FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

علوم کی اسلامی تشکیل جدید: ترجیحات کیا ہوں ؟

 

 

 

 (انگریزی سےترجمہ )

 

                                  محمد نجات اﷲ صدیقی

 

 

 

 

اٹھارہویں صدی سے عالم اسلام میں احیاء اور باز آفرینی کی آوازیں گونجتی رہی ہیں۔ بر صغیر کے شاہ ولی اﷲ (۱۷۶۲۔۱۶۹۹) ہوں یا یمن کے محمد بن اسمٰعیل الامیر (۱۷۶۸۔۱۶۸۸)  اور جزیرہ نما عرب کے محمد بن عبد الوہاب (۱۸۰۳۔۱۷۹۲) ان سب نے اس سرچشمۂ قوت کی بازیافت کے لئے خالص قرآن اور سنّت پر مشتمل اسلام کی طرف واپسی کی دعوت دی جس کے کھو جانے کی بنا پر ملت غیر اقوام کے تسلط اور غلبہ کا شکار ہونے لگی تھی۔ چنانچہ انیسوی صدی میں مصر کے مفتی محمد عبدُہ (۱۹۰۵۔۱۸۴۹) ہوں یا الجیریا کے امیر عبدالقادر (۱۸۸۳۔۱۸۰۷)انھیں مقاصد کے حصول کے لئے اٹھے اور بیسویں صدی کی ابتداء میں محمد اقبال (۱۹۳۸۔ ۱۸۷۷) جمال الدین افغانی ((۱۸۹۷۔۱۸۳۸) اور شکیب ارسلان(۱۷۴۶۔۱۸۶۸) نے مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لئے اسلام کو درپیش فکری چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔اسی طرح مصر میں حسن البنّا کے ذریعے طاقتور و تنظیم اخوان المسلمون کا قیام اور بر صغیر میں مولانا سید ابو الااعلیٰ مودودی (۱۹۷۹۔۱۹۰۳)  اور انڈونیشیا میں محمد ناصر جیسے افراد نے اسلام کے برسرِ اقتدار آنے اور سیاسی غلبہ حاصل کر لینے کی امیدیں دلوں میں پیدا کیں۔پیش نظر علوم کے اسلامیانے کی تحریک در اصل مذکورہ بالا کوششوں ہی کا ایک باب تھی۔

گذشتہ صدی کے نصف تک سامراجی قوتیں مسلم علاقوں سے رخت سفر باندھنے لگی تھیں اور اپنے پیچھے ایک ایسا نظام تعلیم چھوڑے جا رہی تھیں جو مقامی آبادی، ان کے مذہب، اور ان کے کلچر کو پچھڑا ہوا بتاتا اور انسانی تہذیب کے ارتقاء  میں ان کے کردار کا انکار کرتا تھا۔ مقصود یہ تھا کہ اب یہ آبادیاں مغرب کی نقالی کریں اور ان کے قائم کردہ معیار کو اپنے لئے نمونہ بنائیں۔ مصلحین بخوبی جانتے تھے کہ ترجیح اس کام کو دینا چاہئے  جو مسلمانوں میں خودی کا احیاء اور ان کی عزت نفس و افتخار کو اس طرح ممکن الحصول بنائے جس سے خود ان کی اپنی روایات نمایاں ہوں۔ ان مصلحین نے یہی طریقہ اپنایا بھی۔ چنانچہ ان حضرات نے مسلمانوں کے لئے جو تعلیمی ایجنڈا تیار کیا اس کا آغاز مغربی تعلیم پر ایک گہری تنقید سے ہوا۔ اس تنقید میں ٹکنالوجی کو مستثنیٰ رکھا گیا جو ان کے خیال میں اسلام کے احیاء میں استعمال ہوسکتی تھی۔ نیچرل سائنس جو جدید ٹکنالوجی اور جدید ایمانیات کی بنیادتھی اس سلسلہ میں قابل غور نہ تھی کیونکہ نئے تعلیمی ایجنڈے میں اسے رہنمائی کی حیثیت حاصل تھی۔ سائنس کے سلسلہ میں کوئی شک ابھرا بھی تواسے ایمان اور عقل میں علمیاتی یگانگت کے حوالہ سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔

مشہور کتاب  Islamization of knowledge : General Principle   and Plan

جو  (IIIT) سے  ۱۹۸۲؁ء میں شائع ہوئی اس کے ابتدائیہ (Preface)  میں اسما عیل راجی الفاروقی لکھتے ہیں :۔

’’امانت خداوندی  یا بار خلافت کا مطلب ہی یہ ہے کہ تہذیب و ثقافت کو نہ صرف قائم کیا جائے بلکہ ان کو پروان بھی چڑھا یا جائے۔ خلافت کا منتہی و مقصود یہی تو ہے کہ انسانی معاشرہ میں امن قائم ہو جان و مال کی حفاظت کی ضمانت ہو اور انسانوں کے ایک ایسے منظم معاشرہ میں امن قائم کیا جائے جو غذائی پیداوار کے ساتھ اس کو عمدہ طور پر محفوظ کر کے سماج میں منصفانہ انداز میں تقسیم کرسکے اور رہائش، حرارت، آرام، مواصلات اور دیگر آسانیاں فراہم کرسکے، ایسے آلات اور مشینیں تیار کرسکے جن سے تمام مطلوبہ ضروریات  مہیا کی جا سکیں، اور آخر کار تعلیم اور ادراک نفس کے واسطے اور تفریح اور جمالیاتی تسکین کے لئے وافر اور جائز مواقع مہیّا کرے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسلمان صحیح سمجھتے ہیں کہ خلافت کا کام سیاسی نوعیت کا ہے، اس لئے قرآن نے بار بار خلافت کا تعلق سیاسی قوت سے جوڑا ہے‘‘۔     ( قرآن ۱۲۸:۷؛ ۱۴:۱۰؛۷۳:۱۰ ) (پلان۱۹۸۲) صفحہ۳۲۔

’’ ذات کی آگہی کا مطلب دوسروں سے اپنے امتیاز کی آگہی ہے۔ یہ امتیاز مادّی ضروریات اور افادی حقائق کے اعتبار سے نہیں بلکہ تصور کائنات، اخلاقی حس اور روحانی رفعتوں کے اعتبار سے ہے۔ دور حاضر میں جدید ہونے کا مطلب تہذیبی شعور ہے یعنی اپنے تہذیبی ورثہ کا شعور رکھنا، اس کے مختلف مظاہر کو وجود بخشنے والی قوت محرّکہ سے واقف ہونا اور تاریخ کے دوسرے تہذیبی دھاروں سے ممتاز ہونے کا شعور اور مستقبل میں اس کی سمت سفر کو صحیح رکھنے والی قوتوں سے پوری طرح با خبر رہنا۔اس ناگزیر معلومات کے بغیر اپنا تشخص برقرار رکھنا تو درکناراس دنیا میں اپنا تہذیبی وجود قائم رکھنا بھی ممکن نہیں۔ ماضی کے برخلاف زمانۂ حاضر میں متنازع تہذیبی قوتیں کسی بھی تہذیب پر بغیر کسی فوج کشی اور عسکری عمل کے حاوی ہوسکتی ہیں ؛وہ شکست خوردہ تہذیب کے لوگوں کی ذہنیت تبدیل کرسکتی ہیں۔ ان کو اپنے نقطۂ نظر کا قائل کرسکتی ہیں، اور ان کو اپنا باج گذار اور کٹھ پتلی بنا کر رکھ سکتی ہیں۔خواہ شکست خورد ہ کو اس کی خبر ہو کہ نہ ہو۔یقینا یہ قوتیں صرف دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے ہی باہم برسرپیکار ہیں۔ اب مسلمانوں پر منحصر ہے کہ اسلام مستقبل میں فاتح بن کر ابھرتا ہے یا نہیں اور مسلمان تاریخ کا زندہ باب بن کر سامنے آتے ہیں یا محض بابِ عبرت‘‘۔ (پلان ۱۹۸۲، صفحہ ۱۲)

مذکورہ بالا دونوں اقتباس واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ علم کے اسلامیانے کی پوری تحریک دراصل ایک سیاسی مقصد رکھتی ہے۔ یعنی جدید دنیا میں جاری تہذیبوں کی کشمکش میں اسلام کی فتح اور اس کا غلبہ اس تحریک کے علمبرداروں کے نزدیک قرآنی تصور ’’خلافت‘‘ کا جوہر اور اس کی روح ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مقصد کے حصول کی خاطر جدوجہد میں جو لوگ شامل ہیں اور جن کی قوتیں صَرف ہونگی وہ عالمی انسانی برادری نہیں بلکہ امت مسلمہ کے افراد ہیں۔

مولانا مودودی  (۱۹۷۹۔۱۹۰۳) کے خیال میں بھی عالمی سربراہی کے حصول کی کنجی علم ہی میں ہے۔ کوئی نصف صدی قبل امامت کے موضوع پر اظہارِ  خیال کرتے ہوئے آپ نے کہا۔۔۔۔۔۔

ــ’’سب سے پہلے یہ امر غور طلب ہے کہ اس دنیا میں امامت و قیادت (LEADERSHIP) کا مدار آخر ہے کس چیزپر؟ کیا چیز ہے جس کی بنا پر کبھی مصر امام بنتا ہے اور دنیا اس کے پیچھے چلتی ہے۔ کبھی بابل امام بنتا ہے اور دنیا اس کی پیروی کرتی ہے کبھی یونان امام بنتا ہے اور دنیا اس کی اتباع کرتی ہے، کبھی اسلام قبول کرنے والی اقوام امام بنتی ہیں اور دنیا ان کے نقشِ قدم پر ہو لیتی ہے، اور کبھی یورپ امام بنتا ہے اور دنیا اس کی تابع بن جاتی ہے؟ پھر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے امامت آج ایک کو ملتی ہے، کل اس سے چھن کر دوسرے کی طرف چلی جاتی ہے، اور پرسوں اس سے بھی سلب ہو کر تیسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے؟ کیا یہ محض ایک بے ضابطہ اتفاقی امر ہے یا اس کا کوئی ضابطہ اور ا صل مقرر بھی ہے؟ اس مسئلہ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس کا جواب یہی ملتا ہے کہ ہاں اس کا ضابطہ ہے، اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ امامت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہے گا۔ انسا ن کو بہ حیثیت ایک نوع کے زمین کی خلافت ملی ہی علم کی وجہ سے ہے۔ اس کو سمع، بصر، اور فواد تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو دوسری مخلوق ارضی کو یا تو نہیں دی گئی ہیں یا اس کی بہ نسبت کم تر دی گئی ہیں۔اس لئے وہ اس بات کا اہل ہوا کہ دوسری مخلوقات پر خدا وندِ عالم کا خلیفہ بنایا جائے اب خود اس نوع میں سے جو طبقہ یا گروہ علم کی صفت میں دوسرے طبقوں اور گروہوں سے آگے بڑھ جائے گا وہ اسی طرح ان سب کا امام بنے گا جس طرح انسان من حیث النوع دوسری انواع ارضی پر اسی چیز کی وجہ سے خلیفہ بننے کا اہل ہوا ہے‘‘۔(مودودی ۲۰۰۹، ۵۷۔۵۶)

مولانا اپنے اس مجوزہ منصوبہ میں انسان کو ودیعت کی گئی روحانی بصیرت اور حُسنِ اخلاق سے علم کو  مزین کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تاکہ انسانی زندگی خدائے عظیم کی مرضی کے مطابق ہوسکے اور دنیا اور آخرت میں کامیابی سے ہمکنا ر ہو جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ مولانا صرف مسلمانوں ہی کو خطاب کر رہے ہیں اور فکر کے یہ زاویے اور اخلاق کے نمونے جن کی پیروی کی دعوت دی جا رہی ہے وہ مسلمانوں کے تاریخی ورثہ کا حصہ ہیں۔جو چیز موجود نہیں ہے وہ دراصل اجتہاد ہے کہ پہلے سے موجود مستند بات کو نئے حالات میں کس طرح منطبق کیا جائے۔ چنانچہ بہت سے علماء نے عصری اسلامی فقہ میں اجتہادی فکر کی تجدید کرنے پر زور دیا ہے اور کیونکہ  فقہ میں اکثر ایسے موضوعات آ جاتے ہیں جو جدید دور کی سوشل سائنسز میں شامل ہیں اس لئے اسلامیانے کی تحریک میں سوشل سائنسز کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ مولانا مودودی ۱۹۴۴  میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔

’’ہمارے سامنے اس وقت صرف ایک کام ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اخلاقی، فکری، اور عمرانی انقلاب بر پا کرنے کے لیے موزوں لیڈر اور کارکن تیار کریں۔ اس کام کے لئے ڈاکٹری یا انجئیرنگ یا سائنس وغیرہ کے ماہرین کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ صرف ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین اسلام اور علوم اجتماعیہ میں اعلیٰ درجہ کی بصیرت رکھتے ہوں۔۔۔۔۔۔۔آگے چل کر جیسا جیسا ہماری کاروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اور ہمارے اوپر ذمّہ داریوں کا جتنا جتنا بار بڑھتا جائے گا اس کے لحاظ سے جن جن شعبوں کے اضافے کی ضرورت ہو گی ان کا اضافہ ہم کرتے جائیں گے‘‘۔(مودودی ۲۰۰۹،  صفحہ  ۸۹۔۸۷)

اسماعیل فاروقی کے پلان میں اس مقصد کو مزید واضح کر دیا ہے۔

لائحہ عمل کے مقاصد درجہ ذیل ہیں :

۱۔     جدید علوم پر کامل دسترس حاصل کرنا۔

۲۔     اسلامی ورثہ علم پر کامل دسترس حاصل کرنا۔

۳۔    جدید علم کے ہر شعبہ سے اسلام کا خصوصی تعلق قائم کرنا۔

۴۔    جدید علم اوراسلامی ورثہ کے تخلیقی امتزاج کی راہیں تلاش کرنا۔

۵۔    اور اسلامی فکر کو ایسے خطوط پر استوار کرنا کہ اﷲ تعالیٰ کے اصولوں کا انکشاف ممکن                 ہوسکے‘‘۔ (پلان ۱۹۸۲ صفحہ ۳۹)

اس کے بعد ان بارہ اقدامات کا بیان ہے جو علم کے اسلامیانے کے سلسلہ میں ضروری ہیں۔ جن میں  جدید علوم میں مہارت، علوم کا سروے، اسلامی ورثہ میں مہارت: انتھالوجی،ورثہ کا تجزیہ اور ان مضامین کی اسلام سے خصوصی مناسبت، جدید علوم کا ناقدانہ تجزیہ اور ان کی موجودہ کیفیت، اسلامی علمی ورثہ کا ناقدانہ جائزہ، اس کی موجودہ کیفیت، امت کو درپیش بڑے اور اہم مسائل کا سروے،  عام انسانوں کی درپیش اہم مسائل کا سروے۔ خلا قانہ تجزیہ اور تالیف، اسلامی چوکھٹے میں مضامین کی ترتیب، یونیورسٹی سطح کی تدریسی کتابیں اور اسلامیانے کے لئے علوم کی ترویج شامل ہیں۔( پلان ۱۹۸۲ صفحہ ۴۷۔۳۹)

چوتھے اقدام کے تحت اسلامی ورثہ کے باب میں پس منظر کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ان کے کاموں کا تجزیہ ان کے تاریخی پس منظر کی روشنی میں ہونا چاہئے(پلان،۱۹۸۲، صفحہ ۴۱)لیکن تعجب ہے کہ نئے علوم کی تخلیق کے ذریعہ ذہنِ انسانی کی پہنچ میں اضافہ کی ضرورت ان کے ایجنڈے میں سرے سے شامل نہیں ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ اس لئے اقتدار اور سربراہی کے حصول میں علم ایک سہارا تو ہے ہی لیکن محض ماضی کا ذخیرہ علم چاہے کتنا ہی پاکیزہ اور خالص اسلامی ہی ہو اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خلافت کی ذمہ داری میں عامۃ الناس شامل ہیں اور وحی کا آخری مقام یعنی قرآن تمام انسانوں کو مخاطب کرتا ہے۔ علم بنیادی طور پر آفاقیت لئے ہوئے ہے اور انسان کی تحویل میں صرف آنے والے کل کی تعمیر ہی دی گئی ہے تو آخر ایسا کیوں ہے کہ علم کے اسلامیانے کا منصوبہ صرف ایک خاص قوم یعنی مسلمانوں سے خطاب کرتا ہے۔ انھیں کا وِرثہ  اور انھیں کے افق پر توجہ مرکوز ہے۔ کیا دوسری اقوام کے ورثہ میں اب کچھ بچا ہی نہیں جس سے ہم مستفید ہو سکیں ؟۔۔۔

اس سوال کا راست جواب کہیں نہیں ملتا البتہ کچھ اشارے ملتے ہیں۔

’’یہ صحیح ہے کہ امت مسلمہ متعدد امور میں بہ نسبت دوسری قوموں کے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ہے۔مگر حق کی روشنی کے سلسلہ میں اور اس سے متعلق موزوں ترین دینی، اخلاقی، اور مادی خوشحالی کے لحاظ سے یہ امت فائق ترین قرار پاتی ہے اور کم تر کیا معنی افضل ترین ثابت ہوتی ہے۔ اسلام کی حامل ہونے کے سبب صرف امت مسلمہ ہی کے پاس وہ بصیرت پائی جاتی ہے جو بنی نوع انسان کی اصل کامیابی و خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے اور جس کو عمل میں لا کر ہی تاریخ کو اس ڈگر پہ ڈالا جا سکتا ہے جو اﷲ تعالی کو مطلوب ہے۔

لہٰذامسلمان مفکر پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو درپیش مسائل کا مقابلہ کرے اور اسلام کے مطابق ان کا حل تلاش کرنے کی کو شش کرے۔ اسلامی بصیرت کی حامل ہونے کی حیثیت سے روئے زمین پر صرف امت مسلمہ ہی اس بات کی متحمل ہے کہ وہ انسانی گلہ کو راہِ راست کی جانب بلائے جو موجو دہ دور میں استعماری اور نو آبادیاتی  شیطانی قوتوں اور ان کے خلاف برسرِ  پیکار طاغوتی طا قتوں کے درمیان گھر کر  رہ گئی ہے۔ نسل پرستی عالمی پیمانے پر انسانی تعلقات کی دھجیاں بکھیرے دے رہی ہے۔ باقی جو کچھ بچتا ہے اس کو شراب ’منشیات‘ آزادانہ جنسی اختلاط، خاندانی اخلاقیات کی ابتری، جہالت،کاہلی، جنگجوئی، اور اسلحہ کی دوڑ، فطرت کا نازیبا استحصال اور دنیا کی آبادی کے توازن کو لاحق خطرہ وغیرہ بغیر کسی روک ٹوک کے برباد کئے ڈالتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام مسائل بھی اسلامی فکر کے دیگر پہلوؤں سے متعلق ہیں، اور ان تفاصیل اور افعال سے تعلق رکھتے ہیں، جو امت کی فلاح اور تمام انسانیات کی بہبودی کے لئے نہایت اہم ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنا اور تمام انسانیت کی ایسی خوشحالی کی جانب رہنمائی کرنا جو عدل و  احترام سے بھرپور ہو اسلامی نظام کا جزو لاینفک ہے‘‘۔ (پلان،۱۹۸۲، صفحہ۴۴)

امت مسلمہ کے عالمی رول کے باب میں کچھ ایسی ہی امیدیں علوم کے اسلامیانے سے مولانا مودودی کو بھی تھیں۔ انھوں نے  ۱۹۴۱؁ء  کے لیکچرز میں فلسفہ، تاریخ، معیشت، قانون اور دوسرے مضامین میں اسلامی تصورات اور اقدار کو متعارف کرانے کے سلسلہ میں ایک خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا:۔

’’اس قسم کی تربیت اور اس  قسم کی تعلیم پا کر جو لوگ تیار ہونگے ان میں یہ طاقت ہو گی کہ ان واقعات کی رفتار بدل دیں ان کی محققانہ تنقید جاہلیت کے علوم اور جاہلی تہذیب کی ساری بنیادوں کو ہلا دے گی۔ ان کے مدون کئے ہوئے علوم میں اتنا زور ہو گا کہ جو لوگ آج جاہلیت کے نقطۂ نظر پر جمے ہوئے ہیں ان کو وہ اسلامی نقطۂ نظر کی طرف پھیر لائیں گے۔ ان کی تحقیق کے نتائج یورپ اور امریکہ و جاپان تک کو متاثر کر دیں گے اور ہر  طرف سے معقول انسان ان کے نظریات کی طرف کھینچے چلے آئیں گے۔ ان کا مرتب کردہ نظریۂ حیات اور لائحہ عمل اتنی قوت کے ساتھ فکر و نظر کی دنیا پر چھا جائے گا کہ عمل کی دنیا میں اس کے خلاف کسی دوسرے لائحہ زندگی کا چلنا مشکل ہو گا‘‘۔(مودودی، ۲۰۰۹، صفحہ ۸۰)

مختصراً

’’   علم کے اسلامیانے کا عمل محض مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری عالم انسانیت کی ایک علمیاتی اور مذہبی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امت مسلمہ ہی اس امتیازی صفت سے آراستہ ہے کہ وہ انسانی علم کو اﷲ کی ہر دو کتب یعنی قرآن و سنّت اور طبعی کائنات کے تکمیلی اور ہم آہنگی فکر سے لیس جامع مطالعہ کے ذریعے از سرِ نو تشکیل کرسکے‘‘

(جمال برنجی، حق کی کتاب ۱۹۹۲، صفحہ ۱۲   پر)۔

’’طریقہ کار کے اعتبار سے  دیکھا جائے تو علم کی کچھ مختلف جہتوں میں الٰہی ہدایت کی آمیزش کا  مطلب ہے وحی کو ایک ذریعہ علم کی حیثیت سے تسلیم کرنا۔ اس کی عملی انجام دہی روایتی علم کی اس انتہا سے بچ کر ہونا چاہئے جہاں الٰہی علوم میں پائے جانے والے نظریات کی تشریح قولی سند کے تحت کی جاتی ہے اور دنیاوی تجربات سے حاصل شدہ علم کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا ‘‘۔ (لوئی  ایم  صفی، حق کی کتاب ۱۹۹۹، صفحہ ۴۳)

اسلامائزیشن کی بحث میں سید نقیب العطاس بجا طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ تصور IIIT کے پلان کی اشاعت کے پہلے ہی پیش کر دیا تھا۔ اس پوری بحث میں ان کی دین’’ تصور ادب‘‘ ہے (عطاس 1993، مقدمہ صفحہ  XIII، ۱۰۵، ۱۱۰۔۱۰۷، ۵۲۷۔۱۴۹)  ان کے مطابق ادب در اصل انسانی جسم، ذہن  اور روح کی تہذیب کا نام ہے۔ یعنی  مہذب بنانے کا ایسا عمل جس میں طبعی، فکری، اور روحانی صلاحیتوں اور امکانات کو تسلیم کیا جائے اور یہ تسلیم کرنا اور اس بات کو پہچان لینا کہ علم اور علم سے ماخوذ وجود میں تقدّس پر مبنی درجہ بندی پائی جاتی ہے۔(مذکورہ بالا حوالہ صفحہ ۱۰۵)  لیکن اس تصور ادب میں پائی جانے والی قوت اور بڑے امکانات اس وقت ختم ہو جاتے ہیں جب نقیب العطاس انسانی رشتوں میں تدریج کے اس تصور کو کارفرما دیکھتے ہیں۔ ہم سطحی اور برابری کے خلاف ان کی تحریر میں جوش اور ولولہ پیدا ہو جاتا ہے۔(مذکورہ بالا حوالہ صفحہ  ۱۱۰) العطاس وحی کے ساتھ کشف کو بھی علم کا ایک ذریعہ تسلیم کرتے ہیں۔ (مذکورہ بالا حوالہ صفحہ ۱۶۱۔۱۶۰)  لیکن ان کا یہ نقطۂ نظر جس میں واضح طور پر تصوف کی آمیزش تھی لوگوں کو راغب نہ کر سکا۔

ان تینوں نقطہائے نظر میں جن کا تذکرہ درج بالا سطورمیں کیا گیا ہے مسلم معاشرہ میں معروف علوم کی شرعی اور دنیاوی تقسیم سے مطمئن نہیں ہیں۔ لیکن کسی نے بھی اس تقسیم کو چیلنج نہیں کیا اور نہ ہی اس کے نقصانات کے خلاف کچھ کہا۔ قرآن اس قسم کی دوئی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ باوجود اس کے کہ ہم وحی کی ہدایت سے ماخوذ قوانین کے پابند ہیں۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ کتاب وحی میں بھی اﷲ کی نشانیاں ہیں اور خدا کی تخلیق شدہ کائنات بھی اﷲ کی نشانیاں لئے ہوئے ہے۔

عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں  گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے۔ کیا آپ کے رب کا ہر   چیز سے واقف و آگاہ ہو نا کافی نہیں۔                       (قرآن  ۵۳:۴۱)

کائنات میں پھیلی ہوئی اﷲ کی نشانیاں ہمارے لئے جستجو اور دریافت کے راستوں کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ اس طرح معنی اور احساس کی جستجو کے لئے وحی میں بڑے امکانات ہیں۔

علم کے میدان میں صحیح طریقہ یہ ہو گا کہ دونوں راستوں کو بیک وقت اپنا یا جائے یعنی کائنات اور اپنی ذات کے اندرون کو دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن اور سنت کے معنی کی کھوج بھی ہوتی ر ہے۔ علوم میں  شرعی اور دنیوی کی تقسیم نصاب کی ترتیب میں تو ایک معاون آلہ کار کا رول ادا کرسکتی ہے۔لیکن آج پائی جانے والی تقسیم نے ظلم یہ کیا ہے کہ وہ محض مذہبی کتابوں میں پائے جانے والے علم کو تسلیم کرتی اور دوسرے علوم کو غیر اہم گردانتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذہنیت اور اسلام کے مستقبل پر بڑے ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اسلم حنیف کے مطابق طٰہَ جابر علوانی صحیح کہتے ہیں کہ اگر کائنات میں وسعت پذیر اﷲ کی نشانیوں سے صرف نظر کر لیا جائے تو حقیقت کا ایک غیر متوازن تصور پیدا ہو گا۔(حنیف، ۲۰۰۵، صفحہ ۱۰۴۔۱۰۳)

اسلامائیزیشن آف نالج پر ضیاء الدین سردار کی  تنقید میں بھی ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے جب وہ کہتے ہیں کہ مغر ب کے علمیاتی سسٹم میں موضوعات کی تقسیم کو من و عن تسلیم کر لینے کا مطلب اسلام کے نظریہ کائنات کو مغربی نظریہ کائنات کا دست نگر کر دینا ہے۔(سردار، ۱۹۸۵، صفحہ ۱۰۱)۔ نظریات جنھیں وہ کبھی حقائق بھی کہتے ہیں کے مقابلے میں اقدار پر زور سردار کی صحیح حکمت عملی ہے۔ علم وحی کے ساتھ عقل سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مشاہد ہ کے ساتھ ساتھ وجدان بھی اس میں معاون ہے اور اسی طرح روایت اور نظری  قیاس آرائی بھی علم کا ذریعہ ہوسکتے ہیں۔ فطرت اور حقیقت کے مطالعہ کے لئے مختلف طریقہ کار اسلام میں تسلیم ہیں لیکن یہ سب قرآنی وحی کے تابع ہیں۔اس طرح اسلامی علمیات میں علم کی ہر شکل کا حصول اس لئے اہم ہے کہ وہ لافانی اقدار کے زیر اثر ہوتا ہے اور یہی اقدار در اصل مسلم تہذیب کی بنیاد ہیں (سردار،۱۹۸۵، صفحہ  ۱۰۳۔۱۰۲)۔

چنانچہ زمان مکاں میں تبدیلی کے ساتھ اسلامی اقدار کی تطبیق، ان کے فہم اور وضاحت پر توجہ ایک ضرورت بن جاتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اسلامائزیشن کے مفکّرین کے یہاں اس کو یہ اہم ترجیحی مقام حاصل نہیں۔ عبد الحمید ابو سلیمان جیسے اوّلین مفکّرین کے یہاں بھی اسلامی اقدار کا حوالہ کیا ہو؟اور کیا ہونا چاہیئے؟ کے بجائے کیا نہیں ہے کے پس منظر میں دیا جاتا ہے۔ ابتدائی دور میں بنیادی اقدار کو محفوظ رکھتے ہوئے کس طرح بدلتے معاشرہ کی ضروریات پوری کی گئی تھیں اس کی متعدّد محکم مثالیں تو موجود ہیں لیکن نوجوان اسکالرز کی رہنمائی کے لئے کوئی عصری رہنمائی نہیں ملتی۔( ابو سلیمان، ۱۹۸۹، صفحہ ۳۵۔۳۴، ۶۳۔۶۱)

 

                حصہ دوئم: سوالیہ نشان

 

امامت یعنی عالمی قیادت کے ’علم‘ سے تعلق کی بنیادیں اتنی مضبوط نہیں جتنا خلافت اور علم کے باہمی تعلق کی ہیں۔ خود قرآن کریم اس سلسلہ میں بہت واضح ہے  (قرآن، ۱۶۵:۶؛ ۳۰:۲)۔ دنیاوی طاقت کو قرآن کریم نے  فسادکے برخلاف ( قرآن،۵۶:۷؛۴۸:۲۷؛ ۱۱۶:۱۱؛ ۸۳:۲۸) صلاح سے جوڑا ہے۔(قرآن، ۱۰۵:۲۱؛ ۳۵:۲۴)  لیکن اس کا باقی و قائم رہنا قرآن کریم کے مطابق زندگی کا امتحان یعنی ابتلا ہے۔ یہی انسانی زندگی کا الٰہی مقصد ہے اور اس مقصد سے دوسرے ذیلی مقاصد عبارت ہیں۔(قرآن،۱۶۵:۶؛ ۴۸:۵) اسلامائزیشن آف نالج کے حاملین کے مطابق مسلمانوں  کی عالمی قیادت لازمی طور پر تصور خلافت سے وابستہ ہے جو دراصل پوری انسانیت کو عطا کیا گیا مقام ہے۔ لیکن عالمی قیادت اور خلافت کا یہ تعلق مضبوط دلیل کا محتاج ہے۔ امامت کے کردار کی توضیح اس طرح ہونی چاہئے کہ تخلیق انسانی کا بنیادی مقصد یعنی زندگی بطور امتحان کے تصور سے لازمی طور پر جڑی ر ہے۔با لفاظ دیگر امتحان جس کے لئے آزادی عمل ضروری ہے بمقابلہ تاریخ کی رضائے الٰہی کے مطابق نقشہ گری کے، جیسا کہ پلان میں  ۴۴ صفحہ پر بتایا گیا ہے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

کیا علم طاقت کے حصول کی راہ میں ایک قدم کی حیثیت رکھتا ہے؟ تخلیق انسانی کے الٰہی مقصد کو محیط فکر میں رہتے ہوئے اسلامی مقاصد کے مرکب میں سیاسی طاقت کا حصول کس اہمیت کا حامل ہے؟ علم کی تخلیق یا اس کی توسیع کا تصور، خلافت یا تصورِ  امامت سے کس طرح متعلق ہے؟ علم جو جدید ہو یا ماضی کا ورثہ اس کے سود مند استعمال کے  کے لئے ضروری ماحول پیدا کرنا کس طرح خلافت یا امامت کے لئے ضروری ہے؟ کیا یہ طریقۂ کار زیادہ بہتر نہ ہو گا کہ بجائے مسلمانوں کی عالمی قیادت یا ان کے غلبہ کی کوشش کے جو بہر حال دشمنان اور مخالفین پیدا کرنے یا ان میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہیں، علم کی تخلیق اور اس کے سود مند استعمال کے ذریعہ انسانی بھلائی کے لئے براہ راست کام کیا جائے ؟

علم اور خاص طور پر اس کی تخلیق کی اپنی ضروریات ہیں۔آزادی اور باالخصوص آزادیِ خیال اور   آزادیِ اجتماع علم کی تخلیق اور اس کے پھلنے پھولنے کے لئے انتہائی فیصلہ کن ہیں۔ نئے علوم کی تخلیق افراد کرتے ہیں جو اکثر جماعت کی شکل میں رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔ مختلف ادارے مثلاً یونیورسٹیاں یا دار التر جمہ وغیرہ  میں ماہرین کے لئے بھی کشش ہوتی ہے۔ جو اس پورے عمل میں بڑی معاون ہوتی ہیں لیکن علوم کی تخلیق کبھی بھی گروہ بندی اور نظم ضبط کے تحت مطلوبہ تفصیلات کے ساتھ عمل میں نہیں آتی۔نہ تو آج تک ایسا ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ یقینی بنا لینا کہ علم کا استعمال سود مند ہی ہو گا بعض شرائط اور ضروریات سے وابستہ ہے۔اور یہ ضروریات تصور کائنات، روحانیت اور زندگی کے اخلاقی وِژن سے گہرا تعلق رکھتی ہیں البتہ کیونکہ ان کے بارے میں ہم مزید کچھ علم نہیں رکھتے اس لئے بڑی احتیاط اور حلیمی سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ غرور جو بعض اوقات ایک ایسے مرشدیا استاد کے ملبوس میں ظاہر ہوتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ یہ اگر تباہ کن نہیں تو نقصان دہ ضرور ہوتا ہے۔ فساد کا امکان بھی در اصل علم اور انتخاب کی آزادی سے بندھا ہوا ہے لیکن فساد سے سے حفاظت کی خاطر آزادی سلب کر لینا اس کا علاج نہیں۔ یہ طریقہ خود خالق نے ہی مسترد کر دیا تھا (قرآن، ۳۰:۲) لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں کیا کیا جائے؟ اصل چیلنج یہی ہے۔یہ بھی بہت اہم ہے کہ مسئلہ کا احساس ہو جائے۔ اس کے بعد ہی اس کے حل کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ مجھے اس میں شک ہے کہ اسلامائزیشن کی تحریک کے گذشتہ ۵۰ سالوں کے دوران ہم نے اس مسئلہ پر صحیح انداز سے سوچا بھی ہے کہ نہیں۔

جیسا کہ آئندہ صفحات میں وضاحت ہو گی کہ اس سلسلے میں جو بھی عملی اقدام گذشتہ نصف صدی کے دوران اٹھائے گئے ان کا مقصد اس علم کو صحتمند بنانا تھا جو یا تو ہماری وراثت میں یا پھر عصری مغرب میں پائے جاتے تھے۔ شاید ہی کوئی ایسا قدم اٹھا یا گیا ہو جس کا مقصد ایسا ماحول تیار کرنا ہو جہاں علم کی تخلیق ہوسکے یا جن کے ذریعے  اس کی صلاحیتوں  اور اس کی رسائی میں اضافہ ہوسکے۔ ایسا کیوں ہوا؟  یاتو ہمارا تصور علم ہی غلط ہے اور باالخصوص علم کی سماجیات کے بارے میں ہم کج فہمی کا شکار ہیں یا پھر اس کی ترجیحات طے کرنے میں ہم سے غلطی ہو رہی ہے۔ اور ممکن ہے کہ ہم بیک وقت ان دونوں گمراہیوں کا شکار ہوں۔

اس پروجیکٹ کا تخاطب صرف اور صرف مسلمانوں سے ہونا یوں تو قابل فہم ہے کہ مسئلہ صرف مقامی  ہو۔ مالی ضروریات بھی مسلمانوں ہی کے ذریعے پوری ہونے والی ہوں اور اس کے شریک کار بھی مسلمان ہی ہوں۔ لیکن اگر پروجیکٹ ہی اس طرح کا ہو کہ اس میں دوسروں کی شمولیت ہو رہی ہو۔ مثلاً ان کے ماضی کی وراثت سے ہم مستفید ہو رہے ہوں۔ اور ان کے فکر اور ان کے تجربات سے بھی ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں۔ تو اس صورتحال میں محض مسلمانوں سے مخاطب ہونے کی کوئی علت سمجھ میں نہیں آتی۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلامائزیشن آف نالج کے علمبرداروں کے ذہن میں شاید یہ خیال بھی نہیں آیا کہ اس پورے فیصلہ کو سب کے سامنے رکھنا اور دوسروں سے تعاون حاصل کرنا چاہئے۔کوئی کسی بھی مذہب، نسل اور مقام سے وابستہ ہو اس مقصد کے حصول میں معاون ہوسکتا ہے۔ پھر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ صورتحال یا تو تصور علم اور  باالخصوص علم کی تخلیق کے بارے میں ہمارے غلط تصور کی بنا پر ہے یا پھر اس پورے عمل کا بنیادی مقصد اور اس کے تعین کے بارے میں ہماری کج فکری اس کی وجہ ہے۔ یعنی اصل مطلوب کیا ہے؟ مسلمانوں کی عالمی قیادت یا انسانی فلاح کا حصول وہ چاہے کسی بھی سیاسی نظم کے تحت ہو؟

آخر میں اس سوال سے بھی ہم صر ف نظر نہیں کرسکتے کہ کیا واقعی مسلمانوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ دنیا کی قیادت کریں، غالب ہوں اور اسلام کے مطابق اس کی ترتیب نو کریں۔ یہاں ہم نے اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ذرائع کی بات نہیں چھیڑی ہے۔ ذرائع مکمل طور پر پر امن بھی ہوسکتے ہیں اور غیر متشدد  بھی اور افہام و تفہیم پر بھی مشتمل ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کیا مشن یہ ہے کہ اسلام کو عملی اور زبانی طور پر لوگوں تک پہنچا دیا جائے اور اس کی طرف دعوت دی جائے یا یہ پورا عمل عالمی غلبہ کی شکل میں نتیجہ خیز ہونا ضروری ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ اسلامائزیشن کی پوری تحریک جو اسلام کو سیاسی سطح پر غالب کرنے کے ماحول میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ہے۔اسلام کی سیاسی بالادستی سے وابستہ ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ تحریک اسلامی کے پورے منظر نامے کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے جس کی فکری نقشہ گری اس وقت ہوئی تھی جب عالم ا سلام بیرونی قوتوں کے زیر تسلُّط تھا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن و سنت کی متعلقہ تعلیمات کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے  دنیا میں جو تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں ان کو بھی سامنے رکھا جائے جو اب کسی عالمی قیادت کیتو کجا کسی غالب طاقت کے تصور کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔

 

                  حصہ سوئم: تجربوں سے سبق

 

جب یہ خیال عام ہوا کہ جدید علوم کو بالخصوص وہ جو مغرب کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔ اسلامی تصور فکر سے ہم آہنگ کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم پر وحی کی شکل میں آنے والے علم کو عصر ی روشنی میں سمجھنے اور ماضی کے مسلم مفکرین کے علمی کاموں پر نقد کے ذریعہ اس پورے عمل کو کمک پہنچا کر مسلمانوں کو علمی قیادت حاصل ہوسکتی ہے تو بڑی تحریک پیدا ہوئی اور اس نے وسیع سطح پر لوگوں کی توجہ کو مبذول کیا۔ بعض اداروں نے اس مقصد کے حصول کے لئے روایتی علماء اور جدید تعلیم یافتہ اسکالرزکو ایک ادارہ کے تحت یکجا کر کے نوجوان طلباء کی ایک ایسی نسل تیار کرنے کی کوشش کی جو بیک وقت روایتی اور جدید علوم پر دسترس رکھتی ہو۔ بعض اداروں نے ریسرچ اور تحقیق پر توجہ دی اور خصوصی موضوعات پر ایسے اسکالرز کی نگرانی میں کام کرانا شروع کیا جو اسلامی علوم مثلاً تفسیر، حدیث اور اسلامی فقہ کا علم رکھتے تھے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسیٹیاں بالخصوص وہ جو کوالالمپور اور اسلام آباد میں قائم ہوئیں ان کی ذمہ داریاں بعض ایسے افراد نے  سنبھالیں جو اسلامائزیشن کے ایجنڈے کی تیاری میں براہ راست شریک تھے۔گذشتہ چوتھائی صدی کے دوران ان اداروں اور اقدامات کے ذریعہ کیا کچھ حاصل ہوا ہے اس کا ایک ناقدانہ جائزہ خاصا چشم کشا ہوسکتا ہے۔( بد قسمتی راقم الحروف کے پاس نہ تو وسائل ہی ہیں اور نہ ہی اتنی قوت کار جو اس تفصیلی جائزہ کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جماعت اسلامی ہند کی ثانوی درسگاہ کا بطور طالب علم تجربہ اور پھر مذکورہ یونیورسٹیوں سے بطور مشیر میری وابستگی اور پھر جدہ میں قائم اسلامک اکنامکس کے سینٹر سے میر ی وابستگی جو کوئی دو دہائیوں تک محیط ہے۔ میر ے ان تاثرات کو اعتبار فراہم کرتی ہے)۔

کوئی نصف صدی تک محیط یہ تمام کوششیں یقیناً ضائع نہیں ہوئیں۔ لیکن یہ کہنا ذرا بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ ان کے ذریعہ جو کچھ حاصل ہوا اس کے نتیجہ میں ہم  متعین مقصد کے ذرا بھی قریب نہ ہوسکے۔ نصاب کی تیاری پر بڑ ا قیمتی کام ہوا وقیع لٹریچرسامنے آیا اور متعدد معیاری جر نلز اس پروجیکٹ کے تحت نکلنا شروع ہوئے اور انھوں نے علمی حلقوں میں اپنی پہچان بنائی۔ اسلامک اکنامکس مغرب کے علمی حلقوں میں اپنی ایک ذیلی شاخ اسلامک فائنانس کی بدولت مقبول ہوا۔ گو کہ یہ مضمون اسلامک اکنامکس کے معیار کا مکمل وفادار نہ تھا لیکن دوسرے جدید موضوعات میں کوئی ترقی نظر نہیں آتی۔ موجودہ معاشرہ کے بہت سے مسائل کے حل کے بطور کوئی اطمینان بخش نقطہ نظر سامنے نہ آ سکا۔ مثلاً فائنانشیل سیکٹر جس انتشار کا شکار ہے اور پھر بکھرتے ٹوٹتے خاندانی تعلقات کے بارے میں بھی کوئی مضبوط حل نہ پیش کیا جا سکا۔ مولانا مودودی کو اس طرح کے کام کے نتیجہ پر اسلام کی عمومی مقبولیت اور بڑی تعداد میں اسلام سے متاثر ہونے کی جو امید تھی وہ پوری ہوتی نظر نہ آئی۔ الفاروقی  کے منصوبہ پر اتنے وقت تک تو کام پورے جوش و خروش کے ساتھ ہوتا ہی رہا جوکسی نتیجہ تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ لیکن کوئی ایسی نتیجہ خیز تحقیق سامنے نہ آ سکی جس کی امید کی گئی تھی۔ علم کے اسلامیانے کی کوششیں معاشرتی و معاشی میدانوں اور سیاسی میدان میں اس نوع کی کوششوں کی طرح نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں اور تہذیبوں کے تصادم میں اسلام کی فتح کے قریب بھی نہ پہچ سکیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی نہ کوئی اہم بات اس پورے عمل میں چھوٹ ہی گئی تھی جو مطلوبہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔

لیکن مجھے یہ بتانا چاہئے کہ یہ تجزیہ کسی قسم کی ناامیدی اور دل شکستگی کو جائز قرار نہیں دیتا۔ مزید وقت دیا جائے تو بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لیکن جوش میں کمی اور توجہ اوروسائل کے استعمال کی ترجیحات میں جو  تبدیلی نظر آ رہی ہے وہ صاف طور پر عقل و تدبّر کے بجائے پر جوش اور جلد نتیجہ خیز فعالیت کی طرف زیادہ مائل ہے۔ اسلامائزیشن کے پروجیکٹ کے لئے یہ ایک خراب شگون ہے اور اس کے ساتھ اگر یہ مشاہدہ بھی سامنے رہے کہ تعلیم اور رسرچ کے مقابلہ میں فیلڈ ورک کو ترجیح دینے والوں میں صبر اور تحمل کم ہوتا ہے، تو یہ بات بخوبی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ نبی رحمتؑ کے ماننے والے آخر غلطی کے مرتکب اپنوں اور غیروں پر اتنی شدت سے کیوں بھڑ ک اٹھتے ہیں۔یہ ہمارا فرض ہے کے مذکورہ بالا سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

 

                سیکشن چار : ممکنہ جوابات

 

ممکن ہے بڑی غلطی یہ رہی ہو کہ مستقبل کو ماضی کی توسیعیت سمجھ لیا گیا ہو۔یعنی یہ کہ مستقبل بھی انھیں مراحل اور مقامات سے گذرتے ہوئے تشکیل پائے گا جو ماضی میں پیش آئے تھے۔ باز آفرینی کے باب میں مسلمانوں کی کوششیں ماضی کی اسلامی تاریخ سے کچھ انتہائی منتخب واقعات کی مدح سرائی پر مرکوز رہی ہے۔ یہ امکان کہ مستقبل ایسا بھی ہوسکتا ہے جسکی تشکیل میں ماضی کی تکرار کا کوئی دخل نہ ہواس پر کبھی سوچا ہی نہ گیا۔ اگر  ۱۹۴۱؁ء میں اس امکان پر نہ سوچا گیا اور  ۱۹۸۲؁ء میں بھی اس پر توجہ نہ دی جا سکی تو اس کو ایک قابل معافی غلطی مانا جا سکتا ہے لیکن   ۲۰۱۱؁ء  میں بھی اس طرز فکر پر جمے رہنا ناقابل معافی ہے۔ ہم جس مقام پر آج پہنچ چکے ہیں اس میں یہ بتانا کہ آج سے پچاس یا ایک سو سال کے بعد یہ دنیا کیسی ہو گی ممکن نہیں رہا۔ لیکن ایک بات جو یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ آج کے مقابلہ بہت مختلف ہو گی۔ آ ج کا حاصل شدہ علم آج سے سو سال بعد اسی طرح متروک اور پرانا ہو جائے گا جسے انیسویوں صدی کی سائنس ہمیں آج معلوم ہوتی ہے۔ اگر علم کو اسلامائیزکرنے سے محض ماضی کا جمع شدہ علم ہی متاثر ہو گا۔ تو آخر اس علم کو اسلامائز کرنے سے فائدہ کیا ہے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے جس سے اجتناب ممکن نہیں۔ ہمیں دراصل ایک ایسے طریق کار کی ضرورت ہے جو نئے علوم کے ارتقاء میں اس طرح معاون ہوسکے کہ یہ ہماری روحانیت میں پیوست اخلاقی وِژن کی کفالت کرسکے۔ لیکن یہ کام تنہا ہونا ممکن نہیں۔ اگر پورے عالم کے مسلمان اسلامائزیشن کے مشن کے پر جوش حامی  ہو بھی جائیں تب بھی اس حصول کے لئے انھیں دوسرے انسانوں کی مدد اور تعاون درکار ہو گا۔یہ اس لئے کہ علم کا ارتقاء اور اس کا استعمال ایک اجتماعی عمل ہے۔ ہزاروں لاکھوں افراد پر مشتمل زندگی کا اجتماعی عمل علم کے ارتقاء کا باعث بنتا ہے دنیا بھر میں پھیلے افراد بعض اداروں کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔اس علم کا استعمال مختلف ممالک کی معاشرتی قوتوں کے ذریعہ تشکیل پاتا ہے۔ یہ محض صنعتی منفعت کے حامل علوم تک محدود نہیں بلکہ ہر نوع کے علم کے ارتقاء اور استعمال میں یہی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔چنانچہ بچوں کی پرورش، نو عمروں کی دیکھ بھال، ازدواجی رشتے اور خاندانوں کی تشکیل، پڑوس، قرب و جوار اور آبادیوں کی منصوبہ بندی، مختلف سطحوں کے انتظامی معاملات، مالیات میں بین الاقوامی تعاون، صحت و جرائم اور مجرموں کے معاملات، غربت کے مسائل، تصادم کی صورتحال کو سنبھالنا، امن و آشتی کا قائم رکھنا  وغیرہ گویا زندگی کا ہر ہر پہلو نئے علوم اور ان کے استعمال سے متاثر ہوتا ہے۔

تحریکات اسلامی بشمول اسلامائزیشن آف نالج کے حاملین مین ایک نئی صفت یہ در آئی ہے کہ ان کی نظر اب نتائج پر مرکوز ہوتی ہے طریقہ کار پر نہیں ہوتی۔ نتائج کو ترجیح دینے والوں میں قوت برداشت کم ہوتی ہے چنانچہ جب ان کے خواب پورے نہیں ہوتے تووہ مخالف کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور ان میں مطلق العنانی در آتی ہے۔ صبر و تحمل کم ہوتا جاتا ہے اور قلیل مدّتی نتائج پر زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ جبکہ طریق کار کو ترجیح دینے والوں کی  نگاہیں طریق کار پر مرتکز ہوتی ہیں۔ ان میں جارحیت کم، صبر تحمل زیادہ اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اور کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پیش نظر تعمیر اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہے اور ہمارا کام تو محض اس کے لئے محنت کرنا ہے اسلئے ان کے مزاج میں کسر نفسی پیدا ہو جاتی ہے۔ایک اور بات یہ ہے کہ نتائج پرستوں میں برتری کا عنصر پایا جاتا ہے جبکہ طریق کار کو اہمیت دینے والے اپنے عزم میں زیادہ معتدل ہوتے اور اس طرح ایک تکثیری معاشرہ میں گھل مل کر رہنے کی صلاحیت سے معمور ہوتے ہیں۔

ا ن دعووں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس مضمون  میں ہم ممکنہ اعتراضات کو پہلے سے قیاس نہیں کرسکتے۔ البتہ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ میں نے یہ دعوے نتائج پرستی کے اُن مضر اثرات کو دیکھ کر کیئے ہیں جو کارکردگی اور اس کام کے لئے ضروری استقلال پر پڑتے ہیں۔ جب کامیابی کے امکانات تاریک ہوتے نظر آتے ہیں تو اس نقطہ نظر کے طرفدار مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ اور بہت سی ایسی سرگرمیوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں جو بظاہر جلد نظر آ جانے والے نتائج کی حامل ہوتی ہیں۔ صحیح راستے پر گامزن رہنے اور اپنے بنیادی فہم سے مستقل وابستگی کے لئے اس طریق کار سے وفاداری شرط ہے جو قرآن اور سنت سے ماخوذ ہے۔ نتائج پر مرتکز فکر کسی بھی طرح کی کامیابی کی ضمانت نہیں دیتی۔

ٍ        ہم نے دوسروں سے مختلف ہونے کے احساس کو اتنا اجاگر کیا ہے کہ دوسروں کے ساتھ یکسانیت کے پہلو ہمارے ذہنوں سے بالکل ہی غائب سے ہو گئے ہیں۔ اگر زندگی کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو مسلمان اور دوسرے انسان یکساں نظر آتے ہیں۔جسم کی ساخت ہو یا جائے سکونت، عقل و خردہو یا پھر جدید زندگی سے وابستہ  ذہنی دباؤ، معاشرتی رشتوں کامسئلہ ہو یا مستقبل کی غیر یقینیت۔ ان معاملات میں مسلم اور غیر مسلم  میں فرق و امتیاز کو اجاگر کرنا مشکل ہے۔ مسلمانوں کے ذہنوں میں اگر یہ بات واضح رہے تو یہ خود ان کے حق میں بہتر ہو گا کیونکہ وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح اسی زمین پر اور اسی آسمان کے نیچے زندگی گذارتے ہیں۔ علم اور اس کے استعمال کے میدان میں عام انسانوں کے فائدے یا نقصان کے امکانات برابر اور یکساں ہیں۔

مہلک متعدّی بیماریوں کو روکنا اور اگر وہ پھیل جائیں تو انھیں محدود کرنا، عام تباہی کرنے والے ہتھیاروں کی پیدوار کو روکنا اور ان کے خاتمہ کی کوششیں کرنا۔ماحولیاتی مسائل مثلاً گلوبل وارمنگ سے عہدہ برآ ہونا۔ اس کا استحکام، بھوک کی روک تھام، غریبی کا خاتمہ اور ہر خاص و عام کی عزت و آبرو کو یقینی بنانا وغیرہ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں نئے علوم کا ارتقاء اور انھیں عوام تک پہنچانے اورا ُن کے استعمال میں عالمی سطح کا تعاون درکار ہے۔ ایسی منطق اور استدلال جو محض ایک مخصوص گروہ کو پیش نظر رکھتی ہو وہ حقیقی مفادات کی ضمانت نہیں دے سکتی۔

ایک دوسری غلطی جو در اصل اس امید کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے کہ مستقبل ماضی ہی کی طرح ہو گا وہ یہ نُقطۂ نظر ہے کہ اس پوری دنیا کا ایک غالب رہنما ہو گا جو حالات کو درست اور نطم و ضبط کوبحال رکھے گا۔ بہتری کی طرف دنیا کو گامزن کرے گا اور امن و امان قائم رکھے گا۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ حالات جس رخ پر جا رہے ہیں ان میں تو یہ لگتا ہے کہ اس دنیا میں کسی رہنما کو غلبہ نہ حاصل ہوسکے گا۔ ماضی کے بزرگ صورتحال کے اس پہلو کو نہ سمجھ سکے یہ تو قابل معافی ہوسکتا ہے لیکن آج کی واضح صورتحال میں اس کو تسلیم نہ کرنا ناقابل معافی ہے۔امت کو کسی ایسے مقصد کے حصول کے لئے تیار کرنا اور اسے دعوت دینا کہ آنے والے دنوں میں جس کا کوئی امکان ہی نہ پایا جاتا ہو۔ وقت کا ضیاع اور انتہائی نا مناسب سی بات ہے۔ اس مقصد کے حصول کو مسلمانوں کی ایک مذہبی ذمہ داری قرار دینا در اصل ان کے مذہب کو دھندلا اور مبہم کر دینے کے مترادف ہے۔

یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ احیا ء  کے لئے مفکرین اور تحریکوں کی گذشتہ دو صدیوں پر محیط جدو جہد آج    تعطّل کا شکار کیوں ہے ؟ سوال صحیح لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انھیں اس مستقبل کا اندازہ بھی نہ تھا جو ہمارا منتظر تھا۔ لیکن ایک طرف تو ہم انھیں موردِ الزام ٹھہرانے میں حق بجانب نہیں اور دوسری طرف ان کے پیش کے ہوئے پروگرام کو بعینہٖ اپنانے کو بھی صحیح نہیں سمجھتے۔ہمارے خیال میں قرآن اور سنّت کے ساتھ ایک تازہ تعامل وقت کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے اس مجّوزہ تعامل کی تفصیلات ہم یہاں پیش نہیں کرسکتے۔ البتہ میرے خیال میں جو کیا جانا چاہئے اس کے بعض نکات ہم ضرور پیش کریں گے۔

 

                سیکشن  ۵:  آنے والے کل کا رخ متعین نہیں کیا جا سکتا

 

اولین  ترجیح مسلمانوں کو اس خوف سے آزاد کرانا ہے کہ اگر وہ خود سے سوچنے لگیں تو ضرور ان سے غلطیاں سرزد ہونگی۔ گذشتہ چند صدیوں کے دوران مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے جس کے نتیجہ میں عام مسلمانوں کا ذہن ایسے وقت جہاں واضح احکام موجود نہ ہوں مفلوج ہو جاتا ہے۔

ترجیحی اعتبار سے دوسر اہم مسئلہ اس اندرونی مزاحمت کا ہے جو مسلمانوں میں بعض حلقوں کے ذریعہ پیدا کر دی گئی ہے اور جو عام مسلمانوں کو اپنے ذاتی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لئے براہ راست قرآن و سنت سے رجوع کرنے سے باز رکھتی ہے۔ دور جدید میں مولانا مودودی، سیّد قطب اور الفاروقی جیسے عظیم مفکر ین اپنی علمی اور فکری جلالت کے باوجود عام مسلمانوں کی عظیم اکثریت کواس کا قائل نہ کرسکے کہ پیش آمدہ مسائل میں اسلامی فیصلہ دینے کے سلسلہ میں روایتی علماء کا یہ دعویٰ کہ یہ بلا شرکت غیرے صرف ان کا حق ہے بے بنیاد ہے۔

مسائل کو تنہا حل کرنے کی کوشش اور اس سلسلہ میں بقیہ انسانیت سے اجتناب اور وہ بھی ان مسائل میں جو مشترک ہیں جیسے بچوں کی نگہداشت، خاندانی نظام کو بکھرنے سے روکنا۔ایسی تفریحات اور ذرائع کی تلاش جو اخلاقیات کے لئے تباہ کن نہ ہوں، ترقی کے لئے سرمائے کی فراہمی اور غریبی دور کرنے کی کوششیں وغیرہ  ان میں تنہا کام کرنا اور اپنے ماضی کے ورثہ میں ان مسائل کا حل ڈھونڈنا تا کہ مغرب کا احسان مند ہونے سے بچا جا سکے،قرآن کریم سے عمومی اصولی ہدایت لے کر اسے جدید حالات میں منطبق کر کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ماضی کے نمونوں کی نقل کے ذریعے انھیں حل کرنے کی کوشش کرنا جو اُس وقت اور حالات کے لئے موضوع تھے،یہ وہ طریقہ ہے جسے روایتی فکر کے حامل علماء نے اپنا رکھا ہے۔اسلامائیزیشن  کی کامیابی اس وقت ہی ممکن ہے جب نئے حالات میں فکر تازہ کی حوصلہ افزائی ہو، آزاد مباحثہ ہو اور جہاں جہاں بھی فکری رہنمائی مل سکتی ہو اس سے بلا تکلف استفادہ کا ماحول پیدا ہو۔درحقیقت یہی وہ ضروری رویہّ ہے جو اسلامائزیشن کی اس پوری تحریک میں کہیں نہیں پایا جاتا۔اس رویہّ کو پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی عمومی نفسیات میں کوئی نہ کوئی ایسی رکاوٹ ضرور در آئی ہے جو انھیں جدید مسائل کو حل کرنے کے لئے تازہ فکر اور آزادانہ طور پر سوچنے نہیں دیتی۔یہ خوف کہ اجتہاد کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے اوراس کے نتیجہ میں ہمیشہ کی رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے فکری جمود کی ایک بڑی وجہ ہے جس کو بے اثر کرنے کے لئے اب تک جو کچھ ہو سکا ہے اس سے زیادہ طاقتور اور موثّر اقدام کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ اوپر کہا گیا ان نئی کوششوں کا امتیازی وصف ہر انسان کو مسائل کے حل کے لئے دعوت دینے والا ہو۔محض امت تک محدود رکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ یہاں ان کوششوں کی بے توقیری ہرگز پیش نظر نہیں جو اسلامائزیشن کے عمل کو امت اسلامیہ سے متعلق کر کے دیکھتی ہیں۔اسکولوں، یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کا ایک رول ہے اور یہ رول انتہائی ا ہم اور ضروری ہے اوریہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی اسلامی تعلیم اور تربیت کا نظم کریں اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو توحیدی نظریہ حیات کی روشنی سے منور کریں۔ لیکن علم کے اسلامائزیشن کے معنی محض اتنا نہیں۔ یہ عمل اپنی تعریف کے اعتبار سے ایک عالمی عمل ہے نہ کہ صرف ملّی۔

علم کے اسلامیانے کو سیاسی قوت اور عالمی لیڈرشپ کے حصول سے منقطع کرنا،امت کے بجائے

انسانیت کو پیش نظر رکھنا۔ مسائل کے حل کی جستجو میں محض علماء کے بجائے سب کو شامل کرنا۔ مسلمانوں کو غور و خوض کرنے، آواز بلند کرنے، دوسروں کی سننے مباحثہ کرنے اور اختلاف کو برداشت کرنے اور باہمی  مشاورت کے ذریعہ کسی نتیجہ پر پہنچ کر کئے جانے والے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے لئے ذہنوں کو تیار کرنا یہ سب انتہائی ضروری تو ہیں لیکن ہمارے نصب العین کے حصول کے لئے کافی نہیں ہیں۔ یہ نصب العین در اصل ایسے علم کے حصول اور ارتقاء سے عبارت ہے جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہوئی ضروریات کو پورا کرتا ہو، نفع بخش ہو، اور روحانیت میں پیوست ایک اخلاقی وژن سے رہنمائی کشید کرتا ہو۔ اس اخلاقی وژ ن اور اس کی بقاء کے لئے ضروری روحانیت خوش قسمتی سے ہمیں قرآن و سنت کے ذریعہ حاصل ہے لیکن جو چیز موجود نہیں ہے وہ تمام انسانیت کو مخاطب کرنے اور اس تک پہنچنے کے لئے وہ ضروری لوازمات ہیں جو اس وژن پر عالمی اتفاق رائے کے لئے ضروری ہیں۔ اس کا حصول کس طرح ہو سکتا ہے؟

اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ راقم اس کے حصول کی کوشش کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہے تو بھی یہ پلیٹ فارم اس کے لئے منا سب نہیں۔چنانچہ موجودہ صورتحال میں متعلقہ جواب میرے پاس نہیں ہے۔ لیکن اہم بات اس مسئلہ کی تفصیلات نہیں بلکہ مشترکہ اخلاقیات پر مبنی ایک عالمی وژن کی اہمیت کی ضرورت کو تسلیم کرنا ہے۔ ایک بار یہ ضرورت تسلیم کر لی جائے تو اسلامائزیشن  کے مبلغین اس ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر سر جوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں۔ اس طرح کا ایک عالمی مشترکہ وژن ضروری نہیں کہ کسی ایک مخصوص ثقافتی میراث ہی سے ماخوذ ہو۔ تسلیم کہ ایک مکمل اور صحیح اخلاقی وژن کے ضامن روحانی حقائق تو قرآن کریم اور سنت ہی میں پائے جاتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وحی الٰہی سے ماخوذ ماضی کے روحانی حقائق کی باقیات روئے زمین پر پھیلی مختلف اقسام میں آج بھی پائی جاتی ہیں۔ اخلاقیات سے مزین علم کی جستجو کی ضرورت اور اس کی اہمیت پر اتفاق پیدا کرنے کے لئے مذکورہ حقیقت کو تسلیم کرنا اور اسے پورے طور پر استعمال کرنا انتہائی ضروری ہے۔

 

                سوشل سائنسز کا اسلامائزیشن

 

اپنے اس مضمون میں میں نے متذکرہ بالا بعض ان بڑے بڑے مسائل کا تذکرہ کیا ہے جو علوم کے اسلامائزیشن کے عمل کو درپیش ہیں۔ اب اُن مسائل کی طرف آتے ہیں جو زیادہ سازگاراور عملی واقع ہوئے ہیں اور اس بنا پر توجہ طلب ہیں۔ بجا طور پر اس پورے عمل کے دوران مفکّر ین نے سوشل سائنس سے متعلق مضامین پر زیادہ توجہ دی اور اسلام کی روشنی میں ان کی اصلاح کرنے پر زیادہ زور دیا اور بجا طور پر نشاندہی کی جدید بشری علوم پر روشن خیالی (enlightenment) اور اصلاح (reformation)   کے دور میں موجزن اقدار کی چھاپ پائی جاتی ہے۔ ان مضامین کی تشکیل کے بارے میں اگر یہ نہ بھی کہا جائے کہ وہ مذہب مخالف بنیادوں پر ہوئی تو اتنا تو واضح ہے کہ خالص مغربی فکر  Skepticism  یعنی  تشکیک نے ان پر  بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے مضامین کی مشرقی اور بالخصوص اسلام اور بالعموم مسلمان کیوں توثیق کریں جبکہ ان کے یہاں اس طرح کی مخالفت پائی ہی نہیں جاتی تھی۔ اس کے برخلاف بشری علوم مثلاً معاشیات، علوم سیاسیہ۔ علوم النفس اور سوشیالوجی وغیرہ میں اخلاقی اقدار کو شامل کرنے کا جواز بالکل واضح تھا۔کیونکہ اخلاق سے بے نیاز ان کے نقطۂ نظر کی  وجہ سے خود ان کے اپنے معاشرہ میں وابستہ مفادات پنپ رہے تھے اور عالمی سطح پر استعماری قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔بحث واستدلال کا یہ طرز ایسا ہے جسے عالمی سطح پر تسلیم کئے جانے کے بڑے وسیع امکانات موجود ہیں۔ دوسرے یہ کہ بہت سے افراد بشری علوم کو اخلاقی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک عالمی سطح کے اخلاقی وژن کی تشکیل کی کوششیں کی جائیں تو ایسے تمام افراد اور گروہوں کا تعاون حاصل ہو سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اسلامی طرز پر نصابی کتابیں تیار کرنے کے مقابلہ میں مذکورہ بالا کوششیں بہتر نتائج فراہم کر سکتی ہیں۔ کیونکہ اگر اسطرح کی کتابیں تیار ہو بھی جائیں تو ایک تو یہ صرف مسلمانوں ہی تک پہنچیں گی۔ اور دوسرے یہ کہ علم کی پیاس بجھانے کے لئے ان مسلمانوں کو دوسری کتابوں کا تو سہارا لینا ہی پڑے گا۔ مزید یہ کہ اس طرح کی کوششوں سے خود ان مضامین پر کوئی  اثر نہ پڑے گا۔ اس کے بر خلاف  درج بالا مشترکہ کوششیں بڑے پیمانے پر توجہ مبذول کریں گی اور اثرات مرتب کریں گی۔

طبعی سائنس کے میدان میں اس نوع کی کوششیں ہوئی ہیں اور ادارے بھی قائم ہو رہے ہیں جس میں  ایک   O.I.C. کے تحت  اسلام آباد (پاکستان) میں قائم ہوا۔ یہ ادارے اب بھی قائم ہیں لیکن علوم کو نفع بخش بنانے اور نئے علوم کے ارتقاء جیسے مقاصد حاصل کرنے کے لئے مختلف ضروریات کا ادراک نہ تو ابتدا ء میں تھا اور نہ آج ہے۔ اور اس بنا پر پوری تحریک کسی با معنی ترقی سے محروم نظر آتی ہے۔گاہے  بگاہے دنیا  اس سے تو آگاہ ہوتی رہتی ہے کہ ماضی کی لاتعداد دریافتیں اور ایجادات مسلمانوں کی رہین منت ہیں لیکن مسلمان سائنسدانوں کے ایک نیٹ ورک کی شکل میں مختلف فنّی اور علمی پروگراموں اور پلیٹ فارموں سے منسلک کرنے کا عمل اگر ہوتا بھی ہے تو نیم دلانہ اور جوش سے خالی ہوتا ہے۔ اس میدان میں بھی ترجیحات میں تبدیلی ضروری ہے۔

اسلامائزیشن سے متعلق افراد مسلم ممالک میں جدید علوم کے اداروں کے اندر کے بجائے اگر بالکل باہر نہیں تو محض کناروں پر رہ کر کام کرتے ہیں۔ نتیجتاً انھیں ایک توافراد نہیں ملتے اور دوسری طرف مالیاتی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔اور یوں وہ اپنی محدود کوششوں کے نتائج اور نظریات کو مسلمانوں تک بھی موثر طور پر پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے اور ان کی ساکھ منفی طور پر متاثر ہوتی ہے۔  اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ افراد عام اور مروجہ سرگرمیوں میں  شامل ہوں اور یہ اس وقت  ہی ہو سکے گا جب اسلامائزیشن کے حاملین علوم جدید کے مقاصد کو ہمدردی کی نظر سے دیکھیں اور اسلامائیزیش کی دعوت جدید علوم کے ماہرین کو اپنی مخالف نہیں بلکہ خود ان کے کاموں میں تعاون کرتی نظر آئے۔ بد قستمی سے ہمارے طرز فکر سے یہ مقصد بار آور ہوتا نظر نہیں آتا۔ بلکہ ہوا یہ ہے کہ ہم نے اپنی اور ان مسلمانوں کی اپروچ میں فرق کو واضح کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے جو مسلمانوں میں جدید مغربی تعلیم کو متعارف کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اپنے گرد کے ماحول کو بہتر رخ دینے کے لئے اختلافات کو نہیں بلکہ یکسانیت پر توجہ دینا زیادہ کامیاب حکمت عملی ہوتی ہے۔ حاشیہ پر رہنے کے نتیجہ میں منافرت اور لاتعلقی ہی حصے میں آتی ہے۔ اس ممکنہ صورتحال سے  بچنے کے لئے رویّوں کی تبدیلی اشد ضروری ہے۔

علم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ میڈیا مثلاً فلم، ٹیلی ویزن، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے نفوذ کرتا ہے اور اس کے ذریعہ صاحبان علم کے مقابلہ میں عوام زیادہ تیار ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ مخاطبین کے اس جزوِ اعظم پر زیادہ توجہ دی جائے۔ آج انٹرنیٹ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ علوم کی اشاعت ہو رہی ہے۔ نئے نئے علوم کے ارتقاء اور ان کے استعمال دونوں ہی میں انٹرنیٹ کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور یہ انٹرنیٹ ہی ہے جس کی بدولت فرد( عورت و مرد) علم پھیلانے اور اس کے استعمال دونوں ہی میں متحرک نظر آتا ہے۔ جب اسلامائزیشن کی تحریک شروع ہوئی تو اس وقت انٹرنیٹ وجود میں نہیں آیا تھا۔ ہمیں موجودہ حکمت عملی  کے ساتھ ساتھ اسلامائزیشن کے مقصد میں مدد حاصل کرنے کے لئے اداروں کے انتظامات کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کام سے وابستہ  اساتذہ، طلباء اور ریسرچ اسکالرز کو ایک مقام پر اکٹھا کرنے اور انھیں لائبریری وغیرہ کی معیاری سہولیات مہیّا کرنے  میں جو لاگت آتی ہے اور ایک متحرک و معیاری   Interactive Website  بنانے اور اسے قائم رکھنے، ڈیجیٹل لائبریریوں سے ان افراد کو منسلک کر دینے اور عالمی سطح پر متعلّقہ افراد کو مربوط رکھنے کے لئے درکار قیمت میں کیا فرق ہو گا؟

 

                سیکشن  ۶ اور مسقبل کا ایجنڈا

 

اس بحث کو سمیٹتے ہوئے نتیجہ کے طور پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ از سرِ نو کوششوں کی ضرورت ہے۔ جس میں اولین کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم ان مشترک اقدار کی نشاندہی کریں جو پوری انسانیت کے نزدیک قابل تسلیم ہیں۔اس میں عدل اور منصف مزاجی، دردمندی اور خیر سگالی شامل ہیں۔ اہمیت علم میں اضافے اور حاصل شدہ علم کی حفاظت کو دی جانی چاہئے اس کے ساتھ علم کے استعمال میں اخلاقی قدروں کی اہمیت اور نگرانی پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔

میرے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ قدریں،اداروں اور وقت اور حالات کے لحاظ سے رویّوں کو  مناسب  طور پر تبدیل کرتی ہیں۔ ماضی کی نسلیں علم یعنی اپنے مشاہد ہ اور تجربہ پر مبنی علوم کے حجم کے اعتبار سے ہم سے مختلف سہی لیکن علوم میں حق، عدل، حسن اور بھلا ئی جیسی قدروں اور ان کی رہنمائی کی ضرورت کے باب میں  ہم ان کے شریک اور ہم فکر ہیں۔

علوم چاہے وہ وحی سے حاصل شدہ علوم ہوں یا سوشل سائنسز اور نیچر ل سائنسز ہوں عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے رسرچ و تحقیق کے محتاج ہیں۔اکالوجی کے توازن میں بگاڑ کا معاملہ ہو  یا کرۂ عرض کی حرارت میں اضافہ کا  پانی کی کم ہوتی ہوئی سطح، امن عالم، عام تباہی  کے ہتھیاروں، دہشت گردی، غربت کا خاتمہ، بڑھتی ہوئی نابرابری، ناکام ریاستیں،  فاسد جمہوریتیں،منتشر ہوتے خاندان، غیر محفوظ گردو نواح    اور اضطراب و بے چینی کی بلند ہوتی سطح وغیرہ۔ سب ایسے موضوعات ہیں جو عام انسانی اہمیت کے پیشِ نظر تحقیق و رسرچ کے لئے بڑے اہم ہیں۔یہ صحیح ہے کہ اختصاص ضروری ہے لیکن ہر مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی ذاتی اور اجتماعی ضروریات کے لئے قرآن و سنت سے براہ راست رہنمائی کے لئے مربوط ہو۔ایک ایساماحول ضروری ہے اور  اسے پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جہاں آزادانہ اور بلا تکلف مباحثہ  ہوسکے۔ فیصلے باہمی مشاورت سے کیئے جائیں اور خیال و عمل کے تنوع کو معاشرہ تسلیم کرے اور اُسے پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل رہیں۔ مقتدرہ کی شکل کیا ہواسے مقامی روایات اور عوام کی تمناؤں اور سہولیات پر چھوڑ دینا چاہئے۔ علم کا حصول وہ چاہے مقامی وسائل سے ہو یا بیرونی سے۔ اس کے استعمال کو اقتدار اور طاقت کے حصول کے پس منظر میں نہ دیکھا جائے۔ علوم اسلامیہ کی تعلیم اس طرح ہونی چاہئے کہ بعد میں ہونے والے اضافے اور ارتقاء بھی اس میں شامل ہوں۔ اسلامی علوم محض پانچویں صدی ہجری تک کے  علوم پر منجمد نہ ہو۔ اسی طرح سوشل سائنسز کی تعلیم میں گذشتہ چند دہائیوں کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرنا چاہئے ساتھ ہی وحی ربّانی کی تعلیمات اور انِ تلخ تجربات سے محفوظ رکھنے میں ان کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا جا سکتا ہے۔

اس ایجنڈے کے تحت اولین قدم یہ ہو گا کہ اسلامائزیشن سے متعلق اسکالرز دوسرے مسلمان مفکّرین اور ماہرین تعلیم کے ساتھ مل کر ایک ٹیم بنائیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مسلم اسکالرز اور ماہرین تعلیم دوسرے غیر مسلم ماہرین کے ساتھ مل کر مکالمہ اور تعاون کی شکل پیدا کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے گنبدوں سے نکل کر آزاد فضاء میں سانس لیں اور عالمی سطح پر تعاون کے امکانات کی جستجو کریں۔

٭٭٭

 

 

 

 

Bibliograhy

Abu Sulaiman, Abdul Hameed. 1989. Mafahim  fil ‘adat bina’ manhajiyat al fikr al Islami al mu’asir. Hernodon, VA: International Institute of Islamic Thought.

Al-Attas, Muhammad Naquib. 1993. Islam and Secularism. Kualalumpur, Malaysia:International Institute of Islamic Thought and Civilization.

Allawi, Ali A. 2009. The Crisis of Islamic Civilizaiton. New Haven, CT: Yale University Press.

Ansary, Tamim. 2009. Destiny Disrupted : History of the World Through Islamic Eyes. New York: Public Affairs.

Association of Muslim Social Scientists, UK. 2009. Citizenship, Security and Democracy _Muslim Engagement with the West. Edited by Wanda Krause.

Ba-Yunus, Ilyas. 1988. Al-Faruqi and Beyond: Future Directions in Islamization. American Journal of Islamic Social Sciences 5, no. 1:13-128.

Esposito, John L. and John O Voll. 2001. Makers of Contemporary Islam. New York: Oxford.

Haneef Mohammad Aslam, 2009. A Critical Survey of Islamization of Knowledge. Kuala Lumpur: IIUM Press.

Haque, Amber, ed. 1999. Muslims and Islamization in North America: Problems and Prospects. Besville, MD: Amana Publications.

Ian, Morris. 2010. Why the West Rules. New York: Farrar, Straus and Giroux.

Idris, Jafar Sheikh. 1987. The Islamization of Sciences: Its Philosophy and Methodology. American Journal of Islamic Social Sciences. 4, no.2:201-209.

International Institute of Islamic Thought. 1988. Islam: Source and Purpose of knowledge. Proceedings and Selected Papers of Second Conference on Islamization of Knowledge 1402 AH/1982 AC. Herndon, VA.

________.1989. Towards Islamizaion of Disciplines. Herondon, VA. Jackson, Sherman A. 2002. On the Boundaries of Theological Intolerance in Islam: Abu Hamid Al-Ghazali’s Faysal al-Tafriqa. New York: Oxford.

Lelyveld, David. 1978. Aligarh’s First Generation. Muslim Solidarity in British India. Delhi, India: Oxford.

Mawdudi, Mawlana Syed Abul A’la. 2009. Ta’leemat. New Delhi: Markazi Maktaba Islamic Publishers. Translated into English as Mawdudi on Education, 1988. Karachi, Pakistan: Islamic Research Academy.

Mernissi, Fatima. 1992. Islam and Democracy: Fear of the Modern World. Translated by Mary Jo Lakeland. New York: Perseus Publishing.

Moten, A. Rashid. 1990. Islamization of Knowledge: Methodology of research in Political Science. American  Journal of Islamic Social Sciences 7, no.2:161-75.

The Plan: Islamization of Knowledge: General Principles and Work Plan.

Islamization of Knowledge Series no. 1 1982. Herndon, VA. International Institute of Islamic Thought.

Rahman, Fazlur. 1988. Islamization of Knowledge: A Response. American Journal of Islamic Social Sciences 5, no.1:3-12.

Reilly, Robet R..2010. The Closing of Muslim Mind: How Intellectual Suicide Created the Modern Islamic Crisis. Wilmington, DE: Intercollegiate Books.

Safi, Louay M. 1991. The Islamic State: A Conceptual Framework. American Journal of Islamic Social Sciences. 8, no.2:221-34.

Sardar, Ziauddin. 1985. Islamic Futures: The Shape of Ideas to Come. London and New York: Mansell Publishing Company.

Siddiqi, Mohammad Nejatullah. 1996. Teaching Economics in Islamic Perspective. Jeddah, Saudi Arabia: Islamic Economics Research Centre, King Abdulaziz University.

_________.2001. Economics: An Islamic Approach. Islamabad, Pakistan: Institute of Policy Studies and Leicester, UK: The Islamic Foundation.

٭٭٭

ماخذ: آیات، علی گڑھ، ۲۰۱۴، شمارہ ۱

تشکر: عرفان مصباحی جنوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید