FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس

انٹرنیشنل اسلام آباد

(۱۹)

 

حصہ اول

مرتّب: ارشد خالد

معاون مدیر

امین خیال(لاہور)

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل(برمنگھم)


 

 

 

عکاس اب انٹرنیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے

http://akkas-international.blogspot.de/

اور

http://issuu.com/akkas


 

 

 

 

اپنی بات

 

 

عکاس انٹرنیشنل کا ۱۹واں شمارہ پیشِ خدمت ہے۔ اس ’’کاروبارِ زیاں ‘‘ کا یہ مرحلہ سر کرتے ہوئے اب عکاس کی کتاب اشاعت کے ساتھ ایک انٹرنیٹ میگزین ’’ادبی منظر‘‘ بھی جاری کر چکا ہوں۔ اس کے دو شمارے آن لائن ہو چکے ہیں۔ تیسرے شمارے کا کام جاری ہے۔ انٹرنیٹ سے منسلک شعراء و ادبائے کرام اس لنک پر اس میگزین کو پڑھ سکتے ہیں،حاصل کر سکتے ہیں۔

http://issuu.com/adabi-manzar

 ’’عکاس‘‘ اور ’’ادبی منظر‘‘ میں شائع کیے جانے والی بعض نگارشات کا باہم اشاعت مکرر والا تبادلہ ہوتا رہے گا تاکہ بعض تحریریں اپنی خاص اہمیت کے باعث زیادہ سے زیادہ احباب اور فورمز تک پہنچ سکیں۔

 عبداللہ جاوید اور شہناز خانم عابدی کینیڈا کے سینئر اور اہم لکھنے والے ہیں۔ عبداللہ جاوید کی ادبی حیثیت مسلّم ہے۔ لیکن تعلقاتِ عامہ کے اس دور میں اتنے اہم لکھنے والے کو بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ عکاس ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صرف عبداللہ جاوید ہی کا گوشہ نہیں بلکہ ان کی افسانہ نگار اہلیہ شہناز خانم عابدی کا گوشہ بھی ایک ساتھ پیش کر رہا ہے۔ میاں بیوی کے گوشے ایک ساتھ شائع کرنے سے بالواسطہ طور پر اس امر کی تحسین بھی کی گئی ہے کہ ادب میں میاں،بیوی کا ایک ساتھ تخلیق کار ہونا بجائے خود ادب کے لیے نیک شگون ہے۔

 نسیم انجم ایک طویل عرصہ سے لکھ رہی ہیں۔ ادب و صحافت دونوں ان کے میدان ہیں۔ دونوں میں ان کی خدمات قابلِ ذکر ہیں،لیکن کالم نگار ہوتے ہوئے بھی انہوں نے بڑی حد تک ’’ذاتی شہرت‘‘ اور ’’کمپنی کی مشہوری‘‘سے گریز کیا ہے۔ ان کے اسی رویے کی وجہ سے عکاس میں ان کا ایک گوشہ پیش کیا جا رہا ہے۔ امید ہے اس گوشہ کے نتیجہ میں قارئین ان کی تحریروں کا براہ راست مطالعہ کر کے خود ان کے بارے میں بہتر رائے قائم کرسکیں گے۔

  ستیہ پال آنند حال ہی میں پاکستان کا دورہ فرما کر گئے ہیں۔ یہاں ان کا اچھا سواگت کیا گیا۔ یہ دورہ ان کی تعلقاتِ عامہ کے شعبہ میں مہارت کا مظہر تھا اور پسِ پشت ان کی سفارش کرنے والوں کی قوت کا اظہار بھی تھا، اس دورہ میں وہ کراچی تک تو خود اپنی ایک ’’منہ بولی بیٹی‘‘ کے مضمون کے ذریعے اس تاثر کی نفی کراتے رہے کہ وہ غزل دشمن ہیں۔ لیکن لاہور تک پہنچتے پہنچتے نہ صرف خود اپنی ’’منہ بولی بیٹی‘‘ سے پڑھوائے گئے مضمون کی عملاً تردید کر دی بلکہ اردو غزل کے خلاف حد سے زیادہ ہرزہ سرائی پر اتر آئے۔ چنانچہ پھر اس ادبی موضوع کے حوالے سے بھی ان کا اچھاسواگت کیا گیا۔ ’’ستیہ پال آنند کا سواگت‘‘ میں اس کی ایک جھلک پیش کی جا رہی ہے۔

  نظم و نثر کے باقی مندرجات معمول کے مطابق ہیں۔ امید ہے عکاس کے قارئین کویہ شمارہ حسبِ معمول پسند آئے گا۔ آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔

ارشد خالد


 

 

سورۃ الحمد کا تفسیری ترجمہ

 

معصومہ شیرازی

 

ابتدا اﷲ کے برتر صفاتی نام سے

جس کی رحمت خاص ہے اور مہربانی عام ہے…

 قابل صد حمد ہے وہ ذات، جس کی مملکت !

کائناتی وسعتوں کی بیکرانی پر محیط !

وہ خدائے لم یزل جو مہرباں رحمان ہے …

مالک مختار ہے اس یوم کا…

جس کے سبب !

کارزار خیر و شر اعمال کا میزان ہے!

اوڑھ کر پیشانیوں پر تیرے سجدوں کی ردا

ہو گئے ہم غیر کی کاسہ گری سے بے نیاز

روح تک اُتر۱ ہوا ہے تیری بخشش کا مزاج…

اے خدا ! اِن پائے استقلال کی خیرات دے

راستہ انعام کی صورت جنھیں سونپا گیا

راستہ ! جس کی دمک خون شہیدانِ وفا

جس کا غازہ انبیا و اولیا و صالحین

المدد اے مالک تقدیر ہستی المدد

ہم کو ان اندھی رُتوں کے ناخداؤں سے بچا

جن کو تو رحمان بھی دیکھے غضب کی آنکھ سے!


 

 

نعتِ رسول مقبول ﷺ

 

سیدانورجاویدہاشمی

(کراچی)

 

اظہارِ عقیدت میں بہت وقت گزارا

حسّانؓ سے آگے نہ بڑھا شعر ہمارا

 

کونین کی ہر چند کہ دولت ملی اُنؐ کو

کیا شان تھی فاقوں پہ ہی ہوتا تھا گُزارا

 

قدرت کی عطا معجزۂ شقِّ قمر ہے

دو نیم ہُوا چاند نے پا یا جو اشارا

 

فاروقؓ کو ایمان کی دولت ملی اُنﷺ سے

صدیقؓ نے لا کر رکھّا گھر سارے کا سارا

 

عثمانؓ غنی اور علیؓ شاہِ ولایت

یہ ہستیاں تا حشر نہ آئیں گی دو بارا

٭٭٭


 

نعت

 

حکیم شیر محمد خیالؔ

(کوٹ سمابہ)

 

 

طائرِ شوق کو پر دے آقاؐ

 باغِ طیبہ کا ثمر دے آقاؐ

 

غنچۂ دل ہے گوش بر آواز

 موسمِ گل کی خبر دے آقاؐ

 

مطلعِ نعتِ محمد ؐ لکھوں

 مہلتِ عمرِ خضر دے آقاؐ

 

کالی کملیؐ کا دیباچہ لکھوں

مجھ کو جبرئیل کے پر دے آقاؐ

 

قاصدِ صاحبِ معراج بنوں

میرے پندار کو پر دے آقاؐ

 

روزِ اوّل سے مہر و ماہ کی طرح

خانہ بردوش ہوں، گھر دے آقاؐ

 

گنجِ قاروں نہیں مجھے مطلوب

تیشۂ علم و ہنر دے آقاؐ

 

رات آئے نہ ترے رستے میں

شام سے پہلے سحر دے آقاؐ

 

سر کے بل چل کے پہنچ جاؤں

شہرِ خوباں کا سفر دے آقاؐ

 

تُو جریدۂ دو عالم میں کبھی

اپنے ہونے کی خبر دے آقاؐ

٭٭٭


 

 

ادب،میڈیا اور انٹرنیٹ

 

حیدر قریشی

(جرمنی)

 

 

ادب کا میڈیا سے شروع ہی سے ایک تعلق قائم رہا ہے اور اس تعلق کے ساتھ میڈیا سے ایک فاصلہ بھی رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں کتاب کی صورت میں ادب کی اشاعت سے لے کر اخبار اور رسالوں میں ادب کی اشاعت تک ایک تعلق چھاپہ خانوں کی ابتدا سے چلا آرہا ہے۔ اور اخبار کی اہمیت و افادیت کے باوجود ادب نے صحافت سے اپنا الگ تشخص بھی شروع سے قائم رکھا ہے۔ اہلِ صحافت نے ادب کی جداگانہ شناخت کو کبھی اپنی عزت کا مسئلہ نہیں بنایا۔ یوں کئی شاعر اور ادیب کئی اخبارات و رسائل کے مدیران رہ چکے ہیں،اور کئی صرف مکمل صحافی حضرات بھی اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز رہ چکے ہیں۔ اس وقت بھی پرنٹ میڈیا میں یہ ملی جلی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ شاعر اور ادیب نہ ہوتے ہوئے بھی عام طور پر رسائل و جرائد کے مدیران میں زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب کی سوجھ بوجھ بھی معقول حد تک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخبارات اور غیر ادبی رسائل میں بھی ادب کو مناسب جگہ ملتی رہتی ہے۔ ہر چند ادب ان کی پہلی یا دوسری ترجیح نہیں ہوتی پھر بھی ادب سے یکسر صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ ادب اور صحافت کی دنیا میں ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ اور کاری گری کی روایات بھی شروع سے ملتی ہیں۔ اس سلسلہ میں ادب میں شبلی نعمانی سے لے کر نیاز فتح پوری تک قمر زمانی بیگم اور ان سے ملتے جلتے فرضی قصوں کے اسکینڈلز بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور اخبار ’’فتنہ‘‘ اور ’’جواب فتنہ‘‘ جیسے تماشے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ایک منفی رویہ ہونے کے باوجود ان سب واقعات میں ادب، آداب کی ایک تہذیب بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے۔ پھر ادب اور صحافت میں ایسے واقعات آٹے میں نمک کی مقدار سے بھی کم رہے ہیں۔ ان کے بر عکس ہجو گوئی کی ایک روایت طویل عرصہ سے اردو ادب میں موجود ہے اور صحافت میں بھی شدید اختلاف رائے کی صورت میں اس کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود ادب اور پرنٹ میڈیا کے درمیان ایک فاصلہ اور ایک ہم آہنگی ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور اس خاص نوعیت کے تعلق میں ایک با وقار طریقِ کار صاف دکھائی دیتا ہے۔

  پرنٹ میڈیا کے بعد جب ریڈیو کے ذریعے ہوا کے دوش پر صحافت کے فروغ کی صورت نکلی تو اس میں ادب کا بھی تھوڑا بہت حصہ ہمیشہ شامل رہا ہے۔ ریڈیو سے سرکاری ٹی وی کے دور تک بھی اس روایت کو تھوڑی بہت ہیرا پھیری اور جانبداری کے ساتھ سہی لیکن پھر بھی قائم رکھا گیا۔ سرکاری ٹی وی نے اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر یا پھر متعلقہ ٹی وی حکام کے پسندیدہ ادیبوں کو نمایاں کیا۔ اس دور میں ’’ میڈیاکر‘‘ رائٹرز کی باقاعدہ کھیپ تیار کی گئی۔ معیاری تخلیقی ادب کو عام طور پر نظر انداز کیا گیا۔ میڈیاکر رائٹر بنے بغیر ادب کی خاموشی کے ساتھ خدمت کرنے والوں کو نظر انداز کیا گیا۔ تاہم یہاں ادب کے نام پر جو کچھ پیش کیا گیا اُس کی میڈیائی ضرورت کو اہمیت اور اولیت دینے کے باوجود اُس میں ادب کا ایک کم از کم معیار بہر حال ملحوظ رکھا گیا۔ اس دورانیہ میں بعض ادیبوں کے مختلف نوعیت کے منفی رُخ اور منفی کام بھی سامنے آئے لیکن ان کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر رہی۔

 یہاں تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ادب کے حوالے سے جو کچھ پیش کیا جاتا رہا،اس کے دوش بدوش بلکہ اس سب سے ایک قدم بڑھ کر ادبی رسائل بھی اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ بے شک اختلاف رائے رکھنے والے رسائل کے درمیان شدید اختلاف بھی نمایاں ہوا،ادبی مسابقت کی دوڑ میں،ان جرائد میں قارئین کی آراء کے ذریعے مدیر ہی کے موقف کو ابھارنے کی دیدہ دانستہ کاوشیں بھی ہوئیں۔ ادبی فیصلوں میں ڈنڈی مارنے کا رجحان بڑھا،اس کے باوجود ادبی رسائل کا ادب کے فروغ کا مجموعی کردار اتنا موثر تھا کہ ادبی دنیا کی چھوٹی موٹی کوتاہیاں قابلِ معافی بن جاتی تھیں۔

نئے ہزاریے کی پہلی صدی کے آغاز کے ساتھ سیٹلائٹ کے ذریعے ٹی وی چینلز کی بہار اور یلغار آئی تو ساتھ ہی انٹرنیٹ کے ذریعے اشاعت کے وسیع تر مواقع میسر آ گئے۔ سیٹلائٹ نے پرائیویٹ چینلز کی بھرمار کر دی۔ چینل مالکان کے درمیان ریٹنگ کی دوڑ شروع ہو گئی۔ سب سے پہلے خبروں کو پیش کرنے کی ہوڑ میں مصدقہ اور غیر مصدقہ کا فرق ہی نہ رہنے دیا گیا۔ جو آگے نکل جاتا ہے خبر کو سب سے پہلے پیش کرنے پر بار بار فخر کا اظہار کرتا ہے اور جو پیچھے رہ جاتا ہے وہ اپنی ناکامی کو اپنی صحافیانہ اخلاقیات کا نمونہ بنا کر بیان کرنے لگتا ہے۔ جس قوم کو کسی اہلِ نظر کی رہنمائی کی ضرورت تھی اسے خبروں اور ان پر مختلف النوع تبصروں کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے۔

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

زمانے کی رفتار میں تیزی آئی تو میڈیا نے اس رفتار کو تیز تر کر دیا۔ بے شک اتنی با خبری مہیا کر دی گئی ہے کہ انسان بے خبری کو ترس کر رہ گیا ہے۔ اس کے بہت سے سماجی فائدے بھی ہوئے ہیں لیکن اس کے فائدوں کے مقابلہ میں ہونے والے دور رس نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ اس سے صحافت میں بلیک میلنگ کا ریٹ بھی آسمان تک جا پہنچا ہے۔ میڈیا جس کرپشن اور معاشرتی لوٹ کھسوٹ کا سب سے زیادہ شور مچاتا ہے خود اس کے اپنے کئی مالکان اور کئی میڈیا اسٹارز نہ صرف ہر طرح کی اخلاقی و غیر اخلاقی کرپشن میں ملوث ہیں بلکہ ٹیکس چوری کلچر کو فروغ دے کر خود بھی اسی لوٹ کھسوٹ کا حصہ بنے ہوئے ہیں،جس کے خلاف بظاہر دن رات احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف میڈیا کی آزادی کے علمبردار بننے کا دعویٰ کرتے ہیں دوسری طرف ’’آزادی‘‘ کی حد اتنی ہے کہ مذہبی دہشت گردوں کے سامنے سراپا احتیاط بنے ہوتے ہیں۔ سلمان تاثیر کو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا اور میڈیا کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ بول سکتا۔ دہشت گردوں کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے ہر کوئی احتیاط کرتا ہے لیکن ان کی وکالت کرنے والے کسی اگر مگر کے بغیر انہیں ’’ہمارے‘‘ قرار دے کر انہیں بے قصور ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سماجی سطح پر میڈیائی رویے کی ہلکی سی جھلک ہے۔ ٹی وی کے تجزیاتی پروگرام تجزیہ کم اور ذاتی خواہشات کے آئنہ دار زیادہ ہوتے ہیں۔ نقالی کا رجحان میڈیا کے غیر تخلیقی ارکان کی ذہنی صلاحیت کوتو بخوبی اجاگر کرتا ہے لیکن اس رجحان کے باعث بعض تخلیقی اذہان بھی نقلِ محض بن کر رہ گئے ہیں۔ کسی ایک چینل پر کوئی حالاتِ حاضرہ کا پروگرام اپنے کسی خاص انداز کی وجہ سے کامیاب لگنے لگتا ہے تو حقائق تک رسائی حاصل کیے بغیردوسرے چینلز بھی ملتے جلتے انداز کے پروگرام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مارننگ شوز،کرائمزرپورٹس پر مبنی پروگرامز،معاشرتی مسائل،جادو ٹونے اور جنات کے موضوعات سے لے کر کامیڈی شوز  تک مسلسل نقالی کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔ کامیڈی شوز میں پنجابی اسٹیج شوز کا عامیانہ پن پوری طرح سرایت کر گیا ہے۔ پنجابی اسٹیج شو میں تھوڑی سی اصلاحِ احوال کی ضرورت تھی۔ مثلاً رشتوں کی تذلیل کرنے کی بجائے ان کے احترام کو ملحوظ رکھنا،ہر کسی کا تمسخر اڑانے کی بجائے،اور جسمانی عیوب کی تضحیک کرنے کی بجائے معاشرے کے حقیقی معائب پر طنز کرنا اور مزاح کی صورت میں بھی دوسروں کو نشانہ بنانے کی بجائے خود کو زد پر رکھنا جیسی تبدیلیاں کر لی جائیں تو پنجابی اسٹیج شو آج بھی عالمی معیار کا تھیٹر بن سکتا ہے۔ ٹی وی چینلز نے پنجابی تھیٹر کے فنکاروں کی پوری پوری فوج اپنے شوز میں بھرتی کر لی لیکن اصلاحِ احوال کی طرف کسی اینکر نے بھی توجہ نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج مختلف چینلز کے مزاحیہ شوز عمومی طور پر ویسا منظر پیش کر رہے ہیں جیسا ہندوستان کی بعض مسلمان ریاستوں کے زوال کے وقت ان معاشروں میں وہاں کی تہذیب کے نام پر انتہا درجہ کی پھکڑ بازی رائج ہو چکی تھی۔ خدا نہ کرے کہ یہ سارے ٹی وی شوز پاکستان کے کسی تہذیبی یا جغرافیائی زوال کی علامت بن جائیں۔ اور بعد میں ان ٹی وی شوز کی تہذیب کی بنیاد پر اس قومی زوال کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ بہتر ہو گا کہ ایسے پروگراموں کے اینکرز نقل در نقل کی لہر میں ہر کسی کی تذلیل کرنے کی بجائے شائستہ مزاح کے لیے محنت کر سکیں۔ کیا دوسروں کی تذلیل و تضحیک کیے بغیرشائستہ مزاح پیدا نہیں کیا جا سکتا؟۔ بہتر ہو گا کہ اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود کامیڈی شوز کے اینکرز حضرات پہلے طنزو مزاح سے متعلق بنیادی لٹریچر کا مطالعہ کر لیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اسی بہانے اپنی بعض شخصی کمزوریوں کا ادراک ہو جائے اور وہ ان پر قابو پا کر اپنے شوز کو بلیک میلنگ اسٹائل کی بجائے سچ مچ کے مزاحیہ پروگرام بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔

  سرکاری ٹی وی نے اسٹیبلشمنٹ کی پسند اور اپنے حکام کی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن میڈیاکر دانشوروں،شاعروں اور ادیبوں کو قوم کا ترجمان بنا یا تھا،اس بوئی ہوئی فصل کو کاٹنے کا وقت آیا تو آزاد میڈیا نے اس نوعیت کے میڈیاکر دانشوروں کے بھی نمبر دوقسم کے دانشوروں کی کھیپ تیار کر لی۔ اور اب ایسے دانشوروں کی اتنی کھیپ تیار ہو چکی ہیں کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ پرائیویٹ چینلز پر تلفظ کی فاش نوعیت کی غلطیاں اپنی جگہ،اشعار کو انتہائی برے انداز سے،مسخ کر کے اور مکمل بے وزن کر کے پڑھتے ہوئے بھی یہ نئے میڈیاکر دانشور اتنے پُر اعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ بندہ یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ اگر یہ ادب ہے تو پھر واقعی ادب کی موت ہو چکی۔ اتنے چینلز کی بھرمار کے باوجود ایک بھی چینل ایسا نہیں جہاں زیادہ معیاری نہ سہی کم از کم پی ٹی وی کے پرانے معیار کے ادبی پروگرام ہی پیش کیے جا سکیں۔

 انٹرنیٹ کی دنیا اتنی وسیع تر اور گلوبل ولیج کی بھرپور ترجمان ہے کہ اس کے مثبت فوائد کو جتنا اپنا یا جائے اس میں خیر ہی خیر ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ ہماری اردو دنیا نے اس کے بہت سارے مثبت فوائد سے اچھا استفادہ کیا ہے۔ اردو کی متعدد لائبریریوں کا قیام،ان لائبریریوں میں دینیات سے لے کر ادب اور سائنس تک مختلف موضوعات کی کتب کی آسان فراہمی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ہر چنداس میدان میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے لیکن جتنا کچھ دستیاب ہے وہ بھی اپنی جگہ نعمتِ خداوندی ہے۔ نعمتِ خداوندی کے الفاظ میں نے یونہی نہیں لکھ دئیے۔ والد صاحب بتا یا کرتے تھے کہ ان کے بزرگوں کے زمانے میں بخاری شریف کی زیارت ہو جانا ہی بہت بڑی سعادت اور بہت بڑا کارِ ثواب سمجھا جاتا تھا۔ کہاں سو، سوا سوسال پہلے کا وہ زمانہ اور کہاں آج کی دنیا کہ بخاری شریف سمیت حدیث کی ساری کتب آن لائن دستیاب ہیں اور ان کے اردو ترجمے بھی موجود ہیں۔ قرآن شریف کے مختلف تراجم کی دستیابی کے ساتھ قرات سکھانے کا خودکار نظام تک مہیا کر دیا گیا ہے۔ یہی صورتِ حال دوسرے مذاہب کی کتبِ مقدسہ کے معاملہ میں ہے۔ دینیات سے ہٹ کر دوسرے موضوعات کے حوالے سے کسی نوعیت کی تعلیمی ضرورت یا تحقیقی کام کے لیے مطلوب ہر قسم کا مواد عموماً انٹرنیٹ پر مل جاتا ہے۔ صحت مند تفریح کا سامان بھی موجود ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں معلومات کی اتنے وسیع پیمانے پر فراہمی اتنی آسان اور اتنی ارزاں کبھی نہیں تھی۔ انٹرنیٹ پر کوئی بھی سنجیدہ اور با معنی کام کرنے والوں کے لیے اپنے بلاگس بنانے سے لے کر اپنی ویب سائٹس بنانے تک کی سہولیات موجود ہیں۔ اردو میں لکھنے کی سہولت بھی عام کر دی گئی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز جو ہر جگہ نہیں دیکھے جا سکتے انٹرنیٹ کے ذریعے ان کی دستیابی بھی آسان ہو چکی ہے۔ موبائل فون پر ساری انٹرنیٹ سروسزکا مہیا کر دیا جانا بجائے خود ایک حیران کن کام ہے جو اَب معمولاتِ زندگی میں شمار ہوتا ہے۔

اس قسم کی مزید ہزار ہا خوبیاں ہیں جو انٹرنیٹ کی برکت سے ہر خاص و عام کے لیے دستیاب ہیں۔ لیکن ان سب کے دوش بدوش ایک ایسی خرابی بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے جو کم از کم ہمارے معاشرے اور ہمارے ماحول کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔ سوشل میڈیا کے نام پر فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب سے لے کر مختلف ٹی وی شوز کو پیش کرنے والے انٹرنیٹ ٹی وی نیٹ سروسز تک میں آزادیِ اظہار کے نام پر نجی تاثرات دینے کیجو تماشے لگے ہوئے ہیں،وہ گھٹیا پروپیگنڈہ کے باعث محض دل کی بھڑاس نکالنے کے ٹھکانے بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے ٹھکانے جہاں بعض اوقات بازاری زبان اور گالی گلوچ کی سطح سے بھی زیادہ گھٹیا زبان کو استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ مذہبی،فرقہ وارانہ،سیاسی،ادبی اور دیگر مختلف سماجی گروہوں کی اختلافی سرگرمیاں اظہارِ رائے کی تمیز اور تہذیب کے ساتھ چلتیں تو معاشرے کے لیے خیر کا موجب بن سکتی تھیں۔ لیکن جہاں مذہب اور فرقوں کے نام پر غلیظ ترین زبان استعمال کی جاتی ہو اور انتہائی ذلیل ترین حرکات کا مظاہرہ کیا جاتا ہو،وہاں زندگی کے باقی شعبوں میں کسی خیر کی صورت دیکھنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اظہارِ رائے کی یہ مادر پدر آزادی سوشل میڈیا کے کسی بھی فورم پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس آزادی کا ایک سخت مگر ایک لحاظ سے دلچسپ اثر اخبار اور ٹی وی پر دیکھنے کو ملا۔ میں نے دیکھا کہ دوسروں پر بہت زیادہ با اصول بنتے ہوئے بے اصولی تنقید کرنے والے ٹی وی اینکرز سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں دئیے جانے والے گالیوں والے ردِ عمل پر مایوس تھے اور بعض ایسے ردِ عمل سے اس حد تک دل برداشتہ تھے کہ یہ کام چھوڑ کر کسی دیہات میں بس جانے کا ذکر بھی کر رہے تھے۔ ادب میں پرانے زمانے میں ایسے قبیلے موجود رہے ہیں جو قلمی غنڈہ گردی کرتے ہوئے خود سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف گم نام مراسلہ بازی کیا کرتے تھے اور اس مراسلہ بازی میں انتہائی لچر اور فحش زبان استعمال کی جاتی تھی۔ اسی طرح کے ایک ادبی قبیلے کے ایک کالم نگار کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے کالم میں اخلاقیات کی دُہائی دے رہے تھے۔ مجھے اس قبیلے کی کئی پرانی سرگرمیاں یاد آئیں اور مجھے ایک پل کے لیے یہ سب اچھا لگا کہ مکافاتِ عمل کی ایک صورت دیکھنے کو ملی۔ لیکن یہ سب تو شاید میرے لیے کسی حد تک ذاتی نوعیت کی خوشی ہو سکتی تھی۔ جس سے کچھ دیر کے بعد میں خود بھی شرمندہ ہوا۔ اگر ادبی تہذیب کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ سب شرمناک تھا اور میں بہر حال سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کے باعث گندی زبان کے استعمال کی مذمت کروں گا۔

سوشل میڈیا پر جو چیز بہت زیادہ مقبول ظاہر کی جاتی ہے،بعض استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر عموماً یہ مقبولیت مصنوعی اور خود ساختہ ہوتی ہے۔ مختلف گروہوں نے اپنی انٹرنیٹ ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں جو ایک سے زیادہ اکاؤنٹس بنا کر ’’کمپنی کی مشہوری‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ اس مصنوعی گیم کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے صرف ٹاپ کی دو مثالیں پیش کروں گا۔ پاکستان کی دو شخصیات سوشل میڈیا کی سب سے مقبول شخصیات تھیں۔ پہلے نمبر پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور دوسرے نمبر پرسابق کرکٹر اور آج کے ایک سیاسی لیڈر عمران خان۔ سوشل میڈیا پر اپنی سب سے زیادہ مقبولیت کے دھوکے میں جنرل پرویز مشرف بے تاب ہو کر لندن سے پاکستان پہنچ گئے۔ اور پھر جلد ہی قانونی موشگافیوں کی زد میں آ کر قیدِ تنہائی میں ڈال دئیے گئے۔ عمران خان اپنی انٹرنیٹ مقبولیت کے بل پر ایک بال سے دو مضبوط وکٹوں کو گرانے نکل کھڑے ہوئے اور بڑی مشکل سے اور دوسروں کی مدد لے کر صرف ایک صوبے میں حکومت بنا پائے۔ سوشل میڈیا میں سیاسی اور سماجی سطح پر مقبولیت کا بھرم کھولنے کے لیے اور اصل حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے یہ دو مثالیں کافی ہیں۔

 سوشل میڈیا کے ذریعے جرائم کی نت نئی ترکیبوں کے سلسلے بھی سامنے آنے لگ گئے ہیں۔ سماجی سطح پر کتنے ہی گھر ان روابط کے باعث نہ صرف ٹوٹے ہیں بلکہ تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ جنسی بے راہروی اور بلیک میلنگ سے اغوا برائے تاوان تک کتنے ہی جرائم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ادبی لحاظ سے بھی سوشل میڈیا پر کوئی خوش کن صورتِ حال دکھائی نہیں دیتی۔ ایک طرف تو بے وزن شاعروں کی بھرمار ہے اور انہیں داد دینے کا وسیع سلسلہ بھی مربوط طور پر دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف جینوئن ادیبوں کی اپنی اپنی ٹولیاں اور مدح سرائی کے بچکانہ سلسلے ہیں۔ ان فورمز کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ کئی ایسے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں جو یہ تاثر موجود تھا کہ وہ شہرت سے بے نیاز ادبی کام کرنے کی لگن میں مگن رہتے ہیں۔ یہاں ان کی بے نیازیوں کے بھرم کھلے ہیں۔ اور شہرت کے حصول کے لیے ان کی جانب سے ایسی ایسی مضحکہ خیز حرکات دیکھنے میں آئی ہیں کہ اپنے ادیب کہلانے پر بھی شرمندگی سی ہونے لگتی ہے۔ یہاں ادب کے تعلق سے دو نسبتاً معقول واقعات کا ہلکا سا اشارا کرنا چاہوں گا۔

 فیس بک پر بعض ادیبوں نے اپنے الگ الگ فورمز بھی بنا رکھے ہیں۔ ایک فورم پر اعلان کیا گیا کہ یہاں ایک شاعر کی نظم پیش کی جا یا کرے گی اور اس پر سیر حاصل گفتگو ہوا کرے گی۔ پھر اُس ساری گفتگو کو فلاں ادبی رسالہ میں شائع کر دیا جا یا کرے گا۔ پہلے ایک دو دوسرے شعراء کی نظمیں پیش ہوئیں،ان پر بات بھی چلی۔ اس کے بعد زیرِ گفتگو رسالہ کے مدیر نے اپنی نظم پیش کی۔ اس میں لوگوں نے زیادہ دلچسپی نہ لی۔ کوئی خاص گفتگو نہ ہو پائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو مکالمہ رسالہ میں شائع کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا،وہ شائع نہیں کیا جا سکا۔ ایک اور شاعر نے اپنے نام کے بغیر نظم پیش کی تو بعض قارئین نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بعض نے ہلکا سا مذاق اُڑایا۔ اس پر شاعر موصوف نے اپنے نام کے ساتھ قارئین کو بتا یا کہ آپ جس شاعر کی نظم پر ایسی رائے دے رہے ہیں،اگر آپ کو اس کا نام معلوم ہو جائے تو آپ سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ جائیں گے۔ اس پر قارئین نے تقاضا کیا کہ شاعر کا نام بتائیں،انہوں نے اپنا اسمِ گرامی بتا یا کہ یہ میری نظم ہے۔ اور پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کے انکشاف کے بعد بھی قارئین کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا اور پھر فیس بک کے قارئین کے رویے پر خود ان کا اپنا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ مذکورہ دونوں نظم نگار نظم کے اچھے شاعر ہیں۔ لیکن اپنی تمام تر بے نیازی کے باوجود فیس بک پر مقبولیت کے شوق میں انہیں تیسرے درجہ کا ادبی شعور رکھنے والوں کے ہاتھوں تمسخر کا نشانہ بننا پڑا۔

 میڈیاکر دانشوروں کی طرح سوشل میڈیا نے بھی اپنی قماش کے شاعروں کی ایک کھیپ پیدا کی ہے۔ ان میں بعض اچھے شعر کہنے والے شاعر بھی موجود ہیں۔ تاہم یہاں ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ جب ان کی کوئی غزل فیس بک پر سجائی جاتی ہے تو سات شعر پڑھے جانے کے ٹائم سے بھی پہلے ہی اس غزل کی تعریف میں سات قارئین(عموماً خواتین )کی جانب سے اسے پسند کرنے کے ریمارکس آ جاتے ہیں۔ اور دم بدم ان کی مقبولیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہاں مجھے ایک پرانے مزاحیہ پروگرام ’’ففٹی ففٹی‘‘ کا ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے۔ پروگرام میں ایک میوزیم دکھا یا جاتا ہے۔ اس میوزیم میں موجود ایک قلم پر بات ہوتی ہے۔ گائیڈ بتا رہا ہوتا ہے کہ اس تاریخی قلم سے پروگرام ’’ففٹی ففٹی‘‘ کی تعریف میں دس ہزار خطوط لکھے گئے ہیں۔ اور پھر مزید وضاحت کرتا ہے کہ یہ قلم ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے پروڈیوسر کا ہے۔ ’’ففٹی ففٹی‘‘ والوں کا لطیفہ سو فی صد حقیقت کی صورت میں فیس بک کے ’’مقبول ترین شاعروں ‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ادب اور صحافت کے حوالے سے میں شروع میں ہی قمر زمانی بیگم اور اخبار ’’فتنہ‘‘ اور ’’جواب فتنہ‘‘ کا ذکر کر چکا ہوں۔ سوشل میڈیا کے جن معائب کا میں نے ذکر کیا ہے،وہ سب ادب سمیت ہمارے پورے معاشرہ میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہے ہیں۔ تاہم ان سب کی مقدار آٹے میں نمک کی طرح رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر خرابی یہ ہوئی ہے کہ یہ سارے معائب اور ساری خرابیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ نمک میں آٹے والی صورت بن گئی ہے۔ پرانی برائیوں کو بڑے پیمانے پر دہرانے کے ساتھ ہم نے کئی نئی برائیاں بھی ایجاد کر ڈالی ہیں۔ وہ ساری ایجادیں سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی ہمارے پورے معاشرے میں سرایت کرنے لگی ہیں۔

 ان ساری برائیوں کا عام طور پر اور ادبی خرابیوں کا خاص طور پر تدارک کرنے کے لیے ایک تجویز میرے ذہن میں آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی فورم کی رکنیت کے لیے اس ملک کے شناختی کارڈ کے مطابق اس کے نمبر کا اندراج لازم کیا جانا چاہیے۔ اور ہر فورم پر ایک شناختی کارڈ پر ایک اکاؤنٹ کھولنے کی پابندی لگ جائے۔ اگر شناختی کارڈ کے نمبر کے بغیر کسی کو بھی اکاؤنٹ کھولنے کا موقعہ نہ ملے،اور پہلے سے موجود اکاؤنٹس کو بھی شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ مشروط کر کے ری فریش کیا جائے تو پہلے مرحلہ میں پچاس فی صد سے زائد اکاؤنٹ غائب ہو جائیں گے۔ غائب ہونے والے اکاؤنٹس کی شرح پچاس فی صد سے زائد ہو سکتی ہے،کم ہر گز نہیں ہو گی۔ اس تجویز کو میں نے سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔ حکومتی سطح پر تیکنیکی ماہرین اسے مزید غور کر کے زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔

 ادب ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ ہو،اختلاف رائے کے اظہار کا حق ہر کسی کو ملنا چاہیے۔ اس پر کوئی ناروا پابندی لگے تو اس کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔ لیکن چوروں کی طرح چھپ کر وار کرنے والوں اور اختلاف رائے کے نام پر انتہائی شرم ناک قسم کی گالیاں بکنے والوں کو اس سے باز رکھنے کے لیے، ان کی شناخت واضح ہونی چاہیے۔ اگر پاکستان آغاز کرے اور جنوبی ایشیا کے ملکوں کو ساتھ لے کر عالمی سطح پر حکومتوں کو تحریک کی جائے تو شناختی کارڈ نمبر کی بنیاد پر سوشل میڈیا کے فورمز کی رکنیت کو مشروط کر کے سائبر ورلڈ کے ان سارے فورمز کو زیادہ مہذب،بہتر اور موثر بنا یا جا سکتا ہے۔ خرابیاں یکسر ختم نہیں ہوں گی لیکن ان میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور انٹرنیٹ کی اس جدید تر دنیا میں ہم سب کو اپنی خامیوں پر قابو پا کر بہتر اور صحت مند کردار ادا کرنے کا موقعہ ملے گا۔ تب ہم سب اس گلوبل ولیج کے اچھے شہری بن سکیں گے۔

٭٭٭


 

میرا جی کی نظم ’’اُونچا مکان‘‘۔ ایک تجزیہ

 

ڈاکٹر حنا آفریں

اسسٹنٹ پروفیسر

اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

 

 

میراجیؔ  کی بیشتر نظموں میں طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ زندگی کے سنگین اور سنجیدہ مسائل کو بھی جنسی جذبات کے حوالے سے بیا ن کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی نظموں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے یہ بات کہی بھی ہے کہ ان کے بیان کا بیشتر حوالہ جنسی جذبات اور جنسی معاملات کا ہے۔ بحیثیت شاعر میراجیؔ  کا المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر نقادوں نے نظم کی روح اور بنیادی مسئلے کے بجائے بیان کے حوالوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی اور عام طور پر یہ فرض کر لیا گیا کہ میراجیؔ کی شاعری میں جنسی جذبہ، جنسی عمل بلکہ جنسی کجروی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جبکہ پوری سچائی یہ نہیں ہے۔ میراجیؔ کا المیہ یہ ہے کہ بیان کے حوالوں کو اصل مسئلہ تصور کر لیا گیا اور اس طرح زندگی کی جن سچائیوں اور پیچیدہ تجربات کو میراجیؔ نے بیان کرنا چاہا وہ پسِ پشت چلے گئے۔ جنسی معاملات میراجیؔ کی شاعری میں بیان کا فقط ایک ذریعہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جذبات و معاملات کو اصل مسئلہ سمجھنے کے بجائے مسائل کے بیان کا فقط ذریعہ سمجھا جائے اور جنسیت کو صرف وسیلۂ ترسیل کے طور پر دیکھا جائے۔

زیر تجزیہ نظم ’اونچا مکان ‘ میں میراجیؔ نے انسانی زندگی کے بنیادی مسئلے کو جنسی بے راہ روی کے رموزو علائم میں بیان کیا ہے۔ اس نظم میں جنس کی فطری خواہش اپنی پوری تُندی اور سرکشی کے ساتھ تہذیب و تمدن کے کھوکھلے اقدار سے مخاطب ہے کہ کس طرح تہذیبی اقدار کی پابندیوں نے انسان کے فطری جذبات کا خون کر کے اپنی ایک بلند و بالا لیکن ویران عمارت کھڑی کر رکھی ہے۔ انسانی زندگی کی ویرانی اور تنہائی کی قیمت پر با رونق نظر آنے والی تہذیب کی یہ عمارت دراصل انسانیت کا ایسا بڑا زیاں ہے، جس کی تلافی ممکن نہیں۔

اس نظم میں تعمیر کے لوازمات اور تلازمات کی مدد سے بے روح انسانی زندگی کو اور زندگی کی بے معنویت کو بیان کیا گیا ہے۔ پہلے مصرعے میں نقشِ عجیب، تعمیر، استادہ ہے،آنکھیں اور چہرے ایسے الفاظ ہیں جنھوں نے نظم کے پہلے ہی مصرعے میں مختلف قسم کے تجربات کو ایک دوسرے میں ہم آمیز کر کے صورتِ حال کی پیچیدگی کو بیان کی سطح پر ظاہر کر دیا ہے۔ یہ کوئی ایسا تجربہ نہیں جو ایک ہی نوع کے الفاظ یا ایک ہی قسم کے تجربات کے ذریعہ زبان و بیان کی گرفت میں آسکے۔ یہاں مختلف حوالوں کو ایک دوسرے تجربات میں ہم آمیز کر کے پیش کیا گیا ہے تاکہ بیان ہونے والا شعری تجربہ اپنی پیچیدگی اور ہمہ گیری کے باوجود کسی قدر قاری کی گرفت میں آسکے۔ اگرچہ بیان کا بنیادی حوالہ انسان کی جنسی خواہش ہی ہے لیکن اس کے باوجود بیان کے حوالے کو بنیادی مسئلے کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔

نظم اس طرح شروع ہوتی ہے کہ انسان کی جنسی خواہش کو اور اس خواہش کے عملی اظہار کو نظم کے پہلے بند میں مختلف پیکروں کی مدد سے بیان کیا گیا ہے اور یہ ابتدائی بند نظم میں آئندہ بیانات کے لیے ایک مخصوص فضا تعمیر کر دیتا ہے۔ مصرعے ملاحظہ ہوں :

’ بے شمار آنکھوں کو چہرے میں لگائے استادہ ہے تعمیر کا اک نقشِ عجیب،

اے تمدن کے نقیب!

تری صورت ہے مہیب۔ ‘

تعمیر کا ایک عجیب و غریب نقش جسے قدرت نے انسانوں کو ودیعت کیا ہے۔ یہ اپنے چہرے پر بے شمار آنکھوں کے ذریعہ پوری انسانی تہذیب پر ایک خاص زاویے سے نظر ڈالتا ہے۔ اس نظم میں تمدن کے نقیب کو مخاطب کر کے اس کے بہ ظاہر سادہ اور معصوم چہرے سے حجاب اٹھا دیا گیا ہے تاکہ اس کا ہیبت ناک اور سفاّکانہ رُخ قاری کے سامنے آسکے کہ اس نے تہذیب و تمدن کے نام پر انسانی فطرت کو کس طرح نظر انداز کیا ہے۔ مصرعے دیکھئے:

’ذہنِ انسانی کا طوفان کھڑا ہے گویا،

ڈھل کے لہروں میں کئی گیت سنائی دیتے ہیں، مگر

اُن میں ایک جوش ہے بیداد کا، فریاد کا ایک عکسِ دراز،

اور الفاظ میں افسانے ہیں بے خوابی کے۔ ‘

جنسی جذبے کے اظہار کی اس مخصوص ہئیت کو ایک ایسے طوفان سے تعبیر کیا گیا ہے جسے انسانی ذہن نے پیدا کیا ہے۔ فطری جذبے کے اظہار پر تہذیب کی پابندیوں کے سبب یہ جذبہ مختلف لہروں کی شکل میں ڈھل کر ایک ایسے گیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں ظلم اور فریاد کا جذبہ بھی شامل ہے۔ فریاد کا طویل عکس اور ظلم کا یہ جوش گیتوں کی لہر پر صاف سنائی دیتا ہے۔ اس گیت کے الفاظ بے خوابی اور محرومی کی ایک ایسی حکایت ہے جو انسانی روح کی ویرانی کو بیان کرتا ہے۔ تہذیب کے اس بہ ظاہر روشن لیکن بہ باطن تاریک پہلو سے شعری کردار کا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی افسردہ روح تیرے سینے میں بے تابی کی وجہ سے کروٹیں لیتی ہے یا بے حسی روح کی اس ویرانی کا احساس بھی نہیں ہونے دیتی۔

نظم کے دوسرے بند میں شعری کردار کسی ایسے نسوانی پیکر سے مخاطب ہے جو ناآسودہ جنسی جذبات سے دوچار ہے۔ جنسی تسکین کی خواہش اسے بے چین کرتی ہے جبکہ تہذیب اور سماج کی پابندیاں اس جذبے کی تسکین میں حائل ہیں چنانچہ شعری کردار اپنی چشمِ تخیل سے نسوانی کردار کی باطنی کیفیات کو دیکھ لیتا ہے اور پھر اپنی ذہنی کیفیت سے اُسے ہم آہنگ کرتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ جنسی خواہش کی لہریں اس کے دل میں بار بار اُٹھتیں اور نا آسودہ ہونے کے سبب گھٹ کر دم توڑ دیتی ہیں۔ یہ خواہش جو اپنی اصل میں ایک خوش رنگ اور پُر کیف شراب کی طرح ہے، ایک ایسی تلچھٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے جو بد رنگ ہو گئی ہے اور کسی ٹوٹے ہوئے ساغر میں رکھی ہے۔ دوسرے بند کے پہلے دونوں مصرعے اس نا آسودہ جنسی جذبے کی پوری تصویر پیش کر دیتے ہیں۔ میراجیؔ نے اپنی بیشتر نظموں میں جنسی جذبوں کو موسیقی کے کسی نغمے اور لہروں کے نشیب و فراز کے پیکر میں بیان کیا ہے۔ اس جذبے کا آہنگ اور اس کی سرشاری ایسے گیت کی مانند ہے جو ایک تموج کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ اس سیاق وسباق میں یہ مصرعے خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔

’گھٹ کے لہریں ترے گیتوں کی مٹیں، مجھ کو نظر آنے لگا

ایک تلخابہ کسی بادۂ بد رنگ کا اک ٹوٹے ہوئے ساغرمیں۔ ‘

لہروں کا گھٹنا یعنی ان کا دم توڑنا، لہروں کا گیت کی مانند ہونا اور پھر اسے ایک ایسی بد ذائقہ اور بد رنگ شراب سے تشبیہ دینا جو کسی ٹوٹے ہوئے ساغر میں رکھی ہے، یہ پوری تصویر مزید کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ اس بند کے اگلے مصرعوں میں رات کی تاریکی کا بیان ہے اور پھر اسی پس منظر میں روح کی ویرانی اور تاریکی کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ ویرانی کی اس ا تھاہ گہرائی میں دکھ کے ستارے اور سکھ کے شعلے دو ایسی چیزیں ہیں جو اس مہیب تاریکی میں روشنی کے آثار پیدا کرتے ہیں۔ دکھ اور سکھ کی یہی کیفیت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے جو تاریکی اور ویرانی میں زندگی کے آثار پیدا کرتی ہے اور انسانی روح بھی دراصل دکھ اور سکھ کی کیفیت سے روشن اور تابندہ ہے۔ پھر غور کرنے کی یہ بات ہے کہ نظم میں دکھ کے لیے ’رخشاں تھے ستارے دکھ کے‘ اور اگلے مصرعے میں سکھ کے لیے ’ لپک اٹھتے تھے شعلے سکھ کے ‘ کہا گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ رخشندگی کی کیفیت زیادہ دلکش اور دیرپا ہے اور اس کی روشنی بھی زیادہ پُر کشش اور راہ نما ہے جبکہ شعلوں کی لپک وقتی ہے اور انسانی جوہر کو خاکستر کر دیتی ہے۔ دکھ اور سکھ کا یہ تقابل میراجیؔ کے مجموعی شعری رویے سے ہم آہنگ ہے کہ دکھ جو دوری کا نتیجہ ہے، ان کے نزدیک محبت کی بنیادی قدر اور عشق کا حقیقی جوہر ہے جبکہ سکھ اور وصال کی کیفیت عشق کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ دوسرے بند کے آخری دو مصرعوں میں نسوانی کردار کے بے نتیجہ اور لاحاصل جنسی جذبے کو روزن اور تان کے استعاروں میں بیان کیا گیا ہے۔ میراجیؔ نے بیشتر نظموں میں اکثر انفرادی اور شخصی علامتوں کے ذریعہ اپنے شعری تجربے کو بیان کیا ہے اور اسی لیے یہ نظمیں قاری کے لیے مبہم اور پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ مثلاً لہریں، گیت، بادۂ بد رنگ، روزن ایسے الفاظ ہیں جنھیں میراجیؔ نے جنسی خواہش کے سیاق و سباق میں استعمال کر کے ان کے مفاہیم کو کافی دھُندلا اور پُر اثر بنا دیا ہے اور غالباً نظموں کی پُر اسرار فضا اور مفاہیم کا دھندلا اور غیر متعین ہونا میراجیؔ کو مطلوب بھی تھا۔ دوسرے بند کے آخری دونوں مصرعے روزن اور موسیقی کی کسی تان کی لپک کے حوالے سے نسائی پیکر کی ناکام جنسی خواہش کا بیان ہیں اور  ان علامتوں کو ماضی میں شعرا ء نے چونکہ ان مفاہیم میں استعمال نہیں کیا ہے، اس لیے قاری کو یہ مصرعے مبہم اور غیر واضح محسوس ہوتے ہیں۔ ان مصرعوں میں بیان کیا گیا ہے کہ موسیقی کی کوئی تان تیرے روزن سے لپکتی ہوئی نکلتی ہے اور اپنی آغوش وا کر دیتی ہے۔ کسی کو خود میں جذب کرنے کے لیے، کسی سے ہم آغوشی کے لیے مضطرب ہوتی ہے لیکن اس کی یہ خواہش تشنۂ تکمیل ہوتی ہے اور نغمے کی یہ تان لا محدود خلاؤں کے دامن میں جذب ہو جاتی ہے۔

’جیسے روزن سے ترے تان لپکتی ہوئی پھیلاتی ہے بازو اپنے

جذب کر لیتا ہے پھر اس کو خلا کا دامن۔ ‘

نظم کا تیسرا بند نسائی کردار کے اس جنسی جذبے کے ردِ عمل کے طور پر نظم کے متکلم کی کیفیت کا بیان ہے۔ متکلم کو اپنی کسی ناکام محبت کی یاد آتی ہے اور وہ ان آنسوؤں کو یاد کرتا ہے جو اس کے لیے باعثِ راحت تھے۔ سکھ کے یہ شعلے اپنی وقتی لذت کے سبب متکلم کی زندگی میں فقط ایک خواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مصرعے دیکھئے:

’لیکن اک خواب تھا، اک خواب کی مانند لپک شعلوں کی تھی،

مری تخئیل کے پر طائرِ زخمی کے پروں کی مانند

پھڑپھڑاتے ہوئے بے کار لرز اُٹھتے تھے۔ ‘

خواب جو ایک فریب ہے، جھوٹ ہے، یادوں کا محض ایک سلسلہ ہے۔ ماضی کے اس تجربے میں شعری کردار فقط تخیل کی مدد سے حقیقتوں کو پانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تخیل کا یہ پرندہ بھی زخمی ہے اور اس کے پر ٹوٹے ہوئے ہیں یعنی یہ تخیل بھی پرواز کی لذتوں سے محروم ہے۔ پر پھڑپھڑاتے ہیں لیکن پرواز کے بجائے خفیف سی لرزش کے بعد بے دم ہو کر گر پڑتے ہیں۔ یہ محبت کی ناکامی تھی جس نے شعری کردار کو غیر فطری عمل پر مجبور کیا چنانچہ تیسرے بند کے آخری پانچ چھ مصرعے کسی مصنوعی اور خود کار جنسی آسودگی کے غیر فطری طریقے کا بیان ہیں۔ اس بے بسی سے رہائی کے لیے وہ جس عمل کا سہارا لیتا ہے وہ آزادی کی روشن اور  نشاط بخش فضا کے بجائے روح کی ا تھاہ تاریکی میں اسے ڈھکیل دیتی ہے۔ یہاں نظم میں متکلم غیر فطری جنسی عمل کو بیان کرنے کے بجائے دراصل اس کے ذریعہ اس لا حاصلی اور محرومی کو بیان کرتا ہے، جس کا شدید احساس اس عمل سے فراغت کے بعد ہوتا ہے۔ مصرعے ملاحظہ ہوں :

’میرے اعضاء کا تناؤ مجھے جینے ہی نہ دیتا تھا تڑپ کر یکبار،

جستجو مجھ کو رہائی کی ہوا کرتی تھی،

مگر افسوس کہ جب درد دوا بننے لگا، مجھ سے وہ پابندی ہٹی

اپنے اعصاب کو آسودہ بنانے کے لیے

بھول کر تیرگیِ روح کو میں آ پہنچا۔ ‘

اس کے بعد کے بند میں اس نسوانی پیکر کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کو نہایت فنکاری سے بیان کیا ہے۔ ابتداء کے دو تین مصرعے تو اس مضمون سے متعلق ہیں کہ اس نسوانی پیکر کے بارے میں متکلم کیا رائے رکھتا تھا۔ متکلم کی یہ رائے اس نسائی پیکر کے ظاہری رویے کے سبب تھی جبکہ اس لڑکی کی خواہشات اور اس کی ذہنی کشمکش اس کی ظاہری رویے سے یکسر مختلف ہے۔ وہ اپنے جنسی جذبے کی تسکین کے لیے کیا کیا خواہشیں کرتی ہیں ؟ ان جزئیات کا بیان اس تصویر کو اُلٹ دیتا ہے جو لوگوں سے سن کر نظم کے متکلم نے اس لڑکی کے بارے میں بنا رکھی تھی۔ اس بند کے ابتدائی مصرعوں میں :

’ترے بارے میں سنا رکھی تھیں لوگوں نے مجھے

کچھ حکایات عجیب،

میں یہ سنتا تھا۔ ‘

کے پیرایۂ اظہارسے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ متکلم ا س نازنین سے متعلق جو کچھ سُن رہا ہے وہ سب سچ ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ متکلم نے اس نسائی کردار سے عجیب و غریب حکایات سُن رکھی تھیں۔ مثلاً یہ کہ اس نسوانی کردار کے گراں بار جسم میں ایک بستر بچھا ہوا ہے جس پر کوئی نازنین لیٹی ہے اور بہ ظاہر پھیکی سی تھکن اور تنہائی اس کے اِردگرد ایک بوجھل سی فضا پیدا کر دیتی ہے۔ یہ پورا منظر اس کی ظاہری صورتِ حال سے متعلق ہے لیکن اس نسوانی کردار کی ایک ذہنی زندگی بھی ہے اور یہی ذہنی زندگی اس کے روحانی مسائل کا آئینہ خانہ ہے۔ بہ ظاہر تنہائی میں لیٹی ہوئی یہ لڑکی ذہنی اعتبار سے کس قدر بے چین اور مضطرب ہے اور اس کا یہ اضطراب کس خواہش کا نتیجہ ہے؟ یہ پوری کیفیت اس بند کے مختلف مصرعوں میں بیان کی گئی ہے۔ یہ لڑکی بے تابی کی حد تک مضطرب ہے اور  اس بات کی منتظر ہے کہ دروازے کے پردوں میں کوئی لرزش ہو اور اس کا لباس ڈھلکتے ہوئے اس کے تن سے جدا ہو جائے۔ اسے کوئی ایسی انوکھی صورت بھی نظر آئے جو اس کے لیے اجنبی ہو۔ اپنی مخصوص ذہنی کیفیت میں اس کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ مردانہ وجود اس کے دل کو بھلا لگتا ہے کہ نہیں اور اس کے انداز اس لڑکی کے دل کو لبھاتے بھی ہیں یا نہیں۔ یہ پوری صورتِ حال دراصل بدن کے تقاضے کو تسلیم کرنے اور اسے اہمیت دینے کا فنکارانہ اظہار ہے۔ مصرعے ملاحظہ ہوں :

’کچھ غرض اس کو نہیں ہے اس سے

دل کو بھاتی ہے، نہیں بھاتی ہے

آنے والی کی ادا۔

اس کا ہے ایک ہی مقصود، وہ استادہ کرے

بحرِ اعصاب کی تعمیر کا اک نقشِ عجیب۔ ‘

کسی کردار کا مانوس ہونا، دل کو لبھانا اور اچھا لگنا ایک الگ مسئلہ ہے اور جسم کی ضرورت یکسر الگ بات ہے۔ نظم میں نسوانی کردار کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مرد سے کسی قسم کے روحانی اور باطنی رشتے کے بجائے جسمانی تعلق کی آرزو مند ہے اور اس وقت اس کا مقصود فقط یہ ہے کہ وہ تعمیر کا ایسا نقش کھڑا کر دے کہ جس کی ظاہری صورت ناپسندیدہ اور کراہت انگیز ہو۔ جنسی عمل کے اس بیا ن کے لیے شاعر نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں اُن سے بھی اس منظر کی پوری تصویر واضح ہو جاتی ہے کیونکہ یہ تعمیر بحرِ اعصاب کے سمندر کی ہے۔ اس کی صورت باعثِ کراہت ہے اور یہ کہ اِستادگی اس کی صفت ہے۔ یہاں پہنچ کر یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ شاعر کس چیز کو تعمیر کا نقشِ عجیب کہتا ہے اور پھر بعد کے مصرعے جنسی عمل کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر دیتے ہیں۔ تعمیر کا یہ عجیب و غریب نقش ذہنِ انسانی میں اٹھنے والے طوفان کا نتیجہ ہے اور جس سے متصادم ہو کر تنہائی اور افسردگی میں پڑی ہوئی وہ نازنین بے ساختہ ایک گرتی ہوئی دیوار میں تبدیل ہو جائے۔ اس کی تھکن کا نغمہ جنسی عمل کی سرشاری کے سبب ریگ سے بنے ہوئے کسی محل کی طرح ٹوٹ کر بکھر جائے اور تنہائی و افسردگی کے بجائے سُبک ساری کا ا حساس اس کے وجود پر طاری ہو جائے۔

نظم کے آخری مصرعوں میں ان تمام خیالات کو ایسے قصوں سے تعبیر کیا گیا ہے جو بوئے خراماں بن کر متکلم کے ذہن میں رقص کیا کرتی تھیں۔ یہاں یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اوپر بیان ہونے والا منظر کسی مخصوص عمل کا بیان ہونے کے بجائے فقط شعری کردار کے تخیل کا کرشمہ ہے کہ یہ دونوں نسائی اور  مردانہ کردار خود متکلم کی ذہنی تخلیق ہیں۔ آخر کے تین چار مصرعوں میں آنکھوں سے وابستہ مختلف صفات کا ذکر نظم کی ساخت میں آنکھوں کی اہمیت کو بہت نمایاں کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی جذبات کا جیسا اظہار آنکھوں کے ذریعہ ممکن ہے، دوسرے اعضاء کے ذریعہ ممکن نہیں۔ انسانی خواہشات اور محرومیاں سب کچھ آنکھوں میں سمٹ آتی ہیں چنانچہ نظم کا متکلم نسائی کردار کی بے شمار آنکھوں کو ایک چشمِ درخشاں میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ روشن آنکھوں زبانِ حال سے کیا کہتی ہیں اور کن باتوں کی آرزومند ہیں۔ یہ بات نظم کے سیاق وسباق میں بالکل روشن ہو جاتی ہے۔ پھر نظم کے آخری حصے میں یہ استفہامیہ مصرعہ شعری کردار کی ذہنی کیفیت کو بھی واضح کرتا ہے۔

’کیا اِسی چشمِ درخشاں میں ہے شعلہ سکھ کا؟‘

آنکھوں کی اس چمک میں سکھ کے شعلوں کو دیکھنا اور پھر اس پر سوالیہ نشان قائم کرنا نظم کی کیفیت کو بہت بڑھا دیتا ہے۔ سکھ کے لیے شعلے کی صفت سکھ کی نوعیت کو بھی واضح کرتی ہے کہ یہ راحت وقتی ہے۔ بہت جلدی مٹ جانے والی ہے لیکن جتنی دیر روشن ہے بہت تابناک ہے اور ماسوا کو خاستر کر سکتی ہے۔ نظم کا آخری مصرعہ

’ہاتھ سے اب اس آنکھ کو میں بند کیا چاہتا ہوں۔ ‘

میراجیؔ کے پسندیدہ موضوع اور مخصوص طریقۂ کار پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ان روشن آنکھوں کو جو تشنگی، خواہش اور آسودگی کا استعارہ ہیں۔ خو د اپنے ہاتھوں سے بند کر دینا چاہتا ہے۔ آنکھوں کا یہ بند ہونا وقتی راحت اور  لمحاتی آسودگی کو نمایاں کرتا ہے۔

اس طرح میراجیؔ کی یہ نظم اپنے رویے، فنی طریقۂ کار اور مسائل کے مخصوص پیش کش کے حوالے سے ان کی نمائندہ نظم کہی جا سکتی ہے کیونکہ انھوں نے جنسی مسائل جنسی جذبات بلکہ جنسی عمل کو اپنے مخصوص استعاراتی پیرایے میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے اور نظم کے مطالعے کے بعد بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ میراجیؔ کے نزدیک جنسی جذبہ جس کا تعلق جسم اور بدن سے ہے۔ عشق و محبت کے جذبے سے (جس کا تعلق انسان کے باطن اور اس کی روح سے ہے) کسی طرح بھی کم لائق توجہ نہیں ہے بلکہ نظم میں اس جذبے کو مرکزی اہمیت دے کر میراجیؔ نے انسانی وجود کے بنیادی مسئلے کی حیثیت سے اسے بیان کیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ان جنسی حوالوں سے میراجیؔ نے انسانی زندگی میں افسردگی، لایعنیت اور باطن کی ویرانی کو نہایت سلیقہ سے پیش کیا ہے۔ یہ دراصل انسانی وجود کا ایک ا ہم مسئلہ ہے۔ جس کے بیان کے لیے دیگر حوالوں کے بجائے جنسی حوالوں سے مدد لی گئی ہے، پیرایۂ اظہار کے ابہام نے ا س مسئلے کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔

٭٭٭


 

 

اقبال۔ فکر و عمل پر ایک نظر

 

ڈاکٹر نذر خلیق

(راولپنڈی)

 

پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب ’’ اقبال۔ فکرو عمل، پر ایک نظر‘‘ اقبالی تنقید میں ایک اہم کتاب ہے۔ اس کا اولین ایڈیشن جون ۱۹۸۵ء میں ۱۱۰۰ کی تعداد میں شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ بک گیا اس کتاب میں چھ(۶) مقالے اور دو (۲) ضمیمے شامل ہیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک اردو تنقید و تحقیق میں ایک معتبر حوالہ ہیں۔ فتح محمد ملک اپنی بات استدلال اور بنیادی مآخذ کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس کتاب میں فتح محمد ملک نے اقبال کی تفہیم کے لیے دلائل و استدلال کا سہارا لیا ہے۔ کتاب میں شامل مضمون ’’مجموعہ اضداد یا دانائے راز ‘‘ ایک اہم مضمون ہے جس میں پروفیسر فتح محمد ملک نے ان ترقی پسند ناقدین کو جواب دیا ہے۔ جو اقبال پر ابجد پسندی، تنگ نظری اور تعصب کا الزام لگاتے ہیں۔ ان ترقی پسند ناقدین میں مجنوں گورکھ پوری، اختر حسین رائے پوری، علی سردار جعفری، ممتاز حسین وغیرہ شامل ہیں۔

پروفیسر فتح محمد ملک لکھتے ہیں۔

 ’’یہ اعتراضات اقبال کے فنی اور فکری مسلک سے زیادہ اقبال کے سیاسی مسلک اور عملی سیاسی جدو جہد کے خلاف رد عمل سے پھوٹے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ترقی پسندوں نے جس استدلال کے سہارے اقبال کی آفاقیت کی نفی کی ہے۔ بالکل اسی استدلال کے ساتھ اقبال کی عظمت کا اثبات کرتے ہیں۔ چنانچہ نکولائی آئی کیف نے اقبال کے فلسفہ خودی پر اپنے تازہ مقالہ میں لکھتے ہیں۔

 ’’ ان ترقی پسندوں اور نام نہاد ترقی پسندوں کو ہدف تنقید بنا یا ہے۔ جو اقبال کے فکرو فن پر صرف اس وجہ سے رجعت پسندی اور قدامت پرستی کا الزام دھرتے ہیں۔ کہ اقبال نے بقول ان کے صرف مسلمانوں سے خطاب کیا ہے۔ اور ان نظریات، استدلال اور مشرقی بے داری کے تصورات قرآن سے پھوٹے ہیں۔ ‘‘

نکولائی آئی کیف کے نزدیک بہ حیثیت فلسفی اقبال کی عظمت کا راز انسان کے ازلی، ابدی مسائل کو تجرید اور ماورائیت کی دھند سے نکال کر اپنے ماحول اور اپنے عہد کے سیاق و سباق میں سمجھنے اور اپنی قومی نشاۃ ثانیہ کے تقاضوں کی روشنی میں بیان کرنے میں مضمر ہے۔ ‘‘ ص ۶،۷

پروفیسر فتح محمد ملک نے بجا کہا ہے کہ ترقی پسند اقبال کے فنی اور فکری پہلو کی طرف توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی حال کے اظہار کے اسلوب پر توجہ دیتے ہیں بلکہ اپنے سیاسی نظریے کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ خود ان کے اس نظریے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اور بجا کہا ہے کہ اقبال انسان کے ازلی، ابدی اور آفاقی مسائل کو عصر حاضر کے تناظر میں بیان کرتا ہے۔ جو قرآن اور اسلام کے آفاقی بیانات کی روشنی میں کرتے ہیں اقبال کے نزدیک مسلمان ہی انسانی مسلک کا حامل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اسلام خود ایک انسانی آفاقی اور روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کا نہ صرف مذہب ہے بلکہ دین بھی ہے۔

 اقبال نے ملائیت، برہمنیت اور ملوکیت کو مسترد کیا ہے۔ کیونکہ یہ شخصیت کے وہ روپ ہیں جو انسانیت میں تفریق پیدا کرتے ہیں حالانکہ ملائیت، برہمنیت اور ملوکیت کی جڑیں برصغیر پاک و ہند میں گہری رہی ہیں۔ اقبال مثالیت سے زیادہ حقیقت پر یقین رکھتا ہے۔ اقبال کا مسلک انسانیت ہے لیکن افسوس کہ ترقی پسند نقادوں نے اقبال کے متعلق غلط فہمیوں کو ہی ابھارا۔ مثلاً ممتاز حسین کے حوالے سے پروفیسر فتح محمد ملک نے ایک اقتباس درج کیا ہے۔

 ’’کوئی بھی شاعر کسی مذہبی یا سیاسی تحریک کی بنا پر اور بالخصوص ایک ایسی مذہبی تحریک کی بنیاد پر جس کا ماضی بھی رہا ہو اور جس نے سینکڑوں قوموں سے ٹکر لی ہو جس کے دشمن اور رقیب بھی ہوں آفاقی شاعر نہیں ہو سکتا۔ اقبال نے ایک ایسے مرد مومن کے کردار کو جنم دیا ہے۔ جو ایک مخصوص شریعت کا پابند ہے۔ آج دنیا سے مذہبی مشن کا زمانہ اٹھ چکا ہے اور یہ خیال کرنا کہ ہم کسی مذہبی نظام فکر کے ماتحت پوری دنیا کو متحد کر سکتے ہیں۔ ایک فعل عبث۔ ‘‘ ص ۶

 پروفیسر فتح محمد ملک نے ممتاز حسین کی کتاب نقدِ حیات سے جو اقتباس منتخب کیا ہے اس سے حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نقادوں کا ایک مخصوص طبقہ غور و فکر کرنے کی بجائے محض اقبال شکنی پر کمر بستہ رہا ہے۔ ورنہ اقبال کا مرد مومن ایسا مومن تھا جو بے شک اسلامی شریعت کا پابند تھا مگر اس کے عملی فوائد عالم انسانیت کے لیے تھے اور یہ کہ مذہبی نظام فکر کو رد کر کے کبھی بھی انسانی فوائد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ابتدا سے ہی مختلف اقوام کے درمیان کشمکش بھی ایک حقیقت رہی ہے۔ قوموں سے ٹکر لینا کسی قوم کو محدود نہیں کر سکتا۔ اقبال کے نظریات کو جس انداز سے غلط زاویے سے پیش کیا گیا ہے اس کے لیے پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب اقبال فکرو عمل ایک اہم کتاب ہے اسی کتاب میں دوسرا مقالہ اثبات نبوت اور تصور پاکستان بھی ایک اہم مقالہ ہے۔ جس میں اقبال نے واضح کیا ہے کہ اثبات نبوت سے ہی تصور پاکستان پھوٹا اسی کتاب،اسی کتاب میں تیسرا مقالہ اقبال اور سر زمین پاکستان، چوتھا مقالہ پاکستان اور مشکلاتِ لا الٰہ پانچواں مقالہ اقبال اور ہماری ثقافتی تشکیل نو،چھٹا مقالہ اقبال اور ہماری تشکیل نو اہم ترین اور تفہیم اقبال میں ممد و معاون ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ان مقالات کی روشنی میں پروفیسر فتح محمد ملک نے نہ صرف یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے بلکہ اس کی تخلیق ثقافتی تشکیل نو اور ادبی تشکیل نو کے لیے ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں احمد ندیم قاسمی پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔

 ’’پروفیسر فتح محمد ملک نے ان مضامین میں عالمگیر انسانیت کے تصور وطنیت اور اسلامیت حقیقی اسلام اور مروجہ تصور اسلام کے تضادات دین محمد اور دین ملوک جمیعت اسلامی سے جمعیت انسانی تک کے سفر اور زمین سے اقبال کی عدم وابستگی کے الزامات کو بھی موضوع بنا یا ہے۔ اور یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اقبال کے نزدیک اسلام میں نہ شہنشاہیت ہے نہ ملوکیت، نہ جاگیرداری ہے اور نہ ہی سرمایہ داری کہ یہ سب نظام اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ ‘‘ ص ی

اپنی کتاب کے سلسلے میں پروفیسر فتح محمد ملک ابتدائیہ میں لکھتے ہیں۔

 ’’ ہم نے علم و عمل کی دنیا میں فکر اقبال سے تخلیقی اکتساب کی بجائے شعوری انحراف کی راہ اپنا رکھی ہے۔ ۔ یہ مضامین اقبال کی تفہیم کے ساتھ ساتھ ہماری عصری زندگی کی تنقید بھی ہیں۔ ‘‘ ص ۱

 پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب فکر و عمل پڑھنے اور سمجھنے کے لائق ہے اس کتاب پر تبصرہ کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آج بھی اقبال کی تفہیم کے لیے اس کتاب سے روشنی حاصل کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭


 

 

 

ولیم کیریؔ (1834-1761)کی ادبی خدمات

 

مصنف: ایس۔ ایم۔ سنگھ (تحریر1941 )

 نظر ثانی: ریورنڈ ڈاکٹر جوزف سی لعل(2013 )

 

تعارف

 

 ولیم کیریؔ نے سیاست تعلیم۔ ادب،سائنس اور مذہب کی بے شمار خدمات ہندوستان میں انجام دی ہیں۔ ولیم کیریؔ نے اپنی چالیس سالہ خدمتِ ہند کے دوران میں ان شعبوں میں کیا کیا خدمات انجام دی ہیں۔ اور ان خدمات کے لئے کیا کیا ذرائع اختیار کئے ہیں۔ اگر ایک طرف فورٹ ولیم کا لج میں ہندوستان کے زمانہ مُستقبل کے حکمران اُس کے زیر تعلیم رہے اور اُس کے سیکھائے ہُوئے اُصولوں پر عامل ہُوئے اور اس طرح اُس کا اثر اُ ن کی وساطت سے ہند وستان کی سیاست پر پڑا تو دوسری طرف مرتوؔ نجے ودیالنکار اور رام رام باسو جیسے عالم پنڈتوں سے اُس کے تعلقات تھے جن کے ذریعہ وہ ہندوستانی ادب پر اثر انداز ہوا۔ پھر کلکتہ میں غریب ہند و بچوّں کی مُفت تعلیم کے لئے متعدد پرائمری مدارس قائم کر کے کیری نے تعلیم کے جس نظام کی بنیاد ڈالی وہ نظام آج تک اس مُلک کے طول و عرض میں رائج ہے۔ کیری نے دُختر کشُی اور ستی جیسی ظالمانہ اور سفاکانہ رسُوم کے خلاف جدّوجہد کر کے ان ننگ انسانیت جرائم کی بیخ کنی کی اور اس طرح غیر منقسم ہندوستان پر جو احسان کیا اُس کے بارے سے اہل ہند کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ علاوہ بر یں ’’ ایگریکلچرل اینڈ ہارٹی یکلچرل سوسائٹی آف انڈیا ‘‘۔ (Agricultural and Horticultural society of India )کی داغ بیل ولیم کیرؔ ی  نے رکھی۔ اور بنگالی زبان کو ایک ادبی حیثیت بھی اُسی نے دی۔ مشرق کی پہلی چھاپنے کی مشین بنگال میں اُسی کے ہاتھوں نصب ہُوئی۔ ہندوستان کا پہلا رسالہ ’’دیگ درشن‘‘ پہلا بنگالی اخبار ’’ سماچار درپن‘‘ اور پہلا انگریزی رسالہ ـ ’’فرینڈ آف انڈیا‘‘ (Friend of India) ‘‘ تمام ولیم کیریؔ ہی کی زیرسر پرستی معرض وجود میں آئے۔ ہند وستان کی چالیس سے زیادہ زبانوں کے ٹائپ کیریؔ ہی نے اپنے کارخانہ میں تیار کرائے اور ہندوستان کی پہلی کاغذ بنانے کی مشین بھی اُسی نے نصب کی۔ نیز آج اس وسیع برّ اعظم میں صرف سیرام پور ہی ایسا تعلیمی ادارہ ہے جس کو ایک باضابطہ یونیورسٹی کی طرح امتحان لے کر ڈگریاں دینے کا اختیار ہے۔ یہ کالج بھی ولیم کیریؔ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے غرضیکہ یہ کہنا قطعی مبالغہ آمیز نہیں ہے۔ کہ ولیم کیریؔ نے تن تنہا ہندوستان کے حق میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ شاید ہی کسی اور فرد واحد نے انجام دی ہوں۔ ڈاکٹر ولیم کیریؔ کی خد مت کا دائرہ صُوبہ بنگال تک ہی محدود نہ تھا بلکہ آج اُن خدمات کا اثر نہ صرف ہندوستان اور ایشیا بلکہ تمام دُنیا میں پھیل چُکا ہے اور یہ عین واجب اور مُناسب ہے کہ ایسے شخص کی رُوح پر عقیدت کے پھُول چڑھائے جائیں اور اُس کی زندگی کے مُستند حالات جہاں دیگر زبانوں میں قلمبند ہو چکے ہیں زبان اُردو میں بھی قلمبند ہوں تاکہ اُردو دان حضرات اس عظیم ہستی کی اُن خدمات کی اہمیت کو معلوم کریں اور اپنے محسن سے متعارف ہوں۔

احقر الناّس

 ایس۔ ایم سنِگھ۔ نئی دہلی۔ مورخہ ۱۵مئی ۱۹۴۱ء


 

 

 

ولیم کیریؔ (1834-1761)کی ادبی خدمات(حصہ اول)

 

اُنیسویں صدی کے شُروع میں کیری نے ڈنما رکؔ (DENMARK)کے علاقہ سیرامپورؔ میں اس لئے سکونت اختیار کی تھی کہ اُس کو مملکت برطانیہ میں بحیثیّت مبلغ قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی چنانچہ اُس وقت شمالی ہند میں حکومت کرنے والی انگریز اقوم کا وہی ایک واحد فرد نکلا جو ہندوستانؔ زبان سے اس خوبی کے ساتھ واقف تھا کہ مُعلم کا کام کرسکے۔ کولبروکؔ (COLEBROOKE) کے علاوہ وہی ایک ایسا عالم تھا جو سنسکرت زبان میں ایسی فصاحت کے ساتھ گُفتگو کر سکتا تھا جو اب تک بر ہمنوں تک ہی محُدود سمجھی جاتی تھی بنگالیؔ زبان کو تحریر میں لانے کا رواج اُسی نے عام کیا تھا۔ سنسکرت پر ابھی تک عوام کی نظر بھی نہ پڑی تھی اور اِس اچھُوتی زبان کے جو تھوڑے بُہت الفاظ سُننے میں آتے تھے اُن میں فارسی کی ملاوٹ موجو د تھی۔ کیریؔ ہی نے سنسکرتؔ  کی گرامر کو مرتب کر کے ایک ڈکشنری بنانی شُروع کی۔ جس طرح پولُوسؔ  نے یُونانی شعرا کے کلام کے اقتباسات اپنی بشارتی خدمت میں استعمال کئے تھے اُسی طرح کیریؔ نے بھی سنسکرتؔ  کی قدیم کہانیوں کو اپنے واعظوں میں استعمال کرنا شرُوع کر دیا۔ یہ سب کُچھ کیریؔ نے اس وجہ سے کیا کہ وہ ایک بلند پایہ عالم تھا جس کو اُس زبان پر اس قدر عبُور حاصل ہو گیا تھا کہ وہ اُس کے خیالات کی صحیح ترجمانی کر سکتے۔ لہٰذا کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے جب کے فورٹ ولیمؔ کالج(FORT WILLIAM COLLEGE) کے لئے بنگالیؔ  سنسکرتؔ اور مرہٹیؔ زبانوں کے ایک پروفیسر اور سرکاری قوانین کے مترجم کی ضُرورت محسوس ہُوئی تو گورنر جنرل لارڈویلزلیؔ (LORD WELLESLEY)کی نظر انتخاب کیری ہی پر پڑی۔

 علم لسانیات کے ماہر اس امر سے خُوب واقف ہیں۔ کہ 1701ء میں لینبیز(LEIBNIZ )نے ’’ برلن اکاڈمی آف سائنس ‘‘ (BERLIN ACDEMY O SCIENCE)کے ایک جلسہ میں قدیم زبانوں کے مترادف الفاظ کے موازنہ کی ضُرورت اور اہمیت پر تقریر کر کے علم اللّسان (PHILOLOGY ) کو ایک باقاعدہ سائنس ثابت کر کے اس علم کے پہلے دور کا آغاز کیا اور جہاں تک شمالی ہندؔ کی زبان کا تعلّق ہے جو اُس وقت تک عُلما تک ہی محدود تھیں کیریؔ نے ان کے ایک نئے دَور کی بُنیاد ڈالی۔ کیریؔ نے ان زبانوں سے اُن تمام معلُومات کو فراہم کیا جو ابھی تک عوام کی نظروں میں نہیں آئی تھیں اور ان زبانوں کی ایسی صرف و نحو کی کُتب۔ لُغت اور تراجم تیار کر کے چھالے کہ ان کو ہندوستانؔ کے عُلما د عوام تک پُہنچا دیا۔ لیکن اس میں خُوبی یہ ہے کہ کیریؔ نے ایک شاہراہ تیار کرنے والے کی حیثیّت سے کام کو نہایت ہی احسن طریق سے انجام دیا۔ وہ ہمیشہ یہ امید رکھتا تھا کہ اُس کے نمونہ پر چل کر خود ہندوستانؔ میں عالم اور مُصلح پیدا ہوں گے جو اس کام کو زیادہ خُوبی سے تکمیل تک پہُنچا دیں گے جو اُس نے شُروع کیا تھا اور اُس کی یہ اُمیدیں جلد ہی پر آئیں کیونکہ اُس کی زندگی ہی میں اس سے پہلے کہ فورٹ ولیمؔ کالج قائم ہو، وارن ہسیٹنگز (WARREN HASTINGS) کی فرمائش پر 1776  ء میں ہال ہیڈ(HALNED)نے ہندوؤں کے مذہبی قوانین کی کتاب کو زبان فارسی میں ترجمہ کیا۔ ذارسیؔ اُس زمانہ میں سرکاری زبان تھی۔ پھر دُوسرا قدم سرولیم جونسؔ (SIR WILLIAM JONES) نے اُٹھا یا جبکہ اُنہوں نے ’’ بنگالؔ ایشیا ٹک سو سائٹی‘‘ (BENGAL ASIATIC SOCIETY ) کی بنیاد رکھی۔ وارن ہسیٹنگزؔ کے قوانین کے تراجم کو بہتر صورت میں لانے اور اصل متن سے ان کا موازنہ کرنے کام بھی جو نز ہی کے سُپر د ہُوا۔ یہ پنڈت جگن ناتھؔ کے تیار کردہ ترجمہ پر غور و فکر کر دہے تھے کہ اُن کا انتقال ہو گیا۔ اور یہ خدمت کو لبروکؔ  کے سپرد ہُوئی جس نے اس کو 1797ء میں مکمّل کر دیا۔ 1785ء میں چارلس دلکنزؔ (CHARLES WILKINS ) نے سب سے پہلے سنسکرتؔ سے انگریزی میں ترجمہ کر کے ایک کتاب بنام ’’ بھگوت گیتا یعنی کرشنؔ اور ارجن کا مکالمہ ’’(THE BHAGWAT GEETA OR DIALOGUE OF KRISHNA AND ARJOON)شائع کی۔ لیکن اس ادبی خدمت سے زیادہ اہم ولکنزؔ کی ایک اور ادبی خدمت ہے کیونکہ اُسی نے ایشیائی زبانوں کو ٹائپ کے ذریعے چھاپنے کے سلسلہ میں پیش قدمی کی۔

1783 ء میں ہال ہیڈؔ نے ہُگلی میں بنگالیؔ  کی پہلی گرامر شائع کی۔ اُس کا ٹائپ ولکنزؔ ہی نے تیار کیا تھا۔ لیکن چونکہ اس گرامر میں بُہت سی خامیاں پائی گئی تھیں۔ لہٰذا یہ نا کامیاب ثابت ہوئی۔

 یہ تمام کوششیں تھیں جو سرکاری افسران اور کمپنی کے ملازمین نے دقتاً فوقتاً علم کو فروغ دینے کی غرض سے کیں۔ لیکن کیریؔ نے اس کام کو ایک نئے طریق سے صحیح بنیاد پر قائم کر کے دوبارہ شُروع کیا۔ اُس نے اپنی روزمرہ کی گُفتگو کے ذریعہ عوام کی اور عالم برہمنوں کی امداد حاصل کرنا شُروع کر دی۔ وہ ہر شخص سے ہمدردی سے کلام کرتا تھا اور خود ہ بُوڑھا ہو خواہ جوان ہر ایک سے سبق حاصل کرنے کو ہر وقت تیار رہتا تھا۔ اس طریقہ پر وہ رفتہ رفتہ ایک اعلیٰ زباندان بن گیا۔ اب اُس کی محنتوں کا صلہ ملنے کا وقت بھی آ گیا تھا اور یہ صلہ اُس کو فورٹ ولیمؔ کالج کی ملازمت کی صُورت میں مل گیا۔

 اس کالج میں اُس نے بحیثیّت ایک پر وفیسر جو خدمات انجام دیں اُن کا ذکر ہم گذشتہ باب میں کر چُکے ہیں ان خدمات کے پیش نظر ارباب اقتدار کو جلد ہی معلُوم ہو گیا کہ کیریؔ کی قدر و قیمت کیا ہے چنانچہ اپنے ایک نہایت مُشکل اور اہم کام کو بخوبی انجام دینے کیلئے ایشیاٹک سو سائٹیؔ  جیسی علمی انجمن نے کیریؔ ہی کو منتخب کیا لہٰذا ’’ بلیوتھیکا ایشیا ٹیکاؔ (BIBLOTHECA ASIATICA)کے متعلّق کیریؔ  اپنے ایک خط میں یُوں رقمطراز ہے۔

24 جولائی 1805 ء گرنٹ کی جو جلد ہمراہ بھیجی جاتی ہے اُس سے آپ کو معلُوم ہو گا کہ ایشیا ٹک سوسائٹی اور کالج نے سنسکرتؔ  کی کتابوں کے ترجمہ کے واسطے ہم کو ایک سالانہ وظیفہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کالج کی کونسل نے میری تنخواہ میں اضافہ کرنے کی پر  زور سفارش کی ہے لیکن ابھی یہ ترقی ہُوئی نہیں ہے اور چونکہ لارڈ ویلزلیؔ واپس جا رہے ہیں اور لارڈ کارنواسِ(LORD CORNWALLIS)تشریف لے آئے ہیں اس لئے یہ ترقی شائد نہ بھی ہو۔ اگر ہو جائے تو اس سے اور بھی امداد مل جائے گی۔ سنسکرت کی کتابوں کے ترجمہ کی نسبت یہ بات ہے کہ تقریباً دو سال پیشتر میَں کالج کی کونسل کے سامنے ایک تجویز پیش کی تھی کہ ہم سنسکرتؔ  کی تمام کتابیں ایک معین قیمت پر چھاپ دیں گے اور ایک سو جلدوں سے واسطے ایک خاص رقم معاوضہ بھی دے دیں گے۔ چند اصحاب کی رائے تھی کہ یہ تحویز بُہت وسیع ہے لہٰذا اس کو معرض التوا میں ڈال دیا گیا۔ چند ماہ ہُوئے ڈاکٹر فرانسس بکاننؔ (DR.FRANCIS BUCHANAN ) اپنے نُسخوں کے ترجمہ کے سلسلہ میں لارڈ ویلزلیؔ کی صلاح پر میرے پاس آئے۔ دورانِ گُفتگو میَں نے ذکر کیا کہ میَں نے کیا تجاویز پیش کی تھیں۔ اُنہوں نے ان تجاویز سے کامل اتفاق کیا اور ان کا ذکر سر جان این سٹروتھر(SIR JOHN ANSTRUTHER) سے کیا۔ آپ ایشیا ٹک سوسائٹی کے صدر ہیں۔ ان دنوں سرجان بھی لارڈ ویلزلیؔ کے ساتھ ایک تجو یز کے بارے میں خط و کتابت کر رہے تھے۔ اس تجویز کا مقصد تمام قدیم ہندو کتابوں کو محفُوظ کرنا تھا۔ سر جانؔ نے اس تجو یز کی ایک نقل مُجھے بھیجی اور میری تجویز سے اتفاق کرتے ہُوئے اُنہوں نے مُجھ سے درخواست کی کہ اس کام کے لئے چند عملی صُورتیں پیش کرُوں۔ میَں نے عملی تجاویز مُرتب کیں اور ان میں تھوڑی بُہت ترمیمیں ہونے کے بعد فیصلہ ہُوا کہ فورٹ ولیمؔ اور ایشیا ٹک سو سائٹی دونوں مل کر ہمارے ضروری اخراجات کے واسطے مبلغ 300روپے ماہوار ہم کو ادا کریں اور اس کے بدلے جس کتا ب کو وہ منظور کریں اُس کو ہم ترجمہ کر دیں اور ان ہی کے منظور کردہ ٹائپ اور ان ہی کے مُنتخب کر دہ کاغذپر مع انگریز ی تر جمہ کے چھاپ دیں اور اصل قلمی نُسخہ کے مالک ہم رہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ یورپ کے تمام علمی اداروں کے پاس ہمارے ان ترجموں کی سفا رش کریں گے۔ میَں نے صلاح دی ہے کہ رامائن سے ابتدا کی جائے۔ یہ ہندوؤں کی مُقدّس کتابوں میں سب سے اہم ہے اس کے مقابلہ میں ویدؔ اس قدر بے لُطف ہیں کہ اگر اُن سے ابتدا کی گئی تو عوام کی دلچسپی شُروع ہی سے جاتی رہے گی۔ رامائنؔ کے ذریعہ ہندوؤں کے دیوی دیو تاؤں کے متعلّق بہتر یں معلُومات ہمیں نہیں مل سکتیں۔ اور پھر اس کتاب کا موضوع بھی اِس قدر دلچسپ ہے کہ طبیعّت خواہ مخواہ چاہتی ہے کہ اس کو شُروع سے آخر تک پڑھ کر ہی چھوڑا جائے۔

1807 ء میں رسالہ ’’ ایشیاٹکؔ  ریسرچز‘‘ (ASIATIC RESEARCHES)میں عُلما سے درخواست کی گئی تھی کہ ایشیائی کتابوں کے ترجمہ یا ان کتابوں کے متعلّق معُلومات فراہم کریں۔ چُنانچہ کیریؔ کا رامائن کا ترجمہ مع شرح کے سیرامپورؔ پریس سے تین جلدوں میں 1810ء شائع ہو گیا۔ جب تک گو رلیسورؔ (GORRESIO )نے اپنا اطالویؔ زبان کا تر جمہ شائع نہ کیا تب تک کیریؔ اور مارشمینؔ ‘‘ کی یہ کتاب ہی اس عظیم ہندو رزمیہ نظم کا یورپؔ میں پہلا اور واحد ترجمہ تھا۔ لیکن اس سے پہلے 1802ء ہی میں کیریؔ اپنے سیرامپورؔ کے پریس سے رامائنؔ اور مہابھارتؔ کے بنگالی ترجمہ بھی شائع کر چُکا تھا لیکن رامائن کا انگریزی ترجمہ شائع ہُوا تو یورپؔ کے نہ صرف عُلما بلکہ شُعرا نے بھی اس سے استفاد ہ کیا۔ اس ترجمہ کی جو جلدیں انگلستان بھیجی گئی تھیں۔ وہ جہاز کے غرقاب ہو جانے کی وجہ سے تلف ہو گئیں لہٰذا جو جلدیں ذاتی طور پر کیری نے بطورِ تحفہ اپنے دوستوں کودی تھیں وہی اب باقی رہ گئی ہیں۔ ایسی ہی ایک جلد اس وقت برٹش میوزیمؔ (BRITHSH MUSEUM)میں موجود ہے۔ فورٹ ولیمؔ کالج کے واسطے کیریؔ نے مشہور کتاب ’’ہت اوپدیش ‘‘ کے سنسکرتؔ  ترجمہ کو ترتیب دے کر شائع کروایا۔ یہ دیوناگری حروف میں پہلی سنسکرتؔ کتا ب چھاپی گئی تھی اس کے علاوہ کیریؔ نے ’’ دس کمارکرت‘‘ اور پھر تری ہری ‘‘ کی ایک کتاب کے خُلاصے بھی تیار کئے۔ سیرامپورؔ کے پریس میں کیریؔ نے ہندوستانؔ  کے قدیم ترین لغت دان امرسنگھاؔ سنسکرت ’’ ڈکشنری کو مع انگریزیؔ  معانی و شرح کے چھا پ کر تیا رکیا۔ اُس زمانہ میں سرکارہند کا یہ دستور تھا کہ فورٹ ولیم کالجؔ  میں جو شخص جس زبان کا پروفیسر ہوتا تھا وہی اُس زبان کاسرکاری مترجم بھی مانا جاتا تھا اور سرکاری طور پر کوئی کتاب یا پرچہ شائع نہ ہو سکتا تھا جب تک کہ پروفیسر صاحب اُس کے متن کو پڑھ کر منظوری نہ دے دیں۔ اپنی کالج کی خدمات کے اس سلسلہ میں کیریؔ کی وساطت سے جو ادبی جواہر ہندوستانؔ کی تین زبانوں میں شائع ہُوئے اُس کا نہایت مُختصر ذکر ہدیہ ناظرین ہے۔

کیریؔ نے اپنے پنڈتوں کی کُل سولہ کتا بیں لکھیں جن میں مشہور عالم تصانیف ’’ ہِت اوپدیش ‘‘ اور ’’ بھگوت گیتا‘‘ کے اولیّن بنگالیؔ تراجم شامل ہیں ان دونوں کے علاوہ اِن سولہ کتابوں میں دہ تین کتابیں بھی ہیں جو بنگالیؔ ادب کی بُنیاد مانی جاتی ہیں یعنی رام رامؔ باسو کی تصنیف ’’راجہ پرتا پ آدتیہ ‘‘۔ راجب لوچنؔ کی کتاب ’’مہا راجہ کرشنا چند راچرتر‘‘ اور پنڈت مرتو نجےؔ  ودّیا النکار کی ’’ہندوستانؔ کے راجاؤں کی کہانیاں۔ ‘‘

 خود کیریؔ نے اس عرصہ میں چھ مختلف زبانوں کی صرف و نحو کی کُتب شائع کیں۔ یعنی بنگالیؔ ۔ سنسکرتؔ،  مرہٹیؔ ۔ پنچانیؔ، تلو گوؔ  اور کناریؔ ۔ پھر مارشمینؔ (MARSHMAN)کے فرزند جان سی مارشمین (JOHN C.MARSHMAN) کی مدد سے اُس نے بھو ٹیاؔ زبان کی بھی ایک گرامر ترتیب دی۔ تین ڈکشنریاں یعنی بنگالیؔ، مرہٹیؔ اور سنسکرت اُس کی اپنی تصانیف تھیں اور بھوٹیاؔ زبان کی فرہنگ تیار کرنے میں بھی اُس کا نمایاں حصّہ تھا۔ کیریؔ کی مرہٹیؔ ڈکشنری توقع سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوئی۔ اور اُس کی بنگالیؔ  ڈکشنری کی تو کلکتہّؔ یو نیورسٹی کے ڈاکٹر سُو سیل کمار ڈلے اور آکسفورڈیونیورسٹی(OXFORD UNIVERSITY ) کے پروفیسر ایچ۔ ایچ۔ ولسنؔ (PROF. H.H WILSON) نے بھی داد دی ہے اُس کی بنگالیؔ  روزمّرہ کی تصنیف ’’COLLOQUIES‘‘ اور ’’ اتہا س مالا‘‘ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ نہ صرف بنگالی علمی زبان کا ہی ماہر تھا بلکہ روزمرّہ میں بھی ایک کُہنہ مشق اُستا د کی سی مہارت تامہّ رکھتا تھا۔ اور جہاں تک ایشیاٹکؔ  سو سائٹی کا تعلّق ہے کیری 1806 ء میں اُاس کا ممبر بنا اور ایک سال کے اندر ہی اندر اُس کا سب سے زیادہ محنتی کا رُکن بلکہ سو سائٹی کا رُوح رواں بن گیا۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ دس سال کے عرصہ میں اس سو سائٹی کے باون اجلاس مُنعقد ہُوئے جن سے کیریؔ آٹھ سے غیر حاضر تھا۔ ممبر ی کے دن سے تا دمِ مرگ وہ سو سائٹی کی ’’ مجلس مذاکرات علمیہ‘‘ (COMITTEE OF PAPERS) کا رُکن رہا۔ کیریؔ ہی کی تحریک پر سوسائٹی نے سنسکرت کے بہتر ین ڈراما ’’ شکنتلاؔ ‘‘ ’’ہت اوپدیش ‘‘ اور ’’بھگوت گیتا‘‘ کے انگریزی تراجم کئے۔ سو سائٹی ہی کی وساطت سے کیریؔ نے ہندوؤں کے مشہور فلسفہ ’’ سانکھ ‘‘ کا ترجمہ انگریز ی میں کیا۔ اور جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ سو سائٹی کے تحت اُس نے ’’ رامائن‘‘ کا ترجمہ شروع کیا اور اُس کی تین جلدیں شائع بھی کیں۔ اس رامائنؔ کے ترجمہ کے ذریعہ وہ مغرب کو ہندوستانؔ کے بہتر ین رزمیہ کلام سے مستفیض کرنا چاہتا تھا لیکن افسوس کہ ایک حادثہ کی وجہ سے یہ ادبی خدمت برسرانجام نہ پُہنچ سکی۔

 کیریؔ کی ادبی خدمات کا مطالعہ کرتے وقت مندرجہ ذیل خط دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کیونکہ اس خط میں اُس نے اپنے کام کرنے کے طریقہ اور اپنے بلند مقاصد کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے مورخہ10۔ دسمبرء کو کیریؔ رائیلینڈؔ (RYLAND)کو خط لکھتا ہے کہ ایک عرصہ سے میَں اس ضرورت کا قائل ہو گیا ہُوں کہ مشرق میں بائبل کی شرح و موازنہ کی بحث کا آغاز کیا جائے۔ میر ا خیال ہے کہ اگر ہم ایسا انتظام کریں کہ جس زبان میں ہم بائبل کا ترجمہ کرتے ہیں اُس کے ساتھ ہی اُس زبان کی گرامر بھی تیار کر کے شائع کر دیا کریں تو اس موازنہ کے کام میں بڑی سہو لت ہو جائے گی۔ اگر ہم نے خود یہ کام نہ کیا تو ہمارے جانشینوں کو دوبارہ وہی محنت کرنی ہو گی جو ہم آج کر رہے ہیں گو یا وہ اُسی مقام پر ہوں گے جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔ لیکن اگر ابتدائی کتابیں تیار کر دی جائیں تو بُہت ہی آسانی پیدا ہو جائے گی اور محنت بھی بچ جائے گی۔ اس طرح جو کُچھ معلُوم کرنے کے لئے مُجھے برسوں جانفشانی کرنی پڑی ہے وہ دُوسرے نہایت آسانی سے سمجھ جائیں گے۔ چُونکہ مُجھے اتنی زبانیں سیکھنی پڑتی ہیں لہٰذا میَں ہر رتُر ِ ’’ وبارُایک کی گرامر کا مطالعہ کرتا ہُوں۔ پھر اُس کو قلمبند کر لیتا ہُوں اور اُس کی پیچیدگیوں اور خاص خاص باتوں پر غور کرتا ہُوں۔ اس طریقہ پر میَں نے اب تک تین گرامریں تیار کر کے شائع کردی ہیں۔ یعنی سنسکرت بنگالیؔ اور مرہٹیؔ، میرا ارادہ ہے کہ تلنگاؔ، کرناٹکیؔ، اوڑیہؔ، پنچابیؔ، کشمیریؔ، گجراتیؔ، نیپالیؔ، اور آسامیؔ  زبانوں کی گرامر یں بھی تیار کر کے شائع کردو ں۔ ان میں سے دو تو فی الحال زیرِ طبع ہیں اور اُمید ہے کہ آیند ہ سال کے آخر تک دو یا تین اور چھپ کر تیار ہو جائیں گی۔ ممکن ہے کہ یہ گرامر کی کتابیں اُس تجو یز کے لئے کارآمد نہ ہوں جو میَں نے اُوپر بیان کی ہے لیکن یہ اُ س سوال کا جواب ضرور دے دیں گی جو اکثر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ لو گ اتنی زبانوں میں کس طرح ترجمے کر لیتے ہیں ؟ بہت کم انسان ایسے ہوں گے جو یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کُچھ کر سکتے ہیں جب تک کہ وہ کسی کام کو شُروع کر کے و صبر واستقلال سے اُ س کو پُورا نہیں کر لیتے۔ اس وقت میَں بنگالیؔ  کی ایک ڈکشنری چھاپ رہا ہُوں جو کافی ضخیم ہو گی۔ دوسو چھپن صفحے تک تو پہنچ چُکا ہُوں لیکن پہلا ہی حرف اب تک ختم نہیں ہُوا مگر یہی ایک ایسا حرف ہے جس سے اتنے الفاظ شرُوع ہوتے ہیں جتنے کسی اور دو حروف سے ملِا کر بھی شرُوع نہ ہوتے ہوں گے۔ جو ترجمے ہو چکے ہیں اُن کی خامیوں کو دُور کرنے کے لئے میَں ارادہ کر رہا ہُوں کہ ایک ڈکشنری تیار کی جائے جس میں مشرق کی اُن تمام زبانوں کے الفاظ ہوں جو سنسکرتؔ سے نکلی ہیں۔ اس کے لئے میَں نے مواد جمع کرنا بھی شُروع کر دیا ہے۔ یہ کام میَں سنسکرت سے شُروع کروں گا۔ پھر ان الفاظ کے معنی اور استعمال اُسی طرح ظاہر کروں گاجس طرح جونسن (JOHNSON)نے کیا ہے اس کے بعد ان الفاظ کے تراجم ہر اُس زبان میں ہوں گے جو سنسکرت سے پیدا ہُوئی ہے پھر یُونانیؔ  اور عبرانیؔ  کے ہم معنی الفاظ لکھے جائیں گے۔ میرا ارادہ ہے کہ ہر سنسکر تؔ لفظ کی مختصر تاریخ بھی اس میں شامل کر دی جائے تاکہ اُس سے پیدا ہونے والے دیگر زبانوں کے الفاظ کے معافی صاف و روشن ہو جائیں۔ یہ کام بُہت وسیع ہے اور میَں نہیں کہہ سکتا کہ میَں اس کو ختم کرنے تک زندہ بھی رہُوں گا یا نہیں لیکن جو نہی میری بنگالیؔ کی ڈکشنری مکمّل ہو جائے گی میَں اس تمام مواد کو ترتیب دینا شروع کروں گا جو میَں اس کام کے لئے کئی سال سے جمع کر رہا ہُوں۔ اگر میَں اس عظیم کام کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا اور تمام تراجم بھی مکمّل ہو گئے جو اس وقت تیارّ ہو رہے ہیں تومیَں یہ کہنے کا مستحق ہو جاؤں گا کہ ’’ اے خُداوند اب تو اپنے غُلام کو سلامتی سے رُخصت کر دے۔ ‘‘ افسو س ہے کہ کیریؔ کا اندیشہ صحیح ثابت ہُوا اور سنسکرتؔ کی اس مجوز ہ ڈکشنری کے لئے جو مواد اُس نے جمع کیا تھا وہ 11۔ مارچ 1812ء کی آتشزدگی میں تلف ہو گیا اور اس عظیم تصنیف کی تر تیب کا خیال مجبوراً ترک کرنا پڑا۔ پھر کیریؔ کی ادبی خدمات پر غور کرتے وقت ہم کو اس امر کا لحاظ رکھنا پڑیگا کہ جس زمانہ میں اُس نے بنگالؔ میں بُود و باش اختیار کی تھی اُس وقت بنگالیؔ زبان ایک نئے دَور میں قدم رکھ رہی تھی۔ اُسی زمانہ میں 1829 ء سرکاری قانُون کے مطابق فارسیؔ  کے بجائے بنگالیؔ  اور دیگر صُوبوں کی زبانیں عدالتی زبانیں قرار دے دی گئیں۔ فارسیؔ  کو مسُلمان بادشاہوں نے درباری زبان کی حیثیّت دی تھی۔ جب کیریؔ نے کلکتہّؔ اور داناپورؔ میں کام شروع کیا تو 1792-93 ء اُس وقت بنگالیؔ میں کوئی کتاب نہیں چھپی تھی اور قلمی نسُخے بھی شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتے تھے۔ کولبروکؔ صاحب نے بجا فرما یا ہے کہ ’’ اس زمانہ میں بنگالی طرز تحریر دراصل سنسکر تؔ  یا دیونا گری رسُم الخط تھا۔ ‘‘ ندّیا کے مشہور مُصلح چیتنیہؔ نے اپنے نئے دھرم کی کتابوں کی تحریر کا رواج جاری کیا۔ اس سلسلہِ میں کرشن داسؔ کی کتاب ’’ چیتنیہ حیرت امرت ‘‘ سب سے پہلی کتاب تھی جو 1557ء میں لکھی گئی۔ لیکن بنگالیؔ  ’’ سنسکرتؔ  کی قبر سے پیدا ہُوئی تھی۔ ‘‘ مگر بر ہمنوں اور مسلمان حاکموں نے اس کے ساتھ نہایت بے رُخی کا سلو ک رَوا رکھا تھا کیونکہ بقول بر ہمنوں کے یہ ’’ صرف بھُوتوں اور عورتوں کی زبان‘‘ تھی۔ کیریؔ کے آنے سے تقریباً نصف صدی پیشتر ’’ ہندوستانؔ کے آکسفورڈ‘‘ یعنی ندّیاؔ میں راجہ کرشنؔ رائے رہتے تھے۔ یہ ہندو مت کے اتنے رائج الاعتقاد پیروکار تھے کہ اُنہوں نے ایک شُودر کو اس لئے پھانسی پر لٹکوا دیا تھا کہ اُس نے ایک برہمن لڑکی سے شادی کرنے کی جرات کی تھی۔ اُنہوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کی غرض سے بُہت کُچھ لکھا اور اپنی رعا یا کو وظائف بھی دیئے تاکہ وہ ’’ بنگالی زبان کا مطالعہ مُستعد ی اور ثابت قدمی سے کریں۔ ‘‘ لیکن جب چالیس سال بعد کیریؔ ندّیا پُہنچا تو اُس کو معلوم ہُوا کہ تین کروڑنفوس کی آبادی میں فقط چالیس کتابیں موجُود تھیں جو کہ تمام ہا تھ کی لکھی ہُوئی تھیں۔ یہ بھی واقعہ کہ ہُگلی کے اُس پار ایک پر یس بھی تقریباً سال سے قائم تھا لیکن اس طویل عرصہ میں ہال ہیڈؔ کی گرامر کے علاوہ اور کوئی کتاب اس میں نہ چھپی تھی۔ لہٰذا یہ گرامر ہی سب سے پہلی اور قدیم چھپی ہُوئی کتاب دیکھنے میں آسکتی تھی۔ اس کتاب کے متعلّق ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ غلطیوں کی زیادتی کی وجہ سے یہ قطعی کامیاب ثابت نہ ہوئی تھی۔

 شمالی ہندوستانؔ کے ایک شخص مسمیّ بابو رامؔ نے کو لبُروک کے زیر اثر سنسکرتؔ کی قدیم کتابوں کو چھاپنے کے لئے کلکتہّؔ میں ایک پر یس قائم کیا۔ وہ پہلا بنگالی تھا جس نے اپنی مادری زبان میں اپنی شخصی ذمّہ داری پر کتابیں چھاپیں۔ وہ گنگاکشورؔ تھا جس کوکیریؔ اور وارڈؔ نے سیرامُپورؔ میں یہ فن سکھا یا تھا۔ اُس نے جلد ہی ایک بڑی دولت جمع کر لی اور 1820ء تک تین پر یس اور قائم ہو گئے۔ ان سب چھاپے خانوں سے دس سال کے عرصہ میں کُل ستائیس مختلف کتا بیں چھپ کر فروخت ہُوئیں اور ان تمام کتابوں کی مجموعی تعداد 5 ہزار جلدوں سے زیادہ نہ تھی۔ ان تمام کتابوں کے لئے ٹائپ سیرامپورؔ ہی نے مہیا ّ کیا تھا لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ تمام کتابیں کیریؔ ہی کی محنت کا نتیجہ تھیں۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چُکا ہے 1801 ء میں بنگالی بائبل کا نیا عہد نامہ شائع ہُوا۔ اُسی سال اُ س نے گرامر بھی ختم کر کے چھاپی۔ اس کے علاوہ بنگالیؔ روزمرہ کی ایک درسی کتاب (COLLOQUIES) بھی اُنہی دنوں مکمّل ہو کر عوام کے ہاتھوں میں پہنچی اور 1815 ء سے اُس نے اپنی ڈکشنری کے جُز بھی شائع کرنے شُروع کر دیئے۔ لیکن کیریؔ  کو اس امر کا احساس تھا کہ ہر قوم کے ادب کا نشو و نما اُس قوم ہی کے ادیبوں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ اور بدیشی کے ذریعہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا کیریؔ نے ہندوستانیوںؔ  کو جلد از جلد اپنا شریک کار بنانے کی کو شش کی۔ اُس کا سب سے پہلا شاگرد پنڈت رام رامؔ باسُوتھا۔ سیرامپورؔ کا پہلا ٹریکٹ(TRACT) اور ہندو مذہب کے خلاف سیرامپورؔ کا پہلا پمفلٹ(PAMPHLET) رام رامؔ  باسُو کے قلم ہی سے لکھا گیا تھا۔ یہ دونوں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئے اور ان کی اشاعت پر عوام میں بُہت بے چینی پھیلی لیکن رام رامؔ باسُو جس نے خود اس خوبی سے ہندو مذہب کے خلاف قدم اُٹھا یا تھا کبھی علانیہ اپنے مسیحی ہونے کا اقرار کرنے کی جرات نہ کر سکا۔ بہر کیف۔ اُس کے مذہبی عقا ئد سے قلعِ نظر ہمیں اُس کی ادبی کار گزاری سے جو تمام ترکیریؔ کی علمی صُجتوں کا نتیجہ تھیں تعلّق ہے۔ رام رامؔ باسُو اپنے زمانہ کا ایک نہایت بلند پایہ بنگالیؔ  عالم مانا جاتا تھا۔ اُس نے کیریؔ کے کہنے سے چند ایک مذہبی رسالے وغیرہ لکھے اور ان کے علاوہ کیریؔ ہی کی تر غیب پر اُس نے اپنی کتاب ’’راجہ پر تابؔ آدتیہ جیون چرتر‘‘ یعنی راجہ پرتابؔ آدیتہ کی سوانح عُمری لکھ کر شائع کی۔ کہ راجہ پرتاب آدیتہ ساگردیپؔ کے آخری حکمران تھے۔ جب کیری فورٹ ولیمؔ کالج میں پروفیسر مقرّر ہُوا تو اُس کو سب سے بڑی دِقت یہ پیش آئی کہ بنگالی جماعت کے لئے کوئی درسی کتاب ہی موجُود نہ تھی۔ لہٰذا کیریؔ اور اُس کے پنڈت اور حتی کہ اُس کے طلبا کو بھی کئی برس تک بنگالیؔ کی درسی کتابیں خُود لکھنی پڑیں۔ ان میں روّم کے مشہور شاعر و رچلؔ (VIRGIL) اور انگریز ی ڈراما نگار شیکپئیرؔ (SHAKESPEARE)کی کتابوں کے ترجمے شامل تھے۔ بالآخر سکول بک سوسائٹی(SCHOOL BOOK SOCIETY)نے اس کام کو اپنے ذمہّ لے لیا اور رام کمل سینؔ کو ترغیب دی کہ وہ اپنی بنگالی ڈکشنری تیار کریں۔ بابو رام کمل سینؔ ایک پر یس کے مالک تھے اور آخر کار آپ ’’ بنک آف بنگالؔ ‘‘ (BANK OF BENGAL)کے خاص عہدیدار مقّرر ہُوئے۔ مشہور عالم مُصلح کیشب چند رسینؔ اُنہی کے چشم و چراغ تھے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کیریؔ ہی کی خدمت کی وجہ سے آج ہندوستانؔ میں بنگالیؔ زبان کی وہی حیثیّت ہے جو یو رپ میں کسی زمانہ میں اطالویؔ زبان کو حاصل تھی اور بنگالیؔ رُوپ کسی معنی میں بھی اطالوی ادب سے کم نہیں ہے۔

 جہاں تک ادب کا تعلّق ہے کیریؔ کے انگریز جا نشین یعنی خود اس کے فر زند فلیکس کیریؔ (FELIX CAREY) نے جو خدمت کی وہ کسی طرح بھی باپ کی خدمت سے کم نہیں۔ فلیکس نے رام کمّل سین کے ساتھ مل کر بنگالیؔ زبان میں علم تشریح البدن(ANATOMY)کی ایک ’’ جامع العلُوم ‘‘ انسائیکلوپیڈیا )تیار کی۔ جان بنین(JOHN BUNYAN)کی مشہور کتاب ’’ پلگرمز پر وگریس‘‘ (PILGRIM’S PROGRESS)کا ترجمہ کیا۔ گولڈسمتھؔ (GOLD SMITH) کی ’’ تاریخ انگلستانؔ ‘‘ کو بنگالیؔ زبان میں قلمبند کیا۔ اور ملؔ (MILL) صاحب کی ’’تاریخ ہند‘‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ کیریؔ کی ادبی خدمات کے موجُود ہ باب کو ہم متعدّد مشاہیر میں سے دوکی آراء کے ساتھ ختم کرتے ہیں۔ مشہور مُصلح کیشبؔ چند رسین کے والد رام کمّل سین کا ذکر ہو چکا ہے آپ ایشیا ٹکؔ سو سائٹی کے سیکرٹری بھی تھے آپ نے فرما یا ہے کہ ’’ بنگالیؔ زبان کو ادبی حیثیّت دینے اور اُس کو ترقی کے ابتدائی مدارج میں سے نکال کر عروج دینے کا سہرا ڈاکٹر کیریؔ اور اُن کے ہم خدمتوں کے سر ہے۔ ‘‘ اور پھر سموایل پیئرس کیریؔ (SAMUEL PEACE CAREY ) صاحب سے ڈاکٹر رابندرا ناتھ ٹیگورؔ نے1921ء میں فرما یا کہ ’’ دیسی زبانوں میں دلچسپی کی موجودہ تحریک کا بانی کیری ہی تھا۔ ‘‘

٭٭٭


 

عبداللہ جاوید

 

کوائف: عبداللہ جاوید

نام : محمد عبداللہ خاں جاوید

قلمی نام : ۱۔ جاوید یوسف زئی ( ساٹھ کی دہائی تک) ۲۔ عبداللہ جاوید ( زبانِ خلق کی عطا )

پیدائش : غازی آباد (یوپی۔ انڈیا ) ۱۶ دسمبر ۱۹۳۱ ء

والد : محمد اسمٰعیل خاں (مرحوم )  والدہ : شمس انساء بیگم ( مرحوم )

اجداد : ددھیال۔ یوسف زئی افغان، ننھیال۔ ایرانی

تعلیم : ایم۔ اے انگریزی و امریکی ادب، ایم۔ اے اردو ادب، ایل۔ ایل۔ بی، ڈی۔ ایچ۔ ایم۔ ایس

پیشہ : ۱۔ وکالت ۲۔ تدریس

قلمی زندگی کا آغاز : ۱۹۴۲۔ ۴۳

شعبہ ہائے ادب : شاعری۔ افسانہ نگاری ( اردو۔ انگریزی )۔ ڈرامے۔ تنقید (اردو )

کالم نگاری : روز نامہ جنگ۔ اعظم اخبار (ہفتہ وار ) روز نامہ جسارت (کراچی )

 ٹورانٹو ٹائمز (ہفتہ وار ) اردو پوسٹ۔ ٹورانٹو (ہفتہ وار )

تصانیف : بیادِ اقبال (مضامین ) ۱۹۶۹

موجِ صد رنگ ( شاعری )

حصارِ امکاں ( شاعری )

 خواب سماں (شاعری )

بھاگتے لمحے ( افسانے۔ انتخاب )

 زیرِ طبع : مت سہل ہمیں جانو ( میر تقی میرؔ ۔ مطالعہ )

آگ کا دریا۔ قرۃ العین حیدر۔ مطالعہ )

زیرِ ترتیب : منظومات مولانا جلال الدّین رومی (انتخاب)

 تنقیدی مضامین

 کالم اور انشائیے (انتخاب)

 ادبی کالم (انتخاب) ادبی مضامین اور خاکے ( انتخاب )

 افسانے ( انتخاب )

متعلقات : شاعرِ صد رنگ عبداللہ جاوید۔ تجزیاتی مطالعہ تجزیہ نگار : تسلیم الٰہی زلفی۔

٭٭٭


 

 

 

 ناصر کاظمی، سجاد باقر رضوی اور میں

 

 

عبداللہ جاوید

( کینیڈا )

 

 یوں تو بار ہا نا صر کاظمی کا ساتھ میسّر ہو ا۔ کئی مشاعرے بھی ساتھ پڑھے۔ مذاکروں اور سیمیناروں میں بھی اکھٹّے ہوئے۔ ’ قومی شاعری ‘ پر ایک مذاکرے میں اس کی صدا رت میں ایک مقالہ پڑھنے کا بھی اتفاق ہو ا۔ لیکن کبھی کھل کر بات چیت کر نے کا موقعہ نہ مل سکا۔ کیونکہ ہر ملاقات کے موقع پر سجاد باقر رضوی کباب میں ہڈی بنا رہا۔ نہ وہ بولنے سے رکتا تھا اور نہ ہم ناصرؔ  سے کچھ بول پاتے۔ دورانِ تعلیم اسلامیہ کالج کراچی اور جامعہ کراچی کی حد تک تو اس کی قینچی کی طرح چلنے والی زبان سے ہم بے حد خوش تھے کہ ہم سے ایک سال سینیئر ہو نے کے با وجود وہ ہمیں ہماری ہم جماعت لڑکیوں سے محفوظ رکھتا تھا۔ نا صر کاظمی کے معاملے میں ہم قطعی خوش نہ تھے باقر بولتا رہتا اور ہم نا صر کی لمبی، پتلی گردن اور گلے میں خاصا نما یاں ’’ آدم کے سیب ‘‘ کو دیکھتے رہتے جو پیڑھی در پیڑھی ہوتا ہوا نا صر کے گلے میں ثابت، سالم، آ پھنسا تھا۔ جہاں کہیں ناصر کاظمی تنہا دکھائی دیتا اور ہم والہانہ اس کی جا نب لپکتے تو ہمارے اس تک پہنچنے سے قبل سجاد باقر رضوی کسی نہ کسی کونے کھدڑے سے نمو دار ہو جا تا اور ہما ری آتشِ شوق پر گھڑوں پانی ڈال کر بجھا دیتا۔ ایک بار جب ہم ریل کے ڈبّے میں سوار ہوئے تو دیکھا کہ قدرے فاصلے پر نا صر کاظمی اپنی صراحی دار گردن اور ’ آدم کے سیب ‘ کے ساتھ بیٹھے ہیں اور ان کی برابر والی نشست بالکل خالی ہے۔ ہم اپنے سفری بیگ سے کسی ہم سفر کے چہرۂ مبارک پر ضرب لگاتے اور اس کی پھٹکار کو سنی ان سنی کرتے آ گے بڑھے تو پلک جھپکتے میں نا صر کاظمی کی برابر والی نشست پر کوئی آن بیٹھا۔ ظاہر ہے وہ سجاد باقر رضوی ہی ہو سکتا تھا۔

ناصر کاظمی سے ہماری محبت یا عقیدت جو کچھ بھی تھی اس کی شاعری کے واسطے سے تھی۔ وہ ایک سچا شاعر تھا اور بڑا شاعر تھا۔ سچا شاعر ہو نا ہی کچھ کم نہیں ہو تا۔ ناصرؔ  تو بڑا شاعر بھی تھا۔ بیسویں صدی کے اردو شاعروں میں وہ صفِ اول کے چند شعرا ء میں شامل تھا۔ میں نے کسی جگہ اس کو میرؔ چہ بھی لکھا ہے۔ لیکن وہ میرؔ  ہی میرؔ  نہیں تھا۔ کوئی مجھ سے اتفاق کرے یا نہ کرے اس دور کے ہر پڑھے لکھے شاعر کی طرح وہ فراقؔ سے بھی متاثر تھا۔ اس نے اپنے پڑھے لکھے ہو نے پر کبھی اصرار نہیں کیا۔ سجاد باقر رضوی کو خود پر مسلط کئے رہنے والا کوئی مردِ شریف ایسا کچھ کر بھی کب سکتا تھا۔ البتہ میں جانتا ہوں کہ خود سجاد باقر کسی ایسے بندے سے چمٹ نہ سکتا تھا جو پڑھا لکھا نہ ہو۔ یوں بھی شاعری سے بھی اس کا پڑھا لکھا ہو نا ظاہر ہو جا تا ہے۔ اگر چہ وہ کسی بھی مرحلے پر فکر کو جذبے پر حاوی ہو نے نہیں دیتا۔ ناصر کاظمی کی شاعری محض شعر گوئی تک محدود نہیں ہے۔ وہ اپنی شاعری کی سحر سے ایک فضا سی تشکیل دیتا ہے۔ اور پڑھنے اور سننے والے کو اس میں پہنچا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کا درج ذیل ایک شعر آپ کو تقسیم بّرِ صغیر کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کے زمانے کی ہولناک فضا میں پہنچا دیتا ہے۔ ؎

 چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

 وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے

 یہاں معاملہ ’’ کمیونی کیشن ‘‘ تک محدود نہیں رہا ہے ’’ ٹرانسپور ٹیشن ‘‘ تک پہنچ گیا ہے۔ اگر آپ اس معاملے کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے تو گویا آپ ناصر کاظمی کی انفرادیت تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس شعر کا تجزیہ آپ کیسے کر یں گے ؟۔ ایذرا پاؤنڈ کے الفاظ میں یہ کہیں گے کہ اس شعر میں شاعر نے اپنے موضوعی تجربے یا مشاہدے کو معروضی تجربے یا مشاہدے سے جوڑ کر پیش کیا ہے۔ یا پھر ٹی۔ ایس ا یلیٹؔ کا طریقہ اختیار کریں گے جس کو ’’ اوبجیکٹیو کو ریلے ٹیو ‘‘ Objective co Relative کا نام دیا گیا ہے۔ اب ذرا یہ شعر دیکھئے۔ ؎

 ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

 اداسی بال کھولے سو رہی ہے

 اور اس شعر میں ’’ سہمے ہوئے شہروں ‘‘ کی ترکیب کی رمزیت ملاحظہ کریں ؎

 ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے

کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے

اس غزل کی فضا دیکھئے ؎

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شور برپا ہے خانۂ دل میں

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

۔ ۔ ۔ ۔

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

۔ ۔ ۔ ۔

یاد کے بے نشاں جزیروں سے

تیری آواز آ رہی ہے ابھی

۔ ۔ ۔

اس منظر کو دیکھئے ؎

تو آنکھوں سے اوجھل ہو تا جا تا ہے

دور کھڑے ہم خالی ہاتھ ہلا تے ہیں

یہ ’’ ریفلیکس ایکشن‘‘ ملاحظہ ہو ؎

 تو جو نا گاہ سامنے آیا

رکھ لئے میں نے ہاتھ آنکھوں پر

ماورائیت کا ایک انداز دیکھئے ؎

 پھول کو پھول کا نشاں جا نو

چاند کو چاند سے ادھر دیکھو

یا د کی اس صورت کو دیکھئے ؎

 دکھ کی دھوپ میں یاد آئے

تیرے ٹھنڈے ٹھنڈے سے بال

 حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں پتہ نہیں کس لہر میں صہبا اخترؔ  نے نا صر کاظمی کی جا نب اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’ یہ نا صر کاظمی ہیں سہلِ ممتنع میں شعر کہتے ہیں۔ ‘‘

 میں نے اس جا نب نظر ڈالی ناصر کاظمی کو کیا دیکھتا درمیان میں وہ جو حائل تھا سجاد باقر رضوی۔ ۔ میں نے دل ہی دل میں اپنا سر پیٹ لیا۔ مشاعرے سے متعلق ہو کر بات کی جائے تو میں یہ کہوں گا۔ کہ سجاد باقر رضوی مشاعرہ پڑھنے کے ساتھ پر فارم بھی کرتا تھا کسی راک اسٹار کی ما نند جب کہ نا صر کاظمی صرف شعر سناتا تھا۔ کاش دونوں آپس میں کچھ لین دین کر لیتے۔ سجاد باقر رضوی، نا صر کاظمی سے تھوڑی بہت شاعری لے لیتا اور ناصر کاظمی اس سے تھوڑا بہت پر فارمنگ آ رٹ۔

 ناصر کاظمی روایتی اور پا مال مضامین سے یکسر پاک نہیں ہے لیکن اس کا مجموعی تاثر اچھوتے پن کا ہے۔ خاص طور پر جب وہ مٹّی کی، پھول کی، پتّوں کی، شبنم کی، بدلتی رُتوں کی، سورج کی، چاند کی، اور تاروں کی باتیں کرتا ہے۔ اس کا عاشق شاعری کے روایتی عاشق کے مقابلے میں ایک عام جیتا جاگتا آدمی لگتا ہے۔ جب وہ اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے ؎

  نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لئے۔ ؟

٭٭٭


 

 

شکریہ میرے مہر باں ! !

 

عبداللہ جاوید

 

 قریب قریب ہر روز جولیاؔ وارڈ اپنی عیادت اور مزاج پر سی کے لئے آ نے والوں کو طرح طرح کے دلائل سے قائل کر نے کی کوشش کر تی کہ یہ جو اس نے مرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ درست ہی نہیں، با جواز ہی نہیں، بلکہ نظریۂ ضرورت کے عین مطابق ہے۔ ان دلائل کی تعداد میں روز بروز اضافہ جا ری تھا۔ آج تک جتنے دلائل اس نے آزما لئے ان کی تعداد سو تک تو پہنچ گئی ہو گی۔ لیکن کسی ملنے والوں یا قرابت داروں نے اس کی کسی بھی دلیل کو تسلیم کرنا تو در کنار توجہ سے کان دھرنے کے لائق بھی نہیں مانا جیسے ہی وہ بات شروع کرتی لوگ اس کے ہونٹوں پر انگلیاں رکھ کر اس کا منہ بند کر دیتے تھے یا اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالنے لگتے۔

 ادھر جولیاؔ  روز بروز اپنے اس ارادے میں اٹل ہو تی جاتی کہ اسے جلد از جلد عدالت سے رجوع کر کے خودکشی کر نے کی قانونی اجازت حاصل کر نی چاہیئے۔ اس کا مذہب خود کشی کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس نے چند ایک پادریوں سے اچھی طرح بحث مباحثہ کر لیا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ دوسرے مذاہب کا موقف بھی خود کشی کے معاملے میں ایسا ہی ہے۔

 جب اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا نے کا خیال کیا تو اس کی ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’’ جولی ! ایسا لگتا ہے تمہیں کہیں سے کوئی فالتو رقم مل گئی ہے اور تم اس کو فضول خرچ کر نا چاہتی ہو۔ اگر واقعی ایسا ہے تو تم مجھ مسکین کو عیش کرا دو۔ ‘‘

 ’’ ایملیؔ میری جان، کیسی فالتو رقم، کیسی فضول خر چی، اب تو یہی وِش کرو کہ عدالت میری درخواست مان لے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر جولیؔ کے ضبط کا پیمانہ چھلک گیا اور وہ آواز سے رونے لگی۔ ایملیؔ بھی اپنے آ پ پر قابو نہ رکھ سکی اور اس نے جولیؔ کے چہرے کو اپنے آ نسوؤں سے دھو دیا۔ کچھ وقت ان دو جسموں نے ایک دوسرے کو یگانگت کی سرشاری میں ڈبو یا پھر جدا ہو گئے۔ ایملیؔ  اپنی دنیا میں لوٹ گئی اور جولی اپنے بیمار جسم کے زنداں میں۔

 ڈاکٹر ہی نہیں خود جولیؔ بھی جانتی تھی کہ اس کا مرض اے ایل ایس لا علاج ہی نہیں ترقی پذیر بھی ہے۔ وہ اس کے جسم کے اندر اور با ہر کو مغلوب، بے جان اور بے حس کرتا ہوا آہستہ آہستہ نیچے سے اوپر کی جا نب رینگ رہا ہے۔ اس جسم کے ساتھ وہ گھنٹوں اکیلی پڑی رہتی۔ اس کے پیا رے اس سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ لیکن اس کا جسم اسے چھوڑنے پر مائل ہی نہیں ہو تا تھا۔ جولیاؔ اور اس کے جسم میں بہت پرانا اور مضبوط یارانہ تھا دونوں ایک دوسرے کے ہر اچھے اور برے راز سے واقف تھے اور پردہ دار بھی۔ لوگ دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ جولیا نے دنیا کو اپنے بدن سے دیکھا، چھوا، چکھا، سونگھا اورمحسوس کیا تھا۔ بیماری کی گرفت میں آنے سے قبل وہ بدن ہی تو تھی۔ اسکول کی نمبر ون ایتھلیٹ، والی بال کی سب سے اچھی کھلاڑی ٹیم کی کپتان۔ کالج اور یونیورسٹی کی مایہ ناز کھلاڑی اور کلر ہولڈر جیتے ہوئے کپوں اور ٹرافیوں سے اس کا کمرہ بھرا ہوا ہوتا تھا۔ اس کے بدن نے اس کو فخر و امتیاز کی بلندیوں تک پہنچا یا تھا۔ اچھی ایتھلیٹ اور کھلاڑی لڑکیوں کے بدن اکثر مردوں جیسے ہو نے لگتے ہیں لیکن کیوبک کی اس قا تلہ کے بدن نے ایسا نہیں کیا اس کا ایک ایک عضو، ایک ایک رواں، عورت ہو نے کا ثبوت دینے کے ہر مرحلے پر بھی نمبر ون رہا۔ لذت لینے میں بھی اور لذت دینے میں بھی۔ جو لیاؔ نے اپنے ناف سے نیچے والے بدن کا خیال کر کے ایک پھیکی ہنسی کو اپنے لبوں سے گالوں تک پھیلتے محسوس کیا اور اس طرح اپنے آپ پر طنز یہ خود ترسی کرتے ہوئے اپنے با لائی بدن کو بر ہنہ کر کے اپنی ہتھیلیوں سے محسوس کر نے لگی۔ اس کا پیٹ ابھی تک چپٹا تھا اس کی جلد زندہ اور ملا ئم تھی کمر پتلی تھی۔ گدگدانے پر اس کی کمر جو اب بھی دیتی تھی۔ کمر سے پیٹ، پیٹ سے پسلیوں اور پسلیوں سے سینے تک جا تے جاتے اس کی ہتھیلیاں اس کے شاندار بدن کے لمس کا ذائقہ لیتی ہوئی اوپر سفر کر تی رہیں پھر اچانک اس پر غنودگی سی طاری ہو نے لگی۔ اور اس غنودگی میں ملفوف حالت میں اس نے اپنے بالائی جسم سے کہا۔

 ’’ مجھے خوش فہمی کے جال میں نہ پھنساؤ میں جانتی ہوں تم مرنا نہیں چاہتے۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہو چکا ہو گا تمہارا نچلا حصہ جیتے جی مر چکا ہے۔ ‘‘

 ’’ جولیا ڈیر تم صحیح کہتی ہو میرا آدھا نچلا ساتھی بیماری کے آ گے ہتھیار ڈال چکا ہے۔ بیماری کسی انتہائی عیار دشمن کی طرح اپنے بے آواز قدموں کے ساتھ اس کو انچ انچ فتح کر چکی ہے۔ لیکن یہ جو تم کہتی ہو میرا نچلا بدن مر چکا ہے میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اعضا کا سن ہو جا نا،از خود حرکت کے لائق نہ ہونا بیماری کا ثبوت تو قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن موت کا نہیں۔ یہ اور اس طرح کی دوسری علا مات، بیماری کی علا مات ہیں، موت کی علا مات نہیں۔ ‘‘ اس کے بالائی بدن نے اس سے کھلا اختلاف کیا۔

 ’’یہ جو میری حالت ہے وہ موت سے بھی زیادہ ہے۔ آخر تم سمجھتے کیوں نہیں۔ ؟‘‘ جولیا با لائی بدن سے جھگڑنے لگی۔

 ’’ میں تمہاری اذیت کو سمجھ رہا ہوں لیکن تم اس نکتے پر بھی تو سوچو کہ نچلے دھڑ کو موجودہ صورتِ حال تک پہنچنے میں کتنی مدت لگی۔ ؟‘‘

بدن نے اس کو ’وقت ‘ کی جا نب متوجہ کرنا چا ہا جو فرد کی زندگی کا پیمانہ بھی ہے۔

 ’’ مدت لگی۔ ۔ ہاں مدت لگی۔ قریباً چار سال۔ ۔ میری تکلیف کا آغاز شاید ۲۰۰۷ میں ہوا اور یہ ۲۰۰۱۱ کا فال ہے۔ لیکن اب جو بیماری نے میرے ایک ہاتھ اور کلائی پر حملہ شروع کیا ہے۔ تو کیا میں مزید چار سال کی مدت میں اس لائق رہ سکوں گی کہ اپنے بارے میں  کچھ کر سکوں۔ میرے اس مردہ جسم کی دیکھ بھال کون کرے گا ‘‘ جو لیاؔ وارڈ غیض میں آ کر بولی۔

 ’’ وہی کرینگے۔ وفاقی حکو مت کے لوگ، وفاقی پار لیمان والے، قانون بنا نے والے، تمہاری خواہشِ مر گ کی تکمیل میں قانونی رکاوٹیں ڈالنے والے لوگ ہیں۔ ‘‘ بالائی بدن نے جولیاؔ کو لا جواب کر نے کی کوشش کی،

 ’’ خوب خوب۔ گویا میں اس رینگنے والی موت کے ہاتھوں تل تل مروں۔ ان کے بھروسے جو صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آ تے بھی نہیں ‘‘

 اسے یہ تو یاد نہیں کہ غنودگی کے دوران اس کا مکالمہ (خود اس کے اپنے) بالائی جسم سے کتنی دیر تک جاری رہا لیکن یہ ضرور یاد رہا کہ ساری بات چیت کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچی۔

 غنودگی سے باہر نکلنے کے بعد اس نے اپنی ۱۶سالہ بھانجی کو اس غنودگی اور غنودگی کے دوران ہو نے والی بحث اور دلائل کا مختصر جائزہ لکھوا دیا جو اس نے اے ایل ایس کلب کے اراکین کو ای میل سر کلر کے طور پر روانہ کر دیا۔

 اس کو کلب کے اراکین کی جا نب سے جلد ہی ای میل ملنا شروع ہو گئیں۔

۱۔ ڈیئر ڈیئر جولیا وارڈ بہا دری سے رہو۔ ہر سال دنیا کے ہزاروں عورت اور مرد اس بیماری سے دو چار ہو رہے ہیں تو کیا ہر ایسے بیمار کو مرنے کا حق دے دیا جائے؟

۲۔ عزیز تم نے اگر ابھی تک کیمرج یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن ہا کنگ کے بارے میں نہیں جانا ہے تو کسی سے کمپیوٹر پر نکلوا کر معلوم کر لو وہ اپنے وقت کا ذہین ترین آ دمی تھا(وہ زمین کے سیاہ غاروں Black Holes) اور کائنات کی پیدائش کے بھید کو دریافت کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن اے ایل ایس اس کی راہ میں حائل ہو گیا۔  تمہارا بہی خواہ

۳۔ کتنی عجیب بات۔ ۔ مرض کی شناخت کے چار برس بعد تمہارا ہاتھ اب متاثر ہونا شروع ہوا ہے جب کہ یہ مرض سب سے پہلے ہاتھ میں اپنی علامات ظاہر کرتا ہے۔ بیماری علا مات کی زبان میں بات کر تی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر تمہاری بیماری کسی اور زبان میں بات کر تی محسوس ہو رہی ہے۔ کیا کہتے ہیں دوسرے اراکین کلب بیچ اس مسئلے کے۔

  تمہاری۔ ۔

مندرجہ بالا تین ای میلز کے علاوہ باقی تذکرے کے لائق نہیں تھیں

جولیاؔ وارڈ نے بالآخر اعانتی خود کشی ( Assisted Suicide)کی در خواست کے ساتھ عدالت سے رجوع کر نے کا فیصلہ کر لیا اور کلب کو اسی ضمن میں ایک مراسلہ بھی روانہ کر دیا۔ ساتھ ہی روڈری کوئز کیس کے بارے میں تفصیلات اکھٹی کروا کر اس وکیل کا پتہ بھی چلوا یا جس نے بیس برس قبل روڈری کوئز کی در خواست کی پیر وی کی تھی اگر چہ کہ وہ یہ کیس ہار گیا تھا۔ بیماری سے قبل روڈری کوئز ایک مثالی جوان عورت تھی۔ وہ گھڑ سواری میں امتیاز کی حامل تھی۔ وہ جب گھوڑے کی پیٹھ پر چھلا نگ لگا کر بیٹھتی تو وہ گھوڑا یا گھوڑی اس کی دونوں رانوں کے بیچ ہو نے پر ناز کرتے۔

 اس دوران ایک مسلمان اسکالرنسرین نے اس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جو لیا نے قدر ے پس و پیش کے ساتھ وقت دے دیا۔ وہ بھی بیشتر ترقی یافتہ ملکوں کے عیسائیوں کی مانند ہر مسلمان مرد، عورت کو القا عدہ کا دہشت گرد سمجھنے لگی تھی۔ وقت مقررہ پر نسرین اس سے ملنے پہنچ گئی۔ ہائی، ہلو کے بعد نسرین بو لی ’’۔ ۔ میں تمہاری بیما ری کے متعلق بہت کچھ جانتی ہو ں۔ میں جانتی ہوں ڈاکٹروں کے مطابق اے ایل ایس لا علاج اور روز افزوں بیماری ہے جو انسانی اعضا ء،جوارح اور بدن کے خلیات اور ریشے مفلوج کر نے کے ساتھ بر باد بھی کر دیتی ہے پھر بھی میں تم تک آئی ہوں کہ تمہارے قریب ہو کر میں تمہارے لئے دعا کروں اور تم میرے لئے۔ ‘‘

 نسرین کی در خواست سن کر وہ بولی ’’ نسرین میں شکر گزار ہوں کہ تم وقت نکال کر مجھ جیسی نا کا رہ عورت سے ملنے آئی ہو۔ لیکن میں نہیں سمجھتی مجھے تمہاری دعا سے چنداں فائدہ ہو گا کیونکہ تم خود جانتی ہو کہ میرا مرض لا علاج ہے، دواؤں اور دعاؤں کی پہنچ سے با ہر۔ ۔ البتہ میں تمہارے لئے دعا کر نے کو تیار ہوں۔ تمہیں کیا ہوا ہے۔ ‘‘

 ’’ دیکھو جولیاؔ وارڈ دعاؤں کی ہر شخص کو ضرورت رہتی ہے۔ بعض اچھے لو گوں نے کہا ہے بیمار کی دعا میں بڑا اثر ہو تا ہے سو میں نے تم سے دعا کی گذارش کی۔ اب مجھے اس کی اجازت دو کہ میں امراض اور ان کی شفا کے بارے میں ہم مسلمانوں کا عقیدہ پیش کروں جس کی بنیاد پر میں تم سے ملنے آئی ہوں۔ ‘‘ نسرین نے محبت بھرے لہجے میں کہا جو ترس کھانے والا نہ تھا۔

 ’’ او مائی گاڈ ! کیا تم مجھے یہ کہنے جا رہی ہو کہ میں مسلمان ہو جاؤں۔ ‘‘ جولیا بیزاری سے بولی۔

 ’’ تم اطمینان رکھو میں چاہ کر بھی تمہیں ایسا مشورہ نہیں دوں گی۔ میں تو بیماری اور شفا یابی کے بارے میں تمہیں اسلام کا عقیدہ بتاؤں گی اور بس تمہاری مرضی تم اس پر کان دھرو یا رد کر دو۔ ‘‘ نسرین نے یقین دلا یا۔

 ’’ اگر ایسا ہے تو کہہ ڈالو میں سن رہی ہوں۔ ‘‘ جولی نے بیزاری سے کہا

 ’’ اسلام کے عقائد کی رو سے خدا ہی بیماروں کو شفا دیتا ہے۔ ۔ جس کو چاہتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے بھی دوائیں استعمال کی تھیں۔ دوائی کا استعمال سنتِ نبوی ہے۔ کوئی مرض لا علاج نہیں سوائے موت کے۔ اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ دعائیں مانگنا بیکار نہیں جا تا۔ بعض اوقات جو مانگو نہیں ملتا تو اس کے بدلے میں کچھ اور اس سے بہتر مل جاتا ہے۔ موت کی دعا مانگنا منع ہے۔ خودکشی حرام ہے۔ ‘‘

جیسے ہی نسرین نے بولنا بند کیا جولیؔ اس سے مخاطب ہوئی۔

 ’’ نسرین جو کچھ تم نے کہا میں نے سن لیا۔ بہت بہت شکریہ۔ خدا تمہیں خوش رکھے۔ اب مجھے اکیلا چھوڑ دو اور ہاں اپنا خیال رکھنا۔ ‘‘

نسرین خدا حافظ کہہ کر چلی گئی لیکن اس کو جاتا دیکھ کر جولیؔ ایک عجیب احساس سے دو چار ہوئی نسرین کوئی اور نہیں وہ خود ہے۔

 زندگی بھر وہ مذہب سے دور رہی تھی۔ چرچ سے بھی جہاں تک ممکن ہو۔ لیکن ان دنوں مذہب بلکہ مذاہب نے اس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ چرچ سے ایک پادری مار کوئس ہفتے میں ایک دن عام طور پر پیر کی شام اسے بائبل میں سے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنا تا اور جنت کی بشارت دے کر رخصت ہو جا تا۔ آئے دن کسی نہ کسی مذہب کے پیر فقیر بنا وقت لئے ہی اس پر مسلط ہو جاتے۔ عدالت میں رجوع کا فیصلہ میڈیا میں آیا تو ایک بھکشو نما فقیر اس کے پا ئنتی آ کھڑا ہوا اور بولا ’’ بیٹی خود کشی تیرا حق ہے۔ عدالت ودالت چھوڑ اور چپ چاپ اپنے آپ کو ختم کر لے۔ موت کی اذیت منٹوں کی ہو تی ہے۔ ایک سانس سے دوسری سانس تک کی مختصر مدت۔ ’’

اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتی، سنتی وہ فقیر جس طرح بغیر اطلاع آیا تھا، بغیر اجازت رخصت ہو گیا۔ جولی کا ذہن جنگِ عظیم دوم کے دوران اس وقت کے سب سے بڑے بحری جہاز کی غرقابی کی طرف گیا جس کی چمنی میں ایک جا پا نی پائلٹ نے اپنا طیارہ گھسیڑ دیا تھا اور پھر چھوٹے بڑے بے شمار واقعات جاپانیوں کی خودکشی کے اس کے ذہن میں تا زہ ہو گئے جو اس نے ڈا ئجسٹ پرچوں میں پڑھ رکھے تھے۔

  ایک عجیب فیصلہ جو جولیا وارڈ نے اپنے مقدمے کے سلسلے میں لیا تھا وہ یہ تھا اس نے اپنی در خواست کی پیر وی کے لئے اس وکیل کا انتخاب کیا تھا جس نے بیس برس پہلے روڈی کوئز کا کیس تھا۔ ہا را تھا جب کسی نے وکیل کے اس انتخاب کے معاملے میں اس سے تمسخر کیا ’’ لوگ باگ ایسے وکیلوں انتخاب کرتے ہیں جو مقدمہ جیت کر مشہور ہوئے اور تم اس وکیل کو مقرر کر رہی ہو جو کیس ہار کر مشہور ہوا۔ ‘‘ تو اس نے فوراً جواب دیا ’’ میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں وکیل ملارمےؔ  میرا کیس جیت کر رہے گا۔

 ’’ وہ کیسے۔ ؟ ‘‘ اعتراض کرنے والے نے تعجب سے پو چھا۔

 ’’ وہ اس طرح کہ مقدمہ ہارنے کے بعد روڈی کوئز کی اعانتی خود کشی کی در خواست کے سلسلے میں وہ اپنے موقف کے پیش کرنے اور دلائل میں وقوع پذیر ہو نے والی کمزوریوں سے ضرور واقف ہو گیا ہو گا اور میری در خواست کے معاملے میں ان کو دہرا نے کی ہر گز غلطی نہیں کرے گا۔ اس کے علا وہ پچھتاوے کے ساتھ اس نے ضرور کچھ ایسا بھی سو چاہو گا۔

 ’’ کاش میں یہ کرتا اور وہ نہ کرتا۔ جو ہر شکست خوردہ آ دمی سوچتا ہے۔ ‘‘ جولی نے ہارے ہوئے وکیل کے انتخاب کے سلسلے میں اپنا دفاع کیا۔

جولیاؔ وارڈ کی وکیل ملارمےؔ سے ملاقات کچھ ٹھنڈی رہی۔ وکیل نے اس کو بتا یا ’’ ان بیس بر سوں میں روڈریؔ  کوئز کے کے مقدمے کے بارے میں کوئی قا نو نی پیش رفت نہیں ہوئی۔ فیڈرل پار لیمان نے اپنے قانون میں جز وی تبدیلی کی بھی اجازت نہیں دی۔ میں نے روڈریؔ کوئز کے معاملے میں اس قانون کے انٹر پریٹیشن (تفہیم و تا ویل ) اور اپلیکیشن ( استعمال ) کا کوئی نکتہ فروگذاشت نہیں کیا تھا۔ بالآخر معاملہ فیکٹس پر آ ٹکا۔ اور جیسے ہی فیکٹس کی اساس پر میں نے کیس کو کھڑا کیا تو روڈریؔ کوئز عدالت کی نظروں میں ایک عام معذور مریضہ قرار دی گئی اور نتیجے کے طور پر درخواست خارج کر دی گئی۔ ‘‘

وکیل کہتا رہا اور جولیؔ  سنتی رہی اس کے کان وکیل کی آواز کو سن رہے تھے۔ اس کی آنکھیں اس کو دیکھ بھی رہی تھیں۔ زند گی کے جس مر حلے پر وہ پہنچا دی گئی تھی اس مرحلے پر پانچوں میں سے دو یا تین حواس معمول سے زیا دہ تیز ہو جا تے ہیں۔ وکیل نے اپنی بات ختم کی اور اس کے بستر اور بدن کو بار بار دیکھنے اور اپنی ٹھوڑی سہلا نے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو جولیؔ کی آنکھوں سے دو چار ہو نے نہیں دیا۔ وہ ایک مخروطی چہرے والا خوبصورت فرانسیسی بوڑھا تھاجس پر کیو بک اور قدیم مونٹریال کی چھاپ پڑی تھی۔

 ’’ اب اگر میں اعانتی خود کشی ( Assisted Suicide) کے لئے عدالت سے رجوع ہو تی ہوں تو کتنے فی صد امکان ہے۔ ؟ جواب دینے کے لئے آپ اپنا وقت لے سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ آج ہی۔ ۔ ‘‘ جولیؔ نے اپنے ہر لفظ پر زور دے کر استفسار کیا۔

وکیل ملارمے نے اس کا فقرہ پورا ہونے نہیں دیا اور بولا ’’ نہیں نہیں مجھے وقت نہیں چاہئے۔ میں تمہارے سوال کا جواب اسی وقت دے سکتا ہو ں۔ تمہارا کیس قانون کے نکات پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اس کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے۔ حا لات ( فیکٹس ) پر ہی کچھ امکانات بن سکتے ہیں۔ میڈیکل بورڈ تشکیل دلوا یا جا سکتا ہے۔ اس کی رپورٹ پر پانچ سے پچاس فیصد کے درمیان کامیابی کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔ صورتِ حال روشن نہیں ہے لیکن وہ جو یہ کہا جا تا ہے کہ دور بہت دور تاریکی کے آ خری سرے پر کسی روشن لکیر کی مو جو د گی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ ملارمے نے یہ سب کہہ کر پہلی مر تبہ جولیؔ سے آنکھیں چار کیں۔

 ’’ ری ٹین چارجزکا چک۔ ؟ ‘‘ جولی نے وکیل کی آنکھوں میں اپنی بڑی بڑی آنکھیں ڈال کر پو چھا۔ ‘‘

 ’’ نہیں ابھی نہیں مجھے مقرر کر نے میں آ پ اپنا وقت لے سکتی ہیں۔ جلدی کی ضرو رت نہیں ہے۔ ‘‘ وکیل ملارمے بغیر ریٹے نر لئے رخصت ہو گیا۔ شاید وہ جولیاؔ وارڈ کو رسان کے ساتھ سوچنے کا موقع دینا چا ہتا تھا۔ جولی کے اندر سے گریہ آنکھوں تک آ کر رک گیا۔ اس نے ایک مر تبہ پھر اپنے سارے بدن کا جائزہ لیا۔ یہ احساس اس کو ہمیشہ عجیب لگتا۔ کہ جس بدن کو اس نے شاذ شاذ ہی کسی کمزور لمحے میں کسی کی دست برد کے لئے کھولا اور عام حالات میں کڑی حفاظت کی، اس پر اے ایل ایس کل وقتی قابض ہے۔

با لآ خر جو لیا واردڈ نے وکیل ملارمے کو ریٹین (مقرر )کر لیا۔ اور جیسا کہ وکیل نے پہلے ہی خد شہ ظاہر کیا تھا آٹوا ( Ottawa ) کی مر کزی عدالت عالیہ نے جولیا وارڈ کی اعانتی خود کشی کی در خواست کو قانون کی اساس پر غور کے لائق تسلیم کر نے سے انکار کر کے رد کر دیا۔

 ’’ دنیا بھر میں ہزاروں مریض اے ایل ایس میں مبتلا ہیں۔ کیا ان سب کو اعانتی خودکشی سے دو چار کر نا قصّا بانہ اقدام نہ ہو گا۔ ؟ ‘‘

جج نے جولیاؔ وارڈ کے وکیل سے طنزیہ استفسار کیا جس پر وکیل ملارمے کو ایک خاموش سامع کا رول ادا کر نا پڑا۔ میڈیکل بورڈ کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کے حصول کے ضمن میں عدالت عالیہ نے منا سب احکامات جا ری کر دیئے۔ عدالتِ عالیہ کے حکم سے تشکیل کر دہ میڈیکل بورڈ میں کینیڈا، امریکہ، یو کے کے علاوہ فرانس کے چوٹی کے ایسے نیو رو فزیشن شامل کئے گئے تھے جو اے ایل ایس کی تحقیق اور علاج کے سلسلے میں جانے مانے تھے۔

اس میڈیکل بورڈ نے دو سے تین ہفتے کی مہلت طلب کی۔ بورڈ کو یہ بھی اختیار دیا گیا تھا کہ کسی بھی اہم نکتے پر متفقہ نقطۂ نظر نہ ہو نے کی صورت میں بورڈ کا کوئی بھی رکن اختلافی نوٹ درج کر سکتا ہے۔

 ایک ڈاکٹر کے اختلافی موقف اور وضاحتی نوٹ کے ساتھ رپورٹ عدالت عا لیہ کے تین رکنی بنچ کے زیرِ غور آئی۔

رپورٹ میں پندرہ میں سے چو دہ اراکین کا متفقہ موقف درج ذیل تھا۔

۱۔ مریضہ جولیاؔ واردڈ مرض اے ایل ایس میں مبتلا ہے۔

۲۔ مرض کا آغاز قریباً چار سال قبل ہوا ہے۔

۳۔ مریضہ کی ٹانگیں کام نہیں کر رہی ہیں۔

۴۔ مریضہ کا دماغ ٹھیک ٹھیک کام کر رہا ہے۔

بورڈ کے صرف ایک رکن کے اختلافی مو قف کے مطابق ’’ مریضہ کا با لائی جسم مرض سے متاثر نہیں معلوم ہو تا۔ چا ر سال کی مدت گزرنے کے بعد ہاتھوں میں ہلکی سی علا مات ظاہر ہوئی ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایک فیصد بھی اس کا امکان ہو کہ مریضہ اے ایل ایس میں مبتلا نہیں ہے تو اس کو ’’ انڈر آبزرویشن‘‘ رکھا جانا چاہئے۔ مریضہ میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی قوتِ ارادی ہنوز مو جو د ہے۔ وہ اعانتی خود کشی کی خواہاں محض اس سبب سے ہو گئی ہے کہ ڈاکٹروں نے اس کو اے ایل ایس کا شکار بتا دیا ہے جو ایک لا علاج مرض ہے۔

  وکیل ملارمےؔ  کی سا ری کوششیں ایک مر تبہ پھر بے کار ثابت ہوئیں۔ ایک مر تبہ پھر عدالتِ عالیہ نے در خواست خارج کر دی البتہ یہ گنجائش رکھی کہ چھ ما ہ بعد اس پر نظر ثانی کی در خواست پر غور کیا جا سکتا ہے۔

  اس رات نیند کی گو لیوں نے بھی جولی کو غفلت سے ہمکنار نہیں کیا۔ وہ آواز کے ساتھ اور کبھی بے آواز روتی رہی۔ اور سوچتی رہی کہ ’’ اگر کوئی ہے جو خلق بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے تو کیوں جولیؔ کو اپنی زندگی کا خود خاتمہ نہیں کر نے دیتا۔ ؟ وہ جو بھی ہے اگر شفا دینے والا ہے تو اس کو اس مرض سے کیوں نجات نہیں دلا دیتا۔ اے ایل ایس جو ڈاکٹروں کے بقول اس کی جان لے کر ہی جائے گا۔ وہ جو بھی ہے کیوں چا ہتا ہے جولیاؔ وارڈ اپنے نصف مر دہ دھڑ کے ساتھ بستر پکڑے ہوئے اس وقت تک اپنی سا نسیں گنتی رہے جب تک اے ایل ایس اس کے پورے بدن کو عضو عضو، خلیہ خلیہ، ریشہ ریشہ ختم کر کے اس کا خاتمہ کرے۔ ‘‘ اس نے خدا کے بارے میں اپنی گستا خانہ سوچ کو صدا میں بدلا، تا آنکہ نیند اس کے مفلوج ہوتے ہوئے بدن پر مسلط ہو گئی۔

اس رات جو لیاؔ وررڈ نے خواب دیکھا یا یہ کہ اس کے اندر سے نسرین با ہر نکلی، اس کے بدن پر ہلکے ہلکے ہاتھ پھیرا اور واپس اس کے اندر چلی گئی۔

  پھر صبح ہوئی۔ موسمِ سرما کے اختتامی ہفتے کی ایک روشن صبح۔ سورج اس کے کمرۂ خواب کی کھڑکی سے اندر گھسا چلا آ رہا تھا۔ کھڑکی کے آدھے کھلے، آدھے بند بلا ئنڈس نیم برہنہ حالت میں حائل کھڑے،سورج کا راستہ روک رہے تھے۔ جولیا کے دل نے اس سے کہا ’’ جو لیاؔ وارڈ اٹھ اور کھڑکی کے سارے بلا ئنڈس کھول دے۔ اپنا پیرہن اتار پھینک اور اپنے آپ کوسورج اور اس کی دھوپ کے حوالے کر دے۔ ‘‘

 وہ بستر سے تو اٹھ نہ سکی لیکن اس نے یہ ضرور محسوس کیا کہ برسوں کے بعداس کے نچلے بدن نے ایک جھر جھری سی لی۔ اس کا دایاں ہاتھ اس ڈوری کی جا نب بڑھا جس کو کھینچنے سے اس کی خدمت گار خاتون کو طلب کرنا ممکن ہو تا تھا لیکن اس نے اپنا ہاتھ روک لیا اور بستر پر پڑی رہی۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس نے اپنے دائیں پیر کی بڑی انگلی کو جنبش کرتے دیکھا۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے داہنے پیر کا پورا پنجہ حر کت میں آیا۔

 ’’ نسرین تم نے دیکھا میرے پیر کا ایک پنجہ جنبش کر نے لگا ہے۔ ‘‘ جو لیا وارڈ نے اپنے اندر والی نسرین کو بتایا۔ اور گریہ اس کے سینے سے حلقوم تک بھر آیا۔

 ’’ شکریہ میرے مہر باں !

میرے خالق ! میرے مالک ! مجھے زندہ رکھنے کا۔ ۔ شکریہ!! ‘‘

گریہ سے لبالب بھری آواز میں وہ ملتجیانہ گڑگڑائی۔

٭٭٭


 

 

 

 

 پرورش

 

عبداللہ جاوید

(کینیڈا )

 

  میں جب اپنے لڑکے کو عام عراقی بچوں سے مختلف پا تی ہوں تو اپنے ذہنی ردِ عمل کو خود بھی نہیں سمجھ پا تی۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میں دل ہی دل میں رو رہی ہوں یا ہنس رہی ہوں۔ اس کیفیت سے خود کو آزاد کرنے کے لئے میں کھانسنے لگتی ہوں۔ موقع بے موقع اور وقت بے وقت۔ کھانسی کوئی مستحسن فعل نہیں یہ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ میں پڑھی لکھی عورت ہوں۔ مقامی اسکولوں کے علاوہ لندن میں بھی کچھ دن پڑھ چکی ہوں۔ لندن میں ایک گورا لڑ کا فلپؔ جو قد میں میرے برابر لیکن بے حد موٹا تھا میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔ اس کو میرے چہرے پر ناک اور میرے بدن میں پتلی کمر بہت پسند تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ پورے عراق میں شاید ہی کسی لڑکی کی اتنی ستواں ناک کے ساتھ اتنے پتلے نتھنے ہوں۔ اور میری کمر تو آج بھی چیتے کی کمر ہے، نہ ہونے کے برابر اور بے حد لچکدار۔ مجھے یقین تھا کہ فلپؔ مجھ سے فلرٹ نہیں کرتا تھا وہ سچ مچ مجھ پر مر تا تھا لیکن میں نے کبھی اسے گھاس نہیں ڈالی۔ میں جانتی تھی کہ اگر میں فلپؔ سے ملوں گی تو دوسرے لڑکے مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ میں چھوڑنے کے لائق تھی بھی نہیں،یہ میں اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اور میں یہ بھی جانتی تھی کہ میں اگر فلپ سے اکیلے میں ملوں گی تو اسکول کے بُلی (Bully ) لڑکے فلپؔ کو نہیں چھوڑیں گے۔ میں نے اپنا اِمیج (Image) ایک ایسی عرب مسلم لڑکی کا بنا یا ہوا تھا۔ جس پر ایک غیر مرئی لیبل چسپاں ہو ’’فاصلہ رکھو‘‘۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ لیکن میں یہ سب کچھ کیوں سوچ رہی ہوں۔ وہ لڑکی جس پر فلپؔ مر مٹا تھا کوئی اور تھی، یہ لڑکی یا عورت جو میں اب ہوں کوئی اور ہے۔

 کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ بظاہر آپ ہی ہوں لیکن کوئی اور آپ کے اندر حلول کر جائے اور آپ کو کوئی اور بنا دے۔ میں نے یا تو غلط الفاظ کا استعمال کر لیا ہے یا میری سوچ غیر واضح ہے کہ میرے اندر کوئی آ گیا یا حلول کر گیا، ا یسانہیں ہے۔ اور نہ ہی میں کسی کے اندر حلول کر گئی ہوں۔ ۔ تو پھر کیا ہوا ہے ؟یہ بھی ممکن ہے مجھے معلوم بھی نہیں ہوا، لیکن میں مر بھی گئی اور میرا دوسرا جنم بھی ہو گیا۔ اگر ایسا ممکن ہے تو میرے ساتھ پھر ایسا ہی ہوا ہو گا کیونکہ مجھے یاد پڑ تا ہے اس رات میں مر گئی تھی۔

 عجیب رات تھی، شہر لُٹ پُٹ گیا تھا۔ شہر کا نام نہیں بتاؤں گی، میں نے اپنا نام کب بتا یا ہے۔ نام تو ان کو ساجتے ہیں جن کی کوئی تاریخ ہو تی ہے اور جن کا جغرافیہ اتھل پتھل نہیں ہو تا۔ میرا مکان آسمان سے بمباری اور زمینی گولہ با ری سے آدھے سے زیادہ ملبے کا ڈھیر ہو چکا تھا۔ ایک میرا مکان ہی کیا اس گلی بلکہ محلے کے سب مکان اور ان کے مکینوں پر قیامت ٹوٹ چکی تھی۔ میرے باقی ماندہ گھر کے مکینوں میں سے صرف دو نفوس زندہ بچے تھے،ایک میری بوڑھی دادی اور ایک میں۔ میرے ماں باپ اور اکلوتا بھائی مرے پڑے تھے۔ دوسرے دن ان کے کفن دفن کے لئے مجھے ہی بہت کچھ کرنا تھا۔ لیکن تازہ مسئلہ یہ در پیش تھا کہ گھر میں پانی کی ایک بوند بھی نہیں تھی۔ گھر کی ٹوٹ پھوٹ سے پانی کا نلکا مسدود ہو گیا تھا۔ باورچی خانہ، غسل خانہ وغیرہ تو زیرِ زمین سما چکے تھے۔ دادی پیاس سے بیتاب تھی اور میں بھی۔ اپنے لئے نہیں تو دادی کے لئے پانی مہیّا کرنا ضروری تھا،اور وہ بھی جلد۔ باہر تباہی ہی تباہی تھی۔ ہمت کر کے میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک جانب چلنا شروع کیا۔ چل کیا رہی تھی ملبے کے ڈھیروں سے ٹھوکریں کھا رہی تھی۔ آس پاس کے پہچان کے لو گوں کے گھر کھنڈر تو تھے ہی لیکن ان کے مکینوں میں اکثر مر چکے تھے۔ باقی ماندہ ادھر اُدھر نکل چکے تھے۔ مجھے بھی وہاں سے چلا ہی جا نا چاہئے تھا لیکن معذور دادی کو لے کر وہ بھی اندھیری رات میں اس کھنڈر علا قے سے گزرنا آسان نہیں تھا۔ بجلی تو شاید شہر بھر کی بند پڑی تھی۔ دادی کو ان کی معذوری کے ساتھ چھوڑ کر فرار ہونا مجھے منظور نہ تھا۔ ابھی کچھ دور ہی چلی تھی کہ مجھے محسوس ہوا کوئی گاڑی دندناتی، ملبے سے لڑتی ہوئی قریب ہی رکی ہے۔ میں خوف سے لرزتی ہوئی ملبے کے ایک ڈھیر میں گھس پڑی اگر چہ ایسا کرنے سے میری ہتھیلیوں، کہنیوں، گھٹنوں میں خراشیں آ گئیں۔ وہ فوجی گاڑی تھی اس سے صرف ایک فوجی اترا تھا۔ میں یہ سب غور سے دیکھ رہی تھی۔ تاریکی کے با وجود مجھے ہر چیز پر نظر رکھنا ضروری ہو رہا تھا۔ یہ تو صاف ظاہر تھا جو فوجی ٹرک سے اترا تھا وہ عراقی نہیں تھا۔ امریکی،انگریزی، یا اطالوی کوئی بھی ولد الحرام ہو سکتا تھا۔ میں بغیر آواز کے رو رہی تھی۔ ’’ وَ لاَ َیؤدُ ہُ حِفظُہُماَ وَ ھُوَ ا لعَلَیُ العظَیِم ‘‘ کا ورد میں نہیں بلکہ میرے اندر کا وجود مسلسل کئے جا رہا تھا۔ میرے ہونٹ کانپ رہے تھے لیکن میری زبان گنگ ہو گئی تھی۔ میں دل ہی دل میں پو رے خضوع اور خشوع کے ساتھ دعا مانگ رہی تھی کہ وہ جو کوئی بھی ہو مجھے دیکھ نہ پائے۔ شاید اس پسر ولد خنزیر نے مجھے پہلے ہی دیکھ لیا تھا اس کے آہنی بوٹوں کی گڑگڑاہٹ جو ملبے کے ٹکڑوں کو چورا چورا کر رہے تھے قریب ہو تی چلی گئی۔ میرے قریب آتے ہی اس نے عربی میں تحکمانہ لہجے میں آواز لگائی :

 ’’ جو کوئی بھی ہو فوراً باہر آ جاؤ، دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر ورنہ میں فائر کھولتا ہوں۔ ‘‘

 ’’ کم بختوں کو ٹوٹی پھوٹی عربی سکھا دی جا تی ہے ‘‘ میں نے اس سور کے تخم کو کوستے ہوئے سو چا اور ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے باہر آ گئی۔ اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا،چھلانگ لگا کر دبوچا اور انتہائی پھرتی سے میرے بدن کو ٹٹولا۔ ۔ ہنسا اور بولا : ’’ اس کھنڈر میں کیا تلاش کر رہی تھی۔ ‘‘

 ’’ پانی ‘‘ میں نے جواب دیا۔

 ’’ پانی تو بہت ہے میرے پاس ‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر ہنسا اور مجھے گھسیٹنے لگا۔

 ’’ میری دادی کے لئے پانی۔ ‘‘ (Drinking water for my Granny)   اس مر تبہ میں نے انگریزی میں جواب دیا۔

 ’’ تو انگریزی جانتی ہے۔ ؟ ‘‘ (You know English) اس مرتبہ اس نے انگریزی میں سوال کیا۔

 ’’ ہاں۔ لندن میں ’ میری کلاسیو اسکول ‘ میں پڑھ چکی ہوں ‘‘۔ میں بولی۔

یہ سن کر اس کا رویّہ ایک دم تبدیل ہو گیا۔

 ’’ کہاں ہے تمہاری دادی ‘‘ اس نے انتہائی ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔

میں نے اپنے کھنڈر مکان کی جانب اشارہ کیا جو دکھائی نہیں دے رہا تھا اور بولی : ’’ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ‘‘

یہ سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ بولا۔

 ’’ میں ڈیوٹی پر ہوں اور ہم کو اجازت نہیں کہ مقامی لوگوں سے ملیں جلیں۔ پھر بھی میں تمہارا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہو ں۔ شاید کل کچھ کر سکوں۔ تم آ گے چلو میں تمہارے کچھ پیچھے آتا ہوں۔ ‘‘

 ’’ اوکے۔ بہت بہت شکریہ ! میں انگریزی اور عربی ایک ساتھ بولی۔

’’ یو آر ویلکم ‘‘ اس نے جواب دیا۔

میں نے اس پر ایک بھرپور نظر ڈالی۔ وہ جس کو تھوڑی دیر پہلے میں نے خنزیر کی اولاد کہا تھا، اس وقت مجھے فرشتہ نظر آ رہا تھا۔ اور خوبصورت،بے حد خوبصورت۔ ۔ ۔ میرے ٹوٹے پھوٹے مکان تک پہنچ کراس نے مجھ پر ایک نظر ڈالی، پانی کی بوتل اور بسکٹوں کا ایک پیکٹ اپنے یونیفارم میں کسی جگہ سے بر آمد کر کے مجھے پکڑایا۔ ’’ بائی بائی۔ ‘‘ کہتے ہوئے میری پیشانی کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی سے چھوا اور مستعد فوجیانہ انداز سے وہاں سے چلا گیا۔

 میں نے دادی کو فوری طور پر پانی دیا۔ وہ بے چا ری سمجھ ر ہی تھی کہ میں یا تو مر گئی یا اس کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئی۔ ہم دونوں نے بسکٹ کھائے اور ایک بار اور پانی پیا۔ ہمارے بالکل پاس ہمارے پیاروں کی لاشیں پڑی تھیں، ان کے مردہ جسم اکڑ گئے تھے اور ان کی روحیں ہم دونوں دادی پو تی کے آس پاس بھٹک رہی تھیں یا پھر ان فرشتوں کے حصار میں تھیں جو مرنے والوں کی روح سے ابتدائی پوچھ گچھ کرتے ہیں۔

 کھنڈر میں رات گزری اور صبح ہوئی۔ یوں لگا جیسے میری زندگی کی پہلی رات اور پہلی صبح تھی۔ جاتے ہوئے وہ اپنا نام بتا گیا تھا اور میرا پوچھ گیا تھا۔ دوسرے دن اس نے آ نے کو کہا تھا لیکن وہ نہیں آیا۔ البتہ وہ ہم سے غافل بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی توجہ ہی تھی جس کی وجہ سے مجھے اور میری دادی کو ’’ریڈ کراس ‘‘ والوں کی حفاظت میں پہنچا دیا گیا تھا۔ وہ ہم دادی پو تیوں کو اپنی عارضی پناہ گاہوں میں لئے پھرتے رہے۔ دادی کا علاج ہوا اور تدفین میں بھی کامیابی ہوئی۔ اس تمام دوران وہ نہیں آیا لیکن اس کی پر چھائیں میرے آس پاس لہراتی رہی۔ عجیب آ دمی تھا۔ ۔ یا فوجی ڈسیپلین سے بندھا تھا کہ ایک پرچہ بھی اس کی جا نب سے موصول نہیں ہوا البتہ میرے معاملات بہتر سے بہتر ہوتے گئے۔ ریڈ کراس کے اس گروپ نے مجھے اپنے عملے کے ساتھ شا مل کر لیا۔ میں زخمیوں کی مرہم پٹّی کے کام میں تر بیت یافتہ نرسوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگی۔ ہماری حفاظت کا بندو بست بھی تھا البتہ ہمارے کاموں میں اڑچن پیدا ہو تی رہتی تھی۔ ان رکاوٹوں کا باعث باہر والوں سے زیادہ عراقی ہوتے تھے وہ عراقی جو باہر والوں کو اپنے ملک سے باہر نکالنا چاہتے تھے اور ان کے لئے جگہ جگہ دیوار بن رہے تھے۔ ان ریزسٹ(Resist) کرنے والوں میں تھوڑے ہی سہی، ایسے اہلِ عرب بھی تھے جو ’ ریڈ کراس ‘ والوں کو بھی شبہے کی نظر سے دیکھتے تھے اور موقع ملتے ہی ریڈکراس کے چھوٹے بڑے کیمپوں یہاں تک کے ہسپتالوں کو بھی اپنا نشا نہ بنانے سے نہیں چوکتے تھے۔ حفاظت کے ہمہ وقت اور ہمہ جہت انتظامات کے با وجود ریڈکراس والوں کو طرح طرح کے نقصانات اٹھانے پڑتے تھے۔ زخمیوں کے لئے مرہم پٹّی کا سامان ضائع ہو جا تا تھا، دوائیں بر باد ہو جاتی تھیں، چھوٹے بڑے آپریشن کے لئے ضروری آلات ٹوٹ پھوٹ جاتے تھے، بستر وغیرہ کی قلّت میں اضافہ ہو جا تا تھا، غذاؤں کی کمی ہو جاتی، ڈاکٹر، نرسیں، اور میڈی کیئر کے دیگر افراد بھی کبھی کسی حملے کی زد میں آ کر ختم ہو جاتے اور تو اور شرمناک پہلو یہ بھی تھا کہ ریڈ کراس کی خواتین کی عصمتیں بھی محفوظ نہیں تھیں۔ اس میں باہر والوں اور مقامی لو گوں میں خاص فرق نہ تھا موقع دستیاب ہو نے پر دونوں ہی اقسام کے مرد اپنے ہاتھ رنگ لیتے تھے اگر چہ عام عراقی خواتین کے مقابلے میں ریڈ کراس والیاں قد رے محفوظ ضرور تھیں۔ میں اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتی رہتی تھی، ربّ لعالمین کا سایہ مجھ پر تھا،میں عراق کی خواتین کے مقابلے میں ہزار گنا محفوظ تھی اور ایک نہایت ہی افضل کام سے جڑی ہوئی تھی۔ زخمیوں کی مرہم پٹّی اور خدمت کا کام۔ میرا شمار عام عراقی عورتوں میں نہ تھا جو فوجیوں کے لئے وقف ہو چکی تھیں۔ مفتوحہ ملک کی مفتوحہ عورتیں۔ ۔ باہر والوں کے لئے ’ مالِ غنیمت ‘ اورمقامی اہلِ حرب کے لئے ’ مالِ مفت ‘۔ ریڈ کراس کیمپ اور عارضی ہسپتال خانہ بدوشوں کی حالت میں کام کر رہے تھے۔ ان سے متعلق عورتیں، ٹین ایجر لڑکیاں،ادھیڑ عمر کی خواتین، پیرا میڈس نرسیں، اور ڈاکٹرز اس روز روز کی شفٹنگ اور تبدیلی کی وجہ سے غیر محفوظ مرحلوں سے بھی گزرتیں،میں بھی لاکھ کوشش کے باوجود غیر محفوظ ہو نے سے محفوظ نہ رہ سکی۔ ۔ فو جیوں سے روندی گئی جن میں دو عراقی اور ایک باہر والا تھا۔

ایک شام اس کا دیدار ہوا۔ اس مرتبہ بھی وہ ملنے نہیں آیا تھا بلکہ اسے لا یا گیا تھا ایک زخمی کے طور پر۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا میں پہچان گئی بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ بغیر دیکھے میں اس کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ وہ بے ہوش تھا، زخموں سے چور تھا۔ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ ہمارا کیمپ ان دنوں خاصے محفوظ علاقے میں تھا اور وہاں پر ہر سہولت موجود تھی۔ میرے اس تک پہونچنے سے قبل وہ ایک نہایت ہی لائق ڈاکٹر کے معائنے سے گزر چکا تھا۔ اور اسی کی ہدایت کے مطابق ایک نرس نے اس کو انجکشن دے کر درد کی اذیت سے چھٹکا را دلا دیا تھا۔ جس کے زیرِ اثر وہ نیند کی آغوش میں جا چکا تھا۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا مارفین کے زیرِ اثر نیند میں عارضی طور پر وہ اپنی جسمانی اذیتوں سے آ زاد ہو گیا تھا۔ وہ مجھے بے حد حسین لگ رہا تھا، مردانہ حسن کا مکمل نمونہ۔ اگر چہ قبیح اور  بد صورت جنگ نے اس کے حسین جسم کو سر سے پیر تک چھید ڈالا تھا۔ اس سے قبل اس رات بھی وہ مجھے بے حد حسین لگا تھا جب اس نے پیاسی دادی اور میرے لئے بسکٹ کا پیکٹ اور پانی کی بوتل دی تھی۔ کھنڈر میں وہ اس سے پہلی ملاقات میری زند گی کی یادگار ملاقات تھی اگر چہ اس رات میں اپنے والدین سے محروم ہو گئی تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ ۔ اس کیمپ میں لائے جانے کے دوسرے دن ہی جب وہ ہوش میں آیا تو اس نے مجھے پہچان لیا۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی، اس کے ہونٹ مسکرائے، اس نے اپنے سیدھے ہاتھ کی انگلی میرے نچلے ہونٹ پر ہلکے سے دبائی۔ اس کھنڈر والی ملاقات میں رخصت ہوتے سمے اپنی وہی انگلی میرے ماتھے سے چھوئی تھی۔ وہ لمس ماتھے پر ہنوز تازہ تھا۔ یہ کیسا مرد تھا۔ ۔ فوجی مرد، فاتح فوجی، یا دوسرے لفظوں میں قابض فوجی، جن کو مقامی حریت پسند غاصب کہتے تھے۔ میں تو اس کے فوجی بوٹوں تلے آئی ہوئی مفتوحہ زمین تھی جس کے کبھی ماتھے اور کبھی ہونٹ کو اپنی شہادت کی انگلی سے محض ہلکے سے چھو رہا تھا۔ مجھ مفتوحہ عورت کو وہ اپنے پیار سے کیوں فتح کر نا چاہتا تھا۔ فو جیوں کا پیار سے کیا واسطہ۔ ۔ ؟ دیوانہ ! میں اپنی ڈیوٹی سے غافل نجانے کیا کیا سوچتی رہی تھی۔

 ’’ ہیلو ! ہاؤ آر یو۔ ‘‘ اس نے سر گوشی کی یوں بھی اس کی آواز میں نقاہت آ گئی تھی۔

 ’’ میں ٹھیک ہوں۔ تم نے اپنے آ پ کو توڑ پھوڑ لیا۔ ‘‘

 ’’ میں نے تمہارے ملک کو توڑا پھوڑا۔ میری یہی سزا ہے اور سچ پوچھو تو یہ سزا بہت کم ہے۔ ‘‘

جیسے ہی وہ کھڑے ہو نے کے لائق ہو اوہ اس کو لے گئے۔ اس نے ’’بائی بائی ‘‘ کہتے سمے میرے سامنے اپنی داہنے ہاتھ کی انگلی بڑھائی اس سے پہلے وہ میرے ہو نٹ یا ماتھے کو چھوتی میں نے اس کو پکڑ لیا اور اپنی جانب کھینچا، انگلی کے ساتھ وہ بھی کھنچتا چلا آیا اور میں اس سے بغلگیر ہو گئی،عراقی انداز سے۔ معانقہ کر نے کے۔ بعد میں نے مغربی انداز سے اس کو ایک طویل بوسہ دیا۔

 کیمپ سے لے جائے جانے کے بعد اس کو نجانے کس کس کے آ گے پیش کیا گیا لیکن بالآخر اس کو فرنٹ کے نا قابل قرار دے دیا گیا۔ وہ ایک بار پھر آیا۔ بہت سا رے چھوٹے چھوٹے تحائف کے ساتھ۔ جو سگریٹ، چیونگم، ویفرس، بسکٹ، چاکلیٹ،ڈسپوزیبل ریزرس، شیمپوز وغیرہ پر مشتمل تھے۔ جو اس نے عملے میں تقسیم کئے۔ میرے لئے ایک فلاور بُکے لا نے میں کامیاب ہو گیا تھا جو ان حالات میں قریب قریب نا ممکن تھا۔ میں نے اس کو دیکھتے ہی دعائیں مانگنی شروع کر دیں۔ ’’اللہ کرے وہ مجھے پروپوز کر دے۔ ‘‘

میں جو اندر سے اس کی ہو چکی تھی۔ باہر سے بھی اس کی ہو جانا چاہتی تھی۔ کاش ! وہ کسی گوری سے بندھا نہیں ہو۔ میری دعا قبول ہو گئی اس نے مجھے عیسائی آداب کے مطابق زمین پر گھٹنا ٹیک کر پرو پوز کیا۔ اسنے عیسائی طریقے سے اور میری فرمائش پر اسلا می طریقے سے مجھ سے شادی کی۔

پہلے وہ خود اپنے ملک چلا گیا بعد میں مجھے بلوانے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن ہماری شادی شدہ زندگی بہت مختصر رہی۔ اس کے بدن پر لگے ہوئے گھاؤ جو بظاہر بھر گئے تھے، جان لیوا ثابت ہوئے۔ جاتے جاتے و ہ اپنے اور میرے بیٹے کی صورت میں اپنی نشانی دے کر مجھ سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا۔ میں اس گورے فوجی کی نشانی لے کر ایک بار پھر اپنے ملک لوٹ آئی اور ریڈ کراس والوں نے مجھے ایک بار پھر شریک کار بنا لیا۔ میرا عراق لوٹنا میرے ریڈکراس کے بہی خواہوں میں زیرِ بحث آتا رہا۔ اور میرے اندر بھی۔ ۔ کیا اس کے اور میرے بیٹے کو اُس کے ملک میں پر ورش پانا چاہئے تھا یا میرے ملک میں۔ ۔ ۔ فاتحوں کے درمیان یا مفتوحین میں۔ ۔ ؟

٭٭٭


 

عبداللہ جاوید کے افسانوں کا مجموعہ بھاگتے لمحے

 

صابر ارشاد عثمانی

(لندن)

 

 عبداللہ جاوید کے افسانوں کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔ مو صوف اس میدان کے نئے کھلاڑی نہیں ہیں۔ ان کی اس کتاب سے انکشاف ہوا ’’جاوید یوسف زئی کے نام سے وہ چالیس کی دہائی کے اواخر سے ساٹھ کی دہائی کے وسط تک ہندوستان اور پا کستان کے مختلف ادبی جرائد میں شائع ہوئے تھے۔ ‘‘ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ ایک نہایت ہی منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یہ افسا نے اکیسویں صدی کے اسلوب کی جا نب نشاندہی کرتے ہیں۔ جس میں واقعاتی عناصر کم ہیں لیکن نفسیاتی الجھنوں کی نمائندگی زیادہ نظر آ تی ہے۔

 ’’ دخترِ آب ‘‘۔ کہانی کا ہیرو پانی میں تیر رہا تھا۔ اس کو تیرتے ہوئے لہروں میں ایک ایسی چیز نظر آئی جو نظروں سے غائب ہو گئی اس کا تصور اس کے ذہن میں ایک لڑی کی شکل میں تھا وہ معاًسمندر سے نکل آتا ہے اور خود کلا می کے انداز میں بڑبڑاتا ہوا اپنی کار میں بیٹھ جاتا ہے۔ ’’ میں اس لڑکی کو بھی اپنے وجود کے اندرونی گوشے میں لئے اپنی گاڑی کی طرف جا رہا ہوں۔ ‘‘ وہ ایک آ رٹسٹ تھا۔ انہی الجھنوں میں گرفتار وہ سیدھا اپنے موٹل جا تا ہے۔ تین چار پیگ پینے کے بعد وہ اپنے نیم شعوری اضطراری کیفیت میں چکر لگا نے لگتا ہے۔ اس نے اپنی پینٹنگ پیرس کی ایک گیلری میں مقابلے میں شامل ہو نے کے لئے بھیجی تھیں حالانکہ سابق میں اسے ہمیشہ نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ تا ہم وہ امید کے سہارے اپنے آپ کویقین دلا تا ہے۔

 ’’ بے چا رے وہ کیا جانیں میرے رنگ کس زبان میں باتیں کرتے ہیں اور میرے برش کے توانا اور پُر اعتماد اسٹروک اس کی جا نب کیسے واضح اشارے کرتے ہیں جو مو جود ہو کر بھی غیر مو جو د ہے۔ لیکن ان کی سمجھ میں آ نے لگے گا وہ جان جائیں گے۔ ان کو جاننا پڑے گا۔ ان کو میری عظمت کا اعتراف کر نا پڑے گا۔ میں سب سے منفرد ہو ں۔ میں جسموں کے باطنی وجود کو مصور کر نے وا لا ہو ں۔ میرے رنگ مقدس راگ الا پتے اور میرے اسٹرو کس ان پر دیوانہ وار رقص کرتے ہیں اس رقص اور موسیقی کی فضا میں میری تخلیقات تجرید اور تجسیم کے آوا گون سے دو چار رہتی ہے۔ میں فنا اور بقا،ہستی و نیستی کا فنکار ہوں ‘‘

ان ہی تصورات میں ڈوبا ہوا وہ اس سمندر کنا رے موٹل میں رات بسر کر نے کے لئے ٹہر جا تا ہے۔

 ’’ جب اس کی نگاہ ایک بار پھر گھوم کر دور کنا رے میز کی جا نب جا تی ہے تو وہ اپنے سامنے ایک جھماکا سا محسوس کرتا ہے۔ اب وہاں ایک مہمان کا اضافہ ہو چکا تھا وہ لڑکی کم اور آبی رنگوں سے بنائی ہوئی ایک تصویر کی صورت میں زیادہ دکھائی دیتی تھی۔ وہ لڑکی اپنی نانی سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی ’’ یہ سمندر تیری ماں کی بھی کمزوری تھا۔ ‘‘ وہ جواب دیتی ہے۔

 ’’ کمزوری نہیں گرینی۔ سمندر تو میری موم کی طاقت تھا۔ میری موم سمندر پر حکمرانی کر تی تھی وہ ملکہ تھی سمندر کی ملکہ۔ وہ سمندر کی مو جوں میں تیرتی نہیں تھی بلکہ فاتحانہ خرام کر تی تھی۔ ’’ یہ سن کر وہ سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلا جا تا ہے۔ ۔ وہ اس مخمصے میں پڑ جا تا ہے ’’ وہ سمندری موجوں پر خرام کر رہی تھی اس شفاف حسینہ کی ما نند۔ ‘‘ ا ن ہی خیالات میں الجھا ہوا وہ سو گیا۔ صبح وہ گھر پہنچا گھر کی سب چیزیں غائب تھیں۔ بیوی کا نوشتہ یہ پر چہ ملا ’’ میرے پیچھے مت آنا۔ ‘‘

وہ پیرس جا تا ہے۔ وہاں پینٹنگ کے انعام کا اعلان ہوا۔ اسی کا نام تھا۔ انعام کی ٹرافی اور رقم کا چیک بیوی نے وصول کیا۔ وہ کو نے میں کھڑا رہا۔ ’’ لیکن اس کے منہ پر ایک نرم و نازک ہاتھ کی نرم و نا زک انگلی ثبت ہو گئی۔ وہ ہاتھ اسی وجود کا ہاتھ تھا جو پانی پر رقص کرتے ہوئے مصور کو بھی اپنے میں شریک کرچکا تھا۔ وہ بلا شبہ ایک لڑکی کا وجو د تھا۔ ‘‘ انعام کا ہاتھ سے نکلنے کا غم نرم و نا زک ہاتھ کے چھونے سے بدل گیا۔ اس ذہنی خلجان میں ٹھنڈک آ گئی۔ ۔ وہ مطمئن تھا۔

  ’’ہو نے کا درخت ‘‘ اس افسانے میں نئی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ درخت اپنی آپ بیتی خود بیان کرتا ہے کہ کس طرح وہ زمین سے باہر نکلا اس کے آس پاس جو ظہور ہو تا رہا وہ اس کی تفصیل بیان کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ افسانہ نگار زندگی کی گتھیوں کو منطق کے اصولوں سے سلجھاتا بھی ہے۔ جب درخت اپنی ماں ’’ زمین‘‘ سے شکایت کرتا ہے۔، کیا اس قید سے آ زادی نہیں مل سکتی۔ ؟ زمین مدبر انہ طور سے سمجھاتی ہے۔

 ’’میرے بیٹے ! میں تجھے کس طرح سمجھاؤں۔ ابھی تو ان معاملات کو سمجھنے کے لئے بہت چھوٹا ہے۔ جس کو تو قید کہتا ہے وہ قید نہیں ہے، ہر کوئی جو یہاں ہو تا ہے وہ اپنے ہو نے کے اندر قید ہو تا ہے۔ اپنے اپنے انداز میں، جس طرح کا ہو نا وہ اپنے ہونے کے اندر قید ہو تا ہے۔ ‘‘

وہ درخت بڑھتے بڑھتے ایک تناور درخت ہو گیا۔ چرندوں اور پرندوں کا سہارا بن گیا۔ کچھ جرائم پیشہ آئے پولس کا حملہ ہوا گولیاں چلیں تو محبت کے مارے بھی آئے وہ ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم۔ نوبت یہاں تک پہنچی۔

 ’’ جس وقت آ را مشین مجھے ہو نے سے نہ ہونے کے مرحلے میں پہنچا رہی تھی۔ مجھے اپنے ہو نے کے اور رخ سے واقفیت حاصل ہوئی جس سے پہلے واقف نہ ہو سکا تھا۔ ادھر میرا بالائی بدن کا ٹا جا رہا تھا اُدھر میرا نچلا دھڑ جو زیرِ زمین سفر کرتے ہوئے ندی کے کنا رے تک جا چکا تھا میرے ایک اور وجود کو ہو نے کے مرحلے پر لا چکا تھا۔ یہ جان کر مجھے عجیب سا احساس ہو ا۔ اپنے نہ ہو نے کا۔ میں ایک مرتبہ پھر ہو نے جا رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس مر تبہ میرا پرانا وجود نہیں بلکہ نیا وجود ہو گا۔ ‘‘

یہاں افسانہ نگار منطقی طور پر یہ دلیل پیش کر رہا ہے کہ انسان کی دوسری زندگی کا تعلق اس کی روح سے ہے۔ جس طرح درخت کا جڑسے سلسلہ قائم رہتا ہے۔

 ’’ چور ‘‘ یہ ایک انوکھی کہانی ہے۔ اس میں تحت الشعور اور شعور کی تکرار ہے۔ چور کے والدین ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر دونوں نے نئے ازدواجی رشتے جوڑ لئے۔ یہ تنہا رہ گیا تھا۔ تعلیم یافتہ ہو نے کے با وجود چوری کو اپنا ساتھی بنا لیا کبھی گرفتار نہیں ہوا سوائے سیاسی جمگھٹوں کے اس کے لئے چوری اگر محرک تھی تو محافظ بھی تھی۔ وہ چوری کو ایک حقیقی وجود کے طور پر اپنا ساتھی بنائے ہوئے تھا وہ محسوس کرتا تھا۔

 ’’چوری اس کے اندر سے باہر آئی یا باہر سے اندر داخل ہوئی اس مسئلے کے بارے میں اس کا ذہن صاف نہیں تھا البتہ اس کا مشاہدہ تھا کہ جب وہ چو ری کے لئے چلتا تو چو ری اس کے آ گے ہو تی اور جب وہ چوری کرنے میں کامیاب ہو جا تا تو وہ اس کے اندر چلی جا تی۔ اور اس کے اپنے وجود کا حصہ بن جاتی۔ ‘‘

اس کے نزدیک اس کی شخصیت کچھ اس طرح تھی۔

 ’’ چوری اس کا جاب ہی نہیں کیریئر بھی تھا۔ اگر چہ پولس کے تجسس سے محفوظ رہنے کے لئے وہ بظا ہر کوئی نہ کوئی جاب کرتا رہتا تھا لیکن اس آمدنی کو وہ ضرورت مندوں اور خاص طور پر بے سہارا لڑکے لڑکیوں پر خرچ کرتا تھا۔ جن کو ان کے والدین نے چھوڑ دیا ہو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے۔ وہ آدمیوں جیسا تھا لیکن قد رے مختلف کیونکہ وہ چور تھا، کیونکہ وہ آدمی تھا،جس کی آدمیت کو چو ری نے زنگ آلود نہیں کیا۔

 وہ مسجد میں جاتا ہے وہاں سے نکلتے ہوئے ایک پر چھائیں جیسا وجود اس کی طرف بڑھتا ہے اس کی آواز سے اس کو محسوس ہوا کہ و ہ آواز اس کے تحت الشعور میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ اسی آواز سے سوال کر رہا تھا۔ وہ آواز اس کو نصیحت کر تی ہے ’’چوری چھوڑ دو دہشت گردی اختیار کرو۔ ‘‘ وہ سوال کرتا ہے۔ ’’ تم کون ہو۔ ‘‘ ؟

 ’’وہ جواب دیتا ہے ‘‘۔ ’’ میں ڈیول ہوں۔ راکھشس ہوں۔ ابلیس ہوں لوسیفرLucifer ہوں۔ شیطان ہوں ‘‘

اس سے کہتا ہے چوری چھوڑ دو۔ اور دہشت گرد بن جا ؤ۔ اس کو ایک لڑکی مل جا تی ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے ’’ تم میری چوری ہو۔ ‘‘

دونوں اللہ کے گھر میں چلے جاتے ہیں۔ وہ آواز جو اس کو ورغلا رہی تھی وہ اندر داخل ہو نے نہیں پاتی۔ وہ دونوں شادی کر لیتے ہیں۔

یہ افسا نہ دلیل دے رہا ہے کہ تنہائی بر بادی کی جڑ بھی ہے۔

 اس کتاب میں زیادہ تر افسانے اکیسو یں صدی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن افسانہ ’’ آپ ‘‘ اس بات کی تصدیق کرتا ہے جیسا کہ کلام پاک میں کہا گیا ہے کہ ’جن ‘ بھی اللہ کی ایک مخلوق ہیں۔ طوفانی بارش ہو رہی تھی وہ شخص ناظم آ باد کے علاقے میں تھا۔ اس دوران پاؤں کی انگلی کے نیچے حصے میں کوئی ڈس گیا اسنے آوازیں لگائیں۔ لوگوں نے معائنہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے ’’ شہر کے بڑے ہسپتالوں تک پہنچانے تک اس مار گزیدہ کا بچنا محال ہے۔ ‘‘ بچپنے میں بھی سانپ سے واسطہ پڑ چکا تھا۔ سانپ کو ’’ آپ ‘‘ کا لقب دے دیا تھا۔

لوگ یہ کہہ کر سونے مت دینا اور چلے گئے۔

 ’’ دیکھتے ہی دیکھتے مجھ پر غفلت طاری ہوئی اس نیم بے ہو شی اور غفلت کے عالم میں جب میرے تیمار دار مجھے چھوڑ گئے ’’آپ ‘‘ تشریف لائے ڈسے ہوئے مقام بائیں پیر کے انگوٹھے کی برا بر والی انگلی پر اپنا منہ رکھا۔ اس کے ساتھ ہی میں بیدار ہو گیا۔، نئی توا نائیوں کے ساتھ مجھے خود واضح طور پر محسوس ہوا جو زہر میرے بائیں پیر سے کمر تک کی خون کی نسوں میں پہنچ چکا تھا۔ پیروں کی جانب لوٹا اور ڈسے ہوئے مقام تک پہنچ کر، میرے بدن سے خارج ہو گیا۔ پو پھٹے مسجدوں سے اذانیں بلند ہوئیں۔ میں نے سنیں۔ دھیمی آواز میں جواب دیا اور رب کا شکریہ ادا کیا۔ ’ میں زندہ تھا۔ ‘ آپ زندگی لوٹاکر منظر سے ہٹ چکے تھے۔ ’ وقت مجھے لے کر اڑ گیا۔

ؐکیا یہ ثابت نہیں کرتا ’’جن ‘‘ بھی ایک مخلوق ہے۔ ۔ !

 اب وہ وقت آ گیا ہے اردو کے افسانوں کو دوسری زبانوں میں تر جمہ کر نا چاہئے۔ ہمارے نقادوں کو چاہئے کہ بجائے مغربی ادب سے چھان بین کرنے کے اردو کے ا فسانوں کی ورق گردانی کریں۔ اور عالمی ادب میں ان کا ایک مقام پیدا کریں۔ اس کتاب کے تمام افسانے معیاری ہیں اختراعی ہیں، اور چونکا دینے والے ہیں ان افسانوں کو پڑھ کر ایک تعلیم یافتہ ذہن یقیناً محظوظ ہو گا۔

٭٭٭


 

 

 

کوائف : شہناز خانم عابدی

 

مبین مرزا

 

نام :  شہناز خانم عابدی

 شریکِ حیات : عبداللہ جاوید

پیدائش : جھانسی (انڈیا)

 والد : سیّد اصغر علی عابدی

والدہ : سر وری بیگم

وطنیت : لاڑکانہ (سندھ) پاکستان

تعلیم : ایم۔ اے ( اردو ادب )۔ بی۔ ایڈ، ڈی۔ ایچ۔ ایم۔ ایس

پیشہ : ہومیوپیتھک فزیشن (شہناز ہومیو کلینک۔ کراچی )

تدریس : پرو فیسر۔ ( پاکستان سنٹرل ہومیو پیتھک میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل۔ کراچی)

ادبی زندگی:

 ۱۹۷۰ ء کی دہائی میں ادبی زندگی کا آغاز ہوا۔ افسانے اور مضامین مختلف ادبی جرائد میں شائع ہونے لگے البتہ کتابی صورت میں پیش کر نے کا خیال بہت تاخیر سے آیا۔

۱۹۹۵ء سے ۱۹۹۸ء تک پندرہ روزہ جریدہ ’’ اعظم ‘‘ کے شعبہ ادارت سے منسلک رہیں۔ (یہ جریدہ اردو اور ہندی کے ممتاز افسانہ نگار، شاعر اور نقّاد ڈاکٹر اعظم کریوی کی یاد میں شائع ہو تا تھا )

شعبہ ہائے ادب: افسانے، مضامین، خاکے

تصنیف :

  خواب کا رشتہ ( افسانوں کا پہلا انتخاب)

زیرِ ترتیب :

افسانوں کے مزید دو انتخاب

 ادبی خاکوں اور مضامین کا مجموعہ

٭٭٭


 

 

 

 

 ضبطِ گریہ بھی گفتگو کے سا تھ

( بیگم کرشنا پال اور جوگندر پال جی سے ایک مختصر ٹیلی فونی گفتگو)

 

شہناز خانم عابدی

(کینیڈا)

 

 

 میری زندگی اور ادب کے ہمسفر عبداللہ جاوید،جوگندرؔ پال جی کو اردو فکشن کے جدید تر عالی مرتبت لیکھک اور معمار کے مرتبے پر فائز کرتے ہیں۔ میں نے بھی جب ان کو پڑھا تو وہ ایک بڑے فکشن نگار کے طور پر میرے سامنے آئے۔ جناب حیدر قرؔیشی نے مجھ کو جوگندر پاؔ ل جی سے متعارف کرا یا میں ان کی اس عنایت کو دیگر عنا یات کے ساتھ اپنے قلب و ذہن میں سنبھال کر رکھتی ہو ں۔

  جوگندر پال جی ایک سچے قلم کار ہیں۔ مجھے ان کی تحریر کی شگفتگی بھی بہت اچھی لگتی ہے۔ ان کا کرشن چندرؔ، منٹوؔ، یہاں تک کہ بیدیؔ سے الگ اپنا راستہ بنانا بھی حیرت انگیز ہے۔ ایک دن عبداللہ جاویدؔ کسی ادبی اجتماع کا ذکر کرتے کرتے جو سکھر سندھ میں ہوا تھا موضوع سے بھٹک کر مرزا ادیبؔ کا ذکر کر نے لگے۔ کہ ایک نشست کے بعد وہ مرزا ادیب سے ملنے کے لئے انہیں تلاش کر نے لگے۔ تو پتہ چلا کہ شریکِ اجتماع میں سے کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئے ہوئے ہیں۔ سکھر کا جڑواں شہر روہڑی تھا۔ جاوید جب قریب کی ندی کی طرف نکلے تو حفاظتی فصیل کے باہر ندی کے قریب ایک چٹان پر مرزا ادیبؔ اپنی دنیا میں مگن بیٹھے تھے۔ جاوید اُن کے پاس پہنچ گئے۔ بڑی شفقت سے ملے۔ عمر کا بہت بڑا فرق ہو نے کے با وجود وہ بڑی محبت کے ساتھ شعرو ادب کے موضوعات پر بزرگانہ انداز میں ٹہر  ٹہر کر باتیں کرتے رہے۔ بعد میں جب خیال آیا کہ رات کسی کے ہاں چھوٹی سی نشست ہے جس میں ان دونوں کو بھی شریک ہو نا ہے تو وہ یادگار ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔ مرزا ادیبؔ کے بارے میں جاوید نے یہ بھی کہا کہ ابتدا میں بڑے عرصے تک ان کے نام کے ساتھ مرزا ادیب بی اے آنرز چھپا ہو تا تھا۔ بعد میں اویس احمد ادیب کے نام سے تحاریر چھپنے لگیں تو ان کے نام کے ساتھ بی اے آنرز لکھا جانا بند ہو گیا۔ دوسری باتوں کے علاوہ جاوید نے یہ بھی بتا یا کہ جب جوگندر پال جیؔ  نے مرزا ادیبؔ سے اپنی پہلی ملاقات میں اپنے افسانوں کی تعریف سنی تو اپنا سوئیٹر اتارا اور مرزا ادیب کو اپنے ہاتھوں سے پہنا دیا۔ مرزا ادیبؔ اتنے آدم بیزار اور نک چڑھے دکھائی دینے میں کامیاب تھے۔ کہ جوگندر پال جی کی اس جسارت کی گنجائش نکلتی ہی نہ تھی۔ جوگندر پال جیؔ  نیک کام کرنے میں جلدی کر گزرنے والے آدمی ہیں۔ جوگندر پال جیؔ  کی یہ ادا جاوید صاحب کو بہت بھائی تھی۔ اسی طرح ایک د ن بقول کرشنا پال جی کے گھر کے سامنے چلتے چلتے ایک اخبار بیچنے والے لڑکے کے ہاتھ میں سو کا نوٹ دے دیا۔ وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا ’’ ساب کیا منگوانا ہے۔ ‘‘ کہنے لگے ’’ جاؤ لے جاؤ ‘‘ وہ اس لڑکے کے چہرے پر وہ خوشی اور اس ری ایکشن کو دیکھنا چاہتے تھے جو اسے سو کا نوٹ ملنے سے حاصل ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں ’’ خوشیاں بانٹو، خوشحالی بانٹ کے کھاؤ۔

جیسا کہ میں نے کہیں اور بھی کہا ہے کہ وہ میرے گرو ہیں۔ اگرچہ کہ انہوں نے میرے کسی افسانے میں کبھی کوئی اصلاح نہیں دی۔ وہ لکھنے کے لئے تاکید کرتے رہے اور شاید ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ ان معنوں میں وہ میرے ادبی رہنما اور گرو ہیں اور رہیں گے۔ جب میں اپنے افسانوں کے مجموعے ’ خواب کا رشتہ ‘ کے فلیپ پر ان کے الفاظ پڑھتی ہوں تو مجھے بے حد خوشی ہو تی ہے

افسوس! ان سے ملنا نہیں ہو رہا ہے۔ ٹیلی فون پر ان کی آواز سن کر خوشی بھی ہو تی ہے اور دکھ بھی۔ درج ذیل عبارت قارئین چہار سو کی نظر ہے۔

 

 اب کی مرتبہ خاصے طویل عرصے کے بعد میں نے فون ملایا۔ ہمیشہ سکریتا جی فون اٹھاتی تھیں لیکن خلافِ توقع کرشنا پال جی دوسری جانب تھیں۔ وہ بہت پیار سے بات کرتی ہیں۔ سکریتا جی کے لئے بتا یا وہ گھر پر نہیں ہیں بھو ٹان گئی ہوئی ہیں۔ جوگندر پال جی کو پوچھا تو انہوں نے بتا یا ابھی کچھ دیر پہلے تھوڑی سی وہسکی لے کر سو گئے ہیں۔ دو گھنٹے کے بعد اٹھیں گے۔ میں نے جو گندر پال جی کی خیریت پوچھی تو کچھ دیر خاموش رہ کر  بولیں ’’ میں ان کی حالت بیان نہیں کرسکتی۔ آئی ایم شارٹ آف ورڈس۔ ‘‘

 ’’آپ مجھ سے انگریزی میں بات کر سکتی ہیں اگر اردو میں مشکل ہو رہی ہو۔ ‘‘ میں نے یقین دہانی کرائی۔

 ’’ میں جانتی ہوں تم ایک عرصے سے کینیڈا میں ہو، ہم انگریزی کو ذریعہ گفتگو بنا سکتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں کروں گی۔ انہوں نے فیصلہ کن انداز میں بو لیں۔ ‘‘

 ’’ کوئی خاص رکاوٹ‘‘ میں نے سوال کیا۔ ‘‘

 ’’ سوچو شہناز ! میں نے پال کے لئے اردو سیکھی۔ میں نے اس کی کتابوں کو دیو ناگری اسکرپٹ میں لکھا، اب میں یہ کیسے گوارا کر سکتی ہوں کہ ان کی ایک قدر داں سے اردو کے علا وہ کسی اور زبان میں بات کروں۔ ‘‘

 ’’ کرشنا جی نے میرے دل میں زبردست قدردانی ڈال دی تھی۔ ‘‘

 ’’ کرشنا جی آپ کی باتیں سن کر میرا جی آپ کے پاؤں چھونے کو چاہ رہا ہے۔ لیکن ٹیلی فونی رابطے کے دوران ایسا ممکن نہیں۔ ‘‘ میں نے پورے اخلاص سے کہا۔

 ’’ بس بس بٹیا۔ ۔ مجھے اتنے اونچے سنگھاسن پر نہ چڑھاؤ جہاں سے اترنا ممکن نہ ہو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنس پڑیں۔ میں ان کی ہنسی سنتی رہی۔ کتنی سچی ہنسی تھی۔ عجیب لوگ، عجیب خاندان، بیٹی کم گو، ماں مخلص اور سچی، اور باپ مٹھی بھر بھر خوشیاں بانٹنے والا۔ ۔

باتوں باتوں میں ہم پھر جوگندر پالؔ  جی تک جا پہنچے۔ اس ذکر کے ساتھ ہی ان کی گفتگو کو وقفے وقفے سے چپ لگ جاتی۔ ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے رونے پر قابو پا رہی ہوں۔ کہنے لگیں ’’ پال نے لکھنا پڑھنا بالکل ترک کر دیا ہے۔ ترک کیا کر دیا ہے وہ نہ تو پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ قلموں کی سیاہی کبھی کی خشک ہو کر رہ گئی ہے۔ اب تو میں نے ان کی میز سے بھی سارے قلم ا ٹھا لئے ہیں۔ ان کو جو کچھ پڑھ کر سناتی ہوں، تھوڑی ہی دیر کے بعد بھول جا تے ہیں۔ ‘‘

کرشنا جی جو کچھ کہہ رہی تھیں وہ میں پہلے بھی سن چکی تھی۔ اتنے بڑے آدمی پر جو کچھ گزر رہا ہے وہ ڈھکا چھپا رہنے والا ہے بھی نہیں۔ کرشنا جی نے یہ بھی کہا کہ پال سے ملنے کے لئے آنے والے اور ان کو فون کال کرنے والوں کی اکثریت ان سے کچھ نہ کچھ لکھوانا چاہتے ہیں۔ لیکن اب لکھنا ان کے لئے ممکن ہی نہیں رہا ہے۔ وہ طبعاً کسی کو ’’ نا ‘‘ کہنے والے آدمی نہیں ہیں۔ ان حالات میں بھی وہ کسی کو منع نہیں کر سکتے ہیں میں نے محسوس کیا کہ اس با ہمت خاتون کو مزید امتحان یا کرب میں ڈالنا نا شائستہ ہو گا سو میں نے اجازت چاہی۔

 ’’ رکئے رکئے ! وہ اٹھ گئے ہیں میں آپ کی بات کراتی ہو ں۔ کرشنا جی نے یہ کہہ کر کہ کینیڈا سے شہناز خانم عابدی، فون جوگندر پال جی کو دیا۔ میں نے ان کی آواز سنی،محبت بھرا لہجہ ’’ آداب ‘‘۔

میں نے بھی آداب کہا اور پو چھا ’’ آپ کیسے ہیں۔ ؟

کہنے لگے ’’ ٹھیک ہوں لیکن پڑھنا لکھنا نہیں ہو تا۔ ‘‘ پھر مجھ سے پوچھنے لگے ’’آپ کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ ‘‘

 ’’ جی کوشش کر رہی ہو ں۔ ‘‘

کہنے لگے ’’ آپ کی کہانیاں میں نے پڑھی ہیں۔ مجھے پسند آئی تھیں۔ لکھنا بند نہ کریں۔ لکھتی رہیں۔ اپنے اندر کی تڑپ کو ختم نہ ہو نے دیں۔ آپ بہت آگے تک جائیں گی۔ ‘‘ پھر کہنے لگے ’’ آپ انڈیا آئیے، مجھ سے ملئے۔ میرا تو پتہ نہیں کب جا نا ہو جائے۔ ‘‘ اور کہنے لگے ’’ کہ آپ ویزے میں میرا نام بھی شامل کر دیجئے کہ مجھے ان سے ملنے جانا ہے۔ ‘‘

 ’’ مجھے بھی آپ سے ملنے کی بے حد خواہش ہے۔ میں انڈیا آ نے کی کوشش کروں گی۔ انشاء اللہ آپ سے ملاقات ہو گی۔ کئی دنوں سے آپ سے بات کر نے کو جی چاہ رہا تھا۔ ۔ اس مر تبہ آپ سے بہت دنوں کے بعد بات ہوئی ہے‘‘۔

کہنے لگے مجھے بہت اچھا لگا ’’آپ سے بات ہوئی۔ آپ فون کرتی رہا کریں۔ ‘‘

 ’’ جی اچھا ! میں آپ کو جلد ہی دوبارہ فون کروں گی۔ اب آپ آرام کریں ‘‘۔ کہنے لگے ’’خدا حافظ ‘‘

 میں نے کہا کیا کرشنا جی سے بات ہو سکتی ہے ؟ وہ وہیں بیٹھی ہوئی تھیں انہیں فون دے دیا۔

میں نے کہا۔ ’’ میں بے حد خوش ہوں جوگندر پال جیؔ  کی آواز سنی، ان سے گفتگو ہو گئی۔ ‘‘ پھر میں نے ان سے کہا آپ سے ایک بات پوچھنا تھی۔ ’’ جوگندر پال جیؔ  کی جن کتابوں کو اردو سے دیو ناگری میں آپ لکھتی ہیں۔ دیو ناگری لکھائی ہو تی ہے یا ہندی میں ترجمہ۔ ‘‘

کہنے لگیں ’’ میں نے پال جی کی کئی کتابوں کا رسم الخط بدلا ہے صرف لکھائی دیو ناگری ہوتی ہے۔ الفاظ بالکل ویسے ہی رہتے ہیں جیسے اردو میں لکھے ہوتے ہیں۔ بلکہ پال جی تو مجھ سے کہتے ہیں ’’ اس میں کوئی ہندی لفظ نہیں لکھنا۔ ‘‘ اور اگر کوئی ایسا مسئلہ ہوتا ہے جس میں ہندی لفظ شامل کرنا لازمی ہو جائے تو وہ پورا جملہ تبدیل کر دیتے ہیں کہ اس میں کوئی ہندی لفظ نہیں لکھنا پڑے۔

 میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور بتا یا میں اپنی اور عبداللہ جاوید کی افسانوں کی کتاب کو دیو ناگری میں چھپوا رہی ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ آپ سے مجھے بہت رہنمائی ملی۔

 کرشنا جی کہنے لگی میں نے پال جی کی کہانیاں پڑھنے کے لئے اردو سیکھی ہے۔ اور پال جی کی بڑی خواہش ہے کہ ا ن کے پوتے پوتیاں اردو پڑھنا لکھنا سیکھیں۔ اور جب اپنے پوتے پو تیوں کو اردو پڑھتے دیکھتے ہیں تو بہت خوش ہوتے ہیں۔

 میں نے کرشنا جی کا شکریہ ادا کیا اور اجازت چاہی۔

 ’’ کہنے لگیں فون کرتے رہئے گا۔ ۔ ‘‘

 

 ملو جو ہم سے تو مل لو کہ ہم بہ نوکِ گیاہ

 مثالِ قطرۂ شبنم رہے رہے، نہ رہے

٭٭٭


 

خواب کا رشتہ

 

شہناز خانم عا بدی

( ٹورانٹو)

 

  رات بھر پروفیسر اقبال حیدر جنجوعہ جاگتے رہے۔ ان کے سینے میں بائیں جانب رہ رہ کر عجیب سا درد اٹھتا رہا۔ ان کی بیگم انکے برابر لیٹی حسبِِ معمول خرّاٹے لیتی رہیں۔ خواب گاہ کی شیشے والی کھڑکی جو ان کے سر ہانے کی جانب تھی اس کی بلائنڈس پوری طرح بند نہیں تھیں۔ رئیسہ بیگم اس کو قدرے کھلی رکھا کرتی تھیں۔ دوسری کھڑکی جو ان کے پائنتی سے کچھ دور تھی پوری طرح بند تھی کیونکہ وہ جالی دار تھی اس کے بلائنڈس مستقل بند رہتے۔ سردیوں میں ہیٹنگ تو گرمیوں میں اے سی کے بہانے۔ یہ مغرب کی دنیا تھی بند گھروں کی دنیا۔ ۔ ساری رات اقبال حیدر جنجوعہ کی نگاہیں شیشے والی کھڑ کی پر لگی رہی تھیں۔ وہ دائیں کروٹ لیٹے بلائنڈس کے درمیان کی پتلی درزوں سے اسٹریٹ لائٹ کی روشنی کو اپنی آنکھوں پر جھمکتا دیکھتے رہے۔ جب کوئی گاڑی گلی سے گزرتی تو ان درزوں پر روشنی کی یلغار سی ہوتی اور رات کے سنّاٹے میں عجیب سی گونج والی غرّاہٹ جاگتی اور گلی کی زمین میں ہلکا سا زلزلہ سا آ جاتا جو جلد ہی رئیسہ بیگم کے خرّاٹوں میں گم ہو جاتا۔ اس طرح رات کے تین پہر گزر گئے۔ چوتھا پہر شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی شیشے والی کھڑکی سے آنے والی روشنی کا رنگ بدلا زردی میں کمی آئی اور سفیدی میں اضافہ ہو گیا۔ یہ قدرت کی روشنی تھی اس کو نور کہنا مناسب ہو گا۔ اس نور کو لوگوں نے صبح کاذب کے نور کا نام دے رکھاّ ہے۔ پروفیسر صاحب نے اس نور، اسٹریٹ لائٹ کی روشنی اور خواب گاہ میں جلنے والے بلب کی روشنی میں اپنی کلائی میں بندھی گھڑی میں وقت دیکھا۔ پروفیسر صاحب غسل اور وضو کے علاوہ اپنی بائیں کلائی پر گھڑی باندھے رکھتے تھے جیسے کچھ خواتین کنگن پہنے رکھتی ہیں۔ گھڑی ساڑھے تین بجا رہی تھی۔

 ’’ تم آ گئیں۔ ؟ ‘‘ پروفیسر صاحب کی سرگوشی ابھری۔ آواز اتنی کم تھی کہ رئیسہ بیگم کو سنائی نہیں دے سکتی تھی۔ وہ اپنے خرّاٹوں میں مست تھیں۔ پروفیسر صاحب کچھ دیر خاموش رہے۔ ان کے سوال کا جواب خواب گاہ کی فضا نے نہیں سنا۔

 ’’تعجب ہے گھر تو ہر طرف سے بند ہے تم گھر میں داخل کس طرح ہوئیں۔ ۔ ؟‘‘

اس مرتبہ بھی پروفیسر صاحب کے سوال کا جواب خواب گا ہ کی فضا نے نہیں سنا۔

 ’’تم چپ ہو ایک آدھ بات بھی نہیں ہوسکتی۔ ۔ ؟‘‘

خواب گاہ کی فضا نے رئیسہ بیگم کے خرّاٹوں ہی پر اکتفا کیا اور پروفیسر صاحب کی ممکنہ سرگوشی پر کان لگائے منتظر رہی۔ کچھ وقت گزرا۔

 ’’اچھا تو اب چلیں۔ باہر چل کر ہی بات کریں گے۔ ‘‘

خواب گاہ نے پروفیسر صاحب کی یہ سر گوشی آخری با ر سنی اور رئیسہ بیگم کو معنٰی خیز نظروں سے دیکھا جو اپنے خراٹوں میں مگن تھیں۔ اس کے بعد صبح کاذب کا نور بجھ گیا۔ کچھ وقت اسٹریٹ لائٹ کی زرد روشنی میں گزر ا پھر صبح صادق کا نور شیشے والی کھڑکی کے نیم بلائنڈوں میں سے جھانکا اور خواب گاہ میں اترا۔ کچھ وقت اور گزرا۔ رئیسہ بیگم کے خراٹے بند ہو گئے۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھیں اور بستر کی داہنی جانب منہ کر کے آواز لگائی۔

 ’’اٹھو جلدی کرو۔ نماز کا وقت جا رہا ہے۔ میں چلی واش روم۔ ‘‘ بستر میں اٹھ کھڑے ہونے سے ہلچل سی مچی اور بند ہو گئی۔ دروازے کے کھلنے کی آواز بھی خواب گاہ کی فضا نے سنی۔ پھر گہرا سنّاٹا چھا گیا۔ ۔ وقت گزرا۔ رئیسہ بیگم کمرے میں لوٹیں۔ نماز کے لئے مختص کونے میں مصلّٰی بچھایا۔

 ’’ آج نماز نہیں پڑھنی ہے۔ اٹھو جلدی کرو۔ ‘‘

نماز شروع کرنے سے پہلے پروفیسر صاحب کے لئے ہانک لگائی اور ادائیگی نماز میں مصروف ہو گئیں۔ نماز کے بعد تسبیحات اور تلاوتِ کلام پاک ان کا معمول تھا۔ نماز کے بعد بھی انہوں نے پروفیسر صاحب کو آواز دی۔

دن نکل چکا تھا فجر کا وقت گزر چکا تھا۔ پروفیسر صاحب کی جانب بستر اور لحاف میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ رئیسہ بیگم سوچ میں پڑ گئیں ’’ شوہر کو اٹھا یا جائے یا سوتے رہنے دیا جائے۔ فجر تو گئی۔ ‘‘ وہ دوبارہ مصلّے پر بیٹھ گئیں۔ معمول کے اوراد اور وظائف کے بعد وہ اٹھ کر سیدھی پروفیسر صاحب کی جانب گئیں اور ان کو اٹھانے لگیں۔ اور پھر کمرے کی فضا کے ساتھ ساتھ سارے گھر کی فضا نے ان کی بین سنی وہ اپنا سر پیٹ رہی تھیں، بال نوچ رہی تھیں،رو رہی تھیں، چلّا رہی تھیں۔ ’’ مولا میرے یہ کیا ہو گیا۔ ۔ وہ چڑیل ان کو لے گئی۔ ‘‘ ان کی زبان تھم نہیں رہی تھی وہ شاید اپنے حواس میں نہیں تھیں۔ ان کی بہو اور بہو کے پیچھے بیٹا خواب گاہ میں داخل ہوئے۔ بہو ان سے لپٹ گئی اور اس نے ان کے سرکوبی کرتے ہوئے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ بیٹا ان سے پوچھنے لگا۔

 ’’ کیا ہوا امّی۔ بتائیں تو سہی۔ ‘‘

 رئیسہ بیگم نے بیٹے کو دیکھا۔ اور بہو سے ہاتھ چھڑا کر بیٹے کی طرف بڑھیں۔ بیٹا بھی ان سے لپٹ گیا۔

 ’’ وہ چلے گئے۔ ۔ تیرے بابا ہم کو چھوڑ کر چلے گئے اس چڑیل کے ساتھ۔ ‘‘

 ’’کون چڑیل۔ ؟ امّی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ ‘‘

بیٹے نے ماں کو اپنے سے علیحدہ کرتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

 ’’ وہی چڑیل ارجمند بانو۔ ‘‘

ماں کی زبان سے ارجمند بانو کا نام سنتے ہی بیٹے کے ذہن میں، سیکنڈوں میں برسوں کے واقعات چھلک پڑے۔ ارجمند آنٹی۔ ۔ جن کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ وہ بابا سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ جب بابا کی شادی کا کارڈ ان کو ملا تو وہ فرش پر گر کر چلّا چلّا کر روئی تھیں۔ انکے بھائی اور بہنوں نے لوگوں کو یہ کہہ کر چپ کرا یا تھا کہ ڈاکٹر نے غلط انجکشن لگا دیا تھا اس کا ری ایکشن ہوا۔ پھر ارجمند آنٹی کی شادی ہوئی انتہائی واہیات آدمی سے اور وہ شا دی کے پہلے سال کے دوران ہی الّٰلہ کو پیاری ہو گئیں۔ ارجمند آنٹی جو وفات کے بعد بابا کے خواب میں آئیں اور چاول مانگے۔ امی نے خواب سن کر غریبوں میں ایک دیگ تقسیم کروائی۔ اس کے بعد یہ معمول ہو گیا جب بھی بابا کے خواب میں ارجمند آنٹی آتیں بابا امّی سے ذکر کرتے اور امّی غریبوں کو کھانا کھلواتیں۔ اور چند روز قبل بھی اس نے امی کو بابا سے یہ کہتے سنا تھا۔ ’’ اس ملک میں کیا کیا جائے سمجھ میں نہیں آتا۔ اپنے ملک میں تو اور کہیں نہ ہوا تو کسی مزار پر لنگر تقسیم کروا دیتے تھے۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ ارجمند آنٹی پھر بابا کے خواب میں آئی ہوں گی لیکن وہ چپ رہا تھا۔ اس نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اس کی ماں شایداس چاولوں والے ٹوٹکے سے بیزار ہو گئی تھی۔ کب تک اس کو نبھاتیں۔ ورنہ کینیڈا میں بھی مساجد اور مدرسے ہیں بریانی کی دیگ یہاں بھی تقسیم کی جا سکتی تھی۔ ایسا ہی کچھ سوچ کر اس نے اس معاملے میں دخل دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ ’’ شاید امی یہ سلسلہ ختم ہی کر دینا چاہتی ہیں۔ ‘‘ اس نے شاید یہ نتیجہ نکالا تھا۔

بیٹا اس دوران ماں کو چھوڑ کر باپ کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ اس نے کمفرٹر ہٹا دیا تھا۔ اس کا باپ ساکت و صامت لیٹا تھاجیسے گہری نیند سو رہا ہو لیکن اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ اور پُتلیاں جامد تھیں۔ اس نے ان کی کلائی میں ان کی نبض کو ٹٹولا۔ نبض نہیں ملی۔ شرٹ کے اوپر کے بٹن کھولے اور اپنا دایاں کان ان کے سینے کے بائیں جانب ٹکا دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنا سر اٹھا یا اور غیر ارادی طور پر جھٹک دیا۔ باپ کی شرٹ کے گریبان کو برابر کیا۔ اس کے بٹن لگائے۔ ان کی کھلی آنکھوں کو انتہائی نرمی سے پپوٹوں کے غلاف سے ڈھانک دیا۔ ماں کو اپنی بیوی کے ہاتھوں میں چھوڑ کر ماں باپ کی خوابگاہ سے باہر بھا گا اور۹۱۱ کو فون کرنے میں مصروف ہو گیا۔ اس کو یقین ہو گیا تھا کہ اس کا باپ ان سب کو چھوڑ کر جا چکا تھا۔ لیکن ڈاکٹر سے اس کی تصدیق کروانا لازمی تھا۔ پھر تو لازمی معمولات کا ایک سلسلہ ان سب کا منتظر تھا۔

خواب گاہ سے بین کی صد ا ٹھہر ٹھہر کر بلند ہو رہی تھی۔ جس کو سارے گھر کی فضا پوری توجہ سے سن رہی تھی۔

 بیٹا اپنے باپ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ’’ انہوں نے امی کے اوپر کوئی سوتن لانا گوارا نہیں کیا۔ ورنہ ارجمند آنٹی اس کی سو تیلی ماں ہوتیں۔ ‘‘ وہ ارجمند آنٹی کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا۔ سوائے با با اور امی کے شادی کے دعوت نامے کے واقعے کے ان کے دل کا معاملہ پھر کبھی ظاہر نہ ہوا۔ انہوں نے اپنی شادی بھی ہونے دی اور پھر دنیا سے چلی بھی گئیں۔

 لیکن یہ خواب کا رشتہ۔ ۔ ؟

٭٭٭


 

نور

 

شہناز خانم عابدی

(کینیڈا)

 

 

 رحمت بی بی کی آنکھوں سے نہ ہی پانی بہا اور نہ ہی وہ سرخ ہوئیں۔ ان کی آنکھ میں جلن، سوزش، خارش کچھ بھی تو نہیں ہوئی۔ بس دکھائی دینا کم ہونے لگا۔ رحمت بی بی کی فرمائش پر سب سے پہلے مشہور و معروف سرمے آزمائے گئے۔ اس کے بعد آنکھوں میں ڈالنے کے لئے قطرے استعمال کئے گئے۔ اس کے بعد طبیبوں اور ڈاکٹروں سے رجوع کیا گیا۔ بالآخر معلوم ہوا کہ ان کی بصری عصب (Optic Nerve) میں کوئی لا علاج صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ کئی ایک مشہور و معروف سرجنوں سے رجوع کیا گیا لیکن جواب نفی میں ملا۔ ان کا مرض سرجری سے بھی درست ہو نے کے لائق نہیں نکلا۔ ان کی بینائی روز بروز کم ہوتی چلی گئی۔

 بینائی جیسے جیسے کم ہو تی جاتی وہ مزاجاً بہتر سے بہتر ہو تی گئیں۔ بیگمی کے زمانے میں ان کا مزاج ساتویں آسمان پر ہوا کرتا تھا۔ نوکر ان کے سامنے آ نے سے ڈرتے تھے۔ یوں بھی سب چھوٹے بڑے ان سے خائف رہتے تھے۔ بینائی کم ہو نے سے تو انہیں اور زیادہ چڑ چڑا اور تنک مزاج ہو جا نا چاہئے تھا لیکن ہوا اس کے بر عکس۔ وہ ہر کسی سے نرم اور شیریں گفتار ہو گئیں۔ وہ کم بولتیں لیکن جب بھی کچھ بولتیں تو ان کی بات سیدھی دل میں اترتی محسوس ہو تی۔

 ان کی بینائی با لکل ختم ہو گئی۔ وہ اندھی ہو گئیں۔ لیکن ان کے آس پاس چھوٹے بڑے لو گوں کا مجمع لگا رہنے لگا۔ گویا ان کو دیکھنے کے لئے اوروں کی آنکھیں مل گئیں۔

 میں ان کے گھر بہت کم جاتی تھی۔ مجھے ان کے شان، بان، آن اور تصنّع سے معمور رویے سے دلی بیزاری تھی۔ ان کے مزاج کی اس غیر معمولی تبدیلی سے متاثر ہو نا فطری امر تھا۔ میں ان کے قریب ہوتی چلی گئی۔ اگر کسی دن میں ان سے نہ ملتی اور ان کے ہاں نہ جاتی تو مجھے اپنی زندگی میں کمی محسوس ہو تی۔ وہ بھی میرے ساتھ بے حد محبت سے پیش آتیں اور مجھ سے بات کرتے سمے بہت مطمئن اور پر سکون لگتیں۔ اس پر میں بے حد حیران ہوتی۔ بینائی چلے جانے پر میں نے کبھی ان کی زبان سے شکایت کا ایک لفظ نہیں سنا۔ میرا جی چاہتا کہ میں ان سے اس موضوع پر بات کروں۔ میں اپنے ذہن میں ان سوالات کو منا سب الفاظ دیتی رہتی لیکن کوئی بھی سوال کسی بھی ترتیب کے ساتھ میری زبان پر نہیں آیا۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کسی کی جاتی ہوئی بینائی پر بات کر نا اس کو شدید صدمے سے دو چار کر نا ہو تا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں ان سے قریب قریب ہر روز خاموش سوالات کر تی اور واپس اپنی زندگی میں لو ٹ جا تی۔

 اس شام رحمت بی بی کے گھر معمول سے زیادہ تا خیر سے پہونچی بی بی اپنے کمرے میں تنہا تھیں۔ مصلّے پر بیٹھی کچھ ورد کر رہی تھیں۔ ان کے آس پاس کوئی نہ تھا میں ان سے کچھ فاصلے پر چپ چاپ بیٹھی ان کو دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد یا تو میری سماعت تیز ہو گئی یا ان کی اپنی آواز۔ وہ جو پڑھ رہی تھیں صاف سنائی دینے لگا۔

’’ اللہ نو رالسمٰوٰت و ا لارض ‘‘ ( اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ ) ان کی دھیمی آواز میں عربی زبان کے یہ الفاظ ان کے کمرے کو روشن کر رہے تھے۔ اسی وقت پہلی مرتبہ مجھے یہ احساس ہوا کہ ان کے کمرے میں تو روشنی نہیں تھی۔ سارے شہر کی بجلی غائب تھی۔ میں اسی طرح ان کے الفاظ کی روشنی میں کچھ دیر بیٹھی رہی۔ اور پھر چپ چاپ سے اپنے گھر لوٹ گئی۔

مجھے کسی نے نہیں دیکھا۔ گھر جا کر میں نے دیکھا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔

میں اندازے سے اپنے کمرے کی طرف گئی اور بیڈ کے برابر رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔

میری زبان سے وہی الفاظ جاری تھے ’’ اللہ نورالسموٰتِ وا لارضِ ‘‘ میری آنکھیں اشکبار تھیں۔

٭٭٭


 

 

انتہائی مطلوب

 

شہناز خانم عابدی

 

 

 گدا گری کی لعنت کو انوری نے تقدیر کا لکھا مان کر قبول کر لیا تھا۔ شوہر کی موت میں اس کو رب کی مرضی نظر آئی۔ لیکن جب اس نے اپنے بیٹے سلیم کو معذور بنائے جانے کا سنا تو وہ ہار گئی۔ ۔ ۔

 رشید البیلا۔ ۔ چھ فٹ کا قد، بھاری جسم،سیاہ فام چہرہ، سرخ بڑی بڑی آنکھیں، سفیدشلوار قمیض پہنے، گردن پر لال رومال ڈالے، پاؤں میں کشمیری سینڈل پہنے، منہ میں پان دابے ایک آرام کرسی پر نیم دراز تھا سامنے میز پر روپئے پیسوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ برابر میں رکھی ہوئی کر سی پر ایک رجسٹر لئے رحمت بیٹھا تھا جو سب کے لئے زحمت تھا۔ بھکاری آ تے جاتے اپنی دن بھر کی کمائی ہوئی پونجی میز پر رکھتے جاتے۔ رحمت کاپی میں ہر ایک کے نام کے ساتھ ان کی دی ہوئی رقم بھی لکھتا جاتا اور ان پیسوں میں سے تھوڑے سے پیسے ان کے ہاتھ میں رکھ دیتا۔

 ’’ یہ کیا۔ ؟‘‘ اپنی چھو ٹی چھوٹی، گول گول آنکھیں نکال کر اس نے پیسوں والا ہاتھ انوری کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ جو سب سے آخر میں اپنی کمائی دینے آئی تھی۔

وہ خاموش کھڑی رہی۔

 رحمت، رشید البیلا کو متوجہ کرتے ہوئے بولا ’’صرف سو روپئے ‘‘

 ’’ کیا کرتی رہی پورا دن۔ ؟ ‘‘ رشید البیلا زور دار آواز میں گرجا۔

 ’’ صاب جی میں تو تمام دن ہاتھ پھیلائے اِدھر سے اُدھر بھاگتی رہی۔ مگر۔ میرے نصیب۔ ۔ ‘‘

 ’’یہ نصیب وصیب کچھ نہیں ہو تے۔ ۔ آج اس کو کچھ مت دو کل سے سالی خود زیادہ کما کر لائے گی۔ ‘‘ رشید البیلا نے پیک تھوکنے کے بعد اگالدان رکھتے ہوئے کہا۔

 ’’صاب جی میرے پاس تو ایک پائی بھی نہیں ہے۔ صبح سے میں بھوکی ہوں۔ اور وہ میرا بیٹا بھی۔ ۔ ‘‘ انوری کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

 ’’ارے ہاں !اب تو تیرا بیٹا بھی بھیک مانگنے کے قابل ہو گیا ہو گا۔ رشید البیلا نے اپنی کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا۔

 ’’ صاب جی میرے بیٹے کو معاف کر دو میں اسے پڑھانا چاہتی ہوں۔ اسے اس دھندے سے دور رکھنا چاہتی ہوں۔ ‘‘ انوری نے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے رشید البیلا کی کشمیری جوتی پر اپنا سر رکھ دیا۔ ‘‘

 ’’ کل سے اسے اڈے پر بٹھا دینا۔ ‘‘ رشید البیلا نے رحمت کی طرف دیکھ کر کہا۔ اور ہاں۔ اس سے دور۔ ‘‘ انوری کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور دس روپئے ا اس نے انوری کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔

رحمت نے شرارتی نگاہیں انوری کے بدن پر ڈالتے ہوئے اپنی گر دن رشید البیلا کی جانب موڑی اور بڑے بڑے پیلے دانت نکوس کر بولا ’’ بالکل دادا ! آپ فکر ہی نہ کر یں۔ ‘‘

  انوری پر تو جیسے بجلی گر پڑی۔ اس کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے جب جھونپڑی میں پہنچی تو سلیم سو چکا تھا۔ وہ جانتی تھی رحمت نے یہ سب کچھ کیوں کیا ہے۔ اس کے شوہر کی موت کے ساتھ ہی وہ انوری کے گرد منڈلانے لگا تھا۔ جب زیادہ تنگ کر نے لگا تو انوری نے دھمکی دی کہ وہ رشید البیلا سے اس کی شکایت کر دے گی۔ رشید البیلا کے نظامِ حکومت میں عورتوں سے جنسی بیگار لینے کی اجازت نہیں تھی۔ عورتوں اور لڑکوں سے بھیک منگوانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں لیا جا تا۔ عورتیں اور لڑکے بڑی حد تک محفوظ تھے۔ بھکاری بھی نکاح پڑھوائے بغیر ایک دوسرے سے جنسی تعلقات نہیں رکھ سکتے تھے۔ اگر کوئی ایسا کرتے ہوئے پکڑا جا تا تو سخت سزا کو پہنچتا۔ رحمت شادی شدہ تھا انوری اس کے لئے شجرِ ممنوعہ تھی۔ پھر بھی وہ اس کو گھیر نے کی کوشش کر رہا تھا۔ شاید اس کو اس بات کا گھمنڈ تھا کہ وہ رشید البیلا کے کیمپ کا منشی، منتظم اور سب کچھ تھا۔ اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔

 دوسرے ہی دن صبح سویرے رحمت انوری کی جھونپڑی پر آ پہنچا اور دانت نکالتے ہوئے بو لا ’’سلیم کو باہر بھیج۔ ‘‘

 ’’ ابھی تو اس نے روٹی بھی نہیں کھائی۔ ‘‘ انوری بولی۔

 ’’ تو فکر نہ کر۔ ‘‘ رحمت نے سلیم کا ہاتھ پکڑا اور اس کو لے کر چلتا بنا۔ جاتے جاتے بولا ’’ رات دادا کے اڈے سے لے لینا اپنے بیٹے کو۔ ‘‘

انوری کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس وقت وہ اپنے آ پ کو کتنا بے بس محسوس کر رہی تھی۔ اس نے کیا کیا سوچا تھا۔ ۔ ۔ سلیم کو پڑھائے گی اور جب وہ نوکری کے قابل ہو جا ئے گا تو خود بھی بھیک مانگنا چھوڑ دے گی۔ اور ماں بیٹے کسی ایسی جگہ جہاں نہ رحمت ہو اور نہ رشید البیلا، دونوں عزت سے رہیں گے۔

رات جب وہ اڈے پر پہنچی، سلیم وہاں موجود تھا۔ انوری کو دیکھتے ہی وہ اس سے لپٹ گیا۔

 ’’ پہلے ہی دن تیرے بیٹے نے تین سو کمائے ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر رحمت نے بیڑی کا کش لیا۔

 ’’ اگر اس کے ہاتھ پیر توڑ دیئے جائیں تب تو یہ اور زیادہ کمائے گا۔ ‘‘ رشید البیلا سلیم کی طرف دیکھتے ہوئے بو لا۔

 ’’ نہیں نہیں ! خدا کے لئے میرے بیٹے کے ساتھ ایسا کچھ نہ کرنا۔ ‘‘ و ہ روتی ہوئی ہاتھ جوڑ کر رشید البیلا کی کرسی کے سامنے بیٹھ گئی۔

 ’’ اچھا چھا۔ جا۔ اپنے بیٹے کو لے کر جا۔ ‘‘ رشید البیلا بولا۔

 انوری نے اپنے آ نسو پونچھے اور سلیم کو ساتھ لے کر چلی گئی۔ اس نے ان آنسوؤں کو بھی نہیں دیکھا جو ماں کی بے بسی پر بیٹے کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔

گدا گری کے خلاف حکومتی قوانین موجود تھے۔ میڈیا اور اخباروں کے لئے بھی ’’ گدا گری ‘‘ گرم موضوع تھا۔ ان حالات میں گدا گری کا اڈہ چلانا آسان نہیں تھا۔ لیکن اس میں پیسہ بہت تھا۔ اور پیسہ حاصل کر نے کے لئے رشید البیلا کو کئی چھوٹے بڑے منہ بند کرنے ہو تے۔

 انوری کھلی اور بند آنکھوں سے اپنے بیٹے کو معذور ہوتا ہوا دیکھنے لگی تھی۔ وہ دیکھتی سلیم لنگڑا، لولا، اپا ہج بنا کسی گدا گری کی گاڑی میں لیٹا یا کسی اڈے پر پڑا آتے جاتے لو گوں کے دلوں کے نرم گوشوں کو متاثر کر کے رشید البیلا کے لئے ’’ سونے کی چڑیا ‘‘ کا کام انجام دے رہا ہے۔ اور اس سب کے پیچھے اسے رحمت کی شرارتی شخصیت ہی نظر آ تی۔ رحمت جو رشید البیلا کے سخت احکامات کے باوجود انوری کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ انوری کے لاکھ دھتکارنے کے با وجود وہ کسی بھوکے کتے کی طرح اس پر جھپٹے ما رتا رہتا۔ انوری اسے دھتکارتی جا تی۔ لیکن اب حالات نے انوری کو بے بس کر دیا تھا۔ اور با لآ خر اس نے وہ کچھ کیا جو وہ ہر گز نہیں کر نا چاہتی تھی۔ ۔ اسی گناہ سے وہ زندگی گی بھر بچتی رہی تھی۔ اس سے بچنے کے لئے اس نے بڑے پا پڑ بیلے تھے بہت کچھ سہا تھا اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اتنے جتن سے محفوظ رکھا ہوا بدن اس طرح پا مال ہو گا۔ وہ بھی رحمت جیسے بھوکے بھیڑیئے کے ہاتھوں۔ رحمت نے قسم کھا کر اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سلیم کو معذور نہیں بننے دے گا۔ ۔ انوری ٹوٹ گئی۔ ۔ لیکن یہ ٹوٹنا اس کے بدن پر بھی ٹو ٹا۔ ۔ وہ دن بدن گھلتی جا رہی تھی۔

 سلیم معذور ہو نے سے محفوظ رہا۔ لیکن رشید البیلا نے رحمت کی ایک ٹانگ کٹواکر اسے شہر کی جامع مسجدکے باہر پلانٹ کر دیا تھا۔ رحمت نے اپنے منشی ہو نے،اپنے کرتا دھرتا ہو نے کے زعم میں رشید البیلا کے سخت ترین قانون کو نظر انداز کر نے کی غلطی کی تھی۔ ۔ یہ غلطی کب تک چھپی رہتی چنانچہ وہ اپنی سزا کو پہنچ گیا۔ رشید البیلا نے انوری کو بلا کر اس کے جرم کا اعتراف کر وا یا اور اس سے پوچھا کہ وہ خود بتائے کہ اس کو کیا سزا دی جائے۔ انوری رشید البیلا کے قدموں پر گر کر رونے لگی اور کہنے لگی۔

 ’’ رب سائیں نے تو مجھے پہلے ہی اس گھنا ؤ نے گناہ کی سزا دے دی ہے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ زندگی ختم ہونے کو ہے۔ ۔ تھوڑے ہی دنوں کی باقی ہے۔ ‘‘

رشید البیلا نے اسے ہلکی سی ایک ٹھوکر ماری اور بولا۔

 ’’ گناہگار تو میں بھی ہوں اورتو بھی ہے۔ کیونکہ بھیک مانگنے کو پیشہ بنانا بھی اللہ سائیں کے نز دیک گناہِ کبیرہ ہے۔ رب سائیں تجھے بھی معاف کرے اور مجھے بھی معاف کرے۔ اس کی رحمت بہت بڑی ہے۔ لیکن تو نے جو گناہ کیا ہے وہ نا قابلِ معافی گنا ہ ہے۔ تجھے اللہ سائیں نے سزا بھی دے دی ہے۔ اب تو جانے اور ربِّ کریم جانے۔ میں تجھے اس کے سپرد کرتا ہوں۔ اب دفع ہو جا۔ میری نماز کا وقت ہو رہا ہے۔

 انوری کا بہت علاج ہوا، بہت دوا دارو کی گئی مگر مرض کا پتہ نہ چل سکا۔ ۔ اور پھر ایک دن سلیم اپنی محبت کر نے وا لی ماں سے محروم ہو گیا۔

 اب سلیم بڑا ہو چکا تھا اور پکا بھکا ری بن چکا تھا۔ وہ دن بھر بھیک مانگتا، مارا مارا پھرتا۔ واپسی میں کسی سستے سے ہو ٹل میں کھانا کھاتا۔ گھر آ کر اپنی ماں کو یاد کرتا ہوا سو جا تا۔

 ’’ کیا یہاں کوئی مزار ہے جہاں عرس ہو رہا ہے۔ ؟ ‘‘

آواز پر اس نے چونک کر دیکھا۔

دبلی پتلی نازک سی لڑکی۔ ۔ گورا رنگ، کاجل بھری بڑی بڑی روشن آنکھیں، گھاگرا اور چولی پہنے ہوئے،بڑا سا ڈوپٹہ لپیٹے۔ ۔ کچھ پریشان پریشان سی اس کے برابر کھڑی تھی۔

دن ڈھلنے کو تھا، سو رج اپنا سفر ختم کر رہا تھا، رات آئی آئی تھی۔ ایسے سمے کسی جوان لڑکی کا ایسی ویران جگہ آ پہنچنا سلیم کے لئے نا قا بلِ یقین تھا۔ اسنے اپنی آنکھیں ملیں اور لڑکی پر ایک اور نظر ڈالی۔ یہ دوسری نظر تو قیامت ڈھا گئی۔ سلیم کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کائنات کے آغاز سے ہی وہ لڑکی اس جگہ کھڑی ہے اور شا ید سلیم کا انتظار کر رہی ہے۔

 ’’ہاں ! با با زندہ ولی کا مزار ہے یہاں سے تھوڑی دور۔ لیکن اتنی شام کو تجھے مزار پر جانے کیا ضرورت پڑ گئی جو رستے سے بھٹک کر ادھر اُدھر پھر رہی ہے۔ ‘‘ سلیم نے لڑکی سے استفسار کیا۔

لڑکی نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنے دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگی۔

 ’’کیا تو راستہ بھول گئی ہے۔ ‘‘ سلیم نے اس سے دوبارہ پو چھا

 ’’ ہاں۔ ہم پنجاب سے آئے ہیں مزار کے پا س ہما را ڈیرہ ہے۔ ‘‘ لڑ کی نے جواب دیا۔

 ’’ چل میں تجھے چھوڑ دیتا ہوں۔ اتنی رات تو اکیلے کیسے جائے گی۔ ‘‘ سلیم نے کہا۔

 ’’ لڑکی پیچھے ہٹی اور سر سے پیر تک اسے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی‘‘

 ’’ ڈر مت ! میں تجھے بحفاظت ڈیرے تک پہنچا دوں گا۔ میرے پیچھے پیچھے چلی آ ‘‘ سلیم نے ایک مر تبہ پھر سر سے پیر تک اس لڑکی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا اور خو د تیز تیز چلنے لگا۔

تھوڑی دور چل کر سلیم نے پیچھے مڑ کر دیکھا لڑکی کافی پیچھے تھی۔ وہ رک گیا۔ لڑکی اس کے قریب آ گئی۔ شاید لڑکی نے سلیم کے قریب آ نے کی ہمت جٹا لی تھی یا پھر شاید اس کا اعتماد سلیم پر بڑھ گیا تھا۔

 ’’تیرا نام کیا ہے۔ ؟ ‘‘ سلیم نے لڑکی سے پو چھا۔

 ’’ شبنم۔ ۔ اور تیرا۔ ‘‘ لڑ کی نے سلیم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔

سلیم نے دیکھا لڑکی کی آنکھیں بے انتہا خوبصورت اور بڑی بڑی تھیں۔ اس کے کانوں میں لڑکی کی آواز آئی۔

 ’’ سلیم۔ ‘‘ وہ بولا اور پھر چلنے لگا۔

اس کے بعد تمام راستے دونوں بات کرتے رہے۔ لڑکی زیادہ بول رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لڑکی کا ڈر با لکل ختم ہو گیا تھا۔ ’’کہتے ہیں کہ عرس میں بہت لوگ آ تے ہیں، بہت خیرات ملتی ہے۔ لڑکی معصومیت سے پوچھنے لگی۔

 ’’ ہاں یہ بات تو صحیح ہے۔ ‘‘ سلیم نے جواب دیا۔ کچھ دور دونوں اسی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ جیسے ہی ایک چھوٹی سی چٹان سے مڑ کر اونچی سی منڈیر پر چڑھے تو شام کے دھندلکوں میں ایک جانب دھوئیں کے مرغولے آسما ن کی طرف جاتے نظر آئے۔ ایسے مقامات پر دھواں ہی آبادی کی نشاندہی کرتا ہے۔ لڑکی نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھاڑ کر خوشی سے کہا

 ’’ وہ رہا ہما را ڈیرہ۔ ‘‘ کچھ ہی دیر بعد دونوں ڈیرے کے قریب پہنچ گئے۔ سلیم ایک جگہ کھڑا رہ گیا، شبنم تیز تیز ڈیرے کی طرف بڑھ گئی۔ اپنی جھونپڑی کے واپسی کے سارے راستے سلیم شبنم کے متعلق سو چتا رہا۔

 دوسرے دن سلیم کی زندگی کے معمولات میں وہ جہاں بھی رہا اور جو کچھ بھی کرتا رہا کل والی لڑکی کی پرچھائیں سی اس کے آس پاس موجود رہی۔ اور خاص طور پراس لڑکی کی بڑی بڑی روشن آنکھیں۔ شام کے وقت جب وہ اپنی جھگی کی طرف لوٹ رہا تھا تو اسے شبنم نظر آئی شبنم کا نظر آ نا اس کے لئے خلا فِ توقع تھا اس کو ایسا لگا جیسے کوئی قیمتی چیز جو گم ہو گئی تھی مل گئی۔ شبنم سلیم کو دیکھ کر خود اس کے پاس آئی اور ہنستے ہوئے بولی ’’ آج میں راستہ نہیں بھولی ہوں۔ تجھ سے ملنے آئی ہوں۔ ‘‘

 وہ دونوں اسی اکناف میں بھٹکتے سے پھرے، شبنم مسلسل بولتی رہی اور سلیم سنتا رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ شبنم اپنی پوری زندگی کی روئیداد سلیم کو سنا دینا چاہتی ہے۔ شام تیزی سے رات کی طرف جانے لگی۔ شبنم کو اس کا احساس بھی نہیں ہوا۔ سلیم نے شبنم کو یہ احساس دلا یا اور بولا۔

 ’’ اب تو اپنے ڈیرے جا۔ رات آ پڑی ہے۔ ‘‘

شبنم کو جیسے احساس ہو گیا وہ جانے کے لئے کھڑی ہو گئی۔ جاتے جاتے اس نے سلیم کو مڑ کر دیکھا۔ سلیم بت بنا اپنی جگہ کھڑ اس کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

 ’’ کل شام اسی وقت، اسی جگہ۔ ‘‘ شبنم کی آواز سلیم کے کانوں تک پہنچی۔

 اب تو ان کا روز کا معمول یہ ہو گیا تھا کہ دونوں مزار پر ملتے اور ایسی جگہ بیٹھتے جہاں لوگوں کی نظروں میں آنے کا کم سے کم امکان ہو تا۔ دیر تک آ پس میں باتیں کر تے۔ کیا باتیں کرتے یہ ان سے پوچھا جاتا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو سکتا تھا۔ کبھی وہ کھانے کیلئے کچھ لیتا آتا اور دونوں ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ واپسی میں سلیم اپنی جھونپڑی میں آ کر لیٹ جاتا اور اس کا خیال کرتا ہوا سو جاتا۔ سلیم ماں کے جانے کے بعد بالکل تنہا ہو گیا تھا۔ شبنم کے آ نے سے اس کی زندگی میں رونق سی آ گئی تھی۔

ایک دن شبنم اس سے ملنے آئی تو اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ سلیم نے دیکھتے ہی اس تبدیلی کو محسوس کر لیا اور پوچھا۔

 ’’ کیا بات ہے شبنم ! آج ڈیرے میں ایسی ویسی بات ہو گئی جس کا خیال تو دل سے نکال نہیں پا رہی ہے۔

 ’’ چار دن بعد ہمارا یہاں سے کوچ ہے۔ ‘‘ شبنم اداس لہجے میں بولی۔

 ’’ با با نے یہ بھی تو بتا یا ہو گا کہ ڈیرے کو یہاں سے بڑھا کر کہاں لے جائیں گے۔ ‘‘ سلیم نے پو چھا

 ’’ پنجاب ہی واپسی ہو سکتی ہے زیادہ امکان ملتان کا ہے۔ ‘‘ میں نے ٹھیک سے سنا نہیں۔

 ’’ سلیم میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ‘‘ شبنم روتے ہوئے بولی

 ’’میں بھی تیرے بنا نہیں رہ سکتا۔ تجھے پتہ ہے تیرے جانے کے بعد سے ہی میں تیرا انتظار شروع کر دیتا ہوں۔ میں تجھے نہیں جانے دوں گا۔ سلیم نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا۔

 ’’ وہ کیسے ! ‘‘۔ اسنے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

 ’’ وہ ایسے کہ میں کل ڈیر ے پر آؤں گا اور تیر ے با با سے تجھے مانگ لوں گا۔ ‘‘

 ’’ سچ ‘‘ وہ خوشی سے اچھل پڑی۔ بھر بو لی ’’ تو سچ کہہ رہا ہے تو ڈیرے پر آئے گا۔ ‘‘

دوسرے دن سلیم رشید البیلا کے اڈے سے سیدھا شبنم کے ڈیرے پر پہنچا اس کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگنے۔

شبنم مزار کے پاس کھڑی اس کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کو دیکھ کر اس کی طرف آئی اور بولی ’’ کیا کہا با با نے ‘‘

 ’’ ایک ہزار مانگے ہیں اور ایک مہینے کا وقت دیا ہے۔ ‘‘ سلیم بولا

 ’’ تو کیا با با میرا سودا کر رہا ہے۔ ؟ ‘‘ شبنم غصے سے بولی

 ’’ نہیں ! شاید وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میں تجھے خوش رکھ سکتا ہوں یا نہیں ‘‘۔

 ’’ مگر ڈیرہ تو چار دن کے بعد جا رہا ہے تجھے ایک مہینے کا وقت کیسے دیا ہے۔ ‘‘

 ’’تیرے بابا نے مجھے پتہ دیا ہے۔ ‘‘ اس نے کاغذ دکھاتے ہوئے کہا۔

 ’’ میں ایک ایک پل تیرا انتظار کروں گی۔ ‘‘ اس کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

 شبنم پہلی بار اپنے با با کے سامنے جاتے ہوئے شر ما رہی تھی۔ با با ہی اس کا سب کچھ تھا۔ ماں کے مرنے کے بعد اس نے شادی نہیں کی تھی۔ با با کو اکیلا دیکھ کر اس نے کچھ کہنا چا ہا تو با با اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا

 ’’ تجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے وہ سلیم چھورے نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ دیکھ بیٹا میری بات سن لڑ کا مجھے اچھا معلوم ہو تا ہے لیکن وہ ہماری برادری کا نہیں ہے۔ ہم پہلے بنجارے ہیں بعد میں گدا گر۔ سلیم اور اس کے لوگ شہر کے رہنے والے ہیں اور ایک ہی ٹھکانے والے ہیں ان کا ہما را کیا جوڑ۔ ‘‘

اتنا سنتے ہی شبنم نے رونا شروع کر دیا اور تھوڑے ہی دیر میں سسکیاں لینے لگی۔ با با نے ٹھوڑی پکڑ کر اس چہرے کو اوپر اٹھا یا اور بولا

 ’’ میں نے یہ کب کہا کہ میں تم دونوں کو ایک نہیں ہو نے دوں گا۔ جا ! اسے بتا دے جیسا میں نے کہا ہے ویسے ہی کرے۔ مگر یاد رکھ اپنی لاج کی حفاظت کرنا۔ ‘‘

 ’’ دوسرے دن وہ سلیم سے ملنے گئی اوراس نے اپنی اور با با کے ساتھ جو بھی بات ہوئی تھی وہ سب بتا دی۔ وہ بہت خوش تھی۔

’’ ایک مہینے میں ایک ہزار میں کیسے جمع کر پاؤں گا۔ ۔ اگر رشید البیلا کو کم دوں گا تو وہ مجھ پر شک کر نے لگے گا۔ ‘‘ وہ فکرمند تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا کرے۔ ۔

 سلیم دن میں بھیک مانگ کر پیسے رشید البیلا کو دیتا۔ جو پیسے رشید البیلا اسے دیتا اس میں سے بھی زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کرتا اور رات کو بہت کم سوتا، رونق والے اڈوں پر اپنے آپ کو چھپا کر بھیک مانگتا۔ ۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہیں رشید البیلا کو اس کی خبر نہ ہو جائے۔

 ایک مہینے میں ابھی چار دن باقی تھے۔ اس نے چٹائی کے نیچے ز مین میں گاڑے ہوئے ڈبے کو کھود کر نکالا۔ اور پیسے گننے لگا۔

 ’’ ایک ہزار چھ۔ ‘‘ ‘ وہ خوشی سے اچھل پڑا۔ پیسے ڈبے میں ڈال کر اس کو اچھی طرح بند کیا اور گڈھے میں دبا کر اوپر سے چٹائی بچھا دی۔ اس دن وہ ر شید البیلا کو اپنی دن بھر کی کمائی دینے کے بعد بولا۔

 ’’ دادا ! دو دن کی چھٹی چاہئے۔ ‘‘

 ’’ دو دن کی کمائی کا کیا ہو گا۔ ‘‘ ر شید البیلا بولا

 ’’ میں پوری کر دوں گا۔ ‘‘ سلیم بولا۔

 رشید البیلا جانتا تھا سلیم کے لئے یہ مشکل کام نہیں ہے۔ اس نے چھٹی دے دی۔

دوسرے دن اس نے ٹرین پکڑی اور شبنم کے باپ کے دیئے ہوئے پتے پر روانہ ہو گیا۔ راستے بھر وہ شبنم کے ساتھ زندگی گزارنے کے خوبصورت سپنے دیکھتا رہا۔ اسٹیشن پر اتر کر وہ بتائے ہوئے پتے پر خانہ بدوشوں کے ڈیرے کی طرف چلا۔ وہاں تو میدان خالی تھا البتہ ڈیروں کے اکھاڑنے کے نشانات جگہ جگہ موجود تھے۔

 ’’ ابھی تو شبنم کے باپ کی دی ہوئی تاریخ کے مطابق دو دن باقی ہیں۔ شاید میں غلط جگہ آ گیا ہوں۔ ‘‘ اس نے سوچا۔ سامنے اسے ایک دھابہ نظر آیا اور اس کے ساتھ پان کی دکان۔ وہاں جا کر معلوم کیا ’’ پتہ تو صحیح ہے۔ کل ہی ان لوگوں نے یہاں سے ڈیرے اٹھائے ہیں۔ ‘‘ پان کی دکان کے مالک نے کہا۔

 ’’ کہاں گئے ہیں کچھ معلوم ہے۔ ‘‘ سلیم نے پو چھا۔

 ’’ یہ تو آزاد پنچھی ہیں آج یہاں توکل وہاں۔ دکان کا مالک ہنستے ہوئے بولا۔ کل ان کے ڈیرے پر ایک لڑکی کی شادی بھی ہوئی تھی صبح شادی ہوئی دو پہر تک سب چلے گئے۔

وہ اجڑے ہوئے میدان کی طرف چلا، اس کی دنیا اجڑ چکی تھی، اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ اس نے تھیلی میں رکھے ہوئے سارے پیسے ہوا میں اڑا دیئے۔ اور خود زمین پر بیٹھ کر زور زور سے رونے لگا۔

  اچانک اپنے کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کر کے وہ پلٹا، دیکھا تو شبنم کھڑی تھی۔ وہ روتے ہوئے بولی ’’ ہمیں جلد از جلد ایسی جگہ چلنا چاہئے جہاں وہ ہمیں ڈھونڈ نہ سکیں۔ پھر بو لی تجھ سے تو ایک ہزار کا معاملہ طے کیا تھا۔ با ہر سے آ کر ایک آدمی نے بابا کو پانچ ہزار دیئے تو با با نے فوراً میری شادی اس سے کر دی اور خود ڈیرے سمیت کہیں اور چلا گیا۔ ۔ مجھے بھی نہیں بتا یا۔ ۔ میں اس آدمی کے پاس سے بھاگ کر آئی ہو ں۔ مجھے یقین تھا تو ضرور آئے گا۔ ‘‘ شبنم ایک ہی سانس میں جلدی جلدی بول گئی۔

 ’’ وہ آدمی جس سے تیرے با با نے پیسے لئے وہ اور اس کے آدمی تجھے تلاش کر رہے ہوں گے۔ ‘‘ سلیم نے کہا۔

 ’’ ہاں ! اور اگر با با کو پتہ چل گیا ہو گا تو اس کے آدمی بھی مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ ‘‘ شبنم بولی۔

 ’’ اور اگر میں دو دن میں واپس نہیں پہنچا تو تو رشید البیلا کے لوگ میری تلاش شروع کر دیں گے۔ اور شاید پولِیس بھی۔ ۔ ۔ ۔ سلیم کو خود اپنی آواز دور سے آ تی ہوئی محسوس ہوئی۔

 اس نے جلدی جلدی بکھرے ہوئے پیسوں کو سمیٹا اور شبنم کو ساتھ لے کروہ ایک سمت چل پڑا۔ شبنم نے اپنے آپ کو ایک بڑی سی رلّی میں لپیٹا ہوا تھا۔ اور ہاتھ میں ایک لاٹھی سی تھی اور اس طرح چل رہی تھی جیسے بوڑھی ہو۔ سلیم بس کے اڈّے اور اسٹیشن کا رخ بھی نہیں کر نا چاہتا تھا۔ وہاں ان دونوں کا پکڑا جانا یقینی تھا۔

 رات بھر وہ دونوں چلتے رہے۔ صبح کی روشنی کی پہلی کرن کے ساتھ وہ ایک چٹان کے سہارے گھنی جھاڑیوں کے در میان چھپ کر بیٹھ گئے۔ دن میں وہ چھپتے چھپاتے رہتے۔ ۔ اور رات بھر چلتے رہتے۔ ۔ ۔

شاید آج بھی چل رہے ہوں گے۔

٭٭٭


 

 

شہناز خانم عابدی ایک تخلیق کار

 

جوگندر پال

(دہلی)

 

 

شہناز خانم عابدی کو پڑھتے ہوئے اکثر معلوم ہو تا ہے۔ گویا اسے آپ ہی آپ بنی بنائی کہانیاں سوجھ جاتی ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہو تا ہو گا۔ لکھنے سے پہلے اسے بھی ہم سب کی ما نند بہت سوچنا ہو تا ہو گا اور کہانی کے فطری بہاؤ کا اہتمام کر پا نے کے لئے بہت رک رک کر لکھنا ہو تا ہو گا۔ لکھی ہوئی رواں دواں کہانیاں اکثر ( قیام ) کی کیفیات سے عا ری ہو تی ہیں۔ ’’ خواب کا رشتہ ‘‘ ہی کو لے لیجئے اس کے مطالعے سے قاری کو طبعزاد معانی کی ٹٹول ہو نے لگتی ہے۔ اور یوں گویا اس نے بھی کہانی کی تخلیق میں اپنی ساجھے داری نبھائی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ شہناز خانم عابدی اپنی اس نمایاں خوبی کی بدولت اردو کہانی میں ایک اہم رول ادا کے گی۔

 شہناز خانم عابدی کے فن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مانو وقوعہ اس کے یہاں کہانی شروع کر نے سے پہلے ہی انجام پا چکا ہو تا ہے۔ مگر نہیں۔ اسے بھی سبھوں کی ما نند موزوں وقوعوں کی تلاش میں بہت دقت کا سامنا رہتا ہو گا۔ تا ہم اپنی یہ دقت ایک چھے فنکار کی طرح وہ اپنے قاری تک نہیں پہونچنے دیتی جو دلچسپ مطالعہ کی تیز روی میں کہانی کے اختتام سے پہلے کہیں دم نہیں لیتا۔

 رائٹر اگر اوریجنل ہو تو اپنی اوریجنیلٹی سے بہ حسن و خوبی نمٹ پانے کے لئے اسے بہت زیادہ اور لگا تار محنت اور زندگی کے مطالعہ سے کام لینا ہو تا ہے۔ خانم کی مو جو دہ تخلیقی بے چینیاں اس امر کی شاہد ہیں کہ اس کے شوق اور شدت میں اضافہ ہو تا چلا جائے گا۔ اور یوں وہ اپنی فکشن کی تخلیق کے اسباب تا دمِ آ خر بنائے رکھے گی۔ کسی مصنف کے اوائل کی اچھی تحریریں اس تاثر کے باعث قابلِ اعتنا ہو تی ہیں کہ وہ اواخر تک آتے آتے ڈھیروں اور بھی اچھا لکھے گا۔ شہناز خانم عابدی سے بھی ایسی توقعات باندھنا عین فطری معلوم ہو تا ہے۔ تخلیقی انہماک بڑا جان لیوا ہو تا ہے۔ خدا کر ے اس کے انہماک میں انحطاط واقع نہ ہو۔

 اردو کہانی کا یہ باب یقیناً حوصلہ افزا ہے کہ ہما رے بعض لکھنے والے برِ صغیر کے با ہر بسے ہوئے ہیں اور یوں بھی ہماری کہانی کے وقوعی اور فکری اسباب میں وسعت پیدا ہو رہی ہے خانم اور چند دیگر لکھنے والے اس تعلق سے بھی ہمارے افسانوی اسکوپ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ نئے ادب کی زندگی پر بھر پور نظر رکھے بغیر بھی چا رہ نہیں ہے خانم کے وقوعی اسباب میں ان امکانات کا بھر پور اسکوپ مو جود ہے۔

طبعزاد کہانیاں زندگی کرنے کے باب سے بھی زیادہ کٹھن اور محنت طلب ہو تی ہیں شہناز خانم عابدی کی موجودہ تخلیقی شر کتیں گواہی دیتی ہیں کوہ اول بھی تخلیق کار ہے اور آخر بھی۔ خدا اسے لکھنے کی صعو بت سے عہدہ بر آ ہو پا نے کے ذرائع اور ہمت عطا کرتا رہے۔

٭٭٭


 

خواب کا رشتہ

 

حیدر قریشی

(جرمنی)

 

 شہناز خانم عابدی ایک عرصہ سے کہانیاں لکھ رہی ہیں،وہ کہانیاں چپ چاپ ادبی رسالوں میں چھپ جا تی ہیں۔ پبلک ریلشننگ کا کوئی ہنگامہ کیے بغیر ادب کی خاموش خدمت گار کی طرح شہناز خانم عابدی نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ ’’خواب کا رشتہ‘‘ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے،اس میں سترہ افسانے شامل ہیں۔ افسانہ ’’خواب کا رشتہ‘‘ جس کے نام پر کتاب کا نام بھی رکھا گیا ہے بلا شبہ حاصلِ کتاب ہے۔

 اس مجموعہ کا پیش لفظ شہناز خانم عابدی نے خود لکھا ہے۔ افسانوں کے مطالعہ کے بعد ان کے پیش لفظ کے بیشتر مندرجات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر ان کے ان آخری الفاظ سے: ’’میرا افسانہ اآج کا افسانہ ہے لیکن ’آج‘ میں ’کل‘ شامل ہے جو بیک وقت دیروز بھی ہے اور فردا بھی۔ ‘‘

 فلیپ پر انتظار حسین اور جوگندر پال کے تاثرات درج ہیں،جنہیں شہناز خانم کے فن کے اعتراف کے طور پر شمار کیا جانا چاہیے۔ ا فسانہ نگار کی حیثیت سے شہناز خانم عابدی کی پہچان قائم کرنے میں ان کا یہ مجموعہ بنیادی کردار ادا کرے گا اور افسانے کے قارئین کوان کے فن افسانہ نگاری کے مزید امکانات بھی دیکھنے کے مواقع نصیب ہوں گے۔ امید ہے اس افسانوی مجموعہ کی بھر پور پذیرائی ہو گی۔

٭٭٭


 

 

خواب کا رشتہ

 

رئیس فاطمہ

(کراچی)

 

 اچھی کتابیں نہ صرف اپنے مصنف کے لئے احترام اور وقار کے جذبات پڑھنے والے کے دل میں پیدا کر تی ہیں بلکہ وہ اپنے معاشرے میں بھی کتاب کے مثبت کر دار پر یقین رکھنے والوں کے حلقہ میں اضافہ کر نے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس لئے کہ ایک اچھی کتاب تازہ ہوا کے جھو نکے کی طرح ہو تی ہے۔ کہ جس کے پاس سے گزرتی ہے اسے تازگی عطا کر تی چلی جا تی ہے۔ اس وقت میرے پیشِ نظر ایسی ہی ایک اچھی کتاب ہے۔، جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہیکہ افسانوی ادب کے خاندان میں ایک نئی کتاب کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ کتاب ہے ’’خواب کا رشتہ ‘‘ جو سترہ افسانوں پہ مشتمل ہے اس کتاب کی پہلی خاص بات یہ ہے کہ اس کا پیش لفظ جو مصنفہ نے لکھا ہے۔ وہ ان کے اپنے فن پر اعتماد کا مظہر ہے۔ حالانکہ یہ ان کا پہلا مجموعہ ہے لیکن اس کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ محترمہ کے اس سے پہلے بھی کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور یہ ان مجموعوں سے پہلا انتخاب ہے۔ کہتی ہیں :

 ’’ میرے اس پہلے افسانوی انتخاب میں میرے ذہن و دل کا ایک جہانِ حسی و معنوی تمام تر تنوع کے ساتھ آپ کا منتظر ہے۔ ‘‘

میں نے شہناز خانم عابدی کے تمام افسانے پڑھے اور مجھے ان میں ’’ خواب کا رشتہ ‘‘ ’’ عورت ‘‘ اور ’’۔ سیٹھ ‘‘ بطورِ خاص اچھے لگے۔ محترمہ کو زباں و بیاں پر عبور حاصل ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انہوں نے اپنے افسانوں کو علامتوں کے چنگل اور بھول بھلیوں سے بچا یا۔ جن میں گم ہو کر اردو افسانے کا عام اور کہانی پن تلاش کر نے والا قا ری کچھ عرصہ پہلے کہیں کھو گیا تھا۔ لیکن بعد کے لکھنے والوں نے کہانی کو باز یافت کیا اور قاری کو واپس کتاب سے رشتہ جوڑنے کی طرف مائل کیا۔ بات اصل میں وہی ہے کہ اگر لکھنے والے کے پاس کوئی بات ہے، کوئی خیال ہے، یا کوئی فکر ہے تو وہ جب کچھ لکھے گا تو اس کا ا ظہار ضرور ہو گا۔ اس کی بات میں اگر گہرائی ہے تو وہ اپنے قا ری کے ذہن میں اپنی جگہ خود بہ خود بنا لے گی اور اس کے دل کو متاثر کر کے رہے گی لیکن اگر کہنے والے کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے تو اس کی بات خالی جائے گی چاہے وہ اس کو بیان کر نے کے لئے کتنا ہی عا لما نہ یا فلسفیانہ انداز اختیار کر لے۔ کہانی کا مسئلہ تو ویسے بھی یہ ہے کہ اگر اچھی ہے تو اچھے شعر کی طرح دل پر اثر کرتی ہے۔

 شہناز خانم عابدی ذہنِ رسا کی ما لک ہیں اور ان کے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر لگتا ہے کہ انہیں افسانے لکھنے کے لئے بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی ہو گی۔ اس لئے کہ اپنے موضوع اور بیان پر انہیں پوری قدرت حا صل ہے۔ افسا نے ان کے پاس ڈھلے ڈھلائے آ تے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے وہ فن پر بہت محنت کر تی ہوں اور پوری ریاضت کے بعد قلم اٹھا تی ہوں لیکن یہ ساری محنت اور ریاضت پس منظر میں رہتی ہے۔ اظہار کی سطح پر تو ہمیں صاف ستھرا اور ڈھلا ڈھلا یا افسانہ نظر آتا ہے۔ جو فنکار اور اس کے فن کی کامیابی اور مہا رت کا ثبوت ہو تا ہے۔

 جہاں تک زبان و بیان کا تعلق ہے۔ وہ بہت خوب ہے۔ سادہ اور آسان زبان ایک بڑی خوبی ہے جو شہناز خانم عابدی کے ہاں مو جود ہے ان کے افسانے ہماری روز مرہ زندگی میں ہو نے والے حادثات اور واقعات کا احاطہ کرتے ہیں جیسے ’’ سیٹھ ‘‘، ’’ رانی ‘‘، ’’ بدا کرنا جو تھا ‘‘ وغیرہ۔ اسی طرح چونکہ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں اس لئے وہاں کے پس منظر میں بھی نہایت خو بی سے کہانیاں لکھیں، جیسے ’’نیا گرا ‘‘ اور ’’ جنجال ‘‘ وغیرہ۔ شہناز خانم کے افسانوں میں سما جی رنگ کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حد تک مقصد یت بھی نظر آ تی ہے۔ لیکن مقصدیت ان کے افسانوں کو سماج سدھار تقریر یا اصلاحی بیان نہیں بنا تی۔ اصل میں شہناز خانم عابدی کسی نظرئیے کی علمبردار یا کسی اصلا حی تحریک کی نمائندہ نہیں ہیں۔ انہیں تو انسانوں اور ان کے مسائل سے سروکار ہے۔ اس لئے وہ اپنے افسانوں میں اپنی مقصدیت کو اس طرح پیشِ نظر نہیں رکھتیں کہ فن ہی قربان ہو جائے۔ اور صرف مقصد ہی مقصد رہ جائے۔

مقصد ان کے ہاں سطح پر نہیں ہو تا بین السطورمیں ہو تا ہے گویا کونین کی گولی کو شکر میں لپیٹ دیا ہو۔ شہناز خانم کہا نی کہنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ ان کی کہانیوں میں دل چسپی بھی ہے اور جاذ بیت بھی۔

 خدا ان کے قلم کو اور طاقت دے۔ آمین

٭٭٭


 

 

 

 

 

’’نئی اردو نظم۔ رجحانات و امکانات ‘‘ کے موضوع پر سمینار

 

رپورٹ:ندیم احمد

(اسسٹنٹ پروفیسرکلکتہ یونیورسٹی)

 

 ۱۲۔ ۱۳؍ مارچ ۲۰۱۴ء کو شعبۂ اردو کلکتہ یونی ورسٹی کی جانب سے ایک دو روزہ قومی سمینارکا انعقاد کیا گیا ہے۔ سمینار کا موضوع ’’نئی اردو نظم۔ رجحانات و امکانات ‘‘ تھا۔ سمینار کا افتتاح کلکتہ یونی ور سٹی کے ر جسٹرار پروفیسر باسب چودھری نے کیا۔ سمینار کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے شعبہ اردو کی صدر پروفیسر شہناز نبی نے کہا کہ نئی اردو نظم کی تعین قدر ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ لوگ نئے شاعروں پر بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ معاصر ادب سے اس بے توجہی کے نتیجے میں کئی جینوئن شعرا ابھی تک قارئین کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

 ضرورت اس بات کی ہے کے ۸۰ کے بعد قائم ہونے والے شاعروں پر بھی اسی طرح ڈسکورس قائم کیا جائے جس طرح۶۰ کے بعد والوں نے جدید اردو نظم کے حوالے سے کیا اور ان کا اختصاص قائم ہوا۔ مجھ امید ہے کے اس دو روزہ سمینار کے ذریعہ اس کمی کا کچھ ازالہ ممکن ہو سکے گا۔ دو روز تک چلنے والے اس سمینار میں نئی اردو نظم کے موضوعات اور تکنیک دونوں پر تشفی بخش گفتگو ہو گی۔ افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کلکتہ یونی ور سٹی کے ر جسٹرار پروفیسر باسب چودھری نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کے شعبہ اردو نے ایک معاصر موضوع پر سمینار منعقد کیا ہے۔ ورنہ لوگ اتنے تن آسان ہیں کہ زیادہ تر گھسے پٹے موضوع پر ہی گفتگو کرواتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ سمینار نئی اردو نظم کو سمجھنے میں ہماری معاونت کرے گا۔ مولانا مظہر الحق اردو،فارسی یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر توقیر عالم نے کہا کہ کلکتہ یونیورسٹی کا شعبۂ اردو بڑا فعال ہے اور اس سمینار کا موضوع اس کی جدید سوچ کا مظہر ہے۔ اس سمینار کے ذریعہ نئے مباحث قائم ہوں گے اور نئی نظم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر حسین الحق صاحب نے کہا کہ نئی اردو نظم پر اس سمینار میں جو گفتگو ہو گی اس کی اہمیت اس لئے بھی کچھ زیادہ ہے کہ یہاں بحث میں حصہ لینے والے لوگ جدید بھی ہیں اور جدید تر بھی۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر اظہار تشکر شعبہ کے استادپروفیسر ندیم احمد نے ادا کیا۔ دوسرے دن سمینار کے مختلف اکیڈمک سیشن میں ۱۵مقالے پیش کئے گئے۔ سمینار میں جن لوگ نے اپنے گراں قدر مقالے پیش کئے ان میں حسین الحق(گیا)شہناز نبی (کلکتہ ) توقیر عالم (مظفر پو ر)ندیم احمد(کلکتہ)شمیم انور (کلکتہ ) ارشد مسعود ہاشمی(کشن گنج)موصوف احمد(دھنباد)رام اہلاد چودھری(صدر شعبۂ ہندی،کلکتہ یونیورسٹی) الماس شیخ ّ(کلکتہ) شبینہ نشاط عمر(پروفیسر، انگریزی أملی الالمین کالج،کلکتہ)سوچریتا بندھوپادھیائے(بنگلہ پروفیسر،کلکتہ یونیورسٹی) وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کے ۸۰ کے بعد قائم ہونے والے شاعروں پر بھی اسی طرح ڈسکورس قائم کیا جائے جو۶۰ والوں کا اختصاص ہے۔ مجھ امید ہے کے اس دو روزہ سمینار کے ذریعہ اس کمی کا کچھ ازالہ ممکن ہو سکے گا۔ دو روز تک چلنے والے اس سمینار میں نئی اردو نظم کے موضوعات اور تکنیک دونوں پر تشفی بخش گفتگو ہو گی۔ افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کلکتہ یونی ور سٹی کے ر جسٹرار پروفیسر باسب چودھری نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کے شعبہ اردو نے ایک معاصر موضوع پر سمینار منعقد کیا ہے۔ ورنہ لوگ اتنے تن آسان ہیں کہ زیادہ تر گھسے پٹے موضوع پر ہی گفتگو کرواتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ سمینار نئی اردو نظم کو سمجھنے میں ہماری معاونت کرے گا۔ مولانا مظہر الحق اردو،فارسی یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر توقیر عالم نے کہا کہ یہ شعبہ بڑا فعال ہے اور یہ سمینار اس کی جدید سوچ کی مظہر ہے۔ اس سمینار کے ذریعہ نئے مباحث قائم ہوں گے اور نئی نظم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر حسین الحق صاحب نے کہا کہ نئی اردو نظم پر اس سمینار میں جو گفتگو ہو گی اس کی اہمیت اس لئے بھی کچھ زیادہ ہے کہ یہاں بحث میں حصہ لینے والے لوگ جدید بھی ہیں اور جدید تر بھی۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر اظہار تشکر شعبہ کے استادپروفیسر ندیم احمد نے ادا کیا۔ دوسرے دن سمینار کے مختلف اکیڈمک سیشن میں ۱۵مقالے پیش کئے گئے۔ سمینار میں جن لوگ نے اپنے گراں قدر مقالے پیش کئے ان میں حسین الحق(گیا)شہناز نبی (کلکتہ ) توقیر عالم (مظفر پو ر)ندیم احمد(کلکتہ)شمیم انور (کلکتہ ) ارشد مسعود ہاشمی(کشن گنج)موصوف احمد(دھنباد)رام اہلاد چودھری(کلکتہ) الماس شیخّ(کلکتہ)شبینہ نشاط عمر(کلکتہ)سوچوریتا(کلکتہ )وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

 پروفیسرشہناز نبی،پروفیسر ارشد مسعود ہاشمی اور پروفیسر ندیم احمد کے مقالے نہایت ہی بحث طلب تھے اور ان پر جم کر سوال و جواب ہوتے رہے۔ شہناز نبی نے نئی اردو نظم کے تعلق سے بہت سے سوالات اٹھائے۔ ارشد مسعود ہاشمی نے نئی اردو نظم اور فمینزم کے رویئے پر بات کی۔ پروفیسرندیم احمد نے شہناز نبی کی نظم نگاری پر پر مغز مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگلے پڑاؤ سے لے کر پسِ دیوار گریہ تک شعری اظہار کا ایک سیلاب ہے۔ اس سیلاب میں اگر مقبوضہ سر زمینوں کو سیراب کرنے کی امنگ ہے تو نئی نئی زمینوں کی تسخیر کی بے چینی بھی ہے۔ مقبوضہ علاقے پر قناعت کر کے محتاط شاعری تو کی جا سکتی ہے مگر اچھی شاعری تجربہ کوش ذہن اور پر شور تخلیقی توانائی کے بغیر ممکن نہیں۔ قناعت کرنے پر ارتقا رک جاتا ہے اور تازہ روی کی عدم موجودگی شاعر کے اسلوب کو لفظوں کی جامد منطق میں بدل دیتی ہے۔ شہناز نبی صاحبہ کو اس بات کا احساس ہے اس لئے فن کارانہ بے صبری اور ایک بے چین عجلت ان کے یہاں تخلیقی ارتقا کی شکل میں نمودار ہوئی ہے۔ احساس،وجدان اور اجتماعی لا شعور کو یہاں تخلیقی فکر نے کمک پہنچائی ہے اس لئے فن کار کی بے چینی یک سطحی نہیں بلکہ پیچیدہ اور بہت حد تک پر اسرار ہے۔ متکلم خود ان چیزوں کو سمجھ نہیں پارہا ہے جو اس کے تجربے میں آرہے ہیں۔ اپنے گرد گرد پھیلے ہوئے رشتوں اور جذبوں کی دنیا کو نہ سمجھ پانے کا ملال یہاں تقریباً المیاتی شدت اختیار کرگیا ہے۔ Alienationکا یہ احساس اپنے وجود کے اظہار میں منہمک ر ہ کر ممکن ہی نہیں اس لئے میں شہناز نبی کو ان شاعروں کے ساتھ نتھی کر کے نہیں پڑھ سکتاجن میں رومانی یکتائی کی کیفیت صاف نظر آتی ہے۔

 ہندی کے صدر شعبہ ڈاکٹر رام اہلاد چودھری نے اپنے مقالے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ کس طرح اردو زبان نئی ہندی شاعری کے لئے راہ ہموار کر رہی ہے اور اب ہندی اور اردو والوں کے درمیان جو دوری تھی وہ رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر سوچریتا بندھو پادھیائے نے نے بنگلہ زبان میں نئی اردو نظموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتا یا کہ نئی بنگلہ شاعری نئی نسل کی شاعری ہے۔ اس میں تہذیبی عناصر بالکل نئے ہیں۔ عشق کا اظہار انتہائی بے باکی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جملے مختصر اور ایک دوسرے میں کبھی پیوست اور کبھی آزاد ہیں۔ شبینہ نشاط عمر نے ایک فلسطینی شاعرہ کی شاعری سے بحث کرتے ہوئے انگریزی زبان میں نئے تجربوں پر روشنی ڈالی اور موضوعات کے تنوع کے بارے میں بتایا۔ علاوہ ازیں مختلف زبانوں کے پروفیسروں مثلاً پروفیسر بسواناتھ رائے( بنگلہ) پروفیسر امر ناتھ شرما(ہندی) اور پروفیسر سنجنی بندھوپادھیائے ( انگریزی) کی صدارت نے مختلف اجلاس کو وزن و وقار بخشا اور اس سیمینار کے پہلے اور دوسرے سیشن میں ہی اردو، انگریزی، ہندی اور بنگالی زبان میں لکھی گئیں نئی نظموں پر گفتگو کی وجہ سے تقابلی جائزے کی کیفیت پیدا ہو گئی جس نے باقی اجلاس کو بھی منور رکھا۔ سیمنار میں ایک سیشن ’ نظم خوانی‘ کا بھی تھا جس میں اردو کے طلبا و طالبات نیز ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کے اسکالروں نے مشہور شعرا کی نظموں کی قرات پیش کی۔ آخری سیشن ’نظمیہ مشاعرہ ‘ کے لئے مختص کیا گیا تھا جس میں نظم گو شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔ نہایت خیر و خوبی کے ساتھ یہ جلسہ ۱۳ مارچ ۲۰۱۴ء کی شام کو اختتام پذیر ہوا۔

٭٭٭


 

 

 

افسانچے

 

ابن عاصی

(جھنگ)

 

نامعلوم افراد کی معلوم کہانی

 

مقامی تھانے کے ایس ایچ او نے چوک میں چاروں طرف بکھری ہوئی لاشوں کا معائنہ کرنے کے بعد وہاں جمع لوگوں پر ایک نظر دوڑائی اور ذرا اونچی آواز میں پوچھا،تم میں سے کوئی اس واقعے کا عینی شاہد ہے؟

اگلی لائن میں کھڑا ایک بزرگ صورت شخص آگے بڑھا اور بولا۔

 ہاں،میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

ایس ایچ او نے اس کو سر سے پاؤں تک گھورتے ہوئے طنزیہ سے انداز میں کہا،

،بزرگو !آپ گواہی دینا پسند فرمائیں گے؟

بزرگ صورت شخص نے نہایت اعتماد سے جواب دیا۔ ہاں۔ میں گواہی دوں گا

ایس ایچ او اس کا اعتماد اور لب و لہجہ دیکھ کر سنبھل کر بولا: جن موٹرسائیکل سواروں نے یہ گھناؤنی واردات کی ہے،کیا آپ ان کو پہچان سکتے ہیں ؟

بزرگ صورت شخص نے کہا: پہچاننے کی کیا بات کرتے ہیں آپ؟میں تو چھیاسٹھ سالوں سے ان کو جانتا ہوں

ایس ایچ او نے جلدی سے کہا :کون تھے وہ؟

بزرگ صورت شخص نے نہایت سنجیدگی سے کہا: وہ نامعلوم افراد تھے

٭٭٭

 

صدیوں سے لگی بھوک کی پہلی کہانی

 

 

 

خوبصورت نین نقش والی عورت کو اطاق کے اندر آتے دیکھ کر وڈیرے نے ایک بھرپور نظر اس پر ڈالی اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا

بابا !کیا بات ہے؟کیا چاہیے؟

عورت نے اس کی نظروں کی گرمی کو اپنے بدن پر رینگتے ہوئے محسوس کرتے ہوئے کہا

 ’’وڈیرہ سائیں !تھر سے آئی ہوں،بھوک لگی ہے‘‘

وڈیرے نے مونچھ کے ایک بال کو اپنے دانتوں میں چباتے ہوئے کہا

’’بابا ! بھوک تو مجھے بھی بہت لگی ہوئی ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

پانی والا

 

 

این جی او کی عورت نے اپنے سامنے کھڑے تھر کے لوگوں سے پوچھا

 ہماری این جی او آپ کے علاقے میں پانی کے لئے کچھ کنویں کھودنا چاہتی ہے کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ یہاں پانی نکالنے کے لئے زمین میں کتنے فٹ تک،بور،کرنا پڑتا ہے؟

ایک تھری مرد نے جواب دیا

 تقریباّ پانچ سو فٹ تک

این جی او کی عورت نے چونکتے ہوئے کہا

،پانچ سو فٹ تک۔ ؟اوہ۔ اس پرتو کافی لاگت آئے گی،

ایک بزرگ تھری نے اپنی لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا

 اسی لئے ہم بس چھ فٹ تک کی کھدائی کرتے ہیں

این جی او کی عورت نے حیرانی سے کہا

 چھ فٹ تک کی کھدائی۔ ؟کیا اس سے پانی مل جاتا ہے۔ ؟

اسی بزرگ تھری نے کہا

،پانی تو نہیں ملتا۔ ہاں، پانی والا،مل جاتا ہے

٭٭٭

 

 

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی تازہ تخلیق ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کے پس منظر میں پوپ کہانی کی کہانی

 

عقیل دانش

(لندن)

 

 

معروف شاعرہ، ادیبہ، افسانہ نگار اور ناقد ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی تازہ تخلیق ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ پوپ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ جس کی اشاعت نے اُردو میں پوپ کہانی کی اختراع کو ایک سنجیدہ بحث کی حیثیت سے آشنا کیا ہے۔ ہندی اور مغرب کے اثر سے اُردو نظم و نثر میں نئی نئی اصناف نے جنم لیا ہے۔ گزشتہ صدی کے شروع میں آزاد، معریٰ اور جدید نظم رسائل اور جرائد کی زینت بنی، مولانا عبدالحلیم شرر کا رسالہ ’’ دل گداز‘‘ اس ذیل میں اولیت کا حامل ہے۔ تصدق حسین خالد اور ن۔ م۔ راشد نے نظم کی اِس صنف کو ایک وقار عطا کیا اور اب کوئی رسالہ، کوئی جریدہ ایسا نہیں ہے جس میں اس طرح کی نظمیں موجود نہ ہوں۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہندی دوہے بھی مقبولِ خواص و عوام ہیں۔ کچھ دن انگریزی سانیٹ کے تراجم بھی رسائل کی زینت بنے لیکن اب اُن کی جگہ ہائیکو اور کچھ اور نئی اقسام نے لے لی ہے۔ حمایت علی شاعر کی ’’ثلاثی‘‘ نے بھی کچھ دن رنگ دکھا یا لیکن اب اس کا جلوہ خال خال ہی نظر آتا ہے۔ اُردو نثر میں مغرب اور مشرقِ بعید کے اثر سے مختصر نظمیں اور افسانچے در آئے۔ گزشتہ صدی کے اوائل میں انشائے لطیف اکثر رسائل کی زینت بنی۔ اِن رسائل میں ’’نقّاد‘‘ اور ’’نگار‘‘ کو بڑی اہمیت اور مقبولیت حاصل رہی۔ قاری کو چونکانے، نتیجے سے حظ اٹھانے کے نئے نئے اسلوب تراشے گئے۔ ’’دنیا کی مختصر کہانی ‘‘ آج بھی ہمارے ذہن میں محفوظ ہے۔

 ’’ٹرین میں سفر کرتے ہوئے ایک شخص نے دوسرے شخص سے پوچھا، آپ جِنّوں پر یقین رکھتے ہیں، دوسرا شخص دھواں بن کر کھڑکی سے غائب ہو گیا۔ ‘‘

گزشتہ چند سال میں اُردو کے معروف افسانہ نگار محترم مقصود الٰہی شیخ نے مختصر کہانیوں کو ’’پوپ کہانی‘‘ کے عنوان سے تخلیق کرنے کی روایت قائم کی جو انگریزی خصوصاً امریکی ادب میں پہلے ہی اپنا رنگ جما چکی تھی۔ پوپ موسیقی کی اصطلاح مختصر کہانیوں کے لئے استعمال کرنے کے عقب میں غالباً یہ خیال ہے کہ جس طرح کلاسیکی موسیقی کے مقابلے میں پوپ موسیقی ہلکی اور عام فہم ہوتی ہے اِس طرح پوپ کہانی بھی عام قاری کو اپنے تاثر کی گرفت میں لے گی۔ شیخ صاحب نے پوپ کہانی کی تعریف اس طرح کی ہے:

 ’’پوپ کہانی افسانہ، افسانچہ یا پارۂ لطیف سے جدا ہے۔ کچھ ہے تو اپنے گوناگوں موضوعات میں اچانک آمد پر قلم بند کرنے کا نام ہے۔ ‘‘

پوپ کہانی کی تعریف کی ذیل میں شیخ صاحب کی یہ تعریف تا حال تشنہ ہے۔ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے کلاسیکی موسیقی کے راگوں سے پوپ کہانی کو متّصل کرنے کی ایک تجویز پیش کی ہے۔ اس خیال میں ندرت ہے لیکن یہ بڑی پِتّا ماری اور جان کاہی کا کام ہے اور وہی شخص کر سکتا ہے جسے کلاسیکی موسیقی اور ادب کی تمام اصناف پر قدرت حاصل ہو۔ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں اس موضوع پر جو تفصیلی بحث کی ہے وہ پوپ کہانی کے ذیل میں بڑی خاصے کی چیز ہے۔ انھوں نے مغرب کے حوالے سے اُن مغربی قلم کاروں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جو سال ہا سال سے پوپ کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ اس ذیل میں انھوں نے معروف امریکی کہانی کار کنگ وینکلس(King Wenclas ) سے خط و کتابت کی اور اُس کی اجازت سے اس کی پوپ کہانیوں کے مجموعے ’’دس پوپ کہانیاں ‘‘ ( Ten Pop Stories ) سے دو کہانیاں ’’اُردوائیں ‘‘ جو ’’مشین‘‘ اور ’’سرخ دروازہ‘‘ کے عنوان سے ان کے مجموعے میں شامل ہیں۔ اپنے پیش لفظ میں رضیہ صاحبہ نے پوپ کہانی لکھنے کے چند نکات کی طرف اشارہ کیا ہے اور خود اِن اشاروں پر کاربند رہ کر پوپ کہانیاں لکھی ہیں۔

ہمارے خیال میں کہانی کی بُنت کوئی بھی ہو اور پیش کرنے کا انداز کچھ بھی ہو، مجموعی طور پر قاری پر اس کا گہرا تاثر ہونا چاہیے۔ ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘ کی تمام کہانیاں اس تاثر کی حامل ہیں۔ رضیہ صاحبہ کے عام موسیقی کے تاثر کی بات پر ہمیں اُن کی عام کہانیوں (ہمارے خیال میں پوپ کی بجائے ’’عام کہانی‘‘ زیادہ مقبول ہو گی) کے تاثر کا احساس ہوا۔ مثلاً جب ہم لتّا منگیشکر کو گاتا سنتے ہیں

 و٭٭ئ یہ شام کی تنہائیاں، ایسے میں تیرا غم

تو ایک خاص کیفیت میں ڈوب جاتے ہیں۔ سادہ سے الفاظ، اختصار اور لہجے نے یہ کیفیت پیدا کی ہے۔ بالکل اسی طرح ’’کہانی بول پڑتی ہے ‘‘ کی پاپ کہانیاں قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔ ان کہانیوں میں انسانی نفسیات کی خوب صورت تصویریں بھی ہیں اور درد کے شجر کی خنک ہوائیں بھی۔ ایشین ریڈیو پر تلفّظ کے قتلِ عام کا نوحہ بھی ہے اور مذہبی تشخّص کے خاتمے کا ماتم بھی ہے۔ انسانی رشتوں کی خوب صورتیوں اور بد صورتیوں کے عکس بھی ہیں اور بے وطنی کے کرب کا بیان بھی۔ غیر ملک میں مقامی افراد کے ہاتھوں بے عزتی کی جھلکیاں بھی ہیں اور نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کی چیرہ دستیوں کا اظہار بھی۔ آپ اِن خوب صورت کہانیوں کو کوئی بھی نام دے دیں، میں انھیں ’’دل کی کہانیاں ‘‘ کہتا ہوں اور اِس پُر تاثر تخلیق پر ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کو دلی مبارک باد دیتا ہوں۔

(۲۲؍فروری۲۰۱۴ء)

٭٭٭


 

 

 

 

پوپ کہانی ہی کیوں؟

 

امجد مرزا امجد

(انگلینڈ)

 

اس سے پہلے بریڈ فورڈ کے معروف کہانی کار محترم مقصود الہی شیخ کی پوپ کہانیوں پر میرا ایک مضمون شائع ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں میں ایک پرانے شناسا سے ناآشنا بن گیا۔ کیونکہ مجھے پہلا اعتراض یہ تھا کہ صنف اردو کی ہو اور نام انگریزی کا۔ کوئی جچتا نہیں۔ پھر مختصر کہانی کو صدیوں سے افسانچہ یا مختصر کہانی ہی کہا جاتا ہے ایسی کون سی نئی بات ہو گئی کہ اس کا نام ہی بدل دیا جائے۔ ہاں البتہ ایک نیا نام دے کر اپنا نام بلند کرنا ہو تو الگ بات ہے اور ادب میں ایسی رسم چل نکلی تو کل غزل،نظم،قطعات کے ساتھ اللہ جانے کیا حشر ہو گا۔ اور پھر پہلے یہ تو فیصلہ کر لیں کہ یہ نیا نام ’پوپ‘ ہے یا ’پاپ‘۔ ۔ ؟اور جو کہانیاں پوپ یا پاپ کے نام سے لکھی بھی گئیں ان میں کون سی ایسی انوکھی بات ہے جسے الگ سے نام دیا جائے۔ کہانی میں خوبصورت و دلچسپ ابتداء،کلائمکس اور انجام وہ بھی ایک نصیحت آموز ہو جو قارئین کے لئے اچھا پیغام ہو تو وہ مکمل کہانی ہوتی ہے۔ کوئی معمل بے مقصد خیال ذہن میں آنے پر اسے قلمبند کر لینے سے ’پاپ‘ تو ہوسکتا ہے ’پوپ‘ کہانی نہیں بن جاتی۔ جسے قاری پڑھ کر سوچتا رہے کہ یہ تھا کیا۔ !!

  میں اپنی عادت سے مجبور ہوں کہ جو کچھ محسوس کرتا ہوں وہی لکھ دیتا ہوں کیونکہ یہی قلم کی حرمت ہے محسوس کچھ اور ہو لکھنے میں کچھ اور ہو تو یہ منافقت ہو جاتی ہے اور میں اپنے قلم کے ساتھ کبھی منافقت نہیں کرتا جس کی پاداش میں دو بار کورٹ کچہریاں بھی دیکھ آیا ہوں مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرا اور میری قلم کا بھرم قائم رہا۔

 میری بہت ہی محترم بہن ڈاکٹر رضیہ اسماعیل صاحبہ کی بھی یہی خوبی ہے کہ وہ سچ کی تلاش میں رات دن ایک کر دیتی ہیں اور انگلینڈ امریکہ کی لائبریریوں کو کھنگال کر سچ نکال لاتی ہیں۔ انہوں نے جب ’پوپ‘ کہانی کی تاریخ کی تلاش شروع کی تو کہاں سے کہاں جا پہنچی اور پوری ایک کتا ب لکھ ڈالی۔ جس کا نام نہایت خوبصورت رکھا ’’کہانی بول پڑتی ہے ‘‘ سچ ہے اگر کہانی نہ بولے تو وہ کہانی نہیں ہے۔ کوئی پاپ یا پوپ قسم کی ہی چیز ہوتی ہے۔ !!

 کہانی کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے ہر دور میں کہانی زندہ رہی اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اگر کہانی اس دور کے حالات کا عکس نہیں ہے جس میں وہ سنائی یا لکھی جاتی ہے تو وہ محض الفاظی ہے جو قاری کو منٹوں میں بور کر دیتی ہے۔ کہانی وہ ہے جو آپ کی انگلی تھامے اختتام تک لے جائے اور پڑھنے کے بعد آپ آنکھیں بند کر کے گھنٹوں اس کے سحر میں گرفتار رہیں اور دل سے واہ واہ نکلے۔

 اس کتاب میں ڈاکٹر صاحبہ نے ’پوپ‘ کہانی پر طویل بحث کی ہے اور ثبوت کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ ’پوپ‘ کی پیدائش بریڈفورڈ نہیں ہوئی بلکہ امریکہ میں بھی لکھی گئی اور وہ قطعی دو تین سطری کہانی نہیں یا بقول شیخ صاحب ایک ایسا خیال نہیں جو فوراً ذہن میں آئے اور اسے آپ قلم بند کر لیں۔ بلکہ ایک مکمل طویل کہانی ہے جو کئی صفحات تک بھی چلی جائے۔ جس طرح ڈاکٹر صاحبہ نے کنگ وینکلس کی کہانی ’’مشین‘‘ کا ترجمہ لکھا جو سات صفحات تک ہے اسی طرح دوسری کہانی ’سرخ دروازہ‘ جو نو صفحات تک پھیلاؤ رکھتی ہے۔ پھر انہوں نے خود ’’پوپ ‘ کہانیوں کا نام دے کر ’’تھرڈ ورلڈ گرل‘‘ جو سات صفحے کی، ’’ایئر فریشنر‘‘ چھ صفحات، ’’آنر کلنگ‘‘ چھ صفحات، ’’تھرڈ ڈائمنشن‘‘ سات صفحات، ’’گلاس کٹر‘‘ پانچ صفحات، ’’گاربیج‘‘ چھ صفحات۔ المختصر کہ ان کی تمام کہانیاں مکمل کہانیاں ہیں جن میں صفحات کی قید نہیں مگر ان میں کوئی واعظ نہیں اور نہ ہی کوئی فضول تفصیل اور طوالت ہے۔ ان کی گیارہ کہانیاں چاہے ان کا نام ’’پوپ‘‘ ہی کیوں نہ ہو مکمل کہانیاں ہیں جن کو پڑھ کر بوریت کا احساس نہیں ہوتا اور ایک کے بعد ایک کہانی قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔

 جیسا کہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اپنے مضمون میں قبول کیا ہے کہ ’پوپ‘ چونکہ انگلش صنف ہے لہذا شاید انگریزی الفاظ شامل کرنا ناگزیر ہوں لہذا انہوں نے ان کے نام بھی انگریزی رکھے اور الفاظ بھی کثرت سے استعمال کئے جس کو میں ایسا برا بھی نہیں سمجھتا کہ ہماری اردو کئی زبانوں کا مرکب ہے اور آج ہزاروں ایسے نئے الفاظ شامل ہو گئے ہیں جن کا متبادل اردو میں نہیں ملتا۔ اور پھر جو زبانیں غیر ملکی الفاظ کے لئے دروازہ بند کر لیتی ہیں وہ ترقی نہیں کر پاتیں۔ آج انگلش زبان اگر عالمی زبان کا درجہ رکھتی ہے تو اس کی بڑی وجہ اس کی فراخدلی ہے کہ اس نے دنیا کے ہر ملک کی زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ ہاں اگر اپنی زبان میں ان الفاظ کا متبادل ہو تو پھر ضروری نہیں کہ غیر ملکی الفاظ کا سہارا لیا جائے کہ ہر کسی کو اپنی زبان سے اتنا پیار ضرور ہوتا ہے۔ میری اردو زبان میں ’’افسانہ،افسانچہ،مختصر کہانی،دو سطری کہانی ‘‘ جیسے الفاظ موجود ہیں تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ اپنی کہانی کا نام ’’پوپ یا پاپ ‘‘ رکھوں۔ ہاں اگر کوئی نیا نام رکھنا ہی ہے تومیں کیوں نہ اسے کہانی اور افسانے کے پیوند سے جنم ہونے والی ’’کہانچی‘‘ کا نام دوں گا۔ نیا نام اگر دریافت ہی کرنا ہے تو اردو میں تو ہو گا نا۔ ۔ آخر پوپ کہانی ہی کیوں۔ ؟

٭٭٭


 

 

 

 

 

ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی پریشانی

 

ظفر اقبال

(لاہور)

 

            امریکہ سے آئے ہوئے مہمان عزیز ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے مختلف جگہوں پر جو لیکچر دیے ہیں ان کا موضوع صرف اور صرف غزل دشمنی تھا۔ وہ اپنی بات ہی اس جملے سے شروع کرتے رہے کہ میں غزل کا دشمن ہوں۔ انہوں نے کھل کر غزل کے نقائص بیان کیے اور غزل کی ترویج و اشاعت بلکہ اس کی موجودگی ہی پر جی بھر کے احتجاج اور اظہار تاسف کیا۔ ہمیں موصوف کے ساتھ پوری پوری ہمدردی ہے کہ اپنی تمام تر خواہش کے باوجود شاید وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور یہ سلسلہ انہیں اپنی باقی زندگی میں بھی جاری رکھنا پڑے گا۔

            یہاں غزل کا دفاع مقصود نہیں کیونکہ وہ اپنا دفاع کرنے کے لیے خود کافی ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے خلاف آنند صاحب کو باقاعدہ لیکچر دینا پڑ رہے ہیں بلکہ اپنے آپ کو غزل کا دشمن کہنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کر رہے۔ ہمیں خود یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ صنف سخن ستیہ پال آنند جیسے حضرات کے اعصاب پر اس حد تک سوار بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں دور دراز کا سفر طے کر کے اس کی دہائی بھی دینا پڑ گئی ہے اور وہ اس بات کو چھپا بھی نہیں سکے کہ انہیں غزل سے کس قدر خطرہ لاحق ہے ورنہ وہ اس کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلانے کا آغاز نہ کرتے۔ وہ شاید بجا طور پر اہل پاکستان کو خبردار کر رہے ہیں کہ دیکھو ! اگر تم نے غزل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تو یہ تمہیں تباہ کر کے رکھ دے گی!

            ویسے یہ ایک عجیب بات ہے کہ غزل اور غزل گوؤں کو نہ تو نظم سے کوئی خطرہ لاحق ہے اور نہ ہی انہوں نے اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو کبھی غیر محفوظ محسوس کیا ہے اور پھر غزل اگر واقعی اس قدر فرسودہ ہو چکی ہے تو یہ اپنی موت آپ ہی مر جائے گی، اس کے پیچھے لٹھ لے کر بھاگ اٹھنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے ؟چنانچہ غزل پر یہ یلغار خود یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ غزل اب بھی کس قدر طاقتور اور جاندار صنف سخن ہے کیونکہ کمزور کو مارنے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ اسے ختم کرنے کے لیے اس کی کمزوری ہی کافی ہوتی ہے۔

            اس کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ جناب ستیہ پال آنند پاکستان سے تعلق رکھنے والے شعراء کو اس قدر کم عقل سمجھتے ہیں کہ وہ یہ باتیں خود نہیں سمجھتے اور انہیں اتنی دور سے آ کر سمجھانے کی ضرورت ہے۔ البتہ موصوف غزل دشمن ہونے کا واشگاف اعلان کیے بغیر یہ تردد کرتے تو اس کا کچھ اثر ضرور پڑتا لیکن انہوں نے شروع ہی اس انداز میں کیا کہ وہ غزل دشمن ہیں اور یہی مہم سر کرنے نکلے ہیں کیونکہ وزن کسی غیر متعصب اور غیر جانبدار شخص کی بات کو ہی دیا جا سکتا ہے ، چہ جائیکہ آپ باقاعدہ گالیاں ہی دینا شروع کر دیں۔ سو،نظم کے گٹوں گوڈوں میں اگر پانی ہے تو اسے اپنے آپ میں مطمئن اور متحد رہنا چاہیے نہ کہ غزل سے اس درجہ خوفزدہ ہو جانا کہ اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت محسوس کرنا۔ یہ بات بلا خوف تردید کی جا سکتی ہے کہ نظم آزاد ہو یا نثری،ایک درآمدی پودا ہے جسے اس نامانوس آب و ہوا میں پنپنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ابھی کچھ مزید وقت درکار ہو گا اور ایک وقت یقیناً ایسا آئے گا کہ غزل کا خوف اس کے دل سے نکل جائے گا جبکہ غزل اور نظم خود ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں اور آنند صاحب اگر جی کڑا کر کے جدید غزل کا تھوڑا بہت مطالعہ کر سکیں تو انہیں محسوس ہو گا کہ غزل اب محض رونا پیٹنا اور حزن و یاس پھیلانا ہی نہیں ہے بلکہ یہ بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ اسے محبت کا طعنہ دینا بھی کسی قدر زیادتی ہے کیونکہ محبت آدمی کی کیمسٹری میں ہی بنیادی طور پر موجود ہے ، اور اگر غزل کا موضوع محبت ہے تو لوگ محبت بھی کرتے رہیں گے اور غزل بھی لکھی جاتی رہے گی۔ البتہ محبت جن لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے ، ان کی اور بات ہے یعنی

خصی ہوں خیال و خواب جن کے

دل کیوں نہ ہو ان کا بے اُمنگا

 چنانچہ اس حد تک ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عمر کے ایک حصے میں آ کر غزل قاری کے لیے غیر متعلقہ ہو جاتی ہو۔ البتہ میرؔ و غالبؔ جیسے اساتذہ نے جو پیرانہ سالی میں آ کر عشقیہ غزلیں تخلیق کیں ،شاید انہیں بھی معاف کیا جا سکتا ہے۔

            سو،نظم اور غزل اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کام کر رہی ہیں اور مناسب یہی ہے کہ انہیں آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ ان میں سے جو کمزور ہوئی وہ خود ہی پیچھے رہ جائے گی اور دونوں میں سے کسی کو بزور پیچھے دھکیلنا تو بجائے خود ایک اعتراف شکست ہو گا۔ ہر صنف سخن اپنا قاری خود تلاش کرتی ہے۔ اسے ترغیب ضرور دی جا سکتی ہے لیکن مثبت اور صحت مندانہ طریقے سے ، کسی صنف پر حملہ آور ہو کر نہیں ، کیونکہ اس کا اثر الٹا ہو گا۔ لہٰذا اس مہم جوئی کے نفسیاتی اثرات کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

سو،نظم اور غزل کا کوئی تنازع نہیں ہے۔ جس صنفِ سخن میں بھی تازگی اور تاثیر ہو گی،وہ قاری کو خود ہی اپنی طرف کھینچ لے گی۔ غزل اگر ہمارے ہاں مقبول ترین اور مضبوط صنف سخن مانی جاتی ہے تو اس لیے نہیں کہ اسے قارئین پر زبردستی ٹھونسا گیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہے اور جب تک اس میں دم ہے ، اسی طرح ایستادہ رہے گی۔ میں خود اس بات کا مخالف نہیں کہ نظم، غزل کی جگہ لے لے ، لیکن یہ بھی قدرتی اور فطری طریقے سے ہی ہو سکتا ہے ، لکد کوبی سے نہیں کیونکہ قبول خاطر و لطف سخن خداداد اَست

            سو، ہمارے دوست ڈاکٹر ستیہ پال آنند نظم کو جتنا چاہیں پروموٹ کرتے رہیں لیکن انہیں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ غزل ان کے راستے کا روڑا ہے اور وہ ہر صورت اسے سامنے سے ہٹا کر رہیں گے۔ بلکہ اگر اس کارروائی کا بغور تجزیہ کیا جائے تو ہر شخص اس نتیجے پر پہنچے گا کہ مخالفت،غزل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسی کے حق میں جا رہی ہے ؛ چنانچہ ہم یہی عرض کریں گے کہ؎

وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا

جو اتنی دور سے انکار کرنے آیا تھا

 

آج کا مطلع

اس پر ہوائے دل کا اثر دیکھنا تو ہے

ہونا تو خیر کیا ہے ،مگر دیکھنا تو ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کالم ’’دال دلیا‘‘۔ از ظفر اقبال۔ مطبوعہ روزنامہ دنیا لاہور۔ ۱۳مارچ ۲۰۱۴ء

٭٭٭

 

 

نئی نظم اور ستیہ پال آنند 

 

ڈاکٹر غافر شہزاد

(لاہور)

 

اکادمی ادبیات لاہور کے دفتر میں ادارہ تجدید نو کے تعاون سے الطاف قریشی نے ایک دن میں دو نشستیں برپا کر دیں۔ اقتدار جاوید کی نظموں کی کتاب ’’ایک اور دنیا ‘‘ کی تقریب پذیرائی کی صدارت غزل کے قد آور اور نامور شاعر ظفر اقبال نے کی جبکہ دوسری نشست میں ستیہ پال آنند سے مکالمہ رکھا گیا تھا۔ اس نشست کی صدارت انتظار حسین نے کی۔ دونوں تقریبات کا مقصد نئی نظم کے حوالہ سے گفتگو کا ہی تھا مگر دونوں صدارتوں کا نئی نظم سے تعلق تلاش کرنے میں ہم ناکام رہے۔ پہلی نشست کے صدارتی خطبہ میں ظفر اقبال نے اقتدار جاوید کی کتاب پر ایک جملہ بھی نہ کہا اور کہنے لگے کہ مارک ٹوائن جب ایک جگہ تقریر کرنے گیا تو کہنے لگا کہ میں نے جو کچھ صدارتی خطبہ میں کہنا تھا وہ تو مجھ سے پہلے کے اصحاب کہہ گئے اب میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا۔ گفتگو میں انہوں نے یہ کہا کہ پابند نظم اقبال کے بعد ختم ہو چکی ہے اور اب آزاد یا نثری نظم کا ہی عہد ہے۔ دوسری بات یہ کہی ’’ایک مرتبہ اکادمی ادیبات نے نثری نظم نمبر نکالنا تھا تو اس کیلئے میں نے بھی چند نثری نظمیں لکھی تھیں، جو شائع ہوئیں ‘‘۔ تیسری بات یہ کہ احمد ندیم قاسمی نثری نظم کے خلاف تھے اور اسے نہیں مانتے تھے۔ ہم پہلی نشست کے ان صدارتی کلمات میں اقتدار جاوید کی کتاب ’’ایک اور دنیا ‘‘ کی نظموں کے حوالے ڈھونڈتے رہ گئے مگر ناکامی ہوئی، ہماری کم فہمی سمجھ کر معاف کر دیا جائے۔

دوسری نشست میں ستیہ پال آنند کہنے لگے کہ المیہ یہ ہے کہ ہماری نظم غزل کی صدیوں پرانی روایت کے زیر اثر ہے اور ابھی تک ’’میں ‘‘یعنی واحد صیغہ متکلم سے باہر نہیں نکل سکی اور اقتدار جاوید کے ہاں بھی یہ مرحلہ طے ہونا باقی ہے کہ وہ ردہم،تکرار اور قوافی کے استعمال سے نظم کو غزل کے آہنگ کے قریب لے آتا ہے۔ پھر بتایا کہ انھوں نے 700سے زائد نظمیں لکھی ہیں۔ اپنی نظم کے ماخذ کے حوالے سے بات کی کہ وہ نظم لکھتے ہوئے کبھی تو شیکسپئر کے کسی کردار کے اندر گھس جاتے ہیں اور وہ ڈرامے کے اس خاص مرحلہ پر اس کردار کی زبان سے وہ کیفیت بیان کرتے ہوئے نظم مکمل کرتے ہیں۔ کبھی ماضی کے کسی اور تخلیقی کردار کے اندر گھس جاتے ہیں اور نظم لکھتے ہیں، غزل کہی جاتی ہے جب کہ نظم لکھی جاتی ہے۔ انہوں نے اقتدار جاوید کی نظم ’’چوک‘‘ کی ابتدائی لائنیں سن کر کہا کہ سنسکرت میں ناٹک کے چار لازمی عناصر ہوتے ہیں ’’ کردار، موضوع، اسٹیج اور ماحول‘‘۔ اس نظم کے آغاز کی چار لائنوں میں یہ چاروں عناصر موجود ہیں۔ نظم کے آغاز کو سنسکرت ناٹک کے ساتھ ملانے والی بات بھی ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ اقتدار جاوید نے ان سے 1954ء کی نظم’’ ربٹر‘‘ کی فرمائش کی جو بقول ان کے ان کی کسی کتاب میں شامل نہیں ہے، مگر حیرت انگیز طور پران کو نظم زبانی یاد تھی۔ نظم کا لب لباب یہ تھا کہ ’’پنسل کی نوک سے وہ اس کا نام لکھتے ہیں مگر اس کو خبر نہیں کہ پنسل کے دوسرے سرے پر لگے چھوٹے سے ربٹر سے وہ اس کو نہایت آسانی سے اس طرح مٹا سکتے ہیں کہ اس کا نشان تک نہ رہے ‘‘۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف سلیٹ پر لکھا ہی ایسے مٹایا جا سکتا ہے۔ کاغذ پر لکھا ہوا لفظ مٹا دینے سے ورق بے نشان نہیں ہو تا۔ دوسری نشست کا عنوان ’’مکالمہ‘‘ تھا مگر ستیہ پال آنند بار بار اپنے بارے میں گفتگو پر اصرار کرتے رہے بلکہ چند سوالات پر تو وہ باقاعدہ ناراض بھی ہوئے کہ وہ کوئی یہاں کسی کٹہرے میں نہیں کھڑے۔

نظمیں سناتے ہوئے ستیہ پال آنند نے بتایا کہ پانچ سال پہلے ان کی شریک حیات ان سے جدا ہو گئی اور وہ اکیلے رہ گئے تواس احساساتی کیفیت کو انہوں نے لفظوں میں ڈھالا۔ یہ نظم ’’دی سنواینجل ‘‘ بقول ان کے پورے یورپ میں سراہی گئی اور بہت مقبول ہوئی۔ ستیہ پال آنند یہ نظم سناتے ہوئے ایک کیفیت میں ڈوب گئے اور حاضر ین نے بھی خوب داد دی۔ ہمارا ستیہ پال آنند سے یہی سوال تھا کہ جب وہ یہ نظم سنارہے تھے جو کہ صیغہ واحد متکلم میں بھی تھی اور وہ کسی دوسرے کردار میں گھسنے کے بجائے اپنے ذاتی تجربہ کا اظہار کر رہے تھے تو ان کی کیفیت بالکل الگ تھی اور سننے والوں کی واہ واہ بھی خوب تھی مگر جب انہوں نے ’’ بن باس‘‘ یا دیگر نظمیں سنائیں، جن کو لکھتے ہوئے وہ کسی دوسرے کردار میں گھس گئے تھے، تو وہ نظمیں سپاٹ ہو گئیں اور ان کی گرفت ویسی نہ تھی، تو اس کی بنیادی وجہ کیا تھی۔ ؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ اپنا صیغہ واحد متکلم کا تھیسز بھی بھول گئے اور نئی نظم کی تشکیل کے لئے اپنے عمر بھر کے بنائے ہوئے ضابطے سے بھی انحراف کر گئے۔ ایک عجیب سا تضاد پیدا ہو گیا اور ہم سوچنے لگے کہ اگر ستیہ پال آنند کی پہلی بات کو مان لیا جائے تو شاعر جو تخلیق کار ہے اور اپنے تجربہ میں سب کو شریک کرنا چاہتا ہے، وہ جب خود کسی دوسرے کے تخلیق کردہ کردار میں گھس جاتا ہے تو وہ کسی دوسرے کے تجربہ میں شریک ہو کر کم تر درجہ کی نظم ہی تخلیق کرے گا۔ بلکہ پہلے سے موجود اصل تخلیق کی جگالی یا اس کی تشریح و توضیح سے زیادہ کچھ نہ کرسکے گا،اور یہ دوسرے یا تیسرے درجہ کا تجربہ ہو گا اور ایسی تخلیق کبھی اعلی درجے کی نہیں ہو سکتی۔ یہ توایسا ہی ہے کہ ایک بڑھئی کمال مہارت سے ایک نئی کرسی ڈیزائن کرے اور آپ اسی کرسی سے الگ ڈیزائن کرنے کے بجائے اس کرسی کی ٹانگ میں گھس جائیں اور بے جان لکڑی کی ٹانگ میں گھس کر اپنے تجربہ کو بیان کریں۔ وہ تجربہ تو ہو گا، نظم بھی بن جائے گی مگر وہ بے جان اور سپاٹ ہی رہے گی، اور اس بڑے فن پارے، بڑی تخلیق کے سوویں حصے کی توسیع سے سوا کچھ نہ ہو گی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ نئی نظم کو وزیر آغا، ستیہ پال آنند اور ان کے حواریوں نے الگ اور نئے پن کے نام پرایسا تشکیلی پیرہن اور تخلیقی ضابطہ عطا کرنے میں اپنی عمریں گذار دیں۔ ایسی نظم اپنی انتہا میں بھی کم تر درجے کی ایک غیر متاثر کن اور بے جان تخلیق ہی ہو سکتی ہے۔ مجھے ظفر اقبال کی ’’آب رواں ‘‘کے بعد کی غزل اور وزیر آغا و ستیہ پال آنند کی نظم کے حوالے سے طے کردہ مسافت میں کئی سطحوں پر مماثلت نظر آتی ہے۔

صدارتی کلمات میں جب انتظار حسین نے ستیہ پال آنند سے پوچھا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ آنند جو کہ بدھا کا چیلہ اور ہم سفر تھا، اس کے مرنے کے بعد دنیا داری کے کاموں میں مشغول ہو گیا تو اس دعویٰ کا ماخذ کیا ہے ؟ ستیہ پال آنند پہلے تو صاف مکر گئے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں لکھا، پھر انتظار حسین کے اصرار پر دوبارہ جواب دیا کہ یہ آنند اور تھا، وہ نہیں تھا اور ساتھ کہا کہ وہ اپنی کتاب’’ ایک سو بدھا‘‘ ان کو پیش کریں گے۔ اس نوک جھونک میں ستیہ پال آنند کے علمی سفر اور تاریخ سے آگاہی کی قلعی بھی کھل گئی۔ یوں گماں گذرتا ہے کہ ستیہ پال آنند اپنے آپ کو بدھا کا آنند سمجھتے ہیں اور آواگون کے نظریہ کے مطابق ان کا وجودی اظہار آنند کا ہی اگلا جنم ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ہماری فہمیدہ ریاض بھی مولانا روم کے شعری تجربہ سے گزر کر، اس کو ترجمہ کر کے اور شبنم شکیل (مرحومہ) اپنی عمر کے آخری برس فرید الدین عطار کی منطق الطیر کی فضا میں گزار کر معلوم نہیں کس تخلیقی اظہار کی گرہ کھولنے میں مصروف رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان صاحبان کے ہاتھوں پرورش پانے والی نئی نظم ابھی بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ابھی اس نے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔ اپنی تحریر کے آغاز میں جو لائنیں میں نے لکھیں، وہ پہلی جماعت میں زیر تعلیم میری بیٹی کا ہوم ورک تھا، جو میں نے اس کی کاپی سے نقل کیا تھا۔ ان لائنوں میں ایک سات سالہ بچی نے جس معصومیت سے اپنے احساسات کا اظہار کیا ہے کیا ہماری نئی نظم ابھی تک اس مرحلے پر پہنچ پائی ہے یا نہیں، میرا آپ سے سوال ہے آپ اپنے دل سے پوچھ کر اس کا جواب دیں۔

مطبوعہ جہانِ پاکستان لاہور،اسلام آباد۔ ۱۳ مارچ ۲۰۱۴ء

٭٭٭


 

 

 

 

ابتدائیہ:ستیہ پال آنند کی’’۔ ۔ ۔ بُودنی نابُودنی‘‘

 

حیدر قریشی

(جرمنی)

 

 

اس کتاب کا نام ستیہ پال آنند کی ایک نظم کے عنوان ’’کون و فساد و بودنی نابودنی‘‘سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ نظم میرے مضمون ’’دو نظموں کا قضیہ‘‘ میں شامل ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد قارئین کتاب کے نام کو اس کے پورے تناظر میں زیادہ بہتر طور پر جان لیں گے۔

 ستیہ پال آنند اردو ادب کے ایک عمدہ تخلیق کار ہیں۔ لیکن وہ اپنے تخلیقی اظہار کے پیمانے کا شاید درست تعین نہیں کر سکے۔ قیامِ پاکستان کے زمانے سے وہ افسانے لکھتے رہے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کا اصل میدان افسانہ ہی تھا لیکن پھر وہ نظم نگاری کی طرف آ گئے۔ ان کی افسانہ نگاری سیدھے سادے بیانیہ پر مبنی تھی تو نظم نگاری کے لیے انہوں نے جدید پیرایہ کو اختیار کرنے کی کوشش کی۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ہر تخلیق کار کی تخلیق کا جدید یا روایتی پیرایہ اس تخلیقی لمحے کی عطا بھی ہو جاتا ہے،جس میں وہ ظہور کرتا ہے۔ ستیہ پال آنند کے بقول احمد ندیم قاسمی نے انہیں ایک عمر کے بعد کہا کہ:

 ’’آپ نے تو کہانی کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا، لیکن کہانی نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دیکھ لیجیے، آپ کی لگ بھگ سب نظموں میں کہانی چپکے سے در آتی ہے !‘‘ (جدید ادب شمارہ نمبر ۱۲۔ جنوری تا جون ۲۰۰۹ء۔ صفحہ نمبر۲۸۴)

 میرا ذاتی خیال بھی یہ ہے کہ ستیہ پال آنند بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے۔ افسانے میں اپنے روایتی انداز کے باوجود ان کے اندر کا عمدہ تخلیق کار اپنے رستے تراشتا چلا جاتا۔ نظم نگاری میں بھی ان کے پاس اپنے امکانات کو ظاہر کرنے کے مواقع تھے لیکن ایسے لگتا ہے کہ وہ خود اپنی نظموں سے مطمئن نہیں رہے۔ ایک عمدہ تخلیق کار کے ہاں ایسا عدمِ اطمینان خوب سے خوب تر کی جستجو کے طور پر ہوا کرتا ہے۔ ستیہ پال آنند بھی اپنے اندر کے عمدہ تخلیق کار کو اس راہ پر لگا لیتے تو اطمینان نہ سہی ایک تخلیقی آسودگی ضرور انہیں مل جایا کرتی۔ لیکن ہوا یہ کہ اپنے اندر کے عمدہ تخلیق کار پر بھروسہ کرنے کی بجائے انہوں نے شہرت کے حصول کے لیے مختلف قسم کے شارٹ کٹ تلاش کرنا اور اختیار کرنا شروع کر دئیے۔ جب اچھے تخلیق کار اس نوعیت کی حرکات میں مبتلا ہوتے ہیں تو نہ صرف بے برکتی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ تخلیق کی دنیا انہیں اپنے آباد دیار سے باہر نکال کر بنجر اور بانجھ ویرانوں کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ ستیہ پال آنند جتنا شارٹ کٹ اختیار کرتے گئے،عمدہ ادب کی تخلیق سے اتنا ہی محروم ہوتے چلے گئے۔ غیر ادبی دیویوں کے چکر میں ان کی حرکات جتنی مضحکہ خیز ہوتی گئیں،اتنا ہی ادب کی دیوی انہیں رد کرتی چلی گئی۔ کسی تخلیق کار کا اپنی تخلیق کے اظہار کے ساتھ اس میں قارئین کی شرکت کی خواہش کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ تخلیق کی اولیت اور اہمیت کی بنیاد پر یہ شہرت کا با وقار طریقہ ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ میری اس کتاب کے مضامین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جب کوئی عمدہ تخلیق کارا پنی تخلیقی لگن میں مگن رہنے سے زیادہ شہرت کے شارٹ کٹ ڈھونڈنے لگتا ہے تو پھر اس کا کیا انجام ہوتا چلا جاتا ہے۔

 ستیہ پال آنند کی شاعری جیسی بھی ہے،وہی ان کی شعری پہچان بنے گی اور اسی کی بنیاد پر ان کے اہم یا غیر اہم شاعر ہونے کا فیصلہ ہو گا۔ ابھی تک کا جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس کے مطابق ستیہ پال آنند اپنے تخلیقی جوہر پر بھروسہ کرتے ہوئے نظمیں کہنے سے زیادہ پبلک ریلشننگ سے کام لے کر شہرت کمانے کے شارٹ کٹ اختیار کرتے پائے جاتے ہیں۔ وہ اچھی نظمیں لکھنے کی کاوش کرنے سے زیادہ غزل کی مخالفت کر کے مشہور ہوتے ہیں۔ اب ان کی پہچان اچھے نظم نگار کی نہیں بلکہ ایک’’ غزل مخالف‘‘ کی پہچان ہے۔ ایک طرف ایسا ہو رہا ہے دوسری طرف وہ غزل کے اشعار سے مرکزی خیال اُڑا کر اپنی دانست میں نظمیں تخلیق کر رہے ہیں۔ غزل کے کسی شعر کا خیال اُڑا کر اسی کو موڑ توڑ کر نظم میں ڈھال لینا اپنی جگہ،شہرت کے حصول کے لیے انہیں کسی غیر اردو ماحول میں ہندی والوں کے سامنے کسی غزل گو شاعر کی کسی مقبول غزل کے اشعار اپنے نام سے سنانے کا موقعہ مل جائے تو اس سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس سلسلہ میں غلام محمد قاصر کی غزل کے دو شعر اپنے نام سے سنانے کا ان کا اسکینڈل ساری اردو دنیا کے علم میں ہے۔ اس حوالے سے میرا مضمون ’’اردو غزل کا انتقام۔ ستیہ پال آنند کا انجام‘‘اس کتاب میں شامل ہے۔ اس مضمون میں تقریباً ساری تفصیل آ گئی ہے۔

 شروع میں ہی جب میں نے اپنا مضمون ’’غزل بمقابلہ نظم‘‘ لکھا تو اس میں ستیہ پال آنند کو کسی الجھاؤ کے بغیر اور نام لیے بغیر ان کے ایک مضمون کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا۔

 ’’پہلی بات تو یہ کہ بھائی! اگر آپ آزاد نظم کے شاعر ہیں تو اپنی نظموں پر توجہ دیں، تاکہ پھر ادب کے قارئین بھی آپ کی نظم کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ اپنی تخلیقات کے بَل پر قارئین کو اپنی نظموں کی طرف متوجہ نہ کر سکنے والے شعراء کو یہی رستہ سوجھا ہے کہ حیلے بہانے سے غزل کو ملامت کرتے رہو، اس میں کیڑے ڈالتے رہو اور غزل مخالف ہونے کی سند حاصل کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کر لو۔ لیکن کیا اس طریقے سے مخالفینِ غزل خود کو اہم نظم نگار منوا لیں گے ؟اس کے لیے تو اچھی نظمیں لکھنا ہوں گی اور اچھی نظمیں کسی ورکشاپ میں تیار نہیں کی جاتیں۔ غزل کی مخالفت میں اب باقاعدہ کھاتے کھتونیوں کے انداز میں چارٹ بنا کر لفظوں کی شعبدہ بازی دکھائی جانے لگی ہے۔ ‘‘

(مضمون:غزل بمقابلہ نظم)

 اس مضمون کے اختتام پر میں نے انہیں واضح طور پر مشورہ دیا تھا کہ:’’جہاں تک غزل کی بقا اور ترقی کا مسئلہ ہے یہ تخلیقی اذہان کے ذریعے تب تک زندہ رہے گی جب تک اردو زبان زندہ ہے۔ نظم سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، کوئی مخاصمت نہیں ہے۔ جو نظم نگار غیر ضروری طور پر غزل کی مخالفت میں اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ غزل کے غم میں ہلکان نہ ہوں اور اچھی نظمیں کہنے پر توجہ دیں تاکہ پھر ان کا نام ان کی اچھی نظموں کی وجہ سے یاد رکھا جا سکے۔ ‘‘۔ ۔ ۔ کاش ستیہ پال آنند نے میرے مشورے پر توجہ فرمائی ہوتی!

 ستیہ پال آنند نے ایک طرف احمد فراز پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا کہ وہ ادب سے بے بہرہ خواتین کے جمگھٹے میں بیٹھ کر اسے اپنی ادبی مقبولیت سمجھتے تھے۔ دوسری طرف اپنا یہ حال کہ فراز کے مقابلہ میں ایک دو پرسنٹ خواتین کا قرب بھی نصیب ہوا تو غزل کے بے وزن مطبوعہ مجموعے کی شاعرہ کے سرپرست بن گئے۔ دوسری طرف ہیمبرگ میں ایک ایسی خاتون کے ایسے شعری مجموعہ کی تقریب رونمائی کے لیے دوڑے چلے گئے،جو سراسر روایتی غزل کے انداز میں بے وزن شاعری کرتی ہیں۔ رات بھر ان کے مسودہ پر اصلاح دیتے رہے اور اگلے دن ہمبرگ جا کر کتاب کی اشاعت کے بغیر رونمائی کر دی۔ اسے غائبانہ نمازِ جنازہ کے انداز کی غائبانہ تقریب رونمائی کہہ سکتے ہیں۔ ہاں کتاب چھپنے کے بعد ایسا کرتے تو اسے غزل کی حاضر نمازِ جنازہ کہہ سکتے تھے۔ کیونکہ جس کلام پر ستیہ پال آنند اصلاح فرماتے رہے تھے،وہ غزل کی نہیں پوری شاعری کی موت کا اعلان تھا۔ یہ تو خواتین کے معاملہ میں ستیہ پال آنند کے عمومی کردار کی مثال ہے۔ ادبی دنیا میں دیکھیں تو ادبی رسائل کے بعض مدیران کے ساتھ انہوں نے کچھ الگ قسم کے مراسم بنا رکھے ہیں۔ میں نام لیے بغیر انگریزی کی بجائے اردو میں صرف بطور علامت ایک مثال بیان کروں گا۔ ستیہ پال آنند نے خود بتا یا تھا کہ میں فلاں رسالہ کے مدیر کی اہلیہ کو ہر سال عیدی کے طور پر ایک معقول رقم بھیجتا ہوں۔

 بھائی! رسالے کو سپورٹ کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ سیدھے سیدھے تعاون کرو۔ کوئی عیدی کا بہانہ کرنا ہے تومدیر کے بچوں کے لیے عیدی بھیجو۔ یہ بہنیں، بھانجیاں،بھتیجیاں،بہوئیں اور بیٹیاں بنانے کا کیا ڈرامہ ہے۔ اردو دنیا میں اس حوالے سے پہلے ہی بہت کچھ شرم ناک ہو چکا ہے۔ خواتین کا احترام ظاہر کرنا مقصود ہے تو کسی نام نہاد رشتے داری کے بغیر انسانی رشتے کے حوالے سے احترام کرو۔ اس نوعیت کی رشتہ داریاں ہمیشہ ’’کھجل اور خوار‘‘ کراتی ہیں۔ خود ستیہ پال آنند کو جب ایک بار ارشد خالد سے باقاعدہ تحریری معافی مانگنا پڑی،وہ بھی ایک منہ بولی بیٹی کی وجہ سے اس حال کو پہنچے تھے۔ بھانجیاں،بھتیجیاں،بیٹیاں،بہوئیں اور بہنیں بنانے والے اس مزاج کے بعض لوگوں کو میں نے بہت پہلے مشورہ دیا تھا کہ فیس بک پر’’ فین کلب‘‘ کی جگہ ’’بھَین کلب‘‘ بنا لیں۔ کسی رسالہ کے مدیر کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنے کا با وقار طریقہ چھوڑ کر انہوں نے شہرت کے شارٹ کٹ والا طریق اختیار کیا۔

 ایک اور شارٹ کٹ انہوں نے یہ اختیار کیا کہ چند نعتیہ نظمیں لکھ دیں۔ اگر یہ نعتیہ نظمیں ان کے دل کی آواز ہیں تورسولؐ کے صدقے اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ لیکن ان کے شہرت کے حصول کے لیے اختیار کیے جانے والے مختلف حربوں کو ذہن میں رکھا جائے تو یہاں بھی یہی لگتا ہے کہ یہ بھی ایک خاص نسخہ ہے۔ ان کا نعتیہ کلام ہندوستانی معاشرت کے حوالے سے مندر اور مسجد والوں کو قریب لانے کا باعث بن سکتا تھا۔ لیکن یہ تو ان کا مقصد ہی نہیں ہے۔ مقصد صرف الگ الگ مقامات پر شہرت کمانا ہے۔ اگر مندر میں نعت سناتے اور اردو تقریبات میں بھجن سناتے تو شاید کچھ نیک نیتی کا اندازہ ہوتا۔ سماجی سطح پر کسی رواداری کو فروغ دینے کا رویہ بھی ظاہر ہوتا۔ لیکن یہاں تو ’’با مسلماں اللہ اللہ،با برہمن رام رام‘‘ والی بات ہے۔ چلیں اس میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن یہ آپ کا سماجی طریق کار ہے۔ اسے سماجی سطح پر رہنے دیا جائے۔ ادب کے نام پر ایسا کیا جائے گا تو یہ مناسب طریقِ کار نہیں بلکہ خاص طریقۂ واردات کہلائے گا۔

 نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ عربی،فارسی روایات (اور بدھ روایات)،سے بھی ستیہ پال آنند نے کافی سارا استفادہ کیا ہے۔ ایسا کوئی استفادہ یا اکتساب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،لیکن استفادہ کرنے والا تخلیق کار اس اکتساب سے تخلیقی سطح پر کچھ نیا بھی تو لے کر آئے،محض بھاری کم الفاظ اور بعض روایات کے اشارے دے کر لفاظی کرنے سے اچھی نظم تو نہیں ہو جاتی۔ عربی، فارسی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے نظم کہنے کے نام پرایسی لفاظی سے پھر آپ اردو والوں کی تقریبات میں شاید تھوڑی بہت داد حاصل کر لیں گے۔ لیکن کیا ایسا کلام مندروں کے سمیلن میں بھی سنائیں گے ؟یہ ساری حرکتیں کسی تخلیقی تحرک کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ شہرت کمانے کی مختلف ترکیبیں ہیں۔ ان میں کوئی نیک مقصد یا کسی نوعیت کی عقیدت شامل دکھائی نہیں دیتی۔

 اکتساب اور استفادہ سے آگے بڑھ کر ستیہ پال آنند نے سرقہ کا ارتکاب بھی کیا ہے اور بار بار کیا ہے۔ میں انہیں اس حوالے سے سال ۱۹۹۹ء سے اب تک متعدد بار ان سرقات کی طرف متوجہ کر چکا ہوں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم ’’اک کتھا انوکھی‘‘سے انہوں نے سرقہ کیا اور اپنی نظم ’’دھرتی پران‘‘ لکھ ڈالی۔ غلام محمد قاصر کی غزل کے اشعار درگا مندر امریکہ کے کوی سمیلن میں مزے سے اپنے کلام کے طور پرسنا دئیے۔ جب چوری پکڑی گئی تو ایک ہی وقت میں ان کی طرف سے دو متضاد جواب آئے جن سے ان کے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ اردو غزل کو مضامین کے کلیشے بن جانے کے الزام سے مطعون کرتے کرتے خود غزل کے مضامین اُڑا کر نظم کہنے لگ گئے۔ یہ سارے حقائق مکمل ثبوت کے ساتھ ادبی دنیا کے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں،اس کتاب میں بھی شامل ہیں۔ ابھی تک انہوں نے تحریری طور پر ایک بار بھی اپنا دفاع کرنے کی جرات نہیں کی۔ کسی نوعیت کی صفائی پیش نہیں کی۔

 ستیہ پال آنند کی ادبی زندگی کے آغاز پر ایک پردہ سا پڑا ہوا ہے۔ حقائق تک رسائی حاصل کر سکنے والے کسی دوست کو اس معاملہ میں غیر جانبدارانہ طریق سے تحقیق کرنا چاہیے۔ میری معلومات کے مطابق ستیہ پال آنند نے ہندوستان میں پہلے انگریزی اور ہندی میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر انہیں لگا کہ وہاں جتنا وسیع میدان ہے اس سے کہیں زیادہ سخت مقابلہ ہے۔ چنانچہ ان کی آرام طلب اور عافیت کوش طبیعت نے اردو کو تختۂ مشق بنا لیا۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوا ہے تو اس عرصہ کی الگ الگ زمانی تقسیم کی جانی چاہیے تاکہ اندازہ ہو کہ اردو سے ان کی محبت کب جاگی اور یوں ان کی ادبی زندگی کے رنگ ڈھنگ پوری طرح واضح ہو سکیں۔

 میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ ستیہ پال آنند شہرت کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پہلے انہوں نے ارشد خالد مدیر عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کو ایک نازیبا ای میل بھیجی۔ جب ارشد خالد نے انہیں ان کی زیادتی کا احساس دلایا تو حقائق جاننے کے لیے کچھ مہلت مانگ لی۔ ان کا خیال تھا کہ چند دنوں میں بات رفت گزشت ہو جائے گی۔ ارشد خالد نے مقررہ مہلت کے بعد انہیں یاد دہانی کرائی اور آڑے ہاتھوں لیا تو سیدھے معافی مانگنے پر اُتر آئے۔ ان کی پہلی حرکت شہرت کے حصول کا حربہ تھا، جب وہ حربہ ناکام ثابت ہوا تو جان چھڑانے کی کوشش کی۔ آسانی سے جان نہیں چھوٹی تو معافی مانگ کر جان چھڑائی۔ یوں شہرت کے حصول کا یہ حربہ انہیں خاصا مہنگا پڑا۔ کبھی کبھی ایسا بھی تو ہو جاتا ہے۔

 ستیہ پال آنند ایک ہی وقت میں۔ ۔ ۔ دنوں کے فرق کے ساتھ نہیں،گھنٹوں اور منٹوں کی پوری ہم آہنگی کے ساتھ ایک ہی وقت میں ایک طرف ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی امریکہ میں آمد کے موقعہ پران کی شان میں قصیدہ نما ایک انگریزی مضمون لکھ کر اور اسے امریکہ میں شائع کرا کے ان کا استقبال کرتے ہیں۔ اور اسی لمحے میں فیس بک پر عمران بھنڈر کی توصیف بھی کر رہے ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک ہی وقت میں کی گئی پبلک ریلیشننگ کی یہ ساری گیم بے نقاب ہو جائے گی۔ ان کا خیال تھا کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا فیس بک سے کوئی واسطہ نہیں ہے،انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہو پائے گا۔ لیکن یہ بات انہیں لمحوں میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ تک پہنچ گئی، پھر ڈاکٹر نارنگ نے طویل کال کر کے ستیہ پال آنند کے ساتھ جو کچھ کیا،جو کچھ کہا وہ ستیہ پال آنند جانتے ہیں اور ان کا خدا جانتا ہے۔ میں یہ سارے حقائق اپنے مضامین میں پہلے سے شائع کر چکا ہوں،یہاں مختصراآ اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ ایک ہی مضمون میں ان کی شخصیت اور کردار کا یہ رُخ اچھی طرح سامنے آ جائے کہ شہرت کے حصول کے لیے کوئی معیاری اور اچھی نظمیں لکھنے کا با وقار طریق اختیار کرنے کی بجائے ستیہ پال آنند کوئی بھی حربہ،کوئی بھی نسخہ کاری گری کے ساتھ استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور ایسی واردات کرتے ہوئے کئی بار رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ چند وارداتوں کا میں نے اشارتاً ذکر کر دیا ہے۔

 جب ہم جدید نظم کی بات کرتے ہیں تو میرا جی،راشد،اختر الایمان،مجید امجد،فیض احمد فیض اور وزیر آغا تک اچھے نظم نگاروں کی کئی اہم نظموں کا ذکر کرسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ یہ شعراء اپنی فلاں فلاں نظموں کے باعث ہی ادب کی دنیا میں زندہ رہیں گے۔ لیکن ستیہ پال آنند کے بارے میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ ابتدا میں عمدہ تخلیق کار ہونے کے باوجود ان کے دامن میں ایک نظم بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ یہ ان کی بڑی نظم ہے اور اس نظم کو ان کی شناخت مان کر ادب میں ان کا نام زندہ رہے گا۔ ہندوستان میں دو بڑے نقاد موجود ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی۔ یہ دونوں نقاد اگر بتا دیں کہ ستیہ پال آنند کی کون سی نظم بڑی نظم ہے،جس کے حوالے سے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جا سکے گا تو میں بھی اس کا اقرار کر لوں گا۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ میں ستیہ پال آنند کو مزید سہولت دیتا ہوں۔ انہوں نے چونکہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بارے انگریزی میں ایک نہایت خوشامدانہ مضمون لکھا ہوا ہے،جسے پڑھ کر ڈاکٹر نارنگ بھی ہنسے تھے۔ چلیں وہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب سے ہی لکھوا دیں کہ ستیہ پال آنند اپنی فلاں نظم کے باعث ادب کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ایک نظم کا سوال ہے بابا!

 میں نے اپنے مضمون ’’غزل بمقابلہ نظم‘‘ میں انہیں سیدھا سا مشورہ دیا تھا کہ:

 ’’ ان سے درخواست ہے کہ وہ غزل کے غم میں ہلکان نہ ہوں اور اچھی نظمیں کہنے پر توجہ دیں تاکہ پھر ان کا نام ان کی اچھی نظموں کی وجہ سے یاد رکھا جا سکے۔ ‘‘

 میرے مشورے کے بعد بھی انہوں نے شارٹ کٹ کی عادت ترک کر کے اچھی نظمیں کہنے کی طرف توجہ کی ہوتی تو اب تک ان کے دامن میں ایک دو اچھی نظمیں ضرور موجود ہوتیں۔ اور اس عبرت ناک حال کو نہ پہنچے ہوتے کہ ہندوستان کے دو ممتاز نقاد مل کر بھی ان کے ہاں کسی ایک اچھی نظم کی نشان دہی نہ کر پائیں اور ایسے کسی مطالبہ پر خاموش رہنے کو ترجیح دیں۔ یہ ایک عمدہ تخلیق کار کا اپنے آپ پر اعتماد نہ کر کے بھٹک جانے کا المیہ ہے۔

افسانہ نگار و نظم نگارستیہ پال آنند کے تخلیقی طور پر بے برکتی کا شکار ہو کر ضائع ہو جانے کی کہانی ہے !

لگتا ہے ستیہ پال آنند سے صرف اردو غزل نے ہی انتقام نہیں لیا،ان کے اندر کے افسانہ نگار نے بھی ان سے انتقام لیا ہے اور انہیں اس حال تک پہنچایا ہے۔

٭٭٭


 

 

 

ستیہ پال آنند:مہاتما خود

 

 حیدر قریشی

(جرمنی)

 

 میری کتاب’’ستیہ پال آنند کی بُودنی نابُودنی ‘‘نومبر۲۰۱۳ء کے شروع میں شائع ہو گئی تھی۔ اس دوران مجھے ایک تو رؤف خیرکا لکھا ہوا ایک مضمون’’ ایک نیا اندازِسرقہ‘‘ پڑھنے کا موقعہ ملا اور نومبر۲۰۱۳ء کے آخری ہفتہ میں ستیہ پال آنند صاحب کا ایک انٹرویو یو ٹیوب پر دیکھنے اور سننے کا موقعہ ملا۔

 پہلے رؤف خیر کے مضمون کا ذکر۔ ۔ رؤف خیر کے مضمون میں غزل کے شعر کو اُڑا کر اسے بے جا پھیلا کر نظم کہہ لینے والی ستیہ پال آنند کی عادت کو ایک نئے ثبوت کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے۔ رؤف خیر کا مضمون مجلہ ’’مخزن ‘ ‘ لاہور جلد نمبر ۱۱،شمارہ نمبر۲(مسلسل شمارہ نمبر ۲۲)میں شائع ہوا تھا۔ ان کی کتاب ’’بچشمِ خیر‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۷ء میں شامل تھا۔ ستیہ پال آنند جو غزل کے مضامین پر کلیشے کا الزام لگاتے ہیں،غزل کے کلیشے قسم کے خیال والے شعروں کو ہی غیر ضروری طور پر پھیلا کر،اپنی نظم بنا کر جدید نظم میں نئے گل کھلا رہے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اردو نظم کا کوئی گلدان تیار نہیں ہو رہا بلکہ نظموں کا ایسا انبار تیار ہو رہا ہے جو اصلاً غزل کا اگالدان ہے۔ اردو شاعری میں مسئلہ جبر و اختیار کو سورنگ سے باندھا گیا ہے۔ ان سو رنگوں میں سے ایک رنگ کی رؤف خیر نے نشان دہی کی ہے۔ ان کے مطابق پہلے یگانہ چنگیزی نے ’’وسعتِ زنجیر تک آزاد ‘‘ہونے کی ترکیب کے ذریعے اس موضوع کو اپنی ایک رباعی میں یوں بیان کیا:

ہوں صید کبھی، اور کبھی صیاد ہوں میں

کچھ بھی نہیں بازیچۂ اضداد ہوں میں

مختار۔ ۔ ۔ ۔ مگر اپنی حدوں میں محدود

ہاں وسعتِ زنجیر تک آزاد ہوں میں

 شاہد صدیقی ۱۹۱۱ء میں اکبرآباد(آگرہ)میں پیدا ہوئے،۱۹۳۲ء میں حیدرآباد دکن چلے گئے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ شاہد صدیقی کا شعری مجموعہ’’چراغِ منزل‘‘۱۹۶۰ء میں انجمن ترقی اردو،حیدرآباد دکن کی زیر نگرانی شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں ان کی ایک غزل کا مطلع یگانہ چنگیزی کی بیان کردہ ترکیب سے استفادہ کرتے ہوئے غزل میں یوں ’’کلیشے ‘‘بن گیا۔

جبرِ فطرت نے یہ اچھا کرم ایجاد کیا

کہ مجھے وسعتِ زنجیر تک آزاد کیا

اور یہی’’وسعتِ زنجیر تک آزاد ‘‘ہونے کا ’’کلیشے ‘‘مضمون ستیہ پال آنند نے ایک نظم ’’اپنی زنجیر کی لمبائی تک‘‘میں بیان کیا تو گویا نظم کو ’’تر و تازہ ‘‘کر دیا۔ رؤف خیر کی درج کردہ ستیہ پال آنند کی نظم کو یہاں دہرا دیتا ہوں۔

’’اپنی زنجیر کی لمبائی تک

کچھ برس پہلے تک(پوری طرح یاد نہیں )/میں بھی آزاد تھا،خود اپنا خدا تھا مجھ میں /قوت کار بھی تھی،جراتِ اظہار بھی تھی/گرمیِ فعل و عمل،طاقتِ گفتار بھی تھی/میں کہ خود اپنا مسیحا تھا،خود اپنا مالک،کچھ برس پہلے تک(پوری طرح یاد نہیں )/اب مجھے حکم عدولی کا کوئی شوق نہیں /بے زباں طاقتِ گویائی سے محروم ہے اب،ماسوا اس کے کہ شکراً کہے خاموش رہے /اب مجھے گالیاں سننا بھی گوارا ہے کہ میں حرفِ دشنام ہو یا حرفِ پذیرائی ہو/فرق لہجے کا، سمجھ سکتا ہوں الفاظ سبھی سرزنش کے ہوں یا تعریف کے۔ مالک کی زباں /جو بھی ارشاد کرے میرے لیے واجب ہے /ہاں مجھے دیکھنے چپ رہنے کی آزادی ہے /اور میں گھوم کر کچھ دور تک چل سکتا ہوں /اپنی زنجیر کی لمبائی تک آزاد ہوں میں !‘‘

(نظم مطبوعہ ماہنامہ پرواز لندن۔ جنوری ۲۰۰۶ء)

 شاہد صدیقی کا شعر صرف اس لیے پیش کیا ہے تاکہ سند رہے کہ یگانہ کی ترکیب استعمال کر کے یہ مضمون ’’کلیشے ‘‘بن چکا ہے اور ستیہ پال آنند اس کلیشے مضمون سے کیسے استفادہ کر رہے ہیں۔ وگرنہ اس نظم کے حدود اربعہ کو ظاہر کرنے کے لیے یگانہ چنگیزی کا کلام کافی تھا۔ اس نظم میں کھینچ تان کے طور پر خود ہی اپنا خدا ہونے کا جو بیان دیا گیا ہے،وہ بھی یگانہ چنگیزی سے ہی مستعار لیا ہوا ہے۔ گویا بنیادی خیال اور کلیدی ترکیب کو اُڑانے کے بعد نظم کو لمبا کرنے کے لیے بھی انہوں نے یگانہ چنگیزی سے ہی استفادہ کیا ہے۔ یگانہ کا مشہور شعر ہے۔

خودی کا نشہ چڑھا،آپ میں رہا نہ گیا

خدا بنے تھے یگانہ ؔ مگر بنا نہ گیا

 اب بتائیے ان اشعار کے سامنے ستیہ پال آنند کی نظم میں ان کا اپنا کیا رہ گیا ہے ؟ غزل کے ’’ کلیشے ‘‘ بنے ہوئے مضامین کو اُڑا کران مضامین سے نظمیں گھڑنے والے ستیہ پال آنند صاحب کی نظموں کی یہی حقیقت ہے،یہی اصلیت ہے۔ انجمن امداد باہمی کے ذریعے ان کی جتنی ستائش کر لی جائے،کرا لی جائے،انجمن امداد باہمی والے اردو کی ترقی کے نام پر اردو کے زوال کا باعث ہی بنے رہیں گے۔

یہاں رؤف خیر کے مضمون کے فیصلہ کن الفاظ کو درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ رؤف خیر لکھتے ہیں :

 ’’شاہد صدیقی کے مذکورہ ایک مطلعے کو وضاحتی وسعت دے کر ستیہ پال آنند نے ایک نظم میں ڈھال لیالیکن تاثر کے اعتبار سے دل چھو لینے والا یہ مطلع ان کی پوری نظم پر بھاری ہے۔ اب تو انہیں غزل کے اعجاز کا قائل ہو جانا چاہیے کہ دو مصرعوں میں شاعر جو آتشِ نم چھپا دیتا ہے وہ خاشاکِ نظم کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہے۔ ‘‘

 اب حال ہی میں ستیہ پال آنند نے اپنی ایک’’بودنی‘‘ کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ غزل کے مخالف نہیں ہیں۔ وہ غزل کے مخالف رہیں یا نہ رہیں،اس سے غزل کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہونے والا،لیکن ان کی ’’بودنی‘‘ کا تاثر کوئی حیثیت نہیں رکھتا،اس معاملہ میں ستیہ پال آنند کو اپنے لکھے ہوئے سارے الفاظ اور اپنے آن ریکارڈ موجود الفاظ کا سامنا کر کے،اپنے پہلے لکھے کی برملا تکذیب کرنی ہو گی،غزل کی حقیقت کا اعتراف کرنا ہو گا،ورنہ ان کی کسی ’’بودنی‘‘ کا کوئی تاثر بے معنی رہے گا چاہے وہ در پردہ ان کا اپنا تیار کرایا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔ ویسے اردو غزل نے ستیہ پال آنند سے جو انتقام لیا ہے اور ان کا جو حال کیا ہے،وہ دلچسپ بھی ہے اور عبرتناک بھی۔

 اب میں ستیہ پال آنند کے تازہ انٹرویو کی جانب آتا ہوں۔ اصلاً یہ انٹرویو ان کی نئی کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘کے حوالے سے ہوا ہے۔ جواس لنک پر دستیاب ہے۔

http://www.youtube.com/watch?v=e7zEkYs7Qew&feature=youtu.be&a

 اتفاق سے کتابوں کے ناموں کا توارد ہو جانا،بڑا عیب نہیں ہے،لیکن جب دیدہ دانستہ دوسروں کے کسی امتیازی وصف کوخول کی طرح خود پر چڑھانے کی کوشش کی جائے تو اسے بہر حال معیوب گردانا جائے گا۔ اس انٹرویو میں مذکور ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ کتاب کا نام ہی ماخوذ ہے۔ جوگندر پال جی جب اسّی سال کے ہوئے تھے تو میں نے جدید ادب کے شمارہ نمبر ۵۔ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۵ء میں ان کا خاص گوشہ شائع کیا تھا۔ اس گوشہ کا پہلا مضمون علی احمد فاطمی کا تھا اور اس کا عنوان تھا ’’چار جنموں کا مسافر۔ جوگیندر پال‘‘۔ لنک پیش کر رہا ہوں۔

http://www.jadeedadab.com/archive/2005july/mazameen6.php

 علی احمد فاطمی نے یہ عنوان خود سے نہیں دیا تھا بلکہ جوگندر پال کے ’’خود وفاتیہ‘‘ سے اخذ کرتے ہوئے جمایا تھا۔ اپنے اسی مضمون میں علی احمد فاطمی نے جوگندر پال جی کے خود وفاتیہ کا متعلقہ اقتباس بھی پورے طور پر درج کر دیا تھا۔ ستیہ پال آنند کوچار جنموں کی ترکیب اچھی لگی تو کسی معقول حوالے کے ساتھ اسے اختیار کرنے کی بجائے انہوں نے اپنی نام نہاد ’’دانشوری‘‘ ظاہر کرتے ہوئے اپنی زندگی کی روداد کا نام ’’کتھا چار جنموں کی‘ ‘کر دیا ہے۔ اس سے جناب ستیہ پال آنند کی خوشہ چینی،اکتساب،استفادہ اور( داؤ لگے تو) سرقہ کی حد تک چلے جانے کا رویہ مزید ظاہر ہو رہا ہے۔ ارے بھائی!فاطمی کا عنوان اتنا ہی اچھا لگا ہے تو اپنے جنموں میں ہی کچھ کمی بیشی کر لو۔ چار کی بجائے تین کر لو یا پانچ،چھ کر لو۔ اگرچہ پکڑنے والوں نے پھر بھی اصل ماخذ تک پہنچ جانا تھا لیکن چلو ایک ہلکی سی لحاظ داری تو رہ جاتی۔

 اپنے انٹرویو میں ستیہ پال آنند نے ایک پنجابی شعر سنا کر بتایا ہے کہ وہ بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں آ گئے۔ غربت کے حالات کے باعث جوگندر پال یہ بات تب کا لکھ چکے ہیں جب ستیہ پال آنند نے ابھی اردو نظم نگاری شروع نہیں کی تھی۔ ’’میں اپنے اولین عہدِ طفلی میں ہی بوڑھا ہو گیا‘‘(مضمون ’’پل بھر زندگی ‘‘از جوگندر پال،

بحوالہ جدید ادب خانپور۔ جوگندر پال نمبر۔ سال اشاعت ۱۹۸۵ء۔ صفحہ نمبر۵۸)

مختلف لوگوں کے زندگی کے حالات ملتے جلتے ہو سکتے ہیں،لیکن پھر کوئی بڑا دعویٰ کیے بغیر ہی بات کرنی چاہیے۔

 جب کوئی بندہ عمر کے اسّی سال عبور کر جانے کے بعد بھی اپنی ’’عظمت‘‘ کا پرچم خود لہراتا پھر رہا ہو تواسے معذور سمجھ کر درگزر سے کام لیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس انٹرویو میں ستیہ پال آنند نے سیاق وسباق سے ہٹ کر اچانک گوتم بدھ ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ بھی بیس تیس برس کی عمر میں۔ ان کے اپنے بقول:

’’بیس تیس برس کی عمر تک اتنا کچھ اکٹھا کر چکا تھا میں،کہ خود کو میں نے گوتم بدھ سمجھنا شروع کر دیا۔ ‘‘

 مہاتما بدھ کی عظمت اور عزت ان کی تعلیمات اور کردار میں ہم آہنگی سے عیاں ہے۔ مہاتما بدھ نے تخت تاج،عزت،شہرت،دولت،تمام خواہشات کو تج دیا تھا۔ آج کئی ملکوں کے حکمران اپنے تخت و تاج،اپنی عزت،شہرت اور دولت سمیت اپنے سر مہاتما بدھ کے قدموں پر جھکا دیتے ہیں۔ ایک جہان ان کے سامنے اپنے سر جھکا رہا ہے۔ کہاں مہاتما بدھ کی عظیم ہستی اور کہاں ہمارے یہ ’’مہاتما خودستیہ پال آنند‘‘ جنہیں بیاسی سال کی عمر میں بھی یہ حسرت ہے کہ وہ زندگی میں عیش و عشرت نہیں کر سکے۔

 مہاتما خود،ستیہ پال آنند اپنی کتاب کا ایک امتیازی وصف اپنے بعض دوستوں اور نارنگ صاحب کے حوالے سے اس انٹرویو میں یہ بتاتے ہیں کہ اس میں زندگی کے حالات سے زیادہ آس پاس کے لوگوں کے بارے میں اور ادب کے تناظر میں بات کی گئی ہے جو دنیا میں اپنی قسم کی واحد کتاب ہے۔ ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ کے بارے میں اگر واقعی ان کے دوستوں نے ایسی بات کہی ہے تو انہوں نے ستیہ پال آنند کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ اور اگر آنند صاحب خود بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا ہو رہے ہیں تو وہ بھی اپنے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ دنیا جہان کی خود نوشتوں کے بارے میں تو چھوڑیں،خود اردو میں ہمارے قریب ترین بزرگ ڈاکٹر وزیر آغا کی خود نوشت’’شام کی منڈیر سے ‘‘مذکورہ اوصاف کی حامل کتاب ہے۔ کہیں ستیہ پال آنند نے وزیر آغا کے اندازسے خوشہ چینی تو نہیں کی؟کتاب کے نام سے لے کر ’’منفرد انداز‘‘ تک ہر کام میں خوشہ چینی کا عمل اور پھر اس برتے پر مہاتما بدھ ہونے کا دعویٰ۔ ستیہ پال آنند کا المیہ یہ ہے کہ ان کی نظموں میں مسلسل اخذواکتساب سے استفادہ تک کا عمل دکھائی دیتا ہے۔ اردو دنیا کے بڑے طبقے کو خوش کرنے کے لیے وہ عربی وفارسی حوالوں کو اپنا ماخذ بناتے ہیں تو مغربی دنیا میں مہاتما بدھ کی فکری مقبولیت دیکھ کر وہ ان کی تعلیمات اور ان کے دور کی فضا کو بھی اپنا موضوع بناتے ہیں۔ مقصد ہر جگہ ایک ہی ہے کہ شہرت کاجو شارٹ کٹ بھی ملتا ہے،اسے اختیار کر لو۔

 مہاتما بدھ کے بارے میں ایک جہان نے لکھا ہے۔ جغرافیائی اور لسانی طور پر اپنے مقامی حوالوں سے بات کروں تو جرمنی کے ممتاز ادیب ہرمن ہیسے کا ناول ’’سدھارتھ‘‘ایک شاندار حوالہ بنتا ہے۔ ہر من ہیسے نے اپنے ناول ’’سدھارتھ‘‘میں خود کو گوتم بدھ کے برابر لانے کی جسارت نہیں کی۔ اس سلسلہ میں جدید ادب جرمنی،شمارہ نمبر ۱۱،جولائی ۲۰۰۸ء میں ’’سدھارتھ‘‘پر بات کرتے ہوئے میں یہ لکھ چکا ہوں :

ََ ’’ ہرمن ہیسے نے ہندوستان کے سفر کے دوران گوتم بدھ کا جو احوال سنا اُس کی روشنی میں اپنی زندگی کو دیکھنے کی کاوش کی۔ اس کاوش میں ہرمن ہیسے کو یہ احساس ہوا کہ وہ اپنے چند ازلی سوالوں کے ساتھ حقیقتِ عظمیٰ کی جستجو اور تلاش کا سفر تو کر رہا ہے لیکن اسے گوتم بدھ جیسے گیان کی منزل نصیب نہیں ہو سکتی۔ سو اس نے خود کو گیان کی روشنی سے پہلے والے سدھارتھ کے مقام پر رکھا اور اسی نام کے ساتھ اپنی جستجو کا سفر شروع کیا جو ظاہر ہے ایک نا مختتم سفر ہونے کے باعث کبھی مکمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ تاہم اس سفر میں جو کچھ پیش آیا وہ سب بجائے خوداس کی زندگی کی روحانی واردات کا حصہ شمار کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘

 ستیہ پال آنند میں ہرمن ہیسے جیسا ظرف تو خیر کہاں سے آتا،تاہم وہ تھوڑی سی عقل سے کام لیتے تو بیس تیس برس کی عمر میں گوتم بدھ بننے کا مضحکہ خیز دعویٰ کر کے خود ہی اپنی تضحیک کا باعث نہ بنتے۔

 اردو فکشن میں انتظار حسین نے بدھ جاتکوں سے جو اکتساب کیا ہے،وہ ظاہر و باہر ہے۔ وزیر آغا کے فکری مضامین سے لے کر ان کی نظموں تک میں مہاتما بدھ کا فیض بھی دکھائی دیتا ہے اور کئی مقامات پر ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی فکر سے اختلاف بھی موجود ہے۔ اب اگرستیہ پال آنند نے مہاتما بدھ کی شخصیت اور ان کی تعلیمات کے کچے پکے اشارے دے کر اپنی نظموں کو مزیّن کرنے کی کاوش کی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ گڑ بڑ وہاں ہوئی ہے جب انہوں نے اپنی ایسی نظموں سے خود ہی متاثر ہو کر اپنے آپ کو مہاتما بدھ جیسا قرار دے ڈالا ہے۔ اور وہ بھی اپنے ماضی بعید میں جا کر بیس تیس سال کی عمر میں مہاتما بدھ بن بیٹھے ہیں۔ اس سے ستیہ پال آنند کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اُلٹاستیہ پال آنند کی شخصیت’’ مہاتما خود‘‘ کی مضحکہ خیز صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ مہاتما بدھ کے گیان سے نروان تک کے جن فرمودات کو انہوں نے محض اشاراتی لفاظی کی حد تک بیان کیا ہے،وہ خود ان کی روح سے یکسر نا واقف دکھائی دے رہے ہیں،وگرنہ اس باب میں اپنی طرف سے کوئی انکشاف تو فرماتے۔ پہلے سے کہے گئے الفاظ کو دہراتے جانا بعض اوقات لفظوں کی جگالی کہلاتی ہے۔ کاش ہمارے مہاتما خود ستیہ پال آنند پہلی عظیم ہستیوں کے عظیم فرمودات کو اپنی روح کا جزو بنا کر پھر اپنی طرف سے کچھ نیا کہہ پاتے۔ ابھی تک وہ صرف پہلے مقدس فرمودات کی جگالی ہی کر رہے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو’’ مہاتما خود ستیہ پال آنند‘‘ کو بدھ جیسا ہونے کا مضحکہ خیز دعویٰ نہ کرنا پڑتا۔ دنیا خود ان کا اعتراف کرتی۔ پھر کسی بھی جیسا ہونا کیوں ؟جینوئن تخلیق کارتو اپنے جیسا آپ ہوتا ہے۔ اس کا چھوٹا یا بڑا ہونا اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا اس کا جینوئن ہونا اہم ہوتا ہے۔ جینوئن تخلیق کارجہاں کہیں سے بھی فیض حاصل کرے لیکن اپنے مجموعی تخلیقی ظہور میں وہ اپنے جیسا آپ ہوتا ہے۔ کسی اور جیسا نہیں ہوتا۔ ستیہ پال آنند کو تخلیقیت کا اتنا سا گیان بھی نصیب ہوا ہوتا تو وہ گیان اور نروان کی سطحی باتیں نہ کرتے۔

 میری کتاب’’ستیہ پال آنند کی’۔ ۔ ۔ بودنی،نابودنی‘‘ کی اشاعت کے معاً بعد ستیہ پال آنند کے ارد گرد سے اور خود ان کی طرف سے بھی چند باتوں کا اعتراف سامنے آ گیا ہے اور اس اعتراف میں چند نئی باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ مثلاًستیہ پال آنند ایک طویل عرصہ تک ہندی،پنجابی اور انگریزی میں لکھتے رہے ہیں۔ ان زبانوں میں بھی نثر میں خامہ فرسائی کرتے رہے ہیں۔ ساٹھ سال کا ہو جانے کے بعد انہوں نے اردو نظم کا رخ کیا۔ اس سے میرا پہلا اندازہ درست نکلا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ مذکورہ بالا تینوں زبانوں میں لکھے گئے کو کوئی اہمیت نہیں ملی تو انہوں نے اردو کا رُخ کیا اور اس میں غزل کی مخالفت کا اعلان کر کے نظم نگاری شروع کر دی۔

 یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہندی میں ستیہ پال آنند نے جاسوسی ناول بھی لکھے۔ اردو میں ابنِ صفی کے لکھے ہوئے ناول پورے برصغیر میں مقبول ہیں۔ ہندی سے لے کر انگریزی تک میں ان کے ترجمے ہو چکے ہیں۔ کمرشیل سطح پر سہی،ابنِ صفی کے ناولوں کے مقابلہ میں ستیہ پال آنند کے جاسوسی ناول کہیں دکھائی دیتے ہیں ؟

 میں اپنے مضمون ’’دو نظموں کا قضیہ‘‘ میں ستیہ پال آنند کے بارے میں یہ بات لکھ چکا ہوں کہ ان کے ہاں :

 ’’ کہیں پورے اور کہیں آدھے ادھورے حوالہ جات بھی ملتے ہیں لیکن ساتھ ہی بہت ساری ایسی باتیں بھی ملتی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خصوصاً جب وہ بغیر واضح حوالہ دئیے بعض بڑے اور اہم ادیبوں کے ساتھ اپنی بے تکلفی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سارا سلسلہ صرف اپنی (غلط) اہمیت ظاہر کر کے خود کو بھی اہم ثابت کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ‘‘

 ستیہ پال آنند کا یہ رویہ جابجا موجود ہے۔ ’’کتھا چار جنموں کی ‘‘پر انعام الحق کی رائے میں (بحوالہ چہار سو) ستیہ پال آنند کے اقتباس سے ظاہر کیا گیا ہے کہ تلوک چند محروم اور جوش ملیسانی نے کہا تھا کہ اس نوجوان کا مزاج صرف نظم کے لیے موزوں ہے۔ (دروغ برگردن ستیہ پال آنند)۔

 پہلی بات تو یہ کہ دونوں بزرگ شاعرجدید نظم سے بالکل بے تعلق تھے اور پابند نظم کی روایت میں اپنا شاندار مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے اُس زمانے میں جب یہ تیرہ چودہ برس کے تھے، کیسے یہ گمان کر لیا کہ یہ نوجوان نظم کا مزاج رکھتا ہے۔ ایسی کم عمری میں اگر کوئی بات قرینِ قیاس ہو سکتی ہے تو اتنی کہ ستیہ پال آنند نے لڑکپن میں شاعری کے نام پر تک بندی جیسے چند مصرعے لکھے ہوں گے اور ان بزرگوں کو دکھائے ہوں گے۔ پرانی روایات کے امین ان بزرگوں نے بے وزن تک بندی دیکھ کرشاعری سے روکنے کے لیے کہا ہو گا کہ میاں ! آجکل جو آزاد شاعری کی جا رہی ہے،آپ بھی ویسی نظمیں لکھا کرو۔ پابند شاعری مت کیا کرو۔

 دوسری بات یہ کہ بھائی صاحب!دوسروں کے بتانے پر ہی کیوں سمجھے ؟جدید نظم کا معاملہ تو خارجی سے کہیں زیادہ داخلی نوعیت کا ہے۔ اپنی اہمیت جتانے کے لیے کوئی روایت گھڑنی تھی تو اس میں کوئی معقول مطابقت بھی پیدا کر لی ہوتی۔

 اردو کے بعض ادبی رسائل کے کاروباری مزاج کے باعث ستیہ پال آنند کی ان رسائل میں جتنی اہمیت بنی ہوئی ہے وہ ساری سر آنکھوں پر!۔ ۔ تاہم یہ حقیقت واضح ہے کہ اردو غزل کے ستیہ پال آنند سے بھر پور انتقام کے باوجود، خوشہ چینی،اکتساب،استفادہ سے ہوتے ہوئے داؤ لگے تو سرقہ تک کر گزرناستیہ پال آنند کی شخصیت اور ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ اپنی زندگی کی کتھا لکھ کر وہ اس کتاب کا نام بھی جوگندر پال سے اُڑائے بغیر نہ رہ سکے۔ اسی طرح مہاتما بدھ کے مقابلہ میں گیان اور نروان کی خالی خولی باتیں کرنا ’’مہاتما خود‘‘ بننا ہے۔ یہی ستیہ پال آنند کی ادبی شخصیت ہے اور یہی ان کی حقیقت ہے۔

 آخر میں یہ اعتراف کرنا ضروری ہے کہ کئی سال پیشتر عطاء الحق قاسمی کا ایک کالم ’’مہاتما خود‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ عطا کے شکریہ کے ساتھ یہ عنوان اس مضمون کے لیے اختیار کر رہا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ عطاء کے ممدوح کی شخصیت سے زیادہ یہ عنوان میرے ممدوح ستیہ پال آنند صاحب پر فٹ آیا ہے۔ سو حق بحق دار رسید۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 غزل دشمنی،شہرت کا شارٹ کٹ

 

(بحوالہ انٹرنیٹ میگزین ادبی منظر نامہ،شمارہ نمبر ۲۔ اپریل ۲۰۱۴ء)

http://issuu.com/adabi-manzar

ارشد خالد

 

 ستیہ پال آنند بزرگ لکھاری ہیں۔ پہلے ہندی،پنجابی اور انگریزی میں طبع آزمائی کرتے رہے۔ وہاں بات نہیں بن سکی تو اردو کی طرف آ گئے۔ ان کی آمد سے اردو دنیا کو خوشی ہوئی۔ لیکن اپنی آمد سے اب تک انہوں نے وقفے وقفے سے خود کو غزل دشمن کے طور پر پیش کر کے شہرت حاصل کی۔ غزل دشمنی میں پہلے بھی بعض بزرگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ستیہ پال آنند اس لحاظ سے عجیب و غریب کردار ہیں کہ اردو دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ غزل کی وجہ سے اردو زبان و ادب کا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ پھر اردو دنیا سے ہی کہتے ہیں کہ غزل کو اردو بدر کر دو۔ ان کی اس قسم کی فضول باتوں کے جواب میں ظفر اقبال نے ایک کالم لکھا تھا،اس لنک پر کلک کر کے اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے

http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2014-03-13&edition=LHR&id=940267_41283395

پھر ڈاکٹر غافر شہزاد نے لاہور میں ان کا سوا گت کرتے ہوئے ایک کالم لکھا۔ اس لنک پر ستیہ پال آنند کا یہ سوا گت دیکھا جا سکتا ہے۔

http://www.jehanpakistan.com/epaper/detail_news.php?news=%2Fepaper%2Fepaper%2Fislamabad%2F130314%2Fp13-03.jpg#sthash.H9F0zllX.uyYHSaXL.dpbs

 حیدر قریشی نے ستیہ پال آنند کی غزل دشمنی سے ان کی شخصیت اور ان کے کردار کو جس طرح بے نقاب کیا ہے،وہ اس وقت تک اس موضوع پر حرفِ آخر کا درجہ رکھتا ہے۔ حیدر قریشی کی کتاب’’ستیہ پال آنند کی ’’بودنی،نابودنی‘‘ میں ہر بات دلیل کے ساتھ،مکمل شواہد کے ساتھ اور ادبی تہذیب کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ ستیہ پال آنند اس کے جواب میں کمزور بچے کی طرح گندی گالی تو دے سکتے ہیں لیکن اس کتاب کے مندرجات کو دلیل کے ساتھ رد نہیں کر سکتے۔ حیدر قریشی کی مذکورہ کتاب انٹرنیٹ پر ان لنکس پر دستیاب ہے۔

http://satyapalanandkishakhsiyat.blogspot.de/

http://issuu.com/haiderqureshi/docs/final_book_s.p.anand_ki…boodni_na

https://docs.google.com/file/d/0B_xQnk75odj9UFYxMWYyRDJhdU0/edit?pli=1

 وہ لوگ جو ادب میں دلیل اور تہذیب کے ساتھ مکالمہ کی اہمیت کے قائل ہیں،ان سے درخواست ہے کہ اس مختصر کتاب کا مطالعہ کر کے پھر دیکھیں کہ ستیہ پال آنند نے اس کتاب کے جواب میں کوئی علمی اور مدلل بات کی ہے یا نہیں ؟دستیاب حقائق کی بنیاد پر پھر خود انصاف کے ساتھ کسی نتیجہ تک پہنچیں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

 ’’چھوٹا منہ بڑی بات ‘‘والی بات ہے لیکن جب ’’بڑے ‘‘حد سے زیادہ چھوٹے ہو جائیں تو پھر پہلے سے موجود چھوٹوں کو ہی کچھ نہ کچھ کہنا پڑ جاتا ہے۔ ستیہ پال آنند اردو کی محبت میں غزل کو اردو بدر کرنے کی جو اپیلیں کر رہے ہیں،وہ ایک بچکانہ حرکت ہے۔ کیا کسی صنف کو کبھی اس بنیاد پر رائج یا رد کیا گیا ہے کہ کوئی اپیل کر دے اور اس پر عمل در آمد ہو جائے۔ ملتی جلتی ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔

 پابند نظم نگاری میں مولانا حالی اور علامہ اقبال نے اردو میں اس کے سارے امکانات تک رسائی حاصل کر لی تو اس کے بعد از خود اردو نظم میں آزاد نظم رائج ہوتی چلی گئی۔ تمام تر مخالفت کے باوجود رائج ہوتی چلی گئی۔ اور پابند نظم اپنے عروج کو پا کر کسی مخالفت کے بغیر،کسی اپیل یا فریاد کے بغیر مفقود ہوتی چلی گئی۔ ستیہ پال آنند جیسے بزرگوں کو اس ادبی تاریخ کے عمل سے کوئی حقیقت محسوس نہ ہو سکے گی۔ لیکن ادب سے تعلق رکھنے والے باقی احباب بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کوئی بھی ادبی صنف جب تک اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تب تک اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب کسی ادبی صنف کے مزید امکانات معدوم ہوں اور اس کا وقت کے ساتھ چلنا ممکن نہیں رہتا تو اس کے خلاف کسی اپیل یا فریاد کی ضرورت پیش نہیں آتی،وہ از خود،اپنے فطری انجام کو پہنچ جاتی ہے۔

 ستیہ پال آنند کو حیدر قریشی نے کئی برس پہلے مشورہ دیا تھا کہ وہ غزل کے غم میں اپنی جان کو ہلکان نہ کریں اور خود اچھی نظمیں کہنے کی طرف توجہ کریں۔ ان کی اب تک کی نظمیں دیکھنے کے بعد انہیں پھر یہی مشورہ دینا ضروری لگ رہا ہے۔ ستیہ پال آنند غزل کے مضامین اڑا کر نظمیں گھڑنے کی بجائے،اور غیر اردو ماحول میں دوسروں کی غزلیں اپنے نام سے سنانے کی بجائے،اب کوشش کریں کہ ایک دو اچھی نظمیں کہہ جائیں۔ تاکہ ادب میں ان کا پھر ایک نظم نگار کی حیثیت سے عزت کے ساتھ نام لیا جا سکے۔

٭٭٭


 

 

 

حیدر قریشی کی کتاب ’’ستیہ پال آنند کی …….بودنی نا بودنی‘‘

پر موصولہ چند تاثرات

 

ڈاکٹر انور سدید(لاہور،پاکستان): آپ کا گراں قیمت تحفۂ خلوص ’’ ستیہ پال آنند ۔ ۔ ۔ بودنی نا بودنی‘‘ مل گیا ہے۔ اس کرم کے لئے آپ کا شکر گزار ہوں۔ حیدر قریشی صاحب سے ملاقات با ندازِ دگر ہوئی۔ انھوں نے نیا محاذ کھول لیا ہے لیکن یقین ہے وہ اس محاذ پر بھی کامران و کامیاب ہوں گے۔ ۔ ۔ حیدر قریشی صاحب نے چند نئی اور نا قابلِ یقین باتیں بازیافت کی ہیں تو میں حیرت زدہ ہوں۔ بنام ارشد خالد۔ ۱۱ سمبر ۲۰۱۳ء

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مرزا خلیل احمد بیگ(علی گڑھ،حال نیویارک،امریکہ):ڈئر حیدر قریشی صاحب کتاب ملی،بہت بہت شکریہ۔ ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔ آپ نے تو ستیہ پال آنند جی کھال اُدھیڑ کر رکھ دی۔ میں تو انہیں ایک نہایت معتبراور ذمہ دار ادیب سمجھتا تھا لیکن وہ تو کچھ اور ہی نکلے۔ ؎ ہیں کواکب کچھ،نظر آتے ہیں کچھ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نند کشور وکرم(چیف ایڈیٹر عالمی اردو ادب۔ دہلی،انڈیا):ڈئیر حیدر قریشی صاحب۔ ستیہ پال آنند صاحب پر کتاب ’’بودنی،نا بودنی‘‘ لکھنے اور چھاپنے پر آپ کو اور آنند صاحب کو بہت بہت مبارک۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خادم علی ہاشمی(ملتان،پاکستان):عزیزم حیدر قریشی صاحب! سلام مسنون،آج صبح سویرے جو میل کھولی تو سب سے پہلے ستیہ پال آنند صاحب کے حوالے سے ’’بودنی نابودنی‘‘ کو اول سے آخر تک پڑھا۔ بہت خوب۔ آپ نے جس جانفشانی کے ساتھ’’استفادہ‘‘اورخیالات کے سرقہ کی راہ کھوجی ہے،قابلِ صد ستائش ہے۔ آپ کے دلائل وزنی اور بر محل ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رؤف خیر(حیدرآباد،دکن،انڈیا):ستیہ پال آنند کے بارے میں آپ کی کتاب زبردست ہے۔

٭٭٭


 

 

 

نسیم انجم ایک اہم فکشن رائٹر

 

 نسیم انجم بنیادی طور پر فکشن رائٹر ہیں،افسانہ اور ناول دونوں میں ان کا قابلِ قدر کام ہے۔ تاہم ان کے ناول ’’نرک‘‘ کو اپنے موضوع اور اظہار کے حوالے سے ان کی سب سے عمدہ تخلیق قرار دیا جا سکتا ہے۔ نسیم انجم نے ڈرامہ نگاری میں بھی خاصا کام کیا ہے اور گزشتہ پندرہ برس سے کالم نگاری کے ذریعے صحافت سے بھی منسلک ہیں۔

تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی اپنے ادبی شعور کا ثبوت دیا ہے۔ نسیم انجم کی ادبی و صحافتی خدمات کا کچھ ذکر اس مختصر سے گوشہ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ اس گوشہ کی اشاعت کے بعد ان کی ادبی و صحافتی خدمات کو مزید قریب سے دیکھا جائے گا اور ان کا اعتراف بھی کیا جائے گا۔

ارشد خالد

٭٭٭


 

 

 

نسیم انجم کا ادبی و صحافتی کام ایک نظر میں

 

۱۔ دھوپ چھاؤں (افسانے ) ۲۔ کائنات (ناول)

۳۔ آج کا انسان(افسانے ) ۴۔ نرک (ناول)

۵۔ پتوار(ناول) ۶۔ گلاب فن اور دوسرے افسانے (افسانے )

۷۔ کالم نگاری ’’ساختہ بے ساختہ‘‘۔ ۲۰۰۰ء سے تا حال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روزنامہ ایکسپریس

۸۔ ڈرامے (ریڈیو پاکستان پر ۱۹۸۴ء سے ۲۰۰۷ء تک)

۹۔ خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصور زن

٭٭٭


 

 

 

نسیم انجم کا ناول ’’نَرک‘‘

 

حیدر قریشی

(جرمنی)

 

 نسیم انجم ایک عرصہ سے اردو فکشن میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیائی ڈرامے بھی لکھتی رہی ہیں اور مسلسل کالم نگاری بھی کر رہی ہیں۔ بطور کالم نگار تو میں انہیں کچھ عرصہ سے پڑھتا آ رہا ہوں لیکن ان کا ناول ’’نَرک‘‘ مجھے حال ہی میں پڑھنے کا موقعہ ملا ہے۔ یہ ناول ایسے ہیجڑوں کی زندگی پر مشتمل ہے جن میں سے بعض قدرتی طور پر ایسے تھے تو بعض کو اغوا کر کے جبراً ہیجڑہ بنا دیا گیا۔ اس موضوع سے متعلق انڈیا میں دو تین فلمیں بن چکی ہیں۔ ایک دو پاکستانی ڈراموں میں بھی اس حساس موضوع پر کافی سنجیدگی کے ساتھ صورتِ حال کو پیش کیا گیا ہے۔ ادبی طور پر افتی نسیم اس موضوع سے خود براہ راست منسلک رہے اور انہوں نے اس المیہ کے بعض پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ تاہم خود اس المیہ کا حصہ ہونے کے باعث ان کی تحریر میں غم و غصہ اور انتقامی رویہ جلد ابھر آتا ہے۔ ادبی شخصیت ہونے کے باوجود افتی نسیم اس موضوع سے متعلق کوئی سنجیدہ بڑا کام نہیں کر پائے۔

 نسیم انجم کا کمال ہے کہ ایک خاتون ہوتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اس حساس موضوع پر ناول لکھا بلکہ ناول لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ ’’نرک‘‘ ننھے ببلو کی المناک داستان ہے،اس کے ماں باپ دونوں ڈاکٹر تھے۔ ایک دن اس بچے کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھراسے جبراً ہیجڑہ بنا لیا جاتا ہے۔ اسے گلنار نام دیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں رچ بس جانے کے بعد ایک دن آتا ہے جب اسے ہیجڑوں کا گرو بنا دیا جاتا ہے۔ ہیجڑوں کی زندگی کے معمولات تو پورے ناول میں موجود ہیں تاہم اس بیچ دو خاص واقعات سامنے آتے ہیں۔ گلنار(ببلو)کی طرح ایک بچہ کہیں سے اغوا کر کے لایا جاتا ہے۔ گلنار کو اپنا زمانہ یاد آ جاتا ہے اور وہ سب سے چوری کسی نہ کسی طرح اسے اس کے گھر پہنچا دیتی ہے۔ تب اسے لگتا ہے کہ اس نے ببلو کو اس کے ماں باپ کے پاس پہنچا دیا ہے۔ دوسرا واقعہ ایک نارمل نوجوان دانش کا پیش آتا ہے جو صحافت کی دنیا میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن سخت گیر باپ کی سختی اور حالات کی ستم ظریفی اسے گلنار کے گھر تک پہنچا دیتی ہے۔ ہیجڑوں کے طور طریق کے مطابق وہاں اس کی گلنار سے شادی ہو جاتی ہے۔ اس کا سخت گیر باپ اسے عاق کر دیتا ہے۔ ماں بیٹے کی جدائی کے غم فوت ہو جاتی ہے۔ تب اس کے باپ کے رویے میں تبدیلی آتی ہے۔ اس کی دوست تانیہ اسے اس دلدل سے نکلنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر وہ ملک میں رہتا تو ہیجڑے اسے کسی بھی طریقے سے قتل کرا دیتے،اس لیے دانش اور تانیہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں،اپنے والد سے اس کی صلح ہو جاتی ہے۔ گلنار دانش کی یاد میں پریشان ہوتی ہے۔ جب اس کا آخری وقت آتا ہے وہ سارے ہیجڑوں کو سمجھاتی ہے کہ دوسروں کی تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بننے سے بہتر ہے ہم سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور اسی معاشرے میں گھل مل کر معمول کی زندگی گزاریں۔

 یہ ایک طرح سے اپنے معاشرے کے لیے بھی پیغام ہے کہ انسانوں کی اس صنف کو بھی انسان سمجھ کر اپنے ماحول میں جگہ دیں اور ہیجڑہ برادری کو بھی درس ہے کہ الگ تھلگ رہنے کی بجائے نارمل انسان کی طرح محنت کر کے،پڑھ لکھ کر ملازمت کریں،کاروبار کریں۔ بظاہر یہ سیدھی سی کہانی ہے (بس دانش اور تانیہ کے محبت آمیز مکالمے میں ایسے لگتا ہے جیسے خواتین کے کسی رسالے کی رومانی کہانی پڑھ رہا ہوں )لیکن ناول کی تیکنیک میں نسیم انجم نے اپنے انوکھے موضوع کے تمام کرداروں کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ ان کی الگ الگ اور ملتی جلتی نفسیات،طور طریق،بظاہر پھکڑ پن مگر بباطن زخمی روح،درد کے اَن دیکھے اور ان جانے دیار،نسیم انجم نے اتنا کچھ اتنی مہارت سے بھر دیا ہے کہ اس موضوع پر لکھے گئے اس ناول کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس ناول کو پڑھتے ہوئے کئی بار میرا دل بھر آیا۔ کئی مقامات پر مجھے خوف کا سامنا کرنا پڑا۔ ببلو کی نفسی کیفیات نے تو دہلا کر رکھ دیا۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ نسیم انجم نے اس حساس موضوع پر ابھی تک کا سب سے بڑا ناول لکھ دیا ہے۔

٭٭٭


 

 

 

 

نرک :ایک اچھوتا ناول

 

ڈاکٹر ایس ا یم معین قریشی

 

 اردو زبان میں رائج لفظ ’ناول‘ جو افسانوں کی ایک خاص صنف کے لیے مستعمل ہے در حقیقت انگریزی کا لفظ ہے۔ انگریزی میں یہ لاطینی زبان کے Nomusسے آیا ہے جس کے معنی ہیں نئی شے۔ اپنے موجودہ مفہوم میں ناول کے لیے اس طرح رائج ہوا کہ شروع میں ناول کے متعلق عام خیال یہ تھا کہ ہر ناول کا قصہ، پلاٹ، کردار وغیرہ دوسرے سے مختلف یعنی نئے ہوں گے۔ اردو میں ناول نویسی کا یہ طریقہ بجنسہ اپنا لیا گیا اور یوں خود لفظ ’ناول‘ بھی اس کے ساتھ منتقل ہو گیا۔

 اردو میں داستان گوئی قطعاً نئی چیز نہیں۔ اس کی ابتدا بھی اردو کے ساتھ ہو گئی تھی۔ اردو کی پیدائش سے پہلے سنسکرت جیسی وسیع زبان اور اس کے بعد ہندی میں بہت سے طبع زاد قصے لکھے جا چکے تھے۔ ان ہی دونوں زبانوں سے اردو نے اپنا ادبی سرمایہ حاصل کیا۔ شروع میں ان کی نوعیت مذہبی تھی۔ پھر ان کی جگہ اخلاقی قصوں نے لے لی۔ 1800ءمیں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا تو اردو میں مافوق الفطرت داستانوں کی بھرمار ہو گئی۔ ان داستانوں میں روزمرہ (زندگی) کے واقعات کا تو دور دور نشان نہ تھا لیکن ان سے لوگوں میں داستان بینی کا شوق ضرور پیدا ہوا۔

بعد ازاں ڈپٹی نذیر احمد(1831ء تا1912ئ)نے اردو میں معاشرتی قصے لکھنے شروع کیے۔ یہ قصے اگرچہ آج کے ناول کے معیار پر سو فی صد پورے نہیں اتر تے لیکن تاریخی تناظر میں نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ 1879ء میں رتن ناتھ سرشار نے ’فسانۂ آزاد‘ کے عنوان سے اپنا ناول مکمل کیاجس میں کردار نگاری پر تو زور تھا لیکن پلاٹ کی تر تیب و تسلسل کا فقدان تھا۔ سب سے پہلے ناول نگار جنھوں نے انگریزی طرز لکھا مولوی عبدالحیلم شرر(1860ء تا1926ء) تھے۔ ان کے دور سے ناول نے ایک مستقل صنف کی حیثیت اختیار کر لی۔ افسانے اور ناول میں بنیادی فرق تخلیقی رویے کا ہے۔ افسانے کی بنیاد کسی ایک واقعے اور اس سے متعلق چند دیگر جزئیات و کیفیات پر ہوتی ہے جب کہ ناول کرداروں کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔

اردو کے ممتاز ناول نگاروں میں جہاں مرزا ہادی رسوا، علامہ راشد الخیری، منشی پریم پند، احمد احسن فاروقی، رئیس احمد جعفری،ممتاز مفتی، عبد اﷲ حسین، نسیم حجازی اور شوکت صدیقی جیسے نام ملتے ہیں وہیں قرۃالعین حیدر سے لے کر رضیہ فصیح احمد تک خواتین کی ایک طویل قطار فہرست ہے جنھوں نے اس صنف کو پروان چڑھایا۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر (’کلچر اور ادب‘) ’ہمارے یہاں ناول نگاری میں عورتیں چھائی ہوئی ہیں ‘۔ ہم اس پر یہی تبصرہ کریں گے کہ جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں، مینا اسی کا ہے۔

محترمہ نسیم انجم ہمارے عہد کی ایک ممتاز ادیبہ ہیں۔ ان کی تحریروں میں افسانے، ڈرامے، ناول، مضامین کے علاوہ کالم بھی شامل ہیں جو ’ساختہ بے ساختہ‘ کے عنوان سے ایک مشہور روزنامے میں گزشتہ کئی سال سے شائع ہو رہے ہیں۔ مختلف جہتوں میں ان کی ادبی کا وشیں اس امر کی شاہد ہیں کہ انھیں قلم پر مکمل عبور حا صل ہے لکھنے کے لیے ان کے پاس مواد کی بھی کمی نہیں جس سے ان کے مشاہدے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ چنا نچہ وہ مختلف اصناف میں اپنی فکری صلاحیتوں کا اظہار اور ابلاغ کرتی رہی ہیں۔ ان کی کئی ایک تصانیف پہلے ہی مقبولیت حاصل کر چکی ہیں اور حال ہی میں شائع ہو نے والے ناول ’نرک‘ نے صاحب ذوق قارئین اور مقتدر ناقدین دونوں کو متاثر کیا ہے۔

’نرک‘ (جہنم) کا مو ضوع اپنی نوعیت میں انفرادیت کا حامل ہے۔ یہ ’تیسری جنس‘کے مسائل پر مبنی ہے۔ کسی اچھوتے مو ضوع پر قلم اٹھانا بظاہر ایک ’مہماتی ‘ کو شش قرار دی جا تی ہے جس میں ناکامی کا پورا امکان رہتا ہے لیکن ’نرک‘پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ نسیم انجم نے محض اپنی قوت متخیلہ ہی پر انحصار نہیں کیا بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ہوم ورک بھی کیا ہے۔ انھوں نے معاشرے کے اس بد نصیب اور قا بل رحم طبقے کے حالات زندگی کا نہا یت قر یب سے جائزہ بھی لیا، ان کے متعلق معلومات اکھٹی ّ کیں اور جب بھی مو قع ملا ان سے بالمشافہ گفتگو کر کے ان کے بارے میں اپنے علم میں اضافہ کیا۔ اس طرح انھوں نے جو ذہنی خاکہ تیار کیا اسے پوری چابک دستی سے ناول کے ایک مکمل مسوّدے میں سمو دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سارے کام میں انھیں ڈھائی تین سال کا عرصہ لگا اور بلا شبہ یہ اسی تو جہ کا متقاضی تھا۔

ناول کے اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، کردار، تکنیک، منظر نگاری اور مکالمے اسا سی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ناول نگار کی گرفت ان پر مظبوط نہیں ہو گی تو ناول دلچسپی سے عاری ایک سپاٹ تحریر سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ نسیم انجم کا یہ ناول عام رومانی یا نام نہاد تاریخی ناولوں سے مختلف ہے اس لیے انھیں اس پر دو چند محنت کرنا پڑی۔ تا ہم اس کے نتیجے میں ایک دلچسپ ناول وجود میں آیا جس کے بیشتر حصے سنسنی خیز ہیں۔ ڈرامائیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے اہم کردار (ہیجڑے )کبھی ظالم کے روپ میں سامنے آتے ہیں اور کبھی مظلوم کے۔

ناول کی کہانی فلیش بیک میں ایک بارہ سالہ بچے (ببلو )سے شروع ہوتی ہے جو اس کا مرکزی کردار ہے۔ ببلو ایک معزز گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ اسکول سے واپسی پر ایک روز ہیجڑوں کے گروہ کے کارندے اسے اغوا کر کے اپنے ڈیرے پر لے آتے ہیں ڈیرے کی سر غنہ ’امّی حضور‘ ایک جہاندیدہ، تجربہ کار اور گھاگھ قسم کا ہیجڑہ ہے۔ وہ گروہ کے ارکان کے لیے مشفق و مہربان بھی ہے لیکن اس لحاظ سے سفاک بھی کہ اسی کے زیر سر پر ستی بچے اغوا ہو کر ’نربان‘ بننے کے مر حلے سے گزرتے ہیں یعنی تکلیف دہ آپریشن جس کے ذریعے ہیجڑے بنائے جاتے ہیں۔ ببلو جس کا نام گلناز رکھ دیا جاتا ہے ’نربان‘ بن کر یہیں کا ہو رہا۔ ناول کے آخر میں ’امّی حضور‘ کی موت کے بعد جب وہ اپنے گھر واپس آتا ہے تو وہاں سے با پ کا جنازہ نکلتے دیکھتا ہے۔ اس کی ماں اس کے غم میں گھل گھل کر پہلے ہی دنیا سے سدھار چکی ہے۔ ببلو جو اب ایک پکی عمر کا ہیجڑہ ہے قبرستان جا کر مر حوم باپ کا چہرہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہے لیکن مولوی صاحب سے جھڑک دیتے ہیں۔ وہ باپ کی قبر پر مٹی ڈالنا چاہتا ہے گورکن اسے یہ کہہ کر دھتکار دیتا ہے ’تمھارا کیا واسطہ ان قبروں سے ‘ اس وقت ببلو (گلناز جو بعد میں گوجی کہلایا)کے منہ سے صرف اتنا نکلتا ہے ’ہیجڑہ بھی آخر انسان ہوتا ہے۔ اسے بھی زمین میں ہی دفن کیا جا تا ہے۔ ‘ پھروہ اپنے نرک میں لوٹ جاتا ہے۔ باول یں ایک ذیلی داستان دانش اور اس کی محبوبہ تا نیہ کی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے جسے مصنفّہ نے بڑی مہارت کے سا تھ گلنار کے مر کزی کردار سے ہم آہنگ کر کے ناول میں ایک ایسی تجسسّ آمیز فضا پیدا کر دی ہے کہ قاری کی توجہ ایک لمحے کی؎ے لیے بھی کتاب سے ہٹنے نہیں پاتی۔ اہم بات یہ ہے کہ اصل کہانی کے ساتھ چلنے والے ضمنی قصوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا گیا ہے۔ ناول کے مختلف مدارج اپنے پس منظر، آغاز، ارتقا، انجام اور نقطۂ عروج تک پوری طرح مربوط ہیں۔ ایک نہا بت مضبوط پلاٹ کو نسیم انجم نے ’ ماحول سازی‘(مبصر نگاری )کی جذئیات کے سا تھ اس طر ح رقم کیا ہے کہ تما م مناظر آنکھوں کے سا منے سے گزرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ مثلا ایک مقام پر ’ویل‘(بیل)دینے کا نقشہ یوں کھینچا ہے ’ہجوم میں اکثر من چلے نیلوفر کو نوٹ دکھاتے۔ جب وہ لینے جاتی تو فوراً ہا تھ لہرا کر دور کر لیتے۔ وہ نوٹ حاصل کرنے کے لیے جھپٹامارتی، ہاتھ پر دانت لگاتی، اتنی دیر میں نوٹ دوسرے کے پا س پہنچ جاتا۔ نیلوفر دوڑ کر مجمع میں جاتی اور ادھر ہی تھرکنا شروع کر دیتی۔ اپنے جسم کو ہر زاویے سے مٹکاتی۔ نوجوان اس سے نئے نئے گانوں کی فر مائش کر دیتے۔ ۔ ۔ اس کی عجیب و غریب حرکیتں اور مٹکتے جسم کو دیکھ کر عورتیں شرم کے مارے دوپٹہ منہ پر رکھ لیتیں۔ ہجوم قہقہے لگاتا اور آخروہ نوٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوہی جاتی‘۔

’تیسری جنس‘ کی بودوباش عادات و اطوار،رسوم و رواج، آپس کی بات چیت کا ڈھنگ، ہارسنگھار، لباس، چٹک مٹک، مخصوص قسم کے کھانے اور اس کے علاوہ ان کے جذبات، الجھنیں، تفکرات اور خطرات کا بیان ناول میں حقیقت کا رنگ بھر دیتا ہے۔ اپنے موضوع کی مناسبت سے ’نرک‘میں جنسی تلذّر کی بہت گنجائش تھی لیکن مصنّفہ نے شعوری طور پر اس اجتناب کرتے ہوئے صاف ستھرے انداز میں کہانی کو آگے بڑھایا ہے۔

کردار نگاری بہت جاندار ہے۔ ہر کردار کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ اس کی نفسیات اور گھٹی ہوئی خواہشات قاری پر عیاں ہو جاتی ہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ مخلوق جو دوسروں کو خو ش کرتی ہے کس طرح خود حقیقی خو شی کو ترستی ہے۔ حالانکہ یہ لوگ اغوا، منشیات فروشی اور گداگری جیسے جرائم و معائب میں بھی گرفتار ہیں لیکن بالآخر معاشرے کے اس مسترد شدہ طبقے کے لیے قاری کے دل میں کہیں نہ کہیں نرم گو شہ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ تاہم مصنفہ نے ’’فنی نذاکتوں ‘‘ کو بھی ملحو ظ نظر رکھا ہے چنانچہ سیّاں، بلما، کنواری کنّیا، اوئی اﷲ، لونڈیا، لاڈو، چھمک چھلو جیسے الفاظ ناول میں جا بجا ملتے ہیں۔ پھر گلناز کا یہ ’’بصیرت افروز‘‘ بھاشن بھی ہے ’’تاریخ گواہ ہے۔ ذرا اپنی موٹی موٹی کتابوں میں جھانک کر دیکھ، ہر طرح کا ستم تم مردوں نے کیا ہے۔ ہلاکو خان اور ہٹلر ہم میں سے نہیں تھے، تم میں سے تھے۔ مختاراں مائی اور ڈاکٹر شازیہ خالد بھی تم لوگوں کی وجہ ہی سے مظلوم بنیں۔ اب بھی اگر یہ کہو کہ ہم ظلم کر ہی نہیں سکتے تویہ تیری بھول ہے۔ سمجھا!‘‘

مختصر یہ کہ ’’نرّک‘‘ اپنی ہئیت تکنیک، موضوع اور پیش کش کے لحاظ سے ایک کامیاب ناول ہے۔ اسے اس اعتبار سے اصلاحی اور مقصدی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے مصنفّہ نے ایک طرف تو ’’درمیانی صنف‘‘ کے مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جب کہ دوسری طر ف بچوں کی پروررش اور کٹری دیکھ بھال پر زور دیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ محترمہ نسیم انجم کی اس کو شش کو عام قارئین کے ساتھ،ساتھ ادبی حلقوں میں بھی وہ پذیرائی حاصل ہو گی جس کی یہ بجا طور پر مستحق ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

نسیم انجم ایک معروف افسانہ نگارہیں ان کی کہانیاں اختصار کے فن کو لئے قاری کے دل و دماغ کو چھوتی ہیں ان کی نظر سماجی حقائق کی چھان بین کرتے ہوئے ان حقائق کے تعلق سے افراد کے تجربوں اور ان کی نفسیات تک پہنچ جاتی ہے۔ جب نسیم انجم کا پہلا افسانوی مجموعہ ’دھوپ چھاؤں ‘شائع ہوا تو اسے پسند کیا گیا تھا، افسانہ نگار کی زندگی کے ابتدائی تجربوں کی یہ کہانیاں اپنی سطح پر پر کشش تھیں اس کے بعد ان کا ناول ’’کائنات‘‘شائع ہوا جو بہت مقبول ہوا، نسیم انجم کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’آج کا انسان ‘۱۹۹۵ء میں چھپا اس کی کہانیاں فنکا رنہ افسانہ نگار کی تخلیقی صلاحیتوں کا احساس دلاتی ہیں یہ کہانیاں توجہ کا مرکز بنیں اور ان سے نسیم انجم کی پہچان میں بڑی مدد ملی۔ ’گلاب فن ‘ ’’سیاہ گلاب ‘‘ اور ’’بے کتبہ ‘‘ جیسی کہانیوں سے نسیم انجم کی فکر و نظر کی ایک عمدہ سطح ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اگست ۲۰۰۱ء میں ماہنامہ ’صریر‘ کراچی میں شائع ہوئی کہانی ’’گلاب فن ‘‘ موضوع اور اسلوب کی ہم آہنگی کا ایک قابل توجہ نمونہ ہے۔ مکالمے کا حسن گرفت میں لے لیتا ہے ایک اچھے فنکار کی سوچ کا بہاؤ جب ذہن کو خوبصورت اختتام تک پہنچادیتا ہے۔ تب ہی محسوس ہوتا ہے کہ ایک عمدہ کہانی کا جنم ہو گیا ہے۔ اختتام پر چند جملوں میں جو بات کہہ دی گئی ہے وہ طویل جملوں میں کہی نہیں جا سکتی تھی۔ چند جملوں میں اچانک ایک تصویر ابھر کر سامنے آ جاتی ہے جو متحرک ڈرامہ بن جاتی ہے۔ ’’وہ کیا کرے ؟ دو منٹ تک وہ شش و پنج میں مبتلا رہا پھر اچانک اس کے جسم میں لر زش پیدا ہوئی اور کانپتے ہاتھوں سے استاد کے کفن سے پھول اُٹھا لیا۔ پھول اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ محسوس کر رہا تھا کہ جیسے وہ گہرے پانیوں کے بھنور میں ابھر اور ڈوب رہا ہے۔ ‘‘ نسیم انجم کی تینوں کہانیاں ’’گلاب فن، سیاہ گلاب،اور بے کتبہ ‘‘ اردو ادب میں اضافہ ہے۔

 ڈاکٹر شکیل الرحمان

یاور امان

 

نرک

 

 نسیم انجم اُن لکھاریوں میں ہیں جنہوں نے اپنی محنت، لگن، جستجو اور مشق سے ادب میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے زمانۂ طالب علمی سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا یا تعلیم مکمل کرنے کے بعد۔ لیکن ایک بات تو یہ ہے کہ وہ یقیناً بیس بائیس سال سے لکھ رہی ہیں۔ اگر وہ اپنے اوّلین افسانوی مجموعے ’’دھوپ چھاؤں ‘‘ اور ناول ’’کائنات‘‘ کی سن اشاعت تحریر کر دیتیں تو اس کا اندازہ ہو جاتا۔ ویسے یہ مجموعہ اور ناول میں نے نہیں پڑھے۔ لیکن ۱۹۹۵ میں شائع ہونے والے افسانوی مجموعے ’’آج کا ا انسان ‘‘ تک سفر کرتے ہوئے وہ زنانہ کمپارٹمنٹ سے باہر آچکی تھیں۔ جس کی ایک اور مثال جون ۲۰۰۷ میں شائع ہونے والا ناول ’’نرک‘‘بھی ہے۔ جس میں انہوں نے تیسری جنس کی بھید بھری دنیا کا انکشاف نہایت ہی بے باکی سے کیا ہے۔ جو یقیناً موضوع کے اعتبار سے اچھوتا ہے۔ اس ناول میں انہوں نے تیسری جنس کے طور طریقے اور رہن سہن کو قارئین کے روبہروپیش کر کے نہ صرف ان کی زندگی اور ان کے مسائل کی منظرکشی کی ہے بلکہ ان کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اور ادبی دنیا میں ہل چل بھی پیدا کر دی ہے۔ جسے احمد ہمدانی جیسے صاحب نظر کے موضوع کے اعتبار سے اردو ادب کا پہلا ناول قرار دیا ہے۔

 یوں تو افتخارنسیم افتی نے تیسری جنس کے حوالے سے کچھ افسانے لکھے ہیں اور ٹی۔ وی پر چند ڈرامے بھی پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن سب کے سب یک رخ اور ایک مرکزی خیال کے تحت مربوط ہیں۔ جبکہ نسیم انجم نے ان کی پوری زندگی کا احاطہ کیا ہے۔ جس سے جہاں تیسری جنس کے لئے دلوں میں جذبۂ ترحم بیدار ہوتا ہے۔ وہیں ان کی سفاکی پر نفرت بھی اُجاگر ہوتی ہے۔ یوں تو نسیم انجم کے افسانے ادبی رسائل و جرائد میں تواتر کے ساتھ اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں مقدار اور معیار کے اعتبار سے ان میں حیرت انگیز تبدیلی اور پچھلے افسانوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر ترقی نظر آنے لگی ہے جس کی عمدہ مثالیں ’’دوسرا قدم،ہوا میں قدم، نسوانی عمر، مردم گزیدہ، بے کتبہ، گلاب فن، کالا گلاب اور منھ چھپانے والی عورت‘‘ اور اسی قسم کے دوسرے افسانے ہیں۔ ان کی تربیت میں یقیناً پرفیسر علی حیدر ملک کی شخصیت نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ جن کو نسیم انجم نے اپنا استاد قرار دیا ہے۔ نسیم انجم کو زنانہ کمپارٹمنٹ سے نکلنے کا راستہ بتانے میں بیشک انہوں نے ہی راہنمائی کی ہے۔ تیسری جنس کا المیہ صرف ہمارے معاشرے پر سوالیہ نشان نہیں بناتا۔ بلکہ یونان کہ قدیم داستانوں میں بھی ان کا ذکر ملتا ہے۔ مغلوں کے دور میں انہیں خواجہ سرا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ جن کی رسائی شہزادیوں اور شاہی بیگمات تک ہی نہیں تھی بلکہ یہ درون خانہ جاسوسی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ اسی طرح کے فرائض یہ جنس مغربی ممالک میں بھی انجام دیا کرتی ہے۔ اب ہمارے یہاں تو ’انہیں ہیجڑے ‘اور کچھ اسی طرح کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔

 نسیم انجم نے اپنے ناول میں جہاں انسانی رشتوں کی بے حرمتی کی تصویر کشی کی ہے۔ وہیں انہوں نے ایک ہیجڑے کے جذبۂ عشق کو ناپائیداری کی حد تک نمایاں کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ عشق ایسا لازوال جذبہ ہے جو تیسری جنس والوں کے دلوں میں بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کے ناول میں فلسفیانہ بوجھل پن نہیں بلکہ شوق کی تازگی اور زندگی کی نئی حرارت بھی ہے۔ نسیم انجم نے زندگی کی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ تاریخی حقیقت کی طرف بھی توجہ دی ہے۔ نیز انہوں نے فن کی آزادہ روی اختیار کرتے ہوئے نہ صرف فکری و فنی جہتوں کو اُجاگر کیا ہے بلکہ اپنے ناول کے ناجنس کرداروں کو تخلیقیت کا شہکار بنا دیا ہے۔ ’’نرک‘‘ کے صفحہ ۱۸۲پر دانش کا ایک مکالمہ ہے۔ ’’تانیہ! یہ وہ دنیا ہے جہاں ہر چیز آرٹی فیشل ہے، لیکن ہے ضرور۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اسی طرح ناول کے تین کردار دانش کے والد، تانیہ اور تانیہ کے والد بھی آرٹیفیشل ہی لگتے ہیں۔ کیونکہ عام زندگی میں ایک عام متوسط طبقے کا آدمی اپنے حقیقی اکلوتے بیٹے کے لیے اس قدر ہتک اور تشددآمیز جذبات نہیں رکھتا۔ جب کہ وہ پڑھا لکھا سرکاری ریٹائر ملازم بھی ہو۔ اسی طرح تانیہ جیسی پڑھی لکھی صحافت کے پیشے سے وابستہ اور اونچے متوسط طبقے کی بیرسڑ کی بیٹی، دانش کے موجودہ حالات کے بارے میں جاننے کے بعد شادی کے لیے شاید رضامند نہ ہو۔ اسی طرح ایک بیرسڑ جو خوش حال بھی ہے وہ دانش جیسے لڑکے کو داماد بنانا قبول نہ کر سکے چہ جائے کہ وہ دوسرے ملک اپنی بیٹی کو جہیز کے طور پر سنہرا مستقبل بھی عطا کرے۔ ناول کا یہ حصّہ کچھ غیر فطری بلکہ فلموں والا لگتا ہے۔ بہرحال، چند چھوٹی خامیوں کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ اب نسیم انجم کے وژن میں کشادگی آ گئی ہے۔ اور وہ مشاہداتی آنکھوں اور سوچتے ذہن کی مالک ہو گئی ہیں۔ انہیں کامیاب ناول نگار اور ’نرک‘کو کامیاب ناولوں کی صف میں رکھا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کے ’نرک‘کو نہ صرف ادبی حلقے اور قارئین بہ نظر استحسان دیکھیں گے بلکہ ہر صاحب احساس و ادراک اس نال کو پڑھنے کی سفارش کرے گا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

نسیم انجم نے افسانے بھی لکھے اور ناول بھی، گذشتہ چند برسوں میں انہوں نے ریاضت اور اپنی خداداد صلاحیت سے معاصرین میں اپنا ایک منفرد مقام پیدا کر لیا ہے۔ ان کی تحریریں دلچسپ اور پر لطف ہوتی ہیں ان کے اسلوب کی انفرادیت جو انہیں دوسرے تخلیق کاروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ شوکت صدیقی

ابن عظیم فاطمی(کراچی)

 

نرک

 

’’نرک‘‘ کی اشاعت پر فکشن گروپ کے زیر اہتمام تقریب پذیرائی کے موقع پر میں نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر ایک مضمون ’’نرک۔ اچھوتے موضوع پر لکھا گیا کامیاب ناول‘‘کے عنوان سے پیش کیا تھا جسے بعد ازاں روزنامہ ’’نوائے وقت ‘‘کراچی کے ادبی صفحہ پر شامل اشاعت کیا گیا۔

کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام تقریب پذیرائی میں حسب عادت چورخی صنعت تو شیح میں منظوم خراج تحسین پیش کیا تھا جس کے اختتامی اشعار میں ’’گلاب فن ‘‘کے انتظار کا ذکر خصوصیت سے کیا تھا جسے بالآخر نسیم انجم نے ’’گلاب فن اور دوسرے افسانے ‘‘ کے عنوان سے پورا کیا۔ نسیم انجم کا نام فکشن کے دنیا میں مقبول اور معروف ہے ’’نرک‘‘ کے علاوہ ان کی پانچ تصانیف شائع ہو کر اہل ادب سے داد وصول کر چکی ہیں جس کی تفصیل اس طرح ہے۔

۱۔ دھوپ چھاؤں (افسانے )۲۔ کائنات(ناول)۳۔ آج کا انسان(افسانے )۴۔ پتوار(ناول) اور اب یہ چھٹی کتاب جو ۱۸افسانوں پر مشتمل ہے زیر مطالعہ آئی۔ فلیپ پر ڈاکٹر سلیم اختر اور پروفیسر (ڈاکٹر )شکیل الرحمن کی آراء کے علاوہ ڈاکٹر مصطفی کریم کا مضمون ’’نسیم انجم۔ ۔ افسانہ نگاری میں منفرد اور توانا آواز‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔

کتاب کا انستاب’’اپنے رب کے نام ‘‘ سے ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔ اس مجموعے میں شامل افسانے جرائم پیشہ افراد کی نفسیات اور ان کی نفسیاتی کشمکش کے حوالے سے تحریر و تخلیق کئے گئے ہیں ان پر خواتین کیا مرد ادیب بھی کم کم ہی لکھتے ہیں اور یہی ان کی انفرادیت ہے۔ ایسا نہیں کے موضوع کا انتخاب کر کے چند کردار تخلیق کئے اور ان سے مکالمے کے ساتھ کہانی آگے بڑھتے بٹرھتے اپنے اختتامی نکتے پر آ کر مکمل ہو گئی بلکہ ایک ایک کردار کی معاشرتی، نفسیاتی، فطری بے بسی اور مجبوریوں کو انتہائی ہنر مندی کے سا تھ قلم بند کیا گیا ہے۔ ایسے ایسے مکالمے تخلیق کئے ہیں جن سے کردار زندہ، آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے محسوس کئے جا سکتے ہیں۔

میں ان افسانوں میں سے چند جملے حوالے کے طور پر پیش کروں گا مثلاً گلاب فن کا یہ ایک جملہ اپنے اندر کہانی اور احساس کی ایک دنیا سے آشنا کرتا ہے۔ ’’ تو اُستاد آج میں نے تمہارا پھول تمہیں واپس کر دیا ہے ‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ استاد کے کفن پر گر کر جذب ہو گیا۔

نسیم انجم کا اسلوب حقیقت پسندانہ ہے۔ ان کی کہانیوں کے پلاٹ نئے، انوکھے یا چونکا دینے والے نہیں۔ روزمرّہ کے حالات و مسائل، واقعات اور خبروں سے کشیدہ کئے گئے یہ افسانے یقیناً ماہر قلم کا ر کے قلم کا شاہکار ہیں۔ انہوں نے زندگی کی ان تصاویر (حقائق)کو پینٹ کیا ہے جو عہد موجود کا بہت بڑا المیہ ہے۔ نسیم انجم کی کہانیوں میں تجربات و مشاہدات کا حقیقی عکس ملتا ہے۔ یہ افسانے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے کا المیہ ہیں۔ نسیم انجم افسانے لکھنے کے ہنر سے تو کماحقہ، بطریق احسن واقف ہیں ہی مگر کردار نگاری اور مکالمے بھی اُن کی ہنُر مندی کا بیّن ثبوت ہیں۔ انہوں نے روزمرہ کے مائل و معاملات پر ماہر نباّض کی طرح ہاتھ رکھا ہے۔ ان کی کہانیوں کو پڑھ کر سرسری نہیں گزر سکتے۔ ہر کہانی کے اختتام پر آپ کچھ دیر کے لئے ساکت و ثابت ہونے ہر مجبور ہو جاتے ہیں اور معاشرے کی زبوں حالی پر نم دیدہ بھی۔ ان افسانوں میں انتہائی سلیس اور سادہ زبان میں خوبصورت اور با معنٰی مکالمے ہیں جس سے تخلیق کا ر کی زبان و بیان پر قدرت اور اظہار کی خوبی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

کتاب مجلّہ خوبصورت سرورق اور عمدہ ترتیب و پیشکش کی حامل ہے جو میڈیا گرافکس کا اختصاص ہے۔ میں اس یقین کے ساتھ نسیم انجم کو ’’گلاب فن‘‘ اور دوسر افسانے کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اہل ادب نہ صرف اس مجموعے کی پذیرائی کریں گے بلکہ مصنفہ کی جرأت اور اعلی صلاحیتوں کا اعتراف بھی!!!

٭٭٭


 

 

نسیم انجم کی تخلیقی و تحقیقی خدمات

 

پروفیسرخالد ندیم

(سرگودھا)

 

            ہمارے ہاں فیشن سا ہو گیا ہے کہ اُدھر کوئی نیا موضوع ہاتھ آیا، اِدھر یار لوگوں نے اسے تختہ مشق بنا لیا۔ جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، ردِ ساختیات، نوآبادیات، ما بعد نو آبادیات جیسے فکری میدان ایسے ایسے اناڑیوں کی شہ زوریوں سے سجتے رہے کہ فکری تحریکیں بجائے کچھ دینے کے، پہلے سے زیادہ ذہنی الجھنوں کا باعث بنتی چلی گئیں۔ ابھی کچھ عرصے سے تانیثیت کے مباحث بڑے زوروں پر ہیں اور نومشقوں نے اِدھر کا رُخ بھی کر لیا ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے، وہ لکھتا چلا جا رہا ہے۔ کسی نئے موضوع کے وارد ہوتے ہی اس کی نصابی ضرورتوں کے پیش نظر مضامین پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا، بلکہ دھڑا دھڑ کچی پکی کتابیں بھی منصہ شہود پر آنے لگتی ہیں۔ ایسی گرم بازاری میں اگر کوئی سنجیدہ کاوِش سامنے آتی ہے تو کچھ اطمینان ہوتا ہے کہ ادیبوں کی صف میں کچھ ایسے لوگ باقی ہیں، جو بازار کی طلب سے بے نیاز ہو کر قارئین کی فکری ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ نسیم انجم ہماری ایسی ہی ادیبہ ہیں، جنھوں نے اردو قارئین کے لیے ہمیشہ نئے میدان منتخب کیے ہیں۔ زیرِ نظر تحقیقی و تنقیدی کتاب ’خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصورِ زَن‘ سے پیشتر ان کے افسانوں کے مجموعے ’دھوپ چھاؤں ‘ اور ’آج کا انسان‘اور دو ناول ’کائنات‘ اور ’نرک‘ منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔ ۱۹۸۴ء سے ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے ڈرامے لکھ رہی ہیں اور ۲۰۰۰ء سے روزنامہ ایکسپریس میں ان کے کالم شائع ہو رہے ہیں۔

            ’گلاب فن‘ میں نسیم انجم کے افسانے ان کے کمالِ فن کا بین ثبوت ہیں۔ ان کے تخیل کی بلند پروازی انھیں واقعات کے تہہ میں پوشیدہ اسباب و علل سے بے خبر نہیں کرتی، بلکہ وہ جذباتی آتش فشانوں کے پیچھے نفسیاتی محرکات کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ ان کی کہانیاں اپنے پلاٹ، کردار، مکالمے اور جذبات نگاری کے حوالے سے ایک انفرادیت کی حامل ہیں۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن نے درست کہا ہے کہ ’ان کی نظر سماجی حقائق کی چھان بین کرتے ہوئے اُن حقائق کے تعلق سے افراد کے تجربوں اور نفسیات تک پہنچ جاتی ہے ‘۔ ان کا ناول اپنے موضوع کے اعتبار سے رنگِ دِگر کا حامل ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ’ہیجڑوں کی زندگی کا اتنا اچھا مشاہدہ، ان کے لباس، گفتگو اور جذباتی مسائل کا اتنا گہرا ادراک ہر کسی کو حاصل نہیں ‘۔ وہ معاشرہ، جہاں کا مرد بھی اس صنف کے بارے میں ہمیشہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے اور اس نے کبھی اس کی نفسیاتی کیفیات سے پوری طرح آگاہ ہونے کی کوشش نہیں کی، نسیم انجم کس طرح اس میدان میں اتریں، کیسے اس موضوع کی نزاکتوں کو سمجھ پائیں اور کس طرح اس کے بیان میں سماجی بندشوں اور تہذیبی رکاوٹوں کو کس طرح عبور کر پائیں، یہ ایسے سوالات ہیں، جن پر غور و فکر کرتے ہوئے ناول نگار کی جرأت و بے باکی کا اندازہ ہوتا ہے، اس پر مستزاد ان کے اندازِ بیان، جس سے موضوعِ زیرِ بحث کی تمام پرتیں قارئین پر کھلتی چلی جاتی ہیں۔ احمد ہمدانی نے نسیم انجم کے فن پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تیسری جنس کے مسائل، ان کی بول چال، رہن سہن، رسم و رواج، طور طریقوں کی بے حد مؤثر انداز میں منظر کشی کی ہے اور ان رازوں کی بھی پردہ کشائی کی ہے، جس سے عام انسان ناواقف ہوتا ہے ‘۔ یہ فن غیر معمولی مہارت کا متقاضی تھا، جس پر نسیم انجم پوری ہی نہیں اتریں، بلکہ انھوں نے اس موضوع کے مزید کئی امکانات کو بھی واضح کر د یا ہے۔ پروفیسر سحر انصاری کا یہ بیان بالکل بجا ہے کہ ’نسیم انجم نے انسانی رِشتوں اور معاشی و جنسی حقائق کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اخلاقی فیصلوں کے بجائے ہم سماجی شعور کے حوالے سے ان کو پرکھنے پر مائل ہو جاتے ہیں ‘۔ نسیم انجم کے لیے غلام عباس کا یہ ارشاد سند کی حیثیت رکھتا ہے کہ ان کی دونوں کتابیں (گلاب فن، نرک)پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا فن برابر ترقی کر رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکر میں زیادہ وسعت اور شعور میں زیادہ پختگی پیدا ہوتی جا رہی ہے ‘۔

            ناول، افسانے اور ڈرامے پر طبع آزمائی کے بعد نسیم انجم نے تحقیق و تنقید کے میدان میں قدم رکھا ہے اور فضا اعظمی کے مسدس ’خاک میں صورتیں ‘ پر ایک مضمون لکھنا شروع کیا، جو دھیرے دھیرے کتاب کی حدود میں داخل ہو گیا۔ فضا اعظمی نے دنیا بھر کی خواتین کے درد و غم اور ان سے روا رکھی جانے والی نا انصافیوں کو شعری پیکر میں پیش کیا تو نسیم انجم نے اس کی تفہیم کی کوشش کی،گویا اس تصنیف کا محرک فضا اعظمی کی تصنیف ’خاک میں صورتیں ‘ قرار پاتی ہے۔ انھوں نے فضا اعظمی کے مسدس کی روشنی میں اسلام، مذاہبِ عالم اور سائنسی دَور میں خواتین کی صورتِ حال کا جائزہ لیا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی، اقبال اور حالی کے تصورِ زَن کا فضا اعظمی کے تصورِ زَن سے موازنہ کیا ہے۔ اردو غزل میں تصورِ زَن کا جائزہ لینے کے بعد ادیب سہیل اور حمایت علی شاعر کے ہاں اس تصور کا بالخصوص مطالعہ پیش کیا ہے۔ کتاب کا باقی حصہ فضا اعظمی کے تصورِ زَن کے تنقیدی مطالعے پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں فضا اعظمی کی تعلیم و تربیت، اندازِ سخن اور طویل مقصدی نظم کے محرکات، فضا اعظمی کی شاعری پر ایک نظر، شاعر کا بچپن اور پہلا شعر، شاعر اور حسن کائنات، دنیا کی عورتوں کا مشترکہ درد، فضا اعظمی کا خواب یا حقیقت، انسانی مساوات، شاعر کا آدرش، اوصافِ انسانی کا شاعر، عروجِ آدمیت، شمع ہر رنگ میں جلتی ہے، شاعر کا ماضی، خود ساختہ قوانین، جبر و تشدد کا ماحول، دوسرے درجے کی مخلوق، ایک ہی دُکھ، فردِ جرم، عدالتِ بنتِ حوّا، ’صدا یہ عرش سے آئی‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ جیسے موضوعات کے تحت مسدس کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

            کتاب کے انتساب، ابواب بندی، خیالات کی پیش کش اور استفادے کی کتابوں پر بحث کی جا سکتی ہے اور ان میں سے بعض مقامات پر اختلاف کی گنجائش بھی ہے، لیکن جو چیز اس تالیف کو قابلِ مطالعہ بناتی ہے، وہ خلوصِ نیت ہے۔ نسیم انجم نے بڑی درد مندی کے ساتھ موضوع پر گفتگو کی ہے، فضا اعظمی کے مسدس کی روشنی میں اردو شاعری کی عمومی تاریخ پر نظر ڈالی ہے، تصورِ زَن کے مختلف زاویوں کو دیکھنے اور دِکھانے کی سعی کی ہے اور یوں اپنے نتائج فکر سے قارئین کو رُوشناس کرانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ ہم ان کے نتائج سے متفق ہوں یا نہ ہوں،ان کے مطالعات اور ان کے زاویہ نگاہ سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ شاعر علی شاعر نے نسیم انجم کے کام کی داد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے اس تصنیف میں عورتوں کے ساتھ توہین آمیز رویوں اور ان کی حق تلفی جیسے مسائل پر قلم اٹھا کر عورت ہونے کا حق ادا کر دیا ہے ‘۔ یہاں اس بات پر بھی توجہ رہنی چاہیے کہ تخلیق کار کا قلم عام طور پر سبک رفتار ہوتا ہے، جب کہ تحقیق کا میدان پُرخار ہونے کی وجہ سے ’خوش رفتاری‘ کا متحمل نہیں ہوتا،چنانچہ نسیم انجم اپنی اوّلین تحقیقی کتاب میں اگر تمام تر تحقیقی مطالبات کو بروئے کار نہ بھی لا سکی ہوں تو ان کے ذوقِ جستجو سے بعید نہیں کہ وہ بہت جلد تحقیقی سنجیدگی سے رُوشناس ہوتے ہوئے اس شعبے میں بھی کامیاب و کامران ٹھہریں گی۔

٭٭٭


 

 

 

گلاب فن

 

جمیل احمد

(کراچی)

 

 پروفیسر نسیم انجم نے اپنا افسانوی مجموعہ ’’گلاب فن‘‘ بے حد احترام اور خلوص کے ساتھ عنایت فرمایا۔ مصنفہ کے ان ملائمت آمیز شیریں پر خلوص اظہار نے مجھ نا چیز کو اتنا اونچا کر دیا کے اس کی عملی افادیت سے زندگی میں کم ہی دوچار ہونا پڑا!!

’’گلاب فن‘‘ کی اشاعت سے چند ماہ قبل نسیم انجم نے اپنا ناول ’نرک‘ عنایت کیا تھا مصنفہ نے ناول نرک میں ایسے کرداروں کو موضوع بنایا جن کی صدیوں سے معاشرے میں اپنی کوئی شناخت نہیں انھیں سماج میں عضو ناکارہ سمجھتے ہوئے حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ناول اپنے اچھوتے موضوع کے اعتبار سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد ناول ہے۔ جس میں تیسری جنس خواجہ سراؤں کی معاشرتی زندگی کے کئی پوشیدہ نئے اور انوکھے پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کی حرکات و سکنات رہن سہن اور ذریعہ معاش کے غیر فطری طور طریقوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا! نسیم انجم نے خواجہ سراؤں کا کوئی مسئلہ، کوئی گوشہ ایسا نہیں جس پر قلم نہ اُٹھایا ہو ناول نرک کا موضوع و کرداروں کے لحاظ سے فطری ماحول مواد و اسلوب و بیان مصنفہ کی قوت مطالعہ و مشاہدے کا مظہر ہے، قاری ناول کے آغاز سے اختتام تک نرک کی دہکتی ہوئی آگ کی جھلسا دینے والی تپش کو بخوبی محسوس کر سکتا ہے۔ مصنفہ کا یہی کمال فن ان کے ایک کامیاب ناول نگار ہونے کی دلیل ہے۔ یہ ناول یقیناً ہمارے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ کے ساتھ انہیں دعوت اصلاح بھی دیتا ہے۔ عورت ہونے کے باوجود نسیم انجم نے ایک اچھوتے اور مشکل سے موضوع کا بھرپور انداز سے احاطہ کیا۔

’’گلاب فن‘‘ کا مطالعہ کرنے سے پہلے تک ہم مصنفہ کی ہمہ جہت شخصیت کی تخلیقی صلاحیتوں کے معترف ہو کر یہ رائے قائم کر چکے تھے۔ نسیم انجم ایک قابل پروفیسر (استاد)اور معروف کالم نویس ہی نہیں وہ ایک کامیاب ناول نگار بھی ہیں۔

ناول نرک کا گہرا معاشرتی تاثر ابھی ہمارے ذہن سے محو نہیں ہوا تھا کہ اپنی تازہ تخلیق ’’گلاب فن ‘‘ افسانوی مجموعہ دے کر ہمیں چونکا ہی دیا۔ افسانوں کے مطالعہ کے بعد تسلیم کرنا پڑا وہ معیاری افسانوی ادب کی تخلیق پر اچھی دسترس رکھتی ہیں۔

تبصرے کی یہ گراں بار ذمہ داری ہمارے لئے لمحہ فکریہ تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ادب کسی بھی صنف پر طبع آزمائی ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل اور کڑا امتحان کسی مصنف کی تخلیق پر تبصر ہ کرنا ہوتا ہے۔ دراصل جب تک تبصرہ حاصل مطالعہ نہ ہو اور تصنیف کے موضوع مواد اور اس کے ادبی محاسن کی فنی و تکنیکی خوبیوں، خامیوں کے ساتھ تخلیق کے معیار کا احاطہ نہ کرے تو وہ تبصرہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔

یہ روایت اب عام سی ہو گئی ہے کہ کتاب پر کسی معروف و ممتاز ادیب دانشور سے تبصرہ لکھوا کر کتاب میں شامل کر کے یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ تخلیق کو ادب پارہ ہونے کی سند حاصل ہو گئی ہے۔ جہاں تک اس طرح کے روایتی انداز کے لگے بندھے تبصروں کی بات ہے انہیں پڑھ کر کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ تبصرہ نگار نے کتاب کا مطالعہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی !میں مصنف کے لئے تعریفی جملوں اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا روایتی ذکر سے تبصرہ مکمل نہیں سمجھتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے تبصروں کی ادب شناسی میں کیا حیثیت ہو سکتی ہے اگر زیر تبصرہ تخلیق واقعی ادب پارہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بڑے نام نے اپنے علمی مرتبے و مقام سے اور نہ ہی تصنیف کے ساتھ انصاف کیا!!اس طرح کے بے معنی تبصروں سے چند اہم غور طلب پہلو سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عموماً ادب کا عام قاری یا طالب علم کتاب کے مطالعے سے پہلے عموماً کتاب میں شامل تبصروں کو پڑھ کر کتاب پر ایک تاثر قائم کر لیتا ہے۔ اسی تاثر کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے۔ نتیجتًا ادب کے عام تاری کو ادب پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت حاصل نہیں ہو تی اگر تبصرہ ادب کے ہر فنی تکنیکی پہلو سے تخلیق کا حاصل مطالعہ ہو ادبی محاسن کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ تخلیق کے معیار کا احاطہ کرتا ہے اس سیر حاصل تبصرے سے جہاں مصنف کو اپنی خامیوں کی اصلاح کے ساتھ آئندہ تحریروں میں مزید نکھار پیدا کرنے کا موقع حاصل ہو گا۔ دوسری جانب ادب کے عام قاری کے لئے کسی بھی ادبی تخلیق کو پڑھنے اور سمجھنے کی بہتر صلاحیت پیدا ہو گی اس کے علمی و شعوری سطح میں گراں قدر اضافہ ہو گا۔ جامع تبصرے کے حوالے سے یہاں ہم گلاب فن میں شامل جناب مصطفی کریم کے تبصرے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں یہ نسیم انجم کے افسانوں پر ایک جامع تبصرہ ہے جو افسانوں کے موضوعات مواداسلوب و بیان کے کئی پہلوؤں کو روشن کرتا ہے اس تبصرے کو پڑھنے سے عام قاری کے لئے نسیم انجم کے افسانوی ادب کو پڑھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔

اردو ادب میں سب سے اہم اور بڑی تبدیلیاں 1936ء کی ترقی پسند تحریک کی مرہون منت ہیں۔ شاعری افسانہ،ناول، تنقید، تحقیق اور ادب کی دیگر اصناف میں نہ صرف انقلابی تبدیلیاں ہوئیں بلکہ انہیں زمانے اور وقت کے مطابق ترقی بھی حاصل ہوئی لیکن اس دور جو ترقی فن افسانہ نگاری کو حاصل ہوئی وہ کسی اور صنف ادب کو حاصل نہ ہو سکی جیسا کہ بیسویں صدی کے اواخر میں اردو افسانہ کا آغاز ہوتا ہے۔ ابتدا میں منشی پریم چند جیسے بڑے افسانہ نگار کے ہاتھوں اردو افسانہ ترقی کی ایسی منزلیں طے کر چکا تھاجس کی وجہ سے افسانہ نگاروں کے سامنے افسانے کی واضح روایت تھی۔ لیکن لکھنے والوں میں منشی پریم چند کی حقیقت نگاری اور فنی عظمت سب پر چھائی ہوئی تھی۔ اپنی تخلیقات سے قاری کے علم فکر و شعور میں گراں قدر اضافہ کیا۔ ان کے سامنے اس دور کے مسائل تھے برصغیر کی شدید غربت عوام میں سماجی نظام کے خلاف ان کے دلوں میں موجزن نفرت کے ساتھ نظام کو بدلنے کی بھرپور خواہش کی ترجمانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ ان میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، ابراہیم جلیس، جیلانی بانو، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، سعادت حسن منٹو، خواجہ احمد عباس، راجندرسنگھ، حیات اﷲ انصاری، اس عہدے کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ اردو ادب میں اپنے منفرد موضوعات رجحانات اسلوب و بیان سے مستحکم شہرت و مقام پایا اور اپنی انفرادی شناخت کو منوایا۔ نسیم انجم نے ان با کمال تخلیق کاروں کے افسانوی ادب کے اعلٰی اقدار و روایت کو موجودہ دور کے سماجی و معاشرتی حالات و واقعات کو اپنے افسانوں کے موضوع اور کرداروں کے ذریعے پر تاثر انداز سے اجاگر کرنے کا فریضہ خوش اسلوبی اور متانت کے ساتھ نبھایا۔

آج کا معاشرہ صنعتی تہذیب، جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام کا پیدا کر دہ معاشی اقتصادی و سیاسی انتشار و طبقاتی تضادات کا شکار ہے۔ عام انسان عدم تحفظ سے دوچار ہے اب کوئی بھی ادارہ مقدس نہیں رہا۔ ہر خیال کا استحصال یہ نظام کر رہا ہے۔ غربت افلاس تنگ دستی اور انسانی مجبوریوں کی کوکھ سے جرائم جنم لے کر ایک عام انسان کو پیشہ ور مجرم بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ’’گلاب فن‘‘ کے افسانوں کا یہی سلگتا ہوا موضوع ہے۔ نسیم انجم نے اپنے افسانوں میں اس حقیقت کی ترجمانی بڑی وسعت و گہرائی سے کی ہے۔

افسانہ’’منہ چھپانے والی عورت‘‘ کا مرکزی کردار روبی کی معاشی زبوں اس اپنی بلڈ کینسر میں مبتلا بیٹی کے علاج کے لئے پیسوں کا بندوبست کرنے کے لئے کوٹھے پر پہنچا دیتی ہے۔ پولیس کے چھاپے میں گرفتار کر کے تھانے لائی جاتی ہے۔ کہانی میں تھانے کے ماحول ایک سپاہی سے تھانیدار کے روایتی رویے اور ہماری پولیس کی تفتیش کی عکاسی حقیقت نگاری کے بھرپور تاثر کے ساتھ پیش کی گئی تھانے میں لائی گئی چار عورتوں میں سے ایک عورت اپنے ڈھکے ہوئے جسم کو مزید ڈھانپنے کی کوشش کرتی ہے اور چادر کے کونے سے اپنا چہرہ چھپا لیتی ہے۔ کانسٹیبل کہتا ہے ’’اوئے بے غیرتاں بند کر یہ ناٹک اور اتار چادر، ہم سے کیسی شرم جیسے یہ مرد ایسے ویسے ہم‘‘

عورت کہتی ہے جو تم سمجھ رہے ہو میں وہ نہیں ہوں

اچھا۔ ۔ ۔ ؟ تو تم نیک پروین ہو، سیتا ہو یا راجہ داہر کی مغوی۔ ۔ ۔ ؟ بند کر یہ ڈرامہ۔ ایک مرحلے پر تھانیدار کہتا ہے ’’پولیس والے اپنے باپ کا اعتبار نہیں کرتے ہیں توکس کھیت کی مولی ہے۔ ‘‘

ایس ایچ او ایک موقع پر اپنے من کے کالے پن کا اظہار کچھ اس طرح کرتا ہے ’’دیکھ بی بی بات یہ ہے کہ ہم لوگ بھی کالے سفید بالوں کی طرح ہوتے ہیں عورتوں کی خوبصورتی اور ان کا جوبن ہماری کمزوری ہوتی ہے اسے اپنی مجبوری کا نام بھی دے سکتے ہیں تمہیں وہ ہی کچھ کرنا پڑے گا جو میں چاہوں گا۔ ‘‘منہ چھپانے والی عورت بدنامی کے خوف سے کہتی ہے ’’سر میں حاضر ہوں۔ آپ جو چاہیں میرے ساتھ سلوک کریں لیکن میرے لوگ بے قصور ہیں۔ ‘‘

تھانہ کلچر اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے بیشتر بدنام زمانہ کرداروں میں سے ایک کردار جس کا انسانی ہمدردی اور اخلاقی قدروں سے کوئی واسطہ نہیں لیکن اس میں پوشیدہ انسان دوستی کا جذبہ موجود ہے جو انسان کو انسان سے ملاتا ہے اس جذبے کا اظہار ایس ایچ او کچھ اس طرح کرتا ہے۔ ’’بی بی ہم بھی انسان ہیں، ہمارے اندر بھی روشنی پھوٹ سکتی ہے ہم بھی حجاج کے لشکر میں شریک ہو سکتے ہیں ‘‘تھانے کے ماحول کے ساتھ سپاہی سے ایس ایچ او تک کی گفتگو میں فقروں کا انتخاب بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے، اس طرح کے موضوع پر ان گنت کہانیاں لکھی گئی ہیں لیکن نسیم انجم کی یہ فنی صلاحیت ہے جس نے ’’منہ چھپانے والی عورت ‘‘ میں واقعات کے پیچ و خم، کرداروں کے تیکھے پن سے تاثر پیدا کرنے اور واقعا ت کو فنی لطافت بخش کر ابدی حسن عطا کر دیا ہے۔

’’مردم گزیدہ‘‘ موجود دور کے انسان کے عدم تحفظ کی منہ بولتی کہانی ہے۔ ایک ایسے بوڑھے جوڑے کی بے بسی و بے چارگی کی منہ بولتی تصویر ہے جو ہماری دھرتی کے ہر ذی نفس کے غیر محفوظ ہونے کی منہ بولتی کہانی ہے۔ کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں سرگرداں بوڑھا ایک مقام پر کہتا ہے ’’میر لئے تو گھر باہر دونوں ہم ایک جیسے ہیں گھر میں حفاظت نہیں تو باہر کونسی ہے۔ ‘‘

اور پھر بوڑھے کا بے بسی میں جھنجلا کر یہ کہنا ’’آخر خوف ہمارا پیچھا کیوں چھوڑتا‘‘اس جملے میں ایک ایسی درد ناک چیخ ہے جو قاری کے ذہن میں چبھن کے ساتھ گونجتی رہے گی۔ یہ سچائی ہمارا المیہ ہے یہ افسانہ نسیم انجم کے قابل ذکر افسانوں میں سے ایک ہے۔ افسانہ ’’گلاب فن ‘‘ ابے پانی کیوں ہلتا ہے اور تیری انگلیاں بھی کانپ رہی ہیں۔ ادھر دیکھ یہ دو انگلیوں کا کما ل ہے۔ یہ جیب تراشی کی فنی و تکینکی تر بیت کا ایک چونکا دینے والا انکشاف ہے ایک موقع پر اپنے شاگرد واجد کو اداس دیکھ کر استاد کہتا ہے

’’گھر جانا چاہتا ہے ‘‘

’’کس منہ سے جاؤں گا استاد ‘‘

’’اسی منہ سے جا مل کر آ جائیو‘‘

’’نہیں استاد اب یہ نا ممکن ہے ‘‘

ایک واردات میں واجد اپنی وہ انگلیوں کے فنکارانہ کمال سے بھاری رقم والے وولیٹ پر ہاتھ صاف کر دیتا ہے۔

لیکن ساتھ ہی اس میں چھپا ہوا انسانی ہمدردی اور ایمانداری کا جذبہ جاگ جاتا ہے اور معاً اس کے ذہن میں خیال بجلی کی طرح کوندا ماں کہتی تھی ایمانداری بہت بڑی دولت ہے تو میں اس دولت کو حاصل نہیں کر سکتا چوں کہ اب میں آزاد ہوں ویسے بھی ساری عمر لوگوں کی خوشیا ں لوٹتا رہا آج کسی ایک کو ہی خوشی لوٹا دوں اور میں یہ کر سکتا ہوں !! بچپن سے جوانی تک جرم کی دنیا میں پرورش پانے والے واجد کے شخصی مثبت و منفی پہلوؤں سے پشیمانی پچھتاوے نیکی بدی اور انسان دوست کے جذبے کے امتزاج کو حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کیا۔ ’’گلاب فن‘‘ اپنے منفرد موضوع و اسلوب و بیان کے لحاظ سے افسانوی ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔

’’دستک ‘‘ کی کہانی ہمارے معاشرے کے ایک سنگین مسئلے کی ہے۔ بے جوڑ شادیاں اور اس کے سلگتے ہوئے اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔ بے جوڑ شادیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کی مصنفہ نے بڑی وسعت و گہرائی سے عکاسی کی ہے۔ ’’آگ اگلتا سورج‘‘ کا موضوع ہمارے محنت کش طبقات میں سب سے زیادہ پسے ہوئے اور دبے ہوئیکسان اور مزدور کی کہانی ہے جسے انسانی حقوق اور قانونی تحفظ حاصل نہیں، اس افسانہ میں وڈیروں کی نجی جیل کا بھی ذکر ہے۔ جو پوری قوم کے لئے ایک لمحہ فکر ہے۔ دہقان کی چھوٹی سے چھوٹی غلطیوں پر وڈیروں کی جان لیوا سزائیں مصنفہ نے کھیت مزدور کی زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل کی خوب صورتی سے ترجمانی کی ہے۔

مختصر افسانے کے تخلیقی عمل کے گو اسباب جو کچھ بھی رہے ہوں آج یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ مستقل فن ہے اور ناول سے زیادہ وقت طلب فن ہے۔ چند لطیف و نازک اشاروں میں ایک وسیع مشاہدے کی بنیاد پر ایک پوری زندگی کے نشیب و فراز کے دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ نسیم انجم نے ان خصوصیات و مہارت کے ساتھ اپنے افسانوں کو پیش کیا ہے۔ گلاب فن کی کہانیوں میں جرائم کو موضوع بنا گیا ہے گو کہ ان موضوعات پر ان گنت کہانیاں لکھی گئی ہیں لیکن نسیم انجم کا یہ کارنامہ ہے کہ معاشرے میں جنم لینے والے جرائم کی پیدائش و پرورش پانے کے ماحول اس کے تاریک گوشوں کے پس منظر میں لکھی جانے والی کہانیوں کو فنی لطافت بخش کر ابدی حسن عطا کر دیا ہے۔ نسیم انجم اردو ادب کی معروف تخلیق کاروں میں ایک امید افزا اضافہ ہے۔

٭٭٭


 

 

نسیم انجم ایک فعال قلمکار

 

شفیق احمد شفیق

(کراچی)

 

 نسیم انجم ادب کی ایک تخلیقی شخصیت ہیں اور تخلیق کاری سے ان کا ربط و رشتہ بہت گہرا ہے اس لئے وہ اپنی عدیم الفرصتی میں بھی فرصت کے لمحات تخلیق کر لیتی ہیں۔ ایک فعال مرد کی طر ح وہ کام کرنے کی للک، امنگ اور ترنگ رکھتی ہیں۔ بلا شک و شبہ نسیم انجم مردوں کے دوش بدوش چلنے کا عملی ثبوت فراہم کر رہی ہیں۔ وہ اتنا کام کرتی ہیں کہ اب تو تھکاوٹ بھی ان کو تھکانے کی کوشش میں تھک سی گئی ہے۔ نظر لگے نہ کہیں ان کے جسم و جاں کو شفیق

 سماجی و عملی زندگی میں جہاں وہ ماں، رفیقہ ء حیات اور استانی ہیں اسی طرح وہ دنیائے ادب و فن میں بھی کئی جہتوں کی حامل ہیں۔ افسانے وہ لکھتی ہیں، ناول وہ تخلیق کرتی ہیں، ریڈیو کے لئے ’’کھیل‘‘ بھی لکھتی ہیں، کالم نگاری سے بھی وابستہ ہیں اور طویل فکشن نگاری میں بھی اپنا تخلیقی پرچم نصب کر رکھا ہے۔ اب ایسی مخلص، محنت پسند اور سر گرم کار خاتون کو اور ان کے کاموں کو ایک بد دیانت آدمی ہی نظر انداز کر سکتا ہے۔ نسیم انجم کا خاندانی اور ادبی نام نسیم انجم ہی ہے۔ تعلیم ایم اے، بی۔ ایڈ۔ ان کے شوہر نامدار کا نام عارف صدیقی ہے۔ نیک اور وسیع القلب انسان ہیں اور خواتین کی آزادی، ان کو سماج میں مردوں کے برابر مقام دینے اور دلانے کے حق میں ہیں۔ اگر میری یہ بات سچ نہ ہوتی تو ادب نگاری میں وہ یہاں تک نہ پہنچ پاتیں۔ نسیم انجم کی سر بلندی اور عزت مآبی میں عارف صدیقی صاحب کا کردار بھی کلیدی ہے۔ وہ تین افسانوی مجموعوں ’’آج کا انسان‘‘، ’’دھوپ چھاؤں ‘‘ اور ’’گلاب فن‘‘ (زیر مطالعہ) کی مصنفہ ہیں۔ ’’ڈرامے ‘‘ کے نام سے کھیلوں کا ایک انتخاب بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ تین ناول ’’کائنات‘‘، ’’پتوار‘‘ اور ’’نرک‘‘ کی بھی مصنفہ ہیں۔ انھوں نے کالم اور ادب دونوں کے حوالے سے اچھی خاصی تعداد میں مضامین بھی لکھے ہیں۔ ریڈیائی کھیل بھی لکھتی رہی ہیں۔

 نسیم انجم نے فکشن نگاری اور مضمون نویسی دونوں جہتوں میں سادگی کو اپنا رکھا ہے۔ سادگی سے یہاں میری مراد ایسے اسلوب سے ہے جس میں صرف لفظوں کی نمائش اور ہمہ دانی کا مظاہرہ نہ ہو،علامتوں اور استعاروں کے بے جا استعمال کی مصنوعی کوشش نہ ہو۔ نسیم انجم کے افسانوں کا اسلوب نہ نمائشی ہے نہ مصنوعی اور نہ ہمہ دانی کا منظر نامہ۔ ان کے افسانے سادہ ہونے کے باوجود موضوعات کے لحاظ سے گہرائی اور ذہانت کے اوصاف رکھتے ہیں۔ ان کے کردار ہماری اپنی سماجی زندگی سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اور ہماری ہی طرح معائب ومحاسن کے مالک ہیں۔ ان کے افسانے ہو ں یا ناول ان میں کردار نہ تو بالکل فرشتے ہوتے ہیں اور نہ شیطان۔ چونکہ وہ چہار دیواری تک محدود رہنے وا لی خواتین میں نہیں ہیں اس لئے ان کا مشاہدہ اور تجربہ وسعت اور صداقت پر مبنی ہے۔ ان کے تجربات اور مشاہدات مانگے کا اجالا نہیں ہیں بلکہ آنکھوں سے دیکھے ہوئے اور پورے وجود کے ساتھ محسوس کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے ان کے فن کا سب سے بڑا وصف اس کی سچائی ہے۔ وہ حقیقی ماجراؤں کو افسانہ بنانے کے فن سے واقف ہیں۔ اس میں سماجی مشاہدے اور تجربے کے ساتھ ساتھ مطالعے کو بھی دخل ہے۔ اچھے افسانے اور ناول تخلیق کرنے کے لئے اچھے افسانے اور اچھے ناول کا پڑھنا بھی ضروری ہے۔ تخلیقی چمک دمک کو قائم رکھنے ان میں چار چاند لگانے کے لئے دوسروں کے کارناموں کا بھی ادراک رکھنا لازمی اور ناگزیر ہے۔ اسی وسیلے اور وساطت سے بات سے بات نکلتی ہے، اسلوب سے اسلوب جنم لیتا ہے اور تکنیک سے تکنیک وجود میں آتی ہے۔ ہر اچھا لکھنے والا اچھوں کو پڑھتا ہے۔ ضروری نہیں کہ مغربی ادب ہی کو پڑھا جائے عربی، فارسی، بنگلہ، تامل اور نیپالی ادب بھی پڑھ کر اپنے اندر گہرائی اور گیرائی پیدا کر سکتے ہیں۔ کوتاہ بیں لکھاری تخلیقی جودت سے محروم رہتا ہے اور کسی اعلٰی منطقے تک رسائی اس کے مقدر سے دور رہتی ہے۔ نسیم انجم مشاہدے کے ساتھ ساتھ مطالعے کی اہمیت سے واقف ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں بوسیدگی اور فرسودگی نہیں بلکہ تازگی، شادابی اور تنوع ہے۔

 میرے ذہن کے افق پر ایک خیال کوندے کی طرح لپکا کہ نسیم انجم ایک خاتون ہو کر اتنے انہماک کے ساتھ جرائم کے موضوع پر زیادہ کیوں لکھتی ہیں ؟ وہ تو صنف نازک ہیں ان کا پورا پیکر ہی نازک ہے پھر ایسے موضوعات پر قلم اٹھانا جن میں مکاری، جھوٹ، تشدد،قتل،و غارت گری، پولیس تھانہ، گرفتاری مار دھاڑ، رشوت ستانی، سچائی کی تذلیل جیسے مناظر اور واقعات ہیں، کیسے سہ لیتی ہیں۔ سہنا تو خیر سہنا ہے ان کو اپنے رگ و پئے اور احساسات میں اتارنا اور پھر قلم اور قرطاس کو باہم کر کے ان کو لفظوں، مکالموں، اور منظروں میں سجانا۔ یہ مشکل، باریک اور جان جوکھوں کا کام ہے وہ یہ کام کیسے اور کیوں انجام دینے پر تلی ہوئی ہیں۔ لیکن خیال کے اس کوندے پر ایک اور کوندہ لپکا اور یہ احساس دلایا کہ کیمرہ وہی کچھ اپنے لینس میں سمالیتا ہے جو اس کے سامنے اور آس پاس ہوتا ہے لہذا جب شعبۂ تعلیم میں جرم، سماجی اداروں میں جرم، سیا ست اور سیاست دانوں میں جرم مذہبی فرائض میں جرم، شادی بیاہ میں جرم، کاروبار اور لین دین میں جرم، زلزلہ، سیلاب اور بارش کے ریلیف کی تقسیم میں جرم حتٰی کہ جر م کو ر وکنے اور ان کا قلع قمع کرنے والے اداروں میں بھی جرم ہو اور انسان ہر طرف سے جرائم میں گھرا ہوا ہو تو اس کے رگ و ریشے میں اور دل و دماغ میں جرائم کرنے والوں کی کارستانیوں کا اثر اور ان کا رد عمل نہیں ہو تو پھر کیا ہو گا۔ عام آدمی جب بوکھلایا ہوا ہے اور جرائم سے شرابور معاشرے میں وہ خود کو جرم کئے بغیر مجرم سمجھنے لگتا ہے،پھر قلمکار تو عام آدمی سے زیادہ حساس ہوتا ہے وہ کیسے اس صورت حالات سے متاثر نہیں ہو گا؟ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہر ادیب اپنے معاشرے میں ہونے والے سانحات و تضادات کو کیمرے ہی کی طرح اپنی آنکھوں میں اتار لیتا ہے۔ کیمرہ تو ہر منظر کو ہو بہو خارج سے چا لیتا ہے۔ مگر ایک فنکار اور قلمکار اس سے بھی زیادہ مشکل اور باریک کام انجام دیتا ہے اس کی ذمہ داری دوہری ہو جاتی ہے کہ وہ ایک طرف اپنے اردگرد کی سر گرمیوں پر نظر رکھے، انھیں کیمرہ کے لینس کی طرح اپنی گرفت میں لے کر محفوظ کرے بلکہ انھیں اپنے جذبات و احساسات کی راہوں سے گزار کر شعور تخلیق کے حوالے کرے اور بھر اس کو فن کی صورت گری عطا کرے۔ نسیم انجم نے اپنی ادیبانہ ذمہ داریوں کو پوری طرح محسوس کیا ہے اور ان سے بہ احسن عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مشاہدے کی آنکھیں کیمرہ کے لینس Lenseکی طرح ہیں اور ان کے دائرے میں جو کچھ آتا ہے انھیں گرفت میں لے لیتی ہیں۔

 ان کے افسانے ’’گلاب فن ‘‘ ہی کو لے لیں۔ یہ افسانہ ان کی زیر بحث کتاب کا Title stroyکی حیثیت کا حامل ہے۔ اس میں موضوع کے ساتھ ساتھ اسلوب میں بھی تازہ کاری ہے۔ ماجرائی اجزا کو خوبصورت تکنیک کے ساتھ اکائی کا وصف دیا گیا ہے۔ نسیم انجم کے اسی افسانے ہی نے مجھے ان کی جانب متوجہ کیا۔ یہ افسانہ پہلی بارفہیم اعظمی کے ادبی ماہنامے ‘‘صریر‘‘ میں شائع ہوا تھا اس سے پہلے میں انھیں نہیں جانتا تھا۔ اس افسانے کے بارے میں ۲۰۰۱ء کے اپنے افسانوی جائزے میں راقم الحروف نے یہ لکھا تھا:’’گلاب فن ‘‘نے بحیثیت ایک فن پارے کے مجھے متاثر تو کیا ہی ہے مگر اس کہانی نے مجھے کہانی کار کے حوالے سے بھی حیرانی کا ذائقہ عطا کیا ہے۔ اس کہانی کو ایک خاتون نے لکھا ہے۔ مگر اس میں جس ماحول اور کرداروں کو پیش کیا گیا ہے ان کو فنی چابک دستی کے ساتھ نبھانا کسی خاتون افسانہ نگار کے لئے مشکل ضرور ہے۔ یہ موضوع اور ماحول نہایت گہرے مشاہدے اور تجربے کا متقاضی ہے۔ معلوم نہیں نسیم انجم نے یہ سب جاننے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کیا تھا، لیکن کہانی کار ہر قدم پر یہ احساس دلانے مے کامیاب ہے کہ ایسے ماحول، ایسے کرداروں، ان کے پیشوں اور ان کے طور طریقوں سے وہ ذاتی طور پر واقف ہیں۔ جبکہ میرا خیال ہے کہ ان کو ایسے ماحول سے دور کا بھی واسطہ نہ رہا ہو گا۔ اس کہانی میں جرائم پیشہ لوگوں کو موضوع بنایا گیا ہے اور بین السطور جو باتیں منعکس ہوتی جاتی ہیں وہ ماہرانہ ہیں۔ کہانی شروع سے آخر تک دلچسپ اور پر کشش ہے جرائم پیشوں کے جذبات اور نفسیات کو مکالموں اور لفظوں کی کی لکیروں سے جس طرح صفحہ ء قرطاس پر پھیلایا گیا ہے وہ بے شک قابل تعریف ہے۔ لہذا انھوں نے ’’گلاب فن‘‘ کو زیر بحث افسانوی مجموعے کا ٹائٹل اسٹوری بنا کر اس کے ساتھ واقعی انصاف کیا ہے۔ ’’پکاکام‘‘ کتاب کا تیسرا افسانہ ہے۔ اس کا عنوان تو پکا کام ہے مگر حقیقت میں کچا رہ گیا۔ مجرم بہ ہزار مکاری، قتل کا مرتکب نہ ہو سکا اور جسے وپکا کام سمجھ رہا تھا وہ کچا ثابت ہوا۔ اس افسانے کا تعلق بھی جرم و سازش سے ہے۔

 نسیم انجم نے افسانہ ’’سیاہ گلاب‘‘ میں سارے کردار، ان کے نام اور ماحول کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ وہ موضوع کے عین مطابق ہیں۔ مکالمے اور کرداروں کی نقل و حرکت انتہائی پراسرار اور تحیر آمیز ہیں۔ ابو صالح کی بیوی اس افسانے کے کلیدی کردار ہیں۔ حالات حاضرہ کی عکاسی بڑے سلیقے سے کی گئی ہے۔ ’’سیاہ گلاب‘‘ بڑی بھرپور معنویت کی تخلیق ہے۔ ان میں اسلوب کی سحر انگیزی کے ساتھ ساتھ ایک بین الاقوامی درد مندی اور اعٰلی مقاصد کے حصول کی اخلاص مندانہ شیفتگی بھی پائی جاتی ہے۔ کرداروں کی شخصیت میں فن کارانہ تازگی موجود ہے۔

میں نے نسیم انجم کے بارے میں اپنے افسانوی جائزے ۲۰۰۱ء میں یہ بھی لکھا تھا:

 ’’نسیم ایک ابھرتی ہوئی افسانہ نگار ہیں۔ کم لکھتی ہیں مگر اچھا لکھتی ہیں۔ لیکن ۲۰۰۱ء میں انھوں نے بڑی تخلیقی زرخیزی کا مظاہرہ کیا اور چھ افسانے لکھ ڈالے ہیں۔ یعنی اچھا بھی لکھا اور زیادہ بھی لکھا۔ ’’گلاب فن‘‘ سمیت، ’’مداری‘‘(سہ ماہی ’’کہکشاں ‘‘)’’دوسرا قدم‘‘(سہ ماہی ’’روشنائی‘‘)، ’’ننھے کے کپڑے ‘‘(ماہنامہ ’’سخنور‘‘)’’ بے کتبہ‘‘(سہماہی آئندہ) اور ’’بوجھ‘‘(سہ ماہی خیال) کے نا م سے شائع ہوئے۔

 زیر نظر افسانوی مجموعے ’’گلاب فن‘‘ میں افسانے ’’مداری‘‘ اور ’’بوجھ‘‘ شامل نہیں ہیں۔ عموماً Quantityکے سببQualityمتاثر ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی دونوں کی میزان مساوی بھی رہی ہے۔ ۲۰۰۱ء میں نسیم انجم کی تخلیقی فعالیت مقداری اور وصفی دونوں اعتبار سے متوازن رہی ہے۔ ان معروضات سے میری مراد ہے ہے کہ اچھا لکھنے والا کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی پہلو سے اپنے اچھے ہو نے کا ثبوت فراہم کر دیتا ہے۔ نسیم انجم نے جدید سماجی و معاشی مسائل پر بڑی اچھی اچھی کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی کچھ کہانیاں جیسے ’’سیاہ گلاب‘‘ دہشت گردی کے موضوع پر بھی ہیں۔ جرم و سزا تو ان کا پسندیدہ موضوع ہے ہی۔ ان دونوں موضوعات پر لکھے گئے دو افسانوں کا ذکر سطور بالا میں کیا جا چکا ہے۔ ریر بحث مجموعے کے افسانوں میں ’’بے کتبہ‘‘،’’مردم گزیدہ‘‘، منہ چھپانے والی عورت‘‘، ’’پکا کام‘‘،’’ نظر کا ٹیکہ‘‘،’’نئی ریت‘‘ اور ’’ ہوا میں قدم‘‘ قابل ذکر افسانے ہیں۔

 ’’مردم گزیدہ‘‘ میں افسانہ نگار نے مکالموں کا جاندار استعمال کیا ہے، وقوعات اور ماضی نگاری کو پس منظر بنا کر افسانے کو فنی وصف سے مالا مال کرنے کی کو شش کی ہے۔ اس کہانی میں حالات حاضرہ کا ایک اہم گوشہ پیش کیا گیا ہے۔ آج پورے پاکستان میں کسی کو جان کی یقینی امان نہیں۔ کوئی بھی کہیں سے اغوا ہو سکتا ہے، کہیں تاوان کا سلسلہ قائم ہوتا ہین تو کہیں مغوی کی لاش بند بوری میں ملتی ہے۔ ایسے ہیبتناک واقعات اور درندگی کے شکار نوجوان زیادہ ہو رہے ہیں۔ اس پر مستز اد ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ۔ حالت یہ ہے کہ کہیں پناہ نہیں

آسماں دور اور دریا ہمیں پایاب ملے

 بڑھیا اور بڈھے کی باہمی نوک جھونک اور پھر صلح جوئی، ماضی میں گم ہو جانا اور پیار کی باتیں یاد کرنی۔ ان تمام جزئیات کو افسانہ نگار نے بڑی ہنر مندی سے ایک کل میں ڈھالا ہے۔ آخر کار وہ دونوں ضعیف خوف کا شکار ہو کر جان بچانے کی کوشش میں جان سے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے مگر افسانہ نگار یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایسے ہی بہت سارے واقعات ہمارے شہر اور ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہو رہے ہیں۔ کہانی اپنے اختتام پر قاری کے ذہن میں یہ سوالیہ نشان بناتا ہے کہ اگر آدمی اپنے ملک ہی میں محفوظ نہیں تو پھر وہ کہاں پناہ ڈھونڈے ؟کہاں جائے۔ کیا پناہ تلاش کرتے رہنا مسئلے کا حل ہے ؟ خود سارا ملک کیوں ان و امان کا گہوارہ نہیں بن جاتا؟مگر کون بنائے۔ اس موقع پر فیض کے یہ اشعار ے یاد آ رہے ہیں

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

 نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی، منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

نسیم انجم تفصیلی پس منظر سے بچنے کے لئے بہت چابکدستی سے تلمیحات کا استعمال کر تی ہیں۔ اس طرح اجمال میں تفصیل بیان کرنے کا ہنر کامیابی کے ساتھ آزماتی ہے۔ اس سے معنویت کے بادبان کھلتے ہیں اور فکر بیان میں تمازت پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ’’مردم گزیدہ‘‘ کے دو مرکزی کردار بڑے میں اور بڑی بی جب باتیں کرنے ہوئے ماضی کے جھوکوں میں جھانکتے ہیں اور اپنی اپنی شاداب و دلکش جوانی کو تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں تو بڑھیا پر جو کیفیت طاری ہوتی ہے اس کیفیت کی تفضیل بیان کرنے کے بجائے نسیم انجم نے یہ لکھا ’’بڑھیا کے چہرے پر موسم بہار کا عکس اب بھی نمایاں تھا‘‘۔ (صفحہ ۳۵ گیارہویں سطر) اسی طرح ’’منہ چھپانے والی عورت‘‘ میں ایک جگہ جب وہ عورت جو افسانے میں مرکزی کردار ہے پولیس کو اپنی پاکدامنی کا یقین دلاتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’جو تم مجھے سمجھ رہے ہو، میں وہ نہیں۔ ‘‘ تو اس کے جواب میں پولیس افسر جو فقرہ ادا کرتا ہے اس میں بیک وقت کئی تلمیحات سجی ہوئی ہیں اور مکالماتی فضا کو اثر آفریں بناتی ہیں۔ مثلاً:

’’اچھا۔ ۔ ۔ ؟ تو تم نیک پروین ہو، سیتا ہو یا راجہ داہر کی مغوی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بند کر یہ ڈرامہ۔ ‘‘(صفحہ ۹۲ پانچویں سطر)

اسی افسانے میں جب پولیس افسر کو مرکزی کردار روبینہ کی پاکدامنی کا یقین ہو جاتا ہے تو جو جملہ وہ ادا کرتا ہے اس میں بھی تلمیحاتی ذائقہ موجود ہے۔ وہ کہتا ہے۔

’’ بی بی ہم بھی انسان ہیں،ہمارے اندر بھی روشنی پھوٹ سکتی ہے۔ ہم بھی حجاج کے لشکر میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

مجموعی طور پر نسیم انجم کی فکری و فنی اڑان قابل رشک ہے۔ ان کے مشاہدے اور تجربے موضوعات کے نئے در کھول رہے ہیں۔

٭٭٭


 

 

 

اردو شاعری میں تصور زن

 

غالب عرفان

(کراچی)

           

 میرے ساتھ اکثرایساہواکہ کسی نابغہ روزگار ادیب اور شاعر کی تحریریاتقریرسے متاثر ہو کر اس سے ذاتی ملاقات کے بعد جب اس کو الوداع کہہ کر لو ٹا تو وہ سارا تصور یا امیج جو میرے ذہن میں اس سے ملاقات کے پہلے قائم ہوا تھا وہ سب اس کی شخصیت کے بت کے ساتھ زمین بوس ہو کر شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔ دوبارہ اس سے ملنے کا نہ تو جذبہ جاگا اور نہ ہی کوئی خواہش ذہن میں کلبلائی۔ بہت کم شخصیتیں میری زندگی میں ایسی آئیں جن کے قول و فعل میں تضاد تھا۔ یقیناً ایسے نابغہ لوگ ایک ہاتھ کے انگلیوں میں ہی گنے جانے کے قابل ہیں۔ ممکن ہے میری اس زاتی رائے سے بہت زعما اختلاف کریں لیکن ہے یہ بہر حال ایک تلخ حقیقت ایسے ہی گنتی کے چند لوگوں میں نسیم انجم بھی ہیں بات دور چلی جائے گی لہذا آمدم بر سر مطلب میں یہاں نسیم انجم کی تازہ کتاب ’’اردو شاعری میں تصور زن‘‘ پر گفتگو کرنے بیٹھا ہوں اگرچہ یہ گفتگو مختصر ہے لیکن ان کے بارے میں یہ کہتے ہوئے مجھے ذرا بھی جھجک نہیں کہ یہ اپنے افسانوں اور ناولوں کی طرح عام زندگی میں بھی سچ بولتی، سچ لکھتی اور سچ کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ ۲۲۲ صفحات کی یہ کتاب ویسے ہے تو فضا اعظمی کی شاعری کے مجموعے ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ! لیکن ان کی شاعری کو کھنگالتے ہوئے وہ جن ابواب سے گزری ہیں ان کے عنوانات ملاحظہ فرمائیے۔ اردو شاعری کی ابتدا، اسلام کا تصور زن، (دور فاروقیؓ اور دو شیزہ کی بھینٹ)،مذاہب عالم میں تصور زن (انسانیت کا زوال اور سائنسی ترقی)، اکبرالہ آبادی کا تصور زن، اقبال کا تصور زن، الطاف حسین حالی کا تصور زن، اردو غزل میں تصور زن،قدیم و جدید شعراء کا تصور زن، ادیب سہیل کا تصور زن، حمایت علی شاعری کا تصور زن پھر ان ابواب کے ذریعے وہ متقدمین سے لے کر دور حاضر کے شعراء کی شاعری میں زن کے تصور کو ابھارتے ہوئے۔ ۔ ۔ فضا اعظمی کے جانب پلٹی ہیں اور ان کی شاعری کو ۲۱ ابواب میں تقسیم کرنے کا جتن کرتی ہیں جن کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں فضا اعظم ایک بہتر شاعر، فضا ا عظمی کی تعلیم و تربیت، اندازسخن اور طویل مقصدی نظم کے محرکات،طویل مقصدی نظم، فضا اعظمی کی شاعری پر ایک نظر، شاعر کا بچپن اور پہلا شعر، شاعر اور حسن کائنات دنیا کی عورتوں کا مشترکہ درد، فضا ا عظمی کا خواب یا حقیقت، انسانی مساوات، شاعری کا آدرش، اوصاف انسانی کا شاعر، عروج آدمیت شمع ہر رنگ میں جلتی ہے، شاعر کا ماضی، خود ساختہ قوانین، جبرو تشدد کا ماحول، دوسرے درجے کی مخلوق، ایک ہی دکھ، فرد جرم۔ عدالت بنت حوا اور صدا یہ عرش سے آئی اور’’ جواب شکوہ۔ ‘‘

ان ۲۱ ابواب کا تذکرہ میں نے اس لئے بھی کیا ہے کہ آپ کو ان کی کھوج پرکھ، جستجو اور تنقیدی بصیرت کا اندازہ، بالتفصیل، لگ سکے میں نے ان کی مختصر ترین اور طویل تجزیاتی مضامین پڑھے ہیں لیکن افسانے اور ناول کی دنیا کی اہم شخصیت ہوتے ہوئے انہوں نے جس طرح تنقید کو بصارت سے بصیرت تک گھول کر پیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے میں اس کتاب کی تفصیل میں جائے بغیر صرف نسیم انجم کی اس خصوصیت پر قاری کی توجہ مبذول کر وانا چاہتا ہوں جس خصوصیت کے تحت انہوں نے ایک تجزیاتی مقالہ اس طرح لکھ ڈالا کہ ایک مصرع پر تھوڑے سے تصرف کے بعد میرے منھ سے بے ساختہ یہ موزوں مصرع نکل پڑا ؎ میری کتاب ہی ہے جہاں یہ سما سکے

آخر میں میں کتاب میں دی گئی اس عبارت پر اپنا یہ مختصر سا تبصرہ مکمل کرنا چاہوں گا۔

جس میں انہوں نے شاعر کی نگاہ باریک بیں کو اس طرح سمیٹا ہے۔ ’’شاعر کی بصیرت و بصارت ظلم کے اندھیروں کو اچھی طرح دیکھتی ہے اور دکھ کے شبستانوں میں نوحہ کناں ہے۔ پھر یہ غم کی تاریک رات صفحہ قرطاس پر اتر جاتی ہے۔ طولانی لہریں الفاظ کا روپ دھار لیتی ہیں اور الفاظ قلم سے نکل کر شاعری کے لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔ ہر لفظ رو رو کر اپنا حال دل سناتا ہے۔ ظلم سیاہی کے بجائے خون دل سے داستان الم لکھتا ہے کہ ہر لہو مظلوموں اور بے کسوں کا ہے اور تخلیق کار کا لہو بھی اس میں شامل ہو گیا ہے کہ تخلیق کے باغ کو لہو سے سینچنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ شاعر نے خون سے جو تصویر کشی کی ہے عورت کی حقیقت مرد کی نگاہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ‘‘

(ایک بند کا آخری شعر)

کوئی تہذیب ہو دنیا میں، گالی ہے تو اس سے ہے

مغلظ ذہنیت کی بد خیالی ہے تو اس سے ہے

فضا اعظمی کی کتاب ’’خاک میں صورتیں ‘‘ پر اتنا طویل تبصرہ یقیناً ایک P.H.Dکے مقالے سے کم کا درجہ نہیں رکھتا اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ!

٭٭٭


 

 

 

نسیم انجم کے فن کی مختلف جہات پر تاثرات

 

 

غلام عباس

 یہ نسیم انجم کی دوسری کتاب ہے پہلی کتاب ۱۹۸۱ء میں ’دھوپ چھاؤں ‘کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ وہ تین برس کے عرصے میں دو تین کتابیں لکھنا بڑی ہمت کا کام ہے اور ادب سے ان کی لگن جوش و جذبے اور ولولے کا پتہ دیتا ہے۔ ان کی زبان ہلکی پھلکی اور لکھنے کا انداز سیدھاسادا ہے جس سے وہ بڑے موثر انداز میں زندگی کے المیوں کو بیان کرتی ہیں ان دونوں کتابوں کو پڑھنے سے مجھے انداز ہ ہوا ہے کہ ان کا فن برابر ترقی کر رہا ہے اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکر میں زیادہ وسعت اور شعور میں زیادہ پختگی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

مصطفی کریم(لندن)

 نسیم انجم نے جرائم پیشہ افراد یا جرائم کو اپنا موضوع بنایا ہے اور مجرموں کی نفسیات اور ان کی نفسیاتی کشمکش کو نمایاں کیا ہے، یہی ان کی انفرادیت ہے جو ان کی تخلیق کو اہم بناتی ہے دراصل جرائم کی بابت لکھنا اس عدم تحفظ کا اظہار ہے جسے ہر شخض معاشرے میں محسوس کرتا ہے یہ وہ عنوان ہے جس پر خواتین کیا مرد ادیبوں کی نگاہ بھی کم جاتی ہے ترقی یافتہ ملکوں میں جرائم کو فکشن کی اصناف میں محترم رتبہ دینا ایک عرصے سے رائج ہے اس سلسلے میں شرلک ہومزکی جاسوسی کہانیوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ نسیم انجم کے افسانے سراغ رسانی سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ جرم اور مجرموں کو قاری کے سامنے لا کر اسے دعوت فکر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کے سامنے انسانی زندگی اور معاشرے کے نئے پرت کھلنے لگتے ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

ذوالفقار گاندھی (شاعر ادیب، نقاد)ضلع دادو(سندھ)

 نسیم انجم سے میری پہلی ملاقات عمر کوٹ اور دوسری لاڑکانہ میں سندھی ادبی سنگت اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے مشترکہ پروگرام میں ہوئی وہاں نسیم انجم نے اپنا ناول ’’نرک‘‘ مجھے دیا میں نے پڑھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اس موضوع پر اتنا اچھا ناول میں نے اس سے پہلے نہیں پڑھا تھا۔ یہ ناول تیسری جنس کے موضوع پر ہے تیسر ی جنس یعنی خواجہ سراہمارے ادب اور کلچر میں شجر ممنوعہ کی مانند ہیں۔ اس حد تک کہ ہم شناختی کارڈ میں میں بھی ان کے لئے کوئی مخصوص خانہ نہیں رکھ سکے۔ جس میں وہ اپنی جنس لکھ سکیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اس ملک میں رہتے نہیں اور رہتے نہیں تو ووٹ کہا ں سے دیں گے۔ ؟جبکہ اس ملک میں ان کی خاصی تعداد موجود ہے وہ اس ملک کی معاشیات پر بھی اثر رکھتے ہیں لیکن اس کی کسی کو پروا نہیں۔ نسیم انجم نے ایک بہت بڑا کام کیا ہے جو کام ہمارے اداروں کو کرنا چاہئے تھا لیکن ہمارے یہاں اداروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ جہاں ادارے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں وہاں افراد کام کرتے ہیں۔ اور یہ کام نسیم انجم نے کر دکھایا۔ ان کا یہ ناول مکمل ڈاکیومینٹری ہے۔ تیسری جنس کے موضوع پر اور یہ خالی ڈاکیو مینٹری نہیں یہ ایک فکشن ہے اور فکشن میں اپنا مزا ہوتا ہے۔ میں اس ناول کے متعلق زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ اب میں آتا ہوں کتاب ’’گلاب فن‘‘ کی طرف جس کا میں سندھی زبان میں ترجمہ کیا ہے اس کتاب میں کل اٹھارہ کہانیاں ہیں اور ہر ایک کہانی اپنی جگہ با مقصد اور با کمال کہانی ہے۔ کوئی بھی کہانی بے مقصد اور خانہ پوری کے لئے نہیں لکھی گئی۔

نسیم انجم کا ناول ’نرک‘ اور ’ گلاب فن ‘ نے ایک دوسرے کی کوکھ سے جنم لیا ہے دونوں کی کہانی بچوں کے اغوا سے شروع ہوتی ہے ’نرک‘ کا بچہ ہیجڑوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے وہ اسے ہیجڑہ بنا دیتے ہیں جبکہ ’گلاب فن‘ کا بچہ جیب کتروں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہ اسے جیب کترا بنا دیتے ہیں۔ میں نے اس کہانی کا سندھی میں ’کن‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے جس کے معنی گرداب یا بھنور کے ہیں یہ کہانی سندھی ادب میں بہت پسند کی گئی اور کئی دوستوں نے مجھ سے نسیم انجم کا رابطہ نمبر بھی مانگا تاکہ وہ نسیم انجم کو اپنے احساسات سے آگاہ کر سکیں۔ ایک اور کہانی ’’مردم گزیدہ‘‘ جس کا سندھی میں ’خوف‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ ’’بے کتبہ، سیاہ گلاب، اور آگ اگلتا سورج ‘‘ یہ تینوں کہانیاں اس کتاب کی شاہکار کہانیاں ہیں۔ ’’بے کتبہ‘‘ کہانی جس کا میں نے سندھی میں ’’بے نام قبروں ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔ دہشت گردوں کے ان کارناموں کی کہانی ہے جس میں وہ تابوت میں لاشوں کے بجائے ہتھیار دفن کرتے ہیں۔ جبکہ’سیاہ گلاب، اور ’آگ اگلتا سورج‘ خودکش بمباروں کے پس منظر میں لکھی گئی کہانیاں ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

سیدانور

 کائنات اور دھوپ چھاؤں میں کوئی چھ سال کا عرصہ ہے اس عرصے میں نسیم انجم کے بہت سے افسانے رسالوں اور اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں میں شائع ہو چکے ہیں ان کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نسیم انجم نے افسانہ نگاری میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ نہایت وسیع ہے اور زندگی کے مسائل پر وہ اب زیادہ موثر انداز میں خامہ فرسائی کر سکتی ہیں۔ سب سے بڑی دلیل جو کائنات کے حق میں دی جاتی ہے یہ ہے کہ یہ ایک اصلاحی ناول ہے ڈائجسٹوں میں لکھنے والی لڑکیوں کا دل بہلانے والا رومانی ناول نہیں ہے، نسیم انجم نے دھوپ چھاؤں کے دیباچے میں لکھا ہے۔ ’’زمانے کے حو ادث اور تلخ تجربات کو میں نے لفظوں کی شکل میں دے کر معاشرے کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ‘‘ ان الفاظ میں نسیم انجم نے اپنے افسانوی ادب کی سمت متعین کی ہے۔ اس کا مظاہرہ ان کے ناول دھوپ چھاؤں کے مقابلے میں کائنات کے صفحات پر زیادہ ہوا ہے، زندگی کے تلخ حقائق کو نہایت سادہ اور عام فہم طریقے سے انہوں نے قاری کے سامنے رکھ دیے ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اظہر جاوید

(مدیر ’تخلیق‘)

 نسیم انجم ان لکھنے والوں میں سے ہیں جو کسی تحسین کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ ناول لکھیں ، افسانہ یا کالم انہیں معتبر اور ثقہ اہل نظر سے داد ملتی ہے یہی انہیں فن کے سفر پر اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ مشاہدے کو کیمرے کے عکس کی طرح گرفت میں لے لیتی ہیں اور یہ رنگین تصویروں کا زمانہ ہے اس لیے ان کے ہاں بھی معاشرے کے ٹو ٹتے رشتوں، جذبوں کے مسئلے، قدروں کی پامالی اور زندگی کی بے حالی کے سارے رنگ نمایاں ہیں۔ ان کا افسانہ کانچ کی بوتل، گلاب فن، دوسرا قدم، چنگاری اور ایسی دوسری کہانیاں سب گہرے مشاہدے اور با ساختہ اظہار کی کہانیاں ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

ذیب اذکار حسین(صحافی و افسانہ نگار)

 نسیم انجم اس اعتبار سے ایک نہایت کامیاب کہانی کار، ناول نگار اور کالمسٹ ہیں۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس سے انصاف کیا ہے ان کی کہانیوں میں نت نئے موضوعات ملتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ نسیم انجم نے جس موضوع اور جس مسئلے کو اپنی کہانی کا حصہ بنایا ہے ان کے مشاہدے، تجربے اور علم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے نہایت محنت اور ثابت قدمی کے ساتھ کہانی اور تخلیق کو اپنی منزل بنائے رکھا اور یہی ان کی کامیابی کی بڑی دلیل ہے۔ وہ اس پر بھرپور طریقے سے پورا اتری ہیں۔ نسیم انجم ناول کا ’’کائنات ‘‘ اور ’’آج کا انسان‘‘ کے کرداروں سے لے کر ’’گلاب فن ‘‘ تک کے سفر میں موضوعات کی ہما ہمی ملے گی اور ہمارے معاشرے کے وہ کردار نظر آئیں گے جن پر اس قبل قلم نہیں اٹھایا گیا۔ اسی طرح ان کا ایک ناول ’نرک‘ بھی ان کی جرات مندی اور توانا تخلیق کی صورت گری کی ایک شکل ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

پروفیسر علی حیدر ملک(تنقید نگار)

 نسیم انجم نے لکھنے کا آغاز بیسوی صدی کے آخر میں کیا تھا اور گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں ایک ناول اور دو افسانوی مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں انہوں نے جو فکشن لکھا اس نے وسیع اور ثقہ ادبی حلقوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں بڑی کامیابی حاصل کی اس عرصے میں ان کا ایک ناول ’نرک‘سامنے آیا جو خواجہ سراؤں کی زندگی جیسے اچھوتے موضوع پر تھا اس ناول کی بڑے پیمانے پر پذیرائی ہوئی اور ہو رہی ہے ان کے افسانے کا ایک مجموعہ ’’گلاب فن اور دوسرے افسانے ‘‘ بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ جس میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں ان افسانوں میں انہوں نے بعض ایسے موضوعات پر بھی رسائی حاصل کی ہے جہاں خواتین افسانہ نگار تو کیا مرد حضرات بھی نہیں پہنچ پاتے نسیم انجم بنیادی طور پر فکشن رائٹر ہیں۔ اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے اور تین ناول منصہ شہود پر آ چکے ہیں جن میں افسانوی مجموعہ ’’گلاب فن اور دوسرے افسانے ‘‘اپنی منفرد کہانیوں اور ناول ’’نرک‘‘ اپنے اچھوتے موضوع کی بنا پر خاص اہمیت کا حامل ہے۔ فکشن کے علاوہ نسیم انجم کالم اور مضامین وغیرہ بھی لکھتی رہی ہیں۔ ابھی حال میں ان کی ایک کتاب ’’خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصّور زن‘‘کے نام سے منظر عام پر آئی ہے، جو تحقیق و تنقید کے زمرے میں آتی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مصنفہ نے اس میں اردو شاعری میں تصّورزن کو فضا اعظمی کے خصوصی حوالے کے ساتھ اپنا موضوع بنایا ہے۔ اسلام کا تصّور زن، مذاہب عالم میں تصّور زن، اکبر الہ آبادی کا تصّور زن، اقبال ؒ کا تصّور زن، الطاف حسین حالی کا تصّور زن، اردو غزل میں تصّور زن اور فضا اعظمی کا تصّور زن اس کے خاس ابواب ہیں۔ فضا اعظمی ایک معروف شاعر ہیں۔ ان کا اختصاس طویل نظم ہے۔ انہوں نے کئی اہم انسانی اور عصری مسائل اپنی طویل نظموں میں اجاگر کئے ہیں۔ ’’خاک میں صورتیں ‘‘بھی ایسی ہی ایک نظم ہے، جس میں انہوں نے عورت کی حالت زار کو مفصّل اور موثر انداز میں قلم بند کیا ہے۔ نسیم انجم نے لکھا ہے کہ ’’یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ شاعر کی بصیرت و بصارت قابل تحسین ہے کہ فضا اعظمی نے ہر ماحول اور ہر معاشرے کی مجبور و بے کس عورت کے دلی جذبات کی رونمائی بہت ہی موثر انداز میں کی ہے۔ مشرق و مغرب کا موازنہ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بے حد اچھوتے اور دل پذیر انداز میں کیا ہے ‘‘۔ نسیم انجم کی یہ کتاب اپنے موضوع پر یقیناً ایک اہم کتاب ہے جس کا انتساب انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری کے نا م کیا۔ یہ کتاب لاہور کے ایک ممتاز اشاعتی ادارے کی جانب سے شائع ہوئی ہے اور طباعت و پیشکش کا اعلی معیار قائم کرتی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اے۔ خیام

 نسیم انجم کے افسانوں کے دو مجموعے اور دو ناول منظر عام پر آ چکے ہیں ان کے پہلے ناول ’کائنات ‘ کے مطالعے سے تو میں محروم رہا لیکن ان کا دوسرا ناول ’نرک‘ میں نے بڑی توجہ سے پڑھا بلکہ اس ناول میں وہ تمام تفصیلات ہیں اور کی کھردرے پن کے بغیر محض حقیقت نگاری کے طور پر نہیں بلکہ فنی رچاؤ کے ساتھ ہیں۔

ہیجڑوں کی کئی اقسام ہیں کچھ تو پیدائشی ہوتے ہیں اور کچھ بنائے جاتے ہیں چھوٹے بچوں کو اس مقصد کے لئے اغوا بھی کیا جاتا ہے اور غلط صحبتوں میں پڑ کر اس ٹولی میں شامل ہو جاتے ہیں ہیجڑوں کے کئی سروکار ایسے ہیں جو بڑے پراسرار ہیں اور یہ اسرار منکشف نہیں ہو پاتے۔ نسیم انجم کے مد نظر یہ تمام باتیں تھیں انہوں نے نہ صرف ان سے گفتگو کی بلکہ ان سے متعلق تحریروں کا مطالعہ بھی کیا، پرانی قدروں کے مسمار ہونے کے باعث اب ان ہیجڑوں کے اطوار میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔ ان کے حالات کی ایک صورت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اگر کوئی ان کی ٹولی سے نکلنے کی سعی کرے یا غداری پر آمادہ ہو تو وہ انتہائی خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

نسیم انجم نے ایسے موضوع پر قلم اٹھا یا ہے جو اچھوتا بھی ہے اور ذرا نازک بھی، انہوں نے ان نزاکتوں کو محسوس کیا اور بڑی چابک دستی سے نبھایا ہے اکثر چیزیں واضح ہیں اور کچھ غیر واضح لیکن جو غیر واضح ہیں وہ زیر سطح پ ر موجود ہیں۔ اور انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ نسیم انجم کا یہ ناول ’’نرک‘‘ اپنے موضوع کے اچھوتے پن اور مشاہدے کی گہرائی اور وسعت کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

حیدر قریشی

 نسیم انجم نے تحقیق و تنقید کے شعبہ میں بھی کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی تازہ تصنیف ’’خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصورِ زن‘‘ اہمیت کی حامل کتاب ہے۔

 فضا اعظمی کی طویل نظم ’’خاک میں صورتیں ‘‘کو انہوں نے اپنا موضوع بنایا ہے اور اردو شاعری میں تصورِ زن کے تناظر میں فضا اعظمی کی نظم کا تجزیہ تصویر کا ایک اور رُخ سامنے لایا ہے۔ فضا اعظمی کی نظم میں مسدس حالی جیسے انداز کے ساتھ عورت کی مظلومیت کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور پرانے زمانے سے آج کے عہد تک کی روداد ایک خاص فکری پس منظر میں بیان کی گئی ہے۔ نسیم انجم نے اسی فکری پس منظر کو مزید نمایاں کرتے ہوئے ادب میں تانیثیت کا ایک نیا زاویہ ابھارنے کی سعی کی ہے۔ ابھی تک ادب میں تانیثیت کے حوالے سے مغربی مفکرین کے فرمودات کو بنیادی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ نسیم انجم نے اپنی اس کتاب میں اسلامی فکر کے حوالے سے عورتوں کی مظلومیت کو نمایاں کرنے کے ساتھ ان کے حقوق کی بات کی ہے۔ بیان کردہ بیشتر واقعات بلا شبہ ایک تاریخی حقیقت ہیں اور نسیم انجم نے تانیثی حوالے سے اردو میں لکھنے والی خواتین کے برعکس مغرب کی بجائے اپنی روایات اور اپنی تاریخ کی بنیاد پر اپنا کیس تیار کر کے ایک با مقصد شاعر کی نظم اور دوسرے کلام سے اپنی با مقصد کتاب مکمل کی ہے۔ بے شک وہ اپنے مقصد میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔

٭٭٭

تشکر: ارشد خالد جن سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید