فہرست مضامین
- قریۂ فکر
- اسلمؔ عمادی
- قریۂ فِکر
- اسلم عمادی
- سجدہ
- اندھیری شب میں مطالعہ!
- ۱۹۸۰ء سے
- کرسی
- ژاں پال سارتر
- وہ بارش اب تو کر دے
- آرٹسٹ
- عرضِ شاعر
- حیدر آباد
- ص ا د ق
- دشمنوں کے انتظار میں
- آباد اور مردہ دیار
- ذات آشوب
- اندھیری شب میں مطالعہ
- احساسات/ فرصت کے
- سوال میں گم
- وہ ایک سفر
- وہی سوال کرنے کی عادت
- شامِ اَنا
- ۱۹۸۷ء سے
- شاعر
- ’’ اب کیا ہو گا…‘‘
- قاتلِ شہر کے لیے
- آلودگی
- کار جہاں
- زمین کا قرض
- لاحاصل
- والد مرحوم کی یاد میں
- ورنہ
- حادثے
- نا ممکنات کے سلسلہ میں ایک در خواست
- سرحدیں
- شہادتوں کے درمیاں
- وحشتوں کی شناخت
- خواب ساحل، خواب دریا
- ۱۹۸۹ء سے
- نور آنگن میں قدم رکھنے کا لمحہ
- تجدید وفا
- نئے لوگ
- نذر کویت
- فرنیچر
- دسمبر۱۹۹۲ء : ہونٹوں کا مرثیہ
- منظر پسِ منظر سے خائف لگتا ہے
- ہر اک سوال کا ایسا جواب ملتا ہے
- دیکھا اسے اور خود کو بکھرتے ہوئے دیکھا
- تمام عمر جنوں کے مغالطے میں رہے
- یہ گھڑی تو ہمیں وحشت کی گھڑی لگتی ہے
- سوچا، دیکھا، پایا، سمجھا بھول گئے
- اندھیرے اس قدر گہرے نہیں ہیں
- رواں تیز رو، خواب دریا ملا
- روشن ہو گا، دھوپ کے اوپر بکھرا ہو گا
- وادیِ سر سبز میں خون برسنے لگا
- بکھرتی سمتوں میں
- آفاقی ہجر
- تعارف
قریۂ فکر
از قلم:
اسلمؔ عمادی
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں ……..
قریۂ فِکر
(چوتھا مجموعۂ کلام)
اسلم عمادی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انتساب
ان تمام لوگوں کے نام جو اردو سے محبت کرتے ہیں
تحفہ:
اپنے بچوں لبنیٰ، شاداں، احمد کامران اور احمد ایمن
کے لیے۔
سجدہ
میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ اے خدا
میری روشنی نہ کھینچ لے
میں نے تو شرر شرر کو جمع کر کے ایک روح ڈھالی ہے
جس میں تیری الفتوں کا عکس ہے
میری روشنی نہ کھینچ لے
ریزہ ریزہ کر نہ دے مرے وجود کا نشاں
کہ اس میں مٹّیاں ہیں۔
بہتی ندیوں کے ساحلوں کی، اگتی کھیتیوں کے جسم کی،
صفا مروہ کی، تبوک کی، ساحلِ فرات کی
کہ اس میں نقش ہیں تری دلیل کے
ٹوٹتے ہوئے قمر کے رود نیل کے
ریزہ ریزہ کر نہ دے مرے وجود کا نشاں
بجھا نہ دے میری آرزو کی آگ کو
جو بھڑک رہی ہے موجۂ سخن میں محشرِ خیال میں
بجھا نہ دے میری آرزو کی آگ کو
میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ اسے خدا
٭٭٭
اندھیری شب میں مطالعہ!
۱۹۸۰ء سے
شام کے ہوتے ہی، جاگ اٹھتی ہے وحشت کیسی؟
آج کل آب و ہوا میں ہے یہ عِلّت کیسی؟
شہر بھی خشک ہے، رائج ہے رویّہ بھی یہی
پھر مری آنکھوں میں رہتی ہے رطوبت کیسی؟
وہ گیا یوں کہ میں ششدر ہوں ابھی تک سرِ راہ
دھوپ چڑھ آئی مگر ہے مری حسرت کیسی؟
ہم کو جس کوچہ سے پھولوں کی تھی امید بہت
منتظر تھی اسی رستے پہ قیامت کیسی؟
ہم نے اس زاویہ سے پہلے نہ دیکھا تھا کبھی
ہے اسے بھول کے اسلم ہمیں فرصت کیسی؟ ٭٭٭
بے جان سا موسم تھا، ہوا سُست پڑی تھی
بوسیدہ خبر شہر میں جب بکھری ہوئی تھی
اس عہد کی یہ بات بھی ہے قابلِ حیرت
ہر نسل فقط سانس نبھانے میں لگی تھی
کہتا تو ہر اک فرد تھا خوش فہمی کے احوال
اک چیخ مگر سب کے ہی ماتھوں پر سجی تھی
اک جسم حسیں خون میں لتھڑا سا پڑا تھا!
خلقت سرِ بازار تماشہ کو کھڑی تھی
وہ شہر بھی اک ریت کا دریا تھا کہ جس میں
اسلمؔ مری کشتی مری موجوں میں پھنسی تھی ٭٭٭
کرسی
… پڑی ہے
اسی طرح
دیوان خانے میں ترچھی
گرد آلودہ، خاموش، ساکت
پرانے کئی سرد اور گرم جسموں کی
یادیں مٹاتی ہوئی
کئی قہقہوں، سسکیوں کی
صداؤں کو سمجھے بغیر
اپنے چوبی بدن میں
یونہی جذب کر کے۔
جانے کتنے برس یونہی جیتی رہے گی
یہ کرسی…!
٭٭٭
نشاں ہیں بکھرے ہوئے روشنی پریشاں ہے
چمکتے دور کی یہ نسل تو ہراساں ہے
٭
لَوٹنا ہے ہمیں اب دشتِ جنوں سے شاید
شوقِ دیدار فزوں جذبِ دروں سے شاید
٭
چاہتے تم تو ہمیں ایسے مٹ کیوں دیتے
سخت دشمن تھے تڑپنے کا مزہ کیوں دیتے
ہوش ہوتا تو لہو چیخ کے ہنستے ہم بھی
انگلیاں خواب کے گیسو میں پھنسا کیوں دیتے
٭
کھڑی ہے آنکھیں لگائے ہوئے بھری خلقت
کہ آج در سے ترے اک جواب نکلے گا۔!
٭٭٭
ژاں پال سارتر
دہ اک طفلِ حیراں، جو اکثر
اپنے پیکر کے مجس سے باہر نکل کر
اپنے چہرے کے منظر کو عکاس کی طرح یوں دیکھتا تھا
کہ
ہستی کے امکان سے نقش پر نیلی رنگت
بکھرتی جو مِلتی
تو
اپنے ہی پنجوں کو اپنے لہو میں ڈبو کر
انگلیوں سے
اپنی پیشانی پر اک نیا رنگ رکھتا
وہ اک طفلِ حیراں
آئینے میں چھپے اپنے چہرے کے پیچھے چھپے
زرد سایہ کو بھی تاکتا
شام بوڑھی ہوئی۔ اک صدی کے ادھر کچھ
جھرّیوں والا وہ نیلگوں سرد پیکر
روشنی سے جواں تھا
دھُوئیں میں بھڑکتا ہوا ایک آتش فشاں تھا
ابھی
آنکھ ہی اَدھ کھُلی تھی
کہ دن تیرتا سبز ایثر پہ سایہ فگن ہو رہا تھا
حملہ پھیلا ہوا تھا
وہ اک جھیل جس میں کوئی سِحر سا تھا، صدف در صدف
موجیں لیتی ہوئی کشتیوں کے سہارے میں، طوفاں کے دھارے میں
بیدار رکھتی ہوئی جھیل تھی…
گلیشیر اس کے سینے پر بہتے ہوئے
٭٭٭
تم بھی تو ایک خواب کا عنوان ہو گئے
احساس میں چھُپے ہوئے امکان ہو گئے
اس کا جواب اُن کے ہنر میں کوئی نہ تھا
دشمن مرے سکوت پہ حیران ہو گئے
ہے تازہ ہم سے دشت نوری کا حوصلہ
جو گھر مٹا کے بے سر و سامان ہو گئے
فرقوں میں بٹ گئی خمِ ابرو سے ایک خلق
یہ شہر تیرے ناز سے ویران رہ گئے!
ہے رخ کی طرح دہر میں روشن تمہارا ذکر
گیسو کی طرح لوگ پریشان ہو گئے
موتی کی طرح چمکیں، لہو کی طرح گریں
اب اشک میری آنکھوں کے شایان ہو گئے
یوں زندگی کو ہم نے کیا با محاورہ
اسلم خطائیں کر کے اب انسان ہو گئے
٭٭٭
ہر دریچے سے یہی سنگ دکھائی دے گا
یہ مرا خوں تجھے رہ رہ کے سنائی دے گا
٭
چشمِ حیراں میں ترے غم کی ضیا لگتی ہے
چاندنی مہرِ گریزاں کی نوا لگتی ہے
٭٭٭
وہ بارش اب تو کر دے
پرانی جیل کے در پر نشستہ
اے بھگت۔ صوفی صفت سائیں۔!
خدا پچھلے پہر گر جھانک کر دیکھے تو
کہہ دینا۔
’’نہیں تیرے سوا تعریف کے قابل کوئی
سب کچھ ہی تیرا ہے،
زمینوں، آسمانوں میں،
زمینوں آسمانوں دونوں کے جو درمیاں ہے:
ہوائیں: تازہ، بوجھل، گرد آلود اور دخانی
غذائیں: چنندہ۔ پانچ تاروں والے ہوٹل کی
: رسیدہ۔ جو کہ کوڑے میں ہوں
سنہرے ساغروں میں، بادۂ زرناب سے، وہ قطرہ قطرہ بلدیہ کے
نل کے ٹپکے پانیوں تک …
سب ہی تیرا ہے …!
وہ پانی۔ پھول بن کر جو مہکتے ہیں
وہ پانی جن میں اکثر گم شدہ لاشیں عفونت بن کے اٹھتی ہیں
وہ دانے جو کہ سونا بن کے تہہ خانوں میں رہتے ہیں
وہ دانے، جن کو محنت سے اگا کر سادہ دل دہقاں
بڑے بنئے کا آدھا سود دیتا ہے۔
تو بڑا مالک ہے بے شک سب ہی تیرا ہے۔
سیہ الفاظ…
نیلے، کالے، پیلے، سرخ عکس ان کے
یہ
سب، یہ سارے اور
وہ سارے جو اِن سے بھی سوا ہیں
سب ہی تیرے ہیں …
تو، اے بے انتہا۔
اے پاک، اے پچھلے پہر کے جھانکنے والے
ہماری عقل خالی،
کاسہ خالی،
ہاتھ خالی،
جسم خالی، روح خالی
ہم خطا کا وار کیا سمجھیں
وہ بارش اب تو کر دے …!!
٭٭٭
کوشش ہے گر اس کی کہ پریشان کرے گا
وہ دشمنِ جاں درد کو آسان کرے گا
ہم اس کو جوابوں سے پشیمان کریں گے
وہ ہم کو سوالوں سے پشیمان کرے گا
پہلو تہی کرتے ہوئے دزدیدہ جو دیکھے
چہرے کے تاثر سے وہ حیران کرے گا
تو چھُپ کے ہی آئے کہ برافگندہ نقاب آئے
دل کی یہی عادت ہے کہ نقصان کرے گا
قزاقوں کی بستی میں رہا کرتے ہیں ہم سب
ہر گھر کو کوئی دوسرا ویران کرے گا
ہر ٹیس سے ابھرے گی تری یاد کی خوشبو
ہر زخم مرے شوق پہ احسان کرے گا
اسلمؔ یہ سنا ہے کہ مرا شہرِ وفا بھی
تخریب کو شرمندۂ ایقان کرے گا
٭٭٭
آرٹسٹ
انگلیاں کاٹ کر کینوس پر رکھیں
شام!!
وہ۔ سر جھکائے ہوئے یونہی بیٹھا رہا
ایک تصویر
نے … اس سے اگر کہا:
’’ انگلیوں کو پہن لو۔
ابھی رات آنے کو ہے۔ !!،،
٭٭٭
آلودۂ خوں شہر کا منظر نظر آیا
ہر ایک ستم گار ہنر ور نظر آیا
جس چہرے پہ تھی برف سی بے جذبہ خموشی
پگھلا تو خیالات کا محشر نظر آیا
ہم نے بھی سنی تیرے فقیہوں کی بلاغت
لفظوں کی کھنک میں وہی ساغر نظر آیا
یا رب! نہ کھلا اب کے ترا باب مناجات
اک عام شکایات کا دفتر نظر آیا
کھڑکی سے کبھی ہم نے تو دیکھا نہ تھا باہر
اور آج جو دیکھا تو سمندر نظر آیا
شاید کہ وہ اس رات ذرا کھُل کے برس جائے
ان آنکھوں میں امکان کا تیور نظر آیا
اک قطرہ تھا۔ گر اشک نہ بنتا تو لہو تھا
جو دید کے دروازہ پہ پل بھر نظر آیا
آئینہ بھی حیراں کہ نشاں اس کے لبوں کا
اسلمؔ کے خیالات کے اوپر نظر آیا
٭٭٭
اسلحے اپنے سرِ عام دکھا ہی دے گا
یعنی وہ اپنی شقاوت کی گواہی دے گا
دلِ مجبور کا سرمایہ ہے بس نیتِ نیک
اے ستم گر تجھے ہر حال دعا ہی دے گا
آگ ہی آگ بھڑکتی ہے لہو میں میرے
جو مجھے رام کرے گا وہ بجھا ہی دے گا
کرب اک شعلہ ہے راتوں کو رکھے گا روشن
شوق اک ڈوبتا سورج ہے سیاہی دے گا
سارے عالم کے تماشہ پہ یہ سیکھا اسلمؔ
اب اماں مجھ کو مرا شہرِ وفا ہی دے گا
٭٭٭
اس سے کہہ دو کہ مرے گھر سے نہ ہو کر جائے
یوں نہ ہو بادِ بہاری میں جنوں بھر جائے
یہ دعا مانگتے ہیں سب ترے زخمی کے لیے
اک نظر بھر کے تجھے دیکھ لے اور مر جائے
تو، جو ساحل پہ کبھی جوش سے بے ساختہ ہو
پُر تپاکی سے ہواؤں میں سمندر جائے
تازہ دم حُسن کے رَم سے یہ کچل جائے گا
دلِ سادہ سے کہو خیر کرے گھر جائے
منتظر ہم تو ہیں اسلم کہ کبھی صبح کھُلے
وہ زمیں جاگے جدھر مہرِ منوّر جائے ٭٭٭
عرضِ شاعر
کہتے ہیں یہ احباب
… کوئی شعر سناؤ!
ہم سوچتے رہتے ہیں
…کہ کیا شعر سنائیں؟
اشعار کوئی عیش کا ساماں تو نہیں ہیں!
(یہ آتشِ تخئیل میں چمکا ہوا سونا۔ )
یہ کرب و غم و خواب کے شاداب شجر پر
وہ پھول میں، جو زہر سے خوش رنگ ہوئے ہیں
ہونٹوں پہ
کھلیں یہ تو صدا ٹوٹ کے بکھرے
اور برق
سرِ بام ہوا ٹوٹ کے بکھرے
جو لوگ کہ: خوش ہونے کا ناٹک ہیں رچاتے
تعبیر سے ہو جائیں گے
پھر بے سرو ساماں
ہم اس لیے اشعار سنانے سے گریزاں۔!!
٭٭٭
سمندروں کے فسادوں کے درمیاں جانا
ہمیں ہے جانبِ احبابِ سرگراں جانا
یہ دل ہر اک نگہِ سرد پر دھڑکتا ہے
ہے اس نے ہر نئے تیور کو امتحاں جانا
ہوائے دشت ہوئی ہے کچھ اور زہریلی
ہے جب سے اس نے مسافر کو بے اماں جاتا
رواں تھا شوق کا دریا: ہمیں لگا جامد
تھمی تھی موجِ توجہ: اسے رواں جانا
وہ مسکرا کے مڑی، پھول بیل سی لچکی
جو اس نے دل کے خسارے کو درمیاں جانا
ہم اس کے در سے اٹھیں بھی تو کس امید سے اب
کہ اسلمؔ ایسے بھی ہم کو ہے اب کہاں جانا
٭٭٭
فتنۂ صحف و مجلات و کتب سے نکلے
تجھ کو دیکھا تو سبھی مشغلے پھیکے نکلے
جو ملا وہ نئے انداز سے حیران ملا
جتنے پُر درد مناظر تھے، تماشے نکلے
تیز رو تھے تو کسی سمت کوئی راہ نہ تھی
تھک کے جب ٹوٹ گرے ہیں تو یہ رستے نکلے
سنگ و خشتِ رہِ جاناں تھے کبھی بے معنی
اب کے جو غور سے دیکھا تو تماشے نکلے
ورنہ کھُل جاتا بھرم فتنۂ محبوبی کا
ہم تری بزم سے نکلے بھی تو ہنستے نکلے
جتنے باشندے تھے سب اپنی روایت کے اسیر
شہر کو ڈھونڈا تو اس میں کئی قریے نکلے
٭٭٭
حیدر آباد
ہم تجھ سے ہوئے ہیں
دور، جب سے، اے شہرِ کمال پرور حیدر آباد
ہیں
قلب و دماغ مضطر حیدر آباد
وہ ٹوٹتی روشنی کے منظر
وہ حرفِ خلوص فتنہ پرور
الجھا وہ بساط علم سے زر
لیکن وہ عجیب میٹھی سوندھی۔ وہ سانولی نرم جسم خوشبو
خوشبو کی خموش دستکوں میں۔ دھڑکن کسی صبح آرزو کی
موعود سحر کے خواب پیکر
پیکر۔ بے خطِ شناخت محور حیدر آباد
ہر فرد سیاہ نقطہ۔ تنہا
اور زیست کہ صفحہ غیر میعاد
پتھر پہ پریشاں چیونٹی جو۔
بے ذکر و زبان و داد و فریاد
بے سمت فضا میں ایک قطرہ
اک قطرۂ شبنمِ جنوں ساز
وحشت، وحشت کا شکار ہو کر، وحشت کا گرد و غبار ہو کر
وحشت کا خام خمار ہو کر، پردیس میں شاد اور ناشاد
یعنی کہ قتیل چشم حُسّاد۔ تیرا فرزند۔ شہر حیدرآباد
خوش ہوں کہ
وہ چائے خانے روشن ہوں گے
جن میں کبھی میں بھی پَونے پی لیتا تھا
خوش ہوں کہ
کتاب خانے زندہ ہوں گے
جن میں میں ادب کا ذوق جی لیتا تھا
کل ہند مشاعرے بھی ہوتے ہوں گے
اربابِ مزاح جشن کرتے ہوں گے
محفل میں تری۔ شباب تازہ ہر دم
بلبل نئے اور گلاب تازہ ہر دم
نازک انداز نازنیناں رقصاں
اور حسن کا اشتہار چشمِ حیراں
زر جیبِ بخیل میں کھنکتا ہو گا
اور اہلِ قلم قصیدہ بکتا ہو گا
سب سچ ہے۔ مگر فراق تیرا۔!
ہے میرے لہو میں سخت ظالم چبھتا
اس طرح کہ جیسے کوئی عریاں خنجر
خنجر مسموم۔ دہنِ خنجر بیداد
اے میرے وطن
…میرے ستم گر
… حیدر آباد
٭٭٭
کئی دنوں سے تری راہ میں پڑا دیکھا
وہ چاند ہم نے شکستیدہ آئینہ دیکھا
طلوع: اپنے لہو کو بکھیر خون ہوا
غروب: اپنے اُجالے میں ڈوبتا دیکھا
کھلی ہوا میں بھی حالت عجیب ہے دل کی
جدھر بھی آنکھ اٹھائی محاصرہ دیکھا
وہ شخص کون ہے؟ یہ کہہ نہیں سکیں گے ہم
یہ سچ ہے اپنے تئیں اس کو بارہا دیکھا
میں گھُل رہا ہوں ہوا میں مثالِ موجۂ دُود
کہ میں نے اسلمؔ اسے ایک راستہ دکھا ٭٭٭
ص ا د ق
(جدید شاعر صادق کی نذر)
ایک پنسل بناتے ہوئے
آپ نے
اپنی تین انگلیاں کاٹ لیں
گر
یونہی ذہن کو سر پہ
لادے رہے
ایک دن روح کٹ جائے گی
٭٭٭
دشمنوں کے انتظار میں
دشمنوں کے انتظار میں
چشم وا
کئی جوانیاں، جوانیوں کی قوتِ مزاحمت
دلیریاں
کہ
دشمنوں کے دو بہ دو
دست دست، تیغ تیغ
ہو سکیں۔
دلیریاں …
کہ دشمنوں کو زیر کر کے
ان کی کھیتیوں کے دانے
نخل کے ثمر
ان کی دل فریب مہ لقاؤں
ان کے شہر کے حسین راستوں میں کھو سکیں
تمام تشنگی۔
دشمنوں کے انتظار میں
ہری بھری یہ کھیتیاں، یہ نخل… یہ عمارتیں
اور تشنہ جسم مہ لقائیں
کہ کوئی آئے تیز دست، جبر ذوق
جو پرانی گرد دھو سکے
لہو میں نور ہو سکے
دانے، اک نئی زبان چھو سکیں
پھل: کہ اجنبی لبوں کو چکھ سکیں
عمارتیں: نئے قدم کی چاپ سُن سکیں
دشمنوں کے انتظار میں
سرحدوں کے دونوں سمت زندگی
حسرتوں کا حادثہ۔ خواب و وہم کی صنم گری
وحشیوں نے
کس طرح
نئی زمیں بسائی ہے: دشمنوں کے انتظار میں
٭٭٭
آباد اور مردہ دیار
پڑا ہوں آج سرِ رہ گزارِ لیل و نہار
نہ کوئی دوست، نہ ہم دم کوئی رفیق نہ یار
دعائیں مانگیے کوئی سخن شناس ملے
نہ کوئی سامعہ با ہوش ہے نہ دل ہموار
ہنر کا گوہر تابندہ لے کے گر چلیے
ہر ایک آنکھ میں بینائی کم، زیادہ خمار
اذاں وہاں کہ جہاں، اِذن کا سبب ہی نہ ہو
سخن وہاں کہ اشارت بھی ہو جہاں بے کار
یہ آدمی ہیں کہ مٹی کے سرد پیکر ہیں
یہ بھیڑ بھیڑ ہے یا ہم نشانِ گرد و غبار
نہ اِن میں کوئی نفس داخلی جمال کی ہے
نہ ان میں نورِ جنوں کا کوئی حساب و شمار
شبِ حیات مگر کس طرح بسر ہو گی
تمام حیطۂ ہستی ہوئی سموم سے بار
تمام حیطۂ ہستی میں اک نفس بھی نہیں
کہ جس میں ذوق نمو کے ملے کوئی آثار
تمام طاقوں پہ بجھنے لگی ہیں قندیلیں
ستارے ڈوبے تو سیارے بن رہے ہیں غبار
ہوائیں سسکیاں لیتی پھری ہیں در در پر
سحر کے ہونے کا امکان ایک استفسار
مجھے تو عیب نہیں اس خیال سے اسلمؔ
کہ سارا شہر ہے ’’آباد اور مردہ دیار‘‘
٭٭٭
آسماں اس نگر کے نیلے بہت
چاند اور چہرے سب چھبیلے بہت
ایک جادو تھا: مر چلے ہم تو
ہونٹ تھے موت کے رسیلے بہت
پاؤں میں یادیں چبھتی رہتی ہیں
دشت اب کے ہوئے ریتیلے بہت
ارضِ امکان سنگلاخ ملی
وادیاں کم ہیں اور ٹیلے بہت
ہم نے اس کو چنا کہ جس کے لیے
ہیں نبرد آزما قبیلے بہت
میری عرضِ سخن پر اسلمؔ کیوں
لوگ ہوتے ہیں نیلے پہلے بہت
٭٭٭
ذات آشوب
ذات آشوب/ اول
’خموشیوں میں،
نطق کے فساد کی خبر ملی
طویل گفتگو میں نا مرادیاں لہو کی ہیں
یہاں ہر ایک شخص، ایک درد کا مریض ہے
کوئی چراغ سے نگاہ کی ضیا جلا چکا
کوئی چراغ سے بدن کی روشنی بجھا چکا
کوئی ہوائے دشت میں جنوں کا مرحلہ لیے
کوئی نسیم صبح سے نفس نفس ہوا لیے
مگر
زوالِ ذات کا پڑاؤ ہر زمین پر
زوالِ ذات بیشتر
زوالِ ذات عام رہ گزر
مجھے
ہر ایک آدمی ٹوٹتا، بکھرتا اپنے حُلیے سے ہی چیختا ہوا ملا
ہر ایک چشم نیند سے خموش ہے
ہر ایک سر، وبالِ دوش ہے
عجیب بات ہے۔ نجات کوش یاں کوئی نہیں
اس سے بڑھ کے وجہِ رنج و امتحاں کوئی نہیں
٭٭٭
ذات آشوب / دوئم
یہ شب عجب ہے
شب سیاہ سیاہ کاراں
شبِ فروغ گناہ گاراں
شبِ شبابان غم گساران
یہ شب عجب ہے کہ روح گویا ٹنگی ہوئی ہے
عجیب سی جنگ جسم و جاں میں چھڑی ہوئی ہے
ہوا میں ماتم کا شور ہے۔ رقص و رم کی دھُن پر
غریب ہونے کا سرخ محور
جمال کی زلف میں کمالِ جنوں گری کے تمام فتنے،
مگر تقدس کے صاف تقوے میں آستینی لہو کی بدبو،
دہ دانۂ سبحہ ہو کہ زیور پری کی گردن کا ہو
کہ پستک عظیم فن کار کی ہو،
…وہ سب لگے ہیں خرافات ہائے تشکیلِ اشک
جس شب…
… وہ شب عجب ہے:
یہ شب عجب ہے
کہ دور تک نور، نور عریاں مثالِ تمثالِ روزِ روشن
کہ ہر طرح شور و شر شرابہ کہ جیسے بازارِ گرمِ گیسو
یہاں وہاں گرچہ زندہ شب ہے
حیات بعد از ممات جیسے
جِنوں۔ پریتوں کا ساتھ جیسے
مِٹی ہوئی، دھول دھول ہوتی ہوئی یہ سب کائنات جیسے
یہ شب عجب ہے
جسے نفس جان جی رہے ہیں
لڑھکنے والے سیاہ پتھر پہ زلزلے کی فضا میں دم سادھ کر کھڑے ہیں
جہاں پہ ہو سامعہ پہ وارد
صدائے ہیہاتِ خوش کلاماں
جہاں پہ ہو باصرے پر وارد…
کراہتِ جبرِ گل عذاراں
یہ وقتِ حیراں
یہ وقتِ حیرانیِ عزیزاں
شبِ شبابانِ غم گساراں
٭٭٭
ذات آشوب / سوئم
سپید نخلِ شب ہوا…
تمام برگ زرد رو، …
میں کے دنوں سے
تیری ریشمیں عنبریں ہوا میں قید ہوں
تیرا جسم خاک کا بنا ہوا مگر جمیل
تیرا جسم جو زوال سمت، آج کس قدر جمیل
تیرے قوس، یہ نشیب، یہ فراز بیشتر جمیل
میرے فلسفے بلند
میرے حرف و لفظ و نظم، سارے مرحلے بلند
پھر بھی تیرے نور کو میں تشنہ چومتا ہوا
تیری ظلمتوں کو نور جاں تشنہ پوجتا ہوا
یوں تو کتنے عکس و رنگ
میری ایک روشنی میں ہیں
مگر عجیب شے ہے یہ ازل مزاج تشنگی
٭٭٭
ذات آشوب / چہارم
رات بھر گہرے لہو میں موت کی آواز سنتا
سنسناتی آندھیوں کے راز سنتا
شہِ رگ احساس کے نیلے سُریلے ساز سنتا
میں بہت مدہوش تھا
اپنی گھٹتی روشنی میں
چاندنی کی چاند چادر میں
ہری شاخیں پھنسی تھیں … کس طرح کیا ہو گیا تھا؟
کون تھا جس نے لیے تھے، وار وہ بھی پے بہ پے
تیز ہوتی جا رہی تھی ضرب کی لے
کیا ہماری ذات کی مٹی میں ہستی نقشِ پا کی طرح
بالکل بجھ گئی تھی؟
سوچتا ہوں: سوچتا کیوں ہوں؟
سلاسل دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور جو وسعت بچی ہے
اس میں سائے ہیں سلاسل کے بچھے
جائے ماندن ہے نہ اب تو پائے رفتن؟
اس لیے ویراں حویلی کی اُسی اُجڑی ہوئی بیٹھک میں
(جس میں اک صدی پہلے چمکتی رونقیں تھیں)، آج
اک ٹوٹی ہوئی قندیل تھامے۔ اک پرانی بنچ پر بیٹھا ہوا
رات بھر گہرے لہو میں موت کی آواز سنتا
کون تھا…؟
میں تو نہ تھا …!!
٭٭٭
منظروں کے درمیاں سے جھانکتا مانوس چہرہ
شعلہ کی صورت چمکتا یاد کا مانوس چہرہ
آج آئینہ میں دیکھا۔ گرچہ کچھ خواہش نہ تھی
گھورتا اپنی طرف اک ناروا مانوس چہرہ
جو شناسا تھے وہ ہر صورت لگے کچھ اجنبی سے
اور ان کے بیچ واقف ایک نا مانوس چہرہ
ہم کو تو فرصت نہ تھی آنکھیں بچا کر مڑ گئے بس
راہ میں زخمی پڑا تھا چیختا مانوس چہرہ
پھر چمک اٹھے وہی تارے، وہی خاموش چاند
پھر سلگ اٹھا وہی بے انتہا مانوس چہرہ
کیوں دھوئیں کی طرح اسلمؔ اس فضا میں آج اکثر
ہم نے دیکھا ہے بکھرتا یار کا مانوس چہرہ
٭٭٭
جبینِ جاں پہ جنوں کا نشان روشن ہے
چمکتا چاند ہے اور آسمان روشن ہے
تمھارے بعد تمھارے خیال کی خوشبو
کچھ ایسی بکھری کہ سارا مکان روشن ہے
وہ ایک شعلۂ جوالۂ جنوں ایسے
بھڑک اٹھا ہے کہ غم کا جہان روشن ہے
کبھی جو چونکے خمارِ سفر سے تب دیکھا
نفس کی آگ سے یہ دشتِ جان روشن ہے
ہوا تو راضی۔ مگر ہم نے یہ کیا محسوس
نگاہِ فتنہ میں پھر بھی گمان روشن ہے
ہمارے نام پہ اب جم چکی ہے گرد اسلمؔ
اور اس پہ ایک نیا ہی نشان روشن ہے
٭٭٭
اندھیری شب میں مطالعہ
کتاب شاید کھُلی ہوئی ہے
ورق ورق پھڑپھڑا رہے ہیں کہ آج پڑھنی
ہیں داستانیں …
ہیں آج اک ایک رمز کھلنے
علامتیں، استعارے، تشبیہیں انگلیوں سے ٹٹولنے ہیں
چراغ روشن کروں تو کیسے؟
صداقتِ عالم زمانی: سیاہ تاریک سرد کمرہ!
کتاب شاید کھلی ہوئی ہے
حروف میں فاسفورسی روشنی ہے گویا!
نگاہ چادر کو چیرتی ہے کہ۔ ذہن میں خلفشار کیوں ہے؟
مطالعے کا یہ شوق
مت پوچھ۔ مجھ کو لیل و نہار کیوں ہے؟
فراریت تیرا تجزیہ ہے …!
مجھے یہ ذوقِ فرار کیوں ہے؟
میں تجھ کو بھی اک کتاب سمجھوں
ہر ایک پہلو کو باب سمجھوں
تو مجھ کو
مسحور خواب سمجھے
خراب سمجھے
گھنا اندھیرا، نگاہ چلتی ہے ڈگمگاتی،
ہوا…
بہت دور…
پتیوں کے بدن بجاتی
اُٹھی ہوئی ساتویں دریچہ کی سبز چق ہے
کتاب شاید کھلی ہوئی ہے!!
٭٭٭
احساسات/ فرصت کے
روشنی کے درمیاں داخل ہوا کالا سا گوشہ
جس طرح آواز کی اک لہر میں پیدا ہوا بد رنگ شوشہ
فکر میں کَے دن رہے گا خواب
اک لمحہ اُٹھے گا جاگ کا
وہ لمحہ شاید آ گیا ہو۔ (کیا خبر؟)
کیا خبر…
وہ اک پرانا در کہ جس کا رنگ بھی مٹنے لگا تھا
اس پہ جھک آئے گی کوئی سبز بیل
خوف روشن ہے کہ شاید گھر میں کوئی آب ہو…!
ڈھل چکی عمرِ رواں کی دھوپ
اب
سایہ سا کوئی رینگتا ہے جیسے مٹتی دھوپ میں
ایک انجانی شکن پڑنے لگی ماتھے کے سادہ روپ میں
اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ
اک مرمر کی ابیض سِل پہ گویا بڑھ رہا ہے
اک سیہ دھبّہ
کسی منحوس سائے کی طرح
٭٭٭
ایک شعر
کہاں پہ گم ہوا؟ ہر سمت اس کو کھوجتے ہیں
وہ ایک شعلۂ وحشت: مراد دماغ جو تھا!
٭٭٭
سوال میں گم
وجود کیا صرف خار و خس ہے؟
کہ میری ہستی کی حیثیت کیا…
ذلیل خاکستری نفس ہے؟
سحر سے تا نصف شب گزرنا ہے دربہ در
معرفت کی خاطر…؟
کہ زیست امکان پیش و پس ہے!
کہ جیسے فانوس: جس کو حاجت ہو نور غم کی
کہ جیسے آواز: جس کو حاجت ہو حرف ودم کی
کہ جیسے اک رہ گزر کہ محتاج پیچ و خم کی
مگر مرے سوچنے کا خط اس سے مختلف ہے!
کہ میں
ابھی بے سبب میں خوش ہوں
کہ بے سبب میں
…جہات اکثر
کہ بے سبب
…کائنات اکثر
کہ بے سبب میں
ثبات اکثر
لہو تماشہ گہِ خرد میں
نمود کا آب بے سبب ہے!
٭٭٭
ایک شعر
میرے خورشیدِ تمازت کی خبر عام ہوئی
بر سرِ عام یہ کم پیرہنی خوب نہیں
٭٭٭
وہ ایک سفر
بجلی سے بھرا ہوا
جیسے کوئی سمندر ہو
جس میں
ہم سب غرق رہے ہوں
نازک لہروں کو سہتے
وحشی موجوں میں بہتے …!!
٭٭٭
ہاں جھانک کے دیکھو کہ کوئی آ نہ گیا ہو
خلوت کا پتہ اور کوئی پا نہ گیا ہو
ویسے بھی مجھے شک تو نہیں ذوقِ عدد پر
چہ جائیکہ مجھ رہ پر وہ دیوانہ گیا ہو
کس طرح فضا بدلی، ہوا سرخ، زمیں زرد
اس سمت سے اے دوست اشارہ نہ گیا ہو
وہ راز جو سر بستہ ازل سے ہے سرِ بزم
وہ راز کہیں سب کو بتایا نہ گیا ہو
جن راہوں میں تھے نصب تھے نشاں میرے سفر کے
ان راہوں میں ہیجان بچھایا نہ گیا ہو
دروازہ کی آواز تھی، پھر ہلکی سی اک چاپ
کمرہ میں کوئی چپکے سے آج آ نہ گیا ہو
ہر حال میں آ پہنچے گا وہ بزمِ سخن میں
اشعار کا اسلمؔ جسے سودا نہ گیا ہو
٭٭٭
جھانکتا ہوں لَوٹ کر، گھر میں جہاں کوئی نہیں
بس درو دیوار ہیں، مانوس یاں کوئی نہیں
کس تمنا پر سفر کی ٹھان لی تھی کیا کہیں؟
منزلیں بے سود، گھر کا بھی نشاں کوئی نہیں
خوب آزادی ملی، اپنی زباں سے بھی گئے
اب تو اپنے شہر میں بھی ہم زباں کوئی نہیں
گرچہ ہیں آلاتِ دید و نشر بہلاتے بہت
مضطرب ہے روح جس کا، حل یہاں کوئی نہیں
کھڑکیاں تنقید کرتی ہیں، در و دیوار طنز
غور سے دیکھیں تو اسلمؔ بے زباں کوئی نہیںٍٍ٭٭٭
وہی سوال کرنے کی عادت
وہ جو سایوں جیسے زندہ جسم کھڑے ہیں
ہم تم ہیں …!
اور ان کے اطراف سنہرا فریم لگا ہے
(عقائد کا …!)
اور
پس منظر میں
خاکی کاغذ جیسا اک ماحول
اور
اس کے نیچے دونوں کے نام کسی نے لکھ رکھے ہیں …
اور ان کے نیچے تاریخ لکھی ہے عہدِ حاضر کی
لیکن یہ بھی غور کرو
ان ہونٹوں پر بکھرا تبسم
ان آنکھوں میں خوش امیدی
اور
یہ سجے سجائے لباس
اور یہ چمکتا فنی کاغذ
کیا اس لمحے کی دین ہیں
جس کا مقصد
اشتہار کے جیسا تو نہیں تھا…
یعنی کیا …؟
٭٭٭
گل مہر کی طرح ہنس مکھ، جاگتا، کھِلتا ہوا!
یاد ہے وہ ایک چہرہ۔ دھوپ سا چھایا ہوا
یک بیک آنا، چمکنا۔ اور پھر بے ساختہ
کھلکھلا اٹھنا کہ دریا جیسے لہراتا ہوا
آنکھ رب کی دین ہے، سجدہ اسے سو سو طرح
تجھ کو جب دیکھا تو اس کا اور اندازہ ہوا
ایک حدّت دم بہ دم، سانسوں میں لہراتی ہوئی
ایک شیشہ اور وہ بھی بار ہا چٹخا ہوا
٭٭٭
ان جاگتی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے
دل بھی مرا ایسا ہے کہ بے تاب نہیں ہے
ساحل پہ نشستہ ہیں کہ امواج کو بھانپیں
دریا کی خبر کس کو کہ پایاب نہیں ہے
ہم جس کے تلے گیان کریں صبر و سکوں کا
اس معبدِ الفت میں وہ محراب نہیں ہے
اسلمؔ کوئی کیا سمجھے کسی اور کی حالت
ویسے بھی ہمیں شکوہِ احباب نہیں ہے
٭٭٭
وہ ایک قطرۂ خوں جو صد اسے ٹپکا ہے
وہ چند روز میں احساس سے بھی ٹپکے گا
۔۔ ۔۔ ۔
تمام لوگ یونہی منتظر کھڑے تھے مگر
یہ جانتے ہوئے۔ وہ قافلہ نہ پلٹے گا
٭٭٭
وہ سارے بند وہ سارے حصار جھوٹے تھے
ہماری گوشہ نشینی کے سب بہانے تھے
عجیب فصل تھی، ہر سمت تھی بہارِ خزاں
کہ پہلے دن سے ہی پودوں کے پتے پیلے تھے
کسی کے واسطے اک نغمۂ سرور تھا وہ
کہ جس کے شور سے کچھ لوگ سہمے سہمے تھے
جو دن میں رہتے تھے پوشیدہ اور نا دیدہ
وہی ستارے گھنی رات میں چمکتے تھے
جوان ہو کے اداروں میں ہو گئے مصروف
یہ بچے پہلے ہر اک بات پر مچلتے تھے
کہاں ملے دلِ بے کینہ، اصفیا جیسا
اسی لیے، مرے احباب میرے جیسے تھے
گزرنے والا تو سرعت سے پاس ہو کے گیا
ہم انتظار میں ہر گام یوں ہی ٹھہرے تھے
ہوا میں ہوش نہ تھا، روشنی میں شورش تھی
زمینِ دل پہ تلاطم کے جال پھیلے تھے
٭٭٭
شامِ اَنا
۱۹۸۷ء سے
وہاں ہر ایک اسی نشۂ انا میں ہے!
کہ خاکِ رہ گزر یار بھی ہوا میں ہے!
الف سے نام ترا، تیرے نام سے میں الف
الٰہی میرا ہر اک درد اس دعا میں ہے
وہی کسیلی سی لذت، و ہی سیاہ مزہ
جو حرفِ ہوش میں تھا، حرف ناروا میں ہے
وہ کوئی تھا جو ابھی اٹھ کے درمیاں سے گیا
حساب کیجئے تو ہر ایک اپنی جا میں ہے
نمی اتر گئی دھرتی میں تہہ بہ تہہ اسلمؔ
بہارِ اشک نئی رت کی ابتدا میں ہے ٭٭٭
شاعر
کھڑے ہوئے سنگ ابتلا پر
سوار اک اشہبِ ریا پر
کبھی تو ساکت
کبھی تو جاری
مگر
وہی ہم پہ جرح کاری
جو سوچتے ہیں
…نہ کر سکے ہیں
ہواؤں کے جال میں پھنسے ہیں
٭٭٭
سچ نہ ہم بولتے تو خوش رہتے
وقت کو تولتے تو خوش رہتے
زمزمہ خواں و خوش نوا تھے مگر
پَر نہ ہم کھولتے تو خوش رہتے
اپنے خوں میں، جہانِ وحشی میں
شہد کم گھولتے تو خوش رہتے
موتیوں کی طرح سے اشکوں کو
روز و شب رولتے تو خوش رہتے
ان رقیبوں کے سامراج کے بیچ
کچھ نہ گر بولتے تو خوش رہتے
ایک ٹوٹی سی ناؤ کی صورت
بحر میں ڈوبتے تو خوش رہتے
دل تو یوں بھی کہیں پہ کھونا تھا
بھاؤ گر مولتے تو خوش رہتے
چپ ہی دیکھا کیے، اگر اسلمؔ
ایک پل بولتے تو خوش رہتے
٭٭٭
اندھیروں سے ہم تنگ آئے بہت
کہ ہیں ان میں پوشیدہ سائے بہت
ہواؤں میں ویسے بھی موسم نہ تھا
درختوں نے پتے ہلائے بہت
تری زلف میں سانپ پوشیدہ ہیں
ہمیں واہمے سرسرائے بہت
جوابات کے مورچہ پر تھا وہ
سوالات ہم نے اُٹھائے بہت
سُنا ہے کسی اجنبی شہر میں
شریفوں نے بھی گل کھلائے بہت
جو اسلمؔ ہمارے مقابل رہے
وہ دشمن ہمیں یاد آئے بہت
٭٭٭
’’ اب کیا ہو گا…‘‘
اب کیا ہو گا…؟
اب تو جلن سے جان نکل جائے گی…!
اب کیا ہو گا …؟
عدو کے تن سے جان نکل جائے گی…!
کئی دنوں کی تاریکی کا راج ٹوٹ کر خاک ہوا
اور منافق ہمراہوں کا پردہ آخر چاک ہوا
پھر قسمت نے کروٹ بدلی، نیا نویلا سورج ہے
دھوپ کی شدّت ختم ہوئی یعنی البیلا سورج ہے
اب کیا ہو گا…!
٭٭٭
قاتلِ شہر کے لیے
نیزوں پہ لہو کہاں نہیں ہے …؟
اب خیرِ ضمیر و جاں نہیں ہے
تو قتل کے فن میں ہو سرفراز…؟
جینا تو ہمیں گراں نہیں ہے
٭٭٭
بڑے سجے ہوئے سنورے ہوئے جمال کے ساتھ
وہ کھُل کے سامنے آیا تو ہر محال کے ساتھ
کبھی جو بات پراگندگی دہر کی ہو
تو میرا ذکر بھی کرنا کسی مثال کے ساتھ
ہر ایک راہ پہ کچھ جانے بوجھے سنگ ملے
ہر ایک راہ پہ چلتا ہوں احتمال کے ساتھ
نئی سیاہ لباسی، نئی عزا داری
نیا ہے یومِ شہادت ہر ایک سال کے ساتھ
یہ اپنا شہر ہے، یہ اپنے لوگ ہیں اسلمؔ
ہر ایک شکل کو رشتہ مرے زوال کے ساتھ ٭٭٭
کوئی اشارہ کوئی استعارہ کیوں کر ہو
اب آسمانِ سخن پر ستارہ کیوں کر ہو
اب اس کے رنگ میں ہے بیشتر تغافل سا
اب اس سے طور شناسی کا چارہ کیوں کر ہو
وہ سچ سے خوش نہ اگر ہو تو جھوٹ بولیں گے
کہ وہ جو روٹھے تو اپنا گزارہ کیوں کر ہو
انھیں یہ فکر کہ دل کو کہاں چھپا رکھیں
ہمیں یہ شوق کہ دل کا خسارہ کیوں کر ہو
ہر ایک عرف ہے دو رخ، ہر ایک صورت دو رنگ
تو ایسے نقش کا آخر نظارہ کیوں کر ہو
عروج کیسے ہو ذوقِ جنوں کو اب اسلمؔ
سکوں کا آئینہ اب پارہ پارہ کیوں کر ہو
٭٭٭
ہیں مانسون کے بادل اٹے غبار میں اب
کھلے ہیں خاک کے گل موسم بہار میں اب
نئی ادائیں، نئے زاویے، نئے تیور
تمام ندرتیں تجھ سی ہیں اشتہار میں اب
کوئی غزل، کوئی نعرہ، کوئی صدا اسلمؔ
سکوت مرگ لگے ہے ہمیں قرار میں اب
٭٭٭
جانے کیسے ہم میں جینے کی ہوس پیدا ہوئی؟
وہ اندھیری شب جو کل تک ساتھ تھی وہ کیا ہوئی
کیوں کتابوں میں چھُپے بیٹھے ہو ہم سے بھی ملو
ہم ہیں وہ جن سے محبت کی زباں تازہ ہوئی
وہ جو بے معنی سی اک آوا زِ حیرت کھلا ٹھی
تیرے لب کے لمس سے اب فن کا سرمایہ ہوئی
دفتری اعزاز، تعلیمی سند تانے ہوئے
شامیوں کی فوج، اہلِ فن سے رزم آرا ہوئی
تو حسیں ہے، یہ صفت ہر رنگ سے ہے بیشتر
جس طرح عرضِ غزل اسلمؔ سے شائستہ ہوئی
٭٭٭
آلودگی
سیہ لباس، اُجالا بدن، دکھی آنکھیں
عجب تھی اس گلِ رعنا کی سوگواری بھی
کشش بھی اس کی جدا اور بے قراری بھی
کئی برس ہوئے … بچھڑے
کچھ ایسے پھر نہ ملے
مگر وہ لمحۂ دیدار جو ہو نہ سکا…!
خود اپنے آپ کو دیتے ہیں
اس کے بعد سزا…!
کہ ہیں زمانہ کی عیاریوں کے بیچ میں مست
کہ ہیں حواس کی بد شکلیوں میں مست
پڑی ہے جب سے مرے منظر جمال پہ خاک…!
مری بلا سے مرے روز و ماہ و سال پہ خاک
٭٭٭
وہ موسم درد کیا تھا، سوچو
اور اس میں کیا مزہ تھا، سوچو
تمھیں نے مارِ انا کو پالا
کسی نے تم سے کہا تھا، سوچو
ہمارے شہروں میں زندگی تھی
ادب میں جب حوصلہ تھا، سوچو
تمہی کو دامن کشی پہ ضد تھی
میں اس قدر کیا برا تھا، سوچو
ہوا جہاں بن گئی تھی خوشبو
وہ کون سا راستہ تھا، سوچو
یہ چاند جب تک حسین سا تھا
غزل کا کیوں قافیہ تھا، سوچو
اگرچہ خود راہرووں سے ڈر کر
یہ راہبر چھپ رہا تھا، سوچو
وہ کون تھا، کل شبِ سیہ میں
سوال چمکا گیا تھا…؟ سوچو
تم ایک دن کی ہوا سے حیراں
ہمیں بھی کیا حوصلہ تھا، سوچو
کتابِ دل جس پر ختم کر دی
وہ کون سا تذکرہ تھا، سوچو
زمینیں ہم وار ہو رہی تھیں
کب ایسے دریا بچھا تھا، سوچو
تم اسلم آگے نکل چکے ہوا
تمھارا گھر کس جگہ تھا، سوچو
٭٭٭
کار جہاں
کچھ بھی نہیں اب زیست کا مطلب
کتوں کی خاطر جیتا ہوں!
سلیمان اریب
وہ کیسی بھول تھی
جو گھر کا دروازہ کھلا ہی
رہ گیا ہے
اور اس میں سے در آیا سیہ کتا
بہت آواز دی، چیخا کیے
لیکن وہ گھر میں آ رہا…
مسکراتا، بے حسی سے بات کرتا
رائے دیتا اور عنایت بانٹتا
وفا کے جال ڈالے
اور ہم سب اس کے عادی ہو گئے
بچوں سے وہ مانوس تر
اور اہلِ خانہ کو پسندیدہ
کبھی ہم اپنے گھر جب
لوٹتے ہیں …!
گھر کے رہنے والے سہمے سے نظر آتے ہیں
ان کو خوف ہے اس بھیانک
شے کو گھر سے دور کر دوں گا…
مرا گھر… اس کا گھر ہے
اور
میں ممنون ہوں اس کا
کہ سگ کے ہم نواؤں میں اکیلا آدمی میں ہی بچا ہوں …!
٭٭٭
آئے تو جنوں خیز کو الجھائے ہی رکھنا
قصوں میں حکایات میں بہلائے ہی رکھنا
دکھلانا اسے شہرِ تمنا کے عجائب
اک جال طلسمات کا پھیلائے ہی رکھنا
نغمات کے، تصویروں کے، فیشن کے مجلات
کرنا اسے پیش اور یوں ہی ٹھہرائے ہی رکھنا
میرٹھ ہو، بھیونڈی ہو کہ دلی ہو کہ پنجاب
سب بھول کے دل خوابوں سے بہلائے ہی رکھنا
شعر و سخن و فلسفہ کے پاس نہ آنا
معصوم کو تنقید سے کترائے ہی رکھنا
آزاد ہوا میں غمِ دنیا کو بھلا کر
اسلمؔ سخنِ عشق کو اکسائے ہی رکھنا
٭٭٭
زمین کا قرض
عجب زمیں ہے
عجب آب و گل نہاں اس میں
کہ اس کے
دامنِ زرخیز میں
یوں ہی اکثر
طرح طرح کے شہیدوں
کی
فصل اُگتی ہے
ہر اک قتیل ہے حق پر
شہید ہے
لیکن: مقاصد ان کے جدا،
بلکہ بیش تر ضد ہیں …!!
خلاف ہو کے بھی دونوں ہی
حق پہ ہیں اکثر
یہی لہو کے اجالے
نمو کے آب و نمک
سوال ہیں!
کہ شہیدوں کا کون
قاتل ہے …؟
قسم تمام شہیدوں کی
اور
زِندوں کی
وطن کی خاک میں
قرنوں سے ناگ
ٹھیرے ہیں
کہ
جن کا زہر
سرایت ہے
سب کے جسموں میں …
٭٭٭
لاحاصل
تم، جو
بے جا روشنیوں میں
کوئی آسرا ڈھونڈتے ہو…!
تو اس کا
یقیں ہوتا ہے …!
کہ باقی دوسری روشنیوں نے
چُپ سادھ لی
ہے …
بڑا عجیب موسم ہے
جب دست گیر مسیحا
منہ لپیٹ کر
درمیان سے
نکل جاتے ہیں …!
٭٭٭
والد مرحوم کی یاد میں
میرا ہاتھ پکڑ کر وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے تھے
آنکھیں معنی کے رنگ بدلتی
روشنی چڑھتی اور اترتی
لیکن تین دنوں میں، ٹوٹ گیا ہستی کا رشتہ
میں اب تک حیراں
سوچ رہا ہوں
کہنا سننا، لفظوں کے وہ سارے مطالب
ان کے ساتھ ہی
ختم ہو گئے
میں پھر تنہا، بے سایہ، ایک بھٹکتا سا بچہ
٭٭٭
تمام کھیل تماشوں کے درمیان وہی
وہ میرا دشمنِ جاں یعنی مہربان وہی
ہزار راستے بد لے، ہزار سوانگ رَچے
مگر ہے رقص میں سر پر اک آسمان وہی
سبھی کو اس کی اذیت کا ہے یقین مگر
ہمارے شہر میں ہے رسمِ امتحان وہی
تمھارے درد سے جاگے تو ان کی قدر کھُلی
وگرنہ پہلے بھی اپنے تھے جسم و جان وہی
وہی حروف، و ہی اپنے بے اثر فقرے
وہی بجھے ہوئے موضوع اور بیان وہی
٭٭٭
ورنہ
ورنہ یہ حرف ہواؤں میں الجھ جائیں گے
وہ معانی جو گُل آوازوں سے جاگ اٹھتے ہیں
انھیں آوازوں میں آ جائے گی موسم کی خلش
ویسے آباد ہوئے ہم بھی کچھ ایسے گھر میں
جس میں انسان جراثیم نظر آتے ہیں
اپنے ہم راہ کو اپنے ہی مرض دیتے ہیں
دائرے بند ہیں ان سب کی اڑانوں کے مگر
سب ہی اک نشہ میں
جینے کا لہو کھیلتے ہیں
اور
اس دوڑ میں آہنگ نہیں مل سکتا
ہم قدم آج ہوئے قرنوں کے گزران پہ تم
ہو سکے تو مری باتوں کو سمجھ لو سن کر
٭٭٭
وہ شبِ غم جو کم اندھیری تھی
وہ بھی میری انا کی سُبکی تھی
غم مری زندگی میں ٹوٹ گرا
ورنہ یہ شور دار ندی تھی
دن بھی شب رنگ بن گئے اپنے
پہلے سورج سے آنکھ ملتی تھی
کیا مقالاتِ عاشقی پڑھتے
بزم میں ہم نے آہ کھینچی تھی
جل رہے تھے ہرے بھرے جنگل
ایسی بے وقت آگ پھیلی تھی
میں کھڑا تھا اُکھڑتے پتھر پر
وہ اسی طرح شانت لگتی تھی
اس لیے بے کراں میں جا پہنچے
دور تک رہ گزر اندھیری تھی
اس لیے شہر میں رہے بے تاب
تابکاری ہوا میں پھیلی تھی
چند روز اور منتظر رہتے
ویسے مل کر بھی جان دینی تھی
شبِ رنج و محن کا ذکر نہ کر
اس کی ہر اک گھڑی نشیلی تھی
ہم بھی اسلمؔ اسی گمان میں ہیں
ہم نے بھی کوئی زندگی جی تھی
٭٭٭
حادثے
اب تو یوں بھی نہیں ممکن کہ
گذر گاہوں میں
لوگ ٹوٹے ہوئے قدموں سے
لڑھکتے جائیں
تیز رو چلتے ہوئے سخت مشینی پہیئے
روند سکتے ہیں انھیں
اور
وہ سب
خواب و خیال
جو اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں، کچلے جا سکتے ہیں
زندگی ایسی خطرناک نہیں تھی پہلے!
٭٭٭
نا ممکنات کے سلسلہ میں ایک در خواست
تازہ کرنا نئے ستاروں کو
کہکشاں کو بھی جھلملا دینا
اور اگر شب ہوا میں ڈوب گرے
کنکوے کی طرح اڑا دینا
آگ لگ جائے گر درختوں میں
روشنی سے اسے بجھا دینا
کوئی ندی کہیں ٹھہر جائے
راہ کو کھول راستہ دینا
زرد رو سوکھتے ہوئے پتے
چشم و لب کی طرح سجا دینا
آخری حرف کو کرن کرنا
بند کمرے کو کچھ ہوا دینا
اور ان مرحلوں سے ہو کے اگر
میں اچانک کہیں جو مل جاؤں
دیکھنا اور مسکرا دینا
دکھ میں جینے کا حوصلہ دینا!
٭٭٭
خطا پہ ٹوکتے لیکن دعائیں بھی دیتے
رہے شفیق عدو ہم کو زندگی دیتے
جَلا دیا ہے تو اے دشمنو یہ بہتر تھا
کہ میری روح کو ہم ظرف شعلگی دیتے
ہوا کی چیختے منظر سے گفتگو کیسی!
کوئی جواب تو سوکھے درخت بھی دیتے
سبھی نشان یہاں واہموں کی صورت ہیں
خیال زیست کو تشکیک نیستی دیتے
ملے جو مقتدروں سے تو دل دُکھا اسلمؔ
خبیث چہرے بھلا کب کسے خوشی دیتے
٭٭٭
کوئی اب شہر کو کھُل کر نہ دیکھے
نظر ڈالے مگر منظر نہ دیکھے
ہماری بے نیازی کام آئی
اشارے غیر کے اکثر نہ دیکھے
فضا کی نرم جسمی سے رہے مست
ہوا کے ہاتھ میں خنجر نہ دیکھے
٭٭٭
دکھا رہا ہے مجھے وہ نئے سہانے خواب
وہی عدو جو انھیں پائمال کرتا ہے
٭
درندگی سے زمانہ نگل گیا ہم کو
عجب کہ اپنی ذہانت پہ ناز تھا ہم کو
تو اپنی خاص کلیدی زباں کے راز بتا
کہ تجھ سے کہنے کو ہے ایک واقعہ ہم کو
٭٭٭
سرحدیں
بے جا، بد رنگ، طویل
فصیل کے سامنے
کھڑا ہوا
چاک کے ٹکڑے
سے دروازوں کے
نشان بناتا
ہُوا
میں …
جیسے پومپی آئی، میں
لاوے کے سیلاب
میں پھنسا ہوا
ایک عام
خوش خواب شخص
کسی ندا کے
انتظار میں (جو
دوسری اور سے
وا شگاف ہو)
کسی انجانے
نو وارد کی
خبر لانے
والے ناقوس کی
آہٹیں لیتا ہوا
فصیل کی بد وضع
دیوار کو
سونگھتا، ہلاتا
اور
ڈھکیلتا۔۔ ۔
میں
شاید معمولی ماحول میں: سنکی یا پاگل لگوں
لیکن ہو سکتا ہے: کوئی میری الجھن سمجھ سکے
شاید
میری یہ، اعصابی گتھی
اب کے
سلجھ سکے …!
٭٭٭
سکوتِ عام وہی بے حسی تمام وہی
ہمارے شہر میں رہنے لگی ہے شام وہی
درخت کٹ چکے، آبادیاں بساتے ہوئے
پرند کیا ہوئے ہم کو خیالِ خام وہی
بدل چکے ہیں معانی دروں کی رنگت سے
بظاہراً تو روا ہے ہمیں سلام وہی
نگاہیں منتظر و رہ گزارِ دل روشن
ہر ایک شام ہمیں شوق و اہتمام وہی
کریہہ چہرے، بھیانک ہوائیں مایوسی
جہاں پہ ہم ہیں وہاں سارے صبح و شام وہی
ہمارے لہجے میں اسلمؔ اشارتیں یوں ہی
زبانِ یار میں شیرینی کلام وہی
٭٭٭
میں جا رہا ہوں تری رہ گزر سے ویسے بھی
شکایتیں ہیں مجھے اس نگر سے ویسے بھی
ہیں پا شکستگی میں کنجِ عافیت کے مزے
کہ لوٹنا تھا مگر ہر سفر سے ویسے بھی
نہ جانے صور کی آواز کن ظروف میں ہے
دبک کے بیٹھے ہیں سب لوگ ڈر سے ویسے بھی
نہ خشت و سنگ، نہ بام و سقف قیاس میں ہیں
ہیں بے گمان سے ہم اپنے گھر سے ویسے بھی
نئی کہانی سنا جس میں کوئی نکتہ نہ ہو
بگڑ چکی ہے فضا خیر و شر سے ویسے بھی
سب استعارے تشابیہ بے سبب اسلمؔ
کہ لفظ روٹھ چکے ہیں اثر سے ویسے بھی
٭٭٭
شہادتوں کے درمیاں
شہادتوں کے درمیان ہم شہید ہو گئے
مگر کسی نے کچھ کہا نہیں
گواہ چپ رہے …!
ہماری داستاں وہی
انا پہ بار بار وار پے بہ پے چلا کئے
ہمارے گھر میں دشمنوں کی فوج دوڑتی رہی
تمام خیمے گرد گرد ہو گئے: علامتیں سیاہ رنگ بن گئیں
تمام شہر کو ہماری موت پر تو رنج تھا
مگر
عدو کے سامنے تو کوئی کچھ نہ کہہ سکا؟
ہر ایک شخص قتل کا گواہ تھا مگر
کوئی قاتلوں کا چہرہ آشنا نہ تھا
اور ہم
شہادتوں کے درمیاں شہید ہو گئے
٭٭٭
ایسے بکھروں کہ سنورنے کا بہانہ چاہوں
اس لیے مدِ مقابل ترے آنا چاہوں
نہ کسی جاگی ہوئی روح کو ہلکورے دوں
نہ کسی سوئے ہوئے دل کو جگانا چاہوں
نہ کوئی نام لکھوں ٹوٹتی دیوار پہ اب
نہ کسی نام کو بے وجہ مٹانا چاہوں
نہ کسی صبح سے خائف نہ کسی شام سے تنگ
روز و شب دونوں ہی یکرنگ بِتانا چاہوں
جس میں سب اپنی کراہت کا تماشہ کر لیں
شہر میں ایسا کوئی آئینہ خانہ چاہوں
وہ تراکیب و علل تیرے لیے سوچے ہیں
اک لغت مدح کی نادر سی بنانا چاہوں
شام کے وقت تمنا یہی کی ہے اسلمؔ
ہو سکے آج تو گھر لوٹ کے جانا چاہوں
٭٭٭
وحشتوں کی شناخت
غور سے دیکھو تو اِن
جلتی ہوئی آنکھوں کی وحشت اور ہے …
اور ہے …
وہ کرب جو اپنے لہو سے دوسرے کے جسم میں گھلنے لگے
اور ہے …
وہ زہر
جو جڑ سے تنے میں یوں سرایت کر سکے، جیسے کہ روح
اور ہے …
وہ بے حسی
جو اس گھنے مخلوط موسم میں بھی اطمینان سے
ہنستی رہے
غور سے دیکھو تو…
یہ تہذیب کی تعمیر
یہ سب جنگلوں کی بولیوں کی باز آبادی میں
کتنے سارے طوطی آج ہیں
منقار زیرِ پَر۔ چھپے
یا بظاہر، یہ نئی تہذیب جس کا کوئی ماضی ہے
تو اک گہری جہالت
…فکر و فن سب بے حقیقت
اور ان جلتی ہوئی آنکھوں کی وحشت اور ہے
٭٭٭
گیسو سے ترسے جو شام نکلے
چہرے سے مہِ تمام نکلے
دریوزہ گرانِ شہر امید
محتاج و غنی تمام نکلے
دیکھا جو تجھے تو چونک اُٹھے ہم
وہ سارے خیال خام نکلے
تھی اتنی لذیذ شامِ ہجراں
ہر دردِ سے چند جام نکلے
واعظ تجھے دیکھ کر ہو مفتی
اس رہ سے گزر حرام نکلے
تجھ پر تو مجلہ ادا کا
اک نمبر خاص۔ عام نکلے
مٹنا تو عظیم تر ہنر ہے!
اس فن میں ہمیں تمام نکلے
اسلمؔ یہ وہ شہر جستجو ہے
سیراب بھی تشنہ کام نکلے
٭٭٭
پھر پکارے نہ کوئی چاہ پرانی جیسی
اب تو وہ بات بھی لگتی ہے کہانی جیسی
تیرے کو چہ میں ہی تج دی ہے بھٹکتی ہوئی روح
چھوڑے جاتے ہیں، ہم اک چیز نشانی جیسی
روز اک خاص خبر سننے کی خاطر ہم نے
زندگی کاٹ دی افتادِ زمانی جیسی
دور تک ریت کا پھیلا ہوا افسانہ تھا
لیکن آواز تھی پر شور روانی جیسی
مطمئن سا تھا یہ ہر ظرف میں اسلمؔ یعنی
دل کی حالت بھی ہوئی جاتی تھی پانی جیسی
٭٭٭
خواب ساحل، خواب دریا
۱۹۸۹ء سے
نور آنگن میں قدم رکھنے کا لمحہ
اے سبک رو!
اے ندی کی طرح نامعلوم منبع سے
اترتی روشنی…!
اے ہوا کی طرح نا معلوم منزل تک
رواں
خوشیوں کی لہر…!
کس قدر دشوار ہے چھُو کر گزرنا، دیکھ کر
آنکھوں میں بھر لینا،
لہو میں برق
سوچ سے چھونا …!
ایک پل کے خفتہ حصہ کے لیے
زندگی کا رنگ
بے معنی سے پیکر: جسم
بے معنی سی مدت: عمر
دونوں میں چھلک آتا ہے
تیرے قہقہے کی دید سے …!
یعنی ساری زندگی اس مختصر لمحہ کے اوپر گرد ہے …!
یعنی وہ لمحہ…
وہ، نور آنگن میں قدم رکھنے کا لمحہ…
زیست کا پہلا نفس ہے
اور
ساری زیست اس لمحہ کا سایہ
٭٭٭
تجدید وفا
کہہ دینا:
وہ حرف کہ جس کا کہ دینا دشوار لگے
سن لینا:
وہ بول کہ جس کا سن لینا آزار لگے
ہنس پڑتا:
اس بات پہ جس سے اپنی انا پر وار لگے
آنکھیں پھیر کے چل دینا:
اس وقت کا منظر خوار لگے
تو نے ہم سے ان شرطوں پر ہی پیمان کیے
سب کوچے تیرے ٹھیرے، دستور ترے رائج دیکھے
اپنے نام، شناخت، اشارے: سب کچھ ہم نے خاک کیے:
کمر شکستہ
کاسہ خالی
اب تجھ کو یہ شکوہ ہے:
ہم سانس کہاں سے لاتے ہیں
سوچتے ہیں تو سوچتے کیوں ہیں؟ ہوش کہاں سے پاتے ہیں؟
اب تو جان پہ آ پہنچی ہے:
اب شاید کچھ کرنا ہو…!
٭٭٭
ہمارے شہر کے رستے عجیب تھے کہ جہاں
گماں ہر ایک پہ ہوتا تھا بس کھلونے کا
٭
یہ ماہ و سال اسی الجھن اسی خلش میں گئے
کسی کو چاہا، کسی اور کی روش میں گئے
مروّتوں نے مری روح ایسے پگھلا دی
تمام حوصلے، جذبوں کی چپقلش میں گئے
جو شام آئی تو یک سر ہمیں ہوا محسوس
طلب کے دن تو یونہی دھوپ کی تپش میں گئے
٭٭٭
قبولیت کی گھڑی ہے دعا تو کرنے دے
ترا وصال ہے بے انتہا تو کرنے دے
نئی زبان نئی اصطلاح میں ہم کو
جو دل میں ہیں، وہ مطالب ادا تو کرنے دے
خفا ہوا: تو منانے میں لطف بھی ہو گا
اے میرے دل، یہ حسیں تجربہ تو کرنے دے
کیا ہے خشک فقیہوں نے شہرِ دل برباد
یہ روک لیتے، ورنہ خدا تو کرنے دے
ہم اپنے شہر سے نکلے تو پھر قیام کہاں؟
سفر، سفر ہے اسے راستہ تو کرنے دے
کھلیں گے اور بھی اربابِ معتبر اسلمؔ
فضا میں رنگ ہوس کچھ بپا تو کرنے دے
٭٭٭
پتھر اس کے پیکر جیسا ہو جائے تو بہتر ہے
منظر اس پتھر کے پیچھے کھو جائے تو بہتر ہے
سورج چلتے چلتے جانے کس منزل پر آ نکلا
کسی شجر کے سائے میں اب سو جائے تو بہتر ہے
ٹوٹتی کشتی جب تک ہو گی آبِر واں کو چین کہاں
اب کوئی طوفان اسے ہی ڈبو جائے تو بہتر ہے
آہستہ آہستہ ہوا نے ایک شجر کا دھارا، روپ
اسی طرح آندھی اک جنگل بو جائے تو بہتر ہے
جاگ کے اس نے شبِ سیہ میں کیسی بپا رکھی ہے جاگ
کوئی حل ڈھونڈو یہ اسلمؔ سو جائے تو بہتر ہے
٭٭٭
نئے لوگ
پروں کو کھولے، اِرادوں کو آسماں کیے
پرندے خوف زدہ ہیں مگر جیالے ہیں
فرشتے وادیِ جاں پر اُترنے والے ہیں
٭٭٭
عیاں تعلقِ خاطر ذرا سا کر دینا
جُنوں پسند نہ آئے اشارہ کر دینا
ہمیں بھی بخشنا اک لمحہ خوش خیالی کا
تم اپنی شہد لبی کا اعادہ کر دینا
ہمیں سے وعدۂ فردا کا عذر کیوں صاحب
جو ہو تو غیر سے بھی اک بہانہ کر دینا
ہوا سے کہنا ذرا اب ٹھہر ٹہر کے چلے
خزاں رسیدہ شجر ایستادہ کر دینا
وہ آئینہ جو سرِ رہگذر چمکتا ہے
بڑا شقی ہے، عزیزو، شکستہ کر دینا
وہ اب کے آئے تو اسلمؔ کسی طرح اس کو
ضرور واقفِ سحرِ تماشہ کر دینا
٭٭٭
نذر کویت
[صدام حسین کے کویت پر غاصبانہ قبضے کے بعد کویت واپسی پر تاثرات]
گزر گئی شبِ غم دِن مگر نہیں آیا!
دھواں بھی اتنا کہ سورج نظر نہیں آیا
تمام قافلہ وحشت زدہ ہجومِ رواں
یہ وہ سفر کہ کوئی ہم سفر نہیں آیا
نُچے، نُچے سے بسیرے ہیں منتظر کب سے
کوئی پرندہ ابھی لَوٹ کر نہیں آیا
کئی شہیدوں کے سر ہو چکے ہیں نذرِ ستم
مگر یزید کا نیزہ پہ سر نہیں آیا
ہوا میں زہر سرایت ہے لوگ کہتے ہیں
ہمیں یقین مگر بیشتر نہیں آیا
ہوا اندھیروں میں ڈوبی ہے اور افق سے ابھی
کوئی بھی جھونکا اجالے سے تر نہیں آیا
سنا ہے خوشیوں میں کچھ درد کے بھی وقفے میں
کوئی بھی وقفہ مگر مختصر نہیں آیا
یہ شہر و دشت اسی اک سوال سے فق ہیں
ہلال لوٹ کے کیوں رات بھر نہیں آیا۔ ؟
بہت سے دوستوں کو ہم سے پیار تھا اسلمؔ
ہمارے ساتھ کوئی بھی مگر نہیں آیا
٭٭٭
سازش ہے اہل فتنہ کی اسلم تمام تر
نا پید ہو بہار کا موسم تمام تر
اب تو ہمارے ملنے میں حائل ہماری راہ
اوقات الگ ہیں فرصتیں بھی کم تمام تر
گزرا ہے کون دیدہِ گریاں لیے ہوئے؟
دامن ہوائے دشت کا ہے نم تمام تر
خوشبو کا ذکر ہو، تو وہ گُل ہے کمالِ عطر
اور روشنی میں نورِ مجسم تمام تر
تو دیکھتا رہے یوں ہی دل چسپ نشریات
اور تیرے محوِ دید رہیں ہم تمام تر
اک چہرہ، جو کہ مطلعِ اظہار سا لگے
گر سوچیے تو پر تو مبہم تمام تر
٭٭٭
فرنیچر
کاغذوں کے درمیاں دو تیز آنکھیں گر پڑیں
بال بکھر سے، فائلوں سے ایک اک ٹیڑھی سطر ماتھے پہ ہو سکے منطبق
اک پرانے زرد خادم کی طرح: از کار رفتہ منہمک پر شور پنکھا
اور بے ہنگم صداؤں کا پلندہ
اور نگراں آفتاب
کس قدر مسرور ہے، اک عبقری غارت ہوا،
اک لڑکپن سے جوانی تک چمکتا انقلابی
جال میں پھنس کر، پھڑک کر دفتری آلہ بنا
جیسے کرسی یا تپائی یا دراز…!
٭٭٭
دسمبر۱۹۹۲ء : ہونٹوں کا مرثیہ
[بابری مسجد کی شہادت کے تناظر میں]
ہوا کو حال سنایا، ہوا نے کچھ نہ کہا!
یہ سایہ ساتھ رہا، بے وفا نے کچھ نہ کہا
وہ سارے گھر، در و دیوار، خاک و خون ہوئے
کسی عزیز نے درد آشنا نے کچھ نہ کہا
زبانیں گنگ تھیں، اہلِ زباں پر سکتہ تھا
فساد وہ تھا کہ اہلِ نوا نے کچھ نہ کہا
وہ رَن پڑا تھا کہ سب کے قدم اکھڑ سے گئے
تمام فق تھے: خود اہلِ ذکا نے کچھ نہ کہا
جو کہنے والے تھے اسلم ؔحواس باختہ تھے
زمیں بھی مر سی گئی تھی، فضا نے کچھ نہ کہا
٭٭٭
منظر پسِ منظر سے خائف لگتا ہے
شہر میں ہر اک گھر سے خائف لگتا ہے
ویرانوں اور دشت و جبل کا راہ نورد
آبادی کے سفر سے خائف لگتا ہے
شاخ سے گل بے زار، گلوں سے بُو ناراض
موسم اس تیور سے خائف لگتا ہے
شر تو شرر بن کر ہر سمت ہے آتش زن
خیر کا حال کہ شر سے خائف لگتا ہے
وہ جو بلند آواز میں نعرے مار گیا
وہ اپنے اندر سے خائف لگتا ہے
اس پر کسی رفیق کا نام نہ لکھا ہو
اسلمؔ ہر پتھر سے خائف لگتا ہے
٭٭٭
ہر اک سوال کا ایسا جواب ملتا ہے
کہ جیسے خواب کے بدلے میں خواب ملتا ہے
فسادِ شام و سحر میں وہ چہرہ یوں جیسے
درختِ شب میں پھنسا آفتاب ملتا ہے
کھلی نگاہ دریچہ ہے غم کے منظر کا
کہ جس سے دید کی صورت عذاب ملتا ہے
نگاہیں اس کی ہمیں کیوں تلاش کرتی ہیں
وہ جس کے تیوروں میں اجتناب ملتا ہے
ہمیں قبول نہیں انبساط و اطمینان
ہماری وضع میں ہی اضطراب ملتا ہے
خوشی تو ویسے بھی اسلمؔ ہے اک درِ نایاب
یہ غم بہت ہے کہ جو بے حساب آتا ہے
٭٭٭
دیکھا اسے اور خود کو بکھرتے ہوئے دیکھا
ساعت کو کسی طور ٹھہر تے ہوئے دیکھا
ق
اک لمحہ اجالے کا اترتے ہوئے دیکھا
تنہائی میں دستک کو گزرتے ہوئے دیکھا
ہے شہر وہی شہر کا مقسوم وہی ہے
ادوار کو بے زار گزرتے ہوئے دیکھا
ہم نے یہ نہ دیکھا کہ کہاں ڈوب گیا مہر
سرخی میں مگر تجھ کو سنورتے ہوئے دیکھا
احباب کو احباب پہ کرتے ہوئے یلغار
ہم سایوں کو ہم سایوں سے مرتے ہوئے دیکھا
اے تیز ہوا، پھر وہی بدمست سا جھونکا
ہم نے اسے پردے میں سنورتے ہوئے دیکھا
اسلمؔ وہ مفاہیم جو دشوار تھے یکلخت
ان کو کسی چہرے پہ نکھرتے ہوئے دیکھا
٭٭٭
تمام عمر جنوں کے مغالطے میں رہے
ہمیں کہ ہوش تھا اور پھر بھی مخمصے میں رہے
ہمیں تو قریۂ جاں میں کوئی سمجھ نہ سکا
ہم اجنبی سے رہے اور فائدے میں رہے
تری طلب سے تو برسوں ہوئے کہ لَوٹ چکے
اور اس کے بعد جیے بھی تو بھولنے میں رہے
٭
ہر ایک سمت ہے شور جنوں کہاں جائیں؟
کہیں پہ خوف کہیں خاک و خوں کہاں جائیں؟
گھروں سے نکلیں تو ہر لحظہ روح کو خطرہ
گھروں میں ٹھہریں تو سوز دروں کہاں جائیں؟
٭٭٭
یہ گھڑی تو ہمیں وحشت کی گھڑی لگتی ہے
دل میں اک پھانس کہ نشتر سی چبھی لگتی ہے
رات کی ٹوٹتی چھت میں ہیں ستاروں کے نشاں
یعنی اس چھت سے پرے دھوپ چھی لگتی ہے
کس نے دیکھا تھا ہمیں چونک کے اس محفل میں
کون تھا جس کی نظر جان میں کھبی لگتی ہے
خشک جنگل میں ہے پھر موت کا موسم شاید
شعلہ بر دوش ہوا جیتی ہوئی لگتی ہے
حیدرآباد میں صد چیف کہ عابد۱؎ نہ خلیل۲؎
اسلمؔ اب بزمِ دکن اُکھڑی ہوئی لگتی ہے
٭٭٭
۱؎عابد علی خاں مرحوم مدیر سیاست حیدرآباد
۲؎خلیل اللہ حسینی مرحوم صدر و بانی مجلس تعمیر ملت حیدرآباد
٭٭٭
سوچا، دیکھا، پایا، سمجھا بھول گئے
بزم فراموشی تھی دنیا بھول گئے
وہ ایک آنکھ جو ہر فتنے کی شاہد تھی!
اس کا ذکر ہی تجھ سے کرنا بھول گئے
بس درِ دل پر نام کی تختی باقی ہے
تم جو گئے تو اس کو ہٹانا بھول گئے
نامہ نگاروں نے یہ بھی تو لکھا ہو گا
لوگ یہاں کے کھل کر ہنسنا بھول گئے
وہ باغات، وہ جھیل، دہ وادی وہ دریا
خون میں یوں ڈوبے کہ لہکنا بھول گئے
وہ بھی دوست کہ جو ہمزاد سے لگتے تھے
اسلمؔ راہِ طلب میں گویا بھول گئے
٭٭٭
اندھیرے اس قدر گہرے نہیں ہیں
ستارے بیشتر ڈوبے نہیں ہیں
ہیں منظر دیکھتے آبِ رواں کا!
وہ جن لوگوں کے گھر ڈوبے نہیں ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی بچ گئے ہیں
ابھی شہروں میں سناٹے نہیں ہیں
بہت سے لوگ ویراں ہو چکے ہیں
کہ گُل کھِلنے پہ بھی ہنستے نہیں ہیں
زمیں سورج سے شرمندہ ہے اسلمؔ
اُجالے اس کو راس آتے نہیں ہیں
٭٭٭
رواں تیز رو، خواب دریا ملا
جو سوچا تو امکان بہتا ملا
حرارت کہا شہر تھا منجمد
مگر سرد سورج اکیلا ملا
وہ جس کے قدم ہی ٹھہرتے نہیں
ہمیں اس ہوا کا سہارا ملا
سرنگیں بچھی، ہر طرف ہر جگہ
انا کو ہر اک سمت خطرہ ملا
بکھرتے ہوئے آئینوں میں ہمیں
کوئی چہرہ پانی کے جیسا ملا
ترے گھر کو پہچاننا سہل تھا
ترا نام اس در پہ جچتا ملا
یہ مت سوچ اسلمؔ سرِ راہ درد
کسے جستجو کا صلہ کیا ملا
٭٭٭
روشن ہو گا، دھوپ کے اوپر بکھرا ہو گا
کرب کا موسم، کل بھی یوں ہی پھیلا ہو گا
شور کا کیا ہے! شور تو شہروں کا مقسوم
شہری چہروں میں لیکن سناٹا ہو گا
چیخ کا کیا ہے اک بے معنی سا نعرہ
سن کر بھی، کس شخص نے اس کو سمجھا ہو گا
اس تصویر کے ہر منظر میں کوئی سیاہی
شاید سورج گہری سوچ میں ڈوبا ہو گا
تیرے فلیٹ کے صبح دریچہ میں اے دوست
گملوں میں اک زرد سا پتہ ہنستا ہو گا
بھیڑ میں ملنا، کس نے کہا ملنا بھی ہے
اس نے اشارہ شاید ہی پہچانا ہو گا
تم گر ساتھ سفر کرتے تو اچھا تھا
اسلمؔ نے کچھ قابلِ عرض بھی سوچا ہو گا
٭٭٭
وادیِ سر سبز میں خون برسنے لگا
پھول بنے زخم رنگ، خار بھی ڈسنے لگا
راہبروں نے ہی خود گھیر لیا کا رواں!
وقت شقی تھا کہ جو اس پہ بھی ہنسنے لگا
وصل کا فنتاشیہ، ہجر پہ غالب ہوا
خواب کے دلدل میں پھر آئینہ دھنسنے لگا
سرخ چناروں کے بیچ، موت کا عفریت اب
دیدہ دلیری کے ساتھ، ان کے بسنے لگا
اسلمؔ عمادی ہمیں یاد وطن آ گیا
ذہن کا خالی مکاں چہروں سے بسنے لگا
٭٭٭
بکھرتی سمتوں میں
جب سارے ابعاد بھر گئے ہوں پتھر کی دیواروں سے
جب راہیں جو کبھی بچھی تھیں، ہو جائیں بالکل سے عمودی
جب چہرے محلول بن گئے ہوں اور فضا ریتیلی
تب بھی ہم تیرے پرتو کو
لفظوں میں: گر لفظ حروف سے بے پروا ہوں،
رنگوں میں: گر رنگ نور کی پلکوں سے اڑ جائیں،
موجوں میں جو کھردری اور بے ربط سی ہوں،
دیکھیں گے …
تو، تو، وہ بے معنی ہے،
جس میں ہم نے، سب کچھ یوں ہی غرق کر دیا
جس میں ہم نے، سب امروز و فردا پرزے پرزے کر کے
اب تجھ بے معنی سے
اپنی شناخت کا زخم سنبھالے
محور پر بے ڈھنگی سی رفتار میں
گھوم رہے ہیں
تیرے پرتو کے ہر عکس کو چوم رہے ہیں
٭٭٭
اُٹھیں گے ہم بھی کسی کی تلاش میں اک دن
جو درد جاگ اٹھے دل کی خراش میں اک دن
ممی کی طرح جو ہیں مردہ جسم وحشت سے
پڑے گی جان، ہر اک ایسی لاش میں اک دن
نیا محکمہ جنوں کا بنائے گی دنیا
پھنسیں گے قیس بھی فکر معاش میں اک دن
مسافروں کو کہاں خوش نصیبی منزل -؟
کہ یہ بھی جبر سہیں بود و باش میں اک دن
ہمارا چہرہ جو اسلم ہے عکس کی زد میں
سجے گا آئینہ پاش پاش میں اک دن
٭٭٭
آفاقی ہجر
ہوا کی لہروں میں ہجر کی رات گھل گئی ہے
ہر اک تھپیڑے میں ایک سسکی سی ایک نالہ سا،
وصال بھی ہجر کا ہی پہلو
کہ ذہن اور جسم کا تفاوت
اور ایسے بے رنگ کینوس پر
کھچا کھچ آبا داس نگر میں
کہاں بھلا آگ ابھر سکی ہے؟
کہ جس کا ہر ایک زندہ گوشہ
بجھی ہوئی راکھ سے بنا ہے!
تمام سڑکوں پہ: دل رگوں میں
رواں ہیں خود کار سے مسافر
اگر کسی سے خطا ہوئی ہے تو وہ مشینی
ہر ایک کو یہ خبر نہیں ہے
کہ ہجر کی شب رواج میں ہے
اک ایسی شب جس کے جھیلنے میں
کسی نے یہ ایک پل نہ سوچا
کہ
دید کب ہو؟
کہ وصل کب ہو؟
نہ جانے اس نیند میں ہو کس وقت نیم چشمی
کہ خواب اتریں،
کہ خواب سے پھر لہو کے اندر سراب اتریں
٭٭٭
جاگ رہا ہوں لیکن آنکھیں بند رکھی ہیں
جو منظر پوشیدہ ہیں شاید اصلی ہیں
وقت جہاں ملتے ہیں وہ تو خواب افق ہے
ور نہ اب تو سب چیزیں ملنے سے بُری ہیں
شاعر لوگ تو اپنا درد بیاں کر لیں گے
غم اُن کا ہے جن کی سوچیں گوں گی ہیں
سانس بھی ہے دشوار، صدا بھی نا ممکن
سمتیں ان دیکھے دریا میں ڈوب گئی ہیں
اسلمؔ سے اس دور میں مل کر سب حیراں
عہدِ طلب میں اِکّا دُکّا ایسے بھی ہیں
٭٭٭
یہ تو خبر ہے شہر ستم کی حد سے باہر زندہ ہیں
یہ مت پوچھو ہم کس کس کی یاد بھلا کر زندہ ہیں
اس تمثیل کے سب کردار ہی مردہ، بے حِس اور بے جاں
لیکن اس کے سارے منظر اور پس منظر زندہ ہیں
کوچۂ یار میں آنا جانا، اہلِ وفا کا کھیل نہیں!
وہ کم ظرف تو ڈھونگی ہیں جو باہر جا کر زندہ ہیں
اب اس دور میں کیا خاموشی، جب ہر شے آواز بجاں
وہ بھی پلک جھپکا دیں گے جو سانس برابر زندہ ہیں
اسلمؔ اس بُجھتی دنیا میں کچھ ہم جیسے اہلِ جنوں
ہنس لیتے ہیں، رو لیتے ہیں، یعنی سرا سر زندہ ہیں
٭٭٭
زمینِ خشک کی روٹھی ہوئی ہیں برساتیں
سنی تھیں وادیِ گل ہم نے تیری کیا باتیں
اُداس مُردہ سا موسم، بجھا سا پس منظر
کھلی ہوئی ہیں دِنوں کی فضاؤں میں راتیں
وہ ایک دید کہ پھر ہجر لمحہ کی تکرار
وہ ایک جیت مگر اس بعد سب ماتیں
کسی کو زخم کی خوشبو، کسی کو اشک گُہر
یہ قیس دشت سے لے آیا خوب سوغاتیں
نہ بے نیاز ہی تھے اور نہ سادہ و معصوم
ہمیں سمجھ نہ سکے قاتلوں کی وہ گھاتیں
تمام عمر رہے ساتھ اس طرح اسلمؔ
کہ اُن سے اپنا تعارف ہوا نہ دو باتیں
٭٭٭
اس بھٹکتی چیختی آواز میں کوئی نہیں
شعلہ سا جس روح سے نکلا تھا وہ باقی نہیں
دھوپ اونچی منزلوں اور جھونپڑوں میں بٹ گئی
اس طرح اتری ہے اب کے ٹھیک سے بکھری نہیں
پھر وہ سارے در دریچے بہہ گئے اس باڑھ میں
یعنی دیواروں سے ندی یاد کی ٹھہری نہیں
وقت کا کھونا ہنر ہے لیکن اس کی کوئی راہ
دوسروں کی طرح ہم نے آج تک پائی نہیں
لوٹ کر ہم آ گئے، اس بات پر جز بز نہ ہو!
اک ذرا سی بات ہے جو تجھ سے پوچھی ہی نہیں
اس کی ضد ہے ہر اشارت اس سے ہی منسوب ہے
ہم تو اسلمؔ کہہ چکے ہیں یہ غزل تیری نہیں
٭٭٭
کسی سے راہ میں، بہتر ہے آپ کم ہی ملیں
تماشہ دیکھنے والوں کو صرف ہم ہی ملیں
خنک ہوا میں ہے گیسوئے یار کی خوشبو
عجب نہیں کہ ہمیں سارے پھول نم ہی ملیں
ملے تو کوئی بھی سوغات تیرے کوچہ سے
ہمیں تو (تیری عنایت بہت ہے) غم ہی ملیں
جہاں کا سکہ رائج ہے جو ملے گا وہی
ستم کے شہر میں ڈھونڈو تو بس ستم ہی ملیں
جہاں بھی دیکھا نئے روپ میں ملے ناصح
کہ میکدہ میں بھی اسلمؔ یہ محترم ہی ملیں
٭٭٭
تعارف
محمد اسلم عمادی
بی ای (میکانکل)، ۱۹۷۰
پیدائش: ۱۵۔ دسمبر۱۹۴۸ء
حالیاً: انجینئر، کویت آئیل کمپنی۔ کویت
سابقاً: ٭سینئر انجینئر بی، ایچ، ای، ایل۔ حیدرآباد
٭پراجیکٹ انجینئر ایس او ای، ایل، آئی، طبرق لیبیا
٭جنرل منیجر (پراجکٹس و کمرشیل) گوداوری فیبریکیٹرس (پی) لمیٹڈ۔ میدک
اس کے علاوہ:
صدر کویت ریپیٹریایٹس ویلفیر ایسوسی ایشن۔ حیدر آباد
تصانیف :
نیا جزیرہ (پہلا مجموعہ کلام)۱۹۷۴
اجنبی پرندے (دوسرا مجموعہ کلام) ۹۷ا
اگلے موسم کا انتظار (غزل مجموعہ) ۱۹۸۴
ادبی گفتگو (تنقیدی مضامین اور تبصروں کا مجموعہ)
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں