فہرست مضامین
غالبؔ اور انیسؔ
وحید اختر
جمع و ترتیب: راغب اختر، اعجاز عبید
فکرِ غالب اور اردو تنقید
غالبؔ نے دعا کی تھی کہ
’’یا رب میرے بعد ایک ایسا انسان پیدا کر، جو میر ی ہی طرح گفتار کا گرویدہ ہو تا کہ وہ پہچانے کہ میری شاعری کے ایوان کی دیوار کتنی بلند ہے اور میری کمندِ خیالی کا سلسلہ کس مقام تک رسا ہے ؎
ذوقیست ہمدمی بہ فغاں بگذرم ز رشک
خارِ رہت بہ پاے عزیزاں خلیدہ باد
غالبؔ کے بعد، ان کی راہ کے کانٹے چننے کی کوشش تو بہت سے رہ نوردانِ شوق نے کی، مگر ان کی خلش کی لذت سے آشنا ہونے والوں کی تعداد اب بھی بہت کم ہے۔ حالیؔ نے غالب آشنائی کی راہ کھولی، بجنوری نے اس زمین کو آسماں سے ملانے کی کوشش کی، انھیں دیوانِ غالبؔ میں وید مقدس کی الہامی کیفیت و شان دکھائی دی۔ ڈاکٹر عبد اللطیف نے بجنوری کا رد لکھنے کے زور میں غالبؔ نافہمی کی اس روایت کا سلسلہ دراز کیا جس کی بنا محمدحسین آزادؔ ڈال گئے تھے۔غالبؔ کی راہ کے کانٹے چننے اور انھیں آنکھوں سے لگانے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی ان میں عبدالحق، نیاز فتح پوری، جوش ملسیانی، عبدالستار صدیقی، مہیش پرشاد، طباطبائی، سہا،حسرت، شوکت میرٹھی، ناطق، غلام رسول مہر، شیخ اکرام، عرشی، مالک رام، رشید احمد صدیقی، حمید احمد خاں ، سالک، آل احمد سرور، مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، مختارالدین، خورشید الاسلام، ظ ۔ انصاری، ممتاز حسین، سردار جعفری، خلیفہ عبد الحکیم، عبد المالک آروی، شوکت سبزواری، قاضی عبدالودود، قدرت نقوی، نذیر احمد اور اِن کے علاوہ سینکڑوں راہ پیما ملتے ہیں ۔ ہر اک نے بقدر ظرف دادِ شوق دی۔ کچھ نے جواہر کو پہچانا اور پرکھا، کچھ نے سنگریزوں کو حاصل سمجھا، کچھ نے خاکِ راہ کو سرمہ بنایا، بہت کم نے ان کانٹوں کی خلش کو رگِ جاں میں محسوس کیا جو غالبؔ کے تخلیقی کرب اور ذہنی کیفیت سے عبارت ہیں ۔ تنقید نے غالبؔ کا حق کم ادا کیا، تحقیق نے ضرورت سے زیادہ غالبؔ شناسی کی، جس کے نتیجے کے طور پر غالبؔ کے خاندان، مذہب، تلامذہ، قیام گاہوں ، ادبی مناقشوں ، ان کے مخاطبوں ، دوستوں ، رشتہ داروں ، خطوط، ممدوحوں ، ملازموں ، سفروں ، مقدموں اور دشمنوں کے متعلق اتنی ضروری، غیر ضروری، کم ضروری معلومات جمع ہو گئیں کہ اس رطب و یابس کے ڈھیر میں غالبؔ کو ڈھونڈنا، پانا اور پہچاننا مشکل ہو گیا۔
تحقیق کا اصل کام ضروری اور متعلقہ مواد فراہم کرنا ہے جو ادب و شعر کی تفہیم و تفسیر و تنقید میں معاون ہو، تحقیق گورکنی اور مردہ فروشی نہیں کہ اپنی دکان چمکانے کے لیے جس کے ہاتھ کفن کا جو ٹکڑا لگ گیا وہ لے بھاگا اور اسی کی تشہیر و نمائش سے ادیبوں کی صف میں اپنے لیے کہیں نہ کہیں کوئی جگہ نکال لی۔ یہ غالبؔ کی عظمت کی دلیل بھی ہے اور ساتھ ہی بدقسمتی بھی کہ آج اُن کے حاشیہ نشینوں کو بھی عظمت کا دعویٰ ہو چلا ہے۔ غالبؔ پر تحقیق کرنے والوں میں ایسے ’’حریفانِ مے مرد افگنِ عشق‘‘ بھی ہیں جو غالبؔ کی کم علمی، فارسی زبان اور لغت سے عدم واقفیت، اُن کی کمزوریوں اور خود نوشت اعمالنامے (خطوط) کے داغوں کی تشہیر سے ہی اپنے احساسِ کمتری کو تسکین دیتے رہتے ہیں اور ایسے بھی جو آج تلک غالبؔ کے کردار کو قتل کر کے اُن کے خون سے ذوقؔ یا دوسرے کم اہم شاعروں کی عظمت کی مدھم تصویروں میں رنگ بھرتے ہیں ۔ ایسے محققوں کی رسائی غالبؔ کے ایوانِ سخن کی بلندی تک تو کیا ہوتی اُن کے لیے اس ایوان کے در و دیوار اور دیوار و در بن گئے (’’کہ بن گئے میرے دیوار و در ، درو دیوار‘‘) اس طرح بظاہر تو غالبؔ پر بہت کام ہوا، غالبؔ صدی تقاریب کے شور و غل نے تو غالبؔ کی طرف اتنے اہلِ قلم کو متوجہ کر دیا کہ مزار غالبؔ پر مضامین، کتابوں ، تحقیقات کا انبار لگ گیا مگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو بہت حیرت اور افسوس کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک غالبؔ کے فکر و فن کا تعلق ہے اِسے بیشتر لکھنے والوں نے بھاری پتھر سمجھ کر چوما اور چھوڑ دیا۔ فکر و فن پر جتنا بھی اور جیسا بھی کام ہوا ہے، وہ تشنہ ہے۔ دراصل ہوا یہ کہ غالبؔ کو ہم نے اپنا ہیرو تو بنا لیا مگر اُن کے ظاہر ہی کو دیکھتے رہے، روح تک پہنچنے کی بہت کم کوشش کی گئی۔
غالبؔ کو جن شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اس کے آگے خدائے سخن میرؔ کی خدائی بھی ماند پڑ گئی، بجنوری کی مبالغہ آمیز، تاثراتی طرز تحریر نے غالبؔ کا رشتہ آسمان سے ملا دیا، انھیں ہومر، ورجل، شکسپیر، مِلٹن، ڈانٹے، فردوسی، کالیداس سے ٹکرا کر ہر ایک کو غالبؔ سے فروتر ثابت کیا۔ صرف ایک گوئٹے کو بخشا اور انھیں غالبؔ کا ہم سر مانا۔ غالبؔ کا میدان غزل، قصیدہ اور مثنوی ہے۔ اِن اصناف کے حدود اور دائرۂ کار مغربی اصنافِ سخن بالخصوص رزمیہ اور ڈرامے سے اس قدر مختلف ہیں کہ اِن اصناف کے عظیم المرتبت عالمی شعرا سے غالبؔ کا موازنہ ہی بذاتِ خود غلط ہے۔غالبؔ کی عظمت اِس میں نہیں کہ وہ ان تمام شعرا سے بہتر اور برتر ہیں بلکہ غالبؔ کی عظمت اِس میں ہے کہ وہ اِن سب کے باوجود عظیم ہیں اور اپنی شاعری کے مخصوص و محدود دائرے میں رہ کر بھی اس بلندی تک پہنچ گئے ہیں جہاں تک دنیا کے عظیم شعرا نے رسائی حاصل کی — غالبؔ کی عظمت کا ایک اور راز ہے، وہ یہ کہ غالبؔ کی صدسالہ برسی منائے جانے کے باوجود غالبؔ آج بھی زندہ اور آج بھی جدید ہیں ۔ یہ شرف اُن کے معاصرین کیا، اُن کے بعد کے شاعروں میں بھی شاید ہی کسی کو حاصل ہو۔ اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ اردو کے عظیم اساتذہ میرؔ، سوداؔ، نظیرؔ، انیسؔ اور اقبال کو بڑا ماننے سے بھی غالبؔ کی عظمت پر حرف نہیں آتا۔ غالبؔ اِن شعرا کے مخصوص میدانوں میں اِن سے الگ الگ بازی نہیں لے جاسکے، پھر بھی وہ اپنے ذہن اور رویّے، اپنے طرز اظہار اور بیان کی جرات کے ساتھ بحیثیت مجموعی اِن سے آگے نکل جاتے ہیں ۔ غالبؔ کی تنقید میں عام طور پر اِن حدود کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ بجنوری نے موازنہ و مقابلہ کی حدود کے توڑنے میں سب پر سبقت کی تھی اور آج تک ان کی تنقید کی کمزوریوں کے باوجود، ان کا اثر ہماری تنقید پر گہرا ہے۔
حالیؔ اور بجنوری کے بعد غالبؔ پر کام کرنے والوں کا ایک پورا گروہ سامنے آیا۔ محققین میں عرشی نے بنیادی کام کیا، اُن کا سارا کلام، منسوخ اور متداول، اکٹھا کر دیا۔ مہیش پرشاد اور غلام رسول مہر نے خطوط کی ازسرنو تدوین و ترتیب کی، مالک رام اور قاضی عبد الودود نے ضروری مواد مہیّا کیا۔ لیکن جہاں تک غالبؔ شناسی کا سوال ہے شیخ اکرام کی ’’غالب نامہ‘‘ یادگار اور محاسن کے بعد پہلی کتاب ہے جس نے غالبؔ کی شخصیت کو ان کی شاعری کی روشنی میں اور شاعری کو شخصیت کی نفسیات سے سمجھنے کی قابل قدر کو شش کی۔ غالبؔ کے شارحین میں طباطبائی، حسرتؔ اور سُہاکی شرحیں غالبؔ شناسی کی ایسی کوششیں ہیں جو بہت سی دشواریوں کو آسان کرتی اور راہ کے بہت سے کانٹے ہٹاتی ہیں ۔خلیفہ عبد الحکیم کی کتاب ’’افکارِ غالب‘ بھی ایک طرح کی شرح ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم نے بہت سے قدیم اور جدید فلسفوں کو غالبؔ کی فکر میں تلاش کرنے اور غالب کے اشعار کو ان فلسفوں کی قبا پہنانے کی جو کوشش کی ہے وہ ہر جگہ یکساں طور پر کامیاب نہیں ۔ پھر بھی یہ کتاب اسی طرز کی دوسری کتاب ’’فلسفۂ غالب‘‘ (شوکت سبزواری) سے زیادہ وقیع اور مفید ہے۔ رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور، اور احتشام حسین کے چند مضامین، سردار جعفری کا ’’مقدمۂ دیوانِ غالب‘‘ اُن گنتی کی چند تنقیدوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں جن سے غالبؔ کے فکر و فن کی قدر متعین کرنے کے کام کا صحیح سمت میں آغاز ہوتا ہے۔ مستقل کتابوں میں خورشیدالاسلام کی ’’غالب‘‘ ابتدائی دور کے کلام اور ان کے مآخذ پر اور ظ ۔ انصاری کی ’’غالب شناسی‘‘ غالبؔ کے بعض اہم پہلوؤں پر مفید اور مستند کتابیں ہیں ۔ قدرت نقوی کے مضامین (مطبوعہ ماہِ نو) کے علاوہ عالم خوند میری اور خلیل الرحمن اعظمی نے بھی غالبؔ پر اچھے مضامین لکھے ہیں ۔ ان مضامین میں کچھ اور نقادوں کے ناموں اور مضامین کا اضافہ کر لیجیے تب بھی فہرست مایوس کن ہی رہے گی۔
دراصل غالبؔ پر کام کرنے کی راہ آج زیادہ ہموار اور روشن ہے اس لیے کہ ہم تحقیق سے ضروری مواد چُن کر الگ کرسکتے ہیں اور اگلوں کی افراط و تفریط پر نظر رکھ کر غالبؔ تک پہنچنے کی صحیح سمت اختیار کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔
میرے اس مقالے کا اصل موضوع ’فکرِ غالب اور اردو تنقید‘ کا جائزہ لینا ہے اور اسی سلسلے میں غالبؔ کی فکر کے اہم سرچشموں کا سراغ لگانا بھی ہے۔ اس کام کے لیے بنیادی مواد تو غالب کی خود اپنی شاعری فراہم کرسکتی ہے، لیکن ان کے ساتھ اُن کے مکاتیب، حالاتِ زندگی، ماحول اور مطالعے کے اُن پہلوؤں کو بھی پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے جنھوں نے غالبؔ کے مخصوص فکری رویوں کی تشکیل میں نمایاں حصّہ لیا ہے، انہی مآخذوں سے ان اثرات کا سراغ بھی مِل سکتا ہے جو غالب کے مخصوص طرز فکر پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں ۔مجموعی طور پر تو یہ کہاجاسکتا ہے کہ ہندوستان کی ہند، ایرانی تہذیب کا ورثہ ہی غالبؔ کا اصلی فکری سرچشمہ ہے۔ لیکن اِس مشترکہ تہذیب میں اُن عناصر کا کھوجنا ضروری ہے جو بطورِ خاص غالبؔ کی فکر میں روشن نظر آتے ہیں ۔ غالب کی شاعری کو رشید احمد صدیقی نے بجا طور پر مغل تہذیب کا ایسا بیش بہا نمونہ قرار دیا ہے جسے تاج محل کے برابر قابلِ قدر مانا جاسکتا ہے۔ مغل سلطنت کا دور ہند ایرانی تہذیب کے عروج کا دور ہے اور غالبؔ اس دور کا وہ نقطۂ عروج پیش کرتے ہیں جس سے آگے جانا قرون وسطیٰ کی اس جاگیردارانہ تہذیب کے لیے ممکن بھی نہ تھا۔ مگر خود غالبؔ اِس تہذیب کے نمائندے ہونے کے ساتھ آنے والی نئی تہذیب اور ابھرتی ہوئی نئی اقدار کے نقیب بھی ہیں ۔ مغل تہذیب جس نقطے پر آ کر انحطاط کا شکار ہو گئی غالبؔ کی نظر اُس سے آگے تک گئی۔ وہ قدیم دور کے نمائندے اور جدید دور کے نقیب ہیں ، اسی لیے شیخ اکرام کا یہ خیال کہ ’’غالبؔ قدیم و جدید کو ملانے والی اہم کڑی ہیں ‘‘ حقائق پر مبنی ہے۔
غالبؔ کے فکری رویّوں ، زندگی اور شخصیت میں ہمیں جاگیردارانہ تہذیب کی اچھی اور بُری خصوصیات کے ساتھ اس ذہن کی کارفرمائی بھی ملتی ہے جو اپنے زمانے اور ماحول کے حدود کو توڑ کر آئندہ زمانوں کے امکانات اور ان کی توانائی کو محسوس کر رہا تھا۔ اُن کے یہاں قدیم اور جدید کا تصادم بھی ملتا ہے اور اس تصادم کے نتیجے میں تذبذب اور تشکیک بھی، لیکن اِس کشمکش میں اُن کا میلان کعبے کی بجائے کلیسا کی طرف اور ’’پیچھے کے بجائے آگے‘‘ کی طرف واضح طور پر محسوس کیاجاسکتا ہے۔ غالبؔ کے ناقد کے لیے کعبہ اور کلیسا ’آگے اور پیچھے‘ کی علامتوں کو سمجھنا اور ان کی تفسیر کرنا بھی ضروری ہے اور ان مخصوص رویّوں کی نشاندہی کرنا بھی لازم ہے جن سے غالبؔ کی انفرادیت بنتی ہے۔
غالبؔ سے پہلے بھی اردو شاعری میں فکری عناصر ملتے ہیں مگر ہماری شاعری پر بحیثیت مجموعی غلبہ جذبے اور احساس کی شاعری ہی کا رہا ہے اس لیے آل احمد سرور کے الفاظ میں یہ ماننا کہ ’’غالبؔ نے اردو شاعری کو سوچنے والا ذہن دیا‘‘ غلط نہ ہوگا۔ غالبؔ کی شاعری، دوسرے شعرا کے مقابلے میں ذہن کی شاعری ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ان کی شاعری جذبے اور احساس سے عاری ہے، صحیح نہ ہوگا۔ شاعری اور ادب کے عناصرِ ترکیبی میں خیال یا فکر پر جذبے اور احساس اور تخیل کو اولیت حاصل ہے۔ صناعی بھی شاعری کی ایک لازمی شرط ہے اس لیے کسی اچھے شاعر سے بحث کرتے ہوئے ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ اس کی اچھائی اور بُرائی کا دارو مدار ان لازمی اجزائے ترکیبی کے متناسب امتزاج ہی پر ہے۔ غالبؔ کے یہاں جذبہ اور احساس بھی ہے اور صنّاعی بھی۔ غالبؔ کی فکر پر زور دینے کا مقصد دوسرے شاعروں کے مقابلے میں اُن کی انفرادیت کی نشاندہی کرنا ہے، جذبے احساس اور صناعی کی نفی کرنا نہیں ۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غالب کی شاعری ذہن کی شاعری ہے،تو ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُن کے یہاں وہ ذہنی توانائی اور فکری شان ملتی ہے جو اُن کے علاوہ دوسروں کو کم میسر آئی۔ اسی طرح جب ہم یہ کہیں کہ میرؔ کی شاعری جذبے کی شاعری ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اُن کے یہاں سوچنے والے ذہن کی کارفرمائی نہیں ۔ میرؔ کے یہاں ایسے فکر انگیز اشعار قابلِ لحاظ تعداد میں نکالے جاسکتے ہیں جو غالب کے منتخب فکری اشعار کے پہلو بہ پہلو رکھ دیے جائیں تو میرؔ کا پلہ ہلکا نہ ہوگا۔ اس کے باوجود میرؔ کی شاعری کا غالب عنصر جذبہ ہے اور جذبے پر زور دے کر ہم میرؔ کی انفرادیت کا تعین کرنے میں مدد لیتے ہیں ۔ اسی نقطۂ نظر سے غالبؔ کے یہاں جذبے کے ایسے چمکتے ہوئے نشتر ڈھونڈنا مشکل نہیں جو اردو کے اس قبیل کے بہترین اشعار کے ہم پایہ ہوں ، پھر بھی غالب کی انفرادیت ان کے فکری اشعار سے جتنی نمایاں ہوتی ہے، ان اشعار سے نہیں ہوتی۔ میرؔ اور غالبؔ کے اس فرق کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ میرؔ کے یہاں فکر بھی جذبہ بن جاتی ہے اور غالبؔ کے یہاں جذبے میں بھی فکر کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں ۔
ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا یہ بیان کہ ’’شاعری میں فکر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ گہرا اور قطعی جذبہ ہی فکر کا روپ دھار لیتا ہے‘‘ ایک حد تک صحیح ہے۔ شاعری اور فلسفے میں بنیادی فرق یہی ہے کہ فلسفہ عقل کی پیداوار ہے اور شاعری جذبے کا نتیجہ ۔ بڑا شاعر یادوسرے الفاظ میں مفکر شاعر، جذبے اور فکر کی دوئی کو مٹا دیتا ہے اُس کے یہاں جذبہ فکر اور فکر جذبہ بن جاتا ہے۔ میرؔ اور غالبؔ دونوں کے یہاں تفکر ہے مگر میرؔ کی فکر کا سرچشمہ جذبہ ہے اور غالبؔ کی فکر جذبے سے ماورا ایک غیر جذباتی سطح سے پھوٹتی ہے۔ اس لیے غالبؔ فلسفی نہ ہونے کے باوجود شاعری میں فلسفیانہ ذہن کے نمائندے بن جاتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ اگر ہم جذبے اور احساس کے اس فرق کو بھی تسلیم کرلیں کہ ایک محدود مفہوم میں جذبے کا رُخ داخل کی طرف ہوتا ہے اور احساس کا خارجی دُنیا کی طرف تو ہم دیکھیں گے کہ غالبؔ کا طرز احساس میرؔ کے مقابلے میں خارج کی حقیقتوں ، رنگوں اور خوشبوؤں کو اپنے اندر سمیٹنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور میرؔ کا طرزِ احساس جذبے کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے خارج کے مطابق رنگوں اور خوشبوؤں کا جو اثر قبول کرتا ہے وہ محض گریزاں ہے۔ یہ کہنا تو نفسیاتی حقیقت کے خلاف ہوگا کہ جذبہ موضوعی ہوتا ہے اور احساس معروضی۔ کیونکہ جذبہ اور احساس دونوں اپنی اصل داخلی حالتوں کے نام ہیں ۔ دونوں کے محرکات خارج میں ہوتے ہیں ، فرق یہ ہے کہ احساس جذبے کے بعد کی کیفیت ہے جس میں جذبے کی تشفّی کے راستوں اور تشفّی کے معروضات کا علم بھی ایک حد تک شامل ہوتا ہے۔ جذبے کی سطح پر عقل اور ادراک کا عمل بہت کمزور بلکہ ایک حد تک معدوم ہو جاتا ہے۔ احساس کی سطح پر عقل اور ادراک پھر بیدار ہونے لگتے ہیں اس لیے غالب کی شاعری جذبے سے زیادہ احساس کی شاعری ہے، اسی سطح کی شاعری جہاں عقل اور ادراک ازسرنو بروئے کار آتے ہیں ، اسی لیے غالبؔ کے یہاں جذبہ، شعور اور ادراک کے تابع نظر آتا ہے۔ شاعری میں فکر استدلالی نہیں بلکہ محسوسی فکر ہوتی ہے۔ غالبؔ کے یہاں احساس اور فکر دونوں شانہ بہ شانہ چلتے ہیں اور یہی چیز انھیں اپنے پیشروؤں سے ممتاز کرتی ہے۔
غالبؔ کی فکر کا جائزہ لینے کے معنی یہ ہیں کہ ان کے حواس (جو ادراک کا ذریعہ ہیں ) کی بیداری، شعور اور بصیرت کے ساتھ اُن کے مخصوص طرزِ احساس کا بھی تجزیہ کیا جائے۔ شاعری میں مجرد فکر یا فلسفہ و سائنس کی استدلالی عقل، جسے اقبالؔ کے الفاظ میں حضور کی دولت نصیب نہیں ، کوئی مقام نہیں رکھتی۔ شاعری میں وجدان بھی ، جو حواس خمسہ کے علاوہ ایک اور ذریعۂ علم ہے، اہمیت رکھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ غالبؔ وجدان کی سطح پر بھی کس حد تک عقل کے ہم نوا ہیں اور کس حد تک مخالفِ عقلیت (anti-intellectual) رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ غالبؔ کی فکر میں عقلی میلانات کے ساتھ ہر تخلیقی فنکار کی طرح ایسے مخالفِ عقل رویّے بھی ملتے ہیں جو بیسویں صدی کے بعض جدید مکاتیب فلسفہ سے انھیں قریب کر رہے ہیں ۔ غالبؔ کے اس خلافِ عقلیت رجحان کا سب سے بڑا باعث ان کا متصوفانہ میلان ہے جو آج کی فلسفیانہ اصطلاح میں وجودی تجربے (existential experience) کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں غالبؔ کا وحدت الوجودی تصورِ حیات و کائنات بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ غالبؔ کے فکری سرچشموں میں بنیادی حیثیت ان کے متصوفانہ طرزِ فکر و احساس کو حاصل ہے۔ تصوّف کے متعلق اُن کے مخصوص رویّوں کو سمجھے بغیر غالبؔ کی فکر کا تجزیہ ممکن نہیں ۔ غالبؔ کی عقلیت اور تصوف میں ایک اندرونی ربط ہے اسی ربط کی وجہ سے اُن کے یہاں عقل و وجدان، یا عقل و خلافِ عقل (reason and unreason) اور عقلی اور غیر عقلی (rational and irrational) کا تضاد اور دوئی (dichotomy) ایک نامیاتی کل کے دو لاینفک اجزا بن کر تحلیل ہو جاتی ہے۔ یہ دو الگ رنگ نہیں رہتے، ایک ہی روشن انعکاس کے دو ایسے آئینے بن جاتے ہیں جو روبرو رکھّے ہوں ۔
غالبؔ پر ابتدائے عمر میں جو اثرات مرتب ہوئے اُن میں بیدلؔ کے علاوہ نظیریؔ، ظہوریؔ، عرفیؔ، فیضیؔ اور پھر صائب، غنی، ناصرعلی، شوکت، جلال اسیر کا فنّی رویہ نمایاں ہے۔ اردو شعرا میں وہ میرؔ کی استادی کے قائل ہیں ، ناسخؔ نے بھی شاید انھیں اپنی مشکل پسندی کی وجہ سے بہت عارضی طور پر اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ انیسؔ کے میدان مرثیہ گوئی کو انھوں نے چند قدم چلنے کے بعد یہ سوچ کر چھوڑ دیا کہ ؎
بھلا ترددِّ بے جا سے اس میں کیا حاصل
اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو
قصیدے میں وہ سوداؔ اور ذوقؔ کے قدم بہ قدم چلے۔ مثنویات (فارسی) میں انھوں نے اپنے لیے اردو کی روایت سے ہٹ کر راہ نکالی ’’ابر گہر بار‘‘ اور اس کا شاہکار حصہ ’’مغنّی نامہ‘‘ ان کے اجتہادِ فن و فکر کے شاندار کارنامے ہیں ۔ اردو میں مثنوی کی روایت میرؔ سے ہوتی ہوئی میرحسن تک پہنچی تھی، یہ روایت عشقیہ شاعری کی تھی۔ غالبؔ نے مثنوی کو فکر کی گہرائی سے آشنا کیا اور عشق کے متصوفانہ تصورات سے آگے بڑھ کر عقل و خرد کی قصیدہ خوانی کی۔ ان اصناف سے قطع نظر غالبؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ غزل ایسی محدود تنگنائئِن اصناف کے حدود اور دائرہائرۂے کو اپنے شوق کے بقدر وسعت دی اور اُسے جذبے کے ساتھ ذہن کی زبان میں بات کرنے پر بھی قادر کر دیا۔
اردو کے جس شاعر پر عام طور سے، غالبؔ کے سلسلے کا سراغ لگانے میں ، نظر نہیں رُکتی، وہ خواجہ میر دردؔ ہیں ۔ حالانکہ اگر دردؔ اور غالبؔ کی ہم طرح غزلوں اور تراکیب و الفاظ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ غالبؔ نے دردؔ سے گہرا اثر قبول کیا تھا۔اس کا سبب یہ ہے کہ اردو کے قدیم شعرا میں دردؔ بھی اکیلے شاعر ہیں جنھوں نے غزل سے ایک مشکل اور منضبط نظامِ تصوّف کی ترجمانی کا کام لینا چاہا تھا۔ اُن کی زبان میں بھی فکر کا بوجھ سہارنے کی قوت تھی۔ غالبؔ جو غزل کی زبان سے ذہن کی ترجمانی کا کام لینا چاہتے تھے، دردؔ سے غیر متاثر نہیں رہ سکتے تھے۔ دردؔ کے اشعار میں ایسے ما بعد الطبعیاتی مسائل بھی شعر کے قالب میں نظر آتے ہیں جنھیں دردؔ سے پہلے اور بعد بھی غزل کی زبان کا جامہ نہ پہنایا گیا تھا۔ دردؔ صوفی تھے، لیکن اُن کی شاعری کا حقیقی رنگ عشقیہ شاعری میں نمایاں ہوتا ہے۔ اُن کے متصوفانہ یا فلسفیانہ اشعار فنّی لحاظ سے کمزور ہیں اور تغزل کی کیفیت سے بڑی حد تک عاری۔ اس کے باوجود دردؔ کی یہ کوشش اپنی جگہ اہم تھی اور بعد میں اس کے راستے پر چلنے والوں کے لیے نقشِ قدم کی طرح رہنمائی کرنے کے لیے کافی تھی۔ غالبؔ نے دردؔ کے اِس تجربے سے پورا فائدہ اٹھایا۔ تفصیلات کو بعد کے لیے چھوڑ کر اس جگہ میں اتنے اشارے پر اکتفا کروں گا۔
فارسی کے شاعروں میں ذہنی لحاظ سے غالبؔ پر دو شعرا کا اثر واضح ہے۔ ایک بیدلؔ ، جن کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے غالبؔ ایسے بُت شکن کی زبان نہیں تھکتی، دوسرے فیضیؔ، حالانکہ فیضیؔ کا ذکر غالبؔ نے شاید ہی ایک دو مقامات پر کیا ہو۔ لیکن غالبؔ کے یہاں روشن خیالی، وسیع النظری اور وسعتِ مشرب کے ساتھ تشکیک اور کفر کو ایمان بنانے کا حوصلہ رکھنے والی خصوصیات فیضیؔ کے ذہن کا پرتو معلوم ہوتی ہیں ۔ فیضیؔ کا براہِ راست نہ سہی، پھر بھی غالبؔ کا اِن خصوصیات میں اگر کوئی اور شریک ہے تو وہ فیضیؔ ہی ہیں ۔ شیخ اکرام نے تو فیضیؔ کا ذکر کیا ہے مگر غالبؔ کے کسی اور نقاد یا شارح نے فیضیؔ اور غالبؔ میں جو مشترک اقدار ہیں اُن کی طرف سرسری توجہ بھی نہیں کی۔
غالبؔ پر دوسرے شعرا کے اثرات کا کھوج لگانے کے معنی یہ نہیں کہ غالبؔ کی فکر ان سب سے مستعار ہے۔ غالبؔ نے ہر پڑھے لکھے ذہن اور سوچنے والے انسان کی طرح اپنے عملی، تہذیبی اور شعری ورثے سے استفادہ کیا ہے۔ اُن کے چراغ میں کئی چراغوں کی لویں محفوظ ہیں ۔ مگر اس چراغ کی روشنی کا حقیقی مصدر غالبؔ کا اپنا ذہن ہے، جو اپنے تمام پیشروؤں سے زیادہ وسیع، دُور بیں اور کشادہ تھا۔ بیدلؔ، فیضی،ؔ میرؔ، دردؔ سب اپنے زمانے اور حالات کے حصار میں محصور رہے جب کہ غالبؔ نے زماں اور مکاں کی حدود کو توڑ کر آفاقیت کی حدود کو چھُو لیا۔ غالبؔ کا تصوّرِ حیات و کائنات آئندہ زمانوں کی پیش بینی میں اپنے تمام ماخذوں سے زیادہ لچکدار اور وسیع تھا۔ اسی لیے ان کے پیشرو، جن سے خود غالبؔ نے اثر قبول کیا قدیم کی حدوں میں ہی رہے مگر غالب جدید کی دہلیز تک پہنچے اور آئندہ امکانات کی آہٹوں کو سننے میں کامیابی حاصل کی۔
غالبؔ کی فکر کے جن اجزا کو میں اہمیت دیتا ہوں اُن کی ترتیب یہ ہوگی:
1۔غالب کی متصوفانہ فکر
2 ۔ غالب کی عقلیت اور تشکیک
3 ۔ غالب کا تصوّرِ حیات، جس میں اُن کی لذت کوشی اور حقیقت پسندی realismکو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کے نتیجے کے طور پر
4 ۔ غالب کے یہاں جدید ذہن کی پیش بینی کی صلاحیت
ان اجزا کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر عنوان کے تحت اُن فکری سرچشموں کا بھی سُراغ لگایا جائے جن کے اثر سے غالبؔ کے مخصوص ذہنی رویّوں کی تشکیل و تعمیر ہوئی ہے۔ اِس ذیل میں علمی اور تہذیبی ورثے کو بھی بنیاد بنانا مناسب ہے، مختلف پیش رو شعرا کے اثرات کا ذکر بھی اس ذیل میں کیاجاسکتا ہے۔
اِس فکری جائزے کے اپنے حدود ہیں ، اس لیے میں غالبؔ کے فنی کمالات کا ذکر محض ضمنی طور پر کروں گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہ لینا چاہیے کہ کسی شاعر کے یہاں فن اور فکر کو دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر کے سمجھا جاسکتا ہے۔ فن اور فکر دونوں ایک دوسرے سے وہی مناسبت رکھتے ہیں جو مادّے اور صورت (content and form) کے درمیان ہیں ۔ مادّے کا تصوّر بغیر صورت کے اور صورت کا وجود بغیر مادے کے ممکن ہی نہیں ۔ ہم اِن میں سے ہر ایک کو دوسرے کی وساطت سے بھی دیکھتے اور سمجھتے ہیں ۔ مجھے اپنے موضوع کے حدود کو ملحوظ رکھنے کے لیے فنی پہلوؤں کو نظرانداز کرنا پڑا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی شاعر کی فکر کی اہمیت محض اس لیے ہوتی ہے کہ وہ اول و آخر شاعر ہے۔ اس لیے شاعر کی فکری عظمت کا سب سے بڑا راز اس کی فنکارانہ خلاّقی میں مضمر ہے۔ جو باتیں تصورات اور مسائل نثر کی سیدھی سادی استدلالی زبان میں عامۃ الورود معلوم ہوتی ہیں فن کی کسوٹی پر کس کر، جذبے کی آگ میں تپ کر اور شاعر کے خوابوں کا رنگ پاکر پیمبرانہ بصیرت کی حامل بن جاتی ہیں ۔ غالبؔ کا کمال یہی ہے کہ انھوں نے اپنی بصارت کو بصیرت اور اپنی لذت کوشی کو ابدی مسرّت کا خزینہ بنا دیا۔ وہ ہمارے لیے بھی اتنے ہی اہم ہیں ، جتنے اپنے زمانے کے لیے تھے۔ اسی لیے اُن کی فکر جو ’’گرمیِ نشاطِ تصوّر‘‘ کا نغمہ ہے ان کی زندگی تک ناآفریدہ زمانوں کے لیے زیادہ کشش رکھتی ہے۔ غالبؔ شناسی کا حقیقی کام بیسویں صدی میں ہوا ہے اور غالبؔ کو پہچاننے میں اُن نئے معیاروں اور اقدار نے مدد دی ہے جو غالبؔ کے لیے ناآفریدہ تھے اور ہمارے لیے عہد آفریں ہیں ۔
غالبؔ کی شاعری میں اُن کی فکر کو بنیادی اہمیت دینے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ یہی خصوصیت انھیں اردو اور فارسی کے دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ جہاں تک فنّی درو بست کا سوال ہے میر،سودا، میرحسن، انیس ہی نہیں ، بلکہ آتش، ناسخ، مصحفی اور انشا بھی فن کے قواعد کا علم غالبؔ کے برابر ہی رکھتے تھے اور انھیں برتنے میں بھی قادر تھے۔ جہاں تک زبان کے صرف کا سوال ہے غالبؔ کی زبان آج بھی اُن سے کم درجے کے شعرا آتش، ناسخ، ذوق، مومن ہی نہیں بلکہ داغ اور امیر مینائی کے مقابلے میں سند کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی۔ غالب کے یہاں زبان کے مقام ہی نہیں بلکہ ایسے اشکال بھی ہیں جو شعر کو چیستاں بنا شروودیتے ہیں اور ابتدائی دور کے بعض اشعار پر تو اہمال کا بھی گمان گزرتا ہے۔ اس کے باوجود غالب ان سب سے اہم ہیں اور اِس کا راز یہی ہے کہ اُن کی فکر اِن تمام شعرا سے زیادہ بسیط، وسیع اور گہری تھی۔ غالب کے یہاں زبان کا وہ جامد تصوّر نہیں ملتا جو شاعری کو محض لفظی شعبدہ بازی اور قافیہ پیمائی بنا دیتی ہے۔ غالب کی زبان کو روایت پرست زباں داں سند نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ غالب نے اردو شاعری کو جو زبان دی وہ اپنی دشواریوں کے باوجود، اردو شاعری کی نئی سمتوں میں توسیع کرنے کی، دوسرے شاعروں کی زبان سے زیادہ صلاحیت رکھتی تھی۔ اس میں بوجھ اٹھانے کی وہ توانائی تھی کہ اقبال ایسے فلسفی کو بھی غالب سے زبان مستعار مانگنی پڑی۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اردو شاعرانہ خصوصیات میں تو غالب کے شریک مل جائیں گے مگر فکر کی حد تک غالب آج بھی اردو شاعری میں شریکِ غالب ہی نظر آتے ہیں ۔ غالب کو اِس معاملے میں اقبال پر بھی اِس لحاظ سے فوقیت حاصل ہے کہ غالب کا ذہن نابستہ non-conformist اور اقبال کا بستہ conformist ہے۔ غالب کی یہ خصوصیات انھیں ہمارے زمانے کے لیے اقبال کے مقابلے میں بھی زیادہ قابلِ قبول بنا دیتی ہے۔ اقبال کی شاعری اور فکر کا بڑا حصّہ آج رد کیاجاسکتا ہے اِس لیے کہ اُن کے تصورات ایک مخصوص و محدود نظامِ فلسفہ کے پابند ہو گئے تھے۔ مگر غالب آج بھی کُل کے کُل قابلِ قبول ہیں ۔ غالب قدما میں آخری قدیم ہیں اور جدیدوں میں پہلے جدید۔ اِس لیے اُن کی فکر کا مطالعہ کیے بغیر نہ تو قدیم کا عرفان مکمل ہوسکتا ہے نہ جدید کو سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ جدید اور قدیم کو ملانے والی ایسی کڑی ہیں جو قدیم اور جدید کے صحت مند رشتے کو سمجھاتے ہیں اور جدید کے لیے قدیم سے انحراف کے علاوہ حدود متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔ غالب کو اپنی اِس حیثیت کا احساس تھا اس لیے انھوں نے جو دعویٰ کیا تھا اُس کی صداقت آج ہم پر روشن ہو رہی ہے ؎
گر شعر و سخن بدہر آئیں بودے
دیوان مرا شہرتِ پرویں بودے
غالبؔ اگر ایں فنِّ سخن دیں بودے
آں دین را ایزدی کتاب ایں بودے
اردو شاعری اور ہندوستانی تہذیب کے نشاۃ الثانیہ پر اگر ایمان لانا ہے تو غالبؔ کا دیوان ہی اِس کا سچا وسیلہ ہوسکتا ہے۔ اُن ہی کی فکر نے حالیؔ اور سرسیّد کی مقصدی تحریک، اقبال کے فنّی اجتہاد، ترقی پسند تحریک کی بغاوت اور جدید ادب کی انحراف پسندی کو یہ نکتہ سمجھایا اور ہر نئے تجربے کے لیے جواز فراہم کیا ؎
با من میاویز اے پدر، فرزندِ آذر را نگر
آں کس کہ شد صاحب نظر دینِ بزرگان خوش نہ کرد
٭٭٭
انیس کا فلسفۂ حیات
اُردو شاعری کی تاریخ میں غالبؔ تک ہمیں جو فلسفۂ حیات ملتا ہے،وہ بڑی حد تک اسلام کی مذہبی فکر سے مستعار و ماخوذ ہے۔ اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ اُردو کے تمام اساتذۂ سخن مذہبی شاعری کرتے رہے یا انھوں نے کہیں بھی دین کے جادۂ مستقیم سے سرِمو انحراف نہیں کیا۔ اُردو کی غالب شعری روایت سیکولر رہی ہے۔ قلی قطبؔ شاہ سے ولی تک، سراجؔ سے میرؔو سوداؔ تک اور نظیرؔ و انشا سے غالبؔ بلکہ اور آگے بڑھ کر حالیؔ تک سب ہی نے ہندوستانی تہذیب کی رنگا رنگی کو اپنے گلدستۂ سخن میں بناسنوار کر پیش کیا ہے۔ لیکن اس سیکولر شعری مزاج کے باوجود جس فلسفۂ حیات کو ہم بنیاد میں کار فرما دیکھ سکتے ہیں وہ اسلامی فکر کے وسیع تر دھارے سے ہی سیراب ہوا ہے۔ ان دونوں باتوں میں تضاد و تناقص نہیں بلکہ یہاں مذہبیت دنیویت کا ایسا امتزاج ملتا ہے جس سے ہمارے ملک کی مشترکہ و متنوّع تہذیب عبارت ہے— ہندوستانی تہذیب کے بے وقفہ تسلسل کا راز یہی ہے کہ اس نے باہر سے آ کر اس دیش کو اپنا وطن بنانے والی ہر نسل، قوم، مذہب اور جماعت کو نہ صرف اپنے تہذیبی دائرے میں شامل کیا بلکہ ان کے کلچر، زبان،مذہب اور رسوم سے ہر دور میں نئی توانائی بھی حاصل کی۔ اسی طرح ہماری تہذیب رنگا رنگ ہوتی رہی۔ ہندوستانی تہذیب کی اساس بھی مذہبی تصوّرِ کائنات وحیات پر ہی رہی ہے جس نے لا دینی فلسفوں اور تحریکوں کو بھی مذہبیت و روحانیت سے ہمیشہ جلد یا بدیر آشنا کیا۔ اسلامی فکر ہندوستان پہنچنے تک اتنے مراحل سے گذر چکی تھی کہ اب اس میں عجمیت، نو فلاطونیت و عیسائیت کے ساتھ ویدانت اور بدھ مت کے عناصر بھی عقلیت یا تصوف کا لباس پہن کر شامل ہو چکے تھے۔ ہندوی متصفوفانہ فکر کی زمین پر اسلامی تصوّف کا پودا خوب پھلا پھولا۔ دکن کے صوفی شعرا سے لے کر زوالِ عہد وسطیٰ تک تصوف کی وحدت الوجودی فکر جس میں دوسرے مذہبی فلسفوں سے زیادہ قبول و جذب کی صلاحیت تھی، جاری و ساری رہی۔ درد سا صوفی ہو یا نظیر کا سا عام زندگی کا دلدادہ،سوداؔ کا نشاطیہ لہجہ ہو یا انشا و جراتؔ کا کھلنڈرا پن ،غالبؔ کی متشککانہ جرأت فکر ہو یا حالیؔ کا جذبۂ قومیت سب وحدت الوجودی تصوّرِ حیات و کائنات کے بحر بیکراں کی موجیں ہیں ۔ کوئی نرم رو،کوئی تندوسرکش، کوئی فنا آمادہ، کوئی بقا کوش، کوئی وجود کی وحدت پر مصر، کوئی التباسِ شہود کی کاشف۔ اس فکر میں اتنی لچک اور وسعت تھی کہ اسلامی فرقوں کے اختلافات ہی نہیں بلکہ غیر اسلامی مذاہب اور فلسفوں کے اثرات بھی اس محیط میں گم اور ضم ہو جاتے ہیں ۔ مسلمان شعراء ہندو تہواروں اور تیر تھوں ، بزرگوں اور دیوتاؤں کے نغمے گاتے رہے، ہندو شعرا حمدو نعت، منقبت و مرثیہ و مناجاتِ اسلام لکھتے رہے۔ اس مشترکہ رنگا رنگ تہذیب کو زوال آمادہ ہندوستانی سیاست و معاشرت میں جو آخری پناہ گاہیں ملیں ، اُن میں سلطنتِ اودھ کو اُردو شاعری کی تشکیل و ارتقا میں نمایاں اہمیت حاصل ہے۔
انیسؔ دہلی سے اپنا رشتہ جوڑنے، اور بعض ناظرین کی نظر میں اپنے مزاج کی دہلویت کے باوجود سر تا پا اودھ کے نمائندے ہیں — لیکن اودھ کی تہذیب کوئی جزیرہ نہ تھی بلکہ اسی دریائے رواں کی ایک موج تھی جسے ہم مشترکہ تہذیب جانتے اور مانتے ہیں ۔ اودھ اسی تہذیب کا شوخ رنگ گلدستہ ہے اور انیسؔاسی تہذیبی تسلسل کے پھول کو سو رنگ سے باندھتے رہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہوگا کہ انیسؔ کے مراثی کی فضا خالص اودھ کی فضا ہے اور اُن کے کرداروں کا لباس جو بھی ہو، ان کی روح اسلامی ہے۔ یہ انیسؔ کا کمال ہے کہ انہوں نے ہندوستانی لباس اور اسلامی فلسفۂ حیات کو یک جان دو قالب کرایا، اس لیے وہ بھی انیسؔکے عارف نہیں جو انھیں محض مذہبی شاعر کہہ کر وسیع تر تہذیبی تناظر سے الگ کرا لیتے ہیں ، اور وہ بھی سخن فہم نہیں جو اودھ کی تہذیب کی طرف داری کے لیے انیسؔ کو وسیلہ و سپر بناتے ہیں ۔ انیسؔ یہ بھی ہیں اور وہ بھی — وہ اتنے ہی ہندوستانی ہیں جتنے مسلمان اور اُن کا شعری کارنامہ اسی قدر سیکولر ہے جس قدر اُن کے ممدوح مذہبی ہیں ۔ بظاہر یہ قولِ محال معلوم ہوگا مگر ہے حقیقت۔ انیسؔ نے جس مذہبی فکر کے عقائد کو اپنے مراثی کے کرداروں میں پیش کیا ہے وہ اسلامی اخلاقیات کے اصولوں کی روح ہونے کے ساتھ وسیع تر انسانی اخلاق اور آفاقی قدروں سے بھی ہم آہنگ ہے۔
انیسؔ فلسفی نہ تھے۔ فلسفی تو میرؔ و غالبؔ بھی نہ تھے ۔ دردؔ صوفی تھے اس لیے نیم فلسفی، لیکن ان کا شعوری تفلسف و تصوف انہیں میرؔ و غالبؔ سے بد تر نہیں بناتا۔ میرؔ و غالب کی شاعری میں بھی فکر کا عنصر شعوری کاوش کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے جذبہ و احساس کے چند علائم و استعارات میں ارتکاز کا ثمرہ ہے۔ شاعری فلسفہ ہے نہ مذہب۔ اس کی اپنی شریعت ہے اور یہ اپنی دنیا میں اپنا فلسفہ بھی ہے اور اپنا مذہب بھی۔ فلسفہ ہو یا مذہب اگر وہ شاعری کے تجربے کے بطن سے نہیں بلکہ محض دماغ سے پھوٹتا ہے تو وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی شعر نہیں بن سکتا۔ اس کے بر خلاف اگر شاعر کا تجربہ معتبر اور اس کا اظہار فن کارانہ ہے تو سادہ و عام واردات بھی فلسفے کی آفاقیت اور مذہب کی معرفت کے حدود کو چھو لیتی ہیں — خالص اصطلاحی مفہوم میں انیسؔ کے یہاں کوئی فلسفہ نہیں ، بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے شعری کارنامے میں فکری نقد کی کمی ہے۔ اسی نقطۂ نظر سے انیسؔ کی شاعری کو محض بیانیہ کہا جا تا ہے۔ لیکن اگر ہم فلسفے کو غیر اصطلاحی معنوں میں لیں جو فلسفے کا اصلی اور وسیع مفہوم ہے، تو انیسؔ کے کلام کے تانے بانے میں یقیناً ایک تصورِ حیات و کائنات کار فرما نظر آئے گا۔ اس لیے نہ تو فلسفیانہ اصطلاحات و نظریات سے واقفیت ضروری ہے اور نہ مذہب کی تکلّمانہ موشگافیوں کی طرف رجوع کرنے کی حاجت ہے — انیسؔ کا فلسفہ وہی ہے جو انہوں نے نسل در نسل، سینہ بہ سینہ ورثے میں پایا، جسے انہوں نے اپنے ماحول کی فضا سے جذب کیا اور جس پروہ کار بند رہے۔ فلسفۂ حیات، کائنات اور اس کے مختلف مسائل و واردات کی طرف مخصوص ذہنی رویّے کا نام ہے۔ ہر شخص خواہ وہ غیر مہذب ہو یا عامی، ان پڑھ ہو یا گنوار زندگی کو کسی مخصوص طرز پر برتتا اور کائنات کے تمام مظاہر کو مخصوص نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ حیات و مرگ، قضا و قدر، خیر و شر، مذہب و اخلاق، سیاست و معیشت، رسم و رواج سب کو اصطلاحی سطح پر نہ سوچنے کے باوجود غیر تفلسفانہ سطح پر اپنے مجموعی تصورِ کائنات کے چوکھٹے میں رکھ دیتا ہے۔ یہی فلسفہ ہے۔ عام آدمی کا یہ فلسفہ قدیم فلسفۂ محض کی تجریدیت و نا حقیقیت کے مقابلے میں عمل کا منصوبہ بھی بن جاتا ہے اور مدعا بھی۔ جبکہ فلسفۂ محض اکثر صورتوں میں صرف تصورات کی دنیا ہی تک رہتا ہے، عام آدمی کا فلسفہ اس کا عقیدہ بھی ہوتا ہے۔ عقیدے کو فلسفیانہ نظریے سے اسی بنا پر ممتاز کیا جاتا ہے کہ نظریہ وہ ہے جو قابلِ فہم ہو اور عقیدہ وہ ہے جو قابل عمل ہو— اس لحاظ سے عام آدمی کا فلسفہ بھی اس کا مذہب ہے،اور یہ فلسفہ یا مذہب عمل کا منصوبہ ہونے کی وجہ سے نتا ئجتی (Pragmatic) طرزِ فکر کی خصوصیات رکھتا ہے۔ شاعروں کو اصطلاحی معنی میں فلسفی نہ مانتے ہوئے بھی انہیں کم از کم ایک عامی کی سطح کا صاحبِ فلسفہ تو ماننا ہی پڑے گا— یہی نہیں اگر شاعر کو عام آدمیوں سے زیادہ با شعور(شعر شعور ہی سے مشتق ہے) تسلیم کیا جائے، اسے متوسط افراد سے بڑھ کر حسّاس اور زندگی کا عام تجربہ رکھنے والوں سے کچھ زائد تجربوں سے گذرنے والا بھی سمجھا جائے جو کسی طرح غلط نہ ہوگا تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک غیر فلسفی شاعر کا تصورِ حیات و کائنات بھی، خواہ وہ کتنا ہی عقیدہ بستہ، رواج زدہ، اور عمومیت گزیدہ نظر آئے، اس کے حقیقی تجربے کے تخلیقی بننے کے عمل میں عامیانہ فلسفۂ حیات سے ہر حال میں کہیں زیادہ معنی خیز اور تہہ دار ہوگا۔ ان اصولوں یا مفروضات سے چند بد یہی نتائج کا استنباط کیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ:
ا۔ انیسؔ کے یہاں ایک مخصوص تصورِ حیات و کائنات ملتا ہے جو ان کا فلسفہ بھی ہے اور مذہب بھی۔
ب۔ انیسؔ کے فلسفۂ حیات میں الہٰیاتی، علمیاتی، اخلاقیاتی، کونیاتی اور وجودیاتی مسائل کی طرف غیر اصطلاحی اشارے ضرور موجود ہیں ۔
ج۔ انیسؔ کا فلسفہ وہ ہے جو ان کی زندگی اور ان کا عمل ہے۔ اس لیے ان کے کردار محض عقیدے کے ہیولے نہیں ، اُن کے کل وجودی تجربے کے اظہارات ہیں ۔
د۔ انیسؔ کی مذہبی حسّیت نے اس فلسفۂ حیات کو مجرّد تصوّرات کا مجموعہ بنانے کے بجائے اُن کے وجود کا لازمی جز بنا دیا کیونکہ مذہبی تجربے کی سطح پر تصوّر و حقیقت، موضوع و معروض، شخصی غیر شخصی،زمان و لازماں کی دوئی تحلیل ہو کر ایک ہی کُل میں مُدغم ہو جاتی ہے ۔
ہ۔ انیسؔ نے اس فلسفۂ حیات کے اظہار کے لیے جو لباس تراشا وہ ہندوستانی تہذیب نے تیار کیا تھا۔
و۔ اس لباس کے اندر جو روح کار فرما ہے وہ کرداروں کی گہری مذہبیت و روحانیت کی وجہ سے اسلامی ہوتے ہوئے بھی آفاقی قدر و صداقت کی حامل ہے۔
ز۔ انیسؔ کا فلسفۂ حیات اسلامی اور ہندوستانی تہذیب سے مختص ہونے کے باوجود عالم گیر اپیل رکھتا ہے۔
یہ منطقی استنباطات جو فلسفہ کی عمومی تعریف سے مشتق ہیں ، ہر اہم شاعر پر متطابق کئے جا سکتے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ انیسؔ بنیادی طور پر مذہبی شاعر ہیں ۔ دوسرے بہت سے شاعروں پر جن کے موضوعات مذہب، مذہبی روایات، مذہبی کرداروں اور مذہبی تاریخ کے واقعات تک محدود نہیں ،ان کا انطباق کچھ مختلف نتائج تک لے جا سکتا ہے۔ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے میں انیسؔ کی سبکی نہیں کہ وہ غالبؔ کی تشکیک کے کرب سے نہیں گذرے۔ کفر و ایماں کی کشاکش نے انہیں مضطرب نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اقبالؔ کی حد تک بھی جو خود بنیادی طور پر مذہبی شاعر ہیں وہ کسی ایسے روحانی تجربے سے دو چار نہیں ہوئے جو جبرئیل کے ’’اللہ ہو‘‘ کے مقابل ابلیس کی جرأتِ انکار کو ہمدردانہ سمجھنے پر مجبور کرے۔ ان کے لیے مشرق و مغرب کی کشمکش بھی کوئی مسئلہ کم از کم شعری سطح پر نہیں ۔ تشکیک و حیرت، ذہنی کشاکش اور روحانی کشمکش فکر کے جس شعلے کو بیدار کرتی ہے وہ انیسؔ کے کلام میں نہیں ۔ اس کمی کا اعتراف بھی اُن کے کمال فن کی نفی نہیں کہ انھوں نے کرداروں کو تاریخ و روایت کے حدود سے اوپر اٹھا کر علامت نہیں بنایا، اس لیے ان کے یہاں وہ بلیغ معنویت نہیں جو اقبالؔ کے یہاں ہے۔ کربلاؔ و حسینؔ، انداز کوفی و شامی اور مقامِ شبیری اقبالؔ کے یہاں استعارات ہیں ،انیسؔ کے یہاں واقعات۔ انیس کی شاعری بنیادی طور پر بیانیہ شاعری ہے۔ لیکن چونکہ شاعری میں ہر لفظ استعارہ اور ہر نام علامت بن جاتا ہے، اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انیسؔکے لیے کربلا استعارہ ہے حق و باطل کی فیصلہ کن کشمکش کا،اور حسین و رفقائے حسین یزید و حامیان یزید کے نام علائم ہیں ، اس کشمکش کے مختلف پہلوؤں کے۔ اسی شاعرانہ اظہار کی وجہ سے انیس کے یہاں جو تصورات سامنے آتے ہیں اور جو کردار ابھرتے ہیں ان میں عالم گیر معنویت تلاش کی جا سکتی ہے۔ انیسؔ کے یہاں یہ معنویت ہے اور اسی لیے ان کے کلام کو اختلافِ عقائد کے باوجود سو سال سے ہر فرقے اور خیال کے سخن فہم پڑھتے اور پسند کرتے رہے ہیں ۔ لیکن اعلیٰ مفکّرانہ شاعری میں جو معنویت ہوتی ہے وہ محض بیانیہ شاعری کی معنویت سے عمیق تر اور وسیع تر ہوتی ہے—انیس نے اس کمی کو دوسری طرح پورا کیا — انیس جس تہذیب اور جس عقیدہ کے پروردہ ہیں ، اس سے انھوں نے قدم باہر نہیں نکالا۔ اس پر شک کی نظر بھی کبھی نہ ڈالی، انھوں نے اسے جیسا پایا تھا ویسا ہی قبول کیا اور اسے اپنے شاعرانہ کمال سے زندگی کا جاوداں مرقع بنا دیا۔ انیس اپنی تہذیب اور عقیدے کے مکمل ترین نمائندے ہیں ۔ اس لیے وہ بذاتِ خود ایک تہذیب بن گئے۔ یہ شرف کسی اور اردو شاعر کو ، جو فکری لحاظ سے ان سے بہتر ہی کیوں نہ ہو، حاصل نہیں ہوا۔ اس تہذیب میں تشکیک و تفکّر کی گنجائش بھی کم ہی تھی۔ انیس نے جو عقیدہ قبول کیا، وہ زندگی میں عمل کا مطالبہ کرتا تھا اور عمل کی راہ میں کہیں رک کر سوچنا اور راہِ عمل کے خطا و صواب پر غور کرنا انکے دائرہ فکر سے خارج تھا۔ یہ راہ تمام کی تمام صواب تھی، اور راہ نما ہمہ خیر، ہمہ عدل، ہمہ صداقت، ہمہ علم۔ وہ راسخ العقیدہ مسلمان تھے ۔ ان کے عقائد وہی ہیں جو فرقۂ امامیہ اثنا عشریہ کے عقائد ہیں ۔ اودھ ان کے عہد میں عزاداری کو تہذیب کا درجہ دے چکا تھا اور یہ تہذیب سال کے بارہ مہینوں کے ہر ہر دن کا حساب رکھتی تھی۔ واقعۂ کربلا اس تہذیب کی توانائی کا سر چشمہ بھی تھا اور مقصود و منتہا بھی، آدرش بھی، حقیقت بھی، لائحہ عمل اور سامان نجات بھی۔ انیس نے اس بظاہر عام پسند عقیدے کو شاعری کا کمال بنا دیا۔ یہی عقیدہ ان کی فکر بھی ہے اور فلسفۂ حیات بھی۔
انیسؔ اپنے عہد کی تہذیب کے سچے نمائندے تو ہیں لیکن وہ اودھ یا ہند کی معاصر تہذیب و معاشرت کو مثالی سمجھ کر قبول نہیں کر لیتے ہیں ۔ انھیں اس تہذیب کی خامیوں کا احساس ہے۔ ان کے مراثی کے وہ بند جو شکایت زمانہ پر مشتمل ہیں اور شہر آشوب کی کیفیت رکھتے ہیں ، مناجات کے وہ ٹکڑے جو فن کی کساد بازاری کے شاکی ہیں ، سلاموں اور رُباعیات کے وہ اشعار جو اخلاقی کمزوریوں کی تنقید ہیں ، اس تہذیب کے زوال آمادہ عناصر سے ان کی با خبری پر دلیل ہیں ۔ وہ اپنے عہد کے انسان سے مطمئن ہوتے تو اسی کا قصیدہ لکھتے، کئی سو سال قبل شہید ہونے والوں کا مرثیہ نہ لکھتے۔ انھوں نے یہ مراثی اس لیے لکھے کہ وہ ان قدروں کی شہادت کا ماتم کرنا چاہتے تھے جو انھیں عزیز تھیں اور ان کے عہد میں کم یاب۔ انھوں نے مثالی کرداروں کے مرقعے اسی لیے تیار کیے کہ زندہ مگر خام کردار بہترین اخلاق کے نمونوں کو سامنے رکھ کر اپنے آپ کو سنواریں ۔ انھوں نے اودھ کی حکومت کے خاتمے پر بھی ایک دو جگہ نوحہ پڑھا ہے ایک دو جگہ اس کی بحالی کی دعا بھی کی ہے ۔ مگر وہ جانتے تھے کہ اس حکومت کا زوال مرثیہ کا موضوع نہیں بن سکتا۔ مرثیہ اسی حکومت، خاندان اور جماعت یا فرد کا موثر ہو سکتا ہے جو ہر عہد کے لیے مثال بن سکے۔ یہ مثالیں انھیں خانوادہ رسالت کے افراد و اصحاب میں نظر آئیں — ان افراد کا انتخاب اور ان کی مرقع نگاری انیس کا انفرادی کارنامہ نہیں ۔ مرثیے کی تاریخ اردو اور فارسی میں ان سے پہلے بھی دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ دوسری اصنافِ سخن میں ان مثالی کرداروں کا شاعرانہ بیان صدیوں پہلے سے موجود تھا۔ لیکن انیس نے اجمالی اشاروں کو تفصیل سے روشناس کیا اور مرثیے کو جسے ان سے پہلے ادبی اعتبار حاصل نہ تھا، اعتبار کے مقام تک پہنچایا۔ اسی لحاظ سے انھوں نے اپنے مثالی کرداروں کو بھی زیادہ شرح و بسط سے پیش کیا۔ ان کی ولادت اور طفلی سے لیکر سفر و حضر، ابتلا و مصائب کی زندگی کے ہر لمحے اور موت کا مردانہ وار سامنا کر نے کے ہر تجربے کو اپنے مراثی میں اس طرح پیش کیا کہ وہ کردار جو عقیدت کی نگاہ کے لیے محض دور کا گُریزاں جلوہ تھے، مردمِ دید کا جز بن گئے۔ اس طرح انھوں نے آتشِ رفتہ کو اپنے عہد کے چراغوں میں روشن کیا اور تہذیبِ گم شدہ کی اعلیٰ اقدارکو اپنے عہد کے انحطاط پذیر معاشرے کے لیے ہمہ وقت حاضرو ناظر پیکروں میں ڈھال دیا۔
اس طرح انیس کی تہذیب محض اودھ کی تہذیب نہیں رہتی بلکہ وہ تہذیب ہو جاتی ہے جس کی اساس اسلامی فکر کے عقیدہ و عمل کی وحدت پر ہے۔ اگر انیس نے کربلا اور کربلا کے کرداروں کو اس طرح پیش نہ کیا ہوتا تو وہ اقبال کے یہاں اس قدر بلیغ علائم و استعارات نہیں بن سکتے تھے۔ اقبالؔ نے صرف شعری اظہار ہی میں ایک حد تک انیس کی لفظیات اور اسلوب سے استفادہ نہیں کیا بلکہ ایک حد تک ان کی فکر کے چراغ کو تھوڑا سا روغن بھی انیس کے چراغ سے ملا ہے۔ غالب اور حالی دو شاعر جن کا کلام اقبال کے لیے حرزِ جاں تھا، انیس کے فن کے مدّاح و مقر ہیں ، اس لیے انیس سے اقبال کی اثر پذیری محض انیس پرستانہ خوش گمانی نہیں کہی جا سکتی۔ اقبال نے جس تہذیب کی بازیافت اور جس عقیدے کی تجدیدو تشکیلِ نو کی سعی کی انیس بھی اسی تہذیب کے شارح اور مجدّد ہیں ۔
انیسؔ کا عقیدہ جو ان کے فلسفۂ حیات کا سر چشمہ ہے توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت کو اصولِ دین مانتا ہے اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ،جہاد اور خمس کو فروغِ دین۔ توحید کے باب میں ان کے مراثی کے وہ حصّے جو حمد و مناجات پر مشتمل ہیں اور وہ رباعیات جو ہمہ از اوست کے تصور کو بھی کہیں کہیں چھو لیتی ہیں ، اسلام میں توحید کے تصور کی اساسی اہمیت کو واضح کر نے کے لیے کافی ہیں ۔ توحید کے ساتھ عدل صرف معتزلی کلام ہی کا اصل الاصول نہیں بلکہ اسلامی عقیدے میں بالعموم اور شیعی عقیدے میں بالخصوص بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ انیس کے یہاں عدل مختلف تصورات، واقعات اور اعمال کی روح بن کر سامنے آتا ہے۔ عدل ہی خیر و شر کے درمیان خطِ امتیاز کھینچتا اور جبر و اختیار کے لیے حدِ وسط قائم کرتا ہے۔ رباعیات میں کہیں کہیں یہ گمان ہو سکتا ہے کہ انیس اپنے دور کے ہزیمت آشنا ذہن کی تقدیر پرستی کی ترجمانی کر رہے ہیں اور جبر کے قائل ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ۔ وہ جبرِ مطلق کے ماننے والے ہوتے تو ا ُ مَوی دور کے حکومت پرست ارباب کے نقّاد نہ ہوتے۔ اسلامی فکر میں جبر و قدر کا مسئلہ بنی امیّہ کے دور ہی میں سیاسی اختلال کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ’’جبریہ‘‘ ہر ظلم و تعدّی کو انسان کی مجبوری کے پردے میں چھپا کر جرائمِ حکومت کی پردہ پوشی کرنا چاہتے تھے۔ ’’قدریہ‘‘ تشدّد کے خلاف بغاوت کو انسانی اختیار کا ہتھیار بنانے کے مبلّغ تھے۔ انیس کے یہاں حسین ’’اختیار‘‘ کی علامت ہیں اور یزید ’’جبر‘‘ کی۔ رفقائے حسین اختیار کے برگ و بار ہیں اور لشکر یان و کار کنانِ یزید جبر کے زائیدہ و پروردہ۔ امام جعفر صادق کا قول جسے صوفیا نے بھی اپنے مسلک کے لیے معیار بنایا ہے، یہ ہے کہ نہ جبر ہے نہ اختیار بلکہ معاملہ دونوں کے بین بین ہے۔ مگر یہ بات عام انسانوں کے لیے ہے۔ وہ منتخب افراد جو رضائے حق کے خریدار ہوں ( و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ )خدا کی رضا سے متحد ہو کر مجسم اختیار بن جاتے ہیں ۔ (یآیتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃً مرضیّۃ) کا مصداق وہ شہدائے راہِ خدا ہیں جنھوں نے اپنے نفوس کو خدا کے ہاتھوں بیچ کر اس کی مرضی کو اپنا بنا لیا ہے۔ خدا ہمہ اختیار ہے، شہدائے راہ خدا اس اختیار کے آلۂ کار ہیں ۔ حسین سید الشہداء ہیں ۔ ان کا ہر عمل شر کے جبر کے خلاف اختیارِ رضائے حق کا اثبات۔ اختیار خیر ہے اور جبر شر، اختیار عدل ہے اور جبر ظلم— یہ ظلم اپنے نفس پر بھی ہے، دوسرے افراد کے نفوس پر بھی اور خدا کے ساتھ بھی۔ انیس کے یہاں حسین ولادت ہی کے وقت سے شہادت پر فائز ہو کر آتے ہیں ۔ شہادت اپنی انتہا میں رضائے حق ہے۔ یہ راہ سب کے لیے کھلی ہے۔ کچھ ایسے منتخب افراد ہیں جنھیں خدا نے میثاقِ آدم سے قبل ہی فضیلت کے لیے چن لیا تھا۔ حسین انہی میں سے ایک ہیں ۔ گلدستۂ پنجتن کے گُلِ سر سبد۔لیکن یہ انتخاب محض عطائے خدا نہیں — اگر ابنِ عربی کے اس قول کو اسلامی عقیدت کی تفسیر مانا جائے کہ ’’ خدا نے تمھیں وہ دیا تھا جو تمھیں نے اپنی لسان استعداد سے مانگا‘‘ تو پنجتن کے لیے فضیلتوں کا انتخاب ان کے عین کی استعداد کا فطری نتیجہ ہے— دوسروں کے اعیان بھی اپنی لسانِ استعداد سے رضائے حق کو مانگ سکتے ہیں ۔حر،جون عبد اللہ ابنِ وہب، زبیر ابنِ قین اور ایسے دوسرے رفقائے شہادتِ حسین اسی انسانی اختیار کے نمائندے ہیں ۔ نبوت و امامت کے لیے انتخاب خدا کی طرف سے ہے۔ مگر یہ انتخاب منتخب ہو نے والوں کی استعدادِ خیر پر مبنی ہے۔ بے قاعدہ و نا منصفانہ نہیں ہے۔ خدا کا عدل یہی ہے۔ قیامت اسی عدل کی میزان کا آخری نقطہ ہے ۔ فروعِ دین پر عامل ہونا انسان کے اختیار میں ہے اگر وہ انھیں ترک کر تا ہے تو وہ عادل نہیں ۔ جہاد عدل و اختیار کا اظہار عمل سے ہے۔ انیس کے یہاں حسینؑ اور ان کے رفقاء طاعتِ خدا میں احکامِ دین پر عامل ہیں اور میدانِ جہاد میں رضائے حق کے جویا — اور اسی لیے وہ انسانی اختیار کے نمائندے ہیں — اسلام کے سادہ عقیدۂ توحید ہی سے یہ تمام اصول و فروع نکلتے ہیں ۔ انیس نے کہیں ان کی فلسفیانہ اصطلاحات میں توجیہ نہیں کی بلکہ اپنے کرداروں کے عمل سے انھیں نمایاں کیا۔ اس لیے انیس کے کردار ہندوستانی تہذیب کے لباس میں نظر آنے کے باوجود اسلامی کردار کی روح کے پیکر بن گئے ہیں ۔
مختصر سے مضمون میں اس کی گنجائش نہیں کہ مراثی کے اقتباسات دے کر انیس کے اس عقیدۂ توحید اور اس کے فروع کی ترجمانی کی جائے البتہ خصوصیت سے اُن بندوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جن میں انھوں نے حسین اور ان کے اصحاب کی مدح کی ہے یا مجاہدینِ حق کے خطابات، نصائح اور رجزیہ اشعار کے ذریعہ ان اصولوں اور عقیدوں کی تشریح کی ہے جن کے لیے حسین، یزید کے مقابل صف آرا تھے۔
منتخبانِ خداوندی کا عقیدہ کسی اور مذہب مثلاً عیسائیت میں اختیارِ انسانی اور مساوات کی نفی بن سکتا ہے مگر اسلامی عقیدے میں انبیاء و ائمہ کی فضیلت کو ماننے کے باوجود اختیار اور مساوات کی گنجائش رہتی ہے۔ انیس خاندانِ رسالت کے مدّاح ہیں ۔ کربلا کی جنگ خاندانِ رسالت اور دشمنانِ اہلِ بیت کی جنگ ہے اس لیے انیسؔ فطری طور پر اہلِ بیتِ رسو ل کی مدح کرتے ہیں ۔ رسالت مآب اور علی مرتضی و فاطمہ سے حسین کی قرابت و قربت کا ذکر کرتے ہیں ۔ اقربائے حسین بھی اس شرف پر نازاں ہیں ۔ کچھ معترضین اسے نسل پرستی کہہ سکتے ہیں جس کی اسلام میں گنجائش نہیں ۔ لیکن اگر ہم انیس کی زبان سے خاندانی شرف و وجاہت کے بیان کے ساتھ ان کرداروں کے عمل اور کردار کو بھی سنیں تو یہ معلوم ہوگا کہ ان کے ممدوحوں کا شرف ان کے کردار کی بنا پر ہے۔ محض قرابتِ رسول پر نہیں ۔ رسول کی عظمت و فضیلت سے انکار اسلام سے انکار ہے۔ ہر اسلامی فرقہ کم یا زیادہ ا ہلِ بیت رسالت کو رسول کی قرابت کی بنا پر محترم و معزز مانتا ہے۔ اس لیے اگر انیس نے شہدائے کربلا میں سے بنی علی و فاطمہ کے اس شرف کا ذکر کیا تو یہ غیر اسلامی نہیں ۔ دیکھنا یہ چاہیئے کہ اسلامی مساوات کے اصول کو انھوں نے غیر ا ہلِ بیت کے لیے برتا ہے یا نہیں ۔ انیس کے مراثی کا غائر مطالعہ اس حقیقت کو روشن کرتا ہے کہ انھوں نے اصحابِ حسین میں غیر بنی ہاشم کو بھی بہت اہم مقام دیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی شہداء کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مگر خصوصیت سے میں حُر ابنِ یزیدِ ریاحی کا ذکر کروں گا۔ حُر پر انیس نے جو مرثیے لکھے ہیں ان میں سے دو انیس کے بہترین مرثیوں میں سے ہیں ۔ اسی طرح حبیب ابنِ مظاہر کے حال میں انھوں نے کسی طرح کم عقیدت کا اظہار نہیں کیا۔ مجموعی طور پر جہاں جہاں انھوں نے روزِ عاشور کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہے وہاں اصحابِ حسین کی بھی اقربائے حسین سے کم مدح نہیں کی۔ حر کے مرثیوں سے یہ بات عیاں ہے کہ ایک حق پسند مردِ عادل اپنے اختیار سے شر اور جبر کو ترک کرتا اور شدید ذہنی کشمکش کے بعد حق کی طرف آتا ہے— جو پہلے سے حق کے ساتھ تھے ان کے لیے کشمکش کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ کشمکش کے بعد حق کا اختیار حُر کے کردار کو انیس کے یہاں جو منفرد حیثیت عطا کرتا ہے اس کی بنا پر وہ دوسرے شہداء سے ممتاز ہو جاتے ہیں ۔ اصحابِ حسین کے ان مرقعوں میں محض نسل و نسب و شرف کا معیار نہیں بلکہ کردار پر فضیلتوں کا مدار ہے۔
انیسؔ نے حق، صداقت، عدل، آزادی، مساوات اور اعلیٰ اخلاق و روحانی اقتدار کو مقصدِ حسینی سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا ہے۔ ان کے اس طرزِ فکر کا سر چشمہ تو کربلا میں شہادت سے متعلق آیات،احادیث، کتبِ سیر اور اسلامی روایات ہیں لیکن یہ سرمایہ پہلے سے موجود تھا۔ ان سے پہلے شعرا اس سر چشمے سے اُن کی سطح تک آکر کسبِ سخن نہ کر سکے تھے۔ انھوں نے قرآن و حدیث کے علاوہ قصص الانبیاء،معجزات و کراماتِ انبیاء و اولیاسے بھی کام لیا ہے۔ اسلام میں اسطور کی گنجائش نہ تھی مگر متصوفانہ ادب، احادیث و صحفِ آسمانی کی زمین پر جو اسلامی ادب صدیوں پھولتا پھلتا رہا اس میں غیر اسلامی روایات کے اثر نے ایک طرح کا اساطیری سرمایہ تخلیق کر دیا۔ انیس نے ان اساطیر کو علامت تو نہیں بنایا مگر ان کو اپنی شاعری میں داخل کر کے اسرار کی ایک فضا ضرور تخلیق کی ہے۔ ملائکہ سے متعلق روایتیں انبیاء کے معجزات رسول اسلام کی زندگی کے معجز نما واقعات، حضرت علی کی جنوں سے جنگ اور اُن پر فتح یابی، غزوات میں آپ کے مافوق البشر کار نامے پنجتن سے منسوب روایات و احادیث حیاتِ شہداء کی طرف اشارات ، ہجرت اور معراج سے متعلق تفصیلات ان سب کو انیس نے اس طرح استعمال کیا ہے کہ وہ بشری ارتقا اور روحانی تجربے کے اجزائے لا ینفک بن گئے ہیں ۔ انیس و رائے انسانی دنیا کو انسان کے تجربے کی زمین پر اتار لائے ہیں ۔ اُن کے ہیرو مافوق البشر الوہی صفات مظہر ہو نے کے باوجود دکھ درد، بھوک پیاس، بیماری، زخم، طفلی، شباب، ضعیفی اور مرگ کے تجربات سے انسانی سطح پر گذر تے ہیں ۔ جو چیز انھیں عام انسانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اُن کے کردار کی اخلاقی قوت ہے، قناعت، توکّل، فقر، حلم، عفو، سخاوت، مروت، مساوات، اخوت، خود داری، عرفانِ نفس، استغنا، استقامت، شجاعت، حق پسندی، حریت، دوستی اور ایسی ہی مثبت صفات و فضائل سے اُن کا کردار بنا ہے وہ مثالی کردار ہیں مگر غیر انسانی نہیں ۔ انسان کی عظمت کا وہ تصور جو قرآن سے ماخوذ ہے ایسے ہی انسانوں کی مثال سے اسلام میں بنا ہے۔ یہیں آسمان سجدہ گزار ، ملک قدم بوس، فطرت کی قوتیں مسخّر اور حیوانی خواہشات تابع ہو جاتی ہیں ۔ انیس کے یہاں انسانی کردار کا جو تصور ابھرتا ہے وہ اسلامی اخلاق کی بہترین مثال ہے۔
عیسائیت کو تثلیث کے عقیدے کے جواز کے لیے جو فلسفیانہ زندگی اور متکلّمانہ موشگافیاں کرنی پڑیں ، اسلام کو ان کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ اس مذہب میں خدا خدا ہے اور عبد عبد۔ رسالت مآب جو نورِ اوّل لولاک لماخلقت الافلاک کے مصداق، رحمۃ العالمین، ازل سے انسانیت کے ہادی ہیں ، جن کا گذر سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے ہے اور جنھیں قربِ خدا میں وہ مرتبہ حاصل ہے کہ بس ایک قوس کا فاصلہ عبد و معبود کے درمیان رہ جاتا ہے۔ وہ بھی رسول ہونے کے ساتھ بشر ہیں ۔ قُل اِنَّمَااَنَا بَشَرٌمثلُکُم—اسلامی عقیدہ زمین پر نزولِ آدم کو گناہِ اولین کی قیدِ بے معیاد مانتا ہے اور نہ زوال—زمین آزمائش گاہ ہے جہاں آدم خلیفۃ اللّٰہ بن کر آئے—ہر فرد بنی آدم اپنے عمل کا بوجھ خود اٹھاتا ہے۔یہاں مسیح کو تمام بنی آدم کے گناہوں کی صلیب اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ہر شخص کی نجات اس کے اپنے عمل میں ہے— یہ گمان ہو سکتا ہے کہ وفدیناہ بذبحٍ عَظیم کے مصداق حسین ابنِ علی شیعی روایات کے مطابق مسیح کی طرح امت کے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہیں — لیکن یہ مماثلت ظاہری ہے۔ ذبحِ عظیم انسانی نجات کا سرمایہ ان معنوں میں ہے کہ حسین نے اپنے کردار اور عمل سے نجات انسانی کا وہ باب وا کیا جس سے گذرنے کے لیے انہی کے کردار کا اتباع لازمی ہے۔ حسین انہی معنوں میں امت کی بخشائش پر مامور ہوئے تھے۔ انیس ہی نہیں ، فارسی شعرا سے اقبالؔ اور جوشؔتک حسین کی شہادت سب کی نظر میں وسیلۂ نجاتِ انسانی ہے۔ اس عقیدے کو انیس نے انسانی تجربے سے اس طرح متوافق کیا ہے کہ رسول یا حسین خدا یا خدا کا بیٹا نہیں بنتے بلکہ انسانِ کامل کا آدرش بن کر ابھرتے ہیں ۔ ان کے کردار کا سب سے بڑا جوہر صبر ہے۔ صبر محض مصائب کو چپ چاپ قبول کر لینے کا نام نہیں ۔ یہ صبر کے منفی معنی ہیں ۔ صبر استقامتِ کردار ہے جس کا اثباتی پہلو ہر ظلم، ہر جھوٹ ہر نا انصافی پر توہینِ انسانیت کے خلاف استقامت کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے مترادف ہے۔ انیس نے شہدائے کربلا اور اسیرانِ کربلا کے کرداروں میں صبر کا یہی جوہر نمایاں کیا ہے۔ اور یہی صبر ان کرداروں کی الوہیتِ صفات کا مظہر اور انسانیت کی نجات کا وسیلہ بناتا ہے۔
انیس کے یہاں کربلا اسلامی عقیدے کے مطابق حق و باطل کا وہ فیصلہ کُن معرکہ ہے جس نے حسین کو وجہ بنائے ’’لا الٰہ‘‘ بنا دیا— کسی دوسرے مذہب کے رزمیے میں حق و باطل کے درمیان اتنی واضح اور قطعی حدِ امتیاز نظر نہ آئے گی۔ مہا بھارت کے ہیرو اپنے اعمال کے نتائج سے متوحش اور اپنے مقصد کے تصور میں متشکّک ہیں ۔ انھیں بار بار کرشن کی تلقین کی ضرورت پڑتی ہے۔ فریقِ مخالف بھی ہمہ شر نہیں ۔ اُن میں بھی خیر،صداقت، حق و عدل اور اعلیٰ اقدار کے نمائندے ہیں ۔ کربلا میں یہ تذبذب، تزلزل، توحّش اور تشکّک نہیں ۔ اسے انیس کی اذعانیت و ادعائیت سمجھنا مناسب نہ ہوگا، اُن کی پشت پر اسلامی عقائد و تواریخ کا پورا سرمایہ تائید کے لیے ہے۔ ملٹن کے یہاں ابلیس کا کردار ملایک کے کردار سے زیادہ توانا ہے۔ شر خیر کے ثمرات سے بھی بہر ور ہے۔ انیس کے یہاں شر ہمہ شر ہے خیر کے ثمرات کا قاتل۔ سیاہ و سفید کی یہ قطعی تفریق انیس کے مرثیے کو خیر و شر کی کشمکش کا ایسا رزمیہ نہیں بننے دیتی جس میں حق و باطل اپنے عمل کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں ۔ انیس کے یہاں حق و صداقت متعین اور خیر و عدل طے شدہ امور ہیں ۔ یہ اسلامی فلسفۂ حیات کے اذعانی پہلو کا اثر ہے لیکن انیس نے متعین صداقتوں اور مقدر عمل کو انسانی تجربات کے اُسی سرمایے سے مالا مال کیا ہے جو صرف کسی ایک مذہب یا نسل تک محدود نہیں ۔ اس لیے انیس اردو شاعری میں کربلا کے رزم نگار کی حیثیت سے خیر و شر، حق و باطل،ظلم و عدل اور صبرو جبر کے تصادم و کشاکش کے ایسے ترجمان بن گئے ہیں کہ بعد کی نسلیں ترقی پسندانہ خیالات، حریت کوشی، حق پرستی اور انسانیت کے تصورات کے لیے ان کے مضامین اور طرزِ بیان دونوں سے اکتساب فیض کرتی نظر آتی ہیں ۔چکبست کو اردو میں رامائن کے لیے انیس ہی کا اسلوب مناسب نظر آیا۔اقبال کی شاعری کے خطابیہ و بیانیہ عناصر انیس سے متاثر ہوئے،جوش اور ترقی پسند شعرا کو اپنے مقصد کے لیے انیس کے لہجے ہی میں ذریعۂ اظہار ملا۔ جہاں یہ اثر کربلا اور شہدائے کربلا کے کرداروں کے فیض جاری کا ثبوت ہے وہیں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انیس واحد شاعر ہیں جنھوں نے اس روایت اور فلسفۂ شہادت کو اردو کی سیکولر حتیّٰ کہ منکر مذہب شاعری کا حصّہ بنا دیا۔ اگر انیس کے یہاں کو ئی فلسفۂ حیات نہ ہوتا تو وہ بعد کے ادوار کے لیے اتنے معنی خیز (Relevant) نہ ہوتے۔
زندگی کی مکمل معنویت موت کے سامنے ظاہر ہوتی ہے۔ موت کا آزادانہ انتخاب انسان کو اپنے پر فتح پانے والی طاقت و قوت سے افضل و بہتر بنا دیتا ہے۔ وجودی فلسفے کے اس نکتے کی مکمل تفسیر اسلام میں شہادت کے تصور میں ملتی ہے۔ شہدا زندۂ جاوید ہیں ۔ موت اُن پر غلبہ نہیں پاسکتی اس لیے کہ وہ خود موت کا انتخاب آزادانہ طور پر کرتے ہیں ۔ موت زندگی کا لازمی نتیجہ ہے لیکن وہ موت جو زندگی کو نئی معنویت دے زندگی ہی کی توسیع ہے۔ انیس کے مرثیہ میں شہداء کا پورا قافلہ موت کو خود منتخب کرتا اور اس طرح اس پر غالب آ جاتا ہے۔ علی اکبر و عباس، حر و حبیب ابنِ مظاہر، مسلم ابنِ عوسجہ اور زہیر ابن قین ہی نہیں بلکہ اس قافلہ کے غلام اور بچّے یہاں تک کہ چھ ماہ کا شیر خوار تشنہ لب علی اصغر بھی موت کی طرف خود لپکتے ہیں ۔ وہ اپنی موت سے انسانی اختیار کی توسیع کر رہے ہیں اس لیے ان کی موت انسان کے لیے زندگی نو ہے۔ جس طرح موت رشتۂ زندگی کو منقطع کر کے اس سے شکست کھا جاتی ہے اسی طرح یزید اور اس کا لشکر، اس کا ظلم اور اس کی حکومت حسین و رفقائے حسین پر فتح پا کر بھی اُن سے مغلوب ہو جاتا ہے— اگر شہادت کے تصور میں موت کے باوجود موت پر زندگی کی فتح مضمر ہے تو قاتلانِ شہدائے کربلا بھی اپنی فتح کے باوجود سید الشہدا کے قافلے کے مفتوح بن کر موت ہی کی علامت بن جاتے ہیں — انیس نے ان رموز و نکات کو فکری زبان میں نہیں بلکہ بیانیہ شاعری کی زبان میں واقعات، کرداروں کی نفسیات، ڈرامائی کشمکش اور عمل کے وسیلے سے پیش کیا ہے۔ اس طرح اُن کی شاعری اصطلاحی مفہوم میں تفکرانہ نہ ہونے کے باوجود ایک مکمل تصویرِ حیات و کائنات کی شارح ہے۔ یہ فلسفہ اُن کا اپنا نہیں ۔ مگر اس کی فن کارانہ پیش کش اُن کی خلّاقی کا ثمرہ ہے۔ تہذیبِ عزاداری اور فلسفۂ شہادتِ کربلا کو جس طرح انیس نے سو سال سے سہارا دیا اور زندہ رکّھا ہے اس کی دوسری مثال مشکل سے ہی مل سکتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ جس فلسفۂ حیات کے شارح ہیں وہ اُن کی زندگی تھا اور ان کے مخصوص سامعین و قارئین بھی اسے اپنی زندگی مانتے ہیں ۔ زندگی اور فلسفۂ حیات کی یہ ہم آہنگی و وحدت عام نہیں ۔ اور یہی انیس کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ان کا اسلامی فلسفۂ اخلاق ہر عہد کے لیے معنویت رکھتا ہے اور آفاقی صداقت کا حامل ہے۔
(21 فروری 1975)
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید