فہرست مضامین
فکر اقبال
ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم
جلد۔۳
گیارھواں باب
عشق کا تصور
اقبال کے ہاں عقل کی تنقید کا مضمون اکثر عشق کی توصیف کے دوش بدوش چلتا ہے اور جا بجا بعض اوقات ایک ہی شعر کے دو مصرعوں میں کہیں کہیں مسلسل اشعار میں ان کا موازنہ اور مقابلہ ملتا جلتا ہے عقل کی تنقید تو اکثر پڑھنے والوں کی سمجھ میں آ جاتی ہے لیکن عشق سے اقبال کیا مراد لیتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے ہاں صدیوں سے عشق حقیقی اور عشق مجازی کی اصطلاحیں زبان زد عام ہیں۔ عشق حقیقی سے بعض اوقات انسانوں کی باہمی بے لوث محبت مراد ہوتی ہے۔ جس میں خود غرضی نفسانیت یا جنسیت کا کوئی شائبہ نہ ہو اور بعض اوقات اس کے معنی عشق الٰہی کے ہوتے ہیں۔ یعنی اشخاص و اشیا کی محبت کے ماوریٰ خدا کا عشق اور یہ عشق حقیقی دل میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کا دل ہر قسم کی غرض وہوس سے پاک ہو جائے:
سرمد غم عشق بوالہوس را ندہند
سوز دل پروانہ مگس را ندہند
اقبال نے عشق کے مفہوم میں بڑی گہرائی اور بڑی وسعت پیدا کر تی ہے۔ اور اس بارے میں وہ خاص طور پر عارف رومی کا شاگرد رشید ہے۔ اقبال نے حکمت و عرفان کے بیش بہا جواہر اسی مرشد سے حاصل کیے ہیں لیکن عشق کے بارے میں وہ خاص طور پر رومی کا ہم آہنگ ہے۔ رومی کے ہاں حکمت و علم بہت ہے اور عقل کی تعریف میں بھی اس کے نہایت بلیغ اشعار ملتے ہیں۔ لیکن رومی جہاں عقل سے عشق کی طر ف آتا ہے وہاں عجیب ولولہ اور جوش دکھائی دیتا ہے۔ ایک لحاظ سے تمام مثنوی کا موضوع عشق ہی ہے۔ مثنوی کے تمہیدی اشعار میں بھی وہ عشق ہی کو بیان کرتا ہے۔ لیکن فوراً اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ کیفیت بیان میں نہیں آ سکتی:
گرچہ تفسیر و بیان روشن گر است
لیک عشق بے زباں روشن تر است
عقل در شرحش چو خر در گل بخف
شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت
عارف رومی کے نزدیک دین کا جوہر بھی عشق ہی ہے۔ ادیان میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اور عقائد و شعائر و اعمال میں بہت کچھ فرق پایا جاتا ہے لیکن جب کسی شخص میں عشق حقیقی پیدا ہو جاتا ہے تو وہ ان امتیازات کی زیادہ اہمیت نہیں سمجھتا اور یہ کہہ اٹھتا ہے کہ :
مذہب عشق از ہمہ دیں با جداست
چونکہ ظواہر ہی کو لوگ دین سمجھتے ہیں۔ جن کی حقیقت عاشق کے نزدیک ثانوی رہ جاتی ہے۔ اس لیے عوام ہی نہیں بلکہ فقہا بھی عاشقوں کو کافر کہنے لگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ عشاق خود بھی اپنے کفر کی اصطلاح استعمال کرنے لگتے ہیں :
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من راگ گشتہ حاجت زنار نیست
میر کہتا ہے:
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
عام لوگوں کو جو کچھ دین کے ظواہر و شعائر و عبادات سے حاصل ہوتا ہے عشق الٰہی کے نزدیک وہ سطحی اور ناپائدار ہوتا ہے۔ عشق تمام امراض ظاہر و باطنی کا علاج ہے:
اے دوائے جملہ علت ہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
جس عشق کی مدح سرائی حکماء اور صوفیہ اور شعرائے متصوفین نے کی ہے اس کے دو پہلو ہیں ایک تاثراتی یا جذباتی اور دوسرا نظریاتی۔ یہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے جد ا بھی ہو سکتے ہیں اور باہم مخلوط بھی ہوتے ہیں۔ جن حکما کا میدان فقط عقلیت ہے ان کے ہاں اس چیز کے متعلق نظریات ملتے ہیں جسے انہوں نے مشاہدی کائنات و حیات سے مدد لے کر استدلال سے مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مقابلے میں ایسے صوفیہ بھی ملتے ہیں جن کے ہاں عشق کی کیفیت بڑے جوش و خروش کے ساتھ موجو دہے لیکن وہ اس کی عقلی توجیہ کی کوشش نہیں کرتے یہ کیفیت ان سے دوسروں کی طرف برکت صحبت اور فیض روحانی سے کم و بیش منتقل ہوتی ہے راہ استدلال تو دراز اور پر پیچ ہے اور تسکین آفرین بھی نہیں لیکن لبریز عشق عاشق کی توجہ ایک لمحے میں مستفیض انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ تصوف کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ ایک شخص کسی عاشق الٰہی کی نظر کیمیا گر اثر سے ایسا بدلا کہ اس کے عمر بھر کے ساتھی اس کو کوئی دوسرا ہی انسان سمجھنے لگے۔ قبل فیضان کی زندگی میں کوئی مشابہت نہ رہی۔
آنانکہ خاک را بنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشہ چشمے بما کنند
چند لمحوں میں وہ بات حاصل ہو جاتی ہے جو عمر بھر کی ذہنی کاوشوں اور عمر بھر کی بے ریا سطحی عبادتوں سے حاصل نہ ہو:
یک زمانے در حضور اولیا
بہتر اس صد سالہ طاعت بے ریا
(رومی)
طے شود جادہ صدد سالہ بہ آہے کاہے (اقبال)
بعض اوقات فیضان الٰہی سے جس کے اسباب و علل پر ماہر نفسیات حاوی نہیں ہو سکتا۔ یک بیک خود بخود کسی کے اندر سے یہ چیز ابھر پڑتی ہے۔ تاثر کا پہلو ایک ذوق چیز ہے۔ نہ استدلال سے پیدا ہوتا ہے نہ استدلال سے دوسرو ں کو سمجھایا جا سکتا ہے:
ذوق ایں بادہ ندانی بخدا تانہ چشی
صوفیانہ عشق کی مثال حضرت امام غزالی نے بہت عمدہ بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک شخص شراب پیتا ہے اور رگ و پے اور اعضائے جسمانی پر اس کے جو گوناگوں اثرات ہوتے ہیں ان سے وہ ذات تجربے کی بنا پر پوری طرح آشنا ہوتا ہے۔ بمقابلہ اس طبیب کے جو شراب نوشی ہر ایک مبسوط کتاب لکھ سکتا ہے۔ لیکن اس نے اگر خود شراب نہیں پی تو وہ اس کے ذوق و سرور سے مطلقاً نا آشنا ہوتا ہے یہی حال نظری اور علمی تصوف کا ہے۔ لیکن کہیں کہیں ایسے بزرگ بھی نظر آتے ہیں جن کے اندر یہ تاثراتی کیفیت بھی ہوتی ہے کہ اور اس کے متعلق وہ حکیمانہ نظریات پیش کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ عطار و سنائی و رومی اسی سم کے جامع عقل و عشق ہیں۔ اسی لیے ان کا کلام حکمت پسندوں اور عاشقوں دونوں کے لیے بصیرت افروز اور دل رس ہے۔ اس بارے میں رومی کے کمال کو کوئی نہیں پہنچا۔ اقبال میں بھی یہ دونوں چیزیں موجود ہیں عشق کا حکیمانہ بیان رومی سے بھی کسی قدر بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ تاثراتی پہلو رومی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشق کی یہ مستی اور ذوق اس کے متعلق حکیمانہ نظریات مسلمانوں کی زندگی میں کب پیدا ہوئے اور کس راستے سے داخل ہوئے کیا یہ چیز رسول کریم صلعم اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں موجود تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عشق شدت محبت کا نام ہے اور خود قرآن پاک نے مومن کی یہ صفت اشد حباللھ بیان کی ہے۔ مومن کی صفت ظاہر ہے کہ بدرجہ اتم محب و محبوب خدا محمد مصطفی صلعم میں موجود ہونی چاہے۔ تمام مسلمان صوفیہ جو عشق الٰہی میں مستغرق رہے اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اس عشق میں ان سے کوئی رسول کریم صلعم کے عشق تک نہ پہنچ سکا۔ عش کا کمال یہ ہے کہ عاشق کا اٹھنا، بیٹھنا کھانا پینا سونا جاگنا غرضیکہ اس کے تمام افکار و اعمال و جذبات کا محور محبوب کا عشق اور اس کا تصور ہو۔ عاشق الٰہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت قرآن کریم میں بھی اچھی طرح بیان کی گی ہے۔ عشق و عرفان کا کمال یہ ہے کہ عاشق کی مرضی معشوق کی مرضی میں ضم ہو جائے۔ اسلام کے بھی یہی معنی ہیں۔ خدا کی مشیت کے سامنے انسان کی کامل تسلیم مشیت اس تسلیم و رضا کی بدولت رسول صلعم کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ:
تہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
یہ مارمیت اذرمیت کا مقام ہے جس میں کمال فنا کمال بقا سے ہم آغوش ہے۔ جس طرح کا عشق رسولؐ کو خدا کے ساتھ تھا اس سے کچھ مشابہ عشق صحابہ کبارؓ کو رسولؐ کے ساتھ تھا۔ صحابہ کبارؓ میں کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا جو استدلال کی بنا پر یا کسی خرق عادت یا معجزے سے رسولؐ پر ایمان لایا ہو ان لوگوں میں عشق رسولؐ کی صحبت اور محبت سے پیدا ہوا اور اس محبت میں یہ شدت تھی کہ زن و فرزند اور والدین کی محبت اس کے مقابلے میں قابل اعتنا نہ تھیں۔ اس کے بعد اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ اسلام عشق سے پید ا ہوا۔ بلکہ عشق ہی کا دوسرا نام اسلام ہے۔ مغرب کے کوتاہ اندیش مستشرقوں نے یہ الاپنا شروع کیا کہ اصل اسلام میں محبت اور عشق کا کوئی سوال نہ تھا فقط خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت تھی جس کی بدولت دینداروں میں ایک زہد خشک پیدا ہو گیا۔ جس کے اندر کوئی تاثراتی پہلو نہ تھا۔ یہ مغالطہ ان کو اس لیے پید ا ہو گیا کہ اسلام کی شروع کی زندگی میں عملی اور اخلاقی پہلو غالب تھا۔ اسلام نے ایک نظریہ حیات کی تلقین کی تھی جو مومنوں کا ایمان بن گیا تھا۔ ان کو فلسفیانہ اور حکیمانہ استدلالات اور موشگافیوں کی ضرورت تھی۔ اس لیے ابتدائی دور میں نہ فلسفہ ابھر سکا اور نہ عمل کے مقابلے میں دور اول کے مسلمان عالم تاثرات میں زیادہ غوطہ زن ہوئے۔ نفسیات کا ایک مسلمہ ہے کہ تاثر اور تفکر کی کثرت قوت ارادی اور قوت عمل کو کمزور کر دیتی ہے۔ اور اسلام کا مقصد اس انقلابی اور اصلاحی دور میں انفرادی اور اجتماعی اصلاح عمل تھا۔ اور تاثر اور تفکر کو کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑا۔ جب تک کہ نئی تہذیب اور تمدن کے سانچے استوار نہ ہو گئے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عربوں کا مزاج بھی زیادہ تر عملی تھا وہ عجمیوں ہندوؤں اور یونانیوں کی طرح غوطہ خوار قلزم بود و عدم نہ تھے۔ ان کے لیے بس یہی بس تھا کہ خدائے واحدو خالق علیم و رحیم حکیم ہم سے اس قسم کے اعمال کا تقاضا کرتا ہے اور اعمال کے حسن و قبح کے ساتھ دنیا و آخرت میں جزا وسزا وابستہ ہے۔ خیر و شر کی ماہیت کے متعلق حکیمانہ استدلال شروع کرو تو ان کے امتیاز فرق اور ان کے حدود کا یقین ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ موجودہ طبیعی سائنس اس کا اقرار کرتی ہے کہ اس کی تحقیقات کا مطلق کوئی تعلق اقدار حیات کے ساتھ نہیں۔ وہ صرف مظاہر فطرت کے باہمی روابط کا علم حاصل کرتی ہے۔ خیر و شر کے متعلق اسی تذبذب نے یونان میں سقراط و افلاطون و ارسطو کے دور میں سو فسطائین کا ایک سیلاب پید اکر دیا اور وہ سپارٹا سے شکست کھا گئے جہاں کے شہر ی نظام حیات کے متعلق کوئی پیچاک انگیز بحثیں نہ کرتے اور یکے بین و یک دان و یک باش پر عامل تھے۔ محض تاثرات سے لذت اندوزی بھی اخلاقی و عملی زندگی کو ضعیف بنا دیتی ہے۔ اور جب کوئی تہذیب زوال پذیر ہوتی ہے تو ہر شخص اپنے انفرادی تاثرات میں غرق ہو جاتا ہے اور اس کو معیار زندگی بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں بھی عشق کا شاعرانہ اور صوفیانہ جوش و خروش ان کے دور انحطاط ہی میں نظر آتا ہے۔
ایسے خطوں میں ایسی ملتوں نے اسلام قبول کر لیا جن کا مزاج عربی نہ تھا ا ور جہاں پہلے سے فلسفیانہ بحثوں کے اکھاڑے موجود تھے۔ ان میں تخیلات بھی ترقی یافتہ تھے اور تاثرات بھی۔ جب یہ چیزیں حجازی اسلام میں داخل ہو کر اس کا جزو لاینفک بن گئیں تو اس سے مسلمانوں کو کچھ فوائد کے ستھ ہی لا طائل علم الکلام بھی پیدا ہوا۔ صوفیہ کے یہاں شریعت کے علاوہ عشق کے جذبے کو بھی ترقی ہوئی ظاہر پرستی کے مقابلے میں تزکیہ باطن کی طرف توجہ مبذول ہوئی لیکن باطن میں بہت زیادہ غوطہ زنی نے دین داروں کو اصلاح معاشرت اور امور مملکت سے بیگانہ کر دیا۔ آفاق کی طرف سے آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اور عالم نفسی کے احوال مرجع توجہ بن گئے۔ مشاہدہ کائنات جس پر قرآن نے بہت زیادہ زور دیا ہے سپرد تغافل ہو گیا:
چشم بند و لب بند و گوش بند
گر نہ بینی نور حق برمن بخند
روحانین کا لائحہ عمل بن گیا شریعت کی طرف سے بے اعتنائی ظہور میں آئی اور عشق الٰہی میں مست ہونے والے کہنے لگے کہ:
با خدا آں چناں مشغولم کہ از رسول خجالتہا دارم تا بہ اولوالامر چہ رسد
ان لوگوں میں سے جو رومی اور غزالی کی طرح زندگی کا توازن قائم رکھ سکے ان کی حکمت اور معرفت اور عشق نے خلق خدا کو ان سے آگاہ کیا۔ لیکن اس نفسی غوطہ زنی میں تکمیل حیات کے لیے بہت سے خطرات بھی تھے جنہوں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو غلط راستوں پر ڈال دیا۔ انسان کو اپنے نفس کے مطالعے اور محاسطے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آفاق میں آیات الٰہیہ کا مشاہدہ بھی اس کا فرض ہے۔ اسلام اسی توازن کا نام تھا۔ لیکن نفسی حالات و مقامات میں الجھنے والوں نے لوگوں کو دنیا کی طرف سے رخ پھیر لینے کی ہدایت کی:
ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن درآ
تو زغنچہ کم ندمیدہ در دل کشا بہ چمن درآ
اور کہا کہ نفس کے عالم باطن میں داخل ہو کر وہاں سے پھر باہر نہ آ سکو۔ زدر بروں نہ شدن در آ اس نظریہ حیات کی بدولت مسلمانوں کی علمی اور تہذیبی ترقی رک گئی۔ کچھ حکمت پسند افراد اپنا تحقیقی کام کرتے رہے لیکن اس کا اثر عام معاشرت پر نہ پڑا۔ یہاں تک کہ سولھویں صدی اور سترھوین صدی میں اہ مغرب نے مسلمانوں کی حکمت اور علوم و فن کی اساس پر اپنی زندگی کی تعمری شروع کی۔ یہ ترقی بھی یک طرفہ ہوئی اس لیے بہت سے فائدوں کے ساتھ کچھ نقصانات بھی اپنے ساتھ لیتی آئی۔ اقبال نے کئی مقامات پر اس بارے میں شرق و غرب کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تاثرات نفسی یعنی عشق کو عقل یا زیرکی سے الگ کرنے سے مشرق بھی گمراہ ہوا اور مغرب بھی۔ دونوں بیک وقت ترقی کریں اور باہم معاون ہوں تو انسانیت ایک نیا عالم پیدا کر سکتی ہے۔ جس کا انداز حیات مشرق و مغرب دونوں سے افضل ہو:
غریباں را زیرکی ساز حیات
شرقیاں را عشق راز کائنات
زیرکی از عشق گردد حق شناس
کار عشق از زیرکی محکم اساس
عشق چوں با زیرکی ہم بر شود
نقشبند عالم دیگر شود
خیز و نقش عالم دیگر بنہ
عشق را با زیرکی آمیز دہ
محاورہ علم و عشق کی نظم کے اشعار اوپر درج ہو چکے ہیں ان میں یہی مضمون ہے کہ علم و عشق کے تعاون سے یہ عالم پیر پھر جوان ہو سکتا ہے۔ اور ایک صالح زندگی پیدا ہو سکتی ہے۔ جسے فردوس ارضی کہہ سکیں۔ آخرت کی جنت کی حقیقت تو آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو گی لیکن عقل و عشق دونوں مل کر دنیا کو بھی جنت کا نمونہ بنا سکتے ہیں۔ اسلام کا یہ تقاضا تھا کہ اطاعت یا عبادت عشق کے درجے تک پہنچ جائے اور عبد عابد عاشق بن جائے لیکن یہ عشق ایک طرف علم یا معرفت کی بدولت پیدا ہو اور دوسری طرف معرفت اس عشق کو صراط مستقیم سے نہ ہٹنے دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں تو کہیں عشق کا ذکر نہیں۔ تمام قرآن میں کہیں ایک جگہ بھی یہ لفظ نہیں ملتا۔ لیکن ایک اصطلاح کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عشق سے بعد میں لوگوں نے جو کچھ مراد لیا ہے اس کی صحیح و صالح تشریح و توضیح قرآن میں موجود ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ لفظ عشق نہ قرآن میں ملتا ہے نہ حدیث میں اور نہ شعرائے جاہلیت کے کلام میں لیکن کیااس سے کوئی سمجھ دار انسان یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ اس دور کے عرب اس کیفیت سے ناآشنا تھے جسے عشق کہتے ہیں ؟ کیا عشقیہ شاعری اور افسانے ان کے ہاں نہ تھے اور کیا امام العشاق قیس عامری حجازی نہ تھا؟ البتہ عشق کے متعلق جو نکتہ آفرینیاں اور موشگافیاں عجمیوں نے پیدا کی وہ دور طلوع اسلام بلکہ اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک عربی ادب میں نظر نہیں آتیں۔ اس میں جو لطف پیدا کیا ہے وہ عجمی مذاق نے پیدا کیا ہے۔ مولانا شبلی اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایران کی آب و ہوا حسن و عشق سے لبریز تھی اس لیے عشقیہ شاعری کو یہاں غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ روحانیت میں بھی عشق کے عنصر کو ایران میں اس لیے ترقی ہوئی کہ ایرانیوں کی فطرت کے خمیر میں موجود تھا۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے اقبال کامل میں عشق کی بحث کرتے ہوئے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ نظریاتی اور فلسیانہ حیثیت سے عشق کے متعلق تصورات فلسفہ اشراق کی بدولت اسلامی ادب میں داخل ہوئے۔ وہ میرے نزدیک صحیح ہے۔ فلسفہ اشراق کا بہت سا حصہ فلاطینوس سکندری کی جدید فلاطونیت کا رہین منت ہے۔ جس نے یونانی فلسفے کو وحدت الوجود کا نظریہ اور تصوف بنا دیا۔ فلاطینوس کے فلسفے کا لب لباب یہ ہے کہ ذات بحت جو ذات احد ہے وہ تمام صفات اور تعینات سے ورا الورا ہے وہ ایک نور محض ہے جس کا اشعاع یا اشراق تمام ہستی میں ہوتا ہے۔ موجودات کا نظام تدریجی ہے۔ جو نفس کلی یا عقل کلی سے شروع ہو کر مادہ محض پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں ہستی کا ہر درجہ اس تنویر سے معین ہوتا ہے کہ جو اس کو آفتاب ہستی سے حاصل ہوتی ہے بلند تر درجے میں نور زیادہ ہوتا ہے۔ اور اس سے پست تر درجے میں مقابلتاً کم۔ ذات احد سے مادے تک تنزلات کا ایک سلسلہ ہے۔ اسی فلسفے کو مد نظر رکھتے ہوئے ابن عربی نے کہا ہے کہ رب رب ہی رہتا ہے خواہ اس سے تنزلات سرزد ہوں اور عبد عبد ہی رہتا ہے۔ خواہ وہ درجہ حیات میں کتنی ہی ترقی کر جائے۔ اسی بحث میں مولانا عبدالسلام نے شیخ الاشراق کی مشہور کتاب حکمۃ الاشراق کا ایک اقتباس دیا ہے جسے ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔
ہر بلند نور کو نیچے کے نور پر غلبہ و اقتدار حاصل ہے اور نیچے کا نور بلند نور سے محبت رکھتا ہے۔ اور اسی قہر و مہر سے نظام عالم کا وجود وابستہ ہے۔ اور جب بہت سے انوار جمع ہو جاتے ہیں تو بلند نور نیچے کے نور پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے اور نیچے کے نور کو بلند نور کا شوق اور عشق ہو جاتا ہے۔ اس لے نور الانوار یعنی خدا کو اپنے ماسوا تمام موجودات پر غلبہ حاصل ہے اور وہ اپنی ذات کے سوا کسی اور کا عشق نہیں کرتا۔ کیوں کہ وہ ہر چیز سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اور مکمل ہیل۔ اور اس کو اپنا کمال نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ عاشق بھی ہے اور معشوق بھی۔ اور چونکہ خدا سے بہتر کوئی چیز حسین اور مکمل نہیں اس لیے کسی چیز کو بھی دوسری چیز کے عشق میں وہ لطف حاصل نہیں ہوتا جو عشق الٰہی میں ہوتا ہے۔ غرض نظام عالم کا وجود مہر و قہر سے قائم ہے اور انوار مجردہ کی جس قدر کثرت ہوتی ہے اور جس قدر ان میں علت و معلول کا سلسلہ بڑھتا جاتا ہے اسی قدر نظام عالم مکمل ہوتا ہے اور کل عالم مل کر ایک عالم بن جاتے ہیں۔ ٭
٭ (ملخص از شرح حکمۃ الاشراق ص ۳۳۸، ۳۳۹، ۳۴۰)
اسی فلسفے نے وحدت الوجود کی صورت اختیار کر لی جو اکثر صوفیہ اور شعرائے متصوفین کا ایک دلکش مضمون ہے۔ موجودات کے اندر ہستی جس درجے کی بھی ہے وہ نور الٰہی کی کم و بیش تنویر ہے:
مشکل حکایتے است کہ ہر ذرہ عین اوست
لیکن نمی تواں کہ بشارت بہ او کنند
٭٭٭
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
یہی اشراقی اور فلاطینوسی فلسفہ کی قدر تغیر کے ساتھ جلال الدین رومی کا فلسفہ ارتقا بن گیا ہے کہ تمام ارواح خدا سے صادر ہوئی ہیں اور ان کی جو ماہیت ہے وہ الٰہی ہے۔ اس لحاظ سے ارواح بھی غیر مخلوق اور قدیم ہیں ۔ خدا سے لے کر جمادات تک موجودات کا ایک تدریجی نظام ہے۔ ہر روح خدا سے جدا ہو کر پہلے اسفل السافلین میں گرتی ہے لیکن اپنی اصل کی طرف رجعت کا میلان اس میں بدستور باقی رہتا ہے۔ کل شعی برجع الی اصلع:
ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
تمام کائنات اس لے مائل بہ ارتقاء ہے کہ وہ خدا کی طرف عود کرنا چاہتی ہے۔ اس تنزلاتی اور تدریجی نظام مین وہ جذبہ جو عالم کے اجزا اور نظم عالم غایت حیات اور کائنات نہیں۔ ہر ذرے کا مقصود و صعود الی اللہ ہے۔ ماید سے خدا تک ایک نردبان ہے اور جس ہستی کو بھی خدا کی طرف واپس جانا ہے اسے پایہ پایہ قدم بہ قدم ترقی کرنا ہے۔ مادہ آب و خاک میں جب ایک بیج ڈال دیا جاتا ہے تو اس کے گرد و پیش کا تمام مادہ جو جامد و بے جان معلوم ہوتا ہے، نبات کی محبت میں اپنی ہستی کو بنا کر کے نخل کی صورت میں مبدل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نبات کو حیوان کھا جاتے ہیں تو نبات حیوانیت کے عشق کی بدولت حیوان کی ترقی یافتہ صورت میں بدل جاتی ہے۔ نبات و حیوان دونوں کو انسان کھا جاتا ہے تو وہ انسان بن جاتے ہیں۔ اب انسان کو آئندہ کسی اعلیٰ تر روحانیت کی محبت میں ہستی کے اعلیٰ تر مدارج میں اپنے آپ کو ختم کرنا ہے۔ اسی طریقے سے عشق اعلیٰ تر اقدار حیات کا خلاق بن جاتا ہے۔ اور عشق کی بدولت ہستی کا ہر ذرہ وسیع ترین اتحاد پیدا کرنے اور اوپر کی طرف ترقی کرنے پر مائل ہے۔ ارتقا کے متعلق مولانا روم کے اشعار مشہور ہیں :
از جمادی مردم و نامہ شدم
وزنما مردم بہ حیوان سر زدم
مردم از حیوانی و آدم شدم
پس چہ ترسم کے ز مردن کم شدم
حملہ دیگر بمیرم از بشر
تا بر آرم از ملائک بال و پر
بار دیگر از ملک پراں شوم
آنچہ اندر وہم ناید آں شوم
آخر منزل خدا سے وصال کامل ہے جس پر وجود کو کوئی تصور قابل اطلاق نہیں اس لیے صوفیہ نے اس بقا کا نام عدم رکھ دیا ہے۔ جس کے معنی اثبات کامل ہیں نہ کہ نفی ہستی:
پس عدم گردم عدم چوں ارغنوں
گویدم کانا الہ راجعون
صوفیہ کے ہاں خدا کے پاس واپس لوٹنے کے عام ظاہر ی اور شرعی معنی نہیں بلکہ ذات الٰہی میں واصل اور یک رنگ و یک آہنگ ہونا ہے جو تمام جنتوں اور تمام اجروں سے افضل کیفیت ہے اور ہر ہستی کی منزل مقصود ہے:
منزل ما کبریاست
اس نظریہ حیات کو مسلمانوں کے بہت سے حکما نے قبول کیا ہے اور اخوان الصفا کے رسائل کے غیر معلوم مصنفین نے اس کو مسلمانوں میں عام کر دیا ہے۔ عشق کے اس فلسفیانہ نظریے کا لب لباب نہایت وضاحت کے ساتھ مثنوی مولانا روم کے مندرجہ ذیل اشعار میں ملتا ہے۔ ذرات کی ترکیب کے متعلق طبیعیات اور کیمیا کے نظریات اور اجرام فلکیہ کے باہمی تجاذب سے ان نظامات کا قیام اور جماد سے انسان تک حیات و کائنات کا طریق ارتقاء سب کی توجیہہ مولانا روم نے اسی نظریہ عشق سے کی ہے:
جملہ اجزائے جہاں زاں حکم پیش
جفت جفت و عاشقاں جفت خویش
ہست ہر جزوے ز عالم جفت خواہ
راست ہمچو کہربا و برگ کاہ
آسماں گوید زمیں را مرحبا
با توام چوں آہن و آہن رہا
میل ہر جزوے بہ جزوے ہم نہد
ز اتحاد ہر دو تولیدے جہد
ہر یکے خواہاں دگررا ہمچو خویش
از پے تکمیل فعل و کار خویش
دور گردوں را ز موج عشق داں
گر نبودے عشق بفسردے جہاں
کے جماعی محو گشتے در نبات
کے فداے روح گشتے نامیات
ہر یکے بر جا فسردے ہمچویخ
کے بدے پران و جویاں چوں ملخ
یہاں پر ایک شک کو رفع کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے۔ مشرق و مغرب کے بہت سے محققین اور مورخین نے تمام تصوف اور اس کے نظری اور عملی اور جذباتی پہلوؤں کو اسلام میں خارج سے داخل شدہ چیز سمجھ لیا ہے۔ کوئی اس کو فلاطینوسی فلسفے سے اخذ قرار دیتا ہے تو کوئی بدھ مت اور ویدانت سے اس کا رشتہ جوڑتا ہے۔ اس خیال کو زیادہ تر مغرب کے مستشرقین نے عام کیا ہے کہ ور اس سے ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اسلام تو ایک خشک اور سطحی چیز ہے۔ اس میں فکر و تاثیر کی کوئی گہرائی نہ تھی۔ بالفاظ دیگر وہ ایک بے روح سا جسم تھا جس میں حکماء اسلام نے جو یونانی حکمت سے متاثر تھے اور صوفیہ نے جو غیر اسلامی حیات گریز نظریات کی عملی اور فکری تلقین کرتے تھے۔ حکمت اور روحانیت کو داخل کر کے ایک نیا مرکب بنا دیا جسے ہر ایک اکسیر حیات سمجھنے لگا۔ اس خیال نے ایک جزئی حقیقت کو کامل تحقیق بن اکر تصوف اور اسلام کے باہمی تعلق کی بابت گمراہ کن افکار کی ایک تعمیر کھڑی کر دی ہے۔ اس کا جواب ہم مختصراً پہلے دے چکے ہیں کہ عشق کا لفظ قرآن و حدیث میں مستعمل نہیں ہے۔ کیوں کہ اس تصور کو بیان کرنے کے لیے عربی زبان میں اس دور تک اور الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ لیکن اسلام کی بنیاد عشق خدا اور عشق رسولؐ ہے۔ اسلام میں کائنات کو باطل فریب ادراک یا ویدانت کی طرح مایا نہیں سمجھتا۔ بلکہ اس خیال کو قرآن کئی جگہ دہراتا ہے کہ یہ کائنات حق ہے باطل نہیں۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا اور دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ہم نے اسے یوں ہی کھیل نہیں بنایا یہ ایک معنی خیز اور نہایت سنجیدہ حقیقت ہے۔ جس کا مشاہدہ اور جس کے آئین خلاق حیات و کائنات کی صفات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ قرآن حکمت کو خیر کثیر کہتا ہے اور حکمت اسی چیز کا نام ہے جسے سائنس اور فلسفہ اپنا مقصودسمجھتا ہے۔ اور مذہبی انسان تزکیہ نفس کو اس کا وسیلہ سمجھتا ہے۔ ارتقائے حیات و کائنات کے اشاروں سے بھی قرآن خالی نہیں وہ مادی کائنات کی ابتدائی حالات وہی بتاتا ہے جس پر آج کل کے طبیعی حکماء متفق ہیں کہ شروع میں ان کے دخان کی سی کیفیت تھی۔ پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ ارض و سماوات پہلے ایک مخلوط سی چیز تھے۔ اس کے بعد اجرام فلکیہ اور ارض الگ الگ ہوئے اور پھر جہاں نباتی یا حیوانی زندگی پیدا ہوئی وہ پانی بننے کے بعد ہوتی۔
اولم یرالذین کفروا ان السموات والارض کانتارتقا ففتقنھما وجعلنا من الماء کل شی ء حی افلا یومنون ۲۱:۳۰
کیا منکرین نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں کا ایک بھنڈ ا سا تھا۔ پھر ہم نے اس کو توڑ کر زمین و آسمان کو الگ الگ کیا اور پانی سے تمام جان دار چیزیں بنائیں تو کیا یہ لوگ پھر بھی یقین نہ کریں گے؟
انسان کے ارتقاء کی ابتدائی منازل کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ اس دہر میں ابتدائی دور میں وہ ایسا بے حیثیت تھا کہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی اس کا اطلاق بھی فرد پر ہوتا ہے اور نوع پر بھی:
ھل انی علی الانسان جین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا
ْپھر عام انسانی نوع تک پہنچ کر یہ ارتقا ختم نہیں ہوتا کیوں کہ قرآن کا نصب العینی آدم جو انسان کامل کا تصور ہے مسجود ملائک ہے اور یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ تخلقو باخلاق اللہ کی منزلیں طے کرتا ہوا وہ ایسے صفات پیدا کرے کہ جو حکمت و مشیت الٰہی سے ہم آہنگی کی بدولت اس کو الوہیت سے بہت قریب کر دیں۔
امریکہ میں راقم الحروف نے فلسفہ اسلام پر بہت سے لیکچر دیے۔ ایک روز بوسٹن میں سیسل یوینورسٹی کا مشہور پروفسیر ناتھروپ جس نے شرقی اور اسلامی نظریات حیات پر مبسوط کتابیں تصنیف کی ہیں۔ مجھ سے کچھ سوالات پوچھنے کے لیے ساٹھ میل کی مسافت طے کر کے آیا وہ علامہ اقبال کی بالغ النظری کا بہت قائل تھا۔ اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ اقبال نے یہ خودی اور عشق کے نظریات قرآن میں سے کہاں سے اخذ کیے ہیں ؟ کیوں کہ اقبال اس تعلیم کا ماخذ قرآن ہی بتاتا ہے۔ میں نے اس کو قرآن کا نظریہ آدم بڑی وضاحت سے بتایا اور پھر اس سے دریافت کیا کہ بتاؤ کہ اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اسی نظریے کی شرح و تفسیر ہے یا نہیں۔ اس نے بے حد شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مدت سے ایک کانٹا میرے دل میں کھٹک رہا تھا۔ آج تم نے وہ کانٹا نکال دیا۔
اسلام یا قرآن کبھی اس کا مدعی نہیں ہوا کہ اس کی تعلیم کے اہم اجزا اس سے قبل کبھی انسانوں پر منکشف نہ ہوئے تھے۔ وہ خواہ مخواہ اوریجنلٹی کا دعویدار نہیں وہ انسانوں کو بھولی ہوئی صداقتیں یاد دلاتا ہے جو دنیا کے قریہ قریہ میں مختلف انبیا مختلف زبانوں میں پیش کر چکے تھے۔ بعض صداقتوں کا انکشاف انبیا پر ہو جاتا ہے اور بعض کا حکماء پر کیوں کہ حکمت بالغہ بھی نبوت کا ایک جزو یا اس کی ایک قسم ہے۔ اگر قرآنی تعلیمات اور متشابہات کو تقویت پہنچانے کے لیے قبل اسلام کے فلاسفہ یا روحانی انسانوں کے تجربات اور متشابہات کو تقویت پہنچانے کے لیے قبل اسلام کے فلاسفہ یا روحانی انسانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ شرحیں اور تفسریریں غیر اسلامی نہیں بن جاتیں فقط یہ دیکھنا ہے کہ وہ قرآن کی بین اور اساسی تعلیمات سے متناقض نہ ہوں۔ تصوف کی بابت اہم سوال یہ ہے کہ کیا اشراقی نظریہ عشق جو صوفیانہ شاعری کا راس المال بن گیا قرآنی تعلیم کا معاون ہے یا اس کا مخالف؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دین کی اصلی بنیاد توحید ہے اور جس قدر اس عقیدے میں گہرائی پیدا ہو گی اسی قدر وہ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو تا جائے گا۔ اگر تمام کائنات ایک خدائے واحد کا مظہر ہے تو اس کی کثرت میں وحدت کا ہونا لازمی ہے۔ کثرت میں وحدت نظم و آئین سے پیدا ہوتی ہے۔ اور مظاہر میں رابطہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ جب تک ان کے درمیان اتصال کا میلان نہ ہو۔ کائنات کے اجزا باہمی تجاذب ہی سے قائم رہ سکتے ہیں۔ اسی تجاذب اور میلان ربط و صل کو حکماء اشراق اور صوفیہ نے عشق سے تعبیر کیا ہے۔ یہ نظریات اور حقائق توحید ہی سے اخذ ہو سکتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر خدائے واحد کے علاوہ مختلف اداروں اور خواہشوں والے دیوتا نظم کائنات میں دخیل ہوتے تو کائنات میں تنظیم کی بجائے فساد ہی بپا رہتا۔ تنظیم بھی توحید سے سرزد ہوتی ہے اور ارتقا بھی توحید کا نتیجہ ہے۔ کیوں کہ حد اخلاق ہی نہیں بلکہ رب بھی ہے۔ ربوبیت کا تقاضا نشوونما ہے۔ یعنی ہر چیز میں جو صلاحیتیں مضمر ہیں ان کا امکان سے وجود میں لانا ہے اور اسلام خدا رب المسلمین ہی نہیں بلکہ اپنی لامحدود وسعت ربوبیت میں رب العالمین ہے۔ کائنات میں ہر شے کی ربوبیت رحمت الٰہی نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ اور جو ازروئے قرآن ہر شے پر محیط ہے۔ حکماء اشراقین نے صرف اس کی توضیح کی کہ کائنات میں وحدت اور ربوبیت کے کیا آئین اور کیا طریق عمل ہیں۔ کائنات میں تدریج فرق اور مراتب موجود ہے اور ترقی کے معنی اوپر کے درجے کی محبت پیدا کر کے اپنی صلاحیتوں کو بلند تر مدارج تک پہنچانا ہے۔ جس کی بدولت آب و گل نبات بن جاتے ہیں۔ اور نبات حیات حیوانی کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ اگر حجازی اسلام میں ابھی یہ افکار اس انداز میں موجود نہ تھے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ افکار غیر اسلامی ہیں ۔ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی صداقت تھی یا ہے وہ اسلامی چیز ہے۔ جلال الدین رومی یا اقبال نے خودی اور عشق کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ قرآن کی بنیادی تعلیم سے اسی طرح پیدا ہوا ہے۔ جس طرح کہ برگ و ثمر سے لدا ہوا نخل بلند ایک معمولی سے بیج میں سے نکلتا ہے۔ یہ درست ہے کہ تصوف اور حکمت یونانی کے راستوں سے بہت سی غیر اسلامی تعلیمات بھی اسلام میں داخل ہو گئیں لیکن جو شخص روح اسلام سے واقف ہو وہ ان کو آسانی سے الگ کر سکتا ہے۔ محض ان مخربات سے گھبرا کر تمام حکمت و تصوف کو غیر اسلامی بنا دینا فکر و نظر میں افلاس پید ا کرنا ہے۔
تاریخ اسلام میں اقبال کا حقیقی پیش رو عار ف رومی ہے۔ مولانا روم فلسفے اور تصوف دونوں کے اسرار و رموز سے واقف تھے اس لیے وہ دونوں کے فرق و امتیاز سے آشنا تھے۔ وہ خود ایک قسم کے فلسفی تھے اسی لیے مسلمانوں نے انہیں مولوی معنوی کا لقب عطا کیا۔ وہ روحانی عقائد پر بھی حکیمانہ استدلال کرتے ہیں۔ اگرچہ بار بار پڑھنے والے کو اس سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر تم نے خالی استدلال پر بھروسا کیا تو روحانی زندگی کی حقیقت سے پوری طرح آشنا نہ ہو سکو گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے زیادہ عشق پیدا کرو جو کنہ حیات کا کاشف رموز اور وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ رومی کے زمانے میں ایک طرف فلسفہ اور علم کلام زوروں پر تھا۔ اور دوسری طرف صوفیہ نے عشق کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اسی لیے رومی کے کلام میں عقل و عشق کی آمیزش بھی ہے اور آویزش بھی۔ یہی حال اقبال کا ہے۔ اس کے ہاں بھی عقل و عشق اور دین و دانش کہیں باہم معاون نظر آتے ہیں تو کہیں ایک دوسرے کے حریف۔ عقلیات نے جو ترقی گزشتہ دو سو سال میں کی وہ رومی کے زمانے کے فلسفے اورسائنس کے مقابلے میں ہزار فرسنگ آگے ہے۔ اسی لیے روحانیت کو جو خطرہ رومی کے زمانے میں فلسفے کی طرف سے محسوس ہوتا ہے وہ اس کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہ تھا۔ جو زمانہ حال کی طبیعی سائنس اور اس سے پیدا شدہ نظریہ حیات کی وجہ سے پیدا ہوا۔ یہ زمانہ تو بقول اقبال آتش زن ہر خرمن ہے اور تمام اقوام کہن اور ان کے مسلمات اس آگ کا ایندھن بن گئے ہیں۔ اس الحاد آفرینی کے خلاف اقبال کو اتنے جو ش و خروش سے جہاد کرنا پڑٓ کہ جو رومی کے ہاں بھی نظر نہیں آتا۔ رومی میں عشق و مستی اقبال کے مقابلے میں کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ لیکن عشق اور عقل کے تقابل میں اقبال نے بعض ایسے نکات پیدا کیے ہیں جو رومی میں کم نظر آتے ہیں مگر اقبال نے عقل و عشق کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ اساسی طور پر رومی میں موجود ہے اور جا بجا اقبال اس سے فیض حاصل کرتا اور مریدی کا اقرار کرتا ہے۔ لیکن اقبال نے اس مضمون کو ایسی وسعت دی ہے جو پہلے کہیں نظر نہیں آتی۔ اقبال کو اس کا قوی احساس پیدا ہو گیا تھا کہ چھٹی صدی ہجری کے قریب جو فتنہ علم کلام اور یونانی فسلفے نے پیدا کیا تھا اسی قسم کا فتنہ زیادہ شر انگیزی کے ساتھ زمانہ حال میں پیدا ہوا ہے۔ اور آج روحانی زندگی کی بقا کے لیے رومی ہی کے قسم کے آدمی کی ضرورت ہے۔ جو عقل اور عشق دونوں کا رمزشناس ہو اور جزوی عقل طبیعی کے لیے مقابلے میں جذبہ عشق کو استوار کرے۔ اقبال کہتا ہے کہ دور حاضر میں خدا نے اس جہاد کے لیے مجھے مامور کیا ہے:
چو رومی در حرم دادم اذان من
ازو آموختم اسرار جاں من
بہ دور فتنہ عصر کہن او
بہ دور فتنہ عصر رواں من
ہم اس سے پہلے کس قدر شرع و بسط کے ساتھ یہ لکھ چکے ہیں کہ اقبال عقل اور فلسفے کے متعلق کیا کہتا ہے۔ وہ اکثر اس کے مقابلے میں عشق کو پیش کرتا ہے اور اس تقابل میں دونوں کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عشق کی گرفت اس کے قلب پر ایسی ہے کہ ہزار طریقوں سے اس کا ذکر کرتا ہے مگر ہر شعر میں انداز بیان نرالا ہوتا ہے۔ کہیں خالی جذبے کا اظہار ہے اور کہیں یہ واضح کرتا ہے کہ زندگی میں عشق کا مقام اور وظیفہ کیا ہے عشق کے متعلق اس نے جو کچھ کہا ہے اگر سب کو جمع کیا جائے تو ایک دفتر بن جائے۔ کیوں کہ دور آخر میں یہ مضمون اس کی تمام وجدانی شاعری پر چھایا ہو ا ہے۔ کچھ منتخب اشعار درج ذیل کیے جاتے ہیں جن سے عشق کے متعلق اس کے نظریات کے مختلف پہلو سامنے آ جائیں گے:
زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل
بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناری ست
عشق نہ فقہ ہے نہ زہد اور نہ حکمت اس میں یک بینی یک گیری اورسادگی ہے۔ عقل کے نظریات استدلال سے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ اور کسی ایک یقین پر قائم نہیں ہونے دیتے:
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے زاہد نہ حکیم
قرآن کی کلامی اور روایتی تفسیریں بھی وہ گہری روحانیت پیدا نہیں کر سکتیں جو عشق سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے مفسر اعظم امام رازی کے متعلق جو کچھ رومی نے کہا اقبال بھی اس کو دہراتا ہے:
پاے استدلالیاں چوبیں بود
پاے چوبیں سخت بے تمکین بود
گر باستدلال کار دین بدے
فخر رازی رازدار دیں بدے
(رومی)
علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
(اقبال)
بو علی اور فارابی جیسے فلاسفہ کے حقیقت نارس ہونے کے متعلق رومی میں بھی کئی اشعار ملتے ہیں اور اقبال کے کلام میں بھی۔ بو علی سینا اور فارابی کی کتابوں کے اندر جاگزیں کرم کتابی پروانے سے اظہار افسوس کرتا ہے۔ کہ مدتوں سے اس کتاب کو چاٹ رہا ہوں لیکن اس کی حکمت نے مجھے کچھ نہیں سمجھایا۔ پروانہ جواب دیتا ہے کہ اسرار حیات تپش عشق سے فاش ہوتے ہیں جس سے زندگی بھی پیدا ہوتی ہے اور پرواز بھی۔ کتاب میں سے نکلو تو تمہیں کچھ حاصل ہو۔
شنیدم شبے در کتب خانہ من
بہ پرواز می گفت کرم کتابی
باوراق سینا نشیمن گرفتم
بسے دیدم از نسخہ فاریابی
نفہمیدہ ام حکمت زندگی را
ہمان تیرہ روزم ز بے آفتابی
نکو گفت پروانہ نیم سوزے
کہ ایں نکتہ را در کتابے نیابی
تپش می کند زندہ تر زندگی را
تپش می دہد بال و پر زندگی را
عشق انسان کے اندر بصیرت اور قوت دونوں کا اضافہ کرتا ہے اوراسے ایسی حقیقت سے آشنا کرتا ہے جو زمانی اور مکانی نہیں۔ عقل عالم مادی کو مسخر کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے۔ عقل خارا شگاف ہے مگر عشق عالم مادی کو پر کاہ کے برابر سمجھتا ہے۔ عشق کی قوت طبیعیات کے علم سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کا ماخذ روح انسانی ہے جس کی باطنی قوتیں لامتناہی ہیں :
می نداند عشق سال و ماہ را
دیر و زود و نزد و دور راہ را
عقل در کوہے شگافے می کند
یا بگرد او طوافے می کند
کوہ پیش عشق چوں کاہے بود
دل سریع السیر چوں ماہے بود
زور عشق از باد او خاک و آب نیست
قوتش از سختی اعصاب نیست
مگر اکثر صوفیہ کے ہاں عشق فعال اور خلاق دکھائی نہیں دیتا۔ وہاں زیادہ تر محویت اور استغراق نظر آتا ہے۔ یہ استغراق خلوت ہی میں حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن خالی خلوت سے یک طرفہ روحانیت اور رہبانیت پیدا ہوتی ہے جو اسلام میں ممنوع ہے۔ زندگی کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہستی میں نفس بھی ہے اور آفاق بھی۔ اور ازروئے قرآن ظاہر و باطن ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جن کو الگ کرنے کی کوشش ناکامی کا باعث ہوتی ہے۔ اقبال نے خلوت کی تعریف میں بہت کچھ کیا ہے۔ خلوت میں روح اور عشق کی پرورش ہوتی ہے۔ لیکن اس تربیت باطنی کا نتیجہ جلوت میں ظاہر ہونا چاہیے تاکہ شخصی اور اجتماعی زندگی میں انقلاب پیدا ہو رسول اللہ صلعم نے بھی ایک زمانہ خلوت کو کبھی ترک نہ کیا۔ اقبال کے نزدیک عشق کی بہترین مثال رسول کریم صلعم کی زندگی ہے جس میں خلوت اور جلوت کا توازن پایا جاتا ہے۔ عقل جلوت کی طرف کھینچتی ہے اور عشق خلوت کی طرف لیکن زندگی کی تکمیل دونوں کے توازن سے ہوتی ہے۔
عقل اور ا سوے جلوت می کشد
عشق اور ا سوے خلوت می کشد
جلوت اور وشن از نور صفات
خلوت او مستیز از نور ذات
خلوت نشینی کا مقصد نور ذات سے مستیز ہو کر ملتوں کی زندگی اور انسانوں کی سیرتوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے۔ مگر خلوت میں عشق کی کیفیات سے لذت اندوزی مقصود حیات نہیں۔ خلوت میں جب انسان اپنی پوری خودی کے اسرار فاش ہوتے ہیں تو وہ جلوت میں ایک نیا عالم پیدا کرتی ہے:
مصطفی اندر حرا خلوت گزید
مدتے جز خویشتن کس را ندید
نقشما را در دل اور یختند
ملتے از خلوتش انگیتند
اگر کسی فرس کے عشق الٰہی سے کوئی نیا عالم پیدا نہ ہو جو زندگی کے فرسودہ طریقوں کو تقویم پارینہ کر دے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے اقدار کی تقدیر نو کر دے تو ایسا عشق روحانی لذت کا اسیر ہو جاتا ہے اور کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکتا:
بیا اے کشت ما اے حاصل ما
بیا اے عشق اے رمز دل ما
کہن گشتند ایں خاکی نہاداں
دگر آدم بنا کن از گل ما
یہ ویسی ہی خواہش ہے جو رومی ے عشق نے بھی اس کے دل میں پیدا کی تھی۔ رومی اقبال کی طرح ارتقائی صوفی ہے اور آدم جس درجے تک پہنچ سکا ہے اس سے آگے قدم رکھنے کا آرزو مند ہے۔ خواہ اس نئے عالم اور نئے آدم کا تصور پوری طرح ذہن میں نہ آ سکے۔ بہرحال یہ تمنا فطرت حیات میں مضمر ہے جسے غالب نے اس بلیغ شعر میں ادا کیا ہے:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
٭٭٭
دی شیخ با چراغ ہمی کشت گرد شہر
کز دامو دو ملولم و انسانم آرزوست
از ہمرہان ست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم یزدانم آرزوست
گھتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
مغربی حکما میں مجذوب فرنگی نطشہ بھی انسان کو فوق الانسان ہستی بننے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور موجودہ انسان کے سست عناصر ہونے سے بیزار تھا۔ لیکن اس اعلیٰ تر نوع کے جو صفات وہ بیان کرتا ہے اس سے تو وہ محض الحیوان ہستی ایک مطلق العنان قوی تر جوان ہی معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے لکھا ہے کہ عظمت انسانی کے تصور میں یہ مرد حکیم بھٹک گیا۔
مشرقی عشق الٰہی میں مستغرق ہو کر دنیا و مافیہا سے غافل ہو گئے۔ اور مغربی اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ عقلیت اور مادیت ہی سے ایک بہتر قسم کا عالم انسانیت پیدا ہو سکتا ہے۔ اقبال نے اس خیال کو کئی جگہ دہرایا ہے کہ عالم نو عشق اور عقل کی آمیزش ہی سے پیدا ہو سکتا ہے یہ کام ابھی نہ شرقیوں نے کیا ہے اور نہ غریبوں نے۔ اس لیے اقبال کہتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑو ان دونوں کی قیمت ایک جو کے برابر نہیں :
بگذر از خاور و افسوسنی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
عشق اور زیرکی کی آمیزش سے ایک نیا عالم اور نیا آدم پیدا کرنا اقبال کا خاص مضمون ہے۔ جو اس کے مرشد رومی کے کلا میں بھی اس وضاحت سے نہیں ملتا۔ رومی کے ہاں اس مضمون کے نہایت دل کش اشعار ملتے ہیں کہ اس زمانی اور انسانی و حیوانی عالم کے علاوہ وسعت تر عالم موجود ہیں۔ جن کا انکشاف روحانی ترقی سے انسان پر ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس جہاں کی مثال رحم کی سی ہے جس میں سے نکل کر انسان پر وسیع تر عالم منکشف ہوتے ہیں اس لیے وہ عشق کی اس باطنی بصیرت افروزی اور وسعت آفرینی کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن یہ مضمون اس کے ہاں نہیں ملتا کہ اسی زمانی اور مکانی عالم کے اندر رہتے ہوئے عشق اور عقل کے تعاون سے عالم نو پیدا ہو سکتا ہے۔ مغرب میں کئی انقلابی تحریکیں ہوئی ہیں اور ہر ایک اس کی مدعی ہوئی کہ اس کی بدولت انسان ایک جدید اور دلکش دنیا بنا لے گا جو حسن و جمال علم و کمال اور عدل و محبت سے لبریز ہو گی۔ لیکن ہر انقلاب کے بعد انسانوں کو مایوسی ہوئی کہ انسان کے ظلوماً جہولا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ کچھ اضافہ ہی ہو گیا ہے۔ اقبال اب ایک نسخہ تجویز کرتا ہے کہ جس پر کسی تہذیب و تمدن نے ابھی تک پوری طرح عمل نہیں کیا۔ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ فرنگیوں کی طرف نہ دیکھو اور میرا نسخہ استعمال کرو جو طلوع اسلام کے وقت مسلمانوں نے چند روز استعمال کیا تھا:
خیز و نقش عالم دیگر بنہ
عشق را با زیرکی آمیز دہ
٭٭٭
شعلہ افرنگیاں نم خوردہ ایست
چشم شاں صاحب نظر دل مردہ ایست
سوز ومستی را مجو از تاک شاں
عصر دیگر نیست در افلاک شاں
زندگی را سوزو ساز از نار تست
عالم نو آفریدن کار تست
عشق کی ہر قوم کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔ لیکن جس شاعر میں حکیمانہ نگاہ کی کمی ہوتی ہے اور تاثر کی زیادتی وہ اپنی شاعری میں اپنے عشق کی کیفیات اور معاملات کو بیان کر دیتا ہے۔ اور اس کے متعلق کوئی نظریہ پیش نہیں کرتا۔ لیکن کہیں کہیں عشق مجازی یا عشق حقیقی سے بہرہ اندوز شاعر ایسے بھی پیدا ہو جاتے ہیں کہ جن کی طبیعت میں فکر و تاثر کی آمیزش ہوتی ہے۔ وہ اپنی کیفیات اور نفسیات بھی بیان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تمام زندگی میں عشق یا محبت کا جو مقام ہے اس کے تعین کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ رومی کی طرح کے بعض صوفی شعراء ایسے بھی گزرے ہیں جن میں عشق مجازی کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ وہ زبان عشق مجازی ہی کی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ جس قسم کے عشق کو وہ محسوس کرتے ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے کوئی زبان وضع نہیں ہوئی۔ عارف رومی بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہتا ہے:
کاشکے ہستی زبانے داشتے
تا ز مستاں پردہ ہا برداشتے
اے خدا بنما تو جان را آں مقام
کاندراں بے حرف می روید کلام
اور مرزا غالب اس بے بسی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ:
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
جہاں فکر و اندیشہ کا دخل نہیں وہاں زبان کہاں سے آئے گی کیوں کہ انسان کے اندر فکر و زبان ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں اور بعض ماہرین نفسیات کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے اندر کوئی خیال زبان کا جامہ پہنے بغیر ذہن میں آ ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے مرزا صاحب یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ:
حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن
از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن
اکثر صوفیہ و حکماء کی طرح اقبال کی زندگی میں بھی عشق مجازی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی عالم شباب کی شاعری میں کہیں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ مگر یہ آتی جاتی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ان کا یہ شبابی عشق مصری کی مکھی کی طرح ہے شہد کی مکھی نہیں جس کے پاؤں اس میں دھنس کر رہ جائیں بقول غالب:
من بجا ماندم و رقیب بدر زد
نیمہ لبش انگبیں و نیمہ طبرزد
اصل حقیقت وہی ہے کہ جسے انہوں نے بعد میں ایک مصرعے میں ادا کر دیا ہے کہ دل بکسے نہ باختہ کسی فرد کے عشق میں اقبال کبھی بھی آہیں بھرتا یا شب فراق میں اختر شماری کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر بانگ درا کی شبابی نظموں کے ساتھ ساتھ ہی اس کے عشق کے متعلق بھی نظمیں ملتی ہیں۔ جسے عشق حقیقی کہیے یا عشق الٰہی یا عالم گیر حیات و کائنات کے متعلق ایک گہرا اور وسیع مگر مبہم جذبہ بانگ درا میں درد عشق کے عنوان سے ایک نظم ہے۔ یہ وہ درد ہے جو روح اور فطرت کی گہرائیں میں پایا جاتا ہے۔ اور جسے پنہاں رکھنا اس کی پرور ش کرنا ہے۔ یہاں مجاز سے حقیقت کی طرف گریز ہے۔ ظاہر پرست جسے عشق کہتے ہیں اور جس کی بابت مولانا روم
ایں نہ عشق است این کہ در مردم بود
ایں فساد از خوردن گندم بود
یہ عشق نہیں بلکہ جسمانیت کی پیدا کردہ ہوس ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ایسوں سے عشق کی بات نہ کرنا وہ اسے اپنی قسم کا عشق سمجھ لیں گے۔
اے درد عشق! ہے گہر آبدار تو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں نہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل تو کی نگاہ ہے
پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا
اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا
گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو
آواز نے میں شکوہ فرقت نہاں نہ ہو
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
اسی نظم کے آخری اشعار میں اقبال نے اپنا وہ نظریہ بھی بیان کر دیا ہے کہ جس میں وہ رومی جیسے صوفیہ کا اہم آہنگ ہے۔ کہ علم و عقل جو حیرت پیدا کرتی ہے وہ اس سے الگ چیز ہے اور خالی حکمت کی رسائی عشق پنہاں تک نہیں ہو سکتی:
غافل ہے تجھ سے حیرت علم آفریدہ دیکھ!
جویا نہیں تری نگہ نا رسیدہ دیکھ
رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدہ حکمت پسند کو
یہ انجمن ہے کشتہ نظارہ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
اقبال کے اس دور میں ضمیر فطرت کا یہ پنہاں جذبہ ہے خلوت سے جلوت میں آنے پر مائل معلوم نہیں ہوتا۔ ابھی وہ فعال و خلاق و انقلاب آفرین نہیں بنا۔ اس کے عشق میں یہ ارتقاء رفتہ رفتہ ہو گا اور انجام کار اس کا رنگ اور ٓہنگ ایسا ہو جائے گا کہ جو اس کو خلوت نشیں حیات گریز محض خدا مست صوفیوں سے الگ کر دے گا۔ زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز کا جذبہ ابھی اس میں نظر نہیں آتا۔
ٹینی سن کی ایک نظم کا آزاد ترجمہ بھی بانگ دار میں ملتا ہے۔ اس کا موضوع یہ ہے کہ عشق کے فرشتے سے موت کے فرشتے کی ملاقات ہو گئی۔ ملک العشق کے سوال کرنے پر ملک الموت نے جواب دیا کہ میرا کام رخت ہستی کے پرزے اڑا دینا ہے۔ لیکن ایک چیز ہے جو میری فنا کوشی کی گرفت میں نہیں آتی اور میں اس کے مقابل میں آؤں تو خود اس طرح اڑ جاتا ہوں جس طرح آگ سے پارہ ہوا ہو جائے۔ یہ آگ جو انسان کے دل میں شرر بن کر پنہاں رہتی ہے وہ نار بھی ہے اور نور بھی۔ یہی شرر نور مطلق کی آنکھوں کا تارا ہے ملک العشق کے لبوں پر ایک تبسم کی لہر آئی جو بجلی بن کر اجل پر گری اور عشق کے سامنے فضا کو خود موت آ گئی۔ موت کہتی ہے:
اڑاتی ہوں میں رخت ہستی کے پرزے
بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا
مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی
وہ آتشہے سامنے اس کے پارا
شرر بن کے رہتی ہے انسان کے دل میں
وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا
٭٭٭
سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا
گری اس تبسم کی بجلی اجل پر
اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا
بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی ہو
قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ
جسمانی زندگی میں حیات و موت عناصر مادی کی ترکیب و تحلیل کا نام ہے۔ لیکن جوہر روح اس عالم کون و فساد کی چیز نہیں۔ اس کی حقیقت نہ مادی ہے اور نہ زمانی و مکانی۔ اس جوہر روح کی بقا کا ضامن عشق ہے۔ جس کی بدولت انسان ابد پیوند ہو جاتا ہے۔ محض حکمت موت پر غالب نہیں آ سکتی؟ چوں قضا آید طبیب ابلہ شود بقا فقط عشق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ عشق حقیقی ماخذ حیات بھی ہے اور مقصود حیات بھی۔ وہ جادہ حیات بھی ہے اور منزل حیات بھی:
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق
عشق اگر اشیاء افراد کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو وہ خود حادث بن جاتا ہے۔ حادث کا عشق بھی حادث ہو گا۔ اس لیے عارف رومی فرماتے ہیں :
عشق آں زندہ گزیں کو باقی است
و ز شراب جانفرایت ساقی است
اپنی شبابی نظموں میں اقبال نے اس تغیر پذیر عشق کا بھی دل کھول کر ذکر کیا ہے اور معشوق کے ساتھ بے وفائی اور اپنے ہرجائی ہونے کا جواز پیش کیا ہے۔ نظم کا عنوان عاشق ہرجائی ہے:
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟
ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب
اے تلون کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے
لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو
تیری بیتابی کے صدقے ہے عجب بیتاب تو
اس کا جواز پیش کرتے ہوئے افلاطونی تصوف سے مدد لی ہے کہ ہر حسین حسن مطلق کے پرتو سے حسین دکھائی دیتا ہے۔ یہ پرتو مٹا اور حسن حسین غائب ہوا:
گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں
جستجو کل کے لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے
حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں
زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری
عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں
سچ اگر پوچھیے تو افلاس تخیل ہے وفا
دل میں ہر اک دم نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں
عشق کو آزادستور وفا رکھنے کا آخر میں یہ نتیجہ ہوا کہ اقبال کو کسی معشوق سے نہیں بلکہ خود عشق سے عشق ہو گیا۔ وہ عشق جو پکارنے لگا صورت نہ پرستم من وہ عشق جو زمان و مکان اور افراد و اشیا کا خالق ہونے کی وجہ سے خود اپنے پیدا کردہ حدود و قیود سے آزاد ہو گیا۔ اس کو عشق الہی کہیے یا عشق حیات لامتناہی۔ اقبال اسی میں مست ہو گیا اور اسی کی تصریح و تبلیغ کرنے لگا۔ اس عشق نے وہ تلاطم پیدا کیا جو بقول غالب:
شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے
اقبال کی اس نظم کا مقطع عشق اور ماہیت حیات کے متعلق اس کے آئندہ تصورات کا آئنہ دار ہے شعر صد فی صد بیدل کے رنگ کا ہے مگر اقبال کا اپنا ہے:
در بیابان طلب پیوستہ می کوشیم ما
موج بحریم و شکست خویش بر دوشیم ما
اس عشق کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا اور خود اقبال اس کی انتہا کا آرزو مند نہیں کیوں کہ اس کے نزدیک زندگی ازل سے ابد تک جستجو ہی جستجو ہے:
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
ابتدائی غزلوں می اقبال کا ایک شعر تھا:
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ عشق کی انتہا بھی ہوتی ہے اور کیا آپ واقعی اس کی انتہا کے متمنی ہیں ؟ اس کا جواب اقبال نے یہ دیا کہ آپ نے دوسرے مصرع پر غور نہیں کیا کہ میں نے خود اس آرو کو سادگی یعنی بے وقوفی کہا ہے۔ یہ جواب کچھ اسی انداز کا ہے جو غالب کے ایک شعر کے متعلق ایک صاحب نے دیا:
غلطیہائے مضامین مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا کہتے ہیں
معترض نے کہا کہ غالب فارسی دانی کے کمال کے باوجود ٹھوکر کھا گیا ہے لفظ غلطی ہا غلط ہے صحیح لفظ غلطہا ہے۔ جواب دینے والے نے کہا عجب بے وقوف ہو غالب نے جان بوجھ کر غلط لکھا ہے اس لیے وہ خود کہہ رہا ہے کہ غلطیہائے مضامین مت پوچھ اس کے باوجود تم پوچھنے پر اصرار کرتے ہو۔
بانگ درا میں ایک نظم پیام عشق کے عنوان سے ہے جہاں اقبال کا نظریہ عشق نمایاں ہو گیا ہے۔ کہ عشق ایک انقلاب آفریں اور ارتقا کوش جذبہ ہے:
سن اے طلبگار درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومنات دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا
کسی زمانے میں بھی کسی فرد نے جو کمال پیدا کیا ہے وہ عشق کی بدولت تمام انسان پیدا کر سکتے ہیں :
فیض روح القدس ار باز مدد فرماید
دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد
(حافظ)
اقبال کہتا ہے کہ سکندر نے آئینہ بنایا تھا تو بھی بنا سکتا ہے۔ تیرے سینے میں بھی اس کا سامان موجود ہے۔ پیکار حیات کو نا فہم لوگ عشق کے منافی سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ مصاف ہستی خود عشق نے پیدا کی ہے تاکہ آویزش و ورزش سے تیری قوتوں میں اضافہ ہو۔ عشق کسی افعالی تاثر کا نام نہیں ہے۔ وہ کمال درجے کی فعلیت کا مصدر و ماخذ ہے۔ عشق کو مسخر حیات و کائنات ہونا چاہیے۔ قناعت کے یہ معنی نہیں کہ تو اپنی آرزوؤں کو محدود کرے۔ زندگی کی وسعت تو توفیر آرزو سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ آرزو ایسی ہونی چاہیے کہ جو مفاد حاضر پر نظر جمانے کی بجائے موجود و غائب ہستی پر محیط ہو۔ فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر ہو:
نہ ہو قناعت شعار گلچیں اسی سے قائم ہے شان تیری
وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا
اسی خیال کو اقبال نے ایک اور شعر میں ادا کیا ہے:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
یہاں غالب کا ایک صوفیانہ اور حکیمانہ شعر یاد آ گیا :
ہر چہ درمبداء فیاض بود آن من است
گل جدا ناشدہ از شاخ بدامان من است
غالب کا یہ شعر اقبال کے شعر سے اونچا ہو گیا ہے پھولوں اور کلیوں کو توڑنے اور اپنے پیراہن کے دامن کو دراز کرنے کی ضرورت نہیں کائنات کے متعلق ایسا ذوق اور ایسی نگاہ پیدا کرنی چاہیے جو توڑنے کے بغیر گلشن حیات کے پھول انسان کے تاثر اور شعور کے دامن میں آ جائیں اقبال خود بھی عشق میں اسی قسم کی وسعت چاہتا ہے۔ مگر غالب کا انداز بیان زیادہ لطیف ہے۔ غزل کے آخری اشعار میں اقبال عشق کی طرف سے یہ پیغام دیتا ہے کہ اب عشق الٰہی میں راہبانہ صحرا نوردیوں کا زمانہ نہیں اب عشق کی بدولت محفل کومستیز ہونا چاہیے اور اسے ملت میں فروغ و ترقی کا سامان مہیا کرنا چاہیے:
گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں میاں محفل گداز ہو جا
عبدالقادر کے نام پیام میں بھی اقبال یہی کچھ کہہ گیا ہے:
شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں
خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں
اقبال کے فارسی کلام میں عشق کا ولولہ بھی ہے اور اس کے بیان میں حکیمانہ کثرت بھی ہے۔ رفتہ رفتہ تمام کائنات پر یہ رنگ چھا گیا ہے ااس کے اشعار سے جو تاثر اور اس کے ساتھ جو بصیرت پیدا ہوتی ہے نثر میں اس کے متعلق کچھ لکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی حکیم نباتی پھول کو توڑ کر اس کے اجزا کا تجزیہ کرے۔ بہرحال ان کے اندر فکر یا نظریہ حیات کا جو پہلو ہے اس کا افہام و تفہیم کی خاطر الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسی تنقید بھی برگ درخت سبز کے مقابلے میں ایک زرد و خشک خزاں زدہ پتا معلوم ہوتی ہے۔ شعر ایک ذوق چیز ہے اس میں سے زبان کی صفتوں اور مضمون کو اخذ کر دینا وہی شکایت پیدا کرتا ہے جو کسی مدرس کی تنقید پر انوری کی زبان سے نکلی تھی۔ کہ شعر مرا بمدرسہ کہ برد اقبال بھی یہ شکایت کر سکتا ہے کہ شعر مرا بفلسفی کہ برد۔ اس تنقید کا ایک ہی جواز ہو سکتا ہے کہ حضرت نے خود بھی شعر میں حکمت کی آمیزش کی ہے اور اس لیے اس میں سے حکمت کو الگ کر کے دیکھنا یا دکھانا کوئی ایسا بڑا جرم نہیں۔
ہم کچھ اشعار پیام مشرق میں سے نقل کرتے ہیں۔ حسب ضرورت کسی قدر شرح بھی بیان ہوتی جائے گی۔
لالہ طور کی پہلی رباعی ہی میں اقبال نے تمام ہستی کو خلاق وجود کا عاشق بتایا ہے اسی لیے ہر ذرہ شبہہ ناز ہے:
شہید ناز او بزم وجود است
نیاز اندر نہاد ہست و بود است
نمی بینی کہ از مہر فلک تاب
بسیمائے سحر داغ سجود است
اس کی تشریح میں غالب کے دو اشعار درج کرنے کے قابل ہیں۔ ایک فارسی کا شعر ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ ہر رے کا رخ خدا کی طر ف پھرا ہوا ہے۔ اگر کسی کی چشم بصیرت وا ہو تو اسے خدا کی طرف جانے کے لیے کسی خضر راہ کی ضرورت نہیں۔ صحرا کے ذرے ہی رہنمائی کے سکتے ہیں :
اے تو کہ ہیچ ذرہ را جز برہ تو روے نیست
در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری
دوسرا شعر اردو کا ہے:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدہ مجنوں بہ چشمکہائے لیلیٰ آشنا
پیام مشرق میں دوسرے قطعے میں اقبال کہتا ہے کہ عشق کو جنون سمجھنے والا رمز حیات سے بے گانہ رہتا ہے۔
تیسرے قطعے میں عشق کا وہی اشراقی اور ارتقائی نظریہ ہے جسے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ جماد و نبات و حیوان و انسان میں نظم و نسق اور بصیرت اور ترقی عشق کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ عشق ہی پھول کھلاتا اور جماد کو نبات بناتا ہے۔ اورسمندروں کی تہہ میں ظلمتوں کے اندر چشم ماہی میں بینائی اسی ذوق حیات کی بدولت پیدا ہوتی ہے جس کا دوسرا نام عشق ہے:
بباغاں باد فروردیں دبد عشق
براغاں غنچہ چوں پرویں دبد عشق
شعاع مہر او قلزم شگاف است
بماہی دیدہ رہ بیں دہد عشق
ارتقا کا ایک مادیاتی اور میکانکی نظریہ وہ ہے جو ڈارون کے نام کے ساتھ وابستہ ہے۔ کہ ہر جاندار زندہ رہنے کی کوشش میں ماحول سے توافق پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے اور اتفاق سے بعض جانداروں میں ایسے اعضا پیدا ہو جاتے ہیں کہ جو پیکار حیات میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اور توارث کے وسیلے سے وہ ایک نوع اصلح میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ کسی جاندار کی زندگی اپنے اندر سے کوئی خود ارتقائی قدم نہیں اٹھاتی۔ بہت سے حکماء اس ارتقاء کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس کے قائل ہیں کہ افزونی حیات کا ارتقائی جذبہ انواع میں نئے اعضا اور نئے حواس پیدا کرتا ہے۔ اقبال کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ جسے اس قطعے میں بیان کیا گیا ہے۔ اور جگہ بھی کئی اشعار میں اقبال نے اس خیال کو دہرایا ہے چکور کو رقاص پاؤں شوخی رفتار کے ذوق نے عطا کیے ہیں اور بلبل میں منقار ذوق نوانے پیدا کی ہے۔ یہاں علت و معلول کا سلسلہ عام تصور کے برعکس ہے۔ اقبال کے نزدیک حقیقت یہ نہیں ہے کہ اتفاق سے خاص قسم کی ٹانگیں کبک کو مل گئیں جن کی بدولت اس کے لیے ناچنا ممکن ہو گیا۔ یا منقار اور گلے کی خاص ساخت کی وجہ سے بلبل نوا گر ہو گئی:
بلبل از ذوق نوا منقار یافت
کبک پا از شوخی رفتار یافت
عشق کا یہ تصور تمام کائنات کو ہم رنگ بنا دیتا ہے۔ جو جذبہ گل و لالہ میں ہے وہی جذبہ ترقی یافتہ صورت میں انسان کے اندر ہے۔ وہاں بھی وہ انقلاب اور ارتقاء پیدا کرتا ہے اور نفس انسانی میں بھی۔ غرضیکہ خاک و افلاک سب عشق کی زد میں ہیں :
بر برگ لالہ رنگ آمیزی عشق
بجان ما بلا انگیزی عشق
اگر ایں خاکداں را واشگافی
درونش بنگری خوں ریزی عشق
شاعرانہ تمثیلیں اور تشبیہیں کبھی استدلال کے مقابلے میں زیادہ یقین آفریں اور دل نشیں ہوتی ہیں اور کبھی ثبوت کو کمزور بھی کر دیتی ہیں۔ ابھی اقبال کہہ چکا ہے کہ ذرے کا بھی دل چیریں تو اس کے اندر بھی زندگی کی تڑپ دکھائی دے گی۔ جسے وہ خون ریزی عشق کہتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ہی کے قطعے میں محبت کے عالم گیر ہونے پر شک پیدا ہو جاتا ہے:
نہ ہر کس از محبت مایہ دار است
نہ باہر کس محبت ساز گار است
بروید لالہ با داغ جگر تاب
دل لعل بدخشاں بے شرار است
کسی روحانی بصیرت کے بغیر بھی حکیم طبیعی نے دل لعل بدخشاں کے اندر حکمت کی نظر ڈالی تو اسے وہاں نظام شمسی سے زیادہ جذب و اضطراب دکھائی دیا اور اس کا اقرار کرنے لگا کہ اس سخت اور ٹھوس اور جامد نما لعل کے اندر حرکت کا ایسا محشرستان ہے جو ریاضیات اور طبیعیات کے قوانین کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی طبیعیاتی چیز نہیں بلکہ ایک شوق عناں گسیختہ ہے۔ غالب کی بصیرت کو طبیعیات نے بھی برحق ثابت کر دیا ہے:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدہ مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا
ساتویں قطعے میں یہ مضمون ہے کہ عشق کااس تذبذب سے رابطہ نہیں کہ آرزو بر آئے یا نہ آئے اس کی فطرت ہی شہید سوز و ساز آرزو ہونا ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ جو اقبال نے ایک اور جگہ ایک مصرعے میں کہی ہے کہ:
صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
کیا عجیب الہامی مصرع ہے تاریخ گوئی کے ایک ماہر کو یہ القا ہوا ہے کہ یہ مصرع شہید ملت لیاقت علی خاں کے سالل وفات کا مادہ ہے۔
اقبال کے نزدیک میلان بقا و ارتقا کا نام عشق ہے جو ہر لمحہ احوال نو کا شائق ہے۔ اسے ایک حالت پر قائم رہنا پسندنہیں۔ ہر لمحہ جہان نو پیدا کرنا اس کی فطرت میں داخل ہے:
کہن را نو کن و طرح دگر ریز
د ما بر تنابد دیر و زودش
اقبال کی طبیعت غالب سے زیادہ جدت پسند ہے جو کہتا ہے:
رفتم کہ کہنگی ز تماشا برافگنم
در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم
اقبال کے ابتدائی فارسی کلام میں بھی یہ شعر ملتا ہے:
طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم
ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی
خدا کی صفت کل یوم ہو فی شان ہے۔ چونکہ آدم کے اندر بھی اس نے اپنی ہی روح پھونکی ہے یہی صفت آدم کی فطرت میں بھی ہے۔ اور اس جدت آفرینی میں وہ خدا کا شریک کار ہو گیا ہے۔ خدا کی آفرینش کے اندر یہ اپنی صناعی سے کچھ اضافہ کر دیتا ہے:
نوائے عشق را ساز است آدم
کشاید راز و خود راز است آدم
جہاں او آفرید ایں خوب تر ساخت
مگر با ایزد انباز است آدم
عشق حسن سے پیدا ہوتا ہے اور پھر خود حسن آفرینی کرتا ہے۔ حسن و عشق ایک دوسرے کی علت و معلول ہیں۔ اقبال کے کلام میں عشق اور خودی کا مضمون جا بجا ایک ہو گیا ہے عشق کو خودی سے اور خودی کو عشق سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اور اس نے اس مضمون کو کئی طرح باندھا ہے کہ عاشقی کوئی تقلیدی چیز نہیں۔ اصل عشق وہی ہے جو اپنے اندر سے ابھرے۔ دوسرے کی آگ پر کرنا یا دوسروں سے تجلی کا تقاضا کرنا خودی اور عشق دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے:
دلا نارائی پروانہ تاکے
نگیری شیوہ مردانہ تاکے
یکے خودرا بسوز خویشتن سوز
طواف آتش بیگانہ تاکے
٭٭٭
کب تلک طور پر دریوزہ گری مثل کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر
یہ مضمون حافظ کے اس شعر میں بھی ملتا ہے کہ:
آتش آں نیست کہ بر شعلہ او خندد شمع
آتش آنست کہ اندر دل پروانہ زدند
عشق میں متضاد نما کیفیات پائی جاتی ہیں۔ اس لیے وہ اس منطق کی گرفت میں نہیں آتا۔ جس کی بنیاد ہی عدم تضاد ہے۔ ایک طرف عشق طبیعت میں ایک ایسی غیر معمولی محکمی اور قوت پیدا کرتا ہے کہ حوادث کے تھپیڑے اس پر کچھ اثر نہیں ڈالتے۔ اور دوسری طر ف اس میں کمال درجے کی رقت اور رافت ہوتی ہے۔ جو بظاہر ایک انفعالی تاثر معلوم ہوتا ہے۔ مگر عشق کے کمال میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اس سختی اور نرمی کی یکجائی کہسار اور جوئے کہسار میں ملتی ہے:
تنے پیدا کن از مشت غبارے
تین محکم تر از سنگیں حصارے
درون او درد دل آشنائے
چو جوئے درکنار کوہسارے
علامہ اقبال ایک روز اپنے شہر کے ایک درویش کا ذکر کیا کہ وہ بازار سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ ایک شخص زور سے ایک گائے کی پیٹھ پر لٹھ مار رہا ہے۔ درویش پکارا کہ ارے کیا کرتا ہے۔ رکو مت مارو۔ اس نے کہا کہ گائے کو مار رہا ہوں تجھے تو نہیں ما رہا۔ اس درویش نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا اور دکھایا کہ مجھے ہی تو مار رہے ہو۔ اس کی پیٹھ پر ویسے ہی چوٹ کے نشان تھے۔ علماء نفسیات نے بھی اسی قسم کے واقعات لکھے ہیں۔ کہ کمال ہمدردی سے محبت کرنے والے کے جسم پر بھی ضرب اور زخم کے نشانات نمایاں ہو جاتے ہیں۔ عیسوی مغرب میں کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی کے دل میں حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کے تصور نے کیسا گہرا اثر پیدا کیا تھا کہ ہتھیلیوں سے اسی طرح خون نکلنے لگا جس طرح شخص مصلوب کے ہاتھو ں میں میخیں ٹھونکنے سے نکلتا ہے۔ عشق کی درد آشنائی کی بھی کوئی حد نہیں۔
آگے ایک قطعے میں عشق کے متعلق وہی مضمون ہے جسے اقبال نے سوڈھنگ سے باندھا ہے کہ اگر دل بھی خرد کی طرح محض زیرکی استعمال کرتا ہے اور سامنے نظر آنے والے نفع و ضرر ہی کو تول کر کام کرتا ہے تو زندگی میں نہ سوز و ساز پیدا ہو تا ہے اور نہ کسی قسم کی رونق۔ برنارڈ شا نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ہے کہ ارتقائے حیات نامعقولوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ جو کچھ انقلاب آفرینوں نے کہا ے یا اس کی معقولیت ان کے معاصر دنیا داروں اور عقل مندوں کی سمجھ میں اس وقت نہ آئی۔ اگر زندگی میں کسی اہم اقدام کا مدار عقل مندوں کی رائے شماری پر ہو تو ترقی کا قدم نہ اٹھ سکے۔ دنیا کے عقل مندوں کی نظر مفاد حاضر ہی پر جمی رہتی ہے۔ اور وہ کمال درجے کی محتاطی کی وجہ سے کوئی جرات کا کام نہیں کر سکتے۔
نبودے عشق و ایں ہنگامہ عشق
اگر دل چوں خرد فرزانہ بودے
اس اردو شعر میں بھی یہی خیال موجود ہے:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
بود کو نمود سے ایک لذت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے ہسی ہر وقت ظہور میں خود افشائی کرتی رہتی ہے۔ ایک حدیث قدسی کا بھی یہی مضمون ہے کہ خدا کا جمال ازلی اور ایک کنز مخفی تھا۔ اس میں ذوق نمود پیدا ہوا جس سے کائنات اور اس کے اندر حسن ازلی کا مشاہدہ کرنے والے معرض شہود میں آئے۔ فاجیت ان اعرف فخلقت الخلق الی اخرہ یہ حسن کی عشق آفرینی اور عشق کی حسن آفرینی کی لذت ہے جس کی بدولت زمین پر پھول اور چرخ پر تارے نمود ہوتے ہیں :
چہ لذت یا رب اندر ہست و بود است
دل ہر ذرہ در جوش نمود است
شگافد شاخ را چوں غنچہ گل
تبسم ریز از ذوق وجود است
ورڈز ورتھ نے کہا ہے کہ یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں کہ پھول کھلنے سے خوش ہوتے ہیں ، ماہر نباتیات ڈاکٹر بوس نے حساس آلات سے تجربہ کر کے یہ ثابت کیا کہ نبات میں بھی رنج و مسرت کی کیفیت ہوتی ہے۔ جس کا اثر ان کے نشوونما پر پڑتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ پھول شاخ سے نکلتے ہوئے حقیقت میں تبسم ریز ہوتا ہے۔
قرآن کریم نے آفرینش آدم اور اعتراض ملائکہ کا جو قصہ بیان کیا ہے وہ آدم کے مسجود ملائک ہونے پر منتج ہوتا ہے آدم کو وہ علم عطا کیا گیا جو ملائکہ کو حاصل نہ تھا۔ اس وسعت علم کی بدولت آدم ملائکہ سے افضل قرار پایا۔ لیکن علم کے ساتھ ہی آدم کا طالب عفو ہونا اور خدا کی طرف رجوع کرنا عشق کی بدولت تھا۔ اس لیے عارف رومی محض علم کو نہیں بلکہ عشق کو آدم کی امتیازی خصوصیت قرار دیتا ہے۔ خالی علم زیرکی پیدا کرتا ہے جو ابلیس کی صفت ہے۔ عشق اس سے الگ چیز ہے۔ عشق سے علم کی تکمیل ہوتی ہے۔ لیکن رومی اور اقبال دونوں کے نزدیک آدم فوراً واصل باللہ نہیں ہو گیا بلک عشق کی بدولت اس پر ایک طویل مہجوری طاری ہو گئی۔ اس مہجوری کی وجہ سے از جدائی ہا شکایت مے کند۔
وصول الی اللہ کی منزل بہت دور ہے:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
یہی عشق اور مہجوری کا احساس انسان سے کشاں کشاں ارتقا کی منزلیں طے کرا رہا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ملائکہ کے مقابلے میں احساس فراق انسان کی کمتری اور کوتاہی کا ثبوت نہیں۔ یہی مہجوری مصدر حیات ہے۔ یہ مہجوری طلب اور جستجو پیدا کرتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ میں افشائے راز کا خواہاں نہیں ہوں۔ اگر را ز حیات پوری طرح منکشف ہو جائے تو پھر زندگی میں کوئی لذت نہ رہے مشہور المانوی فلسفی اور ادیب لیسنگ کا قول ہے کہ اگر خدا اپنے ایک ہاتھ میں صداقت کلی اور دوسرے ہاتھ میں تلاش حق رکھ کر مجھ کو اختیار دے کہ ان میں سیجو چاہو منتخب کر لو تو میں عجز و نیاز سے عرض کروں کہ اے خدا حقیقت کلی کو تو اپنے پاس رہنے دے کیوں کہ حقیقت کلی سے آشنا اور عالم الغیب و الشہادہ ہونے کے باوجود تو حی و قیوم رہ سکتا ہے۔ لیکن میں اس سے واقف ہو کر زندگی سے بے بہرہ ہو جاؤں گا۔ انسانی زندگی کا تمام لطف تو طلب اور جستجو ہی ہے۔ اقبال بھی ایسی ہی طبیعت کا مالک اور اسی نظریہ حیات کا قائل ہے:
نہ من انجام و نے آغاز جویم
ہمہ رازم جہان راز جویم
گر از روے حقیقت پردہ گیرند
ہماں بوک و مگر را باز گویم
٭٭٭
خیال او درون دیدہ خوشتر
غمش افزودہ جاں کاہیدہ خوشتر
مرا صاحبدلے ایں نکتہ آموخت
ز منزل جادہ پیچیدہ خوشتر
٭٭٭
بگو جبریل را از من پیامے
مرا آں پکر نوری ندادند
ولے تاب و تب ما خاکیاں بیں
بنوری ذوق مہجوری ندادند
لہٰذا فرشتوں پر رشک کرنے کی ضرورت نہیں عرش معلیٰ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے یا اس کے گرد طواف کرنے یا کائنات کے اندر حکم ایزدی سے نظم و نسق میں خدمت گزری میں وہ لطف کہاں جو عاشق کے اضطراب میں ہے۔ فلک العرش ہجوم خم دوش مزدور:
رشک ملک چہ و چرا چون بتو رہ نمی برد
بیہدہ در ہوائے تو می پرد از سبک سری
(غالب)
انسان کو جس چیز کا عشق ہو جاتا ہے اس کے حقیقی ہونے کا یقین بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ یقین بعض اوقات غلط بھی ہوتا ہے۔ لیکن عاشق کواس کی غلطی کا یقین دلانا محال ہوتا ہے۔ پوری قوت سے عمل کرنے کے لیے یقین لازم ہے۔ مگر یقین علم سے نہیں بلکہ عشق سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال جو خالی خرد کی مخالفت کرتا ہے جس کے ساتھ عشق کی آمیزش نہ ہو اس کی وجہ یہی ہے کہ محض خرد سے عمل میں قوت پیدا نہیں ہوتی۔ ترقی کا مدار تشکیک پر ہے۔ علم کی روش یہی ہے کہ:
جانا تو یہ جانا کہ نہ جانا کچھ بھی
معلوم ہوا ہے کہ نہ معلوم ہا۔ اسی مسلسل جہالت کے احساس سے انسان علم میں ترقی کرتا ہے لیکن علمی کوششوں میں بھی تشکیک کے ساتھ کم از کم یہ یقین وابستہ ہوتا ہے کہ علم کی ترقی پہلی غلطیوں کا ازالہ کر دے گی اور حقیقت کی طرف قدم اٹھتا رہے گا۔ کامل بے یقینی نہ عاقل میں پائی جاتی ہے اور نہ عاشق میں۔ علم و عمل سے یقین کا جو رابطہ ہے اس کو اقبال نے اس قطعے میں کس خوبی سے ادا کیا ہے:
ہماے علم تا افنند بدامت
یقین کم کن گرفتار شکے باش
عمل خواہی؟ یقیں را پختہ تر کن
یکے جوے و یکے و یکے باش
ظاہر ہے کہ عمل کی یہ کیفیت عاشق ہی میں پیدا ہو سکتی ہے۔ جو محبوب چیز پر نظر جمانے پھر ادھر ادھر نہیں دیکھتا۔ مازاغ البصر وما طغی۔
یہ بات کہ عشق کی کیفیت محض ملت اسلامیہ کے ایک فرد ہونے کے ساتھ ساتھ وابستہ نہیں بلکہ ہر مذہب و ملت کے کچھ برگزیدہ افراد میں یہ کیفیت ملتی ہے اور رسوم و شعائر ا و رشرائع کا اختلاف اس میں خلل انداز نہیں ہوتا۔ اکثر صوفیہ کا عقیدہ ہے کہ اسی لیے عارف رومی کہتا ہے کہ:
مذہب عشق از ہمہ دین ہاجداست
عام انسانوں کے گناہ و ثواب کے معیار کا اطلاق عاشقوں پر نہیں ہوتا۔ عشق تو ایک کار نادر ہے اور بقول اقبال:
گر از دست تو کار نادر آید
گناہے ہم اگر باشد ثواب است
عشق کی عدالت میں گناہ و نامہ اعمال و میزان رسمی عابدوں سے کچھ الگ قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ:
گر بگوید کفر آید بوے دین
می تراود از شکش بوے یقین
اسی لیے شریعت کی ظاہری پابندی اور عشق کی طریقت کہیں کہیں طرز عمل میں متغائر دکھائی دیتی ہے۔ اسی خیال کو اقبال نے اس قطعے میں ادا کیا ہے:
تو اے شیخ حرم شاید ندانی
جہان عشق را ہم محشرے ہست
گناہ و نامہ و میزاں ندارد
نہ او مسلمے کے کافرے ہست
اسی خیال کو اقبال نے اس اردو مصرعے میں بھی ادا کیا ہے کہ:
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
ہر مذہب میں عاشقان الٰہی صوفی منش لوگ کچھ ہم رنگ و ہم آہنگ ہی معلوم ہوتے ہیں۔
اقبال کی عام تبلیغ تو یہ ہے کہ عشق عین دین ہے۔ البتہ عقل سے اس کا تصادم ہو جاتا ہے۔ لیکن کہیں کہیں وہ عشق کے جذبے میں عقل کے ساتھ دین سے بھی کنارہ کش ہونے پر مائل معلوم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہاں دین کی بے روح صورت ہے جسے ارباب ظاہر نے کل دین سمجھ لیا ہے:
دل از منزل تہی کن پا برہ دار
نگہ را پاک مثل مہر و مہ دار
متاع عقل و دیں با دیگراں بخش
غم عشق ار بدست افند نگہ دار
عشق اپنے کمال میں تو خرد پر بھی چھا جاتا ہے اور اسے اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے۔ لیکن اس کمال پر پہنچنے سے پہلے یہ کیفیت بھی ہو سکتی ہے کہ عقل تو صورت تراشی اور صورت پرستی میں مبتلا ہے۔ اور شکوک پیدا کر رہی ہے۔ لیکن سینے کے اندر عشق کی چنگاری بھی موجود ہے۔ حکیم المانوی نطشہ کے متعلق اقبال کی یہی رائے تھی:
قلب او مومن دماغش کافر است
اقبال بھی آخر تک عقلیت کی گرفت سے پوری طرح چھٹکارا حاصل نہ کر سکا۔ سوزو ساز رومی کے ساتھ ساتھ پیچ و تاب رازی بھی موجود رہا۔ اسی کیفیت کے متعلق اس قطعے میں تضاد طبیعت کو بیان کیا ہے:
دماغم کافر زنار دار است
بتاں را بندہ و پروردگار است
دلم را بیں کہ نالد از غم عشق
ترا با دین و آئینم چہ کار است
٭٭٭
سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
(غالب)
اقبال نے اس مصرعے میں اسی تضاد کی شکایت کی ہے اپنے متعلق کی ہے کہ:
نگاہ آلودہ انداز افرنگ
اب تک جو جماد سے انسان تک ارتقا ہوا ہے وہ عشق ہی کی بدولت ہوا ہے۔ موجودہ انسان میں اگر عشق ترقی پذیر ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک نیا آدم ظہور میں نہ آئے جو پہلے آدم کے مقابلے میں ایسا ہی بلند تر ہو جیسا کہ موجودہ انسان حیوانوں سے بلند ہے۔ یہ یقین صوفیہ کے علاوہ طبیعی ارتقائی حکما کے ایک طبقے میں بھی پایا جاتا ہے۔ کہ موجودہ انسان ارتقائے حیات کی آخری منزل نہیں۔ جو زندگی حشرات الارض سے لے کر انسان تک پہنچتی ہے اس کے اندر ذوق عروج یا قوت ارتقا ختم نہیں ہو گئی۔ حیات کی ممکنات لامتناہی ہیں :
بیا اے عشق اے رمز دل ما
بیا اے کشت ما اے حاصل ما
کہن گشتند ایں خاکی نہاداں
دگر آدم بنا کن از کل ما
اقبال نے کہیں کہیں عشق کی بجائے آرزو کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے اور ان دونوں کے معنی اس کے نزدیک مرادف ہیں :
از شعاع آرزو تابندہ ایم
جہان میں بود کی جو نمود بھی ہے وہ آرزو کی بدولت ہے:
جہاں یک نغمہ زارے آرزوئے
بم و زیرش ز تار آرزوئے
بچشمم ہر چہ ہست و بود و باشد
دمے از روزگار آرزوئے
یہ خیال اقبال کے تصوف کو اس تصوف سے بالکل الگ کر دیتا ہے کہ جو ویدانت اور بدھ مت میں پایا جاتا ہے۔ ان دونوں کا فلسفہ یہ ہے کہ جہان اور انسانی زندگی ایک نمود بے بود ہے۔ یہ ایک لحاظ سے فریب ادراک ہے۔ اور دوسری حیثیت سے آرزو کی پیداوار۔ باطل ہونے کی وجہ سے زندگی شر اور دکھ سے لبریز ہے۔ قید حیات و بند غم کا ایک غیر منفک رابطہ ہے۔ اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان اور تمام ہستی بے آرزو ہو جائے۔ اقبال اس فلسفے کے اس پہلو سے متفق ہے کہ زندگی جہاں بھی ہے وہ آرزو کی پیداوار ہے۔ لیکن وہ زندگی کو تمام مصائب کے باوجود نعمت سمجھتا ہے اور اس کی نمود کو باطل خیال نہیں کرتا۔ وہ ترک آرزو کی بجائے فراوانی آرزو کی تلقین کرتا ہے۔ تاکہ زندگی وسعت اور عروج حاصل کرتی جائے۔ ویدانت اور بدھ مت کا فلسفہ جس نے کہیں کہیں مسلمانوں کے تصوف پر بھی سایہ ڈالا ہے حیات گزیر ہے۔ اسی لیے رہبانی زندگی کو معاشرتی زندگی سے افضل سمجھتا ہے۔ اقبال میں تصوف کا ایجابی اور حیات افزا پہلو موجود ہے لیکن اس کے سلبی پہلو کے خلاف اس نے شدت سے جہاد کیا ہے۔ ویدانت اور بدھ مت جیسے فلسفوں نے جو مذہب بن گئے ہیں زندگی کی جدوجہد سے گھبرا کر فرار کی تعلیم دی ہے اقبال مجاہد ہے اور زندگی کی مزاحمتوں پر عشق اور ہمت سے غالب آنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ غیر اسلامی فلسفوں کا اثر تھا کہ جس کی آواز بازگشت مسلمانوں کے فراری عادت میں سنائی دیتی ہے اور غالب جیسا ذوق حیات رکھنے والا اور ہر قسم کی خواہش کو پورا کرنے کی تمنا رکھنے والا شاعر بھی کبھی کبھی یہ کہہ جاتا ہے :
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے مجھے
ورنہ یاں سے رونقی سود چراغ کشتہ ہے
سود چراغ کشتہ تو موت ہے۔ اس کے مقابلے میں اقبال کی یہ آرزو ہے:
شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں
خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں
غالب کا حقیقی میلان تو یہ ہے کہ:
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظار ساغر کھینچ
اگر بہار کو فرصت نہیں بہار تو ہے
طراوت چمن و خوبی ہوا کہیے
حکیم المانیہ نطشہ نے کہا ہے کہ ادیان کید و ہی قسمیں ہیں۔ ایک زندگی کو قبول کرنے والے اور دوسرے اسے رد کرنے والے اور کسی دین کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ اس میں اثبات حیات کی تلقین ہے یا نفی حیات کی۔ عیسائیت اور بدھ مت کو وہ موخر الذکر میں داخل کرتا تھا۔
اقبال نے جس کیفیت یا جس جذبے کا نام عشق رکھا ہے اس کے مظاہر کی گوناگونی کی کوئی حد نہیں۔ محبت کے اقسام کا کون شمار کر سکتا ہے۔ ہر رابطے میں محبت کا رنگ الگ ہوتا ہے۔ ماں باپ کی اولاد سے محبت ایک قسم کی ہے۔ زن و شوہر یا مردو زن کی محبت ایک دوسرے انداز کی ہے۔ کہیں وطن کی محبت ہے کہیں نو ع انسان کی محبت کہیں کسی نصب العین سے ور کہیں مصدر حیات و کائنات سے۔ افلاطون یہ کہتا ہے کہ سب محبتیں مجازی اور عکسی ہیں۔ اصل چیز جو سرمدی ہے وہ عشق مطلق ہے۔ جس کا رابطہ حس مطلق سے ہے۔ لیکن معرض شہود میں عشق کی بوقلمونی سے کون انکار کر سکتا ہے۔ عشق کہیں قوت قلب و جگر پیدا کرتا ہے کہیں عقل کی پشت پناہی کرتا ہے۔ کہیں چشم نمناک میں ظہور کرتا ہے کہیں بے خودی کا رنگ اختیار کرتا ہے۔ اور کہیں خودی کو استوار کرتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ مجھ پر تو اس نے یہی عمل کیا ہے کہ مجھ پر اپنی خودی کو آشکار کر دیا ہے۔ اقبال چشم تر سے بیگانہ نہیں لیکن اپنی زندگی میں رقت کی کیفیت کو ثانوی حیثیت دیتا ہے:
بہر دل عشق رنگ تازہ بر کرد
گہے باسنگ گہ با شیشہ سر کرد
ترا از خود ربود و چشم تر داد
مرا با خویشتن نزدیک تر کرد
عشق کی اتنی توضیح کرنے کے بعد بھی اقبال کی حالت وہی ہے جو رومی نے بیان کی ہے کہ:
گرچہ تفسیر و بیاں روشن گر است
لیکن عشق بے زبان روشن تر است
اس ذوقی کیفیت کے لیے کوئی موزوں زبان نہیں۔ جس کے اندر یہ چیز موجود نہیں ہے کہ اسے بیان کی لطافت اور نزاکت بھی اس سے آشنا نہیں کر سکتی۔ تمام عمر بھی روشنی کی کیفیت کسی مادر زاد اندھے کے سامنے بیان کی جائے تو وہ اس کی حقیقت کو کہاں پہنچے گا اور چشم بینا کے لیے روشنی کی کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ بے شمار قطعات میں عشق کی کیفیات اور اس کی نفسیات کو بیان کرنے کے بعد آخر میں عجز بیان کا اقرار ہے:
مرا ذوق سخن خوں در جگر کرد
غبار راہ مشت شرر کرد
بگفتار محبت لب کشودم
بیاں ایں راز را پوشیدہ تر کرد
عاشقی کی کیفیات کے ساتھ فلسفے کی آمیزش ہر جگہ موجود ہے۔ اگرچہ اقبال ان دونوں کی ہم آہنگی کا قائل نہیں مگر کیا کرے مجبوری ہے کہ وہ بیک وقت فلسفی بھی ہے اور عاشق بھی:
ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت
کہ درس می داد و عاشقی ورزید
پیام مشرق میں عشق پر قطعات کے علاوہ ایک مستقل نظم بھی عشق کے عنوان سے ہے۔ اس میں کیفیت اور معانی وہی ہیں لیکن انداز بیان الگ ہے۔ ان اشعار میں مختصر طور پر اپنی عقلی تگ و دو کا ذکر ہے جس نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد بھی زندگی کا کوئی راز فاش نہ کیا۔ عقل پیچ در پیچ میں بگولے کی طرح چکر کھاتا رہا لیکن اس گرد باد میں گرد اور باد کے سوا کیا رکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ عقل ایک شکستہ جام ہے جس کے اندر مے حقیقت تمام ٹپک جاتی ہے۔ جام خالی کا خالی رہتا ہے۔ اور تشنہ لبی میں فرق نہیں آتا۔ آخر میں عشق نے رہبری کی عشق کو عام لوگ اور طبیعی حکم محض ایک جذباتی کیفیت سمجھتے ہیں لیکن وہ محض تاثر نہیں یہ تاثر بصیرت سے ہم آغوش ہے۔ اس کی بدولت انسان رموز وجود سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ عقل کا بت خانہ حرم بن جاتا ہے۔ اس کی مستی اور بے خودی درحقیقت خود آگاہی اور خدا شناسی ہے۔ اس کی بدولت زندگی کی زشتی جمال بہشتی میں مبدل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد بس عشق ہی کی حکایت زبان پر رہ جاتی ہے۔ خواہ دوسرے اس کو سمجھیں یا نہ سمجھیں اور اسے جنون قرار دے کر ملامت کرنے لگیں۔
گرچہ بدنامی است نزد عاقلاں
ما نمی خواہیم ننگ و نام را
فکرم چو بہ جستجو قدم زد
در دیر شد و در حرم زد
در دشت طلب بسے دویدم
دامن چوں گرد باد چیدم
پویاں بے خضر سوے منزل
بر دوش خیال بستہ محمل
جویائے مے و شکستہ جامے
چوں صبح بباد چیدہ وامے
پیچیدہ بخود چو موج دریا
آوارہ چوں گرد باد صحرا
عشق تو دلم ربود نا گاہ
از کار گرہ کشود نا گاہ
آگاہ ز ہستی و عدم ساخت
بت خانہ عقل را حرم ساخت
چوں برق بخرمنم گزر کرد
از لذت لذت شوختن خبر کرد
سرمست شدم ز پا فتادم
چوں عکس ز خود جدا فتادم
خاکم بفراز عرش بردی
زاں راز کہ بادلم سپردی
واصل بکنار کشتیم شد
طوفان جمال زشتیم شد
جز عشق حکایتے ندارم
پروائے ملامتے ندارم
از جلوہ علم بے نیازم
سوزم گریم تپم گدازم
اس نظم کے علاوہ پیام مشرق میں عشق کے عنوان سے اور بھی چار اشعار ہیں جن کا اندراج اقبال کے نظریہ عشق کی وضاحت کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اقبال کے کلام میں عقل کی توہین و تحقیر تو بہت کچھ ملتی ہے۔ لیکن ان اشعار میں اقبال نے ایک بڑے نکتے کی بات کی ہے جسے اس نے غالباً کسی اور جگہ نہیں دہرایا۔ کہتا ہے کہ عقل کے بھی کارنامے بہت حیرت انگیز ہیں ۔ اس نے بھی حیات و کائنات کے بعض پہلوؤں کو روشن کیا ہے۔ انسانی زندگی میں جو تنویر ہے اس کا حصہ عقل کی پیداوار ہے۔ جس عقل نے نور پیدا کیا ہے اس کو بھی عشق کا تلمذ حاصل کیا تھا۔ آخر عقل و حکمت کی جدوجہد جس کے لیے اعلیٰ درجے کے انسانوں نے زندگیاں وقف کر دیں وہ بھی صداقت کی طلب تھی اگر حکما میں صداقت کا عشق نہ ہوتا تو ان کے لیے بے غرضانہ زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ رومی میں عشق کی فراوانی سہی لیکن بو علی سینا اور فارابی بھی عشق کے سرور سے خالی نہ تھے۔ عقل کی نار اور اس کا نور بھی عشق ہی کا ایک کرشمہ ہے اور اسی کا ایک جلوہ بیباک ہے۔
عقلے کہ جہاں سوزد یک جلوہ بیباکش
از عشق بیاموزد آئین جہاں تابی
عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد
از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی
نقش فرنگ میں اقبال کہتا ہے کہ عقل اپنے وظیفہ حیات میں جو نہایت اشرف و افضل ہے تنگی پیدا کر کے انسانوں کو گمراہ مادہ پرس اور حاضر پرست بنا دیتی ہے۔ اگر عقل کے پر پرواز نوچے اور کترے نہ جائیں تو اس کی بھی کوئی حد نہیں ۔ عقل کا کام انفس و آفاق دونوں کے متعلق دانش و بینش پیدا کرنا تھا لیکن اس نے محض جہاں بینی کا شیوہ اختیار کر لیا اور خود بینی میں مہارت پیدا نہ کی۔ اس مادی کائنات کے ضمیر میں بھی عقل غوطہ زنی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن وہ برگ ثمر کے رنگ و بو کا تجزیہ کرتی رہی اور خمیر گل و نسرین میں غوطہ زن نہ ہوئی۔ زندگی کی گہرائیاں اور اس کی بلندیاں اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہ تھیں لیکن اس نے مظاہر کی ریاضیاتی پیمائش تک اپنی نظر کو محدود کر لیا:
عقل خود بیں دگر و عقل جہاں بیں دگر است
عقل اگر نفس انسانی کی گہرائیوں کا جائزہ لیتی ہے تو عرفان نفس کے ساتھ عرفان رب بھی اس کو حاصل ہو سکتا تھا:
دگر است آنکہ زند سیر چمن مثل نسیم
آں کہ در شد بہ ضمیر گل و نسریں دگر است
دگر است آنسوئے نہ پردہ کشادن نظرے
ایں سوے پردہ گمان و ظن و تخمین دگر است
اے خوش آں عقل کہ پہنائے دو عالم با اوست
نور افرشتہ و سوز دل آدم با اوست
عقل کی تنگ نظری اور غلط روی یا مسخ جوہر کا ذکر اقبال کے کلام کا ایک کثیر حصہ ہے اور عشق کی زیادہ تر توصیف ہی توصیف اور والہانہ مداحی ہے لیکن کیا عشق کی صورت کو انسانوں نے مسخ نہیں کیا؟ انسانوں کو جن جذبات نے تباہ کیا ہے ان میں سے ہوس بھی ہے جو عشق کا بھیس اختیار کر لیتی ہے۔ اور ااس فریب سے عشق کی تمام قوتیں تعمیر حیات کی بجائے تخریب حیات کا باعث ہوتی ہیں ۔ کبھی ذوق اقتدار عشق کا جامہ پہن لیتا ہے۔ اور کبھی ادنیٰ شہوات اپنا نام عشق رکھ لیتی ہیں۔ کبھی جاہلانہ اور وحشیانہ مذہبی تعصب عشق کے رنگ میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ جو ظلم کو رحمت اور عدل سمجھ لیتا ہے:
بے جرات رندانہ ہر عشق ہے روباہی
بازو ہے قومی جس کا وہ عشق الٰہی
نقش فرنگ میں اقبال نے فرنگ ہی کے عشق پر ہوش پیشہ ہونے کا الزام لگایا ہے لیکن عشق کی یہ تخریب تو شرق و غرب مسلم و غیر مسلم سب میں دکھائی دیتی ہے۔ اسی عشق کے متعلق حالی نے کہا ہے کہ:
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
اور اسی مخرب حیات عشق کے متعلق حالی کی یہ رباعی ہے:
ہے عشق طبیب دل کے بیماروں کا
یا خود ہے وہ گھر ہزار آزاروں کا
ہم کچھ نہیں جانتے پر اتنی ہے خبر
اک مشغلہ دلچسپ ہے بیکاروں کا
ہوس ہی نے اپنے آپ کو عشق بنا کر فارسی اور اردو میں شعر و قصائد کا وہ ناپاک دفتر پیدا کیا ہے جس نے فن لطیف کو فن کثیف بنا دیا۔ اس بارے میں مشرق مغرب کے مقابلے میں کچھ کم مجرم نہیں ہے۔ لیکن اقبال کی زد میں زیادہ تر فرنگ ہی آتا ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ تمام الزامات مشرقیوں پر کچھ زیادہ ہی چسپاں ہوتے ہیں :
عشق گردید ہوس یپشہ و ہر بند گست
آدم از فتنہ او صورت ماہی در شست
رزم بر بزم پسندید و سپاہے آراست
تیغ او جز بہ سر و سینہ یاراں نہ نشست
رہزنی را کہ بنا کرد جہاں بانی گفت
ستم خواجگی او کمر بندہ شکست
بے حجابانہ بہ بانگ دف و نے می رقصد
جامے از خون عزیزان تنگ مایہ بدست
وقت آنست کہ آئین دگر تازہ کنیم
لوح دل پاک بشوئیم و زسر تازہ کنیم
اس کے ساتھ ہی ملا ہوا جو بند ہے وہ اس ا مر کا ثبوت ہے کہ استبداد شکنی کا کام زمانہ حال میں مغرب نے مشرق کی نسبت زیادہ کیا ہے۔ محنت کشوں کے حقوق مغرب میں مشرق والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ استوار ہو گئے ہیں۔ مطلق العنان بادشاہیاں مغرب نے ختم کی ہیں انسانوں کے اندر مواقع حیات اور آئین میں مساوات فرنگ میں مسلمان کہلانے والی ملتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ اقبال کو جو یہ نظر آ رہا ہے کہ:
زندگی درپے تعمیر جہان دگر است
اس کے مظاہر مغرب میں مشرق کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہیں کیوں کہ یہ تمام تحریکیں مغرب ہی میں پیدا ہوئیں اور اسی تہذیب و تمدن میں سے ابھریں جو اقبال کے نزدیک سوز حیات سے خالی اور حیات باختہ ہے:
افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت
نے اسکندری و نغمہ دارائی رفت
کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست
عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت
یوسفی را ز اسیری بہ عززی بردند
ہمد افسانہ و افسون زلیخائی رفت
راز ہائے کہ نہاں بود ببازار افتاد
آں سخن سازی و آں انجمن آرائی رفت
چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است
زندگی در پے تعمیر جہاں دگر است
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دو تین سو سال میں مغرب نے جو ترقی کی وہ عقلی علوم اور مادی فطرت کی تسخیر میں کی۔ اس ترقی کے مقابلے میں اخلاقی اور روحانی ترقی کی رفتار نہایت سست نظر آتی ہے لیکن اس میں کس کو شک ہو سکتا ہے کہ مغرب میں نہایت بلند پایہ اخلاقی اور روحانی رہنما اس دور میں پیدا ہوئے۔ انہی تین صدیوں میں مشرق کی خفتگی اور مسلمانوں کے روحانی جمود کے متعلق اقبال کی رائے تھی کہ:
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
ان تین صدیو ں میں کوئی بلند پایہ روحانی تحریک اسے اس برصغیر میں نظر نہیں آتی۔ باقی اسلامی ممالک کا حال کچھ اس سے بدتر ہی رہا ہے مگر اس دور میں مغرب میں اخلاقی اور روحانی مصلحین کی کوششوں نے انسانی زندگی کو بہت آگے بڑھا دیا۔ شہروں کی گندگی ناپید ہو گئی بہت سے مہلک امراض کا علاج حکماء اور اطبا نے بڑی قربانیوں اور جد و جہد سے تلاش کیا اور جو کافر گر افلاس مشرق میں ملت اسلامیہ میں نظر آتا تھا وہ مغرب میں ناپید ہو گیا۔ کیا اسے عقل کی غارت گری کہہ سکتے ہیں ؟ یہ کہنا سخت ناانصافی کی بات ہے کہ مغرب کی تہذیب میں اخلاق اور روحانیت کا عنصر نہیں۔ انگریز تاجر کو مسلمان بھی اپنوں سے زیادہ راست گو اور قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ کیا اس دیانت میں روحانیت کا کوئی شائبہ نہیں ؟ محتاجوں بیماروں اور بیکسوں کی جو دیکھ بھال مغرب میں ہوتی ہے اس کا عشق عشیر بھی روحانیت کے مدعی مشرق میں نظر نہیں آتا۔ یہ درست ہے کہ مغرب مشرق سے زیادہ شراب خوار ہے مگر:
تو فخر ہمی کنی کہ مے می نخوری
صد کار کنی کہ مے غلام است آں را
یہ فتویٰ کیا غلط ہے:
کہ مے حرام دلے بہ ز مال اوقاف است
مشرق میں ابھی تک فقہا فتوے فروش ہیں اور قاضیوں پر بھی لوگوں کو بھروسا نہیں رشوت کا بازار گرم ہے خیام نے سچ کہا ہے:
اے قاضی شہر از تو پرکار تریم
با ایں ہمہ مستی از تو ہشیار تریم
تو خون کساں خوری و من خون رزاں
ز انصاف بگو کدام خوں خوار تریم
یہ سب کچھ جانتے ہوئے یہ کہنا کہ مغرب روحانیت سے بالکل معرا ہے انصاف سے بعید ہے۔ مغرب کے متعلق انصاف پسندوں کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ عیب او جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو۔ مگر فرنگ کے متعلق اقبال کی بیزاری اس کو جادہ اعتدال سے ہٹا دیتی ہے۔ معلوم نہیں کہ روحانی زندگی کی تلقین کرنے والے اور عملاً روحانی زندگی بسر کر نے والے اور خلق خدا کی بھلائی کے لیے زندگیاں وقف کرنے والے لوگ اقبال کو فرنگ میں کیوں نظر نہیں آتے کہ وہ مایوس ہو کر یہ کہنے لگا:
یاد ایامے کہ بودم در خمستان فرنگ
جام اور روشن تر از آئینہ اسکندر است
چشم مست مے فروشش بادہ را پروردگار
بادہ خواراں را نکاہ ساقیش پیغمبر است
جلوہ او بے کلیم و شعلہ او بے خلیل
عقل ناپردا متاع عشق را غارتگر است
در ہوایش گرمی یک آہ بیتابانہ نیست
رند این میخانہ را یک لغزش مستانہ نیست
فرنگ کے مقابلے میں مسلمانوں کی موجودہ روحانیت کا جو حال ہے وہ اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں ہے۔ اس کے نزدیک فرنگ میں عقل کی روشنی ہے مگر دلوں میں اندھیرا ہے مگر ہمارے ہاں تو خسر الدنیا والآخرہ ہے۔ نہ عقل کی روشنی اور نہ عشق کی آگ:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
عقل و علم اور عشق کا تقابل اقبال کا خاص مضمون ہے۔ یہ مضمون صدیوں سے مسلمانوں کے ادب میں حکیمانہ صوفیانہ اور متصوفانہ شاعری کا ایک دلچسپ موضوع رہا ہے اور اقبال سے پہلے لوگوں نے اس مسئلے میں بڑی نکتہ آفرینیاں کی ہیں لیکن اس کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ پہلوں نے جو کچھ کہا اس کا بہترین جوہر اور خلاصہ بھی اقبال کے کلام میں موجود ہے۔ نیز اقبال نے اس پر قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے اور ہر نظم بلکہ ہر شعر میں انداز بیان بھی نرالا ہے اقبال نے بہت سے ایسے مسائل پر طبع آزمائی کی ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے محض ایک تاریخی حیثیت سے قابل مطالعہ ہوں گے۔ لیکن عقل و عشق کی موافقت یا مخالفت ایک ایسا مضمون ہے جو فطرت انسانی کے اندر میلانات کی ایک ابدی پیکار کا مظہر ہے۔ اگر انسان کی سیاسی جبلت اپنی صورتیں بدلنے کے لیے بھی باوجود بھی تغیر پذیر نہیں بلکہ ایک حقیقت ثابتہ ہے تو اقبال کی شاعری کا یہی حصہ اس کی شاعری کو لازوال بنانے کا ضامن ہے۔ عشق کی جذباتی اور تاثراتی کیفیت کو اس نے اس طرح بیان کیا ہے اس پر اضافہ کرنا کسی آنے والے شاعر حکیم و عاشق کے لیے دشوار ہو گا اور حکیمانہ انداز میں جو نکات اس کے ذہن میں مترشح ہوئے ہیں وہ بھی ایسے جامع ہیں کہ شاید ہی اس کے بعد آنے والا اس سے زیادہ کچھ کہہ سکے۔ حکیم المانوی گوئٹے نے جس کی بصیرت کا اقبال معترف تھا ایک ایسا منظوم ڈرامہ لکھا یہ جس میں بقول اقبال اس نے انسانی زندگی کے متعلق ایسے معارف بیان کیے ہیں کہ انسانی فکر اور تخیل کی پرواز اس سے بلند تر نہیں ہو سکتی۔ اس ڈرامے کا ہیرو فوسٹ تمام علوم سے بہرہ ور ہونے اور تمام فلسفوں کی خاک چھاننے کے بعد حقیقت حیات کے متعلق عقل کی بے بسی س یاسی طرح بیزار ہے جس طرح کہ اقبال خالی علم و عقل کی جدوجہد سے مایوس ہو گیا۔ وہ قوت و اقتدار اور لذت کا آرزو مند تھا۔ ابلیس نے ظاہر ہو کر اس سے کہا کہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ میرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگر ننپی روح کو میرے پاس بیچ دو تو میں تمہیں کائنات کی سیر کراتا ہوں۔ اور تمہاری ہر آرزو کو پورا کرنے کا ذ مہ لیتا ہوں۔ قصے کا آغاز یہی ہے اس کے بعد شیطان کی ہرکابی میں فوسٹ نے جو کچھ دیکھا اور کیا اس کی داستان بہت طویل ہے مگر اس داستان کے اندر شیطان کی فطرت اور انسان کی فطرت کے تمام مضمرات اور امکانات نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ عمیق حکیمانہ ڈرامہ مغرب کے کسی ادیب نے نہیں لکھا۔ اقبال کے ہاں فطرت ابلیس کا مضمون بھی ایک خاص مضمون ہے جس کے کچھ پہلو اس کو گوئٹے نے سمجھائے ہیں ابلیس اس ڈرامے میں تخریب اور شر کا مجسمہ ہے لیکن گوئٹے اس تخریبی قوت پر غلبہ پانے والی جس قوت کو پیش کرتا ہے وہ عشق ہے ابلیس کا وظیفہ حیات یہ ہے کہ زندگی کی ہر تعمیر کے اندر تخریب کی صورت پیدا کرے وہ حیات و کائنات کی رگ و پے میں اسی غرض سے دوڑتا رہتا ہے۔ کہ ہر نظم میں اختلال پیدا کرے دیکھیے یہ مرد حکیم ابلیس کے متعلق وہی بات کہہ رہا ہے جو نبی اکرم صلعم نے فرمائی کہ شیطان انسان کی رگ و پے میں خون کی طرح گرد ش کرتا ہے۔ اس کے مقابلے مین عشق ہر جگہ کارفرما ہے۔ شیطان موت کا فرشتہ ہے اور عشق زندگی کا فرشتہ۔ چاروں طرف یہی نقشہ نظر آتا ہے کہ ہر ہستی کا انجام فنا ہے۔ فنا کو شکست دینے والی قوت عشق ہے موت گل و ثمر پر وارد ہوتی ہے لیکن پھل فنا ہونے سے پہلے اپنی بقا کا انتظام کر لیتا ہے۔ پھلوں اور پھولوں کے بیج فطرت مصرفانہ افراط سے پیدا کرتی ہے۔ والدین کی وفات سے پہلے ان کی جانشین اولاد عشق کی بدولت معرض وجود میں آتی ہے زندگی کو بقا کوش اور ارتقا کوش قوت عشق ہی ہے جو برگ و ثمر میں بھی کارفرما ہے اور روح بشر میں بھی۔ فقط عشق ہی اپنی اخلاقی کی قوت کی بدولت موت سے مغلوب نہیں ہوتا۔ ہر جگہ آخر کار تخریبی قوتیں تعمیری قوتوں سے شکست کھا جاتی ہیں۔ فوسٹ کے ڈرامے میں عشق کی اس خلاقی فطرت کو ابلیس اپنا حریف قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بقا کوشی تمام حیات و کائنات پر اس طرح محیط ہے کہ میں اپنی قوت تخریب کو بڑی کوشش سے بچا کر نہ رکھتا تو میرے لیے کہیں گنجائش نظر نہ آتی۔ اس ڈرامے میں ابلیس خدائے قدوس اور خیر مطلق کو اپنا حریف نہیں جتاتا بلکہ اسی حیات آفرین عشق سے نالاں ہے جو اس کی تمام تخریبی کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور اسے پھر از سر نو ہر تعمیر میں تخریب کی کوئی نئی صورت سوچنی پڑتی ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ عشق کی یہ خلاقی ملاحظہ ہو کہ ہوا کے اندر پانی میں زمین میں خشکی میں تری میں گرمی میں سردی میں ہر جگہ اور ہر حالت میں زندگی کے لامحدود جراثیم پھوٹ پھوٹ کر نکل رہے ہیں ۔ اس طوفان حیات میں اور زندگی کی فراوانی میں میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بچا کر رکھا ہے۔
ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ برٹ رینڈ رسل جیسا منکر خدا اپنا عقیدہ یہ بیان کرتا ہے کہ زندگی میں لطف اور قدرت پیدا کرنے والے دو ہی اقدار ہیں ایک علم اور دوسرا عشق۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک اور منکر خدا فرائڈ جدید تحلیل نفسی کا امام بھی آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام زندگی میں دو قوتیں اساسی معلوم ہوتی ہیں ایک تخریبی قوت جس کو وہ جبلت موت کہتا ہے اور ایک تعمیری قوت جسے وہ عشق کہتا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مگر نہایت پر معنی کتاب تہذیب اور اس کی بے اطمینانیاں ہے۔ اس نے تہذیب پر ایک گہری نفسیاتی بحث کی ہے۔ اس کا لب بابیہ ہے کہ انسانی زندگی کے اندر دو اساسی جبلتیں ہیں ایک عشق ہے جو تخلیقی اور تعمیر ی قوت ہے۔ وہ ایک جنسی جذبے سے شروع ہو کر تمام نو ع انسان کی محبت تک ترقی کرتا چلا جاتا ہے انسانی تہذیب و تمدن کے تمام ادارے اور اس کے تمام فنون لطیفہ اسی جذب کے مظاہر ہیں۔ دوسرا جذبہ تخریبی ہے جو جور و جفا پر انسان کو مائل کرتا ہے اور ہر تعمیر کی تخریب پر آمادہ رہتا ہے۔ فنا و بقا یا موت و حیات کی پکار زندگی کا لازمہ ہے انسان کی تہذیب اور اس کی ترقی کا مدار جذبہ عشق کو جنسی جذبے سے متجاوز کر کے تمام زندگی پر محیط کرنا ہے انسانی زندگی میں عقل اور عشق حریف اور ازلی دشمن نہیں بلکہ عشق اور میلان ظلم ایک دوسرے پر غالب آنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ رومی نے کہا تھا کہ زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است۔ فرائڈ کہتا ہے کہ ابلیس میلان تظلم کا نام ہے اور عشق زندگی میں وحدت آفرین ہونے کی وجہ سے تہذیب و تمدن کے بہترین عناصر کا خلاق ہے۔ یہ دونوں میلانات انسانوں کے اندر داخ جبلت ہیں ان کی پیکار کہیں پوری طرح ختم نہیں ہوتی۔ ظلم جلی نہیں تو ظلم خفی انسانوں کے برتاؤ میں موجود رہتا ہے۔ لیکن اس کا حریف عشق کبھی اس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا۔ انسان کا مستقبل یہی ہے کہ وہ عشق کی تعمیری اور خلاق قوت میں اضافہ کرتا جائے دیکھیے کہ برٹ رینڈ رسل اور فرائڈ دونوں مذہب اور روحانیت کے دشمن آخر میں وہی بات کہہ رہے ہیں کہ جو اقبال نے ان دونوں سے بہتر انداز میں اور زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کہی۔ کفر و دین کے ڈانڈے کس طرح مل گئے ہیں۔ دین بھی اپنے ارتقا میں آخر ذات و صفات الٰہی پر غور کرتا ہوا اور رسوم و شعائر اور عبادات سے گزرتا ہوا اسی عقیدے پر آ گیا ہے کہ اصل حقیقت عشق ہے خدا عشق ہے اور عشق خدا۔ نجات اور کامیابی کا مدار اسی عقیدے پر عمل کرنا ہے باقی جو کچھ ہے وہ فروعی اور متغیر ہے اور کفر کی ترقی نے بھی یہیں آ کر دم لیا اور اسی کو آخری منزل قرار دیا ہے۔ فرائڈ نے ایک کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے کہ خدا پر عقیدہ رکھنا ایک عالمگیر دھوکا ہے انسانوں کو چاہیے کہ اس دھوکے سے نجات حاصل کریں ۔ بگذر ز خداہم کہ خدا ہم حرفے ست۔ لیکن یہی ملحد حیات و ممات کی ماہیت پر غور کرتا ہو ا آخر عمر میں اپنا ی راسخ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ خدا کا جود تو نہیں لیکن عشق کا وجود ہے۔ جو خلاق ہے اور ضامن بقا اور ارتقا ہے انسان کو عشق کی پرستش کرنا اور اسے اپنی رگ و پے میں سمونا چاہیے۔ انسان کو حیوانیت سے عشق ہی کی ترقی نے نکالا ہے۔ زندگی کی تمام لطافتیں اسی نے پیدا کی ہیں اور آئندہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ترقی کا مدار بھی عشق پر ہی ہے۔ ایسے کافروں کی نسبت اقبال ہی کا مصرعہ دہرایا جا سکتا ہے:
قلب او مومن دماغش کافر است
جس نظریہ حیات پر کفر اور دین دونوں متفق ہو جائیں اور عقل و وجدان دونوں اس بارے میں ہم آہنگ ہو جائیں اس کے ابدی صداقت ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے۔ اسی ابدی صداقت کو اقبال نے اتنی لطافت اتنی نزاکت اور اتنے جوش کے ساتھ پیش کیا ہے کہ وہ اسی کی بدولت ترجمان حقیقت کے لقب کا مستحق ہو گیا ہے۔
اقبال اس کا منکر نہ تھا کہ علم بھی اپنی ترقی میں عشق کا دامن چھو سکتا ہے۔ عشق کے متعلق برٹ رینڈ رسل سے زیادہ فرائڈ کو بصیرت حاصل ہوئی۔ رسل عشق کو کوئی ازلی ابدی حقیقت نہیں سمجھتا۔ فقط انسانی زندگی میں عدل و رحم اور لطف و مسرت پیدا کرنے کے لیے اسے ایک اساسی قدر حیات تسلیم کرتا ہے۔ اس کے نزدیک وہ ماہیت وجود میں داخل نہیں فقط انسانی زندگی کے لیے ایک مفید زاویہ نگاہ اور اچھا طرز عمل ہے۔ لیکن فرائڈ تو آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ وہیں پہنچ گیا جہاں اہل دین اور صوفیہ پہنچے تھے کہ عشق خلاقی قوت مصدر حیات اور مقصود حیات ہے اگر انسان لفظی تنازع میں نہ پڑے تو یہ اسی خدا کے قائل ہونے کے مترادف ہے جو رحیم و مودود اور رب العالمین ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ ربوبیت اور نبات و حیوان اور انسان میں ایک تعمیری حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب وہ یہ کہتا ہے کہ فنا کوش تخریبی قوت بھی ساتھ ساتھ پائی جاتی ہے تو اس کو دین کی زبان میں شیطان کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اپنے عقلی راستے پر چلتا ہوا اور انسانی نفس میں غوطہ زنی کرتا ہوا فرائڈ خدا اور شیطان دونوں کا قائل ہو گیا وہ دینی زبان استعمال نہیں کرتا لیکن مفہوم وہی ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے کہ ایروس یعنی عشق تخریبی قوتوں پر غالب آتا ہوا زندگی میں ارتقا پیدا کر رہا ہے تو اسے دینی زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا شیطان پر غلبہ بھی ایک سرمدی حقیقت ہے۔ وہ اس کی تلقین کرتا ہے کہ میلان ظلم کو عشق کی وسعت اور قوت سے شکست دو۔ اس کے بعد اس کفر ور دین کی اعلیٰ ترین صورتوں میں کیا فرق باقی رہ جائے گا۔ فرائڈ اقبال کی طرح علم و عقل کی تحقیر نہیں کرتا کیوں کہ اسے جو کچھ بصیرت حاصل ہوئی وہ علم و عقل کی بدولت حاصل ہوئی۔ مگر اس کے نزدیک انسان کے علوم نے جو ترقی کی ہے اور جس سے تہذیب پیدا ہوئی وہ بھی عشق ہی کی قوتوں نے پیدا کی۔ فرائڈ بھی اقبال کی طرح کہتا ہے کہ علم نے جو سوالات پیدا کیے ہیں اس کا جواب مجھے عشق میں ملا ہے اسی نظریے کو اقبال نے اس خوبصورت مصرعے میں پیش کیا ہے کہ :
علم ہے ابن الکتاب عشق ہے ام الکتاب
تمام کتابیں طبیعی علوم کی ہوں یا فنون لطیفہ کی یا مذہبی صحیفے کی۔ سب کا منبع اور ان کی ماں عشق ہے ضرب کلیم میں علم و عشق کے عنوان سے جو نظم ہے وہ اس موضوع پر اقبال کی لاجواب نظموں میں سے ہے۔ اس کو نقل کرنے کے بعد اب اس موضوع پر مزید طول بیان تحصیل حاصل ہو گا۔
علم و عشق
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندہ تخمین و ظن کرم کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب
عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات
علم مقام صفات عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال عشق ہے پنہاں جواب
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنی غلام صاحب تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں ! عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں اور یقیں فتح یاب
شرح محبت میں ہے عشرت منزل حرام
شورش طوفان حلال لذت ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب عشق ہے ام الکتاب
٭٭٭
بارھواں باب
تصوف
اقبال کے فکر و تاثر پر بحث و تنقید مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا فیصلہ نہ کیا جائے کہ تصوف کے متعلق اقبال کا کیا رویہ تھا۔ اس سے قبل اس کا تعین لازمی ہے کہ تصوف ہے کیا چیز عشق کے لفظ کی طرح یہ لفظ بھی قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اور نہ اس زمانے کے معاصرانہ ادب میں موجود ہے۔ طلوع اسلام کے دو سو سال بعد تک بھی کوئی صاحب دل دین دار صوفی کہلاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کسی کے جیے اس سے زیادہ اور کوئی شرف نہ تھا کہ وہ مومن ہو اور لوگ اس کے تقوے اور تزکیہ نفس کو قابل تحسین اور قابل تقلید سمجھیں ۔ اس کا آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ صوفی کا لفظ کہاں سے آیا۔ کسی نے اس کو صفا سے مشتق سمجھا اور کسی نے اصحاب صفہ سے اس کا جوڑ ملایا۔ کسی نے کہا کہ یہ یونانی لفظ سوفی سے ماخوذ ہے جس کے معنی عرفان کے ہیں ۔ لیکن اب مسلم اور غیر مسلم محققین زیادہ تر اس پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ یہ لفظ صوف سے مشتق ہے۔ درویش خدا سے لو لگانے والا اور تنعم دنیوی سے گریز کرنے والا زاہد رسول کریمؐ کی طرح کملی والا ہوتا ہے۔ یہ کملی عام طور پر صوف ہی کی ہوتی تھی جو ایک کھردری قسم کی اون کی بافت تھی۔ مسلمانوں میں صوفیہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ وہ طرز فکر و تاثر اور زندگی جسے تصوف کہتے ہیں۔ اسلام میں کہیں خارج سے داخل ہوئی بعض صوفیوں نے اپنے سلسلے کو حضرت علی کرم اللہ وجہ سے ملایا ہے اور بعض نے ابوبکر صدیقؓ سے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ چیز رسول کریمؐ کے اسوہ حسنہ کا عکس اور اخلاق نبوی کو قلب میں سمونے کا نام ہے۔ بعض نے یہ بھی کہا کہ رسول کریمؐ کی غار حرا کی خلوت تصوف یا ولایت ہی کا دور تھا جو نبوت کا پیش خیمہ بن گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو تصوف یا انگریزی زبان میں مسٹیسزم کہتے ہیں وہ دین کے ارتقاء اور اس کی گہرائی میں ہر جگہ پیدا ہوئی ہے۔ ا یک خاص انداز کے تصوف میں ہندو قوم کسے زیادہ کسی نے غوطہ زنی نہیں یکی اور ہندو دھرم ویدانت اور بدھ مت پر پہنچ کر اور ویدوں سے اپنشدوں کی طرف عروج فکر و عمل میں تصوف ہی تصوف بن گیا۔ اس یک طرفہ روحانیت اور ذات و صفات ہستی واجب الوجود پر غور کرتے ہوئے اس پر احدیت یا ادویت ویدانت نے ایسا تسلط جمایا کہ حیات و کائنات اور تمام ماسوا مایا یا فریب ادراک رہ گئے اور رفتہ رفتہ دیوتا بھی مایا ہی کا ایک جزو بن گئے۔ نفس انسانی کی انفرادیت شرک بن گئی اور یہ سارا سلسلہ ایک حایت گریز تصور میں منتج ہوا۔ عملی زندگی میں خیر و شر کی پیکار کو باطل ہونے سے بچانے کے لیے بھی بعض اہم کوششیں ہوئیں جن میں کرشن مہاراج کی طرف منسوب بھگوت گیتا کے حقائق کو عمل سے ہم آغوش کرنے کی ایک لاجواب کوشش ہے۔ اس کتاب میں وحدت وجود اور توحید کو جہاد عملی اور جہاد نفسی کے ساتھ اس طرح مربوط کیا ہے کہ حیات گریز تصوف کی بہت سی خامیاں اس میں رفع ہو گئی ہیں۔ اس بنا پر علامہ اقبال اس کتاب کے لیے بے حد مداح تھے اور فرماتے تھے کہ ہندو قوم اس کتاب کی وجہ سے ابل مبارک ہے۔
ہر قوم کے تصوف میں بعض میلانات مشترک طور پر پائے جاتے ہیں۔ صوفی اس مادی زندگی کو اگر بالکل باطل اور بے اصل نہ بھی سمجھے اور اسے خدا ہی کی آفرینش اور اس کی مشیت کا مظہر قرار دے تو بھی روحانی زندگی کے مقابلے میں اس کو ہیچ سمجھتا ہے۔ حتی الوسع دام علائق سے رہائی چاہتا ہے۔ جسمانی آرزوؤں کو اقل قلیل حد تک پورا کرتا ہے اور اسے بھی مقصود نہیں بلکہ روحانیت کا ایک ادنی مگر ضروری وسیلہ سمجھتا ہے۔
صوفی میں خدا کا تصور تجسیم و تشبیہ سے پاک ہوتا ہوا کمال تنزیہ تک جا پہنچتا ہے اور خدا کے صفات تمثیلی باطنی یا اضافیر ہ جاتے ہیں کیوں کہ اس کی ذات وراء الوراء ہے سبحان اللہ عما یصفون۔ یہاں پہنچ کر توحید کے ڈانڈے وحدت وجود سے جا ملتے ہیں اور دونوں میں امتیاز دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔
علماء و فقہا اور عوام کے نزدیک دین رفتہ رفتہ کچھ ظواہر و شعائر میں محصور ہو جاتا ہے تمام توجہ اوامر و نواہی کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ دین ایک کالید بے روح بن جاتا ہے۔ اہل دین متشابہات بلکہ محکمات کی متضاد نما تاویلوں میں الجھ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں روح دین کی حفاظت کے لیے یہ لازمی ہو جاتا ہے کہ لوگوں کو ظاہر سے باطن کی طرف لایا جائے۔ کیا کرنا اور کیا نہ کرنا کے علاوہ بلکہ اس سے زیادہ اس کی تلقین اہم ہو جاتی ہے کہ انسان کو کیا ہونا چاہیے۔ ظواہر پر منحصر دین اور فقط معاملات کو سلجھانے والی فقہ رفتہ رفتہ اس جذبے سے عاری ہو جاتی ہے جسے صوفیہ اور علامہ اقبال عشق کہتے ہیں۔ عبادت کا مقصود حصول ثواب رہ جاتا ہے۔ جس سے آخرت میں نعمت جنت حاصل ہو اور انسان عذاب دوزخ سے بچ جائے۔ نیکی اور بدی کے اندر جو ذاتی اور نفسی نقد سزا اور جزا مضمر ہے اس کی حقیقت سے دیندار ناآشنا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے صوفی کہلانے والوں میں رابعہؒ کا ذکر ملتا ہے جن کو لوگ مجذوب یا مجنوں سمجھتے تھے۔ ایک روز دیکھا گیا کہ وہ بازار سے گزر رہی ہیں ایک ہاتھ میں کسی ظرف میں پانی ہے اور دوسرے میں کسی ظرف میں کچھ دہکتے ہوئے کوئلے ہیں ۔ لوگوں نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہو اور یہ کیا لیے جاتی ہو؟ رابعہؒ نے جواب دیا کہ اس پانی سے دوزخ کی آگ کو بجھانے اور اس آگ سے جنت کو آگ لگانے جا رہی ہوں تاکہ لوگ اعمال کا مدار عشق الٰہی پر رکھیں اور اس جسمانی عذاب و ثواب کے امید و بیم سے نجات حاصل کریں۔ اسی تصور کو غالب نے ذرا انوکھے انداز میں بیان کیا ہے:
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو
تمام اقوام کے تصوف میں ایک بات مشترک ملتی ہے کہ اور وہ یہ ہے کہ محسوسات اور معقولات کے علاوہ اور ان سے کہیں زیادہ ادراک حقیقت کے ذرائع اور ہیں جو وجدانی ہیں۔ انسان کے ظاہری حواس کچھ باطنی حوس بھی ہیں جو ہستی کے بعض ایسے پہلوؤں کو منکشف کرتے ہیں جن تک عام عقل و احساس کی رسائی نہیں۔ کشف حقیقت کا سب سے بڑا ذریعہ عشق ہے جو محض تاثر یا جذبہ نہیں بلکہ مصدر بصیرت و معرفت ہے۔ زندگی کا مقصد اسی عشق کو ترقی دیتا ہے کہ جس سے ظاہر و باطن کی خامیاں رفع ہو جاتی ہیں اور اس کی بدولت جو عرفان نفس پیدا ہوتا ہے وہ خود شناسی اور جہاں شناسی کے علاوہ خدا شناسی کی راہیں بھی کشادہ کر دیتا ہے۔ تصوف کوئی طریق استدلال اور محض ایک نظریہ حیات نہیں بلکہ ایک طر ز زندگی ہے۔ جس میں ہر چیز کے متعلق زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے اور زندگی کے رسمی اقتدار کی نئی تقدیر ہوتی ہے۔
ان تمام وجوہ اشتراک کے باوجود مختلف ادیان کے تصورات میں تصوف کا رنگ ایک گونہ جدا جدا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی ملت میں مختلف صوفیا کا رنگ مختلف معلوم ہوتا ہے بعض خدا مست اور مجذوب معلوم ہوتے ہیں بعض خلوت پسند اور ہر قسم کے علائق سے گریز کرنے والے ہیں۔ بعض اپنی روحانیت اور معرفت سے دوسرو ں کو متاثر کرنا اور ان کی زندگیوں میں تزکیہ پیدا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ بعض کی طبیعتوں پر بقا کے مقابلے میں فنا کا تصور زیادہ حاوی دکھائی دیتا ہے۔ بعض پر گریہ طاری رہتا ہے اور بعض کے اندر ایک ازلی سرور ان کے چہروں پر بھی تبسم آفرین ہوتا ہے بعض اپنے دین کی شریعت پر بھی سختی کے ساتھ پابند ہوتے ہیں اور بعض شریعت کے مقابلے میں طریقت اور معرفت اور عشق کا فضل سمجھتے ہیں اور کہیں دونوں میں تصادم ہو تو وہ شریعت کے ظاہری احکام کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ مختلف صوفیہ نے تصوف کی جو تعریفیں کی ہیں وہ بھی اسی وجہ سے مختلف ہیں کہ ان کا طرز فکر اور طرز عمل جدا جدا ہے اور ان کے نفسی احوال میں بھی تفاوت معلوم ہوتا ہے۔
ہمارا اصل موضوع یہ ہے کہ تصوف کے عالم میں اقبال کا کیا مقام ہے اور اقبال کو صوفی کہہ سکتے ہیں یا تصو ف کا مخالف۔ اقبال کا سرسری مطالعہ کرنے والوں نے اس بارے میں عجیب رائیں قائم کر رکھی ہیں۔ اقبال کے تصوف کے موافق یا مخالف ہونے کی بابت بحث اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں حافظ شیرازی ک متعلق بڑی بیباکی سے اشعار لکھ ڈالے ہیں۔ جن میں حافظ کے نظریہ حیات پر سخت اور تلخ تنقید تھی۔ صدیوں سے فارسی پڑھنے والو ں نے حافظ کو صوفیہ کرام میں شمار کر رکھا ہے۔ مسلمان عام طور پر اس کو لسان الغیب کہتے ہیں اور اپنی زندگی کے اہم امور کے متعلق دیوان حافظ سے فال نکالتے ہیں اس تفاول کے متعلق خاص و عام کے عجیب و غریب تجربات ہیں کہ کس طرح براہ راست ان کو اپنے سوال کا جواب اور مشکل کشائی کے لیے صحیح مشورہ حاصل ہوا۔ بادشاہ بھی امور سلطنت میں حافظ کی طرف رجوع کرتے ہیں جہانگیر نے اپنی توزک میں لکھا ہے کہ مجھے جب باپ کی وفات کی خبر ملی تو میں پایہ تخت سے کوسوں دور تھا اور پایہ تخت میں تخت شاہنشاہی پر بیٹھنے بٹھانے والے حریف موقع پر موجود تھے۔ بعض مصاحبین نے یہ مشورہ دیا کہ اس وقت آگرے کی طرف رخ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ میں بھی کمال اضطراب اور تذبذب میں تھا۔ فوراً خیال آیا کہ لسان الغیب سے پوچھا جائے اور وہ جو مشورہ دیں اس پر عمل کیا جائے۔ دیوان کھولا اور فال نکالی سامنے ہی یہ شعر موجود تھا کہ:
بشہر خود رام و شہر یار خود ہاشم
حافظ کے کلام میں اس قدر گونا گونی اور مجاز و حقیقت کی ایسی آمیزش ہے کہ جو پڑھنے والوں کے لیے تو نہایت دلکش اور وجد آفرین ہے لیکن سمجھنے والے اس کو حیرت اور تذبذب میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض شارحین نے اس تمام مجاز کو معرفت و عشق الٰہی بنا دیا ہے اور بعض اس کو لذت پرست عاشق مجازی سمجتھے ہیں۔ بعضوں کے نزدیک اس کی شراب شراب معرفت ہے۔ اور عشق الٰہی کی مے طہور ہے لیکن بعضوں کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ وہ افشردہ انگور ہے اس کا فیصل ادیب اور نقاد قیامت تک نہ کرسکیں گے کیوں کہ خالی مجاز اور خالص حقیقت دونوں کے متعلق ثبوت میں حافظ کے سیکڑوں اشعار ہر حریف پیش کر سکتا ہے۔ اقبال نے حافظ پر تنقید محض اس لیے کی ہے کہ اس کے کلام کا آغاز جو طباع پر اثر ہوتا ہے وہ لذت پرستی اور عل سے گریز ہے اس میں سکون پرستی اور قناعت کوشی کی تعلیم ہے۔ اس کے پڑھنے والے انسان کی خودی میں کوئی قوت اور استواری پیدا نہیں ہوتی۔ اس کا عشق خلاق اور فعال نہیں ہے۔ اور اقبال کے ہاں عشق کا زیادہ تر یہی مفہوم ہے۔ اقبال خانقاہی تصوف کا مخالف ہے لیکن حافظ کا تصوف تو خانقاہی بھی نہیں اور وہ اقبال کی طرح فقیہ اور خانقاہی صوفی دونوں کا مخالف ہے۔ اگرچہ وجہ اختلاف مختلف ہے۔ بہرحال اقبال اپنی شاعری سے جو انقلاب پیدا کرنا چاہتا تھا اور جس اصلاح کوشی کا طالب تھا وہ بات حافظ میں نہیں ملتی۔ اور جو کچھ وہاں ملتا ہے وہ اقبال کے نظریہ حیات کے خلاف پڑتا ہے۔ اقبال خواجہ حافظ کو صوفی نہ سمجھتے تھے۔ مولانا شبلی کا میلان بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ تصوف کی نہایت گہری اور بلند چیزیں بھی نہایت دلکش اور حکیمانہ انداز میں حافظ میں ملتی ہیں۔ اقبال اس کی یہی وجہ سمجھتے تھے کہ تصوف کے افکار اس زمانے میں عام تھے اور علاوہ ازیں بقول شیخ علی حزیں تصوف برائے شعر گفتن خوب است۔
اس کے باوجود بھی کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اقبال حافظ سے بالکل متاثر نہ تھے۔ خود فرماتے تھ کہ بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حافظ کی روح مجھ میں حلول کر گئی ہے۔ اقبال کی فارسی کی اکثر غزلیں ایسی ہیں کہ ان کو دیوان حافظ میں داخل کر دیا جائے تو پڑھنے والے حافظ کے کلام سے اس کا امتیاز نہ کر سکیں۔
ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ تصوف اور صوفیہ کی بہت سے قسمیں ہیں۔ اقبال ایک قسم کے تصوف کے مخالف تھے اور دوسری قسم کا تصوف ان کی شاعری کا بہترین سرمایہ ہے۔ اقبال نہ کسی فقیہ کے مقلد اور معتقد ہوئے اور نہ کسی حکیم اور فلسفی کے استدلالی فلسفے نے ان کو طمانیت بخشی۔ اسلام کی تمام تاریخ میں سے اقبال نے فقط رومی کو اپنا مرشد قرار دیا مگر رومی نہ فقیہ ہے اور نہ فلسفی۔ اگرچہ اقبال کی طرح فقہ و فلسفہ سے خوب واقف ہے۔ لیکن زیادہ تر عشق ہی کا راگ الاپتا ہے۔
زان طرف کہ عشق می افزاد درد
بو حنیفہ و شافعی درسے نکرد
اقبال کے والد بھی صاحب دل صوفی تھے اور اقبال اپنے باپ کے بھی مرید تھے۔ اور ایک صوفیانہ سلسلے میں بیعت کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے۔ اقبال کو زندگی کے متعلق ہر اہم سوال کا جواب عارف رومی ہی سے ملتا ہے۔ اور وہ مثنوی کو ہست قرآن در زبان پہلوی سمجھتے ہیں۔ اب کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جلال الدین رومی کو صوفی بلکہ امام صوفیہ نہ سمجھاجائے اور اسے اسلام سے ایک بھٹکا ہوا شخص خیال کیا جائے لیکن اس کیلیے تو مغرب و مشرق میں شاید ہی کوئی صاحب فہم بھی تیار نہ ہو۔ اگرچہ رومی کو کافر سمجھنے والے مناظرہ باز ملا اس زمانے بھی تھوڑے بہت موجود تھے اور بعد میں کہیں کہیں ابھرتے رہے ہیں۔ شیعیت نے زیادہ تر تصوف سے روگردانی کی ہے میر عبا س شوستری کا یہ شعر مشہور ہے جو اس نے اپنی تعریف اور عارف رومی کی مذمت میں کہا ہے:
ایں کلام صوفیان شوم نیست
مثنوی مولوی روم نیست
ایک پنجابی شاعر نے بھی کہا ہے کہ اگر رومی اور جامی کو کافر نہ کہوں تو اور کسی کو کہوں لیکن رومی کے متعلق یہ فتویٰ مسلمان علما و صلحا اور خاص و عام کے نزدیک مبنی بر جہالت ہے۔ اقبال نے کبھی اپنے آ پ کو صوفی نہیں کہا لیکن رومی بھی تو عام طور پر صوفیوں کی ہی مذمت کرتے ہیں۔ جس طرح دین کے مدعی ظاہر پرست ملا حامیان شرع متین کہلانے کے باوجود دین کی روح سے بیگانہ تھے اسی طرح جب تصوف کا چرچا ہوا اور اہل دل نے انسانوں کے دلوں پر قبضہ کیا تو دین کے مقلدوں کی طرح تصوف کے مقلد بھی پیدا ہو گئے۔ جو بولی تو صوفیہ ہی کی بولتے تھے اور ظاہری انداز بھی ویسا ہی بنا لیتے تھے۔ لیکن دراصل توہم پرست اور اقتدار پسندتھے اور کشف و کرامات سے مریدوں پر رعب جماتے تھے۔
اس زمانے میں بعض مدعیان اصلاح اور مفسر قرآن ایسے پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے یکسر تمام احادیث نبوی کا دفتر باطل سمجھ کر سوختنی قرار دیا ہے۔ یہ لوگ درحقیقت اصلاح معاشرت کی تجویزوں میں دوسری ملتوں کے نقال ہیں اوراس نقال کو اصل اسلام بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک صوفی کا خلوت گزینی میں محویت ذات الٰہی کی مشق کرتے ہوئے یہ قول مشہور ہے کہ بخدا آنچنان مشغولم کہ از رسول خجالتہا دارم تا بہ اولوالامر چہ رسد۔ اسی قول کو ذرا سی تبدیلی کے ساھت ان لوگوں پر منطبق کر سکتے ہیں کہ باقرآں آنچناں مشولم از حدیث خجالتہا ارم تا بہ صوفیہ چہ رسد۔ لطیفہ یہ ہے کہ اسے بعض علامہ اقبال کے اس قدر معتقد ہیں کہ اسے مجتہد العصر اور محی الملکت و الدین کہتے ہیں لیکن اپنی کوتاہ بینی اور کج اندیشی کی وجہ سے اظہار تاسف کرتے ہیں کہ افسوس اقبال جیسا مجدد بچپن اور شباب ہی میں کچھ باپ کی وجہ سے اور کچھ روایتی تصوف کا شکار ہو کر آخر تک رومی جیسے انسان کو اپنا مرشد اور سیر افلاک میں اپنا رہنما سمجھتا رہا۔ ورنہ کہاں علامہ اقبال جیسا بالغ نظر انسان اور کہاں رومی جیسا صوفی جو اسلام اور قرآن سے ہٹ کر اناپ شناپ باتیں کرتا ہے۔ ایسے نا فہموں کو اپنے تضاد فکر کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور اسی لیے اپنی متضاد بیانی سے کچھ شرم بھی نہیں آتی بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ تمام عمر ایسا شدید دھوکا کھانے والا اور زندگی کے ہر مسئلے کو مرشد رومی کے سامنے بغرض حل پیش کرنے والا تمہارے نزدیک واقف رموز قرآن اور ترجمان حقیقت کیسے ہو سکتا ہے؟ ان سے سوال کرنا چاہیے کہ اقبال کی گمراہی اور حقیقت ناشناسی کا اس سے زیادہ قوی ثبوت اور یا ہو سکتا ہے کہ تمہارے نزدیک جو تصوف قاطع قرآن ہے اسی کے امام عارف رومی کو اقبال ہر مفسر اور ہر فقیہ سے افضل سمجھتا ہے۔ خود اس سے فیض حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی مریدی کی دعوت دیتا ہے۔ کیا ایسے اقبال کو تصوف کا مخالف کہہ سکتے ہیں۔ وہ تو خدا اوررسول کے عشق کا بہترین حامل سمجھتا ہے۔ رومی کی معتقدی میں اقبال نے بہت کچھ کہا ہے۔ مندرجہ ذیل چند اشعار ملاحظہ ہوں :
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
٭٭٭
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
٭٭٭
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
٭٭٭
صحبت پہ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف
٭٭٭
یا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ
یا حیرت فارابی یا تاب و تب رومی
٭٭٭
نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی
جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی
بال جبریل میں مرید ہندی اور پیر رومی کے سوال و جواب زندگی کے اہم مسائل کے متعلق پڑھنے اور غور کرنے کے قابل ہیں۔ مثنوی مولوی معنوی حکمت و عرفان اور عشق کا ایک ایسا بحر زخار ہے کہ دین و دنیا کے متعلق جتنے اہم سوال بھی کسی کے دل میں پیدا ہوں ان کا جواب اس میں کہیں نہ کہیں مل جائے گا یہ ہر تفسیر و تاویل و استدلال سے زیادہ دل نشین اور یقین آفرین ہو گا:
ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحر پر آشوب و پراسرار ہے رومی
٭٭٭
تو بھی ہے اسی قافلہ شوق میں اقبال
جس قافلہ شوق کا سالار ہے رومی
٭٭٭
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہ محمل گرفت
ایں فرو تر رفت و تا گوہر رسید
آں بگردابے چو خس منزل گرفت
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
٭٭٭
عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد
از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی
٭٭٭
مطرب غزلے بیتے از مرشدروم آور
تا غوطہ زند جانم در آتش تبریزے
٭٭٭
بیا کہ من ز خم پیر روم آوردم
مے سخن کہ جواں تر ز بادہ عنبی است
جلال الدین رومی اور جرمنی کے مشہور فلسفی کا مقابلہ کرتے ہوئے اقبال نے جو اشعار پیام مشرق میں لکھے ہیں وہ اس سے بیشتر ایک عنوان کے تحت درج ہو چکے ہیں۔ مغربی فلسفے میں ہیگل کے نظریہ وجود میں منطقی عقل کا کمال نظر آتا ہے۔ اس نے زندگی کے پیچاک کو سلجھانے کی کوشش میں اس کے تار وجود میں ایسی گرہوں کا اضافہ کیا ہے ہ جن کو کھولنے کی کوششوں میں پیشہ ور فلسفی بھی عاجز ہو جاتے ہیں۔ ہیگل کی عقلی کوششوں کی داد دینے کے بعد اقبال کہتا ہے کہ جب اس کے دریائے تفلسف میں میری عقل کی کشتی ڈوبنے اور ڈگمگانے لگی تو ایک پیر یزدانی خضر آسا مجھے بچانے اور سنبھالنے کے لیے غیب سے نمودار ہوا۔ یہ بزرگ عارف رومی تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ عقلیت کے کس گرداب میں خواہ مخواہ چکر کھا رہے ہو۔ حقیقت ازلی کو عقل کی روشنی سے تلاش کرنا ایساہی ہے جیسا کہ کوئی چراغ لے کر آفتاب کو ڈھونڈنے نکلے۔ تو سراب میں کشتی رانی کر رہا ہے۔ تشنہ لب بھی رہے گا اور تیری کشتی بھی کسی ساحل مراد پر نہ پہنچے گی۔
نگہ شوق تیز تر گردید
چہرہ بنمود پیر یزدانی
آفتابے کہ از تجلی او
افق روم و شام نورانی
شعلہ اش در جہان تیرہ نہاد
بہ بیاباں چراغ رہبانی
معنی از حرف او ہمی روید
صفت لالہ ہائے نعمانی
گفت با من چہ خفتہ برخیز
بہ سرابے سفینہ می رانی؟
بہ خرد راہ عشق می پوئی
بہ چراغ آفتاب می جوئی
اقبال نے جن حکمائے مغرب کو بہت بلند پایہ اور نکتہ رس پایا ہے ان میں س ایک بیگانہ روز گار گوئٹے بھی ہے۔ اپنی شاعری کی ابتدا میں اس ے غالب کو اس کا مثیل قرار دیا تھا:
آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے
گوئٹے کے شاہکار فوسٹ کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اقبال نے ہیگل کو تو بو علی اور فارابی و رازی کی طرح حقیقت نارس ہی کہا ہے لیکن گوئٹے سے وہ اپنی طبیعت کی مماثلت محسوس کرتا ہے اور یہ درست ہے کہ غالب سے کہیں زیادہ اقبال اپنی وسعت و پرواز فکر میں گوئٹے کا مثیل ہے۔ پیام مشرق گوئٹے کے شرقی غربی دیوان کے جواب میں ہی لکھا گیا جلال الدین رومی جو اقبال کا مرشد ہے اس کے افکار کی ہم رنگی اقبال کو گوئٹے میں بھی نظر آتی ہے۔ جلال و گوئٹے کی نظم کے تحت میں اقبال نے ایک نوٹ لکھا ہے جو درج ذیل ہے:
’’نکتہ دان المنی سے مراد گوئٹے ہے جس کا ڈرامہ فوسٹ مشہور و معروف ہے اس ڈرامے میں شاعر نے حکیم فوسٹ اور شیطان کے عہد و پیمان کی قدیم روایت کے پیرائے میں انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدارج اس خوبی سے بتائے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کمال فن خیال میں نہیں آ سکتا‘‘۔
گوئٹے کی قدر شناسی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اقبال نے اپنے مرشد رومی اور گوئٹے کو ایک جا جنت میں ہم کلام کر دیا اور رومی کی زبان سے گوئٹے کو رمز شناس عشق ہونے کی سند عطا کی۔ اس ڈرامے میں بھی ابلیس کی زیرکی سے آدم کا عشق برسر پیکار ہے۔ اور آخر کار عشق فتح یاب ہو جاتا ہے۔ رومی صدیوں پہلے اس پیکار کا لب لباب اس شعر میں کہا گیا تھا:
داند آں کہ نیک بخت و محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
نکتہ دان المنی را در ارم
صحبتے افتاد با پیر عجم
شاعرے کو ہمچو آں عالی جناب
نیست پیغمبر والے دارد کتاب
خواند بر دانائے اسرار قدیم
قصہ پیمان ابلیس و حکیم
گفت رومی اے سخن را جاں فکار
تو ملک صید استی و یزداں شکار
فکر تو در کنج دل خلوت گزید
ایں جہان کہنہ را باز آفرید
سوز و جاں بہ پیکر دیدہ ای
در صدف تعمیر گوہر دیدہ ای
ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست
ہر کسے شایان ایں درگاہ نیست
داند آں کو نیک بخت و محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
اقبال گوئٹے سے بھی زیادہ برگساں کا مداح اور اس کے عقل و وجدان کے تقابلی فلسفے سے متاثر تھا۔ اپنا نظریہ حیات اقبال نے برگساں سے حاصل نہیں کیا لیکن اس کا استدلالی استحکام برگساں کے ہاں بہت قومی ہے۔ ظاہر ہے کہ اقبال شعر میں اس قسم کا منظم فلسفہ پیش نہ کر سکتا تھا شاعری میں طر ز بیان اور طرز استدلال منطقی نہیں ہوتا۔ اگرچہ منطقی استدلال سے زیادہ دلنشیں اور یقین آفریں ہوتا ہے۔ اقبال نے کہیں برگساں اور رومی کی باہمی موافقت کے متعلق اشعار نہیں کہے۔ لیکن برگساں کے ہاں وجدان حیات عقل کی محدود افادیت اور عشق کی خلاقی اسی انداز سے ملتی ہے جو انداز رومی اور اقبال دونوں کا ہے پیغام برگساں کے اشعار رومی اور اقبال ہی کا نظریہ حیات اور ا تصوف کی اساس ہیں جو ان تینوں ہم رنگ پایا جاتا ہے:
تا بر تو آشکار شود راز زندگی
خد را جدا ز شعلہ مثال شرر مکن
بہر نظارہ جز نگہ آشنا میار
در مرز و بوم خود چو غریباں گزر مکن
نقشے کہ بستہ ہمہ اوہام باطل است
عقل بہم رساں کہ ادب خوردہ دل است
بروننگ بائرن غالب اور رومی کے نظریات حیات ایک ایک شعر میں اس طرح بھر دیے ہیں کہ دریا کوزے میں آ گیا ہے۔ روحی میلان جوش حیات اور تعمری خودی بروننگ کے کلام کا امتیازی جوہر ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنی ایک نظم میں نے کشمیر سے علا مہ اقبال کو بھیجی تھی اسے پڑھ کر علامہ نے مجھے لکھا کہ تخیل پر قابو رکھنا چاہیے تاکہ وہ عنان گسیختہ نہ ہو جائے۔ اوراس کے علاوہ ایک مشورہ بھی دیا تھا کہ بروننگ کو پڑھا کرو۔ بائرن میں وہ چیز نہ تھی جسے روحانیت کہ سکیں۔ اس کا میلان زیادہ تر لذت پرستی اور قوت پرستی کی طرف معلوم ہوتا تھا۔ گوئٹے نے بھی غالباً ایکٹر مین سے باتیں کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ بائرن کے کلام میں قوت کا غیر معمولی مظاہر ہ ہے۔ اس کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ امر تو حقیقی ہے کہ قوت کائنات کی فطرت کا اساسی عنصر ہے۔ اور اسی لیے انسانی طبیعت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ غالب کے ہاں زندگی کی تلخیوں کے باوجود گوارائی حیات موجود ہے۔ بلکہ وہ زندگی میں تلخی کے اضافے کا خواہش مند معلوم ہوتا ہے۔ فارسی میں غالب کی ایک بلند پایہ غزل ہے جس کا مطلع ہے:
رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم
در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم
اس تمام غزل میں ایک ہی موڈ یا کیفیت طبع محسوس ہوتی ہے۔ بروننگ بائرن اور رومی تینوں اسی زمین میں ایک ایک شعر کہہ کر اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اقبال کا مقصد یہ ہے کہ ان تینوں پر رومی کا تفوق ثابت کیا جائے:
بروننگ
بے پشت بود بادہ سر جوش زندگی
آب از خضر بگیرم و در ساغر افگنم
بائرن(جو روحانی رہنماؤں کا قائل نہیں اور اپنے خون جگر میں سے فیض حاصل کرنا چاہتا ہے)۔
از منت خضر نتواں کرد سینہ داغ
آب از جگر بگیرم و در ساغر افگنم
غالب
تا بادہ تلخ تر شود و سینہ ریش تر
بگدازم آبگینہ و در ساغر افگنم
رومی
آمیزشے کجا گہر پاک او کجا
از تاک بادہ گیرم و در ساغ افگنم
روحانی قوت اور جوش و مستی نہ خضر سے طلب کرو اور نہ اپنے جگر سے اور نہ مے انگور کے ساغر سے جس کی تیزی اور تلخی میں اضافہ بھی کچھ کام نہ آئے گا۔ الوہیت کے تاکستان سے براہ رات انگور توڑو اور اس کا افشردہ پیو
مرشد رومی کی مریدی کے اشعار اقبال کے تمام مجموعوں پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ اور جاوید نامے میں تو شروع سے آخر تک وہی رہبر ہے۔ اقبال کو اپنا نظریہ حیات اور میلان طبع غیر معمولی بصیرت اور جوش کے ساتھ فقط رومی میں نظر آیا۔ اگر رومی کا نظریہ فکر و عمل اور اس کا عشق تصوف کہلا سکتا ہے تو اقبال کے صوفی ہونے میں کیا شک نہیں ہو سکتا ہے؟ اقبال کو رفتہ رفتہ یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ اس دور میں میں اس کا خلیفہ ہوں اور مجھے بھی اس کی طر ح دین کی ظاہر پرستی اور فلسفے کی سائنس کی مظاہر پرستی کے خلاف جہاد کرنا ہے اور انسانوں کی زندگی می دوبارہ عشق کوسرچشمہ حیات بنانا ہے۔ جس سے حقیقی بصیرت اور قوت پیدا ہو سکتی ہے اور اگر شرق و غرب دونوں کی تہذیبیں اس نظریہ زندگی کی طرف نہ آئین تو دونوں کی خیریت نہیں۔ فردو س میں سنائی نے رومی سے کہا کہ مشرق میں درویشی کا سہ آش ہی رہ گئی ہے اور صوفی و فقیر کہلانے والوں میں بھی اس خودی کا احساس نہیں جو خدا سے ہم کنار کرتی ہے۔ حلاج جس نے انا الحق کہ کر خودی کی ماہیت کو حق قرار دیا تھا وہ بھی وہاں موجود تھا۔ وہ بولا تھا کہ مرد قلندر مشرق میں پیدا ہوا ہے اس نے پھر راز خودی کو فاش کیا ہے اس لیے وہاں تجدید حیات کی امید ہو سکتی ہے:
فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہی وہی کاسہ وہی آش
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش
آخر میں رومی کی ملت اسلامیہ کے مرض ضعف کی تشخیص اقبال کی زبانی پیش کر کے ہم رومی کی مرشدی اور اقبال کی مریدی سے رخصت ہوتے ہیں :
رومی
غلط نگر ہے تری چشم نیم باز اب تک
ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک
ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک
کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک
گستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تو ہے نغمہ رومی سے بے نیاز اب تک
اس انتخاب سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کے ہاں رومی کا تصوف بدرجہ اتم بلکہ بیان کی کچھ مزید لطافتوں کے ساتھ موجود ہے۔ اب ذرا اس پر بھی نظر ڈال لیں کہ اقبال جس تصوف کا مخالف ہے وہ کیا چیز ہے۔
مسلمان صوفیہ کے افکار و تاثرات میں بعض ایسے عناصر داخل ہو گئے جو اسلام کی اصل تعلیم کے اندر سے نہ ابھرے تھے۔ بلکہ ان ادیان اور فلسفوں کے راتستے سے داخل ہوئے تھے کہ جن میں روحانیت تجریدی ہوتے ہوتے حیات گریز ہو گئی تھی۔ عیسائیت بھی ابتدائی صدیوں میں رہبانیت تھی اور بعد میں عملاً تو نہیں لیکن عقیدہ زندگی اور فطرت کو حقیر غیر اصلی اور شیطانی مظہر سمجھ کر اس سے گریز ہ کی تلقین کرتی رہی ہے۔ فرنگ کی زندگی میں یہی زبردست تضاد موجود ہے جو اکثر عیسائیوں کے نفوس کے اندر ابھی تک کشاکش پیدا کر رہا ہے کہ ایک طرف کمال درجے کی مادی ترقی اور لذت پرستی ہے اور دوسری طرف دینی عقائد میں وہی رہبانیت کا رنگ موجود ہے۔ بعض مستشرقین نے یہ لکھا ہے کہ شروع میں مسلمان صوفی عیسائی راہبوں کی تقلید سے پیدا ہوئے اور وہ بھی عیسائی راہبوں کی طرح یا غار و کوہ میں خلوت نشین ہو گئے یا خانقاہوں میں مشاغل حیات کو ترک کر کے روحانی مشقیں کرنے لگے۔ ہندو مت اور بدھ مت دونوں نے زندگی سے فرار ہی سکھایا ہے اور بھکشو اور سادھو کو جو معاشرت کے کسی کاروبار میں حصہ نہ لے اور نہ تاہل کا کاروبار اپنے کندھوں پر ڈالے دوسرے انسانوں سے افضل سمجھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ درویش کی زندگی انسانوں کا نصب العین بن گئی۔ ہندوؤں اور بدھوں میں تو احدیت اور تنزیہ نے اس توحید کو فنا کر دیا جس میں ایک خد ا سے انسان کا شخصی رابطہ ہوتا ہے۔ خواہ وہ عابد و معبود کا رشتہ ہو اور خواہ عاشق و معشوق کا۔ عیسائیت میں اس کے برعکس توحید کے اندر اس وقت تجسیم اور تشبیہہ داخل ہو گئی کہ خدائے مجسم سمجھ کر انسان کی پوجا دین بن گئی۔ اس دنیا اور انسانی معاشرت سے اس کو بھی کوئی واسطہ نہ رہا۔ ایک طرف پجاری انسان اور دوسری طرف مجسم خدا رہ گیا۔ دنیا اور اس کے مشاغل تلبیس ابلیس بن گئے۔ یہاں تک کہ از منہ متوسطہ میں راہبوں نے جسمانی طہارت بھی ترک کر دی کہ جسم کی طرف توجہ کرنے سے روحانیت اور توجہ الی اللہ میں خلل آتا ہے۔ یہ غیر اسلامی عناصر جا بجا مسلمانوں کے تصوف کے اندر داخل ہو گئے۔ یہاں نفس کشی اور مشق فنا دین بن گئی۔ انسانی خودی گناہ کبیرہ قرار دی گئی اور وجود کی ذنب اس غیر اسلامی تصوف کا مسلمہ عقیدہ بن گیا۔
گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
کسی نے کہا کہ منصور کو اس لیے مصلوب کیا گیا ہے کہ وہ حق کے ساتھ انا بھی کہتا ہے اور حق کے ساتھ انا کا احساس ایک ناقابل معافی اور قابل تعزیر جرم تھا۔
تصوف کی تمام شاعری فلسفیانہ ہونے سے زیاد ہ عشقیہ شاعری ہے لیکن عشق کا رنگ اور اس کا تقاضا مختلف صوفیوں میں مختلف نظر آتا ہے۔ اقبال رومی کے عشق کا قائل ہے مگر اور بہت سے صوفیہ ہیں جن کے عشق می اس کو انسان کی خودی اور تمام فطرت سوخت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کے ہاں خدا کا عشق انسانوں کی محبت کے منافی نہیں بلکہ اس کا بہترین مظہر انسانوں کی باہمی محبت ہے۔ وہ اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی جہاں بانی چاہتا ہے۔ اس کے خلاف بعض صوفیہ کے عشق کا یہ حال ہے کہ خدا کا عشق مجرد اور الگ ہو کر دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے مثلاً ابوسعید ابو الخیر فرماتے ہیں :
صحرائے دلم عشق تو شورستاں کرد
تا مہر کسے دگر نہ روید ہر گز
اقبال کے نزدیک ایسا عشق حیات افزا ہونے کے بجائے حیات سوز ہے۔ خدا کے عشق کا تو یہ نتیجہ ہونا چاہیے کہ اس کی آفرینش کے ہر پہلو کے ساتھ محبت ہو اور اس کی توسیع و اضافہ کی کوشش کی جائے۔ محویت اور بے خودی عشق کی ایک کیفیت ہے۔ لیکن اگر اس میں احساس خودی بالکل ہی جاتا رہے تو اقبال اس کو درست نہیں سمجھتا۔ وہ تو عشق سے خودی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ وہ خدا سے اس قسم کی بے خودی کا طالب نہیں ہے کہ انسان اشیاء و اشخاص و حوادث سے بے خبر ہو جائے جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
مستم کن آنچناں کہ ندانم ز بے خودی
در عرصہ خیال کہ آمد کدام رفت
اقبال تجلیات کے تنوع کا آرزو مند ہے۔ اس میلان کے صوفی اقبال سے بیشتر بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ اقبال کا یہ شعر پہلے درج ہو چکا ہے:
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
دیکھیے قدیم زمانے کا عارف بھی اس خواہش کو کس خوبصورتی سے پیش کر رہا ہے:
اگر او دیدہ دادت کہ دیدارش بہ او بینی
طلب کن دیدہ دیگر کہ دیدار دگر دارد
اگر ہر ساعتے صد بار رخسارش بصد دیدہ
ہمی بینی مشو قانع کہ رخسار دگر دارد
متصوفانہ شاعری میں اکثر اس قسم کے افکار اور اشعار ملتے ہیں جن میں عشق الٰہی کو نین سے گریز کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اقبال اس کا قائل نہیں وہ تو کونین کو اپنے دامن میں لینا چاہتا ہے بلکہ دیگر نادیدہ اور وجود نا پذیر برفتہ عالم کی طرف قدم بڑھانا چاہتا ہے۔ ہر صوفی کے نزدیک عشق شہادت کا طالب ضرور ہے۔ لیک اس شہادت کا مقصد تسخیر فطرت ہونا چاہیے نہ کہ عالم کو حقیر سمج کر اس سے گریز۔ اقبال کو کسی صوفی کے یہ اشعار شاید پسند نہ آتے:
دو عالم را بہ یک بار از دل تنگ
بروں کر دیم تا جاے تو باشد
دو عالم باختن نیرنگ عشق است
شہادت ابتدائے جنگ عشق است
تذکرۃ الاولیا میں غیر اسلامی تصوف کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک صوفی کے متعلق لکھا ہے کہ اس کو اپنے بیٹے سے بہت محبت تھی۔ اس کے دل میں یہ خلش پیدا ہوئی کہ کسی دوسرے کی محبت خدا کی محبت کے منافی اور اس میں خلل انداز ہے۔ اس لیے اس نے خدا سے دعا مانگی کہ یا رب اس بیٹے کی محبت کو میرے دل سے نکال دے۔ یہی وہ تجریدی روحانیت اور رہبانیت ہے جس سے بچنے سے اسلام نے تلقین کی تھی۔ لیکن ایسی چیزیں غلط تصوف کے راستے سے مسلمانوں میں داخل ہو گئیں۔
اقبال کو بعض صوفیہ کے تصوف کی اس روش سے بھی بیزاری تھی کہ اس نے شریعت کے بعض احکام کو اپنے عشق و مستی کے مقابلے میں بہت ثانوی حیثیت دے دی۔ مثلاً اسلام نے جہاد کو اپنی تعلیم کا جزو اعظم قرار دے دیا ہے کہ اگر اسلام یا مسلمان کفر کے غلبے سے خطرہ محسوس کریں تو وہ تلوار سے دین کی مدافعت کریں۔ لیکن صوفیہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ شہید عشق غازی سے افضل ہوتا ہے۔ یہ رباعی بھی ابو الخیر کی ہے۔ رباعی نہایت دلکش ہے اور علامہ اقبال فر ماتے ہیں کہ اس دلکشی کی وجہ سے ہی یہ نہایت خطرناک ہے۔ غازی اگر شہید ہو جائے تو وہ کشتہ دشمن ہوتا ہے اور عاشق الٰہی کی شہادت دوست کے ہاتھوں سے واقع ہوتی ہے۔ اس سے استدلال کیا ہے کہ شہید عشق کو جہاد میں شہادت پانے پر بھی فضیلت ہے:
غازی برہ شہادت اندر تگ و پوست
غافل کہ شہید عشق فاضل تر ازوست
در روز قیامت ایں بداں کے ماند
کیں کشتہ دشمن است و آں کشتہ دوست
اقبال کا تصوف صحرا نوردی اور غار نشینی کا قائل نہیں۔ یہ سب زندگی سے گریز کے بہانے ہیں۔ عشق قطع علائق کا نام نہیں اور قطع علائق پوری طرح ہو بھی کہاں سکتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
کہ کرد قطع تعلق کدام شد آزاد
بریدہ ز ہمہ با خدا گرفتار است
اقبال کا خدا انسان کی خودی کی پرورش چاہتا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ اس کے وصال میں انسانوں سمیت باقی ساری کائنات گم ہو جائے۔ خدا کے وصل کے یہ معنی ہونے چاہئیں کہ اس کے ہر مظہر سے وصال پیدا ہو۔ خدا کی ذات کے ساتھ اس کے عالم صفات بھی ہے۔ اور خلوت ذات کے ساتھ جلوت صفات بھی ہے۔ صحرا نوردی میں تو بس ایک طرف عاشق ہو گا اوردوسری طرف خدا کی ذات۔ عاشق کے نفس کی اندرونی پیچ و تاب باقی رہ جائیں گے اور باقی نہ معرفت عالم اور نہ خدمت خلق۔ یہ نہ اسلام ہے اور نہ تقاضائے فطرت۔ عشق کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ دل کو بنجر بنا دے۔ یہ سر بصحرا دادن کا تصوف عیسوی اور ویدانتی ہے۔ اسلامی نہیں :
در کوئے خودم منزل و ماویٰ دادی
در بزم وصال خود مرا جا دادی
القصہ بصد کرشمہ و ناز مرا
عاشق کر دی و سر بصحرا دادی
عشق کی تلقین اور اس کا جوش و خروش ہر صوفی میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے تقاضے ہر اہل دل کے ہاں مختلف ہیں ۔ اگر اقبال نے بہ تکرار اپنے عشق کی توضیح نہ کی ہوتی اور اس کے تقاضوں کو واضح نہ کیا ہوتا تو اس کی عشقیہ شاعری عام صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری کے سلسلے کی ایک کڑی بن جاتی۔ لیکن روایتی صوفیانہ افکار و نظریات اور اقبال کے تصورات میں بعض پہلوؤں میں ایک بین فرق نمایاں ہے۔ اقبال کے خودی کے نظریات کے لیے ہم نے ایک الگ باب باندھا ہے۔ لیکن اس کے خودی کے تصور کو اس کے عشق کے تصور سے الگ کرنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔ اس کے ہاں عشق اور خودی ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ خودی کی تعلیم کے بعض اہم پہلو پہلے اکابر صوفیا میں بھی ناپید نہیں۔ لیکن خودی کی حقیقت اور اس کا استحکام ان کے ہاں اقبال کے مقابلے میں ذرا دھیما ہے۔ مثلاً سنائی کے حدیقہ میں سے چند اشعار لیجیے۔ ان میں وہ نفس انسانی کو ایک الٰہی جوہر کہتا ہے لیکن جو مثال استعمال کرتا ہے اس میں خدا کے نور مطلق کے مقابلے میں عالم و آدم محض ایک سایہ رہ جاتے ہیں ظاہر ہے کہ سایہ بے مایہ ہوتا ہے اور اس کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہوتی۔ اقبال کے ہاں خودی ایک سایہ نہیں بلکہ ایک مستقل حقیقت ہے۔ جو عرفان و قوت اندوزی سے ابدی بن جاتی ہے۔ جام جم میں سنائی (کذا) انسانی نفس یا خودی کے متعلق جو کچھ فرماتے ہیں اس کے ایک حصے سے اقبال متفق ہو سکتے ہیں لیکن دوسرا پہلو ان کے نظریے کے منافی دکھائی دیتا ہے:
اصل نزدیک و اصل دور یکے ست
ما ہمہ سایہ ایم و نور یکے ست
اس شعر سے قطع نظر کر کے باقی اشعار ایسے ہیں جو خودی کے بارے میں کلام اقبال کے ہم رنگ ہیں :
چوں نہاد تو آسمانی شد
صورتت سربسر معافی شد
نامہ ایزدی تو سر بستہ
باز کن بند نامہ آہستہ
خویشتن را نمی شناسی قدر
ورنہ بس محتشم کسی اے صدر
صنع را برترین نمونہ توئی
خط بے چون و بے چگونہ توئی
بیش ازیں گر دو حرف می خوانی
ترسمت بر جہی کہ سبحانی
مسلمانوں کے تصوف پر زیادہ تر وحدت وجود کا مسئلہ چھایا ہوا ہے۔ اور اسی نے بادہ تصوف میں نشہ بھی پیدا کیا ہے۔ اقبال نے عشق اور خودی کے نظریات اور کیفیات کو بیان کرتے ہوئے حتی الوسع اس سے گریز ہی کیا ہے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ وحدت وجود دینی مسئلہ نہیں بلکہ فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ اقبال کے بانگ درا کے مجموعے میں کہیں کہیں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ اثر کچھ روایتی تصوف کا تھا اور کچھ فلسفے کا، جس کا میلان ہمیشہ زیادہ تر وحدت وجود کی طرف رہا ہے۔ اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد ان کے کیمبرج کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے انہیں لکھا کہ طالب علمی کے زمانے میں تو تم زیادہ تر ہمہ اوستی معلوم ہوتے تھے اب معلوم ہوتا ہے کہ ادھر سے ہٹ گئے ہو۔ مسلمانوں کی شاعری کا نہایت دلکش حصہ متصوفانہ شاعری کا ہے۔ اس میں بعض صاحب دل صوفی شاعر بھی ہیں جو ذاتی تاثرات کو ادا کرتے ہیں اور بعض تصوف کے نظریہ حیات سے لذت اندوز ہیں جو مسائل تصوف کو بڑی لطافت سے شعر کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ فیضی و عرفی اور غالب اور صف دوم کے بہت سے شعراء اسی موخر الذکر صف میں ہیں اور وہ خود محسوس کرتے ہیں کہ ہم محض متلذذ بالمسائل ہیں اور اصلی کیفیت کا نقشہ ہم میں نہیں ہے۔
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ذرا دیکھیں کہ اقبال کے ابتدائی کلام میں کہاں کہاں وحدت وجود کا تصور جھلکتا ہے وحدت وجود کا اعلان کرنے والے منصور شہید کو اقبال نے آ کر تک گمراہ خیال نہیں کیا بلکہ اس کے انا الحق سے اپنے نظریہ خودی کو استوار کیا۔ بانگ درا کی شمع کی نظم میں جو فلسفیانہ افکار سے لبریز ہے آخر میں کہتے ہیں :
ہاں آشنائے لب نہ ہو راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں
٭٭٭
قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل
التجائے ارنی سرخی افسانہ دل
جگنو پر نظم ہے اس کے آخری بند میں تمام مظاہر کی کثرت کو ایک ہی وحدت کے شون بتایا ہے اور یہ وحدت وجود ہی کا ایک پہلو ہے علامہ اقبال ایک روز دوران گفتگو میں وحدت وجود یک خلاف کچھ فرما رہے تھے۔ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا جناب بھی تو جگنو والی نظم میں ہمہ اوستی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ وہاں میں نے مظاہر فطرت کی اساسی وحدت کو بیان کیا ہے یہ فطرت کی وحدت وجود ہے جو صوفیہ کے ہمہ اوست کے نظریے سے الگ چیز ہے اور غالباً ورڈز ورتھ کا بھی ذکر کیا کہ فطرت کے متعلق اس کی نظر اور تاثر بھی اسی انداز کے ہیں :
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل بو پھول کی چہک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشی ازل ہے
سوامی رام تیرتھ ایک ہمہ اوستی ویدانتی صوفی تھے۔ ان کی موت دریا میں ڈوبنے سے واقع ہوئی اس پر علامہ اقبال لکھتے ہیں :
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرہ بیتاب تو
پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو
آہ کھولا اس ادا سے تو نے راز رنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو
نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا
٭٭٭
تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گہ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے
٭٭٭
کمال وحدت عیاں ہے ایسا نوک نشتر سے تو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
٭٭٭
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں
بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں
اس سے بہتر وحدت وجود پر اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو کائنات کے بعض مظاہر میں سوتا ہے اور شعور انسانی میں آ کر بیدار ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وحدت وجود کے بعض متصوفانہ نظریات سے وہ بہت متنفر ہو گئے۔ ایک روز مجھ سے فرمایا کہ ان ہمہ اوستیوں نے فرق مراتب کو ملحوظ نہیں رکھا اور حیات و کائنات کو خدا کا ایک خواب بنا دیا۔ اگر خدا تعالیٰ ازلی نیند سے بیدار ہو جائے توت مام مظاہر غائب ہو جائیں اور انسان بھی معدوم ہو جائیں۔ کسی کا ایک شعرسنایا:
تا تو ہستی خدائے در خواب است
تو نہ مانی چو او شود بیدار
کسی دریدہ دہن متصوف کا ایک اور نہایت گستاخ شعر سنایا جس کو درج کرنا میں ابنیا کی توہین سمجھتا ہوں۔ مضمون یہ تھا کہ عاشقان یک رنگ کے نزدیک انبیا اور ابلیس ہم سنگ ہو جاتے ہیں خوف طوالت سے ہم اقبال کے اور اشعار نقل نہیں کرتے جو ابتدائی دور کے ہیں اور جن میں جا بجا روایتی تصوف کے نظریات جھلکتے ہیں۔
وحدت وجود کی شاعری فارسی زبان میں جس قدر ملتی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اسلام کے باہر ادیان اور مذاہب فلسفہ سب نے آخر میں یہیں تان توڑی تھی۔ یہ ناممکن بات تھی کہ ان کو ماننے والی ملتوں کے افراد جب حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تو وہ یہ چیز اپنے ساتھ نہ لیتے آتے۔ قرآن میں کچھ آیات ایسی تھیں جن کی وجودی تاویل ہو سکتی تھی۔ چنانچہ وحدت الوجود کے فلاسفہ اور صوفیہ نے انہیں کا سہارا لیا۔ لیکن ان سے ایسے نتائج اخذ کیے جو مسلمانوں کو اسلامی توحید سے دور لے گئے۔ کائنات کے تمام مظاہر میں علت معلول اور اضافات موجود ہیں۔ اگر ان سب کو باطل سمجھ کر اور محض ظلی قرار دے کر ساقط کر دیا جائے تو خدا کی ذات محبت کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ خالق کی تمام مخلوق بے اصل ہو جاتی ہے۔ صوفیہ نے اسی احدیت معرا عن الصفات و اضافات کو اصل توحید سمجھ لیا ہے اور توحید کی یوں تعریف کی ہے:
نکو گوے نکو گفت است در ذات
کہ التوحید اسقاط الاضافات
اسلامی توحید محض شرک کو باطل قرار دینے کا نام ہے۔ وجودیوں نے کہا کہ خدا کے سوا کسی اور چیز کے وجود ہی کا اقرار بطلان عظیم ہے۔ اس سے نفس انسانی بھی عدم ہو گیا:
صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاق عدیم داریم ما
(بیدل)
قرآن تو شدت سے موجودات کی حقیقت کی تلقین کرتا ہے اگرچہ وہ حقیقت خدا کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ وحدت الوجود کی نسبت المانوی فلسفی شوپن ہار لکھتا ہے کہ یہ دہریت کی شاعری ہے۔ اور امریکہ کا مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کہتا ہے کہ اس کے اندر خیرو شر کا امتیاز مٹ جاتا ہے اورانسان کو اخلاقی تعطیل حاصل ہو جاتی ہے۔ سحابی کی یہ رباعی اس تعطیل کی معاون معلوم ہوتی ہے:
عالم بخروش لا الٰہ الا ہوست
غافل بگماں کہ دشمن است او یا دوست
دریا بوجود خویش موجے دارد
خس پندارد کہ ایں کشا کش با اوست
خواجہ فرید الدین عطار کے ہاں بھی وحدت وجود کا بڑا زور شور ہے۔ کائنات اور خدا کی وحدت کے ساتھ نفس انسانی اور ذات ربی کی وحدت بھی اکثر صوفیہ کا دین بن گیا اور کفر و دین میں یہ فرق رہ گیا کہ وحدت وجود کو ماننے والا مومن اور نہ ماننے والا کافر۔ چنانچہ خواجہ صاحب فرماتے ہیں :
ہر کہ از وے نزد انا الحق سر
او بود از جماعت کفار
محمود شبستری نخل طور پر تجلی الٰہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر درست میں سے یہ آواز نکل سکتی ہے کہ میں رب ہوں تو انسان میں سے اس آواز کا نکلنا ناروا کیسے ہو سکتا ہے:
روا باشد انا الحق از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے
خواجہ صاحب فرماتے ہیں :
گر ہر دو کون موج بر آرند صد ہزار
جملہ یکے ست لیک بہ صد بار آمدہ
ایں وحدت است لیک بتکرار آمدہ
اسی مضمون کو غالب نے، جو بڑی شدت سے وحدت وجود کا قائل تھا، یوں ادا کیا ہے کہ اگر مشعل کو زور سے ایک دائرے میں گھمایا جائے تو وہ ایک مسلسل دائرہ معلوم ہوتا ہے حالانکہ چیز ایک ہی ہے جس نے سرعت سیر سے یہ دھوکا پیدا کیا ہے:
سخن یکے ست ولے در نظر ز سرعت سیر
کند چو شعلہ جوالہ نقطہ پرکاری
اقبال نے اس انداز کی وحدت وجود کو نظری لحاظ سے غلط اور عملی لحاظ سے مضر سمجھا، لہٰذا مسلمانوں کے روایتی تصوف کا ایک بڑا عنصر اقبال کے ترقی یافتہ تفکر و تاثر میں سے غائب ہو گیا۔ وحدت وجود کے اندر نظری لحاظ سے تو عشق کا بھی کوئی مقام نہ ہونا چاہیے تھا، لیکن نفس انسانی کی منطق کچھ الگ قسم کی ہے۔ وحدت وجود کے زور شور کے ساتھ عشق کا زور شور بھی موجود ہے۔ حالانکہ عاشق و معشوق، شاہد و مشہود اور عابد و معبود اگر حقیقت میں ایک ہی ہوں تو نہ پرستش ہو سکتی ہے اور نہ عشق۔ ذوق وصل کے لیے پہلے فرق و فراق مقدم ہے۔
مرزا غالب نے تو صاف کہہ دیا کہ پرستش بھی ایک دھوکا ہی ہے:
دیدہ بیرون و دروں از خویشتن وپر وانگہی
پردۂ رسم پرستش درمیاں انداختہ
یہ تضاد معلوم ہوتا ہے، لیکن ہے حقیقت کہ دو متضاد نما کیفیتیں صوفیہ میں ملتی ہیں :
عشق و اوصاف کردگار یکے ست
عاشق و عشق و حسن یار یکے ست
لیکن اس کے باوجود یہ کیفیت ہے کہ:
از خجالت نمی شکید دل
می برد عقل و می فریبد دل
عاشقان تو پاک بازانند
صید عشق تو شاہ بازانند
(دیکھئے اقبال کا شاہین یہاں نمودار ہو گیا ہے(:
عشق شورے در نہاد ما نہاد
جان ما در بوتہ سودا نہاد
گفتگوے در زبان ما فگند
جستجوے در درون ما نہاد
یہ عاشق کون ہے؟ خدا خود ہی ہے:
بر مثال خویشتن حرفے نوشت
نام آن حرف آدم و حوانہاد
ہم بچشم خود جمال خود بدید
تہمتے بر چشم نابینا نہاد
اقبال کو اس روایتی تصوف پر جو اعتراض ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر صوفیہ کو یہ تصوف جبر کی طرف لے آیا۔ جبر و قدر کی بحث متکلمین نے شروع کی تھی اور جبر یہ و قدریہ دو گروہ بن گئے تھے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کے ما بہ النزاع مسائل میں سے ایک اختیار انسانی کا مسئلہ تھا۔ ا شاعرہ جبری تھے اور معتزلہ قدری۔ قرآن نے زندگی کے دیگر اہم مسائل کی طرح اس میں بھی اعتدال اور توازن عقل سلیم کا راستہ اختیار کیا کہ خدا قادر مطلق ضرور ہے، کائنات میں جو کچھ ہے وہ اس کی مشیت کا نتیجہ ہے، لیکن اس کی مشیت عقل و عدل و رحم سے ہم کنا رہے۔ خدا نے اپنی مرضی سے انسان کو ایک گونہ صاحب اختیار بنایا ہے تاکہ وہ جبر سے نہیں بلکہ اپنی آزادانہ رضا سے اپنی مرضی کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر دے۔ لیکن انسان کلیتاً مختار بھی نہیں ہے۔ اس کے اختیار کے بھی کچھ حدود ہیں۔ انسان بیک وقت بعض حیثیتوں سے مختار اور دیگر حیثیتوں سے مجبور ہے۔ ’’الایمان بین الجبر والاختیار‘‘ اگر اختیار کو تسلیم نہ کیا جائے تو دین کی تمام تعمیر ہی منہدم ہو جاتی ہے۔ اقبال کئی وجوہ سے رومی کا مرید ہے، لیکن ایک بڑا سبب یہ ہے کہ صوفیہ کرام میں رومی سے زیادہ کوئی اختیار کا قائل معلوم نہیں ہوتا۔ مثنوی کے اندر اس کی نہایت حکیمانہ بحث ہے، جس میں عارف رومی نے نہایت لطیف نکتے پیدا کیے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ فلاسفہ اور متکلمین جبر و اختیار کے مسئلے میں کتے سے بھی زیادہ جاہل معلوم ہوتے ہیں۔ کتے کو اگر کوئی شخص پتھر مارے تو حالانکہ چوٹ اسے پتھر سے لگی ہے لیکن کتا پتھر پر غضب آلود نہیں ہوتا، وہ پتھر مارنے والے پر جوش انتقام میں جھپٹتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ پتھر بے چارہ تو جماد مجبور ہے اس لیے اس کا کیا قصور ہے۔ قصور اس صاحب اختیار انسان کا ہے جس نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا ہے۔ روایتی تصوف میں جو نفی خودی کا زور و شور ہے اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کو مطلقاً مجبور سمجھا جائے۔ رومی کے سوا تصوف کا تمام لٹریچر زیادہ تر جبر ہی کی تعلیم سے لبریز ہے۔ دیوان حافظ میں بے شمار اشعار اس مضمون کے ملیں گے:
در کوے نیک نامی ما را گذر نہ داند
گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را
حافظ بخود نہ پوشید ایں خرقہ مے آلود
اے شیخ پاک دامن معذر دار مارا
’’ گلشن راز‘‘ تصوف کی ایک مشہور منظم کتاب ہے۔ یہ محمود شبستری کی تصنیف ہے جو وجودی بھی ہے اور جبری بھی اور کسی ضعیف حدیث کے حوالے سے یہ شعر کہہ گیا ہے:
ہر آں کس را کہ مذہب غیر جبر است
نبی فرمود کاں مانند گبر است
فرید الدین عطار نے فرمایا تھا کہ وحدت الوجود کا منکر کافر ہے۔ اب محمود شبستری کہتے ہیں کہ جو جبر کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ تصوف اسلام کی عام تعلیم میں زیادہ تر امام غزالی کی بدولت داخل ہوا، لیکن امام غزالی اپنی تمام حکمت اور عرفان کے باوجود بعض اشعری عقائد سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکے۔ انہوں نے کسب کا ایک غیر تشفی بخش نظریہ ’’ احیاء العلوم‘‘ میں پیش کیا ہے، جو حقیقت میں جبر ہی کا پردہ ہے کہ ہوتا آخر میں سب کچھ خدا ہی کی مرضی سے ہے لیکن اچھے اور برے اعمال جن انسانوں کی زندگی میں سرزد ہوتے ہیں ان کے ثواب و عذاب کا عمل کرنے والوں نے اکتساب کر لیا۔ کیوں کہ ان اعمال کے مرود و محل وہ بن گئے تھے۔ کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس کسب میں اختیار کا کیا شائبہ ہے۔
اقبال نے جس غیر اسلامی تصوف کی بیخ کنی کو اپنا فرض قرار دیا اس کی تعلیم روایتی تصوف میں جا بجا پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے انسان کی خودی بے حقیقت ہو جاتی ہے اور احتیاط مطلقاً سوخت ہو جاتا ہے۔ اس تصوف میں عشق کے اندر کوئی فعالی کیفیت نہیں رہتی۔ وہ سراسر ایک انفعالی تاثر رہ جاتا ہے جس کا مقصد کمالی عجز سے اپنی انفرادیت کو سوخت کر دینا ہے۔ اس تمام تعلیم کا لب لباب بھی یک جا ’’ گلشن راز‘‘ سے زیادہ اور کہیں نہیں ملتا۔ محمد حسین آزاد کا ایک شعر ہے:
جہاز عمر رواں پر سوار بیٹھے ہیں
سوار خاک ہیں بے اختیار بیٹھے ہیں
’’ گلشن راز‘‘ کے مندرجہ ذیل اشعار میں پہلے شعر میں مضمون کچھ اسی کے مماثل ہے:
تو می گوئی مرا ہم اختیار است
تن من مرکب و جانم سوار است
کدامی اختیار اے مرد جاہل
کسے را کو بود بالذات باطل
چو بود تست یکسر ہمچو نابود
نگوئی اختیارات از کجا بود
موثر حق شناس اندر ہمہ جاے
منہ بیرون ز حد خویشتن پاے
چناں کاں پیش یزداں اہرمن گفت
مریں نادان احمق ما و من گفت
بما افعال را نسبت مجازی است
نسب خود در حقیقت لہو و بازی است
آخر میں جو استدلال کیا ہے وہ بالکل مہمل ہے کہ اختیار نہ ہونے پر بھی انسان کو امر و نہی کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس مسکین کو مجبور ہونے پر بھی مختار قرار دیا گیا ہے۔ تکالیف شرعی سے یہ جبری کیسے منکر ہو سکتا تھا؟ اور بقول عارف رومی تکالیف شرعی اختیار کے بغیر مہمل ہو جاتے ہیں لیکن خود شبستری کو اپنی منطق کی لغویت کا کچھ احساس نہیں فرماتے ہیں :
ندارد اختیار و گشتہ مامور
زہے مسکیں کہ شد مختار و مجبور
بہ شرعت زاں سبب تکلیف کردند
کہ از ذات خودت تعریف کردند
اقبال کے پاس زندگی کی تمام بنیادی صداقتوں کی کسوٹی قرآن ہے اور تصوف میں سے بھی اس نے وہی چیزیں اخذ کی ہیں جن میں قرآنی نظریہ حیات کی وسعت اور گہرائی دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کی توحید، توحید قرآنی ہے جو فلسفیانہ اور متصوفانہ وحدت الوجود سے متمائز ہے۔ وہ انسان کو صاحب اختیار ہستی سمجھتا ہے کیوں کہ قرآن اسے اپنے افعال پر ایک گونہ قدرت عطا کرتا ہے۔ اختیار ہی وہی امانت ہے جسے جمادی، نباتی اور حیوانی فطرت مجبور نے خطرناک سمجھ رک قبول نہ کیا۔ قرآن دنیا و مافیہا کو مایا فریب ادراک نہیں کہتا وہ ایمان اور عمل سے انسان کی خودی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ انسان کے اندر عشق الٰہی کو بھی خالق کی طرح آفرید گار ہونا چاہیے۔ اسلام رہبانیت اور خانقاہ نشینی کا مخالف ہے۔ محبت الٰہی کا تقاضہ محض خلوت نہیں بلکہ جلوت بھی ہے۔ اقبال صوفیہ کبار کے ساتھ عقیدت رکھتا ہے۔ لیکن جہاں کہیں اس کو ان کے فکر و نظر کا کوئی پہلو غیر اسلامی اور منافی حیات دکھائی دیتا ہے وہاں وہ بے باکانہ مخالفت بھی کرتا ہے۔ وہ رومی کا مرید بھی ہے لیکن محی الدین ابن عربی کا مخالف ہے، جس کی کتاب ’’ فصوص الحکم‘‘ میں اس کو توحید سے زیادہ الحاد نظر آتا ہے۔ وہ بڑی عقیدت سے مجدد الف ثانی کے تصوف کا قائل ہے جس نے تصوف کو دوبارہ شریعت اسلامی سے ہم آغوش کرنے کی کوشش کی، کیونکہ دور اکبریٰ میں ویدانت اور تصوف کی ہم نوائی اسلام کے بنیادی عقائد کی بیخ کنی کر رہی تھی جس سے اسلام کا نظام متزلزل ہو رہا تھا۔ جس زمانے میں تصوف کا بہت زور شور تھا اس زمانے میں بھی غلط اندیش اور غلط کار صوفیوں کے خلاف خود بلند مرتبہ صوفیہ نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اقبال نے ماضی کے تصوف پر بھی تنقید کی ہے اور زمانہ حال کے پیشہ ور مدعیان طریقت کا بھی پول کھالا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہ نکالنا چاہیے کہ وہ اس کا قائل ہے کہ تصوف نے اسلام کی کچھ خدمت نہیں کی۔ اگر اس کا یہ عقیدہ ہوتا تو وہ جا بجا اپنے کلام میں صوفیہ کبار سے فیضان کا ثبوت نہ دیتا۔ صوفیہ کبار نے فقہا اور علماء ظاہر کے مقابلے میں عشق اور تزکیہ باطن کی تلقین کی اور اپنی زندگی کے نمونوں سے لوگوں کو متاثر کیا۔ لیکن اب جو زمانہ حال میں صوفی رہ گئے ہیں ان میں معدودے چند کے سوا اقبال کو معرفت و عشق کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ ان کے خلاف وہ جو کچھ کہتا ہے وہ تمام تصوف کی تلقیض نہیں بلکہ اس طرز فکر و عمل کی تردید ہے جس نے ادنیٰ درجے کی اقتدار پسندی کو روحانیت کا جامہ پہنا کر عوام کو دھوکے میں مبتلا کیا ہے۔ سچے درویش کبھی کسی زمانے میں دنیا سے ناپید نہیں ہوتے۔ وہ اب بھی کچھ ظاہر ہیں اور کچھ پنہاں۔ لیکن اقبال چاہتا ہے کہ اب اس درویشی کا رنگ بدل جائے۔ درویش صرف خلوت گزیں نہ ہو بلکہ خارجی اور باطنی فطرت کا رمز آشنا اور فکر و نظر میں انقلاب پیدا کرنے والا ہو۔ ایک روز فرماتے تھے کہ مجھے خانقاہ حضرت نظام الدین میں خواجہ حسن نظامی نے ایک صاحب سے متعارف کرایا اور فرمایا کہ یہ صاحب دل درویش ہیں۔ میں نے اس درویش سے پوچھا کہ ملت اسلامیہ کے عروج و زوال اور اس کی موجودہ تباہ حالی پر بھی آپ نے غور کیا۔ اس کے متعلق آپ کی بصیرت کیا کہتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہم درویش ہیں اور اس قسم کی باتوں سے ہم واسطہ نہیں رکھتے۔ یہ کہہ کر فرمانے لگے کہ بتاؤ کہ اس قسم کے تصوف کو ہم کیا کریں۔ علامہ اقبال کو شوق تھا کہ اگر کوئی صاحب کسی صاحب کا دل پتا دیں تو اس سے مل کر کچھ فیض حاصل کیا جائے اور کسی اہم سوال کا حل اس سے پوچھا جائے۔ اہم سوال ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ مسلمانوں کا برا حال کیوں ہے اور اس تباہ حالت سے وہ کب اور کیسے نکلیں گے؟ فقیر نجم الدین صاحب سے علامہ اقبال کے بہت دوستانہ تعلقات تھے۔ ان کے صاحب زادے نے احوال اقبال میں لکھا ہے کہ علامہ کو یہ خبر دی گئی کہ ایک سچا صاحب بصیرت درویش درگاہ علی ہجویری (داتا گنج بخشؒ ) میں آج کل آیا ہوا ہے۔ فقیر صاحب نے علامہ اقبال کو آمادہ کیا کہ مل کر چلیں گے اور اس سے کچھ پوچھیں گے۔ علامہ اس پر راضی ہو گئے۔ لیکن سوانح نگار کا بیان ہے کہ فقیر نجم الدین علامہ کو ہمراہ لے جانے کے لئے گئے تو دیکھا کہ وہ کچھ حیران سے بیٹھے ہیں۔ پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو علامہ نے فرمایا کہ وہ درویش خود یہاں آ گیا اور مجھ سے کہا کہ تمہارے سوال کا جواب یہ شعر رومی ہے۔ حالانکہ میں نے اس سے کوئی سوال نہ کیا تھا، مگر میرا ارادہ تھا کہ اگر ملوں تو یہ سوال پوچھوں گا:
ہر بناے کہنہ کا باداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند
اقبال اب دریشوں کو خلوت گزینی سے نکالنا چاہتا تھا تاکہ وہ مشاہدہ فطرت بھی کریں اور اصلاح ملت بھی:
بیا با شاہد فطرت نظر باز
چرا در گوشہ خلوت گزینی
ترا حق داد چشم پاک بینے
کہ از نورش نگاہے آفرینی
اقبال اس تصوف کو بے اثر سمجھتا ہے جو حق بینی اور عشق آفرینی کے بعد انسانوں کی زندگی میں انقلاب پیدا نہ کرے۔ چنانچہ جاوید نامے میں ’’ زندہ رود‘‘ نے حلاج سے جو سوالات کیے ہیں ان کے جواب میں حلاج نے کہا ہے کہ درویشی جو انقلاب آفریں نہیں ہے وہ کسی کام کی نہیں۔ قلب کے اندر جو حق کا نقش پیدا ہو اسے باہر جہاں پر مرقسم ہونا چاہیے تاکہ مرد خدا کا دیدار عام ہو جائے۔
نقش حق اول بجاں انداختن
باز اور ا در جہاں انداختن
نقش جاں تا در جہاں گردد تمام
می شود دیار حق دیدار عام
٭٭٭
تیرھواں باب
اسرار خودی
آنریبل مسٹر جسٹس شیخ عبدالرحمن نے اسرار خودی کا منظوم ترجمہ ترجمان اسرار کے نام سے شائع کیا جس پر فکر اقبال کے مصنف نے ایک مبسوط دیباچہ لکھا۔ اسرار خودی کے معارف پر دوبارہ اس سے بہتر مضمون لکھنا دشوار تھا اس لیے وہ دیباچہ جوں کا توں بہ اجازت و تشکر شیخ صاحب اس کتاب میں شامل کر لیا گیا۔
انسان کی نظر باطن سے پہلے خارج پر پڑتی ہے۔ آنکھ خارج کی ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔ کہتے ہیں کہ عرفان کی تین قسمیں یا تین پہلو ہیں۔ دنیا شناسی، خدا شناسی اور خود شناسی! اقبال نے بھی جب انسان کی بے بضاعتی کے متعلق خدا سے شکایت کی تو یہی کہا کہ کیا یہ تیرے ہنر کا شہکار ہے جو نہ خود بیں ہے، نہ خدا بیں ہے اور نہ جہاں بیں ؟ انسان مادی اور حیوانی حیثیت میں اپنے ماحول سے دست و گریباں ہوتا ہے۔ گرد و پیش کی اشیاء اور حوادث کی ماہیت کو سمجھنا اس کے لیے تنازع للبقا میں ناگزیر ہوتا ہے۔ خارجی مطابقت اور مخالفت سے فرصت ملے تو سوچے کہ خود میری ماہیت کیا ہے؟ یا میں اور میرا ماحول، میری موافق اور مخالف قوتیں، کہاں سے سرزد ہوتی ہیں ؟ زندگی میں ہر جگہ پیکار اضداد نظر آتی ہے۔ کیا یہ کشاکش ازلی متخاصم قوتوں کی مسلسل جنگ ہے یا یہ اضداد کسی ایک اصل وحدت کے متضاد نما پہلو ہیں انسان کے پاس خارج کو سمجھنے کے لیے بھی خود اپنے ہی نفع و ضرر اور اپنے ہی جبلتوں کے سانچے ہیں۔ اس نے فطرت کی قوتوں کو اپنے اوپر قیاس کیا اور اپنی خواہشوں کے دیوتا بنا لیے۔ وہ خود اپنے تصورات کو مشخص کر کے ان کو لامتناہی قوتوں کا حامل بنا کر ان سے مرعوب ہو گیا۔ ان کو راضی رکھنے کے لیے اپنی عزیز ترین چیزوں اور خود اپنے آپ کو ان پر بھینٹ چڑھانا شروع کیا۔ ا پنی حقیقی خودی سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے وہ ہستی جس کو تسخیر فطرت کی صلاحیت ودیعت کی گئی تھی، خود فطرت کی قوتوں سے مسخر اور مغلوب ہو گئی۔ ابھی انسان اپنی حقیقی خودی سے آشنا نہ ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ کو فقط حیوانی جبلتوں کا حامل سمجھا اس لیے اس نے جو دیوتا تراشے وہ بھی انہیں متلون اور عارضی خواہشوں کے مجسمے تھے۔ وہ خارج میں جن دیوتاؤں کی پرستش کرتا رہا وہ اس کی اپنی خودی کے بگڑے ہوئے تصورات تھے۔ ان دیوتاؤں کے بت زبان حال سے پجاری کو کہہ رہے تھے:
مرا بر صورت خویش آفریدی
بروں از خویشتن آخر چہ دیدی؟
اس تصور حیات اور اس انداز پرستش سے انسان کو نہ وجود مطلق کی ماہیت تک کچھ رسائی ہوئی اور نہ وہ اپنی ذات کا کوئی صحیح اندازہ لگا سکا۔
تکثیر یا کثرت اصنام کا راستہ چھوڑ کر انسان نفس وحدت کا ہویا ہوا لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے اس کا ابتدائی تصور وجود خارجی کائنات ہی کا تصور تھا، اس لیے اس نے خارج ہی کی کثرت اور گونا گونی کو کسی ایک وحدت میں منسلک کرنے کی کوشش کی۔ یونانیوں کے پہلے مفکر طالیس ملطی نے کہا کہ وجود مطلق فقط پانی ہے۔ پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس نے زندہ اور غیر زندہ میں یعنی جمادات، نباتات اور حیوانات میں کوئی بنیادی فرق نہ سمجھا۔ زندگی کے تمام کوائف اور نفس کی تمام حالتیں بھی پانی ہی میں بالقویٰ اور بالفعل پائی جاتی ہیں۔ اس نظریہ وجود کو تاریخ فلسفہ میں بائی لوزو ازم کہتے ہیں، جس میں مادیت، نفسیت اور حیاتیت ابھی ایک دوسرے سے متمیز نہیں ہیں۔ اس نظریے کے مطابق نہ کائنات میں کوئی نفس یا خودی ہو سکتی ہے اور نہ انسان کے اندر زندگانی ہر جگہ آنی جانی اور پانی ہی پانی ہے اور چیزوں کی طرح آدمی بھی پانی کا بلبلا رہ گیا۔ انسانی اقدار، انسانی جذبات اور تمنائیں کوئی مستقل حقیقت نہیں رکھتیں۔ بقول سحابی نجفی:
دریا بوجود خویش موجے دارد
خس پندارد کہ ایں کشاکش با اوست
یونانی مفکرین، ارتقائے فکر میں رفتہ رفتہ تجسم سے تصور کی طرف، جسم سے نفس کی طرف یا خارج سے باطن کی طرف آتے گئے۔ انہوں نے کثیف مظاہر میں لطیف حقائق کا کھوج لگانا شروع کیا۔ فیثا غورس نے دیکھا کہ خارجی عالم میں ہر جگہ تناسب، توازن اور اندازہ پایا جاتا ہے۔ ریاضی کے اصول ہر جگہ غیر متبدل طور پر کار فرما ہیں۔ خاک کے اعمال ہوں یا افلاک کے حرکات، سب کے سب ریاضی کے اٹل اصولوں کے مطابق ہیں۔ دو اور دو چار چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ لیکن مجرد طور پر دو اور دو کے اعداد مل کر چار ہی رہتے ہیں۔ ہر چیز کی تعمیر کی اصل یہی ہے کہ اس میں ریاضی صورت پذیر ہو گئی ہے۔ ریاضی میں نہ کسی کی خواہش کو دخل ہے اور نہ ارادے کو۔ ریاضی ہی وہ حقیقت ہے جسے الان کما کان کہہ سکتے ہیں ریاضی اصول اصلاً اور ازلاً ساکن ہیں۔ اشیاء اور حوادث میں کون و فساد یا حرکت ہو سکتی ہے، لیکن اصول میں کوئی حرکت نہیں ہو سکتی۔ علت و معلول کا سلسلہ حرکیاتی نہیں بلکہ قضایاے اقلیدس کی طرح کا سلسلہ ہے۔
یونانی فلسفہ ترقی کرتا ہوا سقراط، افلاطون اور ارسطو کے مقولات تک جا پہنچا۔ پہلے تغیر اور ثبات کے نظریات میں کشمکش ہوتی رہی۔ کسی نے کہا کہ وجود مطلق بے تغیر و بے حرکت ہونا چاہیے۔ لہٰذا تغیر یا حرکت ادراک کا دھوکا ہیں۔ یونانیوں پر یہ تصور زیادہ تر غالب رہا کہ حقیقت غیر متغیر ہونی چاہیے۔ جہاں تبدل اور تغیر ہے وہاں وجود محض اعتبار یا مجازی ہے اور اصلیت سے دور ہے۔ جو مفکر نفسیت یا روحیت کی طرف گئے۔ جیسے فیثا غورس یا افلاطون۔۔۔۔ وہ بھی وجود مطلق میں حرکت کے قائل نہیں تھے اور جو دیمقراطیس کی طرح مادیت کی طرف آئے، ان کو بھی اس خیال سے چھٹکارا حاصل نہ ہوا کہ کائنات کے حوادث، مادے کے اجزا سے لایتجزے یعنی ایٹموں کا جوڑ توڑ کا کھیل ہیں۔ ایٹم چونکہ تحلیل نہیں ہو سکتا اس لیے اس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ البتہ ایٹموں کی ترکیب یا قرب و بعد سے چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ اس کون و فساد کے قوانین لاشعوری ہیں۔ ان میں اقدار پروری یا مقصد کوشی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو مادے سے نفس کی طرف آئے۔ نفس نے خارج کی طرف سے منہ پھیر کر باطن کا رخ کیا تو ان کو نفس عقل منطقی کا کرشمہ دکھائی دیا۔ خارج کی کائنات بھی عقل سے وجود میں آتی اور اس کی بدولت قائم رہتی ہے۔ باطن کی نفسی کائنات بھی عقل کی بدولت وجود مطلق کا عرفان حاصل کرتی اور افکار و جذبات کی کثرت کو ایک وحدت میں پرتی ہے، لیکن عقل بھی کوئی انفرادی چیز نہیں۔ عقل کلیت کی مرادف ہے۔ عقل کا عالم کلیات کا عالم ہے۔ اس میں خودی یا شخصیت یا ارادے کا کوئی سوال نہیں۔ عقل کے تمام کلیات از روئے منطق ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط ہیں۔ اشیاء اور حوادث کی متغیر کثرت غیر متغیر تصورات سے بہرہ اندوز ہونے کی ناکام اور مضطرب کیفیت ہے۔ خدا عاقل نہیں بلکہ خود عقل کل ہے۔ وہ خود ہی اپنے شعور کا معروض ہے۔ اس کو اپنے سوا کسی کا علم نہیں ہو سکتا۔ ماسوا کا حقیقی وجود ہی نہیں اس لیے اس کے علم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انسانی نفوس میں جو خواہشوں اور ارادوں کا عنصر ہے وہ تغیر کے عالم سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا بے حقیقت ہے۔ انفرادی نفس میں حقیقت اتنی ہی ہے جس حد تک کہ وہ عقل کل سے بہرہ اندوز ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت مخصوص تقدیر نہیں۔
اس نظریے سے افلاطون اور ارسطو دونوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عقل یا علم اصلی چیز ہے اور عمل اس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ بہترین زندگی عمل اور مقاصد آفرینی کی زندگی نہیں بلکہ عقل کل کا تماشائی ہونا ہے خدا جو تمام وجود کا ماخذ اور نصب العین ہے وہ بھی غیر متحرک اور غیر فاعل ہے۔ دنیا کی زندگی حقیقت کا سایہ ہے یا ہندوؤں کی اصطلاح میں یوں کہیے کہ مایا ہے یا حقیقت کے مقابلے میں بے مایہ ہے۔
اقبال افلاطون کے اس نظریہ وجود کا شدید مخالف ہے۔ وہ اس کو اساسی طور پر غلط قرار دیتا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ اسی نظریہ وجود کے زیر اثر زندگی سے فرار کے نظریات پیدا ہوئے ہیں جن سے انسانی زندگی ارتقاء اور تخلیق سے محروم ہو گئی ہے۔ اقبال کے نزدیک وجود کی حقیقت عقل نہیں بلکہ عمل ہے۔ عقل عمل سے پیدا ہوتی اور اس کا آلہ کار بنتی ہے۔ اصل حیات تسخیر و تخلیق اور مقاصد آفرینی ہے۔ وجود کی حقیقت ایک انائے مطلق ہے جو خلاق ہے اور یہ انا اپنی مسلسل خلاقی میں لا تعداد انا یا نفوس مقاصد کو ش پیدا کرتا ہے۔ زندگی جذبہ آفرینش ہے۔ عمل آفرینش ہی سے اس کو اپنا عرفان حاصل ہوتا ہے اور عمل ہی اس کی لامتناہی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ سکون سے زندگی کا تماشا کرنے سے زندگی کی ماہیت معلوم نہیں ہو سکتی کیوں کہ زندگی ایک مسلسل حرکت ہے اور عقل کے تصورات ازلی طور پر ساکن اور جامد ہیں۔ ساحل افتادہ نہ اپنی ماہیت سے آشنا ہو سکتا ہے اور نہ اس دریا کی حقیقت سے جو اس سے آغوش متلاطم ہے۔ اقبال نے اپنا یہ نظریہ کس خوبصورت اور بلاغت سے بیان کیا ہے:
ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم
موج زخود رفتہ اے تیز خرامید و گفت
ہستم اگر میردم گر نہ روم نیستم
افلاطون کے ہاں موج متحرک ہے، لیکن موج کا عقلی تصور ساکن ہے اور یہ ساکن عقلی تصور متحرک موج کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہے۔
تموج کے مقابلے میں اس کا محض تصور قائم کرنا ایک الٰہی انداز ہے۔ عاقل کا وظیفہ حیات یہی ہونا چاہیے کہ وہ خود تھپیڑے نہ کھائے بلکہ عقل کے ساحل پر بیٹھا ہوا سبکسار ہو کر اس کے متغیر اور غیر متموج تصور میں اپنے تئیں کھو کر اپنی حقیقت کو پائے۔ اقبال کے ہاں زندگی مقدم ہے اور عقل موخر۔ زندگی جو کچھ پیدا کرتی ہے عقل بعد میں اس کا جائزہ لے کر اس میں قواعد و ضوابط کو ڈھونڈتی ہے۔ حریم حیات میں عقل حلقہ بیرون در ہے۔ وہ آستان سے دور نہیں ہے، اس کی تقدیر میں حضور نہیں ہے۔ زندگی آپ اپنا نور پیدا کرتی ہے، لیکن اس کو اگر عقل نار حیات سے الگ کر کے ایک ازلی مجرد حقیقت سمجھ لے تو معقولات ظلمت کدہ بن جاتے ہیں۔ زندگی کا آب حیات تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اقبال افلاطون کی بابت کہتا ہے کہ:
رخش او در ظلمت معقول گم
در کہستان وجود افگندہ سم
آنچناں افسون نا محسوس خورد
اعتبار از دست و چشم و گوش برد
اقبال کہتا ہے کہ محسوس کو نامحسوس کے مقابلے میں بے حقیقت قرار دینا انسان کو عالم رنگ و بو سے بے تعلق کر دیتا ہے۔ اسی سے فرار اور گریز پیدا ہوتا ہے اور رہبانیت کو تقویت حاصل ہوتی ہے جس کی نفس کشی کے مرادف ہے اور اسی لیے اسلام نے مرد مومن کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ مظاہر و حوادث انفس و آفاق آیات اللہ ہیں۔ یہ سرا سر حقیقت ہیں۔ نہ باطل ہیں نہ فریب ادراک! اور نہ اس سے گریز کر کے عرفان خدا حاصل ہو سکتا ہے۔ تصوف کے ایک اور حصے پر افلاطونی رنگ چڑھ گیا اور صوفی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ:
چشم بند و لب بہ بند و گوش بند
گر نہ بینی نور حق برمن بخند
اقبال اس افلاطونی تصوف کے خلاف آواز بلند کرتا ہے جو عالم محسوسات کو مایا قرار دے اور خلقت کو باطل ٹھہرائے:
بر تخیلہاے ما فرماں رواست
جام او خواب آور و گیتی رباست
گو سفندے در لباس آدم است
حکم او بر جان صوفی محکم است
مسلمانوں کے متصوفانہ فلسفے نے افلاطون کے اعیان ثابتہ یا ازلی غیر متغیر معقولات کو اپنے فکر کا جزو لاینفک بنا لیا جس کا نتیجہ اقبال کے نزدیک یہ ہوا کہ صوفی بھی ہنگامہ وجود کا منکر اور اعیان نا مشہود کا پرستار ہو کر بود کو نابود اور نابود کو بود کہنے لگا۔ لیکن اس قسم کا گیتی گریز تصور خود سقراط، افلاطون اور ارسطو کی زندگیوں پر کوئی سلبی اثر نہ ڈال سکا۔ یہ تینوں مفکرین، اخلاقیات اور سیاسیات پر گہری بحثیں کرتے رہے اور اپنے اپنے انداز میں کوشاں رہے کہ معاشرے کو زیادہ عاقلانہ اور عادلانہ اصول پر از سر نو تعمیر کیا جائے۔
جماعت کی حکمرانی اور نگرانی سقراط اور افلاطون ایک ایسے منتخب گروہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو عقل اور ایمان کے کماحقہ تحقق کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ سے تزکیہ نفس کر چکے ہوں۔ اقبال نے اسرار خودی میں افلاطون کے نظریہ حیات کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ افلاطون کے وسیع عالم فکر کا فقط ایک پہلو ہے۔ جو قارئین افلاطون کی زندگی اور اس کی وسعت فکر سے نا آشنا ہیں ان کو اسرار خودی کے اشعار سے یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ افلاطون فرد اور جماعت کے مسائل اور معاملات کو بے حقیقت سمجھتا ہے اور عالم انسانی کو اعیان ثابتہ یا مجرد کی افیون کھلا کر بے حس اور بے عمل بنانا چاہتا ہے۔ تاریخی لحاظ سے واقعات اس کے بالکل برعکس رہے ہیں۔ اس مختصر سی تمہید میں اس کی گنجائش نہیں کہ اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا جائے کہ افلاطون سے لے کر آخری معاشرتی انقلاب، یعنی اشتراکیت تک، سوسائٹی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کی جو فکری یا عملی کوششیں ہوئی ہیں وہ کم و بیش افلاطونی افکار سے متاثر ہیں۔ اقبال نے ایام شباب میں اپنے متعلق یہ لکھا تھا :
اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستان میری
اڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
بعینہ یہی کچھ افلاطون کے ساتھ ہوا۔ مشرق فلسفے کے متعلق تو یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ تمام کا تمام دنیا سے گریز کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن مغرب کے عظیم نظامات فکر کے متعلق ھانرش رکٹ جیسے جرمن مفکر اور وہائٹ ہیڈ جیسے انگریزی فلسفی کی رائے ہے کہ یہ سب کے سب افلاطون ہی کی تشریحات ہیں۔ مارکس، لینن، مسولینی اور ہٹلر جیسے معاشرتی انقلاب کے آرزو مند اور اپنے عمل سے دنیا کو تہ و بالا کرنے والے، خواہ اس کا نتیجہ تخریب ہو یا تعمیر، افلاطون ہی کی کتاب سے کچھ کچھ ورق اڑاتے رہے ہیں۔ دوسری طرف رومن کیتھولک کلیسا کی تنظیم بھی بہت کچھ اس کے افکار کا عکس ہے۔ سقراط جس کی زبان سے افلاطون نے اپنا نظریہ حیات بیان کیا ہے، اصلاح معاشرت کی کوشش سے شہید ہو گیا۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ اقبال نے افلاطون کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اقبال نے فقط یہ دیکھا کہ افلاطونی افکار کا اثر بعض لوگوں پر اچھا نہیں ہوا اور اس کے نظریہ وجود سے فرار عین الحیات کا نتیجہ از روئے منطق حاصل ہوتا ہے۔ جس قسم کے حیات گریز تصوف کو اقبال نے مسلمانوں کے لیے افیون قرار دیا وہ افلاطون سے کہیں زیادہ فلاطینوس اسکندری سے حاصل کردہ ہے، جس کے افکار کا اسلامی فلسفہ اشراق اور عیسوی تصوف پر گہرا نقش نمایاں ہے۔ افلاطون راہب نہیں تھا اور نہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے متوازی اور متناسب طور پر لطف اٹھانے والے یونانی اس مزاج کے تھے۔ وہ خود بھی اپنی مجرد تصورات میں گم ہو کر علائق حیات سے بے تعلق نہیں ہوا۔ اس کا گھر ایتھنیا کی تمام علمی زندگی کا مرکز تھا۔ ایسے شخص کے متعلق جو عدل کا ایک انقلابی تصور قائم کر کے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں سائرا کیوز کی ریاست سے خارج کیا گیا ہو اور بحری ڈاکوؤں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا ہو، یہ کہنا نا انصافی معلوم ہوتی ہے کہ:
ذوق روئیدن ندارد دانہ اش
از طپیدن بے خبر پروانہ اش
راہب ما چارہ غیر از رم نداشت
طاقت غوغاے این عالم نداشت
دل بسوز شعلہا فسردہ بست
نقش آں دنیائے افیوں خوردہ بست
حقیقت یہ ہے کہ اس نے زندہ قوموں کو ذوق عمل سے محروم نہیں کیا اور نہ تندرست ملتوں کو مسموم کیا بلکہ جو قومیں مختلف اسباب سے زندگی سے محروم اور بے عملی یا بد عملی سے مسموم ہو چکی تھیں، انہوں نے افلاطونی افکار کی انحطاط انگیز تاویل کر لی۔ افلاطونی فلسفے کا بھی اسی قسم کا حشر ہوا جو اسلام میں نظریہ تقدیر کا ہوا۔ جب تک مومنوں میں قوت ایمان، قوت عمل اور تنظیم حیات صالحہ موجود تھی اس وقت تک تقدیر کا تصور ان کی قوت عمل و ایثار کو تقویت پہنچاتا تھا۔ اس کے بعد عشرت پسندوں اور تن آسانوں نے ترک سعی کو توکل سمجھ لیا اور سب کچھ مقدر ہونے کی وجہ سے سعی کو بے کار جاننے لگے۔ اس میں قرآن کریم کی تعلیم تقدیر کا قصور نہ تھا بے عملی نے اپنی غلط تاویلوں کو اسلام بنا لیا تھا۔
اقبال کے معاصرین میں خودی کے فلسفے کو پیش کرنے والے اور بھی اکابر مفکرین ہیں جن کے افکار سے اقبال پوری طرح آشنا تھا۔ ان میں سے بعض کا مداح اور بعض سے کم و بیش متاثر بھی تھا۔ نطشے، فٹشے، برگساں اور ولیم جیمز کے نظریات ماہیت وجود بہت کچھ رہی ہیں جو اقبال کی تعلیم میں بھی ملتے ہیں اس سے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال ان کا مقلد تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے ان مفکرین سے بہت کچھ حاصل کیا لیکن یہ اقبال کے کمال پر کوئی دھبا نہیں۔ اقبال ان سب سے کسی ایک پہلو میں متفق ہے اور کسی دوسرے اساسی پہلو میں شدید اختلاف رائے بھی رکھتا ہے۔ جہاں تک نطشے کا تعلق ہے، میں اس کے متعلق اپنے مقالے نطشے رومی اور اقبال (مطبوعہ انجمن ترقی اردو) میں مبسوط بحث کر چکا ہوں جسے یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔ اقبال کا ایک مخصوص انداز فکر اور نظریہ حیات تھا۔ اس نخل کی پرورش اس نے مختلف عناصر سے کی ان میں سے کچھ مغرب کے ان مفکرین کے افکار کے جن کا اقبال ہم نوا ہے یا جو اقبال کے ہم صفیر ہیں۔ اقبال کا مغربی فلسفے کا مطالعہ نہایت وسیع اور گہرا تھا۔ اس میں سے جو کچھ اس کے خاص فلسفہ حیات کے مطابق تھا اس نے اخذ کیا اور جو کچھ اس سے متخالف تھا اس کو رد کر دیا۔ اقبال جیسے کسی مفکر کا کلام ہو یا مذہبی صحیفہ ہو، اس کی خوبی اور کمال یہ نہیں ہوتا کہ اس میں وہ باتیں درج ہیں جو دوسروں نے نہ کہی ہوں، پہلی تعلیموں کے بیش بہا عناصر اس میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی ترکیب ایک نئے حیات آفرین انداز سے ہوتی ہے۔ سنگ و چوب و خشت ہر تعمیر میں کم و بیش ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن مہندس اور معمار کا کمال اپنے ہنر اور تصور سے اس میں مخصوص قسم کی آسائش اور زیبائش پیدا کر دیتا ہے۔ گوئٹے نے ایکٹرمن سے دوران گفتگو میں ایک مرتبہ کہا کہ ’’ لوگ بڑے بڑے مفکرین کے افکار کا تجزیہ کرنے لگ جاتے ہیں، اور الگ الگ عناصر کا ماخذ بتانا ان کا شیوۂ تحقیق ہوتا ہے، لیکن کیا اس سے ایک بڑے فنکار یا مفکر کی انفرادی شخصیت یا اس کی مخصوص ایج کا اندازہ ہو سکتا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص گوئٹے کی تحلیل اور تجزیہ اس طرح کرے کہ اس نے اتنے بکرے، اتنی سبزی ترکاری اور اتنی گندم کھائی۔ ان سب کو ملا کر گوئٹے بن گیا۔ لہٰذا گوئٹے کی ماہیت سمجھ میں آ گئی۔ ‘‘
اسرار خودی میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، ان مفکرین مغرب کے افکار کا پر تو نظر آتا ہے جو اقبال کے ہم مزاج ہیں اور جن کے افکار کے کسی پہلو کو اقبال نے اپنے نظریہ حیات کا موید سمجھا ہے۔ مثلاً اس بیان میں کہ اصل نظام عالم خودی ہے اور تعینات وجود کی ذمہ دار بھی خودی ہے، وہ مشہور جرمن فلسفی فشٹے کا ہم نوا ہو کر کہتا ہے کہ کائنات کا وجود یا پیکر ہستی خودی ہی کا نتیجہ ہے۔ عالم ادراک اور عالم آب و گل یا تصوف کی زبان میں یوں کہیے کہ ماسوا کا وجود، خدا کی خودی سے سرزد ہوا ہے خودی کا اثبات نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ خودی اپنا غیر پیدا نہ کرتی۔ خودی کی ماہیت خلاقی اور ورزش ارتقاء ہے۔ نفی اثبات خود اثبات کا تقاضا ہے۔ جس غیر کو خودی نے اپنے ممکنات وجود کو ظہور میں لانے کے لیے خلق کیا ہے وہ ایک لحاظ سے غیر ہے اور دوسرے لحاظ سے خودی ہی کا مظہر ہے:
صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او
غیر او پیدا ست از اثبات او
در جہاں تخم خصومت کاشت است
خویشتن را غیر خود پنداشت است
سازش از خود پیکر اغیار را
تا فزاید لذت پیکار را
اقبال کہتا ہے کہ یہ ایک طرح کی خودی کی خود فریبی ہے۔ اقبال جس خودی کا ذکر کرتا ہے وہ انسانوں کے انفرادی انا کی خودی ہی نہیں بلکہ خدا کی خودی ہے، جو مصدر خلقت ہے۔ مسلمہ اسلامی عقیدۂ توحید عام طور پر اس انداز سے بیان نہیں ہوتا۔ اسرار خودی کے عام قارئین نے اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی کہ اقبال جس مطلق خودی کا ذکر کر رہا ہے وہ وجود مطلق اور ذات واجب الوجود کی ماہیت ہے، لیکن خدا کی نسبت مومن یہ کس طرح گوارا کرے گا کہ اس قسم کے عقائد بیان ہوں کہ آفرینش حیات و کائنات سے خدا نے ورزش ارتقاء کی خاطر تخم خصومت بویا ہے اور عالم آفرینی ایک طرح کی خود فریبی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے ہاں وجود سرمدی کا تصور عام توحید پرستوں سے بہت کچھ الگ ہو گیا ہے۔ خدا الان کما کان بھی ہے اور کل یوم ھو فی شان بھی اقبال نے خدا کا لا تبدیل سرمدی پہلو نظر انداز کر دیا ہے اور مسلسل تغیر اور ارتقاء اور لامتناہی خلاقی کی صفت اس پر بہت زیادہ منکشف ہوئی ہے۔ وہ صوفیاء کرام کے اس مقولے یا روحانی تجربے کا بھی شیدائی ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔ وجود کے یکے بعد دیگرے آنے والے کوئی دو کوائف ہم رنگ نہیں ہوتے۔ خلاقی کا قدم ہر دم آگے ہی کی طرف اٹھتا ہے۔ ذات مطلق کی خودی کو اپنی تکمیل مقصود ہے اپنے اثبات اور ارتقاء کی خاطر وہ ہستیوں کو وجود میں لاتی اور ساتھ ہی ساتھ مٹاتی بھی جاتی ہے۔ زندگی کے طویل ارتقاء میں لا تعداد اقسام کے پھول معرض وجود میں آ کر نابود ہو گئے ہوں گے، پیشتر اس کے کہ گلاب کا ایک پھول ظہور میں آ سکے۔ حیات و کائنات میں جو درد و کرب، جور و ستم اور شر دکھائی دیتا ہے، اقبال کا نظریہ خودی اس کی ایک توجیہہ ہے:
عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی
خلق و تکمیل جمال معنوی
صدیوں سے اسلامی تصوف میں وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدر فروعی اختلاف کے ساتھ، اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیم میں ملتا ہے، اقبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان اور تمام حوادث کو ایک ذات کا مظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے۔ ہم جیمز وحدت وجود میں خیر و شریک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے، صدیوں سے اسلامی تصوف میں وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدر فروعی اختلافات کے ساتھ، اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیم میں ملتا ہے۔ ا قبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان خیر و شر اور تمام حوادث کو ایک ذات کا مظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے یا بقول ولیم جیمز وحدت وجود میں خیر و شریک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے، لیکن اقبال کے ذہن میں وحدت وجود کا نظریہ دوسرے رنگ میں ابھرتا ہے۔ ہستی مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ ماسوا اس کے اظہار ذات کے لیے ضروری ہے لیکن ماسوا بھی خدا کے سوا کچھ نہیں، اگرچہ عمل کی خاطر خدا اس کو اپنا غیر سمجھ لیتا ہے کیوں کہ یہ خود فریبی عین حیات اور باعث تکمیل حیات ہے۔ ورنہ اصلیت یہ ہے کہ:
می شود از بہر اغراض عمل
عامل و معمول و اسباب و علل
خیزد، انگیزد، پرد، تابد، رمد
سوزد، افروزد، کشد، میرد، دمد
بظاہر یہ انداز بیان اس سے کچھ زیادہ متمائز معلوم نہیں ہوتا جسے ایک قدیم وحدت الوجودی صوفی وجد و مستی میں آ کر گاتا ہے کہ:
خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ
خود بر سر آں کوزہ خریدار بر آمد
بشکست و رواں شد
اقبال کے ہاں ذات مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ خودی ایک انا یا ایغو کے بغیر متصور نہیں ہو سکتی۔ اس کے مطلق خودی نے ذوق نمود اور ورزش وجود میں اپنے اندر سے لا تعداد انا یا ایغو یا خودی کے مراکز خلق کیے ہیں یہ تصور مشہور حدیث قدسی کے اس تصور سے کسی قدر مشابہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق یہ انکشاف کرتا ہے کہ کنت کنزا مخفیا فاجبت ان اعرف فخلقت الخلق (میں ایک خزینہ پنہاں تھا میں نے چاہا کہ میں ظاہر ہوں اور پہچانا جاؤں اس لیے میں نے خلقت کو خلق کیا(:
وانمودن خویش را خوے خودی است
خفتہ در ہر ذرہ نیروے خودی است
خودی کی ماہیت کو جاننا عرفان نفس بھی ہے اور عرفان رب بھی اور اس عرفان میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ زور خودی سے حیات عالم وابستہ ہے اور ہر انفرادی نفس کی استواری اس کی زندگی کی ضامن ہے۔ جو قطرۂ شبنم بنتا ہے وہ چند لمحوں میں خودی کے ضعف کی وجہ سے نابود ہو جاتا ہے۔ جو قطرۂ اشک بنتا ہے وہ ٹپک کر ناپید ہو جاتا ہے، لیکن جو قطرہ صدف نشین ہو کر اپنی خودی کو مستحکم کر لیتا ہے وہ گوہر بن جاتا ہے۔ جس کی موج نور تلاطم قلزم میں بھی منشتر نہیں ہوتی۔ اقبال فطرت کے مظاہر میں اپنے اس نظریے کی بہت سی دلکش مثالیں پیش کرتا ہے۔ زمین کا وجود قمر کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے، اس لیے زمین اس سے مسحور ہو کر اس کے گرد چکر کاٹتی رہتی ہے۔
اقبال رہبانیت کے خلاف جہاد کرتا ہے اور جتنے رہبانی تصورات عجمی تصوف کے راستے سے اسلامی افکار کا جزو بن گئے ہیں، ان سے وہ ملت کا دامن چھڑانا چاہتا ہے۔ قناعت اور توکل اور تسلیم و رضا کے غلط معنی لے کر مسلمانوں میں بھی یہ تصور عام ہو گیا کہ نفس کشی کے معنی تمام آرزوؤں کا قلع قمع کرنا ہے۔ انسان جتنا بے مدعا ہوتا جائے اتنا ہی خدا کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ غالب نے یہی متصوفانہ خیال اس شعر میں ظاہر کیا ہے کہ:
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
اسی سے ملتا جلتا صائب کا ایک شعر ہے:
حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن
از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن
یہ خیال ہندو مت اور بدھ مت کی الٰہیات میں بھی ایک مسلمہ بن گیا تھا کہ اپنی خودی کو صفر کر دینے سے انسان خدا کا ہم ذات ہو جاتا ہے یا خود خدا بن جاتا ہے۔ بھگوت گیتا میں ارجنا کرشن سے پوچھتا ہے کہ تم خدا کیسے بن گئے؟ وہ جواب دیتا ہے:
من از ہر سہ عالم جدا گشتہ ام
تہی گشتہ از خود خدا گشتہ ام
(ترجمہ: فیضی)
اقبال کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خود خدا کی ماہیت خودی اور خودی کی ماہیت مقصد آفرینی اور مقصد کوشی ’’ تخلقو باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم کے مطابق انسان کو بھی تخلیق مقاصد سے اپنی خودی کو استوار کرنا چاہیے۔ اس تعلیم میں وہ اپنے مرشد رومی کا ہم خیال ہے۔ رومی کہتا ہے کہ زمین و آسمان کی خلقت حاجت کی پیداوار ہے، حاجت ہی سے ہستی کی آفرینش اور اس کا ارتقاء ہوتا ہے۔ اس لیے وہ نصیحت کرتا ہے:
پس بیفزا حاجت اے محتاج زود
اسی خیال کو اقبال نے طرح طرح کے لطیف پیرایوں میں ادا کیا ہے۔ مثلاً:
زندگانی را بقا از مدعا است
کاروانش را درا از مدعا است
زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے۔ عالم آب و گل اور جہان رنگ و بو سب آرزو کے رہین اور مین ہیں۔ فلسفہ جدید میں ارتقاء کے طرح طرح کے نظریات پیدا ہوئے۔ ان نظریات میں سے برگسان کا نظریہ ارتقاء تخلیقی اقبال کے خیالات کے عین مطابق ہے۔ اعضاء سے وظائف اعضا پیدا نہیں ہوتے بلکہ حیات کی ارتقائی تمنائیں اعضا و آلات میں صورت پذیر ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ آنکھ ڈاروینی اتفاقات اور میکانیکی توافق سے بن گئی اور اس سے بینائی ممکن ہو گئی۔ اقبال کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ یہاں برعکس ہے۔ لذت دیدار اور شوق بینش نے آنکھ بنائی ہے۔ ذوق رفتار نے پاؤں بنائے اور ذوق نوائے منفقار
اقبال نے اسرار خودی میں بھی اور بعد کے کلام میں بھی سینکڑوں دلکش اور بصیرت افروز اشعار عشق اور عقل کے موازنے اور مقابلے میں لکھے ہیں۔ یہ صوفیہ اور بعض حکماء کا قدیم مضمون ہے، لیکن اس مسئلے پر اقبال کے ہاں جس قدر بصیرت اور قدرت پائی جاتی ہے وہ اور کہیں نہیں ملتی۔ یہ اس کا خاص مضمون بن گیا اور اس مضمون کے ہر شعر میں اقبال کے کلام میں حکمت کے ساز کے ساتھ وجد و مستی کا سوز توام ہو گیا ہے۔ میلان حیات اور آرزوئے ارتقاء اس کے ہاں ماہیت وجود ہیں۔ یہی اصل ہیں اور باقی جو کچھ ہے، عقل ہو یا علوم و فنون یا آئین و رسوم، سب کی حیثیت فروعی ہے۔ صحیفہ وحی آسمانی ہو یا صحیفہ فطرت، اس کے علم الوجود یا علم الکتاب کے مقابلے میں عشق ام الکتاب ہے۔ اصل ماخذ زندگی اور اس کی سعی تکمیل ہے۔ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام حیوانیہ یا شعوری و ادراک یہ سب زندگی نے اپنی بقا کے لیے آلات بنائے ہیں۔ علوم و فن خود مقصود نہیں اور عقل انسان کا معبود نہیں۔ یہ سب کچھ نمود ہے بود نہیں :
علم و فن از پیش خیزان حیات
علم و فن از خانہ زادان حیات
انسان کا کام صحیفہ کائنات کی تفسیر نہیں بلکہ موجودات کی تسخیر ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ ماسوا کی تسخیر کرے اور خود اپنے آپ کو مسخر ہونے سے بچائے اور ماسوا کی تسخیر سے آگے قدم بڑھاتا ہوا اس وقت تک دم نہ لے جب تک کہ خدا یعنی ذات مطلق کی خودی کو مسخر کر کے اپنا نہ لے۔ اس بارے میں بھی وہ رومی کا ہم آہنگ ہے، جو کہتا ہے:
بزیر گنگرۂ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اسی مضمون کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں ڈھالا ہے:
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اقبال کے ہاں خودی اور عشق کے مضامین ہم معنی ہیں۔ ایک ہی چیز ہے جس کو کبھی وہ خودی کہتا ہے اور کبھی عشق۔ ا گرچہ اسرار خودی میں اس نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ خودی عشق سے استوار ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خودی جس عشق سے استوار ہوتی ہے وہ کس ہستی یا کس چیز کا عشق ہے۔ کیا خودی کو اپنے سے خارج کسی محبوب کو تلاش کرنا ہے یا خودی کے خود اپنے میلانات کے اظہار کا نام عشق ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی کے اندر لامتناہی ممکنات مضمر ہیں۔ خودی کو استوار کرنا ان ممکنات کو بطون سے شہود میں لانا ہے۔ عشق خودی کی ماہیت ہے اور اپنی ذات سے باہر کسی محبوب کا گرویدہ ہونا نہیں ہے۔ خودی ارتقاء طلب ہے۔ وہ ہر حاصل شدہ کیفیت سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے ارتقاء سے عشق ہے۔
ہست معشوقے نہاں اندر دلت
چشم اگر داری بیا بنمایمت
عاشقان او ز خوبان خوب تر
خوشتر و زیبا تر و محبوب تر
ہاں ایک طریق خودی کی استواری کا جس کا اقبال بڑی شدت کے ساتھ قائل ہے، یہ ہے کہ جن ہستیوں نے اپنی خودی کے ممکنات کو وجود پذیر کیا ہے اور اپنی خاک کو رشک افلاک بنایا ہے ان سے عشق پیدا کیا جائے۔ ایسے بزرگوں کے عشق سے انسان کی خودی فرومائگی نہیں بن جاتی بلکہ معشوق کی خودی کا رنگ عاشق پر چڑھ جاتا ہے۔ انبیاء کا کام یہ نہیں ہوتا کہ امت کے افراد کی خودی کو عجز میں تبدیل کر دیں۔ انبیاء خود احرار ہوتے ہیں اور وہ انسانوں کر ہر قسم کی غلامی سے چھڑا کر مردان حر بنانا چاہتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شبستان حرا میں خلوت گزیں ہو کر اپنی خودی کے جوہر کو چمکایا۔ قوم و آئین و حکومت اسی جوہر کی کرنیں ہیں۔ دین کا جوہر ان معنوں میں عشق یا محبت ہے کہ مرد مومن تمام افراد اور اشیاء سے قلبی تعلق پیدا کر کے کائنات کی خودی وحدت کا ثبوت دیتا ہے۔ دوسروں سے محبت کرتا اور دوسروں کو اپنا ہم ذات سمجھتا ہے۔ اس طرح سے محبت کے ذریعے خودی قوی تر اور وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔ خودی کا اصل انداز عمل مخاصمانہ یا رقیبانہ نہیں بلکہ عاشقانہ ہے۔
خودی کے ضمن میں اقبال نے یہ تحقیق کی ہے کہ نفی خودی کی تعلیم کہاں سے پیدا ہوئی اور کن اسباب سے وہ بعض اقوام پر چھا گئی۔ اس تحقیق میں اقبال نطشے سے متفق ہے کہ یہ انحطاط یافتہ اور مغلوب اقوام کی ایجاد ہے۔ جن اقوام کے قواے حیات سست پڑ جاتے ہیں، ان سست عناصر اقوام کو قوی اور جلیل اقوام کے مقابلے میں زندہ رہنے کی کوئی ترکیب سوچنی پڑتی ہے۔ زبردست اقوام تسخیر پسند ہوتی ہیں۔ زبردستوں کے ہتھیار اور ہوتے ہیں اور کمزوروں کے ہتھیار اور کمزور کبھی تو فریب اور خوشامد سے کام نکالتا ہے اور کبھی وہ ایسے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے جس سے اس کی کمزوری ذلت کی بجائے فضیلت دکھائی دینے لگے۔ اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے وہ فکر کو سراہنے لگتا ہے۔ ہمت کو دنیا طلبی اور عجز کو روحانیت کے رنگ میں پیش کرتا ہے۔ اپنی تعلیم میں وہ ایسی دلکشی اور لطافت پیدا کرتا ہے۔ کہ اہل ہمت بھی یہ افیون کھانے لگتے ہیں۔ یہ مضمون نطشے کا خاص مضمون ہے اور اس نے اس نقطہ نظر سے عیسائیت پر اور اس کے پیدا کردہ اخلاقیات پر بھر پور وار کیا ہے۔ عیسوی رہبانیت کی یہ تعلیم کہ جنت ضعیفوں اور عاجزوں کو ملے گی اور صاحبان ہمت و ثروت و جبروت اس میں داخل نہ ہو سکیں گے، نطشے کے نزدیک نوع انسان کو قعر مذلت میں دھکیل گئی اور مغرب میں شیروں کو بکرا بنا گئی:
جنت از بہر ضعیفان است و بس
قوت از اسباب خسران است و بس
جستجوئے عظمت و سطوت شر است
تنگدستی از امارت خوشتر است
یہ سازش مغلوب اور کمزور اقوام کی شعوری تدبیر اور تنظیم سے نہیں کرتیں بلکہ ان کی کمزوری غیر شعوری طور پر ان کے تحفظ کے لیے یہ آلات وضع کرتی ہے۔ اقبال نے کہیں عجمی تصورات کو اور کہیں افلاطونی نظریات کو، ادبیات و حیات اسلامی کو مسموم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسلامی سیاست کی تاریخ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور بعض عجمی گروہوں نے اسلام سے مغلوب ہونے اور ظاہر میں اسلام کو قبول کرنے کے بعد، اس کی بیخ کنی کے لیے نہایت پوشیدہ اور لطیف ذرائع اختیار کیے۔ بعض تصورات فلسفے اور تصوف کے انداز میں پیش کئے گئے اور بعض تصورات موضوع احادیث نبوی کے پیرایے میں۔ متحققین حدیث نے ان مخترعات اور موضوعات کو بہت کچھ چھانٹا لیکن اس کے باوجود بعض چیزیں مروجہ طور پر مسلم احادیث میں ایسی ملتی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ یہ غیر اسلامی تصورات کو اسلام میں داخل کرنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔ عام ادبیات اسلامیہ میں ایسے ایسے زاویائے نگاہ مسلمات میں داخل ہو گئے، جنہوں نے مسلمانوں کو زندگی کی جدوجہد سے باز رکھا۔ قناعت پرستی، لذت پرستی، سکون پرستی، قطع علائق، انسان کو خود داری سے محروم کرنے والے تصورات عشق، ہوس پرستی، مصنوعی محبت، ادبیات کا تار و پود بن گئے۔ ایسا ادب قوم کے انحطاط کی علت بھی ہے اور اس کا معلول بھی کسی قوم کا ادب اس کی زندگی اور اس کی تمناؤں کا آئینہد ار ہوتا ہے۔ جب قوم پست ہمت اور سست عناصر ہو جائے تو ادب میں زندگی کی گرمی اور عمل کا جوش نظر نہیں آتا عاشق خود دار کی بجائے ’’ آوارہ مجنو نے رسوا سر بازارے‘‘ انسانیت کا دلکش نمونہ بن جاتا ہے۔ فارسی اور اردو کا عام تغزل زیادہ تر اسی انحطاط کا آئینہ دار ہے۔ ایسی شاعری کے خلاف پہلے حالی نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ قیامت کے روز باقی گنہگار تو چھوٹ جائیں گے لیکن ہمارے شعراء کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ حالی نے کسی خاص شاعر کو چن کر ہدف ملامت نہیں بنایا تھا۔ اس کی تنقید زیادہ تر عام تھی۔ لیکن اقبال نے جوش اصلاح میں حافظ پر شدید حملہ کر دیا کہ اس کا کلام مسلمانوں کے لیے افیون کا کام کرتا ہے۔
مار گلزارے کہ دارو زہر ناب
صید را اول ہمی آرد بخواب
مسلمان حافظ کو ولی اللہ اور لسان الغیب سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی طرح حافظ کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ اس کی شراب کو شراب معنوی سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا مجاز حقیقت کا پردہ دار ہے۔ لیکن مجاز میں حقیقت کی جھلک دیکھنے والے کم ہیں اور عشق ہوس بنانے والے زیادہ۔ اگر کوئی لذت پرست شخص حافظ علیہ الرحمۃ کا کلام پڑھے تو اس کو اپنی لذت پرستی یا جھوٹی مستی کے لیے بہت کچھ جواز مل جائے گا۔ اقبال کا رویہ دیوان حافظ کے بارے میں اورنگ زیب عالمگیر کے زاویہ نگاہ کے مشابہ ہے، جس کے متعلق روایت ہے کہ وہ لوگوں کو دیوان حافظ کے پڑھنے سے روکتا تھا۔ اگرچہ اس روایت کے ساتھ یہ بھی ہے کہ خود اسے اپنے تکیہ کے نیچے رکھتا تھا۔ جب لوگوں کی طرف سے لے دے ہوئی تو اقبال نے حافظ پر جو تنقید کی تھی، اس کو دوسرے ایڈیشن سے خارج کر دیا۔ اقبال کہتا ہے کہ عرب کے کلام میں حقیقت پروری اور ہمت افزائی تھی۔ اس میں صحرا کی گرمی اور باد صر صر کی تندی تھی۔ عجمی افکار و جذبات نے اسلامی ادب کو زندگی کی قوتوں سے بیگانہ کر دیا۔ نقد سخن کو ہمیشہ معیار زندگی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح علم برائے علم ایک لا یعنی شغل ہے اسی طرح فن برائے فن بھی نخل حیات کی ایک بریدہ اور افسردہ شاخ ہے۔
اسلامی ادبیات کی تنقید کے بعد اقبال نے تربیت خودی کے تین مراحل بیان کیے ہیں۔ پہلا مرحلہ اطاعت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کی خودی خود سری نہیں ہے۔ حکمرانی کے لیے پہلے حکم برداری کی مشق مسلم ہے۔ جس نے خود اطاعت کی مشق نہ کی ہو وہ دوسروں سے اطاعت طلب کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ انسان کو خدا اختیار ورزی کی مشق کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ فطرت کے جبر سے نکل کر اپنے اختیار سے فضیلت کوش اور خدا طلب بن سکے۔ اصل مقصد اطاعت کو اختیاری بنانا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جبر کو اختیار میں بدلنا ہے۔ ایک عارف کا قول ہے کہ ہمیں اختیار اس لیے عطا کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اختیار کو خدا کے اختیار کا ہم کنار کر کے جبر و اختیار کا تضاد محو کر دیں۔ فرمان پذیری کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی فطرت کے نصب العین کی ہے۔ اسی مضمون کو اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے:
در اطاعت کوش اے غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار
جب انسان اپنے اختیار سے اپنی سیرت کو مستحکم کر چکتا ہے تو وہ ایک منظم آئین کے ماتحت عمل کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں ایک اختیاری جبر پیدا ہو جاتا ہے۔ باقی تمام کائنات بھی آئین پر قائم ہے، لیکن اس میں آئین سے سرگردانی کی کوئی طاقت یا میلان نہیں۔ بقول مرزا غالب:
گر چرخ فلک گردی سر بر خط فرماں نہ
ور گوے زمیں باشی وقف خم چوگان شو
اسی طرح ضبط نفس سے نفس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواہشوں کے تھپیڑے کھاتے رہنے سے نفس اور جسم کی قوتیں منتشر ہو جاتی ہیں اور کسی ایک مرکز پر ان کو مرکوز کرنے سے کونوں میں جو حدت پیدا ہو سکتی ہے نفس اس قوت اور حرارت سے محروم رہتا ہے۔
اقبال کے ہاں خودی کا تصور در حقیقت قرآن کریم کے نیابت الٰہی کا تصور کا آئینہ ہے۔ خدا کی ذات لامتناہی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ خدا کی مشیت اور قوتوں کے سامنے خاک و افلاک، ذرہ و خورشید، سب سر بسجود ہیں۔ قرآن کریم میں جس نصب العینی آدم کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ بھی مسجود ملائک ہے۔ اس ظاہری تضاد سے توحید میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ جب کسی بادشاہ کا وزیر یا نائب پوری طرح سے اس کی سیاست کو سمجھنے والا اور تہ دل سے اس کے احکام کو بجا لانے والا ہو تو اگرچہ سرچشمہ اقتدار بادشاہ ہوتا ہے لیکن رعایا کو نائب کی اطاعت اس طرح کرنی پڑتی ہے جس طرح بادشاہ کی۔ انسان کا نصب العین یہ ہے کہ شمس و قمر شجر و حجر اور کائنات کی وہ قوتیں جنہیں ملائکہ کہتے ہیں، سب کے سب اس کے لیے مسخر ہوں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مشیت ایزدی کے عرفان سے اپنی خودی کو استوار کرتا چلا جائے اس کی قوت تسخیر کی کوئی حد نہ ہو گی۔ نباتات و حیوانات اور اجرام فلکیہ پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ملائکہ، انبیاء اور آخر میں خدا کے ساتھ ہم کنار ہو سکے گا۔ یہی وہ مقام ہے جس کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ نائب حق ترقی کرتا ہوا، جزو و کل سے آگاہ کرتا ہوا، قائم بامر اللہ ہو جائے گا۔ اس نائب حق یا خلیفتہ اللہ کی فطرت صرف موجودہ عالموں ہی کی تسخیر نہیں کرے گی بلکہ وہ خدا کی خلاقی سے بہرہ اندوز ہو کر ہژدہ ہزار جدید عوالم بھی وجود میں لا سکے گا۔ اس کی فطرت لامتناہی ممکنات سے لبریز ہو گی جو نمود کے لیے بیتاب ہوں گے:
فطرتش معمور و می خواہد نمود
عالمے دیگر بیارد در وجود
صد جہاں مثل جہان جزو و کل
روید از کشت خیال او چو گل
ایک نقاد نے کہا ہے کہ اقبال نے نیابت الٰہی کے پردے میں انسان کو خدا بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے جوش میں آ کر ایسے اشعار لکھے ہیں جہاں انسانیت اور الوہیت کے ڈانڈے ملے ہوئے معلوم ہوتے ہیں :
از قم او خیزد اندر گور تن
مردہ جانہا چوں صنوبر در چمن
ذات او توجیہہ ذات عالم است
از جلال او نجات عالم است
جلوہ ہا خیزد ز نقش پاے او
صد کلیم آوارۂ سیناے او
ایسے اشعار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ عبودیت میں کامل ہو کر اور خدا کی ذات کو اپنی ذات میں سمو کر بندہ جو فعل کرتا ہے اس کے اس فعل میں اور خدا کے فعل میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ’’ مارمیت‘‘ کی آیت کے علاوہ بھی اور کئی آیات اس نظریے کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اخلاق الٰہیہ اپنے اندر پیدا کرنے کی سعی بلیغ کرے۔ اخلاق الٰہیہ صفات الٰہیہ ہی ہیں اور صفات کو ذات سے جدا نہیں کر سکتے۔ اس مسئلے کو اقبال کے مرشد رومی نے ایک تشبیہہ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ کا ہم شکل اور بہت حد تک اس کا ہم صفت ہو جاتا ہے بہت سے کام جو آگ کر سکتی ہے وہ ایسی حالت میں لوہا بھی کر سکتا ہے۔ لوہا ایسی حالت میں اگر نمن آتشم کہ اٹھے تو غلط نہ ہو گا۔ اگرچہ اس ہم صفتی کے باوجود خدا اور ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ پر کاملاً عمل کرنے والے بندے میں پھر بھی خالق و مخلوق کا ذاتی امتیاز باقی رہے گا۔ یہ نائب حق کسی بنے بنائے عالم کے ساتھ توافق کی کوشش ہی میں نہیں لگا رہتا۔ وہ شکوہ فلک میں آہ و زاری نہیں کرتا رہتا، بلکہ زمین و آسمان کو متزلزل کر کے ’’ فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم‘‘ کے لیے بھی آمادہ ہوتا ہے:
گر نہ سازد با مزاج او جہاں
می شود جنگ آزما با آسماں
بر کند بنیاد موجودات را
می دبد ترکیب نو ذرات را
گردش ایام را برہم زند
چرخ نیلی فام را برہم زند
مغرب میں اقبال کے شباب سے کسی قدر پیشتر نطشے نے بڑے زور شور سے فوق البشر کا تخیل نیم شاعرانہ، نیم حکیمانہ اور کسی قدر مجذوبانہ انداز میں پیش کیا تھا۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ موجودہ نوع انسان ایک بہت گئی گزری مخلوق ہے۔ عجز و انکسار کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم اس کے اقدار حیات کو پلٹ کرانسان کو راضی بہ تذلل اور مائل بہ انحطاط کر دیا ہے۔ فعلیت کی بجائے انفعال کو سراہا جاتا ہے۔ تنازع للبقا میں حیوانی انواع محض افزائش قوت کے اصول پر عمل کرتی ہوئی امیبیا سے انسان تک ترقی کر چکی ہیں۔ زندگی سرا سر ایک پیکار ہے۔ قوت زندگی کی ایک اساسی قدر ہے۔ ضعیف پروری سے زندگی کے عناصر سست پڑ جاتے ہیں۔ رحم کوئی فضیلت نہیں بلکہ حیات کش ہونے کی وجہ سے ایک مذموم صفت ہے، جو کمزوروں کی اخلاقیات نے اپنی حفاظت کے لیے ایجاد کی ہے۔ رحمان و رحیم خدا بھی بے کار ہے اور رحیم انسان بھی غلامانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ موجودہ نوع انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو منسوخ کر کے ایک نئی نوع کے خواص پیدا کرے زندگی کو فوق البشر انسان کا انتظار ہے جس کی اخلاقیات موجودہ اخلاقیات سے بالکل برعکس ہوں گی۔ وہ تمام اقدار حیات کی نئی تقدیر کرے گا اور اپنی قوتوں میں اضافہ کرنے میں وہ تیغ بے دریغ ہو گا۔ وہ زندگی سے فرار نہیں کرے گا۔ بلکہ اس کا مقابلہ کر کے اپنے ممکنات کو معرض شہود میں لائے گا۔ وہ سخت کوش ہو گا مشکل پسند ہو گا اور خطرات سے غذا حاصل کرے گا۔ نطشے خدا کا منکر تھا اور تمسخر سے کہتا تھا کہ لوگوں کو اپنی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ خدا مر چکا ہے۔ اس کے ہاں نفس یا روح کا تصور بھی اس سے زیادہ نہیں کہ وہ مادی یا جسمانی یا حیوانی قوتوں کا مظہر ہے۔ حقیقت میں اس کو شکایت یہ تھی کہ انسان اچھا حیوان نہیں رہا۔ اچھا حیوان ہو تو شیر کی طرح ہو، جس کے دین میں قوت کے سوا اور کوئی آئین نہیں۔ عجز و انکسار کی تعلیم بکروں کی ایجاد ہے، تاکہ شیروں کے دانت خالص گیاہ خوری کرتے کرتے اپنی تیزی کھو بیٹھیں اور کمزور حیوانوں کو اس طرح شیروں کے جور و تظلم سے نجات مل جائے۔
اسرار خودی لکھنے کے زمانے میں اقبال نطشے کے افکار کے ایک پہلو کا مداح تھا۔ ضعف پسندی اور نفی خودی کا اقبال بھی مخالف تھا اور نطشے بھی۔ تہذیب فرنگی کا نطشے بھی ایسا ہی مخالف تھا جیسا کہ اقبال۔ انحطاط اور پستی اور ضعف خودی کے متعلق اقبال او نطشے کی زبان بہت ملتی جلتی ہے اور اسرار خودی میں بعض افکار اور بعض مثالیں نطشے سے ماخوذ ہیں۔ لیکن دوسرے لحاظ سے اقبال اور نطشے میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں میں افکار کے ایک پہلو کی ظاہری مناسبت ہے۔ یہ سرسری اور ظاہری مناسبت تو منصور حلاج اور فرعون میں بھی پائی جاتی تھی۔ منصور نے بھی انالحق کہا اور فرعون نے بھی انا الحق کہا۔ لیکن دونوں کا انا بھی الگ تھا اور دونوں کا حق کا تصور بھی الگ۔ ویسے تو مولانا روم اور نطشے کے افکار میں بھی ظاہری مماثلت مل سکتی ہے۔ مولانا بھی آرزو مند ہیں کہ موجودہ انسان اپنی موجودہ مادہ پسندی اور حیوانیت سے اوپر اٹھ جائے اور ایک نئی مخلوق بن جائے۔ مولانا کی ایک طویل غزل میں سے اقبال نے تین اشعار اس تصور کے منتخب کر کے ان کو مثنوی کا فاتحۃ الکتاب بنایا ہے۔ الفاظ کا ظاہر ایسا ہے کہ نطشے بھی سنتا تو پھڑک اٹھتا اور کہنے لگتا کہ میں بھی تو یہی چاہتا ہوں :
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرو شہر
کز دام و دو ملولم و انسانم آرزوست
زیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنگہ یافت می نشود آنم آرزوست
الفاظ کی ہم آہنگی کے باوجود رومی اور نطشے میں خاک و افلاک کا فرق ہے۔ ایک انسان کو الوہیت کا دامن چھونے کے لیے افلاک پر پہنچانا چاہتا ہے اور دوسرے کے ہاں خاک کے سوا خاک نہیں۔ اقبال کو نطشے میں یہ بات پسند تھی کہ اس سست عناصر انسان کی خودی کو مضبوط کرنا چاہیے، لیکن نطشے کے ہاں خودی کا تصور ہی محدود اور مہمل تھا۔ نطشے قوت اس لیے چاہتا ہے کہ ایک اعلیٰ تر نوع حیوان وجود میں آ سکے۔ رومی اور اقبال قوت تسخیر اس لیے چاہتے ہیں کہ انسان کی خودی مضبوط ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ جائے کہ اس میں الٰہی صفات کی شان جھلکنے لگے۔ اقبال اور رومی عالمگیر عشق کی طرف انسانی خودی کو گامزن کرنے کے آرزو مند ہیں۔ جلال الدین رومی بھی جلالی ہیں اور اقبال بھی جلالی، لیکن ان کے ہاں جلال جمال سے ہم آغوش ہے۔ نطشے بھی قاہری کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس کی قاہری میں دلبری نہیں۔ مومن کا یہ حال ہے کہ :
طبع مسلم از محبت قاہر است
مسلم ار عاشق نباشد کافر است
در رضائش مرضی حق گم شود
ایں سخن کے باور مردم شود
اسرار خودی میں اقبال نے وقت یا ماہیت زمان کے مسئلے کو بہت اہمیت دی ہے۔ یہ مسئلہ ہمیشہ ایک معرکۃ الآراء موضوع رہا ہے۔ عامۃ الناس اور عام دیندار لوگ اس کو کوئی دینی مسئلہ نہیں سمجھتے، لیکن حکمت پسند لوگ اس میں حیران اور سر گردان رہتے ہیں کہ وقت کو کوئی چیز بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔ دنیا میں یا تو اشیاء و اشخاص ہیں اور یا افعال و حوادث۔ وقت نہ کوئی شے ہے، نہ کوئی شخص، نہ کوئی فعل اور نہ کوئی حادثہ۔ سب کچھ وقت میں واقع ہوتا ہے لیکن وقت کوئی واقعہ نہیں۔ فلسفیوں کی زبان میں یوں کہیے کہ یہ نہ تو جوہر ہے اور نہ عرض۔ ہر قسم کا وجود جن صفات سے متصف ہو کر وجود بنتا ہے ان میں سے کوئی صفت وقت میں نہیں پائی جاتی۔ کیا وقت ازلی اور ابدی ہے یا یہ بھی کسی وقت خلق ہوا اگر یہ خود مخلوق ہے تو اس کے خلق ہونے سے قبل بھی تو آخر کوئی زمانہ تھا تو وہ بھی وقت تھا۔
قرآں کریم کے الفاظ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے چھ ایام میں زمین و آسمان کا خلق کیا، لیکن ہمارے ذہن میں شب و روز اور ایام کا جو تصور ہے وہ تو گردش ارض و مہر و ماہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اجرام فلکیہ کے خلق ہونے اور ان کی گردش مقرر ہونے سے قبل ایام کے کچھ معنی نہیں ہو سکتے۔ اقبال مرد مومن بھی تھا اور مرد حکیم بھی۔ یہ ناممکن تھا کہ ایسا اہم مسئلہ اس کے دماغ میں گردش نہ کرتا رہے اور وہ اس کا حل تلاش کرنے کے لیے مضطرب نہ ہو۔ اپنے انگریزی خطبات میں بھی اقبال نے مسئلہ زمان کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کو مسلمانوں اور انسانوں کے لیے موت و حیات کا سوال قرار دیا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا لطیف اور پیچیدہ ہے کہ اس مختصر سے مقدمے میں اس کے چند اہم پہلوؤں کو واضح کرنا بھی نا ممکن ہے۔ کانٹ جیسے حکیم کبیر نے کہا کہ زمان و مکان دونوں فہم انسانی کے سانچے ڈھانچے ہیں۔ یہ دو رنگی عینک لگا کر انسان کا فہم آفاق کے مظاہر کو علائق و روابط میں منسلک کرتا ہے۔ زمان و مکان دونوں کا وجود نفسی اور اعتباری ہے ماہیت ہستی میں نہ زمان ہے نہ مکان بالفاظ اقبال نہ ہے زمان نہ مکان لا الٰہ الا اللہ اقبال کا خیال بھی کچھ اسی قسم کا تھا چنانچہ پیام مشرق کے ایک قطعے میں فرماتے ہیں کہ:
جہان ما کہ پایانے نہ دارد
چو ماہی در یم ایام غرق است
یہ ہماری نا پیدا کنار دنیا، یہ لامتناہی عالم، مچھلی کی طرح وقت کے سمندر میں تیر رہا ہے، لیکن یہ وقت کا سمندر ہمارے نفس سے خارج کوئی مستقل حقیقت نہیں بلکہ اس کی یہ کیفیت ہے کہ یم ایام دریگ جام غرق است وقت کا یہ دریائے بے پایاں نفس کے کوڑے میں سمایا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اقبال وقت کے مسئلے کو ایسا اہم کیوں سمجھتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ زمان کو ماہیت وجود اور عین خودی سمجھتا ہے، لیکن یہ زمان شب و روز کا زمان نہیں بلکہ تخلیقی ارتقاء کا نام ہے۔ یہ نظریہ زمان وہی ہے جسے برگساں نے بڑے دلنشین انداز میں اپنے نظریہ حیات کا اہم جزو بنایا۔ اقبال خود اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ علامہ نے اپنے بعض علم دوست احباب سے بیان کیا کہ برگساں کا مطالعہ کرنے سے قبل میں حقیقت زماں کے متعلق آزادانہ طور پر یہ تصویر قائم کر چکا تھا اور انگلستان میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں میں نے اس پر ایک مختصر سا مضمون بھی لکھا جس کو میرے پروفیسر نے کچھ قابل اعتنا نہ سمجھا، کیوں کہ بات بہت انوکھی تھی۔ برگساں کے زور و فکر اور قوت استدلال نے اس میں بہت وسعت اور گہرائی پیدا کر دی لیکن اقبال کے کلام کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مسئلے میں برگساں سے کچھ کم نہیں۔ برگساں کا بڑا مداح تھا اور اس کے فلسفے سے اقبال نے فیض بھی حاصل کیا۔
اس سے اقبال کے کلام پر کوئی دھبا نہیں لگتا۔ ایسا بار ہا ہوا کہ بڑے بڑے سائنٹیفک نظریات، فنی ایجادات اور حکیمانہ افکار، ایک ہی زمانے میں، ایک سے زیادہ اشخاص کی طبیعتوں میں سے ابھرے۔ اس کے بعد مورخ اس بات پر جھگڑتے رہتے ہیں کہ اولیت کا سہرا کس کے سر ہے۔ کون موجد ہے اور کون نقال، لیکن اقبال اور برگساں یا اقبال اور نطشے کے متعلق یہ بحث بے کار ہے۔
شعر میں گہرا اور پیچیدہ فلسفیانہ استدلال تو نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہو تو شاعری محض منظوم منطق بن کر رہ جائے اور اپنے فطری تاثر کو کھو بیٹھے۔ اس لیے ’’ الوقت سیف‘‘ کا عنوان قائم کر کے اقبال نے اپنے تصور کے بعض اساسی خطوط کھینچ دیے ہیں۔ ان کی تشریح و تعبیر، سمجھنے والوں اور شارحوں کے لیے چھوڑ دی ہے۔ یہ عنوان اقبال نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول سے حاصل کیا ہے۔ اس کے تحت میں اقبال نے جو اشعار لکھے ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ زمان یا دہر کوئی مجرد یا ساکن حقیقت نہیں بلکہ ایک تخلیقی حرکت ہے۔ ایک حدیث قدسی ہے:’’ لا تسبو الدھر ھرفانی انا الدھر‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمانے کو گالیاں نہ دو کیوں کہ میں زمانہ ہوں۔ علامہ اقبال فرماتے تھے کہ گول میز کانفرنس کے سفر کے دوران میں میں برگساں سے ملا کہ اپنے اس ہم فکر اور ہم طبع مفکر سے تبادلہ خیالات کروں۔ دوران ملاقات میں حقیقت زمان پر گفتگو ہوئی جو اقبال اور برگساں کا واحد مضمون تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے برگساں کو بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دہر کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ فرماتے تھے کہ برگساں سن کر چھل پڑا اور اس کی روح بے انتہا مسرت سے لبریز ہو گئی کہ ایک نبی عظیم کے قلب پر وہی حقیقت وارد ہوئی جسے وہ استدلال اور ذاتی وجدان کی بناء پر دنیا کے سامنے عمر بھر پیش کرتا رہا۔ غرضیکہ اس نظریے کے مطابق دہر خلاق ایک شمشیر ہے جو خود اپنا راستہ کاٹتی ہوئی اور مزاحمتوں کو راستے سے ہٹاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ دہر کی ارتقائی اور خلاقی قوت کبھی کلیم کے اندر کار فرما ہوتی ہے اور کبھی حیدر کرار کے پنجہ خیبر گیر میں اس زمان حقیقی میں دوش و فردا نہیں ہیں، نہ انقلاب روز و شب ہے۔ لوگوں نے زمان کو مکان پر قیاس کر لیا ہے اور یوں سمجھ لیا ہے کہ ایک لامتناہی لکیر ہے جو ازل سے ابد تک کھنچی ہوئی ہے۔ نا فہم انسان وقت کو لیل و نہار کے پیمانوں سے ناپتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا کا وقت ہمارا وقت نہیں، اسی طرح خودی میں ڈوب کر زندگی سے آگاہ ہونے اور زندگی کی قوتوں کو وسعت دینے والے انسان کا وقت بھی ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم شدہ کوئی مکانی انداز کی چیز نہیں۔ خودی کی ماہیت حیات جاوداں ہے:
تو کہ از اصل زماں اگہ نہ
از حیات جاوداں اگہ نہ
زندگی وقت میں نہیں گزرتی بلکہ وقت زندگی کی تخلیقی قوت ہے۔ گردش خورشید سے پیدا ہونے والا وقت مکانی اور مادی وقت ہے۔ حقیقی وقت کا اس سے کچھ تعلق نہیں۔ لیل و نہار کا شکار غلام ہو جاتا ہے۔ زندگی جب مردہ ہو جاتی ہے تو وہ لیل و نہار کا کفن پہن لیتی ہے اور انسان افسوس کرتا ہے کہ عمر گراں مایہ کے اتنے ایام گزر گئے اور گردش ایام مجھے موت کے قریب لے جا رہی ہے۔
اقبال مسئلہ زمان کو اس لیے اہمیت دیتا ہے کہ اس کے ہاں عبد اور حر کی تمیز کا معیار رہی یہی ہے کہ کوئی روح ایام کی زنجیر سے پا پجولاں ہے یا مکانی وقت سے آزاد ہو کر اور حقیقی زمان میں غوطہ لگا کر، تسخیر مسلسل اور خلاقی کا شغل رکھتی ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ ازل سے ابد تک بنی بنائی تقدیر کا تصور بھی زمان کے غلط تصور کی پیداوار ہے:
عبد را ایام زنجیر است و بس
بر لب او حرف تقدیر است و بس
ہمت حر با قضا گردد مشیر
حادثات از دست او صورت پذیر
جس انسان کے ہاتھ میں زمانے کی تلوار ہو وہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کر سکتا ہے۔ زمانے کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک اس کا باطن ہے۔ زمانے کی ظاہری صورت سے موافقت پیدا کرنے والا پست ہمت زمانہ ساز ہوتا ہے۔ مرد جو زمانہ ساز نہیں ہوتا بلکہ زمانے کے ساتھ ستیز کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور اس پیکار میں اس کو کامیابی اسی حالت میں حاصل ہوتی ہے جب کہ حقیقت زمان کی شمشیر اس کے ہاتھ میں ہو:
یاد ایامیکہ سیف روزگار
با توانا دستی ما بود یار
٭٭٭
چودھواں باب
اقبال اپنی نظر میں
اقبال نے حیات و کائنات پر جو وسیع اور گہری نظر ڈالی اس سے پیدا شدہ افکار و تاثرات سے اس کا کلام لبریز ہے لیکن اقبال کی تعلیم و تلقین کا ایک بڑا اہم عنصر چشم بر خویشتن کشادی ہے۔ انسان بدن سے زیادہ ایک نفس ہے اور اس کے ظاہر سے زیادہ اس کا باطن اہم ہے۔ اقبال کے کلام سے شروع سے آخر تک مسلسل ارتقائے فکر پایا جاتا ہے۔ ابتداء میں وہ زیادہ تر ’’ فی کل واد بہیمون‘‘ والا شاعر دکھائی دیتا ہے۔ گرد و پیش کی جس شے سے متاثر ہوتا ہے اس کو فن لطیف کا لباس پہنا دیتا ہے۔ اور خود اپنے اندر جو کیفیت محسوس ہوتی ہے، اعلیٰ ہو یا ادنیٰ، صلحا و حکما و عباد کے نزدیک مستحسن ہو یا مشتبہ، سب کو من و عن ببانگ دہل، یا لطافت کے لحاظ سے یوں کہیے کہ بہ بانگ چنگ نغموں میں منتقل کر دیتا ہے۔ اگرچہ یہ نغمے جا بجا فریاد کی لے سے بھی خالی نہیں ’’ کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس فریاد ہے‘‘ ہر شاعر اپنی شاعری میں متعلق بہت کچھ کہتا ہے کبھی براہ راست اور کبھی ’’ گفتہ آید در حدیث دیگراں ‘‘ لیکن دنیا عام طور پر شاعروں کے اپنے متعلق بیان کا اعتبار نہیں کرتی۔ نہ صرف اس لیے کہ کبھی وہ کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ اور ہمارے ہاں کے عام بلکہ بعض خاص غزل نویس تو ایک ہی غزل کے مختلف اشعار میں فکر و تاثر کے تضاد کی پروا نہیں کرتے۔
صدیوں سے ہماری شاعری، جس میں ہم فارسی اور اردو شاعری دونوں کو شامل کرتے ہیں، خلوص اور حقیقت سے عاری رہی ہے۔ قصابر کا دفتر تو دروغ بافی کا ایک طومار ہے۔ ان میں تمام صناعی کے محور خوشامد اور مبالغہ ہیں۔ اس طومار میں کہیں فن برائے فن ہے اور کہیں فن برائے زر۔ ایسی شاعری میں شاذ و نادر ہی اپنی زندگی پر حقیقت طلب نگاہ ڈالی گئی ہے۔ شاعر فقط اپنے انداز بیان اور ندرت صنعت کی داد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نہ اس کو اس سے غرض ہے کہ وہ اپنے یا دوسروں کے متعلق سچ کہہ رہا ہے یا نہیں اور نہ اس سے واسطہ کہ جن جذبات و تاثرات کو وہ فن لطیف کا جامہ پہنا رہا ہے وہ واقعی محسوس کردہ ہیں یا تکلیف و تصنع کا نتیجہ ہیں اس لیے کوئی سخن فہم یا نقاد سنجیدہ طور پر اسے قابل غور نہیں سمجھتا کہ شاعر نے اپنے متعلق کیا کیا کہا ہے۔ کئی شعرا نے تصوف کے افکار و جذبات سے اپنے کلام میں لطف پیدا کیا، لیکن وہ اپنی زندگی میں عشق الٰہی سے کوسوں دور تھے۔ ایسوں ہی کے متعلق شیخ علی حزیں کا قول درست ہے کہ ’’ تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘
اسی طرح عشق مجازی کے احوال و معاملات سے ہمارے اکثر شعراء کے دیوان بھرے پڑے ہیں، لیکن ان میں بہت سے ایسے ہیں کہ کبھی عشق مجازی کے قریب نہیں پھٹکے۔ ہوس پرستی کی شاعری میں ذوق کی صناعی دیکھئے، لیکن اس کی زندگی میں کہیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کبھی جنسی عشق کی گرفت میں آیا ہو۔ اس کی صناعی خود اس کی غماز ہے کہ یہاں محض فن برائے فن ہے اور بیان عشق کی تہ میں کوئی جذبہ کار فرما نہیں۔ ا میر مینائی کو دیکھئے کہ تہجد گزار، تسبیح بدست عابد و زاہد، نہ جنس لطیف سے واسطہ اور نہ ہم جنسوں کے کسی قدر غیر فطری عشق سے کوئی تعلق، لیکن محض صناعی کی داد لینے کے لیے برہنہ گوئی اور فحش نگاری سے بھی گریز نہیں۔ شراب کے قطرے سے کبھی زبان آلودہ یا لطف اندوز نہیں ہوئی مگر غزلوں میں پکے شرابی بن رہے ہیں اور شراب بھی وہی افشردۂ انگور، ام الخبائث جس پر کبھی صہبائے عشق الٰہی کا دھوکا نہ ہو سکے۔ بعض شعراء ایسے ہیں کہ ان کا واحد مضمون خمریات ہی ہے۔ جام و مینا و خم کی جزئیات، سکر کی نفسی کیفیات، ان کی تعریف و توصیف، کمال درجے کی نکتہ آفرینی اور ترغیب شراب نوشی، لیکن اصل زندگی میں زاہد و پاکباز انہیں وجوہ سے ہماری شاعری میں یہ ایک روایت پیدا ہو گئی کہ شاعر جو کچھ اپنے متعلق کہتا ہے اس پر نہ اعتبار کرو۔ کیوں کہ اس بیان کا کچھ تعلق ان کے حقائق نفسی سے نہیں ہوتا۔ اقبال کو پھر اگر کوئی شخص اسی قسم کا شاعر سمجھ لے تو اقبال اپنی نظر میں ایک بے حقیقت عنوان بن جاتا ہے۔ لیکن اقبال کی روش شروع سے ہماری روائتی شاعری سے الگ رہی ہے۔ غالب تک بھی محض لطف بیان کو وظیفہ فن لطیف سمجھتا ہے اور شاعری کا کام کبھی مضمون آفرینی قرار دیتا ہے اور کبھی کہتا ہے کہ ’’ نگویم اگر نغز نباشد‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہار حقیقت نہیں بلکہ محض نغز گوئی اس کا مطمع نظر ہے۔
اقبال کی شاعری میں شروع ہی سے خلوص نظر آتا ہے۔ جو کچھ محسوس کرتا ہے وہی کہتا ہے اور جب تک طبیعت پر کوئی تاثر طاری نہیں ہوتا، وہ نہ دوسروں کے تقاضے سے شعر کہتا ہے اور نہ صناعی کے شوق سے شعر کہنا تو درکنار جب تک طبیعت میں خاص کیفیت موجود نہ ہو وہ کسی کے تقاضے سے شعر سناتا بھی نہیں۔ فن میں خلوص کا یہ کمال ہمارے شعراء میں الشاذ کالمعدوم ہے۔ حیات و کائنات کے متعلق اقبال کے افکار و تاثرات بہت کچھ بیان ہو چکے ہیں لیکن یہ بیان تشنہ رہ جاتا ہے اگر اس کے ساتھ ہی اس کا جائزہ نہ لیں کہ حکیمانہ اور الہامی شاعری کے علاوہ یہ صاحب کمال شخص وقتاً فوقتاً خود اپنے اوپر نظر ڈال کر اپنی کیفیت کس طرح بیان کرتا ہے۔ اقبال ان شعراء میں سے نہیں ہے جن کے فن کو ان کی زندگی سے کوئی قریبی رابطہ نہیں ہوتا۔ اس کے کلام کا زیادہ تر حصہ حیات و کائنات کے مظاہر و حوادث پر اس کے اپنے نفس کا رد عمل ہے۔ اس کے نظریات حیات اس کی اپنی نفسی کیفیات کے ساتھ وابستہ ہیں۔
ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ شعراء کے اپنے بیان ذات و صفات پر لوگ اس لیے اعتبار نہیں کرتے کہ ان میں کچھ ہم آہنگی نہیں ہوتی اور خلوص کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ اگر کوئی کامل یک آہنگی اقبال میں بھی ڈھونڈے، جس کے اندر کوئی داخلی تضاد نظر نہ آئے تو اسے طلب میں مایوسی ہو گی۔ اقبال بھی اپنے متعلق مختلف حالات اور کیفیات میں متضاد باتیں کرتا ہے، لیکن یہ تضاد مصنوعی یا وہمی نہیں ہوتا۔ زندگی میں کامل یک آہنگی تو شاید کسی کو بھی نصیب نہ ہوتی۔ یہ ایک کمالی نصب العین ہے اور جو اس کے حصول کے مدعی ہیں وہ یا دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں یا خود دھوکا کھائے ہوئے ہیں۔ کم و بیش اندرونی پیکار اور مختلف میلانات میں کش مکش، ہمیشہ انسانی زندگی میں موجود رہتی ہے۔ برگزیدہ انسانوں کے متعلق اگر یہ درست ہے کہ:
گہے بر طارم اعلیٰ نشینم
گہے بر پشت پاے خود نہ بینم
تو عام انسانوں کے اندر، جنہیں انبیاء و اولیاء کا مرتبہ حاصل نہیں، یہ کیفیت اور بھی زیادہ تضاد آفرین ہوتی ہے۔ اقبال کو اخیر عمر میں بعض معتقدوں نے عابد و زاہد، عارف و ولی یا مجدد عصر سمجھنا شروع کیا، لیکن اقبال کی طبیعت میں اس قدر شناسی نے کچھ مغالطہ پیدا نہ کیا۔ وہ آخر تک معتقدوں کے اس مغالطے کو رفع کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اس پوجا سے بچنے کے لیے اپنی کمزوریوں کو طشت از بام کرتا رہا۔ اس پر بعض معتقدوں نے یہ نظریہ قائم کیا کہ یہ عارفانہ کسر نفسی کا مظاہرہ ہے اور ایک مشہور شخص نے یہ کہا کہ حضرت اقبال صوفیہ کے فرقہ ملامتیہ میں داخل ہیں، جو ستائش خلق کی آفت سے بچنے کے لیے خواہ مخواہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کرتے ہیں۔ کہ لوگ انہیں عاصی یا رند سمجھیں۔
اقبال نے اپنے انداز تفکر و تاثر کو کس کس طرح بیان کیا ہے اسے پہلے اس کے ابتدائی کلام میں تلاش کرنا چاہیے۔ بانگ درا میں ’’ گل رنگیں ‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی فطرت کا خارجی فطرت سے مقابلہ کیا ہے۔ سوز و ساز آرزو، جو ترقی یافتہ کلام میں اس کا موضوع خاص بن گیا اور جس کے لیے آخر میں اس نے عشق کی اصطلاح کو مخصوص کر لیا، وہ ابتداء میں بھی موجود ہے۔ اس لیے کہ اقبال کی فطرت کا اصلی جوہر یہی تھا جو ارتقاء کی ہر منزل میں نمایاں ہے۔ پھول کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو بڑا مطمئن خود مست اور بے پروا معلوم ہوتا ہے۔ زندگی کی شورش اور کشاکش سے تجھے فراغت حاصل ہے جو میرے لیے باعث رشک ہے:
تو شناسائے خراش عقدۂ مشکجل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
اس سے آگے چل کر وہ اس اطمینان کو قابل رشک نہیں سمجھتا اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے، جسے وہ ابھی پورے یقین کے ساتھ پیش نہیں کرتا، کہ تو مطمئن ہے اور میں مثال بو پریشاں اور زخمی شمشیر ذوق جستجو، بظاہر یہ بے اطمینانی تو خواہ مخواہ کی سزا معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کا بھی احتمال ہے کہ انسان کا نصب العین جس انداز کی جمعیت خاطر ہے، وہ اضطراب و جستجو اور سوز و ساز ہی کے وسیلے سے پیدا ہوتی ہے اور شاید حکمت کا سرچشمہ بھی یہی بیتابی ہو:
یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایہ قوت نہ ہو
رشک جام جم مرا آئینہ حیرت نہ ہو
یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے
تو سن ادراک انسان کو خرام آموز ہے
دیکھئے کہ آخر میں ایک مخصوص نظریہ حیات کی تلقین کرنے والا اقبال اس ابتدائی نظم میں بھی موجود ہے۔ اقبال کے آخری کلام کے اشجار مثمر کے بیج ان اشعار میں موجود ہیں۔
خفتگان خاک سے جو سوالات پوچھے ہیں وہ اقبال کی اپنی زندگی کا نقشہ ہے۔ انداز استہفام میں اپنی تمام دلی آرزوئیں بھی بیان کر دی ہیں، لیکن یہ دور حیرت و تذبذب ہے۔ ابھی اقبال کو دانائے راز ہونے کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ حیات بعد الموت کے متعلق کوئی یقینی تصور نہیں۔ زندوں سے اسرار کی گرہ کشائی نہ ہوئی تو اب اس دنیا کی طرف گئے ہوئے لوگوں سے پوچھتا ہے:
تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے
اپنے وطن اور اپنی ملت میں اخوت اور وحدت کا فقدان اس کے لیے سوہان روح ہے۔ جب تک اس وطن میں وحدت مقصد اور مودت پیدا نہ ہو یہ غلام ہی رہے گا۔ اس شدت احساس نے اس سے وطنیت پر ولولہ انگیز نظمیں لکھوائیں۔ ابھی تک اس کا یہی خیال تھا کہ مذاہب تو نفاق انگیزی ہی پر تلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ مذہب کی حقیقت افزونی محبت ہے، لیکن ہندوستان میں مذاہب اور مذاہب کے فرقوں اور ذات پات نے خلیجیں اور نفرت پیدا کر رکھی ہے۔ اقبال کا حساس دل اس سے جلتا ہے اور مایوسی میں خود کشی کرنے کو آمادہ ہوتا ہے:
چل رہا ہوں، کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے
سر زمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا، یاں تو اک قرب فراق آمیز ہے
ایسی قوم میں اس کو اپنی شاعری بھی بے کار معلوم ہوتی ہے اور وہ نغمہ پیرائی سے بھی بیزار ہو جاتا ہے:
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں
ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
روح کے اندر گہرائی جلوت میں نہیں بلکہ خلوت میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی ذوق نے بعض اہل دل کو راہب بنا دیا۔ جب مخلوق میں اس ذوق کی پرورش نہیں ہوتی تو طبیعت گریز کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اقبال نے کبھی صحرا و کوہسار کی طرف گریز نہ کیا، لیکن اس آرزو کی جوہر طبیعت میں پیدا ہوئی، اس کو ایک آرزو والی نظم میں بیان کر دیا۔ تخیل میں اس خلوت اور فطرت سے ہم آہنگی کا لطف اٹھایا، اگرچہ یہ خواب کبھی زندگی میں شرمندۂ تعبیر نہ ہوا:
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
آزاد فکر سے ہوں، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا کانٹا دل سے نکل گیا ہو
اس دور میں ابھی ملت اسلامیہ اقبال کی نظر گاہ اور اس کا محور فکر نہیں بنی۔ ابھی اس کی طبیعت تمام فطرت اور تمام نوع انسان کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کی آرزو مند ہے۔ بعد میں اپنی ملت کو بیدار کرنے میں اپنی تمام قوت صرف کرنے سے اقبال تنگ نظر نہیں ہو گیا۔ یہ وسعت آخر تک اس کے کلام میں جھلکتی ہے، لیکن ملی شاعری میں اس نے اپنی شعاعوں کو شعلہ انگیزی کے لیے جذبہ مل میں مرتکز کر دیا ہے۔ عقل سلیم کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اصلاح اپنے گھر سے شروع ہونی چاہیے۔ ’’آفتاب صبح‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی آرزوئیں بیان کر جاتا ہے۔
ملتوں کے متعلق ابھی اس کا زاویہ نگاہ صوفیانہ ہی معلوم ہوتا ہے:
جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند
(حافظ)
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
(غالب)
ملتوں کی جنگ نہ ہندوستان کو متحد ہونے دیتی تھی اور نہ آزاد ملتوں کو صلح کی طرف مائل کرتی تھی۔ اس لیے ہر صلح جو انسان کی طرف اقبال کے دل میں بھی یہ جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ وہ جہاں بینی اور یک بینی کے لیے چشم آفتاب کا طالب ہے اور سورج کو مخاطب کر کے کہتا ہے:
شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی پھر قید زنجیر تعلق میں رہے
زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے
آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے
آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو
بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں
نوع انسان قوم ہو میری، وطن میرا جہاں
دیدۂ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں
ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں
عقدۂ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے
جس طرح پھول کے اطمینان پر پہلے اظہار رشک کر کے آخر میں کہا کہ نہیں ہماری بیتابی اس اطمینان سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتی ہے، اسی طرح آفتاب کو بھی آخر میں کہتا ہے کہ ہماری جستجو کی بدولت ہمیں شاید تیری بصارت سے زیادہ بصیرت حاصل ہو۔ یہ حیرت و استفہام جو تجھ میں نہیں اور مجھ میں ہے، اسی وجہ سے مجھ پر افشائے راز قدرت ہو گا:
آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلیٰ ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے
کس قدر لذت کشود عقدۂ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے
درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں
جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں
آخر تک اقبال نے زندگی کو جستجو اور آرزو ہی سمجھا اور اس کا آرزو مند رہا کہ یہ مرحلہ شوق کبھی طے نہ ہو۔ سید کی لوح تربت کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں بھی اقبال اپنا مقصود حیات اور لائحہ عمل سید کی زبان سے بیان کر رہا ہے:
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جواب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ
اقبال نے جو لائحہ عمل ابتداء میں اپنے لیے تجویز کیا تھا آخر تک اس پر عمل کیا ہے۔ اسلامی فرقوں کی لا طائل بحثوں میں اقبال کبھی نہیں پڑا۔ فقیہانہ مناظرہ اس نے کبھی نہ کیا اور بے شمار لا حاصل پرانی داستانیں، جو مسلمانوں کا سرمہ ادب اور گنجینہ مواعظ بن گئی ہیں ان کو اقبال نے یک سر ترک کر دیا۔
اقبال نے اپنے کلام میں جا بجا اپنی سیرت اور میلانات کا تجزیہ کیا ہے لیکن کچھ نظمیں ایسی ہیں جن میں عام محاورے کے مطابق اپنا کچا چٹھا پیش کر دیا ہے۔ بانگ درا میں زاہد اور رندی کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں بظاہر ایک مولوی صاحب اقبال کے اندر متضاد نما میلانات دیکھ کر اور اس کی سیرت ناقابل فہم سمجھ کر، معترضانہ انداز میں بات کر رہے ہیں، لیکن اقبال نے مولوی صاحب کے بیان میں سے کسی بات کی تردید نہیں کی۔ مولوی صاحب نے جو کچھ کہا وہ نوجوان اقبال کی زندگی میں کلا یا جزا موجود تھا۔ اقبال کے خلوص اور صاف گوئی کی داد دینی چاہیے کہ سب کچھ سن کر مولوی صاحب سے اتفاق ہی کیا کہ واقعی یہ سب باتیں یک جا میری زندگی اور میری طبیعت میں موجود ہیں۔ میں خود بھی ابھی اپنی حقیقت سے شناسا نہیں ہوں :
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تسمخیر نہیں واللہ نہیں ہے
اقبال نے خود اپنے آپ کو اس نظم میں رند کیا ہے۔ رند کے صفات جو فارسی میں اور اردو ادب میں ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ ظواہر میں شریعت کا پابند معلوم نہیں ہوتا۔ عاشق مزاج ہے۔ تنگ و نام کی پروا نہیں کرتا۔ اس کی طبیعت میں مکروہات سے کچھ گریز دکھائی نہیں دیتا۔ اقبال کی زندگی میں دور شباب میں ان تمام صفات کا شائبہ موجود تھا۔ جو باتیں مولوی صاحب نے کہیں وہ یہ ہیں کہ ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔ یہ درست بات تھی اس نے موحد اور صوفی منش ہندوؤں کی تعریف میں نظمیں لکھی ہیں اور آخری دور میں بھی برتری ہری کا دل سے مداح تھا اور اسے عارف سمجھتا تھا۔ مولوی صاحب نے یہ بھی کہا کہ اقبال کی طبیعت میں تشیع بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کا مذہب حضرت علی ؓ کی فضیلت کے بارے میں تفصیلی معلوم ہوتا ہے یہ بات بھی غلط نہ تھی اس دور میں طبیعت کا یہی میلان تھا۔ بعض حضرات نے تو اس کو آخر میں بھی شیعہ ہی سمجھا ہے اور اہل بیت کی محبت میں اس نے جو اشعار کہے ہیں ان کو ثبوت میں پیش کر دیتے ہیں، لیکن اہل بیت کی محبت تو شیعہ، سنی سب کے دلوں میں برابر ہے خواہ اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہوں۔ ایام شباب کی ایک نظم میں اقبال کا ایک شعر تھا جو انہوں نے بعد میں ساقط کر دیا، جس میں کمال درجے کا غلو ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پرستش خدا کی طرح کی جائے اور حضرت علیؓ کو نبی کا رتبہ دے دیا جائے:
نجف میرا مدینہ ہے، مدینہ ہے مرا کعبہ
میں بندہ اور کا ہوں امت شاہ ولایت ہوں
بعض اوقات اقبال جیسا محتاط شاعر بھی جوش اور غلو میں کیا کیا کہہ جاتا ہے، جسے بعد میں اس کی عقل سلیم رد کر دیتی ہے، لیکن تمام عمر میں اقبال نے شیعیت کو کسی رنگ میں بھی درست نہیں سمجھا۔ ایام شباب کی یہ ہلکی ہلکی لہریں پھر اس کے دریائے طبیعت میں کبھی ابھرتی ہوئی دکھائی نہیں دیں۔ مولوی صاحب کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ اقبال کو موسیقی سے رغبت ہے۔ یہ بھی صحیح بات تھی۔ شعر میں موسیقی سموئی ہوئی ہے۔ کون تلمیذ الرحمن شاعر ایسا ہو سکتا ہے جس کی روح میں موسیقی موجود نہ ہو۔ اقبال اچھا گانا سننے کے شائق تھے اور خود بھی اچھے سروں میں گا سکتے تھے۔ لیکن بقول عارف رومی:
بر سماع راست ہر کس چیر نیست
طعمہ ہر مرغکے انجیر نیست
ایام شباب میں اقبال کو رقص و سرود کی محفلوں سے گریز نہ تھا اور ان کے ایک دوست جو ابھی تک بقید حیات ہیں، اپنے گھر پر اس کا انتظام کرتے تھے لیکن یہی طوائفوں کا گانا سننے والا اقبال گانا سنتے سنتے کسی اور عالم میں بھی گم ہو جاتا تھا اور علی الصباح بڑے سوز و گداز سے قرآن کی تلاوت کرتا تھا:
رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوف کی، تو منصور کا ثانی
اقبال کی طبیعت میں اس دور میں رندی، تصوف اور حکمت باہم بر سر پیکار تھے۔ کسی دوسرے ظاہر پرست ملا کی زبانی اقبال نے اس تضاد کا پورا نقشہ دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ یہ سب باتیں مجھ میں موجود ہیں، اب آپ کا جو جی چاہے میری نسبت رائے قائم کر لیجئے لیکن اقبال ابھی خود اپنے آپ کو نہیں سمجھتا تو دوسرا اسے کیا سمجھے گا۔
اقبال کی شاعری کا شہرہ یک بیک بہت عالم گیر ہو گیا۔ اس کے افکار میں جدت تھی، طرز کلام میں لذت تھی، اعلیٰ درجے کے قوی اور روحانی جذبات اور حکمت کے جواہر ریزے اس کے اشعار میں بکھرے پڑے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اشعار ایسے ترنم سے پڑھتے تھے کہ سننے والوں کی روح وجد میں آ جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں نے ان کی نقالی شروع کر دی، لیکن کہیں بھی نقل اصل کو نہ پہنچ سکی۔ کثرت سے نوجوان اس کی لے میں شعر پڑھنے لگے۔ اس کیفیت کے متعلق اقبال نے تصویر درد میں اشارہ کیا ہے:
اٹھائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
حسن اور عشق تو شاعر اور شاعری کا خمیر ہیں۔ خواہ وہ عشق الٰہی ہو، خواہ عشق عالم، خواہ عشق آدم۔ یہ جواہر اقبال کی طبیعت اور اس کے کلام میں شروع میں بھی نمایاں ہے وسط میں بھی اور دور آخر میں بھی۔ آخر میں تو شراب دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو گئی ہے۔ لیکن ایام شباب میں اقبال کا ذوق سلیم بھی حسن و عشق کی کشش سے کچھ کم نہ تھا۔ مشرقی تہذیب و ادبیات کو وہ ایک مشرقی استاد کامل مولانا میر حسن سے حاصل کرتا ہے اور مغربی فلسفہ آرنلڈ جیسے باکمال مغربی استاد سے۔ مولانا میر حسن کی شان میں اقبال کی کوئی مستقل نظم نہیں، لیکن دل میں اس استاد سے عقیدت ہمیشہ استوار رہی۔ آرنلڈ کے لاہور سے رخصت ہوتے ہوئے کیا حسرت ناک اشعار لکھے ہیں۔ اس دور میں اقبال ابھی تک مغرب اور مغربی فلسفے سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ ابھی تک وہ اس سے حقیقت رسی کی امید رکھتا تھا۔
اولیاء کرام سے اقبال کی عقیدت کچھ اسے ورثے میں ملی تھی اور کچھ اس کی اپنی طبیعت اور نظریہ حیات کی بدولت تھی۔ یورپ جاتے ہوئے درگاہ حضرت محبوب الٰہی پر عقیدت کے جو پھول چڑھائے ہیں وہ التجائے مسافر کی نظم میں موجود ہیں۔ اس دور میں اقبال کو اپنے اندر دو قسم کے احساسات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک احساس یہ ہے کہ ارباب علم اور اہل دل سے فیض حاصل کرنا چاہیے، خواہ وہ مشرق میں ہوں، خواہ مغرب میں۔ کوئی امتیاز ملت نہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی احساس بھی ہے کہ فکر و نظر کے لحاظ سے کچھ تنہا ہی ہوں۔ مجھے اپنا راستہ خود تلاش کرنا پڑے گا:
تراش از تیشہ خود جادۂ خویش
براہ دیگراں رفتن عذاب است
اس احساس نے کبھی کسی دور میں اقبال کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ابتدائی غزلوں میں ایک یہ شعر ملتا ہے:
کارواں سے نکل گیا آگے
مثل آوازہ درا ہوں میں
کسی اور شاعر کا اسی انداز کا شعر ہے:
از آنکہ پیروی خلق گمرہی آرو
نے رویم بہ راہے کہ کارواں رفتہ است
یورپ جاتے ہوئے فرنگ سے حصول علم کی تمنا کا اظہار بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ کسی استاد کی شاگردی اور دوسروں سے اکتساب کے باوجود مجھے جو کچھ حاصل ہے یا ہو گا وہ اس مبدء فیاض سے ہو گا جس سے براہ راست فیضان کی توقع ہے:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
نظر ہے ابر کرم پر، درخت صحرا ہوں
کیا خدا نے نہ محتاج باغبان مجھ کو
اس کے بعد وہ آرزوئیں ہیں جو اقبال کی سیرت اور اس کے مقصود حیات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ الٰہی! مجھے ایسا نردبان عطا ہو کہ میں خاک سے افلاک کی طرف عروج کر سکوں۔ اپنے ہم سفروں سے اس قدر آگے ہو جاؤں کہ قافلے والے مجھے منزل مقصود سمجھ لیں۔ میری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے۔ دلوں کو چاک کرنے والی فغاں مجھے عطا ہو۔ اس کے آگے مادر و پدر کی محبت، جس نے اقبال کی جسمانی اور روحانی پرورش کی، اس کا موثر بیان ہے۔ اپنے برادر بزرگ کے متعلق اظہار تشکر ہے جس کی شفقت اقبال پر مادر و پدر سے کم نہ تھی۔ مولانا میر حسن کے فیضان اور احسان کا بھی اقرار ہے۔ اقبال اپنے تئیں بندہ شاکر سمجھتا تھا اور در حقیقت یہ اس کی طبیعت کا ایک قابل قدر عنصر تھا:
وہ شمع بارگہ خاندان مرتضویٰ
رہے گا مثرل حرم جس کا آستاں مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
اقبال خود اپنی سیرت کے متعلق کیا رائے رکھتا ہے اس کا ثبوت جا بجا اس کی آرزوؤں سے ملتا ہے اور یہ نفسانی حقیقت ہے کہ ہر سیرت کی مخصوص تعمیر مخصوص آرزوؤں سے ہوتی ہے۔ ہر انسان کی اصلیت وہی ہے جو اس کی آرزوؤں کی ماہیت ہے۔ ا گرچہ یہ ہو سکتا ہے کہ خارجی حوادث اور باطنی مزاحمتیں ان میں بعض کو وجود کا جامہ نہ پہنا سکیں۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں 1؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1؎ اس شعر کی اقبال کی اپنی شرح ایک صاحب کے سوال کے جواب میں پہلے درج ہو چکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
اس دور میں مسلسل خود اپنی حقیقت کی تلاش میں ہے:
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
اقبال کو فطرت نے مقلد بنایا تھا اور نہ ظاہر پرست۔ وہ کورانہ تقلید سے ہمیشہ گریزاں رہا آخر تک اس کا یہی عقیدہ رہا کہ حقیقت رسی خواہ علم کی بدولت حاصل ہو اور خواہ عشق کا فیضان ہو، تقلید سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ وہ جب واعظ اور صوفی کی روایتی اور تقلیدی زندگی پر اعتراض کرتا ہے تو در حقیقت ان کے مقابلے میں اپنی سیرت کو پیش کر رہا ہے جو تقلید سے گریزاں اور تحقیق کی طرف مائل ہے۔
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زبان پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بیجا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے
مقطع میں واعظ سے بغض للہ کو ایک عجیب شوخ انداز میں پیش کیا ہے:
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
عالم شباب میں جب عشق مجازی اور کسی حسین کی کوشش کو محسوس کرتا ہے تو اس کو چھپاتا نہیں۔ کسی دور میں بھی اپنی طبیعت کے کسی میلان اور کسی جذبے کو چھپانا اقبال کا شیوہ نہ تھا۔ اس نے کبھی لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو زاہد و عابد بنا کر پیش نہیں کیا۔ ایک روز مجھ سے فرمانے لگے کہ ریا میری فطرت میں نہیں۔ اگر میں دنیا داری میں ریاکاری کی کوشش بھی کروں تو کبھی کامیابی سے اس کو نبھا نہ سکوں۔ شبابی عشق کی عاشقانہ نظمیں بانگ درا کے مجموعے میں موجود ہیں، جن سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس کی فطرت زندگی کے تجربے سے محروم نہیں رہی۔ ’’ در عنفوان جوانی چنانچہ انند دانی‘‘ یہاں بھی موجود ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے ایک شعر میں کہا ہے کہ میں اپنی زندگی کی تمام روئداد ’’ افتد دانی کے سوا‘‘ سنانے کو تیار ہوں۔ مگر اقبال ان واقعات کو نظم میں بھی بیان کرتا ہے اور گفتگو میں بھی احباب سے اس کا تذکرہ کرنے میں دریغ نہیں کرتا:
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے
خوبی قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے
نامرادی محفل گل میں مری مشہور تھی
صبح میری آئنہ دار شب دیجور تھی
اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں
اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں
ہماری روایتی شاعری میں عاشقوں نے ہمیشہ معشوقوں پر ہرجائی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ حالانکہ ہوس پرستی میں عاشق بھی معشوقوں سے کم ہرجائی نہیں ہوتے۔ لیکن شعر کہنے والے عاشق ہیں اور ’’ قلم در کف دشمن است‘‘ محبوبوں کی بے وفائی کا رونا روتے ہیں، مگر اپنے ہرجائی ہونے کا ذکر نہیں کرتے۔ کبھی کبھار کوئی شاعر صرف واسوخت میں انتقاماً کہہ جاتا ہے کہ:
تو جو ہرجائی ہے اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
لیکن اقبال کی راست بیانی کی داد دیجئے کہ اس نے اپنے ’’ عاشق ہرجائی‘‘ ہونے پر ایک مستقل نظم لکھ ڈالی ہے۔ زور شور سے اس کا اقرار کیا ہے۔ اگرچہ اس صفت کے لیے صوفیانہ اور حکیمانہ جواز پیدا کرنے کی بھی دلکش کوشش کی ہے:
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آسانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟
جیسے کسی نبی صادق کی صداقت کا ایک قاطع ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی کسی کمزوری، یا بتقاضائے بشریت ادنیٰ لغزش کو بھی ہمیشہ کے لیے تمام جہاں پر چشت از بام کر دے، اسی طرح ایسی شاعری کا بھی یہی شیوہ ہے جسے جزو پیغمبری کہتے ہیں کہ ننگ و نام سے بے پروا ہو کر شاعر پر جو واردات گزری ہے، اسے فن لطیف کے سانچے میں ڈھال کر بقائے دوام بخش دے۔ اقبال نے بھی یہی کیا، تاکہ لوگ اسے بعد میں شروع سے آخر تک زاہد و عابد اور صوفی و مجدد ہی نہ سمجھ لیں۔ زندگی کے تمام مراحل سے گزرنے والا حقائق نفس انسانی کے متعلق زیادہ بصیرت حاصل کر سکتا ہے اور بہتر قسم کا مجدد بن سکتا ہے۔ عشرت امروز میں اپنے شباب کی کیفیت اور شباب کے نظریہ حیات:
با بر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کو کیا عمدگی سے کھول کر بیان کیا ہے:
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور
نہ کھینچ نقشہ کیفیت شراب طہور
مجھے فریفتہ ساقی جمیل نہ کر
بیان حور نہ کر ذکر سلسبیل نہ کر
شباب آہ کہاں تک امیدوار رہے
وہ عیش عیش نہیں جس کا انتظار رہے
عجب چیز ہے احساس زندگانی کا
عقیدہ عشرت امروز ہے جوانی کا
یورپ میں عملی زندگی کی گہما گہمی اور ہر سمت میں اہل فرنگ کی جدوجہد کا اقبال نے جب اپنی ملت کی معاشرت سے مقابلہ کیا تو وہ اس کو نہایت خفتہ اور انفعالی نظر آئی۔ پڑھے لکھے مسلمانوں بلکہ ان پڑھوں میں بھی ہمارے ہاں شاعروں، متشاعروں اور تک بندوں کی جو کثرت ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائی جاتی۔ شاعر مغرب میں بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن لاکھوں میں ایک۔ یہاں پر تو یہ صنعت گھر گھر پھیلی ہوئی ہے۔ مغرب میں اقبال کے دل میں یہ خیال گزرا کہ کام کرنے والی قوموں میں یہ وبا نظر نہیں آتی۔ اگر ملت خفتہ کو عمل پر آمادہ کرنا ہے تو اس شغل بے کاری سے اس کا رخ پھیرنا چاہیے اور مثال قائم کرنے کے لیے خود بھی یہ ارادہ کیا کہ شاعری ترک کر دوں۔ یہ قصہ ان کے دوست سر عبدالقادر مرحوم نے بیان کیا ہے۔ اقبال ایک ہنگامہ جذبے میں یہ بھول گیا کہ ایک قسم کی شاعری قوموں کے انحطاط کا مظہر اور ان کی قوتوں کو سلا دینے والی ہوتی ہے۔ لیکن ایک دوسری قسم کی شاعری جس کی کمال درجے کی اہلیت اس میں موجود تھی، قوموں کے لیے پیام حیات بھی ہو سکتی ہے۔ تھوڑے عرصے تک اقبال اپنے خاص مشن سے غافل ہو گیا، لیکن پھر اس کی فطرت نے اندر سے بڑے زور شور سے پکارا:
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا
اب وہ سنبھل گئے اور اس حقیقت کو پا گئے کہ قوموں کو بیدار اور خود دار بنانے کے لئے حکمت و ہمت اور ضمیر فطرت سے ابھرنے والی شاعری ایک زبردست آلہ ہے۔ جس دوست سے شاعری کے ترک کرنے کا ذکر کیا تھا اب اسی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ:
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
ٹینی سن نے کیا خوب کہا ہے کہ جس شاعری سے ملت کے دل قوی ہوں وہ خود ایک زبردست عمل ہے:
شاعر دلنواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری
اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے
خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری
گلشن دہر میں اگر جوئے مے سخن نہ ہو
پھول نہ ہو کلی نہ ہو سبزہ نہ ہو چمن نہ ہو
رات اور شاعر کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس میں شاعر کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ اقبال کی اپنی کیفیت ہے:
میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں
عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے
دیکھنے والی جو ہے آنکھ کہاں سوتی ہے؟
ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں
اقبال کو جن لوگوں نے فرقہ ملامتیہ کا ایک فرد قرار دیا ہے ان کو اپنے اس نظریے کا ثبوت سب سے مضبوط اس نظم میں مل سکتا ہے جس کا عنوان ہے نصیحت اس میں ایک ریا کار لیڈر کا نقشہ کھنچا ہے اور اپنے آپ کو تمام بیان کردہ صفات مذمومہ سے ملوث کر دیا ہے۔ مگر اس نظم کا انداز اس قسم کا ہے کہ اقبال کے کہنے کے باوجود کوئی شخص یہ دھوکا نہیں کھا سکتا کہ یہ خود حضرت اقبال کی سیرت اور اعمال کا نقشہ ہے۔ ایک دلکش شاعرانہ انداز بیان ہے اقبال کے زمانے میں بھی سیاسی لیڈر ایسے ہی تھے اور اب بھی قوم کی بد قسمتی سے ایسی ہی سیرت کے مالک قوم کی رہبری کے مدعی ہیں اور انگریز سیاسی لیڈروں کے انتخاب کا جو طریقہ چھوڑ گیا ہے جب تک اس میں کوئی انقلابی تبدیلی واقع نہ ہو، قوم کی قسمت کی باگیں اسی قسم کے ریاکاروں اور مجرموں کے ہاتھوں میں رہیں گی۔ الا ماشاء اللہ کچھ اللہ کے مومن، خلوص کیش اور ایثار پیشہ لوگ اب بھی کبھی کبھی صاحب اقتدار اور ارباب حل و عقد ہو جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ ان کے نیک ارادے اور مخلصانہ اعمال حسب دل خواہ نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔ اقبال نے ان رہزن رہنماؤں کے صفات جو بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کی رہبری کا دعویٰ ہے اور اسلام اسلام پکارتے ہیں لیکن نماز روزہ غائب۔ دل میں لندن کی ہوس، لب پہ ذکر حجاز، سرکاری کاموں کے سلسلے میں یا جھوٹ موٹ یوں ہی سرکاری کام پیدا کر کے فرنگ اور امریکا کے دس چکر لگاتے ہیں۔ ساحل حجاز کے قریب سے گزرتے ہیں لیکن کسی کو حج یا عمرہ کی توفیق نہیں ہوتی۔ اپنے ہر دروغ کو مصلحت اندیشی سمجھ لیتے ہیں۔ خوشامد کا فن لطیف اعجاز کے درجے تک پہنچ گیا ہے۔ جس کے ہاتھ میں حکومت آ جائے اس کی مدح سرائی شروع ہو جاتی ہے اور جہاں اس کا تختہ الٹا، اس کی مذمت میں صاف گوئی کی داد لینا چاہتے ہیں اور نئے آنے والے کی قصیدہ خوانی شروع ہو جاتی ہے۔ در حکام کا طواف ان کا شیوہ ہے۔ ہوس جاہ کو پردۂ خدمت دیں میں چھپاتے ہیں۔ اس میں سیاسی قسم کے علماء دین کہلانے والے بھی داخل ہیں اور دین سے مطلقاً بے بہرہ اقتدار کے طالب بھی۔ عید کے روز یہ سب ریا کار عید گاہ میں نظر آتے ہیں تاکہ عوام ان کی دینداری سے آگاہ ہو جائیں۔ کچھ اخباروں کو اپنے ہاتھ میں رکھنا لازمی ہے تاکہ ان کی ہر حرکت اور ہر تقریر، خواہ دوسروں سے لکھوائی ہوئی ہو مشتہر ہوتی رہے۔ ان تمام صفات کے ساتھ شاعری بھی آتی ہو تو سبحان اللہ۔ اس ساحری کی بدولت تقریر و تحریر میں اور جذبہ آفرینی ہو سکتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ سب اوصاف موجود ہوں جو مجموعی طور پر سیاسی اقتدار کے ضامن ہیں اور پھرایسا شخص حصول اقتدار کی تگ و تاز میں شامل نہ ہو تو نہایت تعجب انگیز بات ہے۔ اس نظم میں بے چارے اقبال نے ریاکاری اور گناہوں کا بھاری پلندہ اپنی گردن پر رکھ لیا ہے۔ جس طرح کوئی مرد معصوم ناکردہ گناہ اپنی قربانی سے گناہ گاروں کے اعمال کا کفارہ بن جائے۔ اس تمام نظم میں حقیقی اقبال کہیں بھی نہیں۔
اقبال کے کلام میں جا بجا یاس کا اندھیرا بھی ہے اور امید کی افق تابی بھی۔ لیکن وہ زندگی کے لامتناہی ممکنات کا معتقد ہے اس لیے حاضر کی تیرہ بخشی اس کو مستقبل سے نا امید نہیں کرتی۔ اس کی یاس انگیز نظموں میں بھی آخری حصے میں امید یاس پر غالب آ جاتی ہے۔ زندگی امید و بیم کی مسلسل کشاکش کا نام ہے۔ کبھی اقبال کو یہ خوشگوار احساس ہوتا تھا کہ میں نے اس خستہ و خفتہ ملت میں نئی روح پھونک دی ہے اور میری نوا سے مردے زندہ ہو گئے ہیں لیکن پھر گرد و پیش نظر ڈالتا تھا تو نفوس میں کہیں حیات انگیز انقلاب دکھائی نہ دیتا تھا۔ پھر مایوسی کی ایک لہر دل میں اٹھتی تھی۔ اس نے اپنے کلام کے ایک مجموعے کا نام بانگ درا تجویز کیا اور قومی ترانے کے مقطع میں کہا:
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
لیکن پھر کسی دوسری کیفیت میں وہ حسرت و یاس سے کہتا ہے کہ جس کو میں آواز رحیل کارواں سمجھتا تھا وہ تو اک درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک تھی:
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
اور اپنی نوا گری اس کو اسی قسم کی نظر آنے لگتی ہے کہ اجڑے ہوئے گلستاں میں کسی سوکھی ہوئی شاخ پر ایک بلبل نالہ گر ہے اور تاثیر کا طالب ہے کہ شاید اس کی نوا سے باغ میں پھر بہار عود کر آئے:
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے
٭٭٭
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
یاس کی ان ہنگامی لہروں کے باوجود اقبال کا پیام، پیام امید ہے۔ اس کے نزدیک نہ صرف ملت اسلامیہ بلکہ تمام نوع انسان کا مستقبل نہایت درخشندہ ہے اور فطرت ایک نیا آدم تعمیر کرنے میں کوشاں ہے۔ جس کی بدولت علم و عشق کی آمیزش سے ایک نیا عالم ظہور میں آئے گا۔
تقسیم برصغیر سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک ہیجان پیدا ہوا اور انہوں نے محسوس کیا کہ اب سیاست محض کھیل نہیں بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اسی دور میں اقبال نے عملی سیاست میں قدم رکھا ورنہ وہ تمام عمر سیاست کی ابلیسانہ بساط شطرنج سے دور رہے۔ سیاست میں جس قسم کی تگ و دو اور جوڑ توڑ کرنے پڑتے ہیں وہ طبعاً اس کے لیے موزوں نہ تھے۔ سیاسی رہنما اور ہیجان آفرین لیڈر ان کو بے عمل کہتے تھے اور کابل ہونے کا طعنہ بھی دیتے تھے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوتے۔ جس زمانے میں اقبال انارکلی میں رہتے تھے ایک روز محمد علی اور شوکت علی ان کے ہاں وارد ہوئے اور کہاں کہ ظالم تو سب کو گرما کر اور جدوجہد پر آمادہ کر کے خود یہاں سکون سے بیٹھا ہے۔ یہ کیسا تساہل ہے۔ اٹھ! تو خود بھی شریک تگ و تاز ہو اس کے جواب میں علامہ نے انہیں ایک نہایت لطیف جواب دیا کہ بھائی تم اس حقیقت سے ناواقف معلوم ہوتے ہو کہ میں قوم کا قوال ہوں۔ قوال گاتا ہے تو محفل میں لوگوں کو وجد آتا ہے اور سروپا کا ہوش نہیں رہتا تم نے کبھی کسی قوال کو بھی دیکھا ہے کہ وہ خود بھی وجد میں آ کر الٹنا پلٹنا شروع کر دے۔ اگر قوال ایسا کرے تو قوالی ہی ختم ہو جائے۔ تم لوگ جاؤ جوش و مستی میں حال کھیلو قوال سے یہ توقع نہ رکھو۔ لوگوں کے طعنے سن سن کر اقبال نے بھی اپنے آپ کو بے عمل کہنا شروع کر دیا کہ میں گفتار کا غازی ہوں کردار کا غازی نہیں :
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
وہ اک مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا
اقبال تن آسان ہو تو ہو من آسان نہیں تھا۔ من میں تو وہی سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی اور دل و جگر سے شعلے اٹھنے کے ساتھ آتش نوائی:
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
جہاد صرف تلوار ہی سے نہیں ہوتا بلکہ قلم اور زبان اور افکار و جذبات سے بھی ہوتا ہے۔ اور جب تک نفوس میں انقلاب پیدا نہ ہو از روئے قرآن کسی قوم کی حالت نہیں بدل سکتی۔ اقبال اس بلند سطح پر مجاہد تھے۔ لیکن عام لوگوں کے نزدیک جسے سیاست کہتے ہیں اس ابلیسانہ بازی کے کھلاڑی نہ تھے۔ ایک صاحب نے خط میں یہی تقاضا کیا کہ آپ عملی سیاست میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔ اس کے جواب میں جو اشعار کہے ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال اپنی طبیعت کے انداز اور اپنے وظیفہ حیات سے پوری طرح واقف ہو گیا تھا۔ اب لوگوں کے تقاضے اور طعنے اس کو اپنے مخصوص مشن سے ہٹا نہ سکتے تھے۔
ایک خط کے جواب میں
ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز
حصول جاہ ہے وابستہ مذاق تلاش
ہزار شکر طبیعت ہے ریزہ کار مری
ہزار شکر نہیں ہے دماغ فتنہ تراش
مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز
جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریا پاش
یہ عقد ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں
کہ فرض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش
ہوائے بزم سلاطین دلیل مردہ دلی
کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش
گرت ہواست کہ با خضر ہم نشیں باشی
نہاں ز چشم سکندر چو آب حیواں باش
میں اور تو کے عنوان سے بانگ درا میں ایک غزل نما نظم ہے، جس میں اقبال اپنی کیفیت کا عام افراد ملت کے فکر و عمل سے مقابلہ کرتا ہے۔ یہ ان چند نظموں میں سے ہے جن میں یاس کا رنگ امید پر کسی قدر غالب معلوم ہوتا ہے۔ ملت کی موجودہ پست حالت کے مد نظر وہ اپنی کوششوں کو بے سود اور بے اثر سمجھتا ہے:
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاک جادوئے سامری، تو قتیل شیوۂ آزری
فرماتے ہیں کہ کلام کا فیضان تو کسی رنگ میں مجھے بھی حاصل ہے مگر موسیٰ عمران کو جو خدا سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا اور جو باطل شکن جذبہ اور انقلاب آفرین قوت اس میں پیدا ہوئی وہ مجھ میں کہاں ہے میں ابھی تک زندگی کی نمود بے بود پر مٹا ہوا ہوں اور عصر حاضر کے سحر کا اثر مجھ میں موجو ہے۔ اسی لیے میرا کلام موثر نہیں ہوتا۔ دوسری طرف عام مسلمان ہیں جو بت گر اور بت پرست ہیں۔ ملت ابراہیمی کی پیروی کا دعویٰ موجود ہے لیکن عمل میں باطل معبودوں اور ہوائے نفس کی پرستش ہے۔ میری خامی کی وجہ سے میرے کلام میں یہ حال ہے کہ نوا گلے اندر ہی راکھ ہو جاتی ہے۔ ادھر تیری زندگی میں کوئی نظر نہیں آتا۔ تیری ظاہری اور باطنی کیفیت برگ خزاں رسیدہ کی طرح رنگ و بو سے محروم ہے۔ کچھ اپنی کیفیت اور کچھ تیری کیفیت دیکھ کر میرا عیش غم میں اور شیرینی حیات زہر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تیرے دل کو خدا نے حرم اور اپنا مسکن بنایا تھا۔ لیکن تو اس کو غیر اسلامی شعائر کے ہاتھ گروی رکھ دیا۔ اب تو جسے دین کہتا ہے وہ کافروں کی دکان سے خریدا ہوا مال ہے:
میں نوائے سوختہ در گلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو
میں حکایت غم آرزو، تو حدیث ماتم دلبری
مرا عیش غم، مرا شہد سم، مری بود ہم نفس عدم
ترا دل حرم، گرو عجم، ترا دیں خریدۂ کافری
اگر میری یاد غلطی نہیں کرتی تو یہ نظم ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء کے لگ بھگ زمانے میں کہی گئی اور انہیں دنوں میں علامہ نے مجھ سے یہ ذکر کیا کہ قاآنی کے قصائد کا ترنم مجھے بہت دلکش معلوم ہوتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اسی انداز کے کچھ اشعار لکھوں۔ یہ نظم غالباً اس خواہش کا اولیں ثمر تھی۔ بعد میں فارسی کے کلام میں بعض نظموں میں اس ترنم اور صنعت ترصیع میں بہت ترقی ہو گئی اور وہ نظمیں ایسی ہیں کہ قا آنی کے ترنم کی سطح پر پہنچ گئی ہیں، اگرچہ معانی کے لحاظ سے قاآنی کے مقابلے میں اقبال کے اشعار میں بہت زیادہ ثروت افکار، بہت زیادہ گہرائی اور بلندی ہے۔
اقبال کی بعض غزلوں میں حافظ کا بھی رنگ ہے اور جا بجا بیان کے سانچے بھی بعض فارسی اساتذہ کا فیضان ہیں۔ لیکن معانی نظریات حیات میں اقبال عجمیت سے کوسوں دور ہو گیا ہے۔ ساغر و خم و مینا پرانے ہیں لیکن ان میں شراب ایک دوسرے قسم کی ہے۔ اقبال کو اس کا واضح احساس تھا کہ میرے ساز پر عجمی مضراب تاروں کو جنبش دیتی ہے، مگر کیا کروں یہ بیان اور طبیعت کی مجبوری ہے۔ اسی لیے کہتا ہے کہ میں اس کا ستم رسیدہ ہوں لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس میں سے جو نوا نکلتی ہے وہ اسلامی ہوتی ہے۔ لطافت بیان اقبال کو عجمی یعنی فارسی شاعروں سے جو کچھ حاصل ہوا اس کا اقرار اقبال نے کئی جگہ کیا ہے۔ وہ اس کو اپنی طبیعت کا جزو لاینفک سمجھتا ہے، مگر کلام کی اس ہم آہنگی کے باوجود نئے نظریات حیات اشعار میں ڈال دیتا ہے جن سے فارسی شاعری زیادہ تر عاری تھی:
مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ نغمہ ہائے عجم رہا
وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی
اس کا مقابلہ غالب کی طبیعت سے کیجئے جو کہتا ہے میری نہاد عجمی ہے، اس لیے دین عربی میرے دل و دماغ میں سرایت نہیں کرتا:
رموز دین نہ شناسم، عجب مدار زمن
کہ دین من عربی و نہاد من عجمی است
اقبال اپنی طبیعت میں کئی قسم کے عناصر پاتا ہے عجمی عنصر کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ لیکن اقبال ایرانی تو نہ تھا ہندی نژاد تھا۔ پنجابی ہو یا اردو، ہندوستان ہی کی زبان بولتا اور اردو کا قادر الکلام شاعر تھا۔ ایرانی اثر کے علاوہ ہندی عوامل اور محرکات بھی اس کی طبیعت میں موجود تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ورود اور اس وطن کے باشندوں سے میل جول کی بدولت اردو زبان پیدا ہو گئی۔ جس کے اندر قوت اظہار فارسی سے کچھ کم نہیں۔ یہ زبان فارسی اور عربی سے بھی فیض یاب ہے اور ہندی بھاشا سے بھی۔ زبان کا اثر تہذیب اور نظریہ حیات پر بھی پڑتا ہے، بلکہ وہ انداز حیات کی ترجمان ہوتی ہے، لیکن مسلمان کی طبیعت اس کی معاشرت اور اس کے دینی افکار و شعائر میں لازماً عربی اور اسلامی عناصر بھی موجود ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی میں ایک نئی تہذیب، نئی حکمت فرنگی تسلط کی بدولت پیدا ہوئی اور پہلے عناصر سے مل کر اس نے ایک نیا مرکب بنا لیا۔ اس نئے عنصر کا، جو اس معجون مرکب میں داخل ہوا۔ اقبال مداح بہ کم ہے اور مخالفانہ نقاد بہ زیادہ۔ زیادہ تر اس کو مخرب ملت ہی سمجھتا ہے، مگر اقبال کی اپنے متعلق صاف گوئی کی داد دینی چاہیے کہ علی الاعلان اپنی طبیعت کا تجزیہ کرتا ہے اور اچھے برے تمام عناصر کو بیان کر جاتا ہے۔ مغربی تعلیم کی وجہ سے اقبال کے استدلال میں اکثر مغربی فلاسفہ کا اثر نمایاں ہو جاتا تھا۔ نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے جب علمی بحث کرتے تھے تو غیر شعوری طور پر انگریزی زبان استعمال کرنے لگتے تھے۔ ان کے اسلام پر انگریزی خطبات میں بھی مغربی مفکرین کا رنگ موجود ہے، اسی لیے بعض قدامت پسند مسلمانوں کو یہ خطبات پسند نہیں آئے۔ اقبال اس انداز استدلال کا دلدادہ نہ تھا۔ لیکن ان خطبات میں جو گروہ اس کے مخاطب تھے ان کے لیے طرز استدلال اسی انداز کا ہو سکتا تھا۔ ’’ کلمو علی قدر عقولہم‘‘ اقبال کی اپنی فطرت وجدانی تھی، استدلالی نہ تھی۔ اس لیے اس وجدان کے بیان میں استدلال کو وہ آلودگی ہی سمجھتا تھا۔ مگر دیکھئے ان تمام عناصر کو کس اختصار اور خوبی کے ساتھ بیان کر دیا ہے:
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفس ہندی، مقام نغمہ تازی
نگہ آلودۂ انداز افرنگ
طبیعت غزنوی قسمت ایازی
اقبال نے جس عشق کی تلقین کی وہ مجاہدانہ اور انقلاب آفرین ہے۔ اس کا عشق جدوجہد کا پیغام ہے، اس لیے اپنی طبیعت کو غزنوی کہتا ہے۔ محمود غزنوی کے مقاصد کے متعلق خواہ کچھ ہی رائے قائم کی جائے، اسے غازی سمجھا جائے یا محض چنگیز خان اور نپولین کی طرح ایک فاتح، لیکن اس کی بے پناہ ہمت کی تو داد دینی پڑتی ہے۔ ایسی طبیعت کے ساتھ اقبال کے لیے ملک و ملت کی سیاسی غلامی سوہان روح تھی۔ اقبال عمر بھر اپنی قوم کو اور اپنے آپ کو اس غلامی سے نجات دلانے میں کوشاں رہا۔ پاکستان کا قیام انہیں کوششوں کا نتیجہ تھا۔ افکار اور جذبات اقبال نے پیدا کیے اور ان کو عملی سیاست کا جامہ ایک دوسرے انداز کے ماجدہ نے پہنایا۔
اقبال کے اکثر نقاد اس پر بحث کرتے ہیں کہ اس کی نظر ماضی پر جمی ہوئی ہے یا مستقبل پر۔ محض ماضی پر نظر جمانے والے قدامت پرست اور رجعت پسند کہلاتے ہیں اور بعض ترقی پسند کہلانے والوں نے اقبال کو ایسا ہی سمجھا ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ اسلام کے دور اولین کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ لیکن زمانہ تیرہ سو برس کی رجعت قہقری کیسے کر سکتا ہے۔ لیکن اقبال کے کلام کا ایک بڑا حصہ جدت پسندی اور جدت آفرینی پر مشتمل ہے۔ وہ تقلید کی شدت سے مخالفت کرتا ہے اور مقصد محض کو بے بصر سمجھتا ہے۔ اس کے اندر ایک نیا عالم اور نیا آدم پیدا کرنے کی شدید آرزو ہے۔ اس کا نظریہ حیات ارتقائی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی نئے انواع اور نئے انداز پیدا کرتی ہے اور جہاں یہ نو آفرینی نہ ہو وہاں زندگی جامد ہے۔ وہ زندگی میں شب و روز کی تکرار سے بھی بے زار ہے اور خدا سے کہتا ہے:
طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم
ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی
قدامت پسندی اور ارتقاء بظاہر متضاد معلوم ہوتے ہیں لیکن اقبال کو ان میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ وہ اسلام کو ایک ترقی پسند دین سمجھتا ہے اور خالص اسلام کے نمونے اس کو طلوع اسلام ہی کے دور میں نظر آتے ہیں۔ اسی لیے وہ مسلمان سے کہتا ہے کہ ترقی کرنا چاہتے ہو تو اس دور اولین کے اقدار اور طرز فکر و عمل کا مطالعہ کرو۔ پیچھے کی طرف دیکھتے ہوئے آگے بڑھو۔ آگے بڑھنے کے لیے کوئی نصب العین چاہیے۔ لامتناہی ترقی کا نصب العین اسلام نے ہی پیش کیا تھا۔ اس کی بعض ظاہری صورتیں تو واپس نہیں آ سکتیں اور نہ اقبال ان تمام صورتوں کو واپس لانا چاہتا ہے۔ اس کا مقصود روح اسلام ہے، جس نے ایک زمانے میں وہ صورتیں پیدا کی تھیں۔ اگر پھر وہی روح عود کر آئے تو نئی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو آگے بڑھانا چاہتا ہے، اس لیے وہ ایک کھوئی ہوئی چیز کی مسلسل جستجو کرتا رہتا ہے۔ اس کے نزدیک انقلاب کی آرزو اس کے منافی نہیں :
میں کہ میری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگذشت کھوئے ہووں کی جستجو
ایک دوسری نظم میں اپنے مسلک کو ایک مصرعے میں بیان کر دیا ہے:
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں
زمانہ حال میں مسلمانوں کے اکابر میں آغا خان بہت ترقی پسند شمار ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ اس قدر ترقی پسند ہیں کہ عامۃ المسلمین انہیں یا موقع پرست سمجھتے ہیں یا مغرب زدہ۔ ایک مخصوص عقائد کی محدود سے جماعت کے امام ہونے کی حیثیت سے علمی اور نظری اعتبار سے، تو ترقی پسندی ان سے کوسوں دور ہونی چاہیے۔ لیکن زندگی کی منطق کچھ اور ہی ہے وہ رسوم و رواج میں تبدیلی اور تنوع چاہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں انہوں نے اخبار میں شائع شدہ ایک بیان میں بڑے زور سے اس عقیدے کی تلقین کی اور تمام عالم اسلامی کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر اسلام کی بناء پر تہذیب و تمدن میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو فقط طلوع اسلام کے دور کو دیکھو اور اسی روح کی اساس پر زندگی کی نئی تعمیریں قائم کرو۔ تاریخ اسلام میں بعد کی صدیوں سے اگر کوئی نصب العین حاصل کرنا چاہو گے، تو دگدا میں پڑ جاؤ گے۔ معلوم ہوا کہ کسی انقلاب پسند اور ترقی پسند مسلمان کے لیے بھی ماضی کے آئنے میں مستقبل کو دیکھنا کوئی متضاد بات نہیں۔
اقبال نے اپنی طبیعت کے ایک اور امتیازی عنصر کو بھی کئی جگہ بیان کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آفرینش فکر اور فن لطیف کے لیے خارجی محرکات لازمی ہیں اور جب تک ماحول میں کوئی تقاضا موجود نہ ہو، طبیعتوں کے اندر سے نئی باتیں نہیں ابھرتیں۔ یہ ایک متنازع مسئلہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انقلاب ماحول کے تغیر سے پیدا ہوئے ہیں یا غیر معمولی انسانوں کے نمودار ہونے سے۔ اشتراکی فلسفہ ماحول کو اہم اور مقدم سمجھتا ہے اور اس کی تعلیم یہ ہے کہ معاشی زندگی میں تبدیلی سے علوم و فنون اور مذہب و اخلاق بھی متغیر ہو جاتے ہیں۔ انبیا ہوں یا مصلحین، سب معاشی تغیرات کی پیداوار ہیں۔ اقبال اس کے برعکس اور کار لائل کا ہم نوا ہو کر، زندگی کو بدلنے والے اور آگے بڑھانے والے عوام میں غیر معمولی انسانوں کو موثر عامل سمجھتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اقبال کو ماحول نے پیدا کیا یا اقبال نے ایک نیا ماحول پیدا کیا۔ اقبال کا اپنے متعلق یہ احساس ہے کہ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ میرے باطن میں ابھرا ہے۔ پنجاب کے یا ہندوستان کے عام ماحول نے، جس سے مسلمان کم و بیش ایک ہی طرح متاثر تھے، نہ اقبال سے پہلے کوئی ایسا شاعر پیدا کیا اور نہ اقبال کے بعد۔ اردو شاعری کو ہندوستان کے اہل زباں اور وہاں بھی خاص شہروں کے لوگ اپنا اجارہ سمجھتے تھے اور حالی جیسے شاعر پر بھی طعنہ زنی کرتے تھے کہ وہ دہلی کا نہیں بلکہ پانی پت کا باشندہ ہے۔ اس سے جل کر حالی نے کہا تھا:
حالی کو تو بدنام کیا اس کے وطن نے
پر آپ نے بدنام کیا اپنے وطن کو
اہل پنجاب کو تو بھلا یہ لوگ کس شمار میں لاتے، لیکن دہلی اور لکھنو کوئی اقبال پیدا نہ کر سکے۔ سرسید کی تحریک بڑے زور کی اصلاحی تحریک تھی۔ سرسید کے رفقا نے مسلمانوں کے عروج و زوال کا جائزہ لیا اور مسلمانوں کے لیے بصیرت افزاء چیزیں چھوڑ گئے۔ اس تحریک نے حالی کی تو معمولی غزل گوئی سے نکال کر قومی اور حکیمانہ شاعری کی طرف رہنمائی کی، لیکن وہاں بھی ادیبوں اور شاعروں کے ہجوم میں سے کوئی اقبال پیدا نہ ہو سکا۔ اس لحاظ سے اقبال کا یہ خیال غلط نہ تھا کہ میرے نظریات اور جذبات اور میرے کلام میں جو امتیازی خصوصیت ہے وہ میرے باطن میں سے ابھری ہے۔ میں اس کے لیے خارجی ماحول کا نہ محتاج تھا اور نہ رہین منت:
اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا
یہ شعر نشاط آور و پر سوز و طربناک
میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہے مرا جوش جنوں میری قبا چاک
غالب کہتا ہے:
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارا چاہیے
لیکن حضرت اقبال خارجی بہار کے اشاروں پر نہیں بلکہ باطنی وجدان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ میں دست صبا کا محتاج کیوں ہوں، میری فطرت خود نسیم سحری ہے:
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
اقبال کو طبعاً امارت کے ٹھاٹھ پسند نہ تھے۔ اگر وکالت کے پیشے کی طرف پوری توجہ کرتے تو بہت سی دولت کما لیتے، لیکن زر اندوزی ان کا مقصود نہ تھا۔ رہائش کا طرز نہایت سادہ تھا۔ خورو نوش بھی سادہ، مکان میں آرائش کا سامان مفقود۔ کچھ طالب علمانہ اور قلندرانہ سی زندگی تھی۔ اسے درویشی یا غریبی تو نہیں کہہ سکتے، لیکن سادگی ضرور تھی۔ طبیعت میں اسباب حیات اور ماحول کے متعلق ایک قلندرانہ بے پروائی تھی۔ اقبال نے جا بجا قلندری کا ذکر کیا ہے۔ یہ کوئی بناوٹ کی بات نہ تھی بلکہ اس کی فطرت کا میلان تھا۔ اپنے فرزند جاوید کو بھی نصیحت کرتے ہیں :
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
آرائش و زیبائش کے سامان اور امیرانہ طرز زندگی کسی حد تک خودی کو بیچ کر ہی حاصل ہوتے ہیں۔ کہیں دروغ، کہیں خوشامد، کہیں دنیا داری کے دام فریب، اخلاق اور روحانیت بلکہ علم و فن میں بھی اپنے کمال کو ملوث ہونے سے بچانے کے لیے قلت احتیاج لازمی چیز ہے۔ احتیاج میں اضافہ کرنا بزدلی اور مکاری پیدا کرتا ہے۔ اقبال نے اپنی خودی کو اپنی سادہ زندگی کی بدولت بچایا۔ میری میری اور امیری زیادہ تر ایسے ہی لوگوں کے درمیان نظر آتی ہے جو یا تو دین سے معرا ہیں اور یا دین اور دولت کے درمیان عقل کی حیلہ گری سے ایک سمجھوتا قائم کر لیا ہے۔روحانی لحاظ سے تو دنیا کے اکثر دولت مند مردان فرومایہ ہی نظر آتے ہیں۔ اس لیے تاریخ ادیان پر نظر ڈالو تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہر روحانی پیشوا درویش تھا۔ اقبال بھی کہتا ہے:
اک مفلس خود دار یہ کہتا تھا خدا سے
میں کر نہیں سکتا گلہ درد فقیری
لیکن یہ بتا تیری اجازت سے فرشتے
کرتے ہیں عطا مرد فرو مایہ کو میری؟
ہندوستان میں فرنگی حکومت کے دوران میں کسی شخص کو جاہ و مال حاصل نہ ہو سکتا تھا جب تک کہ وہ حکام کی خوشامد نہ کرے اور مال کو قرب حکام کا ذریعہ نہ بنائے۔ خوشامد سے عہدے اور خطاب ملتے تھے۔ کسی شخص کے حقیقی کمال کی کچھ پرسش نہ تھی۔ ایسی حالت میں اہل دل کے لیے درویشی اور بھی زیادہ لازم ہو جاتی ہے۔ اسی کیفیت کو اقبال نے اس قطعے میں بیان کیا ہے:
فرنگ آئین رزاقی بداند
بایں بخشد ازو وا می ستاند
بہ شیطان آنچناں روزی رساند
کہ یزداں اندراں حیراں بماند
اقبال جو اپنے کلام میں خودی کا پیامبر دکھائی دیتا ہے وہ اپنی زندگی میں بھی نہایت درجہ خود دار تھا۔ اسے اپنی خود داری کا بڑا پاس اور گہرا احساس تھا۔ سر اکبر حیدری نے جو اقبال کی دوستی کا دم بھرتے تھے، لیکن حد درجے کے دنیا دار تھے، یہ دیکھ کر کہ اقبال مفلس ہو گیا ہے، اس کو نظام کے توشہ خانے سے ایک ہزار روپیہ کا چیک بھجوا دیا۔ یہ حقیقت میں ایک خیراتی فنڈ میں سے دیا گیا تھا۔ اقبال کی خود داری کو اس سے نہایت ٹھیس لگی وہ چیک واپس کر کے کچھ اشعار لکھ دیے کہ خدا اگر اپنی خدائی کی زکوٰۃ نکالتے ہوئے مجھے شکوہ پرویز بھی عطا کرے تو میں اس کو ہر گز نہ قبول کروں :
غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے، یہ ہے میری خدائی کی زکوٰۃ
اقبال رفتہ رفتہ رہین عشق اور مست خودی ہو کر ہر اس چیز سے بے نیاز ہو گیا جس کا ماخذ یا مظہر عشق نہ ہو۔ اس کیفیت کے متعلق اس نے جو کچھ کہا اور وعدہ کیا ہے، اس میں قطعاً کوئی تعلی یا تصنع نہیں ہے۔ جو اقبال کے خلوص سے پوری طرح آشنا نہ ہو وہ اسے شاعرانہ تعلی سمجھے گا:
جہاں از عشق و عشق از سینہ تست
سرورش از مے دیرینہ تست
جز ایں چیزے نمیدانم ز جبریل
کہ او یک جوہر از آئینہ تست
٭٭٭
مرا ایں سوز از فیض دم تست
بتاکم موج مے از زمزم تست
خجل ملک جم از درویشی من
کہ دل در سینہ من محرم تست
اقبال نے رومی کی مریدی محض اس لیے اختیار کی کہ وہاں اس کو عشق کی وہ کیفیت نظر آئی، جس کا وہ طالب تھا اس کے عشق میں بصیرت بھی ہے اور حمیت بھی اور اس کا مقصود خدا سے ہم آہنگی پیدا کر کے خودی کو خدا سے ہم کنار کرنا ہے۔ یہ عشق خدا طلبی میں ارتقاء کوش ہو جاتا ہے۔ اپنی بابت اقبال نے بہت سی باتیں کہی ہیں۔ کہیں اپنی خوبیاں بتائی ہیں اور کہیں خامیاں۔ لیکن ان تمام مراحل سے گزر کر وہ جو کچھ وہ گیا اور جس کا اعلان اس نے ببانگ دہل کرنا شروع کیا، وہ اس عشق میں غوطہ زنی تھی جس کی طرف عارف رومی نے اس کی رہنمائی کی۔ آخر عمر میں اقبال کو یہ قویٰ احساس تھا کہ میں رومی کا ہم رنگ ہو گیا ہوں اور اس دور میں میرا مشن وہی ہے جو اپنے زمانے میں رومی کا مشن تھا:
بکام خود دگر آں کہنہ مے ریز
کہ با جامش نیرزد ملک پرویز
ز اشعار جلال الدین رومی
بہ دیوار حریم دل بیاویز
٭٭٭
بگیر از ساغرش آں لالہ رنگے
کہ تاثیرش دہد لعلے بہ سنگے
غزالے را دل شیرے بہ بخشد
بشوید داغ از پشت پلنگے
٭٭٭
سراپا درد و سوز آشنائی
وصال او زباں دان جدائی
جمال عشق گیرد از نے او
نصیبے از جلال کبریائی
٭٭٭
گرہ از کار ایں ناکارہ وا کرد
غبار رہگذر را کیمیا کرد
نے آں نے نوازے پاکبازے
مرا با عشق و مستی آشنا کرد
٭٭٭
ز رومی گیر اسرار فقیری
کہ آں فقر است محسود امیری
حذر زاں فقر و درویشی کہ از وے
رسیدی بر مقام سر بزیری
٭٭٭
مے روشن ز تاک من فرو ریخت
خوشا مردے کہ در دامانم آویخت
نصیب از آتشے دارم کہ اول
سنائی از دل رومی بر انگیخت
٭٭٭
اقبال کے کلام میں اور بھی بے شمار اشعار منتشر ملیں گے جن میں وہ اپنی طبیعت کا جائزہ لیتا ہے۔ اس باب کو ختم کرتے ہوئے ہم اس کے اور اشعار درج کرتے ہیں۔ دیکھئے کہ ایک ہی شعر میں اپنے کتنے صفات بیان کر ڈالے ہیں۔ اقبال کو قریب سے دیکھنے والا کوئی شخص اس کا انکار نہ کر سکے گا کہ جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے:
پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند
٭٭٭
تشکر: فرخ منظور جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید