FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

 

غبار خاطر

 

 

ابو الکلام آزادؒ

 

مرتّبہ: محب علوی، اعجاز عبید

 

 

حرفے چند

 

یہ کتاب مولانا ابو الکلام آزاد کے ان خطوط پر مبنی ہے جو مولانا نے احمد نگر قلعے کی جیل سے ’صدیقِ مکرم‘ یعنی مولانا حبیب الرحمٰن خاں شیروانی (شیروانی کو اصل کتاب میں شروانی لکھا گیا ہے) کو لکھے گئے تھے جو کبھی سپرد ڈاک نہیں ہو سکے۔ صرف لکھ کر اپنے پاس رکھ لئے گئے، بعد میں ایک فائل میں رکھ کر مکتوب الیہ کو دیے گئے تو انہیں ان کے دیدار ہو سکے۔

مکتوب الیہ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی (۱۸۶۷ء تا ۱۹۵۰ء) ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاد، مولانا شبلی نعمانی کے رفیق اور خود بھی اردو کے ادیب تھے۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن کے ۱۹۱۸ء میں پہلے وائس چانسلر بھی تھے اور نظام دکن سے انہیں نواب صدر یار جنگ بہادر کا خطاب عطا ہوا تھا۔ وقار حیات (۱۹۲۵ء)، بوستان حسرت، نابینا علما (۱۹۳۷ء)، تذکرہٗ شاہ بابر غازی (۱۹۲۷ء)، سیرۃ الصدیق (۱۹۲۱ء)، استاذ العلماء (۱۹۳۷ء) وغیرہ کتب ان کی تصنیف کردہ ہیں۔

مولانا آزاد کے سکریٹری محمد اجمل خاں نے ان خطوط کی نقول بنا کر مولانا آزاد کی اجازت سے ۱۹۴۶ء میں شائع کئے۔ گویا کہ اصل میں یہ جمع و ترتیب پہلی دفعہ تو محمد اجمل خان کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اس کے دو ایڈیشن تو ۱۹۴۶ء سے پہلے شائع ہو چکے تھے، لیکن ۱۹۴۶ء میں ایک مزید خط اور حاصل ہوا تو تیسرے ایڈیشن میں اس کا اضافہ کر کے کل ۲۴ عدد خطوط شائع کئے گئے۔ بعد ازاں مشہور محقق اردو مالک رام نے ان کو مختلف انداز سے مرتب دے کر مختلف حواشی بھی شامل کئے۔

زیر نظر کتاب میں صرف محمد اجمل خان کا مقدمہ اور مولانا آزاد کا تحریر کردہ دیباچہ شامل ہے۔ اس کے متن کو اردو ویب ڈاٹ آرگ ویب سائٹ کی مشہور آن لائن اردو فورم ’اردو محفل‘ (اب مرحوم) کے اراکین نے ٹائپ کر کے اردو متن میں فراہم کیا ہے، فورم کے مختلف صفحات سے محب علوی اور اعجاز عبید نے متن جمع و ترتیب کر کے اردو متن کی کمپیوٹر فائل بنائی ہے، اور اب اس کی پروف ریڈنگ کی جا سکی ہے اور اسے آن لائن شائع کیا جا رہا ہے۔

اعجاز عبید

مقدمہ

 

تاریخ واقعاتِ شہاں نانوشتہ ماند

افسانہ کہ لفت نظیری کتاب شد

اس مجموعے میں جس قدر مکتوبات ہیں، وہ تمام تر نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن خاں صاحب شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے تھے۔ چونکہ قلعہ احمد نگر کی قید کے زمانے میں دوستوں سے خط و کتابت کی اجازت نہ تھی اور حضرت مولانا کی کوئی تحریر باہر نہیں جا سکتی تھی اس لیے یہ مکاتیب وقتاً فوقتاً لکھے گئے اور ایک فائل میں جمع ہوتے رہے۔ ۱۵ جون ۱۹۴۵ء کو جب مولانا رہا ہوئے تو ان مکاتیب کے مکتوب الیہ تک پہنچنے کی راہ باز ہوئی۔

نواب صاحب سے حضرت مولانا کا دوستانہ علاقہ بہت قدیم ہے۔ مولانا نے خود ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ پہلے پہل ان سے ملاقات ۱۹۰۶ء میں ہوئی تھی۔ گویا ایک کم چالیس برس اس رشتہ اخلاص و محبت پر گزر چکے اور ایک قرن سے بھی زیادہ وقت کا امتداد اس کی تازگی اور شگفتگی کو افسردہ نہ کر سکا۔ دوستی و یگانگت کے ایسے ہی علاقے ہیں، جن کی نسبت کہا گیا تھا۔

تزول جبال الرامیات و قلبھم

عن الحب لا یخلو و لا یتزلزل

البتہ یہ علاقہ محبت و اخلاص صرف علمی اور ادبی ذوق کے رشتہ اشتراک میں محدود ہے۔ سیاسی عقائد و اعمال سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ سیاسی میدان میں مولانا کی راہ دوسری ہے اور نواب صاحب اس سے رسم و راہ نہیں رکھتے۔

حضرت مولانا کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ وہ ایک ہی زندگی اور ایک ہی وقت میں مصنف بھی ہیں، مقرر بھی ہیں، مفکر بھی ہیں، فلسفی بھی ہیں، ادیب بھی ہیں، مدبر بھی ہیں اور ساتھ ہی سیاسی جد و جہد کے میدان کے سپہ سالار بھی ہیں۔ دینی علوم کے تبخر کے ساتھ عقلیات اور فلسفے کا ذوق بہت کم جمع ہوتا ہے اور علم اور ادب کے ذوق نے ایک ہی دماغ میں بہت کم آشیانہ بنایا ہے۔ پھر علمی اور فکری زندگی کا میدان عملی سیاست کی جد و جہد سے اتنا دور واقع ہوا ہے کہ ایک ہی قدم دونوں میدانوں مین بہت کم اُٹھ سکتے ہیں مگر مولانا آزاد کی زندگی ان تمام مختلف اور متضاد حیثیتوں کی جامع ہے گویا ان کی ایک زندگی میں بہت سے زندگیاں جمع ہو گئی ہیں۔

وہ اپنی ذات سے اک انجمن ہیں

اس صورت حال کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ علائق کا دائرہ کسی ایک گوشے ہی میں محدود نہیں رہا، علوم دینیہ کے حجروں کے زاویہ نشیں، ادب و شعر کی محفلوں کے بزم طراز، علم اور فلسفے کی کاوشوں کے دقیقہ سنج اور میدان سیاست کے تدبر اور معرکہ آرائیوں کے شہ سوار سب کے لیے ان کی شخصیت یکساں طور پر کشش رکھتی ہے اور سب اس مجمع فضل و کمال کے افادات سے بقدر طلب و حوصلہ مستفید ہوتے رہتے ہیں۔

تو نخلِ کوش ثمر کیستی کہ باغ و چمن

ہمہز خویش بریدند و در تو پیوستند

البتہ ان کے ارادت مندوں کا حلقہ جس قدر وسیع اور بین القومی ہے، اتنا ہی دوستوں کا دائرہ تنگ ہے۔

کسے کہ زود گسئل نیست، دیر پیوندست

ایسے خوش قسمت اصحاب جنہیں مولانا اپنے "دوستوں” میں تصور کرتے ہوں خال خال ہیں اور صرف وہی ہیں جن سے علم و ذوق کے اشتراک اور رجحانِ طبیعت کی مناسبت نے انہیں وابستہ کر دیا ہے۔ ایسے ہی خال خال حضرات میں ایک شخصیت نواب صدر یار جنگ کی ہے۔

نواب صاحب مسلمانانِ ہند کے گزشتہ دورِ علم و مجالس کی یادگار ہیں۔ آج سے تین چالیس (۴۰) برس پیشتر کا زمانہ، مولانا آزاد کی ابتدائی علمی زندگی کا زمانہ تھا۔ وہ اس وقت کے تمام اکابر و افاضل سے عمر میں بہت چھوٹے تھے۔ یعنی ان کی عمر سترہ اٹھارہ برس سے زیادہ نہ تھی لیکن اپنی غیر معمولی ذہانت اور محیر العقول علمی قابلیت کی وجہ سے سب کی نظروں میں محترم ہو گئے تھے اور معاصرانہ اور دوستانہ حیثیت سے ملتے تھے۔ نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، خلیفہ محمد حسین (پٹیالہ) خواجہ الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی، ڈاکٹر نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، حکیم محمد اجمل خاں وغیرہم، سب سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے اور علمی اور ادبی صحبتیں رہا کرتی تھیں۔ اسی عہد کی صحبتوں میں نواب صدر یار جنگ سے بھی ان کی شناسائی ہوئی اور پھر شناسائی نے عمر بھر کی دوستی کی نوعیت پیدا کر لی۔ مولانا اس رشتے کو خصوصیت کے ساتھ عزیز رکھتے ہیں کیونکہ یہ اس عہد کی یادگار ہے جو بہت تیزی کے ساتھ گزر گیا اور ملک کی مجلسیں قدیم صورتوں اور صحبتوں سے یک قلم خالی ہو گئیں۔

مولانا کی سیاسی زندگی کے طوفانی حوادث ان کی تمام دوسری حیثیتوں پر چھا گئے ہیں لیکن خود مولانا نے اپنی سیاسی زندگی کو اپنے علمی اور ادبی علائق سے بالکل الگ تھلگ رکھا ہے۔ جن دوستوں سے ان کا علاقہ محض علم و ادب کے ذوق کا علاقہ ہے، وہ ان کے علائق کو سیاسی زندگی سے ہمیشہ الگ رکھتے ہیں اور اس طرح الگ رکھتے ہیں کہ سیاسی زندگی کی پرچھائیں بھی اُس پر نہیں پڑ سکتی۔ وہ جب کبھی ان دوستوں سے ملیں گے یا خط و کتابت کریں گے تو اس میں سیاسی افکار و اعمال کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ ایک بے خبر آدمی اگر اس وقت کی باتوں کو سنے تو خیال کرے، اس شخص کو سیاسی دُنیا سے دُور کا علاقہ بھی نہیں ہے اور علم و ادب کے سوا اور کسی ذوق سے آشنا نہیں۔ ایک مرتبہ اس معاملے کا خود مولانا سے ذکر ہوا تو فرمانے لگے جس شخص سے میرا تعلق جس حیثیت سے ہے، میں ہمیشہ اسے اسی حیثیت میں محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ دوسری حیثیتوں سے اسے آلودہ کروں۔ چنانچہ نہ تو کبھی وہ اِن دوستوں سے اس کی توقع رکھتے ہیں کہ ان کی سیاسی زندگی کے آلام و مصائب میں شریک ہوں۔ نہ کبھی اس کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ ان کے سیاسی افکار و اعمال سے اتفاق کریں۔ سیاسی معاملے میں وہ ہر شخص کو خود اس کی پسند اور خواہش پر چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ ان سے کسی علمی مذہبی اور ادبی تعلق سے برسوں ملتے رہیے۔ وہ کبھی بھولے سے بھی سیاسی معاملات کا آپ سے ذکر نہیں کریں گے۔ ایسا معلوم ہو گا، جیسے اس عالم کی انہیں کوئی خبر ہی نہیں۔

بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی سیاسی میدانوں کے طوفانی حوادث سے گھری ہوتی ہے۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ایک دن یا ایک گھنٹے کے بعد کیا حوادث پیش آئیں گے۔ ممکن ہے کہ قید و بند کا مرحلہ پیش آ جائے۔ بہت ممکن ہے کہ جلا وطنی یا اس سے بھی زیادہ کوئی خطرناک صورتِ حال ہو لیکن اچانک، عین اسی عالم میں کسی ہم ذوق دوست کی یاد ان کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے اور وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے سارے گرد و پیش سے یک قلم کنارہ کش ہو کر اس کی جانب ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں اور اس استغراق اور انہماک کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں گویا ان کی زندگی پر کسی خطرناک سے خطرناک حادثے کا سایہ بھی نہیں پڑا ہے۔ وہ اس وقت اپنی یکساں اور بے کیف سیاسی مشغولیت کا مزہ بدلنے کے لیے کوئی ایسا موضوع چھیڑ دیں گے جو سیاسی زندگی کے میدانوں سے ہزاروں کوس دُور ہو گا۔ علم و فن کا کوئی مبحث، فلسفیانہ غور و فکر کی کوئی کاوش، طبیعات کا کوئی نیا نظریہ، تصور و اشتراق کا کوئی واردہ یا پھر ادب و انشاء کی سخن طرازی اور شعر و سخن کی بزم آرائی، غرض کہ سیاست کے سوا ہر ذوق کی وہاں گنجائش ہو گی، ہر وادی کی وہاں پیمائش کی جا سکے گی۔ اس وقت کوئی انہیں دیکھے تو صاف دکھائی دے کہ زبان حال سے خوجہ حافظ کا یہ شعر دُہرا رہے ہیں:

کمندِ صیدِ بہرامی بیفگن، جامِ مے بردار

کہ من پیمودم ایں صحرا، نہ بہرام ست نے گورش

مولانا اس صورت حال کو "تحمیض” سے تعبیر کیا کرتے ہیں۔ "تحمیض” عربی میں مُنہ کا مزہ بدلنے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ "حموضوا مجالسکم” یعنی اپنی مجلسوں کا مزہ بدلتے رہو وہ کہتے ہیں اگر گاہ گاہ میں اس تحمیض کا موقع نہ نکالتا رہوں تو میرا دماغ بے کیف اور خشک مشغولیتوں کے بارِ مسلسل سے تھک کر معطل ہو جائے۔ اس طرح کی "تحمیض” میرے لیے ذہنی عیش و نشاط کا سامان بہم کر دیا کرتی ہے اور دماغ از سر نو تازہ دم ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عین سیاسی طوفانوں کے موسم میں کوئی ہم ذوق دوست آ نکلتا ہے اور انہیں موقع مل جاتا ہے کہ قلم و تخیل کی جگہ صحبت و مجالست کے ذریعہ اپنی مشغولیت کا ذائقہ بدلیں۔ وہ معاً اپنے گرد و پیش کی دنیا سے باہر نکل آئیں گے اور ایک انقلابی تحول کے ساتھ اپنے آپ کو ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیں گے۔ وہ فوراً اپنے خادمِ خاص عبد اللہ کو پکاریں گے کہ چائے لاؤ۔ یہ گویا اس کا اعلان ہو گا کہ ان کے ذوق و کیف کا خاص وقت آ گیا۔ پھر شعر و سخن کی صحبت شروع ہو جائے گی، علم و ادب کا مذاکرہ ہونے لگے گا اور اعلیٰ درجہ کی چینی چائے "وہائٹ جسامن” کے چھوٹے چھوٹے فنجانوں کا دور چلنے لگے گا کہ:

اصلِ کارگہِ کون و مکاں ایں ہمہ نیست

بادہ پیش آ رکہ اسباب جہاں ایں ہمہ نیست

انہیں اپنی طبیعت کے انفعالات پر غالب آنے اور اپنے آپ کو اچانک بدل لینے کی جو غیر معمولی قدرت حاصل ہو گئی ہے وہ فی الحقیقت ایک حیرت انگیز بات ہے۔ اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں خود اپنی آنکھوں سے اس انقلابی تحول کو دیکھنے کا موقع ملا ہو۔ مجھے آٹھ برس سے یہ موقع حاصل ہے۔

نواب صدر یار جنگ ایک خاندانی رئیس ہیں۔ ملک کے سیاسی معاملات میں ان کا طرزِ عمل وہی رہتا آیا ہے جو عموماً ملک کے طبقہ رؤسا کا ہے۔ یعنی سیاسی کش مکش کے میدانوں سے علیٰحدگی اور اپنے گوشہ سکون و جمعیت پر قناعت۔ برخلاف اس کے مولانا کی پوری زندگی سیاسی جد و جہد کی جنگ آزمائی اور معرکہ آرائی کی زندگی ہے لیکن صورتِ حال کا یہ اختلاف بلکہ تضاد، ایک لمحے کے لیے بھی ان کے باہمی علائق کی یگانگت و یک جہتی پر اثر نہیں ڈال سکتا۔ نہ کبھی مولانا سیاسی معاملات کی طرف کوئی اشارہ کریں گے، نہ کبھی نواب صاحب کی جانب سے کوئی ایسا تذکرہ درمیان آئے گا۔ دونوں کا علاقہ ذاتی محبت و اخلاص اور ذوق علم و ادب کے اشتراک کا علاقہ ہے اور ہمیشہ اسی دائرے میں محدود رہتا ہے۔ چنانچہ قلعہ احمد نگر کے ایک مکتوب مورخہ ۲۹ اگست ۱۹۴۲ء میں وہ سیاسی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، "مجھے یہ قصہ یہاں نہیں چھیڑنا چاہیے۔ میری آپ کی مجلس آرائی افسانہ سرائی کے لیے نہیں ہوا کرتی

از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس

میری دکان سخن میں ایک ہی طرح کی جنس نہیں رہتی لیکن آپ کے لیے کچھ نکالتا ہوں تو احتیاط کی چھلنی میں اچھی طرح چھان لیا کرتا ہوں کہ کسی طرح کی سیاسی ملاوٹ باقی نہ رہے۔”

۱۵ جون ۱۹۴۵ء کو مولانا تین برس کی قید و بند کے بعد رہا ہوئے اور اس حالت میں رہا ہوئے کہ چوالیس پونڈ وزن کم ہو چکا تھا اور تندرستی جواب دے چکی تھی لیکن رہائی کے بعد ہی انہیں فوراً شملہ پہنچنا اور شملہ کانفرنس کی مشغولیتوں میں گم ہو جانا پڑا۔ اب وہ قلعہ احمد نگر اور بانکوڑا کے قید خانے کی جگہ وائسرائے گل لاج شملہ کے مہمان تھے لیکن یہاں بھی صبح چار بجے کی سحر خیزی اور خود مشغولی کے معمولات برابر جاری رہے۔ ایک دن صبح اچانک نواب صاحب کی یاد سامنے آ جاتی ہے اور وہ ایک شعر لکھ کر تین برس پیشتر کی خط و کتابت کا سلسلہ از سر نو تازہ کر دیتے ہیں۔ پھر تبدیلی آب و ہوا کے لیے کشمیر جاتے ہیں اور تین ہفتے گلمرگ میں مقیم رہتے ہیں۔ گلمرگ سے سرینگر آتے ہیں اور ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم ہو جاتے ہیں۔ یہ ہاؤس بوٹ نسیم باغ کے کنارے لگا دیا گیا تھا اور مولانا کی صُبحیں اسی کے ڈرائنگ روم میں بسر ہونے لگیں تھیں۔ یہاں پھر خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور ۳ ستمبر ۱۹۴۵ء کو مولانا اپنے ایک مکتوب میں قلعہ احمد نگر کے حالات کی حکایت چھیڑ دیتے ہیں اور ان مکاتیب کی نگارش کے اسباب و محرکات کی تفصیلات لکھتے ہیں جو اس مجموعے میں جمع کیے گئے ہیں۔ چونکہ رہائی کے بعد کے مکاتیب کا یہ حصہ بھی ان مکاتیب سے مربوط ہو گیا ہے، اس لیے مولانا سے اجازت لے کر، میں نے انہیں بھی اس مجموعہ کی ابتداء میں شامل کر دیا ہے۔ رہائی کے بعد کے یہ مکاتیب اس مجموعے کے لیے دیباچے کا کام دیں گے۔

مولانا کو سینکڑوں خطوط لکھنے اور لکھوانے پڑتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کی نقول نہیں رکھی جا سکتیں لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے اپنے خاص علمی و ادبی مکاتیب کی نقول رکھنے کی بھی کبھی کوشش نہیں کی اور اس طرح سینکڑوں مکاتیب ضائع ہو گئے۔

۱۹۴۰ء میں، میں نے مولانا سے درخواست کی کہ جو خاص مکاتیب وہ دوستان خاص کو لکھا کرتے ہیں ان کی نقول رکھنے کی مجھے اجازت ملے۔ چنانچہ مولانا نے اجازت دے دی اور اب ایسا ہونے لگا کہ جب کبھی مولانا کوئی مکتوب خاص اپنے ذوق و کیف میں لکھتے، میں پہلے اس کی نقل کر لیتا، پھر ڈاک میں ڈالتا۔ نواب صاحب کے نام ۱۹۴۰ء، ۱۹۴۱ء اور ۱۹۴۲ء میں جس قدر خطوط لکھے گئے، سب کی نقول میں نے رکھ لی تھیں اور میرے پاس موجود ہیں۔ چنانچہ اسی بناء پر رہائی کے بعد مولانا نے قلعہ احمد نگر کے مکاتیب میرے حوالے کیے کہ حسب معمول ان کی نقول رکھ لو اور اصل نواب صاحب کی خدمت میں بیک دفعہ بھیج دوں لیکن میں نے جب ان کا مطالعہ کیا تو خیال ہوا کہ ان تحریرات کا محض نج کے خطوط کی شکل میں رہنا اور شائع نہ ہونا اردو ادب کی بہت بڑی محرومی اور اربابِ ذوق کی ناقابلِ تلافی حرمانی ہو گی۔ مولانا اس وقت شملہ میں تھے۔ میں نے بہ اصرار ان کے درخواست کی کہ ان مکاتیب کو ایک مجموعے کی شکل میں شائع کرنے کی اجازت دے دیں۔ مجھے یقین ہے کہ ملک کے تمام اربابِ ذوق و نظر اس واقعے کے شکر گزار ہوں گے کہ مولانا نے اشاعت کی اجازت دے دی اور اس طرح میں اس قابل ہو گیا کہ یہ مجموعہ دیدہ ورانِ علم و ادب کی ضیافتِ ذوق کے لیے پیش کروں۔

۱۹۴۲ء میں گرفتاری سے پہلے مولانا لاہور گئے تھے۔ وہاں انفلوئنزا کی شکایت لاحق ہو گئی تھی۔ اسی حالت میں کلکتہ آئے اور صرف تین دن ٹھہر کر ۲ اگست کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی صدارت کرنے کے لیے بمبئی روانہ ہو گئے۔ بمبئی جاتے ہوئے ریل میں انہوں نے ایک مکتوب نواب صاحب کے نام لکھ کر رکھ لیا تھا کہ بمبئی پہنچ کر مجھے دے دیں گے۔ میں حسب معمول اس کی نقل رکھ کر اصل ڈاک میں ڈال دون گا لیکن بمبئی پہنچنے کے بعد وہ اپنی مصروفیتوں میں غرق ہو گئے اور مکتوبِ سفر ان کے اٹاچی کیس میں پڑا رہ گیا۔ یہاں تک کہ ۹ اگست کی صبح کو وہ گرفتار ہو گئے۔ چونکہ قلعہ احمد نگر کے پہلے مکتوب میں اس خط کا ذکر آیا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اسے بھی ابتدا میں شامل کر دیا جائے چنانچہ وہ شامل کر دیا گیا ہے۔

میں نے ارادہ کیا تھا کہ مولانا کے اسلوبِ نگارش (سٹائل) کی نسبت اپنے تاثرات کے اظہار کی جرات کروں گا لیکن جب اس ارادے کو عمل میں لانے کے لیے تیار ہوا تو معلوم ہوا کہ خاموشی کے سوا چارہ کار نہیں کیونکہ جتنا کچھ اور جیسا کچھ لکھنا چاہیے، اس کی یہاں گنجائش نہیں اور جس قدر لکھنے کی گنجائش ہے، وہ اظہار تاثرات کے لیے کافی نہیں۔ صرف اتنا اشارہ کر دینا چاہتا ہوں کہ فرانسیسی ادبیات میں ادب کی جس نوعیت کو "ادبِ اعلیٰ” کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگر اردو ادب میں اس کی کوئی مثال ہمیں مل سکتی ہے تو وہ صرف مولانا کی ادبیات ہیں۔

مولانا نے اپنے اسلوب نگارش کے مختلف ڈھنگ رکھے ہیں۔ کیونکہ ہر موضوع ایک خاص طرح کا اسلوب چاہتا ہے اور اسی اسلوب میں اس کا رنگ ابھر سکتا ہے۔ دینی مباحث کے لیے جو اسلوبِ تحریر موزوں ہو گا، تاریخ کے لیے موزوں نہ ہو گا۔ تاریخی مباحث جس طرزِ کتابت کے متقاضی ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ادبی نگارشات کے لیے بھی وہ موزوں ہو۔ عام حالت یہ ہے کہ ہر شخص ایک خاص طرح کا اسلوب تحریر اختیار کر لیتا ہے اور پھر جو کچھ لکھتا ہے، اسی رنگ میں لکھتا ہے لیکن مولانا کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے علم و ذوق کے تنوع کی طرح اپنا اسلوب تحریر بھی مختلف قسموں کا رکھا ہے۔ عام دینی اور علمی مطالب کو وہ ایک خاص طرح کے اسلوب میں لکھتے ہیں۔ صحافت نگاری کے لیے انہوں نے ایک دوسرا اسلوب اختیار کیا ہے اور خالص ادبی انشاء پردازی کے لیے ان دونوں سے الگ طریق نگارش ہے۔

جس زمانے میں "الہلال” نکلا کرتا تھا تو اس میں کبھی کبھی وہ خالص ادبی قسم کی چیزیں بھی لکھا کرتے تھے۔ ان تحریروں میں انہوں نے ایک ایسا مجتہدانہ اسلوب اختیار کیا تھا جس کی کوئی دوسری مثال لوگوں کے سامنے موجود نہ تھی۔ اس اسلوب کے لیے اگر کوئی تعبیر اختیار کی جا سکتی ہے تو وہ صرف "شعرِ منثور” کی ہے یعنی وہ نثر میں شاعری کیا کرتے تھے۔ ان کی تحریر از سر تا پا شعر ہوتی تھی۔ صرف ایک چیز اس میں نہیں ہوتی تھی یعنی وزن اور اس لیے اسے نظم کی جگہ نثر کہنا پڑتا تھا۔

اس طرز تحریر کا ایک خاص طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی نثر کی شاعری کو شعرا کی نظم کی شاعری سے مخلوط و مربوط کر کے ترتیب دیتے تھے اور یہ اختلاط اور ارتباط اس طرح وجود میں آتا تھا کہ اشعار صرف مطالب کی مناسب ہی سے نہیں آتے بلکہ بجائے خود مطالب کا ایک جز بن جاتے تھے۔ ایسا جز کہ اگر اسے الگ کر دیجیئے تو خود نفسِ مطلب کا ایک ضروری اور لاینفک جز الگ ہو جائے۔ اکثر حالتوں میں مطالب کا سلسلہ اس طرح پھیلتا تھا کہ پورا مضمون نثر کے چھوٹے چھوٹے پیراگرافوں سے مرکب ہوتا اور ہر پیراگراف کسی ایک شعر پر ختم ہوتا۔ یہ شعر نثر کے مطلب سے ٹھیک اسی طرح جڑا اور بندھا ہوا ہوتا جس طرح ایک ترکیب بند کا ہر ٹیپ کے کسی شعر سے وابستہ ہوتا ہے اور وہ شعر بند کا ایک ضروری جز بن جاتا ہے۔

لوگ نثر میں اشعار لاتے ہیں تو عموماً اس طرح لاتے ہیں کہ کسی جزئی مناسبت سے کوئی شعر یاد آ گیا اور کسی خاص محل میں درج کر دیا گیا لیکن مولانا اس قسم کی تحریرات میں جو شعر درج کریں گے، اس کی مناسبت محض جزئی مناسبت نہ ہو گی، بلکہ مضمون کا ایک ٹکڑا بن جائے گا۔ گویا خاص اسی محل کے لیے شاعر نے یہ شعر کہا ہے اور مطلب کا تقاضا پورا کرنے اور ادھوری بات کو مکمل کر دینے کے لیے اس کے بغیر چارہ نہیں اس طرزِ تحریر پر وہی شخص قادر ہو سکتا ہے جو کامل درجے کا شاعرانہ فکر رکھنے کے ساتھ ساتھ، اساتذہ کے لیے بے شمار اشعار بھی اپنے حافظہ میں محفوظ رکھتا ہو اور مطالب کی ہر قسم اور ہر نوعیت کے لیے جس طرح کے اشعار بھی مطلوب ہوں، فوراً حافظہ سے نکال لے سکتا ہو۔ پھر ساتھ ہی اس کا ذوق بھی اس درجہ سلیم اور بے داغ ہو کہ صرف اعلیٰ درجے کے اشعار ہی قبول کرے اور حسنِ انتخاب کا معیار کسی حال میں بھی درجہ سے نہ گرے۔ اس اعتبار سے مولانا کے حافظے کا جو حال ہے، وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ قدرت نے انہیں جو خصائص بخشے ہیں، شاید ان سب میں حافظے کی نعمتِ لا زوال سب سے بڑی نعمت ہے۔ عربی، فارسی اور اردو کے کتنے اشعار ان کے حافظے میں محفوظ ہوں گے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ غالباً خود انہیں بھی معلوم نہیں لیکن جوں ہی وہ قلم اٹھاتے ہیں اور مطالب کی مناسبتیں ابھرنے لگتی ہیں معاً ان کے حافظے کے بند کواڑ کھلنے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم اور ہر نوعیت کے سینکڑوں شعر پرّا باندھے سامنے کھڑے ہیں۔ جس شعر کی جس جگہ ضرورت ہوئی، فوراً اسے نکالا اور انگوٹھی کے نگینے کی طرح مضمون میں جڑ دیا۔

عام علمی اور دینی مباحث کی تحریرات میں مولانا بہت کم اشعار لایا کرتے ہیں۔ صفحوں کے صفحے لکھ جائیں گے اور ایک شعر بھی نہیں آئے گا لیکن اس خاص اسلوبِ تحریر میں وہ اس کثرت کے ساتھ اشعار سے کام لیتے ہیں کہ ہر دوسری تیسری سطر کے بعد ایک شعر ضرور آ جاتا ہے اور مطلب کے حسن و دل آویزی کا ایک نیا پیکر نمایاں کر دیتا ہے۔

قلعہ احمد نگر کے اکثر مکاتیب اسی طرزِ تحریر میں لکھے گئے ہیں، انہوں نے نثر میں شاعری کی ہے اور جس مطلب کو ادا کیا ہے، اس طرح کیا ہے کہ جدّتِ فکر، نقش آرائی کر رہی ہے اور وُسعتِ تخیل رنگ و روغن بھر رہی ہے۔ اجتہادِ فکر اور تجدیدِ اسلوب مولانا کی عام اور ہمہ گیر خصوصیت ہے۔ قلم اور زبان کے ہر گوشے میں، وہ طرزِ عام سے اپنی روش الگ رکھیں گے اور الفاظ و تراکیب سے لے کر مطالب اور ادائے مطالب کے طرز تک ہر بات میں تقلیدِ عام سے گریزاں اور اپنے مجتہدانہ انداز میں بے میل اور بے لچک نظر آئیں گے۔ انہوں نے جس وقت سے قلم سنبھالا ہے ہمیشہ پیش رو اور صاحبِ اسلوب رہے ہیں۔ کبھی یہ گوارہ نہیں کیا کہ کسی دوسرے پیش رو کے نقشِ قدم پر چلیں چنانچہ ان مکاتیب میں بھی ان کا مجتہدانہ انداز ہر جگہ نمایاں ہے۔ بغیر کسی اہتمام اور کاوش کے قلم برداشتہ لکھتے گئے ہیں۔ لیکن قدرتِ بیان ہے جو بے ساختگی میں بھی ابھری چلی آتی ہے اور کاوشِ فکر ہے جو آمد میں بھی آورد سے زیادہ بنتی اور سنورتی رہتی ہے۔

ظرافت ہے تو وہ اپنی بے داغ لطافت رکھتی ہے، واقعہ نگاری ہے تو اس کی نقش آرائی کا جواب نہیں۔ فکر کا پیمانہ ہر جگہ بلند اور نظر کا معیار ہر جگہ ارجمند ہے۔

ان مکاتیب پر نظر ڈالتے ہوئے سب سے زیادہ اہم چیز جو سامنے آتی ہے، وہ مولانا کا دماغی پس منظر (بیک گراؤنڈ) ہے۔ اسی پسِ منظر پر افکار و احساسات کی تمام جلوہ طرازیوں نے اپنی جگہ بنائی ہے۔ ایک شخص ۹ اگست کو صبح بستر سے اٹھا تو اچانک اسے معلوم ہوا کہ وہ گرفتار شدہ قیدی ہے اور کسی لا معلوم مقام پر لے جایا جا رہا ہے۔ پھر ایک ایسی شدید فوجی نگرانی کے اندر جس کی کوئی پچھلی مثال ہندوستان کی سیاسی جد و جہد کی تاریخ میں موجود نہیں اسے قلعہ احمد نگر کی ایک عمارت میں بند کر دیا جاتا ہے اور دنیا سے تمام علائق یک قلم منقطع ہو جاتے ہیں۔ وہ اس حادثہ کے چوبیس گھنٹے بعد دوسری صبح کو اٹھتا ہے اور قلم اٹھا کر خامہ فرسائی شروع کر دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد ہر دوسرے تیسرے دن حالات کی تحریک، خیالات میں جنبش پیدا کرتی رہتی ہے اور جو کچھ دماغ میں ابھرتا ہے، بے روک نوکِ قلم کے حوالے ہو جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے حوصلہ فرسا حالات میں ان کا دماغی پس منظر کیا تھا اور وقت کے تمام مخالفانہ حالات کو کس نظر اور کس مقام سے دیکھ رہا تھا؟ یہی دماغی پس منظر ہے جس کی نوعیت سے ہر عظیم شخصیت کی عظمت کا اصل مقام دنیا کے آگے نمایاں ہوتا ہے، یہی کسوٹی ہے جس پر ہر انسانی عظمت کسی جا سکتی ہے اور یہی معیار ہے جو ہر انسان کی عظمت و پستی کا فیصلہ کر دیتا ہے۔

ان مکاتیب میں مولانا نے خود کوشش کی ہے کہ اپنا دماغی پس منظر دنیا کے آگے رکھ دیں اور اسی لیے یہ غیر ضروری ہو گیا ہے کہ اس بارے میں بحث و نظر سے کام لیا جائے۔ میں صرف معاملے کے اس پہلو پر اہلِ نظر کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، میں خود کچھ کہنا نہیں چاہتا۔

گزشتہ جولائی میں جونہی ان مکاتیب کی اشاعت کا اعلان ہوا، ملک کے ہر گوشے سے تقاضے ہونے لگے کہ ان کے ترجمے کا بھی سر و سامان ہونا چاہیے۔ کلکتہ، بمبئی، دہلی، الہٰ آباد، کانپور اور پٹنہ کے پبلشروں کا تقاضا تھا کہ انگریزی، ہندی، گجراتی، بنگالی، تامل وغیرہ زبانوں میں ان کے ترجمے کی اجازت دے دی جائے۔ میں نے یہ تمام درخواستیں مولانا کی خدمت میں پیش کر دیں لیکن انہوں نے ترجمے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے فرمایا کہ چند مکاتیب کے سوا یہ تمام مکاتیب ایک ایسے اسلوب میں لکھے گئے ہیں کہ ان کا کسی دوسری زبان میں صحت و ذوق و معیار کے ساتھ ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر کیا جائے گا تو اصل کی ساری خصوصیات مٹ جائیں گی۔ چنانچہ اس وقت تک ترجمے کی اجازت کسی فرم کو نہیں دی گئی ہے۔ مولانا نے جس خیال سے ترجمے کو روکا ہے مجھے یقین ہے کہ اس سے ہر صاحبِ نظر اتفاق کرے گا۔ یہ نثر میں شاعری ہے اور شاعری ترجمے کی چیز نہیں ہوتی۔ البتہ دو چار مکتوب جو بعض فلسفیانہ اور تاریخی مباحث پر لکھے گئے ہیں، ترجمہ کیے جا سکتے ہیں، انہیں مستثنیٰ کر دینا چاہیے۔

یہ تمام مکاتیب "صدیق مکرم” کے خطاب شروع ہوتے ہیں۔ یہ "صدیق” تشدید کے ساتھ "صدیق” نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض اشخاص پڑھنا چاہیں گے بلکہ بغیر تشدید کے ہے۔ "صداقہ” عربی میں دوستی کو کہتے ہیں۔ "صَدِیق” یعنی دوست۔

۱۱ اپریل ۱۹۴۳ء کے مکتوب کے آخر میں متمم بن نویرہ کے مرثیے کے اشعار نقل کیے گئے ہیں۔ یہ مرثیہ اس نے اپنے بھائی مالک کی یاد میں لکھا تھا:

لقد لا منی عند القبور علی البکا
رفیقی لتذ راف الدموع السّوافک
فقال اتبکی کل قبر رایتہ
لقبر ثوی بین اللوی فالد کادک
فقلت لہُ ان الشجا ببعت الشجا
فدعنی، فھٰذا کلہ قبر مالک

ان اشعار کے مطلب کا خلاصہ یہ ہے:

"میرے رفیق نے جب دیکھا کہ قبروں کو دیکھ کر میرے آنسو بہنے لگتے ہیں تو اس نے مجھے ملامت کی۔ اس نے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ اس ایک قبر کی وجہ سے جو ایک خاص مقام پر واقع ہے، تو ہر قبر کو دیکھ کر رونے لگتا ہے؟ میں نے کہا، بات یہ ہے کہ ایک غم کا منظر دوسرے غم کی یاد تازہ کر دیا کرتا ہے، لہٰذا مجھے رونے دے، میرے لیے تو یہ تمام قبریں مالک کی قبریں بن گئی ہیں!”

"حکایت بے ستون و کوہ کن” ایران کے قدیم آثار میں ایک اثر "بے ستون” کے نام سے مشہور ہے اور داستان سراؤں نے اسے فرہاد کوہ کن کی طرف منسوب کر دیا ہے مگر در اصل یہ "بے ستون” ہے۔ "بہ ستون” (بہستان یا باغستاں) ہے۔ فارسی قدیم میں "باغ” خدا یا دیوتا کو کہتے ہیں یعنی یہ مقام "خداؤں کی جگہ” ہے۔

محمد اجمل خاں

دیباچہ

میر عظمت اللہ بیخبر بلگرامی، مولوی غلام علی آزاد بلگرامی کے معاصر اور ہم وطن تھے اور جدّی رشتہ سے قرابت بھی رکھتے تھے۔ آزاد بلگرامی نے اپنے تذکروں میں جا بجا ان کا ترجمہ لکھا ہے اور سراج الدین علی خاں آرزوؔ اور آنند رام مخلص کی تحریرات میں بھی ان کا ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے ایک مختصر سا رسالہ "غبارِ خاطر” کے نام سے لکھا تھا۔ میں یہ نام ان سے مستعار لیتا ہوں:

مُپرس تاچہ نوشت ست کلک قاصرِ ما

خطِ غبارِ من ست ایں غُبارِ خاطرِ ما

یہ تمام مکاتیب نج کے خطوط تھے اور اس خیال سے نہیں لکھے گئے تھے کہ شائع کیے جائیں گے۔ لیکن رہائی کے بعد جب مولوی محمد اجمل خاں صاحب کو ان کا علم ہوا تو مُصِر ہوئے کہ انہیں ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کر دیا جائے۔ چونکہ ان کی طرح ان کی خاطر بھی مجھے عزیز ہے اس لیے ان مکاتیب کی اشاعت کا سر و سامان کر رہا ہوں۔ جس حالت میں یہ قلم برداشتہ لکھے ہوئے موجود تھے، اسی حالت میں طباعت کے لیے دے دیئے گئے ہیں۔ نظرِ ثانی کا موقع نہیں ملا۔

نسخۂ شوق بہ شیرازہ نہ گنجد زنہار

بگزارید کہ ایں نسخۂ مجّزا ماندا!

نیشنل ایئر لائن

(مابین کراچی۔ جودھپور)

۲ فروری ۱۹۴۶ء

ابو الکلام

خط نمبر ۱

رہائی کے بعد کے بعض مکاتیب نواب صدر یار جنگ کے نام

شملہ

۲۷ جون ۱۹۴۵ء

اے غائب از نظر کہ شُدی ہم نشینِ دل

می بینمت عیان و دعا می فرستمت

دل حکایتوں سے لبریز ہے مگر زبان درماندۂ فرصت کو یارائے سخن نہیں۔ مہلت کا منتظر ہوں۔

ابو الکلام

خط نمبر ۲

مولانا کا مکتوب سرینگر

ہاؤس بوٹ۔ سرینگر

۲۴ اگست ۱۸۴۵ء

گہے از دست، گاہے از دل، و گاہےز پا مانم

بہ سُرعت می روی اے عمر! مہ ترسم کہ دا مانم

صدیق مکرم

زندگی کے بازار میں جنس مقاصد کی بہت سی جستجوئیں کی تھیں، لیکن اب ایک نئی متاع کی جستجو میں مبتلا ہو گیا ہوں یعنی اپنی کھوئی ہوئی تندرستی ڈھونڈ رہا ہوں۔ معالجوں نے وادیِ کشمیر کی گل گشتوں میں سراغرسانی کا مشورہ دیا تھا چنانچہ گزشتہ ماہ کے اواخر میں گلمرگ پہنچا اور تین ہفتہ تک مقیم رہا۔ خیال تھا کہ یہاں کوئی سراغ پا سکوں گا، مگر ہر چند جستجو کی، متاع گم گشتہ کا کوئی سراغ نہ ملا۔

نکل گئی ہے وہ کوسوں دیارِ حرماں میں

آپ کو معلوم ہے کہ یہاں فیضی نے بھی کبھی بارِ عیش کھولا تھا:

ہزار قافلۂ شوق می کشد شبگیر،

کہ بارِ عیش کشاید بخطہ کشمیر

لیکن میرے حصے میں ناخوشی و علالت کا بار آیا۔ یہ بوجھ جس طرح کندھوں پر اُٹھائے آیا تھا، اُسی طرح اُٹھائے واپس جا رہا ہوں۔ خود زندگی بھی سر تا سر ایک بوجھ ہی ہے۔ خوشی سے اٹھائیں یا نا خوشی سے، مگر جب تک بوجھ سر پر پڑا ہے، اُٹھانا ہی پڑتا ہے۔

مازندہ ازانیم کہ آرام نہ گیریم!

گلمرگ سے سرینگر آ گیا ہوں اور ایک بوٹ ہاؤس میں مقیم ہوں۔ کل گلمرگ روانہ ہو رہا تھا کہ ڈاک آئی اور اجمل خاں صاحب نے آپ کا مکتوبِ منظوم حوالہ کیا۔ کہہ نہیں سکتا کہ اس پیامِ محبت کو دلِ درد مند نے کن آنکھوں سے پڑھا اور کن کانوں سے سنا۔ میرا اور آپ کا معاملہ تو وہ ہو گیا ہے جو غالب نے کہا تھا:

باچوں توئی معاملہ، برخویش منت ست

از شکوۂ تو شکر گزارِ خودیم ما!

آپ نے اپنے تین شعروں کا پیام دلنواز نہیں بھیجا ہے لطف و عنایت کا ایک پورا دفتر کھول دیا ہے:

قلیل منک یکفینی، ولا کن

قلیلک لا یقال لہ، قلیل

ان سطور کو آیندہ خامہ فرسائیوں کی تمہید تصور کیجیے۔ رہائی کے بعد جو کہانی سنانی تھی وہ ابھی تک نوکِ قلم سے آشنا نہ ہو سکی۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ابو الکلام

خط نمبر ۳

مکتوبِ نسیم باغ

نسیم باغ۔ سرینگر

۳ ستمبر ۱۹۴۵ء

از ما مپرس دردِ دل، ما کہ یک زباں

خود را بحیلہ پیشِ تو خاموش کردہ ایم

صدیق مکرم

وہی صبح چار بجے کا جانفزا وقت ہے۔ ہاؤس بوٹ میں مقیم ہوں۔ داہنی طرف جھیل کی وسعت شالامار اور نشاط باغ تک پھیلی ہوئی ہے بائیں طرف نسیم باغ کے چناروں کی قطاریں دور تک چلی گئی ہیں۔ چائے پی رہا ہوں اور آپ کی یاد تازہ کر رہا ہوں۔

گرچہ دُوریم، بیادِ تو قدح مہ نوشیم

بُعدِ منزل نہ بود در سفرِ روحانی

گرفتاری سے پہلے آخری خط جو آپ کے نام لکھ سکا تھا، وہ ۳ اگست ۱۹۴۲ء کی صبح کا تھا۔ کلکتہ سے بمبئی جا رہا تھا۔ ریل میں خط لکھ کر رکھ لیا کہ بمبئی پہنچ کر اجمل خاں صاحب کے حوالے کر دوں گا۔ وہ نقل کر کے آپ کو بھیج دیں گے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ انہوں نے خطوط کی نقول رکھنے پر اصرار کیا تھا اور میں نے یہ طریقہ منظور کر لیا تھا لیکن بمبئی پہنچتے ہی کاموں کے ہجوم میں اس طرح کھویا گیا کہ اجمل خاں صاحب کو خط دینا بھول گیا۔

۹ اگست کی صبح کو جب مجھے گرفتار کر کے احمد نگر لے جا رہے تھے تو بعض کاغذات رکھنے کے لیے راہ میں اٹاچی کیس کھولا اور یکایک وہ خط سامنے آ گیا۔ اب دنیا سے تمام علاقے منقطع ہو چکے تھے۔ ممکن نہ تھا کہ کوئی خط ڈاک میں ڈالا جا سکے۔ میں نے اسے اٹاچی کیس سے نکال کر مسودات کی فائل میں رکھ دیا اور فائل کو صندوق میں بند کر دیا۔

دو بجے ہم احمد نگر پہنچے اور پندرہ منٹ کے بعد قلعہ کے اندر محبوس تھے۔ اب اس دنیا میں جو قلعہ سے باہر تھی اور اس دنیا میں جو قلعہ کے اندر تھی، برسوں کی مسافت حائل ہو گئی:

کیف الوصول الیٰ سعاد و دونھا
قلل الجبال و بینھن حتوف

دوسرے دن یعنی ۱۰ اگست کو حسبِ معمول صبح تین بجے اُٹھا۔ چائے کا سامان سفر میں ساتھ رہتا ہے، وہاں بھی سامان کے ساتھ آ گیا تھا۔ میں نے چائے دم دی۔ فنجان سامنے رکھا اور اپنے خیالات میں ڈوب گیا۔ خیالات مختلف میدانوں میں بھٹکنے لگے تھے، اچانک وہ خط جو ۳ اگست کو ریل میں لکھا تھا اور کاغذات میں پڑا تھا، یاد آ گیا۔ بے اختیار جی چاہا کہ کچھ دیر آپ کی مخاطبت میں بسر کروں اور آپ سن رہے ہوں یا نہ سن رہے ہوں، مگر روئے سخن آپ ہی کی طرف رہے۔ چنانچہ اس عالم میں ایک مکتوب قلم بند ہو گیا اور اس کے بعد ہر دوسرے تیسرے دن مکتوبات قلم بند ہوتے رہے۔ آگے چل کر بعض دیگر احباب و اعزّہ کی یاد بھی سامنے آئی اور ان کی مخاطبت میں بھی گاہ گاہ طبع واماندۂ حال دراز نفسی کرتی رہی۔ قید خانہ سے باہر کی دنیا سے اب سارے رشتے کٹ چکے تھے اور مستقبل پردۂ غیب میں مستور تھا۔ کچھ معلوم نہ تھا کہ یہ مکتوبات کبھی مکتوب الیہم تک پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں۔ تاہم ذوق مخاطبت کی طلب گاریاں کچھ اس طرح دلِ مستمند پر چھا گئی تھیں کہ قلم اٹھا لیتا تھا تو پھر رکھنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ لوگوں نے نامہ بری کا کام بھی کبھی قاصد سے لیا، کبھی بال کبوتر سے، میرے حصے میں عنقا آیا:

ایں رسم وراہِ تازہ زحرمانِ عہدِ ماست

عنقا بروزگار کسے نامہ بر نہ بود

۱۰ اگست ۱۹۴۲ء سے مئی ۱۹۴۳ء تک ان مکتوبات کی نگارش کا سلسلہ جاری رہا لیکن اس کے بعد رک گیا کیونکہ ۹ اپریل ۱۹۴۳ء کے حادثہ کے بعد طبع درمانۂ حال بھی رُک گئی تھی اور اپنی واماندگیوں میں گم تھی۔ اگرچہ اس کے بعد بھی بعض مصنفات کی تسوید و ترتیب کا کام بدستور جاری رہا اور قلعہ احمد نگر کی اور تمام معمولات بھی بغیر کسی تغیر کے جاری رہیں، تاہم یہ حقیقت حال چھپانی نہیں چاہتا کہ قرار و سکون کی یہ جو نمائش تھی، جسم و صورت کی تھی، قلب و باطن کی نہ تھی۔ جسم کو میں نے ہلنے سے بچا لیا تھا مگر دل کو نہیں بچا سکا تھا:

دلِ دیوانہ دارم کہ در صحراست پنداری

اس کے بعد بھی گاہ گاہ حالات کی تحریک کام کرتی رہی اور رشتہ فکر کی گرہیں کھلتی رہیں، مگر اب سلسلہ کتابت کی وہ تیز رفتاری مفقود ہو چکی تھی جس نے اوائلِ حال میں طبیعت کا ساتھ دیا تھا۔ اپریل ۱۹۴۵ میں جب احمد نگر سے بانکوڑا میں قید تبدیل کی کر دی گئی تو طبیعت کی آمادگیوں نے آخری جواب دے دیا۔ اب صرف بعض مصنفات کی تکمیل کا کام جاری رکھا جا سکا اور کسی تحریر و تسوید کے لیے طبیعت مستعد نہ ہوئی۔ آخری مکتوب جو بعض سیاسی مسائل کی نسبت ایک عزیز کے نام قلم بند ہوا ہے ۳ مارچ ۱۹۴۵ کا ہے۔ اس مکتوب پر یہ داستانِ بے ستون و کوہکن ختم ہو جاتی ہے، اگرچہ زندگی کی داستان ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے:

شمہ از داستانِ عشقِ شور انگیز ماست

ایں حکایتہا کہ از فرہاد و شیریں کردہ اند

غور کیجیے تو انسان کی زندگی اور اس کے احساسات کا بھی کچھ عجیب حال ہے۔ تین برس کی مدت ہو یا تین دن کی، مگر جب گزرنے پر آتی ہے تو گزر ہی جاتی ہے۔ گزرنے سے پہلے سوچیے تو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ پہاڑ سی مدت کیونکر کٹے گی؟ گزرنے کے بعد سوچیے تو تعجب ہوتا ہے کہ جو کچھ گزر چکا، وہ چند لمحوں سے زیادہ نہ تھا۔

رہائی کے بعد جب کانگرس ورکنگ کمیٹی کی صدارت کے لیے ۲۱ جون کو کلکتہ سے بمبئی آیا اور اسی مکان اور اُسی کمرہ میں ٹھہرا جہاں تین برس پہلے اگست ۱۹۴۲ میں ٹھہرا تھا تو یقین کیجیے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے ۹ اگست اور اس کے بعد کا سارا ماجرا کل کی بات ہے اور یہ پورا زمانہ ایک صبح شام سے زیادہ نہ تھا۔ حیران تھا کہ جو کچھ گزر چکا، وہ خواب تھا، یا جو کچھ گزر رہا ہے یہ خواب ہے:

ہیں خواب ہیں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

۱۵ جون کو جب بانکوڑا میں رہا ہوا، تو تمام مکتوبات نکالے اور ایک فائل میں بہ ترتیب تاریخ جمع کر دیئے۔ خیال تھا کہ انہیں حسب معمول نقل کرنے کے لیے دے دوں گا اور پھر اصل آپ کی خدمت میں بھیج دوں گا لیکن جب مولوی اجمل خاں صاحب کو ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہ بہت مُصِر ہوئے کہ انہیں بلا تاخیر اشاعت کے لیے دے دینا چاہیے۔ چنانچہ ایک خوشنویس کو شملہ میں بُلایا گیا اور پورا مجموعہ کتابت کے لیے دے دیا گیا۔ اب کتابت ہو رہی ہے اُمید ہے کہ عنقریب طباعت کے لیے پریس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اب میں اُن مکتوبات کو قلمی مکتوبات کی صورت میں نہیں بھیجوں گا۔ مطبوعہ مجموعے کی صورت میں پیش کروں گا۔

شملہ اخبار "مدینہ” بجنور کے ایڈیٹر صاحب آئے تھے۔ انہوں نے مولوی اجمل خان صاحب سے اس سلسلہ کے پہلے مکتوب کی نقل لے لی تھی۔ وہ اخبارات میں شائع ہو گیا ہے، شاید آپ کی نظر سے گزرا ہو۔ "صدیق مکرم” کے تخاطب سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ رُوئے سخن آپ ہی کی طرف تھا:

چشم سوئے فلک و روئے سخن سُوئے تو بود

مکتوبات کے دو حصے کر دیئے پیں: غیر سیاسی اور سیاسی۔ یہ مجموعہ صرف غیر سیاسی مکاتیب پر مشتمل ہے۔ اس کے تمام مکاتیب بلا استثنا آپ کے نام لکھے گئے ہیں۔

پرسوں دہلی کا قصد ہے، چونکہ امریکن فوج کے جنرل مقیم دہلی نے از راہِ عمایت اپنے خاص ہوائی جہاز کے یہاں بھیجنے کا انتظام کر دیا ہے، اس لیے موٹر کار کے تکلیف دہ سفر سے بچ جاؤں گا اور اڑھائی گھنٹے میں دہلی پہنچ جاؤں گا۔ وہاں عید کی نماز پڑھ کر بمبئی کے لیے روانہ ہوا ہے ۱۰ سے ۲۴ تک بمبئی میں قیام رہے گا۔

ابو الکلام

خط نمبر ۴

۳ اگست ۱۹۴۲ء کا مکتوب سفر

جو ۹ اگست کی گرفتاری کی وجہ سے بھیجا نہ جا سکا اور جس کی طرف احمد نگر کے پہلے مکتوب میں اشارہ کیا گیا ہے۔

بمبئی میل (راہِ ناگپُور)

۳ اگست ۱۹۴۲ء

صدیق مکرم

دہلی اور لاہور میں انفلوئنزا کی شدت نے بہت خستہ کر دیا تھا۔ ابھی تک اس کا اثر باقی ہے۔ سر کی گرانی کسی طرح کم ہونے پر نہیں آتی۔ حیران ہوں اس وبالِ دوش سے کیونکر سُبک دوش ہوں؟ دیکھیے "وبالِ دوش” کی ترکیب نے غالب کی یاد تازہ کر دی:

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش

صحرا میں اے خُدا کوئی دیوار بھی نہیں

۲۹ جولائی کو اس وبال کے ساتھ کلکتہ واپس ہوا تھا۔ چار دن بھی نہیں گزرے کہ کل ۲ اگست کو بمبئی کے لیے نکلنا پڑا۔ جو وبال ساتھ لایا تھا اب پھر اپنے ساتھ واپس لیے جا رہا ہوں:

رو میں ہے رَخشِ عُمر، کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں

مگر دیکھیے، صبح چار بجے کے وقتِ گرانمایہ کی کرشمہ سازیوں کا بھی کیا حال ہے؟ قیام کی حالت ہو یا سفر کی، ناخوشی کی کلفتیں ہوں یا دل آشوبی کی کاہشیں، جسم کی ناتوانیاں ہوں یا دل و دماغ کی افسردگیاں، کوئی حالت ہو لیکن اس وقت کی مسیحائیاں افتادگانِ بسترِ الم سے کبھی تغافل نہیں کر سکتیں:

فیضے عجبے یافتم از صبح ببینید،

ایں جادہ روشن رہِ میخانہ نہ باشد

میں ایک کُوپے میں سفر کر رہا ہوں۔ اِس میں چار کھڑکیاں ہیں، دو بند تھیں، دو کھُلی تھیں۔ میں نے صبح اُٹھتے ہی دو بند بھی کھول دیں۔ اب ریل کی رفتار جتنی گرم ہوتی جاتی ہے اُتنی ہی ہوا کے جھونکوں کی خنکی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ جس بستر کرب پر ناخوشی (یہاں "ناخوشی” سے محض خوشی کی نفی مقصود نہیں ہے بلکہ فارسی کا "ناخوشی” مقصود ہے۔ فارسی میں بیماری کو ناخوشی کہتے ہیں۔) کی کلفتوں نے گرا دیا تھا، اُسی پر نسیم صبح گاہی کی چارہ فرمائیوں نے اب اُٹھا کے بٹھا دیا ہے۔ شاید کسی ایسی ہی رات کی صبح ہو گی، جب خواجہ شیراز کی زبان سے بے اختیار نکل گیا تھا:

خوشش بادا نسیم صبح گاہی

کہ دردِ سب نشیناں را دوا کرد

ٹرین آج کل کے معمول کے مطابق بے وقت جا رہی ہے۔ جس منزل سے اس وقت تک گزر جانا تھا، ابھی تک اس کا کوئی سراغ دکھائی نہیں دیتا۔ سوچتا ہوں تو اس معاملہ خاص میں وقت کے معاملہ عام کی پوری تصویر نمایاں ہو رہی ہے:

کس نمی گویدم از منزلِ آخر خبرے

صد بیاباں ہگوشت و دگرے درپیش است

رات ایک ایسی حالت میں کٹی جسے نہ تو اضطراب سے تعبیر کر سکتا ہوں، نہ سکون سے، آنکھ لگ جاتی تھی تو سکون تھا، کھل جاتی تھی تو اضطراب تھا۔ گویا ساری رات دو متضاد خوابوں کے دیکھنے میں بسر ہو گئی۔ ایک تعمیر کی نقش آرائی کرتا تھا، دوسرا تخریب کی برہم زنی:

بیداری میانِ دو خواب ست زندگی،

گرد تخیل دو سراب ست زندگی

از لطمۂ دو موج حبا بے دمیدہ است

یعنی طلسم نقش بر آب ست زندگی

تین بج کر چند منٹ گزرے تھے کہ آنکھ کھل گئی۔ صبح کی چائے کے لیے سفر میں یہ معمول رہتا ہے کہ رات کو عبد اللہ اسپرٹ کا چولہا اور پانی کی کیتلی، پانی بمقدار مطلوب سے بھری ہوئی ٹیبل پر رکھ دیتا ہے۔ چائے دانی اس کے پہلو میں جگہ پاتی ہے کہ بحکم "وضع الشئی فی محلہٖ” یہی اس کا محلِ صحیح ہونا چاہیے مگر فنجان اور شکر دانی کے لیے اُس کا قرب ضروری نہ ہوا کہ "وضع الشئی فی غیر محلہ” میں داخل ہو جاتا۔ اگر صبح رین بجے سے چار بجے کے اندر کوئی اسٹیشن آ جاتا ہے تو اکثر حالتوں میں عبد اللہ آ کر چائے دم دے دیتا ہے نہیں آتا تو پھر خود مجھے ہی اپنے دستِ شوق کی کامجویانہ سرگرمیاں کام میں لانی پڑتی ہیں۔ "اکثر حالتوں” کی قید اس لیے لگانی پڑی کہ تمام کلیوں کہ کلیہ بھی مستثنیات سے خالی نہیں ہے۔ بعض حالتوں میں گاڑی اسٹیشن پر رُک بھی جاتی ہے مگر عبد اللہ کی صورت نظر نہیں آتی۔ پھر جب نظر آتی ہے تو اس کی معذرتیں میری فکرِ کاوش آشنا کے لیے ایک دوسرا ہی مسئلہ پیدا کر دیتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نسیم صبح گاہی کا ایک ہی عمل دو مختلف طبیعتوں کے لیے دو متضاد نتیجوں کا باعث ہو جاتا ہے۔ اس کی آمد مجھے بیدار کر دیتی ہے عبد اللہ اور سُلا دیتی ہے۔ الارم کی ٹائم پیس بھی اس کے سرہانے رہنے لگی پھر بھی نتائج کا اوسط تقریباً یکساں ہی رہا۔ معلوم نہیں آپ اس اشکال کا حل کیا تجویز کریں گے مگر مجھے شیخ شیراز کا بتلایا ہوا حل مل گیا ہے اور اس پر مطمئن ہو چکا ہوں:

باراں کہ در لطافتِ طبعش خلاف نیست

در باغ لالہ روید و در شور بوم خس

بہتر حال چائے کا سامان حسب معمول مُرتب اور آمادہ تھا۔ نہیں معلوم آج اسٹیشن کب آئے؟ اور آئے بھی تو اس کا اطمینان کیونکر ہو کہ عبد اللہ کی آمد کا قاعدہ کلیہ آج ہی بحالت استثناء نمودار نہ ہو گا؟ میں نے دیا سلائی اٹھائی اور چولھا روشن کر دیا۔ اب چائے پی رہا ہوں اور آپ کی یاد تازہ کر رہا ہوں۔ مقصود اس تمام دراز نفسی سے اس کے سوا کچھ نہیں کہ مخاطبت کے لیے تقریبِ سخن ہاتھ آئے:

نفسے بیادِ تومی زنم، چہ عبارت وچہ معانیم

چائے بہت لطیف ہے۔ چین کی بہترین قسموں میں سے ہے۔ رنگ اس قدر ہلکا کہ واہمہ پر اس کی ہستی مشتبہ ہو جائے۔ گویا ابو نواس والی بات ہوئی کہ:

رق الزجاج و رقَت الخمر
فتشابھا، فتشا کل الامر

کیف اس قدر تُند کہ بلا مبالغہ اُس کا ہر فنجان قاآنی کے رطلِ گراں کی یاد تازہ کر دے:

ساقی بدہ رطلِ گراں، زاں مے کہ دہقاں پرورد

شاید آپ کو معلوم نہیں کہ چائے کے باب میں میرے بعض اختیارات ہیں۔ میں نے چائے کی لطافت و شیرنی کو تمباکو کی تندی و تلخی سے ترکیب دے کر ایک کیفِ مرکب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں چائے کے پہلے گھونٹ کے ساتھ ہی متصلاً ایک سگریٹ بھی سُلگا لیا کرتا ہوں۔ پھر اس ترکیب خاص کا نقش عمل یوں جماتا ہوں کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد چائے کا ایک گھونٹ لوں گا اور متصلاً سگریٹ کا بھی ایک کش لیتا رہوں گا۔ عِلمی اصطلاح میں اس صورت حال کو "علی سبیل التوالی والتعاقب” کہیے۔ اس طرح اس عمل کی ہر کڑی چائے کے ایک گھونٹ اور سگریٹ کے ایک کش کے باہم امتزاج سے بتدریج ڈھلتی جاتی ہے اور سلسلہ کار دراز ہوتا رہتا ہے۔ مقدار کے حسن تناسب کا انضباط ملاحظہ ہو کہ ادھر فنجان آخری جُرعہ سے خالی ہوا ادھر تمباکوئے آتش زدہ نے سگریٹ کے آخری خطِ کشید تک پہنچ کر دم لیا۔ کہا کہوں، ان دو اجزائے تند و لطیف کی آمیزش سے کیف و سرور کا کیسا معتدل مزاج ترکیب پذیر ہو گیا ہے۔ جی چاہتا ہے، فیضی کے الفاظ مستعار لُوں:

اعتدال معانی ازمن پرس

کہ مزاجِ سخن شناختہ ام

آپ کہیں گے، چائے کی عادت بجائے خود ایک علت تھی۔ اس پر مزید علت ہائے نافر جام کا اضافہ کیوں کیا جائے؟ اس طرح کے معاملات میں امتزاج و ترکیب کا طریقہ کام میں لانا، علتوں پر علتیں بڑھانا، گویا حکایت بادہ و تریاک کو تازہ کرنا ہے۔ میں تسلیم کروں گا کہ یہ تمام خود ساختہ عادتیں بلا شبہ زندگی کی تلخیوں میں داخل ہیں لیکن کیا کہوں جب کبھی معاملہ کے اس پہلو پر غور کیا، طبیعت اس پر مطمئن نہ ہو سکی کہ زندگی کو غلطیوں سے یکسر

معصوم بنا دیا جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس روزگارِ خراب میں زندگی کو زندگی بنائے رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ غلطیاں بھی ضرور کرنی چاہییں:

پیرِ ماگفت خطا درقلم صنع نہ رفت

آفریں بر نظر پاک خطا پوشش باد

غور کیجیے وہ زندگی ہی کیا ہوئی جس کے دامنِ خشک کو کوئی غلطی تر نہ کر سکے؟ وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یکسر معصوم ہو؟

تو و قطعِ منازلہا، من و یک لغزش پائے

اور پھر اگر غور و فکر کا ایک قدم اور آگے بڑھائیے تو سارا معاملہ بالآخر وہی جا کر ختم ہو جائے گا جہاں کبھی عارف شیراز نے اسے دیکھا تھا:

بیا کہ رونق ایں کارخانہ کم نہ شود

ز زُہد ہم چو توئی یا بفسق ہم چومنی

اور اگر پُوچھیے کہ پھر کامرانی عمل کا معیار کیا ہوا۔ اگر یہ آلودگیاں راہ میں مخل نہ سمجھی گئیں تو اس کا جواب وہی ہے جو عرفاء طریق نے ہمیشہ دیا ہے:

ترکِ ہمہ گیر و آشنائے ہمہ باش

یعنی ترک و اختیار دونوں کا نقش عمل اس طرح ایک ساتھ بٹھائیے کہ آلودگیاں دامن تر کریں مگر دامن پکڑ نہ سکیں۔ اس راہ میں کانٹوں کا دامن سے الجھنا مخل نہیں ہوتا، دامن گیر ہونا مخل ہوتا ہے۔ کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائے۔ بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجیے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہیے کہ جب چاہا، اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہے۔

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

یہاں کامرانی سود و زیاں کی کاوش میں نہیں ہے بلکہ سُود و زیاں سے آسودہ حال رہنے میں ہے۔ نہ تو تر دامنی کی گرانی محسوس کیجیئے نہ خشک دامنی کی سُبک سری، نہ آلودہ دامنی پر پریشان حالی ہو، نہ پاک دامنی پر سرگرانی:

ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ در اقلیمِ عشق

روئے دریا سلسبیل و قعرِ دریا آتش ست

آپ کو ایک واقعہ سناؤں۔ شاید رشتہ سخن کی ایک گرہ اس سے کھل جائے۔ ۱۹۲۱ء میں جب مجھے گرفتار کیا گیا تو مجھے معلوم تھا کہ قید خانہ میں تمباکو کے استعمال کی اجازت نہیں۔ مکان سے جب چلنے لگا تو ٹیبل پر سگریٹ کیس دھرا تھا۔ عادت کے زیر اثر پہلے ہاتھ بڑھا کہ اسے جیب میں رکھ لوں، پھر صورتِ حال کا احساس ہوا تو رُک گیا لیکن پولیس کمشنر نے جو گرفتاری کا وارنٹ لے کر آیا تھا، بہ اصرار کہا کہ ضرور جیب میں رکھ لو۔ میں نے رکھ لیا۔ اس میں دس سگریٹ تھے۔ ایک کمشنر پولیس کے آفس میں پیا، دوسرا راستہ میں سلگایا، دو ساتھیوں کو پیش کیے۔ چھ باقی رہ گئے تھے کہ پریسیڈنسی جیل علی پور پہنچا۔ جیل کے دفتر سے جب اندر جانے لگا تو خیال ہوا اس جیب کے وبال سے سبک جیب ہو کر اندر قدم رکھوں تو بہتر ہے۔ میں نے کیس نکالا اور مع سگریٹوں کے جیلر کی نذر کر دیا اور پھر اس دن سے لے کر دو برس تک سگریٹ کے ذائقہ سے کام و دہن آشنا نہیں ہوا۔ ساتھیوں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جن کے پاس سگریٹ کے ذخیرے موجود رہتے تھے اور قید خانہ کا احتساب عمداً چشم پوشی کرتا تھا۔ بعض شرب الیہود کی طریقہ کام میں لاتے تھے:

(اسلامی حکومتوں میں یہودی پوشیدہ شراب بناتے تھے اور بیچتے تھے، اس لیے پوشیدہ شراب پینے کے معنی میں "شرب الیہود” اک اصطلاح رائج ہو گئی۔)

شرب الیہود کرتے ہیں نصرانیوں میں ہم

بعضوں کی جراتِ رندانہ اس قید و بند کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ:

ولا تسقنی سراً فقد امکن الجھر

(پورا شعر یہ ہے:

الا فاسفنی خمراً، و قل لی ہی الخمر
و لا لسفنی سراً فقداً مکن الجھر

"مجھے شراب پلا اور یہ کہہ کر پلا کہ یہ شراب ہے۔ مجھے چھپا کر نہ پلا کیونکہ اب کھل کر پینا ممکن ہو گیا ہے۔)

پر عمل کرتے تھے۔ مجھے یہ حال معلوم تھا مگر اپنی توبہ اضطرار پر کبھی پشیمان نہیں ہوا۔ کئی مرتبہ گھر سے سگریٹ کے ڈبے آئے اور میں نے دوسروں کے حوالے کر دیئے:

خوشم کہ توبہ من نرخِ بادہ ارزاں کرد

سرگزشت کا اصلی واقعہ اب سُنیے۔ جس دن علی الصباح مجھے رہا کیا گیا تو قید خانہ کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ نے اپنا سگریٹ کیس نکالا اور از راہِ تواضع مجھے بھی پیش کیا۔ یقین کیجیے جس درجہ عزم کے ساتھ دو سال پہلے سگریٹ ترک کیا تھا اتنے ہی درجہ کی آمادگی

کے ساتھ یہ پیش کش قبول بھی کر لی۔ نہ ترک میں دیر لگی تھی نہ اب اختیار میں جھجک ہوئی۔ نہ محرومی پر ماتم ہوا تھا، نہ حصول پر نشاط ہوا۔ ترک کی تلخ کامی نے جو مزہ دیا تھا وہی اب اختیار کی حلاوت میں محسوس ہونے لگا تھا:

حریف صافی و دُردی نۂ خطا ایں جاست

تمیزِ ناخوش و خوش می کنی بلا ایں جاست

۱۹۲۱ء کے بعد پھر تین مرتبہ قید و بند کا مرحلہ پیش آیا لیکن ترک کی ضرورت پیش نہ آئی کیونکہ سگریٹ کے ڈبے میرے سامان میں ساتھ گئے۔ وہ دیکھے گئے، مگر روکے نہیں گئے۔ اگر روکے جاتے تو پھر ترک کر دیتا۔

اب قلم کی سیاہی جواب دینے لگی ہے اس لیے رُک جاتا ہوں:

قلم ایں جا رسید و سَر بشکست!

ابو الکلام

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل