FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ایک اور سلسلۂ روز و شب

 

 

 

                شمیم حنفی

 

 

یہ ای بک   اصل کتاب ’ فراق گورکھپوری: شخصیت، شاعری اور شناخت‘ مرتبہ عزیز نبیلؔ کا ایک حصہ ہے

 

 

 

 

 

 

شہر الہ آباد میں لکشمی ٹاکیز کے چورا ہے پر لالہ رام نرائن بک سیلرز کے دفاتر ہیں، اس قدیم الوضع عمارت کے پیچھے بینک روڈ۔ یہ سڑک پریاگ اسٹیشن کی طرف جاتی ہے اور اس طرف پونیورسٹی کے کچھ بنگلے ہیں، سب کے سب ایک جیسے۔ لیکن اوپری مماثلتوں کے باوجود، ان میں ایک گھر بہت اُجڑا اجڑا، ویران دکھائی دیتا تھا۔ یوں اس گھر کے سامنے سبزہ زار میں آنولے کے دو قد آور پیڑ تھے، ایک بوٹا سادرخت ہار سنگھار کا۔ سامنے گڑہل کی جھاڑی تھی اور ایک کونے میں نیم دائرے کی شکل کا چھوٹا سا حوض جس میں سنتے ہیں کہ کبھی رنگین مچھلیاں پلی ہوئی تھیں۔

دن ہو کہ رات، سوئی سوئی سی یہ سڑک سناٹے سے بوجھل دکھائی دیتی۔ پریاگ اسٹیشن پر اُترنے والی سواریاں یکّوں اور تانگوں اور رکشوں میں لدی پھندی جس وقت اُدھر سے گزرتیں، ان کے گھُنگھرو بجتے۔ سائیکلوں کی مرمت کے لئے ایک دکان تھی اور تھوڑی تھوڑی دور پر دو پنواڑی بیٹھتے تھے۔ آس پاس کے بنگلوں میں کام کرنے والے ملازم چھوکرے یا اکّا دکّا راہ گیر جس وقت وہاں ہوتے، اُن کے قہقہوں کی آواز سنائی دیتی۔ اُجڑے اُجڑے سے اس مکان کے سامنے ایک بڑا میدان تھا جس میں دن بھر خاک اڑاتی۔ سڑک کے دو رویہ نیم کے پیڑ تھے۔ نمکولیاں پک جاتیں تو ان کی کڑوی مہک سے سارا ماحول گونج اُٹھتا۔ میدان کے پرلی طرف ایک اور میدان تھا۔ اس کے بیچوں بیچ کھپر یل سے منڈھا ہوا برٹش انڈیا کے دنوں کی یاد گار ایک کشادہ کاٹیج۔ یہاں ایک مورخ رہتے تھے۔ ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد اُن کا مشغلہ یا تو بس پڑھنا تھا، یا پھر کچھ گایوں بھینسوں کی رکھوالی اور نو کروں کو ڈانٹ ڈپٹ۔

ایک روز اکتا کر فراقؔ صاحب نے کہا: اس محلے میں ان دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی وجہ سے رہنا مصیبت ہے !‘‘

’’کون دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ایک تو یہ۔ ۔ ۔ ۔ کُتّا‘‘ فراقؔ صاحب نے اس خراب حال جانور کی طرف اشارہ کیا جو کبھی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا اور اب جس نے ایک عرصے سے اسی گھر میں بسیرا کر لیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر میدان کے پرلی طرف والے بنگلے کو غصیلی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’اور دوسرے یہ ڈاکٹر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

اب انھیں موضوع مل گیا تھا ور وہ جی کھول کر اس پر رواں ہو گئے تھے۔

’’ہئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آواز دیکھی۔ معلوم ہوتا ہے بیل گاڑی کو دھکّا دے رہا ہے۔ صاحب! جس آدمی کی آواز ایسی ہو، وہ تاریخ کیا پڑھائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑھانا بآواز بلند سوچنے کا عمل ہے۔ اور سوچنے کا لہجہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب! سوچنے کا لہجہ یہ تو ہوتا نہیں۔ ‘‘ اُن کی پتلیاں پتھر سی ٹھہر گئی تھیں اور دانت غصّے میں ایک دوسرے پر جم گئے تھے۔

دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں، لو چلتی گرمیوں کو چھوڑ کر، اپنا زیادہ تر وقت فراقؔ صاحب گھر کے بیرونی برآمدے میں گزار تے تھے۔ اور برآمدے کا رخ مورخ کے بنگلے کی جانب تھا۔ ان پر نظر پڑی اور موڈ اچھا ہوا تو حلق سے پھنس پھنس کر نکلتا ہوا ایک قہقہہ، ورنہ پھر وہی بڑ بڑ انا اور دانت کچکچانا۔ بہت دنوں بعد بھید کھلا کہ فراقؔ صاحب کو اُس بزرگ کی کالی گول ٹوپی سخت نا پسند تھی۔

صبح پانچ ساڑھے پانچ بجے کے قریب وہ اُٹھ بیٹھتے تھے۔ اور چونکہ رات میں یا تو نیند دیر سے آتی تھی، یا بہت کچی، اس لئے برآمدے میں بان کے ایک پلنگ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے دیر تک لمبی لمبی جمائیاں لیتے رہتے۔ پھر بھاری بوجھل آواز میں چلّا تے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’چائے لاؤ!‘‘

اندر صحن سے ملازم چھو کرے کی نحیف آواز ایک جوابی نعرے کی طرح اُبھرتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’آیا صاحب!‘‘ اور تقریباً بھاگتا ہوا وہ چائے کی کشت لاتا اور سامنے رکھ دیتا۔ دس برسوں میں یہ دیکھا کہ ایک کہ بعد ایک کئی ملازم آئے اور چلے گئے۔ پھر گھوم پھر کر پنّا لال آ جاتا۔ عمر تو اس کی بھی زیادہ نہیں تھی مگر فراقؔ صاحب کا مزاج خوب سمجھتا تھا۔ اُن کے کچھ شعر بھی یاد کر لئے تھے۔ جب فراقؔ صاحب گھر میں نہ ہوتے اور کوئی جان پہچان والا آ نکلتا تو کبھی کبھار وہ ایک آدھ شعر سنا کر معنی بھی پوچھتا۔ باقی جو بھی ملازم آتا دو چار روز تو اس پر حیرت اور ہیبت طاری رہتی۔ پھر گستاخ ہو جاتا اور لڑ جھگڑ کر کسی روز گھر چھوڑ دیتا۔ ملازموں سے لڑائی کی ایک ظاہری اور عام وجہ یہ ہوتی کہ فراقؔ صاحب کی ہدایت کے بغیر وہ کسی مہمان کے لئے چائے تیار کر دیتا۔

’’کیوں صاحب! آپ چائے پینا چاہتے ہیں ؟‘‘ فراقؔ صاحب انکار طلب انداز میں مہمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کرتے۔

’’جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسی کوئی خواہش تو نہیں تھی!‘‘

اب ان کی نو کیلی خشمگیں نگاہیں ملازم کے چہرے پر ٹھہر جاتیں۔ اچانک جلال آتا اور چلّانے لگتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ دیکھا! میں تو پہلے ہی سمجھ رہا تھا۔ اسی لئے میں نے صرف اپنے لئے چائے لانے کو کہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ پھر ملازم کے لئے فراقؔ صاحب کی چیخ پکار ابلاغ کا کوئی مسئلہ نہ بنتی اور روز مّرہ کی زبان یا محاورے اپنے تمام امکانات اور توانائیوں کے ساتھ سامنے آتے۔ کسی نہ کسی دن ملازم بھی جو ابی حملے پر آمادہ ہو جاتا۔ وہ دن اس گھر میں اس کا آخری دن ہوتا تھا۔

ایسا نہیں کہ اس عام قضیے کا سبب بخل رہا ہو۔ صبح سے رات تک اس گھر میں بہت لوگ آتے اور ان میں گنتی کے ایسے افراد ہوتے جنھیں دیکھ کر فراقؔ صاحب خوش ہوتے رہے ہوں۔ ایسوں کی خاطر تواضع میں انھیں تکلّف نہ ہوتا تھا۔ مگر کسی بور کو برداشت کرنے کی تاب ان میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ نائی، دھوبی، مالی، گنوار اور پونگے پنڈت انھیں کبھی بور نہ لگے۔ ان سے وہ گھنٹوں باتیں کرتے، ہنستے اور ہنساتے۔ لیکن کسی نے علم نمائی کی طرف ایک قدم اٹھایا اور فراقؔ صاحب کا صبر جواب دے گیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ صاحب! آپ کا ذہن رکشے والے کا ہے !‘‘

’’معاف کیجئے گا۔ ۔ ۔ آپ بالکل گھامڑ ہیں۔ ‘‘

’’آپ جو بھی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب !آپ کی آواز انتہائی بدصورت ہے !‘‘

’’چلے جائیے۔ نکل جائیے۔ آ جاتے ہیں وقت برباد کرنے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

دوسرے لمحے میں مکمل اطمینان اور فراغت کے ماحول میں وہ مالی سے پودوں کی کاٹ چھانٹ، قسموں اور بیجوں پر بات چیت شروع کر دیتے۔ ’’صاحب! پڑھا لکھا ہونا اور بات ہے۔ عقل مند ہونا اور بات۔ کہتے ہیں میں نے اس موضوع پر بہت پڑھ رکھا ہے دماغ ہے کہ مال گودام۔ پڑھنا کیا؟ یہ بتائیے سوچا کتنا ہے ؟ اصل مطالعہ محسوس مطالعہ ہوتا ہے Felt Reading! پھر وہ مطالعے کے آداب پر رواں ہو جاتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ کتاب پڑھتے وقت پانو زمیں سے اُٹھے تھے ؟ حواس میں کپکپی پیدا ہو ئی تھی؟ اعصاب کے تار جھنجھنائے تھے ؟ گھامڑ کہیں کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت پڑھ رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

اخبار والا انگریز کے تین چار روز نامے دن نکلنے سے پہلے برآمدے میں ڈال جاتا۔ خبروں میں جی لگا تو چائے کے ساتھ ساتھ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اخباروں کے ساتھ، ورنہ پھر پھاٹک پر کسی کی چاپ سنائی دی اور آنکھیں ادھر کو اُٹھ گئیں۔ آئیے حضور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چائے پیجئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور منگواتا ہوں ‘‘پھر پکارتے۔ ‘‘ چائے لاؤ!‘‘

میں اگر اپنے معمول کے خلاف جلدی اُٹھ جاتا تو صبح کی چائے میں شرکت ہو جاتی۔ کسی روز کوئی اور نہ ہوتا اور اخبار سے کوئی بحث طلب موضوع ہاتھ آ جاتا تو فراقؔ صاحب دروازے پر گولہ باری شروع کر دیتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارے صاحب! اٹھیے !آپ کو کچھ خبر بھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئیے۔ ۔ ۔ چائے ابھی گرم ہے !‘‘

۶۵  ء کی ہند پاک جنگ کے دنوں میں تو حال یہ تھا کہ تین چار اخبارات کے واسطے سے جو تفصیل میسر آتی، اس کی بنیاد پر فراقؔ صاحب جنگ کا پورا نقشہ کھینچ دیتے۔ صادقؔ سردھنوی اور نسیمؔ حجازی کے قصوں میں صلیبی جنگوں کا بیان بھلا کیا بساط رکھتا ہے۔ جہاز، ٹینک، توپ خانے اور فضائی یا زمینی تصادم کی تمام جزئیات بچشم خود کے انداز میں۔ فراقؔ صاحب کے ساتھ ساتھ سننے والا بھی محاذ پر پہنچ جاتا۔ فراقؔ صاحب کے نیاز مندوں میں کچھ فوجی بھی تھے جن سے انھوں نے اسلحوں، آلات اور طریق جنگ کے سلسلے کی بہت سی باتیں معلوم کر رکھی تھیں۔ ایسے موقعوں پر یہ معلومات بہت کام آتیں۔

ذہنی اعتبار سے وہ فراقؔ صاحب کے بہت مصروف دن تھے۔ صبح صبح اخباروں سے فارغ ہونا، پھر دن بھر ان خبروں کی بنیاد پر لوگوں کو آیندہ امکان کی خبر دینا۔ اتفاق سے اندازہ غلط ثابت ہوتا تو اس کا الزام وہ اپنے تجزیے یا قیاس کے بجائے افواج کی نا تجربے کاری کے سرڈال دیتے۔

دس گیارہ بجے دن تک کا وقت گھر پر گزرتا۔ پھر وہ کھانا کھاتے، چھڑی اٹھاتے اور یونیورسٹی کی طرف روانہ ہو جاتے۔ کھانے سے دلچسپی کا سب سے اہم لمحہ وہ ہوتا تھا جب ملازم پوچھتا: ’’ صاحب! اچار کون سان کالوں ؟‘‘

فراقؔ صاحب کے کمرے میں ایک الماری پر مٹّی کی ہانڈیوں اور کانچ کے مرتبانوں میں اچاروں کا پورا اسٹاک موجود رہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آم، کٹھل، لیمو، ادرک، سرخ مرچ، کروندا، آنولہ اور بھانت بھانت کی دوسری قسمیں۔ یہ سوال سنتے ہی ان کے ماتھے پر شکن ابھرتی، آنکھیں سوچ میں گم۔ پل دو پل کے تو قف کے بعد پُر خیال انداز میں جواب دیتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اچھا تو ایک پھانک آم کی نکال لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ادرک۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ہر کھانے کے ساتھ یہ انتخاب بدلتا جاتا تھا۔ اچاروں کا شوق انھیں کچھ تو فطری تھا، کچھ اس لئے کے گھر پر گوشت نہیں پکتا تھا اور اس کی کمی یوں پوری ہوتی تھی۔ بازار سے خریدتے تھے، گورکھپور میں اپنے ایک دوست کو ہر سال فرمایش بھیجتے تھے اور جس روز اچار کی ہانڈیاں وصول ہوتیں، گفتگو گھوم پھر کر اسی موضوع پر سمٹ آتی۔

یونیورسٹی میں ان دنوں پڑھائی کا بیشتر کام دوپہر تک ختم ہو جاتا تھا۔ فراقؔ صاحب کبھی کبھار شیروانی پا جامے میں، اکثر سفید تہمد اور کالر دار قمیص میں، ایک ہاتھ سے چھڑی لہراتے، دوسرے میں سگریٹ کے پیکیٹ یا ٹن دبائے، پہلے شعبۂ انگریزی جاتے۔ پروفیسر ستیش چندر دیب، عسکریؔ صاحب کے استاد جن کے نام جزیرے کا انتساب ہے، ان دنوں صدر شعبہ تھے۔ دیب صاحب بین الاقوامی شہرت کے عالم تو تھے ہی، بڑے رکھ رکھاؤ کے بزرگ تھے۔ فراقؔ صاحب جب تک ملازمت سے سبک دوش نہیں ہوئے، ان کی طرف دیب صاحب کا رویہّ بہت محتاط اور ترمی کا رہا۔ ویسے بھی الہ آباد یونیورسٹی میں اساتذہ کے مناصب جو بھی ہوں، نہ تو کوئی کسی کو محض منصب کی بنا پر خود سے بہتر یا کمتر سمجھنے پر آمادہ ہوتا تھا، نہ وہاں خوشامد اور جوڑ توڑ کی وبا اس وقت تک شروع ہوئی تھی کلاس روم سے باہر اساتذہ طلبہ سے بھی دوستوں جیسا سلوک کرتے تھے اور اساتذہ کے آپسی تعلقات جو بھی رہے ہوں، طلبہ کو بالعموم اس کی خبر تک نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ اساتذہ میں ایسا خوش توفیق شاید ہی کوئی رہا ہو جس نے کسی طالب علم کو یہ ہدایت دی ہو کہ فلاں یا فلاں استاد سے تم پر گریز لازم ہے۔ دیب صاحب فراقؔ صاحب کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے، اس کا اظہار انھوں نے کبھی کھل کر نہیں کیا۔ البتہ فراقؔ صاحب کو ان سے خداواسطے کا بیر تھا اور دیب صاحب پر رواں ہو تے تو ایک رنگ کا مضمون سورنگ سے بندھ جاتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔ جو چیز ایک بار پڑھ کر سمجھ میں نہیں آتی اسے دس بار کیا پچاس بار پڑھ جائیے۔ ‘‘

شعبۂ انگریزی کے اسٹاف روم میں زیادہ تر نو جوان اساتذہ بیٹھے تھے۔ دیب صاحب یا پرانے اساتذہ کے کمرے الگ الگ تھے۔ فراقؔ صاحب اسٹاف روم میں بیٹھتے۔ ان کے آتے ہی کمرہ چو پال بن جاتا۔ سب اپنی اپنی کرسی اٹھائے ان کے گرد ایک حلقہ بنا لیتے۔ اس کے بعد مستقل لطیفے، قہقہے۔ کبھی کبھار کسی کتاب یا اہل کتاب کی بات بھی نکل آتی۔ ایسے موقعوں پر فراقؔ صاحب اپنے تخیل کی قوت اور دوسروں کے حافظے کی کمزوری سے خوب فائدہ اٹھاتے۔ کوئی اچھا فقرہ ذہن میں آیا اور اس کے دونوں سروں پر واوین کے ساتھ بقول فلاں یا فلاں کی تہمت لگ جاتی۔ صبر و سکون کے ساتھ سننے والے اس فقرے کے تعاقب میں خیال کے گھوڑے دوڑاتے۔ اتنی دیر میں فراقؔ صاحب بہت دور نکل چکے ہوتے تھے۔ ایک روز، اور تو اور، خود فراقؔ صاحب کے چھوٹے بھائی پر وفیسر یدوپتی سہائے جو اسی شعبے سے تھے، فراقؔ صاحب کی زبان سے ’’بقول آ سکر وائلڈ‘‘ ایک نو مولود فقرہ سن کر چونکہ۔ پوچھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ‘صاحب! یہ بات اس نے کہاں کہی ہے ‘‘؟

فراقؔ صاحب نے آنکھیں پھاڑ کر انھیں دیکھا۔ خود کو سنبھالا اور بولے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘جایئے ایسا ہی شوق ہے تو دیکھ لیجئے۔ فلاں کتاب کے فلاں بات میں فلاں صفحے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

انھیں یہ کمان کب تھا کہ اب اس درجہ واضح اور دو ٹوک حوالے کے بعد بھی مسئلہ سے سترہ اٹھارہ برس چھوٹے تھے اس لئے بڑے بھائی کی جناب میں قدرے ڈھیٹ بھی۔ کہنے لگے۔ ۔ ۔ ‘‘اچھا صاحب! وہ کتاب میری میز پر موجود ہے۔ ابھی لا کر دیکھتا ہوں۔ ‘‘

اب فراقؔ صاحب نے انھیں اٹھتے ہوئے دیکھا تو حیران۔ ایک فیصلہ کن قہقہہ۔ پھر ڈپٹ کر بولے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بھائی واہ! بات چیت میں قدم قدم پر حوالے ڈھونڈے جائیں تو بس بات ہو چکی۔ یہ پر لے درجے کی بد مذاقی ہے۔ میں کسی محقق کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ‘‘

اس کے بعد بات تو ٹل گئی مگر فراقؔ صاحب اس روز جتنی دیر وہاں بیٹھے ادب کے علماء اور محقّقوں کی مزاج پرسی کرتے رہے۔

اصل میں ہر گفتگو فراقؔ صاحب کے لئے ایک معرکہ ہوتی تھی۔ وہ اسے سر کرنے کے عادی تھے۔ اور جب کبھی اس بیچ کوئی مشکل آن پڑے اور قصّہ اختلافِ نسخ و نظر تک جا پہنچے، سامع کی خیریت اسی میں تھی کہ چپ چاپ فراقؔ صاحب کو واک اوور دے جائے۔ ۔ ایسا نہیں کہ فراقؔ صاحب دوسروں کی رائے یا نقطۂ نظر کا احترام نہ کرتے رہے ہوں۔ شخصی آزادی اور انفرادی فکر کے معاملات ان کے نزدیک اجزائے ایمان کی حیثیت رکھتے تھے، لیکن بس اس حد تک جہاں ان کی اپنی شخصیت ہر طرح کے ڈر، دباؤ اور تسلط سے محفوظ ہو۔ رعب میں لینا اور رعب میں آنا دونوں انھیں قبول نہ تھا۔ ان کی ہر گفتگو جذبے اور احساس اور شعور کا ایک لمبا سفر ہوتی تھی۔ دوسروں کے ساتھ یہ سفر وہ اسی صورت کر سکتے تھے اور کرنا چاہتے تھے جب فراقؔ صاحب کو یقین ہو کہ ہم سفر بھید ہو تو ہو مگر نہ تو ان کا حریف ہے نہ ان کی پسپائی کے درپے۔ اور ہم سفری کے لئے شرط بس ایک تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذہانت۔ ذہین آدمیوں کے جوابی دار کو بھی وہ خوش طبعی کے ساتھ جھیل جاتے تھے۔ جو بات ان سے ذرّہ برابر بر داشت نہیں ہوتی تھی وہ ایک تو ذہنی سست روی تھی، دوسرے کسی بھی سطح کی علم نمائی۔ اپنی گفتگو میں وہ صحیح یا غلط اگر کسی کتاب کا یا کسی مفکر کا حوالہ دیتے تھے تو بس اس لئے کہ ان کی بات کا روپ رنگ کچھ نکھر آئے۔ ہر اچھے فقرے یا خیال کا استعمال وہ ایک اچھے شعر کی طرح کرتے تھے۔ آپ بھی متاثر ہوتے اور دوسروں کو بھی اس تجربے میں شریک کرنے کے طلب گار۔ مگر اپنی سوچھ بوجھ کو رہن رکھنا یا اپنے اظہار کے لئے مانگے تانگے کی بیساکھیاں ڈھونڈ نکالنا فراقؔ صاحب کی ترتیب کائنات میں انتشار پیدا کرنے کے مترادف تھا۔ یہ کائنات بہت سجل تھی اور بہت شفاف۔ بوجھل گفتگو اور بوجھل فکر دونوں کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ فراقؔ صاحب کا رویۂ اس ضمن میں تمام و کمال انتخابی تھا۔ ایک اعتبار سے یہ اپنی رضا اور اپنے ارادے اور اختیار کی حفاظت کا طور تھا یا اس جوہر کا دفاع جسے عرفِ عام میں شخصیت کہتے ہیں۔ اور شخصیت فراقؔ صاحب کے نزدیک اچھی یا بری کچھ بھی ہو سکتی تھی، کسی دوسری شخصیت کی محکوم اور تابع نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک بار کسی نے غلطی سے یہ کہہ دیا کہ فراقؔ صاحب نہرو جی کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی کبھی رہے تھے۔ فراقؔ صاحب چڑ کر بولے !‘‘ صاحب !پرائیویٹ سیکریٹری بھی کبھی رہے تھے۔ فراقؔ صاحب چڑ کر بولے !‘‘ صاحب! پرائیویٹ سیکریٹری تو میں بھگوان کا بھی نہیں ہو سکتا۔ آپ مجھ سمجھتے کیا ہیں ؟‘‘ کسی خیال، یا کتاب، یا نظریے کی بے چون و چرا اطاعت بھی فراقؔ صاحب کے لئے شخصیت کی محکومی سے مختلف شے نہیں تھی۔

یوں بھی میں نے فراقؔ صاحب کو مکمّل یک سوئی اور انہماک کے ساتھ صرف جاسوسی ناولوں کے مطالعے میں مصروف دیکھا ہے۔ ان کی با توں سے اندازہ ہوتا تھا کہ گئے دنوں میں کبھی انہیں با ضابطہ مطالعے کا بھی شوق رہا ہو گا۔ فلسفہ، تاریخ، نفسیات اور ادب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چار محور تھے ایک ہی حقیقت کے، جو فراق صاحب کی اپنی پہچان اور اپنی دنیا کو سمجھنے کا واسطہ بنی۔ لیکن جاننے اور سمجھنے کے بیچ جو نازک فرق ہوتا ہے، فراقؔ صاحب کی نگاہ سے شاید ہی کبھی اوجھل ہوا ہو۔ انھوں نے فلسفہ، تاریخ، نفسیات، ادب، جو کچھ بھی پڑھا اس طرح گویا آتے جاتے موسموں یا مناظر کا جلوس دیکھ رہے ہوں۔ جب جی چاہا اس میں شامل ہو گئے اور جس گھڑی طبیعت ذرا اکتائی منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ رسایل میں کیا بحثیں جاری ہیں یا کسی لکھنے والے کی کون سی کتاب چھپ کر آئی ہے، اس کی خبر عام طور پر فراقؔ صاحب کو دوسروں سے ملتی تھی۔ نیا رسالہ یا نئی کتاب تو دور رہا فراقؔ صاحب اپنی ڈاک بھی کم کم ہی دیکھتے تھے تا وقتے کہ لکھنے والے کا نام یا اس کے ابتدائی دو چار جملے انھیں اپنی طرف متوجہ نہ کر لیں۔ علمی اور تنقیدی کتابیں پڑھتے بھی تو اس طرح گویا و نڈو شاپنگ کر رہے ہوں۔ مجنوںؔ  صاحب نے بہت صحیح بات لکھی ہے کہ فراقؔ صاحب کسی بھی کتاب کے نیوکلیس تک کتاب پر بس ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد پہنچ جاتے تھے۔ اپنے کام کا جملہ یا خیال ا چکا اور آگے بڑھ گئے۔ ان کے مزاج میں ایک عنصری اضطراب تھا اور ایک خلقی بے صبری۔ اپنی بات کا جواب پانے، یا اسے سمجھا نے میں ایک دو منٹ سے زیادہ کا وقت لگا کہ فراقؔ صاحب ایک دم اکھڑ جاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ صاحب ! ا آپ آدمی ہیں یا مٹی کا ڈھیر۔ اتنی دیر میں تو قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ بڑے سے بڑے فیصلے ہو جاتے ہیں اور آپ ہیں کہ بت بنے بیٹھے ہیں۔ اس فریب میں گم ہیں کہ سوچ رہے ہیں۔ صاحب! سوچنا بھی دکھائی دیتا ہے اور آپ کے چہرے پر وہ لکیر ہی نہیں ہے۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ویسے یہ سچ ہے کہ فراقؔ صاحب کا سوچنا اچھی طرح دکھائی دیتا تھا۔ خواب میں پتلیوں کی گردش سنا ہے بہت تیز ہوتی ہے۔ فراقؔ صاحب کی پتلیاں سوچتے وقت جس رفتار سے گردش کرتی تھیں یا اگر ایک نقطے پر مرکوز ہوئیں تو ہر لمحے کے ساتھ جس طرح گہری اور شدّت آثار ہوتی جاتی تھیں اور ان میں ٹھہر او کے باوجود ہیجان کی جو کیفیت دھیرے دھیرے ابھرتی آتی تھی، اس سے فراقؔ صاحب کے احتساس اور تفکر کی رفتار پیمائی کا کام بھی لیا جا سکتا تھا۔

فراقؔ صاحب بولتے تو ٹھہر ٹھہر کر تھے مگر سوچتے بہت تیز تھے۔ یہ تیزی بھی تدریج کی تابع نہیں تھی اسے اک طرح کی نیم خلاقانہ حسیت کہنا مناسب ہو گا۔ بی۔ اے میں اور مضامین کے ساتھ انھوں نے منطق بھی پڑھی تھی۔ چنانچہ بات وہ ہمیشہ مدلل انداز میں کرتے تھے اور ان کا خیال عام گفتگو میں بھی سننے والے تک مختلف مقدمات اور دلیلوں کے کاندھے کاندھے پہنچتا ہے۔ ہر دلیل ایک اشارے کی صورت ظہور میں آتی تھی اور ان کی فکر کے مجموعی قرینے میں جذب ہو جاتی تھی۔ اور پر سے یہی لگتا تھا کہ فراقؔ صاحب اپنی جذباتی ترجیحات کی ہوا باندھ رہے ہیں۔ وہ عنصر جسے عالم فاضل لوگ معروضیت سے تعبیر کرتے ہیں ان کے ترکیبی نظام کا حصّہ ہونے کے باوجود کبھی اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھا۔ وہ شعر و ادب کی تنقید لکھ رہے ہوں یا کلچر، تہذیب، سیاست اور فلسفہ و نفسیات کے مسئلوں میں اُلجھے ہوئے ہوں، ان کی بات منطقی اور معروضی ہوتے ہوئے بھی یک سطحی تعقل کے بخیے ادھیڑتی رہتی تھی۔ یار لوگوں نے اسے تاثرات کا ملغوبہ جانا کہ عقل کے ساتھ ساتھ یہاں حواس اور اعصاب کی کار کردگی بھی اسی زور و شور کے ساتھ جاری نظر آتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر لفظ ایک محسوس تجربہ اور ہر خیال ایک مشہور ہیئت۔ شاید اسی لئے وہ خیالوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ فکر اور جذبے کی دوئی کو مٹانے کی یہ ادا فراقؔ صاحب کی با توں میں بھی تھی اور تحریروں میں بھی۔

کچھ ایسا ہی ڈھب لوگ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر جانسنؔ کا بھی تھا۔ اس بزرگ نے بھی عمر بھر بہت باتیں کیں اور گفتگو کے ہر معرکے کو ایک اسپورٹ جانا۔ اس بازی میں وہ بزرگ اپنے آپ کو ہمیشہ فاتح کی صورت دیکھنا پسند کرتا تھا۔ جہاں کور دبتی وہ ڈراما شروع کر دیتا۔ میز پر مکّے مارنا، چیخنا چلّانا، اول فول بکنا، فرش پر گلاس پھینک دینا، طرح طرح کے منہّ بنانا اور قہقہے لگانا، یہ سارے طور بات چیت میں اس بزرگ کی فنّی حکمت عملی کے آثار تھے۔ فراقؔ صاحب اور ڈاکٹر جانسنؔ میں قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں بسیار گو تھے، فرق یہ تھا کہ فراقؔ صاحب کی ادائیں حکمت عملی کے بجائے ایک طرح کی جبّلی اور غیر اختیاری نوعیت رکھتی تھیں۔ سو ان کے یہاں اظہار کی جو صورتیں بظاہر مبالغہ آمیز اور شعوری دکھائی دیتی تھیں، وہ ان کی طبیعت کے داخلی نظم کا نا گزیر حصّہ ہوتی تھیں۔ زبان کے ساتھ ساتھ دماغ تو سب کا چلتا ہے۔ فراقؔ صاحب کے اعصاب اور ان کا سراپا بھی اسگفتگو میں برابر کے شریک ہوتے تھے۔ زبان کے ساتھ ساتھ پانّو، آنکھیں، گردن، سبھی چلتے۔ کبھی کبھی چھڑی بھی چل جاتی تھی۔

ان دنوں معمول یہ تھا کہ شعبۂ انگریزی سے اٹھتے توسیدھے اردو والوں میں آ کر دم لیتے۔ اعجاز صاحب جب تک شعبۂ اردو کے صدر رہے، فراقؔ صاحب آتے اور ان سے برابر کی بیت بازی شروع ہو جاتی کہ حاضر جوابی اور فقرے بازی میں ان کی حیثیت کم و بیش برابر کی تھی۔ پھر فراقؔ صاحب سے یارانہ بھی بہت پرانا تھا۔ اعجاز صاحب کی سبک دوشی کے بعد شعبۂ اردو کی کمان احتشامؔ صاحب نے سنبھالی۔ وہ فراقؔ صاحب کے شاگرد تھے۔ فراقؔ صاحب نے اپنا معمول قائم رکھا اور گھنٹے دو گھنٹے کے لئے احتشامؔ صاحب کے کمرے میں روز آتے رہے۔ کچھ تو احتشامؔ صاحب کی طبعی نیکی اور سعادت مندی کے آخری دم تک فراق صاحب کے سامنے پرانے طلبہ کی طرح مودّب رہے اور کبھی اونچی آواز میں ان سے بات نہ کی، کچھ یہ بھی کہ وہ فراقؔ صاحب کی جذباتی مجبوریوں کو سمجھتے تھے اور بات چیت میں جو بھی موقع آئے، طرح دے جاتے تھے۔ فراقؔ صاحب کے آتے ہی شعبۂ اردو کا سارا کام ٹھپ ہو جاتا۔ کلاسیں اس وقت تک ختم ہو چکی ہوتی تھیں۔ احتشامؔ صاحب بس سامعین کا رول انجام دینے میں عافیت سمجھتے تھے۔ بحث کا مطلب تھا فراقؔ صاحب کو اپنے مکمل اظہار کا موقع دینا۔ اور اس میں خلل امن کے ساتھ ساتھ یہ اندیشہ بھی تھا کہ کمرے کے باہر بھیڑ جمع ہو جائے۔ ان دنوں فراقؔ صاحب کی گفتگو کے مرغوبات ہند پاک جنگ سے لے کر اردو ہندی تنازعہ، بڑھتی ہوئی مہنگائی، ترقی پسند تحریک، مشاعرے اور علّامہ اقبال سبھی کچھ تھے۔

’’صاحب! ادب سے معاشرہ نہیں بنتا۔ شاعری ٹیبل فین نہیں ہے۔ قومی تعمیر کے لئے انجن ڈرائیور زیادہ اہم ہوتا ہے شاعری کیا گھاس کاٹے گی!‘‘

’’جی ہاں ! ترجمان حقیقت!صاحب!فلاسفی کا پر چہ سیٹ کر دوں تو پاس مارک بھی مشکل سے ملیں گے !‘‘ ’’گنوار کہیں کے !‘‘ یہ کیا ہے ‘‘ تو بولیں گے۔ مگر ’’میرے دل میں درد اٹھ رہا ہے۔ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہنا مرتے دم تک نہ آئے گا۔ کیا کہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میرے دل میں درد اٹھ رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قہقہہ قہقہہ۔ ‘‘

ایک روز سول لائنز میں ہندی کے ایک ادیب سے مجادلہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ طوفان گزر جانے کے بعد میں نے ڈر تے ڈرتے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ فراق صاحب ! ہر موقع پر غصّہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے !‘‘ فراقؔ صاحب سب کچھ بھول بھال غصّے کے اخلاقی اور جمالیاتی پہلوؤں پر رواں ہو گئے۔

’’anger is the worship of beauty ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فراقؔ صاحب کا یہ مقولہ بہتوں کے حافظے میں محفوظ ہو گا۔

تقریر کرنے سے بچتے تھے۔ لیکن شعبۂ انگریزی یا شعبۂ اردو کی کسی تقریب میں ایسی ضرورت آن ہی پڑے تو مائیک پر بھی انداز وہی ہوتا جو اپنے گھر میں کوئی نصف درجن تکیوں کے درمیان بستر پر بیٹھے بیٹھے۔ ہر تقریر ایک مہم جس پر یوں روانہ ہو تے کہ سننے والوں کے حواس کی بھیڑ بھی ساتھ ساتھ چلتی۔

’’صاحب! جو مقر ر بہت رواں دواں اور دھواں دھار ہوتا ہے اس کا ذہن۔ ۔ ۔ ۔ بہت معمولی ہوتا ہے اور شخصیت گھٹیا۔ تقریر چورن بیچنا نہیں ہے ! یہ کیا کہ بس زبان چل رہی ہے۔ صاحب! دماغ اس طرح نہیں چلتا جیسے پہئے گھومتے ہیں۔ ۔ ۔ ! بڑی فکر کاراستہ ہمیشہ اوبڑ کھابڑ ہوتا ہے ‘‘!

’’مگر تقریر تو آپ بھی جب کرتے ہیں خوب کرتے ہیں۔ ‘‘ میں نے لقمہ دیا۔

فراقؔ صاحب اکھڑ گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ صاحب! میں موضوع کے مرکز پر سورج کی طرح بیٹھ جاتا ہوں۔ پھر اپنی کرنیں ادھر پھینکتا ہوں، اُدھر پھینکتا ہوں اُدھر پھینکتا ہوں، اُدھر پھینکتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تقریر اس طرح نہیں کرتا جیسے غبی اساتذہ اور رٹّو طلبہ Essay لکھتے ہیں۔ تمہید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نفسِ مضمون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مضمون کے مثبت پہلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر منفی پہلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر مجموعی جائزہ اور اخیر میں حاصل کلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بکو اس۔ گھامڑ کہیں کے۔ تقریر کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب! میری تقریر تو کنول کے پھول کی طرح دھیرے دھیرے کھلتی ہے۔ میں لکیریں نہیں کھینچتا، دائرے بناتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

یونیورسٹی کی سیر سے واپسی کے بعد دن کا کھانا، پھر بس دو کام۔ کوئی بھولا بھٹکا آ نکلا تو پھر وہی باتیں۔ باتیں۔ باتیں اگر کوئی نہ آیا اور کہیں جانا نہ ہوا تو چھڑی لے کر سبزہ زار میں نکل گئے اور سوکھے پتّے بٹورنے لگے۔ جب ڈھیر اکٹھا ہو جاتا اُسے آگ لگا تے اور بڑی محویت کے عالم میں دھیرے دھیرے اٹھتے لہراتے شعلے پر نظر ین جما کر بیٹھ جاتے۔ شمسان گھاٹ پر جلتی ہوئی چتا کا منظر۔ پتا نہیں قصّہ کیا تھا۔ مگر یہ مشغلہ انھیں پسند بھی تھا اور ان کے معمول کا حصّہ بھی۔ گھرکا صدر دروازہ صبح سویرے سے رات گئے تک چوپٹ کھلا رہتا۔ کسی دروازے پر پر دہ نہیں۔ گھٹن کا مستقل احساس اور کھلی ہوا اور روشنی کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی طلب۔ گرمیوں میں گھر کے اندر ہوں یا باہر سبزہ زار میں، ایک ساتھ دو دو پنکھے چلتے۔ اور گرمی تو گرمی، سردیوں میں حال یہ تھا کہ کڑاکے کی ٹھنڈ پڑ رہی ہو جب بھی رات کو سر سے پیر تک لحاف اوڑھنے کے بعد پوری آواز سے چلّاتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ پنکھا چلاؤ!‘‘

پنّا لال دوڑا دوڑا آتا اور فل اسپیڈ پر بٹن دبا دیتا۔

سگریٹ مسلسل پیتے رہتے تھے۔ پیتے رہتے تھے، کھانستے رہتے تھے اور بستر کے نیچے رکھے ہوئے بڑے سے ٹب میں بلغم تھوکتے رہتے تھے۔ بیماری کے آخری دنوں میں کموڈ بھی پاس ہی رکھا رہتا، کھلا ہوا۔ گھن نہیں آتی تھی۔ مگر ایک روز، ملازم سے سرکے کی بوتل چھوٹ کر زمیں پر آ گری اور اس پر جگہ جگہ سفید داغ ابھر آئے تو فراق صاحب نے گھر سر پر اٹھا لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دانت کچکچا کر بولے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ صاحب! فرش پر یہ دھبّے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کوڑھ کے داغ ہیں۔ میں اب چین سے یہاں بیٹھ نہیں سکتا۔ مجھے متلی ہوتی ہے یہ دھبّے دیکھ کر۔ صاف ستھرا چکنا فرش۔ ستیا ناس ہو گیا۔ ہاتھ میں دم نہیں، بوتل اٹھانے چلے ہیں۔ کچھ پتا ہے یہ کتنا پرانا سر کہ تھا۔ پوری بوتل بھری ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلے جاؤ! نکل جاؤ! بھاگ جاؤ!‘‘

بستر کے اوپر سیلنگ فین پوری رفتار سے چلتا رہتا تھا۔ سگریٹ سلگانے کے لئے بار بار ماچس چلاتے اور تیلی بجھ جاتی۔ فی سگریٹ اوسطاً پانچ تیلیوں کا حساب تھا ایسے میں کسی نے اٹھ کر پنکھا بند کر دیا یا لائٹر پیش کرنا چاہا تو مصیبت۔

’’صاحب! پنکھا یونہی چلتا رہے گا۔ ماچس بجھتی ہے تو بجھنے دیجئے۔ بجلی کا بل میں ادا کرتا ہوں۔ یہ ماچس میں نے خریدی ہے۔ آپ کا کیا جاتا ہے ؟ سمجھے ! میں چاہوں تو ساری ماچسیں اسی طرح جلا جلا کر ختم کر دوں۔ آپ سے مطلب؟۔ ۔ ۔ اور صاحب یہ لائٹر! مجھے دیکھ کر گھن آتی ہے۔ مجھے نہیں پسند یہ لائٹر وائٹر۔ میں تو اپنی ماچس جلاؤں گا۔ اور پنکھا بھی چلتا رہے گا۔ دن رات چلتا رہے گا۔ آپ کو پتا ہے ! بار بار سوئچ کو آن آف کرنے سے بجلی جا سکتی ہے۔ پنکھا خراب ہو سکتا ہے۔ پھر آپ کیا کریں گے ؟ بولئے ! جواب دیجئے ! پنکھا یونہی چلتا رہے گا، سمجھے ‘‘!

کمرے میں دو طرف دیوار سے لگے قد آدم آئینے کھڑے تھے۔ با توں میں مصروف نہ ہوتے تو فراقؔ صاحب کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ دھیمے قدموں سے کمرے کا طواف کرتے ہوئے کبھی ایک آئینے کے روبرو جاتے، کبھی دوسرے آئینے کے۔ پھر منہ ہی منہ میں اپنے عکس سے کچھ باتیں ہوتی۔ گہری نظروں سے خود کو دیکھنا اور بڑبڑانا۔ کبھی اُداسی، کبھی غصّہ، اور کبھی آسودگی۔ اپنے آپ سے باتیں کرنے کی عادت راہ چلتے بھی دکھائی دیتی۔ دیوار پر لگا ہوا کیلنڈر، میز پر بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے اخبارات اور ردّی کاغذ کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں پر گنتیاں لکھتے رہنا کچھ دن بعد سمجھ میں آیا۔ مختلف بینکوں میں مختلف اکاؤنٹس کھول رکھے تھے اور وقتاً پاس بک اٹھائے بغیر حساب جوڑتے رہتے۔ خرچ کم، جمع زیادہ۔ کہاں تو یہ کہ رات دیر گئے تک کمرے کا دروازہ چوپٹ کھلا رہتا، کہاں آخری دنوں میں یہ حال ہو گیا کہ گھر کا بیرونی بر آمدہ اور اندرونی بر آمدہ جیل خانہ بن گئے، ہر در میں سلاخیں لگوائی تھیں۔ بیرونی برآمدے کی سلاخوں میں دن رات قفل پڑا رہتا، چلنے پھر نے سے معذور ہو گئے تھے اس لئے جب بھی کوئی آتا ایک صدا لگتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’تالا کھولو!‘‘ بنّا لال چابی لئے بھاگا بھاگا آتا اور سلاخوں میں ایک بڑا جھروکا ساکھل جاتا۔ مہمان اندر آیا اور سلاخیں دو بارہ مقفّل۔ فراقؔ صاحب موت سے بہت ڈرتے تھے اور سوچتے تھے کہ پتا نہیں کتنی لمبی عمر ملے۔ سو اس کا انتظام ضروری تھا۔ کل کی فکر، جو ساری کی ساری خود ہی کرنی تھی۔ بیٹیاں بیاہ کر اپنے اپنے گھر جا چکی تھیں۔ بیوی برسوں سے مائیکے میں۔ ان کا خیال بھی آتا تو ایک گہرا زخم تازہ کر جاتا ؎

ندیم جیسے نگل لی ہو میں نے ناگ پھنی۔

ذہنی فاصلوں کو عبور کرنا یا قبول کرنا، فراقؔ صاحب کو عمر بھر نہ آ سکا۔

آنگن میں برآمدے کے کھمبوں سے لگے ہوے تلسی کے پودے تھے۔ ایک کونے میں کے لیے کے پیڑ۔ پتوں پر کھانا کھانے کے ہائیجینک پہلو اور تلسی کی پتّیوں کے طبّی فوائد سے سارا شغف بس ذہنی تھا۔ یہ نسخے کبھی تجربے میں آتے ہوئے نہیں دیکھے، گئے، باقی کھانے پینے کے آداب اور طور طریقے وہی جو مشرقی، یو، پی کے کا ئستھوں میں عام تھے۔ شیروانی اور پیتل کی تھالیوں کٹوریوں میں کبھی ٹکراؤ نظر نہیں آیا۔

’’صاحب! ہندو مٹی کے ایک گھڑے میں، پیتل کے اک کٹورے میں، پیپل کے ایک پیڑ میں ساری کائنات کو سمیٹ لیتا ہے۔ ‘‘

’’یہ تہذیب حملوں کی زد میں ہو تو چپ چاپ سو جاتی ہے۔ پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدیوں کے بعد کروٹ لیتی ہے اور پوری طرح بیدار ہو جاتی ہے۔ صاحب! یہ نستعلیقیت کیا ہوتی ہے ! کلچر تو زمیں سے اُگتا ہے۔ آرٹی فی شیلیٹی کو کلچر کہہ کر خوش ہوتے رہئے !‘‘

’’افغانستان؟ یہ اصل میں آواگون استھان تھا۔ جی ہاں ! شالیمار باغ۔ نشاط باغ۔ مانا کہ بہت خوبصورت ہیں۔ مگر فطرت کی مٹی بھی تو پلید ہو جاتی ہے۔ اور اُپ ون اُپ ون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چھوٹا جنگل۔ یہ ہے ہمارا باغ کا تصوّر! یہاں فطرت آزادی کے ساتھ سانس لیتی ہے !‘‘

’’صاحب! حد سے بڑھی ہوئی فارسیت نے زبان چوپٹ کر دی ہے۔ دیکھئے ہر شعر سے داڑھی جھانک رہی ہے۔ ہے کہ نہیں ؟‘‘ ’’ہماری دیو مالا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا کلچر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا اتہاس!‘‘ اور اس تصویر کا دوسرا رخ اس وقت دیکھنے میں آتا جب کوئی پراچین وادی بزرگ پاس بیٹھا ہو۔

’’صاحب! یہ کیا گھامڑ پن ہے۔ فرماتے ہیں کھدائی میں تانبے کے تار بر آمد ہوئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے پراچین بھارت میں ایک اچھا بھلا ٹیلی گریفک سسٹم موجود تھا۔ جی ہاں ! آپ یہ لکیر پیٹتے رہیے۔ صاحب! میرے گھر کی کھدائی میں تو کوئی تار نہیں نکلا۔ تو کیا میں یہ سمجھ لوں کہ وائر لیس بھی تھا؟ یہ ذہنی پچھڑا پن آپ کو تباہ کر دے گا۔ غارت کر دے گا۔ اجاڑ کر رکھ دے گا۔ ‘‘اور وہ ایک غم آلود غصّے کے ساتھ فتویٰ پسماندگی کے اسباب کا تجزیہ شروع کر دیتے۔

’’صاحب! مسلمان بڑے کا گوشت بھی تمیز تہذیب کے ساتھ کھاتا ہے۔ آپ کو بولنا تک تو آیا نہیں۔ گونگے ! بس ہندی ہندی کرتے رہیے ! کہتے ہیں ‘‘ پر کاش جل رہا ہے ! روشنی ہو رہی ہے نہیں کہہ سکتے ؟ بولیے !جواب دیجئے !‘‘

’’صاحب! دعا دیجئے انگریزی کو، سائنس کو، ٹکنولوجی کو۔ اس ملک کو انجینئروں کی ضرورت ہے۔ گاندھی واد سے کام نہیں چلے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اکجا می نیسن۔ پھیج آباد۔ پھسٹ۔ اور ہٹائیے انگریزی کو !‘‘

ہر دوسرے تیسرے روزیوں بھی ہوتا کہ یونیورسٹی سے جلد واپس آ جاتے تو رکشہ بلوا کر سیدھے سول لائنز کی طرف۔ ان دنوں سول لائنز کا کافی ہاؤس، صحافیوں، وکلا، اساتذہ، طلبہ اور سیاسی کارکنوں، بیشتر ہندی اور اکّا دکّا اردو کے ادیبوں کا گڑھ تھا۔ فراقؔ صاحب کا فی ہاؤس میں داخل ہوتے تو کھلبلی مچ جاتی۔ ہال میں جگہ جگہ جمی ہوئی کرسیاں اور میزیں کھینچ کھانچ کر ایک سیدھی صف میں جمادی جائیں۔ لوگ دور و یہ بیٹھ جاتے۔ صدر میں فراقؔ صاحب گفتگو کا عام موضوع سیاسی خبریں اور مسئلے۔ اگلے دو تین دن کی سیاسی گفتگو کے لئے مواد جمع ہو جاتا۔ کسی نے اصرار کیا تو کچھ شعر بھی سنا دیے۔

ایک دن اپنی غزل انھوں نے ترنم سے شروع کی تو سننے والے حیران۔

فراقؔ صاحب نے وضاحت کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ جناب! ترنم اور گانے میں فرق ہوتا ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں ! جی ہاں !‘‘ پھروہی حیرانی۔

مزید وضاحت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ صاحب! کل کافی ہوؤس میں ’’دیوالی کے دیپ جلے ‘‘ میں ترنم سے سنارہا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ باہر تک آواز پہنچ رہی تھی اور کچھ لڑکے جھوم رہے تھے ! تو صاحب! ترنم کیا چیز ہوتی ہے کچھ سمجھے آپ؟‘‘

سہ پہر کو دھوپ ڈھلتی تو پنّا لال کر سیاں اور مونڈھے باہر سبزہ زار میں لگا دیتا۔ سردیوں میں دھوپ ڈھلتے ہی کرسیاں اندر برآمدے میں آ جاتیں۔ پھر ایک ایک کر کے دوچار لوگ جمع ہو جاتے۔ ان میں لگ بھگ ہر شام ایک پنڈت جی ہو تے تھے۔ ایک اور صاحب، جب بھی آتے کچھ منصوبے ساتھ لاتے۔ فراقؔ صاب کو ناقابل عمل اسکیمیں بناتے رہنے کا شوق بہت تھا۔ اسی رو میں ایک بار ایک صاحب کے واسطے سے خشک میوے، پرچون اور آئے گھی کی ایک دکان بھی کھلوا لی۔ کچھ بک بکا گیا، باقی گھر میں کام آ گیا۔ کبھی یہ کہ چند لوہار ملازم رکھے جائیں اور لوہے کی کرچھلیں بنوائی جائیں۔ سودا نفع بخش ہے مشین کارخانے سے لے کر امپورٹ ایکسپورٹ تک، خدا جانے کتنے منصوبے کاغذ پر تیار ہوئے اور حافظے کی گرد بن گئے۔ ہر بات کی کوئی حد ہوتی ہے۔ آخر فراقؔ صاحب سے نہ رہا گیا۔ ایک شام وہی بزرگ ایک نیا منصوبہ لے کر وارد ہوا تو شکل دیکھتے ہی بیزار۔ پھر بھی یہ سوچ کر کہ شاید کوئی نادر اسکیم ذہن میں آ گئی ہو تھوڑی دیر سنتے رہے۔ سنتے رہے اور کھولتے رہے۔ اخیر میں پاس پڑوس والوں کو بھی خبر مل گئی کہ مذاکرات ٹوٹ گئے ہیں۔ فراقؔ صاحب زور و شور کے ساتھ برس رہے تھے۔

’’صاحب! آپ کا دماغ ماشے بھر کا توہے۔ چلے ہیں اسکیم بنانے۔ صاحب! آپ گھامڑ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ؟ چلے جائیے۔ دفعان ہو جائیے۔ بھاگیے۔ ۔ ۔ ۔ ! میرا اور وقت نہ برباد کیجئے !‘‘

اس بزرگ نے طوفان تھمنے کا انتظار کیا۔ چند مٹ کی خاموشی کا وقفہ۔ پھر اس نے اٹھتے ہوئے کہا!‘‘ اچھا فِراک صاحب! آج ہم کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ کل پھر باتیں ہوں گی! اجازت!‘‘

’’ہاں بھائی! ٹھیک ہے۔ کل پھر باتیں کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچھا!‘‘ فراقؔ صاحب اس وقت تک سب کچھ شاید بھول چکے تھے۔ وہ بزرگ اگلے روز پھر آیا اور اگلے دن اُسی طرح گئے دن کا قصّہ دو ہرایا۔

پنّا لال فراقؔ صاحب کے لئے شراب کی بوتل اور پانی سے بھرا ہوا جگ لا کر رکھ دیتا۔ نُقل کے طور پر پیاز کے لچھے۔ مہمانوں کے لئے چائے۔ رات نودس بجے تک محفل آباد رہتی۔ ایک ایک کر کے لوگ اٹھتے جاتے۔ شام سے اس وقت تک کا ہر لمحہ فراقؔ صاحب کے لئے ایک آزمائش ہوتا تھا۔ ان کے لئے شام کا مطلب تھا گزرے ہوئے تمام موسموں کا حساب اور ہر پل کے ساتھ گہری ہوتی ہوئی اُداسی۔ پھاٹک پر کسی کے پیروں کی چاپ سنائی دیتی اور فراقؔ صاحب امید وار نگاہوں سے اُدھر دیکھتے ہوئے فوراً کہتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘آئیے صاحب! آئیے !‘‘ رات کو جب سب رخصت ہونے لگتے تو ایک ایک سے کہتے !‘‘ اچھا بھائی! کل پھر باتیں ہوں گی!‘‘

ایک روز میں نے کہا۔ ۔ ۔ ‘‘فراقؔ صاحب! آپ بہت دیر سے باتیں کر رہے ہیں۔ تھک گئے ہوں گے۔ اب آرام کیجئے !‘‘

فراقؔ صاحب کی بھاری، مہیب آواز میں اس وقت تک کھرج کی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ اداسی سے بولے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بھائی! باتیں کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس دماغ سانس لیتا رہتا ہے !‘‘

اور اس سانس کی جہتیں بہت رنگارنگ تھی اور میدان بہت وسیع۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شعرو شاعری، فلسفہ، سیاست، اس کینڈل سے لئے کر سیانے سنتوں کی کرامات اور توہمات تک۔

’’صاحب! مرزا پور کے ایک سادھو بابا ہیں۔ کنکڑ کا گوشت پکاتے ہیں !‘‘

’’کنکڑ کا گوشت؟‘‘

’’جی جناب !سمجھ میں آیا کچھ۔ پکی ہوئی اینٹیں توڑ تے ہیں اور ان کا سالن بنا لیتے ہیں۔ ٹکڑا منہ میں آیا نہیں کہ گھلا نہیں ! ذائقہ ہو بہو گوشت کا!‘‘

’’آپ نے کھا یا ہے ؟‘‘

’’کھایا تو نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنا ہے۔ ‘‘ سنی سنائی پر آنکھ بند کر کے ایمان لانے کی عادت خلقی تھی۔ چنانچہ محیر العقول واقعات، دار دات اور نسخوں کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ بھی ہمیشہ ان کی تحویل میں رہا۔

’’صاحب! بس پانچ بتاشے اور کالی مرچ کے پانچ دانے۔ کوئی اور دو ا اتنی کارگر نہیں نہیں ہو سکتی ہے آدھے سر کے درد میں !‘‘

’’بس پانچ بتاشے ؟‘‘

’’جناب! یہی تو بات ہے ! چار نہ چھے۔ بس پانچ۔ پنڈت تر مبک شاستری کا نام آپ نے سنا ہو گا۔ صاحب! جادو گر تھا وہ شخص! بڑے بڑے ڈاکٹر پناہ مانگتے تھے !‘‘

’’صاحب! فرانس میں بھی لوگ مجھے جانتے ہیں !‘‘

فرانس!‘‘

’’جی ہاں۔ فرانس۔ کل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بتا رہے تھے کہ سول لائنز کے کسی ہوٹل میں دو فرانسی سی آ کر بیٹھے۔ وہ باتیں کر رہے تھے اور بار بار فراقؔ ۔ فراقؔ ان کی زبان پر آتا تھا۔ ‘‘

کبھی بھوتوں اور چڑیلوں کی کہانیاں۔ پھر اگلے ہی سانس میں ضعیف الاعتقادی اور عقل دشمن رو یوں پر لعن طعن اپنے اندر اتر تے ہوئے خالی پن کو بھرنے جد و جہد میں وہ نہ معلوم کیسی کیسی سمتوں میں بھٹکتے پھرتے۔ لیکن دنیا کے دوسرے کنارے تک چلے جاؤ۔ آخر کو لوٹ کر اپنے آپ تک ہی آنا ہے اور اپنا حساب چکانا ہے۔ فراقؔ صاحب کی شخصیت جن سمتوں میں گھومتی رہی ان پر چھائی ہوئی گرد بہت کچھ ان کی اپنی اڑائی ہوئی بھی ہے۔ سیانے پن اور سادہ لوحی، آگہی اور غفلت، خود نگری اور خود فراموشی، تنظیم اور ابتری، دیوانگی اور ہوشیاری، شاید ایک دو سرے کی ضد بھی ہوں، مگر فراقؔ صاحب ایک سی سہولت کے ساتھ تجربے اور احساس اور فکر کے ان دائروں میں آتے جاتے تھے اور ان کی شخصیت ایک ساتھ ان منطقوں کا احاطہ کرتی تھی۔ اُداسی اور بے دلی سے انبساط اور ٹھٹھول تک بس ایک قدم کا فاصلہ اور بیچ میں بس ایک پل کا پردہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ پل جس پر بس نہ چلے۔

یوں شام جیسے جیسے ڈھلتی جاتی اور بینک روڈ کے اس پر شور ویرانے کے گرد رات کا سنّاٹا پھیلتا جاتا فراق صاحب کے لہجے میں ٹھہراؤ اور طبیعت میں ضبط کے آثار پیدا ہوتے جاتے تھے۔ یہ ایک سوچی سمجھی، شعوری کوشش ہوتی تھی اندھیرے کے پہاڑ کو پار کرنے کی۔ رات ایک بھید بھی تھی اور ایک امتحان بھی، بھاری اور کٹھن۔

’’صاحب! شراب، انتہائی بدمزہ چیز ہے۔ وہ لوگ پرلے درجے کے جھوٹے ہوتے ہیں جو شاعری اور شراب میں رشتہ جوڑ تے ہیں۔ میں تو صرف نیند کے لئے پیتا ہوں !‘‘

ایک دور ایسا بھی گزرا جب وہ دیسی شراب میں نہ جانے کیا الابلا حل کر کے پینے لگے تھے۔ اس کی شعلگی بڑھا نے کے لئے۔ تس پر بھی گہری، پرسکون اور شانت نیند شاید ہی کبھی آئی ہو ؎

تھی ایک اچٹتی ہوئی نیند زندگی اس کی۔ ‘‘

وہ خواب میں بڑا بڑا تے بھی تھے اور کراہتے بھی تھے اور اگلی صبح دیر تک لمبی لمبی جمائیاں۔

فضا کی اوٹ میں مُردوں کی گنگنا ہٹ ہے

یہ رات موت کی بے رنگ مسکراہٹ ہے

دھواں دھواں ہے مناظر تمام نم دیدہ

خنک دھند لکے کی آنکھیں بھی نیم خوابیدہ

ستارے ہیں کہ جہاں پر ہے آنسوؤں کا کفن

حیات پردۂ شب میں بدلتی ہے پہلو

کچھ اور جاگ اٹھا آدھی رات کا جادو

زمانہ کتنا لڑائی کو رہ گیا ہو گا

مرے خیال میں اب ایک بج رہا ہو گا

اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ محوِ خواب ہیں رنگین مچھلیاں تہہ آب

کہ حوض صحن میں اب ان کی چشمکیں بھی نہیں

یہ سرنگوں ہیں سرِ شاخ پھول گڑہل کے

کہ جیسے بے بجھے انگارے ٹھنڈے پڑ جائیں

یہ چاندنی ہے کہ انڈا ہوا ہے رس ساگر

اک آدمی ہے کہ اتنا دکھی ہے دنیا میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اداسی فراقؔ صاحب کے لئے جینے کا ایک طور تھی اور وہ اس کی طاقت کا پورا گیان رکھتے تھے۔ اسی لئے اپنی اداسی کو انھوں نے بھانت بھانت کے پر دوں میں چھپانے کی جستجو کی۔ سب سے بڑا پردہ صبح سے شام تک کی دھوپ تھی جس میں ہر پہر اور ہر ساعت کے ساتھ انہوں نے ایک الگ تعلق قائم کر لیا تھا۔ ڈائری اور روز نامچے کے بغیر بھی تجربوں اور رویوں کے حدود متعین ہو سکتے ہیں۔ فراقؔ صاحب نے کبھی ڈائری نہ لکھی ’’اور ایک بارکسی نے ان سے باقاعدہ خود نو شت کی فرمائش کی تو بھڑک گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’صاحب! یہ خود نوشت لکھنے کا کی کا کیا مطلب ہے۔ آپ کی پوٹلی میں ہے کیا جو دنیا کو دکھائیں گے ؟ خودنوشت ہو سکتی ہے تو ایک پوسٹ میں کی۔ ایک کلرک کی، ایک عام، ان پڑھ، اُجڈ گنوار کی۔ ہم آپ کیا کھا کر خود نوشت لکھیں گے۔ سمجھے آپ! دو کوڑی کے تجربے اور چلے ہیں خود نوشت لکھنے۔ بڑے تیس مار خاں بنتے ہیں۔ مجھے سے یہ فراڈ نہیں چل سکتا۔ سمجھے آپ! میں ہر گز ہر گز اس طرح کی خود نوشت نہیں لکھ سکتا۔ یہ جو کچھ میں لکھتا اور کہتا رہا ہوں، آخر یہ کیا ہے ؟ کبھی سو چا آپ نے ؟ میں نے عمر بھر کیا جھک ماری ہے ؟ خود نوشت! خود نوشت! یہ آخر ہے کس چڑیا کا نام؟ بتائیے، جواب دیجئے !‘‘

فراقؔ صاحب کو اس سوال کا جواب بھلا کون دیتا! ہاں خود انھوں نے پلٹ کر جو سوال کیا تھا اس میں کئی سوالوں کے جواب چھپے ہوئے ہیں۔

’’پنکھا چلاؤ!‘‘ پنّا لال نے فل اسپیڈ پر سوئچ آن کر دیا۔ دسمبر کی رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی اور فراقؔ صاحب نے سر سے پیر تک لحاف اوڑھ لیا تھا۔ بینک روڈ پر اس وقت مکمل سنّاٹا طاری تھا۔ پریاگ اسٹیشن سے آخری سواری بھی اپنے گھر جا چکی تھی۔

٭٭٭

تشکر عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب ’’ فراق گورکھپوری: شخصیت، شاعری اور شناخت‘‘ کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید