FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

قربِ قیامت کی بعض علامات

احادیثِ نبویہ کی روشنی میں

               مولانا سیّد حامد

 

            قال اللّٰہ تبارک و تعالی : وانّہ لعلمُ للسََّاعۃ۔ (پ  ٢٥  سورۂ زخرف آیت  ٦١)

             ترجمہ : ”اور وہ نشان ہے قیامت کا۔ ”

            اس کی مختصر اًتفسیر کرتے ہوئے علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃاللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں  :

”یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کا اول مرتبہ آنا تو خاص بنی اسرائیل کے لیے ایک نشان تھا کہ بدون باپ کے پیدا ہوئے اور عجیب و غریب معجزات دکھلائے اور دوبارہ آنا قیامت کا نشان ہو گا۔ ان کے نزول سے لوگ معلوم کر لیں گے کہ قیامت بالکل نزدیک آ لگی ہے۔ ”

            احادیث مقدسہ میں علامات قیامت بہت بتلائی گئی ہیں لیکن ان میں ترتیب کیا ہو گی اور ایک علامت سے دوسری علامت تک کتنا فصل ہو گا،اس کی صراحت بہت کم علامات میں فرمائی گئی ہے۔ حدیث کی سب کتابوں میں ”کتاب الفتن” موجود ہے اوراس میں باب العلامات بین یدی الساعۃ یعنی قیامت سے پہلے وجود میں آنے والی علامتوں کے باب موجود ہ ہیں۔

            علماء کرام کو حق تعالیٰ جزائے خیر دے کہ انہوں نے یہ بھی کوشش کی کہ یہ علامات یک جا کر دی جائیں اور ان میں کیا ترتیب ہو گی وہ بھی ذکر کر دی جائے۔

            اس سلسلہ میں سب سے مفید رسالہ وہ ہے جو حضرت شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی رحمۃاللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے۔ اس میں بہت سی احادیث سے استفادہ کر کے ایک مضمون کی شکل دیدی ہے۔ اسی سے اقتباس کر کے یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔

            قربِ قیامت کی علامات میں فسق و فجور بڑی علامت ہے۔ اس کی تھوڑی سی تشریح عرض کرتا ہوں۔

            کفر اور فسق دو لفظ ہیں۔ بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کفر کا تعلق عقیدہ سے ہے اور فسق کا تعلق فقط اعمال سے ہے۔ کوئی آدمی خلافِ شرع کام کرتا ہو تو اسے فاسق کہا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فسق کا تعلق عقیدہ اور عمل دونوں سے ہوتا ہے۔ عقیدہ کافسق یہ ہے کہ انسان صحابہ کرام کے بتلائے ہوئے عقائد سے ہٹ جائے۔ جب وہ ان عقائد سے ہٹے گا تو فسق فی العقیدہ میں یعنی بدعتِ اعتقادی میں مبتلا ہو جائے گا اور کبھی کبھی یہ فسق فی العقیدہ کفر تک بھی پہنچا دیتا ہے۔

            صحابہ کرام  کے بتلائے ہوئے عقائد وہی ہیں جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں اور ان پرساری اُمّت قائم چلی آ رہی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام  معیارِ حق ہیں۔ خروج، شیعیت، جہمیت، اعتزال اور فرقہ ہائے جبریہ،قدریہ،مُرحبہ، کرمیہ سب اسی اصول سے ہٹنے سے پیدا ہوئے۔ ان فرقوں میں بہت سے فرقے حدِ فسق تک گمراہی میں مبتلا ہوئے اور بہت سے فرقے حد کفر تک آگے چلے گئے۔ جو طبقے صحابہ سے حدِ فسق تک ہٹے وہ بدعتی بھی کہلاتے ہیں۔ غرض جس طرح اعمال میں فسق ہوتا ہے اسی طرح عقائد میں بھی ہوتا ہے۔ ان دونوں کافروغ علاماتِ قیامت میں ہے۔

            علاماتِ قیامت میں جو بد اعمالیاں صراحۃً احادیث میں شمار کرائی گئی ہیں یہ ہیں  :

            ظلم کا اس قدر بڑھ جانا جس سے پناہ لینی مشکل ہو۔ خیانت کا عام ہونا۔ جُوا، شراب، ناچ اور گانے کی کثرت،مردوں کا ناجائز حد تک عورتوں کے مطیع ہونا۔ اولاد کی نا فرمانی۔ نااہلوں کے ذمہ وہ کام لگانے جن کے وہ اہل نہ ہوں۔ اپنے اسلاف پر طعن، مساجد کی بے حرمتی۔ جھوٹ کو ایک فن کا درجہ دینا۔ گالی گلوچ کی کثرت۔ دلوں میں شرم و حیا، امانت و دیانت کی کمی،وغیرہ۔

            ظلم کا اس قدر بڑھ جانا جس سے پناہ لینی مشکل ہو، اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکام،انتظامیہ، عدلیہ سب ہی ظالم ہو جائیں۔ دوسرے یہ کہ آپس میں خانہ جنگی ہو،جرم کسی کا ہو مارا کوئی اور جائے،یا اور اس قسم کی صورتیں۔

            یہ سب باتیں ہر سلیم الفطرت شخص کے نزدیک معیوب ہیں اور اسلام میں گناہ،حرام یا قابل تعزیر و حد ہیں۔ جس قوم میں یہ پائی جائیں وہ رو بزوال ہو جا تی ہے اور بڑھ جائیں تو تباہ ہو جاتی ہے۔

            پہلے زمانوں (قرونِ وسطی )میں بھی یہ باتیں پائی گئی ہیں لیکن افراد میں تھیں یعنی بہت کم، جب ان مین مبتلا لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو پوری مسلم قوم پر زوال آ گیا۔ حکومتیں چھنتی چلی گئیں حتی کہ پوری دنیا میں کوئی بھی مسلم سلطنت اپنی آزادی پر قائم نہ رہ سکی۔

            مذکورہ بالا خرابیوں کے پائے جانے پر عیسائیوں کے غلبہ کی خبر حدیث میں آئی ہے۔ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں  :

            ”جب یہ تمام علامات و آثار نمایاں ہو جائیں تو عیسائی بہت ملکوں پر غلبہ کر کے قبضہ کر لیں گے”۔

            اورایسا واقعۃً ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کی سب مسلم سلطنتیں تباہ ہو گئیں اور عیسائی چھا گئے اس پر یہ سوال ہو سکتا ہے :

            کہ یہ خرابیاں تو ہماری قوم میں باقی تھیں پھر عیسائیوں کا غلبہ کیسے ہٹا،تواس کا جواب یہ ہے کہ عیسائیوں کے مظالم زیادہ ہو گئے۔ انہوں نے پوری دنیا کھلونا بنالیا اور غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ اور ظلم ایسی چیز ہے جو اللہ تعالی کو بہت نا پسند ہے۔

            جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت ہدایت فرمائی تھی۔

            واتق دعوۃ المظلوم فانہ لیس بینھاوبین اللّٰہ حجاب۔        (بخاری شریف ج١ کتاب الزکٰوۃ)

اور مظلوم کی بد دعا ء سے بچتے رہنا کیونکہ مظلوم کی دعاء اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا (یعنی نہایت سریع التاثیر ہوتی ہے)۔

            عیسائیوں کے پوری دنیا پر چھا جانے کے بعد سمٹ جانے کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ ان کے مظالم بڑھ گئے تھے  انہوں نے اقوام عالم کو محکوم ہی نہیں بلکہ انہیں غلام بھی بنا لیا تھا۔ الجزائر،ویٹ نام،کوریا وغیرہ سب ان کے کھلونے بنے رہے ہیں اور اسرائیل کا نا سور ان ہی کاپیدا کردہ ہے۔

            اگرچہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں وہ بھی دَورِ فتن ہی ہے۔ طرح طرح کے فرقے نمو دار ہو رہے ہیں۔ اتباعِ سلف کے بجائے اپنی خواہش پر چلنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ جو شخص تھوڑا بہت علم حاصل کر لیتا ہے وہ تنقید و جرح کی  وادیِ  پُر خار کی راہ لیتا ہے۔ صحابہ کرام اور اسلاف کو چھوڑ کر اپنی شخصیت سازی میں لگ جاتا ہے یہی وہ بیماری ہے جو سب فتنوں، بدعات اور اختلافات کی جڑ ہے۔ کثرتِ نشر و اشاعت نے اسے مرضِ متعدی بنا دیا ہے۔ ایک غلطی اور بدعت کی اصلاح نہیں ہونے پاتی کہ کوئی اور نئی بدعت کسی اور رنگ میں ظاہر ہو جاتی ہے یا کوئی اور نیا فرقہ باطلہ ابھرنے لگتا ہے آخراس دور کا  منتہٰی کہاں ہو گا۔

            دورِ فتن سے احادیث میں ایسا زمانہ بھی مراد ہوتا ہے جس میں ایسی گڑ بڑ ہو کہ عقلمند سے عقلمند شخص بھی حیران رہ جائے۔ ایک پہلو کی اصلاح ہونے سے پہلے دوسرے پہلو کی خرابی پیدا ہو جائے یا ایک پہلو کی اصلاح میں دوسرے پہلو کی     خرابی پیدا ہونے کا احتمال نظر آئے۔ اس دور میں بھی یہی حالت جا رہی ہے۔ کوئی واضح راستہ کسی کے سامنے نہیں ہے اور کوئی راہ بے خار نہیں رہی۔

            لیکن احادیث مقدسہ کی روشنی میں یوں لگتا ہے کہ رفتہ رفتہ مسلمان سنبھلتے ہی چلے جائیں گے کیونکہ انہیں عروج کی طرف جانا ہے۔ تقدیراتِ الٰہیہ ظہور میں آنی ہیں۔ مسلمان اگر خود نہ سنبھلے تو حالات سنبھلنے پر مجبور کر دیں گے۔ یہ ایک بہترین فاتح قوم بننے والی ہے اگرچہ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ پوری طرح خود کفیل نہ ہو پائیں گے۔ درمیان ہی میں دنیا کے حالات ایسے ہو جائیں گے کہ دنیا بھر کے مسلمان اور عیسائی آپس میں معاہدہ کریں اور کسی تیسری طاقت سے جنگ کریں اور فتح یاب ہوں۔ اب آنے والا طویل دور عروج کے ساتھ طویل عالمی جنگ کا بھی ہو گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم!

            حدیث شریف میں آتا ہے  :

عن معاذ بن جبل قال قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عمران بیت المقدس خراب یثرب وخراب یثرب خروج الملحمۃ وخروج الملحمۃ فتح القسطنطیۃ وفتح قسطنطیۃخروج الدجال ثم ضرب بیدہ علی فخذ الذی حدثہ اومنکبہ ثم قال ان ھذالحق کما انک ھھنااو کماانک قاعد یعنی معاذ بن جبل۔    (ابو داؤد شریف باب فی امارات الملاحم)

حضرت معاذ بن جبل  روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کائنات علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ بیت المقدس کی آبادی یثرب (مدینہ منورہ )کی بربادی ہو گی اور مدینہ شریف کی ویرانی جنگ کا پیش خیمہ ہو گی اور جنگ کا شروع ہونا قسطنطنیہ کی فتح ہو گا اورقسطنطنیہ کا فتح ہونا دجال کا خروج ہو گا پھر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک ان کے کندھے (مونڈھے ) پر یا ران  پر مارا پھر فرمایا کہ بلا شبہ یہ سب حق ہے۔ (یقیناً ہو گا ) جیسے کہ تم یہاں موجود بیٹھے ہو(یعنی معاذ بن جبل)۔

            احادیث میں اکثر جگہ لفظ فتنہ سے آپس کی لڑائی اور خانہ جنگی مراد ہوتی ہے او ر ملحمہ سے وہ لڑائی مراد ہوتی ہے جو مسلمانوں کی دوسروں سے ہو۔

            اس وقت اسرائیل نے بیت المقدس کو دارالخلافہ بنا لیا ہے اس لیے اس کی آبادی کا عروج تو شروع ہو گیا ہے۔

            احادیث مقدسہ سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ عیسائیوں کا مذہبی یعنی عیسائیت کا مرکز ”روم ”ہو گا۔ اور ممکن ہے ما دی مرکز بھی اسی کو بنا لیا جائے۔

            مسلمان اورعیسائی دشمن پر فتح یاب ہونے کے بعد صرف دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے ایک بات کو اپنے وقار کامسئلہ بنا کر معاہدہ توڑ دیں گے اور عیسائی مسلمانوں سے جنگ کریں گے۔ چنانچہ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے۔ صحابی نے فرمایا  :

سمعت رسو ل ا للّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یقول ستصالحون الروم صلحا اٰمنا فتغزون انتم وہم عد واً من ور ائکم فتنصرون و تغنمون و تسلمون ثم ترجعون  حتی تنزلوا بمرج ذی تلول فیر فع رجل من اھل النصرانیۃ الصلیب فیقول غلب الصلیب فیغضب رجل من المسلمین فیدقہ فعند ذلک تغدر الروم وتجمعالملحمۃ (ابوداؤد،کتاب ا لملا حم )

میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ عنقریب (ایسا وقت آئے گا کہ) تم اہلِ روم سے قابل اطمینان صلح کرو گے۔ پھر تم اور وہ اپنے ایک دشمن سے لڑو گے۔ تمہیں نصرت و غنیمت حاصل ہو گی اور بچ بھی جاؤ گے (سلامت رہو گے )پھر واپسی کے وقت ایک سبزہ زار میں جہاں ٹیلے ہوں گے ٹھہر و گے۔ وہاں نصرانیوں میں سے ایک شخص صلیب بلند کر کے کہے گا کہ صلیب غالب آئی اس پرمسلمانوں میں سے ایک شخص کو غصہ آئے گا وہ صلیب توڑ دے گااس وقت (صرف دو شخصوں کے جھگڑے پر) اہلِ روم (عیسائی) معاہدہ توڑ دیں گے اور جنگ کے لیے جمع ہو جائیں گے۔

            اس لڑائی میں عیسائیوں کو کامیابی ہو گی،مسلمانوں کا زبردست نقصان ہو گا۔ وہ اپنا ہدف مدینہ منورہ کو بنائیں گے۔ کسی لائن سے وہ خیبر تک پہنچ جائیں گے۔ مسلمانوں کا حکمران وفات پا جائے گا۔ اس وقت جو ہو گا وہ اس حدیث میں آتا ہے۔

عن ام سلمۃ زوج النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال یکون اختلاف عند موت خلیفۃ فیخرج رجل من اھل المدینۃ ھاربًا الی مکۃ فیأتیہ ناس من اھل مکۃ فیخرجونہ وہوکارہ فیبا یعونہ بین الرکن والمقام۔

                                                                         (ابو داؤد کتاب المہدی)

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرمائی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ایک خلیفہ کی وفات کے وقت اختلاف ہو گا تو ایک شخص (جو خلافت کا اہل ہو گا ) مدینہ سے مکہ مکرمہ بھاگ جائے گا۔ اس کے پاس اہل مکہ آئیں گے۔ اسے (گھر سے) نکالیں گے۔ وہ اس معاملہ کو پسند نہ کرتا ہو گا ( لیکن لوگ ) ان سے رکن اور مقام کے درمیان بیعت کریں گے۔

            اس وقت شام میں جو حاکم ہو گا وہ ان کی مخالفت میں لشکر روانہ کرے گا۔ حسد میں یا عیسائی حکومتوں کے ابھارنے پر جو صورت بھی ہو۔

ویبعث الیہ بعث من الشام فیخسف بھم بالبیداء بین مکۃ والمدینۃ۔

شام سے ان کے مقابلہ کے لیے لشکر بھیجا جائے گا۔ اس لشکر کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع بیداء میں دھنسا دیا جائے گا۔

            اسی مضمون کی د وسری روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا :

یا رسول اللّٰہ کیف بمن کان کارھا قال یخسف بھم ولکن یبعث یوم القیامۃ علی نیتہ۔                                                                           (ابو داؤدکتاب المہدی)

اے اللہ کے رسول اس لشکر والوں کے ساتھ جو لوگ بمجبوری (مثلاً جبری بھرتی سے) آ گئے ہوں گے ان کا کیا ہو گا ! ارشاد فرمایا وہ بھی د ھنسا دئیے جائیں گے لیکن ہر شخص قیامت کے دن اپنی نیت کے مطابق اُٹھایا جائے گا۔

            یعنی جو لوگ جبراًساتھ لیے گئے ہوں گے ان کا حشر ان کی نیتوں کے مطابق ہو گا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی پہلی والی روایت میں ہے کہ :

فاذا رأی الناس ذلک اتاہ ابدال الشام وعصائب اہل العراق فیبا یعونہ۔

جب لوگ یہ دیکھیں گے تو شام کے ابدال (اولیا ء کرام )اور عراق کے (بہترین لوگ ) گروہ در گروہ ان کے پاس آئیں گے اور ان سے بیعت ہوں گے۔

            ان کی مدد کرنے والے اہل ماورا ء النہر بھی ہوں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرما یا:

یخرج رجل من وراء النھریقال لہ الحارث حراث علی مقدمۃ رجل یقال لہ منصوریوطی او یمکن لآل محمد کما مکنت قریش لرسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وجب علی کل مومن نصرہ اوقال اجابتہ۔                 (ابو داؤدکتاب المہدی)

ایک شخص ماوراء النہر سے چلے گا اسے حارث کہا جاتا ہو گا۔ وہ حراث (یعنی کاشت کرنے والا)ہو گا۔ اس کے لشکر کے اگلے حصہ مقدمۃ الجیش پر مامور شخص کو منصور کہا جاتا ہو گا۔ وہ اٰل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے مضبوطی سے جمنے کے لیے مؤثر طرح کام کرے گا  جیسے ( قبائل قریش نے اسلام قبول کرنے کے بعد )جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( دین کے )لیے استحکام کا کام کیا۔ ہر ایمان والے شخص پراس کی مدد واجب ہے۔

            اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ماوراء النہر یعنی دریائے سیحون کے پار علاقوں میں اسلام نہایت جوش سے اُبھر چکا ہو گا۔ واللہ تعالی اعلم۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے  :

ثم ینشأ رجل من قریش اخوالہ کلب فیبعث الیھم بعثا فیظھرون علیھم وذ لک بعث کلب والخیبۃ لمن لم یشھد غنیمۃ کلب                         (ابو داؤدکتاب المہدی)

پھر ایک قریش شخص ابھرے گا(اس کی ننھیال )اس کے ماموں بنو کلب ہوں گے۔ و ہ حضرت مہدی کے مقابلہ کے لیے لشکر روانہ کرے گا حضرت مہدی ان پر فتح پائیں گے۔ یہ لشکر (درحقیقت) بنو کلب پر مشتمل ہو گا۔ جو ان کے اموال غنیمت نہ حاصل کرے وہ خسارہ میں رہا۔

            حضرت امام مہدی علیہ رحمۃاللہ و رضوانہ کے نام کے با ر ے میں ارشاد ہوا  :

            یواطیٔ اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی  (ابو داؤد کتاب المھدی)

            ان کا نام میرے نام پر ہو گا اور ان کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا۔

            حضرت مہدی کے ساتھ موعود کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یعنی جن کے ظہور کی اطلاع دی گئی ہے اور ان کا وجود اس وقت سارے مسلمانوں کی فلاح کا سبب ہو گا اور اس کا احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے ان کے بارے میں بہت روایات موجود ہیں حتی کہ روایات میں حضرت مہدی کا حلیہ بھی بتایا گیا ہے۔

            اجلی الجبھۃ اقنی الانف۔

            کشادہ پیشانی بلند ناک۔

            ایک اور روایت میں نسب بھی بتلایا گیا ہے۔ حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر ارشاد فرمایا  :

ان ابنی ھذا سیّد کما سما ہ النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وسیخرج من صلبہ رجل یسمی باسم نبیکم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یشبھہ فی الخلق ولا یشبھہ فی  الخلق۔                                    (ابو داؤد شریف کتاب المہدی )

میرا بیٹا سردا ر ہے جیسے کہ انہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (سیّد ) فرمایا ہے اور ان کی نسل میں ایک شخص پیدا ہو گا۔ تمہارے نبی کا ہم نام ہو گا۔ عادات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہو گا۔ شکل و صور ت میں نہیں۔

            آپ کے متعلق تحریر کردہ رسائل میں یہ بھی ہے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوں گے۔ اللہ تعالی کی طرف سے از غیب علم عطا ہوا ہو گاجسے” علم لَدُ نّی” کہا جاتا ہے۔

یعمل فی الناس بسنۃ نبیھم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ویلقی الاسلام بجرانہ الی الارض۔                     (ابو داؤد شریف کتاب المہدی )

 لوگوں میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل کریں گے اور اسلام بڑے سکون کے ساتھ ساری دنیا میں جم جائے گا۔

            یہاں تک گزری ہوئی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت جو دور جا رہا ہے اس میں انشاء اللہ مسلمانوں کی بہتری ہو گی۔ اسلام کی طاقت بڑھے گی۔ مسلمانوں کی خرابیوں کا ازالہ ہوتا جائے گا۔ مزید کمزوریاں جہاد کی برکت سے دور ہوتی جائیں گی۔ پورے عالم پر طویل ترین یا سخت ترین جنگ کا دور گزر ے گا۔ مسلمان اور عیسائی قریب ہوں گے اورآپس میں جنگی معاہدہ کریں گے۔ پھر وہ شدید ترین جنگ جو کسی تیسرے فریق سے ہو گی اس میں مسلم عیسائی متحدہ قوت کامیاب ہو گی۔ ان اتحادیوں کی کامیابی کے بعد پھر ذرا سی بات پرعیسائی معاہدہ منسوخ کر کے برسر پیکار ہو جائیں گے۔ مسلمان جو غالباً مادی طاقت میں ناکافی حد تک خود کفیل ہوئے ہوں گے شکست کھائیں گے اور بہت سے مسلم علاقے عیسائیوں کے قبضہ میں چلے جائیں گے جن میں ترکی،اردن اور سعودی عرب کا علاقہ صاف سمجھ میں آتا ہے پھر لڑائی کا زور اس علاقہ میں اور شام وفلسطین میں رہے گا ان سب لڑائیوں میں جانی نقصان بے حد ہو گا۔ خدا ہی جان سکتا ہے کہ یہ جنگ کس قسم کی ہو گی کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی ایٹمی ہو گی یا دوسرے ہتھیاروں سے ہو گی۔ اس حصہ تک خوارقِ عادت کا ظہور نہ ہو گا۔ انسان نے اس وقت تک جو مادی ریڈیائی ترقی کی ہے یا کچھ اور کرے گا وہ آخری حد کو پہنچ چکی ہے یا پہنچ جائے گی۔ یہ ترقی بھی خوارق عادت کے مشابہ ہے۔ اس کے بعد ظہور مہدی سے روحانی خوارق کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت مہدی کا ظہور خلیفہ وقت کے انتقال پر ہو گا،وہ خود مہدی ہونے کا دعویٰ نہ کریں گے۔ لوگ پہچان کر انہیں خلیفہ بننے پر مجبور کر دیں گے حضرت امام مہدی اسلامی افواج جمع کر کے حملہ آور عیسائیوں پر اپنے علاقے واپس لینے کے لیے جواباً حملہ کریں گے اور فتح کرتے کرتے ترکی تک پہنچیں گے جس وقت استنبول (قسطنطنیہ)فتح کریں گے اس وقت انہیں ظہور دجال کی اطلاع ملے گی۔ اس لڑائی میں مسلمان فاتح ہوں گے لیکن اتنی بڑی تعداد میں شہید بھی ہو جائیں گے کہ فتح کی خاص خوشی نہ ہوا کرے گی۔ سو میں سے ایک آدمی زندہ رہ جائے گا ( یعنی کسی کسی خاندان کا یہ حال ہو گا)۔

                                                                                    (مسلم شر یف  ص ٣٩٢  ج ٢ )

            احادیث مقدسہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اسی دوران یہودی بھی مسلمانوں سے لڑیں گے اور ہو سکتا ہے کہ یہ لڑائی حضرت مہدی کے اسی سفر جہاد میں شام سے ترکی جاتے ہوئے موجودہ( امریکہ کی ذیلی ریاست ) اسرائیل میں ہو۔ اس کی خبر یوں دی گئی ہے۔

تقاتلکم الیھود فتسلطون علیھم حتی یقول الحجر یا مسلم ھذایہود ی ورائی فاقتلہ۔                                                              (مسلم ص٣٩٦ ج٢ کتاب الفتن واشراط الساعۃ )

            موجودہ حالت اور انجام سورۂ بنی اسرائیل کے ابتدائی حصہ میں وان عدتم عدنا کے جملہ سے بھی مفہوم ہوتی ہے کہ ان کی بداعمالیوں بڑھیں گی جب وہ انتہا کو پہنچیں گی تو انتہائی سزا دی جائے گی۔ مسلم شریف میں اسی صفحہ پرجو روایات دی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سب یہودی مارے جائیں گے انہیں پتھر بھی پناہ نہ دیں گے صرف ایک درخت جسے غرقد کہا جاتا ہے اس کے پیچھے یا اس کی آڑ میں ہوں گے تو وہ انہیں پناہ دے گا۔ غرقد کوعوسجہ بھی کہتے ہیں کانٹوں دار درخت ہے فلسطین کے علاقہ میں ہوتا ہے۔ چھوٹے کو عوسجہ اور بڑے کو غرقد کہتے ہیں۔ ان کا مارا جانا اور درختوں اور پتھروں کا مخبری کرنا یہ خوارق عادت کے طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ یہ سائنسی ترقی سے ہو لیکن احادیث کا سیاق و سباق اور انداز بیان خرق عادت پر دلالت کر رہا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم!

            حضرت مہدی کے لشکر کا ایک حصہ بھاگ کھڑا ہو گا۔ ایک حصہ شہید ہو جائے گا۔ وہ لوگ ا فضل الشہدا عند اللہ ہوں گے تیسرا حصہ مع جدید رفقاء فتح یاب ہوتا چلا جائے گا۔ یہ لشکر قسطنطنیہ فتح کر لے گا۔ ابھی اس معرکہ سے فارغ ہی ہوئے ہوں گے کہ کوئی شیطان یہ خبر پھیلائے گا کہ دجال تم لوگوں کے اہل و عیال میں پہنچ گیا ہے۔ یہ لوگ واپس روانہ ہوں گے او ر شا م کے موجودہ دارالخلافہ دمشق پہنچیں گے تو وہاں دجال نہ ہو گا۔ یہ خبر جھوٹی ہو گی۔ لیکن وہیں اتنا پتہ چل جائے گا کہ وہ دنیا میں ظاہر ہو چکا ہے۔ ابھی یہ لوگ اسی مقام پر ہوں گے کہ نزول مسیح علیہ السلام ہو جائے گا۔

                                                                                                  (مسلم ص٣٩٢ ج ٢)

            حضرت مہدی علیہ السلام کا دورِ حکومت بابرکت ہو گا۔ عدل و انصاف اپنے کمال پر ہو گا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ان کا دور حکومت سات سال اور بعض روایات کے مطابق نو سال ہو گا۔ (ابو داؤد کتاب المہدی )پھر حضرت عیسٰی علی نبینا و علیہ الصلٰوۃ والسلام کا دور شروع ہو گا۔ نزول عیسٰی علیہ السلام کے موضوع پر مستقل تصانیف موجود ہیں۔ حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃاللہ علیہ نے ”التصریح بما توا ترفی نزول المسیح ”اسی موضوع پر تالیف فرمائی ہے۔ یہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے شائع کی ہے اور میرا مقصد تمام روایات کو جمع کرنا نہیں ہے بلکہ ایک خاکہ پیش کرنا ہے جو احادیث مقدسہ کی روشنی میں سمجھ میں آتا ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانہ میں ظہور یاجوج و ماجوج ہو گا۔ یہ کثیر التعداد قوم ہو گی ان سے مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا۔ البتہ بچا جا سکے گا کہ انسان محصور ہو جائے۔ حدیث میں یہی تدبیر بتلائی گئی ہے۔                                                                              (مسلم  ص ٤٠١۔ ٤٠٢ ج٢)

            ان کی تعداد کی کثرت ان احادیث میں آئی ہے جن میں جہنم میں داخل کیے جانے والے لوگوں کا ذکر ہے کہ مسلمان میں سے ایک اور یاجوج ماجوج ایک ہزار ہوں گے۔

            (بخاری  باب قصۃ یاجوج و ماجوج وقول اللہ عز وجل ویسئلونک عن ذی القرنین  ص ٤٧٢  ج ١)

            ممکن ہے بخاری شریف وغیرہ کی اس روایت میں اس وقت کے مسلمانوں اور یاجوج و ماجوج کا تناسب مراد ہو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ وہ کافر ہوں گے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ اولاد یافث بن نوح علیہ السلام سے ہیں۔

            ان کے بارے میں تو اتنا ہی بتلانا کافی ہے کہ ان کا وجود مسلم ہے اور جس وقت ان کے فتنہ کا ظہور ہو گا اس وقت ان کے شر سے بچنے کی تدبیر محصور ہو جانے کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی حالت کے بارے میں مسلم شریف میں ص ٤٠١۔ ٤٠٢ پر روایات موجود ہیں ان کی ہلاکت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعاء سے ہو گی اسی صفحہ پر مسلم شریف میں ہے کہ یہ منکر خدا اس وقت وجودِ باری کا مذاق اڑاتے ہوں گے اور یہ بھی ہے کہ ان کی موت (ظاہری اسباب میں )بہت چھوٹے کیڑوں سے ہو گی۔ یر سل علیھم النغف مسلم شریف ص ٤٠١۔ نغف ایک قسم کا کیڑا ہوتا ہے جو اونٹ اور بکری کی ناک میں پیدا ہو جاتا ہے اس قسم کے جراثیم ان پر چھا جائیں گے ان کی گردن میں تکلیف ہو گی اور سب یک لخت مت جائیں گے۔ لیکن دجال کے بارے میں بہت روایات ہیں اور اس کا ظہور اور سارازور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول سے پہلے ہی ہو گا۔ اس لیے آقا ء نامدار علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جو ارشادات فرمائے ہیں وہ ملحوظ رکھنے چاہئیں تاکہ اس کے شر سے ہر صاحب ایمان بچ سکے۔

            دجال کا ظہور اصفہان سے ہو گا۔ اس کے ساتھ یہودی ہوں گے۔ مسلم شریف میں ہے  :

یتبع الدجال من یہود اصبھان سبعون الفا علیھم الطیا لسۃ  (مسلم شریف  ٤٠٥  ج  ٢)

دجال کے ساتھ اصبہان کے ستر ہزار(یعنی بہت بڑی تعداد میں )یہودی ساتھ ہوں گے۔ ان کے لبا س میں ان کی خاص وضع کی لمبی ٹوپی ہو گی۔

            اسے لوگوں پر کسی وجہ سے سخت غصہ آئے گا اس وقت اس کا ظہور ہو گا  :

            ان اول مایبعثہ علی الناس غضب یغضبہ              (مسلم شریف  باب ذکر الدجال  ص  ٣٩٩  ج  ٢)

٭٭٭

ماخذ: انوار مدینہ

تشکر: اسد جن سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید