FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

علی ساحل کی کچھ نظمیں

 

 

 

 

                جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

خواب

 

چلو اچھا کیا تم نے

ہمیں

خوابوں کی دُنیا سے

ہمیشہ دُور ہی رکھا

سُنا ہے

خواب کے تعبیر میں تحلیل ہونے سے ذرا پہلے

اِک ایسا مرحلہ ہے

جس میں آنکھیں کھول لی جائیں

تو بینائی نہیں رہتی

 

 

 

 

مساوات

 

مجھے جو بھی سزا دے دو

مجھے منظور ہے لیکن

مری اِک بات تم اپنی گِرہ سے باند ھ کر رکھنا

کہ میرے نام سے جو بھی سزا منصوب ہو جائے

وہ کم از کم

مرے جُرمِ محبت کے مساوی ہو

 

 

 

 

انکار

 

بساطِ زندگانی پر

سفر آغاز کرنے سے ذرا پہلے

کسی نے کہہ دیا ہم سے

تمہیں خاموش رہنا ہے

زباں سے کچھ نہیں کہنا

وہ سب کچھ کر گُزرنا ہے

جو تم سے کہہ دیا جائے

مگر ہم

سوچنے والوں کے ہاتھوں کی لکیروں میں

جو اِک انکار کی خُو ہے

اُسے کیسے بدل لیتے

 

 

 

 

تدارک

 

ہم کو خاموش رہنے کے بدلے میں جینے کی مہلت مِلی

ہم نے خاموش رہنے کی کوشش بھی کی

پر نہیں رہ سکے

اور پھر ایک دن

وقت کے سامراجوں نے ہم سے ہماری زباں چھین لی

ہم نے آنکھوں کو اپنی

زباں سونپنے کا تجربہ کیا

اور پھر اپنی آنکھیں گنوانی پڑیں

ہم نے پھر خامشی کا تدارک کیا

ہم نے نظمیں لکھیں

اور نظموں میں بھی آئینے رکھ دیے

 

 

 

مجبوری

 

گناہگار ہیں

بس ہاتھ جوڑ سکتے ہیں

تمہارے اشک

مقدّس ہیں آیتوں کی طرح

ہمیں

تمہاری محبت بہت عزیز سہی

ہم اپنے آپ سے باہر نہیں نکلتے ہیں

 

 

 

 

التجا

 

مرا کشکول مت چھینو

مرے محبوب کی آنکھیں

محبت کا تبرّک بانٹتی ہیں

اور مرا دامن دریدہ ہے

 

 

 

صدائیں کون سُنتا ہے

 

صدائیں گونجتی رہتی ہیں گلیوں میں

کوئی آواز دیتا ہے

پسِ دیوار

اِک بڑھیا

پرانے عاشقوں کے نام لیتی ہے

مگر احساس سے عاری

زمانے میں

پرانی اپسراؤں کی صدائیں کون سُنتا ہے

صدائیں گونجتی رہتی ہیں گلیوں میں

 

 

 

 

ایس ایم ایس

 

 

اُسے مجھ سے

کوئی بھی بات کرنی ہو

کوئی قصّہ سُنانا ہو

کہانی کے کسی کر دار کے جملے بدلنے ہوں

سوالوں کے

جوابوں کی ضرورت ہو

جوابوں میں

کسی انجان پہلو کی

کمی محسوس ہوتی ہو

کبھی آنکھوں کے گوشوں میں

نمی محسوس ہوتی ہو

اُسے مجھ سے

کوئی بھی بات کرنی ہو

زبانی کچھ نہیں کہتی

وہ لکھ کر بھیج دیتی ہے

 

 

 

ملبہ

 

میں بچپن میں

سبھی دُکھ

گھر کی دیواروں پہ لکھ دینے کا عادی تھا

مگر پردیس میں آ کر

میں اپنے گھر کی دیواروں پہ روشن

سب دُکھوں کو بھُول بیٹھا ہوں

مجھے ماں نے بتایا ہے

کہ اب کی بارشوں میں

گھر کی دیواریں بھی روئی ہیں

سو گھر جا کر

مجھے دیوار پر

لکھی ہوئی

تحریر کا ملبہ اُٹھا نا ہے

 

 

 

اعتراف

 

بہت ہی خوبصورت ہو

تمہارا حُسن

قدرت کا

کوئی شاہکار ہے شاید

تمہارے حسن کے تانے

کبھی یوسف

کبھی لیلیٰ

کبھی سسی سے ملتے ہیں

یقیں جانو

مجھے تم سے محبت ہو گئی ہوتی

اگر میں آئینہ ایجاد نہ کرتا

 

 

 

تعارف

 

تم کیا جانو

جس کا نام علی ساحل ہے

سپنوں کی پاداش میں آنکھیں گِروی رکھ کر

کاغذ کے اِک ڈھیر پہ بیٹھا

سپنے چُنتا رہتا ہے

نظمیں بُنتا رہتا ہے

 

 

 

التجا

 

مرا کشکول مت چھینو

مرے محبوب کی آنکھیں

محبت کا تبرّک بانٹتی ہیں

اور مرا دامن دریدہ ہے

 

 

 

دیکھو وقت گزر جائے گا

 

 

تم نے جس سے

جو کچھ بھی کہنا ہے کہہ لو

یوں نہ ہو کہ

اب کے جو تم بچھڑو تو کچھ ایسے بچھڑو

جیسے دو انجان مسافر

اِک انجانے اسٹیشن پر

اِک دوجے سے مل کے بچھڑیں اور کھو جائیں

تم کیا اِک ٹیبل پر بیٹھے سوچ رہے ہو

دیکھو!

وقت گزر جائے گا

 

 

 

 

انتظار

 

میں نے جب بھی لکھنا چاہا

کاغذ پر دیوار بنا کر

اس پر اپنی آنکھوں کی تصویر بنا دی

جس میں تیرے آنے کی اُمید ابھی تک باقی ہے

کب آؤ گے۔ ۔؟

 

 

 

مایوسی

 

تجھے کیسے بتائیں ہم

تجھے ملنے کی خواہش

سر پھری منہ زور لہروں کی طرح

وہم و گُماں کے سارے پتھر چاٹ لیتی ہے

تو ہم تسکین پاتے ہیں

تجھے کیسے بتا ہیں ہم

کہ تیرے پیار کے رسیا

تیرے اقرار سے پہلے تیرے انکار کے رسیا

تیرے ہر روز ملنے سے بُہت مایوس ہوتے ہیں

 

 

 

 

فون کی گھنٹی

 

تمہارے فون کی گھنٹی

سمندر سے ذرا گہری

سُہانی نیند سے مجھ کو

مرے بستر پہ لے آئی

پھر اس کے بعد سے اب تک

مری آنکھوں سے نیندوں کا تعلق واجبی سا ہے

پھر اس کے بعد سے اب تک

میں لمحہ بھر نہیں سویا

تمہارے فون کی گھنٹی

نہ جانے کس گھنی چھاؤں میں جا کے سو گئی ہے

 

 

 

 

تضاد

 

زمانہ چاند پہ جا کر

نئی دُنیاؤں میں رہنے کے سپنے بُن رہا ہے

ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی خواہشوں میں سو نہیں پاتا

مگر یہ بھی حقیقت ہے

محبت آئنہ خانے کی حیرت سے ابھی باہر نہیں نکلی

 

 

 

نظم

 

زمانے کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے والو

بقاء کی جنگ میں تم

زمانے بھر کی ساری مشکلیں آسان کرنے کا اِرادہ باندھ رکھّا ہے

تو اچھّا ہے

مگر میں تو خیال و خواب کی دُنیا کا باسی ہوں

مجھے اِک نظم لکھنی ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urdumanzil.com/2010/alisahil/index.html

http://www.urdupoint.com/poetry/viewUPoetryb.php?author_id=355

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید