FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فتنہ انکارِ حدیث

حافظ محمد ایوب دہلوی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

ظن شرعاً حجت ہے یا نہیں؟

پہلا سوال: کیا ظن شرعاً حجت ہے یا نہیں؟
جواب: ظن شرعاً بھی حجت ہے اور عقلاً بھی حجت ہے۔ ظن کے حجت ہونے کے یہ معنی ہے کہ ظن عمل کو واجب کر دیتا ہے، یعنی ظن موجبِ عمل ہے موجبِ ایمان نہیں ہے۔
ظن کے معنی: ۔ پہلے ظن کے معنی سمجھ لینے چاہییں۔ جب حکایت ذہن میں آتی ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں؛ ذہن اس کے صدق و کذب کی طرف ملتفت ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؛ اگر حکایت کے ذہن میں آنے کے بعد ذہن اس کے صدق و کذب کی طرف ملتفت نہیں ہوا، تو اس کو ’تخییل‘ کہتے ہیں۔ اگر ملتفت ہوا، تو کسی ایک طرف یعنی فقط صدق یا فقط کذب کی طرف ملتفت ہوا یا دونوں کی طرف ملتفت ہوا؛ اگر فقط ایک طرف التفات ہوا، تو یک طرفہ التفات ’جزم یا قطع‘ کہلاتا ہے۔
اور اس کی تین صورتیں ہیں؛ اور وہ یہ ہیں کہ یہ یک طرفہ التفات واقع کے مطابق ہے یا واقع کے مطابق نہیں ہے، یعنی واقعی میں یہ حکایت بالکل صادق تھی ذہن نے اس کو بالکل کاذب جانا یا واقعی میں بالکل کاذب تھی ذہن نے بالکل صادق جانا؛ تو اگر یک طرفہ التفات واقع کے خلاف ہے، تو اس کو ’جہلِ مرکب‘ کہتے ہیں۔ اور اگر واقع کے مطابق ہے، تو اس التفات اور اس اعتقاد کا زوال یا تو ممکن ہے یا نا ممکن ہے؛ اگر ممکن الزوال ہے، تو یہ یک طرفہ التفات جو واقع کے بھی مطابق ہے اور ممکن الزوال بھی ہے ’تقلید‘ کہلاتا ہے۔ اور اگر نا ممکن الزوال ہے، تو یہ یک طرفہ التفات جو واقع کے مطابق بھی ہے اور اس کا زوال بھی نا ممکن ہے اس یک طرفہ التفات و اعتقاد کو ’یقین‘ کہتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہوا کہ یک طرفہ التفات کی تین قسمیں ہیں؛ جہل مرکب، تقلید، یقین۔
اسی طرح دو طرفہ التفات کی بھی تین قسمیں ہیں؛ یہ دو طرفہ التفات دونوں طرف اگر برابر برابر ہے، تو اس کو ’شک‘ کہتے ہیں۔ اور اگر کم ہے اور زیادہ ہے، تو جدھر کم ہے اس کو ’وہم‘ کہتے ہیں۔ اور جدھر زیادہ ہے اس کو ’ظن و گمان‘ کہتے ہیں۔ مثلاً فلاں حقایت ظنی الصدیق ہے، اس کے معنی ہیں کہ صدق کی طرف زیادہ التفات ہے اور کذب کی طرف کم التفات ہے۔ یا فلاں حکایت ظنی الکذب ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ کذب کی طرف زیادہ التفات ہے صدق کی طرف کم التفات ہے۔
اب جب کہ ظن کے معنی معلوم ہو گئے تو اب یہ دیکھنا ہے کہ ظن عمل کو واجب کرتا ہے یا نہیں؟ سو معلوم کرنا چاہیئے کہ یقین میں ایسی زیادتی ہے جو بالکل یک طرفہ اور دوسری طرف کمی بالکل نہیں ہے صرف ایک ہی طرف زیادتی ہی زیادتی ہے۔ اور ظن میں ایسی زیادتی ہے کہ دوسری طرف کچھ کمی نہیں ہے۔ بہرحال زیادتی میں اور رجحان میں دونوں برابر ہیں اور عمل کو واجب کرنے والی چیزیں زیادتی ہے نہ کہ کمی۔ تو جس طرح یقین بوجہ زیادتی کے موجبِ عمل ہے، بالکل اسی طرح ظن بوجہ زیادتی کے موجب العمل ہے۔ یعنی یقین موجبِ عمل کیوں ہے؟ صرف اس وجہ سے کہ اس میں زیادتی ہے، ایسی زیادتی کہ جس میں کمی کا احتمال نہیں ہے۔ تو یقین میں موجبِ عمل زیادتی ہے نہ کہ کمی کا احتمال نہ ہونا۔ لہذا حجت صرف زیادتی ٹھہری اور یہ ظن میں موجود ہے، لہذا جس بنا پر یقین حجت ہے وہی بنا ظن کے حجت ہونے کی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عمل کرنے کے لئے اس عمل کے حُسن کا تصور چاہیئے اور یہ تصور جس طرح یقین میں ہے اسی طرح ظن میں ہے۔ کیونکہ ظن میں رجحان موجود ہے اور یہ رجحان ہی عمل کرانے کے لیے کافی ہے، لہذا ’ظن و یقین‘ ایک بنیاد پر حجت ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ اگر صرف یقین حجت ہو گانہ ظن، تو عالَم میں کہیں بھی ناکامی نہیں ہو گی اور ناکامی مفقود ہو جائے گی۔ کیونکہ جب انسان کو یقین ہو گیا کہ یہ عمل نافع ہے تو نفع اور فائدہ اور کامیابی لازمی طور پر ہو گی اور نقصان اور نامرادی مفقود ہو جائے گی، حالانکہ عالَم میں ناکامی اور کامیابی، نفع و نقصان دونوں متحقق ہیں۔ لہذا معلوم ہو گیا کہ صرف یقین پر مدارِ عمل نہیں ہے بلکہ ظن عمل کے لئے کافی ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض صورتوں میں ناکامی ہوتی ہے۔

ظن کے حجت ہونے کی حِسی مثالیں

دنیا کے تمام قسم کے معاملات اور کاروبار میں مثلاً تجارت کا عمل ظن پر موقوف ہے، ہر تجارت میں نفع نہیں ہوتا اگر یقینی نفع تجارت کرنے کی عِلت ہوتا ہے تو گھاٹا کسی کو نہ ہوتا بلکہ ظنی نفع حجت عمل تجارت ہے۔
پہلی مثال: اسی طرح مزدوری کا معاملہ ہے اگر مزدور کو یقین ہوتا کہ بازار جا کر مزدوری یقیناً مل جائے گی تو کوئی مزدور بیکار نہ ہوتا۔ صرف مزدوری کا ظن اس کو بازار لاتا ہے، اکثر اوقات مزدوری مل جاتی ہے کبھی نہیں بھی ملتی۔
دوسری مثال: اسی طرح نوکری کا حال ہے اور اسی طرح ڈاکٹری کا حال ہے، ڈاکٹر کو قطعاً یہ یقین نہیں ہوتا کہ اس کی دوا سے شفاء ہو گی۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام مریض شفا یاب ہوتے، ڈاکٹر کو صرف ظن ہوتا ہے اور وہ اپنے ظن پر دَوَا دیتا ہے کبھی شفاء ہو جاتی ہے کبھی نہیں، لہذا ڈاکٹر کا عمل اور دَوَا کا عمل دونوں ظنی ہیں۔ اب اگر ظن موجبِ عمل نہ ہو تو معالجہ ہی ختم ہو جائے اور کوئی علاج ہی نہ کرے اور کرائے۔
تیسری مثال: اسی طرح سفر خواہ پیدل کرے یا سواری میں کرے، موٹر، ریل، ہوائی جہاز، گھوڑا گاڑی غرض کسی طرح بھی سفر کرے اس کو یہ یقین نہیں ہوتا ہے کہ وہ بخیر و عافیت منزل پر پہنچ جائے گا صرف ظن ہی ہے۔ اب اگر ظن موجبِ عمل سفر نہ ہو تو سفر ہی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
چوتھی مثال: اسی طرح ہوائی جہاز، ریلیں وغیرہ ہیں کسی کو بھی یقین نہیں ہے کہ ان سے کوئی نقصان نہیں ہو گا اور فائدہ ہی فائدہ ہو گا۔ بلکہ ظن غالب ہے کہ فائدہ ہو گا، کبھی نقصان بھی ہو جائے گا اب اگر ظن مفید عمل نہ ہو تو تمام صنعتیں باطل ہو جائیں گی۔
غرض یہ ہے کہ دنیا میں کوئی عمل ایسا نہیں ہے کہ جس کا دار و مدار ظن پر نہ ہو سب کا ظن ہی پر دارومدار ہے۔ اگر ظن مفید عمل اور موجبِ عمل اور حجتِ عمل نہ ہو گا تو نظام عالَم تباہ ہو جائے گا، کیونکہ کسی کو کسی عمل کے حُسنِ انجام کا یقین نہیں ہے صرف ظن ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَوِ اتَّبَعَ الحَقُّ اَہوَآءَہُم لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالاَرضُ وَمَن فِیہِنَّ
(سورت المؤمنون 23 آیت 71)
یعنی ’اگر ان کی رائے کے حق تابع ہو گیا تو آسمان اور زمین اور جو اس میں ہیں سب تباہ ہو جائیں گے۔ اور حق ان کی رائے کے تابع ہوا تو نظام درہم برہم ہو جائے گا۔‘
آیت سے یہ ثابت ہو گیا کہ عالَم کی بربادی کا سبب حق کا ان کی رائے کا تابع ہونا ہے اور مشاہدہ سے یہ ثابت ہوا کہ عالَم کی بربادی کا سبب ظن کا حجت نہ ہونا ہے۔ تو گویا ظن کا حجت نہ ہونا حق کا ان کی رائے کے تابع ہونا ہے، لہذا اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ "ظن "حق ہے اور موجب بقائے عالَم ہے۔ اور ان کی رائے کے تابع ہو کر یعنی ظن نہ حجت بن کر موجبِ فسادِ عالَم ٹھہرا۔ غور کا مقام ہے۔ تم مجھے بتاؤ تو سہی کے جہاں میں کونسا عمل یقین پر ہو رہا ہے؟ سب کام ظن ہی پر چل رہے ہیں۔

اعمالِ شرعیہ کی مثالیں

اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ اعمالِ شرع صرف ظن ہی پر ہے، ہاں بیشک ایمان یقین پر ہے بلکہ یقین ہی ہے۔ دیکھو ہر شخص جو کہ نیک کام کرتا ہے اس کی غایت یہ ہوتی ہے کہ عذاب سے رہائی ہو، جنت کی راحتیں اور ثواب حاصل ہو۔ تو بتاؤ کہ کسی شخص کو بھی یقین ہے کہ وہ عذابِ جہنم سے بچ جائے گا اور جنت میں داخل ہو جائے گا؟ سب کو ظن ہی ہے، سب اس گمان اور ظن پر عمل کر رہے ہیں کہ شاید عذاب سے رہائی ہو جائے اور ثواب حاصل ہو جائے، سوائے انبیاء کے سب کو ظن ہی ظن ہے۔
اب اعمالِ شرعیہ کی مثالیں لیجئے: ۔
نکاح کا دارومدار دو آدمیوں کی شہادت پر ہے اور دو آدمیوں کی شہادت ظنی ہے، شریعت نے اس ظن کو حجت قرار دیا ہے۔ اسی طرح زنا کی سزا کی شہادت چار آدمیوں کی ہے، چار آدمیوں کی شہادت ظنی ہے، شرع نے اتنی سخت سزائیں ظنی شہادت کو حجت قرار دیا۔ باپ کا باپ ہونا ظنی ہے، شرع نے اس کو حجت قرار دیا یعنی نسب ظنی ہے۔ احکام میراث اسی ظن پر ہیں۔ اسی طرح سجدہ کعبہ کے سامنے ہونا چاہئے اور موضع سجود سے جو خط سیدھا کعبہ کو جائے وہ ظنی ہے یقینی نہیں ہے۔ اسی طرح سحری اور افطاری دونوں ظنی ہیں، یہ نہیں معلوم کہ صحیح وقت پر سحری کھائی گئی اور صحیح وقت پر افطار کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَاستَشہِدُوا شَہِیدَینِ مِن رِّجَالِکُم (سورت البقرۃ 2 آیت 282) یعنی ’دو مردوں کو گواہ بنا لو۔‘ اور دو مردوں کی شہادت ظنی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو حجت قرار دیا ہے۔
وَالَّذِینَ یَرمُونَ المُحصَنٰتِ ثُمَّ لَم یَاتُوا بِاَربَعَۃِ شُہَدَآءَ
(سورت النور 24 آیت 5)
’جو لوگ پارسا عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں پھر چار شاہد نہیں لاتے۔‘
اور فرمایا:
لَولَا جَاؤُا عَلَیہِ بِأَربَعَةِ شُہَدَاءَ
(سورت النور 24 آیت 13)
’کیوں نہیں چار گواہ اس پر لے آتے۔‘
ان آیتوں میں چار گواہوں کی گواہی کو سزا کے لئے حجت قرار دیا، حالانکہ چار گواہوں کی گواہی یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے۔
الغرض جتنے بھی اعمالِ صالحہ ہیں اکثر و بیشتر پر قرآن نے ظن کو حجت رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَ الحِسَاب
(سورت یونس 10 آیت 5)
’تاکہ تم کو سالوں اور برسوں کی گنتی اور حساب معلوم ہو جائے۔‘
مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالحَقّ
(سورت یونس 10 آیت 5)
’اللہ نے اس کو یعنی حساب کو ناحق نہیں بنایا۔‘
اور:
وَاَحصیٰ کُلَّ شَیءٍ عَدَدًا
(سورت الجن 72 آیت 28)
’ہر چیز کو عدد سے گھیر لیا۔‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حساب حق ہے اور جبکہ حساب حق ہے تو وہ شئے کہ جس پر حساب موقوف ہے وہ حق ہے۔ اور وہ علم ہندسہ کی شکل ہے کہ اگر چار مقداریں متناسب ہوں یعنی پہلی مقدار کو دوسری مقدار سے، وہی نسبت ہو جو تیسری کو چوتھی سے ہے، تو پہلی اور چوتھی کا حاصل ضرب دوسری اور تیسری کے حاصل ضرب کے برابر ہو گا۔ تمام قوانین کا حساب سوائے جمع اور تفریق کے کُل کے کُل اسی شکل کی فرع ہیں۔ ہم نے دوسری جگہ اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ علمِ حساب اشکال ہندسیہ کا نتیجہ ہے۔ اور جب کہ حساب اشکالِ ہندسیہ پر موقوف ہے تو لابُد جس طرح حساب حق ہے بالکل ہندسہ جو موقوف علیہ حساب ہے وہ بھی حق ہے۔ اور جب ہندسہ حق ہے تو لابُد جس شئے پر ہندسہ موقوف ہے وہ بھی حق ہے۔ اور وہ شئے اصل موضوع ہے یعنی دونوں نقطوں میں خط ملا سکتے ہیں، خط کو جتنی دور تک چاہیں بڑھا سکتے ہیں، کسی نقطے کو مرکز فرض کر کے جتنی دوری سے چاہیں دائرہ بنا سکتے ہیں۔ یہ تین اصل موضوع ہیں، ان پر تمام مقالات ہندسیہ موقف ہیں اور یہ تینوں یقینی نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر یہ بداہتہً یقینی ہوتے تو علومِ متعارفہ میں داخل ہوتے جو بداہتہً یقینی ہیں۔ اور اگر یہ نظراً یقین ہوتے تو دیگر مسائل نظریہ کی طرح یہ بھی اشکالِ نظریہ میں شامل ہوتے اور اشکالِ نظریہ کی طرح ان کو بھی ثابت کیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ نہ تو بارہ علومِ متعارفہ میں ان کا شمار ہے نہ کسی مقالہ کی کسی شکل میں ان کا بیان ہے۔ صرف معلمِ ہندسہ کے حُسنِ ظن سے ان کو تسلیم کر لیا ہے اور یہ ظنی ہیں۔ لہذا اگر ظن حجت نہ ہوتا تو اس ظن پر جتنی چیزیں موقوف ہیں وہ حجت نہ ہوتیں نہ ہندسہ کی اشکال، نہ حساب۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حساب کو حق کہا ہے تو لابُد ہندسہ بھی حق ہوا۔ اور ہندسہ ان تین اصل موضوع پر موقوف ہے، لہذا یہ تینوں اصولِ موضوعہ بھی حق ہو گئے۔ اور یہ اصولِ موضوعہ ظنی ہیں لہذا ظن قرآن کی روشنی میں حجت ہو گیا۔ پس اگر ظن حجت نہ ہو گا تو نظامِ عالَمِ دنیاوی اور دینی سب درہم برہم ہو جائے گا، لہذا ظن حجتِ عمل ہے۔
پہلا اعتراض: اب اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اجتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعضَ الظَّنِّ اِثمٌ
(سورت الحجرات 49 آیت 12)
’بیشتر ظنوں سے بچو کیونکہ بعض ظن گناہ ہیں۔‘
اور فرمایا:
إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہوَى الأَنفُسُ
(سورت النجم 53 آیت 23)
’وہ صرف ظن اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں۔‘
اور فرمایا:
اِن ہُم اِلَّا یَظُنُّونَ
(سورتان الجاثیہ آیت 24، البقرۃ آیت 78)
’وہ صرف اٹکل ہی سے کام لیتے ہیں۔‘
اور فرمایا:
اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغنِی مِنَ الحَقِّ شَیًٔا
(سورتان النجم آیت 28، یونس آیت 36)
یعنی ’ظن حق سے بے نیاز نہیں کرتا اور اٹکل سے صحیح بات کچھ بھی معلوم نہیں ہوتی۔‘
اور اس کے علاوہ ظن کی مذمت میں بے شمار آیات ہیں، اس کا کیا جواب ہے؟
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ ظن کے معنی سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ ایک ظن تو یقینی کا مقابل ہے، جیسے کہتے ہیں یہ ظنی ہے، یہ یقینی علم ہے تو یہ ظن قسم علم ہے۔ اور ایک ظن عمل ہے یعنی عمل کی قسم ہیں اور عمل ظن کی دو قسمیں ہیں؛ ایک سوئے ظن اور ایک حُسنِ ظن۔

حُسنِ ظن و سوئے ظن کی مثالیں

حُسنِ ظن کی مثال:
لَو لَاۤ اِذ سَمِعتُمُوہُ ظَنَّ المُؤمِنُونَ وَ المُؤمِنٰتُ بِاَنفُسِہِم خَیرًا
(سورت النور 24 آیت 12)
’جب تم نے یہ سُنا تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے کیوں نہیں حُسنِ ظن کیا؟‘
سوئے ظن کی مثال:
اجتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ
’اکثر ظنوں سے بچو‘ یعنی کہ ظن سے بچو۔ لہذا عملی ظن کی دو قسمیں ہو گئیں۔ ایک ظن بمعنی ظن خبر، جس کا حکم ہے۔ ایک ظن بمعنی سوئے ظن، جس کی نہی ہے۔ ہم جس ظن کو حجت قرار دے رہے ہیں وہ نہ حُسنِ ظن ہے، نہ سوئے ظن بلکہ وہ وہ ظن ہے جو یقین کا مقابل ہے۔ اور قسم علم ہے اور اس کے حجت ہونے کی اس آیت میں بھی دلالت موجود ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اجتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ
(سورت الحجرات 49 آیت 12)
’اے ایمان والو! بہت سے ظنوں سے بچو۔ کیونکہ بعض گناہ ہیں۔‘
اس آیت میں بعض ظن گناہ بتایا اور اکثر سے بچنے کو فرمایا۔ اور ظاہر یہ بات تھی کہ بعض گناہ ہیں بعض سے بچنے کو فرمایا لیکن اکثر سے بچنے کو یوں فرمایا کہ اکثر ظنوں کے جو مراتب ہیں ان میں بعض جو گناہ ہے کونسا ہے؟ لہذا مراتب اکثر یہ سے بچو کیونکہ اصل میں تو بچنا بعض سے ہے جو گناہ ہے۔ اب ہو سکتا ہے کہ وہ بعض یہ ہوں یا وہ یا وہ۔ کیونکہ ظن ہے کہ وہ بعض جو إِثمٌ (گناہ) ہے، یہ ہیں یا وہ ہیں۔ لہذا اکثر ظن حجت نہ ہوتا اور صرف یقین حجت ہوتا تو صرف بعض ظن سے جو إِثمٌ تھا بچنے کو فرماتا اور اس کی وضاحت مثال سے ہو جائے گی۔ مثلاً ظنوں کی تعداد سو 100 ہے اس میں سے بعض گناہ ہے مثلاً دس (10) تو فرمایا کہ ستر (70) سے بچو۔ بچنا تو صرف (10) دس سے تھا۔ ستر (70) سے بچنے کو اس لیے فرمایا کہ یہ (10) دس جو بچنے کے قابل ہے ان ستر (70) یعنی سات دہایوں میں سے کونسا دہایا ہے۔ کیوں کہ یہ دہایا ہر سات (7) دہایوں میں سے کوئی سا ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ پہلا دہایا ہو، ممکن ہے دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا، ساتواں، غرض کہ ہر دہا یا ممکن ہے جب ہر دہایا ممکن ہے تو ہر دہائے میں ظن ہو گیا تو یہ ظن حجت ہو گیا۔ اس بات پر کہ بعض سے بچنے کی بجائے اکثر سے بچا جائے ورنہ تقاضائے یقین تو یہ تھا کہ جو إِثمٌ ہے صرف اسی سے بچا جائے۔ لیکن إِثمٌ ہونے کا یقین تو بعض میں ہی ہے۔ اور ظن اکثر میں یعنی إِثمٌ اور گناہ ہونے کا ظن اکثر میں ہے اور اللہ کے نزدیک چونکہ ظن حجت ہے اس لئے ظن کے حجت ہونے کی بنا پر اس نے جہاں تک ظن کا اثر تھا سب کو یعنی اکثریت کو ممنوع قرار دے دیا۔ گویا آیت کا خلاصہ یہ ہوا بعض ظن تو یقین إِثمٌ اور گناہ ہیں لیکن کثیر ظن إِثمٌ اور گناہ ظناً ہیں۔ اور ظن حجت عمل ہے۔ لہذا تم ظناً جو ظن إِثمٌ ہیں ان سے بچو نہ کہ صرف یقینی ظن سے۔ لہذا ظن حجت ہو گیا اور عقائد میں جو ظن کی مذمت کی ہے وہ صحیح ہے۔ عقیدہ کی بنیاد یقین ہے ظن سے یقین نہیں ہوتا اس لیے ظن کو بُرا کہا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ظن صرف موجبِ عمل ہے موجبِ ایمان نہیں ہے، لہذا مسائل ایمانیہ ظن حجت نہیں ہو گا اور مسائل عملیہ میں ظن حجت ہو گا۔
اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ظن حجت عمل نہ ہو گا تو بیشتر آیات پر عمل ہی نہیں ہو سکے گا۔ مثلاً:
قُل لَّا أَسأَلُکُم عَلَیہِ أَجرًا إِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُربَى
(سورت الشوریٰ 42 آیت 23)
’کہہ دے میں اس ہدایت پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا۔ بجز محبت قرابت کے۔‘
اب اس محبت قرابت سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ تم آپس میں اپنے اپنے قرابت دار سے محبت کرو، یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ میرے قرابت دار سے محبت کرو، یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مجھ سے بوجہ میری قرابت کے محبت کرو۔ اب اس آیت سے تین مرادیں ہو سکتی ہیں اور اس کا یقین نہیں ہے کہ اللہ کی کونسی مراد ہے یا سب مرادیں ہیں؟
بہرحال ہر معنی ظنی ہیں اگر ظن حجت نہ ہو تو کتاب پر عمل نہ ہو سکے گا:
وَ المُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصنَ بِاَنفُسِہِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوٓءٍ
(سورت البقرۃ 2 آیت 228)
’مطلقہ عورتوں کی عدت تین ’قُرُء‘ ہے اور ’قُرُء‘ حیض کو بھی کہتے ہیں۔ طہر کو بھی کہتے ہیں۔ حیض و طہر ہر ایک پر ’قُرُء‘ کی دلالت ظنی ہے۔ یہ یقین نہیں ہے کہ اللہ کی مراد کیا ہے حیض ہے یا طہر ہے؟
وَیَحمِلُ عَرشَ رَبِّکَ فَوقَہُم یَومَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ
(سورت الحاقۃ آیت 17)
’اس روز تیرے رب کے عرش کو اپنے اوپر آٹھ اُٹھائے ہوں گے۔‘
اب یہاں عدد آٹھ کا ہے اور معدود ظنی ہے پتہ نہیں کون سے آٹھ اٹھائے ہوں گے اللہ کی کیا مراد ہے؟ آٹھ فرشتے مراد ہیں یا کوئی اور آٹھ مراد ہیں یا سات آسمان اور ایک زمین مراد ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اکثر آیات کی دلالت ان آیات کے معنی پر ظنی ہے۔ اگر ظن حجت نہ ہو گا تو بیشتر آیات پر عمل ہی نہیں ہو سکے گا۔
٭٭٭

احادیث مُسلّمہ واجب العمل ہے یا نہیں؟

پہلا سوال: کیا خبر واحد حجت ہے یعنی موجب عمل ہے یا نہیں؟ یعنی مجموعہ احادیث جو اس وقت بخاری اور مسلم وغیرہ میں موجود ہے یہ احادیث حجت ہیں یا نہیں؟
جواب: ہاں خبر واحد حجت ہے اور موجبِ عمل ہے۔
ثبوت: اگر خبر واحد موجبِ عمل نہ ہو گی تو نظام عالم درہم برہم ہو جائے گا۔ لیکن نظام عالم باقی ہے، قائم ہے۔ لہذا خبر واحد یعنی حدیث حجت ہے اور موجب عمل ہے اور حدیث پر عمل کرنا واجب ہے۔

خبرِ واحد کے حجت ہونے کے دلائل

پہلی دلیل: اب اس بات کا ثبوت کہ اگر خبرِ واحد حجت اور موجب عمل نہ ہو گی تو نظامِ عالَم درہم برہم ہو جائے گا، یہ ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے یعنی اپنی زندگی باقی رکھنے میں دوسروں کا محتاج ہے اور اس احتیاج کو رفع کرنا اور دفعہ کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کا دوسروں پر اظہار کرے۔ اور اظہار کا طریقہ یعنی ما فی الضمیر کا اظہار پوری طرح صرف خبر اور حکایت ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے تو گویا انسان کی زندگی خبر اور حکایت پر ہی موقوف ہے۔
خبر متواتر: خبر کی دو قسمیں ہیں؛ ایک تو خبر متواتر جو یقینی ہے، جیسے کہا جائے کہ قاہرہ، دمشق، مکہ وغیرہ یہ شہر ہیں تو جن لوگوں نے ان کو نہیں دیکھا ان کو بھی یہ خبر متواتر ان کے شہر ہونے کا ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ ان کے دیکھنے والوں کو ان کے شہر ہونے کا یقین ہے۔
خبرِ واحد: خبر کی دوسری قسم خبر غیر متواتر یعنی جو خبر متواتر نہیں ہے اس کو ’خبر واحد‘ کہا جاتا ہے۔ اور ہماری مراد واحد کی خبر سے وہ خبر ہے جو متواتر نہ ہو۔ بہر حال چونکہ انسان کی زندگی کا دارومدار خبر پر ہے اور خبر یا متواتر ہے یا غیر متواتر۔
خبر متواتر پر ہر عمل دشوار بلکہ تقریباً محال ہے، کیونکہ خبر متواتر اس خبر کو کہتے ہیں کہ اتنی کثیر جماعت کہ جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً محال ہو۔ وہ واقعہ کو محسوس کرے یا مشاہدہ کرے پھر دوسروں کے سامنے اس طرح نقل کرے کہ اس کی تعداد کم نہ ہونے پائے تو ایسی خبر کا تحقق انسان کے اعمال میں تقریباً محال ہے۔ تو لابُد انسان کے عمل کرنے کے لئے صرف غیر متواتر یعنی خبرِ واحد ہی موجب ہو سکتی ہے، لہذا اگر خبرِ واحد موجبِ عمل نہ ہو گی تو اعمالِ انسانی کا خاتمہ ہو جائے گا اور نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
پہلی دلیل: اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان عمل کرنے میں خبر کا محتاج ہے اور خبرِ متواتر جو یقینی اور قطعی ہے اس کا تحقق دشوار بلکہ تقریباً محال ہے، تو لابُد خبر واحد جو غیر یقینی اور ظنی ہے وہی موجب عمل ہو گی۔ مثلاً ایک شخص نے ایک شخص کو منع کیا کہ آگے نہ بڑھنا دیوار گرنے والی ہے، اب اگر وہ کہے کہ تیری خبر تجھے اکیلے کی ہے یعنی خبرِ واحد ہے اور خبرِ واحد ظنی ہے اور میں تو یقین پر عمل کروں گا۔ اور یقین حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دیوار کے گرنے کا مشاہدہ یا احساس جمِ غفیر اور ایسی کثیر جماعت نہ کرے جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً محال ہو، ایسی جماعتِ کثیرہ کا تحقق اس وقت محال اور نا ممکن ہے۔ لہذا یقین تو حاصل ہونے سے رہا اور اس نے منع کرنے والے کی خبر پر عمل کیا نہیں اور آگے بڑھ گیا اور دیوار کے نیچے دب کر مر گیا، لہذا خبرِ واحد پر عمل نہ کرنا موجبِ ہلاکت ہو گیا۔
دوسری دلیل: فائدہ حاصل کرنے سے نقصان سے بچنا مقدم ہے۔ یعنی خبرِ واحد اگر واقعی میں نبی کا قول ہے تو اس پر عمل کر کے ترکِ عمل کے عذاب سے بچنا ہے اور اگر نبی کا قول نہیں ہے تو عمل کرنا بے فائدہ ہے۔ بہر حال عمل کرنے میں دفعِ مضرت ہے۔
تیسری دلیل: جب غور و فکر کر کے انسان اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ خبرِ واحد حجت نہیں ہے اور عمل کو واجب نہیں کرتی، تو اب قصد اس بات کا کرے گا کہ اس خبرِ واحد پر عمل ترک کرے۔ یعنی اب قصد ترکِ عمل کا ہو گا اور قصد ترک عمل بھی عمل ہے تو اس عمل کا موجب وہم ہو گا۔ یعنی خبرِ واحد پر عمل تو ظن اور راجح کی بنیاد پر ہوتا اور یہ ترکِ عمل ظن اور راجح کے مقابلہ کی چیز یعنی وہم اور مرجوح پر ہوا، تو جب کہ عمل و ہم جو ظن سے کمزور ہے اس پر روا ہو گیا۔ تو ظن جو وہم سے بہت قویٰ ہے اس پر بدرجہ اولیٰ ہونا چاہیئے۔
چوتھی دلیل: قول رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا قطعی ہونا عمل کو واجب کر رہا ہے اور عمل کے قطعی واجب ہونے کو حکمِ الٰہی ہونا لازم ہے۔ تو قولِ رسول کے ظنی ہونے کو حکمِ الٰہی کا ظنی ہونا لازم ہے اور حکم الٰہی کا ظنی ہونا قطعاً موجبِ عمل ہے، لہذا قولِ رسول جو ظنی ہے قطعاً موجبِ عمل ہو گیا۔
اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ قول جس کا قطعاً علم ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا قول ہے، اس قول پر قطعی عمل واجب ہے اور عمل کا قطعی ہونا یہ بتا رہا ہے کہ یہ قطعی اللہ کا حکم ہے تو قولِ رسول کو حکم الٰہی ہونا لازم ہو گیا۔ یعنی قولِ رسول ملزوم ہے حکم الٰہی ہونا لازم ہے اور قولِ رسول کے ظنی ہونے کو حکمِ الٰہی کا ظنی ہونا لازم ہے اور حکمِ الٰہی کے ظنی ہونے کو قطعاً وجوب عمل لازم ہے۔ یعنی جب یہ علم ہو جائے کہ یہ اللہ کا ظناً حکم ہے، تو اس ظنی حکمِ الٰہی پر قطعاً عمل واجب ہے۔
پانچویں دلیل: رسول کا قطعی قول قطعی حکمِ الٰہی ہے اور قطعی واجب العمل ہے اور رسول کا ظنی قول ظنی حکمِ الٰہی ہے، اور ظنی حکمِ الٰہی بھی قطعی حکمِ الٰہی کی طرف واجب العمل ہے۔
اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ عمل کا واجب ہونا حکمِ الٰہی پر موقوف ہے خواہ وہ حکمِ الٰہی قطعی ہو یا ظنی ہو۔ جیسا کہ ظاہر قرآن پر عمل واجب ہے اور بیشتر آیات کی دلالت اپنے معنی پر ظنی ہے لیکن عمل واجب ہے۔ تو وجوبِ عمل کی عِلت صرف حکم الٰہی ہونا ثابت ہوئی، خواہ وہ حکمِ الٰہی قطعی طور پر معلوم ہو یا ظنی طور پر معلوم ہو ہر صورت میں قطعاً واجب العمل ہے۔ اور قرآن کی آیات کے ظنی ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آیات کا جو مفہوم اور معنی مجتہد یا عالِم نے سمجھے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کی مراد نہ ہو، اگرچہ آیات کا ثبوت قطعی ہے لیکن ان کی دلالت اپنے معنی پر ظنی ہے۔ تو جس طرح قطعی الثبوت ظنی الدلالت حکمِ الٰہی موجبِ عمل ہو گیا بالکل اسی طرح ظنی الثبوت ظنی الدلالت یعنی خبرِ واحد اور حدیثِ رسول موجبِ عمل ہو گیا اور کوئی فرق باقی نہ رہا۔
چھٹی دلیل: تمام صحابہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبرِ واحد حجت ہے اور اگر خبرِ واحد حجت نہ ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم خبرِ واحد پر عمل نہ کرتے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کیا:
لائمۃ من القریش
’امام قریش میں سے ہو گا۔‘
نَحنُ مَعَاشِرَالأَنبِیَاءِ لَا نُوثُ وَلَا نُورَثُ
’ہم انبیاء کی جماعت نہ وارث ہوتی ہے اور نہ کوئی دوسرا ان کا وارث ہوتا ہے۔‘
الانبیاء یدفنون حیث یموتون
’اور انبیاء جہاں فوت ہوتے ہیں وہیں دفن ہوتے ہیں۔‘
یہ تمام حدیثیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیں اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے بالاجماع ان احادیث کو قبول کر لیا اور ان کا یہ اجماع ہم تک بالتواتر منقول ہے۔
ساتویں دلیل: تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایک جو احکام کی تبلیغ کے لئے بھیجا، اگر خبرِ واحد حجت نہ ہوتی تو تبلیغ کا فائدہ حاصل نہ ہوتا بلکہ گمراہی حاصل ہوتی۔
آٹھویں دلیل: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَا کَانَ المُؤمِنُونَ لِیَنفِرُوا کَآفَّۃً فَلَولَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرقَۃٍ مِّنہُم طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَومَہُم اِذَارَجَعُوۤا اِلَیہِم لَعَلَّہُم یَحذَرُونَ
(سورت التوبۃ 9 آیت 122)
’سب مومنوں کو نہیں چاہیئے کہ وہ دین حاصل کرنے کے لئے رسول کی طرف کوچ کریں، پھر جتنے فرقے اپنی اپنی بستیوں میں تھے ان میں سے، ہر فرقہ کے ایک ایک طائفہ نے دین کو سمجھنے کے لئے کیوں نہیں کوچ کیا؟ تاکہ وہ دین کو سمجھ کر جب اپنے وطن لوٹتا تو اپنی قوم کو ڈراتا اور وہ یعنی اس کی قوم والے ڈرتے۔‘
’’فرقہ‘‘ کا لفظ تین پر بولا جاتا ہے، یعنی کم از کم تین پر بولا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واجب کیا کہ ہر ’’فرقہ‘‘ یعنی ہر تین میں سے ایک طائفہ نکلتا اور تین میں سے جو نکلیں گے وہ یا تو دو ہوں گے یا ایک ہو گا، تو طائفہ یا ایک ہے یا دو ہیں۔ بہرحال اس طائفہ کے ڈرانے یعنی اس طائفہ کے خبر دینے پر عمل کو واجب کیا۔ یعنی جب یہ طائفہ اپنے وطن کو لوٹ کر جائے اور اپنی قوم کو ڈرائے اور خبر دے تو اس کی قوم کو اس طائفہ کی خبر پر عمل کرنا واجب ہے۔
آیت کا حاصل یہ ہے کہ یہ طائفہ تفقہ فی الدین کے لئے کوچ کرے، پھر تفقہ حاصل کر کے اپنے وطن جب لوٹے تو اپنی قوم کو ڈرائے یعنی خبر دے، اور خبر دار کر دے کہ اے قوم! رسول کی نافرمانی اور مخالفت سے ڈرو! اور اس کی قوم پر واجب ہے کہ وہ اس طائفہ کے ڈراوے کی خبر سُن کر ڈرے اور اس طائفہ کی خبر پر عمل کرے۔ چونکہ طائفہ ایک کو اور دو کو شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ المُؤمِنِینَ اقتَتَلُوا فَأَصلِحُوا بَینَہُمَا
(سورت الحجرات 49 آیت 9)
’اگر مسلمانوں کے دو طائفے لڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔‘
اور صلح جس طرح دو بڑی جماعتوں کی لڑائی میں واجب ہے، اسی طرح دو فردوں کی لڑائی میں بھی واجب ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ ایک فرد بھی طائفہ ہے، لہذا طائفہ کا اطلاق ایک اور دو پر بھی صحیح ہے اور طائفے کے ڈراوے پر اور ڈرانے کی خبر پر جب اللہ تعالیٰ نے عمل واجب قرار دیا۔ تو اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ قوم کے لئے خبرِ واحد شرعاً حجت ہے، یعنی اللہ نے واحد کی خبر کو قوم کے لئے حجت قرار دیا۔
نویں دلیل: اعمال حرکات و سکنات کو کہتے ہیں اور حرکات و سکنات لامحدود ہیں یعنی کسی حد پر نہیں ٹھیرتے یعنی انسان بے شمار عمل کرتا ہے۔ نیز عمل حالات کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں اور عمل مختلف احوال میں مختلف احکام چاہتا ہے، لہذا احکام لا انتہا یعنی بے شمار ہو گئے۔ اور نصوصِ قرآنی جو موجبِ احکام ہیں وہ محدود ہیں، لہذا اگر نصوصِ قرآنی پر عمل کیا جائے گا تو بیشتر اعمال بے احکام کے رہ جائیں گے۔ یعنی بہت سے ایسے اعمال ہوں گے جن کی حرمت عِلتِ جواز اور عدم جواز کے لئے کوئی ثبوت قرآن سے نہیں مل سکے گا اور اس وقت انسان کی زندگی ان اعمال کی موجودگی میں بیکار اور لغو ہو گی۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنٰکُم عَبَثًا
(سورت المومنون 23 آیت 115)
’کیا تم یہ سمجھے ہوئے ہوں کہ ہم نے تم کو بکار بنایا ہے۔‘
اب اگر حدیث پر عمل نہ ہو گا اور خبر واحد پر عمل نہ ہو گا تو انسان کی بیشتر خلقت عبث ہو جائے گی، لہذا حدیث پر عمل واجب اور ضروری ہے۔
دسویں دلیل: جھوٹی حدیث وضع کرنی حدیث کے حجت ہونے کی حجت ہے۔ یعنی جعلی سکّہ جب ہی ڈھالا جائے گا جب کہ ٹکسالی سکّہ چالو ہو اور جب کہ اصلی سکّہ چالو نہ ہو، تو جعلی بنانا بالکل بے سود ہو گا، چونکہ حدیث کی حجیت چالو تھی اس لئے جعلی حدیث وضع کی گئی۔ اگر حدیث کی حجت تمام مسلمانوں میں چالو نہ ہوتی تو وضاعین کو جعلی اور نقلی حدیث کے وضع کرنے سے کوئی فائدہ ہی نہ ہوتا۔
گیارہویں دلیل: اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:
وَجَآءَ رَجُلٌ مِّن اَقصَا المَدِینَۃِ یَسعیٰ قَالَ یٰمُوسٰۤی اِنَّ المَلَاَ یَاتَمِرُونَ بِکَ لِیَقتُلُوکَ فَاخرُج اِنِّی لَکَ مِنَ النّٰصِحِینَ
(سورت القصص آیت 20)
’ایک شخص شہر کے پَرلے کنارے سے دوڑتا ہوا آیا اور کہا، اے موسیٰ! اہل دربار تیرے قتل کرنے کا مشورہ کر رہے ہیں، سو تو نکل جا میں تیرا خیر خواہ ہوں۔‘
اگر واحد کی خبر قابل قبول اور موجبِ عمل نہ ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام اس کی خبر سے باہر نہ جاتے۔ اور اس طرح جب عورت بلانے آئی تھی اور اس نے کہا تھا:
اِنَّ اَبِی یَدعُوکَ لِیَجزِیَکَ اَجرَ مَا سَقَیتَ لَنَا
(سورت القصص 28 آیت 25)
’میرا باپ تجھ کو بلاتا ہے تاکہ تجھ کو پانی پلانے کا بدلہ دیوے۔‘
اس ایک عورت کی خبر اگر قابلِ قبول نہ ہوتی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے ساتھ نہ جاتے۔ پھر جب اس عورت کے باپ کے پاس پہنچے اور ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو اس عورت کا باپ یہ نہ کہتا کہ فکر نہ کر تو ظالم لوگوں سے بچ نکلا۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام سے سارا واقعہ بیان کیا اور انہوں نے ان کی خبر سُن کر تصدیق کی اور ان کو مطمئن کیا اور فرعون والوں کو ظالم قرار دیا۔ تو اگر خبرِ واحد قابلِ قبول نہ ہوتی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جو ابھی نبی نہیں ہوئے تھے ان کی خبر کو حضرت شعیب علیہ السلام قبول نہ کرتے۔ اور اسی طرح فرعون والوں میں سے جو مومن مرد اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا تھا، اس نے کہا:
وَقَالَ الَّذِیۤ اٰمَنَ یٰقَومِ اتَّبِعُونِ اَہدِکُم سَبِیلَ الرَّشَادِ
(سورت المومن 40 آیت 38)
’اے میری قوم! میری پیروی کر، میں تم کو بھلائی کا راستہ دکھلاتا ہوں۔‘
اس ایک شخص کی اتباع ہدایت ہے، اگر اس کی اتباع اس کا قول قابلِ قبول نہ ہوتا تو کس طرح سیدھے راستے کی ہدایت ہو سکتا تھا؟ پھر اس شخص نے کہا:
فَسَتَذکُرُونَ مَاۤ اَقُولُ لَکُم
(سورت المومن 40 آیت 44)
’عنقریب تم کو میرا کہنا اور میرا قول یاد آئے گا۔‘
تم میری بات یاد کرو گے، اگر اس کا قول حجت نہ ہوتا تو کیوں کر یاد آتا؟ اور اس کا قول حجت نہ ہوتا تو اس کے نہ ماننے سے آل فرعون کو عذاب نہ گھیرتا۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ خبرِ واحد قرآن کی رُو سے قابلِ قبول اور حجت ہے۔
بارہویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَجَآءَ مِن اَقصَا المَدِینَۃِ رَجُلٌ یَّسعیٰ
(سورت یٰس 36 آیت 20)
’شہر کے پَرلے نکڑ سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔
قَالَ یٰقَومِ اتَّبِعُوا المُرسَلِینَ
(سورت یٰس 36 آیت 20)
’اس نے کہا، اے میری قوم! رسولوں کی پیروی کرو۔‘
اگر اس شخص کا قول اس کی قوم پرحجت نہ ہوتا تو اس شخص کی نافرمانی پر اس کی قوم عذاب کی مستحق نہ ہوتی، اور عذاب کی ایک ہی چنگھاڑ میں وہ جل بجھ کر راکھ نہ ہو جاتی۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ خبرِ واحد قرآن کی رُو سے حجت ہے۔
تیرہویں دلیل: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
اِن جَآءَکُم فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۤا
(سورت الحجرات 49 آیت 6)
’اگر تمہارے پاس فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو۔‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ فاسق کی خبر قابلِ تحقیق ہے نہ قابلِ ردّ۔ یعنی اگر عادل خبر لائے تو قبول کر لو، اگر فاسق خبر لائے تو بلا تحقیق قبول نہ کرو۔ یعنی فاسق کی خبر بھی قابلِ ردّ نہیں ہے بلکہ قابلِ تحقیق ہے، لہذا عادل کی خبر بغیر تحقیق قرآن کی رُو سے قابلِ قبول ہے۔
چودہویں دلیل: ’خبرِ واحد حجت نہیں ہے‘ یہ بات قرآن سے ثابت نہیں ہے۔ ’خبرِ واحد حجت ہے‘ یہ بات قرآن سے ثابت ہے، حدیث سے ثابت ہے، عقل سے ثابت ہے، اجماع سے ثابت ہے، تمام محدثین سے ثابت ہے، تمام مجتہدین سے ثابت ہے، تمام ائمہ محققین سے ثابت ہے۔ اب بتاؤ کہ جو بات کسی ذریعہ سے ثابت نہیں ہے، وہ قابلِ قبول ہے یا وہ بات جو ہر ذریعے سے ثابت ہے وہ قابلِ قبول ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلاَ تَقفُ مَا لَیسَ لَکَ بِہِ عِلمٌ
(سورت بنی اسرائیل 17 آیت 36)
’جس چیز کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔‘
لہذا یہ کہنا کہ خبرِ واحد حجت نہیں ہے، یہ ایسی بات ہے کہ جس کا کسی ذریعہ سے علم نہیں ہے، اس لیے اس کے پیچھے نہ پڑنا چاہیئے۔
٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل