرین کے طرح میں نے بھی وہاں سے نکل جانے کا من بنا لیا تھا لیکن جانے سے قبل میں ایک بار منگو سے ملاقات کرنا چاہتا تھا۔میری خواہش تھی کہ وہ بھی میرے ساتھ نکل چلے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اس کے ساتھ نکل جانا چاہتا تھا  لیکن منگو کا کہیں اتہ پتہ نہیں تھا۔میں دیوانہ وار اس کو تلاش کرتا رہا، جیسے جیسے پنڈال خالی ہوتا جاتا تھا اس سے ملاقات کے امکانات روشن ہوتے جاتے تھے۔ایسے میں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں منگو مجھے چھوڑ کر نکل گیا ہو ؟ لیکن پھر دل نے گواہی دی  نے یہ ناممکن ہے۔  مجھے اپنے آپ سے زیادہ اعتماد اپنے دوست منگو پر تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میں تو اسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں لیکن وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں، کبھی بھی نہیں۔

مونی بابا بیچ میں بولے جگو آگے بولو تمہاری ملاقات بالآخر منگو سے ہوئی یا نہیں ؟ جی ہاں مونی بابا جب پنڈال تقریباً خالی ہو گیا اور مٹھی بھر افراد اسٹیج کے آس پاس باقی رہ گئے تو ان میں منگو نظر آیا۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی باچھیں کھل گئیں وہ بولا جگو میرے دوست ادھر آؤ، کہاں کھو گئے تھے تم؟ میرا دماغ کہتا تھا کہ تم بھی دیگر لوگوں کی طرح جا چکے ہو لیکن دل اس کی تائید سے انکار کرتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ تم نہیں جاؤ گے۔ کم از کم مجھ سے ملاقات کے بغیر تو ہر گز نہیں جاؤ گے۔

میں نے منگو کا شکریہ ادا کیا اور کہا منگو کسی نے صحیح کہا ہے دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ میرا دل کی بھی یہی آواز تھی جو مجھے تم تک لے آئی۔چلو اب جبکہ ہماری ملاقات ہو چکی ہے چلتے ہیں۔یہاں سے نکل چلتے ہیں۔تقریباً سارے لوگ جا چکے ہیں خود یوگی بابا بھی منچ پر نظر نہیں آ رہے۔منگو بولا کیسی باتیں کر رہے ہو؟ ایسی پرستھتی (صورتحال)میں ہم کیسے جا سکتے ہیں ؟ یوگی بابا منچ کے پیچھے اپنی کٹیا میں موجود ہیں۔ مجھے تو ان کی جان کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔

میں نے گھبرا کر پوچھا کیا؟وہ بولا لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں جب تک میرے دم میں دم ہے میں ان کی سرکشا کروں گا۔ کسی کو بھی ان تک پہنچنے کیلئے میری لاش کے اوپر سے ہو کر گزرنا پڑے گا۔جگو کے درڑھ سنکلپ(مصمم ارادہ) سے میں ڈر گیا۔ہماری بات چیت ابھی چل ہی رہی تھی کہ اچانک ایک جانب سے گاڑیوں کا شور اور سپاہیوں کے جوتوں کی آواز آنے لگی۔

پولس والوں نے ہوا میں فائرنگ شروع کر دی تھی۔ پہلی مرتبہ میں نے گولی کے چلنے کی آواز سنی تھی۔چاروں اور افراتفری پھیل گئی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں سامنے کی طرف لگے اخبارنویسوں کی میز کے نیچے دبک گیا۔وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے منچ کا منظر صاف دکھلائی دیتا تھا۔ میں نے دیکھا منگو اور اس کے کچھ ساتھی اب بھی پولس والوں کے سامنے دیوار بنے ہوئے ہیں اچانک پولس نے ان پر لاٹھیوں کی بوچھار کر دی اور دیکھتے دیکھتے یہ دیوار بھی گر گئی۔

اب پولس والے منگو اور اس کے ساتھیوں کے خون میں لت پت جسم کو پیروں سے کھینچ کر پاس کھڑی ایمبولنس کی جانب لے جا رہے تھے۔وہ لوگ ساری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔یہ منظر نہایت خوف ناک تھا میں منگو کی مدد کرناچاہتا تھا لیکن میرے  اندر باہر نکل کر آنے کی ہمت نہیں تھی۔ مونی بابا نے محسوس کیا منگو کے لہونے جگو کی خودنوشت کو خوش رنگ بنا دیا ہے۔انہوں نے کہا پھر کیا ہوا ؟

منگو بولے جا رہا تھا اس کے بعد میں نے دیکھا منچ پر سارے لوگ سہمے ہوئے اکڑوں بیٹھے ہیں کسی کی آواز نہیں نکل رہی۔ پولس ان لوگوں کو گرفتار کر کے اپنی گاڑیوں میں لے جا رہی ہے۔ منگو کے بعد اب مجھے یوگی بابا کی چنتا ستا رہی تھی۔اب نہ جانے پولس ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی ؟ مجھے ڈر تھا کہ کہیں ان کے ساتھ کوئی ایسی ویسی گھٹنا نہ گھٹے۔ اس بیچ میں نے دیکھا کہ پولس کرمی(سپاہیوں کا عملہ)  ایک مہیلا (خاتون)کو جس نے لمبا سا پلو ڈال رکھا  ہے اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔ پولس کی گاڑی میں بیٹھنے کے بعد  جب آنچل سرکا تو اندر چھپی لمبی سی داڑھی نمودار ہو گئی۔یہ کسی اور کی نہیں یوگی بابا کی داڑھی تھی۔ انہوں نے ہاتھوں میں چوڑیاں بھی پہن رکھی تھیں لیکن شاید جلدی میں انہیں اپنی داڑھی منڈوانے کا موقع نہیں ملا تھا۔

میں بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ مجھے اس بات پر خوشی تھی کہ یوگی بابا زندہ و ہیں انہیں کوئی گزند نہیں پہنچی لیکن اسی کے ساتھ میرے من سے ان کا سارا آدر(احترام)ہوا ہو گیا۔ ایک طرف  میرا سچا دوست منگو تھا جس نے اپنے پران (جان) داؤں پر لگا کر وچن نبھایا تھا اور دوسری جانب میرے گرو یوگی بابا تھے جنہوں نے جان بچانے کی خاطر آندولن سے وشواس گھات کیا۔ میرے سامنے ان کی قلعی کھل چکی تھی میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب اس پاکھنڈی کے جال میں کبھی بھی نہیں آؤں گا۔

دوسرے دن کے سارے اخبارات یوگی بابا کی خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ پولس انہیں گرفتار کر کے پہلے تو جیل اور اس کے بعد ان کے آشرم میں لے گئی۔یوگی بابا رہا ہو چکے تھے لیکن میں اپنے دوست منگو کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اس کی خبر ڈھونڈھ رہا تھا لیکن مجھے اس سے خبردار کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس دن کے بعد آج پہلی مرتبہ منگو نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ اب جگو کے ساتھ ساتھ مونی بابا کو بھی رات کے دس  بجنے کا انتظار تھا۔

رات دس بجے اپنی عادت کے خلاف جگو اور مونی بابا ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔ اس روز خلاف معمول تان سین بھی ان کے ساتھ تھا۔جیسے ہی جگو نے فون لگایاسامنے سے منگو کی آواز آئی۔نمسکار میرے دوست جگویہ بتاؤ کیسے ہو ؟ اس کے لب و لہجہ میں کمال کی زندہ دلی تھی۔ جگو کو ایسا لگا گویا منگو رہا ہو گیا ہے اور اب وہ اسے بتلائے گا کہ ملاقات کے لئے کہاں آئے  جگو بولا میں تو اچھا ہوں تم اپنی سناؤ؟

میں ! میں بھی اچھا ہی ہوں، کوئی ویشیش سنکٹ (خاص مشکل) نہیں ہے  منگو بولا

لیکن یہ تو بتاؤ کہ تم کہاں ہو ؟تاکہ تم سے ملنے کی صورت نکالی جا سکے۔

ملنے کی صورت ؟ بھئی یہ غلطی نہ کرنا ورنہ تم بھی مشکل میں پھنس جاؤ گے۔

اس کا مطلب تم مشکل میں ہو اور نہیں چاہتے کہ میں اس میں پھنسوں ؟ لیکن دوست بات ایسی نہیں ہے۔میں کسی سنکٹ سے نہیں ڈرتا میں تم سے ملنا چاہتا ہوں تم مجھے اپنا  پتہ بتاؤ مجھے تم سے بہت ہی اہم اور ضروری بات کرنی ہے۔

جگو تم میرے سچے دوست ہو اس بابت میرے من میں کوئی شنکا نہیں ہے۔تمہیں مجھ سے سہانبھوتی (ہمدردی) ہے یہ بھی میں جانتا ہوں لیکن میں بھی تو تمہارا دوست ہوں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ میری سہایتہ کرو تو کیا یہ میرا کرتویہ( ذمہ داری  )نہیں ہے کہ تمہیں کسی مصیبت میں پڑنے سے بچاؤں ؟ اوشیہ(یقیناً) ہے۔ اس لئے میری ونتی(گزارش) یہی ہے کہ مجھ سے ملنے کا وچار تم اپنے من سے نکال دو۔

یہ اسمبھو ہے منگو اگر تم مجھے اس طرح منع نہ کرتے تو شاید میں تم سے نہیں ملتا لیکن اب میں تم سے فون پر کوئی اور بات نہیں کروں گا جب تک کہ تم اپنا پتہ نہ بتا دو۔اب میرا سب سے پہلا کام تم سے ملاقات کرنا ہے۔

تان سین حیرت سے جگو اور منگو کی بات چیت سن رہا تھا۔ یہ کیسے دوست تھے ؟ یہ کیسا تعلق تھا ؟ یہ کیسا رشتہ تھا ؟ اسے محسوس ہوا کہ یہ سب انسانوں ہی میں ہو سکتا ہے ؟ان کا دل گواہی دے رہا تھا کہ نسل نسانی بندروں سے  افضل ہے بشر طیکہ وہ اپنی فطرت پر قائم ہو لیکن اگر وہ اس سے انحراف کرے تو یقیناً شیطان بھی ان سے بہتر ہے۔

منگو بولا تم نہیں مانو گے لیکن پھر بھی ایک اور بار میں تمہیں سمجھانے کا پریتن (کوشش) کرتا ہوں۔ دیکھو فی الحال میں تہاڑ جیل کے ہائی سیکیورٹی سیل میں ہوں۔

یہ ہائی  سیکیورٹی سیل کیا ہوتا ہے ؟

جیل کا یہ ایک مخصوص حصہ۔جس سے عام قیدیوں کو دور رکھا جاتا ہے۔

تان سین سے رہا نہ گیا وہ بیچ میں بول پڑا عام قیدیوں کو دور رکھا جاتا ہے یا اس کے ملزمین کو عام قیدیوں سے دور رکھا جاتا ہے۔

منگو چونک پڑا۔ اس نے سوال کیا یہ کون ہے ؟

چنتا کی کوئی بات نہیں منگو۔  جگو نے جواب دیا یہ میرا دوست تان سین ہے۔

کہیں یہ پو لس کا مخبر تو نہیں ہے ؟

جی نہیں یہ پولس کا آدمی نہیں ہے اس لئے کہ پولس محکمہ نے ہنوز اپنے آپ کو بندروں کی خدمات سے محروم رکھا ہوا ہے۔

یہ بندر درمیان میں کہاں سے آ گئے ؟

ارے بھائی یہ بندر کی سادگی ہی ہے جو درمیان میں بول پڑا۔ اگر انسان ہوتا تو خاموشی سے سنتا رہتا خیر تم ہائی سیکیورٹی سیل کے بارے میں بتلا رہے تھے۔

جی ہاں اسے ایسے سمجھ لو جیسے ہسپتال۔ تم نے دیکھا ہو گا ہسپتالوں میں تین بڑے شعبہ ہوتے ہیں۔ ایک تو باہر کے مریضوں کی خاطر۔ یہاں مریض کم وقت کیلئے ٹھہرتا ہے اور پھر دوا دارو لے کر گھر لوٹ جاتا ہے۔ دوسرے عام وارڈ جہاں ایسے مریض کو بھرتی کر لیا جس کا علاج اس کے گھر پر ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک آئی سی یو بھی ہوتا جہاں ان مریضوں کو رکھا جاتا ہے جن کی حالت نازک ہوتی ہے۔مخصوص آلات و اہلکاروں کے ذریعہ ان کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔  یہی حال جیل کا ہے۔یہاں کچھ لوگ پولس لاک اپ سے لوٹا دئیے جاتے ہیں کچھ کو عام جیل میں رکھا جاتا ہے اور چند ایک ہائی سیکیورٹی جیل میں بھرتی کر لئے جاتے ہیں۔

گویا جیل اور ہسپتال میں تو بڑی زبردست مشابہت ہے۔ جگو بولا

جی ہاں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قیدی اور مریض یکساں طور پر مجبور ہوتے ہیں دونوں نہ ہی راضی خوشی یہاں آتے ہیں اور نہ ہی  اپنی مرضی سے واپس جاتے ہیں۔

وہ تو صحیح ہے لیکن تمہیں وہاں رکھنے کی وجہ کیا ہے ؟

دراصل مجھے فی الحال ایک خطرناک مجرم بنایا جا رہا ہے۔

مجرم بنایا جا رہا ہے ؟ میں سمجھا نہیں ؟ میں نے تو سنا تھا کہ جیل میں مجرمین کو سدھارنے کا کام کیا جاتا ہے ؟

جی ہاں ہونا تو یہی چاہئے کہ یہاں سے سدھار کر لوگوں کو باہر بھیجا جائے لیکن ہوتا اس کے بر عکس ہے۔ یہاں آنے کے بعد سب سے پہلا کام تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کے دل سے جیل کا ڈر نکل جاتا ہے ؟

لیکن اس  سے کیا فرق پڑتا ہے ؟

فرق کیوں نہیں پڑتا؟ منگو بولا قید و بند کی صعوبتوں کا خوف انسانوں کی کئی جرائم سے روکنے کا سبب بنتا ہے لیکن جب انسان یہاں کچھ روز زندگی گزار کر چلا جاتا ہے تو بالکل بے خوف ہو جاتا ہے۔اسے پتہ چل جاتا ہے جیل میں بیٹھ کر بھی اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو جاری رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کی جیب میں رشوت ادا کرنے کیلئے روپیہ پیسہ ہو۔ اس لئے یہاں سے نکل کر مجرم زیادہ سے زیادہ دھن دولت جمع کرتے ہیں تاکہ اگر جیل بھی جانا بھی پڑے کوئی مشکل نہ پیش آئے۔اس کے علاوہ یہاں پر دوسرے مجرم گروہوں کے لوگوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ اشتراک و تعاون کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مہارت کا علم ہوتا ہے لوگ اپنے تجربات سے ہم قفسوں کو فیضیاب کرتے ہیں۔ صحبت کا فائدہ تو ہوتا ہی ہے۔

لیکن تم تو قیدِ تنہائی کے حصار  میں ہو۔ اس لئے یہ سب ممکن نہیں ہوتا ہو گا ؟ پھر تمہیں بڑا مجرم بنانے کیلئے کیا کیا جا رہا ہے ؟ جگو نے سوال کیا۔ منگو بولا جگو بات دراصل یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو عملی تربیت مہیا کی جاتی ہے اور کچھ لوگوں کو کاغذ پر مجرم بنایا جاتا ہے۔

کاغذ پر کسی کو کیسے مجرم بنایا جا سکتا ہے ؟ تان سین نے سوال کر دیا۔

یہ تو بہت آسان ہے اس میں کیا دقت ہو سکتی ہے ؟کسی کے خلاف من گھڑت الزامات کا پلندہ تیار کر دیا جائے اور اسے ذرائع ابلاغ کے حوالے کر دیا جائے۔ اب آگے کا کام وہ لوگ کرتے ہیں۔ ٹی وی والے اور اخبار نویس اس جھوٹ کے پلندے کو من و عن تسلیم کر لیتے کوئی اس کی نہ تصدیق کرتا ہے اور نہ توثیق۔ ان کا کام تو بس یہ  ہے کہ مرچ مصالحہ لگا کر اسے قارئین و ناظرین کے سامنے اسے پروس دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ سرکاری مراعات و  اشتہارات مل سکیں اور ان کی اپنی دوکان چمکتی رہے۔

جگو بولا منگو عمومی باتیں بہت ہو چکیں اب تم اپنے بارے میں بتاؤ ٔ تم نے تو کوئی جرم نہیں کیا پھر تمہارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جا رہا ہے ؟

یہ نقطۂ نظر کا فرق ہے جگو! تمہاری  نگاہ میں منگو بے قصور ہے لیکن انتظامیہ کیلئے وہ باغی ہے۔ اس نے ملک کے قانون اور دستور سے بغاوت کی ہے اس لئے اسے کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہئے۔

کیوں ؟؟؟ تم نے ایسا کیا کر دیا جو غلط تھا ؟

ان کی نظر میں جو کچھ میں نے کیا وہ سب غلط تھا۔اول تو مجھے اس مظاہرے میں شریک نہیں ہونا چاہئے تھا اور اگر میں نے ایک چھوٹی غلطی کر ہی دی تھی تو مجھے پولس کے آتے ہی وہاں سے رفو چکر ہو جانا چاہئے تھا۔ جیسے کہ تم اور دوسرے ساتھی نکل گئے تھے لیکن میں نے پولس سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور انہیں روکنے کی کوشش کی یہ ناقابلِ معافی جرم ہے اسی لئے ان لوگوں نے مجھے سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔

لیکن باباجی کو رہا کر دینا اور تمہیں حراست میں رکھنا یہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ؟

کیوں اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔بابا جی نے بھی مزاحمت کہاں کی ؟ انہوں نے وہی کیا جو کچھ انتظامیہ چاہتا تھا۔

وہ تو صحیح ہے لیکن اب انہیں چھوڑ کر تم جیسے لوگوں کو حراست میں رکھنے سے کیا حاصل؟

جگو تم بہت سیدھے ہو۔  بالکل ویسے ہی جیسا کہ میں یہاں آنے سے قبل تھا لیکن اب میں سمجھدار ہو گیا ہوں۔اگر سرکار بابا جی کو حراست میں رکھتی ہے تو ذرائع ابلاغ میں ہیرو بن جاتے ہیں۔ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے حکومت یہ نہیں چاہتی۔ مجھے گرفتار رکھنے میں ایسا کوئی خطرہ نہیں  ہے۔

ہاں ہاں میں سمجھتا ہوں کہ تم جیسے بے ضرر لوگوں  کو حراست میں رکھنے سے سرکار کا کوئی نقصان نہیں ہے مگر فائدہ بھی تو نہیں ہے ؟

فائدہ کیوں نہیں ہے۔ میرے ذریعہ سرکار یوگی بابا کو نہ صرف بلیک میل کرسکتی  ہے بلکہ دوسرے ہمنواؤں کو ڈرانے کا کام بھی لے سکتی ہے تاکہ وہ میری طرح جرأتِ بغاوت سے گریز کریں۔

لیکن یہ تو غلط ہے کہ کسی کو ڈرانے کیلئے کسی اور کو سزا دی جائے۔

غلط تو ضرور ہے لیکن یہ سیاست تو ہر گھر میں ہوتی ہے۔ ساس اپنی بہو کو ڈرانے کی خاطر بیٹی کو ڈانٹتی ہے تاکہ کوئی خطرہ بھی نہ ہو اور پیغام رسانی بھی ہو جائے۔

کیا یوگی بابا کو تمہاری گرفتاری کے بارے میں نہیں معلوم؟ میں ان سے ملاقات کر کے ان سے مداخلت کرنے کی درخواست کروں گا۔

جی نہیں جگو ایسی غلطی کبھی نہ کرنا۔انہوں نے جانتے بوجھتے ہم جیسے لوگوں سے فاصلہ بنا لیا ہے اور میرے آگے ان کی حقیقت کھل چکی ہے۔ میں اپنی لڑائی خود لڑوں گا۔ میں کسی کے آگے اپنے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا چاہے جو ہو جائے۔

وہ تو ٹھیک ہے منگو اب یہ بتاؤ کہ تمہارے فون کرنے کوئی خاص وجہ تو نہیں تھی۔

منگو مسکرا کر بولا کیوں نہیں۔ میرے فون کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میں تمہیں یہ بتلا دوں جیل کے اندر اپنے وارث کے طور پر میں نے تمہارا نام لکھوا دیا اس لئے اگر کچھ اونچ نیچ ہو جائے تو یہ لوگ تم سے رابطہ کریں گے۔ ایسے میں تم آ کر میرا کریا کرم کر دینا تاکہ میری آتما کو انتم شانتی مل جائے۔

کیسی باتیں کرتے ہو منگو میرا دل کہتا ہے کہ ہم ضرور ملیں گے اور جلد ملیں گے ۔ جگو بولا۔ منگو نے جواب دیا جی ہاں جگو کاش کے ایسا ہو لیکن مجھے نہیں لگتا خیر جو بھی ہو میں اپنے انجام سے نہیں ڈرتا۔ میں بچپن ہی میں اناتھ(یتیم) ہو گیا تھا۔  میں نے اپنے ماں باپ کو نہیں دیکھا۔ اس دنیا میں تمہارے سوا  میرا کوئی نہیں ہے۔ آج اچانک بیٹھے مجھے خیال آیا کہ اگر کل کو میں مر گیا تو یہ لوگ میرا کیا کریں گے۔ کہیں میری لاش اسی پاکھنڈی یوگی کے حوالے تو نہیں کر دی جائے گی؟ یہ سوچ کر میں کانپ اٹھا اس لئے کہ اگر ایسا ہو گیا تو میری آتما کو کبھی بھی شانتی پراپت نہیں ہو سکے گی۔ پھر کیا تھا میں نے تمہیں فون کیا اور جیل انتظامیہ کو تمہارے بارے میں بتلا دیا۔اچھا میرے دوست جگو میرے لئے پرارتھنا کرنا اگر بھاگیہ میں لکھا ہو گا تو ہم ضرور ملیں گے اگر میں جیل سے رہا ہو گیا تو سب سے پہلے تمہیں فون کروں گا۔ ورنہ تو تم جانتے ہی ہو کہ تمہیں کیا کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۰

فون بند ہو گیا۔ سارے کمرے کو ایک خاموشی نے نگل لیا۔ مونی بابا کی زبان بند تھی لیکن آنکھوں کے آنسو  جگو اور منگو کی سچی دوستی کے بارے میں بہت کچھ کہہ رہے تھے۔

 

 

 

جگو کی جیل یاترا

 

جگو رات بھر منگو کے بارے میں سوچتا رہا۔ نیند کا کہیں دور دور تک اتہ پتہ نہیں بار بار اس کے خیالات کی رو منگو سے شروع ہو کر یوگی بابا تک جاتی اور پھر لوٹ کر واپس  منگو کے پاس آ جاتی۔ اس نے من میں یہ بات  ٹھان لی تھی کہ جو بھی ہو وہ صبح تڑکے اپنے دوست سے ملنے دہلی کی تہاڑ جیل کی جانب نکل جائے گا۔ جب اس نے اپنے ارادے سے مونی بابا کو آگا ہ کیا تو وہ بولے تم اس بابت انا جی کے کسی ممبر کو نہیں بتلاؤ گے ؟

جی نہیں اس لئے کہ مجھے ڈر ہے اگر انہوں نے روکنے کی کوشش کی تب بھی میں ان کی بات نہیں مانوں گا اس لئے بنا بتلائے جانا بہتر ہے ۔

تمہاری بات درست ہے لیکن وہ جب واپس آ کر تمہیں تلاش کریں گے تو کیا ہو گا ؟

جو ہو گا سو ہو گا۔ میں کوئی ان کا بندھوا مزدور تو ہوں نہیں جو ان کی اجازت کے بغیر آ جا نہیں سکتا

وہ تو ٹھیک ہے لیکن چونکہ انہوں نے تمہارے ذمہ ایک کام کیا ہے اخلاقاً یہ درست نہیں ہے کہ تم انہیں بتلائے بغیرچلے جاؤ۔

وہ تو صحیح ہے لیکن ان کے آنے جانے کا کوئی وقت توہے نہیں اور میں اب انتظار نہیں کر سکتا۔

اچھا کیا تمہارے پاس ان کا موبائیل نمبر ہے ؟

جی ہاں کیوں نہیں میرے پاس تو تینوں کا نمبر ہے۔

ٹھیک ہے تو ایسا کرو کہ ان میں سے کسی ایک کو یا سب کو ایس ایم ایس کر کے بتلا دو کہ ضروری کام سے تم کسی اور شہر میں جا رہے ہو اس لئے وہ تمہاری جگہ کسی متبادل کا بندوبست کر دیں۔ یہ اچھا ہے جگو بولا اس سے آپ لوگوں کی بھی دیکھ ریکھ ہوتی رہے گی ورنہ اس ویرانے میں آپ دونوں کا کیا ہو گا ؟

بھئی ہمارا کیا ہم تو بندر کی قوم سے ہیں جو خود کفیل ہے کسی محتاج نہیں۔ ہم اپنے خالق کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں کسی اور پر منحصر نہیں رکھا۔

جی ہاں یہ بھی صحیح جب آپ لوگ ان کی قید میں نہیں تھے اس وقت بھی حیات تھے اور جب  نہ ہوں گے تب بھی زندہ رہیں گے۔

مونی بابا بولے جی ہاں اس وقت تک جب تک کہ ہمارا خالق و مالک چاہے گا۔

جگو نے کسم کو ایس ایم ایس کیا اور اپنے بندر ساتھیوں سے اجازت لے کر نکل کھڑا ہوا۔جگو کو یقین تھا کہ دس بجے سے قبل اس کے پیغام کو کوئی نہیں پڑھے گا اور اس وقت تک وہ نہ جانے کہاں پہنچ چکا ہو گا۔

کسم کو ہر روز سیکڑوں ایس ایم ایس آتے تھے اور وہ انہیں اپنے فاضل اوقات میں دیکھا کرتی تھی۔ اکثر ایس ایم ایس تو وہ کھولے بغیر ہی ڈیلیٹ کر دیتی تھی۔چند ایک کو پڑھتی اور بہت کم اس قابل ہوتے کہ جن کا جواب دینے زحمت گوارہ کرتی۔دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ جگو کا ایس ایم ایس ہے تو وہ سمجھ گئی کہ بندر بھاگ گئے۔وہ خود بھی یہی چاہتی تھی۔ اس کے خیال میں ان بندروں کو بلا وجہ پالا جا رہا تھا  لیکن جب اس نے ایس ایم ایس کو کھول کر دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئی۔ بندر ہنوز موجود تھے لیکن جگو بھاگ کھڑا ہوا تھا۔

جگو اس کے پسندیدہ کارکنان میں سے ایک تھا۔کسم کو اس بات کا افسوس تھا کہ جگو کو ایک بلاوجہ کے کام میں پھنسا دیا گیا لیکن گووند کی سوئی اگر کہیں اٹک جائے تو اسے ہٹانا بے حد مشکل تھا اور رمیش کی اسے حمایت حاصل ہو جائے تو یہ ناممکن ہو جاتا تھا۔کسم نے سوچا بیچارہ جگو ان بندروں سے تنگ آ کر نو دو گیارہ ہو گیا اور اس طرح رمیش اور گووند کے اڑیل رویہ نے ٹیم نے ایک اور مخلص کارکن کو گنوا دیا۔کسم کا دوسرا اندازہ بھی غلط تھا خیر وہ اس کی ایک مخلصانہ قیاس آرائی تھی۔کسم یہ سوچ کر سو گئی کہ  شام میں ایک میٹنگ ہے جو رات گئے تک چلے گی۔اس لئے اسی میں گووند اور رمیش کو جگو کے چلے جانے کی اطلاع دینا بہتر ہے ورنہ وہ لوگ بلا وجہ مچل جائیں گے اور اس کا چین و سکون غارت کر دیں گے ۔

گووند اور رمیش کا معمول تھا کہ وہ ہر میٹنگ سے آدھا ایک گھنٹہ قبل پہنچ جاتے اور باہم غور و فکر کر کے مختلف مسائل میں کسی ایک رائے پراتفاق کر لیتے تاکہ ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کر سکیں اس کے بر خلاف کسم اکثروقت پر یا کبھی کبھار تاخیر سے آتی تھی  لیکن اس روز جب رمیش نے کسم کو میٹنگ سے پندرہ منٹ پہلے آتا ہوا دیکھا تو حیران رہ گیا۔

رمیش  بولا کہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے ؟ گووند بولا لگتا ہے کسم کو میٹنگ کے وقت کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہو گئی وہ کل ہونے والے مظاہرے  کے وقت سے پندرہ منٹ لیٹ یعنی اپنے وقت پر آئی ہے۔ کسم بولی تم لوگ میرا جتنا چاہو مذاق اڑا لو لیکن میں جو خبر تمہارے لئے لائی ہوں وہ تمہاری ہنسی اڑا دے گی۔ اچھا تو اب سمجھ میں آئی جلدی آنے کی وجہ خیر بتاؤ ایسی کون سی خبر ہے جس نے شریمتی کسم کو رنجیدہ کر دیا ہے ؟ رمیش بولا۔

خبر یہ ہے کہ تمہارے چہیتے بندروں کا رکھوالا جگو بھاگ کھڑا ہوا ہے۔ کسم نے کہا

اچھا تو اب بندروں کے پاس کون ہے ؟ گووند نے چونک کر سوال کیا۔

میرے خیال میں تم دونوں کی طرح دونوں بندر خود ہی ایک دوسرے کا غم غلط کر رہے ہیں۔

گووند بگڑ کر بولا کیا بکتی ہوکسم، وہ احمق کب سے فرار ہے اور تم نے ہمیں ابھی تک بتایا کیوں نہیں کہ بندروں کے پاس کوئی نہیں ہے۔ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو ؟

کسم بولی مجھے حیرت ہے کہ تمہیں انسان سے زیادہ فکر بندروں کی ہے۔ تم نے جگو کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا بس اپنے بندروں کی چنتا میں دبلے ہونے لگے۔ میں تو کہتی ہوں ان بندروں کو کیا ہونا ہے ؟ تمہارے فلیٹ میں جب تک ان کا دانا پانی ہے عیش کریں گے۔ جب وہ ختم ہو جائے گا تو وہ بھی جگو کی طرح کسی جنگل کی جانب نکل کھڑے ہوں گے۔ خس کم  جہاں پاک۔

اب کی بار رمیش کو غصہ آگیا وہ بولاکسم مجھے یقین ہے کہ تمہارے چہیتے جگو نے جانے سے قبل کمرے کو تالہ تو لگایا نہیں ہو گا لیکن تم نہیں جانتیں وہ کوئی معمولی بندر نہیں ہیں۔ وہ دشمن کے جاسوس ہیں اور ان کے ذریعہ ہم اپنے دشمنوں کے عزائم طشت از بام کرسکتے ہیں۔

کسم نے کندھا جھٹک کر کہا مجھے تمہارے دشمنوں اور دوستوں، میرا مطلب ہے بندروں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں تو جگو کے بارے میں فکر مند ہوں۔ وہ نہایت بے غرض، مخلص اور بھروسہ مند انسان تھا۔ ایسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے۔

اس کی بھروسہ مندی تو ہم نے دیکھ لی۔ بغیر بتلائے وہ اپنی ذمہ داری کو چھوڑ کر چلا گیا۔ میں اسے سبق سکھاؤں گا۔ گووند نے کہا

تم اسے کیا سبق سکھاؤگے ؟ وہ کوئی تمہارا غلام تھا ؟ گووند یہ نہ بھولو کہ ہم ایک رضا کارانہ تحریک چلا رہے ہیں۔ اس میں ہر کوئی تمہارا تنخواہ دار ملازم نہیں ہے۔

رمیش بولا ہر تحریک میں نظم و ضبط کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر کسی کو کوئی ذمہ داری سونپی  جائے تو اسے چاہئے کہ وہ بہر صورت اسے ادا کرے اور جب اس  میں  معذور ہو تو اطلاع دے۔

یہ درست ہے اور جگو نے اپنی معذوری کی اطلاع ہمیں دے دی مگر ہم اس کی مجبوری کا پتہ لگائے بغیر اسے سزا دینے کی سوچنے لگے۔ ویسے میں تو کہتی ہوں کہ اگر کوئی معقول وجہ نہ بھی ہو تب بھی  ہم اسے سزا نہیں دے سکتے۔

گووند بولا ہاں  بابا ہاں ہم اخلاقاً سزا نہیں دے  سکتے مگر دوسرے کارکنان کو اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت سے روکنے کے لئے کچھ تو کرنا ہی پڑے گا ورنہ یہ تحریک بکھر جائے گی اس لئے تحریک کے عظیم تر مصالح کے پیشِ نظر میں اسے سزا دینے کے اپنے موقف پر اب بھی قائم ہوں۔

یہ کیا بات ہے کہ جب کوئی جملہ تمہاری زبان سے نکل جاتا ہے تو پتھر کی لکیر بن جاتا ہے۔خیر میں نے تمہیں جگو کی اطلاع دے دی اب تم جو چاہو کرو ؟کسم چڑ کر بولی

جی ہاں یہ اہم ہے گووند بولا ان بندروں سے ہمیں اہم کام لینا ہے اس لئے ان کی نگرانی پر کسی اور کو فوراً بھیجنا ہو گا۔

بشرطیکہ وہ ہنوز موجود ہوں ؟ رمیش نے چٹکی لی

کسم بولی ایسا کرتے ہیں امر کو وہاں روانہ کر دیتے ہیں۔

امر !رمیش نے حیرت سے کہا وہ تو اکیلا جائے گا نہیں اسے بھیجنا ہے تو اکبر کو بھی اس کے ساتھ روانہ کرنا ہو گا۔

کسم بولی یہ اچھا ہے کہ اگر ان میں سے ایک بھاگ جائے تو کم از کم دوسرا تو موجود رہے۔ تمہارے بندروں کی نگرانی کیلئے۔

رمیش بولاکسم تم شاید امر اور اکبر کے مزاج سے واقف نہیں ہو۔ یہ دراصل دو لوگوں کا ایک نام ہے وہ دونوں ایک جان دو قالب ہیں اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک فرار ہو جائے اور دوسرا موجود رہے۔ اگر وہ بھاگیں گے تو مل کر بھاگیں گے کیا سمجھیں۔اس بیچ گووند ڈرائیور کو ہدایت کر رہا تھا کہ وہ امر اور اکبر کو لے کر پہلے منیم جی کے پاس جائے اور پھر فوراً بندروں کے پاس چھوڑ آئے۔ اس کے بعد گووند نے منیم جی کو ہدایت دی کہ وہ ۵ہزار روپیہ امر کو دیں اور سمجھا دیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔

فون بند کرتے ہی گووند کو سامنے سے نشانت جی آتے ہوئے نظر آئے اسی کے ساتھ شیطانی ذہن میں ایک فتنہ نے جنم لیا۔ اس نے اونچی آواز میں نشانت کو پرنام کیا اور انہیں اپنے پاس بلایا۔ جب وہ بیٹھ گئے تو گووند بولا میٹنگ شروع ہونے میں ابھی پانچ منٹ کا وقت ہے اس بیچ میں آپ سے ایک اہم قانونی صلاح لینا چاہتا ہوں۔

نشانت جانے مانے وکیل تھے انہوں نے مسکرا کر کہا کیوں بھائی خیریت تو ہے آپ سیاست سے نکل کر یہ وکالت کی دنیا میں کیوں کر کود پڑے ؟

گووند بولا اگر ہمارا کوئی کارکن بھاگ جائے تو کیاہم اس پر کوئی قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں ؟پرشانت جی نے کہا جی نہیں ہم ایسا نہیں کر سکتے  بلکہ میری رائے تو یہ ہے اپنے کسی سابق کارکن کے بارے میں بھگوڑا لفظ کا استعمال بھی درست نہیں ہے۔

گووند مطمئن نہیں ہوا۔ وہ بولا لیکن اگر ہم نے اسے کسی کام کیلئے کچھ پیشگی رقم دی ہو اور وہ اس کا حساب دئیے بغیر رفو چکر ہو جائے تو؟اگر ایسا ہے تو اس پر چوری یا دھوکہ دھڑی کا مقدمہ بن سکتا ہے بشرطیکہ کہ رقم معقول ہو۔نشانت جی نے شانت مدرا میں جواب دیا۔ معقول میں سمجھا نہیں ؟ گووند نے سوال کیا

بھئی میرا مطلب ہے دو چار ہزار کیلئے تو کوئی پولس میں شکایت نہیں کرے گا اس لئے کہ پولس کو حرکت میں لانے کیلئے اس سے زیادہ رشوت دینی پڑتی ہے اور عدالت میں کوئی وکیل اس سے کم فیس پر اپنے کاغذات ہی داخل نہیں کرے گا اس طرح مقدمہ کا فیصلہ ہونے تک نہ جانے کتنا سرمایہ خرچ ہو جائے۔

مسئلہ روپیوں کا نہیں نظم و ضبط کا ہے۔ میں سمجھتا تو ہوں تحریک کے اندر نظم کی پابندی روپئے کے خرچ سے زیادہ اہم ہے۔

یہ آپ سمجھتے ہیں لیکن دوسرے لوگ نہیں سمجھتے۔ اگر آپ  اس مہنگائی کے زمانے میں کسی شخص پر پانچ ہزار روپئے غبن کا مقدمہ چلائیں گے تو لوگ آپ کو بے وقوف سمجھیں گے

لوگ جو بھی سمجھیں ؟آپ کیا سمجھیں گے۔

میں بھی وہی سمجھوں گا۔ جو لوگ سمجھیں گے اس لئے کہ میں سیویل سوسائٹی(یعنی مہذب سماج ) کا ایک رکن ہوں۔

اگر مسئلہ صرف رقم کا ہے تو کیوں نا اسے بڑھا دیا جائے پانچ سے پچاس کر دیا جائے تب تو ٹھیک ہے ؟گووند نے ایک نئی تجویز سجھائی۔

گووند جی آپ کی ساری گفتگو مجھے  اندھیرے  میں ٹمک ٹوئیاں لگتی  ہے۔ وکیل اور ڈاکٹر سے جب صحیح مشورہ لینا ہو بات صاف صاف کی جاتی ہے ۔

گووند نے کہا نشانت جی بات دراصل یہ ہے کہ ہمارا کارکن جگو جسے بندروں کی نگرانی پر رکھا گیا تھا فرار ہو گیا ہے۔ اسے پیشگی تین ہزار کی رقم دی گئی تھی جس کا اس نے حساب نہیں دیا۔

یہ رقم اسے کتنے روز قبل دی گئی تھی ؟

یہی کچھ دس روز پہلے گووند نے جواب دیا

تب تو ممکن ہے اس کا بڑا حصہ خرچ ہو گیا ہو آج کل تین ہزار میں ہوتا بھی کیا ہے ممکن ہے  ہماری اس میٹنگ کے بعد چائے ناشتے کا بل تین ہزار سے زیادہ ہو جائے۔

وہ بات صحیح ہے لیکن اس کا حساب رکھا جائے گا۔ مسئلہ بد نظمی کا ہے اس لئے میں جگو کو سزا دلوانا چاہتا ہوں۔ اب آپ اس رقم کو جتنا چاہیں بڑھا دیں۔  اخبارات اور ٹی وی چینل کے صحافی وکلاء کی مانند نہیں سوچتے اس لئے مسئلہ کیا ہے ؟

مسئلہ یہ ہے گووند جی کہ آپ ہمیشہ اخبار اور ٹی وی چینلس کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں لیکن اس مقدمہ کو عدالت میں چلنا ہے۔ وہاں اگر یہ سوال پیدا ہو جائے کہ بندروں کی خاطر پچاس ہزار کی خطیر رقم کیوں فراہم کی گئی  اور وہ بندر اس قدر اہم کیونکر ہو گئے ؟ یا یہ رقم کہاں سے آئی؟ وغیرہ تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس لئے میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اسے بھول جائیں۔سیاستدانوں پر بڑھا چڑھا کر الزام لگانا جس قدر آسان ہے بندروں پر نہیں اس لئے بندر بدعنوان نہیں ہوتے۔

نشانت جی میں اپنی غلطی  سمجھ گیا۔ بکتر بند گاڑی کے ذریعہ کھیت میں ہل جوتنے کا کام نہیں لیا جانا چاہتے۔ آپ بہت بڑے وکیل ہیں میں اس کام کیلئے کسی ٹریکٹر کی مدد لوں گا شکریہ۔ اس بیچ زیادہ تر لوگ میٹنگ میں پدھار چکے تھے اور ایک دوسرے سے غیر رسمی باتیں کر رہے تھے۔ گووند نے اپنی گھڑی کی جانب دیکھا اور سب لوگوں سے مخاطب ہو کر میٹنگ کا ایجنڈا با آوازِ بلند پڑھنے لگا۔

دہلی اسٹیشن سے قبل جگو کی ٹرین جو رکی، تو رکی ہی رہ گئی۔ جگو بغیر ریزرویشن والے عام ڈبے میں سوار تھا جس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اس کے باوجود لوگ طرح طرح کی قیاس آرائیوں میں مصروف تھے۔کوئی کہہ رہا تھا لگتا ہے آگے کوئی بڑا حادثہ ہوا ہے۔ممکن ہے دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئی ہوں اور کم از کم ایک پٹری سے اتر گئی ہو۔ ایک  کیوں دونوں کیوں نہیں ؟ کسی نے کہا اس لئے کہ جب ٹکر ہوتی ہے تو جو کمزور ہوتی ہے وہی پٹری سے اترتی ہے بیچاری طاقتور کا کچھ نہیں بگڑتا۔

واہ یہ بھی کوئی بات ہے ؟ کسی نے سوال کیا۔یہی تو بات ہے ترنمول اور کانگریس کے تصادم کا حشر دیکھ لو ترنمول پٹری سے اتر گئی اس کا وزیر ریلوے چلتا ہو گیا  لیکن کانگریس اپنی جگہ جمی ہوئی ہے اس کا بال بیکا نہیں ہوتا۔یار تم تو اچھے خاصے سیاستداں ہو یہاں جنرل ڈبے میں کیا کر رہے ہو جاؤ کیجریوال کی پارٹی میں شامل ہو جاؤ نئی نئی پارٹی ہے کوئی نہ کوئی عہدہ مل ہی جائے گا۔ جگو نے چونک کر پوچھا کیجریوال تو بدعنوانی کے خلاف تحریک چلا رہا ہے۔ وہ تو انتخابات کو کرپشن کی جڑ بتاتا ہے اورسارے سیاسی نظام ہی کو بدلنا چاہتا ہے وہ سیاسی پارٹی کیسے بنا سکتا ہے ؟

ارے یہ تو گووند کیجریوال کا داہنا ہاتھ لگتا ہے کسی نے ہنسی اڑاتے ہوئے کہا۔ نہیں نہیں یہ تو چائے سے گرم کیتلی کا معاملہ ہے۔دوسرے نے مصرع لگایا۔ ارے بھائی تم اخبار نہیں پڑھتے کیا ؟ کیجریوال نے اناجی سے الگ ہو کر کے اپنی الگ سے سیاسی جماعت بنا لی ہے اور انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔ کیا اناجی سے بغاوت ؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا وہ اناجی کا سب سے بڑا بھکت ہے اس کے سر پر ٹوپی نہیں دیکھی تم نے، میں بھی انا تو بھی انا۔ کیا کوئی اپنے آپ سے بغاوت کر سکتا ہے ؟ جگو نے چونک کر سوال کیا۔

کسی مسافرنے جواب دیا۔میں کون اور تو کون؟ سیاست میں نہ کوئی اپنا ہوتا ہے نہ کوئی کسی کا ؟ اچھا تو یہ سب کس کے ہوتے ہیں ؟ ایک طرف سے سوال آیا ’ ارے کرسی کے ہوتے یہ سب کرسی کے پرم بھکت۔ جہاں کرسی وہیں یہ لوگ۔ اقتدار ان کا دین دھرم ہے اور یہی ایمان بھی ہے۔کیا سمجھے ؟‘  جگو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔

اس بیچ بھیڑ کو چیرتا ہوا ایک چائے والا ڈبے میں داخل ہو گیا اور چائے والے کی چائے گرم پینے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۰ کسی نے کہا بھئی رک کیوں گئے بولتے کیوں نہیں کے پینے والا بے شرم۔ چائے والا ہنس کر بولا بھئی میں کیسے بول سکتا ہوں اور پھر آپ نے بول ہی دیا تو میرے بولنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ کیا مطلب ؟ کیا ہم سب بے شرم ہیں۔ چائے والا بولا صاحب میں نے تو یہ نہیں کہا۔ یہ شریمان ایسا کہہ رہے ہیں اس لئے آپ ان سے پوچھئے۔ میں تو کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۰ چائے والا پھر رک گیا۔

بولو بولو رک کیوں گئے۔ تم کیا کہتے ہو۔ بھئی میرا تو کہنا ہے کہ نہیں پینے والا ۔۔۔۔۔۔۰ چائے والا پھر رک گیا۔ اب ایک اور شور برپا ہوا یار یہ عجیب چائے والا ہمیں گالیاں دیتا ہے۔ اسے نیچے پھینک دو۔ دوسرا بولا اس کی کیتلی چھین لو۔تیسرا بولا اس کو چولہے پر بٹھا کر گرم کر دو اور ایک ساتھ کئی لوگ اس کی جانب بڑھے۔ جگو کھڑا ہو گیا وہ بولا ارے یہ کیا کر رہے ہیں آپ لوگ اس نے تو کوئی بات کہی ہی نہیں خود اس کا جملہ پورا کرتے ہو اور اس سے لڑ پڑتے ہو۔اگر اس نے گالی دی ہے تو تم بھی گالی دے دو لیکن نیچے پھینکنا یہ کون سا انصاف ہے۔

یہ اس کا ساتھی ہے اسے بھی۔۔۔۔۔۔۰جیسے ہی ایک مسافر جگو کی جانب بڑھا اس نے مسافر کا گلا پکڑ لیا اور بولا کیا ؟ کیا کرے گا تو؟ جگو کا ڈیل ڈول اور تیور دیکھ کر مسافر ڈھیلا پڑ گیا اور بولا کچھ نہیں بابو آپ تو بلا وجہ اس کے بجائے مجھ پر غصہ ہو رہے ہیں۔ڈبے میں خاموشی چھا گئی چائے والے نے جذبۂ احسانمندی کے ساتھ ایک پیالی چائے انڈیل کر جگو کی جانب بڑھا دی اور بولا یہ لیجئے سرکار چائے پیجئے گرما گرم۔ جگو کو ایسے لگا جیسے رشوت دے رہا ہے۔ وہ بولا نہیں نہیں مجھے نہیں چاہئے میرے پاس اس کیلئے پیسے نہیں ہیں۔

ارے صاحب آپ سے پیسے کون مانگتا ہے۔ آپ ہمارے نیتا ہیں آپ کیلئے چائے تو کیا جان بھی حاضر ہے۔ جگو ہنس کر بولا جان دینا ہے تو جا کیجریوال کو دے اور اس کی پارٹی میں شامل ہو جا میرے پاس میری اپنی جان ہے اور وہی کافی ہے کسی اور کی جان کی مجھے نہیں چاہئے۔

اس بیچ ایک اور مسافرنے پانچ کا نوٹ چائے والے کی جانب بڑھایا اور اس سے چائے لے لی۔ اس کے بعد تانتا بندھ گیا چائے والا چائے بھرتا چلا جاتا تھا اور لوگ اس سے لے لے کر پیتے چلے جاتے تھے۔ اس نے دو مرتبہ اپنے چائے گلاس کو واش بیسن کے قریب لے جا کر دھونے کا ناٹک بھی کیا لیکن چائے کے بکنے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا۔

چائے والا کیتلی کے وزن سے اندازہ لگا رہا تھا کہ وہ خالی ہو گئی اور جیب کے وزن سے اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ بھر گئی ہے۔ اس کی توقع کے خلاف چائے بہت جلد بک گئی تھی۔تیسری بار گلاس دھونے سے قبل اس نے کہا بس صاحب چائے ختم۔ اور پھر جا کر اس نے ایمانداری سے گلاسوں کو دھو کر صاف کیا اور صرف دو گلاس میں چائے بھر کر جگو کے پاس آیا اور بولا صاحب یہ آپ کیلئے ہے۔ جگو نے دوسری کی جانب اشارہ کر کے کہا اور وہ، چائے والا مسکرا کر بولا وہ میرے لئے ہے کیونکہ میں بھی انا تو بھی انا۔باقی سب ہیں پھیکا گنا۔ چائے والا بولا صاحب یہ چائے میری طرف سے تحفہ ہے اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔

جگو بولا جی ہاں تحفہ تو ویسے بھی انمول ہوتا ہے شکریہ۔ اچھا یہ بتاؤ کہ پچھلے تین گھنٹے سے یہ گاڑی یہاں کیوں رکی ہوئی ہے۔ ارے صاحب اسی کیوں کے جواب میں اس کے آگے تقریباً دس گاڑیاں لائن سے رکی ہوئی ہیں۔ دس گاڑیاں خیریت تو ہے ؟ وہ دراصل بات یہ ہے کہ آگے ایک ٹرین کے تین ڈبوں میں یکے بعد دیگرے تین زبردست بم دھماکے ہوے ہیں۔ اسی لئے ساری گاڑیاں  رکی ہوئی ہیں۔ پولس کو شک ہے کہ دوسری ٹرینوں میں بھی آتش گیر مادہ ہو سکتا ہے۔ کتے ساری گاڑیوں کی جانچ کر رہے ہیں اور جب تک کسی گاڑی کی جانچ پڑتال کا کام پورا نہیں ہو جاتا اسے آگے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

سارے مسافر حیرت سے یہ سب سن رہے تھے۔ ایک بولا تو ہمارا نمبر کب آئے گا؟ ایک نے سوال کیا چائے والا ہنس کر بولا یہ تو کتے سے پوچھ کر بتانا پڑے گا۔ اسی کے ساتھ ڈبے میں ایک زوردار قہقہہ گونجا۔چائے والے نے جگو سے پو چھا صاحب آپ دہلی جا رہے ہیں یا اس سے آگے کہیں اور؟  مجھے تہاڑ جانا ہے۔ اچھا ! وہ تو یہاں سے قریب ہے۔آپ اگر یہیں اتر کر دوکوس دور سے بس پکڑیں تو آدھے گھنٹے میں تہاڑ پہنچ جائیں گے ورنہ نہ جانے کتنے گھنٹے بعد دہلی اور وہاں سے دو گھنٹے بعد تہاڑ۔ جگو نے سوچا یہ اچھا ہے۔ اس نے گٹھری سنبھالی اور دروازے کی جانب بڑھا بولا بھائی چائے والے تمہارا شکریہ ایک تو چائے پلانے کیلئے اور دوسرے تہاڑ پہنچانے کیلئے۔ چائے والا بولا صاحب ابھی تو آپ یہیں ہیں تہاڑ پہنچے کہاں ہیں ؟ ارے بھئی چلے ہیں تو پہنچ ہی جائیں گے۔ دھنیا باد۔ بہت بہت دھنیا باد۔

 

 

 

قلندر کی عدالت

 

دہلی پولس کے صدر دفتر میں اعلیٰ افسران کی ایک اہم نشست ہو رہی تھی جس میں اوکھلا کے قریب ٹرین کے دھماکے پر غور و خوض ہو رہا تھا۔ ان کے سامنے کئی سوال تھے۔ سب سے پہلا تو یہ کہ دھماکہ کس نے کیا ؟ دوسرا یہ کہ اب کیا اقدام کیا جائے ؟ فوری طور ذرائع ابلاغ میں کیا بیان دیا جائے ؟ کس کو اس دھماکے کے لئے موردِ الزام ٹھہرایا جائے ؟ اور جن لوگوں نے یہ حرکت کی ہے ان کو کیا سزا دی جائے ؟

تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا کہ دھماکے میں استعمال ہونے والا سارا آتش گیر مادہ سرکاری ہے۔ ایسے شواہد ملے ہیں کہ وہ ممبئی اور پونے کے سرکاری گوداموں سے آیا ہے اس لئے یقیناً اس کے پسِ پشت ممبئی پولس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔اس کی وجوہات بتاتے ہوئے اس نے انکشاف کیا چونکہ دہلی پولس نے ان کے مخبروں کو اپنا وعدہ معاف گواہ بنا کر ممبئی کے دھماکوں کا راز فاش کر دیا ہے اس کی وجہ سے ممبئی پولس کی کافی بدنامی ہوئی ہے۔ اس کے رد عمل میں ممکن ہے ان لوگوں اپنی جیل میں بند ایسے ملزمین کی مدد سے جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہ ہو یہ دھماکے کروا دئیے ہوں۔

ایک نووارد افسر نے سوال کیا کہ اس سے ان کا کیا فائدہ وابستہ ہے۔ تفتیشی افسر بولا اس کے ذریعہ ایک تو ہمیں بد نام کیا جائے اور یہ ثابت کیا جا سکے کہ دہلی بھی ممبئی ہی کی طرح غیر محفوظ ہے۔  اسی کے ساتھ دہلی پولس کیلئے تنبیہ بھی ہے کہ وہ  ممبئی کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کے بجائے اپنے شہر کی جانب توجہ دے۔

تمام واقعات کے تانے بانے اس طرح جوڑے گئے تھے کہ شک شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی مگر اس بات کو ذرائع ابلاغ میں منکشف کرنا ناممکن تھا اس لئے سوال یہ تھا کہ آخر اس کا الزام کس کے سر منڈھا جائے ؟ڈپٹی انسپکٹر جنرل نے بتایا کہ فی الحال مرکزی اور ریاستی حکومت مسلمانوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتی اس لئے اس میں ہندو دہشت گرد تنظیموں مثلاً سناتن پر بھات وغیرہ کو پھنسانے میں فائدہ ہے۔ ایسا کرنے سے سنگھ پریوار دفاعی حالت میں پہنچ جائے گا اور حزب اختلاف اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا نیز وزارتِ داخلہ سے بھی اس موقف کو بڑی آسانی سے ہری جھنڈی  مل جائے گی۔

پولس کمشنر نے کہا جی ہاں چونکہ سناتن پربھات کا صدر دفتر ممبئی سے قریب پنویل میں ہے اس لئے وہاں جا کر تفتیش کرنے کی ہماری رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی۔خیر یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا اب سوال کچھ گرفتاریاں دکھلانے کا تھا تو اس کیلئے یوگی بابا کے احتجاج میں گرفتار شدہ چند نامعلوم لوگوں کو دوبارہ گرفتار کر کے دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ ہوا اور ان میں ایک نام منگو حلوائی کا بھی تھا۔ چونکہ خود یوگی بابا اسے پہچاننے سے  انکار کر چکے تھے اس  لئے اس سے نرم چارہ اور کون سا ہو سکتا تھا ؟

منگو کے خلاف تہاڑ جیل میں ایک فرضی کہانی گھڑی جا رہی تھی کہ پولس کو پتہ چلا اس سے ملنے کی خاطر کوئی جگو کمہار ممبئی سے آیا  ہے۔ یہ تو پولس والوں کیلئے ایک نعمتِ غیر مرتقبہ کی مانند تھا اس لئے کہ وہ ممبئی سے ٹرین کے ذریعہ دہلی اسی وقت آ رہا تھا  جبکہ دھماکے ہوئے تھے۔ اس کے ممبئی سے دہلی آنے کے بے شمار شواہد موجود ہی تھے پولس کو تو صرف یہ کرنا تھا کہ اس پر ٹرین میں بم رکھنے کا الزام لگا دیا جائے اور سارے ثبوت  اپنے حق میں استعمال کر لئے جائیں۔

اس منصوبے پر عمل در آمد کیلئے سب سے پہلے تو جگو گرفتار کر کے ایک نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا۔ اس کے بعد جگو کی ایک شبیہ ذرائع ابلاغ میں جاری کی گئی اور اس کا پتہ بتانے والے کی خاطر ایک خطیر رقم کے انعام کا اعلان کیا گیا۔  جس چائے والے نے جگو کو اتفاق سے چائے پلائی تھی وہ اس کی تصویر دیکھ  کر پہچان گیا۔ پولس نے اسے اپنا مخبر بنا کر انعام کا مستحق قرار دے دیا ۔

چائے والے نے اخباری کانفرنس میں بتایا کہ اس نے جگو کو مشتبہ حالت میں اس بیگ کے ساتھ دیکھا تھا جس میں دھماکہ خیز اشیاء کو ممبئی سے دہلی لایا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بم دھماکے سے ریل کا ڈبہ نہ صرف ٹوٹ پھوٹ بلکہ بڑی حد تک جل  بھی گیا تھا لیکن بیگ اپنی اصلی حالت میں موجود تھا۔ چائے والے نے بتایا کہ جگو وہ بیگ گاڑی میں چھوڑ کر پیچھے آگیا اور جب دھماکے کے بعد ساری گاڑیاں رک گئیں تو اس نے اپنی گاڑی بدل دی۔ اتفاق سے وہ بھی جگو کے پیچھے اتر پڑا تھا ورنہ اس کی بھی لاش کسی ہسپتال کے مردہ گھر میں پڑی ہوئی ہوتی۔

دہلی پولس کمشنر جس پریس کانفرنس میں یہ انکشافات کر رہے تھے اسے کو براہِ راست  ٹیلی ویژن پر نشر کیا جا رہا تھا امر، اکبر، تان سین اور مونی بابا ٹیلی ویژن پر اسے دیکھ رہے تھے۔  اس کانفرنس کو نشر کرتے ہوئے ٹائمز چینل نے اپنے ناظرین کو بھی  براہِ راست سوال پوچھنے کا موقع دینے کا اعلان کیا اور بار بار چینل کا نمبر ٹی وی کے مانیٹر پر دکھلایا جانے لگا۔ مونی بابا اور تان سین نے جب جگو کی شبیہ دیکھی تو وہ چونک پڑے امر اکبر بھی حیران رہ گئے اس لئے کہ انہوں نے بارہا جگو کو کسم دیدی کے ساتھ دیکھا تھا۔

امر بولا یہ کیا ؟ یہ تو اپنے جگو کی شبیہ لگتی ہے۔ لگتی کیا ہے یہ تو اسی کی تصویر ہے۔ اکبر نے حیرت سے کہا۔ اوہو یہ کیا ہو رہا ہے کہیں جگو کو پھنسانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی ہے ؟ تان سین نے سوال کیا۔ مونی بابا بولے مجھے لگتا ہے کہ اپنا جگو کسی خطرناک سازش کا شکار ہو گیا ہے۔ تو کیا اب پو لس اس کی تلاش میں یہاں آئے گی ؟ اکبر نے پو چھا۔مونی بابا بولے ہو سکتا ہے آئے لیکن وہ سب ناٹک ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ جگو دہلی پولس کی حراست میں ہے۔ تان سین نے کہا مونی بابا یہ سب تمہیں کیسے پتہ چل جاتا ہے کہیں آپ بھی تو ۔۔۔۔۰بکواس نہ کیا کرو تان سین میری چھٹی حس کہتی ہے کہ ہمارا دوست بہت بڑی مشکل میں ہے ہمیں اسے بچانے کیلئے کچھ نا کچھ کرنا چاہئے ورنہ بڑا انرتھ (ظلم) ہو جائے گا اور ہم سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

امر بولا بلکہ ہو سکتا ہے اس کے ساتھ پھنس بھی جائیں اس لئے کہ وہ یہیں سے دہلی روانہ ہوا تھا۔اکبر بولا دیکھو بار بار ٹی وی پر ایک ٹیلی فون نمبر آ رہا ہے کیوں نا ہم اس نمبر فون کر کے کہہ دیں کے جگو بے قصور ہے اس پر بیجا الزام لگایا جا رہا ہے۔شاید کے اس سے وہ بچ جائے ؟امر بولا یہ اچھی ترکیب ہے اور موبائل پر وہ نمبر ملانے لگا سامنے سے جواب ملا ہم نے آپ کا نمبر نوٹ کر لیا ہے اور آپ سے کچھ دیر میں رابطہ قائم کریں گے اس کے بعد مخاطب نے امر سے اس کا نام اور مقام بھی دریافت کر لیا۔ اب ان چاروں کو بڑی بے چینی سے فون کی گھنٹی کے بجنے کا انتظار تھا۔

امر اپنے من ہی من میں سوچ رہا تھا کہ کیا بولے اور کیسے بولے ؟ کمرے میں مکمل خاموشی تھی سوائے ٹی وی کے کوئی نہیں بول رہا تھا سارے لوگ فکر مند تھے۔گووند، نشانت اورکسم بھی  رمیش کے گھر پر ایک ساتھ یہ مناظر دیکھ رہے تھے اور انہیں بھی جگو کی تصویر پر حیرت تھی۔ سبھی کو یقین تھا کہ جگو پر لگایا جانے والا الزام سراسر جھوٹ ہے۔

کسم چونکہ پولس محکمہ میں کام کر چکی تھی اس لئے وہ صورتحال کی طہ تک فوراً پہنچ گئی تھی۔ جگو نے اس کی بہت خدمت کی تھی اس لئے وہ ایک دم روہانسی ہو گئی۔گووند نے پو چھا کہیں یہ جگو والی مصیبت ہم کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے ؟ رمیش نے بھوشن کو مخاطب کر کے کہا کہ ایسے میں کیا کیا جائے ؟ نشانت بولا سب سے محفوظ راستہ یہ ہے کہ اسے پہچاننے سے انکا ر کر دو۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ کسم بولی نہیں یہ مجھ سے نہیں ہو گا میں ایسا نہیں کر سکتی۔

اس بیچ امر کے فون کی گھنٹی بجی ٹی وی اناؤنسر اعلان کر رہا تھا کہ ہمارے ساتھ فی الحال فون لائن پر ممبئی سے امرجی ہیں اسی ممبئی سے جہاں سے یہ دہشت گرد بموں سے بھرا ہوا بیگ لے کر دہلی آ رہا تھا جو اوکھلا کے قریب پھٹ گیا۔ اس کے بعد کیمرہ پھر ایک بار جگو کی تصویر پر مرکوز ہو گیا۔ اناؤنسر نے سوال کیا کہئے امر جی ہمارے ساتھ دہلی پولس کے کمشنر موجود ہیں آپ ان سے کیا پو چھنا چاہتے ہیں ؟

امر نے کہا جناب میں کچھ پوچھنا نہیں چاہتا بلکہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جو تصویر آپ لوگ بار بار دکھلا رہے ہیں یہ کسی دہشت گرد کی نہیں بلکہ ہمارے دوست جگو کی ہے  اور وہ کوئی آتنک وادی نہیں ہے بلکہ ایک نہایت نیک دل انسان ہے اور اناجی کی تحریک میں گزشتہ کئی ماہ سے ہمارے ساتھ کام کر رہا ہے۔ آپ لوگ ایک معصوم  ۔۔۔۔۔۔۔۔ اچانک اناؤنسر نے اعلان کیا کہ امرجی سے ہمارا رابطہ ٹوٹ گیا ہے ہم جلد ہی ان کو پھر سے فون ملائیں گے اس بیچ کانگریس کے ترجمان ہمارے ساتھ فون لائن پر ہیں ہم ان کا سوال سنتے ہیں اور پھر امر جی سے بات کریں گے۔

امر پریشان تھا کہ فون کی لائن تو ثابت تھی رابطہ قائم تھا اناؤنسر جھوٹ بول رہا تھا۔  کانگریسی ترجمان نے سوال کرنے کے بجائے تقریر شروع کر دی۔کمشنر صاحب نے چٹھی پر لکھا۔۔۔۔ انا ٹیم ۔۔۔۔۰فون؟ اور اپنے نائب کو تھما دی۔جو باہر جا کر فون پر انا ٹیم سے بات کرنے لگا۔کانگریسی ترجمان کہہ رہے تھے اب تو بلی اپنے آپ ہی تھیلے کے باہر آ گئی۔ امر نے تسلیم کر لیا کہ دہشت گرد کا نام جگو ہے اور انا جی کے ساتھ کام کرتا رہا ہے۔ اناجی کو سنگھ پریوار کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے لوگ اس تحریک  میں ایک خفیہ ایجنڈے کے تحت شامل ہو گئے ہیں۔ وہی اس نام نہاد بدعنوانی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور جب انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں نے اسے دھتکار دیا ہے تو وہ آتنک واد پر اتر آئے پہلے بھی ان کے لوگ مالیگاؤں اور اجمیر کے دھماکوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ترجمان بے تکان بولے جا رہا تھا۔

ڈپٹی کمشنر نے ایک چٹھی پر اروند اور رمیش کے نا م پر صحیح اور کسم کے نام پر غلط کا نشان لگا کر کمشنر صاحب کو تھما دی۔ انہوں نے اسے اناؤنسر کی جانب بڑھا دیا۔ اشارہ صاف تھا۔ ٹائمز والوں نے امر کے بجائے رمیش سے رابطہ قائم کیا اور پو چھا کیا آپ اس آدمی جانتے ہیں۔ رمیش بولا جی نہیں اس کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ امر نامی آدمی بھی اس کا ساتھی دہشت گرد ہے جو اپنے دوست کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔

رمیش کی یہ نمک حرامی دیکھ کر اکبر آگ بگولا ہو گیا اور بولا میں اس حرام زادے کا خون پی جاؤں گا۔ مونی بابا بولے اکبر دھیرج رکھو ایسا کر کے تم اپنے دوست جگو کو بچا نہیں سکتے۔ امر نے کہا ہاں یہ صحیح ہے بلکہ میرے اور جگو کے ساتھ تم بھی پھنس جا ؤگے۔اب ٹائمز والوں نے گووند سے رابطہ کیا اور پوچھا کیا آپ نے ابھی ابھی کانگریس پارٹی کے ترجمان کا بیان بلکہ الزام سنا۔ جواب ملا جی ہاں میں نے سنا۔ تو آپ اس کے جواب میں کیا کوئی صفائی دینا پسند کریں گے۔

گووند مسکرا کر بولا ان صاحب کا کام ہر روز نت نئے جھوٹ گھڑ کر ذرائع ابلاغ میں پیش کرنا ہے۔ انہیں اسی ذمہ داری پر متعین کیا گیا ہے اور اس کی وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ عوام اس بات کو جان چکے ہیں کہ یہ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولتے ہیں اور لوگ انہیں سبق سکھانے کیلئے انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں۔ان اوٹ پٹانگ الزامات کا جواب تو عوام دے گی میں نہیں۔ اناؤنسر نے کہا بہت شکریہ لیکن کیا آپ اس دہشت گرد کو پہچانتے ہیں ؟ کیا وہ آپ کے ساتھ کام کر چکا ہے ؟ جی نہیں میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا میں اسے نہیں جانتا۔ مونی بابا  یہ سن کر اپنے کان پر ہاتھ رکھ لیا اور تان سین نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

اسی کے ساتھ امر کے فون کی گھنٹی پھر ایک بار بجی اس بار اس کے سامنے بھارت ٹی وی کے ورما  جی تھے۔ورما نے کہا دیکھو امر تم جلدی سے اپنا پتہ بتاؤ تاکہ میں اپنی گاڑی بھجوا سکوں ورنہ بہت جلد پولس تمہیں گرفتار کر کے لے جائے گی اور پھر تم وہی کہو گے جو وہ چاہے گی۔ میں تمہیں اپنی امان میں محفوظ رکھوں گا۔ امر نے اسے اپنا پتہ بتا دیا اس کے بعد ورما نے مشورہ دیا اب تم اپنا یہ سم کارڈ فون سے نکال دو تاکہ کوئی تم سے رابطہ نہ قائم کرسکے اور نہ اس کی مدد سے تمہارا محل و وقوع معلوم کر سکے دس منٹ میں ایک گاڑی تمہارے پاس آئے گی جس میں تم اور تمہارے ساتھی سوار ہو کر مجھ تک آ سکتے ہیں۔فون بند ہو گیا۔

امر نے فون میں سے سم کارڈ نکالنے لگا اکبر بولا یہ سارے ٹی والے چور ہیں مجھے اس پر اعتبار نہیں ہے۔ مونی بابا نے کہا اب تمہارے سامنے دو ہی راستے ہیں ایک پولس دوسرا ورما چلو ورما کیا کرے گا زیادہ سے پولس کے حوالے کر دے گا لیکن پولس کو ہمارا پتہ کیسے ملے گا؟ تان سین نے پوچھا۔ ارے بھئی تم نے اپنے دو دوستوں کو ٹی وی پر نہیں دیکھا گووند یا  رمیش ان دونوں کو تمہارا ٹھکانہ معلوم ہے لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو خود پھنس جائیں گے اس لئے کہ یہ ان کے ا پنے ساتھی کا گھر ہے۔ جی ہاں لیکن فی الحال وہ پولس کی مدد کر رہے ہیں اس لئے وہ انہیں پھنسائے گی نہیں بلکہ بچائے گی۔وہ کسی اور مقام سے تمہاری گرفتاری دکھلا دے گی۔

امر اور اکبر کے ساتھ جب دو بندر بھارت ٹی وی کے دفتر میں پہنچے تو انہیں دیکھ کر رجت ورما کو ہنسی آ گئی وہ بولا ان بندروں کو کیوں لے آئے ؟ ڈرائیور نے جواب دیا۔ آپ نے امر کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ لانے کا حکم دیا تھا ان کا کہنا ہے کہ یہ بندر بھی ہمارے ساتھی ہیں اس لئے میں لے آیا۔ رجت نے رپورٹر راجو کی جانب مڑ کر دیکھا تو وہ بولا یہ تو مجھے گاندھی جی کے بندر لگتے ہیں جن سے وردھا میں تول مول کے بول پروگرام کیلئے میں نے ملاقات کی تھی۔ راجو نے کہا یہ بڑے سمجھدار بندر ہیں اور انسانوں کی بولی بھی جانتے ہیں۔رجت  نے ان چاروں کو ایک خفیہ مقام پر پہنچا کر ان کے ساتھ تفصیل سے بات چیت کی۔ اس  کے بعد وہ ‘‘جنتا کی عدالت’’ کے اگلے شوکی تیاری میں لگ گیا۔

اس ڈرامے کیلئے اس نے گووند اور رمیش کو وہ بھی شامل کر لیا اور وہ سوالات جنہیں الزامات کا نام دیا جاتا ہے  بتلا دئیے تاکہ وہ خوب اچھی طرح تیاری کر سکیں امر اور اکبر کو بھی الزامات بتلا دئیے گئے تھے۔ انا جی کو عدالت کے جج کی کرسی پر براجمان ہونے کیلئے راضی کر لیا گیا اور پھر شروع ہوئی جنتا کی عدالت کی زبردست اشتہار بازی۔ تمام اخبارات اشتہارات سے بھرے پڑے تھے شہروں میں بڑی بڑی ہورڈنگ لگائی گئی تھیں۔ لوگوں کے اندر تجسس میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا تھا مشتہرین کی تعداد اور اس کا نرخ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ انتظامیہ کو پتہ تھا کہ یہ ناٹک روپیہ کمانے کا دھندہ ہے اس لئے وہ بھی بے فکر تھا۔

پروگرام کا دن آتے آتے یہ صورتحال بنی کہ گویا اس وقت سارے ٹی وی ناظرین صرف اور صرف بھارت ٹی وی پر چپک گئے۔جنتا کی عدالت کے اس ایپی سوڈ نے کون بنے گا کروڑ پتی اور ستیہ میو جیتے کو پیچھے چھو ڑ دیا تھا۔ جنتا کی عدالت میں خلاف معمول دو مدعی امر اور اکبر، دو مدعا الیہ گووند اور رمیش اور اسی کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ دو گواہ  مونی بابا اور تان سین  براجمان تھے۔ گواہوں کے کٹہرے  میں بندروں کی موجودگی کو صیغۂ راز میں رکھا گیا تھا اور اس نے تمام شرکاء اور ناظرین کو یکلخت چونکا دیا۔ ان تمام کے درمیان انا جی بیٹھے ہوئے تھے سامنے حاضرین عدالت میں کسم اور نشانت بھی براجمان تھے۔

ورما  جی نے سب سے پہلے امر کو اپنے الزامات پیش کرنے کا موقع دیا اور ان الزامات کا رٹا رٹایا جواب رمیش نے دیا۔ امر لاجواب ہو گیا۔اس کے بعد اکبر کی باری آئی اس نے نہایت جذباتی انداز میں  رمیش اور گووند پر الزامات کی بوچھار کر دی۔ حاضرین نے کئی بار تالیاں بجا کر اسے سراہا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ گووند نے ان تمام الزامات کا ایک ایک کر کے منھ توڑ جواب دے دیا۔امر اور اکبر پشیمان تھے انا جی مسکرا رہے تھے اور کسم آنسو بہا رہی تھی۔

ورمانے اب تان سین کو اپنی گواہی پیش کرنے کیلئے آواز دی۔ ساری دنیا ایک بندر کو فرفر انسانوں کی مانند بولتے ہوئے دیکھ کر حیران تھی۔تان سین نے رٹا ہوا بیان دیا تھا جو ورما نے اسے لکھ کر دیا تھا لیکن جب مونی بابا کو دعوت سخن دی گئی تو انہوں نے گووند اور رمیش کی دھجیاں اڑا دیں۔ رجت ورما سمیت سارے ناظرین مونی بابا کے دلائل اور منطق کو سن کر ششدر رہ گئے تھے۔

آخر میں ورما نے  جج صاحب کی کرسی پر براجمان انا جی کی جانب دیکھا اور ان سے اپنا فیصلہ سنانے کی گزارش کی۔ جنتا کے جج اناجی نے ایک جملے میں اپنا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا : یہ بندر ہیں انسان نہیں یہ انسانوں کی بولی تو بول سکتے ہیں لیکن انسانوں کی مانند جھوٹ نہیں بول سکتے اس لئے میں امر اور اکبر کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں اورسزا کے طور پر گووند و رمیش کے اپنی ٹیم سے اخراج  کا اعلان کرتا ہوں ۔

پردہ گرنے لگا پیچھے سے ورما کی آواز آ رہی تھی یہ ناٹک ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے۔ عدالت کی اگلی تاریخ کا انتظار کیجئے۔

 

 

 

 

عبرت و نصیحت

 

اور ذرا اِن سے اُس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر اُن کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے

|اور انہیں یہ بھی یاد لاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ‘‘تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے ‘‘ تو ا نہوں نے جواب دیا تھا کہ ‘‘ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے  لگیں ‘‘

آخرکار جب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا

| پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ ذلیل اور خوار

(سورۃ الاعراف)

 

٭٭٭

مصنف کے شکریئے کے ساتھ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید