فہرست مضامین
- فارغ البال
- انتساب
- عرضِ ناشر
- پیش لفظ
- مقدمہ
- فارغ البال
- تصویرِ کائنات میں رنگ
- عقبی ادب
- ہاتھ پر یوں تو ہے گھڑی لیکن
- مجھے زندہ رہنے دو!
- فلمی پلاننگ
- بیمہ ایجنٹ سے بچنا محال ہے !
- سوزِ محبت
- سوال نامہ
- انگلش میڈیم اسکول
- بارے کرکٹ کا کچھ بیان ہو جائے
- خوشیوں کی آواز، قہقہہ
- خوشحالی کا تکون
- ’ہم آپ کو معزز بناتے ہیں ‘
- آنچل کی تربیت
- پیسہ کی گم شد گی
- یہ القاب و آداب!
- بڑھتی کا نام توند
فارغ البال
انشائیوں کا مجموعہ
حصہ اول
عابد معز
انتساب
شریکِ حیات فرحانہ محمدی
کے نام
جو ہر دم، لکھتے وقت بھی حرف بحرف میرے ساتھ ہوتی ہیں
عابد معز
عرضِ ناشر
جناب عابد معز تیس سال سے زیادہ عرصے سے لکھ رہے ہیں۔ کچھ کم ربع صدی سعودی عرب میں رہنے کے بعد اگسٹ 2010ء میں واپس حیدرآباد آئے۔ آپ پیشہ سے طبیب ہیں اور آپ کا شوق طنز و مزاح ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا قلم دونوں میدانوں میں چلتا ہے۔
ہدیٰ پبلی کیشنز نے ڈاکٹر عابد معز کی طبی اور طنزیہ و مزاحیہ دونوں اصناف کی کتابیں عوام میں پیش کی ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ڈاکٹر صاحب دونوں میدانوں میں کامیاب و کامران ہیں۔
طنز و مزاح کے میدان میں جناب عابد معز نے مضامین، انشائیے اور افسانے لکھے ہیں۔ جدّہ، سعودی عرب سے شایع ہونے والے پہلے اردو ہفت روزہ ’اردو میگزین‘ میں ہفتہ وار کالم بھی لکھا ہے۔ آپ کے شگفتہ افسانوں کے دو مجموعے – عرض کیا ہے اور یہ نہ تھی ہماری قسمت – شایع ہو چکے ہیں۔ کالموں کا ایک مجموعہ – بات سے بات – بھی چھپ چکا ہے۔ یہ تین کتابیں ہدیٰ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شایع ہوئی ہیں۔ ان سے پہلے شہر حیدرآباد پر لکھے گئے مضامین کا انتخاب ’واہ حیدرآباد‘ شایع ہو چکا ہے۔ اب انشائیوں کے مجموعے کی باری ہے۔
عابد معز صاحب کے تحریر کردہ انشائیوں کا مجموعہ – فارغ البال – پیش ہے۔ ان کے متعلق پروفیسر مقبول فاروقی کا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے عصری مسائل اور مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انشائیے کو نئی جہت اور نئے امکانات سے روشناس کیا ہے جو بڑی بات ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی دوسری کتابوں کی طرح انشائیوں کا مجموعہ بھی مقبول ہو گا۔
سید عبدالباسط شکیل
٭ ٭ ٭
پیش لفظ
ہدیٰ پبلی کیشنز نے پچھلے ڈھائی سال کے عرصے میں میری تین طنز و مزاح کی کتابیں – عرض کیا ہے ( گسٹ 2011ء)، یہ نہ تھی ہماری قسمت (جنوری 2012ء) اور بات سے بات (ستمبر 2012ء) شایع کی ہیں۔ ان کے علاوہ میرے پیشے صحت اور تغذیہ سے متعلق آٹھ کتابیں بھی شایع کی ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو داں لوگوں نے ان کتابوں کو شرف قبولیت بخشا۔ ہر دو رنگ میں میری کتابیں بالعموم پسند کی جا رہی ہیں۔ طنز و مزاح کی کتاب ’عرض کیا ہے ‘اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
عوام و خواص کی اس سرپرستی سے حوصلہ پا کر میں نے انشائیوں کو بھی کتابی شکل دینے کا ارادہ کیا اور برادرم سید عبدالباسط شکیل سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ موصوف جیسے تیار تھے، کتاب شایع کرنے کے لیے فوری ہامی بھر لی۔
اس کتاب میں تیئیس انشائیے شامل ہیں۔ یہ انشائیے مزاحیہ مضامین کے تحت بھی چھپ چکے ہیں۔ نقاد انشائیوں اور مزاحیہ مضامین کے فرق کو بہتر طور پر واضح کر سکیں گے۔ مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ ذہن میں جو خیالات آتے گئے میں انہیں کاغذ پر منتقل کرتا گیا۔ میں نہیں جانتا کہ وہ مضامین کی شکل اختیار کر گئے یا انشائیے بن گئے ہیں۔ میری پچھلی کتابوں کے نام کی طرح اس کتاب کا نام بھی اس میں شامل ایک انشائیہ کا عنوان ہے۔
مقدمہ لکھنے کے لیے میں نے پروفیسر مقبول فاروقی سے گزارش کی ہے۔ پروفیسر صاحب سے میری پہلی ملاقات ڈاکٹر محمد سرور کے مکان پر ہوئی تھی۔ ڈاکٹر محمد سرور سے میری دوستی ریاض، سعودی عرب سے ہے۔ پروفیسر صاحب کے علمی کام سے میں متاثر ہوں اور جب معلوم ہوا کہ محترم کا تعلق بھی اسی سرزمین یعنی محبوب نگر سے ہے جس سے میرے آباء و اجداد کا تعلق ہے تو میں پروفیسر صاحب کا گرویدہ ہو گیا۔ پروفیسر صاحب نے باوجود اپنی مصروفیات کے، میرے لیے وقت نکالا، مسودہ پڑھا اور ایک جامع مقدمہ تحریر فرمایا جس کے لیے میں سراپا سپاس ہوں۔
کتاب کا سرورق ڈاکٹر ریحان انصاری نے بھیونڈی، ممبئی سے تیار کر کے روانہ کیا ہے۔ موصوف کئی خوبیوں کے مالک ہیں۔ اچھے آرٹسٹ، خطاط، طبیب، ادیب اور سب سے بڑھ کر بہت اچھے دوست ہیں۔ ٹائیٹل بنانے کے لیے اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکالنا میرے تئیں خلوص کا اظہار ہے جس کے لیے میں ممنون ہوں۔
کتاب کی تیاری کے دوران جناب میر فاروق علی، ایڈیٹر عدسہ، سینئر صحافی رشید انصاری صاحب، نامور شاعر جناب فرید سحر، نواب سکندر علی خان اور دوسرے دوستوں کے مشورے ملتے رہے ہیں۔ میں آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میری پچھلی کتابوں کی طرح اس کتاب کی طباعت میں جناب سید عبدالباسط شکیل کی خصوصی دلچسپی شامل ہے۔ میں آپ کے خلوص اور محنت کی قدر کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ ادارۂ ہدیٰ پبلی کیشنز کو نئی کامیابیوں سے ہمکنار کرے، آمین۔
مجھے امید ہے کہ انشائیوں کے اس مجموعے کو قارئین پسند کریں گے اور اپنی رائے سے بھی نوازیں گے۔
مئی 2013ء
عابد معز
حیدرآباد۔
پروفیسر مقبول فاروقی
مقدمہ
ایک اچھے اور سچے مسلمان کی حیثیت سے ڈاکٹر عابد معز اپنے لیے بھی وہی چیز پسند کرتے ہیں جو اپنے احباب کے لیے پسند کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر صاحب نے جناب فرید سحرؔ کی ایک کتاب پر اس ناچیز سے پیش لفظ جیسی ایک عبارت لکھوائی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے میری اس تحریر کو فریدسحرؔ صاحب کے حوالے کرتے ہوئے بڑے پُر اعتماد لہجے میں فرمایا تھا۔ ’لیجیے بہت اچھا پیش لفظ ہے۔ میں اپنی کتاب پر بھی پروفیسر صاحب ہی سے لکھواؤں گا۔ ‘
میں نے ڈاکٹر صاحب کے اس جملے کو فرید سحرؔ صاحب کے حق میں ایک تسلی اور میرے حق میں حوصلہ افزائی خیال کرتا رہا لیکن ڈاکٹر صاحب کی مستقل مزاجی دیکھیے کہ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے انھوں نے ایک اچھی خاصی کتاب کو داؤ پر لگا دیا۔ اپنے 23 انشائیوں پر مشتمل کتاب کا مسودہ مجھے دیتے ہوئے فرمایا۔ ’اس پر آپ مقدمہ لکھ دیں۔ ‘
مشتاق احمد یوسفی کے پروفیسر قاضی عبدالقدوس، سے واقفیت کے باوجود ایک مشہور مزاح نگار کا اپنی کتاب پر مقدمہ لکھوانے کے لیے ایک پروفیسر ہی سے رجوع ہونا بجائے خود ایک حیرت انگیز بات تھی۔ میرا اپنا مخلصانہ خیال تھا کہ اس کتاب کو اور مجھ کو اس مقدمہ بازی میں الجھانا نہ تصنیف کے حق میں بہتر ہو گا اور نہ خود مصنف کے حق میں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے فیصلے پر اٹل تھے۔ میں جناب عابد معز سے ایک ڈاکٹر اور مزاح نگار کی حیثیت سے پہلے ہی متاثر تھا اب ان کی رعب دار شخصیت نے میرے اندر رہی سہی قوتِ مدافعت کو بھی ختم کر دیا تھا۔ چنانچہ میں نے خاموشی سے مسودہ لے کر اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔
ڈاکٹر عابد معز ایک صاحب طرز انشائیہ نگار ہیں۔ ان کے ایک ایک جملے سے ان کے منفرد اسلوب کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہم یہ محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتے کہ ان کے انشائیے مقبول عام قسم کے انشائیوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے کا مشاہدہ اپنی نظر سے کرتے ہیں اور اپنے مخصوص زاویے سے کرتے ہیں۔ اس کو اپنے طور پر سوچتے اور محسوس کرتے ہیں۔ اظہار کے مرحلے پر بھی وہ اپنی زبان اور اپنے لہجے کو قائم رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عابد معز انشائیے کے نام پر محض بات سے بات پیدا کرنے یا پھر قاری کو صرف دلچسپ باتوں میں لگائے رکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے یہاں مزاح کم اور طنز زیادہ ہے لیکن موضوعات کے انوکھے اور اچھوتے انتخاب اور ان کے غیر روایتی طرزِ بیان کی وجہ سے ان کے انشائیوں میں ایک نئی تازگی اور وسعت کا احساس ہوتا ہے جیسے ہم طنز و مزاح کی ایک نئی وادی کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہوں اور ہماری نظریں دور، دور تک پھیلے خوش گوار نظاروں سے ایک نئی مہک اور کشادگی اپنے اندر جذب کر رہی ہوں۔
ڈاکٹر صاحب کے موضوعات میں غیر معمولی تنوع ہے اور ان موضوعات کی مختلف جہتوں پر بھی ان کی گہری نظر ہے جن کو وہ بڑے دلچسپ انداز میں ہمارے سامنے روشن کرتے جاتے ہیں۔ ایک بات جو نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے انشائیوں میں مختلف علوم سے متعلق معلومات سمٹ آتی ہیں۔ ان میں مذہب، سائنس، طب، نفسیات، فلسفہ اور سماجیات حسب ضرورت داخل ہوتے رہتے ہیں اور نفسِ مضمون کے ساتھ اپنی ناگزیر وابستگی کا احساس دلاتے ہیں اور ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کے مطالعے کی وسعت اور گہرائی کا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عابد معز کی تحریروں میں ایک تہذیب اور شائستگی پائی جاتی ہے۔ ان کے مزاح میں بھی ایک سنجیدگی نظر آتی ہے۔ یہاں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کی تقریباً ہر تحریر اپنے دامن میں ایک مقصد اور ایک پیام لیے ہوتی ہے۔ ان کی تحریریں مزاح کی محض وقتی پھلجھڑیاں چھوڑ کر ہم کو پھر اندھیروں کے حوالے نہیں کرتیں بلکہ ان کے نپے تلے جملے ہم کو غور و فکر کی روشنی عطا کرتے ہیں تاکہ ہم اپنی اور اپنے ماحول کی جن کمزوریوں اور ناہمواریوں پر ہنستے ہیں، ان کے تدارک کا سامان کرنے کے بارے میں بھی سوچیں۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر عابد معز کے انشائیے قہقہہ بردوش نہیں ہوتے اور یہ انشائیے کا منصب بھی نہیں ہے۔ انشائیے کا دلچسپ ہونا شرط ہے تاکہ قاری اور سامع سب کچھ بھول کر تھوڑی دیر کے لیے انشائیہ نگار کے ساتھ ہولے اور ان جہانوں کی سیر کرے جہاں انشائیہ نگار اسے لے جائے اور مسرور اور مستفید ہو کر واپس آئے۔ ڈاکٹر عابد معز کے انشائیوں میں دلچسپی اور دلفریبی کا یہ عنصر نمایاں طور پر موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ اکثر مقامات پر ظرافت کے ایسے نمونے ملتے ہیں جو قاری اور سامع کو بے اختیار ہنسنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ چند جملے ملاحظہ فرمائیے۔
’خواتین فارغ البال تو نہیں ہوتیں لیکن فارغ البالی کا سبب ضرور ہوتی ہیں۔ ‘ (فارغ البال)
’جوانی کی یادیں بڑھاپے کے لیے فکسڈ ڈپازٹ ہوتی ہیں۔ ‘(سوزِ محبت)
’بڑھاپے میں پالیسیاں پاس ہوں تو اصل بیٹا تو اصلی ہے، کئی نقلی بیٹے خدمت کرنے کے لیے دوڑے چلے آئیں گے۔ ‘ (بیمہ ایجنٹ سے بچنا محال ہے )
’ہمارے وقت کا جوان آج کے دس جوانوں پر بھاری تھا۔ ‘ ہم نے حساب کر کے جواب دیا۔ ’بجا فرماتے ہیں۔ ماضی اور حال میں آبادی کا تناسب یہی ہے۔ ‘ (سوزِ محبت)
’میں آپ کی ساس سے کتنی محبت کرتی ہوں۔ ایک آپ ہیں جو اپنی ساس کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ایسا کیوں ؟‘ (آنچل کی تربیت)
’پائی پائی کے لیے ہا تھا پائی تک ہوتی تھی۔ ‘(پیسہ کی گمشدگی)
’ہمارے ایک دوست نے ٹیوشن پڑھاتے پڑھاتے نکاح پڑھوا لیا۔ ‘ (یہ القاب و آداب)
’دنیا کی طویل ترین جنگ وہ ہے جو شوہر اور بیوی کے درمیان روزِ ازل سے اب تک جاری ہے۔ ‘ (گھونگھٹ الٹنے سے پہلے )
’محبت اندھی ہوتی ہے مگر گھونگھٹ الٹنے سے پہلے۔ ‘ (گھونگھٹ الٹنے سے پہلے )
طنز و مزاح کے ایسے آب دار جواہر پارے ہر صفحے پر بکھرے نظر آئیں گے۔
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہم اپنے پیش رو اور مشہور قلم کاروں سے ایسے مرعوب اور متاثر ہوتے ہیں کہ انہی کی سی زبان اور انہی کے اسلوب کی تقلید میں اپنی توانائیاں صرف کر دیتے ہیں۔ اس طرح ہم ان پیش رو حضرات سے آگے تو نہیں جا سکتے البتہ اپنی شناخت بنانے میں ناکام ضرور ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عابد معز نے اس سلسلے میں پوری احتیاط برتی ہے۔ وہ اپنے پیش رو انشائیہ نگاروں اور مزاح نگاروں کا احترام تو کرتے ہیں لیکن ان کی تقلید سے حتی المقدور اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں موضوعات کا انتخاب بھی انوکھا ہوتا ہے۔ وہ دوسروں سے خوشہ چینی نہیں کرتے اور زبان اور بیان کے معاملے میں بھی اپنے انداز کو مقدم رکھتے ہیں۔ غرض ڈاکٹر صاحب ’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ کے بالکل قائل نہیں ہیں۔ وہ اپنی راہ آپ بنانے کا حوصلہ رکھتے ہیں، چاہے بادِ مخالف ہی کا سامنا کیوں نہ ہو۔ سچ پوچھیے تو ایسے ہی لوگ ادب میں نئی روایتیں قائم کرتے ہیں۔ عام روش کچھ ہوتی ہے اور وہ کچھ اور ہی لکھنا پسند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر عابد معز زبان بھی اپنی مرضی کی لکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ ان کے کسی جملے یا کسی لفظ کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کو یوں نہیں بلکہ یوں ہونا چاہیے تو وہ آپ کا شکریہ تو ادا کر دیں گے لیکن مشورہ شاید ہی قبول کریں۔ میں نے بھی ڈاکٹر صاحب کی زیر مطالعہ کتاب سے چند ایسی مثالیں نوٹ کی ہیں لیکن میں ان کو بدلنے کا مشورہ نہیں دے رہا ہوں۔ مثالیں یہ ہیں۔
تمام دن کی بجائے ’دن تمام‘۔ ڈر لگنا کی جگہ ’ڈر ہونا‘۔ جھاڑ پر چڑھنا کی بجائے ’جھاڑ چڑھنا‘۔ پہلو کی جگہ ’بازو‘۔ وہ کی بجائے ’انو‘۔ کسی معاملے میں خاموشی اختیار کرنے کے لیے ’انجان ہو جانا‘۔ ایک جگہ ’کمر گھٹ ہونا‘ بھی لکھا ہے۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ایسے الفاظ دکنی محاورے کے مطابق ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق دکن سے ہے اور زبان کا یہ دکنی محاورہ جس میں خاک دکن کی سوندھی سوندھی مہک ہے، انھیں بہت عزیز ہے۔ وہ اس کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عابد معز کا یہ رویہ ان حضرات کے رویّے سے قطعی مختلف ہے جو دکنی کے استعمال کو مزاح نگاری کا مترادف سمجھتے ہیں۔ معاف کیجیے، یہ مزاح نگاری نہیں بلکہ دکنی کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے اور شاید اپنی بے بضاعتی کا اعلان بھی۔ اس کے برعکس ڈاکٹر عابد معز کے نزدیک دکنی محاورہ ایک قیمتی ورثہ ہے جسے وہ سینے سے لگائے رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کو مزاح پیدا کرنے کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال نہیں کرتے۔ اس کا ثبوت ان کے وہ بے شمار طنزیہ اور مزاحیہ مضامین اور کالم ہیں جو مروجہ اور معیاری اردو میں ہیں اور جو قومی اور بین الاقوامی رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔
ڈاکٹر عابد معز ایک ادیب بھی ہیں اور ایک طبیب بھی۔ ادب ہو کہ مطب، دونوں جگہ ان کے کارناموں کو بنظر تحسین دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں محاذوں پر وہ پوری سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو نباہتے آئے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض مریضوں کے علاج کے لیے ادب کا انجکشن ضروری خیال کرتے ہیں اور ادبی دنیا میں مختلف امراض کے شکار حضرات کے لیے انگریزی دوائیں اور اس سے بڑھ کر پرہیز تجویز کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں راقم کو ایک سرکاری دعوت میں جہاں انواع واقسام کی نعمتوں سے میزیں بھری ہوئی تھیں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہم طعامی کا تجربہ ہوا۔ بڑے زور کی بھوک لگی تھی اور خود ڈاکٹر صاحب نے بھی اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ ’بیس پچیس مقررین کو سننے کے بعد آدمی کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ ‘جس ہال میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا وہاں پہنچ کر ڈاکٹر صاحب نے اپنی پلیٹ میں پہلے تو کچھ سلاد لیا۔ پھر ذرا سا خشکہ اور دہی لے کر ایک طرف کو ہو گئے۔ یعنی وہ یہاں بھی پرہیزی کھانا ہی کھا رہے تھے اور ان کی پلیٹ بھی زبان حال سے کہہ رہی تھی، ’صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے ‘ ۔
ڈاکٹر صاحب کے انشائیوں کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے علاج و معالجے کا دائرہ فرد اور معاشرے سے آگے بڑھ کر قومی بلکہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان کی حساس انگلیاں ایک فرد ہی نہیں بلکہ ایک زمانے کی نبض پر رکھی ہوئی ہیں اور وہ قومی اور بین الاقوامی مسائل کے پیچھے کارفرما نفسیاتی امراض کی تشخیص کرتی ہیں۔ ان مقامات پر ان کی تحریروں میں ایک گہری سنجیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے زندہ رہنے دو، تصویرِ کائنات میں رنگ، اتفاق ہے کہ ہم زندہ ہیں، ایسے ہی انشائیے ہیں۔ فلمی پلاننگ، انگلش میڈیم اسکول اور ہمارے بھی ہیں ڈاکٹراں کیسے کیسے، جیسے انشائیے بھی ہمیں چوکنا کرنے اور ہماری آنکھیں کھولنے کا کام کرتے ہیں۔ سوزِ محبت، بڑا گمبھیر عنوان ہے لیکن تحریر اسی قدر شگفتہ اور دلچسپ ہے۔ ایسی ہی کیفیت ہم کو سوال نامہ، یہ القاب و آداب، بڑھتی کا نام توند، جیسے انشائیوں میں بھی ملتی ہے۔ غرض ڈاکٹر عابد معز کے انشائیوں میں لطافت و ظرافت کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے ہمدردی اور خیرخواہی کا کوئی نہ کوئی عنصر ضرور موجود ہوتا ہے جس کے لیے ہم کو ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے عصری مسائل اور مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انشائیے کو نئی جہات اور نئے امکانات سے روشناس کیا ہے جو بڑی بات ہے۔
پروفیسر مقبول فاروقی
سابق صدر شعبۂ اردو
آندھرا یونی ورسٹی، وشاکھا پٹنم
فارغ البال
فارغ البال سے کیا مراد ہے ؟ یہ سمجھنے کے لیے آپ کو تھوڑی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ حضرات ! ہاتھ اٹھائیں اور اپنے سر پر پھیریں۔ اگر آپ کا ہاتھ بالوں کے چنگل اور جنگل میں الجھتا ہے اور آپ ہاتھ کی انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کر سکتے ہیں تو اس مضمون کا موضوع آپ نہیں ہیں۔ اور اگر آپ کا ہاتھ چٹیل میدان پر ناکام پھیرا لگا کر مایوس لوٹ آئے تو اس مضمون کا موضوع گو آپ نہیں ہیں لیکن آپ جیسے فارغ البال اصحاب ہیں۔
صاحبِ مضمون کا شمار بھی فارغ البال زمرے میں ہوتا ہے !
خواتین سر پر ہاتھ پھیرے بغیر مضمون پڑھ سکتی ہیں۔ خواتین کو فارغ البالی نصیب نہیں ہوتی۔ اکثر فارغ البال اشخاص کا خیال بلکہ تجربہ ہے کہ خواتین، فارغ البال تو ہوتی نہیں ہیں لیکن فارغ البالی کا سبب ضرور ہوتی ہیں۔
لوگ یوں ہی راتوں رات فارغ البال نہیں ہو جاتے ! یہ ایک درد بھری داستان ہوتی ہے۔ ہر فارغ البال شخص کا سر ماضی میں سر سبز و شاداب ہوا کرتا ہے۔ اس نے بھی کبھی بالوں میں تیل ڈالا، کنگھی کی اور بالوں کو مختلف فلمی ستاروں کی طرح سجایا ہو گا۔ بادِ صبا اس کے بالوں سے اٹکھیلیاں کر چکی ہو گی۔ بال ماتھے پر گرائے ہوں گے۔ محبوبہ نے لانبی انگلیوں سے اس کے بال بھی سنوارے ہوں گے۔
زندگی کے کسی موڑ پر گدھے کے سر سے غائب ہونے والے سینگ کی مانند سر سے بال ایسے اڑنے لگتے ہیں جیسے پہلے کبھی تھے ہی نہیں۔ نئی نویلی دلہن صبح اٹھ کر جس طرح کان کا بالا بستر میں تلاش کرتی ہے ایسے ہی یہ حضرت، داغِ مفارقت دے گئے بالوں کو تکیہ سے جمع کرتے ہیں۔ ان کی گنتی کرتے ہیں۔ مرحوم بالوں کی یاد میں چند منٹ خاموشی اختیار کر کے آئینہ دیکھتے ہیں۔ کہیں کہیں بالوں کے درمیان میں سے چندیا چمکنے لگتی ہے۔ افسردگی سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو چند بال ہاتھ کو چمٹے چلے آتے ہیں۔ کنگھی کرنے پر مزید کئی بال سر کا ساتھ چھوڑتے ہیں۔ نہانا غضب ڈھاتا ہے۔ پانی بے یار و مددگار بالوں کو بہا لے جاتا ہے۔
جوں جوں بال گرتے جاتے ہیں، تشویس بڑھتی جاتی ہے۔ بال گرنے کی وجہ پانی کا کھارا یا کڑوا ہونا سمجھی جاتی ہے تو کبھی تیل، کریم، صابن یا شیمپو کی خرابی قرار پاتی ہے۔ انھیں بدلنے کا لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے۔
گرتے بالوں کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی کوششیں شروع ہوتی ہیں۔ اخبارات اور رسائل میں چھپے اشتہاروں اور مشوروں پر مختلف قسم کے تیل سے سر پر باغبانی کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔ ایک ایک بال کی جڑ میں تیل پہنچایا جاتا ہے۔ کریم سے کمزور اور ناتواں بالوں کی لَے کو سنوارا جاتا ہے۔ سر پر مختلف ہیر ٹانکوں سے مالش کی جاتی ہے۔ ہمہ اقسام کے صابن اور شیمپو کی مدد سے سر اور بالوں کو ’صاف‘ رکھا جاتا ہے۔
تمام تر کوششوں کے باوجود سر سے بالوں کی خیرات جاری رہتی ہے۔ احباب ہوشیار کرنے لگتے ہیں۔ ’آپ کے بال کم ہو رہے ہیں۔ کچھ کیجیے، وگرنہ چڑیاں چک گئیں کھیت تو پچھتانے سے کچھ نہ ہو گا۔ ‘
گرتے بالوں کو تھامنے کے لیے حجام سے لے کر ڈاکٹر تک، ہر ایک سے مدد مانگی جاتی ہے۔ حجام مختلف علاج بتاتے ہیں۔ بار بار سر منڈھوایئے۔ پھر گھونٹے ہوئے سر پر لگانے کے لیے ان کا آزمودہ لیپ دیتے ہیں۔ اگر آپ سر منڈھوانا اور مرہم نہ لگانا چاہیں تو حجام ہر دن اپنا تیار کردہ تیل لگا کر مالش کرتے ہیں۔ نتیجتاً سر فارغ البالی کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوتا ہے۔ مالش سے سر پر خراشیں اور زخموں کے نشان الگ پڑ جاتے ہیں۔ سر درد کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سے مشورہ کرنے پر وہ اپنی مثال پیش کرتے ہوئے اپنے فارغ البال سر پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں۔ ’فارغ البالی وراثت میں ملتی ہے۔ ابھی تک اس کا علاج دریافت نہ ہو سکا۔ اسی لیے، اسے صبر اور شکر کے ساتھ قبول کیجیے۔ اگر علاج معلوم ہوا تو پہلے میں استعمال کروں گا اور پھر تجربہ کی بنیاد پر آپ کو مشورہ دوں گا۔ دعا کیجیے کہ فارغ البالی کا علاج جلد دریافت ہو جائے، آمین۔ ‘
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ رہتا ہے۔ دوا اور دُعا کے باوجود بالوں کے گرنے کا عمل اپنی رفتار سے جاری رہتا ہے۔ آخر کار فارغ البالی مسلمہ حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ سر پر کہیں کہیں بچے کھچے بال منہ چڑانے لگتے ہیں۔ کسی کے سر پر چوتھی تاریخ کے چاند کی شکل میں دونوں کانوں کے درمیان سر کے پیچھے چند بال بچ رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کی پیشانی کے اوپر اور سر کے اطراف ’ن‘ کی شکل میں بال باقی رہتے ہیں۔ چند فارغ البال اشخاص کے سر کے اطراف اور سر کے بیچ میں بچے کھچے بال تشدید یا انگریزی حرف ڈبلیو کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ چند سروں پر بچے ہوئے بال چاند، سورج یا تارے کی شکل بنا لیتے ہیں۔ جس طرح طوفان سے پہلے پتا نہیں چلتا کہ پانی کہاں کہاں سے اور کیا کیا بہا لے جائے گا، ایسے ہی کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ آیا فارغ البالی کے بعد سر پر بال بچ رہیں گے اور اگر بچ گئے تو ان کی شکل کیا ہو گی؟
فارغ البالی کی اصل وجہ ڈاکٹر اور وہ بھی ’ہیر اسپیشلسٹ‘ یعنی بالوں کے ماہر جانتے ہوں گے۔ عام طور پر لوگ مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ بعض کے خیال میں کہنہ نزلہ زکام اور آنکھوں کی کمزوری بالوں کو لے ڈوبتی ہے۔ پانی کی خرابی بالوں کو بہا لے جاتی ہے تو غذا میں بے قاعدگی بالوں کو کمزور کر دیتی ہے۔ علم نجوم پر یقین رکھنے والوں کا خیال ہے کہ فارغ البالی معاشی خوش حالی کی علامت ہے۔ اس ضمن میں بعض نجومی ہاتھ کی طرح سر بھی پڑھتے ہیں۔
ہماری دادی اماں بتاتی تھیں کہ زیادہ لکھنے اور پڑھنے سے فارغ البالی میّسر آتی ہے۔ دماغی الجھنوں اور مالی پریشانیوں کو بھی فارغ البالی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ نیم حکیم قسم کے چند فارغ البال اشخاص کی رائے ہے کہ فارغ البالی زائد مردانگی کی نشانی ہے جو شاید بالوں کے ذریعہ ضائع ہوتی رہتی ہے۔ غرض، خیال اپنا اپنا اور فارغ البالی اپنی اپنی!
بال گرنے اور جھڑنے کے بعد پرانی شکل سے نئی صورت ابھر آتی ہے۔ سر کے گڑھے اور ابھار نمایاں ہوتے ہیں۔ پتا نہیں چلتا کہ پیشانی کہاں ختم ہو رہی ہے اور کہاں سے سر شروع ہو رہا ہے۔ پیشانی کے بل، سر پر بھی جا پڑتے ہیں۔ چہرے کے کیل، مہاسے اورپھنسیاں سر پر بھی نکل آتی ہیں۔ وضو کرتے وقت سر کے بجائے کبھی پیشانی تو کبھی تالو کا مسح ہوتا ہے۔ بال گرنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی تالو پختہ عمر میں بھی نہیں بھرتی، تیل بھرنے کی گنجائش باقی و برقرار رہتی ہے۔
سر کے بالوں نے چہرے کے جو نقص چھپائے ہوتے ہیں، وہ فارغ البالی میں عیاں ہو جاتے ہیں۔ بڑی ناک بہت بڑی نظر آتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں تقریباً بند لگتی ہیں۔ موٹے ہونٹ بہت موٹے دکھائی دیتے ہیں۔ پچکے ہوئے گال مزید پچک جاتے ہیں۔ تھوڑی نمایاں ہو جاتی ہے اور سر بڑا دکھائی دیتا ہے۔
فارغ البال سر پر اِدھر اُدھر گنے چنے چند بال عجیب لگتے ہیں، اس پر ان بالوں کو سجانے کا انداز غضب ڈھاتا ہے۔ چند بالوں سے چندیا کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ نتیجتاً مضحکہ خیز شکل تیار ہوتی ہے۔ سر کے پیچھے سے بچے کھچے بالوں کو سائبان کی طرح تالو اور پیشانی پر لایا جاتا ہے۔ سیدھے کان کے پاس سے چند بالوں کو سر کے اطراف گھما پھرا کر بائیں کان کے پاس چھوڑا جاتا ہے۔ چار، چھ بالوں کو ایک کان سے دوسرے کان تک اس طرح جماتے ہیں کہ سر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
بعض لوگ سر کے اطراف بچے کھچے بالوں کو ضرورت سے زیادہ لانبا چھوڑتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے گرما میں پانی ٹھنڈا رکھنے کے لیے کوری ٹھلیا کے اطراف جھالر باندھی گئی ہو۔ فارغ البال سر کو سجانے کے اور بھی انداز ہیں۔ آس پاس فارغ البال سروں پر نظریں دوڑائیں اور لطف اٹھائیں۔
چوں کہ فارغ البال شخص کے سر پر بال کم سے کم ہوتے ہیں، انھیں سنوارنے اور سنبھالنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہو گی۔ وہ تیل، کریم اور کنگھی سے بے نیاز ہوتے ہوں گے اور کچھ پیسے بھی بچتے ہوں گے۔ اکثر لوگوں کی طرح ہماری یہ خام خیالی حقیقت کے برعکس ثابت ہوئی۔ گنے چنے بالوں کو اِدھر اُدھر گھمانے اور پھرانے کے لیے مخصوص کنگھی اور انھیں سر پر ٹکانے بلکہ چپکانے کے لیے قیمتی کریم چاہیے جو صرف بالوں کو چمٹی رہے لیکن چندیا کو نہ چمکائے۔
صد افسوس کہ محنت اور مشقت سے جمائے بلکہ ٹکائے گئے بال کچھ دیر ہی اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں۔ ہوا کا ہلکا جھونکا، سامنے والے شخص کا زور سے بات کرنا یا خود کا جماہی لینا، ٹھنڈی سانس بھرنا، کھانسنا یا چھینکنا، فارغ البال شخص کے بالوں کے نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ بکھرے ہوئے چند بالوں کو پھر سے سمیٹنے اور سجانے کے لیے ہر دم کنگھی چاہیے۔ اگر آپ کو کنگھی کی ضرورت پڑ جائے تو بلا جھجک فارغ البال اشخاص سے مانگیے، وہ آپ کو مایوس نہیں کریں گے لیکن ایک روایت کے مطابق آپ کے بالوں کی خیر نہیں !
فارغ البال سر کے بچے کھچے بالوں کو تیل یا کریم لگانا ایک آرٹ ہے۔ یہ بہت نازک کام ہے۔ ذرا سی بد احتیاطی چکنائی کو سر پر پھیلا دیتی ہے۔ سر چمکنے لگتا ہے۔ بعض سر آئینے کا کام بھی دیتے ہیں۔ ہم اپنے ایک دوست کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جن کی بیگم کا میک اپ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ شوہر کی چندیا میں اپنا عکس نہ دیکھ لیں۔ شوہر کے سر میں اپنا چہرہ دیکھ کر میک اپ کو فائینل ٹچس دیتی ہیں، ان کا سر پونچھتی ہیں اور پھر دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پارٹی کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔
فارغ البال سر ایک جیسے اور فارغ البال اشخاص آپس میں بھائی بھائی نظر آتے ہیں۔ یوں بھی سگے بھائیوں میں فارغ البالی کا پایا جانا عام ہے۔ لیکن’ فارغ البال بھائی چارگی‘ عالمی ہے۔ سبھی فارغ البال سر ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں فرق ہوتا ہے تو صرف بالوں کی تعداد میں ہوتا ہے۔ کسی سر پر بال کم تو کسی کے سر پر بہت ہی کم بال اور بعض سر پر تو بال بالکل بھی نہیں !
فارغ البالی سے شناخت آسان ہوتی ہے۔ حلیہ بتانے میں سہولت رہتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کا حلیہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے فارغ البال سر کو چار حصّوں میں تقسیم کیجیے۔ بائیں کان والے حصّہ میں ایک کالے رنگ کا مسّا ہے جو دور ہی سے نظر آتا ہے۔ ایک اور فارغ البال شخص کا حلیہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ موصوف کا سر آئینہ کی طرح صاف اور شفاف ہے۔ دو کانوں کے درمیان کچھ ہی بال بچے ہیں اور بائیں جانب کے دس پندرہ بالوں کو بڑھا کر دائیں کان پر باندھتے ہیں۔
فارغ البال کی بے بسی اور لاچارگی پر خود اس شخص کے بعد اگر کسی دوسرے کو ہمدردی ہو سکتی ہے تو وہ حجام ہے۔ حجام فارغ البال شخص کا سر کچھ ایسی مایوسی کے عالم میں تکتا ہے جیسے کوئی کسان اپنی بنجر زمین کو دیکھ کر آہیں بھرتا ہے۔ حجام کو بال اور کسان کو فصل نہ کاٹنے کی خلش رہتی ہے۔ بعض حجام سروں پر بال اگانے اور انھیں برقرار رکھنے پر تحقیق کرتے ہیں۔ فارغ البال سر ان کی تجربہ گاہ ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جس دن بھی کوئی حجام، ڈاکٹر یا خود فارغ البال شخص، فارغ البالی کا علاج دریافت کر لے گا وہ اسی دن مالامال ہو جائے گا اور فارغ البالی کا خاتمہ ہو جائے گا!
حجام تجربہ کے لیے فارغ البال سروں کی تلاش میں رہتا ہے جبکہ فارغ البال اشخاص حجام سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ حجام کے پاس کیوں جائیں ؟ دوچار بال خود ہی کیوں نہ کاٹ لیں ! حجام کے پاس جانے سے خدشہ لگا رہتا ہے کہ اس کی قچ قچ کرتی تیز قینچی بالوں کی تلاش میں کہیں کان اور ناک نہ کاٹ لے۔ یوں بھی حجام فارغ البال شخص کے سر پر بال ڈھونڈنے اور ان کے جمانے کا انداز دریافت کر کے بال کاٹنے کی اجرت زیادہ لیتے ہیں۔
بچوں کو معلوم نہیں فارغ البال سر کیا اور کیسے دکھائی دیتا ہے۔ اطراف گھوم پھر کر غور سے چکنے سر کا جائزہ لیتے ہیں۔ خوش ہوتے اور سوال کرتے ہیں۔ ’انکل آپ کے بال کہاں گئے ؟ ‘
اس سوال کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ ’بال چوہے کھا گئے ‘ یا پھر یہ کہ ’شرارت کرنے پر اللہ نے بال واپس لے لیے۔ ‘ بعض بچے اپنے تجسّس کا عملی اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے لڑکے نے ہمارے فارغ البال سر کو للچاتی نظروں سے دیکھ کر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ’میں چاچا کے چاند پر جاؤں گا۔ ‘
اس کے والد سمجھاتے رہے۔ ’بیٹا ایسے خطرناک کھیل نہیں کھیلا کرتے، وہاں کوئی سہارا نہیں ہے۔ پھسل جاؤ گے۔ ‘
لیکن لڑکے کی ضد بڑھتی گئی۔ آخر ہم نے کہا۔ ’کیوں بچے کو مایوس کرتے ہو۔ ‘ ہم نے اپنا سر جھکایا اور لڑکے سے کہا۔ ’آؤ بیٹا اپنی خواہش پوری کر لو۔ ‘
لڑکا ہمکتا ہوا آیا اور ہمارے شانوں پر سے ہوتا ہوا سر پر قدم رکھنا چاہتا تھا کہ توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ نیچے گرنے کے بجائے فضا میں خلا بازی کھا کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ لڑکے کے والد خوش ہوئے۔ ’میرا لڑکا جمناسٹک کا کھلاڑی بنے گا۔ ‘
ہمیں لقمہ دینا پڑا۔ ’باپ کا نام اور چچا کی چندیا روشن کرے گا۔ ‘
سر اور چہرے کے بالوں سے عمر کم نظر آتی ہے۔ ماتھے کی جھرّیوں پر سر کے بالوں کا پردہ کیجیے۔ گال اگر بڑھتی عمر کی چغلی کھاتے ہیں تو داڑھی اور مونچھ رکھیے۔ اس کے برخلاف فارغ البال اشخاص اپنی عمر سے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ یوں بھی فارغ البالی بڑھتی عمر کی نشانی ہے لیکن بعض لوگوں کو فارغ البالی اتنی جلد میسّر آتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے ان کے پاس جوانی آئی ہی نہیں۔ بچپن کے بعد سیدھے بڑھاپا آیا ہے۔ ہمیں خوب یاد ہے، جب ہم اسکول سے کالج میں داخل ہوئے تو ہمارے ایک فارغ البال ساتھی کو ہم سبھی بشمول لڑکیاں ’انکل ٹام‘ کہا کرتے تھے اور انکل ٹام حسرت سے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا کرتے۔ ’خدایا تو سب کو میری طرح گنجا کر دے یا پھر میرا سر بالوں سے بھر دے۔ ‘
اس ضمن میں ہم خود اپنی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ ہمیں اور ہماری بیگم کو ساتھ دیکھ کر کھسر پھسر ہوتی ہے۔ ’دیکھیے بزرگوار اپنی تیسری بیوی کے ساتھ آ رہے ہیں۔ یہ بوڑھے بھی نوجوانوں پر کیسا ستم ڈھاتے ہیں۔ ‘ اب آپ ہی بتائیں، ایسے موقعوں پر فارغ البال شوہروں کو کیا کرنا چاہیے۔
فارغ البال اشخاص کو بالوں کا سپورٹ نہ ہونے سے اپنے سر کی ضرورت سے زیادہ حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ سر کو سردی اور گرمی زیادہ لگتی ہے۔ سر پر ذرا سی چوٹ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بال نہ ہونے سے بال بال بچنے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ ایک فلسفیانہ خیال یہ بھی ہے کہ فارغ البال لوگ خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ایک احتیاطی تدبیر ہے۔ فارغ البال شخص کا خوش اخلاقی سے پیش آنا ایک مجبوری ہے۔ کبھی بھی فارغ البال سر طنز اور ملامت کا نشانہ بن سکتا ہے اور بالوں کے درمیان نہ ہونے سے بات دھول دھپّہ تک بہت جلد جا پہنچتی ہے۔
فارغ البال اشخاص منکسرالمزاج بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بال و پر نہیں نکال سکتے اور نہ ہی خدا انھیں ناخن دیتا ہے۔ ان مجبوریوں کے ساتھ فارغ البال سر کو کچھ فائدے بھی حاصل ہیں۔ کوئی ان کے بال بکھیر نہیں سکتا۔ کوئی ان کے زلفوں میں بندھ نہیں سکتا۔ جب بال ہی نہیں ہیں تو ظاہر ہے کیسی بھی بات ہو، بال کھڑے نہیں ہو سکتے۔ کوئی ان کے بال کی کھال نہیں نکال سکتا اور نہ ہی کوئی ان کا بال بیکا کر سکتا ہے۔ فارغ البال سر میں جوئیں نہیں پل سکتیں اور نہ کان پر جوں رینگ سکتی ہے۔
فارغ البال سر کو ہماری فلموں میں بھی ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ہیرو اپنے دوستوں سے فارغ البال سر پر چپت رسید کرنے کی شرط لگاتا ہے۔ گانے کے دوران فارغ البال سر پر طبلہ بجتا ہے۔ بعض مرتبہ پورے اسکرین پر چمکتی چندیا کو مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے۔ فارغ البال سر پر تیلی پھیر کر سگریٹ جلایا جاتا ہے۔ فلموں میں ویلن یا ویلن کا کوئی اہم چمچہ فارغ البال ضرور ہوتا ہے۔ اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ ہیرو کو للکارتا ہے۔ ویلن فارغ البالی کی وجہ سے خطرناک اور طاقتور ثابت ہوتا ہے۔ ہیرو کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتا ہے۔ ہیرو اس کے سر کا نشانہ لیتا ہے۔ دو، تین مرتبہ وہ بچ جاتا ہے لیکن آخر میں فارغ البال سر میں پھوٹے شیشے، سیخ یا بندوق کی گولی سے دڑاڑ پڑنے پر اس کی شکست ہوتی ہے۔
فارغ البالی کو یوں ہی خاموشی سے برداشت نہیں کیا جاتا۔ فارغ البالی سے پیچھا چھڑانے کے لیے لاکھ جتن کیے جاتے ہیں۔ بالوں کو اگانے کے لیے مختلف نسخوں کو آزمایا جاتا ہے۔ بال تو خیر نہیں آتے لیکن بعض مرتبہ جلد داغدار ہو جاتی ہے۔ اس ہائی ٹیک دور میں جسم کے دوسرے حصّوں سے بال نکال کر انھیں سر پر لگانے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ لیکن فارغ البال سر جیسی بنجر زمین پر نئی کونپلیں نہ نکل سکیں۔ آخر تمام تدابیر کے ناکام ہونے پر فارغ البال لوگ اپنے سروں کو نقلی بالوں سے سجاتے ہیں۔
لوگ اپنی پسند کے بالوں کی وِگ پہنتے ہیں۔ آسانی سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ سر پر وگ رکھی رہنے سے احتیاط بھی لازم ہوتی ہے۔ تیز ہوا کی لَے پر وگ کے اڑ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ سر کو زور سے ہلانے، دوڑنے، حتی کہ جھکنے یا رکوع میں جانے پر وگ کے چکنے سر سے پھسل جانے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ لڑائی کے دوران بہت آسانی کے ساتھ وگ دوسرے کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ غرض، فارغ البال سر کو وگ میں امان نہیں ملتی۔
اگر کہیں فارغ البال سر کی حفاظت ہو سکتی ہے تو وہ پگڑی باندھنے یا ٹوپی پہننے سے ہوتی ہے۔ کسی شاعر نے بھی کہا ہے کہ
اب تو ٹوپی کی ڈالیے عادت
آٹھ دس بال کب سنورتے ہیں
٭ ٭ ٭
سہ ماہی اردو پنچ، پاکستان۔ جولائی اگسٹ 1990ء
تصویرِ کائنات میں رنگ
انسان پیدا دو قسم کی جنس میں ہوتا ہے۔ لڑکا ہوتا ہے یا لڑکی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مرتبہ اپنی پسند سے تیسری جنس وجود میں لائی جاتی ہے جس کے لیے پیدا کرنے والا قطعی ذمہ دار نہیں ہے۔
پسند اپنی اپنی اور خیال اپنا اپنا کے تحت چاہے تو کوئی اپنی جنس تبدیل کر لے ! شمیم خان، شمیم النساء یا وجے کمار، وجے کماری بن جائے۔ چند دن قبل ہم نے اخبار میں خبر پڑھی تھی کہ ایک صاحب تیس سال تک مرد رہنے کے بعد اپنی بقیہ زندگی عورت بن کر گزارنے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹروں کی مدد سے اب بقیہ زندگی کے لیے وہ خاتون بن گئے /گئی ہیں۔
قدرتی طور پر لڑکا ہوتا ہے یا لڑکی۔ ماہرین کے مطابق لڑکا یا لڑکی ہونے کے امکانات ففٹی ففٹی ہوتے ہیں لیکن لوگوں میں لڑکے کی تمنا اگر صد فی صد نہیں تو نوے فی صد ضرور ہوتی ہے۔ اس جنوں کا کیجیے گا کہ ہر پر امید بیوی اور شوہر چاہتے ہیں کہ انھیں لڑکا تولد ہو۔ صرف لڑکا ہو اور لڑکے سوا کچھ نہ ہو۔ کبھی کبھار لڑکی کی خواہش بھی کی جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر نصف درجن لڑکوں کے بعد!
کہتے ہیں وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ لیکن ہمارے خیال میں کائنات میں رنگ بھرنے والی کا وجود خطرے میں ہے۔ یہ بات ساری کائنات میں نہ سہی، کائنات کے اس حصّہ میں سچائی ضرور رکھتی ہے جس پر ہمارا وجود ہے۔ ہمارے یہاں لڑکیاں چانس میں پیدا ہوتی ہیں۔ لوگ لڑکوں کی آس پر لڑکیاں پیدا کرتے ہیں۔ لڑکی بہت کم ’فرسٹ چوائس‘ ہوتی ہے بلکہ پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا چوائس لڑکا ہی ہوتا ہے۔ اور جب ماں باپ کی خواہش کے برخلاف، اوپر والے کی مرضی سے لڑکیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو انھیں پالا پوسا جاتا ہے کہ کائنات یک رنگی نہ ہو!
ہم بعض ایسے خاندانوں سے واقف ہیں جہاں لڑکے کی آس پر کائنات میں رنگ بھرنے کے لیے لڑکیوں کی رنگارنگ فوج تیار ہوئی ہے۔ جب لڑکا تولد ہوا تو گویا دونوں جہاں کی نعمت اور دولت مل گئی۔ خاندان کا نام روشن کرنے اور ’ونش ‘ بڑھانے والا آ گیا۔ بڑھاپے کا سہارا اور ٹھکانہ مل گیا اور فوری فیملی پلاننگ پر عمل شروع ہو گیا۔ فیملی پلاننگ کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایک یا دو لڑکے بس!اگلا بچہ ابھی نہیں، لڑکے بعد کبھی نہیں !
بعض اوقات مرد مجاہد کا دور دور تک پتا نہیں رہتا۔ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کتنی لڑکیوں کے پیچھے چھپا ہے۔ ہم ایک صاحب سے واقف ہیں جنھوں نے لڑکے کی آس پر پہلی بیوی سے چھ لڑکیاں پیدا کی، دوسری شادی کہ ان کے یہاں سے اولاد نرینہ مل جائے لیکن مایوسی ہوئی۔ دوسری بیوی سے بھی پہلی سے کچھ زیادہ ہی لڑکیاں ہوئیں۔ آخر ہار مان کر ایک لڑکا گود لیا جو ہوش سنبھالتے ہی لڑکیوں سے گھبرا کر گھر چھوڑ کر فرار ہو گیا۔
حسبِ منشا لڑکا ہونا فی الحال انسان کی مرضی اور کوششوں کے طابع نہیں ہے۔ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ میں نہ ہو تو انسان خدا سے رجوع ہوتا ہے۔ لڑکے کے لیے دعائیں مانگتا ہے، منتیں کرتا اور نذر و نیاز چڑھاتا ہے۔ بزرگوں کی مزاروں کی زیارت کرتا ہے۔ معتقدین بتاتے ہیں کہ بعض پیر گیارنٹی سے لڑکا دلاتے بھی ہیں۔ خیرات کرتا ہے۔ وظیفہ پڑھتا ہے۔ تعویذ اور گنڈے پہنتا ہے اور جادو ٹونے کا سہارا بھی لیتا ہے۔
بڑی بزرگ عورتیں لڑکا پیدا کرنے کے لیے چند تدبیریں بتاتی ہیں۔ صبح اٹھ کر کسی لڑکے پیدا کرنے والی کا منہ دیکھنا۔ لڑکوں کا سایہ پڑنا چاہیے۔ بعض دن بالخصوص دو شنبہ لڑکوں کے لیے مبارک ہوتے ہیں۔ غذا میں نر اشیا جیسے انڈا، بکرا، ٹماٹر، کدو، آم وغیرہ استعمال کرنا۔ دوران حمل داہنے یا بائیں بازو سونا بھی نومولود کی جنس پر اثر کرتا ہے۔ لڑکیوں کے چند مخصوص نام رکھنے کے بعد لڑکا ہونا تقریباً طے رہتا ہے سو وہ نام رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
لڑکا ہونے کے لیے آپ کو بھی چند طریقوں کا علم ہو گا۔ لڑکے کی پیدائش کے لیے دوائیں بھی دی جاتی ہیں۔ ایسے ڈاکٹر، حکیم یا وید سیکس اسپیشلسٹ ہوتے ہیں، پیدائش سے پہلے اور بعد کے دور کے لیے بھی!لڑکا پیدا کرنے کے لیے کی جانے والی کوشش اور ریاضت کی فہرست طویل ہے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ لڑکے کے لیے جتنی زیادہ کوشش ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ ناکامی بلکہ لڑکی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
تمام کوششوں کے بعد بھی جب لڑکی ہوتی ہے تو گھر اور خاندان میں ایک طوفان برپا ہوتا ہے۔ شوہر بیوی کو قصوروار گردانتا ہے کہ اسے لڑکے بنانا نہیں آتا۔ اس کی قسمت خراب ہے کہ ایسی پھوہڑ بیوی ملی ہے۔ اسے ڈراتا، دھمکاتا اور اس پر ظلم ڈھاتا ہے۔ بیوی اور بیٹی کی صورت دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ اس کا ساتھ چھوڑنے یا اس کے سر پر لڑکا پیدا کرنے والی سوت لانے کی دھمکی دیتا ہے۔ چند شوہر بیوی اور بچیوں کو میکے بھیج دیتے ہیں تو دو ایک شوہر فرار بھی ہو جاتے ہیں۔
بیوی رو رو کر ہلکان ہوتی ہے۔ آخر بے چاری کرے تو کیا کرے۔ خود لڑکی اور اس پر لڑکیوں کی ماں بھی!
ہمارے ایک دوست اپنی بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور شکایت کی۔ ’ڈاکٹر صاحب۔ میری بیوی صرف لڑکیاں پیدا کر رہی ہے، اب تک چھ بچیاں ہو چکی ہیں۔ اس کا علاج کیجیے۔ مجھے اولاد نرینہ کی خواہش ہے۔ ‘
ڈاکٹر صاحب نے انھیں بتایا کہ عورت جنس مقرر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی اور یہ مبارک کام مرد ہی انجام دیتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن بیوی ان سے لڑکے کا مطالبہ کرتی ہے، طعنہ دیتی ہے اور اپنا علاج کروانے کے لیے کہتی ہے۔ اور موصوف گردن نیچی کئے خدا سے شکایت اور دعا میں مصروف رہتے ہیں۔
لڑکے کی پیدائش پر دوست احباب پر زور مبارک باد دیتے جیسے والدین نے بہت بڑا کام کیا ہے اور تاریخ میں انھیں کے یہاں پہلی مرتبہ لڑکا ہوا ہے۔ ’اچھی شروعات‘ پر مٹھائی کھلانے اور پارٹی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف لڑکی پیدا ہونے پر صاحبِ اولاد ہونے کی مبارک باد دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’اللہ کی مرضی ! قدرت کے کام میں کون دخل دے سکتا ہے۔ اس مرتبہ لڑکی ہوئی ہے، انشاء اللہ دوسرا لڑکا ہو گا۔ ‘
مٹھائی کھلانے اور پارٹی دینے کا مطالبہ لڑکی کے ماں اور باپ کے موڈ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ اگر وہ مطمئن ہیں تو منہ مٹھا کرانے کا مطالبہ کر دیا ورنہ انجان ہو گئے۔
دوسری مرتبہ بھی لڑکی ہونے پر اکثر لوگ تہنیت کے دو بول نہیں کہتے، ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ ’پریشانی کی کیا بات ہے۔ لڑکی ہو یا لڑکا، کوئی فرق نہیں پڑتا، ہر کوئی اپنی قسمت لے کر آتا ہے۔ تقدیر اچھی ہونی چاہیے۔
دوسری بار بھی لڑکا ہونے پر مبارک باد دینے اور وصول کرنے والوں کی خوشیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ماں اور باپ کو خوش قسمت گردانا جاتا ہے۔ شوہر کو اپنی بیوی پر فخر ہوتا ہے۔ ’لکی کاپل‘(lucky couple)کا خطاب دے کر، احباب پہلے سے بڑی پارٹی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
دوسری مرتبہ لڑکی ہونے کے بعد تیسری بار لڑکے کے لیے با قاعدہ کوشش کی جاتی ہے۔ بعض لوگ احتیاط برتنے لگتے ہیں۔ احباب کے مشوروں اور اپنی قسمت کو آزمایا جاتا ہے۔ تیسری مرتبہ بھی لڑکی ہی نصیب ہونے پر اکثر احباب ملنے سے کتراتے ہیں کہ معلوم نہیں لڑکی کے ماں باپ کا ردّ عمل کیسا ہو گا؟ وہ خوش تو یقیناً نہیں ہوں گے، آیا آپس میں لڑ رہے ہوں گے یا پھر صدمے سے نڈھال ہوں گے۔
دو چار قریبی رشتہ دار مبارک باد دینے کے بجائے پرسہ دینے آتے اور ڈھارس بندھاتے ہیں۔ ’آج کے دور میں لڑکیاں ہی اچھی ہیں۔ ماں باپ کا خیال رکھتی اور ان کی خدمت کرتی ہیں۔ لڑکے اپنی بیگموں کو ساتھ لے کر الگ ہو جاتے ہیں۔ ‘ مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں۔ ’فلاں صاحب کے چار لڑکے ہیں۔ بہت خوش تھے۔ سیدھی منہ بات نہیں کرتے تھے۔ لڑکوں کی شادیاں ہوتے ہی ایک ایک کر کے الگ ہو گئے۔ اب بوڑھا اور بوڑھی اکیلے اپنی قسمت کو رو رہے ہیں۔ انھیں اگر ایک بھی لڑکی ہوتی تو ان کا خیال رکھتی تھی۔ ‘
چوتھی مرتبہ لڑکے کی قوی امید رہتی ہے۔ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ تین لڑکیاں ہو چکی، بہت ہو چکا، اب لڑکے کی باری ہے۔ لیکن چوتھی مرتبہ بھی لڑکی کی پیدائش ہونے پر ہمت بندھانے، ہمدردی کرنے اور دلاسہ دینے والے دوچار احباب بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ لڑکے والے تو ملنے سے تک کترانے لگتے ہیں۔ انھیں خدشہ رہتا ہے کہ اگر وہ زیادہ ملتے رہیں تو کہیں لڑکیوں کے ماں باپ ان کے لڑکے کا ہاتھ مفت نہ مانگ بیٹھیں یا ان کا لڑکا بوپاس چھوڑا جاتا ہے۔ چار، چھہ کی
خود کسی لڑکی میں دلچسپی لینے لگے !
دو ایک احباب دبے دبے الفاظ میں مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اب بس بھی کیجیے، لڑکے کی آس پر کب تک نادانی کرتے رہیں گے۔ چار ’نادانیاں ‘ کر ہی چکے ہیں۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، اولاد صرف دو یا تین ہی ہونی چاہیے۔ اب جو ہیں انھیں پڑھا لکھا کر قابل بنائیے اور لڑکوں کے مقابل کھڑا کیجیے۔ اس لیڈی ڈاکٹر جس نے ڈیلیوری انجام دی ہے، کی مثال دے کر کہتے ہیں۔ ’دیکھیے کتنی بڑی اور لائق ڈاکٹر ہے۔ ماں باپ کا نام روشن کر رہی ہے۔ ‘
احباب کے منع کرنے کے باوجود بعض با ہمت جوڑے لڑکے کے لیے کوشش جاری رکھتے ہیں۔ پانچویں اولاد ہونے پر احباب پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ کیا ہوا ہے، اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس مرتبہ بھی لڑکی ہوئی ہو گی۔ پانچویں لڑکی تولد ہونے کے بعد سے لوگوں میں ماں باپ کی بے وقوفی کے چرچے ہونے لگتے ہیں۔ ’عجیب احمق شخص ہے۔ لڑکے کی آس پر لڑکیوں کی زندگیاں برباد کرتا چلا آ رہا ہے۔ اسے چھوڑئیے، ماں کو کیا ہوا، اسے احتیاط کرنی چاہیے !‘
ویسے آج کل تیسری یا چوتھی اولاد کی چاہت چند لوگ ہی کرتے ہیں، بعض تو دوسری کے بعد ہی قناعت کر لیتے ہیں۔ ایسے دور میں بھی بعض با ہمت لوگ لڑکے کی خواہش جاری رکھتے ہیں۔ چھٹی ساتویں یا آٹھویں مرتبہ لڑکا ہو جائے تو صاحب اولاد کی ہمت و استقلال اور ثابت قدمی کی داد دی جاتی ہے۔
لڑکے کی پیدائش کے بعد ماں اور باپ کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور پھر اس خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا جب مرد مجاہد حسب مقدر ایک، دو، تین، چار یا چھ لڑکیوں کے بعد وارد ہوتا ہے۔ خوشی لڑکیوں کی تعداد سے ضرب کھا جاتی ہے۔ ماں باپ کا سر اونچا اٹھ جاتا ہے۔ باپ لڑکے کی تعلیم و تربیت کے بارے میں سوچنے لگتا ہے کہ پڑھا لکھا کر اسے کم سے کم ڈاکٹر یا انجینئر بناؤں گا۔ ماں اس کے لیے چاندسی بہو لانے اور اس چاند کو مسخر کرنے کے سپنے دیکھنے لگتی ہے۔
لڑکی کی پیدائش پر خوشی کم ہوتی ہے اور بعض مرتبہ تو بالکل ہی نہیں ہوتی۔ ماں باپ کی گردن جھک جاتی ہے۔ لڑکی کا اپنا جیسا ہونے والے حشر کے بارے میں سوچ کر ماں رونے لگتی ہے۔ باپ لڑکی کی تعلیم و تربیت کے بارے میں سوچنے سے زیادہ ابھی سے اس کی شادی کی فکر کرنا شروع کرتا ہے۔
گھوڑے جوڑے کی رقم اور شادی پر آنے والے خرچ کا تخمینہ کر کے پیسہ جمع کرنے کا پلان بنتا ہے۔ ماں باپ کو لڑکی کی پیدائش کے دن سے یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ معلوم نہیں لڑکی کا سسرال کیسا ہو گا۔ شوہر اسے شریکِ حیات بنائے گا، چرنوں کی داسی کے طور پر قبول کرے گا یا جہیز کی بھینٹ چڑھائے گا۔ کچھ بھی اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ایک صاحب کو جانتے جو ایک عرصہ ہوا نیند سے محروم ہو چکے ہیں۔ رات کی تاریکی میں جاگ کر وہ اپنی چھ لڑکیوں کا مستقبل تلاش کرتے رہتے ہیں !
ماں باپ کی عادات و اطوار بلکہ چال چلن میں اولاد کی جنس سے فرق آتا ہے۔ اگر انھیں سارے لڑکے ہوئے تو والدین اسے ایک بہت بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے ہمالیہ کی چوٹی سر کر لی ہے یا مریخ کو فتح کر لیا ہے۔ ماں باپ اترا کر چلتے ہیں۔ لوگوں سے ملنا جلنا کم کر دیتے ہیں۔ آزاد زندگی جیتے ہیں جیسے انھیں کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ذمہ داری کا کام تو لڑکی والوں کا ہے۔ جس کسی کو ہمارے لڑکے کو فرزندی میں لینا ہو آئے اور ہماری خوش آمد کرے، ڈھیروں جہیز دے اور خطیر جوڑے گھوڑے کی رقم بھی ادا کرے !
لڑکیوں والے والدین کے رویہ میں نرمی اور ملائمی آتی ہے۔ دوست احباب سے میل ملاپ بڑھاتے ہیں کہ دوستی اور رشتہ داری قائم ہو سکے۔ لوگوں کے دکھ درد میں ہاتھ بٹاتے ہیں کہ دوسرے بھی ان کے سر کا بوجھ ہٹانے میں مدد کریں۔ محنت سے لڑکیوں کی تربیت میں مصروف رہتے ہیں تا کہ خود پر اور اپنی لڑکیوں پر کوئی حرف نہ آئے۔ انھیں با ہنر بناتے ہیں۔ پائی پائی کر کے پیسے اکٹھا کرتے ہیں تاکہ لڑکیوں کے شوہروں اور ان کے سسرال کی خاطر مدارت کر سکیں۔ لیکن ماں باپ کی قربانیوں کے باوجود بھی کئی لڑکیاں کنواری رہ جاتی ہیں۔ بہت کم لڑکی والے لڑکے والوں کے مطالبات پورا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں !
ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ کوئی بھی تصویر کائنات میں اپنی طرف سے رنگ بھرنا نہیں چاہتا۔ مرد تو خیر مرد ہے، وہ اپنے جیسی ہی اولاد چاہے گا۔ عورت تک نہیں چاہتی کہ اس کے بطن سے اس کی ہم جنس پیدا ہو! سائنس کی مدد سے جنس معلوم کر کے لڑکی کی پیدائش سے پیچھا چھڑایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ اتنا عام ہو چلا تھا کہ حکومت کو پیدائش سے قبل جنس معلوم کرنے پر پابندی لگانی پڑی ہے۔
اگر لڑکوں سے چاہت کا یہی حال رہا تو مستقبل صرف لڑکوں کا ہو گا۔ جدھر نظر اٹھائیے اُدھر لڑکے ہی لڑکے ہوں گے۔ آنکھیں لڑکیوں کو تلاش کرتی رہیں گی۔ وہ خال خال نظر آئیں گی۔ کائنات کی تصویر کا رنگ پھیکا پڑ جائے گا اور کائنات یک رنگی نظر آئے گی۔ ہر کام لڑکے ہی کرتے دکھائی دیں گے۔ کھانا وہ بنائیں گے۔ گھر کی صفائی وہ کریں گے۔ باس کے سکریٹری لڑکے ہوں گے۔ لڑکیوں کی نزاکتیں ان میں آئیں گی۔
ہو سکتا ہے کہ لڑکے آپس میں محبت اور شادیاں بھی کریں گے !ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ سنا ہے کہ دنیا کے بعض مقامات پر ایسا ہو رہا ہے لیکن وہاں ہماری طرح لڑکیوں کی قلت نہیں ہے، دوسری وجوہات ہیں۔ شاعر کا محبوب نوخیز حسینہ کے بجائے کوئی نوجوان لڑکا ہو گا جس کی مسیں ابھی بھیگ رہی ہوں گی۔ اس کی بے وفائی پر عاشقی ہو گی۔ اس کی شرم و حیا کے تذکرے ہوں گے۔
شاید لڑکوں کی چاہت کے اس جنون سے ہمارے ملک کی آبادی کا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا لیکن ملک کے مستقبل کا کیا ہو گا؟
٭ ٭ ٭
ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ سوونیر دسمبر 1988
عقبی ادب
عنوان پڑھ کر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عقبی ادب سے ہماری کیا مراد ہے۔ کالے دھندے کی طرح یہ کوئی ناجائز ادب ہے یا وہ ادب جو محفلوں میں پڑھنے کے قابل نہیں ہوتا یا پھر وہ ادب جو ایک دوسرے سے چھپا کر پیٹھ پیچھے پڑھا جاتا ہے۔
نہیں جناب! ہمارے مضمون کے عنوان میں ایسی کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔ عنوان کا مطلب بالکل سیدھا سادہ ہے۔ عقبی ادب سے ہماری مراد اس ادب سے ہے جو مختلف اشیا کے پیچھے تحریر کرنے کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ کتابوں کے پیچھے، سواریوں کے پیچھے، انسانوں کے پیچھے کپڑوں پر، تکیہ کے غلافوں، تھیلیوں اور دسترخوانوں پر درج ہونے والی تحریروں کو ان کا مستحقہ مقام دلانے کے لیے ہم نے ادب کی ایک نئی صنف ’عقبی ادب‘ میں ان کا شمار کیا ہے۔ نقادوں کو اس زمرہ بندی پر شاید اعتراض ہو۔ ہوا کرے ! ہر نئی تحریک کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں اس قسم کے ادب پر باقاعدہ تحقیق ہونی چاہیے۔
ہر کتاب کے پیچھے کچھ نہ کچھ تحریر ہوتی ہے۔ شاذونادر کسی کتاب کا آخری صفحہ کورا کاغذ ہوتا ہے۔ آخری صفحہ سادہ رکھنے سے اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں قارئین کتاب کے تعلق سے اپنی بیباک رائے نہ لکھ دیں۔ کتابوں کا عقبی ادب نثری ہوتا ہے۔ شعری مجموعہ کی پشت پر بھی نثر ہی میں لکھا ہوتا ہے لیکن انداز شاعرانہ ہوتا ہے۔
کتابوں کے عقبی ادب کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ صاحبِ کتاب کے بارے میں ہوتا ہے۔ خود ادیب یا شاعر اس ادب کو خصوصی توجہ سے تخلیق کرتا ہے۔ جوانی کی مسکراتی ہوئی تصویر کے نیچے بوڑھے مصنف کا بیو ڈاٹا دیا جاتا ہے۔ تاریخ پیدائش دو بٹے تین صحیح ہوتی ہے۔ پیدائش کا دن اور مہینہ صحیح رہتا ہے جبکہ سنہ غلط لکھا جاتا ہے۔ بعض ادیب اور شاعر جھوٹ لکھنے سے بچنے کے لیے سنہ پیدائش نہیں لکھتے، صرف دن اور مہینہ بتا دیتے ہیں۔
اردو ادب کا تخلیق کار پیدائشی ہوتا ہے۔ پیدائشی ادیب یا شاعر ہونے کے علاوہ وہ خالص ادبی ماحول میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے۔ باپ، دادا، نانا یا کسی دوسرے قریبی یا بہت دور کے رشتہ دار کی ادبی گود میں اس کی پرورش ہوتی ہے۔ کم سنی سے وہ ادب کی جانب راغب ہو جاتا ہے۔ پہلی تخلیق سن بلوغ کو پہنچنے سے دس سال قبل لکھ جاتا ہے جسے پڑھ کر اس وقت کا کوئی نقاد نوآموز تخلیق کار کے شاندار مستقبل کی پیش قیاسی بھی کر دیتا ہے۔
اتفاقیہ طور پر جب کوئی شاعر یا ادیب ادبی خاندان یا ادبی ماحول میں جنم نہیں لیتا (جس میں ظاہر ہے کہ اس کا کوئی قصور نہیں ) تو اس کی پیدائش ایسے گھرانے میں ہوتی ہے جہاں اسے کہنا پڑتا ہے۔
کچھ شاعری ہی ذریعہ عزت نہیں مجھے
پیدائش کے حادثے کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد عقبی ادب میں شاعر یا ادیب کی تعلیم کے تعلق سے درج ہوتا ہے کہ خاندانی ذمہ داریوں اور غربت کے سبب موصوف باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن بے قاعدگی سے اپنی قابلیت کا جھنڈا بلند کرتے رہے۔ چوں کہ تخلیق کار پیدائشی ہوتے ہیں، انھیں کسی استاد کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن وہ کسی استاد سے شروع شروع میں اصلاح لیا کرتے ہیں، بعد میں انھیں استاد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ روایت اردو ادب میں عام ہے۔ اس کے بعد ادیب یا شاعر کی ’ادبی نسبت‘اور تعلق کے بارے میں لکھا ہوتا ہے کہ موصوف کا تعلق جدے دیت سے ہے یا وہ روایت کے علم بردار ہیں، ترقی پسند ہیں یا تنزل پسند!
قابلیت اور ادبی حیثیت کے بعد ازدواجی زندگی پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ادبی حضرات کی شریک حیات دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو اپنے شوہر اور ادب کو پروان چڑھانے کی کوشش میں قدم قدم پر قربانیاں دیتی ہے اور دوسری وہ جو ادب اور تخلیق کار، دونوں سے بے زار ہو کر اپنے شوہر اور ادب، دونوں سے پیچھا چھڑا لیتی ہے۔
اگر اولاد کو ادب کا ذوق اور شوق ہو تو دو ایک سطریں ان کے بارے میں بھی لکھی ہوتی ہیں۔ ویسے بھی اکثر و بیشتر ادیب کے گھر ادب اور ادیب ہی پیدا ہوتے ہیں۔
مصنف کی جملہ تصانیف کی فہرست بھی درج رہتی ہے۔ کتابوں کی تعداد اشاعت بمشکل تین ہندسوں میں ہوتی ہے لیکن ان کی مقبولیت کا ذکر یوں ہوتا ہے گویا سابقہ تمام ریکارڈ توڑ کر مصنف کی کتابیں عوام اور خواص میں ہاتھوں ہاتھ لی گئی ہیں۔ ان مسودوں کی فہرست بھی عقبی ادب میں شامل ہوتی ہے جنھیں چھاپنے کے لیے ادیب یا شاعر کسی غیبی مدد کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ غیبی مدد کا مطلب آپ سمجھ گئے ہوں گے، اردو اکیڈیمیاں اور امدادی ادارے !
عقبی ادب میں کتابوں کی پشت پر بیوڈاٹا کے علاوہ صاحب کتاب کے فن کے تعلق سے کسی نقاد یا صاحبِ کتاب سے بڑے ادیب کی رائے بھی موجود رہتی ہے۔ تخلیق کاروں اور ان کی تخلیق پر رائے دینا ایک ادبی فن ہے۔ ادبی رائے گول مول باتیں ہوتی ہے جو قاری تو کجا رائے دینے والا یا جس کے تعلق سے لکھا گیا ہے، خود اس کی سمجھ میں بھی نہیں آتیں۔ مخصوص لفظوں کا استعمال، جدے دیت اور روایت شکنی کی تکرار اور دو ایک دوسرے ادیبوں اور شعرا کے ذکر سے اس قسم کا عقبی ادب تخلیق پاتا ہے۔ ہمیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کتابوں کے پیچھے ایک جیسا ادب تخلیق پاتا ہے، سوائے اس امر کے کہ رائے لینے اور دینے والے مختلف ہوتے ہیں۔
کتاب کی پشت پر صرف ماہرین کی رائے دکھائی دے تو یقین کیجیے کہ یہ مصنف کی تیسری یا چوتھی کتاب ہے۔ پہلی اور دوسری کتاب کے لیے مصنف کو صائب الرائے اہلِ قلم نہیں ملتے (ویسے بھی صائب الرائے قسم کے لوگ ناپید ہیں )۔ اسی لیے مصنف کو اپنے بیوڈاٹا پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ تیسری اور چوتھی کتابوں پر اپنے تعلق سے گول مول رائے چھاپ کر مصنف خود رائے دینے کے قابل ہو جاتا ہے اور اپنے بارے میں دوسروں کی رائے سے بے نیاز بھی ہو جاتا ہے۔
پانچویں یا چھٹی کتاب کے لیے مصنف عقبی ادب تخلیق کرتا اور نہ ہی کرواتا ہے۔ یہ روایت شکنی پبلیشر کو پسند نہیں آتی۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ادیب کا سفر اگر پانچ چھ کتابوں سے آگے جاری رہا تو اسے پبلیشر دستیاب ہونے لگتے ہیں۔ اس مرتبہ پبلیشر عقبی ادب تخلیق کرتا ہے جو عام طور پر کتابوں کی فہرست پر مشتمل ہوتا ہے یا پھر اصلی کتابوں کے نقلی نسخوں سے ہوشیار رہنے کے لیے انتباہ کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔
کتابوں کے عقبی ادب میں مصنف کے علاوہ بعض مرتبہ کتاب کے بارے میں بھی لکھا ہوتا ہے۔ آخری صفحہ پر کتاب کے بارے میں لکھنا غیر ضروری بلکہ گمراہ کن صورت ہے۔ قاری کتاب پڑھ کر آخری صفحہ تک پہنچتا ہے۔ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ کتاب میں کیا ہے۔ کتاب کے تعلق سے وہ اپنی رائے بھی قائم کر لیتا ہے۔ لیکن کتاب کے بارے لکھی باتیں قاری کو کتاب میں شاید ہی ملتی ہیں۔ کتاب کے عقب میں مصنف یا پبلیشر کے بیان سے ابہام کی صورت بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم کتابوں کے پیچھے لکھی ہوئی تحریروں کو ادب میں شامل کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔
عقبی ادب کی دوسری قسم وہ ادب ہے جو سواریوں کے پیچھے لکھنے کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ سواریوں کا عقبی ادب زیادہ تر شعری ہے جبکہ کتابوں کی پشت کا ادب نثری ہوتا ہے۔ سواریوں کو افسانوں اور نظموں کی طرح خوب صورت عنوان بھی دئیے جاتے ہیں۔ یہ عنوان سواری پر جلی حرفوں میں لکھا ہوتا ہے۔ غزل، گیت، ہائیکو، قطعہ، گردش، ہم سفر، اڑن کھٹولہ، جمبو جٹ، ایر بس، انارکلی، چاندنی، خوفناک شکاری، آندھی طوفان، آئی مصیبت، اندھا قانون، یہ چند سواریوں کے عنوانات ہیں جو ہمیں یاد رہ گئے۔
آپ نے سڑک پر دوڑتی سواریوں کے پیچھے مختلف اشعار دیکھے ہوں گے۔ اشعار غلط لکھنا سواریوں کے عقبی ادب کا وطیرہ ہے۔ بعض اوقات شاعری کے نام پر تک بندی ہوتی ہے۔ ایک لحاظ سے ہم اسے جدید ادب کی ایک صنف یا ’صنعت‘ میں شمار کر سکتے ہیں۔ مثالیں پیش خدمت ہے۔ ہم چلتے ہیں لوگ جلتے ہیں۔ یہ ہے لوکل لاری ابھی بھری ابھی خالی۔ ایک پھول دو مالی۔ بری نظر والے تیرا منہ کالا۔ یا رب تیرا ہی ہے سہارا۔ یاد ہے تو آباد ہے، بھول جائے تو برباد ہے۔ دوست کا بول بالا، دشمن کا منہ کالا۔ نہ راستہ نہ منزل۔ ایک ہم ہزار غم۔ بے وفا سے کیا گلہ۔ دھول کا پھول۔ چلتی ہے گاڑی اڑتی ہے دھول، حسینہ کے بالوں میں گلاب کا پھول۔ پکی دوستی خرچہ اپنا اپنا۔ پیچھے نہ آنا بازو سے نکل جانا۔
یہ بات نہیں ہے کہ سواریوں کے پیچھے صرف تک بندی ہوتی ہے۔ بعض مرتبہ اچھے اشعار بھی درج ہوتے ہیں۔ کوئی اقبال کی خودی کو بلند کرتا ہے تو کوئی غالب کی نصیحت پر ایمان لے آتا ہے کہ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دیوان غالب میں یہ شعر کہیں نہیں ملتا۔ ممکن ہے عقبی ادب کے کسی مالک رام کی تحقیق ہو!
حقیقت پسندی کا اظہار کرتے ہوئے ایک سواری پر یہ شعر درج تھا۔
بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ
کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ
ایک مرتبہ ہم نے ایک آٹو رکشہ میں سفر کیا جس کا عنوان ہائیکو تھا۔ اس سواری کے پیچھے یہ شعر لکھا تھا۔
دن کو خورشید جگمگاتا ہے رات کو چاند مسکراتا ہے
رونق میرے آٹو کی کم نہیں ہوتی ایک آتا ہے ایک جاتا ہے
ہم نے آٹو ڈرائیور سے پوچھا۔ ’یہ شعر کس کا ہے ؟‘ ڈرائیور نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ’کس کا ہے کیا مطلب! جناب یہ میرے خون پسینہ کا شعر ہے۔ ‘
اس وقت ہمیں پتا چلا کہ خون پسینے کی شاعری بھی ہو رہی ہے۔ ہم نے ڈرائیور سے استفسار کیا۔ ’بھائی آپ شاعر ہیں۔ ‘
انھوں نے مختصراً ’ہاں ‘ کہہ کر عرض کیا ہے کے ساتھ لہک لہک کر اپنی تازہ غزل سنانی شروع کر دی۔ آٹو رکشہ کا سفر، بے ہنگم سڑکیں، شاعر ڈرائیور اور خون پسینے کی شاعری! ہمیں تو محسوس ہوا جیسے گنا ہوں کی معافی مانگنے اور کلمہ پڑھنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ہمیں ڈرا اور سہما ہوا پا کر ڈرائیور نے یہ شعر ہماری نذر کیا۔
گل و بلبل کی زندگی ہے چمن کی بہار پر
ڈرائیور اور مسافر کی زندگی ہے گاڑی کی رفتار پر
داد دینے کے لیے واہ، واہ کے بجائے ’آہ، آہ‘ اس لیے کرنا پڑا کہ ہمارا آٹو رکشہ سامنے اشارہ پر رکی لاری سے ٹکراتے ٹکراتے بچا جس پر یہ شعر درج تھا۔
اب دیکھنا ہے موت سے ملتا ہے ہم کو کیا
تحفہ میں زندگی نے کئی حادثے دئیے
گھبرا کر دوسری سواری کی جانب دیکھا تو وہاں نصیحت تحریر تھی۔
گھر سے نکلو تو پتا جیب میں رکھ کر نکلو
حادثے چہرے کی پہچان مٹا دیتے ہیں
ہم ایک ٹرک ڈرائیور سے واقف ہیں جو اپنے گھر سے باہر رہنے کے سبب عشقیہ اور ہجر آموز شاعری کرتے ہیں۔ کئی غزلیں کہہ چکے ہیں۔ مجموعہ کلام چھپانے میں یقین نہیں رکھتے۔ تازہ کلام موزوں ہوتے ہی ٹرک کے پیچھے تحریر کروا کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ان کے کلام کو پڑھنے اور پسند کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ موصوف کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے۔
عاشق کو زر دے یا زمین دے
پر معشوق کو پردہ نشین کر دے
سواریوں کے پیچھے کا ادب ہر صنف پر محیط ہے۔ طنزیہ اور مزاحیہ کلام بھی سواریوں کی زینت بنتا ہے۔ ایک سواری کے پیچھے ہم نے یہ شعر دیکھا ہے۔
میں نے سہارا دیا تجھے اپنا سمجھ کر
تیرے باپ نے مجھے پیٹا طبلہ سمجھ کر
ہم نے صاحب شعر ڈرائیور سے پوچھا۔ ’یہ آپ کا تجربہ ہے یا مشاہدہ!‘
جواب میں موصوف نے ہمیں سمجھایا کہ ادب کی تخلیق کے لیے حساس ہونا ضروری ہے۔ تجربہ کے بغیر بھی آپ محسوس کر سکتے ہیں، سوچ سکتے ہیں، قریب اور دور کی کوڑی لا سکتے ہیں اور نام کماسکتے ہیں۔ ان کی باتوں سے ہمیں اندازہ ہوا کہ عقبی ادب میں کئی قابل شخصیتیں چھپی بیٹھی ہیں جن کی طرف نقادوں نے توجہ نہیں کی۔ یوں بھی نقاد، خیر اب جانے بھی دیجیے۔
اردو شاعری میں سرقہ اور تصرف کچھ زیادہ ہی عام ہے۔ ایک شعر بلکہ مصرعہ کے دعویدار دو چار شعرا ہوتے ہیں جس کے سبب غزل گانے والوں کو مشکل پیش آتی ہے۔ محتاط گلوکار متنازعہ کلام کے مالک کا نام ’نامعلوم‘ کہہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ سرقہ اور تصرف کی روایت عقبی ادب سے شروع ہوئی ہے۔ عقبی ادب میں اشعار کا سرقہ دھڑ لے سے کیا جاتا ہے۔ سواریوں کے اِدھر اُدھر گھومنے سے اس کی تشہیر بھی ہوتی ہے۔ مشہور اشعار کو تھوڑا بہت اپنے مقصد کی خاطر تبدیل کر کے حق ملکیت جتایا جاتا ہے۔ ایک رکشہ کے پیچھے ہمیں ایک نئے نام سے یہ شعر نظر آیا۔
جس کھیت سے دہقان کو میسّر نہ ہو روٹی
اس کھیت کے ہر ’گوشہ‘ گندم کو جلا دو
ہم نے کہا۔ ’جناب یہ شعر تو علامہ اقبال کا ہے !‘
موصوف نے سینہ تان کر جواب دیا۔ ’ہوا کرے، لیکن جب تک یہ شعر میرے رکشہ کے پیچھے ہے میرا اپنا شعر ہے۔ یہ محنت کشوں کا شعر ہے۔ ‘
مسافر جب سواری چھوڑتا ہے تو اس شعر کی صورت میں یاد رکھا جاتا ہے۔
آنکھوں سے دور سہی، دل سے کہاں جائیں گے
جانے والے ہمیں بہت یاد آئیں گے
کار اور اسکوٹر کے پیچھے اسٹکر چپکانے کا رواج عام ہے۔ اکثر اسٹکرز انگریزی میں ہوتے ہیں۔ اپنی محبت کا اعلان ’آئی لو یو‘ لکھ کر کیا جاتا۔ یاروں سے ’ڈونٹ کس می‘ التجا کی جاتی ہے۔ کسی کار کے پیچھے ’آئی ایم کریزی‘ کا اسٹکر شرفا کو انتباہ کرتا ہے۔
عقبی ادب کی تیسری قسم کپڑوں پر چھپے ادب کی ہے۔ یہ جدید ادب انگریزی زبان میں ہوتا ہے۔ ابھی اس کا چلن دوسری زبانوں میں رائج نہیں ہوا۔ کسی حسینہ کے ٹی شرٹ کے پیچھے Follow Me لکھا ہوا ہے تو کسی کی جینز پینٹ کے پیچھے Private Property کڑھا ہوا ہم نے دیکھا ہے۔ نمبری قسم کے کپڑوں پر مختلف نمبر درج ہوتے ہیں جیسے Disco 87، Love 88، 007۔
ہمارے خیال میں کپڑوں کے پیچھے اردو فقروں اور محاروں کا استعمال خوب رہے گا۔ شرٹ پر لکھنے کے لیے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔ دل دیوانہ۔ اندھی محبت۔ تلاش گم شدہ۔ رائی کا پربت۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ مصرعوں کو بھی آزمایا جا سکتا ہے، جیسے ابھی تو میں جوان ہوں۔ کوئی امید بر نہیں آتی۔ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے۔ وغیرہ۔
جس طرح کپڑوں پر کھلاڑیوں اور اداکاروں کی تصویریں اور نام چھاپے جاتے ہیں، اسی طرح اگر ادیبوں اور شاعروں کی تصویریں اور نام بھی کپڑوں پر چھاپے جائیں تو انھیں جائز مقام نہ ملنے کی شکایت دور ہو سکتی ہے۔ غالب شرٹ، اقبال قمیص، میر ٹی شرٹ، داغ شورٹس اور ایسے ہی دور حاضر کے ادیبوں اور شاعروں کے نام کے کپڑے اگر مفت تقسیم کیے جائیں تو یہ تحریک عملی جامہ پہن سکتی ہے۔ ادب کے طالب علموں پر ان کپڑوں کو پہننے کا لزوم عائد کیا جا سکتا ہے۔ تن ڈھانکنے کے مقصد کے ساتھ ادب کو سمجھنے میں بھی سہولت ہو گی۔
نقادوں کو اگر اعتراض نہ ہو تو تکیہ غلافوں پر کڑھی، سلی اور لکھی ہوئی تحریروں کو بھی عقبی ادب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ادب نثر اور نظم دونوں پر مشتمل ہے لیکن شاعری کا چلن زیادہ ہے۔ شب بخیر، میٹھی نیند، سنہرے خواب، گڈ نائٹ، خواب جھوٹے، نیند ہماری خواب تمھارے جیسے فقرے درج ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ سونے سے پہلے ہم نے تکیہ پر یہ شعر کڑھا دیکھا۔
مٹی کے پتلے کیا چاہتا ہے
بخت سکندر یا تخت دارا
ہم کروٹ بدل بدل کر سوچنے لگے کہ ہمیں کیا چاہیے۔ ذہن فہرست مرتب کر رہا تھا کہ دوسرے تکیہ پر نظر پڑی جس پر لکھ تھا۔ ’سونے سے پہلے اپنے گنا ہوں کا حساب کر لیں !‘اس جملہ نے ہمیں چین سے سونے نہ دیا۔
روٹی روزگار کی تلاش میں سات سمندر پار کام کرنے والے ایک صاحب کو بھیجے گئے تکیہ کے غلاف پر ہم نے یہ شعر پڑھا۔
دل کا سکون چین کے اسباب لے گیا
ایک شخص میری نیند مرے خواب لے گیا
بعض اشعار یا فقرے ایسے ہوتے ہیں جنھیں پڑھ کر نیند آنے کے بجائے نیند اڑ جاتی ہے۔ ایک تکیہ شوہر کی بے خوابی اور پریشانی کا یوں اظہار کر رہا تھا۔
کوشش کروں ہزار نہ آئے گی مجھ کو نیند
تکیہ ہے نرم بیوی کا برتاؤ سخت ہے
اگر آپ کو تکیہ غلافوں کے لیے تخلیق ہونے والے ادب کا مزید مطالعہ درکار ہے تو مختلف کشیدہ کاری کی کتابیں ملاحظہ فرمائیے، آپ کی تسکین ہو جائے گی۔
عقبی ادب دستر خوان کے لیے بھی تخلیق پاتا ہے۔ دستر خوان پر نثر اور شاعری بین بین چلتے ہیں۔ نثر کے نمونے پیش ہیں۔ حلال رزق کھائیے۔ پڑوسی کا حق ادا کیجیے۔ زیادہ کھانا صحت کے لیے مضر ہے۔ اس فقرے کے ساتھ ہم نے یہ شعر دیکھا ہے۔
بشر پیدا ہی ہوا ہے خوب کھانے کے لیے
زندگی اس کی ہے ورنہ آنے جانے کے لیے
مہمانوں کے بارے میں دستر خوان کا ایک یہ شعر بھی دیکھ لیجیے۔
شکر کر اللہ کا بد دل نہ ہو مہمان سے
رزق اپنا کھا رہا ہے تیرے دستر خوان سے
عقبی ادب کی اس قسم کا مزید مطالعہ درکار ہو تو مختلف پکوان کی کتابیں کھنگالیے۔ ایسے ایسے شہ پارے ہاتھ آئیں گے کہ پڑھنے والے کا منہ بھر آئے گا۔
عقبی ادب میں تھیلی، تھیلوں اور بستوں پر موجود اشعار اور تحریریں بھی شامل کی جا سکتی ہیں۔ دور حاضر میں پلاسٹک کی تھیلیوں نے اشعار اور فقروں سے لیس بستوں اور تھیلیوں کا چلن ختم کر دیا ہے۔ اس قسم کے ادب کے فروغ میں خواتین کا اہم حصّہ ہوا کرتا تھا۔ گھنٹوں بیٹھی اپنی آنکھیں اور وقت برباد کیے سوئی اور دھاگے سے ادب تخلیق کیا کرتی تھیں۔
ہم نے اپنے مضمون میں عقبی ادب اور اس کی اقسام کے بارے میں توجہ مبذول کروائی ہے تاکہ مستقبل میں نقاد اس موضوع پر ماہرانہ قلم اٹھائیں۔ ساتھ ہی ہم عقبی ادب تخلیق کرنے والوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی انجمن یا بزم بنا کر اپنے جائز مقام کے لیے جد و جہد کریں۔
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
٭ ٭ ٭
ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ دسمبر 1987ء
ہاتھ پر یوں تو ہے گھڑی لیکن
وقت کی قدر کیجیے۔ وقت بڑا قیمتی ہوتا ہے۔ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔ اس قسم کے محاورے ہم بچپن سے سنتے آ رہے تھے لیکن ہمیں وقت کی اہمیت اور قیمت کا اندازہ کبھی نہیں ہوا۔ ہمارے لیے صبح، دوپہر، شام اور رات ہی وقت تھے۔ نیند سے بیدار ہونے پر صبح ہوتی، اسکول سے واپس آنے پر دوپہر ہوتی، کھیلنے جاتے تو شام ہوتی اور سوتے تو رات ہوتی تھی۔
میٹرک کامیاب کرنے پر ماموں جان نے ہاتھ پر باندھنے کے لیے ایک گھڑی انعام میں دی تو ہمیں اندازہ ہوا کہ ایک دن در اصل چوبیس گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر گھنٹے کی قیمت ساٹھ منٹ ہوتی ہے۔ ایک منٹ ساٹھ سکنڈکے عوض ہوتا ہے اور یہ بھی کہ ہر سکنڈ کو دس حصّوں میں تقسیم کر کے وقت کی قدر کی جا سکتی ہے۔ اس دن سے آج تک گھڑی سائے کی طرح ہمارے ساتھ چمٹی رہتی ہے۔ ہم نے دوسرے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو وقت معلوم کرنے اور وقت کی قدر کرنے کے لیے اپنے ایک ہاتھ کو گھڑی کے ساتھ باندھے رکھتے ہیں۔
یہ گھڑی ہی تو ہے جس نے انسانوں کو وقت کا احساس دلا کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ہم سوچتے ہیں اگر گھڑی نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ نہ گھڑی چھ بجاتی اور نہ دنیا جاگتی۔ شاید سوتی رہتی۔ ہم یہاں تک یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص گھڑی نہیں لگاتا وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ قدیم زمانے کے لوگ ہم سے کم ترقی یافتہ تھے، اس لیے کہ وہ گھڑی نہیں باندھتے تھے۔
گھڑی ایجاد ہونے پر ہمیں وقت کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگا۔ حکومتوں نے عوام کو وقت کا احساس دلانے کے لیے جگہ جگہ گھنٹہ گھر بنوائے جہاں ڈنکے کی چوٹ پر وقت کا اعلان کیا جاتا تھا۔ وقت کچھ اور بڑھا تو مختلف عمارتوں پر بھی گھڑیاں نصب ہونے لگیں۔ گھڑیاں گھنٹے بجا کر گویا وقت کی قدر کرنے کا احساس جگانے لگیں۔ جب گھڑی عام ہو چکی اور ہر دو میں سے ایک ہاتھ پر گھڑی بندھ چکی تو عمارتوں کی بیرونی حصّوں سے زیادہ اندرونی دیواروں پر گھڑیاں نصب ہونے لگیں۔
قدرت نے کلائیاں گھڑی باندھنے یا چوڑیاں پہننے کے لیے عطا کی ہیں۔ صنف نازک کو گھڑی اور چوڑی ایک ساتھ استعمال کرنے میں پس و پیش ہوتا ہے۔ فیصلہ نہیں کر پاتیں کہ چوڑیوں کے ساتھ گھڑی باندھی جائے یا خالص چوڑیاں پہنی جائیں۔ چوڑیوں کی جھنکار کے ساتھ گھڑی کی کھنکار عجیب لگتی ہے۔ اس الجھن سے بچنے کے لیے اکثر خواتین ایک کلائی پر صرف گھڑی باندھتی ہیں اور دوسری میں چوڑیاں پہنتی ہیں۔
مرد کو سہولت حاصل ہے کہ ایک ہاتھ، دائیں یا بائیں، پر گھڑی باندھیں۔ دوسرا ہاتھ خالی رہتا ہے۔ بعض نوجوان مرد توازن برقرار رکھنے کے لیے خالی ہاتھ میں کڑا پہنتے ہیں !
ہاتھ پر باندھنے، جیب میں چھپانے، میز پر سجانے، دیوار پر ٹانگنے، چھت سے لٹکانے اور عمارتوں پر نصب کرنے کے لیے مختلف اقسام کی گھڑیاں وجود میں آئی ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، فریج، سلائی مشین، فون، کیمرے، کمپیوٹر اور دوسرے چھوٹے بڑے آلے اور مشین اپنی اپنی گھڑی ساتھ رکھتے ہیں۔ الارم بجانے والی گھڑیاں بہت کام آتی ہیں۔ الارم لگا کر سونے سے گہری اور میٹھی نیند آتی ہے۔ اس نیند کو گھوڑے بیچ کر سونا کہتے ہیں۔ اس نیند کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس وقت تک نہیں ٹوٹتی جب تک الارم نہ بجے۔ بعض مرتبہ الارم بجنے کے باوجود گھوڑے بیچ کر سونے کا شغل جاری رہتا ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے صبح چار بجے کا الارم رکھا اور بیدار شام چار بجے ہوئے تھے۔ ہمارے بچے الارم رکھ کر سوتے تو ہیں لیکن اٹھتے ہماری وجہ سے ہیں۔ گھڑی کے الارم سے ہماری نیند اڑ جاتی ہے اور ہم الارم بند کرانے کے لیے انھیں جگاتے ہیں۔
کلائی پر باندھی جانے والی گھڑیاں مختلف شکل و صورت اور سائز میں دستیاب ہیں۔ کوئی چوکور ہے تو کوئی چاند جیسی گول۔ کسی گھڑی کی شکل بیضوی ہے تو کسی کی لانبی۔ جیبی گھڑیوں کا فیشن اب ختم ہو چلا ہے۔ چلو اچھا ہوا۔ گھڑی جیب میں چھپی رہتی تھی۔ لوگوں کو دکھا نہیں سکتے تھے کہ ہمارے پاس گھڑی ہے اور ہم بھی وقت کے قدر دان ہیں !
زنانی اور مردانی گھڑیوں میں فرق ہوتا ہے۔ زنانی گھڑیاں صنف نازک کی طرح نازک، سبک اور چھوٹی ہوتی ہیں۔ بعض زنانی گھڑیاں اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ چالیس سال کی عمر کے بعد ننگی آنکھوں سے ان گھڑیوں میں وقت دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کے خیال میں خواتین عمر چھپانے کے لیے چھوٹی گھڑیاں باندھتی ہیں۔
بعض لوگ گھڑی کو کلائی پر ہتھیلی کی طرف باندھتے ہیں۔ دوسروں کو گھڑی کا صرف تسمہ نظر آتا ہے۔ لیکن آج فیشن ہے کہ گھڑی اس طرح باندھی جائے کہ وہ خود کو کم اور دوسروں کو زیادہ نظر آئے۔ جب گھڑیاں فیشن کی خاطر استعمال ہونے لگیں تو انھیں زیور اور کپڑوں کی طرح بدلا بھی جانے لگا۔ مختلف تقاریب اور اوقات کے لیے مختلف گھڑیاں زیب کلائی ہوتی ہیں۔ کپڑوں سے میل کھاتی گھڑیاں خواتین کی نازک کلائیوں کی زینت ہونے لگی ہیں۔ بازار میں ’ایک دوجے کے لیے ‘ گھڑی کا جوڑا بھی ملتا ہے۔
تسمہ یا چین کی مدد سے گھڑی کلائی پر باندھی جاتی ہے۔ گھڑی کو کلائی پر باندھنے کے انداز سے صاحب گھڑی کی امارت اور ذوق کا بھی پتا چلتا ہے۔ گھڑی میں ہیرے اور جواہرات لگا کر وقت کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔ ایک مرد کے ہاتھ میں ہم نے کنگن دیکھے تو حیران ہوئے۔ قریب سے دیکھنے پر پتا چلا کہ وہ کنگن نہیں، گھڑی کی طلائی چین ہے۔
سخت گیر قسم کے لوگ گھڑی کو کلائی پر کس کر باندھتے ہیں۔ نرم مزاج کے لوگ گھڑی کو اتنا ڈھیلا رکھتے ہیں کہ ہاتھ اٹھانے پر گھڑی بغل میں جا چھپتی ہے۔ بعض نازک کلائیوں میں خاصی بڑی گھڑی مضبوط چین کے ساتھ لگی ہوتی ہے جسے دیکھ کر ہتھکڑی کی یاد آتی ہے۔ گھڑی اور چین کے بوجھ سے صاحبِ گھڑی ایک طرف جھکے رہتے ہیں۔
گھڑی کو وقت کے ساتھ چلنا چاہیے لیکن اکثر گھڑیوں کا وقت اپنے مالک کے طابع ہوتا ہے۔ دفتر کی گھڑیاں کام کے اوقات میں پینتالیس منٹ کا گھنٹہ بتاتی ہیں۔ لنچ کے دوران یہی گھنٹہ نوے منٹ کا ہو جاتا ہے۔ سکریٹری کی گھڑی باس کے ساتھ چلتی ہے۔ ہم ایک ایسے سکریٹری سے واقف ہیں جس کی گھڑی باس کی آمد پر دس اور دفتر چھوڑنے پر پانچ بجاتی ہے۔
گھڑی کا وقت ریڈیو، ٹی وی، کلاک ٹاور، فون یا اندازے سے ملا کر رکھا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں ریلوے اسٹیشن کی گھڑی ٹھیک وقت بتاتی ہے۔ گاڑیوں کا دیر سے چلنا اسٹیشن کی گھڑی صحیح ہونے کا ثبوت ہے۔ ہم اپنی گھڑی کو ریلوے اسٹیشن سے ملا کر مطمئن رہتے ہیں کہ ہم اکیلے ہی نہیں اور بھی ہزارہا لوگ وقت کے پیچھے چل رہے ہیں۔
بعض لوگ اپنی گھڑیوں کو وقت سے دس پندرہ منٹ آگے رکھ کر امید کرتے ہیں کہ وہ اپنا کام ٹھیک وقت پر انجام دے سکیں گے۔ لیکن ناکام رہتے ہیں۔ گھڑی کو وقت سے آگے رکھنے والے خود وقت سے پیچھے رہتے ہیں۔ وقت کی پابندی کے لیے ہمارے ایک دوست نے گھڑی کو وقت سے آگے رکھنا شروع کیا۔ پہلے گھڑی دس منٹ آگے ہوئی۔ وقت کی پابندی نہ ہو سکی تو گھڑی بیس، تیس، چالیس منٹ اور پھر ایک گھنٹہ، دو گھنٹے آگے رہنے لگی۔ اس کے باوجود وہ وقت کے پابند نہ ہو سکے۔ تنگ آ کر انھوں نے گھڑی باندھنا ہی ترک کر دیا۔
جس طرح ہمارے خیالات آپس میں نہیں ملتے، اسی طرح گھڑیوں کے وقت ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ اصل وقت سے کسی کی گھڑی آگے ہے تو کسی کی پیچھے چل رہی ہے۔ لیکن ہر ایک کا دعوی ہے کہ اس کی گھڑی صحیح وقت بتاتی ہے۔ دلیلیں پیش کی جاتی ہیں۔ ’میری گھڑی ٹی وی کے مطابق ہے ‘۔ ’میں نے اپنی گھڑی بی بی سی سے ملا رکھی ہے ‘۔ ’میری گھڑی سویس میڈ ہے، غلط وقت بتانے کا سوال ہی نہیں ہوتا‘۔ وقت آگے پیچھے ہونے کے سبب پندرہ بیس منٹ تک گھڑیاں گھنٹے بجاتی رہتی ہیں۔ گھنٹے گن کر وقت معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ گنتی پچاس ساٹھ تک جا پہنچتی ہے۔
وقت کی پابندی کرنا انسان کے لیے ضروری نہیں ہے لیکن گھڑیوں کا ٹھیک وقت بتانا بہت ضروری ہے۔ خراب گھڑی ہمیشہ غلط وقت بتاتی ہے۔ اس سے تو بند گھڑی بہتر ہے جو دن میں دو مرتبہ تو ٹھیک وقت بتاتی ہے۔ بعض گھڑیاں چلتے چلتے تھک کر سست گام ہو جاتی ہیں یا تیز چلنے لگتی ہیں۔ گھڑیوں پر موسم کا اثر بھی ہوتا ہے۔ وہ گرمی میں تیز تو سرما میں سست چلتی ہیں۔
بہت کم لوگ وقت کی پابندی کرنے کے لیے گھڑی لگاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے۔ اکثریت ہم جیسے لوگوں کی ہے جن کے پاس وقت زیادہ اور کام کم ہوتا ہے۔ ہمیں وقت دیکھ کر کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ کام کی نوعیت، لاپرواہی اور کاہلی کی آمیزش کر کے ہم وقت کا تعین کرتے ہیں۔ ہمیں بھلا گھڑی کی ضرورت کیوں ہو؟ وہ اور ہوں گے جو وقت کے غلام اور طابع ہوتے ہیں۔ وقت کی قدر نہ کرنے کے باوجود ہم گھڑی باندھتے اور اطراف گھڑیاں رکھتے ہیں !
گھڑیوں کی مدد سے وقت کی قیمت جاننے کے دور میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو گھڑی باندھنا پسند نہیں کرتا۔ چند بے حد مصروف ہوتے ہیں۔ انھیں گھڑی دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی! وقت کا احساس دلانے کے لیے ماتحت ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ بعض حضرات وقت دیکھنے کے بجائے وقت پوچھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وقت معلوم ہونے کے بعد سوال کرتے ہیں۔ ’کیا آپ کی گھڑی ٹھیک چلتی ہے ؟ سست یا تیز تو نہیں ہے ؟ وقت کہاں سے ملا ہوا ہے ؟‘
غائب دماغ لوگوں کے ہاتھ پر گھڑی تو ہوتی ہے لیکن وہ وقت دیکھنا بھول جاتے ہیں اور کچھ لوگ ہاتھ پر گھڑی باندھ تو لیتے لیکن انھیں گھڑی میں وقت دیکھنا نہیں آتا۔
بعض گھڑیاں وقت کے ساتھ تاریخ، دن، مہینہ اور سال بھی بتاتی ہیں۔ مقررہ وقت پر الارم بجا کر یاد دہانی کراتی ہیں۔ مقامی وقت کے ساتھ دوسرے مقامات کے وقت کا بھی حساب رکھتی ہیں۔ اپنا وقت سازگار نہیں ہے تو امریکہ، روس یا چین کا وقت دیکھیے۔
گھڑیاں موسمی پیش قیاسی کرتی ہیں۔ درجہ حرارت بتاتی ہیں، گھڑی کے مالک اور ماحول دونوں کا۔ دل کے مریضوں کی مدد کرتی ہیں۔ کلائی پر بندھی گھڑی وقت کے ساتھ نبض دیکھتی ہے، رفتار کے ساتھ دل کی حالت بتاتی ہے۔ غائب دماغ شخص کے لیے گھڑی میں پہچان موجود رہتی ہے کہ وہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے۔
گھڑی میں ڈاٹا بنک کی سہولت بھی ہوتی ہے۔ وقت دیکھیے، دوست احباب کے پتے اور فون نمبر معلوم کیجیے۔ اچھے اور برے وقت کو محفوظ رکھنے کی سہولت بھی گھڑی میں ہوتی ہے۔ حساب کے لیے گھڑی میں کیلکولیٹر بھی رہتا ہے، جمع خرچ کر لیجیے۔
امید ہے کہ مستقبل کی گھڑیوں میں دوسری اور بھی سہولتیں مہیا ہوں گی۔ گھڑی میں ٹیلی فون اور ٹیلی وژن لگے ہوں گے۔ کلائی کو قریب کیا، نمبر ملایا اور بات کر لی۔ وقت پروگرام میں ڈھل جائے گا۔ دوپہر گھڑی دیکھیں تو اسکرین پر لنچ سجا ہو گا۔ رات دیر گئے اسکرین پر بیگم ڈانٹ رہی ہوں گی۔
ہمہ اقسام کی گھڑیوں کے باوجود ہمیں گھڑی سازوں سے شکایت ہے۔ وہ ایسی گھڑی کیوں نہیں بناتے جو ہمیں وقت کی قدر کرنا سکھاتی ہے !
٭ ٭ ٭
ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ سالنامہ جنوری 1989
مجھے زندہ رہنے دو!
دنیا بہت حسین ہے۔ قدرتی نظاروں سے بھری دنیا صبح و شام انسان کو لبھائے رکھتی ہے۔ اندھیرے کو چیرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ سے سورج نکلتا ہے تو ہر طرف اجالے کے ساتھ خوشی پھیلنے لگتی ہے۔ پرندے چہچہاتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ باد صبا پیڑوں کو ہلکے ہلکے جھونکے دیتی ہے۔
آہستہ آہستہ سورج دنیا کو اپنی روشنی میں نہلاتا ہے۔ دھوپ کا اپنا الگ مزاج ہے۔ سورج کی گرمی، گرما دیتی ہے تو چھاؤں دینے اور سستانے کے لیے پیڑ اپنے سائے گھنے کر دیتے ہیں۔ سورج سروں پر سے سفر کر کے دوسری سمت ڈوبنے لگتا ہے۔ شفق کی لالی چھا جاتی ہے۔ گرمی خوش گوار خنکی میں تبدیل ہوتی ہے۔ دن بھر کے تھکے ماندے چرند اور پرند اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹنے لگتے ہیں۔
سورج کی روشنی ختم ہوتی ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے۔ چاند اور ستارے اپنی چمک دمک دکھانے آسمان پر آ جاتے ہیں۔ تھکے ماندوں کو نیند اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور پھر ایک دن ختم ہوتا ہے۔ دوسری صبح تازہ دم سورج ایک نئی ادا سے طلوع ہوتا ہے۔
ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر، اترتا چڑھتا شوخ دریا، شور مچاتی الھڑ ندیا، جھر جھر کرتے جھرنے، ساکت کنواں اور گڑھے میں جمع چاند کی تمنا کرتا جوہڑ کا پانی، مختلف مقام پر پانی ہی تو ہے لیکن اس کا ہر انداز خوب صورت اور اس کی ادا نرالی، دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے۔
پانی کے استعمال کے ڈھنگ بھی دلچسپ۔ پینے کے لیے آب حیات، دھو دھلا کر صاف کر دے اور اپنی آغوش میں لے کر فرحت اور تازگی کا احساس اجاگر کر دے۔
رم جھم بوندا باندی ہو کہ موسلا دھا بارش، ہر ایک کی اپنی خوبی اور خاصیت ہے۔ پانی نے زمین کو سیراب کیا۔ کونپلیں پھوٹیں۔ سبزہ لہلہانے لگا۔ مسحور ہو کر گنگنانے لگے۔ قوس قزح چھائی تو خوشی امنڈ آئی۔ پودے بڑے ہوئے۔ پھول کھلے۔ بھنورے منڈلانے اور تتلیاں تھرکنے لگیں۔ دل کا ساز بج اٹھا۔ پیڑ پودوں کو پھل پھلاری لگے اور ہمیں غذا مہیا ہوئی۔ پیٹ بھرا تو مست ہو کر گانے اور ناچنے لگے۔
ایک مثالی دنیا اور زمین پر جنت بنانے کے لیے انسان روز اول سے کوشاں اور مصروف ہے۔ اپنی ذہانت اور فراست سے اس نے چاند پر کمندیں ڈالیں۔ ستاروں کو چھوا۔ فضا کا سینہ چیر کر رکھ دیا اور خلا کو قبضہ میں کیا۔ سمندر کھنگال ڈالے۔ زمین کی کایا پلٹ دی۔ سائنس کو اپنا غلام اور ٹیکنالوجی کو باندی بنایا۔ ہر کام مشین کرتی ہے۔ گھر کی صفائی، برتن اور کپڑوں کی دھلائی مشینیں کرتی ہیں تو عمارتوں کی تعمیر بھی مختلف مشینوں کی مرہون منت ہے۔ کھیت اور فیکٹری میں بھی مشینیں کام کرتی ہیں۔
انسانوں کی ذہانت مشین میں سمٹ کر کمپیوٹر ایجاد ہوئے۔ گویا انسانوں کو جادوئی کھلونا ہاتھ آیا اور وہ آرام سے بیٹھا بٹن دبا کر کمپیوٹر سے جو کام چاہے کروانے لگا۔ سفر آسان ہوا تو فاصلے مٹ گئے۔ دوری قربت میں بدل گئی۔ اڑ کر یا دوڑ کر اپنوں تک پہنچ جائیے۔ سفر ممکن نہیں ہے تو گھر بیٹھے اپنوں کی آواز سنیے اور انھیں دیکھیے۔
دنیا جہان کی دلچسپیاں سمٹ کر آنکھوں کے سامنے پیش ہونے لگی ہیں۔ ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ پر دنیا کے مختلف نظارے اور تماشے دیکھیے۔ بھانت بھانت کی بولیاں سنیے۔ اشیا کی افراط ہوئی۔ ہر چیز میسر آئی۔ زندگی کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ آرام سے جیئے اور خوش رہیے۔
دنیا کو مزید خوب صورت اور رنگین بنانے کے لیے قدرت نے مرد کو حسین عورت اور عورت کو مضبوط مرد کا تحفہ دیا ہے۔ ایک دوسرے کا ساتھ پا کر دل جھومنے لگتا ہے۔ زندگی کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ کوے کی کائیں کائیں بھی بھلی لگتی ہے۔ ہر شہ سے خوشی ٹپکتی ہے۔ اور پھر جب زندگی میں اپنے جیسا ننھا اور منا وارد ہوتا ہے تو خوشی اور انبساط سے جھوم اٹھتے ہیں۔
زندگی نئے مہمان کے اطراف جیسے ٹھہر جاتی ہے۔ اس کی ایک مسکان اور ایک ہنسی پر سب کچھ نچھاور کر دینے کو جی چاہتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ وہ چھوٹا ہی رہے اور ہر دم ماں باپ کی بگیا کو مہکاتا رہے۔ وہ بڑا ہونے لگتا ہے تو اسے بڑھتا، پھلتا، پھولتا اور پنپتا ہوا دیکھ کر راحت ہوتی ہے اور فخر سے سر اونچا اٹھ جاتا ہے۔ وہ بڑا ہوتا ہے اور پھر اس کے بھی بچے ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے زندگی کا مقصد پا لیا ہے۔
بوڑھے ہوئے تو بڑے ہونے اور بزرگی کا اپنا الگ ہی رنگ اور مزا ہے۔ بچوں اور ان کے بچوں سے ڈھیر ساری خوشیاں ملتی ہیں۔ بچے دل بہلاتے اور خیال رکھتے ہیں۔ اپنے آپ کو نئی پود میں دیکھ کر سکون حاصل ہوتا ہے۔
آخر دنیا چھوڑ کر جانے کا وقت آتا ہے، شاد و کامران زندگی گزار کر حقیقی مالک سے جا ملنے کا وقت۔ کوئی افسوس نہیں، موت اطمینان کا باعث بنتی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی جی لی اور دنیا سے اپنا حصّہ پا لیا ہے۔
لیکن آج کون جی رہا ہے اور کسے سکون سے زندہ رہنے دیا جا رہا ہے۔ بے وقت اور بے سبب موت زندگی کے تعاقب میں لگی ہوئی ہے۔ وقت سے پہلے زندگی ختم ہوتی ہے۔ پر لطف اور طویل زندگی سمٹ کر بندوق کی گولی یا بم کا بارود بن گئی ہے۔ کرہ ارض پر جدھر دیکھیے زندگی موت سے پناہ مانگتی نظر آتی ہے۔
گھر سے شروع کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ جھگڑے موت کا سامان ہیں۔ اہنسا واد دیش میں مذہب اور ذات پات کے نام پر زندگی کی ہتھیا کی جاتی ہے۔ کشمیر پر نظر ڈالیے۔ یقین نہیں آتا جو کبھی زمین پر جنت ہوا کرتا تھا، اب دوزخ سے بدتر ہے۔ معصوم زندگی موت کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔
پاس پڑوس کا جائزہ لیتے ہیں۔ سری لنکا میں زندگی کو روٹی کے بجائے گولی ملتی ہے۔ بڑے ختم ہوئے تو بچوں اور نوجوان لڑکیوں کی فوج ہے۔ پاکستان میں گروہی جھگڑے زندگی کے پیچھے پڑے ہیں۔ موت سستی اور زندگی مہنگی ہے۔ افغانستان میں عرصہ ہوا زندگی موت سے پیہم نبرد آزما ہے۔ بستیاں اجڑ گئیں۔ حسن فطرت غارت ہوا۔ موت سے بھاگ کر زندگی مختلف کیمپوں میں پناہ گزیں ہے۔
فلیپین کا حال دیکھیے۔ اقتدار کا جھگڑا موت کا سبب ہے۔ زندگی کی خوبصورتی کا نشہ ہرن ہوا۔ دوسرے مقامات پر بھی اقتدار کے لیے موت کا کاروبار خوب زوروں پر ہے۔ بنگلہ دیش، نیپال، برما، تھائی لینڈ، کہیں بھی زندگی کو امان نہیں ہے۔ لوگ آپس میں لڑ پڑتے اور چٹکی بجاتے مرتے ہیں۔ اتنی سستی موت شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔
خلیج میں کبھی نہ ختم ہونے والا موت کا ننگا ناچ جاری ہے۔ ظلم اور بربریت سے زندگی فرار کے راستے ڈھونڈتی ہے لیکن تمام راست مسدود ہیں۔ بندوق کی متعدد گولیوں کے علاوہ ہر زندگی کے حصّے میں پچاس ساٹھ کلو بارود ہے۔ زندگی سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہی ہے لیکن بے وقت موت سے بچنا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔
فلسطین میں موت کا مقابلہ نہتے ہاتھ پتھر اٹھائے کرتے ہیں۔ لبنان میں موت نے زندگی کے حصے بخرے کر دیئے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام کو پہنچے نہیں کہ موت نے آ دبوچا۔
ایک نظر بھوکے اور ننگے آفریقہ پر بھی ڈالتے ہیں۔ زندگی کو غذا اور پانی مہیا کرنے کے بجائے موت فراہم کی جاتی ہے۔ لوگوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا لیکن معلوم نہیں کہاں سے انھیں زندگی ختم کرنے کے لیے ہر قسم کا ہتھیار مل جاتا ہے۔ موت سے خائف بھوکی پیاسی زندگی جنگل جنگل اور صحرا صحرا بھٹکتی ہے۔ قاتلوں نے کہاں زندگی کو بخشا ہے۔ کس ملک اور کس شہر کی بات کریں ! سومالیہ کا قصّہ سنائیں کہ الجیریا کا مقدمہ پیش کریں۔ ایتھوپیا کا رونا روئیں کہ سوڈان کا نقشہ کھینچیں۔ انگولہ کی کہانی بیان کریں یا جنوبی آفریقہ کی نسل کشی پر ماتم کریں۔ آفریقہ کے چپہ چپہ پر زندگی زندہ رہنے کو ترستی ہے۔
آفریقہ تو اندھیر نگری ہے۔ تہذیب نو کی روشنی ابھی ابھی پہنچی ہے۔ آئیے کرہ ارض پر ان مقامات کی بات کریں جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ چشم بد دور ایک ملک تو بلا شرکت غیر سوپر پاور ہے اور دنیا میں اپنی من مانی بھی چلاتا ہے۔ دعوی کرتا ہے کہ جو ممالک اس کے ساتھ نہیں ہیں وہ اس کے مخالف ہیں !
چند برسوں پہلے تک اس اکلوتے سوپر پاور کا ایک حریف بھی تھا۔ اسلحہ کی دوڑ میں وہاں زندگی دانے دانے کو محتاج ہو گئی۔ جب زندگی نے آزاد ہونا چاہا اور بھوک سے بلبلایا تو اسے روٹی کے بدلے میں موت ملی۔ آرمنیا، لتھیانا، بلگریڈ، رومانیہ، پولینڈ، ایک طویل فہرست ہے جہاں زندگی مختلف بندشوں میں بندھ کر وقت سے پہلے دم توڑ رہی ہے۔
چلیے ان مقامات سے فرار ہو کر جمہوریت کی دہائی دینے اور انصاف کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے پاس چلتے ہیں۔ یہاں بھی زندگی کو چین کہاں ! نسل پرستی، جرائم اور نشیلی دوائیں زندگی کے درپے ہیں۔ معصوم بچے اسکول ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں۔ بندوق کی گولی زندگی کے تعاقب میں لگی ہے۔ زندگی اتنی ارزاں ہے کہ صرف ایک جیکٹ کے عوض لے لی جاتی ہے۔ دواؤں کے عادی لوگ شوقیہ موت کا کھیل کھیلتے ہیں۔
دوسروں کے گھروں میں فتنہ پیدا کر کے اور تباہی مچا کر ہتھیاروں کے زور پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا جنون ہے۔ لیکن اپنی لگائی ہوئی آگ خود کے دامن تک پہنچنے لگی ہے۔ دنیا کے نمبر ون ملکوں میں بھی زندگی محفوظ نہیں ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ بے وقت اور بے سبب موت کو دہشت گردی یا کوئی دوسرا عنوان دیجیے۔
زندگی بھاگ کر جائے کہاں کہ اسے امان ملے۔ دنیا کا کوئی گوشہ یا کونا محفوظ نہیں ہے۔ ہر مقام اور ہر جگہ پر زندہ رہنے کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ جمہوریت کے علم بردار، مذہب کے ٹھیکہ دار، سرما یہ دار، ڈکٹیٹر، انصاف کے رکھ والے، قانون کے محافظ اور نہ جانے کیا کچھ بنے موت کا کاروبار کر رہے ہیں۔
مجھ جیسا ایک عام انسان کیا چاہتا ہے۔ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا فائدہ اٹھائے، ایک بھر پور زندگی سے لطف اندوز ہو اور اس دار فانی سے اپنا بھی حصّہ پائے۔ اس سے زیادہ کی تمنا بھی نہیں ہے۔
میں جینا چاہتا ہوں، خدارا مجھے زندہ رہنے دو!
٭ ٭ ٭
ماہنامہ افکار، کراچی۔ جولائی 1992
فلمی پلاننگ
میں ایک دن اپنے دوست کے گھر گیا۔ وہ اندرون خانہ مصروف تھا۔ میں وقت گزارنے کی خاطر دوست کی چار سالہ بیٹی سے باتیں کرنے لگا۔ مجھے اس کا نام معلوم تھا، اس کے باوجود میں نے نام پوچھا۔ بچوں کو معصوم سوالات کے ذریعہ مصروف رکھنا چاہیے ورنہ وہ بڑوں سے ایسے سوالات کرتے ہیں جن کا فوری کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ میرے سوال کے جواب میں لڑکی نے اپنا ایک نیا نام بتایا۔ ’رشمی‘
میں نے حیرت سے استفسار کیا۔ ’لیکن تمھارا کوئی اور نام تھا۔ ‘
رشمی مجھے بتانے لگی۔ ’فلم قیامت سے قیامت تک کی ہیروئن میرے جیسی ہے۔ اسی لیے ممی اب مجھے رشمی کہہ کر بلاتی ہیں۔ ‘
میں لاجواب ہوا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے رشمی سے پوئم سنانے کی فرمائش کی۔ نظم سنانے کے دن تو کبھی کے ختم ہوئے۔ رشمی تھرکتی ہوئے گانے لگی۔
’جما۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چما دے دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جما۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چما دے دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چما
جمعہ کو ملنے کا کیا وعدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘
اس واقعہ کے بعد سے میں فلموں کے تعلق سے خواہ مخواہ ہی حساس ہو گیا۔ جہاں کہیں فلموں کا ذکر ہوتا یا فلمی باتیں سنتا، میرے کان کھڑے ہونے لگے !
بھلا ہو ویڈیو اور سٹیلائٹ کا، اب ہر گھر ایک چھوٹا سنیما گھر نظر آتا ہے۔ ایک ایسا تھیٹر جس میں چوبیس گھنٹے کوئی نہ کوئی فلم چل رہی ہے۔ وہ تو شہر کے سنیما گھر اچھے ہیں جہاں مقررہ اوقات میں فلمیں بتائی جاتی ہیں۔ گھر کے تھیٹر میں ہر دم شو ٹائم ہے اور پھر ہر قسم کی فلم دیکھنے کی سہولت حاصل ہے۔ اے ہو کہ یو سرٹیفکٹ، بلیک اینڈ وہائٹ ہو کہ ٹیکنی کلر، نیلی ہو کہ پیلی فلم، گھر کے اسکرین پر ہر وقت کوئی نہ کوئی فلم چلتی رہتی ہے اور گھر والے ٹی وی گھور تے رہتے ہیں۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا۔ ’یار، تم ہر وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہو، کیا تمھاری آنکھیں تھک نہیں جاتیں ؟‘
جواب ملا۔ ’ان آنکھوں کو عادت ہو گئی ہے۔ آنکھوں کے سامنے کچھ نہ کچھ رنگین تصویریں حرکت میں رہنی چاہیے۔ ‘
ایک صاحبہ نے ہر دم ٹی وی کھلا رکھنے کی عجیب وجہ بتائی۔ ’فلم چل رہی ہو تو بچے خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ شرارت نہیں کرتے۔ فلم ختم ہوئی کہ ہنگامہ شروع ہوا۔ میں شرارت اور ضد کرتے بچوں کو ٹی وی دکھا کر بہلاتی ہوں۔ ‘
عام زندگی پر فلموں کا اثر اتنا گہرا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم زندگی گزار نہیں رہے ہیں بلکہ ہمہ وقت شوٹنگ میں مصروف ہیں۔ بال کسی ہیرو یا ہیروئن کے انداز میں تراشے ہوئے، مختلف فلمی اداکاروں سے منسوب لباس زیب تن کئے اور چہرے میک اپ میں تر بہ تر ہوتے ہیں۔
محفلوں میں فلمیں موضوع بحث ہیں۔ من پسند اداکاروں کے فین بنے مستی میں جھوم رہے ہیں۔ ماں باپ فخر سے بچوں کو گانے، ناچنے یا ڈائیلاگ سنانے کے لیے کہتے ہیں۔ ’بیٹا، ذرا انکل کو گبر سنگھ کے ڈائیلاگ تو سناؤ۔ ‘
لڑکے نے انکل کو للکارا۔ ’ارے او سامبا۔ ۔ ۔ ‘اور ڈائیلاگ مارنے لگے۔ ’پارٹی میں تو نے کتنے لوگوں کو بلایا ہے۔ ۔ ۔ پچاس۔ ۔ ۔ اور پکایا ہے صرف دو مرغیاں۔ ۔ ۔ ہاہاہا۔ ۔ ۔ صرف دو مرغیاں۔ ۔ ۔ ‘
ادھر ماں نے گانا سنانے کے لیے کہا اور ادھر نور چشم نے آنٹی کو بانہوں میں لے کر تھرکنا شروع کیا۔ ’جولی۔ ۔ ۔ جولی۔ ۔ ۔ جونی کا دل تم پہ آیا جولی۔ ۔ ۔ ‘
بیت بازی کے بجائے ’انتاکشری‘ چل رہی ہے۔ موسیقی پر پارسل پاسنگ کھیلا جا رہا ہے۔ پارسل کھل رہے ہیں۔ ’آپ امیتابھ بچن ہیں، اپنی جیہ کو ڈھونڈئیے۔ ‘ یا پھر ’دلیپ کمار بن کر فلم کرما کا گانا سنائیے۔ ‘ زیادہ روشن خیال ہوئے تو پارٹی ڈسکو یا بریک ڈانس پارٹی میں تبدیل ہو گئی۔
فلموں کی بدولت ’لو‘ (LOVE) عام ہوئی ہے۔ وہ بھی محبت کرنے لگے ہیں جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ ننھا اور ننھی دودھ کی شیشیاں ہاتھوں میں لے کر عہدو پیماں کر رہے ہیں۔ ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائی جا رہی ہیں۔ ’آغوں۔ ۔ ۔ آغوں۔ ۔ ۔ ہم نہ کبھی ہوں گے جدا۔ ۔ ‘
عمر کچھ بڑھتی ہے تو چاکلیٹ کھاتے ہوئے کمرے میں بند ہو جاتے ہیں اور چابی کھو جاتی ہے یا گانا گاتے ہوئے ’چلو دلدار چلو، چاند کے پار چلو۔ ۔ ۔ ‘ نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں۔ پیار کرنے والے کبھی ڈرتے نہیں، بے باکی کے تمام ریکارڈ توڑ دیتے ہیں۔ آخر جب محبت بھرے دل جیتے جی نہ مل سکیں تو ان کا ملن دوسرے شہر میں ہوتا ہے جہاں محبت کرنے والوں کو کوئی روکنے والا تو دور انھیں کوئی پہچاننے والا بھی نہیں ہوتا۔
نوجوانوں کے آئیڈیل بدل گئے ہیں۔ نونہال پڑھ لکھ کر سائنس دان، انجینئر، ڈاکٹر یا وکیل بننے کے برخلاف بن سنور اور سج دھج کر فلمی اداکار بننا چاہتے ہیں۔ بچپن ہی سے بالوں کو سنوار کر اور پاؤڈر کریم تھوپ کر آرزو کرتے ہیں کہ پردہ سمیں کے ابھرتے ستارے بنیں گے۔ کسی اداکار کو آئیڈیل مان کر اس کا ڈپلیکیٹ بنے پھرتے ہیں۔ باتیں یوں کرتے ہیں جیسے ڈائیلاگ ادا کر رہے ہوں۔ میں نے دو لڑکوں کو کہتے سنا۔ ’یار، ڈیڈی مغل اعظم کے ظل الٰہی ہیں۔ محبت کے دشمن!‘
دوسرے نے جواب دیا۔ ’تیری رکھشا کے لیے مہارانی جودھا بائی موجود ہیں۔ میرا کیا ہو گا۔ میرا واسطہ ڈاکٹر ڈائن سے ہے جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ‘
شب و روز کی مصروفیت کے لیے کئی قسم کی فلمیں دستیاب ہیں۔ انگریزی فلمیں، کارٹون فلمیں، اردو ہندی فلمیں، گیت، ڈائیلاگ، غزلیات، مشاعرے، وغیرہ وغیرہ، کبھی نہ ختم ہونے والی ایک طویل فہرست ہے۔
اردو ہندی فلموں کا جواب نہیں ہے۔ دو، ڈھائی گھنٹے کی فلم میں دلچسپی کے تمام سامان موجود ہیں۔ پیار و محبت، سیکس، انتقام، جرم، سزا، سیاست، مذہب، لڑائی، مار دھاڑ، اچھل کود، گانے، موسیقی، ناچ، کامیڈی، فلسفہ اور ہر وہ تفریح جس کا تصورات کی دنیا سے تعلق ہے۔ ضروری نہیں کہ فلم شروع سے دیکھی جائے، جہاں سے موقع ملے فلم دیکھنے کی سہولت حاصل رہتی ہے۔ محسوس ہو گا کہ کہانی کا نقطہ آغاز یہی ہے۔ جس طرح کہیں سے بھی فلم دیکھنے کی آزادی ہے، اسی طرح کہیں پر بھی فلم بینی موقوف کی جا سکتی ہے۔ تماش بین کو انجام کا پتا رہتا ہے۔
اردو ہندی فلموں کی فارمولہ کہانی ہوتی ہے بلکہ اکثر فلموں میں کہانی ہی نہیں ہوتی۔ دو گھنٹوں کا پروگرام ہوتا ہے۔ تین چوتھائی وقت گانوں اور لڑائی کے لیے مختص ہوتا ہے۔ باقی آدھے گھنٹہ کی فلم میں پھڑکتے اور ذومعنی ڈائیلاگ ہوتے ہیں۔ فلم کے لیے ایک عدد کسی بھی عمر کا ہیرو اور ایک کم سن و نوخیز ہیروئن چاہیے۔ دونوں کی محبت کو پروان چڑھانے کے لیے کالج اور پارک کے چند سین درکار ہوتے ہیں۔
فلم کو آگے بڑھانے اور فلم میں کہانی پیدا کرنے کے لیے کسی مجبوری کا سہارا چاہیے۔ یہ مجبوری عزت، بھائی بہن کی محبت، بیماری، یتیمی، ماں باپ کا قتل یا پھر کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک ویلن چاہیے۔ فلم کو طول دینا ہو تو ویلن کے رفیق کار یا اس کا ایک گروہ درکار ہے۔ ویلن کی تعداد میں اضافہ ہونے پر ہیرو کی تعداد بھی بڑھانی پڑتی ہے۔ جب زائد ہیرو ہو گا تو اس کے لیے ہیروئن بھی چاہیے۔ ویسے بعض فلمیں ایک ہیرو اور دو ہیروئن اور دو ہیرو اور ایک ہیروئن سے بنیں اور کامیاب ہوئی ہیں۔
عام طور پر لو اسٹوری میں ویلن کا رول امیر باپ ادا کرتا ہے۔ گھریلو فلم میں ساس، بہو، بہنوئی، سوتیلی ماں یا شوہر بیوی کے درمیان وہ، ویلن کا کردار نبھاتے ہیں۔ سوشیل فلم میں اسمگلر یا بلیک مارکیٹر ویلن ہوا کرتے تھے لیکن اب سیاست دان اچھے ویلن ثابت ہو رہے ہیں۔ ویلن کوئی بھی ہو، فلم کے اختتام پر اچھائی کا بول بالا اور برائی کا خاتمہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اردو ہندی فلموں کی ایک خوبی ان میں دکھائی جانے والی لڑائی ہے جس میں کارٹون فلموں سے بھی زیادہ لطف آتا ہے۔ لڑائی کے دوران مٹی کے برتن پھوٹ رہے ہیں۔ پانی بہہ رہا ہے۔ خالی ڈبے اور بیرل لڑھک رہے ہیں۔ دیواریں ٹوٹ رہی ہیں اور آئینے چکنا چور ہو رہے ہیں۔ بنڈیوں اور ٹھیلوں سے سامان اچھل رہا ہے۔ فرنیچر تباہ ہو رہا ہے۔ لیکن لڑائی ہے کہ جاری ہے۔ ہاتھوں سے ڈشم ڈشم کے بعد تلواروں کی جھنکار، بندوقوں کی ٹھائیں ٹھائیں اور پھر کار، ٹرک، ریل یا ہوائی جہاز میں زور آزمائی ہو رہی ہے۔ فلمی لڑائی کا اصول ہے کہ اکیلا ہیرو یا ایک دو ہمنواؤں کے ساتھ سینکڑوں خطرناک مجرموں کا مقابلہ کرتا ہے۔
فلمی لڑائی میں ہیرو کی جیت مسلمہ ہوتی ہے۔ ہیرو پر ہر قسم کا اور چہار طرف سے کیا جانے والا وار خالی جاتا ہے۔ گولیوں کی برسات میں ہیرو بھاگتا رہتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گولیاں اپنے آپ ہیرو کے راستے سے ہٹ رہی ہیں لیکن ہیرو کا کوئی وار خالی نہیں جاتا۔ ایک ہاتھ سے دو دو ڈھیر ہو رہے ہیں۔ پاؤں دس پر بھاری ہے تو مکمل ہیرو پچاس مشٹنڈوں کو پچھاڑتا ہے۔ ہیرو کو نہ صرف دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے بلکہ ہیروئن، ماں یا کسی مظلوم کو دشمنوں کے چنگل سے چھڑانا بھی پڑتا ہے۔
فلمی ہیرو آب حیات پیا ہوتا ہے۔ اسے بہت کم موت آتی ہے فلم کے درمیان تو وہ کسی صورت نہیں مرسکتا۔ اور جب ہیرو مرتا ہے تو تماش بینوں کو تڑپا تڑپا کر دم توڑتا ہے۔ زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود پندرہ منٹ ڈائیلاگ مارنے کے بعد گردن ڈھیلی پڑتی ہے۔
اردو ہندی فلمیں ناچ گانوں کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔ بعض فلمیں صرف ناچ گانوں کے سبب کامیاب ہوئی ہیں۔ فلم میں گانے کے لیے کردار اگر نہ ملیں، کوئی بات نہیں، بیک گراونڈ میں در و دیوار اور زمین آسمان گانا گاتے ہیں۔ فلم میں ہر سچویشن پر گانا بجتا ہے۔ کوئی مر رہا ہے تو بھی گانا ہوتا ہے۔ فلموں میں گانے کے ساتھ ناچ ضروری ہے۔ گانے اور ناچ میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔
کوئی پیدا ہوا تو ناچ گانا ہوتا ہے۔ گاتے اور ناچتے بچے بڑے ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ پر ناچ گانا عام طور پر ہوتا ہی ہے۔ فلم میں کردار ناچتے اور گاتے بچھڑتے ہیں۔ انتقام میں ہیرو اور ہیروئن ناچتے اور گاتے ہیں تو انتظار میں بھی ناچ گانا ہوتا ہے۔ ناچ اور گانوں کے لیے ہی محبت کی جاتی ہے۔ نفرت اور بدلے کی آگ میں جلتے ہوئے بھی ناچ گانا ہوتا ہے۔ فراق، وصل اور ہجر ناچ گانوں کے آئیڈیل سچویش ہوتے ہیں۔ سفر میں، ہوٹل میں اور گھر میں ناچ گانا ہوتا ہے۔ کوٹھے ناچ گانوں کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ دفتر اور فیکٹری میں کام کے دوران بھی ناچ گانا ہوتا ہے۔ ڈاکو کے اڈے اور پولس اسٹیشن میں بھی ناچ گانے کو پسند کیا جاتا ہے۔ اسکول میں بھی بچے ناچتے اور گاتے سیکھتے ہیں۔ غرض فلم میں ہر سچویشن ناچ گانے کی سچویشن ہوتی ہے !
فلمی ناچ گانوں کا اثر ہے کہ ہمارے نوجوان ثابت قدم رہنے کے بجائے ہر دم تھرکتے رہتے ہیں۔ ان کے کانوں میں واک مین ٹھونسا ہوا اور لب پر ترانہ ہوتا ہے اور موسیقی کی لے پر پیر پڑتے ہیں۔
اردو ہندی فلموں میں گانوں کی بہتات سے گھبرا کر بعض لوگ انگلش فلمیں دیکھتے ہیں۔ انگریزی فلموں میں نظر تو سب کچھ آتا ہے لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ انگریزی فلمیں ہر لحاظ سے دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ غور سے دیکھنا اور سننا پڑتا ہے۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے انگریزی فلم دیکھنا، تفریح سے زیادہ ورزش معلوم ہوتی ہے۔
فلمیں تشدد کی وجہ سے بھی بدنام ہیں۔ پردہ پر انسان کو یوں مارا جاتا ہے جیسے کوئی کھٹمل مسل رہا ہو۔ انسان کٹ کٹ کر گاجر مولی کی طرح گرتے ہیں۔ ایذا رسانی اور قتل کے نت نئے طریقے ایجاد کئے اور بتائے جاتے ہیں۔ بندوق بردار لٹیرے آتے ہیں اور گاؤں کو ویران کر جاتے ہیں۔ ویلن سارے خاندان کو بھون کر رکھ دیتا ہے لیکن ایک چھوٹا لڑکا بڑا ہو کر بدلہ لینے کے لیے معجزاتی طور پر بچ جاتا ہے۔ چاقو کی نوک اور بندوق کی نال پر بنک لٹتا ہے۔ جھوٹی گواہی دینے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ بچوں اور بڑوں کا اغوا ہوتا ہے۔ غرض فلم وہ سب کچھ ہوتا ہے جو عملاً نہیں ہوتا!
نوجوان نسل پر ان شاٹس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چند دن قبل میرے دوست کے آٹھ سالہ لڑکے نے باپ کی گردن پر چاقو رکھ کر کہا۔ ’مجھے چاکلیٹ خریدنے کے لیے پانچ روپے دیجیے ورنہ اوپر سے چھ انچ چھوٹا کر دوں گا۔ ‘
اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے جہاندیدہ لوگ تشدد آمیز اور گرم سین کو فاسٹ فارورڈ کر دیتے ہیں۔ بعض مرتبہ پوری فلم فاسٹ فارورڈ کرتے گزر جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نوجوان نسل فاسٹ فارورڈ کرنے والے سین کو سلوموشن میں دیکھتے اور بہت کچھ سیکھنے لگے ہیں۔
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ فلم دیکھنے کی عادت اور پھر لت پڑ جاتی ہے جو مشکل سے چھوٹتی ہے۔ یوں بھی لکھنے پڑھنے کا زمانہ گیا، اب سننے اور دیکھنے کا دور ہے۔
ادیب اور شعرا شاکی ہیں کہ ان کی تخلیقات کوئی نہیں پڑھتا۔ رسائل بند ہو رہے ہیں اور جو نکل رہے ہیں جلد یا دیر وہ بھی بند ہو جائیں گے۔ ادیب عوام تک پہنچنے کے لیے فلمیں اور ڈرامے لکھ رہے ہیں۔ شعرا فلمی گانے لکھنے لگے ہیں۔ فلمی ادب آسان بھی ہے۔ تو چل میں آئی۔ ۔ ۔ میں بھی آپ کی طرح انسان کی اولاد ہوں۔ ۔ ۔ ایک دو تین چار۔ ۔ ۔ اے بی سی ڈی۔ ۔ ۔ قسم کی شاعری کرنا کونسی بڑی بات ہے۔ میرے ایک شاعر دوست نے ایک رومانی دوگانہ لکھا ہے جو جلد ہی فلم بند کیا جائے گا۔ اس گانے کے چند بول جو یاد رہ گئے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔
میں طوطا تو طوطی ہے
میں طوطی تو طوطا ہے
آؤ مل کر کریں ٹائیں ٹائیں
میں چڑا تو چڑی ہے
میں چڑی تو چڑا ہے
آؤ مل کر کریں چوں چوں چوں
میں بلا تو بلی ہے
میں بلی تو بلا ہے
آؤ مل کر کریں میاؤں میاؤں میاؤں
فلموں اور فلم زدہ ماحول سے پریشان ہو کر میں فلمی پلاننگ کے تعلق سے سوچنے لگا۔ جس طرح فیملی پلاننگ سے خوشحالی آتی ہے، ویسے ہی، میں نے قیاس کیا کہ فلمی پلاننگ کے ذریعہ کچھ ڈھنگ کی زندگی گزرے گی۔ میں نے ’فلم دو یا ایک بس‘ کا نعرہ لگایا اور اپنے گھر میں فلمی پلاننگ پر عمل کرنے کی ٹھانی۔ خاندان کے سبھی افراد فلمی پلاننگ پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں اس فیصلہ سے بہت خوش ہوا۔
اب اس کو کیا کیجیے کہ سب مل کر دو ایک فلمیں دیکھنے کے بجائے گھر کا ہر فرد فلمی پلاننگ پر عمل کرتے ہوئے اپنی پسند کی دو اور ایک یعنی تین فلمیں خود دیکھنا اور دوسروں کو دکھانا چاہتا ہے !
٭ ٭ ٭
ماہنامہ افکار، کراچی اپریل 1992ء
بیمہ ایجنٹ سے بچنا محال ہے !
چند سال پہلے کی بات ہے۔ پہلی مرتبہ بیمہ ایجنٹ ہمارے گھر آئے تھے۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ ہمارا شمار اب دولت مند لوگوں میں ہونے لگا ہے۔ انسان کے پاس روپیوں پیسوں کی ریل پیل ہوتے ہی رشتہ دار قریب آنے لگتے ہیں۔ دوست احباب کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ چور انھیں لوٹنے کا پلان بنانے لگتے ہیں اور بیمہ ایجنٹ ورغلانے چلے آتے ہیں کہ وہ مختلف پالیسیاں خرید کر اپنا مستقبل ان کے پاس محفوظ کروا لیں۔
پیسہ نہ ہو تو کوئی قریب نہیں پھٹکتا، ہمدردی کے دو بول بھی گراں بار ہوتے ہیں۔ دنیا کا دستور یہی ہے۔
بیمہ ایجنٹ کی آمد ہمارے لیے پیام مسرت بنی۔ بہت عرصہ سے ہمیں موصوف کا انتظار تھا۔ کون ذی فہم شخص ہو گا جو دولت مند نہ بننا چاہے گا۔ ہمیں وہ مایوسی خوشی میں تبدیل ہوتی نظر آئی جو ڈائری لکھتے وقت بیمہ پالیسی کے کالم کو کورا چھوڑنے پر ہوتی تھی۔ اب ہم بھی شان سے دس، بارہ ہندسوں والے بیمہ پالیسی نمبر لکھا کریں گے۔
ہم نے بیمہ ایجنٹ کا پر تپاک استقبال کیا۔ انھیں تقریر کرنے اور ہمیں اپنے جال میں پھانسنے کا موقع دئیے بغیر ہم نے ایک بیمہ پالیسی لے لی۔ موصوف کا کام آسان ہوا اور وہ خوش و خرم ہمارا شکریہ ادا کر کے چلتے بنے۔
بیمہ ایجنٹ سے ہماری یہ پہلی ملاقات تھی۔ اپنی دانست میں دولت مند بننے کی خوشی میں ہم بیمہ ایجنٹ کے روبرو ایسے ریجھ گئے کہ ہم پر بیمہ ایجنٹ کی خوبیاں عیاں نہ ہوئیں۔ لیکن جب بیمہ ایجنٹ مستقل ہمیں مختلف پالیسیوں میں مبتلا کرنے کے لیے ہمارے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئے تو ہمیں بیمہ ایجنٹ کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا اور یہ مضمون ان سے ہوئی قربت کا نتیجہ ہے۔
موت سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ یہ ایک فطری خوف ہے۔ بعض لوگ اس خوف سے فائدہ اٹھا کر اپنا روزگار پیدا کرتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر اور بیمہ ایجنٹ پیش پیش ہیں۔
ڈاکٹر موت سے یوں ہی نہیں ڈراتے، ان کے ڈرانے کی وجہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر قابل ہوتے ہیں اور انھیں بیماریوں کے تعلق سے علم ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ معمولی نزلہ زکام نمونیا کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر نمونیا سے ڈرا کر سردی زکام کا علاج کرتے ہیں۔ خدا شفا دیتا ہے اور وہ مفت میں فیس بٹورتے ہیں۔ بعض مریض خود ڈاکٹر کے پاس موت سے ڈر کر رجوع ہوتے ہیں۔ تب ڈاکٹر کا کام آسان ہو جاتا ہے۔
بیمہ ایجنٹ یوں ہی بلا وجہ اور بے وقت موت سے ڈرا کر اپنا روزگار پیدا کرتے ہیں۔ موت کے بعد متعلقین پر ٹوٹنے والی مصیبتوں کا رونا روتے ہیں۔ کہیں گے۔ ’آپ کا کیا ہے۔ آپ ہنستے کھیلتے اس دار فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ آپ کو امید ہے کہ پسماندگان مغفرت کی دعا کرتے رہیں گے لیکن کیا آپ نے سوچا ہے کہ آپ کے بعد، آپ کے اہل و عیال کا کیا ہو گا؟آپ کے بغیر ان پر کیا بیتے گی؟ ان کا گزارہ کیسے ہو گا؟ بچوں کی پڑھائی کا خرچ کون اٹھائے گا؟ لڑکی کی شادی کا انتظام کیوں کر ہو گا؟ بیوہ کہاں سر چھپائے گی؟
دنیا سے جاتے ہوئے آدمی کو اپنے پیچھے کم از کم چند بیمہ پالیسیوں کو چھوڑ جانا چاہیے تاکہ اہل و عیال ایک عرصہ کے لیے اسے یاد رکھ سکیں۔ انتقال کے بعد متعلقین کو بیمہ پالیسیاں ملیں گی تو وہ خوش ہوں گے۔ آپ کی کمی محسوس نہیں ہو گی اور وہ مختلف فکروں سے آزاد ہو کر خشوع و خضوع سے آپ کی مغفرت کی دعا کر سکیں گے !‘
بیمہ ایجنٹ سے ملاقات ایک عجیب و غریب واقعہ ہوتا ہے۔ دوسرے کئی ایجنٹ حضرات سے ہماری ملاقات ہوتی ہے اور ہم اس واقعہ اور ایجنٹ کو بھول جاتے ہیں لیکن بیمہ ایجنٹ سے ملاقات کسی بھیانک خواب کی طرح یاد رہتی ہے۔ کئی دن تک بیمہ ایجنٹ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ کر ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔ ملاقات کے دوران بیمہ ایجنٹ ہمیں بے بس کر دیتے ہیں۔ ہم ہنس سکتے اور نہ ہی روسکتے ہیں۔ خاموشی سے بیٹھے موصوف کی باتیں سنتے رہتے ہیں۔
دعا سلام اور خیریت دریافت کرنے کے بعد ہماری صحت اور کاروبار کے متعلق سرسری چند سوالات کرتے ہیں اور پیسے کی قدرو اہمیت پر تقریر شروع کرتے ہیں۔ ’آج کا نظام حیات صرف روپیہ پیسہ ہے۔ پیسہ ہے تو سب کچھ ہے۔ رشتہ دار اور دوست احباب ہیں۔ عزت ہے اور آپ کا وقار بھی ہے۔ پیسہ نہ ہو تو آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ آج آپ خوش ہیں اس لیے کہ آپ کے پاس پیسہ ہے، دولت ہے۔
معلوم نہیں کل آپ کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو۔ سوچیے اس وقت کیا ہو گا؟ کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ اسی لیے ہمارا مشورہ ہے کہ اچھے وقتوں کا پیسہ برے وقت کے لیے اٹھائے رکھنا چاہیے۔ آپ ہمیں اپنے اچھے وقت کا پیسہ دیجیے، ہم برے وقت پر آپ کے کام آئیں گے۔ آپ کے پیسوں پر ہم منہ مانگا فائدہ بھی دیتے ہیں۔ ‘
اشاروں اور کنایوں میں ہم اگر بیمہ ایجنٹ کی بات سمجھ گئے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ ہمیں کھلے الفاظ میں ڈرانے اور دھمکانے لگتے ہیں۔ ’دنیا فانی ہے۔ زندگی آنی جانی ہے۔ اگر آپ بیمار ہوئے تو بیمہ کی رقم سے علاج کرواسکتے ہیں اور اگر آپ چل بسے تو بیمہ کی رقم آپ کے پسماندگان کے کام آئے گی اور ان کی زندگی آپ کے بغیر سکون سے گزرے گی۔ بیمہ پالیسی آپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گی۔ ‘
اب بھی اگر ہم پالیسی لینے تیار نہ ہوئے تو محسوس ہوتا ہے کہ بیمہ ایجنٹ ہتھڑ مار کر بددعا دیں گے کہ ابھی آپ سورگ باش ہو جائیں اور آپ کے اہل و عیال اور آپ کی روح دربدر ٹھوکریں کھاتے پھریں۔
موت کے ڈر یا غیر یقینی مستقبل کے خوف سے جب ہم پالیسی لینے تیار ہو جاتے ہیں تو بیمہ ایجنٹ ہماری تاریخ پیدائش پوچھ کر ڈاکٹر کی طرح بلکہ ڈاکٹر سے دو ہاتھ آگے جا کر ہماری صحت اور مختلف بیماریوں کے تعلق سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ ’کہاں اور کب پیدا ہوئے تھے۔ شکر، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک، فالج، کینسر جیسی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا تو نہیں ہیں۔ آپ کا خاندان کون کون سی بیماریوں کا مسکن ہے۔ خاندان میں ہونے والی اموات کے بارے میں تفصیلات بتایئے۔ ادھر ادھر منہ مارکر ایسی ویسی بیماریاں حاصل کرنے کا شوق تو نہیں ہے۔ ‘
اپنے طور پر اندازہ کرتے ہیں کہ آیا یہ شخص جلد مرنے والا تو نہیں ہے۔ اگر انھیں ذرا بھی شک ہوا تو اچھے بھلے اور صحت مند شخص کو مختلف شکوک و شبہات میں مبتلا کر کے ڈاکٹر کے پاس طبی معائنہ کے لیے بھیجتے ہیں۔ بیمہ پالیسی کے لیے طبی معائنہ عام طبی معائنہ سے مختلف ہوتا ہے۔ بیماریوں کا پتا لگا کر علاج کرنے سے زیادہ اس نکتہ پر توجہ دی جاتی ہے کہ یہ شخص کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔
ہر ممکن طریقے سے مطمئن ہونے کے بعد کہ پالیسی لینے والا پالیسی پکنے سے پہلے ختم ہونے والا نہیں ہے اور وہ قیامت کے بوریے سمیٹے گا تو بیمہ ایجنٹ اس کی زندگی کا بیمہ کرتے ہیں۔ نجومی کی طرح بیمہ ایجنٹ کے پاس مختلف زائچے ہوتے ہیں۔ وزن اور صحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے زائچہ میں ہماری متوقع عمر کا اندازہ لگاتے ہیں۔
آپ ہمارے اس خیال سے اتفاق کریں گے کہ جو شخص غیر یقینی اور شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے والا پیشہ اختیار کرے تو اس سے ڈرنا فطری بات ہے۔
بیمہ ایجنٹ صرف اوسط عمر تک کی زندگی کا بیمہ کرتے ہیں۔ اوسط عمر کے بعد ہمارا بیمہ نہیں کیا جاتا۔ ہم نے اپنا بیمہ ساٹھ سال کی عمر تک کروانا چاہا تو بیمہ ایجنٹ نے بتایا۔ ’آپ کی زندگی کا بیمہ صرف پچپن برس تک ہی ہو سکتا ہے۔ ہمارے حساب سے ہم پچپن برس تک ہی کارآمد زندگی گزارتے ہیں یعنی کماؤ رہتے ہیں۔ اس کے بعد ہماری آمدنی پہلے جیسی نہیں ہوتی۔ اس لیے پچپن کے بعد ہم رسک نہیں لے سکتے !‘
عمر، بیمہ کی رقم، پالیسی کی مدت اور مختلف فارمولوں کی مدد سے ماہانہ، سہ ماہی یا سالانہ اقساط مقرر کی جاتی ہیں۔ اقساط کو پابندی سے یوں ادا کرنا پڑتا ہے گویا قسطیں ہماری سانس کا ٹیکس ہے۔ قسط ناغہ ہوئی تو پالیسی کے ڈوب جانے کے ساتھ جمع کی ہوئی رقم کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں۔
بیمہ ایجنٹ پالیسی دلا کر ہمیں بھول جاتے ہیں۔ ہم پالیسی کو گلے لگائے مخمصہ میں گرفتار رہتے ہیں۔ پالیسی پکنے تک کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ بالائے ستم یہ کہ روپے کی قیمت دن بہ دن گھٹتی جاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے قیمتی پیسوں کا سودا کوڑیوں کے مول کر رہے ہیں۔ پالیسی حلق کا کانٹا بن جاتی ہے جسے نگل سکتے ہیں اور نہ اگل سکتے ہیں۔ ہمیں پریشان کر کے بیمہ ایجنٹ ہماری پالیسی کا کمیشن کھاتے چین کی بانسری بجاتے رہتے ہیں۔
بیمہ ایجنٹ کو ہماری یاد پھر اس وقت آتی ہے جب وہ ہمیں ایک نئی پالیسی کے لیے پھانسنا چاہتے ہیں۔ بیمہ ایجنٹ نئی پالیسی لیے آ دھمکتے ہیں۔ نئی پالیسی کے فائدے بتا کر، پھر موت سے ڈرا کر اور تاریک مستقبل کی دہائی دے کر ہمیں پھر اپنے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں۔ اور پھر ہم قیمتی پیسوں کا مول سستے دام کر بیٹھتے ہیں۔
بیمہ ایجنٹ سے ملنے کے بعد ہماری طبیعت مضمحل اور پریشان ہو جاتی ہے۔ ہم بیتی زندگی کا احتساب کرنے لگتے ہیں۔ اپنی غلطیاں اور گناہ یاد آتے ہیں۔ رب العزت کی بارگاہ میں توبہ اور استغفار گزارتے ہیں۔ جب بھی ہم وقت سے پہلے گھر پہنچ کر مصلا بچھائے، ہاتھ اٹھائے دعا کرنے لگتے ہیں تو ہماری بیوی جان جاتی ہیں کہ ہماری ملاقات بیمہ ایجنٹ سے ہوئی ہے۔ وہ ہمیں سمجھانے لگتی ہیں۔ ’آپ کیوں ان کی باتوں سے پریشان ہوتے ہیں۔ اپنے روزگار کے لیے وہ کچھ بھی کہتے اور غیر ضروری ڈراتے بھی ہیں۔ ‘
جب ہمارا یہ حال ہوتا ہے تو کمزور دل والوں پر کیا گزرتی ہو گی! ہم ایک صاحب سے واقف ہیں جنھوں نے بیمہ ایجنٹ سے ملاقات کے بعد پہلے وصیت لکھوائی اور پھر بیمہ کروایا تھا۔
زندگی کے ہر موڑ پر بیمہ ایجنٹ ہمارا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہمیشہ ہی کڑوی کسیلی، تباہی و بربادی اور مایوسی اور پریشانی کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زبان کالی ہوتی ہے۔ انھیں ناراض کرنے سے بھی ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کی باتیں سچ ثابت نہ ہو جائیں۔
نوکری ملتے ہی ہر ماہ تنخواہ میں حصّہ دار بننے کے لیے آ دھمکیں گے۔ ’مبارک، آپ کو نوکری مل گئی ہے۔ لیکن کیا آپ نے سوچا ہے، نوکری آخر نوکری ہے۔ آج ہے کل نہیں۔ اپنی مرضی سے نہ چھوڑا تو شاید مالک چھٹی کر دے۔ تب آپ کیا کریں گے ؟ ایک بیمہ پالیسی لے رکھیے نوکری چھوٹنے پر کام آئے گی۔ ‘
شادی کے مبارک موقع پر دلہن کے بیوہ ہونے کی دہائی دے کر پالیسی کے لیے ورغلائیں گے۔ لڑکے کی پیدائش پر پڑھائی کے اخراجات اور لڑکی پیدا ہونے پر شادی کے وقت لٹ جانے کا اندیشہ ظاہر کر کے پالیسی لینے پر مجبور کر دیں گے۔
بوڑھے ہونے سے پہلے بڑھاپے میں صفر آمدنی کے مد میں مختلف بیماریوں سے ہونے والے کمرتوڑ اخراجات کا تخمینہ لگا کر اولاد کی بے حسی کا رونا روئیں گے۔ ’بڑھاپے کے لیے جوانی کی کمائی کو رکھ چھوڑنا چاہیے۔ اگر بڑھاپے میں پالیسیاں پاس ہوں تو اصل بیٹا تو اصلی ہے کئی نقلی بیٹے خدمت کرنے دوڑے چلے آئیں گے۔ ‘
دن بہ دن حالات اتنے خراب اور ناگفتہ بہہ ہوتے جا رہے ہیں کہ بیمہ ایجنٹ کی بن آئی ہے۔ بیمہ کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ صحت کا بیمہ نہ ہو تو بیماری کے دوران ڈاکٹر اور نہ ہی ہسپتال کا بل ادا کر سکتے ہیں۔ کار کا بیمہ نہ ہو تو کار کی مرمت کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے۔ گھر کا بیمہ کرائے بنا گھر کے مالک نہیں بننا چاہیے، پتا نہیں کب فسادات اور تشدد کے لپیٹے میں گھر آ جائے اور پھر سے بسنے کے لیے پیسے نہ ہوں۔
خود اپنا بیمہ نہ ہو تو بیوی بچے خوش رہتے ہیں اور نہ ہمیں تسکین ہوتی ہے۔ بغیر بیمہ کرائے بیوی ہمیں شہر میں آزاد گھومنے پھرنے نہیں دیتیں۔ معلوم نہیں کب کسی احتجاج کی نذر ہو جائیں، دہشت گردی کا شکار ہو جائیں یا حادثہ میں جاں بحق ہو جائیں۔ حالات ہی ایسے ہیں کہ بیمہ ایجنٹ کا کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا جا رہا ہے۔ اخبار پڑھ کر لوگ خود بیمہ ایجنٹ کے پاس پالیسی لینے پہنچ رہے ہیں۔ بیمہ ایجنٹ کو زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ ڈرے اور سہمے لوگوں کو بس اتنا کہنے کی ضرورت ہے۔ ’آج زندہ رہنے کے لیے ہوا، پانی اور غذا کے ساتھ بیمہ بھی ضروری ہے۔ ‘
حالات اور بیمہ ایجنٹ کی باتوں میں آ کر بیمہ کروانے کے چکر میں پڑ گئے تو پھر بیمہ ایجنٹ ہمیں نناوے کے پھیر میں جکڑ لیتے ہیں۔ پالیسیاں لینے کی لت پڑ جاتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی، گنتی کی کوئی قید نہیں ہوتی، پالیسی کے بعد پالیسی لیتے چلے جاتے ہیں۔ بیمہ ایجنٹ اطراف بھنبھنانے لگتے ہیں۔ ان کا کام بھی آسان ہوتا ہے۔ نئی پالیسی کے نت نئے فائدے بتا کر شیشے میں اتارتے جاتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ہیں جنھوں نے اپنا بیمہ، بیوی کا بیمہ، اپنی اور بیوی بچوں کی صحت کا بیمہ، بچوں کی تعلیم، شادی اور ان کے مستقبل کا بیمہ، گھر کا بیمہ اور کار کا بیمہ کروا رکھا ہے۔ انھیں دیکھ کر ہمیں رشک آتا ہے کہ کتنی بے فکر زندگی گزارتے ہوں گے۔ خود انشورڈ، بیوی بچے انشورڈ، گھر انشورڈ، کار انشورڈ یعنی کہ مستقبل انشورڈ! آرام کی نیند سوتے ہوں گے۔ ایک دن ہم نے موصوف سے ان کے تئیں اپنی حسد کا اظہار کیا۔ ’آپ خوش قسمت انسان ہیں۔ کوئی فکر نہیں۔ کوئی پریشانی نہیں۔ آرام سے زندگی بسر ہوتی ہے !‘
موصوف نے ٹھنڈی سانس لے کر جواب دیا۔ ’آپ کو میری پریشانی کا اندازہ نہیں ہے۔ ہر وقت مختلف پالیسیوں کی اقساط ادا کرنے فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اقساط ادا کرنے کے لیے قرض تک لینا پڑتا ہے۔ دفتر میں مقروض ہوں۔ یہ سب بیمہ ایجنٹس کے طفیل ہوا ہے۔
بیمہ ایجنٹس کو اتنا بھگتا ہے کہ اب انھیں بھگانے کا منتر معلوم ہو گیا ہے۔ جب بھی کوئی بیمہ ایجنٹ ملنے آتا ہے تو میں ان سے خندہ پیشانی سے پیش آتا ہوں۔ ان کی بکواس سنتا ہوں اور پالیسی لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہوں۔ خوش ہو کر وہ فارم نکالتے اور سوالات کرنے لگتے ہیں۔ ’کیا آپ کو کوئی بیماری ہے ؟‘ میں جواب میں ایک خطرناک بیماری کا نام لیتا ہوں۔ بیمہ ایجنٹ ہمدردی کا اظہار کر کے فارم اندر رکھ لیتے ہیں۔ ‘
٭ ٭ ٭
سعودی عرب نمبر ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ اکٹوبر 1992
سوزِ محبت
کہتے ہیں محبت زندگی ہے اور زندگی محبت ہے۔ محبت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ محبت کے دم ہی سے دنیا کی رونق ہے۔ زمین کو سورج کی محبت گردش میں رکھتی ہے۔ چاند زمین کی چاہت میں گرفتار ہے۔ پیسے کی محبت سے دنیا کے کاروبار انجام پاتے ہیں۔ آپسی محبت ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے۔ غرض کائنات کے عناصر میں محبت شامل ہے۔
محبت کے کئی روپ ہیں اور ہر روپ ایک دوسرے سے مختلف! ماں کی ممتا، بیوی اور محبوبہ سے عشق، اولاد سے پیار، خاندان کی چاہت، مذہب سے لگاؤ اور ان سب سے بڑھ کر زر، زن اور زمین سے محبت۔ مختلف اقسام کی محبت میں مخالف جنس سے محبت عام ہے۔ اس قسم کی محبت نرالی، انوکھی اور دلچسپ ہوتی ہے۔
ہر کوئی محبت کے جذبہ سے سرشار نہیں ہوتا۔ چند مخصوص لوگ ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کوئی ان سے عشق کرے اور وہ کسی سے وفا کریں۔ کوئی انھیں اپنائے اور وہ کسی کے ہو جائیں۔ کوئی ان سے دل کے لین دین کا کاروبار کرے۔ ان لوگوں کو دل والے یا دل پھینک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
دل والے ہر دو جنس میں پائے جاتے ہیں۔ اپنا دل ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں کہ کوئی آئے اور دل سے دل لگائے۔ جب دو دل آپس میں ٹکراتے ہیں تو ’میری نظر میں ان کا چہرہ‘ اور ’ان کے دل میری صورت‘ والی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
کہتے ہیں محبت ہو جاتی ہے، کی نہیں جاتی۔ ہم نے بارہا چاہا کہ ہمیں کسی سے محبت ہو جائے اور ہم محبت کر کے شادی کریں۔ بہت کوشش کی لیکن کسی سے آنکھ نہ لڑ سکی اور نہ ہی ہم جان سکے کہ محبت کیا بلا ہے۔ ہم نے ایک مریض عشق سے پوچھا۔ ’محبت کیا ہوتی ہے ؟‘
جواب ملا۔
محبت کو سمجھنا ہے تو ناداں خود محبت کر
کنارے سے کبھی اندازہ طوفاں نہیں ہوتا
محبت کرنے کے لیے ہم نے مدد چاہی۔ ’یار کوئی طریقہ بتاؤ کہ ہمیں کسی سے پیار ہو جائے۔ ‘
پہلی ہدایت ملی۔ ’لڑکیوں کا قرب حاصل کر۔ ‘
ہم لڑکیوں کے قریب ہوئے۔ دوسری ہدایت دی گئی کہ لڑکیوں میں سے کسی ایک کو پسند کرو۔ ہم نے سوال کیا۔ ’کیسے ؟‘
’کیسے کیا۔ ‘ جواب میں کہا گیا۔ ’کسی کا چہرہ تمھیں پسند آئے گا۔ کسی کی سیرت اچھی لگے گی۔ کسی کی آواز تمھیں لے ڈوبے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی لڑکی ہی تمھیں پسند کر لے !‘
دوسرے مشورے کی روشنی میں ہم نے کسی کو چاہنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ مریض عشق نے ہماری ناکامی پر تبصرہ فرمایا۔ ’تمھارے پہلو میں دل نہیں پتھر ہے۔ ‘
ہم محبت کرنے میں ناکام ہوئے۔ والدین نے ہماری شادی کر دی تو ہمیں بیگم سے محبت ہو گئی۔ ساتھ رہنے اور بسنے کا نام ہی شاید محبت ہے۔
یوں ہی خالی پیلی ہو جانے والی محبت کے واقعات ہم نے کتابوں میں پڑھے یا لوگوں سے سنے ہیں۔ ایک مجرد بزرگ کے تعلق سے یہ واقعہ مشہور ہے کہ وہ مہر جان کے عشق میں مبتلا ہیں۔ جوانی میں مہرجان کا گانا سنا تھا۔ اسے دیکھا نہیں تھا۔ صرف آواز سن کر انھیں مہرجان سے محبت ہو گئی۔ لاکھ کوشش کی کہ مہرجان کے دل پر اپنی مہر محبت ثبت کریں لیکن ناکام رہے۔
اچانک ہو جانے والی محبت کے برخلاف ہم نے ’کی جانے والی محبت‘ بارہا دیکھی ہے۔ نوجوان محبت کو کھیل اور تماشے کی طرح کھیلتے ہیں اور فی زمانہ نوجوانوں کا یہ پسندیدہ کھیل ہے۔ یوں بھی نوجوان اگر جوانی کے دور کو سنہری الفاظ میں نہ لکھیں تو بڑھاپے میں جوانی دیوانی کو کیسے یاد کریں گے ! جوانی کی یادیں بڑھاپے کے لیے فکسڈ ڈپازٹ ہوتی ہیں۔
چند دن قبل ماضی کو یاد کرتے ہوئے ایک بزرگ نے ہم سے کہا۔ ’ہماری جوانی، تم لوگوں کی جوانی سے کئی گنا بہتر تھی۔ ہمارے وقت کا جوان آج کے دس جوانوں پر بھاری تھا۔ ‘
ہم نے حساب کر کے جواب دیا۔ ’جی۔ آپ بجا فرماتے ہیں۔ ماضی اور حال میں آبادی کا تناسب یہی ہے۔ ‘
محبت منظم پلان کے تحت کی جاتی ہے۔ عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی لیکن نوجوانی ہر لحاظ سے محبت کے لیے سازگار عمر ہے۔ کہتے ہیں کہ اس عمر میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ نوجوان کرتے بھی یہی ہیں، بزرگوں کی نصیحتوں کو پھونک پھونک کر راستے سے ہٹاتے اور قدم بڑھاتے ہیں۔ محفلیں، تقاریب، اسکول، کالج، بس اسٹاپ، جلسے اور میلے وہ مقامات ہیں جہاں محبت کی ابتدا کی جاتی ہے۔ دل پہلو میں لیے دلبر کی تلاش ہوتی ہے کہ دل آپ کا، دل میں جو کچھ سو وہ بھی آپ کا!
تہذیب نو کو دل پھینک فرہادوں سے خطرہ ہے۔ بعض وقت محبت کی چھیڑ چھاڑ کسی بڑے جھگڑے یا فساد کا باعث بھی بن جاتی ہے۔
تلاش کے دوران دل والوں کی نظریں آپس میں ٹکراتی ہیں تو پہلی نظر کی محبت کا بیچ بویا جاتا ہے۔ محبت میں پہلی نظر کی اہمیت ہوتی ہے۔ دوسری، تیسری یا بار بار نظریں ملانے سے حقائق عیاں ہونے لگتے ہیں۔
دل والے جب ایک دوسرے کو پہلی نظر سے دیکھتے ہیں تو آنکھیں لڑتی اور چار ہوتی ہیں۔ آنکھوں کی لڑائی مختلف عرصہ تک جاری رہتی ہے۔ بعض مرتبہ آنکھوں آنکھوں میں سلسلہ ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ آنکھوں کے ذریعہ محبت نظر تک پہنچتی ہے۔ ایک دوسرے کی نظر میں سماتے ہیں۔ نظر میں اترتے ہیں اور پھر نظر میں جچ جاتے ہیں۔ نظر سے پینے پلانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ آنکھوں میں خمار اتر آتا ہے۔ پلکیں جھکتی ہیں اور آنکھوں آنکھوں میں باتیں کی جاتی ہیں۔ لب تھر تھراتے ہیں اور ’آئی لو یو‘ کہا اور سنا جاتا ہے۔
محبت اور مشک چھپائے نہیں چھپتے، محبت عیاں ہونے لگتی ہے تو دل والے دنیا والوں سے محتاط ہو جاتے ہیں۔
محبت آنکھوں اور لب کشائی سے آگے بڑھ کر دل تک پہنچتی ہے۔ ایک دوسرے پر دل آ جاتا ہے۔ ایک دوجے کے دل میں گھر کرتے ہیں۔ دل لگی اور دل کی لگی ایک دوسرے کو دل آرا، دل آرام، دل دار، دل دارم، دل ربا، دل بر اور دل ربا بناتی ہے۔ دل تک پہنچنے کے بعد محبت وہیں مستقل ڈیرہ جما لیتی ہے۔ اب دل والے اپنی محبت کے لیے دوسروں کے دل میں راہیں ہموار کرنے لگتے ہیں۔
معلوم نہیں کیوں زمانہ اہل دل کے خلاف ہوتا ہے۔ ہر دور میں جہاں دو دلوں نے محبت کی، زمانے نے ان سے نفرت کی ابتدا کی۔ دل والے زمانے کی نظروں میں کھٹکنے لگتے ہیں اور طویل جد و جہد کے بعد محبت انجام کار کو پہنچتی ہے۔
دل والے جدا کر دئیے جاتے ہیں۔ کبھی خود ہی علاحدہ ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی نظر سے دور ہوتے ہیں تو دل سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں آنسو بہاتی ہیں۔ آنکھوں میں راتیں کٹتی ہیں۔ دل جلنے لگتا ہے۔ کسی پل قرار نہیں ملتا۔ دل کے ٹکرے ہو جاتے ہیں۔ بعض مرتبہ ایسا وقت بھی آتا ہے جب آنکھیں پتھرا جاتی ہیں اور دل دھڑکنا بند کر دیتا ہے۔ لیکن اکثر ایسا صرف افسانوں اور ناولوں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔
محبت میں جسم کے دو اعضا آنکھیں اور دل اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ان کی حرکات وسکنات پر عقل روک لگانے کی کوشش کرتی ہے لیکن عقل کی بات سنی ہی نہیں جاتی! تب بے چاری عقل آنکھ اور دل کی تباہی پر ماتم کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے۔
محبت میں صرف آنکھ اور دل ہی کی حالت غیر نہیں ہوتی، عاشق کا پورا حلیہ بگڑ جاتا ہے۔ اہل دل سرتاپا مجسم محبت اور پیکر عشق بن جاتے ہیں اور کمی بیشی دوست احباب پوری کر دیتے ہیں۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
محبت کا مارا تنہائی چاہتا ہے۔ بیٹھے رہے تصور جاناں کئے ہوئے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ عشاق بھری محفل میں بھی تنہا ہوتے ہیں۔ آس پاس سے بیگانے اور بے خبر۔ اٹھتے بیٹھتے محبت کا دم بھرتے رہتے ہیں۔ بھوک مٹ جاتی ہے۔ نیند اڑ جاتی ہے۔ اختر شماری ہوتی ہے۔ جاگتے ہوئے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
فنون لطیفہ سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ موسیقی پر سر دھنتے ہیں۔ شاعری سمجھ میں آتی ہے۔ بیٹھے بیٹھے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ مسکرانا اور خوش ہونا بھول جاتے ہیں۔ کہتے ہیں آنسو محبت کی پہلی نشانی ہے۔ زبان کو چپ لگ جاتی ہے۔ زندگی حقیر اور بے معنی لگتی ہے۔ جینے کے بجائے مرنے کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔
محبت کا اظہار کریں یا محبت خود ظاہر ہو جاتی ہے ؟ محبت کرنے والوں کے لیے یہ ایک ملین ڈالر انعامی سوال ہے۔ محبت کے اظہار کو غیر ضروری جاننے والوں کا خیال ہے کہ محبت کی فطرت نہیں کہ وہ چھپی رہے۔ خود ظاہر ہو جاتی ہے۔ یوں بھی جذبوں کو الفاظ کا پیراہن دینا مشکل ہے۔ اس خیال کے حامی ایک دوست خاموش محبت کرتے رہے۔ انھیں امید تھی کہ محبت خود عیاں ہو جائے گی اور ان کا محبوب کچے دھاگے سے بندھا چلا آئے گا لیکن موصوف کی محبوبہ خاموش محبت کے قائل عاشق کو احمق اور گاودی سمجھ کر کسی اور کی ہو گئی۔
دوسرے زمرے کے عاشق سمجھتے ہیں کہ محبت کا اظہار جرأت مندی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔ ‘
بچپن، محبت اور دیوانگی کے دوران لوگ عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں جو عقل کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ بے تکی باتیں کرنے والوں کی فہرست میں اب سیاست دانوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ کہیں گے۔ ’ آسمان سے تارے توڑ کر مانگ میں سجادوں گا۔ میری جان انتظار کرنا، حوصلہ رکھنا۔ محبت کی خاطر میں زمانے سے ٹکرا جاؤں گا۔ اگر ہمارا ملن اس دھرتی پر نہ ہوا تو ہم شفق کے اس پار بادلوں کی اوٹ میں ملیں گے۔ وصل کی خوشی میں چاند ستار بجائے گا، تارے رقص کریں گے اور جگنو روشنی پھیلائیں گے۔ کل شام اگر بارش نہ ہوئی تو میں تم سے ملنے آؤں گا۔ ‘
اس قسم کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ ’میری زندگی پر صرف تمھارا حق ہے۔ دل میں تمھارا خیال ہے۔ دماغ میں تمھاری سوچ ہے۔ لب پر تمھارا نام ہے۔ آنکھوں میں تمھاری شبیہ ہے۔ میری ہر سانس تمھارے لیے ہے اور میرے قدم صرف اور صرف تمھاری طرف اٹھتے ہیں۔ میں کمرے کی چاردیواری میں قید کر دی گئی ہوں تو کیا، میری روح تمھارے پاس ہے، اسے سنبھال کر رکھنا۔ ‘
محبت اور شاعری میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔ کہتے ہیں کہ عشق کے بغیر شاعری کرنا جھک مارنے کے مترادف ہے۔ محبت کرنے والے ہر حال میں شاعری کرتے ہیں۔ ناکام محبت سے اچھے نتائج نکلتے ہیں۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ جس نے عشق نہیں کیا وہ پوری غزل تو کیا ایک شعر بھی نہیں سمجھ سکتا، شعر کہنا تو دور ہے۔ ہم ایک استاد شاعر کو جانتے ہیں جو شاگرد بنانے سے قبل سوال کرتے ہیں۔ ’کتنی مرتبہ محبت کی ہے ؟‘
جواب سن کر موصوف صرف ایک ناکام محبت پر شاندار مستقبل کی پیش قیاسی کرتے ہیں۔ دوسری بار محبت میں مبتلا ہونے والے کو مزاحیہ شعر کہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ تین یا تین سے زائد مرتبہ محبت میں گرفتار شخص کو شاعری سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ پاگل اچھی شاعری نہیں کر سکتے !
محبت کے پنپنے کے لیے چارہ ساز کا ہونا ضروری ہے۔ چارہ ساز کے بغیر محبت کا پودا مرجھا جاتا ہے۔ ہم عمر دوست جو خود مرض عشق میں مبتلا نہ ہو، کامیاب چارہ ساز ثابت ہوتا ہے۔ چند برس پہلے، محبت کے مارے ایک دوست کے لیے ہم چارہ ساز کا کردار نبھا چکے ہیں۔ بے تکے سوالوں کے جوابات دیتے، شکوک و شبہات دور کرتے، لو لیٹرز لکھتے، تسلی دیتے، آنسو پونچھتے، ہمت بندھاتے اور دوست کی محبت کی خاطر لڑکی والوں سے دو ایک مرتبہ پٹے بھی تھے۔
بعض مرتبہ چارہ ساز خود دام محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ نازک سچویشن ہوتی ہے۔ راز دار رقیب بن جاتا ہے۔ رقیب کی موجودگی سے محبت کا نشہ دو آتشہ ہوتا ہے۔ اگر کسی عاشق کو چارہ ساز نہ ملے تو مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ وہ اردو شاعری سے رجوع ہو سکتا ہے۔ اردو شاعری چارہ سازی کے فن میں یکتا ہے۔ ہم اگر نمونے کے طور پر بھی اشعار پیش کرنا چاہیں تو کئی سو صفحات درکار ہوں گے۔
کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ جنگ میں فتح اور محبت میں محبوب کو حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔ شاعری کرنا تو معمولی بات ہے۔ سماج کے طعنے اور تشنیع سنتے ہیں۔ دانت اور ہڈیاں تڑواتے ہیں۔ پہاڑ کھود کر نہر نکالتے ہیں۔ صحرا نوردی کرتے ہیں۔ دریا میں چھلانگ لگاتے ہیں اور جب یہ سب نہیں کر سکتے تو شادی کر لیتے ہیں۔
محبت ہمہ وقتی مشغلہ ہے۔ محبت میں آدمی کسی قابل نہیں رہتا بلکہ ہمارے ایک دوست کے مطابق وہ آدمی ہی نہیں رہتا۔ عاشق نہ اپنے کام کا رہتا ہے اور نہ ہی ان کے کام کا جس سے اسے الفت ہوتی ہے۔ اسی لیے شاید عاشق ناکام شوہر ثابت ہوتے ہیں۔
عاشق دو کام بڑی رغبت سے انجام دیتا ہے۔ ایک تو محبوب کو سامنے بٹھا کر گھورتے رہنا یا اس سے بے تکی باتیں کرنا۔ دوسرے محبوب کے غیاب میں اس سے محبت کا دم بھرنا یا محبوب کی یاد میں تڑپنا اور آہیں بھرنا۔ ان دو کام میں الجھے محبت کے مارے شخص کو اپنی خبر نہیں رہتی۔ حلیہ بگڑ جاتا اور پہچان مشکل ہوتی ہے۔ اس وضع اور قماش کے لوگ بھلا کیا کام آ سکتے ہیں، سوائے اس کے کہ بچے تالیاں بجاتے پیچھے پڑیں اور کتے ان پر بلاوجہ بھونکیں۔
میدان محبت میں معرکے بھی انجام دئیے گئے ہیں۔ اس میدان کے بھی سورما ہیں جن کے نام محبت کرنے والے عقیدت اور احترام سے لیتے ہیں۔ لیلا مجنوں، شیریں فرہاد، رومیو جولیٹ، ہیر رانجھا، سوہنی مہیوال، مرزا صاحبان، سسی پنوں، سلیم انارکلی، ان کے معاشقوں کو پڑھنے اور سننے سے عاشقوں میں نئی توانائی پیدا ہوتی ہے اور اندھی محبت کو گہری کھائی کا راستہ دکھائی دیتا ہے۔
محبت کے تمام مشہور قصّے ماضی سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالیہ دور کا کوئی ایسا واقعہ مشہور نہیں ہوا۔ معلوم نہیں کیوں ؟ ہو سکتا ہے کہ زمانے نے محبت کی مخالفت کرنا بند کر دی ہے !
شمع و پروانہ اور گل و بلبل کی اٹوٹ چاہت دل والوں کے ارادوں کو مضبوط کرتی ہے۔ محبت نے زمانے کو نشانیاں بھی دی ہے۔ عاشقوں نے محبت میں بڑی شاندار اور خوب صورت عمارتیں بنوائی ہیں۔ تاج محل ایسی ہی ایک نشانی ہے۔ محبت کرنے والے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تاج محل کی زیارت کرنے سے کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔
محبت کی آگ دونوں طرف برابر لگی ہونی چاہیے۔ عاشق اور معشوق دونوں ہی مبتلائے عشق ہوں تو محبت خوب رنگ جماتی ہے۔ یک طرفہ محبت میں کوئی دم نہیں ہوتا۔ یک طرفہ محبت خاموشی سے کی جاتی ہے اور بہت جلد اس کا بھوت اتر بھی جاتا ہے۔ فلمی ستاروں سے یک طرفہ محبت عام ہے۔ یک طرفہ محبت شاذونادر ہی خطرناک صورت اختیار کرتی ہے۔
ٹی وی اور فلمیں محبت کو پروان چڑھاتی ہیں۔ فلمیں دیکھ کر محبت کے لیے دل مچلتے ہیں۔ عشق کی ابتدا ہیروئن سے ہوتی ہے اور انجام کلاس فیلو یا محلہ کی لڑکی پر ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے مغل اعظم دیکھ کر عشق شروع کیا تھا۔ موصوف کے والد ان کی انارکلی کو دیوار میں چنوا نہ سکے لیکن ہمارے دوست کو کمرے میں بند کر کے بھوکا رکھا تو عشق کا بھوت اتر گیا لیکن شاعری کا چسکاپڑ گیا۔
جوانی کی محبت کا چلن تو تھا ہی فلموں کی بدولت بچپن کی محبت عام ہوئی ہے۔ بچے چڈی سنبھالتے، انگوٹھا چوستے اور کھلونوں سے کھیلتے ہوئے تتلا کر ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ جنم جنم ساتھ رہنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ معصوموں میں جذبہ رقابت بھی پروان چڑھنے لگتا ہے۔ ایک بار ہمارے چھ سالہ لڑکے نے شکایت کی۔ ’ڈیڈی۔ آپ راشد کے ابو سے کٹی کر لیں۔ ‘
ہم نے سبب دریافت کیا تو جواب ملا۔ ’اس لیے کہ راشد میری پنکی سے دوستی کر رہا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ پنکی کسی دوسرے کے ساتھ کھیلے۔ ‘
محبت کا حاصل جدائی، تنہائی، ہجر، فراق، یاس، آنسو، غم، مایوسی اور شاعری ہوا کرتے تھے لیکن دور حاضر میں
راس اب آئے گی اشکوں کی نہ آہوں کی فضا
آج کا پیار نئی آب و ہوا مانگے ہے
آج محبت کرنے والے وصل چاہتے ہیں۔ ویسے بھی اس مرض کا آزمودہ تیر بہدف علاج وصل یعنی شادی ہی ہے۔ شادی کے بعد جب محبت روزمرہ میں ڈھل کر روٹی، کپڑا اور مکان بن جاتی ہے تو عاشقوں کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔
٭ ٭ ٭
ماہنامہ افکار، کراچی۔ مارچ 1991ء
سوال نامہ
انسان کو مختلف سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانی زندگی مختلف سوالات کے جواب دینے یا انھیں حل کرنے میں گزر جاتی ہے۔ ہر لمحہ کوئی نہ کوئی سوال درپیش رہتا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی سوال ہوتا ہے۔ ’لڑکا ہے یا لڑکی؟‘
اس سوال سے سوالوں کی ابتدا ہوتی ہے تو انتہا زندگی ختم ہونے کے بعد منکر نکیر کے سوالات سے ہوتی ہے !
یہ سوالات ہی تو ہیں جو زندگی اور موت کے بعد کی زندگی کے حالات کا رخ موڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک سوال نے میٹرک کے بعد ہمیں سائنس کے بجائے آرٹس میں داخلہ لینے پر مجبور کیا تھا۔ سوال تھا۔ ’آکسیجن زندگی کے لیے اہم کیوں ہے ؟‘
ایک اور سوال نے ملازمت کے انٹرویو میں ہمیں نا اہل قرار دیا تھا۔ ہم سے دریائے نیل کی لمبائی پوچھی گئی تھی جس کا ہمیں علم نہ تھا۔ ایک اور سوال نے ہمیں اپنی محبوبہ سے شادی کرنے سے محروم رکھا۔ ہم اپنی کلاس فیلو کے عشق میں گرفتار تھے۔ وہ بھی پڑھتی تھی اور ہم بھی پڑھتے تھے۔ ہمارا رشتہ پہنچنے پر لڑکی کے والد نے سوال کیا تھا۔ ’لڑکا کیا کرتا ہے ؟‘
’کچھ نہیں ! ابھی تو پڑھائی کر رہا ہے۔ ‘ جواب میں بتایا گیا۔
’تو پہلے پڑھائی مکمل کر کے نوکری کرے اور پھر شادی کا سوال کرنے آئے۔ ‘ لڑکی کے والد کے اس مشورہ پر عمل کر کے جب ہم شادی کا سوال کرنے لڑکی کے گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ہماری کلاس فیلو اپنے بیٹے کو اسکول میں داخل کرانے گئی ہے۔
سوالات دوسروں سے کئے جاتے ہیں۔ اپنی نا اہلی، بے خبری اور نا واقفیت چھپانے کا یہ بہت موثر طریقہ ہے۔ سوال کرنے والے اپنی نادانی سے خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ جواب دینے والے کا بھرم کھلتا ہے۔ جواب دینے والے صحیح اور مناسب جوابات کی تلاش اور جستجو میں پریشان رہتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ زیادہ سوال کرنے والے زیادہ خوش رہتے ہیں۔ بچوں کی مثال دی جا سکتی ہے بچے زیادہ سوالات کرنے کی عادت کے سبب خوش رہتے ہیں۔
بعض اوقات سوالات کر کے دوسروں کو پریشان کرنے اور خود خوش رہنے والے حضرات اپنے دام میں آپ گرفتار ہو جاتے ہیں۔ سوال کرنے کی عادت سے مجبور ہو کر وہ خود سے مختلف سوال کرنے لگتے ہیں۔
خود سے کئے جانے والے سوالات خطرناک ہوتے ہیں۔ ان سے دن کا چین اور رات کی نیند اڑ جاتی ہے۔ ’میں کون ہوں ؟ کیا ہوں ؟ کیوں ہوں ؟‘ انسان جب ایسے سوالات اپنے آپ سے کرتا ہے تو اس کے وجود میں ایک ہیجان سا بپا ہوتا ہے جو اس وقت ختم ہوتا ہے جب اپنے آپ سے سوال کرنے والا شخص پاگل قرار پاتا ہے یا پھر اسے فلسفی مان کر لوگ اس سے سوالات کرنا شروع کرتے ہیں۔
ہمارے محلہ میں ایک شخص رہتا ہے جس کے پیچھے بچے اور کتے پڑے رہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ یہ شخص چند سال قبل جینیس (genius) تھا۔ بہت قابل اور پڑھا لکھا بھی تھا۔ عام معلومات میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ لوگوں سے مختلف سوالات کر کے بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیتا تھا۔ پھر ہوا یوں کہ ایک دن یہ شخص دوسروں سے سوالات کرنے کے بجائے خود اپنے آپ سے سوالات پوچھنے لگا۔ تب سے لوگوں کی جان چھوٹی اور وہ گم سم اور اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے۔
سوالات بے معنی بھی ہوتے ہوتے ہیں۔ بے معنی سوالات بے ضرر ہوتے ہیں۔ یہ سوالات اکثر جذبات کی رو میں بہہ کر کئے جاتے ہیں۔ محبوب اور محبوبہ کے ایک دوسرے سے کئے جانے والے سوالات اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ تم مجھ سے کتنی محبت کرتی ہو؟ کیا تم میرے لیے آسمان کے تارے توڑ کر لا سکتے ہو؟ آپ میری محبت میں گریبان چاک کر کے سڑکوں پر دوڑتے کیوں نہیں ؟ کیا تم میری خاطر جان دے سکتی ہو؟
عام حالات میں ایسے سوالات سن کر سوال کرنے والے کی دماغی صحت پر شک ہوتا ہے لیکن مخصوص موقعوں پر یہ بے معنی سوالات اہم بن جاتے ہیں اور ان کے عجیب و غریب جوابات ملنے پر عہدو پیماں ہوتے ہیں۔ ساتھ جینے اور مرنے کے وعدے کئے جاتے ہیں۔ ان سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر دل ٹوٹ سکتے ہیں !
بے معنی سوالات بچے بھی کرتے ہیں۔ ڈیڈی میں کہاں سے آئی؟ آپ ایسے کیوں ہیں ؟ سورج دن کے اجالے میں کیوں نکلتا ہے ؟ اسے رات میں نکلنا چاہیے۔ ڈیڈی آپ ممی سے کیوں ڈرتے ہیں ؟
بچے ایک دو سوال کر کے چپ نہیں ہو جاتے ! سوال پر سوال کر کے پریشان کرتے ہیں۔ ہم ایک دوست کے گھر گئے تو ان کے لڑکے نے سوال کیا۔ ’انکل آپ کیوں آئے ہیں ؟‘
ہم نے جواب دیا۔ ’آپ سے ملنے۔ ‘
لڑکے نے پھر سوال کیا۔ ’ آپ کیوں ملنے آئے ہیں ؟‘
اس بے معنی سوال کا بے تکا جواب ہم نے یوں دیا۔ ’چائے پینے کے لیے۔ ‘
اس پر لڑکے نے پوچھا۔ ’آپ چائے کیوں پیتے ہیں ؟‘
’بیٹا طلب ستاتی ہے۔ بہت پرانی عادت ہے۔ ‘ ہم نے پیچھا چھڑانے کے لیے جواب دیا۔
لیکن لڑکے نے ہمارا پیچھا چھوڑنے کے بجائے پھر سوال کیا۔ ’انکل یہ طلب کیا ہے ؟‘
’میں کل بتاؤں گا۔ ‘ ہم نے اپنے دوست اور ان کے لڑکے سے اجازت چاہنے ہی میں اپنی خیریت جانی۔
بچوں کے سوالات بے معنی نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سوالات بہت مشکل ہوتے ہیں۔ ان کا جواب دینا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا! ہمارے لڑکے نے ہم سے پوچھا۔ ’بابا کار کیسے چلتی ہے ؟‘
ہم نے چھوٹے بچے کو کار کے میکانزم کے بارے میں سمجھا کر پریشان کرنے کے بجائے ’مجھے نہیں معلوم‘ کہنا بہتر سمجھا۔ ہمارا جواب سن کر لڑکے نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ ’لیکن مجھے معلوم ہے کہ کار کیسے چلتی ہے۔ ‘
ہم نے ہار مان لی تو اس نے بتایا۔ ’کار چابی سے چلتی ہے !‘
سوالات قابلیت کا امتحان ہوتے ہیں۔ یہ سوالوں کی عام قسم ہے۔ طالب علموں کے لیے ایسے سوالات وبال جان ہوتے ہیں۔ قابلیت جانچنے کے لیے کئے جانے والے سوالات کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ سب سے عام اور قدیم قسم طویل سوالات کی ہے۔ یہ ایک طریقے سے آزاد سوال ہوتے ہیں جس میں جواب دینے کے لیے کوئی بندش یا رکاوٹ نہیں ہوتی۔ جواب میں کئی صفحے کالے کئے جا سکتے ہیں۔ ممتحن جواب پڑھ کر نہیں جواب کی طوالت سے گھبرا کر نشانات دیتا ہے۔ چند سوالات پیش خدمت ہے۔ اکبر اعظم کے دور حکومت کے بارے میں لکھو؟ ملیریا کے تعلق سے جو کچھ معلوم ہو بتاؤ؟ حیاتیات اور نباتیات میں فرق تحریر کرو؟
چھوٹے سوالوں میں جواب دینے والے کی آزادی کو محدود کر دیا جاتا ہے۔ جواب دینے والا، زیادہ آئیں بائیں شائیں نہیں کر سکتا، اسے مطلب کا جواب دینا پڑتا ہے۔ نمونے کے سوال ہیں۔ اکبر اعظم کے دین الٰہی کے بارے میں دس سطر لکھو؟ ملیریا پیدا کرنے والے جرثومہ کا نام اور خاندان بتاؤ؟ حیاتیات اور نباتیات کے درمیان تین اہم فرق کون سے ہیں ؟
آج جو سوالات کا فیشن ہے، ان میں جواب دینے والے کی اہمیت کو گھٹا دیا گیا ہے۔ اسے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا کہ اس سے طویل یا مختصر سوالات کئے جائیں۔ اسے نادان سمجھ کر اس کی عقل کا امتحان لیا جاتا ہے۔ ہر سوال کے ساتھ صحیح اور غلط جوابات دئیے جاتے ہیں۔ کبھی تین تو کبھی پانچ۔ سوال حل کرنے والے کو صحیح جواب منتخب کرنا ہوتا ہے یا پھر صحیح جوابوں میں سے سب سے زیادہ صحیح جواب کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ خالی جگہوں کو پر کرنا بھی لیاقت جانچنے کا ایک طریقہ ہے۔ سوال صحیح ہے یا غلط بتانا دوسرا طریقہ ہے۔
ایسے سوالات بھی ہوتے ہیں جن میں سوال سے زیادہ سوال کرنے والے کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ سوال کیا ہے۔ سوالی اور سوال کرنے کے انداز کو دیکھا جاتا ہے۔ سوالی کو دیکھ کر سوال سمجھ میں آ جاتا ہے کہ ہاتھ میں کشکول ہے یا دل! بعض اوقات ہاتھ پھیلے اور لب خاموش ہوتے ہیں۔ حلیہ بھی ایک جیسا ہوتا ہے۔ بال بکھرے اور کپڑے پھٹے ہوئے اور چہرہ گرد آلود۔ سمجھ میں نہیں آتا اللہ کے نام پر ہاتھ پھیلا ہوا ہے یا معشوق کے لیے بانہیں کھلی ہیں۔
بعض سوالات میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ ایک سوال سے کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ اس قسم کے سوالوں کو ’ام السوال‘ کہا جا سکتا ہے۔ ایسے سوالات عموماً پولس تفتیش کے دوران کرتی ہے یا وکلا جرح کرتے وقت گواہ کو پریشان کرنے کے لیے ! ان سوالوں کا مقصد حقیقت اگلوانا نہیں ہوتا بلکہ اپنے مطلب کا بیان حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایسے سوالوں کے جوابات دینے سے پہلے سچ بولنے کی قسم بھی دلائی جاتی ہے یا جھوٹ بولنے کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان سوالوں کے جوابوں میں بھی لوگ سچ کے علاوہ سب کچھ بولتے ہیں۔
’ام السوال‘ سے ہمیں خوف آتا ہے۔ احتیاط اور سوچ سمجھ کر جواب دینا پڑتا ہے۔ زبان کی معمولی لغزش نقصان پہنچاسکتی ہے۔ اس پر بھی غور کرنا ضروری ہوتا ہے کہ سوالی کی نیت کیا ہے۔ وہ اس قسم کا سوال کیوں کر رہا ہے اور وہ سوال کے جواب میں کیا چاہتا ہے۔ اس قسم کے تفتیشی سوالوں کو دو ایک مرتبہ بھگتنے کے بعد ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ سوال کرنے والے کو بھی حلف اٹھانا چاہیے کہ وہ صرف سچے سوال کرے گا۔
بعض سوال ایسے ہوتے ہیں جن کے جواب میں خاموشی بہتر ہوتی ہے۔ بیوی کا تقریباً ہر سوال ایسا ہی ہوتا ہے۔ ’آپ رات دیر سے کیوں آئے ؟‘
آپ سچ بولنے سے رہے کہ میں دوستوں کے ساتھ تاش کھیل رہا تھا۔ اسی لیے خاموشی بہتر ہوتی ہے۔ اصرار کرنے پر ایسے سوالات کا گول مول جواب دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بعض سوالوں کے جواب میں خاموشی اقرار جرم سمجھی جاتی ہے تو کچھ سوالوں میں خاموشی کو مثبت جواب مانا جاتا ہے۔
بعض سوالات ایسے ہوتے ہیں جن کے جوابات ضروری نہیں ہوتے ! سوال کرنے والا خود یہ چھوٹ دیتا ہے۔ قوسین میں لکھ دیا جاتا ہے کہ مناسب نہ سمجھیں تو جواب نہ دیجیے۔ دوسری صورت میں جواب دینے والا کہتا بلکہ دعوی کرتا ہے۔ ’میں اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔ ‘ (سوال کرنے والا میرا کچھ نہیں بگاڑسکتا!)
جواب دینا ضروری نہیں سمجھے جانے والے سوالات اکثر انٹرویو کے دوران کئے جاتے ہیں۔ جب سوالی جو چاہے پوچھ سکتا ہے تو جواب دینے والوں کو سوال منتخب کرنے کی آزادی ملنی ہی چاہیے۔
سوال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے جواب ہاں یا نہیں میں دینا پڑتا ہے۔ ماتحتوں سے کئے جانے والے سوالوں کا تعلق اس زمرے سے ہوتا ہے۔ ان سوالوں کا جواب انگریزی میں دینا زیادہ لطف دیتا ہے۔ یس سر اور نوسر کی گردان ہوتی ہے۔ جواب دیتے وقت ضروری بھی نہیں ہوتا کہ زبان کو تکلیف دی جائے، گردن ہلا کر ہاں یا نا کا اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ گردن کے اشارے سے جواب دینے میں ہر دو کا فائدہ رہتا ہے۔ سوال کرنے والا اپنے مطلب کا جواب سمجھتا ہے اور جواب دینے والا اپنے انداز سے مطمئن رہتا ہے جو کبھی خوش فہمی تو کبھی غلط فہمی میں مبتلا کر سکتا ہے۔
بعض سوال ایسے ہوتے ہیں جن کے جواب خود سوال ہوتے ہیں۔ ایسے سوال در سوال قسم کے سوالات فلسفی، منطقی اور مقررین کرتے ہیں۔ بحث اور مباحثہ کے دوران ایسے ہی سوالات اور سوال نما جوابات کی بوچھار ہوتی ہے۔ نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ کئی گھنٹوں کے سوالات اور جوابی سوالات کے بعد پتا چلتا ہے کہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ سوال در سوال کرنا ایک فن ہے۔ کوئی ماہر ہی اس قسم کا جواب دے سکتا ہے۔ یہی ایک مقام ہے جہاں سوالی سے زیادہ جواب دینے والے کی اہمیت ہوتی ہے اور جیت بھی جواب دینے والے کی ہوتی ہے۔
بعض سوالات ایسے ہوتے ہیں جن کے جوابات ابھی تک معلوم یا دریافت نہ ہو سکے ! صدیوں سے لوگ سر جوڑے ان سوالوں کی کھوج میں جٹے ہوئے ہیں۔ چند سوال پیش ہیں، آپ بھی کوشش کیجیے۔ علم پہلے کہ عقل؟ مرغی سے انڈا یا انڈے سے مرغی؟ الف سے پہلے اوری کے بعد؟
سوالات جہاں چاہیں، جب چاہیں اور جتنے چاہیں کئے جا سکتے ہیں لیکن بعض مقامات سوالات کرنے کے لیے مختص کر لیے گئے ہیں۔ امتحان ہال، عدالت، کانفرنس روم، انٹرویو، پولس کا کنفیشن روم وغیرہ۔ سوالات کے لیے تاریخ اور وقت مقرر رہتا ہے اور وقفہ کے دوران تازہ دم ہونے کا سامان بھی موجود ہوتا ہے۔ ایسی جگہوں پر لوگ سوالات کرنے اور سوالات کے جوابات دینے کے لیے تیاری سے آتے ہیں۔ سیر تو سوا سیر والا معاملہ اور سخت مقابلہ رہتا ہے۔
سوالوں کی اقسام کی طرح سوال کرنے کے مقاصد بھی مختلف ہوتے ہیں۔ سوالات قابلیت کا امتحان ہوتے ہیں۔ معلومات حاصل کرنے کے لیے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ ذہین بنانے اور ذہانت ابھارنے کی نیت سے بھی سوالوں کا سامنا کیا جاتا ہے۔ تحقیق اور تفتیش کی خاطر بھی سوالات داغے جاتے ہیں۔ سوالات کر کے کسی کو ستایا اور پریشان بھی کیا جاتا ہے۔ کبھی سوال برائے سوال بھی ہوتا ہے۔ انسان اپنے تجسس اور حیرت کا اظہار بھی مختلف سوالات کے ذریعہ کرتا ہے۔
کب، کیوں، کہاں، کون، کیسے اور کیا۔ یہ چھ الفاظ تقریباً ہر سوال میں نہ صرف شامل ہوتے ہیں بلکہ اپنے آپ میں خود بھی مکمل سوال ہیں۔ ان سوالی الفاظ کے بغیر بھی سوالات ہوتے ہیں لیکن ان سوالوں کی وہ ڈھاک نہیں پڑتی جو ان الفاظ کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ سوالی الفاظ حرف ’کاف‘ سے شروع ہوتے ہیں۔ کاف کی شکل بھی سوالیہ نشان سے ملتی ہے۔ ؟ کو ایک سو بیس ڈگری بائیں جانب گھمایا جائے اور اس کی گولائی کو تھوڑا سا سیدھا کیا جائے تو سوالیہ نشان ’ک‘ کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ ہمیں حرف کاف سے ڈر لگتا ہے۔ سوالات کے اندیشے سے کاف کو دیکھتے یا سنتے ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ کاف کا تلفظ غور فرمائیے۔ کس طرح روکھا، سوکھا اور کھڑا تلفظ ہے۔
سوالات کے تعلق سے ہم اپنی تحریر ایک سوال سے ہی ختم کرنا چاہیں گے۔ ’کیا آپ کو ہمارا مضمون ’سوال نامہ‘ پسند آیا؟‘
٭ ٭ ٭
ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ا گسٹ 1988ء
انگلش میڈیم اسکول
آبادی میں روز افزوں اضافہ سے جہاں کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں وہیں اشیا کی زیادہ کھپت سے چند صنعتوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ آبادی میں اضافے سے تدریس کی گھریلو صنعت کو بڑھاوا ملا لیکن یہ ترقی صرف انگلش میڈیم کے حصّہ میں آئی ہے۔ دوسری زبانوں بالخصوص اردو کی تدریسی گھریلو صنعت پر سکوت اور جمود طاری ہے جیسا کہ اکثر دیسی گھریلو صنعتوں کا حال ہے۔
انگلش میڈیم اسکول میں اپنے بچوں کو پڑھانا ایک فیشن بن گیا ہے۔ ایک جنون اور ایک خبط سا ہو گیا ہے۔ انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ کو ترقی اور خوشحالی کی کلید سمجھا جاتا ہے۔ انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم دلانے کے جنون کا فائدہ انگریز صدیوں سے اٹھاتے چلے آ رہے ہیں اور اب ہمارے اپنے انگریز نما بھائی بندو بھی اس تجارت میں شامل ہو گئے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ شہر میں قدم قدم پر انگلش میڈیم اسکول ملیں گے۔ ہر محلہ میں کرانہ، گوشت، ترکاری، چائے اور پان کی دکان کے ساتھ ایک انگلش میڈیم اسکول ضرور ملے گا۔
ہم اپنے ایک دوست کا تعارف آپ سے کرواتے ہیں جو ایک انگلش میڈیم اسکول کے بانی اور مالک ہیں۔ موصوف نے بی اے کی ڈگری کو جتنے مضامین تھے اتنی اقساط میں حاصل کی۔ نوکری کی تلاش اور خلیجی ممالک جانے کا چکر عرصہ دراز تک چلتا رہا۔ مایوس ہو کر شادی کی اور بچے پیدا کئے۔ اور پھر بیوی بچوں اور بے روزگاری سے تنگ آ کر ایک انگلش میڈیم اسکول قائم کرنے کی ٹھانی۔ اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں تختی نما بورڈ، دو عدد قلم، چار ورقی رجسٹر اور اپنے ہی چھ بچوں سے ایک انگلش میڈیم اسکول شروع کیا جس کے وہ پرنسپال اور ان کی بیوی وائس پرنسپال ہو گئیں۔ آبادی میں سیلاب کے ساتھ اس اسکول کے طالب علموں کی تعداد چھ سات سو تک پہنچ چکی ہے اور خاندان کے سبھی افراد اس اسکول میں ملازم ہیں۔
ایک جملہ معترضہ آپ کے گوش گزارتے ہیں کہ آج جب کوئی کچھ نہیں کر پاتا تو وہ اسکول ٹیچر بن جاتا ہے۔
انگلش میڈیم اسکول میں پانچ سال مکمل ہونے پر آسانی سے داخلہ نہیں دیا جاتا بلکہ بچے کو اسکول میں شریک کرنے کے لیے بڑے چونچلے ہوتے ہیں۔ ماں باپ کا انٹرویو نما امتحان لیا جاتا اور بچہ کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے لڑکے کے داخلہ کے لیے ایک نامور انگلش میڈیم اسکول گئے تو ہمارا اور ہماری بیوی کا انٹرویو لیا گیا۔ پہلا سوال ہم سے ہماری تعلیم اور آمدنی کے بارے میں پوچھا گیا۔ ہم نے جواب میں سچ بیانی سے کام لیا۔ ’اردو رائٹر ہیں۔ قرض لے کر اسکول کی فیس اور ڈونیشن دے سکتے ہیں۔ ‘
دو چار غیر اہم سوالوں کے بعد ہم سے ہندوستان کے آخری انگریز گورنر کا نام دریافت کیا گیا تو ہم نے یک زبان ہو کر جواب دیا۔ ’لارڈ ماونٹ بیٹن۔ ‘
جواب سن کر ہم سے لارڈ صاحب اور ہماری بیوی سے لیڈی صاحبہ کی تاریخ پیدائش بتانے کے لیے کہا گیا۔ ہم دونوں لاجواب ہوئے اور ہمارا انٹرویو ختم ہوا۔
ایک ہفتہ بعد اطلاع دی گئی کہ ہمارا لڑکا اسکول میں داخلہ پانے کا اہل نہیں ہے۔ ہم نے اپنے ایک دوست کو یہ واقعہ سنایا تو انھوں نے کہا۔ ’آج کل اچھے اسکول میں داخلہ ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ میرے پہلے لڑکے کو ایک انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ مل چکا ہے۔ دوسرے کے لیے ہم نے دو چار مرتبہ انٹرویو دیا ہے لیکن کہیں بات جمی نہیں ہے۔ ‘
ہم نے حیرت سے پوچھا۔ ’تمھارا دوسرا لڑکا ہے کہاں ؟‘
انھوں نے فضا میں مستقبل کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔ ’اسکول میں داخلے کی طمانیت ملے تو لڑکا پیدا کروں۔ ‘
انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ جماعت اول میں نہیں دیا جاتا۔ بچوں کو پہلی جماعت سے قبل جونئر اور سینئر نرسری، لور اور اپر کندر گارٹن کلاسس سے گزارا جاتا ہے۔ ان جماعتوں میں بچوں کو پڑھایا کم اور بہلایا، کھلایا، رلایا اور سلایا زیادہ جاتا ہے۔ بچے خود سوتے کم اور ٹیچر کو سلاتے زیادہ ہیں۔ ایک ٹیچر کی نیند بچوں کے شور سے خراب ہوئی جو اس بات پر الجھ پڑے تھے کہ مس نے اب تک تھرٹین خراٹے لیے ہیں کہ فورٹین!
انگلش میڈیم اسکول ایک منفعت بخش صنعت ہے۔ اس کا اندازہ آپ کو انگلش میڈیم اسکول کی فیس جان کر ہو جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست اپنے اکلوتے لڑکے کی فیس میں اپنی پوری تنخواہ دے دیتے ہیں اور گزربسر ’اوپر کی آمدنی‘ سے کرتے ہیں۔
ایک خوبی انگلش میڈیم اسکول کی یہ بھی ہے کہ انھیں وقتاً فوقتاً ڈونیشن اور فنڈس کی ضرورت ہوتی ہے۔ چندہ مختلف نام سے وصول کیا جاتا ہے جیسے بلڈنگ فنڈ، فرنیچر کے لیے چندہ، لائبریری ڈونیشن وغیرہ۔
فیس اور ڈونیشن کے علاوہ انگلش میڈیم اسکول کی آمدنی کے دوسرے ذرائع بھی ہیں۔ یونیفارم، کتابیں، لنچ اور کینٹین سے بھی اسکول فائدہ اٹھاتا ہے۔ انگلش میڈیم اسکول اور یونیفارم لازم و ملزوم ہیں۔ بعض یونیفارم پر فینسی ڈریس کا شبہ ہوتا ہے تو بعض پر بیانڈ پارٹی کا گمان گزرتا ہے۔ یونیفارم ایسے رنگ اور کپڑے کے ہوتے ہیں جو بازار میں کہیں دستیاب نہیں ہوتے، انھیں اسکول ہی سے خریدنا پڑتا ہے۔ کتابوں اور نوٹ بکس کا بھی یہی حال ہے۔ ہر انگلش میڈیم اسکول کی کتابیں مختلف ہوتی ہیں جو صرف اسی اسکول کے اسٹور سے منہ مانگے دام ادا کر کے حاصل کی جاتی ہیں۔ بعض انگلش میڈیم اسکول مقوی اور ذہانت تیز کرنے والا لنچ فراہم کر کے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔
ہونا تو چاہیے کہ انگلش میڈیم اسکول کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہو لیکن ان اسکولوں میں انگریزی زبان مادری زبان کی مدد سے سکھائی جاتی ہے۔ کلاس میں مس کے داخل ہونے پر طالب علم کھڑے ہو کر گڈ مارننگ کا نعرہ بلند کرتے ہیں چاہے وہ دن کا کوئی پہر ہو، ہمیشہ مارننگ GOODہی رہتی ہے۔
ٹیچر صاحبہ بچوں کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود بھی کرسی پر براجمان ہو کر کہتی ہیں۔ ’بچو۔ BOOKS کھولو اور پہلا LESSON پڑھو! A فار APPLE، B فار BAT، C فار CAT، D فار DOG، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘
بچے حتی الامکان حلق پھاڑ کر دہراتے ہیں۔ کچھ دیر بعد ایک طالب علم، علم کی پیاس بجھا کر پوچھتا ہے۔ ’ٹیچر WATER پی کر آؤں ؟‘
ہاتھ کے اشارے کے ساتھ مختصر جواب دیا جاتا ہے۔ ’GO‘
چند لمحوں بعد دوسرا لڑکا ایک ہاتھ سے نیکر سنبھالے اور دوسرے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’مس زور سے آ رہا ہے۔ ‘
اسے جواب ملتا ہے۔ ’WATER والے کو آنے دو پھر YOU GO‘
اے فار APPLE، بی فار BAT، سی فار CAT، ڈی فار DOG۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والا وظیفہ ایک عرصہ تک رٹایا جاتا ہے۔ نتیجتاً تعلیم میں اتنی پختگی آتی ہے کہ بچہ ایمان لے آتا ہے کہ Aسے صرف APPLE، Bسے صرف BAT، Cسے صرف CAT، Dسے صرف DOGہی ہوتا ہے۔ بچہ کے دماغ پر یہ بھی نقش ہو جاتا ہے کہ انگریزی زبان یہی A TO Zہے۔ اس بات کا اندازہ آپ کو اس واقعہ سے ہو گا۔ ایک دوست نے ہماری جانب اشارہ کر کے اپنے لڑکے سے پوچھا۔ ’بیٹا، یہ کون ہیں ؟‘
لڑکے نے جواب دیا۔ ’یہ UNCLE ہیں۔ ‘
ہم نے لڑکے سے کہا۔ ’بیٹا، ڈیڈی کے سبھی دوست تمھارے انکل ہیں۔ ہمارا نام بتاؤ تو ہم تمھیں مانیں۔ ‘
لڑکا ذہن پر زور دینے لگا تو ہم نے اس کی مدد کرنے کے لیے اتا پتا دیا۔ ’ہمارا نام M سے شروع ہوتا ہے۔ ‘
لڑکا فوراً کہہ اٹھا۔ ’M فار MONKEY، منکی آپ کا نام ہے !‘
انگلش میڈیم اسکول میں زیر تعلیم بچے پہلے انگریزی کو مادری زبان کی مدد سے سیکھتے ہیں۔ ہم نے ایک طالب علم کو انگریزی الفاظ کے معنی ہجے کر کے سیکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس نے SELFISH کے ہجے SELL اور FISH کر کے ’سیل فش‘ کا مطلب مچھلی بیچنے والا بتایا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس طرح مادری زبان کی مدد سے سیکھی ہوئی انگلش میں طالب علم دوسرے مضامین پڑھتا اور سمجھتا ہے۔
بچے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے ہوئے والدہ ماجدہ کو اماں یا امی اور والد محترم کو ابو یا بابا کہنا پسند نہیں کرتے۔ بچے انھیں PAPPA، DADDY یا MUMMY یا ان کا اختصار POP، DAD یا MOMکہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ سلام یا آداب عرض کرنے کے بجائے ہلتے ہلاتے اور ہائے ہائے کرتے ہیں۔ خ،ق اور غ کو صحیح ادا کرنے سے جھجکتے ہیں۔
بچے نہ انگریزی زبان میں بات کرتے ہیں اور نہ ہی مادری زبان میں، بلکہ ان دو زبانوں کی آمیزش سے ایک نئی دوغلی اور مخلوط زبان کو جنم دیتے ہیں۔ ہم نے ایک لڑکی کو کہتے سنا۔ ’الارے پکنک میں بہت ENJOYMENTہوا۔ سلائس بریڈ اور کچی املی کی چٹنی کے سینڈوچ WAS SO TASTY کہ پوچھ مت۔ اب تک منہ WATERING کرتا ہے۔ ‘
انگلش میڈیم اسکول میں زیر تعلیم بچوں کے پاس مادری زبان کی کوئی وقعت نہیں رہتی، انھیں مادری زبان بہت مشکل نظر آتی ہے۔ ایک لڑکے نے اپنے دوست سے کہا۔ ’باس گھر میں مام اور ڈاڈ بہت HIGH URDU بولتے ہیں، مجھے تو کچھ UNDERSTAND ہی نہیں ہوتا۔ ‘
دوست نے سوال کیا۔ ’THAN BUDDY گھر پر WHAT YOU DO ؟‘
لڑکے نے فخریہ جواب دیا۔ ’I JUST IGNORE THEM ‘
انگلش میڈیم اسکول میں پڑھنے والے بچے کبڈی، لٹو یا گلی ڈنڈا کھیلنا نہیں چاہتے۔ گلی کوچوں میں کرکٹ کھیلتے ہیں۔ سمنٹ کی سڑکوں پر اسکیٹنگ کرتے ہیں۔ بانسری کو منہ لگانے کے بجائے الکٹرک گٹار بجانا پسند کرتے ہیں۔ نت نئے فیشن اپناتے ہیں۔ لڑکے بالیاں پہنتے اور چٹیا ڈالتے ہیں تو لڑکیاں پینٹ شرٹ پہنتی اور بال ترشواتی ہیں۔ اس طرح مرد وزن کے فرق کو کم سے کم کرتے ہوئے دونوں کو ایک ذات میں ضم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی مادری زبان یقیناً کوئی دیسی زبان ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں کی مادری زبان اردو بھی ہے۔ بقول شخصے مادری زبان ماں کو آتی ہے اولاد کو نہیں۔ لیکن آج اردو زبان ماں کو بھی کہاں آتی ہے !
والدین اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم دلوانا قابل فخر کارنامہ سمجھتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماں باپ مہمانوں کے سامنے بچوں سے ’ون ٹو ہنڈرڈ‘ گنتی کرنے، ٹیبل پڑھنے یا کم از کم پوئم سنانے کے لیے ضرور کہتے ہیں۔ بچہ پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ آنکھیں بند کئے، مٹھیوں کو بھینچے اور گردن کی رگوں کو پھلائے BABA BLACK SHEEP کا راگ الاپنے لگتا ہے۔ اگر اتفاق سے بچہ کہیں بیچ میں رک گیا تو اسے پیچھے لوٹ کر پھر سے ’بابا‘ ادمت ہے۔ اکبر آہلے بوکے ساتھ آگے بڑھنا پڑتا ہے۔
ہم نے بعض ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جنھیں مادری زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں آتی، لیکن ان کے بچے بھی انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم پاتے ہیں۔ ایک ایسے ہی گھر کے چشم و چراغ نے ابو کی آمد پر کہا۔ ’MUMMY OFFICE CAME FROM FATHER‘ اور فادر نے خوش ہو کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ممی سے کہا۔ ’اے جی سنتی ہو! ماشاء اللہ ہمارا نور چشم انگریزی میں بات کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔ دیکھنا اب ہمارا بیٹا کلکٹر یا ڈاکٹر بنے گا۔
انگلش میڈیم اسکول اور اس کے طالب علموں کی شان میں ہم اور بھی خامہ فرسائیاں کرتے لیکن ہمیں ڈر ہے کہیں ہم پر قدامت پسندی کا لیبل چسپاں نہ ہو جائے۔ اسی لیے ہم اپنا مضمون FINISH بلکہ ٹائیں ٹائیں فش کرتے ہیں۔
٭ ٭ ٭
ماہنامہ سب رس، کراچی۔ فروری 1987ء
بارے کرکٹ کا کچھ بیان ہو جائے
ہم ہندوستانیوں کی زندگی میں دو موسم جشن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انتخابات کی گرمی اور کرکٹ کی بہار! انتخابات سے جمہوریت کی بقا ہے اور کرکٹ ہمارا قومی نشہ ہے۔
کہتے ہیں سولھویں صدی میں کرکٹ کی ابتدا ہوئی۔ انگلستان کے امرا نے اس کھیل کی بنیاد ڈالی۔ ابتدا میں تین وکٹوں کی جگہ ایک وکٹ ہوتی تھی۔ گیند اور بلا بھی آج کی شکل جیسے نہ تھے۔ انگریز کرکٹ کو اپنے ساتھ ہندوستان لائے اور چائے کی عادت کی طرح ہمیں کرکٹ کا دیوانہ بنا کر وطن واپس ہوئے۔
ہمیں کرکٹ کے ارتقا کے اس نظریے سے اختلاف ہے۔ قیاس اغلب ہے کہ کرکٹ ہمارے ملک کا کھیل ہے۔ کئی صدیوں سے کرکٹ گلی ڈنڈے کی شکل میں ہماری گلیوں میں کھیلا جاتا ہے۔ انگریز ہندوستان سے خام مال گلی ڈنڈا لے گئے اور اسے ترقی دے کر تیار مال کی صورت میں کرکٹ ہمیں لوٹا دیا۔ اس بات سے انکار اس لیے ممکن نہیں ہے کہ برسوں انگریزوں کی یہی حکمت عملی رہی ہے۔
کرکٹ ناز نخروں کا کھیل ہے۔ کرکٹ کھیلنے کے لیے ہلکی دھوپ چاہیے۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا نہ ہو۔ کم روشنی میں کھلاڑیوں کو گیند نظر نہیں آتی۔ ہلکی دھوپ کے ساتھ سردی اتنی ہو کہ مخصوص ’کرکٹی سوئٹر‘ پہن کر برداشت کی جا سکے۔ سخت گرمی میں کرکٹ کھیلا نہیں جاتا تو بارش بلکہ بوندا باندی شروع ہوتے ہی کھلاڑی میدان چھوڑ دیتے ہیں۔
کشتی لڑنے کے لیے دنگل کی تیاری کی طرح کرکٹ کھیلنے کے لیے بڑے اہتمام سے پچ بنائی جاتی ہے۔ پچ مختلف اقسام کی ہوتی ہے۔ بولروں کی مدد کے لیے تیز یا آہستہ اور بیٹسمین کا ساتھ دینے کے لیے مردہ پچ تیار کی جاتی ہے۔ دھوپ اور بارش سے پچ کو بچانے کے لیے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ موسم بھی پچ پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا پچ سے اٹھکھیلیاں کرتی ہے اور گیند اچھال دیتی ہے۔ پچ کے اطراف میدان میں ہری بھری گھاس درکار ہوتی ہے تاکہ کھلاڑی کھیل کے دوران جان بوجھ کر گر سکیں اور فاضل وقت میں لوٹ بھی سکیں۔
کرکٹ دن تمام کھیلا جاتا ہے۔ اہتمام کے ساتھ وقفہ وقفہ سے لنچ، ٹی اور ڈرنکس لینا ضروری ہوتا ہے۔ گیند کی مار سے محفوظ رہنے کے لیے کھلاڑیوں کی پیڈنگ ہوتی ہے۔ سفید کپڑوں اور مخصوص سفید جوتوں کا استعمال ہوتا ہے۔ ہرا میدان، سفید کپڑے اور لال گیند سے کرکٹ کی تصویریں اچھی آتی ہیں۔
کرکٹ کا کھیل دو ٹیموں کے درمیان ہوتا ہے۔ ہر ٹیم میں بارہ کھلاڑی ہوتے ہیں۔ گیارہ کھلاڑی کھیلتے ہیں جبکہ بارہویں کھلاڑی کے ذمہ گیارہ کھلاڑیوں کی خدمت اور تیمار داری ہوتی ہے۔
کھیل کے دوران ڈسپلین کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک کھلاڑی گیند پھینکتا ہے۔ مخالف ٹیم کا ایک ہی کھلاڑی اس گیند کو کھیلتا ہے۔ گیند کے پیچھے ایک کھلاڑی لپکتا ہے۔ دوسرا کھلاڑی اس کھلاڑی کا پیچھا کرتا ہے کہ پہلے کھلاڑی سے گیند چھوٹنے کی صورت میں وہ گیند کو پکڑ سکے۔ میدان میں اور بھی کھلاڑی موجود رہتے ہیں جو اپنی جگہ کمر پر ہاتھ رکھے با ادب کھڑے ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں کرکٹ کھیل کم اور ڈسپلین زنانہ لگتا ہے۔ کرکٹ کی بہ نسبت ہاکی، فٹ بال، والی بال، باسکٹ بال جارح کھیل ہیں۔ ایک گولے کے پیچھے سبھی کھلاڑی گرتے، پڑتے، دوڑتے اور آپس میں لڑتے ہیں۔
کرکٹ طویل کھیل ہے۔ شاید ہی کوئی دوسرا کھیل اتنے دن کھیلا جاتا ہے۔ کھیل کی طوالت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی ٹسٹ کا فیصلہ ایک ہفتہ میں ہو نہیں پاتا اور فیصلہ ہونے تک اگر کھیلا جائے تو شاید دو، تین ہفتے لگ جائیں ! طوالت کے باعث بے صبر لوگوں کو کرکٹ کا کھیل پسند نہیں آتا۔ طوالت سے بے زار ہو کر خود کرکٹ کے عاشقوں نے ون ڈے اور لمیٹیڈ اوورس نامی مختصر کرکٹ ایجاد کر لی ہے۔
طوالت کے سبب ہی بعض اصحاب کو کرکٹ سے عشق ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں۔ ’کرکٹ کھیلوں کا بادشاہ ہے۔ ہاکی، فٹ بال یا ٹینس بھی کوئی کھیل ہے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ میں فیصلہ ہو جاتا ہے۔ غم روزگار سے صرف چند منٹ کی فرصت حاصل ہوتی ہے۔ کرکٹ کھیلتے رہو، بس کھیلتے رہو۔ منٹ سے گھنٹے اور گھنٹوں سے کئی دن اور کئی دن کے تین، چار، پانچ یا چھ ٹسٹ۔ مہینوں دنیا سے بے خبر ہو کر کرکٹ میں گم ہو جاؤ! ‘
کرکٹ وقت اور پیسہ برباد کرنے والا کھیل ہے۔ کھلاڑیوں کا نہیں، کھلاڑیوں کا تو کرکٹ پیشہ ہے۔ وہ پیسے کے لیے کرکٹ کھیلتے ہیں جبکہ کرکٹ دیکھنے والوں کا وقت خراب اور پیسہ برباد ہوتا ہے۔ انھیں کئی کئی دن مصروف رکھتا ہے کرکٹ کے موسم میں شائقین کسی قابل نہیں رہتے۔ کرکٹ شروع ہونے سے پہلے وہ کھا پی کر تیار ٹی وی کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور کھیل دیکھنے کے دوران کسی قسم کی مداخلت پسند نہیں فرماتے۔ لنچ کے وقت لنچ، ٹی ٹائم پر چائے اور ڈرنکس کے وقت ٹھنڈا مشروب پیتے ہیں۔ شام ہونے تک کھلاڑیوں سے زیادہ شائقین تھک جاتے ہیں۔
کرکٹ ریکارڈ بنانے اور ریکارڈ توڑنے کا دوسرا نام ہے۔ کھیل کے حساب کتاب رکھنے کے لیے کئی جید عالم کمپیوٹر کی مدد سے اسکور اور ریکارڈس لکھتے رہتے ہیں۔ پرانا کھاتا ساتھ ہوتا ہے۔ کھلاڑیوں کی عمر، رنوں کا حساب، زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم اسکور، سنچریوں کی تعداد، وکٹ کی قیمت، اور نہ جانے کیا کچھ الم غلم ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ نیا ریکارڈ قائم ہونے کے ساتھ کرکٹ کی تاریخ کے سہارے تمام تفصیلات منظر عام پر لائی جاتی ہیں۔ ٹوٹا ہوا ریکارڈ کیا تھا۔ کب بنا تھا اور کس نے قائم کیا تھا۔
متمول لوگ لوازمات کے ساتھ میدانوں میں کرکٹ کھیلتے ہیں تو غربا گلی کوچوں میں کرکٹ کا رنگ جماتے ہیں۔ دیوار پر تین لکیریں کھینچ کر وکٹ بنائی جاتی ہے۔ وکٹ سے ایک گز کے فاصلے پر تین چار انچ چوڑی لکڑی لئے چڈی سنبھالتے بیٹسمین کھڑا ہوتا ہے۔ بیٹسمین سے دس گز دور دوسرا لڑکا اپنی چپل چھوڑے جو وکٹ کا کام انجام دیتی ہے، بولنگ کرتا ہے۔ بولنگ کے لیے اینٹ، کنکر، سے لے کر ربر، کارک اور کرکٹ کی گیند استعمال ہوتی ہے۔ فیلڈرس ٹریفک میں گڈ مڈ رہتے ہیں۔ گلی کوچوں میں کرکٹ سے کبھی ٹریفک رک جاتی ہے تو کبھی ٹریفک سے کرکٹ رک جاتا ہے۔ راہ گیر کو چوٹ بھی لگتی ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے گیند کی مار کھا کر احتجاج کیا تھا۔ ’کرکٹ بھی کیا ٹریفک میں کھیلا جاتا ہے ؟‘
ایک کھلاڑی نے ہمیں سمجھایا۔ ’جناب والا، کرکٹ ٹریفک ہی کا کھیل ہے۔ اس میں گلی (GULLY) ہے۔ اسکوائر لیگ (SQUARE LEG) نامی چوراہا ہے۔ کور پوائنٹ (COVER POINT) نام کا مقام ہے۔ کھلاڑی ڈرائیو (DRIVE) کرتے ہیں۔ وکٹ کے درمیان دوڑتے ہیں اور سلپ (SLIP) پر آوٹ ہوتے ہیں۔ ایکسیڈنٹ سے کھلاڑی زخمی ہوتے ہیں۔ ‘
اب آپ ہی بتائیے ہم اس کھلاڑی کو کیا جواب دیتے !
کرکٹ کھلاڑی آسانی سے پہچانے جاتے ہیں۔ سفید کپڑے زیب تن کئے رہتے ہیں۔ بولر اپنی انگلیوں کو بولنگ کرنے کے انداز میں نچاتے رہتے ہیں۔ بیٹسمین دونوں مٹھیاں بند کئے، ہوا میں اسٹروکس لگاتے ہیں۔ فیلڈر اپنی چال سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے وہ گیند لپکنے کے لیے دوڑ رہا ہے۔ کھلاڑی وقتاً فوقتاً ’امپائر‘ اور ’ہاوز دیٹ‘ کے نعرے بلند کرتے رہتے ہیں۔
کھلاڑیوں کے علاوہ کرکٹ سے والہانہ محبت کرنے والوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے زمرے کے لوگ کرکٹ دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں۔ کرکٹ دیکھنے کی تیاری زور شور سے کی جاتی ہے۔ ٹکٹ خریدا جاتا ہے۔ سفید کپڑوں اور مخصوص ٹوپی کا انتظام ہوتا ہے۔ دوربین حاصل کی جاتی ہے۔ کرکٹ پر رسائل اور کتابیں اکٹھا کئے جاتے ہیں۔ جیبی ٹرانسسٹر خریدا جاتا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں اور کھیل کے دنوں میں کرکٹ کے دیوانے شان کے ساتھ ٹوپی لگائے، بستر، توشہ دان اور رسائل ایک بغل میں دبائے تو دوسرے بغل میں دوربین، ٹرانسسٹر اور چائے کافی کا تھرماس لٹکائے خوش و خرم اسٹیڈیم جاتے ہیں۔
منچلے شائقین گندے انڈے، سڑے میوے اور ترکاریاں، پٹاخے اور مختلف باجے ساتھ رکھتے ہیں۔ اسٹیڈیم پہنچ کر جگہ منتخب کر کے ڈیرہ جما دیا جاتا ہے۔ کھیل سے بیزار ہوئے تو رسائل سے شوق فرمایا۔ تھک گئے تو بستر پر لیٹ گئے۔ خوش ہوئے تو پٹاخے چھوڑے اور باجہ بجایا۔ شرارت سوجھی تو گندے انڈوں اور میوؤں، ترکاریوں اور چپلوں کو چہار طرف پھینکنے لگے !
شام میں دن بھر کرکٹ دیکھ کر جب گھر واپس آتے ہیں تو تھکے ہارے، ننگے سر، ٹوپی غائب، بال پریشان، چہرے اور کپڑوں پر گندے انڈوں اور میوؤں کے نشان موجود رہتے ہیں۔ ان کے اثاثہ میں سے چند چیزیں غائب رہتی ہیں مگر وائے دلچسپی، کھیل پر تبصرہ جاری رہتا ہے۔
دوسرے زمرے کے لوگ ریڈیو پر کرکٹ سننا یا ٹی وی پر کرکٹ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ کھیل کے دوران جس کسی کو دیکھیے اپنا کان ریڈیو میں گھسائے یا پھر آنکھیں ٹی وی پر ٹکائے نظر آتا ہے۔ کھیل کے دوران ریڈیو یا ٹی وی کے پاس اچھلتے، کودتے، ہنستے، خوش ہوتے اور نعرے لگاتے ہیں۔ کبھی اداس بھی ہو جاتے ہیں۔ عجیب و غریب صورت حال رہتی ہے۔
ایک مرتبہ ہم دفتر سے تھکے ماندے رات دیر گئے گھر پہنچے۔ بھوک زوروں پر تھی۔ ہم نے دروازے سے ہانک لگائی۔ ’بیگم کھانا دیجیے، بھوک سے مرا جا رہا ہوں۔ ‘
بیگم نے پیار سے جواب دیا۔ ’آج ہم کھانا باہر کھائیں گے۔ ‘
’وہ کیوں ؟‘
سوال کے جواب میں بیگم بتانے لگیں۔ ’آج دلچسپ کھیل ہوا۔ میں ٹی وی دیکھتی رہی اور بلی گوشت کھا گئی اور برتن توڑ ڈالے۔ مشکل سے ہم یہ میچ جیت سکے۔ ایک وقت تو میں سمجھی کہ ہم ہار گئے لیکن واہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوب کھیل ہوا۔ جیت کی خوشی میں ہم کھانا باہر کھائیں گے۔ ‘
ہمیں غصّہ آنے لگا اور ہم انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی سوچ رہے تھے کہ بیگم خفا ہونے لگیں۔ ’آپ میں اسپورٹسمین اسپرٹ ہے ہی نہیں۔ ایک وقت کھانا نہ ملنے پر اتنا ہنگامہ!‘
ہم اپنا سا منہ اور بھوکا پیٹ لے کر چپ ہو گئے۔
کرکٹ کے شائقین کا تیسرا گروپ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کرکٹ کا جوا کھیلتے اور کھلاتے ہیں۔ میچ فکس کرتے اور کھلاڑیوں کو خریدتے ہیں۔ اس زمرے کے بارے اس سے زیادہ ہمیں معلوم نہیں ہے اور اس سے زیادہ کچھ کہنا مشکلات میں مبتلا بھی کر سکتا ہے۔ احتیاط کا تقاضہ ہے کہ خاموش رہا جائے۔
کرکٹ اور کامنٹری میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔ اکثر حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ کامنٹری یعنی کرکٹ کا آنکھوں دیکھا حال بھی کھیل کا حصّہ ہے۔ کامنٹری دینے کے لیے سابقہ کھلاڑیوں کی ایک ٹیم ہوتی ہے۔ جس کا بھی ایک کپتان ہوتا ہے۔ میدان میں گیند اور بلے سے کرکٹ کھیلتے ہیں تو کامنٹری دینے والے خیالات اور زبان سے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر کھلاڑی ایسے بیٹنگ نہ کرتا تو آوٹ ہونے سے بچ جاتا تھا۔ بولر، اگر بولنگ یوں کرتا تو فلاں کو آسانی سے آوٹ کر سکتا تھا۔ بوریت خیالات کے اظہار تک محدود نہیں ہوتی۔ بعض مرتبہ کامنٹیٹر حضرات بحث و مباحثہ میں الجھ جاتے ہیں یا پھر اپنی بڑائی ہانکنے لگتے ہیں۔ اس بوریت کا اجر دینے کے لیے کامنٹری کے دوران دلچسپ اشتہارات سے دل بہلایا جاتا ہے۔
کامنٹری سمجھنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ کرکٹ کے گول میدان کے مختلف حصوں کے الگ الگ نام ہوتے ہیں بیٹسمین کی ادا، بولنگ کے طریقے، گیند اچھلنے کا انداز اور ٹپہ کھانے کے مقامات کے نام اور امپائر کے اشاروں کے مختلف مفہوم ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے ادب کا بغور مطالعہ ضروری ہے۔ ایل بی ڈبلیو کا مفہوم، نو بال کے معنی اور لیگ بائی کے بارے میں معلومات درکار ہیں۔ بصورت دیگر کامنٹری بقول ہماری دادی ماں ’کرکٹ کی بکواس‘ بن جاتی ہے۔
کرکٹ زدہ لوگ گفتگو بھی’ کرکٹی زبان‘ میں کرتے ہیں۔ جسے دیکھیے کرکٹ کی چند اصطلاحیں استعمال کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ ایک مریض نے ڈاکٹر سے کہا۔ ’ڈاکٹر صاحب کیا بتاؤں۔ سر میں درد ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ سر کے اندر کوئی بیٹنگ کر رہا ہے۔ اسکوائر ڈرائیو اور ہک کر کے پریشان کر رہا ہے۔ ‘
ڈاکٹر نے بھی اسی رنگ میں جواب دیا۔ ’کوئی بات نہیں۔ میں تین گولیاں پھینک کر درد کو آوٹ کر دوں گا۔ ‘
مزاحیہ شاعری کرکٹ سے متاثر نظر آتی ہے۔ شاعر ’چوا‘ عرض کرتا ہے۔ ’چھکا‘ لگاتا ہے۔ آہستہ اسکورنگ کے روپ میں اکتا دینے والی غزل پیش کرتا ہے۔ جدیدیت کے نام پر مصرعہ ثانی کو مصرعہ اولی پر ’اوور تھرو‘ کیا جاتا ہے۔ شعر کا وزن ’اسپن‘ہوتا ہے۔ اور تو اور چند شعرا کا کلام ’سیلف آوٹ‘قسم کا ہوتا ہے۔ کرکٹ، شاعر اور سامعین میں ایک دوسرا رشتہ بھی ہے جو اس شعر میں واضح ہے۔
لوگ پھینکے گندے انڈے، کیچ شاعر نے کیا
شعر کی محفل میں کرکٹ کا مزہ سا آ گیا
قصّہ مختصر، کرکٹ کے موسم میں ایک عجیب سی بے کار مصروفیت اور ہماہمی رہتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی وکٹوں کے درمیان پچ پر ٹھہر سی گئی ہے۔
٭ ٭ ٭
ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ فروری 1982
خوشیوں کی آواز، قہقہہ
آپ نے کئی مرتبہ قہقہہ لگایا ہو گا۔ ہم نے بھی بارہا قہقہہ مارا ہے۔ اگر قہقہہ کی تعریف پوچھی جائے تو شاید مزید ایک قہقہہ بلند ہو گا کہ قہقہہ کو کیوں کر بیان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک شاعر نے قہقہہ کی تعریف یوں کی ہے۔
قہقہہ خوشیوں کا آواز میں ڈھل جانا ہے
ہمارے نزدیک ’قہقہہ خوشیوں کی آواز‘ کے علاوہ اور بھی باتیں اپنے دامن میں سمیٹ رکھتا ہے۔ آئیے اس مضمون کے ذریعہ آپ کے اور ہمارے لگائے ہوئے قہقہہ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔
قہقہہ کی تاریخ انسان کی تاریخ ہے۔ قہقہہ انسان جتنا ہی قدیم ہے۔ قدیم انسان کو صرف دو زبانیں آتی تھیں۔ ایک ہنسنا اور دوسرا رونا۔ اس وقت کا انسان آج کی طرح لسانی جھگڑوں میں الجھتا نہ تھا۔ آج ہمارے پاس کئی زبانیں ہیں تو یہ دو قدیم زبانیں دور جہالت کی زبانیں قرار دی جاتی ہیں۔ آج کا ترقی یافتہ انسان خوشی اور غم کا اظہار مختلف علامتوں کا سہارا لے کر کرتا ہے۔
خوشی کے وقت مٹھائی اور کارڈ تقسیم کرتا ہے۔ گنگناتا اور موسیقی کو اونچی آواز میں بجاتا ہے اور موسیقی کی لے پر تھرکتا ہے۔ رونے کے بجائے سیاہ رنگ کا سہارا لے کر غم کی تشہیر کرتا ہے اور دو منٹ خاموش رہ کر اور تعزیتی جلسے منعقد کر کے اپنے غم کا اظہار کرتا ہے۔ آج کے دور میں بہت کم لوگ جی بھر کر روتے اور دل کھول کر قہقہہ لگاتے نظر آتے ہیں۔ اپنے غم اور خوشی کا برملا اظہار کرنے والوں کو لوگ حیرت اور تعجب سے دیکھتے ہیں۔
قہقہہ خوشی کے اظہار کے طویل عمل کا آخری حصّہ ہے۔ ابتدا میں انسان اپنے آپ خوش ہوتا ہے۔ دوسروں سے اپنی خوشی چھپانے کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے لیکن اپنے آپ میں خوش رہنے کی بھی ظاہری علامتیں ہوتی ہیں جیسے اچھے موڈ میں رہنا، گنگنانا، سیدھا چلنے کے بجائے تھرکنا یا ناچنا، آپ ہی آپ باتیں کرنا، بار بار آئینہ دیکھنا اور بے مقصد اِدھر اُدھر گھومنا۔
اپنے اپنے ظرف کے مطابق اندرونی طور پر خوش ہونے کے بعد انسان کی خوشی دوسروں پر عیاں ہونے لگتی ہے۔ آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی ہے۔ چہرہ کھل اٹھتا ہے۔ صنف نازک کے چہرے پر شرم و حیا کی لہریں ابھرنے لگتی ہیں۔ ہاتھ اور پیر بے مقصد انداز میں حرکت کرنے لگتے ہیں۔ منہ کھلنے کے لیے بیتاب ہوتا ہے۔ چہرے کی چوڑائی میں اضافہ اور لمبائی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دانت جھانکنے لگتے ہیں۔ اس عمل کو مسکرانا کہتے ہیں۔
مسکراہٹ کے بعد خوشی کے مزید اظہار کے لیے منہ کھل جاتا ہے۔ پورے دانت دکھائی پڑتے ہیں۔ چوکھڑا اگر ہو تو گرنے کا خدشہ رہتا ہے۔ آنکھیں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ منہ سے دبی دبی آواز نکلتی ہے تو مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد منہ پورا کھل جاتا ہے۔ بتیس سے کچھ کم دانت نکل پڑتے ہیں۔ چوکھڑا اگر ہے تو گر جاتا ہے۔ آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ چہرے کی ہڈیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ منہ اور حلق سے عجیب و غریب آوازیں آنے لگتی ہیں۔ تھوک اڑنے لگتا ہے۔ جبڑے بے یار و مددگار اوپر نیچے اور آگے پیچھے جھولنے لگتے ہیں۔ شانے اور ہاتھ بے ہنگم انداز میں حرکت کرنے لگتے ہیں۔ اس عمل کو قہقہہ کہا جاتا ہے۔
آخر وہ لمحات بھی آتے ہیں جب قہقہہ خوشی کے بوجھ سے دم توڑنے لگتا ہے۔ قہقہہ کی موت پر آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور جسم ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔
خوشی کے اظہار کے اس طویل عمل کو عمر کی مختلف منزلوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ مسکراہٹ بچپن کی طرح ہے جسے ہر کوئی پسند کرتا اور چاہتا ہے۔ مسکراہٹ کے بغیر تصویر اچھی نہیں اترتی۔ اسی لیے تصویر کشی سے پہلے مسکرانے کے لیے ضرور کہا جاتا ہے۔ تصویر بنانے والے بہت اچھا مسکرانے والوں کی تصویر کی نمائش اپنے اسٹوڈیو میں کرتے ہیں۔ بعض حضرات مسکرانے کے انداز پر دل و جان سے فدا بھی ہو جاتے ہیں۔
ہنسی جوانی کے دور سے مطابقت رکھتی ہے جو بیباک اور الھڑ ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی کسی کی ہنسی لوگوں کی نظر میں کھٹکتی ہے۔
قہقہہ زندگی کی آخری منزل بڑھاپے کی مانند ہے جو دوسروں پر بوجھ اور خود کے لیے مصیبت ہوتا ہے۔ قہقہہ کے بعد خوشی ختم ہو جاتی ہے لیکن اس کی یاد باقی رہتی ہے۔
خوشی کے اظہار کے لیے مسکراتے اور ہنستے ہیں جبکہ قہقہہ لگاتے اور قہقہہ مارتے ہیں۔ مسکراہٹ اور ہنسی میں بے ساختگی ہے۔ قہقہہ ایک عمل اور ایک فن ہے۔ قہقہہ لگانا بعض لوگوں کا شوق ہے تو چند لوگوں کی ہابی بھی ہوتی ہے۔ ایسے اشخاص ملتے ہی ایک قہقہہ مارکر سلامی پیش کرتے ہیں۔ سلام دعا کے بعد پھر ایک فلک شگاف قہقہہ بلند کرتے ہیں۔ گفتگو کے دوران بھی ان حضرات کے قہقہوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ہر شخص کا قہقہہ لگانے کا اپنا ایک منفرد انداز ہوتا ہے جس سے وہ پہچانا جاتا ہے۔ ایک دوست کے گھر ہمارے قہقہہ کی آواز پر چائے معہ زائد شکر آ جاتی ہے۔
قہقہہ لگانے کے مختلف اور جدا انداز ہونے کے باوجود قہقہہ لگانے کی تکنیک کے اعتبار سے قہقہوں کو چار اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہماری یہ تقسیم ظاہری ہے۔ کوئی دانتوں کا ماہر ہی قہقہوں کی صحیح تکنیک دریافت کر کے قہقہوں کی بہتر زمرہ بندی کر سکتا ہے۔
پہلی قسم کھڑے قہقہوں کی ہوتی ہے۔ اس میں ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی آواز نکلتی ہے۔ جبڑے اوپر اور نیچے جھولتے ہیں۔ دوسری قسم آڑے قہقہوں کی ہوتی ہے جس میں جبڑے دائیں اور بائیں جھولتے ہیں اور نمایاں آواز ’ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ آتی ہے۔ تیسری قسم آزاد قہقہوں کی ہوتی ہے۔ اس میں جبڑے اوپر نیچے، دائیں بائیں یا پھر آزادی سے حسب منشا جھولتے ہیں اور آوازیں بھی ملی جلی ’ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ جیسی آتی ہیں۔
چوتھی قسم پیچیدہ قہقہوں کی ہے۔ اس قسم میں جسم کے دوسرے حصّہ بھی قہقہہ لگانے میں چہرے کا ساتھ دیتے ہیں جیسے تالی بجانا، جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر ایک جانب لڑھک جانا یا سامنے والے شخص پر ہتھڑ رسید کرنا۔
ہم چاہتے ہیں کہ ایک پانچویں قسم خطرناک قہقہوں کی بھی بنائیں۔ اس زمرے میں ان خطرناک قہقہوں کو شامل کیا جائے جن سے قہقہہ لگانے والے یا دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ قہقہہ لگاتے ہوئے لوٹنا، قہقہوں کی زیادتی سے پیٹ میں بل پڑ کر درد ہونا، ٹھسکا لگنا، ہچکی بندھ جاناجیسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ خطرناک قہقہوں کے ضمن میں ہم ایک دوست کا ذکر کرتے ہیں جنھیں ایک مرتبہ قہقہہ لگاتے ہوئے پیٹ میں درد شروع ہوا جو اب تک کم ہی نہ ہوا۔ حسرت سے وہ اب دوسروں کو قہقہہ لگاتے ہوئے دیکھ کر اپنا پیٹ پکڑ کر رہ جاتے ہیں۔
قہقہوں کو معنوی اعتبار سے بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ حقیقی قہقہے اپنے دامن میں ڈھیر ساری خوشیاں رکھتے ہیں۔ ایسے قہقہے بے ساختہ نکلتے ہیں۔ انھیں لگانے یا مارنے میں ارادے یا نیت کا دخل نہیں ہوتا۔ اندر سے قہقہہ لگانے کی خواہش ہوتی ہے جس پر قہقہہ مار کر ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ حقیقی یا بے ساختہ قہقہوں کو دبانا یا زیادہ دیر تک روکے رکھنا صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
چاپلوسی قہقہے کسی کو خوش کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ آفیسر کو خوش کرنے کے لیے ماتحتوں کے قہقہے اس قسم کی مثال ہیں۔ چاپلوسی قہقہوں کی ٹائمنگ اہم ہوتی ہے۔ غلط وقت پر یا باس سے پہلے لگایا گیا قہقہہ نقصان پہنچاسکتا ہے۔ احتیاط کا تقاضہ ہوتا ہے کہ چاپلوسی قہقہہ کو سوچ سمجھ کر دیر تک مارا جائے۔
عاقبت اندیش قہقہے، وہ قہقہے ہیں جن کے لگانے سے آنے والا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ عموماً دوسروں کو ایسے قہقہے لگانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ اپنی غلطی پر ایسی صورت بنانی چاہیے یا یوں معافی طلب کرنی چاہیے کہ سامنے والا ہنسنے اور قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جائے ! بچوں کی شرارت پر بڑوں کے مارے گئے قہقہے اسی زمرے سے تعلق رکھتے ہیں۔
قہقہہ بہت وفادار ہوتا ہے، یہ اپنے اوپر بہت کم مارا جاتا ہے۔ قہقہوں کا نشانہ اکثر دوسرے لوگ بنتے ہیں۔ تضحیکی قہقہے وہ قہقہے ہیں جس سے کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے چند نوجوانوں کو عجیب سے لباس میں دیکھ کر قہقہہ لگایا تھا تو ان نوجوانوں نے ہم پر وہ خطرناک قہقہے لگائے تھے جن کے اثرات زائل کرنے کے لیے ہمیں ڈاکٹر سے رجوع ہونا پڑا تھا۔
فکاہیہ قہقہے، طنزیہ اور مزاحیہ کلام اور مضامین اور لطیفے سن کر یا پڑھ کر لگائے جاتے ہیں۔ ان قہقہوں کے لیے مزاح نگار اور مزاح کار قہقہہ لگانے والوں کے احسان مند رہتے ہیں۔
ندامتی قہقہے با ہمت اور جواں مرد لوگ اپنی غلطیوں پر نادم ہو کر یا اپنی بے وقوفیوں پر لگاتے ہیں۔ بڑے لوگ چھوٹوں کے سامنے اپنی غلطی پر اس قسم کے قہقہوں کا استعمال کر کے اپنی خفت مٹاتے ہیں۔ شوہر بھی اپنی غلطیوں پر اسی قسم کے قہقہے لگا کر بیوی کو رام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ گدھوں کا رینکنا، گھوڑوں کا ہنہنانا اور انسان کا قہقہہ لگانا ایک جیسا عمل ہے اور سب اسی عمل کے ارتقائی طریق کی کڑیاں ہیں۔ گدھا جب رینکتا ہے تو منہ کھل جاتا ہے اور قہقہہ سے ملتی جلتی آوازیں نکالتا ہے۔ خوشی میں مگن ہو کر اچھل کود کرتا ہے اور رینکنا ختم کرتے وقت دولتی جھاڑتا ہے۔
گھوڑا ہنہناتا ہے تو اس کے نتھنے پھول جاتے ہیں۔ منہ کھل جاتا ہے۔ قہقہہ سے مشابہ آوازیں آتی ہیں اور دولتی جھاڑنے کے بجائے لوٹنے لگتا ہے۔ اور حضرت انسان جب قہقہہ لگاتے ہیں تو پورا منہ کھل جاتا ہے۔ دانت دکھائی دینے لگتے ہیں۔ رینکنے اور ہنہنانے سے ملتی جلتی آوازیں نکلتی ہیں۔ دولتی جھاڑنے کے بجائے کسی کی پیٹھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔ بعض اشخاص لوٹ پوٹ بھی ہو جاتے ہیں۔
قہقہہ لگانے کے مختلف انداز اور طریقے ہوتے ہیں۔ بعض اشخاصThrough Proper Channel قہقہہ کو مسکراہٹ سے شروع کرتے ہیں۔ مسکرانے کے بعد ہنستے اور پھر قہقہہ لگاتے ہیں۔ چند لوگ یک دم سے قہقہہ شروع کرتے ہیں تو بعض لوگ اقساط میں قہقہہ لگاتے ہیں۔ وقفہ وقفہ سے تھوڑا تھوڑا قہقہہ مارتے ہیں۔
آپ قہقہہ کیسے بھی لگائیے یا مارئیے، ہماری گذارش ہے کہ قہقہہ مارنے سے پہلے سوچ لیں کہ
ہنسی کے ساتھ رونا بھی ہے مثلِ قلقل مینا
کسی نے قہقہہ اَے بے خبر مارا تو کیا مارا
٭ ٭ ٭
ماہنامہ شاداب، حیدرآباد۔ ستمبر 1985ء
خوشحالی کا تکون
عنوان پڑھ کر اگر آپ نے ہمارے مضمون کا تعلق خاندانی منصوبہ بندی سے قائم کیا ہے تو آپ کا اندازہ صحیح نہیں ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے لال تکون پر عمل کرنے سے کنبہ محدود ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ زندگی میں خوش حالی بھی آئے ! چھوٹا خاندان کم وسائل کے سبب پریشان رہ سکتا ہے۔ لیکن ہمارے تکون میں خوشحالی مضمر ہے۔
محنت کا پھل، مسئلہ کا حل، امتحان یا انٹرویو کا نتیجہ، عرضی کی قبولیت، آمدنی میں اضافہ، غرض ہر پہلو سے زندگی میں خوشحالی کا دارومدار ہمارے تکون پر ہے۔ ہمارے تکون کے ارکان پر صدق دل سے عمل پیرا ہونے والے کی زندگی میں خوشحالی کی گیارنٹی ہم دے سکتے ہیں۔
خوشحالی کے تکون کے تین ارکان خوشامد، سفارش اور رشوت ہیں۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ خوشحالی اور تینوں ارکان میں حرف ش موجود ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ خوشامد، سفارش اور رشوت سے خوشحالی آتی ہے اور ہم خوش اور شادمان رہتے ہیں۔
یوں تو خوشحالی کے تکون پر عمل کسی ایک کونے سے شروع کیا جا سکتا ہے لیکن خوشامد سے ابتدا کرنا بہتر ہے۔ خوشامد کے معنی لوگوں کو خوش کرنا اور خوش رکھنا ہیں جس سے ہماری اپنی زندگی میں خوشی آتی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ دوسروں سے مسکرا کر ملیں، علیک سلیک میں پہل کریں اور خیرخیریت پوچھیں۔ موسم کا حال اور بیوی بچوں کے بارے میں دریافت بھی کریں۔ اتنی معمولی باتوں کا خیال رکھنے سے لوگ آپ سے خوش رہیں گے۔ لوگ آپ کو پہچانیں گے۔ آپ کی تعریف کریں گے اور آپ کو با اخلاق اور با کردار ہونے کا خطاب دیا جائے گا۔ آپ کا حلقہ احباب وسیع ہو گا۔ ہر جگہ آپ کے جاننے اور پہچاننے والے نکل آئیں گے جو وقت پڑنے پر آپ کی مدد کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔
لوگوں کو خوش رکھنے کا یہ ایک عام اور آسان طریقہ ہے۔ اس میں پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ بس سلام کرنا، لوگوں سے مسکرا کر ملنا، انھیں اپنی کرسی پیش کرنا یا ان کے ساتھ کچھ دیر چلنے کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ لوگوں سے ہائے ہیلو کرنے اور ملتے ملاتے رہنے کے علاوہ مختلف اشخاص کو خوش رکھنے کے لیے مختلف طریقے اپنانے اس لیے پڑتے ہیں کہ لوگوں کے خوش ہونے کے معیار جدا ہوتے ہیں۔
کاروباری دنیا میں مسکراہٹ، میٹھی اور چکنی چپڑی باتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ کاروبار میں مسکرانے کو professional smile کا نام دیا جاتا ہے۔ مسکراہٹ اور لچھے دار باتوں سے سامنے والے کو مسحور کرنے کے بعد اپنا کام نکالا جا سکتا ہے۔ ہم نے اخبار میں ایک خبر پڑھی تھی کہ امریکہ میں ایک دکان پر سیلزمین کی باتوں سے متاثر ہو کر صحرا میں رہنے والے شیخ نے پانی میں چلنے والی کشتی خریدی تھی۔ دور کیوں جایئے، ہم خود اپنی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ آج تک ہم نے کپڑے اور جوتے پرکھ کر نہیں خریدے، ہمیشہ ہی بیچنے والے کے جھانسے میں آئے ہیں۔
مسکرانے، میٹھی اور پیاری پیاری باتیں کرنے کے لیے آج کل سیلزمین کے بجائے سیلز گرل کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ لوگ بالخصوص مرد حضرات بلا تفریق عمر سیلز گرلز کی باتیں سن اور مان لیتے ہیں۔ دکان پر بھیڑ بھی اکٹھا رہتی ہے اور سیلز گرلز کی بدولت کاروبار بھی خوب چلتا ہے۔
کاروباری دنیا میں جہاں باتوں سے کام نہیں بنتا وہاں گاہکوں کو خریداری پر اکسانے کے لیے ترغیب دی جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ صابن کے ساتھ صابن دانی، ٹوتھ پیسٹ کے ساتھ برش، کریم کے ساتھ فلمی حسینہ کی تصویر پیش کی جاتی ہے اور ڈھیر ساری خریداری پر آپ انعام میں کار جیتنے کے حقدار بن سکتے ہیں۔
آپسی تعلقات استوار رکھ کر اپنا کام کروا لیا جاتا ہے۔ آپسی تعلقات کو تعلقات عامہ یعنی public relations کا نام دیا گیا ہے۔ آپسی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے کئی طریقے ہیں۔ سال نو، عید اور تہوار، شادی بیاہ اور تقاریب پر مبارک باد اور سانحہ یا حادثہ پر تعزیت پیش کرنا معمول کی باتیں ہیں۔ کوشش کیجیے کہا حباب کی تاریخ پیدائش اور شادی کی تاریخ یاد رکھیں اور مبارک باد پیش کریں۔
الفاظ اور جذبات کے اظہار سے تعلقات میں اتنی پختگی نہیں آتی جتنی کہ کسی کو نمک خوار کرنے سے آتی ہے۔ اسی لیے وقتاً فوقتاً کام آنے اور کام والے دوست احباب اور ذی اثر لوگوں کی دعوت کرتے رہیے۔ سردی میں گرم چائے، گرما میں ٹھنڈا مشروب اور آئسکریم اور بلا قید موسم کھانے کی دعوت دلوں کو رام کر لیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ لوگوں کے دل میں گھر کرنے کا راستہ پیٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہم ایک صاحب سے واقف ہیں جو کسی نہ کسی عنوان سے پارٹی دیتے رہتے ہیں۔ سال میں دو مرتبہ خود اپنی سال گرہ، کئی مرتبہ بیوی اور بچوں کی سال گرہ، شادی کی سال گرہ، عید ملاپ، تہنیتی اور وداعی پارٹیاں دینا ان کا معمول ہے۔
پھول اور تحفے آپسی تعلقات کو اس طرح مضبوط کرتے ہیں جس طرح لوہے اور کنکر کو سمنٹ جکڑے رکھتی ہے۔ ہمارے ایک پیروکار دوست ہمیشہ اپنے ساتھ دو ایک گل دستہ اور تحفہ رکھتے ہیں۔ چرب زبان تو ہیں ہی وہ ساتھ میں گل یا تحفہ پیش کر کے اپنا کام چٹکیوں میں بنا لیتے ہیں۔
سیاسی زندگی میں خوشامد اہم مقام رکھتی ہے۔ لیڈر کا شایان شان استقبال کرنا پڑتا ہے۔ خیر مقدمی کمانیں، رنگین جھنڈیاں، پوسٹرز، گلپوشی سے لے کر جلوس تک نکالنا پڑتا ہے۔ جلسے منعقد کرنے پڑتے ہیں۔ جلسوں میں قائد کو خوش کرنے کے لیے قائد کی مداح سرائی یعنی تقاریر کی جاتی ہیں۔ قائد کی سو دن، تین مہینوں سے لے کر ایک، پانچ، دس، بیس اور پچیس سالہ خدمات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ قائد کو سکوں میں تولا جاتا ہے اور اسے نوٹوں کا ہار پہنایا جاتا ہے۔ اور جب صاحب اقتدار لیڈر مہربان ہو جائے تو پھر کیا کچھ نہیں ہوتا! لگایا ہوا پیسہ منافع اور سود سمیت وصول ہوتا ہے۔
خوشامد سے چند کام بن جاتے ہیں لیکن اکثر لوگ صرف خوشامد سے مطمئن نہیں ہوتے۔ خوشامد کے ناکام ہونے پر اپنی کوششوں میں سفارش کا اضافہ کرنا چاہیے۔ سفارش ہمارے مجوزہ خوشحالی کے تکون کا دوسرا رکن ہے۔
سفارش دوسروں سے اپنے لیے کروائی جاتی ہے۔ سفارش کرنے والے کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا پڑتا ہے۔ جس شخص کو سفارش کروانی ہے اس کی عادات و اطوار کا بغور مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے دوست احباب کو کھنگالنا پڑتا ہے۔ اس کی کمزوریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی پڑتی ہیں۔ ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر سفارش کرنے کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کیا جانا چاہیے جس کی سفارش رد نہ کی جا سکے !
اکثر لوگوں کی کمزوری ان کی نصف بہتر ہوتی ہیں۔ ہم ایک سرکاری عہدیدار کو جانتے ہیں جو اپنی شرافت، ایمانداری اور سخت گیر رویہ کے سبب مشہور ہیں۔ ان کی طبیعت کے خلاف کام کروانا ناممکن تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک صاحب نے موصوف کی بیوی سے اپنے لیے سفارش کروائی۔ صاحب موصوف نے بیوی کو بہت سمجھایا لیکن وہ تریا ہٹ پر اتر آئیں۔ ’میں کچھ نہیں جانتی، آپ کو میری بات ماننی ہو گی۔ ‘ اور افسر صاحب بقول اکبر الہ آبادی
اکبر دبے نہیں کسی سلطان کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیگم کی نوج سے
بیگم سے بہتر اور زیادہ اثر یشزل بو۔ جدے دار سفارش ’وہ‘ کی ہوتی ہے۔ وہ سے آپ ہمارا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے۔ وہ کی سفارش ایک طرح سے بلیک میلنگ کا درجہ رکھتی ہے۔
آج کل سفارش بہت عام ہو گئی ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی سے سفارش کرواتا ہے۔ رشتہ داروں اور عہدیداروں سے لے کر سیاسی قائدین تک ایک طویل فہرست ہے۔ لیکن یاد رہے وہی سفارش کامیاب ہوتی ہے جس میں سفارش کرنے والا دم خم رکھتا ہے۔ ورنہ سفارش ہر دو، کرنے اور کروانے والے کو ذلیل و خوار کرتی ہے۔
جب سفارش کے لیے صحیح انتخاب نہ ہو یا سفارش کے ناکام ہونے کی صورت میں ہمارے تکون کے آخری حربے کو آزمانا چاہیے۔ اپنا کام نکالنے کے لیے رشوت موثر اور کامیاب ترین حربہ ہے۔ رشوت سے ہر دو لینے اور دینے والے کے حصّہ میں خوشحالی آتی ہے جبکہ پہلے دو حربوں خوشامد اور سفارش سے یک طرفہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
رشوت کے تعلق سے ہماری فلموں میں ایک ڈائیلاگ اکثر دہرایا جاتا ہے۔ ’دنیا میں ہر چیز بکتی ہے، قیمت لگانے والا چاہیے۔ ‘ رشوت پیش کرتے وقت قیمت کا صحیح اندازہ ہونا چاہیے۔ زیادہ دام سے فائدہ ہوتا ہے لیکن سودا مہنگا پڑتا ہے جبکہ کم قیمت سے کام ہوتا ہے اور نہ ہی رشوت واپس ملتی ہے۔
رشوت احتیاط اور ہوشیاری سے دینی پڑتی ہے۔ غلط طریقے اور غلط وقت سے کام بگڑ جاتا ہے۔ بعض مرتبہ رشوت دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ عموماً یہ اس وقت ہوتا ہے جب غلط اندازہ کر کے رشوت کوڑیوں میں پیش کی جاتی ہے۔
رشوت قبول کرنے والے کو محسوس نہ ہونے دیں کہ آپ بحالت مجبوری رشوت دے رہے ہیں۔ رشوت دیتے وقت اپنا رویہ ایسا رکھیں کہ لینے والا محسوس کرے کہ آپ خوش ہو کر اسے انعام دے رہے ہیں یا تحفہ پیش کر رہے ہیں۔ رشوت ایک متنازعہ لفظ ہے اکثر لوگ رشوت کے نام سے بدک جاتے ہیں لیکن جب یہی رشوت انعام، تحفہ، ہدیہ، نذرانہ وغیرہ کے نام سے دی جائے تو اسے قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں ہوتا۔ ہمارے درمیان بعض ایسے بھی لوگ ہیں جو رشوت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
ماضی میں خوشامد، سفارش اور رشوت کو ایک کے بعد ایک آزمایا جاتا تھا یا تینوں میں سے کسی ایک سے کام نکل آتا تھا لیکن دور حاضر مسابقت کا دور ہے جس میں تینوں حربوں سے ایک ساتھ شکار کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے نوکری حاصل کرنے کے لیے ان تینوں ہتھیار کا بہت خوب صورت استعمال کیا تھا۔
ایک صبح صاحب کے گھر میوؤں کی ٹوکری پہنچا کر کہنے لگے۔ ’میرے ماموں کی دکان ہے۔ جب انھیں پتا چلا کہ میں آپ کے یہاں جا رہا ہوں تو انھوں نے یہ پھل پھلاری آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ ‘
مٹھائی کے ڈبوں کے ساتھ گئے اور کہا۔ ’میرے چچا آپ کے ہم جماعت رہ چکے ہیں۔ انھوں نے ایک چھٹی اور آپ کے پسند کی مٹھائی بھیجی ہے۔ ‘
باہر سے چھوٹے بھائی کی آمد کا بہانہ بنا کر کپڑے، سینٹ اور سگریٹ پیش کرتے ہوئے صاحب کی تعریف کی۔ ’صاحب محسوس ہوتا ہے کہ یہ سوٹ کا کپڑا صرف آپ کے لیے بنایا گیا ہے۔ واہ کیا پسند ہے۔ اس برانڈ کا سگریٹ صرف بڑے لوگ پیتے ہیں۔ ‘
خالو کی کار میں صاحب کی بیوی اور بچوں کو تفریح کے لیے لے گئے تو صاحب کی بیوی سے اپنے لیے پر زور سفارش کروائی۔
نوکری ملنے کے بعد نوازشیں بند ہوئیں تو صاحب نے وجہ دریافت کی۔ ہمارے دوست نے رقت انگیز لہجہ میں کہا۔ ’ماموں کی دکان کا دیوالیہ نکل گیا۔ چچا انتقال کر گئے۔ خالو اور بھائی وطن واپس آ گئے۔ اب ان تمام خاندانوں کا بوجھ میرے نحیف و ناتواں کاندھوں پر ہے۔ خدا کے لیے ہمارے حال پر رحم فرمائیے۔ میری تنخواہ میں اضافہ اور میری ترقی کی کوئی صورت نکالیے، آپ کو اس کا اجر ملے گا۔ ‘
احتیاط کا تقاضہ ہے کہ خوشحالی کے تکون پر عمل دو رخی ہونا چاہیے۔ لوگوں کی خوشامد کرنے کے ساتھ خود بھی اوروں کی بے جا تعریف کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اپنی سفارش کروانے کے ساتھ خود بھی دوسروں کی سفارش کرنی چاہیے۔ رشوت قبول کرنے کے ساتھ خود بھی اوروں کو رشوت دینا چاہیے۔ یک طرفہ عمل سے خوشحالی کے امکانات کم اور بدحالی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔
آخر میں ہم خوشحالی کے تکون کی اہمیت کو چند مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔ شادی سے کسی کی زندگی میں انقلاب بپا ہوتا ہے۔ شادی کے لیے لڑکے کو رشوت گھوڑے جوڑے کی رقم اور جہیز کی شکل میں دی جاتی ہے۔ رشتہ دار لڑکی کی خوبصورتی اور دوسری خوبیوں کو بنیاد بنا کر سفارش کرتے ہیں اور سسرال والے خوشامد کرتے ہیں۔
اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ کے لیے بھی تکون کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ رشوت بشکل چندہ یا ڈونیشن دینا پڑتا ہے۔ سفارش کروانی اور پرنسپال اور ٹیچروں کی خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی خوشامد، سفارش اور رشوت کا سہارا لے کر نوکری حاصل کی جاتی ہے۔
سمنٹ کا حصول، مکان کا الاٹمنٹ، راشن کارڈ بنوانا اور ایسے ہی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے یا بڑے سے بڑے کام کے لیے جس سے خوشحالی آتی ہے، ہمارے تکون کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ غرض کہ قابل رشک زندگی آج خوشامد، سفارش اور رشوت کی مرہون منت ہو گئی ہے !
٭ ٭ ٭
پندرہ روزہ حیات، 15اپریل 1987ء
’ہم آپ کو معزز بناتے ہیں ‘
درزیوں کا نعرہ ہے ’God made you man, we make you gentleman‘۔ ہم نے اس انگریزی نعرہ کو یوں سمجھا ہے کہ خدا نے آپ کو انسان بنایا اور ہم آپ کو معزز بناتے ہیں یا پھر یہ کہ ہم آپ کو شریف انسان یا بھلا مانس بناتے ہیں۔
آپ درزیوں کے اس نعرے یا دعوے سے اتفاق کریں یا نہ کریں، یہ بات مسلمہ حیثیت اختیار کر گئی ہے کہ انسان کی قدر و قیمت اس کے کپڑوں سے ہوتی ہے۔ پولس کو جب تک مخصوص لباس میں نہ دیکھیں ڈر نہیں ہوتا۔ کسی کو سوٹ بوٹ پہنے دیکھتے ہیں تو قیاس ہوتا ہے کہ یہ شخص فرفر انگریزی یا فرانسیسی بولے گا۔ شیروانی میں ملبوس شخص سے ملاقات ہوتی ہے تو انھیں ہیلو یا ہائے کہنے کے بجائے آداب عرض کرنے کو جی چاہے گا۔
لنگی اور شرٹ ہمارے خیال کو جنوب کی طرف لے جائے گا تو کرتا پاجامہ سے توجہ شمال کی جانب مبذول ہو جاتی ہے۔ کھدر کا لباس اور کشتی نما ٹوپی پہنے کوئی نظر آئے تو دل چاہتا ہے کہ اسے ووٹ دیں۔ کم اور پھٹے پرانے کپڑوں میں اگر کوئی ہے تو خیرات کے لیے ہاتھ جیب میں چلا جاتا ہے۔
آج کوئی چاہے تو کم سے کم کپڑے پہن کر پتھر کے زمانے کی یاد دلاسکتا ہے لیکن کپڑوں کے زمانے میں اگر کسی کو معزز اور محترم بننا ہے تواسے درزیوں کے نخرے اٹھانا ہی پڑتے ہیں۔ درزی وہ فن کار یا کاریگر ہوتا ہے جو جیب کاٹ کر اور گریبان چاک کر کے ہمیں جامہ زیبی عطا کرتا ہے۔
ہمارے بچپن میں نئے کپڑے عید اور شادی بیاہ کے موقعوں پر بنا کرتے تھے۔ درزی مشین اٹھائے دو ایک لڑکوں کے ساتھ گھر آ کر ہر کس و ناکس کے کپڑے تیار کر جاتے تھے۔ ساتھ میں پرانے کپڑوں کی مرمت بھی کر دیتے اور تکیہ غلاف، میز پوش وغیرہ بھی سی دیتے تھے۔ بازار میں ان کی دکان بھی ہوتی تھی۔ ایک کونے میں مشین رکھی ہوتی تھی اور درمیان میں ایک تختہ ہوتا تھا جس پر کپڑوں کو تختہ مشق بنایا جاتا تھا۔ درزی زانوئے ادب تہہ کر کے تختہ پر کپڑے کاٹتے اور سینے کے بعد استری پھیرتے تھے۔ کپڑے سی کر کھونٹی پر ٹنگائے جاتے تھے۔
دور حاضر میں درزیوں کا پیشہ اتنی ترقی کر چکا ہے جتنی کہ انسان نے پتوں سے تن ڈھانکنے سے کپڑے پہننے تک ترقی کی ہے۔ اب وہ درزی نہیں کہلاتے، انھیں ٹیلر ماسٹر کہا جاتا ہے۔ یورپ جا کر درزی تجربہ اور ڈگریاں لاتے ہیں۔ اب درزی سلائی مشین اٹھا کر گھر بھی نہیں آتے بلکہ ہمیں کپڑا اٹھائے ان کی دکان جانا پڑتا ہے۔
بازار میں درزی کی بہترین سجی سجائی دکان ہوتی ہے۔ سلائی مشین نظر آتی ہے اور نہ سلائی کرنے والے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض درزیوں سے ملنے کا وقت مقرر ہے تو بعض ٹیلر ماسٹر سے پہلے سے وقت طے کیے بغیر ملاقات نہیں ہو سکتی۔ ٹیلر ماسٹر کی دکان کہنا شاید غلط ہے، شاندار سجاوٹ اور فرنیچر کو دیکھ کر اسے مشورہ کا کمرہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اطراف الماریوں میں ٹیلر ماسٹر کے ہمہ اقسام اور ہمہ رنگ کے کارنامے یعنی سلے ہوئے کپڑے لٹک رہے ہوتے ہیں۔ دو چار مجسمے گاہکوں کے کپڑے پہنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ دیواروں پر تصویریں ٹنگی ہوتی ہیں۔ تصویروں میں خوب صورت اشخاص بہترین کپڑے پہنے مختلف انداز سے آنے والوں پر مسکرارہے ہوتے ہیں۔ میز پر جامہ زیبی سے متعلق رسالے اور نت نئے فیشن کے البم بکھرے ہوتے ہیں اور ایک کونے میں پیشہ خیاطی پر کتابیں سجی رہتی ہیں۔
کمرہ استقبال کے علاوہ درزی کی دکان میں چھوٹے چھوٹے دو خوبصورت حجرے ہوتے ہیں۔ ایک ناپ لینے کا کمرہ جس میں مکمل راز داری کی طمانیت رہتی ہے اور دوسرا ٹرائل روم۔ اس کمرہ میں چہار طرف آئینے لگے ہوتے ہیں۔ درزی کے کمال کو اپنے جسم پر سجا کر مختلف زاویوں سے دیکھنے کی سہولت رہتی ہے۔
پیشہ کی ترقی کے ساتھ ڈاکٹروں کی طرح درزیوں کے بھی الگ الگ شعبے بن گئے ہیں۔ لیڈیز اور جنٹس ٹیلر مختلف ہوتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ بچوں کے کپڑے تیار کرنے کے ماہر درزی علیحدہ ہوتے ہیں۔ اس شعبہ کے درزی گمنام رہتے ہیں۔ ان کا فن دکان پر ریڈی میڈ کپڑوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
درزیوں کی مہارت عورت، مرد اور بچوں میں تقسیم ہو کر اب ذیلی شاخوں میں بٹنے لگی ہے۔ کوئی کوٹ سینے کا اسپیشلسٹ ہے تو کوئی شیروانی تیار کرنے کا ماہر ہے۔ کوئی شرٹ تو کوئی پتلون بناتا ہے۔ کسی کا شلوار قمیص پر ہاتھ صاف ہے تو کوئی کھرا دوپٹہ کا ماہر ہے۔ غرض جتنے قسم کے لباس ہوتے ہیں اب اتنے قسم کے ماہر درزی بھی پائے جاتے ہیں۔
ہمیں شریف اور معزز بننے کے لیے مختلف درزیوں سے رجوع ہونا پڑتا ہے۔ ہم نے اپنی شادی میں سالے اور سالیوں سے زیادہ درزیوں کے ناز نخرے برداشت کئے تھے۔ شادی سے چند دن پہلے بلکہ بعد میں بھی، ہر شام ہم درزی یاترا پر نکلتے تھے۔ پہلے شیروانی سینے والے کے پاس جاتے، وہاں سے چوڑی دار پاجامہ سینے والے درزی سے ملاقات کرتے، پھر شرٹ سینے کے ماہر کو سلام کرتے، ان سے فرصت پا کر پتلون پہنانے والے درزی کا چہرہ دیکھتے اور آخر میں کوٹ کے ماہر ٹیلر ماسٹر کی خوشامد کرتے تھے۔
کپڑے تیار کرنے کے لیے درزی جسم اور گردن ناپتے ہیں۔ ہاتھ اور پیر کی لمبائی، کلائی اور پنڈلی کی موٹائی اور پیٹ اور پیٹھ کی گیرائی کی پیمائش کرتے ہیں۔ ناپ لینے کے دوران درزی مختلف سوالات بھی کرتے ہیں۔ آپ پتلون کہاں باندھتے ہیں۔ بیلٹ استعمال کرتے ہیں یا بغیر بیلٹ رہنا پسند ہے۔ جیب میں کیا کیا رکھتے ہیں۔ سگریٹ کی ڈبیا ساتھ رکھتے ہیں یا کھلے سگریٹ جیب میں رکھ کر شوق پورا کرتے ہیں۔ رو مال سے ناک صاف کرتے ہیں یا آستین سے کام چلا لیتے ہیں۔
کتنے پیسے ساتھ لیے گھومتے ہیں۔ کیا آپ کو چور جیب چاہیے، جو آپ کے پیسوں کو گھر والی اور جیب کترے سے محفوظ رکھ سکے ؟سر میں تیل ڈالتے ہیں یا بال روکھے رکھتے ہیں۔ اگر تیل ڈالتے ہیں تو انتباہ دیا جاتا ہے کہ چکنائی سے کالر جلد خراب ہو گا جس کے لیے درزی ذمہ دار نہ ہو گا۔ گلے میں ٹائی لٹکانا پسند کرتے ہیں یا گلا کھلا رکھتے ہیں۔ جوتے کون سے پہنتے ہیں۔ ایڑی کتنی اونچی ہوتی ہے۔ نئے کپڑوں کا استعمال کیسے کریں گے۔ انھیں پہن کر کہاں کہاں جائیں گے۔ حلقہ احباب کیسا ہے۔ اس کے علاوہ درزی چند دوسرے سوالات بھی کرتے ہیں۔
درزی گاہک کو چلا کراس کی چال دیکھتے ہیں۔ کرسی اور فرش پر بٹھا کر بیٹھنے اور اٹھنے کا انداز معلوم کرتے ہیں۔ ہاتھوں کو آگے پیچھے اور اوپر نیچے کرواتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ چال چلن کو ذہن میں رکھ کر کپڑا کاٹنے اور سینے سے پہننے والے کو روزمرہ کے معاملات میں سہولت رہتی ہے، ورنہ اندازہ کیجیے کہ کوئی ہاتھ ملانا چاہتا ہے لیکن شرٹ کی آستین آڑے آتی ہے۔ محفل میں کوئی آلتی پالتی مار کر بیٹھنا چاہتا ہے لیکن پتلون کی سلوائی محفل سے بے آبرو کر کے اٹھوا دیتی ہے۔
درزی ناپ لیتے وقت ہماری جسمانی کمزوریوں سے واقفیت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ بات ہمارے کسی دوست کو نہیں معلوم کہ ہمارا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے دو انچ چھوٹا ہے۔ ہمارا یہ جسمانی نقص درزی ہی کی دریافت ہے اور وہ ناپ لیتے وقت مسکراتے ضرور ہیں۔ شرٹ سیتے ہیں تو کبھی بائیں ہاتھ کی آستین دو انچ چھوٹی کر دیتے ہیں پھر بیلنس کرنے کی کوشش میں فل آستین شرٹ ہاف آستین بن جاتی ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے ایک دوست درزی کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچنے کے لیے ہمیشہ ریڈی میڈ کپڑے پہنتے ہیں !
درزی دور اندیش ہوتے ہیں۔ ناپ لیتے وقت کبھی دور کی کوڑی اٹھا لاتے ہیں۔ ہم نے ایک درزی کو گاہک سے کہتے سنا۔ ’محسوس ہوتا ہے کہ آپ شادی سے خوش نہیں ہیں۔ شادی کے بعد لوگوں کا وزن بڑھتا ہے جبکہ آپ کا وزن کم ہوا ہے۔ ‘
درزیوں کو گاہک کے جسمانی وزن کا خود گاہک سے زیادہ اندازہ رہتا ہے۔ کہیں گے۔ ’جناب آپ کی توند آدھا انچ آگے نکل آئی ہے۔ اپنا خیال رکھیئے گا۔ میرے ایک ڈاکٹر گاہک کہتے ہیں کہ موٹاپا مرض ہے۔ ہر دن دو میل دوڑا کیجیے اور چکنائی سے پرہیز بھی ضروری ہے۔ ‘
بعض مرتبہ ناپ لینے کے دوران درزی مرض کی تشخیص بھی کرتے ہیں۔ ’آپ کا وزن کم ہوا ہے۔ سینہ ایک تو کمر دو انچ کم ہوئی ہے۔ کمزور بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر سے رجوع ہو کر معائنہ کروائیے کہیں ذیابیطس تو نہیں ہے ؟‘ گویا کپڑے سلوانا بلکہ انسان بننا ہے تو درزیوں کی ڈاکٹری کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
درزیوں کو گاہک کے لائے ہوئے کپڑے پسند نہیں آتے۔ ہزار نقص نکالتے ہیں۔ کپڑا مہنگا ہے۔ رنگ اڑ جائے گا۔ عمر بڑھ رہی ہے، اب آپ کو ایسے بھڑکیلے کپڑے نہیں پہننے چاہییں۔ کپڑے پر کریز نہیں بیٹھے گی۔ گاہک کا لایا ہوا کپڑا ہمیشہ درزی کے حساب سے کم ہوتا ہے۔ ہر مرتبہ کپڑا زیادہ منگوایا جاتا ہے۔ نئے فیشن کا لباس سینے کے لیے زیادہ کپڑا درکار ہوتا ہے۔
ہوشیار درزی اپنی دکان میں بہترین کپڑا بھی رکھتے ہیں، یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام بھی۔ کپڑا پسند کیجیے بلکہ خود درزی ہمارے لیے کپڑا بھی پسند کر دیتے ہیں۔ ناپ کے ساتھ منہ مانگی قیمت ادا کیجیے تو درزی ہمیں جنٹلمین بناتے ہیں۔
درزی حضرات کپڑوں پر رائے زنی پر اکتفا نہیں کرتے، وہ ہم اور ہمارے لباس پر بھی اظہار خیال بھی کرتے ہیں۔ سفاری سوٹ آپ کو مناسب نہیں رہے گا۔ آپ اتنے تنگ کپڑے کیسے پہن سکتے ہیں جنھیں سینے کے لیے ہمیں دقت ہوتی ہے۔ بڑا کالر رکھنے سے آپ کا سر چھوٹا دکھائی دے گا۔ بغیر کالر شرٹ پہننے سے آپ کی گردن مزید لانبی نظر آئے گی۔ اب آپ سے کیا چھپائیں ہمارے لباس کے انتخاب میں ہماری بیوی سے زیادہ درزی کا دخل رہتا ہے۔
انٹرویو اور ناپ لینے کے بعد درزی جو کپڑے سیتے ہیں ان سے ہم مطمئن نہیں ہوتے ! کپڑے کبھی تنگ تو کبھی ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔ کہیں جھول پڑتا ہے تو کہیں سلائی میں کپڑا اندر کھنچ جاتا ہے۔ کبھی سلائی میں وقفے رہ جاتے ہیں تو کبھی سلائی ٹیڑھی میڑھی ہو جاتی ہے۔ درزی سے شکایت کرتے ہیں تو وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے گاہک میں نقص نکالتے ہیں۔ آپ کے شانے سامنے کی طرف زیادہ جھکے ہوئے ہیں جس کے سبب پیچھے جھول آتا ہے۔ آپ کے چلنے کا انداز عجیب ہے۔ ٹانگوں کے درمیان سلوٹیں نمودار ہوتی ہیں۔ اگر آپ اپنی چال بدل لیں تو آپ کی یہ شکایت دور ہو جائے گی۔
درزی خراب سلوائی کے لیے کپڑے کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کپڑا سستا ہے، اس پر مشین نہیں چلتا۔ آئندہ سے اس قسم کا کپڑا مفت میں بھی نہ لیجیے گا۔ اس کپڑے پر کریز نہیں بیٹھتی۔ اچھی سلائی بھی ہو تو جسم پر کپڑا ٹھیک نہیں لگتا۔
گاہک کی قسمت اچھی رہی تو اسے سلائی پسند آئی اور اس نے خوشی خوشی نئے کپڑے پہنے ورنہ نئے کپڑوں کو جھینگروں کی غذا بننے کے لیے کسی کونے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
یوں تو درزی سال کے بارہ مہینے مصروف رہتے ہیں لیکن ان کی مصروفیت عید، تہوار اور شادی بیاہ کے موسم میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اسی حساب سے اس موسم میں سلنے والے کپڑے بھی خراب سلتے ہیں۔ عید اور تہوار سے کئی دن پہلے سے درزی کپڑے لینا تو دور سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے، ہاتھ میں قینچی یا موٹی سوئی تنی رہتی ہے اور دانتوں میں دھاگہ پھنسا رہتا ہے۔ عید سے چار دن قبل اپنی دکان بظاہر بند کر کے چور دروازے سے کپڑوں کی ڈیلیوری کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہم نے عید سے دو روز قبل منت سماجت کر کے درزی کو شیروانی سینے دی تھی۔ درزی نے عید سے پہلے کچی سلائی اور عید کے بعد پکی سلائی کر کے دینے کا وعدہ کیا۔ عید کے دن ہم شیروانی پہن کر دوست احباب سے عید ملنے گئے۔ ہم سے ایک قریبی دوست کچھ بے تکلفی سے گلے ایسے ملے کہ شیروانی کا ایک ہاتھ ان کے پاس بطور سوغات چلا گیا تھا۔
مصروفیت کے موسم میں درزی وقت کی پابندی نہیں کر سکتے لیکن عام دنوں میں بھی درزی وقت پر کپڑے تیار کر کے نہیں دیتے۔ مقررہ دن کپڑے وصول کرنے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ بٹن ٹانکنا باقی ہے۔ استری پھیرنی بھی ہے۔ گاہک خوش ہوتے ہیں کہ چلو کچھ دیر میں کپڑے تیار مل جائیں گے لیکن جب حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ کپڑے سلنے کے بعد بٹن ٹان کے جائیں گے اور پھر استری کی جائے گی تو کوفت اٹھائے واپس ہوتے ہیں۔ دوسری یا تیسری چکر میں کپڑے مل جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ ہم نے نئے کپڑے حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو پرانے کپڑوں کی قربانی دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
ہمارے خیال میں کم سے کم کپڑے پہنے کا نام فیشن ہے لیکن درزیوں کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کپڑے سلیقے اور جدت سے پہننا فیشن ہے۔ درزی دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ نت نیا فیشن ایجاد کرتے ہیں۔ ہمیں درزیوں کے اس دعوی سے اتفاق ہے۔ در اصل درزی اپنی غلطیوں کو فیشن کا نام دیتے ہیں۔ بڑا کالر کاٹنے میں درزی سے غلطی ہوئی تو چھوٹے کالر کا فیشن چل پڑا۔
درزی گاہک کی فیشن نامی کمزوری سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جہاں ان سے غلطی ہوتی ہے وہاں درزی اپنی غلطی کو نبھانے کے لیے نیا فیشن وجود میں لے آتے ہیں۔ دو دن پہلے کی بات ہے۔ درزی نے ہماری پتلون کو بہت تنگ کاٹ دیا اور اسے پہننے کے قابل بنانے کے لیے رومالی لگائی اور ہم سے کہہ دیا کہ یہ نیا فیشن ہے، ابھی ابھی شروع ہوا ہے۔
ہمیں درزیوں کی غلطیوں پر اعتراض نہیں ہے۔ غلطی ہر ایک سے ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ درزی اپنی غلطیوں پر کچھ زیادہ وقفہ کے لیے نادم بھی رہیں یعنی کہ نیا فیشن چند ہفتوں کے لیے قائم رکھیں۔ درزی اس تیزی سے غلطیاں کرتے ہیں کہ ہمارے لیے فیشن کا ساتھ دینا ممکن نہیں ہوتا۔ بعض مرتبہ کپڑا سلا کر پہننے تک فیشن بدل جاتا ہے۔
پرانے درزی اپنی غلطیوں پر نادم رہتے تھے اور اپنا یا اپنی دکان کا لیبل کپڑوں کے اندر کسی کونے میں لگاتے تھے لیکن آج درزی اپنے نام اور فن کا لیبل کپڑوں کے اوپر چسپاں کرتے ہیں۔ گاہک ان کی تشہیر کا ذریعہ بنتے ہیں جیسے وہ ان کا پراڈکٹ ہے۔
ایک مرتبہ کپڑا سل کر درزی کی دکان سے باہر آنے کے بعد کسی صورت واپس درزی کے پاس نہیں جا سکتا۔ درزیوں کو نئے کپڑوں سے فرصت نہیں ملتی کہ وہ پرانے کپڑوں کو ٹھیک کریں ! حالانکہ ان کپڑوں کو خود اسی درزی نے خراب بنایا تھا۔ درزی وہ شیر ہوتا جو دوسروں کے شکار یا اپنے ہی شکار پر دوسری بار منہ نہیں مارتا۔ پرانے کپڑوں کی مرمت کے لیے گھر والی یا پھر دھوبی کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں۔
دھوبی کپڑے دھونے کے بعد حسب ضرورت ان کی مرمت بھی کر دیتے ہیں۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں پریشان کرنے کے لیے درزیوں اور دھوبیوں میں کوئی خفیہ معاہدہ ہے۔ کپڑے دھلنے جاتے ہیں تو چند بٹن غائب ہو جاتے ہیں، سیون کھل جاتا ہے یا کپڑا پھٹ جاتا ہے۔ شکایت کرنے پر دھوبی بیان دیتا ہے کہ درزی بٹن ٹانکتے نہیں، چپکا دیتے ہیں۔ درزی کو کپڑے دھونے کے طریقوں پر اعتراض ہوتا ہے۔ پتھر پر کپڑے پٹک پٹک کر دھوئے جائیں تو کپڑے پھٹ جاتے ہیں اور ان کا سیون کھل جاتا ہے۔ درزی اور دھوبی کی متفقہ کوششوں سے جلد ہی کپڑے پھٹنے لگتے ہیں تب درزی اور دھوبی مل کر کپڑا خراب ہونے کی دہائی دیتے ہیں۔
ہم سر تھامے الجھن میں گرفتار سوچنے لگتے ہیں۔ کیا ہم درزیوں کے نخرے اٹھائے بغیر معزز نہیں بن سکتے ؟
شاید نہیں ! اس لیے کہ صرف آخری سفر کے لیے بغیر سلا کپڑا پہنا بلکہ پہنایا جاتا ہے۔
٭ ٭ ٭
ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ 1995ء
آنچل کی تربیت
مرد اپنی برتری اور فوقیت پر چاہے کتنا ہی اترائے، اسے قبول کرنا پڑتا ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت عورت کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ماں کی گود اور بیوی کا آنچل، یہ دو بنیادی ادارے مرد کو بناتے اور سنوارتے ہیں۔ ماں کی جانب سے دی جانے والی تعلیم و تربیت پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت کو ہر کسی نے تسلیم کیا ہے کہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔
کئی مرد حضرات، بیوی کے آنچل میں تربیت پانے پر شاید ہمارے سر ہو جائیں اور اسے الزام یا تہمت قرار دے کر اس بات سے انکار کر دیں۔ براہ کرم صبر اور ٹھنڈے دماغ سے غور فرمائیے کیا یہ غلط ہے ؟
بگڑے ہوئے نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے جہاندیدہ بزرگ شادی کا مشورہ دیتے ہیں۔ ’بیوی گلے بندھ جائے گی تو آوارہ گردی اور مستی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ اونچی آواز میں گفتگو کرنا بھی بند ہو جائے گا۔ صاحبزادے بہت جلد راہ راست پر آ جائیں گے۔ ‘ ہم نے اس قدیم نسخہ کے ایسے شاندار نتائج دیکھے ہیں کہ ہمارا بس چلے تو نوجوان نسل کی فلاح و بہبود کے لیے جلد سے جلد شادی کا مشورہ دیں۔
آنچل کی تربیت کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ہم اس قول کو بھی پیش کر سکتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت ہوتی ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کی اچھی تربیت کرے گی تو وہ زندگی میں ضرور کامیاب ہو گا۔
شادی کے بعد بیوی کے آنچل میں شوہر کی تعلیم و تربیت شروع ہوتی ہے۔ بعض مرتبہ شادی سے قبل ہی تعلیم و تربیت کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ بیوی کے آنچل میں شوہر کی تعلیم کم اور تربیت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اکثر شوہر شادی تک اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہوتے ہیں اور ماں کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں اپنے پیروں پر کھڑے بھی ہو جاتے ہیں۔
آنچل کی تربیت کا پہلا سبق بخوشی و رضا اپنے آپ کو گھر کی چہار دیواری میں مقید ہونے یا کر لینے کا دیا جاتا ہے۔ شادی سے پہلے گھر کاٹنے لگتا ہے۔ گھر میں کھانے اور سونے کے علاوہ اور کوئی دلچسپی کا سامان نہیں ہوتا۔ اٹھتے بیٹھتے بڑے بزرگوں کی نصیحتوں اور طعنوں سے الگ پریشانی رہتی ہے۔ گھر پر رہنے کے لیے ورغلانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا بلکہ ہوتی ہے۔
شادی کے بعد مختلف طریقوں اور حربوں سے گھر پر رہنے کی تربیت ہوتی ہے۔ بڑے بڑے تیس مار خاں جو محفلوں کی جان اور دوستوں کی آن بان ہوا کرتے تھے، شادی کے بعد بھیگی بلی بنے گھر بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمارے ایک ’اپنی ذات میں انجمن‘ قسم کے دوست کی شادی ہوئی۔ شادی سے پہلے موصوف کے چوبیس گھنٹے یار دوستوں ہی میں کٹتے تھے۔ رات کبھی اس دوست کے گھر تو کبھی اس دوست کے روم پر بسر ہوتی تھی۔ شادی کے بعد کئی دن تک ان سے ملاقات نہ ہوئی تو ہمیں تشویس لاحق ہوئی کہ کہیں دشمنوں کی طبیعت ناساز نہ ہو۔ ہم عیادت کرنے موصوف کے گھر گئے۔ موصوف نے کھڑکی سے جھانک کر اپنی خیریت کی اطلاع دی اور پھر گھر میں غروب ہو گئے۔
گھر پر رہنے کی عادت کے ساتھ بیوی پر دل و جان سے فدا ہونے کی تربیت ہوتی ہے۔ قسم ڈالی جاتی ہے۔ وعدہ لیا جاتا ہے اور ایسے ایسے حربے استعمال ہوتے ہیں کہ منہ زور اور شہ زور مرد بیوی کے ایک اشارے پر مثل پروانہ اپنے بال و پر جلا بیٹھتے ہیں۔ تربیت کے ایسے شاندار نتائج شاید ہی کہیں اور دیکھنے میں آتے ہیں۔ اچھا خاصا شوہر خواہ مخواہ ہی بیوی کے حسن کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ایک کرنے لگتا ہے۔ آپ جنت کی حور ہیں۔ میرے لیے زمین پر آئی ہیں۔ خدا نے فرصت سے آپ کو بنایا اور مجھے عطا کر کے کرم کیا ہے۔
تربیت صرف جھوٹ بولنے پر موقوف نہیں ہوتی۔ شوہر ہر دم بیوی کا سنگ چاہتا ہے، جیسے جنم جنموں کا ساتھ ہے۔ شوہر کو بیوی کی عادت پڑ جاتی ہے۔ شوہر چاہتا ہے کہ بیوی ہر دم نظروں کے سامنے رہے، دور ہوتے ہی ’کہاں گئے ‘ کی آواز لگاتا ہے۔ بغیر بیوی چند دن نہیں گزار پاتا۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ ہمارے دفتر میں باس جب ٹائی سے فائلس باندھ کر لاتے ہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ باس کی بیوی گھر پر نہیں ہے اور آنے والے چند دن خطرناک ثابت ہوں گے۔
بیوی دور ہو تو جی نہیں لگتا۔ بھوک نہیں کھلتی۔ نیند نہیں آتی۔ بیوی کی یاد میں تارے گنتے ہیں۔ شاعری کرتے ہیں۔ طویل خطوط لکھتے اور بار بار فون کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کی بیگم گھر کا فون منقطع کر کے میکے جاتی ہیں تا کہ وہ میکے میں سکون سے رہ سکیں اور فون کے بھاری بلوں کا نقصان بھی نہ ہو۔
نامراد عاشق یوں ہی بدنام ہیں۔ ان سے زیادہ پاگل حرکات بیوی کے فراق میں شوہر سے سرزد ہوتی ہیں۔ یہ آنچل کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ ہجر کے دوچار دن بھی مشکل سے کٹتے ہوں گے کہ وصل کے بہانے ڈھونڈنے لگتے ہیں بلکہ ہمارے جیسے بیوی کے مارے جدائی ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ کب ہم اپنی بیوی سے دور رہے ہیں۔ شاید شادی سے پہلے !
بیوی مرد کو ذمہ دار انسان بناتی ہے۔ بیوی بچوں اور ان کی خواہشات اور ارمانوں کی ذمہ داری نبھانے والا فرمانبردار انسان! شادی سے پہلے کی غیر ذمہ دار اور آزاد زندگی کا خاتمہ کر کے بیوی اپنے شوہر کے گلے میں گھر گرہستی کا طوق لٹکاتی ہے۔ اس خوش گوار ذمہ داری کے سبب شوہر کی فطرت میں بنیادی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ محنت اور مشقت کی عادت پڑتی ہے۔ وہ کفایت شعار بنتا ہے۔ بعض حضرات جنھیں بازار کا راستہ معلوم نہ تھا اور جو تھیلی اٹھا کر چلنے سے زمین میں گڑھے جاتے تھے، شادی کے بعد ہم نے انھیں ہر دم تھیلی تھیلوں سے لدے پھندے دیکھا ہے۔ بے خبری اور گھوڑے بیچ کر سونے والی جوانی کی نیند رخصت ہوتی ہے۔ دو چار گھنٹوں کی اقساط میں نیند پوری کرنے کا ہنر آتا ہے۔ صبر کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ لڑائی جھگڑے سے گھبراتا ہے۔ بحث اور مباحثہ سے کتراتا ہے۔ بے چون و چرا حامی بھرنے لگتا ہے۔ ہمارے خیال میں بے صبر، زبان دراز، لا پرواہ اور کام چور نوجوانوں کے لیے بیوی جیسی دوا سے بہتر علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا ہو گا۔
مشہور ہے کہ بلی شیر کو جھاڑ چڑھنا سکھاتی ہے لیکن اترنا نہیں ! اسی طرح بیوی شوہر کو کمانا سکھاتی ہے خرچ کرنا نہیں۔ خود بے دریغ خرچ کرتی ہے۔ شوہر کو کنگال کرنے کی حد تک۔ ایک بیوی نے اپنی سہیلی سے کہا۔ ’شادی سے پہلے میرے شوہر لکھ پتی تھے، اب پتی ہیں۔ صرف میرے پتی!‘
بیوی خرچ کرتی ہے تو شوہر قناعت اور صبر کرتا ہے۔ بیوی کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ شوہر کمائے کیسے ؟ کولہو کے بیل کی طرح کام کرے، ڈاکہ ڈالے، رشوت قبول کرے یا قرض لے۔ شوہر کی آمدنی بیوی کی توقع سے ہمیشہ کئی گنا کم ہوتی ہے۔ ہم اپنی آمدنی کے تمام ذرائع کواستعمال میں لانے کے بعد لاٹری کے ٹکٹ بھی خرید رکھتے ہیں۔ کبھی نہ کبھی، ہمیں کروڑوں کا انعام نکلے گا تو شاید ہماری آمدنی بیوی کی توقعات پر پورا اترے گی! لیکن محسوس ہوتا ہے کہ بیوی مہربان ہونے کے بعد کوئی اور دیوی، قسمت یا دھن کی، ہم پر فدا ہونا نہیں چاہتی۔
بیوی شوہر کی بولتی بند کرتی ہے۔ خاموشی سکھاتی ہے۔ چپ شاہ کا روزہ رکھاتی ہے۔ شوہر کو خاموش رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ جماہی لینے کے لیے بھی مشکل سے منہ کھلتا ہے۔ شوہر کو خاموشی سکھا کر خود بیوی اس کے حصّہ کا بولنا بولتی ہے اور اس کی جانب سے بھی بولنے لگتی ہے۔ ایسی بیویاں بہت جلد مشہور ہوتی ہیں۔
بیوی مرد کو گھریلو کام کاج کی تربیت بھی دیتی ہے۔ پکوان کرنا، صاف صفائی کرنا اور بچے سنبھالنا۔ شادی سے پہلے سیکھے ہوئے سگھڑپن کے طور طریقے شوہر کی تربیت میں کام آتے ہیں۔ احباب میں ہمارے ہاتھ کی بنی چائے کی دھوم ہے۔ ہمارے ایک قریبی دوست کے بچے ابا حضور سے اکثر فرمائش کرتے ہیں۔ ’اباجی چٹ پٹا کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ ‘ اور ان کی بیگم صاحبہ حکم دیتی ہیں۔ ’دم کا گوشت، خشکہ اور کھٹی دال بنائیے۔ ‘
بے چارہ شوہر مکان پر پڑے پڑے کرے بھی کیا۔ گھر بنانے اور سنوارنے میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔ چند دن میں مہارت حاصل کر لیتا اور گھر کو جنت بنا دیتا ہے۔ کام شوہر کا اور نام بیوی کا ہوتا ہے۔ ویسے گھر کو جنت بنانے کی خواہش بیوی ہی کی ہوتی ہے اور گھر کی جنت میں وہ اپنے آپ کو حور بھی سمجھتی ہے۔
بیوی ماں باپ اور بھائی بہنوں سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں سے ! ہمارے ایک دوست سے ان کی بیوی کی لڑائی اکثر اس دعوے سے شروع ہوتی ہے۔ ’میں آپ کی ساس سے کتنی محبت کرتی ہوں اور ایک آپ ہیں جو اپنی ساس کو خاطر میں نہیں لاتے، ایسا کیوں ؟‘
بیوی مرد کو اپنی پسند اور ڈھنگ کے مطابق آداب زندگی کے معمولات اور غیر معمولات بھی سکھاتی ہے۔ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے چند مثالیں دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ بیوی کے پیچھے ڈیڑھ قدم کے فاصلے سے دائیں جانب چلنا، بیوی کی ہاں میں ہاں ملانا، وقت ضرورت ہاں جی اور جی ہاں کہنا، بقیہ وقت خاموش رہنا، کسی مسئلہ پر بیوی سے رائے لیے بغیر فیصلہ نہ کرنا، اپنا پروگرام بیوی کی اجازت سے طے کرنا، پائی پائی کا حساب دینا، دوسری عورتوں کی طرف بلکہ کسی اور جانب نہ دیکھنا، ہمیشہ بیوی کی سمت نگاہ رکھنا، کہیں اکیلے نہ جانا، وغیرہ، وغیرہ۔
آنچل کی کامیاب تربیت سے گزر کر مرد ایک مثالی شوہر بن کر نکلتا ہے جس پر بیوی ناز کرتی ہے۔ اب اس کو کیا کیجیے کہ ہر بیوی بہترین ٹیچر ہو نہیں سکتی۔ کچھ پھوہڑ عورتیں نادانی، نا تجربہ کاری یا پھر خود ان کی تربیت ٹھیک نہ ہونے کے سبب اپنے شوہر کی خاطر خواہ تربیت نہیں کر پاتیں۔ اس صورت میں وہ مثالی بیوی ثابت ہوتی ہیں۔ شوہر کے ظلم اور ستم کا نشانہ بنتی ہیں۔
دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اڑیل مرد کو سدھایا نہ جا سکے۔ بعض اوقات ایک سے زائد بیویاں بھی شوہر کو قابو میں کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ شوہر اپنی تربیت کے لیے ایک نئی بیوی بلکہ استانی کی تلاش میں رہتا ہے۔ ہم اپنے ایک دوست کو جانتے ہیں جن سے ہماری آخری ملاقات ان کی چوتھی شادی پر ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان سے ملنے پر ہماری بیوی نے پابندی عائد کر دی کہ کہیں ہم پر صحبت کا برا اثر نہ پڑنے لگے۔
بعض مرتبہ تربیت میں ضرورت سے زیادہ spoon feeding ہوتی ہے۔ نتیجہ میں شوہر اپنی انفرادیت کھو بیٹھتا ہے۔ نکما اور ناکارہ بن جاتا ہے۔ اسے قدم قدم پر بیوی سے راہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اپنے آپ سے وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ صبح اٹھا تک نہیں جاتا۔ بیوی نیند سے بیدار کر کے بچوں کی طرح اور بچوں کے ساتھ تیار کر کے شوہر کو کام پر بھیجتی بلکہ دھکیلتی ہیں۔ اپنے کام سے مطلب رکھا، کام کے دوران بھی تین چار مرتبہ بیوی سے بات کی اور مشورہ لیا اور پھر کام ختم ہوتے ہی گھر لوٹ کر اپنے آپ کو بیوی کے حوالے کر دیا۔ اب بیوی کی مرضی شوہر کو جیسے چاہے برتے ! گھر کا کام کرائے، شاپنگ کے لیے لے جائے، بچوں کا ہوم ورک کرائے، اخبار پڑھنے دے یا دوستوں سے ملاقات کی اجازت دے۔
ایسے spoonfed شوہر باہر کے معاملات میں بھی بیوی کے مشوروں کے طلب گار ہوتے ہیں۔ دفتر میں ایک شوہر نے اپنے آفیسر سے کہا۔ ’صاحب میری بیوی کہتی ہے کہ میری تنخواہ بڑھنی چاہیے۔ ‘اتفاق سے آفیسر بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے جواب دیا۔ ’میں اپنی بیگم سے پوچھ کر تمھیں کل بتاؤں گا۔ ‘
شوہر کی تربیت میں چند بیویاں غیر ضروری سختی سے کام لیتی ہیں۔ کڑا ڈسپلن قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ تھوری سی ڈھیل بھی روا نہیں رکھتیں۔ آنکھیں دکھاتی ہیں، ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہیں، روٹھ کر اور آنسو بہا کر ڈراتی ہیں۔ سختی کے سبب شوہر بگڑ جاتا ہے۔ جھوٹ بولنے اور بہانہ بازی کی عادت پڑتی ہے۔ مختلف بہانے بنا کر گھر سے اکثر غائب رہتا ہے۔ دوستوں میں یا ادھر ادھر دل لگاتا ہے۔ بیوی کے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا اور آخر تنگ آ کر تربیت مکمل ہونے سے پہلے بیوی کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
آنچل کی تربیت چند ہفتوں یا مہینوں کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک مستقل اور مسلسل تربیت ہے جو پوری ازدواجی زندگی پر محیط ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ شادی اور سیکھنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی!
دوران تربیت بیوی شوہرسے ناز نخرے کر کے، اسے ٹھینگا بتا کر، آنکھیں دکھا کر، منہ بنا کر اور آنسو بہا کر تنبیہ کرتی ہے اور روٹھ کر میکے جا کر سزا دیتی ہے۔ اس کے برخلاف بے چارہ شوہر زندگی بھر تربیت کے مختلف مراحل سے گزرتا رہتا ہے اور وہ ایک ایسا شوہر ثابت ہونے کی کوشش کرتا ہے جس پر اس کی بیوی اپنی دی ہوئی تربیت پر فخر محسوس کر سکے !
چند خوش قسمت مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو آنچل کی تربیت اور نگرانی سے یکسر محروم رہتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کی لکیروں میں بیوی نام کی لکیر نہیں ہوتی۔ ایسے اشخاص بظاہر نامراد اور نامکمل نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہی کامیاب اورself made مرد ہوتے ہیں۔
عارضی طور پر مختلف وقفوں کے لیے آنچل کی تربیت موقوف بھی ہوتی ہے۔ ایسے شوہروں کی حالت بورڈنگ اسکول میں تعلیم پانے والے بچوں جیسی ہوتی ہے جنھیں چھٹی ملتی ہے۔ وہ من مانی شرارت اور موج مستی کرتے ہیں۔ لیکن جلد ہی استانی ماں کو پتا چل جاتا ہے اور شوہر کے پر کاٹنے کے لیے بیوی واپس شوہر کو اپنی تربیت میں لے آتی ہے۔
قصّہ مختصر، شوہر کی عادات و اطوار بلکہ چال چلن تک بیوی کی تربیت اور نگرانی کے غماز ہوتے ہیں۔ اپنے اطراف شوہروں کا جائزہ لیجیے، اپنا بھی محاسبہ کیجیے اور شوہروں کی ہونے والی تربیت پر غور فرمائیے لیکن خدارا اپنا خیال ظاہر کرنے یا مشورہ دینے کی حماقت نہ کیجیے۔ خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، اس لیے کہ کوئی بھی اپنے کام میں دوسروں کی مداخلت پسند نہیں کرتا!
٭ ٭ ٭
سالنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ جنوری 1992ء
پیسہ کی گم شد گی
عرصہ سے ہمیں ایک پیسہ کا سکہ نظر نہیں آیا تو ہم نے ’تلاش گم شدہ‘ کا اشتہار دیا۔ ’پچھلے کئی دنوں سے ایک پیسہ کا سکہ دکھائی نہیں دیا۔ ہم نے گھر اور بازار میں اسے ڈھونڈا مگر بے سود۔ جس کسی کو بھی ایک پیسہ کا سکہ نظر آئے، براہ کرم ہمیں مطلع کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔ ‘
پیسہ کے تعلق سے کہیں سے بھی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ پیسہ کی یاد سے بے چین ہو کر ہم نے اپنے گھر میں پیسہ کی تلاش تیز کر دی۔ چند مہینے پہلے ہی کی تو بات ہے پیسہ ہمیں یہاں وہاں مل جاتا تھا۔ آخر ایک دن پرانے سامان کے ایک کارٹن میں ہمیں ایک پیسہ کا سکہ نظر آیا۔ ایک کونے میں یکا و تنہا بے یار و مددگار پڑا تھا۔ ہم نے اسے اٹھایا۔ اس پر جمی گرد صاف کی، اسے آنکھوں سے لگایا اور ہونٹوں سے چوما۔
ایک پیسہ کو پا کر ابھی ہم پوری طرح خوش ہو بھی نہ پائے تھے کہ ایک صبح اخبار میں پڑھا کہ حکومت نے ایک پیسہ کا چلن ختم کر دیا ہے۔ پیسہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراطِ زر کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ہم نے دو منٹ خاموش رہ کر پیسہ کا سوگ منایا اور ایک پیسہ کے سکہ کو ہتھیلی کے بیچ رکھ کر پیسہ کے بارے میں سوچنے لگے۔ سکہ اور ہتھیلی کے تناسب سے ہمیں افراطِ زر کے مسئلہ کو سمجھنے میں مدد ملی۔
ہماری نظروں کے سامنے معزول پیسہ کا شاندار ماضی گھومنے لگا۔ کہاں اس کے پہلے جیسے ٹھاٹ جب وہ جیب میں بیٹھا کھنکا اور چہکا کرتا تھا۔ نیچے گرتے ہی اٹھا کر چوما اور آنکھوں کو لگایا جاتا تھا کہ کہیں دولت ناراض نہ ہو جائے۔ اور کہاں آج اس کا یہ معزول مقام! کوئی پیسہ کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ گنتی میں اس کا شمار نہیں ہوتا اور جب پیسہ دوسرے سکوں کے درمیان آتا ہے تو اسے الگ کسی کونے میں نظروں سے دور پھینک دیا جاتا ہے۔
سنتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب پیسہ تنہا، کنوارا اور مفلوک الحال نہ تھا۔ پیسہ کا اپنا خاندان ہوا کرتا تھا۔ ایک پیسہ کے آٹھ کوڑی ہوتے تھے۔ جب ہم نے آٹھ کوڑی والے پیسہ کی شان و شوکت اور دبدبہ کے بارے میں سنا تو ہمارا دل بے اختیار آج کے پیسہ کی حالت زار پر آٹھ آٹھ آنسو بہانا چاہا۔
سنی سنائی باتوں کو چھوڑئیے، آج بھی ہمارے درمیان ایسے بزرگ موجود ہیں جو دو دھیلے والے پیسہ کے فضائل و برکات عقیدت سے بیان کرتے ہیں۔ ہماری دادی ماں کہتی ہیں کہ انھیں جب ایک دھیلہ ملتا تھا تو وہ سہیلیوں کے درمیان اترا کر چلتی تھیں۔ سر اونچا کئے میلہ جاتیں اور ڈھیر ساری مٹھائیاں اور کھلونے خرید لاتی تھیں۔
زمانہ ترقی کرتا گیا، چھوٹی قدریں مٹتی گئیں۔ کوڑیوں اور دھیلوں کو مہنگائی کھا گئی۔ پیسہ صرف پیسہ ہوا۔ اس کے باوجود اس یکا و تنہا پیسہ سے مرغی کا انڈا خریدا جا سکتا تھا۔ یہ بات جب ہمارے ایک بزرگ نے کہی تو محسوس ہوا کہ وہ ہم اور ہمارے زمانے پر طنز کر رہے ہیں۔ ہم نے ان کے طنز کا یوں جواب دیا۔ ’جناب والا۔ وہ انڈا مرغی کا نہیں چڑیا کا تھا ہو گا۔ ‘
ہمارا جواب سن کر بزرگ نے فضا میں ماضی کو تلاش کرتے ہوئے کہا۔ ’میاں چڑیوں کے انڈے تو اب کھائے جا رہے ہیں۔ ہمارا ایک پیسہ والا انڈا مشین کے بغیر پیدا ہونے والی مرغیوں کا ہوتا تھا جو مہینہ میں بارہ یا پندرہ انڈے دیتی تھیں اور تمھیں شاید نہ معلوم ہو اس وقت مرغی صرف دو یا تین آنے میں ملا کرتی تھی۔ ‘
ہم نے تعجب اور حیرت سے ایک ٹھنڈی آہ بھر ی۔ ’جانے وہ کیسی مرغیاں تھیں، وہ کیسا زمانہ تھا اور وہ کیسا پیسہ تھا!‘
’اس زمانے میں ایک پیسہ میں اخبار بھی ملتا تھا۔ اس اخبار کا نام ہی پیسہ تھا۔ ‘ بزرگوار نے ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے کہا تو ہمیں خاموش ہونا پڑا۔
وقت کے ساتھ تن تنہا پیسہ اپنی حقیقت کھونے لگا۔ پیسہ نے اتحاد کی اہمیت جانی اور چھ پیسوں نے مل کر ایک آنہ بنایا۔ اس طرح ایک روپیہ کے سولہ آنے اور چار پیسے ہوئے۔ آنے کی اہمیت مسلمہ تھی۔ ہمارے چچا جان فرماتے ہیں کہ انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کی خوشی میں اپنے دوستوں کی ضیافت صرف چار آنوں میں کی تھی۔ پہلی مرتبہ وہ اور ان کے دوست ہوٹل گئے تھے۔ بسکٹ کھائے اور چائے پی تھی۔ تین پیسوں میں ایک پیالی چائے ملی تھی جس کے ساتھ چائے کی پتی کا ایک پیکٹ مفت بھی ملا تھا۔ پیسے میں دو پان آئے تھے۔ جب انھوں نے دو پیسے کی بخشش دی تو بیرے نے فرشی سلام کیا تھا۔
گرتے ہوئے پیسہ سے مستفید ہونے والوں میں ہم اپنی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں۔ ہمیں دھندلا دھندلا سا یاد ہے۔ اسکول جانا شروع کیا تو اس وقت ایک پیسہ میں قلم، دو پیسوں میں ربر، تین پیسوں میں پنسل اور آنہ میں کاپی ملتی تھی۔ اسکول جانے کے لیے ہمیں پانچ، دس پیسوں کی ’رشوت‘ دی جاتی تھی جس سے ہم دو پیسوں میں پیپرمنٹ اور تین پیسوں میں چاکلیٹ خریدا کرتے تھے۔ اب ٹھیک طرح سے یاد نہیں رہا کہ اس وقت مرغی کے انڈے کی قیمت کیا تھی۔ شاید دس یا پندرہ پیسے ! ہمارے ’پیسہ کی یادوں ‘ کو سن کر بچے اسی طرح ہنستے اور ہمارا مذاق اڑاتے ہیں جس طرح ہم نے اپنے بزرگوں کے پیسہ کی یادوں کو سن کر اڑایا تھا۔
یوں توں کر کے بے چارہ پیسہ اپنی برادری کے ساتھ بچے کھچے دن گزارتا رہا۔ زمانہ کمزور کا ساتھ جلد چھوڑ دیتا ہے۔ یہ بات پیسے کے ساتھ بھی ہوئی۔ وہ وقت آیا جب آنوں کا چلن ختم ہوا۔ ایک روپیہ میں سولہ آنے کے بجائے سو پیسے ہونے لگے۔ بس یہیں سے پیسہ کا زوال شروع ہوا اور پیسہ اپنی رہی سہی وقعت کھونے لگا۔ اکیلے پیسہ کی کوئی اہمیت نہ تھی، پچیس پچاس پیسے اکٹھے گنے جانے لگے۔
انسان بخوشی ان چیزوں سے دوسروں کی مدد کرتا ہے جو اس کے لیے بے کار ہوتی ہیں۔ پیسہ کا سکہ بکثرت خیرات کے لیے استعمال ہونے لگا۔ فقیر بھی صدا لگاتے تھے۔ ’اللہ کے نام پر ایک پیسہ دو بابا!‘
پیسہ کو فقیر کے سکہ کا خطاب ملا۔ پیسہ میں کچھ نہ آتا تھا نہ سہی، ڈھیر ساری دعائیں ضرور مل جاتی تھیں۔ لیکن شومیِ قسمت دیکھیے کہ غریب پیسہ فقیر کے سکہ کا خطاب بھی زیادہ دنوں تک برقرار نہ رکھ سکا۔ سخی خیال کرتے کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے جبکہ فقرا کا ایمان ہوتا کہ زلف کے سر ہونے تک کون جیتا ہے۔
نتیجتاً پیسہ کے ساتھ سخی بھی ذلیل اور خوار ہونے لگے۔ فقیر خیراتی سکہ لینے کے بعد دعائیں دینے کے بجائے سخی کو پھٹکارنے لگے۔ ایک مرتبہ ہم نے پیسہ دان کیا تو فقیر نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سکہ واپس کرتے ہوئے کہا۔ ’آپ اس دولت کو اپنے پاس ہی رکھیئے۔ کسی وقت کام آئے گی۔ ‘
فقیر بابا کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوتی نظر آ رہی ہے۔ آج فقیر کا سکہ بحیثیت ایک نوادر یقیناً قیمتی ہے۔ نوادرات کی مارکیٹ میں آج ایک پیسہ کے سکے کی قیمت بیس پچیس روپے لگائی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ’پرانے پیسہ ‘ کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔
گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ ایک پیسہ کا چلن ختم ہوا تو اس کے ساتھ دو، تین اور پانچ پیسوں کے سکے بھی بازار سے غائب ہونے لگے۔ اب تو راؤنڈ فیگر کا دور دورہ ہے۔ راؤنڈ فیگر میں صفر کا چلن ہوتا ہے۔ ہر ہندسہ کو صفر پر ختم کیا جاتا ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ قربان کیا جاتا ہے۔ ایک تا نو ہندسوں کی بذات خود کوئی قدر نہیں ہے۔ راؤنڈ فیگر کے دور نے ان ہندسوں کو گول یعنی صفر کر دیا ہے۔ گول کرنے کا چکر کچھ زیادہ ہی چل پڑا ہے۔ آج پیسوں کو ہی گول کرنے کی فکر دامن گیر ہے۔
بازار میں کبھی پیسہ کی اپنی ساکھ تھی۔ اشیا کی قیمتیں پیسہ کے حساب سے بڑھتی تھیں۔ پائی پائی کا شمار ہوا کرتا تھا۔ دکان دار پائی پائی وصول کیا کرتے تھے۔ پائی پائی کے لیے تکرار ہوتی تھی اور پائی پائی کے لیے ہا تھا پائی تک ہوتی تھی۔
لیکن آج گرانی کے زیر سایہ قیمتیں پیسہ کے بجائے بیس پچیس کے ضرب سے بڑھتی ہیں۔ بازار میں پیسہ اپنا مقام کھو چکا ہے۔ پیسہ کا حساب نہیں رکھا جاتا، پیسہ کو کوئی گنتا بھی نہیں ہے اور نہ ہی پیسہ کے لیے ہا تھا پائی ہوتی ہے۔
پیسہ کے انحطاط کا اثر اردو زبان اور ادب پر بھی پڑا۔ کوڑیوں اور پیسہ والے محاورے ماضی کے واقعات بیان کرنے کے لیے استعمال ہونے لگے ہیں۔ ہمارے ایک عزیز نے اپنے زمانے کو یوں یاد کیا۔ ’اس زمانے کی کیا بات کرتے ہو میاں۔ کوڑی کے تین تین بکتے تھے۔ پیسہ پیسہ کر کے جمع کیا جاتا تھا۔ اس کے باوجود اکثر کے پاس پھوٹی کوڑی نہ ہوتی تھی۔ آج روپیہ پیسہ ہزاروں اور لاکھوں میں ہے لیکن روپے کے چار پیسے !‘
پیسہ کمزور ہوا تو روپیہ بھی مضبوط نہ رہا۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ آج روپیہ کی قیمت چالیس برس پہلے کے چھ یا سات پیسوں کے برابر ہے۔ جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے بلکہ مضمون شائع ہونے تک آ چکا ہو گا جب بچے پیسہ کے بجائے روپیہ لے کر مٹھائی خریدنے جائیں گے اور روپیہ میں مرغی کا انڈا آئے گا۔ اور پھر یہ زمانہ بھی ماضی کا قصّہ اور حصّہ بن جائے گا۔ نئی قدریں اور قیمتیں قائم ہوں گی۔ تب روپیہ کوڑیوں اور دھیلے کے برابر ہو گا!
دولت کی گرتی ہوئی قدر اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے چیں بہ جبیں ہو کر ہم نے اپنے زمانے کو برا بھلا کہا اور گزرے ہوئے زمانے کی تعریف کی تو ایک جہاندیدہ بزرگ نے ہمیں سمجھایا۔ ’زمانے کا اچھا یا برا ہونے کا دارومدار دولت کی گرتی ہوئی قدروں یا بڑھتی ہوئی مہنگائی پر نہیں ہوتا۔ اگر تمھارے پاس ضرورت سے زیادہ دولت ہے تو سمجھو زمانہ اچھا ہے اور اگر تمھاری قوت خرید کم ہے تو زمانے کو مہنگا جانو۔ ‘
بزرگوار کی بات ہماری سمجھ میں آئی۔ ارزانی اور مہنگائی کا دارومدار دولت کی فراوانی پر ہے تبھی تو چھوٹے سکے اس تیزی سے اپنی وقعت کھو رہے ہیں کہ جلد ہی ان کا چلن ختم ہو جائے گا۔ ہم قارئین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ چھوٹے سکوں کو محفوظ کر لیں (ہم نے کر لیا ہے )تاکہ بعد میں اپنے بچوں کے سامنے سینہ تان کر کہہ سکیں کہ ہمارے پاس ماضی کی سستی یادیں موجود ہیں۔
٭ ٭ ٭
ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ جون 1981ء
یہ القاب و آداب!
شادی کے بعد شوہر اور بیوی کو چند باہمی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک خراٹے مارتا ہے تو دوسرے کو روشنی میں سونے کی عادت رہتی ہے۔ ایک کو پنکھے کی ہوا راس نہیں آتی تو دوسرے کو گرمی میں اختلاج ہوتا ہے۔ ایک کو چائے پسند ہے تو دوسرے کو ٹھنڈا مشروب۔ ایسے ہی کئی مسائل میں ایک مسئلہ ایک دوسرے کو مخاطب کرنا بھی ہے۔ یعنی شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو کیسے مخاطب کرے ؟
اس گتھی کا ایک حل یہ ہے کہ فریقین کی رائے طلب کی جائے۔ ایک شوہر نے اپنی نئی نویلی دلہن سے پوچھا۔ ’دیکھیے، میں آپ کو کیسے مخاطب کروں ؟‘
بیوی نے شرماتے ہوئے اپنی پہلی خواہش کا اظہار کیا۔ ’جیسے بھی آپ چاہیں مجھے بلائیں لیکن آپ کے دل میں اور ہونٹوں پر ہر دم میرا ہی نام رہے۔ ‘
اب بیوی کی باری آئی۔ ’سنیے جی۔ میں آپ کو کیا کہوں ؟‘
شوہر نے درخواست کی۔ ’طرز تخاطب سے ظاہر ہو کہ میں آپ کا شوہر ہوں۔ ‘
ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کو نام سے پکارا جائے جیسے اور لوگ مخاطب کرتے ہیں لیکن ہمارے ایک دوست کو نام لے کر مخاطب کرنے کے انداز پر سخت اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نام لے کر مخاطب کرنے میں وہ بات نہیں جو رشتہ ازدواج کی انفرادیت میں ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایک دوسرے کو ایروں غیروں کی طرح نام لے کر بلائیں اور ساتھ میں مسٹر، مس، مسز، جناب، محترم، محترمہ، شری، شریمتی جیسے القاب بھی کیوں نہ استعمال کریں !
اعتراض کرنے والے دوست اپنی بیوی کو ’جانو‘ کہتے ہیں تو ان کی بیوی انھیں ’مانو‘ کہتی ہیں اور ہم انھیں جانو مانو فیملی کہتے ہیں۔ اس طرح ہمارے دوست نے رشتہ ازدواج کی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے۔
جہاں تک نام لے کر مخاطب کرنے کا سوال ہے، ہمیں شوہر فائدے میں نظر آتا ہے۔ شادی کے وقت شوہر چاہے تو بیوی کا نام بدل سکتا ہے۔ بیوی کو ایسی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے ! اسے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ شوہر کے نام کو نتھی کرنا پڑتا ہے۔ بعض شوہر شادی کے وقت اپنی بیوی کے لیے وہ نام تجویز کرتے ہیں جو کنوارے پن میں ان کے خوابوں کی زینت ہوا کرتے تھے۔ چند حضرات اپنی ناکام محبت کا نام رکھ کر تجدید وفا کرتے ہیں۔
ہمیں ایک دوست کی یاد آتی ہے جو ایک مشہور فلمی حسینہ سے اپنی وفا کا دم بھرا کرتے تھے۔ اس کی فلمیں بار بار دیکھتے اور اسے خطوط لکھا کرتے تھے۔ اس سے شادی کا مصمم ارادہ بھی تھا لیکن جناب مجنوں کی شادی کسی معقول لڑکی سے ہوئی۔ انھوں نے اپنی بیوی کا اچھا خاصا نام تبدیل کر کے اس پری چہرہ فلمی اداکارہ والا نام رکھ دیا جس پر وہ مر مٹے تھے۔
آزادی نسواں کے اس دور میں بعض عاقبت اندیش شوہر اپنی بیوی کے نام کو اپنے نام کا جز بنا لیتے ہیں۔ خصوصاً ادبی دنیا میں بیوی کے نام کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بیوی کے نام کو بعض شعرا اپنا تخلص بنا لیتے ہیں تو چند ادیب اپنا قلمی نام بھی رکھ لیتے ہیں۔ شوہر بیک وقت زنانہ اور مردانہ نام سے پکارا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ناقص تخلیقات بیوی کے نام سے خوب چھپتی ہیں۔ ہمارے ایک نقاد دوست نے بتایا کہ اکثر ناول بیویوں کے نام پر لکھے اور بیچے جاتے ہیں۔
ہم مشرقیوں میں شرم و حیا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ صنف نازک کے حسن کو شرم و حیا دوبالا کر دیتی ہے۔ شرم و حیا کا پاس اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کئی شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو نام سے مخاطب نہیں کرتے بلکہ اجی، جی، آپ، تم، وہ، حضرت، قبلہ، بی بی، بیگم، دلہن، اے جی، اوجی، ہاں جی، جی ہاں، اے ای، جی جی، جوجو، ذرا ادھر، میں نے کہا، سنیے، دیکھیے، پلٹیے، رکیے، سنتی ہو، دیکھتی ہو، دیکھیے تو، ادھر آنا، کہاں ہو، کہاں گئیں، کہاں گئے، کدھر ہے، کوئی ہے، میں ہوں، میں نے کہا، کہاں مر گئے، وغیرہ وغیرہ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں بھی نام نہیں لیا جاتا۔ شوہر کہتا ہے مکان میں، گھر میں، زنانے میں، میری بیگم، میرا محل، میری دلہن، میری وائف، میری بیوی جبکہ بیوی کہتی ہے ہمارے صاحب، انو، صاحب بہادر، میاں ساب وغیرہ۔
میاں اور بیوی سامنے موجود شخص یا کسی اور سے رشتہ جوڑ کر بھی ایک دوسرے کو مخاطب ہوتے ہیں۔ جیسے منے کی اماں، پپو کے ابا، آپ کے بھائی، آپ کی بہن، آپ کے دوست، تمھاری چچی، تمھارے ماموں، ثریا کی ممانی۔ اگر شوہر کو بیوی کا نام لینا پڑے تو وہ گوارا لیکن بیوی اپنے شوہر کا نام شاید ہی کبھی زبان پر لاتی ہے۔ شوہر کا نام دوسروں کے سامنے تو کجا تنہائی میں بھی زبان پر لانا مشرقی بیوی کے لیے نازیبا ہے۔ شرم سے زبان لڑکھڑانے لگتی ہے، آواز حلق میں پھنس جاتی ہے اور پسینہ آنے لگتا ہے۔ چند بیویاں اس بات پر بھی یقین رکھتی ہیں کہ شوہر کا نام لینے سے شادی کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔
اس خیال کی حامل ایک بیوی سے ہم نے شوہر کا نام دریافت کیا۔ شرماتے ہوئے جواب دیا گیا۔ ’وہ جو رات کو نکلتا ہے۔ ‘
ہمیں پہیلی بوجھ کر شوہر کے نام کا پتا لگانا پڑا۔ رات کو چور، الو، چمگاڈر اور چاند نکلتے ہیں۔ ہم نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے کہا۔ ’چاند پاشا!‘
دھیمی آواز میں ’آدھا صحیح‘ کہا گیا۔
’چاند خاں !‘ ہم نے دوسرا جواب دیا۔
جواب میں نظریں نیچی کئے گردن ہلا کر ہمارے اندازے کے صحیح ہونے کی گواہی دی گئی۔
آئیے اب تاریخی پس منظر میں شوہر اور بیوی کے طرز تخاطب کا جائزہ لیں۔ ماضی میں بیوی اپنے شوہر کو مخاطب کرنے کے لیے بڑا ٹیڑھا راستہ اختیار کرتی تھی۔ گھنٹوں شوہر کی جانب چور نگاہوں سے دیکھتی رہتی کہ کب نظریں ملیں تو عرض مدعا کریں۔ نظریں ملنے کے بعد بھی ڈرتے ڈرتے دھیمی آواز میں اپنی خواہش کا اظہار کرتی تھیں۔ شوہر کو کھانا کھلاتے ہوئے اور پنکھا جھلتے وقت عموماً بیوی کو بات کرنے کا موقع میسر آتا تھا۔
وقت کے ساتھ بیوی کی ہمت بڑھی۔ وہ سنیے جی، میں نے کہا کہہ کر شوہر کی توجہ مبذول کرانے لگی اور کچھ وقت گزرا تو منے کے ابا، پپو کے ڈیڈی، منی کے باوا جیسے خطابات سے مجازی خدا نوازا گیا اور آج بقول ہماری دادی ماں کے آنکھ کا پانی مرگیا ہے اور قیامت کے آثار قریب ہیں کیوں کہ بیوی اپنے شوہر کا نام لے کر مخاطب کرتی ہے۔
ایک مرتبہ دادی ماں کے سامنے بیوی نے ہمارا نام لے کر ہمیں مخاطب کیا۔ دادی ماں غصے سے لال پیلی ہو کر کہنے لگیں۔ ’بیٹا تم نے کسے بلایا، نوکر کو یا اپنے مجازی خدا کو؟‘
ہم دادی ماں کو کیسے سمجھاتے کہ آج لوگ حقیقی خدا کو ہی بھلا بیٹھے ہیں، مجازی خدا کس شمار میں ہے !
ماضی میں شوہر کا طرز تخاطب تحکمانہ ہوا کرتا تھا جو بدلتا ہوا بیگم، دلہن، بی بی یا عاجزانہ انداز میں نام لینے کی صورت اختیار کرتا گیا ہے۔ آج شوہر بیوی کو مخاطب کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچ لیا کرتا ہے اور ہر بار انجان ہونے ہی میں اپنی عافیت جانتا ہے۔
ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کا انداز ازدواجی زندگی کی عمر کے ساتھ بدلتا بھی ہے۔ ہم ایک صاحب کو جانتے ہیں جو شادی سے پہلے اپنی بیوی کو ’سویٹی‘ کہتے اور بیوی انھیں ’ڈارلنگ‘ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔ سویٹی اور ڈارلنگ کا سلسلہ دو بچوں کی پیدائش تک چلتا رہا۔ بچے بڑے ہوئے تو سویٹی اور ڈارلنگ کی آواز پر کان کھڑے کرنے لگے تب شوہر نے بیوی کو سویٹی کہنا بند کیا اور نام سے مخاطب کرنے لگے۔ بیوی بھی ڈارلنگ کی رٹ چھوڑ کر اجی سنیے کہنے لگیں۔
جب چھ بچے ہو گئے تو شوہر نے بیوی کو نام لے کر مخاطب کرنا بھی بند کر دیا۔ وہ بھی سنیے اور دیکھیے کہنے لگے۔ اب بیوی نے اپنا طرز تخاطب بدلا اور شوہر کو حضرت، قبلہ کہنے لگیں۔ بچوں کی شادیاں ہوئیں تو شوہر اور بیوی کبھی کبھار ایک دوسرے کو اشاروں میں مخاطب کرنے لگے اور وہ عمر بھی آئی جب دونوں دادا، دادی اور نانا، نانی بنے تب بیٹے دادا جان کو بلا لاؤ یا نانی اماں سے کہنا والا طرز تخاطب اختیار کیا جانے لگا۔
بعض شوہر اور بیوی زبانی طرز تخاطب سے احتراز کرتے ہیں، وہ اشاروں میں بات کرتے اور ایک دوسرے کے اشاروں پر چلتے بلکہ ناچتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کی بیوی جب شہادت کی انگلی اٹھاتی ہیں تو یہ دوست کے لیے عام بلاوا ہے۔ شہادت کی انگلی کے ساتھ درمیانی انگلی بھی اٹھ جائے تو ایمرجنسی کا اعلان ہے اور ٹھینگا لڑائی کا سگنل ہے۔
ایک موسیقی کے رسیا شوہر میز، کرسی یا دیوار تھپتھپا کر اپنی بیوی کو متوجہ کرتے ہیں۔ اشاروں اور کنایوں میں شوہر سے زیادہ بیوی مخاطب کرتی ہے۔ چوڑیوں کی کھنکار اور پازیب کی جھنکار سے لے کر چمچوں اور برتنوں کی آواز تک، شوہر کو بلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ آنکھ کے اشاروں سے کام لینے والے شوہر اور بیوی میں ہم شاندار آہنگی ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھ کا تارا بنے رہتے ہیں۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آنکھ کے اشاروں سے مخاطب کرنے والے شوہر اور بیوی دوسروں کے لیے غلط فہمی بلکہ خوش فہمی پیدا کر سکتے ہیں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی آنکھ کی رینج میں رہ کر اشارے کرتے ہیں اور شاید ہی آؤٹ آف فوکس ہوتے ہیں۔
محبت کر کے شادی کرنے والے جوڑے ایک دوسرے کو رومانی نام سے مخاطب کرتے ہیں۔ ڈارلنگ، ڈیر، کوین، بیوٹی، سویٹی، اسمارٹی، مائی لو جیسے القاب انگریزی زبان سے مستعار لیے گئے ہیں۔ بہت کم عاشق اردو کے محبت بھرے الفاظ جیسے جان من، دلربا، دل آرام، دلبر، جان جاناں، وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ شاید محبت کی تشہیر اور اظہار کے لیے انگریزی زبان موزوں ہے حالانکہ محبت تو سبھی زبان والے کرتے ہیں۔
چند شوہر اور بیویاں ایک دوسرے کو عجیب و غریب نام سے مخاطب کرتی ہیں۔ ایک صاحب شادی کے بعد بھی اپنی بیوی کو ’مس‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ہماری ایک عزیزہ اپنے شوہر کو ’ہوں۔ ۔ ۔ ہوں۔ ۔ ۔ ‘ کہہ کر اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ اس عجیب و غریب طرز تخاطب کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ ایک قسم کا کوڈ لگتا ہے یا پھر رشتہ ازدواج میں بے اعتدالی کا نتیجہ ہے۔
ہمارے حلقہ احباب میں ایک صاحب اپنی بیوی کا تذکرہ ’ہوم ڈیپارٹمنٹ‘ جیسی اصطلاح سے کرتے ہیں تو ہمارے ایک عزیز اپنی بیوی کو’ قوم‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو’ پبلک‘ بنا رکھا ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ ایک صاحب اپنی بیوی کو’ ہماری تہذیب‘ کہتے ہیں۔ ہمارے ایک اور ساتھی نے اپنی بیوی کو وزیر اعظم کا خطاب دے رکھا ہے جس کے صلہ میں ان کی بیوی انھیں ’صدر محترم‘ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔
چند بیویاں اپنے شوہروں کو ان کے عہدوں، پیشوں یا ان کے کاروبار کی مناسبت سے مخاطب کرتی ہیں۔ مثلاً وکیل صاحب، تحصیلدار صاحب، سیٹھ صاحب، ڈاکٹر صاحب۔ اس ضمن میں ایک محترمہ اعتراض کرتی ہیں کہ عہدوں کا نام لے کر مخاطب کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے خواتین عہدیداروں کی بجائے ان عہدوں کی بیویاں ہیں۔
عہدوں کا نام لے کر مخاطب کرنے کا ایک مقصد دوسروں پر رعب ڈالنا بھی ہوتا ہے۔ ایک بیوی نے دوران گفتگو ’ہمارے ڈاکٹر صاحب‘ کہا تو ہم سمجھ گئے کہ ان کے میاں ڈاکٹر ہیں۔ کچھ دیر بعد انھوں نے کہا۔ ’ہمارے انسانوں کے ڈاکٹر صاحب‘ تو ایک لمحہ کے لیے ہمیں محسوس ہوا کہ یہ اپنے دوسرے شوہر کے بارے میں گویا ہیں لیکن جلد ہی ہم نے اپنی تصحیح کر لی کہ موصوفہ کے شوہر انسانوں کے ڈاکٹر ہیں اور وہ جانوروں کا علاج نہیں کرتے !
گفتگو کے دوران موقع ملنے پر موصوفہ نے پھر کہا۔ ’ہمارے ڈاکٹر صاحب جو بچوں کے اسپیشلسٹ ہیں۔ ۔ ۔ ‘ تو ہمیں مجبوراً ان کے شوہر کے بارے میں تفصیلات پوچھنا پڑا کہ وہ کب اور کہاں پیدا ہوئے اور موصوفہ سے ان کی شادی کیوں کر ہوئی؟
بعض شوہر اور بیویاں شادی سے پہلے کے طرز تخاطب کو تھوڑا سا تبدیل کر کے مخاطب کرتے ہیں۔ ایک صاحبہ جمیلہ سے جمی ہو گئیں تو ایک صاحب مظہر سے مجو ہو گئے۔ ہمارے ایک دوست نے ٹیوشن پڑھاتے پڑھاتے نکاح پڑھوا لیا۔ شادی کے بعد بھی موصوف کی بیوی اپنے شوہر کو ’ماسٹر صاحب‘ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ غصّے میں صرف ’ماسٹر‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، ’صاحب‘ غصے کی نذر ہو جاتا ہے۔ ایک محترمہ مالک مکان سے شادی کے بعد بھی شوہر کو ’مکاندار‘ کے نام سے مخاطب کرتی ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے اپنی سکریٹری سے شادی رچا لی۔ شادی کے بعد بھی بیوی انھیں ’باس‘ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں جبکہ عملاً بیوی باس بنی ہوئی تھی۔
چند خاندانوں میں قریبی رشتہ داروں سے رشتہ ازدواج استوار کرنا عام ہے۔ ان میں شادی سے پہلے کے رشتے کو بگاڑ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ ایک محترمہ کی شادی ان کے چچازاد بھائی سے ہوئی جنھیں وہ ’بھائی جان‘ کہا کرتی تھیں۔ شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کو صرف ’جان‘ کہنے لگیں اور ساتھ ان کی جان کھانے بھی لگیں۔ ایسی ہی ایک شادی کے بعد بیوی نے شوہر کو جو کزن تھے، بھائی سے ’بھوئی‘ بنا دیا۔
بعض شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو فلمی نام سے بھی مخاطب کرتے ہیں۔ ایک بیوی اپنے شوہر کو ’مغل اعظم‘ کہا کرتی ہیں تو ایک صاحب اپنی بیوی کو ’بیڈٹ کوین‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ سلیم صاحب اپنے نام کی مناسبت سے بیوی کو ’انارکلی‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ایک محترمہ اپنے نام شمع کی وجہ سے شوہر کو ’پروانہ‘ کہتی ہیں۔ تشبیہات اور استعاروں کے ذریعہ بھی شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہیں۔ چاند، گل، بلبل، گلابو، چاندنی، جیسے نام سے مخاطب کرتے ہوئے ہم نے خود سنا ہے۔
ہم شاہد ہیں کہ شوہر اور بیوی کی عمروں میں فرق طرز تخاطب پر اثرانداز ہوتا ہے۔ شوہر زیادہ بڑا ہوا تو بیوی یقیناً نام نہیں لیتی اور حضرت، قبلہ، محترم کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔ زیادہ چھیڑنا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔ شوہر ہی آگے پیچھے بار بار بیوی کا نام لیتے ہوئے بیوی کی ناک میں دم کئے رکھتا ہے۔ شوہر اور بیوی کی عمروں میں گوارا فرق ہو تو نتیجہ عجیب و غریب اور پیار بھرے طرز تخاطب کی صورت میں نکلتا ہے۔ بیوی اگر شوہر سے بڑی ہو تو طرز تخاطب اشاروں اور کنایوں میں ہوتا ہے۔
اب وہ زمانہ رہا نہیں کہ جب شوہر بیوی کے سر کا تاج یعنی سرتاج اور بیوی، شوہر کے چرنوں کی داسی ہوا کرتی تھی۔ آج مساوات کا دور دورہ ہے۔ شوہر اور بیوی جس طرح چاہیں ایک دوسرے کو مخاطب کر سکتے ہیں بلکہ مخاطب کرنا بھی مرضی کی بات ہے۔ وہ ایک دوسرے کو مخاطب کئے بغیر بھی ایک چھت کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔
بچے اور نوکر پیام رسانی کا کام کرتے ہیں۔ بعض مرتبہ برتنوں اور گھر کی دیگر چیزوں سے عملی مخاطبت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور طرز تخاطب ہمیشہ کے لیے موقوف بھی ہو سکتا ہے۔
طرز تخاطب کے تعلق سے ہم نے اپنے مشاہدے کو آپ کی نذر کیا ہے۔ ہم قارئین سے سوال کرتے ہیں۔ ’ اس بارے میں آپ کا نقطہ نظر کیا ہے اور آپ ایک دوسرے کو کیسے مخاطب کرتے ہیں ؟‘
جی کیا کہا، یہ ایک خالص نجی اور گھریلو معاملہ اور آپس کی بات ہے !
۔ ۔ ۔ تو پھر جناب ہمارا کہا سنا معاف۔
٭ ٭ ٭
اردو ڈائجسٹ، پاکستان۔ اکٹوبر 2001ء
بڑھتی کا نام توند
قدرت نے ہر انسان کو ایک عدد خالی پیٹ عطا کیا ہے۔ قدرت کا یہ انمول عطیہ پیٹھ کو لگا رہتا ہے اور بہت پریشان کرتا ہے۔ خالی پیٹ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ کوئی بات پلے نہیں پڑتی۔ محسوس ہوتا ہے کہ سر سے دماغ اتر کر خالی پیٹ میں گھر کر گیا ہے۔ آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ چکر آتا ہے۔ پسینہ چھوٹنے لگتا ہے۔ پیٹ میں جلن ہوتی ہے اور آخر پیٹ میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے انسان خالی پیٹ کو مختلف اشیا سے بھرتا ہے۔
سیر بھر گنجائش رکھنے والا پیٹ بھرنا آسان اور سہل معلوم ہوتا ہے۔ انسان اسے آسانی سے بھر بھی لیتا ہے بلکہ روز ازل سے ہی وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے لا کر پیٹ بھر نے میں سرگرداں ہے۔ لیکن بھرا پیٹ اتنی ہی آسانی سے بہت جلد خالی بھی ہو جاتا ہے۔ انسان اسے پھر بھرتا ہے اور پیٹ پھر خالی ہو جاتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ پیٹ سیر بھر جھولی نہیں، عمرو عیار کی زنبیل ہے۔ کون سی غذا اور کیسا پانی، اس کے اندر ہر شے غائب ہو جاتی ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ بھرا پیٹ سینہ کی برابری کرتا ہے اور بار بار بھرنے والا پیٹ سینہ کو پیچھے چھوڑنے لگتا ہے۔ یہی وہ مبارک اور مسعود وقت ہوتا ہے جب پیٹ سینہ سے آگے نکل کر توند بننے لگتا ہے۔ آپ نے پیٹ کو بڑھ کر توند بنتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ خدا نے استطاعت دی ہے تو خود آپ کو اپنے پیٹ کا توند میں منتقلی کا تجربہ ہوا ہو گا۔ میں اس تجربہ سے گذر چکا ہوں۔ اسی لیے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی جسارت کی ہے۔
پیٹ کی بار بار خالی ہونے کی صلاحیت اور اسے بھرنے کی ضرورت پوری کرتے کرتے بعض لوگوں کو ہر وقت منہ چلانے کی عادت پڑ جاتی ہے جو پیٹ کو توند بناتی ہے۔ کچھ پیٹ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھرتے ہی جاتے ہیں لیکن توند نہیں بنتے۔ ’ہر پیٹ کو میسر نہیں توند ہونا ‘والی کیفیت ہوتی ہے۔ اس قسم کے پیٹ کے برخلاف چند پیٹ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ نہ کھاتے ہوئے بھی توند بنتے جاتے ہیں۔ لگتا ہے یہ پیٹ غبارے ہیں اور ان میں ہوا بھری جا رہی ہے۔ دو قسم کے پیٹ کے درمیان فرق کی وجوہات ماہرین جانتے ہوں گے۔ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خوش قسمت ہیں ایسے لوگ جنھیں توند نہ بننے والے پیٹ ملے ہیں اور جو توند بننے والے پیٹ رکھتے ہیں ان سے مجھے دلی ہمدردی ہے اور ان کے مسائل میں برابر کا شریک بھی ہوں۔ ان سے گذارش ہے کہ وہ مجھے اپنا ’توند شریک بھائی ‘مان لیں۔
پیٹ بڑھنے لگتا ہے تو اس کی جنس تبدیل ہو تی ہے۔ پیٹ مذکر ہے اور توند مونث۔ تبدیلی جنس کا یہ عجیب و غریب واقعہ ہے۔ میری ناقص رائے کی اہمیت اگر ہوتی تو میں پیٹ کو مونث اور توند کو مذکر قرار دیتا۔ بچپن میں استاد محترم نے تذکیر و تانیث کا آسان قاعدہ بتایا تھا کہ چھوٹی چیز مونث اور بڑی شئے مذکر ہوتی ہے۔ لیکن پیٹ اور توند اس قاعدے کی نفی کرتے ہیں۔ صرف اس قاعدے پر کیا موقوف ہے پیٹ کے لیے کئی قاعدے اور قوانین قربان کئے جاتے ہیں۔
آس پاس کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت توند رکھتی ہے۔ اس مشاہدے کی بنا پر میرے ایک دوست نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ لوگ توند چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بغیر توند انسان ترقی یافتہ نہیں معلوم ہوتا۔ توند در اصل ترقی کی نشانی ہے۔ جانوروں کی توند نہیں ہوتی۔ اسی طرح جنگلی انسان کی بھی توند نہیں نکلتی تھی۔ اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آج جس کی توند نہیں وہ ترقی یافتہ یا ترقی پذیر نہیں ہے۔
پیٹ کا تعلق بھوک سے ہے جبکہ توند کا رشتہ حرص سے ہوتا ہے۔ ماضی میں توند اتنی عام نہ تھی۔ ان کے پاس صرف پیٹ ہوتا تھا۔ حرص نہیں۔ اسی لیے وہ ترقی یافتہ نہ تھے۔ اگر لالچ اور طمع نہ ہو تو انسان ترقی نہیں کر سکتا! ترقی کرنے کے لیے موصوف کا مشورہ ہے کہ ہر ایک کو توند پالنا چاہیے۔
توند پالنے کا مشورہ سن کر مجھے ہنسی آئی۔ لوگوں کو کتا، بلی، کبوتر، طوطا، مینا پالتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے لیکن توند پالنے کی اصطلاح میں پہلی مرتبہ سن رہا تھا۔ میں نے توند پالنے کی اصطلاح اور صاحب توند لوگوں کی بابت غور کیا تو اندازہ ہوا کہ موصوف غلط بھی نہیں کہہ رہے ہیں۔ الم غلم چیزیں اور زیادہ کھا کر لوگ توند پالتے ہیں۔
توند پالنے کے سلسلہ میں میرے دوست انتباہ بھی دیتے ہیں کہ توند بے حساب اور بے تحاشہ نہیں ہونی چاہیے۔ انسان کو بس ایک چھوٹی سی توند کا طلب گار ہونا چاہیے۔ میں نے چھوٹی توند کی تعریف پوچھی تو میرے دوست نے ماہر توند بن کر فرمایا۔ ’جب گردن جھکائی تو تصویر یار کے دیدار کے ساتھ اپنے جوتوں کی حالت بھی نظر آنی چاہیے اور کبھی برا وقت آن پڑا تو فرار کی راہ میں توند رکاوٹ کا سبب نہ بنے۔ ‘
توند ترقی کی نشانی ہونے سے زیادہ خوشحالی کی علامت ہے۔ خوشحال اور متمول لوگوں کی توند ضرور ہوتی ہے۔ سیٹھ کا بڑا پیٹ مشہور ہے۔ بہت کم سیٹھ اور ساہوکار توند کے بغیر پائے جاتے ہیں۔ مجھے سیٹھ کی توند تجوری کے مماثل دکھائی دیتی ہے۔ جتنی بڑی توند ہو گی سیٹھ اتنا ہی زیادہ دولت مند ہوتا ہے۔ توند اور دولت کے رشتے کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ گنجے پن کو بھی امارت اور خوشحالی کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ذہن کے کسی گوشے سے یہ خیال ابھرتا ہے کہ انسان کچھ پاتا ہے تو بہت کچھ کھوتا بھی ہے اور کیا امارت انسان سے اس کی خوبصورتی چھین لیتی ہے ؟
توند ترقی، خوشحالی اور امارت کی نشانی ہونے کے علاوہ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ صاحب توند اچھے اور لذیذ کھانوں کے شوقین اور خوش خوراک ہیں اور ان کا محبوب مشغلہ خورد و نوش ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طعام خانوں کے اکثر مالکین بڑی بڑی توند کے مالک بھی ہوتے ہیں۔
توند مختلف شکلیں اختیار کرتی ہے لیکن ہر توند اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔ لوگ توند سے پہچانے بھی جاتے ہیں۔ کوئی توند نارنگی کی طرح گول ہوتی ہے تو کوئی توند سیب یا ناشپاتی کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ کوئی توند امرود کی شکل رکھتی ہے تو کوئی توند شملہ مرچی جیسی ہوتی ہے۔ آس پاس لوگوں کی توند پر نظر دوڑائیے اور توند کی نئی شکلیں دریافت کیجیے۔ لیکن یاد رہے، توند کی شکل کھانے کی اشیا جیسی ہونی چاہیے، اس لیے کہ ماہرین کے مطابق توند زیادہ کھانے پینے کا نتیجہ ہے۔
توند چاہے جیسی بھی شکل اختیار کر جائے اسے چھپایا نہیں جا سکتا جبکہ موجودہ دور میں توند نہ ہونا فیشن ہے۔ سنتے ہیں کہ ماضی میں توند پالنا فیشن ہوا کرتا تھا۔ لوگ توند اور صاحب توند کی قدر کرتے تھے۔ توند کا اسٹیٹس سمبل میں شمار ہوتا تھا۔ اب ناقدری کا زمانہ ہے۔ توند کا نہ ہونا فیشن ہے۔ توند کو چھپانے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ توند کو کس کر اس طرح باندھا جاتا ہے کہ وہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ توند کو ڈھیلے کپڑوں میں چھپایا جاتا ہے۔ توند کو اندر کھینچے رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن جناب توند ہے کہ ظاہر ہو ہی جاتی ہے۔
توند ظاہر ہوتے ہی لوگوں کی نظروں میں کھٹکنے لگتی ہے۔ اکثر لوگ کچھ کہتے نہیں ہیں، صرف توند کو گھورتے رہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے انھوں نے اب تک کوئی گنبد یا گول چیز نہیں دیکھی ہے۔ بعض حضرات سے رہا نہیں جاتا، سوال کرتے ہیں۔ ’یہ کیا ہے ؟ کتنے مہینوں کا ہے ؟‘
یہ سوال جب ایک عظیم الشان توند رکھنے والے صاحب سے کیا گیا تو انھوں نے توند پھلا کر جواب دیا۔ ’توند کا حساب مہینوں میں نہیں برسوں میں ہوتا ہے۔ ادھیڑ عمر میں توند نکلنی شروع ہوئی تھی، اب ماشاء اللہ عنفوان شباب میں ہے۔ ‘
احباب توند کم کرنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں جو توند رکھنے والوں کے لیے طنز کا درجہ رکھتا ہے۔ بے چارے توند کم کرنے کے تمام حربے آزمانے کے بعد تھک ہار کر اپنی عزیز توند کے وجود کے لیے مختلف بہانے اور تاویلات تلاش کر لیے ہوتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ پیٹ میں گیس ہے۔ کوئی سبب بتاتا ہے کہ وہ پانی زیادہ پیتا ہے۔ کوئی خاندانی ہونے کا بہانہ کرتا ہے۔ کوئی غذا میں ملاوٹ کا عذر پیش کرتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی لاعلمی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ’معلوم نہیں یہ کم بخت کیوں بڑھ رہی ہے۔ ‘
توند موٹاپے کا پیش خیمہ ہے۔ یوں سمجھیے کہ موٹاپا توند کی شکل میں چونچ نکال کر آ تا ہے۔ توند آگے بڑھتے رہنے سے وزن میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور صاحب توند کی ہئیت میں تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ سامنے بڑھتی توند کو سہارا دینے کے لیے صاحب توند عجیب انداز سے پیچھے جھک جاتے ہیں۔ پیچھے جھکنے کی بھی حد ہوتی ہے۔ جب پیچھے جھکنا ممکن نہیں ہوتا تو توند کو تپائی پر ٹکانا اور ٹرالی میں اٹھائے پھرنا پڑتا ہے۔
توند بڑھتی ہے تو سینہ پر چڑھائی کرتی ہے۔ سینہ اور پیٹ کے حدود ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ پتہ نہیں چلتا کہاں سینہ ختم ہو رہا ہے اور کہاں توند شروع ہو رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی توند پیروں پر چھا جاتی ہے، اس سے جسم کا آدھا حصّہ خود کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ آئینہ میں انھیں اپنے پیروں کا عکس دیکھنا پڑتا ہے۔
بعض توندیں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ توندو حضرات صرف توند کے بنے ہیں۔ بڑی گنبد نما توند کے نیچے دو پیر ہیں جو توند کے بوجھ سے ٹیڑھے ہو چلے ہیں۔ توند کے اوپر ایک چھوٹا سر رکھا ہے جو معلوم نہیں کب کچھوے کے سر کی طرح توند کے اندر گم ہو جائے گا۔ بازو میں دو عدد ہاتھ ہیں جو توند کو گھیرے میں لینے سے قاصر ہیں۔
توند بڑے کام کی چیز ہے۔ توند کے سبب توند پالنے والے کو کئی فائدے حاصل ہیں۔ سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ توند رکھنے والا جی بھر کر کھا سکتا ہے۔ پیٹ جو بڑا ہوتا ہے۔ زیادہ غذا توند میں جمع ہوتی ہے۔ بعض توندوں میں چند دن تو بعض میں چند مہینوں کا کھانا اکٹھا رہتا ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جمع کی گئی غذا قحط کے دنوں میں کام آ سکتی ہے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ توند کے باوجود بھوک لگتی ہے کیوں کہ بھوک کا رشتہ پیٹ سے ہے، توند سے نہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ توند رکھنے والوں کو بھوک کچھ زیادہ لگتی ہے۔ ان کا جسم ننانوے کے پھیر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ ان کے یہاں صرف جمع ہی جمع ہوتا ہے اور جو جمع ہو جاتا ہے وہ خرچ نہیں ہوتا۔ اسی لیے توند پالنا آسان ہے اور توند سے چھٹکارا پانا بہت مشکل!
توند سے جان چھڑانا کتنا مشکل ہے، یہ بات کسی توندو سے پوچھیے۔ میں نے ایک بڑی توند کے مالک سے پوچھا۔ ’کیا آپ نے کبھی اپنے اکسس بیاگیج سے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی؟‘
موصوف غضبناک نگاہوں سے مجھے گھورا جیسے توند کو اکسس بیاگیج کہنے پر انھیں غصہ آیا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ توند زائد وزن ہی ہے جو نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ بے کار اور بے مصرف بھی ہے۔ چنانچہ بعض ہوائی کمپنیاں توند اور زیادہ وزن رکھنے والوں سے ایک کے بجائے دو ٹکٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
چند لمحے خاموش رہ کر اپنے غصہ پر قابو پانے کے بعد انھوں نے بتایا۔ ’ بہت کوشش کی۔ سخت پرہیز کیا۔ فاقے کئے۔ ہوا کھائی۔ بھاگ دوڑ اور اچھل کود کی۔ دوائیں کھائی۔ شرطیہ وزن کم کرنے والوں کے ہاتھوں بے وقوف بنا۔ ۔ ۔ ‘
میں نے نتیجہ جاننے کے لیے بے چین ہو کر انھیں درمیان میں روک کر سوال کیا۔ ’ پھر کیا توند کم ہوئی؟‘
’نہیں توند جیسی کی ویسی رہی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ لیکن ہاتھ پیر دبلے ہونے سے میری حالت عجیب و غریب ہوئی۔ احباب دیکھ کر ہنسنے لگے تو میں نے توند چھڑانے کی کوششیں ترک کر دیں۔ ‘ انھوں نے مایوسی سے جواب دیا۔
توند کم کرنے کی سعی ترک کرنے کے بعد یہ مزید بڑھنے لگتی ہے۔ بعض توندیں بڑھ کر اتنا آگے نکل آتی ہیں کہ ان کو ٹیبل کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میں نے ایک شخص کو اپنی توندی میز پر چائے بسکٹ رکھ کر لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ میرے ایک دوست بتاتے ہیں کہ وہ اپنی توند پر کتاب رکھ کر مطالعہ کرتے ہیں اور ان کا لڑکا توندپر نوٹ بک رکھ کر ہوم ورک کرتا ہے۔ ایک صاحب کو میں نے توند پر پان پھیلائے چونا کتھا لگاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
ٹیبل کے علاوہ توند تکیہ کا کام بھی کرتی ہے۔ ایک بیگم صاحبہ اپنے سرتاج کی توند پر سر رکھ کر آرام کرتی ہیں تو ان کے ہونہار بروا توند پر مکے برسا کر باکسنگ کی مشق کرتے ہیں۔
توند پالنے سے جھکنا مشکل ہوتا ہے۔ فرش پر ادب سے بیٹھا نہیں جاتا۔ اونچی جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے۔ صاحب توند اگر چاہے بھی تو جھک نہیں سکتا۔ توند کا یہ ایک بہت بڑا فیض ہے، ورنہ لوگ غیر ضروری جھک جھک کر دوسروں کو بڑا کر دیتے ہیں۔ بعض توندیں ایسی ہوتی ہیں جن کے سبب جھکنا مشکل ہی نہیں خطرناک بھی ہوتا ہے۔ جھکنے کی کوشش میں توازن بگڑ جاتا ہے اور توندو توند کے بل زمین پر ڈھیر ہو جاتا ہے۔
توند کے سبب لوگ اوندھے منہ گرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ ناک اور منہ کو ٹوٹنے اور پھوٹنے سے توند بچا لیتی ہے۔ سر بھی محفوظ رہتا ہے۔ اس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے کہ توند رکھنے والوں کو ہیلمیٹ کی ضرورت نہیں پڑتی ہو گی۔ لیکن انھیں صرف قیاس پر بد احتیاطی نہیں کرنی چاہیے ورنہ نتیجہ کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔
صاحب توند جہاں دوسروں کے آگے جھک نہیں سکتا وہیں خود اپنے لیے بھی جھکنے سے معذور رہتا ہے۔ ناخن تراشنا، موزے پہننا اور جوتوں کی ڈوریاں باندھنا ممکن نہیں ہوتا۔ سانس پھولنے لگتی اور دم اکھڑنے لگتا ہے۔ لڑھکنے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ اسی لیے یہ کار خیر دوسروں کو انجام دینا پرتا ہے جبکہ صاحب توند بے نیاز اکڑا اور تنا ہوا رہتا ہے۔ جی ہاں، توند کے سبب صاحب توند شخص تن جاتا ہے۔
توند آگے آگے پائلٹ کی طرح رہنمائی کرتی ہے اور صاحب توند اطمینان سے توند کے پیچھے پیچھے رواں دواں رہتا ہے۔ توند کا آگے رہنا ہی مفید ہے۔ اگر وہ پیچھے ہوتی تو شاید توند ہمیں اتنا فائدہ نہیں پہنچاسکتی تھی۔ بھیڑ میں توند آسانی سے راستہ بناتی ہے۔ کسی سے ٹکرانے پر توند شاک ابزاربر کا کام کرتی ہے۔ حادثہ ہونے پر توند اعضائے رئیسہ کو بچاتی ہے۔ لڑائی کے دوران دشمن پر توند سے حملہ کیا جا سکتا ہے اور توند اپنے مالک کو دشمن کے حملہ سے بچاتی بھی ہے۔ دشمن کو صاحب توند تک پہنچنے کے لیے توند کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ مقابلے میں توند ٹینک کی طرح کام کرتی ہے۔ دشمن کو توند تلے روندا جا سکتا ہے۔
گلے ملنے میں توند حائل ہوتی ہے۔ توند رکھنے والوں سے گلے ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ توند پر چڑھائی کر کے صاحب توند کے شانوں تک پہنچنا پڑتا ہے جو اکثر ممکن نہیں ہوتا۔ ان سے ہاتھ ملانے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے یا پھر ان کی توند کو چھوکر اپنے خلوص اور عقیدت کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ چھوٹے قد کے حامل اشخاص اور بچوں کو رعایت حاصل رہتی ہے کہ وہ توند سے لپٹ سکتے ہیں۔ توندو سے جب گلے ملنا اتنا مشکل ٹھہرا تو پھر ان کے گلے پڑنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اسی طرح توندو اشخاص کا آپس میں گلے ملنا بھی محال ہوتا ہے۔ وہ توند سے توند ملا لیتے ہیں لیکن پڑوسی ملکوں کی حکومتوں کے سربرا ہوں کی طرح دل نہیں !
توند آرام پہنچاتی ہے۔ محنت اور مشقت کرنے میں توند رکاوٹ بنتی ہے۔ گھومنے پھرنے میں بھی توند آڑے آتی ہے۔ ہر جگہ توند آسانی سے نہیں سماسکتی، مخصوص مقامات پر ہی توند کی رسائی اور پذیرائی ہوتی ہے۔ صاحب توند بھی اپنا پٹارا لیے ادھر ادھر جانے سے شرماتے ہیں۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن سے توندو کو راحت میسر آتی ہے اور وہ خراٹے بھرتے ہوئے آرام کرتا ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ توندو زیادہ خراٹے مارتے ہیں۔ زیادہ خراٹے مارنے کا سبب ماہرین کچھ اور بتاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ توندو اشخاص سانس سینہ کے بجائے توند سے لیتے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ سانس لیتے وقت توند بڑھتی اور کم ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے جب توند سانس لینے لگے گی تو خراٹے بلند ہوں گے۔
توند بچوں کو لبھاتی ہے۔ توند میں بچے غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کی توند نہیں نکلتی اور توند آنا بڑوں کا مسئلہ ہے۔ لیکن فاسٹ فوڈ کے دور میں بچوں کی بھی ننھی منی اور انھیں کی طرح خوبصورت اور معصوم توند نکل رہی ہے۔ بچے بڑوں کی توند کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔ انھیں توند غبارہ کی مانند نظر آتی ہے۔ بچے ’انسانی بیلون‘ کو تجسس سے دیکھنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسے چھوکرمحسوس کرنا چاہتے ہیں کہ اندر کیا ہے۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا تو پوچھ لیتے ہیں۔ ’انکل اس میں کیا ہے ؟ باہر نکالیے، میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘
ایک مرتبہ ایک بچہ بڑی توند دیکھ کر مچل اٹھا اور بیلون پھوڑنے کی ضد کرنے لگا۔ بہت مشکل سے اسے منایا گیا کہ بیٹا اس بیلون کو پھوڑنے پر آواز نکلتی ہے اور نہ ہی ہوا خارج ہوتی ہے۔ انکل کا کھایا پیا باہر آتا ہے۔
توند نہ صرف اپنے پالن ہار کو فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی سودمند ثابت ہوتی ہے۔ توند کے سبب تسمہ بنانے اور بیچنے والوں کا کاروبار خوب چل پڑتا ہے۔ توند پر کپڑوں کو مختلف بیلٹ سے باندھ کر رکھنا پڑتا ہے۔ توند سے درزی بھی خوش رہتے ہیں۔ بڑھتی کا نام توند کی طرح یہ دن بہ دن بڑھتی جاتی ہے۔ کپڑے جلد تنگ ہو جاتے ہیں اور توند کو گھٹن سے بچانے کے لیے نئے کپڑے بنوانے پڑتے ہیں۔
توند سے ڈاکٹروں کو بھی فیض پہنچتا ہے۔ توندو اشخاص مستقل ڈاکٹر کے زیر علاج رہتے ہیں۔ مختلف بیماریاں اور ڈاکٹر انھیں گھیرے رہتے ہیں۔ دواؤں سے افاقہ نہ ہونے کی وجہ توند بتائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر مرض بلکہ امراض کے علاج کے لیے توند میں کمی کا مشورہ دیتے ہیں لیکن توند کا کم ہونا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ شاید قدرت کو بھی توند سے پہنچنے والے فائدوں کا اندازہ ہے۔
٭ ٭ ٭
سالنامہ شگوفہ، حیدرآباد۔ جنوری 2004ء
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید