فہرست مضامین
عرض کیا ہے
(شگفتہ افسانوں کا مجموعہ)
حصہ دوم
عابد معز
پہلا حصہ پڑھنے کے لیے
فرنٹ وہیل ڈرائیو
تجربے کار لوگ ازدواجی زندگی کو دو پہیّوں والی گاڑی سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ دو پہیّوں والی گاڑی کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس میں توازن اسی وقت برقرار رہتا ہے جب وہ چلتی ہے۔ اگر ٹھہراؤ آ جائے تو توازن بگڑنے لگتا ہے۔ گاڑی کے میکانزم سے معمولی واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ ایک پہیّہ خود سے چلتا ہے اور گاڑی کو بھی چلاتا ہے۔ دوسرا پہیّہ پہلے پہیّہ کے سہارے چلتا ہے۔ وہ خود سے چلنے یا گاڑی چلانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ لیڈیز فرسٹ کی مناسبت سے ازدواجی زندگی کا اگلا پہیّہ ظاہر ہے کہ بیوی ہے۔ اب باقی رہا پیچھے کا پہیّہ تو وہ شوہر نامراد ہے۔
ماہر میکانک اور انجینیئر بتاتے ہیں کہ گاڑی کوئی بھی ہو بیک وہیل ڈرائیو گاڑیاں بہترین ثابت ہوتی ہیں۔ سبک رفتار چلتی ہیں۔ توازن برقرار رکھنے میں سہولت رہتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تیز چلنے اور رفتار بڑھانے پر گاڑی قابو میں رہتی ہے جس کے سبب حادثات کم ہوتے ہیں۔
بیک وہیل ڈرائیو کے برخلاف فرنٹ وہیل ڈرائیو گاڑیاں نسبتاً خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ جلد بے قابو ہو جاتی ہیں۔ تیز رفتاری خطرناک نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ اچانک بریک لگانے سے گاڑی کے الٹ جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ یوں فرنٹ وہیل ڈرائیو گاڑیوں میں حادثات زیادہ ہوتے ہیں۔ حادثات کم ہونے کے امکانات کے پیش نظر اکثر لوگ بیک وہیل ڈرائیو گاڑیاں پسند کرتے ہیں۔ فرنٹ وہیل ڈرائیو گاڑیوں کے چاہنے والے بہت کم حضرات ہوتے ہیں۔
ازدواجی زندگی کی گاڑیوں کی اکثریت بیک وہیل ڈرائیو ہوتی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ازدواجی زندگی فطرتاً بیک وہیل ڈرائیو ہوتی ہے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے۔ ازدواجی زندگی کی بعض گاڑیاں فرنٹ وہیل ڈرائیو ہوتی ہیں۔ یہ فطرت سے انحراف ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ مختلف وجوہات گنائی جاتی ہیں جیسے گاڑی چلانے میں بیک وہیل کا پہل نہ کرنا، بیک وہیل کا فرنٹ وہیل پر دل و جاں سے قربان ہونا، فرنٹ وہیل سے مرعوب اور خوف زدہ رہنا، وغیرہ۔
میرے دوست راشد کی ازدواجی زندگی فرنٹ وہیل ڈرائیو ہے۔ شادی سے پہلے وہ اپنی ازدواجی زندگی کی گاڑی کو بیک وہیل ڈرائیو کرنا چاہتا تھا۔ اونچی اونچی باتیں کیا کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ قدرت کی عطا کی ہوئی برتری کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے محل میں خود بادشاہ ہونا چاہیے اور اپنی بیوی کو ملکہ بنا کر رکھنا چاہیے۔ لیکن شادی کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا کہ راشد کی ازدواجی زندگی فرنٹ وہیل ڈرائیو ہو گئی اور وہ کولہو کے بیل کی طرح دفتر اور گھر کے چکر کاٹتا رہ گیا۔ گھر سے باہر نکلنا ہوتا تو بیوی آگے ہوتی اور وہ پیچھے ! ایک مرتبہ میں نے راشد کو شادی سے پہلے کی باتیں یاد دلائیں تو اس نے جواب دیا۔ ’بندے کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ ‘
میں نے طنز کیا۔ ’لیکن تمھارے یہاں تو منظورِ زوجہ ہو رہا ہے۔ ‘
اس نے ہار مانتے ہوئے کہا۔ ’یہی سمجھ لو۔ ‘
’لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ آخر ایساکیوں ہو رہا ہے ؟‘ میں نے سوال کیا۔
’شاید ایڈجسٹمنٹ کی بات ہے۔ میں پہلے ایڈجسٹ ہو گیا ہوں۔ دیر سے گھر آؤں تو سوال نامہ ملتا تھا۔ دیر کیوں ہوئی؟ کہاں گئے تھے ؟ بتا کر کیوں نہیں گئے ؟ میں کب سے انتظار کر رہی ہوں۔ کس سے ملے تھے ؟ کیوں ملے تھے ؟ مجھے ساتھ لے کر کیوں نہیں گئے ؟ شروع میں سوالات پیار سے کئے جاتے تھے۔ پھر ان میں تلخی آنے لگی۔ میں کچھ دن مختلف بہانے بنا کر کام چلاتا رہا لیکن کب تک جھوٹ سے کام چل سکتا تھا۔ تنگ آ کر وقت پر گھر پہنچنے لگا اور گھر پر ہی رہنے لگا۔ گھر کے کام کاج کے تعلق سے بھی یہی ہوا۔ پیار سے چائے بنانے کو کہا گیا۔ مجھے اچھا محسوس ہوا۔ میں نے چائے بنائی۔ بیوی نے تعریف کی اور میں خوش ہوا۔ میں چائے بنانے لگا تو برتن مانجھنے کے لیے کہا گیا۔ انکار کیا تو روٹھ گئیں اور ایک ادا سے کہنے لگیں کہ کیا آپ میرے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتے۔ میں کون سا پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر نکالنے یا صحرا کی خاک چھاننے کے لیے کہہ رہی ہوں۔ ۔ ۔ ‘
میں نے جل کر راشد کی بات کاٹی’۔ ۔ ۔ اور اس طرح تمہاری ازدواجی زندگی فرنٹ وہیل ڈرائیو ہو گئی۔ ‘
جواب ملا۔ ’یار، تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔ چوبیس گھنٹوں کی جھک جھک اور اضطراب سے بہتر ہے کہ وقت پر گھر پہنچا کروں، گھر کا چھوٹا موٹا کام انجام دوں، بچوں کو سنبھالوں اور آرام کروں۔ لڑنے جھگڑنے اور تماشا بننے سے محفوظ ہوں۔ ‘
یوں راشد اپنی فرنٹ وہیل ڈرائیو ازدواجی زندگی سے مطمئن ہے۔ لیکن میں پریشان ہوں۔ اٹھتے بیٹھتے میری بیوی راشد کی مثال پیش کر کے مجھے ورغلاتی رہتی ہیں۔ ایک دن باتھ روم میں دھکیل کر کہنے لگیں۔ ’باتھ روم صاف کرنے سے نہ آپ کی عزت میں کمی ہو گی اور نہ آپ کی شان میں فرق آئے گا۔ راشد بھائی کو دیکھیے، گھر کے باتھ روم وہ خود صاف کرتے ہیں۔ ‘
بچے کو گود میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’بچوں کو سنبھالنا باپ کی بھی ذمہ داری ہے۔ راشد بھائی کے بچے ماں سے زیادہ باپ سے ہلے ہوئے ہیں۔ ‘
ایک دن راشد کے گھر سے واپس آ کر کہا۔ ’آج راشد بھائی کے گھر پارٹی تھی۔ ہم خواتین فلم ’نوکر بیوی کا‘ دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے رہے۔ راشد بھائی نے ہمارے لیے گرم گرم پکوڑے اور چائے بنائی۔ آپ کو معلوم ہے ! راشد بھائی پکوان بھی خوب کرتے ہیں۔ میٹھے بنانے میں ان کا جواب نہیں ہے۔ اپنے لڑکے کی برتھ ڈے پر انڈے کی پڈنگ بہت اچھی بنائی تھی۔ آپ تو کچھ بھی نہیں بناتے ! آپ اپنے دوست سے سبق حاصل کیوں نہیں کرتے ؟‘
’اس لیے کہ میں راشد نہیں ہوں۔ ‘ میں نے وجہ بتائی۔
بیوی کو جواب دے کر میں راشد کی ازدواجی زندگی کو فرنٹ وہیل ڈرائیو سے بیک وہیل ڈرائیو بنانے کی ترکیب سوچنے لگا تاکہ مجھے دن رات راشد بھائی کا طعنہ نہ سننا پڑے۔ ایک آسان ترکیب یہ تھی کہ میں راشد سے ملنا جلنا ترک کر دوں لیکن میں تعلقات ترک اس لیے نہیں کر سکتا تھا کہ مجھے راشد سے ہمدردی ہے۔ شادی کے بعد اس کے دوست ایک ایک کر کے دور ہوتے گئے، باقی میں ہی بچ گیا تھا۔ اگر میں بھی راہ فرار اختیار کر لوں تو اس مظلوم کی مدد کون کرے گا!
اچانک خیال آیا کہ گاڑی میں ایک اسپیر وہیل یعنی اسٹپنی بھی ہوتی ہے۔ گاڑی کا فاضل پہیّہ جو گاڑی میں جوتا نہیں جاتا لیکن چلنے والے پہیّوں کے خراب ہونے پر ان کی جگہ لینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اسٹپنی کے بھروسہ اطمینان سے گاڑی چلتی ہے۔ اسٹپنی کا استعمال شاذونادر ہوتا ہے لیکن اس کی موجودگی سے گاڑی اور گاڑی بان میں خود اعتمادی آتی ہے۔ اسٹپنی کی اہمیت اور افادیت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے میں نے ایک منصوبہ تیار کیا۔
ایک شام میں اور راشد اپنی بیویوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے راشد کے ہاتھ کے بنے ہوئے چھولے کھا رہے تھے۔ میں نے کھسر پھسر کے انداز میں راشد سے کہا۔ ’یار وہ ملی تھی۔ ‘
راشد نے چونک کر پوچھا۔ ’کون؟‘
خواتین متوجہ ہوئیں تو میں نے راشد کے کان میں ’بعد میں بتاؤں گا‘ اس طرح کہا کہ وہ بھی سن لیں۔
راشد کی بیوی کا تجسس بڑھتا گیا۔ بار بار دریافت کرنے لگیں۔ ’بھائی صاحب کون ملی تھی؟‘
میں نے بے چینی بڑھانے کے لیے جواب دیا۔ ’کوئی اہم بات نہیں ہے بھابی۔ ایک پرانی بلی ملی تھی جو کبھی راشد کا راستہ کاٹا کرتی تھی۔ ‘
میں شک کے بیج بو چکا تو راشد کی بیوی مختلف سوالات کرنے لگیں۔ ’بلی کا نام کیا ہے ؟ اس کی عمر کیا ہے ؟ کہاں رہتی ہے ؟ کیا کرتی ہے ؟ راشد اسے کیسے جانتے ہیں ؟ وغیرہ۔
تمام سوالوں کے جوابات میں نے یہ کہہ کر گول کر دیئے کہ ’بھابی آپ کس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئیں۔ وہ واقعتاً بلی ہے۔ ‘
راشد کی بیوی مطمئن نہیں ہوئیں اور اس موضوع پر بات کرنا چاہی۔ میں نے انھیں تسلی دی۔ ’بھابی تشویش کی بات نہیں ہے۔ بلی کے راستہ کاٹنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سب دقیانوسی باتیں ہیں اور پھر راشد جیسے شریف اور نیک انسان پر کوئی بلا اثر نہیں کر سکتی۔ پھر آپ بھی تو اسے اپنے حصار میں رکھتی ہیں۔ آپ بے فکر رہیں کچھ نہیں ہو گا۔ ‘
چند دن بعد پروگرام کے مطابق میں راشد کے گھر گیا۔ راشد کچن میں چائے بنا رہا تھا۔ میں وہیں جا کر خیر خیریت پوچھنے لگا۔ راشد کی بیوی ہماری باتیں سننے کے لیے کچن کی دیوار سے کان لگا کر کھڑی ہو گئیں۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’وہ آج پھر ملی تھی۔ ‘
راشد نے مجھے گھورتے ہوئے سوال کیا۔ ’تم کیا بکواس کر رہے ہو۔ اس دن بھی کہہ رہے تھے کہ وہ ملی تھی۔ آخر وہ ہے کون؟‘
میں نے راشد کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے بتایا۔ ’آج تو اس سے بات بھی ہوئی۔ ‘
راشد نے زچ ہو کر کہا۔ ’میری تو سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا ہے۔ ‘
میں نے ایک اور وار کیا۔ ’وہ تمھیں پوچھ رہی تھی۔ راشد کیسے ہیں ؟ کیا ان کی شادی ہو چکی ہے ؟ کیا اب بھی میں انھیں یاد آتی ہوں۔ میں آج تک انھیں بھلا نہ سکی۔ میں ان سے ملنا۔ ۔ ۔ ‘
راشد کی بیوی سے مزید سننا برداشت نہ ہوا۔ وہ کچن میں آئیں تو میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑی۔ راشد کی بیوی کا چہرہ اترا ہوا اور آنکھیں بھر آئی تھیں۔ راشد کے ہاتھ سے چائے کی پیالیاں لیتی ہوئی بولیں۔ ’آپ لوگ چل کر بیٹھیے، میں چائے لاتی ہوں۔ ‘
کچن سے باہر نکلتے ہی راشد نے میری گردن پکڑ کر پوچھا۔ ’جنابِ والا کیا فساد بپا کر رہے ہیں اور تمھارے ارادے کیا ہیں ؟‘
’خاموشی سے دیکھتے جاؤ۔ عنقریب تمھاری زندگی میں انقلاب آئے گا۔ میری فیس تیار رکھنا۔ ‘ میں نے راشد سے کہا۔
راشد مزید سوالات کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اسے خاموش کر دیا۔ ’آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ‘
راشد کی بیوی چائے کے ساتھ لوازمات بھی لے آئیں اور میری خاطر تواضع کرنے لگیں۔ بسکٹ اور کیک کھلایا۔ میٹھی چائے پلائی اور کہا۔ ’آپ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ میرا بڑا بھائی میری حفاظت کے لیے میرے پاس موجود ہے۔ شادی کے بعد ہم بے چاری عورتیں میکے سے دور ہو جاتی ہیں اور یوں بھی میرا میکہ یہاں سے سات سو کیلو میٹر دور ہے۔ اپنے آپ کو بہت اکیلی محسوس کرتی ہوں۔ ‘
میں نے ڈھارس بندھائی۔ ’بھابی آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ مجھے اپنا بڑا بھائی سمجھیں۔ ‘ تیر نشانے پر لگا تھا۔ میں اپنی کامیابی پر خوش ہوتے ہوئے چائے پی کر گھر چلا آیا۔
کچھ دن بعد راشد کی بیوی میرے گھر آئیں اور راستہ کاٹنے والی بلی کے بارے میں دریافت کرنے لگیں۔ میں انھیں ٹالتا رہا۔ ’بھابی میں یوں ہی مذاق کر رہا تھا۔ بلی ہے اور نہ بلا۔ آپ بے فکر رہیں۔ ‘
’آپ ٹال رہے ہیں۔ میں آپ کو اپنا بھائی مانتی ہوں اور آپ ہیں کہ مجھ سے اپنے دوست کی باتیں چھپا رہے ہیں۔ ‘ راشد کی بیوی کے آنسو ٹپک پڑے۔ آنسوؤں کو دیکھ کر میری بیوی تڑپ اٹھیں۔ اب تفصیلات کے لیے دونوں اصرار کرنے لگیں۔ لوہا گرم دیکھ کر میں نے ہتھوڑا چلایا۔ ’وہ ہمارے ساتھ پڑھتی تھی۔ خوبصورت اور ہوشیار لڑکی تھی۔ ہماری جماعت کے دوسرے بھی لڑکے اس کے پیچھے تھے لیکن وہ راشد میں اور راشد اس میں دلچسپی لینے لگا۔ کبھی کبھار چھپ کر مل بھی لیتے تھے۔ اظہار محبت اور ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے سے پہلے وہ ایک دوسرے سے دور ہو گئے۔ لڑکی اپنے والد کے ساتھ امریکہ چلی گئی۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد شادی کے لیے آئی ہے۔ اتفاقیہ ملاقات ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ پرانے دوستوں کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ بس اتنی سی بات ہے بھابی، کچھ دنوں بعد وہ شادی کر کے اپنے شوہر کو لے کر امریکہ چلی جائے گی۔ کھیل ختم اور پیسہ ہضم۔ ‘
من گھڑت کہانی سن کر راشد کی بیوی نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔ ’بھائی صاحب آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔ اگر وہ انھیں ساتھ لے گئی تو۔ ۔ ۔ ‘
’پرانی دوستی ہے اور پھر امریکہ جانے کا موقع بھی ہے۔ ‘ میں نے لقمہ دیا۔
’کیا وہ امریکہ جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ؟‘ راشد کی بیوی نے سوال کیا۔
میں نے جواب دیا۔ ’پتہ نہیں بھابی! مسلسل گھر پر رہتے ہوئے اور گھریلو کام کاج سے اکتا کر اگر راشد امریکہ جانے کے بارے میں سنجیدہ ہے تو کوئی تعجب بھی نہیں ہے۔ ‘
’اب میں کیا کروں ؟‘ راشد کی بیوی باقاعدہ رونے لگیں۔
میں نے مشورہ دیا۔ ’میری مانیں تو بھابی، آپ راشد کو یہ احساس دلائیں کہ مشرق امریکہ سے بہتر ہے۔ یہاں لڑکیاں اپنے شوہر کو مجازی خدا کا درجہ دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ جیتی اور مرتی ہیں۔ بس آپ راشد کو یہ محسوس ہونے دیں کہ وہ ایک وفا شعار، سلیقہ مند اور سگھڑبیوی کا شوہر ہے۔ باقی مجھ پر چھوڑیئے، میں بلی کو تھیلے میں ڈال کر واپس امریکہ بھیج دوں گا۔ ‘
’بھائی صاحب، آپ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ میں راشد کا ضرور خیال رکھوں گی۔ لیکن خدارا آپ میرا خیال رکھیے گا۔ ‘ راشد کی بیوی نے وعدہ کیا اور اپنے گھر چلی گئیں۔
میں اپنے کامیاب پلان پر خوش ہونے لگا تو میری بیوی نے سوال کیا۔ ’بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔ آپ کو خوش ہونا ہی چاہیے۔ آپ امریکہ کب جا رہے ہیں ؟‘
میں نے تعجب اور حیرت سے پوچھا۔ ’جی۔ ۔ میں امریکہ کیوں جانے لگا۔ ‘
بیوی نے ترش لہجہ میں جواب دیا۔ ’اس لیے کہ بلی آپ کو امریکہ لے جانے آئی ہے۔ ‘
’کیا مطلب؟‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’راشد بھائی کی کہانی در اصل آپ کی اپنی آپ بیتی ہے۔ وہ بلی آپ کا راستہ کاٹا کرتی تھی۔
’بیگم آپ نے بہت دور کی کوڑی لائی ہیں۔ میں نے ایک مظلوم کی مدد کرنے کے لیے یہ کہانی گھڑی ہے۔ حقیقت سے اس کہانی کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ ‘میں نے صفائی پیش کی۔
جواب ملا۔ ’مجھے سب پتہ ہے۔ شادی کے بعد یہی کہانی میں نے آپ ہی کے لوگوں سے سنی تھی۔ خاموش اس لیے تھی کہ وہ امریکہ چلی گئی ہے۔ وہ واپس کب آئی ؟ کہاں ٹھہری ہوئی ہے ؟ آپ نے اب تک کتنی مرتبہ اس سے ملاقات کی ہے ؟‘
میں پریشان ہو ا۔ پلان کے لیے کوئی اور کہانی نہ سوجھی تو میں نے اپنی آپ بیتی سنادی تھی۔ لیکن لڑکی کے امریکہ جانے تک کہانی سچ تھی۔ اس کے بعد، مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے اور کیسی ہے۔ نہ کبھی اس کے بارے میں سنا اور نہ اسے دیکھا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ واپس آئی بھی ہے یا امریکہ ہی میں ہے۔ بس چند مہینوں کا ساتھ تھا۔ اب وہ میرے لیے اجنبی اور پردیسی ہے۔ ماتھے پر آئے پسینے کو پونچھتے ہوئے میں نے گزارش کی۔ ’خواہ مخواہ شک نہ کرو اور بات کا بتنگڑ نہ بناؤ۔ ‘
جواب میں بیوی نے آواز اونچی کرتے ہوئے دھمکی دی۔ ’میں بھابی کی طرح ڈرنے والی نہیں ہوں۔ میرا میکہ اسی شہر میں ہے۔ میں آپ کو اور آپ کی بلی کو دیکھ لوں گی۔ بلی پر کتے چھڑاؤں گی۔ ‘
اس واقعہ کے بعد، راشد کی ازدواجی زندگی کی گاڑی خیر سے بیک وہیل ڈرائیو ہو گئی۔ وہ بہت مزے میں ہے۔ میرا شکریہ ادا کرتا ہے۔ لیکن میری اپنی ازدواجی زندگی کی گاڑی اس دن کے بعد سے آہستہ آہستہ فرنٹ وہیل ڈرائیو ہونے لگی ہے۔ وقت پر گھر پہنچنا، بیوی کی نظروں کے سامنے رہنا اور جب ان سے دور ہوں تو انھیں اپنے بارے میں پل پل کی خبر سے باخبر رکھنا پڑ رہ ہے۔
٭ ٭ ٭
ماہنامہ رابطہ، کراچی، اپریل 1991ء
ہم نے مکان بنایا
آج وہ زمانہ تو رہا نہیں کہ ہم’ گھر والی‘ کے ساتھ ایک خطّہ زمین یعنی ’پلاٹ ‘ پر کھڑے مستری کو ہدایات دے رہے ہیں۔ ’اس طرف دیوان خانہ، یہ رہا ہمارا کمرہ، یہاں سے وہاں تک باورچی خانہ، بازو میں مودی خانہ، اس طرف دالان، اور دالان کے سامنے پیش دالان، دائیں بازو بچوں کا کمرہ، بائیں بازو مہمان خانہ، باقی بچا ہوا حصّہ صحن بنا اور وہ گھر سے دور نیم کے درخت کے نیچے بیت الخلاء اور حمام۔ ‘ لیجیے مکان کا نقشہ تیار ہے۔ مزدوروں نے کام شروع کیا اور چند دنوں میں ہمارا ’عشرت کدہ‘ تیار ہو گیا۔
آج مکان بنوانے کے ارادے کے ساتھ آرکیٹکٹ کا خیال آتا ہے گویا مکان اور آرکیٹکٹ میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔ لگے ہاتھوں آرکیٹکٹ کی تعریف سن لیجیے جو ہمارے مکان بنانے کے تجربے کے طفیل وجود میں آئی ہے۔ آرکیٹکٹ وہ قابل اور چالاک شخص ہوتا ہے جو ہماری خواہشات اور ارمانوں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کر کے، انہیں اپنی نگرانی میں شرمندہ تعمیر کروا کر اپنی جیبیں بھرتا ہے۔
اگر آپ کو آرکیٹکٹ کے اس تعارف پر اعتراض ہے تو ہمارا مشورہ ہے کہ آپ بھی ایک مکان بنوائیں۔ آرکیٹکٹ کو بھگتنے کے بعد آپ ہمارے اس خیال سے ضرور اتفاق کریں گے۔
آرکیٹکٹ سے اس کے دفتر میں ملنا پڑتا ہے۔ آرکیٹکٹ کے دفتر کی سجاوٹ دیکھ کر اس کے فن کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔ آرکیٹکٹ کے فن کی ابتدا دفتر میں موجود میز اور کرسیوں سے ہوتی ہے۔ ہر آرکیٹکٹ اپنے انداز سے میز اور کرسیاں ڈیزائن کرتا ہے۔ اسی لیے آرکیٹکٹ کے دفتر میں عجیب و غریب کرسیوں پر بیٹھنے کا بھی تجربہ ہوتا ہے۔ ایسی منفرد اور یگانہ کرسیاں کہیں اور نظر نہیں آتیں۔
جس طرح شکاری اپنی ڈینگوں کو تقویت پہنچانے کے لیے کمرے کی دیواروں پر جانوروں کی کھال اور سر سجائے رکھتے ہیں، اسی طرح آرکیٹکٹ کے دفتر میں ان کی بنائی ہوئی عمارتوں اور مکانات کے ماڈل رکھے ہوتے ہیں اور دیواروں پر نقشے اور تصویریں لٹکتی ہوتی ہیں۔
اپنے تعارف میں آرکیٹکٹ اپنی بنائی عمارتوں کا ذکر ضرور کرتے ہیں بلکہ بعض آرکیٹکٹ اپنے بارے میں کم اور عمارتوں کے بارے میں زیادہ باتیں کرتے ہیں۔ ایک آرکیٹکٹ سے ملاقات ہونے پر انھوں نے کہا تھا۔ ’ جی میں اپنے بارے میں کیا کہوں، چوک میں کھڑی لال رنگ کی عمارت میرا تعارف ہے۔ ‘
آرکیٹکٹ دوسرے پیشہ وروں کی بہ نسبت زیادہ نفاست پسند ہوتے ہیں۔ خوش پوش اور موسم شناس بھی ہوتے ہیں۔ موسم کے لحاظ سے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ کاروباری مسکراہٹ بکھیر کر اپنے ڈیزائن کردہ برتنوں میں چائے یا ٹھنڈا پیش کر کے سلیقہ مند ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ غرض آرکیٹکٹ کے دفتر میں ایک سحر انگیز کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو ان کے آفس کے اندرونی نگار خانے بلکہ کباڑ خانے پر نظر پڑنے تک قائم رہتی ہے۔ نگار خانے کے دیدار ہونے پر پتا چلتا ہے کہ ہاتھی کے دکھانے اور کھانے کے دانت علیحدہ ہوتے ہیں۔
ہمیں ایک عدد مکان بنوانا تھا، اس لیے آرکیٹکٹ سے ملنا ضروری تھا۔ وقت طے کر کے ہم آرکیٹکٹ کے دفتر پہنچے۔ وہ خوش ہوئے کہ ہم وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا۔ ’میرا تجربہ بتاتا ہے کہ جو لوگ وقت کی پابندی کرتے ہیں، وہی مکان بناسکتے ہیں۔ ‘
ہم سوچ میں پڑ گئے کہ وقت کی پابندی اور مکان کی تعمیر میں کیا رشتہ ہو سکتا ہے۔ کچھ دیر بعد موصوف کے اس جملے نے ہماری الجھن کو دور کر دیا کہ ’ میں وقت پر نہ آنے والوں کا کام نہیں کرتا۔ ‘
ہم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو آرکیٹکٹ نے سوال کیا۔ ’آپ مکان کیوں بنوانا چاہتے ہیں ؟‘
ہمیں یہ سوال کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ ہر کوئی سر چھپانے کے لیے ایک آسرا چاہتا ہے، بالخصوص شریف آدمی چاہتا ہے کہ اس کا ایک مکان ہو جس میں رہتے ہوئے وہ اپنی عزت اور ناموس کی حفاظت کر سکے۔ مکان بنانے کی خواہش کرنا کوئی ایسی اچنبھے والی بات نہیں ہے جس پر پوچھا جائے کہ آپ مکان کیوں بنوانا چاہتے ہیں۔ حتی کہ الّو بھی اپنا گھونسلہ بناتا ہے۔ ہم اس سوال کو غیر ضروری سمجھ کر انجان ہو گئے۔
ہماری خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے آرکیٹکٹ نے وضاحت کی۔ ’مکان رہائش کے لیے بنوا رہے ہیں یا اس سے آمدنی کی توقع ہے۔ اگر آپ رہنے کے لیے مکان بنوانا چاہتے ہیں تو مکان کسی بادشاہ کے محل سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ مکان سے کمائی چاہتے ہیں تو کامپلکس بنوایئے۔ نیچے دکانات اور اوپر مکانات خوب آمدنی دیں گے۔ ۔ ۔ ‘
آرکیٹکٹ کی تقریر جاری رہتی اگر ہم نے ٹوکا نہ ہوتا۔ ’جناب، ہمیں رہنے کے لیے ایک مختصر اور مفید مکان بنوانا ہے۔ ‘
انھوں نے ’اچھا‘ کہہ کر ٹھنڈی سانس لی جیسے ہم نے ان کی توقع کے خلاف جواب دیا ہے۔ کچھ دیر سوچ کر موصوف نے کہا۔ ’ٹھیک ہے، آپ کے رہنے کے لیے ایک مختصر لیکن مفید اور کارآمد مکان بنوا دیں گے۔ ‘
پھر آرکیٹکٹ کاغذ اور قلم لے کر ہم سے سوالات کرنے لگے۔ ’آپ کی عمر کیا ہے۔ کتنی شادیاں کی ہیں۔ پہلی شادی کے وقت آپ کی عمر کیا تھی۔ آپ کی بیوی عمر میں بڑی تو نہیں ہے۔ گھر میں کس کا حکم چلتا ہے۔ کتنے بچے ہیں۔ ان کی تفصیل بتایئے۔
آپ کیا کام کرتے ہیں۔ ذرائع آمدنی کیا ہیں۔ جائز اور ناجائز دونوں بتایئے۔ پیسے بنک میں رکھنا پسند کرتے ہیں یا گھر میں چھپا کے رکھنا پڑتا ہے۔ اشیائے صرف روز خریدتے ہیں یا گھر میں ان کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔
آپ کا مذہب اور مسلک کیا ہے۔ کون سا طرز حکومت پسند ہے۔ آپ کا جھکاؤ سیدھی جانب ہے یا بائیں جانب۔ آپ کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے۔ ملک کی سیاسی صورت حال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔
آپ کے پڑوسی کون ہیں۔ ان سے آپ کے تعلقات کیسے ہیں۔ پولس میں آپ کا ریکارڈ کیسا ہے۔ کیا کبھی جیل یاترا کی ہے۔ کیا آپ کو دوسروں سے چھپنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کیا کبھی آپ انڈر گراؤنڈ ہوئے ہیں۔
صبح نیند سے کب بیدار ہوتے ہیں۔ روز نہاتے ہیں یا چھٹی کے دن غسل کرتے ہیں۔ رات کو کب سوتے ہیں۔ کیا تنہا سوتے ہیں۔ دن میں کتنی مرتبہ کھاتے اور پیتے ہیں۔ چائے کے علاوہ اور کیا پیتے ہیں۔ کیا وقت پر کھاتے ہیں۔ ناشتہ، دوپہر اور رات میں کیا کھاتے ہیں۔ کھانا کیسے پکاتے ہیں۔ ہفتہ میں کتنی مرتبہ باہر کھاتے ہیں۔ آپ کو قبض کی شکایت تو نہیں ہے۔
آپ کا پہناوا کیسا ہے۔ کپڑے گھر میں دھوتے ہیں باہر دھلواتے ہیں۔ گھر میں رہنے کے لیے نائٹ ڈریس، ٹریک سوٹ پہنتے ہیں یا لنگی بنیان سے کام چلا لیتے ہیں۔ کپڑے تہہ کر کے رکھنا، ہینگر پر لٹکانا یا بے ترتیبی سے پھینک دینا، آپ کو کیا پسند ہے۔
آپ کی صحت کیسی ہے۔ کون کون سی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ کس کس ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہیں۔ گھر پر ورزش کرتے ہیں یا واکنگ پر جاتے ہیں۔ سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے میں تکلیف تو نہیں ہے۔
آپ فاضل وقت کیسے گذارتے ہیں۔ آپ کو کون سا کھیل پسند ہے۔ کیا گھر میں کھیلتے ہیں۔ گھر میں غزلیں سنتے ہیں یا ڈسکو گانے بجاتے ہیں۔ کیا آپ پاپ میوزک سے شغف رکھتے ہیں۔ کیا آپ کو ناچنا آتا ہے۔ گھر پر کیا آپ ناچتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پروگرام اکیلے دیکھتے ہیں یا خاندان کے سبھی افراد مل کرٹیلی ویژن بینی کرتے ہیں۔
آپ کے پاس کون کون سی اور کتنے پہیوں والی سواریاں ہیں۔ ان کا ماڈل اور میک بتایئے۔ انھیں آپ خود چلاتے ہیں یا ڈرائیور رکھتے ہیں۔ خراب ہونے پر گاڑی کو ورک شاپ بھیجتے ہیں یا میکینک کو گھر پر بلا کر کام کرواتے ہیں۔
کیا آپ کو باغبانی پسند ہے۔ آپ گھر میں کون سے اور کس قسم کے جھاڑ اور پودے لگانا چاہیں گے۔ لان تو آپ پسند کرتے ہی ہوں گے۔ کیا آپ پیٹ پالتے ہیں۔ اگر ہاں تو کون سا جانور کتا، بلی یا پرندوں میں، کسے پسند کرتے ہیں۔ مرغی، بکری اور بھینس پالنے کا شوق تو نہیں ہے۔
آپ کے دوست احباب کون ہیں۔ ان کی عادات و اطوار اور چال چلن کے بارے میں بتایئے۔ کیا آپ ان کے ساتھ گھر پر وقت گزارتے ہیں یا اِدھر اُدھر جاتے ہیں۔ کیا آپ گھر میں احباب کی دعوتیں کرتے ہیں۔ اگر ہاں تو کتنے لوگوں کو بلاتے ہیں۔
آرکیٹکٹ کے سوالات کی نوعیت ہمارے لیے حیران بلکہ پریشان کن تھی۔ کبھی محسوس ہوا کہ یہ آرکیٹکٹ نہیں کوئی ڈاکٹر ہے اور ابھی معائنے کے لیے قارورہ بھی طلب کریں گے لیکن اگلے سوال سے گمان ہوتا کہ نہیں، یہ تو کوئی نفسیاتی معالج ہے جو سوالات کے ذریعہ تحلیل نفسی کر رہا ہے۔ بعض سوالات سے ہمیں شبہ ہوا کہ ہم آرکیٹکٹ کے بجائے غلطی سے پیام گھر آ گئے ہیں۔ کبھی آرکیٹکٹ پر شک بھی ہوا کہ یہ محکمہ انکم ٹیکس کا مخبر یا سیکریٹ سروس کا ممبر ہے۔
ہم نے آرکیٹکٹ سے سچ بولنے کی قسم تو کھائی نہیں تھی کہ صرف سچ ہی کہتے اور سچ کے سوا کچھ نہ کہتے۔ اس لیے ہم نے کبھی کبھار سچ بولا تو اکثر سوالات کے گول مول جواب دیئے۔ آرکیٹکٹ سوالوں کے جوابات لکھتے گئے۔ جوابات کے نیچے دستخط کرنے کے لیے ہم نے کاغذ مانگا تو آرکیٹکٹ نے کہا۔ ’اس کی ضرورت نہیں ہے۔ در اصل ان سوالوں کا مقصد آپ کا طرز حیات اور انداز فکر اور خیالات معلوم کرنا ہے، جس سے آپ کا مکان پلان کرنے میں مدد ہوتی ہے۔ ‘
انٹرویو ختم ہونے کے بعد ہم نے سوچا کہ چلو جان چھوٹی لیکن آرکیٹکٹ ہماری جان کو آ گئے۔ کہنے لگے۔ ’میں کل شام آپ کے اہلِ خانہ کے ساتھ گزاروں گا۔ مکان کی پلاننگ میں ان کی خواہشات اور احساسات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ ‘
موصوف ہمارا کرائے کا گھر دیکھنے اور گھر والوں سے ملنے آئے تو ہم نے ان کے لیے ایک پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا۔ آرکیٹکٹ پر دھاک جمانے کے لیے اڑوس پڑوس سے برتن، ڈائننگ ٹیبل، صوفہ سیٹ اور دوسری چیزیں مانگ کر ڈرائنگ روم کو آرکیٹکٹ کے آفس کا روپ دیا۔ اس اہتمام پر پڑوسیوں کو شک ہوا کہ ہمارے گھر لوگ رشتہ کرنے آ رہے ہیں۔ لیکن جب ہیٹ پہنے، ہاتھ میں کاغذوں کا پلندہ لیے اور جیب میں قلموں کی قطار سجائے ادھیڑ عمر آرکیٹکٹ ہمارے گھر آئے تو پڑوسیوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس ’بے مکان‘ شخص کے پاس رشتے کیوں کر آنے لگے !
آرکیٹکٹ سجا سجایا ڈرائنگ روم چھوڑ کر بے تکلفی سے گھر میں گھس گئے۔ گھر کا معائنہ کیا۔ مختلف باتیں نوٹ کیں۔ بیوی اور بچوں سے تبادلہ خیال کیا بلکہ انھیں ہمارے خلاف بھڑکایا۔ کہنے لگے۔ ’آپ کے پاس ڈش واشر، ہوم تھیٹر، فریزر، ایر کنڈیشنر اور دوسری کئی اہم چیزیں نہیں ہیں۔ نئے مکان میں ان سب چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اور ہاں نیا فرنیچر بھی چاہیے۔ گھر میں جو فرنیچر ہے وہ بہت پرانا ہو چکا ہے۔ میں نئے فرنیچر کا پلان بھی دوں گا۔ ایک اور اہم بات گھر میں بچوں کے کھیلنے کے لیے کیرم، چیس، ٹیبل ٹینس، ٹینس کورٹ کا انتظام ہو تو بچے آوارہ گردی نہیں کرتے۔ گلیوں میں گلی ڈنڈا اور کرکٹ نہیں کھیلتے۔ ‘
ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آرکیٹکٹ ٹینس کورٹ پر رک گئے۔ اگر وہ گھر میں گولف میدان کا مشورہ دیتے بھی تو ہم کیا کر لیتے ! وہ ہم سے فیس کی پہلی قسط پیشگی وصول کر چکے تھے۔
شکم سیر ہونے کے بعد آرکیٹکٹ ہمیں ساتھ لے کر پلاٹ دیکھنے گئے۔ خطّہ زمین کو ناپا، سورج نکلنے کی سمت دریافت کی اور افسوس کا اظہار کیا۔ ’اگر سورج اُس طرف سے نکلنے کے بجائے زمین کے اِس طرف سے نکلتا تو میں آپ کے مکان میں چار چاند لگا دیتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پلاٹ خریدنے سے پہلے آپ نے مجھ سے مشورہ کر لیا ہوتا۔ دور حاضر میں آرکیٹکٹ کا کام مکان بنانے کا خواب دیکھنے سے پہلے شروع ہوتا ہے۔ آئندہ آپ اس بات کا خیال رکھیں۔ ‘
ہم نے دل میں کہا کہ اگر ہم پلاٹ خریدنے سے پہلے آرکیٹکٹ سے مل لیتے تو زندگی بھر مکان بنانے کا ارادہ ہی نہ کرتے، بھلے ہی کسی کھجور کے درخت کے نیچے زندگی گزر جاتی۔ چلتے ہوئے موصوف نے زمین سے مٹھی بھر مٹی معائنہ کے لیے اٹھا لی۔
آرکیٹکٹ سے صرف دو ملاقاتوں نے ہمیں کئی مسائل سے دوچار کر دیا۔ بیوی اور بچوں نے ان کے ورغلانے پر ’اشیائے ضروریات زندگی‘ کی ایک فہرست ہماری نذر کی۔ یہ فہرست اس جہیز کی فہرست سے زائد تھی جو آج کل بکاؤ نوجوانوں کے والدین لڑکیوں کے گھر گھر ٹھوکریں مارتے اور کھاتے پھرتے ہیں۔ مکان بنوانے کے لیے ہم نے جو رقم جمع کر رکھی تھی، اس میں سے اس فہرست کا سامان خریدنے کے بعد آرکیٹکٹ کی فیس کی بقیہ اقساط کی ادائیگی تک ممکن نہ تھی۔ لہذا ہم نے مکان بنوانے کا ارادہ ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔
مکان بنانے کے ارادے کو خیرباد کہنے پر بیوی اور بچوں نے ہمارا سماجی بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی۔ پھر بیوی نے سمجھایا۔ ’پہلے ہم مکان بنوا لیتے ہیں۔ فرنیچر اور دوسری اشیا بعد میں خریدیں گے۔ پھر بھی اگر پیسے کم پڑیں تو ہم قرض لیں گے اور میں کفایت شعاری سے گھر کا خرچ چلا کر قرض لوٹا دوں گی۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ میں ہوں نا آپ کے ساتھ۔ ‘
جب مرد کے ساتھ عورت ہوتی ہے تو کیا کچھ نہیں ہوتا۔ تاج محل تک بن جاتا ہے۔ اسی لیے مرتا کیا نہ کرتا، ہم نے مکان نہ بنوانے کا خیال چھوڑ دیا۔
ہم اپنے مکان کے پلان کے لیے آرکیٹکٹ کے پاس گئے۔ انھوں نے مکان کے تین چار پلان ہمارے سامنے رکھے۔ ہمیں فٹ پاتھ کا وہ منظر یاد آیا جب نجومی قسمت کا حال بتانے کے لیے مختلف کارڈ بچھا کر طوطے کا پنجرہ کھولتا ہے کہ باہر آؤ اور ایک کارڈ اٹھا لو۔
ہم نے مکان کے نقشوں پر نظریں دوڑائیں۔ پلان میں روم ہی روم تھے۔ ڈرائنگ روم، بیڈ روم، ٹی وی روم، میٹنگ روم، سیٹنگ روم، ڈائننگ روم، ریڈنگ روم، پرئنگ روم، واش روم، باتھ روم، لانڈری روم، ویٹنگ روم، اسٹور روم، اسٹڈی روم، گیسٹ روم، حتی کہ انیمل روم!
ایک روم سے نکلے دوسرے روم میں پہنچے۔ کہیں دلان نہ پیش دالان، محراب نہ طاقچہ، ورانڈہ اور نہ ہی چبوترا۔ جب ہم نے شکایت کی تو آرکیٹکٹ نے کہا۔ ’جناب آج کل یہ غیر ضروری اسٹرکچرز مکان میں نہیں ہوتے، پرانے شہر کے کھنڈروں میں پائے جاتے ہیں۔ آپ دورِ حاضر میں مکان بنوا رہے ہیں، کوئی پرانی تہذیب پر فلم کا سیٹ نہیں لگوا رہے ہیں۔ ‘
پلان میں صحن بھی نہیں تھا۔ آرکیٹکٹ نے وضاحت کی۔ ’آج مکان میں صحن بھی نہیں ہوتا بلکہ صحن میں مکان ہوتا ہے۔ آپ کے مکان کے اطراف کھلی زمین ہو گی جہاں آپ صحن کا لطف اٹھاسکتے ہیں۔ ‘
یہ بات ہم سمجھنے سے قاصر رہے کہ مکان کے باہر دوسروں بالخصوص پڑوسیوں کی گھورتی نظروں کے سامنے کیا خاک لطف اٹھا پائیں گے۔ اس سے تو اچھا ہے کہ ہم صحن کا مزا لینے کے لیے پبلک گارڈن چلے جائیں۔
پلان میں ایک اور بات ہمیں کھٹکی۔ ہر روم میں باتھ روم نتھی کر دیا گیا تھا۔ بقول رشید احمد صدیقی، انسان ترقی کرتا ہے تو اپنوں سے دور لیکن باتھ روم کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ پلان میں ڈھیر سارے باتھ روم دیکھ کر ہمیں محسوس ہوا کہ آرکیٹکٹ سب سے زیادہ یہی روم پلان کرتے ہیں۔ اسی لیے تو خالص باتھ روم کے علاوہ ہر روم میں ایک باتھ روم شریک کر دیا جاتا ہے۔
ہم نے آرکیٹکٹ سے خواہش کی۔ ’اتنے زیادہ باتھ روم کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں دن میں دوچار مرتبہ ضرورت پیش آتی ہے۔ آپ ماضی کی طرح اور آج کے فیملی پلاننگ کے نعرے جیسا باتھ روم کی تعداد ’ایک یا دو بس‘ کر دیجیے۔ ‘
موصوف نے ہمیں مشورہ کیا۔ ’سوچ لیجیے، آپ بعد میں پچھتائیں گے۔ ‘
آرکیٹکٹ چاروں پلان کی خوبیاں گنانے لگے۔ ’اس پلان میں ڈرائنگ اور ڈائننگ روم کو ملا دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ کھاتے وقت آنے والے دوست ہوتے ہیں، پھر بھی احتیاطاً بیچ میں چلمن حائل رہے گا۔ آپ کھاتے وقت مہمانوں سے پردہ کر سکتے ہیں۔ یہ پلان ملاحظہ فرمایئے۔ موٹر گیرج کو فی الحال بیڈ روم کی طرح استعمال کیجیے۔ جب آپ کے پاس کار آ جائے گی اور انشاء اللہ مکان کی برکت سے جلد آئے گی، تب کار یہاں سویا کرے گی۔ ‘
تیسرے پلان کو پیش کرتے ہوئے آرکیٹکٹ نے ہمارے نزدیک آ کر کان میں کہا۔ ’اس پلان میں ایک چور کمرہ ہے۔ گھر اور باہر والوں کی نظروں سے چھپا ہوا روم۔ آپ یہاں کالا روپیہ چھپا سکتے ہیں اور کالے کرتوت کر بھی سکتے ہیں۔ ‘
آخری پلان کی خوبیاں بتاتے ہوئے کہا۔ ’اس پلان میں کچن کے لیے باہر سے دروازہ دیا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ باہر کا سامان اندر اور اندر کا مال اور حال باہر آ سکتا ہے۔ ۔ ۔ ‘آرکیٹکٹ کی تقریر جاری رہی۔ ہمارے لیے ان کے پلان آڑی ترچھی لکیروں کے سوا کچھ نہ تھے۔
ہمیں خاموش دیکھ کر آرکیٹکٹ نے ہم پر اپنی قابلیت اور ادبی ذوق کا رعب ڈالنے کے لیے مکان اور گھر کے فرق کو واضح کرنے لگے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ آرکیٹکٹ مکان بناتے ہیں اور اس میں رہنے والے مکان کو گھر کا روپ دیتے ہیں۔ مزید سمجھاتے ہوئے انھوں نے افتخار عارف کا یہ شعر پڑھا۔
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
آرکیٹکٹ کے مختلف پلان اور افتخار عارف کے شعر نے ہمیں اس قدر الجھا دیا کہ ہم اچھے اور بہت اچھے پلان میں تمیز کا شعور گنوا بیٹھے۔ موصوف نے ہماری مشکل یوں آسان کر دی کہ انھوں نے خود ہمارے لیے ایک پلان پسند فرما دیا۔ پلان پسند کرنے کے بعد انھوں نے ایلی ویشن کے لیے وقت مانگا۔
چند دن آرکیٹکٹ سے دور سکون سے رہنے کے بعد ہم پلان کے ایلی ویشن کے لیے ان کے پاس پہنچے۔ ایلی ویشن در اصل مکان کے ظاہری حسن کی تصویر ہوتی ہے جس سے آرکیٹکٹ اپنے گاہک کو بہلاتے اور پھسلاتے ہیں۔ بعض آرکیٹکٹ تصویر کے ساتھ مکان کا چھوٹا نمونہ ایسے دیتے ہیں جیسے بچوں کو کھلونا دیا جاتا ہے۔ آرکیٹکٹ سے وابستگی کا یہی ایک موقع تھا جب ہم خوش ہوئے۔
کاغذ پر ایک خوش نما مکان کی تصویر تھی۔ سامنے پورٹیکو تھا جس میں ایک شاندار بڑی کار کھڑی تھی۔ پورٹیکو کے دائیں اور بائیں بازو خوب صورت باغ تھا جس میں دو حسین اور جمیل بچے کتے کے ساتھ کھیل رہے تھے اور بچوں کے ممی اور ڈیڈی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ٹہل رہے تھے۔ ان کی پشت نظر آ رہی تھی، چہرے اوجھل تھے۔ دوسری منزل پر بالکونی دلہن کے گھونگھٹ کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ ایک کونے میں ’ہوم سویٹ ہوم‘ کتبہ آویزاں تھا۔ ہو بہو یہ وہی مکان تھا جسے ہم آرکیٹکٹ سے ملنے کے بعد سے ہر روز خواب میں دیکھتے آ رہے تھے۔ ہم نے استفسار کیا۔ ’جناب والا۔ کیا یہ ہمارا مستقبل ہے ؟‘
’بالکل۔ ۔ ۔ یہ آپ ہی کا مکان ہے اور تصویر میں آپ اور بیگم صاحبہ ہیں۔ اب آپ اپنے مکان کا ایک اچھا اور خوب صورت نام ڈھونڈنا شروع کر دیجیے۔ ‘
آرکیٹکٹ نے ہمیں خوش کر دیا لیکن یہ خوشی برقرار نہ رہ سکی۔ آرکیٹکٹ کی فیس کی مزید ایک قسط نے ہمارے چودہ طبق روشن کر دیئے۔ ہماری جیب خالی کروا لینے کے بعد آرکیٹکٹ نے ہمیں اور ہمارے کاغذی مکان کو انجینئر کے حوالے کیا۔ انجینئر نے ہم سے زیادہ گفتگو نہ کی اور چپ چاپ اپنی فیس لے کر کاغذی مکان کو لوہے اور سمنٹ کے مکان میں تبدیل کرنے کا پلان دیا۔ آرکیٹکٹ کے پلان سے کچھ زیادہ ہی یہ پلان ہماری سمجھ میں اس لیے نہ آیا کہ انجینئر کے پلان میں آرکیٹکٹ کے پلان سے زیادہ گنجلک لکیریں تھیں۔
آرکیٹکٹ اور انجینئر سے ’مکان نامے ‘ لے کر ہم ٹھیکے دار کے پاس پہنچے جو ہم سے پیسے لے کر ہماری خواہش، آرکیٹکٹ کی قابلیت اور انجینئر کی مہارت کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں۔ مکان کی اینٹ پر اینٹ رکھنے کی روداد ان مختصر صفحات میں سما نہیں سکتی۔ اس کہانی پر ہم ناول لکھ سکتے ہیں۔ فی الحال اتنا کافی ہے کہ دوران تعمیر ہم آرکیٹکٹ، انجینئر اور ٹھیکے دار کے آگے پیچھے گھومتے رہے۔ تینوں اپنے فن میں یکتا و دانا تھے، اسی لیے وہ ایک دوسرے سے بلکہ ہم سے بھی کبھی متفق نہ ہوتے تھے۔ آرکیٹکٹ کی مرضی کے مطابق جو کام نہ ہوتا وہ اسے ڈھانے کے لیے کہتے۔ انجینئر کو اعتراض ہوتا اور کام رک جاتا تھا۔ بحث و مباحثہ کے بعد دونوں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی اور کام پھر شروع ہوتا۔ دوچار اینٹیں کیا رکھی جاتیں تھیں کہ ٹھیکے دار اڑ جاتے تھے۔
آخر کار بنتے ٹوٹتے اور لڑتے جھگڑتے ہمارا مکان تیار ہوا۔ جو کچھ جمع پونجی تھی وہ آرکیٹکٹ کی فیس کی نذر ہو چکی تھی۔ مکان کی تعمیر میں بیوی کے زیور اور ہمارے وظیفہ کا ایک ضخیم حصّہ بک چکا اور ہمارا روم روم مقروض ہو چکا تھا۔ نئے مکان میں منتقل ہونے سے قبل ہی قرض دار پرانے اور نئے مکانوں کے چکر کاٹنے لگے۔
ہم نے دیکھا تھا کہ نیا مکان تیار ہونے کی خوشی میں دعوت کی جاتی ہے۔ کاریگروں اور مزدوروں کے لیے نئے کپڑے بنتے ہیں اور صاحبِ مکان باجے تاشے کے شور میں نئے مکان منتقل ہوتے ہیں۔ ہم ایسی دعوتوں میں شریک بھی رہے ہیں۔ لیکن ہم اپنے نئے مکان میں قرض اور بہی خواہوں، ہر دو سے چھپتے چھپاتے چوروں کی طرح نئے مکان میں داخل ہوئے اور نظر بند ہو گئے۔
قرض خواہ میدانِ حشر میں بھی دامن چھوڑنے والے نہیں ہیں، وہ بھلا ہمیں آرکیٹکٹ کے بنائے ہوئے مکان میں کہاں چین سے بیٹھنے دیتے !۔ قرض خواہوں نے مکان کی ناکہ بندی کر دی اور رہیے اب ایسی جگہ جہاں کوئی نہ ہو والی صورت پیدا کر دی۔
تنگ آ کر ہم نے مکان کو کرایہ پر اٹھا دیا اور منہ چھپانے کے لیے ایک چھوٹے موضع کو منتقل ہو گئے۔ جب ہم قرضہ ادا کر دیں گے تو پھر اپنے بلکہ آرکیٹکٹ کے بنوائے ہوئے مکان میں آ کر رہیں گے، جس کی مستقبل قریب میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔
مکان بنوانے کی مشکلات کے پیشِ نظر یہ انگریزی کہاوت وجود میں آئی کہ بے وقوف مکان بناتا ہے اور عقل مند اس میں رہتا ہے۔ لیکن ہمارے تجربے نے اس کہاوت میں یوں ترمیم کی ہے۔ ’آرکیٹکٹ بے وقوف سے مکان بنواتا ہے تاکہ عقل مند اس میں رہ سکے۔ ‘
٭ ٭ ٭
ماہنامہ رابطہ، کراچی، ستمبر1989ء
قصّہ تیمار داری کا
شوہر خوش نصیب ہے کہ بیوی اس کی خدمت کرتی ہے۔ کھانا تیار کرنا، چائے بنانا، سر میں تیل ڈالنا، پیر دابنا، کپڑے دھونا اور استری کرنے سے لے کر تیمار داری تک حسنِ خدمت کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس ضمن میں برّصغیر کا شوہر کچھ زیادہ ہی خوش قسمت واقع ہوا ہے۔ برّصغیر میں بیوی، شوہر کی خدمت کو ایک مقدس فریضہ اور اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہے۔ ویسے بعض صورتوں میں یہ ایک ناقابلِ فرار مجبوری ہے۔ دوسرے مقامات پر بیوی شوہر کی خدمت کو کیا سمجھتی ہے اور آیا وہ شوہر کی خدمت کرتی ہے یا صرف حکم چلاتی ہے، اس بات کا مجھے اور نہ ہی میرے دوستوں کو علم ہے اور نہ کوئی تجربہ۔ صرف سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے رائے قائم کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
ایک مشرقی شوہر ہونے کے ناطے میں، بیوی کی خدمت کے عوض بننے والی میری درگت کا حال و احوال آپ کے گوش گزارنا چاہتا ہوں تاکہ بیوی کی حسنِ خدمت کا اندازہ ہو سکے۔ ہوا یوں کہ ایک دن دفتر میں میری ناک گدگدائی، مسلسل چار چھ چھینکیں آئیں، ناک سے کچھ جل بہا، آنکھیں جلنے لگیں اور پھر میرا ما تھا گرم ہوا۔ سر درد، اعضا شکنی اور تھکن پریشان کرنے لگی تو میں چھٹی لے کر گھر پہنچا۔ بے وقت گھر پہنچنے پر بیوی نے استفسار کیا۔ ’آپ اس وقت کیسے آ گئے۔ دشمنوں کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟‘
میں نے جواب دیا۔ ’بیگم، دشمن تو مزے میں ہوں گے۔ اس لیے کہ مجھے نزلہ کی تحریک معلوم ہوتی ہے۔‘
بیوی پریشان ہوتی ہوئیں میرے ماتھے کو چھوا۔ ’خدا خیر کرے۔ آپ کو اچھا خاصا بخار ہے۔ ‘اور پھر سوالات کرنے لگیں۔ ’صبح بھلے چنگے دفتر گئے تھے، یہ موا بخار کب آیا؟ کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ کیسے آیا؟ جاڑا تو نہیں ہے ؟ کیا ناک بہہ رہی ہے ؟ کیا چھینکیں آ رہی ہیں ؟ کیا کھانسی ہے ؟ کیا بدن درد کر رہا ہے ؟ اجابت تو صاف آئی تھی؟کینٹین سے الم غلم چیزیں تو نہیں کھائیں ؟ کیا دفتر میں کوئی فلو سے متاثر تھا؟ کیا ڈاکٹر کو دکھایا؟‘
ڈھیر سارے سوالوں کے جواب میں، میں نے بیوی کو سمجھایا۔ ’ آپ پریشان نہ ہوں۔ معمولی نزلہ بخار ہے، جیسے آیا ہے ویسے ہی چلا جائے گا۔ ‘
بیوی نے کہا۔ ’پریشان تو خیر میں ہوں نہیں ! بیماری انسان ہی کو آتی ہے۔ میرے خیال میں آپ ٹھنڈے پانی سے نہانا بند کر دیں۔ نہانے کے بعد دفتر جانے کی جلدی میں سرنہیں پونچھتے۔ لگتا ہے سردی جم گئی ہے اور یہ روز روز کا نہانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ‘
میں بحث کے موقف میں نہ تھا۔ ’ٹھیک ہے، اب سے میں مہینہ میں ایک بار گرم پانی سے نہایا کروں گا۔ گھر میں اسپرن ہو تو دیجیے۔ ‘
جواب ملا۔ ’ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ہی دوائیں استعمال کیجیے گا۔ ‘
میری بیماری کے پیش نظر بیوی نے گھر میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا۔ مجھے پلنگ پر لٹا دیا اور کمبل پر کمبل اوڑھا دیا۔ ٹیلی ویژن بند کر دیا اور بتیاں بجھا دیں تاکہ آرام میں خلل نہ پڑے۔ بچوں کو شور نہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے بڑی بیٹی کو سر دبانے اور بیٹے کو پیر دبانے پر معمور کر دیا۔ نوکر کو بازار دوڑایا کہ پرہیزی غذائیں لے آئے۔ بھائی کو ڈاکٹر کے پاس اپائنٹمنٹ کے لیے بھیجا۔ اور خود یہ کہتے ہوئے کچن کا رخ کیا کہ ’دودھ میں ہلدی جوش دے کر لاتی ہوں۔ ہلدی اور گرم دودھ سردی کا توڑ ہے۔ سونے سے قبل ابلا ہوا انڈا اور کالی مرچ بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ ‘
بیوی یوں گئیں اور یوں گرم دودھ اور ہلدی کا گلاس لے آئیں اور پینے کے لیے اصرار کرنے لگیں۔ عجیب سے زرد سیال کو پینے کے لیے طبیعت مائل نہ تھی لیکن بیوی کے اصرار پر کہ یہ نسخہ ان کا خاندانی ہے اور یہ کہ ان کی پردادی اور دادی کا آزمودہ ہے، آنکھ اور ناک بند کر کے پینا پڑا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ منہ کا اپنا کوئی مزا نہ تھا۔ منہ میں بخار کا مزا رچا بسا تھا۔ کوئی شے بھاتی نہ تھی۔
کچھ دیر کے لیے بیوی غائب رہیں اور پھر ایک پیالہ اٹھائے سر پر آن کھڑی ہوئیں۔ ’اٹھیے بادام کا حریرہ پی لیجیے۔ ‘
’ابھی دودھ پیا ہے۔ بھوک نہیں ہے۔ مجھ سے حریرہ نہ پیا جائے گا۔ ‘ میں نے اپنا منہ دوسرے جانب پھیر لیا۔
بیوی دوسری جانب آ کر سمجھانے لگیں۔ ’آج کل گوالے دودھ میں پانی زیادہ ملاتے ہیں۔ دودھ میں پانی زیادہ تھا۔ حریرے میں بھی پانی ہی ہے۔ سمجھیے پانی پی رہے ہیں۔ ‘ اور پیار سے لبھاتے ہوئے حریرے کا پیالہ منہ سے لگا دیا۔ دوچار گھونٹ لے کر میں نے پھر منہ دوسری جانب کر لیا۔ بیوی غصّہ سے پیر پٹکتی چلی گئیں۔ میں آنکھیں بند کئے لیٹا رہا۔
چند منٹ گذرے ہوں گے کہ بیوی ایک دوسرا پیالہ لیے آ گئیں۔ میں نے جھنجھلاتے ہوئے پوچھا۔ ’اب کیا ہے ؟‘
’گوشت کا شوربہ۔ پی لیجیے تو ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ ‘بیوی نے جواب دیا۔
میں نے شوربہ پینے سے انکار کیا تو بیوی نے کہا۔ ’بچوں کی سی ضد نہ کیجیے۔ خالی پیٹ بیماری سے مقابلہ کیسے ہو گا۔ اور ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔ معدہ اور جیب میں کچھ تو ہونا چاہیے۔ ضرورت اور بلا ضرورت ڈاکٹر سوئی بھی لگا دیتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ چکر آ جائے۔ ‘
میں نے بیوی کو سمجھایا۔ ’آپ بے فکر رہیں۔ مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ زندگی بھر تو کھاتا پیتا رہا ہوں۔ ایک دن نہ کھانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ‘
بیوی نے بھی مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’صحت میں بھوکا رہنے سے فائدہ ہوتا ہے لیکن بیماری میں خالی پیٹ بالکل نہیں رہنا چاہیے۔ اٹھیے اور جلدی سے شوربہ پی لیجیے۔ ‘
’نہیں کبھی نہیں۔ ‘ میں نے ضد کی۔
’میری خاطر بھی نہیں !‘ بیوی نے کچھ اس طرح کہا کہ مجھے تریا ہٹ کے آگے نرم پڑنا پڑا۔ ’لیکن صرف آدھا پیالہ۔ ‘
’۔ ۔ ۔ اور آدھا پیالہ بچوں کی خاطر، پلیز۔ ‘ بیوی نے گزارش کی۔
بیوی سے پیچھا چھڑانے کے لیے شوربے کو حلق میں انڈیلنا پڑا۔
شوربہ پلانے کے بعد ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے بیوی تیاری کرنے لگیں۔ مجھے بنین در بنین پہنایا۔ تین بنیان پر شرٹ، کوٹ اور پھر اوور کوٹ چڑھایا۔ پیروں میں دبیز اونی موزے پہنائے۔ ہاتھوں پر دستانے چڑھائے۔ چہرے کو بندر ٹوپی یعنی monkey capمیں چھپایا۔ سر پر مفلر اور رو مال باندھا۔ اس ہیئت میں میری صرف دو آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں اور یہی اب میرا دنیا سے رابطہ تھا۔ اس پر بھی بیوی نے کالا چشمہ چڑھا دیا۔
اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھ کر میں نے بیوی سے کہا۔ ’آکسیجن سیلنڈر ساتھ دے دو تو میں چاند کی سیر کر آؤں !‘
بیوی نے ڈانٹا۔ ’فضول باتیں نہ کیجیے، بد شگونی ہوتی ہے۔ میں نے گرم کپڑے اس لیے پہنائے ہیں کہ بخار میں سردی اگر لگ جائے تو نمونیا ہو جاتا ہے۔ ‘
’کیا آپ نے ڈاکٹری پڑھی ہے ؟‘ میں نے سوال کیا۔
’معمولی باتوں کے لیے ڈاکٹر بننا ضروری نہیں ہے۔ اتنی معلومات تو ایک دوسرے سے گفتگو کے دوران حاصل ہو جاتی ہیں۔ اب باتیں بند کیجیے اور ڈاکٹر کے پاس چلیے۔ ‘ یہ کہہ کر بیوی میرا بازو پکڑ کر اٹھانے لگیں۔
چند گھنٹوں کے بخار نے مجھے اتنا بھی کم زور نہ کر دیا تھا کہ بیوی کے اٹھانے سے میں اٹھ جاتا۔ دو تین مرتبہ زور لگانے کے بعد بیوی نے تھک ہار کر کہا۔ ’میں کسی کو بلاتی ہوں۔ ‘
’چار افراد چاہیے۔ اس وقت گھر میں صرف دو ہیں۔ ‘ کہہ کر میں اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے پیروں پر چلنے لگا۔
بیوی نے قہر آلود نگاہوں سے مجھے گھورا اور میرا بازو تھام کر چلنے میں مدد کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ میں نے شرارتاً اپنا بوجھ ان پر ڈالا اور وہ لڑکھڑانے لگیں لیکن مجھے نہ چھوڑا۔ گھبرا کر پوچھا۔ ’کیا چکر آ رہی ہے ؟‘
میں نے جواب دیا۔ ’ہاں، عرصہ بعد آپ اتنا قریب جو آئیں ہیں۔ ‘
بیوی نے انتباہ دیا۔ ’بیماری میں بد پرہیزی ٹھیک نہیں ہوتی!‘
ہم دوا خانہ پہنچے۔ میں اطمینان سے آنکھیں بند کیے کپڑوں میں محصور اپنی باری کا انتظار کرتا رہا جبکہ بیوی پہلو بدل بدل کر بے چینی سے کبھی ڈاکٹر کے کمرے میں جھانک آتیں تو کبھی نرس سے جلدی کے لیے کہتیں۔ آخر میری باری آئی اور ڈاکٹر کا دیدار نصیب ہوا۔ فیملی ڈاکٹر نے بیوی سے سوال کیا۔ ’کہیے مزاج کیسے ہیں۔ اس گٹھڑی میں کیا ہے ؟‘
بیوی ناراض ہو کر کہنے لگیں۔ ’گٹھڑی میں ! کیا مطلب۔ یہ میرے شوہر ہیں۔ ‘
میں اپنے خول سے باہر آنے لگا تو مجھے دیکھ کر ڈاکٹر ’معاف کیجیے ‘ کہہ کر ہنسنے لگے۔ ’میں اتنے کپڑوں میں انھیں پہچان نہ سکا۔ ‘
میں اپنی بپتا شروع کرنے سے پہلے ہی بیوی ڈاکٹر سے کہنے لگیں۔ ’شام سے تیز بخار ہے۔ ماتھے کو چھوئیں تو ہاتھ جلتا ہے۔ سر درد سے پھٹ جا رہا ہے۔ سردی ہو رہی ہے۔ تین چار لحاف اوڑھا کر رکھنا پڑ رہ ہے۔ ہاتھ پیر بہت درد کر رہے ہیں۔ ناک سے پانی نل کی طرح بہہ رہا ہے۔ گلے میں خراش ہے۔ نگلنے میں تکلیف ہے۔ نیند کوسوں دور ہے۔ آنکھیں جلتی اور گدگداتی ہیں۔ کان بند لگتے ہیں۔ سنائی کم دے رہا ہے۔ دوسروں کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی ہیں۔ کھانسی ابھی شروع نہیں ہوئی لیکن چھینکیں بہت آ رہی ہیں۔ بہت کم زور ہو گئے ہیں۔ آنکھیں بند کیے پڑے رہتے ہیں۔ خود سے اٹھا اور چلا نہیں جا رہا ہے۔ بھوک بالکل نہیں ہے۔ کچھ کھا پی نہیں رہے ہیں۔ دودھ تک پینے سے انکار کر رہے ہیں۔ بچوں کا سا غصّہ اور ضد کر رہے ہیں۔ آپ انھیں سمجھایئے۔ اگر غذا استعمال نہ کریں تو مزید کم زور ہو جائیں گے۔ ۔ ۔ ‘
بیوی سانس لینے کے لیے رکیں تو ڈاکٹر نے میری جانب دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں۔ ’تمھیں کچھ کہنا ہے ؟‘
میں نے بھی آنکھوں سے کہا۔ ’میری تکالیف کچھ زیادہ ہی بیان کر دی گئی ہیں۔ مجھے ان میں کوئی اضافہ نہیں، بلکہ کمی کرنا ہے۔ ‘
بیوی کو مزید کچھ کہنے کا موقع دئیے بغیر ڈاکٹر نے میرا طبی معائنہ شروع کیا اور کچھ ہی دیر میں مکمل بھی کر لیا تو بیوی استفسار کرنے لگیں۔ ’آپ نے ٹھیک طرح سے معائنہ کیا ہے ناں، کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ہے۔ کیا ملیریا ہے ؟ جاڑا تو نہیں ہوا۔ میرے خیال میں ملیریا نہیں ہے۔ کوئی ایسا ویسا فلو تو نہیں ہے ؟ کیا یہ تعدادی بخار ہے ؟‘
ڈاکٹر نے جواب دیا۔ ’جی نہیں۔ یہ معمولی بخار ہے۔ سردی زکام کا بخار۔ ‘
بیوی مطمئن نہ ہوئیں۔ ’کیا قارورہ اور خون کی جانچ کروا لیں ؟‘
’کس لیے ؟‘ڈاکٹر نے الٹا سوال کیا۔
بیوی خاموش رہیں تو ڈاکٹر نے سمجھایا۔ ’آپ بلا وجہ پریشان نہ ہوں۔ دو ایک دن میں یہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔ ‘
’غذا میں کیا دوں ؟‘ بیوی نے دریافت کیا۔
’سب کچھ۔ ‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’چاول بھی!‘ بیوی نے سوال کیا۔
’جی۔ مریض پوچھے تو چاول بھی دے سکتی ہیں۔ ‘ ڈاکٹر کا جواب تھا۔
’سالن کے ساتھ۔ ‘ بیوی نے استفسار کیا۔
’ہاں۔ ‘ ڈاکٹر نے مختصر جواب دیا۔
’لیمو دے سکتے ہیں۔ ‘ بیوی نے پھر سوال کیا۔
’لیمو بھی دیجیے۔ ‘ ڈاکٹر نے بے زار ہوتے ہوئے جواب دیا۔
’مرچ نمک بھی دیا جا سکتا ہے۔ ‘ بیوی نے حیرت سے پوچھا۔
’جی سب کچھ دیجیے۔ ‘ ڈاکٹر نے کہا۔ ’ کوئی پرہیز نہیں ہے۔ ‘
’لیکن۔ ۔ ۔ ‘
بیوی اپنا جملہ مکمل کر نہ پوئیں تھیں کہ ڈاکٹر نے کہا۔ ’لیکن مت دیجیے۔ بدہضمی ہوتی ہے۔ ‘
ڈاکٹر کے طنز کو نظرانداز کرتے ہوئے بیوی نے پھر سوال کیا۔ ’پرہیز نہ کرنے سے اگر طبیعت بگڑ گئی تو کیا کروں۔ ‘
’کسی وقت بھی مجھے یاد کیجیے۔ میں چلا آؤں گا۔ ‘ڈاکٹر نے جواب دیا اور دوسرے مریض کی جانب متوجہ ہو گئے۔
بیوی نے واپسی کے لیے میری ری پیکنگ کی اور مجھے ہوا سے بچاتے ہوئے گھر لائیں۔ راستے میں، میرے معدے میں ہلدی، دودھ اور شوربے کے درمیان فساد شروع ہوا۔ مجھے سواری سے سیدھے باتھ روم جانا پڑا۔ آدھے گھنٹے کے دوران تین اجابتیں آئیں اور ایک قے ہوئی۔ بیوی پریشان ہوئیں۔ پڑوسن سے مشورہ کیا۔ دونوں نے سر جوڑ کر میری نئی شکایت کی تشخیص کی کہ مجھے ’نظر لگی ہے۔ ‘ راستے اور دفتر میں معلوم نہیں کیسی کیسی نظروں سے پالا پڑتا ہے۔ مجھے لگی نظر کو اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میں انھیں سمجھاتا رہ گیا کہ مجھے کیا نظر لگے گی۔ میری نظر تو خود ہر دم اِدھر اُدھر لگی رہتی ہے۔ بیوی نے قطعاً نہیں مانا۔ کالی مرغی، بھلاویں اور کالی مرچ سے میری نظر ایسے اتاری گئی جیسے فلموں میں ہیرو کی آرتی اتاری جاتی ہے۔
غذا کے نام پر ایک پیالہ دودھ میں بھیگا ہوا ڈبل روٹی کا گودا، دو بسکٹ اور ایک گلاس سیب کا عرق سامنے آیا۔ چائے کی عادت کے بعد سے دودھ اچھا نہیں لگتا اور پھر ڈبل روٹی کا گودا، بسکٹ اور عرق۔ معلوم نہیں بیماری کے دوران کیوں انگریزی کھانے زہر مار کرائے جاتے ہیں۔ کس حکیم نے اس قسم کے پرہیز کی سفارش کی ہے۔ بات یہ بھی نہیں ہے کہ انگریز یہ کھانے کھا کر بیمار نہیں پڑتے۔ انہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ سدا خون کی کمی اور سفید خون کے عارضہ میں مبتلا ہیں۔ میں نے پلیٹ کو واپس کرتے ہوئے فرمائش کی۔ ’مجھے تھوڑا چاول، لہسن کی چٹنی اور ایک کباب دیجیے۔ ‘
بیوی نے آنکھیں دکھائیں۔ ’بخار میں گوشت کھائیں گے۔ آپ کا دماغ تو نہیں خراب ہوا ہے ؟‘
’لیکن ڈاکٹر نے سب کھانے کی اجازت دی ہے۔ ‘ میں نے استدال پیش کیا۔
’ ڈاکٹر یوں ہی کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بھگتنا مریض کو پڑتا ہے۔ ‘ پھر مجھے بہلانے لگیں۔ ’بخار کم ہونے دیجیے۔ میں مرغِ مسلم، دم کا گوشت، کڑھائی گوشت، مچھلی فرائی، بریانی، آپ جو چاہیں گے، بنا کر کھلاؤں گی۔ فی الحال آپ یہ کھالیں۔ ‘
میں خیالی پلاؤ تناول کرتے ہوئے بسکٹ اور روٹی کے گودے کو سیب کے عرق کے ساتھ حلق سے اتارا۔ چند لمحوں میں مجھے نیند آ گئی اور میں سو گیا۔
طبیعت ناساز ہو تو نیند بھی برابر کہاں آتی ہے۔ جلد ہی میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلنے پر میں نے کمرے کا منظر بدلا ہوا پایا۔ میرے سرہانے ڈاکٹر تشریف فرما تھے اور میرے سر پر ٹھنڈے پانی میں تر توال تھی۔ لحاف ایک کونے میں پڑا تھا۔ چھوٹا بھائی غور سے تھرمامیٹر پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بچے اور دوسرے رشتہ دار دیوار سے ٹیک لگائے فکرمند اور پریشان کھڑے تھے۔ مزید چند رشتہ دار دروازے اور کھڑکی میں سے جھانکتے بھی نظر آئے۔ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا۔ ’کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب ؟ آپ کب آئے ؟‘
جواب ملا۔ ’کوئی خاص بات نہیں ہے۔ بخار کچھ بڑھ گیا تھا۔ آپ کی بیگم نے گھبرا کر مجھے بلا لیا۔ اچھا کیا۔ میں نے انجکشن لگا دیا ہے۔ اب بخار کم ہے۔ آپ آرام کیجیے۔ میں چلتا ہوں۔ ‘ ڈاکٹر نے کچھ ہدایتیں بیوی کو دیں اور اپنا بیگ سنبھالے باہر چلے گئے۔
ڈاکٹر کے پیچھے ایک کے بعد ایک سبھی ایسے باہر جانے لگے جیسے تماشہ ختم ہونے کے بعد مداری کے ساتھ تماشہ بین بھی اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ میں اور بیوی تنہا رہ گئے۔ بیوی کی آنکھیں چغلی کھا رہی تھیں کہ وہ خوب روئیں ہیں۔ بیوی قریب آئیں اور دریافت کیا۔ ’اب طبیعت کیسی ہے ؟‘
’میں ٹھیک ہوں۔ لیکن مجھے بتاؤ تو سہی ہوا کیا تھا۔ یہ سب ہنگامہ کیوں ہوا اور آپ روئیں کیوں ؟‘
’نیند لگنے کے بعد آپ کا بخار بہت بڑھ گیا تھا اور آپ بڑبڑانے لگے تھے۔ ‘ بیوی نے بتایا۔
’میں بڑبڑانے لگا تھا!‘ مجھے تجسّس ہوا کہ میں نے کیا بڑ ہانکی ہے۔ اصرار کرنے پر بیوی نے بتایا۔ ’آپ بار بار میرا نام لے رہے تھے۔ ‘ بیوی کی آنکھیں بھر آئیں۔
میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میری زبان پر کوئی اور نام نہ آیا۔ ریکھا یا نیلی کا نام بھی آ سکتا تھا۔ میں نے بیوی سے کہا۔ ’نیند اور حالتِ بیماری میں بھی آپ مجھ سے کتنی قریب ہیں۔ آپ کوتو خوش ہونا چاہیے لیکن آپ روئیں کیوں ؟‘
بیوی کے آنسو جو تھم رہے تھے بہہ نکلے۔ ’آپ نے میرا نام لے کر کہا کہ میرے بعد تمہارا اور بچوں کا کیا ہو گا!‘ بیوی پھر رونے لگیں۔
میں نے بیوی کو سمجھایا۔ ’ایسے پریشان ہو کر رویا نہیں کرتے۔ انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ آج نہ سہی ایک نہ ایک دن تو ایسا ہو گا۔ ‘
بیوی میرا منہ بند کرتے ہوئے کہا۔ ’خدارا ایسی باتیں نہ کیجیے۔ آپ بہت صحیح بڑ بڑا رہے تھے کہ آپ کے بغیر ہمارا کیا ہو گا؟ میں اس تصور سے بھی لرز جاتی ہوں۔ ہم جو بھی ہیں آپ کی بدولت ہیں۔ میری خوشی، میری زندگی، میرا سنگھار، اور میرا سب کچھ آپ کے دم سے ہے۔ آپ نہیں تو میں بھی نہیں۔ آپ سلامت رہیں۔ میری عمر بھی آپ کو لگ جائے۔ آپ ایسی باتیں بھی نہ کیجیے۔ میری خواہش ہے کہ میں آپ کے سامنے چلی جاؤں۔ ‘
پہلی مرتبہ مجھے مجازی خدا کے معنی معلوم ہوئے اور مجازی خدا ہونے کا احساس بھی ہوا۔ میں ممنونیت کے ساتھ بنتِ حوا کی جانب دیکھا اور اس کی عظمت کو سلام کیا۔
بیوی نے میرے ماتھے کو چھوکر بخار کا اندازہ کیا اور تھرمامیٹر منہ میں رکھ دیا کہ میں ہوش وحواس میں رہ کر نہ بڑبڑاؤں۔ دو منٹ بعد بیوی نے تھرمامیٹر نکال کر دیکھا۔ بخار اب بھی زیادہ تھا۔ میرے سر پر بھیگی توال کو بدلا اور پینے کے لیے پانی دیا۔
مجھے ڈاکٹر اور رشتہ داروں کی موجودگی کی وجہ سمجھ میں آئی۔ بچوں اور احباب سے بات کر کے میں نے ان کی پریشانی دور کی۔ بیوی سے کہا کہ آدھی سے زائد رات بیت چکی ہے، آرام کر لیں۔ لیکن وہ نہ مانیں اور بقیہ رات سرہانے بیٹھی توال بھگو کر سر پر رکھتی رہیں۔ ماتھے کو چھوکر بخار دیکھتی رہیں۔ ہر پندرہ بیس منٹ سے پانی، حریرہ یا شوربہ پلاتی رہیں۔ اور ہاں ہر گھنٹہ بعد مصلی بچھائے دونوں ہاتھ اٹھائے میری صحت کے لیے دعا بھی کرتی رہیں۔
صبح ہوئی تو بیوی نے ڈاکٹر کا پیچھا شروع کیا۔ ڈاکٹر آنکھیں ملتے مجھے دیکھنے آئے۔ معائنہ کیا اور کیفیت پوچھی۔ میں نے جواب دیا۔ ’پہلے سے بہت بہتر ہے۔ لیکن رات نیند نہیں آئی۔ ‘
ڈاکٹر نے بتایا۔ ’آپ اکیلے ہی نہیں دوسرے لوگ بھی تمام رات نہ سوسکے۔ ‘
اس دوران بیوی آ گئیں اور ڈاکٹر سے میری صحت کے تعلق سے مختلف سوالات کرنے اور مشورے دینے لگیں۔ ’بخار اب تک کم کیوں نہیں ہوا؟ کیا اسپیشلسٹ کی رائے لی جائے ؟ دوائیں اپنا اثر کیوں نہیں دکھا رہی ہیں ؟ شاید نقلی دوائیں ہیں۔ سر پر بھیگی توال رکھنے سے سر میں سردی تو نہیں جم جائے گی۔ کچھ کھا نہیں رہے ہیں۔ بھوک لگنے کے لیے دوا دیجیے۔ ۔ ۔ ۔ ‘
ڈاکٹر جمائیاں لیتے ہوئے بیوی کی باتوں کو نظرانداز کر گئے اور جب انھیں بولنے کا موقع ملا تو کہا۔ ’مریض کی حالت سنبھل چکی ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ آپ بہت تھک گئی ہیں۔ میں ایک گولی دیتا ہوں۔ آپ کی تھکن دور کرنے کے لیے۔ اس سے آپ چاق و چوبند ہو کر مریض کا خیال رکھ سکیں گی۔ ‘
ڈاکٹر نے اپنی نگرانی میں بیوی کو گولی کھلائی اور ان سے ہمیں چائے پلانے کی فرمائش کی۔ بیوی چائے بنانے گئیں تو ڈاکٹر نے مجھ سے کہا۔ ’ میں نے بیگم صاحبہ کو نیند کی گولی دی ہے۔ وہ سوجائیں تو آپ بھی آرام کر لینا اور مجھے بھی سکون ملے گا۔ ‘
بیوی ڈاکٹر کو چائے اور مجھے دودھ ہی پلائیں کہ ابھی میں چائے پینے کے قابل نہیں ہوا۔ ڈاکٹر کو وداع کرنے کے بعد بیوی نے کہا۔ ’جمائیاں آ رہی ہیں۔ میں کچھ دیر لیٹ کر اٹھتی ہوں۔ ‘
ڈاکٹر کی گولی کا اثر شروع ہو چکا تھا۔ بیوی سو گئیں اور مجھے بھی نیند آ گئی۔ چھ گھنٹے سے زائد نیند پوری کرنے کے بعد بیوی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھیں۔ گھڑی میں وقت دیکھا اور حیرت کا اظہار کیا۔ ’میں اتنی دیر کیسے سوگئی؟ شاید ڈاکٹر نے غلطی سے طاقت کی گولی کے بجائے نیند کی گولی دے دی تھی۔ ‘
’شاید۔ ‘ کہہ کر میں نے ڈاکٹر کی صحیح تشخیص اور علاج کو بیوی سے چھپایا۔
بیوی نے تھرمامیٹر سے میرا جسمانی درجہ حرارت معلوم کیا۔ خوش ہوئیں کہ بخار اتر چکا ہے۔ میں نے اس خوشی میں بیوی سے کہا۔ ’زور کی بھوک لگی ہے۔ مرغِ مسلم کھلانے کا آپ اپنا وعدہ پورا کیجیے۔ ‘
بیوی خوش ہوئیں اور کہا۔ ’بھوک صحت کی علامت ہے۔ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ ‘اور دوڑ کر کچن سے دودھ، ڈبل روٹی اور میوہ اٹھا لائیں۔ میں بلبلا کر رہ گیا۔ یوں ہی مزید دو دن مجھے بیوی کی نگرانی میں زبردستی بستر پر آرام کرنا اور پرہیزی غذا استعمال کرنی پڑی۔
ڈاکٹر کی ڈاکٹری چلی اور نہ ہی میرا غصّہ اور روٹھنا کام آیا۔
٭ ٭ ٭
ماہنامہ چہارسو، راولپنڈی، ستمبر اکٹوبر 1994ء
مام ما
مساوات کا دور دورہ ہے۔ مرد و زن مل کر گھر کا کام کاج کرتے ہیں۔ شوہر برتن مانجھتا ہے تو بیوی کھانا بناتی ہے۔ بیوی بچوں کو پڑھاتی ہے تو شوہر گھر میں جھاڑ پونچھ کرتا ہے۔ شوہر بچے کو گود میں اٹھائے ٹہلتا ہے تو بیوی لوری گاتی ہے۔ اور شوہر دفتر جاتا ہے تو بیوی بچوں کے ساتھ اسکول جاتی ہے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا کر جینے کے اس دور میں ہمارے جیسے چند اڑیل مرد ایسے بھی ہیں جو امور خانہ داری کو صرف عورتوں کا فرض گردانتے ہیں۔
ہمارے نزدیک گھر کی صفائی کرنا، کھانا بنانا، برتن دھونا، جھاڑو لگانا اور بچوں کو پالنا اور سنبھالناخالص زنانی کام ہیں۔ انھیں ہر صورت اور ہر حال میں ہماری نصف بہتر ہی کو انجام دینا چاہیے۔ اسی لیے تو انھیں ’نصف بہتر‘ اور ہمیں ’نصف بدتر‘ کہا جاتا ہے۔ ہم گھر کو کباڑ خانہ کہہ سکتے ہیں لیکن صفائی نہیں کر سکتے۔ اپنی بھوک سے زیادہ کھاسکتے ہیں لیکن کھانا تو کجا چائے تک نہیں بنا سکتے۔ ہم بچوں کو ڈانٹ اور مارسکتے ہیں لیکن انہیں بہلا نہیں سکتے۔ بیوی پر حکم چلا سکتے ہیں لیکن ان کی بات نہیں مان سکتے !
گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لیے ہماری بیوی نے ہم پر کئی حربے آزمائے۔ ہر حربہ ناکام رہا۔ ہم نے صدقِ دل سے چاہا کہ کبھی کبھار ہی سہی بیوی کی مدد کریں لیکن ناکام رہے۔ ترکاری بنا کر مدد کرنا چاہا تو اپنا ہاتھ کاٹ لیا۔ برتن دھونے کی کوشش میں برتن پھوڑ ڈالے۔ جھاڑ پونچھ لگانی چاہی تو گل دان چکنا چور کر دیا اب کل ہی کے واقعہ کی روداد سن لیجیے، جس کے سبب ہماری بیوی روٹھ کر میکے جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔
سہ پہر دفتر سے گھر پہنچے تو بیوی نے اطلاع دی۔ ’میں بزمِ خواتین کی میٹنگ میں جا رہی ہوں۔ تین چار گھنٹے بعد آؤں گی۔ تب تک آپ منے میاں کو سنبھالے گھر پر رہیے۔ ‘
’ یہ حکم ہے یا التجا۔ ‘ہم نے سوال کیا۔
’دونوں۔ ‘ بیوی نے ہوشیاری سے جواب دیا۔
’کیا آپ کا جانا ضروری ہے ؟‘ ہم نے دوسرا سوال کیا۔
جواب ملا۔ ’ہاں، آج ایک اہم مذاکرہ بہ عنوان شوہر کو گھریلو کام کی جانب کیسے راغب کریں، منعقد ہو رہا ہے۔ ‘
ہم نے مشورہ دیا۔ ’آپ اطمینان سے ’گھر بیٹھیں ‘۔ ہم آپ کو اس فن کے ایک سو ایک طریقے بتاتے ہیں۔ ‘
ہماری تجویز رد کر دی گئی۔ ’آپ اپنے مشورے اپنے پاس رکھیے۔ براہ کرم منے میاں کا خیال رکھیئے۔ میری قسم اسے ڈانٹا یا اس پر ہاتھ اٹھایا۔ ‘بیوی ہمیں ہدایات دینے لگیں کہ پھالی کب اور کیسے بدلی جائے۔ دودھ کیسے بنایا اور کب پلایا جائے۔ منے میاں کو کب اور کیسے سلایا جائے۔ منے میاں کی مختلف آوازوں اور اشاروں کے مطالب سمجھائے اور ہم سے پوچھا۔ ’کوئی سوال؟‘
’سوال نہیں، گذارش ہے۔ بچوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ آپ نہ جائیں تو اچھا ہے۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔
بیوی نے کہا۔ ’اگر آپ اپنی ذمہ داری پہلے سے نبھائے ہوتے تو آج یہ کام مشکل نظر نہ آتا۔ خیر کوئی بات نہیں، آج بلکہ ابھی سے آپ شروع ہو جائیے۔ ‘
منے میاں، فی الوقت ہماری اکلوتی سنتان ہیں۔ موصوف کی پہلی سال گرہ چند ہفتے قبل منائی گئی۔ ماشاء اللہ اپنے پیروں پر نہ صرف کھڑے ہو گئے ہیں بلکہ دوڑنے بھی لگے ہیں۔ اپنی زبان میں گفتگو بھی کرتے ہیں جسے سوائے ان کی والدہ کے کوئی دوسرا نہیں سمجھتا۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی بھی کرنے لگے ہیں۔
ہمارے نزدیک منے میاں ایک عام سا بچہ ہے لیکن اپنی ماں کے لیے منے میاں دنیا کا آٹھواں نہیں پہلا عجوبہ ہیں۔ ان کے خیال میں منے میاں نے کم عمری میں چلنا سیکھا ہے جبکہ ان کی عمر کے دوسرے بچے ابھی رینگ رہے ہیں۔ منے میاں نے باتیں کرنا بھی جلد شروع کر دی ہیں جبکہ ان کے ساتھ کے بچے ابھی غوں غاں ہی کر رہے ہیں۔ بقول ہماری بیوی، منے میاں اپنی عمر بلکہ ہم سے زیادہ ہوشیار، چالاک اور سمجھ دار ہیں۔ ان کی پیشن گوئی ہے کہ منے میاں بڑے ہو کر ہمارا نام روشن کریں گے اور دنیا والوں سے اپنی قابلیت کا لوہا منوائیں گے۔ منے میاں کی ماں کا ارمان ہے کہ ان کے لیے وہ چاند سی دلہن لے آئیں اور ان کی شادی دھوم دھام سے کریں !
منے میاں کی ڈھیر ساری تعریف و توصیف کا کچھ کریڈٹ یہ کہہ کر ہمیں بھی دیا جاتا ہے کہ ’بیٹا اپنے باپ سے دو ہاتھ آگے ہے۔ ‘
منے میاں کے سامنے کھلونے اور ہمیں ڈال کر ہماری بیوی جانے کی تیاری کرنے لگیں۔ منے میاں ایک کھلونا اٹھاتے، اسے غور سے دیکھتے، اِدھر اُدھر سے کھینچتے، زمین پر پٹکتے اور پھر دوسرے کھلونے کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ منے میاں کے برخلاف ہم کھلونوں کو دلچسپی اور تجسس سے دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنے بچپن میں ایسے شاندار کھلونے میسّر نہ تھے جو آج کی نسل کو دستیاب ہیں۔ ہم اپنی اس وقت کی محرومی دور کرنے کے لیے کھلونوں سے کھیلنے لگے۔ ہمیں کھلونوں سے محظوظ ہوتا دیکھ کر بیوی نے کہا۔ ’باپ بیٹا مل کر کھیلتے ہوئے اچھا لگ رہا ہے۔ ‘
ہم نے بیوی کو دعوت دی۔ ’آپ بھی شامل ہو جایئے، مزا آئے گا۔ ‘
بیوی نے ہماری دعوت کو رد کرتے ہوئے کہا۔ ’آپ منے میاں کو یوں ہی کھلونوں میں الجھائے رکھیے۔ میں پچھلے دروازے سے جا رہی ہوں۔ خدا حافظ۔ ‘
منے میاں کو ہمیں سونپ کر بیوی بزمِ خواتین کی میٹنگ میں چلی گئیں۔ منے میاں کا دل کھلونوں سے جلد بھر گیا۔ کھلونوں کو چھوڑ کر منے میاں کی نظر اپنی ماں کو تلاش کرنے لگی۔ ماں دکھائی نہ دی تو منے میاں نے ’مام ما‘ کی آواز نکال کر ہم سے دریافت کیا کہ ان کی ماں کہاں ہے۔
ہم نے منے میاں سے کہا۔ ’بیٹا ہم ہیں نا، اب تم ماں کو بھول جاؤ۔ ‘
لیکن منے میاں ’مام ما‘ کی گردان کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی ماں کی تلاش میں نکل پڑے۔ ہم بھی ان کے پیچھے ہولیے۔ منے میاں نے کچن کا رخ کیا۔ مایوس ہوئے۔ پھر بیڈروم اور ڈرائنگ روم میں اپنی ماں کو ڈھونڈا۔ ناکام ہوئے اور ڈبڈبائی آنکھوں سے ہمیں دیکھا۔ ہم نے انھیں سمجھایا۔ ’ ممی تمہارے لیے چاکلیٹ لانے بازار گئی ہیں۔ اب آتی ہی ہوں گی۔ آؤ ہم تم کھلونوں سے کھیلیں۔ ‘
منے میاں مچل گئے اور باقاعدہ رونے لگے۔ ہم نے انھیں بہلانے کے لیے کار دی۔ منے میاں نے کار ہاتھ میں لی اور ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر پھینک ماری۔ شیشہ ٹوٹ گیا۔ شیشہ کا نقصان برداشت کرتے ہوئے ہم نے باجہ بجانے والا بندر منے میاں کے ہاتھوں میں تھمایا۔ اس مرتبہ منے میاں نے ہمارے سر کا نشانہ لیا۔ وہ تو خیر گذری کہ ہم بچ گئے۔ ہم نے بیوی کو پکارا۔ یہ ہماری عادت تھی۔ جب بھی منے میاں شرارت کرتے تو ہم منے میاں کی ماں کو بلا کر کہتے۔ ’اس الّو کے پٹھے کو ذرا تمیز سکھائیں۔ ‘
بعض مرتبہ منے میاں کو چپت بھی رسید کر دیتے تھے۔ بیوی منے میاں کو پرے ہٹاتے ہوئے ہمیں ڈانٹتیں۔ ’بچوں پر بھلا کوئی ہاتھ اٹھاتا ہے۔ بچوں کو پالنے کے لیے صبر چاہیے۔ ہمیں دیکھیے۔ صبح سے شام تک خاموشی سے بچوں کے ناز اٹھائے جاتے ہیں۔ ‘
ہم اپنی بیوی کو سمجھاتے۔ ’ اسی لیے تو ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ ‘
ہماری آواز پر بیوی حاضر نہ ہوئیں تو ہمیں احساس ہوا کہ وہ تو اپنوں کے ساتھ بزم خواتین کی محفل میں ہیں۔ اب ہمیں ہی اکیلے منے میاں سے نمٹنا تھا۔ منے میاں کو چپ کرانے کے لیے ہم نے انھیں گود میں اٹھایا اور بازار کا رخ کیا۔ سڑک پر چہل پہل دیکھ کر منے میاں کے آنسو تھم گئے۔ ہم نے دستی سے منے میاں کا منہ صاف کیا اور راستے میں آنے والی مختلف چیزیں دکھانے لگے۔ ’دیکھو وہ بلی بھاگی اور بلی کے پیچھے کتا لپکا۔ یہ کار دیکھو، کتنی شاندار ہے۔ بڑے ہو کر اسے خریدنا اور اپنے باپ بٹھانا نہ بھولنا۔ یہ دیکھو گدھا ہے۔ انسان سے بالکل نہیں ملتا۔ اس کے باوجود لوگ ایک دوسرے کو گدھا کہتے ہیں۔ ‘پھر ہم نے منے میاں کو آسمان پر اڑتے پرندے اور جہاز دکھائے۔
منے میاں کچھ دیر سڑک اور آسمان کے مناظر سے لطف اندوز ہوئے لیکن جلد ہی ان کا دل بھر گیا۔ ہماری گود میں مچلتے ہوئے مام ما۔ ۔ ۔ مام ما کی آوازیں نکالنے لگے۔ اس مرتبہ ہم نے منے میاں کو رشوت دی۔ ’بیٹا یہ دس روپے رکھو اور اپنا منہ بند کرو۔ ‘
پیسوں کے تعلق سے نئی نسل بہت جلد ہوشیار ہو رہی ہے۔ منے دس روپے کے نوٹ کو پھینکتے ہوئے پھر مام ما کی گردان شروع کی تو ہم نے دس روپے کے دو نوٹ انہیں دیئے۔ منے میاں ہاتھ میں بیس روپے لے کر اپنا منہ بند کیا اور شاپنگ کرنے کے لیے ایک دکان کی جانب اشارہ کیا۔ منے میاں ہمیں لے کر دوکان میں گئے۔ ہم انھیں بسکٹ، چاکلیٹ اور ٹافیاں دلانی چاہی لیکن وہ شیونگ کریم اور خضاب کی شیشی کے لیے ضد کرنے لگے۔ ہم نے انھیں سمجھایا۔ ’بیٹا اتنی جلدی تمھیں ان اشیا کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘
منے میاں کی ضد جاری رہی تو ہم نے انھیں ڈرایا۔ مام ما کی آوازیں منہ سے نکل کر فضا میں بلند ہونے لگیں تو ہم نے چاکلیٹ اور ٹافیاں خرید کر دوکان سے ہٹنا چاہا لیکن منے میاں اپنی پسند کی چیزیں خریدنے کے لیے ضد کرنے لگے۔ ہم نے مجبوراً شیونگ کریم اور خضاب خریدا کہ چلو منے میاں کے نہ سہی ہمارے کام تو آ ہی جائیں گے۔ شاپنگ کے دوران منے میاں نے اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فہرست میں اضافہ کر دیا۔ اب وہ لپ اسٹک، نیل پالش اور کول کریم بھی خریدنا چاہتے تھے۔ شاید اپنی ماں کے لیے وہ ان اشیا کا تحفہ لینا چاہتے تھے۔ ہم نے یہ بال ہٹ بھی پوری کی تو اب معجونِ مغلِ اعظم کی طرف اشارہ ہوا۔ ہم نے معجون کے ڈبے پر چھپی مونچھ پر تاؤ دیتی تصویر کی جانب اشارہ کر کے منے میاں کو ڈرایا۔ ’وہ مونچھ والا تمھیں اٹھا لے جائے گا۔ ‘
ہماری دھمکی کا الٹا اثر ہوا۔ منے میاں نے معجونِ مغلِ اعظم کے لیے ضد کرتے ہوئے رونا شروع کر دیا۔ ہم منے میاں کے رونے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھیں لے کر گھر واپس ہونے لگے۔ منے میاں ہماری گود میں اچھلنے اور اِدھر اُدھر اینٹھ کر اپنی پوری آواز کے ساتھ رونے لگے۔ ہمیں منے میاں کو مضبوطی سے تھامنا پڑا۔ لوگ مڑ کر ہمیں شک کی نگاہوں سے یوں دیکھنے لگے جیسے ہم اٹھائی گیرے ہیں اور کسی کا بچہ چوری کئے بھاگ رہے ہیں۔ گھر پہنچ کر ہم نے دروازے سے جھانک کر دیکھا کہ کیا کوئی چور چور پکارتے ہوئے ہمارے پیچھے آ رہا ہے ؟ کوئی نظر نہ آیا تو ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔
گھر پہنچنے کے بعد بھی منے میاں کا ’مام ما‘ کرتے ہوئے رونا جاری تھا۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ عورتیں اور بچے اتنا زیادہ کیوں روتے ہیں۔ جب دیکھیے آنکھیں بھری رہتی ہیں۔ کچھ ہوا نہیں کہ بندھ ٹوٹ جاتا ہے اور آنسوؤں کا سیلاب ہم مردوں کو تہس نہس کر دینے کے درپے ہو جاتا ہے۔ آنسوؤں کے سیلاب کو روکنا مردوں لیے ایک بے حد مشکل اور تقریباً ناممکن کام ہے۔ بہت کم حضرات کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم نے منے میاں کو پچکار کر خاموش کرنے کی کوشش کی لیکن ’مام ما‘ کی آوازیں اونچی ہونے لگیں۔
اچانک ہمیں ایک ترکیب سوجھی اور ہم منے میاں کی اماں کی زبان میں ان سے لاڈ پیار کرنا شروع کیا۔ ’لو لولو۔ ۔ ۔ چوڈولو۔ ۔ ۔ نائی بیٹا۔ ۔ ۔ جو جوجو۔ ۔ ۔ ہیرا بیٹا۔ ۔ ۔ راجہ بیٹا۔ ۔ ۔ شی شی۔ ۔ ۔ نائی روتا۔ ۔ ۔ نئی روتا۔ ۔ ۔ نائی نئی۔ ۔ ۔ ہنسے گا۔ ۔ ۔ ہشے گا۔ ۔ ۔ پھول کھلیں گے۔ ۔ ۔ پھولوں سے سہرا بنے گا۔ ۔ ۔ باجہ بجے گا۔ ۔ ۔ بیٹا کے لیے چاند سی دلہن آئے گی۔ ۔ ۔ ‘ مادری زبان منے میاں کی سمجھ میں آئی۔ وہ چپ ہوئے تو ہمیں منے میاں کی ماں کی ہدایت یاد آئی۔
یہ وقت پھالی بدلنے کا تھا۔ ہم نے منے میاں کو لٹا کر پھالی اتاری۔ منے میاں نے خاموشی سے ہمیں پھالی اتارنے کی اجازت دی لیکن جب نئی پھالی باندھنی چاہی تو منے میاں نے انکار کر دیا۔ ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ آگے اور ہم پیچھے، پھالی لیے کمرہ کمرہ گھومنے لگے۔ آخر منے میاں ہمارے ہاتھ آئے اور ہم نے زبردستی پھالی باندھنی چاہی تومنے میاں ’مام ما‘ کی گردان شروع کی۔ ہم نے منے میاں کے رونے سے ڈر کر انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔
ہمیں اپنی بیوی پر غصّہ آیا کہ وہ منے میاں کی تربیت غلط کر رہی ہیں۔ وہ ضدی ہوتے جا رہے ہیں۔ چند دن پہلے ہم نے یہ شکایت منے میاں کی ماں سے کی تھی۔ انہوں نے تیوریوں پر بل ڈال کر جواب دیا۔ ’میں غلط تربیت کر رہی ہوں ! آپ بجا فرماتے ہیں۔ اب آپ اچھی اور صحیح تربیت دے لیں۔ ‘
بیوی کی خواہش پر ہم نے کہا۔ ’اس عمر میں فطرتاً اور ضرورتاً منے میاں کا لگاؤ آپ سے ہے۔ آپ کے لاڈ و پیار میں منے میاں ہمیں خاطر میں نہیں لاتے۔ بڑے ہونے دیجیے، پھر دیکھیے گا کہ ہم کس طرح منے میاں کی تربیت کرتے ہیں۔ لوگ رشک کریں گے۔ ‘
’بڑے ہوں گے تو منے میاں پر آپ کا بس چلے گا اور نہ میرا۔ ماحول ان کی تربیت کرے گا۔ ‘ بیوی نے ہمارے خواب کی تعبیر دکھائی۔
گھڑی نے گھنٹے بجائے تو ہمیں یاد آیا کہ منے میاں کے دودھ کا وقت ہو چلا ہے۔ منے کے دودھ کے ساتھ ہمیں چائے کی چاہت ستانے لگی۔ منے میاں کے لیے دودھ اور اپنے لیے چائے تیار کرنے ہم نے کچن کا رخ کیا۔ منے میاں کا دودھ بنانے کا طریقہ بیوی نے سمجھایا تھا، اب ہمارے ذہن سے اتر چکا تھا۔ ڈبے پر چھپے ہدایت نامے کے مطابق ہم نے دودھ بنانا شروع کیا۔ برتن دھونے کے بعد اپنے ہاتھ دھوئے، منہ اور ناک پر نقاب باندھا۔ شیشی اور نپل کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے پانی میں ابالا۔ دودھ کے پاؤڈر میں ملانے کے لیے ناپ کر پانی کو جوش دیا۔ ابلے پانی کو شیشی میں انڈیلا۔ شیشی اور پانی کو کچھ دیر ٹھنڈا کیا۔ بتائے گئے طریقے سے دودھ کے ڈبے کا ڈھکن کھولا۔ ڈبے میں موجود مخصوص چمچے سے پانی کی مقدار کے مطابق تین چمچے پاؤڈر نکالا اور شیشی میں موجود پانی میں ڈالا۔ شیشی کے منہ پر نپل لگایا اور نپل پر ڈھکن چڑھایا۔ احتیاط اور بتائے گئے طریقے سے شیشی کو ہلایا۔ اس طرح پندرہ بیس منٹ کی ریاضت اور جد و جہد کے بعد دودھ تیار ہوا۔ ہم خدا کی حمد و ثنا کرنے لگے کہ اس نے کتنی آسانی سے انسان کی پہلی غذا مہیا کرتا ہے۔ اب انسان کی سمجھ کو کیا کیجیے کہ یہ حقیقت اس کی سمجھ میں کئی سائنس دانوں کی برسوں کی تحقیق کے بعد آئی ہے۔ یہ سائنس دان بھی عجیب مخلوق ہوتی ہے، بغیر تحقیق کوئی بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے !
ایک ہاتھ میں منے میاں کا دودھ اوردوسرے ہاتھ میں اپنے لیے چائے لیے ہم منے میاں کی تلاش میں گھر کا کمرہ کمرہ گھومنے لگے۔ ہم نے منے میاں کو بیڈ روم میں منہمک پایا۔ قالین پر ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد منے میاں تکیہ پر خضاب پینٹ کر رہے تھے۔ صوفے پر شیونگ کریم اور لپ اسٹک لیپنے کا کام انجام دے چکے تھے۔ منے میاں ہماری جانب داد طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔ اگر ہماری بیوی ہوتیں تو وہ منے میاں کی ان حرکتوں پر خوش ہو کر پیشن گوئی کرتیں کہ ان کا بیٹا بڑا ہو کر آرٹسٹ بنے گا۔ ہمیں غصّہ بہت آیا لیکن ’مام ما‘ کے ڈر سے ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ صرف منے میاں کا کان پکڑ کر اٹھانے پر اکتفا کرنا پڑا۔
ہم نے منے میاں کو باتھ روم لے جا کر صاف کیا اور واپس آ کر منے میاں کو دودھ پلانے کا ارادہ کیا۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کام کیسے انجام دیا جائے۔ منے میاں کے ہاتھ میں شیشی دی تو وہ اس سے کھیلنے لگے۔ ہم نے ان کے ہاتھ سے شیشی لی اور فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ منے میاں کو اپنی گود میں لٹایا تو کبھی منے میاں کا پیٹ ان کے سر سے اونچا ہو جاتا اور کبھی منے میاں کے پیر ہمارے شانوں پر جا ٹکتے۔ انھیں سیدھا لٹانے کی کوشش کے دوران منے میاں نے لات ماری کہ ہماری عینک چار ٹکڑے ہو کر آنکھوں سے چار گز دور جا گری۔ چشمے کی قربانی دینے کے باوجود ہماری گود منے میاں کی ماں کی گود نہ بن سکی۔
ہم نے منے میاں کو بٹھا کر دودھ پلانا چاہا۔ اٹھ بیٹھنے کے بعد منے میاں کے ارادے بدل گئے۔ وہ چائے کے لیے ضد کرتے ہوئے چائے پر ہاتھ مارنے کی کوشش کرنے لگے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ منے میاں نے ہمیں لٹا کر اپنے حصّے کا دودھ پلانا چاہا اور موقع پاتے ہی انھوں نے نپل ہمارے منہ میں ٹھونس دیا اور اپنی کامیابی پر خوش ہونے لگے۔ ہمیں غصّہ آیا اور ہم نے انہیں ڈرایا۔ ’بے وقوف۔ الو کا پٹھا۔ اب شرارت بند کرو، ورنہ بلی کو بلاؤں گا۔ بڈھے کو دے دوں گا۔ اٹھا کر باہر پھینک دوں گا۔ ‘
منے میاں نے ’مام ما‘ کرنا شروع کیا۔ ہم نے انہیں ڈانٹا۔ ’بالشت بھر کا ہے نہیں کہ ’مام ما‘ کر کے ہمیں بیوی سے ڈراتا ہے۔ دو چپت رسید کروں گا تو ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ ‘
ہماری ڈانٹ کا بھی اثر نہ ہوا۔ منے میاں نے باضابطہ رونا اور چیخنا شروع کیا۔ ہم نے آنکھیں دکھائیں۔ ہاتھ اٹھایا اور بیوی کی دی ہوئی قسم توڑ کر منے میاں کے گال پر ایک تھپڑ جڑ دیا۔ منے میاں سہم گئے۔ ’مام ما ‘ کی آوازیں بند ہوئیں۔ اندر اندر روتے ان کی ہچکی بندھ گئی اور ٹھیک اسی وقت منے میاں کی ماں بزمِ خواتین کی میٹنگ سے واپس آئیں۔
منے میاں اپنی ماں کو دیکھ کر زور زور سے روتے ہوئے ہماری شکایت کرنے لگے۔ منے میاں کی ماں انھیں گود میں بھینچ کر خود بھی آنسو بہانے لگیں۔ بڑا جذباتی سین تھا۔ ہم مجرم بنے ماں کی مامتا کو دیکھتے رہے۔ کچھ دیر بعد دونوں کی آنکھوں کا پانی ختم ہوا تو پلکوں پر موتیوں کی مانند آنسو سجائے منے کی ماں نے ہمیں گھورا تو ہم ہکلاتے ہوئے اپنی صفائی پیش کرنے لگے۔ ’منے میاں نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ بہت شرارت کر رہے تھے۔ ہم نے ڈرایا تو رونے لگے۔ ‘ پھر ہم منے میاں سے رجوع ہوئے۔ ’کیوں صحیح ہے نا بیٹا۔ آپ نے ڈیڈی کو ستایا ہے۔ ‘
منے میاں جو خاموش ہو رہے تھے پھر سے ’مام ما‘ الاپنا شروع کیا۔ انھیں بہلاتے ہوئے بیوی نے ہم سے سوال کیا۔ ’یہ معصوم گال پر موٹی انگلیوں کے نشان کیسے ہیں ؟‘
ہم نے گردن جھکا لی اور دھیمی آواز میں اعتراف کیا۔ ’ انھیں سدھانے کے لیے پیار سے ہم نے ایک چپت ماری تھی۔ ‘
ہماری بیوی نے پھر کچھ ہم سے سنا اور نہ ہی کچھ کہا۔ خاموشی سے میکے جانے کی تیاری کرنے لگی ہیں۔
کیا آپ ہماری جانب سے صفائی پیش کرتے ہوئے منے میاں اور ان کی ماں کو میکے جانے سے روک سکتے ہیں ؟
٭ ٭ ٭
ماہنامہ چہارسو، راولپنڈی، مئی1994ء
داستانِ معرکۃ الزوجہ
انگریزی ادب میں اپنی قابلیت کے جھنڈے بلند کرنے کے بعد میرے ایک دوست نے از راہ کرم اردو ادب پر توجہ فرمائی۔ طنزیہ اور مزاحیہ صنف ادب کو پہلا نشانہ بنایا۔ چند کتابوں اور رسالوں کی ورق گردانی کے بعد تنقیدی مضمون سپرد قلم کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک دن میں ان کے گھر گیا۔ انھوں نے مجھ سے کہا۔ ’اچھے وقت پر تم آئے ہو۔ میں فکاہیہ ادب پر مضمون لکھنا چاہتا ہوں۔ میں ایک سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں۔ تم سے بھی پوچھ لیتا ہوں۔ تم اردو مزاح نگار، بیوی کے پیچھے ہاتھ دھوکر کیوں پڑے رہتے ہو؟‘
میں نے جواب دیا۔ ’اس لیے کہ اردو تہذیب میں فری سیکس جائز نہیں ہے۔ کسی دوسرے کے پیچھے رہنا بہت معیوب بات سمجھی جاتی ہے۔ بدنام ہونے اور لوگوں سے اول فول سننے کے ساتھ سربازار درگت بھی بن سکتی ہے۔ خیریت اسی میں رہتی ہے کہ بیوی کے آگے پیچھے منڈلاتے رہیں۔ ‘
’ویسے تو میں بھی فری سیکس کا مخالف ہوں۔ ‘ میرے دوست وضاحت کرنے لگے۔ ’در اصل میں یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو بیوی کے علاوہ کوئی دوسرا موضوع نہیں سوجھتا اور کبھی سوجھتا بھی ہے تو زبردستی بیوی کو کیوں گھسیٹ لاتے ہیں ؟ اور تم کچھ زیادہ ہی بیوی زدہ ہو۔ محسوس ہوتا ہے کہ تم نے مزاح نگاری کے لیے شادی کی ہے۔ ‘
’ایسا نہیں ہے۔ ہمارے بچے بھی ہیں۔ ‘ میں نے ان کے سوال کو مذاق میں اڑانا چاہا۔
’ہاں لیکن تمہارے بیوی والے مضامین کی تعداد بچوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ‘ انھوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور اپنا سوال دہرایا۔
اس مرتبہ بھی میں نے سنجیدہ گفتگو سے پرہیز کرتے ہوئے کہا۔ ’ایک مشہور انگریزی کہاوت کا اردو روپ ہے کہ کامیاب مرد کے پیچھے اس کی بیوی ہوتی ہے۔ مزاح نگار کی بیوی اسے کسی اور موضوع پر لکھنے نہیں دیتی۔ اپنے ہی بارے میں لکھنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رہنا بسنا اسی کے ساتھ ہے۔ بات سننی پڑتی ہے۔ ‘
’میں نہیں مانتا۔ مزاح نگار خود بیوی اور ازدواجی موضوع کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اس میدان میں ان کا قلم خوب چلتا ہے بلکہ بے تحاشہ دوڑتا ہے۔ مثال کے لیے میں کئی مضامین پیش کر سکتا ہوں۔ ‘میرے دوست نے بحث کی۔
میں اپنے محقق دوست کو بدگمان ہونے سے بچانے اور مجھ پر لگائے گئے الزام کی مدافعت میں حقیقت بیان کرنے لگا۔ ’رشتۂ ازدواج میں جو تنوع اور انفرادیت ہے وہ کسی دوسرے تعلق میں نہیں ہے۔ شوہر کو بیوی اور بیوی کو شوہر جیسی نعمت کا بدل اس زمین پر شاید ہی ملے۔ ایک دوسرے کے ہمدرد، دوست، شریکِ حیات، شریکِ زندگی، غم گسار، ہم دم، ہم راز، خدمت گذار وغیرہ وغیرہ ہونے کے ساتھ آپسی نوک جھونک، پیاری پیاری لڑائی، روٹھنا اور منانا اور پھر وہ والہانہ محبت، رفاقت اور عشق، یقین جانیے بیوی نہ ہو تو یہ دنیا جہنم بن جائے ہے۔ خدا نے ہم پر بہت رحم کیا ہے کہ اُس نے آدم اور حوا کو ایک ساتھ زمین پر اتارا۔ بے شک وہ ہر بات اور ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اس موضوع پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ ہر مرتبہ ایک نیا زاویہ اور ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے۔ قلم خود بخود چلنے لگتا ہے اور لکھنے والا مجبور ہو جاتا ہے۔ ‘
’تمھاری تقریر معقول ہونے کے باوجود بات سمجھ میں نہیں آئی۔ کیا مزاح نگاری کے لیے موضوعات کی کمی ہے۔ میرا دل نہیں مانتا۔ کسی اور موضوع پر بات کرو۔ ‘ میرے دوست نے ایسے لہجہ میں کہا جیسے وہ چاہتے ہیں کہ موضوع ہرگز تبدیل نہ کیا جائے۔
میں نے انھیں مثال دے کر سمجھا نے کے لیے کہا۔ ’خیر آپ نہ مانیں۔ میری ازدواجی زندگی کا ایک تازہ واقعہ سن لیں۔ ‘ اور انھیں احتجاج کا موقع دئیے بغیر واقعہ سنانا شروع کر دیا۔
دو دن پہلے کی بات ہے۔ دفتر میں خراب وقت گزرا۔ باس نے ایک معاملہ پر میرے اعتراض کے باوجود اپنی مرضی سے نوٹس لکھوائے اور فائل اوپر بھیج دی۔ اوپر سے مجھے ڈانٹ پڑی۔ میرا باس خاموش رہا۔ ہمدردی کے دو بول بھی نہ کہے۔ افسروں کی ماتحتی میں کام کرنے والوں کی زندگی میں ایسا ہوتا ہے۔ اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا اور اپنی محنت کا سہرا دوسروں کے سر بندھتے دیکھنا پڑتا ہے۔ میں کڑھتا اور بل کھاتا رہا۔ میرے اندر لاوا پکتا رہا۔ سوچنے لگا کہ گھر جا کر بیوی کے ساتھ کھانے پر باس کی بے وقوفی اور اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا رونا روؤں گا۔ جی بھر کر دوسروں کو برا بھلا کہوں گا۔ اپنی کارکردگی کی خود تعریف کروں گا۔ بیوی ہمدردی کریں گی۔ دلاسہ دیں گی اور ہمت بندھائیں گی۔ وہ کہیں گی کہ میں جانتی ہوں آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔ لوگ آپ کی قدر نہیں کرتے !
جب دل کا غبار نکل جائے گا اور طبیعت ہلکی ہو گی تو ہم گھومنے جائیں گے۔
میں بیوی کے ہاتھ کے بنے پکوان کو یاد کر کے رال ٹپکاتے ہوئے راستہ طے کرنے لگا۔ شروع میں شوہر بیوی کے ہاتھ کا بنا کھانا مجبوراً کھاتا ہے۔ پھر اسے عادت پڑ جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ اس عادت میں اتنی پختگی آتی ہے کہ اسے کوئی اور کھانا اچھا نہیں لگتا اور نہ ہی پچتا ہے۔ کئی میل کا فاصلہ طے کر کے شوہر کو سرشام گھر پہنچ کر بیوی کے ہاتھ کا بنا کھانے کی جلدی ہوتی ہے۔ میں مینو کے بارے میں قیاس کرنے لگا۔ دم کا گوشت، وہ تو کل بنا تھا۔ مرغ پکنے کا سوال اس لیے اٹھتا نہ تھا کہ فریج مرغ سے خالی تھا۔ بیوی نے پلاؤ تیار کیا ہو گا۔ پلاؤ کے ساتھ رائتہ۔ واہ بہت مزا آئے گا۔
خیالی پلاؤ سے بھوک چہکنے لگی۔ دروازے سے گھر میں داخل ہوتے ہوئے میں نتھنے پھلائے پلاؤ کی بھینی بھینی خوش بو سونگھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ناک پلاؤ کی خوش بو دریافت کرنے میں ناکام رہی تو میرا ما تھا ٹھنکا۔ بیوی کا سامنا ہوا۔ ان کے تیور بدلے نظر آئے۔ باہر جانے کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔ ماحول کو اپنے اندازے کے خلاف پا کر میرے تیوری پر بل پڑنے لگے۔ میں نے کہا۔ ’زور کی بھوک لگی ہے۔ کھانا لگائیے۔ میں ابھی ہاتھ منہ دھوکر آتا ہوں۔ ‘
بیوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’آج گھر میں کھانا نہیں بنا ہے۔ ہم باہر کھائیں گے۔ ‘
’وہ کس خوشی میں۔ ‘ مجھے غصّہ آنے لگا۔
’کوئی خوشی نہیں۔ بس کھانا بنانے کو جی نہیں چاہا۔ ‘بیوی نے بتایا۔
’یہ تو کوئی وجہ نہ ہوئی۔ ‘ میں نے کہا۔
بیوی مجھے سمجھانے لگیں۔ ’ہر دن برتن مانجھتے، ترکاری بناتے، گوشت صاف کرتے اور پکوان کرتے طبیعت بے زار سی ہو گئی ہے۔ آج دل نے چاہا کہ روٹین سے ہٹ کر آپ کے ساتھ باہر جائیں اور کسی بہترین ہوٹل میں کھانا کھایا جائے۔ سنا ہے کہ ہوٹل تاج محل میں بوٹی کباب اور روغنی روٹی بہت مزے دار بن رہی ہے۔ واپس ہوتے ہوئے آپ کی پسندیدہ آئسکریم ٹو ان ون بھی کھائیں گے۔ ‘
’جی نہیں، ہم باہر نہیں جائیں گے۔ آپ ایک ذمہ دار خاتون خانہ ہیں۔ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ آپ کو خیال رہنا چاہیے کہ بندہ دن بھر مغزماری کر کے تھکا ماندہ شام کو گھر پہنچتا ہے۔ اس کا استقبال۔ ۔ ۔ ‘
بیوی نے بات کاٹی اور اپنا رونا رونے لگیں۔ ’میں کون سا گھر میں آرام کرتی ہوں۔ یہ نہ سمجھیے گا کہ آپ کی پیٹھ پیچھے سوتی رہتی ہوں۔ کولہو کے بیل کی طرح صبح سے شام تک گھر کے کام کاج میں الجھی رہتی ہوں۔ صفائی کرتی ہوں۔ تین مرتبہ چولھے میں سر جھونکتی ہوں اور آپ کے آنے کے بعد آپ کی خدمت بھی کرنی پڑتی ہے۔ ‘
میں نے طنز کیا۔ ’اب رہنے بھی دیں۔ خوب خدمت ہوتی ہے۔ گھر آئے آدھا گھنٹہ ہوا۔ کھانا تو دور پینے کے لیے پانی تک نہ ملا۔ گھر میں رانی بنی بیٹھی اپنی مرضی سے کام کرتی ہیں۔ جی میں آیا تو کام کیا۔ دل نے کہا تو آرام کیا۔ تمھیں کیا پتا باہر کیسے بھانت بھانت کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ ایک جیسا کوئی نہیں، ہر کوئی منفرد۔ خواہ مخواہ ہی طبیعت تھک جاتی ہے اور اگر گھر پر آرام نہ ملے تو کیا کروں۔ ‘
بیوی دوڑ کر ایک گلاس پانی لے آئیں اور مجھے تھماتے ہوئے کہا۔ ’خوش فہمی دور کرنے کے لیے رانی کی جگہ صرف دو دن گھر پر بیٹھیے گا۔ اکیلے میں اکتا جائیں گے۔ در و دیوار کاٹنے لگیں گے۔ آٹے دال کے بھاؤ کا پتا چلے گا۔ گھریلو مسائل ناک میں دم کر دیں گے۔ کوئی شے اصلی نہیں ملتی۔ ملاوٹ کی انتہا ہے۔ مہنگائی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے اور اس پر آپ کے طعنے و تشنیع! دو دن میں تنگ آ جائیں گے اور اعتراف کریں گے کہ گھر سے دفتر بہتر ہے۔ ‘
میں نے بحث کو طول دینے سے احتراز کرتے ہوئے کہا۔ ’ازدواجی زندگی میں کس کو سکون حاصل ہے اور کون فائدے میں ہے، اس بحث کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیے۔ اب یہ بتائیے کھانا ملے گا یا نہیں۔ ‘
’ہوٹل میں کھانا ہر وقت تیار رہتا ہے۔ آرڈر کیجیے اور کھانا حاضر۔ ‘
’میں ہوٹل کی نہیں گھر کی بات کر رہا ہوں۔ ‘
’گھر میں آج کھانا نہیں بنا ہے۔ ‘
’تو پھر میں جا رہا ہوں۔ ‘
’اکیلے کھایا نہیں جائے گا، میں بھی ساتھ چل رہی ہوں۔ ‘
’میں ہوٹل نہیں، جہنم جا رہا ہوں۔ ‘
’میں وہاں جانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ بھی نہ جائیں۔ جنت جائیے گا۔ حوریں ملتی ہیں۔ ‘
’جہنم گھر سے بہتر ہی ہو گا۔ ‘
’اپنا اپنا خیال ہے، ویسے مرضی آپ کی۔ جہنم کی خواہش ہے تو ضرور جائیے لیکن وہاں اپنا خیال رکھیے گا۔ ‘
میں غصّہ سے باہر نکل آیا۔ دروازے کو زور سے بند کیا اور چل پڑا۔ کچھ دور چلنے کے بعد میرا رخ ایک دوست راشد کے گھر کی جانب ہو گیا۔ راشد سے ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد میں پھٹ پڑا۔ ’یار راشد بیوی کیا ہوتی ہے ؟‘
راشد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’شادی ہوئے چھ سال بیت گئے، کیا یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ تجربے نے تمہیں نہیں بتایا کہ بیوی کیا ہوتی ہے۔ ‘
’ہوں۔ ‘ کہہ کر میں نے ایک لانبی سانس لی۔ کچھ لمحے خاموش رہ کر میں نے پھر سوال کیا۔ ’اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہے ؟‘
راشد کی مسکراہٹ برقرار رہی۔ ’تمھیں اس کا بھی اندازہ نہیں ہوا۔ عجیب شوہر ہو۔ اچھا یہ بتاؤ شوہر کیا ہے اور وہ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے ؟‘
’کیا مطلب۔ ‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’کچھ نہیں۔ میں یہ سوال دوسری طرف سے کر رہا ہوں۔ ‘راشد نے جواب دیا۔
’کیا آپ ان کے وکیل ہیں ؟‘ میں راشد سے الجھ پڑا۔
’چلو یہی سمجھ لو۔ ‘ راشد نے ہنستے ہوئے سوال دہرایا۔ ’آپ بحیثیت شوہر کیا محسوس کرتے ہیں۔ ‘
کچھ جواب نہ بن پڑا تو میں خاموش ہوا۔ کچھ لمحوں بعد میں نے راشد سے اجازت چاہی اور واپس چل پڑا۔ اس نے رکنے کے لیے اصرار نہ کیا۔ غصّہ کی جگہ بے بسی نے لے لی تھی کہ کیا بیوی کے بغیر گزارا نہیں ہو سکتا، شادی سے پہلے زندگی مزے میں گزر رہی تھی۔ بھلا ہو بزرگوں کا پیروں میں بیڑی ڈال دی۔ اگر بیوی نے کھانا نہیں بنایا ہے تو کوئی بات نہیں، مجھے باہر کھا کر گھر جانا چاہیے۔
ذہن کے کسی گوشے سے سوال ابھرا۔ ’اکیلے کھاؤ گے، وہ بھی تو بھوکی ہو گی۔ آج باہر کھانے کی خواہش میں اس نے کھانا نہیں بنایا ہے۔ ‘
دل نے جواب دیا۔ ’بھوکی رہے، سزا بھگتے !‘
ذہن کے کسی دوسرے گوشے سے ترکی بہ ترکی آواز آئی۔ ’ایک دن اس نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہر دن بڑے چاؤ سے کھانا تیار کر کے تمہارا انتظار کرتی ہے۔ تعریف کرتے ہوئے کھاتے ہو۔ اگر ایک دن تم اس کی خواہش پوری کر دیتے تو کیا ہوتا۔ لیکن تم ایسا کیوں کرنے لگے۔ مجازی خدا جو ٹھہرے۔ من مانی کرو گے۔ ‘
اس کشمکش سے چونکا تو اپنے آپ کو ہوٹل تاج محل کے سامنے کھڑا پایا۔ مزید کچھ سوچے سمجھے بغیر میں نے ہوٹل سے بوٹی کباب اور روغنی روٹی اور راستے سے آئسکریم لے کر تیزی سے گھر لوٹنے لگا۔
قیاس کیا کہ بیوی روٹھ کر منہ پھلائے بیٹھی ہوں گی۔ آنسو بھی بہائے ہوں گے۔ میں انھیں منانے کے طریقے سوچنے لگا۔ جاتے ہی بانہیں پھیلا کر ہوٹل کا پارسل سامنے کر دوں گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ روٹھ کر بیڈ روم میں بند پڑی ہوں گی۔ تب میں ٹیبل پر کھانا سجا کر بیوی کو کھانے کی دعوت دوں گا۔ بیوی غصّہ سے چہرہ دوسری جانب کر لیں گی۔ میں گھوم کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہوں گا۔ ’ہر ہائی نس۔ آپ کا مجرم ہوں۔ سزا تجویز فرمائیے۔ ‘
’قصور تو میرا ہے۔ ‘ بیوی طنز کریں گی۔
میں جواب دوں گا۔ ’آپ کا روٹھنا حق بجانب۔ بندے کو معاف کیجیے۔ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ ‘
بیوی کا غصّہ کم ہو گا لیکن جھوٹ موٹ کہیں گی۔ ’جائیے، ہم آپ سے نہیں بولتے۔ ‘
پھر میں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گذارش کروں گا۔ ’اب چلیے بھی، کباب ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ ‘اور میں بیوی کا ہاتھ پکڑ کر ڈائننگ ٹیبل پر لے آؤں گا۔ وہ پیار سے میری جانب دیکھتے ہوئے کہیں گی۔ ’آئی ایم سوری۔ ‘
میں گھر پہنچا تو بیوی کو انتظار کرتا پایا۔ مجھے دیکھتے ہی کھل اٹھیں۔ ’بڑی دیر لگا دی، کہاں چلے گئے تھے۔ کب سے انتظار کر رہی ہوں۔ زور کی بھوک لگی ہے۔ پلاؤ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ ہاتھ دھوکر آئیے۔ ‘
میں پلاؤ کی خوشبو سونگھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔ ’اور میں کباب اور روٹی جو لے آیا؟‘
جواب ملا۔ ’لیکن آپ تو جہنم۔ ۔ ۔ ۔ توبہ توبہ۔ ‘کہہ کر اپنے گال پیٹ لینے کے بعد شکایت کی۔ ’آپ کو غصّہ کرنا بھی نہیں آتا۔ ‘
میں نے بیوی سے آنکھیں لڑاتے ہوئے کہا۔ ’اور آپ کو روٹھنا نہیں آتا۔ ‘
ہم نے ڈٹ کر کباب، روٹی، پلاؤ، رائتہ اور آئسکریم کھائی اور دفتر کا دکھڑا رونے کے بجائے خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔
نقاد دوست میری بیوی کے ساتھ لڑائی اور پھر دوستی کی کہانی سن کر کہا۔ ’ اپنے اوپر لگے الزام کی مدافعت میں تم نے داستانِ معرکۃ الزوجہ سنا کر صفائی پیش کی ہے۔ اردو مزاح نگاروں کے تعلق سے اپنا خیال بدلنے کے بارے میں، میں بعد میں غور کروں گا۔ ‘ پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر رازدارانہ لہجے میں کہنے لگے۔ ’میرے اور وائف کے درمیان بھی ایک دن اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا۔ ہوا یوں کہ۔ ۔ ۔ ‘
مجھے ایک اور داستان معرکۃ الزوجہ سننے میں دلچسپی نہ تھی۔ میں تو اس وقت مستقبل کے نقاد کو شیشے میں اترتا دیکھ کر اپنی اور ان کی بیوی کو دعائیں دے رہا تھا۔
٭ ٭ ٭
ماہنامہ رابطہ، کراچی، جون1994ء
عجیب و غریب آوازیں
ایک رات بیگم نے مجھے جھنجھوڑ کر نیند سے بیدار کیا۔ میں نے سمجھا کہ بیگم اپنی وہ بات مکمل کرنا چاہتی ہیں جسے میں سنتے سنتے سو گیا تھا۔ میں نے آنکھیں ملتے اور جمائیاں لیتے ہوئے کہا۔ ’پلیز بیگم، باقی باتیں صبح کریں گے۔ ‘
بیگم نے تنک کر جواب دیا۔ ’میں نے اپنی بات سنانے کے لیے نہیں جگایا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ یہ روز کا معمول ہے۔ میری باتیں آپ کو لوری کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔ میں بات شروع کرتی ہوں کہ آپ کو نیند آنے لگتی ہے۔ ‘
’اس موضوع پر بحث ہم صبح کریں گے۔ اب بتائیں آپ نے مجھے کیوں جگایا ہے۔ ‘ میں نے سوال کیا۔
’عجیب و غریب آوازیں آ رہی ہیں۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے کوئی آرا چلا رہا ہے۔ کچھ پھڑپھڑانے اور پھر کچھ گرنے پڑنے کی آوازیں بھی آئیں ہیں۔ ‘ بیگم نے مجھے نیند سے بیدار کرنے کی وجہ بتائی۔
میری نیند کافور ہوئی اور میں بیگم کو سنائی دینے والی عجیب و غریب آوازوں کو سننے کی کوشش کرنے لگا۔ مجھے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ صرف دیواری گھڑی کی ٹک ٹک جاری تھی۔ چند لمحے تک میں نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑے آوازوں کو سننے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ میں نے بیگم سے کہا۔ ’مجھے تو کوئی آواز نہیں آ رہی ہے۔ ‘
’جی ہاں۔ اب نہیں آ رہی ہیں لیکن کچھ دیر قبل، آپ کو جگانے سے پہلے تک خطرناک قسم کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں نے اپنے دونوں کانوں سے سنی ہیں۔ ‘ بیگم نے اپنے کان پکڑ کر کہا۔
’ہوں۔ ‘ ایک گہری سانس لے کر میں آوازوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے لگا۔ ’آوازیں کہاں سے آ رہی تھیں ؟‘
’یہیں آس پاس سے۔ ‘ بیگم نے جواب دیا۔
’کب سے آ رہی تھیں ؟ ‘میں نے دوسرا سوال کیا۔
’بہت دیر سے۔ بس یوں سمجھیے کہ آپ کے سوتے ہی آوازیں شروع ہو گئی تھیں ‘ بیگم نے بتایا۔
’آپ نے کچھ نہیں کیا۔ خاموشی سے آوازیں سنتی رہیں اور مجھے جگا دیا۔ شاید کوئی چوہا ہو گا، بلی ہو گی یا دونوں بھی ہو سکتے ہیں۔ چوہے کے پیچھے بلی بھاگی ہو گی۔ ‘ میں نے طنز کرنے کے انداز میں اپنا خیال ظاہر کیا۔
’آوازیں سن کر میں نے بھی آوازیں نکالیں۔ بتی جلائی۔ چوہا ہوتا تو بھاگ جاتا۔ ہمارے گھر بلی نہیں ہے۔ میرے ہوش ہاش کرنے کے باوجود آوازیں ختم نہیں ہوئیں بلکہ اور زور سے آنے لگیں۔ آخر پریشان ہو کر آپ کو جگایا ہے۔ ‘ بیگم نے اپنی صفائی میں کہا۔
’پریشان ہو کر یا ڈر کر؟‘ میں نے استفسار کیا۔
’پہلے پریشان ہو کر اور پھر ڈر کر آپ کو جگایا ہے۔ دیکھیں اب آپ کیا کرتے ہیں۔ ‘بیگم نے جواب دیا۔
’آپ کے خیال میں کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟‘ میں نے بیگم کی رائے جاننا چاہی۔
’میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ آپ بہتر بتاسکتے ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ آج کل کالونی میں چوریاں ہو رہی ہیں۔ پچھلے ہفتہ اپنے گھر سے چار مکان چھوڑ کر چوری ہوئی تھی۔ چور گھر کا سارا سامان اٹھا لے گئے۔ ‘ بیگم نے جواب دیا۔
’کالونی میں چوکیدار ہے۔ وہ کیا کرتا ہے ؟‘ میں نے پھر سوال کیا۔
’معلوم نہیں۔ صبح اس سے پوچھ لینا۔ لیکن ہم چوکیدار کے بھروسے اطمینان سے نہیں سوسکتے، ہمیں خود بھی اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔ ‘ پھر بیگم نے لہجہ ترش کر کے پوچھا۔ ’آپ یوں ہی پولس والوں کی طرح صرف تفتیش کرتے رہیں گے یا کچھ کریں گے بھی؟‘
’ہاں کیوں نہیں، میں ابھی پتا کرتا ہوں کہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ ‘ یہ کہتے ہوئے میں پلنگ سے نیچے اترا اور اپنی حفاظت کے لیے بیڈروم میں کوئی ہتھیار تلاش کرنے لگا۔ جب کوئی ہتھیار ہاتھ نہ لگا تو میں نے پتلون میں سے بیلٹ کھینچ کر ہاتھ میں لیا اور آوازوں کی وجہ معلوم کرنے کے لیے کمرے سے باہر نکل آیا۔
’اپنا خیال رکھیے گا۔ ‘ پیچھے سے بیگم کی آواز آئی۔
میں بیڈروم سے باہر آ کر گھر کے دوسرے کمروں اور برآمدے کا جائزہ لینے لگا۔ ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔ دروازے بند تھے، باہر کے دروازوں پر قفل پڑے تھے۔ کسی بھی قسم کی تبدیلی نظر نہ آئی تو میں کان کھڑے کر کے آوازیں سننے کی کوشش کرنے لگا۔ مجھے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ میں نے پہلے کھڑکی اور پھر بالکونی سے باہر کا معائنہ کیا۔ باہر صرف اندھیرا تھا۔ مجھے عجیب و غریب آوازیں سنائی نہ دیں تو بھلا میں ان کی وجہ کیا دریافت کر پاتا۔
تھک ہار کر میں واپس بیڈروم میں چلا آیا تو بیگم کو گہری نیند میں پایا۔ میں نے انھیں اپنی ناکامی کی اطلاع دینا مناسب نہ سمجھا۔ ان پر ترس بھی آیا کہ بے چاری آوازوں سے ڈر کر سو نہ سکی تھیں۔ اب سو رہی ہیں۔ بتی بجھا کر میں نے بھی سونے کا ارادہ کیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ آنکھوں سے نیند غائب ہو چکی تھی۔ میں نے پھر سے آوازوں کو سننے کی کوشش کی لیکن مجھے اپنی ہی سانس لینے کی آواز سنائی دی۔
کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کی تو خیال آیا کہ کسی بھی لمحہ آوازیں پھر آ سکتی ہیں۔ معلوم نہیں کون ہو گا یا ہوں گے۔ تمام دروازے مقفل ہیں۔ شاید ڈاکو ہوں گے۔ کوئی دروازہ یا دیوار توڑنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ کمرے میں روشنی دیکھ کر اور ہماری باتیں سن کر خاموش ہو گئے ہوں گے۔ اب اندھیرا دیکھ کر وہ اپنی کاروائی پھر شروع کر سکتے ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے سونے کا ارادہ ترک کیا۔ نیند تو پہلے ہی غائب ہو چکی تھی۔ بتی جلا کر ایک رسالے کی ورق گردانی کرنے لگا۔
صبح سے پہلے کچھ دیر کے لیے آنکھ لگی کہ دفتر جانے کا وقت آ گیا۔ گھڑی کا الارم چیخنے لگا۔ میں اٹھ بیٹھا اور تیار ہو کر ناشتہ کی میز پر آیا تو بیگم کو ہشاش بشاش پایا۔ مجھے دیکھ کر بیگم نے کہا۔ ’رات نیند بہت اچھی آئی۔ ‘
’اور میری نیند عجیب و غریب آوازوں کے سبب غارت ہوئی۔ میں ان آوازوں کو سن بھی نہ سکا۔ پتا نہیں چلا کہ وہ آوازیں کہاں سے آ رہی تھیں۔ ‘ میں نے جلتی ہوئی آنکھوں کو ملتے ہوئے کہا۔
’آپ پتا لگا بھی نہیں سکتے تھے۔ ‘ بیگم نے یقین سے بتایا۔
’کیوں ؟‘ میں نے جل کر پوچھا۔ ’میں پتا کیوں نہیں لگاسکتا تھا۔ کیا وہ آوازیں کسی شیطان یا بھوت کی تھیں ؟‘
’اللہ نہ کرے جو میں کسی شیطان یا بھوت کی بیوی بنوں۔ ‘ بیگم نے جواب میں کہا۔
’کیا مطلب!‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’میرے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ عجیب و غریب آوازیں آپ کی تھیں، جن کے سبب میری نیند قربان ہو رہی تھی۔ ‘ بیگم کے جواب نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔
’میری آوازیں ! وہ کیسے ؟‘ میں نے دریافت کیا۔
’رات آپ بہت زور سے خراٹے لے رہے تھے۔ پچھلے چند دنوں سے آپ خراٹے بھرنے لگے ہیں۔ آپ کے خراٹوں سے میری نیند متاثر ہو رہی ہے۔ کل رات بڑی مضحکہ خیز اور ڈراؤنی صورت حال تھی۔ آپ بے حس و حرکت پڑے تھے۔ آنکھیں ادھ کھلی تھیں۔ آپ گہری سانسیں لے رہے تھے اور سانس لیتے وقت عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں۔ میں نے سنیے، دیکھیے، اٹھیے، پلٹیے کہا لیکن آپ پر اثر ہی نہ ہوا۔ آخر پریشان ہو کر آپ کو نیند سے جگانا پڑا۔ ‘ بیگم نے کل رات کی تفصیل بتائی۔
’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں خراٹے نہیں لیتا۔ ‘ میں نے دعوی کیا۔
’تو پھر کیا میں لیتی ہوں اور خود اپنے ہی خراٹوں سے ڈر گئی۔ ‘ بیگم نے طنز کیا۔
’ہو سکتا ہے، لیکن میں خراٹے نہیں لیتا۔ ‘ میں نے اپنا دعوی دہرایا۔
’آپ کو کیسے پتا؟ کیا آپ کو غیب کا علم ہوتا ہے۔ سوتا ہوا آدمی مرے ہوئے کے برابر ہوتا ہے۔ میری بات کا یقین کیجیے، آپ خراٹے لیتے ہیں۔ ‘ بیگم نے اصرار کیا۔
’آپ زبردستی اقبال کروانا چاہتی ہیں تو میں آپ کی بات کا اعتبار کر لیتا ہوں۔ لیکن مجھے یقین نہیں ہوتا کہ میں خراٹے لیتا ہوں۔ میں نے کبھی سنے ہی نہیں، کیسے مان لوں۔ ‘ بیگم کی بات پر یقین نہ کرتے ہوئے میں نے کہا۔
’ٹھیک ہے۔ میں آپ کو آپ کے خراٹے، آپ ہی کی آواز میں سنواؤں گی۔ ‘ بیگم نے وعدہ کیا۔
چند دنوں بعد ایک صبح میز پر ناشتہ کے ساتھ کیسٹ ریکارڈ رکھا ہوا دیکھا۔ مجھے دیکھتے ہی بیگم نے ریکارڈ چلا دیا۔ کیسٹ ریکارڈر کے اسپیکر سے کچھ عجیب و غریب قسم کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پہلے محسوس ہوا کہ کوئی کند سی آری سے کسی پرانی لکڑی کو کاٹ رہا ہے۔ پھر کچھ چیزیں پٹخنے کی سی آوازیں آئیں۔ پھر یوں لگا کہ کسی نے ہلکا سا پٹاخہ چلایا ہے۔ اس کے بعد پھر وہی آری چلانے کی آواز آنا شروع ہو گئی۔
میں نے ہاتھ بڑھا کر کیسٹ ریکارڈر بند کر دیا اور قدرے خفگی سے پوچھا۔ ’لوگ موسیقی سنتے ہیں، گانے اور غزلیں سنتے ہیں۔ آپ نے مجھے بد ذوق کب سے سمجھنا شروع کر دیا کہ کسی بڑھئی کی دکان میں ریکارڈ کی ہوئی آوازیں مجھے ناشتہ کی میز پر سنوا رہی ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں، اس طرح میں ڈٹ کر ناشتہ کروں گا۔ ‘
بیگم میری خفگی سے بالکل متاثر نہ ہوئیں، چائے کی پیالی میں چمچ ہلاتے ہوئے بے نیازی سے بولیں۔ ’یہ بڑھئی کید کان میں ریکارڈ کی ہوئی آوازیں نہیں ہیں۔ یہ تو ہمارے بیڈروم کی آوازیں ہیں۔ ‘
’یعنی آپ کے خراٹوں کی آوازیں !‘ میں نے استفسار کیا۔
’جی نہیں، میں ان آوازوں کو ریکارڈ کر رہی تھی۔ یہ آپ کی آوازیں ہیں جنھیں آپ نیند کے عالم میں نشر کر رہے تھے۔ یہ آپ کے خراٹے ہیں۔ ‘بیگم نے جواب دیا۔
میں کھسیانہ ہو کر خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ بیگم مجھے مسلسل گھورے جا رہی تھیں۔ میں نے عذر لنگ پیش کیا۔ ’کبھی کبھار جب تھکا ہوا ہوتا ہوں تو خراٹے بھر لیتا ہوں۔ ‘
’کبھی کبھار نہیں۔ آج کل آپ مستقل خراٹے لے رہے ہیں۔ اِدھر آنکھ لگی کہ اُدھر خراٹے شروع ہوئے۔ آپ کے خراٹوں نے مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ میری نیند پوری نہیں ہوتی۔ آنکھ لگتی ہے کہ آپ کے خراٹے اٹھا دیتے ہیں۔ ‘ بیگم نے شکایت کی۔
میں خاموشی سے سننے اور سوچنے کے علاوہ کر بھی کیاسکتا تھا۔ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے شادی سے پہلے یہ معلوم کر لینا ضروری ہے کہ کیا متوقع شریکِ حیات خراٹے لیتا ہے۔ شادی سے قبل شاید بیگم کے رشتہ داروں نے اس بات کی تحقیق نہیں کی تھی۔ اس کوتاہی کا خمیازہ اب بیگم کو بھگتنا پڑ رہ ہے۔
’کیا کیا جائے ؟‘ بیگم نے مجھ سے خراٹوں کا حل مانگا۔
’برداشت کیا جائے یا پھر پیچھا چھڑا لیا جائے۔ ‘ میں بیگم کو مشورہ دینے لگا۔ ’خراٹوں کو برداشت کرنا مشکل ہی ہے۔ خراٹے کسی کو پسند نہیں آتے حتی کہ خود خراٹے لینے والے کو بھی نہیں۔ خراٹے پسند نہ آنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ کہ کوئی اپنے آپ کو خراٹے لیتے ہوئے دیکھ اور سن نہیں سکتا۔ ہمیشہ ہی دوسروں کو خراٹے لیتے دیکھنا اور سننا پڑتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو دوسروں کی عادتیں پسند آتی ہیں، چاہے وہ شوہر کی عادتیں ہی کیوں نہ ہوں۔ ‘
’یہ بات نہیں ہے۔ ‘ بیگم نے مجھے ٹوکا۔ ’مجھے آپ کی دوسری عادتیں پسند ہیں۔ آپ میری اور اپنی سال گرہ پر مجھے تحفہ دیتے ہیں، یہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن مجھے آپ کے خراٹے پسند نہیں آتے۔ میں انہیں بالکل برداشت نہیں کر سکتی۔ ‘
’اسی لیے میرا مشورہ ہے کہ چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ‘ میں نے مشورہ دیا۔
’وہ کیسے ؟‘ بیگم نے سوال کیا۔
’کبھی میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک بیوی نے خراٹوں سے بچنے کے لیے طلاق حاصل کی تھی۔ ایک دوسری بیوی نے خراٹے لیتے شوہر کا حالتِ نیند میں گلا دبا دیا اور خود بیس سال آرام سے سونے کے لیے جیل چلی گئی۔ ایک اور بیوی نے اپنے لیے ایک علیحدہ گھر بنا لیا تھا۔ معلوم نہیں آپ کو کون سا طریقہ پسند ہے۔ ‘ میں نے بیگم کے آگے مختلف حل رکھے۔
’میں آپ سے نہیں، خراٹوں سے چھٹکارا پانا چاہتی ہوں۔ ‘ بیگم تنک کر بولیں۔
’بات ایک ہی ہے، میں اور میرے خراٹے الگ الگ نہیں ہیں۔ ‘ میں نے بیگم کو بتایا۔
’چاہے جو بھی ہو، خراٹے آپ ہیں یا آپ خراٹے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ آپ مجھ سے پیچھا نہیں چھڑاسکتے۔ ‘ بیگم نے اپنا فیصلہ سنایا۔
میری ایسی قسمت کہاں ! میں نے افسردگی سے سوچا اور بیگم سے کہا۔ ’تو پھر آپ ہی کچھ کیجیے۔ خراٹے میرا نہیں آپ کا مسئلہ ہیں۔ ‘
کچھ دیر غور کرنے کے بعد بیگم نے حکم دیا۔ ’چلیے ہم ڈاکٹر سے مشورہ کرتے ہیں۔ ‘
’کیا خراٹوں کے ماہر ڈاکٹر پائے جاتے ہیں ؟ ‘ میں نے سوال کیا۔
’یقیناً ہوتے ہوں گے۔ آج ہر چیز کے ماہر ہوتے ہیں۔ خراٹے ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ ‘ بیگم نے جواب دیا اور ٹیلی فون ڈائرکٹری اور اخبارات چھان کر چند ماہرین کے پتے نکالے۔ ایک خراٹوں کے ماہر ڈاکٹر کا انتخاب کیا اور مجھے ان کے پاس لے گئیں۔ ڈاکٹر نے ہمارا استقبال کیا اور مجھ سے پوچھا۔ ’کہیے آپ کو کیا تکلیف ہے ؟‘
’شکایت اور تکلیف دونوں انھیں ہیں۔ میں الحمد للہ ٹھیک ہوں۔ ‘ میں نے بیگم کی جانب اشارہ کر کے جواب دیا۔
’ان کے خراٹوں کے سبب مجھے تکلیف ہے۔ ‘ بیگم کہنے لگیں۔ ’راتوں کو نیند نہیں آتی۔ کچھ دیر کے لیے آنکھ لگتی ہے، پھر ڈر کر اٹھ بیٹھتی ہوں۔ رات میں نیند نہ ہونے سے دن میں سستی اور کاہلی رہتی ہے۔ کام میں دل نہیں لگتا۔ آنکھیں جلتی رہتی ہیں۔ طبیعت میں چڑ چڑا پن رہتا ہے۔ دن میں سونا چاہتی ہوں لیکن موقع نہیں ملتا۔ ‘
بیگم کی شکایت سن کر ڈاکٹر صاحب انھیں سے کیفیت لینے لگے جیسے اصلی مریض وہی ہیں۔ میں جو اس فساد کی جڑ تھا، خاموش تماشائی بنا دونوں کو دیکھنے لگا۔ ڈاکٹر نے کئی سوالات کئے۔ یہ خراٹے کب لیتے ہیں ؟ خراٹے کتنی دیر جاری رہتے ہیں ؟ خراٹوں کی آواز کتنی دور تک سنائی دیتی ہے ؟ کس کروٹ زیادہ خراٹے بھرتے ہیں ؟کیا خراٹوں کے ساتھ کچھ اور بھی ہوتا ہے، جیسے ہاتھ پیر چلانا، رونا یا چیخنا؟ کیا خراٹوں کے دوران سانس بھی اکھڑتی ہے ؟ کیا یہ خراٹے لیتے لیتے نیند سے بیدار ہو جاتے ہیں ؟ خراٹے ختم کیسے ہوتے ہیں ؟ وغیرہ، وغیرہ۔
میرے خراٹے لینے کے بارے میں بیگم ڈاکٹر کو معلومات پہنچا رہی تھیں جو میرے لیے انکشافات ثابت ہو رہے تھے۔ بیگم نے بتایا کہ میں سوتے ہی خراٹے لینے لگتا ہوں۔ خراٹے مارنے کے ساتھ میں ہاتھ سے گال سہلاتا ہوں یا کان کھجاتا ہوں۔ چند منٹ بعد خراٹے بند ہوتے ہیں اور میں کچھ بڑبڑانے لگتا ہوں۔ خدا جانے کون سی زبان میں بڑ باڑتا ہوں۔ پھر میرا بڑبڑانا بند ہوتا ہے اور خراٹے شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات میں یکدم سے خاموش اور بے سدھ بھی ہو جاتا ہوں۔ میری اس حالت کو دیکھ کر بیگم گھبرا جاتی ہیں۔
خراٹے لینے کی کیفیت سن کر مجھے اپنے آپ پر غصّہ آیا اور بیگم سے ہمدردی ہونے لگی۔ میں کتنا بے تکا انسان ہوں کہ عجیب و غریب طریقے سے سوتا ہوں۔ بے چاری بیگم کو کیا کیا برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے بیگم سے کہا۔ ’بخدا میں بہ رضا و رغبت خراٹے نہیں لیتا۔ مجھے پتا ہی نہیں ہے کہ میں حالتِ نیند میں، میں اتنا خطرناک اور ڈراؤنا بن جاتا ہوں۔ ‘
ٓ خراٹے لینے کا اعتراف کرنے کے بعد، اپنے سے زیادہ بیگم کی پریشانی دور کرنے کے لیے میں نے ڈاکٹر سے دریافت کیا۔ ’ڈاکٹر صاحب، میں خراٹے کیوں لیتا ہوں ؟‘
ڈاکٹر نے رٹا رٹایا جواب دیا۔ ’وجہ معلوم نہیں ہے۔ ‘
ڈاکٹر حضرات اکثر امراض کی وجوہ سے واقف ہی نہیں ہوتے لیکن کمال ہے کہ وجوہات نہ جاننے کے باوجود ان امراض کا علاج کرتے ہیں ! سو میں نے ڈاکٹر سے گذارش کی۔ ’مجھے خراٹے بند ہونے کی دوا دیجیے۔ ‘
’خراٹے بند کرنے کے لیے کوئی گولی یا شربت نہیں ہے۔ لیکن انھیں بند کرنے کے کئی طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ کسی ایک سے فائدہ ہو جاتا ہے۔ ‘ ڈاکٹر نے خراٹوں کا علاج بتایا۔
ڈاکٹر نے خراٹوں سے چھٹکارا پانے کے لیے وزن کم کرنے کا مشورہ دیا، صرف اس لیے کہ موٹے اشخاص زیادہ خراٹے لیتے ہیں اور شاید خراٹوں کا ایک سبب موٹاپا بھی ہے۔ موجودہ دور میں اب ہر مرض کی ایک اہم وجہ موٹاپا بتایا جانے لگا ہے۔ میں نے ڈاکٹر کے اس مشورے پر اس لیے عمل نہیں کیا کہ ماضی میں وزن کم کرنے کی کوشش میں میرا وزن مزید بڑھنے لگا تھا!
ڈاکٹر نے دوسرا مشورہ دیا کہ میں چھت کو تکتے ہوئے نہ سویا کروں بلکہ دیواروں کی طرف منہ کر کے لیٹا رہوں۔ میں نے اس مشورے پر صدقِ دل سے عمل کیا لیکن بیگم بتاتی ہیں کہ آنکھ لگنے کے بعد میں پوزیشن تبدیل کر لیتا ہوں۔
تیسرا مشورہ ڈاکٹر نے تکیہ میں چہرا چھپا کر سونے کا دیا۔ میں تکیہ میں منہ چھپا کر سونے لگا تو بیگم کے مطابق بڑی خطرناک اور پیچیدہ صورت پیدا ہوئی۔ ایسے لگتا کہ تکیہ حرکت کر رہا ہے اور تکیہ سے عجیب و غریب آوازیں آ رہی ہیں۔ خود میں بھی پریشان ہو کر کچھ ہی دیر میں چہرے کو تکیہ سے باہر نکال لیتا تھا۔ یہ طریقہ بھی ناکام رہا۔ خراٹوں کو روکنے کا ایک طریقہ ناک اور منہ پر پٹی باندھنے کا بھی بتایا گیا تھا۔ میں ایسا کرنے لگا تو بیگم کو میں کسی ڈاکو کی طرح دکھائی دیا اور انہیں خراٹے لیتے ہوئے ڈاکو سے بہت ڈر لگنے لگا۔ سونے سے پہلے غرارے کرنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے غرارے کئے لیکن بیگم نے بتایا کہ خراٹوں میں ایک نئی ’غر۔ ۔ ۔ غر۔ ۔ ۔ ‘ یعنی غرارے کرنے کی آواز بھی شامل ہو گئی۔
خراٹے بند کرنے کے لیے چند دوسرے طریقے بھی میں نے آزمائے۔ ان سے مجھے تو کوئی افاقہ نہ ہوا لیکن ڈاکٹر کو فائدہ ضرور ہوا۔ ہر مرتبہ میں انھیں فیس جو دیتا تھا۔ ڈاکٹر کی مدد سے ہم خراٹوں پر قابو پانے میں ناکام ہوئے۔ جب سے مجھے پتا چلا کہ میں خراٹے لیتا ہوں تو میری نیند اچاٹ رہنے لگی۔ کبھی میں نیند سے چونک کر اٹھ بیٹھتا۔ جب میں خراٹوں کے ڈر سے اٹھ بیٹھتا تو بیگم کو بھی جاگتے ہوئے پاتا۔ میں انھیں بے بسی سے دیکھتا، کچھ کہنے یا سننے کی تاب مجھ میں نہیں تھی۔ کئی راتیں ہم دونوں کی بے چین اور بے قرار گزریں۔ بیگم میرے خراٹوں سے مانوس نہ ہو پائیں تو ایک دن میں نے تجویز رکھی۔ ’آپ بیڈروم میں سویا کریں اور میں باہر ڈرائنگ روم میں خراٹے لیا کروں گا۔ ‘
بیگم نے دوسری تجویز پیش کی۔ ’کیوں نہ ہم باری باری سوئیں ؟‘
’نہیں، اس طرح کسی کی بھی نیند پوری نہیں ہو گی۔ ‘ میں نے اختلاف کرتے ہوئے اصرار کیا۔ ’ ہم نیند کی خاطر الگ الگ سویا کریں گے۔ ‘
بیگم بادل ناخواستہ تیار ہوئیں۔ یوں خراٹوں کے سبب ایک چھت کے نیچے ہم علیحدہ رہنے لگے۔ بیگم کا مسکن بیڈروم تھا اور میں آزادی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں خراٹے بھرنے لگا۔
ہمارے علیحدہ رہنے کا علم آہستہ آہستہ دوست احباب کو ہونے لگا۔ انھیں تشویس لاحق ہوئی اور وہ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ ان سے ہماری جدائی زیادہ دنوں تک برداشت نہ ہو سکی اور آخر ایک دن ہمارے قریبی رشتہ دار صلح صفائی کروانے گھر آ دھمکے۔
خسر صاحب نے مجھ سے کہا۔ ’میاں غلطی ہر کسی سے ہوتی ہے۔ میری بیٹی سے غلطی سرزد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تم اتنا سخت قدم اٹھاؤ۔ ‘
میں نے بزرگوار سے وضاحت کی۔ ’قبلہ، غلطی آپ کی بیٹی سے نہیں، مجھ سے ہوئی ہے اور مستقل ہونے کا امکان ہے۔ اس لیے ہم نے ایک گھر میں علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ‘
اب احباب کا رخ بیگم کی جانب ہوا۔ انہیں سمجھایا اور ڈانٹا جانے لگا۔ احباب کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ہمیں حقیقت بتانی پڑی کہ میرے خراٹوں کے سبب ہماری نیندیں خراب ہو رہی تھیں اور ہم اپنی اپنی نیند پوری کرنے کے لیے علیحدہ رہ رہے ہیں۔ انسان کے لیے اچھی اور مکمل نیند بے حد ضروری ہے۔
کسی نے ہماری بات کا یقین نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ہم حقیقت چھپا رہے ہیں۔ کچھ دیر ہمیں سمجھا کر اور نصیحتیں کر کے احباب ہمیں اپنے حال پر چھوڑ گئے۔
’اب کیا خیال ہے۔ ‘ میں نے بیگم سے پوچھا۔
’خدارا آپ بیڈروم میں واپس آ جایئے لیکن اپنے ساتھ میرے لیے دو ائیر پلگ لیتے آیئے۔ میں انہیں کانوں میں ٹھونس لوں گی تو مجھے عجیب و غریب آوازیں سنائی نہیں دیں گی۔ ‘ بیگم نے جواب دیا۔
میں حیران ہو کر بولا۔ ’کمال ہے، یہی تجویز اگر آپ پہلے دن دے دیتیں تو نہ آپ کی اتنے دنوں کی نیند خراب ہوتی اور نہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں فیس کے نام پر اتنے پیسے بھرنے پڑتے !‘
٭ ٭ ٭
ماہنامہ رابطہ، کراچی، فروری 2003ء
گاؤں کی سیر
کتابوں میں پڑھا اور لوگوں سے سناکہ ہندوستان گاؤں میں بستا ہے۔ ہندوستان کو دیکھنا ہے تو گاؤں کی زندگی دیکھیے۔ ہم نے، ہندوستانی ہونے کے باوجود کبھی گاؤں نہیں دیکھا تھا بلکہ یوں کہیے کہ گاؤں دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ شہر کے ہسپتال میں پیدا ہوئے۔ پانی اور بجلی کی قلت اور فلیٹ اور قطار کی زندگی میں پرورش پائی۔ شفٹ سسٹم کے تحت چلنے والے اسکول اور کالج میں تعلیم حاصل کی اور شہر کے ایک دفتر میں بابو بن گئے۔ تفریح کے نام پر گلیوں میں کھیلا، سڑکوں پر آوارہ گردی کی اور چائے خانوں اور سنیما گھروں میں وقت اور صحت برباد کی۔ امید ہے کہ ہماری اس شہری زندگی کا اختتام کسی ہسپتال میں ہو گا اور ہماری آخری آرام گاہ کے لیے ہمارے وارثوں کو بہت مشکلوں سے شہر میں دو گز زمین ملے گی۔
گاؤں کے بارے میں ہماری معلومات فلموں اور ٹیلی ویژن کی دین تھیں۔ ہرے بھرے لہلہاتے کھیت۔ اونچے اونچے مست ہاتھیوں کی طرح جھومتے درخت۔ بہتی اور لبریز ندیاں۔ گاتی اور ناچتی خوب صورت اور بھولی بھالی لڑکیاں۔ فینسی ڈریس میں ملبوس سانولے سلونے مرد۔ اصلی گھی کے پراٹھے۔ لسی کے گلاس۔ لہسن کی چٹنی اور شہری بابو کی خاطر مدارات۔
عرصے سے خواہش تھی کہ ہم کسی گاؤں کو جائیں۔ اپنی آنکھوں سے گاؤں کے ماحول اور گاؤں کی زندگی کو دیکھیں۔ گاؤں کی ٹھنڈی ہوا میں سانس لیں۔ ہری گھاس پر لوٹیں اور قلابازی کھائیں۔ درختوں پر چڑھیں اور پھل توڑ کر نوش کریں۔ بہتی ندی میں اپنے پاؤں چھوڑیں اس لیے کہ تیرنا ہمیں نہیں آتا۔ پنگھٹ پر گوریوں سے اٹکھیلیاں کریں۔ پچھلی رات جب ہم نے ٹیلی ویژن پر ایک فلمی گیت ’گوری تیرا گاؤں بڑا پیارا۔ میں تو گیا وارا۔ آ کے یہاں رے۔ ۔ ۔ ‘دیکھا تو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا۔
ہم ایک ٹورسٹ ایجنٹ کے دفتر پہنچے اور اس سے اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کیا۔ وہ ہمیں یوں دیکھنے لگا جیسے ہم اس دنیا کی نہیں کسی اور جگہ کی مخلوق ہیں۔ ہمیں تکتا دیکھ کر ہم نے گھگیایا۔ ’یہ ہماری دیرینہ خواہش ہے۔ اسے پلیز پوری کر دو۔ ‘
ایجنٹ نے ایک سادہ کاغذ ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ’آپ اس پر اپنے آٹو گراف دیجیے۔ ‘
’وہ کس لیے ؟‘ ہم نے حیرت سے دریافت کیا۔
جواب ملا۔ ’وہ اس لیے کہ جناب میرے پچیس سالہ تجربے میں کوئی شخص گاؤں کی سیر کی تمنا لیے نہیں آیا۔ آپ پہلے انسان ہیں۔ لوگ گاؤں سے بے زار ہو کر شہر کا رخ کرتے ہیں اور پھر کبھی گاؤں واپس نہیں جاتے۔ گاؤں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں اور شہروں میں گاؤں سے بدتر بستیاں آباد ہو رہی ہیں۔ ‘
ہم نے ایجنٹ سے گذارش کی۔ ’بھائی، ہمیں ان ختم ہونے والی بستیوں کا دیدار کروا دو۔ آنکھیں سمنٹ اور لوہے کے جنگلوں کے علاوہ بھی کچھ اور دنیا دیکھنا چاہتی ہیں۔ ‘
ایجنٹ ہمیں گاؤں کی سیر کرانے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں امریکہ، لندن، پیرس اور ہانگ کانگ کی سیاحت پر ورغلانے لگا۔ ہم نے کہا۔ ’دیکھو میاں۔ ہمیں نئی بیماریوں میں مبتلا ہونے اور کسٹمز پر پکڑے جانے کا شوق نہیں ہے۔ خدارا کوئی صورت نکالو۔ ‘
’آپ نہیں مانتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ ‘ کہہ کر اس نے اپنے آفس بوائے کو آواز دی۔ ’شابو۔ اے شابو۔‘
ایک بیس سالہ نوجوان آ کھڑا ہوا۔ ایجنٹ نے اس سے کہا۔ ’شابو، یہ صاحب گاؤں کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو اپنے گاؤں کی ہوا کھلا لاؤ۔ ‘
اور پھر ایجنٹ نے ہم سے شابو کا تعارف کروایا۔ ’جناب یہ ان ہزاروں نوجوانوں میں سے ایک ہے جو اپنے گاؤں کو چھوڑ کر شہر کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ آپ کی خواہش پوری کرے گا۔ لیکن یاد رہے آپ اپنی خواہش پر گاؤں جا رہے ہیں۔ اس کے لیے ہماری ٹورسٹ کمپنی ذمہ دار نہیں ہے۔ ‘
ہم نے ایجنٹ کا شکریہ ادا کیا اور شابو سے گاؤں کی سیر کے تعلق سے درکار ہدایات حاصل کیں۔ شابو نے مشورہ دیا کہ پہننے کے لیے مضبوط کپڑے اور جوتے درکار ہیں۔ شہری کپڑے جھاڑیوں اور کانٹوں میں الجھ کر خراب ہو جائیں گے۔ اوبڑ کھابڑ زمین پر اونچی ایڑی کے جوتے خاک چاٹنے پر مجبور کر دیں گے۔ دھوپ سے بچنے کے لیے سر پر ہیٹ پہن لیں۔ ‘
ہم نے پوچھا۔ ’کیا جینز پتلون، لانگ بوٹ اور ہیٹ سے کام چل جائے گا۔ ایسے کپڑے تو کاؤ بوائے پہنتے ہیں۔ ‘
’ہاں۔ یہ پہناوا گاؤں کی سیر کے لیے مناسب ہے۔ ‘ شابو نے ہامی بھری۔
’لیکن ہم نے گاؤں والوں کو ایسے کپڑے اور جوتے پہنتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کیا گاؤں میں یہ چیزیں ملتی ہیں ؟‘ ہم نے استفسار کیا۔
جواب ملا۔ ’نہیں جی، گاؤں والے کم سے کم کپڑوں میں کام چلا لیتے ہیں۔ جوتے انھیں کم ہی نصیب ہوتے ہیں۔ بات یوں ہے سر کہ انھیں گاؤں کی پگڈنڈیوں پر چلنا آتا ہے۔ گاؤں والے ہیٹ کے بجائے سر پر پگڑی باندھتے ہیں۔ ‘
دوسرا مشورہ تھا کہ اپنی پسند کے مشروبات اور شہر کا پانی ساتھ رکھ لیں۔ شہریوں کو گاؤں کا پانی پسند بلکہ راس نہیں آتا۔ گاؤں کے کنویں کا پانی شہر کے نل کے پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ شہریوں کا معدہ کم زور ہوتا ہے، وہ گاؤں کا پانی ہضم نہیں کر پاتے۔ گاؤں کا پانی اگر راس نہیں آیا تو پھر گاؤں کی سیر ایک ہی مقام پر کسی جھاڑ یوں کے پیچھے ہو گی۔ گاؤں میں شہر کے مشروبات نہیں ملتے۔ پانی کے علاوہ صرف دیسی شراب ملتی ہے۔ ایک گلاس دیسی شراب میں دس شہری گلاس کے شراب کا نشہ ہوتا ہے۔
شابو نے مزید مشورہ دیا کہ ضروری دوائیں ساتھ رکھ لیں۔ گاؤں میں ڈاکٹر نہیں ملتے اور شہر کے لوگ بغیر دوا کے زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا۔ ’شابو، کیا گاؤں والے بیمار نہیں پڑتے !‘
شابو نے جواب دیا۔ ’پڑتے ہیں لیکن ہمارا طریقہ علاج مختلف ہے۔ مریض نہیں یا مرض نہیں۔ ‘
شابو کچھ اور مشورے ہمیں دینا چاہتا تھا لیکن ہم نے روک دیا۔ ’گاؤں جانے سے باز رکھنے کے لیے مزید حربے نہ آزماؤ۔ ہم نے فلموں میں ایسے سین نہیں دیکھے ہیں۔ ‘
گاؤں کی سیر میں ساتھ دینے کے لیے ہم نے اصرار کر کے اپنے ایک دوست شہر یار کو ساتھ لے لیا۔ ہم دونوں شابو کی معیّت میں بس اسٹیشن پہنچے۔ بس اسٹیشن پر ایک جم غفیر تھا۔ شابو ہمیں انسانوں کے ایک جھنڈ کے پاس لے گیا اور کہا۔ ’صاحب ! گاؤں کے لیے بس یہاں آ کر رکے گی۔ بس آتے ہی آپ کو کسی صورت بس میں سوار ہونا ہے، ورنہ بس کے دروازے اور کھڑکیوں سے لٹک کر یا چھت پر بیٹھ کر آپ سفر نہیں کر سکیں گے۔ ‘
ہم نے شابو کو مشورہ دیا۔ ’رش زیادہ ہے تو ہم دوسری بس سے چلیں گے۔ ‘
شابو نے جواب دیا۔ ’دن میں صرف ایک مرتبہ گاؤں کو بس جاتی ہے۔ ‘
ہم نے حیرت کا اظہار کیا تو شابو نے بتایا۔ ’چند دن قبل ہفتہ میں دو مرتبہ گاؤں کو بس جاتی تھی۔ بہت کوشش کے بعد اب روز جاتی ہے۔ ‘
شابو کا جواب سن کر ہم نے دریافت کیا۔ ’اس بس کے علاوہ کوئی اور سواری تمھارے گاؤں کو نہیں جاتی؟‘
جواب ملا۔ ’ایک ٹرک آتا ہے جو گاؤں کا دودھ، ترکاری، میوے، انڈے اور مرغیاں شہر لے آتا ہے۔ اس میں آپ سفر نہیں کر سکیں گے۔ ‘
طویل انتظار کے بعد گرد سے اٹی ایک پرانی چھکڑا بس آئی جس کا ہر پرزہ لرزہ بہ اندام تھا۔ بس میں کچھ مسافر پہلے ہی سے بیٹھے تھے۔ ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسافروں کے حوالے کر دیا۔ آہستہ آہستہ ہم اور شہریار بس کے اندر دھکیل دیئے گئے۔ شابو اپنے انداز سے کھڑکی کی راہ ہم سے پہلے بس میں آیا اور ہمارے لیے دو سیٹ پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ہم قبضہ کردہ سیٹ پر بیٹھ گئے۔
بس کے اندر لوگ ہمہ اقسام کی پوٹلیاں تھامے ہوئے تھے۔ چند لوگوں کی بغل میں انسانی بچے دبے پڑے تھے تو دو ایک کی بغلوں میں مرغیاں اور بکریاں اٹکی ہوئی تھیں۔ چھت پر لوگوں کے بیٹھنے سے چھت اندر کی طرف جھول رہی تھی۔ کچی سڑک پر اپنے اطراف دھول اڑاتے، مختلف آوازیں نکالتے ہوئے بس اچھلتی کودتی چلی جا رہی تھی۔ بس رکنے کا کوئی مقام معیّن نہ تھا۔ جسے اترنا ہوتا وہ حلق سے عجیب قسم کی آوازیں نکالتا، بس رک جاتی اور مسافر اتر جاتا۔ اور جسے بس میں سوار ہونا ہوتا وہ بس کے سامنے آ جاتا، بس رک جاتی۔ مسافر بس میں دوسرے مسافروں پر سوار ہو جاتا اور پھر بس چل پڑتی تھی۔ بس کے سفر نے ہمیں شوکت تھانوی کی سودیشی ریل کی یاد تازہ کر دی۔
چار گھنٹے کی قیدِ با مشقت کے دوران ساٹھ میل کی مسافت طے کرنے کے بعد ہماری منزل یعنی شابو کا گاؤں آیا۔ شابو نے بس روکنے کے لیے آواز نکالی۔ بس رکی اور ہم بس کے باہر دھکیل دیئے گئے۔ بس چل پڑی تو ہم گرد میں کھو گئے۔ چند لمحوں بعد گرد کا طوفان تھما تو ہمارے سامنے شہر یار اور شابو کے بجائے دو ریڈ انڈین قسم کے لوگ کھڑے تھے۔ چہرے، کپڑے اور بالوں میں دھول، پلکوں اور مونچھ پر افشاں کی مانند مٹی کے ذرّات، منہ کھولنا چاہا تو پتا چلا کہ منہ اور حلق میں بھی مٹی رچ بس گئی ہے۔ گرد پھانکتے ہوئے ہم نے اپنا تعارف کروایا اور پوچھا۔ ’کیا آپ صاحبین شہریار اور شابو ہیں ؟‘
اثبات میں جواب ملا۔
گرد چھٹنے کے بعد منظر صاف ہوا تو دور تک آبادی کا نشان نظر نہ آیا۔ بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی اور پگڈنڈی کے اطراف ادھر ادھر سایہ دار درخت اور یہاں وہاں کھیت۔ ہم نے شابو سے پوچھا۔ ’یار تمھارا گاؤں !‘
شابو نے اپنا ہاتھ ایک جانب کر کے کہا۔ ’اس طرف۔ ایک گھنٹہ چلنا پڑے گا۔ ‘
گاؤں کی سیر کا نشہ ہرن ہونے لگا۔ شہریار نے کہا۔ ’اب مجھ سے اتنی دور چلا نہیں جائے گا۔ واپس شہر کے لیے بس کب آئے گی؟ ‘ اور ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔
’اب بس تو کل ہی آئے گی صاحب۔ ‘ شابو نے بتایا۔
شہریار نے مجھے گھور کر دیکھا۔ میں نے تجویز رکھی۔ ’کچھ دیر یہیں پیڑ کے نیچے سستانے کے بعد گاؤں چلتے ہیں۔ ‘
شہریار کو اس تجویز سے اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہ تھا۔ قریب میں پانی کا ایک نالا بہہ رہا تھا۔ ہم نے ہاتھ منہ دھویا۔ ہماری کچھ اصلی شکلیں واپس آئیں۔ شہریار نے شابو سے پوچھا۔ ’یہ پانی کہاں سے آ رہا ہے۔ ‘
شابو نے پھر ہاتھ ایک طرف کر کے کہا۔ ’اس کنویں سے۔ ‘
لیکن ہمیں کنواں نظر نہ آیا۔ ہم نے کہا۔ ’ شابو کو دور کا گاؤں اور کنواں دکھائی دے رہا تھا جبکہ ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ گاؤں والوں کی دور کی نظر بہت تیز ہوتی ہے۔ ‘
’اور ہماری قریب کی نظر!‘ شہریار نے لقمہ دیا۔
ہم تھکے ماندے ایک گھنے درخت کے سائے میں لیٹ گئے اور پھر سوگئے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ بغیر بستر اور بغیر نیند کی گولی کھائے مزے دار نیند آئی۔
نیند سے جاگے تو بھوک کا احساس بیدار ہوا۔ شابو سے اس مسئلہ کا حل پوچھا تو اس نے بتایا۔ ’گاؤں پہنچ کر کھانا بنوائیں گے اور۔ ۔ ۔ ‘
شہریار نے بات کاٹی۔ ’یہاں کوئی ہوٹل نہیں ہے۔ ‘
جواب ملا۔ ’نہیں۔ ہم گاؤں والے ہوٹل کے بارے میں جانتے بھی نہیں۔ گاؤں کے باہر شراب کی ایک دکان ہے، وہاں ابلے چنے، مٹر، مرچی، پکوڑے مل جاتے ہیں۔ کہنے سے کبھی چائے بھی بنا دیتے ہیں۔ ‘
شہریار ہمیں ایسے گھورنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں۔ ’اور کرو گاؤں کی سیر، اور دیکھو ہندوستان!‘
ہمارا پیدل سفر شروع ہوا۔ ہم خاموشی سے راستہ طے کرتے رہے۔ بھوک لگ رہی تھی اور شہریار ہوا کھانے کے لیے گہری سانسیں لینے لگے۔ انھوں نے ہوا کا مزا چکھ کر کہا۔ ’یار گاؤں کی ہوا کچھ عجیب لگتی ہے۔ بو سونگھو۔ ‘
ہم نے گاؤں کی ہوا کو سونگھ کر کہا۔ ’شہریار اس ہوا میں پٹرول اور ڈیزل کے جلنے کی بو نہیں ہے۔ یہ ہوا ٹھنڈی بھی ہے۔ اس ہوا میں کتنا سکون ہے۔ ‘
ہم اور شہریار گہری سانسیں لینے لگے جیسے گاؤں کی ہوا کو اپنے اندر بھر لینا چاہتے ہیں۔ شابو نے انتباہ دیا۔ ’صاحب یہ اصلی ہوا ہے۔ آپ شہر والوں کو عادت نہیں ہے۔ احتیاط کیجیے۔ ‘
شہریار نے اصلی ہوا کچھ زیادہ ہی اپنے اندر بھر لی تھی۔ انھیں چھینکیں آنے لگیں اور ناک سے پانی بہنے لگا۔ شابو نے اپنا خیال ظاہر کیا۔ ’محسوس ہوتا ہے کہ صاحب کو اصلی ہوا راس نہیں آئی۔ گاؤں پہنچنے کے بعد نیم کا دھواں دیں گے تو چھینکیں بند ہو جائیں گی۔ ‘
گاؤں کے قریب ہمیں رنگ برنگی مرغیاں نظر آئیں۔ ہم انھیں حیرت سے دیکھنے لگے۔ ہماری معلومات کے مطابق مرغیاں سفید رنگ کی ہوتی ہیں۔ ان کی چونچ بہت تیز ہوتی ہے۔ تیز چونچ سے انسانوں کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اسی لیے بچپن میں ان کی چونچ کاٹ کر پنجروں میں قید کر کے رکھا جاتا ہے جسے فارم کہتے ہیں۔ سزا کے طور پر ہم ان کے انڈے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے اس بے رحم سلوک کے خلاف چند لوگ احتجاج کرتے ہیں اور وہ نہ مرغی کھاتے ہیں اور نہ انڈا استعمال کرتے ہیں۔
گاؤں میں ہمیں کالی، لال، بھوری، بادامی اور خاکی رنگ کی خوب صورت مرغیاں دیکھنے کو ملیں۔ ہم ان مرغیوں کو تجسس سے دیکھنے لگے تو شابو نے کہا۔ ’صاحب یہ اصلی مرغیاں ہیں، شہر میں مشین کی مرغیاں ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ‘
شہریار نے بات کاٹی۔ ’ہاں میاں شابو، گاؤں کی چیزیں اصلی اور شہر کی اشیا نقلی ہوتی ہیں۔ ‘
شابو نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’گاؤں کی مرغیاں پندرہ بیس انڈے دیتی ہیں اور ان انڈوں پر بیٹھ کر بچوں کو نکالتی اور ان کی پرورش کرتی ہیں۔ ‘
ہم سوچنے لگے کہ گاؤں سے شہر نقلِ مکانی کرنے پر نہ صرف انسانوں بلکہ مرغیوں کے رہن سہن میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ہم آبائی مرغیوں کو دیکھنے میں محو تھے کہ شہریار نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’وہ دیکھو کتنے اقسام کے پرندے نظر آ رہے ہیں۔ شہر میں کوے، چیل اور الّوہی نظر آتے ہیں۔ ‘
ہم نے ٹوکا۔ ’امن کا پرندہ کبوتر بھی تو نظر آتا ہے۔ ‘
شہریار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’کبھی کبھی!‘
ہم شابو کے گھر پہنچے۔ شابو کی ماں نے کھلے دل سے استقبال کیا۔ شابو نے ہمارا تعارف کرایا کہ ہم دفتر میں بڑے صاحب ہیں اور شہر سے گاؤں دیکھنے آئے ہیں۔ وہ بہت خوش ہوئیں کہ ان کا بیٹا شہر میں ’صاحبوں ‘ کے ساتھ رہتا ہے۔ ہماری حیثیت کا اندازہ کرنے کے لیے انھوں نے ہم سے پوچھا۔ ’بیٹا تمہاری میز چودھری کے میز جتنی ہو گی!‘
ہم سمجھ نہ پائے کہ میز کی لمبائی سے کیا مطلب ہے۔ شابو نے جواب دیا۔ ’اس سے بھی بڑی۔ ۔ ۔ اتنی!‘اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے۔
شابو کی ماں ہمیں دعائیں دیتے ہوئے شابو کے لیے سفارش کی۔ ’جگ جگ جیو بیٹا، شابو کے لیے بھی شہر میں ایک چھوٹی میز دلا دو، تمہارا بھلا ہو گا۔ ‘
ہم نے میز کی لمبائی ناپنے سے بچنے کے لیے شابو سے پوچھا۔ ’باتھ روم کہاں ہے۔ ‘
جواب ملا۔ ’صاحب گاؤں میں گھر کی تقسیم نہیں ہوتی۔ سٹنگ روم، بیڈ روم اور ڈرائنگ روم سب ایک ہی جگہ ہوتا ہے اور باتھ روم گھر کے باہر کھلی ہوا میں !ضرورت کے لیے باہر میدان میں کسی آسرے کے پیچھے چلے جایئے۔ منہ ہاتھ دھونے اور نہانے کے لیے کنویں کے پاس جانا ہو گا۔ ‘
شہریار نے کہا۔ ’یہ تو مشکل ہے۔ ‘
ہم نے انھیں سمجھایا۔ ’ہمیں گاؤں میں کون سی زندگی بتانی ہے۔ ایک وقت کی بات تو ہے، گزر ہو جائے گی۔ ‘
شہریار بادل ناخواستہ آمادہ ہوئے اور ہم نہا دھوکر شابو کی قیادت میں گاؤں کی پد یاترا پر نکل پڑے۔
تنگ راستے کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے مٹی اور گھاس پوس سے بنے کچے مکانات اچھے لگے۔ ان مکانوں سے اٹھتی مٹی کی سوندھی بو، شہر کی بلند و بالا عمارتوں سے آنے والی رنگ و روغن کی بو سے مختلف لگی۔ مکانات کے سامنے گائے، بکری یا بھینس بندھے تھے۔ شابو نے بتایا کہ مکین ان کا دودھ بیچ کر پیسہ کماتے ہیں۔ شہریار نے گاؤں کے اس منظر کا تقابل شہر سے کیا۔ ’شہر میں گھروں کے سامنے اسکوٹر، سیکل اور کار کھڑی ہوتی ہیں جن کو مالکین اپنے تصرف میں رکھتے ہیں۔ ‘
نظریں اٹھائیں تو نیلا آسمان قریب نظر آیا۔ محسوس ہوتا تھا کہ ہاتھ اٹھا کر آسمان کو چھوسکتے ہیں۔ آسمان میں بجلی، ٹیلی فون، اور کیبل کے تاروں کا جال بچھا نہ تھا اور نہ ہی مختلف اقسام کے کھمبے زمین پر اگے ہوئے تھے۔ فضا میں نہ مختلف جھنڈے اور پرچم لہرا رہے تھے اور نہ ہی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ایریل اور اینٹنا بلند تھے۔ ہم بہت دیر تک خالص آسمان کو تکتے رہے اور شابو سے دریافت کیا۔ ’تمہارے گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ ‘
شابو نے منفی انداز میں گردن ہلائی۔ شہریار نے لقمہ دیا۔ ’ریڈیو، ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن بھی نہ ہو گا۔ ‘
جواب ملا۔ ’کچھ بھی نہیں ہے۔ چودھری صاحب کے پاس ایک ٹرانسسٹر ہے۔ وہی شہروں کی خبریں سن کر دوسروں کو سمجھاتے ہیں۔ ہمارے گاؤں سے بیس کوس پر ایک بڑا گاؤں ہے۔ وہاں بجلی ہے، سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہے۔ روشنی دیکھنے، ریڈیو سننے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے ہم اس گاؤں کو جاتے ہیں۔ وہیں ڈاک گھر اور ٹیلی فون بھی ہے۔ ‘
ہم جیسے جیسے گاؤں سے گزرتے، ہمارے کارواں میں بچے شامل ہونے لگے۔ دبلے پتلے بچے، ناک بہتی ہوئی اور شرٹ پہنے ہیں تو نیکر غائب ہے اور اگر نیکر ہے تو شرٹ غائب ہے۔ شہریار مڑ کر انھیں یوں دیکھنے لگے جیسے بچے انہیں ’گڈ مارننگ ‘ کہیں گے یا سیلوٹ کریں گے۔ بچے سہم کر رک گئے۔ شابو انھیں ڈرا کر واپس بھیج دیا اور اپنے آپ بڑبڑانے لگا۔ ’گاؤں میں اسکول نہیں ہے۔ ہوش سنبھالنے تک مٹی میں کھیلتے ہیں اور ہوش سنبھالنے کے بعد مٹی سے اپنے لیے روزگار پیدا کرنے نکل پڑتے ہیں۔ گاؤں میں اسکول ہوتا تو پڑھ لکھ لیتے۔ شہر والے ہمارے لیے تماشا ہوتے اور نہ ہم ان کے لیے !‘
جلد ہی گاؤں میں بات پھیل گئی کہ شابو شہری لوگوں کو لیے گھوم رہا ہے۔ گاؤں والے گھروں سے باہر نکل کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ایک بڑھیا نے قریب آ کر اوپر سے نیچے تک ہماریcجانچ پڑتال کی اور ہم سے کہا۔ ’ یہ شہری بابو تو ہم جیسے ہی ہیں۔ اچھا کھاتے پیتے ہیں اسی لیے تر و تازہ دکھائی دیتے ہیں۔ ‘
چند منٹوں میں گاؤں دیکھنا تمام ہوا۔ اب ہم گاؤں کے باہر ایک پکے مکان کے پاس کھڑے تھے۔ شابو نے مکان اور صاحبِ مکان کا تعارف کرایا۔ ’یہ مکان ہمارے گاؤں کی نشانی ہے اور اس میں گاؤں کے زمینوں کے مالک چودھری صاحب رہتے ہیں۔ ‘
ہم نے دیکھا کہ گاؤں کی نشانی کے سامنے ایک موٹا شخص کرسی پر نیم دراز تھا۔ اس کے سامنے ایک چھوٹی میز رکھی تھی جس پر چائے کا گلاس رکھا تھا۔ گاؤں کا نائی اس کے بالوں میں تیل لگا کر مالش کر رہا تھا۔ اس کے اطراف چند لوگ زمین پر بیٹھے تھے۔ کچھ کے سر پر پگڑی بندھی تھی تو کچھ لوگ اپنی پگڑی زمین پر بچھا کر اس پر بیٹھے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ گاؤں کی زندگی میں پگڑی اہم رول ادا کرتی ہے۔ گاؤں میں چھوٹے چھوٹے بچے تک اپنی عمر اور حیثیت سے بڑی پگڑی باندھے نظر آتے ہیں جبکہ شہر میں چھوٹا بڑا ہر کوئی ننگا سر لیے گھومتا ہے۔ پگڑی ایک قسم کا جادوئی کپڑا ہوتا ہے جو سمٹے تو سر کی ٹوپی اور کھلے تو ساڑی بنتی ہے۔ دھوپ سے بچنے، کسی سے ملنے یا سفر کے لیے سر پر پگڑی باندھ لی۔ بیٹھنے کی ضرورت پیش آئی تو پگڑی سے جگہ صاف کی اور اسی پر بیٹھ گئے۔ لیٹنا چاہا تو پگڑی کا تکیہ بنا لیا۔ سردی لگی تو پگڑی لپیٹ لی یا اوڑھ لی۔ خریداری کی تو اشیا کو پگڑی میں باندھ کر بوجھ کاندھے پر لٹکا لیا۔ منہ ہاتھ دھونے اور نہانے کے بعد بھی پگڑی کام آتی ہے۔ کسی کو عزت دینی ہو تو اس کے سر پگڑی باندھ دی اور کسی سے التجا کرنی ہو تو اپنی پگڑی اتار کر رکھ دی۔ جب برا وقت آیا تو خاموشی، صبر اور ہمت کے ساتھ اپنی پگڑی کو اچھلتے دیکھتے رہے۔ اور گاؤں سے شہر آتے وقت ہر دم کام آنے والی پگڑی کو گاؤں میں چھوڑ آتے ہیں۔
شابو نے چودھری کو سلام کیا اور ہماری جانب اشارہ کر کے کہا۔ ’یہ لوگ گاؤں کی سیر کرنے شہر سے آئے ہیں۔ ‘
چودھری نے نیم وا آنکھوں سے ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا اور دریافت کیا۔ ’میرا بیٹا شہر میں پڑھتا ہے۔ کبھی آپ سے اس کی ملاقات ہوئی ہے ؟‘
ہم اور شہریار ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ اس سوال کا جواب کیا دیا جائے لیکن جواب کا انتظار کئے بغیر چودھری صاحب نے کہا۔ ’پانچ سال سے شہر والے اسے میٹرک میں فیل کر رہے ہیں۔ آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ ‘
چودھری صاحب کی بات سن کر ایک گاؤں والے نے کہا۔ ’یہ دیکھ کر ہی میں نے چھوٹو کی پڑھائی بند کروا دی۔ ماسٹر کہتے رہے کہ چھوٹو اچھا پڑھتا ہے اسے شہر بھیجو۔ لیکن میں نے کہا نہیں جی، چودھری صاحب کے بیٹے کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے تو ہمارے ساتھ کیا کچھ نہ ہو گا!‘
اس موضوع یعنی شہر والوں کے ناروا سلوک پر دوسرے لوگ بھی اظہار خیال کرنے لگے۔ کچھ دیر خاموشی سے ہم سنتے رہے پھر موقع پا کر ہم چودھری کی بزم سے کھسک گئے۔
شام ہونے آئی تو چرند، پرند اور انسان اپنے اپنے بسیروں کو لوٹنے لگے۔ غروب ہوتا سورج، خدا کی حمد و ثنا کرتے پرندوں کی چہچہاہٹ، چرندوں کے بوجھل قدم اور آرام کا ارمان لیے تھکے ماندے گاؤں والے گھروں کی طرف رواں دواں تھے۔ ہم ایک ٹیلے پر بیٹھ کر غروب آفتاب کا منظر دیکھنے لگے۔ ہم جانتے ہی نہ تھے کہ شہر میں سورج بلند و بالا عمارتوں کے پیچھے کب اور کیسے طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ سورج وہاں غروب ہوتا ہے جہاں زمین اور آسمان ملتے ہیں اور جب عمارتیں ان کے درمیان حائل نہیں ہوتیں۔
سورج غروب ہوا تو رات کی سیاہی آسمان پر چھانے لگی اور پھر رات ہو گئی۔ آسمان پر تارے چمکنے لگے اور چاند بادلوں کی اوٹ سے نکل آیا۔ مدھم مدھم روشنی اور ہوا کی سرسراہٹ میں ہم اور شہریار دیر تک گم صم بیٹھے رہے۔ شہریار نے خاموشی توڑی۔ ’شہر کے آسمان پر کبھی صاف اور چمکتے تارے نظر نہیں آتے۔ آسمان پر ایک دھندلی چادر تنی دکھائی دیتی ہے۔ ‘
ہم نے بھی اپنا خیال ظاہر کیا۔ ’وہاں کسے چاند اور تاروں کی تلاش رہتی ہے۔ اندھیرا ہوا نہیں کہ بتیاں جل اٹھیں اور شہر روشنی میں نہا جاتا ہے۔ ‘
شہریار نے ہمارے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا۔ ’شہر میں چاند کو عید کے موقع پر چھت پر چڑھ کر تلاش کیا جاتا ہے۔ ویسے شہری لوگ بلند عمارتوں کی کھڑکیوں میں اپنے اپنے چاند کی تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔‘
شام کے مناظر سے لطف اندوز ہو کر ہم رات آٹھ بجے شابو کے گھر پہنچے۔ شابو کی ماں نے شکایت کی کہ ہم دیر سے آئے ہیں۔
ہم نے عذر پیش کیا۔ ’ ابھی صرف آٹھ بجے ہیں۔ رات تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ ‘
جواب ملا۔ ’ گاؤں میں وقت کا حساب گھڑی سے نہیں رکھا جاتا، سورج اور چاند سے وقت کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ اور تمھیں بتاؤں کہ آسمان پر چمکتے تارے راستے بتاتے ہیں۔ ‘
’گاؤں والے بہت پیچھے ہیں۔ ‘ شہریار نے اپنی رائے دی۔
شابو کی ماں نے پتے کی بات کہی۔ ’ بیٹا تم اپنی طرف سے دیکھ رہے ہو۔ اگر ہماری جانب سے دیکھو گے تو اندازہ ہو گا کہ ہم آگے ہیں، قدرت کے بہت قریب!‘
رات کا کھانا پروسا گیا۔ ہم شابو کی تقلید کرتے ہوئے فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ موز کے پتے پلیٹیں بنیں اور لکڑی کے چمچے سے چاول ڈالا اور اسی چمچے سے ترکاری کا سالن ڈالتے ہوئے شابو کی ماں نے کہا۔ ’مشکل سے بیگن ملے ہیں۔ گاؤں میں جتنی ترکاری پیدا ہوتی ہے اسے شہر بھیج دیا جاتا ہے۔ دودھ، انڈے اور مرغیوں کو بھی شہر بھیجا جاتا ہے۔ ہمارے حصّہ میں بچی کھچی چیزیں آتی ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔ ‘
بغیر چھری کانٹے اور چمچے ہم نے ہاتھ سے ڈنر کھایا۔ پھر اسی جگہ کو صاف کر کے چادر بچھائی گئی، جو ہمارا بستر تھا۔ ہمیں سوجانے کے لیے کہا گیا کہ رات بہت ہو گئی ہے اور گاؤں میں دوسرے لوگ کبھی کا سوچکے ہیں۔ ہم سونے کے لیے لیٹ گئے۔ شہریار نے کروٹ بدل بدل کر سونے کی ناکام کوشش کے بعد باہر جھانک کر کہا۔ ’سارے گاؤں میں خاموشی ہے۔ سب سو رہے ہیں اور ہم الّوؤں کی طرح جاگ رہے ہیں۔ ‘
ہم نے کہا۔ ’نیند کہاں سے آئے گی۔ نیند آنے کے لیے ٹیلی ویژن دیکھنا اور بے مقصد شہر کی سڑکوں پر گھومنا اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنا بھی تو ضروری ہے۔ سونے کی کوشش کرو۔ صبح اٹھ کر کھیتوں میں جانا ہے۔ ‘
صبح سویرے چڑیوں کی چہچہاہٹ اور مرغوں کی بانگ سے گاؤں والے بیدار ہوئے اور اپنے اپنے کام میں جٹ گئے۔ شابو نے ہمیں نیند سے بیدار کیا۔ ہماری نیند پوری نہیں ہوئی تھی لیکن کھیت دیکھنے کے خیال سے اٹھ بیٹھے۔ شہریار کو جگایا تو انہوں نے وقت پوچھا۔
شابو نے کہا۔ ’صبح ہو چکی ہے۔ ‘
اور ہم نے گھڑی دیکھ کر وقت بتایا تو شہریار کہنے لگے۔ ’ساڑھے پانچ بجے۔ یہ سونے کا وقت ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی آٹھ بجے سے پہلے نہیں جاگا ہے۔ مجھے نو بجے اٹھانا۔ ‘ پھر شہریار کروٹ بدل کر سوگئے۔
ہم شہریار کو ان کے حال پر چھوڑ کر شابو کے ساتھ کھیتوں کی طرف چل پڑے۔ سورج طلوع ہو رہا تھا اور چہار طرف اجالا پھیل رہا تھا۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ زندگی میں پہلی مرتبہ ہم سورج کو ڈوبتے اور پھر ابھرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ شابو ہمیں مختلف کھیتوں کے بارے میں بتانے لگے۔ دور دور تک ہرے بھرے لہلہاتے کھیت ہمیں بہت اچھے لگے۔ آنکھیں بھوری سمنٹ کی بل کھاتی سڑکیں دیکھ کر اوب سی گئیں تھیں۔ ہم تفصیل سے دیکھنے کے لیے ایک کھیت کے پاس رک گئے۔ ہم نے پہلی مرتبہ ٹماٹر کو پودے میں لگے دیکھا۔ لیمو کو چھاڑ پر لٹکتے دیکھا۔ موز کی پھنی کو بڑے بڑے پتوں کی آڑ میں چھپتے دیکھا۔ پالک کو زمین سے اگتے دیکھا۔ چاول اور گیہوں کے کھیت دیکھے۔ مختلف اقسام کے پودوں اور جھاڑوں کو دیکھ کر ہم حیران ہوئے اور شابو پر سوالوں کی بوچھار کر دی۔ ٹماٹر کے پودے کی عمر کیا ہوتی ہے۔ ایک لیمو کے جھاڑ پر کتنے لیمو لگتے ہیں۔ چاول کے کھیت کے لیے درکار پانی کہاں سے آتا ہے۔ ایک بیگن کا وزن کیا ہوتا ہے۔ سب سے بڑے بیگن کا جو گنیس بک آف ریکارڈس میں درج کیا گیا ہو، وزن کیا تھا۔ وغیرہ، وغیرہ۔
شابو ہمارے سوالوں سے پریشان ہو کر ایک ہی جواب دینے لگا۔ ’نہیں معلوم۔ صاحب میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ ‘
کھیتوں کو دیکھ کر ہماری ایک دیرینہ غلط فہمی دور ہوئی۔ شہر میں ترکاریوں، اناج اور پھلوں کو شوکیس میں سجا اور پیکٹ میں بندھا دیکھنے سے ہمیں یہ احساس ہو چلا تھا کہ ترکاری اور پھل زمین سے اگتے نہیں ہیں بلکہ انہیں فیکٹری میں تیار کیا جاتا ہے۔
کھیت میں ایک بیل کی طرف اشارہ کر کے شابو نے کہا۔ ’یہ آلو کی بیل ہے۔ ‘
بیل پر آلو لٹکتے نظر نہ آئے تو ہم نے شابو کی بات کا یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ شابو نے زمین پر پھیلی بیل کو اکھاڑا اور جب زمین کے اندر سے آلو باہر آئے تو ہم قدرت کی کاریگری کی داد دینے لگے۔
گاؤں کے لوگ اپنے اپنے کام میں منہمک تھے۔ کوئی جانوروں کو چرا رہا تھا۔ کوئی کھیت کو پانی دے رہا تھا۔ کوئی ہل چلا رہا تھا۔ عورتیں مردوں کا ہاتھ بٹا رہی تھیں۔ کھیت کی صفائی کر رہی تھیں۔ کیاریاں بنا رہی تھیں۔ چڑیوں کو اڑا رہی تھیں۔ پودے لگا رہی تھیں۔ ہم نے تمام گاؤں چھان مارا لیکن ہمیں فلموں کے سین کی طرح ناچتی گاتی اور پنگھٹ پر پانی بھرتی لڑکیاں نظر نہ آئیں۔ ہم ’ان لڑکیوں ‘ کے بارے میں شابو سے پوچھنا چاہتے تھے لیکن جب ہمیں گاؤں کی عورتیں دھوپ کی تمازت برداشت کرتے، زندگی کا کرب سہتے، بغیر میک اپ اصلی چہرہ لیے بچوں کو گود میں اٹھائے ماں اور بیوی کے فرائض کے ساتھ ایک ہمدرد اور مددگار بنی ہوئی تھیں تو ہم چپ ہو لیے۔ حیرت ہوئی کہ فلم والے ہم سے پیسے لے کر کتنا جھوٹ دکھاتے ہیں !
ہماری صبح بغیر اخبار کے ہوئی۔ گاؤں میں اخبار چھپتا ہے اور نہ ہی اخبار ملتا ہے۔ سکون اور اطمینان سے دن گزرتا ہے۔ شہر میں جب تک اخبار نہ دیکھیں صبح نہیں ہوتی۔ بعض شہری صبح اخبار پڑھنے کے اس حد تک عادی ہو تے ہیں کہ بغیر اخبار پڑھے وہ اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے ! اخبار میں مختلف خبریں چھپتی ہیں۔ بنک میں ڈاکہ، اجتماعی آبروریزی، اڑتے جہاز میں بم دھماکہ، پولس فائرنگ، بے گنا ہوں کی گرفتاری، ہڑتال، توڑ پھوڑ، قتل اور غارت گری۔ نئے دن کی شروعات جب ایسی خبروں سے ہو تو اندازہ لگایئے کہ شہر میں باقی دن کیسے گزرتا ہو گا۔
گاؤں میں بغیر اخبار صبح بہت سہانی لگی۔ کہیں ڈر تھا اور نہ ہی کوئی خوف۔ آزادی سے چرند اور پرند گھاس چرنے اور دانہ چگنے میں مصروف تھے تو گاؤں والے اپنی دھن میں گنگناتے اور گاتے ہوئے کام کر رہے تھے۔
ہم اور شابو کھیتوں سے واپس ہوئے تو شہریار کو ہنوز سوتا پایا۔ ہم نے انھیں اٹھایا اور واپس شہر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ شابو کے گاؤں سے سڑک کا فاصلہ ہم نے بیل گاڑی میں طے کیا۔ بیل گاڑی کا سفر گاؤں کی سیر کا آخری ایٹم تھا۔ بیل گاڑی کے سفر کی روداد کے لیے الگ ایک مضمون درکار ہے۔ مختصراً یہ کہ اوپر نیچے جھولتے اور اِدھر اُدھر بل کھاتے، سخت لکڑی کے فرش پر اکڑوں بیٹھے رہے۔ دو ایک مرتبہ ہم نے بیل گاڑی سے اترنا چاہا لیکن شابو نے درخواست کی۔ ’صاحب بیٹھے رہیے، روز ایسا موقع کہاں ملتا ہے۔ ‘
بیل گاڑی سے اترے تو ہمارا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا۔ دو ایک جگہ کہنیاں اور گھٹنے چھل گئے تھے۔ کپڑے جھاڑتے ہوئے ہم نے شابو کے گاؤں کی جانب الوداعی نظر ڈال کر شابو سے پوچھا۔ ’ تم ہمارے ساتھ شہر چلو گے یا گاؤں میں ٹھہرو گے ؟‘
شابو نے اپنے گاؤں کی اُور حسرت سے دیکھ کر کہا۔ ’ صاحب، شہر میں موجود سہولتوں میں سے دو ایک آسانیاں اگر ہمیں میسّر ہو جاتیں تو ہم اپنا گاؤں چھوڑ کر کہیں نہ جاتے ! مجبوری ہے۔ میں بھی آپ کے ساتھ شہر چل رہا ہوں۔ ‘
ہم تینوں شہر واپس جانے کے لیے بس کا انتظار کرنے لگے۔
٭ ٭ ٭
ماہنامہ کتاب نما، نئی دہلی، فروری 1995ء
میں صرف پتی ہوں
صبح سویرے بیگم اخبار پر جھکی نظر آئیں۔ محدب شیشہ کی مدد سے سطر بہ سطر انگلی رکھے وہ کچھ تلاش کر رہی تھیں۔ چند لمحے میں خاموشی سے انتظار کرتا رہا کہ وہ اپنی مہم میں کامیاب ہو کر خوش خبری سنائیں گی۔ لیکن مجھے ناکامی ہوئی۔ بیگم کی تلاش جاری رہی۔ آخر، اپنے تجسّس کی تسکین کی خاطر مجھے پوچھنا پڑا۔ ’آپ کیا تلاش کر رہی ہیں ؟‘
’آپ کا نام۔ ‘ بیگم نے اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔
’میرا نام!‘ میں چونک پڑا اور اخبار میں نام چھپنے کے امکانات پر غور کرنے لگا۔ میں نہ کوئی لیڈر ہوں اور نہ ہی کوئی منسٹر۔ اسمگلر ہوں اور نہ ہی نامی گرامی غنڈہ۔ کرکٹ کھلاڑی ہوں اور نہ ہی سٹہ باز۔ گلوکار ہوں اور نہ ہی شاعر۔ رپورٹر ہوں اور نہ ہی ایڈیٹر۔ فلمی ستارہ ہوں اور نہ ہی کوئی بزنس مین۔ بس گمنام سا ایک آدمی ہوں۔ وقت بے وقت میرا نام اخبار میں کیوں کر آئے گا؟ ہاں، اخبار میں نام شائع ہونے کی ایک آخری امید ہے جس کے لیے ابھی دیر ہے۔ کم از کم میں تو یہی چاہتا ہوں کہ دیر اور بہت دیر ہو۔ اب آگے اوپر والے کی مرضی!
لاٹری اور امتحان کے نتائج میں نام سے زیادہ نمبر کی اہمیت ہوتی ہے اور حالیہ عرصہ میں میرا ایسا کوئی نمبر بھی نہ تھا جو اخبار کی زینت بن سکتا ہے۔ اپنے آپ سے الجھنے کے بجائے میں نے استفسار کیا۔ ’بیگم۔ آپ میرا نام کہاں ڈھونڈ رہی ہیں ؟‘
’فوربس میگزین نے سن دو ہزار چھ عیسوی کے ارب پتیوں کی فہرست جاری کی ہے۔ میں اسی فہرست میں آپ کو تلاش کر رہی ہوں۔ ‘ بیگم نے جواب دیا۔
سمجھ میں نہیں آیا کہ بیگم کی اس حرکت کو میں کیا نام دوں۔ کیا یہ مزاح کے زمرے میں آتی ہے یا پھر مجھ پر کوئی طنز ہے۔ دونوں صورتوں کو مسکراتے اور ہنستے ہوئے برداشت کرنا ہے۔ یہی سوچ کر میں نے کہا۔ ’میری ایسی قسمت کہاں ! کیوں اپنا وقت برباد کر رہی ہیں۔ میں ارب پتی ہوں اور نہ ہی کروڑ پتی۔ میں صرف آپ کا پتی ہوں۔ ‘
’کاش آپ میرے پتی ہونے کے ساتھ ارب پتی بھی ہوتے !‘ بیگم نے اپنی مہم کو خیرباد کہتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھر ی۔
کچھ سجھائی نہ دیا تو میں نے بڑ ہانکی۔ ’اور اگر میں چائے کی پتی ہوتا؟‘
بیگم نے مجھے گھور کر یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں کہ میں بے تکی بات کا جواب دینا نہیں چاہتی جبکہ میں بیگم کو حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ کیسا ’عجوبہ‘ ہے ! ہر دم زیادہ اور زیادہ کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔ میں کولہو کے بیل کی طرح صبح سے شام بلکہ صبح سے صبح تک موصوفہ کے مطالبات کی تکمیل میں جٹا رہتا ہوں۔ میں لکھ پتی اس لیے بھی نہ بن سکا کہ شاید بیگم لکی نہ تھیں اور میں LUCK پتی نہ تھا۔ اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے۔ کوئی لکھ پتی، کروڑ پتی اور ارب پتی تک بن جاتے ہیں اور کوئی خالی پتی بھی نہیں بن پاتے۔ انھیں کوئی خاتون پتی بنانا گوارہ نہیں کرتی!وہ بے چارے خوش قسمت ہوتے ہیں۔
میں ارادہ کر رہا تھا کہ بیگم کو قناعت اور شکر کا ایک لیکچر پلاؤں، بیگم نے حیرت اور تجسّس کے ملے جلے احساسات کے ساتھ دریافت کیا۔ ’ان ارب پتیوں کے پاس کتنی دولت ہوتی ہو گی۔ ‘
’اربوں میں ! بل گیٹس جو دنیا کا دولت مند ترین شخص ہے کے پاس پچاس بلین ڈالر کا اثاثہ ہے اور اپنے ملک کا امیر ترین شخص لکشمی نواس متل کے پاس تیئیس اشاریہ پانچ ارب ڈالر کا سرمایہ ہے۔ ‘ میں نے معلومات سے بیگم کو مالامال کیا۔
’یہ ارب اور بلین کیا ایک ہی ہیں یا الگ الگ ہیں ؟‘ بیگم نے سوال کیا۔
بیگم کے سوال پر مجھے حیرت ہوئی کہ انھیں گنتی نہیں آتی اور خواب ارب پتی بننے اور بنانے کے دیکھتی ہیں۔ میں نے بتایا۔ ’جی دونوں ایک ہی ہیں۔ ہم ارب کہتے ہیں اور فرنگی بلین۔ ‘
’یہ ایک ارب یا بلین کتنا ہوتا ہے ؟‘ بیگم نے پھر سوال کیا۔
’ایک کے بعد صفر، صفر، صفر، صفر، صفر، صفر، صفر، صفر اور صفر، پورے نو صفر ہوتے ہیں۔ ‘ میں نے جواب دیا۔
’ایک کے بعد نو صفر!‘ بیگم نے دہرا کر کہا۔ ’اب بھی ایک ارب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ذرا اسے آسان کیجیے، پلیز‘
مجھے بیگم پر غصّہ آنے لگا۔ بڑی نادان ہیں۔ لوگوں کے پاس موجود دولت کا اندازہ تک کرنا نہیں آتا۔ چونکہ انھوں نے پلیز کہا تھا مجھے بتانا پڑا۔ ’ایک ارب میں سو کروڑ ہوتے ہیں اور ایک کروڑ میں سولاکھ۔ ۔ ۔ ‘
’لاکھ کو میں جانتی ہوں۔ ‘ بیگم نے مجھے بیچ میں روک کر کہا۔ ’اس میں ایک سو ہزار ہوتے ہیں۔ ‘
’جی خدا کا شکر ادا کیجیے کہ آپ ایک لاکھ کا اندازہ کر سکتی ہیں۔ ‘
’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسم بامسمی لکشمی متل کے پاس دو ہزار تین سو پچاس کروڑ یعنی دو لاکھ پینتیس ہزار لاکھ ڈالر ہیں۔ اللہ رے ! اتنی دولت۔ حساب کرنے اور سمجھنے کی کوشش سے میری سانس پھولنے لگی ہے۔ ‘ چند گہری سانسیں لے کر بیگم نے پھر سوال کیا۔ ’اتنے سارے ڈالر کے کتنے روپے بنتے ہیں ؟‘
’بیگم جب دولت زیادہ ہوتی ہے تو اس کا حساب ڈالر میں رکھا جاتا ہے۔ ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ کیا چیز ہے۔ کبھی بھی لڑکھڑا سکتا ہے۔ یوں اگر آپ اندازہ کرنا چاہتی ہیں تو کچے حساب سے ایک ڈالر کو چالیس، پچاس سے ضرب دیجیے۔ ‘
بیگم کیلکولیٹر لے آئیں اور کچھ دیر تک کیلکولیٹر سے الجھنے کے بعد کہا۔ ’اس میں آٹھ سے زیادہ ہندسے نہیں آ رہے ہیں۔ ارب پتیوں کی دولت کا اندازہ کرنے سے کیلکولیٹر بھی قاصر ہے۔ شاید کمپیوٹر کی مدد لینا پڑے گا۔ ‘
’بیگم اسی کیلکولیٹر پر صفروں کو ہٹا کر حساب کیجیے۔ ‘ میں نے بیگم کو بڑا اور پیچیدہ حساب کرنے کا گر بتایا۔
’جناب تو جینیس ہیں۔ معلوم نہیں کیوں لکھ پتی تک نہیں بن پائے ! خیر۔ ‘ بیگم نے مجھ پر طنز کیا اور حساب کر کے بتایا۔ ’سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اس آنکڑے کو کیسے بیان کیا جائے۔ یہی کوئی ایک کروڑ پندرہ بیس لاکھ، لاکھ روپے بنتے ہیں۔ ‘
’یعنی۔ ‘ اس مرتبہ میں نے سوال کیا۔
’ایک کروڑ بیس لاکھ مرتبہ لاکھ لاکھ روپے۔ ‘ بیگم نے سمجھانے کی کوشش کی۔
ہمیں لاکھ تک گنتی کا تجربہ ہے۔ اس سے آگے کا حساب بھی لاکھوں میں سجھائی دیتا ہے۔ اب کروڑوں میں لاکھوں ہیں تو عقل ساتھ نہیں دے رہی ہے۔ بے زار ہوتے ہوئے میں نے کہا۔ ’اب اس حساب کو چھوڑیئے۔ اندازہ ہوا کہ ارب پتیوں کے پاس بے حساب دولت ہے۔ وہ ہماری طرح جمع اور ضرب میں وقت نہیں گنواتے، ہر دم دولت بٹورنے میں مصروف رہتے ہیں۔ خواہ مخواہ کا حساب کرنے سے سر میں درد ہو رہا ہے۔ کیا اس غریب پتی کو ایک پیالی چائے مل سکتی ہے۔ ‘
’ضرور۔ آپ بھی کیا یاد کریں گے، کس حاتم سے سابقہ پڑا ہے۔ میں ابھی چائے لے آئی۔ ‘
بیگم کچن میں چائے بنانے چلی گئیں تو میں کرسی پر نیم دراز ہو کر آنکھیں بند کئے سستانے لگا۔ بند آنکھوں نے مجھے جاگتے خواب دکھانا شروع کیا۔ میں نے دیکھا کہ میرا نام بھی امرا کی فہرست میں شامل ہوا ہے۔ میں اپنے عالی شان محل نما دفتر میں بیٹھا ہوں۔ ارب پتیوں کی فہرست میں نام شامل ہونے پر صحافی میرا انٹرویو کر رہے ہیں۔ فوٹو گرافر میری تصویر بنا رہے ہیں اور کیمرہ مین مجھے شوٹ کر رہے ہیں۔ ایک صحافی نے سوال کیا۔ ’آپ دولت مند کیوں کر بنے ؟‘
میں نے جواب دیا۔ ’ میری بیگم کی خواہش تھی کہ ان کے پتی کا شمار ارب پتیوں میں ہو۔ پس شادی ہوتے ہی میں پس اندازی اور بیگم کو سرخرو کرنے میں جٹ گیا اور اٹھتے بیٹھتے میں دولت مند بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ بس یہی ایک لگن تھی جس نے مجھے اس مقام پر پہنچایا ہے۔ ‘
’آپ اتنی دولت کا کیا کریں گے ؟‘ صحافی نے دوسرا سوال کیا۔
’اس دولت سے۔ ۔ ۔ ‘ میں نے جواب دینا شروع کیا تھا کہ کپ پر چمچے سے دستک کی آواز سے میرا خواب چکنا چور ہوا۔ دیکھا تو بیگم چائے کی کپ پر چمچہ بجاتے کھڑی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ ارب پتیوں میں شامل ہونے کی راہ میں بیگم حائل ہو گئی ہیں۔ صبر کرنے کے علاوہ میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ میں نے سوچا کیوں نہ صحافی کا ادھورا سوال بیگم سے کیا جائے۔ میں نے بیگم سے پوچھا۔ ’اگر آپ کو اتنی دولت مل جائے تو آپ کیا کریں گی؟‘
’کتنی دولت؟‘ بیگم نے الٹا سوال کیا۔
’کروڑوں لاکھوں میں۔ ‘ میں نے وضاحت کی۔
’کروڑوں لاکھوں میں کیوں ! جب یوں ہی خیال کرنا ہے تو پھر اربوں میں کیوں نہیں۔ تصور میں تو کنجوسی نہ کیجیے۔ ‘عادت سے مجبور بیگم نے زیادہ رقم کا مطالبہ کیا۔
’چلیے مان لیا۔ آپ کے پاس اربوں ڈالر ہیں۔ آپ کیا کریں گی۔ ‘ میں نے بیگم کو اربوں ڈالر رقم دے دی۔
’میں شاپنگ کروں گی۔ ‘
’وہ تو اب بھی کرتی ہیں۔ ‘ میں نے بیگم کو یاد دلایا۔
’اب کیا خاک شاپنگ ہوتی ہے۔ کئی اشیا کے دام پوچھ کر رہ جاتی ہوں۔ ‘ بیگم نے شکایت کرنے بعد کہا۔ ’میں وہ تمام چیزیں خریدوں گی جن کی اب تک صرف قیمت دریافت کر کے صبر کیا ہے۔ ‘
’شاپنگ کے علاوہ بتایئے۔ ‘ میں نے سوال کیا۔
’ میں شاپنگ کے علاوہ بھی شاپنگ ہی کروں گی۔ میں ڈھیر سارے کپڑے خریدوں گی۔ زیور خریدوں گی۔ جوتے خریدوں گی۔ ۔ ۔ ‘
میں نے بیگم کو شاپنگ کی فہرست مکمل کرنے نہیں دی۔ ’یعنی آپ جیہ للیتا کا ریکارڈ توڑنا چاہتی ہیں جس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں کپڑے اور کئی کلو زیور ہے۔ بہت زیادہ جوتے خرید کر آپ فلیپین کے سابق صدر کی بیوہ املڈا مارکوس کو مات دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ‘
’مجھے نہیں معلوم کہ میں کس کس کا ریکارڈ توڑوں گی۔ آپ نے پوچھا تو میں نے بتایا۔ یوں بھی آپ نے کون سے حقیقی ڈالر دیئے ہیں۔ صرف خواب ہی تو دکھا رہے ہیں۔ ‘ بیگم ناراض ہونے لگیں۔
’اچھا اب میں کچھ نہیں کہوں گا۔ بتایئے آپ اور کیا کریں گی۔ ‘
’میں شاندار کوٹھی بناؤں گی۔ ایک نہیں، دو تین چار۔ کبھی اِس گھر میں تو کبھی اُس گھر میں رہوں گی۔ نئی کاریں لوں گی۔ ہر سال ایک نئی کار۔ چھٹیاں باہر مناؤں گی۔ ناشتہ ایک ملک میں اور ڈنر دوسرے ملک میں۔ بچوں کو امریکہ اور لندن میں پڑھاؤں گی۔ دھوم دھام سے ان کا بیاہ رچاؤں گی۔ سارے شہر کو دعوت دوں گی۔ ‘ بیگم نے اپنی خواہشات گنائیں۔
’اس کے باوجود بھی بہت ساری دولت بچ رہے گی۔ آپ اس کا کیا کریں گی۔ ‘ میں نے سوال کیا۔
’میں بقیہ دولت آپ کو سونپ دوں گی۔ آپ کی مرضی جو چاہیں کریں۔ میں تو گھر اور بچوں میں مصروف رہوں گی۔ اب آپ بتایئے میری دی ہوئی دولت کا آپ کیا کریں گے ؟‘ بیگم نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے پوچھا۔
’میں اتنی دولت کا کیا کروں گا۔ ‘ چند لمحے سوچنے کے بعد میں نے جواب دیا۔ ’دیکھیے بیگم۔ شاپنگ اور فضول خرچ سے قارون کا خزانہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح تو میں ارب پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے لکھ پتی اور لکھ پتی سے قلاش پتی بن جاؤں گا۔ اسی لیے میں آپ کو شاپنگ کی اجازت نہیں دوں گا۔ میں کچھ دولت باہر کے بنکوں میں رکھوں گا، کچھ سے سرمایہ کاری کروں گا، کچھ سے جائیداد بناؤں گا اور۔ ۔ ۔ ‘
’اور کیا۔ ‘ بیگم نے ٹوکا۔ ’اپنی دولت کو اِدھر اُدھر پھنسا کر ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزاروں گا!‘
’کیا فرق پڑتا ہے۔ زندگی گزارنا مقصد ہے اور ہر کسی کی گزر ہوہی جاتی ہے۔ چاہے وہ ارب پتی ہو یا قلاش پتی۔ اہم سوال ہے کہ زندگی کیسے گزاری؟ اس کا حساب تو بہت بعد میں ہوتا ہے۔ ‘ میں نے بیگم کے اعتراض کا ایک فلسفی بن کر جواب دیا۔ ’اصل میں ہمیں اس سوال کی تیاری کرنی ہے۔ ‘
میرا جواب سن کر بیگم نے ہاتھ جوڑے۔ ’مجھے معاف کریں۔ مجھ سے غلطی ہوئی جو میں نے آپ کا نام غلط فہرست میں تلاش کیا۔ ‘ اور چائے کے کپ سمیٹ کر چلی گئیں۔
٭ ٭ ٭
ہفتہ وار اردو میگزین، جدہ، 10 اپریل 2006ء
سگ گزیدہ
انگریزوں کو کتے پالنے کا شغف ہے تو اردو مزاح نگاروں کو کتوں پر مضمون لکھنے کا شوق ہے۔ کتوں پر مضمون لکھنا ایک روایت بن گئی ہے۔ اگر اردو مزاح نگاروں کا کتوں سے اسی طرح انس باقی و برقرار رہا تو عجب نہیں کہ مستقبل میں ’کتے ‘ پر مضمون تحریر کرنا مزاح نگاری کی شرط ٹھہرے گی۔ جس نے بھی کتوں پر مضمون لکھا وہ مزاح نگار قرار پایا۔ بصورت دیگر اسے ادب کی کسی اور صنف میں طبع آزمائی کے لیے کہا جائے گا۔
ہم پچھلے چند برسوں سے مزاح لکھ رہے ہیں۔ نقادوں نے ابھی ہمیں مستند مزاح نگار کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ چنانچہ اپنی حیثیت منوانے اور اپنا مقام متعین کروانے کے لیے ہم نے کتوں پر مضمون لکھنے کا ارادہ کیا۔ کئی دن اور رات بے چین اور بے قرار سوچتے رہے کہ کتوں پر کیا لکھیں۔ کتوں کے تعلق سے شاید ہی کوئی پہلو ایسا بچا ہو گا جس پر اردو مزاح نگاروں نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ جدید مزاح نگاری کے باوا آدم پطرس نے کتوں کا ایسا شاندار مشاعرہ منعقد کیا کہ مشتاق احمد یوسفی کو کہنا پڑا۔ ’کتے کی تخلیق کا واحد مقصد پطرس کا مضمون ہے اور اس مضمون کے بعد اس نسل کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ‘
پطرس کے لاجواب مضمون کے بعد جب کتوں کو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں ہے تو پھر کتوں پر مضمون لکھنے کا سوال کہاں اٹھتا ہے ؟ اگر کچھ کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ پیش رو مزاح نگاروں نے پوری کر دی تھی۔ ہمارے لیے کتوں کے تعلق سے مایوسی اور نا امیدی کے سوا کچھ بچا نہ تھا۔
ایک شام پبلک گارڈن کے ایک خاموش گوشے میں تنہا گھنٹہ دو گھنٹہ سوچنے کے بعد، ہم بلند پایہ مزاح نگار کے اعزاز سے محرومی کا طوق گلے میں ڈالے، کتوں پر مضمون لکھنے کا ارادہ ترک کئے، بوجھل قدموں سے لڑکھڑاتے گھر لوٹ رہے تھے۔ کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ بحیثیت مزاح نگار ہمارا مستقبل تاریک ہو چکا تھا۔ شعر کہنے کے امکانات پر غور کر رہے تھے کہ ناگاہ ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ لوگوں کی ’ہائیں۔ ۔ ۔ ہائیں۔ ۔ ۔ ‘ کتے کا بھونکنا اور ہماری پنڈلی سے بہتے ہوئے خون نے ہماری سوچنے اور سمجھنے کی قوت جیسے سلب کر دی تھی۔ لوگوں نے سہارا دے کر سمنٹ کی بنچ پر لٹایا۔ پینے کے لیے پانی دیا۔ دبی آواز میں ہم نے پوچھا۔ ’کیا ہوا؟‘
ایک صاحب نے ہمیں ڈانٹا۔ ’کیا ہوا، کیا مطلب! کتے نے کاٹا ہے۔ جناب خیالوں کی دنیا آباد کیے جھومتے آ رہے تھے، لیٹے ہوئے کتے پر نظر نہیں پڑی اور اس کی دم پر پیر رکھ دیا۔ جواباً کتے نے سالم پنڈلی کو نوالہ بنا لیا۔ ‘
ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ’شکر ہے ‘۔ محسوس ہوا جیسے مزاح نگاری میں ہمیں منزل مل جائے گی!
ہماری زبان سے ’شکر ہے ‘ سن کر لوگوں نے چند فقرے کسے۔ ’میں نہ کہتا تھا کہ یہ شخص پیا ہوا ہے۔ ‘
’دیکھ لیا نشہ کرنے کا نتیجہ!‘
’اِدھر کتے نے کاٹا اور اُدھر پاگل پن شروع ہوا۔ ‘ اس فقرے نے ہمیں مزاح نگاری سے نکال کر ہوش وحواس کی دنیا میں لا پٹکا۔ ہم زخم دیکھ کر مزاح نگاری بھول گئے اور گھبرا بھی گئے۔ ہم نے بلند آواز میں سوچاکہ ’اب کیا کیا جائے۔ ‘
لوگوں نے پھر چند جملے کہے۔ ’ یہ تو گیا کام سے !‘
’کتے کا زہر اثر کرنے لگا ہے۔ ‘
’کیا کیا جائے ! اجی صاحب ڈاکٹر کے پاس جائیے۔ ‘ کسی نے مشورہ دیا۔
لنگڑاتے ہوئے ہم ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب زخم دیکھنے کے بجائے واردات کے تعلق سے تفتیش کرنے لگے۔ ’کتے کی عمر، جنس، نام اور پتا۔ ‘
’کتا کس کا تھا۔ کیسا تھا۔ پالتو تھا کہ آوارہ۔ ‘
’کتے نے بھونک کر کاٹا تھا یا بغیر بھونکے حملہ آور ہوا تھا۔ کتا سیانا تھا کہ پاگل۔ ‘
’کیا کتا آپ کو جانتا تھا۔ اگر نہیں تو کیا آپ کتے کو جانتے ہیں۔ ‘
’آپ کے علاوہ اس کتے نے کیا کسی اور کو بھی کاٹا ہے۔ کیا آپ ان میں کسی کو پہچانتے ہیں۔ ‘
’کتے نے کیوں کاٹا۔ کوئی پرانی دشمنی تھی یا آپ نے پہل کی تھی۔ ‘
’اس سے پہلے بھی کیا آپ کو کسی کتے نے کاٹا تھا۔ ‘
اور یہ بھی کہ ’کتا کاٹنے کے بعد آپ نے کیا کیا؟‘
ڈاکٹر صاحب کے ہر سوال کا جواب ہمارے پاس ’مزاح نگاری‘ تھا لیکن ہم ہر سوال کے جواب میں ’نہیں معلوم‘ کہتے گئے۔ ڈاکٹر صاحب ہماری نادانی کا فائدہ اٹھا کر ہمیں ڈرانے لگے۔ ’ کتا کاٹنے سے موت واقع ہو سکتی ہے۔ آپ کتے کا پتہ لگائیے اور اس کے بارے میں معلومات اکٹھا کیجیے۔ اس کی چال چلن اور عادات و اطوار پر نظر رکھیئے۔ آنے والے دس دن بہت بھاری ہیں۔ اس دوران اگر کتا مرگیا تو یقین کیجیے :
آج وہ، کل تمھاری باری ہے
اور ان دس دنوں میں آپ کو ہر روز مجھ سے ایک انجکشن لگوانا پڑے گا۔ ‘
موت کے تصور سے ہمارا رواں رواں کانپ اٹھا اور ادھر ڈاکٹر صاحب ایک لحیم شحیم انجکشن لیے ہمارے سر پر آ ٹھہرے۔ کتے کی مناسبت سے انجکشن بڑا حیوانی تھا۔ کتا، انجکشن اور ڈاکٹر صاحب کے مثلث سے دس دن میں درپیش موت ’انسٹنٹ کافی‘ کی طرح آناً فاناً تیار ہوتی نظر آئی لیکن ہمیں کتے کی موت مرنا گوارا نہ تھا۔ انجکشن کے لیے ہم نے اپنا بایاں بازو آگے کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے شرٹ اٹھا کر پیٹ میں انجکشن گھونپ دیا۔ انجکشن کی تکلیف بھی کتا کاٹنے کے درد سے کم نہ تھی اور انجکشن کی سوئی کچھ اتنی موٹی تھی کہ لگا کسی باکسر نے پیٹ میں مکہ مارا ہے۔
کتے اور ڈاکٹر صاحب کا ظلم و ستم برداشت کر کے رات دیر گئے گھر پہنچے۔ بیوی کو کتا کاٹنے کی روداد الم سنانے کے بجائے ہم نے حادثے کی ایک فرضی داستان گھڑ دی۔ یہ احتیاط اس لیے برتی کہ کتا کاٹنے کی پریشانیوں سے کم از کم بیوی محفوظ رہے۔ لیکن ہمارے اس سفید جھوٹ کا اثر الٹا نکلا۔ بیوی نے زخم دیکھا اور منہ پھلائے پیر پٹکتی ہوئی بستر میں گھس کر ہمیں برا بھلا کہنے لگیں۔ ’اس عمر میں عشق لڑاتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ سفید بالوں اور بچوں کا خیال کیا ہوتا۔ کلموہی نے کس بیدردی سے کاٹا ہے۔ ‘
چار و ناچار ہمیں حقیقت اگلنی پڑی لیکن بیوی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ہم نے کہا۔ ’بھاگیہ وان، تم دوسری طرف کاٹ کر اپنے دانت کا نشان لگاؤ اور دونوں کا تقابل کرو۔ ‘
بیوی چراغ پا ہو گئیں۔ ’میں تمھاری بیوی ہوں، کوئی معشوقہ نہیں کہ غیر فطری حرکتیں کروں۔ ‘
ہم نے اپنا پیٹ دکھایا جہاں انجکشن کی جگہ مزید ایک چھوٹا پیٹ ابھر آیا تھا۔ اپنی اور بیوی کی قسم کا اعتبار تو تھا نہیں، بچوں کی قسمیں کھائیں۔ تب کہیں بیوی کو یقین آیا۔ پھر سے زخم کو غور سے دیکھا اور سوال کیا۔ ’کتے نے آپ کو کیوں کاٹا ؟‘
’ڈاکٹر صاحب بھی یہی سوال کر رہے تھے۔ ہم بھلا کتے کی مرضی کیا جانیں۔ ظالم کتے ہی سے پوچھو۔ ‘ ہم نے جواب دیا اور بیوی کی ہمدردی بٹورنے کے لیے کراہنے لگے۔ ’ہائے ! بہت درد ہوتا ہے۔ ‘
حربہ کارگر رہا۔ بیوی زخم کے آگے پنکھا ہلاتے ہوئے کتے کو کوسنے لگیں۔ ’خبیث کے دانت جھڑ جائیں اور موا کسی لاری کے نیچے آ کر مر جائے۔ ۔ ۔ ‘
ہم نے فوراً بیوی کا منہ بند کیا۔ ’ایسی بد شگونی نہ کرو۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میری جان کتے میں ہے، دس دنوں کے لیے۔ ‘
ہم نے انھیں ڈاکٹر کی ہدایات سمجھائیں۔ بیوی اپنے سہاگ کی خاطر کتے کی درازیِ عمر کی دعائیں مانگنے لگیں۔ ’کتا جگ جگ جیئے۔ سو برس کی عمر ہو۔ صحت اور سلامتی نصیب ہو۔ ‘
جذبات سے مغلوب ہو کر انھوں نے یہ بھی کہا۔ ’میری عمر اس کتے کو لگ جائے۔ ‘
دوسرے دن لکڑی کا سہارا لیے ہم کتے کی تلاش میں نکل پڑے۔ ہر کتے پر گماں ہوتا کہ ہمارا ’شریک زندگی ‘ یہی کتا ہے۔ پریشانی میں کتے کا حلیہ بھی یاد نہ رہا۔ اگر کتے کی جنس کا ہی اندازہ ہوتا تو ڈھونڈنے میں پچاس فی صد سہولت ہو جاتی۔ یادوں کے سہارے ہم اس مقام پر پہنچے جہاں کل شام کتے نے ہمیں کاٹا تھا۔ ایک صاحب نے ہمیں پہچانا اور سوال کیا۔ ’کیوں آہنساوادی آج دوسری ٹانگ پیش کرنے آئے ہو یا بدلہ لینے کا ارادہ ہے۔ ‘
ہم نے سوچا انھیں انسانوں سے دشمنی اور کتوں سے پیار ہے۔ ہمارے درمیان اس قسم کے لوگوں کی خاصی تعداد موجود ہے جن کی ترجمانی ایک فرانسیسی ادیبہ نے یوں کی ہے۔ ’میں آدمیوں کو جتنا قریب سے دیکھتی ہوں، اتنا ہی مجھے کتے اچھے لگتے ہیں۔ ‘
ہم نے ان کے جذبۂ حیوانی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ ’بھائی، ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کر رہا ہوں۔ میری زندگی کے لیے اس کتے پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ وہ کتا ہے کہاں اور کس کا ہے ؟‘
ابھی ہم سوال مکمل کر بھی نہ پائے تھے کہ ایک نحیف و ناتواں کتا ہمیں دیکھ کر بھونکنے لگا۔ کتے نے اپنے شکار کو پہچان لیا تھا۔ یہ وہی کتا تھا جس کے دانت ہماری پنڈلی پر نقشہ بنا چکے تھے۔ ہم نے اسے بغور دیکھا۔ سفید و سیاہ رنگ، ڈھلکتے کان، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، لانبی ناک، خطرناک دانت اور منحنی سی آواز۔ دوسرے کتوں کی طرح اس کتے کی دم بھی ٹیڑھی تھی۔ کتا ہمارا ہم جنس نکلا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کتا ہماری بیوی کا ہم جنس نہیں تھا، ورنہ جذبۂ رقابت میں ہمارا حشر برا ہوتا۔
تحقیق پر معلوم ہوا کہ کتے کی عمر دو سال آٹھ مہینے ہے۔ خاندان کا اتا پتا نہیں ہے، یتیم و یسیر ہے۔ بھونکتا کم ہے اور ضرورت سے زیادہ دم دبا کر رکھتا ہے۔ بد قسمتی سے ہم اس کا پہلا شکار بلکہ دوستوں کے مطابق پہلا پیار ہیں۔ اس نحیف و ناتواں کتے کا نام الیگزینڈر ہے۔ نام سن کر خوشی ہوئی کہ ایک نامی گرامی کتے نے ہمیں کاٹا ہے۔ اسے خراج پیش کرنے کے لیے ہم نے الیگزنڈر کے ساتھ ’دی گریٹ‘ کا اضافہ کر دیا۔
کتے کا مالک ایک فقیر منش انسان ہے جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ موصوف کتے کے پیچھے بھٹکتے پھرتے ہیں۔ کتے نے چار مرتبہ پیچھا چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ ثابت قدمی سے کتے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان سے ملاقات ہوئی۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے پہلے ہی وہ ہمارے سر ہو گئے۔ ’آپ نے کتے کی عادت خراب کی ہے۔ کتا ویجیٹیرین تھا۔ میرا بچا کھچا کھا لیا کرتا تھا لیکن آپ نے نان ویج لقمہ پیش کر کے اس کا ذائقہ بدل دیا ہے۔ کل سے وہ نان ویج غذا کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ ‘
کتے کے مالک کا بیان سن کر ہم نے پوچھا۔ ’کیا کتے نے پھر کسی کو کاٹا ہے ؟‘
جواب ملا۔ ’نہیں۔ آپ کے بعد سے کسی ادیب یا شاعر کا ادھر سے گذر نہیں ہوا۔ ‘
ہم نے کتے کے مالک کو سمجھایا کہ کتا پیدائشی نان ویج مخلوق ہے لیکن وہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ کہنے لگے۔ ’میں اپنے کتے کو خوب پہچانتا ہوں۔ اس کی پرورش میرے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اسے بھونکنا اور کاٹنا میں نے ہی سکھایا ہے۔ ‘
ہم نے معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے کچھ روپے ان کے ہاتھ میں رکھے۔ مٹھی گرم ہوتے ہی موصوف خاموش ہوئے لیکن ہمارا شریک زندگی ہم پر مسلسل بھونکے جا رہا تھا۔ برہم شریک زندگی کو ہم نے پچکارا۔ ’بڑا پیارا اور شریر کتا ہے۔ ہمیں کاٹتا ہے۔ ۔ ۔ ‘
کتا بھونکنے کے ساتھ غرانے بھی لگا۔ خوف سے ہماری ٹانگیں زمین سے اکھڑنے لگی تھیں کہ مالک نے ڈانٹ کر کتے کو خاموش کیا۔
ضروری اور غیر ضروری معلومات اکٹھا کر کے ہم ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے۔ انھیں تفصیلات بتائیں، جس پر انھوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔ ’آپ ٹھیک ہیں، کتا بھی بہتر حالت میں ہے۔ اب آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ‘ ڈاکٹر صاحب نے مزید آٹھ دن کتے پر نظر رکھنے کی تاکید کی لیکن وہ ہمارے پیٹ میں انجکشن دینا نہیں بھولے۔
دوسرے دن جب ہم کتے پر نظر رکھنے جا رہے تھے تو بیوی نے ایک عرصے کے بعد بڑے چاؤ سے ہاتھ میں ایک توشہ دان تھمایا۔ پرانا پیار لوٹ آنے پر ہم محبت بھرے کلمات ادا کرنا چاہتے تھے کہ بیوی نے کہا۔ ’اوپر کے ڈبے میں چھیچڑوں کا دلیا اور نیچے کے ڈبے میں دہی چاول ہے۔ پیٹ بھر کھلا کر آئیے۔ ‘
ہم لاحول پڑھنا چاہتے تھے لیکن اپنی موت کے خیال سے جزاک اللہ کہنا پڑا۔ توشہ دان اٹھائے ہم کتے اور اس کے مالک کی خدمت میں پہنچے۔ کتے کے مالک نے اپنے لیے کچھ نہ لانے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ ’میری کوئی حیثیت ہی نہیں ! کم از کم سگریٹ کی ڈبیا لے آتے۔ ‘ اور پھر دھمکی دی۔ ’میں آج ہی شہر چھوڑ رہ ہوں۔ ‘
ہمیں کتے کے مالک پر غصّہ آیا لیکن یہ سوچ کر ضبط کر گئے کہ کتے کا ہم سے دور ہونا مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ہم نے موصوف کو سمجھایا۔ ’کیوں کل مرنے والے کو آج مارتے ہو۔ ہم اور تم ایک شریفانہ معاہدہ کرتے ہیں۔ جب تک تم یہاں رہو گے، ہم تمھیں ہر دن الاؤنس دیں گے اور کتے سے زیادہ تمھارا خیال رکھیں گے۔ ‘
وہ آمادہ ہوئے اور دہی چاول کھا کر ڈکار لی۔ کتے نے چھیچڑوں کا دلیا ختم کر کے دم ہلائی۔ ہم دونوں کو شاد کر کے ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضری دینے گئے۔
اس دوران دفتر میں اطلاع ہو چکی تھی کہ ہمیں کتے نے کاٹا ہے۔ دوست احباب میں کھسر پھسر ہونے لگی۔ کسی نے کہا۔ ’کتا کاٹے کا علاج نہیں ہے۔ اب تک میں نے کسی کو زندہ بچتے نہیں دیکھا۔ ‘
’اچھا بھلا انسان کتے کی طرح بھونکنے اور ہانپنے لگتا ہے۔ جو بھی ہاتھ لگے اسے کاٹتا ہے۔ دم نکلنے کی کسر باقی رہتی ہے۔ ‘
’بے چارہ کتا بن کر کیسے جی پائے گا۔ ‘
’مجھے تو اس کی بیوی اور بچوں کی فکر ہے۔ ‘
ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم سے حتی الامکان دور رہیں گے۔ لنچ پر ہمیں اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ جب ہم کسی کے پاس جاتے وہ ہم سے دور بھاگتا اور جب ہم کسی کو بلاتے وہ انجان ہو جاتا، یا یوں ڈرتے ہوئے آتا جیسے ہم اسے کاٹ کھائیں گے۔ باس نے ہمیں بلایا۔ ہم ان کے کمرے میں پہنچے۔ انھوں نے چپراسی کو حکم دیا کہ دروازہ کھلا رکھے اور ہاتھ میں تیل پلا ڈنڈا اٹھائے ان کے قریب کھڑا رہے۔ ڈرے اور سہمے ہوئے ہم سے مخاطب ہوئے۔ ’تمھیں کتے نے کاٹا ہے۔ مجھے بے حد افسوس ہے۔ بہت خطرناک بیماری ہے۔ سنا ہے کہ یہ مرض متعدی ہے۔ تم بچے کھچے دن گھر پر گزارلو۔ رخصت کی درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سنبھال لوں گا۔ ‘
دفتر سے ہم گھر پہنچے اور سیدھے بستر میں گھس گئے۔ دیر تک سوچتے رہے کہ ہمارے بعد بیوی بچوں کا کیا ہو گا؟ دو آنسو بھی ٹپک پڑے کہ خدا نے ہمیں اتنا بے بس کیوں بنایا ہے۔ کتا کاٹے اور ہم مر جائیں ! مرنا ہی ٹھہرا تو انجکشن کی تکلیف برداشت کر کے کیوں مریں۔ ہم نے انجکشن سے بچنے کی ٹھان لی لیکن شام میں بیوی، اپنا اور اپنے بچوں کا واسطہ دے کر ہمیں ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ ہمیں زبردستی انجکشن دیا گیا۔
ہمیں ڈاکٹر کے کمرے کے باہر بٹھا کر ہماری بیوی نے کچھ دیر ڈاکٹر سے گفتگو کی۔ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے ہماری بیوی کو کیا باور کروایا کہ وہ با چشم نم گھر آئیں۔ ہمارے منہ پر ماسک چڑھا دیا۔ ہمارے برتن الگ کر دئیے اور پینے کے لیے گلاس مقرر کر دیا۔ پیٹ پر دیے گئے انجکشن کے مقامات پر گرم پانی کی تھیلی رکھتے ہوئے بولیں۔ ’ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ جراثیم تھوک کے ذریعہ پھیلتے ہیں۔ احتیاط بہتر ہے۔ میں نے آپ کے برتن الگ کر دئیے ہیں اور آپ کے لیے برآمدے میں عارضی جگہ مقرر کر دی ہے۔ آپ بچوں سے دور رہیں۔ انھیں پیار بھی نہ کریں۔ چند دنوں کی بات ہی تو ہے۔ ‘بیوی کی آنکھیں بھر آئیں۔
محسوس ہوا کہ کتے نے کاٹ کر ہمیں بھی کتا بنا دیا ہے۔ ہمارا نام بھی الیگزنڈر ہے۔ دروازے کے پاس پڑے رہنا ہو گا۔ زبان باہر نکالے اور رال ٹپکاتے ہوئے گھر کی رکھوالی کرنی پڑے گی۔ دن میں سونا اور رات کو جاگنا پڑے گا۔ بچوں کا دل بہلانا ہو گا۔ دوڑ کر ان کے پھینکے ہوئے گولے منہ میں پکڑ کر لانا ہو گا۔ سونگھ کر چوروں اور مہمانوں میں تمیز کرنا ہو گا۔ اجنبیوں پر بھونکنا اور اپنوں کے قدموں میں لوٹنا ہو گا۔ وفاداری میں نام کمانا ہو گا۔ بچے کھانا برتن میں رکھ دیں گے اور پانی گلاس میں ڈال دیں گے۔ کھانے کے بعد، دم تو ہے نہیں کہ ہلائیں گے۔ زبان سے شکریہ ادا کرنا پڑے گا۔ اس تصور سے ہم لرز اٹھے۔ ہم نے گھٹی گھٹی آواز میں پوچھا۔ ’دفتر میں ساتھیوں نے منہ موڑ لیا۔ اب تم بھی ناطہ توڑ رہی ہو، حالانکہ ہم نے ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ ‘
ہماری بیوی دور ہی سے ہمارے منہ پر ہاتھ رکھنے کا انداز اختیار کرتے ہوئے بولیں۔ ’خدارا ایسا نہ سوچیئے۔ معصوم بچوں کا خیال ہے وگرنہ آپ مجھے کاٹتے، میں اف تک نہ کرتی۔ ‘
دوچار دنوں میں الیگزنڈر ہم سے مانوس ہوتا گیا۔ وہ ہمارا انتظار کرتا رہتا اور ہمیں دیکھتے ہی دم ہلاتا قریب آ جاتا۔ ہماری سنگت میں وہ اپنے مالک پر بھونکنے بھی لگا تھا۔ واپسی میں دور تک ہمارے ساتھ آتا اور مالک کے مسلسل پکارنے پر بادل ناخواستہ غراتے ہوئے واپس لوٹ جاتا۔ ہماری بیوی کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا کر وہ تر و تازہ ہوتا گیا۔ خدا نظر بد سے بچائے، چھلانگیں بھی مارنے لگا تھا۔ الیگزنڈر کی صحت کی تفصیل ہم نے ڈاکٹر صاحب کو سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے جیسے یہ ان کے علاج کا فیضان ہو، جبکہ موصوف کے دئیے گئے انجکشنوں سے ہمارے ہاتھ اور پیر دبلے ہو گئے تھے۔ لیکن پیٹ پر جہاں وہ مشق فرمایا کرتے، ہر دن ایک گولہ ابھرتا تھا۔
زندگی اور موت کے درمیان صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا۔ شام میں ہم علاج کے لیے جا رہے تھے کہ بچے سر ہو گئے۔ ’ہم بھی ساتھ چلیں گے۔ ہم الیگزنڈر دی گریٹ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘
ہم نے انھیں ٹالنا چاہا۔ بیوی نے مداخلت کی۔ ’میں نے بھی منع کیا اور انھیں امکانی خطرے سے آگاہ بھی کیا ہے لیکن بچے بضد ہیں۔ صبح سے تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ پپو نے اپنے حصّے کی ٹافی الیگزنڈر کے لیے اٹھا رکھی ہے۔ چھوٹو بازار سے گلے کے دو پٹے خرید لایا ہے۔ ایک الیگزنڈر کے لیے اور دوسرا آپ کے لیے۔ ۔ ۔ ‘
اولاد کی فرمانبرداری دیکھ کر ہمیں غصّہ آیا اور ہم چھوٹو کو مارنے جھپٹے۔ آگے چھوٹو اور پیچھے ہم۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ بیوی نے سمجھا کہ ہمارا آخری وقت آ پہنچا ہے اور اب ہم کام سے گئے۔ ہم پر پانی پھینکنے لگیں۔ یہ ترکیب ڈاکٹر کی بتائی ہوئی تھی۔ ’سگ گزیدہ پانی سے خوف کھاتا ہے۔ جب مریض خطرناک اور بے قابو ہونے لگے تو اس پر پانی پھینکیے۔ ‘
سرما کے موسم میں جسم پر ٹھنڈا پانی پڑنے سے ہمارا غصّہ کافور ہوا۔ چپ چاپ اپنے لیے مختص کردہ گوشے میں جا بیٹھے۔ گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ بیوی نے میکے سے رشتہ داروں کو بلوا بھیجا۔ عزیز و اقارب آتے اور ہم سے کترا کر نکل جاتے تھے۔ ہم بھی خاموش گنگناتے بیٹھے رہے۔ بھونکنے کی آواز آئی۔ ہم نے اٹھ کر کھڑکی سے دیکھا تو الیگزنڈر کو کھڑا پایا۔ آج ہم الیگزنڈر کا حق ادا کرنے اس کے پاس نہ جا سکے تھے، سو وہ خود ہمارے یہاں چلا آیا۔ ہم نے اسے پچکارا۔ وہ کھڑکی کی راہ سے ہماری گود میں آ بیٹھا۔ ہماری پنڈلی کے زخم کو دیکھ کر الیگزنڈر نے اپنی گردن جھکائی، آنکھیں نیچی کر لیں اور دم دبا لی۔ ہم نے الیگزنڈر کا قصور معاف کر دیا اور اس سے کھیلنے لگے۔
گھر والوں کی بن آئی۔ ایک نہیں دو خطرناک پاگل یکجا بیٹھے ہیں۔ ہمارے ایک سسرالی بزرگ نے ہم دونوں کی حرکات کا بغور مطالعہ کیا اور رائے دی کہ کسی صورت کتا پاگل نہیں معلوم ہوتا لیکن انھیں ہماری ذہنی حالت پر بہرحال تشویش لاحق رہی۔
سب دعا میں مصروف ہو گئے۔ بیوی بار بار آ کر ہمیں دیکھ جاتیں کہ ابھی دم غنیمت ہے۔ موقع پا کر ہم نے انھیں پکارا اور کہا۔ ’خدارا ہمیں کچھ نہیں ہوا ہے۔ ہم بالکل ٹھیک ہیں۔ اگر تم لوگوں کا یہی رویّہ برقرار رہا تو ہم گھر چھوڑ کر الیگزنڈر کے ساتھ فرار ہو جائیں گے۔ ‘
بیوی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’تو کیا آپ پاگل نہیں ہیں۔ ‘
ہم نے انھیں نرمی سے سمجھایا کہ ہم یقیناً پاگل نہیں ہیں۔ وہ تو غصّے میں ہم چھوٹو پر جھپٹ پڑے تھے۔ غصّے میں اچھا خاصا انسان بھی پاگل کتا بن جاتا ہے۔ صحت مند ہونے کے ثبوت کے طور پر ہم نے شادی کی تاریخ، ان کا مہر، بچوں کی تعداد، بچپن میں پڑھی ہوئی اردو کی نظمیں اور کتوں پر لکھے گئے مزاحیہ مضامین کی تفصیل سنائی۔
پُر تشویش ناگ ہوں سے ہمیں دیکھتے ہوئے انھوں نے التجا کی۔ ’ڈاکٹر صاحب آنے والے ہیں فیصلہ ہو جائے گا۔ ‘
تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد ہماری رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور ہم نے کہا۔ ’ٹھیک ہے۔ ہم تمھیں اور تمھارے ڈاکٹر کو دیکھ لیں گے۔ ‘
اب جو کوئی ہمیں دیکھتا ہم نے اسے چڑایا۔ بچوں کو دیکھ کر ہم نے الیگزنڈر کے ساتھ بھونکا۔ کھانا ہم نے رال ٹپکاتے ہوئے چپڑ چپڑ آوازوں سے کھایا۔ ہاتھوں اور پیروں سے چوپائے کی طرح چلے بھی۔ ہماری اس حالت کو دیکھ کر بیوی بچے اور عزیز و اقارب رونے لگے۔ ڈاکٹر بلوایا گیا۔ گویا ہمارا شکار ہاتھ آیا۔ ڈاکٹر کو دیکھتے ہی ہم اور الیگزنڈر بھونکتے ہوئے کاٹنے کے لیے جھپٹے۔ پھر ہم نے دیکھا ڈاکٹر صاحب اپنا بیگ چھوڑ کر یہ جا اور وہ جا۔
ڈاکٹر صاحب کو روانہ کرنے کے بعد ہم نے گھر کی عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور اعلان کیا۔ ’ہمیں کتا کاٹے دس دن گزر چکے ہیں۔ اس دوران ہمیں اور نہ ہی کتے کو کچھ ہوا ہے۔ دونوں با ہوش وحواس اور صحت مند ہیں۔ ‘
عزیز و اقارب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ بیوی اور بچے کہیں نہیں جا سکتے تھے، وہ گھر پر ہی رہے۔ جلد انھیں یقین آ گیا کہ ہم جسمانی اور دماغی طور پر چاق و چوبند ہیں۔ گھر کے حالات معمول پر آ گئے۔ الیگزنڈر اب ہمارے ہی گھر رہتا ہے۔ اس کے گلے میں دو پٹے پڑے ہیں۔ ایک خود اس کا اور دوسرا ہمارا۔ یہ کہانی لکھتے وقت وہ ہمارے پیروں کے پاس بیٹھا ہوا ہے۔ ہم نے اس سے پوچھا۔ ’الیگزنڈر دی گریٹ۔ اردو مزاح نگاری میں ہمارا کیا مقام ہے ؟‘
الیگزنڈر آنکھیں بند کیے سوچ میں ڈوب گیا اور کسی فلسفی کی طرح ابھی تک سوچ رہا ہے کہ آج اردو زبان ہی کا کیا مقام ہے ؟
٭ ٭ ٭
ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد، نومبر 2008ء
پسِ لفظ لفظ
شگفتہ افسانوں کے اس مجموعے کو میں نے ہندوستانی بزم اردو، ریاض اور سعودی عرب کے دوستوں کا نام معنون کیا ہے۔ قارئین میں تجسّس ہو گا کہ میرے دوست کون کون ہیں اور میری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ میں اپنے ان دوستوں کا ذکر کروں اور ان کا شکریہ ادا کروں جن کے ساتھ میں نے سعودی عرب میں خاصا وقت گزارا ہے اور ان کے تعاون سے اچھے کام بھی کیے ہیں۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ میں تفصیل سے اپنے احباب کے بارے میں لکھتا، یہ ان کا حق بھی تھا لیکن یہ ایک بڑا کام ہے۔ اس کے لیے وقت بھی درکار ہے۔ سردست میں نے سوچا کہ اس کتاب کی اشاعت کے موقع پر احباب کا مختصراً ذکر کر کے اپنے خلوص کا اظہار کروں۔
سعودی عرب میں میرا قیام
سعودی عرب میں میرا قیام اپریل 1987ء سے اگسٹ 2010ء تک یعنی تئیس سال چار مہینے رہا۔ ابتدائی دو سال جنوب کے منطقہ الباحہ کے دوا خانوں میں بحیثیت طبیب برسرخدمت رہا۔ اس کے بعد اپریل 1989ء میں وزارت صحت، ریاض میں جو آیا تو آخر تک ایک ہی محکمہ ’ادارۃ التغذیہ‘ میں طبیب اخصائی تغذیہ کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اکیس سال چار مہینے، میں ایک ہی عمارت میں رہا گوکہ میرا کمرہ یا کیبن چار مرتبہ تبدیل ہوا۔ کام کے اوقات صبح 7.30 سے دوپہر 2.30 تک تھے۔ دس برس بعد کام کے اوقات میں ایک گھنٹہ کا اضافہ ہوا یعنی دوپہر ڈھائی بجے کی بجائے سہ پہر 3.30تک دفتر میں ٹھہرنا پڑتا تھا۔ پانچ دن کا ہفتہ تھا، جمعرات اور جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔
ادارہ التغذیہ گو کہ وزارت صحت کے تحت ہے لیکن یہ کوئی دوا خانہ نہیں ہے جہاں مریضوں کو دیکھا جاتا ہے۔ یہاں ملک کے لیے تغذیہ کے حوالے سے دوا خانوں اور مریضوں کے لیے پالیسی طے کی جاتی ہے۔ مختلف امراض اور حالات میں تغذیہ کے رول کے متعلق تحقیق ہوتی ہے۔ راہنمایانہ اصول وضع کیے جاتے ہیں اور اسٹاف کی ٹریننگ ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے کام بھی اس ادارے کے سپرد ہیں جس کی تفصیل شاید یہاں ضروری نہیں ہے۔ کام کے اوقات اور کام کی نوعیت کی صراحت یہ بتانے کی غرض سے کی ہے کہ میرے کام میں مریضوں کا رش اور بوجھ نہ تھا۔
میری اسپیشالیٹی یا تخصص علم تغذیہ اور استحالی امراض ہے۔ یہ نسبتاً ایک نئی اسپیشالیٹی ہے جو کچن سے نکل کر مطب کی جانب رواں دواں ہے۔ آپ نے اس شعبہ کے یعنی میرے جیسے ڈاکٹر کم ہی دیکھے ہوں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ جیسے ڈاکٹر کو پہلی مرتبہ ہی بھگت رہے ہوں گے۔ احباب اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے اس اسپیشالیٹی کا انتخاب کیوں کیا؟
میں اپنی بات جلدی امراض کے ماہر کے حوالے سے کرتا ہوں۔ ادمیات یعنی جلدی امراض کے ماہر نے اس کی اسپیشالیٹی کے انتخاب کی تین وجوہ بتائی تھیں۔ پہلی، جلدی امراض میں ایمرجنسی نہیں ہوتی۔ کلینک کے بعد کا وقت وہ اپنے انداز سے گزارسکتا ہے۔ دوسرا سبب اس نے یہ بتایا کہ جلدی امراض کہنہ ہوتے ہیں، مریض مستقل اس کے زیر علاج رہتا ہے۔ تیسری وجہ، جلدی امراض کی کم شرح اموات ہے۔ اس کی نیک نامی متاثر نہیں ہوتی۔
مجھے اپنی اسپیشالیٹی میں ان تینوں فائدوں کے اوپر مزید ایک فائدہ یہ حاصل ہے کہ دواؤں کے لمبے چوڑے اور مشکل نام ازبر کرنے سے چھٹکارا ملتا ہے۔ لیکن میری اسپیشالیٹی میں باتیں بہت کرنی پڑتی ہیں اور بے شمار مشورے دینے پڑتے ہیں۔ اطراف میں لوگوں کے بڑھتے ہوئے جسمانی وزن اور بڑھے ہوئے وزن سے ہونے والے مسائل کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بہت کم لوگ ہماری باتوں اور مشوروں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اس موضوع پر گفتگو پھر کسی وقت!
میری نوکری اور اسپیشالیٹی کے بارے میں بات کرنے کا منشا یہ بتانا مقصود تھا کہ سعودی عرب میں مجھے معاشی آسودگی کے ساتھ خاصا فاضل وقت میسّر آیا تھا۔ سعودی عرب میں یہ دو نعمتیں یہاں کام کرنے والے اکثر لوگوں کے حصّے میں آتی ہیں اور لوگ ان کا استعمال اپنے شوق و ذوق اور فطری میلان کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ میں نے اپنے ادبی ذوق اور اپنی مادری زبان کے تئیں محبت کو جلا بخشنے اور کچھ کرنے کے ارادے سے فاضل وقت اور وسائل کو برتنے کا فیصلہ کیا جس پر میں اب تک قائم و دائم ہوں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ میرے کام کی جگہ ’ادارۃ التغذیہ‘ میں میرے علاوہ کوئی دوسرا فرد اردو دان نہیں تھا۔ میرے ساتھ کام کرنے والے تقریباً لوگ عرب تھے جن میں سعودی، مصری، سوری، سوڈانی، فلسطینی اور مراقشی شامل تھے۔ عربی لوگوں کے علاوہ میرے ساتھ برصغیر کے چند بنگلہ دیشی اور ملیالی لوگ تھے۔
گوکہ میرے کام کے مقام پر کوئی اردو شعر سنانے اور سننے والا میسّر نہ تھا لیکن دفتر کے باہر نکلتے ہی خاصے اردوداں لوگ مل جاتے تھے۔ سعودی عرب کے اردو ماحول نے میرے کام اور شوق میں مہمیز لگائی۔ میں یہ بات اکثر کہتا اور لکھتا بھی رہا ہوں کہ اردو مسلمانوں بلکہ عالم اسلام کی دوسری زبان ہے۔ عربی زبان کے بعد اسلامی لٹریچر کا ذخیرہ اردو زبان میں ہے۔ اردو زبان دوسری زبانوں کے مقابلے میں عربی زبان سے زیادہ قریب بھی ہے۔ سعودی عرب کے اردو ماحول میں مختلف ممالک کے اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے لوگ مل جاتے ہیں۔ پاکستان کے ادیب و شعرا ملتے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کے سابق ہندوستانی یہاں اپنی زبان کو جلا بخشنے کا سامان پاتے ہیں۔ دوسرے مقامات کے اردو بولنے والے بھی یہاں کی محفلوں میں مل جاتے ہیں۔ اور اپنے ملک کے مختلف شہروں کی نمائندگی کرنے کے لیے میرے جیسے کئی ہندوستانی ادیب اور شاعر بھی یہاں عارضی طور پر مستقل بستے ہیں۔
سعودی عرب میں جہاں اردو بولنے والے بے شمار لوگ مل جاتے ہیں وہیں مختلف ممالک اور شہروں کے اردو رسائل، اخبارات اور کتابیں بھی مل جاتی ہیں۔ میں سعودی عرب میں پاکستانی رسائل سے متعارف ہوا اور ہماری وساطت سے ہندوستانی رسائل دوسروں سے متعارف ہوئے۔ اس میدان میں رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوئی جب مئی 1994ء سے مقامی اردو اخبار اور مارچ1999ء سے اردو رسالہ کا اجرا ہوا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یوں سعودی عرب کا اردو ماحول مقامی طور پر خود مکتفی ہوا۔
میرے لکھنے اور چھپنے کی رفتار میں تیزی آئی اور اردو کی محفلوں میں حصّہ بھی لینے لگا۔ اردو کے حوالے سے نئے دوست بنے اور پرانے دوستوں سے تعلقات مستحکم ہوئے۔ قصّہ مختصر سعودی عرب کے قیام کے دوران میں نے خوب لکھا، خوب پڑھا اور اردو کا خوب کام کیا۔
ہندوستانی بزم اردو، ریاض
ریاض میں جب ہم خیال احباب یکجا ہوئے تو ہم اردو کی محفلیں سجانے لگے اور جب تواتر کے ساتھ محفلیں منعقد ہونے لگیں تو ہم نے سوچا کہ اپنے گروپ کی شناخت کے لیے ایک نام دیا جائے۔ اس خیال سے سنہ 1995ء میں ہم نے ہندوستانی بزم اردو کی بنا ڈالی۔ اس ہم میں نواب سکندر علی خان، آرکیٹکٹ محمد عبدالرحمن سلیم، غوث ارسلان، کے این واصف، محمد عبدالرحیم اکرم، محترمہ عذرا نقوی اور میں یعنی عابد معز شامل تھے۔ آپ چاہیں تو ہمارا شمار بانی ممبران میں کر سکتے ہیں۔ نواب سکندر علی خان ادب نواز اور ادب دوست شخصیت کے مالک ہیں۔ بہت سلجھا ہوا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ اچھے مقرر ہیں اور معروف سماجی انجمنوں سے تعلق رہا ہے۔ میں اور سکندر بھائی نے مل کر کامیاب ادبی محافل منعقد کی ہیں۔ موصوف کا تعلق بزنس منیجمنٹ سے ہے۔ ریاض، جدہ اور خلیج کی مختلف کمپنیوں میں اعلی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ بزم کے پہلے صدر بنائے گئے تھے۔ وطن واپس ہو چکے ہیں۔
محمد عبدالرحمن سلیم پیشہ سے آرکیٹکٹ ہیں۔ تین دہائیوں سے سعودی عرب میں مقیم ہیں، پہلے مکہ میں تھے اب ریاض میں ہیں۔ مختلف انجمنوں سے وابستگی ہے۔ مضامین لکھتے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ اب وہ بزم کے صدر ہیں۔ غوث ارسلان کمپیوٹر پروگرامر ہیں لیکن اردو کی محبت میں ایم اے کیا اور ایم فل ادھورا چھوڑا۔ اردو صحافت سے بہت قریبی وابستگی رہی ہے۔ کاتب سے لے کر سب ایڈیٹر اور انچارج ایڈیٹر تک کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ اچھے خطاط ہیں۔ دو دہوں سے زیادہ عرصہ سے ریاض میں مقیم ہیں اور وطن کے ایک روزنامے کے لیے ’مکتوبِ صحرا‘ تحریر کرتے ہیں۔
کے این واصف معروف فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ انگریزی اور اردو زبان کے مختلف قومی اخبارات اور رسائل سے وابستگی رہی ہے۔ ریاض سے پابندی کے ساتھ ہر ہفتہ کالم لکھتے ہیں۔ موصوف کی لی ہوئی تصاویر کی نمائش ریاض اور جدہ میں ہو چکی ہے۔ محمد عبدالرحیم اکرم ممتاز سماجی کارکن ہیں، مختلف انجمنوں سے وابستہ ہیں۔ کچھ کم تیس برسوں سے جدہ اور اب ریاض میں مقیم ہیں۔ محترمہ عذرا نقوی کا تعلق علی گڑھ کے ایک علمی خاندان سے ہے۔ شاعرہ، افسانہ نگار اور صحافی ہیں۔ ایک عرصہ ملک کے باہر گزار کر ہندوستان واپس ہو چکی ہیں۔ محترمہ نامور کمپیوٹر سائنس دان اور شاعر ڈاکٹر پرویز احمد کی اہلیہ ہیں۔
ہندوستانی بزم اردو کی بنا ہم سات اصحاب نے ڈالی ضرور ہے لیکن اس بزم کی کارکردگی اور مقبولیت میں کئی دوستوں کا تعاون اور محنت شامل ہے۔ محمد عبدالحمید پچھلے تیس برسوں سے پہلے دمام اور اب ریاض میں مقیم ہیں۔ پیشہ سے سیول انجینئر ہیں اور ریاض شہر کو خوب صورت بنانے میں موصوف کا اہم رول رہا ہے۔ بزم کے موجودہ نائب صدر ہیں۔ ڈاکٹر سید یوسف احمد تیس سال سے ریاض میں مقیم ہیں۔ بڑے مستعدرہتے ہیں اور وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی حیثیت اور اہمیت دوستوں میں ’ڈرائیونگ فورس‘ جیسی ہے۔ سید افتخار ہاشمی میرے ساتھ ریاض آئے تھے۔ ایم بی بی ایس کے دوران میرے ہم جماعت ڈاکٹر سید مزمل ہاشمی کے چھوٹے بھائی ہیں، اس لیے میں انھیں برادر خورد نما دوست کہتا ہوں۔ بائیو میڈیکل انجینئر ہیں اور اب ریاض چھوڑ کر دبئی میں مقیم ہیں۔ سید یونس اللہ حسینی بھی بائیو میڈیکل انجینئر ہیں۔ کام کے سلسلے میں سعودی عرب کا چپہ چپہ دیکھا ہے۔ اردو کتابیں، رسالے اور اخبار خرید کر پڑھنے کی عادت ہے جو مجھے بہت پسند آتی ہے۔
انتصار علوی کا تعلق بزنس منیجمنٹ سے ہے۔ ریاض میں اعلی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ بزم کے خازن ہیں۔ عبدالعزیز شمیم خان بینکر ہیں۔ بے شمار دوستوں سے ای میل اور فیس بک کے ذریعہ رابطہ بنائے ہوئے ہیں۔ مختلف انجمنوں سے وابستگی ہے۔ علی احمد انجینئر ہیں۔ امریکی شہریت رکھنے کی بنا پر زائد سکوریٹی میں رہتے ہیں لیکن بزم کے پروگراموں اور دوست احباب سے ملنے آتے ہیں اور خاموشی سے بزم کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ آرکیٹکٹ خسرو احمد فاروقی گو بہت مصروف رہتے ہیں لیکن بزم کے کاموں اور پروگراموں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔ آرکیٹکٹ عبد الرؤف عتیق حلیم الطبع واقع ہوئے ہیں اور خاموشی سے بزم کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ محمد مبین پیشہ سے انجینئر ہیں۔ ٹوسٹ ماسٹرس کلب کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ اور انعامات لیتے ہیں۔ بزم کے کام میں بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ تاج الدین غوری انڈین انٹرنیشنل اسکول ریاض میں کام کرتے ہیں اور بزم کے پروگروموں کے انصرام میں بہت معاون ہیں۔ ڈاکٹر محمد سرور کنگ خالد انٹر نیشنل ایرپورٹ کے ہاوزنگ کمپاؤنڈ میں رہتے اور ایرپورٹ کے اطراف سبزہ زار اور باغیچوں کی نگرانی ٹیم کے اہم ممبر تھے۔ ایرپورٹ پر ہمارا اور ہمارے مہمانوں کا خیال رکھتے تھے۔ بزم کے پروگراموں میں شریک رہتے تھے۔ وطن واپس آ چکے ہیں۔
مظفر حسین انصاری کنگ فیصل فاؤٔنڈیشن سے وابستہ ہیں۔ بزم کے کام کے موئید اور معاون ہیں۔ آپ کے چھوٹے بھائی طاہر حسین انصاری کا تعلق ذرائع ابلاغ سے ہے۔ بزم کے پروگراموں میں پابندی سے شریک ہوتے ہیں۔ میر مظفر علی بزنس کرتے ہیں۔ بہت شستہ اور پیاری عربی بولتے ہیں۔ ان کی عربی سن کر اس زبان کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بزم کو آپ کا تعاون حاصل ہے۔ بہت مصروف رہنے کے باوجود ادبی پروگراموں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔
محمود علی بھی اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ بزم کے پروگراموں شریک رہتے ہیں۔ ماضی میں شاعری کرتے اور مشاعرے پڑھتے تھے لیکن اب مصروفیت کے سبب شاعری بہت کم کرتے ہیں لیکن اردو کی محفلوں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔ سید نجیب الدین مسعود کا تعلق کتابوں کے کاروبار سے ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں کتابیں مہیا کرتے ہیں۔ کئی ممالک کا دورہ کیا ہے اور مختلف ایوارڈس حاصل کیے ہیں۔ بزم کے ساتھ ہیں۔ سالم زبیدی اور عبداللہ ریڈی انجینئرس ہیں۔ دینی اور فلاحی کاموں میں مصروف رہنے کے باوجود بزم کے پروگراموں میں شریک رہتے اور ہاتھ بٹاتے ہیں۔
ہندوستانی بزم اردو، ریاض کے کارہائے نمایاں : ہندوستانی بزم اردو مختلف نوعیت کے چھوٹے بڑے پروگرام کرتی ہے۔ مشاعرے منعقد کرتی ہے۔ ادبی محفلیں آراستہ کرتی ہے۔ استقبالیہ اور وداعی جلسے ہوتے ہیں۔ تہنیتی محفلیں اور تعزیتی اجلاس کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے۔ بزم کے کارناموں کی تفصیل کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے لیکن میں بزم کے چند اہم کارناموں اور پروگراموں کے بارے میں تذکرہ کرنا چا ہوں گا۔
اسکولوں میں تقریری، تحریری اور نظم خوانی مقابلے : ریاض شہر کے ہندوستانی اسکولوں میں بزم اردو تقریری، تحریری اور نظم خوانی مقابلے سنہ 1996ء سے منعقد کرتے آ رہی ہے۔ یہ مقابلے طلبا میں اردو زبان کی اہمیت، افادیت اور اردو زبان سے محبت اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔ ان اسکولوں میں طلبا اور سرپرستوں کے اصرار پر اردو جو پہلے آٹھویں جماعت تک پڑھائی جاتی تھی اب بارہویں جماعت تک پڑھائی جا رہی ہے۔ انگلش میڈیم اسکول میں بچے شوق سے اردو کو ایک زبان کی حیثیت سے پڑھ رہے ہیں۔
اردو رسالوں کی توسیع ٔاشاعت اور اعانت : ہندوستانی بزم اردو رسالوں اور کتابوں کی مالی اعانت کرتی ہے۔ بزم کے ذریعہ بالخصوص بزم کے پروگراموں میں اردو کتابیں فروخت کی جاتی ہیں اور رسالوں کے خریدار بنائے جاتے ہیں۔ اشتہارات کے لیے بھی کوشش ہوتی ہے۔ یہ ایسے کام ہیں جن سے رسالوں کا مالیہ مستحکم ہوتا ہے۔ ماہنامہ شگوفہ، ماہنامہ سائنس اور ماہنامہ سب رس سے تعاون کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اردو سائنس، ماہنامہ دہلی کے مدیر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز بزم کی دعوت پر2002ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ مدیر کی آمد پر پرچے کی سالانہ اور تاحیات خریداری کے لیے مختلف پروگرام منعقد کیے گئے تھے۔
استقبالہ محفلیں : بزم کا ایک لائق تحسین کام استقبالیہ محفلیں ہیں۔ جب کوئی وطن سے نامور شخصیت ریاض تشریف لاتی ہے تو بزم ان کے اعزاز میں استقبالیہ محفل سجاتی ہے، ہر سال سفارت خانے کے سالانہ مشاعرہ سے پہلے شعرا کے اعزاز میں ہندوستانی بزم اردو، ریاض استقبالیہ محفل منعقد کرتی ہے جس میں معزز مہمانوں کو ریاض شہر کے عمائدین بالخصوص ریاض میں مقیم ادیبوں اور شاعروں سے ملنے اور گفتگو کا موقع ملتا ہے۔ وطن سے تشریف لائے شعرا، ادبا اور دانشوروں کو بزم کی جانب سے ترتیب دی گئیں استقبالیہ محفلیں یاد ہوں گی۔
جشنِ شگفتہ دکن: ہندوستانی بزم اردو نے جون 2004ء میں شاندار پیمانے پر سہ روزہ جشن شگفتہ دکن منا کر ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ دکن سے آٹھ ادیبوں اور شاعروں – مجتبی حسین، نریندر لوتھر، محمد حمایت اللہ، غوث خواہ مخواہ، طالب خون میری، مصطفی علی بیگ، رؤف رحیم اور ڈاکٹر سید مصطفی کمال کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر بزم کے تعاون سے ماہنامہ شگوفہ کا خوب صورت اور ضخیم ’خلیج نمبر‘ شایع کیا گیا تھا۔ ادبی اجلاس، محفل لطیفہ گوئی اور مزاحیہ مشاعرہ کا انعقاد ریاض اور جدہ میں عمل میں لایا گیا جس میں ڈیڑھ دو ہزار افراد نے شرکت کی اور محظوظ ہوئے۔
محب اردو ایوارڈ: ہندوستانی بزم اردو ریاض نے دیارِ غیر میں اردو زبان کی خدمت میں مصروف ادارے یا فرد کو ’محب اردو ایوارڈ‘ دیتی ہے جو ایک گولڈ میڈل اور توصیفی سند پر مبنی ہوتا ہے۔ پہلا ایوارڈ سعودی عرب میں اردو اخبار کے ناشر سعودی ریسرچ اینڈ پبلیشنگ کمپنی (SRPC) کو سنہ 1998ء میں دیا گیا تھا۔
شگوفہ کاری اور شگوفہ فاؤنڈیشن
ماہنامہ شگوفہ طنز و مزاح کا ایک منفرد رسالہ ہے جو نومبر 1968ء سے شایع ہو رہا ہے۔ یہ رسالہ زندہ دلان حیدرآباد کا ترجمان ہے۔ شگوفہ سے میری وابستگی سنہ 1981ء سے ہے جب میں نے اس رسالے میں لکھنا شروع کیا تھا۔ ارباب شگوفہ اور زندہ دلان حیدرآباد سے میرے تعلقات بہت جلد اور تیزی سے مستحکم ہوتے گئے۔ میں شگوفہ کا ریاض میں جنوری 1990ء سے دسمبر 1991ء تک نمائندہ خصوصی رہا اور جنوری 1992ء سے سعودی عرب چھوڑنے، اٹھارہ سال سے زیادہ عرصہ تک ایڈیٹر اوورسیز رہا اور حیدرآباد واپس آنے کے بعد ڈیڑھ برس تک معاون مدیر بھی رہا۔
سعودی عرب کو روانگی کے وقت زندہ دلان حیدرآباد اور شگوفہ کے احباب نے ایک شاندار وداعی تقریب منعقد کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ زندہ دلان حیدرآباد کا سفیر اور شگوفہ کا خصوصی نمائندہ سعودی عرب جا رہا ہے۔ میں اس بات کو گرہ میں باندھ کر سعودی عرب آیا اور جیسے ہی یہاں کے ماحول سے مانوس ہوا میں نے شگوفہ کی نمائندگی اور زندہ دلان حیدرآباد کی سفارت کاری میں جٹ گیا۔
مجھے اندازہ تھا کہ شگوفہ خسارے میں شایع ہو رہا ہے، میں نے اس خسارے کی پابجائی کے لیے دوستوں سے مالی تعاون کی درخواست کی۔ احباب شگوفہ کے خریدار بنے اور چندہ بھی دیا۔ جلد ہی ہم نے شگوفہ کا سعودی عرب نمبر شایع کرنے کا پروگرام بنایا۔ مدیر شگوفہ کو سعودی عرب کی دعوت دی۔ سعودی عرب نمبر کے لیے اشتہارات اکٹھا کیے اور اکٹوبر1992ء میں شگوفہ کا سعودی عرب نمبر شایع ہوا۔ مدیر شگوفہ ڈاکٹر سید مصطفی کمال ہماری دعوت پر اکٹوبر 1992ء میں ریاض آئے اور سعودی عرب کے مختلف شہروں مکہ المکرمہ، مدینہ المنورہ، جدہ اور دمام کا دورہ کیا۔
شگوفہ کا خسارہ پورا کرنے کے ان اقدامات کی کامیابی سے حوصلہ پا کر ہم نے شگوفہ کو مستقبل میں بغیر خسارہ شایع کرنے کے لیے شگوفہ فاؤنڈیشن کا پروگرام بنایا۔ شگوفہ فاؤنڈیشن کی تحریک مجھے افکار فاؤنڈیشن کراچی سے ملی تھی۔ شگوفہ فاؤنڈیشن کے لیے ہم نے تاحیات خریداری، چندہ اور اشتہارات کے ذریعہ کارپس اکٹھا کرنے کا پروگرام بنایا تھا جس کے منافع سے شگوفہ کی اشاعت جاری رہ سکتی ہے۔ شگوفہ کو مالی طور پر مستحکم کرنے کے لیے ہماری خدمات کا اعتراف 25سال مکمل ہونے پر، شگوفہ اکٹوبر 1993ء کے اداریے میں یوں کیا گیا:
’اردو طنز و مزاح کی یہ تحریک اب ہندوستان اور برصغیر کی حدود کو پھلانگ کر دنیا کے بیشتر ممالک کو مسخر کر چکی ہے۔ عالمی سطح پر شگوفہ کی توسیع اور ترسیل کا سہرا نوجوان مزاح نگار ڈاکٹر عابد معز کے سر ہے۔ 23سال کی تکمیل کے بعد جب شگوفہ کی نیا ڈگمگا رہی تھی عابد معز نے سعودی عرب کے تمام بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر شگوفہ کو متعارف کیا، نئے پاسبان ڈھونڈ نکالے اور مختلف اسکیمات کے ذریعہ اس منفرد رسالہ کو متعارف اور مستحکم کرنے کی سبیل پیدا کی۔ اس طرح اپنی کاوشوں کے ذریعے شگوفہ کو نئی زندگی عطا کرنے میں بنیادی حصّہ ادا کیا۔ ۔ ۔ ‘
میں شگوفہ کے تاحیات اور سالانہ خریداروں، معاونین اور مشتہرین کو مبارک پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے ایک رسالے کو جاری رکھنے میں تعاون کیا۔ میرے نزدیک اردو زبان کی یہ ایک بڑی خدمت ہے۔ چالیس سے زیادہ احباب نے میری درخواست پر تاحیات خریداری قبول کی۔ ڈاکٹر عابد معز، سعید شوکت، ڈاکٹر رفعت حسین انصاری، ڈاکٹر محمد سرور، منیر پرویز، محمد عبدالرحیم اکرم، آرکیٹکٹ محمد عبدالرحمن سلیم، نواب سکندر علی خان، ڈاکٹر شمس بابر، اقبال شانہ، کے این واصف، ڈاکٹر ماجد قاضی، محمد شجاع الدین غوری، ڈاکٹر اعجاز احمد، ڈاکٹر سید یوسف احمد، افضل ثنائی، سید نجیب الدین مسعود، انتصار علوی، محمد باقر، ڈاکٹر خالد عبدالسمیع، شوکت جمال اور سید یونس حسینی کا ذکر آ چکا ہے یا آگے آئے گا۔
سب سے پہلے شگوفہ کے تاحیات خریدار کینیڈا کے نامور سائنس دان ڈاکٹر انور نسیم بنے جو اس وقت کنگ فیصل اسپیشلسٹ ہاسپٹل میں کام کرتے تھے۔ اپنے وطن پاکستان واپس ہوئے جہاں وہ ایک اہم عہدے پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز حسین ماہر امراض اطفال ہیں۔ مدراس کے متوطن ہیں اور میرے ساتھ کام کرتے تھے۔ شاعری کرتے ہیں۔ وطن واپس ہو چکے ہیں۔ خانگی پریکٹس کرتے اور مدراس میں منعقد ہونے والے سالانہ مشاعرے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ محمد سعید الدین جدہ میں الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ سماجی اور فلاحی کاموں پیش پیش رہتے ہیں۔ میرے اسکول کے ہم جماعت سید رفیع الدین احمد امریکہ سے آئے ہوئے تھے تو میں نے انھیں بھی شگوفہ کا تاحیات خریدار بنا لیا۔ وہ امریکہ میں ایک ڈیاگناسٹک لیبارٹری چلاتے ہیں۔ شاہد احمد ریاض کی ایک مشہور کمپنی میں جنرل منیجر ہیں۔ بزم سے تعاون کرتے اور ہمارے کام کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ وطن واپس ہو چکے ہیں۔ قدرت علی نوے کی دہائی میں الخبر میں تھے، معلوم نہیں اب کہاں ہیں۔ محمد عبد العلیم قریشی کا تعلق ایرلائن انڈسٹری سے ہے۔ اس وقت دمام میں تھے اب کینیڈا منتقل ہو چکے ہیں۔
محمد عبدالوہاب خان سعودی عرب کے ایک بنک میں اعلی عہدے پر فائز تھے۔ عارف ممتاز کے نام سے شاعری کرتے ہیں۔ وطن واپس آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال احمد جانی ماہر امراض کان، ناک اور حلق ہیں، وہ بھی میرے ساتھ کام کرتے تھے۔ بنگلور واپس ہونے کے بعد خانگی پریکٹس کر رہے ہیں۔ ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ احمد بنافے عرب نژاد ماہر اقتصادیات ہیں اور مشیر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ تیس سال سے زائد عرصے سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ طنز و مزاح سے دلچسپی ہے۔ محمد فصیح الدین علی حیدرآبادی ہیں جو سعودی شہریت اختیار کر چکے ہیں۔ اپنا کاروبار ہے۔ شگوفہ کے تاحیات خریدار بن کر وطن کی یادوں کو تازہ رکھا ہے۔ سید محمد ذاکر ریاض میں ایک اسکول اور ٹریننگ سنٹر چلاتے تھے۔ غزل گائیکی کا شوق تھا، گھر پر محفلیں سجاتے تھے۔ ریاض چھوڑ گئے، معلوم نہیں اب کہاں ہیں۔
انجینئر عبدالحق حیدرآبادی ہیں لیکن امریکہ سے ریاض آئے تھے۔ سعودی ٹیلی فونس میں کام کرتے تھے۔ بزم کی محفلوں میں شریک رہتے تھے۔ ہماری درخواست پر انھوں نے نہ صرف خود تاحیات خریدار بنے بلکہ امریکہ میں موجود اپنے بھائی عبدالسلام کو بھی تاحیات خریدار بنایا۔ چند برس ریاض میں رہ کر امریکہ واپس لوٹ گئے۔
ڈاکٹر ماجد قاضی نے تحفتاً اپنے دو امریکی دوستوں کو تاحیات خریداری پیش کی۔ موصوف کی خواہش پر امریکہ سے شفیع حامد تاحیات خریدار بھی بنے۔
شگوفہ کے تین تاحیات خریداروں کی یاد آ رہی ہے جو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ شریف محمد حیدرآباد کے نامور وکیل تھے۔ سعودی منتقل ہوئے اور شہریت اختیار کی۔ ایک نامور کمپنی میں قانونی مشیر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ محفلوں میں شریک ہو کر ہماری ہمت افزائی کرتے تھے۔ اختر عالم بینکر تھے۔ دلچسپ گفتگو کرتے تھے۔ ریاض سے تبادلہ ہو کر لندن گئے اور وہیں انتقال ہوا۔ محمد عبدالحق کا تعلق بزنس منیجمنٹ سے تھا۔ محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔ سعودی عرب اور بحرین کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے تھے۔ اللہ تعالی ان احباب کی مغفرت کرے، آمین۔
رسالوں کو متعارف کرنے، نئے قاری مہیا کرنے اور ان کے مالیہ کو مستحکم کرنے کا کام ہم نے ایک مہم کی طرح انجام دیا۔ اس مہم میں یوں تو سبھی دوستوں نے میرا ساتھ دیا لیکن شجاع الدین غوری، نواب سکندر علی خان، آرکیٹکٹ محمد عبدالرحمن سلیم، محمد عبدالرحیم اکرم اور غوث ارسلان کا تعاون مثالی رہا۔ میں تمام احباب کا پھر ایک مرتبہ شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اس موقع پر میں ایک بات کہنا چا ہوں گا کہ اردو کی نئی بستیوں میں اس قسم کا تجربہ دہرایا جا سکتا ہے یا کوئی دوسری اسکیم پر کام ہو سکتا ہے۔ وطن سے دور ہو کر لوگ اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت کی قدر کرنے لگتے ہیں۔ ان میں ’کچھ کرنے ‘ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ’بہت کچھ‘ کرتے بھی ہیں۔ اس کے برعکس وطن عزیز میں بعض لوگ اس جذبے کا استحصال کر کے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس قسم کے استحصال کا مجھے تجربہ ہوا ہے۔ میری طرح دوسرے احباب کو بھی ہوا ہو گا۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم ’شگوفہ فاؤنڈیشن‘ قائم نہ کر سکے !!!اس کی تکلیف دہ تفصیلات کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں، اتنا کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ جو مقدر میں تھا، سو ہوا۔ اس میدان میں کام کرنے والوں کو میرا مشورہ ہے کہ صحیح افراد کا انتخاب اور استحصال کرنے والوں سے اجتناب ضروری ہے۔
سفارت خانۂ ہند، ریاض
دیارِ غیر میں محافل کے انعقاد کے لیے سفارت خانے کی سرپرستی ضروری ہوتی ہے۔ سفیر ہند اور سفارت خانۂ ریاض کے افسران ہماری مدد کرتے ہیں جس سے بیرون ملک ہندوستانیوں کو ثقافتی اور ادبی محفلوں کے انعقاد میں مدد ملتی ہے۔ جناب محمد حامد انصاری، موجودہ نائب صدر جمہوریہ ہند سعودی عرب میں بحیثیت سفیر تعینات تھے۔ اکثر وہ بزم کے پروگراموں میں شریک رہ کر ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کے دور میں سفارت خانے میں آڈیٹوریم کا افتتاح ہوا۔ اس آڈیٹوریم میں بزم کے کئی پروگرام منعقد ہوئے۔ جناب کمال الدین احمد بہت کم عرصہ، صرف چودہ مہینوں کے لیے سفیر رہے لیکن آنجناب کا تعاون مثالی رہا۔ آپ کے دور میں بزم نے جشن شگفتہ دکن کا انعقاد عمل لایا تھا۔ ویزوں کے حصول سے لے کر مختلف امور پر موصوف کی رہنمائی اور سرپرستی ہمیں حاصل تھی۔
جناب ایم او ایچ فاروق، پانڈوچیری کے سیاست دان تھے جو پانچ برسوں سے زیادہ عرصہ کے لیے ریاض میں ہندوستانی سفیر رہے۔ گوکہ آپ کی زبان اردو نہیں تھی لیکن ہماری خواہش پر اردو محفلوں اور مشاعروں میں شریک رہتے تھے۔ جناب عشرت عزیز اور جناب تلمیذ احمد کیرئر ڈپلومیٹ تھے جو ریاض میں ہندوستانی سفیر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دی ہیں۔
ڈاکٹر اوصاف سعید سفارت خانۂ ریاض میں مختلف عہدوں پر اور جدہ میں بحیثیت قونصل جنرل فائز رہے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک ادبی خاندان سے ہے اور آپ کا اپنی زبان سے لگاؤ قابل تقلید ہے۔ آپ کی نگرانی اور سرپرستی میں مختلف پروگرام منعقد ہوئے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ موصوف کی حرکیاتی شخصیت پروگراموں کی محرک بنتی رہی ہے۔ جناب ذکر الرحمن ریٹائر ہو چکے ہیں۔ سفارت خانۂ ریاض اور قونصل جنرل جدہ کے سالانہ مشاعروں کی بنا ڈالنے میں آپ کا اہم رول رہا ہے۔ بہت اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ خوب صورت آواز کے مالک ہیں۔ شستہ اور اہل زبان کی طرح عربی بولتے ہیں۔ ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی کا ادب سے گہرا تعلق ہے۔ عربی لٹریچر میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ دفتری مصروفیات سے ہٹ کر اردو پروگراموں میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں۔ آپ کی ادارت میں سوونیر بھی شایع ہوئے ہیں۔ جناب شکیل احمد اور جناب راشد خان کا اردو محفلوں اور مشاعروں کے لیے خاصا تعاون کرتے رہے ہیں۔
یوں تو سفارت خانے کے کئی عہدیدار اس وقت یاد آ رہے ہیں جن کی پوسٹنگ ریاض میں تھی اور جو ہماری محفلوں کے انعقاد میں تعاون کیا کرتے تھے۔ چند کرم فرماؤں کا نام نہ لینا شاید نا انصافی ہو گی۔ جناب اننتا کرشنا، جناب نیرج سری واستوا، جناب کے ایس شرما، جناب راجیو شہارے، جناب بال آنند کا کمیونٹی پروگرام کے انعقاد میں دلچسپی اور تعاون مثالی رہا کرتا تھا۔
سفارت خانۂ ہند میں برسرخدمت دیگر افراد ہماری مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ جناب شفاعت اللہ اور جناب شہاب الدین کا ذکر آگے آئے گا۔ جناب نسیم الدین مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں جنھیں ہم نے ہر دم مدد کے لیے تیار پایا ہے۔
سعودی عرب کے ہندوستانی اسکولس
سعودی عرب میں سفارت خانے کی نگرانی میں کمیونٹی اسکولس چلتے ہیں جہاں پر ہندوستانی نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ یہ اسکولس ہندوستانی کمیونٹی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ اسکولس کے وسیع آدیٹوریم میں کمیونٹی پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ ریاض اسکول کے آڈیٹوریم میں اردو کے پروگرام اور مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسکولس کے پرنسپل اور اساتذہ درس وتدریس کے ساتھ کمیونٹی پروگرامس میں بھی حصّہ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر افسر خان انٹرنیشنل انڈین اسکول ریاض کے پرنسپل تھے۔ سخت اور قابل ایڈ منسٹریٹر ہیں۔ موصوف کے دور میں اردو مقابلوں کا آغاز ہوا۔ اب وہ امارات میں ایک اسکول کے پرنسپل ہیں۔ انٹرمیڈیٹ میں میرے استاد، محترم جناب محمد حیات اللہ خان کچھ عرصے کے لیے جدہ اسکول کے پرنسپل رہے اور ادبی پروگراموں میں شریک رہتے تھے۔ جناب لطف الرحمن جعفری ریاض اسکول میں ڈائرکٹر کے عہدے پر چند برسوں کے لیے فائز رہے ہیں۔ بزم کے پروگراموں میں آپ کا تعاون شامل رہا ہے۔ ریاض اسکول کے موجودہ پرنسپل جناب منظر جمال صدیقی ہیں۔ موصوف کو اپنی مادری زبان سے انسیت ہے اور اسکول میں بزم کے پروگراموں میں تعاون کرتے ہیں۔
مڈل ایسٹ انٹر نیشنل اسکول ریاض کی پرنسپل محترمہ تبسم فاروقی ہیں۔ اسکول میں اردو مقابلوں کے انعقاد میں خصوصی دلچسپی لیتی ہیں۔
ریاض میں ہندوستانی اسکولوں کے ہیڈماسٹرس، سپروائزرس اور اردو کے ٹیچرس ہندوستانی بزم اردو، ریاض کے تقریری اور تحریری مقابلوں کے انعقاد میں تعاون کرتے ہیں۔ ان حضرات کی مدد کے بغیر مقابلوں کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ محترمہ زینت جعفری صاحبہ، نزہت جہاں صاحبہ، نیرا شوکت صاحبہ، اسماء شاہ صاحبہ، شاہین حیدر صاحبہ مقابلوں کی نگرانی کرتی ہیں۔ اردو اساتذہ قاضی خواجہ عارف الدین، ضیاء الحق، میر احمد علی، اشرف علی، غزالہ ناہید، سلمی یاسین خان، کہکشاں انجم کے نام مجھے اس وقت یاد آ رہے ہیں۔ بزم کے اردو تقریری مقابلوں کو عطیہ فاطمہ کا شروع ہی سے تعاون حاصل رہا ہے۔ وہ غوث ارسلان کی بیگم ہیں۔ اردو میں ایم فل کیا ہے۔ کچھ عرصہ کے لیے اسکول میں اردو پڑھاتی بھی رہی ہیں اور شاعری کرتی ہیں۔
سعودی عرب کے ہندوستانی اسکولوں کی یہ خوبی ہے کہ یہاں بچوں کو اردو پہلی یا دوسری زبان کی حیثیت سے پڑھنے کا موقع حاصل ہے۔ یہ سہولت وطن میں کم اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ وطن میں قومی زبان ہندی کو پہلی زبان اور کوئی ریاستی زبان جیسے تلگو، کنڑا، ملیالم، ٹامل، مراٹھی، گجراتی، سنسکرت کو دوسری زبان کی طرح پڑھنا پڑتا ہے۔ انگریزی تیسری زبان ہوتی ہے۔ اس قسم کے نصاب میں اردو زبان پڑھنے کی گنجائش مشکل سے نکلتی ہے۔
سعودی عرب کے انگریزی اخبارات
سعودی عرب میں مقیم ہندوستانی شہریوں کے پروگرامس کی رپورٹنگ اور خبروں کو انگریزی اخبارات میں نمایاں طور پر شایع کیا جاتا ہے۔ اردو محفلوں اور مشاعروں کی روداد اہتمام سے انگریزی میں شایع ہوتی ہے۔ اشعار کو رومن اردو میں پیش کیا جاتا ہے اور ساتھ میں انگریزی ترجمہ ہوتا ہے۔ سعودی عرب سے اردو اخبار شایع ہونے سے قبل انگریزی اخبارات حج کے موقع پر اردو میں چار صفحات کا سپلیمنٹ شایع کرتے تھے۔
انگریزی اخبار عرب نیوز کے ایڈیٹر انچیف خالد المعینا ہیں۔ وہ سعودی ہیں اور عربی، انگریزی کے علاوہ اردو جانتے ہیں اور اردو میں بات کر سکتے ہیں۔ جاوید حسن ایک عرصہ تک عرب نیوز سے وابستہ رہنے کے بعد وطن واپس آ چکے ہیں۔ جاوید بھائی اپنے آپ کو فٹ اور اپٹو ڈیٹ رکھتے ہیں۔ ناپ تول اور سوچ سمجھ کر کھاتے اور پابندی سے ورزش کرتے ہیں۔ مطالعہ بھی خوب کرتے ہیں۔ سراج وہاب نوجوان صحافی ہیں۔ اردو ادب سے بے حد لگاؤ ہے۔ کئی اشعار ازبر ہیں۔ مشاعروں کی نظامت اور انگریزی میں رپورٹنگ خوب کرتے ہیں۔
انگریزی کا دوسرا اخبار سعودی گزٹ ہے جس میں بھی خاصے ہندوستانی کام کرتے ہیں۔ محمد طارق غازی صاحب طرز ادیب اور صحافی ہیں۔ سعودی گزٹ میں ایک عرصہ منیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمت انجام دے کر کینیڈا منتقل ہوئے اور وہاں سے ’نکتگو‘ اور ’مطالعات‘، ای میل کے ذریعہ دوستوں کو نوازتے رہتے ہیں۔ شاہین نظر خلیج کے بڑے انگریزی اخباروں سے وابستہ رہنے کے بعد وطن واپس آ چکے ہیں۔ افسانے لکھتے ہیں اور ایک مجموعہ ’سر کٹے لوگ‘ شایع ہو چکا ہے۔ میر ایوب علی خان جدہ میں مقبول رہنے کے بعد اب حیدرآباد میں اپنا ایک مقام بنا لیا ہے۔ شاہد علی خان ایک عرصہ سعودی گزٹ میں کام کرنے کے بعد حیدرآباد واپس ہو چکے ہیں۔
سعودی عرب میں اردو صحافت
سعودی عرب میں اردو صحافت کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ عرب دنیا کا پہلا اردو روزنامہ 7مئی1994ء کو جاری ہوا۔ پہلے ایڈیٹر انچیف محمد مختار الفال تھے جو عربی کے نامور صحافی ہیں۔ مارچ 1999ء سے ایک ہفتہ وار ’اردو میگزین‘ بھی شایع ہوتا رہا ہے جس کی اشاعت اکٹوبر2009ء میں موقوف ہوئی۔ اردو میگزین شاندار کاغذ پر رنگین چھپتا تھا۔
طارق مشخص اردو حلقوں میں بہت مقبول ہیں اور محفلوں میں بلائے جاتے ہیں۔ سعودی شہری اور عربی اور انگریزی صحافی ہیں۔ ایم ایم سید گو عرب نیوز سے وابستہ ہیں لیکن اردو میں شاعری کرتے اور مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ رشید انصاری ایک عرصہ تک جدہ میں روزنامہ منصف، حیدرآباد کے خصوصی نمائندہ رہے ہیں۔ رپورٹنگ کے ساتھ اردو اور انگریزی میں سیاسی، تجزیاتی اور تنقیدی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ وطن واپس آ چکے ہیں اور اردو کی قومی صحافت میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اطہر ہاشمی، عبدالسلام سلامی، رؤف طاہر، خالد منہاس جیسے جیدپاکستانی صحافی اردو نیوز اور اردو میگزین سے رابستہ اور اردو حلقوں میں مقبول رہ چکے ہیں۔ یہ حضرات وطن واپس ہو چکے ہیں۔ اب اردو نیوز کی ادارت سید ابصار علی اور شہزاد اعظم اور دوسرے تجربہ کار صحافی سنبھالے ہوئے ہیں۔ اردو میگزین میں میرے لیے ایک صفحہ (پہلے فکاہیہ اور پھر بات سے بات کے عنوان سے ) مختص تھا۔ کالم لکھنے کے سبب رؤف طاہر سے دوستی ہوئی۔ اردو میگزین کو اردو رسالوں میں ایک منفرد اور ممتاز حیثیت دلانے میں موصوف کا اہم رول رہا ہے۔
اردو نیوز اور اردو میگزین سے وابستہ اردو صحافیوں نے محنت اور دلچسپی سے اردو صحافت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انھوں نے نئے تجربے کیے، قارئین کے خطوط کو اہمیت دے کر اہتمام سے شایع کیا۔ بعض وقت مکمل ایک صفحہ خطوط سے بھرا ہوتا ہے۔ اس سے نئے لکھنے والوں کو تحریک ملتی ہے اور قارئین کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ نئے سلسلے بھی شروع کیے گئے۔ بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو نیوز اور اردو میگزین کے صحافیوں نے اردو صحافت کو ایک نئی سمت دی ہے۔
یا ہند ڈاٹ کام اور اردو گلبن ڈاٹ کام
سعودی عرب بالخصوص اور بالعموم خلیج میں مقیم ہندوستانیوں کے لیے انٹرنیٹ پر ویب سائٹ فراہم کرنا سید ضیاء الرحمن کا کارنامہ ہے۔ ’یا ہند‘ پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے کامیابی کے ساتھ غیر مقیم ہندوستانیوں کو خبریں فراہم کرنے کے ساتھ مختلف امور پر راہنمائی کرتی ہے۔ اس سائٹ پر تجزیاتی مضامین، محفلوں کی رپورٹنگ اور کالم بھی ہوتے ہیں۔ محمد سیف الدین نوجوان اور ابھرتے ہوئے صحافی ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ میر محسن علی ریاض کی محفلوں کی رپورٹنگ اور انٹرویوز دونوں، زبانوں انگریزی اور اردو میں، خوب کرتے ہیں۔ ان دو حضرات کی یا ہند سے اٹوٹ وابستگی ہے اور دونوں وطن کے اخباروں کے لیے بھی لکھتے ہیں۔
مہتاب قدر جدہ میں برسوں سے مقیم ہیں۔ کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی لائبریری میں کام کرتے ہیں۔ شاعری کرتے ہیں۔ ان کا کلام چھپنے سے زیادہ ای مکانوں کی زینت بنتا رہتا ہے۔ سعودی عرب کی پہلی اردو ویب سائٹ ’اردو گلبن‘ چلاتے ہیں۔
شہر ریاض کی دوسری انجمنیں
ہندوستانی بزم اردو کے علاوہ ریاض میں دوسری انجمنیں بھی سرگرم عمل ہیں اور وطن کی طرح یہاں بھی ہم نے مختلف انجمنیں بنا رکھی ہیں۔ در اصل لوگوں کو اپنی اپنی دلچسپی کے لحاظ سے مل بیٹھنے کا بہانہ چاہیے۔
بزم احباب دکن، حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے احباب نے بنائی تھی اور ماضی میں اچھے پروگرام کروائے تھے۔ صفدر حسین جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے دل رو رہا ہے، باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ زندہ دل اور یار باش۔ ایک عرصہ تک تقریباً روز شام میں موصوف کے ساتھ محفل جمتی تھی۔ قاری صدیق حسین قرات کے بین الاقوامی مقابلے میں حصّہ لے چکے ہیں۔ آپ کی قرات ٹیلی وژن پر نشر ہوتی ہے۔ وطن واپس آ چکے ہیں۔ میر احمد علی کی دو کمزوریاں حیدرآباد اور مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ انھیں مولانا آزاد کی تقاریر اور مضامین کے کئی حصّے ازبر ہیں۔ سینکڑوں اشعار یاد ہیں۔ تلگو زبان پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ میر احمد علی کے جڑواں بھائی میر غضنفر علی کینیڈا کی شہریت لے چکے ہیں۔ کام ریاض میں کرتے ہیں۔ ادب کا صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں اور ثقافتی اور سماجی محفلوں میں شریک رہتے ہیں۔ میر فراست علی خسرو اچھے شاعر اور اچھے انسان ہیں۔ دل کھول کر ہنستے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کے قہقہے میرے تعاقب میں ہیں۔ رؤف خلش جدید لب و لہجے کے شاعر ہیں۔ ایک عرصہ جدہ اور ریاض میں رہ کر وطن واپس آ چکے ہیں۔ محمد سراج الدین پیشہ درس وتدریس سے وابستہ تھے اور عزیز حقانی آرکیٹکٹ تھے۔ دونوں کا انتقال ہو چکا ہے، اللہ مغفرت کرے۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اولڈ بائز ایسوسی ایشن (AMUOBA) ایک قدیم اور فعال انجمن ہے۔ سرسید ڈے اہم سالانہ جلسہ کرتے ہیں۔ ندیم ترین، طارق مسعود، وصی حیدر رضوی، ضیغم خان، ڈاکٹر ریاض مہدی، سہیل احمد، عبدالاحد، مصباح العارفین، دلشاد احمد، سعید الدین اور دوسرے علیگ اس انجمن کے فعال ممبر اور مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ الومنئی ایسوسی ایشن، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبائے قدیم کی انجمن ہے۔ اس انجمن کے تحت مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس انجمن سے وابستہ اہم اراکین اور عہدیداروں میں شفاعت اللہ خان، شہاب الدین، مرشد کمال، محمد لئیق اعظمی شامل ہیں۔
اسٹڈی سرکل کے زیر اہتمام بھی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کے حوالے سے اسٹڈی سرکل کے پروگرام پسند کیے جاتے ہیں۔ مرزا یوسف بیگ اچھے مقرر ہیں اور اسٹڈی سرکل کے خاصے پروگرام منعقد کیے تھے۔ اب وطن واپس آ چکے ہیں۔ مرزا تنویر بیگ، ظہیر بیگ اور دوسرے لوگ اس انجمن کے فعال ممبر رہے ہیں۔
عثمانیہ یونی ورسٹی اولڈ بوائز این آر آئی ایسوسی ایشن (OUOBNA) ریاض شہر میں عثمانیہ یونی ورسٹی کے سابق طلبا جو اب این آر آئی ہیں کی تنظیم ہے۔ اس انجمن کے چیرمین ڈاکٹر محمد نیاز احمد خان ہیں۔ فعال اور حرکیاتی شخص ہیں۔ وطن واپس ہو چکے ہیں۔ ایم اے رسول کا تعلق فینانس سے ہے اور ریاض کی اہم کمپنیوں میں فینانس کنٹرولر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔ شاہ سبحانی معتمد ہیں اور ریاض اسکول کی منیجمنٹ کمیٹی کے ممبر رہ چکے ہیں۔ محمد عبدالنعیم ای میل کے ذریعہ متلاشیان روزگار کو مدد فراہم کرتے ہیں۔
دکن کلچرل ایسوسی ایشن (DCA)ثقافتی انجمن ہے جس کے سرپرست افضل ثنائی ہیں۔ ریاض کی بزرگ اور معزز شخصیت ہیں۔ موصوف کے فارم پر یادگار محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ ضیاء الرحمن انجینئر اور ٹیبل ٹینس کے بہترین کھلاڑی اور کوچ ہیں۔ مرزا نوید بیگ، جمیل خان اور دوسرے اس انجمن کے فعال اراکین ہیں۔
آندھراپردیش یونائیٹیڈ سوسائیٹی، آندھراپردیش کے لوگوں کی سماجی تنظیم ہے جس کے صدر ڈاکٹر محمد اشرف ڈینٹسٹ ہیں۔ یہ انجمن بھی سماجی اور ثقافتی محفلیں سجاتی اور مشاعرے بھی منعقد کرتی ہے۔
انڈین ڈاکٹرس فورم، ریاض میں برسرکار ڈاکٹرس کی انجمن ہے جس کا میں صدر اور ڈاکٹر اکھل کمار معتمد رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر اکھل کمار ماہر امراض قلب ہیں اور ان کی بیگم ڈاکٹر پریتی کمار ماہر امراض نسواں ہیں۔ اس انجمن سے ہندوستان کے تقریباً مقامات کے ڈاکٹرس منسلک ہیں۔ آسام کی ڈاکٹر تحسین سلطانہ ممبر ہیں تو مدراس کے ڈاکٹر نورالدین اس انجمن کے فعال رکن ہیں۔ ڈاکٹر سعید نواز انیستھیٹسٹ اور نظموں کے اچھے شاعر ہیں۔ پڑھنے کا انداز اچھوتا اور منفرد ہے۔ ہم اصرار کر کے ان سے نظمیں سنتے ہیں۔ ڈاکٹر مجیب شیخ جائنٹ سکریٹری اور اردو کے اچھے مقرر ہیں۔ ڈاکٹر سدرشن کمار دھون ماہر امراض چشم ہیں۔ ڈاکٹر سعید پاشا نائب صدر تھے، اب وطن واپس آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر سعود بن علی جلدی امراض کے ماہر ہیں جن کا تعلق میرے وطن حیدرآباد سے ہے۔ ڈاکٹر سعید الدین، ڈاکٹر جمشید خان، ڈاکٹر سوماسندرم، ڈاکٹر کے کے شرومنی بھی فورم کے ممبر تھے جو اب ریاض سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ انڈین یعنی ہندی ڈاکٹرس نے اپنی قابلیت، محنت اور لگن سے سعودی عرب کے محکمہ صحت و طبابت میں اچھا نام کمایا ہے اور سعودی سماج میں ہمیں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
شہر ریاض کا ادبی مرکز: خیام ریسٹورنٹ
ریاض شہر میں پروگرام کرنے، ملاقات کرنے یا کھانے کے لیے خیام ریسٹورنٹ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ ریسٹورنٹ کے مالک حبیب بدر پر خلوص، خوش اخلاق، ادب دوست اور ادب نواز شخصیت ہیں۔ عرصہ تک مترجم اور فری لانس صحافی کے طور پر خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں مہارت ہے۔ عبداللہ سلیم اور ان کے بھائی مسعود ریسٹورنٹ کے نگران اور ہر دم کئی لوگوں کے پروگرام اور کھانے کا انتظام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ نہ ماتھے پر شکن اور نہ ہی لہجے میں تلخی، مسکراتے ہوئے مہمانوں کا خیال کرتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے بیرے بھی ہمارا خوب خیال رکھتے ہیں۔ خیام ریسٹورنٹ میں میری طرح چند احباب مستقل آتے ہیں۔ عارف الدین انصاری کا تعلق بھوپال سے ہے۔ ایک عرصہ جدہ میں گزار کر اب ریاض میں رہتے ہیں۔ ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہیں اور مطالعہ خوب کرتے ہیں۔ مظہر عالم عربی اور انگریزی کے مترجم ہیں۔
سعودی عرب میں اردو شاعر، ادیب اور دانشور
سعودی عرب میں اردو بولنے اور سمجھنے والے تقریباً ہر شہر اور قریہ میں ملتے ہیں۔ دکانوں اور سوپر مارکٹس میں برصغیر کے سیلزمین مل جاتے ہیں جو اردو میں بات کرتے ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ بڑے شہروں بلکہ چھوٹے مقامات پر اکثر ویک اینڈ پر مشاعرے اور ادبی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔
دارالحکومت ریاض: شوکت جمال تیس سال سے زائد عرصہ سے ریاض میں مقیم ہیں۔ کبھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے اب مزاحیہ شاعری کرتے ہیں۔ خلیج کے مشاعروں میں موصوف کی شرکت لازمی تصور کی جاتی ہے۔ اپنی نگرانی میں ایک کتابی سلسلہ ’مزاح پلس‘ کراچی سے شایع کر رہے ہیں۔ ابوالفرح ہمایوں دیر سے مزاح نگاری کی جانب راغب ہوئے لیکن زیادہ لکھ کر کسر پوری کر رہے ہیں۔ وطن واپس ہو چکے ہیں۔ محمود عالم شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور ناول نگار تھے۔ پندرہ سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں۔ پر خلوص اور ہمدرد انسان تھے۔ اچانک ایک روز ریاض میں انتقال کر گئے۔ استاد شاعر مشتاق شاد ریاض میں ایک عرصہ قیام کیا اور وطن واپس ہونے کے بعد انتقال ہوا۔ شبنم مناروی اچھے انسان اور صاحب دیوان شاعر تھے۔ بہت خلوص سے ملتے تھے۔ ریاض میں انتقال ہوا۔
یوسف رحیم بیدری شاعر، افسانہ نگار، نقاد، تبصرہ نگار اور صحافی ہیں۔ چند برس ریاض میں رہ کر وطن واپس ہو چکے ہیں۔ عبدالقیوم مخفی شاعری کرتے ہیں اور ادبی، سماجی اور دینی محفلیں سجاتے رہتے ہیں۔ احمد عبدالعلیم اختر ایک عرصہ ریاض میں رہ کر وطن واپس ہو چکے ہیں۔ کنگ سعود یونی ورسٹی میں برسرخدمت رہے اور شاعری کرتے ہیں۔ زکریا سلطان ریاض سے خطوط لکھتے ہیں جو مختلف اخبارات میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ انھیں مراسلہ نگاری میں ملکہ حاصل ہے۔ سعید شوکت ایک عرصہ ریاض اور جدہ میں گزار کر کینیڈا منتقل ہو چکے ہیں۔ سماجی اور ثقافتی محفلوں میں جوش و خروش سے حصّہ لیتے رہے ہیں۔ سید حیدرآبادی (سید مکرم) افسانہ نگاری کرتے ہیں۔ اب ان کے افسانے پڑھنے میں نہیں آ رہے ہیں۔ انجینئر ہیں اور اردو زبان کو کمپیوٹر سائنس سے ہم آہنگ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کا ایک دلچسپ اور معلوماتی اردو بلاگ ہے۔ عمر اعظم اچھے آرٹسٹ اور ڈیزائنر ہیں۔ میری پہلی طبی کتاب ’ذیابیطس کے ساتھ ساتھ‘ کا سرورق موصوف نے بنایا تھا۔
کمپیوٹر پر اردو رائج کرنے کا شوق محمد بن قاسم کو بھی ہے۔ موصوف اچھے انشاپرداز ہیں، ایک کتاب ’زر گرفت‘ شایع ہو چکی ہے۔ وطن واپس ہو چکے ہیں اور کراچی میں ادبی اور علمی تحقیق کا ایک نجی ادارہ ’جستجو‘ قائم کر رکھا ہے۔ سید ابو ظفر نہ شاعر ہیں اور نہ ہی ادیب لیکن اردو محافل سجاتے رہتے ہیں۔ جدہ اور ریاض میں موصوف کے گھر پر مشاعرے اور نثری محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ تیس برسوں سے زائد عرصہ سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ منیر پرویز بینکر، شاعر اور ادب نواز شخصیت ہیں۔ مختصر عرصہ ریاض میں رہ کر کینیڈا منتقل ہوئے۔ اردو ادب اور زبان کے فروغ میں موصوف کی معاونت یاد رکھی جائے گی۔
کاوش عباسی شاعر ہیں۔ بہت سنجیدگی سے مشاعرے پڑھتے اور مخصوص رسالوں میں چھپتے ہیں۔ ادبی موضوعات پر دلچسپ گفتگو اور بحث کرتے ہیں۔ جاوید اختر جاوید دمام اور ریاض کے ادبی منظر نامے کا ایک اہم نام ہے۔ پر خلوص انسان ہیں۔ شاعری کرتے اور مضامین اور رپورٹس لکھتے ہیں۔ جاوید اختر جاوید کے ساتھی وقار نسیم وامق شاعری کرتے اور ادبی محفلوں کے انعقاد میں تعاون کرتے ہیں۔ پروفیسر حسین سحر شاعر اور ادیب ہیں۔ ریٹائرڈ زندگی اپنے فرزند مہزاد سحر کے پاس گزارنے ریاض میں رہتے ہیں۔ محفلوں کی صدارت فرماتے اور پر مغز تقریر کرتے ہیں۔ مہزاد سحر انشائیے اور فکاہیے لکھتے ہیں۔ ان کی دو کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ فرید بھٹہ اور بشیر مرزا شہر ریاض میں فکاہیہ لکھنے والے ادیب ہیں۔ اقبال اعجاز بیگ پاکستان انٹرنیشنل اسکول ریاض پڑھاتے اور اچھے شاعر اور ادیب ہیں۔
جدّہ اور مکہ المکرمہ: نسیم سحر جدہ میں ایک طویل عرصہ گزار کر وطن واپس ہو چکے ہیں۔ شاعر اور ادیب ہیں۔ ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اپنی ادارت میں ایک سہ ماہی رسالہ ’سحاب‘ نکالتے ہیں۔ علیم خان فلکی شاعری اور انشاءپردازی کرتے اور محفلیں سجانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اپنا کاروبار ہے اور گھوڑے جوڑے اور جہیز کی لعنت کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ نادر سرگروہ انشاپرداز اور مزاح نگار ہیں، متبرک شہر مکہ المکرمہ میں رہتے ہیں۔ حسن بایزید کو مطالعہ کا شوق ہے۔ اردو کتب اور رسائل خرید کر پڑھتے ہیں۔ موصوف کا شمار میں ان لوگوں میں کرتا ہوں جن سے مل کر اردو ادیبوں اور شاعروں کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔
ضیاء الدین نیر جدہ میں رہ کر وطن واپس آ چکے ہیں۔ ماہر اقبالیات ہیں اور اقبال اکیڈیمی، حیدرآباد کے کارگذار صدر ہیں۔ جدہ میں ڈاکٹر اوصاف احمد نے بھی ایک عرصہ گزارا ہے۔ ماہر اقتصادیات ہیں۔ تحقیقی مقالے اور کتابیں لکھی ہیں۔ ’بیسویں صدی کی اردو شاعری‘ کافی مقبول ہوئی۔ وطن واپس آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر خواجہ ناصر الدین انٹرمیڈیٹ میں میرے ساتھ تھے۔ اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کی اور ایک عرصہ جدہ، دبئی اور کویت میں میڈیا کمپنیوں سے وابستہ رہنے کے بعد وطن واپس آ چکے ہیں۔ اقبال پر لیکچرس دیتے اور دلچسپ گفتگو کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شمس بابر طبیب اور سماجی کارکن ہیں۔ جدہ اور دبئی میں رہ کر وطن واپس آ چکے ہیں۔ بزم اردو جدہ کے صدر رہ چکے ہیں۔ ان کے دور صدارت میں 1989ء میں عالمی طنز و مزاح کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں ہندوستان اور پاکستان کے نامور مزاح نگاروں نے شرکت کی تھی۔ شریف اسلم جدہ کی بزرگ باغ و بہار شخصیت ہے۔ بزم اردو سے وابستہ ہیں۔ موصوف کے نام کے ساتھ ذہن میں ان کے سنائے ہوئے لطیفے یاد آتے ہیں۔ انھوں نے لطیفوں کی پاکٹ سائز کتابچے شایع کیے ہیں۔ موصوف جدہ میں منعقد ہونے والے پروگراموں کا لازمی عنصر ہوتے ہیں۔ فہیم احمد امریکن ایمبسی میں کام کرتے اور جدّہ کی محفلوں کی زینت بھی ہوا کرتے تھے۔ وطن واپس ہو چکے ہیں۔ یوسف الدین امجد بزم اتحاد سے وابستہ ہیں اور اردو کی محفلوں کے انعقاد میں حصّہ لیتے ہیں۔ جمال قادری اردو اکیڈیمی، جدّہ کے صدر ہیں۔ اردو اکیڈیمی اردو کے فروغ کے لیے جدّہ اور حیدرآباد میں اہم کام انجام دے رہی ہے۔
ماہر اقبالیات اور مشائخ خاندان کے فرد مصلح الدین سعدی صاحب جدہ میں چند برس گزارے تھے۔ ان کی نگرانی میں معیاری علمی، ادبی اور دینی محفلیں منعقد ہوتی رہی ہیں۔ جب جدہ جانا ہوتا تو میں ان محفلوں میں ضرور شریک ہوتا تھا۔ وطن واپس آنے کے بعد سعدی بھائی کا انتقال ہوا۔ نعیم اللہ شریف سماجی کارکن ہیں جو سعودی عرب میں ایک عرصہ گزار کر وطن واپس آ چکے ہیں۔ مختلف انجمنوں سے وابستگی رہی ہے۔ مدارس اور طلبا میں اردو کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔ جمیل احمد صاحب جدہ کے انڈین اسکول میں استاد تھے۔ خلوص سے ملتے ہیں۔ نہایت اعلی ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ اچھی شاعری لیکن بہت کم کرتے ہیں۔ آپ بھی حیدرآباد منتقل ہو چکے ہیں۔
سعودی عرب میں میری دو ہم نامی حضرات سے دوستی ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالمعز شمس سے ملاقات جدہ میں ہوئی۔ سائنس، طب اور اردو زبان ان کی کمزوریاں ہیں۔ ماہر امراض چشم ہیں۔ ’ہماری آنکھیں ‘ ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔ بے شمار مضامین شایع ہو چکے ہیں۔ وطن واپس آ کر درس وتدریس اور پریکٹس میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبدالمعز انٹرمیڈیٹ میں میرے ساتھ انوار العلوم کالج میں تھے۔ کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی۔ قابل محقق ہیں، ان کے تحقیقی مقالے معتبر جرائد میں شایع ہو چکے ہیں۔ اب جدّہ میں رہتے ہیں۔
مدینہ المنورہ: جب مدینہ المنورہ جانا ہوتا تھا تو وہاں مقیم دوستوں سے ملاقات ضروری ہوتی۔ احمدالدین اویسی پیشہ سے آرکیٹکٹ ہیں، عرصہ سے مدینہ میں مقیم ہیں اور بزم اتحاد کے صدر ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز احمد ایم بی بی ایس میں میرے ہم جماعت رہ چکے ہیں اور ربع صدی سے مدینہ میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نعیم حامد علی الحامد اچھے شاعر اور محقق ہیں۔ موصوف کی لائبریری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بے شمار اردو کتابیں ہیں۔ مخطوطات بھی اکٹھا کی ہیں۔ رسالوں اور اخباروں کی فائلیں ہیں۔ کیسٹس اور سی ڈیز کا ذخیرہ الگ ہے۔ اس لائبریری کو دیکھنے کے لیے کئی گھنٹے درکار ہیں اور نعیم صاحب خوشی خوشی سب چیزیں دکھاتے ہیں۔ طارق حسن عسکری دلچسپ گفتگو اور مزاحیہ شاعری کرتے ہیں لیکن اپنی تخلیقات کو سنبھال کر نہیں رکھتے۔ ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور باقی زندگی مدینہ المنورہ میں گزارنے کے ارادے سے یہاں مقیم ہیں۔
دمام، منطقۂ شرقیہ: نعیم جاوید کئی برس جدہ میں گزار کر اب دمام میں مقیم ہیں۔ نثرنگار ہیں۔ مضامین خوب لکھتے ہیں۔ اچھی نظامت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال واجد دمام میں رہتے ہیں۔ اردو طنز و مزاح کے ایک موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ اردو اور انگریزی میں تنقیدی مضامین لکھتے ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم شعرا اور ادیبوں کی تخلیقات پر مبنی دو کتابیں مرتب کی ہیں۔ ڈاکٹر عابد علی اور قدسیہ ندیم لالی کی فکاہیہ تحریریں اردو نیوز میں چھپتی رہتی ہیں۔ اقبال فرید میسوری اچھے شاعر اور ٹائپ رائٹر پر تصاویر بنانے کا فن رکھتے تھے۔ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کو انعام بھی ملا تھا۔ واپس ہونے کے بعد وطن میں انتقال ہوا۔ پروفیسر ذکا صدیقی دمام میں استاد شاعر تھے۔ ان کے شاگرد اب بھی دمام میں ہیں۔ پروفیسر واصل عثمانی، طارق بٹ، ڈاکٹر غفار حسینی، انور اسحاقی کے نام یاد آ رہے ہیں جو دمام کے مشاعروں کی رونق ہوا کرتے تھے، اب وطن واپس ہو چکے ہیں۔
الاحساء منطقۂ شرقیہ: سعودی عرب کے ایک چھوٹے شہر الاحساء میں محمود شاہد بڑے مشاعرے اور بڑی محفلیں منعقد کرتے رہے ہیں۔ جدید لب و لہجے کے شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ وطن واپس آ چکے ہیں اور اپنی ادارت میں ایک پندرہ روزہ ’وسیلہ‘ شایع کر رہے ہیں۔
حقل، منطقۂ تبوک، کا ایک چھوٹا موضع ہے۔ یہاں مزاحیہ شاعر اقبال شانہ ایک عرصہ تک مقیم رہے۔ ایک وقت تقریباً ہر مہینہ کراچی سے شایع ہونے والے بین الاقوامی رسالہ رابطہ میں چھپتے رہے ہیں۔ وطن واپس آ چکے ہیں۔ محمد باقر عرصے سے سعودی عرب کے مختلف شہروں میں مقیم رہے ہیں، اب تبوک میں رہتے ہیں۔ نامور سماجی کارکن ہیں۔ انڈیا فورم اور دوسری انجمنوں سے وابستگی ہے۔ کمیونٹی پروگراموں میں بلائے جاتے ہیں۔
خلیج میں اردو: اردو زبان کے حوالے سے ہونے والی محفلوں اور اردو والوں کا ذکر میں نے مختصراً کیا ہے تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ سرزمین حجاز اور نجد میں بھی اردو کی ترقی اور ترویج کے لیے کام ہو رہا ہے اور یہاں بھی اردو زبان کے چاہنے والے موجود ہیں۔ اس موضوع پر عبدالرشید جنید، مولانا آزاد اردو یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ موصوف کے مقالے کا عنوان ’خلیج میں اردو‘ ہے۔ دعا ہے کہ موصوف کا یہ اہم کام جلد پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
قدیم دوست احباب اور رشتہ دار
سعودی عرب آنے سے پہلے ایک قسم کی ہچکچاہٹ تھی کہ نئے مقام پر اجنبی ماحول کا سامنا ہو گا لیکن یہاں اجنبیت کا احساس اس حوالے سے بھی نہیں ہوتا کہ ہماری ملاقات قدیم دوست احباب اور رشتہ داروں سے ہوتی ہے۔ اس معاملہ میں شہر حیدرآباد کچھ زیادہ ہی مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ اس شہر کے ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد باہر (خلیج میں ) ضرور ہے۔
سید حامد رضوی، عروج احمد اور محمد اعظم اللہ میرے اسکول کے ہم جماعت ہیں۔ ریاض میں برسرکار ہیں۔ ان سے ملاقات ہونے پر بچپن کی یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ غلام رئیس احمد اسکول میں دو ایک سال سینئر تھے لیکن ہمارے درمیان خوب دوستی ہے۔ اسکول کی بات سے مجھے اسکول کے ایک دوست سید عارف الدین احمد نیر کی یاد بے چین کر رہی ہے۔ جب میں ریاض آیا تو اس نے میرا خیال رکھا تھا۔ پیشے سے وہ آرکیٹکٹ تھا۔ ادب سے اسے دلچسپی نہ تھی لیکن وہ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا کہ میں کیا لکھتا ہوں۔ میں اسے اپنی تحریریں پڑھ کر سناتا تو وہ بہت خوش ہوتا تھا۔ سعودی عرب سے وہ امریکہ منتقل ہوا اور وہاں انتقال کر گیا۔ اس کے بے وقت بچھڑنے کا رنج مجھے آج بھی ہے، اللہ اس کی مغفرت کرے !
سعودی عرب میں جہاں قدیم اور نئے دوستوں ملے وہاں ہمارے رشتہ دار بھی رہتے ہیں جن سے ملنا جلنا ہوتا ہے۔ میرا خالہ زاد بھائی عبد الحلیم فیضی رؤف تقریباً دو دہائیوں سے ریاض میں ہے۔ پھوپی زاد بھائی مصباح الدین صمیم ریاض میں چند برس گزار کر اب جدہ میں مقیم ہے۔ ماموں زاد بھائی اور بہنوئی شفیع اللہ شریف، محمد عبدالقیوم فہیم اور محمد اظہر جدہ میں رہتے ہیں۔ جدہ جانا ہوتا تھا تو ان کے سبب وہاں رہنا بہت آسان ہو جاتا تھا۔ میرے عزیز شجاعت فہیم کی یاد آتی ہے جن کا انتقال ریاض میں ایک کار حادثے میں ہوا۔ جواں سال خالہ زاد بھائی محمد رحیم الدین ریاض میں چند برس گزار کر بیمار ہوا اور وطن واپس آنے کے بعد انتقال کر گیا۔ مکہ المکرمہ میں چچازاد بہن اور بہنوئی محمد علی نثار رہتے ہیں جو مقدس شہر میں ہمارا خیال رکھتے ہیں۔ ریاض میں ایک عرصہ گزار کر ہم زلف خواجہ سمیع الدین فہیم وطن واپس آ چکے ہیں۔ ماموں نعیم اللہ شریف کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔
عارضی ہجرت کا انعام
وطن چھوڑنے اور سعودی عرب میں قیام کے طفیل میری ملاقات اور دوستی چند ایسے اصحاب سے ہوئی جنھیں میں اپنی ہجرت کا جیک پاٹ یا انعام گردانتا ہوں۔ محمد شجاع الدین غوری سے ملاقات اتفاقیہ ہوئی۔ وہ عرصہ پہلے پاکستان منتقل ہو چکے تھے اور روزگار کے سلسلے میں ریاض میں مقیم تھے۔ حیدرآباد اور طنز و مزاح کے حوالے سے ہم ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور یہ قربت وقت کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ پاکستان واپس ہو چکے ہیں لیکن رابطے میں ہیں۔
ڈاکٹر ماجد قاضی چالیس سال سے زائد عرصہ سے شاہی طبیب ہیں۔ چار بادشاہوں کی خدمت کر چکے ہیں۔ سعودی شہریت عطا کی گئی ہے۔ ملائم اور دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ حکومت ہند کی جانب سے سنہ 2006ء میں انھیں بھارتی پرواسی سمان ایوارڈ مل چکا ہے۔ موصوف کی شخصیت مجھے بہت پسند ہے اور میں انھیں اپنا رول ماڈل تصور کرتا ہوں۔
ڈاکٹر محمد عبدالمعید ماہر امراض اطفال ہیں۔ تینتیس سال تک شاہی خاندان سے منسلک رہ کر وطن واپس آ چکے ہیں۔ وہ افسر آرموری کے نام سے دکنی میں مزاحیہ مضامین لکھتے ہیں۔ یہ ایک منفرد خوبی ہے۔ میں کسی دوسرے ادیب کو نہیں جانتا جو دکنی میں فکاہیہ مضامین لکھتا ہے۔ دکنی شاعر مل جائیں گے لیکن مزاحیہ نثر نگار ملنا مشکل ہے۔
ڈاکٹر خالد عبدالسمیع کا تعلق رائل کلینک اور سعودی عرب کے سب سے بہترین دوا خانے کنگ فیصل اسپیشلسٹ ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر سے تھا۔ اب امریکہ میں رہتے ہیں۔ اپنے اندر قوم کا درد رکھتے ہیں اور مختلف مقامات پر لیکچرس دیتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر رفعت حسین انصاری سے ملاقات ریاض میں ہوئی، وہ بھی شاہی طبیب ہیں۔ نبض شناس طبیب جسے کہتے ہیں وہ میں نے رفعت حسین انصاری کو پایا ہے۔ انگریزی کے استاد لیکن اردو ادب کے رسیا، شاعر اور ادیب ڈاکٹر ستیہ پال آنند سے ملاقات ریاض میں ہوئی۔ وہ بہت مختصر عرصہ صرف دو سال کے لیے ریاض میں تھے، اب امریکہ میں رہتے ہیں۔
معذرت خواہی: سعودی عرب میں میرے ایسے دوست اور ملاقاتی بھی ہیں جن کا ذکر کرنے سے میں چوک گیا ہوں۔ وہ اس وقت یاد نہیں آ رہے ہیں لیکن یقین ہے کہ بعد میں یاد آ کر مجھے پشیمان کریں گے۔ بعض ایسے اصحاب بھی ہیں جن سے میری دعا سلامت رہی ہے لیکن قریب ہونے کا موقع نہیں ملا۔ جن احباب کا ذکر میں نہ کر سکا ان سے میں معافی کا خواستگار ہوں۔
سعودی عرب میں مقیم برصغیر کے لوگوں نے اپنی قابلیت، محنت اور لگن سے نام کمایا اور مقام بنایا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں لکھا ہے، ان کے تفصیلی ذکر سے ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ کبھی وقت ملا اور حالات نے اجازت دی تو یہ کام بھی کر گزروں گا۔ فی الحال، اس کتاب کو ہندوستانی بزم اردو ریاض اور سعودی عرب میں موجود دوستوں کے نام معنون کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ ۔ ۔
یار زندہ صحبت باقی
عابد معز
28جون2011ء حیدرآباد
٭٭٭
پہلا حصہ پڑھنے کے لیے
٭ ٭ ٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی،تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید