FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

فراقؔ  گورکھپوری کی شاعری سے  ایک انتخاب

 

 

یہ ای بک   اصل کتاب ’ فراق گورکھپوری: شخصیت، شاعری اور شناخت‘ کا  ساتواں حصہ ہے

 

                مرتبہ: عزیز نبیلؔ

 

 

 

چھڑتے ہی غزل بڑھتے چلے رات کے سائے

آواز مری گیسوئے شب کھول رہی ہے

فراقؔ گورکھپوری

 

 

 

 

 

غزلیں

 

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا

حجاب اہلِ محبت کو آئے ہیں کیا کیا

جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلوؤں کی

چراغِ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا

نثار نرگسِ مے گوں کہ آج پیمانے

لبوں تک آتے ہوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا

کہیں چراغ، کہیں گل، کہیں دلِ برباد

خرامِ ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا

تغافل اور بڑھا اس غزالِ رعنا کا

فسونِ غم نے بھی جادو جگائے ہیں کیا کیا

نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے

دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا

پیامِ حسن، پیامِ جنوں، پیامِ فنا

تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا

تمام حسن کے جلوے تمام محرومی

بھرم نگاہ نے اپنے گنائے ہیں کیا کیا

فراقؔ راہ و فا میں سُبک روی تیری

بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا

وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا

پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا

پھر فسانہ بہ حدیث دگراں ہے کہ جو تھا

منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں

وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا

آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے

آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا

عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت

وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا

قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن

آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا

جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی

پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا

آج بھی صید گہہ عشق میں حسن سفّاک

لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا

پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات

وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا

تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ

شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ

ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ

دلوں کو تیرے تبسّم کی یاد یوں آئی

کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

وہ جن کے حال میں لو دے اٹھے غمِ فردا

وہی ہیں انجمن زندگی کے چشم و چراغ

نئی زمیں، نیا آسماں، نئی دنیا

سنا تو ہے کہ محبت کو ان دنوں ہے فراغ

جو تہمتیں نہ اٹھیں اک جہاں سے ان کے سمیت

گناہگار محبت نکل گئے بے داغ

جو چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے پاؤں دھرتا ہے

اسی کے نقشِ کفِ پاسے جل اٹھے ہیں چراغ

جہانِ راز ہوئی جا رہی ہے آنکھ تری

کچھ اس طرح وہ دلوں کا لگا رہی ہے سراغ

نگاہیں مطلعِ نو پر ہیں ایک عالم کی

کہ مل رہا ہے کسی پھوٹتی کرن کا سراغ

دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے

کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ

فراقؔ بزم چراغاں ہے محفل ساقی

سجے ہیں پگھلی ہوئی آگ سے چھلکتے ایاغ

٭٭٭

 

 

 

 

 

عشق فسردہ ہی رہا غم نے جلا دیا تو کیا

سوزِ جگر بڑھا تو کیا، دل سے دھُواں اٹھا تو کیا

پھر بھی تو شبنمی ہے آنکھ، پھر بھی تو ہونٹ خشک ہیں

زخمِ جگر ہنسا تو، کیا غنچۂ دل کھلا تو کیا

پھر بھی تو اہلِ غم ترے رازِ سکوں نہ پا سکے

تو نے نظر کی لوریاں دے کے سلا دیا تو کیا

پھر بھی مری صدائے درد تیرے لیے سکوت ہے

ہل گیا آسماں تو کیا، کانپ اُٹھی فضا تو کیا

عشق کی غفلتیں نثار، چھیڑ نہ اے خیالِ یار

تو نے جگا دیا تو کیا غم نے اُٹھا دیا تو کیا

کون سا فرق آ گیا گردشِ روزگار میں

عشق تڑپ اُٹھا تو کیا اشک ٹپک پڑا تو کیا

صبر طلسم در طلسم ضبط فریب در فریب

اشک بھی تھم گیا تو کیا دل بھی سنبھل گیا تو کیا

اور اُلجھ کے رہ گیا قصہّ حیات و موت کا

زیست کے راز کھولتی بحثِ فنا بقا تو کیا

منزلِ بے خودی عشق موت کو بھی نہ مل سکی

جائے گی اتنی دُور تک عمرِ گریز پا تو کیا

دیکھ فضائیں جاگ اُٹھیں زندگی جگمگا اُٹھی

سازِ جنونِ عاشقی چھڑتے ہی سو گیا تو کیا

عمرِ دوام مِل گئی عالمِ سوز و ساز کو

مجھ کو مٹا دیا تو کیا دل کو بجھا دیا تو کیا

اب تو تری صدا بھی ہے میری صدائے باز گشت

آج سوالِ عشق پر آئی بھی اِک ندا تو کیا

اور اداس کر دیا رنگِ سکوتِ ناز نے

وجہِ ملال پوچھتی نرگسِ آشنا تو کیا

دیکھنے والے کو ترے حسرتِ دید رہ گئی

پردہ سا اُٹھ گیا تو کیا سامنا ہو گیا تو کیا

تھیں مری بے قراریاں محرمِ عشوۂ نہاں

ہوش نہ تھے بجا تو کیا دل نہ ٹھکانے تھا تو کیا

وہ تو کسی کا بامِ ناز راہِ جنوں سے مل گیا

کاٹتی ہیں یہ چڑھائیاں عقلِ شکستہ پا تو کیا

دیکھ رہا ہوں اور کچھ حسنِ کرشمہ ساز میں

ناز تو کیا ادا تو کیا عشوہ تو کیا حیا تو کیا

سُود و زیاں کے لفظ بھی وہم و گماں ہیں سر بسر

حُسن بھی پا سکا تو کیا عشق بھی کھو سکا تو کیا

اپنی نگاہ کے فریب رازِ نشاطِ عشق ہیں

دیدۂ شوق بھی ترے حُسن کو دیکھتا تو کیا

غربت و گمرہی کا نام کوچۂ یار رکھ دیا

گو تھیں تمام منزلیں عشق کے زیرِ پا تو کیا

کوئی مزاج داں نہ تھا گردشِ روزگار کا

حُسن تھا شادماں تو کیا عشق اداس تھا تو کیا

پھر بھی تری نگاہ یاد آ ہی گئی فراقؔ کو

بارِ نیاز و نازِ عشق حُسن سے اُٹھ سکا تو کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک عالم پہ بار ہیں ہم لوگ

کس کے دل کا غبار ہیں ہم لوگ

صد بقا، صد فنا کی ہیں تصویر

عالمِ انتظار ہیں ہم لوگ

ہم سے پھوٹی شعاعِ صبح حیات

مطلعِ روزگار ہیں ہم لوگ

ہم میں پنہاں رموزِ نشو و نمو

پردہ دارِ بہار ہیں ہم لوگ

ہم نے توڑی ہر ایک قیدِ حیات

کتنے بے اختیار ہیں ہم لوگ

ہم نے فردا کو کر دیا امروز

کیا قیامت شعار ہیں ہم لوگ

زندہ باد انقلاب زندہ باد

سر بہ کف ہیں نثار ہیں ہم لوگ

اثرِ درد زندگی سے فراق

بے خود و بے قرار ہیں ہم لوگ

یعنی صبحِ ازل سے اپنے لئے

ہمہ تن انتظار ہیں ہم لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم ہو جہاں کے شاید میں بھی وہیں رہا ہوں

کچھ تم بھی بھولتے ہو کچھ میں بھی بھولتا ہوں

مٹتا بھی جا رہا ہوں پورا بھی ہو رہا ہوں

میں کس کی آرزو ہوں میں کس کا مدّعا ہوں

کیفِ فنا بھی مجھ میں، شانِ بقا بھی مجھ میں

میں کس کی ابتدا ہوں، میں کس کی انتہا ہوں

منزل کی یوں تو مجھ کو کوئی خبر نہیں ہے

دل میں کسی طرف کو کچھ سوچتا چلا ہوں

میں ہوں بھی یا نہیں ہوں یہ بھی خبر نہیں ہے

میں کیا کہوں کہاں ہوں میں کیا بتاؤں کیا ہوں

لیتی ہیں الٹی سانسیں جب شامِ غم فضائیں

اس دم فنا، بقا کی میں نبض دیکھتا ہوں

ہوں وہ شعاعِ فردا جو آنکھ مل رہی ہے

وہ سرمگیں افق پر میں تھرتھرا رہا ہوں

ہوں موجِ آبِ حیواں اٹھتا ہوں خون ہو کر

میں دردِ زندگی ہوں اور دردِ لادوا ہوں

جس سے شجر حجر میں اک روح دوڑ جائے

وہ سازِ سرمدی میں غزلوں میں چھیڑتا ہوں

میں اے فراقؔ حسنِ دوشیزۂ ازل کی

معصومی نظر ہوں، میں عشق کی خطا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

شامِ غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو

بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

یہ سکوتِ ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا

خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو

نکہتِ زلف پریشاں، داستانِ شامِ غم

صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو

ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے دکھتی رہے

یوں ہی اس کے جا و بیجا ناز کی باتیں کرو

جو عدم کی جان ہے جو ہے پیام زندگی

اس سکوتِ راز، اس آواز کی باتیں کرو

نام بھی لینا ہے جس کا اک جہان رنگ و بو

دوستو اس نوبہارِ ناز کی باتیں کرو

کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا

کچھ فضا، کچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو

جو حیاتِ جاوداں ہے، جو ہے مرگ ناگہاں

آج کچھ اس ناز اس انداز کی باتیں کرو

عشقِ بے پروا بھی اب کچھ نا شکیبا ہو چلا

شوخیِ حسنِ کرشمہ ساز کی باتیں کرو

جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا، فراقؔ

آج اس عیسیٰ نفس، دم ساز کی باتیں کرو

٭٭٭

 

 

 

 

اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یوں ہی کبھو لب کھولیں ہیں

پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں

دن میں ہم کو دیکھنے والو اپنے اپنے ہیں اوقات

جاؤ نہ تم ان خشک آنکھوں پر ہم را توں کو رولیں ہیں

فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی

کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہولیں ہیں

خنک سیہ مہکے ہوئے سائے پھیلتے جائیں ہیں جل تھل پر

کن جتنوں سے میری غزلیں رات کا جوڑا کھولیں ہیں

اف وہ لبوں پر موجِ تبسّم جیسے کروٹیں لیں کوندے

ہائے وہ عالمِ جنبش مژگاں جب فتنے پر تولیں ہیں

نقش و نگارِ غزل میں جو تم یہ شادابی پاؤ ہو

ہم اشکوں میں کائنات کے نوکِ قلم کو ڈبو لیں ہیں

ان را توں کو حریم ناز کا اک عالم ہوئے ندیم

خلوت میں وہ نرم انگلیاں بندِ قبا جب کھولیں ہیں

غم کا فسانہ سننے والو آخر شب آرام کرو

کل یہ کہانی پھر چھیڑیں گے ہم بھی ذرا اب سولیں ہیں

ہم لوگ اب تو اجنبی سے ہیں کچھ تو بتاؤ حالِ فراقؔ

اب تو تمھیں کو پیار کریں ہیں اب تو تمھیں سے بولیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

نگاہ بادہ گوں یوں تو تری با توں کا کیا کہنا

تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان را توں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا

اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی

مری باتیں بہ عنوان دگر، وہ مان لیتے ہیں

تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت

کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا

عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں

ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر نقصان لیتے ہیں

رفیق زندگی تھی اب انیسِ وقت آخر ہے

ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں

فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر

کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سر میں سودا بھی نہیں، دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن ۱س ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بے گانوں میں

لیکن اس جلوہ گہہِ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

شکوۂ جور کرے کیا کوئی اس شوخ سے جو

صاف قائل بھی نہیں، صاف مکرتا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ اب مجھ سے تری رنجشِ بے جا بھی نہیں

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا

آج ہی خاطرِ بیمار شکیبا بھی نہیں

بات یہ ہے کہ سکونِ دل وحشی کا مقام

کنجِ زنداں بھی نہیں، وسعتِ صحرا بھی نہیں

’’ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں ‘‘

تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں

آہ یہ مجمعِ احباب یہ بزم خاموش

آج محفل میں فراقِؔ سخن آرا بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

عشق کی مایوسیوں میں سوزِ پنہاں کچھ نہیں

۱س ہوا میں یہ چراغِ زیر داماں کچھ نہیں

کیا ہے دیکھو حسرتِ سیر گلستاں کچھ نہیں

کچھ نہیں اے ساکنانِ کُنجِ زنداں کچھ نہیں

عشق کی ہے خود نمائی عشق کی آشفتگی

روئے تاباں کچھ نہیں زلفِ پریشاں کچھ نہیں

یاد آ ہی جاتی ہے اکثر دلِ برباد کی

یوں تو سچ ہے چند ذراتِ پریشاں کچھ نہیں

سچ ہے جو کچھ بھی ہے، وہ ہے گرمیِ بازارِ حسن

اہل دل کا سوزِ پنہاں کچھ نہیں ہاں کچھ نہیں

اور ان کی زندگی ہے اور عنوانِ حیات

خود فراموشوں کو تیرے عہد و پیماں کچھ نہیں

ایک ہو جائے نہ جب تک سرحدِ ہوش و جنوں

ایک ہو کر چاک دامان و گریباں کچھ نہیں

جو نہ ہو جائے وہ کم ہے جو بھی ہو جائے بہت

کار زارِ عشق میں دشوار و آساں کچھ نہیں

دیکھنی تھی دیکھ لی اس چھیڑ کی بھی سادگی

بے دلوں میں یہ تبسّم ہائے پنہاں کچھ نہیں

کاش اپنے درد سے بیتاب ہوتے اے فراقؔ

دوسرے کے ہاتھوں یہ حال پریشاں کچھ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ترے وحشی بھری دنیا کو ویرانا سمجھتے ہیں

مگر ایک ایک ذرّے کو بھی اک دنیا سمجھتے ہیں

طلسم رنگ و بو کو اہلِ دل کیا کیا سمجھتے ہیں

کبھی دھوکا، کبھی پردا، کبھی جلوا سمجھتے ہیں

چھپا بھی کچھ نہیں رہتا نظر بھی کچھ نہیں آتا

اسی کو ہم ترا دیدار ہو جانا سمجھتے ہیں

اب اتنی بھی نہیں بہکی مری بہکی ہوئی باتیں

جنھیں بے وقت، بے تک، بے محل، بے جا سمجھتے ہیں

کسی کے جینے والے جی رہے ہیں اور عالم میں

سکوں کیا ہے کسے بیتاب ہو جانا سمجھتے ہیں

وہی جو تنگنائے زیست میں کچھ وسعتیں بھی ہیں

انھیں کو اصطلاحِ عشق میں صحرا سمجھتے ہیں

ہمارا حال سننے والے تیرے ضبط کے صدقے

یہ رہ رہ کے ترا ہم مسکرا دینا سمجھتے ہیں

جہانِ رنگ و بو بس چند ذرّات پریشاں ہیں

بھرے گلزار کو اہلِ نظر صحرا سمجھتے ہیں

یہ کوئی منصفی ہے تجھ کو الزامِ جفا دینا

نہ جانے غمگسارِ عشق تجھ کو کیا سمجھتے ہیں

فراقؔ اکثر کوئی ہر اک سے بیگانہ سا رہتا ہے

بس اتنے پر کسی کو لوگ دیوانا سمجھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

لپٹی ہوئی قدموں سے ہو وہ راہ گذر بھی

ایک ایک قدم جس میں ہے منزل بھی سفر بھی

افسانہ در افسانہ ہے گویا وہ نظر بھی

کچھ کہنے کو ہے جیسے بعنوانِ دگر بھی

ہر سانس میں آتی ہے عجب دل کی خبر بھی

کچھ ساکن و ساکت بھی ہے کچھ زیر و زبر بھی

بیگانہ تھا کچھ حسن بھی کچھ میری نظر بھی

اک آگ لگی کل سے ادھر بھی ہے ادھر بھی

اے نرگسِ مخمور ابھی دنیا نہیں بدلی

اک گردشِ مستانہ بہ اندازِ دگر بھی

اچٹے ہوئے دل پھر بھی ہیں اٹکے ہوئے کیا کیا

دنیا ہے عجب جائے کہ پردیس بھی گھر بھی

اس درجہ نہیں بے کسیِ شامِ غم اپنی

اٹھ جاتے ہیں تاروں کے ادھر دیدۂ تر بھی

ہلکی نہیں اس درجہ قبا زہد کی زاہد

نا کردہ گناہوں کے ہیں کچھ دامنِ تر بھی

کچھ بوئے کفن آتی ہے پچھلے کی ہوا میں

پنہاں ہے شبِ تار میں پیغامِ سحر بھی

گذرا ہے فراقِ وطن آوارہ ادھر سے

کچھ چاک گریباں بھی تھا کچھ خاک بسر بھی

٭٭٭

 

 

 

 

رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی

وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی

یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی، نہ ساتھ

مسافروں سے کہو اس کی رہ گزر آئی

فضا تبسّمِ صبح بہار تھی لیکن

پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی

کہیں زمان و مکاں میں ہے نام کو بھی سکوں

مگر یہ بات محبت کی بات پر آئی

کسی کی بزمِ طرب میں حیات بٹتی تھی

امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی

کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا

کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

نیا نہیں ہے مجھے مرگِ ناگہاں کا پیام

ہزار رنگ سے اپنی مجھے خبر آئی

فضا کو جیسے کوئی راگ چیرتا جائے

تری نگاہ دلوں میں یوں ہی اتر آئی

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

شبِ فراقؔ اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد

کہوں یہ کیسے تیری یاد رات بھر آئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا راہ ہے راہ محبت کی سانس آتے آتے ٹوٹ گئی

کیا بار ہے بار محبت کا دو گام میں ہمّت چھوٹ گئی

وہ در وہ چوکھٹ کیا چھوٹی عشّاق کی قسمت پھوٹ گئی

چاہا تھا کہ دل کو سمجھا لیں کچھ سوچ کے ہمّت چھوٹ گئی

زنداں کی حقیقت ہی کیا تھی ہمّت ہی یکا یک ٹوٹ گئی

دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا دیوانوں کی قسمت پھوٹ گئی

تسکین کی باتیں کرتے ہو ہم جانتے ہیں جو ہونا ہے

جب اس سے بچھڑ کر جینا ہے تو یارو قسمت پھوٹ گئی

تم نزع میں دیکھ کے آئے ہو ہم دفن کیے آتے ہیں اسے

کچھ تم کو خبر ہے کتنی دور اک جاتی دنیا چھوٹ گئی

دنیا میں ہیں اور بیٹھے ہیں کھڑاگ محبت کا لے کے

کیا اپنی بھی مت ماری گئی کیا ساری سدھ بدھ چھوٹ گئی

انصاف کسی کا کیا چاہیں کیا عشق کی رسم نرالی تھی

جو اپنے ساتھ کسی نے کیا اے مالک قسمت پھوٹ گئی

ہمراہ نہیں ومساز نہیں، اللہ کوئی آواز نہیں

کیا عشق کی دنیا میں آتے ہی رہتی دنیا چھوٹ گئی

ہے درد سا درد محبت کا، ہے چوٹ سی چوٹ محبت کی

آنکھیں بھی نہ پڑنے پائی تھیں اور منھ پہ ہوائی چھوٹ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حُسن و عشق تو دھوکہ ہے سب، مگر پھر بھی

ہزار بار زمانہ اِدھر سے گزرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگزر پھر بھی

خوشا اشارۂ پیہم، زہے سکوتِ نظر

دراز ہوکے فسانہ ہے مختصر پھر بھی

کہیں یہی تو نہیں کاشفِ حیات و ممات

یہ حُسن و عشق بظاہر ہیں بے خبر پھر بھی

خراب ہو کے بھی سوچا کئے ترے مہجور

یہی کہ تیری نظر ہے تِری نظر پھر بھی

ہو بے نیازِ اثر بھی کبھی تِری مٹّی

وہ کیمیا ہی سہی، رہ گئی کسر پھر بھی

تِری نِگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے

اُتر گیا رگ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی

فنا بھی ہو کے گرانباریِ حیات نہ پوچھ

اُٹھائے اُٹھ نہیں سکتا یہ درد سر پھر بھی

اگرچہ بیخودیِ عشق کو زمانہ ہوا !

فراقؔ، کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

رات آدھی سے زیادہ گئی تھی سارا عالم سوتا تھا

نام ترا لے لے کر کوئی درد کا مارا روتا تھا

چارہ گر و یہ تسکیں کیسی! میں بھی ہوں اس دُنیا میں

اُن کے ایسا درد کب اُٹھا جن کو بچنا ہوتا تھا

کچھ کا کچھ کہہ جاتا تھا میں فرقت کی بیتابی میں

سننے والے ہنس پڑتے تھے ہوش مجھے تب ہوتا تھا

تارے اکثر ڈوب چلے تھے رات کے رونے والوں کے

آنے لگی تھی نیند سی کچھ دنیا میں سویرا ہوتا تھا

ترکِ محبت کرنے والو، کون ایسا جگ جیت لیا

عشق سے پہلے کے دن سوچو، کون بڑا سُکھ ہوتا تھا

دُنیا دنیا غفلت طاری عالم عالم بے خبری

حُسن کا جادو کون جگائے ایک زمانہ سوتا تھا

اُس کے آنسو کس نے دیکھے اُس کی آہیں کس نے سنیں

چمن چمن تھا حُسن بھی لیکن دریا دریا روتا تھا

پچھلا پہر تھا ہجر کی شب کا، جاگتا رب، سوتا سنسار

تاروں کی چھاؤں میں کوئی فراقؔ سا جیسے موتی پروتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کچھ بھی عیاں نہاں نہ تھا کوئی زماں مکاں نہ تھا

دیر تھی اک نگاہ کی پھر یہ جہاں جہاں نہ تھا

ساز وہ قطرے قطرے میں سوز وہ ذرّے ذرّے میں

یاد تری کسے نہ تھی درد ترا کہاں نہ تھا

عشق کی آزمائشیں اور فضاؤں میں ہوئیں

پاؤں تلے زمیں نہ تھی سر پہ یہ آسماں نہ تھا

سوزِ نہاں میں وہ قرار قلبِ تپاں میں وہ صفا

شعلہ تو تھا تڑپ نہ تھی آگ تو تھی دھواں نہ تھا

کس کے حواس تھے بجا کون تھا اپنے ہوش میں

وقتِ بیانِ غم کوئی مائلِ داستاں نہ تھا

ایک کو ایک کی خبر منزل عشق میں نہ تھی

کوئی بھی اہل کارواں شاملِ کارواں نہ تھا

اب نہ وہ پرسُشِ کرم اب نہ وہ چشمِ آشنا

شکوۂ عشق بر طرف تجھ سے تو یہ گماں نہ تھا

شکوۂ در گذر نما کیوں ہے کہ حسن عشق سے

اتنا تو بدگماں نہ تھا اتنا تو سرگراں نہ تھا

تیری خوشی کہ یاد رکھ تیری خوشی کہ بھول جا

تجھ سے ذرا بھی بدگماں عالمِ رفتگاں نہ تھا

پھر بھی سُکونِ عشق پر آنکھ بھر آئی بار ہا

گو غمَِ ہجر بھی فراقؔ کچھ غمِ جاوداں نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کچھ وہ اثرِ بادہ سے لہرائے ہوئے ہیں

کچھ گیسوئے شب تاب بھی بل کھائے ہوئے ہیں

جس دن سے تری زلف کے ہمسائے ہوئے ہیں

ہم سایۂ طوبیٰ کے مزے پائے ہوئے ہیں

یوں انجمنِ ناز میں رہ رہ کے نہ کھو جا

اے نرگسِ رعنا تجھے ہم پائے ہوئے ہیں

کیا کیفیتِ حسن بھی ۱ک بارِ گراں ہے

سر تا بہ قدم آج وہ بل کھائے ہوئے ہیں

جو بھٹکے ہوئے خضر کو بھی راہ بتائے

ہم اس نگہِ مست کے بہکائے ہوئے ہیں

گزرے ہیں کئی مرتبہ ہر دشت و چمن سے

ہم لوگ زمانے کی ہوا کھائے ہوئے ہیں

ہے برق سرِ طور بھی پر چھائیں سی جس کی

ہم اس نگہ شوخ کے تڑپائے ہوئے ہیں

پھر ہونے لگی آج کچھ ان میں بھی لپک سی

وہ زخمِ نہاں دل کے جو کجلائے ہوئے ہیں

ہر نور کے پُتلے کو چمک کی نہیں توفیق

ہیں کتنے مہ و مہر جو گہنائے ہوئے ہیں

ہم انجمن ناز میں کیسے چلے آئیں

کہہ دے کوئی ان سے کہ فراقؔ آئے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہجومِ یاس میں سوزِ نہاں بھی یاد آتا ہے

سوادِ شام کا اٹھتا دھواں بھی یاد آتا ہے

ترے لطف و ستم کے نقش دھندلے ہو چلے دل میں

یوں ہی ہر مہرباں نامہرباں بھی یاد آتا ہے

وہ ارمانوں کا محشر وہ بھری دنیا محبت کی

وہ عالم کارواں در کارواں بھی یاد آتا ہے

عدم ہو بزم امکاں ہو گلستاں ہو کہ صحرا ہو

بدل جاتی ہے دنیا تو جہاں بھی یاد آتا ہے

فسانہ عشق کا کہنا نہ کہنا ایک ہے اب تو

وہ ہونا تیرا محوِ داستاں بھی یاد آتا ہے

ازل کے قبل سے چونکی ہوئی ہے عشق کی دنیا

مگر اک عالمِ خوابِ گراں بھی یاد آتا ہے

خبر اپنی بیاباں کو بھی مدت سے نہیں آتی

دلِ وحشی کو لیکن تو یہاں بھی یاد آتا ہے

غبار کارواں کو دیکھتے رہ جاتے تھے پہروں

وہ رنگِ حسرتِ پسماندگاں بھی یاد آ تا ہے

زمانے کی کشا کش میں کوئی اہلِ محبت کو

خوشی کے اور غم کے درمیاں بھی یاد آتا ہے

نہ تھی جب صحبت احباب پر افسردگی طاری

فراقؔ اس انجمن کا وہ سماں بھی یاد آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ترا غم ایک سا رہتا ہے گو ہر دم بدلتا ہے

پڑا ہے وقت جو مجھ پر ٹھہرتا ہے نہ ٹلتا ہے

زمانہ الٹی سانسیں لیتے لیتے پھر سنبھلتا ہے

کہ ہر موجِ نفس سے مدتوں کا بل نکلتا ہے

شبستانِ الم سے سیکڑوں پہلو نکلتا ہے

زمانہ اپنی تاریکی کے پردے میں بدلتا ہے

کئی روپوش صدیوں کے حجاب اٹھ جاتے ہیں ساقی

پیالے میں مرے وہ شعلہ شب تاب ڈھلتا ہے

نہیں جاتی ہے شاعر کی پکار اے ہم نشیں خالی

مری آواز پر دورِ قمر پہلو بدلتا ہے

محبت کتنی ہے نازک مزاج اے دوست کیا کہیے

ستم کا ذکر ہی کیا ہے کرم بھی تیرا کھلتا ہے

کلیدِ موجِ مے سے کھل گئے رازِ جہاں ساقی

پیالے میں مرے اندازِ جامِ جم نکلتا ہے

اداسی میں محبت کافسانہ چھیڑ اے ہمدم

دکھے جس داستاں سے دل اسی سے جی بہلتا ہے

فراقؔ آثار اب تو اور ہی ہیں اپنی دنیا کے

زمیں کی کروٹوں سے آسماں کا دل دہلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک پیغامِ زندگانی بھی

عاشقی مرگِ ناگہانی بھی

اس ادا کا تری جواب نہیں

مہربانی بھی سرگرانی بھی

دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں

کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی

لاکھ حسنِ یقیں سے بڑھ کر ہے

ان نگاہوں کی بد گمانی بھی

خلق کیا کیا مجھے نہیں کہتی

کچھ سنوں میں، تری زبانی بھی

دن کو سورج مُکھی ہے وہ نو گُل

رات کو وہ ہے رات رانی بھی

پاس رہنا کسی کا رات کی رات

میہمانی بھی میزبانی بھی

زندگی عین دیدِ یار فراق

زندگی ہجر کی کہانی بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ ہم سے پوچھ حسن و عشق کا راز نہاں کیا ہے

بہت نزدیک سے اس زندگی کو ہم نے دیکھا ہے

محبت کا فسانہ کیا محبت کی کہانی کیا

کسی کو ہم نے دیکھا ہے کسی کو ہم نے جانا ہے

یہ کب کی چوٹ دب کر رہ گئی ہے ذرّے ذرّے میں

زمیں کے سینۂ خستہ سے اب تک درد اٹھتا ہے

ہماری یہ بغاوت اگلے وقتوں والے کیا سمجھیں

ہماری اس بغاوت سے سلف کا نام زندہ ہے

کبھی اپنا بھی کوئی جان و ایمانِ محبت تھا

خیال ایسا کچھ آتا ہے گماں ایسا گزرتا ہے

امیدِ زندگی رہ جائے خوفِ زندگی ہو کر

یہی ہے زندگی تو جینے والو زندگی کیا ہے

بھری دنیا میں دم گھُٹتا ہے اف رے دورِ تنہائی

سب اپنے ہیں مگر سچ ہے کسی کا کون ہوتا ہے

ابھی تو انقلابِ دہر کی ہے منزل اوّل

ابھی تو دیکھتے جاؤ زمانے کو، ابھی کیا ہے

وہ آئے بھی گئے بھی اِس کو مدت ہو گئی لیکن

یہ کانوں میں ابھی تک ہم نشیں آوازِ پا کیا ہے

کسک ہو یا خلش ہو یا تپش ہو، درد ہو کچھ ہو

فراقؔ آہٹ نہیں ملتی ہے دل کی ماجرا کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے

اے دردِ ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے

ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے

حیرت سرائے عشق میں دن ہے نہ رات ہے

کیوں انتہائے ہوش کو کہتے ہیں بے خودی

خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے

ہستی کو جس نے زلزلہ ساماں بنا دیا

وہ دل قرار پائے مقدر کی بات ہے

توڑا ہے لا مکاں کی حدوں کو بھی عشق نے

زندانِ عقل تیری تو کیا کائنات ہے

گردوں ! شرار برق دل بے قرار دیکھ

جن سے یہ تیری تاروں بھری رات رات ہے

گم ہو کے ہر جگہ ہیں زخود رفتگانِ عشق

ان کی بھی اہلِ کشف و کرامات ذات ہے

ہستی بجز، فنائے مسلسل کے کچھ نہیں

پھر کس لئے یہ فکرِ قرار و ثبات ہے

اس جانِ دوستی کے خلوصِ نہاں نہ پوچھ

جس کا ستم بھی غیرتِ صد التفات ہے

عنوان غفلتوں کے ہیں فرقت ہو یا وصال

بس فرصت حیات فراقؔ ایک رات ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر نالہ تیرے درد سے اب اور ہی کچھ ہے

ہر نغمہ سرِ بزمِ طرب اور ہی کچھ ہے

یہ کام نہ لے نالہ و فریاد و فغاں سے

افلاک الٹ دینے کا ڈھب اور ہی کچھ ہے

اک سلسلۂ راز ہے جینا کہ ہو مرنا

جب اور ہی کچھ تھا مگر اب اور ہی کچھ ہے

کچھ مہرِ قیامت ہے، نہ کچھ نارِ جہنم

ہشیار کہ وہ قہر و غضب اور ہی کچھ ہے

مذہب کی خرابی ہے، نہ اخلاق کی پستی

دنیا کے مصائب کا سبب اور ہی کچھ ہے

بیہودہ سری، سجدے میں ہے جان کھپانا

آئینِ محبت میں ادب اور ہی کچھ ہے

کیاحسن کے اندازِ تغافل کی شکایت

پیمانِ وفا عشق کا جب اور ہی کچھ ہے

دنیا کو جگا دے جو عدم کو بھی سلادے

سنتے ہیں کہ وہ روز، وہ شب اور ہی کچھ ہے

آنکھوں نے فراق آج نہ پوچھو جو دکھایا

جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب اور ہی کچھ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ستارے دم بخود ہیں شامِ فرقت ایسی ہوتی ہے

نوائے درد اے ساز محبت ایسی ہوتی ہے

ملا دے دوزخ و جنت محبت ایسی ہوتی ہے

نگاہِ یار اے پیرِ طریقت ایسی ہوتی ہے

ہماری عظمتیں آئینہ کر دیتی ہے جو ہم پر

کچھ انسانوں میں شانِ آدمیت ایسی ہوتی ہے

تو کیا ہمدم کسی کا درد کوئی بانٹ لیتا ہے

محبت ہوتی ہے تو کیا محبت ایسی ہوتی ہے

نہ دنیا کام آتی ہے نہ عقبیٰ کام آتی ہے

محبت کو کبھی تیری ضرورت ایسی ہوتی ہے

کوئی خود انجمن ہے خود حریم راز کیا کہنا

نہ جلوت ایسی ہوتی ہے نہ خلوت ایسی ہوتی ہے

نظر کو راز کہیے انکشاف راز بھی کہیے

اسے ابہام کہتے ہیں صراحت ایسی ہوتی ہے

وسنا ہے جنس دل پر بک گئی ہے دولت کونین

زہے وہ خاک جس کی قدر و قیمت ایسی ہوتی ہے

نگاہ آشنا جب مسکرائی آنکھ بھر آئی

خبر کیا تھی کہ اہل دل کی قسمت ایسی ہوتی ہے

فراقؔ انگڑائیاں لینے لگا شہر خموشاں بھی

خرامِ ناز کے صدقے قیامت ایسی ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

نظمیں

 

 

 

 

 

جگنو

 

بیس برس کے اس نوجوان کے جذبات جس کی ماں اسی دن مر گئی جس دن وہ پیدا ہوا۔

 

یہ مست مست گھٹا، یہ بھری بھری برسات

تمام حدِّ نظر تک گھلاوٹوں کا سماں

فضائے شام میں ڈورے سے پڑتے جاتے ہیں

جدھر نگاہ کریں کچھ دھواں سا اٹھتا ہے

دہک اٹھا ہے طراوت کی آنچ سے آکاش

ز فرش تا فلک انگڑائیوں کا عالم ہے

یہ مد بھری ہوئی پروائیاں سنکتی ہوئی

جھنجھوڑتی ہے ہری ڈالیوں کو سرد ہوا

یہ شاخسار کے جھولوں میں پینگ پڑتے ہوئے

یہ لاکھوں پتیوں کا ناچنا یہ رقص نبات

یہ بے خودیِ مسرت یہ والہانہ رقص

یہ تال سم یہ چھما چھم کہ کان بجتے ہیں

ہوا کے دوش پہ کچھ اودی اودی شکلوں کی

نشے میں چور سی پرچھائیاں تھرکتی ہوئی

افق یہ ڈوبتے دن کی جھپکتی ہیں آنکھیں

خموش سوز دروں سے سبلگ رہی ہے یہ شام

مرے مکان کے آگے ہے ایک چوڑی صحن وسیع

کبھی وہ ہنستی نظر آتی ہے کبھی وہ اداس

اسی کے بیچ میں ہے ایک پیڑ پیپل کا

سنا ہے میں نے بزرگوں سے یہ کہ عمر اس کی

جو کچھ نہ ہو گی تو ہو گی قریب چھیانوے سال

چھڑی تھی ہند میں جب پہلی جنگ آزادی

جسے دبانے کے بعد اس کو غدر کہنے لگے

یہ اہلِ ہند بھی ہوتے ہیں کس قدر معصوم

وہ دارو گیر وہ آزادیِ وطن کی جنگ

وطن سے تھی کہ غنیمِ وطن کے غدّاری

بپھر گئے تھے ہمارے وطن کے پیر و جوان

دیار ہند میں رن پڑ گیا تھا چار طرف

اسی زمانے میں کہتے ہیں میرے دادا نے

جب ارض ہند سنچی خون سے ’’سپوتوں ‘‘ کے

میانِ صحن لگایا تھا لا کے اک پودا

جو آب و آتش و خاک و ہوا سے پلتا ہوا

خود اپنے قد سے بجوشِ نمو نکلتا ہوا

فسونِ روح بناتی رگوں میں چلتا ہوا

نگاہِ شوق کے سانچوں میں روز ڈھلتا ہوا

سنا ہے راویوں سے دیدنی تھی اس کی اٹھان

ہر اک کے دیکھتے ہی دیکھتے چڑھا پروان

وہی ہے آج یہ چھتنار پیڑ پیپل کا

وہ ٹہنیوں کے کمنڈل لئے جٹا دھاری

زمانہ دیکھے ہوئے ہے یہ پیڑ بچپن سے

رہی ہے اس کے لئے داخلی کشش مجھ میں

رہا ہوں دیکھتا چپ چاپ دیر تک اس کو

میں کھو گیا ہوں کئی بار اس نظارے میں

وہ اس کی گہری جڑیں تھیں کہ زندگی کی جڑیں ؟

پس سکون شجر کوئی دل دھڑکتا تھا

میں دیکھتا تھا کبھی اس میں زندگی کا ابھار

میں دیکھتا تھا اسے ہستیِ بشر کی طرح

کبھی اداس کبھی شادماں، کبھی گمبھیر

فضا کا سرمئی رنگ اور ہو چلا گہرا

گھلا گھلا سا فلک ہے دھواں دھواں سی ہے شام

ہے جھٹپٹا کہ کوئی اژدہا ہے مائل خواب

سکوتِ شام میں درماندگی کا عالم ہے

رُکی رکی سی کسی سوچ میں ہے موجِ صبا

رکی رکی سی صفیں ملگجی گھٹاؤں کی

اتار پر ہے سر صحن رقص پیپل کا

وہ کچھ نہیں ہے اب اک جنبشِ خفی کے سوا

خود اپنی کیفیت نیلگوں میں ہر لحظہ

یہ شام ڈوبتی جاتی ہے چھپتی جاتی ہے

حجاب وقت سرے سے ہے بے حس و حرکت

رکی رکی دل فطرت کی دھڑکنیں یک لخت

یہ رنگِ شام کہ گردش ہی آسماں میں نہیں

بس ایک وقفۂ تاریک، لمحۂ شہلا

سما میں جنبشِ مبہم سی کچھ ہوئی فوراً

تلی گھٹا کے تلے بھیگے بھیگے پتوں سے

ہری ہری کئی چنگاریاں سی پھوٹ پڑیں

کہ جیسے کھلتی جھپکتی ہوں بے شمار آنکھیں

عجب یہ آنکھ مچولی تھی نور و ظلمت کی

سہانی نرم لویں دیتے اَن گنت جگنو

گھنی سیاہ خنک پتیوں کے جھرمٹ سے

مثال چادر شب تاب جگمگانے لگے

کہ تھرتھراتے ہوئے آنسوؤں سے ساغرِ شام

چھلک چھلک پڑے جیسے بغیر سان گمان

بطونِ شام میں ان زندہ قمقموں کی دمک

کسی کی سوئی ہوئی یاد کو جگاتی تھی

وہ بے پناہ گھٹا وہ بھری بھری برسات

وہ سین دیکھ کے آنکھیں مری بھر آتی تھیں

مری حیات نے دیکھی ہیں بیس برستاتیں

مرے جنم ہی کے دن مر گئی تھی ماں میری

وہ ماں کی شکل بھی جس ماں کی میں نہ دیکھ سکا

جو آنکھ بھر کے مجھے دیکھ بھی سکی نہ وہ ماں

میں وہ پسر ہوں جو سمجھا نہیں کہ ماں کیا ہے

مجھے کھلائیوں اور دائیوں نے پالا تھا

وہ مجھ سے کہتی تھیں جب گھر کے آتی تھی برسات

جب آسمان میں ہر سو گھٹائیں چھاتی تھیں

بوقت شام جب اڑتے تھے ہر طرف جگنو

دئے دکھاتے ہیں یہ بھولی بھٹکی روحوں کو

مزہ بھی آتا تھا مجھ کو کچھ ان کی با توں میں

میں ان کی با توں میں رہ رہ کے کھو بھی جاتا تھا

پر اس کے ساتھ ہی دل میں کسک سی ہوتی تھی

کبھی کبھی یہ کسک ہوک بن کے اٹھتی تھی

یتیم دل کو مرے یہ خیال ہوتا تھا

یہ شام مجھ کو بنا دیتی کاش اک جگنو

تو ماں کی بھٹکی ہوئی روح کو دکھاتا راہ

کہاں کہاں وہ بچاری بھٹک رہی ہو گی

کہاں کہاں مری خاطر بھٹک رہی ہو گی

یہ سوچ کر مری حالت عجیب ہو جاتی

پلک کی اوٹ میں جگنو چمکنے لگتے تھے

کبھی کبھی مری ہچکیاں سی بندھ جاتیں

کہ ماں کے پاس کسی طرح میں پہنچ جاؤں

اور اس کو راہ دکھاتا ہوا میں گھر لاؤں

دکھاؤں اپنے کھلونے دکھاؤں اپنی کتاب

کہوں کہ پڑھ کے سنا تو مری کتاب مجھے

پھر اس کے بعد دکھاؤں اسے میں وہ کاپی

کہ ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنی تھیں کچھ جس میں

یہ حرف تھے جنھیں میں نے لکھا تھا پہلے پہل

دکھاؤں پھر اسے آنگن میں وہ گلاب کی بیل

سنا ہے جس کو اسی نے کبھی لگایا تھا

یہ جب کی بات ہے جب میری عمر ہی کیا تھی

نظر سے گزری تھیں کل چار پانچ برساتیں

گزر رہے تھے مہ وسال اور موسم پر

ہمارے شہر میں آتی تھی گھِر کے جب برسات

جب آسمان میں اڑتے تھے ہر طرف جگنو

ہوا کی موجِ رواں پر دیئے جلائے ہوئے

فضا میں رات گئے جب درخت پیپل کا

ہزاروں جگنوؤں سے کوہ طور بنتا تھا

ہزاروں وادیِ ایمن تھی جس کی شاخوں میں

یہ دیکھ کر مرے دل میں یہ ہوک اٹھتی تھی

کہ میں بھی ہوتا انھیں جگنوؤں میں اک جگنو

تو ماں کی بھٹکی ہوئی روح کو دکھاتا راہ

وہ ماں میں جس کی محبت کے پھول چن نہ سکا

وہ ماں جس سے محبت کے بول سن نہ سکا

وہ ماں کہ بھینچ کے جس کو کبھی میں سو نہ سکا

میں جس کے آنچلوں میں منھ چھپا کے رو نہ سکا

وہ ماں کہ گھٹنوں سے جس کے کبھی لپٹ نہ سکا

وہ ماں کہ سینے سے جس کے کبھی چمٹ نہ سکا

ہمک کے گود میں جس کی کبھی میں چڑھ نہ سکا

میں زیرِ سایۂ امید جس کے بڑھ نہ سکا

وہ ماں میں جس سے شرارت کی داد پا نہ سکا

میں جس کے ہاتھوں محبت کی مار کھا نہ سکا

سنوارا جس نے نہ میرے جھنڈولے بالوں کو

بسا سکی نہ جو ہونٹوں سے سونے گالوں کو

جو میری آنکھوں میں آنکھیں کبھی نہ ڈال سکی

نہ اپنے ہاتھوں سے مجھ کو کبھی اچھال سکی

وہ ماں جو کوئی کہانی مجھے سنا نہ سکی

مجھے سلانے کو جو لوریاں بھی گا نہ سکی

وہ ماں جو دودھ بھی اپنا مجھے پلا نہ سکی

وہ ماں جو ہاتھ سے اپنے مجھے کھلا نہ سکی

وہ ماں گلے سے مجھے جو کبھی لگا نہ سکی

وہ ماں جو دیکھتے ہی مجھ کو مسکرا نہ سکی

کبھی جو مجھ سے مٹھائی چھپا کے رکھ نہ سکی

کبھی جو مجھ سے دہی بھی بچا کے رکھ نہ سکی

میں جس کے ہاتھ میں کچھ دیکھ کر ڈہک نہ سکا

پٹک پٹک کے کبھی پاؤں میں ٹھنک نہ سکا

کبھی نہ کھینچا شرارت سے جس کا آنچل بھی

رچا سکی مری آنکھوں میں جو نہ کاجل بھی

وہ ماں جو میرے لئے تتلیاں پکڑ نہ سکی

جو بھاگتے ہوئے بازو مرے جکڑ نہ سکی

بڑھایا پیار کبھی کر کے پیار میں نہ کمی

جو منھ بنا کے کسی دن نہ مجھ سے روٹھ سکی

جو یہ بھی کہہ نہ سکی جا نہ بولوں گی تجھ سے

جو ایک بار خفا بھی نہ ہو سکی مجھ سے

وہ جس کو جوٹھا لگا منھ کبھی دکھا نہ سکا

کثافتوں پہ مری جس کو پیار آ نہ سکا

جو مٹی کھانے پہ مجھ کو کبھی نہ پیٹ سکی

نہ ہاتھ تھام کے مجھ کو کبھی گھسیٹ سکی

وہ ماں جو گفتگو کی رو میں سن کے میری بڑ

کبھی جو پیار سے مجھ کو نہ سکی گھامڑ

شرارتوں سے مری جو کبھی الجھ نہ سکی

حماقتوں کا مری فلسفہ سمجھ نہ سکی

وہ ماں کبھی جسے چونکانے کو میں لُک نہ سکا

میں راہ چھینکنے کو جس کے آگے رک نہ سکا

جو اپنے ہاتھ سے بہروپ میرے بھر نہ سکی

جو اپنی آنکھوں کو آئینہ میرا کر نہ سکی

گلے میں ڈالی نہ باہوں کی پھول مالا بھی

نہ دل میں لوح جبیں سے کیا اجالا بھی

وہ ماں کبھی جو مجھے بدھیاں پنہا نہ سکی

کبھی مجھے نئے کپڑوں سے جو سجا نہ سکی

وہ ماں نہ جس سے لڑکپن کے جھوٹ بول سکا

نہ جس کے دل کے در ان کنجیوں سے کھول سکا

وہ ماں میں پیسے بھی جس کے کبھی چرا نہ سکا

سزا کے بچنے کی جھوٹی قسم بھی کھا نہ سکا

وہ ماں کہ آیتِ رحمت ہے جس کی چین جبیں

وہ ماں کہ ہاں سے بھی ہوتی ہے بڑھ کے جس کی نہیں

دمِ عتاب جو بنتی فرشتہ رحمت کا

جو راگ چھڑتی جھنجھلا کے بھی محبت کا

وہ ماں کہ گھر کیاں بھی جس کی گیت بن بن جائیں

وہ ماں کی جھڑکیاں بھی جس کی پھول ہی برسائیں

وہ ماں ہم اس سے جو دم بھر کو دشمنی کر لیں

تو یہ نہ کہہ سکے اب آؤ دوستی کر لیں

کبھی جوسن نہ سکی میری توتلی باتیں

جو دے سکی نہ کبھی تھپڑوں کی سوغاتیں

وہ ماں بہت سے کھلونے جو مجھ کو دے نہ سکی

خراجِ سرخوشیِ سرمدی جو لے نہ سکی

وہ ماں میں جس سے لڑائی کبھی نہ ٹھان سکا

وہ ماں میں جس پہ کبھی مٹھیاں نہ تان سکا

وہ میری ماں میں کبھی جس کی پیٹھ پر نہ چڑھا

وہ میری ماں کبھی کچھ جس کے کان میں نہ کہا

وہ ماں کبھی جو مجھے کر دھنی پہنا نہ سکی

جو تال ہاتھ سے دے کر مجھے نچا نہ سکی

کہ مجھ کو زندگی دینے میں جان ہی دے دی

وہ ماں نہ دیکھ سکا زندگی میں جس کی چاہ

اسی کی بھٹکی ہوئی روح کو دکھاتا راہ

یہ سوچ سوچ کے آنکھیں مری بھر آتی تھیں

تو جا کے سونے بچھونے پہ لیٹ رہتا تھا

کسی سے گھر میں نہ راز اپنے دل کے کہتا تھا

یتیم تھی مری دنیا، یتیم میری حیات

یتیم شام و سحر تھی، یتیم تھے شب و روز

یتیم میری پڑھائی تھی میرے کھیل یتیم

یتیم میری مسرت تھی میرا غم بھی یتیم

یتیم آنسوؤں سے تکیہ بھیگ جاتا تھا

کسی سے گھر میں نہ کہتا تھا اپنے دل کا بھید

ہر اک سے دور اکیلا اداس رہتا تھا

کسی شمائل نادیدہ کو میں جو تکتا تھا

میں ایک وحشتِ بے نام سے ہڑکتا تھا

گزر رہے تھے مہ وسال اور موسم پر

اسی طرح کئی برساتیں آئیں اور گئیں

میں رفتہ رفتہ پہنچنے لگا بہ سن شعور

تو جگنوؤں کی حقیقت سمجھ میں آنے لگی

اب اِن کھلائیوں اور دائیوں کی با توں پر

مرا یقیں نہ رہا مجھ پہ ہو گیا ظاہر

کہ بھٹکی روحوں کو جگنو نہیں دکھاتے چراغ

وہ من گھڑت سی کہانی تھی اک فسانہ تھا

وہ بے پڑھی لکھی عورتوں کی تھی بکواس

بھٹکتی روحوں کو جگنو نہیں دکھاتے چراغ

یہ کھل گیا مرے بہلانے کو تھیں یہ باتیں

مرا یقیں نہ رہا ان فضول قصوں پر

ہمارے شہر میں آتی ہیں اب بھی برسائیں

ہمارے شہر پر اب بھی گھٹائیں چھاتی ہیں

ہنوز بھیگی ہوئی سرمئی فضاؤں میں

خطوط نور بناتی ہیں جگنوؤں کی صفیں

فضائے تیرہ میں اڑتی ہوئی یہ قندیلیں

مگر میں جان چکا ہوں اسے بڑا ہو کر

کسی کی روح کو جگنو نہیں دکھاتے راہ

کہا گیا تھا جو بچپن میں مجھ سے جھوٹ تھا سب

مگر کبھی کبھی حسرت سے دل میں کہتا ہوں

یہ جانتے ہوئے جگنو نہیں دکھاتے چراغ

کسی کی بھٹکی ہوئی روح کو مگر پھر بھی

وہ جھوٹ ہی سہی کتنا حسین جھوٹ تھا وہ

جو مجھ سے چھین لیا عمر کے تقاضے نے

میں کیا بتاؤں وہ کتنی حسین دنیا تھی

جو بڑھتی عمر کے ہاتھوں نے چھین لی مجھ سے

سمجھ سکے کوئی اے کاش عہد طفلی کو

جہان دیکھنا مٹی کے ایک ریزے کو

نمود لالۂ خودرو میں دیکھنا جنت

کرے نظارۂ کونین اک گھروندے میں

اٹھا کے رکھ لے خدائی کو جو ہتھیلی پر

کرے دوام کو جو قید ایک لمحے میں

سنا؟ وہ قادرِ مطلق ہے ایک ننھی سی جان

خدا بھی سجدے میں جھک جائے سامنے اُس کے

یہ عقل و فہم بڑی چیز ہیں مجھے تسلیم

مگر لگا نہیں سکتے ہم اس کا اندازہ

کہ آدمی کو یہ پڑتی ہیں کس قدر مہنگی

اک ایک کر کے وہ طفلی کے ہر خیال کی موت

بلوغ سن میں وہ صدمے نئے خیالوں کے

نئے خیال کا دھچکا نئے خیال کی ٹیس

نئے تصوروں کا کرب، الاماں، کہ حیات

تمام زخم نہاں ہے تمام نشتر ہے

یہ چوٹ کھا کے سنبھلنا محال ہوتا ہے

سکوت رات کا جس وقت چھیڑتا ہے ستار

کبھی کبھی تری پائل کی آتی ہے جھنکار

تو میری آنکھوں سے موتی برسنے لگتے ہیں

اندھیری رات کے پرچھاویں دکھنے لگتے ہیں

یہ جگنو بن کے تو تجھ تک پہنچ نہیں سکتا

جو تجھ سے ہو سکے اے ماں تو وہ طریقہ بتا

تو جس کو پالے وہ کاغذ اچھال دوں کیسے

یہ نظم میں ترے قدموں میں ڈال دوں کیسے

نوائے درد سے کچھ جی تو ہو گیا ہلکا

مگر جب آتی ہے برسات کیا کروں اِس کو

جب آسمان میں اڑتے ہیں ہر طرف جگنو

شراب نور لئے سبز آبگینوں میں

کنول جلاتے ہوئے ظلمتوں کے سینوں میں

جب ان کی تابش بے ساختہ سے پیپل کا

درخت سرو چراغاں کو مات کرتا ہے

نہ جانے کس لئے آنکھیں مری بھر آتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

پرچھائیاں

 

(۱)

یہ شام اک آئینہ نیلگوں، یہ نم، یہ مہک

یہ منظروں کی جھلک، کھیت، باغ، دریا، گاؤں

وہ کچھ سلگتے ہوئے کچھ سلگنے والے الاؤ

سیاہیوں کا دبے پاؤں آسماں سے نزول

لٹوں کو کھول دے جس طرح شام کی دیوی

پرانے وقت کے برگد کی یہ اداس جٹائیں

قریب و دور یہ گودھول۱؎ کی ابھرتی گھٹائیں

یہ کائنات کا ٹھہراؤ، یہ اتھاہ سکوت

یہ نیم تیرہ فضا روزِ گرم کا تابوت

دھواں دھواں سی زمیں ہے گھلا کھلا سا فلک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎گودھول۔ چراگاہوں سے پلٹتے ہوئے مویشی کی چالوں سے اڑتی ہوئی گرد

 

(۲)

یہ چاندنی، یہ ہوائیں، یہ شاخ، گل کی لچک

یہ دورِ بادہ، یہ ساز خموش فطرت کے

سنائی دینے لگی جگمگاتے سینوں میں

دلوں کے نازک و شفاف آبگینوں میں

ترے خیال کی پڑتی ہوئی کرن کی کھنک

 

 

(۳)

یہ رات چھنتی ہواؤں کی سوندھی سوندھی مہک

یہ کھیت کرتی ہوئی چاندنی کی نرم دمک

سگندھ رات کی رانی۱؎ کی جب مچلتی ہے

فضا میں روح طرب کروٹیں بدلتی ہے

یہ روپ سر سے قدم تک حسین جیسے گناہ

یہ عارضوں کی دمک، یہ فسونِ چشم سیاہ

یہ دھج نہ دے جو اجنتا کی صنعتوں کی پناہ

یہ سینہ پڑ ہی گئی دیولوک۲؎ کی بھی نگاہ

یہ سرزمیں ہے آکاش کی پرستش گاہ

اتارتے ہیں تری آرتی ستارہ و ماہ

سجل بدن کی بیان کس طرح ہو کیفیت

سرسوتی۳؎ کے بجاتے ہوئے ستار کی گت

جمالِ یار ترے گلستاں کی رہ رہ کے

جبینِ ناز تری کہکشاں کی رہ رہ کے

دلوں میں آئینہ در آئینہ سہانی جھلک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ رات کی رانی یا رات رانی ایک خوشبو دار پودے کا نام۔ جس کے پھول رات کو کھلتے اور بہت نرم خوشبو دیتے ہیں۔

۲؎ دیوتاؤں کی دینا، عالم قدس۔ ۳؎ سرسوتی تلفظ سرس (تی) علوم فنوں کی دیوی

 

 

(۴)

یہ چھب، یہ روپ، یہ جوبن، یہ سج یہ دھج یہ لہک

چمکتے تاروں کی کرنوں کی نرم نرم پھوار

یہ رسماتے بدن کا اٹھان اور یہ ابھار

فضا کے آئینہ میں جیسے لہلہائے بہار

یہ بے قرار یہ بے اختیار جوشِ نمود

کہ جیسے نور کا فوارہ ہو شفق آلود

یہ جلوے پیکر شب تاب کے یہ بزم شہود

یہ مستیاں کے مَے صاف و درد سب بے بود

خجل ہو لعل یمن عضو عضو کی وہ ڈلک

 

 

(۵)

بس اک ستارۂ شنگرف کی جبیں پہ جھمک

وہ چال جس سے لبالب گلابیاں چھلکیں

سکوں نما خمِ ابرو پہ ادھ کھلی پلکیں

ہر اک نگاہ سے ایمن کی بجلیاں لپکیں

یہ آنکھ جس میں کئی آسماں دکھائی پڑیں

اڑا دیں ہوش وہ کانوں کی سادہ سادہ لویں

گھٹائیں وجد میں آئیں یہ گیسوؤں کی لٹک

یہ کیف و رنگ نظارہ یہ بجلیوں کی لپک

کہ جیسے کرشن سے رادھا کی آنکھ اشارے کرے

وہ شوخ اشارے کہ ربانیت بھی جائے جھپک

جمالِ سر سے قدم تک تمام شعلہ ہے

سکون و جنبش ورم تک تمام شعلہ ہے

مگر وہ شعلہ کہ آنکھوں میں ڈال دے ٹھنڈک

 

(۶)

یہ رات! نیند میں ڈوبے ہوئے سے ہیں دیپک

فضا میں بجھ گئے اڑ اڑ کے جگنوؤں کے شرار

کچھ اور تاروں کی آنکھوں کا بڑھ چلا ہے خمار

فسردہ چھٹکی ہوئی چاندنی کا دھندلا غبار

یہ بھیگی بھیگی، اداہٹ، یہ بھیگا بھیگا نور

کہ جیسے چشمۂ ظلمات میں جلے کافور

یہ ڈھلتی رات! ستاروں کے قلب کا یہ گداز

خنک فضا میں ترا شبنمی تبسم ناز

جھلک جمال کی تعبیر خواب آئینہ ساز

جہاں سے جسم کو دیکھیں تمام ناز و نیاز

جہاں نگاہ ٹھہر جائے راز اندر راز

سکوت نیم شبی، لہلہے بدن کا نکھار

کہ جیسے نیند کی وادی میں جاگتا سنسار

ہے بزم ماہ کی پرچھائیوں کی بستی ہے

فضا کی اوٹ سے وہ خامشی برستی ہے

کہ بوند بوند سے پیدا ہو گوش و دل ہیں کھنک

 

 

(۷)

کسی خیال میں ہے غرق چاندنی کی چمک

ہوائیں نیند کے کھیتوں سے جیسے آتی ہوں

حیات و موت میں سرگوشیاں سی ہوتی ہیں

کروروں سال کے جاگے ستارے نم دیدہ

سیاہ گیسوؤں کے سانپ نیم خوابیدہ

یہ پچھلی رات، یہ رگ رگ میں نرم نرم کسک

٭٭٭

 

 

 

 

 

آدھی رات

 

(۱)

سیاہ پیڑ ہیں اب آپ اپنی پرچھائیں

زمیں سے تا مہ و انجم سکوت کے مینار

جدھر نگاہ کریں اکا تھاہ گم شدگی

اک ایک کر کے فسردہ چراغوں کی پلکیں

جھپک گئیں جو کھلی ہیں جھپکنے والی ہیں

جھلک رہا ہے پڑا چاندنی کے درپن میں

رسیلے کیف بھرے منظروں کا جاگنا خواب

فلک پہ تاروں کو پہلی جماہیاں آئیں

 

 

(۲)

تمولیوں کی دوکانیں کہیں کہیں ہیں کھلی

کچھ اونگھتی ہوئی بڑھتی ہیں شاہراہوں پر

سواریوں کے بڑے گھنگھروؤں کی جھنکاریں

کھڑا ہے اداس میں چپ چاپ ہر سنگار کا پیڑ

دلہن ہو جیسے حیا کی سگندھ سے بوجھل

یہ موج نور یہ بھرپور یہ کھلی ہوئی رات

کہ جیسے کھلتا چلا جائے اک سفید کنول

سیاہ روس ہے اب کتنی دور برلن سے ؟

جگا رہا ہے کوئی آدھی رات کا جادو

چھلک رہا ہے کوئی آدھی رات کا جادو

فضائے نیم شبی نرگسِ خمار آلود

کنول کی چٹکیوں میں بند ہے ندی کا سہاگ

 

 

(۳)

یہ رس کا سیج، یہ سکمار یہ سُکومل گات

نین، کمل کی جھپک، کام روپ کا جادو

یہ رسمسائی پلک کی گھنی گھنی پرچھائیں

فلک پہ بکھرے ہوئے چاند اور ستاروں کی

چمکتی انگلیوں سے چھڑکے سازِ فطرت کے

ترانے جاگنے والے ہیں تم بھی جاگ اٹھو

 

 

(۴)

شعاعِ مہر نے یوں ان کو چوم چوم لیا

ندی کے بیچ کُمدنی کے پھول کھل اٹھے

نہ مفلسی ہو تو کتنی حسین ہے دنیا

یہ جھائیں جھائیں سی رہ رہ کے ایک جھینگر کی

حنا کی ٹیٹوں میں نرم سرسراہٹ سی

فضا کے سینے میں خاموش سنساہٹ سی

لٹوں میں رات کی دیوی کی تھرتھراہٹ سی

یہ کائنات اب اک نیند لے چکی ہو گی

 

 

(۵)

یہ محوِ خواب ہیں رنگین مچھلیاں تہِ آب

کہ حوض صحن میں اب ان کی چشمکیں بھی نہیں

یہ سرنگوں ہیں سر شاخ پھول گڑ ہل کے

کہ جیسے بے بجھے انگارے ٹھنڈے پڑ جائیں

یہ چاندنی ہے کہ امڈا ہوا ہے رس ساگر

اک آدمی ہے کہ اتنا دکھی ہے دنیا میں

 

 

(۶)

قریب چاند کے منڈلا رہی ہے اک چڑیا

بھنور میں نور کے کروٹ سے جیسے ناؤ چلے

کہ جیسے سینۂ شاعر میں کوئی خواب پلے

وہ خواب سانچے میں جس کے نئی حیات ڈھلے

وہ خواب جس سے پرانا نظام غم بدلے

کہاں آتی ہے مدمالتی لتا کی لپٹ

کہ جیسے سیکڑوں پریاں گلابیاں چھڑکائیں

کہ جیسے سیکڑوں بن دیویوں نے جھولے پر

ادائے خاص سے اک ساتھ بال کھول دیئے

لگے ہیں کان ستاروں کے جس کی آہٹ پر

اس انقلاب کی کوئی خبر نہیں آتی

دل نجوم دھڑکتے ہیں کان بجتے ہیں

 

 

(۷)

یہ سانس لیتی ہوئی کائنات یہ شبِ ماہ

یہ پرسکوں یہ پر اسرار یہ اُداس سماں

یہ نرم نرم ہواؤں کے نیلگوں جھونکے

فضا کی اوٹ میں مردوں کی گنگناہٹ ہے

یہ رات موت کی بے رنگ مسکراہٹ ہے

دھواں دھواں سے مناظر تمام نم دیدہ

خشک دھندلکے کی آنکھیں بھی نیم خوابیدہ

ستارے ہیں کہ جہاں پر ہے آنسوؤں کا کفن

حیات پردۂ شب میں بدلتی ہے پہلو

کچھ اور جاگ اٹھا آدھی رات کا جادو

زمانہ کتنا لڑائی کو رہ گیا ہو گا

مرے خیال میں اب ایک بج رہا ہو گا

 

 

(۸)

گلوں نے چادر شبنم نے منھ لپٹ لیا

لبوں پہ سوگئی کلیوں کی مسکراہٹ بھی

ذرا بھی سنبلِ ترکی لٹیں نہیں ہلتیں

سکوتِ نیم شبی کے حدیں نہیں ملتیں

اب انقلاب میں شاید زیادہ دیر نہیں

گزر رہے ہیں کئی کارواں دھندلکے میں

سکوت نیم شبی ہے انھیں کے پاؤں کی چاپ

کچھ اور جاگ اٹھا آدھی رات کا جادو

 

 

(۹)

نئی زمیں، نیا آسماں، نئی دنیا

نئے ستارے، نئی گردشیں، نئے دن رات

زمیں سے تابہ فلک انتظار کا عالم

فضائے زرد میں، دھندلے غبار کا عالم

حیات موت نما انتشار کا عالم

ہے موج دوکہ دھندلی فضا کی نبضیں ہیں

تمام خستگی و ماندگی یہ دورِ حیات

تھکے تھکے سے یہ تارے تھکی تھیکی سی یہ رات

یہ سرد سرد یہ بیجان پھیکی پھیکی چمک

نظام ثانیہ کی موت کا پسینا ہے ۱؎

خود اپنے آپ میں یہ کائنات ڈوب گئی

خود اپنے کوکھ سے پھر جگمگا کے ابھرے گی

بدل کے کیچلی جس طرح ناگ لہرائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ پہلا نظام جاگیرداری، دوسرا نظام سرمایہ داری تیسرا نظام اشتراکیت۔ (فراق)

 

 

(۱۰ )

خنک فضاؤں میں رقصاں ہیں چاند کی کرنیں

کہ آبگینوں پہ پڑتی ہے نرم نرم پھوار

یہ موج غفلتِ معصوم یہ خمار بدن

یہ سانس نیند میں ڈوبی یہ آنکھ مدماتی

اب آؤ میرے کلیجے سے لگ کے سو جاؤ

یہ پلکیں بند کرو اور مجھ میں کھو جاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 رباعیاں

 

سوئی ہوئی تقدیر کو بیدار کریں

کھوئی ہوئی دنیا کو خبردار کریں

جس آنکھ کی مستی ہے جہاں پر چھائی

ممکن ہو تو اس آنکھ کو ہشیار کریں

ہر جلوے سے اک درس نمو لیتا ہوں

چھلکے ہوئے صد جام و سبو لیتا ہوں

اے جان بہار، تجھ پر پڑتی ہے جب آنکھ

سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں

مکھڑا دیکھیں تو ماہ پارے چھپ جائیں

خورشید کی آنکھ کے شرارے چھپ جائیں

رہ جانا وہ مسکرا کے ترا کل رات

جیسے کچھ جھلملاتے تارے چھپ جائیں

کچھ رندوں کو سن گئی سی ملی ہے ساقی

آمد نئے دور زیست کی ہے ساقی

تخلیق کے لمحے تھرتھرائے سر جام

دنیا اک گود بھر رہی ہے ساقی

لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے

دوشیزۂ صبح گنگنائے جیسے

یہ روپ، یہ لوچ، یہ ترنم، یہ نکھار

بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے

یہ نقرئی آواز! یہ مترنم خواب

تاروں میں پڑ رہی ہو جیسے مضراب

لہجے میں یہ کھنک یہ رس یہ جھنکار

چاندی کی گھنٹیوں کا بجنا تہہ آب

دنیا ہے فسانہ بحدیث دگراں

کہتے جسے آ رہے ہیں عنواں عنواں

دنیا کس کی غلط بیان ہے فراقؔ

ہر جھوٹ میں جس کے صد حقائق پنہاں

الفاظ کے پردوں میں کرو اس کا یقیں

لیتی ہے سانس نظم شاعر کی زمیں

آہستہ ہی گنگناؤ میرے اشعار

ڈر ہے نہ مرے خواب چل جائیں کہیں

اک حلقۂ زنجیر تو زنجیر نہیں

اک نقطۂ تصویر تو تصویر نہیں

تقدیر تو قوموں کی ہوا کرتی ہے

اک شخص کی قسمت کوئی تقدیر نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 دوہے

 

کہاں کمر سیدھی کرے کہاں ٹھکانا پائے

تیرا گھر جو چھوڑ دے در در ٹھوکر کھائے

آنکھیں چھت سے لگ گئیں ایسے پڑے بیمار

وہ آنکھیں جب سے پھریں بھولے لیل و نہار

شیش محل ہے یہ جگت دیکھ اونچ یا نیچ

مکھڑے آتے ہیں نظر دیواروں کے بیچ

میں نے چھیڑا تھا کہیں رکھتے دل کا ساز

گونج رہی ہے آج تک درد بھری آواز

مورکھ تیری سمجھ میں آئے سمے کا پھیر

وہاں نہیں اندھیر ہے بھلے لگے کچھ دیر

ایک دل اپنے پاس ہے آ جائے جس کام

لایا ہوں بازار میں بک جائے جس دام

ریکھا تیرے روپ کی شکل گیان و گیان

جیون کے ہر ساز کی یہیں ٹوٹتی تان

پیار رس ہو جائے گا سن میرے دو بول

سِر کی آنکھیں بند کر من کی آنکھیں کھول

٭٭٭

 

 

 

 

 فراقؔ کے منتخب اشعار

 

 

تو ایک تھا مرے اشعار میں ہزار ہوا

اِس اک چراغ سے کتنے چراغ جل اٹّھے

فراقؔ گورکھپوری

 

 

 

 

نہ ہم سے پوچھ حسن و عشق کا رازِ نہاں کیا ہے

بہت نزدیک سے اِس زندگی کو ہم نے دیکھا ہے

اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

مرے اشعار دل کش کو جگہ دے اپنے پہلو میں

کہ یہ نغمے ترے سچّے رفیق زندگی ہوں گے

اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے

اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے

ہر عقدہ ُ تقدیر جہاں کھول رہی ہے

ہاں دھیان سے سننا یہ صدی بول رہی ہے

دیکھ رفتارِ انقلاب فراق

کتنی آہستہ اور کتنی تیز

موت کا بھی علاج ہو شاید

زندگی کا کوئی علاج نہیں

کہاں وہ خلوتیں دِن رات کی اور اب یہ عالم ہے

کہ جب ملتے ہیں دِل کہتا ہے کوئی تیسرا بھی ہو

آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے

ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے

مجھے خبر نہیں یارو مگر سنا یہ ہے

کہ دیر دیر تک میں اب اداس رہتا ہوں

سہل تو نے فراق کو سمجھا

ایسے صدیوں میں ہوتے ہیں پیدا

قرب بھی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن

آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا

اوروں کی بھی یاد آ رہی ہے

میں کچھ تجھے بھول سا گیا ہوں

حسن سر تا پا تمنا، عشق سر تا پا غرور

اس کا اندازہ نیاز و ناز سے ہوتا نہیں

ابھی کچھ اور ہو انسان کا لہو پانی

ابھی حیات کے چہرے پہ آب و تاب نہیں

اہلِ رضا میں شانِ بغاوت بھی ہو ذرا

اتنی بھی زندگی نہ ہو پابند رسمیات

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو

تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں

ہائے یہ بے کسی محبت کی

سوچتے ہیں کہیں چلے جائیں

محبت میں مری تنہائیوں کے ہیں کئی عنواں

ترا ملنا، ترا ہنسنا، ترا اٹھنا، ترا جانا

ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست

وصال کو مری دنیائے آرزو نہ بنا

کچھ درد دے گیا ہوں زمانے کو اے فراق

یہ سوچ کر کہ بعد میں یہ کام آئیں گے

شبِ سیاہ میں گم ہو گئی ہے راہِ حیات

قدم سنبھل کے اٹھاؤ بہت اندھیرا ہے

عشق میں سوزِ نہاں بھی ہو

یعنی بجھے دلوں سے کچھ اٹھتا دھواں بھی ہو

بھول بیٹھی وہ نگاہِ ناز عہد دوستی

اس کو بھی اپنی طبیعت کا سمجھ بیٹھے تھے ہم

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

دنیا میں آج کوئی کسی کا نہیں رہا

اے چشمِ لطف تیری ضرورت ہے دور دور

تھا حاصلِ حیات بس اِک عشوۂ نہاں

اب یہ نہ پوچھ عشق کہاں ہے کہاں نہیں

اس درگزر سے اور کھُلا عشق کا بھرم

یہ کیا ہوا کہ مجھ سے وہ اب سرگراں نہیں

مرے اشعار پر سر دھنتی جائیں گی نئی نسلیں

بچا کر وقت رکھے گا یہ دستاویز انسانی

ایک مدّت سے دل غمگیں پہ تھا اک بوجھ سا

آج تیری یاد میں روئے تو ہلکے ہو گئے

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان را توں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتا دیتی ہے سیرت کا

عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

رات بھی نیند بھی کہانی بھی

ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی

دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں

کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی

اُمید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں

حیاتِ عشق کی وہ صبح و شام بھی تو نہیں

محبت میں کبھی سوچا ہے یوں بھی

کہ تجھ سے دوستی یا دشمنی ہے

غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو

کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے

جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری

تصویر حیات ہو گئی ہے

کیا جانئے موت پہلے کیا تھی

اب مری حیات ہو گئی ہے

کیا کہیں، کیونکر کہیں، کیا ہے وہ چشمِ نیم باز

مست کی مستی بھی، ہشیاری بھی ہے ہشیار کی

پھر دل پہ ہے نگاہ کسی کی رکی رکی

کچھ جیسے کوئی یاد دلاتا ہو آج پھر

اٹھ پڑے دردِ محبت ہی سہی

خیر آئے تو قیامت ہی سہی

کہاں اتنی خبر عمر محبت کس طرح گزری

ترا ہی درد تھا دل میں جہاں تک یاد پڑتا ہے

گوش بر آواز ہونا ہی شکست ساز ہے

اک سکوت غم کو ہنگامہ سمجھ بیٹھے تھے ہم

کسی کی آنکھ میں ملتے ہیں دونوں وقت فراق

ہم اک نگاہ میں شام و سحر کو دیکھتے ہیں

اہل جنوں کو وسعتیں کچھ اور مل گئیں

دل بڑھ گئے ہیں پاؤں میں زنجیر دیکھ کر

نہ سمجھنے کی یہ باتیں ہیں نہ سمجھانے کی

زندگی اچٹی ہوئی نیند ہے دیوانے کی

تجھے تو ہاتھ لگایا ہے بارہا لیکن

ترے خیال کو چھوتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں

جن کی تعمیر عشق کرتا ہے

کون رہتا ہے ان مکانوں میں

رہا ہے تو مرے پہلو میں ایک زمانے تک

مرے لیے تو وہی عین ہجر کے دن تھے

آج آغوش میں تھا اور کوئی

دیر تک ہم تجھے نہ بھول سکے

دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست

خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا

کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیں بدلا ہے

ترے دم بھر کے آ جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں

تھی یوں تو شام ہجر مگر پچھلی رات کو

وہ درد اٹھا فراق کہ میں مسکرا دیا

جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی

چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا

اب بھی کیوں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

اب تو وہ دھیان سے اتر بھی گئے

ابھی تو کچھ خلش سی ہو رہی ہے چند کانٹوں سے

انہیں تلووں میں اک دن جذب کر لوں گا بیاباں کو

لے اڑی تجھ کو نگاہ شوق کیا جانے کہاں

تیری صورت پر بھی اب تیرا گماں ہوتا نہیں

خوش بھی ہو لیتے ہیں تیرے بے قرار

غم ہی غم ہو عشق میں ایسا نہیں

میں آج صرف محبت کے غم کروں گا یاد

یہ اور بات کہ تیری بھی یاد آ جائے

زندگی کیا ہے آج اسے اے دوست

سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

قفس والوں کی بھی کیا زندگی ہے

چمن دور آشیاں دور آسماں دور

ذکر تھا رنگ و بو کا اور دل میں

تیری تصویر اترتی جاتی تھی

چپ ہو گئے تیرے رونے والے

دنیا کا خیال آ گیا ہے

ہم آہنگی بھی تیری دوریِ قربت نما نکلی

کہ تجھ سے مل کے بھی تجھ سے ملاقاتیں نہیں ہوتیں

دلِ غمگیں کی کچھ محویتیں ایسی بھی ہوتی ہیں

کہ تیری یاد کا آنا بھی ایسے میں کھٹکتا ہے

عقل میں یوں تو نہیں کوئی کمی

اک ذرا دیوانگی درکار ہے

سچ تو یہ ہے بڑے آرام سے ہوں

تیرے ہر لحظہ ستانے کی قسم

آج بہت اداس ہوں

یوں کوئی خاص غم نہیں

ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس

کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں

وفورِ بے خودیِ عشق کے رموز نہ پوچھ

کئی دفعہ تو ترا نام بھی نہ یاد آیا

سرحدِ غیب تک تجھے صاف ملیں گے نقش پا

پوچھ نہ یہ پھرا ہوں میں تیرے لیے کہاں کہاں

میں آسمانِ محبت سے رخصتِ شب ہوں

ترا خیال کوئی ڈوبتا ستارہ ہے

تمام شبنم و گل ہے وہ سر سے تابہ قدم

رکے رکے سے کچھ آنسو رکی رکی سی ہنسی

تو ایک تھا مرے اشعار میں ہزار ہوا

اس اک چراغ سے کتنے چراغ جل اٹھے

غرض کہ کاٹ دیئے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلا نے میں

اے اہلِ ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو

میں مملکتِ لوح و قلم بانٹ رہا ہوں

میری گھٹّی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زبان

جو بھی میں کہتا گیا حسنِ بیاں بنتا گیا

ختم ہے مجھ پہ غزل گوئی کا دور

دینے والے نے وہ اندازِ سخن مجھ کو دیا

نگاہ بھی نہ اٹھی اورعشق رسوا ہے

فراقؔ اتنی بھی حیرت نہ کر، یہ دنیا ہے

اپنا ہو فراق کہ اوروں کا کچھ بات ہی ایسی آن پڑی

میں آج غزل کے پردے میں دکھ درد سنانے بیٹھا ہوں

بارہا ہاں بارہا میں نے دمِ فکرِ سخن

چھو لیا ہے اس سکوں کو جو ہے جانِ اضطراب

لینے سے تخت و تاج ملتا ہے

مانگے سے بھیک بھی نہیں ملتی

اہلِ رجا میں شان بغاوت بھی ہو ذرا

اتنی بھی زندگی نہ ہو پابندِ رسمیات

تیری نگاہ سے بچنے میں عمر گذری ہے

اتر گیا رگِ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی

عکس سا پڑ کے رہ گیا جیسے تری نگاہ کا

یاد سی آ کے رہ گئیں بھولی ہوئی کہانیاں

چھڑتے ہی غزل بڑھتے چلے رات کے سائے

آواز مری گیسوئے شب کھول رہی ہے

شام ہی سے گوش بر آواز ہے بزمِ سخن

کچھ فراق اپنی سناؤ کچھ زمانے کی کہو

سوزِ نہاں میں وہ قرار، قلبِ تپاں میں وہ صفا

شعلہ تو تھا تڑپ نہ تھی، آگ تو تھی دھواں نہ تھا

کبھی دادِ شوق نہ دے سکا مرے دل کو پر تو دلبری

کہ لرز گیا ہے یہ آئینہ جو لچک گئی ہے کوئی کرن

تجھے پا کے خود کو میں پاؤں گا کہ تجھی میں کھویا ہوا ہوں میں

یہ تری تلاش ہے اس لئے کہ مجھے ہے اپنی ہی جستجو

٭٭٭

تشکر عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب ’’ فراق گورکھپوری: شخصیت، شاعری اور شناخت‘‘ کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

فہرست

 

ابتدائیہ عزیزنبیلؔ       1

نادرونایاب: سہل تم نے فراق کو جانا

فراق گورکھپوری : مختصر سوانحی خاکہ     8

شجرۂ نسب      10

دستخط، ڈاک ٹکٹ اور عکس تحریر    11

نادر و نایاب تصویریں     12

کتابوں کے سرورق      18

فراق گورکھپوری کا تخلیقی سفر۔ ۔ ۔ ۔ مرتبہ؛ حسن عابد 20

 

ّ یادیں، ملاقاتیں، خاکے : یاد سی آ کے رہ گئیں بھولی ہوئی کہانیاں

آل احمد سرور۔ ۔ ۔ ۔ فراق : چند یادیں      30

جگن ناتھ آزاد۔ ۔ ۔ ۔ فراق صاحب 43

دوارکا داس شعلہ۔ ۔ ۔ ۔ فراق: تاثرات اور یادیں    60

رمیش چند دریویدی۔ ۔ ۔ ۔ فراق: گھر سے باہر      72

مجتبیٰ حسین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فراق گورکھپوری     113

مختار زمن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فراق صاحب کی یاد میں         137

مطرب نظامی۔ ۔ ۔ ۔ فراق صاحب یادوں کے جھرونکوں سے    144

ملک زادہ منظور احمد۔ ۔ ۔ ۔ فراق: گہے ایزد و گہی اہرمن       154

سید محمد آفاق سیتا پوری۔ ۔ ۔ ۔ فراق سے میری چند ملاقاتیں    168

شمیم حنفی۔ ۔ ۔ ۔ ایک اور سلسلۂ روز وشب   173

نذیر بنارسی۔ ۔ ۔ ۔ بھولی بسری یادیں       192

نشورواحدی۔ ۔ ۔ ۔ فراق کے ساتھ سفر وحضر 204

 

ّ تذکرہ و تبصرہ: شخصیت اور فن

انتظار حسین: فراق گورکھپوری؛اردو ادب کا ہمالیہ پہاڑ       214

راج بہادر گوڑ: فراق؛ حیات و شاعری     218

رفعت سروش۔ ۔ ۔ ۔ ذکرِ فراق    239

عزیز احمد: فراق کی شاعری       248

علی جواد زیدی: نابغۂ روزگار      260

ظ، انصاری: مگر پھر بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔      271

کمال احمدصدیقی۔ ۔ ۔ ۔ فراق      285

مجنوں گورکھپوری۔ ۔ ۔ ۔ رگھو پتی سہائے یا فراق گورکھپوری  294

وامق جونپوری: فراق: شخص اور شاعر     304

ّ فراق فہمی: تحقیق و تنقید

ابو الکلام قاسمی: فراق کی روایت اور نئی غزل 312 جمیل جالبی: دانشور و نقاد؛ فراق گورکھپوری  331

چودھری ابن النصیر:فراق اور فروغ اردو زبان       346

حامدی کاشمیری: فراق کی شعریات        353

حسن عابدی: فراق گورکھپوری؛نئی شعری روایت کے بانی    360

خلیق انجم: کلام فراق کے کچھ پہلو  366

خلیل الرحمٰن اعظمی: فراق کو سمجھنے کے لئے 381

خواجہ احمد فاروقی: تری نگہ نے سنائے ہیں فسانے کیا کیا       391

زیب النساء سعید: فراق کی نثر نگاری       395

سید احتشام حسین: کافر غزل اور فراق      404

سحر انصاری:اردو ادب پر فراق کے اثرات   413

سلیمان اطہر جاوید:فراق کا سلوب شعر      421

سوہن راہی:فراق گورکھپوری ؛ایک مطالعہ 432

سیدہ جعفر:فراق کی رباعی گوئی     448

شمیم حنفی:      فراق اور نئی غزل 460

عبد القادر سروری:فراق کی غزلیں 467

علی احمد فاطمی:کچھ فراقؔ کی نظمیہ شاعری کے بارے میں       472

کلیم الدین احمد:فراق کی غزل گوئی  489

گوپی چند نارنگ:کہاں کا درد بھرا ہے ترے فسانے میں        497

قمر اعظم ہاشمی:فراق کی غزلیں     502

مالک رام:فراق؛ آفتاب علم و دانش 512

محمدحسن عسکری:اردو شاعری میں فراق کی آواز      515

محمد علی صدیقی:فراق؛مغربی اور ہندوستانی حسیت کا حسین امتزاج       522

ممتاز حسین: فراق اور فراق کی شاعری     532

مظفر حنفی:      جوش وفراق: تضادات اور مماثلتیں       547

ناصر عباس نیر:کلام فراق کے لفظی پیکر     562

نیاز فتح پوری: یو پی کا ایک ہندو شاعر 576

ّ فراق نامہ: فراقؔ کے انٹرویو، خطوط، نثری تحریریں اور شاعری

ز فراقؔ کے کچھ یادگار انٹرویوز:

سمت پرکاش شوقؔ سے بات چیت

حصّہ اول       591

حصّہ دوم       599

حصّہ سوم       605

بلونت سنگھ سے بات چیت 617

نریش کمار شادؔ سے بات چیت      628

فراقؔ کی ایک یادگار تقریر 636

ز فراقؔ کے کچھ اہم اور تاریخی خطوط

فراق کے نام خطوط کے عکس       643

فراقؔ بنام مشاہیرِادب    648

مشاہیر ادب بنام فراقؔ     653

ز فراق گورکھپوری کی نثری تحریروں کا انتخاب

خودنوشت      668

اردو غزل کا مستقبل      672

اردو کی عشقیہ شاعری کی پرکھ      685

غالب پھر اس دنیا میں     692

افسانہ ’’سچ کیا ہے ؟‘‘     699

ز فراق گورکھپوری کی شاعری سے انتخاب

غزلیں         713

نظمیں         740

رباعیاں اور دوہے         760

منتخب اشعار                                   763

 

وہ عظیم شاعر جس نے اردو کو نرم، گہرا اور گمبھیر لہجہ عطا کیا تھا، چلا گیا۔ وہ رگھوپتی سہائے بھی چلا گیا جسے مجنوںؔ  صاحب کبھی رگھوپتؔ کہہ کر اور کبھی رگھوپتیؔ کہہ کر محبت سے پکارتے تھے۔ وہ ایک زندہ دل اور زندگی بخش دوست تھا جس سے مراسم قائم رکھنے کے لیے کوئی حد مقر ر نہیں کی تھی۔ مجنوںؔ  صاحب کے توسط سے وہ مجھ پر بھی بزرگانہ شفقت رکھتے تھے اور میری ادبی صلاحیت پر عجیب اعتماد رکھتے تھے۔ مثلا اگر میں کہہ دوں کہ آپ کا یہ شعر غلط ہے تو وہ فرماتے تھے ’’میں نے نکال دیا‘‘ کبھی یہ نہیں پوچھا کہ کیا غلطی ہے۔ اسی کے ساتھ ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اگر کوئی دوسرا شخص ایسی جرأت کرے تو وہ یہی سنے گا کہ آپ کے پرکھوں نے بھی کبھی شعر نہ سمجھا ہو گا۔

مولانا آزادؔ نے ایک مرتبہ پارلیمنٹ میں ٹنڈنؔ جی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنی شخصیت کو ’’بے پناہ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا تھا جو انھیں کی زبان سے اچھا لگا۔ لیکن در اصل ان کی شخصیت کے حدود مقر ر تھے۔ ہندوستان میں کوئی شخص ایسا نہ تھا اور نہ اس وقت ہے جس کی ہستی انسانی صلاحیتوں کے دائرے میں اتنی وسیع ہو، ایک وہی تھے جن کو ہم بے پایاں شخصیت کا مالک کہہ سکتے ہیں۔ ان کی یہ بے پایانی ان کی نظموں اور غزلوں کی تہہ میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ وہ ایک گہرے سمندر کی طرح تھے۔ جب سانس لیتے تھے تو اشعار کی موجوں کا تلاطم ساحل سے ٹکرا کر سامعہ نواز ہوتا تھا۔

الہ آباد میں بینک روڈ کی ان کی رہائش گاہ پر جب میں حاضر ہوا تو میرے ساتھ یونیورسٹی کے ایک طالب علم تھے۔ انھوں نے میرا تعارف کرایا کہ یہ نشورؔ واحدی ہیں۔ انھوں نے آنکھیں گھما کر فرمایا میں ان سے واقف نہیں۔ پھر ایک لمحہ بعد بول اٹھے کہیں وہ نشورؔ تو نہیں جن کی تین غزلیں مشہورہیں۔ مجنوںؔ  صاحب نے ایک غزل کے چند اشعار سنائے تھے، کم بھی پیتے ہیں، ہم بھی پیتے ہیں، میں نے عرض کیا، جی ہاں، میں وہی ہوں۔ بولے، بھائی جب یہاں آؤ تو یہاں ضرور آؤ۔

حضرت جگر کی وفات حسرت آیات کے بعد مشاعرے سونے ہو گئے، کوئی ایسی گرانقدر شخصیت نہیں تھی جسے مجلس شعر و سخن میں کھینچ کر لایا جائے اور گئی ہوئی رونق واپس آ سکے، غزل کے دیوانوں کی نظریں اچانک فراقؔ صاحب کی طرف اٹھیں اور ملک کے گوشے گوشے سے لوگ ان کی طرف دوڑ گئے۔ یہاں تک کہ انھیں گوشۂ عافیت سے باہر نکلنا پڑا اور اردو کی جد و جہد میں متکلمانہ خدمات پیش کرنے کے بعد محفل شعر و سخن کو بھی سنبھالنا پڑا۔ کوئی عوامی مشاعرہ ایسا نہ تھا جس میں شانہ بشانہ اور قدم بقدم فراقؔ صاحب ہم لوگوں کے ساتھ نہ ہوں، سیکڑوں سفر کئے، ان گنت راتیں جاگے، شہر بہ شہر، کوچہ بہ کوچہ پھرے اور اردو دشمنوں کے قلعہ میں اردو کا پرچم لہراتے رہے۔ انھوں نے اردو کی وکالت میں اردو کے مخالف لوگوں کی منطق کے پراخچے اڑا دیئے، زبان و بیان کے اسرار بتائے، اردو کی بیس سالہ جد و جہد میں عوامی مشاعروں کے ساتھ فراقؔ صاحب اس طرح رہے جیسے ایک بڑی فوج کے ساتھ کوئی تجربہ کار سپہ سالار اعظم ہو۔

فراقؔ صاحب کی خاکساری اور ذرہ نوازی دنیائے شاعری میں ایک بڑی دولت تھی جسے وقت کے ہاتھوں نے اچانک ہم سے چھین لیا۔ ہم جیسے سڑک پر پیدل چلنے والے شاعروں کے غریب خانہ پر فراقؔ صاحب کو آنے میں ذرا بھی تامل نہ ہوتا۔ وہ بغیر بلائے ہوئے بھی میرے گھر بے تکلف چلے آتے تھے اور قیام فرماتے تھے، یہی انداز جگرؔ صاحب کا تھا جو شاعر نوازی میں اپنی مثال آپ تھے۔

جب تک مجنوںؔ  صاحب گورکھپور میں تھے تمام شاعروں اور ادیبوں کے لئے ایک مقناطیسی کشش رکھتے تھے، خاص کر فراقؔ صاحب کے لیے مجنوںؔ  کا مکاں اور امامباڑہ دوستی اور دوست نوازی کا قبلہ اعظم تھے۔ وہ کہی ہوں، کسی حال میں ہوں یونیورسٹی بند ہوئی اور وہ گورکھپور کی گاڑی میں بیٹھ گئے اور گورکھپور کے لئے روانہ ہو گئے۔ جب تک ان کو بھانجے رمیشؔ گورکھپور میں تھا وہاں ٹھہر جاتے تھے ورنہ سیدھے مجنوںؔ  صاحب کے یہاں پہنچ کر اترتے تھے۔ مجنوںؔ  صاحب کے لئے فراقؔ کی معیت کے لمحات بڑے قیمتی تھے۔

کبھی کبھی اس دل نواز سفر میں وہ چند دن کے لئے دیوریا آگرہ جاتے تھے اور میرے یہاں مہمان ہوتے تھے۔ میں انھیں اپنے بھائی جمیلؔ چشتی کے یہاں ٹھہراتا تھا اور وہاں کی شوگرمل کے منیجر سہگل صاحب کی عنایت سے اپنے عزیز مہمان کے لیے شعر کہنے اور بہکنے کا بھی انتظام کر دیتا تھا۔

جب وہ دیوریا سے گورکھپور جانے لگتے تھے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے لیتے تھے۔ کہتے تھے کہ چلو ایک ہفتہ دس دن ہم تم اور مجنوںؔ  ایک ساتھ رہیں گے۔ فراقؔ صاحب اور میں مجنوںؔ  صاحب کے یہاں پہنچے تو مجنوںؔ  بولے، رگھوپتؔ چلو ایک ہفتہ جنگل میں رہیں گے۔ میں نے سنتے ہی کہا کہ میں جنگل میں نہیں رہوں گا، مجنوںؔ  صاحب بولے، جنگل کو تم نے کیا سمجھا، وہاں ہر طرح کی آسائش کے سامان موجود ہیں، بہرحال گھر پر نہیں رہنا ہے یا تو ہوٹل میں رہیں گے یا کسی دوست کے گھر، یہی ہوا کہ ہم تینوں آدمی فراقؔ کے ایک شاگرد شرماؔ صاحب کے بنگلے پر چھٹیاں گزرانے لگے۔ شام کو ہم سب بمبئی ہوٹ کے مہمان ہوتے تھے اور رات میں آ کر بنگلے کے لان میں سو جاتے تھے۔ اس دوران قیام میں ہر طرح کی گفتگو رہتی تھی۔ کبھی کبھی شعر و شاعری کے حدود سے باہر خدا کی ذات وصفات پر بحث شروع ہو جاتی تھی۔ ایک کہتا تھا کہ خدا ایک پاور (قوت) ہے، کوئی کہتا تھا کہ ایک حقیقت ہے، کبھی کوئی کہتا کہ خدا ایک فطری تصور ہے جو انسانوں کی فطرت میں ہے۔ بہرحال میں ایک جونیر ساتھی کی طرح بیچ میں متحیر بیٹھا رہتا تھا۔ جب دونوں بحث میں ایک دوسرے کو ’’گھامڑ‘‘ کے موقر لفظ سے مخاطب کرتے تھے تب مجھے بھی بولنا پڑتا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں اسی رتبہ پر فائز ہیں۔ حضرت اگر ہمت ہو تو انکار کر دیجئے، کھایئے پیجئے، خوش رہئے یا اچھے بھلے خدا کو مانیے، جو پاور بھی ہو اور شخصیت بھی ہو، صفات کمالیہ بھی رکھتا ہو اور خارج میں بھی ہو اور تصور میں بھی جلوہ گر ہو، ناقص خدا کو ماننے سے کیا فائدہ؟

فراقؔ بولے، کہتا بات پتہ کی ہے، مجنوںؔ  بولے، کوئی ایسا شعر سناؤ جو حیات وموت پر ہو، میں نے کہا میں نے ایک غزل کہی ہے۔ اس کے چند شعر سناتا ہوں، ملاحظہ ہوں۔

زندگی پرچھائیاں اپنی لئے

آئینوں کے درمیاں سے آئی ہے

کیا خبر تجھ کو اسیر نوبہار

کتنی رعنائی خزاں سے آئی ہے

ہو لیے ہم زندگی کے ساتھ ساتھ

یہ نہیں پوچھا کہاں سے آئی ہے

تیسرے شعر کی مجبوری اور بے اختیاری پر بحث ختم ہو گئی اور دونوں اس شعر کی کیفیت میں ڈوب گئے۔

فراقؔ صاحب حضرت جوشؔ ملیح آبادی مرحوم و مغفور کے بڑے پجاری تھے۔ وہ ان کی شان میں ذرا بھی تنقیص برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے باوجود اپنی شاعری کا جوشؔ کی شاعری سے موازنہ یا مقابلہ نہیں کرتے تھے۔ وہ جوشؔ کی اسی طرح عزت کرتے تھے جیسے میر تقی میرؔ اور سوداؔ کے احترام میں کہا کرتے تھے، صدر نشینی ٔ بزم شعرا اور شاید۔ فراقؔ صاحب شاعری میں میرؔ کے قریب سے گزرنا چاہتے تھے۔ جس زمانہ میں انھوں نے یہ غزل کہی تھی:

ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگزر پھر بھی

میں الہ آباد گیا اور فراقؔ سے ملنے پہنچا، وہ ایک صاحب کو یہی غزل سنا رہے تھے۔ مجھ سے پوچھا، کیوں نشورؔ ! یہ غزل میرؔ کی فضا کو چھو رہی ہے یا نہیں ؟ میں نے عرض کیا، میر تقی میرؔ اگر اس گھماؤ پھراؤ کے تین شعر کہتا تو کمر ٹوٹ جاتی، یہ بل بوتہ تو فراقؔ میں ہی ہے، اس بات پر خوش ہو گئے اور دوسری تیسری ایک سے ایک اچھی غزلیں سنا ڈالیں۔ پھر جس دوران میں انھوں نہ غزل کے یہ شعر کہے تھے جس کا مصرع ہے ؎

خود اپنے خیالوں کو ہمدم میں ہاتھ لگاتے ڈرتا ہوں

مجھ سے ملاقات ہوئی، فرمانے لگے کیوں بھائی، دنیا کے عظیم شاعروں میں فراقؔ کا کیا مقام ہو گا؟ میں نے عرض کیا ’’روپ‘‘ کی رباعیوں میں آپ کا رنگ سخن انتانکھر گیا ہے کہ اب آپ کو مڑ کے نہیں دیکھنا ہے۔ میرؔ کے بعد غالبؔ، غالبؔ کے بعد اقبال اور ٹیگورؔ اور ان کے بعد یہ دور جام فراقؔ کے ہونٹوں کو چھو رہا ہے، آ ئندہ جو شاعر آئیں گے وہ فراقؔ کی بزم سخن سے سرشار ہو کر جائیں گے۔ وہ بالکل مطمئن ہو گئے اور انھیں ایسا محسوس ہونے لگا جیسے یہ دور شاعری یقیناً انھیں کا عہد ہے۔

مجنوںؔ  صاحب کے علی گڑھ چلے آنے کے بعد فراقؔ صاحب کا قبلہ بدل گیا اور انھوں نے گورکھپور کے بجائے لکھنؤ، کانپور اور دلی کی طرف کا رخ کر لیا، کبھی کبھی پنجاب اور بنگال کا سفر کر لیا کرتے تھے اور سال میں ایک مرتبہ علی گڑھ ضرور جاتے تھے جہاں مجنوںؔ  اور ڈاکٹر علیم کا دیر تک ساتھ رہتا تھا۔ اکثر یہ تینوں حضرات میرے کمرے میں ہی بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ ڈاکٹر علیمؔ تھوڑی دیر بیٹھ کر اور میری ایک غزل سن کر چلے جاتے تھے لیکن مجنوںؔ  اور فراقؔ ہر لمحہ جاگ کر کاٹتے تھے۔ رات کی رگ رگ میں ان کی انگڑائیاں سما جاتی تھیں اور صبح ان کی آنکھوں کے خمار سے بوجھل ہوتی تھی۔ مجھے یہ دونوں دوست بڑے پیارے معلوم ہوتے تھے۔

اسی دوران میں سرتیج بہادر سپروؔ کے پوتے مہاراج نرائن سپروؔ جوٹاٹا آئرن اسٹیل میں سب سے اونچے عہدے پر فائز تھے اچانک الہ آباد آئے اور فراقؔ صاحب سے درخواست کی کہ وہ کلکتہ چلیں۔ اسی سلسلہ سے وہ کانپور آئے اور چھاؤنی کے آئرن مرچنٹ ہریش چند نگم کو ہموار کیا کہ وہ فراقؔ صاحب، نشورؔ صاحب اور کچھ اور شعرا کو لے کر کلکتہ آئیں تاکہ فراقؔ صاحب کے کلام سے وہاں کا اہل علم اور دولت مند طبقہ لطف اندوز ہو سکے، خاص کر شانتی پرشاد جین کا خاندان فراقؔ صاحب کو پہچان سکے۔

یہ اس کیم ایسی شدومد سے چلائی گئی کہ مجھے بھی حلیم کالج سے لمبی چھٹی لے کر تین مرتبہ کلکتہ جانا پڑا۔ کانپور سے میرے علاوہ پیامؔ صاحب اور دو ایک دوسرے شعرا بھی کبھی کبھی ساتھ جاتے تھے۔ بہرحال کلکتہ جو کبھی غالبؔ کا کلکتہ تھا اس وقت فراقؔ کی راجدھانی بن گیا اور وہاں کیا کیا لطف رہے، کیا کیا محفلیں آراستہ کی گئیں، وہ ایک طویل داستان ہے۔ ہم لوگ دو میزبانوں کے مہمان تھے۔ سپروؔ صاحب اور نگم صاحب کے بے مثال مشاعرے ہوئے، بے نظیر محفلیں رہیں۔ ایک مرتبہ میری غزل کے ایک شعر پر سپروؔ صاحب نے ایک انعامی رقم دینا منظور کیا اور اس کا فیصلہ فراقؔ صاحب پر چھوڑ دیا۔ فراقؔ صاحب نے میرے لئے ڈھائی ہزار روپیہ کی رقم منظور کی جو وہاں کے گورنر کے دستخط سے مجھے ملی۔ وہ شعر یہ تھا جو کلکتہ کی فضا میں نہایت قیمتی سمجھا گیا:

یہ رہبر تمہارے تو سو جاتے کب کے

ہمیں ہیں جو ان کو جگائے ہوئے ہیں

مہاراج نرائن سپروؔ کی حسرت ناک موت کے بعد کلکتہ کی محفلیں اجڑ گئیں اور ہم لوگ وادیِ شعر و سخن میں آوارہ گرد ہو گئے۔ کبھی کہیں جاتے تو کبھی کہیں۔ زیادہ تر ہم لوگوں کو پنچاب جا کر سکون ملتا تھا۔ جالندھر، امرتسر، لدھیانہ جیسے تمام شہر ہمارے نغمات سے گونج اٹھے۔ پنجاب کے لوگ فراقؔ پرست اور نشورؔ نواز تھے۔ اسی اثنا میں مجلس شعر و سخن دہلی کلاتھ مل کے مالکان کی فیاضی سے سجائی جانے لگی۔ وہ ایک شاہانہ محفل سخن ہوتی تھی اور اس میں ہندوستان کا کوئی اہم شاعر نظر انداز نہیں کیا جاتا تھا۔ محفلیں ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی لب کشائی اور مجلس آرائی کی ممنون کرم ہوتی تھیں۔ وہ جسے چاہیں اندھیرے میں چھوڑ دیں اور جسے چاہیں کرنوں کی آماجگاہ بنا دیں۔ وہ فراقؔ صاحب کا بے حد احترام کرتے تھے۔ دلی کی یہ محفلیں ترقی پسند شعرا کے لئے زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئیں۔ البتہ فراقؔ کو ابھارنے والی یہی عیش وطرب کی محفلیں تھیں۔ ان کا تغزل ہندوستان گیر ہو گیا۔

مشاعرے کی ایک محفل یوم جمہوریت کے موقع پر لال قلعہ میں بھی سجائی جاتی تھی۔ وہ گوپی ناتھ امنؔ لکھنوی کے زیر اثر کام کرتی تھی یہاں تک کہ یاد گار بہادر شاہ ظفرؔ سے لے کر جشن غالبؔ تک ایک شان دار سلسلۂ سخن رہا۔ محترم پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد لال بہادر شاستری اور دیگر مرکزی وزراء نے ہمیشہ اس محفل سخن سے اپنی آنکھیں روشن کیں اور اردو کی مقبولیت کے مناظر بچشم خود دیکھے۔ جشن غالبؔ میں یہ شرط رکھی گئی کہ جو بھی غزل ہو غالبؔ کی زمیں میں ہو، میں نے بھی ایک غزل پڑھی تھی جس کا ایک شعر ہدیۂ ناظرین کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ؎

ہے پڑی لاش تعصب کی دورا ہے پر

اک جنازہ ہے جو قوموں سے اٹھائے نہ بنے

مشاعروں میں فراقؔ صاحب میرے ہی کمرے میں ٹھہرنا پسند کرتے تھے اور میں انھیں کے ساتھ رہنا چاہتا تھا اگرچہ دونوں کے مشرب و مسلک میں بعد المشرقین تھا۔ وہ اکثر لطائف سناتے رہتے تھے۔ میں نے بھی ایک دن کہا کہ ایک لطیفہ ہے کہیے تو عرض کروں۔ بولے سناؤ۔ میں نے کہا گزشتہ ہفتہ اردو کی کاپیاں دیکھ رہا تھا۔ ایک صاحبزادے جو حالیؔ کی سوانح لکھنا چاہتے تھے انھوں نے پہلا ہی جملہ ایسا لکھا کہ جی خوش ہو گیا۔ شاید ہسٹری کے طالب علم تھے، لکھا تھا کہ ’’الطاف حسین حالیؔ صاحب پانی پت کے میدان میں پیدا ہوئے ‘‘ فراقؔ صاحب بہت ہنسے اور پوچھا دوسرا کیا ہے۔ غرض کیا کہ لڑکیوں کے سنٹر کی کاپیاں دیکھ رہا تھا۔ آل احمد سرورؔ صاحب نے غزل کی تعریف پوچھ دی تھی۔ ایک سعادت مند لڑکی نے غزل کی صحیح تعریف لکھی۔ اس نے لکھا کہ آوارہ اور بدچلن لوگ غزل لکھا کرتے ہیں۔ فراقؔ صاحب بہت لطف اندوز ہوئے، بولے یہ ہم جیسے شاعروں پر صادق آ رہا ہے۔

ہندی میں جو نوع شاعری ’’سنگار رس‘‘ (نثر نگار رس) کے نام سے پہچانی جاتی ہے، جس میں پیکر تراشی اور صورت گری، انگ انگ کی جاذبیت اور بھرپور لمسیت پائی جاتی ہے اگر نئی نئی تمثیلات اور تشبیہات کے ساتھ مفاہیم ومضامین اردو میں دہرائے جائیں تو اردو زبان میں رومان میں رومان کا ایک نیا باب کھل جائے گا۔ ’’روپ‘‘ کی رباعیوں کے علاوہ ان کی دوسری نظموں میں بھی اس کی نادر مثالیں ملتی ہیں۔ فراقؔ نے حسن کی اس تجسیم نگاری کے علاوہ فضائے روز و شب کی گو نا گوں کیفیات کو بھی اپنے لچک دار الفاظ کے ذریعہ قید کر لیا ہے۔ انھوں نے اندھیری رین، سونی رات، ستارے اور کہکشاں وغیرہ کے منظری احساسات کو اس طرح متحرک تشبیہوں کے ذریعہ بیان کیا ہے جو انگریزی کے اچھے اچھے شاعروں کے لیے باعث رشک ہے۔ لیکن فراقؔ کا اصل منفرد لہجہ وہاں ملتا ہے جہاں ان کی داخلی کیفیت جو دھوئیں کی طرح چھائی ہوئی دھند اور پیچ و خم والی ہوتی ہے الفاظ کا جامہ پہن لیتی ہے۔ گہری اداسی، حد سے بڑھی ہوئی حساسیت، چوکنا پن، لچکیلی زبان، تشبیہی اور تمثیلی انداز، یہ تمام عناصر مل کر اردو شاعری میں ایک نئے لہجے کی تعمیر کرتے ہیں، ہم اسی کو فراقؔ کو آواز کہتے ہیں ؎

یہ سناتا ہے میرے پاؤں کی چاپ

فراقؔ اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں

وہ انتہائی حساسیت کی وجہ سے سکوت کی رفتار اور اس کی دھمک بھی محسوس کر لیتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں ان کے کلام میں بہت ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ہر لمحہ میں کمال حساسیت کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے ؎

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

اداس تنہائی یا تنہائی کی اداسی ان کی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ شریک تھی ؎

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان را توں میں

ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

اس سے زیادہ سچا شعر اور خوبصورت سادہ زبان کیا ہو سکتی ہے۔ سمٹی ہوئی رات اور پھیلے ہوئے سائے، یاد محبوب اور تغزل کی گنگناہٹ ایک ہی شعر میں ؎

خنک سیہ مہکے ہوئے سائے پھیل جائے ہیں جل تھل پر

کن جتنوں سے میری غزلیں رات کا جوڑا کھولے ہیں

جذبات واحساس کو فضائیت میں سمو کر بیان کرنا اردو میں انہیں کا حصہ ہے ؎

شب ہجر کی وہ کچھ سوچتی ہوئی دنیا

سہانی رات کی مانوس رمزیت کا فسوں

علی الصباح افق کی وہ تھرتھراتی بھنویں

کسی کا جھانکنا آہستہ پھوٹتی سے

نیم عریاں جسمانیت کی حیات افروز تصویر کشی کا ایک منظر ملاحظہ ہو ؎

نرمل بل سے نہا کر رس کی پتلی

بالوں سے ارگجے کی خوشبو لپٹی

ست رنگ دھنش کی طرح بانہوں کو اٹھائے

پھیلاتی ہے الگنی پر گیلی ساڑی

نکھری نکھری نئی جوانی دمِ صبح

آنکھوں میں سکوں کی کہانی دم صبح

آنگن میں سہاگنی اٹھائے ہوئے ہاتھ

تلسی پر چڑھا رہی ہے پانی دم صبح

چاندنی رات میں ایک برہن کے نازک جذبات واحساسات اور اس کا کرب وسوز ملاحظہ ہو ؎

آنسو سے بھرے ہوئے وہ نینا رس کے

ساجن کب اے سکھی تھے اپنے بس کے

یہ چاندنی رات یہ برہ کی پیڑا

جس طرح الٹ گئی ہونا گن ڈس کے

فراقؔ صاحب صحیح معنوں میں ایک عوامی شاعر تھے۔ وہ دنیائے انسانی کے گونا گوں خیالات، جذبات واحساسات کی ہر کیفیت کے ترجمان تھے۔ وہ انقلاب اپنے لئے نہیں بلکہ جمہور کے لئے چاہتے تھے۔

فراقؔ کو عیش پسند آدمی نہیں تھے۔ ان کی شراب نوشی بھی ان کی گہری اداسی اور دھندلے غم کی تاریکی میں روشنی کی کرن دیکھنے کی ایک آرزو تھی جو کبھی دیسی اور کبھی بدیسی جرعات کی ممنون تھی۔

فراقؔ اپنی نظموں میں پرانے فرسودہ نظام کو مٹا کر ایک نئی دنیا تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ یہ نئی دنیا ہندوستان کے بسنے والے تمام انسانوں کے لئے درکار تھی۔ ان کی شاہکار نظم ’’اے باد خزان، باد خزاں، باد خزاں چل‘‘ اسی انقلاب اور احتساب اور اسی تسخیر و تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے جس کی مثال ترقی پسند ادب میں شاید ہی مل سکے۔ فراقؔ اس تعمیر و تطہیر میں تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ عوامی شاعروں کا ایک رواں کارواں ہے جس کے ہاتھ میں کوئی سیاسی پرچم تو نہیں لیکن ایک موثر اور بے باک قلم ضرور ہے۔ نظم مذکور کا ایک بند ملاحظہ ہو ؎

غنچہ کو چمن میں جو چٹکنا ہو چٹک لے

جس رنگ کو گلشن میں چمکنا ہو چمک لے

گرحسن گلستاں کو دمکنا ہے دمک لے

کچھ دن کمر باد بہاری بھی لچک لے

اے باد خزاں، باد خزاں، باد خزاں چل!

٭٭٭

تشکر عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب ’’ فراق گورکھپوری: شخصیت، شاعری اور شناخت‘‘ کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید