فہرست مضامین
- اپنی بات
- میری حاضری کو قبول کر
- اردو ادب میں مرثیے اور سلام کی حیثیت
- جوش اور موت، زندگی اور خود کشی
- مرثیے اور قصیدے کی مشترک جہتوں کا جائزہ
- اُردو منقبت کی روایت
- قیس فریدی کا سرائیکی مرثیہ
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- عشق کی دہلیز پر
- بچھا تھا خوں کا مصلّیٰ حسینؑ سے پوچھو
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- کربلا
- سلام
- سلام
- امتناع کا مہینہ
- سلام
- پورا سچ
- غمِ حسینؑ
- حسینؑ کافی حسینؑ شافی
- مَن عَرَفَ۔۔
- سلام
- سلام
- فنا فی المرشد
- قطعہ
- ایک جانب
- سلام
- سلام بحضورِ امامِ عالی مقامؑ
- فرات
- سلام
- سلام
- سفرِ شام
- سلام
- تضمین
- سلام
- جلے خیموں کی اپنی الجھنیں ہیں
- اُس جیسا کوئی ایک سخی ہو
- سلام
- حسینؑ حسینؑ
- وہ کیسا وقت تھا
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- یا حُسینؑ ! یا حُسینؑ ! یا حُسینؑ!
- سلام
- سلام
- امتحانِ زندگی
- کربلا کی شام
- بحضور قتیل صداقتؑ
- گلبدن
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- وہ تم تھے۔۔۔
- سلام
- سلام
- سلام
- سلام
- بحضور شاہِؑ کربلا
- کربلا
- نیا سویرا
- مودّت
- قطعات
- پھر خیمہ نگاہ سے تازہ دھُواں اُٹھا
- مرثیہ (شہادتِ جنابِ سکینہ)
- ہندو شعراء کی عقیدتیں
- سکھ شعراء کی عقیدتیں
محرم نمبر
ادبی کتابی سلسلہ
عکاس انٹرنیشنل
اسلام آباد
(۱۶)
مرتب
ارشد خالد
اپنی بات
عکاس انٹرنیشنل کا ۱۶واں شمارہ محرم نمبر کے طور پر آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ کوشش کی گئی ہے اس شمارہ میں امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام سے محبت اور عقیدت کے طور پر جو ادبی شہ پارے تخلیق ہو رہے ہیں ان کے ایک انتخاب کو منظر عام پر لایا جائے، ساتھ ہی بعض اہم پرانی عقیدتوں کو بھی تبرکاً شامل رکھا جائے۔
اردو ادب میں مرثیہ اور سلام باقاعدہ ادبی صنف بن گئے ہیں۔ محرم الحرام ایام میں یہ مرثیے اور سلام پڑھے تو بہت جاتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم شائع ہو پاتے ہیں۔ محض سنی جانے والی شاعری ہونے کے باعث رثائی ادب کو مذہبی فرقہ بندی سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ یہ اس ادبی صنف کے ساتھ نا انصافی ہے۔ وہ دوست جو سلام اور مرثیہ کو عقیدت کے طور پر لکھتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ ادبی صنف کے حوالے سے بھی ان کو دیکھیں ، نقاد حضرات بھی اس ادبی صنف کا تنقیدی حوالے سے جائزہ لیں۔
ہمیشہ کی طرح اس شمارے میں بھی جہاں سینئر ادیبوں کی تخلیقات شامل کی گئی ہیں ، وہاں نئے لکھنے والوں کو بھی مناسب جگہ دے کر سامنے لایا گیا ہے۔ اس شمارہ میں ادیب رائے پوری کی شہرہ آفاق منقبت بھی ریکارڈ کے طور پر شامل کی گئی ہے۔ سید وحید الحسن ہاشمی، خاور اعجاز اور گستاخ بخاری کے سلام خاص مطالعہ کے طور پر شامل ہیں۔ ہماری اس پیشکش میں دو مرثیے بھی شامل ہیں جو تخلیقی حوالے سے بھی اعلیٰ ادبی شہ پارے ہیں۔ پہلا مرثیہ
جناب قیصر بارہوی مرحوم کا ’’شامِ عاشور‘‘، اوردوسرا مرثیہ جناب صفدر ہمدانی کا ’’ شہادت بی بی سکینہؑ‘‘ ہیں۔ جناب صفدر ہمدانی کا یہ مرثیہ غیر مطبوعہ ہے۔ اکمل سیدکے شکریہ کے ساتھ پہلی دفعہ عکاس انٹر نیشنل میں شائع کیا جا رہا ہے۔
وقتاً فوقتاً ممتاز ہندو اور سکھ شعرائے کرام نے بھی امام عالی مقام کو خراج تحسین پیش کیا ہے، غمِ حسین کو محسوس کیا ہے اور اس حوالے سے شاعری کی ہے۔ معزز ہندو اور سکھ شعراء کے اس نوعیت کے کلام کا ایک مختصر سا انتخاب بھی اس نمبر میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ا
عکاس انٹر نیشنل کی کوشش ہو گی ہر سال محرم الحرام کے حوالے سے ایک عمدہ ادبی شمارہ منظر عام پر لایا جائے۔ تاہم اس میں کامیابی اسی صورت میں ہو گی جب نئے سلام اور مرثیے مہیا ہو سکیں۔ سو آپ سب کے تعاون کی ہمیشہ ضرورت رہے گی۔
ارشد خالد
بشیر بیتاب (صادق آباد)
میری حاضری کو قبول کر
تیرے در کا میں بھی فقیر ہوں میری حاضری کو قبول کر
میں ہوں ایک ذرۂ بے بصیر، میری بے بسی کو قبول کر
میں ہوں ایک عاصی خطا کناں ، میں ہوں اپنے آپ پہ منفعل
تُو سخی ہے کرتا ہے در گزر، میری عاجزی کو قبول کر
تجھے اپنا حال دکھاؤں کیا، تجھے دل کی بات سناؤں کیا
میرے حال سے تو ہے با خبر، میری حاضری کو قبول کر
تجھے چھوڑ کر کہاں جاؤں گا، کسے حال اپنا سناؤں گا
ہے سوال تو میرا مختصر، میری بندگی کو قبول کر
میری بے بسی میرے عجز پر، جو تیری نگاہِ کرم نہ ہو
ہے جہاں میں کون وہ داد گر، میری عاجزی کو قبول کر
ترے در سے کوئی بھی آج تک، گیا ہاتھ خالی نہیں کبھی
میں بھی جاؤں خالی نہ لوٹ کر، میری حاضری کو قبول کر
٭٭٭
تسلیم الٰہی زلفیؔ (کینیڈا)
اردو ادب میں مرثیے اور سلام کی حیثیت
سانحۂ کربلا کے حوالے سے اُردو زبان میں مرثیہ اور سلام ایک ایسی صنفِ ادب بن گئی ہے جو کسی دوسری زبان میں نہیں پائی جاتی۔ میر انیسؔ اور دبیرؔ نے اُردو مرثیے اور سلام کو جس بلندی پر پہنچایا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہر صنفِ ادب میں وقت کے ساتھ نِت نئی تبدیلیاں رُو نما ہوئیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ مرثیے اور سلام میں کس قسم کی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اور جدید مرثیہ اور سلام کیا ہے۔ مرثیے اور سلام کو فکری بنیادوں آگے بڑھانے والے کون ہیں۔ اور مرثیے اور سلام کی ہیئت کی تبدیلیوں سے کیا صورتِ حال بنی ہے۔
کسی بھی صِنفِ ادب کے فروغ کتابیں ، رسائل اور ناقدین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مرثیہ اور سلام ایک مقبول صِنفِ ادب ہونے کے باوجود امام بار گاہوں تک محدود کر دی گئی ہے۔ ادبی رسائل میں مراثی اور سلام شامل نہیں کئے جاتے ہیں۔ مختلف شعراء کے مرثیوں اور سلام کے مجموعے شائع ضرور ہوتے ہیں لیکن اُن کی تشہیر دیگر ادبی کتابوں کی صورت نہیں ہوتی۔ جبکہ ہمارے بیشتر ناقدین اس جانب متوّجّہ نہیں ہوتے۔ ان کی لا تعلقی کے اسباب کیا ہیں۔۔ اور یہ کہ مرثیے اور سلام کی ادب میں کیا حیثیت ہے ؟
ادب کوئی ایسی مُجرّد حقیقت نہیں ہے کہ وہ مُعلّق فضاء میں لکھا جائے۔ پچھلے ڈیڑھ دو سو برس میں ہمارے معاشرے میں تہذیبی اور سیاسی انداز کی جو تبدیلیاں آئی ہیں اس سے مرثیے اور سلام کی صِنف بھی متاثر ہوئی۔ اگر آپ میر انیسؔ کے بعد کا زمانہ لیں تو جدید مرثیے اور سلام کا تصوّر جوشؔ صاحب سے قائم ہُوا۔ برِّ صغیر کی جنگِ آزادی لڑی جا رہی تھی اور جوشؔ صاحب نے کربلا کو اُس آزادی کے رشتے سے ہم آہنگ کر کے جو مرثیے اور سلام لکھے۔۔ وہاں سے جدید مرثیے اور سلام کا تصوّر قائم ہُوا۔ اُس سے بہت پہلے ہم اقبالؔ کی شاعری کی طرف متوجّہ ہوتے ہیں تو ’ رموزِ بے خودی ، سے سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۱۸ء میں ’ رموزِ بے خودی ، شائع ہوئی ہے۔ سلیم چِشتی نے ’ رموزِ بے خودی کی شرح لکھی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ، میں نے علاّمہ اقبال سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں ؎
ذاتشِ اُو شعلہ ہا اندوختیم رَمزِ قرآں از حُسین ؓ آموختیم
تو ’ رمزِ قرآں ، سے کیا مُراد لیتے ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ تعلیماتِ قرآن کی روح یہ ہے کہ باطل کے خلاف صف آراء ہو جاؤ۔ اِس تناظر میں جوشؔ صاحب نے پہلا مرثیہ ’ آوازِ حق ، لکھا۔ اُس سے ایک جدید مرثیے کا تصوّر سامنے آیا۔۔ اگر ہم عہدِ انیسؔ کا مرثیہ یا سلام پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی اہم واقعہ رُو نما ہُوا ہے۔ میر انیسؔ کا یہ شعر دیکھئے۔۔۔۔ ؎
آج شبّیرؓ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے
ظلم کی گلشنِ زِہرہؓ پہ گھٹا چھائی ہے
لیکن آج کا مرثیہ یا سلام پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی عظیم واقعہ رُو نما ہُوا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اُس دَور کا مرثیہ ایک خبر تھا ، جبکہ آج کا مرثیہ تجزیہ ہے۔ اُس مرثیے میں حالات کی جنگ ہے ، جبکہ آج کے مرثیے میں نظریات کی جنگ ہے۔ جوشؔ صاحب سیدّنا حسینؓ کے کردار کو انسانی حوالے سے دیکھ تے ہیں ،ا ور اُسی پر زیادہ زور دیتے ہیں ملاحظہ ہو۔۔۔۔ ؎
دل بھی جھُکتا جاتا تھا سجدے میں پیشانی کے ساتھ
کیا نمازِ شاہ تھی ا رکانِ ایمانی کے ساتھ
ماضی میں جو مرثیے لکھے گئے ان کی تعریف آسان ہے۔ اُن میں ایک سراپا ہے ، آمد ہے ، رَجَز ہے ، رخصت ہے ، یہ سب باتیں آتی ہیں۔ مگر آج کا مرثیہ کسی بھی لکھا تھا یہ اُن مرثیوں کے سیاسی محرّکات ہیں اور جوشؔ ہی اُس سیاسی جد و جہد کو مرثیے سے منسلک کرتے ہیں۔
آپ یہ دیکھیں کہ جتنی نظم نگاری میں سیاسی شاعری ہوئی ہے ، اُسی قدر مرثیے میں سیاسی فکر نمایاں ہوئی ہے۔ اِس ضمن میں بعض اہلِ فن کا کہنا ہے کہ مرثیے کو صرف مسدّس ہی میں لکھا جانا چاہیے ، تو بہت پہلے علاّمہ جمیل مظہری اور حاضر میں ڈاکٹر ہِلال نقوی نے مسدّس کی فارم سے بہت ہٹ کر مرثیے لکھے ہیں۔ دیکھیے ہِلالؔ نقوی کا انداز۔۔۔۔ ؎
تڑپ کے اُٹھ نہ کھڑے ہوں قتیلِ راہِ وفا
پُکارتا ہے کوئی کربلا کی بستی میں
سَمت کا تعیّن نہیں کرتا۔ جوشؔ صاحب اپنے مرثیے کو آزادی کی تحریک سے مِلا دیتے ہیں۔ جبکہ علاّمہ جمیل مظہری کے یہاں فلسفیانہ رنگ ہے۔۔۔۔۔ ؎
کیوں کہوں کہ راہِ حق میں مظہریؔ دریا نہ تھا
بھیک جو دریا سے لے ،اتنا کوئی پیاسا نہ تھا
لیکن نسیمؔ امروہوی کے یہاں بالعموم دینی اِستدلال مِلتا ہے۔۔۔۔ ؎
عشقِ خدا کا بار ، نہ کہسار سے اُٹھا
افلاک سے نہ عرشِ ضیاء بار سے اُٹھا
یہ کیا نہ انتہائے خوش اطوار سے اُٹھا
لیکن حُسینِؓ بے کسَ و بے یار سے اُٹھا
رُخ زَر د آدم و مَلَک و جِن کا ہو گیا
یہ ہو گئے خدا کے، خدا اِن کا ہو گیا
اور آلِ رضاء کے اعتقاد و ایمان کے یہ تیور ہیں۔۔۔۔۔ ؎
لغزشیں ہم سے بھی ہوتی ہیں ، مگر واہ رے ہم
یا علیؓ کہہ کے سنبھلنے میں مزا آتا ہے
آج کے مرثیہ و سلام نگار بالکل مختلف انداز سے سوچتے ہیں۔ کہیں سائنسی تجزیہ ہے ، کہیں سیاسی بحث ہے اور کہیں کربلا کے سماجی پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ فکری روّیہ کیا ہے۔ میرے خیال میں آج کا مرثیہ اور سلام نگار تین کرداروں کے گِرد گھوم رہا ہے : حضرت حسینؓ ، بی بی زینبؓ اور حضرت عباّسؓ ، لیکن جب وہ عونؓ و محمّدؓ اور بی بی سکینہؓ کے متعلق لکھتا ہے تو ایک بے بسی سی محسوس ہوتی ہے ، وہ اِس انداز کے رَوّیے جدید انداز میں پیش نہیں کرسکتا !
میرا خیال ہے کہ وہ مرثیہ اور سلام جو مقصدِ شہادت کو واضح طور پر بیان کرتا ہے ، وہ واقعتاً مقدّم ہے اور جدید ہے ، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے اور سلام میں جو واضح تبدیلی آئی ہے وہ دبیرؔ کے بیٹے اوجؔ سے آئی ہے۔ لیکن اوجؔ کا شعر سننے سے پہلے مرزا دبیرؔ کی گھن گرج ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔۔ ؎
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف ، چرخِ کہن کانپ رہا ہے
اب آتے ہیں مرزا اوجؔ کی طرف ، جن کا کہنا ہے کہ۔۔۔
حُسینؓ جہد و عمل میں ہیں ، کربلا میں نہیں
وہاں تو صرف چڑھایا تھاآستیوں کو
یعنی فن برائے فن کا جو تصوّر وابستہ تھا ، اُس کو سب سے پہلے اوجؔ نے اور پھر دبیرؔ کے شاگرد شادؔ عظیم آبادی نے توڑا۔ دوسری منزل جوشؔ صاحب کی ہے ، انہوں نے اس سیاسی بیداری کو بغیر کسی ابہام کے سیاسی واقعات اور سیاسی جِدو جُہد سے منسلک کیا ، لہذا ’ آوازِ حق ، جوشؔ صاحب نے جَلیانوالہ باغ کے ردّدِ عمل میں لکھا تھا۔ یہ ان مرثیوں کے سیاسی محرکات ہیں اور جوشؔ ہی اس سیاسی جدوجہد کو مرثیے سے منسلک سے منسلک کرتے ہیں۔
آپ یہ دیکھیں کہ جتنی نظم نگاری میں سیاسی شاعری ہوئی ہے ، اسی قدر مرثیے میں سیاسی فکر نمایاں ہوئی ہے۔ اس ضمن میں بعض اہلِ فن کا کہنا ہے
کہ مرثیے کو صرف مسدّس ہی میں لکھنا چاہیے، تو بہت پہلے علامہّ جمیل مظہری اور حاضر میں ڈاکٹر ہلال نقوی نے مسدّس کی فارم سے بہت ہٹ کر مرثیے لکھے ہیں۔ دیکھیے ہلال نقوی کا انداز۔۔۔ ؎
تڑپ کے اٹھ نہ کھڑے ہوں قتیلِ راہِ وفا
پکارتا ہے کوئی کربلا کی بستی میں
مئے وِلا کے شرابی شِکستہ حال سہی
خرید لیتے ہیں جنّت کو فاقہ مستی میں
میں سمجھتا ہوں کہ موضوع ہی صِنف کا تعین کرتا ہے ، صِنف موضوع کا تعیّن نہیں کرتی۔ اُردو میں جو مرثیہ ہے ، وہ ایک بالکل مختلف صِنف ہے۔ اُردو نے عربی سے مرثیہ ضرور قبول کیا ہے ، لیکن اُردو میں مرثیہ سیّدنا حُسینؓ اور شہدائے کربلا سے مخصوص کر دیا گیا ہے ، اور اِس میں مرثیہ گو شعراء کوشش کرتے ہیں کہ سیدّنا حُسینؓ کے اعلیٰ کردار کے حوالے سے اپنی سیاسی ، تہذیبی اور معاشرتی اَقدار کو بلند کریں ، اِس لئے کہا جاتا ہے کہ اُردو میں جو مرثیہ ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ یہِ صنف اگر کسی سے تھوڑی بہت ملتی ہے تو وہ رَزمیہ ہے ، لیکن رَزمیے سے یوں مختلف ہے کہ رَزمیے میں کردار خیالی ہوتے ہیں ، جبکہ مرثیے کے کردار اصلی ہیں اور ان کی بہت بڑی اہمیّت ہے۔ دوسری چیز یہ کہ جب آپ جدید مرثیے اور سلام کی بات کرتے ہیں تو جدید مرثیے اور سلام کا تعلق جدّت سے نہیں ہے۔ جدیدیت کا سلسلہ ہمارے یہاں اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب سے جنگِ آزادی اور سرسیّد تحریک شروع ہوئی اور اس میں ہم نے نئے نئے موضوعات جن کی معاشرے میں ضرورت تھی ، انہیں نثری ادب اور شاعری میں پیش کرنا چاہا ، وہاں سے ہمارا یہ جدید رَوّیہ شروع ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری روایتی شاعری بالکل ہی بے مقصد تھی۔۔ وہ اَقدار پر مبنی تھی جس میں آپ کا طرزِ احساس اَقدار سے متعلق تھا ، لیکن اُس کے بعد اَقدار کے بجائے تجربات و مشاہدات شامل ہوئے اور سر سیّد تحریک کا سب سے بڑا کار نامہ بھی یہی ہے کہ چاروں طرف جو کچھ ہو رہا تھا اُسے موضوع بنایا گیا ، وہیں سے جدید انداز اختیار کیا گیا اور یہ طرزِ احساس مرثیے اور سلام میں بھی داخل ہُوا۔ مرزا اوجؔ نے جو مرثیے کہے ہیں وہ سر سیّد تحریک کے موضوعات تھے ، لیکن انہوں نے اپنے طرزِ احساس میں کوئی تبدیلی نہ کی اُن کا طرزِ احساس روایتی تھا ، کیونکہ اُن کا طرزِ احساس اَقدار پر قائم تھا۔ جدید حِسیّت کی تعلیم یہ ہے کہ بجائے اَقدار کے ذاتی تجربے پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض باریک بین نقّاد ، جوشؔ ملیح آبادی اور علاّمہ جمیل مظہری کے مرثیوں کو بھی اِس لحاظ سے جدید نہیں کہتے کہ ان میں بھی طرزِ احساس روایتی ہے ، اَقدار کے اوپر بنیاد ہے ، البتّہ موضوعات نئے ہیں جو سر سیّد تحریک کا حصّہ ہیں۔ ہمارے یہاں جو جدّت آئی ہے وہ ذاتی احساس سے آئی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سلام کا بنیادی موضوع بھی مرثیے والا ہی ہے ، یعنی واقعاتِ کربلا ، مصائبِ حُسینؓ و انصارِ حُسین ، لیکن غزل کی طرح اس کے منفرد اشعار اور ردیف و قوافی کی پابندی کے سبب اس میں جولانیِ طبع دکھانے کی گنجائش بیحد کم ہوتی ہے۔ البتہ اگر سلام کہنے والا شاعر مشّاق ، کہنہ مشق اور فکرِ رسا کا ملک ہو تو وہ اپنی جولانیِ طبع سے سلام میں بھی قصیدے ، مرثیے اور غزل کا لطف پیدا کر دیتا ہے۔ صباؔ اکبر آبادی صاحب کی فکرِ رسا ، قادر الکلامی اور کہنہ مشقی نے سلام کو ایک نئی معنویت اور اشاریت دیدی ہے ، ان کے سلام پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تشبیہات اور تراکیب محمدﷺ و آلِ محمدﷺ کی تعریف کے لئے ہی بنی ہیں۔ صباؔ صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ تشبیہات اور الفاظ کے استعمال میں حفظ مراتب کا بیحد خیال رکھتے ہیں ، وہ جہاں جس کے لئے جو لفظ استعمال فرماتے ہیں ، وہ اس شخص کے لئے خاص معنویت رکھتا ہے ، اور اس ماحول و فضاء میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے۔ اس ضمن میں صباؔ صاحب نے سانحۂ کربلا کی کچھ نہایت ہی کڑی اور تکلیف دہ ساعتوں کی کیفیت اور شدّت کو بیان کرنے کے لئے اس کے نفسیاتی پہلو تلاش کئے ہیں ، جو نہ صرف اس کے تاثّر اور درد انگیزی میں اضافہ کرتے ہیں ، اس طرح وہ واقعے کی تفصیل بیان کئے بغیر ہی محض اشاروں اور استعاروں کی مدد سے ، اس کی مکمل تصویر نگاہوں کے سامنے کھینچ دیتے ہیں۔ صباؔ اکبر آبادی کے سلام سے تین شعر دیکھئے۔۔۔۔۔ ؎
روزِ عاشور سب نے دیکھا ہے
نوکِ پیکاں پہ پھول کھِلتا ہے
خطِ تقسیم دین و دنیا ہے
اب سمجھئے کہ کربلا کیا ہے
بس شہادت میں ہے حیاتِ ابد
ورنہ جینے کا کیا بھروسا ہے
اسی طرح ہیئّت کی تبدیلی نے بھی مرثیے کو نیا روپ دیا ہے ، جس کی مثال خواجہ رئیس احمرؔ اور پرفیسر کرّارحُسین کے صاحبِ زاد ے شبیہ حیدر ہیں ، جنہوں نے ُمسدّس کی پابندی سے نکل کر آزاد نظم میں مرثیے لکھے ، اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ اردو مرثیے نے فکری بنیاد پر بھی بہت ترقی کی ہے۔ علی سردار جعفری اور فیض احمد فیضؔ صاحب نے بھی مرثیے لکھے اور جدید دَور میں مرثیے کو آگے بڑھایا ہے۔ ملاحظہ ہو فیضؔ صاحب کا رنگ۔۔۔۔ ؎
مَرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سَر تھا
اُس خاک تلے جنت فردوس کا در تھا
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُردو کی دوسری اَصنافِ سُخن کی طرح مرثیے اور سلام کو ادبی حیثیت اور اہمیّت حاصل کیوں نہیں ہے ؟
میں سمجھتا ہوں اِس میں دونوں جانب سے قصور ہے۔ بیشتر مرثیے اور سلام تبلیغی انداز سے لکھے جا رہے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس میں آفاقی حوالہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے رسائل میں مرثیہ اور سلام نگاری پر کثرت سے مضامین لکھے جاتے ہیں ، جبکہ ہمارے یہاں اس کا رواج نہیں ہے۔ شاید اس لئے بھی کہ پاکستان میں ادبی رسائل کے ۹۸ فیصد پڑھنے والے سُنّی ہیں !! میں نے پاکستان کے کسی رسالے میں جوشؔ سے فیضؔ صاحب تک کی مرثیہ نگاری پر کوئی مضمون نہیں دیکھا !۔ فیضؔ صاحب کی ایک کمزور غزل پر بحث ہوتی ہے لیکن اُن کے مرثیے پر توجّہ نہیں دی گئی۔۔ اس پر غور کی ضرورت ہے۔
قِصّہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جس نسل نے مرثیہ اور سلام لکھنا شروع کیا اُس میں ایک تبدیلی آئی ، ہُوا یہ کہ کسی مُجرّد موضوع کی تشریح روایتی انداز سے کی جاتی ہے۔ ہمارے مرثیہ اور سلام لکھنے والے سمجھنے لگے ہیں کہ ہم فطری شاعری کر رہے ہیں ، جبکہ اُن کو یہ نہیں معلوم کہ فطری موضوعات پر شاعری نہیں ہوتی ، ایک وجہ تو یہ ہے ، دوسری چیز یہ دیکھیں کہ عقیدے کی شاعری کا ایک انداز اور روایت رہی ہے ، اور ہمیشہ اِن اِصناف میں بلند تر شعراء عقیدے کا اظہار کر کے اسے آفاقی سطح تک لے آتے ہیں۔۔ موضوع رشیدؔ لکھنوی اور جوشؔ ملیح آبادی کا مختلف نہیں ہے ، لیکن جوشؔ کے مرثیے اسے آفاقی معیار تک لے جاتے ہیں۔ در اصل بڑا شاعر ہی کسی بھی صِنف کو آفاقی بنا سکتا ہے ، درمیانی اور اُس سے نچلے درجے کا شاعر کسی صِنف کو آفاقی نہیں بنا سکتا۔ مرثیہ اور سلام عقیدے کی شاعری ہے ، اس میں درمیانے اور نچلے درجے کے شاعر بھی ہوتے ہیں اُن کے یہاں عقیدے کا غلبہ زیادہ ہو گا۔ جو شاعر زمانے کی تبدیلیوں پر نظر رکھے گا وہ ہر صِنف کو آفاقی سَمت دینے میں کامیاب ہوسکے گا۔ جیسا کہ ہماری دوسری نسل کے شعراء میں۔۔ شاہدؔ نقوی ، سردارؔ نقوی ، شاداںؔ دہلوی ، سحرؔ انصاری ، اُمیدؔ فاضلی ، شاعرؔ لکھنوی وغیرہ ہیں۔ یہ درمیانی نسل کم و بیش تقلیدی نسل ہے ، درمیانہ دَور تقلیدی دور تھا ، یہ لوگ تقلید پر فخر محسوس کرتے ہیں ، اس میں بڑے قادر الکلام شعراء ہیں ، لیکن انہوں نے آفاقیت کو کہیں بھی استحکام نہیں دیا ، اس لئے ایک خلاء پیدا ہُوا۔۔ اس خلاء کو سب سے زیادہ ڈاکٹر ہِلالؔ نقوی نے پُر کیا ، ان کے بعد احمد نویدؔ ، تصویرؔ فاطمہ ، عارفؔ امام وغیرہ ہیں۔ یہ لوگ بڑی جدید حِسیّت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
اسی طرح ہمارے وہ مقتدر و معتبر اور اہم شعراء کرام جو ربع صدی سے زیادہ عرصے سے برّ صغیر پاک و ہند سے باہر مقیم ہیں ، اگر مرثیے اور سلام کے حوالے سے ان کی تخلیقی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماسوائے یورپ کے اور یورپ میں بھی برطانیہ کے کہیں اور اس سنجید گی اور معیاری سطح پر تخلیقی مظاہرہ نہیں ہوا۔ گویا مرثیے اور سلام کے ضمن میں برطانیہ سے مغربی دنیا کی نمائندگی ہو رہی ہے اور یہ نمائندگی کرنے والے عاشورؔ کاظمی اور صفدرؔ ہمدانی ہیں۔ ان دونوں شعرائے اہلِ بیت نے ، ہر دو اصناف کو فنی اعتبار سے مرثیے اور سلام کی حقیقی ہیئت دی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا کام ہے کہ اگر ہم ماضی کی طرف دیکھیں تو قلی قطب شاہ ، وجہی ، غواصی ہاشمی تک کے مرثیے فنّی اعتبار سے ان کی غزل کے مرتبے کو نہیں پہنچتے۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود آخر مرثیے اور سلام کو ادب میں کیوں شامل نہیں کیا جاتا ، یا اس کی حیثیّت کا تعیّن اب تک کیوں نہیں ہوسکا ، اس کے اسباب میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیئے ہیں ، اور آخر میں اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے ، اُن میں سے چند اسباب پر قدرے اِختصار کے ساتھ کچھ عرض کرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کروں گا۔
ہمارے یہاں مرثیہ اور سلام صرف مجالس میں پڑھا جاتا ہے اور ادبی رسائل میں شائع نہیں ہوتا ، لہذا جو لوگ ان مجالس میں نہیں جاتے ہیں وہ ان مرثیوں اور سلاموں سے واقف نہیں ہو پاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مرثیے اور سلام کی تشہیر اُس انداز سے نہیں ہوتی جیسے دیگر اَصنافِ سخن کی ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مرثیے اور سلام باقاعدگی سے شائع ہوں اور ناقدین تک پہنچیں تو اس پر گفتگو ہو گی۔ جہاں تک عقیدے کی بات ہے تو ہماری شاعری میں تصوّف کی شاعری کو صفِ اوّل کی شاعری کہا جاتا ہے۔ تصوّف بھی ایک طرح سے مذہبی اور عقیدے کی چیز ہے ، جب یہ مقبول ہے اور ساری بڑی شاعری تصوّف پر ہی قائم ہے اور اہمیّت اختیار کر گئی ہے تو مرثیے اور سلام کو اہمیّت کیوں حاصل نہیں ہے !!
اُردو ادب میں مرثیے اور سلام کا موجودہ مقام اور حیثیت دیکھتے ہوئے میں تو یہ کہوں گا کہ اگر علامّہ شِبلیؔ نعمانی جیسا جیّد عالِم ، میر انیسؔ کے بارے میں نہ لکھتا تو وہ ادب میں نہ آتے ، وہ بہت بڑے شاعر ہونے کے باوجود محدود ہو کر رہ جاتے۔
مختصر یہ کہ اگر آپ اُردو شاعری کی صِنفِ مرثیہ اور سلام سے مخلص ہیں اور اِسے اُردو ادب میں کوئی مقام اور حیثیت دِلانا چاہتے ہیں تو۔۔ مرثیہ اور سلام لکھنے والوں کو اپنے مرثیے اور سلام لوگوں تک پہنچانے کے لئے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔
٭٭٭
ڈاکٹر باقر رضا (کراچی)
جوش اور موت، زندگی اور خود کشی
یہ کوئی ۱۵ برس پہلے کی بات ہو گی۔ احباب کی محفل تھی۔ جوش کی شاعری موضوعِ گفتگو تھی اور چند دوست، جوش کی شاعری کے مداح اور کچھ احباب شدید مخالف تھے۔ ایک دوست نے کہا کہ ’’مجھے تو کبھی تنہائی میں جوش کا کوئی شعر یاد نہیں آتا، اور میں جوش کے ساتھ اپنے آپ کو کسی بھی مقام پر کھڑا نہیں پاتا ہوں۔ ‘‘ اس وقت تو بات میں نے مذاق میں یہ کہہ کر ٹال دی کہ ’’بھائی وہ شبیر حسن خاں جوش ملیح آبادی پٹھان تھے وہ کب آپ کو اپنے ساتھ کسی مقام پر کھڑا رہنے دیتے؟‘‘ لیکن یہ اعتراض ذہن میں کھٹکتا رہ گیا۔ ۲۰۰۹ء میں ایک موخّر انگریزی روزنامے میں ڈاکٹر سید منور حسین کا کالم جوش اور جوش کے نظریۂ زندگی اور موت پر چھپا۔ احساس ہوا کہ پڑھے لکھے، با شعور اور زمانے کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کے ذہنوں میں جوش کی شاعری زندہ ہے اور وہ آج کل کے حالات کو جوش کی شاعری کے ساتھ جوڑ کر سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
جوش ملیح آبادی کے زمانے میں موت اور زندگی کا تصور تو موجود تھا۔ تاہم یہ خودکشی اور خودکش بمبار قبیل کے موضوعات نہیں ملتے تھے۔ پہلے تو یہ سمجھ لیا جائے کہ جوش عالم انسانیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ جوش کا نظریہ وحدتِ انسانی کا نظریہ تھا۔
کہتا ہوں پھر کہ دل میں کدورت نہ چاہیئے
وحدت کے سر پہ ضربتِ کثرت نہ چاہیئے
مطلق اکائی میں عددیّت نہ چاہیئے
غیریت و شرو عصبیّت نہ چاہیئے
آفاق ایک جسم ہے اور ایک ذات ہے
اے دوست وہمِ غیر جہالت کی بات ہے
لیجئے یہاں جوش نے تمام انسانوں کو ایک قرار دے کر قرآنِ کریم کے ارشاد کے مطابق بات کی ہے کہ ’’ اے بنی آدم تم سب ایک باپ کی اولاد ہو۔ ‘‘ یعنی ابنِ خلدون کے نظریۂ عصبیّت اور غیریت کی نفی کی ہے جو بقول ابنِ خلدون بادشاہی اور امارات کے قیام کے لئے از حد ضروری ہے۔ اتنا ہی نہیں وہ اور آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ جاندار اور غیر جاندار میں بھی تفریق نہیں ہے۔ لیجئے اب یہ بات دنیا کے ماحولیاتی تحفظ کی ہو گئی ہے۔
بے جان و جاندار کی بنیاد ایک ہے
ارض و سما کی علّت و ایجاد ایک ہے
بت سینکڑوں ہیں حسنِ خداداد ایک ہے
سب دل الگ الگ ہیں مگر یاد ایک ہے
یکساں ہے مال گو ہیں دکانیں جدا جدا
معنی ہیں سب کے ایک زبانیں جدا جدا
پھر سوال یہ جو آج سب کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے کہ جہاد کیا ہے؟ بڑے بڑے علاّمہ اس سوال کا جواب تلاش رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ تصورِ جہاد تو اسلام کی ابتداء سے تھا۔ یہ جو اس تصورِ جہاد میں خرابی آئی ہے وہ دراصل امریکی ڈالر کی اس کی شریانوں میں روانی ہے جس نے جہاد اور فساد کے درمیان فرق کو مٹا دیا ہے۔ نا امریکہ اور پٹرو ڈالر کو افغان جہاد کی روح اور جان میں داخل کیا جاتا اور نہ آج پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا۔
روحِ بشر کی موت ہے خونخواری و فساد
’’اپنے غضب سے جنگ ہے سب سے بڑا جہاد‘‘
لاکھوں میں بے نظیر، کروڑوں میں فرد ہے
جو مسکرائے طیش میں بے شک وہ مرد ہے
اور پھر احسان کی منزل۔ یعنی معاف کر دینا، درگزر کر دینا اور پھر خطا کار کو عطا بھی کرنا۔ یہ عظیم انسانی اخلاقی معجزہ ہے۔
بدلے کی رسم دینِ وفا میں حرام ہے
احسان ایک شریف ترین انتظام ہے
حضورؐ کی ذاتِ بابرکت میں جا بجا احسان کا نور جھلکتا ہے۔ حضرت امام حسینؑ کا حُربن یزید ریاحی کو معاف کر دینا بھی اس خلقِ عظیم کا عکس مبارکہ ہے۔ اپنے غضب پر قابو پالینا اور معاف کر دینا یہ معمولی کام نہیں ہے
اب آیئے ذرا وحدتِ انسانی بلکہ وحدتِ موجودات اور احسان کی گفتگو کے بعد آج کل کے گرم موضوع یعنی خودکشی اور خودکش بم باری کی طرف۔ جوش کے نزدیک انسان خودکشی صرف اپنے لئے کرتا ہے۔ جب زندہ رہنا اس کے لئے دشوار ہو جاتا ہے تو وہ پھر خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے۔
اس عمل سے عقل انسانی میں آتی ہے یہ بات
ارتکابِ خودکشی تک ہے جنونِ حُبِ ذات
آدمی جیتا ہے سازو برگِ عشرت کے لئے
اور مرتا بھی ہے تو دفعِ اذیت کے لئے
جب زندہ رہنا مشکل اور مسلسل اذیت بن جائے تو انسان خودکشی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جارج مونرو گرانٹ نے لکھا تھا ’’بے بس آدمی لکھتا نہیں ہے خود کشی کرتا ہے۔ ‘‘ فرائیڈ اپنی کتاب Mourning and Melan Chocia ’’سوگواری اور یاسیت‘‘ میں خودکشی کو تشدد کی ایک قسم قرار دیتا ہے۔ جس میں تشدد کا رخ انسان کی اپنی ذات کی طرف ہو جاتا ہے۔ میننگرز Meningers نے اپنی کتاب Man against himself ’’انسان خود اپنے مقابل‘‘ میں خودکشی کو قتلِ معکوس یعنی اپنا قتل اس صورت میں جبکہ قتل کا ہدف اصل میں کوئی غیر ہو تو پھر قاتل خود اپنے آپ کو ہلاک کر دے، قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر خودکشی کرنے والا، اپنے تمام معاشرے کو، اپنی تمام نسل کو، اس دنیا اور اس کائنات کو برباد کرنا چاہتا ہے اور یہ اس کے بس سے باہر ہے لہذا وہ خود اپنے آپ کو ختم کر دیتا ہے۔ جوش کہتے ہیں۔
صرف میرا ہے کھلونا یہ جہاں کچھ بھی نہیں
میں نہیں تو یہ زمین و آسماں کچھ بھی نہیں
ماہرین نفسیات نے خودکشی کے پس منظر پر جو روشنی ڈالی ہے وہ بہت اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔ خودکش بمبار کے ذہن میں اپنے عمل سے وابستہ ایک عظیم اور اعلیٰ تصور ہوتا ہے اور وہ اس تصور کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ کسی بھی جہاں دیدہ انسان کیلئے جو بیوی بچوں ، ناتے پوتوں والا ہو، خودکشی کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ خودکش بمبار عموماً ۲۰۔ ۲۵ سال سے کم عمر کا نوجوان ہوتا ہے جس کو یہ تصور کہ وہ مر کر کسی اعلیٰ درجہ کو حاصل کر لے گا، اس سے
زیادہ عمر کا آدمی مہیا کرتا ہے۔ پھر یہ خیال کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں وہ درست ہے۔ اور اگر دنیا اس بات کو درست نہ مانے تو پھر ہم کو دنیا کو ختم کر دینا چاہئے۔ بے سمت اور بے جہت غصہ اور شدید احساسِ محرومی بھی خودکشی کے تصور کو راسخ کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گروہی تشخص بہت اہم ہوتا ہے یعنی یہ کہ میرا اس خاص گروہ سے تعلق ہے اور اس خاص گروہ میں میرے خودکشی کے اقدام کو تحسین کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ ایسا خودکش شخص اپنے گھریلو، خاندان دوست احباب کے قدرتی رشتوں کو توڑ کر اپنے آپ کو کسی مخصوص گروہ کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا سب اس گروہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے گروہ باتیں تو عالمی تبدیلی کی کرتے ہیں مگر اندرونی طور پر وہ سخت نا امیدی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایرن بیک Arren Beck کہتا ہے کہ تمام خود کشیوں کا اصل محرک شدید ترین نا امیدی ہوتی ہے۔ اور یہ ناامیدی زندگی اور زندگی کی پیش کردہ نعمتوں کو ٹھکرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اب جوش زندگی اور موت کے بارے میں یہ کہتے ہیں۔
زندگی
زندگی فرماں روائے کشورِ دنیا و دیں
موجدِ حرفِ خدا و رحمتہ للعالمینؐ
نوعِ انساں کے لئے اے محرمانِ دور بیں
موت سے بڑھ کر کوئی شے قابلِ نفرت نہیں
زندگی تکریم ہے توقیر ہے تمکین ہے
موت شاہِ ارض کی سب سے بڑی توہین ہے
اور موت ہے کیا ……؟
موت کیڑوں کی غذائے خستہ قبروں کا فشار
استخواں سوز و نفس گیر و توانائی شکار
جاں فگارو نطق درد و روح کوب و جسم خوار
اس کی شامیں نالۂ جانکاہ صبحیں سوگوار
اس کے دامِ سخت میں آ کر اکڑ جاتے ہیں لوگ
دفن میں گر دیر ہوتی ہے تو سڑ جاتے ہیں لوگ
خود کشی کے پسِ پردہ یہ تصور تو ضرور ہوتا ہے کہ ہم انسانی وحدت سے الگ ہیں۔ ہم کائنات سے بیگانہ ہیں۔ یہ سب عالمِ اسباب ہمارے لئے غیر ہے۔ اور یہ وحدتِ موجودات کی مکمل ضد ہوتا ہے۔
ہو چکے ہیں خشک پر شیرازہ بندی کے عروق
پھر رواں ہیں ملّتیں سوئے تنّفر جوق جوق
پھر شریعت ہے مساواتِ بشر کی بے وثوق
پھر خجل ہیں نوع انسانی کے بنیادی حقوق
پھر بغاوت کر رہا ہے زندگی سے آدمی
دیکھ پھر ٹکرا رہا ہے آدمی سے آدمی
یہ آدمی سے آدمی کا ٹکرانا ہی خود کش بمبار مہم کا اہم حصہ ہے۔ وہ اپنے ہی ہم زبان، ہم نسل، ہم مذہب اور ہم عقیدہ افراد کے خلاف خود کو استعمال کرتا ہے۔ اور اپنے ہی جیسے لوگوں کو اپنا غیر سمجھ لیتا ہے۔ اب اس صورت میں سدھار کیسے پیدا کیا جائے۔ جوش کے پاس اس کا ایک حل موجود ہے۔
پھر حیاتِ نوعِ انسانی ہے کجلائی ہوئی
گُل پڑے ہیں ولولے، جرأت ہے مرجھائی ہوئی
پھر زمین و آسماں پر موت ہے چھائی ہوئی
موت بھی کیسی خود اپنے ہاتھ کی لائی ہوئی
چہرۂ امید کو رخشندگی دے یا حسینؑ زندگی دے زندگی دے زندگی دے یا حسینؑ
جب خود آدمی اپنے ہی بھائی بندوں کو مارنے پر تُل جائے تو جوش امام حسینؑ کے کردار کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ کردار جہاد کرنے جا رہا ہے اور خودکشی کی موت کی قدم قدم پر نفی کر رہا ہے۔ یہ حسینیؑ کردار ہے جو میدانِ جنگ میں موت کی کاشت کر کے تا قیامِ قیامت زندگی کی فصلیں اگاتا رہے گا۔
موت کی ظلمت میں تو نے جگمگا دی زندگی
جوہرِ شمشیر عریاں میں دکھا دی زندگی
شمع کے مانند قبروں میں جلا دی زندگی
سر زمین مرگ میں تو نے اگا دی زندگی
حبس ٹوٹا باغِ جنت کی صدا آنے لگی
مقبروں سے دل دھڑکنے کی صدا آنے لگی
پھر جنگِ، قتال اور تلوار سے جہاد کوئی معمولی اقدام نہیں ہے۔ یہ آخری قدم ہے۔ اس میں بہت دیکھ بھال کر احتیاط سے فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ ہم نے سو آدمی مار دیئے۔ اب یہ فیصلہ قدرت کرے گی کہ ان میں کون خطاوار تھا اور کون معصوم!۔ یہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی ہماری نظر میں بے گناہ مرگیا تو ہم خوں بہا دے دیں گے۔ یہ باتیں کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل تمام عالمِ انسانی کا قتل بتایا گیا ہے۔ تو امام حسینؑ، فوجِ یزید سے خطاب فرماتے ہیں کہ اتمامِ محبت ہو جائے۔
پھر بھی یہ چاہتے تھے کہ برپا نہ ہو فساد
اربابِ کلمہ گو سے نہ کرنا پڑے جہاد
دہرا سکے نہ وقت مآلِ ثمود و عاد
خطبے کے دونگڑے سے بجھے آتشِ عناد
گرتی ہوئی خلوص کی دیوار روک لیں
چلتی ہوئی زبان پہ تلوار روک لیں
اب جو مرحلہ ہے وہ نہایت اہم ہے۔ دراصل کربلا کا معرکہ حق و باطل، علم و جہالت، عزت و ذلت، نور و ظلمت اور زندگی اور موت کی جنگ تھا۔ اسلامی تمدن اور تمام عظیم انسانی قدروں کے مقابلے میں جہالت نے صف بندی کر لی تھی۔ اور اب علاوہ اس کے کہ جنگ کی جائے کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔ امام حسینؑ کی جنگ دفاعی جنگ تھی۔ حضرت امام حسینؑ اپنے ساتھیوں کو میدانِ جنگ سے جانے کی اجازت دے چکے تھے اور اُن اصحابِ با وفا کی گردنوں سے اپنی بیعت اٹھا چکے تھے۔ یہ وہ جنگ نہیں تھی جس میں لوگ خود پیچھے محفوظ اور مامون رہ کر، نوجوانوں کو بے دردی سے جنگ کا ایندھن بنا دیتے ہیں۔ جوش کو اس حقیقت کا پورا ادراک تھا کہ امامؑ عالی مقام کا جنگ کا اقدام آخری قدم تھا۔
صحرا کو تھی حکومتِ بستاں کی آرزو
دیوسیہ کو تختِ سلیماں کی آرزو
بَدرُو کو حسنِ یوسفِ کنعان کی آرزو
ابلیس کو جلالتِ یزداں کی آرزو
پھر تاج گر رہا تھا سرِ مشرقین کا
منہ تک رہی تھی گردشِ دوراں حسینؑ کا
اب ایک بہت لطیف نکتہ ہے کہ دہشت گردی کروانے کیلئے، یا خودکش حملہ کروانے کیلئے جو لوگ استعمال کئے جاتے ہیں ان میں کچھ قدریں مشترک ضرور پائی جاتی ہیں۔ اوّل تو یہ کہ وہ افراد پختہ عمر اور بالغ سوچ کے مالک نہیں ہوتے ہیں۔ ان کی عمریں عموماً ۲۵۔ ۲۰ برس کی ہوتی ہیں۔ دوم یہ کہ ان کا تعلق، ان کے خاندانوں سے منقطع کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ لطیف رحم اور ترس کے جذبات ان کے دلوں میں نہ پنپ سکیں اور سوم یہ کہ ان کو بحث و مباحثہ، گفت و شنید، اور منطق و فلسفہ، عقل و خرد سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور عقائد کے نام پر ان کو چند باتیں بتا کر تاکید کی جاتی ہے کہ اب اپنے ذہن کے دروازے بند کر لو، اور اب کچھ نہ سوچو۔ آئرش ریپبلکن آرمی کے تربیت دینے والے دہشت گرد کا اعتراف ہے کہ کسی بھی نوجوان کو تین سے چھ ماہ کی تربیت دے کر دہشت گردی پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ لازمی ہے کہ ایسے نوجوان کا اپنے خاندان سے رابطہ منقطع ہو۔ امام حسینؑ اپنے خاندان، بیوی بچوں ، بھائی بہنوں ، بھانجے بھتیجوں کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔ یہ اقدام جنگ کا نہیں بلکہ امن اور صلح کا تھا۔ جوش اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
بنتِ علیؑ کی شعلہ بیانی لئے ہوئے
عباس کے لہو کی روانی لئے ہوئے
اکبرؑ کی نا رسیدہ جوانی لئے ہوئے
اصغرؑ کی پیاس، تیر کا پانی لئے ہوئے
اشکوں پہ زلفِ صبر کا سایہ کئے ہوئے
انفاس میں رسولؑ کی خوشبو لئے ہوئے
پھر اس کے بعد معرکۂ کربلا بپا ہوتا ہے۔ اور ہر شہید، آسمانِ شہادت کا روشن سورج بن کر ابھرتا ہے۔ دہشت گرد کسی کو نہ اپنا نام بتاتا ہے اور نہ وہ اپنا منہ دکھانے کے قابل ہوتا ہے۔ دہشت گرد گمنامی کی موت مرتا ہے اور ہر دفعہ وہ اپنے مرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مقصد سے بھی دور ہوتا جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گردی سے انقلاب برپا نہیں ہوئے ہیں۔ انقلاب عوام کے نہتے جمّ غفیر کا، ظلم و استبداد کے سامنے آ کر کھڑے ہو جانے کا نام ہے۔ پُر عزم، بہادر، تلواروں کے سامنے سینہ تان کے کھڑے ہوتے ہیں اور تلواروں کی دھار کے ساتھ ساتھ وقت کے دھارے کا رخ بدل دیتے ہیں۔ فوجِ یزید میں کون کون تھا۔ تاریخ کے ان کے نام یاد نہیں ہیں۔ حسینی لشکر میں کون کون جانباز تھا، تاریخ کے سینے میں ہر شہید کا نام دمک رہا ہے۔ جوش کہتے ہیں۔
کر دیا تو نے یہ ثابت اے دلاور آدمی
زندگی کیا موت سے لیتا ہے ٹکر آدمی
کاٹ سکتا ہے رگِ گردن سے خنجر آدمی
لشکروں کو روند سکتے ہیں بہتر(۷۲) آدمی
جوش اپنے اشعار کے آئینے میں موت، زندگی، پائندگی کی حقیقت سے نہ صرف یہ کہ واقف نظر آتے ہیں بلکہ آج کے دہشت گردی اور خودکش بمباری اور حملوں کے دور میں بھی ان کے اشعار ہمیں بار بار زندگی اور موت، شہادت اور خودکشی، جہاد اور فساد کے درمیان جو فرق ہے اس کو نمایاں طور پر ظاہر کر کے، ہماری رہنمائی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ جوش کے اشعار بھی ہمیں یاد آرہے ہیں اور جوش آج کے بارود بھرے، بے یقینی کے ماحول میں ہمیں کربلا کے پر نور اور یقین سے معمور اور منور میدان اور اس میدان کے شہ سواروں کی یاد بھی دلا رہے ہیں۔ نجانے کس مزاج میں جوش نے یہ کہا تھا۔
جو وہ الزام دیں مجھ کو عقائد سے بغاوت کا
تو مجھ کو محرمِ سّرِ ضمیر مصطفیؐ کہنا
جو وہ آوارہ و آزاد مشرب مجھ کو ٹھہرائیں
تو مجھ کو بستۂ کردارِ میرِ کربلا کہنا
٭٭٭
ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن
مرثیے اور قصیدے کی مشترک جہتوں کا جائزہ
انسانی حیات متنوّع جذبات احساسات سے مملو ہے۔ ان جذبات میں سے دو جذبے یعنی جذبۂ الم و جذبۂ طرب ایسے ہیں جن پر انسانی زندگی گردش کر رہی ہے۔ یہ دونوں جذبے کبھی معاشرتی و تہذیبی صورتِ حالات کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور کبھی ان کی نمود ذاتی شخصیت کے حوالے سے ہوتی ہے تاہم یہ دونوں جذبات و احساسات اپنے اظہار کے لیے خود ہی پیرایۂ اظہار تلاش کر لیتے ہیں۔ اس حوالے سے جذبۂ غم کے شاعرانہ اظہار کی صورت صنف مرثیہ ہے اور احساسِ طرب کے اظہار کی شکل صنف قصیدہ قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ دونوں جذبے اگرچہ اپنے طور پر نہایت اہم اور گراں قدر ہیں تاہم بعض اوقات کسی جذبے کی فراوانی دوسرے جذبے کو منظر سے ہٹا دیتی ہے۔ پامال جذبہ اپنی کارفرمائی بہرحال جاری رکھتا ہے اور اس کے اثرات بھی محسوس و غیر محسوس طریقے پر مرتسم ہوتے رہتے ہیں بعض مقامات پر یہ دونوں جذبے اس طرح توازن سے انسانی زندگی میں سرایت کر جاتے ہیں کہ غم و طرب کی تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔ یہی حالت ان دونوں اصنافِ سخن کی بھی ہے کہ بعض مقامات پر مرثیے اور قصیدے کی مماثلتیں چشم بینا کو متحیر و مستعجب کر دیتی ہیں۔
اودھ کی تہذیب کا خمیر طربیاتی عناصر کی فراوانی سے اٹھا، تاہم اس تہذیب پر ہندوستان کی عظیم تہذیبی روایت کا سایہ پرتو فگن تھا بقول ڈاکٹر صفدر حسین :
’’اودھ کی تہذیب بھی ہندوستان کی اس عظیم تہذیب کا عکس تھی جس نے کبھی دلی میں عروج پایا تھا لیکن اب دلی ماند پڑ رہی تھی اور لکھنؤ عروج پر تھا۔ اس کے علاوہ نئے ماحول میں قدیم تہذیب بعض مقامی، معاشی اور نفسیاتی اثرات کی وجہ سے قدرے منفرد اور چمک دار صورت اختیار کر گئی تھی۔ ‘‘
اودھ سے ملحقہ علاقوں اور خصوصاً لکھنؤ میں سیاسی استحکام، معاشی اطمینان اور ذہنی سکون کی وجہ سے طربیہ عناصر فروغ پا رہے تھے اور سوز کو اصنافِ سخن میں ساز بنایا جا رہا تھا۔ شاہ اودھ کی تقلید میں پورے لکھنؤ میں چھوٹے بڑے درباروں کی کثرت تھی اور نوابین کے اردگرد عوام الناس کا ایک جمِ غفیر رہتا تھا جن کا مطمحِ نظر فقط اپنے مالک کی خوشنودی ہوتا تھا۔ مقربین کی جائز و ناجائز مدح و ستائش ممدوح میں عطا و نوازش کی صفت مزید اُجاگر کر دیتی تھی۔ اسی بخشش اور جودوسخا کی عملی صورت تھی کہ لکھنؤ کے ہر فرد کی زبان پر یہ جملہ جاری ہو گیا کہ :
’’جس کو نہ دے مولا، اس کو دے آصف الدولہ‘‘
اسی طرح نواب غازی الدین حیدر کا اربابِ نشاط سے یہ کہنا کہ :
’’جب تک میں زندہ ہوں جتنا تمہاری قسمت میں ہے لے لو، سمیٹ لو۔ ‘‘ ان طلب گاروں کی آتشِ شوقِ طلب کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا۔ اب ایسی صورت میں اور طربیاتی ماحول میں قصیدے کا عروج نہ پانا اور مرثیے کا بامِ عروج تک پہنچ جانا محلِ نظر ہے۔ ناقدین کو اس اہم نکتہ کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ عیش و نشاط اور درباری ماحول کے باوجود لکھنؤ میں قصیدے کو عروج کیوں نہ حاصل ہو سکا…؟؟
انسانی زندگی غم و مسرت کے جذبات سے پُر ہے۔ جدید نفسیات دانوں نے اس بات کا کھوج لگایا ہے کہ اعلیٰ ترین انسان وہ ہے جس کی زندگی میں غم و طرب کے جذبات و احساسات توازن سے ہوں۔ اس اعتبار سے ان ناقدین نے انسانی زندگی کو ایک سکے کی مانند قرار دیا ہے جس کے ایک رُخ پر جذبۂ غم اور دوسرے پر جذبۂ طرب کی چھاپ ہے۔ اسی بات کو خواجہ میر درد نے شاعرانہ پیرائے میں یوں بیان کیا ہے :
دلِ پُر چاک سے گلِ خنداں
شادی و غم جہاں میں توام ہے
حقیقت تو یہ ہے کہ اعلیٰ انسان کی طرح اعلیٰ ترین تہذیب بھی اپنے اندر ایک ہی وقت میں جذبۂ طرب اور جذبۂ غم سموئے ہوئے ہوتی ہے۔ انگلستان اور لکھنؤ کی اعلیٰ تہذیبوں کا مطالعہ کیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ انگلستان میں اعلیٰ ترین المیہ اور طربیہ ڈرامے ایک ہی عہد میں تخلیق ہوئے۔ اسی طرح لکھنؤ میں مرثیہ (المیہ) اور ریختی (طربیہ) ایک ہی عہد میں اپنے فنی کمال تک پہنچے۔ اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ المیہ اور طربیہ احساسات کسی بھی تہذیب کی تشکیل کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ گویا لکھنوی تہذیب و معاشرت کے طربیاتی ماحول میں با اعتبار ہونے والی احساس الم کی نمائندہ صنفِ سخن ’’مرثیہ‘‘ کو ہم وہاں کی تہذیبی علامت اور اخلاقی ضرورت قرار دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے رام بابو سکسینہ کی رائے بھی ملاحظہ فرمائیے :
’’…مرثیے میں اس حقیقی شاعری کا پرتو ہے جو اعلیٰ جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے۔ اس کی ادب آموزی ایسے وقت میں جب دنیائے شاعری عیش پسند درباروں کی خوشامد اور تتبع میں نہایت ادنیٰ اور رکیک جذبات کے دلدل میں پھنسی ہوئی تھی، قابل صد ہزار آفرین ہے۔ ‘‘
مرثیے میں دیگر اصناف کے محاسن کی موجودگی کے پیش نظر بیشتر ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ مرثیہ ایک مرکب صنف سخن ہے۔ اسی رویے کو شبلی نعمانی نے انیس کے حوالے سے بیان کیا ہے :
’’…میر انیس کا کلام شاعری کی تمام اصناف کا بہتر سے بہتر نمونہ ہے… ان کے کلام میں شاعری کی جس قدر اصناف پائی جاتی ہیں اور کسی کے کلام میں نہیں پائی جاتیں۔ ‘‘
ان محاسن کی موجودگی کی وجہ سے ناقدین نے مرثیہ کا موازنہ و تقابل دیگر مغربی و مشرقی اصناف سے کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح مرثیے کی ذاتی حیثیت متاثر ہونے کا امکان ہے۔ مرثیے کا جن دیگر اصناف سے موازنہ کیا گیا ہے ان میں ’’قصیدہ‘‘ سرفہرست ہے۔ اس سلسلے میں ناقدین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مرثیہ اپنے مزاج کے اعتبار سے قصیدہ ہے۔ اب ذیل میں ناقدین کی آرا کی روشنی میں مرثیے اور قصیدے کی مماثلتوں کے حوالے سے چند معروضات پیش خدمت ہیں۔
اُردو شاعری کی تاریخ میں قصیدہ اور مرثیہ دو قدیم اصنافِ سخن ہیں۔ جنوبی ہند کے شعرا کے دواوین کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ دونوں اصناف شعرا کے نزدیک معتبر رہے ہیں۔ اس عہد کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس کے دیوان میں بادشاہِ وقت کا قصیدہ اور اہلِ بیتؑ ِ رسالت کی مدح میں مرثیہ موجود نہ ہو۔ اس اعتبار سے ’’مدح‘‘ کا عنصر قصیدے اور مرثیے میں مشترک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی سوچ نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ مرنے والے متوفی کی مدح مرثیہ اور زندہ شخص کی مدح قصیدہ ہے لہٰذا یہ دونوں اصناف مزاجاً دراصل ایک ہیں۔ یہ روّیہ یہاں تک اہم ہو گیا کہ حالی جیسے صاحب علم و بصیرت نے بھی مقدمہ شعرو شاعری میں مرثیہ کو قصیدے کے ذیل میں پیش کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے بھی یہی دلیل پیش کی کہ قصیدہ اور مرثیہ میں مدح کا عنصر مشترک ہے۔ حالی رقمطراز ہیں :
’’مرثیہ پر بھی اس لحاظ سے کہ اس میں زیادہ تر شخص متوفی کے محامد و فضائل ہوتے ہیں ، مدح کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ زندوں کی تعریف کو قصیدہ بولتے ہیں اور مردوں کی تعریف کو جس میں تاسّف اور افسوس بھی شامل ہوتا ہے مرثیہ کہتے ہیں۔ عرب کی قدیم شاعری میں قصائد اور مرثیے ایسے سچے اور صحیح حالات و واقعات پر مشتمل ہوتے تھے کہ ان سے متوفی کی مختصر لائف استنباط ہو سکتی تھی۔ ‘‘
حالی اور دیگر ناقدین کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ’’مدح‘‘ کا عنصر مشترک ہونے کی وجہ سے قصیدہ اور مرثیہ ایک ہی صنف کہلانے کے لائق ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا رقمطراز ہیں :
’’…مدح کا عنصر بھی دونوں اصناف میں مشترک ہے۔ مدح کے حصے میں قصیدہ گو شاعر عموماً ممدوح کے عدل، شان و شکوہ اور بہادری کی تعریف کیا کرتے ہیں اور اس ضمن میں ممدوح کی تلوار اور گھوڑے کی تعریف بھی آ جاتی ہے۔ مرثیہ گو شاعر بھی حضرت امام حسینؑ اور ان کے رفقا کی بہادری اور تلوار اور گھوڑے وغیرہ کا ذکر تفصیل سے کرتے ہیں۔ ‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مدح کے عناصر کی موجودگی کے نتیجہ میں ہر صنف قصیدے کی ذیل میں آ جاتی ہے تو غزل، جس میں محبوب کی مدح سرائی جزوِ لاینفک ہے، قصیدہ کیوں نہیں …؟؟ حقیقت یہ ہے کہ اصل مسئلہ مدح کا نہیں اس کی نوعیت اور طریقۂ پیشکش کا ہے۔ بلاشبہ قصیدہ نگار مدح سرائی کرتے وقت اعلیٰ ترین اقتدار پیشِ نظر رکھتا ہے۔ وہ قصیدے میں کسی مخصوص شخص کی مدح سرائی نہیں کرتا بلکہ وہ اس شخص کو اعلیٰ اقدار کا مظہر سمجھتے ہوئے قدری زندگی کو پیش کرتا ہے لہٰذا مولانا حالی کا یہ اعتراض کہ قصیدہ محض کسی شخص کی خوشامد ہوتا ہے، محلِ نظر ہے۔ (۱۲) اس کے علاوہ قصیدے سے حاصل ہونے والا انعام و اکرام اعلیٰ فن کی سرپرستی کہا جا سکتا ہے نہ کہ خوشامد کا نتیجہ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قصیدہ گو شاعر اپنے اعلیٰ شعری ہنر کا اظہار کرتا ہے اور ممدوح شاعر کو انعام و اکرام سے نوازتے ہوئے زندگی کے اعلیٰ رویوں کا اعتراف کرتا ہے۔ مرثیہ نگار بھی اپنے مرثیوں میں اعلیٰ ترین اخلاقی روّیوں کی پیشکش ہی کرتا ہے مگر اس کے پس منظر میں تاریخ کی ایک عظیم مذہبی روایت کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔ یہی پس منظر دونوں کے انداز مدح سرائی میں بھی فرق کا موجب بنتا ہے۔
اب ذیل میں مرثیے اور قصیدے کے چند مدحیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں اور خود دیکھیں کہ دونوں کی نوعیتوں میں کس قدر فرق ہے اور مدح کے پیش کرنے میں قصیدہ نگار اور مرثیہ گو میں کیا فرق نمایاں ہوتا ہے :
تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نام شاہنشہِ بلند مقام
قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ
مظہرِ ذوالجلال والاکرام
شہسوارِ طریقۂ انصاف
نو بہارِ حدیقۂ اسلام
جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز
جس کا ہر قول معنیِ الہام
بزم میں میزبانِ قیصر و جم
رزم میں اوستادِ رستم و سام
(اقتباس: قصیدہ بہادر شاہ کی مدح میں ، غالب)
یعنی نواب فلک رتبہ شجاع الدولہ
قائم اس کا رہے تا حشر یونہی جاہ و جلال
یہ تمنائے جبیں بدر بھی ہوتا ہے بلال
بسکہ یاں سجدے کے مشتاق ہیں اربابِ کمال
یہ وہ در ہے کہ یہاں آ کے بہم پہنچا دے
رتبہ بال ہما پر مگس بے پر و بال
(اقتباس : قصیدہ در مدح شجاع الدولہ، سودا)
بچوں میں سبز رنگ کوئی تھا کوئی صبیح
شیریں سخن، لبوں پہ نمک، رنگتیں ملیح،
چاٹیں لبوں کو، ان کی جو باتیں سنیں فصیح
مُردوں کو دم میں زندہ کریں صورتِ مسیحؑ
جد و پدر کی طرح جری ہیں ، دلیر ہیں
بچے ہیں یوں ، پہ غیظ جب آئے تو شیر ہیں
(حضرت عون و محمد کی مدح۔ انیس)
تیغ و ترنج اگر ہوں ہلال اور آفتاب
سرکاؤں چہرۂ علی اکبرؑ سے پھر نقاب
حوریں گلوں کو کاٹ کے تڑپیں رہے نہ تاب
گر دیکھتیں وہ حسن ملیح اور وہ شباب
پریاں تو ان کے سائے کا پیچھا نہ چھوڑتیں
دامن کبھی جنابِ زلیخا نہ چھوڑتیں
(حضرت علی اکبرؑ کی مدح۔ انیس)
قصیدے اور مرثیے کی ایک مماثلت ناقدین نے یہ تلاش کی ہے کہ دونوں اصناف سخن کے اجزا ایک جیسے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ مرثیے کے اجزا قصیدے کے اجزا سے مستعار لیے گئے ہیں۔ ناقدین کا یہ کہنا بھی محلِ نظر ہے کہ میر ضمیر جس وقت مرثیہ کے اجزا متعین کر رہے تھے اس وقت ان کے پیشِ نظر صرف قصیدے کی صنف تھی۔ گویا مرثیہ کی تشکیل قصیدے کی مرہونِ منت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
’’… مرثیے میں ’’سراپا‘‘ تو خیر قصیدے کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے لیکن تلوار کی تعریف، گھوڑے کی تعریف اور اہلبیتؑ کی دوسری صفات کا بیان بھی اسلوبِ قصیدہ ہی کے دائرے میں آتا ہے۔ ‘‘
’’… مرثیے کا چہرہ قصیدے کی تشبیب کی طرح سے ہے۔ جس طرح قصیدے کی تشبیب میں کبھی مناظرِ فطرت بیان کیے جاتے ہیں کبھی فخریہ مضامین آ جاتے ہیں ، کبھی اخلاقی خیالات سے آغاز ہوتا ہے، اسی طرح مرثیے میں بھی عام طور پر ایسے ہی تمہید یہ مضامین ہوتے ہیں۔ ‘‘
مندرجہ بالا پیش کردہ نظریہ پر بحث سے قبل ضروری ہے کہ ہم قصیدے اور مرثیے کے اجزا آپ کی خدمت میں پیش کر دیں۔
(۱) تشبیب یا نسیب (۲) گریز یا مخلص
(۳) مدح (۴) دعا یا خاتمہ
اجزائے مرثیہ :
(۱) تمہید (چہرہ) (۲) سراپا (۳) رخصت
(۴) آمد (۵) رجز (۶) واقعاتِ جنگ
(۷) شہادت (۸) بین (۹) دعا
آپ دونوں اصناف کے اجزا کا مطالعہ کیجیے اور بتائیے کہ تمہید، سراپا اور دعا کے علاوہ مرثیے کا کون سا جزو قصیدے سے ماخوذ قرار دیا جا سکتا ہے؟؟ حقیقت یہ ہے کہ مرثیہ قصیدے کی توسیعی شکل ہے، لہٰذا مرثیے میں اس صنف کے اجزا کی شمولیت حیران کن نہیں بلکہ رجز، واقعات جنگ، شہادت اور بین کے اجزا نے یہ بات ثابت کی ہے کہ قصیدے کی نسبت مرثیے میں موضوعات سمیٹنے اور پیش کرنے کی زیادہ اہلیت ہے۔ اس کے علاوہ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ضمیر نے مرثیے کے اجزا متعین کرتے وقت محض قصیدے کے اجزا کو پیش نظر رکھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرثیے میں ’’بہاریہ‘‘ اور ’’ساقی نامہ‘‘ کے اضافے کے وقت نواب مرزا عروج اور پیارے صاحب رشید کے پیشِ نظر کون سے قصائد تھے؟؟ حقیقت یہ ہے کہ مرثیے نے قصیدے کے ہموار راستے پر اپنی عمارت تعمیر کی اور دیکھتے ہی دیکھتے مرثیہ قصیدے کی نسبت زیادہ مقبول ہو گیا اور حالی کو کہنا پڑا کہ ہمارے قصائد کی حالت تو ناگفتہ بہ ہے البتہ ہمارے شعرا نے مرثیے میں ایک خاص قسم کی نمایاں ترقی کی ہے۔ بہرحال مرثیہ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد صنف ہے اور کسی دوسری صنف سے اس کو نتھی کرنا درست نہیں ہے بقول ڈاکٹر احسن فاروقی :
’’… جب ہم اُردو شاعری کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے ادب کی سب سے زیادہ انوکھی Originalصنف مرثیہ ہے… مرثیہ ایسی صنف ہے جسے ہم نے اس کی موجودہ صورت میں کسی دوسری قوم یا اس کے ادب سے نہیں لیا بلکہ جس کی اردو ہی میں بنیاد پڑی اور اسی زبان میں نشوونما پا کر وہ درجۂ کمال کو پہنچا۔ ‘‘
ناقدین کا اصرار ہے کہ قصیدے اور مرثیے دونوں میں کسی نہ کسی ممدوح کی توصیف کی جاتی ہے اس لیے مقصد کے اعتبار سے یہ دونوں اصناف یکساں ہیں۔ جہاں تک قصیدے اور مرثیے میں ممدوح کی موجودگی کا ذکر ہے ابھی اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ قصیدہ گویا مرثیہ نگار اعلیٰ ترین اقدار کی گفتگو کرتا ہے۔ وہ اپنے ممدوح میں ہر وہ خوبی دیکھنا چاہتا ہے جو اعلیٰ ترین اقدار کی مظہر ہو۔ اس اعتبار سے ممدوح بھی اعلیٰ ترین اقدار کا نمائندہ بن کر قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔ مرثیے اور قصیدے کے ممدوح میں فرق یہ ہے کہ مرثیے کا ممدوح بعض دیگر رجحانات و تصورات کی وجہ سے فوراً قابلِ قبول ہو جاتا ہے جبکہ قصیدے کے ممدوح کو ذہنِ انسانی ذرا تاخیر سے قبول کرتا ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں …؟؟ درحقیقت مرثیے کے ممدوح کی حیثیت عام انسان سے قدرے بالا تر سمجھی جاتی ہے اور مذہبی حوالے سے اسے بالعموم قابلِ تقلید بھی سمجھا جاتا ہے جبکہ قصیدے کے ممدوح کو اس قسم کا تقدس حاصل نہیں ہوتا جو مرثیے کے ممدوح کے لیے مختص ہے۔ ذیل کے اقتباسات کا مطالعہ کیجیے تو قصیدے اور مرثیے کے ممدوح کا ایک واضح فرق آپ کے سامنے آ جائے گا:
یوں کرسی زر پر ہے تری جلوہ نمائی
جس طرح کہ مصحف ہو سرِ رحلِ طلائی
رکھتا ہے تو وہ دستِ سخا سامنے جس کے
ہے بحر بھی کشتی بکف از بہرِ گدائی
گمرہ کو ہدایت جو ترے راہ پہ لا دے
رہ زن بھی اگر ہو تو کرے راہ نمائی
خورشید سے افزوں ہو نشاں سجدے کا روشن
گر چرخ کرے در کی ترے ناصیہ سائی
عکسِ رُخِ روشن سے ترے جوں یدِ بیضا
کرتا ہے کف آئینہ اعجاز نمائی
(اقتباس۔ در مدح بہادر شاہ ظفر=ذوق)
یعنی وہ شاہ سلیماں کہ شکوہ سے اس کے
نیّرِ حشمت و اقبال کو ہے چمکاہٹ
جشنِ شاہانہ ہے اور ہیں امرا حاضرِ وقت
اس کے مجرے کو کھڑے فوجوں کے ہیں غٹ کے غٹ
بزم ایسی ہی مرتب ہے کہ سبحان اللہ
جس میں اقسام تماشا کا ہوا ہے جمگھٹ
(اقتباس۔ در مدح شہزادہ سلیمان شکوہ =انشا)
نعرے سے تیرے ہووے ہیبت کا چاک سینہ
دل پر دلاوری کے وہ تیغ حیدری ہو
تیرے سوا جہاں میں کون آج ہے توانا
جو دل کے ناتواں کو دیتا تونگری ہو
جاروب کش ہے تیرے مشکوئے خسروی کا
زیبا ہے ماہ کو گر، فرمانِ مہتری ہو
خورشید نذر لائے جب افسر شعاع سے
منشور افسری پر توقیع خاوری ہو
لائیں پئے سواری، تو سن کر جب سجا کر
صورت میں ہووے پتلی، پرواز میں پری ہو
(اقتباس۔ در مدح اکبر شاہ ثانی =ذوق)
مندرجہ بالا اقتباس کی روشنی میں آپ کے سامنے قصیدے کے ممدوح کی ایک خاص شبیہ ابھری ہو گی۔ اب ملاحظہ فرمائیے کہ مرثیے کا ممدوح کس طرح اپنی شخصیت میں سحر آفرینی پیدا کر کے قاری کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے اور قاری خودبخود اس کی تقلید کے لیے بے چین ہو جاتا ہے :
میں ہوں سردارِ شبابِ چمنِ خلدِ بریں
میں ہوں خالق کی قسم دوشِ محمدؐ کا مکیں
میں ہوں انگشترِ پیغمبرِؐ خاتم کا نگیں
مجھ سے روشن ہے فلک مجھ سے منور ہے زمیں
ابھی نظروں سے نہاں نور جو میرا ہو جائے
محفلِ عالم امکاں میں اندھیرا ہو جائے
حرؑ نے دیکھا کہ چلے آتے ہیں پیدل شبیرؑ
دوڑ کر چوم لیے پائے سرِ عرشِ سریر
شہؑ نے چھاتی سے لگا کر کہا ’’اے با توقیر!‘‘
میں نے بخشی، مرے اللہ نے بخشی تقصیر
میں رضامند ہوں ، کس واسطے مضطر ہے تو
مجھ کو عباسِؑ دلاور کے برابر ہے تو
(اقتباسات مراثی انیس)
مرثیے اور قصیدے کی ایک مماثلت ناقدین نے ’’مبالغہ‘‘ قراردی ہے۔ ان کے خیال میں مرثیہ اور قصیدہ میں شاعر مبالغہ کو یکساں طور پر استعمال کرتا ہے، اس لیے قصیدہ اور مرثیہ صنف کے اعتبار سے ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔
ہندوستان پر سیاسی گرفت کے بعد انگریزوں نے اپنے استعماری ہتھکنڈوں سے ہندوستانیوں کی جسمانی قوت پر تو قبضہ کر لیا لیکن وہ ان کی تخیٔلی سطح کو فتح نہ کر سکے۔ اس عمل کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لکھنو کے فوجیوں کے ہاتھوں سے چھینی جانے والی تلواریں انیس کے مرثیوں میں زیادہ آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگیں۔ اُردو شاعری کی تخیلاتی پرواز سے انگریزی حکومت کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ جب تک شاعری میں تخیلاتی تلواریں چلتی رہیں گی اس وقت تک یہ امکان باقی رہے گا کہ واقعاتی دنیا میں انہی تلواروں کا استعمال کیا جائے۔ نظم جدید کی فطرت نگاری نے تخیل کو چھوڑا اور واقعیت اور گرد و پیش کے مناظر سے اپنا رشتہ استوار کیا۔ محمد حسین آزاد اپنے تخیل سے قطعی طور پر آزاد نہ ہو سکے اور انہوں نے ایک درجہ نیچے اتر کر تمثیل کے انداز میں نئے رویوں سے سمجھوتہ کر لیا مگر حالی نے خود کو واقعیت سے وابستہ کر کے امرِ واقعہ کو شاعری کہنے لگے، سرسید اور ان کے رفقا اپنی تمام تر علمی قابلیت اور ذہنی بصیرت کے باوجود اس نکتے کو فراموش کر گئے کہ تخیل اور حقیقت دونوں کی حیثیت مسلّم ہے۔ بہرحال کچھ تو نئے علوم کی خیرہ کر دینے والی روشنی اور کچھ جدّت سے لگاؤ کے سبب سے ان لوگوں نے ہر اس شے کے خلاف لکھنا شروع کر دیا جو تخیل کے لیے مفید ہو سکتی تھی لہٰذا حالی نے تخیل کے اساسی رکن مبالغہ کو جھوٹ کے ہم معنی قرار دے کر شعرا کو مبالغے سے پرہیز کا مشورہ دیا۔ ملاحظہ فرمائیے :
’’… دوسری نہایت ضروری بات یہ ہے کہ شعر میں جہاں تک ممکن ہو حقیقت اور راستی کا سررشتہ ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے… زمانے کا اقتضا یہ ہے کہ جھوٹ، مبالغہ، بہتان، افتراء صریح، خوشامد، ادعائے بے معنی، تعلیِ بے جا، الزامِ لایعنی، شکوہ بے محل اور اسی قسم کی باتیں جو صدق و راستی کے منافی ہیں اور شاعری کے قوام میں داخل ہو گئی ہیں ، ان سے جہاں تک ممکن ہو قاطبۃً احتراز کیا جائے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری شاعری میں خلفائے عباسیہ کے زمانے سے لے کر آج تک جھوٹ او مبالغہ برابر ترقی کرتا چلا آیا ہے اور شاعری کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہی نہیں رکھا گیا بلکہ اس کو شاعری کا زیور سمجھا گیا ہے، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جب سے ہماری شاعری میں جھوٹ اور مبالغہ داخل ہوا اسی وقت سے اس کا تنزل شروع ہوا۔ ‘‘
حالی نے مبالغہ کی جس طرح مذمت کی ہے وہ قابل ستائش نہیں۔ شاعری میں مبالغہ کی حیثیت اساسی ہے۔ مبالغہ کسی شے کو ایک قدری حیثیت سے اٹھا کر دوسری قدری حیثیت میں لے جانے کا نام ہے گویا کسی شے کو جب ہم ایک سطح سے دوسری سطح تک لے جائیں تو مبالغہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر شے کو ادنیٰ سطح سے اعلیٰ سطح تک لے جائیں تو یہ اس کی تعریف ہو گی اور یہی مرثیہ اور قصیدے کا اسلوب ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی شے کو اعلیٰ سطح سے ادنیٰ سطح پر لے آئیں تو اس صورت میں بھی مبالغہ پیدا ہو گا مگر یہاں مبالغے کا مقصد تعریف کے بجائے تعریض ہو گا اور اس صورت میں طنز پیدا ہو گا جو ہجویہ قصائد کا اسلوب ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شاعر قصیدہ لکھ کر شکوہ بے محل پیدا کرتا ہے تو اس میں غلطی شاعر کی ہے یا مبالغہ کی؟؟ دوسری بات یہ کہ حالی بے چارے اس بات کو فراموش کر گئے کہ طنز بھی تو مبالغہ ہی سے جنم لیتا ہے۔ جو عوام الناس کی اصلاح کے لیے مفید بھی ہے اور کارگر بھی … اب حالی سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا کوئی ایسی چیز جو قوم کو راہِ راست پر لا سکتی ہو، قوم کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ شاعر تخیل کے بغیر اور تخیل مبالغے کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بات صرف قصیدے یا مرثیے ہی کی نہیں ہر صنفِ سخن میں شاعر مبالغہ کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے اور بلاشبہ مبالغہ سے بات میں حسن اور رعنائی پیدا ہو جاتی ہے۔ میرؔ کی غزل کا یہ معروف شعر ملاحظہ فرمایے اور بتائیے کہ کیا اس میں مبالغہ کے استعمال نے حسن پیدا نہیں کیا؟
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
ماحصل یہ ہے کہ حالی کسی بھی سبب سے مبالغے کی مذمت کریں مبالغہ کے بغیر شاعری حالی کی غزلوں کی طرح بے لطف و بے مزا ہو جائے گی۔
مرثیے اور قصیدے دونوں اصنافِ سخن میں سخت شاعرانہ کاوشوں اور فنی ریاضتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شاعر میں یہ استعداد بھی ہونی چاہیے کہ وہ شعر کی تاثیر اور حسن میں اضافے کرنے والے عناصر سے باخبر رہے۔ مبالغہ شاعرانہ حسن پیدا کرنے کا ایک نہایت کامیاب گر ہے۔ اس لیے ہر ہوشیار شاعر اپنے کلام میں حسن و لطافت پیدا کرنے کے لیے مبالغہ کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ اس اعتبار سے شبلی نعمانی کا یہ کہنا کہ انیس نے زمانے کے اقتضا اور مجبوری کے تحت اپنی شاعری میں مبالغہ استعمال کیا، قابلِ قبول نہیں ، شبلی نعمانی فرماتے ہیں :
’’… میر انیس کے زمانے میں مبالغہ کمال کی حد کو پہنچ چکا تھا اور یہ حالت ہو گئی تھی کہ جب مبالغہ میں انتہا درجہ کا استبعاد نہیں ہوتا تھا، سامعین کو مزا نہیں آتا تھا مجبوراً میر صاحب نے بھی وہی روش اختیار کی۔ ‘‘
حقیقت یہ ہے کہ انیس یا دیگر مرثیہ نگاروں نے جہاں مبالغے سے کام لیا ہے وہاں اپنی فنی مہارت کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔ قصیدہ نگار بھی مبالغے سے کام لیتا ہے مگر اس کا بھرم قائم نہیں رہ پاتا۔ اگرچہ قصیدہ اور مرثیہ دونوں مبالغے کے جوہر سے مالا مال ہوتے ہیں تاہم ان میں جو فرق ہوتا ہے وہ ان مثالوں سے ظاہر ہو جائے گا :
چشم بد دور خسروانہ شکوہ
لوحش اللہ، عارفانہ کلام
جانثاروں میں تیرے قیصرِ روم
جرعہ خواروں میں تیرے مرشدِ جام
وارثِ ملک جانتے ہیں تجھے
ایرج و تور و خسرو و بہرام
زورِ بازو میں مانتے ہیں تجھے
گیو و گو درز و بیزن و ربام
(اقتباس۔ قصیدہ در مدح بہادر شاہ ظفر، غالب)
کرتا ہے تری نذر سدا نقدِ سعادت
ہے مشتریِ چرخ کی کیا نیک کمائی
اک مرغ ہوا کیا ہے کہ سیمرغ نہ چھوڑے
گر سو بہوا ہووے تیرا تیر ہوائی
ہر کوہ اگر کوہِ صفا ہو تو عجب کیا
ہو فیض رساں جب ترے باطن کی صفائی
ہو بلکہ صفا ایسی دلِ سنگ صنم میں
ہر بت میں کرے صورتِ حق جلوہ نمائی
(اقتباس: درِ مدح بہادر شاہ ظفر، ذوق)
وہ لُو وہ آفتاب کی حدّت و تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثالِ شب
خود نہرِ علقمہ کے بھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے جو تھے حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
سایہ کنویں میں اترا تھا پانی کی چاہ سے
شیر اٹھتے تھے نہ خوف کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدّر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
(اقتباسات مراثیِ انیس)
بعض مماثلتوں کی موجودگی کے باوجود مرثیے اور قصیدے میں تاثر اور نتائج کا واضح فرق موجود ہوتا ہے۔ تاثرات و نتائج کا یہ فرق معاشرے کی مروجہ اقدار کے سبب سے ہو یا اصناف کے مزاج و اسالیب سے، ناقدین کی یہ بات بہرحال مسلّم ہے کہ ’’اشعار کا فرقِ مراتب صرف اثر کی کمی اور زیادتی پر منحصر ہے۔ ‘‘
لکھنؤ میں طربیہ عناصر کی خوب آبیاری ہوتی تھی تاہم محرم کا چاند دیکھتے ہی اہلِ لکھنؤ اپنی زندگی اور معمولات میں یکسر تبدیلی لے آتے تھے۔ طربیہ ماحول پر حزنیہ عناصر کا قبضہ ہو جاتا تھا اور پوری فضا حزن و ملال کی کیفیت میں ڈوب جاتی تھی۔ محرم کی رسومات کا آغاز ہو جاتا تھا جوچالیس روز تک جاری رہتی تھیں۔
مرثیہ کا براہ راست تعلق محرم کی رسومات سے ہے اور یہ ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو رسومات اور فن کے تعلق کو واضح کرتی ہے۔ لکھنؤ کی تہذیبی فضا میں المیہ اور طربیہ دونوں اقسام کے جذبوں کی پیشکش کے لیے دو مختلف اصناف سخن کا استعمال کیا گیا ایک مرثیہ اور دوسرے ریختی۔ کیونکہ مرثیے کا تعلق محرم کی رسومات سے ہے اس لیے اس کی تمام فضا المیاتی صورت حالات سے رنگی ہوتی ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد حسن :
’’… محمد علی شاہ اور امجد علی شاہ کے دورِ حکومت میں دربار شعر و شباب کی رنگینیوں سے زیادہ مذہبی پرہیزگاری کی طرف رجوع رہا اور اس خشک علمی فضا کی مدد سے اس دور میں مرثیہ نے غزل پر فتح پائی۔ محرم اور دوسری اثنا عشری رسوم پوری شان و شوکت سے اس سے بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ منائی گئیں … مذہب اور اس کے فرائض و رسوم کی ادائیگی میں مرثیہ خوانی اور دوسرے عناصر نے جگہ پائی جس سے یہ گریہ و ماتم بے روح اور خشک طور پر مذہبی ہونے کے بجائے ایک زندہ اور شاداب تقریب بن گیا۔ ‘‘
اگرچہ پورے مرثیے میں ایسے ٹکڑے بھی موجود ہوتے ہیں جو ممدوح کی مدح اور اس کے فضائل سے متعلق ہوتے ہیں اور وہ بھی جن میں فطرت کی اعلیٰ ترین عکاسی ہوتی ہے، اس کے باوجود مجموعی تاثر المیاتی ہی ہوتا ہے۔ مرثیے کو جو عروج لکھنؤ میں ملا اس میں اُردو کے روایتی اصنافِ سخن نے مل جل کر رنگ بھرے۔ غزل، قصیدہ، مثنوی وغیرہ کا جوہر مرثیے میں شامل ہوا۔ بقول ڈاکٹر محمد حسن :
’’…مرثیے نے اپنے میں مثنوی کی سادگی اور قصیدے کا شکوہ جذب کر لیا اور چونکہ داستان کی رنگارنگی اور ہمہ گیری ان عناصر کو اپنے اندر سمو سکتی تھی اس لیے مرثیہ ان نئے شاعرانہ جوہروں کے امتزاج سے زیادہ شاداب اور شاندار ہو گیا۔ ‘‘
اس طرح جو مرثیہ اُردو میں پیدا ہوا وہ اپنے رنگ خاص کے با وصف خالص اودھ تہذیب کی دین ہے۔ اسی نکتہ کو پروفیسر اعجاز حسین نے بھی پیش کیا ہے، رقم طراز ہیں :
’’مرثیہ چونکہ ایک مسلسل نظم ہے اور اس میں وسعت اور تنوع کی بھی کمی نہیں ، اسے اجزائے ترکیبی کے مختلف عنوانات کا فائدہ بھی حاصل ہے، اس لیے اس میں دیگر اصناف سخن مثلاً غزل، قصیدہ، مثنوی وغیرہ کی بعض خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں لیکن خاص بات یہ ہے کہ ہر خصوصیت کو مذہب نے ایک دوسرے انداز سے پیش کر دیا ہے۔ حسن و عشق کی روداد میں بھی یہاں تقدس و روحانیت کا غلبہ ہے۔ ‘‘
بہرحال یہ شاعری کا فریضہ ہو یا صنف سخن کی ضرورت اسی تقدس اور روحانیت نے مرثیہ کو معراجِ کمال بخشا۔ بیشتر مرثیہ نگاروں نے اس حزنیہ طرزِ احساس کی مدح سرائی بھی کی ہے اور حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے :
مہلت جو اجل دے تو غنیمت اسے جانو
آمادہ ہو رونے پہ سعادت اسے جانو
آنسو نکل آئیں تو عبادت اسے جانو
ایذا بھی ہو مجلس میں تو راحت اسے جانو
فاقے کیے ہیں دھوپ میں لب تشنہ رہے ہیں
آقاؑ نے تمہارے لیے کیا ظلم سہے ہیں (انیس)
اس کے ساتھ ساتھ شعرائے مرثیہ نے اس خاص حزنیہ ماحول کے خاتمے کو نہایت غم انگیز قرار دیا ہے :
اے ماتمیو! شاہ کا ماتم ہوا آخر
روئے نہ دبیر، آہ محرم ہوا آخر
لو چہلمِ سلطانِ دو عالمؑ ہوا آخر
غم رہ گیا پر غم کا وہ موسم ہوا آخر
سر کھول دو اور پھاڑو گریبانوں کو اپنے
اے مومنو! رخصت کرو مہمانوں کو اپنے (دبیر)
اس کے برعکس قصیدے میں شاعر کو ایک طربیہ ماحول پیش کرنا ہوتا ہے۔ حالات کیسے ہی برے کیوں نہ ہوں قصیدہ نگار اس میں سے طربیہ عناصر ڈھونڈ لیتا ہے۔ یہی قصیدہ نگار کا شاعرانہ ہنر ہے، بقول ڈاکٹر ابواللیث صدیقی :
’’…ممدوح حقیر فقیر پر تقصیر ہی کیوں نہ ہو اس کی مدح میں جو قصیدے کہے جاتے ہیں ، ان کے الفاظ اور تراکیب پر شکوہ، تشبیہات اور استعارات پر زور اور شعر کے تیور بڑے تیکھے ہوتے ہیں۔ ‘‘
میری گفتگو اس نکتے پر آ کر تمام ہوئی کہ مرثیے اور قصیدے کی یہ مشترک جہتیں و مماثلتیں اور فن کے مابین فرق دراصل ان اصناف کے المیاتی و طربیاتی طرزِ احساس کی وجہ سے قائم ہے۔ ابھی آپ نے مرثیے کے دو بند پڑھے۔ اب چلتے چلتے قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے اور طربیہ اور المیہ احساسات کا فرق دیکھیے :
تجھ کو خبر نہیں کیا ہے دورِ شاہ اکبر
رفعت سے پست جس کی شان سکندری ہو
ہے فکر کیا جب ایسا فیاض ہو جہاں میں
اور دل کا اس کے مقصد خود بندہ پروری ہو
مثلِ سحاب جا کر باندھے ہوا فلک پر
جس پر کہ اس کی چشم الطاف سرسری ہو
(اقتباس، قصیدہ در مدح اکبر شاہ ثانی =ذوق)
شاہ کے آگے دھرا ہے آئینہ
اب مآلِ سعی اسکندر کھلا
ملک کے وارث کو دیکھا خلق نے
اب فریب طغرل و سنجر کھلا
ہو سکے کیا مدح ہاں اک نام ہے
دفتر مدح جہاں داور کھلا
فکر اچھی پر ستائش ناتمام
عجز اعجاز ستائش گر کھلا
جانتا ہوں ہے خط لوحِ ازل
تم پہ اے خاقانِ نام آور کھلا
تم کرو صاحب قرانی جب تلک
ہے طلسم روز و شب کا در کھلا
(اقتباس، قصیدہ بہادر شاہ کی مدح میں =غالب)
درج بالا نکات کا ماحصل یہ ہے کہ قصیدہ اور مرثیہ ہمارے معروف کلاسیکی اصناف ہیں جو اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے جداگانہ صفات رکھتے ہیں۔ یہ اصناف بعض یکساں مماثلتیں رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے مزاجاً جدا ہیں۔ عصرِ حاضر میں قصیدہ اپنی وقعت کھو بیٹھا ہے تاہم مرثیہ آج بھی تر و تازہ ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مرثیے نے اپنے وجود میں بنیادی تبدیلیاں کر لی ہیں اور خود کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ قصیدہ اپنی بنیادی حیثیت کو بحال نہیں رکھ سکا۔ نہ دربار رہے نہ درباری شاعری لہٰذا قصیدہ رو بہ زوال ہو گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے کلاسیکی اصناف کا مطالعہ ایک مرتبہ پھر عمیق نگاہی سے کریں اور ان کی عظمت و حیثیت کا بارِ دگر تعین کریں۔
٭٭٭
ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن
اُردو منقبت کی روایت
اور سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبت نگاری کی خصوصیات
اس کائناتِ رنگ و بو میں ایسی شخصیات قابلِ توصیف اور لائق تقلید ہوتی ہیں جو حق و صداقت کا عملی نمونہ بن جائیں۔ حق تو یہ ہے کہ ایسی عصمت مآب شخصیات ہی افراد کی کردار سازی میں اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح عوام الناس ان پاکیزہ نفوس کی تقلید کر کے اپنی فطری آلائشوں کو پاک کرتے ہیں اور دنیا اور آخرت کے لیے مثالی زندگی کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آپ عالمی ادب کا مطالعہ کیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں حق و صداقت کی علمبردار شخصیتوں کے لیے ہمیشہ تحسینی کلمات ہی ملتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر قوم اپنے مذہبی معتقدات کو اہمیت دیتی ہے اور اعتقادات کی مضبوطی صرف نظریات ہی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے کچھ نفوس بھی درکار ہوتے ہیں۔ کسی بھی فرد کی ذات یا شخصیت کی تعمیر و تہذیب میں یہی نفوس طاہرہ ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اُردو شاعری کی روایت میں مذہبی شخصیات کے کارناموں کا ذکر بطریقِ احسن ملتا ہے۔ نعت کی ایک مضبوط اور توانا روایت ہماری شاعری کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔ اسی طرح عمائدین ملت، فاتحین اور شہدائے ملت کے لیے منظومات کا ایک سلسلہ بھی ہماری شعری روایت کا حصہ ہے۔ سلاطین، ولیوں اور بادشاہوں کے قصائد بھی ہماری شاعری کا اہم جزو ہیں۔ اسی طرح سیدالشہدا امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں کی کربلا کے میدان میں بے مثال قربانیوں کو ’’سلام‘‘ کی شکل میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ محمدؐ و آلِ محمدؑ کے خانوادے کے اکابرین اور ان سے منسلک احباب کی مدح سرائی کے لیے ’’مناقب‘‘ کی صنف کا سہارا لیا جاتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ مختلف اصناف کے ذریعہ مقدس و برگزیدہ شخصیات کو اُردو شاعری میں محض اس لیے جگہ دی جاتی رہی ہے کہ اس صورت میں ’’قوم‘‘ کی ’’تعمیر نو‘‘ ہو سکے۔
سیّد وحیدالحسن ہاشمی نے مقدس شخصیات کے محاسن اُجاگر کرنے کے لیے نعت، سلام، قصائد، نظم اور منقبت کا سہارا لیا ہے۔ دوسری اصناف کی نسبت منقبت میں ان کے طبعی جوہر کھل کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوسری اصناف کی نسبت انہیں یہ صنف کیوں پسند ہے؟ اس کا بنیادی سبب تو یہ ہے کہ اس صنف میں موضوع کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں محمد ؐ و آلِ محمدؑ کے خانوادے کے کسی بھی فرد یا پہلو پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ وحید ہاشمی ایک پر تجمل اسلوب کے حامل شاعر ہیں اور ان کا مزاج قصید ے کے لیے موزوں ترین ہے۔ قصیدے کا یہی انداز جب منقبت کے روپ میں اُجاگر ہوتا ہے تو زیادہ باوقعت اور پرلطف ہو جاتا ہے۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ وہ اپنی منقبتوں کو زادِ آخرت سمجھتے ہیں اور ان کا واضح موقف یہ ہے کہ ان کے یہی اشعار روز جزا ان کی شفاعت کا سبب بنیں گے۔ سب سے پہلے سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبت نگاری کے حوالے سے خود ان کی رائے دیکھ لیجیے۔ وہ اپنی کتاب ’’معصومینؑ ‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’——–
میں نے ان منقبتوں میں زبان سے زیادہ خیال کو اہمیت دی ہے۔ اسی طرح صنائع بدائع سے بھی حتی الامکان گریز کیا ہے۔ منقبت کے لئے جذبۂ صادق اور گہری عقیدت درکار ہے۔ میری عقیدت اور میرے جذبات جہاں تک مجھے لے گئے، میں نے ان کی عکاسی کر دی ہے۔ عقیدت کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور محبت کو فن کی ترازو پر تولنا میرے نزدیک بڑا مشکل کام ہے، لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ فنّی لوازمات کہیں مجروح نہ ہوں ، مگر میں بھی ایک بشر ہوں اور ہر بشر معصوم نہیں ہوتا۔
جس امر کا میں نے زیادہ خیال رکھا ہے وہ زبان کی سادگی ہے۔ جہاں تک ہو سکا عربی اور فارسی ترکیبوں سے گریز کیا ہے۔ ہلکے پھلکے انداز میں سادہ زبان استعمال کی گئی ہے تاکہ محمد ؐ و آلِ محمدؑ کے اوصاف اور ان کا پیغام عوام تک پہنچ سکے۔ اس میں کچھ میری عادت اور کچھ عوام الناس کے معیارِ سماعت کا دخل ہے۔ میری کوشش رہی ہے کہ تو ارد سے جہاں تک ہو سکے بچا جائے۔ طرحی منقبت کے علاوہ ساری زمینیں میری ہیں۔ میرا کلام سُن کر اگر کسی صاحب نے میری زمین پر طبع آزمائی کی ہے تو یہ ان کی سعادت مندی ہے۔
میں نے یہ تمام منقبتیں نہ مالی منفعت اور نہ شہرت کے لئے کہی ہیں ان کا مقصدِ وحید یہ تھا کہ کچھ ثواب مل جائے اور کچھ قارئین کو حاصل ہو۔ مدحتِ محمدؐ و آلِ محمدؑ ایک ایسا خزانہ ہے، جو ہمیشہ بھرا رہتا ہے جو شخص خلوصِ دل سے کوشش کرے اُسے اس خزانے سے بہت کچھ عطا ہو جاتا ہے۔
——–‘‘
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں کی اہم ترین خصوصیت ان کی اہلِ بیت کے خانوادے سے ’’والہانہ عقیدت‘‘ ہے۔ وہ محض حضور اکرم ؐ اور ان کی آلؑ سے ہی محبت نہیں کرتے بلکہ اس فرد سے بھی عقیدت رکھتے ہیں جو ان سے منسلک ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ
کس طرح اہلِ بیتؑ کا گھر چھوڑ دیں وحیدؔ
پل کر بڑے ہوئے ہیں یہیں کے نمک سے ہم
عقیدت کے اظہار کی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ ایک سطح پر انسان محض رسماً اپنی عقیدت کا اعلان کرتا ہے۔ دوسری سطح وہ ہے جہاں انسان دل سے کسی فرد کی توقیر تو کرے لیکن اس کا عمل اس کی فکر کا ہمنوا نہ ہو۔ عقیدت کی بہترین صورت اس وقت سامنے آتی ہے جب انسان کے رگ و پے میں ممدوح کی محبت لہو بن کر گردش کرنے لگے۔ وحیدالحسن ہاشمی کے خیال میں محمد ؐ و آلِ محمدؑ کے عاشق کو نہ صرف دل میں ان کی محبت کی شمع روشن کرنا چاہیے بلکہ اس کے عمل سے بھی ان حضرات کی مہک آنا چاہیے یعنی وحید ہاشمی کے نزدیک باکمال عاشق وہ ہوتا ہے جو فطری اور عملی ہر سطح پر اپنے محبوب کا آئینہ ہو۔ ان کا واضح موقف یہ ہے کہ
تم میری عقیدت کو نجف میں کہیں ڈھونڈو
وہ میرا محلہ ہے وہیں میری گلی ہے
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کے منقبتی اشعار بحرِ عقیدت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں عقیدت کی تپش بھی ہوتی ہے اور مودّت کی مہک بھی۔ آپ ان کے درج ذیل اشعار دیکھیے کہ اُن میں محمد ؐ و آلِ محمدؑ سے والہانہ عقیدت کے کیسے کیسے نادر گہر ملتے ہیں :
ہو نہ جاگزیں جب تک اُلفتِ علیؑ دل میں
طے یہاں سے محشر کا راستہ نہیں ہوتا
……
علیؑ کی دید کا غل ہو تو اِک جہان، رُکے
سنے جو نام تو جاتی ہوئی یہ جان، رُکے
……
چلے تو ہو سوئے فردوس چھوڑ کر دنیا
علیؑ کے عشق کا دریا بھی درمیان میں ہے
……
بندگانِ حق کو دینِ حق پیمبرؐ سے ملا
دین کو مشکل کشا اللہ کے گھر سے ملا
……
ہو گا نہ کم علیؑ کی شجاعت کا تذکرہ
تاریخ چپ رہے گی تو خیبر بتائے گا
……
تفسیر کسی غیر سے کیوں پوچھنے جاؤں
قرآن تو مجھ کو درِ حیدرؑ سے ملا ہے
……
میں ان پہ جان دے کے لحد تک تو آ گیا
اب اس کے بعد میرا نہیں ان کا کام ہے
……
مریمؑ کا فاطمہؑ سے بھلا کیا مقابلہ
مریم تو عابدہ ہیں عبادت ہیں فاطمہؑ
……
نبیؐ کی سیرت و کردار ہیں حسینؑ و حسنؑ
سوال ایک تھا دنیا کا، دو جواب آئے
……
وفا در در بھٹکتی پھر رہی تھی صحن عالم میں
ہوئی تکمیل جب عباسؑ کی دہلیز پر آئی
……
تمام عُمر علیؑ کو یہی رہی حسرت
کہ ذوالفقار کے آگے کوئی جوان رُکے
……
کہیں یہی تو نہیں خلقتِ علیؑ کا سبب
اِک آئینہ بھی ہو اوصافِ انبیاء کے لیے
……
کس کس کو لاؤں مدحِ شہؑ ذی وقار میں
لفظوں کی ایک فوج کھڑی ہے قطار میں
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں میں تاریخی حقائق کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں تاہم ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ان واقعات کو شعری پیرائے میں بیان کر دیتے ہیں۔ تاریخی واقعات کو منظوم کرنا کوئی دشوار عمل نہیں ہوتا لیکن کسی تاریخی سچائی اور واقعاتی صداقت کو شعری اسلوب میں اُجاگر کرنا ایک دشوار عمل ہوتا ہے اگر وحید ہاشمی چاہتے تو ان تاریخی موضوعات پر نظمیں بھی تخلیق کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ہر واقعہ کو ایک شاعر کی آنکھ سے دیکھا اور اس میں شعری جاذبیت پیدا کر کے منقبت کا شعر بنا دیا ہے۔
ان کی منقبتوں میں واقعۂ شب ہجرت، واقعۂ غدیر خم، شعب ابی طالب میں محصوری، واقعۂ عقدِ نبیؐ، حضرتِ خدیجہؑ کی والہانہ امداد، واقعۂ شبِ ہجرت، جوفِ کعبہ میں ولادت حضرت علیؑ کا واقعہ، واقعۂ جنگِ خیبر و خندق، نزول ذوالفقار کا قصہ، قصۂ صلح حدیبیہ، قصۂ باغِ فدک، واقعۂ حدیثِ کسائ، کعبہ میں دوشِ نبیؐ پر حضرت علیؑ کی بُت شکنی کا واقعہ، درِ زہراؑ پر ستارے کے اُترنے کا واقعہ، واقعۂ مباہلہ، صلحِ امام حسنؑ کا واقعہ، فطرس کو بال و پر ملنے کا واقعہ، واقعۂ رجعتِ خورشید اور اسی قبیل کے دیگر واقعات کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں لیکن آپ درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے کہ ان میں کسی مقام پر بھی شعریت کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ وہ وصف خاص ہے جو خاص وحید ہاشمی کے لیے وقف ہے۔
آ نہیں سکتے پیمبرؐ تک پیمبرؐ کے عدو
ان کی نظروں میں تھا اِک لشکر ابوطالبؑ کا نام
……
ہم اس لیے تعظیم خدیجہؑ کے ہیں قائل
ایمان سے وابستہ ہے عرفانِ خدیجہؑ
……
یہ بھی اِک فخر ہے علیؑ کے لیے
تیغ نازل ہوئی انہی کے لیے
……
عزت یہ کہ آئے ہیں اسی در پہ فرشتے
رفعت یہ کہ اُترا ہے ستارہ اسی گھر میں
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں میں صرف اظہارِ عقیدت اور بیانِ مودّت ہی نہیں بلکہ ان میں عصری حقائق کی پیش کش بھی ملتی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اگر کسی بھی قسم کی شاعری میں عصری حسّیت اور معاشرتی رویوں کی نگہداری نہیں ہو گی تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتی۔ وحید ہاشمی نے اپنی منقبتوں میں جہاں محمد ؐ و آلِ محمدؑ کی مدح سرائی کی ہے اور ان کے کمالات و معجزات بیان کیے ہیں وہاں انہوں نے ان کے طرزِ عمل اور اسوۂ حسنہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ آپ ان کی منقبت کے درج ذیل تین اشعار ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ وہ کس طرح آلِ نبیؐ کو زمانے کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں :
ذرا پکار کے آفت میں کوئی دیکھے تو
ہر اِک بلا سے بچاتا ہے نامِ آلِ نبیؑ
تمہارے بس میں نہیں ہے حصولِ امن و اماں
یہاں نہ لاؤ گے جب تک نظامِ آلِ نبیؑ
ڈروں وحیدؔ میں کیوں گردشِ زمانہ سے
مری نگاہ میں ہے صبح و شامِ آلِ نبیؑ
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کے نزدیک معاشرتی خرابیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ آلِ محمدؐ کا صالح نظام نافذ کیا جائے۔ جو لوگ اس نظام الٰہی یا مرکز نورانی سے دور ہو جاتے ہیں عمر بھر کی روسیاہی اور ظلمتِ
شب ان کا نصیب بن جاتی ہے اور زمانے سے ان کا نام و نشان ہی نہیں سلسلۂ نسب بھی مٹ جاتا ہے۔ وحید ہاشمی اسوۂ اہلبیتؑ کو کامیابی و کامرانی کا قرینہ سمجھتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اگر عصرِ حاضر میں ہم سب مل کر اپنے ذہنوں میں بسے ہوئے جھوٹے خداؤں کے بتوں کو مسمار کر دیں تو آج بھی دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ آپ ان کی مختلف منقبتوں کے درج ذیل اشعار دیکھیے کہ انہوں نے ہمارے معاشرے کے کن عیوب کی نشاندہی کی ہے اور ان کی اصلاح کا کیا طریقہ وضع کیا ہے۔
ہزاروں ظلم کے طوفاں ڈبو نہیں سکتے
ہماری کشتی کا موجود ناخدا ہے ابھی
……
اختلافاتِ فروعی کی کوئی بات نہیں
غم تو اس بات کا ہے بک گئے سستے کتنے
……
یہ تو تاریخ سے پوچھو وہی بتلائے گی
چھوڑ کر ان کا عمل دہر میں بھٹکے کتنے
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کے کلام میں ’’جوش و جذبہ‘‘ کثرت سے ملتا ہے۔ ان کے ہاں جوش سطحی الفاظ یا دھواں دھار خیالات کے باعث پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ وہ جوش ہے جو خلوص کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔ شاعر دو طرح سے اپنے اشعار میں جوش پیدا کر سکتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ جوشیلے، متحرک اور زور آور الفاظ استعمال کر کے اپنے قاری کے اندر جوش و خروش پیدا کر دے۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ حق و صداقت کی گرم جوشی کا سہارا لے کر اپنے خیالات کو زیادہ زورآور بنائے تاکہ اس کا قاری اس کے جذبے کی حدّت سے اپنے اندر جوش و خروش محسوس کرے۔ وحید ہاشمی کی منقبتوں میں جذبات و صداقت کی حدِّت رواں دواں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وحید ہاشمی اپنے قاری کے اندر ایسا جوش و جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو اعلیٰ اخلاقی قدروں کے فروغ کے لیے کام آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے دل کی صداقت اگر قاری کے دل و دماغ کو معطر کر دے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی خوبی نہیں ہو سکتی۔
آپ وحید ہاشمی کے درج ذیل اشعار کا مطالعہ فرمائیے کہ انہوں نے کس طرح اپنے منقبتی اشعار میں جوش و جذبہ پیدا کیا ہے :
ہاتھ میں میرے علیؑ کے عشق کی پتوار ہے
اب سمندر میں بھی میں ڈوبوں تو بیڑا پار ہے
……
جو فاطمہ زہراؑ کی اطاعت نہ کرے گا
مر جائے گا جنت کی زیارت نہ کرے گا
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں میں سادگی اور سلاست کے باوجود صنائع بدائع کا برمحل استعمال ان کی ہنر مندی پر دال ہے۔ ان کی شاعری دراصل دل کی آواز ہے اور اس میں سے نکلی صدائیں ہشت پہلو نگینہ ہوتی ہیں جس میں تشبیہات و استعارات کی چمک دمک بھی ہتی ہے اور تراکیب و مرکبات کی جدِّت بھی۔ سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی ہنر مندی یہ ہے کہ انہوں نے صنائع بدائع کو اپنی منقبتوں کا حُسن و زیور بنایا ہے۔ مقصد و منتہیٰ نہیں۔ آپ ان کے درج ذیل اشعار کا مطالعہ فرمائیے اور ان کی صناعانہ ہنر مندیوں کی داد دیجیے۔
حرم کی گود میں اس طرح بو ترابؑ آئے
نبیؐ کے قلب پہ جیسے کوئی کتاب آئے
(تشبیہ)
قرطاس و قلم ان کے اشارے کے ہیں پابند
دنیا میں یہی باعثِ تخلیق ادب ہیں
(صنعت مراعاۃ النظیر)
اس معروضے کے آغاز میں راقم الحروف نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ عصمت مآب اور پاکیزہ اوصاف شخصیات ہی اقوام و افراد کی کردار سازی کی اہل ہو سکتی ہیں۔ سیّد وحیدالحسن ہاشمی نے اپنی منقبتوں کے ذریعہ یہ بات ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ محمدؐ و آلِ محمدؑ و ہ عظیم المرتبت نفوس ہیں جو کائنات کی ہر چیز کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ وحیدالحسن ہاشمی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے استدلال، تفکر اور شاعرانہ ہنر مندیوں سے اپنی منقبتوں کو دورِ جدید سے منسلک کر دیا ہے۔ اب ان کی منقبتوں کے مطالعہ کے بعد بلا خوف و تردد کہا جا سکتا ہے کہ عصرِ حاضر میں وحید ہاشمی نے اس صنف کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے اور جب تک صنف منقبت زندہ ہے سیّد وحیدالحسن ہاشمی کا نام زندہ و پائندہ رہے گا۔ تاہم وحید الحسن ہاشمی ہر صاحبِ دل سے یہی کہہ رہے ہیں کہ ؎
اس قدر زمانے میں مرتضیٰؑ کے احساں ہیں
لاکھ منقبت کہئے حق ادا نہیں ہوتا
٭٭٭
قیس فریدی کا سرائیکی مرثیہ
ویندیں تا ونج توں ویرن پر گالھ ہک مکائی ونج
واگاں کڈان ولیسیں اِتنی میکوں ڈسائی ونج
پردیس ڈوں پیا ویندیں ھے پندھ سَے کوھیندا توں ہدیں جلدی وَلساں پَر دل نہیں منیندا
اوکھا سفر نظر دے ایہ ذوالفقار چائی ونج
رب دی امان ہو وی زہراؑ اماں دا جایا جیندے ولا پئے مِل سُوں جیکر خدا ملایا
اصغر ؑ کوں وہندی واری ہک گلکڑی پوائی ونج
وچ کربلا دے سیّد جاں آن ڈیرہ لایا جبریل نے خدا دا پیغام آ سنایا
وعدہ حسینؑ آ گئے اج کھڑ تے گھر لٹا ئی ونج
کوثر دے مالکاں تے کئی تیر وسدے رہ گئے پانی دی بوند کیتے معصوم تسدے رہ گئے
فرمان قیسؔسن تے دلدل نے گوڈی لائی ونج
٭٭٭
سلام
سید وحیدالحسن ہاشمی (لاہور)
یہ اختیار کتنا وسیع و بلند ہے
سارا جہاں حسینؑ کی مٹھی میں بند ہے
بدلا ہے کربلا میں تقاضائے انقلاب
نیزے پہ اب جو سر ہے وہی سربلند ہے
کیا ان کی ہمتوں پہ کوئی تبصرہ کرے
بچہ بھی جن کے گھر کا شہادت پسند ہے
ہر قوم چاہتی ہے کہ ہو جائے خود اسیر
اتنی حسینّت کی موثر کمند ہے
ایوانِ انبساط میں جنت نہ کر تلاش
یہ تو غم حسینؑ کے آنسو میں بند ہے
دیکھے جہاں حسینؑ کی آغوش کا کمال
ہے تیر پست گردنِ اصغرؑ بلند ہے
اب اس سے بڑھ کر رنگِ مساوات کیا ملے
فرشِ عزا پہ پست نہ کوئی بلند ہے
یہ دل پہ منحصر ہے مبارک تمہیں ہنسی
مجھ کو غمِ حسینؑ مین رونا پسند ہے
٭٭٭
سلام
سید وحیدالحسن ہاشمی
یہ تو عمرِ جاوداں بتلائے کیسے بڑھ گئے
وقت پیچھے رہ گیا شبیر آگے بڑھ گئے
یہ تو حق کی معرفت سے پوچھنے کی بات ہے
کیوں جہاں میں کربلا والوں کے رتبے بڑھ گئے
اب نہ ایسا معرکہ دیکھے گی چشمِ کائنات
تیر اُدھر نکلے ادھر بچوں کے سینے بڑھ گئے
ہم بتاتے ہیں سنو کیا ہے زمینِ کربلا
کتنی ہمت آفریں تاثیر ہے اس نام میں
یا حسینؑ آیا لبوں پر اور کلیجے بڑھ گئے
یہ جگہ وہ ہے جہاں صدیوں سے لمحے بڑھ گئے
لے کے اب چاند تاروں کو نکل آئے حسینؑ
جب جفا کاروں کے قد سے ان کے سائے بڑھ گئے
تیر کھا کر مسکرانا زخم کھا کر جھومنا
جان دینے میں جواں مردوں سے بچے بڑھ گئے
اے غلامانِ شہیدِ کربلا تم پر سلام
مرتبے والوں میں کیا آئے کہ رتبے بڑھ گئے
٭٭٭
سلام
سید وحیدالحسن ہاشمی
اگر یہ علم نہیں غم ہے کیا خوشی کیا ہے
چلو حسینؑ سے پوچھیں کہ زندگی کیا ہے
غمِ حسینؑ سے پہچان آدمیّت کی
حسینؑ ہی پہ نہ رویا تو آدمی کیا ہے
حبیب ابنِ مظاہر تمہارے صدقے میں
کھلا یہ کرب و بلا میں کہ دوستی کیا ہے
تلاشِ سجدۂ حق میں اِدھر اُدھر نہ پھرو
جبینِ شاہؑ کہے گی کہ بندگی کیا ہے
علیؑ کے علم کا کرنے چلا ہے وہ دعویٰ
جسے خبر ہی نہیں کہ بوذریؓ کیا ہے
بتا رہا ہے ریاست کو حر کا ٹھکرانا
کرے ضمیر ملامت تو نوکری کیا ہے
بس ایک مقتلِ شبیرؑ کی زمیں ہے جہاں
بجھے چراغ بتاتے ہیں روشنی کیا ہے
زمینِ گرم پہ دیکھی حسینؑ کی جو نماز
پیہ چلا ہے فرشتوں کو آدمی کیا ہے
٭٭٭
سلام
سید وحیدالحسن ہاشمی
یہ قلوبِ نوعِِ انساں کے بہت نزدیک ہے
کربلا اک خطۂ ارضی نہیں تحریک ہے
اے مسلمانو حسینؑ ابنِ علیؑ کا ساتھ دو
ان کی مرضی، مرضیِ حق کے بہت نزدیک ہے
جل رہی ہے سینۂ اقوام میں شمعِ حسینؑ
اس سے بچ کر جو بھی رستہ ہے بہت تاریک ہے
کچھ تو گزرا ہے جو بیٹا کہہ رہا ہے دشت میں
آئیے بابا فرشتہ موت کا بہت نزدیک ہے
آج عالم کی نگاہیں ہیں علی اصغرؑ کی سمت
لوگ سمجھے تھے صدائے بے زباں باریک ہے
اہلِ فسق و جور نکلے شام سے جب زر بدست
دی صدا شبیرؑ نے فاسق کی بیعت بھیک ہے
کہہ گئے شبیرؑ صف آرا ہو باطل سے مگر
تجزیہ کر لو ذرا اپنی بھی نیت ٹھیک ہے
جو خلوصِ دل سے روتے ہیں غمِ شبیرؑ میں
ان عزا داروں سے جنت کی فضا نزدیک ہے
٭٭٭
سلام
خاور اعجاز (اسلام آباد)
سُنا جو سنگِ زمانہ نے ماجرائے حسینؑ
تو اُس کا دِل بھی تڑپنے لگا برائے حسینؑ
حسینؓ مجھ پہ بھی لازم ہے صبر کی تعظیم
حسینؓ ! کیسے مِرے لب پہ آئے : ہائے حسینؑ
رہِ وفا میں جو معیارِ اِستقامت ہے
کہیں نظر نہیں آتا ہمیں سوائے حسینؑ
وہ سرگذشت جسے کربلا بھی کہتے ہیں
اُسی کا نام سرِ عرش ہے ’’ وفائے حسینؑ ‘‘
فرازِ عرش پہ کرتا ہے ثبت مہرِ وفا
زمینِ شوق پہ سجدے میں سر جھکائے حسینؑ
یہ سوچتا ہے سرِ نیزہ حمد کرتے ہُوئے
یہ سر بلندیاں اَب کس کو سونپ جائے حسینؑ
فراتِ وقت پہ جب کٹ گئی زباں میری
مجھے تسّلیاں دینے لگی نوائے حسینؑ
مِرے خدا مَیں گِروں جب لہو لہو ہو کر
تو میرے جسم سے لپٹی ہو خاکِ پائے حسینؑ
٭٭٭
سلام
خاور اعجاز
اگرچہ قافلہ تو مختصر حسینؑ کا ہے
مگر زمین و زماں ، بحر و بر حسینؑ کا ہے
یہ تیرگی جو ہے گھیرے ہُوئے، یزید کی ہے
وہ روشنی ہے جہاں پر وہ گھر حسینؑ کا ہے
جھکی ہُوئی ہیں جہاں گردنیں زمانے کی
اُٹھا ہُوا وہاں نیزے پہ سر حسینؑ کا ہے
بِچھی ہُوئی ہے رہِ کربلا مِرے لیے بھی
مِرے سفر میں بھی جاری سفر حسینؑ کا ہے
شجر کا بیج لگا اسمٰعیلؑ کے ہاتھوں
اور اس پہ سبزہ و برگ و ثمر حسینؑ کا ہے
٭٭٭
سلام
خاور اعجاز
لِکھتا زمانہ مجھ کو بھی ورثہ حسینؑ کا
ہوتا مَیں کاش نقشِ کفِ پا حسینؑ کا
پاؤں میں تھا فرات اور آنکھوں میں ریت تھی
صحرا حسینؑ ہی کا تھا، دریا حسینؑ کا
ہم جس ہوائے صدق میں لیتے ہیں سانس اَب
سچ پوچھیے تو یہ بھی ہے صدقہ حسینؑ کا
دشمن یہ پوچھتا ہے : ’’ تجھے کیا قبول ہے ؟ ‘‘
مَیں انتخاب کرتا ہُوں رستہ حسینؑ کا
آئینۂ وفا کبھی دھندلا نہیں ہُوا
اس میں چمکتا رہتا ہے چہرہ حسینؑ کا
٭٭٭
سلام
خاور اعجاز
کسی شمار میں ہو میرا نام ابنِ علیؑ
قبول کیجیے میرا سلام ابنِ علیؑ
زمین بنتی گئی آسمان کا ٹکڑا
جہاں جہاں رہا تیرا قیام ابنِ علیؑ
تِرے ہی ذکر سے روشن حروف کی بستی
چراغِ فکر ہے تیرا کلام ابنِ علیؑ
فراتِ اشک لیے ہم غلام حاضر ہیں
ہے اپنے بس میں یہی اہتمام ابنِ علیؑ
ہمارے لفظوں میں کیونکر بیان ہو پائے
وہ کربلا کے شہیدوں کی شام ابنِ علیؑ
٭٭٭
سلام
گستاخ بخاریؔ (جھنگ)
کہاں یزید کا دربار زندہ رہتا ہے
مگر حسینؑ کا انکار زندہ رہتا ہے
حصولِ مقصدِ اولی تہِ مودّت ہے
یہ پیار ہے جو سرِ دار زندہ رہتا ہے
زوال دین کو ہرگز بھی آ نہیں سکتا
اگر حسینؑ سا پندار زندہ رہتا ہے
ترے بغیر حیاتِ دوام ناممکن
حسینؑ تیرا طلب گار زندہ رہتا ہے
فنا لکھی گئی ہر شے کے واسطے لیکن
عظیم تر ہو جو کردار زندہ رہتا ہے
کہیں پر حضرت عباس ساجری کردار
کہیں پر حُر سا وفادار زندہ رہتا ہے
رہی ہے فتح ہمیشہ نتیجہ گفتار
کبھی نہ جلوہ تلوار زندہ رہتا ہے
علیؓ سا باپ ہو اور فاطمہ ؓ سی ماں ہو تو
حسنؑ حسینؑ کا انوار زندہ رہتا ہے
حسینؑ نام کا اعجاز ہے کہ اس دل میں
مرے حسینؑ کا آزار زندہ رہتا ہے
فصیلِ شوق پہ لکھیں جو داستانِ حسینؑ
منیرؔ سایہ دیوار زندہ رہتا ہے
٭٭٭
سلام
گستاخ بخاریؔ
رنج ایسے نہ کبھی اہلِ جہاں نے دیکھے
امتحاں جیسے ہیں شبّیرِؑ جواں نے دیکھے
طے کیے جتنے سرِ نوکِ سناں پل بھر میں
وہ مراتب تھے کہاں کون و مکاں نے دیکھے
غمِ شبّیرؑ پہ دل گیر رہا میں صدیوں
کیا مقامات مری آہ و فغاں نے دیکھے
خوں کہیں ’’اَشھَدُاَن لَا اِلہٰ اِلا اللہ‘‘
ایسے شاہد نہ مؤذن کی اذاں نے دیکھے
میرے رحمان خدا تیری رضا تو جانے
کیسے صدمات ہیں سجادؑ کی جاں نے دیکھے
زہر آلود ہوئے جاتے تھے پیکانِ یزید
متقی تیر نے دیکھے نہ کماں نے دیکھے
زینبِؑ عالی نسب آپ کے لہجے کا غضب
رنگ اس شعلہ بیانی کے بیاں نے دیکھے
شوکتِ دینِ محمدﷺ جنہیں منظور نہ تھی
کفر کے طنطنے انبوہِ سگاں نے دیکھے
تو حسینؑ ابن علیؑ آلِ نبیﷺ ہے لا ریب
نام لے لے کے ترا لطف زباں نے دیکھے
ایک گستاخؔ تری مدح کا متمنی ہے
جب سے جبریل کے ہیں ربط گماں نے دیکھے
٭٭٭
سلام
گستاخ بخاریؔ
شعورِ نورِ مہ و سال زندہ رہتا ہے
غمِ حسینؑ بہ ہر حال زندہ رہتا ہے
یزیدیوں کے رویوں کی راکھ اُڑتی ہے
پہ کربلاؤں کا اجلال زندہ رہتا ہے
جبالِ شر کا مقدر ہے ریگ ہو اُڑنا
ہمیشہ خیر کا مثقال زندہ رہتا ہے
ورودِ حضرتِ شبّیرؑ عصر کی خواہش
اگر رویۂ دجال زندہ رہتا ہے
شہیدِ دینِ مبیں شیر خوار و پیر و جواں
کہ جن کے عزم سے اقبال زندہ رہتا ہے
رہے گا حشر تلک دینِ مصطفیٰﷺ لا ریب
جو ذکرِ سیّدِ احوال زندہ رہتا ہے
مداومت میں ہے اسلام کے شجر کا نمو
دلوں میں اپنے وہ لج پال زندہ رہتا ہے
مسالمے کی ہو صورت کہ وعظ و مجلس ہو
مرے حسینؑ کا چوپال زندہ رہتا ہے
زمانہ کتنا بھی گستاخ ہو مگر گستاخؔ
محبتوں کا یہ سلسال زندہ رہتا ہے
٭٭٭
سلام
گستاخ بخاریؔ
ہر روز بڑھ رہی ہے عقیدت حسینؑ کی
دل بھولتا نہیں ہے شہادت حسینؑ کی
نیزے کی نوک پر سرِ صحرائے کربلا
اِک پھول کہہ رہا تھا حقیقت حسینؑ کی
تھا معرکہ بپا حق و باطل کے درمیاں
ذلت رہی یزید کی، عزّت حسینؑ کی
کنبے کے فرد فرد کو قربان کر دیا
دیکھی فلک نے آج اطاعت حسینؑ کی
تحصیلِ سلطنت نہ تقاضائے مملکت
احیائے دینِ پاک تھی غایت حسینؑ کی
ایک ایک بات حُسنِ نبیﷺ اور علیؑ کا روپ
دیکھیں تو آپ غور سے سیرت حسینؑ کی
یارب فقط یہ ایک دعا مستجاب کر
لکھ دے میرے نصیب میں بیعت حسینؑ کی
گستاخؔ اپنے آپ کو زندہ نہ جانیو
دل میں اگر نہیں ہے محبت حسینؑ کی
٭٭٭
سلام
گستاخ بخاریؔ
دین فطرت دیدۂ فطرت حسینؑ
رہبر و مینارۂ ملت حسینؑ
آ رہی ہے کام ہر مظلوم کے
اب تمہارے نام کی طاقت حسینؑ
لا اِلہ کا آپ نے رکھا بھرم
مصطفائی! مرتضیٰ عترت حسینؑ
ہم نے دیکھی تو نہیں محسوس کی
تیری حفظِ دین کی شدت حسینؑ
کامیاب و کامراں ہونا ترا
مل گئی اسلام کو نصرت حسینؑ
ذکر تیرا ہر گھڑی ہر پل کریں
کھل رہی ہے یوں تری چاہت حسینؑ
اک جہانِ حکمت و تنویر سے
کر رہا ہے آج بھی خدمت حسینؑ
زندہ و پائندہ تر سردارِ خلد
بانٹتا ہے روز ہی جنت حسینؑ
ابنِ حیدر اور لحمِ مصطفیٰﷺ
کیسے کرتا کفر کی اطاعت حسینؑ
کوئی جتنا بھی یہاں گستاخؔ ہو
ہم کریں گے پر تری مدحت حسینؑ
٭٭٭
سلام
گستاخ بخاریؔ
تفسیرِ لا اِلہ کرے بے خطر حسینؑ
صبر و رضا، خمارِ وفا، معتبر حسینؑ
وہ کاروانِ عشق شہادت کا بادشاہ
اصغرؑ سے پھول جس کے رہے ہم سفر حسینؑ
دوچار مشکلات سے تھا دینِ مصطفیٰﷺ
آمادہِ قتال نہ تھا بے ضرر حسینؑ
اے کربلا سنبھال کے رکھ چشمِ معرفت
عرفان کا کمال ہے شمس و قمر حسینؑ
آئے کہیں نہ ایسے بہتّر نگاہ میں
جن کی نگہ میں کوئی نہ بہتر مگر حسینؑ
تبلیغ کے مزاج سے کرتے ہیں آشنا
اسلام کے عظیم تریں نامہ بر حسینؑ
وہ بادشاہِ دہر بھی اور شاہِ خلد بھی
سر سبز کر گئے دیں کا شجر حسینؑ
اعجاز ہے یہ ان کے لہو کا کہ حشر تک
لکھا رہے گا قلبِ مسلمان پر حسینؑ
ہوتی ہے روز روز بپا کربلا یہاں
چارہ گروں میں ہو تو چارہ گر حسینؑ
گستاخؔ جل رہے ہیں مقامِ حسینؑ سے
راہِ حسینؑ ایسی کہ اب ہر ڈگر حسینؑ
٭٭٭
سلام
گستاخ بخاریؔ
ترے لہو پہ ہیں قرباں گلاب اور صندل
حسینؑ تیری شہادت شہادتِ افضل
وہ احترامِ رضائے خدائے واحد تھا
ہوئی جو خونِ امامت سے کربلا جل تھل
کہیں نہ قطرۂ شبنم کہیں نہ جرعۂ آب
سرِ فلک وہاں کتنے اُداس تھے بادل
نڈر حسینؑ سا کب کائنات دیکھے گی
سجا رہا تھا جو بچوں کے خون سے مقتل
فدائے عترتِ شبّیر ہو گئے بازو
سنبھالتے رہے عباس آب کی چھاگل
غمِ حسینؑ میں رونے دے ہم کو جی بھر کے
تھمیں گے اشک تو ڈالیں گے اشک میں کاجل
فقط یہ معجزۂ خونِ آلِ صلِّ علیٰ
اذان بولتی پھرتی ہے دین کی کوئل
ہے عزم اور ارادہ غلامِ صدق و صفا
حسینؑ آپ نے اسلام کر دیا صیقل
مرے حسینؑ تجھے سرخرو تو ہونا تھا
تری بلائیں تھے لیتے محمدِ مرسلﷺ
ہے تیرے چاہنے والوں کا دل حسین نگر
کبھی بسے نہیں گستاخؔ نام پر جنگل
٭٭٭
سلام
گستاخ بخاریؔ
نفس کا اور زباں کا تزکیہ کر
بیاں شبّیرؑ کا پھر واقعہ کر
اگر تجدید ایماں ہے ضروری
حسینؑ ابنِ علیؑ کا تذکرہ کر
مثال نقطۂ تنظیم رہ لے
حسینی زندگی کو دائرہ کر
تیرے دل میں کسک کتنی ہے دیں کی
ذرا تنہائیوں میں تجزیہ کر
کھلیں تجھ پر سدا ابوابِ رحمت
تو آلِ مصطفیٰﷺ سے رابطہ کر
غم شبّیرؑ پر گریاں نہیں تُو
تو پھر تبدیل دل کا زاویہ کر
یہاں ظلمات کے سب سلسلوں میں
بپا شبّیریت سے راستہ کر
نواسہ ہے محمد مصطفیٰ ﷺ کا
حسینؑ ابن علیؑ کو رہنما کر
حسینؑ ابن علیؑ جیسا نہ کوئی
وسیلہ کر انہیں باضابطہ کر
بہت گستاخؔ دنیا دیکھ لی
ضمیر و قلب کو اب آئنہ کر
٭٭٭
سلام
گستاخ بخاریؔ
جو حشر پردۂ عاشور میں دکھائی دیا
حسینؑ کچھ بھی ہمیں تو نہیں سجھائی دیا
جہان بھر کے سخی کربلا میں دیکھے گئے
کیا ہے لعل تصدّق، کسی نے بھائی دیا
عجیب ہے کہ سرِ دار یزد نے شہ کو
شعورِ ذات دیا عرفِ آشنائی دیا
وہیں حسینؑ نے تکمیل دین کی کی ہے
جہاں یزید نے پیغامِ کج ادائی دیا
خدا کا شکر ہے غوغائے کارِ دنیا میں
مجھے تو نام ہی شبیرؑ کا سنائی دیا
بہ غور دیکھیے تاریخ کی حقیقت نے
حسینیت کو ہی اعزازِ رہنمائی دیا
ہوا نہ کوئی بھی تیار چھوڑ جانے کو
بجھے چراغ نے گو نامۂ رہائی دیا
حسینؑ تو نے معلّیٰ کیا ہے کرب و بلا
ترے لہو نے اسے رنگِ خوشنمائی دیا
حسینؑ تو نے انھیں بولنا سکھایا ہے
کہ جن کو ظلم نے بس اِذنِ بے نوائی دیا
تجھے حسینؑ کا مسند نظر نہیں آتا
کہاں سے ڈھونڈھے گا گستاخؔ رُونمائی دیا
٭٭٭
سلام
ادیب رائے پوری
آیا نہ ہو گا اس طرح رنگ و شباب ریت پر
گلشنِ فاطمہؑ کے تھے سارے گلاب ریت پر
عشق میں کیا بچائیے، عشق میں کیا لٹایئے؟
آلِ نبیؐ نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
جتنے سوال بھی کیے آلِ نبیؐ سے عشق نے
ایک سے بڑھ کر ایک دیا سب نے جواب ریت پر
تر سیں حسینؑ آب کو، میں جو کہوں تو بے ادب
لمسِ لبِ حسینؑ کو ترسا ہے آب ریت پر
جانِ بتولؑ کے سوا کوئی نہیں کھلا سکا
قطرۂ آب کے بغیر اتنے گلاب ریت پر
آلِ نبیؐ کا کام تھا آلِ بنیؐ ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیبؔ ایسی کتاب ریت پر
٭٭٭٭
سلام
و نذرانۂ عقیدت
انور جاوید ہاشمی
سرا پا صبر و رضا، زندگی د وا م لقب
سلام ابنِ علیؑ، سیدالانام لقب
سلام وا د ی ٗ غر بت کے تاجدار سلام
سلام را ہِ شہادت کے شہ سوار سلام
سُنی تو ہو گی فلک سے صدا سکینہ کی
گوا ہی دیتی رہے کر بلا سکینہ کی
وہ کر بلا کہ جہاں آ ج بھی ہے نہرِ فُرات
جہاں پہ لُوٹا گیا پہلا کا ر وا نِ حیا ت
مثا ل جس کی ز ما نہ کہیں سے لا نہ سکے
بتا رہے ہیں سبھیا و ر کو ئی بتا نہ سکے
و ہ یو مِ حشر کا آ ثا ر کربلا ہی تو ہے
سزا جزا ؤں کا معیار کر بلا ہی تو ہے
ہے حُبِ آلِ محمدؐ ہی جزو ایمانی
پکا ر نے سے جنہیں دُ و ر ہر پر یشا نی
سلا م ابنِ علیؑ سید ا لا نام لقب
شبیہِ نُورِ محمدؐ ترے تما م لقب
٭٭٭
سلام
اختر ہاشمیؔ
سارے جہاں میں دھوم شکستِ قضا کی ہے
اب جس طرف بھی جائیں ہوا کربلا کی ہے
اب روکنے سے رک نہیں سکتا غمِ حسینؑ
زندہ رہے حسینؑ یہ مرضی خدا کی ہے
کیسے بھلا دیں ذکرِ علمدارِ کربلا
ہم کیا کریں کہ دل پر حکومت وفا کی ہے
پیاسی خدا کی فوج ہے جاری مگر سبیل
آبِ فرات کی نہیں آبِ بقا کی ہے
میری جبیں جو حشر میں ہے مرکزِ نگاہ
تاثیر ہے یہ طہارتِ خاکِ شفا کی ہے
کانٹوں کو جس نے اپنے بدن کا لہو دیا
ہمت جہاں میں صرف یہ زین العباؑ کی ہے
اخترؔ مجھے ملا ہے جو گنجینۂ نقاط
برکت مرے سخن پہ حدیثِ کسا کی ہے
٭٭٭
سلام
حسن عباس رضاؔ (اسلام آباد)
راہِ وفا میں نکلو، تو پھر گھر نہیں رہتا
آنکھ میں آنسو، اور شانوں پہ سر نہیں رہتا
جن سینوں میں تیر ترازو ہو جاتے ہیں
اُن سینوں میں کسی یزید کا ڈر نہیں رہتا
یثرب سے تا شام مسافت جتنی کڑی ہو
راہ میں کربل آئے تو رنجِ سفر نہیں رہتا
سنگِ رہِ دنیا بھی اگر اُس خاک کو چھو لے
تو پارس ہو جاتا ہے وہ، پتھر نہیں رہتا
وہ حُر ہو، یا حسن رضاؔ سا شاعر کوئی
آئے اِدھر اک بار، تو پھر وہ اُدھر نہیں رہتا
٭٭٭
عشق کی دہلیز پر
غالب عرفانؔ (کراچی)
زینہ زینہ شانہ شانہ سوئے راہ ارتقا
زندگی کو زندگی نے آئینہ دکھلا دیا
بڑھ رہے تھے ریگزاروں میں خودی کے قافلے
ہر خودی جلوہ فگن تھی حشر سامانی لئے
سلسلہ گمراہیوں کا جب نہ روکا جا سکا
دور تک خود داریوں کو صف بہ صف دیکھا گیا
پھر خلافت پر مملوکیت کا سایہ پڑ گیا
اور حسینؑ ابنِ علیؑ نے زندگی کو تج دیا
وہ لہو جو بہہ چکا ہے کربلا کی خاک پر
تا ابد روشن رہے گا فہم و ادراک پر
روح میں اسلام کا سودا سمایا تھا کہیں
ذہن میں خود غرضیوں کا رنگ آیا تھا کہیں
حق کا پرچم اوج پر لہرا رہا اک طرف
ظلم کی آنکھوں پہ پردا آ رہا اک طرف
خون آخر خون ہے اُس خونِ اقدس کی قسم
جس نے لہرایا ہے بہہ کر بھی صداقت کا علم
سوچئے تو ہر قدم پر دعوتِ ایمان ہے
زندگی قربانیوں کی راہ کا عرفانؔ ہے
فلسفہ کیا ہے شہادت کا سمجھنا ہے اگر
سر بکف جانا پڑے گا عشق کی دہلیز پر
٭٭٭
بچھا تھا خوں کا مصلّیٰ حسینؑ سے پوچھو
حیات رضوی امروہوی (کراچی)
مقامِ صبر و تولّیٰ حسینؑ سے پوچھو
یہ رمز حاشا و کلاّ حسینؑ سے پوچھو
عروجِ اوجِ عزیمت ہے جس پہ فائز ہیں
کہاں ہے عرشِ معلّیٰ حسینؑ سے پوچھو
وہ جس کے شانوں پہ گذرا حسینؑ کا بچپن
وہ نامِ میمِ مجلّیٰ حسینؑ سے پوچھو
وہ کیسی رشکِ جناں تھیں مدینے کی گلیاں
مدینہ جس کا محلہ حسینؑ سے پوچھو
ہوا جو نرغۂ دشمن تو بن گئی محراب
’’بچھا تھا خوں کا مصلّیٰ حسینؑ سے پوچھو‘‘
وہ ذوالفقارِ علی تھی کہ کوندتی تھی وہاں
علیؑ کی برقِ تجلّیٰ، حسینؑ سے پوچھو
حیاتؔ حسنِ عمل کا رسالہ تھی سیرتؐ
لکھا ہے کس نے مجلہ حسینؑ سے پوچھو
٭٭٭
سلام
افضل گوہرؔ (پھلروان)
تھک گیا جو بھی یہ طے راہگزر کرتا ہے
کون تیری طرح نیزے پہ سفر کرتا ہے
آج بھی میرے تعاقب میں ہے اک ایسا یزید
پانی مانگوں تو بدن خون سے تر کرتا ہے
کربلا اپنے تقدس کو سنبھالے رہنا
خون ایسا ہے کہ زرات کو زر کرتا ہے
سب کو رونے کا طریقہ نہیں آتا ورنہ
تیرا ماتم تو ہر اک دل میں اثر کرتا ہے
ہم حسینی ہیں ہمیں اس لئے افضل گوہرؔ
کوئی پابند کوئی شہر بدر کرتا ہے
٭٭٭
سلام
عابد خورشیدؔ (سرگودھا)
میں آنکھ سے پیاسا ہوں ، میری آس ہے عباسؑ
ہم تشنہ مزاجوں کی فقط پیاس ہے عباسؑ
وہ ایسا جری ، ایسا جری ، ایسا جری ہے
تلوار لرزتی ہے کہ میقاس ہے عباسؑ
سب کٹ چکے تو پھر میرے آقاؐ یہ پکارے
اے قافلے والوں کہیں عباسؓ ہے عباسؑ
اُس جیسا کوئی ڈھونڈ کے لاؤ گے کہاں سے؟
اِس عام سے دُنیا کے لیے خاص ہے عباسؑ
حیدرؓ کی طرح ہے تیرا اظہارِ تکلم
شبیرؓ کے جیسا تیرا احساس ہے عباسؑ
کہتا ہے مجھے آج بھی روتا ہوا عابدؔ
پانی میں ابھی خوں کی وہی باس ہے عباسؑ
٭٭٭
سلام
سید قمرؔ زیدی
ہمارے حسنِ ادب میں ہے یوں رثا شامل
کہ جیسے کارِ تنفس میں ہے ہوا شامل
پھر اُس کے بعد کہیں ایسا معجزہ نہ ہوا
کہ زندگی کی بقا میں ہوئی فنا شامل
یہ امتیاز فقط اہلِ حق کو حاصل ہے
دئیے جلانے میں خود ہو گئی ہوا شامل
علیؑ و فاطمۂ و احمدؐ و حسینؑ و حسنؑ
یہ پنجتن ہیں نہیں کوئی دوسرا شامل
یہ اہلبیتؑ ہیں اور ان کیساتھ ہوتی ہے
ہر ایک کام میں تائید مصطفیٰؐ شامل
اب اِس سے بڑھ کہ فضیلت ہو اور کیا مومن
پڑھے درود تو ہوتا ہے خود خدا شامل
وہ خاک سبطِ پیمبرؑ کا خوں گرِا ہو جہاں
تو کیوں نہ خاک میں ہو جائے پھر شفا شامل
ہمارا دیں بھی ادیانِ غیر سا ہوتا
نہ ہوتی دیں میں ہمارے جو کربلا شامل
لرز اُٹھے در و دیوارِ قصرِ شام و عرب
ہوئے جو لہجۂ زینبؑ میں مرتضے شامل
خدا کرئے کہ ہو میرا بھی کربلا جانا
مری دُعاؤں میں رہتی ہے یہ دُعا شامل
یہیں نہیں کہ میرے نام ہی میں شامل ہے
ہے میرے خون میں بھی عباس سی وفا شامل
یہ اشک پہلا ستارہ ہے عرشِ مژگاں پر
اِس ابتدا میں ہے جذبوں کی انتہا شامل
ہے مومنہ کا تشخص حجاب جانِ قمرؔ
رہے سدا تیری پوشاک میں رَدا شامل
٭٭٭
سلام
شوکت علی نازؔ (دوحہ)
واعظ ترا بیان تو کہتا کچھ اور ہے
لیکن مرے حسینؑ کا قصہ کچھ اور ہے
لکھنا ہے اِک سلام شہِ کربلا کے نام
الفاظ پاس ہیں نہ اثاثہ کچھ اور ہے
موتی سجا کے آنکھ میں شبیرؑ نام کے
مومن جو دیکھتا ہے وہ جلوہ کچھ اور ہے
پرواہ تجھ کو کیا ہو کسی تخت و تاج کی
زہرہؑ کے لال ! تیرا تو جادہ کچھ اور ہے
فرمایا جو نبیؐ نے کنارے غدیر کے
اُس قولِ حق کو تم نے کیوں لکھا کچھ اور ہے
پھر کیوں نہ آج بھی ہو لہو رنگ موج موج
عباسؑ سے فرات کا ناطہ کچھ اور ہے
سر سے ردائیں چھین کے نادان خوش نہ ہو
جنت کے ساکنوں کا لبادہ کچھ اور ہے
قصے سنا رہے ہیں یزیدانِ وقت اور
دشتِ بلا پہ خون سے لکھا کچھ اور ہے
نانا کو جا کے زہرہؑ کی جائی بتائے کیا
میدانِ کربلا کا تو نقشہ کچھ اور ہے
نادِ علی فقط ہے سبھی مشکلوں کا حل
اِس کے سوا نہ اپنا سہارا کچھ اور ہے
مہر و مہ و نجوم ہیں گریہ کناں مگر
’’شبیرؑ تیرے غم کا تقاضا کچھ اور ہے‘‘
قرآن پڑھ کے نوکِ سناں پر حسینؓہے
ذہنوں سے جو اُٹھایا وہ پردہ کچھ اور ہے
کسریٰ کے کنگنوں پہ سراقہؓ کو نازؔ تھا
اے حُر ! ترے نصیب کا گہنا کچھ اور ہے
٭٭٭
سلام
سید ارتضیٰ (لاہور)
یاحسین ابنِ علیؑ سب عزّا داروں کو سلام
تیرے غم میں آبدیدہ، دل فگاروں کو سلام
والہانہ پا برہنہ جو ترے غم میں پھریں
یا حسین ابن علیؑ ان تیرے پیاروں کو سلام
شام کے بازار میں ، سادات جو قیدی بنے
سر برہنہ پا برہنہ ان قطاروں کو سلام
کربلا میں بی بیوں کے سر سے جو نوچی گئیں
مولا پاک ان ساری پاکیزہ رداؤں کو سلام
پابجولاں جو گئے تھے جبر کے دربار میں
یا الہی جانے والے ان بیماروں کو سلام
بخش دے یارب مجھے بھی صدقۂ ابنِ بتولؑ
ارتضیؔ کرتا ہے تیرے سارے پیاروں کو سلام
٭٭٭
کربلا
کلیم احسان بٹ
حوصلہ، صبر، استقامت کا
کربلا نام ہے قیامت کا
ہم فقیروں کو کیا سناتے ہو
حکم تم بادشاہ سلامت کا
اس نے سجدے میں سر کٹا ڈالا
حق ادا کر دیا امامت کا
تم فقط شخص مار سکتے ہو
کیا کرو گے مری علامت کا
میرے شانوں پہ سر نہیں ہے کلیمؔ
بوجھ ہے بس مری ندامت کا
٭٭٭
سلام
طالب کوثریؔ (فیصل آباد)
خام ہے خامہ جو لفظِ حق نما لکھتا نہیں
سینہ قرطاس پر کرب و بلا لکھتا نہیں
جسم میں بے فیض لگتا ہے مجھے ایسا لہو
لوح دل پر جو غم شاہ ہدیٰ لکھتا نہیں
کیسا ما تھا ہے؟ یہ کہتے تھے حسین ابن علیؑ
جو کہ سجدہ گاہ پر صبر و رضا لکھتا نہیں
مومن آل محمدؐ کا بھی ہے پختہ اصول
بیعتِ فاسق کسی صورت روا لکھتا نہیں
کون سچا کون جھوٹا چاہئے حسن یقیں
وہ منافق ہے جو اب تک فیصلہ لکھتا نہیں
خانہ زہرائؑ سے غیرت کا سبق میں نے لیا
بے حیا کو صاحب شرم و حیا لکھتا نہیں
کوثریؔ کا عدل کے قانون پر ایمان ہے
اس لئے وہ رہزنوں کو رہنما لکھتا نہیں
٭٭٭
سلام
افضال نویدؔ (کنیڈا)
کِس سے کہیں نویدؔ کہ جاری ہے کربلا
پہلے سے بھی وجود پہ بھاری ہے کربلا
بُغضِ کلیسا بُغضِ حرم دونوں مِل گئے
ہر سینۂ صفا پہ دو دھاری ہے کربلا
جو خوابِ فقر چشمِ ابُوذر نے دیکھا تھا
تعبیر اُس کی ساری کی ساری ہے کربلا
جو جو سِتم ہُوئے دِلِ آدم پہ آج تک
اُن کے شُمارِ کُل پہ بھی بھاری ہے کربلا
زنجیر زن ہے کہتے ہُوئے یا حُسین دِل
سینے میں چھید کر کے اُتاری ہے کربلا
اَن ہونی ہونے نے جُوں جکڑ ڈالا وقت کو
لیل و نہارِ دہر پہ طاری ہے کربلا
پہچان کا عمل نہ ہُوا بُردبارِ چشم
بیگانگی نے حق پہ اُتاری ہے کربلا
شیرِ خُدا سے بدلۂ بُزدِل عجیب ہے
غیرت کے سر پہ ضربتِ کاری ہے کربلا
٭٭٭
امتناع کا مہینہ
اختر جعفری
٭
اس مہینے میں غارت گری منع تھی
پیڑ کٹتے نہ تھے تیر بکتے نہ تھے
بہرِ پرواز محفوظ تھے آسماں
بے خطر تھی زمیں مستقر کے لئے
اس مہینے میں غارت گری منع تھی
یہ پرانے صحیفوں میں مذکور ہے
قاتلوں راہزنوں میں یہ دستور تھا
اس مہینے کی حرمت کے اعزاز میں
دوش پر گردنِ خم سلامت رہے
کربلاؤں میں اترے ہوئے کاروانوں کی
مشکوں کا پانی امانت رہے
میری تقویم میں بھی مہینہ ہے یہ
اس مہینے کئی تشنہ لب ساعتیں
بے گناہی کے کتبے اٹھائے ہوئے
روز و شب بین کرتی ہیں دہلیز پر
اور زنجیرِ در مجھ سے کھلتی نہیں
فرشِ ہموار پر پاؤں چلتا نہیں
دل دھڑکتا نہیں
٭٭٭
سلام
اظہر ادیب (رحیم یار خان)
رات کے اندھے سفر میں روشنی کی بات ہے
میرے لب پر شیوۂ ابن علیؓ کی بات ہے
میں شمر کے وارثوں سے لڑ رہا ہوں اور یہ
ایک دو دن کی نہیں آدھی صدی کی بات ہے
رِس رہا ہے خون اس دھرتی کے زخموں سے ابھی
کربلا کا واقعہ جیسے ابھی کی بات ہے
ہم کہ تیرہ بخت تھے اب بانٹتے ہیں روشنی
مصدرِ انوار سے وابستگی کی بات ہے
کر رہے ہیں اعتبار اہل کوفہ جان کر
کیا کریں یہ سنت آلِ نبیؐ کی بات ہے
یاد آئے گی تو آنکھوں میں دھواں بھی آئے گا
جن کے خیمے جل رہے تھے یہ انہی کی بات ہے
دشمنوں نے جان کر پہچان کر مارا انہیں
کون کہتا ہے کہ نادانستگی کی بات ہے
پہلے دل کو غسل دو اشکوں سے اظہرؔ پھر سنو
وہ جو دریا تھا یہ اس کی تشنگی کی بات ہے
٭٭٭
پورا سچ
اظہرؔ ادیب
جھو ٹ کے جتنے بھی ہوں سچ کے بہتّر نا م ہیں !
٭٭٭
غمِ حسینؑ
عابد معروف مغل (گوجر خان)
کوئی آنکھ ایسی ملی نہیں جو غمِ حسینؑ میں تر نہیں
سرِ کربلا جو ہو دیں پناہ، کوئی ایسا عالی بشر نہیں
وہ جو صبر کا تھا امام حق، کوئی لے کے لشکر چلا نہیں
وہ سوارِ دوشِ رسول تھا، رکھا دشمنوں سے بھی ڈر نہیں
وہ شہید ابنِ شہید ہے، وہ شہادتوں کا ہے ناز بھی
اُسے یاد رکھے گا وقت بھی، اُسے بھول سکتا بشر نہیں
جو نہ پا سکا تیری یاد کو، وہ دل حزیں نہیں کا م کا
جو نہ رو سکا وہ یزید ہے اُسے آدمی کی خبر نہیں
تیری مجلسیں ہیں رواں دواں ، تیری روشنی سرِ اشکِ جاں
تیرا ذکر ہو نہ جہاں کبھی، نہیں ایسا کوئی نگر نہیں
٭٭٭
حسینؑ کافی حسینؑ شافی
احتشام انور
کوئی طلب ہے نہ کوئی چاہت، حسینؑ کافی حسینؑ شافی
مجھے کسی کی نہیں ضرورت، حسینؑ کافی حسینؑ شافی
وہ تھے بَہتّر مگر لڑے جب، ہزارہا کا بنے وہ لشکر
ہر ایک منبع شجیع و جرأت، حسینؑ کافی حسینؑ شافی
علَم اٹھا کر یہ چلنے والے، حسینی ہیں یہ، حسینؑ اُن کے
ہوئی ہے واجب انہیں پہ جنت، حسینؑ کافی حسینؑ شافی
وقوعِ کربل ہے اور بھلا کیا، خدا رسیدہ کا عہدِ ایفا
تھی اس کے باطن میں بوئے وحدت، حسینؑ کافی حسینؑ شافی
یزیدیوں نے جو جا کے دیکھا، عجب ہی عالم تھا بیبیوں کا
ہر ایک پیکر تھا جاہ و حشمت، حسینؑ کافی حسینؑ شافی
بلندیوں کا وہ استعارہ، ہے روشنی کا وہ اک مِنارہ
علیؑ کا بیٹا بنائے حکمت، حسینؑ کافی حسینؑ شافی
یزیدیوں سے نکل کے حرؔ نے کہا یہ ابنِ علیؑ سے جا کر
حسینؑ میرا شہودِ وحدت، حسینؑ کافی حسینؑ شافی
مناؤ مل کر حسینؑ کا غم، شہیدِ کربل کا ہے یہ ماتم
کہے گی انورؔ یہ ساری امت، حسینؑ کافی حسینؑ شافی
٭٭٭
مَن عَرَفَ۔۔
طاہر حنفی (اسلام آباد)
٭
دُکھوں کے خیمے کا
اک مکیں ہوں
یہ جانتا ہوں
کہ عافیت کے اداس لمحے
بھنور بھنور ساعتوں میں اترے ہیں
اس بدن کے تمام ذروں پہ
مل کی چمنی سے
اُٹھنے والے دھوئیں نے
سر پوش رکھ دیا ہے
سحر کے ماتھے پہ یہ لکھا ہے
کہ ہر بقا کو فنامیں ڈھلنا ہے
ہر فنا کو بقا میں رہنا ہے
دکھ کے خیمے کے بھٹکے بچوں سے
بے زباں ساتھیوں سے کہنا
کہ اپنی پہچان زندہ رکھیں
کہ کل کو جب حشر ہو سبھی کا
تو اپنے خیموں کو لوٹ جانے
کے راستے ان
کے منتظر ہوں
٭٭٭
سلام
میثم علی آ غا (سیالکوٹ)
جو جانا چاہے چلا جائے اُٹھ کے خیمے سے
یزید وقت کی جنگ ہے مرے قبیلے سے
میں ایک آیۂ تمہید ہوں مگر دنیا
مجھے نکال رہی ہے نئے صحیفے سے
تُو مجھ سے بیعتِ باطل طلب نہ کر کہ کبھی
مری بنی نہ بنے گی تیرے سقیفے سے
بلا رہا ہے مرا دشت سو میرے آقا
میں جا رہا ہوں قبیلہ لئے مدینے سے
زمانہ سیکھے گا تہذیب کربلا سے میاں
یہاں سے روشنی پھوٹی چراغ بجھنے سے
شمر نے کاٹ کے گردن ابھی اٹھایا تھا سر
حسینؑ پھر سے نکل آئے اپنے خیمے سے
٭٭٭
سلام
میثم علی آغا
اے شہہ جورو جفا تجھ پہ ترے دار پہ خاک
دشمن، آل عبا تجھ پہ ترے یار پہ خاک
حلقِ کم سن میں لگا تیر تو آواز آئی
ظالما تیری سپہ پہ تیرے سالار پہ خاک
تو نے چاہا حسین ابن علیؑ مٹ جائے
اے جگر خوارہ کے بیٹے تیرے افکار پہ خاک
ہم جو گلیوں میں چلے آتے ہیں ماتم کرتے
ڈالنے آتے ہیں تجھ پر تیرے کردار پہ خاک
تو نے تطہیر کی آیات کو بے پردہ کیا
تجھ پہ اللہ کی لعنت تیرے دربار پہ خاک
بھیڑ بازار کی بڑھتی ہے تو چیخ اُٹھتا ہوں
شام اے شام تیرے کوچہ و بازار پہ خاک
اک تہہ تیغ کے سجدے نے ہمیشہ کے لئے
ڈال دی ظلم تیرے جُبّہ و دستار پہ خاک
٭٭٭
فنا فی المرشد
محمد محمود احمد (میانوالی)
جب کسی نامور قبیلے کا
کوئی سردار دیکھتا ہوں میں
جب بھی سنتا ہوں ٹاپ گھوڑے کی
اور تلوار دیکھتا ہوں میں
یا علیؑ آپ یاد آتے ہیں
رافعہ پوچھتی ہے جب مجھ سے
کون واقف ہے آسمانوں سے
جاثیہ بھی سوال کرتی ہے
آشنا کون ہے جہانوں سے
یا علیؑ آپ یاد آتے ہیں
ذہن میں جب کوئی سوال آئے
جس کا حاصل مجھے جواب نہ ہو
ڈھونڈتا ہوں میں پھر کتابوں میں
اور کوئی مستند کتاب نہ ہو
یا علیؑ آپ یاد آتے ہیں
جب بھی قرآن کھولتا ہوں میں
ہونے لگتی ہے چشم تر میری
پہلی سورہ کی پہلی آیت پر
ٹھہر جاتی ہے پھر نظر میری
یا علیؑ آپ یاد آتے ہیں
حشر کے روز جب نبی کریم ؐ
اپنی امت کے دوبدو ہوں گے
ہم سیہ کار بے عمل انسان
کس طرح ان کے روبرو ہوں گے
یا علیؑ آ پ یاد آتے ہیں
٭٭٭
قطعہ
محمد محمود احمد
حیات خوب نکھاری خسین کے غم سے
پھر عاقبت بھی سنواری حسینؑ کے غم سے
خدا کا شکر کہ محمودؔ میرے جیون میں
کوئی بھی غم نہیں بھاری حسین کے غم سے
٭٭٭
ایک جانب
کاشفؔ بٹ (حویلیاں کینٹ)
ایک جانب یزید کا لشکر
ایک جانب حسینؓ خیمہ زن
ایک جانب ہیں تاک میں صیاد
ایک جانب ہیں پاسبانِ چمن
ایک جانب رواں شرابِ غرور
ایک جانب لبوں کا تشنہ پن
ایک جانب ہے ظلم کی تجدید
ایک جانب نثار تن من دھن
ایک جانب حریصِ جاہ و حشم
ایک جانب ہے فقر پیراہن
ایک جانب ہے قاتلوں کا شباب
ایک جانب ہیں شیر خوار بدن
ایک جانب ہیں سارے پست خیال
ایک جانب ہے پاکیِ دامن
ایک جانب انا پرست ہجوم
ایک جانب خدا شناس دہن
ایک جانب ہوائے بغض و عناد
ایک جانب محبتوں کی کرن
٭٭٭
سلام
شبیر نازش (کراچی)
روتے ہی جا رہے ہیں تجھے ہم، حسینؑ جی!
کھلتا ہی جا رہا ہے ترا غم، حسینؑ جی!
ہم حالتِ عزا ہی میں پتھر کے ہو رہیں
پلکوں پہ آ کے اشک رہیں جم، حسینؑ جی!
دشتِ بلا میں جیسے ترے نام کی مہک
آہوئے جشم بھرتے ہیں یوں رَم، حسینؑ جی!
کتنا ہی ظلم و جبر کا بازار گرم ہو
اپنا بھی سَر نہ ہو گا کبھی خم، حسینؑ جی!
لگتا ہے جب بھی زخم کوئی جسم و روح پر
رکھتا ہے تیرا نام ہی مرہم، حسینؑ جی!
یوں لے رہا ہے نام کوئی کائنات میں
آئی ہے اِک صدائے دَما دَم، حسینؑ جی
٭٭٭
سلام بحضورِ امامِ عالی مقامؑ
توقیر تقی (کراچی)
سبھی قدیم صحیفوں میں ایک نامؑ پڑھا
ہزار بار اسی نامؑ پر سلام پڑھا
جہان بھر کے فسانوں سے سرسری گزرے
مگر صحیفۂ غربت بہ احترام پڑھا
کمالِ نطق کہ اعجازِ حسنِ خامہ ہے
حسینؑ لکھ کے اسے صبر کا امامؑ پڑھا
فراتِ تشنہ لبی پر کسی نے ضبط لکھا
اسے بھی دستِ دعا نے وفا کا جام پڑھا
نجانے صفحۂ دشتِ بلا پہ کیا گزری
بجھے چراغوں کو جلتے ہوئے خیام پڑھا
لکھا تھا بوڑھا پدر ہے، جوان لاشہ ہے
اور اہلِ غم نے اسے صبر کا مقام پڑھا
لکھا تھا ایک چھ ماہے نے جنگ پلٹا دی
اور اہلِ دل نے اسے کارِ تشنہ کام پڑھا
رِہا ہوئے تو اُن آنکھوں کا رنگ ماتمی تھا
کسی نے کچھ بھی لکھا، قیدیوں نے شام پڑھا
یہ بندگی مجھے توقیرؔ بچپنے سے ملی
جب اپنا نام لکھا، شاہؑ کا غلام پڑھا
٭٭٭
فرات
ڈاکٹر فریاد آزرؔ (انڈیا)
تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا فرات
مدتوں سے خود تھا جن کی دید کا پیاسا فرات
تشنگی کو آپ اپنا امتحاں مقصود تھا
ورنہ پاکیزہ لبوں تک خود ہی آ جاتا فرات
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آ گیا
کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات
اب بھی ہیں صحرا کی آنکھوں سے یونہی آنسو رواں
نام ان کو دے دیے ہیں وقت نے دجلہ فرات
سر پہ آ کر رک گیا ہے آفتابِ مغربی
پی نہ جائے یہ کہیں اب سارے کا سارا فرات
شہروں میں اک شہر تھا بغداد کہتے تھے جسے
اور دریاؤں میں آزرؔ ایک تھا دریا فرات
٭٭٭
سلام
ہدایت کاشف (رحیم یا خان)
وہ رحمتِ کریم کے سائے میں آ گیا
جو شخص اہلبیتؑ کے حصے میں گیا
جب سے سنا کہ ساقئی کوثر ہیں مرتضیٰؑ
کوثر کا ذائقہ مرے لہجے میں آ گیا
خیبر میں ذوالجلال کا جتنا جلال تھا
سب حیدرِ کرارؑ کے چہرے میں گیا
بعد از نبیؐ ہے دین کا مرکز علیؑ کی ذات
قرآں سمٹ کے بھی اسی نقطے میں آ گیا
اک اشک اس کے غم میں بہایا تھا آنکھ نے
میرا مکان بہشت کے نقشے میں آ گیا
مجھ میں سلیقہ مدحتِ مولائے کائناتؑ
حسنینؑ کے نعلین کے صدقے میں آ گیا
کاشفؔ گدا علیؑ کا ہوں عزت مآب ہوں
دارین کا شکوہ مرے کاسے میں آ گیا
٭٭٭
سلام
مسعود چودھری (لاہور)
روشنی روشنی کربلا کربلا
آگہی آگہی کربلا کربلا
العطش العطش الحذر الاماں
بے بسی بے بسی کربلا کربلا
عون،ؑ اکبرؑ کے، قاسمؑ کے لاشے رُلے
انتہا ظلم کی کربلا کربلا
دیکھ کر خون کی گہری برسات کو
آپ بھی رو پڑی کربلا کربلا
کہکشاں عزم کی اور عرفان کی لَو
پھر بھی کھا ہی گئی کربلا کربلا
خیمۂ شوق میں ہے دھواں آج بھی
ماتمی ماتمی کربلا کربلا
مرثیہ جب سویروں کا میں نے لکھا
مر حبا کہہ اُٹھی کربلا کربلا
دے کے پیاسوں کو تعمیر کی آگہی
کر گئی بندگی کربلا کربلا
حرف مسعودؔ سانچے میں گم کے ڈحلے
سامنے آ گئی کربلا کربلا
٭٭٭
سفرِ شام
نوید انجمؔ (فیصل آباد)
بے ردا بنتِ علی ہے شام کا بازار ہے
سر جھکائے خون روتا عابدِ بیمار ہے
رسیوں میں قید ہے آلِ نبیؐ کا قافلہ
بیڑیاں ، طوقِ گراں پہنے ہوئے سالار ہیں
دیکھ کر منظر کلیجہ انبیاؑ کا کٹ گیا
بنتِ زہراؑ سے مخاطب بے حیا بدکار ہے
اے مسلماں تیری غیرت کو بھلا کیا ہو گیا
اب بھی توُ اہلِ ولا سے برسرِ پیکار ہے
جرأتِ زینبؑ کی دنیا میں نہیں کوئی مثال
خوں میں شامل جس کے جوشِ حیدرِ کرار ہے
بے ردا بھیا چلوں گی دیں بچانے کے لیے
چادرِ زینبؑ ہی گر اسلام کو درکار ہے
حشر میں انجمؔ یہی آنسوں میرے کام آئیں گے
جب کہیں گی بنتِ زہراؑ یہ میرا غم خوار ہے
٭٭٭
سلام
علی کمیل قزلباش (کوئٹہ)
فضائے فرشِ عزا، لا الہ، سو ایک تو ہیں
بساط کرب و بلا و بطحا، سو ایک تو ہیں
حضور سرورِکونین سلام عرض کریں
کریں یا ماتم آہ و بکا، سو ایک تو ہیں
سبیل سے جو ملے تشنگان شہہ کو سکوں
یہ آبِ زمزم و آبِ شفا، سو ایک تو ہیں
مرے حسینؑ، میری بات کیا میرے الفاظ
یہ ترا ذکر، قرآن و دعا، سو ایک تو ہیں
وہ دشمنان پیمبر منافق و مشرک
یہ دشمنان علیؑ اور خدا، سو ایک تو ہیں
پیام خیبر و خندق، تبوک و بدر و حنین
صفین و جنگ جمل کربلا، سو ایک تو ہیں
ہیں مختلف سبھی الفاظ معنی تو دیکھ
مدینہ و نجف و کربلا، سو ایک تو ہیں
٭٭٭
تضمین
نذرِ عقیدت بحضور شہدائے کربلا
مسعود مُنّور (ناروے)
پھر نوحہ ء شبیر ہے ماتم کی گھڑی ہے
ٓآنسو تو پرانے ہیں مگر آنکھ نئی ہے
یہ رازِ شہادت ہے، رسالت کی امانت
قربانی ء جاں نکتہ ء تحریرِ علی ہے
ہر زخم ہے اُس نخلِ شہادت کا گُل آثار
ہر قطرہ ء خوں خاتمِ انگشتِ نبی ہے
میں سہل روش مدحت و ماتم کا گرفتار
اور سامنے شبیر کی شمشیر پڑی ہے
اب قافلہ ء عشق ہے اور رسمِ عزا ہے
اے خاصہ ء خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
٭
اب شہر یزیدوں کو ملامت نہیں کرتے
ہم سہل روش، عزمِ بغاوت نہیں کرتے
خنجر لیے پھرتے ہیں شمر کوچہ بہ کوچہ
مولاؑ کی قسم لوگ شکایت نہیں کرتے
اک خواب ہے یہ مجلس و ماتم کا قرینہ
ہم کاہشِ تجدیدِ شہادت نہیں کرتے
ہم مرثیہ خواں ، سینہ زناں ، ذاکرِ آلام
اور جاں میں بپا اپنی قیامت نہیں کرتے
ہم کل بھی فقط شارحِ اسرارِ لُغت تھے
ہم آج بھی تائیدِ امامت نہیں کرتے
ہم ظلم کے ماتوں سے فقط داد طلب ہیں
مظلوم گھرانوں کی حمایت نہیں کرتے
شرمندہ ہیں ، نادم ہیں سرِ نامۂ اعمال
ہم لوگ ادا قرضِ نیابت نہیں کرتے
شبیر کے پرچم کی قسم کھاتے ہیں مسعودؔ
شبیر کے پرچم کی حفاظت نہیں کرتے
٭٭٭
اب عشق، نہ تقدیس، نہ ہنگامِ وفا ہے
اے خاصہ ء خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
٭
چُن چُن کے زمینوں میں چھپے باغِ نہاں سے
لایا ہوں گلاب اور کنول شہرِ جناں سے
مدحت تری باہر میری اوقات سے مولا
بالا ترا منصب ہے مرے وہم و گماں سے
اک تیرے قصیدے کے لیے حسنِ طلب ہے
ہر حرف جو نکلا ہے کبھی میری زباں سے
پہنچا ہے ہدف تک تیرے اکرام کے صدقے
ہر تیر جو چھوٹا ہے عقیدت کی کماں سے
وہ اسم ہے ہر عہدِ صداقت کی شہادت
اک اسم جو ترشا ہے تری نوکِ سناں سے
وہ اسم مری عمر کی مدحت کا صلہ ہے
اے خاصہ ء خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
٭
اے سبطِ نبی! عہد مرا عہدِ زیاں ہے
اور میرا قلم تیرے لیے نوحہ کُناں ہے
میں تیری عقیدت کی گواہی میں تو چالاک
لیکن تیری سنت مجھے اک کوہِ گراں ہے
جس شخص سے خوشبوئے علی آئے مسلسل
وہ شخص مرے عہد میں موجود کہاں ہے
تو عشق ہے خوشبو ہے، شہادت ہے، صفا ہے
تو ابنِ علی، تاجورِ روزِ جزا ہے
مجھ ہاتھ سے دامن تیرا کیوں چھوٹ گیا ہے
اے خاصہ ء خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
٭٭٭
سلام
اوصاف شیخ (ساہیوال)
کرب و بلا میں یاد ہے غربت حسینؑ کی
لازم ہے ہم پہ دوستو مدحت حسینؑ کی
گردن کٹا کے دیں کو تابندہ کر دیا
اسلام کی بقا ہے شہادت حسینؑ کی
پیاسوں کے پاس چل کے خود آتا فرات بھی
ملتی جو ایک بار اجازت حسینؑ کی
ہر دور کے یزید کا انکار ہے ہمیں
تا حشر ہم پہ فرض ہے سنت حسینؑ کی
پھر سر اُٹھا لیا ہے یزیدی گروہ نے
یعنی پھر آ پڑی ہے ضرورت حسینؑ کی
گلشن مرے نبیؐ کا مہکتا رہے سدا
پھیلی رہے یوں چار سو نکہت حسینؑ کی
ڈرتا نہیں وہ پھر کسی شمر و یزید سے
اوصاف جس کے دل میں ہو الفت حسینؑ کی
٭٭٭
جلے خیموں کی اپنی الجھنیں ہیں
صفدر رضا صفی ؔ (لاہور)
ابھی کچھ کام باقی ہیں
ابھی
سجادؑ کو اپنی کمر کو اپنی کمر پر ڈال کر باہر نکلنا ہے
ابھی بالی سکینہؑ کے دریدہ کان سے
بہتے لہو کو صاف کرنا ہے
ابھی چوبِ شکستہ کے سہارے
رات بھر کا جاگنا ہے
بین کرنا ہے
ابھی تو حیدرِکرارؑ کی آواز میں للکارنا
عباسؑ بننا ہے
ابھی تو شام کا لمبا سفر ہے
ابھی تو منزل کے خدوخال سے چھٹی ہوئی
بے چہرگی کو پونچھنا، لاشیں اٹھانا ہے
ابھی تو دور جانا ہے
٭٭٭
اُس جیسا کوئی ایک سخی ہو
نا صر ملک (لیہ)
دُنیا نے اِک سورج مانگا
کرنیں چاہیں ، رستا مانگا
خیموں کی دہلیز پکڑ کر کوئی درس انوکھا چاہا
ایک زمانہ لرزیدہ سا، شرمندہ سا، ساتھ کھڑا تھا
مانگ رہا تھا
دُنیا کا ہر ایک زمانہ ایک تمدن مانگ رہا تھا
وہ تہذیب کا بانی لیکن، خیمے کی دہلیز کے اندر
اپنے رب کو دیکھ رہا تھا، سوچ رہا تھا
نخلِ جاں سے خون کے قطرے مانگ رہا تھا
اُس تہذیب کی بنیادوں کو خون کے قطرے سونپ رہا تھا
جس تہذیب میں سورج، کرنیں ، چاند، ستارے
ہر موسم کے پھول اُگے ہیں
بارش، افشاں ، آس کے جگنو، نورِ اَنا ہے، خود داری بھی
عزم، اصول و مقتل، آنسو، صحرا، خون کے دریا بھی
رستا، خاک، گہر کی تاب زمانہ دیکھ رہا ہے
آج بھی اُس تہذیب میں سانسیں پلتی ہیں
٭٭٭
سلام
نا صر ملک
وہ محوِ بقا، نورِ سما، گہرِ صدف ہے
وہ ابنِ علیؓ، آلِ محمدؐ کا شرف ہے
دیکھو تو رہِ عشق میں منزل کا تعین
دربارِ نبیؐ، کرب و بلا، تختِ نجف ہے
ہر لفظِ ملامت ہے رواں سوئے منافق
تہذیب مگر آج بھی خیموں کی طرف ہے
اسلام کے دُشمن کو ذرا کھل کے بتا دو
وہ آج بھی شبیری ارادوں کا ہدف ہے
پھر اُمّتِ مسلم پہ کڑا وقت ہے ناصر
عبّاسؓ مگر آج بھی شمشیر بہ کف ہے
٭٭٭
حسینؑ حسینؑ
معصومہ شیرازی (کراچی)
ہر زمانے کا انتساب حسینؑ
بولتا سرُخ انقلاب حسینؑ
جس کا صدیوں نے انتظار کیا
اس رسالت کی آب و تاب حسینؑ
حرف تسلیم کے مصلے پر
سجدہ عشق کا شباب حسینؑ
اپنے اثبات کے دلائل میں
رب کا بے مثل انتخاب حسینؑ
ہر زمانے کے رحل پر رکھی
فکر کی عالمی کتاب حسینؑ
میری ہر شامِ آگہی زینبؑ
میری صبحوں کا اضطراب حسینؑ
لکھ دیا سرخ روشنائی سے
آزمائش کا ہر نصاب حسینؑ
بندگی کے سوال تھے کتنے
رَب پُکارا میرا جواب حسینؑ
٭٭٭
وہ کیسا وقت تھا
معصومہ شیرازی (کراچی)
قیامت کی گھڑی تھی جب !
امینِ حرمتِ کعبہ نے اپنے ہاتھ سے باندھا ہوا
احرام کھولا تھا۔۔۔۔۔
یہ وہ لمحہ تھا جب صدیوں کے ماتھے پر
سکوتِ مرگ طاری تھا
ہوا خاکِ حرم کے زرد پہلو سے
لپٹ کے بین کرتی تھی
در و دیوار کی نمناک آنکھیں ہجر کے نوحے سناتی تھیں
بلکہ راستے مولودِ کعبہ کی قسم دے کر۔۔۔۔۔
امامِ وقت کے پاؤں پکڑتے تھے
وہ کیساوقت تھا جب وارثِ کعبہ
طوافِ عشق کے موقوف کر کے دشتِ غربت میں
شہادت کا سفر آغاز کرنے جا رہا تھا
وہ کیسا مجمعِ حجاج تھا جو نرغۂ اعدا کی صورت
خاکِ کعبہ کو
لہو کا غسل دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
سنو
خونِ حسینؑ ابن علیؑ خاک حرم کے پاک ماتھے پر
نیاز عشق کی صورت اگر تقسیم ہو جاتا
تو کعبہ کربلا بن کر
ہمارے یومِ حج کو عاشور بنا دیتا۔
٭٭٭
سلام
سید اقبال رضوی شاربؔ
چلو غمِ شہ میں ڈوب جائیں کہ چاند ماہِ عزا کا نکلا
گھروں میں فرشِ عزا بچھائیں کہ چاند ماہِ عزا کا نکلا
نظر میں پھر رہے ہیں منظر، وہ جلتے خیمے وہ چھنتی چادر
تو آنکھوں میں کیوں نہ اشک آئیں کہ چاند ماہِ عزا کا نکلا
تمام فکریں تمام لہجے، تمام لفظوں میں ساری باتیں
مصائب کربلا سنائیں کہ چاند ماہِ عزا کا نکلا
در شہ کربلا کھلا ہے جو آج بھی حُر سا بننا چاہیں
عزائے سبطِ نبی میں آئیں کہ چاند ماہِ عزا کا نکلا
خدا نے اجر رسالت تو طے کیا تھا قران میں مودت
یہ خوب امت نے کی جفائیں کہ چاند ماہِ عزا کا نکلا
ارے او کربل کی پاک مٹی تجھے قسم ہے خون ہو جا
گلا یہاں شاہِ دیں کٹائیں کہ چاند ماہِ عزا کا نکلا
نبی کے پیارے، علی کے دلبر، بتول کے گلبدن کا پُرسہ
امامِ حاضر نہ کیسے آئیں کہ چاند ماہِ عزا کا نکلا
غمِ شہیداں میں رو رہا ہے جو دل سے تو زار زار شاربؔ
یہ غم کے بادل نہ چھٹنے پائیں کہ چاند ماہِ عزا کا نکلا
٭٭٭
سلام
سید اقبال رضوی شارب
٭
دنیا نے پھر نہ دیکھا وہ منظر لہو لہو
ہاتھوں پہ شہ کے ننھا سا اصغرؑ لہو لہو
کیا جانئے فلک نے بھی دیکھا تھا کس طرح
سوکھے گلے پہ تند سا خنجر لہو لہو
ایسی جفائیں ایسا ستم ایسی سختیاں
آنکھوں سے اشک ٹپکے ہے ہو کر لہو لہو
برچھی کا وار سینۂ اکبرؑ پہ تھا کہ پھر
کرنا تھا ان کو جسم پیمبر لہو لہو
یہ غم وہ غم ہے جس کا مکمل نہ ہو بیاں
تا عمر لکھیں سارے سخنور لہو لہو
کرب و بلا ہے فتحِ صداقت کی داستاں
کفر نفاق تڑپے ہیں ہو کر لہو لہو
شاربؔ یہ واقعہ ہے کہ ذکر حسینؑ پر
مومن کا دل تڑپا ہے ہو کر لہو لہو
٭٭٭
سلام
طاہر شیرازی
گواہی کے لئے اک بے زباں ہے
وگرنہ فیصلہ ممکن کہاں ہے
مقامِ کربلا ایسی بلندی
کہ جس کی انتہا پر لا مکاں ہے
کوئی اوڑھے ہوئے ہے پرچمِ خاک
اور اس کی دسترس میں آسماں ہے
مجھے اپنی نہایت دیکھنی ہے
مصیبت، مصلحت یا امتحاں ہے
کمالِ بندگی معیار سجدہ
وہ سجدہ ریت پر جس کا نشاں ہے
تری چپ بر سرِ ممبر خطابت
تری آواز مقتل میں اذاں ہے
سرِ صحرا سناں ہے محور خاک
اور اس کی نوک پر سارا جہاں ہے
٭٭٭
سلام
شاہین عباس (شیخوپورہ)
ہو رہی ہے پھر لہو میں ابتدائے کربلا
سر سے پا تک کچھ نہیں ہے ماسِوائے کربلا
سامنے آتا ہے پانی تو میں ہٹ جاتا ہوں دُور
پیاس کو محفوظ رکھتا ہوں برائے کربلا
زندگی ہی زندگی تھا نوکِ نیزہ پر وہ سر
روشنی ہی روشنی تھی وہ ہوائے کربلا
تب سے یہ ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے ہمیں
کربلا میں کیا ہوا تھا اے خدائے کربلا
تین دن کی پیاس جانے ختم پر کب آئے گی
جانے کب ہو گی زمیں پر انتہائے کربلا
وہ چراغِ شامِ عاشورہ ابد کے طاق میں
وہ امانت دار خیمے، وہ سرائے کربلا
لوگ کیسے ہوں گے، کیسے کرتے ہوں گے سوگ
جب تلک رکھی نہیں ہو گی بِنائے کربلا
کہنے سُننے کو یہ دو مضموں ہی باقی رہ گئے
اِک سکوتِ کربلا ہے، اِک صدائے کربلا
٭٭٭
یا حُسینؑ ! یا حُسینؑ ! یا حُسینؑ!
ڈاکٹر نگہت نسیم (آسٹریلیا)
یا حُسینؑ ! یا حُسینؑ ! یا حُسین
آپ کو میری ہر سانس کا سلام یا ایہالناس
وہ جو لگن کے رستوں پہ چلتے ہیں
اُنہیں کو جینے کے قرینے ملتے ہیں
ہاں دفینوں سے خزینے ملتے ہیں
سو میرا بھی پہلا قدم اس راستے پر اُٹھ گیا
میں بھی اسی سمت چل پڑی تھی۔۔ جہاں دل میں ایک لگن سی لگی تھی
جیسے آخری سانس بھی کچھ پانے کے خواہش میں ٹھہر سی گئی تھی
بس میں چل پڑی تھی۔۔ اور پھر۔۔
ہاتھوں میں میرے اپنے ہی گناہوں کی گٹھڑی تھی
پاؤں میں جیسے کوئی پیڑی ٹوٹ کر گر پڑی تھی
آنکھوں میں گلی جیسے ساون کی اک جھڑی تھی
اور میں اپنی ہی تڑپ میں دلگیر چلی جا رہی تھی۔۔
جاں بلب سوختہ جاں شکستہ پا۔۔ اور زمانے کے گرم سرد
کہیں انگارے ہی انگارے تو کہیں فگار اپنے ہی دل کے پارے
کہتے ہیں جو بھی لگن کے رستوں پہ چلتے ہیں
انہیں کہیں نہ کہیں جینے کے قرینے ملتے ہیں
یا یہالناس
نوید ہو کہ ابدی خزانہ مل گیا مجھے
غم حسینؑ موت سے بیگانہ کر گیا مجھے
گویا
صبر حسینؑ سے جینے کا قرینہ مل گیا مجھے
اے عالی حوصلہ کربلا کے جی دار سید الشہدا حُسینؑ
٭٭٭
ڈاکٹر نگہت نسیم
٭
آپ کی شان پہ قربان آپ کی نذر
میرے شام و سحر
آپ کو میری ہر سانس کا سلام۔۔ سلام۔۔ سلام
اے خانہ زہراؑ کے چراغ کربلا کے تاجدارؑ
سیدا لشہدا حُسین
آپ ہیں دین محمدؐ کے پاسبان آپ کی نذر
میرے قلب و جگر
آپ کو میری ہر سانس کا سلام۔۔ سلام۔۔ سلام
اے میرے معصوم امام۔۔
پاک امام۔۔ اے میرے امام
٭٭٭
سلام
ذوالفقار نقوی (جموں کشمیر)
٭
جب دکھایا رنگ اپنا کفر کے بازار نے
ہر فریب و مکر پہ حملہ کیا کردار نے
کر دیا پامال بیعت کے وفورِ شوق کو
بیڑیوں نے، طوق نے، زنجیر کی جھنکار نے
اس عمارت کی نہ ہو گی اب کوئی دیوار کج
کر دیا تعمیر ایسا ہاشمی معمار نے
ذرہ ذرہ ضو فگن ہے عا لمِ امکان کا
آنکھ کھولی ہے جہاں میں پیکرِ انوار نے
پڑ گیا بھاری مسلمانوں پہ خیبر کا جو در
ایک انگلی سے اکھاڑا حیدرِ کرار نے
جب ہوا گرم ِ تقاضا عشقِ ختم ِ مرسلیں
دے دیا کشتیِ دیں کو راستہ منجدھار نے
تیرا فدیہ دیکھنے کو آئے ہیں سب انبیاء
کھینچ لایا ان کو یاں میثاق کے اقرار نے
رشتۂ قرآن و عترت ہو گیا سب پر عیاں
نوکِ نیزہ پر تکلم جب کیا سرکار نے
کر چکی تھی ساری دنیا بیعتِ باطل قبول
’’لاج رکھ لی دین کی شبیرؑ کے انکار نے‘‘
دیکھ لے ! اے دعویٰ دارِ حبِ حیدرؑ دیکھ لے
کاٹ کر دے دی زباں ہے میثمِ تمار نے
بہرِ نصرت مشکلوں میں آ گئے مشکل کشاؑ
دی صدا جب میرے جیسے بے کس و لا چار نے
مدح ِ ممدوح ِ خدا نقویؔ کے بس میں ہے کہاں
تیرے در سے لے لیا صدقہ ترے فنکار نے
٭٭٭
سلام
شکیل جعفری
جہانِ جبر کی حالت سمجھ میں آنے لگی
سو کربلا کی ضرورت سمجھ میں آنے لگی
یزید تو بھی نئے شمر پرورش کر لے
ادھر ہمیں بھی شہادت سمجھ میں آنے لگی
اِدھر حسینؑ نے سجدہ میں سر جھکایا، اُدھر
مباہلہ کی حقیقت سمجھ میں آنے لگی
بوقت عصر وہ سجدہ عجیب سجدہ تھا
پھر اس کے بعد عبادت سمجھ میں آنے لگی
اسیر و ناتواں عابدؑ کا سوئے شامِ سفر
زمانے تجھ کو امامت سمجھ میں آنے لگی ؟
اُحد ہو کربلا حمزہؑ ہوں یا علی اکبرؑ
جگر کی جسم سے نسبت سمجھ میں آنے لگی
جو مضرب علی اصغرؑ ہوئے تو سرور کو
وہ بے زبان وضاحت سمجھ میں آنے لگی
اٹھے حسینؑ کے لشکر کی سمت حر کے قدم
تو ایک رات کی مہلت سمجھ میں آنے لگی
٭٭٭
امتحانِ زندگی
افتخار حیدر (کراچی)
مو ت کے ماتھے پہ لکھنے داستانِ زندگی
دشت میں اترا ہے آ کر کاروانِ زندگی
رہبرانِ زندگی ہیں پاسبانِ زندگی
کربلا کے وہ بہتر حاملانِ زندگی
کربلا والے امینِ سر زمینِ زندگی
کر بلا والوں سے قائم آسمانِ زندگی
وہ حبیب ابن مظاہر، جون ہوں یا ہوں زبیر
سب کے سب اپنی جگہ ہیں ترجمانِ زندگی
ماسوائے درسگاہِ حضرتِ شبیرؑ کے
لفظ ملتے ہیں کہاں شایان شانِ زندگی
موت کی بستی کا منظر ہے سپا ہِ شام میں
خیمہ ء گا ہِ آل احمد ہے جہانِ زندگی
لاشِ اصغر کو اٹھا کر کہہ رہے تھے یہ حسینؑ
اور مشکل کس قدر ہے امتحانِ زندگی
تیر کھا کر، دفن ہو کر، کربلا کی ریت میں
ثبت کرتے ہیں علی اصغرؑ نشانِ زندگی
مہلتِ شب سے کیا ہے استفادہ اس طر ح
موت سے حر آ گیا ہے درمیانِ زندگی
واسطے جن کے خدا نے دو جہاں پیدا کئے
ان سے بڑھ کر کون ہو گا رازدانِ زندگی
زینبؑ و شبیرؑ سے بڑھ کر نہیں ہیں افتخار
اور بھی ہوں گے یقینا محرمانِ زندگی
٭٭٭
کربلا کی شام
محمود ثناء (فیصل آباد)
٭
ممکن اگر ہو تُو ہی بتا کربلا کی شام
دیکھا ہے تو نے جو بھی ہوا کربلا کی شام
کیسے کٹے تھے بازوئے عباسؑ کچھ تو کہہ
تُو ہے گواہِ کرب و بلا، کربلا کی شام
زینبؑ کے سر سے جس گھڑی چادر اُتر گئی
تیرا کلیجہ شق نہ ہوا کربلا کی شام
ننھی سکینہؑ لاشہ، اصغرؑ کو دیکھ کر
تڑپی تھی کس طرح سے بتا کربلا کی شام
صد حیف ترے دامنِ لبریز کا نصیب
سبط رسول پیاسا رہا کربلا کی شام
نوچے نہ اپنی مانگ سے تاروں کے سلسلے
نیزے پہ جب وہ چاند سجا کربلا کی شام
بے بس نہ تھے وہ پیکرِ صبر و رضا ثناءؔ
بس چاہتے تھے رب کی رضا کربلا کی شام
٭٭٭
بحضور قتیل صداقتؑ
ارشد نذیر ساحل (بارسلونا سپین)
سیاہ راتوں کا راج تھا
جب صداقتوں کے اجاڑرستوں پہ
مشعل حق اٹھا کے میرا حسینؑ نکلا
اسے خبر تھی کہ دجل کے مکر کی ہوائیں ہیں بالمقابل
مگر لہو کی نجابت اس کو دیارِ کرب و بلا میں لائی
اور اس نے قرطاس کربلا پر
لہو سے اپنے یہی لکھا تھا
مجھے ابد تک فنا نہیں
مجھے ابد تک فنا نہیں
٭٭٭
گلبدن
نبیل حسین سیاہ پوش بخاری
٭
کیسے ثنائے حضرتِ شبیرؑ کروں میں
مہر نبیؐ یا بے کفن تحریر کروں میں
نوکِ سناں یا سجدۂ احمدؐ پہ سواری
اک شہنشاہ یا بے وطن تحریر کروں میں
جنت کے جوانان کا سردار یا شہؑ کو
اک وارثِ اُجڑا چمن تحریر کروں میں
حل من لکھوں یا چلتے ہوئے بھالے برچھیاں
یا بے مثل بچپن تحریر کروں میں
وہ سورۂ رحمن کے یاقوت والمرجان
یا تن سے جُدا گردن تحریر کروں میں
روتا ہے سیاہ پوش اے فاطمہ زہراؑ
شبیر ترا گلبدن تحریر کروں میں
٭٭٭
سلام
حکیم ارشد شہزادؔ (شکر گڑھ)
یارب تیرے حضور ہے اتنی سی التجاء
مرنے سے پہلے دیکھ لوں اِک بار کر بلا
سمجھوں گا میری زندگی بیکار ہی گئی
مقتل کو دیکھنے سے اگر پہلے مر گیا
سیکھا ہے میں نے دین کو آلِ رسول سے
اتنی میرے خدا کی ہے مجھ پہ ہوئی عطا
کچھ بھی نہ چاہئے مجھے کچھ بھی نہ چاہئے
دامن کو میں نے اُن کی محبت سے بھر لیا
بعد از نبی کے سوچتا ہوں میں علی کی ذات
بعد از حسین سوچتا رہتا ہوں لا الہ
مجھ کو دکھائی دیتے ہیں اس وقت پانچ تن
پڑھتا ہوں جب قرآن کی آیت مباہلہ
اِک سر چھری کے نیچے ہے دوجاسناں پہ ہے
وہ بھی تھا ایک معجزہ یہ بھی ہے معجزہ
پالا پڑے یزید سے جھکنا نہ تم کبھی
مجھ کو یہ درس دوستو دیتی ہے کربلا
ڈرتا نہیں ہوں میں کبھی خنجر کی نوک سے
حق بات کو میں اس لیے کہتا ہوں برملا
ہاں ہاں مجھے علی سے محبت ہے دوستو
حب دار ہوں علی کا یہ کہتا ہوں برملا
اسلام کی ہیں دوستو تینوں ہی منزلیں
مکہ، مدینہ اور مدینے سے کربلا
اِک بار میں نے چوما تھا کر بل کی خاک کو
پھر اس کے بعد میرا نصیبا سنور گیا
اس گھر میں بھی ضروری ہے یارو علی کا ذکر
جس گھر میں ہو رہا ہے محمد کا تذکرہ
شامِ غریباں آ گئی ہائے! میں کیا کروں
زینب کے سر سے چھین لی جائے گی اب رِدا
جب سر برہنہ ہو گئیں سید کی بیٹیاں
لرزی نہ کیوں زمیں فلک کیوں نہ پھٹ گیا
’’قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے ‘‘
دربار میں یزید کے زینب نے کہہ دیا
لکھے ہیں جو قرآن میں حرف مقطعات
مطلب بتا گیا مجھے زہراء کا لاڈلا
محشر میں جب اُٹھوں تو تمہارا ہی ساتھ ہو
آقا میری ہے آپ سے اتنی سے التجا
چلتا ہے کائنات میں سِکہ حسین کا
ارشدؔ میراحسینؑ ہے سب کا ہی بادشا
٭٭٭
سلام
نعیم گیلانی (شیخو پورہ)
بصد خلوص و بصد عجز و احترام سلام
سلام اے مرے تشنہ دہن امامؑ ! سلام
جُدا ہوا تنِ صد چاک سے سرِ شبّیرؑ
فرازِ عرش سے آئی صدا سلام، سلام
چہار سمت سے آئیں صدائیں گریہ کی
کیا ہے نوکِ سناں سے عجب کلام ! سلام
جنابِ ختمِ رسلؑ سے جنابِ آدمؑ تک
ہیں منتظر لبِ کوثر پہ بھر کے جام ! سلام
بچا گیا ہے یہ انساں کی آبرو آقا
بقائے دیں کے لئے آپ کا قیام سلام
حضور! اکبرِؑ خوش رُو کا پرسہ دینے کو
کھڑے ہوئے درِ آقا پہ ہیں غلام سلام
٭٭٭
سلام
ارشد نعیم (شیخو پورہ)
وہ مرحلے سے جو کرب و بلا کے گزرے ہیں
ہزار درد لیے مسکرا کے گزرے ہیں
وہ جن کے عزمِ مسلسل نے حق کو زندہ کیا
وفا کی راہ میں سر کو اٹھا کے گزرے ہیں
ہر ایک سچ میں رواں اُن کا جذبِ صادق ہے
جو دیپ اپنے لہو سے جلا کے گزرے ہیں
وہ ایک وعدہ جو حق سے کیا تھا صبحِ ازل
حسینؑ اُس کو یقینا نبھا کے گزرے ہیں
مِری جبیں کو نعیمؔ اُن کے در سے نسبت ہے
فصیلِ جبر جو انساں گرا کے گزرے ہیں
٭٭٭
سلام
اشرف نقوی
یوں بھی آنکھوں کو نم کیا جائے
اہلِ کربل کا غم کیا جائے
جوڑی جائے حسینؑ سے نسبت
ربط دُنیا سے کم کیا جائے
کر کے روشن دیئے موَدّت کے
دل کو طاقِ حرم کیا جائے
میں ہوں بیمار، پڑھ کے نادِ علیؑ
مجھ پہ اِک بار دم کیا جائے
حق تو یہ ہے کہ نوکِ نیزہ پر
سر کو حق کا عَلم کیا جائے
ایک سجدہ حسینیؑ سُنت میں
چاہے پھر سر قلم کیا جائے
٭٭٭
سلام
زہراؔ علی (کراچی)
نگاہِ روحِ بشر میں سما گیا سجدہ
ہر ایک قوتِ باطل پہ چھا گیا سجدہ
زمانہ پوچھتا پھرتا تھا بندگی کا چلن
میرے حسینؑ نے کر کے دِکھا دیا سجدہ
سبب ہیں خلقتِ آدم کا بس یہی چیزیں
نبیؐ کا ذکر، علیؑ کی وِلا، عزا، سجدہ
عبادتوں کو نہ ٹکراؤ اُس کے ماتم سے
جو زیرِ تیغ بھی کرنا سِکھا گیا سجدہ
چلے جو سیدِ سجادؑ تیز قدموں سے
ہر ایک زخم پہ زنجیر نے کیا سجدہ
تبسمِ لبِ بے شیر دیکھ کر زہراؔ
گلے پہ تیر نے اصغرؑ کے کر لیا سجدہ
٭٭٭
سلام
عزّت ماٰب ( شیخوپورہ)
جگہ جگہ تیرے نوحے، سلام یا شبیرؑ
زباں زباں پہ رواں تیرا نام یا شبیرؑ
میں سوچتی ہوں تو ڈھلتی ہے پیاس نظموں میں
سو کیا لکھوں مِرے اے تشنہ کام یا شبیرؑ
وہی ہے وقت، وہی کربلا، وہی دشمن
وہی ہے ہم پہ غریبی کی شام یا شبیرؑ
ہمیں خبر ہے شہادت برائے موت نہیں
اِسی لیے تو کہا، یا امامؑ ، یا شبیرؑ
یہ آنکھ آنکھ نمی سلسلہ بناتی ہوئی
یہ جان و دل کا ہے سب انتظام یا شبیرؑ
٭٭٭
سلام
احمد ادریس (گوجر خاں )
آنکھ نم ہے تو اسی موسم دلگیر سے ہے
ایک نسبت جو ہماری غمِ شبیر سے ہے
تیرا پیغام ہمہ گیر ہے خوشبو کی طرح
جبر کو خوف تری فکر کی تشہیر سے ہے
سخن آرائی بھی اعجاز ہے کربل تیرا
حرف میں تاب ترے کرب کی تاثیر سے ہے
بنتِ زہراؑ کے مراتب ہی الگ ہیں سب سے
حرمتِ دیں اسی چادرِ تطہیر سے ہے
رنج در آئے ہیں اے ماہ محرم تیرے ساتھ
ربط احساس کا یوں حلقۂ زنجیر سے ہے
٭٭٭
سلام
حیدر سلیم
ہجوم قاتلاں ہوتے ہوئے بھی
کہاں زینبؑ وہاں ہوتے ہوئے بھی
نہ آئے کیوں مرے عباسؑ اب تک
سروں کا سائباں ہوتے ہوئے بھی
یہ کس کی پیاس ہے تیروں سے چھُلنی
لبِ آبِ رواں ہوتے ہوئے بھی
پلٹ آئی ہے خالی مشکِ غازیؑ
امیدِ تشنگاں ہوتے ہوئے بھی
یہ کیسا ظلم ہے آلِ عباء پر
حدیثِ جاوداں ہوتے ہوئے بھی
رسالت کا نگہباں اور تنہا
دلوں کا حکمراں ہوتے ہوئے بھی
اسیروں کا سُنا ہے کس نے نوحہ
سلاسل کی زبان ہوتے ہوئے بھی
جلے گا یہ دیا شامِ ابد تک
یزیدی آندھیاں ہوتے ہوئے بھی
نئے معنی کھلیں گے کربلا کے
پرانی داستاں ہوتے ہوئے بھی
اُلٹ دی ہے علی اصغرؑ نے بازی
تیرے تیر و کماں ہوتے ہوئے بھی
ملائے کون نظریں اُن سے حیدرؔ
سرِ نوکِ سناں ہوتے ہوئے بھی
٭٭٭
سلام
اظہر عباس ( شیخوپورہ)
اِک ایک سانس ترے نام حسینؑ
میرے مولا، مرے امام حسینؑ
کوئی خیمہ رہا، نہ خیمہ نشین
یوں تِرے بعد آیہ شام حسینؑ
روزِ آخر تلک رہے زندہ
روشنی کا تِرا پیام، حُسینؑ
خود ہی بھر جاتی ہیں مِری آنکھیں
اب تو ہوتی ہے جب بھی شام حُسینؑ
دشتِ غم میں پڑے ہوئے تنہا
آج بھی ہیں تِرے غلام، حسینؑ
ایسا تاریخ میں نہیں کوئی
جیسا تو ہے، تجھے سلام حسینؑ
زندگی کی ہر ایک مشکل میں
یاد آتے ہیں گام گام حسینؑ
٭٭٭
سلام
لیاقت علی جعفری (کشمیر)
دیوار و در پہ بام پہ دہلیز پر ہے پیاس
میں تشنہ لب ہوں آج میرا گھر کا گھر ہے پیاس
میں نے بھی کربلا کو نبھانا ہے عمر بھر
مدت سے میرے ساتھ بھی محو سفرہے پیاس
مجھ کو بلا رہا ہے سمندر کہ میں چلا
دریا ہوں اور آج میری رہگزر ہے پیاس
سیراب ہو چکے ہو تو اب سوچتے پھرو
اس وقت کس طرف ہے سمندر، کدھر ہے پیاس
تشنہ لبی سے اپنا تعلق ہے دائمی
کچھ بھی ہے پاس ہمارے، مگر ہے پیاس
کس درجہ پر شکوہ ہے عزا خانۂ حیات
دریا ہے اشک بار کبھی نوحہ گر ہے پیاس
صحرا نے ٹور ڈالی ہے دریا کی تمکنت
حلقومِ تشنگاں میں بہت تر بہ تر ہے پیاس
اصغرؑ نے حرملہ سے کہا کانپتا ہے کیوں
تیرا ہنر فرات ہے میرا ہنر ہے پیاس
میں دشتِ نینوا کا مسافر ہوں جعفریؔ
زیرِ قدم ہے نہر تو پیشِ نظر ہے پیاس
٭٭٭
سلام
غضنفر مہدیؔ (لودھراں )
سربُریدہ بدن، بے وطن
نہ کفن، نہ دفن، بے وطن
ڈٹ گیا ظلم کے سامنے
پسرِ خیبر شکن، بے وطن
جب چلیں ظلم کی آندھیاں
ڈھے گیا سب چمن، بے وطن
لٹ گیا کربلا قافلہ
پھر ہوا ہے وطن، بے وطن
کربلا میں ذرا دیکھ تو
رب سے محوِ سخن، بے وطن
سج گیا خار کی نوک پر
اک حسیں گل بدن، بے وطن
نہ کٹا سر تُو دشت میں
کٹ گیا پنجتن، بے وطن
٭٭٭
وہ تم تھے۔۔۔
منیر احمد فردوس (ڈیرہ اسماعیل خان)
٭
اے وحشت خیز لمحوں کی گود میں پلنے والو!
وہ تم تھے۔۔۔
جنہوں نے کاغذ پہ اپنی وفا کے منظر بنا کے
اُس مسافر کو بھیجے تھے
جس کا سفر کبھی نہ رکے گا
وہ تم تھے۔۔۔
جنہوں نے مسافر کے پہنچنے سے پہلے
ظلم کی بساط بچھا کر اس کے لئے
جبر کی کتنی ہی چالیں ترتیب دے ڈالیں
وہ تم تھے۔۔۔
جن کے سامنے مسافرسے اُس کے سبھی منظر چھینے گئے
اور تم نے آنکھوں کو
اندھیروں کے پاس گردی رکھ کے
ظلم کی رسم کو ایجاد کیا
تمہیں کیا خبر۔۔۔
وہ مسافرکڑی مسافتوں کے سب مرحلے طے کر کے
تمہارے تاریک سینوں میں وفا کے چراغ جلانے آیا تھا
مگر تم سب اسے پیاس کے صحرا میں تنہا چھوڑ کر
اپنے اندر پھیلے
ظلمتوں کے جنگل میں جا چھپے
کاش ریت پر بنتی مٹتی اُن لکیروں کو تم دیکھ لیتے
جس میں آج بھی تم قید ہو
اور جس سے رہائی کے سب رستے
اُس مسافر کے پاس تھے
جو سفر سے کبھی نہ لوٹے گا۔
٭٭٭
سلام
افتخار فلک کاظمی (لیہّ)
ظاہر مقام داد ہے سر کو جھکائیے
ہر داد با مراد ہے سر کو جھکائیے
مقبولِ عام ہوں گے سبھی سانحات پر
یہ کربلا کی یاد ہے سر کو جھکائیے
چودہ سو سال بعد بھی زندہ ہے ان کا نام
اک نعرہ زندہ باد ہے سر کو جھکائیے
یہ دل ہے لا اِ لہٰ میں گویا کہ مست الست
ہاں ہاں یہی جہاد ہے سر کو جھکائیے
اکبرؑ بھی اور قاسمؑ و غازیؑ بھی چل بسے
شہرِغمِ سواد ہے، سر کو جھکائیے
اک عالم مراد ہے جس کے طواف میں
اصغرؑ نصیب زاد ہے، سر کو جھکائیے
٭٭٭
سلام
محمود ناصرؔ (اٹک)
کیا عجب تو نے مرحلہ دیکھا
ظلم کا ایک سلسلہ دیکھا
نیزے پر بھی تلاوتِ قرآں
آنکھ نے یہ بھی معجزہ دیکھا
آندھیوں میں جلائے جس نے چراغ
کربلا میں وہ قافلہ دیکھا
چشم افلاک نے فرات کے پاس
حق و باطل کا معرکہ دیکھا
بر سرِ عام دنیا والوں نے
اُن بہتّر کا فیصلہ دیکھا
چشمِ حیرت یہ کہہ اُٹھی ناصرؔ
اس سے بڑھ کر نہ سانحہ دیکھا
٭٭٭
سلام
نعیم رضا بھٹی (منڈی بہاؤالدین)
برائے خیر بصد اہتمام کرتا ہوں
ثنائے سبط نبیؐ وردِ جام کرتا ہوں
تمہارے نام سے ہوئی ہے ابتدا میری
حسینؑ تم پہ ہی خود تمام کرتا ہوں
جو نقدِ جاں رکھی ہے میری وراثت میں
میں کربلا کے نقش کے نام کرتا ہوں
بکھر گئی تھی جو خوشبو کنارِ جوئے فرات
میں اب بھی اس کے تصور میں شام کرتا ہوں
وفا پرست جو باطل سپاہ میں تھا رضاؔ
اسے وسیلۂ خیرالانام کرتا ہوں
٭٭٭
سلام
سائلؔ نظامی (گوجرخان)
وفا شعارو! محرم قریب آ گیا ہے
ترستے تھے جسے، وہ غم قریب آ گیا ہے
غمِ زمانہ! بس اب چھوڑ دے مِرا پیچھا
غمِ حسینؑ کا موسم قریب آ گیا ہے
تمہارے غم میں لٹانے کو اشک مانگے تھے
سو میری آنکھ سے زمزم قریب آ گیا ہے
دیارِ شاہ، کہ ترسی ہے عمر بھر جس کو
سنبھل لے دیدۂ پُر نم، قریب آ گیا ہے
رہِ امامؑ پہ رکھا تھا پاؤں سائلؔ نے
درِ بہشت سے یکدم قریب آ گیا ہے
٭٭٭
بحضور شاہِؑ کربلا
ڈاکٹر فخر عباس (لاہور)
خدا نے جس سے ہو کی محبت
ہمیں ہے اس سے بڑی محبت
حسینؑ پیارا ہی اس قدر ہے
کہ ہر کسی کو ہوئی محبت
عبث یہ فتوے عزا پہ انکے
ہے کیا کسی سے رُکی محبت
وفا کا مکتب ہی کربلا ہے
وہیں سے سیکھی گئی محبت
وفا میں بازو کٹے جہاں پر
وہیں سے ہم کو ملی محبت
عجیب اصغرؑ کا واقعہ تھا
اُسے بھی تیروں سے تھی محبت
حسِین کڑیل جواں تھا اکبرؑ
سو اس نے جھیلی کڑی محبت
٭٭٭
کربلا
صبیح الدین شعیبی
زمیں کا رنگ دیکھو
اور ہوا کی بو کو پہچانو
سفرکو روک دو
اپنے یہیں خیمے لگا دو
اور جو باقی دن بچے ہیں
یہیں وہ دن بِتا دو
یہی دھرتی ہے جس پر اب ہمارا خون بہنا ہے
یہیں پر جان جانِ آفریں کے سپرد کرنی ہے
کفر کی ساری طاقت آج دریا برد کرنی ہے
حسین ابنِ علی حق پر رہے حق پرہی رہنا ہے
کہ سر کٹ جائے اپنا پھر بھی ہم کو سچ ہی کہنا ہے
٭٭٭
نیا سویرا
ارشد خالدؔ
زوالِ وقت سے پہلے
محبت کھینچ لائی ہے
یہ خاکِ کربلا پر
کربلا والوں کا تم اعجاز تو دیکھو
کہ باطل کی شبِ تاریک سے
سورج صداقت کا ابھر آیا!
٭٭٭
مودّت
ارشد خالدؔ
محبت میں ذرا آگے کو بڑھتا ہوں
مودّت میں بدلتا ہوں
تو اک معصوم ہستی کا
لبوں پر نام آتا پے
کہ جس کے نام سے
’’خیر کثیر‘‘ آتا ہی جاتا ہے
تو میں بھی اب مودت میں
اسی کا نام لیتا ہوں
اسی کا نام جپتا ہوں
٭٭٭
قطعات
فیروز خسروؔ (کراچی)
٭
مسلک کوئی بھی ہو نہیں اس سے ہمیں غرض
ملت کی شان ، دین کی پہچان ہے وہی
غم کو حسینؑ کے جو سمجھتا ہو اپنا غم
اپنی نظر میں صاحبِ ایمان ہے وہی
٭
دشمن ہو کہ ہو یارِ طرحدار ، کہو سچ
سو بار سزا ملتی ہو سوبار، کہو سچ
سیکھا ہے یہی ہم نے حسین ابنِ علیؑ سے
سر لاکھ قلم ہو سرِ دربار ، کہو سچ
٭
قدم قدم پہ ہیں روشن نشانِ پا ، دیکھو
نبیؐ کی آل کا یہ زندہ معجزہ ، دیکھو
ہزار ظلمتِ شب راہ روکنے آئے
علیؑ کا نام لو اور سوئے کربلا ، دیکھو
٭
آرام کی ہے فکر نہ سودا ہے چین کا
دلدادہ آجکل ہے یہ دل شور و شین کا
آنکھوں سے اشک بن کے کلیجہ لہو ہُوا
جب بھی کسی نے نام لیا ہے حسینؑ کا
٭
جچتا نہیں ہے اب کوئی چہرہ نگاہ میں
دل میں سجی ہوئی ہے جو مورت حسینؑ کی
مظلومیت کا آج بھی پرچم بلند ہے
کل بھی تھی آج بھی ہے ضرورت حسینؑ کی
٭
دنیا کے تخت و تاج سے بیزار ہم ہوئے
مرکز وہ ذات جب ہوئی ، پرکار ہم ہوئے
اپنی نگاہ میں کوئی منصب جچا نہیں
جب سے غلامِ حیدرِ کرارؑ ہم ہوئے
٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شام عاشور
پھر خیمہ نگاہ سے تازہ دھُواں اُٹھا
مرثیہ، شاعر حسینیت
مولانا قیصر بارہوی مرحوم
{۱}
پھر خیمہ نگاہ سے تازہ دھُواں اُٹھا
پھر کاروانِ فکر سے شور فغاں اُٹھا
دل کی زمیں سے درد کا اِک آسماں اُٹھا
پھر ہر نفس کیساتھ غمِ بیکراں اُٹھا
ہیں گرم آنسوؤں میں سمندر ملال کے
پانی پہ چل رہے ہیں سفینے خیال کے
{۱}
غالب ہے رُوح پر وہ قیامت کہ الحذر
جیسے ابھی لٹا ہو کسی بے وطن کا گھر
اک سمت جشن فتح کے باجے شباب پر
اک سمت سر کھلے ہوئے ناموس نوحہ گر
لشکر میں شور خلعت و انعام کے لئے
نیزوں پہ کچھ چراغ جلے شام کے لئے
{۳}
سُنتا ہوں اضطراب کہ صحرا کی سائیں سائیں
جیسے یتیم بچوں کی سہمی ہوئی صدائیں
نوحہ سُنا رہی ہیں تڑپتی ہوئی فضائیں
جیسے رسولؐ زادیاں بالوں سے مُنہ چھپائیں
یوں دیکھتا ہوں عرش کی تقدیر خاک پر
جیسے بچھی ہو چادر تطہیر خاک پر
{۴}
تاریکیوں کا فرش اُجالوں کی میتیں
وہ میتیں جو غیرت انساں کی سرحدیں
طوفاں سُپرد عظمتِ آدم کی مشعلیں
بربادیوں کی چھاؤں میں کعبے کی رونقیں
مفہوم کہہ رہا ہے غموں کے بیان کا
گیتی نے پی لیا ہے لہو آسمان کا
{۵}
قلبِ سحر میں شام کا خنجر لہو لہو
سورج کی قتل گاہ کا منظر لہو لہو
پامال بے کفن مہ و اختر لہو لہو
تاراجیِ خیام بھرا گھر لہو لہو
نظروں میں انتہائے الم کا مقام ہے
آنسو تھکے ہوئے ہیں غریبوں کی شام ہے
{۶}
فطرت سے پوچھتا ہوں یہ کیسے غریب ہیں
کس کے حرم ہیں کس کے پریشاں نصیب ہیں
چہرے تو کہہ رہے ہیں خُدا سے قریب ہیں
پھر ان پہ کیا بنی ہے جو سب سے عجیب ہیں
ہونٹوں پہ آیتوں کا خزینہ لئے ہوئے
بیٹھے ہیں بیکسی کا مدینہ لئے ہوئے
{۷}
معصوم بندگی کا مہکتا ہوا چمن
گویا خدا کی حمد میں گلزار پنجتن
معراجِ غم پہ شکر میں ڈھلتے ہوئے سخن
معلوم ہو رہے ہیں محمدؐ کے خوش دہن
ہر سانس کے وجود میں قراں سمیت ہیں
کردار کہہ رہا ہے یہی اہل بیت ہیں
{۸}
پیشانیوں کی خاک میں سجدوں کی داستاں
جیسے خُدا کے پیار کی تابندہ کہکشاں
تسبیحِ فاطمہؑ سے عبادت نوازیاں
جیسے پیمبروں ؐ کی دعائیں بجسم و جاں
اشکوں کے ساتھ ساتھ جو تکبیر ہوتی ہے
مظلومیت میں دین کی تعمیر ہوتی ہے
{۹}
بے پردگی کے بوجھ سے اُٹھتی نہیں نظر
آنکھیں نثار ہوتی ہیں اِک اک شہید پر
مقتول وارثوں کی طرح عالمِ جگر
برچھی کی شکل سینے میں مستقبلِ سفر
خیموں کی راکھ یوں ہے کھلے سر ڈھکے ہوئے
قُراں کو جیسے گرد کی چادر ڈھکے ہوئے
{۱۰}
دریا کا قُرب چلتے ہوئے زخم تشنگی
دہشت کی لہر کانپتا ماحول بے بسی
دشمن کے تازیانے زمانے کی بے رُخی
چاروں طرف ستم کی کہانی لکھی ہوئی
یہ منظرِ الم جو نگاہوں پہ چھا گئے
اِک بے وطن کو اہل حرم یاد آ گئے
{۱۱}
اُبھرا بساط ذہن پہ میدان کربلا
چمکی لہو کی برق پہ عنوان کربلا
ظاہر ہوئی شہادت مہمان کربلا
اب سامنے ہے شام غریبانِ کربلا
تاریخ رو رہی ہے یہ سرخی لئے ہوئے
سیدانیاں ہیں خون کے آنسو لئے ہوئے
{۱۲}
مانندِ نبض ڈوبتے لمحَات کی قسم
بڑھتا گیا تلاطمِ عاشور دم بدم
آخر زبانِ عصر سے گونجی صدائے غم
معصُوم کائنات کا سر ہو گیا قلم
خیر البشر کے سینے سے خنجر گزر گیا
مقتل میں فاطمہؑ کا صحیفہ بکھر گیا
{۱۳}
پانی کی طرح بہہ گیا خون رسولؐ پاک
برچھی سے مرتضیٰ کا کلیجہ ہوا ہے چاک
آندھی چلی حدیقۂ زہراؑ میں دردناک
وحدت کی لالہ زار ہوئی کربلا کی خاک
ذرّے عروج پا گئے فخر کلیم سے
صحرا میں جان پڑ گئی ذبحِ عظیم سے
{۱۴}
مظلوم کے لہو میں نہائے ہوئے ہیں تیر
اسلام کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں تیر
قراں کو ہر طرف سے چھپائے ہوئے ہیں تیر
انسانیت کا جسم اُٹھائے ہوئے ہیں تیر
وحدت کو یہ ادائے شہادت پسند ہے
نیزے پہ سر ہے لاش زمیں سے بلند ہے
{۱۵}
کس بانکپن سے حمد کا پیکر ہے سرخرو
جیسے ہوئی ہو بندہ ہو آقا میں گفتگو
آواز دے رہی ہے بریدہ رگِ گلو
کس نے کیا ہے خون جگر بند سے وضو
کافر بھی مان لیں گے صداقت نماز کی
اب سجدۂ حسینؑ ہے عظمت نماز کی
{۱۶}
کوئی نہیں جو لاش سے ناوک جدا کرے
کوئی نہیں جو غسل و کفن بے وطن کو دے
تدفین کیلئے تو کوئی کلمہ گو اُٹھے
کوئی نہیں جو بنت نبیؐ کی دُعائیں لے
قرآں کو غم ہے حافظ قرآں خموش ہیں
اسلام رو رہا ہے مسلماں خموش ہیں
{۱۷}
اپنے لہو میں تیر گیا آج وہ بشر
سجدے کریں گے اہلِ وفا جسکی خاک پر
طے کر گیا وہ عشق کے شعلوں کی رہگذر
جو تشنگی سے توڑ گیا موت کی کمر
پیغمبری کا حُسن تھا جس کی اداؤں میں
وہ سر فروش سو گیا زخموں کی چھاؤں میں
{۱۸}
کس نے کہا چراغ بُجھا اہل بیتؑ کا
اب تو شفق نے نام لکھا اہل بیتؑ کا
باقی رہے گا درس بقا اہل بیتؑ کا
دیں اہل بیتؑ کا ہے خدا اہل بیتؑ کا
یہ غم نہ مٹ سکے گا دِل مشرقین سے
اب مصطفیٰؑ کا نام چلے گا حسینؑ سے
{۱۹}
مستقبل حیات سنائے گا اب یہ حال
مشکل کشائے دین خُدا ہے علیؑ کا لال
صحرا میں جس غریب کی میت ہے پائمال
اَب حشر تک اِسی کی کہانی ہے لازوال
کلمہ پڑھیں گے راہ خدا کے شہید کا
اہل شعور نام نہ لیں گے یزید کا
{۲۰}
مقتل کی لازوال شفق میں حیات ہے
مظلومیت کی سرخ ورق میں حیات ہے
وحدت پسند نظم و نسق میں حیات ہے
عاشور کربلا کے سبق میں حیات ہے
سیراب عقل و ہوش ہیں پیاسے فرات کے
اب تذکرے رہیں گے حسینیؑ ثبات کے
{۲۱}
جس کے عمل نے جبر کے بازو کئے ہیں شل
جسکی حسامِ صبر نے کاٹا سرِ اجل
جس کے بدن نے موڑ دئیے برچھیوں کے پھل
جس کی نظر نے چھین لئے ابروؤں سے بل
اس کا بیاں تصور ہستی پہ چھائے گا
اب سیدہؑ کا لال بہت یاد آئے گا
{۲۲}
اب ظُلم کے خلاف اُٹھیں گے جوان و پیر
اب سر کشی سے زیر نہ ہو گا کوئی ضمیر
ہتھیار کے پہاڑ ہوں یا لشکر کثیر
اب ظالموں کی موت ہے مظلومیت کا تیر
حق آشنا دِلوں اُتر جائے گا حسینؑ
چھپ جائے آفتاب نظر آئے گا حسینؑ
{۲۳}
اب دیکھ لیں گے دولت دنیا کے فتنہ گر
سرچشمۂ شرافت و عظمت ہے کس کا گھر
دھرائیں گے یہ بات سفیران خشک و تر
اولاد مصطفیٰؐ سے منور ہیں بحر و بر
بدلیں گے رنگ مشغلۂ شورشین کے
پانی سے اَب چراغ جلیں گے حسینؑ کے
{۲۴}
لاشوں پہ رقص کر چکے وحشت نما سوار
فریاد کر کے بیٹھ گیا دہشت کا غبار
مولیٰ کے ساتھ ساتھ مولائی ہیں تار تار
برباد گلستاں ہے تو اجڑی ہوئی بہار
قربانیوں کے رنگ حسینی چمن میں ہیں
یا ایک ساتھ چاند ستارے گہن میں ہیں
{۲۵}
گردوں کا چاند کہتا ہے پہنے ہوئے کفن
ماتم کناں ہے میرے ستاروں کی انجمن
ٹکڑے ہوئے ہیں آج جو معصُوم گُلبدن
زخموں سے چاک ہو گیا فطرت کا پیراہن
کوئی ضیاء نہیں ہے کوئی بندگی نہیں
جب فاطمہ کا چاند نہیں چاندنی نہیں
{۲۶}
یہ کہہ کے رو رہی ہے ندامت بھری فرات
پیاسی شہید ہو گئی زہراؑ کی کائنات
لکھی ہے کربلا نے وہ تاریخ حادثات
حیران جس پہ ساری خدائی کے واقعات
تاروں کو حقِ جلوہ فشانی نہیں ملا
انسانیت کے پھولوں کو پانی نہیں ملا
{۲۷}
یہ بات کہہ کے چھپ گیا مغرب میں آفتاب
اب شام کا نصیب ہے اور مستقل عذاب
دنیا مٹا سکے گی نہ یہ رنگِ انقلاب
مظلوم نے کیا ہے اندھیروں کا سدِ باب
پنپے گی اب نہ شام کی ظلمت زمانے میں
قائم رہے گی صبح رسالت زمانے میں
{۲۸}
چھوٹی سی ایک قبر سُناتی ہے بار بار
مجھ کو عطا کیا تھا مسافر نے شیرِ خوار
بھالے چبھو کے لئے گئے ظالم وہ گلعذار
بچے کو ذبح کر کے ہنسے ہیں ستم شعار
نیزے پہ آشکار جو ننھا گلاب ہے
باغ حسینیتؑ کا مکمل شباب ہے
{۲۹}
سجدوں میں کہہ رہے ہیں یہ جلتے ہوئے خیام
یارب کہاں یہ آگ کہاں خانۂ امام
حکم خدا سے فرض ہوا جن کا احترام
اُن آیتوں کو لوٹنے آئی سپاہ شام
خالق نے جن کو خلعتِ عصمت عطا کیا
نامحرموں نے آج اُنھیں بے ردا کیا
{۳۰}
تپتی ہوئی زمیں کے اشارے میں دمبدم
خیموں کی گرم خاک ہے اور مجلسِ حرم
ایسا کوئی چمن ہے نہ ایسی بہار غم
مقتل بنی ہوئی ہے یتیموں کی چشمِ نم
میدان میں پڑے ہوئے لاشے نظر میں ہیں
دُروں کا ہے خیال طمانچے نظر میں ہیں
{۳۱}
یادوں میں سن رہی ہے کوئی صبح کی اذاں
جھولے کو دیکھتی ہے کوئی سوگوارماں
غالب کسی کے ذہن پہ مشکیزہ و نشاں
آنکھوں سے کوئی ملتی ہے عابد کی بیڑیاں
ملتے ہیں کتنے حادثے تصویر آہ میں
بھائی کے خشک لب ہیں بہن کے نگاہ میں
{۳۲}
چھائی فضائے دشت پہ جب یہ صدائے غم
اُٹھی تڑپ کے خاک سے اک پیکر الم
اسلام کا حصار بنی جنبش قدم
ہاتھوں کو مل گیا اسدؑ اللہ کا بھرم
ہمت بڑھی حسینؑ کے احساس کی طرح
زینبؑ کو جوش آ گیا عباسؑ کی طرح
{۳۳}
چادر کی فکر بچوں کے رُخسار کی خراش
خود اپنے نونہالوں کی فرقت کا ارتعاش
قاسم کا جسم پھول کی مانند پاش پاش
مانجائے کا تڑپتا بدن نوجواں کی لاش
یہ سب خیام ایک ہی منظر میں آ گئیں
زینبؑ کو احتجاج کا پیکر بنا گئیں
{۳۴}
سینے کے داغ حوصلۂ تشنگاں ہوئے
زخموں کے پھُول عزم و عمل کی زباں ہوئے
آنسو نئے سفر کے لئے کہکشاں ہوئے
اکبرؑ کا نام لے کے ارادے جواں ہوئے
دشوار تھی جو راہ وہ آسان ہو گئی
اصغرؑ کی یاد فتح کا عنوان ہو گئی
{۳۵}
کہنہ لباس بھائیؑ کی رخصت نگاہ میں
رخصت کے وقت جملۂ وصیت نگاہ میں
وہ آخری سلام کی نوبت نگاہ میں
تازہ لہو خضاب کی صورت نگاہ میں
لیکن علاج گردش تقدیر بن گئیں
زینب غم حسینؑ کی تاثیر بن گئیں
{۳۶}
لیلیٰؑ کی فکر بیوۂ عباسؑ پر نظر
بے چینیاں ربابؑ کی آغوش دیکھ کر
سینے میں درد زوجۂ مسلمؑ کے حال پر
اشکوں کی آگ مادر قاسمؑ کی چشم تر
طوفان رنج دامنِ دل میں چھپا لیا
زینبؑ نے خود کو صبر مجسم بنا لیا
{۳۷}
کلثومؑ کی برستے ستاروں سے گفتگو
کانوں سے اک یتیمؑ کے بہتا ہوا لہو
اشکِ عروس وہبؑ میں قلب وفا کی بو
کچھ بییبوں میں گود کے پالوں کی جستجو
کل واقعات اپنی نظر میں بسا لئے
زنیبؑ نے سب کے غم تن تنہا اٹھا لئے
{۳۸}
اُٹھے مزاج صبر سے جرأت کے ولولے
پیدا ہوئے کمال خطابت کے ولولے
مجبوریاں نہیں جو قیادت کے ولولے
دوڑے لہو میں حفظِ امامت کے ولولے
جیسے حسینؑ آتے تھے آئیں اسی طرح
عابدؑ کے سر پہ ہاتھ رکھا باپ کی طرح
{۳۹}
طوق گراں کو دیکھ کے آئے جبیں پہ بل
ہتھکڑیاں دیکھ لیں تو کہا زندگی سنبھل
اب خاک ہوں گے شام کے نخوت بھرے محل
یہ ظلم ہے حکومتِ مغرور کی اجل
بنت علیؑ شہیدوں کی آواز ہو گئی
زینبؑ کی جنگ آج سے آغاز ہو گئی
{۴۰}
جشن طرب میں لشکر اعدا کو دیکھ کر
مقتل میں روح سید بطحا کو دیکھ کر
چاروں طرف قیامت صحرا کر دیکھ کر
عباسؑ کے خیال میں دریا کو دیکھ کر
خود ہی جو آ گئے تھے وہ آنسو نکل گئے
زہراؑ کی نور عینؑ کے تیور بدل گئے
{۴۱}
مانند شب مصیبتِ پیہم کی ایک جھیل
ہر سمت آسماں کی طرح درد کی فصیل
ہر سانس زندگی کے لئے نوبت رحیل
ایسی فضا میں جرأت زینبؑ کی سلسبیل
عہد سلف کا آئینہ حیران ہو گیا
بحرُالالم کا واقعہ قرباں ہو گیا
{۴۲}
مریم سرشت قلب جگر حاجرہ مثال
معصومیِ نگاہ میں آیات کا جمال
مقصد کی تیغ جذبۂ خیرانساء کی ڈھال
زخمی کمر سے باندھے ہوئے اِنّما کی شال
یہ طرز جنگ حرمتِ قرآں کے واسطے
پیغبریؐ ہے عالمِ نسواں کے واسطے
{۴۳}
بالوں نے خاک ہو کے بنائی نقاب رُخ
تطہیر کے حجاب نے رکھا حجاب رُخ
رومالِ ہل اتیٰ نے چھپائی کتاب رُخ
غیظ ابوتراب سے نکھرا گلابِ رُخ
خوف و ہراس کٹ گئے سیف خیال سے
پلکوں نے اشک پی لئے رعبِ جلال سے
{۴۴}
ہر وسعت نگاہ رسالتؑ اثر ہوئی
قائد بنی صداقت عمراں کی روشنی
حاصل ہوئے شعور کو انداز جعفری
شبیر کے اُصول کی تلوار باندھ لی
پرچم دیا جو فتحِ خیبر کے نام نے
چومے قدم ارادہ تسخیرِ شام نے
{۴۵}
سہمی فضا لرزنے لگے ظلمتوں کے بام
بنیاد جبر ہل گئی ٹوٹا غرور شام
زینبؑ نے زندگی سے کیا اس طرح کلام
اب دیکھنا غریب کا خاموش انتقام
تکمیل صبر و ضبط ہے بیٹی بتولؑ کی
شبیرؑ بن گئی ہے نواسی رسولؑ کی
{۴۶}
دیکھا نگاہِ ارض و سما نے یہ ماجرا
حیدرؑ کی لاڈلی ہوئی تقدیر کربلا
ماتھے کی سلوٹوں سے کھلا عقد بقا
نظریں اُٹھا کے جانبِ یثرب یہ کہہ دیا
امّاں شکستہ ناؤ کی پتوار دیکھ لو
زنیبؑ ہے آج قافلہ سالار دیکھ لو
{۴۷}
قلب و نظر کو محو شہیداں کئے ہوئے
بے چارگی کو درد کا درماں کئے ہوئے
ہر سانس کو مقابل طوفاں کئے ہوئے
قبضے میں اپنے گردش دوراں کئے ہوئے
سب غمزدوں کو پاس بُلا کر بٹھا لیا
بچوں کو پیار کر کے گلے سے لگا لیا
{۴۸}
کلثوم سے کہا مجھے دیکھو میری بہن
میں بھی تو ہوں مسافر و مظلوم کی بہن
باقی بہت ہے مرحلۂ زندگی بہن
آغازِ انقلاب ہوا ہے ابھی بہن
سنبھلو خدا کے دیں کی بھلائی کے واسطے
ان آنسوؤں کو روک لو بھائی کے واسطے
{۴۹}
اٹھو بہنؑ تحملِ بنتِ نبیؐ دکھاؤ
شبیرؑ کی بہنؑ ہو مصیبت میں مسکراؤ
مغموم بھاوجیں ہیں گلے سے اِنہیں لگاؤ
عابدؑ بخار میں ہے ذرا اس کے پاس جاؤ
زہراؑ کے مہ لقا کی ضیاء اور کون ہے
اب وارثوں میں اس کے سوا اور کون ہے
{۵۰}
پھر کچھ خیال آتے ہی دیکھا اِدھر اُدھر
اُٹھے قدم جلے ہوئے خیموں پہ کی نظر
خیمے کی ایک چوب جو دیکھی زمین پر
یا بو ترابؑ کہہ کے اُٹھائی بہ کرّ و فر
دل سے کہا جیئے مرا عابدؑ مروں گی میں
اُجڑے ہوئے چمن کی حفاظت کروں گی میں
{۵۱}
کاندھے پہ چوب خیمہ کو رکھ کر کہی یہ بات
یہ مرحلہ بھی دیکھ لو اے فاتحِ فرات
کل تم اسی طرح سے تھے پھر تے تمام رات
اب میں ہوں اور غریبوں کی چھوٹی سی کائنات
منزل بڑی کٹھن ہے جگر تار تار ہے
عباسؑ اب تمہاری بہنؑ پہرہ دار ہے
{۵۲}
مقتل کی سمت گیسوؤں والے کو دی صدا
اے نور عین یوسف کنعان کربلا
انداز دیکھو اپنی پھوپھیؑ کے جہاد کا
ہاتھوں میں چوب خیمہ ہے اور سر کھلا ہوا
زینبؑ نہیں یتیموں کی اک پاسبان ہے
اکبرؑ یہ امتحان بڑا امتحان ہے
{۵۳}
اک گوشہ زمیں کی طرف دیکھ کر کہا
بچو تمہیں بتاؤ یہ کیا حادثہ ہوا
صدقہ اتارنے سے بھی زینبؑ کو کیا ملا
اماّں کا باغ لُٹ گیا بھائیؑ نہیں رہا
دیکھ تو آ کے عونؑ و محمدؑ کہاں ہوں میں
کیوں مجھ سے بے خبر ہو تمہاری تو ماںؑ ہوں میں
{۵۴}
قاسمؑ کی یاد آتے ہی یاد آ گئے حسنؑ
نظروں میں پھر گئی وہ لہو سے بھری لگن
تھا سامنے بھتیجے کا بکھرا ہوا بدن
نکلے زبانِ پاک سے برجستہ یہ سخن
ہر سمت ٹکڑے ٹکڑے ورق زندگی کا ہے
بیٹاؑ تمہاری طرح کلیجہ پھوپھیؑ کا ہے
{۵۵}
ناگاہ پاس آ کے یہ فضہؑ نے کہہ دیا
اے وارث شرافت زہراؑ غضب ہوا
گم ہو گئی امانتِ مظلومِؑ کربلا
کیا جانے کس طرف گئی معصومؑ مہ لقا
بچی ہے اس اندھیرے میں دہشت سے مر نہ جائے
جلدی تلاش کیجے سکینہؑ گزر نہ جائے
{۵۶}
یہ سنتے ہی تڑپ گئیں زہراؑ کی یادگار
تاریکیوں کو دیکھ کر بولیں بہ اضطرار
اے رات ہم غریبوں کی دولت سے ہوشیار
صحرا میں کھو نہ جائے شہیدوں کی سوگوار
سناٹا بڑھ رہا ہے قیامت بپا نہ ہو
اے رات ہم سے پیاری سکینہؑ جدا نہ ہو
{۵۷}
تارو خیال رکھنا وہ رستہ نہ بھول جائے
کمسن ہے تیز چلنے میں ٹھوکر کہیں نہ کھوئے
اے آسماں طمانچہ نہ کوئی اسے لگائے
معصومؑ بے پدر ہے پریشاں نہ ہونے پائے
اولاد فخرِ خضر ہے صحرا خبر رکھے
عباسؑ کی بھتیجی ہے دریا خبر رکھے
{۵۸}
اتنا کہا تو جانب مقتل اُٹھے قدم
قربان ہر قدم پہ ہوئی شدت الم
لاشوں کے ساتھ جوش میں آئی فضائے غم
عابدؑ پکارے کس لئے اب جی رہے ہیں ہم
اپنی پھوپھیؑ کے کام بھتیجاؑ نہ آ سکے
چھوٹی بہنؑ کو ڈھونڈنے بھائیؑ نہ جا سکے
{۵۹}
زینبؑ قریب گنج شہیداں جو آ گئیں
آواز دی کہاں ہو میری غمزدہ حزیں
مرتی ہے بنت فاطمہؑ کیوں بولتی نہیں
لپٹی ہو کس کی لاش سے اے میری مہ جبیں
دشمن ہے وقت سانس بھی خنجر کی دھار ہے
آواز دو سکینہؑ پھوپھی بے قرار ہے
{۶۰}
اُٹھیں جو ایک سمت سے معصوم ہچکیاں
بے تاب ہو کے ثانی زہراؑ گئیں وہاں
دیکھا تو ایک لاش ہے مانند گلستاں
جیسے لہو میں ڈوب کے نکھری ہو کہکشاں
بچیؑ ہے اشکبار سر لاش اِس طرح
بکھرے ہوئے گلاب پہ شبنم ہو جس طرح
{۶۱}
زینبؑ نے چشم ضبط سے دیکھا یہ حال غم
آغوش میں اُٹھا کے یہ پوچھا بصد الم
بیٹی بتاؤ تم کو اِسی لاش کی قسم
کیسے یقیں ہوا کہ یہی ہیں شہِ اُمم
تنہا اندھیری شب میں یہاں کیسے آ گئیں
بیٹیؑ بتاؤ لاش پدرؑ کیسے پا گئیں
{۶۲}
بچی نے تھر تھراتے لبوں سے کیا کلام
کب ختم ہو گی اے پھوپھی اّماں یہ غم کی شام
چلتی تھی بابا جان کی گردن پہ جب حسام
اس وقت آپ نے ہی بتایا تھا یہ مقام
ٹیلے پہ چڑھ کے آپ نے دیکھا تھا اس طرف
بابا کا سر بھی نیزے پہ اُبھرا تھا اس طرف
{۶۳}
کیا پوچھتی ہیں آپ سکینہؑ کا حال زار
لایا ہے اس مقام پہ مجھ کو پدر کا پیار
یہ خون کی کشش تھی جو کہتی تھی بار بار
اس لاش کو گلے سے لگانے میں ہے قرار
پہچانتی کہاں جسد پاکؑ دیکھ کر
مجھ کو یقین آ گیا پوشاک دیکھ کر
{۶۴}
بچی کے اس بیان پہ زینبؑ کے دل کا حال
ہمت کی انتہا کہوں یا صبر بے مثال
ماحول قتل گاہ نے اتنا کیا سوال
کیا اس طرح بھی ہوتا ہے زخموں کا اندمال
اُمت کہاں پہ آل محمدؑ کو لائی ہے
کیا ایسی کوئی رات کسی گھر پہ آئی ہے
{۶۵}
آخر لبِ نگاہ سے میت کو چوم کر
زینبؑ چلیں سکینہ کو لیکر بچشم تر
آئیں وہاں جہاں تھا اسیروں کا مستقر
بیمارؑ نے جھکا دیا سجدے میں اپنا سر
سجدے سے سر اُٹھا کے نہ روئے نہ آہ کی
عابدؑ نے آسماں کی طرف اک نگاہ کی
{۶۶}
ایسی نگاہ شکر کا محور کہوں جسے
شکووں کے بدلے حمد الٰہی میں لب ہلے
سوکھی ہوئی زباں سے یہ جملے ادا کئے
تو جس پہ خوش ہو اے مرے مولیٰ وہ صبر دے
غالب رہیں غموں پہ غریبانِ کربلاؑ
یا رب ترے سُپرد یتیمانِ کربلاؑ
{۶۷}
اتنے میں اک طرف سے ہوئی روشنی عیاں
جس روشنی سے سینوں میں اُٹھنے لگا دھواں
لشکر سے آئی زوجہ حُرؑ سوئے بیکساں
آب و غذا کی بات ہوئی محشر فغاں
دل پھٹ گئے ستم کی نشانی کو دیکھ کر
پیاسوں نے منہ پھرا لئے پانی کو دیکھ کر
{۶۸}
لیکن کمال ضبط سے بیمارؑ نے کہا
لازم ہے سب کے واسطے اب حرمتِ غذا
پانی پئیں تمام بصد شکر کبریا
ہر حال میں عزیز ہے اللہ کی رضا
ڈر ہے کوئی قدم سبب خودکشی نہ ہو
ہاں اہل بیتؑ شانِ وفا میں کمی نہ ہو
{۶۹}
مجبور ہو کے سب نے جو دیکھا سوئے طعام
تصویر اشک بن گئے مقتول تشنہ کام
آیا لب ربابؑ پر اک بے زباں کا نام
لیلیٰ کو یاد آ گیا اپنا مہِ تمام
ایسے میں بے قرار کلیجے کو تھامنے
عباسؑ پھر رہے تھے سکینہؑ کے سامنے
{۷۰}
زینبؑ کے دستِ پاک پہ آیا جو ظرفِ آب
مانجائے کے گلے سے ملا دل کا اضطراب
خاموش اک سوال تھا خاموش اک جواب
لیکن بتا گیا یہ تقاضائے انقلاب
جینا پڑا جو مقصدِ شبیرؑ کے لئے
زینبؑ نے پانی پی لیا تشہیر کے لئے
{۷۱}
قیصرؔ بیانِ شام غریباں محال ہے
تحریر کر سکے کوئی انساں محال ہے
لائے جواب گردش دوراں محال ہے
یوں بھی کسی کا گھر ہو پریشاں محال ہے
ہر زندگی کو ظلم سے لڑنا سکھائے گی
اب تا بہ حشر شامِ غریباں نہ جائے گی
٭٭٭
مرثیہ (شہادتِ جنابِ سکینہ)
صفدر ہمدانی
(۱)
اک اور نیا بابِ سخن کھولا ہے میں نے
میزانِ محبت میں گہر تولا ہے میں نے
اس روح پہ لکھا سانسوں سے جو مولا ہے میں نے
شبیر کو معلوم ہے کیا بولا ہے میں نے
یہ علم ہے صفدرؔ مجھے قسمت کا دھنی ہوں
مولائی ہوں میں حیدری ہوں پنجتنی ہوں
(۲)
ہاں میرا تعارف بھی یہ پہچان یہی ہے
ایماں کی قسم کھاتا ہوں ایمان یہی ہے
اس مرثیے کا سچ ہے کہ عنوان یہی ہے
ہاں آلِ محمد کا بھی احسان یہی ہے
اصغر نے یوں طاقت کا بھرم توڑ دیا ہے
رُخ پیاس کا صحرا کی طرف موڑ دیا ہے
(۳)
کہتی ہے یہی پیاس لکھو پیاسِ سکینہ
چہرے میں ہو اس مرثیے کے یاسِ سکینہ
مصرعوں میں نظر آئے جو احساسِ سکینہ
ہر رُخ سے جھلکتی ہو فقط آسِ سکینہ
رونے لگے قرطاس و قلم مرثیہ سن کر
سر پیٹ لے غازی کا علم مرثیہ سن کر
(۴)
اس مرثیے کو مولا ملے جدتِ پرواز
لفظوں میں مقید ہو ہر ایک پیکرِ دمساز
ہو شاعرِ مولا کو عطا خُلد کا اعزاز
دکھلاؤں جو اس پیاسے قلم کا تمہیں اعجاز
پھر نوکِ قلم سے یوں شرارے نکل آئیں
الفاظ جو لکھوں تو ستارے نکل آئیں
(۵)
احسان ہے یہ مرثیہ دنیائے ادب پر
ہاں اس کا تسلط ہے عرب پر تو عجم پر
قربان مشیت ہوئی جاتی ہے سبب پر
اب فخر مجھے ہونے لگا اپنے نسب پر
سلمان و ابوذر کی طرح جھوم رہا ہوں
میں میثم و قنبر کی طرح جھوم رہا ہوں
(۶)
فن مجھ کو ملا ہے یہ نبی زادوں کے در سے
زہرا تری چوکھٹ سے محمد ترے گھر سے
لفظوں کو عطا روشنی ہو شمس و قمر سے
طالب ہوں فقط داد کا اربابِ ہُنر سے
اس بزم میں اب نور جو اُترے گا وہ تکنا
ہر سمت گلستان جو بکھرے گا وہ تکنا
(۷)
اس بزم میں ہے مدحتِ شبیر کی خوشبو
جس طرح سے ہیں شام نے کھولے ہوئے گیسو
خوشبو مرے الفاظ کی پھیلی ہوئی ہر سو
ہر لفظ کو تولے ہے مودت کا ترازو
ماتم کے ہیں یہ داغ جو سینے پہ سجے ہیں
صفدرؔ تجھے سرخاب کے پر آج لگے ہیں
(۸)
ہر بند میں ہر مصرعہ مودت کا ہے اظہار
آیات کی طرح سے ہے اشعار کا معیار
پھیلی ہوئی مجلس میں فقط نکہتِ افکار
ایسے میں ہوں خوشنودیِ مولا کا طلبگار
ہر بیت میں جو فکر کا ایک پھول کھلے گا
اس کا تو صلہ ساقیء کوثر سے ملے گا
(۹)
ایسے میں قلم میرا جو قندیلِ حرم ہے
احسان ہے شبیر کا اللہ کا کرم ہے
اک وصفِ جداگانہ یہ اندازِ رقم ہے
سچ پوچھیں اگر آپ قلم، میرا علم ہے
انوارِ محمد کا بیاں ہے سرِ محفل
ہر حرف مرا نور فشاں ہے سرِ محفل
(۱۰)
ایک اور نیا مرثیہ ہونے لگا مرقوم
یہ وصف مرا آلِ محمد کا ہے معلوم
موضوع بھی ہے معصوم تو احساس بھی معصوم
اب لیں گے جنم نوکِ قلم سے کئی مفہوم
سر فخر سے اب دیکھنا کس طرح تنے گا
اب میرا قلم شہپرِ جبریل بنے گا
(۱۱)
مصرعے کا ہر اک لفظ ضیا بار ہے دیکھو
قرآن کی آیات کا اظہار ہے دیکھو
کہتے ہیں ملائک اسے شہکار ہے دیکھو
ہر نکتہ جوں خورشید نمودار ہے دیکھو
اشعار نہیں حق کا حوالہ انہیں کہیئے
تاریک ہیں گر دل تو اُجالا انہیں کہیئے
(۱۲)
اللہ کی ہاں رحمتِ بے حد کی قسم ہے
ہاتھوں میں ترے مولا عقیدت کا بھرم ہے
الفاظ کی صورت میں ترا ابرِ کرم ہے
ہر لفظ مرا جاہ و حشم، ناز و نعم ہے
اس فکر کی حد ہے اسے معراج ہوئی ہے
معراج یہ اب سر کا مرے تاج ہوئی ہے
(۱۳)
بنیاد ہے اس مرثیے کی جبر سے انکار
یہ کام بظاہر تو بہت لگتا ہے دشوار
ہاں ہو جو قلم مدحتِ حیدر کا طلبگار
صفحات پر ہونے لگے پھر بارشِ ایثار
ہر بیت فضیلت کا نشاں ہونے لگی ہے
اب کعبۂ دل میں بھی اذاں ہونے لگی ہے
(۱۴)
میں جانتا ہوں خوب ہے کیا مدح کی منزل
ہوں اُس کا مدح خوان جو ہے عشق میں کامل
وہ جس کی مودت میں دھڑکتا ہے مرا دل
یہ لفظ کہاں انکی ثنا خوانی کے قابل
اُن کا جو کرم ہو تو یہ دشوار نہیں ہے
مطلوب مرا وہ ہے فلک جس کی زمیں ہے
(۱۵)
اشعار میں اب بجلی چمک جائے گی تکنا
سورج کی طرح بیت دمک جائے گی تکنا
اب ساری فضا جیسے مہک جائے گی تکنا
اس عشق میں بینائی دہک جائے گی تکنا
الفاظ کو معلوم ہے یہ حدِ ادب ہے
اب سامنے لو اُن کے مرا دستِ طلب ہے
(۱۶)
اے دستِ طلب فکر نہ کر ہم ہیں ترے ساتھ
اے گردشِ ایام ٹھہر ہم ہیں ترے ساتھ
مت ڈال زمانے پہ نظر ہم ہیں ترے ساتھ
دے دنیا کو فردا کی خبر ہم ہیں ترے ساتھ
اے دستِ طلب ہو کوئی اسباب کی صورت
تارہ بھی نظر آئے جو ماہتاب کی صورت
(۱۷)
اے دستِ طلب مانگ لے اُس در کی رسائی
جس در کے غلاموں میں بھی ہے عقدہ کُشائی
اس در پہ شہنشاہوں کی عزت ہے گدائی
اس در کی فقیری ہے دو عالم کی خدائی
یہ در ہے وہ در جس سے ہر اعزاز ملا ہے
جینے کا یقیں ، مرنے کا انداز ملا ہے
(۱۸)
اے دستِ طلب جھکنا نہیں دولتِ زر پر
ہووے نہ تکبر کہیں لکھنے کے ہُنر پر
کرنا نہ بھروسہ کبھی شب پر نہ سحر پر
نکلو جو کبھی مرثیہ لکھنے کے سفر پر
تاثیرِ سخن، زورِ قلم ساتھ میں رکھنا
دل درد سے لبریز تو غم ہاتھ میں رکھنا
(۱۹)
اے دستِ طلب گرمیِ بازارِ سخن دیکھ
مجلس میں ہے پھیلا ہوا انوارِ سخن دیکھ
مولا کے تصدق میں یہ دربارِ سخن دیکھ
ہاں کیفیتِ قلب تو اظہارِ سخن دیکھ
یہ مرثیہ لکھنا بھی فضیلت کا نشاں ہے
ماہتاب ہے یہ وہ کہ جو محشر میں عیاں ہے
(۲۰)
اے دستِ طلب کر لے طلب جدتِ افکار
یہ مرثیہ ہے نظم و غزل کے نہیں اشعار
عشق آلِ محمد سے ہے ان شعروں کا معیار
ہر دم رہو خوشنودیِ حیدر کے طلبگار
جو دل میں طلب ہے وہ پیمبر سے ملے گی
بن کر یہ دعا پھول مرے لب پہ کھلے گی
(۲۱)
یہ مرثیہ گوئی کا شرف انکی عطا ہے
ہیں مخملیں الفاظ فلک رنگ قبا ہے
ماحول ہے مسحور عطر بیز فضا ہے
کم سے بھی اگر کم ہے تو جنت کی جزا ہے
لکھتے ہوئے یہ نوکِ قلم دُرِ نجف ہے
اور خود یہ قلم دست یداللہ کا صدف ہے
(۲۲)
ہر لفظ کہ جس طرح گُلِ باغِ ارم ہے
بے شک ہے دعا زہرا کی زینب کا کرم ہے
یوں ذہن کشادہ ہے کہ جوں بابِ حرم ہے
کوثر کی طرح پاک مرا دیدۂ نم ہے
ہر بیت پہ ہاں مرحبا جبریل کہے گا
اب نام مرا دیکھنا تا حشر رہے گا
(۲۳)
اللہ کے مطلوب ہیں جو اُن کا بیاں ہے
اس گھر کا ہر اک فرد محمد کی زباں ہے
یہ عشق بھی سچ ہے کہ عیاں ہو کے نہاں ہے
اس گھر کی حفاظت میں اقامت ہے اذاں ہے
ایمان کی طرح جو فروزاں یہ وہ گھر ہے
تاریکیوں میں ہے جو چراغاں یہ وہ گھر ہے
(۲۴)
اس گھر میں ہر اک پیرو جواں اہلِ نظر ہے
سچ بات تو یہ مرکزِ امیدِ ظفر ہے
یہ وہ ہیں جنہیں ہر کس و ناکس کی خبر ہے
دہلیز یہ معراج کی بھی راہ گزر ہے
اس در کا مَلَک، نجم و قمر چوم رہا ہے
اس در پہ زمیں کیا ہے فلک گھوم رہا ہے
(۲۵)
اس گھر میں مشیت کو مچلتے ہوئے دیکھا
اس در پہ پہاڑوں کو بھی چلتے ہوئے دیکھا
پانی کو یہاں آگ اگلتے ہوئے دیکھا
ہاں حُر کے مقدر کو بدلتے ہوئے دیکھا
موت ان سے طلب کرتی ہے جینے کی اجازت
ملتی ہے اسی در سے مدینے کی اجازت
(۲۶)
یہ وادیِ پُر نور ہے صحرائے زماں میں
پیغامِ بہاراں ہے یہ گھر فصلِ خزاں میں
یوں ذکر انہی کا ہوا قرآں میں اذاں میں
بخشش کا وسیلہ ہے یہ گھر دونوں جہاں میں
اللہ نے اس گھر کو جہاں ساز کہا ہے
کُن میں جو نہاں ہے اسے وہ راز کہا ہے
(۲۷)
اس در سے خورشید نمودار ہوا ہے
صحرا اسی دہلیز پہ گُلزار ہوا ہے
انساں کا مقدر یہیں بیدار ہوا ہے
خالق کی تمناؤں کا اظہار ہوا ہے
بھٹکے ہوئے انساں کو یہی راہ دکھا دیں
ذرے کو اگر چاہیں تو ماہتاب بنا دیں
(۲۸)
یہ قبلۂ ایمان ہیں یہ کعبۂ حاجات
دن کی طرح روشن ہے اسی در پہ سیاہ رات
ہاں وصفِ عزاداری اسی گھر کی ہے سوغات
تم چاہو تو اس در پہ بدل سکتے ہو حالات
اس آئینۂ دل کو جِلا ان سے ملی ہے
ہاں شمس و قمر کو بھی ضیا ان سے ملی ہے
(۲۹)
اس در کے فقیروں میں سلاطینِ زماں ہیں
ہو بات اگر عزم کی تو کوہِ گراں ہیں
ان ہی کے تصدق میں تو احساس جواں ہے
خالق نے کہا ان کو جہاں کے نگراں ہیں
ہم ان سے محبت یونہی بے جا نہیں رکھتے
یہ اپنے تسلط میں بھلا کیا نہیں رکھتے
(۳۰)
اس در پہ ٹھہر جاتی ہے ہاں گردشِ ایام
اُترے ہیں ستارے اسی چوکھٹ پہ ہر اک شام
ہاں صبر کی دولت ہے میسر یہاں ہر گام
روشن ہے یہاں صبح کی طرح شبِ آلام
فطرت کی رواں نبض یہاں رُک نہیں سکتی
ناپاک جبیں آ کے یہاں جھُک نہیں سکتی
(۳۱)
اس در پہ سمجھ آتی ہے ہر رمزِ مشیت
صدقے میں انہی کے ملی آدم کو فضیلت
قرآن کی آیات کی یہ گھر ہے وضاحت
ہے ان کے مزاجوں سے عیاں اللہ کی عادت
انساں کو یہیں تحفۂ آواز ملا ہے
جبریل کو تسبیح کا اعزاز ملا ہے
(۳۲)
ہے بعدِ خدا گھر یہی تقدیس کا محور
اس گھر سے نظر آتا ہے معراج کا منظر
بے شک ہے یہ گھر مرکزِ انوارِ پیمبر
ہاں خوشبوئے حسنینؑ سے یہ گھر ہے معطر
پروانۂ جنت کے لیئے ہم کو خبر ہے
اللہ کا در ہے یا ید اللہ کا در ہے
(۳۳)
اس گھر کی ہے بنیاد میں ایماں کی حرارت
جو ان کی رضا ہے وہی اللہ کی مشیت
یہ حفظِ عبادت ہیں یہ بنیادِ عبادت
اس گھر کی اطاعت میں ہے اللہ کی اطاعت
تطہیر کی آیات میں اس در کی ہے تعریف
یہ سورۂ کوثر بھی اسی گھر کی ہے تعریف
(۳۴)
اس گھر کی فضا رشکِ گلستانِ ارم ہے
توصیف میں ان کی جو زیادہ لکھو کم ہے
خالق نے جو کھائی ہے وہ ان ہی قَسَم ہے
اس گھر کی مدح ذکرِ شہنشاہِ اُمم ہے
لیں سانس تو خوشبوئے صبا پھیلتی جائے
انوار کی بارش سے ضیا پھیلتی جائے
(۳۵)
اس گھر میں کھِلی روشنیِ صبحِ ازل ہے
کوثر کے چمکتے ہوئے پانی کا کنول ہے
اس در پہ ہر اک پنجۂ طاغوت بھی شل ہے
ان کے جو حرف لکھا تاج محل ہے
اس در پہ کوئی راز بھی پنہاں نہیں رہتا
جو ان اک انہیں اُس کا تو ایماں نہیں رہتا
(۳۶)
اس گھر کو ملائک نے کہا عرش کا زینہ
انہوں نے ہی سکھلایا ہے سجدوں کا قرینہ
اس گھر کا ہر اک فرد شہادت کا نگینہ
یہ گھر ہے نجف، کرب و بلا، مکہ، مدینہ
دیواریں پڑھیں اس کی پیمبر کا قصیدہ
رضوان نے خود لکھا ہے اس گھر کا قصیدہ
(۳۷)
یہ گھر ہے یا اللہ کی عظمت کا نشاں ہے
ہر ایک مکیں اس کا مسیحائے جہاں ہے
گونگی ہوئی اس بزم میں موسیٰ کی زباں ہے
اس گھر پہ فرشتوں کو بھی کعبے کا گماں ہے
اس گھر کی زمیں خطۂ فردوسِ بریں ہے
گھر ایسا جہانوں میں کوئی اور نہیں ہے
(۳۸)
خیرات ہیں اس گھر کی یہ سب چاند ستارے
جبریل بھی اس در پہ مقدر کو سنوارے
یہ وہ ہیں بدل دیتے ہیں جو وقت کے دھارے
بخشش کے لیئے نوح بھی اس در پہ پکارے
خود رب نے بھی ہاں مرضیِ رب ان کو کہا ہے
تخلیقِ دو عالم کا سبب ان کو کہا ہے
(۳۹)
یہ گھر ہے یا پھر ہے حرمِ خالقِ اکبر
ہے اس کی زمیں عرشِ معلیٰ کے برابر
اس مٹی کے ذروں میں ہے نورِ مہ و اختر
اس گھر میں ہے پھیلی ہوئی خوشبوئے پیمبر
اس گھر کا شرف بیتِ الہی سے ملا ہے
صحرائے عرب میں جوں کوئی پھول کھِلا ہے
(۴۰)
ایمان کی تعلیم کا مرکز ہے یہی گھر
ہاں کوثر و تسنیم کا مرکز ہے یہی گھر
الحمد کی تفہیم کا مرکز ہے یہی گھر
یہ در درِ حسنین ہے یہ معبدِ حق ہے
یاں پہلا سبق شوقِ شہادت کا سبق ہے
(۴۱)
اس خانۂ زہرا کو کہو نور کا مخزن
یہ گھر نہیں گلہائے محمد کا ہے مسکن
سوچوں سے فزوں ان کی عنایات کا دامن
والشمس کی طرح سے ہر اک چہرہ ہے روشن
اللہ نے انہیں لائقِ تعظیم کہا ہے
یٰسین کہا، احسنِ تقویم کہا ہے
(۴۲)
اس گھر نے سکھایا ہے محبت کا قرینہ
یہ درس اسی گھر سے ملا موت ہے جینا
اعزاز اسی گھر کا شہنشاہِ مدینہ
وہ نوح کا سفینہ تھا یہ حیدر کا سفینہ
دہلیز کو اس گھر کی صبا چوم رہی ہے
تک تک کے اسے غارِ حرا جھوم رہی ہے
(۴۳)
یہ غارِ حرا شاہدِ اقرارِ رسالت
دامن میں لیئے دونوں جہانوں کی تھی رحمت
اس غار کی قسمت تھی محمد کی عبادت
اب تک ہے یہ اعلانِ نبوت کی علامت
انوار کی بارش ہوئی اس غار پہ دن رات
مسحور ہے یہ قسمتِ بیدار پہ دن رات
(۴۴)
ہوتا ہے یہاں صبح و مسا ذکرِ محمد
کرتی ہے یہاں آ کے صبا ذکرِ محمد
کونین کے خالق کی عطا ذکرِ محمد
سچ پوچھیں تو ہے ذکرِ خُدا، ذکرِ محمد
جبریلِ امیں لائے یہیں تاجِ رسالت
اللہ بھی پہنائے یہیں تاجِ رسالت
(۴۵)
یہ غارِ حرا مسکنِ خورشیدِ نبوت
یہ غارِ حرا شاہدِ اعلانِ نبوت
اسلام کے آغاز کی یہ پہلی شہادت
لہرایا ملائک نے یہیں پرچمِ وحدت
یہ غار گواہی بنی نورِ ازلی کی
یاں پر بھی محمد کو ضرورت تھی علی کی
(۴۶)
لاریب رسالت کا نگہبان علی ہے
اسرارِ الہی کا گلستان علی ہے
ہر سلسلۂ خیر عنوان علی ہے
اسلام پہ اللہ کا احسان علی ہے
کیا جنگ علی کی تھی محمد کے عدو سے
یہ فیض بھی پہنچا ابوطالب کے لہو سے
(۴۷)
سچ کہہ دوں محمد کا بھی ایمان علی ہے
ہے فخرِ نبی نازشِ سلمان علی ہے
ہر دور میں ہر فتح کا اعلان علی ہے
ہاں حشر کی منزل کا بھی سامان علی ہے
تقسیم ہوئیں نعمتیں ساری اسی گھر سے
شرمندہ اجل تھی ابوطالب کے پسر سے
(۴۸)
جو رشکِ ملائک ہے وہ انسان علی ہے
اللہ کی مشیت کا بھی ارمان علی ہے
قرآن کہے جس کو وہ میزان علی ہے
اس دل کی حسیں بستی کا سلطان علی ہے
کعبے کو شرف ان کی ولادت سے عطا ہے
وہ پھول ہے جو قلبِ محمد میں کھِلا ہے
(۴۹)
جرار علی حیدرو صفدر بھی علی ہے
سجدے میں سخاوت کا سمندر بھی علی ہے
یہ شان ہے کہ نفسِ پیمبر بھی علی ہے
باہر بھی علی ہے مرے اندر بھی علی ہے
آغوشِ پیمبر میں پَلا ہے علی حیدر
اک نور کے پیکر میں ڈھلا ہے علی حیدر
(۵۰)
ہر دور کے فرعون پہ مولا مرا غالب
ایمانِ علی مظہرِ شانِ ابوطالب
عاجز ہوئے اس در پہ معانی و مطالب
ہر ایک ولی ان کی محبت کا ہے طالب
یہ سلسلۂ عشقِ ولایت ہے علی سے
قرآں کہے قرآں کی حفاظت ہے علی سے
(۵۱)
قرآں ہے محمد سے مشیت کا تکلُم
قرآن ہے انسان کے ہر زخم کا مرہم
آیت ہے ہر اک جس طرح جھرنوں کا ترنم
اصغر کے تبسُم میں ہے قرآں کا تبسُم
اس عہد میں قرآں یہی مظلوم ہوا ہے
یوں طاق میں ہے قید کہ مغموم ہوا ہے
(۵۲)
قرآن کی فریاد جگر چیر رہی ہے
اس درد کی روداد جگر چیر رہی ہے
یہ صورتِ بیداد جگر چیر رہی ہے
بادِ ستم ایجاد جگر چیر رہی ہے
پیوستہ یوں اک تیر ہے ایمان کے دل میں
خنجر جوں اُتر آیا ہو قر آن کے دل میں
(۵۳)
آنکھوں سے اسے سینے سے دن رات لگایا
ہاں جھوٹی قسم کے لیئے سر پر بھی اٹھایا
قاری نے اسے وجد میں لہرا کے سنایا
بیمار کو قرآن کا پانی بھی پلایا
یہ ظلم ہے قرآن کا فرمان نہ سمجھے
اللہ کا مسلمان یہ احسان نہ سمجھے
(۵۴)
ہاں مقصدِ قرآن سے ہے دور مسلماں
اس اُمتِ مظلوم کا ناسور مسلماں
صد حیف ہے کس درجہ یہ مجبور مسلماں
صدیوں سے بھُلا بیٹھا ہے دستور مسلماں
مذکور نہیں ہے کہیں آئینِ جہاں میں
معلوم اسے فرق نہیں گھر میں مکاں میں
(۵۵)
وا حسرتا بھولا ہے مسلمان یہ پیغام
شبیر نے سر دے کے بچا ڈالا ہے اسلام
عاشور میں تھی کرب و بلا منزلِ الہام
روتی ہوئی جنگل میں غریبوں کی تھی اک شام
قرآن کی شبیر نے توقیر بچائی
زینب نے کھُلے بالوں سے تطہیر بچائی
(۵۶)
جب ذکر سنو ہونے لگے کرب و بلا کا
مجلس میں چلی آتی ہیں روتی ہوئی زہرا
مظلوم حُسینا کا ہو ماتم جہاں برپا
لیتی ہیں عزا داروں سے شبیر کاپُرسہ
رومال میں لیتی ہیں عزا دار کے آنسو
جنت کی سند پاتے ہیں غمخوار کے آنسو
(۵۷)
خوں روتی ہوئی دشت میں وہ شامِ غریباں
لاشے تھے یا پھر دشت میں بکھرا ہوا قرآں
بلوے میں نبی زادیوں کے سر ہوئے عُریاں
تصویرِ پیمبر تھی وہاں خون میں غلطاں
ماں بیٹی کو پابندِ رسن دیکھ رہی تھی
بھائی کے کٹے سر کو بہن دیکھ رہی تھی
(۵۸)
تھا دشت میں بے سر کے پڑا لاشۂ شبیر
اکبر نے لہو سے لکھی والعصر کی تفسیر
سچ ہو ہی گہ خوابِ براہیم کی تعبیر
سر کھولے ہوئے رونے لگی بھائی کو ہمشیر
خیموں میں لگی آگ پہ چلاتی تھی زینب
بھائی کے لیئے جیسے مری جاتی تھی زینب
(۵۹)
شبیر کا سر کٹ گیا بے جان ہے زینب
گھر لُٹ گیا زہرا کا پریشان ہے زینب
کیا جینا ترے واسطے آسان ہے زینب
اب کتنے یتیموں کی نگہبان ہے زینب
آ کر کوئی اب زینبِ بے کس کو سنبھالے
ماں بیٹی کو اس وقت کلیجے سے لگا لے
(۶۰)
ہائے وہ بستہ محمد کا گھرانہ
زندان ہے اب آلِ محمد کا ٹھکانہ
دربارِ یزیدی میں وہ سجاد کا جانا
بھولے گا کہاں درد کا منظر یہ زمانہ
تھے بیڑیاں پہنے ہوئے مسموم فضا میں
راضی تھے وہ ایسے میں بھی اللہ کی رضا سے
(۶۱)
قیدی ہیں مگر سید و سلطان ہیں سجاد
ایماں کی قسم عظمتِ ایمان ہیں سجاد
اس ظُلم پہ بھی صاحبِ عرفان ہیں سجاد
سر کہتا ہے نیزے پہ مری جان ہیں سجاد
جابر کی حکومت کا بھرم کھُلنے لگا تھا
بچوں کے سروں پہ جوں عَلَم کھُلنے لگا تھا
(۶۲)
اے قافلۂ شامِ غریباں کے علمدار
کردار ترا جیسے کہ قرآن کا کردار
خوں تلوؤں سے رستا ہے مگر چہرہ ہے گلُنار
اب عرش سے ملتا ہے ترے صبر کا معیار
اس حال میں بھی صبر کی معراج ہیں سجاد
سر باپ کا کٹوا کے بھی سرتاج ہیں سجاد
(۶۳)
قیدی ہوئی بازار میں اسلام کی حُجت
ہاتھوں میں ہے سجاد کے نبیوں کی امانت
گردن میں پڑا طوق ہے میزانِ عدالت
ہاں منصبِ سجاد ہے اب حفظِ شریعت
اب ظلم کی بیعت کا فسوں ٹوٹ گیا ہے
ہے کون جو زینب کی ردا لوٹ گیا ہے
(۶۴)
تاریخ کے ماتھے کا چمکتا ہوا کردار
بھائی سے بہن کی یہ محبت کا ہے معیار
ہر رنگ میں ہر روپ میں ایک پیکرِ ایثار
وہ جس کی خطابت کے امیں حیدرِ کرار
وہ بُجھ نہ سکی مر کے بھی وہ پیاس ہے زینب
سچ ہے کبھی حیدر کبھی عباس ہے زینب
(۶۵)
خاموشی میں بھی جس طرح قرآن کی تفسیر
دربارِ یزیدی میں تھی وہ جرأتِ شبیر
چادر ترے سر کی ہوئی اسلام کی تقدیر
کونین کے سینے پہ ترا نام ہے تحریر
دربارِ یزیدی میں جو اظہار کیا ہے
کیا بیعتِ فاسق پہ کڑا وار کیا ہے
(۶۶)
زینب کا وہ خطبہ تھا یا پھر نوح کا طوفاں
لمحے کو لگا جیسے کہ گویا ہوا قرآں
خود بنتِ علی لگنے لگیں آیۂ ایماں
ایک قیدی کے اس وار پہ قدرت ہوئی حیراں
بازو کے رسن جیسے زہر گھول رہے تھے
ہر لفظ میں جوں مولا علی بول رہے تھے
(۶۷)
پل بھر میں پلٹ ڈالے یوں دربار کے حالات
ایک قیدی کے خطبے سے حکومت کو ملی مات
ظالم یہ سمجھتا تھا لُٹی عزتِ سادات
جھٹلانے لگیں جبر کو قرآن کی آیات
بنیادِ ستم اس طرح جھنجھوڑ کے رکھ دی
زینب نے یزیدوں کی کمر توڑ کے رکھ دی
(۶۸)
دربار تھا خاموش لرزنے لگے قاتل
اک وار سے زینب کے ہوا طے حق و باطل
جیسے تھا دیا تیز ہواؤں کے مقابل
اُس فکرِ یزیدی کا ہر اک فرد تھا گھائل
دربار میں چُپ سید و سادات کھڑے تھے
اور تیرِ ستم قلبِ حکومت میں گڑے تھے
(۶۹)
ایسے میں جو اک دوزخی دربار میں اٹھا
ظالم نے اشارے سے سکینہ کو بلایا
بچی نے تڑپ کر رُخِ سجاد کو دیکھا
کہنے لگیں ظالم سے بچا لو مجھے بھیا
قسمت میں بتا دو کیا مدینہ بھی نہیں ہے
سونے کو مرے پھوپھی کا سینہ بھی نہیں ہے
(۷۰)
کیا ٹوٹے گی اب سر پہ مرے ساری خدائی
کیا آپ سے بھی اب مری ہووے گی جدائی
کیوں شامِ غریباں میں مجھے موت نہ آئی
ہیں نیل رسن کے مری دُکھتی ہے کلائی
شبیر کی بیٹی ہوں نہیں ڈرتی سزا سے
بھیا کوئی جا کے یہ بتا دے تو چچا سے
(۷۱)
میں دخترِ شبیر ہوں تطہیر کا ورثہ
سُن کر ابھی بیٹھی ہوں میں بھیا ترا خطبہ
آنکھوں میں مری صاف ہے ہر چیز کا چہرہ
اب سب پہ عیاں ہو گا جو کردارِ اُمیہ
بھیا یہ سکینہ کبھی بے زار نہ ہو گی
ظالم سے مری اب کوئی تکرار نہ ہو گی
(۷۲)
یہ کہہ کے سوئی تخت چلی چاند سی صورت
شبیر کی گودی کی پلی ہائے رے قسمت
کہنے لگا بد بخت سکینہ سے با نخوت
کہتے ہیں تمہیں ہے بڑی بابا سے محبت
اعجاز محبت تری دکھلائے تو دیکھیں
سر باپ کا جو گود میں آ جائے تو دیکھیں
(۷۳)
یہ سُن کے ہوئی غیر سکینہ کی جو حالت
کرنے لگا سر طشت میں قرآں کی تلاوت
دل میں ہوئی خواہش کہ ہو بابا کی زیارت
کرنے لگی خاموش زباں سے وہ یہ مِنَت
اعجاز یہ دربار کو دکھلایئے بابا
گودی میں مری آپ چلے آیئے بابا
(۷۴)
دربارِ یزیدی میں یوں طاری ہوا سکتہ
اک لمحے میں شبیر کا سر طشت سے نکلا
اور گودی میں معصوم سکینہ کی جو آیا
چلائی سکینہ مرے بابا مرے بابا
قربان گئی آنکھوں میں ساون کی جھڑی ہے
بابا مری پھوپھی بھی رسن بستہ کھڑی ہے
(۷۵)
بابا کہو کیسا ہے مرا اصغرِ معصوم
بابا مرے عباس چچا کو نہیں معلوم
اکبر کے بنا کیسے سکینہ ہوئی مغموم
ہاں کیسے تھے بابا جو کٹا آپ کا حلقوم
دربار میں بابا بڑی تذلیل ہوئی ہے
تھا آپ کا یہ حُکم سو تعمیل ہوئی ہے
(۷۶)
بابا کہو روتے تو نہیں ہیں علی اصغر
ڈرتا تو اکیلے میں نہیں میرا برادر
بابا کہو کیونکر اٹھی لاشِ علی اکبر
جب سر کٹا کیا سامنے تھیں آپ کی مادر
کیا شمر کو سینے پہ نبی دیکھ رہے تھے
کٹتے ہوئے کیا سر کو علی دیکھ رہے تھے
(۷۷)
بابا مرے چہرے پہ جو یہ گردِ سفر ہے
میں جانتی ہوں آپ کو اس سب کی خبر ہے
دیکھیں تو بدن خون میں عابد کا جو تر ہے
ہمراہ پھوپھی جان کے اماں کھُلے سر ہے
دادا کو بتا دیجے سکینہ بے وطن ہے
سوئی نہیں مدت سے وہ آنکھوں میں جلن ہے
(۷۸)
اب قصرِ یزیدی میں قیامت کے تھے آثار
نفرت کا بس حاکم سے جوں ہونے لگا اظہار
فریادِ سکینہ پہ تھا تھرا گیا دربار
سب رعب دھرا رہ گیا ظالم کا جو اک بار
فی الفور مقید کیئے شبیر کے پیارے
زندان میں ڈالے گئے تطہیر کے پیارے
(۷۹)
تاریکیِ زنداں میں نہیں سوئی سکینہ
جی بھر کے ابھی باپ کو کب روئی سکینہ
سینے سے لگاتا نہیں اب کوئی سکینہ
ہے یاد میں اصغر کی رہی کھوئی سکینہ
روتی ہے جو شب میں تو صدا دیتا ہے جلاد
زندان کا زندان ہلا دیتا ہے جلاد
(۸۰)
بابا سے جدائی کا سکینہ کو ہے وہ غم
روتی ہے یا پھر کرتی ہے دن رات وہ ماتم
دُر کھنچنے سے کانوں میں جو تکلیف ہے پیہم
کہتی ہے پھوپھی سے کہ جو رُک جائے مرا دَم
ننھی سی لحد گوشۂ زنداں میں بنانا
اور قبر پہ اصغر کا مجھے نوحہ سنانا
(۸۱)
رو رو کے یہ کہتی تھی کہاں ہے مرا اصغر
کیوں آتے نہیں خواب میں اماں علی اکبر
کیا مجھ سے خفا ہو گئے عباسِ دلاور
پانی نہیں مانگوں گی بتا دو انہیں جا کر
اب کس سے بھلا دُکھ کا میں اظہار کروں گی
اصغر کو میں گرد ن پہ بہت پیار کروں گی
(۸۲)
اک شام پرندوں کو جو اُڑتے ہوئے دیکھا
معصوم نے روتے ہوئے دل میں یہی سوچا
کیا دیکھنا قسمت میں کبھی ہے وطن اپنا
کہنے لگیں سجاد سے بتلایئے بھیا
کیا ایسے ہی زندان میں مر جائیں گے بھائی
کیا لوٹ کے ہم بھی کبھی گھر جائیں گے بھائی
(۸۳)
رُخ چوم کے سجاد یہ کہنے لگے ہمشیر
کچھ غم نہ کرو ہاتھ میں اللہ کے ہے تقدیر
زنداں کی اسیری کبھی دکھلائے گی تاثیر
چاہا جو خدا نے تو یہ کٹ جائے گی زنجیر
جائیں گے مدینے نہ یوں گھبراؤ سکینہ
میں صدقے مری گود میں آ جاؤ سکینہ
(۸۴)
یہ سُن کے سکینہ کی بگڑنے لگی حالت
دَم گھُٹنے لگا سینے میں بے چین طبیعت
رونے لگی یہ دیکھ کے اللہ کی مشیت
کہنے لگیں بھائی سے نہیں جسم میں طاقت
یہ کہتے ہی بس مر گئی حساس سکینہ
پیاسی ہی تری رہ گئی ہائے پیاس سکینہ
(۸۵)
زنداں میں تھا اک شور بپا ہائے سکینہ
سر پیٹ کے زینب نے کہا ہائے سکینہ
دی خُلد سے زہرا نے صدا ہائے سکینہ
تھی سینہ زناں بادِ صبا ہائے سکینہ
میت پہ یوں ماں پیٹتی بے آس کی آئی
دریا سے صدا رونے کی عباس کی آئی
(۸۶)
ایک قیدی نے زندان میں پھر قبر کو کھودا
بچی کا وہ ماتم تھا قیامت ہوئی برپا
زینب کو یہ صدمہ بھی ہے قسمت نے دکھایا
سجاد نے کہہ کے یا علی لاشہ اٹھایا
روتے ہوئے سجاد کو سرور نظر آئے
دو ہاتھ کٹے قبر کے باہر نظر آئے
(۸۷)
ناگاہ صدا آئی مرے قافلہ سالار
آیا ہے جنازے پہ سکینہ کے علمدار
پیاسی نے چچا کہہ کے صدا دی مجھے ہر بار
ہمراہ مرے زہرا و حیدر بھی ہیں تیار
ورثۂ شہنشاہِ مدینہ مجھے دے دو
سجاد یہ اب لاشِ سکینہ مجھے دے دو
(۸۸)
صفدرؔ نہیں اب تاب لکھوں دفن کا منظر
ماں سکتے میں خاموش ہے زینب ہے کھُلے سر
اک درد کی تصویر ہے شبیر کی خواہر
ہیں جن و ملک نوحہ کُناں چُپ ہیں پیمبر
اب اوڑھ کے سو چادرِ تطہیر سکینہ
مل جائے گا اب سینۂ شبیر سکینہ
(۸۹)
برسوں کی تمنا مری پوری ہوئی صفدرؔ
لو دُخترِ شبیر کا ہے مرثیہ آخر
ہے عرش پہ اب شاعرِ مولا کا مقدر
دی خواب میں آ کر مجھے سجاد نے چادر
کوثر کی تمنا ہے نہ جنت کی طلب ہے
اب قبرِ سکینہ کی زیارت کی طلب ہے
٭٭٭
ہندو شعراء کی عقیدتیں
ادب سیتا پوری
نظر نظر میں جو کعبے بنا دیئے تم نے
حسینؑ کون سے جلوے دکھا دیئے تم نے
چمک سے جن کی منور ہے آج تک اسلام
چراغ ایسے بہتّر جلا دیئے تم نے
حسینؑ چشمِ عنایت ذرا ادبؔ پر بھی
نہ جانے کتنے مقدر بنا دیئے تم نے
٭٭٭
ادیب لکھنویؔ
سلامی مدحتِ شہ میں بڑی تاثیر ہوتی ہے
یہاں توقیر ہوتی ہے، وہاں توقیر ہوتی ہے
چراغ، رہنمائے راہِ حق بنتا ہے ہر ذرہ
شہیدوں کی لحد کی خاک پر تنویر ہوتی ہے
فنا ان کے لئے کیسی جو حق پر جان دیتے ہیں
کہ ان کے خون سے دنیا نئی تعمیر ہوتی ہے
ادیبؔ اکثر مناظر کربلا کے دیکھ لیتا ہوں
نجات آخرت اس خواب کی تعبیر ہوتی ہے
٭٭٭
راجا الفت رائے
ماتمِ شبیرؑ کا د ل پر اثر پیدا ہوا
اے سلامی نخلِ ماتم میں ثمر پیدا ہوا
جب علیؑ سا بازوئے خیر البشر پیدا ہوا
اے سلامی دشمنوں کے دل میں ڈر پیدا ہوا
جب کہ آئی شمر کی صورت سکینہؑ کو نظر
دیکھتے ہی دل میں اس بچی کے ڈر پیدا ہوا
یارو سینچو اشک سے نخلِ غمِ شبیرؑ کو
روزِ محشر دیکھ لینا کیا ثمر پیدا ہوا
مثلِ طاعت فرض ہے سب پر غمِ سبط نبیؐ
کیونکہ اس ماتم میں رونے کو بشر پیدا ہوا
جب لکھا میں نے سلام الفتؔ گلستاں بن گیا
برگِ لفظ اور بارِمعنی سے شجر پیدا ہوا
٭٭٭
گوپی ناتھ امنؔ لکھنوی
غمِ حسینؑ میں جو آنکھ تر نہیں ہوتی
اسے نصیب حقیقی نظر نہیں ہوتی
جھکا سے نہ کبھی سر جو ما سوا کے لئے
ہے سر بلند اسے فکرِ سر نہیں ہوتی
ہوئے نہ ہوتے جو شبیرؑ کربلا میں شہید
نظر زمانے کی اسلام پر نہیں ہوتی
کبھی کبھی نظر آتی ہے فتح باطل کی
خدا گواہ کہ وہ معتبر نہیں ہوتی
غمِ حسینؑ نہ ہوتا جو امنؔ کے دل میں
غمِ زمانہ سے اس کو مفر نہیں ہوتی
٭٭٭
سادھو رام آرزوؔ
اللہ رے یہ شان یہ رتبا حسینؑ کا
خود صانعِ ازل بھی ہے شیدا حسینؑ کا
سر دے کے سر پہ لے لیا بارِ تمام دیں
یہ حوصلہ، یہ دل، یہ کلیجہ حسینؑ کا
اے آرزوؔ ازل سے ہوں تقدیر کا دھنی
بندہ ہوں مرتضیٰؑ کا، میں بردا حسینؑ کا
٭٭٭
پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ
لُو چل رہی ہے نام کو سایہ کہیں نہیں
حدّت وہ ہے کہ وقت کی سانسیں ہیں آتشیں
آنکھیں اُٹھا کے دیکھ ذرا اے د ل حزیں
گردوں تنور ہے کرۂ نار ہے زمیں
اک شعلہ زار ہے کہ ہے میدانِ کربلا
اک آگ ہے کہ ریگِ بیا بانِ کربلا
۔۔۔
وہ سامنے غنیم کی فوجیں ہیں دجلہ پار
ہیں اس طرف اکیلے حسینؑ اسپ پہ سوار
دامن پہ ہے غبار گریباں ہے تار تار
کانٹوں پہ جیسے پھول ہو، یوں ہے وہ نامدار
آزادؔ! نوکِ خار کی زد پر ہے پھول دیکھ
ہاں دیکھ! اِ نقلابِ جہاں کا اصول دیکھ
٭٭٭
راجیندر نرائن سکسینہ بسملؔ
یہ عشرہ یہ ماہِ محرم کے دن
بظاہر تو ہے سوگ و ماتم کے دن
مگر ان میں تاریکیاں شام کی
لیے تھیں ضیا صبحِ اسلام کی
۔۔۔۔
یزیدہ حکومت کا دارو مدار
تھا باطل پہ دنیا کا آشکار
نواسے، نواسوں کے گھر بار کے
بہتّر تھے جو سوئے کوفہ چلے
۔۔۔۔
جہاں خون آلِ نبی ؐ کا بہا
زمیں وہ کہلانے لگی کربلا
نیا باب تاریخ اسلام کا
لہو سے شہیدوں کے لکھا گیا
٭٭٭
رانا بھگوان داسؔ (جسٹس)
وہ حسینؑ ابنِ علیؑ دوشِنبی کا شہسوار
زیبِ آغوشِ رسالتؐ، فاطمہؑ کا گلعذار
زورِ بازوئے حسنؑ فرزندِ حیدرؑ با وقار
پیکرِ صبر و رضا، محبوبِ کردگار
مظہرِ حق و صداقت جلوۂ ایماں حسینؑ
وہ امامِ حق پسنداں وہ نبیؐ کا نور العین
عظمتِ حق کا پیامی دینِ حق کا پاسباں
خلد کا سردارِ اعظم میر بزم مومناں
جس نے سینچا اپنے خوں سے نخلِ دیں کو وہ حسینؑ
کر گیا مضبوط جو شرح، متیں کو وہ حسینؑ
٭٭٭
بلدیو پرشادؔ
ہم ہیں ہندو پر محبت ہے شہِ ابرار سے
اس لئے ڈرتے نہیں ہم نرگ سے یا نار سے
تو نے مانوتا کی رکھ لی آبرو مولا حسینؑ
کس کو ہے انکار تیرے اس مہا اُپکار سے
ہم تو ہیں پاپی مگر غم خوار ہیں شبیرؑ کے
دھوئیں گے ہم پاپ اپنے آنسوؤں کی دھار سے
ناز ہے ہم کو کہ ہم بھی شہ کے ماتم دار ہیں
ہم تو جنت لے ہی لیں گے خلد کے سردار سے
آج بھی شبیرؑ کے روضے سے آتی ہے صدا
ظلم کا سر کاٹ لو یوں صبر کی تلوار سے
٭٭٭
نہال چند پرتابؔ
ہوائے ظلم سر کربلا چلی کیا ہے
نبیؐ کے باغ پہ چھائی افسردگی کیا ہے
گلے پہ تیرِ ستم کھا کے کر دیا
کہ شیر خوار کی شانِ سپہہ گری کیا ہے
جھکائے سایۂ شمشیر میں نہ سرکیونکر
حسینؑ جانتے تھے حق کی بندگی کیا ہے
دکھاتے منزلِ حق کی نہ راہ کیوں سرورؐ
وہی تو جانتے تھے طرزِ رہبری کیا ہے
غم حسینؐ میں رو رو کے دن گزارتے ہیں
مجھے خبر نہیں پرتابؔ اب خوشی کیا ہے
٭٭٭
منی لال جوان سندیلوی
پلا وہ بادۂ حبِ امام کون و مکاں
مثالِ موجۂ دریا رواں ہو طبعِ رواں
بڑھا دے اور بھی وقتِ بیاں جو زورِ بیاں
نظر میں پھرنے لگے کربلا کا دشتِ تپاں
عظا ہو جام کہ زورِ سخن دکھانا ہے
اک ایک لفظ سے اک اک چمن کھلانا ہے
جو مانگتا ہوں وہ بادہ دے التجا یہ ہے
کسی کا دخل نہیں تیرا میکدہ یہ ہے
اٹھوں تو جھک کے اٹھوں آج مدعا یہ ہے
جئے ہزاروں برس تو مری دعا یہ ہے
رہا جو تشنہ تو ساقی کبھی نہ جاؤں گا
سمجھ لے خوب کہ دھونی یہیں رماؤں گا
٭٭٭
کالی داس گپتاؔ
اے حسینؑ ابنِ علیؑ، شانِ محمدؐ
تجھ سے سر سبز ہے بستانِ محمدؐ
تو نگہہ دار ہے تسلیم و ر ضا کا
اک نظر ہم پر بھی اے جانِ محمدؐ
٭
دشتِ کربل کی شام بیاں کون کرے
قصۂ آفت و آلام بیاں کون کرے
٭٭٭
سکھ شعراء کی عقیدتیں
سنت درشن سنگھ مہاراج
حسینؑ درد کو، دل کو، دعا کو کہتے ہیں
حسینؑ اصل میں دینِ خدا کو کہتے ہیں
حسینؑ حوصلۂ انقلاب دیتا ہے
حسینؑ شمع نہیں آفتاب دیتا ہے
حسینؑ لشکرِ باطل کا غم نہیں کرتا
حسینؑ عزم ہے ماتھے کو خم نہیں کرتا
حسین ظلم کے مارے ہوؤں کا ما من ہے
حسینؑ زندگیِ بے سکوں کا مسکن ہے
حسینؑ حسنِ پیمبر ؐ کی ضو کو کہتے ہیں
حسینؑ سینۂ حیدرؑ کی لَو کو کہتے ہیں
حسینؑ سلسلۂ جاوداں ہے رحمت کا
حسینؑ نقطۂ معراج ہے رسالت کا
حسینؑ جذبۂ آزادیِ ہر آدم ہے
حسینؑ حریت، زندگی کا پرچم ہے
حسینؑ عزم کو جب تابناک کرتا ہے
جلا کے خرمن باطل کو خاک کرتا ہے
پیام، رحمتِ حق ہے پیامِ شبیری
ہر ایک پیاسے کو ملتا ہے جامِ شبیری
حسینؑ عزم ہے، نمرود سے بغاوت کا
حسینؑ سے نہ اٹھانا سوال بیعت کا
دلِ حسینؑ کی گرمی سے دل مچلتے ہیں
اِس اک چراغ سے لاکھوں چراغ جلتے ہیں
حسینؑ سعیِ تجلّی میں کامیاب ہوا
لہو میں ڈوب کے ابھرا تو آفتاب ہوا
حسینؑ صبحِ جہاں تاب کی علامت ہے
حسینؑ ہی کو بھلا دیں یہ کیا قیامت ہے
بروزِ حشر نشاطِ دوام بخشے گا
حسینؑ درشنؔ تشنہ کو جام بخشے گا
٭٭٭
پورن سنگھ ہنرؔ
جب لعینوں کے مقابل علی اکبرؑ نکلے
تیر، شمشیرو سناں ، نیزہ و خنجر نکلے
دین کی سمت اندھیروں نے اٹھائے جو قدم
جگمگاتے ہوئے فانوس بہتّر نکلے
بیعتِ فاسق انہیں کیسے گوارا ہوتی
باندھ کر سر پر کفن آلِ پیمبرؐ نکلے
قابلِ دید ہے اولاد پیمبرؐ کا جہاد
فقر و فاقے پہ بھی یہ لوگ تونگر نکلے
لذتِ صبر ہے روکے ہوئے شہہ کو ورنہ
آپ چاہیں تو ہر اک ذرے سے کوثر نکلے
حق ہر اک دور میں باطل پہ رہے گا غالب
چائے کیسا ہی کیوں نہ ستمگر نکلے
فہم و ادراک سے بالا ہے مقام شبیرؑ
غیر ممکن ہے کوئی اس کے برابر نکلے
یاد جس وقت مجھے شہہؑ کی شہادت آئے
اشک بن بن کر میری آنکھ سے گوہر نکلے
منقبت ابنِ علیؑ کی ہے غزل گوئی نہیں
منہ سے ہر لفظ ہنرؔ سوچ سمجھ کر نکلے
٭٭٭
ڈاکٹر ستنام سنگھ خمارؔ
پیاس کا پودا لگایا حکمتِ شبیرؑ نے
اپنی آنکھوں سے دیا پانی اُسے ہمشیرؑ نے
سیدہ کی گود میں جب مسکرایا آفتاب
اک نیا پیکر دیا اسلام کو تنویر نے
لے کے آیا تھا بڑا لشکر تکبر شمر کا
کر دیا گھائل حسینیؑ فکر کی شمشیر نے
کربلا میں سب نے دکھلایا ہنر اپنا مگر
جنگ جیتی مسکرا کر فطرتِ بے شیر نے
ظلمتِ شب کی اداسی میں در شبیرؑ کا
راستہ حر کو دکھایا مشعلِ تقدیر نے
غم کی آتش میں سلگتی زندگی کو اے خمارؔ
عشق کا نغمہ دیا بیمار کی زنجیر نے
٭٭٭
مہندر سنگھ بیدی سحرؔ
گلشنِ صدق و صفا کا لالۂ رنگیں حسینؑ
شمع عالم، مشعلِ دنیا، چراغِ دیں حسینؑ
سر سے پا تک سرخیٔ افسانۂ خونیں حسینؑ
جس پہ شاہوں کی خوشی قربان وہ غمگیں حسینؑ
مطلع نور مہ و پروین ہے پیشانی تری
باج لیتی ہے ہر اک مذہب سے قربانی تری
۔۔۔۔
جادۂ عالم میں ہے رہبر ترا نقشِ قدم
سایۂ دامن ہے تیرا پرورش گاہِ ارم
بادۂ ہستی کا ہے تعبیر تجھ سے کیف و کم
اُٹھ نہیں سکتا تیرے آگے سرِ لوح و قلم
تو نے بخشی ہے وہ رفعت ایک مشتِ خاک کو
جو بایں سر کردگی حاصل نہیں افلاک کو
۔۔۔۔
ہر گلِ رنگین شہید خنجر جور خزاں
ہر دلِ غمگین ہلاک، نشتر آہ و فغاں
جا گزیں ہے اے سحرؔ ہر شے میں وہ سوزِ نہاں
پھول پر شبنم چھڑکتا ہوں تو اُٹھتا ہے دھواں
خنجر آہن گلوئے مرد تشنہ کام ہے
چھٹ نہیں سکتا یہ وہ داغ جبیبِ شام ہے
۔۔۔
سردار پنچھیؔ
دور کر دی سب سیاہی دین کی تصویر سے
خونِ اصغرؑ نے ٹپک کر حرملہ کے تیر سے
دل رہے گا دور جب تک درد کی تاثیر سے
لوگ نا واقف رہیں گے مقصدِ شبیرؑ سے
جھوٹ کے پردے جلے اور سامنے سچ آ گیا
ایک لاوہ ایسا پھوٹا زینبی تقریر سے
چھنچھنانے لگ گئی ہے ہر قدم کی تال پر
جانے عابدؑ نے کہا کیا پاؤں کی زنجیر سے
گنگا جل یا آبِ کوثر سے مقدس ہیں یہ اشک
اپنے اپنے پاپ دھو لو کربلا کے نیر سے
اشک سے محروم آنکھیں لے کے تم تو چل دئیے
اپنا حصہ تو نہ بانٹو درد کی جاگیر سے
کربلا کی ایک زیارت میری قسمت میں بھی ہو
اور پنچھیؔ کچھ نہ چاہوں کاتبِ تقدیر سے
٭٭٭
پرتپال سنگھ بیتابؔ
اک غبار سا ہر سو غم دھواں دھواں اپنا
خوں ہے شہیدوں کا کرب بے کراں اپنا
اور غم زمانے کے دُور دُور رہتے ہیں
اک حسینؑ کا غم ہے جب سے مہرباں اپنا
سامنے کھڑی تھی موت چہرہ چہرہ خنداں تھا
اک یقین محکم تھا حق کا پاسباں اپنا
خون خون سینچا تھا مالیوں نے صحرا کو
پھول پھول کھلتا ہے جب ہی گلستاں اپنا
تشنگی کے صحرا میں تیغ زن رہا جذبہ
غیر تھی زمین بیتابؔ لیکن آسماں اپنا
٭٭٭
امرسنگھ جوشؔ
تا ابد زندہ رہے گا نام تیرا اے حسینؑ
رنگ لائے گا حقیقت نام تیرا اے حسینؑ
پھیلتا ہی جائے گا پیغام تیرا اے حسینؑ
نام لیں گے لوگ صبح و شام تیرا اے حسینؑ
تیرے جیسا اے حقیقت رعبِ سلطانی کہاں
سارے عالم میں بھلا تیری سی قربانی کہاں
۔۔۔
موت پر تیری سب اہلِ جہاں روتے رہے
دہر میں انسان فلک پرقدسیاں روتے رہے
دیکھ کر حالت تیری پیرو جواں روتے رہے
مہربان روتے رہے نا مہرباں روتے رہے
پھیرئے دیدار تیرا روئے نورانی کہاں
سارے عالم میں بھلا تیری سی قربانی کہاں
٭٭٭
چرن سنگھ چرنؔ
لیا خیال کا جب تیرے آسرا میں نے
ہوا یقین کہ منز ل کو پا لیا میں نے
خدا کرے کہ مجھے خواب میں حسینؑ ملیں
تمام رات اندھیروں میں کی دعا میں نے
حسینؑ صبر و رضا میں ، مہکتے پھولوں میں
تمہارے حسن کو دیکھا جا بجا میں نے
غمِ حسینؑ میں کھویا رہا ہے دل میرا
تجھے تلاش کیا خاک کربلا میں نے
کھلی جو آنکھ تو زانوئے حر پہ سر تھا چرنؔ
اسی خیال سے پایا ہے مدعا میں نے
٭٭٭
سردار جسونت سنگھ رازؔ
وہ یاد آتے ہی ہو جاتی ہیں آنکھیں اشکبار اب بھی
زمین ہے مضمحل اب بھی ٖفضا ہے لالہ زار اب بھی
تصور میں جب آتے ہیں وہ دو ایثار کے پیکر
دل بے تاب کو آتا نہیں پہروں قرار اب بھی
وہ جن راہوں سے گزرے تھے لئے شوق شہادت کو
انہی راہوں کو تکتی ہے وہ چشم انتظار اب بھی
وہ معصومی کا عالم اور قربانی کا جوش ایسا
کلیجہ سن کے ہو جاتا ہے جس سے تار تار اب بھی
شب تاریک، یخ بستہ ہوائیں ، جبر کی آندھی
لہو مجھ کو رلاتا ہے وہ منظر بار بار اب بھی
وہ اک مدت سے محو خواب عرب میں ہیں لیکن
کئے جاتی ہے سجدے گردشِ لیل و نہار اب بھی
میسر ان کو سرداری ہے تاریخ شہادت میں
ہے اُن کو خون کی سرخی، ہے لالہ پر نکھار اب بھی
٭٭٭
امر جیت ساگرؔ
متاع زیست کو اُس پر نثار کرتے ہیں
نہ ہم سے پوچھئے کس غم سے پیار کرتے ہیں
رگوں میں خون کی گردش ہے اس لئے باقی
کہ اُن کے آنے کا ہم انتظار کرتے ہیں
یہ ریگ زار نہیں آنسوؤں کا دریا ہے
سب اس میں ڈوب کر ہی اس کو پار کرتے ہیں
نجاتِ زیست کی خاطر ہزاروں حر اب بھی
خسینؑ کب سے تیرا انتظار کرتے ہیں
سسکتے پھولوں کی خوشبو سنبھال کر رکھنا
تمہاری نظر ہم اپنی بہار کرتے ہیں
علاج دل کا تبسم نہ کر سکا اپنا
اسی لئے تو تیرے غم سے پیار کرتے ہیں
رواں ہے شام و سحر چشم درد سے ساگرؔ
غمِ حسینؑ سے ہم بھی تو پیار کرتے ہیں
٭٭٭
سردار تلوک سنگھ سیتلؔ
جنگ کے میدان کو جب سرور چلے
ہر طرف بھالے گڑے خنجر چلے
تھا بہتّر کا وہاں پر قافلہ
اشقیا لے کر جہاں لشکر چلے
دھوپ کے صحرا کا منظر الاماں
اوڑھ کر تطہیر کی چادر چلے
اشقیا کے ہوش پل میں اُڑ گئے
ہاں علم عباسؑ جب لے کر چلے
جس طرف افواج ہی افواج تھی
اُس طرف کو پھول سے پیکر چلے
اُف ترس آیا نہ اک معصوم پر
تیر اُف رے حلقِ اصغرؑ پر چلے
پیاس سے لب خشک تھے ہر ایک کے
تشنگی کے دور تک منظر چلے
اُف رے آل مصطفیٰؐ پر یہ ستم
بیڑ یوں میں پھول سا عابد چلے
سن کے سیتلؔ کربلا کا سانحہ
سینکڑوں خنجر میرے دل پر چلے
٭٭٭
سورج سنگھ سورجؔ
(قطعات)
غافل تھا اپنی نیند سے بیدار ہو گیا
آنکھیں کھلی حسینؑ کا دیدار ہو گیا
ایک ایک حرف نور ہے لفظ حسین کا
ایسا حسینؑ جس سے مجھے پیار ہو گیا
٭
سچائیاں حیات کی وہ مانتے نہیں
جینا بھی ایک طرز ہے یہ جانتے نہیں
ایسوں سے ربط و ضبط کو رکھنا فضول ہے
مظلومِ کربلا کو جو پہچانتے نہیں
٭
یہ معجزہ بھی پیاس جہاں کو دکھا گئی
آنکھوں میں آنسوؤں کی سبیلیں لگا گئی
کرب و بلا میں دیکھئے شبیرؑ کی ’’ نہیں ‘‘
ہر دور کے یزید کو جڑ سے مٹا گئی
٭٭٭
تشکر: ارشد خالد جنہوں نے فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید